Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
۱ کلمات طیبات (بیعت خلافت کے وقت پہلی تقریر ) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی |********** Individual Book PDF Page 2 Single PDF Page 2 of 607 Vol Printed Page 2 **********|| ۲
۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم کلماتِ طیبات (حضرت مصلح موعود کی ’’بیعت خلافت‘‘ کے وقت پہلی تقریر) (فرمودہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء) اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ سنو!دوستو! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.میرا یقین ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آ سکتا جو آپ کی دی ہوئی شریعت میں سے ایک شوشہ بھی منسوخ کر سکے.میرے پیارو! میرا وہ محبوب آقا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اِتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رُتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپؐ کی سچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں.پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے.میں پھرکہتا ہوں کہ شریعت
۴ اسلامی سے کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا.صحابہ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ کے اعمال کی اقتداء کرو.وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور کامل تربیت کا نمونہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا اجماع جو ہوا وہ وہی خلافت حقّہ راشدہ کا سلسلہ ہے.خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہوگئی تو گھٹتی گئی.یہاں تک کہ اب جو اسلام اور اہل اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو.تیرہ سَو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی منہاجِ نبوۃ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح مولانا مولوی نورالدین صاحب (ان کا درجہ اعلیٰ عِلیین میں ہو.اللہ تعالیٰ کروڑوں کروڑ رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل کرے جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ان کے دل میں بھری ہوئی اور ان کے رگ و ریشہ میں جاری تھی جنت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں پاک وجودوں اور پیاروں کے قُرب میں آپ کو اکٹھا کرے) اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے اور ہم سب نے اسی عقیدہ کے ساتھ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.اِس وقت جو تم نے پکار پکار کر کہا ہے کہ میں اِس بوجھ کو اُٹھاؤں اور تم نے بیعت کے ذریعہ اظہار کیا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ میں تمہارے آگے اپنے عقیدہ کا اظہار کروں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں.حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے غلام کو وہ کام مت بتاؤ جو وہ کر نہیں سکتا.تم نے مجھے اِس وقت غلام بنانا چاہا ہے تو وہ کام مجھے نہ بتانا جو میں نہ کر سکوں.میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہگار ہوں میں کس طرح دعویٰ کر سکتا ہوں کہ دنیا کی ہدایت کرسکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہاء ہیں.تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے تو سنو! اِس ذمہ داری سے عُہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو.میں انسان ہوں اور کمزور انسان.مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگزر کروں گا اور میرا
۵ اور تمہارا متحد کام اس سلسلہ کی ترقی اور اِس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پورا کرنا ہے پس اب جو تم نے میرے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے اس کو وفاداری سے پورا کرو.تم مجھ سے اور میں تم سے چشم پوشی خدا کے فضل سے کرتا رہوں گا.تمہیں امربِالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی.اگر نَعُوْذُبِاللّٰہِ کہوں کہ خدا ایک نہیں تواُسی خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے قبضۂ قدرت میں ہم سب کی جان ہے جو وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ اور لیس کمثلہ شیء (الشورٰی.۱۲ )ہے کہ میری ایسی بات ہرگز نہ ماننا.اگر میں تمہیں نَعُوْذُبِاللّٰہِ نبوت کا کوئی نقص بتاؤں تو مت مانیو.اگر قرآن کریم کا کوئی نقص بتاؤں تو پھر خدا کی قسم دیتا ہوں مت مانیو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا تعالیٰ سے وحی پا کر تعلیم دی ہے اس کے خلاف کہوں تو ہرگز ہرگز نہ ماننا.ہاں میں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ امرمعروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا.اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کریگا.ہماری متحد دعائیں کامیاب ہوں گیاور میں اپنے مولیٰ کریم پر بہت بڑا بھروسہ رکھتا ہوں مجھے یقین کامل ہے کہ میری نصرت ہوگی.پرسوں جمعہ کے روز میں نے ایک خواب سنایا تھا کہ میں بیمار ہو گیا اور مجھے ران میں درد محسوس ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید طاعون ہونے لگا تب میں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور فکر کرنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ۲؎ یہ خدا کا وعدہ آپ کی زندگی میں پورا ہوا.شاید خدا کے مسیح ؑ کے بعد یہ وعدہ نہ رہا ہو کیونکہ وہ پاک وجود ہمارے درمیان نہیں.اِسی فکر میں میں کیادیکھتا ہوں یہ خواب نہ تھا بیداری تھی میری آنکھیں کُھلی تھیں میں در و دیوار کو دیکھتا تھا، کمرے کی چیزیں نظر آ رہی تھیں میں نے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے.نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلا جاتا ہے نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء.اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید چینی کے پیالہ میں دودھ تھا جو مجھے پلایا گیا جس کے بعد معاً مجھے آرام ہو گیا اور کوئی تکلیف نہ رہی.اس قدر حصہ میں نے سنایا تھا اس کا دوسرا حصہ اُس وقت میں نے نہیں سنایا اَب سناتا ہوں وہ پیالہ جب مجھے پلایا گیا تو معاً میری زبان سے نکلا ’’میری اُمت بھی کبھی گمراہ نہ ہوگی‘‘.
۶ میری اُمت کوئی نہیں تم میرے بھائی ہو مگر اِس نسبت سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہے یہ فقرے نکلے.جس کام کو مسیح موعود علیہ السلام نے جاری کیا اپنے موقع پر وہ امانت میرے سپرد ہوئی ہے.پس دعائیں کرو اور تعلقات بڑھاؤ اور قادیان آنے کی کوشش کرو اور بار بار آؤ.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور بار بار سنا کہ جو یہاں بار بار نہیں آتا اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان میں نقص ہو.اسلام کا پھیلانا ہمارا پہلا کام ہے مل کر کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کی بارش ہو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں، پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں اب جو تم نے بیعت کی ہے اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قائم کیا ہے اس تعلق میں وفاداری کا نمونہ دکھاؤ اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھو میں ضرور تمہیں یاد رکھوں گا.ہاں یاد رکھتا بھی رہا ہوں.کوئی دعا میں نے آج تک ایسی نہیں کی جس میں میں نے سلسلہ کے افراد کے لئے دعا نہ کی ہو مگر اب آگے سے بھی بہت زیادہ یاد رکھوں گا.مجھے کبھی پہلے بھی دعا کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لئے دعا نہ کی ہو.پھر سنو! کہ کوئی کام ایسا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عہد شکن کیا کرتے ہیں.ہماری دعائیں یہی ہوں کہ ہم مسلمان جیئیں اور مسلمان مریں.آمین الفاظ بیعتحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جس طرح پر ہاتھ میں ہاتھ لے کر فرماتے جاتے تھے اور طالب تکرار کرتا تھااسی طرح پر اب بیعت لیتے ہیں.اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ(تین بار) آج میں احمدی سلسلہ میں محمود کے ہاتھ پر اپنے اُن تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں جن میںمیں گرفتار تھا اور میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آئندہ بھی گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا.اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.شرک نہیں کروں گا.اسلام کے تمام احکام بجالانے کی کوشش کروںگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کروں گا.اور مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھوں گا.جو تم نیک کام بتاؤ گے ان میں تمہاری فرمانبرداری کروں گا.قرآن شریف اور حدیث کے پڑھنے اور سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھنے یا سننے اور یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ (۳بار) رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ اے میرے
۷ رَبّ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور بہت ظلم کیا.اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.(آمین)
۹ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے (مسئلہ خلافت پر پہلی پر شوکت تحریر ) (۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۱۱ بسم اللہ الرحٰمن الرحیم نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(البقرة:۳۱) اور جب تیرے ربّ نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنا چاہتا ہوں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا آپ ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کرتے ہیں جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور ہم وہ لوگ ہیں جو حضور کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں اور آپ کی قدوسیت کا اقرار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِس بات کو سن کر فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.یہ ایک ایسی آیت ہے جس سے خلافت کے کُل جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے زمانہ سے خلافت پر اعتراض ہوتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ بعض لوگوں نے خلافت کے خلاف جوشوں کا اظہار کیا ہے پس میں بھی جماعت احمدیہ کو اسی آیت کی طرف متوجہ کرتا ہوں تا وہ صِرَاطِ مُسْتَقِیْم کو پا سکے اور ہدایت کی راہ معلوم کر سکے.خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان.اور درحقیقت قرآن شریف کا غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں چنانچہ انبیاء و
۱۲ مأمورین کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(النور ۵۶) اللہ تعالیٰ تم میں سے مؤمنوں اور نیک اعمال والوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح زمین میں خلیفہ مقرر فرمائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو مقرر کیا اور ان خلفاء کے اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے قائم کرے گا اور ان کے خوفوں کو امن سے بدل دے گا وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرا کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے اور جو شخص اس حکم کے ہوتے ہوئے بھی ان کا انکار کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ سے دور کیا جائے گا.اب اس آیت کے ماتحت جس قسم کی خلافت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی وہی خلافت راشدہ ہے اور اسی قسم کی خلافت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہونی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ:۳،۴) خدا ہی ہے جس نے اُمیوں میں ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے اور جو ان پر خدا کا کلام پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بیشک اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور وہ رسول ایک اور قوم کو بھی سکھائے گا جو ابھی تک ان سے نہیں ملی اور خدا تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تشبیہہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دفعہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت کی ہے اور ایک دفعہ وہ پھر ایک اور قوم کی تربیت کریں گے جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.پس مسیح موعود کی جماعت کو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مشابہہ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ دونوں میں ایک ہی قسم کی سنت جاری ہوگی پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا ضرور تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں صاف لکھ دیا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کے ذریعہ دوسری قدرت کا اظہار ہوا ضرور ہے کہ تم میں بھی ایسا ہی ہو.اور اس عبارت کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے بعد سلسلۂ خلافت کے منتظر تھے مگر جس
۱۳ طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں صرف اشارات پر اکتفا کیا اسی طرح آپؑ نے بھی اشارات کو ہی کافی سمجھا کیونکہ ضرور تھا کہ جس طرح پہلی قدرت یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے وقت ابتلاء آئے دوسری قدرت یعنی سلسلۂ خلافت کے وقت بھی ابتلاء آتے.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ خلیفہ اپنے پیش رَو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء مُلک و دین دونوں کی حفاظت پر مأمور تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح موعود علیہ السلام جس کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے.پس جماعت کے اتحاد اور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کیلئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے اور جو اِس بات کو ردّ کرتا ہے وہ گویا شریعت کے احکام کو ردّ کرتا ہے صحابہ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے.جماعت کے معنی ہی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے اور کبھی نہیں ہو سکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں.پس اے جماعت احمدیہ! اپنے آپ کو ابتلاء میں مت ڈال اور خدا تعالیٰ کے احکام کو ردّ مت کر کہ خدا کے حُکموں کو ٹالنا نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہے.اسلام کی حقیقی ترقی اُس زمانہ میں ہوئی جو خلافت راشدہ کا زمانہ کہلاتا ہے پس تو اپنے ہاتھ سے اپنی ترقیوں کو مت روک اور اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مت مار.کیسا نادان ہے وہ انسان جو اپنا گھر آپ گراتا ہے اور کیا ہی قابلِ رحم ہے وہ شخص جو اپنے گلے پر آپ چھُری پھیرتا ہے پس تُو اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا بیج مت بو اور جو سامان خدا تعالیٰ نے تیری ترقی کیلئے بھیجے ہیں اُن کو ردّ مت کر کیونکہ فرمایا ہے لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم ۸)البتہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا اور زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی راہ اختیار کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے.یہ ایک دھوکا ہے کہ سلسلۂ خلافت سے شرک پھیلتا ہے اور گدیوں کے قائم ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آج سے تیرہ سَو سال پہلے خدا تعالیٰ نے خود اس خیال کو ردّ فرما دیا ہے کیونکہ خلفاء کی نسبت فرماتا ہے یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـا (النور،۵۶)خلفاء میری ہی عبادت کیا کریں گے اور
۱۴ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے.خدا تعالی جانا تھا کہ ایک زمانہ میں خلافت پر ہی اعتراض کیا جائے گا کہ اس سے شرک کا اندیشہ ہے اور غیر امور کی اطاعت جائز نہیں پس خداتعالی نے آیت اتلاف میں ہی اس کا جواب دے دیا کہ خلافت شرک پھیلانے والی نہیں بلکہ اسےمنانے والی ہوگی اور خلیفہ مشرک نہیں بلکہ موقد ہوں گے ورنہ آیت اتلاف میں شرک کے ذکرکا اور کوئی موقعہ نہ تھا.غرض کہ خلافت کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا خصوصا وہ قوم جو اپنے عمل سے چھ سال تک مسئلہ خلافت کے معنی کر چکی ہو اس کا ہرگز نہیں کہ اب خلافت کی تحقیقات شروع کرے اوراگر کوئی مخفی ایا کرے گا تو سمجھا جائے گا کہ خلیفہ اول کی ہیت بھی اس نے قاق سے کی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خلفاے سلسلہ اول سے مشابہت دیتا تھا اور خلیفہ کی حیثیت میں بیعت کیا کرتا تھااور اس کے وعظوں اور لیکچروں میں اس امر کو ایسا واضح کر دیا گیا تھا کہ کوئی راستباز انسان اس کاانکار نہیں کر سکتا.اور اب اس کی وفات کے بعد کسی کام نہیں کہ جماعت میں فساد ڈلوائے.مجھے اس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آتی ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں تفرقہ کے آثار ہیں اور بعض لوگ خلافت کے خلاف لوگوں کو جوش دلا رہے ہیں یا کم سے کم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خلیفہ ایک پریذیڈنٹ کی حیثیت میں ہو اور یہ کہ ابھی تک جماعت کا کوئی خلیفہ نہیں ہوا.مگر میں اس اعلان کے ڈریکہ سے تمام جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ خلیفہ کا ہوناضروری ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اور اس کی بیت کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح حضرت خلیفہ اول کی تھی اور یہ بات بھی غلط مشهور کی جاتی ہے کہ جماعت کا اس وقت تک کوئی خلیفہ مقرر نہیں ہوا بلکہ خدا نے مجھے خلیفہ بناناتھ بنادیا اور اب جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اخد اکی مخالفت کرتا ہے.میں نے کسی سے درخواست نہیں کی کہ وہ میری بیعت کرے نہ کیا سے کیا کہ وہ میرے خلیفہ بنے کے لئے کوشش کرے اگر کوئی شخص ایسا ہے تو وہ علی الاعلان شهادت دے کیونکہ اس کا فرض ہے کہ جماعت کو دھوکے سے بچائے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ خدا کی لعنت کے نیچے ہے اورجماعت کی تای کا عذاب اس کی گردن پر ہو گا.اے پاک نفس انسانو! جن میں بد ظنی کامادہ نہیں میں خدا تعالی کی تم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور کی نہیں بلکہ خدا تعالی سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بتادے یہ اس کا اپنا حل ہے یہ میری
۱۵ درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جُھکا دیں میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو ردّکر دوں.مجھے اُس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا.گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اُسے کیونکر پسند آ گیا لیکن جو کچھ بھی ہو اُس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اِس کُر تہ کو مجھ سے نہیں اُتار سکتا جو اُس نے مجھے پہنایا ہے.یہ خدا کی دین ہے اور کون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے.خدا تعالیٰ میرا مددگار ہوگا.میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے، میں کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا توانا ہے، میں بِلااسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے ، میں بے مددگار ہوں مگر میرا ربّ فرشتوں کو میری مدد کیلئے نازل فرمائے گا.(اِنْشَائَ اللّٰہ) میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں.لوگ کہتے ہیں میں جھوٹا ہوں اور یہ کہ میں مدتوں سے بڑائی کا طلبگار تھا اور فخر میں مبتلا تھا، جاہ طلبی مجھے چین نہ لینے دیتی تھی مگر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تمہارا اعتراض تو وہی ہے جو ثمود نے صا لؑح پر کیا یعنی بل ھو کذاب اشر(القمر،۲۶)وہ تو جھوٹا اور متکبر اور بڑائی کا طالب ہے.اور میں بھی تم کو وہی جواب دیتا ہوں جو حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا کہ سیعلمون غدا من الکذاب الاشر(القمر،۲۷) ذرا صبر سے کام لو خدا تعالیٰ کچھ دنوں تک خود بتا دے گا کہ کون جھوٹا اور متکبر ہے اور کون بڑائی کا طلبگار ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کے انتخاب کیلئے ایک لمبی میعاد مقرر ہونی چاہیے تھی کہ کل جماعتیں اکٹھی ہوتیں اور پھر انتخاب ہوتا لیکن اِس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاتی کہ ایسا کیوں ہوتا.نہ تو ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کرنے والے ۱۲۰۰ آدمی تھے اور ۲۴ گھنٹہ کا وقفہ ہوا تھا لیکن اب ۲۸ گھنٹہ کے وقفہ کے بعد قریباً دو ہزار آدمی نے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کی.حالانکہ حالات بھی مخالف تھے اور یہ سوال پیدا کیا گیا تھا کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں اور یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام تھا کہ اس نے اس فتنہ کے وقت جماعت کو بچا لیا اور ایک بڑے حصہ کو ایک شخص کے ہاتھ پر متحد کر دیا.حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر تو ابتدا میں صرف تین آدمیوں نے بیعت کی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ نے مہاجرین میں سے اور قیس بن سعدؓ نے انصار میں سے.اور بیعت کے وقت بعض لوگ تلواروں کے ذریعہ سے بیعت کو روکنا چاہتے تھے اور پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اُٹھانا چاہتے تھے
۱۶ اور بعض تو ایسے جوش میں تھے کہ طعنہ دیتے تھے اور بیعت کو لغو قرار دیتے تھے تو کیا اس کا یہ نتیجہ سمجھنا چاہئے کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ حضرت ابوبکرؓ کو خلافت کی خواہش تھی کہ صرف تین آدمیوں کی بیعت پر آپ بیعت لینے کے لئے تیار ہوگئے اور باوجود سخت مخالفت کے بیعت لیتے رہے یا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی خلافت ناجائز تھی.مگر جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.پس جب کہ ایک شخص کی دوہزار آدمی بیعت کرتے ہیں اور صرف چند آدمی بیعت سے الگ رہتے ہیں تو کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ خلافت ناجائز ہے.اگر اس کی خلافت ناجائز ہے تو ابوبکرؓ، عثمان و علی اور نورالدین رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ کی خلافت اس سے بڑھ کر ناجائز ہے.پس خدا کا خوف کرو اور اپنے منہ سے وہ باتیں نہ نکالو جو کل تمہارے لئے مصیبت کا باعث ہوں.اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو اور وہ سلسلہ جو اس کے مامور نے سالہا سال کی مشقت اور محنت سے تیار کیا تھا اسے یوں اپنے بُغضوں اور کینوں پر قربان نہ کرو.مجھ پر اگر اعتراض ہوتے ہیں کیا ہوا مجھے وہ شخص دکھاؤ جس کو خدا نے اس منصب پر کھڑا کیا جس پر مجھے کیا… اور اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا ہو.جب کہ آدمؑ پر فرشتوں نے اعتراض کیا تو میں کون ہوں جو اعتراضوں سے محفوظ رہوں.فرشتوں نے بھی اپنی خدمات کا دعویٰ کیا تھا اور ابلیس نے بھی اپنی بڑائی کا دعویٰ کیا تھا مگر بے خدمت آدمؑ جو ان کے مقابلہ میں اپنی کوئی بڑائی اور خدمت نہیں پیش کر سکتا تھا خدا کو وہی پسند آیا اور آخر سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑا.پس اگر آدمؑ کے مقابلہ میں فرشتوں نے اپنی خدمات کا دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے بڑی بڑی خدمات کی ہیںو نحن نسبح بحمدک و نقدس لک(البقرة ۳۱) آج بھی وہی دعویٰ نہ پیش کیا جاتا.مگر فرشتہ خصلت ہے وہ انسان جو ٹھوکر کھا کر سنبھلتا ہے اور خدا تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو تکبر کی وجہ سے آخر تک اطاعت سے سرگردان رہے.پس اے میرے دوستو! تم فرشتہ بنو اور اگر تم کو ٹھوکر لگی بھی ہے تو توبہ کرو کہ تا خدا تمہیں ملائکہ میں جگہ دے ورنہ یاد رکھو کہ فتنہ کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.کیا تمہیں مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں؟ اگر نہیں تو تم احمدی کس بات کے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سبز اشتہار میں ایک بیٹے کی پیشگوئی کی تھی کہ اس کا ایک نام محمود ہوگا دوسرا نام فضل عمر ہوگا اور تریاق القلوب میں آپ نے اس پیشگوئی کو مجھ پر چسپاں بھی کیا ہے.پس مجھے بتاؤ کہ عمرؓ کون تھا؟ اگر تمہیں علم نہیں تو سنو کہ وہ دوسرا خلیفہ تھا.پس میری پیدائش سے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا تھا کہ میرے سپرد وہ کام کیا جائے جو حضرت عمرؓ کے سپرد ہوا تھا.پس اگر مرزا غلام احمد خدا کی طرف سے تھا تو تمہیں اس شخص کے ماننے میں کیا
۱۷ عذر ہے جس کا نام اس کی پیدائش سے پہلے عمر رکھا گیا.اور میں تمہیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں اس پیشگوئی کا مجھے کچھ بھی علم نہ تھا بلکہ بعد میں ہوا.اس پیشگوئی کے علاوہ خدا تعالیٰ نے سینکڑوں آدمیوں کو خوابوں کے ذریعہ سے میری طرف جُھکا دیا اور قریباً ڈیڑھ سَو خواب تو اِن چند دنوں میں مجھ تک بھی پہنچ چکی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس کو شائع کر دیا جائے.اور میری ان تمام باتوں سے یہ غرض نہیں ہے کہ میں اپنی بڑائی بیان کروں بلکہ غرض یہ ہے کہ کسی طرح جماعت کا تفرقہ دور ہو اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی ہدایت دے جو اِس وقت ایک اتحاد کی رسّی میں نہیں جکڑے گئے.ورنہ میری طبیعت ان باتوں کے اظہار سے نفرت کرتی ہے.مگر جماعت کا اتحاد مجھے سب باتوں سے زیادہ پیارا ہے.وہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں یا اب تک بیعت میں داخل نہیں ہوئے آخر کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ آزاد رہیں؟ مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کا ایسا کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہوگا.پھر کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اور خلیفہ مقرر کریں؟ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اور شریعت اسلام اسے قطعاً حرام قرار دیتی ہے.پس اب وہ جو کچھ بھی کریں گے اس سے جماعت میں تفرقہ پیدا کریں گے.خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں.یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اُکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہوچکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.میرا دل اِس تفرقہ کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلا جاتا ہے اور میں اپنی جان کو پگھلتا ہوا دیکھتا ہوں رات اور دن میں غم و رنج سے ہم صحبت ہوں.اس لئے نہیں کہ تمہاری اطاعت کا میں شائق ہوں بلکہ اس لئے کہ جماعت میں کسی طرح اتحاد پیدا ہو جائے.لیکن میں اس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا جو عہدۂ خلافت کی ذلّت کا باعث ہو.وہ کام جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے خدا کرے کہ عزت کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہوں اور قیامت کے دن مجھے اپنے مولا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.
۱۸ اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے.خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا.اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی.اور اگر سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آ سکتا.جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اُسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا.لیکن مجھے اُس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی.میرا فرض ہے کہ جماعت کو متحد رکھوں اور انہیں متفرق نہ ہونے دوں اس لئے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کرنا میرا کام ہے اور اِنْشَائَ اللّٰہُ آسمان سے میری مدد ہوگی.میں اس اعلان کے ذریعہ ہر ایک شخص پر جو اَب تک بیعت میں داخل نہیں ہوا یا بیعت کے عہد میں متردّد ہے حُجت پوری کرتا ہوں اور خدا کے حضور میں اب مجھ پر کوئی الزام نہیں.خدا کرے میرے ہاتھ سے یہ فساد فرو ہو جائے اور یہ فتنہ کی آگ بُجھ جائے تا کہ وہ عظیم الشان کام جو خلیفہ کا فرضِ اوّل ہے یعنی کل دنیا میں اپنے مُطاع کی صداقت کو پہنچانا میںاُس کی طرف پوری توجہ کر سکوں.کاش! میں اپنی موت سے پہلے دنیا کے دور دراز علاقوں میں صداقتِ احمدیہ روشن دیکھ لوں.وما ذالک علی اللہ بعزیز(ابراہیم.۲۱) مجھے اپنے ربّ پر بہت سی امیدیں ہیں اور میں اس کے حضور میں دعاؤں میں لگا ہوا ہوں اور چاہیے کہ وہ تمام جماعت جو خدا کے فضل کے ماتحت اس ابتلاء سے محفوظ رہی ہے اس کام میں میری مدد کرے اور دعاؤں سے اس فتنہ کی آگ کو فرو کرے.اور جو ایسا کریں گے خدا کے فضل کے وارث ہو جائیں گے اور میری خاص دعاؤں میں ان کو حصہ ملے گا.میرے پیارو! آجکل نمازوں میں خشوع و خضوع زیادہ کرو اور تہجد کے پڑھنے میں بھی سُستی نہ کرو.جو روزہ رکھ سکتے ہیں وہ روزہ رکھیں اور جو صدقہ دے سکتے ہیں وہ صدقہ دیں.نہ معلوم کس کی دعا سے، کس کے روزے سے، کس کے صدقہ سے خدا تعالیٰ اِس اختلاف کی مصیبت کو ٹال دے اور احمدی جماعت پھر شاہراہِ ترقی پر قدم زَن ہو.خوب یاد رکھو کہ گو اکثر حصہ جماعت بیعت کر چکا ہے مگر تھوڑے کو بھی تھوڑا نہ سمجھو کیونکہ ایک باپ یا ایک بھائی کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے دس بیٹوں یا بھائیوں میں سے ایک بھی جدا ہو جائے پس ہم کیونکر پسند کر سکتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں میں سے بعض کھوئے جائیں خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.پھر میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ فتنہ کی مجلسوں میں مت بیٹھو کیونکہ ابتداء میں انسان کا
۱۹ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے ایمان ایسا مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ ہر ایک زہر سے بچ سکے.پس ایسا نہ ہو کہ تم ٹھوکر کھاؤ.ان دو نصیحتوں کے علاوہ ایک اور تیسری نصیحت بھی ہے اور وہ یہ کہ جہاں جہاں تمہیں معلوم ہو کہ اختلاف کی آگ بھڑک رہی ہے وہاں وہ لوگ جو مضبوط دل رکھتے ہیں اپنے وقت کا حرج کر کے بھی پہنچیں اور اپنے بھائیوں کی جان بچائیں اور جو ایسا کریں گے خدا کی اُن پر بڑی بڑی رحمتیں ہوں گی.فتنے ہیں اور ضرور ہیں مگر تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رسّی میں جکڑ چکے ہو خوش ہو جاؤ کہ انجام تمہارے لئے بہتر ہوگا.تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہوگے اور اس کے فضل کی بارشیں اِنْشَائَ اللّٰہُ تم پر اِس زور سے برسیں گی کہ تم حیران ہو جاؤ گے.میں جب اس فتنہ سے گھبرایا اور اپنے ربّ کے حضور گرا تو اس نے میرے قلب پر یہ مصرعہ نازل فرمایا کہ ’’شکرللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل‘‘اتنے میں مجھے ایک شخص نے جگا دیا اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر پھر مجھے غنودگی آئی اور میں اس غنودگی میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ ’’کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا‘‘ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا مصرعہ الہامی تھا یا بطور تفہیم تھا.پھر کل بھی میں نے اپنے ربّ کے حضور میں نہایت گھبرا کر شکایت کی کہ مولا ! میں ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں جو میرے برخلاف کی جاتی ہیں اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضور ہی کے اختیار میں ہے اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کر سکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی نسبت بتایا گیا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.پس اس سے معلوم ہوتا ہے ابتلاء ہیں لیکن انجام بخیر ہوگا مگر یہ شرط ہے کہ تم اپنی دعاؤں میں کوتاہی نہ کرو.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ بعض بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے ۱۰؎ پس خدا کے حضور میں گر جاؤ کہ تم ان چھوٹوں میں داخل کئے جاؤ جنہوں نے بڑا ہونا اور ان بڑوں میں داخل نہ ہو جن کیلئے چھوٹا ہونا مقدر ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور اپنے فضل کے سایہ کے نیچے رکھے اور شماتت اعداء سے بچائے.اسلام پر ہی ہماری زندگی ہو اور اسلام پر ہی ہماری موت ہو.آمین یا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ خاکسار مرزا محمود احمد از قادیان ۲۱؍ مارچ ۱۹۱۴ء
۲۱ منصب خلافت ( نمائندگان جماعت سے ایک اہم خطاب ) از سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۲۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم منصب خلافت اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(البقرة ۱۳۰) دعائے ابراہیم ؑاس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک پیشگوئی کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کےرنگ میں ہے وہ دعا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر مکہ کے وقت کی.رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُیہ دعا ایک جامع دعا ہے اس میں اپنی ذرّیت میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی دعا کی.پھر اِسی دعا میں یہ ظاہر کیا کہ انبیاء علیہم السلام کے کیا کام ہوتے ہیں، ان کے آنے کی کیا غرض ہوتی ہے؟ فرمایا الٰہی! ان میں ایک رسول ہو، انہی میں سے ہو.انبیاء کی بعثت کی غرضوہ رسول جو مبعوث ہو اُس کا کیا کام ہو یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ اس کا پہلا کام یہ ہو کہ وہ تیری آیات ان پرپڑھے.دوسرا کام یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ اُن کو کتاب سکھائے اور تیسرا کام یہ ہو کہ حکمت سکھائے.چوتھا کام وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اُن کو پاک کرے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں مبعوث ہونے والے ایک رسول کے لئے دعا کی اور اس دعا ہی میں اُن اغراض کو عرض کیا جو انبیاء کی بعثت سے ہوتی ہیں اور یہ چار کام ہیں.میں نے غور کر کے
۲۴ دیکھا ہے کہ کوئی کام اصلاحِ عالَم کا نہیں جو اس سے باہر رہ جاتا ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح دنیا کی تمام اصلاحوں کو اپنے اندر رکھتی ہے.خلفاء کا کامانبیاء علیہم السلام کے اغراضِ بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری کرے پس جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا.اب اگر آپ غور اور تدبر سے اس آیت کو دیکھیں تو ایک طرف نبی کا کام اور دوسری طرف خلیفہ کا کام کھل جائے گا.میں نے دعا کی تھی کہ میں اس موقع پر کیا کہوں تو اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس آیت کی طرف پھیر دی اور مجھے اسی آیت میں وہ تمام باتیں نظر آئیں جو میرے اغراض اور مقاصد کو ظاہر کرتی ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ اس موقع پر چند استدلال پیش کر دوں.شکر ربّانی برجماعت حقانیمگر اس سے پہلے کہ میں استدلال کو پیش کروں میں خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کے دیئے جانے کا انبیاء سے وعدہ ٔالٰہی ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ چاروں طرف سے محض دین کی خاطر، اسلام کی عزت کے لئے اپنا روپیہ خرچ کر کے اور اپنے وقت کا حرج کر کے احباب آئے ہیں.میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے مخلص دوستوں کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا وہ بہتر سے بہتر بدلے دے گا کیونکہ وہ اس وعدہ کے موافق آئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا.اس لئے جب کل میں نے درس میں ان دوستوں کو دیکھا تو میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر گیا کہ یہ لوگ ایسے شخص کے لئے آئے ہیں جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ چالباز ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) اور پھر میرے دل میں اور بھی جوش پیدا ہوا جب میں نے دیکھا کہ وہ میرے دوستوں کے بُلانے ہی پر جمع ہو گئے ہیں.اس لئے آج رات کو میں نے بہت دعائیں کیں اور اپنے ربّ سے یہ عرض کیا کہ الٰہی! میں تو غریب ہوں میں اِن لوگوں کو کیا دے سکتا ہوں حضور! آپ ہی اپنے خزانوں کو کھول دیجئے اور ان لوگوں کو جو محض دین کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں اپنے فضل سے حصہ دیجئے.اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا کیونکہ مجھے یاد نہیں میں نے کبھی دردِ دل اور بڑے اضطراب سے دعا کی ہو اور وہ قبول نہ ہوئی ہو.بچہ بھی جب درد سے چِلاتا ہے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ جوش مارتا ہے.پس جب ایک چھوٹے بچے کے لئے باوجود ایک قلیل اور عارضی تعلق کے اس کے چِلّانے پر چھاتیوں میں دودھ آ جاتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی
۲۵ مخلوق میں سے کوئی اضطراب اور درد سے دعا کرے اور وہ قبول نہ ہو.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے یہ معاملہ میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ(البقرة ۱۸۷)جب میرے بندے میری نسبت تجھ سے سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں اور اسے قبول کرتا ہوں.یہاں اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ فرمایا یہ نہیں کہا کہ میں صرف مسلمان یا کسی خاص مُلک اور قوم کے آدمی کی دعا سنتا ہوں، کوئی ہو، کہیں کا ہو، اور کہیں ہو.اس قبولیت دعا کی غرض کیا ہوتی ہے؟ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ مان لے اور مسلمان ہو جاوے اور مسلمان اور مؤمن ہو تو اس ایمان میں ترقی کرے.کافر کی دعائیں اس لئے قبول کرتا ہوں کہ مجھ پر ایمان ہو اور وہ مؤمن بن جاوے.اور مؤمن کی اس لئے کہ ُرشد اور یقین میں ترقی کرے.خدا تعالیٰ کی معرفت اور شناخت کا بہترین طریق دعا ہی ہے اور مؤمن کی امیدیں اسی سے وسیع ہوتی ہیں.پس میں نے بھی بہت دعائیں کی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ قبول ہوں گی.پھر میں نے اس کے حضور دعا کی کہ میں ان لوگوں کے سامنے کیا کہوں تو آپ مجھے تعلیم کر اور آپ مجھے سمجھا.میں نے اس فتنہ کو دیکھا جو اِس وقت پیدا ہوا ہے میں نے اپنے آپ کو اِس قابل نہ پایا کہ اُس کی توفیق اور تائید کے بغیر اِس کو دور کر سکوں میرا سہارا اُسی پر ہے اس لئے میں اُسی کے حضور جھکا اور درخواست کی کہ آپ ہی مجھے بتائیں اِن لوگوں کو جو جمع ہوئے ہیں کیا کہوں.اُس نے میرے قلب کو اسی آیت کی طرف متوجہ کیا اور مجھ پر ان حقائق کو کھولا جو اِس میں ہیں.میں نے دیکھا کہ خلافت کے تمام فرائض اور کام اِس آیت میں بیان کر دیئے گئے ہیں تب میں نے اِسی کو اِس وقت تمہارے سامنے پڑھ دیا.لَاخِلَافَۃَ اِلاَّ بِالْمَشْوَرَۃِمیرا مذہب ہے لَاخِلَافَۃَ اِلاَّ بِالْمَشْوَرَۃِخلافت جائز ہی نہیںجب تک اس میں شوریٰ نہ ہو.اِسی اصول پر تم لوگوں کو یہاں بُلوایا گیا ہے اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس پر قائم ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اِس پر قائم رہوں.میں نے چاہا کہ مشورہ لوں مگر میں نہیں جانتا تھا کہ کیا مشورہ لوں.میرے دوستوں نے کہا کہ مشورہ ہونا چاہیے میں نے اس کی تصریح نہیں پوچھی.میں چونکہ مشورہ کو پسند کرتا ہوں اس لئے ان سے اتفاق کیا اور انہوں نے آپ کو بُلا لیا مگر مجھے کل تک معلوم نہ تھا کہ میں کیا کہوں آخر جب میں نے
۲۶ خدا کے حضور توجہ کی تو یہ آیت میرے دل میں ڈالی گئی کہ اسے پڑھو.تفسیر دعائے ابراہیم ؑاس آیت کی تلاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی یا خلیفہ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آیاتُ اللہ لوگوں کو سنائے.آیت کہتے ہیں نشان کو، دلیل کو جس سے کسی چیز کا پتہ لگے.پس نبی جو آیاتُ اللہ پڑھتا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ وہ ایسے دلائل سناتا اور پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی کتب کی تائید اور تصدیق ان کے ذریعہ ہوتی ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی باتیں سنائے جن سے ان کو اللہ پر اور نبیوں اور کتب پر ایمان حاصل ہو.پہلا کاماس سے معلوم ہوا کہ نبی اور اس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت اِلَی الْخَیْرِ ہوتی ہے.وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بُلاتا ہے اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے.دوسرا کام پھر دوسرا فرض نبی یا خلیفہ کا اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ ان کو کتاب سکھا دے.انسان جب اس بات کو مان لے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی طرف سے دنیا میں رسول آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان پر اُترتے ہیں اور ان کے ذریعہ کتب الٰہیہ نازل ہوتی ہیں تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ اعمال کا آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو اَب کیا کرنا چاہیے.اس ضرورت کو پورا کرنے والی آسمانی شریعت ہوتی ہے اور نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ ان نَو مُسلموں کو شریعت سکھائے.ان ہدایات اور تعلیمات پر عمل ضروری ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی معرفت آتی ہیں.پس اس موقع پر دوسرا فرض نبی کا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انہیں فرائض کی تعلیم دے.کتاب کے معنی شریعت اور فرض کے ہیں.جیسے قرآن مجید میں یہ لفظ فرض کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے کتب علیک الصیام پس اس ترتیب کو خوب یاد رکھو کہ پہلا کام اسلام میں لانے کا تھا.دوسرا ان کو شریعت سکھانے اور عامل بنانے کا.تیسرا کامعمل کے لئے ایک اور بات کی ضرورت ہے اُس وقت تک انسان کے اندر کسی کام کے کرنے کے لئے جوش اور شوق پیدا نہیں ہوتا جب تک اسے اس کی حقیقت اور حکمت سمجھ میں نہ آجائے.اس لئے تیسرا کام یہاں یہ بیان کیا والحکمةاور وہ ان کو حکمت کی
۲۷ تعلیم دے.یعنی جب وہ اعمالِ ظاہری بجا لانے لگیں تو پھر ان اعمال کی حقیقت اور حکمت سے انہیں باخبر کرے جیسے ایک شخص ظاہری طور پر نماز پڑھتا ہے.نماز پڑھنے کی ہدایت اور تعلیم دینا یہ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ کے نیچے ہے.اور نماز کیوں فرض کی گئی، اِس کے کیا اغراض و مقاصد ہیں؟ اِس کی حقیقت سے واقف کرنا یہ تعلیم الحکمۃ ہے.ان دونوں باتوں کی مثال خود قرآن شریف سے ہی دیتا ہوں.قرآن شریف میں حکم ہے اقیموا الصلوة۴نمازیں پڑھو، یہ حکم تو گویا یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ کے ماتحت ہے.ایک جگہ یہ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ ۵؎ یعنی نماز بدیوں اور ناپسند باتوں سے روکتی ہے.یہ نماز کی حکمت بیان فرمائی کہ نماز کی غرض کیا ہے.اسی طرح پھر رکوع، سجود، قیام اور قعدہ کی حکمت بتائی جائے اور خدا کے فضل سے میں یہ سب بتا سکتا ہوں.غرض تیسرا کام نبی یا اس کے خلیفہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ احکامِ شریعت کی حکمت سے لوگوں کو واقف کرتا ہے.غرض ایمان کے لئےیتلوا علیھم ایاتہفرمایا.پھر ایمان کے بعد اعمال کے لیے یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ پھر ان اعمال میں ایک جوش اور ذوق پیدا کرنے اور ان کی حقیقت بتانے کے واسطے والحکمة فرمایا، نماز کے متعلق میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ تمام احکام میں اللہ تعالیٰ نے حکمتیں رکھی ہیں.چوتھا کامپھر چوتھا کام فرمایا ویزکیھم حکمت کی تعلیم کے بعد انہیں پاک کرے.تزکیہ کا کام انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے قبضہ اور اختیارمیں ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے تو نبی کو کیوں کہا کہ وہ پاک کرے؟ اس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا مختصر طور پر میںیہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ہی بتا دیا ہے کہ پاک کرنے کا کیا طریق ہے اور وہ ذریعہ دعا ہے، پس نبی کو جو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو پاک کرے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے.اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی حکمتیں مخفی رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت سورہ بقرہ کی ترتیب کا پتہ دیتی ہے لوگوں کو سورہ بقرہ کی ترتیب میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئی ہیں لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کہیں کچھ ذکر ہے کہیں کچھ.کہیں بنی اسرائیل کا ذکر آ جاتا ہے کہیں نماز روزہ کا، کہیں طلاق کا،کہیں ابراہیم علیہ السلام کے مباحثات کا، کہیں طالوت کا، ان تمام
۲۸ واقعات کا آپس میں جوڑ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ مجھے یہ سب کچھ سکھا دیا ہے.سورہ بقرہ کی ترتیب کس طرح سمجھائی گئیحضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی کا واقعہ ہے کہ منشی فرزند علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.اُس وقت اُن سے میری اس قدر واقفیت بھی نہ تھی میں نے عذر کیا مگر انہوں نے اصرار کیا، میں نے سمجھا کہ کوئی منشاء الٰہی ہے آخر میں نے ان کو شروع کرا دیا.ایک دن میں پڑھا رہا تھا کہ میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا کہ آیت ربنا وابعث فیھم رسولا منھم سورہ بقرہ کی ترتیب پورے طور میری سمجھ میں آ گئی، اب آپ اس کو مدنظر رکھ کر سورہ بقرہ کی ترتیب پر غور کریں تو حقیقت معلوم ہو جائے گی.ترتیب سورہ بقرہاب غور کرو! پہلے بتایا کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا عالم خدا ہے پھر بتایا کہ قرآن مجید کی کیا ضرورت ہے کیونکہ سوال ہوتا تھا کہ مختلف مذاہب کی موجودگی میں اس مذہب کی کیا ضرورت پیش آئی اور یہ کتاب خدا تعالیٰ نے کیوں نازل کی، اس کی غرض و غایت بتائی.ھدی للمتقینیعنی سب مذاہب تو صرف متقی بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کتاب ایسی ہے جو متقی کو بھی آگے لے جاتی ہے.متقی تو اسے کہتے ہیں جو انسانی کوشش کو پورا کرے پس اسے آگے لے جانے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ اب خود اس سے ہمکلام ہو.پھر متقین کے اعمال اور کام بتائے پھر بتایا کہ اس کتاب کے ماننے والوں اور منکروں میں کیا امتیاز ہوگا.پھر بتایا کہ انسان چونکہ عبادتِ الٰہی کے لیے پیدا ہوا ہے اس لیے اس کے لیے کوئی ہدایت نامہ چاہیے اور وہ ہدایت نامہ خدا کی طرف سے آنا چاہیے.پھر بتایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آتی بھی رہی ہے جیسے کہ ابتدائے عالم میں آدم کی بعثت ہوئی، اس کے بعد اس کو اور کھولا اور آدم کی مثال پیش کر کے بتایا کہ یہ سلسلہ وہیں ختم نہ ہو گیا بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں ہوا.جو موجود ہیں ان سے پوچھو ہم نے ان پر کس قدر نعمتیں کی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ ظالم ہمارے کلام کے مستحق نہیں ہو سکتے اب جب کہ یہ ظالم ہوگئے ہیں ان کو ہمارا کلام سننے کا حق نہیں اب ہم کسی اور خاندان سے تعلق کریں گے اور وہ بنی اسماعیل کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ دونوں بیٹوں کے ساتھ نیک سلوک کروں گا جب ایک سے وہ وعدہ پورا ہوا، تو ضرور تھاکہ دوسرے سے بھی پورا ہو چنانچہ بتایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے
۲۹ تعمیر کعبہ کے وقت اس طرح دعا کی تھی جو اَب پوری ہونے لگی ہے.بار بار یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ(البقرة ۴۱) فرما کر یہ بتایا کہ بنی اسرائیل کا حق شکایت کا کوئی نہیں ان سے وعدہ پورا ہو چکا ہے اور جس خدا نے ان کا وعدہ پورا کیا ضرور تھا کہ بنی اسماعیل کا وعدہ بھی پورا کرتا.اور اس طرح پر بنی اسرائیل پر بھی اتمامِ حجت کیا کہ باوجود انعامِ الٰہیہ کے تم نے نافرمانی کی اور مختلف قسم کی بدیوں میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو تم نے محروم کرنے کا مستحق ٹھہرا لیا ہے تم میں نبی آئے، بادشاہ ہوئے اب وہی انعام بنی اسماعیل پر ہوں گے.اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ دعا تو تھی ہم کیونکر مانیں کہ یہ شخص وہی موعود ہے اس کا ثبوت ہونا چاہیے.اس کے لئے فرمایا کہ موعود ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ اس دعا میں جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ سب اس کے اندر پائی جاتی ہیں او رچونکہ اس نے ان سب وعدوں کو پورا کر دیا ہے اس لئے یہی وہ شخص ہے.گو سارا قرآن شریف ان چار ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے لیکن اس سورۃ میں خلاصۃً سب باتیں بیان فرمائیں تا معترض پر حجت ہو یتلوا علیھم ایاتک کے متعلق فرمایا ان فی خلق السموت والأرض اور آخر میں فرمایا لایت لقوم یعقلون (البقرة ۱۶۵) اس میں عقل رکھنے والوں کے لئے کافی دلائل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ، ملائکہ، کلامِ الٰہی اور نبوت کا ثبوت ملتا ہے یہ تو نمونہ دیا تلاوتِ آیات کا.اس کے بعد تھا یعلمھم الکتاباس کیلئے مختصر طور پر شریعت اسلام کے موٹے موٹے احکام بیان فرمائے اور ان میں بار بار فرمایا کتب علیکم کتب علیکم جس سے یہ بتایا کہ دیکھو اس پر کیسی بے عیب شریعت نازل ہوئی ہے.پس یہ یتلوا علیھم ایاتک کا بھی مصداق ہے اور یعلمھم الکتاباکا بھی.تیسرا کام بتایا تھا کہ لوگوں کو حکمت سکھائے.اس لئے شریعت کے موٹے موٹے حکم بیان فرمانے کے بعد قومی ترقی کے راز اور شرائع کی اغراض کا ذکر فرمایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور طالوتؑ کے واقعات سے بتایا کہ کس طرح قومیں ترقی کرتی ہیں اور کس طرح مُردہ قومیں زندہ کی جاتی ہیں.پس تم کو بھی ان راہوں کو اختیار کرنا چاہیے اور اس حصہ میں ومنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرً (البقرة ۲۷۰)فرما کر یہ اشارہ فرما دیا کہ لو تیسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا.اس رسول نے حکمت کی باتیں بھی سکھا دی ہیں.مثلاً طالوت کا واقعہ بیان فرمایا کہ اُنہوں نے حکم دیا کہ نہر سے کوئی پانی نہ پیئے اور پینے والے کو ایسی سزا دی کہ اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا اور بتایا کہ جب کوئی شخص چھوٹا حکم نہیں مان سکتا تو اس نے بڑے بڑے حکم کہاں ماننے ہیں.اور یہ بھی بتایا کہ جس وقت جنگ ہو
۳۰ اُس وقت حاکم کی کیسی اطاعت کرنی چاہیے.اس میں یہ بھی بتایا کہ خلفاء پر اعتراض ہوا ہی کرتا ہے اور آخر اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ دیتا ہے.ان حکموں کے بتانے کے بعد تزکیہ رہ گیا تھا.اس کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ اس سورۃ کو دعا پر ختم کیا ہے جس میں یہ بتایا ہے کہ تزکیہ کا طریق دعا ہے.نبی بھی دعا کرے اور جماعت کو بھی دعا کی تعلیم دے.آپ لوگ اس سورۃ کو اَب پڑھ کر دیکھیں جس ترتیب سے آیت مذکورہ میں الفاظ ہیں اسی ترتیب سے اس سورۃ میں آیات اور کتاب اور حکمت اور طریق تزکیہ بیان فرمایا ہے.پس یہ آیت اس سورۃ کی کنجی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں دی ہے.الغرض نبی کا کام بیان فرمایا تبلیغ کرنا، کافروں کو مؤمن کرنا، مؤمنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر باریک در باریک راہوں کا بتانا، پھر تزکیۂ نفس کرنا.یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں.اب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی کام اِس وقت میرے رکھے ہیں.آیات اللہ کی تلاوت میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلائل، ملائکہ پر دلائل، ضرورتِ نبوت اور نبوتِ محمدیہ کے دلائل، قرآن مجید کی حقّیت پر دلائل، اور ضرورتِ الہام و وحی پر دلائل، جزاء و سزا اور مسئلہ تقدیر پر دلائل، قیامت پر دلائل شامل ہیں.یہ معمولی کام نہیں اس زمانہ میں اس کی بہت بڑی ضرورت ہے اور یہ بہت بڑا سلسلہ ہے.پھر یعلمھم الکتابدوسرا کام ہے بار بار شریعت پر توجہ دلائے اور احکام و اوامرالٰہی کی تعمیل کے لئے یاددہانی کراتا رہے.جہاں سُستی ہو اس کا انتظام کرے.اب تم خود غور کرو کہ یہ کام کیا چند کلرکوں کے ذریعہ ہو سکتے ہیں اور کیا خلیفہ کا اتنا ہی کام رہ جاتا ہے کہ وہ چندوں کی نگرانی کرے؟ اور دیکھ لے کہ دفتر محاسب ہے، اس میں چندہ آتا ہے اور چند ممبر مل کر اسے خرچ کر دیں؟ انجمنیں دنیا میں بہت ہیں اور بڑی بڑی ہیں جہاں لاکھوں روپیہ سالانہ آتا ہے اور وہ خرچ کرتی ہیں مگر کیا وہ خلیفہ بن جاتی ہیں؟ خلیفہ کا کام کوئی معمولی اور رذیل کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل اور امتیاز ہے جو اُس شخص کو دیا جاتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے.تم خود غور کر کے دیکھو کہ یہ کام جو میں نے بتائے ہیں میں نے نہیں خدا نے بتائے ہیں کیا کسی انجمن کا سیکرٹری اِس کو کر سکتا ہے؟ ان معاملات میں کوئی
۳۱ سیکرٹری کی بات کو مان سکتا ہے؟ یا آج تک کہیں اِس پر عمل ہوا ہے؟ اور جگہ کو جانے دو یہاں ہی بتا دو کہ کبھی انجمن کے ذریعہ یہ کام ہوا ہو.ہاں چندوں کی یاددہانیاں ہیں وہ ہوتی رہتی ہیں.یہ پکی بات ہے کہ یعلمھم الکتابدوسرا کے لئے ضرور خلیفہ ہی ہوتا ہے.کیونکہ کسی انجمن کے سیکرٹری کے لئے یہ شرط کہاں ہے کہ وہ پاک بھی ہو.ممکن ہے ضرورتاً عیسائی رکھا جاوے یا ہندو ہو جو دفاتر کا کام عمدگی سے کر سکے پھر وہ خلیفہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ خلیفہ کے لئے تعلیم الکتاب ضروری ہے اس کے فرائض میں داخل ہے سیکرٹری کے فرائض میں قواعد پڑھ کر دیکھ لو کہیں بھی داخل نہیں.پھر خلیفہ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے اغراض و اسرار بیان کرے جن کے علم سے ان پر عمل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہوتی ہے.مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری انجمن کے سیکرٹری کے فرائض میں یہ بات ہے؟ کتنی مرتبہ احکامِ الٰہیہ کی حقیقت اور فلاسفی انجمن کی طرف سے تمہیں سکھائی گئی کیا اس قسم کے سیکرٹری رکھے جاسکتے ہیں؟ یا انجمنیں اس مخصوص کام کو کر سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں.انجمنیں محض اِس غرض کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ بہی کھاتے رکھیں اور خلیفہ کے احکام کے نفاذ کے لئے کوشش کریں.پھر خلیفہ کاکام ہے یزکیھم قوم کا تزکیہ کرے.کیا کوئی سیکرٹری اِس فرض کو ادا کر سکتا ہے؟ کسی انجمن کی طرف سے یہ ہدایت جاری ہوئی؟ یا تم نے سنا ہو کہ سیکرٹری نے کہا ہو کہ میں قوم کے تزکیہ کے لئے رو رو کر دعائیں کرتا ہوں؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ کام سیکرٹری کا ہے ہی نہیں اور نہ کوئی سیکرٹری کہہ سکتا ہے کہ میں دعائیں کرتا ہوں.جھوٹا ہے جو کہتا ہے کہ انجمن اس کام کو کر سکتی ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی سیکرٹری یہ کام نہیں کر سکتا اور کوئی انجمن نبی کے کام نہیں کر سکتی.اگر انجمنیں یہ کام کر سکتیں تو خدا تعالیٰ دنیا میں مامور اور مرسل نہ بھیجتا بلکہ اس کی جگہ انجمنیں بناتا مگر کسی ایک انجمن کا پتہ دو جس نے کہا ہو کہ خدا نے ہمیں مامور کیا ہے.کوئی دنیا کی انجمن نہیں ہے جو یہ کام کر سکے.ممبر تو اکٹھے ہو کر چند امور پر فیصلہ کرتے ہیں کیا کبھی کسی انجمن میں اس آیت پر بھی غور کیا گیا ہے.یاد رکھو خدا تعالیٰ جس کے سپرد کوئی کام کرتا ہے اُسی کو بتاتا ہے کہ تیرے یہ کام ہیں.یہ کام ہیں جو انبیاء اور خلفاء کے ہوتے ہیں.روپیہ اکٹھا کرنا ادنیٰ درجہ کاکام ہے.خلفاء کاکام انسانی تربیت ہوتی ہے اور ان کو خدا تعالیٰ کی معرفت اور یقین کے ساتھ پاک کرنا ہوتا ہے.روپیہ تو آریوں اور عیسائیوں کی انجمنیں بلکہ دہریوں کی
۳۲ انجمنیں بھی جمع کر لیتی ہیں.اگر کسی نبی یا اس کے خلیفہ کا بھی یہی کام ہو تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ سخت ہتک اور بے ادبی ہے اُس نبی اور خلیفہ کی.یہ سچ ہے کہ ان مقاصد اور اغراض کی تکمیل کے لئے جو اس کے سپرد ہوتے ہیں اس کو بھی روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی من انصاری الی اللہ کہتا ہے مگر اس سے اُس کی غرض روپیہ جمع کرنا نہیں بلکہ اِس رنگ میں بھی اُس کی غرض وہی تکمیل اور تزکیہ ہوتی ہے.اور پھر بھی اس غرض کے لئے اس کی قائم مقام ایک انجمن یا شوریٰ ہوتی ہے جو انتظام کرے.میں پھر کہتا ہوں کہ خلیفہ کا کام روپیہ جمع کرنا نہیں ہوتا اور نہ اس کے اغراض و مقاصد کا دائرہ کسی مدرسے کے جاری کرنے تک محدود ہوتا ہے یہ کام دنیا کی دوسری قومیں بھی کرتی ہیں.خلیفہ کے اس قسم کے کاموں اور دوسری قوموں کے کاموں میں فرق ہوتا ہے وہ ان امور کو بطور مبادی اور اسباب کے اختیار کرتا ہے یا اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے دوسری قومیں اس کو بطور ایک اصل مقصد اور غایت کے اختیار کرتی ہیں.حضرت صاحب نے جو مدرسہ بنایا اس کی غرض وہ نہ تھی جو دوسری قوموں کے مدرسوں کی ہے.پس یاد رکھو کہ خلیفہ کے جو کام ہوتے ہیں وہ کسی انجمن کے ذریعہ نہیں ہو سکتے.اس قومی اجتماع کی کیا غرض ہےاب آپ کو جو بلایا گیا ہے تو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں ان کاموں کے متعلق جو خدا نے میرے سپرد کر دیئے ہیں آپ سے مشورہ کروں کہ انہیں کس طرح کروں.میں جانتا ہوں اور نہ صرف جانتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ آپ میری ہدایت اور رہنمائی کرے گا کہ مجھے کس طرح ان کو سرانجام دینا چاہئے.لیکن اُسی نے مشورہ کا بھی تو حکم دیا ہے.یہ کام اُس نے خود بتائے ہیں، اُس نے آپ میرے دل میں اس آیت کو ڈالا جو میں نے پڑھی ہے.پرسوں مغرب یا عصر کی نماز کے وقت یکدم میرے دل میں ڈالا.میں حیران تھا کہ بُلا تو لیا ہے کیا کہوں.اِس پر یہ آیت اُس نے میرے دل میں ڈالی.پس یہ چار کام انبیاء اور ان کے خلفاء کے ہیں ان کے سرانجام دینے میں مجھے تم سے مشورہ کرنا ہے میں اب ان کاموں کو اور وسیع کرتا ہوں.چار نہیں بلکہ آٹھ میں اس آیت کی ایک اور تشریح کرتا ہوں جب ان پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان چار میں اور معنی پوشیدہ تھے اور اس طرح پر
۳۳ یہ چار آٹھ بن جاتے ہیں.(۱) یتلوا علیھم ایاتہ اس کے معنی ایک یہ کرتا ہوں کہ کافروں کو مؤمن بنا دے یعنی تبلیغ کرے.دوسرے مؤمنوں کو آیات سنائے.اس صورت میں ترقی ایمان یا درستی ایمان بھی کام ہوگا یہ دو ہوگئے.(۲) یعلمھم الکتابدوسرا قرآن شریف کتاب موجود ہے اس لئے اس کی تعلیم میں قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا، قرآن مجید کا سمجھنا آ جائے گا.کتاب تو لکھی ہوئی موجود ہے اس لئے کام یہ ہوگا کہ ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کی تعلیم ہو.پھر اس کے سمجھانے کے لئے ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا جائے اور وہ علوم پڑھائے جائیں جو اس کے خادم ہوں.ایسی صورت میں دینی مدارس کا اجراء اور ان کی تکمیل کام ہوگا.(ب) دوسرا کام اس لفظ کے ماتحت قرآن شریف پر عمل کرانا ہوگا کیونکہ تعلیم دو قسم کی ہوتی ہے ایک کسی کتاب کا پڑھا دینا اور دوسرے اس پر عمل کروانا.(۳) الحکمة،تعلیم الحکمة کے لئے تجاویز اور تدابیر ہوں گی کیونکہ اس فرض کے نیچے احکامِ شرائع کے اسرار سے آگاہ کرنا ضروری ہے.(۴) یزکیھم،یزکیھم کے معنوں پر غور کیا تو ایک تو یہی بات ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ دعاؤں کے دزیعہ تزکیہ کرے.پھر ابن عباسؓ نے معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اخلاص پیدا کرنا.غرض ایک تو یہ معنی ہوئے کہ گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے.اس لئے جماعت کو گناہوں سے بچانا ضروری ٹھہرا کہ وہ گناہوں میں نہ پڑے.اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے یہ کام ہوا کہ صرف گناہوں سے نہ بچائے بلکہ ان میں نیکی پیدا کرے.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ ایک تو وہ تدابیر اختیار کرے جن سے جماعت کے گناہ دور کر دے.دوسرے اُن کو خوبصورت بنا کر دکھاوے.اعلیٰ مدارج کی طرف لے جاوے اور اُن کے کاموں میں اخلاص اور اطاعت پیدا کرے.پھر تیسرے معنی بھی یزکیھم کے ہیں وہ یہ کہ ان کو بڑھائے.ان معانی کے لحاظ سے دین و دنیا میں ترقی دینا ضروری ہوا اور یہ ترقی ہر پہلو سے ہونی چاہیے.دُنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میں ان کو آگے لے جاوے، تعداد میں کم ہوں تو بڑھائے، مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھاوے.غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو بڑھاتا چلا جاوے.اب ان معنوں کے لحاظ سے جماعت کی ہر قسم کی ترقی نبی اور اس کے ماتحت اس کے خلیفہ کا فرض ہوا.پھر جب میل سے پاک کرنا اور ترقی کرانا اس کا کام ہوا تو اسی میں غرباء کی خبر گیری بھی آ گئی کیونکہ وہ بھی ایک دنیاوی میل سے لتھڑے ہوتے ہیں اُن کو پاک کرنا اس کا فرض ہے.اس غرض کو پورا
۳۴ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا صیغہ رکھا ہے کیونکہ جماعت کے غرباء اور مساکین کا انتظام کرنا بھی خلیفہ کا کام ہے اور اس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا بھی انتظام فرما دیا اور امراء پر زکوٰۃ مقرر فرمائی.پس یاد رکھو کہ یزکیھم کے معنی ہوئے پاک کرے، اخلاص پیدا کرے اور ہر رنگ میں بڑھائے.چہارم صدقات کا انتظام کر کے اصلاح کرے.اب انجمن والے بھی بے شک بولیں کیونکہ ان امور کے انتظام انجمن کو چاہتے ہیں.مگر باوجود اس کے بھی یہ انجمن کا کام نہیں بلکہ خلیفہ کا کام ہے.اب تمہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ یہ سب باتیں اس کے نیچے ہیں اور یہ خیالی طور پر نہیں، ڈھکوسلہ کے رنگ میں نہیں بلکہ لغت اور صحابہؓ کے اقوال اِس کی تائید کرتے ہیں.پس میں نے تمہیں وہ کام خلیفہ کے بتائے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بیان کئے ہیں اور اس کی حقیقت لغت عرب اور صحابہؓ کے مسلّمہ معنوں کی رو سے بتائی ہے میرا کام اتنا ہے.خدا تعالیٰ نے مجموعی اور یکجائی طور پر مجھے اس سے آگاہ کر دیا اور محض اپنے فضل سے سورۃ بقرہ کی کلید مجھے بتا دی.میں اِس راز اور حقیقت کو آج سمجھا کہ تین سال پیشتر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بجلی کی طرح میرے دل میں کیوں ڈالی؟ قبل از وقت میں اِس راز سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا مگر آج حقیقت کھلی کہ ارادۂ الٰہی میں یہ میرے ہی فرائض اور کام تھے اور ایک وقت آنے والا تھا کہ مجھے ان کی تکمیل کے لئے کھڑا کیا جانا تھا.پس جب یہ ظاہر ہوچکا کہ خلیفہ کے کیا کام ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ میرے کیا فرائض ہیں تو اب سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیونکر کرنا ہے؟ اور اسی میں مجھے تم سے مشورہ کرنا ہے.مقاصدِ خلافت کی تکمیل کی کیا صورت ہویہ تو آپ کو معلوم ہوچکا کہ خلافت کا پہلا اور ضروری کام تبلیغ ہے اس لئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ تبلیغ کی کیا صورتیں ہوں.مگر میں ایک اور بات بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور یہ بات ابھی میرے دل میں ڈالی گئی ہے کہ خلافت کے یہ مقاصدِ اربعہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وصیت میں بھی بیان کئے گئے ہیں.خلیفۃ المسیح کی وصیت اسی کی تشریح ہےحضرت خلیفۃ المسیح نے اپنی وصیت میں اپنے جانشین کیلئے فرمایا.متقی ہو، ہر دلعزیز ہو، قرآن و حدیث کا درس جاری رہے، عالم باعمل ہو.اس میں یعلمھم الکتاب والحکمة
۳۵.کی طرف اشارہ اس حکم میں ہے کہ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے کیونکہ الکتاب کے معنی قرآن شریف ہیں اور الحکمة کے معنی بعض آئمہ نے حدیث کے کئے ہیں.اس طرح یعلمھم الکتاب والحکمة کے معنی ہوئے قرآن و حدیث سکھائے عام ترجمہ ہے یتلوا علیھم ایاتک کا.کیونکہ تبلیغ کے لئے علم کی ضرورت ہے.متقی اور باعمل ہونا اور ہر دلعزیز ہونا یہ یزکیھم کے لئے ضروری ہے کیونکہ جو متقی ہے وہی تزکیہ کر سکتا ہے اور جو خود عمل نہ کرے گا اس کی بات پر اور لوگ عمل نہیں کر سکتے.اسی طرح جو قوم کا مزکی ہوگا وہ ہر دلعزیز بھی ضرور ہوگا.پھر کہو کہ وصیت میں ایک اور بات بھی ہے کہ درگزر سے کام لے.میں کہتا ہوں اس کا ذکر بھی اس آیت میں ہے.انک انت العزیز الحکیماللہ تعالیٰ جو العزیزہے اُس کو بھی معزز کرے گا اور غلبہ دے گا.جس کا لازمی نتیجہ درگزر ہوگا کیونکہ یہ ایک طاقت کو چاہتا ہے طاقت ملے تو درگزر کرے.پس اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے ان اسماء کا ذکر کرنے کے یہی معنی ہیں.پھر یہ بتایا کہ درگزر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ لغو نہیں بلکہ الحکیم کے خیال کے نیچے ہوگا.پس یاد رکھو کہ حضرت خلیفۃ المسیح (خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے فضل اُن پر ہوں) کی وصیت بھی اسی آیت کی تشریح ہے.اب جب کہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور خود حضرت خلیفۃ المسیح نے خلیفہ کے کام پہلے سے بتا دیئے تو اب جدید شرائط کا کسی کو کیا حق ہے.گورنمنٹ کی شرائط کے بعد کسی اور کوکوئی حق نہیں ہوتا کہ اپنی خود ساختہ باتیں پیش کرے.خلیفہ تو خداوند مقرر کرتا ہے پھر تمہارا کیا حق ہے کہ تم شرائط پیش کرو.خدا سے ڈرو اور ایسی باتوں سے توبہ کرو یہ ادب سے دور ہیں.خدا تعالیٰ نے خود خلیفہ کے کام مقرر کر دیئے ہیں اب کوئی نہیں جو ان میں تبدیلی کر سکے یا ان کے خلاف کچھ اور کہہ سکے.پھر کہتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح (خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں اُن پر ہوں) نے بھی وہی باتیں پیش کیں جو اس آیت میں خدا نے بیان کی تھیں گویا ان کی وصیت اس آیت کا ترجمہ ہے.اب میں چاہتا ہوں کہ اور تشریح کروں.تبلیغپہلافرض خلیفہ کاتبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا اُنس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے.میں جب دیکھتا
۳۶ تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اِتنا ہو اِتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں.میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پُرانارہا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے میری اِن دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں.غرض تبلیغ کے کام سے مجھے بڑی دلچسپی ہے.یہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ سب دنیا ایک مذہب پر جمع نہیں ہو سکتی.اور یہ بھی سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کو نہیں کر سکے اور کون ہے جو اسے کر سکے یا اس کا نام بھی لے لیکن اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خادم اور غلام توفیق دیا جاوے کہ ایک حد تک تبلیغ اسلام کے کام کو کرے تو یہ اس کی اپنی کوئی خوبی اور کمال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے.میرے دل میں تبلیغ کے لئے اتنی تڑپ تھی کہ میں حیران تھا اور سامان کے لحاظ سے بالکل قاصر.پس میں اس کے حضور ہی جھکا اور دعائیں کیں اور میرے پاس تھا ہی کیا؟ میں نے بار بار عرض کی کہ میرے پاس نہ علم ہے، نہ دولت، نہ کوئی جماعت ہے، نہ کچھ اور ہے جس سے میں خدمت کر سکوں.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ اس نے میری دعاؤں کو سنا اور آپ ہی سامان کر دیئے اور تمہیں کھڑا کر دیا کہ میرے ساتھ ہو جاؤ.پس آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چُن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے جو اُس نے مجھے دکھایا.اس کو دیکھ کر میں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھاوے گا.اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے.کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا.اب تم یہ تو سمجھ سکتے ہو کہ میری دلچسپی تبلیغ کے کام سے آج پیدا نہیں ہوئی اس حالت سے پہلے بھی جہاں تک مجھے موقع ملا مختلف رنگوں اور صورتوں میں تبلیغ کی تجویزیں کرتا رہا.وہ جوش اور دلچسپی جو فطرتاً مجھے اس کام سے تھی اور اس راہ کے
۳۷.اختیار کرنے کی جو بے اختیار کشش میرے دل میں ہوتی تھی اس کی حقیقت کو بھی اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے کام میں داخل تھا ورنہ جب تک اللہ تعالیٰ ایک فطرتی جوش اس کے لئے میری روح میں نہ رکھ دیتا میں کیونکر اسے سر انجام دے سکتا تھا.اب میں آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے کیا کیا جاوے.میں جو کچھ اس کے متعلق ارادہ رکھتا ہوں وہ میں بتا دیتا ہوں مگر تم سوچو اور غور کرو کہ اس کی تکمیل کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں اور ان تجاویز کو عملی رنگ میں لانے کے واسطے کیا کرنا چاہیے.ہر زبان کے مبلّغ ہوںمیں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں.اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے.غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں.میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا.میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا.کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت روپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے مگر اس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے.کیا اس سے پہلے ہم اس کے عجائباتِ قدرت کے تماشے دیکھ نہیں چکے؟ یہ جگہ جس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کے مأمور کے باعث دنیا میں شُہرت یافتہ ہے اور جس طرح پر خدا نے اس سے وعدہ کیا تھا ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ روپیہ اس کے کاموں کی تکمیل کے لئے اس نے آپ بھیج دیا.اس نے وعدہ کیا تھا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۱۲؎ تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جن کو ہم خود وحی کریں گے.پس میں جب کہ جانتا ہوں کہ جو کام میرے سپرد ہوا ہے یہ اُسی کا کام ہے اور میں نے یہ کام خود اس سے طلب نہیں کیا خدا نے خود دیا ہے تو وہ انہی رِجَال کو وحی کرے گا جو مسیح موعود علیہ السلام کے وقت وحی کئے جاتے تھے.پس میرے دوستو!روپیہ کے معاملہ میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں.وہ آپ
۳۸ سامان کرے گا.آپ اُن سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا جو اِن کاموں میں میری مددگار ہونگی.میں خیالی طور پر نہیں کامل یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ ان کاموں کی تکمیل و اجراء کے لئے کسی محاسب کی تحریکیں کام نہیں دیں گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے خود وعدہ کیا ہے کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے.پس ہمارے محاسب کا عُہدہ خود خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وعدہ فرمایا ہے کہ روپیہ دینے کی تحریک ہم خود لوگوں کے دلوں میں کریں گے.ہاں جمع کا لفظ استعمال کر کے بتایا کہ بعض انسان بھی ہماری اس تحریک کو پھیلا کر ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس خدا آپ ہی ہمارا محاسب اور محصل ہوگا.اُسی کے پاس ہمارے سب خزانے ہیں.اس نے آپ ہی وعدہ کیا ہے یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ پھرہمیںکیا فکر ہے؟ ہاں ثواب کا ایک موقع ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے.ہندوستان میں تبلیغتبلیغ کے سلسلہ میں میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا کوئی قصبہ یا گاؤں باقی نہ رہے جہاں ہماری تبلیغ نہ ہو.ایک بھی بستی باقی نہ رہ جاوے جہاں ہمارے مبلّغ پہنچ کر خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کا پیغام نہ پہنچادیں اور خوب کھول کھول کر انہیں سنا دیں.یہ کام معمولی نہیں اور آسان بھی نہیں ہاں اس کو آسان بنا دینا اور معمولی کر دینا خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے.ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم لوگوں کو منوا دیں البتہ یہ کام ہمارا ہے اور ہونا چاہیے کہ ہم انہیں حق پہنچا دیں وہ مانیں نہ مانیں یہ اُن کا کام ہے.وہ اگر اپنا فرض پورا نہیں کرتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم بھی اپنا فرض پورا نہ کریں.اِس موقع پر مجھے ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا.کہتے ہیں کہ ایک بزرگ بیس برس سے دعا کر رہے تھے وہ ہر روز دعا کرتے اور صبح کے قریب اُن کو جواب ملتا مانگتے رہو کہ میں تو کبھی بھی تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا.بیس برس گزرنے پر ایک دن ان کا کوئی مرید بھی ان کے ہاں مہمان آیا ہوا تھا.اس نے دیکھا کہ پیر صاحب رات بھر دعا کرتے ہیں اور صبح کے قریب ان کو یہ آواز آتی ہے.یہ آواز اس مرید نے بھی سنی.تیسرے دن اس نے عرض کیا کہ جب اس قسم کا سخت جواب آپ کو ملتا ہے تو پھر آپ کیوں دعا کرتے رہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تُو بہت بے استقلال معلوم ہوتا ہے بندے کا کام ہے دعا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے قبول کرنا.مجھے اِس
۳۹ سے کیا غرض کہ وہ قبول کرتا ہے یا نہیں.میرا کام دعا کرنا ہے سو میں کرتا رہتا ہوں میں تو بیس سال سے ایسی آوازیں سن رہا ہوں میں تو کبھی نہیں گھبرایا تو تین دن میں گھبرا گیا.دوسرے دن خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا کہ میں نے تیری وہ ساری دعائیں قبول کر لیں جو تو نے بیس سال کے اندر کی ہیں.غرض ہمارا کام پہنچا دینا ہے اور محض اس وجہ سے کہ کوئی قبول نہیں کرتا ہمیں تھکنا اور رُکنا نہیں چاہئے.کیونکہ ہمارا کام منوانا نہیں ہم کو تو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم کہہ سکیں کہ ہم نے پہنچا دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا لست علیھم بمسیطر.لا اکراہ فی الدین؎ اور آپ کاکام اتنا ہی فرمایا بلغ ما انزل عیلکجو تم پر نازل ہوا اُسے پہنچاؤ.پس ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے.جب منوانا ہمارا کام نہیں تو دوسرے کے کام پر ناراض ہو کر اپنا کام کیوں چھوڑیں؟ ہم کو اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرو ہونے کے لئے پیغامِ حق پہنچا دینا چاہیے.پس ایسی تجویز کرو کہ ہر قصبہ اور شہر اور گاؤں میں ہمارے مبلّغ پہنچ جاویں اور زمین و آسمان گواہی دے دیں کہ تم نے اپنا فرض ادا کر دیا اور پہنچا دیا.دوم.ہندوستان سے باہر ہر ایک مُلک میں ہم اپنے واعظ بھیجیں.مگر میں اس بات کے کہنے سے نہیں ڈرتا کہ اس تبلیغ سے ہماری غرض سلسلہ احمدیہ کی صورت میں اسلام کی تبلیغ ہو.میرا یہی مذہب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہ کر اندر باہر ان سے بھی یہی سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اسلام کی تبلیغ یہی میری تبلیغ ہے پس اِس اسلام کی تبلیغ کرو جو مسیح موعود علیہ السلام لایا.حضرت صاحب اپنی ہر ایک تحریر میں اپنا ذکر فرماتے تھے اور ہم مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کے بغیر زندہ اسلام پیش کر بھی کب سکتے ہیں.پس جو لوگ مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کا طریق چھوڑتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے، کمزوری ہے ان پر حُجت پوری ہو چکی ہے.حضرت صاحب کی ایک تحریر ملی ہے جو مولوی محمد علی صاحب کو ہی مخاطب کر کے فرمائی تھی.اور وہ یہ ہے.اخبار بدر جلد۶نمبر۸ مؤرخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۴ ’’۱۳؍ فروری ۱۹۰۷ء مولوی محمد علی صاحب کو بُلا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یورپ امریکہ کے لوگوں پر تبلیغ کا حق ادا کرنے کے واسطے ایک کتاب انگریزی زبان میں لکھی جائے اور یہ آپ کا کام ہے.آجکل ان مُلکوں میں جو اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں
۴۰ رہتا ہے.اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے.ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جائے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیا ہے.وہ امتیازی باتیں جو خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں رکھی ہیں وہ ان پر ظاہر کرنی چاہئیں اور خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان سب باتوں کو جمع کیا جائے جن کے ساتھ اسلام کی عزت اِس زمانہ میں وابستہ ہے.ان تمام دلائل کو ایک جگہ جمع کیا جائے جو اسلام کی صداقت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں.اس طرح ایک جامع کتاب تیار ہو جائے تو امید ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بہت فائدہ حاصل ہو‘‘.اب بتاؤ کہ جب مسیح موعود علیہ السلام نے خود یورپ میں تبلیغ اسلام کا طریق بتا دیا ہے تو پھر کسی نئے طریق اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے.افسوس ہے جن کو اس کام کے لائق سمجھ کر ہدایت کی گئی تھی وہی اَور راہ اختیار کر رہے ہیں.یہ غلط ہے کہ لوگ وہاں سلسلہ کی باتیں سننے کو تیار نہیں.ایک دوست کا خط آیا ہے کہ لوگ سلسلہ کی باتیں سننے کو تیار ہیں کیونکہ ایسی جماعتیں وہاں پائی جاتی ہیں جو مسیح کی آمد کی اِنہی دنوں میں منتظر ہیں.ایسا ہی ریویو کو پڑھ کر بعض خطوط آتے ہیں.سویڈن اور انگلستان سے بھی آتے ہیں.ایک شخص نے مسیح کے کشمیر آنے کا مضمون پڑھ کر لکھا ہے کہ اسے الگ چھپوایا جائے اور دو ہزار مجھے بھیجا جائے میں اسے شائع کروں گا یہ ایک جرمن یا انگریز کا خط ہے.ایسی سعادت مند روحیں ہیں جو سننے کو موجود ہیں مگر ضرورت ہے سنانے والوں کی.میں یورپ میں تبلیغ کے سوال پر آج تک خاموش رہا اِس کی یہ وجہ نہ تھی کہ میں اس سوال کا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، نہیں بلکہ میں نے احتیاط سے کام لیا کہ جو لوگ وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے حالات کا بہترین علم رکھتے ہیں میں چونکہ وہاں نہیں گیا اس لئے مجھے خاموش رہنا چاہیے لیکن جو لوگ وہاں گئے ان میں سے بعض نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا ذکر لوگ سنتے ہیں اور ہماری تبلیغ میں حضرت صاحب کا ذکر ہونا چاہیے.اس کے علاوہ خود حضرت صاحب نے یورپ میں تبلیغ کے لئے یہی فرمایا کہ اس سلسلہ کو پیش کیا جاوے.اور جو کشف آپ نے دیکھا تھا اس کے بھی یہی معنی کئے کہ میری تحریریں وہاں پہنچیں گی.ان تمام امور پر غور کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ممالکِ غیر اور یورپ میں بھی اس سلسلہ کی اشاعت ہو اور ہمارے مبلّغ وہاں جا کر انہیں بتائیں کہ تمہارا مذہب مردہ ہے اس میں زندگی کی روح نہیں ہے زندہ مذہب صرف اسلام ہے
جس کی زندگی کا ثبوت اِس زمانہ میں بھی ملتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نازل ہوئے.غرض وہاں بھی سلسلہ کا پیغام پہنچایا جاوے اور جہاں ہم سرِدست واعظ نہیں بھیج سکتے وہاں ٹریکٹ اور چھوٹے چھوٹے رسالے چھپوا کر تقسیم کریں.اشتہار ی تبلیغ کا جوشچونکہ مجھے تبلیغ کیلئے خاص دلچسپی رہی ہے اس دلچسپی کے ساتھ عجیب عجیب ترکیبیں میرے دماغ میں پیدا کی ہیں.ایک بار خیال آیا کہ جس طرح پر اشتہاری تاجر اخبارات میں اپنا اشتہار دیتے ہیں میں بھی چین کے اخبارات میں ایک اشتہار تبلیغِ سلسلہ کا دوں اور اس کی اجرت دے دوں تاکہ ایک خاص عرصہ تک وہ اشتہار چھپتا رہے.مثلاً یہی اشتہار کہ " مسیح موعود آگیا" بڑی موٹی قلم سے اِس عنوان سے ایک اشتہار چھپتا رہے.غرض میں اس جوش اور عشق کا نقشہ الفاظ میں نہیں کھینچ سکتا ہوں جو اس مقصد کے لئے مجھے دیا گیا ہے یہ ایک نمونہ ہے اس جوش کو پورا کرنے کا.ورنہ یہ ایک لطیفہ ہی ہے اس تجویز کے ساتھ ہی مجھے بے اختیار ہنسی آئی کہ یہ اشتہاری تبلیغ بھی عجیب ہوگی.مگر یہ کوئی نئی بات نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تبلیغِ سلسلہ کیلئے عجیب عجیب خیال آتے تھے اور وہ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ یہ پیغام دنیا کے ہر کونے میں جاوے.ایک مرتبہ آپ نے تجویز کی کہ ہماری جماعت کا لباس ہی الگ ہو تاکہ ہر شخص بجائے خود ایک تبلیغ ہوسکے اور دوستوں کو ایک دوسرے کی ناواقفی میں شناخت آسان ہو.اس پر مختلف تجویزیں ہوتی رہیں.میں خیال کرتا ہوں شاید اسی بناء پر لکھنؤ کے ایک دوست نے اپنی ٹوپی پر احمدی لکھوا لیا.غرض تبلیغ ہو اور کونہ کونہ میں ہو کوئی جگہ باقی نہ رہے یہ جوش یہ تجویزیں اور کوشش ہماری نہیں یہ حضرت صاحب ہی کی ہیں اور سب کچھ انہیں کا ہے.ہمارا تو کچھ بھی نہیں.مبلغ کہاں سے آویںجب ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ہر گوشہ اور ہر قوم اور ہر زبان میں ہماری تبلیغ ہو تو دوسرا سوال جو قدرتاً پیدا ہوتا ہے یہ ہوگا کہ تبلیغ کے لئے مبلغ کہاں سے آویں؟ یہ وہ سوال ہے جس نے ہمیشہ میرے دل کو دکھ میں رکھا ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی یہ تڑپ رکھتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ تبلیغ کرنے والے ملیں.حضرت خلیفتہ المسیح کی بھی یہ آرزو رہی.اسی خواہش نے اسی جگہ اسی مسجد میں مدرسہ احمدیہ کی بنیاد مجھ سے رکھوائی اور اسی مسجد میں بڑے زور سے اس کی مخالفت کی گئی لیک میری کوئی ذاتی خواہش
۴۲ اور غرض نہ تھی محض اعلائے سلسلہ کی غرض سے میں نے یہ تحریک کی تھی باوجود یکہ بڑے بڑے آدمیوں نے مخالفت کی آخر اللہ تعالیٰ نے اِس مدرسہ کو قائم کر ہی دیا.اُس وقت سمجھنے والوں نے نہ سمجھا کہ اس مدرسہ کی کس قدر ضرورت ہے اور مخالفت میں حصہ لیا.میں دیکھتا تھا کہ علماء کے قائم مقام پیدا نہیں ہوتے.میرے دوستو! یہ معمولی مصیبت اور دکھ نہیں ہے.کیا تم چاہتے ہو، ہاں کیا تم چاہتے ہو کہ فتویٰ پوچھنے کے لئے تم ندوہ اور دوسرے غیراحمدی مدرسوں یا علماء سے سوال کرتے پھرو جو تم پر کفر کے فتوے دے رہے ہیں؟ دینی علوم کے بغیر قوم مُردہ ہوتی ہے پس اِس خیال کو مدنظر رکھ کر باوجود پُرجوش مخالفت کے میں نے مدرسہ احمدیہ کی تحریک کو اُٹھایا اور خدا کا فضل ہے کہ وہ مدرسہ دن بدن ترقی کر رہا ہے لیکن ہمیں تو اِس وقت واعظ اور معلّموں کی ضرورت ہے.مدرسہ سے تعلیم یافتہ نکلیں گے اور اِنْشَائَ اللّٰہ وہ مفید ثابت ہوں گے مگر ضرورتیں ایسی ہیں کہ ابھی ملیں.میرا اپنا دل تو چاہتا ہے کہ گاؤں گاؤں ہمارے علماء اور مفتی ہوں.جن کے ذریعہ علومِ دینیہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہو اور کوئی بھی احمدی باقی نہ رہے جو پڑھا لکھا نہ ہو اور علومِ دینی سے واقف نہ ہو.میرے دل میں اس غرض کے لئے بھی عجیب عجیب تجویزیں ہیں جو خدا چاہے گا تو پوری ہو جائیں گی.غرض یہ ضروری سوال ہے کہ مبلّغ کہاں سے آویں؟ اور پھر چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر زبان میں ہماری تبلیغ ہو اس لئے ضرورت ہے کہ مختلف زبانیں سکھائی جاویں.حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں میں نے ارادہ کیا تھا کہ بعض ایسے طالبعلم ملیں جو سنسکرت پڑھیں اور پھر وہ ہندوؤں کے گاؤں میں جا کر کوئی مدرسہ کھول دیں اور تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھیں اور ایک عرصہ تک وہاں رہیں.جب اسلام کا بیج بویا جائے تو مدرسہ کسی شاگرد کے سپرد کر کے آپ دوسری جگہ جا کر کام کریں.غرض جس رنگ میں تبلیغ آسانی سے ہو سکے کریں.اِس قسم کے لوگوں کی بہت بڑی ضرورت ہے جو خدمتِ دین کے لئے نکل کھڑے ہوں.یہ ضرورت کس طرح پوری ہو؟ ایک سہل طریق خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایک مدرسہ ہو.تم باہم مل کر اس کے لئے مشورہ کرو پھر میں غور کروں گا.میں پھر کہتا ہوں کہ میں تم سے جو مشورہ کر رہا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے نیچے کر رہا ہوں.قرآن مجید میں اس نے فرمایا ہے وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰه (اٰل عمران ۱۶۰)پس تم مشورہ کرکے مجھے بتاؤ.پھر اللہ تعالیٰ جو کچھ میرے دل میں ڈالے گا میں اس پر تَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہِ
۴۳ عزم کروں گا.غرض ایک مدرسہ ہو اس میں ایک ایک مہینے یا تین تین مہینے کے کورس ہوں.اس عرصہ میں مختلف جگہ سے لوگ آ جاویں اور وہ کورس پورا کر کے اپنے وطنوں کو چلے جاویں اور وہاں جا کر اپنے اس کورس کے موافق سلسلہ تبلیغ کا جاری کریں.پھر ان کی جگہ ایک اور جماعت آوے اور وہ بھی اسی طرح اپنا کورس پورا کر کے چلی جاوے.سال تک برابر اسی طرح ہوتا رہے پھر اسی طریق پر وہ لوگ جو پہلے سال آئے تھے آتے رہیں.اس طرح پر ان کی تکمیل ہو اور ساتھ ہی وہ تبلیغ کرتے رہیں.میں اس مقصد کے لئے خاص استاد مقرر کروں گا اور جو لوگ اس طرح پر آتے رہیں گے وہ برابر پڑھتے رہیں گے.یہ تعلیم کا ایک ایسا ہی طریق ہے جیسا کہ میدانِ جنگ میں نماز کا ہے.اِس وقت بھی دشمن سے جنگ ہے اب تیروتفنگ کی لڑائی نہیں بلکہ دلائل اور براہین سے ہو رہی ہے اس لئے اِنہیں ہتھیاروں سے ہم کو مسلح ہونا چاہیے اور اِس کی یہ ایک صورت ہے.غرض ایک سال کا کورس ختم ہونے کے بعد پھر پہلی جماعت آئے اور کورس ختم کرے.ایک ایک سال کے لئے ذخیرہ موجود ہوگا حتیّٰ کہ چار پانچ چھ سات سال میں جب تک خدا چاہے کام کرتے رہیں اتنے عرصہ میں مبلّغ تیار ہو جاویں گے.یہ ایک طریق ہے، یہ ایک رنگ ہے پس تم غور کرو کہ ایک مدرسہ اس قسم کا چاہیے.واعظین کا تقررواعظین کے تقرر کی بھی ضرورت ہے اور میری رائے یہ ہے کہ کم از کم دس تو ہوں.ان کو مختلف جگہ بھیج دیا جاوے.مثلاً ایک سیالکوٹ چلا جاوے وہ وہاں جا کر درس دے اور تبلیغ کرے تین ماہ تک وہاں رہے اور پھر دوسری جگہ چلا جاوے.کسی جگہ ایک آدھ دن کے لیکچر یا وعظ کی بجائے یہ سلسلہ زیادہ مفید ہو سکتا ہے واعظین کم از کم دس ہوں اور اگر یہ بھی نہ مل سکیں تو کم از کم پانچ ہی ہوں.قومِ لوط کا واقعہاِس موقع پر مجھے ایک خطرناک واقعہ یاد آگیا.حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ’’تب ابراہام نزدیک جا کے بولا.کیا تُونیک کو بَد کے ساتھ ہلاک کرے گا؟ شاید پچاس صادق اس شہر میں ہوں.کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس صادقوں کی خاطر جو اس کے درمیان ہیں اس مقام کو نہ چھوڑے گا؟ایساکرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بَد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بَد کے برابر ہو جاویں یہ تجھ سے بعید ہے.کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا؟ اور خداوند نے کہا کہ اگر میں سدوم میں شہر کے درمیان پچاس صادق پاؤں تو میں ان
۴۴ کے واسطے تمام مکان کو چھوڑوں گا.تب ابر هام نے جواب دیا اور کہا کہ اب دیکھو میں نے خداوند سے بولنے میں جرآت کی اگر چہ میں خاک اور راکھ ہوں.شاید پچاس صا وقوں سے پانچ کم ہوں.کیا ان پانچ کے واسطے تو تمام شهر کویت کرے گا اور اس نے کہا اگر میں وہاں پنتالیس پاؤں تو نیست نہ کروں گا.پھر اس نے اس سے کہا شاید وہاں چالیس پائے جائیں.تب اس نے کہا کہ میں پالیسی کے راستے بھی نہ کروں گا.پھر اس نے کہا کہ میں مشت کرتا ہوں کہ اگر خداوندخفا نہ ہوں تو میں کچھ کہوں.شاید وہاں میں پائے جائیں وہ بولا اگر میں وہاں میں پاؤں تو میں یہ نہ کروں گا.پھر اس نے کہا د یکھے میں نے خداوند سے بات کرنے میں جرآت کی.شاید وہاں میں پائے جائیں.وہ بولا میں میں کے ایسے بھی اسے نیست نہ کروں گا.تب اس نے کہا میں منت کرتا ہوں کہ خداوند خفا نہ ہوں.تب میں فتا اب کی بار پھر کہوں شاید وہاں دس پائے جائیں.وہ بولا میں دس کے واسطے بھی اسے نیست نہ کروں گا‘‘.(پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۴ مطبوعہ برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی انارکلی لا ہور۱۹۴۴ء) قرآن شریف میں اس کی نسبت فر مایا فما وجدنا فيها غير بيت من المسلمين (الذریت : ۳۷) غرض دس کے ذکر پر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا تو کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دس مولوی بھی نہ ملیں یہ بہت ہی رہنے اور گرد گرانے اور دعاؤں کا مقام ہے کیونکہ جب علماء نہ ہوں تو دین میں کمزوری آ جاتی ہے میں تو بہت دعائیں کرتا ہوں کہ اللہ اس نقص کو دور فرما دے.یہ تجویز جو میں نے پیش کی ہے قرآن مجید نے ہی اس کو پیش کیا ہے چنانچ فرمایا فلؤلانفر من كل فرقة (التوبة :۱۲۲) سارے مومن تو ایک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے اس لئے یہ فرمایا کہ ہر علاقہ سے کچھ لوگ آویں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے حضور رہ کر دین حاصل کر کے اپنی قوم میں جا کر انہیں سکھائیں.بی تو میری بیلی تجویز کی اتنی قرآن مجید سے ہے یا یوں کہو کہ قرآن مجید کی ہدایت کے موانی میری پہلی تجویز ہے.دوسری تجویز بھی قرآن مجید ہی کی ہے چنانچ فر مایا ولتکن منکم امة يدعون إلى الخير (ال عمران :۱۰۵) یہ آیت واعظین کی ایک ایسی جماعت کی تائید کرتی ہے جس کا کام بھی تبلیغ ہو.تعلیم شرائع ان امور کے بعد پر قایم شرائع کاکام آتا ہے جب تک قوم کو شریعت سے واقفیت نہ ہو انہیں معلوم نہ ہو کہ انہوں نے کیا کرتا ہے عملی حالت کی اصلاح
۴۵ مشکل ہوتی ہے اس لئے خلیفہ کے کاموں میں تعلیم شرائع ضروری ہے.میں نے ایک شخص کو دیکھا جو بیعت کرنے لگا.اُس کو کلمہ بھی نہیں آتا تھا.اس لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا کوئی فرد باقی نہ رہے جو ضروری باتیں دین کی نہ جانتا ہو.پس اس تعلیمِ شرائع کے انتظام کی ضرورت ہے.یہ کام کچھ تو مبلغین اور واعظین سے لیا جاوے.وہ ضروری دینی مسائل سے قوم کو واقف کرتے رہیں.میں نے ایسے آدمیوں کو دیکھا ہے جو قوم میں لیڈر کہلاتے ہیں وہ نماز نہیں پڑھنا جانتے اور بعض اوقات عجیب عجیب قسم کی غلطیاں کرتے ہیں اور نمازیں پڑھنی نہیں آتی ہیں اور یقینا نہیں آتی ہیں.کوئی کہہ دے گا کہ یہ (تعدیل ارکان) فضول ہیں میں کہتا ہوں کہ خدا نے کیوں فرمایا یعلمھم الکتاب والحکمة پس یہ ضروری چیزہے اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر ایک کی حکمت بیان کر سکتا ہوں.میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ جراب میں ذرا سوراخ ہو جاتا تو فوراً اُس کو تبدیل کر لیتے.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ایسی پھٹی ہوئی جرابوں پر بھی جن کی ایڑی اور پنجہ دونوں نہیں ہوتے مسح کرتے چلے جاتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے؟ شریعت کے احکام کی واقفیت نہیں ہوتی.اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رخصت اور جواز کے صحیح محل کو نہیں سمجھتے.مجھے ایک دوست نے ایک لطیفہ سنایا کہ کسی مولوی نے ریشم کے کنارے والا تہہ بند پہنا ہوا تھا اور وہ کنارہ بہت بڑا تھا.میں نے ان سے کہا کہ ریشم تو منع ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ لوگوں سے ہی سنا ہے کہ چار انگلیوں سے زیادہ نہ ہو؟ مولوی صاحب نے کہا کہ چار انگلیاں ہماری تمہاری نہیں بلکہ حضرت عمرؓ کی.اُن کی چار انگلیاں ہماری بالشت کے برابر تھیں.اسی طرح انسان خیالی شریعتیں قائم کرتا ہے.یہ خوف کا مقام ہے ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان حدودِ شرائع سے واقف ہو اور خدا کا خوف دل میں ہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے چھوٹے احکام میں اگر پرواہ نہ کی جاوے تو کوئی حرج نہیں یہ بڑی بھاری غلطی ہے جو شخص چھوٹے سے چھوٹے حکم کی پابندی نہیں کرتا وہ بڑے سے بڑے حکم کی بھی پابندی نہیں کر سکتا.خدا کے حکم سب بڑے ہیں بڑوں کی بات بڑی ہی ہوتی ہے جن احکام کو لوگ چھوٹا سمجھتے ہیں ان سے غفلت اور بے پرواہی بعض اوقات کُفر تک پہنچا دیتی ہے.خدا تعالیٰ نے بعض چھوٹے چھوٹے احکام بتائے ہیں مگر ان کی عظمت میں کمی نہیں آتی.طالوت کا واقعہ قرآن مجید میں موجود ہے.ایک نہر کے ذریعہ قوم کا امتحان ہوگیا.سیر ہو کر پینے والوں کو کہہ دیا فلیس منیاب ایک سطحی خیال کا آدمی تو یہی کہے گا کہ پانی پی لینا کونسا جُرم
۴۶ تھا مگر نہیں اللہ تعالیٰ کو اطاعت سکھانا مقصود تھا.وہ جنگ کے لئے جا رہے تھے اس لئے یہ امتحان کا حکم دے دیا اگر وہ اس چھوٹے سے حکم کی اطاعت کرنے کے بھی قابل نہ ہوں گے تو پھر میدانِ جنگ میں کہاں مانیں گے؟ بہرحال اللہ تعالیٰ کے تمام احکام میں حکمتیں ہیں اور اگر انسان ان پر عمل کرتا رہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایمان نصیب کر دیتا ہے اور اپنے فضل کے دروازے کھول دیتا ہے.(چونکہ وقت زیادہ ہو گیا تھا آپ نے فرمایا کہ گھبرانا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بعض وقت لمبی تقریر کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے آپ لوگوں کو جس غرض کے لئے جمع کیا گیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ پورے طور پر اس سے واقف ہو جاویں) غرض شرائع میں حکمتیں ہیں اگر ان کی حقیقت معلوم نہ ہو تو بعض وقت اصل احکام بھی جاتے رہتے ہیں اور پھر غفلت اور سُستی پیدا ہو کر مٹ جاتے ہیں.کسی جنٹلمین نے لکھ دیا کہ نماز کسی بنچ یا کرسی پر بیٹھ کر ہونی چاہیے کیونکہ پتلون خراب ہو جاتی ہے.دوسرے نے کہہ دیا کہ وضو کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے کفیں وغیرہ خراب ہو جاتی ہیں.جب یہاں تک نوبت پہنچی تو رکوع اور سجدہ بھی ساتھ ہی گیا.اگر کوئی شخص ان کو حکمت سکھانے والا ہوتا اور انہیں بتاتا کہ نماز کی حقیقت یہ ہے، وضو کے یہ فوائد ہیں اور رکوع اور سجود میں یہ حکمتیں ہیں تو یہ مصیبت کیوں آتی اور اس طرح وہ دین کو کیوں خیرباد کہتے.مسلمانوں نے شرائع کی حکمتوں کے سیکھنے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت لوگ مرتد ہو رہے ہیں اگر کوئی عالم ان کو حکمتوں سے واقف کرتا تو کبھی دہریت اور ارتداد نہ پھیلتا.یہاں اسی مسجد والے مکان کے مالک حضرت صاحب کے چچا کا بیٹا مرزا امام الدین دہریہ تھا.حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ مرزا صاحب! کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ اسلام کی طرف توجہ کرنی چاہیے؟ کہنے لگا کہ میری فطرت بچپن سے ہی سلیم تھی لوگ جب نماز پڑھتے اور رکوع سجود کرتے تو مجھے ہنسی آتی تھی کہ یہ کیا کرتے ہیں.یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہیں کسی نے حکمت نہ سکھائی، شرائع اسلام کی حقیقت سے واقف نہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ دہریہ ہو گیا.سو یہ کام خلیفہ کا ہے کہ حکمت سکھائے اور چونکہ وہ ہر جگہ تو جا نہیں سکتا اس لئے ایک جماعت ہو جو اس کے پاس رہ کر اِن حکمتوں اور شرائع کے حدود کو سیکھے پھر وہ اس کے ماتحت لوگوں کو سکھائے تا کہ لوگ گمراہ نہ ہوں.اِس زمانہ میں اس کی خصوصیت سے ضرورت ہے کہ لوگ جدید علوم پڑھ کر ہوشیار ہو رہے ہیں.
۴۷.عیسائیوں نے اسلام پر اعتراض کیا ہے کہ عبادات کے ساتھ مادی امور کو شامل کیا ہے.انہیں چونکہ شریعت کی حقیقت کی خبر نہیں اس لئے دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں پس ضرورت ہے کہ واعِظ مقرر ہوں جو شرائع کی تعلیم دیں اور ان کی حکمت سے لوگوں کو آگاہ کریں.تعلیم العقائد کی کتاباس کے سوا ایک اور ضروری بات ہے حضرت صاحب کو اس کے متعلق بڑی توجہ تھی مگر لوگوں نے بھلا دی.انا للہ و انا الیہ راجعونپھر حضرت خلیفۃ المسیح نے توجہ دلائی مگر لوگوں نے پھر بھلا دی.میں اب پھر یاد دلاتا ہوں اور اِنْشَاء اللّٰہُ الْعَزِیْزُ میں اس کو یاد رکھوں گا اور یاد دلاتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کے کام سے سُرخرو کردے.میں نے حضرت صاحب سے بارہا یہ خواہش سنی تھی کہ ایسا رسالہ ہو جس میں عقائد احمدیہ ہوں.اگر ایسا رسالہ تیار ہو جائے تو آئے دن کے جھگڑے فیصل ہو جائیں اور پھر نزاعیں برپا نہ ہوں.میں چاہتا ہوں کہ علماء کی ایک مجلس قائم کروں اور وہ حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھ کر اور آپ کی تقریروں کو زیر نظر رکھ کر عقائد احمدیہ پر ایک کتاب لکھیں اور اس کو شائع کیا جاوے.اِس وقت جو بحثیں چھڑتی ہیں جیسے کفرواسلام کی بحث کسی نے چھیڑ دی اس سے اس قسم کی تمام بحثوں کا سدباب ہو جائے گا.لیکن اب جب کہ کوئی ایسی مستند اور جامع کتاب موجود نہیں مختلف جھگڑے آئے دن ہوتے رہتے ہیں.کوئی کہتا ہے حضرت صاحب مسیح ناصری سے افضل تھے دوسرا کہتا ہے نہیں.اِس کی جڑ یہی ہے کہ لوگوں کو واقفیت نہیں.مگر جب ایسی جامع کتاب علماء کی ایک مجلس کے کامل غور کے بعد شائع ہو جاوے گی تو سب کے سب اسے اپنے پاس رکھیں گے اور اس طرح پر عقائد میں اِنْشَاء اللّٰہ اختلاف نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق وعظآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپؐ بہت ہی مختصر وعظ فرماتے لیکن کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپؐ وعظ فرما رہے ہیں اور ظہر کا وقت آگیا.پھر نماز پڑھ لی.پھر وعظ کرنے لگے اور عصر کا وقت آ گیا پھر نماز پڑھ لی.پس آج کا وعظ اِسی سنت پر عمل معلوم ہوتا ہے.میں جب یہاں آیا ہوں تو بیت الدعا میں دعا کر کے آیا تھا کہ میرے منہ سے کوئی بات ایسی نہ نکلے جو ہدایت کی بات نہ ہو.ہدایت ہو اور لوگ ہدایت سمجھ کر مانیں.میں دیکھتا ہوں کہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اور میں اپنے آپ کو روکنا چاہتا ہوںمگر باتیں آ رہی ہیں اور مجھے بولنا پڑتا ہے.پس میں
۴۸ انہیں ربّانی تحریک سمجھ کر اور اپنی دعا کا نتیجہ یقین کرکے بولنے پر مجبور ہوں.غرض تعلیم العقائد کیلئے ایک ایسے رسالہ یا ٹریکٹ کی ضرورت ہے.اس کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ دقت آرہی ہے کہ کسی نے صرف تریاق القلوب کو پڑھا اور اس سے ایک نتیجہ نکال کر اس پر قائم ہو گیا حقیقۃ الوحی کو نہ دیکھا.اب دوسرا آیا اس نے حقیقۃ الوحی کو پڑھا اور سمجھا ہے وہ اس کی بناء پر اس سے بحث کرتا ہے اور تیسرا آتا ہے اس نے حضرت صاحب کے تمام اشتہارات کو بھی جن کی تعداد ۱۸۰ سے زیادہ ہے پڑھا ہے وہ اپنے علم کے موافق کلام کرتا ہے.مثلاً مجھے اب تک معلوم نہ تھا کہ اشتہارات کی اس قدر تعداد ہے آج ہی معلوم ہوا ہے اور اب اِنْشَائَ اللّٰہ میں خود بھی ان تمام اشتہارات کو پڑھوں گا.پس ضرورت ہے کہ علماء کی ایک جماعت ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کر عقائد کے متعلق ایک نتیجہ نکال کر ایک رسالہ میں انہیں جمع کریں.وہ تمام عقائد جماعت کو دیئے جاویں اور سب انہیں پڑھیں اور یاد رکھیں.یہ اختلاف جو عقائد کے متعلق پیدا ہوتا ہے اِنْشَائَ اللّٰہ بالکل مٹ جاوے گا.سب کا ایک ہی عقیدہ ہوگا اور اگر پھر اختلاف ہوگا بھی تو نہایت ہی خفیف ہوگا.تفرقہ نہ ہوگا جیسے اب ہوا.میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اِس وقت بھی جو اختلاف ہوا وہ عقائد کی وجہ سے نہیں کفرواسلام کا بہانہ ہے.احمدی اور غیراحمدی کے سوال کو خلافت سے کیا تعلق.اگر یہ سوال حل ہو جائے تو کیا یہ معترض خلافت کو مانیں گے؟ کبھی نہیں.یہ تو غیر احمدیوں کی ہمدردی کو حاصل کرنے اور بعض احمدیوں کو بھڑکانے کے لئے ہے بھلا خیال تو کرو کہ دو میاں بیوی یا بھائی بھائی اگر آپس میں لڑ کر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں کہ ہمارے ہمسایہ کا کیا مذہب ہے تو یہ عقلمندی ہوگی؟ نہیں یہ مسئلہ صرف ایک آڑ ہے.میری خواہش میرا دل چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کی تکمیل میرے وقت میں ہو جاوے یہ اتحاد کے لئے بڑی ضروری ہیں اگر خدا تعالیٰ نے چاہا جیسا کہ میں اپنے خدا پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہوں تو سب کچھ ہو جائے گا.تعلیم شرائع کا انتظام بھی ہو جاوے گا اور حکمت بھی سکھائیں گے اور یہ ساری باتیں قرآن شریف سے ہی اِنْشَاءاللّٰہ بتا دیں گے.تزکیہ نفوسان امور کے بعد اب تزکیہ نفس ہے میں نے کہا ہے کہ قرآن مجید سے اور سورہ بقرہ کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ نفوس کے لئے سب سے بڑا ہتھیار، ناقابل خطا ہتھیار دعا ہے.نماز بھی دعا ہے.سورہ بقرہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا
۴۹ کام تزکیہ بتایا ہے اسے بھی دعا پر ہی ختم کیا ہے اور نماز کے آخری حصہ میں بھی دعائیں ہی ہیں.پس تزکیہ نفوس کے لئے پہلی چیز دعا ہی ہے خدا کے محض فضل سے میں بہت دعائیں کرتا ہوں اور بہت کرتا ہوں تم بھی دعاؤں سے کام لو.خدا تعالیٰ زیادہ توفیق دے.یہ بھی یاد رکھو کہ میری اور تمہاری دعاؤں میں فرق ہے جیسے ایک ضلع کے افسر کی رپورٹ کا اور اثر ہوتا ہے، لیفٹیننٹ گورنر کا اور، اور وائسرائے کا اور.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے.تم میرے لئے دعا کرو کہ مجھے تمہارے لئے زیادہ دعا کی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ ہماری ہر قسم کی سستی دور کر کے چستی پیدا کرے.میں جو دعا کروں گا وہ اِنْشَاء اللّٰہ فرداً فرداً ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی.تزکیہ نفس کے متعلق کسی نے ایک لطیف بات بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تین باتوں کا نتیجہ یزکیھمہوتا ہے یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرے اور تعلیم الکتاب والحکمةکرے اس کے بعد اس جماعت میں تزکیہ پیدا ہو جائے گا.پھر ایک اور بڑا ذریعہ تزکیہ نفوس کا ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے اور میرا یقین ہے کہ وہ بالکل درست ہے.ہر ہر حرف اس کا سچا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص جو قادیان نہیں آتا یا کم از کم ہجرت کی خواہش نہیں رکھتا اس کی نسبت شُبہ ہے کہ اس کا ایمان درست ہو.عبدالحکیم کی نسبت یہی فرمایا کرتے تھے کہ وہ قادیان نہ آتا تھا.قادیان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ؟۲۲؎ فرمایا.یہ بالکل درست ہے کہ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں.زمین قادیان اب محترم ہے ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۲۲؎ تو پھر جہاں وہ پیدا ہوا، جس زمین پر چلتا پھرتا رہا اور آخر دفن ہوا کیا وہاں برکت نازل نہ ہوگی! یہ جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ وعدہ دیا کہ مکہ میں دجال نہ جائے گا کیا زمین کی وجہ سے نہیں جائے گا؟ نہیں بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں مبعوث ہوئے.
۵۰ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے.میں نے دیکھا کہ ایک شخص عبدالصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے ’’مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں‘‘.یہ بالکلدرست ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے مقامات دیکھنے سے ایک رقت پیدا ہوتی ہے اور دعا کی تحریک ہوتی ہے اس لئے قادیان میں زیادہ آنا چاہیے.پھر دعاؤں کے لئے تعلق کی ضرورت ہے حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے مگر حضرت خلیفۃ المسیح بچتے تھے اور میں خود بھی بچتا ہوں.حضرت صاحب بعض لوگوں کو کہہ دیا کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا.یہ طریق محض اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے.اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا.اُنہوں نے کہا کہ میں دعا کروں گا مگر پہلے میرے لئے حلوہ لاؤ.وہ شخص حیران تو ہوا مگر دعا کی ضرورت تھی حلوہ لینے چلا گیا اور حلوائی کی دکان سے حلوہ لیا.وہ جب حلوہ ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا تو وہ چلِّایا کہ اس کو پھاڑیو نہیں یہ تو میرے مکان کا قبالہ ہے اسی کے لئے وہ دعا کرانا چاہتا تھا.غرض وہ حلوہ لے کر گیا اور بتایا کہ قبالہ مل گیا تو اس بزرگ نے کہا میری غرض حلوہ سے صرف یہ تھی کہ تعلق پیدا ہو.غرض دعا کے لئے ایک تعلق کی ضرورت ہے اور میں اس کے لئے اتنا ہی کہتا ہوں کہ خطوط کے ذریعہ یاد دلاتے رہو تا کہ تم مجھے یاد رہو.یُزَکِّیْھِمْ کے دوسرے معنیاب یُزَکِّیْھِم کے دوسرے معنی لو جس میں غرباء و مساکین کی خبر گیری داخل ہے.لوگ یہ تو نہیں نہیں جانتے کہ میرے پاس ہے یا نہیں مگر جب وہ جانتے ہیں کہ میں خلیفہ ہو گیا ہوں تو حاجت مند تو آتے ہیں اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو شخص کسی قوم کا سردار بنے گااس کے پاس حاجت مند تو آئیں گے اس لئے شریعت نے زکوٰۃ کا انتظام خلیفہ کے سپرد کیا ہے تمام زکوٰۃ اُس کے پاس آنی چاہیے تا کہ وہ حاجتمندوں کو دیتا رہے.پس چونکہ یہ میرا ایک فرض اور کام ہے کہ میں کمزور لوگوں کی کمزوریوں کو دور کروں اس لئے تمہارا فرض ہونا چاہیے کہ اس میں میرے مددگار رہو.ابھی تو جھگڑے ہی ختم نہیں ہوئے مگر پھر بھی کئی سَو کی درخواستیں آچکی ہیں جن کا مجھے انتظام کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ابھی میں نے کہا ہے کہ یہ سلسلہ خلیفہ کے ذمہ رکھا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریاں دور کرے خواہ
۵۱ خواہ وہ جسمانی ہوں یا مالی، ذہنی ہوں عملی یا علمی اور اس کے لئے سامان چاہئے.پس اس کے انتظام کے لئے زکوٰۃ کی مدکا انتظام ہونا ضروری ہے.میں نے اس کے انتظام کے لئے یہ تجویز کی ہے کہ زکوٰۃ سے اس قسم کے اخراجات ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میںبھی یہ تجویز میں نے پیش کی تھی.پہلے تو میں ان سے بے تکلّف تھا اور دو دو گھنٹہ تک مباحثہ کرتا رہتا تھا لیکن جب وہ خلیفہ ہو گئے تو کبھی میں ان کے سامنے چوکڑی مار کر بھی نہیں بیٹھا کرتا تھا.جاننے والے جانتے ہیں خواہ مجھے تکلیف بھی ہوتی مگر یہ جرأت نہ کرتا اور نہ اونچی آواز سے کلام کرتا.کسی ذریعہ سے میں نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ زکوٰۃ خلیفہ کے پاس آنی چاہئے.کسی زمانہ میں تو عُشر آتے تھے اب وہ وقت نہیں.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اس شخص کو کہا کہ تم مجھے زکوٰۃ دے دیا کرو میرا یہی مذہب ہے.اور میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ زکوٰۃ خلیفہ کے پاس جمع ہو.پس تمہیں چاہئے کہ اپنی انجمنوں میں زکوٰۃ کے رجسٹر رکھو اور ہر شخص کی آمدنی تشخیص کر کے اس میں درج کرو اور جو لوگ صاحب نصاب ہوں وہ حساب کر کے پوری زکوٰۃادا کریں اور وہ براہِ راست انجمن مقامی کے رجسٹروں میں درج ہو کر میرے پاس آ جائے اس کا باقاعدہ حساب کتاب رہے.ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن زکوٰۃ دینے والوں کے بعض رشتہ دار مستحق زکوٰۃ ہوں کہ ان کی مدد زکوٰۃ سے ہو سکتی ہو وہ ایک فہرست اِس مطلب کی یہاں بھیج دیں.پھر ان کے لئے بھی مناسب مدد یا تو یہاں سے بھیج دی جایا کرے گی یا وہاں ہی سے دے دیئے جانے کا حکم دیا جایا کرے گا.بہرحال زکوٰۃ جمع ایک جگہ ہونی چاہئے اور پھر خلیفہ کے حکم کے ماتحت وہ خرچ ہونی چاہیے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر باقاعدہ رجسٹر کھولے گئے اور اس کے جمع کرنے میں کوشش کی گئی تو اس مد میں ہزاروں روپیہ جمع ہو سکتا ہے بلکہ میرا یقین ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں لاکھ سے بھی زیادہ آمدنی ہو سکتی ہے اس طرف زور سے توجہ ہو.میں یہ کروں گا کہ مسئلہ زکوٰۃ پر ایک ٹریکٹ لکھوا کر شائع کر دوں گا جس میں زکوٰۃ کے تمام احکام ہوں گے مگر آپ کا یہ کام ہے کہ زکوٰۃ کے لئے باقاعدہ رجسٹر کھول دیں اور نہایت احتیاط اور کوشش سے زکوٰۃ جمع کریں اور وہ زکوٰۃ باقاعدہ میرے پاس آنی چاہیے یہ ایک تجویز ہے.ترقیٔ تعلیممیں نے بتایا تھا کہ یزَکِّیْھِم کے معنوں میں اُبھارنا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علمی ترقی بھی شامل ہے اور اسی میں انگریزی مدرسہ، اشاعتِ اسلام وَغَیْرَھمَا امور آ جاتے ہیں اس سلسلہ میں میرا
۵۲ خیال ہے کہ ایک مدرسہ کافی نہیں ہے جو یہاں کھولا ہوا ہے اس مرکزی سکول کے علاوہ ضرورت ہے کہچ مختلف مقامات پر مدرسے کھولے جائیں زمیندار اس مدرسہ میں لڑکے کہاں بھیج سکتے ہیں.زمینداروں کی تعلیم بھی تو مجھ پر فرض ہے پس میری یہ رائے ہے کہ جہاں جہاں بڑی جماعت ہے وہاں سرِدست پرائمری سکول کھولے جائیں ایسے مدارس یہاں کے مرکزی سکول کے ماتحت ہوں گے.ایساہونا چاہیے کہ جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو.صحابہؓ نے تعلیم کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ جنگ کے قیدیوں کا فدیۂ آزادی یہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دیں.میں جب دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فضل لے کر آئے تھے تو جوشِ محبت سے روح بھر جاتی ہے.آپؐ نے کوئی بات نہیں چھوڑی ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح نے بھی اسی نقش قدم پر چل کر ہر ایسے امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو کسی بھی پہلو سے مفید ہو سکتاہے.غرض عام تعلیم کی ترقی کے لئے سردست پرائمری سکول کھولے جائیں.ان تمام مدارس میں قرآن مجید پڑھایا جائے اور عملی دین سکھایا جائے ، نماز کی پابندی کرائی جائے مؤمن کسی معاملہ میں پیچھے نہیں رہتا.پس تعلیمِ عامہ کے معاملہ میں ہمیں جماعت کو پیچھے نہیں رکھنا چاہیے اگر اس مقصد کے ماتحت پرائمری سکول کھولے جائیں گے تو گورنمنٹ سے بھی مدد مل سکتی ہے.جماعت کی دُنیوی ترقیتعلیم کے سوال کے ساتھ ہی یہ بھی قابلِ غور امر ہے کہ جماعت کی دُنیوی ترقی ہو.ان کو فقر اور سوال سے بچایا جائے اور واعظین، تبلیغ اور تعلیم شرائع کے لئے جائیں.ان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ جماعت کی مادی ترقی کابھی خیال رکھیں اور یہاں رپورٹ کرتے رہیں کہ احمدی سُست تو نہیں.اگر کسی جگہ کوئی شخص سست پایا جائے تو اُس کو کاروبار کی طرف متوجہ کیا جائے.مختلف حرفتوں اور صنعتوں کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے اِس قسم کی باقاعدہ اطلاعیں جب ملتی رہیں گی تو جماعت کی اصلاحِ حال کی کوشش اور تدبیر ہو سکے گی.عملی ضرورت ہےجب میں نے ان باتوں پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ یہ بہت بڑا میدان ہے.میں نے غور کیا تو ڈر گیا کہ باتیں تو بہت کیں اگر عمل
۵۳ سُستی ہو تو پھر کیا ہوگا اور دوسری طرف خیال آیا کہ اگر چستی ہو تو پھر اور قسم کی مشکلات ہیں.حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ چل پھر کر خوب واقفیت پیدا کر لیتے تھے.جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کا قصور تھا وہ جھوٹے ہیں.حضرت عثمانؓ بہت بوڑھے تھے اور چل پھر کر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو حضرت عمرؓ کر لیتے تھے.پھر میں نے خیال کیا کہ میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں جس خدا نے یہ امور اصلاحِ جماعت کے لئے میرے دل میں ڈالے ہیں وہی مجھے توفیق بھی دے دے گا.مجھے دے گا تو میرے ساتھ والوں کو بھی دے گا.غرض دُنیوی ترقی کے لئے مدارس قائم کئے جائیں اور واعظین اپنے دَوروں میں اِس امر کو خصوصیت سے مدنظر رکھیں کہ جماعتیں بڑھ رہی ہیںیا گھٹ رہی ہیں؟ اور تعلیمی اور دُنیوی حالت میں کیا ترقی ہو رہی ہے؟ عملی پابندیوں میں جماعت کی کیسی حالت ہے؟ باہم اخوت اور محبت کے لحاظ سے وہ کس قدر ترقی کر رہے ہیں؟ ان میں باہم نزاعیں اور جھگڑے تو نہیں؟ یہ تمام امور ہیں جن پر واعظوں کو نظر رکھنی ہوگی اور اس کے متعلق مفصل رپورٹیں میرے پاس آتی رہیں.کالج کی ضرورت جب مختلف مقامات پر مدرسے کھولے جائیں گے تو اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو.حضرت خلیفۃ المسیح کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیرکٹر بنتا ہے.سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف ہی میں ہوتی ہے پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنائیں.پس تم اس بات کو مدنظر رکھو میں بھی غور کر رہا ہوں.یہ خلیفہ کے کام ہیں جن کو میں نے مختصراً بیان کیا ہے ان کو کھول کر دیکھو اور ان کے مختلف حصوں پر غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ انجمن کی کیا حقیقت ہے اور خلیفہ کی کیا.میں یہ بڑے زور سے کہتا ہوں کہ نہ کوئی انجمن اس قسم کی ہے اور نہ ایسا دعویٰ کر سکتی ہے نہ ہو سکتی ہے نہ خدا نے کبھی کوئی انجمن بھیجی.انجمن اور خلیفہ کی بحث بعض کہتے ہیں کہ خلیفہ نے انجمن کا حق غضب کر لیا پھر کہتے ہیں کہ یہ لوگ شیعہ ہیں.میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو مجھے افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا.کہتے ہیں بیٹے کو خلافت کیوں مل گئی؟ میں حیران ہوں کہ کیا کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا ایسا ناقابلِ عفو جُرم ہے کہ اس کو کوئی حصہ خدا کے فضل سے نہ ملے اور کوئی عہدہ وہ نہ پائے؟ اگر یہ درست ہے تو پھر نعوْذُباللہِ کسی ولی یا نبی کا بیٹا ہونا تو ایک لعنت
۵۴ ہوئی برکت نہ ہوئی.پھر انبیاء علہیم السلام اولاد کی خواہش یونہی کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی اولاد کی پیشگوئی نَعُوْذُبِاللّٰہِ لغوکی اور خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے وہ برکت کے وعدے نہ تھے؟ (نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِن ذٰلِکَ) اور اگر یہ پیر پرستی ہے کہ کوئی بیٹا وارث ہو تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ پیر کی اولاد کو ذلیل کیا جائے تا کہ پیر پرستی کا الزام نہ آئے پھر احترام اور عزت و تکریم کے دعاوی کس حد تک درست سمجھے جائیں.یہ شرم کرنے کا مقام ہے سوچو اور غور کرو.میں تمہیں کھول کر کہتا ہوں کہ میرے دل میں یہ خواہش نہ تھی اور کبھی نہ تھی.پھر اگر تم نے مجھے گندہ سمجھ کر میری بیعت کی ہے تو یاد رکھو کہ تم ضرور پیرپرست ہو.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں پکڑ کر جھکا دیا ہے تو پھر کسی کو کیا؟ یہ کہنا کہ میں نے انجمن کاحق غصب کر لیا ہے بہت بڑا بول ہے.کیا تم کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میں تیری ساری خواہشوں کو پورا کروں گا.اب ان لوگوں کے خیال کے موافق تو حضرت صاحب کا منشاء اور خواہش تو یہ تھی کہ انجمن ہی وارث ہے اور خلیفہ ان کے خیال میں بھی نہ تھا تو اب بتاؤ کہ کیا اس بات کے کہنے سے تم اپنے قول سے یہ ثابت نہیں کر رہے کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ خدا نے ان کے منشاء کو پورا نہ ہونے دیا.سوچ کر بتاؤ کہ شیعہ کون ہوئے؟ شیعہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کا منشاء تھا کہ حضرت علیؓ خلیفہ ہوں آپؐ کے خیال و وہم میں بھی نہ تھا کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ خلیفہ ہوں.تو جیسے ان کے اعتقاد کے موافق مسئلہ خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کو لوگوں نے بدل دیا اسی طرح یہاں بھی ہوا.افسوس! کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی عزت اور عظمت تمہارے دلوں میں ہے کہ تم قرار دیتے ہو کہ وہ اپنے منشاء میں نَعُوْذُبِاللہِ ناکام رہے.خدا سے ڈرو اور توبہ کرو.پھر ایک تحریر لئے پھرتے ہیں اور اس کے فوٹو چھپوا کر شائع کئے جاتے ہیں یہ بھی وہی شیعہ والے قرطاس کے اعتراض کا نمونہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے قرطاس نہ لانے دیا اگر قرطاس آ جاتا تو ضرور حضرت علیؓ کی خلافت کا فیصلہ کر جاتے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ افسوس قرطاس لکھ کر بھی دئیے گئے پھر بھی کوئی نہیں مانتا بتاؤ شیعہ کون ہوا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ قرطاس ہوتا تو کیا بنتا.وہی کچھ ہونا تھا جو ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ لکھوایا اور شیعہ کو خلیفہ ثانی پر اعتراض کا موقع ملا.یہاں مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر دیا اور اب اس کے ذریعہ اس کے
۵۵ خلیفہ ثانی پر اعتراض کیا جاتا ہے.یاد رکھو کہ مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جس قدر اعتراض ہوتے ہیں اُن کو دور کرنے آئے تھے جیسے مثلاً اعتراض ہوتا تھا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلایا گیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر دکھا دیا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا بلکہ وہ اپنی روشن تعلیمات اور نشانات کے ذریعہ پھیلا ہے اسی طرح قرطاس کی حقیقت معلوم ہو گئی.سن لو! خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں قرطاس کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟ اور میں یہ بھی تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ قرطاس منشائِ الٰہی کے خلاف بھی نہیں ہو سکتا.حضرت خلیفۃ المسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیعہ ہمارے اُستاد صاحب کے پاس آیا اور ایک حدیث کی کتاب کھول کر ان کے سامنے رکھ دی.آپ نے پڑھ کر پوچھا کیا ہے؟ شیعہ نے کہا کہ منشائِ رسالت پناہی حضرت علیؓ کی خلافت کے متعلق معلوم ہوتا ہے فرماتے تھے میرے استاد صاحب نے نہایت متانت سے جواب دیا ہاں منشاءرسالت پناہی تو تھا مگر منشا ء الٰہی اس کے خلاف تھا اس لئے وہ منشاء پورا نہ ہو سکا.میں اِس قرطاس کے متعلق پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے تو یہ جواب دوں گا کہ حقیقۃ الوحی میں ایک جانشین کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی فرمایا خَلِیْفَۃٌ مِّنْ خُلَفَائِہٖ پس غصب کی پُکار بالکل بیہودہ اور عبث ہے.حضرت صاحب کو الہام ہوا تھا.سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ایک شریف آدمی بھی امانت میں خیانت نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تو اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا کرائی.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ خدا تعالیٰ نے خیانت کی؟ توبہ کرو توبہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اتنا توکّل کہ وفات کے قریب یہ الہام ہوتا ہے پھر خدا نے نَعُوْذُبِاللّٰہِ یہ عجیب کام کیا کہ امانت غیر حقدار کو دے دی.خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کر کے دکھا دیا کہ’’ سپردم بتو مایۂ خویش را‘‘ کے الہام کے موافق کیا ضروری تھا.پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) گمراہی کرواتا ہے؟ ہرگز نہیں خدا تعالیٰ تو اپنے مرسلوں اور خلفاء کو اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا کو پاک کریں.اس لئے انبیاء کی جماعت ضلالت پر قائم نہیں ہوتی.اگر مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی گندی جماعت پیدا کی جو ضلالت پر اکٹھی ہوگئی تو پھر نَعُوْذُبِاللّٰہِ اپنے منہ سے ان کو جھوٹا قرار دو گے! تقویٰ کرو.
۵۶ لیکن اگر مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے اور ضرور تھے تو پھر یاد کرو کہ یہ جماعت ضلالت پر اکٹھی نہیں ہو سکتی.قرآن شریف کو کوئی مسیح نہیں توڑ سکتا.میرا یقین ہے کہ کوئی ایسا مسیح نہیں آ سکتا.جو آئے گا قرآن کا خادم ہو کر آئے گا اس پر حاکم ہو کر نہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ تھا یہی شرح ہے آپ کے اس قول کی ’’وہ ہے میں چیز کیا ہوں‘‘.یہ تو دشمن پر حجت ہے مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کو آیا تھا.اسے نَعُوْذُبِاللّٰہِ باطل کرنے نہیں آیا تھا.اس نے اپنے کام سے دکھا دیا کہ وہ قرآن مجید کا غلبہ ثابت کرنے کے لئے آیا تھا.قرآن مجید میں فرمایا ہےفَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚوَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ(اٰل عمران.۱۶۰) طریق حکومت کیا ہونا چاہیے؟پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ کا طریق حکومت کیا ہو؟ خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے تمہیں ضرورت نہیں کہ تم خلیفہ کیلئے قواعد اور شرائط تجویز کرو یا اس کے فرائض بتاؤ.اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں قرآن مجید میں اس کے کام کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِفَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕایک مجلس شوریٰ قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو پھر دعا کرو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ.خواہ وہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہوتو خدا تعالیٰ مدد کرے گا.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے جب عزم کر لو تو اللہ پر توکّل کرو.گویا ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ خود تمہاری تائید اور نصرت کرے گا اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خواہ خلیفہ کا منشاء کچھ ہو اور خدا تعالیٰ اسے کسی بات پر قائم کرے مگر وہ چند آدمیوں کی رائے کے خلاف نہ کرے.حضرت صاحب نے جو مصلح موعود کے متعلق فرمایا ہے.’’وہ ہوگا ایک دن محبوب میرا‘‘ اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ خدا تعالیٰ متوکلین کو محبوب رکھتا ہے جو ڈرتا ہے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا اسے تو گویا حکومت کی خواہش ہے کہ ایسا نہ ہو میں کسی آدمی کے خلاف کروں تو وہ ناراض ہو جائے ایسا شخص تو مشرک ہوتا ہے اور یہ ایک لعنت ہے.خلیفے خدا مقرر کرتا ہے اور آپ اُن کے خوفوں کو دُور کرتا ہے جو شخص دوسروں کی مرضی کے موافق ہر وقت ایک نوکر کی طرح کام کرتا ہے اُس کو خوف کیا اور اس میں موحد ہونے کی کونسی بات ہے.حالانکہ خلفاء کے لئے تو یہ ضروری
۵۷ ہے کہ خدا انہیں بناتا ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیتا ہے اور وہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں اور شرک نہیں کرتے.اگر نبی کو ایک شخص بھی نہ مانے تو اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا وہ نبی ہی رہتا ہے یہی حال خلیفہ کا ہے اگر اُس کو سب چھوڑ دیں پھر بھی وہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کیونکہ جو حکم اصل کا ہے وہی فرع کا ہے.خوب یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص محض حکومت کے لئے خلیفہ بنا ہے تو جھوٹا ہے اور اگر اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کام کرتا ہے تو وہ خدا کا محبوب ہے خواہ ساری دنیا اس کی دشمن ہو.اس آیت مشورہ میں کیا لطیف حکم ہے.اُس مشورہ کا کیا فائدہ جس پر عمل نہیں کرنابعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مشورہ لے کر اس پرعمل کرنا ضروری نہیں تو اس مشورہ کا کیا فائدہ ہے وہ تو ایک لغو کام بن جاتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی لغو کام کریں.اس کا جواب یہ ہے کہ مشورہ لغو نہیں بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک بات سوچتا ہے دوسرے کو اس سے بہتر سُوجھ جاتی ہے.پس مشورہ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کے خیالات سن کر بہتر رائے قائم کرنے کا انسان کو موقع ملتا ہے جب ایک آدمی چند آدمیوں سے رائے پوچھتا ہے تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایسی تدبیر بتا دیتا ہے جو اسے نہیں معلوم تھی.جیسا کہ عام طور پر لوگ اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں کیا پھر اسے ضرور مان بھی لیا کرتے ہیں؟پھر اگر مانتے نہیں تو کیوں پوچھتے ہیں؟ اس لئے کہ شائد کوئی بہتر بات معلوم ہو.پس مشورہ سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس پر ضرور کاربند ہوں بلکہ یہ غرض ہوتی ہے کہ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیالات سن کر کوئی اور مفید بات معلوم ہو سکے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕمشورہ لینے والا مخاطب ہے اگر فیصلہ مجلس شوریٰ کا ہوتا تو یوں حکم ہوتا کہ فَاِذَا عَزَمْتَم فَتَوَكَّلْوا عَلَى اللّٰهِؕاگرتم سب لوگ ایک بات پر قائم ہو جاؤ تو اللہ پر توکّل کر کے کام شروع کر دو.مگر یہاں صرف اس مشورہ کرنے والے کو کہا کہ تُو جس بات پر قائم ہو جائے اُسے تَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہِ شروع کر دے.دوسرے یہاں کسی کثرتِ رائے کا ذکر ہی نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ لوگوں سے مشورہ لے یہ نہیں کہا کہ اُن کی کثرت دیکھ اور جس پر کثرت ہو اُس کی مان لے یہ تو لوگ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں قرآن کریم میں کہیں نہیں کہ پھر ووٹ لئے جائیں اور جس طرف کثرت ہو اُس رائے کے مطابق عمل کرے بلکہ یوں فرمایا ہے کہ لوگوں سے.
۵۸ سے پوچھ، مختلف مشوروں کو سن کر جس بات کا تو قصد کرے ( عَزَمْتَ کے معنی ہیں جس بات کا تو پختہ ارادہ کرے) اُس پر عمل کر اور کسی سے نہ ڈر بلکہ خدا تعالیٰ پر توکّل کر.عجیب نکتہ شا ورھم کے لفظ پر غور کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہرحال تین یا تین سے زیادہ ہوں.پھر وہ اس مشورہ پر غور کرے پھر حکم ہے فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕجس بات پر عزم کرے اُس کو پورا کرے اور کسی کی پرواہ نہ کرے.حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے.جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہؓ کے زیر کمانڈ جانے والا تھا.مگر اُنہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا.ابوقحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے۲۷؎.پھر بعض کو رکھ بھی لیا چنانچہ حضرت عمرؓ بھی اسی لشکر میں جا رہے تھے اُن کو روک لیا گیا.میں یہ ایک مصلحت سے کہتا ہوں پھر زکوٰۃ کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لئے ان کو معاف کر دو.اُنہوںنے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ باندھنے کی ایک رسّی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا.اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا اُن سب کے ساتھ جنگ کروں گا.یہ عزم کا نمونہ ہے پھر کیا ہوا؟ تم جانتے ہو خدا تعالیٰ نے فتوحات کا ایک دروازہ کھول دیا.یاد رکھو جب خدا سے انسان ڈرتا ہے تو پھر مخلوق کا رُعب اس کے دل پر اثر نہیں کر سکتا.شرک کا مسئلہ کیسے سمجھا دیامجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شرک کا مسئلہ خوب سمجھا دیا ہے.ایک رؤیا کے ذریعہ اس کو حل کر دیا.میں نے دیکھا کہ میں مقبرہ بہشتی میں گیا ہوں.واپس آتے وقت ایک بڑا سمندر دیکھا جو پہلے نہ تھا اس میں ایک کشتی تھی اس میں بیٹھ گیا دو آدمی اور ہیں ایک جگہ پہنچ کر کشتی چکر کھانے لگی.اس سمندر میں سے ایک سر نمودار ہوا.اس نے کہا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے تم ان کے نام ایک رُقعہ لکھ کر ڈال دو تا کہ یہ کشتی صحیح سلامت پار نکل جائے.میں نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا.وہ آدمی
۵۹ جو ساتھ ہیں ان میں سے کسی نے کہا کہ جانے دو کیا حرج ہے رُقعہ لکھ کر ڈال دو.جب بچ جائیں گے تو پھر توبہ کر لیں گے.میں نے کہا ہرگز نہیں ہوگا.اس پر اُس نے چُھپ کر خود رُقعہ لکھ کر ڈالنا چاہا میں نے دیکھ لیا تو پکڑ کر پھاڑنا چاہا.وہ چھپاتا تھا آخر اس کشمکش میں سمندر میں گر پڑے مگر میں نے وہ رُقعہ لے کر پھاڑ ڈالا اور پھر کشتی میں بیٹھ گیا تو میں نے دیکھاکہ وہ کشتی اس بھنور سے نکل گئی.اس کھلی کھلی ہدایت کے بعد میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کی مخلوق سے ڈروں.میں دعا کرتا ہوں کہ یہ کشتی جس میں میں اب سوار ہوں اس بھنور سے نکل جائے اور مجھے یقین ہے کہ ضرور نکل جائے گی.چھوٹی عمر ہے منکرین خلافت یہ بھی کہتے ہیں کہ عمر چھوٹی ہے.اس پر مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا.کوفہ والے بڑی شرارت کرتے تھے جس گورنر کو وہاں بھیجا جاتا وہ چند روز کے بعد اس کی شکائتیں کر کے اُس کو واپس کر دیتے.حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے جب تک حکومت میں فرق نہ آئے ان کی مانتے جاؤ.آخر جب ان کی شرارتیں حد سے گزرنے لگیں تو حضرت عمرؓ نے ایک گورنر جن کا نام غالباً ابن ابی لیلیٰ تھا اور جن کی عمر ۱۹ برس کی تھی کوفہ میں بھیجا.جس وقت یہ وہاں پہنچے تو وہ لوگ لگے چہ میگوئیاں کرنے کہ عمرؓ کی عقل (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) ماری گئی جو ایک لڑکے کو گورنر کر دیا.اور اُنہوں نے تجویز کی کہ ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ پہلے ہی دن اس گورنر کو ڈانٹنا چاہیے اور اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ پہلے ہی دن اس سے اس کی عمر پوچھی جائے.جب دربار ہوا تو ایک شخص بڑی متین شکل بنا کر آگے بڑھا اور بڑھ کر کہا کہ حضرت! آپ کی عمر کیا ہے؟ ابن ابی لیلیٰ نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہؓ کے لشکر پر اُسامہؓ کو افسربنا کر شام کی طرف بھیجا تھا تو جو اُس وقت اُن کی عمر تھی اُس سے میں دو سال بڑا ہوں (اُسامہؓ کی عمراُس وقت سترہ سال کی تھی اور بڑے بڑے صحابہؓ اُن کے ماتحت کئے گئے تھے) کوفہ والوں نے جب یہ جواب سنا تو خاموش ہوگئے او رکہا کہ اِس کے زمانہ میں شور نہ کرنا.اِس سے یہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے کی بھی اطاعت ہی کریں جب وہ امیر ہو.حضرت عمرؓ جیسے انسان کو سترہ سال کے نوجوان اسامہؓ کے ماتحت کر دیا گیا تھا.میں بھی اِسی رنگ میں جواب دیتا ہوں کہ میری عمر تو ابن ابی لیلیٰ سے بھی سات برس زیادہ ہے.ایک اور اعتراض کا جوابایک اور اعتراض کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کا جواب بھی تیرہ سَو سال سے پہلے ہی دے دیا ہے.کہتے ہیں شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ
۶۰ خذ من اموالھم صدقة تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے خلافت کہاں سے نکل آئی.لیکن یہ لوگ یاد رکھیں کہ حضرت ابوبکرؓ پر جب زکوٰۃ کے متعلق اعتراض ہوا تو وہ بھی اِسی رنگ کا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً۲۸؎ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے اب وہ رہے نہیں اور کسی کا حق نہیں کہ زکوٰۃ وصول کرے جسے لینے کا حکم تھا وہ فوت ہو گیا ہے.حضرت ابوبکرؓ نے یہی جواب دیا کہ اب میں مخاطب ہوں.اِسی کا ہم آہنگ ہو کر اپنے معترض کو کہتا ہوں کہ اب میں مخاطب ہوں.اگر اُس وقت یہ جواب سچا تھا اور ضرور سچا تھا تو یہ بھی درست ہے جو میں کہتا ہوں.اگر تمہارا اعتراض درست ہوتو اس پر قرآن مجید سے بہت سے احکام تم کو نکال دینے پڑیں گے اور یہ کھلی کھلی ضلالت ہے.ایک عجیب بات میں تمہیں ایک اور عجیب بات سناتا ہوں جس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں تفاوت نہیں ہوتا.اشتہارسبز میں میرے متعلق خدا کے حُکم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشارت دی.خدا کی وحی سے میرا نام اولوالعزم رکھا.اور اس آیت میں فرمایا فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕاس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس آیت پر عمل کرنا پڑے گا پھر میں اس کو کیسے ردّ کر سکتا ہوں.کیا خدمت کی ہے؟ پھر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اس نے کیا خدمت کی ہے؟ اس سوال کا حل تو اسامہؓ والی بات ہی میں موجود ہے.اسامہؓ کی خدمات کس قدر تھیں کہ وہ بڑے بڑے صحابہ پر افسر مقرر کر دیا گیا.خلافت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے ہاں اس کا یہ فعل نَعُوْذُبِاللّٰہِ لغو نہیں ہوتا.پھر خالد بن ولیدؓ، ابوعبیدہؓ، عمرو بن العاصؓ، سعد بن الوقاصؓ اُنہوں نے جو خدمات کیں ان کے مقابلہ میں حضرت عمرؓ کیا خدمات پیش کر سکتے ہیں مگر خلیفہ تو حضرت عمرؓ ہوئے.وہ نہ ہوئے خدا تعالیٰ سے بہتراندازہ کون لگا سکتا ہے.آیت استخلافمیں نے آیت استخلاف پر غور کیا ہے اور مجھے بہت ہی لطیف معنی آیت استخلاف کے سمجھائے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے بڑا مزا آیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
۶۱ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:۵۶) یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـا کے ایک معنی تو میں اپنے اس ٹریکٹ میں لکھ چکا ہوں جو ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے.ایک دوسرے معنی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس آیت میں اوّل تو خدا تعالیٰ کے وعدہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ وعدہ اللہ.پھر خلافت دینے کے وعدے کو لامِ تاکید اور نونِ تاکید سے مؤکد کیا اور بتایا کہ خدا ایسا کرے گا اور ضرور کرے گا.پھر بتایا کہ خدا ضرور ضرور ان خلفاء کو تمکین عطا کرے گا اور پھر فرمایا کہ خدا ضرور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.غرض کہ تین بار لامِ تاکید اور نونِ تاکید لگا کر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسا خدا ہی کرے گا کسی کااس میں دخل نہ ہوگا.اس کی غرض بتائی کہ ایسا کیوں ہوگا؟ اس لئے کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـا اس کے نتیجہ میں وہ میری ہی عبادت کریں گے کسی کو میرا شریک نہ قرار دیں گے یعنی اگر انسانی کوشش سے خلیفہ بنے تو خلیفہ کو گروہ سے دبتے رہنا پڑے کہ ان لوگوں نے مجھ پر احسان کیاہے.پس ہم سب کچھ خود ہی کریں گے تا شرک خلفاء کے قریب بھی نہ پھٹک سکے.اور جب خلیفہ اس وقت اور قدرت کو دیکھے گا جس کے ذریعہ خدا نے اسے قائم کیا ہے تو اُسے وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ اس میں کسی دوسرے کا بھی ہاتھ ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـا یہ معنی خدا تعالیٰ نے بتائے ہیں پس خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو مٹا سکے.بعض کہتے ہیں کہ اگر خلیفے نہ ہوں تو کیا مسلمانوں کی نجات نہ ہوگی جب خلافت نہ رہی تو اُس وقت کے مسلمانوں کا پھر کیا حال ہوگا؟ یہ ایک دھوکا ہے دیکھو قرآن مجید میں وضو کے لئے ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے تو اس کا وضو بغیر ہاتھ دھوئے کے ہو جائے گا.اب اگر کوئی شخص کسی ایسے ہاتھ کٹے آدمی کو پیش کر کے کہے کہ دیکھو اس کا وضو ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب یہ کہیں کہ ہاں ہو جاتا ہے تو وہ کہے کہ بس اب میں بھی ہاتھ نہ دھوؤں گا تو کیا وہ راستی پر ہوگا؟ ہم کہیں گے کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا مگر تیرا تو موجود ہے.پس یہی جواب اِن معترضین کا ہے.ہم انہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جابر بادشاہوں نے تلوار کے زور سے خلافتِ راشدہ کو قائم نہ ہونے دیا کیونکہ ہر کام ایک مدت کے بعد مٹ جاتا ہے پس جب خلافت تلوار کے زور سے مٹا دی گئی تو اب کسی کو گناہ نہیں کہ وہ بیعت خلیفہ کیوں نہیں کرتا.مگر اِس وقت وہ کونسی تلوار ہے جو ہم کو قیامِ خلافت سے روکتی ہے.اب بھی اگر کوئی حکومت زبردستی خلافت کے سلسلہ کو روک دے تو یہ
۶۲ الٰہی فعل ہوگا اور لوگوں کو رُکنا پڑے گا.لیکن جب تک خلافت میں کوئی روک نہیں آتی اُس وقت تک کون خلافت کو روک سکتا ہے اور اُس وقت تک کہ خلیفہ ہو سکتا ہو جب کوئی خلافت کا انکار کرے گا وہ اُسی حکم کے ماتحت آئے گا جو ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے منکرین کا ہے.ہاں جب خلافت ہو ہی نہیں تو اس کے ذمہ دار تم نہیں.سارق کی سزا قرآن مجید میں ہاتھ کاٹنا ہے.اب اگر اسلامی سلطنت نہیں اور چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تو یہ کوئی قصور نہیں غیر اسلامی سلطنت اس حکم کی پابندنہیں.موجودہ انتظام میں دِقتیںاب دیکھنا ہے کہ موجودہ انتظام میں کیا دِقتیں پیش آرہی ہیں.انجمن کے بعض ممبر جنہوں نے بیعت نہیں کی وہ اپنی ہی مجموعی رائے کو انجمن قرار دے کر کہتے ہیں کہ انجمن جانشین ہے.دوسری طرف ایک شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور واقعات نے اس کی تائید بھی کی کہ جماعت کے ایک کثیر حصہ کو اس کے سامنے جُھکا دیا.اب اگر دو عملی رہے تو تفرقہ بڑھے گا ایک میان میں دو تلواریں سما نہیں سکتیں.پس تم غور کرو اور مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے.میری غرض اس مشورہ سے شاورھم پر عمل کرنا ہے ورنہ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ میرے سامنے ہے میں تو یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے تو خدا میرے ساتھ ہے.میں پھر ایک دفعہ اِس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ اگر کوئی بات ماننی ہی نہیں تو مشورہ کا کیا فائدہ؟ یہ بہت چھوٹی سی بات ہے ایک دماغ سوچتا ہے تو اس میں محدود باتیں آتی ہیں اگر دو ہزار آدمی قرآن مجید کی آیات پر غور کر کے ایک مجلس میں معنی بیان کریں تو بعض غلط بھی ہوں گے مگر اس میں بھی تو کوئی شُبہ نہیں کہ اکثر درست بھی ہوں گے پس درست لے لئے جائیں گے اور غلط چھوڑ دیئے جائیں گے.اِسی طرح ایسے مشوروں میں جو امور صحیح ہوں وہ لے لئے جائیں گے.ایک آدمی اتنی تجاویز نہیں سوچ سکتا ایک وقت میں بہت سے آدمی ایک امر پر سوچیں گے تو اِنْشَاء اللّٰہ کوئی مفید راہ نکل آئے گی.پھر مشورہ سے یہ بھی غرض ہے کہ تمہاری دماغی طاقتیں ضائع نہ ہوں بلکہ قومی کاموں میں مل کر غور کرنے اور سوچنے اور کام کرنے کی طاقت تم میں پیدا ہو.پھر ایک اور بات ہے کہ اس قسم کے مشوروں سے آئندہ لوگ خلافت کے لئے تیار ہوتے رہتے ہیں.اگر خلیفہ لوگوں سے مشورہ
۶۳ ہی نہ لے تو نتیجہ یہ نکلے کہ قوم میں کوئی دانا انسان ہی نہ رہے اور دوسرا خلیفہ احمق ہی ہو کیونکہ اسے کبھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا.ہماری پچھلی حکومتوں میں یہی نقص تھا.شاہی خاندان کے لوگوں کو مشورہ میں شامل نہ کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کے دماغ مشکلات حل کرنے کے عادی نہ ہوتے تھے اور حکومت رفتہ رفتہ تباہ ہو جاتی تھی.پس مشورہ لینے سے یہ بھی غرض ہے کہ قابل دماغوں کی رفتہ رفتہ تربیت ہو سکے تا کہ ایک وقت وہ کام سنبھال سکیں.جب لوگوں سے مشورہ لیا جاتا ہے تو لوگوں کو سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ان کی استعدادوں میں ترقی ہو تی ہے.ایسے مشوروں میں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے کے چھوڑنے میں آسانی ہوتی ہے اور طبیعتوں میں ضد اور ہٹ نہیں پیدا ہوتی.اِس وقت جو دِقتیں ہیں وہ اِس قسم کی ہیں کہ باہر سے خطوط آتے ہیں کہ واعظ بھیج دو.اب جو انجمن کے ملازم ہیں اُنہیں کون بھیجے.انجمن تو خلیفہ کے ماتحت ہے نہیں.حضرت خلیفہ اوّل ملازمین کو بھیج دیتے اور وہ آن ڈیوٹی (ON DUTY)سمجھے جاتے تھے ہمارے ہاں کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہیں اس لئے یہ دِقتیں پیش آتی ہیں.یا ایک شخص آتا ہے کہ مجھے فلاں ضرورت ہے مجھے کچھ دو.پچھلے دنوں مونگیر والوں نے لکھا کہ یہاں مسجد کا جھگڑا ہے اور جماعت کمزور ہے مدد کرو.حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے کہ مسجدوں کے معاملات میں بڑی احتیاط کرتے.حضرت خلیفۃ المسیح بھی بڑی کوشش کرتے.کپورتھلہ کی مسجد کا مقدمہ تھا حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد ضرور ملے گی.غرض مسجد کے معاملہ میں بڑی احتیاط فرماتے.اب ایسے موقع پر میں تو پسند نہیں کر سکتا تھا کہ ان کی مدد نہ کی جائے اس لئے مجھے روپیہ بھیجنا ہی پڑا.یا مثلاً کوئی اور فتنہ ہو اور کوئی ماننے والا نہ ہو تو کیا ہو.اِس قسم کی دِقتیں اس اختلاف کی وجہ سے پیش آ رہی ہیں اور پیش آئیں گی.اللہ تعالیٰ پر میری امیدیں بہت بڑی ہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ معجزانہ طور پر کوئی طاقت دکھائے گا.لیکن یہ عالَمِ اسباب ہے اس لئے مجھ کو اسباب سے کام لینا چاہیے.میں جو کچھ کروں گا خدا تعالیٰ کے خوف سے کروں گا.اس بات کی مجھے پرواہ نہ ہوگی کہ زید یا بکر اِس کی بابت کیا کہتا ہے پس میں پھر کہتا ہوں کہ اگر میں خدا سے ڈر کر کرتا ہوں، اگر میرے دل میں ایمان ہے کہ خدا ہے تو پھر میں نیک نیتی سے کر رہا ہوں جو کچھ کرتا ہوں اور کروں گا.اور اگر میں نَعُوْذُبِاللّٰہِ خدا سے نہیں ڈرتا تو پھر تم کون ہو کہ تم سے ڈروں پس میں تم سے مشورہ پوچھتا ہوں کہ کیا تجویز ہو سکتی ہے کہ اِن دِقتوں کو رفع کیا جائے؟
۶۴ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی خلیفہ نے انجمن کو کوئی حکم نہیں دیا مگر میں سیکرٹری کے دفتر پر کھڑا ہوںبہت ہی کم کوئی ایجنڈا نکلا ہوگا جس میں بحکم خلیفۃ المسیح نہ لکھا ہو.یہ واقعات کثرت سے موجود ہیں اور انجمن کی روئدادیں اور رجسٹر اس شہادت میںموجود ہیں (اس مقام پر منشی محمدنصیب صاحب ہیڈکلرک دفتر سیکرٹری کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے بہ آواز بلند کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں یہ بالکل درست ہے اس قسم کے اعتراض تو فضول ہیں جو واقعات کے خلاف ہیں.غرض اس وقت کچھ دِقتیں پیش آئی ہیں اور آئندہ اور ضرورتیں پیش آئیں گی.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ احباب غور کریں.میں نے اس موجودہ اختلاف کے متعلق کچھ تجاویز سوچی ہیں ان پر غور کیا جائے اور مجھے اطلاع دی جائے.میری غیر حاضری میں آپ لوگ ان پر غور کریں تا کہ ہر شخص آزادی سے رائے دے سکے.اوّل: خلیفہ اور انجمن کے جھگڑے نپٹانے کی بہتر صورت کیا ہے.انجمن سے یہ مراد ہے انجمن کے وہ ممبر جنہوں نے بیعت نہیں کی وہ اپنے آپ کو انجمن کہتے ہیں اس لئے میں نے انجمن کہا ہے صرف مبائعین رائے دیں.دوم: جن لوگوں نے میری بیعت کر لی ہے میں انہیں تاکید کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کا چندہ میری معرفت دیں.یہ تجویز میں ایک رؤیا کی بناء پر کرتا ہوں جو ۸؍ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ان کی اپنی کاپی الہامات میں درج ہے اس کے آگے پیچھے حضرت صاحب کے اپنے الہامات درج ہیں اور اب بھی وہ کاپی موجود ہے یہ ایک لمبی خواب ہے اس میں میں نے دیکھا کہ ’’ایک پارسل میرے نام آیا ہے محمد چراغ کی طرف سے آیا ہے اس پر لکھا ہے محمود احمد پرمیشر اس کا بھلا کرے.خیر اس کو کھولا تو وہ روپوں کا بھرا ہوا صندوقچہ ہو گیا.کہنے والا کہتا ہے کہ کچھ تم خود رکھ لو، کچھ حضرت صاحب کو دے دو، کچھ صدر انجمن احمدیہ کو دے دو‘‘ پھر حضرت صاحب کہتے ہیں کہ محمود کہتا ہے کہ ’’کشفی رنگ میں آپ مجھے دکھائے گئے اور چراغ کے معنی سورج سمجھائے گئے اور محمدچراغ کا یہ مطلب ہوا کہ محمد جو کہ سورج ہے اس کی طرف سے آیا ہے‘‘.غرض یہ ایک سات سال کی رؤیا ہے حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جس
۶۵ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت صدرانجمن احمدیہ کو روپیہ میری معرفت ملے گا ہمیں جو کچھ ملتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ملتا ہے.پس جو روپیہ آتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بھیجتے ہیں.حضرت صاحب کو دینے سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ اشاعتِ سلسلہ میں خرچ کیا جائے.قرآن شریف کی ایسی آیات کے صحابہؓ نے یہی معنی کئے ہیں.یہ ایک سچی خواب ہے ورنہ کیا چھ سال پہلے میں نے ان واقعات کو اپنی طرف سے بنا لیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اسے پورا بھی کر دیا.نَعُوْذُبِاللّٰہ مِنْ ذٰلِکَ پس ہر قسم کے چندے ان لوگوں کو جو میرے مبائعین ہیں میرے پاس بھیجنے چاہئیں.سوم: جب تک انجمن کا قطعی طور پر فیصلہ نہ ہو اشاعت اسلام اور زکوٰۃ کا روپیہ میرے ہی پاس آنا چاہیے.جو واعظین کے اخراجات اور بعض دوسری وقتی ضرورتوں کیلئے خرچ ہوگا جو اشاعت اسلام سے تعلق رکھتی ہیں یا مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق ہیں.چہارم: مجلس شوریٰ کی ایسی حالت ہو کہ ساری جماعت کا اس میںمشورہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا کیا وجہ ہے کہ روپیہ تو قوم سے لیا جائے اور اس کے خرچ کرنے کے متعلق قوم سے پوچھا بھی نہ جائے.یہ ہو سکتا ہے کہ بعض معاملات میں تخصیص ہو وَاِلاَّ ساری جماعت سے مشورہ ہونا چاہیے.سوچنا یہ ہے کہ اس مشورہ کی کیا تدبیر ہو.پنجم: فی الحال اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انجمن میں دو ممبر زائد ہوں کیونکہ بعض اوقات ایسی دقتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ ان کا تصفیہ نہیں ہوتا اور اب اختلاف کی وجہ سے ایسی دِقتوں کا پیدا ہونا اور بھی قرین قیاس ہے علاوہ ازیں مجھے بھی جانا پڑتا ہے اور وہاں دِقتیں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے دو بلکہ تین ممبر اَور ہونے چاہئیں اور یہ دو ممبر عالم ہونے چاہئیں.ششم: جہاں کہیں فتنہ ہو ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہاں جا کر دوسروں کو سمجھائیں اور اس کو دور کریں.اس کے لئے اپنی عقلوں اور علموں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کی توفیق اور فضل کو مقدم کریں اور اس کے لئے کثرت سے دعائیں کریں.اپنے اپنے علاقوں میں پھر کر کوشش کرو اور حالاتِ ضروریہ کی مجھے اطلاع دیتے رہو.یہ وہ امور ہیں جن پر آپ لوگوں کو غور کرنا چاہیے.ان میں فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مولوی سید محمد احسن صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح بھی آپ
۶۶ کا اعزاز فرماتے تھے اور وہ اپنے علم و فضل اور سلسلہ کی خدمات کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ ہم ان کی عزت کریں وہ اس جلسہ شوریٰ کے پریذیڈنٹ ہوں میں اس جلسہ میں نہ ہوں گا تا کہ ہر شخص آزادی سے بات کر سکے.جو بات باہمی مشورہ اور بحث کے بعد طَے ہو وہ لکھ لی جائے اور پھر مجھے اطلاع دو.دعاؤں کے بعد خدا تعالیٰ جو میرے دل میں ڈالے گا اُس پر عمل درآمد ہوگا.تم کسی معاملہ پر غور کرتے وقت اور رائے دیتے وقت یہ ہرگز خیال نہ کرو کہ تمہاری بات ضرور مانی جائے بلکہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سچے دل سے ایک مشورہ دے دو اگر وہ غلط بھی ہوگا تو بھی تمہیں ثواب ہوگا لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بات ضرور مانی جائے تو پھر اس کو کوئی ثواب نہیں.میری اِن تجاویز کے علاوہ نواب صاحب کی تجاویز پر غور کیا جائے، شیخ یعقوب علی صاحب نے بھی کچھ تجاویز لکھی ہیں ان میں سے تین کے پیش کرنے کی میںنے اجازت دی ہے ان پر بھی فکر کی جائے.پھر میں کہتا ہوںکہ مولوی صاحب کا جو درجہ ان کے علم اور رُتبہ کے لحاظ سے ہے وہ تم جانتے ہو حضرت صاحب بھی ان کا ادب کرتے تھے پس ہر شخص جو بولنا چاہے وہ مولوی صاحب سے اجازت لے کر بولے.ایک بول چکے تو پھر دوسرا، پھر تیسرا بولے.ایسا نہ ہو کہ ایک وقت میں دو تین کھڑے ہو جائیں جس کو وہ حکم دیں وہ بولے.نواب صاحب یا منشی فرزند علی صاحب اس مجلس کے سیکرٹری کے کام کو اپنے ذمہ لیں.وہ لکھتے جائیں اور جو گفتگو کسی امر پر ہو اُس کا آخری نتیجہ سنا دیا جائے.اگر کسی امر پر دو تجویزیں ہوں تو دونوں کو لکھ لیا جائے.اب آپ سب دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں کیونکہ پھر دوستوں نے کھانا کھانا ہے.قادیان کے دوست ساتھ مل کر کھانا کھلائیں، کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، پانی کا انتظام اچھی طرح سے ہو.خود بھی دعا کریں، مہمان بھی کریں سفر کی دعا قبول ہوتی ہے.اس مشورہ اور دعا کے ساتھ جو کام ہوگا خدا کی طرف سے ہوگا.وَاٰخِرُدَعْوٰئنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۶۷ شکریہ اور اعلان ضروری از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۶۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم شکریہ اور اعلان ضروری اللہ تعالی ٰ کی عجیب در عجیب حکمت ہے کہ ابھی مشکل سے تین ماہ گزرے ہوں گے.کہ حضرت خلیفۃ المسیح استاذی المکرم مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کے حکم کے ماتحت مجھے ایک اعلان شکر یہ لکھنا پڑا تھا.اور آج پھر ایک اعلان شکر یہ لکھنے کے لئے خدا تعالی ٰنے مجھے موقعہ دیا ہے.اس پہلے اعلان کا سبب یہ تھا.کہ ۱۹۱۲ء کی آخری سہ ماہی میں جماعت میں کچھ آثار تفرقہ تھے.اوربعض گمنام لوگوں نےاظہار حق نامی ٹریکٹ شائع کر کے جماعت کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانا چاہا تھا.لیکن اللہ تعالی کے فضل نے حضرت استاذی المکرم کی دستگیری فرمائی.اور بجائے جماعت میں تفرقہ ہونے کے جماعت آگے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی اور اس کا اخلاص اور بھی ترقی کر گیا.چنانچہ پچھلے سالانہ جلسہ نے یہ بات ثابت کر دی کہ خدا تعالی ٰکے کام کو کوئی نہیں روک سکتا.اس تائید ایزدی کو دیکھ کر حضرت مرحوم و مغفور نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کی طرف سے ایک اعلان شکریہ شائع کر دوں.و اما بنعمة ربک فحدث(الضحیٰ۱۲) کے حکم کی تعمیل ہو جائے اس اعلان کے لکھتے وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا.کہ وہی اظہار حق و الا فتنہ پھر بھی کبھی اٹھے گا.اور اس دفعہ گمنام نہیں بلکہ شہرۂ ِآفاق نام ان خیالات کی تائید کرنے والے ہوں گے.اور یہ کہ دوباره یہ فتنہ پہلے سے ہزاروں در جہ بڑھ کر اپنا اثر دکھائے گا.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پورا ہو ئے بغیر نہیں رہتی.اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہو تا.فتنہ اٹھا.اور پورے زور سے اٹھا.حتی ّٰ کہ کمزور طبائع سلسلہ حقّہ کی سچائی میں بھی متردد ہوگئیں.اور ہمارے سلسلہ کے دشمنوں نے خیال نہیں بلکہ یقین کرلیا کہ اب یہ سلسلہ تباه او ر برباد (نعوذ باللہ من ذلک) ہو جائے گا.نور الدین کی آنکھوں کا بندہ ہونا تھا کہ نور کی جگہ ظلمت نے لے لی اور احمدی جماعت کے
۷۰ گھروں پر تاریک بادل منڈلانے لگے.اور ہم نے ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھا.کہ کس طرح بھائی بھائی سے جدا ہو جاتا ہے.اور بیوی خاوند سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے ہمارے لئے اس معلم کی جدائی جو رات دن ہماری تعلیم و تربیت میں کوشاں رہتا تھا کچھ کم غم و اندوہ کا باعث نہ تھی کہ جماعت کے تفرقہ کی مہیب شکل نے اور بھی دل کو بے چین کر دیا.مسیح موعود علیہ الصلوةوالسلام کی رات دن کی کوششوں اور برسوں کی آہ و زاری سے تیار کی ہوئی جماعت کا ایک ایک فرد پر اگندگی کی حالت میں پھرتا ہوا دیکھنا ایسا نظارہ نہیں جس کے دوبارہ دیکھنے کی آنکھیں بھی آرزو کریں یا دل خواہش کریں جہازوں کی تباہی کا نظارہ نہایت عبرتناک ہوتا ہے.لیکن اس جہاز کی تباہی دنیا کی تباہی تھی.کیونکہ ہر ایک جہاز اپنے اندر کے مسافروں کو ساتھ لے کرڈوبتا ہے.مگر اس جہاز کا نقصان صرف اس میں سوار مسافروں کا نقصان ہی نہ تھا.بلکہ کل دنیا کی تباہی تھی ہر ایک ذی روح کی ہلاکت تھی کیونکہ احمدی جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے.جسے خدا تعالی ٰنے اس زمانہ میں اپنے کام کے لئے چن لیا ہے اور صراط مستقیم پر صرف اسی جماعت کا نام ہے اور خود خد اتعالیٰ نےمسیح موعودؑ کو الہام کے ذریعہ سے اس جماعت کی نسبت یہ خبر دی کہ اللهم ان اھلکت هذه العصابة فلن تعبد في الأرض أبدا اے خدا اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا.تو پھر اس کے بعد اس زمین پر تیری پرستش کبھی نہ ہوگی(مئی ۱۹۰۲ء تذکرہ صفحہ ۴۳۰ ایڈیشن چہارم)، پس جب کہ کل دنیا کی ہدایت اور شفاء صرف اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہے.تو اس جماعت میں کسی قسم کا خلل گو یا کل دنیا کے امن میں خلل کا پیدا ہونا تھا.پس اس خطرناک تفرقہ کو دیکھ کر جو آخر مارچ و اوائل اپریل میں اس جماعت میں نمودار تھا.ہر ایک درد مند دل اندر ہی اندر بیٹھا جاتا تھا.اور بہت تھے جو موت کو زندگی پر ترجیح دیتے تھے اور ان کے دل بے اختیار اس بات کی آرزو کرتے تھے کہ کاش زندوں کی بجائے ہم وفات یافتہ گروہ میں شامل ہوں.یہ تفرقہ جس طرح دلوں کو ٹکڑے ٹکڑےکر رہا تھا اسی طرح چشم بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک خوشی کا باعث بھی تھا.کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ افتراق کی عظیم الشان اتحاد کا پیش خیمہ ہے اور یہ جدائی بہت بڑے ملاپ کی خبر دے رہی ہے اور خدا نے ایسا ہی کیا.اس کے فضل نے پھرہماری دستگیری کی اور ایک دفعہ پھر اپنے زندہ اور موجود ہونے کا ثبوت ہمیں دے دیا.دلوں کا درست کرنا کسی انسان کا کام نہیں.اللہ تعالیٰ تو آنحضرت ﷺ کی نسبت بھی فرماتا ہے کہ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
(الانفال: ۶۴) اگر تو دنیا کا سب مال و متاع خرچ کر دیا.تو بھی ان لوگوں کو متحد نہیں کر سکتا تھا.لیکن اللہ تعالی ٰنے ان کو متحد کردیا.اور اس پر کیا مشکل تھا وہ تو غالب اور حکمت والا خداہے.پس میری کچھ ہستی نہ تھی کہ میں اس طوفان بے تمیزی کو روک سکتا.اس قدر تفرقہ کو دورکرنا انسان کا کام نہیں.یہ تو عزیز و حکیم خداہی کر سکتا ہے اور اس نے ایسا کر دیا.میں جانتا ہوں کہ ابھی بعض جگہ تفرقہ باقی ہے.اور ایک قلیل حصہ جماعت کا اتحاد کی رسی میں ابھی تک پرویا نہیں گیا.اور کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ابھی تک تو جماعت میں اتحاد نہیں ہؤا پس ابھی سے خوش ہونااور خدا تعالی کا شکر کرنا بے محل اور بے موقعہ ہے.مگر اس نادان کو کیا معلوم کہ بقیہ گروہ کو بھی ساتھ ملانے کا یہی طریق ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں کیونکہ خودوہی ذات پاک یوں فرماتی ہے.لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراهیم :۸) قسم ہے مجھے اپنی ذات کی کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں اور بھی دوں گا.اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہے نعود باللہ من عذابه پس اے میرے دوستو! اور پیارو! آؤ ہم سب مل کر اللہ تعالی کے اس احسان کا شکریہ اداکریں.کہ جدائی کے بعد اس نے ہمیں ملا دیا.پر اگندگی کے بعد جمع کر دیا.تاکہ اس سے اور بھی زیادہ مانگنے کے مستحق ہوں.اور عرض کر سکیں کہ الہٰی اب اپنے وعدہ کے مطابق بقیہ بھیڑوں کو بھی اس گلہ میں لا کر ملادیجئے.اللهم امين - خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور وہ جھوٹے وعدے نہیں کرتا.اور جو شخص اس کے وعدوں پر ایمان نہیں لاتا اور اس کا دل یقین سے نہیں بھرتا وواپنے ایمان کی خبرلے کہ اس کا دل شیطان کے پنجہ میں مبتلاء ہے.جب خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ شکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالی ٰاور بھی دیتا ہے.تو آؤ ہم اپنے مولیٰ کا شکر کریں.اور اس کی حمد وثناء کے گیت گائیں.اور اس کے حضور میں سجدہ کریں تااس کا فضل جوش مارے اور رہے سہے غم بھی جاتے رہیں.میں اپنے مولی ٰکے احسانات کا شکریہ کس منہ سے ادا کروں.اور اس کے احسانات کو کس زبان سے گنوں کہ میرا منہ اور میری زبان اس کام کو پورا نہیں کر سکتے میرے جسم کاذرہ ذرہ بھی اگر گویا ہو تو اس کے بحر عطایا کے ایک قطرہ کا شکریہ ادا نہ ہو سکے.ایسے خطرناک متلاطم سمندر میں سے جماعت کا جہاز گزرے.اور میرے جیسے نا تجربہ کار اور ناواقف اور کمزور ملاح کے ہاتھوں میں اس کی پتوار ہو اور پھر بھی کشتی سلامت گزر جائے.یہ کس
۷۲ کا کام ہو سکتا ہے صرف خدا کا خلیفہ اول ایک شان رکھتا تھا.اور اس کے کاموں کو اس کی طرف منسوب کیا بھی جاسکتا تھا.مگر میں کیا ہوں کہ کسی کو یہ خیال بھی گزر سکے کہ اس فتنہ کے دور کرنےمیں مجھے میرا بھی ہاتھ تھا.یہ طاقت نمائی شرک کے تمام شائبوں سے پاک تھی.اور انبیاء و اولیاء کامحبوب بے نقاب اس وقت دنیاپر ظاہر ہوا.تا کہ ان شرک کے ایام میں لوگوں کو بتادے کہ ایک مٹی کے ڈلے اور لکڑی کے کندہ سے بھی میں وہ کام لے سکتا ہوں جو دنیا کے بادشاہ نہیں کر سکتے.میرے پیارے رب! تو آپ ہی بتا کہ ہم کس طرح تیرے ان احسانات کا شکریہ ادا کریں.کیونکہ ہماری عقلیں کو تاہ اور ہمارے فہم کمزور ہیں.ہم تیرے پہلے بھی محتاج تھے.اور اب بھی محتاج ہیں.اور آئندہ بھی تیرے ہی محتاج ہوں گے.پھر ہمیں اے بادشاہ تجھ سے سوال کرنے میں کیا شرم ہو- وہ شخص جس نے کبھی سوال نہ کیا ہو شرماتا ہے لیکن جو ہروقت مجسم سوال بنارہے اسے سوال کرتے ہوئے کیا شرم آسکتی ہے.پس اے میرے رب! تیرے حضور میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں اسے قبول فرما کہ بادشاہوں کے دروازوں پر سے گداگر خالی ہاتھ نہیں لوٹا کرتے.جس طرح تونے اس جماعت کے کثیر حصہ کو مجتمع اور متحد کردیا ہے قلیل کو بھی ہمارے ساتھ ملا دے.میرے پیارے رب تو جانتا ہے کہ مجھے اپنی بڑائی کی خواہش نہیں مجھے حکومت کا شوق نہیں لیکن جماعت کا اتحاد مجھے مطلوب ہے.اور تفرقہ کو دیکھ کر میرا دل بیٹھاجاتا ہے.پس خدایا اپنافضل کیجئے میرے زخمی دل پر مرہم کافور لگائیے مجھے جو کچھ بھی حضور نے دیا امیدوں سے بڑھ کر دیا.مگر مولیٰ مجھے اس معاملے میں حرص سے معذور رکھئے.ابھی میری حرص کی آگ نہیں بجھی اور میرے دل میں تڑپ ہے کہ کسی طرح سب کی سب جماعت پھر ایک سلک میں پروئی جائے اور ہم سب مل کرتیرے نام کو دنیا پر روشن کریں.طاقتور شہنشاہ یہ تیرے لئے کچھ مشکل نہیں.احمد کے نام کو دوٹکڑے ہونے سے بچالے.پیارے یہ جماعت تیری پیاری جماعت ہے اور کون چاہتا ہے کہ اپنے پیاروں کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھے.میرے دوستوا خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کاہاتھ بہت زبردست ہے تم اپنے مولی ٰکے سامنے گرکر آہ و زاری کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ تایہ بادل سورج کے سامنے سے ہٹ جائیں.اوروہ پہلے سے بھی زیادہ دنیا کو روشن کرے.میں اس موقعہ پر اخبارات کے ایڈیٹران کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ آئندہ منکران خلافت کے متعلق سخت کلامی کو ترک کردیں.میں جانتا ہوں کہ جس کے ہاتھ پر انسان بیعت کر چکا ہو اس کے خلاف بات سننا مشکل ہوتا ہے.لیکن آپ لوگ نرمی سے کام
۷۳ لیں اورسختی کو ترک کر دیں.کیونکہ اللہ تعالی ٰکا فضل اسی طرح نازل ہوگا.ہر ایک اعتراض کا جواب نہایت نرمی سے دیں.اور گالیاں دینا اور ٹھٹھا کرنا ان کے لئے چھوڑ دیں جن کو خدا نے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے ورنہ یہ کیونکر معلوم ہوگا کہ حق پر کون ہے.اس کے ساتھ ہی میں جماعت کو ایک اور بات کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ ضرور اس پر غورکریں گے اور جس طرح ایک پیاسا پانی کے چشمہ کو دیکھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے اسی طرح آپ لوگ اس بات کے قبول کرنے کے لئے جلدی کریں گے.اور وہ یہ کہ کوئی قوم کبھی ترقی نہیں کرتی جب تک پورے زورسے تبلیغ کے کام کی طرف متوجہ نہ ہو.اور قرآن شریف نے تو مبلغیّن کے لئے اولٰئک ھم المفلحون فرما کر فیصلہ ہی کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا راز تبلیغ ہی ہے.تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لو کہ جب سے مسلمانوں نے تبلیغ کے فرض کو بھلا دیا ہے اسی وقت سے ان کی حکومت، عزت، دولت سب کچھ برباد ہونا شروع ہوا ہے.پس آپ لوگ قطعا ًاس کام سے غافل نہ ہوں ایسا نہ ہو کہ آپ کا قدم بھی پستی کی طرف چل پڑے.میں نے ۱۲ / اپریل کے جلسہ میں جماعت احمدیہ کے قائم مقاموں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میرے دل میں تبلیغ کا ایسا جوش ہے کہ جس کی حدود میرے بیان میں نہیں آسکتیں اور یہ بھی بتایاتھا کہ انبیاء اور خلفاء کا پہلا کام ہی اللہ تعالی ٰنے یہ مقرر فرمایا ہے.اسی طرح مومنین کو حکم دیا ہےکہ ہر ایک جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول رہے.لیکن میں نے اس وقت تک اس تحریک کے متعلق اس لئے کوئی اعلان شائع نہیں کیا کہ میں دعائیں مشغول تھا اور چاہتا تھا کہ اللہ تعالی ٰسے پہلے استخاره کر لوں.بعد میں اس کام کے لئے آپ لوگوں کو بلاؤں گا.سو آج دعاؤں اور استخارہ کے بعد میں آپ لوگوں کو وہ پیغام حق پہنچا تا ہوں جو دنیا کے ابتداء سے اللہ تعالیٰ کے بندے پہنچاتے آئے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ من انصاری الى الله کون ہے جو خدا تعالی ٰکے دین کی اشاعت میں میرامد دگار اور معاون ہو.خوب یاد رکھو کہ جو شخص اس آواز کا جواب دے گا وہ اپنے رب سے اجر عظیم کا مستحق ہوگا.کیونکہ یہ میرا کام نہیں بلکہ خدا کا کام ہے اور اللہ تعالی ٰکسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا اگر تم ایک پیسہ اللہ تعالی ٰکے راستہ میں خرچ کرو گے تو اس کے بدلہ میں وہ تمہیں وہ کچھ دے گا جس کو تم گن بھی نہ سکو گے.
انوار العلوم جلد۲ ۷۴ دین اسلام اس وقت ایک خطرناک مصیبت میں ہے.اور اپنے اور پرائے سب اس کے دشمن ہو رہے ہیں.جو لوگ مسلمان کہلارہے ہیں ان کے دل خود شکوک و شبہات کے پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں اور وہ خود تیغ و سنان سے اسلام پر حملہ کر رہے ہیں.جو دشمن ہیں وہ تو دشمن ہی ہیں.جوکچھ بھی وہ کریں اسے کم سمجھنا چاہئے.اور اس خطرناک مصیبت میں اللہ تعالی ٰنے تم کو اس کام پرمقرر کیا ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کرو اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرد.پس اپنےفرض کو پہچانو او غفلت کو ترک کر دو.مال پھر بھی مل سکتا ہے لیکن یہ وقت پھر نہ ملے گا.بے شک آپ لوگوں پر چندوں کا بہت بوجھ ہے لیکن جو ثواب آپ جمع کر سکتے ہیں وه ایسی بیش بہا چیز ہے.کہ آنے والی نسلیں اس پر رشک کریں گی اور بہت ہوں گے جو اپنی بادشاہتوں کو ترک کرنا بخوشی قبول کریں گے بشرطیکہ ان کو آپ کے ثوابوں میں سے ایک ہزارواں حصہ بھی دے دیا جائے.مجھے یقین ہے کہ بادشاہ اس مذہب کو قبول کریں گے اورسلطنتیں اپنے سراحمدیت کے آگے جھکا ئیں گی.لیکن جو رتبہ اور مرتبہ آپ کے حصہ میں آیا ہے وہ ان کو نصیب نہ ہو گا.کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبردست بادشاه اابوبکرؓ کا اور عمرؓ بلکہ ابوہریرہؓ کا نام لے کر بھی رضی اللہ عنہ کہہ اٹھتے رہے ہیں اور چاہتےرہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کاہی ہمیں موقعہ ملتا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابو بکر اور عمراور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے غربت کی زندگی بسر کر کے کچھ نقصان اٹھایا.بے شک انہوں نے دنیاوی لحاظ سے اپنے اوپر ایک موت قبول کرلی.لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی.وہ قیامت تک زندہ رہیں گے.پس تمہارے لئے بھی وہ دروازے کھولے گئے ہیں.اخلاص اور ثواب کی نیت سے اللہ تعالی ٰکے دین کی تائید میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لو.کیونکہ جو جس قدر موت اپنے لئے قبول کرے گا اسی قدر زندگی اس کو دی جائے گی.خداکے قرب کے دروازے کھلے ہیں اور کوئی قوم نہیں جو ان کے اندر داخل ہونے کی خواہشمند ہو.ایک تم ہی تم ہو.پس ایک جست کرو اور اندر داخل ہو جاو - اسلام اور احمدیت کی اشاعت خدا کا کام ہے مگر وہ اپنے بندوں کو موقعہ دیتا ہے کہ وہ بھی ثواب حاصل کرلیں.آپ لوگوں نے کل دنیا کے مقابلہ میں اپنے اخلاص اور نیک نیتی کو مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانے میں بالا ثابت کر کے دکھا دیا.پھر خلیفہ اول کے وقت میں تمہار اقدم آگےسے بھی زیادہ تیز پڑنے لگا.کیونکہ تم نے دیکھا کہ دشمن ہم پر خوش ہے اور ہماری تباہی کا منتظرہے.پس تم نے نہ چاہا کہ اسے تم پر ہنسنے کا موقعہ ملے.اب ایک تیسراعہد آپ نے باندھا ہے اور میں امید
۷۵ کرتا ہوں کہ اب آپ اور بھی زیادہ جوش سے کام لیں گے.میراخدامیرا مدد گار ہے.جو کام اس نے میرے سپرد کیا ہے وہ اس کے پورا کرنے کے لئے خود ہی سامان پیدا کر دے گا اور مجھے یقین ہے کہ اگر زمین میری مد د نہ کرے گی تو آسمان میرا ہاتھ بٹائے گا اور اللہ تعالیٰ سعید روحوں کو خودالہام کردے گا کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں.اس وقت دشمن کہہ رہا ہے کہ اب احمدیت گئی لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آگے سے بھی زیادہ اسے ترقی دے اور اسلام کے شیداخوش ہو جائیں کہ اب خزاں کے بعد بہار آنے والی ہے اور مسیح موعود ؑکے وعدوں کے پورے ہونے کے دن آگئے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے مامور اور اس کے اول خلیفہ کی دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.اور ضرور اسلام کی مصیبت کو دور کر دے گا.پس اللہ تعالیٰ نے اس کام کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں ڈالا ہے کہ میں اب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے خاص جدوجہد کروں.اور میں نے فی الحال اندازہ لگایا ہے کہ اس کام کا ایک سال کا خرچ بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) روپیہ ہو گا میں نے روپیہ کے انتظام کیلئے ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس میں مجلس معتمدین کے کل وہ ممبران شامل ہوں گے جو بیعت کر چکے ہیں اور ان کے علاوہ کچھ اور دوست بھی شامل کئے جائیں گے لیکن ان کے نام بعد میں شامل کروں گا.اس انجمن کا کام اشاعت اسلام کے روپیہ کا انتظام کرنا اس کا حساب و کتاب رکھنا اور اشاعت اسلام پر اس روپیہ کو میری ہدایات کے ماتحت خرچ کرنا ہو گا.زکوٰۃ کا روپیہ بھی اسی انجمن کے پاس جمع ہو گا.اور میں اس انجمن کا سیکرٹری مولوی شیر علی صاحب بی اے کو مقرر کر تا ہوں.انہیں کے دستخطوں سے روپیہ بھیجنے والوں کو رسیدیں ملیں گی.اس انجمن کا نام ایک پرانی خواب کی بناء پر انجمن ترقی اسلام رکھا جاتا ہے.میں نے بہت دعاؤں کے بعد اس بات کا اعلان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ میری دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا اور خود اشاعت اسلام کے لئے سامان کر دے گا اور جو لوگ اس کام میں میرا ہاتھ بٹائیں گے ان پر خاص فضل فرمائے گا.میرے دوستو ! بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) روپے سالانہ کی رقم بظاہر بہت معلوم ہوتی ہے.لیکن جس رب نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں.وہ بڑے خزانہ والا ہے.وہ خود آپ لوگوں کے دل میں الہام کرے گا.اور آپ ہی اسکے لئے سامان کر دے گا.میں نے اس کام میں حصہ لینے والوں کے لئےبہت د عا کی ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ جو شخص جس جوش اوراخلاص سے آگے بڑھنے کا خدا تعالیٰ کا فضل بھی اسی مقدار میں اپنے ساتھ رکھے گا.یہ مال و متاع اسی جگہ ره
۷۶ جائے گا.اور خدا تعالی ٰکے سامنے تو نیک اعمال ہی جائیں گے پس دین اسلام کے لئے اپنے أموال کی کچھ پرواہ نہ کرو.کیا آج تک اللہ تعالی ٰنے آپ سے بخل کیا ہے کہ آئندہ کرے گا.تمام جماعتوں کے سیکرٹریوں کو اور ان لوگوں کو جن کو خدا تعالیٰ اس کام کے لئے ہمت دےچاہئے کہ فورا ًاس اعلان کے پہنچتے ہی دوستوں کو سنائیں اور خاص طور پر تحریک کر کے چند ه بھجوائیں تاکہ فوراً کام شروع کردیا جائے.روپیہ براہِ راست میرے نام بھیجیں.کیونکہ اس سے دعا کی تحریک ہوتی ہے ہاں رسید یں انجمن کے سیکرٹری مولوی شیر علی صاحب بی اے کے دستخط سے روانہ ہوگی.کیونکہ حساب و کتاب انہیں کے زیر نگرانی ہو گا.جماعت کے مخلصین کے لئے یہ ایک امتحان کا موقعہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ غیر معمولی اخلاص کا نمونہ دکھائیں گے.ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انجمن کے ماہوار چندوں پر اس چندہ کا کوئی اثر نہ پڑے.اور جو شخص ان چندوں میں کمی کر کے اس طرف چندہ دے گا وہ خداتعالی ٰکےنزدیک زیرِ مواخذہ ہو گا کیونکہ و ہ و عد ہ خلافی کرے گا اور یہ دانائی سے بعید ہے.کہ ایک بچے کو بچانےکے لئے دوسرے بچے کو قتل کیا جائے.پس جو کچھ دوماہوار چندوں سے زائد دو اور اس بات کو مد نظررکھو کہ خداتعالی ٰکبھی اس ایثار کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ آپ دیکھیں گے کہ خدا تعالی ٰکا ہاتھ آپ کے اندر کام کرتا ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ - انصار اللہ کہلانا بھی کچھ چھوٹا سا انعام نہیں پس آؤ تم سب انصار الله بن جاؤ اور اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اشاعت اسلام میں لگ جاؤ.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.نوٹ:.جس قدر تجاویز ۱۲ اپریل کے جلسہ میں ہوئی تھیں ان سب کا انتظام میں اس انجمن کے سپرد کر تا ہوں جس کے ممبر تا اطلاع ثانی یہ اصحاب ہوں گے.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب.نواب محمد علی خان صاحب سید حامد شاہ صاحب.مولوی شیر علی صاحب بی اے.مرزا بشیر احمد صاحب - ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اسٹنٹ سرجن.ڈاکٹر رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن پنشز.سیٹھ عبدالرحمن صاحب.حاجی اللہ رکھامد راس اور اسی وقت تک اس انجمن کی علیحدہ ضرورت ہو گی جب تک کہ مجلس معتمدین کا انتظام با قاعدہ نہ ہو.جب انشاء اللہ مجلس معتمدن کی مناسب اصلاح ہو جائے گی تو پھر اس انجمن کی علیحدہ ضرورت نہ ہوگی بلکہ یہ کام بھی اسی کے سپرد کر دیا جائے گا.آخر میں میں سب مبالغین کو پھر ہدایت کرتا ہوں کہ خدا تعالی ٰکے فضل پر بھروسہ کر کے اس
۷۷ رقم کو جلد مہیا کرنے کی کوشش کریں.اور دشمنان سلسلہ پر ثابت کر دیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے جوش کم نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالی ٰنے ہمیں اخلاص میں اور بھی زیادہ کر دیا ہے یہ بھی یاد رہے کہ اشاعت اسلام کے اس خاص چندے کے علاوہ جو رقوم آپ لوگ اشاعت اسلام میں ماہوار یا کبھی کبھی صدر انجمن میں دیتے تھے اس کو بھی اس مد میں منتقل کر دیں تاکہ یکجائی طور پر اس کام کو پورا کیا جائے.اللہ تعالی ٰآپ لوگوں کے ساتھ ہو.اور اس کی تائیدات اور نصرتیں آپ کے شامل حال ہوں والسلام خاکسار مرزا محموداحمد نوٹ:- انجمن ترقی اسلام کے قیام کے بعد کسی الگ تحریک کی ضرورت نہیں اس لئے میں دعوت الی الخیر کا روپیہ بھی جو اس کام کے لئے جمع ہو رہا تھا اس انجمن کے سیکرٹری کو سپرد کر دوں گا.جو چھ سوسے کچھ زائد ہے اور جو دوست اس فنڈ میں کچھ رقم بھیجا کرتے تھے.وہ ان رقموں کو اب انجمن ترقی اسلام ہی کی طرف منتقل کر دیں تاکہ سب کام یکجائی طور پر ہو.مرزا محموداحمد
۷۸ غموں کا ایک دن اور چار شادی سبحان الذي اخزى الأعادي یہ اعلان شکریہ کاتب کو دینے سے پہلے میں نے عصر کے بعد درس قرآن کے وقت جماعت قادیان کو سنا دیا تھا تا وہ بھی اس تحریک میں حصہ لینے کے لئے تیار ہو جائیں سواللہ تعالیٰ نے قادیان کی غریب جماعت کے دلوں میں وہ اخلاص اور جوش بھر دیا اور ان کے دل اپنے خالق اور رازق کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایسے بیتاب ہو گئے کہ دوسرے دن جمعہ کی نماز کے بعد انہوں نے ایک عام جلسہ کیا اور تین ہزار (۳۰۰۰) روپیہ کے قریب چندہ کے وعدے لکھوائے گئے اور ابھی تک برابر کوشش ہو رہی ہے اور قادیان کے دوست چاہتے ہیں کہ اول تو میری اعلان کردہ رقم یعنی بارہ ہزار روپیہ کل کا کل ضلع گورداسپور کی طرف سے پیش کیا جائے یا کم سے کم نصف یعنی چھ ہزار تو ضرور وہ مہیا کریں اور میں اللہ تعالی ٰپر یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے گا اور وہ دونوں رقموں میں سے ایک کو ضرور جمع کر لیں گے.اس وقت تک پانچ سو روپیہ سےزائد وصول بھی ہو چکا ہے اور ہر روز چند ه میں ترقی ہو رہی ہے قادیان کی غریب جماعت کا یہ نمونہ ایک ایسا نمونہ ہے کہ میں امید کرتاہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اسی نمونہ پر چلیں گی میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں نے اپنی کل کی کل زمین تبلیغ اسلام کے لئے دے دی اور بعض نے اپناکل اندوختہ اس کام کے لئے نذر کر دیا اور میں اس ایثار کو دیکھ کر اس بات سے باز نہیں رہ سکتا کہ اپنے مولیٰ کا پھر شکریہ ادا کروں جس نے اپنے فضل سے میری تحریر میں اس قدر اثر رکھا کہ ابھی وہ شائع بھی نہیں ہوئی کہ مطلوبہ رقم کے چوتھائی حصہ کے وعدے پہلے ہی ہو گئے اور صرف ایک ضلع کے لوگ اس کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور پھر اس کام کے کرنے والی وہ جماعت ہے جس کی نسبت کہاجاتا ہے کہ وہ روٹیوں کے لئے قادیان میں آپڑے ہیں کاش اس ایثار کے لوگ اور بھی کثرت سے ہوں تا سلسلہ احمدیہ جلد جلد ترقی کی شاہراہ پر قدم مارے.میرے پیارے رب نے اس وقت مجھے ایک سبق دیا ہے اور وہ یہ کہ میں نے جماعت کے فتنہ کو دیکھ کر خوف کیا تاکہ بارہ ہزار روپیہ بھی وہ دے سکے گی یا نہیں.مگر اللہ تعالی ٰنے مجھے بتایا کہ جب اس سب کام کے ہم خودذمہ دار ہیں تو فتنہ کا ہونا یا نہ ہونا کیا اثر رکھتا ہے.بعض لوگوں نے کہا تھا کہ ہم چندہ بند کر دیں گے اور خود بخود یہ سب کام آپ بند ہو جائیں گے اور خلافت کے ماننے والوں کو
۷۹ ہوش آجائیں گے اور بعض نے اعلان کر بھی دیا کہ قادیان میں کوئی چندہ نہ بھیجا جائے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا جھوٹ ثابت کرے اور وہ ہمیں اپنی بے انتہاء قدرت کا ایک روشن نشان دکھانا چاہتا ہے مبارک وہ جو اس سے فائدہ اٹھائے.دنیاوی حکومتوں کی ساکھ ان کے قرضہ سے پتہ لگتی ہے کیونکہ جب ان میں ضعف پیدا ہو جائےتو ان کو قرضہ مشکل سے ملتا ہے.لیکن جب وہ طاقتور ہوں تو وہ اگر ایک کروڑ کا اعلان کرتی ہیں تو ان کودس کروڑروپیہ دینے کو لوگ تیار ہو جاتے ہیں.اور اس وقت بھی جبکہ اس الہٰی سلسلہ کی ساکھ پرلوگ معترض تھے اور کہتے تھے کہ اب یہ سلسلہ گیا.اور بعض اپنے لوگ ہی اس بات کے مدعی تھےکہ ہمارے علیحدہ ہوتے ہی یہ سب کام تباہ ہو جائے گا.خداتعالی ٰاس جماعت کی ساکھ قائم کرنا چاہتاہے اور اس غریب جماعت کے ہاتھوں سے جسے نادان اور جاہل اور کم فہم کہہ کرہنسی اور ٹھٹھا کیاجاتا ہے اپنی شان دکھانا چاہتا ہے اور مجھے اللہ تعالی ٰسے امید ہے کہ وہ خود جماعت کے دلوں میں تحریک کرے گا اور میری اعلان کردہ رقم سے بھی پانچ چھ گنا زیادہ روپیہ فراہم کر دے گا اور میراارادہ ہے کہ انشاء اللہ زائد رقم سے ہم تبلیغ کے کام کو اور بھی وسیع پیمانہ پر جاری کریں.اور اسےغیر مترقبہ ضروریات کے لئے علیحدہ کر دیں اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہےکہ بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) روپے سالانہ سے بھی زیادہ کا انتظام بغیر کسی زائد بو جھ کے ہو جائے گا مگرمیں اس امر کی تفصیل کہ کس طرح معمولی چندوں میں سے یہ کام بھی پورا ہو جائے گایا صرف ایک قلیل رقم زائد کرنی پڑے گی جس سے انشاء اللہ تعالیٰ سب کام چل جائیں گے کسی آئندہ وقت شائع کرونگا ہاں اس وقت صرف اتنا کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کا حامی ہے اور وہ خود ہماری سب ضروریات کا کفیل ہو گا ہمارے بعض دوست ہم سے الگ ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کوئی روپیہ نہ دیں گے مگروہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی ٰہمیں نئے آدمی دے گا جویحبھم ويحبونه والی جماعت ہوگی اور وہ اس باغ میں ایک درخت کے بدلے ہزار درخت لگائے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ جن کے پھل ان مقطوعہ درختوں کے پھلوں سے بہت زیادہ شیریں ہوں گے.آخر میں بطور تحدیث نعمت یہ بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ مردوں کے علاوہ قادیان کی عورتوں نے بھی اس تحریک میں خاص حصہ لیاہے قریباً پچیس روپیہ ماہوار کے وعدے کئے ہیں جو امید ہے اور بھی زیادہ ترقی کریں گے آئنده بارہ ہزار سالانہ کی رقم میں سے علاوہ اس یکمشت چندہ کے جو ضلع گورداسپور کی جماعت انشاء الله قریباً اس سال دے گی قریباً اڑھائی ہزار روپیہ سالانہ وہ ہمیشہ
۸۰ ادا کرتی رہے گی اور جماعت کی ترقی پر یہ رقم بھی زیادہ ہوتی رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ.والسلام خاکسار خادم سلسلہ احمدیہ مرزا محموداحمد
ا۸ تحفۃ الملوک (والی ریاست حیدر آباد دکن کو دعوت الی اللہ ) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۸۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مکرم و معظم جناب نواب صاحب (ادام اللہ ملککم و زادحشمتکم) السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ بیشتر اس کے کہ میں اس عر یضہ کا مضمون شروع کروں میں جناب سے یہ عرض کردینا پسند کرتاہوں کہ بوجہ ایسی آب و ہوا میں تربیت اور تعلیم پانے کے جو اللہ تعالی ٰکے فضل و کرم سے اسلامی آداب اور طرق سے مملو تھی میں طبعاً ان لفظی تکلفات سے جو مرور زمانہ سے مسلمانان ہندو ایران کے درمیان پیدا ہو گئے ہیں بیزار ہوں اس لئے اگر جناب میرے اس مکتوب کو ان الفاظ سے خالی پائیں جو عام طور پر شاہان زمانہ یا والیان ریاست کے حضور میں خطوط ارسال کرتے وقت لوگ استعمال کرتے ہیں تو مجھے معذور خیال فرمائیں کیونکہ اس کا باعث کمی ادب نہیں بلکہ اس کا موجب اسلامی سادگی ہے ورنہ میں بموجب علم قرآن شریف ان لوگوں کی عزت دل و جان سے کرتا ہوں جن کو خدا تعالی ٰنے عزت دی ہے اور ایسے انسان کو شقی خیال کرتا ہوں جس کا دل ان لوگوں کے ادب سے خالی ہو جن کو اللہ تعالی ٰنے کسی قلم کار تبہ دیا ہو کیونکہ یہ ان لوگوں کی ہتک نہیں بلکہ خوداس ذات کی گستاخی ہے جس نے ان کو کسی مرتبہ پر کھڑا کیا ہے.اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم نبی اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑکو بھی حکم فرماتا ہے کہ فرعون جیسے متمرّد بادشاہ کے پاس جاؤ مگر قولالہ قولا لينا (طہ:۴۵) اس سے درشتی اور بے ادبی سے کلام نہ کرنا بلکہ نرم نرم باتیں کرنا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ میں ایک ایسے حاکم کی عزت نہ کروں جو میرے آقا اور محبوب آنحضرت ﷺکے خدام میں ہونے کا فخر رکھتا ہو پس رائج الوقت تکلفات کو ترک کرنا کسی سوء ادب کے باعث نہیں بلکہ اسلامی تربیت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں بیہودہ تکلفات سے علیحدہ رہوں ورنہ میں تو غیر مذہب کے بادشاہوں اور رئیسوں کا ادب بھی
۸۴ ضروری خیال کرتا ہوں.میں اس بات کو ظاہر کر دینا بھی اپنی روشناسی کرانے کی غرض سے ضروری دیکھتا ہوں کہ میں پنجاب کے ایک معزز خاندان میں سے ایک شخص ہوں اور لوگوں میں مرزا بشیر الدین محمود احمد کے نام سے مشہور ہوں میرے والد مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی مسعود اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے مأمور تھے اور جماعت احمدیہ کے امام تھے جس جماعت کے پیرو جناب کی ریاست میں بھی آباد ہیں مجھے اس وقت اللہ تعالے نے محض اپنے فضل سے اس پاک جماعت کا امام بنا کر خلافت ثانیہ کے عہدہ پر مقرر فرمایا ہے چونکہ یہ جماعت عام لوگوں کی طرح نہیں ہے اس لئےآپ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں سے سب سے زیادہ نیک اور عالم اور متقی حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالی ٰکے فضل کے ماتحت آپ کے خلیفہ اول قرار پائے تھے اور آپ کی وفات پر اس عاجز کو خداتعالی ٰنے جماعت کی حفاظت کے کام پر مقرر فرمایا ہے اور میں نہیں جانتا کہ میرے بعد یہ منصب اللہ تعالیٰ کس خاندان میں منتقل فرمائے گا.اس روشناسی کے بعد میں یہ عرض کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے اس مکتوب کے لکھنے کی تحریک ایک رؤیا کی بناء پر ہوئی ہے اور چونکہ رویاکا پورا کرنا بھی مومن کا فرض ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اللہ تعالے نے عالم رویا میں جناب تک ایک امر حق پہنچانے کی جو مجھے تحریک فرمائی ہے عالم بیداری میں اس تحریک کو پوراکردوں - اس مکتوب میں جو جناب کی رفعت شان اور عام مخلوق کی بہتری کے خیال سے چھپواکر جناب کی خدمت میں ارسال کیا گیا ہے اس خواب کادرج کرنا درست نہیں معلوم ہو تا ہاں اس قدر عرض کرتا ہوں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نےجناب کو اس سلسلہ کے متعلق ایک مبسوط تقریر کے ذریعہ واقف کیا ہے اور جو کچھ میں نے جناب کورویا میں کہا ہے اسی کا ایک حصہ جو مجھے یاد رہا مع کچھ زوائد کے اس مکتوب کے ذریعہ آپ کی خد مت میں پیش کر تا ہوں اللہ تعالیٰ اس مکتوب کو با بر کت کرے اور آپ کو بہت سے لوگوں کے لئے موجب ہد ایت کرے.آمین یا ربّ العالمین.جناب سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اسلام کی جو نازک حالت ان ایام میں ہے وہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہو ئی اور موجودہ حالت کو جب ابتدائے ایام کی حالت سے مقابلہ کر کے دیکھیں تو بدن پر رعشہ سا طاری ہو جاتا ہے کیونکہ ابتدائے اسلام کے احوال اور آج کل کے احوال میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ اسلام نہایت غربت کی حالت میں تھاآنحضرت ﷺ فداه
۸۵ ابی وامی تنِ تنہا اس پاک مذہب کی تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے نہ کوئی مولوی تھانہ عالم نہ واعظ نہ کوئی سلطنت اس دین کی حامی تھی نہ کوئی فوج و سپاه اس دین کو دشمنوں کے حملوں سےبچانے پر مامور تھی.بس وہی پاک و جود لاکھوں آفتوں اور کروڑوں مصائب کی موجودگی میں مکہ جیسے مقام میں (جس کے باشندوں کا واحد ذریعہ معاش بتوں کے استھانوں کی خد مت تھا اور جو کل عرب میں بتوں کے پجاری ہونے کی وجہ سے ہی معزز تھے ) شرک کی بیخ کنی کے لئے رات اور دن مشغول تھاچند نیک طبع اور سلیم الفطرت انسان اس کی پاک اور بے عیب تعلیم کو سن کر اس پر ایمان لے آئے تھے لیکن کل شوره پشت اور خبیث الفطرت انسان اس کے استیصال کے درپے تھے اورجس طرح بھی ہو اس کے دین کو مٹانے کے لئے ہر طرح سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے آخر آپ کےپیرؤوں کو وطن سے بے وطن ہوناپڑا اور خود آپ کو بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی مدینہ آپ کے لئے اور بھی مشکلات کا مقام ثابت ہوا اور وہاں آپ کے عزم اور استقلال نے اور بھی نمایاں طور پر اپنا کمال دکھایا.کفار مکہ کی مخالفت بدستور جاری رہی یہود و نصاریٰ اور منافقین کے تین نئے گر وہ بھی آپ کی ایذاءدہی پر استادہ و تیار ہو گئے.آج مسلمان دنیا کے ہر گوشہ پر آباد ہیں اور ہر طبقہ کے انسان اسلام میں داخل ہیں گو پہلی سی شان و شوکت نہیں رہی مگر پھر بھی ایک دو آزاد حکومتیں بھی مسلمان ہونے کا دم بھرتی ہیں لیکن دیکھا جا تا ہے کہ اکثر مسلمانوں کے دل اندر ہی اندر خون سے بیٹھے جاتے ہیں کہ اب اسلام کا کیا حال ہو گا ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان بشرطیکہ یورپ کی طاقت اور اس کی روزانہ بڑھنے والی رو کامطالعہ کر چکے ہوں اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کا مسیحیت کی رَو میں نہ بہنا اوراپنی حیثیت کو قائم رکھنا ناممکن ہے بہت سے احمق یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ایک سو سال کے اندراسلام دنیا کے پر دہ سے مٹ جائے گا اور واقعہ میں جس طرح اس زمانہ میں اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور ہر ایک مذہب اسلام کو اپنا شکار خیال کر رہا ہے وہ ظاہر بینّ انسانوں کو گھبرا دینے کے لئے کافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ گروہ جو زمانہ کی حالت سے واقف ہے اس وقت سخت مایوسی کی حالت میں ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے کی جد و جہد کو بھی مذبوحی حرکات سے زیادہ خیال نہیں کرتا یہ تو موجودہ زمانہ میں اکثر مسلمانوں کا حال ہے جو باوجود کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی کے اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں مگر اس کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہیں کہ آپ تنِ تنہادنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اس یقین سے معمور تھے کہ کل دنیاپر میں غالب آجاؤں گا
۸۶ قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھوں میں آئیں گی دنیا کے ہر کونہ میں اسلام پھیل جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو روک نہ سکے گی جو اسلام کی مخالفت کرے گا اور اس کے ترقی کرنے میں روک ہو گا وہ بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا قرآن کریم میں بھی متعدد آیات میں یہ ذکر ہے جیسا کہ فرمایا لاغلبن انا و رسلی (المجادلہ : ۲۲).چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تھوڑی ہی مدت میں اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا اور باوجودسب مذاہب اور سب اقوام کی متحدہ کوشش کے اسلام کی ترقی میں کوئی فرق نہ آیا اور اس نے ہرمذ ہب کو اپنے فاتحانہ بازوسے دبالیا.زمین پر لیٹنے والے اور خاک پر سونے والے سات سات وقت كافاقہ کرنے والے قرآن کریم کی اتباع اور آنحضرت ﷺکی صحبت کے طفیل کہاں سے کہاں پہنچ گئے کسی نے شاہانہ اقتدار حاصل کیا کوئی کسی ملک کا گورنر ہو گیا تو کوئی فتحمند افواج کا کمانڈر مقرر ہوا کی ترقی کی انسانی دماغ کی کوششوں کا نتیجہ نہیں معلوم ہوتی بلکہ اسے بنظر غور دیکھنے والا صاف معلوم کرتاہے کہ اس ترقی کا باعث کوئی آسمانی تائید اور نصرت تھی نہ زمینی تدابیر.دنیا نے چاہا کہ اسلام کو بڑھنے نہ دے مگرخداتعالی ٰنے چاہا کہ اسے بڑھائے پس مكروا و مکر الله والله خير اللمٰكرين (ال عمران :۵۵) لوگوں نے ہزاروں تدابیر کیں کہ کسی طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی کا خاتمہ کر کے اس خارق عادت ترقی کرنے والے مذہب کو اکھاڑ پھینکیں لیکن جعل كلمة الذين كفروا السفلی و كلمة اللہ ھي العليا ( التوبہ:۴۰) لوگوں کا لغض و کینہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ مذہب کے خلاف کیا کر سکتا تھا؟ اسلام ایک پتھرتھاکہ جس پر گرا اسے توڑ دیا اور جو اس پر گر اٹوٹ گیا.اسلام کے خادم دنیا کے مخدوم ہوگئے اسلام کے جاں نثار دنیا کے محبوب ہو گئے اسلام کے شیداؤں نے لاکھوں کو اپناو الہ و شیدا بنالیا.کسی انسان نے اسلام کا نام لے کر ناکامی اور نامرادی کا پھل نہ چکھا بلکہ جس نے اس کے دامن سے وابستگی کی کامیابی اور کامگاری ہی کا منہ دیکھا.خسران و تاب سے محفوظ ہو گیا اسلام نے ویران گھرانوں کو آباد کیاوحشیوں کو دنیا کی مہذب ترین قوموں پر فضیلت دی.اسلام ایک تریاق تھا کہ جس نےچکھا شکوک و شبہات اور وساوس کی امراض سے محفوظ ہو گیا.سنگ پارس تھا کہ جو اس سے چھواسونابن گیا نہیں بلکہ خود کیمیابن گیا جسے چُھو کرد ہ دل بھی جو لوہے کی طرح سخت تھے سونا بن گئے.غرض کہ اسلام سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ اسلام ہر گھر کے لئے شادابی اور شادکامی کا موجب ہوا اور
۸۷ کوئی نہ تھا جو کہتا کہ میں نے اسلام کے لئے کچھ چھوڑا اور گھاٹے میں رہا.قوموں نے اس سےبرکت پائی اور ملکوں نے اس سے فضیلت حاصل کی.اسلام سے پہلے سینکڑوں نہیں ہزاروں مذہب موجود تھے لیکن اس کامل مذہب کے ظاہر ہوتےمذاہب باطلہ کا طلسم ٹوٹ گیا اور سب مذاہب اس کے سامنے اس طرح ماند پڑ گئے جس طرح سورج کے سامنے ستاره یا برقی لیمپ کے سامنے پرانا دیسی چراغ.نہ تووہ مذاہب اسلام کا مقابلہ کرسکے جو فلسفہ اور حکمت کے زور سے دنیا پر فتح پارہے تھے اور اسلام کی سادگی ان پر غالب آگئی اور نہ وه مذاہب کچھ کر سکے جو باریک استعاروں اور لطیف تشبیہوں کی مدد سے لوگوں کے دلوں کومسخر کررہے تھے نہ وہ مذاہب کچھ کر سکے جو زبردست سلطنتوں کی مدد سے دنیا میں ترقی کر رہے تھے نہ ان مذاہب کوکو ئی کامیابی ہو سکی جو عیش و عشرت کے دروازے کھول کر لوگوں کو اباحت کی تعلیم دے رہے تھے ہر ایک کا لالچ ہر ایک نمائش ہر ایک آزادی ہرایک طمع سازی اسلام کے سیدھے سادے مذہب کے مقابلہ میں شکست پاگئی اور اسلام دنیا پر غالب آگیا ظاہری اور باطنی دونوں طریق سےاسلام فاتح ہؤاغیرمذاہب کی حکومتوں کی بجائے اسلامی حکومتیں ہو گئیں اور غیر مذاہب کو چھوڑ کرکروڑوں آدمی اسلام سے بغل گیر ہوئے.جو لوگ مسلمانوں کو دیکھتے اسلام کی صداقت کا اقرارکئے بغیر کوئی چارہ نہ پاتے.حتیّٰ کہ اسلام کی ترقی کے آخری زمانہ میں بھی مسلمان بادشاہوں کو ہندو رؤساء نے لڑکیاں بیاہ دیں حالا نکہ سناتن دھرم مذہب کسی ہندو کو مسلمان سے شادی تو الگ اس سے چھونے تک کی بھی اجازت نہیں دیتا اس زمانہ میں دین کا وہ چرچا نہیں جو مغلوں کی سلطنت کے زمانہ میں تھا اوراس وقت ہندو بادشاہوں میں وہ طاقت نہیں جو اس وقت بھی اس وقت وہ قریبا ًآزادہی ہوتے تھے اوران کے اختیارات اسوقت کے راجاؤں سے بہت زیادہ تھے لیکن اب کوئی ہندو راجا جو اپنے مذہب کا پیرو ہو کسی یورپین کو لڑکی دینا بھی پسند نہ کرے مگر مغل بادشاہوں سے راجاؤں کا لڑکیاں بیاہ دینا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ مسلمان کا رعب ایک خاص رنگ رکھتا تھا اور ان کے اندر ایک خاص کشش تھی.اکبر کی زندگی اس کابیّن ثبوت ہے.مگراس کے مقابلہ میں آج اسلام کی کیا حالت ہے ملک پر ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے نہیں بلکہ سب ملک وہ اپنے ہاتھوں سے دے چکے ہیں اور ایک ایک کر کے سب ممالک ان کے ہاتھوں سے چھینے جا چکے ہیں ملک اور قومیں تباہ ہوتی چلی آئی ہیں اور کوئی تاریخ سے واقف
۸۸ انسان کسی ملک کی تباہی پر حیران نہیں ہو سکتا کیونکہ جس طرح انسان مرتے ہیں اسی طرح ملکوں اور قوموں کی ترقیات پر بھی مرور زمانہ کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہتا جو قوم آج بر سر حکومت ہوتی ہے وہ كل ذلت اور ماتحتی میں عمر بسر کرتی ہے پس کسی قوم کی تباہی پر حسرت کا ظاہر کرنا نادانی کی علامت ہے لیکن ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف قوموں کی حکومت کا آنا ًفاناً تباہ ہوتے چلے جانا اور سب کا ایک ہی مذہب کے پیرو ہونا ضرور خاص معنی رکھتا ہے.ایک ملک کی مختلف ریاستیں بھی ایک وقت میں تباہی کی گھاٹ اتر سکتی ہیں کیونکہ مختلف حصص ملک کے حالات اکثرایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں لیکن ایک حکومت الجزائر میں ہے تو ایک مراکش میں ایک طرابلس میں ایک مصر میں ایک ہند میں ایک ایران میں ایک افغانستان میں ایک ترکستان میں ایک فلپائن میں ایک سوڈان میں ایک ابی سینیا میں اور یہ سب کی سب حکومتیں مختلف اوقات میں قائم ہو ئیں اورمختلف اقوام کے زیر اثر انہوں نے ترقی حاصل کی پھر ایک ہی وقت میں ان کا گر جانا اور اسلام کی بجائے حکومت کاغیرمذاہب کے قبضہ میں چلا جانا ثابت کرتا ہے کہ اس تنزل کے اندر کوئی خاص رازہے اور صرف واقعات روز مرہ کا یہ نتیجہ نہیں ہے نہ انسانی تدا بیر اس کا موجب ہو سکتی ہیں ان کا اثرایک ہی وقت میں مختلف ممالک اور مختلف اقوام کی مختلف الاصول حکومتوں پر بڑا قرین قیاس نہیں ہے اور اگر کہا جائے کہ نہیں ایسا ممکن ہے اور اس تنزل کا باعث محض دنیاوی اسباب ہیں اور کوئی پوشید ہ طاقت اس کے پیچھے کام نہیں کر رہی تو پھر اس متفقہ امر کا بھی انکار کرنا ہو گا کہ اسلام کو خارق عادت ترقی حاصل ہوتی ہے اور اس کے ابتدائی ایام کی ترقی کوئی امتیازی رنگ اپنے اندر رکھتی ہےکیونکہ یہی دعویٰ مخالفین اسلام کا ہے کہ اسلام کی ترقی کوئی معجزانہ رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی بلکہ ایک عام تر قی ہے اور اس کی کئی وجوہات وہ بیان کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل میں عرب ایک مدت تک آزاد رہ کر اس قسم کی استعدادیں پیدا کر چکے تھے کہ اس وقت کی متمدن قوموں پر جو اپنے ذہنی اور جسمانی قویٰ کو مدت ہائے دراز تک خرچ کرنے کے بعد اب تھک گئی تھیں فتح پالیتے اور یہ کہ آنحضرت اﷺکا قیصراور کسریٰ کے ممالک اور خزانوں کے فتح ہونے کی خبر دینا صرف عربوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مطالعہ اور ان دونوں سلطنتوں کے قریب آنے والے زوال کےآثار کے معائنہ کا نتیجہ تھاور نہ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہ تھی اسلام اگر نہ بھی ہوتا تب بھی وہ حکومتیں تباہ ہو جاتیں اور اگر مذہب کے رنگ میں محمد (ﷺ) صاحب قوم کو نہ رنگین کرتے تو کسی اور لیڈر کے ماتحت عرب ترقی کرتے اور ضرور کرتے مگر کوئی مسلمان اس بات کو ماننے کے
۸۹ لئے تیار نہیں بلکہ ہر ایک مسلمان کا یہ عقیدہ اور مذہب ہے کہ اسلام کی ترقی ایک غیر معمولی ترقی تھی اور ایسے حالات میں تھی کہ جن کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.اسلام کا ابھارنے والا خدا کا ہاتھ تھا اسے ترقی دینے والی وہ ذات تھی جو زمین و آسمان کی خالق ہے اور واقعات سے اسی عقیدہ کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں ہو کہ خود اس کے ہم قوم اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں اور اس کے اصحاب کو قضائےحاجت کے لئے باہر نکلنے کا راستہ نہ ملتا ہو اور غیر تو غیر خود منافق جن کی مسلمانوں کے خوف سے جان نکلتی تھی مسلمانوں پر طعنہ کرنے لگیں کہ تمہارے د عوے کہاں گئے اب تو تم کو قضائے حاجت کے لئے بھی جگہ نہیں ملتی وہ نہایت شدومد سے دعویٰ کرے کہ میرے ہاتھوں میں قیصر و کسری ٰکے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور ان کے محلات اور قصر پر میرے فرمانبرداروں اور غلاموں کا قبضہ ہو جائے گا.جس طرح اسلام کی ترقی کو معمولی علل و اسباب کا نتیجہ ظاہر کرناو اقعات سے منہ موڑنا ہے.اسی طرح اسلام کے تنزل کو عام تزل کے اسباب کے ماتحت کرنابھی ایک ظلم ہے مختلف ممالک اورمختلف اقوام کی حکومتوں کا جو ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتی ہوں نہایت قلیل مدت میں تباہ ہوجانا ضرور معنی خیز ہے اور لازمی طور پر ایک چشم بصیرت رکھنے والے کو اس طرف متوجہ کر دیتا ہےکہ اس کا کوئی خاص سبب ہے اور وہ سب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس طرح اسلام نےاللہ تعالیٰ کی تائید اور مددسے غارت عادت ترقی کی تھی.اسی طرح مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کو نا راض کرکے خارق عادت تنزل کا منہ دیکھاا نا لله وانا اليه راجعون اور جبکہ ہم احادیث نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھتے ہیں تو ان میں اس زمانہ کی طرف خاص اشارہ پاتے ہیں اور وہاں سے بھی ہمیں اس تمام تباہی کا ایک ہی باعث معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان خد اتعالیٰ کو ناراض کر دیں گے.ایک اور امر بھی قابل غور ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے تہوّر اور شجاعت میں کچھ فرق نہیں آگیا بلکہ صحابہ کے زمانہ کو ایک طرف رکھ کر کہ وہ ایک مستثنیٰ زمانہ تھا اس وقت کے مسلمان لشکروں نے پچھلے اسلامی بہادروں سے کچھ کم جاں فشانی کے کام نہیں دکھائے.اگر موجودہ زمانہ میں مسلمان حکومتوں کو دو سری حکومتوں کے سامنے شکست کھانی پڑتی ہے تو اس کی وجہ مسلمان سپاہیوں کی بزدلی نہیں بلکہ عام طور پر دیکھا جا تا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر نے دشمن سے بڑھ کرمصائب برداشت کر کے ثابت قدمی کو ترک نہیں کیا مگر پھر بھی ایسے ایسے بواعث پیدا ہوتے رہے
۹۰ ہیں کہ باوجود بہادری کے اعلی ٰسے اعلی ٰجوہر دکھانے کے مسلمانوں کو شکست ہی ہوئی اور بجائے دشمن کا ملک چھیننےکے کچھ اپنا ملک ہی اسے دینا پڑا.اگر پچھلی صدی کی اسلامی جنگوں کا غور سےمطالعہ کیا جائے تو بجائے ظاہری بواعث کے زیادہ تر پوشیده بواعث ہی نکلیں گے کہ جو اسلامی حکومتوں کی نعمتوں کا باعث ہوئے بہت کثرت سے ایسے معرکے ہوئے ہیں کہ ہر طرح اسلامی لشکرکامیاب و مظفر رہا لیکن انجام کار کوئی ایسی بات پیش آگئی کہ آخری میدان دشمن کے ہاتھ رہا.پس ان واقعات کے ہوتے ہوئے صاف اقرار کرنا پڑ تا ہے کہ ان نقصانات کی تہ میں دنیاوی اسباب کےعلاوہ کوئی پوشیدہ سبب بھی ہے اور و ہ وہی امر ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا اس وقت اول تو کوئی ایسی اسلامی سلطنت ر ہی ہی نہیں کہ جسے حقیقی معنوں میں سلطنت کہا جا سکے اور اگر کوئی ہے تو وہ بجائے مسلمانوں کے سکھ کا باعث ہونے کے ان کے لئے دکھ کاباعث ہو رہی ہے عام طور پر حکومتیں لوگوں کے سکھ کا باعث ہوتی ہیں اور بادشاہ کے ہم مذہب اس حکومت کو اپنے مذہب کے لئے ایک پشت پناه سمجھتے ہیں لیکن اسلامی حکومتیں بجائے مسلمانوں کے آرام کا ذریعہ ہونے کے ان کے لئے دکھ کا باعث ہوگئی ہیں اور آئے دن ایسے مصائب میں مبتلاء رہتی ہیں کہ ان کے ساتھ کل دنیا کے مسلمان بھی انگاروں پر لوٹتے ہیں پس یہ حکومتیں سکھ تو کیا پہنچا سکتی ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کا ہمیشہ کے لئے غم و الم سے پالا پڑگیاہے.غرض یہ کہ ظاہری حالت مسلمانوں کی ایسی کمزور ہے کہ دنیادار انسان بے اختیار بول اٹھتا ہے کہ اب اس مذہب کا خاتمہ ہے اور یہ کہ اسلام کے لئے تھوڑے دنوں کے بعد کوئی جگہ سر چھپانے کو بھی نہ ہوگی اور ہرایک درد منددل اس کیفیت کو دیکھ کر ضرور کڑھتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ کونسا مسلمان ہو گا جو اس حالت کو دیکھ کر غمگین نہ ہو تا ہو لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ہے جو اور بھی کمر کو توڑنے والی ہے.ظاہری حکومتوں کا چلے جانا بھی ایک عظیم الشان مصیبت ہے کیونکہ ان دنیاوی سامانوں سےبھی دین کو ایک حد تک تقویت ہوتی ہے لیکن اگر یہ نہ ہوں اور انسان کو امن کی زندگی مل جائے تووہ بھی ترقی کے لئے بہت ممد و معاون ہوتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انبیاء اللہ تعالی ٰکی طرف سے ایسے بھی مبعوث ہوتے رہے ہیں کہ جن کو ساری عمر حکومت نہیں ملی اور وہ دوسری حکومت کے ماتحت ہی گزارہ کرتے رہے جیسے زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ علیھم السلام.پس اگر حکومت ہی دین کی تقویت کا واحد ذریعہ ہوتی تو ان انبیاء کو بھی ضرور کسی نہ کسی وقت حکومت مل جاتی پس انبیاء کا
۹۱ اپنی ساری عمر حکومت سے علیحدہ رہنا ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے حکومت کے علاوہ اور بھی ایسے ذرائع مقرر فرمائے ہیں جومذہب کی ترقی اور تقویت کا باعث ہوتے ہیں پس یہ ظاہری کمزوری ایسے دکھ کاباعث کبھی نہ ہوتی جس قدر کہ مسلمانوں کی دینی کمزوری تکلیف کا موجب ہے اس وقت کم سے کم برٹش گورنمنٹ کے زیر سایہ ممالک میں مسلمان ہر طرح آزاد ہیں اور انہیں مذہبی مراسم کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تکلیف نہیں.مساجد میں بلند آواز سے اذان کہی جاتی ہے اور پنج وقتہ نماز ادا ہوتی ہے لوگ روزہ رکھتے ہیں حج کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں.گورنمنٹ نے کبھی کسی طرح بھی مذہبی دست اندازی نہیں کی اور ہر طرح کی مذہبی آزادی دے رکھی ہے اور ممالک کو اگر علیحدہ رکھیں تو ہندوستان کی حالت ہم سے پوشیدہ نہیں کہ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری کہ مرہٹوں اور سکھوں کے زمانہ حکومت میں مسلمانوں کو کس قدر تکالیف تھیں اور کس طرح ان کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں دست اندازی کی جاتی تھی مسجدوں کی بجائے گوردوارہ اور مند ربنے ہوئےاب تک موجود ہیں خودہمارے گاؤں یعنی قادیان میں ایک گوردوارہ ہے جو پہلے ہمارے گھر کی مسجدتھی لیکن جب سکھوں نے ہمارے دادا کے والد کو رات کے وقت چھاپامار کر شہر سے نکلنے پر مجبور کیاتو ان کے ایام حکومت میں یہ مسجد گوردوارہ بنائی گئی.اب تک محرابوں کے نشان موجود ہیں سقاوے بنے ہوئے ہیں.پس ہم لوگ خوب جانتے ہیں کہ ظالم حکومت کیا کچھ نہیں کر سکتی اور یہی وجہ ہے کہ ہم گو ر نمنٹ برطانیہ کے احسانات کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے ہیں اور جس طرح اس مہربان گورنمنٹ نے مذہبی آزادی دے رکھی ہے اس کے شکریہ کی اپنے اندر طاقت نہیں پاتے اللہ تعالیٰ ہی اس محسن حکومت کو اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات عطا فرمائے نہایت سیاه باطن ہے وہ انسان جواس گورنمنٹ کے احسانات کو نہیں مانتا اور باوجود اس قدر آزادی کے اس سے بغض رکھتا ہے مگریہی گورنمنٹ کا احسان دل پر نمک بھی چھڑکتا رہتا ہے کیونکہ جب دیکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اس پُر از انصاف عہد سے فائدہ نہیں اٹھایا اور جو مذہبی آزادی اس گورنمنٹ نے عطا فرمائی تھیاس کی قدر نہیں کی.چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اس وقت اور اس امن سے فائدہ اٹھا کر دینی طور پر ترقی کرتے لیکن وہ روز بروز گرتے ہی چلے جاتے ہیں اور اس بات کے ثبوت کے لئے حکومت کےجیل خانے کافی شہادت ہیں.کس قدر دل کو دکھ پہنچانے والا بلکہ دل کو خون کردینے والا وہ نظارہ ہوتا ہے جب کوئی مسلمان جیل خانوں کی سیر کرتا ہے کیونکہ سب جیل خانے مسلمانوں سے بھرےپڑے ہیں اور ان کی اخلاقی حالت بجائے دوسری قوموں سے اعلیٰ ہونے کے بہت ادنی ٰ ہے اور وہ
۹۲ اسلامی آبادی کے تناسب سے بہت زیا دہ قید خانوں میں نظر آتے ہیں ان کے گناہ بھی کوئی معمولی نہیں ہوتے گندے سے گندے اور بد سے بد اعمال کے بدلہ وہ سزائیں بھگت رہے ہیں چوریاں،ڈاکے، زنا بالجبر آوارگی ،غداری‘ خيانت ،مجرمانہ دھوکہ دہی ، ٹھگی ،استحصال بالجبر، جعلسازی وه کونسا گناہ ہے جس کے مسلمان مرتکب نہیں اور یہ تو وہ گناہ ہیں جن پر گورنمنٹ کی طرف سےمواخذہ ہو تا ہے ورنہ اور ایسے بہت سے گناہ ہیں کہ جن کے ذکر سے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن مسلمان ان کے مرتکب ہو رہے ہیں حتی ّٰ کہ بعض موقع پر محرمات کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا جا تا.دین سے وہ بے پروائی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں امراء عیاش اور دنیا طلبی میں مشغول ہیں صوفیاء گانے اور قوالی سننے میں مصروف ہیں علماء جھوٹے فتوے دیتے ہیں وعظ بھی کہتے ہیں لیکن خود عمل نہیں کرتے.نئے تعلیم یافتہ خود وجود باری سےمنکر ہیں اور اپنی خاص مجالس میں ہستی باری کے عقیدہ کو ایک لغو اور بے ثبوت عقیدہ قرار دیتے ہیں.دین کو وہم اور شریعت کوقید خیال کرتے ہیں عوام ان جماعتوں میں سے جس کے ساتھ تعلق ہو اسی کے رنگ میں رنگین ہیں جس قدر فاحشہ عورتیں مسلمانوں میں سے ہیں جو عصمت فروشی پر فخر محسوس کرتی ہیں غیر قوموں میں اس کی نظیر نہیں ملتی.پس یہ حالت ایسی نہیں ہے جسے دیکھ کر ایک درد مند دل بے اختیار نہ ہو جائے.نام ہی اسلام کا رہ گیا ہے ورنہ کام کے لحاظ سے تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہا.اس میں کوئی شک نہیں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کچھ تجارتی اور علمی ترقی کی ہے لیکن اسے اسلام کی ترقی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اسلام کی بعثت کی اصل غرض دنیا کی ترقی یا اموال دنیا کی زیادتی نہ تھی بلکہ اس کا اسلام کے مدعا اور مقصد کے ساتھ کوئی تعلق یا رشتہ ہے ہی نہیں وہ مذہب قطعاًمذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہے دنیاوی ترقی کو اپنا متہاء ومقصد ظاہر کرے کوئی ایسامذہب ہو کسی خاص قوم یا ملک سے تعلق رکھے جیسا کہ اسلام سے پہلےمذاہب تھے ان کا مدعاتو دنیاوی ترقی ہو بھی سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک وقت کوئی قوم ذلیل اور خوار ہو اور مذہب کی آڑ میں اپنی حکومت جمانا چاہے لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہے کہ میں سب دنیا اورسب اقوام کے لئے ہوں.بحیثیت مذہب اسلام کے لئے عرب، رومی اور ایرانی ایک سے ہیں.پس اگر اسلام کا مدعا صرف اتناہی ہو کہ دنیا میں بادشاہتیں قائم کی جائیں تو یہ کام پہلے ہی ہو رہا تھا.رومیوں اور ایرانیوں کی زبردست حکومتیں قائم تھیں.ہند و چین بھی دنیاوی حالت میں کمزور نہ
۹۳ تھے پس اگر اسلام کا مدعا دنیاوی ترقی تھا تو پھر اسلام کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مسلمانوں کے خزانوں سے قیصروکسری ٰکے خزانے زیادہ معمور تھے اور اسلامی دربار کی سادگی ایرانیوں اور رومیوں کے درباروں کے تکلفات کا قطعا ًمقابلہ کر ہی نہیں سکتی تھی پس یہ خیال کرناکہ اسلام کامد عادنیاوی ترقی تھا اور اس کے نزول کی غرض صرف قوموں کو ابھار کردنیا کمانے اوراس میں مسابقت تھی اسلام پر ایک ظلم عظیم ہے اور کوئی کور چشم ہی یہ دعوی ٰکرے تو کرے اور کسی کا حق ہی کیا ہے کہ وہ ایسی لغو بات اسلام کی طرف منسوب کرے جبکہ خود قرآن کریم آنحضرتﷺ کی بعثت کی غرض یہ بیان فرماتا ہے کہ كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (البقرہ:۱۵۲-۱۵۳) جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں لوگوں میں سے ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ تم پر ہمارے دلائل و براہین پڑھتا ہے اور اس طرح تم کو پاک کرتا اور مدارج عالیہ کی طرف بڑھاتا اور اٹھاتا ہے اور تم کو شریعت سکھاتا ہے اور پھر احکام شریعت کے باریک در بار یک حکم اور پوشیده اسرار پر واقف کرتا ہے اور صرف وہی تعلیم نہیں دیتا جو کہ پہلے صحیفوں میں پائی جاتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسی تعلیم دیتا ہے جو تم لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھی پس تم لوگ میرا ذکر کرو تاکہ میں بھی تمہیں اپنے دربار میں بار دوں اور میرے انعامات پر جواس رسول کے ذریعہ سے تم پر کئے ہیں شکر بجالاتے رہواور میری ناشکری نہ کرنا.پس اسلام لوگوں کو علم و حکمت اور دلائل و براہین امور ایمانیہ غیبیہ اور طریق تزکیہ نفوس اور حصول مدارج عالیہ اور وہ معارف جو قرب الہٰی کے حصول میں انسان کے ممد ہوں سکھانے کے لئے آیا ہے نہ اموال دنیا کے اکتساب اور حکومت و سلطنت کے قیام کے طریق سکھانے کے لئے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے اور اپنے کامل ہونے کی وجہ سےانسان کو کسی ایسے ضروری امر سے جو انسان کی ترقی میں کسی راہ سے بھی ممد ہو نہیں روکتا اور جہاں دینی ترقیوں کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے وہاں دنیاوی ترقیات کے حصول کی بھی ترغیب دیتا ہےاور تمام انسانوں کو معزز اور مکرم ہونے کی تاکید کرتا ہے کوئی علم مفید نہیں جس کے سیکھنے میں اسلام مانع ہو بلکہ علوم مفیدہ کے حصول کے لئے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں مسلمانوں کو بار بار تاکید کی گئی ہے اسی طرح تجارت اور صنعت و حرفت کی ترقیوں سے بھی بجائے منع کرنے کے
۹۴ اسلام نے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے.اسلام اس عقیدہ کا سخت دشمن ہے کہ دولت مند خد اکی بادشاہت میں نہیں داخل ہو سکتے اوریہ کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ سے گزرنا بہت آسان ہے اس سے کہ کوئی دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو بلکہ اسلام تو غریب وامیر کامذہب ہے اور کسی خاص فرقہ سے متعلق نہیں.زکوٰة کے احکام بتارہے ہیں کہ اسلام روپے جمع کرنے سے بھی منع نہیں کرتا اور اپنی دولت لٹا کر اس میں داخل ہونے کا طالب نہیں اور یہ نہیں کہتا کہ تو کل کی مگر آج نہ کربلکہ قرآن کریم کا تو حکم ہے کہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد (الحشر: ۱۹)انسان کو کل کی فکر آج کرنی چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ میں نے کل کے لئے آج کیا سامان کئے ہیں.ہاں اسلام ہر قسم کے وہموں اور دور اَز کار خیالوں سے بھی روکتا ہے کیونکہ وہ انسانی ترقیات کے راستے میں روک ہوتے ہیں اور قبل از وقت روح انسانی کو گھن ہو کر لگ جاتے ہیں.غرض کہ اسلام دنیاوی ترقیات سے روکتا نہیں بلکہ ان کی طرف رغبت دلاتا ہے مگر باوجو داس کے یہ کہنا ایک ظلم عظیم ہو گا کہ اسلام کی غرض دنیاوی ترقیات تھی کیونکہ یہ مقصد تو بغیر کسی مذہب کے بھی حاصل ہے اگر اسلام نہ آتا تو کیا لوگ دنیا کی طرف متوجہ نہ ہوتے بلکہ قرآن کریم سے تومعلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی تمام تر توجہات دنیا کے حصول کی طرف دی گئی ہوئی تھیں جیسا کہ فرمایا الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا (الکھف : ۱۰۵) یا فرمایا ہے کلا بل تحبون العا جلة وتذرون الأخرة ( القيامہ: ۲۱،۲۲) یا فرمایا ہے کہ بل تؤثرون الحيوة الدنيا والأخرة ځير وابقی.(الا على : ۱۷-۱۸) اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ انسان عام طور پر بہیمی صفات کی طرف خود بخودما ئل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں جو بہیمی خواہشات ہیں وہ اپنے اندر ایک نہایت عاجلانہ لطف رکھتی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ لوگ جسمانی آرام کی خاطربہت سا وقت خرچ کر دیتے ہیں اور بہت ہوتے ہیں جوکھانے پینے یا پہننے کے آرام کی فکر میں ہی اپنی ساری عمر صرف کر دیتے ہیں اور ان کی رات دن کی محنتیں اور کوششیں صرف ان کے بہیمی جذبات کو پورا کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور چونکہ ان جذبات کا پورا کرنا زیادہ تر دنیا کے اموال و امتعہ کے حصول پر مبنی ہے اس لئے لوگ دنیا کی طرف بہت متوجہ ہوتے ہیں اور جسقدرحق سے دور ہوں اور معرفت الہٰی سے خالی ہوں اسی قدر دنیا کے کمانے میں منہمک اور مشغول ہوتے ہیں کیونکہ اس کے کمانے میں ان کے بہیمانہ جذبات کے پورا..
۹۵ ہونے کے سامان پیدا ہوتے ہیں اور اموال وامتعہ کا حاصل کرنااسی باعث سے ہوتا ہے انسان اپنے جسم کو آرام پہنچائے اور ان بہیمی خواہشات کو پورا کرے جو انسان میں اکثراوقات بڑے زور سے پیدا ہوتی رہتی ہیں.پس جو کام انسان کے اندر خود بخوبی ہو رہا ہے بلکہ مذہب سے دور ہو کر جوانسان کی واحد غرض ہو جاتی ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ اسلام کا مدعا اس طرف متوجہ کرنا ہےاسلام کو عبث قرار دینا ہے کیونکہ جو کام اسلام کے وجود سے بھی پہلے سے ہو رہا ہے بلکہ اسلام کوترک کر کے لوگ اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں جیسے کہ مذہب سے آزادا قوام ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک یہی مقصد ہے کہ وہ دنیا کمائیں اور اپنے نفسانی جذبات کو پورا کریں اور کھانے پینےاور پہننے اور آرام سے زندگی بسر کرنے میں ہی اپنے دلوں کی خوشی پاتے ہیں اس کو اسلام کی غرض وغایت قرار دینا گویا اسلام کو فضول اور لغو قرار دیا ہے پس اگر دنیاوی ترقی یا بہیمی جذبات اور نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے سامان مہیا کرنے کی طرف متوجہ کر ناہی اسلام کی اصلی غرض ہے تو یہ غرض اسلام کے بغیر بھی پوری ہو رہی ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہ تھی خود نفس انسانی اس کے لئے کافی محّرک ہے.پس اس زمانہ میں مسلمانوں نے اگر بعض عادل اور انصاف پسند حکومتوں کے ماتحت یورپ کی دنیاوی ترقی کو دیکھ کر تجارت میں ترقی کی ہے یا علوم جدیدہ کے سیکھنے میں کچھ دلچسپی ظاہر کی ہے توخواہ وہ ترقی کے آخری نقطہ تک ہی کیوں نہ پہنچ گئے ہوں اسے اسلام کی ترقی نہیں کہہ سکتے اورمسلمانوں کا علوم جدیدہ میں مہارت پیدا کرلینا یا تجارت میں کوشش کرنا اسلام کی ترقی نہیں کہلاسکتاکیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے اس ترقی کا اسلام کی ترقی سے کچھ تعلق نہیں اور اسے دیکھ کر خوش ہونا اور اسلام کے مستقبل پر اطمینان ظاہر کرنا اول درجہ کی نادانی اور اسلام کی اصل حقیقت سے بے خبری کی علامت ہے کیونکہ اگر اسلام کا مقصد یہی تھا تو اس مقصد کو یورپ کے لوگ کافی طور پر پورا کر رہے ہیں بلکہ ان کی توجہ دنیا کی طرف مسلمانوں سے بہت زیادہ ہے حتیّٰ کہ مسلمانوں کی تجارتی اور علمی ترقی کو یورپ کے مقابلہ میں ایک پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ٹیلہ کی نسبت بھی نہیں دی جاسکتی ہیں سخت غلطی خوردہ ہیں وہ انسان جو مسلمانوں کی ذہنی یا علمی یا تجارتی ترقی کو اسلامی ترقی کہہ کر خوش ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو ان شعبہ ہائے ترقی کی طرف متوجہ کرتےرہتے ہیں اگر وہ سمجھتے کہ ان امور کا اسلام سے کیا تعلق ہے.میں جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں اسلام ایک صادق مذہب ہونے کی وجہ سے انسانی دماغ کے تمام مفید خیالات کے پورا کرنے کا ممد و معاون
۹۶ ہے اور کسی قسم کی ترقی سے روکتا نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہر قسم کے علوم سیکھنے اور ہر رنگ میں ترقی کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر باوجود اس کے ان ترقیات کو اسلام کی ترقی نہیں کہا جا سکتا اور اگرمسلمان ان میدانوں میں اپنے دشمنوں کو شکست بھی دے دیں تب بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام کی فتح ہوئی.پس اسلام کسی اور ہی چیز کا نام ہے اور وہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے یعنی اللہ تعالے کی کامل فرمانبرداری اور اس کے احکام کی پوری پوری اتباع اور رب العالمین خدا سے انسان کے تعلق کامضبوط کرنا اور یہی غرض ہے جس کے پورا کرنے کی طرف آنحضرتﷺ ساری عمر متوجہ رہےآپ کی زندگی کا ایک ایک کام اور آپ کی ایک ایک حرکت اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ آپﷺکے مد نظر صرف یہی بات تھی کہ کسی طرح دنیا پر عظمت الہٰی کا اظہار ہو اور لوگ ہر قسم کے نفسانی جذبات اور خواہشات کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں اور ان کا چلنا پھرنا کھانا پیناسونا جاگناسب اللہ تعالی ٰکے لئے ہی ہو جائے.ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہو کر عرفان تام ان کو حاصل ہو اور بندوں اور اب میں جو رو کیں اور پردے حائل ہیں دور ہو جائیں اور بندےاپنے خالق و رازق کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں اور یہی کام تھاجو آپ ساری عمر کرتے رہے پس اگر مسلمانوں میں ان باتوں کا فقدان ہو اور وہ ان اغراض کو پورا نہ کر سکیں تو ان کی حکومتیں ہوں یا نہ ہوں ،تجارتوں میں ترقی کریں یا تنّزل علوم جدیدہ سے واقف ہوں یا نہ ہوں اسلام کو ان کی ترقی یا تنّزل سے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے کیونکہ جب ان میں اسلام ہی نہ ہو تو ان کی کسی ترقی پر اسلام کے دلداد گان کو کیا خوشی ہو سکتی ہے اور دنیاوی ترقیات پر جن میں اہل یورپ ان پر فضیلت رکھتے ہیں ہم کیونکر خوش ہو سکتے ہیں اسلام کی اصل غرض جب تک پوری نہ ہو تو اور سب کچھ ہیچ ہے اور جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو جو اسلام کی اصل غرض ہے اس سے مسلمان روز بروز دور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ اکثر توایسے ہیں جو اس قدر بھی نہیں جانتے کہ اسلام کی اصل غرض کیا ہے وہ مسلمان کہلاتے ہیں لیکن مسلمان ہونا ان کے لئے ایک قوم سے زیادہ وقعت نہیں رکھتاوه خیال کرتے ہیں کہ اسلام ایک بڑی قوم کا نام ہے جس کے اندر اور چھوٹی چھوٹی قومیں ہیں اور مسلمان کہلانے کا اس سے زیادہ مطلب نہیں کہ ہم مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں اور جبکہ اصل غرض سے لوگ روز بروز دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور لیڈران قوم بھی اسلام کی ترقی کو دنیاوی ترقی کے مترادف خیال کرتے ہیں تو اسلام کے بہی خواہوں کو خوش نہیں بلکہ رنجیدہ ہو نا چاہئے کہ
۹۷ جو اصل غرض تھی وہ تو مفقود ہو گئی اور ادنی ٰ باتوں کی طرف لوگ متوجہ ہو گئے.اس وقت مسلمانوں کے لیڈران قوم کی ایسی حالت ہے کہ جیسے ایک شخص مر رہا ہو اور اس کے دوست اس کے ناخن کاٹنے اور بال سنوارنے میں مشغول ہوں اور ساتھ ساتھ خوش ہوتےجائیں کہ دیکھو اب چہرہ کیا خوبصورت معلوم ہوتا ہے.اگر وہ اس کے علاج کی طرف متوجہ نہ ہوں گے تو وہ مر جائے گا زینت تو زندگی کے ساتھ ہے اگر وہ زندہ ہی نہ رہا تو اس زینت سے کیا فائده- پس جب اسلام ہی ہاتھ سے جا رہا ہے اور مسلمان روز بروز دین سے بے بہرہ ہو کر طرح طرح کے گندوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ پرسے ایمان ان کے دلوں سے اٹھ رہا ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان کہلاتا بھی ہے تو صرف رسمی طور پر تو دنیاوی ترقیات کی طرف متوجہ ہونا یا ان پر خوش ہونا فعل عبث ہے اصل غرض تو مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کا پیدا کرنا ہے اگر اس سے مسلمان دور ہو گئے تو ان کی ترقیات ہمارے لئے ہرگز ہرگز خوشی کا باعث نہیں، اسلام مسلمانوں کی جان ہے جب وہی نکل گئی تو ان زینتوں کو کیا کرنا ہے یہ تو زندگی کے ساتھ ہیں جب زندگی کا پانی ختم ہو گیا تو یہ سب ز ینتیں بجائے سکھ کے دکھ کا موجب ہیں مگر افسوس کہ بجائے اسلام کے قیام کے مسلمانوں کی توجہ کام دنیوی کی طرف لگ رہی ہے اور جو وجاہت حکومتوں کے زوال کی وجہ سے جا چکی ہے اسے تجارت میں ترقی اور علوم جدیدہ کے حصول سے پورا کرنا چاہتے ہیں اگر وہ اصل مقصد کی طرف بھی توجہ رکھتے اور ساتھ ہی دنیاوی مقابلہ بھی جاری رہتا تو اس میں کچھ حرج نہ تھا مگر اصل مقصد کو بالکل نظر انداز کر کے دنیاہی میں غرق ہو جانا اور اصل مرض کا ترقی کرتے جانا خطرناک علامات سے ہے.اسلام سے بے پروائی کا جو نتیجہ اب تک نکل چکا ہے وہی انسان کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی سے زیادہ ہے.ہزاروں مسلمان ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب اختیار کر چکے ہیں اور جن کے باپ دادا اپنی تمام عزت و عظمت اسلام پر عمل کرنے میں پاتے تھے اب ان کی اولاد اسلام میں ہزاروں عیب بتاتی ہے اور تو اور خود سادات میں سے بیسیوں خاندان مسیح ہو چکے ہیں او روہی قوم جس کی آنحضرت ﷺ کے طفیل تیرہ سو برس تک عزت ہوتی چلی آئی ہے اب اسی میں سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اس پاک وجود کو سٹیجوں پر کھڑے ہو کر گالیاں دیتے ہیں اور اسلام سے على الاعلان بیزاری کا اظہار کرتے ہیں.اگر نظرغائر سے مسلمانوں کی حالت کا مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسے مسلمان ملیں گے جو اسلام سے بے خبری نہیں اس سے متنفر ہو چکے ہیں اور یہ
۹۸ حالت صرف ہند کی ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کا یہی حال ہے حتّٰی کہ جو اسلامی ممالک کہلاتے ہیں ان میں بھی دین کی ایسی ہی بے قدری ہے جیسے دوسرے ممالک میں.اسلام ایک قشرکی طرح رہ گیا ہے اور بجائے ایک قابل تعریف مذہب کے قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے اور جومذہب مرجع خلا ئق تھا اوريدخلون في دين اللہ افواجا (النصر: ۳) جس کی شان میں اللہ تعالی ٰنے فرمایا تھااب يخرجون من دين اللہ ا فواجا کا مصداق بن رہا ہے لاکھوں آدمی اس دین سے پھر گئے ہیں اور جو مسلمان کہلاتے ہیں ان میں سے بھی اکثر بظا ہرہی مسلمان نظر آتے ہیں مگر ان کے دل یا توایسے ہی اسلام سے متنفر ہو چکے ہیں جیسے ان کے جو اسلام کا نام بھی ترک کر چکے ہیں یا کم سے کم وہ اسلام سے ایسے ناواقف ہیں کہ اس کی حقیقت سے مسیحیوں اور ہنود کی طرح بے خبر ہیں.ہزاروں ہیں جو کلمہ توحيد تک سے ناواقف ہیں اور یہ باتیں مبالغہ سے بالکل خالی ہیں اور ان میں بناوٹ کا کچھ دخل نہیں اور وہ لوگ جن کو ان امور سے دلچسپی ہے جانتے ہیں کہ واقعہ میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہی ہو رہی ہے پس زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ان ایام میں مسلمان ہی نہیں بلکہ اسلام کا بھی تنزل ہو رہا ہے کیونکہ اسلام دلوں سے مٹ چکا ہے.اگر صرف ظاہری حکومتیں جاتیں تو ہم کہتے کہ یہ ایام مسلمانوں کے لئے ایام الابتلاء ہیں لیکن واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ نہیں مسلمانوں کے لئے ہی نہیں خود اسلام کے لئے بھی یہ ایام ایام الابتلاء ہیں کہ اس کے نام کے سوالوگ اس سے کچھ واقفیت نہیں رکھتے.شاید یہ کہا جائے کہ اس وقت بھی ہزاروں لاکھوں نمازی موجود ہیں مساجد میں پنج وقتہ نمازیں ہوتی ہیں جن کے دنوں میں لاکھوں آدمی حج کے لئے جاتے ہیں روزوں کے ایام میں لاکھوں مسلمان روزہ رکھتے ہیں بہت سے مالدار ہیں جو ز کو ٰۃبھی ادا کرتے ہیں پس گو بہت سے لوگ اسلام سے بے خبر ہیں لیکن ایک حصہ ایسا بھی تو ہے جو اسلام سے واقف ہے اور اسلام کے کل احکامات پر عمل کررہا ہے لیکن یاد رکھنا ہے کہ نبیوں کی بعثت کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ لوگ کسی خاص رنگ میں عبادت کرلیا کریں یا اپنے وطنوں کو ترک کر کے کسی ملک کی سیر کر لیا کریں یا سال میں کچھ دن بھوکےرہیں یا اپنے اموال کا ایک حصہ تقسیم کر دیں کیونکہ بلا وجہ انسان کو ان مشقتّوں سے مکلّف کر نالغو کام ہی نہیں بلکہ ضرررسانی میں داخل ہے پس اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے مگر نماز کے فوائد سےمحروم ہے اور اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں تو اس کی نماز کی خوشی کا باعث نہیں.اسلام کے سوا اور مذاہب کے پیرو بھی عبادت کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان کی عبادات ان ثمرات کی مثمر نہیں
۹۹ ہوتیں جن کی مثمر ایک مسلمان کی عبادت ہوتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس مغز سے خالی ہیں جو اسلامی عبادت میں ہے بلکہ وہ ایک قشر ہے جو بظاہر اسلامی عبادت سے ملتا ہے لیکن اندر سے ان فوائد سے خالی ہے جو اسلامی عبادت میں ہیں پس اگر مسلمانوں کی نماز بھی اس حقیقت سے محروم ہوجائے جس کی وجہ سے اسے دوسرے مذاہب کی عبادات پر فضیلت تھی تو اس میں اور دیگر مذاہب کی عبادات میں کچھ فرق نہیں بلکہ مشقت کے لحاظ سے وہ اس سے زیادہ ہیں کیونکہ دیکھا جا تا ہے کہ اہل ہنود میں عبادت کے ایسے ایسے طریق رائج ہیں جن کی مشقتّوں کا مقابلہ اسلامی نماز قطعاً نہیں کر سکتی.مثلاً بعض ان میں ایسا کرتے ہیں کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں اور جونہی کہ سورج نکلتا ہے اسکی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ منتر پڑھتےجاتے ہیں اور شام تک اسی طرح کھڑے سورج کو دیکھتے رہتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی آنکھوں کو اس سے نہیں پھیرتے حتیّٰ کہ وہ غروب ہو جاتا ہے یا مثلاًً یوں کرتے ہیں کہ جاڑے کےموسم میں سرد پانی میں کھڑے ہوئے تپسیا کرتے ہیں اور گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھ کر اپنےاردگرد آگ کے الاؤجلا لیتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو عذاب دوزخ میں مبتلاء کر لیتے ہیں پس مشقت کے لحاظ سے ان کی عبادات اسلامی عبادات سے بڑھ کر ہیں پھر اگر مسلمانوں کی نماز بھی مغز سے خالی ہو جائے تو اس کو ان عبادات پر کوئی فضیلت نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰنے اسلامی نماز کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر – (العنكبوت : ۴۶) نماز انسان کو بے حیائیوں اور مکروہ افعال سے باز رکھتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر سوائے شاذو نادر کے مسلمان مساجد میں جاکر نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور نہ صرف فرض نمازیں بلکہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں اور پھر مسجد سے نکل کر کسی قسم کے گناہ سے ان کو پر ہیز نہیں ہو تا جھوٹ وہ بولتے ہیں رشوت وہ لیتے ہیں، فریب وہ کرتے ہیں، خیانت سے ان کو پرہیز نہیں تجارتی دھوکوں سے وہ مجتنب نہیں غرض کہ ہزاروں قسم کے گناہوں میں مبتلاء ہیں پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان نمازیں ادا کرتے ہیں اگر وہ نماز کو انہی شرائط کے ساتھ ادا کرتے جو اسلام نے مقرر کی ہیں تو ان کے قلوب پاک ہو جاتے اور گناہوں کی میل دور ہو جاتی اور ہر قسم کے گناہوں اور بدیوں سے محفوظ ہو جاتے کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ نے اسی حکمتیں مخفی رکھی ہیں کہ اسے سنوار کر پڑھنے والا اور ان شرائط کو ملحوظ رکھنے والا جو اللہ تعالیٰ نے ادائے نماز میں مقرر فرمائی ہیں اپنے اندر فوراً ایک خاص تبدیلی پاتا ہے اور زیادہ دن گزرنے نہیں پاتے کہ اس
۱۰۰ کے اندر ایک خاص ملکہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اسے دیوان کی شناخت ہو جاتی ہے اور پوشیده در پوشیده بدیوں پر اسے اطلاع دی جاتی ہے اور مخفی در مخفی گناہ کاعلم جو دو سروں کو نہیں ہو تااسے دیاجاتا ہے اور ملا ئکہ اسے ہر موقعہ پر ہوشیار کر دیتے ہیں کہ دیکھنا یہ گناہ ہے ہوشیار ہو جانا.اوراسےشیطان کے مقابلہ کی مقدرت عطا ہوتی ہے کیونکہ نمازی اللہ تعالی ٰکی تسبیح اور تحمید کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کسی کا احسان نہیں رکھتا اور خود اپنے بندہ کو اس کے اعمال کا اعلی ٰسے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے پس جب نماز میں کمال تذلّل اور خشوع و خضوع کے ساتھ انسان خدا تعالی ٰکے حضور میں گر جاتا ہے اور وہ تمام تذلل کے طریق جن کو کسی ملک کے باشندوں نے اظہار عبودیت کے لئے مقرر کیا ہے استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی ٰاسے اٹھاتا ہے اور جس طرح وہ اللہ تعالی ٰکی تسبیح کرتا ہے خدا تعالیٰ ملائکہ کو فرماتا ہے کہ دیکھو میرے اس بندہ نے میری پاکیزگی کا اقرار کیا ہے تم اسے پاک کر دو اوراس نے میری حمد کی ہے تم اس کی حمد کو دنیا میں پھیلاؤ اور اس نے میرے حضور میں کمال تذلل اورانکسار کا اظہار کیا ہے تم اس کو عزت و رفعت دو اور اسی کی طرف اشارہ ہے اس حدیث میں جو صحیح بخاری کی آخری حدیث ہے کلمتان خفيفتان على اللسان ثقیلتان في الميزان حبيبتان الى الرحمان سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم یعنی دو ایسے کلے ہیں کہ جو زبان پر تو بہت ہلکے معلوم ہوتے ہیں لیکن میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں اور رحمٰن کو بہت پیارے ہیں وہ کلمات یہ ہیں سبحان الله وبحمده سبحان اللہ العظیم اور غور سے دیکھا جائے تو نماز ان دونوں کلمات کی تفسیر ہے اور نماز کے مختلف اعمال کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم.تسبیح، تحمید اور تنظیم الہٰی پر ہی نماز میں زور دیا گیا ہے.غرض کہ ان کلمات اور نماز کا ماحصل ایک ہی ہے وہاں نماز ایک مفصل اقرار ہے اور ان کلمات میں مجملاً و مضامین بیان کئے گئے ہیں جن کی تفصیل نماز میں کی گئی ہے.اب اس حدیث پر غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہو تا ہے کہ اس میں وہ سب امور بیان کئے گئے ہیں.جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور وہ اس طرح کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ثقيلتان في الميزان تسبیح و تحمید کرنا اورعظمت باری کا اقرار کرنا گو بظا ہر سہل ہے لیکن ہے بہت سے ثمرات کا مثمر- اور میزان میں اس کا بڑا وزن ہوتاہے.اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ انسان دراصل چند حیوانی، نباتی اور ہماری اجزاء سے مرکب ہے اور بالطبع اس کا تعلق ارضی اشیاء سے زیادہ ہے.ہاں اللہ تعالی ٰکے
۱۰۱ فضل سے اونچا کیا جا تا ہے اور اسی کی ہدایت سے ہدایت پاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب آسمانی تعلیموں سے انسان کو ایک طرف کر دیں اور ایک ایساانسان فرض کر یں جسے آسمانی کتابوں کا کچھ علم نہیں تو یہ انسان بہائم کی طرح کی زندگی بسر کرے گا اور اس کا کام صرف کھانا اور پینا ہو گا.ان تمام اخلاق سے وہ کورا ہو گا جو انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتے ہیں اور اس کی تمام وہ استعدادیں جو اللہ تعالی ٰنے انسان میں ترقی کے لئے پیدا کی ہیں دبی رہیں گی او روہ ان سے کام نہ لے سکے گا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قومیں جو ساری کتابوں سے محروم ہیں ان کی زندگیاں چارپایوں کی زندگیوں سے زیادہ مشابہ ہیں اور وہ کھانے پینے اور شہوت رانی کرنے کے سوا کچھ نہیں جانتیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ چونکہ انسان کی پیدائش مادہ سے ہے اس کارجحان بغیر ہدایت الہٰی کے مادہ کی طرف ہی ہوتا ہے اور جب تک اس کو اللہ تعالی ٰکی طرف سے ہدایت نہ ہو وہ روح کی ترقی کی راہ نہیں سوچ سکتا.ہاں خدا تعالی کی طرف سے ہدایت پا کر اس کا درجہ اور جانوروں سے بلند ہونا شروع ہو تاہےاور جس قدر کوئی انسان روحانیت میں کمال پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر اسے دوسرے حیوانات سےامتیاز پیدا ہوتا جاتا ہے اور اس کے اعمال میں خاص فرق نمایاں ہونا شروع ہو جا تا ہے پس اس حدیث کا مطلب اس حقیقت امر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ہے کہ نفس انسانی جوبہیمی صفات کا مجموعہ ہے اسے اپنی تمام بہیمیت سمیت ایک پلہ میں ڈال دیں اور ان کلمات کے نتائج اور ثمرات کو ایک طرف ڈال دیں تو یہ کلمات جس پلہ میں ہوں گے وہ نیچے ہو جائے گا اور یہ بات ثابت ہے کہ ترازو کاایک پلہ جب نیچے ہو جائے تو دوسرا اوپر ہو جا تا ہے پس جس قدر اعمال کا پلہ نیچے ہوگا اسی قدروه پلہ جس میں نفس انسانی سے اوپر ہو تا جائے گا اور جس قدر نفس والا پلہ اوپر ہو تا جائے گااسی قدرانسان کاکو قرب الہٰی ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا( بو جہ تمام عیبوں سے پاک ہونے اور کل خوبیوں کے جامع ہونے کے) مقام بلند ہے پس اعمال کے پلہ کے نیچے ہونے اور بوجھل ہونے سے انسان کا رفع مراد ہے کیونکہ یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیکی اور تقوی ٰکا نتیجہ احادیث میں رفع بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کو جو وَارفعنی کی دعا سکھائی گئی اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ ہمارے اعمال حسنہ کا پلہ بھاری ہو جائے تا ہمارا رفع ہو اور اگر انسان کی بہیمیت کا پلہ بھاری ہو گا تو اعمال حسنہ کا پلہ ہلکا ہو کر ہوا میں اٹھ جائے گا اور انسان کو کوئی فائدہ نہ دے گا بلکہ وہ نیچے چلا جائے گا اسی کی طرف اشارہ ہے قرآن کریم کی اس آیت میں کہ فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍﭤ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ (القارعہ: ۷ تا ۱۰) یعنی جس کے اعمال
۱۰۲ حسنہ کا پلہ بھاری ہو گیا وہ تو اعلیٰ درجہ کی زندگی پائے گا اور جس کے اعمال حسنہ کاپلہ ہلکا ہؤ اور اس کی صفات بہیمیہ پر غالب نہ آسکا تو وہ ہاویہ میں گرے گا اور ہاویہ سے مراد عمیق گڑھا ہے جو اپنےعمق میں نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے.اسی طرح اس آیت میں اشارہ ہے کہ ولو شئنا لرفعنہ بها ولكنہ اخلد الى الارض (الاعراف : ۱۷۷) یعنی ہم چاہے تو اس کو اپنی آیات کے ذریعہ بلند کردیتےلیکن اس نے زمین کے ساتھ ایسا تعلق پکڑا کہ اسے چھوڑانہیں پوراحادیث میں جنت کو بلندی پر اور دوزخ کو نیچے بتا کر بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب اعمال حسنہ بھاری ہوں تو انسان کی غلطیوں کا وزن کچھ نہیں رہتا اور انسان باوجود اپنی بہیمیت کے بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس کی نیکیاں اس کی بد یوں پر غالب آجاتی ہیں اور ان کو کالعدم کردیتی ہیں اور انسان بالاآخر جنت کو جو بلندی پر ہے حاصل کر لیتا ہے اور جس کے اعمال حسنہ کم ہوں اور انسان کو اوپر نہ اٹھا سکیں تو ان کا پلہ بوجہ ہلکا ہونے کے بلند ہو جائے گا اور نفس انسانی و الا پلہ علی قد ر ذنوب نیچے نیچے ہوتا جائے گا اور جہنم میں( جو نیچے ہوگی) جگہ پائے گا.اس مسئلہ سے جنت و دوزخ کے مراتب کا بھی پتہ چلتا ہے کیونکہ جس قدر کسی کے اعمال حسنہ بوجھل ہوں گے اسی قدروہ اوپر اوپر اٹھتا چلا جائے گا اور اعلی ٰمدارج پائے گا اور جن لوگوں کی بد یاں زیادہ ہوں گی وہ نیچے زیادہ گر جائیں گے اور جہنم میں جائیں گے حتی کہ جن کی بدیوں کا پلہ بہت ہی بھاری ہو گا انکے اعمال حسنہ کا پلہ بہت اونچا چڑھ جائے گا اور اس کے مقابلہ میں نفس کالم اسفل السافلین میں گر جائیگا.غرض کہ مذکورہ بالا حدیث میں اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ اللہ تعالے کی تسبیح ، تحمید اور عظمت کااقرار ایا مثمر ثمرات نافع ہے کہ انسان کا ترازوئےعمل اس کے بوجھ سے بہت جھک جاتا ہے اوراس کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ فرمائی کہ حبيبتان الى الرحمن یہ کلمات اس لئےزیادہ ثواب کا موجب ہوتے ہیں کہ حبيبتان إلى الرحمن رحمٰن کو پسند ہیں نادان انسان تو یہ ہےخیال کرتا ہو گا کہ لفظ رحمٰن صرف قافیہ بندی کے لئے استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ عظیم الشان انسان پرجس کا کوئی کلام لغو اور فضول میں ایک ظلم عظیم ہو گار حمٰن کا لفظ اس حدیث میں قافیہ بندی کے لئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں حبيبتان الى الرحمن فرما کرآنحضرت ﷺ نے اس ثقل کی وجہ بیان فرما دی ہے جو کلمات سبحان الله وبحمده سبحان اللہ العظیم کو میزان میں حاصل ہے اور بتایا ہے کہ یہ کلمات اس لئے ثقیل ہیں کہ ان کا بدلہ صرف صفت رحیمیت کے ماتحت ہی نہیں بلکہ صفت رحمانیت کے ماتحت بھی ملتا ہے کیونکہ
۱۰۳ یہ كلمات اللہ تعالی ٰکی صفت رحمانیت کے بھی جاذب ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت وہ ہے جس کے ماتحت بلا کسی محنت اور مشقت کے انسان پر انعام ہوتا ہے اور صفت رحیمیت وہ ہے جس کا نزول انسان پر کسی عمل کے بدلہ میں ہوتا ہے اور چونکہ انسان کے اعمال محدود ہوتے ہیں اس لئے اس کی جزاء بھی خواہ کس قدر ہی زیادہ ہو آخر محدود ہوگی جیسا کہ قرآن شریف اور احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نیک اعمال کےبدلہ میں دس گنے اور ستر گنے بلکہ سات سو گنے تک ثواب ملتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ لیکن پھر بھی یہ بدلہ ایک حد تک نسبت عمل کے لحاظ سے ہی ہوتا ہے مگر جو احسان کہ رحمانیت کے ماتحت ہوتا ہے وہ چونکہ کسی عمل کے بدلہ میں نہیں ہوتا اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی.پس حبيبتان إلى الرحمن سے آنحضرت ﷺنے یہ ظاہر فرمایا ہے کہ دوسری عبادات کا بدلہ تو صفت رحیمیت دیتی ہے مگر یہ کلمات مفت رحمانیت کے جاذب ہو جاتے ہیں لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتا اور اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہے تو نہ صرف رحیمیت جوش میں آتی ہے بلکہ صفت رحمانیت بھی جوش میں آکر اس پر نازل ہوتی ہے اور چونکہ یہ نزول رحمانیت نسبت عمل کے لحاظ سے نہیں بلکہ احسان کے طور پر ہو تا ہے اس لئے اعمال حسنہ کا ترازو بہت وزنی ہو جاتا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کا نزول جب صفت رحمت کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کی عظمت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی.اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ واذا احييتم بتحية فحيؤا بأحسن منها اوردوھا (النساء :۸۷) جب تمہاری نسبت کو ئی کلمہ نیک استعمال کیا جائے تو تم کو بھی چا ہیے کہ اس کے قائل کی نسبت اس سے بہتر کلمہ نیک کا کم سے کم وہی کلمہ استعمال کرو جیسا کہ السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام - تو کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تعالی ٰجو غیرمحدود خزانوںوالا ہے اور بہتر سے بہتر بدلہ دینے والا ہے اپنے بندوں سے اس طرح معاملہ نہ کرے وہ کرتا ہے اور ضرور کرتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب میرا بندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تو میں دو قدم آتا ہوں جب وہ تیز چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں پس اسی اصل کے ماتحت جب ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی نسبت کہتا ہے کہ الہٰی آپ پاک ہیں تو اللہ تعالی ٰایک تو اسے اس کی اس عبادت کا بدلہ دیتا ہے دوسرے اس کی نسبت بھی پاکیزگی کا حکم فرماتا ہے کہ حيؤا بأحسن منها اوردوھا پس جب اللہ تعالی ٰکی بندہ کی نسبت فرمائے گا تو پاک ہو تو پھر اس کے گناہ کہاں باقی رہ سکتے ہیں اسی
۱۰۴ طرح جب بندہ اپنے رب کی نسبت کہتا ہے کہ الہٰی آپ بڑی تعریفوں والے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو تعریفوں والا کر دیتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتاہے تو خدا تعالیٰ اسے بڑابنادیتاہے پس اللہ تعالی ٰکی تسبیح اور تحمید اور عظمت کے اقرار سے ایک تو عبادت کا ثواب ملتا ہے اور ایک اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش میں آکر اس بندے کو پاک کردیتی ہے‘ قابل تعریف بنادیتی ہے ،بڑا بنا دیتی ہے اسی وجہ سے حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کلمتان خفيفتان على اللسان ثقيلتان في الميزان حبيبتان الى الرحمان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اور چونکہ نماز تفصیل ہے ان کلمات کی اور اس کے ہر ایک رکن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کی جاتی ہے اور عظمت بیان کی جاتی ہے اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر( العنکبوت :۴۶) کیونکہ جوں جوں انسان نمازیں پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد اور عظمت کا اقرار کرتاہے.خدا تعالیٰ اس کے اعمال حسنہ کے ترازو کو بو جھل کرتا جاتا ہے اور انسان کا رفع ہو تا جا تا ہے اور چونکہ گناه نتیجہ ہے مادیت کے تعلق کا.جب انسان اس عالم سے بلند ہو تا جا تا ہے تو اس کا تعلق مادیت سے کم ہو تا جا تا ہے او رلا زماًوہ گناہوں سے محفوظ ہو تا جا تاہے.پس جو انسان نمازیں پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کرتا ہے تحمید بھی کرتا ہے او راس کادرجہ بلند نہیں ہوتا اور اسے پاک نہیں کیا جاتا بلکہ وہ طرح طرح کے گندوں میں مبتلاء ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی تسبیح و تحمید میں کوئی نقص ہے پس مسلمانوں کا نمازیں پڑھنا اور ان پر مداومت کرنا اس بات پر قطعا ًدلیل نہیں کہ وہ نیک ہیں اور ان میں ابھی دین باقی ہے کیونکہ جب نمازوں سے وہ اثمار نہیں پیدا ہوتے جو نمازوں کے لئے مخصوص ہیں تو وہ نمازیں بے مغز ہیں اور ان کے اندر ہزاروں قسم کے ایسے اجرام داخل ہو گئے ہیں جنہوں نے ان کی قوت مثمر ہ کو ضائع کردیا ہے.اسی طرح زکوٰۃ کی نسبت قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا (التوبہ : ۱۰۳ ) اے نبی ان کے اموال سے زکو ٰۃلیا کرو اور اس ذریعہ سے ان کو ظاہری و باطنی طور پر پاک کیا کرو اب جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہوئے پاک نہیں ہوتے اور ان کے اموال طيب نہیں ہیں بلکہ ہر قسم کے جائز و ناجائز وسائل سے وہ ان کو پڑھاتے رہتے ہیں اور دل سے دنیا کی محبت سرد نہیں ہوتی تو ہم کب کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ ز کو ٰۃدیتے ہیں.اسی طرح روزہ کے احکام بیان فرما کر الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کذلک یبین اللہ ایتہ للناس لعلھم یتقون
۱۰۵ (البقره: ۱۸۸) اسی طرح ہم اپنے احکام لوگوں کے فائدے کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ متقی ہو جائیں.لیکن فی مابینالوگ روزہ رکھتے ہوئے تقوی ٰسے عاری ہیں.آنحضرت ﷺفرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰکو تمہیں بھوکے رکھنے سے غرض نہیں جو شخص روزه رکھتا اور جھوٹ بولنا ترک نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا رہنے کی کچھ حاجت نہیں عن ابی ھريرة ان رسول اللہ صلی الله عليه وسلم قال من لم يدع قول الزور و العمل به ليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (بخاری کتاب الصوم : باب من لم يدع قول الزور والعمل به،) پس روزہ رکھتے ہوئے جن لوگوں میں تقویٰ پیدا نہیں ہو تا معلوم ہوتا ہے ان کے روزے قرآن شریف کے فرماتے ہوئے روزے نہیں کیونکہ روزوں کے فرض کرنے کی غرض ہی تقوی ٰ کا پیدا کرنا تھا نہ کہ انسان کو بھوکا رکھنا.خداتعالے کو کیا غرض ہے کہ وہ انسان کو خواہ مخواه بھوکا رہنے کا حکم دے.حج کی نسبت بھی فرمایا کہ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ ( البقرة : ۱۹۸)، لیکن آجکل تو حج کی بے قدری ہے وہ جناب کو معلوم ہی ہوگی جن میں جنگ و جدل کا چھو ڑ ناتو الگ رہا.ان دونوں کو جنگ و جدل کے لئے مخصوص کرلیا گیا ہے.غرض کہ گو بعض لوگ بعض احکام شریعت پر عمل کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ایسے طریق سےہے کہ اس سے وہ فوائد مرتب نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں اور ان کی نمازیں اور ان کے روزےاور ان کی ز کو ٰتیں اور ان کے حج بعینہ ویسے ہی اعمال ہیں جیسا کہ تماشہ کرنے والے کبھی بادشاہ بنکربیٹھ جاتے ہیں اور دربار لگا لیتے ہیں لیکن درحقیقت وہ سائل ہوتے ہیں پس کو ایک وقت کے لئے اپنے آپکو بادشاہ بھی کہتے ہیں ان کے سامنے کچھ لوگ ملازم بنکر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ان پرحکومت کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کی کچھ بھی نہیں ہوتی نہ وہ بادشاہ ہو جاتے ہیں نہ ان کے دوسرے ساتھی ان کے خادم و غلام بن جاتے اور اس بات سے ان کو وہ حقوق و اختیارات حاصل نہیں ہو جاتے جو بادشاہوں کو حاصل ہوتے ہیں یہ لوگ بھی بظاہر نمازیوں کی طرح وضوء کرتے ہیں مساجد میں جاتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں لیکن یہ سب کام نمائشی ہوتے ہیں ان کی یہ عبادتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں رکھتیں.ورنہ نعوذ باللہ کہنا ہو گا کہ وہ محنت تو پوری کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ان انعامات سے محروم رکھتا ہے جو نمازیوں اور روزہ داروں اور زکوٰۃ دینے والوں اور حج کرنے والوں کے لئے اس نے مقرر فرمائے ہیں.نعوذ باللہ من
۱۰۶ تلك العقيدة.مساجد کی آبادی اس وقت تک کوئی چیز نہیں جب تک دل محبت الہٰی سے معمور نہ ہوں.زبان پر خدا تعالی کا ذکر کوئی قدر نہیں رکھتا جب تک دل میں اس کی یاد نہ ہو.اور افسوس کہ قلبی تعلق اب مفقود ہو گیا ہے ان عبادات پر انسان خوش ہو سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ظاہر کو نہیں بلکہ دلوں کو دیکھتا ہے.اس کے حضور میں وہ عبادات کچھ حیثیت نہیں رکھتیں جن میں خلوص نہیں اور یہی وجہ ہے کہ باوجود عبادت کے قلب صاف نہیں ہوتے اور وہ تقویٰ اور حفاظت عن الذنوب حاصل نہیں ہوتی جس کا عابدین کے لئے وعدہ دیا گیا ہے.افسوس کہ کوئی وقت تو وہ تھا کہ مسلمان ہونا ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ ہونے کی کافی مناسبت تھا اور جو شخص اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا تھا اس پر یقین ہو جا تا تھا کہ یہ ہرقسم کےغدر اور شرارت سے محفوظ ہے الاماشاء اللہ والنار کالعدوم.لیکن اب مسلمان ہونے کے یہ معنےہیں کہ یہ شخص سست ہے اور سخت مسرف ہے کسی قسم کے گناہ سے نہیں بچتا حتیّٰ کہ بعض نا پاک لوگوں کی حالت ایسی خراب ہوگئی ہے کہ وہ کھلے بندوں کہتے ہیں کہ ہم مسلمان آدمی ہیں ہمیشہ مقروض ہی رہتے ہیں جو کچھ آجاتا ہے اڑا جاتے ہیں گویا اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ انسان ُمسرف ہو اور ہمیشہ مقروض رہے انا للہ وانا الیہ راجعون.میں نے بہت سے ذی حیثیت لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مسلمان ملازم سے ہندو ملازم کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ وہ زیادہ دیانتدار اور محنتی ہو تاہے اور اپنے کام کو خوب اچھی طرح سے پورا کرتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کے لئے نہایت شرمنده کن ہے.اسلام کے بہت سے دشمن ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ ہر ایک مذہب اسلام کا دشمن ہےکیونکہ اسلام اپنے اندر صداقت رکھتا ہے اور دوسرے مذاہب اس بات سے خوب واقف ہیں کہ اگر کوئی مذہب اپنی ذاتی خوبصورتی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے تو وہ اسلام ہی ہے.اسی لئے وہ آپس میں ایک دوسرے سے نہیں ڈرتے مگر اسلام سے سب خائف ہیں اسی لئے اسلام کے مقابلہ میں سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اسی کی طرف مخبر صادق نے اشارہ فرمایا ہے الکفر ملة واحدة یعنی اسلام کے مقابلہ میں سب مذاہب ایک ہو جاتے ہیں ورنہ آپس میں تو ان کے بہت سے نقار ہیں اور ان کو چاہے بھی ایسا ہی.نام چر ند جانوروں میں دیکھتے ہیں کہ وہ آپس میں کتناہی لڑیں جب کوئی درنده آجائے تو اس کے مقابلہ میں سب ایک ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ
۱۰۷ جانتے ہیں کہ اس سے ہماری سلامتی مشکل ہے پس چونکہ اسلام اپنی سادگی اور حسن کے باعث ایسا دلکش ہے کہ اگر کوئی شخص تعصب سے خالی ہو کر اس کا مطالعہ کرے تو اس کے دام میں آئے بغیرنہیں رہ سکتا اس لئے سب مذ اہب اس کے مقابلہ میں ایک ہو جاتے ہیں مگران بیرونی دشمنوں سے اسلام کو کبھی اس قدر نقصان نہیں پہنچا جس قدر کہ اسے اس زمانہ میں اندرونی دشمنوں سے پہنچا ہے.کسی شاعر نے کیا کیا ہے کہ من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد دشمنان بیرونی نے تیرہ سو سال تک متواتر اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا لیکن اب تک وہ کامیاب نہ ہو سکے مگر ایک صدی دو صدی کے اندر گھر کے آدمیوں نے اس کی جڑوں کو بالکل کھوکھلا کر دیا کچھ تو علماء نے ہمت کی کہ اسلام کے زریں اصول کو ایسا بھونڈا اور بھیانک د کھانا شروع کیا کہ آئے ہوئے لوگ بھی رک گئے قرآن شریف کی پاک تعلیم میں اسرائیلی قصے داخل کر کے اور انسانی خیالات ملا کر ایسی تفاسیر کرنی شروع کر دیں کہ قرآن کریم کا اصل حسن بھی ان کے نیچے دب گیا.جس طرح ایک عمدہ ہیرا اس وقت تک کہ اسے ردی ماده کاٹ کر صاف نہ کیا جائے اپنی جلا نہیں دیتا.اسی طرح قرآن کریم کو ایسی ایسی خود ساختہ تفاسیر کے پردوں میں لپیٹ دیا ہے کہ ناواقف آدمی اس کے حسن سے ہی انکار کر دیتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ جو تصویر اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ قرآن کریم کی نہیں بلکہ دوسری اقوام کے قصوں اور دکانوں کا رنگ چڑھا کر اسے اور کااور ہی بنادیا گیا ہے اس طرح جو نقصان علماۓ خلف نے اسلام کو پہنچایا ہے اس سے بھی زیادہ وہ نقصان ہے جو علماء ،صوفياء، امراء اور عوام الناس کی متفقہ کوشش سے اسلام کو پہنچا ہے لیکن ان کی بد عملی کی وجہ سے مسلمان اسلام کی دشمنی میں دشمنوں سے بھی زیا دہ ثابت ہوئے ہیں.اسلام اپنی خوبیوں سے ہر ایسے شخص کو جو تعصب سے خالی ہو کر اس پر غور کرے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور باوجود ان رکیک تاویلات کے اور ان اجنبی قصوں کے جو اس کی تفاسیر میں بھردیئے گئے ہیں بہت سے لوگوں کو اس کی حقیقت پر آگاہی ہو جاتی ہے.اور وہ اسلام میں داخل ہونا پسند کرتے ہیں لیکن مسلمان ان کے لئے روک ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے اعمال ایسے نہیں ہیں کہ جن کو دیکھ کر لوگ اسلام میں داخل ہونے کی خواہش کریں اور اس طرح مسلمانوں سے جو نقصان اسلام کو پہنچ رہا ہے وہ غیروں سے نہیں پہنچتا.
۱۰۸ صرف زبانی تعلیم سے انسان پر ایسا اثر نہیں ہو تا جتنا کہ نمونہ دیکھ کر وہ متاثر ہو جاتا ہے ایک زمانہ وہ تھا کہ لوگوں تک اسلام کی خبر پہنچی تھی اور وہ اسلام سے محبت کرنے لگ جاتے تھے مگردنیاوی تعلقات کی وجہ سے اکثر لوگ اس میں شمولیت سے خائف ہوئے.لیکن جب وہ کسی مسلمان کو دیکھ لیتے تو دنیا کی کسی روک کو خاطر میں نہ لا کر ہزاروں مسلمان ہو جاتے.ہندوستان کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام زیادہ تر حضرت معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ اور ان کے خلفاء کے ذریعہ سے ہی پھیلا ہے مگر آجکل بالکل اس کے برخلاف ہے.بہت لوگ ہیں جو اسلام کا مطالعہ کر کے اسے قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن فطرتاً انسان نمونہ دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے اس لئے وہ اسلام لانے سے پہلے مسلمانوں کی حالت دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب کسی اسلامی ملک میں جاکر مسلمانوں کی غفلت و سستی اور ارتکاب معاصی کو دیکھتے ہیں تو انکی طبیعت اسلام سے متنفّر ہو جاتی ہے.گویا ابتدائے عہد اسلام میں تو مسلمان اسلام کی عظمت ظاہر کرتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ مسلمانوں کا وجود اسلام کی ترقی میں ایک سخت روک ہے جس کے سبب سے ہزاروں سعید روحیں اس پانی کو قبول کرنے سے رک جاتی ہیں.چنانچہ معتبرذریعہ سے سناگیا ہے کہ ایک انگریز اسلام کی تعلیم کا مطالعہ کر کے اسلام قبول کرنےکے لئے تیار ہو گیا اور اس نے اسلام کی صداقت کا اقرار کر لیا لیکن اس کے دل میں خیال آیا کہ چل کر کسی اسلامی ملک کی سیر کر کے مسلمانوں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ان کا کیا حال ہے اوراسلام کا عملی نمونہ وہ کیا دکھاتے ہیں اس ارادہ سے جب وہ ایک اسلامی ریاست کے دارلخلافہ میں پہنچا تو بد قسمتی سے محرم کے ایام تھے اور وہاں کے باشندے طرح طرح کی نقلیں کر رہے تھےبازاروں میں مسلمان چیتے اور شیر بندر اور ریچھ بنے ہوئے پھر رہے تھے جسے دیکھ کر اسے سخت حیرت ہوئی کہ عملی اسلام کتاب اسلام سے بدرجہ غایت متغائر ہے اور ایسا ابتلاء آیا کہ آخر اسلام سے بیزار ہو گیاپس اسلام کے راستہ میں سد راہ اگر کوئی ہے تو وہ خود مسلمانوں کی عملی حالت ہے اور اس حالت کو دیکھ کر غیر مذاہب کے لوگوں کو ہی ابتلاء نہیں آتا بلکہ آئندہ نسلیں بھی دین سے بیزار ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اکثر مسلمانوں کے گھرانوں کا یہ حال ہے کہ باپ کو دین سے جس قدر تعلق ہے بیٹے کو اس سے بہت کم تعلق ہے اور فیصدی بہت ہی کم مسلمان نکلیں گے جو اسلام کی صداقت کے دل سے قائل ہوں بلکہ اب صرف رسم اور عادت کا ایمان رہ گیا ہے.
۱۰۹ اب اگر اسلاسچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سچاہے تو جناب خیال فرما سکتے ہیں کہ اسقدر اندرونی اور بیرونی فسادوں کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا اسکو چھوڑ دیا اور اس کی خبر نہ لینا کسی عقلمند انسان کے خیال میں نہیں آسکتا.اسلام کی اس درجہ نازک حالت کے ہوتے ہوئے اور اس بات کو مانتے ہوئے کہ اسلام خدا تعالی ٰکی طرف سے ہے کیونکر خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان آفات اندرونی و بیرونی کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی سامان نہ کیا ہو گا.اسلام وہ دین ہے جس کی اشاعت کے لئے آنحضرتﷺ جیسے محبوب رحمانی نے اپنی ساری عمر خرچ کر دی اور ہر قسم کا آرام اور راحت چھوڑ کر رات اور دن اس کی اشاعت میں لگے رہے پھر ایسے برگزیدہ انسان کی کوششوں کا وہ حشر کیونکر ہو سکتا ہے جو اس وقت اسلام کا نظر آتا ہے.والدین اپنی اولاد کو مصیبت میں رکھ کر فوراً ان کی مدد کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور باوجو د ہزاروں قسم کی نافرمانیوں کے مصیبت میں دیکھ کر ان کار حم جوش میں آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسلام کی اس مصیبت کو دیکھ کر کیونکر خاموش رہ سکتا ہے ضرور ہے کہ اسلام کی حالت درست کرنے کے لئے آسمان سے کوئی سامان ہو.قرآن شریف بھی ہمارے اس خیال کی تصدیق فرماتا ہے جیسا کہ آیت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر : ۱۰) سے ظاہر ہے.قرآن کریم کی حفاظت دو طریق سے ہو سکتی ہے ایک لفظی اور ایک معنوی.اور ہم دیکھتے ہیں کہ لفظی حفاظت کے لئے اللہ تعالے نے ہزاروں سامان پیداکردیئے ہیں آنحضرت اﷺکے زمانہ سے آج تک تیرہ سو سال ہو گئے ہیں دنیا کی سب مذہبی کتابیں محرف ومبدل ہو چکی ہیں لیکن قرآن کریم ابھی اپنی اسی اصلی حالت پر قائم ہے اور اس میں سے ایک شُعشہ بھی کم نہیں ہوانہ کسی قسم کی اس میں زیادتی ہوئی ہے.قرآن کریم کی زبان کو بھی اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے ورنہ اس وقت کوئی پرانامذہب نہیں جس کی الہٰی کتاب کی زبان اس وقت دنیا میں بولی جاتی ہو.سنسکرت ،پہلوی ، عبرانی تین زبانوں میں اس وقت دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی کتابیں موجود ہیں لیکن یہ تینوں زبانیں مرچکی ہیں صرف قرآن کریم کی زبان ہی باوجود نہایت قدیم زبان ہونے کے اب تک بولی جاتی ہے اور جب سے قرآن کریم نازل ہوا ہے بجائے کم ہونے کے اور زیادہ پھیل گئی ہے اور پہلے صرف عرب میں بولی جاتی تھی مگر اب مصر، شام طرابلس الجزار ، مراکش، بربره و غیره علاقوں میں بھی عربی میں بولی جاتی ہے.کروڑوں آدمی اس
۱۱۰ زبان کے سمجھنے والے ہیں ہزاروں لاکھوں حفاظ اور لاکھوں نسخوں سے جو دنیا کے ہر ملک میں پھیلےہوئے ہیں اس کی حفاظت کی گئی اور اب تک خدائے تعالیٰ کا وعدہ بڑے زور سے پورا ہو رہا ہے پس جبکہ لفظی حفاظت کا وعدہ پورا ہوا ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ معنوی حفاظت کا وعدہ پورا نہ ہو.جوکتاب صرف تحریری ہو اور اس پر عمل کرنے والے مفقود ہو جائیں اسے محرف ومبدل کتب پر کوئی فضیلت نہیں کیونکہ جس طرح محرف و مبدل کتب متروک العمل ہوگئی ہیں اسی طرح وہ کتاب بھی متروک العمل ہے جس کی حقیقت سے لوگ آگاہ ہی نہیں.پس ضرور ہے کہ قرآن کریم جس غرض کے لئے آیا ہے اسے پورا کرنے والی ایک جماعت ہمیشہ موجود ہو اور جب بھی لوگ اسے غافل ہوں فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا شخص بھیجا جائے جو معلم بنکر لوگوں کو اصل حقیقت سے آگاہ کرے اور سچے راستہ پر لائے احادیث نبویہ بھی میرے اس خیال کی تائید کرتی ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺفرماتے ہیں کہ ان الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من یجدد لها دينها (سنن ابو داود کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة،) اللہ تعالی ٰاس امت میں ہر صدی کے سر پر ایک ایسا انسان مبعوث فرمائے گا اور دین اسلام کی تجدید کرے گایعنی لوگوں نے اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کے دخل سے دین اسلام میں جو تغیر پیداکردیئے ہونگے وہ مجد دین ان کو مٹائیں گے اور اصل اسلام کو پھر قائم کریں گے اور ان کے ذریعہ ایسی جماعتیں پیدا ہوتی رہیں گی جو قرآن شریف کے معانی کی حفاظت کریں گی یعنی جس غرض کے لئے قرآن کریم بھیجا گیا ہے اسکو پورا کریں گی اور اسلام ایک زندہ مذہب رہے گا.یہی وہ فوقیت ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب پر حاصل ہے کیونکہ اگر قصوں اور روایتوں کےساتھ کسی مذہب کی فضیلت ثابت ہو سکتی ہے تو اسلام سے زیادہ ہندوؤں کے ہاں روایتیں اور قصےہیں.اگر ہم معجزات سنائیں گے تو ہنود ان سے بڑھ کر معجزات بیان کریں گے اور مسیحی بھی اپنےمذہب کی تائید میں معجزات کا ایک طومار پیش کردیں گے اور وہ ایسا ہی کرتے بھی ہیں بلکہ اسلام پرتوغیرمذاہب اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں معجزات کا ظہور ہؤاہی نہیں حتیّٰ کہ یورپ کے اعتراضات کے وزن سے دب کر بعض مسلم ریفار مربھی اس باطل عقیدہ میں پادریوں کے ہمنوا ہو گئے ہیں.پس روایتوں اور قصوں کے ساتھ غیرمذاہب پر جیتنانا ممکن ہے کیونکہ روایتیں ان کے ہاں بھی بہت سی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی روایات غیروں سے منوائیں اور ان کی روایات کو رد کردیں اور اگر ہم اپنی روایات کی صداقت کا ثبوت بھی دینے گئیں تو یہ ایک ایسالمباکام ہو گا کہ برسوں اسی.
۱۱۱ پر بحث ہوگی اور ایک لمبا تاریخی جھگڑا شروع ہو جائے گا اور مذاہب کافیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گامگر اسلام یہ نہیں کہتا کہ قصوں اور روایتوں کے ساتھ میری صداقت کو پرکھو بلکہ اسلام وہ مذہب ہے جو اپنے ساتھ زنده معجزات رکھتا ہے اور کوئی زمانہ نہیں گزرا کہ اللہ تعالی ٰاسلام کی صداقت کےلئے کوئی زبردست شہادت ظاہر نہیں کرتا اور یہی وہ نشان ہے جس کے دکھانے سے غیرمذاہب کےلوگ قاصر ہیں اور جب اس طرف ان کو بلایا جاتا ہے تو ان کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور ان کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں گویا کہ وہ کلام سے بالکل عاری ہیں اور ان کی زبانیں گونگی ہیں اور ہر زمانہ میں صداقت کے ثبوتوں کا ساتھ ہونا ہی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ جب ہر ایک شخص کی مذہب کی صداقت کے نشان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو اسے اس مذہب کی سچائی کے اقرار سے کوئی انکار نہیں ہو سکتا.دنیا کے کل مذہب اس وقت اپنی اپنی صداقت کا دعوی ٰپیش کر رہے ہیں اور ہر ایک یہ کہہ رہاہے کہ پد رم سلطان بود- ہمارامذہب سچا ہےاور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کےساتھ خدا نے کلام کیا تھا لیکن اسلام یہ دعویٰ نہیں کرتا بلکہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو لوگ مجھ پر پورے طور سے عامل ہوتے ہیں ان کو میں اپنی صداقت کے زندہ ثبوت دیتا ہوں اور اسلام کے پیرو کو کتابوں میں قصے پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود اپنے مشاہدہ سے اسلام کی صداقت کو معلوم کر سکتا ہے کیونکہ اسلام نے الہام کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ اسے ہمیشہ کے لئے جاری رکھا ہے اور یہی نہیں کہ اسے جاری رکھا ہے بلکہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کا آنالازمی قرار دیا ہے اور خدا تعالی ٰ کاآ نحضرت اﷺسے وعدہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا.یہ نشان ایک ایسانشان ہے کہ کسی مذہب کی طاقت نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے کیونکہ کوئی مذہب اسلام کے سوا الہام کے دروازہ کو کھلا نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک مذہب اس دروازہ کو اب بند قرار دیا ہے اور یہی کہتا ہے کہ پہلے ایساہوتا تھا اب نہیں ہو تا حالا نکہ اگر پہلے الہام ہوتا تھا تو اب بھی ہونا چاہئے کیونکہ خدائے تعالی ٰکی صفات کسی وقت میں بھی معطل نہیں ہو سکتیں اور اگر خدائے تعالیٰ اپنے پاک بندوں سے پہلے کلام کرتا تھا تو اب بھی ضرور ہے کہ وہ کام کرے اور اگر اب نہیں کرتا تو پہلے بھی نہیں کرتا تھا ورنہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ کی صفت شنوائی بھی کبھی زائل ہو جائے اور صفت بینائی بھی جاتی رہے کیونکہ اگر ایک صفت معطل ہو سکتی ہے تو دوسری صفات بھی معطل ہو سکتی ہیں.
۱۱۲ غرض کہ الہام الہٰی کے دروازہ کا کھلا رہنا یک ایسا معیار ہے کہ جس کے سامنے کوئی غیرمذہب کا پیرو نہیں ٹھہر سکتا بلکہ اسلام اس میدان میں اکیلاہی شہسوار ہے.کسی مذہب کو جھوٹا دعویٰ کرنے کی بھی طاقت نہیں کیونکہ ہر ایک جانتا ہے کہ مقابلہ میں پول کھل جائے گا.آج تک ہزاروں آدمی اسلام میں اس شرف سے مشرف ہو چکے ہیں اور کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں الہام الہٰى کے مدعی مسلمانوں میں موجود نہ ہوں بلکہ ہر ایک گاؤں جس میں مسلمانوں کی آبادی ہے اس کے قبرستان میں کوئی نہ کو ئی قبر کی ایسے بزرگ یا ولی کی نظر آئے گی جوالہام الہٰی کامدعی تھا اور جسے اللہ تعالی ٰکی طرف سے بطور شہادت امور غیبیہ سے اطلاع دی جاتی تھی جس طرح اسلام کی ظاہری شریعت کے چار امام ہیں ای طرح روحانی علوم کے بھی چار امام و مشہورہیں.یعنی سید عبدالقادر جیلانی حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ‘حضرت بہاؤ الدین صاحب نقشبندی ، حضرت معین الدین صاحب چشتی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد ہر ایک سلسلہ میں سینکڑوں خلفاء گزرے ہیں اور ان چار بزرگوں کے علاوہ اور بہت سے ایسے بزرگ گزرے ہیں جنہیں قرب الہٰی حاصل تھا اور کلام الہٰی سے مشرف تھے اور اگر ان لوگوں کو شمار کیا جائے تو ہزاروں سے گزر کر لاکھوں تک ان کی تعداد پہنچ جائے اور یہ لوگ ایسے تھے کہ ان کی زندگیاں ان کے زمانہ کے لوگوں کے لئے اسلام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت تھیں پر نہ صرف آیات قرآنیہ اوراحادیث نبویہ سے ہر زمانہ میں ایسے لوگوں کا ہونا ثابت ہے بلکہ واقعات بھی اس امر کے شاہد ہیں کہ اسلام کبھی ایسے پاک نفسوں سے خالی نہیں رہا جنہوں نے روحانی ترقیات کے اعلیٰ مدارج پر ترقی حاصل کر کے اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت دیا ہے.اس بات سے تو کسی انسان کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جو درخت پھل نہیں دیتا اس میں اور دوسرے بے ثمردر ختوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ جب پھل آنا بند ہو گیا تو اس کی لکڑی صرف جلانے کے کام آسکتی ہے پس جو مذہب ایسا ہے کہ اسے تازہ پھل نہیں لگتے بلکہ یہی کہا جا تا ہے کہ کسی زمانہ میں اسے پھل لگتا تھا وہ اب ثمردار درختوں میں رکھے جانے کے قابل نہیں بلکہ اس قابل ہے کہ آگ کی نذر کیا جائے اور کسی مذہب کا پھل یہی ہے کہ وہ ایسے کامل انسان پیداکرے کہ جو اللہ تعالی ٰکے ساتھ کا تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی نفسانی خواہشات مرگئی ہوں اور اپنے ساتھ ایسے بیّن نشان رکھتے ہوں کہ ان کا وجود دوسروں کے لئے اس مذہب کی صداقت کا نشان ہو پس اگر دوسرے مذاہب اس قسم کے آدی پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو اس بات
۱۱۳ کے مدعی ہوں کہ ہم اس مذہب پر چل کر خدائے تعالیٰ تک پہنچ گئے ہیں اور اس کے مکالمہ کی نعمت عقلی سے مستفید ہوئے ہیں اور ہمارا ایمان صرف سنی سنائی باتوں کی بناء پر نہیں بلکہ مشاہدات کی بناء پر ہے تو وہ بے ثمردرخت ہیں اور ان کا کوئی حق نہیں کہ اپنی صداقت کے مدعی ہوں اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ کبھی ان میں ثمرلگتا بھی تھا تو اب وہ قابل تعریف نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی باغ کامالک اس بات پر فخر نہیں کر سکتا کہ اس کے باغ میں پہلے اچھے پھل لگا کرتے تھے گواب نہیں لگتے.جس وقت اسے پھل لگتے تھے اس وقت وہ قابل تعریف تھا اب وہ صرف ایندھن ہے اور باغ کہلانے کا مستحق نہیں اور چونکہ صرف اسلام ہی ایک ایسامذ ہب ہے جس پر چل کر ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے اسلام ہی سچامذہب ہو سکتا ہے ورنہ اور کوئی مذہب بھی اپنا یہ کمال دکھاۓ کہ اس پر عمل کر کے ہر زمانہ میں باکمال انسان پیدا ہوں پس یہ اسلام کی ایک خصوصیت ہے اور خدائے تعالی ٰکاآ نحضرت ﷺسے وعدہ ہے کہ کم سے کم ہر صدی کے سر پر تو ایک انسان ضرور بھیجا جایا کرے گا جو تجدید دین کرے گا اب اگر ہم کسی زمانہ میں یہ خیال کر لیں کہ اسلام سے بھی یہ خوبی جاتی رہی ہے اور اب آئندہ اس میں کامل انسان پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں تو یہ ایک ظلم ہو گا جس کی کوئی انتہاء نہیں کیونکہ اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہو نگے کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ وعدہ خلاف ہے کہ اس نے ایک وعده خاتم النبیّن سے کیا تھا مگر کچھ مدت کے بعد اسے پورا کرنا چھوڑ دیا.اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ نعوذ بالله آنحضرتﷺنے غلط بیانی کی یا یہ کہ اسلام بھی اب مردہ مذاہب میں شامل ہو گیا ہے اور اب اس میں وہ قوت قدسیہ نہیں رہی جس کی وجہ سے اسے دوسرے مذاہب پر فضیلت تھی مگر یہ سب خیالات باطل ہیں نہ تو اللہ تعالی ٰوعده خلافی کر سکتا ہے نہ آنحضرت ﷺغلط بیانی کر سکتے ہیں نہ اسلام کبھی مرده مذاہب میں شامل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ بنی نوع انسان کے لئے آخری مذہب ہے اور اس کے بعد اور کوئی مذہب نہیں پس اگر یہ بھی مرجائے تو دنیا کی ہدایت کا کوئی سامان نہیں رہتا کیونکہ اسلام کے بعد کوئی اور نیامذہب نہیں آسکتا اس وجہ سے کہ شریعت کامل ہو چکی ہے اور کامل شریعت کے بعد اور کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہیں یہ سب خیالات باطل ہیں.اسلام زندہ مذہب ہے اور قیامت تک اپنی معجزانہ قدرتوں کو ظاہر کرتا رہے گا.اسی ایک مذہب سے روحانی زندگی مل سکتی ہے اور اس کے سوا کوئی اور دروازہ نہیں جس میں سے ہو کر انسان خدائے تعالی ٰتک پہنچ سکے.جب یہ ثابت ہو گیا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اسلام میں ہر صدی کے ایک مجدد
۱۱۴ کا آنا ضروری ہے اور قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور یہ زمانہ بھی ایک ایسے انسان کا محتاج ہے جو اس کے مفاسد کو دور کرے اور اسلام کو پھر قائم کرے اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرے اور اندرونی اور بیرونی خرابیوں کی اصلاح کرے.تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مجدد کہاں ہے؟ جو اس صدی کے سرپر خدائے تعالی ٰ کی طرف سے مبعوث ہوا ہے اس سوال کےجواب میں َمیں جناب کو بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہمیں بھی اس سے محروم نہیں رکھا اور اپنے فضل سے اس صدی کے سر پر بھی ایک عظیم الشان انسان مبعوث کیا ہے جو اپنی شان میں پہلے تمام مجددین سے اعلی ٰاور ارفع ہے اور ان کا نام مرزا غلام احمد ؐصاحب قادیانی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود ؑاور مہدی مسعود کا درجہ عطا فرما کر دنیا میں بھیجا اور وہ اپنا کام کر کے اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو گئے.اور انہیں کے دعوی ٰکے متعلق مجھے اشارہ ہوا ہے کہ میں جناب کو واقفیت بہم پہنچاؤں.جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں اس وقت اسلام کی حالت ایسی کمزور ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسی نہیں ہوئی اور اس قدر بیرونی اور اندرونی دشمن پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے حملوں کادفعیہ بجز تائید الہٰی نہیں ہو سکتا اور اگر ان مفاسد کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالی ٰکی طرف سے کوئی سامان نہ کیا جا تاتو اسلام کا انجام سواۓ تباہی کے اور کچھ نہ ہوتا کیونکہ اب انسانی تدابیر سے کچھ نہیں ہو سکتا.وجہ یہ کہ طبیب اور مریض سب بیمار ہیں اور علماء و صوفياء و امراء و عوام سب کےسب غافل اور دین سے بے بہرہ ہو رہے ہیں اور بدیوں کا سیلاب ایسے زور سے امڈ چلا آرہا ہے کہ اس کے روکنے کی کسی انسان کو طاقت نہیں.بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس قدر دین سے بے پرواہی اس وقت ہے اس کی نظیر دنیا میں اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی اور اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ دنیاوی ترقیات جو اس زمانہ میں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہیں ہو ئیں اور جس قدر ترغیب و تحریص زیادہ ہوتی ہے اسی قدر انسان گناہ میں زیادہ مبتلاء ہو تا ہے.پس دنیاوی عیش و آرام کے سامان اور دنیاوی علوم کی ترقی ایسے انتہائی نقطہ کو پہنچ گئی ہے کہ اس سے پہلے کبھی اسے یہ درجہ حاصل نہیں ہوا.اس لئے اس زمانہ میں گناہوں کی جو کثرت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی اور اس زمانہ میں شیطان کا حملہ پہلے زمانوں کے حملوں سے بہت زیادہ سخت ہے کیونکہ پہلے زمانوں میں گناہوں کی کثرت عام طور سے جہالت کے طریقوں سے ہوتی تھی اور اب بدیوں اور بد کاریوں کے خیالات کو علوم کا رنگ دیکر زیادہ مضبوط طور پر لوگوں کے دلوں میں گاڑا گیا ہے اور علوم کی ترقی نے انسان کو اس
۱۱۵ وہم میں مبتلاء کر دیا ہے کہ میں جو کچھ چاہوں کر سکتا ہوں اب تک میراوہم ہی تھا کہ کوئی زبردست ہستی دنیا کی نگران ہے ورنہ یہ سب کار خانہ چند قوانین نیچر کے ماتحت چل رہا ہے اور میرے ہاتھ میں ان قوانین میں سے بہت سے قواعد کی کنجیاں تو آگئی ہیں اور باقی میں تھوڑی سی کوشش سےحاصل کرلونگا اور اپنے تمام کام خود کر لو نگا پس یہ حربہ پہلے حربوں سے زیادہ تیز ہے اور اس زمانہ کے فتنہ کے دور کرنے کے لئے ایک نہایت ہی مقرب بارگاہ الہٰی کی ضرورت ہے جو اپنی قوت قدسیہ سے اس فتنہ کو دور کرے اور اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے زندہ ثبوت دے تاکہ جو لوگ دنیا کے عشق میں مبتلاء ہیں ان کے دل اس محبت سے سرد ہو کر اللہ تعالی ٰکی طرف متوجہ ہو سکیں.موجودہ فتنہ کی عظمت بظاہر تو نہایت مایوس کن ہے لیکن جب ہم قرآن کریم اور احادیث میں اس فتنہ کی خبر تیرہ سو سال پہلے سے لکھی ہوئی دیکھتے ہیں تو دل مضبوط ہو جاتے ہیں اور یقین آجاتا ہے کہ جس انسان نے تیرہ سو سال پہلے اس فتنہ کی خبر دی تھی اور وہ حرف حرف پوری ہوئی.ضرور ہے کہ اس نے جو علاج بتایا ہے وہ بھی ضرور تیر بہدف ہو گا اور جس خدا نے آج تک اسلام کو اس کے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہے اب بھی بچائے گاوہ علاج کیا ہے؟ وہ ایک ایسے انسان کی بعثت ہے جو حضرت مسیح کے رنگ میں رنگین ہو کر اس دنیا کو مسیحی فتنہ سے بچائے گا اور مہدی کا درجہ پا کر مسلمانوں کی اندرونی اصلاح کرے گا اور ان کے امراض کو دور کرے گا اوراس کے مسیحی نفس سے لوگ شفاء پائیں گے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع کرتے کرتے آپ کا کامل مظہر ہو جائے گا حتیّٰ کہ اس کا کام آنحضرت ﷺ ہی کاکام ہو گا اور اس میں اور آنحضرت ﷺ میں کوئی دوئی نہ ہوگی جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕیعنی آنحضرت ﷺدو دفعہ دنیا کی ہدایت فرمائیں گے ایک دفعہ تو اپنے زمانہ میں جو صحابہ کرامؓ کا زمانہ تھا اور ایک دفعہ آخری زمانہ میں ایک ایسی جماعت کو ہدایت فرمائیں گے جو صحابہ سے فاصلہ پر ہوگی.اب یہ تو ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ فوت ہو چکے ہیں آپ تو دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لا سکتے اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کی کامل اتباع اور فرمانبرداری کر کے ایک شخص اس زمانہ میں اسلام کی درستی اور تجدید کرے گا اس لئے اس کی اصلاح اور اس کا کام آنحضرت اﷺکی ہی اصلاح اور آپ کاہی کام ہو گا کیونکہ وہ آپ کی محبت سے ایساسرشار ہو گا کہ اس کا اپنا وجو بالکل آپ کے وجود میں فنا ہو جائیگا اور دونوں کا تعلق ایسا ہی ہو گا جیسا کہ کسی شاعر نے بیان کیاہے
۱۱۶ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری اور اس تعلق کی طرف اشارہ ہے اس حدیث میں جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ آنحضرت ﷺکی قبر کبھی کھو دی جائے اور اس میں مسیح کو دفن کیا جائے یہ تو ایسی ہتک ہے کہ مجھے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا اور جب تک کسی سچے مسلمان کی جان میں جان ہے وہ اس امر کو کبھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ نحضرت ﷺ کی قبر کو کھودا جائے.پس یہ امر تو خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر کھود کر مسیح کو دفن کیا جائیگا بلکہ اس حدیث کا یہی مطلب ہےکہ مسیح موعود آپ کے رنگ میں ایسار نگین ہو گا کہ اسے آپ کے ساتھ ہی رکھا جائے گا اور قبر اس مقام کا بھی نام ہے جہاں مرنے کے بعد ارواح انسانی رکھی جاتی ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے ثم اماتہ فاقبرہ (عبس:۲۲) اور اگر معروف قبراس آیت میں مراد لی جائے تو کسی طرح درست نہیں ہو سکتا کیونکہ کروڑوں آدمی بجائے دفن ہونے کے جلائے جاتے ہیں پس اَقبَرَہ سے یہی مراد ہے کہ اس مقام میں اسے رکھتا ہے جہاں مرنے کے بعد ارواح کو رکھا جا تا ہے اور یہی وہ قبر ہوتی ہے جو مومن و کافر کے لئے کشادہ ہو جاتی ہے یاتنگ ہو جاتی ہے.پس احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ مسیح موعود آنحضرت ﷺ کاکامل متبع ہو کر آپ کے رنگ میں ہی رنگین ہو جائیگا اور اس وقت کے فتن کے مٹانے کے لئے کسی ایسے ہی وجود کی ضرورت ہے جو آنحضرت ﷺ کا کامل بروز ہو ورنہ یہ فتنہ کسی معمولی انسان سے نہیں مٹ سکتا.جس عظمت کا کام ہواسی عظمت کا آدمی اس کے پورا کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے پس اس زمانہ میں ایک عظیم الشان وجود کی ضرورت ہے جو اس فتنہ کو دور کرے کیونکہ اسلام کا اس وقت صرف نام رہ گیا ہے ورنہ ایمان مفقود ہے اور قرآن کریم کے لفظ محفوظ ہیں مگر معانی کے مستور ہو جانے کا سخت خطرہ درپیش ہے اور اس وقت اسلام کی وہی حالت ہو رہی ہے جو ابتدائے اسلام میں تھی کیونکہ گو اس وقت مسلمان موجود ہیں لیکن جس طرح آنحضرت ﷺکے ابتدائے ایام میں اسلام صرف چند اشخاص تک محدود تھا اسی طرح اب حقیقت اسلام دنیاسے مفقود ہے اور صرف چند کس تک محدود ہے پس اس زمانہ کی اصلاح بالکل اس کام سے مشابہ ہے جو آنحضرت ﷺنے کیا اور سورہ جمعہ سے بھی ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺایک دفعہ پھر دنیا کی ہدایت فرمائیں گے جس کے معنی یہ ہیں کہ
۱۱۷ آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر کوئی شخص اصلاحِ عالم کریگا.اور جب احادیث پر نظر کرتے ہیں تو ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت اﷺکا کامل مظہر مسیح موعود ہو گا کیونکہ اس کی نسبت آیا ہے کہ وہ آپ کی قبر میں داخل ہو گاپس ان سب باتوں کو ملا کر صاف ظاہر ہے کہ یہ زمانہ مسیح موعود کے لئےمخصوص ہے اور اس صدی کا مجدد مسیح موعود ہی ہو نا ہوچاہیے جس کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ لا مهدي الأعيسیٰ (سنن ابن ماجه باب شدة الزمان )یعنی جس وقت مسیح آئیں گے تووہی مہدی ہو نگے ان کے علاوہ کوئی اور مہدی نہ ہو گا.پس یہ زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور تیرھویں صدی کو گزرے تیسں سال ہو چکے ہیں اس وقت کی مجدد کا ظاہر نہ ہونا بلکہ مسیح موعود کا نازل نہ ہونا اسلام کے لئے سخت تباہی کا موجب ہےاور اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ اس صدی کے سر پر کوئی مجدد نہیں آیا تو دشمنان اسلام کے لئےاسلام ہنسی کرنے کا ایک نادر موقعہ بہم پہنچا ہے کیونکہ اس وقت علوم جدیدہ کی کثرت کی وجہ سےلوگوں کے خیالات و دہریت کی طرف مائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں علوم کی اشاعت کی وجہ سے الہام و غیره کا دعویٰ کامیاب نہیں ہو سکتا اور ان دعاوی کے ساتھ آجکل کوئی شخص دنیا میں غالب نہیں آسکتاپس اس صدی کا ایسے شخص سے خالی جانا گویا دشمن دین کے لئے ایک بڑی خوشی کا مقام ہو گا کیونکہ ان کے دعوے کا ثبوت بھی مل جائے گا کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ الہام اور تعلق باللہ سب ڈھکوسلا ہے اور آج سے پہلے جو لوگ قرب الہٰی کے دعوے کر کے اپنے پیرو پیدا کر لیتے رہے ہیں تو یہ جہالت کی وجہ سے تھاور نہ اسلام کا یہ دعویٰ اس صدی کے متعلق کیوں پورا نہ ہواکہ ہر صدی کے سر پر مجّدد کا آنا ضروری ہے اگر ایسا ہو تا چلا آیا ہے تو اس صدی کے سر پر کیوں کوئی مجدد نہیں آیا معلوم ہوا کہ چونکہ اس وقت علوم کی اشاعت کی وجہ سے کوئی شخص اس دعوے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اس لئے کسی کو جرأت نہیں ہوئی غرض کہ اگر یہ صدی مجددسے خالی جائے تو نہ صرف اللہ تعالی ٰپر وعدہ خلافی کا الزام آتا ہے بلکہ مسلمانوں کی رہی سہی طاقت بھی زائل ہو تی ہے کیونکہ دشمنوں کے ہاتھ میں ایک ایسا حربہ آجاتا ہے کہ جس سے محفوظ رہنے کا کوئی طریق نظر نہیں آتا اس زمانہ کا حال تو ایسا ہے کہ آج تک اگر کوئی مجدّد نہ بھی ہوا ہو تا اور کوئی وعدہ بھی نہ ہوتاتب بھی اس زمانہ میں ضرور کوئی مصلح آنا چاہئے تھا تاکہ مخالفین اسلام کو دلائل نیرّہ سے لاجواب کرے چہ جائیکہ مجد دین کا سلسلہ چلتے چلتے اس زمانہ میں آکر رک جائے.مگر جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں اللہ تعالی ٰنے اس زمانہ کو بھی مجدد سے خالی نہیں جانے دیا اور
۱۱۸ جیسا کہ آنحضرت ﷺسے وعدہ تھا اور زمانہ کا مطالبہ تھا اس شخص کو بھیج دیا جو اس زمانہ کےفتنہ کو دور کرنے کے قابل تھا اور اس کے وجود سے اسلام کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کردیا اوردشمنان اسلام کو سخت رسواو ذلیل کیا.اور یہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہےچنانچہ علاوہ ضروریات زمانہ کے جس قدر علامات مسیح موعود کے نزول کے لئے بیان کی گئی ہیں وہ سب پوری ہو چکی ہیں اور اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ زمانہ کے موعود او ر مہدی مسعود کا زمانہ ہے مثلا ًآنحضرت ﷺ نے مہدی معہود کے لئے ایک زبردست علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ اس کے زمانہ میں چاند کی پہلی اور سورج کی درمیانی شب کو رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف ہو گا اور آپ نے اس علامت کی نسبت یہاں تک فرمایا کہ ایساواقعہ پیدائش عالم سے اب تک نہیں ہوا حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں ان لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموات والأرض ينخسف القمرلاول لیلہ من رمضان وتنکسف الشمس في النصف مثه «سنن دار قطنی باب صفحہ صلاة الخسوف والكسوف و هینتهما)، پس یہ ایک زبردست علامت ہے جس پر شیعہ اور سنی دونوں اقوام کا اتفاق ہے اور اسے پورے ہوئے آج قربیاً بیسں سال ہو گئے ہیں بعض لوگ اس پیشگوئی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں تو رمضان کی تیرھویں کو چاند گرہن اور اٹھائیسویں کو سورج گہن ہو اتھا مگر حدیث میں پہلی اور نصف کا ذکر ہے اس کے متعلق بھی میں جناب کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اعتراض ان لوگوں کے قّلتِ تدبر کا نتیجہ ہے کیونکہ اس حدیث میں خسوف قمرکا ذکر ہے اور قمر عربی زبان میں اس چاندکو کہتے ہیں جو تیسری رات سے اوپر کا ہو.پہلی تاریخ کے چاند کو عربی میں ہلال کہتے ہیں نہ کہ قمر اور قمر کی یہ خصوصیت لسان العرب و غیر لغت کی بڑی کتابوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی کتب لغت میں بھی موجود ہے چنانچہ منجد میں بھی قمرکے یہ معنے لکھے ہیں القمر كوكب یستعدنورہ من الشمس ، فينعكس على الأرض فيرفع ظلمة اللیل و هو قمر بعد ثلاث ليال الى اخر الشهر واما قبل ذالک فھو ھلال مگر افسوس ہے کہ اس وقت مسلمانوں سے عربی زبان کا علم بالکل اٹھ گیا ہے اور جہالت ان پر غالب ہو گئی ہے.غرض کہ اس حدیث کے یہ معنے کرنے کہ چاند کی پہلی رات اور سورج کو پندرہویں تاریخ گہن لگے گا عربی زبان اور سنت اللہ کے خلاف ہیں کیونکہ سنت اللہ بھی یہی ہے کہ چاند کو ہمیشہ تیرھویں چودھویں پندرھویں کو اور سورج کو ستائیسویں اٹھائیسویں اور انیسویں کو گہن لگا کر تا ہے.اور پہلی رات سے مراد تیرھویں (۱۳) رات ہے.جو
۱۱۹ ان راتوں میں سے پہلی ہے جن میں چاند کو گہن لگتاہے اور درمیانے دن سے مراد اٹھائیسویں تاریخ ہے جو ان تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ ہے جن میں سورج کو گہن لگتا ہے.اور ان تاریخوں میں چاند اور سورج کو گہن لگ چکا ہے جس سے ثابت ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں اس مہدی کا ظہور ہوا جس نے یہ مسیح کہلانا ہے.اسی طرح اس زمانہ کی ایک یہ علامت آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ لیترکن القلاص فلا یسعی علیھا (مسلم کتاب الایمان باب بیان نزول عینی ابن مریم )یعنی اونٹ چھوڑ دئیےجائیں گے اور کوئی ان پر سوار نہ ہو گا اور قرآن شریف میں بھی ہے کہ و اذا العشار عطلت(التکویر : ۵ )یعنی دس ماہ کی گا بھن اونٹنی کی بھی قدر نہ رہے گی اور وہ کھلی چھوڑ دی جائے گی چنانچہ اس زمانہ میں ریل کی سواری کی وجہ سے ان جانوروں کی وہ ضرورت نہیں رہی جو پہلے تھی اوراب تو مدینہ منورہ تک ریل پہنچ چکی ہے اور مکہ مکرمہ تک لے جانے کی تجویز ہو رہی ہے پس اس علامت نے بھی اپنے وقت پر پورا ہو کر مسیح موعود کے زمانہ کی گو اہی دیدی ہے اسی طرح اخبارات اور کتب کی اشاعت اور اریگیشن کی ترقی کی خبر دی گئی تھی جیسے کہ فرمایا واذاالصحف نشرت(التکویر ۱۱) اورواذاالبحار سجرت (التکویر : ۷) اور آجکل مطابع کی ایجاد سے صحف و اخبار کی جوکثرت ہے اور ریلوں کی وجہ سے ان کی جس قدر اشاعت ہے وہ محتاج تصدیق نہیں پھر دریاؤں کے پانی کاٹ کاٹ کر جس طرح نہریں نکالی گئی ہیں اور جس طرح دریاؤں کے پانیوں کو سکھادیا گیاہے وہ بھی ایک بیّن امر ہے جس کے لئے کسی مزید شہادت کی ضرورت نہیں اسی طرح اور بہت سی علامات ہیں جو مسیح موعود کے زمانہ اور قرب قیامت کے لئے نشان قرار دی گئی ہیں اور وہ پوری ہوچکی ہیں پس قرآن کریم اور احادیث کی شہادت سے صاف ثابت ہے کہ یہ زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہی ہے بلکہ بتیس (۳۲) سال سے وہ زمانہ شروع ہے کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آنا چاہئے اور اب تو تیرھویں صدی ختم ہو کر چودھویں صدی سے بھی تیسرا حصہ گزر چکا ہے.پس جبکہ یہ زمانہ مسیح موعود کا ہے اور اس کی بعثت کا زمانہ ہے بھی صدی کا سر.تو حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ قادیانی کا دعویٰ قبول نہ کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہتا کیونکہ آپ کے سوا اس وقت دنیا کے پردہ پر کسی انسان نے مسیح موعود ؑہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی مجددیت کامدعی ہے اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو مرزا صاحب کادعویٰ سچا تسلیم کیا جائے یا اسلام کی
۱۲۰ اس عظیم الشان پیشگوئی کو باوجو و علامات کے پورا ہونے کے غلط قرار دیکر اسلام کا انکار کیا جائے (نعوذ باللہ من ذلک) اور دشمنان اسلام کا حق ہے کہ وہ ہم سے مطالبہ کریں کہ اس صدی کا مجد وکونسا ہے اسے ہمارے سامنے پیش کرو کیونکہ تمہارے ساتھ وعدہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر ہرآئیں گے اسی طرح وہ مسیح موعود کی بعثت کا بھی سوال کر سکتے ہیں کہ جو زمانہ بتایا گیا تھا اسے تو بتیس(۳۲) سال گزر چکے ہیں پھر وہ اب تک کیوں نہیں آیا.جب کوئی شخص ایسامدعی نہیں کھڑا ہواتو اسلام کی صداقت میں شبہ لازم آتا ہے.اسی طرح دشمنوں کا اعتراض ہو سکتا ہے کہ تم تو اسلام کو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور پسندید ہ مذہب کہتے ہو.اگر تمهارا دعویٰ سچا ہوتا تو اب جبکہ اسلام پرایسا خطرناک وقت آیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس سے بدتر اور کوئی حالت ہے کہ وہ اسلام پر آسکتی ہے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے اس کی حقیقت کو ایسا مسخ کر دیا ہے کہ اصل اسلام کا کوئی پتہ ہی نہیں ملتا تو ضرور تھا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کوئی شخص ایساکھڑاکر تاجو اسلام کو پھراپنی اصلی شان و شوکت پر لاتا اور اس کی جڑوں کو مضبوط کرتا لیکن جبکہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی کوئی خبر نہیں لی اور اسے چھوڑ دیا ہے کہ وہ ذلیل ہو اور ہر طرح اسے کچلا جائے تو معلوم ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ کا مذہب نہیں اس اعتراض کا جواب وہ لوگ کچھ بھی نہیں دے سکتے جو اس صدی کے سر پر کسی مجدد کے قائل نہیں یا جو مسیح موعود کے ظہور کی علامات کو دیکھتے ہوئے پھر کسی مسیح کے ماننے کے لئے تیار نہیں مگر اللہ تعالی ٰکے فضل سے احمدی جماعت اس اعتراض کو فورا ًردکر سکتی ہے اورکہہ سکتی ہے کہ اللہ تعالی ٰکے فضل سے یہ صدی بھی مجدد سے خالی نہیں گئی اور اس زمانہ میں معمولی مجد د نہیں بلکہ مسیح موعود کو بھیج کر اللہ تعالی ٰنے اسلام کو مضبوط کر دیا ہے اور اس کے ذریعہ سے اسلام کی عظمت کو قائم کیا ہے اور اسلام کو مصائب میں نہیں چھوڑا بلکہ ایسی دستگیری فرمائی ہے کہ دشمنوں کے گھروں میں ماتم پڑ گیا ہے.میں جناب کے سامنے اس وقت تک اس بات کا ثبوت پیش کر چکا ہوں کہ اسلام کی حالت ایک مصلح کی طالب ہے اور اب مسلمانوں کی درستی اسی صورت میں ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی کھڑا کیا جائے جو اپنی قوت قدسیہ سے اصلاح کرے اور یہ کہ آنحضرت اﷺسے بھی یہ وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود مبعوث ہوں گے اور وہ زمانہ یہی ہے اور یہ کہ مجدد کی بعثت کا وقت صدی کا سر ہو تا ہے اور وہ گزر چکا ہے اور اس وقت مرزا صاحب قادیانی کے سوا اور کوئی شخص مدعی مسیحیت اور مہدویت نہیں ہے پس اگر آپ کا دعوی ٰنہ قبول کیا جائے تو خود
۱۲۱ اسلام کی سچائی سے انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ عین ضرورت کے وقت اس وعدہ کا ایفاء نہیں ہواجو تیرہ سو سال پہلے کیا گیا تھا اور جسے اسلام کے قیام کا ایک بہت بڑانشان قرار دیا گیا تھا.اس کے بعد میں دو اور شبہات کا ازالہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ مرزا صاحب مسیح موعود کیونکر ہو سکتے ہیں جبکہ مسیح کی نسبت عام طور پر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے اور انہیں کے ذمہ اصلاح مفاسد ہے دوسرے یہ کہ مسیح موعود کی آمد کی بڑی علامت خروج دجال ہے جب تک دجال نہ نکلے مسیح موعوو کاظہور کیونکر ہو سکتا ہے.پہلے سوال کے جواب میں یہ عرض ہے کہ قرآن شریف احادیث صحیحہ میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے ایک برگزیدہ نبی تھے اب تک زندہ ہیں اور وہی دوباره آئیں گے اصل بات یہ ہے کہ یہ عقیدہ ان مسیحی نو مسلموں کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیل گیا جو ابتدائے اسلام میں بڑی کثرت کے ساتھ مسلمانوں میں داخل ہوئے تھے چونکہ وہ مسیح علیہ السلام کو خدا کا فرزند مانتے تھے اور وہ عزت ان کے دلوں میں فوراً نہیں نکل سکتی تھی اس لئے وہ کچھ ایسے قصے اپنے ساتھ لے آئے جن سے یہ مسیح کی عظمت ظاہر ہو اور مسلمانوں نےسادہ لوحی سے بجاۓ ان کی اصلاح کے ان کے خیالات کو اخذ کر لیا اور ایک خطرناک غلطی میں مبتلاء ہو گئے ورنہ قرآن کریم تو جہاں ذکر کرتا ہے مسیح علیہ السلام کی وفات کا ہی ذکر کرتا ہے بلکہ اور انبیاء کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر زور نہیں دیا جس قدر مسیح علیہ السلام کی وفات پر زور دیا ہے اور مختلف پیرایوں میں آپ کی وفات کا ذکر کیا ہے اور اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی ٰعلیم و خبیر ہے وہ جانتا تھا کہ کسی وقت یہ عقیدہ مسلمانوں کو خراب کرے گا چنانچہ فرمایا ہے یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ ( ال عمران :۵۶) اس آیت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کا یہ کہناکہ مسیح علیہ السلام آسمان پر تو جا بیٹھے ہیں لیکن ابھی تک تو متوفیک کاوعدہ پورا نہیں ہو ا جو رافعک سے پہلے مذکور ہے ایک ظلم عظیم ہے جس لفظ کو اللہ تعالی ٰپہلے رکھتا ہے کسی کا کیا حق ہے کہ اسے پیچھےکرے؟ قرآن کریم ایک قانون کی کتاب ہے اور اس کے احکام پر چلنا مسلمانوں کا فرض ہے اگر اس کے الفاظ کو آگے پیچھے کر کے معنے کرنے شروع کر دیئے جائیں تو جناب اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کیسا اندھیر ا پڑ سکتا ہے کوئی دنیا کی حکومت اس بات کو روا نہیں رکھ سکتی کہ اس کے
۱۲۲ کوڈ کے دفعات کو لوگ الٹ پلٹ کر دیں اور اگر کوئی جج ایسی حرکت کرے تو فوراً اسے علیحدہ کیا جائے کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے جج رکھا جا سکے.اور چونکہ جناب کو اللہ تعالی ٰنے حاکم بنایاہے اس مسئلہ کو جناب بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ قانون کے الفاظ کو بغیر ہدایت شارع آگے پیچھےکرنے سے کسی قدر خطرناک نقصانات کا احتمال ہو سکتا ہے پھر خدا تعالیٰ کے کلام کو نہایت دلیری سے اپنے منشاء کے ماتحت چلانا اور جہاں چاہنا کہہ دینا کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کون شخص فصیح کلام کر سکتا ہے؟ دو خودالفاظ کو آگے پیچھے کر سکتا تھا ضعیف انسان کا اللہ تعالی ٰکے مقابلہ میں دعوی ٰکرنا کہ خدا تعالی ٰنے جس لفظ کو پہلے رکھاہے میں اسے پیچھے کروں گا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا.ہاں اگر خود قرآن کریم ہی فرما دیتا کہ اس لفظ کو پہلے رکھو اور اس کو پیچھے تو وہ اور بات تھی یا خود آنحضرت ﷺ ایسا فرما دیتے تب بھی بات تھی لیکن ہمارا ایسی دلیری کرنا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا اور ایسی حرکت کو اپنے قانون کے متعلق دنیاوی حکومتیں بھی جائز نہیں قرار دیتیں چہ جائیکہ خدائے علیم و خبیر اپنے کلام میں اس تصرف کو پسند فرمائے.نعوذ باللہ من ذلک.جناب اس بات کو دیکھ سکتے ہیں کہ یہ آیت حضرت مسیح کی وفات کے متعلق کیسی صاف ہے.الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دو نگا اور تیرا درجہ بلند کروں گا.اور تجھے پاک قرار دونگا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دو گا اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں پوری ہو چکی ہیں.حضرت مسیح کا ؑ رفع بھی ہو چکا ہے آپ کو قرآن کریم نے ان سب الزامات سے جو یہود آپ پر لگاتے تھے پاک بھی قرار دے دیا آپ کے متبعین کو آپ کے منکرین پر غلبہ بھی مل چکا ہے اب اگر متوفیک کا وعدہ پورا ہونا باقی ہے تو اس کا مقام یوم قیامت ہی ہے کیونکہ جاعل الذين اتبعوک فوق الذين كفروا إلى يوم القيمة کاعرصہ قیامت کے دن تک ممتد ہے پس اگر توقيت کا وعدہ اس سے پہلے پورا ہونا تھا تو چو نکہ غلبہ نصاریٰ بریہود ہو چکا ہے آپ فوت بھی ہو چکے ہیں اور اگر بفرض محال تقدیم و تاخیر کی وجہ سے اس کے بعد ممتوفیک کاوعده پورا ہونا ہے تو یہ وعدہ تو قیامت تک چلا جائیگا اس کے بعد وفات کا یہ مطلب ہے کہ جب سب لوگ زندہ کئے جائیں گے اس وقت مسیح علیہ السلام کو وفات دی جائیگی اور یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ وقت زندہ کرنے کا ہوگانہ مارنے کا.تو مجبور اًیہ ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح وفات سے بالکل محفوظ رہیں گے اس سے ایک توممتوفیک کی تکذیب ہوتی ہے دوسرے مسیح کو خدا ماننا پڑتا ہے کیونکہ موت
۱۲۳ سے محفوظ تو خدا تعالی کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں.غرض اس تقدیم و تاخیر سے اس قدرنقا ئص لازم آتے ہیں کہ اسلام کا ان سے قلع قمع ہو جاتا ہے اور کونسا مسلمان ہے جو اپنی خوشی سے اسلام کی تباہی چاہے گا؟- اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تقدیم و تاخیر کی اجازت قلت تدبر کی وجہ سے لوگوں نےدی ہے ورنہ کلام العلوک ملوک الکلام اس شہنشاه کاکلام چھکے سامنے سب دنیا کے بادشاہ لرزاں وترساں ہیں اور ہر وقت اس کے محتاج ہیں ایسے عیوب سے بالکل پاک ہے اور اس نے جو لفظ جہاں رکھا ہے وہیں درست ہے اس کے آگے پیچھے کرنے کی کسی کو اجازت نہیں اور اگر کوئی آگے پیچھے کرے تو ضرور نقص لازم آئے گا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اگر آیت یعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ...میں تقدیم و تاخیر کریں تو مسیح علیہ السلام کی وفات کا کوئی وقت رہتاہی نہیں کیونکہ باقی سب وعدے پورے ہو چکے ہیں اور صرف متوفییک کو اگر باقی رکھا جائے توالى يوم القية کے بعد اس کی جگہ بنتی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح کبھی فوت ہی نہ ہو نگے پسں بہتری ہے کہ تقدیم و تاخیر کو اللہ تعالی ٰکے کلام میں جائز نہ قرار دیا جائے ورنہ اس ذات باری کی ہتک بھی ہوگی اور اپنے علم کی بھی کمزوری ثابت ہوتی ہے.میں جناب کے سامنے اس وقت ایک دو مثالیں پیش کرتاہوں جن میں لوگوں نے قدیم و تاخیر کا فیصلہ دیا ہے لیکن دراصل ان کی غلطی ہے قرآن کریم کے لفظ جہاں رکھے گئے ہیں وہیں درست ہیں ان کاہلانادرست نہیں.مثلا ًبعض علماء نے لکھا ہے کہ یؤمنون بما انزل اليك وما أنزل من قبلک (البقرہ:۵)میں تقدیم و تاخیر ہے کیونکہ پل ما انزل من قبلک چاہیے جو پہلے نازل ہوا اس کا ذکر پہلے مناسب تھا اور جو بعد میں نازل ہوا اس کا ذکر بعد میں چاہئے تھا.لیکن ایسا کرنے والوں نے صرف ایک ہی طرف نظر رکھی ہے یعنی نزول کے مدارج کو تو مد نظر رکھا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ ترتیب کے لئے کئی امور کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے مثلا ًجب دو شخصوں کا ذکر کیا جائے تو بسا اوقات ان کی عمروں کے لحاظ سے ان کے ناموں کا ذکر کیا جائے گا لیکن کبھی ان کے قرابت کے لحاظ سے نام لئے جائیں گے اور اگر کوئی شخص اعتراض کرے تو یہ اس کے قلت تدبر کا نتیجہ ہو گا.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نو عمر حاکم اگر کسی کے ہاں جائے تو وہ اس کے استقبال اور خاطر مدارات کی طرف متوجہ ہو گا نہ کہ اس کے ساتھ کے بڑی بڑی عمروں کے ملازمین کی طرف.پس صرف کسی چیز کا زمانہ میں پہلے ہونا اس بات کو نہیں چاہتا کہ اس کا ذکر پہلے کیا جائے بلکہ بسا اوقات ترتیب دینے میں مراتب کو مد نظر رکھا جا تاہے
۱۲۴ اور بڑی شان والی اشیاء کا ان سے ادنی ٰ مرتبہ والی اشیاء سے پہلے ذکر کیا جا تا ہے.مجھے اس بات کے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ایک مسلمان توریت اور انجیل کو مان کرقرآن کریم کو نہیں مانتا کہ چونکہ وہ قرآن کریم کو مانتا ہے اس لئے توریت اور انجیل کو بھی مانتاہےاور اگر قرآن کریم ان کتب کی تصدیق نہ کرتا اور حضرت موسیٰؑ اور حضرت مسیح علیہ السلام کےدعاوی کے برحق ہونے کی شہادت نہ دیتا تو ہمارے پاس کوئی ثبوت نہ تھا کہ ہم ان دونوں برگزیدوں کو خدا کے نبی یقین کرتے پس ایک مسلمان کا ایمان پہلی کتابوں پر اس لئے نہیں کہ اس نے ان کی صداقت کا امتحان کر لیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ کتب سچی ہیں اگر قرآن کریم ان کی صداقت کی شہادت نہ دیتاتو بہت سے مسلمان ان کو کتب سماویہ میں داخل کرنے سے بالکل انکار کر دیتے کیونکہ ان کتابوں میں اس قدر تحریف ہو چکی ہے کہ انہیں پڑھ کر تعجب ہوتا ہے مثلاً توریت کے آخر میں موسیٰؑ کی نسبت یہ لکھا ہوا ہو ا کہ پھر موسیٰؑ مرگیا اور اب تک اس کی قبر کا پتہ نہیں اور اب تک اس جیسا کوئی انسان نہیں پیدا ہوا صاف بتا رہا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی وفات کے سالہاسال بعد یہ فقرات لکھے گئے ہیں پر ہم اسے موسیٰؑ کا الہام کیونکر کہہ سکتے ہیں غرض کہ توریت و انجیل کو اگر ہم مانتے ہیں تو صرف اس لئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ کتابیں بھی ابتداء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی اتری تھیں پس ہمارا ان پر ایمان لانابر اہ ِر است نہیں بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہے اور اللہ تعالی ٰکا یہ فرمانا کہ یؤمنون بما انزل اليك وما أنزل من قبلک بالکل درست ہے اور اس میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں.یہ آیت اس ترتیب سے اپنے پورے معانی ادا کر سکتی ہے اگر انزل الیک کو پیچھے کر کے اس کے معنے کریں اور تقدیم و تاخیر کو تسلیم کریں تو وہ لطیف اشارہ جو اس آیت میں قرآن کریم کے اس احسان کی طرف کیا گیاہے جو اس نے کتب سابقہ پر کیا ہے باطل ہو جاتا ہے اور وہ لطافت اس کلام میں رہتی ہی نہیں کیونکہ گو پہلی کتب نزول کے لحاظ سے پہلے ہیں لیکن مسلمان کا ایمان ان پر قرآن کریم پر ایمان لانے کے بعد ہو تا ہے مثلاً ایک ہندو جب اسلام لاتا ہے تو کیا انجیل اور توریت کو مان کر پھر قرآن کو مانتا ہے یا پہلے قرآن کریم کو مان کر اس میں ان کتب کی تصدیق رکھ کر ان کتب پر ایمان لاتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ پہلے قرآن کریم کو مانتا ہے پھر اس کے اشارہ سے ان کی صداقت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور چونکہ اس آیت میں ذکر بھی ایمان لانے کا ہے اور ایمان کے لحاظ سے ایک مسلمان قرآن کریم کو مان کر پھر دو سری کتب کو مانتا ہے پس ضروری تھا کہ جس ترتیب سے یہ آیت ہے اسی ترتیب سے
۱۲۵ اس کے معنے کئے جائیں اور جن لوگوں نے اس میں تقدیم و تاخیر کو جائز رکھا ہے انہوں نے اس لطیفہ کو جو ابھی مذکور ہوا ہے نہیں سمجھا.اسی طرح سورہ جمعہ میں ایک آیت ہے کہ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًاؕ-قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (الجمعه : ۱۲) اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ جو لفظ قرآن کریم میں کسی ترتیب سے بیان کئے جائیں وہی ترتیب اس سے مراد لی جائے کیونکہ اس آیت میں ایک جگہ تو تجارت کولهوسے پہلے بیان کیا ہے اور دوسری جگہ لهو کو تجارت سے پہلے بیان کیا ہے جس سے معلوم ہواکہ ترتیب مراد نہیں ہے ورنہ ایک ہی آیت میں یہ دو الفاظ دو طرح کیوں بیان کئے جاتے ؟ اور کیوں ایک دفعہ ایک لفظ کو اور دوسری دفعہ دوسرے لفظ کو پہلے رکھا جاتا؟ مگر میں جہاں تک اس آیت پر غور کر تا ہوں مجھے یہ آیت بر خلاف ان لوگوں کے قیاس کے جو اس سے تقدیم و تاخیر ثابت کرتے ہیں اس بات پر حجت معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ جہاں رکھا گیا ہے اسی جگہ مناسب تھا اور دو سری جگہ اس کا رکھنا جائز نہیں اور بجائے ترتیب کلمات کے خلاف ہونے کے یہ اس کی موید ہے اور وہ اس طرح کہ آیت کریمہ میں دو باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک تو یہ کہ جب تجارت و لھو کو دیکھتے ہیں تو تجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے وہ لهو و تجارت سے بہتر ہے پہلی صورت میں تو تجارت کولهو سے پہلے بیان کیا ہے اور دوسری صورت میں امر کو تجارت سے پہلے بیان کیا ہے اور جہاں تک میں غور کرتا ہوں مجھے اس اختلاف میں قرآن کریم کی شان عظیم نظر آتی ہے وہ اس طرح کہ پہلی صورت میں یہ مذکور ہے کہ لوگ تجارت اورلهو کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں اور رسول اور دین کی طرف کم خیال کرتے ہیں اب یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں یہ بتانا مد نظر ہے کہ انسان دنیاوی فوائد اور اپنے نفس کے آرام کو دین اور اللہ تعالے کے احکام پر عام طور پر مقدم کرلیتا ہے اب یہ دیکھنا چاہئے کہ دین سے غافل کر دینے والی جو دو چیزیں بیان کی گئی ہیں یعنی تجارت او رلهو ان میں سے کونسی دین سے زياده غافل کردینے والی ہے.اسی کا پہلے ذکر کرنااحسنِ كلام کے لئے ضروری ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ تجارت لهوسے زیاده غافل کرنے والی ہے کیونکہ تجارت میں انسان کو فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور لھو میں صرف ایک غفلت ہی غفلت ہوتی ہے ورنہ فائدہ کچھ نہیں پس تجارت زیاده موجب ہے دین سے غفلت کی بہ نسبت لهو کے.کہ وہ بھی موجب غفلت تو ہے لیکن تجارت سے.
۱۲۶ کم ہے.کیونکہ تجارت کی طرف رغبت کرنے کے لئے بعض زبردست محرک بھی ہوتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے کا انتظام اور اپنے بیوی بچوں کے معاش کی فکر.اورلھو میں کوئی حقیقی مجبوری نہیں ہے جو انسان کو دین سے غافل کر دے.لهو کو انسان بغیر کسی نقصان کے خطرہ کے چھوڑ سکتا ہے لیکن تجارت کو بغیر خطرہ نقصان کے نہیں چھوڑ سکتا.پس تجارت کا اختیار کرنا نفع کا موجب اور اس کا ترک کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے او رلهو کا اختیار کرنا صرف دل کے بہلانے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کسی نفع کے لئے اور اس کے چھوڑ دینے سے کوئی نقصان نہیں ہیں تجارت لهو کی نسبت لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی زیادہ محرک ہے اس لئے اس جگہ تجارت کاذ کرلھو سے پہلے کرنا زیادہ مناسب تھا اور اس کے خلاف مناسب نہ تھا.اب یہ سوال ہے کہ پھر اس آیت کے آخر میں ہے جو فرمایا ہے کہ قل ما عند الله خير من اللھو و من التجارة تویہاں کیوں لهو کو تجارت سے پہلے بیان کیا کیوں نہ یہاں بھی وہی ترتیب مد نظر رکھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وہ بات نہیں بیان کی گئی جو پہلے حصہ آیت میں بیان کی گئی تھی بلکہ یہاں موضوع کے بدل جانے کی وجہ سے ترتیب میں بھی فرق کرنا ضروری تھا اور اگر ترتیب میں فرق نہ کیا جا تاتو نقص لازم آتا اور وہ اس لئے کہ یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وه لهو اور تجارت سے بہتر ہے پس یہاں ان دونوں الفاظ کی ترتیب میں یہ نہیں مد نظر رکھا جائے گا کہ دونو میں سے کونسی شئے زیادہ غفلت کا باعث ہے بلکہ یہاں مدنظر رکھا جائے گا کہ ماعندالله کس چیزسے زیادہ بہتر ہے اگر لھوسے زیادہ بہتر ہے تلور کو پہلے رکھا جائے اور تجارت کو بعد میں.اور یہ بات ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ تجارت ایک حد تک اپنے اندر فوائد بھی رکھتی ہے میں اگر آخرت کے لئے سُکھ کا موجب نہیں تو کم سے کاس دنیا کی زندگی کے لئے تواس کے ذریعہ سے سامانِ راحت مہیا کیا جاسکتا ہے پس لهو جو نہ دنیا کے لئے بہتر ہے نہ دین کے لئےاس موقع پر اس کو پہلے بیان کرنا ضروری تھا تا کہ کلام کی عظمت قائم رہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص من کیادومن اٹھا سکتا ہے تو اس فقرہ میں من کو دو من سے پہلے بیان کرنا ضروری ہے اور اگر برخلاف اس کے یہ کہے کہ فلاں شخص دومن کیا ایک من بھی اٹھاسکتاہے تو کام مہمل ہو جائے گا اسی طرح اس جگہ اگر یوں بیان کیا جا تا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تجارت سے بہتر ہے بلکہ لھو سے بھی تو کلام کی لطافت میں فرق آجاتا کیونکہ جب فضیلت میں مقابلہ ہو تو ضرور ہے کہ پہلے ایسی اشیاء پر فضیلت ظاہر کی جائے جو کم درجہ کی ہیں اور اس کے بعد ان پر جو.
۱۲۷ درجہ میں زیادہ ہیں اور اگر پہلے بڑے درجہ کی اشیاء پر فضیلت ظاہر کی جائے گی تو انکے بعد چھوٹے درجہ پر فضیلت کا ظاہر کرنا تحصیلِ حاصل ہو گا اور وہ حصہ کلام کا لغو اور بے فائدہ ہو گا پس اس موقعہ پر چونکہ ما عنداللہ کی فضیلت ظاہر کرنی مقصود تھی ضروری تھا کہ پہلے لهو کو بیان کیا جا تاجو تجارت سے ادنیٰ درجہ کی چیز ہے ورنہ کلام کی عظمت زائل ہو جاتی غرض کہ اس آیت نے تو ثابت کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ترتیب کا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے اور کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا.میرا ان دونوں مثالوں کے بیان سے یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کی نسبت اپنےخیالات کے مطابق معنے کرنے کے لئے اس کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر قرار دینی ایک خطرناک راه ہے اور کسی کا حق نہیں کہ بلا اجازت قرآن کریم اور بغیر تفسیر آنحضرت ﷺکے ایسی جرأت کرے ورنہ امن اٹھ جائے گا اور جو شخص چاہے گا اپنی خواہش کے مطابق آگے پیچھے لفظ کر کے معنے کرلیگا میرا دل تو چاہتا تھا کہ میں جناب کو دکھاؤں کہ جس قدر آیات میں تقدیم و تاخیر فرض کرلی گئی ہے ان میں وہی ترتیب مناسب ہے جو قرآن کریم میں رکھی گئی ہے اور جنہوں نے اس کے خلاف کہا ہے وہ غلطی پر ہیں لیکن قلتِ گنجائش مانع ہے اس لئے میں صرف ان دو مثالوں پر ہی اکتفا کرتا ہوں جن لوگوں کو تقدیم و تاخیر کی طرف توجہ ہوئی ہے اصل میں ان کو ایک دھوکا لگا ہے کہ انہوں نے ترتیب کے لئے پہلے کچھ قوانین اپنے ذہن میں بنائے ہیں کہ ترتیبِ الفاظ فلاں فلاں اصول کی بناء پر ہونی چاہئے لیکن چونکہ انسانی دماغ کمزور ہے وہ بہت سی وجوہات کو ترک کر گئے اگر وہ بجائے خود وجوہات کی ترتیب بنانے کے اللہ تعالی ٰکے کلام پر غور کرتے کہ اس میں کیسی ترتیب مد نظر ہے تو ان کو یہ ٹھوکر نہ لگتی آیت انی متوفیک و رافعک الی میں بھی یہی غلطی لگی ہے اور اس کا باعث یہی ہے کہ بجائے قرآن کریم کے ماتحت اپنے خیالات کرنے کے قرآن کریم کو اپنے خیالات کے ماتحت کیا گیا اور یہ عقیدہ جماکر کہ حضرت مسیحؑ زندہ ہیں قرآن کریم پر غور کیا پھر جہاں مشکل پڑی وہاں تقدیم و تاخیر کے مسئلہ کے پیچھے پناہ لے لی لیکن حق یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع ان کی وفات کے بعد ہوا جیسا کہ کل مؤمنوں اور نبیوں کا ہو تا ہے اوراسی رفع کے حصول کے لئے مسلمانوں کو دعا سکھائی گئی ہے کہ اللهم اغفرلی و ارحمني واهدني وارزقنی وارفعنی واجبرنی اور احادیث سےمؤ منوں کارفع ثابت ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓسے روایت ہے کہ یقول الله من تواضع لی ھکذا رفعتہ ھکذا ا(مسند احمد بن جنبل جلد اول صفحہ ۴۴)
۱۲۸ آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کا اجماع بھی اسی مسئلہ پر ہوا ہے کہ کل انبیا ء وفات پاگئےہیں اوراسکی یہ وجہ ہوئی کہ آپ کی وفات پر حضرت عمرؓ کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آپ ابھی زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے اور آپ کو اپنے اس اعتقاد پر اسقدر یقین تھا کہ آپ اس شخص کی گردن اڑانے کو تیار تھے جو اسکے خلاف کہے لیکن حضرت صدیقؓ جب تشریف لائے اور آپ نے كل صحابہ کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ (ال عمران: ۱۴۵) تو حضرت عمر ؓفرماتے ہیں کہ میرے پاؤں کانپ گئے اور میں صدمہ کے مارے زمین پر گر گیا اور صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں یوں معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی اتری ہے اور ہم اس دن اس آیت کو بازاروں میں پڑھتے پھرتے تھے پس اگر کوئی بھی زندہ موجود ہو تاتو یہ استدلال درست نہیں تھا کہ جب سب نبی فوت ہو گئے تو آپ کیوں فوت نہ ہو تے حضرت عمرؓ کہہ سکتے تھے کہ آپ کیوں دھوکہ دیتے ہیں حضرت مسیحؑ ابھی زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں وہ زندہ ہیں تو کیوں ہمارے آنحضرت ﷺ زندہ نہیں رہ سکتے مگر سب صحابہؓ کا سکوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سب صحابہؓ کا یہی مذہب تھا کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو گئے ہیں.امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عباس کا قول نقل فرماتے ہیں کہ متوفيک ممیتک اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مات عیسی جیسا کہ کتاب مجمع البحار میں لکھا ہے باقی ائمہ کا سکوت ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی اس عقیدہ کے مخالف نہ تھے پس وفات مسیح علیه السلام کا مسئلہ بالکل صاف ہے اور قرآن کریم اور احادیث اسی کی موید ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ لو كان موسى و عيسي حيین لما وسعھما الا اتباعی (الیواقیت والجواہر مرتبہ امام شعرانی صفحہ ۲۰)ہاں حیات مسیح علیه السلام کا مسئلہ بعد میں مسلمانوں میں رائج ہوا ہے مگر اسکو مان کر قرآن کریم کی تکذیب لازم آتی ہے.کوئی تعجب نہیں کہ اس مسئلہ کے پھیلنے کا باعث الفاظ ینزل فيكم ابن مریم بھی ہوں جو مسیح موعود کی نسبت آئے ہیں لیکن نزلے زل من الشتاء کسی طرح مراد نہیں ہو سکتانہ قرآن کریم میں نہ حدیث شریف میں کہیں بھی آسمان سے اترنے کا ذکر نہیں آیا پس ينزل کے آسمان سے اترنے کے معنی لینے درست نہیں ہو سکتے ينزل کے معنی یبعث کے ہی ہیں اور یہ لفظ مسیح موعود کی عظمت کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ دجال کے لئے خروج کالفظ ہے نزول کا لفظ ہمارے آنحضرت اﷺکے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ فرمایا کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا(10)رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِ جَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزْقًا (الطلاق: - ۱۱.۱۲)
۱۲۹ اسی طرح قرآن کریم میں خلق کے معنوں میں بھی نزول کالفظ آتا ہے جیسا کہ فرمایا وانزلنا الحديد (الحدید: ۲۶) یا یہ کہ يبني ادم قد انزلنا عليكم لباسا یواری سواٰتکم و ریشا (العراف : ۲۷) پس لفظ نزول سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہو گئے کیونکہ آسمان کا لفظ احادیث میں اس جگہ استعمال نہیں کیاگیا.اب میں دوسرے شبہ کا ازالہ بھی کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ چونکہ ابھی تک د جال ظاہر نہیں ہوا اس لئے یہ مسیح بھی نہیں آسکتا اس کے جواب میں میں یہ عرض کرونگا کہ دجال ظاہر ہو چکا ہے لیکن لوگوں نے اسے پہچانا نہیں دجال کے معنے قاموس میں لکھے ہیں کہ فرقة عظيمة تحمل المتاع للتجارة دجاّل ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں کہ جو اموال تجارت کو دنیا میں لئے پھریں پھر دجال کے معنے ہیں ملمع ساز کے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت کوئی ایسی قوم بھی ہے یا نہیں جس کی تجارت سب دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور جو نہایت ملمّع ساز ہے.تو ہماری نظر فوراً یورپین تاجروں اور پادریوں کی طرف پھر جاتی ہے جومسیح کی خدائی کو عجیب رنگ آمیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس وقت جس قدر عظیم فتنہ پادریوں کا ہوا ہے اس کی نظیر بھی نہیں ملتی چو نکہ وہ اس کثرت سے دنیا میں پھیل گئے ہیں کہ ہر علاقہ میں ان کے آدمی موجود ہیں جو لوگوں کو صراط مستقیم سے پھیر کر اور اور راہوں پر چلانا چاہتے ہیں اور ان کے فتنہ کا مقابلہ مسلمانوں کی طاقت سےباہر ہے آنحضرت ﷺنے بھی دجال سے مراد اشاعت مسیحیت ہی لی ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دجال کے فتنہ سے محفوظ رہنا چاہے وہ سورہ کہف کی دس اول کی آیتیں اور دس آخر کی آیتیں پڑھے اور ان دونوں مقامات میں مسیحیوں کا ذکر ہے اور خدا کا بیٹاماننے پر ناراضگی ظاہر کی گئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دجال سے مراد آنحضرتﷺ کے نزدیک بھی مسیحی فتنہ ہی ہے جن کے پادری اور دعاۃ دنیا کے ہر حصے میں پھر کر ایک خدا کی بجائے تین خداؤں کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں ورنہ آپﷺ دجالی فتنہ سے بچنے کے لئے وہ آیات تلاوت کرنے کا حکم نہ فرماتے جن میں مسیح مذہب کاردّ ہے.اب جناب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ دجال آگیا ہے اور یہ کہ دجالی فتنہ سے مراد پادریوں کا فتنہ
۱۳۰ ہے جو ہزاروں طریقوں سے دنیا کو مسیحی مذہب میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کانے سے مراد یہی ہے کہ دین کی آنکھ اس کی بند ہوگی صرف دنیا میں مشغول ہو گا جیسا کہ ظاہر بھی ہے اور یہ تاویلات بعیدہ نہیں ہیں بلکہ احادیث اسکی تصدیق کرتی ہیں جیسا کہ ابن ِصیاد کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ اس کے پاس گئے اور حضرت عمرؓنے اجازت طلب فرمائی کہ اسے قتل کردیں اور قسم کھائی کہ یہی دجال ہے حالانکہ وہ کانا نہ تھا اور دوسری علامات بھی اس میں پانی نہ جاتی تھیں اور آنحضرت ﷺ نے بھی گو آپ کو قتل سے روک دیا لیکن قطعی طور پر اس کے دجال ہونے سے انکار نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺبھی اور حضرت عمرؓ بھی اس بات کو قرین قیاس خیال فرماتے تھے کہ وہ علامات جو دجال کی بابت بیان کی گئی ہیں ممکن ہے کہ اپنے ظاہری معنوں کے علاوہ کسی اور رنگ میں پوری ہوں ورنہ چاہئے تھاکہ آپؐ حضرت عمرؓ سے فرماتے کہ تم اسے دجال کیونکر کہتے ہو حالانکہ نہ یہ کانا ہے نہ اس کے پاس گدھا ہے پھر یہ مدینہ میں رہتا ہے مگر آپ کا حضرت عمرؓکے قول کا پوری طرح ر دّنہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ دجال کے معاملہ میں تاویل کی گنجائش کے معتقد تھے.یہ امر بھی خاص طور پر قابل غور ہے کہ مسیح اور دجال کے متعلق جس قدر اخبار ہیں واسب بطور پیشگوئیوں کے ہیں اور اخبار غیبیہ ہمیشہ تعبیر طلب ہوتی ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ میں کڑے سونے کے دیکھے لیکن ان کی تعبیریہ فرمائی کہ دو مدعیان کاذب خروج کریں گے اب جو شخص زور دے کہ میں تو اس تعبیر کو نہیں مانتا وہ غلطی کرتا ہے پس مسیح موعود اور دجال کی نسبت جس قدر اخبار ہیں محتاج تعبیر ہیں اور اپنے وقت پر ظاہر ہو کر ہی ان کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے چنانچہ جب معاملہ کھل گیا تو اب بات صاف ہو گئی اور ہر ایک شخص جو ذرا بھی تدبر کرے سمجھ سکتا ہے کہ دجال سے مراد در حقیقت پادری لوگ ہی ہیں جو مسیح کی خدائی منواتے پھر رہے ہیں اور ان کے مارنے سے مراد ان کے مکائد کا دفعیہ ہے چنانچہ حديث یکسر الصلیب بھی اسی بات پر شاہد ہے کہ مسیح موعودمسیحی دین کو دلائل و براہین سے ایسار دّکرے گا کہ آز صلیب ٹوٹ جاۓ گی لیکن اکثر لوگ اسلام قبول کریں گے اور مسیحیت کا زور ٹوٹ جائے گا.ورنہ یہ خیال نہایت ہی لغو ہو گا کہ حضرت مسیح آکر لکڑیاں توڑتے پھریں گے یہ بات ایک نبی کی شان کے خلاف ہے.مذکورہ بالا دونوں شبہات کے دور ہونے کے بعد یعنی بعد اثبات وفاتِ مسیح و خروجِ دجال بموجب خبر آنحضرتﷺ مسیح موعودکااسی امت میں سے ہونا ضروری ہے اور اس کا زمانہ یہی
۱۳۱ ہے کیونکہ دجال ظاہر ہو چکا ہے اور دیگر آیات بھی پوری ہو چکی ہیں اور چونکہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں صرف ایک ہی شخص مدعی ہے اس لئے اس کے دعوے کو ماننے کے سوا کوئی چاره نہیں ورنہ تکذیب قرآن کریم و احادیث آنحضرت ﷺ لازم آتی ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب موعود ؑو مہدی مسعود کے دعوے پر جو آیات قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ شاہد ہیں ان میں سے چند بطور نمونہ میں پہلے لکھ آیا ہوں مگر یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی ٰنے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ آپ کی تائید میں اس قدر نشانات دکھائے ہیں اور ایسے زبردست دلائل سے آپ کی صداقت کو ثابت کیا ہے کہ ان کے بیان کرنے کی اس مکتوب میں گنجائش نہیں بلکہ وہ نہایت ضخیم کتب میں بیان ہو سکتی ہیں اور اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں جنکی تعداداسی (۸۰) سے بھی اوپر ہے درج ہیں اگر جناب کو اللہ تعالیٰ اس طرف متوجہ کرے کہ اس ہدایت کی تحقیقات فرما دیں تو وہ کتب جناب کی خدمت میں پیش کی جاسکتی ہیں مگر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان نشانات سے جو آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے ہیں چند ایک بطور نمونہ بیان کردوں تاکہ آپ کے دعوے پر چند اور شہادتوں سے جناب کو آگاہی ہو جائے.اول تو میں آپ کا نہایت زبردست علمی معجزه بیان کرتا ہوں جو قرآن کریم کے معجزہ کے مشابہ ہے اور وہ آپ کی بے نظیر عربی کتب ہیں جن کے ساتھ آپ بارہا اعلان کرتے رہے ہیں کہ مصرو شام و عرب کے علماء بھی اگر ل کر انکی نظیر لانا چاہیں گے تو نہ لا سکیں گے اور بعض کتب کے ساتھ آپ نے انعام بھی مقرر کیا ہے کہ اگر کوئی ان کی نظیرلاسکے تو میں اسے اس قدر انعام دونگا لیکن تعجب ہے کہ با و جود اس قدر عداوت کے جو علماء کو آپ سے تھی اور ہے اس وقت تک کسی شخص کوآپ کی عربی کتب کے مقابلہ کی جرات نہیں اور جبکہ ایک شخص نے کوشش کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اسے پیشتر اس کے کہ اس کی کتاب ختم ہو کرطبع ہوتی اس دنیا سے اٹھالیا اور اس طرح اپنے مامور کی صداقت کو ثابت کر دیا اللہ تعالی ٰکے فضل سے اس وقت ہماری جماعت کے آدمی مصر و شام و عرب میں موجود ہیں اور آپ کی کتب کو ان ممالک میں شائع کیا گیا ہے لیکن اس وقت تک کسی شخص کو جرأت نہیں ہو سکی کہ انکے مقابلہ پر کوئی کتاب تصنیف کرے بلکہ بیروت کے بعض بڑے بڑے علماء نے یہ کتابیں طلب کی ہیں اور ان کی خوبی کے مقرّ ہیں چنانچہ پچھلے دنوں میں بیروت کے ایک عالم مدرسہ سوریہ کے مہتمم صاحب نے اور ایک دوسرے صاحب نے حضرت کی عربی کتب طلب کی ہیں اور ارادہ ظاہر کیا ہے کہ ان سے اپنے اہل ملک کو بھی فائدہ پہنچائیں اسی طرح جامع ازھر
۱۳۲ کے دو علماء نے بھی آپ کی ایک کتاب پڑھ کر سخت حیرت ظاہر کی اور آپ کی کتب اپنے حلقہ از هر میں تقسیم کرنے کے لئے طلب کیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے کرام نے بجائے جواب دینے کے مصنف کو گالیاں دینے میں کوئی کسر نہیں رکھی اور کفر کے فتوے لگائے اور اسلام کے مخالفین کی طرح چند صرفی نحوی غلطیاں نکالنی چاہیں لیکن جب ان کو وہی با تیں قرآن کریم اور احادیث میں دکھائی گئیں تو ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا لیکن باوجو بار بار غیرت دلانے کے کسی کو یہ طاقت نہ ہوئی کہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہی ان کتب کے خلاف لکھتا حالا نکہ اس وقت ہندوستان میں بہت سے علماء موجود ہیں اور ان کو اپنے علم کا بہت دعویٰ ہے مگر اس معاملہ میں سب کی طاقتیں سلب ہو گئیں ہاں بعضوں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے کوئی عرب چھپا رکھا ہے جو آپ کی جگہ کتابیں تصنیف کرتا ہے لیکن جب کہا گیا کہ تم لوگ اپنے ساتھ کل علمائے مصر اور شام کو شامل کر لو اور سب مل کر جواب دو تو بھی انہوں نے مقابلہ کی طرف رجوع نہ کیا.اور بات یہ ہے کہ یہ اعتراض وہی ہے جو قرآن کریم پر عربوں نے کیا تھا کہ یہ الہام نہیں بلکہ یہ کسی ایسے شخص کا کلام ہے جو نہایت فسیح اللسان ہے اور پوشیدہ طور پرمحمد ﷺ کو سِکھا دیتا ہے اور مسیحی آج تک یہ اعتراض کرتے چلے آئے ہیں پس اگر یہ اعتراض کوئی وقعت رکھتا ہے تو اس میں آپ اور آنحضرت ﷺدونوں شریک ہیں اور کیاہی مبارک ہے وہ انسان جسے آنحضرتﷺ کے ساتھ کسی امر میں شرکت کا موقع ملے.غرض کہ آپ کی عربی کتب اب تک لا جواب پڑی ہیں اور کسی کو ان کا جواب لکھنے کی طاقت نہیں ملی.پس جس طرح قرآن کریم کی صداقت کی یہ دلیل ہے کہ اس کی نظیر لانے سے لوگ قاصر ہیں اسی طرح مسیح موعودؑ کی صداقت کی بھی یہی دلیل ہے کہ آپ کی عربی کتب کی نظیر لانے سے لوگ قاصر ہیں اور اس کی وجہ کہ آپ کو وہ معجزہ کیوں دیا گیا جو آنحضرت ﷺکو دیا گیا تھا یہ ہے کہ چونکہ مسیح موعود نے بسبب قرب روحانی آنحضرت ﷺسے کامل مشابہت اختیار کرنی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے بھی وہ معجزہ دیا جو آنحضرت ﷺ کو دیا تھا.ہاں آقا و خادم کے معجزہ میں یہ فرق ضرور ہے کہ وہاں تو تین آیات کا مطالبہ تھا اور یہاں کم سے کم ایک جزو لکھنے کی شرط ہے مگر نہ تو قرآن کریم کے مقابلہ میں کسی کو تین آیات لکھنے کی توفیق ملی اور نہ اب با وجود اس قدر اشاعت علوم کے کوئی شخص عرب و شام و مصر میں سے ایک جزو بھی آپ کی کتب کے مقابلے پر لکھ سکا..وذالک فضل الله بوتيه من يشاء
۱۳۳ اس معجزہ کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑہندوستان کے رہنے والے ہیں اور ان کی مادری زبان عربی نہیں اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کسی مشہور عربی مدرسہ کے سند یافتہ نہیں نہ کسی مشہور عالم سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے بلکہ خدا تعالٰی کی طرف سے بطو را عجاز کے آپ کو یہ طاقت دی گئی ہے.بعض لوگ یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہیں جنکی کتب بے نظیر ہیں لیکن اول تو یہ اعتراض قرآن کریم پر بھی پڑتا ہے.دوم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سی کتب بے نظیر خیال کی گئی ہیں لیکن وہ کتب اس لئے قابل التفات نہیں کہ ان مصنّفین نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی کتب بے نظیر ہیں حالانکہ یہاں قبل ازوقت دعویٰ موجود ہے اور باوجود مخالفت کے کوئی مقابلہ نہیں کرسکا.اس کے علاوہ ایک اور نشان ہے جو اللہ تعالی ٰنے آپ کو دیا ہے اور وہ اپنے الہامات شائع کرنے کے بعد قریبا ًًپچیس چھبیس سال کی زندگی کا عطا ہو تا ہے حالانکہ اللہ تعالی ٰقرآن کریم میں فرماتا ہے کو وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ (الحاقہ : ۴۵ تا ۴۷) یعنی اگر یہ شخص ہم پر افتراء کرتا اور اپنی طرف سے الہام بنا کر سنا تاتو ہم اس کی رگ گردن کاٹ دیتے اب ہم اس معیار کے مطابق آپ کے دعوے کو پرکھتے ہیں تو آپ کو بر اہین احمدیہ اپنی پہلی تصنیف کے شائع کرنے کے بعد ستائیس اٹھائیس سال تک زندگی عطا ہوئی حالانکہ آپ نے اس کتاب میں اپنے الہامات نہایت زور اور تحدی کے ساتھ شائع فرمائے تھے پس اگر آپ مفتری ہوتے تو ضرور تھا کہ کم سے کم تیئیس (۲۳ )سال میں آپ ضرور ہلاک ہو جاتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کو تیئس سال مہلت ملی اور اگر کسی مفتری کو اس قدر مہلت مل سکتی ہے تو پھر نہ صرف اس آیت کی تکذیب ہوتی ہے بلکہ خود آنحضرت ﷺ کی صداقت پر شبہات وارد ہوتے ہیں پس آپ کا اس طویل عرصہ تک زندہ رہنا آپ کے برحق ہونے کا ایک زبردست ثبوت ہے.اگر یہ آیت کریمہ نہ بھی ہوتی تو بھی عقل کبھی اجازت نہیں دیتی کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ پر متواتر جھوٹ بولتا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لیکن اللہ تعالی ٰاسے کوئی سزا نہیں دیتا اگر اس طرح ممکن ہو تو سچے مأموروں اور کاذبوں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں رہتا اور امان اٹھ جاتا ہے اور صداقت کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا اللہ تعالیٰ تو بہت ہی غیور ہے ہم دیکھتے ہیں کہ
۱۳۴ دنیاوی حکومت میں سب سے زیادہ اس مجرم پر ناراض ہوتی ہیں جو جھوٹا عہده دار بن جاتا ہے اور پبلک کو دھوکا دے کرلوٹتا ہے.ایسا شخص کبھی بے سزا نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اسے فور اًپکڑا جا تا ہے اور جناب تو اس مسئلہ کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جھو ٹا حاکم بن جائے اوراس کی خبر نہ رکھی جائے تو حکومت کے سب کل پر زے کس طرح ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور کیو نکرسب انتظام حکومت درہم برہم ہو جاتا ہے پس عقل سلیم بھی کبھی اجازت نہیں دیتی کہ ایک مفتری کو اس قدر عرصہ تک مہلت دی جائے کہ الہامات کے شائع کرنے کے بعد وہ آنحضرت ﷺسے بھی زیاده عمرپا جائے پس حضرت مرزا صاحبؑ کا اس قدر طویل عرصہ تک زندہ رہنا بھی اسی طرح آپ کی سچائی کی دلیل ہے جیسے کہ آیت لو تقول ہمارے آنحضرت ﷺکے صدق دعویٰ پر دلیل تھی.اس کے بعد میں ایک اور عظیم الشان نشان کی طرف جناب کی توجہ کو منعطف کراتا ہوں جو حضرت مسیح موعود ؑکے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا ہے اور وہ ایسانشان ہے کہ جس کے بعد آپ کی صداقت میں کسی کو شک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی.سوا اس کے جسکی نسبت درگاه ایزدی سے شقاوت کا فیصلہ ہو چکا ہو اور وہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ سے اللہ تعالی ٰنے وہ کام پورا کر دیا ہے جس کے لئے آپ بھیجے گئے تھے دین اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کرنا.اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ آیت کریمہ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (الصف : ۱۰) مسیح موعود ؑکے زمانہ میں پوری ہوگی پس مسیح کا اصل کام اسلام کو مضبوط کرنا اور اسے دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کام حضرت مسیح موعود ؑکے ہاتھ سے پورا ہوا ہے یا نہیں.اگر پورا ہو گیا ہے تو آپ وہی مسیح موعود ؑہیں اور اگر پورا نہیں ہوا تو ہمیں کسی اور مسیح کی انتظار کرنی چاہیے لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالی ٰنے اسلام کو سب ادیان پر غالب کر دیا ہے تو پھر ہر ایک قدامت پسند انسان کافرض ہے کہ حق کو قبول کرنے اور مسیح موعود ؑکے دامن کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرے.قبل اس کے کہ میں اس امر کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں.یہ بیان کردینا ضروری سمجھتاہوں کہ انبیاء و مامورین صرف ایک بیج بو کردنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں او روہ بیج ان کے بعد ترقی کرکے بہت بڑھ جاتا ہے اور اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں اور اس کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں مثلاً حضرت مسیح ؑناصری جب دنیا میں تشریف لائے تو صرف چند آدمیوں نے ان کو مانا اور باقی قوم نے سخت
۱۳۵ مخالفت کی لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ وو ناکام گئے کیونکہ وہ ایسے اصول مقرر فرما گئے جن سے مدد لیکرآپ کے متبع دو سروں پر غالب ہو گئے.اسی طرح آنحضرت ﷺ سب دنیا کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے مگر آپ کی وفات پر سب دنیا کو آپ کی بعثت کی خبر بھی نہ تھی.لیکن آپ اسلام کا بیج ایسی اعلیٰ درجہ کی زمین میں بو گئے تھے کہ ایک صدی کے اندر اندر وہ ایسا بڑھا کہ اسوقت کی کل معلومہ دنیا میں پھیل گیا پس یہ ضروری نہیں ہوا کہ مامور کے سامنے ہی سب کام ہو جائے بلکہ وہ ایک نمونہ دکھاجاتاہے اور بعد میں ترقی ہوتی رہتی ہے.اس امر کو بیان کر دینے کے بعد میں ایک مثال بتاتا ہوں جس سے ثابت ہوتاہے کہ کس طرح اللہ تعالی ٰنے مسیح موعود علیہ السلام کو طاقت عطا فرمائی کہ آپ نے اسلام کو سب ادیان پر غالب کرکے دکھادیا.لاہور جو پنجاب کا دارالخلافہ ہے اس میں ایک عظیم الشان جلسہ اس غرض سے قرار پایاتھا کہ اس میں سب مذاہب کے پیرو حاضر ہو کر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں چنانچہ سب مذاہب کے قائم مقام اس جگہ جمع ہوئے اور ہر ایک مذہب کے قائم مقام نے اپنے مذہب کو برترثابت کرنے کی کوشش کی بڑے بڑے روساء و امراءاس جلسہ میں شامل ہوئے اور تمام ملک کی نظریں اس کے نتیجہ پر لگ رہی تھیں اس موقعہ پر جہاں اسلام کی طرف سے چند اور لوگوں نے اپنے اپنے مضامین پیش کئے حضرت مسیح موعودؑنے بھی اپنا ایک مضمون ارسال کیا اور نہ صرف مضمون ارسال کیا بلکہ قبل از وقت ایک اشتہار کے ذریعہ سے عام اطلاع دید کی کہ میرا مضمون بالا رہے گاجناب سمجھ سکتے ہیں کہ مخالفین کے جلسہ میں مضمون کا پڑھا جانا اور پھر ایک شخص کا اعلان کر دینا کہ میرا مضمون بالا رہے گا کیسا مشکل کام ہے مگر اللہ تعالی ٰکے کاموں کو کون روک سکتا ہے آپ کا مضمون پڑھا گیا لیکن چونکہ وقت تھوڑا تھا ختم نہ ہو سکا اس پر لوگوں کا یہ حال تھا کہ وہ یا تو اس مضمون کو سننے کے لئے تیار تھے یا جلسہ چھوڑ کر چلے جانے پر مستعد - آخر منتظمین جلسہ نے جن میں بڑے بڑے روساء اور سرکاری افسران شامل تھے فیصلہ کیا کہ آپ کے مضمون کے لئے اور موقع دیا جائے.مضمون کے ختم ہونے پر دوست و دشمن سب نے اقرار کیا کہ وہ مضمون سب مضامین پر بالا رہا اور منتظمین جلسہ نے اس خوف سے کہ اس طرح اشاعت اسلام نہ ہو آئندہ اس قسم کے جلسے کرنے بند کردیئے اس مضمون کو انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا اور ولایت کے اخبارات نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ یہ طریق اسلام کو پیش کرنے کا بالکل نیا ہے ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ تیرہ سو سال کے اندر اسلام کی تائید میں اس سے زیادہ زبردست کوئی کتاب
۱۳۶ نہیں لکھی گئی لیکن ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ اسلام کی تائید میں اس شخص نے ایسی ایسی بے نظیر کتب لکھی ہیں کہ مخالف بھی ان کا جواب نہیں دے سکتےمگر وہ ان کی نظروں سے نہیں گزریں غرض کہ یہ ایک ایسا بے نظیر معجزہ ہے جس کی تائید مخالفین اسلام نے بھی کی ہے اور دشمنان اسلام نےبھی اقرار کیا ہے کہ اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کر کے دکھادیا گیا ہے اور یہی وہ کام ہے جس کے لئے مسیح موعود ؑنے مبعوث ہونا تھا پس جب زمانہ بھی وہی ہے علامات بھی پوری ہو چکی ہیں ضرورت بھی سخت ہے مدعی بھی موجود ہے اس نے وہ کام بھی کردیا ہے جس کے لئے مسیح موعود نے آناتھاتواس کی صداقت میں کونساشک باقی رہ جاتا ہے؟.اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنے میں بہت بڑی حکمت یہی تھی کہ وہ مسیحی مذہب کامقابلہ کر کے اس کے زور کو توڑے گا چنانچہ اس کے لئے جسقدر سامان اس شخص نے مہیا کر دیئےہیں انکے مقابلہ کی مسیحیوں کو بالکل طاقت نہیں اصل بات یہ ہے کہ مسیحی مناد مسلمانوں کو ہمیشہ اس طرح بہکاتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مسیح زندہ ہے تمہارا نبی فوت ہو گیا ہمارا مسیح مردے زندہ کرتاتھاتمہارے نبی نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا.ہمارا مسیح آسمان پر ہے تمہارانبی زیرِ زمین دفن ہے تمہارا نبی اب کبھی دنیا پر نہیں آئے گا ہمارا نبی ایک دفعہ پھر دنیا سے ظلمت کو دور کرنے کے لئے آئے گااور آخری زمانہ کا فتنہ اسی کے ہاتھ سے دور ہو سکے گا.پس بتا ؤکہ دونوں میں سے کون افضل ہوا.اب یہ ایسے اعتراض ہیں جن کا جواب مسلمانوں سے کچھ نہ بنتا تھا اور اکثر گمراہ ہو جاتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود ؑنے زبردست دلائل سے اس خیال کو غلط ثابت کرکے مسلمانوں کو مسیحیوں کےہاتھ سے بچالیا اور اب مسیحیوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں وہ یہ سن لیں کہ کوئی احمدی موجود ہے کبھی مقابلہ کی جرأت نہیں کرتے اور فور اًوہاں سے بھاگ جاتے ہیں بلکہ چند سال کی بات ہے کہ پنجاب کے لاٹ پادری لیفراۓ صاحب نے ایک سرکلر کے ذریعہ پادریوں کو احمدیوں سے گفتگو کرنےسے روک دیا تھا کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ مسیحیوں کے لئے شکست ہی ہوتا تھا.مرزا صاحب نے مسیح کی وفات ثابت کر کے اسلام کو زندہ کر دیا ہے اور اب مسلمان ہمیشہ کے لئے مسیحیوں کے پنجہ سے رہائی پا گئے ہیں.میں اسکو مانتا ہوں کہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے مسلمانوں میں چلا آیا ہے اور قرون اولی ٰمیں تو یہی عقيد ہ رائج تھا لیکن اسلام کے بچانے کے لئے اس حربہ کو بھی کسی شخص نے استعمال نہیں کیا بلکہ یہ خصوصیت حضرت مسیح موعود ؑکے لئے ہی محفوظ رکھی گئی تھی.
۱۳۷ آپ نے اسی پر بس نہیں کی کہ مسیحیوں کو بتادیا کہ اسلام مسیح کے زندہ آسمان پر جانے کا قائل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے ایک اور زبردست کام کروایا کہ آپ نے اناجیل اورتواریخ سے یہ امر ثابت کردیا کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد زندہ بچ کر کشمیر میں آئے تھے اورکشمیر کی تاریخوں سے ثابت کردیا کہ وہاں ایک مقبرہ موجود ہے جس کی نسبت لکھاہے کہ یہ ایک نبی کامقبرہ ہے جن کا نام عیسیٰ مسیح تھا اور وہ آنحضرتﷺ سے چھ سو سال پہلے یہاں آئے تھے اورطب کی کتابوں سے اس واقعہ کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ کتب طب میں ایک مرہم ، مرہم حواریّین یا مرہم عیسیٰ کے نام سے مشہور ہے جن کی نسبت لکھا ہے کہ وہ حضرت مسیح کے حواریوں نے آپ کے زخموں پر لگانے کے لئے بنوائی تھی اور آپ کے زخم ( تاریخ سے) صلیب کے زخموں کے اور ثابت نہیں.میں اس جگہ یہ بیان کر دینا بھی مناسب خیال کرتا ہوں کہ یہ عقیدہ کہ حضرت مسیحؑ صلیب پرچڑھائے گئے تھے لیکن زند وہ بچ گئے قرآن کریم کی آیت ما صلبوہ کے خلاف نہیں کیونکہ صلب کے معنے صلیب پر لٹکانے کے نہیں ہیں بلکہ صلیب پر مارنے کے ہیں جیسا کہ لسان العرب و غیره مشہور کتب لغت میں درج ہے.غرض کہ حضرت مسیح ناصریؑ کی کشمیر کی طرف ہجرت آپ نے اناجیل، تواریخ بنی اسرائیل،اور تواریخ کشمیر سے ثابت کر کے اور پھر آپ کی قبر کا پتہ لگا کر مسیحی مذہب کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیا ہےاور جسقدر مسیحیوں کو اس کا علم ہو گا اسی قدر و ہ مسیحیت سے بیزار ہو کر اسلام کی طرف راغب ہونگے چنانچہ آپ نے جس وقت سے یہ تحقیقات شائع کی ہے کشمیر میں کثرت سے یورپین سیاح اس قبر کو دیکھے جاتے ہیں اور گویورپ میں ابھی اس تحقیقات کی کافی طور پر اشاعت نہیں ہوئی مگر پھر بھی ایک تہلکہ پڑ گیا ہے پچھلے دنوں میں ہی ایک شخص کا جرمن سے خط آیا ہے کہ مجھے اس مضمون کی کئی ہزار کاپیاں بھجوائی جائیں کیونکہ یہاں جن لوگوں نے آپ کے اس مضمون کو دیکھا نہایت حیران رہ گئے اور اس کی صداقت کے قا ئل ہو گئے.اصل بات یہ ہے کہ میں اس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ مسیح کا قول انجیل میں اب تک موجود ہے کہ میں بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کو آیا ہوں اور ادھر بائبل سےاس بات کا کافی ثبوت مل جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کے تنزّل کے ایام میں بخت نصر پادشاه بابل بنی اسرائیل کو قید کر کے لے گیا تھا اور بعد میں جب مید اور فارس کے بادشاہوں کی مدد سے بنی
۱۳۸ اسرائیل آزاد ہوئے تو انکے بارہ قبائل میں سے صرف دو قبائل واپس آئے اور دس قبائل افغانستان اور کشمیر میں آباد ہو گئے اور کشمیر اور افغانستان میں کثرت سے نئی بستیاں موجود ہیں جن کےنام شام کی بستیوں سے ملتے ہیں.یہ امر اور بھی ثابت کردیا ہے کہ یہاں کے باشندے اصل میں شام کے ہی رہنے والے تھے خود کشمیر جو ملک کا نام ہے اس امر کا شاہد ہے کیونکہ کشمیری لوگ اپنے آپ کو کاشیری کہتے ہیں نہ کہ کشمیری.جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اصل نام اس ملک کا کاشیر ہے یعنی کسیر.ملک سیر کی مانند.اور شام کا اصل نام سیریاہی ہے جسکے معنے ہیں پھولوں کی زمین.اور چونکہ کشمیر میں بھی کثرت سے پھول ہوتے ہیں اس لئے بنی اسرائیل نے اپنے ملک کی یاد میں اس ملک کا کسیر رکھا یعنی سیریا کی مانند جوبگڑ کر کشمیر ہو گیا.غرض کہ روشن دلائل سے حضرت مسیح موعودؑنے یہ مسیح کی وفات کو ثابت کر دیا اور آپ کی قبر کا بھی پتہ بتادیا جسکے بعد مسیحی مذہب کے پاس کوئی مفرّ نہیں رہتی کیونکہ جب حضرت مسیح ہی فوت ہو گئے تو اب کفار و او رابنیت سب کچھ خود بخود باطل ہو گیا اسی طرح اور بہت سے طرق سے حضرت مسیح موعود ؑنے مسیحیت کی کمزوریاں دکھائی ہیں اور اسقدر مواد جمع کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو مسیحیوں پر فتح پانے میں اب کوئی روک نہیں بشرطیکہ مسلمان اپنی ضد اور ہٹ کو چھوڑ کراس مأمور من اللہ کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیں خدا کرے یہ دن جلد آئے تا اسلام پھر اپنی اصل شان میں دنیا پر ظاہر ہو.حضرت مسیح موعودؑ نے جو طریق مباحثہ مسیحیوں کے لئے مقرر فرمایا ہے وہ ایسا زبردست او رایسامئوثر ہے کہ اسکے سامنے مسیحی بالکل ٹھہر نہیں سکتے اور یہ بات کل دنیا میں مسیحی پادریوں کے ذریعہ سے پھیل گئی ہے چنانچہ حبی فی الله عزیزم شیخ عبدالرحمن مولوی فاضل جن کو میں نے عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے حصول اور تبلیغ کے لئے مصر بھیجا ہے لکھتے ہیں کہ ایک عرب نے آکر ان سے سوال کیا کہ ہمیں پادری بہت ستاتےہیں آپ کوئی ایسی دلیل بتائیں جس سے وہ آسانی سے شکست پاسکیں تو میں نے ان کو یہ دلیل بتادی کہ انجیل سے ہرگز ثابت نہیں ہو تاکہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے بلکہ انجیل سے تو ان کا صلیب سے زندہ اترنا ثابت ہے اور سب حوالے اسے یاد کرادیئے اس نے جا کر ایک بڑے پادری سے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ مسیح صلیب پر فوت ہو کر ہمارے لئے کفارہ ہؤا مگر وہ تو زنده صلیب سے اترا تھا پادری صاحب نے سن کر کہاکہ غلط ہے انجیل سے یہ بات کہاں ثابت ہے جب اس عرب نے حوالجات سنائے تو بے اختیار بول اٹھا کہ ھذا من القاديان هذا من القاديان اس نے جواب دیا کہ قادیان سے ہو یا کہیں سے ، آپ جواب دیں تو اس سے زیادہ گفتگو سے انکار کردیا.
۱۳۹ اس کے علاوہ کل مذاہب باطلہ پر حضرت مسیح موعودؑ نے اس طرح حجت قائم کی ہے کہ بڑےزور سے اعلان کیا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کے غلبہ کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہو اور جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے تعلق کا ثبوت دے سکے اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اسلام اپنے اندر یہ شان رکھتاہے کہ ہر رات تازه سے تازہ نشان دکھائے اس لئے جس شخص کو اسلام کی صداقت میں شک ہو وہ میرے مقابلہ کے لئے آئے.میں اس پر تازہ نشانات کے ساتھ اتمام حجت کرونگا اور اگر کوئی اور شخص کسی اور مذہب کی صداقت کا مدعی ہے تو اسے بھی چاہیے کہ میرے مقابلہ پر اپنے مذہب کی صداقت کا کوئی نشان دکھاۓ جوایسی شان رکھتا ہو کہ اسے انسان کی بناوٹ نہ کہا جا سکے اور آپ نے بڑے زورسے فرمایا.کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمانِ م حمدؐ مگر باوجودبار بار کے اعلان کے کسی مذہب کے پیروؤں کو جرأت نہ ہو سکی کہ اپنے مذہب کی زندگی کا ثبوت دیں اور سب لوگ اس مقابلہ سے جی چرا گئے اور اس طرح اسلام کا سب ادیان پرغلبہ ہوا میں اس اصل پر مفصل گفتگو کر آیا ہوں کہ سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جس کا مدار قصوں پرہی نہ ہو بلکہ وہ اپنے ساتھ تازه نشانات رکھتا ہو اور یہ وہ معیار ہے ہے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مخالفین کے سامنے پیش کیا اور کوئی مذہب بھی اس معیار پر پورا نہ اتر سکا سوائے اسلام کے.پس مسیح موعود کی ذات سے وہ وعدہ پورا ہو اکہ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (الصف : ۱۰) پنجاب میں ایک جماعت ہے جو سکھوں کے نام سے مشہور ہے اور گورنمنٹ برطانیہ کی سپاه میں ان کا بہت سا حصہ ہے اور برادری میں خاص طور پر مشہور ہے اس پر بھی ایک خاص رنگ میں آپ نے اتمام حجت کیا اور خو د انہی کی کتب سے ثابت کردیا کہ باوانانک صاحب جو اس فرقہ کے بانی ہیں مسلمان تھے اب یہ مذہب زیادہ تر ہندوؤں میں مل گیا تھا اور بالکل انہیں کی رسومات کا پابند تھالیکن آپ کے زبردست دلا ئل کا یہ اثر ہوا کہ ہندوؤں میں جذب ہونے کاجو میلان ان میں پیداہو رہا تھا یکلخت رک گیا اور اب ان میں سے بہت سی سعید رو حیں اسلام کی طرف مائل ہیں اور سکھوں میں سے کئی اسلام بھی لا چکے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ عنقریب ان میں سے ایک کثیرگروه
۱۴۰ اسلام کو قبول کرلے گا.غرض کہ حضرت مسیح موعودؑنے تمام مذاہب پر متفقہ طور سے اور فرداً فرداً اس رنگ میں حجت قائم کی ہے کہ اب ان میں سے کوئی بھی اسلام کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا اور حقیقی معنوں میں اسلام کو دوسرے ادیان پر غلبہ حاصل ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد وہ دن پھر آرہے ہیں کہ جب دوباره آیت يدخلون في دين اللہ افواجا کا وعدہ پورا ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے مسیحیت کا دعویٰ کیا اور اس دعوے کے بعد بجائے غضب الہٰی کا مورد بننے کے اس نے اس کام کو پورا کر کے دکھا دیا جس کے لئے مسیح کی بعثت ہونی تھی تو کیوں اس کے دعوے کی صداقت کو قبول نہ کیا جائے اور جب اللہ تعالی ٰکے وعدے پورے ہو چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے واقعات سے جو اسلام کی عزت کا موجب ہیں آنکھیں بند کر کے یہی کہا جائے کہ نہیں ابھی آگے کوئی اور زمانہ آئے گا جبکہ یہ وعدے پورے ہو نگے جبکہ مرزا صاحب کی ذات سے مسیح موعود کا کام پورا ہو گیا ہے تو مانناپڑتا ہے کہ وہی مسیح موعود ہیں.یہ کام تو بیرونی حملوں کے دفعیہ کے متعلق تھا اب میں اندورنی اصلاح کا ذکر کر تا ہوں کہ آپ نے اندورنی اصلاح کیاکی ؟لیکن میں لمبی تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ اگر میں ان تمام غلطیوں کے ازالہ کا ذکر کروں جومختلف فرق ِ اہل اسلام میں پائی جاتی تھیں تو یہ مضمون بہت لمبا ہو جائیگا اس لئے میں مختصر اسقدر عرض کرتا ہوں کہ آپ نے قرآن کریم کی اصلی غرض اور مقصد سے مسلمانوں کو آگاہ کیا اور قدیم سنت اللہ کے ماتحت باوجود علماء کی سخت مخالفت اور گندے سےگندے مقدمے بنانے کے اللہ تعالیٰ نے آپکو فتح دی اور آپ نے ایک جماعت قائم کردی جواب بہت بڑی تعداد تک پہنچ گئی ہے اور پنجاب و ہندوستان کے ہر گوشہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے ماننےوالے موجود ہیں کہ ہندوستان سے نکل کر اب عرب ،شام ،چین، مصر ، افریقہ اور انگلستان تک اس جماعت کا اثر پھیل گیا ہے اور غیر ممالک کے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں گو میں تسلیم کرتا ہوں کہ ابھی غیر ممالک میں اس فرقہ کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے لیکن اسکی ہی وجہ ہے کہ بہت قلیل عرصہ سے ہم نے غیر ممالک میں تبلیغ کا کام شروع کیا ہے مگر یہ تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ابتداء میں دین نہایت آہستگی سے بڑھتا ہے اور قلیل تعدادسے کسی فرقہ کی صداقت میں شک نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ وہ فرقہ ترقی کر رہا ہے یا گھٹ رہا ہے چنانچہ اللہ تعالی ٰنے کفار عرب کے اس قسم کے ایک اعتراض کے جواب میں فرمایا ہے کہ
۱۴ أَ فَلا یَرَوْنَ أَنّا نَأْتِی الاْ َرْضَ نَنْقُصُها مِنْ أَطْرافِها أَ فَهُمُ الْغالِبُونَ(الا نبیاء: ۴۵) یعنی کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو روز بروز کناروں کی طرف سے کم کرتے آتے ہیں پس کیا اس بات کے باوجودوہ خیال کرتے ہیں کہ وہ غالب ہو جائین گے یعنی جبکہ روز بروز اسلام ترقی کر رہا ہے اور وہ کم ہو رہے ہیں تو پھر کیونکر خیال کر سکتے ہیں کہ وہ غالب ہو جائینگے پس اسی سنت کے ماتحت مسیح موعود کی جماعت کا معاملہ ہے کہ ہر روز وہ ترقی کر رہی ہے اور ایک شخص سے ترقی کر کے ہر علاقہ اور ہر ملک میں اسکے ماننے والے پیدا ہو گئے ہیں اور یہ ترقی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بہت جلد اس جماعت کے ہاتھوں سے اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ ہو جائے گا انشاءاللہ تعالیٰ.پس مسیح موعود کی اندرونی اصلاح کا یہ کام ہے کہ آپ نے ایک زبردست جماعت قائم کردی ہے جو تقویٰ اور طہارت میں ایک نمونہ ہے اور دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں کہ جہاں کوئی شخص احمدی ہو تا ہے اس کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور ان کے اند رایسی اصلاح پیدا ہو جاتی ہے کہ اسکی پہلی زندگی کا اگر نئی زندگی سے مقابلہ کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے اور ہزاروں ہیں جو اخلاص میں ترقی کرتے کرتے صحابہ ؓکا نمونہ ہو گئے ہیں اور دین کے لئے اپنی جان او راپنامال اور اپنا وطن اور اپنے عزیزو رشتے داروں کی قربانی انکی نظروں میں حقیر ہے دنیا کے لوگوں کی نظروں میں وہ غریب اور کمزور ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور انکو ایسی عظمت حاصل ہے کہ انکو دکھ دینے والے بھی سکھ نہیں پاتے اور جو شخص انکو ستاتا ہے وہ ضرور ذلت و رسوائی کا منہ دیتا ہے یاسنت اللہ کے ماتحت اگر ایک قلیل حصہ اس جماعت کا بھی کمزور ہو اور حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم سے فائدہ نہ اٹھا سکا ہو تو وہ اور بات ہے اور کسی حصہ کا کمزور ہو اس سلسلہ کی صداقت کے منافی نہیں کیونکہ کمزور آدمی ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں حتّٰی کہ صحابہ میں بھی تھے اور آنحضرت ﷺ کی زندگی کے آخری ایام تک ایک گروہ منافقین کا موجود تھاپس ایک قلیل گروہ کو چھوڑ کر اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل ہیں.اور جناب خیال کر سکتے ہیں کہ جو لوگ روزانہ تازہ بتازه نشانات کو دیکھیں گے اور اللہ تعالی ٰکی قدرتوں کا معائنہ ایسا کریں گے کہ گویا خداسامنے نظر آگیا انکا ایمان کیسا مضبوط ہو گا اور و ہ اخلاص میں کس قدر ترقی کر جائیں گے.ایک چور بھی پولیس مین کی موجودگی میں چوری نہیں کر تا پس جن لوگوں کو علم ہو جائے اور اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرتوں کا معائنہ کرلیں وہ کب گناہوں کے قریب جاسکتے ہیں اور ان کے دلوں میں دنیا کی حرص و آز کب باقی رہ سکتی ہے.ان کے
۱۴۲ دلوں سے تو تمام میل دھوئی جائیگی اور وہ ایسے ہو جائینگے جیسے حمام سے تازہ نہا کر نکلنے والا – سوخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسیح موعود کی دعاؤں اور کوششوں کا نتيجہ دن بدن زیادہ سے زیادہ کامیابی کی شکل میں نکل رہا ہے.میں اس جماعت کے ایک شخص کا مختصرحال جناب کوبتاتاہوں جس سے جناب کو معلوم ہو جائیگا کہ کس طرح خدا تعالی ٰنے اس جماعت کےمخلصین کے دلوں کو مضبوط کر دیا ہے.افغانستان کےایک بزرگ جن کانام سید عبد اللطیف تھا اور جو وہاں ایسے معزز تھے کہ امیر اللہ خان صاحب کی تاج پوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر سنکر قادیان تشریف لائے اور یہاں سے جب واپس گئے تو انکی کابل میں سخت مخالفت ہوئی اور امیر صاحب کو علماء کے شورسے مجبور ہو کر انکو نظر بند کرناپڑاانہوں نے سب علماء کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے پر بحث کر لیں لیکن کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی آخر سب علماء نے آپ پر سنگسار کئے جانیکا فتوی ٰدیا اور امیر صاحب نے بار بار آپ کو کہا کہ آپ ظاہرا ًطور پر ہی اس عقیدہ کو ترک کر دیں لیکن انہوں نے نہ مانا آخر سنگساری کے وقت پر امیر صاحب نے کہامگرانہوں نے یہی جواب دیا کہ یہ دن تو میرے لئے عید کادن ہے آپ مجھے کس طرف بلا رہے ہیں.میں تو خداتعالی ٰکے عہد کو پورا کر رہا ہوں اور جب انہوں نے کسی صورت سےحق کا انکار نہ کیا تو نہایت بے رحمی سے انہیں سنگسار کیاگیامگر پتھروں کی بوچھاڑ کے وقت انہوں نے ایک ذرہ بھر بھی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا.اس واقعہ سے جناب معلوم کر سکتے ہیں کہ مسیح موعود ؑنے کیسا ایمان اپنی جماعت کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے اور جہاّل کے دلوں میں نہیں جو جہالت کی وجہ سے اس حکم کے کاموں کے لئے تیار ہو جاتے ہیں بلکہ سید عبد اللطيف جیسے علماء کے دلوں میں جو ہر ایک امر کو سوچ سمجھ کر قبول کرتے ہیں.اس عام اصلاح کے علاوہ میں ایک خاص امر کو اس جگہ ضرور بیان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کا اپنی بیعت کی شرائط میں وفاداری حکومت کا شامل کرنا ہے آپ نے قریباً اپنی کل کتب میں اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ وہ جس گورنمنٹ کے ماتحت رہیں اس کی پورے طور پر فرمانبرداری کریں اور یہاں تک لکھا کہ جو شخص اپنی گورنمنٹ کی فرمانبرداری نہیں کرتا اور کسی طرح بھی اپنے کام کے خلاف شورش کرتا اور انکے احکام کے نفاذ میں روڑے اٹکا تا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں اور یہ ایک ایسی مفید اصلاح ہے کہ اس کے ذریعہ آپ نے گویا کل دنیاپر احسان کیا ہے اور روز مرہ کے فسادوں اور جھگڑوں سے اور ہر قسم کی بغاوت سے امن دیدیا ہے اور
۱۴۳ صرف زبانی طور پر ہی کفایت نہیں کی بلکہ یہ سبق آپ نے جماعت کو ایسا پڑھایا کہ ہر موقعہ پرجماعت احمدیہ نے گورنمنٹ ہند کی فرمانبرداری کا اظہار کیا ہے اور کبھی کسی خفیف سے خفیف شورش میں بھی حصہ نہیں لیا اور یہ حکم صرف گورنمنٹ برطانیہ کے لئے نہیں بلکہ جس حکومت کے ماتحت احمدیہ جماعت رہتی ہو اسے حکم ہے کہ وہ اسکی کامل فرمانبردار اور ممدّ ہو اور اگر کوئی احمدی اسکے خلاف کرے تووه بموجب جناب کے صریح حکم کے احمدی ہی نہیں کہلا سکتا.اب میں اپنے اس مکتوب کو ختم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جناب ان تمام امور پر جو میں نے اس خط میں تحریر کئے ہیں غور فرمائیں گے اور اگر آپ چاہیں تو میں ایسی کتب بھی آپ کی خدمت میں بھیج سکتا ہوں جو حضرت مسیح موعود ؑکے دعوے کے دلائل پر اور زیادہ روشنی ڈالتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ مفید یہ طریق ہو سکتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں چند علماء جناب کی خدمت میں بھیج دوں جو جناب کے پاس پندرہ بیس دن تک حاضرر ہیں اور جناب پر ایک ضروری مسئلہ پر ان سے گفتگو فرمائیں.چونکہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ایک عظیم الشان دعوی ٰہے اور ہر ایک شخص کا جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کر تاہے فرض ہے کہ اس پر غور کرے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ جناب اس پرضرور پورے طور پر غور فرمائینگے اور جناب کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جناب کے اعمال کا اثر صرف آپ کی ذات پر نہیں پڑتا بلکہ آپ کی رعایا میں سے بہت ساحصہ آپ کے اعمال کی نقل کرتاہےپس آپ کا ایک صداقت کو قبول کرنا صرف ایک ہی آدمی کا سچائی کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ اس کے ذریعہ ہزاروں کو ہدایت ہو اور ان سب کاثواب آپ کے نام لکھا جائیگا اسی طرح آپ کا انکار صرف آپکا انکار نہیں بلکہ وہ بہتوں کے لئے رکاوٹ کا باعث ہو گا جس کے لئے جناب اللہ تعالیٰ کے حضور میں جوابدہ ہیں کیونکہ اس شہنشاہ کے سامنے بادشاہ و گدا سب کو جوابدہ ہونا ہوگا مجھے جو حکم دیا گیا تھا کہ میں جناب کی خدمت میں سلسلہ کے حالات عرض کروں میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں اور اب جناب کا اختیار ہے کہ خواہ اس نعمت عظمیٰ کویعنی خادم خاتم النبّین کی اتباع کو قبول فرما دیں جو ساری دنیا کی بادشاہت سے بڑھ کر ہے اور خواہ رد فرما دیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو اس مبارک زمانہ میں پید اکیاور نہ لاکھوں بزرگ اورعلماء اور امراءاس بات کی حسرت کرتے ہوئے مر گئے کہ کسی طرح ان کو مسیح موعودؑ کا زمانہ ملے گومسیح موعود فوت ہو چکے ہیں مگر ان کے دیکھنے والے موجود ہیں پس یہ زمانہ غنیمت ہے وہ دن آتے
۱۴۴ ہیں جبکہ زبردست بادشاہ اس خدا کے مرسل کے سلسلہ میں داخل ہوں گے لیکن مبارک ہے وہ جوسب سے پہلے اس نعمت کو حاصل کرتا ہے کیونکہ کوئی زمانہ آئے گا جبکہ اپنی بادشاہتیں دیکر خواہش کریں گے کہ ہمیں بھی وہ فضیلت حاصل ہو جائے جو مسیح موعود کے قریب کے لوگوں کو حاصل تھی.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا سینہ کھول دے اور آپ کو میری باتوں پر غورکرنے کی توفیق دے کیونکہ اس کے فضل کے سوا کوئی کام نہیں ہو سکتا.میں نے ایک حکم کے ماتحت جناب کو مخاطب کیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ مجھے لغو حکم نہیں دیا گیا ضرور ہے کہ جلد یا بدیر میری یہ تحریر کوئی عظیم الشان نتیجہ پیدا کرے گی جو اس ملک کی قسمت میں ایک حیرت انگیز تغیر پیدا کردیگی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں لغو نہیں ہوتیں خد اکرے اس برکت میں سے جو جلد نازل ہونے والی ہے جناب کو بھی بہت حصہ ملے.والسلام خاکسار مرزا محموداحمد خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعودؑ.
۱۴۵ جماعت احمدیہ کا حکومت وقت کی اطاعت کے بارے میں صحیح موقف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
۱۴۶
۱۴۷ بسم الله الرحمن الرحیم نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم جماعت احمدیہ پچھلے چند روزسے متواترخبریں آرہی ہیں کہ ترکی حکومت بھی اس عظیم الشان جنگ میں شامل ہوگئی ہے جس میں اس سے پہلے سات طاقتیں مشغول تھیں اور اس کا شامل ہونا بالکل بے سبب اور بے وجہ معلوم ہوتاہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ترکوں کو ان کی بد اعمالیوں اور ظلموں کی پوری سزادینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس وقت تک جو وہ اپنے ملک اور اپنی رعایا کے فوائد سے بے خبر رہ کر عیش و عشرت اور آپس کے لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلاء رہے ہیں اس کی ان کو پوری سزا دے کیونکہ جن طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اس نے تلوار اٹھائی ہے ان سے عمدہ بر آہو اس کا کام نہیں اور وہ اس میدان کاجوان نہیں اس کا ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہونا ایسا ہی ہے یا ایک چوہے کا پہاڑسے سرٹکرانا ایک چیونٹی کا سمندری لہروں کامقابلہ کرنا.انہوں نے اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے باوجود ایک بکرو ٹہ ہونے کے شیرپر ہاتھ ڈالاہے اور ایک چڑیا ہو کر باز پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے کاش وہ اتنا خیال کر لیتے کہ ہم جن طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول کریم ﷺ نے لا یدان لاحد فرمایا ہے.اس جنگ میں جس قدر خون ہوں گے ان کا گناه ترکوں کے سر پر ہو گا اور بقیہ اسلامی عظمت کے ضائع کرنے کا الزام بھی انہیں کے ذمہ لگے گا کیونکہ انہوں نے وقت کو نہ پہچانااور نہ منشاے الہٰی کو سمجھا کاش ده بجاۓ انگلستان سے جنگ کرنے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے اور بجائے تلوار کھینچنے کے انصاف و عدل کی طرف متوجہ ہوتے اور بجائے دوسروں کو کافر قرار دے کر ان سے جہاد کرنے کے اپنے دل کے کفر کو دور کرتے کیونکہ یہ ان کے لئے بہتر اور مبارک ہوتا انہوں نے با وجود آنکھوں کے خدائے تعالیٰ کی قضاء وقدر کو نہ دیکھا اور باوجو دکانوں کے اس کے
۱۴۸ احکام کو نہ سنا اور باوجوددل ہونے کے اس کے منشاء کو نہ سمجھا اور اپنے ساتھ اپنی رعایا کو بھی تباه کر دیا کیوں کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةًۚ.چونکہ ترکی حکومت بظاہر ایک اسلامی حکومت کہلاتی ہے اس لئے مسلمانوں کے دلوں میں قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس موقعہ پر ان کو کیا کرنا چاہئے اور جبکہ ایک طرف وہ سلطنت ہےجو کہ اور مدینہ کی محافظ ہے اوردوسری طرف وہ جو ہمارے اموال اور جانوں کی محافظ ہے تو ہم کس سے ہمدردی کریں اس لئے میں اس اعلان کے ذریعہ اپنی تمام جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ان کاطريق عمل واضح ہے اور ان کو بجائے خود فکر کرنے کے اپنے امام کی طرف نگاہ کرنی چاہئے کہ وہ کیافیصلہ کرتا ہے او روہی ہمار ا حقیقی ہادری اور رہنما ہے کیونکہ وہ خدا کامسیح اور مہدی ہے اور اس کے حکم ہم سب کے لئے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے واجب التعمیل ہیں.ممکن ہے کہ بعض بیوقوف سلطانِ روم کو اپنا سردار اور آقا خیال کرتے ہوں لیکن ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایسا نہیں سمجھ سکتے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑلکھتے ہیں: "مجھے نہ سلطان روم کی طرف کچھ حاجت ہے.اور نہ اس کے کسی سفیر کی ملاقات کا شوق ہے.میرے لئے ایک سلطان کافی ہے جو آسمان اور زمین کا حقیقی بادشاہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف مجھے حاجت پڑے اس عالم سے گزر جاؤں.آسمان کی بادشاہت کے آگے دنیا کی بادشاہت اس قدر بھی مرتبہ نہیں رکھتی جیسا کہ آفتاب کے مقابل پر ایک کیڑا مرا ہوا پھر جبکہ ہمارے بادشاہ کے آگے سلطانِ روم ہیچ ہے تو اس کا سفیر کیا چیز.میرے نزدیک واجب التعظیم اور واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق گورنمنٹ انگریزی ہے جس کے زیر سایہ امن کے ساتھ یہ آسمانی کارروائی میں کر رہا ہوں.ترکی سات آج کل تاریکی سے بھری ہوئی ہے اوروہ شامتِ اعمال بھگت رہی ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ اس کے زیر سایہ رہ کر ہم کسی راستی کو پھیلاسکیں.شاید بہت سے لوگ اس فقره سے ناراض ہوں گے مگر یہی حق ہے‘‘ (اشتہار حسین کامی سفیر سلطان روم‘‘ صفحہ ا.۲) آگے چل کر اسی اشتہار کے صفحہ د و پر ترکی گورنمنٹ کی ردی حالت کی نسبت تحریر فرماتے ہیں اس ترکی سفیر کے سامنے جو قادیان آیا تھا.’’ میں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجو دہ بربادی کو چاہتی ہے توبہ کرو تانیک پھل پاؤ.مگر میں اس کے دل کی طرف خیال کر رہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت ہی برا مانتا تھا اور یہ ایک
۱۴۹ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ سلطنت روم کے اچھے دن نہیں ہیں اور پھر اس کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا ہے اور دلیل ہے کہ زوال کی علامات موجود ہیں‘‘.تین سطرآگے لکھتے ہیں کہ’’ میں نے یہ بھی اس کو کہا کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گاوہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں اور میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ خدا نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھا وہی کہا تھا‘‘.پھر اس امر کے متعلق کہ ترکی حکومت سے سلسلہ احمدیہ کی بجائے فائدہ کے نقصان ہے تحریر فرماتے ہیں کہ ”اور پھر ان تمام باتوں کے بعد گورنمنٹ برطانیہ کا بھی ذکر آیا اور جیسا کہ میرا قدیم سے عقیدہ ہے میں نے اس کو بار بار کہا کہ ہم اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتے ہیں اور دلی وفادار اور دلی شکر گزار ہیں کیونکہ اس کے زیر سایہ اس قدر امن سے زندگی بسر کر رہے ہیں کہ کسی دوسری سلطنت کے نیچے ہرگز امید نہیں کہ وہ امن حاصل ہو سکے.کیا میں اسلام بول (استنبول )میں امن کے ساتھ اس دعوے کو پھیلا سکتا ہوں کہ میں مسیح موعورداور مہدی موعودہوں اور یہ کہ تلوار چلانے کی سب روایتیں جھوٹ ہیں کیا یہ سن کر اس جگہ کے درندے مولوی اور قاضی حملہ نہیں کریں گے.اور کیا سلطانی انتظام بھی تقاضا نہیں کرے گا کہ ان کی مرضی کو مقدم رکھا جائے پھر سلطان روم سے کیا فائدہ‘‘.اسی طرح اس کے انجام کی نسبت تحریر فرماتے ہیں کہ ”سلطان روم کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں کئی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں".اسی معاملہ کے متعلق ایک دوسرے اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں ” سلطان کا خليفة المؤمنین ہو نا صرف اپنے منہ کادعوی ہے.لیکن وہ خلافت جس کا آج سے سترہ بر س پہلے براہین احمد یہ اور نیز ازالہ اوہام میں ذکر ہے حقیقی خلافت و ہی ہے کیاوه الہام یاد نہیں؟ اردت ان استخلف فخلقت اٰدم.خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ السُّلْطَانَ.ہاں ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے.نہ زمینی ‘‘پھراسی اشتہار کے آخر میں انگریزی گورنمنٹ کی تعریف کی نسبت تحریر فرماتے ہیں ”رہی یہ بات کہ اشتہارمذ کور میں انگریزی سلطنت کی تعریف کی گئی ہے.سو یاد رہے کہ یہ ہرگز منافقانہ تعریف نہیں لعنة اللہ علیٰ من نافق.بلکہ ہم سچے دل سے کہتے ہیں اور صحیح صحیح کہتے ہیں کہ اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم نے بہت امن پایا ہے.اس لئے اس کا شکر ہم پر واجب ہے.اور مجھے ان شریر انسانوں کی حالت پر نہایت تعجب ہے کہ اب تک وہ اس بات کو نہیں ہے کہ جزاء احسان احسان ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ.
۱۵۰ (الرحمٰن:۶۱).(اشتہار جلسہ شکریہ جشن جوبلی.شعست سالہ حضرت قیصرہ ہند ، ۷ جون ،۱۸۹۷ء ) اسی طرح سلطانِ روم کے خلیفة المسلمین کہلانے اور پھر دین سے غافل ہونے کی نسبت فرماتے ہیں’’ آج بھی اگر کسی انسان میں فراست موجود ہے تو دیکھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کی حالت اس خطرناک حالت تک پہنچی ہے یا کہ نہیں جس وقت خدا اس کی خبر گیری کرے زمانہ خود پکار پکار کر زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ مصلح کی ضرورت ہے.مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے.معمولی مسلمان تو کسی شمار میں ہی نہیں.جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں اور خلیفة المسلمين امیرالمومنین ہیں خودان کا حال ایسا ہے کہ باوجودبادشاہ ہونے کے ان کو اتنی جرأت نہیں کہ ان کی سلطنت میں کوئی شخص جرأت اور آزادی سے اظہار حق بھی کر سکے سلطان روم کی سلطنت میں کوئی چار سطر بھی مذہب عیسوی کے خلاف نہیں لکھ سکتا.شاید یہ خیال ہو گا کہ تمام عیسائی سلطنتیں ناراض ہو کر سلطنت چھین لیں گی.مگر خدا کی سلطنت کا ذرا بھی خیال نہیں اور نہ ہی خدا کی طاقت پر پورا بھروسہ ہے.خود داری بھی ایک حد تک اچھی ہوتی ہے.مگر جہاں ایمان جائے وہاں ایسی باتوں کا کیا خیال.حالانکہ ہمارا تجربہ بتلاتا ہے کہ گورنمنٹ کو مذہب سے تعلق ہی کوئی نہیں.دیکھو ہم نے عیسائیوں کے خلاف کتنی کتابیں لکھی ہیں.اور کس طرح زور سے ان کے عقائد باطلہ کارد کیا ہے.مگر گورنمنٹ میں یہ بڑی خوبی ہے کہ کوئی ناراضگی کا اظهار نہیں کیا گیا.اصل وجہ اپنی ہی کمزوری ہوتی ہے.ورنہ گورنمنٹ دین کے معاملات میں کبھی بھی دست اندازی نہیں کرتی"- (اقتباس ازتقرير بر مقام لاہور) آگے چل کر سلطان روم کے محافظ حرمین شریفین ہونے کے خیال کو غلط قرار دیتے ہوئےانگریزی گورنمنٹ کی یوں تعریف فرماتے ہیں.بادشاہ اور خلیفہ المسلمین اور امیرالمومنین کہلا کربھی خدا کی طرف سے بے پرواہی اچھی بات نہیں.مخلوق سے اتنا ڈرنا کہ گویا خدا کو قادرہی نہیں سمجھنا.یہ ایک قسم کی سخت کمزروری ہے.لوگ کہتے ہیں کہ وہ خادم الحرمین ہیں.مگر ہم کہتے ہیں کہ حرمین اس کی حافظ ہیں.دین کی برکت اور طفیل ہے کہ اب تک وہ بچا ہوا ہے.جومذہبی آزادی اس ملک میں ہمیں نصیب ہے وہ مسلمان ممالک میں خود مسلمانوں کو بھی نصیب نہیں دیکھو کس آزادی سے ہم کام کر رہے ہیں.اور پھر کیسا اثر ہماری تالیفات کا ملک پرہواہے.قادیان میں ہمیشہ پادری لوگ آیا کرتے تھے.ان کے خیمے ہمیشہ قادیان کے باہر کی طرف نصب کئے جاتے تھے.اوروہ پھر کر اپنا وعظ کیا کرتے تھے.مگر اب عرصہ پندرہ برس کا ہو تا ہے کہ کبھی کسی پادری کی شکل بھی نظر
۱۵۱ نہیں آئی.ہمیشہ کہا کرتے تھے اور مسلمانوں کو دعویٰ سے بلایا کرتے تھے کہ کوئی ان سے مباحثہ کرے.اور کہتے تھے کہ نعوذ باللہ ٓانحضرت ﷺسے کوئی بھی معجزہ ظاہر نہیں ہوا.ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ زندانی کے مضمون پر بحث کی جاوے.مگر اب یہ معاملہ ہے کہ ہم بلاتے ہیں.انعام دیتے ہیں.مگر کوئی ادھر آتا ہی نہیں\"(ایضاً) پھر کتاب الھدی کے سن ۳۹(روحانی خزائن جلد۱۸، صفحہ ۲۸۳) پر ان نام نہادخلفاء کی نسبت یوں تحریر فرماتے ہیں کہ \" وفُوِّضَ إلیہم خدمۃ فما أدّوہا حق الأداء.أتزعمون أنہم خلفاء الإسلام؟ کلا.بل ہم أخلدوا إلی الأرض وأنّی لہم حظّ من التقوی التّام.ولذالک ینھزمون من کل من نہض للمخالفۃ.ویولّون الدّبر مع کثرۃ الجند والدولۃ والشوکۃ.وما ہذا إلا أثر سُخط الذی نزل علیہم من السماء.ترجمہ : اور جوخدمت اُن کے سپرد ہوئی تھی اس کا کوئی حق ادانہیں کیا.کیا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ اسلام کے خلیفے ہیں.ایسا نہیں بلکہ وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملاہے.اس لئے ہر ایک سے جو ان کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ہو شکست کھاتے ہیں اور باوجود کثرت لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں.اور یہ سب اثر ہےاس لعنت کا جوآسمان سے اُن پر برستی ہے.آگے چل کر ان کے برے حال اور بد انجام کی نسبت تحریر فرماتے ہیں کہ ” وکیف یُعضّدون بالنصرۃ والإعانۃ.مع ہذہ الغوایۃ والخیانۃ؟ فإن اللّٰہ لا یُبدّل سُنّتہ المستمرۃ.ومن سُنّتہ أنہ یؤیّد الکفرۃ ولا یؤیّد الفجرۃ.ولذالک تری ملوک النصارٰی یؤیّدون ویُنصَرون.ویأخذون ثغورہم ویتملّکون.ترجمہ: اورایسی خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مدد ملے.اس لئے کہ خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کافر کو تو مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہرگز نہیں دیتا.یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور اور وہ ان کی حدوں اور مملکتوں پر قابض ہورہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں (الھدیٰ صفحہ ۴۲ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۲۸۶) پھر ان کے محافظ حرمین شریفین ہونے کا انکار کرتے ہوئے اس طرح ان کی تباہی کی خبر دیتے ہیں: أتخالون أنہم یحفظون حرم اللّٰہ وحرم رسولہ کالخدّام؟ کلا.بل الحرم یحفظہم لادّعاءالإسلام وادّعاء محبۃ خیر الأنام.وقد حقّت العقوبۃ لو لمیتوبوا إلی اللّٰہ المقتدر العلام.ترجمہ: کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں.ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچا رہا
۱۵۲ ہےاس لئے کہ وہ اسلام اور رسول خدا کیمحبت کے مدعی ہیں.اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سزا سر پر کھڑی ہے.(الھدیٰ صفحہ ۵۶ روحانی خزائن جلد ۸ اصفحہ ۳۰۰) ان تحریروں سے یہ باتیں صاف ظاہر ہیں کہ حضرت مسیح موعود سلطان کے ادعائے خلافت کوغلط قرار دیتے ہیں اس کی حکومت سے انگریزوں کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں.ان کی سلطنت کےبدانجام کی خبر دیتے ہیں اور انگریزی حکومت کی مخالفت کو نہایت مکروہ اور گناہ قرار دیتے ہیں.اورہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام اور فیصلوں پر دل و جان سےکاربند ہو.پس میں تمام جماعت کو اس اعلان کے ذریعہ سے اطلاع دیتا ہوں کہ اپنے امام کے حکم کے ماتحت ہر طرح سے گورنمنٹ برطانیہ کے خیر خواہ ہیں اور ہر ممکن طریق سے اس کی مدد واعانت کرتے رہیں اور اگر کسی جگہ کسی آدمی یا جماعت کے خیالات ان کو نادرست معلوم ہوں تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں.اور اپنی جماعت کے علاوہ غیروں کو بھی سمجھاتے رہیں کہ گورنمنٹ برطانیہ کی فرمانبرداری ان کامذ ہبی فرض ہے.پس چاہئے کہ اپنے ذاتی خیالات کومذہب پر قربان کردیں.ماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس امن سے کم گو ر نمنٹ برطانیہ کے ماتحت زندگی بسر کر رہے ہیں ہرگز وہ امن ہم کو اور کسی سلطنت میں نہیں مل سکتا خواہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی.خصوصاً اس زمانہ کی اسلامی کہلانے والی حکومتوں کے حلم اور بردباری کانظارہ ہم امیر کابل کے سلوک سے دیکھ چکے ہیں جس نے بلا وجہ ہمارے ایک بھائی کو نہایت بے دردی سے سنگسارکروا دیا.آخر میں میں اپنی جماعت کو اس امر کی بھی تاکید کرتا ہوں کہ وہ آج کل دعاؤں اور آوو زاری پر بہت زور دیں اور اپنے نفس میں تبدیلی پیدا کریں اور اللہ تعالی کے آگے گر جائیں تا اسلام کی ترقی کی صورت نکلے اور اس کے زوال کے اسباب دور ہوں اور اسلام ایک دفعہ پھر اپنی اصلی شان میں دنیا کے چاروں کونوں میں پھیلنا شروع ہو اور شرک و بدعت کی جگہ توحید اور کی اطاعت کی ترتی ہو.آمین ثم آمین - اخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين خاکسار میرزا محموداحمد خلیفہ دوم جماعت احمدیہ قادیان.پنجاب ۹ نومبر ۱۹۱۴ء
۱۵۳ برکات خلافت (جلسہ سالانہ ۱۹۱۴ء کے خطابات) از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
۱۵۳
۱۵۵ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم برکات ِخلافت تقریر حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر ہوئی اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَآمین.میں نے کچھ ضروری باتیں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنی ہیں.ان میں سے ایک وہ بات بھی ہے جو میرے خیال میں احمدیت کے لئے ہی نہیں بلکہ اسلام کے قیام کا واحد ذریعہ ہے اور جس کے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی مسلمان مسلمان ہو سکتا ہے مگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر اس کو حاصل بھی نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ کچھ اور بھی ضروری باتیں ہیں مگر اس سے کم درجہ پر ہیں.میں نے ارادہ کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور اُس کی رحمت ممد اور معاون ہوئی تو اِنْشَاء اللّٰہُ وہ بات جونہایت ضروری ہے اور جس کے پہنچانے کی مدت سے مجھے تڑپ تھی کل بیان کروں گا.آج ارادہ ہے کہ درمیانی باتیں جو اس سے کم درجہ پر ہیں مگر ان کا پہنچانا بھی ضروری ہے وہ پہنچا دوں.اس ضروری بات کو کل پر رکھنے سے میری یہ بھی غرض ہے کہ جو نعمت آسانی سے مل جاتی ہے اور جس کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی اُس
۱۵۶ کی قدر نہیں ہوتی.پس جو لوگ کل تک یہاں اس بات کو سننے کے اشتیاق میں رہیں گے وہی اس کے سننے کے حقدار ہوں گے.چونکہ مجھے کھانسی کی وجہ سے تکلیف ہے اس لئے اگر میری آواز سب تک نہ پہنچے تو بھی سب لوگ صبر سے بیٹھے رہیں.اگر انہیں آواز نہ پہنچے گی تو ثواب تو ضرور ہی ہو جائے گا.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کان میں پڑیں بھی تو اثر نہیں ہوتا مگر اس مقام کا اثر ہو جاتا ہے جہاں کوئی بیٹھا ہوتا ہے.باتیں تو اکثر لوگ سنتے ہیں مگر کیا سارے ہی پاک ہو جاتے ہیں؟ نہیں تو معلوم ہوا کہ نیک باتوں کے سننے والے کو ہدایت ہو جانا ضروری بات نہیں ہے.پھر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کو کسی پاک مقام پر جانے کی وجہ سے بِلا کسی دلیل کے ہدایت ہوگئی ہے تو اگر بعض لوگوں تک آواز نہ پہنچے اور وہ بیٹھے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی وجہ سے ہی بغیر باتیں سننے کے انہیں ہدایت دے دے گا.اب میں اپنی اصل بات کی طرف آنے سے پیشتر چند ایسی باتیں بیان کرتا ہوں جن کا آجکل چرچا ہو رہا ہے اور جو نہایت ضروری ہیں.پہلی باتمیں کل یہاں آ رہا تھا چند لوگوں نے جو کہ دیہاتی زمیندار معلوم ہوتے تھے مجھے اس طرح سلام کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ.اس سے معلوم ہوا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ رسول کیا ہوتا ہے.میری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی آدمی کو خصوصیت سے اُس کی غلطی جتلاؤں.اصل بات یہ ہے کہ مجھے شرم آ جاتی ہے.ایک تو اس لئے کہ اُس کو اپنی غلطی پر شرمندگی اُٹھانی پڑے گی دوسرے خود مجھے دوسرے کو ملامت کرنے پر شرم محسوس ہوتی ہے اس لئے میں کسی کی غلطی کو عام طور پر بیان کر دیا کرتا ہوں اور کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ نہیں کرتا سوائے اُن خاص آدمیوں کے جن سے خاص تعلق ہوتا ہے ایسے آدمیوں کو میں علیحدگی میں بتا دیتا ہوں.سو یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ رسول رسول ہی ہوتا ہے ہر ایک شخص رسول نہیں ہو سکتا.ہاں ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ فخر بخشا ہے کہ ایک رسول کی خدمت کا شرف عطا کیا ہے.تو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کا جو درجہ ہوتا ہے وہ رسولوں کو دو اور دوسرے کسی کو ان کے درجہ میں شامل نہ کرو.اللہ کے رسولوں کے نام قرآن شریف میں درج ہیں اور جو اِس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول بھیجا ہے اُس کا نام بھی آپ لوگ جانتے ہیں باقی سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں.ہاں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے خلافت کا سلسلہ جاری کیا ہے اور جو انسان اِس کام کے لئے چنا گیا ہے وہ درحقیقت تمہارا بھائی ہی ہے پس اُس کو رسول کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے.
۱۵۷ دوسری باتبعض لوگ گُھٹنوں یا پاؤں کو ہاتھ لگا تے ہیں گو وہ یہ کام شرک کی نیت سے نہیں بلکہ محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ایسے کاموںکاانجام ضرور شرک ہوتا ہے.اس وقت ایسا کرنے والوں کی نیت شرک کرنے کی نہیں ہوتی مگر نتیجہ شرک ہی ہوتا ہے.بخاری شریف میں آیا ہے ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت نوحؑ کی قوم کے جن بُتوں کے نام آئے ہیں وہ دراصل مشرک اقوام کے بڑے بڑے آدمی تھے.اُن کے مرنے پر پچھلوں نے اُن کی یادگاریں قائم کرنی چاہیں تا کہ ان کو دیکھ کر ان میں جو صفات تھیں ان کی تحریک ہوتی رہے.اس کے لئے اُنہوں نے سٹیچو (مجسمہ) بنا دیئے لیکن ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے آبا ؤاجداد ان مجسموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو اُنہوں نے ان کی اور عزت کرنی شروع کر دی پھر اِسی طرح رفتہ رفتہ ان کی تعظیم بڑھتی گئی.باِ لآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے آگے سجدے کئے جانے لگے اور ان کی اصل حالت کو بُھلا کر انہیں خدا کا شریک بنا لیا گیا تو بعض باتیں ابتداء میں چھوٹی اور بے ضرر معلوم ہوتی ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسا خطرناک نکلتا ہے کہ پھر اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے.میری اپنی حالت اور فطرت کا تویہ حال ہے کہ میں ہاتھ چومنا بھی ناپسند کرتا تھا لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ چومتے تھے اور وہ اس سے منع نہ فرماتے تھے جس سے میں سمجھتا تھا کہ یہ جائز ہے لیکن میرے پاس دلیل کوئی نہ تھی.پھر خلیفۃ المسیح جن کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے قدم بقدم چلتا ہے ان کے ہاتھوں کو لوگ چومتے.آپ میرے استاد بھی تھے اور دوسرے خلیفۂ وقت.میں آپ کے فعل کو بھی حجت خیال کرتا تھا لیکن مجھے پوری تسلی جو دلائل کے ساتھ حاصل ہوتی ہے تب حاصل ہوئی جب میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو بھی صحابہؓ چومتے اور آنکھوں سے لگاتے تھے اس لئے میں ایسے لوگوں کو جو ہاتھ چومتے ہیں روکتا تو نہیں لیکن انہیں ایسا کرتے دیکھ کر مجھے شرم آ جاتی ہے اور میں صرف اس لئے انہیں منع نہیں کرتا کہ وہ یہ کام اپنی محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو بڑھانا نہیں چاہئے تا کہ وہ شرک کی حد تک نہ پہنچ جائیں.پہلی اہم بات اب میں ایک بات بیان کرنا شروع کرتا ہوں اور وہ خلافت کے متعلق ہے.شاید کوئی کہے کہ خلافت کے بڑے جھگڑے سنتے رہے ہیں اور یہاں بھی کل اور پرسوں سے سُن رہے ہیں آخر یہ بات
۱۵۸ ختم بھی ہوگی یا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو باتیں تم خلافت کے متعلق سن چکے ہو وہ تو تمہیں ان لوگوں نے سنائی ہیں جو رہروکی طرح ایک واقعہ کو دیکھنے والے تھے.دیکھو! ایک بیمار کی حالت اس کا تیماردار بھی بیان کرتا ہے مگر بیمار جو اپنی حالت بیان کرتا ہے وہ اَور ہی ہوتی ہے.اسی طرح دوسرے لوگوں نے اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق تمہیں باتیں سنائی ہیں مگر میں جو کچھ تمہیں سناؤں گا وہ آپ بیتی ہوگی جگ بیتی نہیں ہوگی.دوسرے کے درد اور تکلیف کو خواہ کوئی کتنا ہی بیان کرے لیکن اس حالت کا وہ کہاں انداز ہ لگا سکتا ہے جو مریض خود جانتا ہے اس لئے جو کچھ مجھ پر گزرا ہے اُس کو میں ہی اچھی طرح سے بیان کر سکتا ہوں.دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہوگی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی مگر خدا را غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے؟ کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے؟ یا تم پر حکومت کرتا ہے؟ یا تم سے ماتحتوں، غُلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے؟ کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کااگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں.سنا جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے حکومت کی خواہش تھی اس لئے جماعت میں تفرقہ ڈال کر لوگوں سے بیعت لے لی ہے لیکن بیعت لینے کے وقت کی حالت میں تمہیں بتاتا ہوں.جس وقت بیعت ہو چکی تو میرے قدم ڈگمگاگئے اور میں نے اپنے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا.اُس وقت مجھے خیال آیا کہ آیا اب کوئی ایسا طریق بھی ہے کہ میں اِس بات سے لَوٹ سکوں.میں نے بہت غور کی اور بہت سوچا لیکن کوئی طرز مجھے معلوم نہ ہوئی.اس کے بعد بھی کئی دن میں اِسی فکر میں رہا تو خدا تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا کہ میں ایک پہاڑی پر چل رہا ہوں.دُشوار گزار راستہ دیکھ کر
۱۵۹ میں گھبرا گیا اور واپس لَوٹنے کا ارادہ کیا جب میں نے لَوٹنے کے لئے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو پچھلی طرف میں نے دیکھا کہ پہاڑ ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے اور لَوٹنے کی کوئی صورت نہیں.اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب تم آگے ہی آگے چل سکتے ہو پیچھے نہیں ہٹ سکتے.نکتۂ معرفتمیں نے اس بات پر غور کیاہے کہ نبی پر چالیس سال کے بعد نبوت کیوں نازل ہوتی ہے؟ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ چالیس سال کے بعد تھوڑےسال ہی انسان کی زندگی ہوتی ہے اس لئے ان میں مشکلات کو برداشت کر کے نبی گزارہ کر لیتا ہے لیکن اگر جوانی میں ہی اُسے نبوت مل جائے تو بہت مشکل پڑے اور اتنے سال زندگی کے بسر کرنے نہایت دشوار ہو جائیں کیونکہ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے.خلافت کی اہمیتدیکھنے میں آگ کا انگارہ بڑا خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر اس کی حقیقت وہی جانتا ہے جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اسی طرح خلافت بھی دوسروں کو بڑی خوبصورت چیز معلوم ہوتی ہے اور نادان دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ خلیفہ بننے والے کو بڑا مزا ہو گیا ہے لیکن انہیں کیا معلوم ہے کہ جو چیز ان کی آنکھوں میں بڑی خوبصورت نظر آتی ہے دراصل ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر کسی کی طاقت ہی نہیں کہ اسے اُٹھا سکے.خلیفہ اس کو کہتے ہیں کہ جو ایک پہلے شخص کا کام کرے اور خلیفہ جس کا قائم مقام ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِیْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ (الم نشرح : ۳)کہ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی تھی اُتار دیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اس بوجھ سے ٹو ٹنے کے قریب تھی تو اور کون ہے جو یہ بار اُٹھا کر سلامت رہ سکے.لیکن وہی خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بوجھ کو ہلکا کیا تھا اور اِس زمانہ میں بھی اپنے دین کی اشاعت کے لئے اُس نے ایک شخص کو اس بوجھ کے اُٹھانے کی توفیق دی وہی اس نبی کے بعد اِس کے دین کو پھیلانے والوں کی کمریں مضبوط کرتا ہے.میری طبیعت پہلے بھی بیمار رہتی تھی مگر تم نے دیکھا کہ میں اُس دن کے بعد کسی کسی دن ہی تندرست رہا ہوں اور کم ہی دن مجھ پر صحت کے گزرے ہیں.اگر مجھے خلافت کے لینے کی خوشی تھی اور میں اس کی امید لگائے بیٹھا تھا تو چاہئے تھا کہ اُس دن سے میں تندرست اور موٹا ہوتا جاتا.اگر منکرانِ خلافت کے خیال کے مطابق چھ سال میں اِسی کے حاصل کرنے کی کوشش میں رہا ہوں تو اب جب کہ یہ حاصل ہوگئی ہے تو مجھے خوشی سے موٹا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا.بچپن میں کبھی والدہ صاحبہ مجھے پتلا دُبلا دیکھ کر گھبراتیں تو حضرت مسیح موعود علیہ
۱۶۰ السلام فرماتے کہ جب اس کو خوشی حاصل ہوگی تو موٹا ہو جائے گا اور مثال کے طور پر خواجہ صاحب کا ذکر فرماتے کہ وکالت کے امتحان کے پاس کرنے سے پہلے یہ بھی دُبلے ہوتے تھے جب سنا کہ وکالت پاس کر لی ہے تو چند دنوں میں ہی موٹے ہوگئے تو اگر مجھے خلافت ایک حکومت مل گئی ہے اور اس کے لینے میں میری خوشی تھی تو چاہیے تھا کہ میں موٹا اور تندرست ہوتا جاتا لیکن میرے پاس بیٹھنے والے اور پاس رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ پر کیسے کیسے سخت دن آتے ہیں اور اپنی تکلیف کو میں ہی جانتا ہوں.مسئلہ خلافتخلافت کا مسئلہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے.میں نے ۱۲؍اپریل۱۹۱۴ء کو جو تقریر کی تھی (یہ تقریر منصب خلافت کے نام سے چَھپ چکی ہے)اس میں قرآن شریف کی ایک آیت سے میں نے بتایا تھا کہ خلیفہ کا کیا کام ہوتا ہے.خلیفہ کے معنی ہیں کسی کے پیچھے آ کر وہی کام کرنے والا جو اس سے پہلے کیا کرتا تھا.اس کی پہچان کے لئے جس کا کوئی خلیفہ ہوگا اس کے اصل کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کام کرتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ بتایا ہے یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ ( ال عمرن ۱۶۵) یعنی یہ کہ (۱) خدا کی آیات لوگوں پر پڑھے.(۲) ان کا تزکیہ نفس کرے.(۳) انہیں کتاب سکھائے.(۴) ان کو حکمت سکھائے.میں نے یہ بھی اس تقریر میں بتایا تھا کہ یہ چاروں کام نبی کے دنیا کی کوئی انجمن نہیں کر سکتی.یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی کے بعد مقرر کیا جاتا ہے اور جسے خلیفہ کہا جاتا ہے.اس موقع پر یہ باتیں نہیں ذکر کی جاتیں.ہاں چند موٹے موٹے اعتراضات میں بیان کر کے ان کے جواب دیتا ہوں اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیوں میں نے دلیری اور استقلال کو ہاتھ سے نہ دیا اور اپنی بات پر مضبوط جما رہا.بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیوں وسعت حوصلہ سے کام لے کر یہ نہ کہہ دیا کہ میں خلیفہ نہیں بنتا.ایسا کہنے والا سمجھتا ہے کہ خلافت بڑے آرام اور راحت کی چیز ہے مگر اس احمق کو یہ معلوم نہیں کہ خلافت میں جسمانی اور دنیاوی کسی قسم کا سُکھ نہیں ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ کیوں میں نے جرأت اور دلیری سے کام لے کر اس بار کو اُٹھایا اور وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے قوم کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر ایک جگہ پر قائم رہنے دیا اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے مجھے ایکٍ جگہ کھڑا کئے رکھا.اِس وقت تو چاروں طرف کے لوگ موجود ہیں لیکن ایک وہ وقت تھا کہ بہت قلیل حصہ جماعت کا بیعت میں شامل ہوا تھا.سوال یہ ہے کہ اُس وقت جماعت کے اتحاد کی خاطر میں
۱۶۱ نے کیوں نہ اپنی بات چھوڑ دی؟ اور اتحاد قائم رکھا اس لئے آج میں اس بات کو بیان کروں گا جس نے مجھے مضبوط رکھا لیکن اس سے پہلے میں چند اور باتیں بیان کرتا ہوں.پہلا اعتراض اور اس کا جوابایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا مأمور.تم کون ہو؟ بادشاہ ہو؟میں کہتا ہوں.نہیں.مأمور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو خلیفہ کے لئے بادشاہ یا مأمور ہونا شرط ہے.یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبر نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکا اپنے استاد کو کہتا ہے ’’خلیفہ جی‘‘.وہ وہاں سے آ کر لوگوں کو کہنا شروع کر دے کہ خلیفہ تو درزی کو کہتے ہیں اور کوئی شخص جو درزی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے (پہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے) اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سنے اور باہر آ کر کہہ دے کہ خلیفہ تو اُسے کہتے ہیں جو لڑکوں کا مانیٹر ہوتا ہے.اس لئے وہ شخص جو لڑکوںکا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا خلیفہ کے لئے تو لڑکوں کا ہونا شرـط ہے.اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو.وہ کہے کہ خلیفہ تو وہی ہو سکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو ملے ورنہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح ایک اور شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کو دیکھے جن کے پاس سلطنت اور حکومت تھی تو کہے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا کیونکہ خلیفہ کے لئے سلطنت کا ہونا شرط ہے.لیکن ایسا کہنے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں.اس کے یہ معنی ہیں کہ جس کا کوئی خلیفہ کہلائے اس کا کام وہ کرنے والا ہو.اگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہے اور اگر کوئی طالب علم کسی استاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہیے اور خدا خلیفہ کو ضرور حکومت دے گا.اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے
۱۶۲ پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.اگر کوئی شخص یہاں بیٹھے ہوئے آدمیوں کی پگڑیوں، ٹوپیوں اور کپڑوں کو دیکھ کر یہ لکھ لے کہ آدمی وہی ہوتے ہیں جن کی پگڑیاں، ٹوپیاں اور کپڑے ان کی طرح ہوتے ہیں اور باہر جا کر کسی شخص کو اس اپنے مقرر کردہ لباس میں نہ دیکھے تو کہے کہ یہ تو آدمی ہی نہیں ہو سکتا تو کیا وہ بیوقوف نہیں ہے؟ ضرور ہے.اسی طرح اگر کوئی چند نبیوں کے خلیفوں کو دیکھ کر کہے کہ ایسے ہی خلیفے ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا تو کیا اس کی بات کسی عقلمند کے نزدیک ماننے کے قابل ہے؟ ہرگز نہیں.اس کو چاہیے کہ خلیفہ کے لفظ کو دیکھے اور اس پر غور کرے.اس وقت خلیفہ کے لفظ کے متعلق عربی علم سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں کو غلطی لگی ہے.خلیفہ اس کو کہتے ہیں.(۱) جو کسی کا قائم مقام ہو.(۲) خلیفہ اس کو کہتے ہیں جس کا کوئی قائم مقام ہو.(۳) خلیفہ وہ ہے جو احکام و اوامر کو جاری کرتا اور ان کی تعمیل کراتا ہے.پھر خلیفے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو اصل کے مرنے کے بعد ہوتے ہیں اور ایک اس کی موجودگی میں بھی ہوتے ہیں.مثلاً وائسرائے شہنشاہ کا خلیفہ ہوتا ہے.اب اگر کوئی وائسرائے کو کہے کہ چونکہ اسے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے یہ شنہشاہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ وہ جس بادشاہ کا نائب ہے اس کے پاس صرف حکومت ہی ہے اس لئے وائسرائے حکومت میں ہی اس کا خلیفہ ہے نہ کہ دین میں.تو یہ ایک موٹی بات ہے جس کو بعض لوگ نہیں سمجھے یا نہیں سمجھنا چاہتے.دوسرا اعتراض اور اس کا جوابپھر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیحؑ اسرائیلی کے مثیل تھے اس لئے ان کے خلفاء بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں جیسے مسیح اسرائیلی کے ہوئے لیکن چونکہ حضرت مسیح اسرائیلی کے بعد خلافت کا سلسلہ ثابت نہیں ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.اوّل تو یہ بات ہی بہت عجیب ہے ہم تو یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ نے صلیب پر وفات نہیں پائی اور صلیب کے واقعہ کے بعد اسّی سال تک زندہ رہے ہیں لیکن انجیل جس سے ان کے بعد کی خلافت کا سلسلہ نہیں نکلتا وہ تو ان کی صلیب کے واقعہ تک کے حالاتِ زندگی کی تاریخ ہے.پس اس سے خلافت کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ پیش کر کے کہے کہ اس میں تو خلافت کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی کسی
۱۶۳ خلیفہ کا اس سے پتہ چلتا ہے اس لئے آپ کے بعد کوئی خلیفہ بھی نہیں ہوا.پس لوگ حضرت مسیحؑ کا خلیفہ انجیل سے کس طرح پا لیں جب کہ وہ اس کی صرف ۳۳ سال کی زندگی کے حالات ہیں.حالانکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ نے ایک سَو بیس سال کی عمر پائی ہے.تو جب ۳۳ سال انجیلی زندگی کے بعد بھی حضرت مسیحؑ زندہ رہے ہیںتو ان کے خلفاء کا پتہ انجیل سے کس طرح لگے.اگر کوئی کہے کہ حضرت مسیحؑ کے ایک سَو بیس برس کی عمر میں مرنے کے بعد بھی تو کسی خلیفہ کا پتہ نہیں لگتا.اس کے لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم حضرت مسیحؑ کی تیس سالہ زندگی کے بعد کے حالات ہمیں لا دو تو ہم ان کے خلیفے بھی نکال دیں گے اور جب حضرت مسیحؑ کی پچھلی زندگی کی کوئی تاریخ ہی موجود نہیں ہے تو ان کے خلفاء کے متعلق بحث کرنا ہی فضول اور لغو ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ صلیب پر لٹکنا اور مُلک سے چلا جانا بھی موت ہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی الوصیت میں لکھا ہے کہ ’’ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا‘‘ یعنی ان کے بعد بھی خلیفہ ہوا اس لئے کوئی خلیفہ دکھاؤ.اچھا ہم اس کو مان لیتے ہیں لیکن اس اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے انجیل پر بھی غور نہیں کیا.انجیل میں بعینہٖ وہی نقشہ درج ہے جو الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے اور جس طرح الوصیت میں خلیفہ اور انجمن کا ذکر ہے اسی طرح انجیل میں ہے.حضرت مسیحؑ جب صلیب کے بعد اپنے حواریوں کے پاس آئے اور کشمیر جانے کا ارادہ کیا تو اس کا ذکر یوحنا باب ۲۱ میں اس طرح پر ہے کہ :.’’اور جب کھانا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے! کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اس نے اس (مسیح) سے کہا.ہاں خداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میرے برے چَرا.اس نے دوبارہ اس سے پھر کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے! کیا توُمجھ سے محبت رکھتا ہے؟ وہ بولا ہاں.خداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھ کو عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر.اس نے تیسری بار اس سے کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے! کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چونکہ اس نے تیسری بار اس سے کہا کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ اس سبب سے پطرس نے دلگیر ہو کر اس سے کہا اے خداوند! تُو تو سب کچھ جانتا ہے تجھے معلوم ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.یسوع نے اس سے کہا کہ تُو میری بھیڑیں چَرا‘‘ ۵؎ تو حضرت مسیحؑ نے اپنے بعد پطرس کو خلیفہ مقرر کیا.ایک جگہ لوقا باب ۹ میں اس طرح حضرت مسیحؑ کے متعلق لکھا ہے.’’پھر اس نے ان بارہ (حواریوں) کو بُلا کر انہیں سب بَد روحوں پر اور بیماریوں کو دور کرنے کے
۱۶۴ لئے قدرت اور اختیار بخشا اور انہیں خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیجا‘‘.۶؎ ’’پس وہ روانہ ہو کر گاؤں گاؤں خوشخبری سناتے اور ہر جگہ شفا دیتے پھرتے‘‘.۷ان آیات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں کے سپرد تبلیغ کا کام کیا ہے لیکن اُنہوں نے اپنی جماعت کو کسی جماعت کے سپرد نہیں کیا بلکہ صرف پطرس کو ہی کہا ہے کہ ’’تو میرے برے چَرا‘‘ ’’تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر‘‘ ’’تو میری بھیڑیں چَرا‘‘ ہاں اپنے سلسلہ میں داخل کرنے کا حکم دیتے وقت سارے حواریوں کو ’’خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کیلئے بھیجا‘‘ ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے اور جہاں آپ نے خلیفہ کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ لکھا ہے.’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اِس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ(المجادلہ۲۲) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اِسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جب کہ
۱۶۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ(النور۵۶).یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہوگئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا‘‘(الوصیت صفحہ ۶،۷روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۴،۳۰۵) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرتی ہوئی جماعت کوسنبھالنے کے لئے وہی طریق بتایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکے بعد عمل میں آیا یعنی خلفاء ہوئے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ کا حکم فرمایا ہے وہاں یہ لکھا ہے.’’اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے‘‘.(الوصیت صفحہ ۸،۹روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶،۳۰۷) تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ اپنی جماعت کے متعلق فرمایا ہے ویسا ہی حضرت مسیحؑ نے بھی لکھا ہے.البتہ مسیح ناصری نے پطرس کا نام لے کر اس کے سپرد اپنی بھیڑوں (مریدوں) کو کیا تھا لیکن چونکہ مسیح محمدی کا ایمان اس سے زیادہ تھا اس لئے اس نے کسی کا نام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ کے سپرد اس معاملہ کو کر دیا کہ وہ جس کو چاہے گا کھڑا کر دے گا.اِدھر ایک جماعت کو حکم دے دیا کہ یہ ’’میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں‘‘.ہم کہتے ہیں کہ یہ سب احمدیوں کا فرض ہے
۱۶۶ کہ وہ ایسا کریں.تو جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی جماعت کو پطرس کے حوالہ کیا اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ایک آدمی کے ماتحت رہنے کا حکم دیا اور جس طرح حضرت عیسیٰ ؑنے اپنے حواریوں کو تبلیغ کا حکم دیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے نام پر بیعت لینے کا حکم دیا.اس کے بعد میں کچھ واقعات بیان کرتا ہوں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ غور سے سنیں اور جو نہیں بیٹھے ہوئے انہیں پہنچا دیں.جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سخت بیمار ہوگئے تو میں نے اپنے اختلاف پر غور کیا اور بہت غور کیا.جب میں نے یہ دیکھا کہ جماعت کا ایک حصہ عقائد میں ہم سے خلاف ہے تو میں نے کہا کہ یہ لوگ ہماری بات تو نہیں مانیں گے آؤ ہم ہی ان کی مان لیتے ہیں.میں نے بہت غور کر کے ایک شخص کی نسبت خیال کیا کہ اگر کوئی جھگڑا پیدا ہوا تو پہلے میں اس کی بیعت کر لوں گا پھر میرے ساتھ جو ہوں گے وہ بھی کر لیں گے اور اس طرح جماعت میں اتحاد اور اتفاق قائم رہ سکے گا.حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے دن پچھلے پہر وہ شخص مجھے ملا اور میرے ساتھ سیر کو چل پڑا اور اُس نے مجھے کہا کہ ابھی خلیفہ کی بحث نہ کی جائے جب باہر سے سب لوگ آ جائیں گے تو اس مسئلہ کو طَے کر لیا جائے گا.میں نے کہا دو دن تک لوگ آ جائیں گے اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو جائے.اس نے کہا نہیں سات آٹھ ماہ تک یونہی کام چلے پھر دیکھا جائے گا اتنی جلدی کی ضرورت ہی کیا ہے.میں نے کہا کہ اگر اس معاملہ میں میری رائے پوچھتے ہو تو میں تو یہی کہوں گا کہ خلافت کا مسئلہ نہایت ضروری ہے اور جس قدر بھی جلدی ممکن ہو سکے اس کا تصفیہ ہو جانا چاہیے.میں نے کہا کہ کیا آپ کوئی ایسا خاص کام بتا سکتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں اگر آپ خلیفہ نہ ہوتے تو وہ رُک جاتا اور جس کی وجہ سے فوراً ان کو خلیفہ بنانے کی حاجت پڑی.اگر اُس وقت کوئی ایسا خاص کام نہ ہوتے ہوئے پھر بھی ان کی ضرورت تھی تو اب بھی ہر وقت ایک خلیفہ کی ضرورت ہے.خلیفہ کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جماعت میں جب کوئی نقص پیدا ہو جائے تو وہ اُسے دور کر دے نہ کہ وہ مشین ہوتی ہے جو ہر وقت کام ہی کرتی رہتی ہے.آپ کو کیا معلوم ہے کہ آج ہی جماعت میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو پھر کون اس کا فیصلہ کرے گا.میں نے کہا کہ ہماری طرف سے خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں پیدا ہو سکتا آپ کوئی آدمی پیش کریں میں اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.کچھ اور لوگوں کو بھی مجھ سے محبت ہے وہ بھی اس کی بیعت کر لیں گے اور کچھ لوگ آپ سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی بیعت کر لیں گے اس طرح یہ معاملہ طَے ہو
۱۶۷ جائے گا.پھر میں نے کہا یہ بحث نہیں ہونی چاہئے کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو بلکہ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ کون خلیفہ ہو.اُس وقت پھر میں نے یہ کہا کہ آپ اپنے میں سے کوئی آدمی پیش کریں میں اُس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر میں یہ کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ کوئی خلیفہ نہ ہو.اگر تمام لوگ اس خیال کو چھوڑ دیں اور اس خیال کے صرف چند آدمی رہ جائیں تب بھی ہم کسی نہ کسی کی بیعت کر لیں گے اور ایک کو خلیفہ بنائیں گے مگر ہم یہ کبھی نہ مانیں گے کہ خلیفہ نہ ہو.دوسرا آدمی خواہ کوئی ہو، غیر احمدیوں کو کافر کہے یا نہ کہے، ان کے پیچھے نماز جائز سمجھے یا نہ سمجھے ان سے تعلقات رکھے یا نہ رکھے ایک خلیفہ چاہئے تا کہ جماعت کا اتحاد قائم رہے اور ہم اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ گفتگو بیچ میں ہی رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا اور تجویز ہوئی کہ اس پر مزید غور کے بعد پھر گفتگو ہو اور دوسرے دوست بھی شامل کئے جائیں.دوسرے دن پانچ سات آدمی مشورہ کے لئے آئے اور اس بات پر بڑی بحث ہوئی کہ خلافت جائز ہے یا نہیں.بڑی بحث مباحثہ کے بعد جب وقت تنگ ہو گیا تو میں نے کہا اب صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ خلیفہ کی ضرورت سمجھتے ہیں وہ اپنا ایک خلیفہ بنا کراس کی بیعت کر لیں.ہم ایسے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے مشورہ پوچھتے ہیں.آپ لوگ جو کہ خلیفہ ہونا ناجائز سمجھتے ہیں وہاں تشریف نہ لائیں تاکہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو.اس کے بعد ہم یہاں (مسجد نور میں) آ گئے.وہ لوگ بھی یہیں آپہنچے.پھر جو خدا کو منظور تھا وہ ہوا.اُس وقت جو لوگ میرے پاس بیٹھے تھے وہ خوب جانتے ہیں کہ اُس وقت میری کیا حالت تھی.اگر میں نے پہلے سے کوئی منصوبہ سازی کی ہوتی تو چاہیے تھا کہ پہلے سے ہی میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے ہوتے لیکن اُس وقت ایک شخص مجھے بتلاتا گیا اور میں وہ الفاظ کہتا گیا.کیا یہی منصوبہ باز کا حال ہوتا ہے؟ تیسرا اعتراض اور اُس کا جوابپھر کہتے ہیں کہ اُس وقت ایک شخص تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو اُس کو کہا گیا کہ بیٹھ جاؤ.اس سے اس کی ہتک ہوئی ہے.میں کہتا ہوں کہ اُس وقت اس کو اگر مار بھی پٹتی تو کوئی حرج نہ تھا کیونکہ یہی تو خلیفہ کی ضرورت تھی جس کا وہ انکار کرتا تھا.اس نے دیکھ لیا کہ نورالدین خلیفۃ المسیح نے ہی اس کی
۱۶۸ عزت سنبھالی ہوئی تھی اس کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ ذلیل ہو گیا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ کی فوراً ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سات آٹھ ماہ کے بعد جا کر اس کی حاجت پیش آتی ہے مگر مجھے اس معاملہ کے متعلق کچھ علم نہیں تھا کہ کون بولنے کے لئے کھڑا ہوا ہے اور کس نے منع کیا ہے.اس مسجد سے باہر جا کر مجھے ایک شخص نے سنایا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ واقعی قادیان ہسپتال ہے اور اس میں رہنے والے سارے مریض ہیں.میں نے پوچھا یہ اس نے کیوں کہا؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ اس وقت مولوی محمد علی بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے ان کو بولنے نہیں دیا گیا جس سے ان کی ہتک ہوئی ہے اُس وقت مجھے اس بات کا علم ہوا اور اگر اُسی وقت مجھے علم ہو جاتا تو میرا کیا حق تھا کہ میں کسی کو روک دیتا اور ایسا نہ کرنے دیتا اور لوگوں کو مجھ سے اُس وقت کون سا تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ میری بات ماننے کے لئے تیار ہو جاتے.اُس وقت تک توکوئی شخص جماعت کا امام مقرر نہ ہوا تھا.ایک اور واقعہ اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوا اور وہ یہ کہ میں نے سنا کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان کو چھوڑ کر جانے کی تیاری کر رہے ہیں.میں نے اُنہیں لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ اپنی تکلیف مجھے لکھیں کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے لکھ کر ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کو دیا کہ آپ ان کے پاس لے جائیں.میں نے کسی ملازم وغیرہ کے ہاتھ خط دے کر اس لئے نہ بھیجا تا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ کسی اور آدمی کے ہاتھ خط بھیجنے سے میری ہتک ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب کو میں نے یہ بھی کہا کہ آپ جا کر ان سے پوچھیں کہ آپ یہاں سے کیوں جاتے ہیں؟ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں.اس کا جواب یہ دیا گیا کہ بھلا ہم قادیان کو چھوڑ کر کہیں جا سکتے ہیں؟ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں نے چھٹی لی ہوئی ہے اسے پورا کرنے کے لئے جاتا ہوں.جواب کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ میرے جانے کی یہ وجہ بھی ہے کہ آجکل چونکہ بعض طبائع میں جوش ہے اس لئے میں نے خیال کیا ہے کہ کچھ عرصہ باہر رہوں تا کہ جوش کم ہو جائے ایسا نہ ہو پٹھانوں میں سے کوئی جوش میں مجھ پر حملہ کر بیٹھے.لیکن اس خط میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا تھا کہ ہم قادیان چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں؟ میں تو چھٹی کے ایام باہر گزارنے کے لئے جاتا ہوں.اس کے بعد میں ان سے ملنے کے لئے اُن کے گھر گیا.میرے ساتھ نواب صاحب بھی تھے.جب ہم ان کے پاس جاکر بیٹھے تو کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں.ترجمہ قرآن کے متعلق کچھ گفتگو ہوئی.پھر ڈاکٹر صاحب نے اصل
۱۶۹ مطلب کی طرف کلام کی رَو پھیرنے کے لئے کہا کہ میاں صاحب آپ کے خط پر خود آپ کے پاس آئے ہیں.ابھی یہ بات اُنہوں نے کہی ہی تھی کہ مولوی صاحب نے ایک ایسی حرکت کی جس سے ہم نے سمجھا کہ یہ ہمیں ٹالنا چاہتے ہیں.ممکن ہے کہ ان کا مطلب یہ نہ ہو اس وقت انہیں کم از کم یہ تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ ہم گو اسے نہیں مانتے لیکن جماعت کے ایک حصہ نے اس کو امام تسلیم کیا ہے.ایک آدمی جس کا نام بگا ہے وہ کوٹھی کے باہر اُن کو نظر آیا اُنہوں نے فوراً اُس کو آواز دی کہ آ میاں بگا تو لاہور سے کب آیا؟ کیا حال ہے؟ اور اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں.یہ دیکھ کر ہم اُٹھ کر چلے آئے.میں نے ان کی اس حرکت سے یہ نتیجہ نکالا کہ شاید وہ اس معاملہ کے متعلق گفتگو کرنی ہی نہیں چاہتے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.ان کی یہ منشاء تھی یا نہ لیکن میرے دوسرے ساتھیوں کا بھی ایسا ہی خیال تھا اس لئے ہم چلے آئے.اتحاد کی کوششاِن باتوں کے علاوہ میں نے قوم کے اتحاد اور اتفاق کے قائم رکھنے کے لئے اور بھی تجویزیں کیں.جب حضرت خلیفۃ المسیح کی حالت بہت نازک ہوگئی اور مجھے معلوم ہوا کہ بعض لوگ مجھے فتنہ گر کہتے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں قادیان سے چلا جاؤں اور جب اس بات کا فیصلہ ہو جائے تو پھر آ جاؤں گا.میں نواب صاحب کی کوٹھی سے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح بستر علالت پر پڑے تھے گھر آیا اپنی بیٹھک کے دروازے کھول کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے مولیٰ! اگر میں فتنہ کا باعث ہوں تو مجھے اس دنیا سے اُٹھا لیجئے یا مجھے توفیق دیجئے کہ میں قادیان سے کچھ دنوں کے لئے چلا جاؤں.دعا کرنے کے بعد پھر میں نواب صاحب کی کوٹھی پر آیا.مگر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ ہم ذمہ دار ہوں گے تم یہاں سے مت جاؤ.میں ایک دفعہ قسم کھا چکا ہوں اور پھر اُسی ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور جو اس گھر(مسجد) کا مالک ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں جو آسمان اور زمین کا حاکم ہے اور جس کی جھوٹی قسم لعنت کا باعث ہوتی ہے اور جس کی لعنت سے کوئی جھوٹا بچ نہیں سکتا کہ میں نے کسی آدمی کو کبھی نہیں کہا کہ مجھے خلیفہ بنانے کے لئے کوشش کرو اور نہ ہی کبھی خدا تعالیٰ کو میں نے یہ کہا کہ مجھے خلیفہ بنائیو.پس جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے خود اپنے فضل سے چن لیا ہے تو میں کس طرح اسے ناپسند کرتا؟ کیا اگر تمہارا کوئی دوست تمہیں کوئی نعمت دے اور تم اس کو لے کر نالی میں پھینک دو تو تمہارا دوست خوش ہوگا؟ اور تمہاری یہ حرکت درست ہوگی؟ ہرگز نہیں.تو اگر خدا تعالیٰ نعمت دے تو کون ہے جو اس کو ہٹا سکے.جب دنیا کے
۱۷۰ دوستوں کی نعمتوں کو کوئی ردّ نہیں کرتا بلکہ بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کو کس طرح ردّ کر دوں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو ردّ کرنے والوں کے بڑے خطرناک انجام ہوتے رہے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کے لوگ طُور پر گئے.خدا تعالیٰ نے اُن کو فرمایا تھا کہ آؤ ہم تم سے کلام کریں.وہاں جب زلزلہ آیا تو وہ ڈرگئے اور کہنے لگے کہ ہم خدا کی باتوں کو نہیں سننا چاہتے اور واپس چلے آئے.خدا تعالیٰ نے ان کو اس نعمت کی ناقدری میں یہ سزا دی کہ فرمایا اب تم سے کوئی شرعی نبی برپا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہارے بھائیوں میں سے کیا جائے گا.تو خدا تعالیٰ کی نعمت کو ردّ کرنے والوں کی نسبت جب میں یہ دیکھ چکا ہوں تو پھر خدا کی نعمت کو میں کس طرح ردّ کر دیتا.مجھے یقین تھا کہ وہ خدا جس نے مجھے اس کام کے لئے چنا ہے وہ خود میرے پاؤں کو مضبوط کردے گا اور مجھے استقامت اور استقلال بخشے گا.پس اگر مجھے خلیفہ ماننے والے بھی سب کے سب نہ ماننے والے ہو جاتے اور کوئی بھی مجھے نہ مانتا اور ساری دنیا میری دشمن اور جان کی پیاسی ہو جاتی جو کہ زیادہ سے زیادہ یہی کرتی کہ میری جان نکال لیتی تو بھی میں آخری دم تک اس بات پر قائم رہتا اور کبھی خدا تعالیٰ کی نعمت کے ردّ کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہ آتا کیونکہ یہ غلطی بڑے بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے.امام حسنؓ کا واقعہامام حسنؓ سے یہی غلطی ہوئی تھی جس کا بہت خطرناک نتیجہ نکلا.گو یہ غلطی ان سے ایک خاص اعتقاد کی بناء پر ہوئی اور وہ یہ کہ بیٹا باپ کے بعد خلیفہ نہیں ہو سکتا.جیسا کہ حضرت عمرؓ کا اعتقاد تھا اور میرابھی یہی اعتقاد ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے متعلق فرمایا کہ میرے بیٹے سے اس میں مشورہ لیا جائے لیکن اس کو خلیفہ بننے کا حق نہ ہوگا.حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے امام حسنؓ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا.ان کی نیت نیک تھی کیونکہ اور کوئی ایسا انسان نہ تھا جسے خلیفہ بنایا جا سکتا اور جو خلافت کا اہل ہوتا.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسنؓ بھی حضرت عمرؓ کا سا ہی خیال رکھتے تھے یعنی یہ کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے اُنہوں نے بعد میں معاویہؓ سے صلح کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بعد امام حسینؓ اور ان کا سب خاندان شہید ہو گیا.ایک دفعہ اُنہوں نے خدا کی نعمت کو چھوڑا.خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر تم اس نعمت کو قبول نہیں کرتے تو پھر تم میں سے کسی کو یہ نہ دی جائے گی.چنانچہ پھر کوئی سیّد کبھی بادشاہ نہیں ہوا سوائے.چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے سیّدوں کو حقیقی بادشاہت اور
۱۷۱ اور خلافت کبھی نہیں ملی.امام حسنؓ نے خدا کی دی ہوئی نعمت واپس کر دی جس کا نتیجہ بہت تلخ نکلا.تو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو ردّ کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اس شخص کو خدا کی معرفت سے کوئی حصہ نہیں ملا اور وہ خدا کی حکمتوں کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا جو مجھے کہتا ہے کہ آپ خلافت کو چھوڑ دیں.اس نادان کو کیا معلوم ہے کہ اس کے چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہوگا.پس حضرت عثمانؓ کی طرح میں نے بھی کہا کہ جو قبا مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اُتاروں گا خواہ ساری دنیا اس کے چھیننے کے درپے ہو جائے.پس میں اب آگے ہی آگے بڑھوں گا خواہ کوئی میرے ساتھ آئے یا نہ آئے.مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ابتلاء آئیں گے مگر انجام اچھا ہوگا.پس کوئی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے خواہ وہ کوئی ہو اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی میں کامیاب رہوں گا اور مجھے کسی کے مقابلہ کی خدا کے فضل سے کچھ بھی پرواہ نہیں ہے.بعض باتیں ایسی ہیں جو کہ میں خود ہی سنا سکتا ہوں کسی کو کیا معلوم ہے کہ مجھ پر کتنا بڑا بوجھ رکھا گیا ہے بعض دن تو مجھ پر ایسے آتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام تک میں زندہ نہیں رہوں گا.اُس وقت میں یہی خیال کرتا ہوں کہ جتنی دیر زندہ ہوں اتنی دیر کام کئے جاتا ہوں.جب میں نہ رہوں گا تو خدا تعالیٰ کسی اور کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا مجھے اپنی زندگی تک اس کام کی فکر ہے جو میرے سپرد خدا تعالیٰ نے کیا ہے بعد کی مجھے کوئی فکر نہیں ہے.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے ہی چلایا ہے اور وہی اس کا انتظام کرتا رہے گا.خلافت کیا گدی بن گئی ہے؟وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اس کو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتاکہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مأمور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.پھرکہا جاتا ہے کہ وصیت کے قول کو دیکھو چھ سال کا عمل کیا چیز ہوتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ چھ سال کیا ہوتے ہیں.ہم مان لیتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک کے بارہ سَو سال کے زمانہ کا عمل بھی کوئی چیز نہیں ہوتا اور چھ سال کیا بلکہ اس سارے زمانہ کے عمل کی قربانی کرنے کے لئے ہم تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ نمونہ کہیں سے نہیں ملتا کہ کسی نبی کی وفات کے بعد ہی اس کی جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا ہو.لیکن حضرت مسیح
۱۷۲ موعود علیہ السلام کی وفات کو ایک دن بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ جماعت احمدیہ نے خلافت پر اجماع کیا.کیا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ گمراہی پر اجماع تھا؟ ہرگز نہیں.ہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ کیا ہم منافق ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم سب کو منافق نہیں کہتے.ہاں جس کے دل میں صداقت کا نام بھی نہیں اور جو بول اُٹھے کہ میں منافق ہوں اسے ہم منافق کہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ بقول ان کے مان لیا کہ اس وقت جماعت کے بیسویں حصہ نے بیعت کی ہے مگر اُس وقت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت تو ساری جماعت نے ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.وہ کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا تھا لیکن یہ نظیر پہلے کہیں سے نہ ملے گی.حضرت مسیحؑ کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت بڑی دلیل تو فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم(سورة المائدہ ۱۱۸) کی دیا کرتے تھے اور دوسری بڑی بھاری دلیل صحابہؓ کے ’’اجماع‘‘ کو بتلاتے تھے.مگر آج کہا جاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد چھ سال تک جماعت احمدیہ کا اجماع گمراہی پر رہا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور آپ کی صحبت سے فیض اُٹھایا دوسرے لوگ کسی غلط مسئلہ پر اجماع کر لیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے صحابی ایسا کریں.اگر یہ لوگ ہی ایسا کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا فائدہ ہی کیا ہوا.اس میں شک نہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ کمزور بھی ہیں لیکن کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت منافقوں کا گروہ نہیں تھا؟ اور کیوں بعض اشخاص کو جو کہ آپ کے صحابہ کے گروہ میں شامل رہتے تھے اب رضی اللہ عنہ نہیں کہا جاتا حتیّٰ کہ ان کو صحابی بھی نہیں کہا جاتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ منافق تھے.وہ زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے تھے لیکن ان کا دل نہیں مانتا تھا.اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ جو دل سے مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو مانتے رہے اور مانتے ہیں ان کو ہم آپ کے صحابہ میں سے کہیں گے اور جو نہیں مانیں گے ان کو نہیں کہیں گے.کیا عبداللہ بن ابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں رہتا تھا اور آپ کے صحابہؓ میں شامل نہیں تھا؟ مگر اس کو صحابہ میں اس لئے شامل نہیں کیا جاتا کہ وہ منافق تھا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہنے والوں میں سے کوئی ٹھوکر کھائے تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنا اس ٹھوکر کے نقصان سے اُسے بچا سکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارا قیاس ہی قیاس نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ساری جماعت کو ٹھوکر نہیں لگی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا.
۱۷۳ سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو اپنا سرمایہ پیش کرتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے اور یہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تم اپنی جماعت کو میرے سپرد کردو ہم اس کی حفاظت کریں گے.اب اگر منکرین خلافت کی بات مان لی جائے تو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی اچھی حفاظت کی کہ اس کا پہلا اجماع ضلالت پر کروا دیا.مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو خدا کے سپرد کیا تھا خدا نے اس جماعت کو نور الدین کے سپرد کر دیا.جس کی نسبت (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کہا جاتا ہے کہ گمراہی تھی.کیا خدا تعالیٰ کو یہ طاقت نہ تھی کہ نور الدین سے جماعت کو چھڑا لیتا اور گمراہ نہ ہونے دیتا؟ طاقت تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے ثابت ہوا کہ جماعت کا اجماع غلطی پر نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت تھا.یہی باتیں نہیں ہیں جنہوں نے مجھے اپنی بات پر قائم رکھا بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں اور میں نے اپنے قیاس پر ہی اس بات کو نہیں چلایا بلکہ یقینی امور پر سمجھا ہے اور وہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے میں اس سے ہٹ نہیں سکتا.اور وہ زمین کی گواہی نہیں ہے بلکہ آسمان کی گواہی ہے.وہ آدمیوں کی گواہی نہیں بلکہ خدا کی گواہی ہے.پس میں اس بات کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں.ساری دنیا بھی اگر مجھے کہے کہ یہ بات غلط ہے تو میں کہوں گا کہ تم جھوٹے ہو اور جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے وہی سچ ہے کیونکہ خدا ہی سب سچوں سے سچا ہے.صلح کیونکر ہو؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپس میں صلح ہو جانی چاہیے.کیا ان لوگوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے وہ اس کو چھوڑ دیں گے؟ یا ہمارایہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ ہونا چاہیے ہم اسے چھوڑ دیں گے؟ اگر نہیں چھوڑیں گے تو دو نہایت متضاد خیالات کے لوگوں کا اکٹھا کام کرنا اور ہر ایک کا یہ خیال کرنا کہ دوسرے فریق کے خیالات سلسلہ کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اَور زیادہ اختلاف کا باعث ہوگا یا امن کا؟ میں تو صلح کے لئے تیار ہوں اور میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس کو صلح کا شہزادہ کہا گیا ہے لیکن وہ صلح جو دین کی تباہی کا باعث ہوتی ہو وہ میں کبھی قبول نہیں کر سکتا.مگر وہ صلح جس میں راستی کو نہ چھوڑنا پڑے اس کے کرنے کے لئے مجھ سے زیادہ اور کوئی تیار نہیں ہے مجھے حضرت مسیح کی وہ تمثیل بہت ہی پسند ہے جو کہ لوقا باب ۱۵ میں لکھی ہے کہ ’’کسی شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے
۱۷۴ باپ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دُور دراز مُلک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بَد چلنی میں اُڑا دیا اور جب سب خرچ کر چکا تو اس مُلک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا.پھر اس مُلک کے ایک باشندہ کے ہاں جا پڑا.اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سؤر چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سؤر کھاتے تھے انہیں سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا.پھر اس نے ہوش میں آ کر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مَر رہا ہوں.میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے.پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا.وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دَوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور بوسے لئے.بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں.باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اسے پہناؤ.اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ.اور پَلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس وہ خوشی منانے لگے لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا جب وہ آ کر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی اور ایک نوکر کو بُلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے اس سے کہا تیرابھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پَلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اس کا باپ باہر جاکے اُسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اس کے لئے تُو نے پَلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا.اس نے اس سے کہا بیٹا تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانی اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے‘‘.(آیت ۱۱ تا ۳۲ مطبوعہ برتش ایدیشن فارن بائبل سوسائٹی ۱۹۲۲ انارکلی لاہور) سو میں بہت وسعتِ حوصلہ رکھتا ہوں.اگر کوئی پچھتاتا ہوا آئے تو میں اس کی آمد پر بہ نسبت ان کے بہت خوش ہوں گا جنہوں نے پہلے دن بیعت کر لی تھی کیونکہ وہ گمراہ نہیں
۱۷۵ ہوئے اور یہ گمراہ ہو گیا تھا.وہ کھوئے نہیں گئے اور یہ کھویا گیا تھا لیکن مل گیا ہے.باپ اپنے بیٹوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے مگر اس باپ سے بیٹے کے دیکھنے کی خوشی پوچھو جس کا بیٹا بیمار ہو کر تندرست ہو گیا ہو.میں نفاق کی صلح ہرگز پسند نہیں کرتا.ہاں جو صاف دل ہو کر اور اپنی غلطی کو چھوڑ کر صلح کے لئے آگے بڑھے میں اس سے زیادہ اس کی طرف بڑھوں گا.ایک ضروری باتمیں اب ایک اور بات بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو منافقت کی صلح کرنی چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ کبھی نہیں ہو سکے گی کیونکہ پچھلے دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ منشائِ الٰہی کے مطابق ہوا ہے.ہم میں شامل ہونے والے تو آئیں گے اور آتے ہی رہیں گے اور ان کو وہی رُتبہ اور درجہ دیا جائے گا جو اُن کا پہلے تھا مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا اس کو روکنا کسی انسان کی طاقت اور قدرت میں نہیں ہے.یہ جو فتنہ پڑا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دے دی تھی.کمزور دل کے لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا، احمدیہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا.میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ سے سلسلہ ٹوٹتا نہیں بلکہ بنتا ہے مبارک ہے وہ انسان جو اس نکتہ کو سمجھے.اللہ تعالیٰ کے پیارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ انہیں ایک زخم لگاتا ہے تو ان کی جماعت اور بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.کیا تم نے کبھی باغبان کو دیکھا نہیں جب وہ کسی درخت کی شاخیں کاٹتا ہے تو اور زیادہ شاخیں اُس کی نکل آتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے جو اِس سلسلہ احمدیہ کے درخت کی کچھ شاخیں کاٹی ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہ درخت سُوکھ جائے بلکہ اس لئے کہ اور زیادہ بڑھے.سو یہ مت سمجھو کہ اس فتنہ کی وجہ سے لوگ سمجھیں گے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے کیونکہ یہ تو اس کی صداقت کو ظاہر کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.اگر کوئی نبی بیمار ہو جائے اور اس کے مخالفین خوش ہوں کہ یہ اب فوت ہو جائے گا لیکن وہ انہیں اپنا الہام نکال کر دکھا دے کہ میرا بیمار ہونا تو میری صداقت کی دلیل ہے کیونکہ مجھے پہلے بتایا گیا تھا کہ تو بیمار ہوگا تو اس بیماری سے اس نبی کی صداقت پر کوئی دھبہ نہیں لگتا بلکہ اس کی صداقت اَور ثابت ہوتی ہے.اسی طرح جب اِس فتنہ کے لئے پہلے خبریں دی گئی تھیں تو یہ ہماری ترقی میں کوئی روک نہیں ہو سکتا بلکہ اور زیادہ ترقی کے لئے اس فتنہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دلائل و براہین کی تلواریں دے دی ہیں تا کہ نہ ماننے والوں کو دلائل کے ساتھ قتل کرتے پھر یں.
۱۷۶ فتنہ کا ہونا ضروری تھا (۱) دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۷؍دسمبر۱۸۹۲ء کو اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کہ کیا دیکھتا ہوںکہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتاہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تودّد سے مجھے فرماتے ہیں کہ یَاعَلِیُّ دَعْھُمْ وَاَنْصَارَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ یعنی اے علی! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے.اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبرکے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترکِ خطاب بہتر ہے.(تذکرہ صفحہ ۲۰۹)؎ اس رؤیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ لوگ تمہاری خلافت کا انکار کریں گے اور فتنہ ڈالیں گے لیکن صبر کرنا ہوگا.آپ نے اس رؤیا کے معنی یہ بھی کئے ہیں کہ لوگ میرا انکار کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ کی باتوں کے کئی معنی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے الہام شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کے پہلے اور معنی کئے تھے اور پھر اسے سیّد عبداللطیف صاحب شہید اور مولوی عبدالرحمن صاحب پر چسپاں فرمایا اور دونوں ہی معنی درست تھے.تو اس رؤیا کے ایک معنی تو یہ بھی ہیں کہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کریں گے.لیکن اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بعد جو خلافت ہوگی اس کا انکار ایک جماعت کرے گی اور فتنہ ڈالے گی.پس اگر کوئی جماعت خلافت کی منکر نہ ہوتی تو یہ رؤیا کس طرح پوری ہوتی.(۲) لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کا انکارکرنے والے بڑے آدمی ہیں.ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے لوگوں کی نسبت ہی لکھتے ہیں کہ ’’پس جو شخص درحقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد
۱۷۷ متأثر ہو جاتے ہیں اور بَدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف.پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے.مگر اِذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقامِ خوف ہے‘‘.۱۶؎ اگر یہ بات جو روزِ ازل سے مقدر ہو چکی تھی اور جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وقتاً فوقتاً دی جاتی تھی اُس وقت اِس طرح پوری نہ ہوتی کہ جو بڑے تھے وہ چھوٹے نہ کئے جاتے اور وہ جماعت جس کو دبایا جاتا تھا اس کو بڑھایا نہ جاتا تو کس طرح اس کی صداقت ثابت ہوتی.(۳) پھر اگر جماعت احمدیہ کے دو گروہ نہ ہوتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کس طرح پورا ہوتا کہ ’’خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے.۱۷؎ یعنی جماعت کے دو گروہ ہو جائیں گے اور ان میں سے خدا ایک کے ہی ساتھ ہوگا.اگر کوئی کہے کہ اس سے مراد احمدی اور غیر احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اس اختلاف میں احمدیوں کے ساتھ ہوگا تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اس سے احمدی اور غیر احمدی مراد ہیں تو الہام اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ ’’اللہ ایک کا ہے‘‘ نہ کہ ’’اللہ ایک کا ہوگا‘‘ کیونکہ حضرت صاحب کا الہام ہے انِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ وَمَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّک(ترجمہ) میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور ان تمام کے ساتھ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں یا رکھیں گے.۱۹؎ یعنی اللہ تعالیٰ اِس وقت احمدیوں کے ساتھ ہے.مگر اس الہام کا لفظ ’’ہوگا‘‘ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کسی آئندہ زمانہ میں ایک کا ہوگا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس الہام میں احمدی جماعت کے دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے.پس اگر موجودہ فتنہ نہ ہوتا تو یہ الہام کس طرح پورا ہوتا؟ (۴) پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ اور آپ کے بڑے پیارے دوستوں میں سے ہیں.ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک وقت آپ ایسے ہی تھے لیکن کیا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام یاد نہیں ہے جو کہ شیخ رحمت اللہ صاحب کے دعا کے عرض کرنے پر صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنایا تھا کہ میں نے آپ کے لئے دعا کی تھی اور مجھے یہ الہام ہوا ہے شَرُّ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (ترجمہ) شرارت ان لوگوں کی جن پر انعام کیا تو نے.۲۰؎ آج اگر اِس فتنہ میں بعض وہ لوگ شامل نہ ہوتے جن پر حضرت
۱۷۸ صاحب انعام فرماتے تھے تو وہ الہام کیونکر پورا ہوتا خصوصاً وہ شخص کہ جس کو مخاطب کر کے آپ نے اپنا یہ الہام سنایا.(۵) ایک ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۷ء کا الہام ہے ۱۳؍ مارچ کو ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فوت ہوئے.۱۳؍ مارچ کو ہی لاہور سے ٹریکٹ شائع ہوا.اگر یہ ٹریکٹ شائع نہ ہوتا تو یہ الہام کہ ’’لاہور میں ایک بے شرم ہے‘‘۲۱؎ کس طرح پورا ہوتا.(۶) کہتے ہیں پہلے ہمیں نیک کہا جاتا تھا اب کیوں بُرا بھلا کہا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ انسان کی حالت بدلتی رہتی ہے.نیک بَد اور بَد نیک ہو جاتے ہیں مبارک انسان وہی ہے جس کا انجام بخیر ہو.پھر اگر اِس فتنہ میں بعض لوگ شامل نہ ہوتے جن کو ہم پہلے صالح سمجھا کرتے تھے اور جن کے نیک ارادے ہوا کرتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف کہ آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو رؤیا میں کہا.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۲۲؎ کیونکر پورا ہوتا.(۷) پھر اگر کوئی لاہور میں ۱۹۰۹ء میں لاہور کی جماعت کو جمع کر کے ان سے اس بات کے لئے انگوٹھے نہ لگواتا اور دستخط نہ کرواتا کہ خلیفۃ المسیح کا کوئی دخل نہیں ہے اصل خلیفہ انجمن ہی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رؤیا کس طرح پورا ہوتا کہ چھوٹی مسجد کے اوپر تخت بچھا ہوا ہے اور میں اُس پر بیٹھاہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں ایک شخص (اس کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں) دیوانہ وار ہم پر حملہ کرنے لگا.میں نے ایک آدمی کو کہا کہ اس کو پکڑ کر مسجد سے نکال دو.اور اس کو سیڑھیوں سے نیچے اُتار دیا ہے.وہ بھاگتا ہوا چلا گیا.اور یاد رہے کہ مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے.(۸) پھر میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے دوران میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر حملہ نہ کیا جاتا (اور حضور کے) اہل بیت کے مقابلہ میں بدزبانی کی تلوار نہ کھینچی جاتی تو یہ الہام کہ ’’اے میرے اہل بیت! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے‘‘.۲۳؎ کس طرح پورا ہوتا.اگر کوئی شر کھڑا ہی نہیں ہونا تھا تو خدا تعالیٰ نے یہ کیوں کہا تھا؟ (۹) پھر اگر ان کے چال چلن پر حملہ نہ کیا جاتا تو اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِرَّکُمْ تَطْھِیراً اے اہلِ بیت! خدا تعالیٰ نے تم سے ناپاکی دور کرنے کا ارادہ کیا ہے اور تم کو ایسا پاک کرے گا جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے (۲ مارچ ۱۹۰۷ء تذکرہ صفحہ ۷۰۰ ایڈیشن
۱۷۹ (چہارم ) کس طرح سچا ثابت ہوتا؟ (۱۰) اگر بعض لوگ یہ نہ کہتے کہ حضرت (اماں جان) خلافت کے لئے منصوبے باندھتی رہی ہیں اور عورتوں میں اس بات کو پھیلاتی رہی ہیں اور اُنہوں نے اپنی مرضی کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو چھوڑ دیا ہے تو یہ خواب کیونکر پوری ہوتی جو آپ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کو دیکھی اور فرمایا خواب میں میں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ ’’میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے‘‘ اس پر میں نے اُن کو جواب میں یہ کہا.اسی سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے.۲۵؎ (۱۱) ہاں اگر میری عداوت کی وجہ سے میرے ان چھوٹے بھائیوں پر حملے نہ کئے جاتے جو ابھی تک عملی میدان میں داخل ہی نہیں ہوئے اور ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو حضرت صاحب کی یہ خواب جو آپ نے ۲۱؍ اگست ۱۹۰۶ء کو سنائی تھی کس طرح پوری ہوتی فرمایا ’’شب گزشتہ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ اس قدر زنبور ہیں(جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں) کہ تمام سطح زمین اُن سے پُر ہے اور ٹڈی دل سے زیادہ ان کی کثرت ہے.اس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پرواز بھی کر رہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں مگر نامراد رہے اور میں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ‘‘(تذکرة صفحہ ۶۶۹ایڈیشن چہارم) (۱۲) اگر قادیان کے رہنے والوں پر حملے نہ کئے جاتے تو خدا تعالیٰ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وَلَاتَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ (تذکرة صفحہ ۵۲ایڈیشن چہارم) (۱۳) اس وقت قادیان کو چھوڑ کر اگر لاہور کو مدینتہ المسیح نہ بنایا جانا ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آج سے تیس سال پہلے یہ کیوں دکھایا جاتا کہ قادیان کا نام قرآنِ شریف کے نصف میں لکھا ہوا ہے اور یہ دکھایا گیا کہ دنیا میں عزت والے تین گاؤں ہیں ایک مکہ، دوسرا مدینہ اور تیسرا قادیان.۲۸؎ جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.پھر یہ الہام کیوں ہوتا کہ ’’خدا قادیان میں نازل ہوگا‘‘۲۹؎ اگر لاہور کو قادیان کے مقابلہ میں نہ کھڑا کیا جانا ہوتا تو اس طرح خصوصیت سے قادیان کا کیوں ذکر ہوتا.(۱۴) اگر خاندانِ نبوت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوصیت میں یہ *جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں
۱۸۰ کیوں تحریر فرماتے.’’میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے.باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ان کو شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا‘‘.پس اس فتنہ کو کوئی روک نہیں سکتا تھا اور کیونکر کوئی روک سکتا جب کہ خدا نے مقدر کر رکھا تھا اس لئے ایسا ہونا ضروری تھا اور ہوا.مگر جس طرح کسی کا ہاتھ بیماری کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے تو وہ مجبوراً اسے کٹا دیتا ہے لیکن اس ہاتھ کٹانے پر وہ خوش نہیں ہوتا ہاں اس کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ہاتھ کٹانے سے باقی جسم تو بچ گیا ہے اسی طرح ہمیں بھی اس بات کا درد تو ہے کہ ایک حصہ جماعت کا کٹ گیا ہے مگر خوشی بھی ہے کہ باقی جماعت تو اس کے مضر اثر سے بچ گئی ہے.اب میں وہ شہادتیں پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے اس معاملہ کے متعلق دی ہیں.گو دل چاہتا تھا کہ یہ فتنہ نہ اُٹھتا مگر ان الہامات اور رؤیا کی صداقت کیونکر ظاہرہوتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس فتنہ کی نسبت قبل از وقت دکھلائی گئی تھیں اور میرے لئے تو ان تمام فسادات میں یہ الہامات ہی خضر راہ کا کام دینے کے لئے کافی تھے مگر میرے ربّ نے مجھے خود بھی آگاہ کرنا پسند فرمایا اور یہ اس کا ایک ایسا احسان ہے جس کا شکر میں جس قدر بھی بجا لاؤں تھوڑا ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے جو صداقت کے قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ان شہادتوں کو بیان کر دوں جو اللہ تعالیٰ نے ان تمام فتن کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد ظاہر ہوئے میرے لئے ظاہر فرمائیں جن سے میرے دل کو تسلی اور تسکین ہوئی کہ جو راہ میں اختیار کر رہا ہوں وہی درست ہے اور بعض آئندہ کی خبریں ایسی بتائیں جن کے پورا ہونے سے میرا ایمان تازہ ہوا.خلافت کے جھگڑا کے متعلق آسمانی شہادتخلافت کے متعلق جس قدر جھگڑے ہیں ان کی بنیاد اسی مسئلہ پر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ ہونا چاہیے یا نہیں.اگر یہ فیصلہ ہو جائے تو اصول مباحث سب طَے ہو جاتے ہیں اور صرف ذاتیات کا پردہ رہ جاتا ہے پس سب سے پہلے میں اِسی کے متعلق ایک آسمانی شہادت پیش کرتا ہوں جس کے بعد میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی سعید انسان خلافت کا انکار کرے.۸ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء کی بات ہے کہ رات کے وقت رؤیا میں مجھے ایک کاپی الہاموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو ناپسند کرو لیکن وہ ؎ الوصیت صفحه ۲۹ - روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۲۷
۱۸۱ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور میں ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوں.باتیںکرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں.ایک وہ جو صرف نماز پڑھ لیں یہ لوگ بھی اچھے ہیں.دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جائیں.تیسرا متولی.اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی لیکن اس کے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.ان دونوں رؤیا پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے بھی ایک سال اور چند ماہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فتنہ خلافت کے متعلق خبر دے دی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلافت کا سوال ہی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا اور انجمن کا کاروبار بھی ابھی نہیں چلا تھا.بہت تھوڑی مدت اس کے قیام کو ہوئی تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ نوزائیدہ انجمن مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین ہونے کا دعویٰ کرے گی بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ احمدیوں کے دماغ میں وہم کے طور پر بھی یہ خیال نہیں آتا تھاکہ حضرت صاحب فوت ہوںگے بلکہ ہر ایک شخص باوجود اشاعت وصیت کے غالباً یہ خیال کرتا تھا کہ یہ واقعہ ہماری وفات کے بعد ہی ہوگا اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی موت کا وہم بھی نہیں کر سکتا اور یہی حال جماعت احمدیہ کا تھا.پس ایسے وقت میں خلافت کے جھگڑے کا اس وضاحت سے بتا دینا اور اس خبر کا حرف بہ حرف پورا ہونا ایک ایسا زبردست نشان ہے کہ جس کے بعد متقی انسان کبھی بھی خلافت کا انکار نہیں کر سکتا.کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے کہ ایک واقعہ سے دو سال پہلے اس کی خبر دے اور ایسے حالات میں دے کہ جب کوئی سامان موجود نہ ہو اور وہ خبر دو سال بعد بالکل حرف بہ حرف پوری ہو اور خبر بھی ایسی ہو جو ایک قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.دیکھو اِن دونوںرؤیا سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ ہوگا جو بظاہر خطرناک معلوم ہوگالیکن درحقیقت نہایت نیک نتائج کا پیدا کرنے والا ہوگا چنانچہ خلافت کا جھگڑا جو ۱۹۰۹ء میں برپا ہوا
۱۸۲ گو نہایت خطرناک معلوم ہوتا تھا مگر اس کا یہ عظیم الشان فائدہ ہوا کہ آئندہ کے لئے جماعت کو خلافت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور حضرت خلیفۃ المسیح کو اس بات کا علم ہو گیا کہ کچھ لوگ خلافت کے منکر ہیں اور آپ اپنی زندگی میں برابر اس امر پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدابناتا ہے اور خلافت جماعت کے قیام کے لئے ضروری ہے اور ان نصائح سے گو بانیانِ فساد کو فائدہ نہ ہواہو لیکن اِس وقت سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جن کوان وعظوں سے فائدہ ہوا اور وہ اس وقت ٹھوکر سے اس لئے بچ گئے کہ اُنہوں نے مُخْتَلَفٌ فِیْہَا مسائل کے متعلق بہت کچھ خلیفہ اوّل سے سنا ہوا تھا.پھر دوسری رؤیاسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے خلاف کچھ لوگوں نے بغاوت کی ہے.اب مسجد کی تعبیر جماعت لکھی ہے.پس اس رؤیا سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت کا ایک متولی ہوگا.(متولی اور خلیفہ بالکل ہم معنی الفاظ ہیں) اور اس کے خلاف کچھ لوگ بغاوت کریں گے اور ان میں سے کوئی مجھے بھی ورغلانے کی کوشش کرے گا مگر میں ان کے پھندے میں نہیں آؤں گا اور ان کو صاف کہہ دوں گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو شہزادہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا.اورجب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات دیکھتے ہیں تو آپ کا نام شہزادہ بھی رکھا گیا ہے.پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو لوگ ان باغیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناراض ہوں گے (یعنی ان کا یہ فعل مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہوگا) یہ تو اس فتنہ کی کیفیت ہے جو ہونے والا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ یہ فتنہ کون کرے گا.اور وہ اس طرح کہ اس امر سے کہ متولی کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے شہزادہ ناراض ہو جائے گا یہ بتایا گیا ہے کہ متولی حق پر ہے اور باغی ناحق پر اور پھر یہ بتا کر کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوسرے دو گروہوں یعنی عام نمازیوں اور انجمن والوں میں سے عام نمازی اچھے ہیں) بتا دیا کہ یہ فتنہ عام جماعت کی طرف سے نہ ہوگا.اب ایک ہی گروہ رہ گیا یعنی انجمن پس وہی باغی ہوئی.لیکن میری علیحدگی سے یہ بتا دیا کہ میں باوجود ممبر انجمن ہونے کے ان فتنہ پردازوں سے الگ رہوں گا.یہ رؤیا ایسی کھلی اور صاف ہے کہ جس قدر غور کرو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خلافت کی صداقت کا ثبوت ایسے کھلے طور پر ملتا ہے کہ کوئی شقی ہی انکار کرے تو کرے.اس رؤیا کے گواہشاید کوئی شخص کہہ دے کہ ہم نے مانا کہ یہ رؤیا نہایت واضح ہے لیکن اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ واقعہ میں آپ نے کوئی ایسی رؤیا دیکھی بھی ہے یا
۱۸۳ نہیں اور جب تک اس بات کا ثبوت نہ ملے تو اس رؤیا کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہو سکتی اور اس کا کہنا بالکل بجا ہوگا اس لئے میں اپنی صداقت کے لئے گواہ کے طور پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کرتا ہوں.شاید بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو چکے ہیں آپ کیونکر اس دنیا میں واپس آ کر میری صداقت کی گواہی دے سکتے ہیں تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ اس بات کی شہادت دے دیں گے کہ واقعہ میں ۸؍ مارچ کو میں نے یہ رؤیا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات کو میں نے یہ رؤیا دیکھی اُسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا.آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رؤیا مجھے لکھوا دے.چنانچہ میں لکھواتا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے.پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا، پھر تینوں رؤیا لکھیں.ان تینوں رؤیا کے اِردگرد اس سے پہلی اور پچھلی تاریخوں کے الہام حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود ہیں.(کاپی لوگوں کو دکھائی گئی) اور یہ کاپی اب تک میرے پاس ہے اور ہر ایک طالبِ حق کو دکھائی جا سکتی ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط پہچانتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سب کاپی حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور کئی سال کے الہام اس میں درج ہیں اور یہ میری رؤیا بھی آپ ہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس میں موجود ہے.یہ ایک ایسی شہادت ہے کہ کوئی احمدی اس کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ایسے کھلے کھلے نشان کا جو شخص انکار کرے گا اسے ہر ایک صداقت کا انکار کرنا پڑے گا.اس رؤیا کے معلوم کر لینے کے بعد ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ کیوں مجھے خلافت کے مسئلہ میں اس قدر یقین اور تسلی ہے اور کیوں میں ہر ایک مقابلہ کی پرواہ نہ کرکے فتنہ کے وقت خلافت کامُمِد و معاون رہا ہوں.میں اس شک کو بھی دور کر دینا چاہتا ہوں کہ کیوں اس رؤیا کو شیطانی نہ خیال کیا جائے اور وہ اس طرح کہ اوّل تو اس رؤیا کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھ لیا اور اپنے الہاموں کی کاپی میں لکھا.پھر یہ رؤیا دو سال بعد حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جو رؤیا اس شان کے ساتھ پوری ہو وہ شیطانی نہیں ہو سکتی کیونکہ پھر شیطان اور رحمن کے کلام میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور کیوں نہ لوگ ہر ایک الہام کو شیطانی کہہ دیں گے.
۱۸۴ مسئلہ خلافت کے متعلق دوسری آسمانی شہادت ۱۹۰۹ء کی بات ہے ابھی مجھے خلافت کے متعلق کسی جھگڑے کا علم نہ تھا صرف ایک صاحب نے مجھ سے حضرت خلیفۃ المسیح خلیفہ اوّل کی خلافت کے قریباً پندرہویں دن کہا تھا کہ میاں صاحب اب خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کچھ غور کرنا چاہیے جس کے جواب میں میں نے اُن سے کہا کہ یہ وقت وہ تھا کہ سلسلہ خلافت قائم نہ ہوا تھا جب کہ ہم نے بیعت کر لی تو اب خادم مخدوم کے اختیارات کیا مقرر کریں گے.جس کی بیعت کی اُس کے اختیا رات ہم کیونکر مقرر کر سکتے ہیں.اس واقعہ کے بعد کبھی مجھ سے اس معاملہ کے متعلق کسی نے گفتگو نہ کی تھی اور میرے ذہن سے یہ واقعہ اُتر چکا تھا کہ جنوری ۱۹۰۹ء میں میں نے یہ رؤیا دیکھی کہ ایک مکان ہے بڑا عالیشان سب تیار ہے لیکن اُس کی چھت ابھی پڑنی باقی ہے.کڑیاں پڑ چکی ہیںان پر اینٹیں رکھ کر مٹی ڈال کر کوٹنی باقی ہے.ان کڑیوں پر کچھ پھونس پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحق صاحب کھڑے ہیں اور ان کے پاس میاں بشیر احمد اور نثار احمد مرحوم (جو پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کا صاحبزادہ تھا) کھڑے ہیں.میر محمد اسحق صاحب کے ہاتھ میں ایک ڈبیہ دیا سلائیوں کی ہے اور وہ اس پھونس کو آگ لگانی چاہتے ہیں.میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ابھی آگ نہ لگائیں نہیں تو کڑیوں کو آگ لگنے کا خطرہ ہے.ایک دن اس پھونس کو جلایا تو جائے گا ہی لیکن ابھی وقت نہیں.بڑے زور سے منع کرکے اور اپنی تسلی کر کے میں وہاں سے لَوٹا ہوں لیکن تھوڑی دُور جا کر میں نے پیچھے سے کچھ آہٹ سنی اور منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں وہ نہیں جلتیں پھر اور نکال کر ایسا ہی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں.میں اس بات کو دیکھ کر واپس بھاگا کہ ان کو روکوں لیکن میرے پہنچتے پہنچتے اُنہوں نے آگ لگا دی تھی.میں اس آگ میںکُود پڑا اور اسے میں نے بُجھا دیا لیکن تین کڑیوں کے سرے جل گئے.یہ خواب میں نے اُسی دن دوپہر کے وقت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنائی جو سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ خواب تو پوری ہوگئی ہے اور اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میر محمد اسحق صاحب نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کو دیئے ہیں جن سے ایک شور پڑ گیا ہے.اس کے بعد میں نے حضرت خلیفۃ المسیح کو یہ رؤیا لکھ کر دی اور آپ نے وہ رُقعہ پڑھ کر فرمایا کہ خواب پوری ہوگئی ہے اور ایک کاغذ پر مفصّل واقعہ لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھ لو.جب میں نے پڑھ لیا تو لے کر پھاڑ دیا.اس رؤیا کے گواہ مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے.چنانچہ یہ رؤیا حرف
۱۸۵ بہ حرف پوری ہوئی اور ان سوالات کے جواب میں بعض آدمیوں کا نِفاق ظاہر ہو گیا اور ایک خطرناک آگ لگنے والی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس وقت اپنے فضل سے بجھادی.ہاں کچھ کڑیوں کے سرے جل گئے اور ان کے اندر ہی اندر یہ آگ دہکتی رہی.اس خواب میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ پھونس آخر جلا ہی دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق تیسری آسمانی شہادتابھی کسی جلسہ وغیرہ کی تجویز نہ تھی ہاں خلافت کے متعلق فتنہ ہو چکا تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک جلسہ ہے اور اس میں حضرت خلیفہ اوّل کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور جو لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کچھ مخالف بھی ہیں.میں آیا اور آپ کے دہنے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ پہلے مارے جائیں گے تو پھرکوئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا ہم آپ کے خادم ہیں.چنانچہ یہ خواب حضرت خلیفہ اوّل کو سنائی جب جلسہ کی تجویز ہوئی اور احباب بیرون جات سے مسئلہ خلافت پر مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور چھوٹی مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اوّل کھڑے ہوئے کہ تقریر فرمائیں تو میں آپ کے بائیں طرف بیٹھا تھا آپ نے اس رؤیا کی بناء پر مجھے وہاں سے اُٹھا کر دوسری طرف بیٹھنے کا حکم دیا اور اپنی تقریر کے بعد مجھے بھی کچھ بولنے کے لئے فرمایا اور میں نے ایک مضمون جس کا مطلب اس قسم کا تھا کہ ہم تو آپ کے بالکل فرمانبردار ہیں بیان کیا.مسئلہ خلافت پر چوتھی آسمانی شہادتجب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو گو مجھے وہ رؤیا بھی ہو چکی تھی جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے اور وہ دوسری رؤیا بھی دیکھ چکا تھا جس میں میرمحمد اسحق صاحب کے سوالات سے منافقوں کے سر جلنے کا پتہ دیا گیا تھا لیکن پھر بھی طبیعت پر ایک بوجھ تھا اور میں چاہتا تھا کہ زیادہ وضاحت سے مجھے اس مسئلہ کی نسبت کچھ بتایا جائے اور میں نے اپنے ربّ کے حضور میں بار بار عرض کی کہ الٰہی! مجھے حق کا پتہ دیا جائے اور صداقت مجھ پر کھول دی جائے اور جو بات سچ ہو وہ مجھے بتا دی جائے کیونکہ مجھے کسی پارٹی سے تعلق نہیں بلکہ صرف حضور کی رضا حاصل کرنے کا شوق ہے.جس قدر دن جلسہ میں باقی تھے ان میں میں برابر یہ دعا کرتا رہا لیکن مجھے کچھ نہ بتایا گیا حتیّٰ کہ وہ رات آگئی جس دن صبح کو وہ جلسہ تھا جس میں یہ سوالات پیش ہونے تھے اور اُس رات میرا کرب بڑھ گیا اور میرا دل دھڑکنے لگا اور میں گھبرا گیا کہ
۱۸۶ اب میں کیا کروں.اُس رات میں بہت ہی گڑگڑایا اور عرض کیا کہ الٰہی! صبح کو یہ معاملہ پیش ہوگا حضور مجھے بتائیں کہ میں کس طرف ہوں.اِس وقت تک تو میں خلافت کو حق سمجھتا ہوں لیکن مجھے حضور کی رضا مطلوب ہے کسی اپنے اعتقاد پر اصرار نہیںمیں حضور سے ہی اس مسئلہ کا حل چاہتا ہوں تا میرے دل کو تسلی ہو.پس صبح کے وقت میری زبان پر یہ الفاظ جو قرآن کریم کی ایک آیت ہے جاری کئے گئے قل ما یعبؤابکم ربی لو لا دعاؤکم(الفرقان ۷۸) کہہ دے کہ میرا ربّ تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.اس کے بعد مجھے تسلی ہوگئی اور میں نے خیال کیا کہ میں حق پر ہوں کیونکہ لفظ نے بتادیاہے کہ میرا خیال درست ہے تبھی تو مجھے حُکم ہوا کہ میں لوگوں کو حکمِ الٰہی سنا دوں اور اگر میرا عقیدہ غلط ہوتا تو یہ الفاظ ہوتے کہ قل ما یعبؤابکم ربی لو لا دعاؤکم میں نے یہ الفاظ کئی لوگوں کو سنا دیئے تھے مگر اب یاد نہیں کہ کس کس کو سنائے تھے.مسئلہ خلافت پر پانچویں آسمانی شہادتمیں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات سے تین سال پہلے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ آپ کی وصیت سے نواب صاحب کا بھی کچھ تعلق ہے.چنانچہ تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کو پورا کر کے دکھا دیا کہ وہ کیسا زبردست ہے.مسئلہ خلافت پر چھٹی آسمانی شہادت ۱۹۱۳ء میں میں ستمبر کے مہینہ میں چند دن کے لئے شملہ گیا تھا.جب میں یہاں سے چلا ہوں تو حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر میں نے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور قریباً دو بجے ہیں میں اپنے کمرہ میں (قادیان میں) بیٹھا ہوں.مرزا عبدالغفور صاحب (جو کلانور کے رہنے والے ہیں) میرے پاس آئے او رنیچے سے آواز دی میں نے اُٹھ کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو سخت تکلیف ہے تپ کی شکایت ہے ایک سَو دو کے قریب تپ ہو گیا تھا آپ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں.جب میں نے یہ رؤیا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لَوٹ جاؤں لیکن میں نے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کر لوں کہ کیا آپ واقع میں بیمار ہیں.سو میں نے وہاں سے تار دیا کہ حضور کا کیا حال ہے؟ جس کے جواب میں حضرت نے لکھا کہ اچھے ہیں.یہ رؤیا میں نے اُسی وقت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سیّد سرور شاہ صاحب کو سنا دی تھی اور غالباً نواب صاحب کے صاحبزادگان میاں
۱۸۷ عبدالرحمن خان صاحب، میاں عبداللہ خان صاحب، میاں عبدالرحیم خان صاحب میں سے بھی کسی نے وہ رؤیا سُنی ہوگی کیونکہ وہاں ایک مجلس میں میں نے اس رؤیا کو بیان کر دیا تھا.اب دیکھنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کر سکتا.اوّل تو یہ کہ حضور کی وفات تپ سے ہوگی.دوم یہ کہ آپ وفات سے پہلے وصیت کر جائیںگے.سوم یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینہ میں شائع ہوگی.چہارم یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہوگا.اگر ان چاروں باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نامناسب نہ ہوگا کہ اس رؤیا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہو سکتا تھا اور یہ ایک ایسی بات تھی کہ جسے قبل از وقت کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن جب واقعات اپنے اصل رنگ میں پورے ہوگئے تو اب یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس رؤیا میں میری خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا لیکن چونکہ یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی اس لئے اُس وقت جب کہ یہ رؤیا دکھلائی گئی تھی اِس طرف خیال بھی نہیں جا سکتا تھا.مندرجہ بالا پانچ نتائج جو اس رؤیا سے نکالے گئے ہیں ان سے چار تو صاف ہیں یعنی تپ سے وفات کا ہونا چنانچہ ایسا ہی ہوا.وصیت کا کرنا وہ بھی صاف ہے کیونکہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کر دی تھی.تیسرے مارچ میں وصیت کا ہونا وہ بھی ایک بالکل واضح ہے کیونکہ آپ نے مارچ ہی میں وصیت کی اور مارچ ہی میں وہ شائع ہوئی.پانچواں امر بھی صاف ہے کہ اِس وصیت کا مجھ سے بھی کچھ تعلق تھا چنانچہ ایسا ہی ظاہر ہوا.لیکن چوتھی بات کہ بدر میں دیکھ لیں تشریح طلب ہے کیونکہ آپ کی وصیت جہاں الفضل، الحکم، نور میں شائع ہوئی وہاں بدر میں شائع نہیں ہوئی کیونکہ وہ اُس وقت بند تھا.پس اس کے کیا معنی ہوئے کہ بدر میں دیکھ لیں.سو اس امر کے سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہیے کہ رؤیا اور کشوف کبھی بالکل اصل شکل میں پورے ہوتے ہیں اور کبھی وہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور کبھی ان کا ایک حصہ تو اصل رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور ایک حصہ تعبیر طلب ہوتا ہے سو یہ خواب بھی اسی طرح کی ہے اور جہاں اس رؤیا میں سے چار امور بالکل صاف اور
۱۸۸ واضح طور پر پورے ہوئے ایک امر تعبیرطلب بھی تھا لیکن رؤیا کی صداقت پر باقی چار امور نے مُہر کر دی تھی اور اس چوتھے امر کی تعبیر یہ تھی کہ بدر اصل میں پندرہویں رات کے چاند کو کہتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں ایک قسم کا اخفاء رکھنے کے لئے مارچ کی چودھویں تاریخ کا نام چودھویں کی مشابہت کی وجہ سے بدر رکھا اور یہ بتایا کہ یہ واقعہ چودہ تاریخ کو ہوگا.چنانچہ وصیت باقاعدہ طور پرجو شائع ہوئی یعنی اس کے امین نواب محمد علی خان صاحب نے پڑھ کر سنائی تو چودہ تاریخ کو ہی سنائی اور اسی تاریخ کو خلافت کا فیصلہ ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق ساتویں آسمانی شہادتاس بات کو قریباً تین چار سال کا عرصہ ہوا یا کچھ کم کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جا رہی ہے کہ راستہ میں کسی نے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کی خبر دی تو میں نے گاڑی والے کو کہا کہ جلدی دَوڑاؤ تا میں جلدی پہنچوں.یہ رؤیا بھی میں نے حضرت کی وفات سے پہلے ہی بہت سے دوستوں کو سنائی تھی (جن میں سے چند کے نام یاد ہیں.نواب محمد علی خان صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور غالباً ماسٹر محمدشریف صاحب بی.اے پلیڈر چیف کورٹ لاہور) کہ مجھے ایک ضروری امر کے لئے حضرت کی بیماری میں لاہور جانے کی ضرورت ہوئی اور چونکہ حضرت کی حالت نازک تھی میں نے جانا مناسب نہ سمجھا اور دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں؟ اور ان کو بتایا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ میں نے رؤیا میں گاڑی میں سواری کی حالت میں حضرت کی وفات دیکھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ابھی ہو جائے.پس میں نے یہ تجویز کی کہ ایک خاص آدمی بھیج کر اس ضرورت کو رفع کیا.لیکن منشائے الٰہی کو کون روک سکتا ہے.چونکہ حضرت ، نواب صاحب کے مکان پر رہتے تھے میں بھی وہیں رہتا تھا اور وہیں سے جمعہ کے لئے قادیان آتا تھا.جس دن حضور فوت ہوئے میں حسب معمول جمعہ پڑھانے قادیان آیا اور جیسا کہ میری عادت تھی نماز کے بعد بازار کے راستہ سے واپس جانے کے لئے تیار ہوا کہ اتنے میں نواب صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ احمدیہ محلہ میں میرے منتظر ہیں اور مجھے بُلاتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے مجھ سے کچھ بات کرنی ہے.میں وہاں گیا تو ان کی گاڑی تیار تھی اس میں وہ بھی بیٹھ گئے اور میںبھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن بھی ہمارے ساتھ تھے.گاڑی آپ کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئی اور جس وقت اُس سڑک پر چڑھ گئی جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی گراؤنڈ
۱۸۹ میں تیار کی گئی ہے تو آپ کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا کہ حضور فوت ہوگئے ہیں اُس وقت میں بے اختیار ہو کر آگے بڑھا اور گاڑی والے کو کہا کہ گاڑی دَوڑاؤ اور جلد پہنچاؤ.اُسی وقت نواب صاحب کو وہ رؤیا یاد آگئی اور آپ نے کہا کہ وہ رؤیا پوری ہوگئی.یہ رؤیا ہستی باری کا ایک ایسا زبردست ثبوت ہے کہ سوائے کسی ایسے انسان کے جو شقاوت کی وجہ سے صداقت نہ ماننے سے بالکل انکار کر دے ایک حق پسند کے لئے نہایت رُشد اور ہدایت کا موجب ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے بچنے کی لاکھ کوشش کرے تقدیر پوری ہو کر ہی رہتی ہے میں نے جس خوف سے لاہور کا سفر ملتوی کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ امر قادیان ہی میں پورا ہوا.حضرت کی وفات اور میری خلافت کے متعلق آٹھویں آسمانی شہادتقریباً تین چار سال کا عرصہ ہوا جو میں نے دیکھا کہ میں اور حافظ روشن علی صاحب ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے گورنمنٹ برطانیہ نے افواج کا کمانڈر اِن چیف مقرر فرمایا ہے اور میں سراومور کرے سابق کمانڈراِن چیف افواجِ ہند کے بعد مقرر ہوا ہوں اور ان کی طرف سے حافظ صاحب مجھے عہدہ کا چارج دے رہے ہیں.چارج لیتے لیتے ایک امر پر میں نے کہا کہ فلاں چیز میں تو نقص ہے میں چارج میں کیونکر لے لوں؟ میں نے یہ بات کہی ہی تھی کہ نیچے کی چھت پھٹی (ہم چھت پر تھے) اور حضرت خلیفۃ المسیح خلیفہ اوّل اس میں سے برآمد ہوئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ سراومور کرے کمانڈر اِن چیف افواج ہند ہیں آپ نے فرمایا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ لارڈ کچنر(KITCHENER) سے مجھے یہ چیز اِسی طرح ملی تھی.اس رؤیا پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اور میں اپنے دوستوں کو سنا کر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھاکہ اس خواب سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ واقعات کے ظہور پر معلوم ہوا کہ یہ رؤیا ایک نہایت ہی زبردست شہادت تھی اس بات پر کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے بعد جو فیصلہ ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے ماتحت ہوا ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی وفات پر میری طبیعت اس طرف گئی کہ یہ رؤیا تو ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ مولوی صاحب کے بعد خلافت کا کام میرے سپرد ہوگا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح مجھے بہ لباس سراومور کرے کے دکھائے گئے اور افواج کی
کمانڈ سے مراد جماعت کی سرداری تھی کیونکہ انبیاء کی جماعتیں بھی ایک فوج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین کو غلبہ دیتا ہے.اِس رؤیا کی بناء پر یہ بھی امید ہے کہ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی تبلیغ کا کام جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے ہوگا اور غیرمبائعین احمدیوں کے ذریعہ نہ ہوگا.اِلاَّ مَاشَاء اللّٰہُ.برکت مبائعین کے کام میں ہی ہوگی.اس رؤیا کا جب غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی زبردست شہادت معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر غور کریں اُسی قدر عظمتِ الٰہی کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس رؤیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لارڈ کچنر کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل کو سراومور کرے کے نام سے.اور جب ہم ان دونوں افسروں کے عہدہ کو دیکھتے ہیں تو جس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات پائی تھی اسی سال لارڈ کچنر ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اور سراومور کرے کمانڈر مقرر ہوئے مگر یہ بات تو پچھلی تھی.عجیب بات یہ ہے کہ جس سال اور جس مہینہ میں سراومور کرے ہندوستان سے راونہ ہوئے ہیں اُسی سال اور اُسی مہینہ یعنی مارچ ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہوئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اِس کام پر مقرر فرمایا.کیا کوئی سعید الفطرت انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ رؤیا شیطانی ہوسکتی تھی یا کوئی انسان اس طرح دو تین سال قبل از وقوع ایک بات اپنے دل سے بنا کر بتا سکتا ہے ؟کیا یہ ممکن تھا کہ میں دو سال پہلے یہ سب واقعات اپنے دل سے گھڑ کر لوگوں کو سُنا دیتا اور پھر وہ صحیح بھی ہو جاتے؟ یہ کون تھا جس نے مجھے یہ بتا دیا کہ حضرت مولوی صاحب مارچ میں فوت ہوں گے، ۱۹۱۴ء میں ہوں گے اور آپ کے بعد آپ کا جانشین میں ہوں گا.کیا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں.اس رؤیا میں یہ جو دکھایا گیا کہ چارج میں ایک نقص ہے اور میں اس کے لینے سے انکار کرتا ہوں تو وہ ان چند آدمیوں کی طرف اشارہ تھا کہ جنہوں نے اِس وقت فساد کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعہ سے حضرت مولوی صاحب پر سے یہ اعتراض دور کیا ہے جو بعض لوگ آپ پر کرتے ہیں کہ اگر حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ میں ان لوگوں کے اندرونہ سے لوگوں کو عَلَی الْاِعْلَان آگاہ کر دیتے اور اشارات پر ہی بات نہ رکھتے یا جماعت سے خارج کر دیتے تو آج یہ فتنہ نہ ہوتا.اور مولوی صاحب کی طرف سے قبل ازوقت یہ جواب دے دیا کہ یہ نقص میرے زمانہ کا نہیں بلکہ پہلے کا ہی ہے اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی بگڑ چکے تھے ان کے بگڑنے میں میرے کسی سلوک کا دخل نہیں مجھ سے پہلے ہی ایسے تھے.
۱۹۱ شاید کوئی شخص اعتراض کرے کہ یہ تعبیر تو اَب بنائی جاتی ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ تعبیر کا علم واقعہ کے بعد ہی ہوتا ہے یہ خواب صاف ہے اور اس میں کوئی پیچ نہیں.ہر ایک شخص اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جو تعبیر میں نے کی ہے اس کے سوا کوئی درست تعبیر نہیں ہو سکتی.یہ خواب میں نے حافظ روشن علی صاحب کو قبل از وقت سنا دی تھی اَور دوستوں کو بھی سنائی ہے لیکن ان کے نام یاد نہیں.مسئلہ خلافت پر نویں آسمانی شہادتجس طرح خلافت کے جھگڑے، حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات، آپ کی وصیت، میری جانشینی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ میرے مقابلہ پر کون ہوگا جو سخت فتنہ برپا کرے گا لیکن ناکام رہے گا.اس بات کو قریباً سات سال ہوگئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ۱۹۰۲ء کے اکتوبر یا نومبر میں میں نے رؤیا دیکھی کہ میں بورڈنگ کے ایک کمرہ میں ہوں یا ریویو آف ریلیجنز کے دفتر میں وہاں ایک بڑے صندوق پر مولوی محمد علی صاحب بیٹھے ہیں اور میں ذرا فاصلہ پر کھڑا ہوں اتنے میں ایک دروازہ سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر داخل ہوئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہا کہ میاں صاحب! آپ لمبے ہیں یا مولوی صاحب؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میں لمبا ہوں.میں نے کہا کہ میں لمبا ہوں.شیخ صاحب نے کہا آؤ دونوں کو ناپیں.مولوی صاحب صندوق پر سے اُترنا چاہتے ہیں لیکن جس طرح بچے اونچی چار پائی پر سے مشکل سے اُترتے ہیں اس طرح بڑی مشکل سے اُترتے ہیں اور جب شیخ صاحب نے مجھے اور ان کو پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھے ہیں! میں تو سمجھتا تھا کہ مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے.میں نے کہا ہاں میں ہی اونچا ہوں.اس پر اُنہوں نے کہا کہ اچھا میں مولوی صاحب کو اُٹھا کر آپ کے کندھوں کے برابر کرتا ہوں دیکھیں ان کے پیر کہاں آتے ہیں اور یہ کہہ کر اُنہوں نے مولوی صاحب کو اُٹھا کر میرے کندھوں کے برابر کرنا چاہا.جتنا وہ اونچا کرتے جاتے اُسی قدر میں اونچا ہوتا جاتا آخر بڑی دقت سے اُنہوں نے ان کے کندھے میرے کندھوں کے برابر کئے تو اُن کی لاتیں میرے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچ سکیں جس پر وہ سخت حیران ہوئے.یہ خواب اُس وقت کی ہے جب ان جھگڑوں کا وہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا.سات سال کے بعد کے واقعات بتانا انسان کا کام نہیں.میں نے یہ رؤیا اُسی وقت سیّد سرور شاہ صاحب، سیّد ولی اللہ شاہ صاحب کو جو اِس وقت بیروت (شام) میں ہیں اور سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو جو میڈیکل
۱۹۲ کالج کی آخری کلاس میں پڑھتے ہیں سنا دی تھی اور ان سے گواہی لی جا سکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اُن کو یہ رؤیا یاد ہوگی.ممکن ہے کہ اور دوستوں کو بھی سنائی ہو لیکن اور کسی کا نام یاد نہیں ہم اُس وقت اِس رؤیا پر حیران ہوا کرتے تھے کہ یہ قدوں کا ناپنا کیا معنی رکھتا ہے نہ خلافت کا سوال تھا نہ خلیفہ کی بیعت کا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے کون سمجھ سکتا تھا کہ کبھی واقعات بدل کر اور کی اور صورت اختیار کر لیں گے مگر خدا کی باتیں پورے ہوئے بغیر نہیں رہتیں.مولوی محمد علی صاحب کے دوستوں نے اُنہیں میرے مقابلہ پر کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت ناکام کیا حتیّٰ کہ اُنہوں نے اپنی ذلّت کا خود اقرار کیا.جس قدر بھی ان کے دوستوں نے زور مارا کہ اُن کو اونچا کریں اُسی قدر خدا تعالیٰ نے اِن کو نیچا کیا اور قریباً ستانوے فیصدی احمدیوں کو میرے تابع کر دیا اور میرے ذریعہ جماعت کا اتحاد کر کے مجھے بلند کیا.اب میں آخر میں تمام راستی پسند انسانوں کو کہتا ہوں کہ اگر وہ اب تک خلافت کے مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے تو اب بھی فیصلہ کر لیں کیونکہ یہ کام خدا کی طرف سے ہوا ہے اور کسی انسان کا اس میں دخل نہیں.اگر آپ اس صداقت کا انکار کریں گے تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا بھی انکار کرنا پڑے گا.پس حق کو قبول کریں اور جماعت میں تفرقہ نہ ڈالیں.میں کیا چیز ہوں؟ میں جماعت کا ایک خادم ہوں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کومتحد کرنا چاہتا ہے ورنہ کام تو سب اللہ تعالیٰ کا ہے.مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کر دیا تو میں ہوگیا میرا اس میں کوئی دخل نہیں.اور آپ ان باتوں کو سُن کر یہ بھی اندازہ کر سکیں گے کہ جب کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خلافت کا جھگڑا، خلیفہ کی صداقت، خلیفہ اوّل کی وفات کا سن، مہینہ، آپ کی وصیت، میرا گاڑی میں آپ کی وفات کی خبر سننا، آپ کی بیماری کا حال سب کچھ بتا دیا تھا تو کیا ایک لمحہ کے لئے بھی میرا دل متردّد ہو سکتا تھا اور جب کہ بعض دوسری رؤیا نے وقت پر پوری ہو کر بتا دیا کہ منشائے الٰہی یہی تھا کہ میں ہی دوسرا خلیفہ ہوں اور میری مخالفت بھی ہو اور کامیابی میرے لئے ہو تو کیا میں خلافت کے متعلق ان لوگوں کا مشورہ سُن سَکتا تھا جو مجھے مشورہ دیتے تھے کہ میں اب بھی اس کام کو ترک کر دوں.کیا میں منشائے الٰہی کے خلاف کر سکتا ہوں؟ اگر میں ایسا کروں تو میں خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو ردّ کرنے والا ہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس حرکت سے محفوظ رکھے.خدا نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جو لوگوں نے چاہا وہ نہ ہوا.مگر مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے اور اس قدر آسمانی شہادتوں کے بعد ضد اور ہٹ سے کام نہ لے.
۱۹۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بقیہ تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (جو ۲۷دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ پر بعد از نماز ظہرو عصر ہوئی) أشهدان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم الحمد للہ رب العلمين الرحمن الرحيم مالک يوم الدين اياك نعبد و ایاك نستعين اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غیر المغضوب عليهم ولا الضالین.آمین.اللہ تعالیٰ کا کیاہی احسان ہے مسلمانوں پر اور کیاہی فضل ہے اپنے بندوں پر کہ ایک مسلمان دنیامیں کسی کے آگے کسی معاملہ میں شرمندہ نہیں ہو سکتا.دنیا میں ناجائز تعصب، ضد اور ہٹ ایسی چیزیں ہیں جو کہ بہت بری ناپسندیدہ اور مکروہ ہیں مگر مسلمان کو اللہ تعالی ٰنے ایسے بلند مرتبہ پر کھڑاکیا ہے کہ دنیا کا اور کوئی انسان اس منصب تک نہیں پہنچ سکتا.میں مضمون تو اور بیان کرنے لگا تھا.لیکن سورہ فاتحہ کے پڑھنے سے ایک بات یاد آگئی ہے وہ بیان کئے دیتا ہوں.اور وہ یہ کہ انسان کسی بات کے متعلق فیصلہ کرنے میں بہت ٹھوکریں کھاتا ہے کیونکہ اس کی عقل محدود ہوتی ہے دیکھوایک وہ زمانہ تھا جبکہ خیال کیا جا تا تھا کہ آسمان مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے ہیں.پھر فلسفیوں نے کہا کہ نہیں آسمان منتہائے نظر ہے اور کوئی مادی چیز نہیں اور خبر نہیں کہ کل کیا اور پرسوں کیا ثابت ہو.یہی حال تمام علوم کا ہے.جو علوم آج سے سو سال پہلے تھے وہ آج نہیں ہیں اورہی ہیں.پہلے کہاجاتا تھا کہ ایک سورج ہے اور باقی سارے ستارے اس سے متعلق ہیں لیکن آج کل معلوم ہواہےکہ کئی ستارے ایسے ہیں جو اتنی دور اور اتنے بڑے ہیں کہ اب جا کر ان کی روشنی ہم تک پہنچی ہےاور وہ سورج سے کئی گنا بڑے ہیں.کسی زمانہ میں خیال کیا جا تا تھا اور یہ مشہور مقولہ ہے کہ قطب نما
۱۹۴ کی سوئی ہمیشہ شمال کی طرف رہتی ہے.مگر تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ مختلف عرصوں کےبعد اس کی سوئی مغرب کی طرف چلنا شروع ہو جاتی ہے اور ایک حد تک پہنچ کر پھر واپس لوٹنی شروع ہوتی ہے.غرض علوم میں بھی اتنی تبدیلی ہوتی جاتی ہے کہ آج بھی ہے تو کل کچھ اور ہو جاتاہے.اس میں شک نہیں کہ انسان کو الله تعالیٰ نے عقل اور فہم دیئے ہیں لیکن ایسی عقل نہیں دی جس کا فیصلہ بھی نہ بدلے.اس لئے اللہ تعالی ٰنے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے کہ چونکہ انسان ہر بات میں بہت ٹھوکریں کھاتا ہے لہذا چاہئے کہ وہ یہ دعا نہ مانگا کرے کہ یہ چیز ہمیں مل جائے یا یہ کام ہو جائے.بلکہ یہ دعا کیا کرے کہ الہٰی جو بات آپ کے نزدیک ہمارے لئے مناسب ہے وہ ہو جائے اور جو چیز آپ کے نزدیک ہمارے لئے بہتر ہے وہ مل جائے.چونکہ اللہ تعالیٰ کو غلطی نہیں لگ سکتی اس لئے وہ جو فیصلہ کرتا ہے وہی درست اور صحیح ہوتا ہے اور یہ ہر ایک انسان کے لئے دنیا کے ہرایک معاملہ میں فیصلہ کرنے کا آسان اور نہایت عمدہ طریق ہے.ہمارے لئے بھی یہی آسان طریق تھا.خلافت کا مسئلہ جس کسی کی سمجھ میں نہ آیا تو اسے چاہئے تھاکہ دعائیں کرتا ،استخارہ کرنا شروع کردیتااور خدا تعالی ٰکے حضور کہتا کہ اے میرے اللہ اگر خلافت کا مسئلہ درست ہے تو مجھے سمجھا دیئے.اور اگر نہیں تو مجھے جو سیدھی راہ ہے وہ دکھائے اور صراط مستقیم سے دور ہونے سے بچا لے مگر افسوس کہ کئی لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.میں نے بہت سے دوستوں کو یہ تدبیر بتائی اورانہوں نے اس پر عمل کیا تو انہیں خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہدایت ہوگئی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو کسی اور ذریعہ سے تسلی اور تشفی عطا فرما دی.اب بھی اگر کوئی شک اور تردّد میں ہے تو ایسا ہی کرے خداتعالی ٰاس کو ضرور ہدایت دے دے گا.پہلی تقریر میں میں نے ایک بات بیان کی ہے اور چودہ باتیں اور ہیں جو میں نے بیان کرنی ہیں.ان میں سے چار تو ایسی ہیں کہ جتنا پہلی پر وقت لگا ہے اتناہی ان پر لگایا جائے.لیکن نہ مجھے اتنی طاقت ہے اور نہ ہی وقت ہے.پھر ایک نہایت ضروری اور اہم بات ہے جو کل بیان کرنی ہے.کھانسی سے اللہ کا فضل ہے کہ نسبتاً آرام رہا ہے تاہم میرے سینہ میں درد ہو گیا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ کسی قدر اختصار سے باقی باتیں بیان کر دوں.اللہ تعالیٰ نے پھر کبھی توفیق دی تو مفصل بیان کر دوں گا.
۱۹۵ سیاست دوسرا مرجو میں نے بیان کرنا ہے وہ سیاست ہے.ہماری جماعت کو اس سے بڑا د ھو کہ لگا ہےاور یہ مسئلہ بھی بڑے ابتلاء کا باعث ہواہے اور یہ بات کہ ہمیں سیاست کہ ہمیں کس قدر حصہ لیناچاہئے.آیا سیاست اچھی ہے یا بری اور اگر بری ہے تو کہاں تک؟ اچھی ہے تو کس حد تک؟ سخت اختلاف کا باعث ہو گئی ہے میں جب اس کمی کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود کی تعلیم پر غور کرتاہوں اور ان لوگوں سے جو آپ کے ساتھ رہنے والے تھے پوچھتا ہوں تو وه یہ اظہار نہیں دے سکتےکہ حضرت صاحب نے ان کو کبھی سیاست کی طرف مائل کیا ہو یا کبھی ان کی توجہ کو اس طرف پھیراہو.مگر اس صورت میں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے اور یہ اعتراض صرف نو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ پرانے لوگوں کی طرف سے بھی پڑتا ہے کہ سیاست سے کیوں جماعت احمدیہ کو روکا جاتا ہے؟ ایک نادان اور کم عقل انسان کہہ سکتا ہے کہ چونکہ بہ لغوچیز ہے اس لئے اس سے روکا جاتاہے مگر تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اور گزشتہ قوموں کے حالات کا جانے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتاکیونکہ دنیا کی حکومتوں اور سلطنتوں کا مداری سیاست پر ہے.پھر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نےسیاست کے کچھ قواعد بیان فرمائے ہیں.یہ اچھی چیز تھی تب ہی تو قرآن کریم نے اس طرف توجہ فرمائی ورنہ کیوں فرماتا.اور ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ سٹرائکوں سے نفع حاصل ہو تا ہے اور حقوق مل جاتے ہیں.پھر یہ بھی کہ جائز ایجیٹیشن کو گورنمنٹ بھی ناپسند نہیں کرتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو سیاست سے روکا جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیوں روکا ہے.میرا عقیده فقط یہ نہیں ہے کہ سیاست سے کوئی فائدہ نہیں.ہاں میرے عقیدہ اور دوسروں کے عقیدہ میں یہ فرق ہے کہ وہ اور فوائد سمجھتے ہیں اور میں اور چونکہ اس کی وجہ سے جماعت میں ابتلاء آنے کا ڈر ہے اس لئے میں اصل بات بتانا چاہتا ہوں اس کا فیصلہ ہو جائے اور اگر اللہ تعالیٰ ہے تو یہ فیصلہ ہمیشہ کے لئے ہو جائے.قرآن شریف میں فیصلہ کی ایک آسان راہ بتاتا ہے کہ اگر ہم کسی بات کا فیصلہ کرنے لگیں تو ہمیں اس کے فوائد اور اس کے نقصانات پر غور کرنا چاہئے.
۱۹۶ جوئے اور شراب کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ (البقره ۲۲۰) شراب کے متعلق لوگ تم سے سوال کرتے ہیں اور تم سے پوچھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا حرام اورجوئے کے متعلق بھی پوچھتے ہیں.فرمایا ان کو اس کا یہ جواب دے دو( اسلام کیاہی پاک مذہب ہے کہ کسی کی نیکی اور اچھی صفت کو ضائع نہیں کرتا.کیاہی عمدہ اور پاک جواب دیا )کہ ان میں کچھ بد یاں اور کچھ فوائد بھی.لیکن بد یاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں.یہ کیاہی لطیف جواب دیا ہے.ان کے سوال پر انہیں منع نہیں کیا گیا کہ تم شراب نہ یپو - اورجوانہ کھیلو.بلکہ یہ فرما دیا ہے کہ ان میں منافع تھوڑے ہیں اور نقصان زیاد ہ- اب تم آپ ہی سمجھ لو کہ تمہیں کیا کرنا ہوا ہے تو خداتعالی ٰنے ہمارے لئے یہ قاعدہ کلیہ بیان فرما دیا کہ ہر ایک چیز میں دو باتیں ہوتی ہیں یعنی نفع اور نقصان.پس اگر کسی چیز میں نفع زیادہ ہو.اور نقصان تھوڑا.تو اس کو کر لیا کرو.اور اگر کسی چیز میں نقصان زیادہ ہو اور نفع تھوڑا تو اس کو اختیار نہ کیا کرو ، دنیا کا تمام کارخانه اسی قاعده پر چل رہا ہے.ہر ایک انسان جس چیز میں نفع زیادہ دیکھتا ہے اس کو اختیا کر لیتا ہے اور جس میں نقصان زیادہ دیکھتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے.اسی قاعدہ کے مطابق سیاست کو دیکھو.سیاست بالذات کوئی بری چیز نہیں ہے مگر ہم کہتےہیں کہ ایک ہی چیز ایک وقت میں حلال ہوتی ہے تو وہی دوسرے وقت میں حرام ہو جاتی ہے.مثلاًنماز ایک ایسی چیز ہے جس سے کہ قربِ الہٰی حاصل ہوتا ہے مگر ایک وقت یہی نماز پڑھنے والا شیطان ہو جاتا ہے یعنی سورج کے چڑھنے یا ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے والا بجاۓ قرب الہٰی حاصل کرنےکے شیطان بن جاتا ہے.اسی طرح روزہ کے متعلق خدا تعالی ٰفرماتا ہے کہ روزہ رکھنے والے کا میں الله ) ہی اجر ہوں مگر آنحضرت اﷺفرماتے ہیں کہ عید کے دن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ شیطان ہیں.پس گو روزہ رکھنا ایک نہایت اعلےٰ عبادت تھی لیکن رسول کریم ﷺنے عید کےدن روزہ رکھنے کو شیطانی فعل قرار دیا جس سے معلوم ہوا کہ ایک چیز ایک وقت میں اچھی ہوتی ہےتو دوسرے وقت وہی بری ہو جاتی ہے.مثلا ًایک شخص کی پیٹھ میں درد ہو رہا ہو اور وہ کسی کو کہے کہ میری پیٹھ پر مکیاں مارو.میں تمہیں انعام دوں گا تو اس طرح مکیاں مارنے پر اس شخص کو انعام ملے گا.لیکن اگر کو ئی مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہا ہو اور اس کا نوکر پیچھے سے آکر اس کی پیٹھ پر مکیاں مارنی شروع کردے تو جانتے ہو کہ اس سے کیا سلوک کیا جائے گا.اس کو سزا دی جائے گی کیونکہ موقع کے مطابق ہر ایک بات ہوتی ہے.
۱۹۷ ہر سخن و قتے ہر نکتہ مقامے دارد.تو بعض اوقات ایک بات خراب ہوتی ہے اور بعض وقت و ہی اچھی ہو جاتی ہے.سیاست سےجو مسیح موعود نے منع کیا ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا موقع اور محل نہیں ہے اور خواہ گورنمنٹ اس کی اجازت بھی دیتی ہے تاہم یہ ناجائز ہے.حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ گورنمنٹ ایک حد تک سیاسی امور کی طرف توجہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کام کا انجام خراب ہو گا اس لئے میں اپنی جماعت کو اس کی اجازت نہیں دیتا.ایک دفعہ صوبہ کے ایک بڑے افرے حضرت صاحب ملنے کے لئے تشریف لے گئے.یوں تو آپ کسی کے پاس نہ جایا کرتے تھے لیکن انہیں اپنا مہمان سمجھ کر چلے گئے.ان دنوں گورنمنٹ کا یہ خیال تھا کہ مسلم لیگ سے گورنمنٹ کو فائدہ پہنچے گا.ان افرصاحب نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ آپ کا مسلم لیگ کے متعلق کیا خیال ہے.آپ نے فرمایا میں اسے نہیں جانتا.خواجہ صاحب چونکہ اس کے ممبر تھے انہوں نے اس کے حالات عجیب پیرایہ میں آپ کو بتائے فرمایا میں پسند نہیں کرتا کہ لوگ سیاست میں دخل دیں.صاحب بہادر نے کہا مرزا صاحب مسلم لیگ کوئی بری چیز نہیں بلکہ بہت مفید ہے.آپ نے فرمایا.بری کیوں نہیں.ایک دن یہ بھی بڑھتے بڑھتے بڑھ جائے گی.صاحب بہادر نے کہامرزا صاحب ! شائد آپ نے کانگریس کا خیال کیا ہو گا.لیگ کا حال کانگریس کی طرح نہیں کیونکہ کسی کام کی جیسی بنیاد رکھی جاتی ہے ویسا ہی اس کا نتیجہ نکلتا ہے.کانگرس کی بنیاد چونکہ خراب رکھی گئی تھی اس لئے وہ مضر ثابت ہوئی لیکن مسلم لیگ کے تو ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس میں باغیانہ عنصر پیداہی نہیں ہو سکتا حضرت صاحب نے فرمایا.آج آپ کا یہ خیال ہے تھوڑے دنوں کے بعدلیگ بھی وہی کام کرے گی جو آج کانگرس کر رہی ہے.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب مسلم لیگ بھی اس سیلف گورنمنٹ کے حصول کی طرف جھک رہی ہے جس کا کانگرس مدت سےمطالبہ کر رہی تھی گو دکھاوے کے لئے لفظوں میں کچھ فرق رکھا ہو.غرض کہ گو صوبے کے ایک بڑےاور ذمہ دار حاکم نے اس بات پر زور بھی دیا کہ مسلم لیگ سے نقصان نہیں ہو گا لیکن حضرت صاحب نے یہی جواب دیا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا.آخر ایسا ہی ہوا.پس خوب یاد رکھو کہ حضرت صاحب نے جو اپنی جماعت کو جائز حد تک بھی سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ سیاست بالذات بری ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس میں حصہ لینا بجاۓ فوائد کے نقصان کا باعث ہے چنانچہ میں اس امر کی مزید تشریح کرتا ہوں.
(۹۸ حدیث میں آتا ہے ستکون اثرة و أمور تنکرونھا قالوا یا رسول اللہ فما تامرنا قال تؤدون الحق الذی علیکم و تسئلون اللہ الذی لکم (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام) یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ ایسے حاکم ہو جائیں گے کہ جو اپنے لئے بھلائی چاہیں گے اور تمہارے آرام کی فکر نہ رکھیں گے اور ایسے امور ظاہر ہوں گے جو تم کو برے معلوم ہوں گے.صحابؓہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺایسے وقت میں ہمیں کیا حکم ہے یعنی ہم اس وقت کیا کریں.کیا حکام کا مقابلہ کریں اور ان کو سیدھاکریں فرمایا جو حکام کے حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کو تم ادا کرو اور جو تمہارے حقوق ان کے ذمہ ہیں انہیں خود طلب نہ کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ پر ڈالدو کہ وہ خود ان کا ذمہ دار ہو.اس کے مقابلہ میں حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ من قتل دون عرضه وماله فهو شهيد - جو اپنی عزت اور مال کے بچانے کے لئے کوشش کر تاہو اماراجائے وہ بھی شہید ہے.پس ایک طرف تو مال و عزت کی حفاظت میں مارے جانے والے کو آپ شہید فرماتے ہیں.اوردوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ حکام جو کچھ بھی ظلم کریں صبر کرنا.اور ان کے ظلم کے مقابلہ میں خود ہاتھ نہ اٹھانا.اپنے حقوق کا مطالبہ بھی ان سے نہ کرنا بلکہ اسے بھی اللہ پر ہی چھوڑنا.ان دونوں حکموں کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حکم مختلف اوقات کے لئے ہیں.کیا زمانہ میں تو یہ حکم ہے کہ خوب اپنے حقوق طلب کرو اور کسی زمانہ میں یہ حکم ہے کہ جو کچھ ملتا ہے اسے خاموشی سےقبول کرو.مقالہ تو الگ رہا حکام سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرو.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک زمانہ حکومتوں پر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی حالت ایسی نازک ہو جاتی ہے کہ اگر وہ اپنی پہلی حالت پر چلی جائیں تو چلی جائیں لیکن اگر ان کی حالت میں ذرہ بھی تغیر آجائے تو خواہ وہ بہتری کی طرف ہی ہولیکن وہ مہلک ثابت ہوتا ہے کیونکہ کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے.ایسی حالت میں ملک کا حکومت کےخلاف اٹھ کھڑا ہوا ناس کی تباہی کایقینی باعث ہو جاتا ہے.پس ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکام سے حقوق طلب کرنے سے بھی روک دیا ایسا نہ ہو کہ حقوق طلب کرتےکرتے اپنی حکومت کوہی تباہ نہ کر لیں لیکن دوسرے اوقات میں جب یہ حالت نہ ہو تو خاص حدووکے اندر حقوق کا مطالبہ جائز رکھاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم بھی اسی طرح خاص مصالح کےماتحت ہے.سیاست کیا چیز ہے؟ایک قصہ گو لکھتا ہے کہ ایک دیوار تھی جو اس کے اوپر چڑھ کر اس میں جھانکتا پھرنہ لوٹ سکتا کہ ہنستا ہنستا اندر ہی کود پڑتا.یہ قصہ تو جھوٹ ہے *و بخاری کتاب المظالم باب من قتل دون ماله مفهوما) •
۱۹۹ کہ ایسی کوئی دیوار تھی کہ جو اسے دیکھتا تھا وہ اس کے اندر ہی غائب ہو جاتا تھا.لیکن اس پر غور کریں تو سیاست ایک ایسی ہی دیوار ہے.چونکہ انسان کی طبیعت عاجلہ کو پسند کرتی ہے اور جس کام کا فائدہ اسے جلد مل جائے وہ اسے بہت پسند کرتا ہے اور دیر کو پسند نہیں کرتا اس لئے لوگ ایسے کاموں کے درپے ہو جاتے ہیں جن کے کرنے سے فوری فوائد حاصل ہوں.اور سیاست بھی انہی چیزوں میں سے ہے جن کے فوائد جلد تر حاصل ہوتے ہیں.پس جب لوگ دیکھتے ہیں کہ سیاست کی وجہ سے جلدی دولت ،حکومت اور رتبہ مل جاتا ہے تو اس کی طرف دوڑنے لگ پڑتے ہیں.جس طرح کہا جاتا ہے کہ جب ایک دفعہ شیر کے منہ کو آدمی کا لہو لگ جاتا ہے تو پھر وہ ہر وقت انسان کے شکار کی تاک میں ہی رہتا ہے.اور پہلے اگر ایک دو آدمیوں سے بھاگ جاتا تھا تو پھر تیس چالیس آدمیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اسی طرح سیاست کا خون جس کسی کے منہ کو لگ جاتا ہے پھر وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا اور اس کے اندر ہی اندر گھستا جاتا ہے.سیاسی معاملات میں پڑنے کا پہلا خطر ناک نتیجہ : چونکہ ایک طرف تو سیاست ایک ایسی چیز ہے جو اور سب کچھ بھلا دیتی ہے حتّٰی کہ جان تک کی بھی ہوش نہیں رہنے دیتی اور اپنی طرف ہی کھینچتی جاتی ہے.اور دوسری طرف آج کل اسلام پر جو نازک وقت آیا ہوا ہے اس سے پہلے اس پر کبھی نہیں آیا اس لئے اس وقت اسلام کو جتنے بھی ہاتھ کام کے لئے مل جائیں اور جس قدر بھی سپاہی اسلام کی حفاظت کے لئے مل جائیں اتنے ہی کم ہیں.ا س لئے آج مسلمانوں کے لئے سیاست کی طرف متوجہ ہونا ایک ایسا زہر ہے جسے کھا کر ان کا بچنا محال بلکہ نا ممکن ہے کیونکہ سیاست بہت بڑی توجہ کو چاہتی ہے اور جو شخص سیاست میں پڑتا ہے وہ بالکل سیاست ہی میں غرق ہو جاتا ہے.آج یورپ میں ایسی جنگ ہو رہی ہے کہ ہر ایک سلطنت کو جس قدر بھی سپاہی مہیا ہو سکتے ہیں اتنے ہی مہیا کرتی ہے اور عورتوں اورلڑکے لڑکیوں تک کو لڑائی میں مدد دینے کے قواعد سکھائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی خطرناک جنگ ہے کہ تھوڑے سپاہیوں سے کام نہیں چل سکتا.مگر اسلام کو جو جنگ در پیش ہے وہ اس یورپین جنگ سے بہت بڑھ کر ہے اور اکیلے اسلام کو کل دنیا سے مقابلہ ہے اور دشمن ایسا قوی ہے کہ اسلام کے ایک ایک سپاہی کے مقابلہ میں ہزاروں سپاہی لا سکتا ہے.جو مسلمان ہیں وہ خود اسلام سے بیزار ہو رہے ہیں اور صرف نام کے مسلمان ہیں ورنہ اسلام سے وہ ایسے ہی دور ہیں جیسے کہ غیر مذاہب کے لوگ.پس اس جنگ میں چند آدمی کا میاب نہیں ہو سکتے بلکہ ہر ایک مرد، بچہ اور عورت کو اس
میں حصہ لینے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہیئے.اگر کسی مکان کو آگ لگ جائے تو اس وقت یہ نہیں کہا جاتا کہ سقہ کو بلاؤتاکہ وہ پانی لا کر آگ بجھائے کیونکہ وہ پانی مہیا کرنے پر مقرر ہے اور اس کام کی تنخواہ لیتا ہے اگر وہ آج کام نہیں آتا تو اسے نوکر کس لئے رکھا ہوا ہے بلکہ ہر ایک شخص دوڑتا اور بھاگتا ہوا جاتا ہے.تاکہ آگ پر پانی ڈالے اور اس کو بجھائے اور عورتیں اور بچے بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں.اسی طرح اس وقت اسلام کے گھر کو دشمن نے آگ لگائی ہوئی ہے اور احمق ہے وہ جو اس انتظار میں بیٹھے کہ سقے اس آگ کو بجھائیں.اس عظیم الشان آگ کو جو اسلام کے مکان کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ایک دو آدمی نہیں بجھا سکتے بلکہ ہر ایک شخص کا جو اپنے دل میں ذرہ بھی ایمان رکھتا ہے کام ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا نے میں لگ جائے اور تم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے خواہ مرد ہو یا عورت ،جوان ہو یا بوڑھا ،بچہ ہو یا نوجوان ،لڑکی ہو یا لڑکا کہ وہ اس آگ کو بجھانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو.اگر کوئی ایسے وقت میں بھی غفلت کرتا ہے تو وہ اسلام میں نہیں ہے.پس ایسے زمانہ میں جبکہ اسلام کی حالت یہاں تک نازک ہو گئی ہے اگر حضرت مسیح موعود ؑ لوگوں کو سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی اجازت دے دیتے تو بہت سا حصہ جماعت کا اس میں لگ جاتا اور اسلام کی خدمت سے الگ ہو جاتا حالانکہ اسلام کو اس مدد کی سخت احتیاج ہے.اور جبکہ اس کی فوج آگے ہی قلیل ہے تو وہ اس قلیل فوج میں سے کچھ فوج کو اور کام میں کیونکر لگا سکتا ہے.نادان ہے وہ انسان جو اس وقت سیاست کی کشمکش کو دیکھ کر اور پھر اسلام کی حالت کو معلوم کر کے سیاست کی طرف متوجہ ہوتا ہے کیونکہ اسے دین کے متعلق خدمت کرنے کی کب فرصت ملے گی.چونکہ سیاست میں پڑ کر انسان کو بہت جلد دنیا میں عزت و شہرت حاصل ہونے لگتی ہے اس لئے لوگ اس نزدیک کے فائدہ کی خاطر دین کو بھی چھوڑ دیتے ہیں.اور اس زمانہ میں تو دنیا کی کشش یوں بھی زیادہ ہے پس سیاست جس قدر بھی انسان کو اپنی طرف کھینچے تھوڑا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ پسند نہ کیا کہ جو تھوڑے سے آدمی ان کے ساتھ شامل ہیں ان کو بھی آپ سیاست میں دخل دینے کی اجازت دے کر اپنے ہاتھ سے کھو دیں.اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں سیاست کے چھوڑنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے، ہم تحصیلدار ،ڈپٹی اور دیگر سرکاری عہدے حاصل نہیں کر سکے تو وہ سمجھ لے کہ اس کے چھوڑنے سے خدا ملتا ہے اور نہ چھوڑنے سے دنیا.پس اگر تمہیں خدا پیارا ہے تو سیاست کو چھوڑ دو.اور اگر نزدیک کی خوشی پسند کرتے ہو یعنی دنیا کی تو پھر جو تمہاری مرضی ہے وہ کرو.اس صورت میں ہمارا تم پر کوئی ایسا اختیار نہیں ہے کہ مجبوراً تمہیں روک دیں.
سیاسی معاملات میں پڑنے کا دوسرا خطرناک نتیجہ : سیاست میں جتھے کی ضرورت ہوتی ہے اگر کچھ آدمی کھڑے ہو کر گورنمنٹ سے کسی بات کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ان کا مطالبہ پورا کرتی ہے.لیکن ہر ایک بات کے پورا کرنے میں وہ اس بات کا لحاظ رکھتی ہے کہ لوگوں کی کثرت کس طرف ہے.اگر آج لوگ گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ کریں گے تو گورنمنٹ انہی کے مطالبات پورے کر ے گی جو زیادہ ہوں گے.لیکن تم اپنے حال پر غور کرو دوسروں کے مقابلہ میں تمہارا جتھا ہی کیا ہے کہ تم کچھ منوا سکو؟ہماری اپنی حالت تو یہ ہے کہ کوئی دشمن ہمیں تنگ کرتا ہے ،تکلیفیں دیتا ہے، دکھ پہنچاتا ہے تو ہم کو گورنمنٹ کے سپاہی ہی اس سے بچاتے ہیں.تو سیاست کی وجہ سے ہمیشہ وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کا جتھا ہوتا ہے.اگر ایک سکول کے لڑکے سٹرائک کریں اور سٹرائک کرنے والوں کی تعداد سٹرائک نہ کرنے والوں سے کم ہو تو سٹرائک کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی صورت میں افسر سٹرائک کرنے والے طلباء کو خارج کردیں گے.لیکن اگر استقلال سے اکثر حصہ یا سب کے سب طلباء سٹرائک کریں گے تب ان کو کامیابی کی امید ہوسکے گی ورنہ سخت ناکام ہوں گے.لیکن تم بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کون سا جتھا اور کون سی جماعت ہے.سیاست میں پڑ کر چھوٹی قوم بڑی میں جذب ہو جاتی ہے:یہ ایک تجربہ شدہ بات ہے کہ جو چھوٹی جماعتیں سیاست کی طرف اپنا رخ کرتی ہیں انہیں اپنا جتھا بنانے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں بغیر جتھے کے کوئی قوم سیاسی امور میں کامیاب نہیں ہو سکتی اس لئے وہ دوسروں سے ملنا جلنا شروع کر دیتی ہیں.چونکہ وہ خود چھوٹی ہوتی ہیں اس لئے بجائے اس کے کہ اوروں کو اپنے ساتھ ملائیں خود ان میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر لیتی ہیں.دیکھو آج جوہماری جماعت کو نقصان پہنچا ہے وہ بھی اسی سیاست کی وجہ سے پہنچا ہے پہلے پہل تو ہماری جماعت کے چند لوگ سیاست کی طرف متوجہ ہوئے لیکن چونکہ سیاست ہمیشہ جتھا چاہتی ہے اسلئے ان کو دوسری جماعتوں میں شامل ہونا پڑا اور ابتداء میں تو وہ یہ کہتے رہے کہ اس میل جول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لائیں گے لیکن رفتہ رفتہ خود ان میں جذب ہونے لگے.اول وہ انجمن حمایت اسلام کے ممبر بنے پھر اور زیادہ جو سیاست کی چاٹ لگی تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے پھر جب دیکھا کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے ان لوگوں میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو آہستہ آہستہ بڑی جماعت کو خوش کرنے اور خود
عزت حاصل کرنے کے لئے اپنے عقائد کو قربان کرنا شروع کیا.جانتے ہو یہ ضرورت ان کو کیوں پیش آئی ؟ اس لئے کہ جتھا بنائیں مگر دین لیتے لیتے ان کی دنیا بھی گئی.جتھا بنانے کی مثال آریوں میں ہی دیکھ لو.ابتداء میں تو یہ فرقہ زیادہ تر مذہبی معاملات میں دخل دیتا تھا لیکن جب نئی تعلیم کی روشنی نے انہیں سیاست کے سبزہ زار میدانوں کی طرف ہدایت کی اور وہ اس طر ف جھک گئے تو اب مذہب ان میں مل گیا.آج یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا آریہ مذہب کوئی مذہب ہے یا صرف ایک سیاسی جماعت ہے اور اس وقت کی ان کی حالت یہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف ایک سیاسی جماعت ہے اور مذہب سے ان کو کچھ سروکار نہیں ان کی سب خصوصیتیں اب مٹ گئی ہیں اور یا تو یہ حال تھا کہ آریہ ہندو کہنے پر چڑتے تھے اور صاف کہا کرتے تھے کہ ہندو ہم نہیں ہم آریہ ہیں اور اس نام کو ناپسند کرتے تھے لیکن سیاست میں پڑ کر آج وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو (جو ہندو کہلاتے تھے اور پرانے خیال کے تھے ساتھ ملانے اور سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ) جتھا بنانے کی غرض سے بڑی خوشی سے اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں اور اگر ان سے پوچھو کہ آپ آریہ ہیں یا ہندو تو بڑی سختی سے جواب دیتے ہیں کہ آریہ کیا اور ہندو کیا سب ہندو ہیں اور انہی ہندوؤں کو جنہیں وہ پہلے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے آج ساتھ شامل کر رہے ہیں اور باہیں پھیلا پھیلا کر ان سے مل رہے ہیں تاکہ اپنا جتھا قائم کریں.لیکن ان کا جتھا بنانے کے لئے دوسروں سے ملنے کا نتیجہ وہی نکل رہا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ پیشگوئی بیان فرما دیا ہوا ہے.یعنی دن بدن مٹتے جاتے ہیں اور اپنا نام و نشان گم کرتے جاتے ہیں اور وہ دن آتے جاتے ہیں جب آریہ مذہب مٹ جائے گا کیونکہ یہ قوم سیاست میں پڑ چکی ہے اور سیاست کا کوئی مذہب نہیں اس لئے ان کی سیاست رہ جائے گی.لیکن مذہب مٹ جائے گا.غرض کہ جتھے کے بغیر سیاست نہیں چل سکتی.لیکن جب دوسروں کو ملا کر جتھا بنایا جائے گا تو اپنی خصوصیات چھوڑنی پڑیں گی.اور جب کوئی قوم اپنی خصوصیات چھوڑ دے گی تو وہ تباہ اور برباد ہو جائے گی.۱۹۰۷ء میں جب پنجاب میں سخت شورش کے آثار پیدا ہوئے تھے اور بعض شریروں نے گورنمنٹ کے خلاف جوش پھیلا دیا تھا اس وقت دیکھا گیا کہ بعض بڑے بڑے وکلاء نے مسلمانوں کی دعوت کی اور ایک جگہ مل کر سب نے کھانا کھایا اور سب چھوت چھات کے خیالات کو ترک کر دیا یہ کیوں ہوا.جتھے کو وسیع کرنے کے لئے چنانچہ جو لوگ سیاست میں زیادہ پڑے ہوئے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھو ان کا یہی مذہب ہے کہ ہم اول ہندوستانی ہیں اور پھر ہندو یا مسلمان ہیں.لیکن کیا
اسلام اس بات کی اجازت دے سکتا ہے ہرگز نہیں.اسلام تو یہی بتاتا ہے کہ تم اول مسلمان ہو اور پھر کچھ اور ہو بلکہ پھر کچھ بھی نہیں ہو.شائد کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ بعض لوگ سیاست میں بھی مشغول ہوتے ہیں اور پھر دین میں بھی مشغول ہوتے ہیں بلکہ دین کی خدمت میں اپنا بہت سا وقت صرف کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست میں مشغول ہو کر پھر بھی انسان دین کے کام کر سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں یہ تو ممکن ہے کہ بعض لوگ سیاست کے ساتھ دین سے بھی تعلق رکھیں.لیکن یہ ضرور ہے کہ چونکہ سیاست جتھا چاہتی ہے اور جو لوگ سیاست میں پڑتے ہیں وہ یا تو دین کو عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دین کی اصل غرض فوت ہو جاتی ہے اور اس عمل سے بجائے دین کی ترقی ہونے کے اسے سخت صدمہ پہنچ جاتا ہے اور یا یہ لوگ کثیر جماعت کی خاطر اپنے عقائد میں تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح دوستی کے پردہ میں دشمنی کرتے ہیں اور غریب لوگ ان کی وجاہت اور انکے علم کے دھوکے میں ان کے شائع کردہ گندے اور بیہودہ عقائد کو ہی اصل اور سچےّ عقیدے خیال کر لتیے ہیں اور اس طرح دین کا مغز ضائع ہو جاتا ہے.پس گو بعض ایسے لوگ بھی ہوں جو سیاست کے ساتھ دین کی طرف بھی توجہ رکھیں لیکن اس وقت چونکہ صداقت کمزور ہے ایسے لوگ دین کے لئے سخت نقصان دہ ہیں.احسان کا بدلہ ہونا چاہئے :پھر ہم کہتے ہیں کہ احسان بھی تو دنیا میں کوئی چیز ہے حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ ’’ وہ تلخی اور مرارت جو سکھوں کے عہد میں ہم نے اٹھائی تھی.گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ آکر ہم سب بھول گئے ‘‘ پھر آپ نے لکھا ہے کہ جب سکھ ظلم کرتے تھے تو وہ کون تھا جو ہمیں ان سے بچانے کے لئے آیا.کیا اس وقت ہماری مدد کے لئے ترک آئے تھے.نہیں انگریز ہی آئے.اس وقت لوگ اپنے مذہب کو چھپاتے تھے لیکن پھر بھی ڈرتے تھے.لیکن آج ہم علی الاعلان اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہیں مذہبی تکالیف جو کہ پیشتر تھیں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے مسجدوں میں نماز پڑھنا تو الگ رہا گھروں میں بھی خدا کا نام لینا ایک جرم سمجھاجاتا تھا.لیکن گورنمنٹ انگلشیہ نے تو ایسی آزادی دے رکھی ہے کہ بعض جگہ اپنے مسلمان ملازموں کو دفاتر اور اسٹیشنوں کے احاطوں میں سرکاری زمین میں مساجد بنانے کی اجازت دے دی.گو افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنی بے وقوفی سے اس انعام کو ضائع کر دیا.اور مساجد کی زمین کے وقف ہونے کے بے موقع سوال کو اٹھا کر آئندہ کے لئے گورنمنٹ کو مجبور کر دیا کہ
۲۰۴ وہ اس آزادی سے ان کو محروم کردے اور اپنے دفاتر اور اسٹیشنوں کو مذہبی جھگڑوں کی آماجگاہ ہونے سے محفوظ رکھے.اگر مسلمان بے فائدہ شور نہ کرتے تو آئندہ ان آسانیوں میں اور ترقی ہونے کی امید تھی اور وہ دن دور نہ تھا کہ ہر دفتر کے مسلمان بڑی آسانی سے نماز باجماعت کے ثواب عظیم کو حاصل کر سکتے.غرض کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم پر بڑے احسان ہیں اور ہم بڑے آرام اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے اور اپنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں.ہمارا سب سے بڑا مقصد دین کو پھیلانا ہے اور اس مقصد کے پورا کرنے کی ہمیں ہر طرح سے آزادی ہے.ملک کے جس گوشہ میں چاہیں تبلیغ کر سکتے ہیں اور اگر دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو وہاں بھی برٹش گورنمنٹ ہماری مدد کرتی ہے.ان فوائد کے مقابلہ میں اگر یہ مان بھی لیا جائے (گو میرا یہ خیال نہیں )کہ گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق دبائے ہوئے ہیں تو پھر بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چھوٹی چیزیں بڑی چیزوں پر قربان ہوا کرتی ہیں.جبکہ ہمیں اس قدر بڑے بڑے حقوق اورآرام اس گورنمنٹ کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں تو اگر بعض حقوق جو ہمارے خیال کے مطابق ہمیں حاصل ہونے چاہئیں تھے لیکن ابھی تک حاصل نہیں ہوئے تو بھی کوئی حرج کی بات نہ تھی.انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں پر اکثر جگہ سخت ظلم ہو رہا تھا.انہوں نے آکر انہیں اس گری ہوئی حالت سے ابھارا.اب اگرانہوں نے کچھ فوائد حاصل کر بھی لئے تو مسلمانوں کو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ ان کا سب کچھ جاتا رہا تھا انگریزوں نے آکر کچھ واپس دلادیا.اگر کسی کا روپیہ گم ہو جائے اور کوئی شخص اسے ڈھونڈھ دے تو وہ تو خود اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ روپیہ اسے انعام کے طور پر دے دیتا ہے.مسلمانوں کی آزادی بھی گم شدہ تھی انگریزوں نے آکر انہیں واپس دی.اب اگر انہوں نے کچھ حقوق اپنے لئے رکھ لئے یا کچھ عہدے انگریزوں سے خاص بھی کر دیئے تو احسان کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ اس بات پر شور مچا کر ان کا مقابلہ کریں بلکہ شرافت چاہتی ہے کہ ان کے احسان کو یاد کر کے ان کا ہاتھ بٹائیں.اور اگر بعض حقوق انہوں نے ان کو نہیں بھی دیئے تو اس پر صبر کریں بلکہ اﷲ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس کے فضل سے انگریزوں کی معرفت ان کا بہت کچھ کھویا ہوا واپس ملا.ان کا دین بھی جا چکا تھا اور دنیا بھی.دونوں قسم کی آزادیاں اور دونوں قسم کے حقوق ضائع ہو چکے تھے.انگریزوں نے دین میں تو ان کو کامل طور سے آزادکر دیا اور دنیا میں بھی ان کو بہت کچھ آزادی دی.پس ان کو تو چاہئے تھا کہ ان کے ممنون ہوتے نہ کہ نکتہ چین بنتے.جو لوگ دین کی قدر جانتے ہیں ان کے نزدیک تو انگریزمذہبی آزادی دے کر اگر دنیاوی عہدوں میں
۲۰۵ سے ایک چپڑا سی کا عہدہ بھی ہندوستانیوں کو نہ دیتے تو پھر بھی انہیں وجہ شکایت نہ ہوتی کیونکہ محسن ہر حال میں شکریہ کا مستحق ہوتا ہے اور انگریز ہمارے محسن ہیں.غلط خیال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس قدر ہمیں آزادی اور آرام میسر ہے ان کے دینے پر گورنمنٹ مجبور ہے کیونکہ ملک کی ترقی میں گورنمنٹ کا اپنا فائدہ ہے اس لئے اس کا ہم پر کوئی احسان نہیں.ہم کہتے ہیں یہ تو اسی طرح کی بات ہے جس طرح کوئی کہے کہ والدین کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے انہوں نے اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعلق پیدا کر لیا اور میں پیدا ہو گیا.کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ ہر گز نہیں.اسی طرح اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بے شک گورنمنٹ کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ امن قائم رکھے مگر اس کے احسان کا بھی تو ہم انکار نہیں کر سکتے.چونکہ اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہمیں یہ آرام و آسائش نصیب ہوا ہے.اس لئے ہم اس کے ممنون احسان ہیں اور بہر حال ہیں.قربِ الٰہی کے حصول کا طریق: پس تم خوب یاد رکھو کہ سیاست میں پڑنے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے سلسلہ احمدیہ نہیں بڑھ سکتا اور ہم میں سے جو کوئی اوروں کے ساتھ مل کر سیاست میں پڑے گا وہ بھی کامیاب نہیں ہوگا.کیونکہ جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے اس کو وہ بھی نہیں ملتی.پس اگر تم خدا تعالیٰ کے قرب کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو تو وہ دنیا طلبی میں تمہیں نہیں ملے گا بلکہ خدا طلبی میں ملے گا.خدا نے ہمارے لئے اپنے فضلوں کے دروازے کھولے ہوئے ہیں اور وہ انسان جس کو آنحضرت ﷺ نے سلام بھیجا اور جس کے ملنے کی توقع کرتے کرتے کئی بڑے بڑے بزرگ گزر گئے وہ خدا نے ہم میں پیدا کیا پھر اس کے ماننے کی ہمیں توفیق دی پھر ماننے ہی کی توفیق نہیں دی بلکہ اس کے سلسلہ کی خدمت کرنے کی بھی توفیق دی ہے.پس تم خدا تعالیٰ کے دربار کے وائسرائے اور لیفٹننٹ گورنر ہو.تمہیں دنیا کے کسی درجہ کی ضرورت نہیں ہے.مسیح موعودؑ کا خادم آنحضرت ﷺ کا خادم ہے اور آنحضرت ﷺ کا خادم خدا تعالیٰ کا خادم ہے اسلئے تمہارے نام خدا تعالیٰ کے خادموں میں لکھے گئے ہیں.اس سے بڑھ کر انسان کو اور کیا فخر مل سکتا ہے ؟ ایک صحابی کو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ یاد کراؤں اس نے عرض کی یا رسول اﷲ کیا خدا تعالیٰ نے میرا نام لے کر آپ کو یہ فرمایا ہے.آپ نے کہا ہاں تمہارا نام لے کر فرمایا ہے.یہ سنتے ہی وہ زور سے رونے لگ گیا کہ کیا میری بھی اتنی حیثیت ہے کہ خدا تعالیٰ میرا نام لے.ہم پر خدا
۳۰۹ تعالیٰ کے کتنے احسانات اور اسکی کس قدر نعمتیں ہیں کہ ہمیں اس نے یاد کیا ہے.دنیا میں اگر کسی کو کوئی چھوٹا افسر بھی بلاتا ہے تو وہ پھولا نہیں سماتا.لیکن افسوس اور صد افسوس اس پر جس کو خدا تعالیٰ بلائے اور وہ اس بلانے کی قدر نہ کرے.تم کو خدا نے بلایا ہے دنیا کے بادشاہ اور افسر تمہیں وہ نہیں دے سکتے جو خدا تعالیٰ دے سکتا ہے اس لئے تم اس کے بلانے پر دوڑتے اور شکر بجا لاتے ہوئے جاؤ.دنیا کے مال و متاع ،ناز و نعمت کے لحاظ سے اور لوگ تم سے زیادہ اور بہت زیادہ ہیں مگر دین کے خزانے صرف تمہارے ہی پاس ہیں ان کے پاس نہیں ہیں.تم اﷲ تعالیٰ کی خدمت کے نصیب ہوتے ہوئے اور کیا چاہتے ہو اسی میں لگے رہو اور دنیا کی ایجیٹیشن دنیا کے کیڑوں کے حوالے کردو اور تم شیطان کے مقابلہ پر ایجیٹیشن کرو.ایک ایڈیٹر سے آپ کا مکالمہ: ایک شادی کے موقع پر ایک دفعہ مجھے لاہور جانا پڑا جو لوگ شادی میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے ان میں لاہور کے ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے.ان دنوں ٹرکی اور آسٹریا کا آپس میں جھگڑا تھا اس لئے آسٹریا کے مال کو بائیکاٹ کرنے کے لئے اخباروں میں لکھا جا رہا تھا.میں نے اس سے کچھ مدت پہلے ان ایڈیٹر صاحب کے خلاف ایک سخت مضمون لکھا تھا جو ان کے کسی بیہودہ مضمون کے جواب میں تھا جب ایڈیٹر صاحب کی اور میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا عمر ہے.میں نے کہا انیس ۱۹سال ہے.یہ سن کر وہ بڑے متعجب ہوئے اور کہا کہ آپ کی اتنی ہی عمر ہے.غالباً انہیں وہ مضمون یاد آگیا پھر کہا کہ ٹرکی کے دو صوبے آسٹریا نے دبالئے ہیں اس لئے آپ کے خیال میں آسٹریا سے ہمیں کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا ہمارے سپرد تو بہت بڑا کام ہے اس لئے ہم اور کسی طرف کس طرح توجہ کر سکتے ہیں؟کہنے لگے ہمیں آسٹریا کے مال کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور اس کی کوئی چیز نہ خرید نی چاہئے.میں اس وقت ٹوپی پہنے ہوئے تھا جو کہ اتفاقاً اٹلی کی بنی ہوئی تھی.وہ ایڈیٹر صاحب کہنے لگے کہ آسٹریا کی بنی ہوئی ٹوپیاں ہمیں نہیں پہننی چاہئیں میں نے کہا کہ میں تو اس خیال میں آپ سے متفق نہیں لیکن میری یہ ٹوپی تو اٹلی کی بنی ہوئی ہے.جس وقت کا یہ ذکر ہے اس وقت میں ٹوپی پہنا کرتا تھا لیکن حضرت مسیح موعودؑٹوپی کو پسند نہیں فرمایا کرتے تھے مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن میں نے ٹوپی پہنی تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا.ہیں !تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.میں نے اسی وقت جا کر ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی (اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے بالکل ٹوپی کا استعمال ترک کر دیا )ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ نہیں ہمیں ٹرکی کی مخالف سلطنتوں
کی چیزوں کا ضرور بائیکاٹ کر دینا چاہئے.میں نے کہا ہم ایک کے بائیکاٹ سے فارغ ہو لیں گے تو پھر اور کسی کا بھی بائیکاٹ کر لیں گے.اس نے کہا کہ آپ کس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں.میں نے کہا شیطان کا.سارے ملکوں پر شیطان کی حکومت ہے اور یہ ہمارے حقوق دن بدن دبائے جا رہا ہے اور روز بروز ہمیں کمزور کر رہا ہے.کیا تمہیں اس کے بائیکاٹ کا فکر نہیں.ہم تو جب اس کا بائیکاٹ کر لیں گے تو پھر اوروں کا دیکھا جائے گا.آج کل اسلام پر سخت مصیبت کے دن آئے ہوئے ہیں.اور شیطان اس کو کمزور کر رہا ہے.مگر تمہیں اس کا تو کوئی فکر نہیں.لیکن آسٹریا کے مال کابائیکاٹ کرنے میں لگے ہوئے ہو.یہ سن کر وہ شرمندہ سا ہو کر چپ ہو گیا.واقعہ میں جو دنیا چاہتا ہے وہ سیاست میں دخل دے اور سلطنتوں کے مالوں کا بائیکاٹ کرتا پھرے.لیکن جو اسلام سے محبت رکھتا ہے اسے شیطان سے بڑھ کر اور کس کے بائیکاٹ کا فکر ہوگا.پس اگر ہمارے بیوی ،بچے،دوست،آشنا مال و دولت ،آرام و آسائش بلکہ سب کچھ بھی قربان ہو کر اسلام کو ترقی نصیب ہو تو یہ ہماری عین مراداور دل کی خوشی ہے یہ جماعت احمدیہ اسلام کی ضرورت کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے.پھر اگر ہم پہ تھوڑے سے آدمی بھی سیاست میں لگ جائیں تو اور کون ہوگا جو اسلام کی خدمت کرے گا.ان لوگوں کو جانے دو جو سیاست میں پڑتے ہیں.اور تم دین اسلام کی خدمت میں لگے رہو.کامیابی کا گُر:قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے تمہاری کامیابی کا ایک گر بتایا ہے اور وہ یہ کہ ’’ وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجاً مِّنْھُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَا خْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘(الحجر :۸۸،۸۹) آنحضرت ﷺ کی حیثیت کے مطابق تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اے ہمارے رسول !ہم نے تم کو سات آیتوں والی ایک سورۃ دی ہے جو کہ بار بار پڑھی جاتی ہے (اسی کی یہ دوسری صفت بیان فرمائی ہے کہ)یہ قرآن عظیم کاحصہ ہے.یا اس کے یہ معنی ہیں کہ سورہ فاتحہ اور قرآن عظیم دیا ہے.اﷲ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ یہ نعمت چونکہ تمہیں ملی ہے اور توبخیل نہیں ہے بلکہ بڑا سخی ہے اس لئے تیرا دل چاہتا ہے کہ اوروں کو بھی یہی ملے مگر وہ احمق اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے لینے کی کوشش نہیں کرتے اور تجھے ان کی اس بات پر افسوس آتا ہے اور تو ان کی طرف حسرت سے دیکھتا ہے کہ یہ کیوں اس سے حصہ نہیں لیتے مگر تجھے چاہئے کہ ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھ اور جو پاک جماعت ہم نے تجھے دی ہے اس کی تربیت میں لگ جاؤ.ان کفار کی
خبر ہم خود لیں گے.چنانچہ ایک دوسری جگہ آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْ ا مُؤْمِنِیْنَ.‘‘(الشعراء :۴)یعنی کیا تو اس غم میں کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا.آنحضرت ﷺ کو جو نعمت دی گئی تھی وہ تمام دنیا کو دینا چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ تمام دنیا اسے قبول کرے.اﷲ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اگر لو گ گمراہ ہیں تو تم کیوں غمگین ہوتے ہو تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ مومنوں کو پہنچاؤ.ان کفار کے لئے بھی ایک وقت آجائے گا جبکہ انہیں اپنے کئے کا پھل مل جائے گا.یہ توآنحضرت ﷺ کی شان کے مطابق اس کے معنی ہوئے ہیں.ہماری نسبت سے یہ معنے ہیں کہ اے مسلمانو! ہم نے تم پر بڑے بڑے انعام نازل کئے ہیں اگر تم دنیا میں کسی کے پاس مال و دولت دیکھو تو یہ نہ کہو کہ وہ حاصل کر لیں.ان کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی نہ رہ جائیں بلکہ تم پر جو کچھ تمہارے خدا نے نازل کیا ہے یہ بہت بڑا انعام ہے اور اس کو خدا کا فضل سمجھو اور جو کچھ دنیا داروں کو ملا ہے اس کی طرف نظر نہ کرو.پس تم لوگ بھی دنیا کو دنیا داروں کے لئے چھوڑ دو.خدا تعالیٰ نے تمہیں اپنے دربار میں بلایا ہے اس لئے تمہیں کسی اور جگہ نہ جانا چاہئے.ہاں دنیا میں اتنا کماؤ جو تمہارے لئے ضروری ہو کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.باقی جہاں تک ہو سکے اپنے وقت کو دین کی خدمت میں صرف کرو اور ایسے لوگوں سے الگ رہو جن سے مل کر تمہاری خصوصیات مٹتی ہوں اور نہ ایسے کاموں میں پڑو جن کے لئے تمہیں اپنے عقائد میں تبدیلی پیدا کرنی پڑے.یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے صرف جماعت احمدیہ کی ضروریات کے مطابق اور صرف دینی نقطۂ خیال سے ہے.باقی رہا یہ کہ دوسرے لوگوں کو کون سارو یّہ اختیار کرنا چاہئے یا جبکہ سیاست میں مشغول ہونے میں کچھ حرج نہ ہوتو کس حد تک اور کن قواعد کے ماتحت ہم سیاسی معاملات میں حصہ لے سکتے ہیں.یہ ایک الگ مضمون ہے اس وقت اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس وقت صرف اسی قدر کہنا کافی ہے کہ اسلام کی موجودہ ضروریات چاہتی ہیں کہ ہماری جماعت سیاسی معاملات سے ایسی الگ رہے کہ جس حد تک گورنمنٹ اپنی رعایا کو سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھنے کی اجازت بھی دیتی ہے وہ سیاست میں اس قدر بھی دخل نہ دے بلکہ خدا تعالیٰ کے سپرد کردہ کام کے پورا کرنے میں اپنا کل وقت خرچ کرے اور اپنی توجہ کو بٹنے نہ دے اور نہ سیاست میں پڑ کر اپنی خصوصیات کو ضائع کرے.
۲۰۹ احمدی غیر احمدی کا نکاح اور کفو کا سوال تیسرا اہم مسئلہ جس پر میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں نکاح کا سوال ہے اور اسی کے ضمن میں کفو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو شادیوں کے متعلق جو مشکلات پیش آتی ہیں مجھے پہلے بھی ان کا علم تھا لیکن اس ۹ماہ کے عرصہ میں تو بہت ہی مشکلات اور رکاوٹیں معلوم ہوئی ہیں اور لوگوں کے خطوط سے معلوم ہوتاہے کہ اس معاملہ میں ہماری جماعت کو سخت تکلیف ہے.حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے متعلق یہ تجویز کی تھی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام ایک رجسٹر میں لکھے جائیں اور آپ نے یہ رجسٹر کسی شخص کی تحریک پر کھلوایا تھا.اس نے عرض کیا تھا کہ حضور شادیوں میں سخت دقت ہوتی ہے آپ کہتے ہیں کہ غیروں سے تعلق نہ پیدا کرو.اپنی جماعت متفرق ہے اب کریں تو کیا کریں؟ ایک ایسا رجسٹر ہو جس میں سب ناکتخد ا لڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں تارشتوں میں آسانی ہو حضور سے جب کوئی درخواست کرے تو اس رجسٹر سے معلوم کر کے اس کا رشتہ کروادیا کریں.کیونکہ کوئی ایسا احمدی نہیں ہے جو آپ کی بات نہ مانتا ہو.بعض لوگ اپنی کوئی غرض درمیان میں رکھ کر کوئی بات پیش کیا کر تے ہیں اور ایسے لوگ آخر میں ضرور ابتلاء میں پڑتے ہیں اس شخص کی بھی نیت معلوم ہوتا ہے درست نہ تھی.انہیں دنوں میں ایک دوست کو جو نہایت مخلص اور نیک تھے شادی کی ضرورت ہوئی.اسی شخص کی جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رجسٹر بنایا جائے ایک لڑکی تھی.حضرت مسیح موعود ؑ نے اس دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس کے ہاں تحریک کرو لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتہ سے انکار کر دیا اور لڑکی کہیں غیر احمدیوں میں بیاہ دی.جب حضرت صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آ پ نے فرمایاکہ آج سے میں شادیوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.اور اس طرح یہ تجویز رہ گئی.لیکن اگر اس وقت یہ بات چل جاتی تو آج احمدیوں کو وہ تکلیف نہ ہوتی جو اب ہو رہی ہے.شادی ضروری ہے : ہر ایک قوم کے دنیامیں قائم رہنے اور ترقی کرنے کے لئے شادیوں کا ہونا ضروری ہے اور اﷲ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ شادی کی جائے پھر آنحضرت ﷺ بھی فرماتے ہیں کہ ہر ایک مومن کو شادی میں رہنا چاہئے جو بغیر شادی کے مرتا ہے وہ بطال ہے.لیکن احمدیوں کے لئے اس ضروری مرحلہ کے طے کرنے کے لئے بہت سی دقّتیں ہیں اور وہ
۲۱۰ اس لئے ہیں کہ غیر احمدی تو ناراض ہیں اس لئے وہ انہیں اپنی لڑکیاں نہیں دیتے.پھر ایک گاؤں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو خواہ وہ غریب ہی ہوں اپنی لڑکیاں دے دیا کرتے ہیں کہ لڑکی اپنے گھر میں ہی رہے گی لیکن احمدی ایک جگہ نہیں بلکہ کسی کسی گاؤں میں ہیں اور وہ بھی بہت تھوڑے اس لئے اگر احمدی احمدیوں کو ہی اپنی لڑکیاں دیں تو انہیں دور دراز دینی پڑتی ہیں اور دور رہنے والوں کے حالات اور عادات کو انہیں بہت تجسّس سے دیکھنا ہوتا ہے.لڑکے والے یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی ایسی ہو ایسی ہو تب شادی کی جائے اور لڑکی والے کہتے ہیں کہ جب لڑکی دور بھیجنی ہے تو پہلے تو لڑکا بھی کوئی اچھی حیثیت کا ہونا چاہئے اس لئے اس دیر میں اور مشکل سے شادیاں ہوتی ہیں.پھر اگر لڑکی کو کوئی دیر تک بٹھائے رکھے تو بدکاری کا خوف د امن گیر ہوتا ہے کیونکہ زمانہ بہت نازک ہے.پھر دوسرے لوگ اگر اس کی پرواہ نہ کریں تو نہ کریں ہمیں تو اس کا بہت خیال ہے کیونکہ ہم نے تو دنیا کی بدیاں دور کرنی ہیں.غرض کہ شادی کے معاملہ میں احمدیوں کو بہت سی تکالیف ہیں اور بعض کمزور طبائع کے لوگ ان تکالیف کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کی شادی غیر احمدیوں کے ہاں ہی کر دیتے ہیں.مجھے اس بات کا بڑا فکر رہتا ہے کیونکہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینے سے بڑا نقصان پہنچتا ہے اور علاوہ اس کے کہ وہ نکاح جائز ہی نہیں.لڑکیاں چونکہ طبعاً کمزور ہوتی ہیں اور ان کی تربیت اعلیٰ پیمانہ پر نہیں ہوئی ہوتی اس لئے وہ جس گھرانے میں بیاہی جاتی ہیں اسی کے خیالات و اعتقادات کو اختیار کر لیتی ہیں اور اس طرح اپنے دین کو برباد کر لیتی ہیں اور اگر وہ پختہ رہیں تو میاں بیوی میں ہمیشہ جنگ رہتی ہے کیونکہ اختلاف عقائد اس محبت کو تباہ کر دیتا ہے جو میاں اور بیوی میں ہونی چاہئے.اور اس طرح ان کے دل کا آرام اور چین جاتا رہتاہے.بعض لوگ حضرت مسیح موعودؑ کے حکم کو پورا کرنے کے لئے یوں کر لیتے ہیں کہ جس لڑکے سے اپنی لڑکی کا نکاح منظور ہوتا ہے اس کی نسبت مشہور کر دیتے ہیں کہ وہ تو احمدی ہی ہے یا یہ کہ وہ احمدی تو ہو چکا ہے لیکن بیعت کرنی باقی ہے.بس قادیان جا کر بیعت کر لے گا.بعض اسے کہہ کہلا کر بیعت کا خط بھی لکھوا دیتے ہیں یا وہ قادیان آکر بیعت بھی کر لیتا ہے یا بعض لڑکے شادی کی غرض سے لڑکی والوں کو اس طرح دھوکہ دے دیتے ہیں کہ لوہم نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے اب آپ اپنی لڑکی دے دیں لیکن ایسے نکاح بھی کبھی سکھ کا باعث نہیں ہوتے کیونکہ ان میں نیت درست نہیں ہوتی.اور جو شخص نکاح کی خاطر سلسلہ میں داخل ہوتا ہے نہ تو خدا تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہے اور نہ وہ اپنی بیعت پر قائم ہی رہتا ہے اور نہ اپنے چال چلن کی اصلاح کرتا ہے اور اگر بیعت پر قائم بھی رہے تو احمدیوں کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے ایسے
۲۱۱ واقعات کئی ہوئے ہیں مگر ان کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہی ہوتا ہے کبھی دین کے لحاظ سے کبھی دنیا کے لحاظ سے.الاماشاء اﷲ.اکثر نکاح کے بعد خاوند اپنی بیویوں کو دکھ دینے شروع کر دیتے ہیں اور اپنے عقائد کے چھوڑ نے پر مجبور کرتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے یا قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے بھی روکتے ہیں.چند سال ہوئے میں نے ایک شخص کی نسبت سنا کہ اس نے اپنی لڑکی کسی ایسے شخص سے بیاہ دی جو اس رشتہ کی خاطر بیعت میں داخل ہوا تھا.جب لڑکی اپنے سسرال میں گئی تو انہوں نے اسے طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کر دیا اگر وہ نماز پڑھتی تو کہتے کہ یہ ٹونے کرتی ہے اور اگر قرآن پڑھتی تو کہتے کہ ہم پر جادو کرتی ہے.وہ بیچاری نہ نماز پڑھ سکے اور نہ قرآن.وہ شخص روتا پھرے کہ اب میں کیا کروں؟ مگر کوئی اسے کیا مدد دے سکتا تھا اپنے عمل کی سزا تھی جو اسے پہنچ رہی تھی.ایک اور نے لکھا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک غیر احمدی سے کیا تھا اب وہ کہتا ہے کہ نہ میں اسے چھوڑ تا ہوں اور نہ رکھتا ہوں یوں ہی تنگ کروں گا اور تمہیں دکھ پہنچاؤں گا.غرض کہ غیراحمدیوں کو لڑکی دینے والے کبھی سکھ اور آرام نہیں پا سکتے بلکہ اس طرح وہ اپنی لڑکی کے دین کو خراب کر دیتے ہیں جس کا وبال ضرور انہیں پر ہوگا.اور خود دکھ اور تکلیف میں جلتے رہتے ہیں پس جو شخص بھی دین دار ہو کر اپنی لڑکی دنیادار کو دیتا ہے وہ کبھی آرام میں نہیں رہ سکتا.اور نہ ہی ا س کی لڑکی آرام میں رہ سکتی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر کوئی اپنی لڑکی کسی غریب سے غریب احمدی کو بھی دے گا تو لڑکی کا دین تو ضائع نہیں ہوگا.پھر حضرت مسیح موعودؑ کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہ دے.اس کی تعمیل کرنا بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس پہلی تجویز پر عمل کیا جائے.لیکن جماعت کو بہت بڑے ایثار کی ضرورت ہے.احمدیوں کو چاہئے کہ جب کوئی دین دار اور متقی لڑکا دیکھ لیں تو اگر وہ کسی قدر غریب بھی ہوتو بھی اسے لڑکی دے دیں.کیا رشتہ دار اپنے سے نسبتاً غریب رشتہ داروں کو لڑکیاں نہیں دے دیا کرتے؟ دیتے ہیں.تو میں کہتا ہوں کہ احمدیوں کا احمدیوں سے زیادہ قریبی اور کون رشتہ دار ہو سکتاہے ؟ یہ سب رشتوں اور قربوں سے بڑھ کر قرب ہے.پس تم پرانی رسموں کو ترک کردو اور اس بات کی کوشش کرو کہ اگر تمہیں کوئی نیک اور سعید آدمی مل جائے تو قربانی کر کے بھی اس کو لڑکی دے دیا کرو.قومیت کی دقّت:شادیوں کے معاملہ میں ایک بڑی روک قومیت کی ہے.میں کفو کا قائل ہوں.حضرت مسیح موعود ؑ بھی اس کے متعلق زور دیا کرتے تھے.
۳۱۲ مگر ہر ایک چیز کی حد ہوتی ہے اور اسی حد کے اندر رہنا ہی مفیدہوتا ہے.کفو کے یہ معنی ہیں کہ اپنی حیثیت اپنے رنگ اپنی طرز کا آدمی ہو اور شریف اور متقی ہو.مثلاً ایک شخص بڑا مال دار ہو اور وہ ایک غریب اور فاقہ کش کو لڑکی دے دے تو یہ رشتہ دین کے لحاظ سے تو درست اور جائز ہوگا مگر وہ لڑکی جس نے مال دار گھر میں پرورش پائی ہے.جب اس کے گھر جائے گی تو ان میں رنجش اور ناراضگی پیدا ہو جائے گی.کیونکہ اس کو اخراجات کی اپنی عادت کے مطابق سخت تکلیف ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک لڑکی والا اپنی حیثیت کے قریب قریب لڑکے کو دیکھ لے تا کہ بعدمیں میاں بیوی میں لڑائی ہی نہ ہوتی رہے یا کم سے کم لڑکی اپنے آ پ کو مظلوم اور دکھیانہ خیال کرتی رہے.لیکن اس احتیاط کے اس قدر پیچھے بھی نہیں پڑنا چاہئے کہ ہر شخص یہی چاہے کہ میری لڑکی کسی امیر الامراء کے ہاں ہی جائے کیونکہ اس طرح غرباء کی شادیاں تو پھر ناممکن ہو جائیں ہر شخص اپنی حیثیت کو دیکھ لیا کرے اور اگر تھوڑا سا فرق بھی ہو تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ فساد اسی رشتہ میں ہوتا ہے جس میں بہت بیّن فرق ہو.مثلاً ایک امیر کی لڑکی کسی ایسے لڑکے سے بیاہ دی جائے جسے اس قدر بھی مقدرت نہ ہو کہ اسے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے پس یہ بھی ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ایک شخص مثلاً آپ تو غریب حیثیت کا ہے لیکن اپنی لڑکی کے رشتہ کے لئے اس کی یہی کو شش رہے کہ کوئی بڑا عہدہ دار ملے تو اس سے نکاح کروں.جیسا یہ خود ہے ویسے ہی کسی نیک آدمی سے لڑکی کا بیاہ کردے.ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں.ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو کہا کہ میری لڑکی یا بہن (یاد نہیں کہ کیا رشتہ تھا)کے لئے کوئی رشتہ تلاش کروا دیں.آپ نے جب چند نام بتائے تو اس نے کہا کہ نہیں میری لڑکی اس قابل نہیں.اس کے لئے تو تحصیلدار یا اکسڑااسسٹنٹ کمشنر چاہئے یا کوئی اور ایسا ہی معزز عہدہ دار ہو.حالانکہ یہ شخص خود بالکل معمولی حیثیت کا تھا اس طریق کو اختیار کرنے سے غرباء کے لئے سخت ابتلاء کا خوف ہے غیر احمدی تو احمدی کو تب ہی لڑکی دیتا ہے جب اسے خاص طور سے اپنے سے زیادہ آسودہ پاتا ہے کیونکہ اگر دنیاوی فائدہ نہ ہوتو اسے کیا ضرورت ہے کہ اپنی لڑکی کسی احمدی کو دے؟ الاماشاء اﷲ.پس غرباء کو غیروں سے رشتہ ملنا تو محال ہے.اب رہے اپنے وہ ایسے اعلیٰ درجہ کے خیالات رکھیں گے تو جماعت کا ایک حصہ سخت مصیبت میں پڑ جائے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ اگر کسی کو کوئی اچھا رشتہ ملے تو وہ اس سے انکار کر دے او ر کہہ دے کہ میں توکوئی غریب آدمی ہی تلاش کر کے اسے لڑکی دوں گا.اگر خدا تعالیٰ کسی پر فضل فرماتا ہے تو وہ اس فضل کو رد نہ کرے.لیکن میں اسے برا
۲۱۳ سمجھتا ہوں کہ لڑکیوں کو اس امید میں بیٹھا رکھو کہ کسی مالدار آدمی سے ہی ان کا بیاہ کریں گے اگر کوئی آسودہ آدمی جو دین دار بھی ہو خواہش کرتا ہے تو بے شک اس سے رشتہ کر دو.لیکن اگر کوئی ایسا موقع نہیں ملا اور ایک تمہاری حیثیت جیسی حیثیت والا یا اس کے قریب قریب کی حیثیت کا آدمی بھی درخواست کرتا ہے اور اس میں کوئی دینی نقص نہیں تو اسے اس خیال سے رد مت کرو کہ یہ مالدار نہیں.اگر کسی کی اپنی تنخواہ سوروپیہ ماہوار ہو اور وہ کسی بڑے مالدار اور دولتمند کو تلاش کرے جو کہ بہت زیادہ دولتمند ہو تو یہ بات کبھی فتنہ کا موجب بھی ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے تلاش کرنے والوں کو اکثر اوقات ایسے رشتے جب احمدیوں میں سے نہیں ملتے تو وہ اپنی لڑکی غیر احمدیوں کو دے دیتے ہیں.اس غلط اور بیہودہ طریق تلاش کو چھوڑ کر ہر ایک احمدی کو اپنی حیثیت کاآدمی تلاش کرنا چاہئے تا کہ نہ لڑکی کو تکلیف ہو اور نہ غیروں کے گھر وہ جائے.پچھلے زمانہ میں شریف لو گ اس طرح بھی کیا کرتے تھے کہ کسی غریب آدمی کو نیک بخت اور متقی دیکھ کر اپنی لڑکی دے دیا کرتے تھے اور ان دونوں کے اخراجات کے لئے خود کوئی سامان کر دیتے تھے.آج کل بھی اگر کوئی ایسا ہی کر سکے تو بہت عمد ہ بات ہے.اور اگر نہیں کر سکتا تو اپنی حیثیت کے مطابق تلاش کرے.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے میں دنیوی حیثیت کو بھی کفو کے ماتحت ہی خیال کرتا ہوں.اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کی بھی ایک حد تک ضرورت تسلیم کرتا ہوں.دوسرا سوال کفو کے ماتحت قومیت کا آتا ہے.اور قوم کی پابندی بھی ایک حد تک ضروری ہے اور فطرتاً اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے.مثلاًاگر ایک اعلیٰ خاندان کا شخص اپنی لڑکی ایک ایسے شخص کو دے دے جو چوہڑے سے مسلمان ہوا ہو تو وہ لڑکی اپنے خاوند کو حقیرسمجھے گی.اور اس وجہ سے ان میں ہمیشہ جنگ رہے گی اور جو نکاح کی غرض ہے فوت ہو جائے گی یا اور کوئی ایسا نقص ہو جس کی وجہ سے بیوی خاوند کو یا خاوند بیوی کو حقیر خیال کرے تو ایسے جوڑ کا نتیجہ ہمیشہ خراب نکلے گا.اس لئے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی خاوند اور بیوی کے اخلاق و عادات تعلیم و تربیت اور تمدنی درجہ میں کوئی ایسا بیّن فرق نہ ہو جو ہمیشہ ان میں لڑائی کا باعث رہے اور قوموں کا اختلاف بھی دراصل انہی اختلافات کے باعث شروع ہوا ہے.لیکن ایسی قومیں جو شریف ہیں اور شرافت کے کاروبارکرتی ہیں ان کو لڑکی دے دی جائے تو کوئی حرج نہیں.دیکھو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی لڑکی کہا ں دی ہے.مغلوں میں نہیں دی.پھر ہم بھائیوں میں سے ایک کی شادی بھی مغلوں میں نہیں ہوئی.حتّٰی کہ میں نے دوسری شادی کی ہے وہ بھی مغل نہیں ہیں.پس میں کہتا ہوں کہ شرافت کا لحاظ رکھو.کسی قوم میں جب دین
۲۱۴ داری اور شرافت ہو تو وہی اعلیٰ خاندان ہے.اور اگر کوئی سید بھی ہے اور دین سے بے بہرہ ہے تو بھی وہ شریف نہیں ہے.قرآن شریف نے ذاتوں کے متعلق کیا ہی خوب بیان فرمایا ہے کہ’’ ییاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثیٰ وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم ٌ خَبِیْرٌ.‘‘( الحجرات :۱۴) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک عورت اور مرد سے پیدا کیا ہے.(اگر اس سے حضرت آدم ؑ اور حوا مان لئے جائیں تو یہ معنے ہوئے کہ)پھر تم کو ایک دوسرے پر فضیلت ہی کیا ہے جبکہ تم ایک ہی عورت اور مرد کی پیدائش سے ہو.پس تم کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے یا یہ معنے ہوئے کہ تم سارے کے سارے عورت کے پیٹ سے ہی پید ا ہوئے ہو جس طرح ایک پیدا ہو ا ہے اسی طرح دوسرا ہوا ہے اور اسی طرح جس طرح ایک مرد کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے اسی طرح دوسرا بھی ہوا ہے.تو پھر تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت کس طرح ہو سکتی ہے.اس حصہ آیت میں خدا تعالیٰ نے ناواجب فضیلت کا ردّ کیا ہے کہ تم تو ایک ہی ہو.پھر ایک دوسرے پر فضیلت کیسی.پھرفرمایا وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْباً وَ قَبَائِلَ اور ہم نے تم کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے اس حصہ آیت میں یہ فرمایا ہے کہ قومیں اور قبائل بھی کوئی شے ہیں آگے چل کر فرمایا کہ لِتَعَارَفُوْا یعنی ان قوموں اور قبائل کی تقسیم کی غرض یہ نہیں کہ تم ایک دوسرے پر فخر کرو یا دوسروں کو حقیر خیال کرو بلکہ اس کی غرض تو صرف اتنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت اور تعارف ہو سکے.جیسے گورنمنٹ اپنی فوجوں اور محکموں میں تقسیم کر دیتی ہے.جو چیز کثرت سے ہو اس کے افراد کو شناخت کرنے کے لئے کوئی تدبیر ہونی چاہئے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قوموں کا رواج شروع ہوا ہے.اور اﷲ تعالیٰ بھی اسی حکمت کی طرف لوگوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ شعوب و قبائل کی اصل غرض اسی قدر ہے.دیکھو گورنمنٹ کی فوج چونکہ وسیع ہوتی ہے اس لئے وہ پہلے الگ الگ ڈویژن مقرر کرتی ہے پھر ڈویژنوں میں خصوصیت پیدا کرنے کے لئے ان کے نام لکھ دیتی ہے.پھر رجمنٹیں پھر پلٹنیں پھر کمپنیاں بناتی ہے اور یہ سب تقسیم کام میں سہولت اور تعارف کے لئے کی جاتی ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی گورنمنٹ کی فوج کا سپاہی ہے تو اس سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ کہاں رہتا ہے کس جگہ اس کی فوج ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلاں کمپنی فلاں پلٹن اور فلاں چھاؤنی کا سپاہی ہے تو فوراً اس کا پتہ لگ جاتا ہے.اسی طرح قوموں کے نام ہیں.پھر فرمایا کہ یہ بات بھی نہیں کہ سب لوگ ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں بعض لوگ زیادہ
۲۱۵ شریف بعض کم بعض اور کم ہوتے ہیں اور یہ فرق بھی ضرور ہے مگر شریف کون ہوتا ہے ؟ اس کے لئے فرمایا انَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تم میں اکرم وہی ہے جو اتقی ہو یعنی زیادہ نیک اور مقتی ہو.جس قدر کوئی شخص زیادہ خوف خدا کرتا ہے اسی قدر وہ زیادہ بزرگ اور نیک ہے اور اسی قدر زیادہ شریف ہے.اس سے ہمیں یہ پتہ لگ گیا کہ کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں اور کچھ شریف نہیں ہوتے.اور شریف وہ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں تو شریف اور وضیع کی شادی کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ (النور : ۴).کہ زانی مرد زانی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرے.اور زانی عورت زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرے یہ مومنوں کے لئے حرام کیا گیا ہے وہ کبھی ایسا نہیں کرتے.تو واقعی ایک شریف اور وضیع کا گزار ہ ہونا مشکل ہوتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص اپنی عورت کو چھوڑ کر کنچنی کے پاس جا یا کرتا تھا.اس عورت نے ایک دن ایک کنچنی کو بلا کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آتے ہیں.اس نے کہا ہم ناز و نخرے کرتی ہیں.پاس بیٹھتا ہے تو لاتیں مارتی ہیں اور طرح طرح کے مخول اور مذاق ہوتے ہیں اس طرح خبیث مردوں کو مزہ آتا ہے اور وہ اور زیادہ ہماری طرف میلان ظاہر کرتے ہیں.جب اسے یہ معلوم ہو گیا تو ایک دن جب اس کا خاوند گھر آیا اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی بیوی نے گالیاں دینی شروع کیں اور جب وہ ذرا قریب آیا تو ہاتھ سے بھی اس کی خبر لی.وہ اول تو حیران سا رہ گیا کہ یہ آج کیا معاملہ ہے میری بیوی تو نہایت مطیع و فرمانبردار تھی آگے بات نہ کر سکتی تھی یہ تغیر کیا ہو گیا مگر پھر سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ ا ب میں سمجھ گیا اس کی بیوی نے اسے بہت ملامت کی کہ تم اس گند کو پسند کرتے ہو اور فرمانبردار بیوی کی طرف راغب نہیں ہوتے.غرض کہ یہ پختہ بات ہے کہ خبیث آدمی کو خبیث عورت پسند آتی ہے اور خبیث عورت خبیث مرد کو پسند کرتی ہے.اسی طرح طیب عورت اورمرد طیب کو ہی پسند کرتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کا تعلق ہوتا ہے تب جا کر انکا گزارہ ہو سکتا ہے.کیونکہ کوئی دو چیزوں کا آپس میں اس وقت تک تعلق قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ان کی آپس میں کچھ نسبت نہ ہو.حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ کوّا اور کبوتراکٹھے بیٹھے دیکھے مجھے تعجب ہوا کہ ان کی آپس میں کیا نسبت ہے کہ
۲۱۶ ' اکٹھے بیٹھے ہیں.میں اس بات کو معلوم کرنے کے لئے وہیں بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب وہ چلے تو معلوم ہوا کہ دونوں لنگڑے ہیں اور میں نے سمجھا کہ اس نسبت کی وجہ سے یہ اکٹھے بیٹھ گئے تھے.تو ہر ایک مرد و عورت کے جوڑے میں کسی نسبت اور تعلق کا ہونا ضروری ہے کند ہم جنس باہم جنس پرواز.تعلق تب ہی ہو سکتا ہے کہ مرد و عورت کی آپس میں نسبت ہو.اگر شریف کو وضیع سے جو ڑ دیا جائے تو اس کا بہت بڑانقصان ہوگا.اگر کسی بیچاری احمدی لڑکی کا ایسی جگہ رشتہ کر دیا جائے کہ اس کا خاوند دین سے محض ناواقف ہو نماز نہ پڑھتا ہو دوسرے شرعی احکام کی اسے خبر نہ ہو تو اس کے لئے کتنی مشکل ہوگی.کیا وہ بیچاری اپنی زندگی آرام سے بسر کر سکے گی ہرگز نہیں.حدیث میں آیا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو صحبت کے لئے بلائے اور وہ نہ آئے تو ساری رات اس پر لعنت برستی رہتی ہے.ادھر خاوند کی اس قدر فرمانبرداری کاحکم ہے ادھر اس قدر اختلاف ہو تو ایسی عورت مصیبت میں پڑے گی یا نہ پڑے گی اور ایسے گھر میں امن کس طرح رہ سکتاہے.نسب کے متعلق آنحضرت ﷺ کا فیصلہ : آنحضرت ﷺ کی طرز کلام بھی کیسی پیاری ہے کہ ہر ایک جو فطرت صحیحہ رکھتا ہے سن کر آپ پر قربان ہو جاتا ہے.اہل عرب میں حسب نسب کا بڑا رواج تھا اس لئے صحابہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا یا رسول اﷲ سب سے شریف کون ہے اس سے ان کا یہ منشاء تھا کہ آپ چند قبیلوں کے نام لے دیں گے اور انہیں اچھا سمجھا جائے گا آپ نے فرمایا سب سے شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ نیک اور متقی ہو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ہمارے سوال کا یہ مطلب نہ تھا.فرمایا تو پھرسب سے شریف یوسف تھا کیونکہ یوسف نبی تھا اس کا باپ نبی تھا اس کے باپ کا باپ نبی تھا.سبحان اﷲ کیا ہی لطیف طرزسے آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کے سوال کا جواب دیا کہ ان کی بات کا جواب بھی آگیا ارو ان کی دل شکنی بھی نہ ہوئی انہوں نے کہا یا رسول اﷲ ہمارا یہ مطلب بھی نہیں تھا.فرمایا اچھا تو تم لوگ قبائل عرب کے متعلق سوا ل کرتے ہو.ان میں سے جو جاہلیت میں شریف سمجھے جاتے تھے اسلام میں بھی وہی شریف ہیں مگر شرط یہ ہے کہ دین سے اچھی طرح واقف ہوں.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :’’ عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَکْرَمُ النَّاسِ.قَالَ أَتْقَاھُمْ لِلّٰہِ.قَالُوْا لَیْسَ عَنْ ھٰذَا نَسْأَلُکَ قَالَ فَأَکْرَمُ النَّاسِ یُوْسُفُ نَبِیُّ اللّٰہِ ابْنِ نَبِیِّ اللّٰہِ ابْنِ خَلِیْلِ اللّٰہِ.قَالُوْالَیْسَ عَنْ ھَذَا نَسْأَلُکَ.قَالَ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسَأَلُوْنِی النَّاسُ مَعَادِنُ
۲۱۷ خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُ ھُمْ فِیْ الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوا.‘‘(بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللّہ تعالی لقد کان فی یوسف و اخوتہ ایت للسائلین ) یعنی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ حضور لوگوں میں سے شریف کون ہے فرمایا جو اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ زیادہ کرتا ہے وہ زیادہ شریف ہے صحابہؓ نے عر ض کیا یا رسول اﷲ اس کے متعلق ہمارا سوال نہیں.فرمایا پھر یوسف سب سے شریف ہے کہ وہ خود نبی تھا ا س کا باپ نبی اس کا دادا نبی خلیل اﷲ تھا.انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ہمارا اس کے متعلق بھی سوال نہیں.آپ نے فرمایا تو کیا عرب کے قبائل و اقوام کے متعلق تمہارا سوال ہے اچھا تو سنو لوگ مختلف قبائل میں تقسیم ہیں (یا یہ کہ لوگ کانوں کی طرح ہیں )ان میں سے جو لوگ جاہلیت میں اچھے اور شریف سمجھے جاتے تھے وہی اسلام میں شریف سمجھے جائیں گے بشرطیکہ دین کے مغز سے اچھی طرح واقف ہوں.اس سوال و جواب میں رسول اﷲ ﷺ نے تین دفعہ صحابہ ؓ کے سوال کا جواب دیا ہے لیکن غور سے دیکھو تو تینوں جواب اصل میں ایک ہی ہیں اور گو آپ صحابہ کی خواہش پر اپنے جواب کو بدلتے رہے ہیں.مگر مطلب سب جوابوں کا ایک ہی رہا ہے.پہلے جواب میں آپ نے فرمایا کہ متقی ہی سب سے زیادہ شریف ہے دوسرے میں یوسف کو شریف قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ وہ نبی تھے اور ایک نبی کے بیٹے اور ایک کے پوتے تھے.گویا چونکہ وہ خود متقی تھے متقی کے بیٹے اور متقی کے پوتے تھے اس لئے وہ بڑے شریف تھے.ا س جواب میں بھی شرافت کو تقوٰی کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے تیسرے جواب میں پھر اسی بات کو مدنظر رکھا ہے اور فرمایا کہ جو جاہلیت میں شریف سمجھے جاتے تھے وہی اسلام میں شریف سمجھے جائیں گے بشرطیکہ دین میں تفّقہ پیدا کر لیں اور تفّقہ ایک ایسی چیز ہے جو نہایت اعلیٰ پایہ رکھتی ہے.دین سیکھنا اور چیز ہے اور فقاہت فی الدین بالکل اور شۓ ہے فقاہت فی الدین سے یہ مراد ہے کہ اس کے مغز اور لب سے واقف ہو جائے.پس یہ شرط لگا کر آپ نے پھر اسی طرف اشارہ فرمایا کہ شریف وہی ہے جو دین دار ہو اور متقی ہو اور دین کے مغز سے واقف ہو.غرض تینوں جوابوں نے نہایت احسن پیرایہ میں اصل مطلب مسلمانوں پر روشن کر دیا تاکہ وہ صرف نسبی شرافت پر ہی نہ بھولے رہیں تقرب الی اﷲ کے حصول کے لئے بھی کوشاں رہیں.ان جوابات سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ جو شخص نیک نہیں وہ خواہ کسی قوم کا ہو شریف نہیں کہلا سکتا.شرافت کے لئے نیکی اور تقویٰ ضروری ہیں.
۲۱۸ اعلیٰ خاندان کا معیار : مذکورہ بالا آیہ کریمہ اور حدیث نبی کریم ﷺ میں اعلیٰ خاندان کا معیار اور شریف کہلانے والے خاندانوں کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے.دیکھو سید مسلمانوں میں سب سے زیادہ شریف قوم خیال کی جاتی ہے.اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ اتقی الناس یعنی آنحضرت ﷺ سے تعلق رکھتے ہیں.ہندوؤں میں برہمنوں کا درجہ کیوں اعلیٰ ہے اور ان کا خاندان کیوں معزز سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ وہ دوسروں کو دین سکھاتے اور خود دین پر عمل کرنے والے تھے اور یہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ کے ماتحت ہی اعلیٰ اور معزز خاندان ہوا.پھر دنیا میں جو لوگ ادنیٰ درجہ کے کام کرتے ہیں ان کو رذیل سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق ادنیٰ چیزوں سے ہوتا ہے جن کا اثر ان کے اخلاق اور عادات پر بھی پڑتا ہے اسی کے مطابق لوگوں نے قبیلوں اور خاندانوں کو اعلیٰ اور ادنیٰ قرار دیا ہے.مثلاً موچی ایک قوم ہے.ایک زمانہ تھا کہ اس پیشہ کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی اور ان کا تعلق اپنے پیشہ کے باعث ادنیٰ لوگوں سے ہوتا تھا بڑے لوگ خود ان کی دکانوں پر نہ جاتے تھے نہ دنیا کے لحاظ سے یہ قوم بڑے سرمایہ سے کام کرتی تھی بلکہ چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں اس لئے یہ رذیل قوموں میں خیال کئے جانے لگے.کیونکہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے ہر وقت کے تعلق کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان کے اخلاق پر اثر پڑتا.اب ولایت کے بوٹ بنانے والے بڑے سرمایوں سے کام کرتے اور شریف سے شریف لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کی حالت بدل گئی ہے اور وہ معزز خیال کئے جاتے ہیں کیونکہ حالات کے تغیر سے ان کے اخلاق میں جن نقائص کاخوف کیا جاتا تھا وہ خوف اب جاتا رہا ہے اسی طرح بعض ایسے پیشے ہیں کہ جو خود بد اثر ڈالنے والے ہیں.مثلاً موسیقی ہے یہ پیشہ بغیر گندے تعلقات کے خود ہی انسان کے دل پر برا اثر ڈالتا ہے اس لئے اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے رذیل خیال کئے جائیں گے.پس شریف خاندانوں کی بنیاد بھی اصل میں نیکی تقوٰی اور اچھے اخلاق کی بناء پر ہی پڑی ہے.کوئی بڑی قوم کسی نیک انسان کے تعلق سے بڑی بن گئی.کوئی کسی بہادر کے تعلق سے کوئی کسی سخی کے سبب سے کوئی کسی فاتح کے سبب سے اگر قوموں کی اصل پر غور کیا جائے تو ان کی شرافت کی بنیاد کسی نہ کسی زمانہ میں ان کے اخلاق حسنہ ہی ہوں گے اور چونکہ تعلقات کا اثر انسان کے اخلاق پر ضرور پڑتا ہے اس لئے شریف اقوام کا بھی لحاظ رکھنا ایک حد تک ضروری ہو جاتا ہے.اور یہ ضروری بات ہے کہ اچھے اور برے عادات اور اخلاق کے معلوم کرنے کے لئے اقوام کو دیکھا جائے تاکہ بعد میں رنجش پیدا نہ ہو.اخلاق اسی لئے
۲۱۹ دیکھے جاتے ہیں کہ نتیجہ نیک نکلے.اگر کسی کو اپنے اخلاق اور عادات کے مطابق کوئی کامل جائےخواہ وہ کسی قوم سے ہو تو اس سے رشتہ کر دینا چاہئے.جو آج دنیا سمجھا جاتا ہے وہ کل شریف ہوسکتا ہے.ایک شخص اگر اوئی حیثیت سے مثلا چوزے سے مسلمان ہو تو میں اس وقت اس کے ساتھ مل کر کھانا کھالوں کا اور میں اس کا جوٹھا کھا سکتا ہوں اور وہ میرا جوٹھا کھا سکتا ہے.کیونکہ جب اس نے لااله الا الله محمد رسول الله كہا تو میرے اور اس میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا.اسلام کے لحاظ سے ہو میرے حقوق ہیں وہی اس کے ہیں.اس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں ہے.حضرت عمر عنہ کے زمانہ میں ایک بادشاہ مسلمان ہو کر آیا تھا.کعبہ کا طواف کرتے وقت کی بحالی کے پاؤں کے نیچے اس کا کپڑا کر گر گیا.اس نے اس کو تھپڑ مارا.کسی نے اس سے کہا کہ حضرت عملا تجھے سے اس کا بدلہ لیں گے.اس نے کماکیا مجھے ان کے بادشاہ سے اس مفلس کے مارنے کا بدلہ لیں گئے ؟ اور کیا مجھے بھی نہیں چھوڑیں گے ؟ اس نے کیا نہیں اس کو جو زیا رشک ہواتو جا کر حضرت عمر ء کو کہنے لگا.کہ کیا اگر کوئی بڑا آدمی کی رذیل کو مارے تو آپ اس کا بدلہ تو نہیں لیں گے؟ انہوں نے گماء اربد تو کسی کو بار تو نہیں بیٹھا اگر تم نے کسی کو مارا ہے تو خدا کی تم میں ضرور تم سےاس کا بدلہ لوں گا یہ سن کر رات کو وہ بھاگ گیا اور اس کی تمام قوم عیسائی ہو گئی.حضرت نے فرمایااس کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.تو حقوق کے لحاظ سے نسب مسلمان برابر ہیں مگر شادی میں صرف اسی بات کا خیال نہیں رکھتا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جن دو شخصوں کاپیوند ساری عمر کے لئے ہونے لگاہے ان میں آپس میں اخلاق کا کوئی فرق نہیں اور بعض اقوام کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں پس ان سے ضرور علیحدہ رہنا پڑے گا کہ ہمیشہ کا ترانہ پیدا ہو جائے لڑکے لڑکی کے امین اور آرام کی وجہ سے ایک حد تک کفو کا خیال بھی رکھنا پڑے گا.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہر ایک چنے کی حدہوتی ہے.خدا تعالی نے ان اكرمكم عند اللہ اتقكم فرماکر یہ قاعدہ بتا دیا ہے کہ اصل شرافت تقوی تی ہے.پس تم بھی اس بات پر دلیری نہ کرو کہ فلاں قوم کلینی ہے تم بے شک بعض قوموں سے اختلاف اخلاق و عادات کی وجہ سے رشتہ میں پرہیز کرو لیکن کسی کو دفیع نہ کہو کیونکہ جو آج شریف ہو تا ہے وہ حالات کے بدلنے سے دفع ہو جا تا ہے اللہ تعالی کے حضور سارے ایک جیسےہیں.جس کے اخلاق اور عادات اچھے ہیں وہی اعلی ہے پس اگر ایا ہو کہ مرد کے ایسے خیالات اور عادات ہیں جو لڑکی کے خاندان کے خلاف ہیں تو ان کی شادی نہیں ہونی چاہئے.نگرانی شراگانا کہ مغل ہو اور مغل بھی برلاس ہو وغیرہ وغیرہ.یہ نہیں ہونا چاہئے.تم نیکی اور تقوی کو شادی کے
۲۲۰ معاملہ میں اول دیکھو اور پھر کفو کو بھی اس حد تک دیکھو جہاں تک کہ اس کا اخلاق و عادات سے تعلق ہے اور خوب یاد رکھو کہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تمہیں بہت کچھ قربانیوں کی ضرورت ہے اور گو احمدی کو غیر احمدی کی لڑکی لینی جائز ہے.لیکن آج ہماری ضروریات چاہتی ہیں کہ جماعت اس تجویز پر عمل کرے کہ غیر احمدیوں کو نہ لڑکی دے اور نہ ان کی لڑکی لے.حضرت مسیح موعودؑ نے جو اعلان اس کے متعلق سب سے پہلے شائع فرمایا تھا اس میں یہی حکم تھا کہ احمدیوں کی شادی آپس میں ہی ہو مگر پھر یہ اجازت فرما دی کہ غیر احمدی لڑکی سے احمدی شادی کر سکتا ہے مگر اب ضرورت مجبور کرتی ہے کہ کچھ مدت کے لئے پھر اسی حکم پر عمل کیا جائے یعنی نہ غیر احمدیوں کو لڑکیاں دی جائیں اور نہ سوائے کسی اشد ضرورت کے ان کی لڑکیاں لی جائیں.کیونکہ اس وقت ہماری جماعت تھوڑی ہے اور یہ دقّت پیش آرہی ہے کہ احمدی تو غیروں کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور جو احمدی لڑکیاں ہیں وہ غیروں کے ہاں جانہیں سکتیں پس ان کے لئے رشتہ ملنے میں دقّت ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض کمزور احمدیوں کو ابتلاء آجاتا ہے اور وہ غیر احمدیوں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں.مجھے بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ لڑکی جوان ہے آپ کہیں شادی کا انتظام کر دیں.میں اس کے لئے جب اپنی جماعت کے لڑکوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی شادیاں غیر وں کے گھر ہوتی جاتی ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر احمدی لڑکوں کی شادیاں غیر احمدیوں کے ہاں کی جائیں تو احمدی لڑکیاں کہاں جائیں.کیا تم یہ پسند کرتے ہو؟ کہ وہ غیر احمدیوں کے ہاں جا کر ابتلاؤں میں پھنسیں.پس جماعت وہی قائم رہ سکتی ہے جو اپنے تمام افراد کا خیال رکھے.آج کل تم اس بات کا خیال کر کے غیروں کی لڑکیاں نہ لو اور اپنوں کو ابتلاؤں سے بچاؤ تا کہ تمہاری جماعت مضبوط ہو.نماز با جماعت اس کے بعد ایک اور نقص ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.بعض نقص گو چھوٹے نظر آتے ہیں مگر بعد میں وہی بہت بڑھ جاتے ہیں.اور بڑے نقصان کا موجب ہو جاتے ہیں.ہماری جماعت میں ایک نقص ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ بہت حد تک مجبوری کی وجہ سے ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ہر ایک احمدی کو خوب ہوشیار رہنا چاہئے.اگر اس نقص کے دور کرنے کی طرف ہماری جماعت نے توجہ اور غور نہ کیا تو تھوڑی مدت میں یہ ایک خطرناک صورت اختیار
۲۲۱ کر لے گا اور سخت تباہی کا موجب ہو جائے گا.وہ نقص نماز باجماعت میں سستی کا ہے بے شک نماز با جماعت پڑھنے میں احمدیوں کو ایک دقت ہے اور وہ یہ کہ غیر احمدیوں کے پیچھے تو وہ نماز پڑھ نہیں سکتے اور بعض جگہ احمدی صرف ایک ہی ہوتا ہے اس لئے اسے نماز با جماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا اور چونکہ نمازبا جماعت ادا کرنے میں انسان کو وقت کی پابندی کرنی پڑتی ہے جب نماز با جماعت نہ ملے تو رفتہ رفتہ انسان سستی کرنی شروع کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے جماعت کے ساتھ تو نماز پڑھنی ہی نہیں جس وقت چاہوں گا پڑھ لوں گا اس طرح وہ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور آخراول وقت نماز پڑھنے کی عادت جاتی رہتی ہے یا جمع کر کے نماز ادا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور نماز باجماعت ادا کرنے سے تو ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اگر کہیں باجماعت نماز پڑھنے کا موقع مل بھی جائے تو بھی سستی کر دیتا ہے.گو یہ عادت ایک مجبوری کی وجہ سے اسے پڑتی ہے لیکن احمدیوں میں ہرگزہرگز سستی نہ ہونی چاہئے.جس وقت سستی پیدا ہوئی اسی وقت سے اس جماعت کی تباہی کا آغاز ہو جائے گا (نعوذ باﷲ من ذلک )پس جس گاؤں میں کوئی اکیلا احمدی ہے وہ کوشش کرے کہ دوسرا پیدا ہو جائے.مجھے امید ہے کہ اگر اس طرح کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ ضرور اس کا ساتھی پید ا کر دے گا.لیکن اگر دوسرا ساتھی نہ ہو تو دوسرے گاؤں میں جا کر جہاں کوئی احمدی ہو دوسرے تیسرے دن نماز باجماعت پڑھو اور سستی کی عادت نہ ڈالو.اگر تم اس کو بھولے تو یاد رکھو کہ پھر تم ترقی نہیں کر سکو گے.وہ احمدی جو بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مکان تک ان کا جانا مشکل ہوتا ہے ان کے لئے یہ بات نہایت مشکل ہے کہ ہر نماز کے وقت ایک جگہ جمع ہو سکیں.لیکن ان کو چاہئے کہ اپنے محلہ کے احمدی مل کر باجماعت نماز پڑھا کریں اور کبھی کبھی سارے اکٹھے ہو کر بھی پڑھیں سستی ہرگز نہیں ہونی چاہئے.یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اس کے نتائج بہت برے نکلتے ہیں مجھے قرآن شریف سے یہی معلوم ہوا ہے کہ جس کو نماز با جماعت پڑھنے کا موقع ملے اور وہ نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.حضرت ابن عباس ؓ کا بھی یہی مذہب ہے.آنحضرت ﷺ نے نماز با جماعت کے متعلق اتنی احتیاط فرمائی ہے کہ جس کا بیان ہی نہیں ہو سکتا.ایک دفعہ ایک اندھا آپ ؐ کے حضور حاضر ہوا.اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ مجھے مسجد میں آتے ہوئے سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے اگر مجھے اجازت ہو تو میں گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کرو ں.آپ ؐ نے فرمایا بہت
۲۲۲ اچھا لیکن جب وہ لوٹ کر چلا تو پھر آپ ؐ نے اسے واپس بلایا اور پوچھا کہ کیا تمہارے گھر تک آذان کی آواز پہنچتی ہے؟ اس نے کہا حضور پہنچتی ہے.آپؐ نے فرمایا جب آذا ن پہنچتی ہے تو مسجد میں حاضر ہوا کرو.رسول کریم ﷺ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آتے.میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لئے کھڑا کر دوں اور اپنے ساتھ اور آدمیوں کو لے کر ان کے سر پر ایندھن رکھ کر سارے شہر میں سے ان لوگوں کو معلوم کروں جو نماز میں شامل نہیں ہوئے اور پھر آدمیوں سمیت ان کے گھر پھونک دوں.دیکھو ایسا رحیم و کریم انسان ایسا مشفق اور مہربان انسان فرماتا ہے کہ جو جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کو اور ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دوں.اس حدیث سے نماز باجماعت کی عظمت کا خوب پتہ لگ جاتا ہے.عشاء اور صبح کی نماز کی خصوصیت اس لئے فرمائی کہ یہ دونوں وقت سخت ہیں عشاء کے وقت لوگ نیند سے مجبور ہو کر سستی کرتے ہیں اور صبح کے وقت آنکھ کھلنی مشکل ہوتی ہے جب ان دونوں وقتوں کے متعلق ایسے تشدد کا اظہار فرمایا تو دوسرے وقتوں کی نمازوں کے باجماعت ادا کرنے کی تاکید آپ ثابت ہوگئی.سچی اور حق بات یہی ہے کہ نماز باجماعت پڑھنے کے سوا جماعت بن ہی نہیں سکتی.ا س لئے تم جہاں تک کوشش اور سعی کر سکوکرو اور با جماعت نماز ادا کرنے کی پابندی کرو.اگر اور کوئی جماعت کے لئے نہ ملے تو گھر میں ہی خاوند بیوی بچوں کو پیچھے کھڑا کر کے نماز پڑھ لے.اس طرح کم از کم نماز باجماعت پڑھنے کی عادت تو رہے گی.پھر اﷲ تعالیٰ جماعت بھی بنا دے گا خدا تعالیٰ تمہیں ایسا کرنے کی توفیق دے.زکوٰۃ پھر ایک بہت اہم مسئلہ زکوٰۃ کا ہے.لیکن لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے.حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ میں زکوٰۃ نہ دینے والوں سے وہی سلوک کروں گا جو آنحضرت ﷺ کفار سے کرتے تھے.ایسے لوگوں کے مرد غلام بنا لوں گا اور ان کی عورتیں لونڈیاں.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایسا ابتلاء آیا تھا کہ عرب کے تین شہروں مکہ ، مدینہ اور ایک اور شہر کے علاوہ سب علاقہ عرب کا مرتد ہو گیا تھا.حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے اس
۲۲۳ وقت عرض کیاکہ جو لشکر شام کو جانے والا ہے اس کو آپ روک لیں کیونکہ تما م ملک میں فساد برپا ہو گیا ہے لیکن حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ جس لشکر کو آنحضرت ﷺ نے روانہ کیا ہے میں اسے نہیں روک سکتا.پھر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اچھا جو لوگ زکوٰۃکے منکر ہیں ان سے صلح کر لیں پہلے دوسرے مرتدین سے جنگ ہو جائے تو رفتہ رفتہ ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی.اول ضرورت یہی ہے کہ جھوٹے مد عیان نبوت کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ان کا فتنہ سخت ہے.حضرت ابو بکرؓنے کہا کہ اگر لوگ بکری کا بچہ یا اونٹ کے گھٹنہ باندھنے کی رسّی کے برابر بھی زکوٰۃکے مال میں سے ادا نہ کریں گے جو آنحضرت ﷺ کو ادا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور اگر تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور جنگل کے درندے بھی مرتدین کے ساتھ مل کر حملہ کریں گے تو میں ان سے اکیلا لڑوں گا.غرض زکوٰۃکے حکم کو حضرت ابو بکر ؓ نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کے منکر سے کفار کا سا سلوک جائز رکھا ہے.مگر آج مسلمانوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس کی طرف توجہ کرتے ہیں.میں نے اندازہ کیا ہے کہ اگر ساری جماعت احمدیہ کی صرف زکوٰۃہی جمع کی جائے تو ایک لاکھ روپیہ کے قریب ہوتی ہے.کیونکہ کچھ نہ کچھ تو لوگوں کے پاس زیور ہوتا ہی ہے.ہاں وہ اشیاء جن پر گورنمنٹ ٹیکس وصول کرتی ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کی نسبت فتویٰ دیا ہے کہ چونکہ گورنمنٹ ان پر ٹیکس وصول کر لیتی ہے اس لئے اب ان پر کوئی زکوٰۃیا عشر نہیں لیکن میرے خیال میں بعض زمینوں پر گورنمنٹ جو مالیہ وصول کرتی ہے وہ شرعی عشر سے کم ہوتا ہے.اس لئے جہاں گورنمنٹ کا مالیہ یا ٹیکس کم ہو وہاں بقیہ روپیہ اس شخص کو جس کے ذمہ وہ واجب ہوا دا کرنا چاہئے.مثلاً ایک زمین پر گورنمنٹ مالیہ لیتی ہو اور اس کا عشر دس روپیہ ہوتا ہو تو پانچ روپیہ اس کے مالک کو عشرکے طورپر یہاں ادا کرنے چاہئیں.اس انتظام کے لئے ہر ایک گاؤں اور شہر کی احمدیہ انجمنوں کے سیکرٹریوں کو اور جہاں سیکرٹری نہیں وہاں کسی اور کو ہی رجسٹر بنا لینے چاہئیں.جس میں زیور اور دیگر زکوٰۃوالی چیزوں کو درج کیا جائے اور باقاعد ہ زکوٰۃوصول کی جائے.حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ پہننے والے زیور وں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ان پر زکوٰۃدی جائے.لیکن اگر کوئی دے دے تو اچھا ہے.جو زیور نہیں پہنے جاتے ان کی زکوٰۃضرور دینی چاہئے.زکوٰۃکے متعلق ایک مفصل رسالہ لکھنے کے لئے میں نے کہہ دیا ہے اس میں سب قواعد اور ہدایات دی جائیں گی اس کے مطابق عمل ہونا چاہئے.
۲۲۴ زکوٰۃکے فوائد:زکوٰۃکا حکم ایک بے نظیر حکم ہے اور اسلام کی بے انتہاء خوبیوں میں سے ایک روشن خوبی ہے اور بہت سی جماعتوں پر اس کے ذریعہ اسلام کی عظمت کی حجت قائم کی جاسکتی ہے.مثلاً یورپ میں آج کل دو گروہ ہیں.ایک کہتا ہے کہ جتنا کوئی کماتا ہے اسے کمانے دو اور اس کو اپنی محنت کا ثمرہ اٹھانے دو.دو سرا اگر وہ کہتا ہے کہ سارے ملک کے لوگ کام کرتے ہیں تب ہی دولت آتی ہے اس لئے جو لوگ بہت مالدار ہیں ان سے چھین کر مفلس اور نادار لوگوں کو دینا چاہئے تاکہ وہ بھوکے نہ مریں اور ملک کے کاروبار میں خلل واقع نہ ہو.خدا تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کی باتوں کو رد کر کے ٹھیک اور درست بات بیان فرما دی ہے اور اسلام نے افراط اور تفریط دونوں کو چھوڑ کر عمدہ بات لے لی ہے.میرا یقین ہے کہ اگر صرف زکوٰۃکا مسئلہ لے کر یورپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کسی کی طاقت نہیں کہ اس کی صداقت اور عمدگی سے انکار کر سکے.بعض لوگ زکوٰۃکو ایک چٹّی خیال کرتے ہیں لیکن زکوٰۃچٹّی نہیں ہے اس کے سمجھنے کے لئے میں تمہیں ایک موٹی بات بتاتاہوں.گورنمنٹ رعایا سے ٹیکس لیتی ہے پھر اس ٹیکس سے ملک اور رعایا کی حفاظت کے لئے فوج اور پولیس تیار کرتی ہے.رعایا کے آرام کے لئے سڑکیں اور شفاخانے بناتی ہے اور طرح طرح کے آرام بہم پہنچاتی ہے چونکہ گورنمنٹ رعایا کے آرام کے لئے ہی ٹیکس لیتی ہے اس لئے اس کے اس ٹیکس لینے کو کوئی چٹی خیال نہیں کرتا اسی طرح زکوٰۃبھی چٹی نہیں بلکہ خود انسانوں کے بھلے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے جس طرح گورنمنٹ اپنی رعایا کی بہتری کے لئے ٹیکس وصول کرتی ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے بھی زکوٰۃمقرر فرمائی ہے اور اس کے بدلہ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہارے اموال میں برکت ہوگی اور وہ ہر ایک قسم کی ہلاکتوں سے محفوظ ہو جائیں گے.جیسا کہ فرمایا ’’ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ.‘‘(التوبہ :۱۰۳)ان لوگوں کے اموال میں سے صدقات کا مال لو اور اس ذریعہ سے ان کو ظاہری اور باطنی نقصوں سے پاک کردو اور ان کے لئے دعائیں کرو کیونکہ تمہاری دعائیں ان کے لئے آرام اور راحت کا موجب ہیں.غرض کہ زکوٰۃخدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا ٹیکس ہے جس کے بدلہ میں انسان پر رحمت اور اس کی ظاہری و باطنی پاکیزگی کا وعدہ ہے.جب سے مسلمانوں نے زکوٰۃ دینی چھوڑ دی ہے اس وقت سے ان کا مال کم ہی کم ہو رہا ہے.کہاں تو ایک وقت تھا کہ یہ دنیا کے بادشاہ تھے لیکن آج ذلیل و خوار ہو رہے ہیں.زکوٰۃدینے والے کو اﷲ تعالیٰ اسی طرح کامیابی اور پاکیزگی کا وعدہ دیتاہے جس طرح گورنمنٹ ٹیکس لے کر حفاظت کا وعدہ کرتی
۲۲۵ ہے.لیکن افسوس کہ لوگ گورنمنٹ کے وعدہ کو تو سچا سمجھتے ہیں اور بڑی خوشی سے ٹیکس ادا کر دیتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے وعدہ کو سچا نہیں سمجھتے اسی لئے زکوٰۃنہیں دیتے.زکوٰۃکے ذریعہ سے انسان بہت سے دکھوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا.ایک تصوف کا لطیفہ : زکوٰۃکے فوائد میں سے ایک اور عظیم الشان فائدہ ہے جس سے صوفیانہ مذاق کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان جب مال کماتا ہے تو خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے کہ حرام مال اس کے مال میں شامل نہ ہو لیکن یہ بات بالکل ممکن ہے کہ غلطی سے ناجائز مال اس کے مال میں مل جائے.مثلاً ایک سودا گر کپڑا بیچتا ہے اسے نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں سوراخ ہیں اور کپڑا ناکارہ ہو چکا ہے وہ خرید ار کو دے کر قیمت لے لیتا ہے اور گو اس سے غلطی سے ہی یہ کام ہوا ہے لیکن جو روپیہ اس کے پاس آیا ہے وہ اس کا حق نہیں اور وہ اس کا مالک نہیں گو بے علمی کی وجہ سے ہی اس پر اس نے قبضہ کیا ہے اس مال کو کھا کر اس انسان کے گوشت پوست میں کوئی برکت پیدا نہ ہوگی اور نہ اس کے دوسرے مال میں اس کے ذریعہ کوئی برکت ہوگی لیکن جب یہ شخص سال کے بعد اﷲ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے مال میں سے ایک حصہ زکوٰۃ کا نکالتا رہے گا تو اس کا مال پاک ہوتا رہے گا.اور اگر کوئی حصہ مال کا غیر طیب تھا تو وہ اس کی جان پر یا اس کے نفس پر خرچ نہ ہوگا بلکہ زکوٰۃ کے ذریعہ سے حقیقی مالک یعنی اﷲ تعالیٰ کے پاس واپس چلا جائے گا اور اس کا مال طیب رہے گا.اور حلال مال کے کھانے اور استعمال کرنے سے اس کی ہر چیز میں برکت پیدا ہوگی.حضرت مسیح موعود ؑ کی سوانح ایک اور بات جس کی طر ف ہماری جماعت کی توجہ کی ضرورت ہے وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے سوانح کی حفاظت ہے.ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سامان موجود ہے.قلم،دوات، سیاہی،کاغذ،مطبع وغیرہ لیکن اگر ہم اس کام کو نہ کریں تو کیسے سخت افسوس کی بات ہے ا ور بعد میں آنے والے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھیں گے.نئے نئے آنے والے لوگ کیا جانتے ہیں کہ مسیح موعود کیا تھے جب تک ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ ہو جس سے وہ ان کا حال بتمام معلوم کر سکیں.چند دن ہوئے یہاں دو عیسائی آئے تھے مجھ سے ان کی گفتگو ہوئی وہ ایک آدمی کو کہنے لگے کیا مرزا صاحب بھی ایسے ہی تھے.اس نے کیا ہی خوب جواب دیا کہ مجھ سے کیا
۲۲۶ پوچھتے ہو ان سے ہی جا کر پوچھ لو وہ کیا کہتے ہیں وہ تو اپنے آ پ کو حضرت مرزا صاحب کا غلام کہتے ہیں اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ حضرت مرزا صاحب کیسے تھے.پس ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعدمیں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں.ہمارے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اور پھر (آپ کے عاشق صادق )حضرت مسیح موعود ؑ کا اسوہ حسنہ نہایت ضروری ہے.اس لئے حضرت مسیح موعودؑ کے سوانح لکھنے نہایت ضروری ہیں پس جس کسی کو آپ کا کوئی واقعہ کسی قسم کا یاد ہو وہ لکھ کر میرے نام بھیج دے.یہ ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہم نے کرنا ہے میں نے ایک آدمی کو لوگوں سے حالات دریافت کر کے لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ لکھ رہا ہے تم میں سے بھی جس کو کوئی واقعہ یاد آئے وہ لکھ کر بھیج دے تا کہ کل واقعات ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دیئے جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں.آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعودؑ کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے آپ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہئے.تنازعات کا فیصلہ :ایک اور ضروری امر ہے جس کی طرف تمہاری توجہ کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ پیش ہویا تنازع پیدا ہو تو جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ خود بخود ہی فیصلہ نہ کرنے بیٹھ جایا کریں.جب تم نے اتحاد کیا ہے اور ایک سِلک میں منسلک ہو گئے ہو تو تمہیں چاہئے کہ جب کوئی جھگڑا واقع ہو تو اس کے متعلق ہم کو لکھو اور ہم سے فیصلہ کرواؤ.آپس کے جھگڑے یہاں بھیجو ہم تحقیقات کر کے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے فیصلہ کریں گے.پرائمری سکول :ایک اور امر جس کی طرف میں آج آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جماعت کی تعلیمی ترقی کے لئے میں نے تجویز کی ہے کہ ہر جگہ پرائمری سکول کھولے جائیں.چنانچہ میں نے یہ کام شروع کروا دیا ہے اور اس وقت تک دس کے قریب سکول کھل چکے ہیں تمام احمدیہ انجمنیں اپنی اپنی جگہ کوشش کریں کہ وہاں سکول کھول دیئے جائیں اگر کسی جگہ پہلے سکول ہے بھی تو بھی ہمارے احمدی سکول کی ضرورت ہے کیونکہ دوسرے سکولوں میں قرآن شریف نہیں پڑھایا جاتا اس لئے ضروری ہے اپنا مدرسہ کھولا جائے.پس سکولوں کے کھلوانے کی کوشش کرو.اس کے لئے انجمن ترقی اسلام کے ماتحت میں نے ایک سب کمیٹی بنا دی
۲۲۷ ہے جو سکولوں کے کھلوانے کا انتظام کرتی ہے اس سے خط و کتابت کرکے سب انتظام ہو سکتا ہے.واعظوں کی ضرورت :ہماری جماعت کی ضروریات میں سے ایک ضرورت واعظوں کی ہے خصوصاً بڑے بڑے شہروں میں توواعظوں کی سخت ضرورت ہے.ہمارے پاس جو کچھ ہے قرآن کریم ہی ہے اور اس سے بڑھ کر اور ہو ہی کیا سکتا ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ مختلف شہروں میں درس قرآن جاری کئے جائیں اور ہر ضلع کے لئے کم از کم ایک واعظ مقرر کیا جائے لیکن اس کام کو نباہنے والے واعظوں کی ہماری جماعت میں کمی ہے اس لئے جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہو گا ہم نے ایک جماعت مبلغین بنائی ہے اس جماعت کے دو لڑکوں نے کل یہاں وعظ کیا ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا بولے ہیں مگر میری خواہش ہے کہ بہت جلدچند ایسے آدمی تیار ہو جائیں جن کو ہم ضروری مقامات پر مقرر کر سکیں چنانچہ میں نے ایک ایسا کورس تیار کیا ہے کہ جس کے ذریعہ سے جماعت مبلغین کے دس لڑکوں کو ایسا تیار کیا جائے کہ اگلے سال تک وہ درس قرآن دینے کے قابل ہو جائیں.یہ لڑکے امید ہے کہ جلد کام کے قابل ہوجائیں گے اور امید ہے کہ انشاء اﷲ اگلے دسمبر میں ہم دس انجمنوں کو ایک ایک واعظ دے سکیں گے.قرآن باترجمہ پڑھنا: میرادل چاہتا ہے کہ ہماری جماعت کے سب افراد خواہ مرد ہوں یا عورتیں قرآن کریم سے واقف ہوں.یعنی نہ صرف یہ کہ قرآن کے الفاظ پڑھ سکتے ہوں بلکہ اس کے معانی اور ترجمہ سے بھی واقف ہوں کیونکہ جب قرآن کریم کے معانی سے ناواقفیت ہو تو اس کے الفاظ بار بار پڑھنے سے کیا لطف حاصل ہو سکتا ہے.مگر جب تک لوگ اس قابل نہ ہو جائیں کہ خود ترجمہ کر سکیں اول ان کی واقفیت کے لئے ایک ترجمہ قرآن کی ضرورت ہے جو اردو میں ہو اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ ان تمام غلطیوں سے پاک ہو جو اس وقت تک کے تراجم میں پائی جاتی ہیں.دوسرے یہ کہ قرآن کریم کی جن آیات کے متعلق غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے متعلق ایسے نوٹ دیئے جائیں جن سے وہ غلط فہمیاں دور ہوں اور دوسرے تمام مذاہب پر اسلام کی فضیلت ثابت ہو جائے.قرآن کریم پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جائیں اور مشکل مواقع کو حل کیا جائے.قرآن شریف ہر احمدی مرد،عورت اور لڑکے کے پاس ہونا ضروری ہے.ترجمہ شروع ہو گیا ہو ا ہے اور پہلے سپارہ کا ترجمہ اور نوٹ تو مکمل بھی ہوچکے ہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ایک مہینہ تک شائع بھی ہو جائے گا.میرا ارادہ ہے کہ سپارہ سپارہ کر کے شائع کر یں تا کہ
۲۲۸ ساتھ کے ساتھ لوگوں کو پہنچتا جائے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کو ہم نے آہستہ آہستہ اس لئے اتارا ہے کہ لوگوں کو یاد ہوتا جائے.اسی طرح ہم بھی تھوڑا تھوڑا شائع کرتے رہیں گے تا کہ لوگ پڑھتے اور یاد کرتے جائیں.اس کی کچھ کاپیاں لکھی ہوئی آچکی ہیں اور ترجمہ تو دوسرے پارہ کا بھی کسی قدر ہو چکا ہے.انجمن ترقی اسلام اس کو چھپوا رہی ہے.ہر فرد کو چاہئے کہ اپنا الگ اپنی بیوی کا الگ اپنے لڑکے لڑکیوں کا الگ الگ قرآن خریدے.مدرسہ خط وکتا بت: جماعت کی علمی ترقی کے لئے ایک مدرسہ خط و کتابت کا کھولا جائے.کیونکہ بعض ایسے لوگ ہیں جو یہاں قادیان میں رہ کر قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے ان کے لئے کچھ اسباق تیار کئے جائیں جو ان کو آہستہ آہستہ بھیج دیئے جایا کریں اور جب ان کو وہ یاد کر لیا کریں تو پھر اور کچھ پرچے بھیج دیئے جایا کریں.اور جو دقتیں لوگوں کو پیش آئیں انہیں خطوط کے ذریعے وہ حل کرالیں.اور اس طرح گھر بیٹھے وہ کچھ نہ کچھ واقفیت بہم پہنچا لیں.حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں کا امتحان :حضرت مسیح موعودؑ کو اس بات کا شوق تھا کہ آپ کی کتب کا ایک کورس مقرر کیا جائے.لوگ اسے یاد کیا کریں اور پھر سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک دن ان کے امتحان کا رکھا جائے اور ان سے سوالات پوچھے جایا کریں.میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی یہ خواہش بھی رائگاں نہ جائے.اور اس پر عمل ہونا شروع ہو جائے اوراگلے سال سے امتحان لینا شروع کردیا جائے.کتاب ازالہ اوہام دونوں حصے غیر احمدیوں کے متعلق اور سرمہ چشم آریہ آریوں کے متعلق یہ دونوں کتابیں اس سال یاد کی جائیں.جتنے احباب چاہیں اس میں حصہ لیں اور آئندہ جلسہ میں جن کو خدا تعالیٰ زندگی دے آئیں اور پھر جن کو خدا تعالیٰ امتحان کی توفیق دے وہ ان کتابوں کا امتحان دیں تا کہ جو غلطیاں ہوں وہ ان کو بتائی جائیں.مختلف فیہا مسائل کا حل :میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ جماعت میں جو مختلف فیہامسائل ہیں ان کو حل کیا جائے.میں اس کوشش میں ہوں کہ کچھ آدمی اس کام کے لئے مقرر کئے جائیں.احمدیوں کے جو اعتقادات ہیں ان کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے حوالہ سے لکھ دیں تاکہ آئندہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو.کیسے تعجب کی بات ہے کہ تیس سال کے بعد احمدی جماعت میں آج یہ جھگڑا پیدا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے یا نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس جھگڑے کے بانیوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں کو نہیں پڑھا اور جب پڑھا تو یہ جان کر
۲۲۹ اللہ کی ضروریات پڑھا کہ آپ نبی نہیں تھے جس طرح بعض عیسائی سارا قرآن شریف پڑھ جاتے ہیں تو انہیں کوئی بھی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی.اسی طرح ان کے ساتھ ہوا.اب میرا ارادہ کچھ آدمی مقرر کرنے کا ہے جو ایک مکمل رسالہ اس مضمون پر لکھیں.سلسلہ کی ضروریات : حضرت مسیح موعودؑکے زمانہ کی ایک بڑی چیز منارۃ المسیح ہے.آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ جب یہ مکمل ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ کی بڑی برکتیں نازل ہوں گی.اس کی تعمیر کے لئے چندہ کی اپیل نہیں کی گئی میں نے کہا جب ہم اس کو بنائیں گے تو یہ خود اپنی اپیل کرے گا یعنی لوگ اسے دیکھ کر خود بخود چندہ دیں گے.قادیان کی جماعت نے مختلف طور پر پانچ سو روپیہ کے قریب اس کے لئے چندہ دیا ہے.میں نے کوئی اعلان نہیں کیا تھا مگر انہوں نے خود ہی یہ روپیہ فراہم کر دیا ہے اس پر دو ہزار کے قریب روپیہ خرچ ہوا ہے اس لئے باقی کے پندرہ سوکے پورا کرنے کے لئے تمہیں فکر کرنی چاہئے.اس کے علاوہ جو یہاں کام ہو رہے ہیں ان کے لئے کسی اور نے تو چندہ دینا نہیں.غیروں کو ہم نے خود ہی چھوڑ دیا ہے اور کچھ اپنے بھی چھوڑ کر چلے گئے ہیں.ان کاموں کے لئے بھی تمہیں ہی فکر کرنی چاہئے.صدر انجمن کے ماتحت مختلف کام ہو رہے ہیں.دو مدرسے ہیں‘ ایک ہائی سکول اور ایک احمدیہ سکول جن میں تمہارے بچے پڑھتے ہیں.ایک لنگرہے جو مہمان یہاں ٹھہرتے ہیں اس میں سے انہیں خوراک دی جاتی ہے.ان کے علاوہ اور بھی کئی کام ہیں ترقی اسلام کے خرچ کا اندازہ آئندہ سال کے لئے ۲۴ہزار روپیہ لگایا گیا ہے.جس کی تفصیل یہ ہے کہ ولایت کے لئے انگریزی ترجمہ قرآن شریف کا ہو رہا ہے جو چھپنا بھی شروع ہو گیا ہے اور سورہ فاتحہ کے پروف آچکے ہیں.پہلے سپارے کا ترجمہ ہو چکا ہے اس کے چھاپنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.پھر ولایت میں تبلیغ شروع ہے اور کم از کم چھ سو روپیہ ماہوار خرچ کی ضرورت اس کے لئے ہوگی کیونکہ میرا ارادہ ایک اور آدمی بھی وہاں بھیجنے کا ہے اور انگریزی میں ٹریکٹ بھی شائع کئے جائیں گے.پھر ماریشس افریقہ کے پاس ایک جزیرہ ہے جہاں کے بہت سے انگریز قبیلے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں وہاں ایک آدمی بھیجا جائے گا خط و کتابت ہو رہی ہے.پھر ٹریکٹوں کا سلسلہ ہے.بنگال میں ایک ٹریکٹ شائع کیا گیا تھا کئی مہینے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کے متعلق سوالات پوچھنے والوں کے خطوط آرہے ہیں پھر صدر انجمن مقروض ہے اس کا قرضہ دور کرنا ہے اور آئندہ کے اخراجات کے لئے بھی اس کو روپیہ کی ضرورت ہے.یہ سب سلسلہ کی
۲۳۰ ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا تمہار ا فرض ہے اور مجھے امید ہے کہ تم اپنی طاقت کے مطابق کوشش سے دریغ نہ کرو گے.مگر اب بات جو دین کی خدمت کے متعلق قرآن کریم میں آئی ہے وہ تمہیں سنائے دیتا ہوں.اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! خبر دار اپنے کام میں کبھی سست نہ ہو نا اور دینی کاموں میں تکلیف کا کبھی خیال مت کرنا کیونکہ ــ’’ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ.‘‘( النساء :۱۰۵)اگر تم کو کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو کفار کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے جس طرح تم کو پہنچتی ہے اور تم تو اﷲ تعالیٰ سے ان انعامات کے امید وار ہو جن کی انہیں امید نہیں پس تم بھی اس بات کو خوب یاد رکھو بے شک ان آئے دن کے چندوں سے تم کو تکلیف ہوتی ہوگی مگر اسلام کے دشمن بھی اسی طرح اسلام کے برباد کرنے کے لئے اپنی جانیں اور اپنے مال خرچ کر رہے ہیں.پس تکلیف میں تم اور وہ برابر ہو.ہاں تم جن انعامات کے امید وار ہو وہ نہیں.پس کیسے افسوس کی بات ہوگی اگر تم باوجود اس قدر امیدوں کے تھک جاؤ اور دشمن باوجود ہر قسم کی مایوسی کے اپنی محنت نہ چھوڑے اور اپنے کام میں لگا رہے اور جھوٹ کے پھیلانے کے لئے ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کرے.تمہارے لئے خدا تعالیٰ کے انعاموں کا دروازہ کھلا ہے جس قدر حاصل کر سکتے ہو کر لو.اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ اپنے کام کو آپ ہی چلاتا ہے وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں مگر یہ ایک خدمت کا موقع ہے جو اس نے ہماری جماعت کو دیا ہے اور یہ اس کا فضل ہے ورنہ اس کے کام تو بہر حال چلیں گے.کچھ لوگ نکل گئے ہیں تو بھی کام چل رہا ہے.لیکن جو خدا کا کام کرتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے انصار میں داخل ہو جاتا ہے.پس جہاں تک تم سے ہو سکے اپنی طاقت بھرکام کرتے رہو.پچھلے سال ضلع گورداسپور کی جماعت نے چھ سا ت ہزار روپے دیئے تھے امید ہے کہ اس سال بھی علاوہ ماہوار چندوں کے وہ تین ہزار تو اور زیادہ دے گی.انشاء اﷲ تعالیٰ باقی روپیہ کے لئے آپ کوشش کریں.اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے جس کے لئے اس نے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی ہے.آمین
۲۳۱ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم حضرت فضل عمر کی دوسری تقریر (جو ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ پر ہوئی) اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ oبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم.اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ.لَا تَاْخُذُہ، سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌط لَہ، مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ.یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ.وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ.وَلَا یَؤُدُہ، حِفْظُھُمَا.وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.(البقرہ:۲۵۶) میں نے کل آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں ایک ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو ایسی ضروری ہے کہ اس کی ضرورت اس کی عظمت اور اس کی قدر مجھ سے توبیان نہیں ہو سکتی.ہر ایک انسان کی زندگی کا مقصد اور صرف ایک ہی مقصد کسی فرقہ یا قوم یا جماعت کی ترقی کا ذریعہ اور صرف واحد ذریعہ اور انسان کے انسان کہلانے کے ایک ہی ثبوت پر اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں ا س وقت کچھ بیان کروں گا.کل تو اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل رہا کہ میں نے ساڑھے تین گھنٹے تقریر کی لیکن کوئی ایسی تکلیف نہ ہوئی مگر کل کے بولنے سے آج تکلیف ہے اس لئے میں پوری طرح کھول کر اس بات کو نہ بیان کر سکوں گا.اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی اسی پر بولوں گا.شاید کسی کے دل میں شُبہ پیدا ہو کہ ایسی کون سی ضروری بات ہے جس پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی جماعت ترقی ہی نہیں کر سکتی.اس کے سوا کوئی انسان انسان ہی نہیں بن سکتا.اور اس کے بغیر انسانی زندگی کا مقصد ہی پور ا نہیں ہو سکتا پھر اگر کوئی ایسی ہی بات ہے تو یہ کیونکر ممکن
۲۳۲ ہے کہ وہ بات نہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بتائی اور نہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بیان کی.میں ایسا خیال کرنے والوں کو بتاتا ہوں کہ کسی چیز کی عظمت اس کے بار بار سننے سے کم نہیں ہو جاتی.میں کوئی ایسی بات نکال کر نہیں لایا جو پہلے دنیا میں کسی کو معلوم نہ ہو.بات تو وہی ہے جومیرے بیان کرنے سے پہلے آپ لوگوں نے کئی دفعہ سنی ہے مگر جب تک اس پر پورا پورا عملدرآمد نہ ہوجائے اور وہ اچھی طرح قائم نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے بیان کرنے کی ضرورت مٹ نہیں سکتی.دیکھو کونین تپ کے لئے مفید ہے اور روزانہ سینکڑوں تپ کے مریضوں کو دی جاتی ہے مگر جب تک دنیا میں تپ قائم ہے کونین کی بھی ضرورت قائم ہے.اسی طرح پانی ہر ایک جاندار کی زندگی کے لئے ضروری چیز ہے اگر کوئی کسی سے پوچھے کہ مجھے زندگی کے قیام کے لئے جو ضروری چیزیں ہیں وہ بتاؤ اور وہ ان اشیاء میں سے ایک پانی بھی بتائے.تو پانی کا نام سن کر اگر وہ کہے کہ یہ تو ہم روز پیتے ہیں یہ کون سی ایسی ضروری چیز ہے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ جب تک زندگی کا مدار پانی پر ہے اس وقت تک پانی ایک ضروری شئے ہے اور گو انسان دن میں اسے کئی دفعہ پیتاہو پھر بھی اس کی ضرورت میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا.ہوا کے لئے کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی وہ خود بخود سانس کے ذریعہ سے اندر چلی جاتی ہے اور ہمیشہ سے یہی سلسلہ چلا آتا ہے مگر اس طرح اس کی ضرورت اور اہمیت میں کوئی فرق نہیں آتا اور وہ آج بھی ویسی ہی مفید اور ضروری ہے جیسی کسی پہلے زمانہ میں تھی.پس گو آپ لوگوں نے وہ بات جو میں بیان کروں گا پیشتر ازیں بھی سنی ہے مگر جب تک دنیا میں وہ بات قائم نہ ہوجائے اور تمام لوگ اس پر عمل کرنا نہ شروع کر دیں اس وقت تک ہم اسے سنائے ہی جائیں گے.اور اس کی عظمت ہمیشہ ایک سی ہی رہے گی.اب میں وہ بات بیان کرتا ہوں کوئی دوست لکھ لیں تا کہ ان لوگوں کے لئے جو یہاں نہیں آئے محفوظ رہے.اور کسی کے فائدہ کا موجب ہو جائے.مگر میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ اس بات کو معمولی مت سمجھنا وہ در حقیقت ایک بہت بڑی بات ہے بہت سے انسانوں کی تباہی کا باعث یہ امر بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اہم امور کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اس طرح اپنے آپ کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن دانا انسان وہ ہے جو ہرامر پر غور کرے اور گو وہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہو اس کے انجام پرغور کرے اور اس کی اصلیت پر نظر ڈالے میں اس امر کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال بتاتا ہوں.کہتے ہیں کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ ہم تمہیں کل کھانے کے بعد ایک ایسا لڈو کھلائیں گے جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے وہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور سوچا کہ وہ لڈو جو
۲۳۳ کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے وہ تو بہت ہی بڑا ہوگا.دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو ہر ایک کھانے میں سے ایک ایک دو دو لقمہ کھا کر چھوڑ دیتے تو ایسا نہ ہو کہ مختلف کھانوں سے پیٹ بھر جائے اور اس لڈو کا مزا پورے طور پر نہ لے سکیں.جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو بھتیجوں نے کہا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کل تمہیں ایسا لڈو کھلائیں گے جسے ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے اب اپنا وعدہ پورا کیجئے اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور یہ کہہ کر اسی طرح کا ایک لڈو جس طرح کے بازار میں بکتے ہیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا.اس لڈو کو دیکھ کر لڑکوں کو سخت مایوسی ہوئی اور کہا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ایسا لڈو کھلائیں گے جو قریباً ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہوگا لیکن اب آپ نے ایک معمولی سا لڈو سامنے رکھ دیا ہے یہ کیا بات ہے.چچا نے کہا قلم لے کر لکھنا شروع کرو کہ اس لڈو کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہے.میں ثابت کردوں گا کہ واقع میں اس لڈو کو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا ہے اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا.پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا ہے.مثلاً شکر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے ہزار آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی اس شکر کو ملنے والے ہیں ،کوئی رس نکالنے والے کوئی نیشکر کھیت سے لانے والے ،پھر ہل جوتنے والے، پانی دینے والے ،پھر ہل میں جولوہا اور لکڑی خرچ ہوا اس لوہے کے نکالنے ،صاف کرنے اور بنانے والے لکڑی کے کاٹنے اور گھڑنے والے.غرض اسی طرح سب آدمیوں کا حساب لگاؤ ں تو کس قدر بنتے ہیں.پھر شکر کے سوا اس میں آٹا ہے اس کے بنانے والے جس قدر ہیں اس کا اندازہ لگاؤ اسی طرح اگر تم تما م چیزوں کے بنانے والوں کا شمار کرو، تو کیا کئی لاکھ بنتے ہیں یا نہیں ؟ بھتیجوں نے یہ بات سن کر کہا ہاں ٹھیک ہے.پس آپ لوگ بھی خوب یاد رکھیں کہ کسی چیز کی اہمیت اس کے حجم یا قد پر نہیں ہوتی بلکہ اس کے انجام اور فوائد پر اہمیت کی بناء ہوتی ہے اور جو بات میں اس وقت بیان کروں گا وہ نہایت اہم ہے پس کوئی شخص اسے معمولی خیال نہ کرے اور ان بچوں کی طرح فوراً مایوس نہ ہو جائے اور یہ نہ کہہ اٹھے کہ معمولی بات ہے گو وہ بات نظر میں چھوٹی معلوم ہو لیکن فی الحقیقت بہت بڑی ہے.اگر تم اس کو سیکھ لو گے اور اس پر عمل کرو گے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ ایسے انسان کو دین و دنیا میں معزز کردے گا.اور مجھے اس وعدہ پر اتنا یقین ہے کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس پر عامل ہو گے تو ضرور تم سے وہ وعدہ پورا ہوگا.
۲۳۴ قرب الٰہی کا ذریعہ :لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا کیا ذریعہ ہے.تم خوب یاد رکھو کہ اگر تم اس بات پر عمل کرو گے تو تمہیں اگلے جہاں میں ہی نہیں بلکہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے گا.اور مرنے کے بعد ہی خدا تعالیٰ تم سے کلام نہیں کرے گا بلکہ اسی دنیامیں کرے گا.مگر بہت غور سے کام لو.میں جانتا ہوں اور یہ ایک عام رواج ہے کہ جب لوگ کوئی عمدہ لیکچر سنتے ہیں تو بعد میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ خوب مزا آیا بڑی عمدہ تقریر تھی وغیرہ وغیرہ.لیکن وہ اس درد کو محسوس نہیں کرتے جس سے کہنے والا انہیں کہتا ہے.لیکچر سننے کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیئے.بولنے والے نے تواپنی جان کھپا دی لیکن سننے والوں نے صرف خوب مزا آیا میں بات اڑا دی.آپ لوگ یہاں مزے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہنسی کے وعظ سننے کے لئے جمع ہوئے ہو.اگر کوئی اس غرض سے آیا ہے تو جو روپیہ اس کے آنے جانے پر صرف ہوا ہے اس کے متعلق وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا.پس تم ہر ایک لیکچر کو غور سے سنو اور کان کھول کر سنو پھر اس کو یاد رکھو اور اس پر عمل کرو.میں اﷲ تعالیٰ سے اس کے لئے توفیق چاہتا ہوں کہ اگر میں بسترِ مرگ پر بھی ہوؤں تو یہی میری آخری بات ہو اور اگر کوئی میری پہلی بات ہو تو وہ بھی یہی ہو.اس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری باتیں ہیچ ہیں نعمتیں بے قدر ہیں مال و اموال ناکارہ ہیں اور آرام و آسائش کے سامان بے حقیقت ہیں.آج کل یہ ایک بہت بڑا نقص پیدا ہو گیا ہے کہ عام طور پر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ لیکچروں میں مزہ کیا آتا ہے.مگر میرے پیارو ! تم روپیہ خرچ کر کے مزے یا تماشہ کے لئے یہاں نہیں آئے.تمہارے یہاں آنے کی کوئی اور ہی غرض تھی اور ہم نے جو تمہیں یہاں بلایا ہے ہماری بھی کوئی اور ہی غرض تھی.پس اگر کوئی اس غرض کو نہیں سمجھا تو وہ ہمارے لئے نہیں آیا بلکہ اپنے نفس کے خوش کرنے کے لئے آیا ہے اور جو کوئی مزہ لینے یا تماشہ دیکھنے کے لئے آیا ہے اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے اگر کسی کا ایسا خیال تھا تو وہ توبہ اور استغفار کر لے.کیونکہ ایسا انسان جو وقت اور روپیہ ضائع کر کے وطن اور عزیزوں کو چھوڑ کر تماشہ کے لئے کہیں جاتا ہے اس کوخدا تعالیٰ کے حضور ایک ایک پیسہ اور ایک ایک لمحہ کے لئے جواب دہ ہو نا پڑے گا کہ اس نے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کو کیوں اس طرح ضائع کر دیا.پس اپنے سینوں کو ٹٹولو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.لیکچر مزے کی خاطر نہ سنو.لیکچر میں ہر قسم کی باتیں ہوتی ہیں.بعض ہنسی کی بھی ہوتی ہیں مگر تمہاری کبھی یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ وعظ میں ہنسی کی باتیں ہوں اور ان کو تم اشتیاق سے سنو تم وعظ میں یہ نہ دیکھو کہ ہنسی ہے
۲۳۵ یا رونا بلکہ یہ دیکھو کہ کہنے والا کہتا کیا ہے اور اگر کوئی بات تمہیں کڑوی لگے تو اس پر غور کرو اور اگر میٹھی لگے تو اس پر عمل کر کے دکھاؤ اور لطیفہ سننے کے لئے کسی لیکچر میں نہ بیٹھو لیکچروں میں حاضر ہونے والوں میں ایک اور بھی نقص ہوتاہے اور وہ یہ کہ ہر ایک سننے والا یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں پاک اور مطہّر ہوں یہ جو وعظ ہو رہا ہے یہ میرے ارد گرد بیٹھنے والوں کے لئے ہے حالانکہ اس خیال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں اور وعظ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا.پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک شخص یہ سمجھ لے کہ میرے وعظ کا مخاطب سب سے پہلے وہی ہے اور یہ خیال کر لے جو کچھ کہا گیا ہے مجھے ہی کہا گیا ہے پس اگر کوئی ولی بیٹھا ہوتو وہ بھی میرا مخاطب ہے اور اگر کوئی گندے سے گندہ انسان بیٹھا ہے تو وہ بھی.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نہیں بلکہ دوسرے مخاطب ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.کسی بادشاہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس نے اپنے درباریوں کی اطاعت اور فرمانبرداری آزمانے کے لئے حکم دیا کہ کل رات تم سب فلاں تالاب میں ایک ایک لوٹا پانی کا ڈالنا.وہ جب اپنے اپنے گھر گئے تو ہر ایک نے یہ خیال کر لیا ہم کہاں پانی کا لوٹا اٹھائے ہوئے جائیں.وہ وزراء و امراء جن کو رومال اٹھانا دوبھر تھا بھلا وہ پانی کا لوٹا کس طرح اٹھا سکتے تھے ان میں سے ہر ایک نے یہ سمجھ لیا کہ میرے لوٹا ڈالنے سے تالاب تو بھر نہیں جائے گا اور ہزاروں آدمی لوٹے ڈالیں گے بادشاہ کومیرے لوٹے کا کیا پتہ لگے گا کہ اس نے ڈالا ہے یا نہیں چنانچہ ہر ایک ان میں سے یہی خیال کر کے گھر بیٹھ رہا اور کسی نے لوٹا نہ ڈالا تالاب بالکل خشک رہا بادشاہ نے جب تالاب کو دیکھا تو خشک پڑا تھا.اس نے سب درباریوں کو ملامت کی اور کہا کہ شرم کرو کیا حکم کی تعمیل اسی طرح ہوا کرتی ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ شرمندہ اور نادم ہوتے ایک دوسرے کو کہنے لگے تم نے کیوں پانی کا لوٹا نہ ڈالا.میں تو یہ خیال کر کے بیٹھ رہا کہ باقی جو ڈالیں گے تو میرے ایک لوٹا نہ ڈالنے سے کیا نقصان ہو جائے گا تم لوگوں نے سستی کر کے میری بھی ذلت کرائی اور اس طرح ہر ایک نے اپنی سستی اور نالائقی کو دوسرے کے سر تھوپنا چاہا.اگر وعظوں کے سننے والے بھی اسی طرح اپنے دل میں خیال کریں کہ واعظ کے وعظ کے ہم مخاطب نہیں بلکہ اور لوگ ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ سب ہی کورے رہ جائیں گے لیکن جب ہر ایک شخص یہ سمجھے کہ جو کچھ کہا گیا ہے مجھے ہی کہا گیا ہے اور مجھے ہی اس کی تعمیل کرنی ضروری ہے تو سب کے سب نفع اٹھا سکیں گے.پھر اگر کوئی ایسا بھی ہو جس کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے تو لَا یَشْقیٰ جَلِیْسُھُمْ کے ماتحت ہی خدا تعالیٰ اس پر بھی پردہ ڈال دے گا.کیونکہ دوسروں کی بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے غریبوں کے پردے بھی
۲۳۶ ڈھک جاتے ہیں.مثلاً اگربادشاہ کے درباری اپنے اپنے لوٹے ڈال دیتے اور کوئی دو چار نہ بھی ڈالتے تو کیا پتہ لگنا تھا کہ انہوں نے نہیں ڈالے.پس جو کچھ کہا جائے اس کا مخاطب ہر ایک فرد ہے بڑے سے لے کر چھوٹے تک اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ میرا ساتھی مخاطب ہے تب جا کر نفع حاصل ہوگا.عظیم الشان بات : اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا شئے ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو بلاتا ہوں اور وہ کون سا نکتہ ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سنو! وہ ایک لفظ ہے زیادہ نہیں صرف ایک ہی لفظ ہے اور وہ اﷲ ہے اسی کی طرف میں تم سب کو بلاتا ہوں اور اپنے نفس کو بھی اسی کی طرف بلاتا ہوں اسی کے لئے میری پکار ہے اور اسی کی طرف جانے کے لئے میں بگل بجاتا ہوں.پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے آئے اور جس کو خدا تعالیٰ ہدایت دے وہ اسے قبول کرے.سب سے زیادہ حسین :دنیامیں بہت سی چیزیں ہیں.جو بڑی حسین اور بڑی خوبصورت ہیں.لیکن جو کوئی چیز بھی دنیا میں ممکن سے ممکن حسین ہو سکتی ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے.خدا تعالیٰ نے ہی اس کو حسن اور خوبی دی ہے.اس لئے اس کے حسن کو کوئی نہیں پہنچ سکتی.مگر باوجود اس کے کہ اﷲ تعالیٰ سب سے زیادہ حسین ہے.سب سے زیادہ پیار اہے سب سے زیادہ خیرو برکت رکھنے والا ہے.مگر دنیا اور نااہل دنیا اس کوحقارت اور ناقدری کی نظر سے دیکھتی ہے.وہ ربّ العٰلمین ہے اور اس کی عظمت اور دبدبہ کے سامنے سب چیزیں ہیچ ہیں.مگر اس سے جو سلوک دنیا کر رہی ہے وہ بہت نفرت اور حقارت کے قابل ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول اپنے ایک استاد کا ذکر سنایاکرتے تھے کہ انہوں نے بھوپال میں خواب میں دیکھا کہ میں شہر سے باہر ایک پل کے پاس کھڑا ہوں وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کوڑھی پڑا ہے جس کے تمام جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں.اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور سخت تکلیف کی حالت میں ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو.اس نے کہا میں اﷲ میاں ہوں تمہار ا خدا ہوں.میں نے کہا ہم نے تو قرآن شریف میں اپنے خدا کی بڑی تعریفیں پڑھی ہیں کہ وہ ایسا خوبصورت ہے کہ اور کوئی اس کی مانند ہے ہی نہیں یہ آپ کی کیا حالت ہے.اس نے آگے سے جواب دیا کہ تم یہ جو شکل میری دیکھ رہے ہو یہ میری اصل شکل نہیں ہے بلکہ بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں میری یہ شکل ہے.پس تم لوگ بھی اپنے دلوں کو ٹٹولو اپنے اعمال کو ،اپنی باتوں کو،اپنے اقوال کو، اپنی حرکات کو، اپنی سکنات کو دیکھو کہ
۲۳۷ دنیا کی جو چیزیں تمہیں پیاری لگتی ہیں ان کے مقابلہ میں تمہارے سامنے اﷲ تعالیٰ کی کیا شکل ہے.آیا بھوپال والا خدا تو نہیں ہے یا اس کے قریب قریب ہے.مگر خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ سب بدصورتیوں ،ساری بدیوں اور تمام برائیوں سے پاک اور منزّہ ہے.آدم علیہ السلام کا قصہ: یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ مسلمان آدم ؑ کا قصہ قرآن شریف میں پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیوں اس نے شیطان کا کہا مان کر ایک دانہ کے لالچ سے ہمیں ہمیشہ کی رہنے والی جنت سے نکال دیا.اگر ہم ہوتے تو کبھی شیطان کا کہنا نہ مانتے.مگر وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ آدم ؑ کو ہی شیطان نے جنت سے نہیں نکالا بلکہ ہمیں بھی نکال رہا ہے.وہ آدم ؑ کے ایک دفعہ دھوکا کھانے پر دل ہی دل میں برا کہتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ہر روز شیطان دھوکا دے رہا ہے اور ان کی بغل میں بیٹھا ہے.وہ یہ تو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آدم ؑ نے کیوں دھوکا کھایا مگر یہ نہیں جانتے کہ شیطان ہمارے پاس ہی بیٹھا ہو اہم سے بد کاریاں کرا رہا ہے ان کو چاہئے تھا کہ بجائے آدم ؑ پر اظہار افسوس اور رنج کرنے کے اپنے نفس پر کرتے.آدم ؑ لوگوں کو جنت سے کیا نکال سکتے تھے.ہر ایک انسان اپنے ہاتھ سے ہی جنت سے نکلتا ہے.آدم ؑ کی وجہ سے کوئی جنت سے نہیں نکالا جاتا.عیسائی کہتے ہیں کہ گناہ ہمیں آدم ؑ سے ورثہ میں ملا ہے اور اسی کے سبب ہم جنت سے نکالے گئے ہیں.لیکن قرآن شریف میں تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.(التین :۵)ہم نے انسان کو اچھی سے اچھی حالت میں پیدا کیا ہے جب خدا نے انسان کو اچھی حالت میں پیدا کیا ہے.تو پھر جنت سے وہ کسی کے گناہ کے بدلہ اسے کہاں نکالتا ہے.ہر ایک بچہ جو پید ا ہوتا ہے اس کا مکان جنت میں ہوتا ہے لیکن پھر وہ اپنے ہاتھ سے جنت کے گھر کو گرا کر دوزخ میں بناتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں یہ خیال مت کرو کہ کوئی اور آدم تھا جس کو شیطان نے جنت سے نکالا تھا بلکہ تم ہی ہو جن کے پیچھے شیطان لگا رہتا ہے اور کئی لوگوں کو جنت سے نکال دیتا ہے.اگر کوئی شیطان کے قبضہ میں ہے تو وہ بھی اور اگر کوئی نہیں تو وہ بھی ہر وقت ہوشیار اور چوکس رہے تب ہی فائدہ ہوگا اگر ایک مجلس بیٹھی ہوئی ہو اور انہیں ایک آدمی آکر کہے کہ تم میں سے ایک آدمی کو پھانسی دی جائے گی.پھر اگر وہ یہ سن کر سب کے سب وہاں بیٹھے رہیں اور ہر ایک یہ خیال کرے کہ مجھے نہیں کسی دوسرے کو پھانسی ملے گی تو ان میں سے ایک نہ ایک ضرور ملے گا.لیکن اگر سب کے سب اس جگہ سے چلے جائیں تو گویا ہر ایک کی جان بچ گئی کیونکہ کون بتا سکتا کہ
۳۳۸ پھانسی پانے والا کون تھا.ہوشیار ہو جاؤ: میں تمہیں بڑے زور سے بتلا تا ہوں کہ دنیا میں لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے ہیں.حالانکہ اس سے بڑھ کر خوبصورت ،اس سے بڑھ کر محبت کرنے والا، اس سے بڑھ کر پیار ااور کوئی نہیں ہے.تم لوگ اگر پیار کرو تو اس سے کرو.محبت لگاؤ تو اسی سے لگاؤ ،ڈرو تو اسی سے ڈرو،خوف کرو تو اسی سے کرو.اگر وہ تمہیں حاصل ہو جائے تو پھر تمہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں رہ جاتی اور کوئی روک تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی.پس تم اپنے نفسوں کو پگھلاؤ اور تبدیلی پیدا کرلو.اﷲ تعالیٰ کیا ہے اور کیسا خوبصورت ہے اس کا بیان سورہ فاتحہ میں پڑھ لو.اگر تم اس کی خوبصورتی کا ایک جلوہ دیکھ لو.تو پھر کسی خوبصورتی کے دیکھنے کی تمہیں حاجت نہیں ہے.انسان دنیا کی کسی خوبصورت چیز کو دیکھ کر اس پر لٹو ہو جاتا ہے.لیکن اسے دل میں سوچنا چاہئے کہ جس ہستی نے اس خوبصورت چیز کو بنایا ہے وہ کس قدر خوبصورت ہوگی.اﷲ تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے کے لئے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے.ہر انسان کے دل میں خدا کا جلوہ ہے.اگر وہ غور کرے تو بہت جلد ی اس تک پہنچ سکتا ہے.دنیا کی ہر ایک چیز اور ایک ایک ذرّہ خدا تعالیٰ کے وجود پر شہادت دے رہا ہے.اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو پکار پکار کر خالقِ کون و مکان کی گواہی نہ دے رہی ہو.کاغذ ،قلم ،میز کرسی، زمین جس پر تم بیٹھے ہو، کپڑے جو تم پہنے ہوئے ہو، تمہارے ہاتھ ،پاؤں ،ناک، کان، ہر ایک خدا کی ہستی پر دلالت کر رہے ہیں.عمدہ کپڑے ، خوبصورت عورت ،اعلیٰ خوراک، مال و دولت کو لوگ پسند کرتے ہیں.لیکن ہم کہتے ہیں کہ ذرا تم اس بات پرتو غور کرو کہ جو ان کو پیدا کرنے والا ہے وہ کس قدر خوبصورت ہوگا.پھر تم کیوں اس سے محبت نہیں کرتے.’’اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ.لَا تاْخُذُہ، سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ.لَہ، مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ، اِلَّا بِاِذْنِہٖ.یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ.وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ.وَلَا یَؤُدُہ، حِفْظُھُمَا.وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.‘‘ (البقرہ:۲۵۶) یہ بڑی زبردست آیات ہیں.ان میں نہایت عالیشان تعلیم ہے رسول کریم ﷺ رات کو سوتے وقت تین دفعہ ان آیات کو پڑھ کر اپنے بدن پر پھونکتے تھے.پس ہر ایک مسلمان پر آپ کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے.ان آیات میں پہلی بات جس کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اَللّٰہْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھْوَہے یعنی اے انسان خدا کو دیکھ کہ صرف وہی تیر امعبود ہے.اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے.دنیا میں ہر ایک چیز کی قدر اسکی کمیابی اور بہتات کی وجہ سے ہوتی ہے
۲۳۹ مثلاً پانی ایک بہت ضروری چیز ہے مگر لوگ اسے سنبھال کر نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس وقت اس کی ضرورت پڑے گی اسی وقت مل جائے گا.ہوا صحت کے لئے کیسی ضروری چیز ہے مگر کوئی انسان اس کو سنبھالتا نہیں کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جب اس کی ضرورت ہوگی تو وہ خود ہی ناک اور منہ کے راستہ اندر چلی جائے گی.لیکن یہی پانی جس کی عام طور پر قدر نہیں کی جاتی اور کوئی قیمتی چیز معلوم نہیں ہوتا ایک ایسے جنگل میں جہاں پانی کا نام و نشان نہ ہو نہایت قیمتی ہو جاتا ہے اور اگر اس وقت کسی کے پاس ایک گلاس پانی کا ہو تو وہ کروڑوں روپے پر بھی اسے نہیں دیتا.تو ہر ایک چیز کی قیمت اس کی ضرورت کے مطابق گھٹتی بڑھتی ہے.دیکھو غلہ جس وقت زیادہ ہوتاہے اس وقت سستا ہوتا ہے اور جب کم ہوتا ہے تو مہنگا ہوجاتا ہے.اسی طرح اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ ایک نہ ملا تو نہ سہی اور مل جائے گا مگر.اَللّٰہْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھْوَ: صرف ایک ہی اﷲ ہے.اگر کوئی کہے کہ اس کو چھوڑ کر اور کسی کی تلاش کر لوں گا تو ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اﷲ تعالیٰ ایک ہی ہے دو نہیں ،تین نہیں ، چار نہیں ،اور ہزاروں لاکھوں نہیں.جب ایک ہی اﷲ ہے تو اس کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤ گے.پھر ہر وقت تمہیں اس کی ضرورت ہے اور ہر لمحہ تم اس کے محتاج ہو.دنیا میں لوگ بادشاہوں کو ناراض کر لیتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ کیا ہوا اگر یہ بادشاہ ناراض ہو گیا تو اس کے ملک کو چھوڑ کر دوسرے کے ملک میں چلے جائیں گے بات ہی کون سی ہے چین کا بادشاہ اگر ظالم ہے ،تو ایران میں.ایران کا بادشاہ ظالم ہے تو انگلستان میں کوئی پناہ لے سکتا ہے.لیکن اﷲ سے بھاگ کر کوئی کہاں جائے گا کیونکہ کوئی ایسی زمین نہیں ہے جو خدا کی نہ ہو اور کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو خدا کے قبضہ میں نہ ہو.کوئی دوسرا خدا نہیں ہے کہ انسان اس کی مدد تلاش کرے.ہندوؤں کا خیال ہے کہ کئی خدا ہیں اور ان کے خداؤں میں جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے کہ شِو نے ایک آدمی پر ناراض ہو کر اسے مار ڈالا لیکن وہ بر ہما خدا کا پیارا تھا اس نے کہا ہم پیدا کرنے والے ہیں ہم اس کو زندہ کر لیں گے برہمانے اسے زندہ کر دیا.غرض شِو اسے مارتے جاتے اور برہما زندہ کرتے جاتے یہی ان کا جھگڑا لگا رہا.یہ ہندوؤں کے خیالات ہیں مگر ہمارے ہاں تو ایسے خدا نہیں ہیں کہ ایک مارے تو دوسرا زندہ کرلے.ایک ناراض ہو تو دوسرا راضی ہو جائے.دیکھو ایک نو کر اپنے آقا کو جواب دے سکتا ہے کہ میں تمہاری نوکری نہیں کرتا کیونکہ نوکری اسے دوسری جگہ مل جاتی ہے.مگر ہم خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک ہی ہمارا آقا ہے اور اسکے سوا اور کوئی نہیں ہے.
۲۴۰ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ : پھرآقا ایسا بھی ہوتا ہے جو مر جاتا ہے مگر ہمارا آقا وہ ہے جسے کبھی موت نہیں آسکتی.وہ الحی ہے اور ایسا آقا نہیں کہ اس سے کبھی قطع تعلق ہو جائے پھر وہ القیوم ہے.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اب تو میرا یہ آقا ہے لیکن پہلے میں فلاں کے پاس ملازم رہ چکا ہوں اس لئے اس کا بھی مجھ پر احسان ہے اور مجھے اس کی قدر کرنی بھی ضروری ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تمہارا آج خدا نہیں بنا بلکہ ہمیشہ سے خدا ہوں تم پر کسی کا پچھلا احسان نہیں ہے.میں وہ خدا ہوں جو ہمیشہ سے قائم رہنے والا اور تمہیں قائم رکھنے والا ہوں.ا س لئے تم پر میر ا ہی احسان ہے.قیوم کے دو معنے ہیں (۱) ہمیشہ سے قائم رہنے والا (۲) سب کو قائم رکھنے والا.لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ: کوئی کہے کہ مان لیا خدا ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے.وہ ہمیشہ زندہ ہے اور وہی ہمارا پہلے آقا تھا وہی اب ہے مگر کبھی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ خدا کو نیند آئے اور وہ سو جائے تو اس وقت اس کی جگہ اس کے درباری کاروبار کریں اس لئے ہمیں انہیں بھی خوش رکھنا چاہئے اور ان کی خوشامد کرنی چاہئے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا وہ اﷲ ہے کہ اسکو کبھی اونگھ اور نیند نہیں آتی.تم اس کو دنیا وی بادشاہوں اور حاکموں کی طرح نہ سمجھو جہاں کہ تمہیں درباریوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.تمہارا رب ایسا نہیں کہ کبھی اسے اونگھ آئے یا وہ سو جائے وہ ہر وقت جاگتا ہے اور ہر ایک بات کا خود نگران ہے.اس میں اﷲ تعالیٰ نے کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے فرمایا لا تَاْخُذُہ، سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ کہ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند.ترتیب کلام کا یہ قاعدہ ہے کہ پہلے چھوٹی باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور پھر بڑی کا.اگر اس کے خلاف کیا جائے تو کلام غلط ہو جاتا ہے.مثلاً یہ تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سخت بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو تھوڑا بھی بیمار نہ تھا.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص تھوڑا بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو زیادہ بھی نہ تھا تو فقرہ غلط ہو جاتا ہے اس لئے پہلے بڑا اور پھر چھوٹا درجہ کسی چیز کا بیان کیا جاتا ہے مگر یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند حالانکہ جب اونگھ کی نفی کر دی گئی تھی تو نیند کی خود ہی نفی ہو گئی پھر نیند کی نفی کی کیا ضرورت تھی.لیکن خدا تعالیٰ کا کلام کبھی لغو نہیں ہوتا اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ سِنَۃٌ اس کو کہتے ہیں کہ جب سخت نیند کی وجہ سے انسان کی آنکھیں بند ہو جائیں.چنانچہ جب انسان کو بہت زیادہ نیند آئی ہوتی ہے اسی وقت اونگھ آتی ہے
۲۴۱ اور جب تک نیند کا غلبہ نہ ہو اونگھ نہیں آتی.تو فرمایا کہ خدا کو کبھی اونگھ نہیں آئی کہ کام کرنے کی وجہ سے وہ تھک گیا ہو.اور اس پر نیند کا ایسا غلبہ ہوا ہو کہ اس کی آنکھیں بند ہو گئی ہوں اور نہ اسے معمولی نیند آتی ہے.لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَما فِی الْاَرْضِ مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعْ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ: خدا تعالیٰ فرماتا ہے اب بتاؤ کہ جب تمہارا ایسا آقا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے تو اس کے مقابلہ میں اور کسی کو تم کس طرح اپنا آقا بنا سکتے ہو.پھر لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سوا اور کسی کو نہیں پوجتے.اور غیر اﷲ کی عبادت نہیں کرتے ہیں البتہ اس لئے ان کی نیاز یں دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ہماری شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا.اس زمانہ میں مسیح موعودؑ سے بڑھ کر کس نے بڑا نسان ہونا تھا.لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ جب نواب صاحب کے لڑکے عبد الرحیم خان کے لئے جبکہ وہ بیمار تھا دعا کی تو الہام ہوا کہ یہ بچتا نہیں.آپ کو خیال آیا کہ نواب صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان آرہے ہیں ان کا لڑکا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلاء نہ آجائے اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ الٰہی میں اس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کرتا ہوں.الہام ہوا مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعْ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖتم کون ہو کہ میری اجازت کے بغیر شفاعت کرتے ہو.دیکھو مسیح موعودؑ کتنا بڑا انسان تھا تیر ہ سو سال سے اس کی دنیا کو انتظار تھی مگر وہ بھی جب سفارش کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہوتے کون ہو کہ بلا اجازت سفارش کرو.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے یہ الہام ہوا تو میں گر پڑا اور بدن پر رعشہ شروع ہو گیا قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی لیکن جب یہ حالت ہوئی تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا ہم شفاعت کی اجازت دیتے ہیں شفاعت کرو.چنانچہ آپ نے شفاعت کی اور عبد الرحیم خان اچھے ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا مگر مسیح موعودؑ جیسے انسان کو جب اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم کون ہو جو سفارش کرو تو اور جو لوگ بڑے بنے پھرتے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے کہ کسی کی سفارش کر سکیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کو آنحضرت ﷺ کو اذن ہوگا تب آپ سفارش کریں گے.پھر کیسا نادان ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ فلاں میری سفارش کر سکے گا.
۲۴۲ یَعْلَمْ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھْمْ: پھر ایک اور بات رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ کوئی کہہ سکتا ہے.مانا کہ شفاعت بلا اجازت نہیں ہوسکتی لیکن بادشاہ کے جس طرح درباری ہوتے ہیں اور انکے ذریعے بادشاہ تک رسائی حاصل کر کے فائدہ اٹھا یا جاتا ہے اسی طرح اﷲ کے بھی درباری ہونے چاہئیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.ان احمقوں کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ دنیا کے بادشاہ کیوں درباری رکھتے ہیں وہ تو اس لئے رکھتے ہیں کہ انہیں ان سے حالات معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بادشاہ نہیں جانتا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے.مثلاً ہمارے بادشاہ کو انگلستان میں بیٹھے ہوئے خود بخود کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اس لئے حالات معلوم کرنے کے لئے وائسرا ے مقرر کیا گیا ہے.پھر وائسرائے کو خود بخود کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ سارے ہندوستان کے شمال و جنوب مشرق و مغرب میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس لئے لیفٹنٹ گورنر مقرر کئے گئے.پھر لیفٹنٹ گورنروں کو سارے صوبہ کا کیا حال معلوم ہو سکتا ہے.اس لئے ڈپٹی کمشنر مقرر کئے گئے ہیں.اسی طرح ڈپٹی کمشنروں کو حالات معلوم کرانے کے لئے تحصیلدار ،نائب تحصیلدار ،نمبردار ،پٹواری اور چوکیدار رکھے گئے ہیں.اور اس طرح تمام سلطنت کی خبریں اور راز بادشاہ تک پہنچتے ہیں ورنہ انہیں خود بخود معلوم نہیں ہوسکتے.اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اﷲ تو تمہاری اگلی پچھلی ساری باتیں جانتا ہے پھر اس کو درباری رکھنے کی کیا ضرورت ہے یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ کے دو معنی ہیں (۱) اﷲ تعالیٰ جانتا ہے اس کو جو آگے ہونا ہے اور جو کچھ تم پیچھے کر چکے ہو.(۲) اﷲ جانتا ہے ان کو جو کام تم نے کئے ہیں اور جونیک کام کرنے چاہئیں تھے لیکن انہیں ترک کر دیا ہے.پھر اس کو کیا ضرورت ہے کہ درباری رکھے.وَلَا یْحِیْطْوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ : اور اس کے علم کو کوئی کہاں پہنچ سکتا ہے.کسی کو اس کی حقیقت اپنی کوشش سے معلوم نہیں ہوسکتی ہاں جس کو وہ آپ ہی بتا دے اور جس قدر بتادے وہ اتنا جانتا ہے.وَسِعَ کْرْسِیُّْہْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْ ضَ: اور تمام آسمانوں اور زمین پر اس کا علم حاوی ہے.وَلَا یَوءُ دْہ‘ حِفْظْھْمَا : پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے چیزوں کا علم حاصل کرنے کے لئے اپنے درباری مقرر نہیں کئے ہوئے لیکن کام کرنے کے لئے ضرور کچھ مددگار مقررکئے ہوں گے کیونکہ دنیا کے بادشاہ فوج اور پولیس حفاظت کے لئے اور کاروبار کے لئے
۲۴۳ رکھتے ہیں.فرمایا اﷲ کو اس کی بھی ضرورت نہیں ہے.وہ سب کام خود کر رہا ہے اور اﷲ کی طاقت ایسی وسیع ہے کہ کوئی چیز اس کے قبضہ سے باہر نہیں اور نہ کسی چیز کا انتظام اور حفاظت اس کوتھکا سکتا ہے.وَھُوَا لْعَلِیُّ الْعَظِیْم: اب ایک ہی اعتراض رہ جاتا تھا اور وہ یہ کہ مانا کہ خدا کو علم کے لئے اور مدد کے لئے کسی کی ضرورت نہیں مگر شان و شوکت بھی تو کوئی چیز ہے اس کے اظہار کے لئے ہی اس نے درباری مقرر کئے ہوں گے.اس اعتراض کو وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم کہہ کر رد فرما دیا.یعنے وہ بہت بڑا ہے اور کوئی چیز نہیں ہے جو اس کے ساتھ مل کر اس کے رتبہ کو بڑھا سکے.جو چیز خدا کے ساتھ ملے گی اس کا اپنا ہی رتبہ بڑھے گا نہ کہ خدا کا.پس یہ خیال کرنا کہ اﷲ نے شان و شوکت کے لئے درباری مقرر کئے ہوں گے ٹھیک نہیں ہے.وہ سب چیزوں پر غالب ہے اس لئے اس کی فرمانبرداری کرنے سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتی.یہ وہ خدا ہے جو واقعی خدا ہے اور ایسا کوئی اور نہیں ہے.اگر ایسے خدا کے ہوتے ہوئے کوئی کسی اور کی طرف جائے تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہے.اگر کسی شخص کو نہایت عمدہ کھانا ملے اور وہ اسے چھوڑ کر نجاست کی طر ف دوڑے.اگر کسی شخص کو عمدہ کپڑا ملے اور وہ اسے چھوڑ کر میلی کچیلی لنگوٹی باندھ لے تو بتاؤ وہ دانا اور عقلمند کہے جانے کے قابل ہے ہرگز نہیں.دانا وہی ہے جو بہتر چیز کو پسند کرے.پس اﷲ تعالیٰ سے بہتر کوئی نہیں ہے.میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اﷲ ہی ہر وقت تمہارے مد نظر ہو کیونکہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی تمام چیزیں ہیچ ہیں اور کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.دیکھو چاند چمکتا ہے اور نہایت بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ چاند کاذاتی فخر ہے نہیں ایسا نہیں.چاند در حقیقت سورج کی چمک کو ظاہر کرنے کافخر رکھتا ہے لیکن کیا پھر سورج کی روشنی اس کی ذاتی روشنی ہے نہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے روشنی حاصل کرتا ہے پس چاند اگر چمکتا ہے اور سورج اگر روشن ہے اور یہ دونوں ہمیں خوبصورت اور مفید معلوم ہوتے ہیں تو ان کا خوبصورت ہونا اور مفید ہونا دراصل ہمیں اﷲ تعالیٰ کے حسن اور اس کے رحیم کریم ہونے کی طرف متوجہ کر رہا ہے.اسی طرح دنیا میں جس قدر بھی خوبصورت چیزیں ہیں ہم انہیں خوبصورت کہتے ہیں مگر ان کو اﷲ تعالیٰ سے ہی خوبصورتی ملی ہے اس لئے وہی سب خوبصورتیوں والا ہے.اسی لئے سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ تما م تعریفیں اﷲ کے لئے ہی ہیں اور وں کے لئے اس لئے نہیں کہ خدا رب العلمین ہے.سب کو
۲۴۴ وہی پیدا کرنے والا اور سب کی وہی پرورش کرنے والا ہے.پس جب ساری چیزوں کی وہی ربوبیت کرتا ہے تو کیوں اسی کے لئے سب تعریفیں نہ ہوں.ماں باپ بچہ کی ربوبیت کرتے ہیں مگر جانتے ہو ان کے دل میں بچہ کی محبت کس نے ڈالی خدا نے ہی ڈالی ہے.اگر سائل کو کوئی ایک پیسہ دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس نے اچھا کام کیا ہے مگر اس کام کے کرنے کی تحریک اﷲ تعالیٰ نے ہی اس کے دل میں ڈالی ہے.اسی طرح جو نیک کام کوئی شخص کرتا ہے وہ اصل میں اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے اصل حمد کے لائق خدا تعالیٰ ہی ہے.مثلاً ایک آقا اپنے ملازم کو کہے کہ یہ روپیہ فقیروں میں تقسیم کر دو تو گو تقسیم تو وہ خادم ہی کرے گا لیکن تعریف آقا ہی کے لئے ہے.پس انسان جو کسی سے نیک سلوک کرتا ہے تو وہ آقا کے مال کو تقسیم کرنے کی طرح ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے کرتا ہے کیونکہ کوئی چیز اس کی نہیں بلکہ ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کی ہے.تو جتنا کسی میں احسان ‘مروّت ‘حسن اور خوبصورتی ہے وہ اﷲ ہی کی ہے کیونکہ تمام دنیا اس کی خادم ہے اور اس کے سوا اور کوئی آقا نہیں ہے.لوگوں کو دین میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.ماں ‘باپ ‘بیوی ‘بچوں‘مال و دولت‘خویش ‘اقرباء کی وجہ سے.مگر یاد رکھو کہ اﷲ اﷲ ہی ہے اور بندے بندے ہی ہیں.تم ہر بات میں یہ تحقیق کر لیا کرو کہ خدا کی مرضی کیا ہے اور جب خدا تعالیٰ کی مرضی معلوم ہو جائے توپھر خواہ کوئی چیز قربان کرنی پڑے تمہارے مد نظر خدا ہی کی رضا ہو.شرک سے بچو: اس سے بڑھ کر میں ایک اور بات بتاتاہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو چاہئے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اﷲ ایک ہے.میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی احمدی مشرک نہیں ہے.اﷲ تعالیٰ نے ان کو موحّد بننے کی توفیق دی ہے اس لئے مجھے یہ تو ڈر نہیں کہ کوئی احمدی بتوں کے آگے سجدہ کرے گا یا خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کادامن پکڑنے کی کوشش کرے گا.باقی دنیا نے تو دین کو چھوڑ دیا ہے مگر تم وہ جماعت ہو جس نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.پھر خدا تعالیٰ نے اس جماعت سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اسے بڑھاؤں گا اور یہ ایک برگزیدہ جماعت ہے اس لئے اس جماعت کے متعلق صریح شرک کا احتما ل نہیں کیا جا سکتا.مگر میں تمہیں اس بات سے آگاہ کرتا ہوں کہ بہت سا دین ایسا ہوتا ہے کہ وہ دنیا ہو جاتا ہے اور ایسا دین اﷲ تعالیٰ کے ایک انچ بھی قریب نہیں کر سکتا.میں تمہیں اس دین کی طرف بلاتا ہوں جس کی طرف بڑھنے سے ہر قدم خدا کی طرف بڑھتا ہے اور آج جو تم نمازیں پڑھتے اور دعائیں کرتے ہو اس طرف آنے سے ہزاروں درجہ زیادہ تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.اور تم
۲۴۵ اپنے عملوں کے اپنی آنکھوں کے سامنے نتیجے نکلتے دیکھ لو گے.تم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیدھی راہ پر چل رہے ہو لیکن اب بھی سخت احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.کیونکہ شیطان کا کام ہے کہ وہ کبھی دنیا کی راہ سے آکر اور کبھی دین کی راہ سے آکر دھوکا دیتا ہے اس لئے جس بات سے میں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم جتنی بھی عبادتیں کرو وہ اس نیت سے کرو کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتے ہیں.اس کے سوا اور کوئی تمہاری نیت نہیں ہونی چاہئے.تم اپنے نفسوں میں غور کر لیا کرو کہ اب جو ہم نماز پڑھنے لگے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے ہے یا کسی اور نیت سے.جب تم چندہ دیتے ہو تو اس وقت خیال کر لیا کرو کہ کتنی دفعہ ہم نے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا ہے یا چندہ مانگنے والے نے کہا کہ دو اور تم نے دے دیا اور تمہاری کوئی نیت نہ تھی.مانگنے والے نہیں جانتے کہ تم نے کس نیت سے دیا ہے لیکن تم دینے والے خوب جانتے ہو کہ دیتے وقت کیا نیت تھی.تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم نے دین کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا ہے.پس اسی طرح تمہارے ہر کام میں خدا تعالیٰ ہی مد نظر ہونا چاہئے اور تم اسی کے راضی کرنے کی نیت ہر کام میں کیا کرو.جب تمہاری ہر کام میں یہ نیت ہوگی تو تمہاری عبادتیں آج اور کل اور پرسوں اور ترسوں اور نتائج پید اکریں گی اور تمہاری دن بدن ترقی ہی ہوتی جائے گی.دیکھو ایک کام ایک نیت سے اور اجر پیدا کرتا ہے.اور وہی کام دوسری نیت سے اور اجر.اگر کوئی شخص ایک آدمی پر زنبوریا بچھو بیٹھا ہوا دیکھے تو وہ جانتا ہے کہ اگر میں نے زنبور یا بچھو کو آہستہ سے پکڑایا ہٹایا تو وہ ضرورکاٹے گا اس لئے وہ زور سے تھپڑ مار کر اسے ما ر دیتا ہے اور اس کا ایسا کرنا تھپڑ کھانے والے آدمی کے منہ سے کلمات شکر نکلواتا ہے.لیکن اگر کوئی کسی کو دکھ دینے کے لئے تھپڑ مارے تو وہ سزا پائے گا.تو ایک ہی کام سے نیتوں کے فرق سے دو مختلف نتیجے نکل آتے ہیں.پس تم عاد تاً کوئی عبادت اور نیک کام نہ کرو.بلکہ نیتاً کرو.کئی آدمی کہتے ہیں کہ قوم کے لئے روپیہ دو.قوم کے لئے چندہ جمع کرو.قوم کے لئے یہ کرو اور وہ کرو میں کہتا ہوں قوم کیا چیز ہے.تم قوم کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے سب چندے دو.اور کبھی یہ گناہ کے لفظ منہ سے نہ نکالو.کیا تم سے پہلے قومیں نہ تھیں ؟ کیا تمہارے پہلے عزیز اور رشتہ دار نہیں تھے؟ جب تھے تو اس نئی جماعت کے بننے کی کیا ضرورت تھی ؟ جسے تم قوم قوم کہتے ہو.تم خوب یاد رکھو کہ قوم کوئی چیز نہیں ہے.خدا تعالیٰ ہی ایک چیز ہے.پس تمہارے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لئے ہی ہوں.تمہاری ایک ایک حرکت اٹھنا بیٹھنا ‘چلنا ‘پھرنا‘سونا جاگنا سب کچھ خدا کے لئے ہی ہو.اگر تم ایسا کرو
۲۴۶ گے تو یقینا یقینا تمہارے اعمال کے نتیجے بڑھ چڑھ کر نکلنے شروع ہو جائیں گے.جو کرو سمجھ کر کرو: بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک کام کرتے ہیں مگر انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کیوں کرتے ہیں.وہ عاد تاً اس کام کو کرتے ہیں جس کا انہیں کوئی نتیجہ نہیں ملتا.دیکھو ایک مسلمان بائیں ہاتھ سے روٹی نہیں کھاتا بلکہ دائیں سے کھاتا ہے.جانتے ہو وہ کیوں دائیں سے کھاتا ہے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ.مگر بتلاؤ کہ کتنی دفعہ کھانا کھاتے وقت تمہیں یہ خیال آیا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں.اپنی زندگی کے پچھلے ایک سال دو سال تین سال یا چار سال پر غور کرو کہ کتنی دفعہ تمہیں یہ خیال آیا ہوگا.بہت سے مسلمان تو ایسے بھی ہوں گے جنہیں ساری عمر میں بھی کبھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ ہم دائیں ہاتھ سے کیوں کھاتے ہیں اور بائیں سے کیوں نہیں کھاتے.دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا نیکی کا کام ہے کیونکہ جو ایسا کرتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا حکم مانتا ہے لیکن جو دائیں ہاتھ سے اس لئے نہیں کھاتا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کا حکم ہے بلکہ اس لئے کھاتا ہے کہ بچپن سے اسے اسی کا عادی کیا گیا ہے تو وہ کسی ثواب کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے.وہ ہرگز ثواب کا مستحق نہیں ہے.چھوٹے بچوں کو جب رات کے وقت پیشاب آتا ہے تو وہ اوندھے منہ اس طرح لیٹ جاتے ہیں جیسے سجدہ کرتے ہیں.مگر کیا وہ اس فعل سے کسی ثواب کے مستحق ہو جاتے ہیں ہرگز نہیں کیونکہ وہ تو پیشاب کی وجہ سے اس طرح ہوتے ہیں.پس بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو عادتاً کئے جاتے ہیں.اور یہ ایک ایسا نقص ہے جو بہت خراب کرتا ہے.گویا یہ زنگ ہے جو انسان کے دل پر جم جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ عادتاً کئے ہوئے کاموں کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا خاص طور پر ارادہ کر کے کام کرنے سے ہوتا ہے.اسلام میں اس قدر خوبیاں ہیں کہ یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ اگر اسلام کو کسی کے سامنے پیش کریں تو وہ اس کے ماننے سے انکار کر دے.میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے کہ جب اسلام اس خوبی کا مالک ہے تو پھر کیوں تمام کے تمام لوگ اسے مان نہیں لیتے.اس کی وجہ مجھے یہی معلوم ہوئی ہے کہ چونکہ غیر مسلم لوگوں کے کانوں میں بچپن سے اور باتیں پڑتی رہتی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف باتیں سنتے رہتے ہیں اس لئے جب وہ اسلام کی تعلیم کو سنتے ہیں تو انکار کر دیتے ہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک ایم اے عیسائی تو اسلام کی خوبیاں نہ سمجھ سکے لیکن ایک مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والا جاہل سے جاہل یہی کہے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور باقی سب جھوٹے ہیں.یہ شخص تو اس لئے یہ بات کہتا ہے کہ اس کے ماں باپ مسلمان تھے جن کی وجہ سے
۲۴۷ شروع سے ہی اس کے کانوں میں اسلام کا سچا ہونا ہی پڑتا رہا ہے اور وہ ایم اے اس لئے نہیں سمجھتا کہ ابتداء سے اس کے کانوں نے اور باتوں کو سنا ہے اور وہی اس پر اثر رکھتی ہیں.اب وہ ان کے خلاف نہیں سن سکتا.ایک عیسائی سے میری گفتگو ہوئی وہ کہنے لگا کہ کفارہ کے متعلق میں نے بڑی تحقیقات کی ہوئی ہیں آپ اس کے متعلق گفتگو کریں میں نے اسی کی نسبت باتیں شروع کیں.تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ یہ مان گیا کہ واقعی کفارہ خلاف عقل اور خلاف نیچر ہے.اب میں اسے صرف اس لئے مانتا ہوں کہ عیسائیوں کے گھر پید ا ہوا ہوں.پس بہت سے دینی کام ایسے ہوتے ہیں جو عادتاً کئے جاتے ہیں.حنفی مسلمان عموماً کھانا کھانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ پڑھتے ہیں.اگر اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا شکر یہ ادا کیا جائے تو بہت اچھی بات ہے لیکن ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جنہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیوں ہم ایسا کرتے ہیں.بھلا ایسے لوگوں کو اس طرح ہاتھ اٹھانے سے وہ ثواب مل سکتا ہے جو شکریہ کی نیت سے ہاتھ اٹھانے والے کو ملتا ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ ثواب تو سچے دل سے الحمد ﷲ کہنے سے ہوتا ہے.لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں ‘روزے رکھتے ہیں ‘زکوٰۃ دیتے ہیں ‘حج کرتے ہیں.لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا.میں کہتا ہوں تم تو اپنی عادت پوری کرتے ہو پھر خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ تمہیں ان سے فائدہ پہنچائے.پس تم یہ باتیں سن کر یہ نہ خیال کرنا کہ یہ چھوٹا سالڈو ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے کیونکہ گو کام ایک ہی ہوتا ہے مگر نیتوں اور ارادوں کے فرق سے نتائج میں فرق ہو جاتا ہے.اگر تم یہ اہمیت سمجھ لو اور یہ معلوم کر لو کہ کس طرح انسان ایک کام کرتا ہے لیکن ایک نیت سے اسے اور اجر ملتا ہے اور دوسری نیت سے اور.تو تم کامیاب ہو سکتے ہو.دیکھو مدینہ میں ایک وہ لوگ آئے تھے جو خدا تعالیٰ کے لئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت کر کے آئے تھے گو اور لوگ بھی تو وہاں کاروبار کے لئے باہر سے آتے ہی ہوں گے.کیا ان کو بھی کوئی ثواب مل سکتا ہے ؟نہیں.ثواب کے مستحق تو وہی تھے جو خدا تعالیٰ کے لئے آئے تھے.کیونکہ مدینہ میں آنا کوئی ہستی نہیں رکھتا.صرف نیت کا اجر ہوتا ہے.نماز کا ثواب بھی اسی لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے خوش کرنے اور اس کی رضا چاہنے کے لئے پڑھی جاتی ہے.روزہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے رکھا جاتا ہے زکوٰۃ کی بھی یہی غرض ہے.حج بھی اسی لئے کیا جاتا ہے.لیکن اب جبکہ لوگ ان باتوں کو عادت کے طور پر کرتے ہیں تو انہیں فائدہ کیونکر ہو.بعض آدمیوں کو ہاتھ یا کندھا ہلانے کی عادت ہوتی ہے بعض عادتاً اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہ
۲۴۸ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ.سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے رہتے ہیں.لیکن انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کلمات ہم کیوں کہہ رہے ہیں.لیکن یہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اگر کوئی نیت اور ارادہ کے ماتحت کہے تو ایک دن میں فرشتہ بن جاتا ہے.اور یہیسُبْحَانَ اللّٰہِ اگر نیت اور ارادہ سے کہی جائے تو ایک دن میں انسان خدا رسیدہ ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی الِّلسَانِ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر تو بڑے ہلکے معلوم ہوتے ہیں ایک منٹ میں انسان کہہ جاتا ہے.لیکن ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ.جب خدا تعالیٰ انہیں ترازو میں رکھے گا تو بڑے بوجھل ہو ں گے یعنی اعمال کا پلڑا ان کے بوجھ سے نیچے جھک جائے گا.حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ دو کلمے اﷲ کو بہت ہی محبوب ہیں.اﷲ ان کو سن کر بہت خوش ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اب کئی آدمی ان کو پڑھتے رہتے ہیں مگر ان کے اعمال کی میزان کھڑی کی کھڑی ہی رہتی ہے.رسول اﷲ تو فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ پڑھنے سے میزان ثقیل ہو جاتی ہے مگر یہاں ہزاروں دفعہ پڑھنے سے بھی اونچی ہی رہتی ہے کیوں؟ اس لئے کہ نیت نہیں ہوتی.زبان سے تو کہتے ہیں کہ خدا پاک ہے.لیکن ان کے دل میں اس کا خیال تک بھی نہیں آتا.وہ اس کی نعمتیں یاد کر کے شکر نہیں کرتے بلکہ صرف الفاظ رٹتے ہیں.تو کسی بات کی عادت بہت خراب کرتی ہے اور کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے.خواہ وہ کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو.اچھی عادت تو الگ رہی جب کسی خطرناک بات کی عادت ہو جاتی ہے تو اس کا بھی ضررمٹ جاتا ہے.بعض لوگ جن کو عادت ہوتی ہے تولہ تولہ سنکھیا کھالیتے ہیں.لیکن دوسرا کوئی تھوڑا سا بھی کھائے توا س کی جان نکل جائے پس عادت نیکی اور بدی میں تمیز نہیں رہنے دیتی.قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُ ھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَالِیَذُوْقُواالْعَذَابَ.( النساء :۵۷)کہ دوزخ میں رہنے والوں کی جب کھلڑیاں پک جائیں گی تو ہم اور بدل دیں گے تا کہ وہ عذاب محسوس کریں.اس سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس بات کی عادت ہو جاتی ہے پھر اس کا احساس نہیں رہتا اور نہ وہ پہلے کی طرح مفید رہتی ہے.سر درد ایک بہت بڑی تکلیف ہے لیکن جب کسی کو عادت ہو جائے تو وہ بہت کم تکلیف محسوس کرتا ہے.ایک قصّہ :کسی شخص نے عادت سے احساسات کے کم ہوجانے کو ایک لطیف حکایت میں بیان کیا ہے.وہ لکھتا ہے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو کہا کہ تم جو کہتے ہو کہ ہماری یہ تکلیف بہت زیادہ ہے اور دوسروں کی کم ہے.آؤ تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ جو مصیبت تمہیں زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے اس کا دوسری سے تبادلہ کرلو.اس پر انہوں نے اپنے اپنے عیب پھینک
۲۴۹ دیئے.اور ان کے تبادلہ میں اور لینے لگے ایک کے سر میں درد تھا اس نے وہ سر پھینک دیا اور اس کی بجائے ایک بیمار موٹا پاؤں لے لیا.ایک بہرہ تھا اس نے وہ کان پھینک کر اندھا ہونا پسند کیا.اسی طرح ہر ایک نے اپنی تکلیف کو دوسری اس تکلیف کے جو اس کے خیال میں کم تھی بدل لیا.جب اپنے اپنے گھروں کو چلے تو جس نے موٹا پاؤں لیا تھا وہ اس کو کھینچتا ہے لیکن وہ اٹھتا نہیں.وہ جس نے بہرہ پن کی بجائے اندھا پن لیا تھا وہ کہتا ہے کہ کان نہ سنتے تھے تو کیا تھا اب تو کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ.پھر انہوں نے اپنی پہلی تکلیفوں کو ہی ہلکا سمجھا اور انہیں کے لینے کی خواہش کی.تو جس بات کی عادت ہو جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ جب دوزخیوں کی جلدیں پک جائیں گی تو ہم ان کی جلدیں بدل دیں گے تا کہ وہ عذاب کو محسوس کرتے رہیں.جو لوگ عادتاً نیکی کا کوئی کام کرتے ہیں ان کو کوئی اجر نہیں مل سکتا.اسی لئے کسی کو جو عذاب ہوتا ہے جب اس کو اس کی عادت ہوجاتی ہے تو اس کی تکلیف بھی کم ہو جاتی ہے گویا عادت ایک پٹی ہے جو کسی زخم کو ڈھانپ لیتی ہے حالانکہ اس کے اند ر گند ہوتاہے.تم خوب یاد رکھو کہ عادت کی نماز نماز نہیں ہوتی.عادت کی زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں ہوتی.عادت کا روزہ روزہ نہیں ہوتا اور عادت کا حج حج نہیں ہوتا.کیا مسیح موعودؑ سے پہلے لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے.زکوٰۃ نہیں دیا کرتے تھے روزہ نہیں رکھا کرتے تھے.حج نہیں کیا کرتے تھے.سب کچھ تھا مگر ان کی نیتیں نہ تھیں ریاء تھا اس لئے انہیں کچھ فائدہ نہ ہوتاتھا لیکن تمہارے سب کاموں میں ایک ہی چیز مد نظر ہونی چاہئے اور وہ اﷲ ہے.اگر تم اس بات پر عمل کرو گے تو تم روحانیت میں فوری تبدیلی دیکھو گے پس تم کسی بات کو عادت کے طور پر نہ کرو بلکہ نیت سے کرو.اسلام کیا چاہتا ہے :اسلام یہی چاہتا ہے کہ وہ عادت کو مٹائے اور یہی اس کا بڑا کام ہے.اسلام عادت کا دشمن ہے کیونکہ عادت کی وجہ سے کوئی نیکی نیکی نہیں رہ سکتی.اسلام کہتا ہے کہ جو کام انسان کرے رضائے الٰہی کے لئے کرے.تب جو چیز وہ چاہتا ہے اس کو مل جاتی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰٓو ءُ لَآءِ وَھٰٓو ءُ لَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْراً.(بنی اسرائیل :۲۱)ہم تو ہر ایک کو مدد دیتے ہیں.جو دنیاکے لئے کوشش کرتا ہے اس کو دنیا مل جاتی ہے اور جو اﷲ کے لئے سعی کرتا ہے اسے اﷲ مل جاتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی اپنی بخشش ہے اور تیرے رب کی بخشش کسی سے بند نہیں کی گئی.پس تم اﷲ کے لئے کوشش کرو.تمہیں اﷲ ضرور مل جائے گا.
۲۵۰ انسان کی روحانی ترقی کے مدارج : اﷲ تعالیٰ نے انسانی روح کی ترقی کے سات مدارج قائم کئے ہیں.ان درجوں میں جو تفاوت اور کمی ہوتی ہے وہ انسان کی عادت کے لحاظ سے ہوتی ہے.قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نماز کے متعلق فرماتا ہے لَا تَقْرَبُو الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ.(النساء :۴۴)کہ نماز کے قریب بھی مت جاؤ.جب تم نشے میں ہو.اب نشہ کے معنی یہی نہیں کہ شراب ہی سے کوئی مخمور ہو.شراب اس وقت بھی منع ہو گیا تھا اور اب بھی ہے تو جب اس کا پینا ہی منع ہے تو اس حکم کے کیا معنے ہوئے کہ کوئی پی کر مسجد میں نماز کے لئے نہ آئے.بے شک شرابی کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ اگر تم شراب پیتے ہو تو ہماری مسجد میں نہ آیاکرو.اور یہ اسی طرح کا حکم ہے جس طرح ایک باپ اپنے نالائق بیٹے کو کہے کہ تم میں جب تک فلاں بری عادت ہے ہمارے گھر نہ آیا کرو.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرابی ہماری مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آیا کرے.لیکن اس کے اورمعنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح نشہ والا نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اسی طرح تم عادت یا نشہ کے طور پر نماز نہ پڑھا کرو.اور تمہاری نماز نقل کے طور پر دوسروں کی دیکھا دیکھی نہ ہو بلکہ تم ہوش و خرد سے پڑھا کرو.تو عادت اور صرف نقل کے طور پر کوئی ایسا کام کرنا جس کی اصل غرض سے ناواقفیت ہو وہ بھی سکر ہی ہے.سکر کے اصل معنی تو شراب کے نشہ کے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں.پس ایک طرف تو اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ شراب پینے والا نماز کے قریب بھی نہ جائے اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ عادت کے طور پر اور اصل غرض اور غایت سے ناواقف رہ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے.کیونکہ جس طرح ایک شرابی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک غلیظ اور گندی نالی میں گرا ہوا ہے یا بڑے مکلف فرش پر بیٹھا ہوا ہے اسی طرح نماز کو عادت کے طور پر پڑھنے والا نہیں سمجھتا کہ وہ ایک عظیم الشان دربارمیں کھڑا ہے یا کسی جنگل میں ہے.اسی لئے اس طرح نماز پڑھنے سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن شریف نے کس طرح روحانیت کے سات مدارج بتائے ہیں.ان مدارج میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انسان ان کو چھوڑ کر تنزل کے گڑھے میں گرتا ہے.اور کس طرح ان کو طے کرنے کی وجہ سے اوپر ترقی کرتا جا تا ہے اور جتنی جتنی اسے سمجھ آتی جاتی ہے اتنے ہی زیادہ اسے نیک نتائج اور اپنے اعمال کا بدلہ ملتا جاتا ہے.
۲۵۱ روحانیت کا پہلا درجہ : انسان کا پہلا درجہ جمادات سے مشابہ ہوتا ہے اور یہ بد ترین درجہ ہے.ایسے لوگوں کو بھلی بری بات کے پہچاننے کی حس ہی نہیں ہوتی.ان کے سامنے کوئی لاکھ شور مچائے ان کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان میں ترقی کرنے کا مادہ ہی نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کو خواب اور الہام بھی نہیں ہوتا.ان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.ثم قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَایَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُط وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُط وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ :۷۵)یعنی یہ لوگ ایسے بگڑے کہ پتھروں کی طرح ہو گئے اور ان کے اندر ترقی کرنے کا کوئی مادہ نہ رہا.ایک چھوٹا سا بیج بھی جب زمین میں پڑ رہے اور اس کو پانی دیا جاتا ہے تو وہ بڑھ کر عظیم الشان درخت ہو جاتا ہے لیکن ایک پتھر سے کوئی لاکھ کوشش کرے.پھر بھی اس کو ذرا فائدہ نہیں پہنچ سکتا.تو انسانی روحانیت کا سب سے ادنیٰ درجہ وہ ہے کہ جس میں علم اور احساس ہی نہیں ہوتا.اسلام انسانوں میں ایسا احساس اور سمجھ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جو کام وہ کریں ان کو معلوم ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن اس درجہ کے انسان جو کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ سمجھ نہیں رکھتے.زمانہ کے واقعات جس طرح الٹائے پلٹائے جاتے ہیں اسی طرح وہ بھی کرتے رہتے ہیں جب انہیں بھوک لگتی ہے پیٹ میں کچھ ڈال لیتے ہیں.نیند آتی ہے سو رہتے ہیں شہوت ہوتی ہے شہوت رانی کر لیتے ہیں.اس لئے یہ خدا تعالیٰ کے حضور کسی انعام کے مستحق نہیں ہوتے.روحانیت کا دوسرا درجہ :اس سے اوپر کا درجہ نباتات سے مشابہ ہے.اصل میں انسان کے جسم میں ساری چیزیں ہیں.بعض اجزاء جمادات کے ہیں بعض نباتات کے بعض حیوانات کے.چنانچہ انسان کی درست غذا ان تینوں چیزوں سے مرکب ہوتی ہے اور چونکہ غذا سے ہی جسم بنتا ہے اس لئے اس کے اعمال اور زندگی میں بھی ان کا اثر ہوتا ہے.لیکن کبھی روحانی خیالات حیوانات کے تلے دب جاتے ہیں اور انسان حیوانوں کی طرح ہو جاتا ہے اور کبھی حیوانیت کے جذبات نباتی قویٰ کے تلے دب جاتے ہیں اور وہ اور بھی گر جاتا ہے اور کبھی اس پر بھی جمادی رنگ اپنا اثر ڈال دیتا ہے اور انسان جمادات کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور سنگدل ہو جاتا ہے جس طرح پتھر کو کوئی جدھر چاہے پھینک دیتا ہے.اسی طرح دنیا کے واقعات اور حوادث اس کو لڑھکاتے رہتے ہیں اور ایسے انسان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا.اسی طرح جب انسان ترقی کی طرف قدم
۲۵۲ اٹھا تا ہے اور اس جمادی حالت کو ترک کر دیتا ہے تو اس کے اندر نباتات کے مشابہ ایک نشو و نما کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے پس ایک تو وہ انسان ہوتے ہیں جو کہ پتھر کی طرح ہوتے ہیں اور ان میں احساس نہیں ہوتا.لیکن ایک نباتات کی طرح ہوتے ہیں جن میں کچھ احساس ہوتا ہے.اب بڑے تجربہ کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نباتات میں بھی روح ہوتی ہے گو حیوانی روح سے ادنیٰ درجہ پر ہوتی ہے مگر ہوتی ضرور ہے.اس کے ثبوت کے لئے چھوئی موئی کی بوٹی جسے اردو میں لاجونتی کہتے ہیں پیش ہو سکتی ہے اس کے پتوں کو جب ہاتھ لگایا جائے تو وہ سکڑ جاتے ہیں.یہ پودا نباتات کے اس حصہ میں سے ہے جو اپنی قوت نشو و نما میں ترقی کر کے حیوانی درجہ کے قریب ہو گئے ہیں اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ درختوں میں بھی حس ہوتی ہے گو بعض درختوں میں زیادہ ہوتی ہے اور بعض میں کم.اس طرح بعض اور نباتات حیوانات سے ملتے ہیں جیسے اسپنج کہ اس کی غذا بھی حیوانات سے بنتی ہے اور بعض تو اسے حیوان ہی کہتے ہیں گو سچ تو یہی ہے کہ وہ ایک ترقی یافتہ پودا ہے جو حیوانیت کی سرحد کے بہت قریب ہو گیا ہے.غرض ان نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ نباتات میں بھی حس ہوتی ہے لیکن حیوانات اور نباتات میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ان میں حس تو ہوتی ہے لیکن کسی صدمہ سے بچنے کی طاقت نہیں ہوتی.لاجونتی کے پتے ہاتھ لگانے سے سکڑتو جاتے ہیں لیکن ان میں یہ طاقت نہیں کہ بھاگ کر اپنے آپ کو بچا لیا کریں.اسی طرح ایک انسان اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس کی کچھ روحانی حس تو باقی ہوتی ہے مگر وہ کسی حملہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا کیونکہ اس کی حس بہت خفیف سی ہوتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ایسے لوگوں کی طرف اس آیت میں اﷲ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لاَ یَسْمَعُوْا وَ تَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.(الاعراف :۱۹۹)یعنی یہ مخالف لوگ ایسے ہیں کہ ان کو تو ہدایت کی طر ف بلاتا ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں تجھے وہ دیکھتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے.سمع کے اصل معنے سننے کے ہیں مگر سننے کی غرض ماننا ہی ہوتی ہے اس لئے لا یَسْمَعُوْا سے مراد یہی ہے کہ وہ مان نہیں سکتے اور ان میں ماننے کی طاقت ہی نہیں ہے.یہ وہی لوگ ہیں کہ ان میں حس تو ہے مگر بچنے کی طاقت نہیں رکھتے.ان کی آنکھیں ہوتی ہیں مگر یہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.تیسرا درجہ :اس سے اوپر اور درجہ ہے اور وہ حیوانی درجہ ہے اس میں انسان حیوان کی طرح ہوتاہے یعنی نباتات سے زیادہ اس میں حس ہوتی ہے اس حالت میں اسے آواز سناؤ گے تو سن لے گا مگر مطلب نہیں سمجھے گا.اگر اسے دکھ دینے لگو گے تو بھاگ جائے گا مگر اپنے بچنے کے
۲۵۳ لئے ایسے ذرائع مہیا نہیں کر سکے گا جن کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اس قسم کے ڈر سے محفوظ ہو جائے جیسا کہ انسان کو اگر کوئی چیز مضر لگتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کے دور کرنے کے ذرائع سوچتا رہتاہے.لیکن حیوان میں ایجاد اور ترقی کا مادہ نہیں ہے اس قسم کے انسانوں کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَاط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ.(الاعراف :۱۸۰)ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان کو کام میں نہیں لاتے.ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے نفع نہیں اٹھاتے.یہ تو سب کچھ ان کے پاس ہے لیکن ان کے پاس عقل انسانی نہیں بلکہ حیوانی عقل ہے.یہ خوف سے بھاگ تو جاتے ہیں لیکن اپنے آئندہ کے بچاؤ کے لئے کوئی صورت نہیں نکال سکتے.یعنی یہ کسی خوف اور ڈر کے وقت تو خدا تعالیٰ کے حضور میں گر پڑتے ہیں اور اس دکھ سے محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کر سکتے بلکہ جب کبھی ان پر مصیبت پڑتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں.چوتھا درجہ :جب اس سے زیادہ احساس پیدا ہوتا ہے تو انسان ایک اور درجہ میں ہوتا ہے اور یہ درمیانی درجہ ہے کیونکہ تین درجے اس سے نیچے ہیں اور تین ہی اوپر ہیں.اس درجہ میں انسان کو ایک حد تک احساس پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سب کام سمجھ اور ہوش سے کرتا ہے مگر کبھی کبھی اس پر شیطان بھی غلبہ کر لیتا ہے.یعنی کبھی اسے بدی اپنی طرف کھینچ لے جاتی اور کبھی نیکی.ہاں بدی کا حملہ اس پر بہت کم کارگر ہوتا ہے.کیونکہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے.آدمی کی ایسی حالت کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ.(الاعراف :۲۰۲)کبھی کبھی ایسے لوگوں کو شیطان اپنی طرف بھی کھینچتا ہے مگر وہ جھٹ ہوش میں آجاتے ہیں یہ ایسا انسانی درجہ ہے جس کے ساتھ نسیان لگا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں اسے نفسِ لوّامہ بھی کہہ سکتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کبھی ان پر شیطان حملہ کرتا ہے تو وہ فوراً اﷲ کی پناہ میں آجاتے ہیں اور یہی متقیوں کا کام ہے.پانچواں درجہ :پھر انسان اور ترقی کرتا ہے اور ترقی کرتا کرتا ملک بن جاتا ہے پھر وہ ایسا ہوشیار ہو جاتا ہے کہ کبھی بھی شیطان اس پر غالب نہیں آسکتا.اس کی معرفت الٰہی ایسی ترقی کر جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر وہ عمل کرتا ہے اور جس طرح ملائکہ یفعلون
۲۵۴ مَا یُؤْمَرُوْنَ کے ماتحت کام کرتے ہیں اسی طرح یہ انسان بھی خدا تعالیٰ کے سب حکموں کو پورا کرتا ہے اور اس پر کبھی غفلت کی نیند نہیں آسکتی.اس کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اَعْمٰیط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِ.الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ.وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَا للّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ.وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّیَدْ رَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ.جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَ اَزْوَاجِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ.سٰلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ.( الرعد :۲۰ تا ۲۵)اے رسول وہ چیز جو تیرے اوپر اتری حق ہے جو اس بات کو جانتا ہے بھلا وہ کس طرح ایک اس اندھے کی طرح ہو سکتا ہے جو اس کو حق نہیں سمجھتا ہماری باتوں سے اصل فائدہ تو وہی اٹھاتے ہیں جو اولو الالباب ہوتے ہیں یعنی جو عقل و دانائی سے بھر پور ہوتے ہیں.وہ اﷲ کے عہدوں کو پورا کرتے ہیں ان کو توڑتے نہیں اور انکو خدا تعالیٰ نے جو حکم دئیے ہوتے ہیں بجا لاتے ہیں اور اپنے رب کی رضامندی چاہنے کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو کہ انہیں دیا گیا ہے پوشیدہ اور ظاہر طورپر.اور بدیوں کو نیکیوں کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں پھیلاتے ہیں.پس یہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں عمدہ بدلے دیئے جائیں گے.اور وہ جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے.پھر ان کا اتنا بڑا درجہ ہے کہ صرف انہیں کو درجے نہیں دیئے جائیں گے بلکہ ان کے رشتہ دار جنہوں نے تھوڑی نیکیاں کی ہوں گی ان کی وجہ سے ان کے درجے بھی بلند کئے جائیں گے.اور جہاں یہ ہوں گے وہاں ہی ان کے رشتہ دار بھی پہنچائے جائیں گے.یہ کیوں اس لئے کہ انہوں نے لوگوں کو نیک بنانے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو راہ ہدایت پر لانے میں کوشاں رہے.اس کے بدلہ میں خدا ان سے صرف یہی سلوک نہیں کرے گا کہ ان کے درجے بلند کردے گا بلکہ ان کے رشتہ داروں کا بھی ان کی وجہ سے بلند مرتبہ کردے گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت میں جس درجہ میں مَیں ہوں گا اس میں علی ؓ اور فاطمہ ؓ ہوں گے.تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح یہ لوگ دنیا میں ہماری مخلوق کی خبر گیری کرتے رہے ہیں ہم اس کے بدلہ میں ان کے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا دیں گے.
۲۵۵ خدا تعالیٰ نے آگے کیا لطیف بات بیان فرمائی.جنس کو جنس سے محبت ہوتی ہے فرمایا جب یہ لوگ جنت میں پہنچیں گے تو ملائکہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آئیں گے چونکہ یہ لوگ بھی ملکوتی صفات رکھنے والے ہوں گے اس لئے فرشتوں کو ان سے محبت ہونی ضروری تھی پس فرشتے ایسے لوگوں کی طرف دوڑ پڑیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو.اس سبب سے کہ تم نے صبر کیا یہاں خدا تعالیٰ نے صاف طور پر ظاہر فرما دیا کہ یہ ملائکہ کے درجہ کے انسان ہوں گے ملائکہ کا درجہ کیا ہی اچھا ہے.چھٹا درجہ :پھر انسان اس سے بھی ترقی کرتا ہے اور جب اس میں احساس زیادہ پیدا ہو تا جاتا ہے تو وہ اور بلند ہو تا جاتا ہے پھر یہی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدیوں سے بچاتا ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں تو کچھ چیزہی نہیں ہوں.پس وہ اﷲ کے ہاتھ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے ایسی حالت کے متعلق صوفیاء نے کہا ہے کہ انسان میں صفات الٰہیہ آنی شروع ہو جاتی ہیں.اس کے لئے قرآن شریف کہتا ہے.بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ، لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہ، اَجْرُہ، عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ:۱۱۳)حضرت ابراہیم ؑ جو کہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے انکو یہ درجہ حاصل ہو گیا تھا چنانچہ ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اِذْ قَالَ لَہ، رَبُّہ، اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(البقرہ :۱۳۲)جب اﷲ تعالیٰ نے کہا اَسْلِمْ تو حضرت ابراہیم ؑ نے کہا اَسْلَمْتْ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.پس ایک تو انسان کا وہ درجہ تھا کہ ملائکہ میں تھا.اس درجہ میں وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں مجھے حکم دو میں کروں گا.مگر یہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسان کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں جس طرح آپ کی مرضی ہو اسی طرح مجھے چلایئے.اب جبکہ اس کو خدا چلائے گا تو جو کام اس سے ہوں گے وہ خدا تعالیٰ کے ہوں گے کیونکہ جس کے ہاتھ میں قلم ہوگی اسی کے نام سے چلے گی.لکھا ہے کہ ایک سپاہی اپنی تلوار کو اس زور سے مارتا تھا کہ گھوڑے کے چاروں پاؤں یک لخت کاٹ دیتا تھا.بادشاہ کے لڑکے نے جو اس کا یہ کام دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئے.اس نے کچھ عذر کیا بادشاہ نے اس سپاہی کو کہہ کر وہ تلوار اس شہزادہ کو دلوادی.جب اس شہزادہ نے وہ تلوار چلائی تو کچھ بھی اثر نہ ہوا.اس پر اس سپاہی نے کہا کہ میں اس وجہ سے یہ تلوار نہیں دیتا تھا کہ اس تلوار میں کوئی خاص جوہر تھا بلکہ یہ تو اس لئے گھوڑے کے چاروں پاؤں اڑا دیتی تھی کہ یہ میرے ہاتھ میں تھی.مجھے اب کوئی اور تلوار دے دی جائے تو اس سے بھی میں کاٹ دوں گا کیونکہ تلوار کی خصو صیت نہیں بلکہ میری ہے.یہی حال بندہ کا ہوتا ہے جب وہ اپنے
۲۵۶ آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو اس کے تمام کام خدا تعالیٰ کے کام ہی ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض احمق جو اس بات کو نہیں سمجھتے جب ان کاموں میں روک ڈالتے ہیں تو ایسے تباہ ہوتے ہیں کہ ان کا کچھ باقی نہیں رہتا.اس درجہ کو پہنچنے والے انسان کو ملائکہ کے واسطہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی.حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ انکے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہے تو مجھے کہو.انہوں نے کہا اگر مجھے ضرورت ہوگی تو میں خدا تعالیٰ کو کہوں گا تمہیں کہنے کی کیا ضرورت ہے.انہوں نے کہا اچھا پھر آپ خدا سے دعا کریں.انہوں نے کہا کیا اﷲ تعالیٰ مجھے نہیں دیکھ رہا کہ میں دعا کروں.وہ جبکہ خود میری ہر ایک بات جانتا اور دیکھتا ہے تو پھر میں کیوں کہوں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے آپ اسے پورا کر دیں.غرض انسان ترقی کرتے کرتے ملکوتی صفات سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اورصفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح کر دیتا ہے کہ خدا کے ہلائے سے ہلتا اور اس کے چلائے سے چلتا ہے ایسے انسان کا مقابلہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ ہوتا ہے اور یہ شخص اپنے ہر کام کو اﷲ تعالیٰ کی ہی رضا پر چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو انسان ترقی کر کے خدا تعالیٰ کا مقرب ہو جاتا ہے خدا اس کی آنکھیں اس کے کان اور اس کے ہاتھ پاؤں ہو جاتاہے جو اس کا دشمن ہوتاہے وہ خدا کا دشمن ہوتا ہے اور جو اس کا دوست ہوتا ہے وہ خدا کا دوست ہوتا ہے یہی وہ درجہ ہے جس کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے فرمایا کہ جو تیری طرف توجہ نہیں کرتا وہ میری طرف (اﷲ )توجہ نہیں کرتا کیونکہ تُو تو میری صفات کا مظہر ہے اس لئے تیرا انکار میرا انکار ہے یہ وہ درجہ ہے کہ انسان بالکل خدا تعالیٰ کے قبضہ میں چلا جاتا ہے اس سے بڑھ کر ایک ہی اور درجہ ہے.ساتواں درجہ : اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ثم اَنْشَاْنٰہُ خَلْقاً اٰخَرَ.(المؤمنون :۱۵) پھر کیا پوچھتے ہو.وہ حالت تو بیان ہی نہیں ہو سکتی.اب بندہ کو ایک اور خلق میں بدل دیا جاتا ہے اور ایک دفعہ پھر اسے اس کی طاقتیں واپس کی جاتی ہیں اور اگر پہلے درجہ میں خدا کے بلائے سے بولتا تھا تو اب اس کو وہ مقام دیا جاتا ہے اور اس کے نفس کے اندر ایسی طہارت پید اہو جاتی ہے کہ جو کچھ یہ کہتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسی کے مطابق اپنے احکام جاری کر دیتا ہے.تو یہ درجہ محبوبیت کا درجہ ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کی بہت باتیں جو وہ اپنے اجتہاد سے کہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھی پورا کر دیتا ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ
۲۵۷ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(اٰل عمران :۳۲)اے رسول ان کو کہہ دے کہ میں خدا کا محبوب ہوں اگر تم بھی اس کے محبوب بننا چاہتے ہو تو مجھ سے محبت کرو یہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے بلکہ ایسی روحانیت ترقی کر جاتی ہے کہ خدا کے سوا کسی اور سے کچھ بھی اس کا تعلق نہیں رہتا.اور جب تک کوئی انسان اس میں سے ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے نہیں پہنچ سکتا.غرض کہ یہ احساسات کی ترقی کے درجے ہیں جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائے ہیں ان میں جتنا کوئی انسان بڑھتا جا تا ہے اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کی نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فرماتے ہیں تَنَامُ عَیْنِی وَلَا یَنَامُ قَلْبِی.(بخاری کتاب المناقب باب: کان النبی ؐ تَنَامُ عَیْنِی وَلَا یَنَامُ قَلْبُہٗ) گو میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا.بعض دفعہ سوجاتے لیکن پھر اٹھ کر بلا و ضوء نماز پڑھ لیتے کیونکہ آپ کو ایسی جلاء قلب عطا ہوئی تھی کہ سوتے ہوئے بھی آپ کے احساسات باطل نہ ہوتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ تو خراٹے لے رہے تھے پھر بغیر وضوء کے آپ نے نماز شروع کر دی اس پر آپ نے مذکورہ بالا جواب دیا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا.رسول کریم ﷺ پر ایسی کشف کی حالت طاری رہتی کہ آپ اپنے پیچھے کھڑے ہوئے نمازیوں کی حالت معلوم کر لیتے تھے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.غرض اس درجہ میں کبھی غفلت کا وقت نہیں آسکتا.اس درجہ کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے وَمَا یُنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی.اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی.(النجم :۵،۴)جو ہمارا بندہ ہو جاتاہے وہ جو باتیں کرتا ہے وہ ہماری ہی باتیں ہوتی ہیں وہ اور کچھ نہیں کہتا.یہ انسانیت کے کمال کا درجہ ہے.پس میں تمہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے اندر احساس پید ا کرنے کی کوشش کرو.احساس کے نہ ہونے کی وجہ سے گناہ پیدا ہوتا ہے.دیکھو کنچنیاں بھی صدقہ دیتی ہیں خیرات کرتی ہیں.لیکن کیا ان کو اجر مل جاتا ہے نہیں اس لئے نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں دیتیں.بلکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح عذاب ٹل جایا کرتاہے اس لئے وہ ایسا کرتی ہیں.اگر ان کے صدقے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے ہوں اور خدا سے ڈر کر وہ ایسا کریں تو وہ زنا ہی کیوں کریں.رسول کریم ﷺ نے حضر ت ابو بکر ؓ کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ نمازوں کی وجہ سے بڑا نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہوا ہے جو کہ اس کے دل میں ہے.نمازیں تو اور لوگ بھی پڑھتے تھے اب بھی غیر احمدی لوگ نمازیں پڑھتے ہیں لیکن کیا وہ صحابہ ؓ بلکہ ایک مومن کے درجہ کو
۲۵۸ بھی پہنچتے ہیں وہ توکسی مومن کی جوتیوں کاتسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں ہیں بلکہ اکثر ان میں سے بدکار اور گندے ہیں.پس اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ نیک نہیں ہو سکتے.یہی ہے کہ ان میں ا حساس نہیں ہے.تم اپنے اندر احساس پیدا کرو.تمہارا کوئی کام عادتاً اور رسماً نہ ہو بلکہ سب کا م خدا تعالیٰ کے لئے ہوں.اس کے متعلق جو تدابیر ہیں وہ بھی میں تمہیں بتائے دیتا ہوں تا کہ تمہیں آسانی ہو جائے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ کئی لوگوں کو ایک دھوکا لگ جاتا ہے.غلط فہمی : اور وہ دھوکا یہ ہے کہ ادھر وہ بیعت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور ادھر پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا ان سے اگر پوچھا جائے کہ ایک شخص ایم اے کی ڈگری کتنے سالوں کے بعد حاصل کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ کم از کم ۱۶سال کے بعد.تو ہم کہتے ہیں کہ جب دنیا کے علم کے لئے ۱۶ سال خرچ کرنے پڑتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک دن کے خرچ کرنے کے بعد ہی کیوں پوچھنے لگ جاتے ہو.پہلے دن ہی جو سکول جا کر کہے کہ میں ایم اے بن جاؤں تو وہ ہرگز نہیں بن سکتا.ایسے لوگ چند دن نماز پڑھتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ کیوں خدا تعالیٰ ہماری تائید نہیں کرتا.کیوں ہمارے دشمن ذلیل اور خوار نہیں ہو جاتے.لیکن کتنے تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ اتنی جلدی روحانیت میں کمال پیدا ہو جانے کی خواہش کی جاتی ہے.کھیت کے تیار ہونے کے لئے مہینوں انتظار کیا جاتا ہے.ایم اے بننے کے لئے ۱۶سال محنت اور کوشش کی جاتی ہے.بچہ نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور پھر کون سی ایسی چیز ہے جو بغیر محنت اور کوشش کے اور بغیر وقت کے میسر آسکتی ہے.ہر ایک بڑی نعمت کے ساتھ کچھ دکھ اور تکالیف بھی ہوتی ہیں.پس تم یاد رکھو کہ جس طرح دنیا کے تما م کاموں میں محنتیں اور متواتر محنتیں کرنی پڑتی ہیں اسی طرح دین کے کاموں میں بھی ہوتا ہے اور جس حد تک کوئی زیادہ محنت کرتا ہے اسی حد تک وہ زیادہ ثمرات حاصل کرتا ہے.کوئی کہے کہ پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے جبکہ کامیابی انسان کی اپنی محنت اور کوشش پر ہے تو اس کو ہم بتاتے ہیں فرق یہ ہے کہ اگر ایک آدمی بٹالہ کی طرف جو سڑک جاتی ہے اس پر بٹالہ پہنچنے کے لئے چل پڑے تو خواہ وہ دو چار کو س چل کر تھک جائے پھر بھی پہنچ ہی جائے گا.لیکن اگر کوئی دوسری طرف چل پڑے تو خواہ ساری عمر ہی چلتا رہے پھر بھی کبھی بٹالہ نہیں پہنچ سکے گا.پس تم بھی اگر سیدھے راستہ پر جو کہ میں نے بتایا ہے چلو گے تو منزل مقصود تک پہنچو گے ورنہ نہیں پہنچ سکو گے.نیت کئے بغیر کبھی تمہیں خدا نہیں ملے گا.اور جو نیت کرلے گا اس کو رفتہ رفتہ مل ہی جائے گا.اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ
۴۵۹ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.( العنکبوت:۷۰)کہ وہ لوگ جو ہمارے رستہ میں ہمارے متعلق اپنے نفس سے ہر وقت جہاد اور لڑائی کرتے ہیں اور بدی سے لڑتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم اپنے تک پہنچنے والے راستوں پر پہنچائیں گے.اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ یہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے سُبُلَنَا یعنی ہمارے رستے لیکن ایک جگہ فرمایا ہے وَاِنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً( الانعام :۱۵۴)یعنی صرف یہی ایک راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا پہنچتا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ بہت سے راستے جھوٹے ہوتے ہیں لیکن سُبُلَنَا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے بھی کئی راستے ہیں سو ان دونوں آیتوں میں یو ں تطبیق ہوتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا راستہ آجاتا ہے اور اس کے بعد تیسرا اورا س طرح بہت سے راستے بن جاتے ہیں ورنہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں بہت سے راستے نہیں ہیں.ہاں چونکہ ایک کے بعد دوسرا راستہ ہے اس لئے ان راستوں کے طے کرنے کے لئے سخت محنت کی بھی ضرورت ہوگی تب تم جاکر منزل مقصود پر پہنچو گے.پس اسی جہاد کرنے کی تمہیں ضرورت ہے.اس کے لئے قرآن نے جو طریق بتائے ہیں وہ میں بیان کرتا ہوں.(۱) نماز ہے.پانچ وقت جو اﷲ تعالیٰ کا نا م لے کر اگر اس کی ذرا بھی نیت نیک ہو تو خدا اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے.(۲) زکوٰۃ ہے جو شخص سال میں ایک دفعہ اپنے مال میں سے خدا کے حکم کے ماتحت کچھ نکالتا ہے اسکے اندر اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ اپنا مال خدا وندتعالیٰ کے لئے قربان کر سکتا ہے.(۳) روزہ ہے اس میں اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر خدا تعالیٰ کی مرضی کو مقدم کرنے کا سبق ملتا ہے.(۴) حج ہے اس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی کے لئے عزیزوں ،رشتہ داروں ،وطن ،مال و اسباب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنا پڑے تو انسان چھوڑ سکے.اﷲ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور علاج یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم لوگوں کو ظلمتوں سے نکالتا ہے غفلت اور سستی تاریکی میں زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ دن کو نیند کم آتی ہے.قرآن شریف کے مطالعہ سے ایک بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو جاتی ہے.مگر اس کے مطالعہ کرنے میں بڑے غور اور تدبر کی بھی ضرورت ہے تا کہ ترجمہ کر نے میں انسان ٹھوکر نہ کھا جائے.تم قرآن کریم کا ترجمہ کرنے میں ان باتوں کو یاد رکھو.(۱) کسی آیت کے ایسے معنی نہ کرو جو دوسری آیتوں کے خلاف ہوں.متشابہ آیات کو محکم کے ماتحت لا کر معنی کرنے چاہئیں.(۲) کسی آیت کے ایسے معنی نہ کرو جو آنحضرت ﷺ کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف ہوں.(۳) جو معنی لغت عرب کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو.(۴) جو معنی صرف و نحو کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ
۲۶۰ کو صرف و نحو کی کیا پرواہ ہے وہ کسی کے بنائے ہوئے قاعدوں کا پابند نہیں ہے.لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اﷲ کو پرواہ نہیں ہے.لیکن ہم انسانوں کو تو ہے.اگر اﷲ تعالیٰ کی کلام ایسی نہیں ہے جو ہم سمجھ سکیں تو اسکا فائدہ کیا.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ کے یہ معنے کہ اﷲ منوا کر چھوڑ دو.منکر ان خلافت کے امیر مولوی محمد علی صاحب نے صرف و نحو کی لا علمی سے ہی کئے ہیں اﷲ پر پیش ہے.لیکن زبر سمجھ لی گئی اور یہ معنی کر دیئے گئے.(۵) حضرت مسیح موعودؑ جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم اور عدل ہو کر آئے تھے ان کے کئے ہوئے معنوں کے بھی خلاف نہیں ہونے چاہئیں.(۶) جن معنوں کی کوئی آیت تصدیق نہ کرتی ہو اور وہ عقل کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو ہاں اگر نص صریح بتا دے تو پھر اس میں عقل کو مت دخل دو.البتہ جو استدلال کیا جائے ا س میں عقل کا دخل ہونا چاہئے.(۷) کوئی معنے ایسے نہ کرو جو خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں فرق ڈالنے والے ہوں.میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس پر مفصل تقریر کرتا کہ کس طرح قرآن شریف کے صحیح معنے کئے جا سکتے ہیں.لیکن نہ وقت ہے اور نہ ہی بوجہ حلق کی تکلیف کے طاقت ہے اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر سہی.پھر خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُو االلّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً.وَّسَبِّحُوْ ہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً.ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہ، لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ کَانَ بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَحِیْماً.(الاحزاب :۴۲،۴۴)یعنی اے مو منو اﷲ کو بڑا یاد کرو.اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرو.وہی اﷲ ہے جو تم پر رحمت کرتا ہے اور اسکے ملائکہ بھی تمہارے لئے دعا کرتے ہیں تاکہ تم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے اور اﷲ مؤمنوں کے لئے بڑا رحیم ہے.رسول کریم ﷺ نے اس کے ماتحت کئی دعائیں مقرر فرمائی ہیں.’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ.‘‘اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ ……رَغْبَۃً وَّرَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاً وَلَا مَنْجٰی مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ.(بخاری کتاب الدعوت باب النوم علیٰ الشق الایمن ) اس دعا کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مؤمن رات کو پڑھ کر سو رہے اور اس کے بعد کوئی کلام نہ کرے.تمہیں ترقی کرنے کے لئے ان کو ضرورپڑھنا چاہئے.اب میں اس کے معنی بیان کرتا ہوں انسان کہتا ہے کہ الٰہی میں اپنا سب کچھ آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی جان بھی آپ کے ہی حوالہ کرتا ہوں اب میں سونے لگا ہوں معلوم نہیں زندہ اٹھوں گا یا نہیں اس لئے اپنے سارے کام آپ کے حوالہ کئے دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ ہی سے مجھے انعام ملے گا اور اگر میں اس کے خلاف کروں گا تو سزا ملے گی اور میرے لئے
۲۹۱ اور کوئی جگہ نہیں ہے کہ بھاگ کر تیری سزاؤں سے بچ سکوں سوائے اس کے میرا کوئی چارہ نہیں کہ تجھ ہی سے مار کھا کر تیرے ہی آگے گروں.خدایا گواہ رہیو کہ جو کتاب آپ نے نازل کی ہے میں اس پر اور وہ نبی جو آپ نے بھیجا ہے اس پر ایمان لایا.غرض رسول کریم ﷺ نے اس قسم کے بہت سے اذکار مقرر فرمائے ہیں.مگر ہماری جماعت کی اس طرف بہت کم توجہ ہے تم اس طرف توجہ کرو.مگر نیت اور ارادہ ساتھ ہو سب کام خدا تعالیٰ کو مد نظر رکھ کر کرو اﷲ تعالیٰ ہماری ساری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ نیک اور متقی ہو جائے.دنیاسے غفلت دور ہو اور لوگ پھر اس پیارے کا چہرہ دیکھ لیں جس کو دیکھ کر اور کسی کی طرف کوئی جا نہیں سکتا.آمین
۲۶۳ القول الفصل (خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ ’’اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب "کامدلّل جواب) از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خليفة المسيح الثانی
۲۶۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم القول الفصل مجھے آج اکیس جنوری ۱۹۱۵ء کی شام کو خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک رسالہ جو پچھلےدسمبر میں احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے چھاپ کر شائع کیا گیا ہے اور تمام احمدی جماعت میں مفت تقسیم کیاگیاہے پڑھنے کا موقعہ ملاہے.گو اس میں وہی باتیں دہرا دی گئی ہیں جن کا جواب بارہا ہماری طرف سے دیا جا چکا ہے لیکن چونکہ خواجہ صاحب چھ ماہ کے ایام کے بعدآئے ہیں اور ہندوستان آکر ان کا یہ پہلا وار ہے جو انہوں نےہ ماری جماعت پر کیا ہے یا کم سے کم یہ ٹریکٹ اس لحاظ سے پہلا ہے کہ اس میں انہوں نے دلا ئل دینے کی بھی کوشش کی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ مختصراً اس ٹریکٹ کا جواب دے دیا جائے.گو مجھے اس رسالہ کے پڑھنے کادیر سے موقع ملا ہے اور اب ایک ماہ کے قریب اس کی اشاعت پر گذر گیا ہے لیکن چونکہ خواجہ صاحب اور ان کے دوست اس مضمون پر خاص فخر محسوس کرتے ہیں جو اس رسالہ میں درج ہے اس لئے محققین کو اصل واقعات سے واقف کرنے کے لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اس کا جواب لکھ دوں.مزید تاخیر کو روکنے کے لئے میں نے اسی تاریخ کو صبح سے شام تک بیٹھ کر سارے رسالے کا جواب لکھ دیا ہے اور میں نے اس وقت تک کسی اور غیر ضروری کام کو ہاتھ میں لگایا جب تک اس کو پورا نہ کر لیا ہو.اور میں امید کرتا ہوں کہ صداقت کی طالب رد حیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی.اس ٹریکٹ کے ۷۵ صفات ہیں اور عام طور پر سارے ٹریکٹ میں اعتراض ہی اعتراض ہیں اور مختصرسے اعتراض کا جواب بھی اعتراض سے کسی قدر لمباہی ہو تا ہے لیکن چونکہ ان مباحث پر جن پر خواجہ صاحب نے قلم اٹھایا ہے پہلے کافی بحث ہو چکی ہے اس لئے میں یا تو انہی اعتراضات کا
۲۶۶ جواب دوں گا جو کسی قدرجدّت رکھتے ہوں یا جن کے بیان کرنے میں خواجہ صاحب نے کوئی جدت پیدا کر دی ہو اور باقی مضامین کا مختصر جواب دے کر ان کتب و اخبارات و رسالہ جات کی طرف اشارہ کر دوں گا جن میں اس مسئلہ کے متعلق پہلے بحث ہو چکی ہو.میں اس ٹریکٹ کا جواب خوداس لئے لکھتا ہوں کہ خواجہ صاحب نے اس میں بارہامجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں خود ان کے سوالات کا جواب دوں.اور حضرت مسیح موعود ؑکا حوالہ دیا ہے کہ آپ بھی خود جواب دیا کرتے تھے.اس لئےمجھے بھی آپ کی پیروی کرنی چا ہیے مجھے اس بحث سے سروکار نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنےمخالفین کے اعتراضوں کا کس حد تک خود جواب دیا کرتے تھے اور کس حد تک اپنی جماعت پر اس کام کو چھوڑ دیتے تھے اور پھر کس حد تک مخالفین کے اعتراضوں کو نظراندازہی کر جایا کرتے تھےکیونکہ ان باتوں میں پڑنے سے اس مضمون خبط ہو جاتا ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ خواجہ صاحب کے اس مطالبہ کو بھی پورا کروں اور پھر دیکھوں کہ خواجہ صاحب کہاں تک اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہیں.خواجہ صاحب نے اس ٹریکٹ کے پہلے اور دوسرے صفحے پر اپنے بعض اعتقاد لکھے ہیں اور چونکہ ان میں سے بعض خود حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں ہیں.کسی احمدی کو ان سے انکار کرنےکی گنجائش نہیں ہو سکتی.لیکن میں کہتا ہوں کہ جب کسی اختلافی مسئلہ پر انسان کچھ لکھے تو اس کےدونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہے ہم مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے لکھا ہے کہ حضرت محمدمصطفی ﷺختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتاہوں.میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمدمصطفیٰ پر ختم ہوئی"-"ہمارے نبی کریم اﷺخاتم الانبیاء ہیں.اور آنجناب کے بعداس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا ہو اور قرآن کریم کا ایک شد ،شعشہ یا نقطہ منسوخ نہیں ہو گا.ہاں محدث آئیں گے جو اللہ جلشانہ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور نبوت تامہ کے بعض صفات ظلّی طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور بلحاظ بعض وجوه شان نبوت کے رنگ سے رنگین کئے جاتے ہیں جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے.اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺکو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور اس کے فین کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے پس ایساشخص خدا کی جناب میں پیارا ہو جاتا ہے اور خد ا کا پیار یہ ہے کہ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر
۲۶۷ کرتا ہے اور جب اس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک عملی ثبوت اس کو عطا کرتا ہے جو نبوت محمدیہ کا ظل ہے یہ اس لئے کہ تا اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے اور تا اسلام ہمیشہ مخالفوں پر غالب رہے لیکن ساتھ ہی حضرت مسیح موعود نے اپنے اس تمام کلام کی تشریح خودہ ی کردی ہے اور متکلم سے زیادہ کس شخص کاحق ہو سکتاہے کہ وہ اس کے کلام کی تشریح کرے جب خود حضرت مسیح موعوداپنے کلام کی ایک تشریح فرماتے ہیں تو اب کسی دوسرے کو اس پر قلم اٹھانے کی اجازت نہیں.تصنیف را مصنف نیکوکند بیان.آپ نے جو معنے اپنے کلام کے کئے ہیں وہی درست اور راست ہیں اور جو معنے آپ کے کلام کے خلاف ہوں ان کو آپ کی طرف منسوب کرنا ایک ظلم عظیم ہے یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ جو کچھ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے وہ غلط اورنادرست ہے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ مجھے اللہ تعالی ٰنے مسیح موعود کےتحریر کردہ مضمون کے علاوہ کچھ اور معارف بھی سمجھائے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ حضرت مسیح موعودؑاپنے ایک کام کی خودہی تفسیر فرما دیں اور کوئی شخص آپ کے اسی کلام سے آپ کی تفسیرو تشریح کے خلاف ایک اور ہی معنے لے کر اس تحریر کو اپنے کسی مطلب کے لئے سند کے طور پر پیش کرے.کوئی عقلمند انسان اس منشائے مصنف کے خلاف تفسیرو تشر یح کو قبول نہیں کر سکتا اور اسی لئے ہم بھی اس نتیجہ سے خواجہ صاحب سے متفق نہیں ہو سکتے جو انہوں نےحضرت مسیح موعودؑ کی بعض تحریروں سے نکالا ہے کیونکہ دوسرے مقامات پر خود حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی ان تحریرات کی ایک تشریح فرما دی ہے اور وہ قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے اور لکھ دیا ہے کہ جہاں کہیں بھی میں نے اپنی نبوت سے انکار کیا ہے وہاں میری مراد ایسی نبوت سے تھی جس کا ،مدعی شریعت لائے یا آنحضرت ﷺ کی اتباع کے بغیر نبوت کا درجہ حاصل کرے ورنہ غیر تشریعی اور ایسے نبی ہونے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا جو آنحضرت اﷺکی کامل اتباع سے نبی بن جائے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سےکہ میں نے اپنے رسول ؐمقتداسے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کےواسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جد ید شریعت کے.اس طور کانبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ ان معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر
۲۶۸ کے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا" (اشتہار ایک غلطی کا از الہ صفحہ ۶،۷، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۱۰ ،۲۱۱ ) آپ کی ان تحریرات سے صاف نتیجہ تا ہے کہ آپ نے اپنے نبی ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ جب انکار کیا ہے لوگوں کی اس خود ساختہ اصطلاح سے کیا ہے جو آج کل کے مسلمانوں میں عام طور پر رائج ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ نبی وہی ہوتا ہے جو شریعت لائے یاجس کی نبوت بلاواسطہ ہو اور جوکسی کی امت میں نہ ہو پس خود حضرت موعودؑ کی تشریحات کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ اس قسم کے اصطلاحی نبی ہونے سے انکار کرتے ہیں جو عوام کے خیالات کے مطابق نبی کہلا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ پیش آئی کہ اگر آپ بغیر تشریح کے نبی کا دعویٰ کرتے تو عوام میں جو غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے کہ نبی یا تو شریعت لائے یا یہ کہ ہر ایک پہلے نبی سے اس کی نبوت آزاد ہو ان کے مطابق وہ لوگ آپ کے دعوی ٰکا مفہوم سمجھ لیتے اور اس طرح ان کو خواہ مخواہ دھوکا لگتا.پس آپ نے تشریح کرکے بتایا کہ میں تمهارا اصطلای نبی تو نہیں ہوں.مگر خدا تعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق نبی ہوں.جیسا کہ آپ اپنی نبوت کے متعلق فرماتے ہیں کہ : ’’ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لك أن يشل سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے“ (چشمه معرفت صفحہ ۳۲۶روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱) اسی طرح فرماتے ہیں کہ نبیوں کی اصطلاح کے رو سے بھی میں نبی ہوں.جیسا کہ فرماتے ہیں:.”اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو.اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہو تا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے“.(الوصیت صفحہ ۱۳ ، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۱۱) اسی طرح فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق نبی ہوں:.’’جس کے ہاتھ پر اخبارغیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت نلايظهر على غيبه (الجن :۲۷) کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خداتعالی ٰکی طرف سے بھیجا جائے گااسی کو ہم رسول کہیں گے (" اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸) اسی طرح آپ کی تحریرات سے ثابت ہے کہ پہلے انبیاء بھی اسی لحاظ سے نبی اور رسول
۲۶۹ کہلاتے تھے جس لحاظ سے آپ اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں:.’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے ہیں.یس منجملہ ان انعامات کے ده نبو تیں اور پیشگوئیاں ہیں جنکے رو سے انبیاءعلیم السلام نبی کہلاتے رہے.(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵حاشیه روحانی خزائن جلد ۸ اصفحہ ۲۰۹) اسی طرح اسلام کی اصطلاح میں نبی جس شخص کا نام ہوتا ہے اس کی نسبت فرماتے ہیں:."خدا نے قدیم سے اور جب سے کہ انسان کو پیدا کیا ہے یہ سنت جاری کی ہے کہ وہ پہلے اپنےفضل عظیم ہے جس کو چاہتا ہے اس پر روح القدس ڈالتا ہے اور پھر روح القدس کی مدد سے اس کے اندر اپنی محبت پیدا کرتا ہے اور صدق و ثبات بخشا ہے اور بہت سے نشانوں سے اس کی معرفت کو قوی کر دیتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو دور کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ سچ مچ اس کی راہ میں جان دینے کو تیار ہوتا ہے اور ایسے شخص میں ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اوردوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہو تا ہے اسی وجہ سے ایک طرف تو خدا کے ساتھ اس کا ایساربط ہوتاہے کہ اس کی طرف ہروقت کھینچا چلا جاتا ہے اور دوسری طرف نوع انسان کے ساتھ بھی اس کو ایسا تعلق ہوتا ہے جو انکی مستعد طبائع کو اپنی طرف کھینچتا ہے جیساکہ آفتاب زمین کے تمام طبقات کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور خود بھی ایک طرف کھینچا جا رہا ہے.یہی حالت اس شخص کی ہوتی ہے ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور رسول اور محدث کہتے ہیں اور وہ خدا کے پاک مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق ان کے ہاتھ پر ظاہرہوتے ہیں اور اکثر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں اور اپنی دعاؤں میں خدا تعالی ٰسے بکثرت جوابپاتے ہیں" (لیکچر سیالکوٹ سے صفحہ ۲۲.۲۳، روحانی خزائن جلد ۲۰ ملی ۲۲۴، ۲۲۵) اس بات پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اس امر کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ گو آپ رسول اورنبی کو ایک ہی خیال فرماتے تھے اور ان دونوں ناموں میں فرق نہ فرماتے تھے لیکن آج کل کےمسلمانوں میں سے ایک جماعت میں چونکہ یہ غلط خیال بھی پھیلا ہوا ہے کہ نبی اور رسول میں فرق ہوتا ہے اور رسول وہ ہے جو شریعت لائے اور نبی وہ جو ہر ایک پہلے نبی کی اطاعت سے آزاد ہو.اس لئے آپ نے کبھی کبھی لوگوں کے اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ میں رسول نہیں ہوں لیکن وجہ وہی بتائی ہے کہ میں کوئی کتاب نہیں لایا.چنانچہ فرماتے ہیں:.من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب
۲۷۰ اس مصرعہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آپ نے رسالت کا انکار کس لحاظ سے کیا ہے اسی مفہوم کے لحاظ سے جو لوگوں میں غلط طور پر رسول کی نسبت پایا جاتا ہے جیسا کہ اس مصرعہ کی تشریح میں آپ خود فرماتے ہیں:.’’ میرا یہ قول ؎’’من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب.‘‘ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں“ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۷، روحانی خزائن جلد ۸اصفحہ ۲۱۱) پس اس انکار سے فائدہ اٹھا کر یہ اعلان کرنا کہ حضرت مسیح موعودؑ مجدّدوں میں سے ایک مجدّدہیں اور ماموروں میں سے ایک مامور ہیں اور ایسے ہی نبی ہیں جیسے کہ اور بزرگ نبی کہلا سکتے ہیں سخت ظلم اور تعدی ہے جس کا نشانہ اور بھی کوئی نہیں وہ خدا کا مسیح ہے جس کے ہم پر اس قدراحسانات اور انعامات ہیں کہ ہم ان کا شکریہ ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے.حضرت مسیح موعودؑ توصاف لکھتے ہیں کہ اس امت میں میرے سوا اور کوئی شخص نبی کہلانے کا مستحق نہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:.’’جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیراس نعت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ‘‘(حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶،۴۰۷) اور آپ لکھتے ہیں کہ ایسی نبوت میں حضرت مسیح موعودؑ کے شریک سید عبدالقادر جیلانی ،جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہما اور دیگر بزرگ بھی ہیں ہم یہ مانتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑنے لکھا ہے پچھلے مجدّ دین اور مامور ینِ کمالاتِ نبوت محمدیہ سے حصہ پاسکتے تھے لیکن دہ نبی نہیں کہلا سکتے کیونکہ کمالات سے حصہ پانا ایک اور شئے ہے اور وہ درجہ حاصل کرنا ایک اور شئے ہے خواب بھی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ایک شخص کو اگر سچی خوابیں یا الہام ہوتے ہوں تو اس کی نسبت ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے کمالات نبوت سے حصہ ملا ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نبی ہو گیا.کیونکہ نبی وہی ہو گا جو ان کمالات میں سے اس قدر حصہ پائے جس پر اس کا نام نبی رکھا جا سکے سو ہم مسیح موعود ؑکے ہم زبان ہو کر اقرار کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں ایسے بہت سے مجددین کا وعدہ تھا جو کمالات نبوت سے حصہ پائیں گے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:.’’اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کریم ﷺکے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہو تارہا"
۲۷۱ شہادت القرآن صفحہ ۴۳روحانی خزائن جلد ا۲ صفحہ ۳۳۹) لیکن جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں کمالات سے حصہ پانااور ہے اور نبی کہلانا ایک اور شئے ہے.جب کسی چیز کا کوئی نام رکھا جاتا ہے تو اس کے لئے ایک حد مقرر ہوتی ہے جب تک انسان اس حد تک نہ پہنچ جائے وہ اس نام سے موسوم نہیں ہو سکتا جیسا کہ ایک شخص مثلاً ایم اے کی سب کتابوں میں سے تھوڑا تھوڑا پڑھ لے اور امتحان میں شریک ہو کر ہر پر چہ میں سے کچھ کچھ نمبر بھی حاصل کرے تو وہ ایم اے اس دلیل کی بناء پر نہیں کہلا سکتا کہ اس نے ہر پر چہ میں سے کچھ کچھ نمبر حاصل کر لئے ہیں اسی طرح نبوت کے کمالات اور برکات و انعامات ہیں جب انسان ولایت کے اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے جس کے آگے نبوت کا درجہ شروع ہوتا ہے تو ایسا شخص بوجہ مقام نبوت کے قرب کے نبوت کے تمام کمالات اور برکات اور انعامات میں سے حصہ پاتا ہے.لیکن وہ حصہ اس قدر نہیں ہوتا کہ اس کونبی کہہ سکیں اور یہی درجہ صدیقوں کا درجہ کہلاتا ہے جیسا کہ پہلے مجد دین نے اس امر پر بحث کی ہے.اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ مصدیق وہی ہوتا ہے جو نبوت کےکمالات حاصل کرلیتا ہے لیکن اس قدر حصہ نہیں کہ اسے نبی کہا جا سکے.پس حضرت مسیح موعودؑکے اس حوالہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے اشخاص جو صدیقیت کے رتبہ پرپہنچ جائیں.اسلام میں بہت سے گذرے ہیں لیکن نبی کہلانے والا صرف مسیح موعودؑہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۴۰۷ میں فرماتے ہیں:.\"اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمه و مخاطبہ الہٰیہ اور امورغیبیہ سے حصہ پالیتے تووه نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے.تو اس صورت میں آنحضرت ﷺکی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.اس لئے خدا تعالی ٰکی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کوپورے طور پر پانے سے روک دیا.جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا ایک ہی ہو گا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے ‘‘-( روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۷) پس ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے خلفاء بھی کمالات نبوت سے حصہ پانے والے تھے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں و ہ نبی نہیں کہلا سکتے تھے."اگر تمام خلفاء کونبی کے نام سے پکارا جاتاتوامر ختم ِنبوت مشتبہ ہو جا تا.اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا.کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں.اس لئے حکمت الہٰیہ نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور
۲۷۲ ان کا نام نبی نہ رکھا جائے.اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تا ختم نبوت پر یہ نشان ہو.پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کونبی کے نام سے پکارا جائے تاخلافت کے امرمیں دونوں سلسلوں کی مشابہت ہو جائے“ (تذکرة الشہاد تین صفحہ ۴،۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵) امت محمدیہ میں اب تک کوئی انسان خواہ اس نے کتنا ہی بڑا درجہ کیوں نہ پایا ہو خواہ وہ صحابہؓ میں سے ہو یا غیر صحابہؓ میں سے.نبی نہیں کہلا سکتا.سوائے حضرت مسیح موعود کے.کہ صرف ان کوخدا تعالی ٰنے اس عہده پر مامور کیا ہے اور آنحضرت اﷺکی امت میں سے کوئی شخص اب تک اس انعام میں ان کا شریک نہیں ہوا.اس تحریر کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امت محمدیہ میں سے وہ کون سا انسان ہے جس کی نسبت پہلے انبیاء نے خبریں دی ہیں وہ کون سا انسان ہے جس کی بعثت کی نسبت سے مسیح ناصری ساولو العزم نبی کہتا ہے کہ وہ میری ی بعثت ہوگی.جس کانام خود آنحضرت اﷺنے نبی رکھا.حالانکہ جس قدر اولیاء اب تک گذرے ہیں.ان میں سے کسی کا نام بھی نبی نہیں رکھاوہ کون سا انسان ہے جس کوخداتعالی ٰنے بار بار الہامات میں نبی اور رسول کہا اور جس نے اس نام کو دنیا میں پیش کر کے اعلان کیاکہ میں خدا کا نبی ہوں.ہاں میری نبوت آنحضرت اﷺکے فیضان سے ہے.اس میں کیا شک ہے کہ ایساانسان صرف مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ہیں.اور اس امت میں اب تک ایک انسان بھی ایسا نہیں گذرا جس میں یہ صفات جمع ہوں.خواجہ صاحب اپنے اس مضمون میں ایک طرف تو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ غیر معتبرباتوں پر اعتبارنہیں ہونا چاہئے.غیرذمہ دار لوگوں کی باتوں کو روکنا چاہئے.آرام سے فیصلہ کرنا چاہئے.لیکن اسی رسالہ میں خود وہی ٹھوکریں کھائی ہیں.جن سے لوگوں کو ہوشیار کرتے تھے اور خیالی اور سنی سنائی باتوں پر بہت زور دیا ہے گو کہیں کہیں ڈر کر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ میں نے یہ باتیں سنی ہیں.لیکن کیاانصاف یہی چاہتا تھا کہ وہ ایسی احتیاط کی لوگوں کو تاکید کرتے ہوئے خودایسی بے احتیاطی سے کام لیتے.آپ ہی اپنے قول پر عمل پیرانہ ہوئے تو دوسرے پر آپ کے کلام کا کیا اثر پڑے گا.کیایہ بات قابل تعجب نہیں کہ ایک طرف تو خواجہ صاحب نیتوں پر حملہ کرنے سے روکتے ہیں.اور دوسری طرف خودہی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ سمجھ لینا کوئی مشکل امر نہیں کہ کیوں یہ عقائد وجود میں آئے.جب حضرت میاں صاحب کے مریدین نے آیت استخلاف کا مصداق آپ کو سمجھا تو پھر یہ بھی ضروری ہوا کہ آپ کو کسی مستقل نبی کا خلیفہ قرار دیا جاوے قدر تاً ذہن اس طرف منتقل ہوئے کہ
۲۳۷ مرزا صاحب مستقل نبی ہونے چاہئیں.بات یہ ہے کہ میاں صاحب کی خلافت سے انکار کرنےوالے تب ہی فاسق بن سکتے ہیں.جب میاں صاحب کو کسی مستقل نبی کا خلیفہ قرار دیا جائے اور وہ ہو نہیں سکتا جب تک ختم نبوت سے انکار کرکے حضرت مرزا صاحب کو مستقل نبی نہ بنایا جاوے‘‘ صفحہ۶۵) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ جس احتیاط کی خواجہ صاحب دوسروں کو تاکید کر رہےتھے.اس پر خود عامل نہیں ہوئے.اور ہمارے سب اعتقادات کی بنیاد صرف خود غرضی پر رکھ دی.گویا ان کے خیال میں جس قدر مسائل میں ہمیں ان سے اختلاف ہے اس کی اصل وجہ اپنی خلافت کو ثابت کرنا ہے اور ہمارے دل میں اس قدر بھی ایمان نہیں کہ خدا تعالی ٰکے بھیجے ہوئے دین کو بھی اپنی خود غرضیوں کی لپیٹ سے باہر رکھ سکیں جو کہ حد درجہ کی شقاوت پر دلالت کرتا ہے مگر مجھے اس بات کے جواب دینے کی ضرورت نہیں.اس کا جواب وہی دے گا جو دلوں کا حال جانتا ہے.کیونکہ دلی خیالات پر جب بحث ہو تو انسان اس موقعہ پر کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا.اس وقت خدا تعالیٰ ہی فیصلہ کر سکتا ہے.مگر میں پوچھتا ہوں کہ حضرت خلیفة المسیح الاول بھی اسی آیت سے اپنی خلافت کا استدلال کیاکرتے تھے اور بیسیوں بار آپ نے ایسا فرمایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی ان سے ایساسناہوگا.اگر نہیں سنا تو بعض غیر مبائعین میں سے آپ کے سامنے ضرور یہ شہادت دے سکتے ہوں گےکہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو اس آیت سے اپنی خلافت کے متعلق استدلال کرتے ہوئے سناہے.اس سوال کو چھوڑ کر کہ وہ بھی انسان تھے غلطی کر سکتے تھے.لوگوں کا حق ہے کہ وہ آپ سےدریافت کریں کہ آپ کے مقرر کردہ قاعدہ کے لحاظ سے کیا وہ بھی حضرت مرزا صاحب کو مستقل نبی مانتے تھے کیونکہ بقول آپ کے اس آیت سے انہی خلفاء کی خلافت کی تائید میں استدلال ہو سکتا ہےجو مستقل نبی کے جانشین ہوں اور حضرت خلیفہ اول اس آیت سے اپنی خلافت پر استدلال کیاکرتے تھے.پس اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اول بھی ( آپ کے پیش کردہ اصل کے ماتحت حضرت مسیح موعودؑ کو مستقل نبي مانتے تھے.نعوذباللہ من ذلک پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم کی وہ کون سی آیت ہے جس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ خلفاء صرف مستقل نبی کے ہوا کرتے ہیں یہ تو ایک دعویٰ ہے جو دلیل کا محتاج ہے.اگر آپ اس آیت کو پیش کریں تو اس پر غور ہو سکتا ہے ورنہ خود ہی ایک دعو یٰ کرنا اور اس کو دلیل کے طور پرپیش کرنا انصاف سے بعید ہے قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا کہ خلافت صرف حقیقی نبی یا مستقل نبی
انوار العلوم جلد۲ ۴۷۴ کے بعد ہوتی ہے.اور اس نبی کے بعد جو کسی دوسرے نبی کی اتباع سے نبوت حاصل کرے یانئی شریعت نہ لائے خلافت نہیں ہوتی.پس ہمیں خلافت کے ثبوت کے لئے اس مصیبت میں پڑنے کی ضرورت نہیں.جس کی طرف آپ کی توجہ گئی ہے آپ نے ایک ایسے خیال کو پیش کیا ہے.جس تک ہمارے ذہنوں کو کبھی بھی رسائی نہیں ہوئی.پیشتر اس کے کہ میں خواجہ صاحب کے اس حوالہ سے آگے گذروں.میں خواجہ صاحب سےیہ بھی پوچھتا ہوں کہ آپ نے میری یا میرے مبائعین کی کسی تحریر میں یہ بات لکھی دیکھی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑنئی شریعت لائے تھے یا یہ کہ آپ کو آنحضرتﷺ کی اتباع سے باہر نبوت کاخ خلعت عطا ہوا ہے.اگر آپ ایسا کوئی حوالہ پیش نہیں کر سکتے.تو کیا یہ بات قابل افسوس نہیں کہ آپ ایسا الزام مجھ پر اور میری جماعت پر لگاتے ہیں جو واقعات کے صریح خلاف ہے.دوسرے نون اگر اس بات کی جرات کر لیتے تو کر لیتے.لیکن آپ تو اپنے سارے رسالہ میں اپنی ذمہ داری اور حضرت مسیح موعوؑد اور خلیفہ اول ؓکے قرب کے ثبوت پیش کرتے رہے ہیں.آپ کی شان سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ ایک بات بلا ثبوت پیش کر دیں.حضرت مسیح موعودؑنے حقیقی نبی کے خودیہ معنی فرمائے ہیں کہ جو نئی شریعت لائے.پس ان معنوں کے لحاظ سے ہم ان کو ہر گز حقیقی نبی نہیں مانتے.اور ایسی کوئی تحریر آپ پیش نہیں کرسکتے جس میں میں نے یا کسی مبائع نے یہ بات لکھی ہو کہ حضرت مسیح موعود ؑجدید شریعت لانے والے اور سارے قرآن کریم یا اس کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حصے کو منسوخ کرنے والے تھے.اور اگر ہمارا ایاخیال ہو تا تو چاہئے تھاکہ ہماری نمازوں اور ہمارے روزوں میں فرق ہوتا.اور وہ شریعت ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے جس پر اب ہمارا عمل ہے لیکن کیا کوئی ایسا اعلان میری طرف سے یا میرے مبا ئعین کی طرف سے ہوا ہے.اگر ہواہے تو مہربانی فرما کر آپ اسے پیش کریں.اور اگر حقیقی نبی کے معنی ان معانی کے علاوہ جن کا میں اوپرذکر کر آیا ہوں لئے جائیں تو پہلے ہمارے سامنے دو معنی پیش کئے جائیں، پھر ہم رائے دے سکیں گے کہ آیا حضرت صاحب کو ان معنوں کے لحاظ سے ہم نبی مانتے ہیں یا نہیں.مثلاً اگر کوئی شخص حقیقی نبی کے یہ معنی کرے کہ وہ نبی جو بناوٹی یانقلی نہ ہو بلکہ در حقیقت خدا کی طرف سے خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بنائے ہوئے معنوں کے روسے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو - تمام کمالات نبوت اس میں اس حد تک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں تو میں کہوں گا کہ ان معنوں کے رونے حضرت مسیح موعود ؑحقیقی نبی تھے گو ان
معنوں کی روسے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے حقیقی نبی نہ تھے.اسی طرح مستقل نبی کے معنی خود حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ کئے ہیں کہ جس کو بلا واسطہ نبوت عطا ہو.اور جو کسی اور نبی کی اتباع سے انعام نبوت نہ حاصل کرے.ان معنوں کے لحاظ سے ہم حضرت مسیح موعودؑ کو ہرگز مستقل نبی نہیں مانتے.اور اگر میں نے یا میرے مریدوں میں سے کسی نےایسا لکھا ہے تو آپ اس تحریر کو پیش کریں.ورنہ آپ غلط الزام لگانے کے الزام کے نیچے آجائیں گے.انصاف چاہتا ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اس کا ثبوت دیں.اگر تحریر نہیں تو کم سے کم آپ ویسی ہی حلف اٹھا جائیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے تریاق القلوب میں بیان فرمائی ہے کہ آپ نےمجھ سے ایساسناہے یا کسی میرے مبائع سے ایساسنا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کو بلاواسطہ مانتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کو نبوت آنحضرت ﷺ کی اتباع کے بغیر ملی تھی اور آپ پر آنحضرتﷺ کی اتباع فرض نہ تھی یا یہ کہ آپ کی وفات تک کوئی ایسی گھڑی آپ پر آئی تھی.جس میں آپ آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے آزاد ہو گئے تھے.اگر آپ الی حلف میرے متعلق اٹھائیں گے تو میں مقابل پرویسی ہی حلف اٹھاؤں گا کہ میں نے ایسانہیں کہا.پھر خدا تعالیٰ فیصلہ کرےگا.اور اگر آپ میرے کسی مرید کی نسبت یہ بات ثابت کردیں اور وہ اس الزام کو مان لے تو میں اس شخص کو اگر توبہ نہ کرے فورا ًاپنی بیعت سے خارج کر دوں گا.اور اگر وہ اس الزام سے انکارکرے تو میں اسے مجبور کر دوں گا کہ وہ بھی آپ کے مقابلہ میں تریاق القلوب والی قسم کھاجائے.اور اس کے بعد میں الہٰی فیصلے کامنتظر رہوں گا.اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو مجھے پھرافسوس سے کہنا پڑے گا کہ آپ نے ایک نہایت لطیف مشورہ دیا تھا کہ ہمیں احتیاط سے اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا چاہئے لیکن خوداحتیاط سے کام نہ لیا.خواجہ صاحب نے اپنے اس رسالہ میں میرے ایک خط کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.جو میں نےبرادرمحمد عثمان صاحب لکھنوئ کی طرف لکھا ہے لیکن مجھے تعجب ہے کہ جب خواجہ صاحب کو کسی نے اس خط کے واقعہ سے آگاہ کیا تو آگے یہ نہ بتایا کہ اس خط کی اشاعت پر جب ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ شکر ہے میاں صاحب نے اپنے پہلے عقیدہ سے توبہ کرلی تو ان کےاس اعلان پر میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا.جس میں میں نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ سچے ہیں تو میرا وہ پہلا عقید ہ شائع کریں.جو اس خط میں ظاہر کردہ عقیدہ کے خلاف ہو یا حلف اٹھا جائیں کہ میں نے آپ کی تحریر میں پڑھا نہیں.لیکن اپنے کانوں سے یہ بات سنی ہے تو چھ سو روپیہ انعام بھی
۲۷۶ دوں گا.اگر اس نے آپ کو یہ واقعہ بتادیا تھا تو پھر آپ نے ایسی جرأت کیوں کی کہ چھوٹے اقوال کومیری طرف منسوب کیا.اور اگر اس نے آپ سے یہ بیان نہیں کیا تو آپ مرزا یعقوب بیگ صاحب سے اس کا جواب دلوا دیں.ممکن ہے آپ یہ کہہ کر ٹال دیں کہ خیر مرزا صاحب سے غلطی ہو گئی.اور مجھے سے بھی سہو ہو گیا.لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کیا شرافت اس بات کی مقتضی نہیں کہ جو غلط الزام ڈاکٹر صاحب موصوف نے مجھے پر لگایا تھا.اس کی تردید بھی اسی قلم سے کرتے جس سے انہوں نے حملہ کیا تھا.اور اگر وہ سچے تھے تو میری تحریر پیش کرتے یا اگر خود سنا تھا تو حلف اٹھاتے.لیکن انہوں نے ایسانہیں کیا بلکہ اس بات کو باگئے کہ خود آپ کے سامنے بھی وہ واقعہ بیان نہیں کیا تاکہ آپ بے فائدہ اپنے ٹریکٹ کے بہت سے صفحات کو اس فیصل شدہ مسئلہ کی بحث میں سیاہ نہ کرتے.ٍخواجہ صاحب بار بار دلا ئل پر زور دیتے ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ دلا ئل کس چیز کا نام ہے.ایک شخص جو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے معتمدین میں سے ایک معتمد کے طور پر پیش کرتا ہے.ایک بات بیان کرتا ہے اور بیان ہی نہیں کرتا اس کا اعلان کرتا ہےاور پھر تحریر میں اعلان کرتا ہے لیکن جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ بات کس تحریر میں ہے یا کس تقریر میں ایسابیان ہوا ہے تو وہ نہ تحریر پیش کرتا ہے اور نہ اپنی سماعت کی حلفی شہادت دیتا ہے.اوراس کے دوست برابر اس غلط بیانی کو پھیلا رہے ہیں تو اب وہ کون سا طریق ہے جس سے فیصلہ ہوسکے ؟ آپ ہی ان کو تین باتوں میں سے ایک پر مجبور کریں یا تو وہ میری تحریر پیش کریں یا اپنی سماعت کو حلف سے مؤکد کر کے (جیسی حلف حضرت مسیح موعودؑنے تریاق القلوب میں لکھی ہے) شائع کریں یا یہ اعلان کریں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی.میں اپنے بیان کو واپس لیتا ہوں.اس کے سوا اور کون ساطریق فیصلہ ہے؟- میں پھر بڑے زور سے اعلان کرتا ہوں جیسا کہ پہلے متعدد بار اعلان کر چکا ہوں کہ میں مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں.لیکن نہ ایسا کہ وہ نئی شریعت لائے ہیں.اور نہ ایسا کہ ان کو آنحضرت ﷺکی اتباع کے بغیر نبوت ملی ہے.اور ان معنوں سے آپ کو حقیقی نبی نہیں مانتا.ہاں اگر حقیقی نبی کے یہ معنے ہوں کہ وہ نبی ہے یا نہیں تو میں کہوں گا کہ اگر حقیقی کے مقابلہ میں نقلی یا بناوٹی یا اسمی نبی کو رکھا جائے تو میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں.بناوٹی یا نقلی یا اسمی نہیں مانتا.میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں.ایک جو شریعت لانے والے ہیں دوسرے جو شریعت تو نہیں لاتے لیکن ان کو بلا واسطہ نبوت ملتی ہے.اور کام وہ پہلی امت کاہی کرتے ہیں.جیسے سلیمان، زکریا، یحییٰ علیہم السلام اور ایک
۲۷۷ وہ جو نہ شریعت لاتے ہیں.اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے.لیکن وہ پہلے پی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں.اور سواۓ آنحضرت ﷺکے کوئی نبی اس شان کا نہیں گذرا کہ اس کی اتباع میں ہی انسان نبی بن جائے.لہٰذاااس قسم کی نبوت صرف اس مکمل انسان کے اتباع میں ہی پائی جاسکتی تھی.اس لئے پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں.اور اس امت میں سے بھی صرف مسیح موعود ؑکو اس وقت تک یہ درجہ عطا ہوا ہے.اور پہلی امتوں میں اس کی نظیرنہ ملنے کی یہ وجہ نہیں کہ پہلے حقیقی نبی آسکتے تھے.اس لئے ایسے نبی کی کوئی ضرورت نہ تھی.بلکہ پہلے نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا استاد نہیں ہوا جس کی شاگردی میں نبوت مل سکے اس لئے پہلے نبیوں کی امت کے لوگ ایک حد تک پہلے نبی تربیت کے نیچے ترقی پاتے پاتے رک جاتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر نظر فرماتا تھا اور جن کو اس قابل پاتا کہ وہ نبی بن سکیں ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا اور براہ راست نبی بنادیتا لیکن ہمارے آنحضرت ﷺکو اللہ تعالی ٰنے ایسے بلند مقام پر کھڑا کیا اور اپنے استادی کا ایسااعلیٰ درجہ حاصل کرلیا کہ آپ اپنے شاگردوں کو اس امتحان میں کامیاب کراسکتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ خود ایم اے ہوتے ہیں لیکن ان کی لیاقت ایسی اعلیٰ نہیں ہوتی کہ ایم اے کی جماعت کو پڑھاسکیں اور بعض ایم اے ایسے لائق ہوتے ہیں اور ان کا علم اور درجہ استادی ایسابڑها ہوا ہوتا ہے کہ وہ ایم اے کی جماعت کو خوب پڑھاسکتے ہیں.اسی طرح پچھلے نبیوں کی مثال سمجھ لوده اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے بزرگ تھے نبی تھے.لیکن ان میں سے ایک نے بھی آنحضرت ﷺ کی عظمت کے مقام کو نہیں پایا.اس لئے ان کے مدرسہ کا آخری امتحان نبوت نہ تھا بلکہ ولایت تھا پھر نبوت بلاواسطہ موہبت سے ملتی تھی لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو ایسا درجہ استادی طاکہ آپ کے مدرسہ کو کالج تک بڑھادیا گیا اور آپ کی شاگردی میں انسان نبی بھی بن سکتا ہے.اور اگر آپ سے پہلے نبیوں میں سے کوئی ایسا استاد کامل ہو جا تاتووہی خاتم النبّین ہو تاکیونکہ جس استاد کی شاگردی میں نبوت حاصل ہو سکتی ہو اس کے بعد کسی اور استاد کی ضرورت نہ تھی کیونکہ نبوت کے بعد اور کوئی انعام نہیں.اسی طرح اگر قرآن کریم سے پہلے کوئی اور کتاب ایسی كامل ہوتی کہ اس پر چل کر انسان نبی بن سکتا تو دنیا کی آخری کتاب ہوتی.کیونکہ اس کتاب کےبعد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جو کتاب نبی بنا سکتی وہ کامل ترین کتاب ہوتی اور کامل ترین کے بعد اور کسی کتاب کی حاجت نہ تھی.پس پہلے بلاواسط غیر تشریعی نبی اس لئے آتے تھے کہ اس وقت تک کوئی نبی خاتم النبین ہونے کے لائق نہ تھا.اور کوئی کتاب خاتم الکتب ہونے
۲۷۸ کے درجہ پر نہ تھی وہ آنحضرتﷺہی تھے جن کی نسبت فرمایا گیا کہ دنا فتدلی وکان قاب قوسين أو أدنی(النجم ۹.۱۰) وہ آپ ہی تھے جن کی نسبت فرمایا گیا کہ قل يايها الناس انی رسول اللہ إليكم جميعاالذی لہ ملک السموت والأرض (الاعراف:۱۵۹) پھروه قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس کی نسبت فرمایا گیا کہ اليوم أكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتی (المائدہ:۴) اور قرآن کی ایک کتاب ہے جس کی نسبت فرمایاانا نحن نزلنا الذكروانالہ لحفظون (الحجر ۱۰) پس ضرور تھا کہ جب وہ نی اور وہ کتاب آجائے جس کی شاگردی میں اور جس پر عمل کر کے انسان نبی ہو سکتا ہو تو اس کی کو خاتم النبین بنا دیا جائے اور اس کتاب کو خاتم الكتب قرار دیا جائے اور یہی سچے معنی ہیں خاتم النبین کے.چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں نؤمن بانہ خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ الا الذی ربیٰ من فیضہ و اظھرہ وعدہ (مواہب الرحمن صفحہ ۶۹، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۵) یعنی ہم مانتے ہیں کہ آپ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی کہ جس کی تربیت آپ کے فیض سے ہوئی.اور جس کو آپ کے وعدہ نے ظاہر کیا.پس ظلّی اوربروزی نبوت کوئی گھٹیا قسم کی نبوت نہیں.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مسیح موعود کس طرح ایک اسرائیلی نبی کے مقابلہ میں یوں فرماتے کہ:.ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلامِ احمدؐ ہے بلکہ یہ نبوت اس شخص کی عزت میں ایک شمّہ بھر بھی فرق کرنے کے بغیر جس کو یہ نبوت عطاہوآنحضرت ﷺ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے اور بجائے ظلی نبی کی عظمت کو حقیقی نبیوں سے کم کرنے کے اس کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کوسب نبیوں سے بڑا ثابت کرے.پس یہ مت خیال کرو کہ حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ ظلّی نبوت ملی اس لئے آپ کا معاملہ پہلے نبیوں سے مختلف ہے نہیں ایسا ہرگز نہیں.آپ کو نبوت حقیقی اس لئے نہیں لی کہ اب براہ راست موہبت کی ضرورت نہ تھی بلکہ دنیا میں وہ استاد ظاہر ہو چکا تھا جو اپنے علم اور عمل کے زورسے اعلی ٰسے اعلیٰ امتحانوں میں لوگوں کو پاس کراسکتا تھا.اور الہٰی یونیورسٹی کی تعلیم ایسی اعلیٰ پیمانہ پر ترقی پا چکی تھی اور قرآن کریم جیسی ہر زمانہ کےلئے یکساں مفید کتاب تیار ہو چکی تھی اس لئے اب پرائیویٹ امتحان سے دنیا کو روک دیا گیا لیکن کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ جس نے کالج میں پڑھ کر امتحان پاس کیا وہ اس سے ادنیٰ ہے جس نے پرائیویٹ
۲۷۹ طور پر امتحان پاس کیا.کہیں ایسا ہرگز نہیں ہیں کیونکر ممکن ہے کہ وہ نبوت جو آنحضرت ﷺکی شاگردی میں ملے وہ اس نبوت سے ادنیٰ ہو جو پرائیویٹ ایپر(Apear) ہونے والے طلباء کو مل چکی ہو.ممکن ہے کہ ایک پرائیویٹ امتحان دینے والا کا لج میں امتحان دینے والے لا ئق ہو اور ممکن ہے کہ ایک کالج کا سٹوڈنٹ پرائیویٹ طور پر تیاری کرنے والے سے لیاقت میں اعلیٰ ہو.یہی حال یہاں ہے مسیح موعودؑ بعض پہلے نبیوں سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے اور بعض سے کم.اور میں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعودؑ سے سنا ہے کہ میں وہی ہوں جس کی نسبت ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ابو بکرؓ سے بڑھ کر ہو گاتو اس نے جواب دیا کہ وہ تو کئی پہلے نبیوں سے بھی شان میں بڑا ہو گا.پس اس کے ظلی نبی ہونے کے صرف یہی معنی ہیں کہ آنحضرتﷺ و دنیا کے تمام انسانوں سے خواہ وہ غیرنبی ہوں یا نبی بڑھ کر ہیں.اور اسی مضمون کی طرف حضرت مسیح موعودؑ کا مندرجہ زیل الہامی شعر اشارہ کرتا ہے.برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان ہے جس کا غلام دیکھ و مسیح الزمان ہے (تذکرہ ۶۹۰) اس الہامی شعر میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ اس کی عظمت شان کا ثبوت یہ ہے کہ مسیح الزمان اس کا غلام ہے اب تم جس قدر بھی مسیح موعود کی عزت کرو گے اتنی ہی آنحضرتﷺکی عزت ہوگی کیونکہ جس کا غلام بڑا ہو آقا ضرور اس سے بڑا ہو گا.اور جتنی شان مسیح موعودؑکی کم کرو گے اتنی ہی گویا نبی کریمﷺ کی شان کم کرو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت ﷺکی شان کے سمجھنے کے لئے مسیح موعود کی شان کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائی ہے پس مسیح موعود کی شان کے بڑھنے سے آنحضرت ﷺ کی شان بڑھتی ہے اور ہم پر خدا تعالی ٰکا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کے سمجھنے کی توفیق دی ہے کہ مسیح موعودویساہی مکرم نبی ہے جیسے کہ پہلے نبی تھے اور یہ سب درجہ آنحضرتﷺ کی اطاعت اور غلامی سے ملا ہے.پس کیاہی مبارک ہے وہ نبی.ہاں کیاہی معززہے وہ نبی جس کی غلامی میں ایسا عظیم الشان انسان پیدا ہوا.اب میں یہ بات بتا چکا ہوں کہ ارے اعتقاد کے مطابق مسیح موعود ظلی اور بروزی نبوت کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ آپ کو نبوت آنحضرتﷺ کی شاگردی اور اطاعت میں ملی ہے اور پہلے نبیوں کو براہ راست نبوت ملتی تھی.اور اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ آپ کی نبوت کوئی
انوار العلوم جلد۲ ۲۸۰ آنر یری خطاب تھا جس کی کوئی اصل یا حقیقت نہیں اور جس نبوت سے وہ حقوق حاصل نہیں جو نبیوں کو حاصل ہوتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ کوئی بڑا میردےدے.اور ایک شخص اپنی محنت سے ایک لاکھ روپیہ کمائے.اب ہم کہیں گے کہ ان میں سے ایک شخص تو خود امیر بنا ہے اور دوسرے کو کسی اور نے امیر بنا دیا ہے لیکن کیا ہمارے اس قول کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ شخص جس نے ایک لاکھ روپیہ کمایا ہے زیادہ امیرہے اس سے جس کو کسی بڑے امیرنے ایک لاکھ روپیہ دے رہا ہے؟ آپس میں یہ دونوں ایک ہی درجہ کے سمجھے جائیں گے.ہاں فرق صرف یہ ہو گا کہ ہمارے اس قول سے کہ فلاں شخص فلاں دوسرے شخص کے طفیل سے امیر ہو گیا ہے اس کی عظمت ظاہر ہوئی جس نے ایک لاکھ روپے دیا اور ایک شخص کو امیر بنایا.اسی طرح ہمارے اس قول سے کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت ظلی اور بروزی تھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے آنحضرت ﷺسب نبیوں کے سردار تھے وہ نبی ہی نہ تھے بلکہ نبی گر تھے لیکن اس قول سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کوئی گھٹیا قسم کی نبوت تھی یا یہ کہ آپ پروہ احکام نہیں لگتے جو پہلے نبیوں کی نسبت قرآن کریم میں مذکور ہیں خوب یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود کو نبوت آنحضرت ﷺکے خزانہ سے ملی ہے پس اگر کوئی شخص اس نبوت کو پہلی نبوتوں سے ادنیٰ قسم کی نبوت خیال کرتا ہے توده خود آنحضرت ﷺپر اعتراض کرتا ہے کیونکہ جو پانی کے گلاس پر جس میں باہر سے کوئی گند نہیں ملا اعتراض کرتا ہے وہ دراصل کنویں پر اعتراض کرتا ہے اور جو اس موتی کی قیمت جو موتیوں کے کھیت کے اعلیٰ موتیوں میں سے ہے کم لگاتا ہے وہ در حقیقت اس موتیوں کے کھیت کی قیمت کم لگاتا ہے جس سے وہ نکالا گیا اور جو اس لعل کو جو لعلوں کی کان کے اعلیٰ لعلوں میں سے ہے ادنی ٰقرار دیتا ہے وہ در حقیقت اس کان کی حیثیت پر اعتراض کرتا ہے جس سے وہ نکالا گیا ہے.پس مسیح موعود کی نبوت کو ایسی نبوت قرار دینے والا کہ وہ ایک آنریری عہدہ ہے درحقیقت اس سے وہ حقوق حاصل نہیں ہوتے جو قرآن کریم میں انبیاء کے بیان ہوئے ہیں آنحضرت ﷺ پر حملہ کرتا ہے گو ممکن ہے کہ وہ خود بھی نہ سمجھتا ہو کہ میں کیا کر رہا ہوں کیا یہ درست نہیں کہ جو شخص کسی شخص کو بادشاہ اس لئے کہتا ہے کہ وہ سید ھاساده انسان ہے( اور ہنسی سے ہمارے ملک میں ایسے آدمی کو بادشاہ کہہ دیتے ہیں) وہ در حقیقت بادشاہوں کی ہتک کرتاہے اور جو شخص کسی شہنشاہ کو اس بناء پر شہنشاہ کہتا ہے کہ اس کے ماتحت مذکورہ بالا خم کے چند بادشاہ ہیں وہ اس شہنشاہ کی ہتک کرتا ہے پس اسی طرح جو شخص ایک نئی قسم کی نبوت (جس میں سارے
۲۸۱ القول الفل ولیوں اور بزرگوں کو شامل کرلیتا ہے جن کو خدا تعالیٰ نے نبی نہیں کہا) ایجاد کر کے اسے مسیح موعود کی طرف منسوب کرتا ہے وہ ایک طرف تو مسیح موعود کے درجہ کو کم کرتا ہے.اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ پر بھی حملہ کرتا ہے.میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود پر دو زمانے گزرے ہیں ایک تو وہ زمانہ تھا کہ آپ کو جب اللہ تعالیٰ کی وحی میں نبی کہا جاتا تو آپ اس پرانے عقیدہ کی بناء پر جو اس وقت کے مسلمانوں میں پھیلا ہوا تھا اپنے آپ کو نبی قرار دینے کی بجائے ان الہامات کے یہ معنی کر لیتے تھے کہ نبی سے مراد صرف ایک جزوی نبوت ہے.اور بعض دوسرے انبیاء پر جو مجھے فضیلت دی گئی ہے وہ بھی ایک جزوی فضیلت ہے اورجزوی فضیلت ایک غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ ہرامر میں کسی نبی پر اپنے آپ کو افضل سمجھ لیتے تو اس سے یہ بھی لازم آتا کہ آپ نبی ہیں کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ ایک نبی سے کمالات میں بڑھ جاتے لیکن پھر بھی نبی نہ بنتے.پس آپ عام مشہور عقیدہ کے ان اپنی نبوت جزوی نبوت اور اپنی فضیلت جزوی فضیلت قرار دیتے رہے.لیکن بعد میں اللہ تعالی ٰکی متواتر وحی نے آپ کو اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور آپ نے اپنے پہلے عقیدہ کو ترک کردیا.چنانچہ آپ پر جب کسی شخص نے یہ اعتراض کیا کہ آپ پہلے تو لکھتے تھے کہ میں نبی نہیں اور مسیح نبی ہے اس لئے مجھے اس پر صرف جزوی فضلیت ہے اب اس کے خلاف کیوں لکھتے ہیں تو آپ نے اس کا جو جواب دیا.اسے میں ذیل میں درج کر دیتا ہوں بلکہ معترض کا اعتراض بھی درج کردیتا ہوں تاکہ اس جواب کے سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو.سوال نمبر(1)تریاق القلوب کے صفحہ ۳۵۳ میں (جو میری کتاب ہے) لکھا ہے’’ اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے کہ جو غیرنبی کونبی پر ہو سکتی ہے.پھر ریویو جلد اول نمبر ۶صفحہ۲۶۱میں مذکور ہے’’ خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجاجو اس پہلے سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے“ پھر ریویو و صفحہ ۴۷۸ میں لکھا ہے "مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہو تاتو کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا.اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا.‘‘خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.؎ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۴۸۱ جلد ۱ نمبر ۱۲
انوار العلوم جلد۲ ۲۸۲ الجواب:یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالی ٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہےنہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں.خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.لأجودنفست مث روب الخطاب یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنےلئے نہیں چاہتا.یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہوگیا.سواس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں.اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خداتعالی ٰنے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا.اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا.اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنانہ چاہا کہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقادوہی رکھاجو عام مسلمانوں کا تھا او راسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہٰی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہانشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے.اور خدا کے چمکتےہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کر کے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیاتو آیات قظعیۃ الدلات سے ثابت ہوا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر ای امت میں سے آئے گا.اورجیسا کہ جب دن چڑھ جاتا تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صد ہانشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئےمجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعودمان لوں.میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو.مجھےاس بات کی ہرگز تمنانہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیده ر ہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں
۲۸۳ گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایساتو نے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے؟ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خداکے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضيلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خداتعالی ٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب دے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالی ٰکی وحی کی اس رسالہ میں بھی لکھی ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیافرماتا ہے‘‘ (حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۴) اس حوالہ کو پڑھ کر ہر ایک شخص تین باتیں معلوم کر سکتا ہے.(۱) اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعو داس تناقض کو جو آپ کی دو تحریروں میں پایا جاتا ہے.اس تناقض سے مشابہ قرار دیتے ہیں جومسئلہ حیات و وفات مسیح کے متعلق آپ کی کتابوں میں پایا جاتا ہے.اور وہ یہ کہ آپ نے براہین احمدیہ میں لکھا تھا کہ مسیح ناصری ہی دوبارہ دنیا میں آئے گا.اور بعد میں لکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے اورمیں ہی وہ مسیح ہوں جس کی خبر دی گئی تھی اور اس تناقض کی وجہ یہ تھی کہ پہلے آپ کاوہی اعتقاد تھاجو اس وقت کے مسلمانوں میں رائج ہے مگر بعد میں اللہ تعالی ٰکی وحی سے آپ کو یہ عقیدہ بدلناپڑا.پس اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ نبوت کے متعلق بھی آپ کے خیال میں تغیر ہوا ہے اور پہلے آپ کا اپنے نبی ہونے کے متعلق اور کسی نبی پر اپنی فضیلت کے متعلق اور مذہب تھا- (۲) بعدمیں خدا تعالیٰ کی وحی نے اس کو بدلا دیا.اور آپ پر روشن ہو گیا کہ آپ حضرت مسیح سے ہررنگ میں افضل ہیں اور یہ کہ آپ نبی ہیں-ہاں ایسے نبی نہیں کہ پہلے کسی نبی کے متبع نہ ہوں بلکہ ایسے نبی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں ہو کر پھرنبی ہیں.اس حوالہ پر بعض لوگ یہ اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے جو یہاں لکھا ہے کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا.اس اوائل سے مراددعویٰ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ ہے اوراس تحریر سے آپ نے صرف اپنے اس عقیدہ کو غلط قرار دیا ہے جو دعویٰ مسیحیت سے پہلا تھا ورنہ دعویٰ مسیحیت کے بعد آپ جو کچھ کہتے رہے اسے غلط قرار نہیں دیا.اس لئے وہ تمام تحریر یں جو دعویٰ مسیحیت کے بعد مسئلہ نبوت پر آپ نے تحریر فرمائیں ان سے اس مسئلہ پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کی تقریر میں جو انہوں نے ایام
۲۸۴ دسمبر میں لاہور میں کی اس پر خاص زور دیا گیا تھا اور ان کے لیکچر کایہ ایک خاص نکتہ تھا جسے بہت پسندکیا گیا اور جس سےحقیقۃ الوحی کے مذکورہ بالا حوالہ کی وہ اہمیت جاتی رہتی ہے جو حضرت مسیح موعودکونبی قرار دینے والے اسے دینا چاہتے ہیں.مگر مجھے تعجب اور سخت تعجب ہے ان لوگوں پر جو حضرت صاحب کے ان الفاظ سے کہ أوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ عقیده و عویٰ مسیحیت سے پہلے کا ہے کیونکہ اگر سوال کرنے والا اپنے سوال میں جن دونوں مضمونوں میں تنا قض ظاہر کرتا ہے ان کا حوالہ نہ دے دیتاتو بیشک ایک شخص کہہ سکتا تھا کہ اوائل کے مذہب سے مراددعویٰ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ ہے نہ کہ دعویٰ مسیحیت کے بعد کا زمانہ.لیکن جب معترض تریاق القلوب کا حوالہ دیا ہے اور کہتا ہے کہ تریاق القلوب میں آپ نے لکھا ہے کہ میں چونکہ امتی ہوں اور حضرت مسیح نبی.اس پر مجھے صرف جزوی فضیلت ہو سکتی ہے اور بعد میں رسالہ ریویو آف ریلیجز میں اس کے خلاف لکھا ہے (جس کے ایڈیٹراس کے ایڈیٹر خود مولوی محمد علی صاحب تھے اور حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ ان دونوں حوالوں میں تناقض نہیں بلکہ تریاق القلوب کے وقت میرا اپنا اجتہاد تھا اور بعد میں خداتعالی ٰنے الہام سے مجھے اس عقیدہ سے پھیر دیا تو اب اوائل کے معنی یہ کرنے کہ اس سے مراد دعویٰ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ ہے اور اس طرح تریاق القلوب کے ان حوالوں سے فائدہ اٹھانا کس قسم کی دیانت اور امانت ہے اور کیا مؤمنانہ شان ایسی بات کی مقتضی ہے کہ انسان ایسے عظیم الشأن مسائل پر قلم اٹھاتے ہوئے صرف ایک فقرہ کو دیکھ کر اس پر رائے زنی کرنی شروع کردے.اگر اوائل کے معنی زمانہ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ کرنے والے لوگ سائل کے سوال کو دیکھ لیتے کہ وہ کن دو تحریروں میں تناقض ظاہر کرتا ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی.اور اس کے لئے کسی دوسری کتاب یا کسی لمبی تحقیقات کی ضرورت نہ تھی بلکہ صرف ایک صفحہ پہلے نظرمارنے کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ جس احتیاط کی طرف دوسروں کو بلایا جاتا ہے اس پر خود عمل نہیں کیا جا تا.ہم نے سوال اور جواب دونوں اوپرنقل کردیئے ہیں اور ان کو پڑھ کر ہر ایک صحیح الدماغ انسان سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود نے تسلیم کیا ہے کہ تریاق القلوب میں آپ نے نبوت کے متعلق اور لکھا ہے اور ریویو آف ریلیجز میں اس کے بعد اور خیال ظاہر فرمایا ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے تناقض نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ میں نے براہین احمدیہ میں ظاہر کیا تھا کہ مسیح زندہ ہے اور بعد میں ظاہر کیا کہ نہیں وہ فوت ہوگیا ہے اور تریاق القلوب کے اس حوالہ اور
۲۸۵ ریویو آف ریلیور کے مضمون کا اختلاف بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ بعد میں مجھے وحی الہٰی نے اپنا عقیده بدلنے پر مجبور کردیا.اگر حضرت مسیح موعود کا منشاء اوائل سے دعویٰ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ تھا اور تریاق القلوب کا زمانہ نہ تھا تو بجائے تریاق القلوب اور ریویو میں اختلاف کو تسلیم کرنے کے آپ یہ جواب دیتے کہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے کے عقیدہ کاتر بیشک بعد کے عقیدہ سے اختلاف ہے لیکن یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ تریاق القلوب اور ریویو کے مضامین میں اختلاف ہے.یہ بالکل باطل ہے.اور دونوں کا مضمون ایک ہی ہے.اور ان میں کوئی اختلاف نہیں.لیکن آپ معترض کے اعتراض کو قبول کرتے ہیں اور یہ جواب دیتے ہیں کہ تریاق القلوب کی تحریر تک میرا اور عقیدہ تھا بعد میں متواتر وحی نے اس عقیدہ کو بدل دیا.پس اس صراحت کے ہوتے ہوئے اوائل کے معنی دعویٰ مسیحیت سے پہلے کا زمانہ کرنا ایک ایسی دلیری ہے جس کا مرتکب اگر غلطی سے ایسا نہیں کر تاتو دنیا کو سخت دھوکہ دینے والا ہے.غرض کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے کہ تریاق القلوب کی اشاعت تک (جو کہ اگست ۹۹ء سے شروع ہوئی اور ۲۵اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی)، آپ کا عقیدہ یہی تھا کہ آپ کو حضرت مسیح ؑپر جزوی فضیلت ہے.اور یہ کہ آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت ہے لیکن بعد میں جیسا کہ نقل کرده عبارت کے فقرہ دو اور تین سے ثابت ہے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ ہر ایک شان میںمسیح ؑ سے افضل ہیں اور کسی جزوی نبوت کے پانے والے نہیں بلکہ نبی ہیں ہاں ایسے ہی جن کو آنحضرت اﷺکے فیض سے نبوت ملی.پس۱۹۰۲ءسے پہلے کی کسی تحریر سے حجت پکڑنابالکل جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مسیح موعودنے فیصلہ کر دیا ہے کہ تریاق القلوب میں جو آپ نے اپنا عقیدہ نبوت کے متعلق لکھا ہے بعد کی وحی نے اس سے آپ کو بدلادیا.اس جگہ اگر کوئی شخص کہہ دے کہ یہ تو وہی ہوتا ہے جو شریعت لائے یا کسی دوسرے نبی کی اتباع سے اسے نبوت نہ ملے اور چونکہ حضرت مسیح موعود میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتی تھیں اس لئے آپ کو نبی نہیں کہہ سکتے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک عوام میں یہ عقیدہ پھیلا ہواہے لیکن جیسا کہ ہم شروع مضمون میں لکھ آئے ہیں - خد ااور قرآن کریم کی اصطلاح میں نبی کے لئے یہ شرائط لازمی نہیں ہیں.اور اگر ابتدائے دعویٰ مسیحیت کے وقت حضرت مسیح موعودؑنے کبھی ان
۲۸۶ امور کے خلاف کچھ لکھا ہو تو وہ خود آپ کے بیان کے مطابق اسی وجہ سے تھا کہ لوگوں میں یہی عقیده رائج تھا.اور آپ نے اسے اس وقت تک ترک کرنا پسند نہ فرمایا.جب تک اللہ تعالی ٰنے آپ کو بار بار وحی کے ذریعہ سے اس کی غلطی سے آگاہ نہ فرمایا.ہم حضرت مسیح موعود کو نبی کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ کیا محّدث اور مجدّد ؟ ہاں ہم بے شک یہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود محّدث اور مجدّد بھی تھے.لیکن محّدث اور مجدّد آنحضرتﷺ بھی تھے.لیکن جب کوئی آنحضرت ﷺ کا دعویٰ پوچھے تو ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ بس آپ کا دعوی ٰتو صرف مجدد اور محدث ہونے کا تھا.نہیں ایسے موقع پر ہم کہیں گے کہ آپ کا دعویٰ نبی ہونے کا تھا.بلکہ خاتم النبین ہونے کا تھا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود کے دعاوی اور آپ کے درجہ کے متعلق سوال ہو تو ہم مجبور ہو گئے کہ بتائیں کہ آپ کا آخری درجہ نبی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آنحضرت ﷺ کا ظلی نبی ہونا تھا.چنانچہ جو لوگ آپ کا آخری درجہ مجددیت اور محدثیت کو قرار دیتے ہیں.ان کی غلطی خود حضرت مسیح موعود کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے.’’اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والانبی کا نام نہیں رکھتاتو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کو اس کا نام محدث رکھنا چاہے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے‘‘ – ا(یک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۰۹) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت صاحب کو جو درجہ ملاوہ محد ثیت کا درجہ نہ تھا بلکہ اس سے بڑھ کر تھا اور بڑے درجہ میں چھوٹے درجے آپ آجاتے ہیں.غرض کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے.اور جہاں آپ نے نبوت سے انکار کیا ہے.انہی معنوں سے انکار کیا ہے جو لوگوں میں غلط طور پر رائج ہیں.اور وہ یہ کہ نبی صرف وہ ہو سکتا ہے جو شریعت لائے.یا یہ کہ پہلے کسی نبی کی اتباع سے اسے نبوت نہ ملے.چنانچہ آپ اس عقیدہ کو باطل قرار دے کر نبی کے حقیقی معنے براہین میں یوں درج فرماتے ہیں."یہ تمام بد قسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو.اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہٰیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں.اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کامتبع نہ ہو‘‘-(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶)
۲۸۷ اب میں آخر میں حضرت مسیح موعود ؑکی ایک ڈائری کا مضمون ذیل میں درج کرتا ہوں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے ان لوگوں کو کس طرح ڈانٹا ہے جو دوسروں سے ڈر کر آپ کی نبوت سے انکار کرتے ہیں.اور اسی کی غلط تاویلات کرنی شروع کردیتے ہیں: ’’ایسارسول ہونے سے انکار کیا گیا ہے جو صاحب کتاب ہو.دیکھو جو امور سماوی ہوتے ہیں ان کے بیان کرنے میں ڈرنانہیں چاہئے.اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں.صحابہ کرام ؓکے طرز عمل پر نظر کرو- وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھاوہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے.جب ہی وہ لا يخائون لومة لائم کے مصداق ہوئے.ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.دراصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالی ٰجس کے ساتھ ایسا مکالمه مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دو سروں سے بہت بڑھ کر ہو.اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں.اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے.اور نئی کتاب لاۓ ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں.بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے جن سے موسوی دین کی شوکت و صداقت کا اظہار ہو.پس وہ نبی کہلائے.یہی حال اس سلسلہ میں ہے.بھلا اگر ہم نبی کہلائیں تو اس کے لئے اور کون سا امتیازی لفظ ہے جو دو سرے ملہموں سے ممتاز کرے.‘‘ "..................ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو- وہ مرد ہ ہے ، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو جو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں کوئی نبی نہیں ہوتا.اگر اسلام کا بھی یہی حال ہو تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھہرے.کس لئے اس کو دوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں.ہم پر کئی سالوں سے وحی نازل ہو رہی ہے اور اللہ تعالی ٰکے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں.اسی لئے ہم نبی ہیں.امرحق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہیے ".(بدر نمبر۹ جلد ۷-۵مارچ ۱۹۰۸ء) اس حوالہ کے بعد میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کونبی کہہ کر|پکارا بھی ہے.چنانچہ پگٹ کے مقابلہ میں جو اشتہار رہا تھا.اس کے آخر میں جہاں مشتہرکا نام لکھا جاتا ہے یہ الفاظ تھے:-\"The Prophet Mirza Ghulam Ahmad\" یعنی النبی مرزا غلام احمد
۲۸۸ اسی طرح دافع البلا ءمیں قادیان کی نسبت لکھتے ہیں کہ یہ خدا کے رسول کاتخت گاہ ہے.اب میں خواجہ صاحب کے ایک اور اعتراض کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ میاں صاحب کی خلافت ثابت کرنے کے لئے مسیح موعود کو مستقل نبی ثابت کیا جا تا ہے.اورپھر آپ کو مستقل نبی ثابت کرنے کے لئے آپ کو احمد ثابت کیا جاتا ہے.اور کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کانام احمدؐ کسی نے نہیں رکھا.اور یہ ایک غلطی سے دوسری غلطی نکلی ہے.اور لکھتے ہیں کہ یہ بات مسیح موعود کے بیان کے بھی خلاف ہے.افسوس کہ خواجہ صاحب نے پھر پورےمطالعہ کے بغیر یہ بات لکھ دی ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو احمد لکھا ہے اور لکھا ہے کہ اصل مصداق اس پیشگوئی کا میں ہی ہوں کیونکہ یہاں صرف احمد کی پیشگوئی ہے.اور آنحضرت ﷺ احمد ؐ اور محمدؐ دونوں تھے.چنانچہ آپ ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں."اور اس آنے والے کا نام جو احمدؐ رکھا گیا ہے.وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد ؐ" جلالی نام ہے اور احمد اجمالی اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کے رو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ہے.وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُمگر ہمارے نبی ﷺ فقط احمد ہی نہیں بلک محمدؐ بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں.لیکن آخری زمانہ میں بر طبق پیشگوئی مجرداحمد جواپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے.بھیجاگیا‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۳۶۳ روحانی خزائن جلد ۲ سے ۴۶۳) اسی طرح اعجاز المسیح میں لکھتے ہیں.وأشار عیسی بقولہ ’’کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ‘‘* إلی قومٍ ’’آخَرَینَ مِنْہُمْ‘‘ وإمامہم المسیح.بل ذکر اسمہ أحمد بالتصریح.وأشار بہذا المثل الذی جاء فی القرآن المجید.إلی أن المسیح الموعود لا یظہر إلَّا کنباتٍ لیّنٍ لا کالشیء الغلیظ الشدید.ثم من عجائب القرآن الکریم أنہ ذکر اسم أحمد حکایتًا عن عیسٰی وذکر اسم محمد حکایتًا عن موسٰی.لیعلم أن النبی الجلالی أعنی موسی اختار اسمًا یُشابہ شأنہ.أعنی محمد نالذی ہو اسم الجلال.وکذالک اختار عیسی اسم أحمد نالذی ہو اسم الجمال بما کان نبیّا جمالیًا وما اعطی لہ شیء من القہر والقتال.فحاصل الکلام أن کُلًّا منہما أشار إلی مثیلہ التام.فاحفظ ہذہ النکتۃ فإنہا تُنجیک من الأوہام.وتکشف عن ساقی الجلال والجمال.وتُری الحقیقۃ بعد رفع الفدام.وإذا
۲۸۹ قبلتَ ہذا فدخلتَ فی حِفظ اللّٰہ وکلاء ہ من کل دجّال.ونجوتَ من کل ضلال.(اعجاز المسیح صفحہ ۱۲۵،۱۲۶،روحانی خزائن جلد ۸اصفحہ ۱۲۷.۱۲۸) (ترجمہ) اور عیسیٰ نے کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ میں وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ والی جماعت اور ان کے امام کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ اسمہ احمد کہہ کر صریح طور پر اس امام کا نام بھی بتا دیا ہے.اور اس مثال میں (یعنی کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ میں) جو قرآن کریم میں مذکور ہوئی ہے.حضرت عیسیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسیح موعود کا ظہور نرم و نازک پودے کے مشابہ ہو گاسخت چیز سے مشابہت نہیں رکھتا ہو گا.پھر منجملہ قرآنی لطائف کے ایک یہ نکتہ ہے کہ احمد کا تو عیسیٰ کی پیشگوئی میں ذکر کیا ہے اور محمد ؐ حضرت موسیٰ کی پیشگوئی میں تاکہ پڑھنے والے کو یہ نکتہ معلوم ہو جائے کہ جلالی نبی یعنی موسیٰ نے ایسا نام پیشگوئی میں اختیار کیا جو اس کے اپنے حال کے موافق تھا.یعنی محمد جو جلالی نام ہے اوراسی طرح حضرت عیسیٰ نے اسم احمد کو پیشگوئی میں ظاہر کیا جو جمالی نام ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ جمالی نبی تھے اور قہروقتال سے انہیں کچھ حصہ نہیں دیا گیا تھا.خلاصہ کلام یہ کہ (موسیٰ و عیسیٰ میں سے) ہر ایک نے اپنے مثیل تام کی طرف اشارہ کیا.اس نکتے کو یاد رکھو کیونکہ یہ تمام اوہام سے نجات دینے والا ہے.اور جلال اور جمال دونوں کو خوب واضح کرتا ہے.اور پردہ اٹھا کر اصل حقیقت د یکھادیتا ہے اور جب تم اس کو تسلیم کر لو گے اور اسے مان لو گے تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں داخل ہو کر ہرایک دجال سے بچ جاؤ گے اور ہر ایک گمراہی سے نجات پا جاؤ گے“.ان حوالوں سے آپ کو یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس پیشگوئی کا مصداق حضرت نے اپنے آپ کو قرار دیا ہے.اب رہا یہ سوال کہ پھر آپ نے اس آیت کوآ نحضرتﷺ پر کیوں چسپاں کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ جس قدر پیشگوئیاں آپ کی امت کی ترقی کی نسبت ہیں ان کے پہلے مظہر تو آنحضرتﷺ ہی ہیں اگر آپ احمد نہ ہوتے تو مسیح موعود کیو نکراحمد ہو سکتا تھا.مسیح موعود کو تو جو کچھ ملا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے طفیل ملا ہے.اگر ایک صفت کی نفی آنحضرتﷺ سے کی جائے تو ساتھ ہی اس کی نفی حضرت مسیح موعود سے ہو جائے گی.کیونکہ ہر چیز چشمہ میں نہیں وہ گلاس میں کہاں سے آ سکتی ہے.پس آنحضرت ﷺ احمد تھے اور اس پیشگوئی کے اول مظہروه تھے.لیکن چونکہ اس میں ایک ایسے رسول کی پیشگوئی ہے جس کا نام احمد ہے.اور آنحضرت ﷺ کی صفت احمد تھی نام احمد نہ تھا.اور دوسرے جونشان اس کے بتائے گئے ہیں.وہ اس زمانہ میں پورے ہوئے ہیں.اور مسیح موعود پر پورے ہوئے ہیں.اور آپ کانام احمد تھا اور آپ احمد کے
۲۹۰ نام پر ہی بیعت لیا کرتے تھے.اور خدا نے بھی آپ کانام احمد رکھا اور آپ نے اپنے نام کا یہی حصہ اپنی اولاد کے ناموں کے ساتھ ملایا.اسی لئے سب باتوں پر غور کرتے ہوئے وہ شخص جس کی نسبت خبر دی گئی تھی مسیح موعودہی ہے.ہاں اس لحاظ سے کہ آپ کے کل کمالات آنحضرت ﷺسےلئے ہوئے تھے.اولین مصداق آنحضرت ﷺ کو قرار دینا ضروری ہے.مگر اس لئے کہ آپ صفت احمدیت کے سب سے بڑے مظہر تھے نہ اس لئے کہ آپ کا نام احمد تھا.کیونکہ آپ کا نام در حقیقت احمد نہ تھا.اور ہم جھوٹ نہیں بول سکتے.بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں احمد ہوں ،اور ماحی ہوں ،اور عاقب ہوں، اورماحی اور عاقب آپ کے نام نہیں بلکہ صفات ہیں اسی طرح احمد بھی آپ کی صفت ہے.نام نہیں.قرآن کریم میں اور احادیث میں آپ کا ذکرجہاں کہیں ہے.اسم محمد ﷺسے آپ کو یاد کیا گیا ہے کلمہ شہادت میں بھی اسم محمد ہی داخل ہے.آپ کی والدہ نے ہرگز آپ کا نام احمد نہیں رکھا.یہ بات کسی کی بنائی ہوئی ہے.اور آپ کو چو نکہ تاریخ اسلام سے ایسی واقفیت نہیں.اس لئے آپ نے اس کو صحیح تسلیم کر لیا.آپ کی والدہ کورؤیا میں محمد ؐنام بتایا گیا تھا.جو صحیح روایات سے ثابت ہے.پس آپ کی بات قابل پذیرائی نہیں.ابو طالب نے کوئی ایسے شعر نہیں کہے.جن میں آپ کا نام احمدہو.ابو طالب کے اشعار انہی لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں.جنہوں نے حضرت علیؓ کا دیوان اور ابن عباس کی تفسیر لکھی ہے.آپ کسی مؤرخ سے دریافت کریں کہ آیا یہ روایات درست بھی ہیں یا نہیں.بخاری اصح الکتب ہے.اس کی حدیث پر بھی جرح ہوتی ہے.پھر عام روایات کیو نکربلا تحقیق مان لی جاسکتی ہیں.ہمارے مفسرین جو اکثر اوقات غلط و صحیح روایات میں فرق نہیں کرتے بلکہ جو قول ان کی تائید میں مل جائے نقل کر دیتے ہیں.ان کی کتب کو اگر آپ دیکھیں تو اعلی ٰدرجہ کی تفاسیراس مضمون سے خالی ہیں.یا تویہ لکھ دیا ہے کہ یہ صفت احمدیت کی پیشگوئی تھی جیسا کہ رسول الله ﷺ فرماتے ہیںانا محمد انا احمد و انا ماحی و انا عاقب اور اسی طرح انا النبی الرھمہ و التوبة و الملھمة، او ریا یہ لکھ دیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آسمان پر آپ کا نام احمد تھا.اور چونکہ حضرت مسیح نبی تھے.انہوں نے آسمانی نام کے مطابت پیشگوئی کی تھی.پس آپ ان حوالہ جات کی مزید تحقیقات فرمائیں.تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ کیسی کچی اور ناقابلِ اعتبار روایات ہیں جو صرف عیسائیوں کے اس اعتراض سے بچنے کے لئے وضع کرلی گئی تھیں.کہ تم تو احمدؐ کی پیشگوئی انجیل میں کہتے ہو.مگر تمہارے نبی کا نام تو احمد نہیں.اگر آنحضرت ﷺ اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں فرماتے تو بھی
۲۹۱ کوئی بات تھی.لیکن آپ نے نہیں فرمایا کہ یہ آیت مجھ پر چسپاں ہوتی ہے.بلکہ یہ فرمایا کہ انا بشارة عیسٰی میں عیسیٰ کی بشارت ہوں.اور اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح نے دو خبریں دی تھیں.ایک اپنی دو بارہ بعثت کی.اور ایک عظیم الشان نبی کی.جسے \"وه نبی\"کرکے پکارا ہے اور ہمارے آنحضرت ﷺ”وہ نبی“ تھے.اور مسیح موعود ؑکی آمد حضرت مسیح کی دوبارہ بعثت تھی.اور جو کام دوبارہ ہو اسے عربی کے محاورہ میں احمد کہتے ہیں جیسے کہ کہتے ہیں کہ العوداحمد پس أنا بشارة عیسی سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے.انجیل میں صاف الفاظ میں دو الگ الگ پیشگوئیاں موجود ہیں.ایک آپ کی نسبت اور ایک مسیح موعود کی نسبت.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا یہی عقیدہ تھا.کہ حضرت مسیح موعودہی احمدہیں.اور ہم نے بارہاان سے سناہے.بلکہ سینکڑوں نے سنا ہے.چنانچہ اخبار بدر میں آپ کا یہ مذہب بھی شائع ہو چکا ہے.وھوهذا.’’۱۰ دسمبر ۱۹۱۲ء- آج بعد ظہر مسجد اقصیٰ میں سورۃ صف کے پڑھنے سے قبل کسی نے کہا کہ اس سورت کو کھول کر بیان کرو.حالانکہ حضرت صاحب تمام ضروری باتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں.اور عام تراجم سے جہاں اختلاف ہو- وہ بھی خصوصیت سے بتلادیتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ نادان لوگ بے فائد و سوالات سے باز نہیں آتے.اس سورة کی تفسیر میں آپ نے ثابت کیا کہ جس احمدؐ کی بشارت اس سورۃ شریف میں ہے دہ مثیل مسیح ہے.حضرت موسیٰ نے اپنے مثیل کے متعلق پیشگوئی کی تھی.اور حضرت مسیح نے اپنے مثیل کے متعلق پیشگوئی کی ہے.فرمایا میں اپنی ذوقی باتیں کم بیان کیا کرتا ہوں.سائل تو صرف احمد کے متعلق کھول کر بیان چاہتا ہے یہاں تو خدا نے احمدکے بعد نور کی طرف بھی قرآن شریف میں اشارہ کر دیا ہے.آگے دین کا لفظ بھی ہے اور اس نور کونہ ماننے کے متعلق بھی کہا ہے.ولو کرہ الکفرون (کلام امیر ضمیمہ بد ر بابت ۱۹ دسمبر ۱۹۱۲ء) اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی ایک تحریر اس آیت کے متعلق ڈاکٹر نور صاحب لاہوری نے بھی شائع کی ہے.جس کے الفاظ یہ ہیں.میں مبشرا برسول يأتي من بعدی اسمہ احمد (الصف.۷) کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مانتا ہوں کہ یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے.او روہی احمد رسول ہیں“.پس آنحضرت ﷺاحمد ؐ تھے.اور سب سے بڑے احمد تھے.کیونکہ آپ سے بڑا کوئی مظہر صفت احمدیت کا نہیں ہوا.لیکن آپ کا نام احمد نہ تھا.او راسمہ احمد کا مصداق مسیح موعود ہے.
۲۹۲ ہاں آنحضرت اﷺکی طرف بھی یہ پیشگوئی بوجہ آقا اور استاد ہونے کے اشارہ کرتی ہے.خواجہ صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب احمدتھے تو پھر احمد رسول کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے مگر خواجہ صاحب نے اتنانہیں سوچا کہ آپ بھی تو آنحضرت کواحمد مانتے ہیں.اور آپ کا یقین ہے کہ ان کا نام احمد تھا.پھر کیا آپ کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ پڑھا کرتے ہیں؟ اگر باوجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ کا نام کلمہ شہادت میں داخل ہے آپ محمد رسول اللہ کی بجائے احمد رسول اللہ نہیں کہتے تو ہمیں کس طرح مجبور کرتے ہیں کہ ہم احمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھیں اور مسیح موعود کو مراد لیں.اگر یہ کلمہ پڑھنا ضروری تھا تو پہلا فرض آپ کاتھا کہ آپ پڑھتے کیونکہ ہمارے لئے تو ابھی بہت سے مراحل طے کرنے باقی تھے.اول یہ کہ ہر نبی کے نام کا کلمہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں دوم یہ کہ جب شریعت آنحضرت ﷺ کی ہے تو پھر کسی اور نبی کا کلمہ پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں لیکن آپ کے لئے تو کچھ مشکل نہیں نبی کریم اﷺکا نام کلمہ شہادت میں پڑھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور آپ کا نام آپ امانتے بھی ہیں پھر کیوں آپ محمد رسول اللہ کی جگہ احمد رسول اللہ کہنا نہیں شروع کردیتے ہیں یہ اعتراض تو آپ پر پڑتا ہے نہ مجھ پر پھر آپ وه الفاظ تو قرآن کریم سے بتائیں کہ اس مبشرکا کلمہ بھی پڑھنا چاہئے.اسمه أحمد والی آیت میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ اس کا کلمہ پڑھا جائے تاکہ اگر ہم مرزا صاحب کراحمد نبی مانیں تو اس سے کلمہ پڑھنا بھی ہم پر فرض ہو جائے اس آیت میں کوئی ایسے الفاظ ہیں جن سے یہ ثابت ہو کہ یہ امر شریعت والا نبی ہو گا کہ ہمیں کہا جائے کہ ہم ایک نئی شریعت لائیں قرآن کریم کے الفاظ صاف ہیں.ان سے باہر جانے کا کسی کو حق نہیں اور اگر ہر رسول کا کلمہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے تو چاہئے کہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ موسیٰ رسول اللہ عیسٰی رسول الله و غیرھم من الانبیاء کے نام کو بھی کلمہ شہادت میں شامل کیا جائے خواجہ صاحب یہاں گنجائش نہیں ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ کلمہ شہادت میں صرف محمد رسول الله ﷺ کے نام کے پڑھنے کی اجازت ہے اور کسی نبی کو یہ رتبہ نہیں دیا گیا خواہ نیا ہو یا پرانا یہ ایک خاص فضل ہے جن میں سوائے آپ کے اور کوئی شریک نہیں اور اگر یہ نہ بھی ہو تا تب بھی آپ کا نام ہم تب ترک کرتے اگر نعوذ باللہ آپ کی شريعت منسوخ قراردیتے.خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا تسمہ کھولنے کےقابل بھی صحابہؓ نہ تھے ایسے کلمات منہ سے نکالنے والے کو میں جاہل سمجھتا ہوں بشرطیکہ خواجہ
۲۹۳ صاحب اسکی صحت ثابت کردیں.مسیح موعوداپنی عظمت اور شان میں ایسابلند ہے کہ اس کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کسی صحابی کی نسبت ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آنحضرت اﷺکی شان کا مقابلہ صحابہؓ سے کرتے وقت بھی کوئی شخص ایسےالفاظ استعمال کرے کیونکہ گو آنحضرت ﷺاپنی شان میں نبیوں سے بھی بڑے ہیں لیکن کیاضروری ہے کہ آپ کی عظمت کے اظہار کے لئے ہم صحابہ کی نسبت سخت الفاظ استعمال کریں ہمیں ہر بزرگ کی عزت کرنی ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا باقی رہا درجوں کا نفاوت اس کی نسبت میں اپنا اعتقاد پہلے لکھ چکاہوں اور وہ اعتقاد مسیح موعود کے منہ سے سنے ہوئے الفاظ کی بناء پر ہے.دوسرا مسئلہ کفر ہے جس پر خواجہ صاحب نے بحث کی ہے اس مسئلہ پر میں خود حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریریں شائع کر چکا ہوں کہ مزید تشریح کی ضرورت نہیں میراوہی عقیدہ ہے اور جبکہ میں حضرت مرزا صاحب کی نبوت کی نسبت لکھ آیا ہوں کہ نبوت کے حقوق کے لحاظ سے وہ ویسی ہی نبوت ہے جیسے اور نبیوں کی.صرف نبوت کے حاصل کرنے کے طریقوں میں فرق ہے پہلے انبیاءنےبلاواسطہ نبوت پائی اور آپ نے بالواسطہ.پس جو حکم نبی کے انکار کے متعلق قرآن کریم میں ہےوہی مرزا صاحب کے منکر کی نسبت ہے.قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ حکم فلاں فلاں قسم کے نبیوں کی نسبت ہے ہاں میں اس فرق کو ضرور تسلیم کرتا ہوں جو حضرت موعود نے تریاق القلوب میں لکھا ہے اور حقیقۃ الوحی میں اس کی مزید تشریح فرمائی ہے اور وہ یہ کہ صاحب شریعت نبی چونکہ شریعت کے لانے والے ہوتے ہیں اس لئے ان کا انکار بلاواسطہ انسان کو کافر بنا دیتا تھا.لیکن ہمارے مسیح موعوردؑکو چونکہ جو بھی ملاہے آنحضرتﷺ کے طفیل اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے اس لئے آپ کا انکار بھی اسی واسطہ سے کفر ہو تا ہے میں آپ کا انکار آنحضرتﷺکا انکار ہے پس جس قدر فرق نبوت کے حصول کا ہے وہی فرق مخالفین کے انکار پر سزا کا ہےجونبی کسی دوسرے نبی کے متبع نہیں ان کے مخالفین پر بھی کفر کافتویٰ بلا واسطہ عائد ہوتاہے لیکن مسیح موعود چو نکہ آنحضرت اﷺکے دربار کا ایک عہده دار ہے اس لئے اس کے کفر کا فتویٰ دربار خاتم النبّین سے جاری ہو تا ہے اور اسی واسطہ سے مخالفوں کو پہنچتا ہے اسی کی طرف حضرت (صاحب) نے حقیقۃ الوحی میں اشارہ فرمایا ہے کہ جو میرا انکار کرتا ہے وہ در حقیقت میرے سردار آنحضر ت ﷺ کا انکار کرتاہے.’’علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسولؐ کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا.
۲۹۴ اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے یعنی رسول اللہ ﷺنے خبردی تھی کہ آخری زمانہ میں میری امت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا اور آنحضرتﷺ نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی رات میں مسیح ابن مریم کو اور ان نبیوں کو دیکھ آیا ہوں کہ جو اس دنیا سے گزر گئے ہیں اور یحییٰ شہید کے پاس دوسرے آسمان میں انکو دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے.اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف و خسوف رمضان میں ہوا اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا تعالی ٰکے نشانوں کو ردّکرتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے اور اگر وہ مؤمن ہے تو میں بوجہ افتاء کرنے کے کافر ٹھہراکیونکہ میں ان کی نظر میں مفتری ہوں (حقیقۃ الوحی..روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۸) پس جب مسئلہ نبوت ثابت ہو چکا تو یہ مسئلہ کفر بھی خود بخود ثابت ہو چکا.طریقِ تبلیغ کے متعلق مجھے اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں جو کچھ حضرت مسیح موعودؑ نے خود فتوی دیا ہے میں اسی کو پیش کرتا ہوں آپ نے یورپ میں تبلیغ کے متعلق جو راہ بتائی ہے وہ یہ ہے.’’ ۱۳ فروری ۱۹۰۷ء مولوی محمد علی صاحب کو بُلا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یورپ و امریکہ کے لوگوں پر تبلیغ کا حق ادا کرنے کے واسطے ایک کتاب انگریزی زبان میں لکھی جاوے اور یہ آپ کا کام ہے.آج کل ان ملکوں میں جو اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں رہتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سےواقف نہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے.ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جاوے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیا ہے وہ امتیازی باتیں جو کہ خدا تعالی ٰنے اس سلسلہ میں رکھی ہیں وہ ان پر ظاہر کرنی چاہئیں.اور خدا تعالی ٰکے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنےپیش کرنا چاہئے.اور ان سب باتوں کو جمع کیا جاوے جن کے ساتھ اسلام کی عزت اس زمانہ میں وابستہ ہے.ان تمام دلائل کو ایک جگہ جمع کیا جائے جو اسلام کی صداقت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں.اس طرح ایک جامع کتاب تیار ہو جاوے تو امید ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بہت فائده حاصل ہو." (بدر جلد ۶نمبر ۹ صفحہ ۴-۲۸ فروری ۱۹۰۷ء) پھر اسی طرح ایک احمدی کے لئے بڑا کام آپ یہ بیان فرماتے ہیں.’’خان صاحب کے اس استفسار پر کہ ہم کو یہاں سے جا کر کیا بڑا کام کرنا چاہے؟ فرمایا ہماری دعوت کو لوگوں کو سنایا جائے ہماری تعلیم سے ان کو واقف کیا جاوے تقوی ٰتوحید اور سچا اسلام ان کو سکھایا جاوے.( الحکم جلد ۷ نمبر ۵ صفحہ ۱۳ بابت ۷ - فروری ۱۹۰۳ء)
۲۹۵ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود یورپ میں تبلیغ اسلام کے لئے اپنے الہاموں اور معجزات کا ذکر کرنا ضروری خیال فرماتے ہیں خود حضرت مسیح موعودؑ نے یورپ اورامریکہ میں تبلیغ کی ہے اور اشتہار ارسال فرمائے ہیں ان میں دیکھ لیں کیا طریق ہے اپناذکر کیا ہے یانہیں.مکہ معظمہ کو جو تبلیغی چٹھی لکھی ہے اسی کو پڑھ لیں آیا لا الہ الا اللہ کی تعلیم دے کر چھوڑدیا ہے یا آگے اپنے آپ کو بھی منوانے کی کوشش کی ہے آپ کا طریق عمل ظاہر ہے پھر ہم اس سےکیو نکر منحرف ہوں خود آپ نے جب وطن کی تحریک پر مسلم انڈیا کی طرز پر ریویو کو چلانا چاہا تو حضرت (صاحب) نے بھی جواب دیا کہ کیا آپ لوگوں کے سامنے مردہ اسلام پیش کریں گے.کیاریو یو یورپ کے لئے جاری نہ ہوا تھا کیا ایڈیٹر وطن اور ڈاکٹر عبداالحکیم کو ہی اعتراض نہ تھا کہ جورسالہ یورپ کے لئے ہے اس میں صرف عام اسلامی مضامین ہوں سلسلہ کا ذکر کیوں کیا جا تا ہے اورعبدالحکیم کو جو کچھ جواب ملاوہ آپ سے پوشیدہ نہیں.حضرت خلیفہ اول نے اگر آپ کی تعریف کی تو اس سے کیا ثابت ہوا آپ ان کو لکھ رہے تھےکہ میں بہت اچھا کام کر رہا ہوں انہوں نے لکھا کہ ہاں جزاکم اللہ.ہم اگر آپ کی تعریف کرتے تھے تو اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ثبوت نہ تھا جس سے معلوم ہو کہ آپ وہاں احمدیت کا ذکر نہیں کریں گے آپ ہندوستان میں فرمایا کرتے تھے کہ میں سڑک صاف کرلوں پھر سلسلہ کا ذکر کریں گےہمارا خیال تھا کہ آپ جن کو مسلمان بناتے ہیں ان کو کچھ عرصہ کے بعد احمدی بنائیں گے یا کم سے کم ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا حتی کہ حضرت خلیفہ اول جب بیمار تھے تو آپ کا وہ خط آیا جس میں لکھا تھا کہ یہاں اسلام کے فرق کا ذکر سمِّ قاتل ہے یا اسی قسم کے اور لفظ تھے اس کے بعد آپ سے ہمیں کوئی ہمدردی نہ رہی جس قدر ہمدردی تھی جاتی رہی کیونکہ ہمارا تعلق آپ سے مسیح موعود ؑکے ذریعہ سے تھاجب آپ نے اس کے طریق کو چھوڑا ہم نے اسی وقت سے آپ کو چھوڑ دیا اور جب اس کے طریق کو اختیار کرلیں گے ہم بھی آپ سے اسی طرح ملیں گے جس طرح بھائی بھائی ملتے ہیں یا جس طرح ان کو ملنا چاہئے.پھر ایک اور فرق پیدا ہو گیا اور وہ یہ کہ آپ نے مرکزسے قطع تعلق کر لیا اور ہمارے خیال میں ترقی اسی وقت ہو سکتی ہے جب متحدہ کوشش سے کام ہو.پس آپ کومدد دینا گویا دو مرکزوں کو تسلیم کر کےسلسلہ کی اتحادی طاقت کو توڑنا تھا اور پھر سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کا کام بھی ولایت میں شروع کر دیا گیا تھا جس کی مدد کرنا ہمارا پہلا فرض تھا.پس یہ وجہ ہے کہ کل کچھ اور کہا جا تا تھا اور آج کچھ اور آپ اس بات پر کیوں حیران ہیں کہ میری نسبت اور بعض
۲۹۶ میرے دوستوں کی نسبت آج وہ الفاظ نہیں استعمال کئے جاتے جو پہلے کئے جاتے تھے کیونکہ واقعات کے تغیرسے خیالات بھی بدل جاتے ہیں کیا یہ نہیں کہ ایک وہ دن تھا کہ مولانا سید محمد احسن صاحب کی تعریف میں آپ لوگ رطب اللسان تھے اور پھر وہ دن آیا کہ کسی لکھنے والے نے یہ بھی لکھ دیا کہ حضرت صاحب کای الہام انہی مولوی صاحبان کی نسبت تھا کہ " مولوی ننگے ہو گئے ‘‘ پھر وہی ام المومنین جس کی نسبت حضرت مسیح موعود ؑکے سامنے آپ ایک برا لفظ بھی استعمال نہیں کرسکتے تھے آج اس کی نسبت بری سے بری باتیں منسوب کی جاتی ہیں اور میری نسبت تو مدت سے ایسے خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ مجھے کوئی نیا اعتراض غمگین نہیں کر سکتا.کیونکہ تعجب اور حيرت انسان کو اسی چیز پر ہوتی ہے جو نئی ہو جس چیز کو دیکھتے اور سنتے برسوں گزر گئے ہیں اس نے حیرت اور تعجب کیا پیدا کرنا ہے.پس حالات کے تغیر سے خیالات میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ کوئی ایسی خلاف فطرت بات نہیں کہ اس پر آپ کو تعجب ہو عبد الحکیم اور عباس علی کی نسبت حضرت صاحب نے تعریفی کلمات لکھے پر بعد میں جو کچھ لکھاوہ ی بھی آپ کی کتابوں میں موجود ہے مگر ہم حضرت صاحب پر اعتراض نہیں کر سکتے کہ اپنے دو پہلو کیوں بد لے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے دو مختلف تحریریں اس لئے شائع کیں کہ وه دو مختلف حالات کے متعلق تھیں ایسا ہی اب ہے اگر حالات پھر پہلے سے ہو جائیں تو آراءبھی بدل جائیں گی.اپنی تبلیغ کے متعلق خواجہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ دیکھو چوہدری فتح محمد بھی اسی رنگ میں کام کر رہا ہے جس میں میں کرتا تھا.میرا جواب یہ ہے کہ اگر چوہدری محمدفتح محمد اسی طریق سے کام لیتے ہیں جو خواجہ صاحب کا ہے یعنی سلسلہ کا ذکر نہیں کرتے بلکہ ان کو چھپاتے ہیں تو میں ان کو بھی ویساہی قصور وار خیال کرتا ہوں جیسے خواجہ صاحب کو.مجھے تو افعال سے بحث ہے نہ کہ انسانوں سے.جس فعل کو میں برا خیال کرتا ہوں جو کوئی بھی اس فعل کا مرتکب ہو میں اسے خطاکار خیال کروں گا.لیکن میں اس قدر اور ضرور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ چوہدری فتح محمد صاحب کے جو خطوط آتے رہتےہیں ان سے خواجہ صاحب کے خیال کی تردید ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے خطوط میں برابر اس امر کاز کر کرتے رہتے ہیں کہ وہ سلسلہ کی تبلیغ میں کوشاں ہیں اور چوہدری فتح محمد صاحب کا میں ایسی اچھی طرح سے واقف ہوں کہ ان کی نسبت جھوٹ منسوب نہیں کر سکتا.میں اور وہ ایک جماعت میں پڑھتے رہے ہیں اور بچپن سے ہم ایک دوسرے کے واقف ہیں میں نے اس واقفیت کے عرصہ میں ان کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں دیکھا پس میں کس طرح ان کی تحریروں کو غلط سمجھ لوں اور خصوصاً
۲۹۷ جبکہ ان کے بیانات پر الہٰی شہادت کی مہرصداقت بھی ہو اور وہ اس طرح کہ جس دن خواجہ صاحب کی لاہور میں تقریر تھی اس دن ان کا ایک تار آیا کہ وہاں ایک شخص احمدی مسلمان ہو گیا ہے اگر وہ اس طریق پر عمل کرتے جس پر آپ عمل کرتے تھے تو ان کے ہاتھ سے احمدی مسلمان کیونکر ہوا کیوں نہ آپ کے ہاتھ پر کوئی انگریز احمدی ہؤا.خواجہ صاحب غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق جب اختلاف کا ذکر فرماتے ہیں مجھےاس پر بھی تعجب ہے کیونکہ اس مسئلہ میں خواجہ صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑکے فتویٰ کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کیا اور آپ کی تھور سے بالکل ظاہر نہیں ہوا کہ آیا حضرت مسیح موعودنے اس مسئلہ پر کچھ فرمایا بھی ہے یا نہیں مؤمن انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اصول سے نہ پھرے.خواجہ صاحب نے اپنے مضمون میں بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نے کیا فرمایا ہے چنانچہ مسئلہ خلافت پر زیادہ زور اسی بات پر دیا ہے لیکن نماز کے متعلق اس بات کو نظرانداز کر گئے ہیں کہ آپ نے غیرممالک میں غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی نسبت کیافتویٰ دیا ہے مگر مجھے امید ہے کہ جب خواجہ صاحب کو وہ فتویٰ معلوم ہو جائے گا تو وہ اپنے خیالات میں اصلاح کر لیں گے ان فتوو ں میں سے ایک تو وہ فتویٰ ہے جو عجب خاں صاحب کے سوال پر حضرت مسیح موعود ؑنے دیا تھا اور عجب خاں صاحب اس وقت مخالفین خلافت کے ایک اعلی ٰرکن ہیں اور خواجہ صاحب کے واقف ہیں ان سے دریافت کریں کہ مسیح موعود نے کیا فتوی ٰدیا تھا مگر چونکہ وہ فتویٰ شائع ہو چکا ہے اس لئے میں اسے ذیل میں درج کردیتاہوں.مورخہ 10 جنوری ۱۹۰۳ء) \"جناب خان عجب خان صاحب آف زیدہ کے استفسار پر کہ بعض اوقات ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو اس سلسلہ سے اجنبی اور ناواقف ہوتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں یا نہیں فرمایا اول تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ واقف نہ ہوں.اور جہاں ایسی صورت ہو کہ لوگ ہم سے اجنبی اور ناواقف ہوں تو ان کے سامنے اپنے سلسلہ کو پیش کرکے دیکھ لیا.اگر تصدیق کریں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کروورنہ ہرگز نہیں اکیلے پڑھ لو.خدا تعالیٰ اس وقت چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے.پھر جان بوجھ کر ان لوگوں میں گھسنا جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے منشاء الہٰی کے مخالف ہے“الحکم جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۱۳ بابت ۷ - فروری ۱۹۰۳ء) اسی طرح سید عبداللہ صاحب عرب جب اپنے وطن کو چلے تو آپ نے اسی مسئلہ کے متعلق جودریافت کیا اور جو جواب ملاده بھی ذیل میں درج ہے.
۲۹۸ (مؤرخہ ۲۰/ ستمبر۱۹۰۱ء) سید عبد اللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں.فرمایا مصدقین کے سوا کسی کے پیچھےنماز نہ پڑھو.عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کوتبلیغ نہیں ہوئی فرمایا ان کو پہلے تبلیغ کردینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذّب.عرب صاحب نےعرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا تم خدا کے بنواللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالی ٰآپ اس کامتولی اور متکفل ہو جاتا ہے\".(الحکم جلد پنجم نمبر ۳۵ مورخہ ۲۴/ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۶ فتاوٰیٰ احمدیہ جلد اول صفحہ ۱۸) ’’سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نمازپڑھیں یا نہ پڑھیں.فرمایا پہلے تمہارا فرض ہے کہ اسے واقف کرد.پراگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھےاپنی نماز ضائع نہ کرو.اور اگر کوئی خاموش رہے نہ تصدیق کرے نہ تکذیب تو وہ بھی منا فق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو".(فتاوٰیٰ احمدیہ جلد اول صفحہ ۸۲) ان تینوں حوالوں سے صاف ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکے اس فتویٰ میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں اور بالکل صاف فتوی ٰہے.باقی رہا یہ سوال کہ حضرت خلیفہ اول نے اس کے خلاف کیوں فتویٰ دیا سواس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں.ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ تو معلوم نہ ہو.ہو سکتاہے کہ آپ کے بار بار کے اصرار پر اس خیال سے کہ آپ کسی زیادہ خطرناک ابتلاء میں نہ پڑیں اجازت دیدی ہو.مگر خواجہ صاحب آپ نے ولایت کی زمین کو ایسامطہّر اور پاک کننده خیال کیا کہ خود آپ کے خیال کے مطابق جس ملک کے باشندوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہ تھی ولایت میں آپ نے ان کے پیچھے نماز پڑھ لی حالا نکہ انگلستان کی زمین میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں جس سے ہندوستان کے لوگ جب ولایت میں جائیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہو جائے.آپ نے۱۸۹۲ء کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑنے لاہور میں غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھی اور کفر نامہ اس سے پہلے کا تیار تھا اس لئے معلوم ہوا کہ مسئلہ کفر باعث نہ تھاغیراحمدیوں کے پیچھے نماز چھوڑنے کا.مجھے اس واقعہ سے انکار نہیں اور یہ واقعہ ہماری تائید میں ہے نہ کہ تردید میں یہ واقعہ تو ان لوگوں پر حجت ہے جو کہتے ہیں کہ نماز صرف ان کے پیچھے حرام ہے جو مکفّر ہوں دوسروں کے پیچھے جائز ہے اور جو اپنی تائید میں لاہور میں حضرت مسیح موعود ؑکی ایک بیرسٹر سے گفتگو کو سند پکڑا
۲۹۹ کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صرف مکفر کے پیچھے نماز ناجائز ہے کیونکہ خواجہ صاحب شہادت دیتے ہیں کہ مولوی رحیم بخش مکفّر کے پیچھے حضرت مسیح موعود نے خود نماز پڑھی اس واقعہ سے تو صاف ثابت ہے کہ نماز غیراحمدیوں کے پیچھے نہ پڑھنے کا اصل باعث کچھ اورہی ہے کیونکہ ایک وہ زمانہ تھاجب باوجود کفر کے فتوی ٰکےغیراحمدیوں کے پیچھے نماز حضرت مسیح موعودؑبھی پڑھ لیا کرتے تھے اور اس بات کے ثابت ہونے سے یہ بات بھی حل ہو گئی کہ غیر ممالک میں بھی غیروں کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ جو لوگ غیراحمدیوں کے پیچھے غیر ممالک میں نماز پڑھنا جائز بتاتے ہیں وہ اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ کافر کہنے والے تو ہندوستان کے لوگ ہیں غیر ممالک کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے لیکن یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ نماز سے روکنے کا اصل باعث یہ تھاگو غیراحمدیوں کو ان کے اپنے مسلمات کے رو سے بھی ملزم کرنے کے لئے یہ بھی پیش کیا جاتا رہا ہو لیکن اصل باعث کچھ اور ہی تھا خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ اصل باعث مسجدوں کے چھوڑنے کا مسئلہ کفر نہ تھا بلکہ اصل باعث خلل امن تھا.احمدی جماعت تھوڑی تھی مخالف زیادہ تھے اور لڑائی جھگڑوں میں ضمانتوں تک نوبت پہنچ جاتی تھی اس لئے حضرت (صاحب) نے مساجد سے روک دیا یہ جواب بہت معقول ہو تااگر اس سے مسجدوں سے ممانعت کا فتوی ٰنکالا جاتا لیکن حضرت مسیح موعودؑ تو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہیں ہمیں ایسافتویٰ تو کوئی نظر نہیں آتا جس میں آپ نے یہ حکم دیا ہو کہ احمدی غیراحمدیوں کی مساجد میں کبھی نہ گھسیں ہاں مساجد سے باہر جہاں فتنہ کا خوف نہ ہو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو کچھ حرج نہیں.لیکن اس کے خلاف یہ حکم ہمیں ملتا ہے کہ غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھو حالانکہ اگر آپ کی بات درست ہے تو اصل حکم یوں چاہئے تھا کہ غیراحمدیوں کی مساجد میں مت گھسو لیکن یہ حکم ہمیں قطعی ممانعت کے رنگ میں کبھی نہیں ملاگو یہ حضرت صاحب کا ارشاد تھا کہ اگر دوسرے لوگ تمہیں نماز نہ پڑھنے دیں تو ان مساجد میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن حکم اگر ملا تو یہ کہ غیر احمدیوں کے پیچھے خواہ وہ کسی رنگ کے ہوں نماز نہ پڑھو حالانکہ اگر فساد باعث تھا تو کیوں حضرت مسیح موعودؑنے یہ اجازت نہ دے دی کہ اگر اپنے گھر پر کسی غیر کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع مل جائے تو تم کو اجازت ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ اپنے گھر پر ایک غیر احمدی دوست کے پیچھے نماز پڑھنے میں کسی قسم کے فساد کا خطرہ نہیں ہو سکتا تھا مگر حضرت مسیح موعودؑنے کوئی استثناء بیان نہیں فرمایا.پھر غیر ممالک میں جہاں لوگوں کو اطلاع نہ ہو کہ یہ نماز پڑھنے والا کون ہے.ایسی جگہ بھی غیروں کے پیچھے نماز
۳۰۰ پڑھنے سے روک دیا.جیسا کہ خان عجب خان صاحب کے فتوے سے ظاہر ہے اور پھر خاص کعبہ میں غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے سے کیوں روک رہا.حالانکہ بیت اللہ میں تو ہر فرقہ کے لوگ جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں.اور ان پر کوئی گرفت نہیں.باہر شرارت کرنے والے بیشک شرارت کریں.مگر خود بیت اللہ میں کوئی کسی کو منع نہیں کرتا کہ جماعت میں کیوں شامل ہوتا ہے.ہاں الگ نماز پڑھنے پر بیشک فساد کا خطرہ ہو تا.لیکن حضرت صاحب نے وہاں بھی غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا.جیسا کہ فرماتے ہیں: " حج میں بھی آدمی یہ التزام کر سکتا ہے کہ اپنے جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھےنماز نہ پڑھے.بعض آئمہ دین سالہاسال مکہ میں رہے لیکن چونکہ وہاں کے لوگوں کی حالت تقویٰ سے گری ہوئی تھی.اس لئے کسی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہ کیا.اور گھر میں پڑھتے رہے." (فتاوٰیٰ احمدیہ جلد اول صفحہ ۲۱) پس ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ غیراحمدیوں سے نماز میں جدائی اختیار کرنے کے فتوے کااصلی باعث نہ مسئلہ کفر تھا.جیسا کہ خود خواجہ صاحب نے اس خیال کی تردید کی ہے اور نہ فسادجھگڑے کا خطرہ تھا.جیسا کہ ان کا اپنابیان ہے گو یہ دونوں وجوہات بھی احمدیوں کے لئے مشکل پیداکرنے کا باعث ہوں.لیکن حرمت کی اصل وجہ کچھ اور ہونی چاہئے.اور وہ میں بیان کرتا ہوں.حضرت صاحب فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو.بلکہ چاہئے کہ تمہاراوہی امام ہو جو تم میں سے ہو - اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امام نگمین یعنی جب مسیح نازل ہو گا.تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوی ٰاسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا.اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا.پس تم ایسا ہی کرو کیا تم چاہتے ہو کہ خدا الزام تمهارے سر پر ہو.اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو جو مجھے دل سے قبول کرتاہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر یک تنازعہ کافیصلہ مجھ سے چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کر اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گئے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں.کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا.اس لئے آسان پر اس کی عزت نہیں“ (اربعین نمبر۳ صفحہ ۷۵ حا شیہ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۷)
۳۰۱ اس فتوے سے ہمیں اصل غرض حرمت نماز کی معلوم ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالی ٰکا حکم ہے کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے.اور یہی وجہ وہ ہے جو نہ ہندسے خاص ہے اور نہ عرب سے نہ انگلستان سے خدا تعالی ٰکے حرام کو کوئی حلال نہیں کر سکتا.اور اس کے منع کئے ہوئے کو کوئی جائز نہیں کر سکتا.پس اصل وجہ غیراحمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام کرنے کی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو ایک مالک اور خالق ہے اس تمام جماعت کو حضرت مسیح موعود ؑکے دعاوی اور آپ کے الہاموں پر ایمان ہے حکم دیا ہے کہ وہ کبھی کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑے.اور اس اعلان کے بعد حضرت مسیح موعود ؑنے ہر ایک اس شخص کو جس نے غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی اجازت نہیں دی.خواہ وہ کسی بہانہ سے ہی اجازت طلب کرتا رہا ہو.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالی ٰکے امور اور مرسل جن چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں.ان کےمتعلق بھی اس وقت تک کوئی قطعی فتویٰ نہیں دیتے.جب تک ان کو خداتعالی ٰکی طرف سے کوئی حکم نہ ہو جائے.آنحضرت ﷺمسلمانوں کو متعہ سے روکتے تھے.پھر بعض حالات کے ماتحت اسے جائز بھی کر دیتے کیونکہ اس حرمت کا باعث خدا تعالیٰ کا حکم نہ تھا.بلکہ آپ کا اپنا اجتہاد تھا.آپ جب منع فرماتے ہوں گے تب بھی کسی وجہ سے منع فرماتے ہوں گے مگر چونکہ حکم نہ تھا.جب دیکھتے کہ لوگ اس امر کے محتاج ہیں کہ انہیں متعہ کی اجازت دی جائے.آپ اجازت دے دیتے.چنانچہ شیعہ آج تک ان اجازتوں پر مصر ہیں.لیکن ایک وہ وقت آیا کہ آپ نے فرمایا کہ اعلان کر دو.کہ خدا تعالیٰ اور اس کا رسول اس کام کو حرام کرتے ہیں.اور اس کے بعد متعہ جائز نہ ہوا.اسی طرح نماز کو ابتداء میں حضرت مسیح موعودنے بعض عقلی دلائل کی بناء پر اور بعض نقائص کی بناء پر چھڑوایا.اور ترک کرایا اور ان میں فتوی ٰکفر بھی تھا.اور مساجد کا فساد بھی تھا.چنانچہ اول الذکر دلیل خود حضرت مسیح موعوردؑدیتے رہے ہیں.اور دوسری دلیل حضرت خلیفہ اول بیان فرمایا کرتے تھے.لیکن یہ دونوں اصل حرمت کے باعث نہیں ہو سکتے تھے.بلکہ یہ وقتی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے غیروں کی مساجد میں جانا یا کافر کہنے والوں کے پیچھے نماز منع کر دی گئی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کا حکم آیا.جس پر نماز غیروں کے پیچھے حرام کی گئی.اور اب صرف منع نہ تھی بلکہ حرام تھی.اور حقیقی حرمت صرف خداتعالی ٰکی طرف سے ہوئی ہے.پس غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنے والا اصل باعث خداتعالی ٰکا حکم ہے.گو ابتداء نمازوں میں غیروں کو امام بنانا یا ان کی مساجد میں جانا ترک کرنا ایک حد تک مسئلہ کفریا مساجد کے فسادہی کے باعث تھا مگر پھرخدا تعالیٰ کے حکم نے
۳۰۲ ہمارے استدلال سے اس فتویٰ کو باہر نکال دیا.اور خداتعالی ٰنے اپنے ناطق فیصلہ سے ظاہر فرمایا کہ وہ احمدیوں کا کس راہ پر قدم زن ہو ناپسند فرماتا ہے.پس اصل وجہ یہی ہے جو ہر جگہ یکساں قائم ہے.اللہ تعالی ٰنے اپنے فیصلہ میں کسی قوم یا ملک کو مستثنی ٰ نہیں فرمایا.پس کون ہے جو اس فتوے کے علم کے باوجود اس کے خلاف عمل کرے.حضرت مسیح موعودؑنے اپنے فتووں میں اس حکم کی تشریح فرما دی ہے.اور غیر ممالک کے جانے والوں کو بھی غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا ہے.بلکہ جو شخص غیراحمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتا ہے.اس کے متعلق یہ فتوی ٰدیا ہے کہ کوئی احمدی اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے.چنانچہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے یہ جواب عطا فرمایا ہے.\" جواحمدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے.جب تک توبہ نہ کرے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو".(فتاوٰیٰ احمدیہ جلد اول صفحہ ۲۲) باقی رہا ہے کہ خلیفہ اپنی وفات تک غلطی پر قائم نہیں رہتا.یہ ایک من گھڑت اصل ہے.یہ انبیاءکی نسبت حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے نہ خلفاء کی نسبت.پس آپ کا یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ حضرت خلیفہ اول اس عقیدہ پر اور مسئلہ کفر پر آپ کے خیال کے مطابق آخر دم تک قائم رہے تو اس سے آپ کی تائید ہوئی غلط ہے.نماز کے متعلق حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود کا فتویٰ معلوم نہ تھا.ایک فتویٰ آپ کی سخت بیماری میں آپ کو دکھایا گیامگروہ مکمل نہ تھا.اس لئے اس کے متعلق حضرت (صاحب) فیصلہ نہیں کر سکے.اور نہ وہ وقت ایسا تھاہی کہ آپ فیصلہ کر سکتے.باقی رہا کفر کا مسئلہ.اس کے متعلق میرے پاس حضرت( صاحب) کی تحریر موجود ہے.آپ کے مختلف حوالہ جات جن سے آپ کامذہب ظاہر ہوتا ہے وہ شائع ہو چکے ہیں.میں نے اپنے پاس سے نہیں بلکہ مسیح موعود کا اعتقاد ایک رسالہ میں لکھ کر شائع کیا تھا.اس پر آپ نے تصدیق کی.وہ مضمون اب تک آپ کا اصلاح کرده موجود ہے.ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے.کہ آپ مذہب فتوائے کفر میں میرے خلاف تھا.آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے مضامین پر بھی حضرت (صاحب) کے دستخط ہیں.مگر اس اختلاف کی صورت میں ہم ان فتووں کو دیکھیں گے.جو آپ نے خود بخود دئیے ہیں.یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی رائے کی نسبت ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کیا تھی؟ لیکن آپ کا کوئی حق نہیں کہ خلاف واقعہ اسے اپنی تائید میں پیش کریں.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے ایک دوست نے مشہور کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ کفر کا مسئلہ میاں صاحب نہیں سمجھے.لیکن یہ بالکل جھوٹ ہے.وہ اپنے بیان پر قسم کھاجائے تو میں
۳۰۳ دیکھوں گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے کیا سلوک کرتا ہے.ورنہ جھوٹ سے کیا فائدہ.آپ نے اس طرح فرمایا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ تم کبھی غیراحمدیوں کو کافر کہتے ہو کبھی مسلمان ہے ایک ایسا باریک مسئلہ ہے کہ اسے کوئی نہیں سمجھتا.جو کہ میاں صاحب بھی نہیں سمجھے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے نزدیک میں کفر کا مسئلہ نہیں سمجھا.بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے خیال میں میں اس بات کو نہیں سمجھا کہ کیوں آپ کبھی کافر کہتے ہیں کبھی مسلمان اس میں کیا بھید ہے؟ اور حتّٰی کالفظ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے خیال میں میں ہی وہ شخص تھا جسے اس مسئلہ کو سمجھنا چاہئے تھا.پس اس سے میرے مخالف کیا فائدہ اٹھاسکتے ہیں.اس وقت جب آپ نے یہ کلمات فرمائے اور لوگ بھی موجود تھے.اور میں نے ان کی حلفي شہادت لے لی ہے جو میرے پاس موجود ہے.لیکن چونکہ اس وقت حضرت کی حالت نازک تھی.میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس بحث کو چھیڑا جائے.اپریل میں وه شهادت درج کی جاتی ہے.’’میں اور چند اور احباب اور حضرت میاں صاحب حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت نے اپنے سلسلہ کلام میں فرمایا کہ "کفر و اسلام کا مسئلہ جو بڑا مشکل سمجھا جاتا ہے گو لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ کبھی مسلم کہتا ہے اور کبھی کافر لیکن خدا نے مجھے اس میں وہ سمجھایا ہے جو کسی کو نہیں سمجھ آیا.حتی کہ میاں کو بھی سمجھ نہیں آیا اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کریہ شہادت دیتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے یہی فرمایا تھا\".( محمد سرور) ’’مندرجہ بالا بیان جہاں تک مجھے یاد ہے بالکل درست ہے.سوائے اس کے کہ مجھے کہتے ہیں کی بجائے آپ نے فرمایا تھا کہ لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ کبھی کازرکھتا ہے اور کبھی مسلمان‘‘.( شیر علی) مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت خلیفة المسیح نے ترجمہ قرآن شریف سننے کے وقت جو مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں فرمایا تھا کہ مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی میں (غیراحمدیوں کو) کافر کہتا ہوں اور کبھی مسلمان.یہ دقیق مسئلہ ہے کسی نے نہیں سمجھا.حتی کہ میاں نے بھی نہیں سمجھا.یہ مسئلہ بھی احمدیوں میں صاف ہونے کے قابل ہے \" راقم محمد علی خان) "حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت دریافت کرنے کے لئے یہ خاکسار حضور کے مکان پر حاضر ہوا دیکھا تو مولوی محمد علی صاحب ترجمة القرآن کے نوٹس سنارہے تھے اور حضرت کے سرہانے جناب حضرت صاحبزادہ صاحب بیٹھے تھے کہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ میرے متعلق جو اعتراض کیا جاتا
۳۰۴ ہے کہ کبھی غیراحمدیوں کو کافر کہتا ہے کبھی مسلمان.یہ ایک بار یک مسئلہ ہے جو ہمارے میاں نے بھی نہیں سمجھا\" (راقم مہرمحمد خان مالیر کو ٹلوی ثم قادیانی) باقی رہا یہ کہ میرا کوئی مضمون امرتسر میں چھیا.لیکن اس کی اشاعت حضرت خلیفہ اول نے روک دی.یہ ایک صریح جھوٹ ہے جو آپ تک پہنچایا گیا.میں نے سواۓ اس مضمون کے جو تشحیذ میں شائع ہوا اور کوئی مضمون اس موضوع پر نہیں لکھا.ہاں تشحیذ سے لے کر کسی نے الگ ٹریکٹ میں اسے شائع کرنا چاہا تھا.اسے حضرت خلیفہ اول نے روک دیا تھا.اور یہ فعل اس شخص کا تھا بھی نامناسب، کیونکہ یہ مضمون خاص جماعت کے لئے تھا.اور ایک رسالہ اور ایک اخبار میں شائع ہو کر اس کی جماعت میں کافی اشاعت ہو چکی تھی.اب اسکو الگ شائع کرنا خواہ مخواہ لوگوں کو جوش دلانا تھا.اور اسراف بھی.جب میں نے سنا کہ ایک شخص نے ایاکیا ہے تو میں نے بھی اسے پسند نہیں کیا.پس وہ وہی مضمون تھا جسے تشحیذ میں حضرت کی اجازت سے شائع کیا گیا.بلکہ وہی مضمون تھا جس کی نسبت جب مشہور کیا گیا کہ اس پر حضرت ناراض ہیں تو میں نے دوبارہ پیش کیا کہ اگر آپ شرح صدر سے اجازت دیں تب شائع کروں.تو اس پر حضور نے فرمایا کہ میں منافق نہیں کہ منافقت سے اجازت دوں.کیا آپ کو میری بات پر اعتبار نہیں آیا.اس جواب کے بعد میں نے اسے شائع ہونے کے لئے دیا.اور مضمون حضرت کی کتابوں سے لیا گیا ہے.میری تصنیف نہیں.اب ایک مسئلہ خلافت باقی رہ گیا ہے جس پر خواجہ صاحب نے بڑا زور دیا ہے اور درحقیقت یہی ایک بڑی بنائے مخاصمت ہے ورنہ ہم سے ان کو کچھ زیادہ پُرخاش نہیں.خلافت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ وہی باتیں ہیں جن کا مفصل جواب خلافت احمدیہ میں حضرت خلیفہ اوّل کے حکم کے ماتحت انجمن انصار اللہ نے دیا تھا.اب ایک طرف تو وہ مضمون ہے جس کا خود خلیفہ اوّل ؓنے حکم دیا اسے دیکھا، اصلاح فرمائی، اجازت دی.کیا اس کے مقابلہ میں آپ بھی کوئی ایسا مضمون خلافت کے خلاف پیش کر سکتے ہیں جسے حضرت خلیفہ اوّل نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو، پسند فرمایا ہو اور شائع کرنے کی اجازت دی ہو تا کہ اس سے آپ کے اس دعوے کی تصدیق ہو سکے کہ حضرت خلیفہ اوّل شخصی خلافت کے قائل نہ تھے.میری اس سے یہ غرض نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی پسندیدگی سے خلافت کا مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی پسندیدگی یا عدمِ پسندیدگی سے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کیونکہ اصل فیصلہ وہی ہونا چاہئے جو اسلام اور مسیح موعودؑ کے حکم کے ماتحت ہو.لیکن
۳۰۵ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح بھی آپ کے اس خیال کے مؤید تھے اور آپ صرف ایک بزرگ ہونے کے لحاظ سے بیعت لیتے تھے نہ کہ خلیفہ کی حیثیت سے.لیکن یہ بات صریح غلط ہے.حضرت کی پہلی تقریر جو خلافت سے پہلے آپ نے کی موجود ہے اور آپ لوگوں نے اس پر جو اعلان کیا وہ بھی موجود ہے.ان کو دیکھ کر کوئی انسان فیصلہ نہ کرے گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح مسئلہ خلافت کے قائل نہ تھے بلکہ یہ بھی فیصلہ نہ کرے گا کہ خود خواجہ صاحب بھی قائل نہ تھے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح کو جب بیعت کے لئے کہا گیا تو آپ نے ایک تقریر فرمائی جس کے بعض فقرات ذیل میں درج ہیں.’’موجودہ وقت میں سوچ لو کہ کیسا وقت ہے جو ہم پر آیا ہے.اِس وقت مردوں بچوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں.اِس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو (جن کے آپ نے پہلے نام لئے تھے) میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘.پھر آگے فرماتے ہیں:.’’میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دفن ہونے) سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے‘‘.اب ان دونوں فقرات سے کیا ظاہر ہوتا ہے کیا یہ کہ آپ خلافت کی بیعت کے لئے کھڑے ہوئے تھے یا اپنے زہد و اتقاء کی وجہ سے آپ نے دوسرے پیروں کی طرح بیعت لی تھی.یہ فقرات دلالت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دفن ہونے سے پہلے آپ چاہتے تھے کہ کُل جماعت ایک خلیفہ کے ماتحت ہو اور اس میں وحدت پیدا ہو جائے نہ کہ علم و تقویٰ کی وجہ سے بیعت لینے کے لئے آگے بڑھے تھے.پھر آپ نے جو اعلان حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت پر شائع کیا اس میں آپ نے لکھا ہے کہ مطابق الوصیت آپ کی بیعت کی گئی ہے اور سب جماعت آپ کی خدمت میں بیعت کے خطوط لکھ دے.اب فرمائیے کہ کیا آپ کا یہ اعلان یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے صرف بزرگ سمجھ کر بیعت کی تھی.الوصیت کے کون سے فقرات میں یہ بات درج ہے کہ اگر کوئی نیک آدمی جماعت میں ہوتو میری ساری جماعت اس کی بیعت کرے.اور اس کا فرمان سب جماعت کے لئے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعودو مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا‘‘.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے جماعت میں ایسے شدید تفرقہ کا خطرہ تھا کہ اُس وقت سوائے ایک خلیفہ کے ذریعہ جماعت کو متحد رکھنے کے آپ کو اور کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی.اور خلافت کی مخالفت کے خیال بعد کے ہیں یا اُس وقت شدتِ غم میں دَب گئے تھے کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل نے اُس وقت فرما دیا تھا کہ بیعت کے بعد میری ایسی فرمانبرداری کرنی ہوگی جس
۳۰۶ میں کسی انکار کی گنجائش نہ ہو.پس اگر اُس وقت آپ کے خیالات اِس کے خلاف ہوتے تو آپ کیوں بیعت سے انکار نہ کر دیتے.خواجہ صاحب! اور امور میں میں خیال کر سکتا ہوں کہ آپ کو غلطی لگی ہوگی لیکن اس امر میں میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ غلطی سے یہ اثر قارئین ٹریکٹ کے دل پر ڈالنا چاہتے ہیں کہ آپ خلیفہ اوّل کی وفات تک ان کے سامنے اظہار کرتے رہے کہ آپ خلافت کے قائل نہیں ہیں اور یہ کہ چھوٹی مسجد کی چھت پر آپ سے جو بیعت لی گئی وہ خوشنودی کی بیعت تھی.میرے کانوں میں یہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ توبہ کر لے.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کر مرتد ہو جائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا اور آپ جانتے ہیں کہ وہ شخص جس نے یہ الفاظ لکھے تھے کون تھا.ہاں یہ الفاظ بھی میرے کانوں میں اب تک گونج رہے ہیں کہ دیکھو میں اس انجمن کی بنائی ہوئی مسجد پر بھی نہیں کھڑا ہوا بلکہ اپنے میرزا کی بنائی ہوئی مسجد پر کھڑا ہوں اور یہ وہ الفاظ تھے جن کو سن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں وہ لوگ اب تک زندہ ہیں جن کو سمجھا کر آپ لاہور سے لائے تھے اور جن کو الگ الگ حضرت خلیفہ اوّل نے سخت ڈانٹ پلائی تھی… خود مجھ سے دیر دیر تک آپ کی اس بغاوت کے متعلق حضرت ذکر فرمایا کرتے تھے اور سخت الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار فرمایا کرتے تھے بلکہ یہی نہیں میں آپ کے دوستوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خطوط پیش کر سکتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل اس معاملہ میں آپ پر سخت ناراض تھے.وفات سے کچھ دن پہلے جلسہ کی خوشی میں جو اعلان کیا اس میں بھی اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے.’’جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں دکھایا تھا‘‘.اور آپ جانتے ہیں کہ یہ رؤیا مسجد کی چھت پر اسی جلسہ میں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیعت ارشاد لی، سنائی تھی اور وہ کون تھے جنہوں نے خلافت کے خلاف شور مچایا تھا.خلافت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی بہت سی تحریریں موجود ہیں اور وہ شائع ہو چکی ہیں.جب آپ ملتان ایک مقدمہ میں گواہی دینے کے لئے تشریف لے گئے تھے تو آپ نے ان الفاظ میں اپنی شہادت کو شروع کیا تھا.’’میں حضرت مرزا صاحب کا خلیفہ اوّل ہوں.جماعت احمدیہ کا لیڈر ہوں‘‘.پھر آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں:.
۳۰۷ ’’میں خلیفۃ المسیح ہوں اور خدا نے مجھے بنایا ہے… خدا تعالیٰ نے مجھے یہ رِدا پہنا دی ہے… اُس نے آپ.نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کُرتہ پہنا دیا… معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے جو لیستخلفنحم فی الارضمیں موعود ہے… تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.میں تم سے کسی کا بھی شکرگذار نہیں ہوں.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.مجھے یہ لفظ بھی دکھ دیتا ہے جو کسی نے کہا کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے… میں کہتا ہوں وہ بھی توبہ کر لے جو اس سلسلہ کو پارلیمنٹ اور دستوری سمجھتا ہے… مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہوگئی اور دستوری کا زمانہ ہے اُنہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی… میں پھر کہتا ہوں وہ اب بھی توبہ کر لیں… اور حضرت مسیح موعود اور مہدی بھی آ چکے جس کا خدا نے اپنے فضل سے مجھ کو خلیفہ بنایا‘‘.خواجہ صاحب! بتائیں کہ اگر آپ یا آپ کے دوست نہ تھے تو اور کون لوگ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا ہی بنایا ہوا خلیفہ ہے ہم اسے معزول کر دیں گے اور وہ کون لوگ تھے جو کہتے تھے کہ یہ زمانہ ہی پارلیمنٹوں کا ہے ایک حاکم کا نہیں.دیکھو ایران میں بھی دستوریت ہوگئی ہے اس لئے انجمن ہی اصل حاکم ہونی چاہیے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو پہلا جلسہ ہوا اس میں جو تقریر آپ نے فرمائی اس کے بعض فقرات یہ ہیں.’’اب ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ تم ملہم نہیں تمہاری کیا ضرورت ہے.کیا حضرت صاحب ہمارے لئے کم ہدایت چھوڑ گئے ہیں.ان کی اسّی (۸۰) کے قریب کتابیں موجود ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں یہ سوال بدبخت لوگوں کا ہے جو خدا تعالیٰ کی سنت کا علم نہیں رکھتے.اس قسم کے سوال سے تمام انبیاء کا سلسلہ باطل ہو جاتا ہے چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ علم ادم الاسماء کلھاجب خدا نے سب کچھ آدم کو بتا دیا تو اب نوح اور ابراہیم کیا لائے جو ماننا ضروری ہے؟ کلھاتو ان کے حق میں آ چکا ہے.پھر آدم کے لئے سب ملائکہ نے سجدہ کیا پس اب ان دوسرے انبیاء کی کیا ضرورت ہے.پھر دم نقد واقعہ موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالات جن کی نسبت میرا اعتقاد ہے خاتم الرسل، خاتم الحکام، خاتم النبیّٖن، خاتم الاولیاء، خاتم الانسان ہیں.اب ان کے بعد اگر کوئی ابوبکر کو نہیں مانتا تو فرمایا من کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفسقون(النور۵۶) یعنی جو انکار کرے گا وہ خدا کی اطاعت سے باہر نکلنے والا ہے‘‘.
۳۰۸ ’’غرض یہ سوال پہلے آدم پر پڑتا ہے.پھر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر.پھر ابوبکرؓ پر، پھر علیؓ پر، پھر مہدی پر.جب سارے علوم رسالت مآب سنا گئے تو مہدی کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقی بات یہی ہے کہ ضرورت ہے اجتماع کی.اور شیرازۂ اجتماع قائم رہ سکتا ہے ایک امام کے ذریعہ.اور پھر یہ اجتماع کسی ایک خاص وقت میں کافی نہیں مثلاً صبح کو امام کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اب ظہر کو کیا ضرورت ہے؟ عصر کو کیا؟ پھر شام کو کیا؟ پھر عشاء کو کیا؟ پھر جمعہ کو اکٹھے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر عید کے دن کیا ضرورت ہے؟ پھر حج میں کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح ایک وقت کی روٹی کھا لی تو پھر دوسرے وقت کیا ضرورت ہے؟ جب ان باتوں میں تکرار ضروری ہے تو اس اجتماع میں بھی تکرار ضروری ہے یہ میں اس لئے بیان کرتا ہوں تا تم سمجھو کہ ہمارے امام چلے گئے تو پھر بھی ہم میں اسی وحدت، اتفاق، اجتماع اور پُرجوش روح کی ضرورت ہے‘‘.اس تقریر میں آپ نے جو اعتراض خلافت پر کئے ہیں ان کے جواب خود حضرت خلیفہ اوّل کی زبانی موجود ہیں لیکن میں نے یہ حوالہ جات اس لئے نقل نہیں کئے کہ میںیہ آپ پر حجت قائم کروں کہ حضرت خلیفہ اوّل نے یوں فرمایا ہے اس لئے آپ بھی مان لیں بلکہ اس لئے نقل کئے ہیں تا آپ کو معلوم ہو جائے کہ حضرت خلیفہ اوّل کا مذہب شائع ہو چکا ہے اور آخری حوالہ تو خود صدرانجمن احمدیہ کی رپورٹ سے نقل کیا گیا ہے پس آپ کی یہ کوشش کہ لوگوں پر یہ ثابت کریں کہ حضرت خلیفہ اوّل کسی شخصی حکومت کے قائل نہ تھے کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے آپ کی دیانت پر خطرناک اعتراض آتا ہے.پس آپ یہ بیشک اعلان کریں کہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کی رائے حجت نہیں لیکن یہ خیال لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش نہ کریں کہ حضرت خلیفہ اوّل آپ کے اس خیال پر آپ سے خوش تھے یا یہ کہ آپ سے ناراض نہ تھے یا یہ کہ خود آپ سے متفق تھے کیونکہ ان خیالات میں سے کسی ایک کا ظاہر کرنا گویا اس بات کا یقینی ثبوت دینا ہے کہ خلافت کے مقابلہ میں حق کی بھی پرواہ نہیں رہی ضرور ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر خود آپ کے وہ دوست جن کی مجلس میں آپ بیٹھتے ہیں آپ پر دل ہی دل میں ہنستے ہوں گے یا اگر ان کے دل میں ذرا بھی خوفِ خدا ہوگا تو روتے ہوں گے کہ خواجہ صاحب کو خلاف بیانی کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.اگر وہ بیعت جو نہایت سخت ڈانٹ کے بعد آپ سے لی گئی اور اگر وہ بیعت جو حکیم فضل دین کے مکان کے جھگڑے پر آپ کے بعض دوستوں سے لی گئی ایک انعام تھا تو دنیا میں ناراضگی اور خفگی کوئی شَے کا نام نہیں.مولوی غلام حسن صاحب پشاوری بھی ان تمام واقعات سے
۳۰۹ آگاہ ہیں اور آپ کی جماعت کے خلیفہ ہیں کیا آپ اپنے بیان کی تصدیق انہی سے حلفی بیان کے ساتھ کروا سکتے ہیں؟ غالباً ان کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح کو یہ خبر پہنچی تھی کہ ان کے خیالات بھی اسی قسم کے ہیں تو وہ کیسے ناراض ہوئے تھے بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں کیا آپ خود تریاق القلوب کے مطابق قسم کھا کر ان دونوں امور پر شہادت دے سکتے ہیں کہ خلیفہ اوّل خلافت کے متعلق آپ کے خیالات سے متفق تھے یا یہ کہ ناراض نہ تھے اور یہ کہ چھوٹی مسجد کی بیعت ایک انعام کے طور پر اور خوشی کی سند کے طور پر تھی یا اس لئے کہ آپ کی مخالفت کی بناء پر آپ کو جماعت سے الگ خیال کر کے آپ سے دوبارہ بیعت لی گئی تھی؟ مجھے اس پر بھی تعجب آتا ہے کہ آپ نے اس بیعت کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مجھ سے اور نواب صاحب سے بھی لی گئی.اس کے متعلق میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہاں آپ کو یاد نہیں رہا.میں نے ایک خواب دیکھی تھی اور حضرت کو سنائی تھی اِسی کی بناء پر آپ نے عین تقریر میں مجھے اپنی بائیں طرف سے اُٹھا کر دائیں طرف بٹھایا اور پھر اپنی تائید میں تقریر کرنے کا ارشاد فرمایا.ورنہ مجھ سے کوئی بیعت نہیں لی گئی اور نہ نواب صاحب سے.باقی رہا وصیت کا معاملہ اس پر خلافت احمدیہ میں مفصل بحث موجود ہے آپ پہلے اس کا جواب دے دیں.پھر اس پر بھی کچھ لکھ دیا جائے گا مگر ضروری ہے کہ جو کچھ پہلے لکھا جا چکا ہے اس کا جواب پہلے ہو جائے.اگر آپ کے پاس یہ رسالہ نہ ہو تو آپ مجھے اطلاع دیں میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا.اسی میں تحریر کا معاملہ بھی آچکا ہے مگر میں سوال کرتا ہوں دنیا میں لاکھوں نبی اور مامور گزرے ہیں کیا ان میں سے ایک بھی ایسا ہوا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کی ساری اُمت گمراہ ہو جائے اور ضلالت پر اجماع ہو؟ یہ ناممکن ہے.پس وہی معنی درست ہیں جو خدا تعالیٰ کے عمل نے کئے کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف اس کا فعل ہو.خلافت پر ایک خاص رنگ میں بحث میرے لیکچر میں بھی ہے جو سالانہ جلسہ پر ہوا اور اب چھپ رہا ہے.وہ چھپ جائے گا تو وہ بھی آپ کو بھجوا دیا جائے گا اس کو بھی دیکھ لیں.میں اس جگہ یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجہ صاحب اپنے مضمون میں باربار لکھتے ہیں کہ ہم الوصیت پیش کرتے ہیں اور ہمارے مقابلہ میں پچھلا طریق عمل پیش کیا جاتا ہے اب بتاؤ کہ کون حق پر ہے.لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ طریق عمل تو اور دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے ورنہ ہم الوصیت کو چھوڑتے نہیں آپ سے بڑھ کر ہم پیش کرتے ہیں.ہمارا یقین ہے کہ
۳۱۰ الوصیت میں نہایت وضاحت سے خلافت کا ذکر ہے.چنانچہ قدرتِ ثانیہ کے نام سے آپ نے خلافت کا مسئلہ ایسی وضاحت سے کھولا ہے کہ کسی صداقت پسند انسان کو اس میں شک و شُبہ کی گنجائش نہیں رہتی اور ابوبکرؓ کی مثال دے کر اس مسئلہ کا پوری طرح فیصلہ کر دیا ہے.پس آپ کا یہ لکھنا کہ لاہوری الوصیت پیش کرتے ہیں اور قادیانی نہیں کرتے ایک خلافِ واقعہ بات ہے.آپ خلافت احمدیہ کو پڑھیں اس میں الوصیت سے خلافت کو باِلوضاحت ثابت کیا گیا ہے اور الوصیت کیا حضرت صاحب کی اور مختلف کتب سے بھی ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہونا تھا.چنانچہ پیغامِ صلح، حمامۃ البشریٰ اور ایک لاہور کی تقریر سے جو ۱۹۰۸ء میں آپ نے فرمائی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے بعد خلفاء ہوں گے وہ کل جماعت کے مطاع ہوں گے اور یہ کہ خلفاء کو نبی نہیں مقرر کرتا بلکہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود خلیفہ مقرر کرتا ہے.میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے آپ کو ایک اور واقعہ بھی یاد دلا دیتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ایک وقت آپ بھی کسی دوسرے خلیفہ کے منتظر تھے جب حضرت خلیفۃ المسیح گھوڑے سے گر کر سخت بیمار تھے تو اُس وقت مرزا یعقوب بیگ صاحب مجھے گھر سے بُلا کر مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی تک لے گئے تھے وہاں آپ بھی تھے.مولوی صاحب بھی تھے اور دوسرے آپ کے دوستوں میں سے بھی دو آدمی تھے.آپ نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ حضرت کی حالت خطرناک ہے مجھے خلیفہ ہونے کی خواہش نہیں اور نہ مولوی صاحب کو ہے ہم سب آپ کو ہی خلیفہ بنائیں گے لیکن آپ یہ بات مدنظر رکھیں کہ ہمارے لاہور سے آنے تک خلیفہ کا انتخاب نہ ہو.آپ نے اپنے آنے تک انتظار کرنے پر جو زور دیا اِس میں آپ کی نیت کیا تھی اِس سے مجھے بحث نہیں مگر میں نے ایک اثر کی بناء پر کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے انتخاب پر بحث کرنا ناجائز ہے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا اور بات ختم ہوگئی.اس واقعہ سے آپ کو یاد آگیا ہوگا کہ آپ بھی کسی وقت خلافت کے قائل تھے یا کسی مصلحت کی وجہ سے آپ نے ایسا ظاہر کرنا پسند فرمایا تھا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے مراد بیعت لینے والا خلیفہ تھا کیونکہ اس کے لئے چالیس آدمیوں کی شرط ہے اور آپ کے آنے نہ آنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہو سکتا تھا اور نہ ایسا خلیفہ بنانے کے لئے آپ کو یہ ضرورت تھی کہ آپ کہتے کہ نہ میں خلیفہ بننا چاہتا ہوں اور نہ مولوی محمد علی صاحب کیونکہ ایسے خلیفہ کئی ہو سکتے ہیں.(آپ ان کا نام خلیفہ رکھتے ہیں میں ان کو خلیفہ نہیں کہتا.) خواجہ صاحب ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جو بیعت لے وہ خلیفۃ المسیح کہلا سکتا ہے بلکہ جو شخص
۳۱۱ : پہلے کا کوئی کام کرے وہ اس کا خلیفہ ہے تو کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا جس قدر صحابہ اشاعتِ اسلام میں لگے ہوئے تھے اور صحابہ سب ہی اس کام میں مشغول تھے خلیفۃ الرسول کہلاتے تھے؟ اگر صرف ایک شخص ہی کہلاتا تھا تو کیا اس سے ثابت نہیں کہ خلیفہ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کی آپ لوگ ہتک کرتے ہیں.پھر اگر خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو کسی کا کام کرے تو کیوں خلیفہ اوّل کی موجودگی میں آپ خلیفۃ المسیح نہیں کہلاتے تھے کیونکہ آپ بقول اپنے مسیح موعود کا اصل کام اشاعتِ اسلام کر رہے تھے اُس وقت کیوں آپ کو خلیفۃ المسیح کہلانے کی جرأت نہیں ہوئی.پھر میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ دکھانا مدنظر نہیں کہ ہمارے امیر کے ماتحت چند خلیفۃ المسیح ہیں تو کیوں خود مولوی محمد علی صاحب کو خلیفۃ المسیح نہیں لکھا جاتا وہ تو آپ کے نزدیک مسیح موعود کے زیادہ قائم مقام ہیں.باقی رہا سوال مقدمہ کا کہ مقدمہ ہوگا اور عدالتوں تک جانا پڑے گا یہ ایسی دھمکیاں ہیں جو ہمیشہ راست بازوں کو ملتی رہی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے کسریٰ نے اپنے آدمی بھیجے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا اسی طرح اگر کوئی مجھے بھی عدالت میں بُلوائے یا انجمن پر مقدمہ کرے تو کیا حرج ہے.’’ایں ہمہ اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر‘‘.جب میں نے خدا کے لئے اور صرف خدا کے لئے اس کام کو اپنے ذمہ لیا ہے اور میں نے کیا لینا تھا خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کر دیا ہے تو اب مجھے اس سے کیا خوف ہے کہ انجام کیا ہوگا.میں جانتا ہوں کہ انجام بہرحال بہتر ہوگا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا مجھ سے وعدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا ہے.پس آپ مجھے مقدموں سے کیا ڈراتے ہیں.ہمارا مقدمہ خدا کے دربار میں داخل ہے کیا یہ بات بعید ہے کہ پیشتر اس کے کہ دنیا کی حکومتیں ہمارے جھگڑے کا فیصلہ کریں اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ خود ہمارے مقدمہ کا فیصلہ کر دے اور گورنمنٹ کے دخل دینے کے بعد کسی ماتحت عدالت کا کیا حق ہے کہ کچھ کر سکے.پس اگر خدا تعالیٰ ہی کوئی فیصلہ صادر فرمائے جس سے سب فساد دور ہو کر امن ہو جائے تو دنیا کی حکومتوں نے کیا دخل دینا ہے.مقدمات سے ان کو ڈرائیں جن کی نظر دنیا کے اسباب پر ہے کوئی دنیا کی حکومت ہمیں اس مقام سے نہیں ہٹا سکتی جس پر خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے کیونکہ دنیاوی حکومتوں کا اثر جسم پر ہے دل پر نہیں دل صرف خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.اس ٹریکٹ میں کچھ متفرق باتیں بھی ہیں گو ان کا جواب ایسا ضروری نہیں مگر کچھ جواب دے دیتا ہوں.خواجہ صاحب اس ٹریکٹ میں اس امر سے بھی ڈراتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کے کوئی
۳۱۲ خطوط ان کے پاس ایسے بھی ہیں جن کے اظہار سے ہمیں سخت دقت پیش آئے گی.ان خطوں کی اطلاع مختلف ذرائع سے مجھے پہنچی ہے اور ہر ایک شخص نے یہی بیان کیا ہے کہ خواجہ صاحب فرماتے تھے کہ میں یہ خط صرف آپ کو ہی دکھاتا ہوں اور کسی کو نہیں دکھایا مگر جب دیکھا تو راوی چار پانچ نکلے جس پر مجھے حیرت ہوئی کہ صرف ایک کو سُنا کر اِس قدر لوگوں کو کیونکرعلم ہو گیا.مگر کوئی تعجب نہیں کہ خواجہ صاحب پہلے ایک سے ذکر کرتے ہوں اور پھر یہ بھول جاتے ہوں کہ میں پیغام بھیج چکا ہوں پھر کوئی اور شخص نظر آ جاتا ہو اور آپ مناسب خیال کرتے ہوں کہ اس کے ہاتھ بھی پیغام بھیج دیں بہرحال ہم خواجہ صاحب کی اِس مہربانی کے ممنون ہیں کہ اُنہوں نے ان خطوط کے مضمون سے بغیر اسے شہرت دینے کے ہمیں مطلع کر دیا.لیکن میں کہتا ہوں خواجہ صاحب بیشک ان خطوط کو شائع کر دیں مجھے ان کی عبارت پوری طرح یاد نہیں.نہیں تو میں ابھی لکھ دیتا.مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی میری نسبت کیا لکھتا ہے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اپنے پیر کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا اور ہمیشہ اس کا فرمانبردار رہا ہوں اور میں نے اس کے منہ سے بارہا یہ الفاظ سنے ہیں کہ مجھے آپ سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے.اس نے مجھے اُس وقت جب کہ میں کسی قدر بیمار تھا اور بیماری بالکل خفیف تھی.ایسی حالت میں کہ خود اسے کھانسی کے ساتھ خون آتا تھا.اس طرح پڑھایا ہے کہ وہ مجھے یہ کہہ کر کتاب نہ پڑھنے دیتا تھا کہ آپ بیمار ہیں اور خود اس بیماری میں پڑھتا تھا.سو خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اپنے اُس محسن کا وفادار رہا.ہاں چونکہ انسان کمزور ہے اگر میری کسی کمزوری کی وجہ سے وہ کسی وقت مجھ سے ناراض ہوا ہو تو کیا تعجب ہے.بخاری میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی جنگ کا ذکر ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو سخت ڈانٹا.حتیّٰ کہ حضرت ابوبکرؓ کو حضور سے ان الفاظ میں سفارش کرنی پڑی کہ نہیں حضور قصور میرا ہی تھا ۴؎ تو کیا حضرت عمرؓ پر اس واقعہ سے کوئی الزام آ جاتا ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہو گے کہ حضرت عمرؓ سے میری ایک اور مشابہت ہوگئی.استاد کا شاگرد کو ڈانٹنا بُری بات نہیں شاگرد کا استاد کو گالی دینا بُرا ہے.کیونکہ ڈانٹنا استاد کا کام تھا اور گالی دینا شاگرد کا کام نہیں ہے.پس وہ لوگ ایسی کسی تحریر پر کیا خوش ہو سکتے ہیں جو آج بڑے زور سے اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے کبھی خلیفہ اوّل کی مخالفت نہیں کی حالانکہ ان کی دستخطی تحریریں موجود ہیں جن میں اُنہوں نے آپ کو اسلام کا دشمن اور حکومت پسند اورچڑچڑا وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے.پھر جس تحریر پر ناز کیا جاتا ہے اگر وہ درست بھی مان لی جائے تو اس کے متعلق میرے پاس بھی سیّد ڈاکٹر صاحب کا خط موجود ہے جس سے اصل معاملہ پر روشنی
۳۱۳ پڑ جاتی ہے اور جس تحریر کی طرف خواجہ صاحب اشارہ کرتے ہیں اس کے بعد کی وہ تحریر ہے جس میں حضرت خلیفہ اوّل نے میری نسبت لکھا ہے کہ میں اسے مصلح موعود سمجھتا ہوں اور پھر اس کے بعد کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک بھری مجلس میں فرمایا کہ مسند احمد بن حنبل کی تصحیح کا کام ہم سے تو ہو نہ سکا میاں صاحب کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو سکے گا.اور یہ جنوری ۱۹۱۴ء کی بات ہے.آخری بیماری سے ایک دو دن پہلے کی.پس آپ ان زبردست حملوں کی اشاعت سے ہرگز نہ چوکیں؟ کیوں اپنے ہاتھ سے موقع جانے دیتے ہیں شاید اسی سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچ جائے مگر خوب یاد رکھیں کہ میرا معاملہ کسی انسان کی تعریف کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اگر حضرت خلیفہ اوّل کی وہ تحریریں میری تائید میں موجود نہ ہوتیں جو آپ کے پاس جس قدر خطوط ہیں ان کی نفی کر دیتی ہیں تو بھی مجھے خدا نے اس کام پر کھڑا کیا ہے نہ کہ کسی انسان نے.میں کسی انسان کی تحریروں کا محتاج نہیں.خلافت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.جو انسانوں کے خیالات سے اندازہ لگا کر میری بیعت میں داخل ہوا ہے وہ فوراً اپنی بیعت کو واپس لے لے اور مجھے خدا پر چھوڑ دے میں مشرک نہیں ہوں.مجھے انسانوں کے خیالات کی پرواہ نہیں.خدا تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے کامیاب کرے گا.پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ماتحت کامیاب ہوں گا اور میرا دشمن مجھ پر غالب نہ آ سکے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی پوشیدہ درپوشیدہ حکمتوں کے ماتحت جن کو میں خود بھی نہیں سمجھتا.ایک پہاڑ بنایا ہے پس وہ جو مجھ سے ٹکراتا ہے اپنا سر پھوڑتا ہے.میں نالائق ہوں اس سے مجھے انکار نہیں.میں کم علم ہوں اس سے میں ناواقف نہیں.میں گنہگار ہوں اس کا مجھے اقرار ہے.میں کمزور ہوں اس کو میں مانتا ہوں لیکن میں کیا کروں کہ میرے خلیفہ بنانے میں خدا تعالیٰ نے مجھ سے نہیں پوچھا اور نہ وہ اپنے کاموں میں میرے مشورہ کا محتاج ہے.میں اپنے ضعف کو دیکھ کر خود حیران ہو جاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیوں چنا اور میں اپنے نفس کے اندر ایک بھی ایسی خوبی نہیں پاتا جس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا مستحق سمجھا گیا مگر باوجود اس کے اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقرر فرما دیا ہے.اور وہ میری اُن راہوں سے مدد فرماتا ہے جو میرے ذہن میں بھی نہیں ہوتیں.جب کُل اسباب میرے برخلاف تھے.جب جماعت کے بڑے بڑے لوگ میرے خلاف اعلان کر رہے تھے اور جن کو لوگ بڑا خیال کرتے تھے وہ سب میرے گرانے کے درپے تھے اُس وقت میں حیران تھا لیکن سب کچھ میرا ربّ آپ کر رہا تھا.اس نے مجھے اطلاعیں دیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور میرے دل کو تسلی دینے کے لئے نشان پر نشان دکھایا اور امورِ
۳۱۴ غیبیہ سے مجھے اطلاع دے کر اس بات کو پایۂ ثبوت کو پہنچایا کہ جس کام پر میں کھڑا کیا گیا ہوں وہ اس کی طرف سے ہے.خواجہ صاحب! آپ نے لکھا ہے کہ اگر آپ الہام سے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کریں تو میں پھر کچھ نہ بولوں گا.اگر آپ نے یہ بات سچ لکھی ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے باربار بتایا ہے کہ میں خلیفہ ہوں اور یہ کہ وہ میرے مخالفوں کو آہستہ آہستہ میری طرف کھینچ لائے گا یا تباہ کر دے گا اور ہمیشہ میرے متبعین میرے مخالفوں پر غالب رہیں گے.یہ سب باتیں مجھے متفرق اوقات میں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں.پس آپ اپنے وعدہ کے مطابق خاموشی اختیار کریں اور دیکھیں کہ خدا تعالیٰ انجام کار کیا دِکھلاتا ہے.اگر مصلح موعود کے ہونے کے متعلق میرے الہام کی آپ قدر کرنے کے لئے تیار ہیں تو کیوں اِس امر میں آسمانی شہادت کی قدر نہیں کرتے.آپ خوب یاد رکھیں کہ یہاں خدمات کا سوال نہیں یہاں خدائی دین کا سوال ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ خدمات کے متعلق میرا کوئی دعویٰ نہیں.اللہ تعالیٰ اگر مجھ سے کوئی خدمت لے لے تو یہ اُس کا احسان ہوگا ورنہ میں کوئی چیز نہیں.میں اِس قدر جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اس جماعت کو پھر بڑھانا چاہتا ہے.میرا ایک بہت بڑا کام ہو گیا ہے.جماعت میں احساس پیدا ہو گیا ہے باقی حصہ بھی جلد پورا ہو جائے گا اور احمدیہ جماعت بے نظیر سرعت سے ترقی کرنی شروع کرے گی.میں نے تو اس قدر احتیاط سے کام لیا ہے کہ آپ کے طریق تبلیغ کی بھی اُس وقت تک مخالفت نہیں کی جب تک اللہ تعالیٰ نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ غلط ہے.پس میں آسمان کو زمین کے لئے نہیں چھوڑ سکتا اور اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتا ہوں کہ وہ مجھے ہمیشہ اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور ہر قسم کی لغزشوں اور ٹھوکروں سے بچائے.آمین غیر ذمہ دار لوگخواجہ صاحب اپنے سارے مضمون میں اس بات پربہت زور دیتے ہیں کہ یہ سب فساد غیر ذمہ دار لوگوں کا ہے اور اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مجھے کچھ لوگ ورغلاتے رہتے ہیں اور یہ لوگ امن نہیں ہونے دیتے.میں خواجہ صاحب کو اس معاملہ میں خاص طو رپر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس لفظ کو میری جماعت کے لوگوں کی نسبت استعمال نہ کیا کریں.کیونکہ میں اس امر کا قائل نہیں کہ کچھ خاص لوگ سلسلہ کے ٹھیکیدار ہیں.خوب یاد رکھیں کہ ہر ایک وہ شخص جو مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے وہ ذمہ دار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ پھر آپ کیوں کر فرماتے ہیں کہ غیر ذمہ دار لوگ کیوں بولتے ہیں.انہی کا یہ سب فساد ڈالا ہوا ہے.آپ نے
۳۱۵ ذمہ داری شاید یہ سمجھ لی ہے کہ ایک شخص مالدار ہو یا ڈگری یافتہ ہو.میرے خیال میں ذمہ داری کچھ اور ہی چیز ہے اور ہر ایک مسلمان خدا کے نزدیک ذمہ دار ہے خواہ وہ گُدڑی پوش ہو یا تخت شاہی پر بیٹھا ہوا ہو.میں احمدی ہونے کے لحاظ سے جس طرح ایک امیر سے امیر مبائع کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار خیال کرتا ہوں.اسی طرح اس شخص کو جسے دو تین وقت کا فاقہ ہو اور جس کے تن پر پھٹے ہوئے کپڑے ہوں.آپ اپنی جماعت کے لوگوں میں خواہ کس قدر فریق ہی بنائیں میں اپنے مبائعین میں ہرگز کوئی فرق نہیں پاتا.خلیفہ ایک وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ انتظام کے لئے کھڑا کرتا ہے.اس امر کو چھوڑ کر خود خلیفہ جماعت میں سے ایک معمولی فرد ہے اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصولوں کا ایسا ہی پابند ہے جیسے اور ممبر.اور جس طرح اور لوگ سلسلہ احمدیہ کے افراد ہیں وہ ان افراد میں سے ایک فرد ہے ان کا بھائی ہے.انہی کا ہے.اسے اس انتظام سے علیحدہ ہو کر جو جماعت کے قیام کیلئے اس کے سپرد کیا گیا ہے اور کوئی فضیلت نہیں.اگر وہ غریب سے غریب آدمی کے حق کو دباتا ہے تو وہ خدا کے حضور جوابدہ ہے.پس اس جماعت کا ہرایک فرد ذمہ دار ہے اور اسلام کسی کو ذلیل نہیں کرتا.حضرت عمرؓ کے وقت ایک حبشی غلام نے ایک شہر سے صُلح کر لی تھی باوجود افسروں کی ناراضگی کے حضرت عمرؓ نے اُس کو قائم رکھا اور باوجود اس کے کہ اس میں بعض جگہ انتظامی دِقتیں پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو سکتا تھا.۶؎ مگر میں کہتا ہوں اس واقعہ سے خوب ظاہر ہو جاتا ہے کہ اسلام خلیفہ کو اس مقام پر کھڑا کرتا ہے جہاں اس کی نظر میں سب مسلمان برابر ہوں.آپ ایک طرف تو یہ اصل مقرر کرتے ہیں کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ بات کیسی ہے اور یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کہی ہے اور کن خیالات سے کہی ہے لیکن آپ نے اس پر عمل تو نہ کیا.جماعت کے ایک حصہ کو جو آپ کی اور میری طرح معزز ہے بے وجہ غیر ذمہ دار قرار دے دیا.بے شک اگر بعض لوگوں کی بعض باتیں آپ کو پسند نہ آئی تھیں تو آپ کہہ سکتے تھے کہ فلاں فلاں باتیں ان کی غلط ہیں ان کو بند کیا جاوے یا ان کی اصلاح کی جائے.بجائے اس کے آپ ایک گروہ غیر ذمہ داروں کا قرار دے کر اس کی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اسے بند کر دوں.مگر چونکہ میں سب کو ذمہ دار خیال کرتا ہوں اس لئے اس مشورہ پر عمل کرنے سے معذور ہوں.ہاں اگر کوئی بات نامعقول ہو تو اس کے روک دینے کے لئے تیار ہوں.مگر خدا کی دی ہوئی طاقتوںکو زائل کرنا میرا کام نہیں.انہی متفرق باتوں میں سے جن کا مختصر جواب میں اس جگہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ایک یہ بھی
۳۱۶ ہے کہ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ اگر محمد علی اور اس کے دوست ایسے ہی ہیں جیسے تم خیال کرتے ہو تو پھر مرزا کی نہ تعلیم درست نہ تربیت درست اور پھر الزام لگاتے ہیں کہ یہ خیال تو شیعوں کے تھے کہ سب صحابہ سوائے چند اہل بیت اورصحابہ کے منافق تھے.مگر میں پوچھتا ہوں کہ یہ خیال تو آپ کا ہے.آپ ستانوے فیصدی احمدیوں کو تو غلطی پر خیال کرتے ہیں، منصوبہ باز خیال کرتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں کو تباہ کرنے والا بیان کرتے ہیں اور ایک بڑے حصہ کو اپنے اسی مضمون میں کافر ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں پھر تعجب ہے کہ اس صورت میں آپ شیعوں کے متبع ہوئے یا ہم.شیعہ بھی تو اکثر حصہ کو گندہ کہتے ہیں صرف چند کو پاک خیال کرتے ہیں اور انہی کو ذمہ وار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا سمجھتے ہیں آپ کا بھی ایسا خیال ہے تو یہ اعتراض آپ پر پڑا یا ہم پر؟ اور اگر مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند دوستوں کے بُرا ہو جانے سے مرزا صاحب کی تعلیم پر بھی پانی پھر جاتا ہے تو کیوں احمدی جماعت کے کثیر حصہ کے کافر ہو جانے سے جیسا کہ آپ نے اپنے ٹریکٹ صفحہ۴۲ پر صریح الفاظ میں لکھا ہے مرزا صاحب ناکام نہیں رہے.اگر کہو کہ ہم نے تو حدیث اور مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ کے مطابق کہا ہے کہ چونکہ آپ لوگ غیر احمدی مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اس لئے کافر ہوگئے، اپنی طرف سے تو بات نہیں کہی تو میں بھی کہتا ہوں کہ ہم بھی جو فتویٰ لگاتے ہیں قرآن کریم اور احادیث کے مطابق لگاتے ہیں اور ہمارا فتویٰ بھی آیت استخلاف کے ماتحت ہی ہے.پس اگر آپ کا فتویٰ درست ہے تو یہ بھی درست ہے اور اگر آپ کا فتویٰ درست ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ناکام گئے مگر یہ غلط ہے.ایسا نہیں ہوا.مسیح موعود علیہ السلام کامیاب گئے او رہر طرح کامیاب گئے.جماعت کا اکثر حصہ اُس راہ پر چل رہا ہے جس پر آپ نے چلایا تھا.ہاں کچھ لوگ الگ ہوگئے.بے شک آپ لکھتے ہیں کہ کیا وہ اکابر خراب ہو سکتے ہیں جو سلسلہ کے خادم تھے؟ تو میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات کیوں کر پوری ہوتی جو آپ نے الہام کی بناء پر لکھی تھی کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقامِ خوف ہے‘‘۷؎ اگر آپ کے خیال کے مطابق بڑے چھوٹے نہیں ہوسکتے تھے بلکہ اکابر معصوم عن الخطاء ہی سمجھے جانے کے لائق ہیں تو پھر اس عبارت کا کیا مطلب ہے.اس عبارت سے تو باِلبداہت ثابت ہو جاتا ہے کہ اکابر کا چھوٹا ہو جانا بھی ممکن ہے بلکہ بعض چھوٹے کئے بھی جائیں گے.پس آپ اس دلیل سے کوئی فائدہ نہیں حاصل کرسکتے.خصوصاً جب کہ صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ان لوگوں کو جنہوں نے بیعت ابی بکرؓ نہ کی تھی اور جن میں سے ایک
۳۱۷ ایسا بڑا رُتبہ رکھتا تھا کہ وہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھا مرتد اور منافق کہا ہے اور اس کا ثبوت صحیح احادیث اور مستند روایات سے مل سکتا ہے.۸؎ پس چند آدمیوں کا ٹھوکر کھا جانا جب کہ کثرت حق پر قائم ہو سلسلہ کی تباہی کی علامت نہیں اور پھر اس حالت میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں بتایا بھی ہے کہ جماعت کا ایک سنجیدہ آدمی مرتدوں میں مل گیا ہے.’’۱۸؍ ستمبر ۱۹۰۷ء رؤیا.فرمایا: چند روز ہوئے میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ مرتدین میں داخل ہو گیا ہے.میں اس کے پاس گیا وہ ایک سنجیدہ آدمی ہے.میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ اُس نے کہا کہ مصلحت وقت ہے‘‘.(بدر جلف ۶،نمبر ۳۸،صفحہ ۵ بابت ۱۹۰۷) اور یہ رؤیا عبدالحکیم کے ارتداد کے بعد کی ہے.اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کا قدم غیراحمدیوں کے زیادہ قریب ہے بہ نسبت ہمارے.کیونکہ ہم پر تو آپ الزام دیتے ہیں کہ ہم ان مسلمانوں سے دور ہی دور جا رہے ہیں اور خود جب کہ حضرت کا کشف مولوی محمد علی صاحب کی نسبت موجود ہے کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے، یہ ’’تھے‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ کبھی ایسا وقت آنے والا ہے کہ ہمیں نہایت افسوس سے ’’ہیں‘‘ کی بجائے ’’تھے‘‘کہنا پڑے گا.اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب کی نسبت دعا کرنا اور الہام ہونا کہ شَرٌّ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْجن پر تُو نے انعام کیا ان کی شرارت.اور یہ بات تو آپ بھی بار بار پیش کرتے ہیں کہ ہم پر حضرت بہت مہربان تھے اور شیخ صاحب کی نسبت دعا کرنے پر اس الہام کا ہونا مطلب کو اور بھی واضح کر دیتا ہے.اور اگر آپ کہیں کہ کیا ہماری خدمات کا یہی بدلہ ملنا چاہیے تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدمات کا یہ بدلہ نہیں ملتا.خدمات تو سارے احمدیوں نے کی ہیں اور بُہتوں نے آپ سے بڑھ کر کی ہیں.جن کے پاس مسیح موعود علیہ السلام کی لکھی ہوئی سندات موجود ہیں.پس یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدمات کا ایسا اُلٹا بدلہ کیوں ملا کیونکہ بہتوں نے خدمات کیں اور انعام پائے.اگر آپ کو ٹھوکر لگی تو اس کے کوئی پوشیدہ اسباب ہوں گے جن سے خدا تعالیٰ واقف ہے اور ممکن ہے کہ آپ بھی واقف ہوں ہمیں اس بات کے معلوم کرنے کی کچھ ضرورت نہیں.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کو کیوں ایسے لوگوں سے آگاہ نہ کیا گیا اس کے دو جواب ہیں.اوّل یہ کہ مجملاً آگاہ کیا گیا جیسا کہ پہلے میں الہام لکھ آیا ہوں دوسرے یہ کہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ کو آپ کی وفات کے بعد کیکُل کارروائیوں سے واقف کیا جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر آپؐ کی وفات کے بعد سخت مصائب آئے مگر آپ کو
۳۱۸ نہیں بتایا گیا کہ کس کا کیال حال ہوگا.آپ لوگوں پر اصل ابتلاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آیا.خلافت بعد میں ہوئی اُس وقت تو نہ تھی.پھر یہ کون سی ضروری بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا جاتا کہ فلاں فلاں شخص انکارِ خلافت کرے گا اور اگر ضروری تھا تو کیا یہ بتایا گیا کہ آپ کی اولاد سب کی سب اور سب قادیان کے مہاجرین اور اکثر حصہ جماعت آپ کی وفات کے بعد کافر ہو جائیں گے ( جیسا کہ آپ نے صفحہ۴۶ پر کافر قرار دیا ہے) اگر یہ امر آپ کے خیال کے مطابق واقعہ ہو گیا لیکن اس کا آپ کو علم نہ دیا گیا تو آپ کون سی ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ آپ کے متعلق ضرور کوئی الہام ہونا چاہیے تھا.آپ کے سب بیٹے بقول آپ کے کافرہو جائیں تو کسی الہام کی ضرورت نہیں، سب مہاجرین بگڑ جائیں تو کسی الہام کی ضرورت نہیں لیکن اگر آپ کے عقائد میں کچھ فرق آتا تھا تو اس کی اطلاع مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور ہو جانی چاہیے تھی.اور اگر نہیں ہوئی تو ثابت ہوا کہ آپ حق پر ہیں.خواجہ صاحب! ان دلائل سے کام نہیں چل سکتا کسی بات کے ثابت کرنے کیلئے کوئی مضبوط دلیل چاہیے.طلحہؓ اور زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے بیعت نہ کرنے سے آپ حُجت نہ پکڑیں.ان کو انکارِ خلافت نہ تھا بلکہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا سوال تھا.پھر میں آپ کو بتاؤں جس نے آپ سے کہا ہے کہ اُنہوں نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی وہ غلط کہتا ہے.حضرت عائشہؓ تو اپنی غلطی کا اقرار کرکے مدینہ جا بیٹھیں اور طلحہؓ اور زبیرؓ نہیں فوت ہوئے جب تک بیعت نہ کر لی.چنانچہ چند حوالہ جات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(الف) وَاَخْرَجَ الْحَاکِمُ عَنْ ثَوْرِبْنِ مَجْزَاۃَ قَالَ مَرَرْتُ بِطَلْحَۃَ یَوْمَ الْجَمَلِ فِیْ اٰخِرِ رَمَقٍ.فَقَالَ لِیْ مِمَّنْ اَنْتَ؟ قُلْتُ مِنْ اَصْحٰبِ اَمِیْرالْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیٍّ.فَقَالَ اُبْسُطْ یَدَکَ اُبَایِعُکَ.فَبَسَطْتُ یَدِیْ وَبَایَعَنِیْ وَفَاضَتْ نَفْسُہٗ.فَاَتَیْتُ عَلِیًّا فَاَخْبَرْتُہٗ فَقَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَی اللّٰہُ اَنْ یَّدْخُلَ طَلْحَۃُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ وَبَیْعَتِیْ فِیْ عُنُقِہٖ (خصائص کبریٰجلد ثانی صفحہ ۱۱۵) ترجمہ: اور حاکم نے روایت کی ہے کہ ثوربن مجزاۃ نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے پاس سے گذرا.اُس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی.مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ میں سے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیؓ کی جماعت میں سے ہوں.تو کہنے لگے اچھا! اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لوں چنانچہ اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے.میں نے آکر حضرت علیؓ سے تمام واقعہ عرض کر دیا.آپ سن کر
۳۱۹ کہنے لگے.اللّٰہُ اَکْبَر خدا کے رسول کی بات کیا سچی ثابت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے.(آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے)‘‘ (ب) وَذکر کردہ شد.عائشہ را یک بار روز جمل.گفت مردم روز جمل میگویند.گفتند اری گفت من دوست داشتم کہ مے نشستم.چنانکہ بنشست غیر من کہ ایں احب ست بسوی من ازیں کہ می زائید م از رسول خدا صلعم دہ کس کہ ہمہ ایشاںمانند عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام می بودند۱۲(ححج الکرامہ فی آثار القیامہ صفحہ ۱۶۷) ترجمہ: اور حضرت عائشہؓ کے پاس ایک دفعہ واقعہ جمل مذکور ہوا تو کہنے لگیں کیا لوگ واقعہ جمل کا ذکر کرتے ہیں؟ کسی ایک نے کہا جی اسی کا ذکر کرتے ہیں.کہنے لگیں کہ کاش! جس طرح اور لوگ اس روز بیٹھے رہے میں بھی بیٹھی رہتی.اس بات کی تمنا مجھے اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس بچے جنتی.جن میں سے ہر ایک بچہ عبدالرحمن بن حارث بن ہشام جیسا ہوتا.(ج) نیز طلحہ و زبیر از عشرۃ مبشرۃ بالجنۃ اندوبشارت آنحضرت صلعم حق ست.با آنکہ ایشاں رجوع کردند از خروج و توبہ نمودند(ححج الکرامہ صفحہ ۱۷۱) ترجمہ: اور طلحہ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا سچا ہونا یقینی ہے پھر یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے خروج سے رجوع اور توبہ کر لی.خواجہ صاحب! آپ نے حضرت صاحب کا ایک الہام لکھا ہے.مسلمانوں کے دو فریق ہیں.خدا ایک کے ساتھ ہوا یہ سب پھوٹ کا نتیجہ.یہ کب ہوا تھا اور کہاں لکھا ہے.جب الہاموں کی نقل میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تو دوسری باتوں میں آپ نے کیا احتیاط کرنی ہے.کلامِ الٰہی کے نقل کرنے میں تو انسان کو حد درجہ کا محتاط ہونا چاہیے اور اپنی طرف سے الفاظ بدل دینے سے ڈرنا چاہیے.اس ٹریکٹ میں خواجہ صاحب نے ایک اور بات پر بھی زور دیا ہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مرشد سے عقیدہ میں خلاف ہو.اور پھر اس کو چھپائیں یہ تو نفاق ہے.بیشک ایک مرشد سے عقیدہ میں اختلاف رکھنا اور اسے چھپانا نفاق ہے لیکن ایک شخص کی بیعت کرنے سے پہلے اُس پر ظاہر کر
۳۲۰ دینا کہ میرے یہ اعتقادات ہیں اتحادِ عمل کے لئے آپ مجھے اپنی جماعت میں داخل کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اس شخص کا اسے بیعت میں داخل کرنا نفاق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نواب صاحب کو لکھا تھا کہ آپ شیعہ رہ کر بھی بیعت کر سکتے ہیں.چنانچہ نواب صاحب کی گواہی ذیل میں درج ہے.’’میں نے بہ تحریک اپنے استاد مولوی عبداللہ صاحب فخری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں غالباً آخر ۱۸۸۹ء یا ابتدائے ۱۸۹۰ء میں خط دعا کے لئے لکھا تھا.جس پر حضرت نے جواب میں لکھا کہ دعا بِلا تعلق نہیں ہو سکتی آپ بیعت کر لیں.اس پر میں نے جواباً ایک عریضہ لکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں شیعہ ہوں اور اہلِ تشیع اَئمہ اِثناعشر کے سوا کسی کو ولی یا امام نہیں تسلیم کرتے اس لئے میں آپ کی کس طرح بیعت کر سکتا ہوں؟ اِس پر حضرت نے ایک طولانی خط لکھا جس کامَا حصل یہ تھا کہ اگر برکات روحانیہ محض اَئمہ اِثنا عشر پر ختم ہوگئے تو ہم جو روز دعا مانگتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم.صراط الذین انعمت علیھمیہ سب بیکار ہے.اور اب مے تو ہو چکی دود۱۵؎ باقی ہے.کیا ہم دود کے لئے اب مشقت ریاضات کریں؟ حضرت نے یہ بھی لکھا کہ منجملہ ان لوگوں کے جو حضرت امام حسین کے ہم پلہ ہیں میں بھی ہوں بلکہ ان سے بڑھ کر.اس خط سے ایک گونہ میرا رُحجان ہو گیا مگر میں نے پھر حضرت کو لکھا کہ کیا ایک شیعہ آپ کی بیعت کر سکتا ہے؟ تو آپ نے تحریر فرمایا کہ ہاں.چنانچہ پھر بمقام لدھیانہ ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۰ء میں میں حضرت سے ملا اور اس ملاقات کے بعد میں نے حضرت صاحب کو بیعت کا خط لکھ دیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ اس کا اظہار سرِدست نہ ہو.مگر ازالہ اوہام کی تصنیف کے وقت حضرت نے لکھا کہ مجھ کو اس طرح آپ کا پوشیدہ رکھنا نامناسب معلوم ہوتا ہے.میں آپ کے حالات ازالہ اوہام میں درج کرنا چاہتا ہوں.آپ اپنے حالات لکھ کر بھیج دیں چنانچہ میں نے حالات لکھ دیئے او رباوجود بیعت اور تعلق حضرت اقدس میں ۱۸۹۳ء تک شیعہ ہی کہلاتا رہا اور نماز وغیرہ سب ان کے ساتھ ہی ادا کرتا تھا بلکہ یہاں قادیان اس اثناء میں آیا تو نماز علیحدہ ہی پڑھتا رہاتھا.۱۸۹۳ء سے میں نے شیعیت کو ترک کیا ہے.محمد علی خان‘‘.خواجہ صاحب نفاق تو اس کو کہتے ہیں کہ ظاہر اور بات کی جائے اور دل میں اور ہو لیکن جو شخص آگے آ کر خود کہہ دے کہ میرا یہ عقیدہ ہے وہ نفاق کا مرتکب کیونکر کہلا سکتا ہے اور جس کی بیعت کرتا ہے اس سے کبھی اس عقیدہ کو پوشیدہ نہ رکھے اور وہ اسے اجازت دے دے تو یہ نفاق
۳۲۱ کیونکر ہوا.خواجہ صاحب! نہ معلوم آپ نے یہ بات کہاں سے معلوم کی کہ احمدیت کی روک کا اصل باعث تکفیر ہے اگر یہ بات تھی تو چاہئے تھا کہ جب سے آپ الگ ہوئے ہیں آپ کا حصۂ جماعت سرعت سے بڑھنے لگتا لیکن بجائے اس کے آپ نے تو کوئی معتدبہ ترقی نہیں کی لیکن برخلاف آپ کے بیان کے کہ ’’پیارو تم احمدیت کو تو کیا پھیلاؤ گے سنو! اور ہوش سے سنو!! اگر وہ خبر درست ہے جو مجھے گذشتہ ہفتہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوئی ہے تو تمہاری رفتارِ احمدیت جو نہایت سرعت سے خراسان اور حدودِ افغانستان میں جاری تھی ختم ہوگئی اور بہت سے احمدی احمدیت سے الگ ہوگئے اور اس کے ذمہ دار دو ہی مسئلے ہیں جیسے مجھے اطلاع ملی ایک تکفیرِ غیر احمدیاں اور دوسری مرزا صاحب کی نبوتِ مستقلہ.کوئی شخص نفاق کے سوائے اس عقیدہ پر افغانستان میں نہیں رہ سکتا‘‘.(صفحہ ۱۶)احمدیت نہایت زور سے بڑھ رہی ہے اور پچھلے چند ماہ میں سینکڑوں نئے آدمی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں جن میں انگریزی علوم کے لحاظ سے ایم.اے اور بی.اے بھی شامل ہیں.عربی علوم کے لحاظ سے تحصیل یافتہ مولوی ہیں، سرکاری عہدوں کے لحاظ سے ای.اے.سی اور اسسٹنٹ انسپکٹران سکول ہیں.رئیسوں کے لحاظ سے بڑے بڑے جاگیردار ہیں غرض کہ غریب بھی اور امیر بھی جو اپنے اندر نہایت اخلاص رکھتے ہیں اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور مبائعین میں شامل ہوئے ہیں.بعض کو لوگ تکلیفیں بھی دیتے ہیں لیکن صبر سے کام لے رہے ہیں اور اپنے عقائد کو بدلنے کی انہیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.پھر میں کیونکر مان لوں کہ ہمارے عقائد سلسلہ کے راستہ میں روک ہیں اور کیونکر تسلیم کر لوں کہ اب سلسلہ کی ترقی رُک گئی ہے.اگر آپ کا خیال درست ہوتا تو واقعات اس کی تصدیق کرتے اور بجائے ہماری ترقی کے تنزّل ہوتا اور بجائے ہمارے بڑھنے کے آپ بڑھتے لیکن باوجود اس کے خلاف خدائے تعالیٰ کا معاملہ دیکھنے کے آپ کو ہم راستی پر کیونکر مان سکتے ہیں؟ خواجہ صاحب نے ایک یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ وہ جب ہندوستان میں آئے تو ان کا ارادہ فوراً قادیان جانے کا تھا لیکن بعض غیر ذمہ دار لوگوں کی تحریروں کی وجہ سے جن میں اُنہوں نے غیرمبائعین سے مِلنے جُلنے اور بولنے کی ممانعت کی ہے میں رُک گیا.پھر وہ شکایت کرتے ہیں کہ اگر احمدیوں سے یہ سلوک ہے تو غیر احمدیوں اور پھر عیسائیوں سے کیا سلوک کرنا چاہیے.اوّل تو یہ سوال ہے کہ یہ مضمون کب نکلا اور آپ لاہور کب تشریف لائے.اگر آپ کا ارادہ تھا کہ فوراً ہی قادیان
۳۲۲ آئیں تو اس امر سے کونسی چیز آپ کو مانع ہوئی کہ آپ ایک عرصہ تک لاہور میں بیٹھے رہے اور فوراً نہ آ سکے اتنے میں وہ مضمون نکل گیا.پس اوّل تو یہ آپ کا فوراً ظاہر کرتا ہے کہ الفضل کا وہ مضمون ایک بہانہ کا کام دے رہا ہے.پھر میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے مجھ سے ملنا تھا یا لوگوں سے؟ لوگ آپ سے ملتے یا نہ ملتے؟ اگر آپ تبادلۂ خیالات چاہتے تھے تو مجھ سے ملتے.اگر آپ کہیں کہ مجھے یہ کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ آپ مل لیں گے تو میں کہتا ہوں کہ اب تو کسی بڑے خرچ کی بھی ضرورت نہیں ایک پیسہ کے کارڈ کے ذریعہ سے آپ مجھ سے پوچھ سکتے تھے کہ اگر میں آؤں تو تم مجھ سے بات کر سکو گے یا نہیں؟ یا الفضل کے مضمون کے مطابق مجھ سے ملنا پسند نہ کرو گے.اگر اس خط کا جواب میں نفی میں دیتا یا جواب ہی نہ دیتا تو آپ کا عذر قابل سماعت ہوتا لیکن جب آپ نے یہ تکلیف نہیں اُٹھائی تو میں آپ کے عذر کو کس طرح قبول کروں.کیا یہ بات درست نہیں کہ آپ نے میرے مریدین کو بڑی بڑی لمبی چِٹھیاں لکھی تھیں؟ پھر کیا یہ درست نہیں کہ آپ نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی؟ پھر کیا آپ اس وقت سے کچھ وقت بچا کر اور ان کاغذوں لفافوں سے ایک کاغذ اور لفافہ بچا کر ایک خط میری طرف مذکورہ بالا مضمون کا نہیں لکھ سکتے تھے؟ جب کہ اس بات سے آپ کو کوئی امر مانع نہ تھا.تو آپ کا جماعت کے دوسرے افراد کو دعوت دینا اور ان کے ملنے کی خواہش ظاہر کرنا ، ان کی طرف خطوط لکھنا لیکن مجھ سے فیصلہ کرنے یا گفتگو کرنے کی کوئی تحریک نہ کرنا اور خط لکھ کر دریافت نہ کرنا صاف ظاہر نہیں کرتا کہ آپ کا اصل منشاء لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا اور جماعت میں پھوٹ ڈالنا تھا نہ کہ صلح کرنا.صلح مجھ سے ہو سکتی تھی اور کس کا حق تھا کہ میری اجازت کے بغیر صلح کر لے.یہ صلح کوئی مقامی معاملہ نہ تھا ، یہ فیصلہ کسی خاص شہر سے تعلق نہ رکھتا تھا بلکہ سب جماعت اور سب احمدیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا پس یہ فیصلہ مبائعین میں سے بغیر میری اجازت کے اور کون کر سکتا تھا.اگر آپ کا منشاء صلح تھا تو مجھ سے براہِ راست کیوں آپ نے گفتگو نہ کی؟ اب رہا یہ سوال کہ ایسا اعلان بعض غیر ذمہ دار لوگوں نے کیوں کیا کہ لوگ آپ سے نہ ملیں نہ بولیں اس کی وجہ مجھے اس کے بغیر کوئی نہیں سمجھ میں آئی کہ اُنہوں نے آپ کی مذکورہ بالا کارروائی کو محسوس کر لیا اور جماعت کو خطرہ سے آگاہ کر دیا اور چونکہ آپ کی اس کارروائی کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ فساد اور بڑھے گو آپ کا منشاء صلح کا ہی ہو اس لئے مضمون لکھنے والے نے پسند نہ کیا کہ جماعت میں فسا د بڑھے اور اس نے تحریک کی کہ لوگ آپ سے نہ ملیں اگر فیصلہ کرنا تھا تو براہِ راست مجھ سے ہو سکتا تھا اور یہ امر کہ کیوں آپ سے وہ سلوک کیا گیا جو ہندوؤں اور مسیحیوں
۳۲۳ سے نہیں کیا جاتا.اس کا جواب آسان ہے.مسلمان یہود اور مسیحیوں سے کلام کرتے تھے لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو ثلاثة الذین خلفواجن کے واقعہ کی طرف سورۃ توبہ میں اشارہ کیا گیا ہے ان کا مفصل ذکر بخاری میں آتا ہے.ان تین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام منع کر دیا تھا اور مسلمان ان سے نہ بولتے نہ ملتے نہ تعلق رکھتے حتیّٰ کہ بیویوں کو بھی جدا کر دیا تھا.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ کیا وہ تین منافقوں سے بھی بدتر تھے ؟ کیا وہ یہود سے بھی بدتر تھے؟ پھر کیا وہ مشرکوں سے بھی بدتر تھے؟ اور اگر ان سے یہ سلوک کیا گیا تو مسیحیوںاور یہودیوں سے اس سے سخت کون سا سلوک کیا گیا.مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ اعتراض غلط ہے ان کو سرزنش کی ایک خاص وجہ تھی اور انتظامِ جماعت کے قائم رکھنے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے.دنیاوی حکومتیں بھی میدانِ جنگ کے سپاہی کو پکڑ کر صلیب پر نہیں لٹکاتیں حالانکہ وہ کئی خون کر چکا ہوتا ہے اور اپنے مُلک کے مجرموں کو سزائیں دیتی ہیں کیوں؟ اسی لئے کہ اس سپاہی کا کام تھا کہ وہ ان کا مقابلہ کرتا مگر یہ اپنے تھے اور اپنے کا فرض ایک طرف تو یہ تھا کہ امن کو قائم رکھے جس کے خلاف اس نے کیا.دوسرے اس سپاہی کا حملہ ظاہر ہے اور اس اپنے کا حملہ اندر ہی اندر تباہ کر سکتا ہے پس جن لوگوں سے یہ خوف ہو کہ ایک حد تک اپنے بن کر مخالفت کریں گے اُن سے بچنا اور بچانا ایک ضروری بات ہے.دوسرے اپنے غلطی کریں تو وہ زیادہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں.آجکل کی مثال لے لیجئے وہ رحیم کریم انسان جو شفقت علی خلق اللہ کا کامل نمونہ تھا اور یقینا اسی کے منہ سے اور اسی کی تحریروں سے ہم نے یہ بات معلوم کی ہے کہ اسلام کی دو ہی غرضیں ہیں ایک تعلق باللہ اور دوسری شفقت علی خلق اللہ.وہ ہندوؤں سے ملتا تھا، مسیحیوں سے ملتا تھا لیکن مرزا سلطان احمد صاحب سے کبھی نہیں ملتا تھا اور کئی دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل نے کوشش کی کہ آپ کو ان سے ملائیں تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا اور آخر مولوی صاحب کو منع کر دیا کہ پھر ایسا ذکر نہ کریں.اب بتائیے اس تعلق میں اور ہندوؤں کے تعلق میں کچھ فرق معلوم ہوتا ہے یا نہیں؟ بیٹے سے تو ملتے نہ تھے اور لالہ شرمپت گھنٹہ گھنٹہ آپ کے پاس آ کر بیٹھ رہا کرتے تھے.پس آپ ان مثالوں سے سمجھ لیں کہ کبھی ضروریات ایسا مجبور کرتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ غیروں سے ملتے رہیں بعض اپنوں سے ملنا چھوڑ دیا جائے.آپ نے اپنے حال پر غور نہیں کیا کہ غیر احمدیوں کو مسلمان بنانے کے لئے آپ نے احمدیوں کو کافر ثابت کیا ہے.پھر جب آپ خود اس مجبوری کا شکار ہوئے ہیں تو دوسروں پر اعتراض کی کیا وجہ ہے.پھر اخبار پیغام لاہور محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ کے خلاف کچھ نہیں لکھتا لیکن اس کا سارا زور ہمارے خلاف خرچ ہو رہا ہے کیا یہ مثال
۳۲۵ آپ کے لئے کافی نہ تھی؟ آپ نے خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ کیا خلیفہ غلطی سے مَصْئُوْن۱۸؎ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا فیصلہ ماننا شرط ہو جو غلطی سے مَصْئُوْن اور محفوظ ہو تو آپ بتائیں کہ کس انسان کا فیصلہ آپ مانیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جو کُل کمالاتِ انسانیہ کا خاتم ہے فرماتا ہے.عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ سَمِعَ جَلَبَۃَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ وَاَنَّہٗ یَأْتِیْنِی الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضُھُمْ اَنْ یَکُوْنَ اَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَاَحْسِبَ اَنَّہٗ صَادِقٌ فَاَقْضِیْ لَہٗ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ھِیَ قِطْعَۃٌ مِّنَ النَّارِ فَلْیَحْمِلْھَا اَوْیَذَرْھَا.(مسلم کتاب الاقضیہ،باب الحکم بالظاہروالحن بالحجہ) ترجمہ: اُم سلمہ (اُم المؤمنین) رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مکان کے دروازہ کے پاس چند آدمیوں کا باہمی مقدمہ کی بابت شور و شغب سن کر ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمانے لگے میں ایک بشر ہوں (عالم الغیب نہیں) لوگ میرے پاس مقدمے لے کر آتے ہیں سو ممکن ہے کہ ایک فریق بات کرنے میں زیادہ ہوشیار ہو اور اس کی باتوں کی وجہ سے میں اُسے سچا خیال کر کے اس کے حق میں فیصلہ دے دوں سو یاد رکھو کہ اس طرح سے اگر کسی شخص کومسلم کا حق دِلا دوں تو یہ مال آگ کا ٹکڑا ہے اب چاہے تو اُسے اُٹھا لے اور چاہے تو چھوڑ دے.پس کیا آپ کے فیصلہ کو بھی ردّ کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے آپ سے غلطی ہوگئی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(النساء۶۶) یعنی تیرے ربّ کی ہی قسم! یہ اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک تجھ سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ نہ چاہیں اور پھر فیصلوں اور قضایا کو خوشی سے تسلیم نہ کریں.کیا گورنمنٹ اور اس کے مجسٹریٹ خطاء سے محفوظ ہوتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس بناء پر گورنمنٹ اور ججوں کے فیصلے ردّ کر دیئے جاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ غلطی کرتے ہوں.کیا خلیفۃ المسیح جن کی بیعت آپ نے کی تھی خطاء سے محفوظ تھے؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا انجمن اپنے فیصلہ میں کبھی غلطی نہیں کر سکتی؟ پھر انجمن جماعت کی حاکم کیونکر ہو سکتی ہے؟ اگر صرف مَصْئُوْن عَنِ الْخَطَاء کے فیصلے ہی واجبُ العمل ہوتے ہیں تو پھر دنیا کی سب حکومتیں سب انجمنیں مٹا دینی چاہئیں کیونکہ انسان کوئی مَصْئُوْن عَنِ الْخَطَاء نہیں.نماز ہمارے لئے دلیل ہے امام غلطی کرتا ہے اور خطاء سے پاک نہیں ہوتا مقتدیوں کو حکم ہے کہ باوجود اس کی غلطی
۳۲۵ کے اس کی اتباع کریں کیونکہ اتحاد رکھنا ضروری ہے اور اتحاد بغیر ایک مرکز کے نہیں ہو سکتا اور خواہ ایک انسان افسر ہو یا بہت سے ہوں وہ غلطی سے پاک نہیں ہو سکتے پس اتحاد کے قیام کیلئے قیاسات میں امام کی خطا کی بھی پیروی کرنے کا حکم ہے سوائے نصوصِ صریحہ کے.مثلاً کوئی امام کہے کہ نماز مت پڑھو، کلمہ نہ پڑھو، روزہ نہ رکھو اس کی اتباع فرض نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک امام اگر چار کی بجائے پانچ یا تین رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے تو مقتدیوں کو حکم ہے کہ باوجود اس کی غلطی کے علم کے اس کی اتباع کریں.لیکن اگر وہ اُٹھ کر ناچنے لگ جائے یا مسجد میں دوڑنے لگے تو اب مقتدیوں کو حکم نہیں کہ اس کی اتباع کریں کیونکہ اب قیاس کا معاملہ نہیں رہا بلکہ جنون یا شرارت کی شکل آگئی ہے لیکن یہ مثالیں بفرضِ محال ہیں ورنہ خدائے تعالیٰ جس کو امام بناتا ہے اسے ایسے اعمال سے بچاتا ہے جو قومی تباہی کا موجب ہوں.آپ نے اپنے اس مضمون میں خلافت کے ردّ میں ایک یہ دلیل بھی دی ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اکثروں نے مان لیا یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ اگر ابوبکرؓ، عمرؓ کو اکثروں نے مان لیا تو یزید کو بھی تو مان لیا مگر خواجہ صاحب یہ مثال پیش کرتے وقت ان واقعات کو نظر انداز کر گئے ہیں جو ان دونوں قسم کی خلافتوں کے وقت پیش آئے.ابوبکرؓ اور عمرؓ کی خلافت پر اتفاق کرنے والوں میں صحابہؓ کا گروہ تھا یزید کے ہاتھ پر اکٹھا ہونے والی کون سی جماعت تھی.کیا صحابہ کی کثرت تھی ؟ صحابہ کے لئے خدائے تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے تھے اسی طرح اس جماعت کے لئے بھی بڑے بڑے وعدے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہوئی.اور جس طرح صحابہؓ کی کثرت نے اوّل الذکر دونوں بزرگوں کو تسلیم کیا اسی طرح اس جماعت کے کثیر حصہ نے مجھے تسلیم کیا جو مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہوئی تھی.اگر اسی جماعت کا اکثر حصہ ضلالت پر جمع ہو گیا تو یہ بے شک شیعوں والا عقیدہ ہے جو چند کے لئے کثیر حصہ کو بدنام کرتے ہیں.پھر یہ بھی سوال ہے کہ خلافت تو مشورہ سے ہوتی ہے دوسرے باپ کے بعد بیٹا فوراً خلیفہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ احادیث اور صحابہؓ کے اقوال سے ثابت ہے امرِ اوّل کے لئے آیت اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ (النساء۵۹)یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانات ان کے اہلوں کو دو اور حدیث لَاخِلَافَۃَ اِلاَّ بِالْمَشْوَرَۃِ۲۲؎ اور امر دوم کے لئے حضرت عمرؓ کا قول اور صحابہؓ کی تسلیم.لیکن یزید کی خلافت کیونکر ہوئی.باپ نے اپنی زندگی میں جبراً سب سے اس کی بیعت کروائی.ہم حضرت معاویہ کی نیت پر حملہ نہیں کرتے لیکن ان کے اس فعل کی وجہ سے یزید کی خلافت خلافت نہ رہی بلکہ تلوار کے ذریعہ سے
۳۲۶ بیعت لی گئی اور حکومت ہوگئی لیکن یہاں ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات پائی جاتی ہے نہ ہی باپ کے بعد فوراً خلیفہ ہوا اور نہ والد صاحب نے اپنے سامنے جبرواکراہ سے لوگوں کو میری بیعت پر مجبور کیا.پس ایک جبری کثرت اور دلوں کے کھِنچ لانے میں آپ فرق نہیں کر سکتے.کیا خدائے تعالیٰ کی تائید و نصرت سچائی کا ایک زبردست ثبوت نہیں؟ پھر اس معاملہ میں آپ اس کو کیوں غلط قرار دیتے ہیں؟ خواجہ صاحب کا ایک یہ بھی سوال ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قادیان مکرم مقام ہے اس کو چھوڑ کر جانا غلطی پر دلالت کرتا ہے یہ غلط ہے کیونکہ مکہ بھی ایک مکرم مقام ہے لیکن وہ غیراحمدیوں کے پاس ہے جو آپ کے نزدیک مسلمان نہیں.اوّل تو یہ دلیل نہیں کیونکہ اگر ایک طور پر پہلا دعویٰ کرنے والے پر یہ حجت ہے تو خواجہ صاحب اور ان کی پارٹی پر بھی تو حجت ہے کیونکہ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ خواجہ صاحب آپ کے نزدیک تو مکہ مدینہ مسلمانوں کے ہی قبضہ میں ہیں پھر آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ مکرم مقامات حقیقی وارثوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں.دوسرے یہ کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت خراب ہو جائے اور مرکز اس کے پاس رہے جب تک کہ نئی جماعت ترقی کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شروع زمانہ میں مکہ مشرکوں کے پاس تھا یا یروشلم مسیح کے زمانہ میں یہود کے پاس تھا لیکن اس بات کا ثابت کرنا خواجہ صاحب کو مشکل ہوگا کہ ابھی کامل ترقی ہونے سے پہلے ہی ایک مقامِ متبرک ایک پاک جماعت کے پاس آ کر ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کے سب افراد گندے اور کافر ہو جائیں اس طرح تو امان بالکل اُٹھ جاتا ہے اور ان تمام پیشگوئیوں پر پانی پھِر جاتا ہے جو اس جگہ کے رہنے والوں کے متعلق ہیں.دوسرے یہ دلیل کوئی ایسی نہیں کہ جس پر فیصلہ کا مدار ہو ایسی باتیں تو ضمناً پیش ہوا کرتی ہیں ہاں یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کے مدینہ چھوڑ دینے کی دلیل درست نہیں جب آپ مدینہ سے تشریف لے گئے تو صرف میدانِ جنگ کے قریب ہونے کے لئے تشریف لے گئے ورنہ مدینہ آپ کے قبضہ میں تھا اور مدینہ کے لوگ آپ کے ساتھ تھے اور یہی حال مکہ کا تھا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’کہا جاتا ہے کہ مولوی محمد علی کی ذلّت ہوئی لوگوں نے ان کو تقریر سے روک دیا.یہ بات وہ کہہ سکتے ہیں جنہیں وہ تکالیف معلوم نہیں جن کا سامنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرنا پڑا‘‘ مجھے افسوس ہے کہ یہ جواب بھی درست نہیں کیونکہ دونوں معاملوں میں ایسا کھلا فرق ہے جس کو ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمد حسین بٹالوی کو
۳۲۷ کُرسی نہ ملنے کا واقعہ ہمیشہ بیان فرماتے تھے بلکہ آپ نے کتاب البریہ صفحہ۱۰ میں اسے لکھا بھی ہے اور اسے اُس کی ذلّت قرار دیتے تھے.لیکن کیا خود یہی واقعہ حضرت صاحب پر چسپاں نہیں ہوتا؟ کیا کرم دین کے مقدمہ میں مجسٹریٹ آپ کو کھڑا نہ رکھتا تھا؟ کیا ایسا نہیں ہوا کہ بعض اوقات آپ نے پانی پینا چاہا اور اُس نے پانی تک پینے کی اجازت نہیں دی؟ لیکن کیا آپ اس کو ذلّت کہہ سکتے ہیں؟اگر نہیں تو کیوں اور پھر کیوں؟ محمدحسین سے ویسے ہی سلوک پر اُسے ذلّت قرار دیا گیا.سنیے! ان دونوں مثالوں میں ایک فرق ہے اوّل تو یہ کہ محمد حسین کو سخت ڈانٹ دی گئی اور ڈپٹی کمشنر بہادر نے جھڑک کر پیچھے ہٹا دیا لیکن حضرت صاحب سے یہ معاملہ نہیں ہوا.دوسرے مقدمہ ایک ایسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش تھا جس کے سامنے دونوں برابر تھے بلکہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام مسیحیت کے دشمن تھے اور وہ ایک مسیحی تھا پس صاحب بہادر کا سلوک محمد حسین سے بِلا کسی محرک کے ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بوجہ اُن کی تبلیغی کوششوں اور سب مذاہب کی بنیادیں کھوکھلی کر دینے کے سب فِر قوں کو عداوت تھی خصوصاً اہالیانِ ہند کو.پس ایک ہندوستانی کا آپ سے یہ سلوک کرنا پہلے معاملہ سے اس کو علیحدہ کر دیتا ہے.پھر ایک اور بات ہے کہ لوگ ہمیشہ مرا بھی کرتے ہیں لیکن غلام دستگیر کی موت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی سچائی کی دلیل قرار دیتے ہیں یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے مباہلہ کیا تھا اور مطابق مباہلہ کے مر گیا.اسی طرح اب اس معاملہ کو لیجئے مولوی محمد علی صاحب نے صبح کے وقت مسجد میں تقریر کی کہ اگر میں نے بدنیتی سے ٹریکٹ لکھا تھا تو خدا مجھے پکڑے ، مجھے ہلاک کرے، مجھے ذلیل کر دے.عصر کے وقت وہ ایک ایسے مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جو ان کے دشمنوں کا نہیں اس جماعت کا ہے جس میں پہلے کھڑے ہو کر اُنہوں نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ تم اپیل تو سنتے رہے، چندہ مانگنے کے وقت اُٹھ کر بھاگتے تھے ہم جوتیوں سے چندہ وصول کریں گے اس جماعت کا تھا جس میں آپ کے ماتحت ملازم شامل تھے.اس جماعت کا تھا جس میں وہ طلباء موجود تھے جو مولوی صدر الدین صاحب ہیڈماسٹر کی زیر تربیت رہتے تھے اور مولوی صدرالدین صاحب ہی اُس وقت کے سیکرٹری تھے وہ اس مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جس پر میرا کوئی زور نہ تھا، کوئی حکومت نہ تھی، جماعت کے لوگ مختلف جگہوں سے اکٹھے ہوئے ہوئے تھے.وہ دیرینہ سیکرٹری شپ کی وجہ سے مولوی صاحب کے ایسے معتقد تھے کہ بعض ان میں سے آپ کے لئے تحفہ تحائف بھی لایا کرتے تھے.مولوی صاحب جماعت کے معززین اشخاص میں خیال کئے جاتے تھے ان کے ترجمہ قرآن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں.چند سال کی متواتر کوشش سے وہ لوگوں کی نظروں میں ایسے *روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۸
۳۲۸ بنائے گئے تھے کہ گویا موجودہ نسلوں میں ایک ہی انسان ہے ایسا شخص ایسے مجمع میں اس بددعا کے بعد کھڑا ہوتا ہے جب کہ ابھی کوئی خلیفہ مقرر نہ تھا.جن کو آپ اکابر کہتے ہیں ان کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہے جو خود ہمیشہ اپنا رُعب بٹھانے کے درپے رہتی تھی.لیکن جب وہ شخص کھڑا ہوتا ہے تو اس ہزاروں کے مجمع میں سے ایک شور بلند ہوتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں سنتے.لیکن شاید کوئی کہے کہ چند شریروں نے منصوبہ سے ایسا کر دیا.نہیں! اس ہزاروں کے مجمع سے کوئی شخص ان آوازوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا اور سب کے سب اپنی خاموشی سے اپنی رضا مندی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے خاص دوستوں سمیت مولوی صاحب وہاں سے چلے جاتے ہیں.صبح کی بددعا کے بعد ایسے مجمع میں اس واقعہ کا ہونا اگر ایک الٰہی شہادت نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر میری بیعت کے بعد ان سے یہ سلوک ہوتا اور میری مرضی یا میرے علم سے ہوتا تو یہ ایک اور معاملہ تھا اس میں ان کی نہیں میری ذلّت ہوتی.چنانچہ جب مجھے اطلاع دی گئی کہ ایک دو پانچ چھ سالہ بچوں نے نادانی سے آپ پر کنکر پھینکنے کاارادہ کیا تو میں نے درس میں لوگوں کو سخت ڈانٹا کہ گو بچہ نادان ہو لیکن میں والدین کو اس کا ذمہ دار قرار دوں گا.بیعت کے بعد مریدین کا سلوک اور شے ہے لیکن بیعت سے پہلے اس بددعا کے بعد وہ سلوک ضرور ایک الٰہی نشان تھا اور خواجہ صاحب کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اب اگر وہ قادیان آئیں تو ان سے کسی مبائع سے سختی کروا کر کہہ دیا جائے گا کہ ان کی ذلّت ہوئی یہ صرف بدظنی کا نتیجہ ہے.اگر وہ زیادہ تدبر سے کام لیں گے تو دونوں معاملات میں ان کو فرق نظر آئے گا.خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ کو بارونق کرنے کے لئے آدمی بھیجے گئے.میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی شخص نے غلطی سے ان کے سامنے یہ بات بیان کر دی ہے بات یہ ہے کہ میری طرف سے یا انجمن کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا نہ کسی اور مبائع کی طرف سے.بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انجمن احمدیہ اشاعتِ اسلام نے کچھ اشتہار مبائعین میں تقسیم کرنے کے لئے شائع کئے تھے اور کچھ بعض آدمی امرتسر اور لاہور سٹیشنوں پر اس غرض کے لئے گئے تھے کہ لوگوں کو روک کر لاہور اُتار لیں یا لاہور لے جائیں.بعض مہمانوں سے جھگڑا بھی ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ لوگ غلطی سے اصرار سے بڑھ کر تکرار تک نوبت پہنچا دیتے تھے کہ آپ لاہور کیوں نہیں جاتے لیکن کسی قسم کا دنگہ نہ ہوا اور لوگوں کو ہنسی کا موقع نہیں ملا.شاید کسی شخص نے اس واقعہ کو میری طرف منسوب کر دیا ہو مگر حق یہی ہے کہ یہ واقعہ آپ کے دوستوں کی طرف سے ہوا ہے
۳۲۹ میری طرف سے ہرگز نہیں ہوا.خواجہ صاحب اپنے لیکچر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے کیوں مولوی شیر علی صاحب کو ولایت جانے سے روک دیا حالانکہ میں خلیفہ اوّل سے وعدہ کر چکا تھا کہ میں آپ کے حکم بھی مانوں گا اور آپ کے بعد کے خلفاء کا بھی.حالانکہ مجھے حضرت ابوبکرؓ اور ابوعبیدہؓ کی مثال یاد کرنی چاہیے تھی.میں حیران ہوں کہ خواجہ صاحب نے میرے وعدہ سے میرے عمل کو مخالف کس طرح سمجھا.میں نے کہا تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل کا حکم بھی مانوںگا اور بعد کے خلفاء کا بھی.حضرت کی زندگی تک میرا فرض تھا کہ آپ کے حکم مانتا اور بعد میں جو خلیفہ ہوتا اُس کے حکم ماننا میرا فرض تھا.قدرتِ ایزدی نے خلافت مجھے ہی سپرد کر دی تو اب مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کے ماتحت میرا ہی حکم ماننا ضروری تھا اور میں نے حالاتِ وقت کے ماتحت مناسب فیصلہ کر دیا.ایک خلیفہ کا حکم اُسی وقت تک چلتا ہے جب تک وہ زندہ ہو.اُس کے بعد جو ہو اُس کا حکم ماننے کے قابل ہے.یہ مسئلہ آپ نے نیا نکالاہے کہ ہر ایک خلیفہ کا حکم ہمیشہ کے لئے قابلِ عمل ہے یہ درجہ تو صرف انبیاء کو حاصل ہے کہ ان کے احکام اس وقت تک جاری رہتے ہیں.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پا کر کوئی نیا نبی انہیں منسوخ نہ کرے.خلفاء کی یہ حیثیت تو صرف آپ کی ایجاد ہے صحابہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے فرمانبردار تھے.لیکن ان میں سے ہر ایک بعد میں آنے والے نے اپنے سے پہلے کے چند احکام کو منسوخ کیا یا بعض انتظامات کو بدل دیا لیکن کسی صحابی نے نہ کہا کہ ہم تو پہلے کے فرمانبردار ہیں اس لئے آپ کا حکم نہ مانیں گے.حضرت عمرؓ نے خالدؓ کو جو حضرت ابوبکرؓ کے مقرر کردہ سپہ سالار تھے معزول کر دیا.ان پر کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت! آپ تو ابوبکرؓ کی بیعت کر چکے ہیں ان کے مقرر کردہ کمانڈر کو کیوں معزول کرتے ہیں.اے کاش! کہ ہر اعتراض کے پیش کرنے سے پہلے یہ غور بھی کر لیا جایا کرے کہ ہم کیسی بے وقعت باتوں سے اپنے دعوے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں.پھر سنئے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہونے دیا جو پہلوں پر نہ پڑتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو پہلا اجلاس مجلس معتمدین کا ہوا تھا اور جس میں آپ بھی شریک تھے اس میں مولوی محمد علی صاحب کی ایک تحریک پیش ہو کر جو فیصلہ ہوا اُس کے الفاظ یہ ہیں.’’درخواست مولوی محمد علی صاحب کہ کچھ مساکین کا کھانا حضرت اقدس نے لنگرخانہ سے بند کر کے ان میں سے بعض کے لئے لکھا ہے کہ مجلس انتظام کرے.پیش ہو کر قرار پایا کہ اب حسبِ احکام حضرت خلیفۃ المسیح الموعود علیہ السلام لنگر کی حالت دگرگوں ہوگئی ہے اس لئے اس کاغذ کو
۳۳۰ داخل دفتر کیا جائے‘‘.کیا حضرت صاحب کی وفات پر پہلے ہی اجلاس میں مجلس معتمدین نے جس میں آپ بھی حاضر تھے اس حکم کے خلاف نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا تھا؟ آپ شاید کہیں گے کہ ہم نے خود وجہ بھی لکھ دی تھی کہ حالات دگرگوں ہوگئے اس لئے اس حکم کو تبدیل کر دیا گیا یہی جواب آپ اپنے اعتراض کا سمجھ لیں.جب مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کو حالات کے بدل جانے سے بدلا جا سکتا ہے تو کیوں حضرت خلیفہ اوّل کے احکام کو نہیں بدلا جا سکتا.حضرت کی وفات کے بعد یہاں آدمیوں کی ضرورت تھی اس لئے میں نے اُن کو روک دیا.پھر لعل شاہ صاحب برق کے متعلق جو فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا اُس کو آپ کی ہی تحریک پر حضرت خلیفہ اوّل نے بدل دیا یا نہیں اور مولوی شیر علی صاحب کے معاملہ میں تو ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ مولوی صاحب نے اپنی رخصت آپ منسوخ کروائی تھی نہ کہ میںنے منسوخ کی تھی.ایک بات آپ اور بھی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کا نام کاٹ دیا گیا.مجھے تعجب ہے کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ سچی بات کو پیش کرنا چاہیے نہ کہ جذبات کو اُکسانے والی باتوں کو.اور پھر آپ خود ایسے کام کرتے ہیں کیا کہیں میں نے یہ فیصلہ شائع کیا ہے کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسیح موعود نہ تھے یا یہ کہ اب ان کی جگہ میں مسیح موعود ہوں یا یہ کہ اب اُن کا حکم ماننا ضروری نہیں اب صرف میرا حکم ماننا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو بیشک آپ کہہ سکتے تھے کہ مسیح موعود کا نام کاٹ دیا گیا لیکن جب کہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں تو پھر آپ کا ایک بات کو غلط پیرایہ میں بیان کرنے سے سوائے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے کیا مطلب ہے.انجمن کا قاعدہ تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں انجمن کے معاملات میں آپ کا حکم آخری ہوگا بعد میں انجمن کا.اس کی بجائے جماعت احمدیہ کے قائم مقاموں نے انجمن کو مجبور کیا کہ وہ اس قاعدہ میں اصلاح کرے اور خلفاء کے حکم کو آخری قرار دے اور اسی وجہ سے میرا نام وہاں لکھا گیا.اب آپ بتائیں گے کہ کیا اِ س کو مسیح موعود کا نام کاٹ دینا کہتے ہیں.نام تو انجمن چھ سال پہلے کاٹ چکی تھی کیونکہ اس ریزولیوشن کے انجمن یہ معنی کرتی تھی کہ اب ہم حاکم ہیں.جماعت نے اس کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ خلیفۂ وقت کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے اور اسی کے ماتحت تبدیلی ہوئی.آپ کا اس امر کو یہ رنگ دینا کہ گویا فیصلہ کر دیا گیا کہ مسیح موعود کا نام مٹا دیا جائے.(نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) کہاں تک دیانتداری کے ماتحت ہے.میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے ان تمام لوگوں کو جو صداقت کے طالب ہوں اور راستی
۳۳۱ العلوم جلد ۲ اور حق کے جو یاں ہوں مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جماعت کاموجودہ اختلاف کوئی معمولی بات نہیں اگر وہ اس امر میں کامل غور اور فکر سے کام لے کر حق کی اتباع نہ کریں گے تو ان کو خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہوگا.خدا تعالیٰ نے ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور ضرور ضرور وہ اس کی آبیاری کرے گا.کوئی آندھی، کوئی طوفان خطرناک سے خطرناک ژالہ باری اِس پودا کو اُکھاڑ نہیں سکتی، خشک نہیں کر سکتی، جلا نہیں سکتی کیونکہ اس پودا کا محافظ، اس کا نگران خود اللہ تعالیٰ ہے لیکن وہ جو اپنے عمل سے یا اپنے قول سے خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے پودا کو اُکھاڑنا چاہتے ہیں، اس کے جلائے ہوئے چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں اپنی فکر کریں.نیک نیتی اور غلط فہمی بیشک ایک حد تک ایک جُرم کو ہلکا بنا دیتی ہے لیکن یہ عُذر ایسے زبردست نہیں کہ ان کے پیش کرنے سے انسان الٰہی گرفت سے بالکل محفوظ ہو جائے.ہر ایک شخص اپنی قبر میں خود جائے گا اور کوئی شخص اس کا مددگار نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک انسان کو عقل اور فہم عطا فرمایا ہے.پس ہر ایک شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے.صرف یہ خیال کر کے کہ ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ ہیں جو تمہارے خیال میں بہت سی خدماتِ دین کر چکا ہے تم بچ نہیں سکتے.تمہارا یہی فرض نہیں کہ تم اس قدر غور کر لو کہ تم جس کے ساتھ ہو وہ کسی وقت کوئی اچھی خدمت کر چکا ہے نہ یہ کہ تم جس کے ساتھ ہو وہ کسی بڑے آدمی کا بیٹا ہے بلکہ تم میں سے ہر ایک شخص اس بات کا پابند ہے کہ اس عقل اور فہم سے کام لے جو خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو عطا فرمایا ہے.اپنے اپنے طور پر غور کرو اور دیکھو کہ وہ کون لوگ ہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور اس کے مشن کو تباہ کر رہے ہیں.آخر تم لوگ سالہا سال تک مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہے ہو اُس کی کتابیں موجود ہیں، اُس کا اپنے آپ کو دشمنوں کے سامنے پیش کرنے کا طریق، اس کا اپنے دعوے پر زور دینا، اس کا یورپ و امریکہ میں تبلیغ کرنا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.اس کے عمل پر غور کرو کہ وہ تمہارے لئے حَکَم وعدل مقرر کیا گیا ہے.اپنی ہوا و ہوس کو چھوڑ کر خداکے پھینکے ہوئے مضبوط رسّے کو پکڑ لو تا نجات پاؤ.دیکھو اسلام اِس وقت ایک سخت مصیبت میں ہے اور اس کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اسے چھوڑ کر اسلام ہرگز ترقی نہیں کر سکتا.دنیا کے سامنے مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کرو کہ اسی کے نام سے شیطان کی افواج بھاگیں گی.وہ اِس زمانہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افواج کا سپہ سالار ہے اور آئندہ ہر ایک زمانہ میں اس کے پروانہ کے بغیر کوئی شخص دربارِ خاتم النبیّٖن میں بازیاب نہیں ہو سکتا.پس تم اپنے طریق پر غور کرو تا ایسا نہ ہو کہ غلطی سے اس شخص کی ہتک کر بیٹھو جسے خدا نے معزز کیا ہے
۳۳۲ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کو بلند کرے جو اُس کی ہتک کرتا ہے اور جو اُس کے درجہ کو گھٹاتا ہے ضرور ہے کہ اس کی ہتک کی جائے اور اس کے درجے کو گھٹایا جائے.مسیح موعود علیہ السلام کی عزت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے کیونکہ جس کا سپہ سالار بڑے درجہ کا ہو وہ آقا ضرور ہے کہ اور بھی اعلیٰ شان کا ہو.میں تمہیں خدا کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہتا ہوں کہ میں نے حصولِ خلافت کے لئے کوئی منصوبہ بازی نہیں کی.میرے مولیٰ نے پکڑ کر مجھے خلیفہ بنا دیا ہے.میں اپنی لیاقت یا خدمت تمہارے سامنے پیش نہیں کرتا کیونکہ میں الٰہی کام کے مقابلہ میں خدمات یا لیاقت کا سوال اُٹھانا حماقت خیال کرتا ہوں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کوئی کام کس طرح کرنا چاہیے.خدا نے جو کچھ کیا ہے اُسے قبول کرو.مجھے کسی عزت کی خواہش نہیں، مجھے کسی رُتبہ کی طمع نہیں، مجھے کسی حکومت کی تڑپ نہیں.وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں خلافت کا مسئلہ جاہ پسندی کی غرض سے چھیڑتا ہوں نادان ہے اُسے میرے دل کا حال معلوم نہیں.میری ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت پھر قائم ہو جائے او رمیں دیکھتا ہوں کہ یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ اس اسلام کو دنیا کے سامنے نہ پیش کیا جائے جو مسیح موعود دنیا میں لایا.مسیح موعود کے بغیر اِس زمانہ میں اسلام مُردہ ہے.ہر زمانہ کے لئے ایک شخص مذہب کی جان ہوتا ہے اور اب خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اسلام کی روح قرار دیا ہے.پس میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح ہوں.مجھے دنیا کا لالچ نہیں میرا کام صرف اپنے ربّ کے ذکر کو بلند کرنا ہے اور وہ بھی اپنی لیاقت اور اپنے علم کے زور سے نہیں بلکہ اُن ذرائع سے جو خود اللہ تعالیٰ نے میرے لئے مہیا فرما دیئے.پس بدظنیوں کو دور کرو اور خدا کے فیصلہ کو قبول کر لو کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ اچھا نہیں ہوتا.نادان ہے وہ جو اس کام میں مجھ پر نظر کرتا ہے.میں تو ایک پردہ ہوں اسے چاہیے کہ وہ اُس ذات پر نظر کرے جو میرے پیچھے ہے.احمق انسان تلوار کو دیکھتا ہے لیکن دانا وہی ہے جو تلوار چلانے والے کو دیکھے کیونکہ لائق شمشیر زن کند تلوار سے وہ کام لے سکتا ہے کہ بے علم تیز تلوار سے وہ کام نہیں لے سکتا.پس تم مجھے کند تلوار خیال کرو مگر میں جس کے ہاتھ میں ہوں وہ بہت بڑا شمشیر زن ہے اور اس کے ہاتھ میں میں وہ کام دے سکتا ہوں جو نہایت تیز تلوار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی.میں حیران ہوں کہ تمہیں کن الفاظ میں سمجھاؤں مبارک وقت کو ضائع نہ کرو اور جماعت کو پراگندہ کرنے سے ڈرو.آؤ کہ اب بھی وقت ہے ابھی وقت گزر نہیں گیا.خدا کا عفو بہت وسیع ہے اور اس کا رحم بے اندازہ.پس اس کے رحم سے
۳۳۳ فائدہ اُٹھاؤ اور اس کے غضب کے بھڑکانے کی جرأت نہ کرو.مسیح موعود علیہ السلام کا کام ہو کر رہے گا کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی مگر تم کیوں ثواب سے محروم رہتے ہو خدا کے خزانے کھلے ہیں اپنے گھروں کو بھرلو تا تم اور تمہاری اولاد آرام اور سُکھ کی زندگیاں بسر کریں.خاکسارمرزا محمود احمد از قادیان
۳۳۴ ۱.اس تحریر سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نبی اور محدث کو ہم معنی خیال کرتے ہیں.کیونکہ یہاں محدث کالفظ اس لئے بڑھایا.۲.یہ لفظ استعارہ کے طور پراس قطعہ سمندر پر اطلاق پاتا ہے جہاں سے موتی نکلتے ہیں.منہ ۳.مجھے یہ بھی خطرہ ہے کہ جو لوگ مسیح موعود کی نبوت کا درجہ گھٹانے کے لئے صحابہ اور پچھلے ولیوں کونبی قرار دیتے ہیں.چند دن کے بعد اس بناء پر کہ مسیح موعود نے اپنی جماعت کو صحابہ سےتشبیہ دی ہے.اپنے میں سے بعض کو بھی نبی نہ کہنے لگ جائیں.منہ ۴.اے کاش مسیح موعود کی نبوت پر اعتراض کرنے والےآ نحضرت ﷺ کی عظمت اور شوکت پر غور کرتے تو انہیں یہ ٹھوکر نہ لگتی آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالی نے وہ رتبہ دیا ہے کہ آپ کی غلامی اور اتباع سے بارگاہ الہٰی میں مقرب ہونے والا انسان اگر یہ دعوی ٰ بھی کرے کہ میں آپ کی اتباع سے اس درجہ تک پہنچ گیاہوں کہ پہلے سب نبیوں سے افضل ہو گیا ہوں تب بھی جائے تعجب نہیں پھر بھی جائے تعجب نہیں.اس بات میں کہ ایک شخص آپ کی اتباع سے نبی ہو گیا.اور موجودنبی ہونے کے آپ کی غلامی سے آزادنہ ہوابلکہ جس قدر اس کا درجہ بڑھا اسی قدر آنحضرت ﷺ کی محبت میں فنا ہو گیا.بعید از امکان ہونے کی کیاوجہ سہی کاش لوگ سمجھتے کہ مسیح موعود کی نبوت کے انکار سے تو رسول ﷺ کا انکار لازم آتا ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ لو کان موسیٰ وعیسیٰ حیین لما وسعھما الاتباعی یعنی اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو سوائے میری فرمانبرداری کے ان سے کچھ نہ بنتا.پس اگر آپ کی امت میں سے ایک ایسا نہ ہوتا جس کو خدا تعالی جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ فرماتا یعنی الله کا نبی انبیاء کے حلول میں تو آنحضرت ﷺ کادعویٰ (نعوذ باللہ من ذالک) ایک دعوی بلادلیل بن جاتا اور کوئی کہہ سکتا تھا کہ (نعوذ باللہ من ذالک) رسول اللہ ﷺ نے ایک بلا دلیل بات صرف فخر کے طور پر کہہ دی ہے لیکن اللہ تعالی رسول کریم کے لئے برا غیرتمند ہے.ایک شخص کو بہت سے نبیوں کے نام سے مخاطب کیا اور باقی نبیوں کے نام لینے کی بجائے فرما دیا جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ.اور پھر اسے اس کام پر کھڑا کیا کہ آنحضرتﷺ کی عظمت کو ظاہر کرے اور آپ کی غلامی کا اقرار کرے اور چونکہ اس شخص کو سب نبیوں کے نام سے یاد کیا تھا.اس لئے اقراری غلای سے ثابت ہوا کہ اگر اصل انبیاء ہوتے تو وہ بھی آنحضرت ﷺ کے سامنے اقرارغلامی کرتے.اور اس طرح آپ کا یہ قول کہ لو کان موسیٰ وعیسیٰ حیین لما وسعھما الاتباعی عملی رنگ میں پورا ہواپس مسیح موعود کی نبوت سے انکار کرنے والا در حقیقت آنحضرت ﷺ کی بات کو باطل اور بے معنی قرار دینے والا ہے نعوذباللہ من ذالک.خوب یاد رکھو کہ مسیح موعود کے نبی اور پر عظیم الشان نبی ہونے میں ہی آنحضرت ﷺ کے قول کی صداقت ہے پس ہم اس محبوب خدا کی تکذیب کس طرح کر سکتے ہیں.مرزا محموداحمد ۵.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود خواجہ صاحب کو تو کتب احادیث و سیر پر عبور نہیں ہے انہوں نے حکیم محمد حسین کے رسالہ احمدمیں پیش کردہ روایات کی بناء پرغالباً لکھ دیا ہے لیکن حکیم صاحب نے جو روایات لکھی ہیں وہ بھی انہوں نے اصل کتابوں سے نہیں بلکہ ادھر ادھر دیکھ کر لکھ دی ہیں اس لئے ٹھوکر کھائی ہے بات یہ ہے کہ دو تین روایات جو حکیم صاحب نے لکھی ہیں ان میں سے پہلی دونوں واقدی کی ہیں جس نے ہزاروں جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں اور حدیثیں بنانے میں اس کا پا یہ اعلیٰ درجہ کے کذ ابوں میں ہے تیسری روایت کا ایک راوی ابو غزیہ محمد بن موسیٰ ہے جس کی نسبت امام بخاری کافتویٰ ہے کہ اس کی بیان کردہ حدیثوں میں بہت سی غیرثابت ہیں.ابن حیان کہتے ہیں یہ حدیثوں کا چور ہے بجھوٹی حد میں لے کر ثقہ راویوں کا نام ان کے ساتھ لگادیتا ہے اور ابو حاتم کہتے ہیں ضعیف ہے یہ تو آئمہ حدیث کی رائے ہے ابو غزیہ کی نسبت مگر اسی پر بس نہیں.اس حدیث کا ایک راوی سعید بن زید ہے جس کی نسبت آئمہ حدیث یحییٰ بن سعید سعدی اور نسائی وغیرہ کا فیصلہ ہے کہ وہ ضعیف ہے اس کی حدیث حجت نہیں ہو سکتی.پس امام الوضاعین اور سارق الاحادیث کی روایات سے صحیح روایات کا انکار کس طرح کیا جاسکتا ہے چنانچہ بیہقی ابن عساکر کی روایت الخصائص الکبریٰ میں درج ہے کہ عبد المطلب نے آپ کا نام محمد رکھا اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے کہ آپ کی والدہ کورؤیا میں آپ کانام محمد رکھنے کا حکم ہوا اور بیہقی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اسی کی تائید میں ابن ہشام و غیره مؤرخین کی تحقیقات ہے پس صحیح احادیث اور تحقیقات مورخین کے مقابلہ میں وضاعین کی روایات کی کوئی قدر نہیں ہو سکتی.واقدی کی نسبت تو آئمہ حدیث لکھتے ہیں کہ جب روایت کے مقابلہ میں صحیح حدیث نہ بھی ہو تب بھی اس کی روایت قابل سند نہیں ابو طالب کے جس قصیدہ میں لفظ احمد آیا ہے اس کی | نسبت خود جس مؤرخ نے لکھا ہے ساتھ ہی لکھ دیا ہے کہ اس قصیدہ کے اکثر اشعار کی نسبت اہل علم کا فیصلہ ہے کہ درست نہیں ہیں.مرزا محموداحمد ۶.۷.مفصل دیکھو رسالہ تشحیذ اپریل ۱۹۱۰ء
۳۳۵ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ کی مدد صرف صادقوں کے ساتھ ہے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خليفة المسیح الثانی
۳۳۷ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے بسم الله الرحمن الرحیم نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے میں نے جلسہ کے ایام میں ایک شخص سے سناتھا کہ چند غیر مبائین جو لاہور کے جلسہ سے فارغ ہو کر قادیان آئے ہیں سناتے ہیں کہ گویا میں (مرزا محمود احمد) نے گورنمنٹ کو لکھا ہے کہ اگر مجھے خليفۃ المسیح تسلیم کر لیا جائے تو میں گورنمنٹ کی ہر طرح مدد کر سکتا ہوں اس پر گورنمنٹ نے جواب دیا کہ گورنمنٹ مذہبی باتوں میں دخل دینا پسند نہیں کرتی اور یہ جو اب خواجہ کمال الدین صاحب نے خود دیکھا ہے.میں نے اس بات کو سن کر چنداں قابل توجہ نہ سمجھا کیونکہ میں نے خیال کیا کہ یہ بات خواجہ صاحب کی طرف کسی نے یو نہی منسوب کردی ہوگی ور نہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایک شخص جو اشاعت اسلام کرنے کا مدعی ہے اور اسلام کا فدائی اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے وہ میری مخالفت میں ایسا بڑھ جائے گا کہ تمام دعوے ایمان ترک کر کے جھوٹ اور دروغ کو استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکے گا.اور اسی خیال پر میں نے اس بات کو اپنے ذہن سے نکال دیا.لیکن چند روزکا عرصہ ہوا کہ بٹالہ سے مولوی فضل الدین صاحب مختار عدالت کا بھی اس مضمون کا ایک خط میرے نام آیا کہ ایسی ایسی بات بہت کثرت سے پھیلائی جاری ہے اس کا بھی جواب ہونا چا ہیے مگر چونکہ اس خط میں مولوی صاحب موصوف نے یہ نہیں لکھا تھا کہ کون پھیلانے والا ہے اس لئے میں پھر خاموش رہا.مگر آج نماز عصر کے بعد شیخ حسین صاحب گرداوردھرم کوٹی نے بھی مجھ سے بیان کیا کہ ان سے ان کے ماموں شیخ نور احمد صاحب بی اے پلیڈر چیف کورٹ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ سے جو کچھ انہوں نے بیان کیا اسے لکھ دیں چنانچہ انہوں نے مندرجہ ذیل تحریر لکھ دی.\"میں اور میرعابد علی شاہ صاحب اور حسین بخش جٹ سکنہ شزاده مسجدکشمیریاں موسومہ صمدو والی میں بمقام دھرم کوٹ رنداوہ مذہبی گفتگو کررہے تھے کہ شیخ نور احمد صاحب پلیڈر ایبٹ آبادنے
۳۳۸ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے کہا کہ حضرت میاں صاحب نے کوئی درخواست گورنمنٹ میں بھیجی تھی کہ ان کو خليفة المسلمينبنایا جاوے.لیکن گورنمنٹ نے جواب دیا ہے کہ وہ مذہبی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی.اورجواب کی نقل لاہوری پارٹی نے لی ہے\"۱۹۵۰-۲۵ خاکسارمحمد حسین گرداور اس کے ساتھ ہی شیخ عبد العزیز صاحب مدرس ہائی سکول نے بیان کیا کہ ان سے شیخ فقیر اللہ نےجو لاہورشیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر کے ملازم ہیں یہ واقعہ یوں بیان کیا.چنانچہ ان سے بھی میں نے ایک تحریر لے لی جو ذیل میں درج ہے.’’مجھے بھی کل مورخہ ۲۴, جنوری ۱۹۱۵ء کو فقیراللہ ملازم یا رحمت اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مجھے شیخ رحمت اللہ صاحب نے بتایا ہے کہ ایک درخواست حضرت میاں صاحب نے گورنمنٹ کےپیش کی ہے کہ مجھے خلیفہ المسلمین بنا دیا جاوے.مجھے ان کی درخواست کے اصل مضمون کے متعلق تو پتہ نہیں ہاں گورنمنٹ کی طرف سے جو جواب ملا ہے اس سے میاں صاحب کی خلیفۃ المسلمین والی خواہش کا پتہ چلتا ہے.“خاکسار عبد العزیز از قادیان.ان دونوں شہادتوں سے خوب وضاحت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اس خبر کی اصل کچھ ضرور ہے.اور چند ایسے لوگ جن کی تعیین کی ہمیں ضرورت نہیں اس جھوٹ کو پھیلا کر مبائعین کو بد ظن کرنا چاہتے ہیں.مگر یہ نادان نہیں خیال کرتے کہ جھوٹ سے کبھی فتح نہیں ہوتی ہے اس جھوٹی خبرکے مشہور کرنے والوں کو خواہ وہ کوئی بھی ہوں.کہتا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکاز بین اللہ تعالیٰ کی جھوٹوں پر لعنت ہو.اے نادانو ! کیا تم نے خدائے تعالیٰ کو ایسا سمجھا ہے کہ وہ شریر اور مفسد کو سزادیئے بغیر چھوڑ دے گا اور جھوٹے اپنے جھوٹ میں کامیاب ہو جائیں گے اگر تم نے ایسا خیال کیا ہے تو تم نے سخت دھوکا کھایا ہے اور اس کام کی جرأت کی ہے جس کی جرأت اگر نہ کرتے تو اچھاہو تا.سو میں اس جھوٹ کی علی الاعلان تردید کر تا ہوں.مجھے کسی گورنمنٹ کے خطاب کی ضرورت نہیں.میرے لئے وہ خطاب بس ہے جو اللہ تعالی ٰنے دیا ہے دنیا کی بادشاہت سے بدرجہا بڑھ کر میں اس انعام کو سمجھتا ہوں جو اس نے مجھے عطا فرمایا ہے اور ان تمام خطابات سے جو کوئی دنیاوی گورنمنٹ مجھے دے سکتی ہے مسیح موعود کی غلامی کو اعلیٰ خیال کرتا ہوں.پس تم اپنے نفس پر میرا قیاس نہ کرو میرے لئے وہ عزت بس ہے جو میرے مولیٰ نے مجھے عنایت فرمائی ہے.اور میں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بادشاہ کو بھی وہ عزت کا خطاب عطا فرماۓ یعنی احمدی ہونے کا جو اس نے ہمیں عنایت فرمایا ہے تا جس طرح دو روئے زمین کے طاقتور بادشاہوں میں سے ہیں آسمان پر
انورالعلوم جلد۲ ۳۳۹ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے بھی خدائے تعالی ٰکے پیارے بندوں میں شامل ہوں اور جس طرح زمین کی بادشاہت ان کو عطا کی گئی ہے آسمان کی بادشاہت کے بھی وارث ہوں.آمین.پس تم مجھ پر الزام لگا کر اپنے نفس کے پردے چاک مت کرو.اور اگر اس بیان میں کچھ صداقت ہے جو اندر ہی اندر مشہور کیا جاتا ہے تو مرد میدان بن کر اسے شائع کرو اور اگر تمہاراالزام درست ہے تو گورنمنٹ کاوہ جواب جس کی تم نے نقل لی ہے شائع کرو تا جھوٹ اور کھل جائے.ورنہ اس دن سے ڈرو جس دن یہ فریب اور مکر کام نہ آئیں گے اور اس قادر خدا کے سامنے پیش ہونا پڑے گا.جو بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے.مجھے اور دوسرے الزامات کی طرح اس الزام کے دور کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ اس الزام کے ثابت ہونے سے مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہوتی ہے.کیونکہ مسیح موعودؑجو دین کا بادشاہ تھا اس کے کسی خلیفہ کا یہ لالچ کرنا کہ گورنمنٹ مجھے تسلیم کروائے اس کے یہ معنے ہیں کہ گویا اس کو خدا کی طاقت پر یقین نہیں کہ وہ اب اپنے کام کو گورنمنٹ سے کروانا چاہتا ہے.اس لئے مجھے اس اعلان کے ذریعہ سے اس کی تردید کرنی پڑی.ٍپس اگر میرے مخالفین میں کچھ بھی شرم و حیا ہے تو وہ مرد میدان بنیں اور اپنے بیان کو شائع کریں اور اس کا ثبوت دیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ کون حق پرہے اور کس کی بنیاد جھوٹ پرہے.میں یہ مضمون لکھ چکا تھا کہ شیخ عبدالرحمٰن صاحب بی.اے بدرس ہائی سکول قادیان نے یہ مضمون سن کر فرمایا کہ میں نے بھی یہ بات خود ڈاکٹر سید حسین شاہ صاحب کے منہ سے سنی ہے اور انہوں نے مندرجہ ذیل تحریر لکھ دی.اب ڈاکٹر صاحب سے امید ہے کہ وہ اپنے بیان کی صداقت میں ثبوت پیش کر کے دنیا پر ثابت کریں گے کہ ان کو خلاف بیانی کی عادت نہیں.’’بسم الله الرحمن الرحیم میں اس امر کا حلفیہ گواہ ہوں کہ ایام جلسہ دسمبر میں ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب اسسٹنٹ سرجن لاہور نے مجھے کہا کہ (حضرت) میاں صاحب نے لفٹنٹ گورزپنجاب کو اس امرکی چٹھی کیسی ہے کہ آپ کو شش فرما دیں کہ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیا جاوے.اس پرگورنر صاحب موصوف نے صاف انکار کر کے جواب دیا کہ ہم مذہبی امور میں دست اندازی نہیں کر سکتے...کیاایسی کو ششوں سے الہٰی کام ہؤا کرتے ہیں میں نے کہاکہ مجھے اس امر کاعلم نہیں ہے مگر ایسی چٹھی کا کیو کر علم ہوا اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہم نے بھی کسی طرح پتہ معلوم کر لیا.
۳۴۰ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے پھر تم کہو کہ یہ حرکت کیسی ہے میں نے عرض کی کہ قبل ازوقت و تحقیق میں کچھ کہہ نہیں سکتا‘‘ راقم عبدالرحمٰن عفی اللہ عنہ ۲۵جنوری ۱۹۱۵ء اس عرصہ میں مولوی فضل الدین صاحب مختار عدالت کی مفصل شہادت بھی مجھے مل گئی ہےاسے بھی ذیل میں درج کردیا جاتا ہے اوران کے بیان کی تصدیق بھی جو میر صاحب نے کی ہے." بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بحضور حضرت خلیفۃ المسیح الموعود والمہدی الموعود علیہ الصلوة والسلام- السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ ء - خاکسار کو اس معاملہ میں جو کچھ معلوم ہے راست راست تحریر کر دیا ہے اور منطوق لا تكتموا الشهادة میرا یہ بیان ہے جہاں تک کہ مجھ کو یاد ہے کہ ایام جلسہ دسمبر ۱۹۱۴ء میں جناب مولوی فاضل میراسحاق صاحب کی زبانی مجھ کو معلوم ہوا کہ مطیع اللہ خان بیان کرتے ہیں کہ صاجزادہ صاحب کے ایک خط کی نقل میں لاہور میں پڑھ کر آیا ہوں جس میں صاجزادہ صاحب نے لاٹ صاحب پنجاب سے استدعا کی ہے کہ کی طرح ان کو خلیفہ المسلمین تسلیم کیا جائے اور شاید یہ بھی انہوں نے ذکر کیایا نہیں کہ لاٹ صاحب نے جواب دیا ہے کہ یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں میر صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ مطیع اللہ خان کو میں نے کہا تھاکہ یہ بات وہ لکھ دیں کہ لاہوریوں کے پاس میں نے ایسے خط و کتابت کی نقل دیکھی ہے لیکن اس نے انکار کیا ہے.میرے پاس میر صاحب نے یہ بات اس رنگ میں بیان کی تھی کہ لاہوریوں کے مفتریات کی یہاں تک نوبت ہو گئی ہے بعد ازاں مجھ کو شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نوربٹالہ میں ملے انہوں نے ذکر کیا کہ میں خواجہ صاحب کے ملنے کیلئے لاہور گیا تھا مگر وہ پشاور گئےہوئے ہیں اور باتوں باتوں میں مطیع اللہ خان کی روایت کی ان کی زبان سے بھی تصدیق ہوئی اور غالباًانہوں نے یہ کہا تھا کہ قسمیں کھا کھا کر میرے پاس یہ بات ایک شخص نے بیان کی ہے.اس کے علاوہ خلیفہ نور دین صاحب جموں والوں نے بھی مجھ سے بٹالہ میں بیان کیا تھا کہ میں (نور دین) نے بھی اس بات کاچرچا احمد یہ بلڈنگ لاہور میں سنا تھا لیکن میں نے اس بات کو باور نہیں کیا تھا.اس کے بعد میں نے جب۰ اجنوری ۱۵ء کا پیغام صلح پڑھا اور اس میں ایک مراسلہ میں یہ لکھا ہو دیکھا" پھر ایک باب میں خلافت کا بیان ہو گا اور اس باب میں شاید وہ تحریریں بھی درج ہوں جوخفیہ طور پر خواہش اختیار اور حصول اقتدار کیلئے لکھی گئی ہوں تب میں نے یقین کر لیا کہ احمدیہ بلڈنگس سے جو روایت مشہور ہوئی ہے اس کامنیع وہی لوگ ہیں.والسلام خاکسار فضل دین مختارعدالت بٹالہ ۲۵ جنوری ۱۹۱۵ء
۳۴۱ اللہ تعالیٰ کی مدد صادقوں کے ساتھ ہے ’’شیخ عبدالخالق نو مسلم کے مکان پر ایام جلسہ میر قاسم علی صاحب.ایڈیٹر الحق اور جناب قاضی محمد یوسف صاحب اور مسیح اللہ خان صاحب کی موجودگی میں مطیع اللہ خان صاحب کی زبان سے میں نے سناکہ انہوں نے احمد یہ بلڈنگز میں حضرت صاجزادہ صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بعض خطوط کی نقل دیکھی ہے جن میں ایک اس خط کی نقل تھی جو سانزادہ صاحب نے نواب لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب کی خدمت میں بھیجی تھی اور جس میں درخواست کی تھی کہ گورنمنٹ دخل دے کر مسلمانوں سے میری (حضرت صاجزاده صاحب) خلافت منوائے اور مسلمان مجھے خلیفۃ المسیح تسلیم کرلیں اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لاٹ صاحب کا جواب بھی بیان کیا تھا کہ انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ ہم اس معاملے میں دخل نہیں دیے.مطیع اللہ خان صاحب کے اس بیان پر قاضی محمد یوسف صاحب نے فرمایا کہ وہ خط جعلی ہیں حضرت صاجزاده صاحب اس بیہودہ فعل سے مبرّاہیں ‘‘ سید إسحاق المشتر مرزا محموداحمد
۱۳۴۳ حقیقۃ النّبوّة(حصہ اول) حقیقۃ النّبوّة (مسئلہ نبوت پر سیر حاصل بحث) از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم حقيقۃالنّبوّة خواجہ صاحب کے رسالہ ”اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘‘ کا پچھلے دنوں رسالہ القول الفصل میں مَیں نے جواب شائع کیا تھا اور مجھے امید تھی کہ اس رسالہ کے بعد کم سے کم میرے مذہب کے متعلق غلط فہمی پھیلانے کی جرأت نہ کی جائے گی اور آئندہ کے لئے یہ بحث بند ہو جائے گی اور میرا ہی نہیں بلکہ کل انصاف پسند طبائع کا یہی خیال تھا اور اس رسالہ کو پڑھنے والے بہت سے غیر احمدی بھی اس بات کے مقرّ تھے کہ اب اس بحث کا خاتمہ سمجھنا چاہیے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بعض اصحاب کی مخالفت اس قدر ترقی کر گئی ہے اور ان کی عداوت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ میری صاف بات انہیں چیستان معلوم ہوتی ہے اور میرا واضح کلام ان کے لئے ایک پہیلی سے بڑھ کر وضاحت نہیں رکھتا چنانچہ میرے اس رسالہ کے جواب میں جناب مولوی علی صاحب نے ’’القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار\" نامی ایک رسالہ شائع کیا ہے جس میں اس کے سب مضامین کے متعلق تو نہیں.مگر مسئلہ نبوت کے متعلق کچھ بحث کی گئی ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کو ناقص ثابت کرنے کے لئے پورا زور مارا گیا ہے اور آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ میاں صاحب فی الواقع مرزا صاحب کو حقیقی نبی مانتے ہیں.جن لوگوں نے میرارسالہ القول الفصل پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کیسے صاف لفظوں میں میں نے حضرت مرزا صاحب کے حقیقی نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور جبکہ حضرت مسیح موعودؑنے حقیقی نبوت کے معنی یہ کئے ہیں کہ جس کا پانے والا نئی شریعت لائے.تواب بتاؤ کہ باوجود حضرت مسیح موعود ؑکے عامل بہ شریعتِ اسلام ہونے کے اور با و جو د میرے دعوائے اسلام کے میں حضرت مرزا صاحب کو نئی شریعت لانے والا کیو نکر کہہ سکتا ہوں میں نے خواجہ صاحب کو اس رسالہ میں
۳۴۶ حقیقۃ النبوة (حصہ اول) چیلنج دیا ہے کہ وہ میری کسی تحریر سے یہ ثابت کریں کہ میں نے مرزا صاحب کو حقیقی نبی یعنی شریعت لانے والا نبی کہا ہو اور اس میں اس اعلان کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحب کو چیلنج دیا ہے کہ وہ اپنے اس قول کو ثابت کریں کہ میں (یعنی مرزا محموداحمد) حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی یعنی شریعت لانے والا بھی خیال کرتا ہوں اور خواجہ صاحب سے درخواست کی ہے کہ وہی آپ مرزا صاحب کو اس اعلان کے جواب پر آمادہ کریں اور صاف لکھا ہے کہ: ’’حضرت مسیح موعودنے حقیقی نبی کے خود یہ معنی فرمائے ہیں کہ جو نئی شریعت لائے.پس ان معنوں کے لحاظ سے ہم ان کو ہرگز حقیقی نبی ہی نہیں مانتے \" القول الفصل صفحہ )۱۲ اس تجربے کے باوجود پھر جناب مولوی صاحب کا یہ لکھا کہ میاں صاحب فی الواقع حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی مانتے ہیں“ صفحہ ۱۹- دیانت اور امانت کے خلاف ہے ہر ایک وہ شخص جو معمولی سے معمولی سمجھ رکھتا ہو گا ان دونوں فقرات کو پڑھ کراس حق طلبی کا پتا لگا لے گا.جس سے میری مخالفت میں کام کیا جا تا ہے.میں تو کہہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑنے’’ حقیقی نبی‘‘ کی جو اصطلاح مقرر فرمائی ہے اوراس کے جو معنی فرمائے ہیں ان کے روسے میں آپ کو ہرگزحقیقی نبی نہیں مانتا کیونکہ جب خود حضرت مسیح موعو اپنے حقیقی نبی ہونے سے انکار کرتے ہیں تو میں کون ہوں کہ آپ کو حقیقی نبی قرار دوں.ہاں یہ میں نے ضرور لکھا ہے کہ اگر ان معنوں کے علاوہ حقیقی نبی کے کوئی اور معنی کئے جائیں تو وہ میرے سامنے پیش کئے جائیں تب میں ان کی نسبت رائے دے سکتا ہوں حقیقی کی ایک اصطلاح ہے جو خود حضرت مسیح موعود نے قرار دی ہے اور اس کے خودہی معنی بھی کردیئے ہیں ان معنوں کے رو سے میں ہرگز آپ کو حقیقی نبی نہیں مانتا.ہاں چونکہ ہر ایک شخص کا حق ہے کہ ایک اصطلاح بنائے اس لئے میں نے لکھا تھا کہ اگر حقیقی نبی کے معنی ان معنوں کے سوا ہیں جو حضرت مسیح موعودؑنے کئے ہیں تو میں ان کے معلوم ہونے پر رائے دے سکوں گا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ پر چسپاں ہو سکتے ہیں یا نہیں.اور مثال کے طور پر میں نے لکھا تھا کہ اگر حقیقی نبی کے معنی یہ کئے جائیں کہ وہ بناوٹی یا نقلی نبی نہ ہو تو ان معنوں کے روسے حضرت مسیح موعودؑ کو میں حقیقی نبی مانتا ہوں.اب اس عبارت کا جو کچھ مطلب ہے اس کے سمجھنے کے لئے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہر ایک شخص جو اردو کی معمولی عبارت سمجھ سکتا ہے اس عبارت سے یہی سمجھے گا کہ ایک معنی پہلے فرض کئے گئے ہیں اور مثال کے طور پر ایک اصطلاح قرار دی گئی ہے اور پھر اس کے لحاظ سے حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی قرار دیا گیا ہے نہ اس اصطلاح کے رو سے جو حضرت مسیح موعود نے مقرر فرمائی '
۳۴۷ ہے اور اپنی نبوت کے حقیقی ہونے سے انکار کیا ہے.مجھے ڈر ہے کہ جن لوگوں کو میری اس تحریر سے ایسی غلطی کی ہے وہ چند دن کو خود حضرت مسیح موعود کو کافر نہ کہنے لگیں کیونکہ جس طرح میں نےلکھا ہے کہ اگر حقیقی نبی کے یہ معنی کئے جائیں کہ ایک شخص بناوٹی اور نقلی نبی نہ ہو.تو میں آپ کوحقیقی نبی مانتا ہوں حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی طریق کو اختیار کیا ہے اورفرماتے ہیں کہ بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم یعنی اے لوگو! میں تو آنحضرت اﷺکا ایسا عاشق ہوں کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے بعد مجھے انہی کاعشق ہے اور آپ کے عشق میں میں سرشار ہوں پھر بھی جو تم مجھے کافر کہتے ہو تو اگر کفراسی کانام ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.اس شعر میں حضرت صاحب نے کفر کے ایک معنی فرض کئے ہیں اور فرمایا ہے کہ اے لوگو !گر تمهارے خیال میں کفر کے یہ معنی ہیں تو میں پھرسخت کافر ہوں اور یہ عبارت ویسی ہی ہے جیسی کےمیں نے اپنے رسالہ میں لکھی ہے کہ اگر حقیقی نبوت کے وہ معنی نہیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے خودکئے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اور کوئی معنی ہیں مثلاً یہ کہ جو نبوت بناوٹی یا نقلی نہ ہو تو ان معنوں کے لحاظ سے میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں.پس جو شخص میری اس عبارت سے یہ مطلب نکالتا ہے کہ اس میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ آپ حقیقی نبی تھے اسے حضرت مسیح موعودؑ کے مذکورہ بالا شعر سے ضرور یہ مطلب نکالنا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کافر تھے (نعوذ باللہ من ذلک ) مگر حضرت مسیح موعودؑکے اس شعر کے یہ معنی کرنے کہ حضرت صاحب نعوذ بالله من ذلک اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں یا میری اس عبارت کے یہ معنی کرنے کہ اس میں میں حضرت مسیح موعودؑ کی حقیقی نبوت کا اعلان کر تاہوں قواعد زبان کے لحاظ سے ہرگز ہرگز جائز نہیں اور جو شخص ایسی کھلی عبارت کے الٹے معنی کرتاہے وہ دنیا کو دھوکا دینا چاہتا ہے یا اس کی عقل ایسی موٹی ہے کہ وہ نہایت واضح عبارتوں کے معنی بھی نہیں سمجھ سکتا.حضرت صاحب کے اس شعر کے علاوہ ایک اور حدیث بھی میں اس جگہ لکھ دیتا ہوں جس کے معنی اگر انہی قواعد زبان سے کئے جائیں جو میرے مذکورہ بالا فقرہ کے معنی کرنے میں استعمال کئے گئے ہیں تو کل انبیاء و علماء اور سب مسلمانوں کو کافر قرار دینا پڑے گا.مسلم میں زید بن خالد جہنی
۳۴۸ سے روایت ہے کہ صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صلوة الصبح بالحدیبیة فی اثر السماء کانت من اللیل فلما انصرف اقبل علی الناس ھل تدرون ماذا قال ربکم قالوا اللہ اللہ و رسولہ اعلم قال قال اصبح من عبادی مؤمن بی و کافر فاما من قال مطرنا بفضل اللہ و رحمتہ فذالک مؤمن بی و کافر بالکوکب و اما من قال مطرنا بنوء کذا و کذا فذالک کافر بی مؤمن بلکوکب.(مسلم کتاب الایمان باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوم) یعنی رسول اللہﷺ نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی اور اس سے پہلے رات کے وقت بارش ہو چکی تھی پس جب آپ نماز سے فارغ ہو کر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا لوگ جانتے ہیں کہ ان کے رب نے کیا فرمایا انہوں نےعرض کیا.اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں ہمیں تو علم نہیں آپ ؐنے فرمایا کہ اللہ تعالی ٰنے یوں فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے ایسی حالت میں صبح کی ہے کہ بعض مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور بعض کافر.پس جو شخص کہتا ہے کہ بارش خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ہوئی ہے وہ تو میرامؤمن اور ستاروں کا مؤمن ہے اور جو شخص کہتا ہے کہ فلاں فلاں ستارہ کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے وہ ستاروں کا مومن اور میرا کافر ہے.اب اس حدیث کو لے کر اگر کوئی شخص یہ شور مچاوے کہ دیکھواس حدیث میں صریح الفاظ میں تمام ان لوگوں کو جو الله تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور بارش کواس کے فضل کا نتیجہ سمجھتے ہیں کافر قرار دے دیا گیا ہے تو اس کے اس قول پر سواۓ اظہارِ افسوس اور تعجب کے اور کیا ہو سکتا ہے.اس شخص کو جاننا چاہیے کہ یہاں کافر کے ساتھ ایک شرط بھی لگی ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ ایساشخص ستاروں کے شریک باری ہونے کا کافر ہے اور ایساکا فر بر انہیں بلکہ اچھا ہو تا ہے اور اس جگہ وہ اصطلاحی کافر مراد نہیں جو قرآن کریم میں اولئک ھم الکفرون حقا(النساء: ۱۵۲) میں مذکور ہے کیونکہ ایساکافر صرف انکار ذات باری ،انکار یکے از ملائکہ انکار یکے از کتب سماویہ، انکار یکے از انبیاء یا انکار یوم آخر کی وجہ سے بنا ہے پس گولفظ کافر اس جگہ استعمال کیا گیا ہے لیکن اصطلاحی معنوں کے خلاف اور معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور ان معنوں کے رو سے مومنون کا کافر ہونا برا نہیں بلکہ ایساکافر ہؤئے بغیر انسان مؤمن ہوہی نہیں سکتا.آوا! کیسے افسوس اور کیسے رنج کی بات ہے کہ مخالفت اور عداوت کی شدت کی وجہ سے کسی سوال کے جواب دینے سے پہلے اس پر غور تک نہیں کیا جاتا اور جواب دینے میں صرف اس بات کو نظر رکھا جاتا ہے کہ محمود کے کلام کا کوئی جواب ہونا چاہئے.میں صاف طور پر لکھتا ہوں کہ میں ان
۳۴۹ اصطلاحی معنوں کی رو سے جو حضرت مسیح موعودؑنے حقیقی نبی کے کئے ہیں آپ کو حقیقی نبی نہیں جانتالیکن باوجوداس تحریر کے اسی رسالہ کے جواب میں جس میں میری یہ عبارت درج ہے میری نسبت لکھا جا تا ہے کہ میاں صاحب فی الحقیقت مرزا صاحب کو حقیقی نبی مانتے ہیں اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوسکتا ہے اور اس سے بد تر تحریف کا نمونہ اور کہاں مل سکتا ہے میں ان تمام سمجھدار لوگوں سے جومیرے مقابلہ کے لئے صرف ضد اور تعصب سے نہیں بلکہ غلط فہمی سے کھڑے ہوۓ ہیں پوچھتاہوں کہ کیا اس حکم کی تحریفوں سے کام لے کر دنیا میں کسی مسئلہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے؟ کیا اس طریق سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے؟ کیا اسلام کی یہی تعلیم ہے؟ کیا انصاف کا تقاضا یہی ہے؟ کیا شرافت اسی کانام ہے؟ کیاعدل اسی کا طالب ہے؟ اگر نہیں تو بتاؤ کہ میرے مقابلہ میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ میں ایک بات کا انکار کرتا ہوں اور پھروہی میری طرف منسوب کی جاتی ہے اور انکار کے باوجود مجھ پر اقرار کا الزام لگایا جاتا ہے میں نے تو اپنے رسالہ میں صاف لکھ دیا ہے کہ حضرت مسیح مو عود ؑنے حقیقی نبوت کے جو معنی کئے ہیں ان کے روسے میں آپ کو ہر گز حقیقی نبی نہیں مانتا اور میرا کبھی بھی یہ ایمان نہیں ہوا کہ آپ کوئی نئی شریعت لانے والے ہیں.میرا یہ مذہب ہے کہ آپ اپنی وفات تک احکام اسلام کی پیروی کے پابند تھے بلکہ میرا یہاں تک مذہب ہے کہ تیرا سو سال میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے آج تک امت محمدیہ میں کوئی ایساانسان نہیں گذرا جو آنحضرت ﷺ کاایسا فدائی اور ایسامطیع اور ایسا فرمانبردار ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑتھے.اور یہی سبب تھاکہ آپ کو ان سب بزرگوں پر جو آپ سے پہلے گذرے فضیلت دی گئی کیونکہ امت محمدیہ میں فضیلت کا ایک معیار ہے اور وہ یہ کہ ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم اللہ( ال عمران :۳۲) یعنی انسان آنحضرت ﷺ کامتبع اور فرمانبردار ہو.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں سب انسانوں پر فضیلت دی ہے تو اسکے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اس امت میں حضرت مسیح موعودؑ سے زیادہ آنحضرت ﷺ کا کوئی متبع نہیں ہؤا.اور آپ نے جس مقام فناء کو پایا اس کے حصول میں اور کوئی انسان کامیاب نہیں ہوا.پس میرے اس عقیدہ کے باوجود مجھ پر الزام کیوں لگاتے ہو جو واقعات کے خلاف ہے.اور کیوں کسی عبارت کےمعنی کرنے کے لئے ایسے اصول بناتے ہو.جن کے ماتحت جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں خود حضرت مسیح موعودؑ بلکہ کل انبیاء اور علماء کو کافر و مرتد قرار دیناپڑے.پس اس دلیری سے توبہ کرو تا تمہارا بھلا ہو اور اس راستہ کو اختیار کرو جو امن کا ہو نہ اسے جس سے سب راستبازوں اور صادقوں کو
۳۵۰ حقيقۃالنّبوّة(حصہ اول) ترک کرنا پڑے کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج سے پہلے آریوں اور عیسائیوں نے اسلام پراسی طرح حملےکئے تھے اور وہ قرآن کریم کے ایسے الفاظ کو لے کر جن کے اردو میں برےمعنی ہوتے تھے.قرآن کریم پر حملہ کرتے تھے.مثلاً وہ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی نسبت مکار کالفظ آیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت آتا ہے کہ والله خير الماكرين لیکن ان نادانوں نے نہ جانا کہ اردو میں مکار کے اور معنی ہیں اور عربی میں اور.اردو میں مکار اسے کہتےہیں جو فریبی ہو اور عربی میں اسے جو تدبیر کرنے والا ہو.پس ان کے لئے کسی طرح جائز نہ تھا کہ وہ لفظ مکار کےوہ معنی لیتے جو قرآن کریم نے نہیں لئے.پس جبکہ میں نے خود لکھ دیا ہے کہ میں حضرت صاحب کو اس اصطلاح کے رو سے جو حضرت مسیح موعود ؑنے قرار دی ہے حقیقی نبی نہیں مانتایعنی کوئی نئی شریعت لانے والا نہیں جانتا.ہاں اگر اس لفظ کو اصطلاحی معنوں سے پھیر کر کسی اور معنوں میں لیا جائے تو اس صورت میں اگر وہ معنی حضرت صاحب پر چسپاں ہو سکیں تو میں آپ کو حقیقی نبی کہہ لوں گا تو کیوں مجھ پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں.میں نے تو ایک شرط لگائی تھی اور کہا تھا کہ اگر یہ شرط پائی جائے تو پھر آپ کو حقیقی نبی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر کفر کے معنی محبت آنحضرت ﷺ ہے تو میں سخت کافر ہوں.پس باوجود صریح الفاظ کے میری نسبت یہ کہتا کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی جانتا ہوں ایک ظلم عظیم ہے...اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ ان اصطلاحی معنوں کے علاوہ عام معنوں کے رو سے خودحضرت مسیح موعود ؑنے بھی اپنے آپ کو حقیقی نبی کہا ہے.چنانچہ مندرجہ ذیل حوالہ سے صاف ظاہر ہے:.بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں لکھا ہے کہ آنے والا عیسیٰ اسی امت میں سے ہو گا.لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اسی امت میں سے ہو گا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بد قسمتی دھوکا ہے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پرغور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبرپانے والا ہو.اورشرف مکالمہ مخاطبہ الہٰیہ سے مشرف ہو.شریعت کالا نا اس کے لئے ضروری نہیں اورنہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو\".(دیکھو ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم
ا۳۵ روحانی خزائن جلد ۲۱ ص۳۰۶.۳۰۵) اس جگہ حضرت مسیح موعودؑ نے نبی کے حقیقی معنوں کے رو سے اپنے آپ کونبی کہا ہے پس جوفتویٰ مجھ پر لگاتے ہو وہ خود حضرت مسیح موعوزدؑپر لگے گا.اور اب تمہاری جو مرضی ہو کہو.کیونکہ جو کچھ بھی کہو اس میں میں اور حضرت مسیح موعودؑدونوں شریک ہوں گے اور اس سے زیادہ خوشی مجھے کیا ہو سکتی ہے کہ میں مسیح موعودؑ کے کلام کے بیان کرنے پر دکھ دیا جاؤں اور مجھے برا بھلا کہا جائے.مگر خوب یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود پر فتوی لگانے والا الہیٰ گرفت کے نیچے ہے اور یہ مقام سخت خطرہ کا مقام ہے.میرا قول حضرت مسیح موعود ؑکے قول کے خلاف نہیں آپ نے حقیقی نبی کی ایک اصطلاح قرار دی ہے.اور اس کے معنی یہ کیے ہیں کہ جو نئی شریعت لاۓ اور ان معنوں کے روسے آپ نے حقیقی نبی ہونے سے انکار کیا ہے.اور میں بھی ان معنوں کی روسے آپ کے حقیقی نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں.ہاں آپ نے نبی کے حقیقی معنی یہ فرمائے ہیں کہ وہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائے.اور بتاؤ کہ جو شخص ان معنوں کے رو سے جو حقیقی معنی ہیں نبی ہو وہ حقیقی نبی ہو گا یا نہیں؟.اگر کوئی شخص کہے کہ یہاں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ تو فرمایا ہے کہ نبی کے حقیقی معنی یہ ہیں اور یہ نہیں فرمایا کہ ایسا شخص حقیقی نبی ہوگا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جو حقیقی معنوں کے روسے ایک نام حاصل کرے گی وہ حقیقی بھی ہوگی.اگرنبی کے حقیقی معنوں کے روسے نبی کہلانے والا حقیقی نبی نہیں تو کیا جو شخص غیر حقیقی معنوں کے رو سے نبی کہلائے گا.لغت اسے حقیقی نبی کہے گی.پس حضرت مسیح موعود ؑ کانبی کے حقیقی معنی بتانا اور ان کے ماتحت اپنے نبی ہونے کا اقرار کرنا ثابت کرتاہے کہ آپ نے اگر ایک اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے حقیقی نبی ہونے سے انکار کیا ہے تو ایک عام معنوں کے لحاظ سے حقیقی نبی ہونے کا اقرار بھی کیا ہے اور اسی رنگ میں میں نے بھی لکھا ہے کہ اگر حقیقی نبی کے دو اصطلاحی معنی نہ لیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے کئے ہیں بلکہ اسے بناوٹی یا نقلی کے مقابلہ پر رکھیں تو ان معنوں کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑحقیقی نبی ہیں.ہاں اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے نہیں.اس امر کے زیادہ واضح کرنے کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں جس سے ہر ایک شخص آسانی سے اس مسئلہ کو سمجھ سکے گا.آنحضرت ﷺنے کلمہ کے معنی جملے یا فقرہ کے کئے ہیں.اور عام استعمال میں یہی معنی آتے ہیں.لیکن نحویوں کی اصطلاح میں کلمہ ایک مفرد لفظ کو کہتے ہیں اور جب کبھی ایک نحوی کی کتاب میں کلمہ کا لفظ آۓ گا تو اس سے مراد ایک لفظ ہو گا نہ فقره
۳۵۲ لیکن مسلمانوں کی اصطلاح میں کلمہ کلمہ شہادت کو بھی کہتے ہیں.جو ایک لفظ نہیں بلکہ ایک جملہ ہے.اب اگر کوئی شخص کلمہ کا لفظ نحویوں کی اصطلاح کے مطابق استعمال کرے اور کہے کہ کلمہ ایک لفظ کو کہتے ہیں تو کسی دانا کا کام نہیں کہ اس پر فور اً الزام لگاوے کہ دیکھو اس نے رسول الله ﷺ کی ہتک کی ہے آپ تو ایک مصرعہ کو کلمہ فرماتے ہیں جیسا کہ فرمایا اصدق کلمة قالھا کبید الا کل شیء ما خلا الله باطل یعنی لبید شاعر کا سب سے اچھا کلام یہ ہے کہ ا گشت ما لا اللباطل.اور یہ ایک لفظ کو کلمہ کہتا ہے.اور اس بات پر اعتراض نہ کرنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی تکذیب نہیں کی بلکہ ایک دوسری اصطلاح کے رو سے اس لفظ کو استعمال کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ دنیا کی پیدائش کے بعد شاید یہ پہلاہی زمانہ آیا ہے کہ ایک لفظ جب کسی دوسرے معنوں میں تشریح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئےاور ان کی طبائع میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے اسے ایک ایسے رنگ میں لوگوں تک پہنچایا جاتاہےجس سے کہنے والے کے مفہوم کو غلط سمجھیں اور قائل کے معنوں کے علاوہ اور رنگ دے کر اس لفظ کا ناجائز استعمال کیا جا تا ہے.اور پھر یہ سب کچھ اس شہادت کی موجودگی میں ہے، جو خود حضرت مسیح موعودؑ کے کلام میں پائی جاتی ہے.اس بات کے ثبوت میں کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی مانتا ہوں دوسری یہ دلیل دی گئی ہے کہ میں نے کہیں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود رسولوں اور نبیوں کے گروہ میں شامل ہیں اوراس سے ثابت ہوا کہ میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں.یہ دلیل بھی سخت غلط فہمی کا نتیجہ ہے.پہلےنبیوں میں شامل ہونے سے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ آپ حقیقی نبی یا دوسرے الفاظ میں نئی شریعت لانے والے نبی تھے.اگر پہلے نبیوں میں شامل کرنے سے ایک نبی ہر رنگ میں ان ہی کا سا ہو جاتاہے تو شاید آپ کہتے ہوں گے کہ آنحضرتﷺ پہلے نبیوں میں شامل نہ تھے کیونکہ پہلے ہی تو خاتم النّبیّن نہ تھے اور وہ سب دنیا کے لئے نہ آئے تھے پس جو شخص کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نبیوں کے گروہ میں شامل ہیں وہ آپ کے مقرر کردہ قاعدہ کے مطابق گویا آپ کی ختم نبوت کا منکر ہے.مگر کوئی عقلمند انسان اس قاعدہ کو تسلیم نہیں کر سکتا.جبکہ میں نے اپنے رسالہ میں نبیوں کی چند خصوصیتیں بیان کی ہیں.اور لکھا ہے کہ ایک حقیقی نبی ہوتے ہیں جو شریعت لاتےہیں.ایک مستقل نبی ہوتے ہیں جو شریعت تو نہیں لاتے مگر ان کو نبوت بلا و اسطہ ملتی ہے.اور ایک وہ نبی جو نہ شریعت لاتے ہیں.اور نہ ان کی نبوت بلا واسطہ ہوتی ہے ، اور میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس تیسری قسم
۳۵۳ انوار العلوم جلد۲ حقيقۃالنّبوّة(حصہ اول) کی نبوت کا پانے والا لکھا ہے تو میری اس تصریح کی موجودگی میں کوئی شخص کس طرح جرأت کر سکتا ہے کہ لکھے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو حقیقی نبی خیال کرتا ہوں جب کہ میری تقسیم کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ پہلے نبیوں میں شامل ہونے کے باوجود بھی حقیقی نبی نہیں ہیں تو اس کے خلاف میری طرف کوئی بات منسوب کرنی دیانتداری کے خلاف ہے آپ یہ لکھ سکتے ہیں کہ یہ خصوصیتیں غلط ہیں.آپ لکھ سکتے ہیں کہ نبیوں کی خصوصیتیں ہم نہیں مانتے.آپ لکھ سکتے ہیں کہ حضرت صاحب نبی نہیں تھے اور اس کے علاوہ آپ اپنا عقیدہ جو چاہیں ظاہر کر سکتے ہیں یا میرے عقیدہ پر حملہ کر سکتے ہیں لیکن میری طرف وہ بات منسوب نہیں کر سکتے جو میں نے نہیں کہی.اور جو میرے اعتقاد کے خلاف ہے اور جس کے خلاف میں بڑے زور سے اعلان کر چکا ہوں.گورنمنٹ کی ملازمت میں ایک محکمہ سول سروس کا کہلا تا ہے اور سول سرونٹ ڈپٹی کمشنر بھی ہوتے ہیں.کمشنر بھی ہوتے ہیں.چیف کمشنر بھی ہوتے ہیں.اب اگر کوئی شخص کسی شخص کی نسبت یہ کہے کہ یہ سول سروس میں شامل ہے تو کیا اس کے ضرور یہ معنی ہوں گے کہ وہ اسے کمشنر قرار دیتا ہے.اسی طرح نبی کا ایک درجہ ہے.اور اس درجہ اور رتبے کو پانے والوں کی مختلف خصوصیات ہیں.ایک شخص باوجود اس کے کہ اس میں بعض خصوصیتیں نہ پائی جائیں نبی ہو سکتا ہے جس طرح ایک شخص باوجود اس کے کہ کمشنری کے درجہ کو نہیں پہنچا.سول سروس کا ممبر ہے.اس الزام کی تردید کے بعد کہ یہ بھی خودنفس مضمون سے تعلق رکھتا ہے اور اصل مضمون پراس سے روشنی پڑتی ہے میں دوسرے امور کے جواب دینے کی طرف توجہ کرتا ہوں لیکن اس قدرکہنا اور بھی ضروری ہے کہ باوجود اس کے کہ اپنے ٹریکٹ میں مولوی محمد علی صاحب نے مجھےمخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس ٹریکٹ میں میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست نہیں تو مجھ سےمباحثہ کرلو.میری طرف یہ ٹریکٹ نہیں بھیجا.اور کل تیرہ تاریخ کو ایک دوست کے خط سے معلوم ہؤا کہ کوئی رسالہ شائع ہوا ہے، مگر مجھے نہ کل کی ڈاک میں رسالہ ملا اور نہ آج کی ڈاک میں.حالانکہ میں نے رسالہ القول الفصل فورا ًخواجہ صاحب اور مولوی صاحب اور ان کے دو سرے دوستوں کی خدمت میں مختلف جگہ بھیج دیا تھا اور گو خواجہ صاحب نے بھی اپنا لیکچر میرے نام نہیں بھیجا تھا لیکن اب چونکہ میں ان کے نام رسالہ بھیج چکا تھا اور میرے رسالہ کا جواب دیا گیا تھامناسب تھا کہ یہ رسالہ فورا ًمیرے نام بھیج دیا جا تاممکن ہے کل یا پرسوں وہ میرے نام رسالہ بھیج دیں لیکن اخلاقاً ان کو میرے نام فور اً یہ رسالہ بھیج دینا چاہئے تھا اور اگر کسی قیمت پر فروخت کیا گیا تھا تو بھی
۳۵۴ ' میرے نام وی پی کردیتے تاکہ مجھے اطلاع تو ہو جاتی ممکن تھا کہ میں اس وقت تک کہ یہ رسالہ تمام جماعت میں اشاعت پا جائے اس سے ناواقف ہی رہتا لیکن کل شام کی حبی فی اللہ مولوی غلام رسول صاحب ساکن راجیکی لاہور سے تشریف لائے اور ایک کاپی اس رسالہ کی اپنے ساتھ لیتے آئے جس سے مجھے اس کا علم ہوا.اور آج ۱۴ فروری کو دوپہر کے وقت یہ رسالہ پڑھنے کے بعد نماز ظہر سے فارغ ہو کر اس کا جواب میں نے لکھنا شروع کردیا ہے تاکہ تاخیر سے لوگوں کو گھبراہٹ نہ ہو.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ہر ایک ذی علم انسان جس نے مولوی صاحب کے ٹریکٹ کو پڑھا ہے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ آپ نے گو میرے رسالہ کے جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت ان اصول اور فروع کو نظرانداز کر دیا ہے جن پر میں نے اپنے رسالہ میں مسئلہ نبوت پربحث کی تھی بلکہ بعض نئے پہلو نکال کر ان پر بحث شروع کردی ہے جس سے امرمتنازعہ فیہ کا فیصلہ کبھی نہیں ہو سکتا.ہر ایک بات کے فیصلہ کے لئے ضروری ہوتاہے کہ کی اصل اور قاعدہ پر اس کا فیصلہ کیا جائے اور اگر خلط مبحث سے کام لیا جائے یعنی جس بات کا جواب نہ آیا.اس کو ترک کرکے دوسری طرف چلے جائیں تو اس سے کبھی بھی فیصلہ نہیں ہوسکتا.پس ہمیں بھی ہر ایک مسئلہ کا فیصلہ بعض اصول کی بناء پر کرنا چاہئے اب چونکہ مولوی صاحب موصوف نے بجائے میری باتوں کا جواب دینے کے بحث کو پھر از سرنو شروع کر دیا ہے.اس لئے میں مجبور اًان کے بیان کردہ امور کے جواب دینے کی طرف توجہ کرتا ہوں.مولوی صاحب کے مضمون کو پڑھ کر جس نتیجہ پر میں پہنچاہوں (1) وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب کا مذہب ہے کہ دعویٰ مسیحیت کے بعد حضرت مسیح موعود کا خیال اپنی نبوت کے متعلق ایک ہی رہا ہے (۲) یہ کہ حضرت مسیح موعود کا یہ عقید نہ تھا کہ آپ نبی تھے بلکہ جز ئی اور ناقص نبی تھے اور ان دونوں امور کی شہادت میں انہوں نے مختلف دلائل دیئے ہیں.چونکہ پہلے امرکے فیصلے پر دوسرے امر کے فیصلے کا ایک حد تک انحصار ہے اس لئے میں پہلے اسی امر کو لیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑنے اپنے عقیدہ میں کسی تبدیلی کا ذکر کیا ہے یا نہیں؟ اور پہلے عقیدہ سے مراد کیا ہے اور دوسرے عقیدہ سے کیا مراد ہے؟- اس کے لئے میں حقیقۃ الوحی کی وہی عبارت پھر نقل کرتا ہوں.جو القول الفصل میں نقل کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے کہ: سوال:- (1) تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ (روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۴۸۱) میں (جو میری کتاب
۳۵۵ حقيقۃالنّبوّة(حصہ اول) ہے لکھا ہے: اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پرفضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا تو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.پھر ریویو جلد ۱ نمبر ۴۷۸میں لکھاہے مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہو تاتو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا.اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگزدکھلانہ سکتا – خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقص ہے.الجواب.یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں.خدا نے میرے ضمیرکی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبردی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ل أجرد نفسی من ضروب الخطاب یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مرادان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دیا یہ خدا کا فعل ہے میرااس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا؟ سواس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھاکہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں اس تناقض کابھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خداتعالی ٰنے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جماہؤا تھااور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لئے میں نے خد اکی وحی کوظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھاجو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہٰی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تُوہی ہے اور ساتھ اس کے صد ہانشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں میں آنے والا میں ہی ہوں.ورنہ میرا اعتقار تو وہی تھاجو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ رہا تھا.اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کر کے اس وحی کو قرآن شریف
۳۵۶, پرعرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ در حقیقت مسیح ابن مريم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی امت میں سے آئے گا.اور جیسا کہ جب دن چڑھ جا تا ہے توکوئی تاریکی باقی نہیں رہتی.اسی طرح صدہانشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعيۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کردیا کہ میں اپنے تیئں مسیح موعود مان لوں.میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اس بات کی ہرگز تمنانہ تھی.میں پوشیدگی کے حجر ہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے اس نے گوشہ تنہائی سے مجھےجبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیده ر ہوں اور پوشیده مروں.مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے ؟اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدائے بزرگ مقربین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہو تاتو میں اس کو جز ئی فضیلت قرار دیا تھا مگر بعد میں جو خداتعالی ٰکی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب دے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلوسے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اس رسالے میں بھی لکھی ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقام پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے.\" (حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۴ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود سے سوال کیا گیاہے کہ آپ نے تریاق القلوب میں کچھ اور لکھا ہے اور ریویو میں کچھ اور لکھا ہے اور ان دونوں کتابوں میں مندرجہ ذیل اختلاف ہے: (1) تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ میں مسیح سے افضل نہیں.ہاں مجھے اس پر جزئی فضیلت دی گئی ہے اور جزئی فضیلت غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.(۲) ریویو میں لکھا ہے کہ خدا نے اس امت کے مسیح کو پہلے مسیح پر اپنی تمام شان میں بڑھایا ہے.یہ سوال جیسا ظاہر ہے اسے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے تعصب سے کام نہ لیا جائے تو ان دونوں اقوال میں ضرور اختلاف پایا جاتا ہے.ایک جگہ آپ لکھتے ہیں کہ میں مسیح سے افضل نہیں بلکہ مجھے جزئی فضیلت دی گئی ہے جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے اور دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
۳۵۷ میں مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہوں اور مجھے اس پر ہر طرح سے فوقیت حاصل ہے.کیا ایسےانسان کو جو کچھ بھی اردو جانتا ہو یہ دونوں عبار تیں پڑھوا کر دیکھ لو.وہ ضرور دونوں عبارتوں کےاختلاف کو تسلیم کرے گا.اور جب تک ضد و تعصب سے اند ھانہ ہو جائے وہ ان دونوں عبارتوں کے مفہوم کو ایک نہیں کہہ سکتاپس اختلاف تو ثابت ہے اور اس کے وجود میں کوئی شک نہیں.اب سوال ہی رہ جاتا ہے کہ یہ اختلاف کیسا اختلاف ہے؟ کیونکہ اختلاف دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک اختلاف ظاہری ہوتے ہیں جن سے اس کلام کرنے والے یا اس تحریر کے لکھنے والے پر کوئی الزام نہیں آتا صرف ظاہری شکل میں دو قولوں میں اختلاف ہوتا ہے.اور ایک ایسے اختلاف ہوتے ہیں کہ جس کے کلام میں وہ پائے جائیں اس پر الزام جھوٹ کا آتا ہے اور اس کے متعلق مسائل حضرت مسیح موعود ؑسے سوال کرتا ہے کہ آپ کی دو تحریروں میں اختلاف ہے اور وہ دونوں تحریر یں نقل کرتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ اس اختلاف کی کیا وجہ ہے؟ یعنی اسے کیوں نہ آپ کےکذب کی علامت قرار دیا جائے.نعوذباللہ من ذالک.اس کے جواب میں حضرت صاحب دو باتیں فرماسکتے تھے.اول یہ کہ کوئی اختلاف نہیں تم غلط کہتے ہو دوم یہ کہ اختلاف تو ہے لیکن وہ اختلاف نہیں جس سے جھوٹ کا الزام ثابت ہو تا ہو بلکہ حالات کے تغیر کی وجہ سے اختلاف پیدا ہؤا ہے اگرحضرت مسیح موعودؑیہ جواب دیتے کہ کوئی تناقض نہیں ان دونوں حوالوں کا مطلب ایک ہی ہے تب بھی گودشمن اس پرہنستا یا اعتراض کرتا.ہم پر حضرت مسیح موعودؑ کی تشریح کا قبول کرنا ضروری تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑنے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے تناقض کو قبول کیا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں کہ ’’رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا؟ سواس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اس قسم کا تنا قض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا.مگر بعد میں نے لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں؟ (حقيقةۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲،۱۵۳ ) پس جبکہ دونوں حوالوں کی عبارت سے صاف تناقض ظاہر ہو رہا ہے.اور حضرت مسیح موعوداس تناقضی کو قبول کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تناقض تو ہے مگر یہ تناقض ایک ایسے اختلاف کےطور پر نہیں جو میرے کذب پر شاہد ہو.بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے میرا عقیدہ اجتہاد تھا اور بعدمیں اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی سے مجھے اس عقیدہ سے پھرنا پڑا.تو یہ کیسی دلیری ہے کہ ایسی صاف عبارتوں کے ہوتے ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس تناقض کو قبول کرتے ہوئے کوئی شخص یہ
۳۵۸ کہہ دے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریروں میں شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی عقیدہ ظاہر کیا گیا ہے.تریاق القلوب اور رافع البلاء (جسے ریویو میں بھی شائع کیا گیا تھا) دونوں موجود ہیں.دونوں کی عبارتوں میں اختلاف موجود ہے.ایک شخص ان دونوں کتابوں کی عبارتیں حضرت صاحب کے سامنے پیش کرتا ہے اور آپ ان میں تناقض تسلیم کرتے ہیں مگر باوجود اس کے آج ہمیں یہ بتلایا جاتا ہے کہ دعوی ٰمسیحیت کے بعد حضرت کا ایک ہی اعتقاد رہا ہے اگر ایک ہی اعتقاد تھا تو کیوں تریاق القلوب میں لکھتے ہیں کہ میں مسیح سے افضل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو غیرنبی کونبی پر حاصل ہو سکتی ہے.لیکن دافع البلاء میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں.کیا یہ دونوں باتیں ایک ہیں ؟ کیا ان میں کوئی تناقض نہیں؟ آخر یہ دونوں عبارتیں اردو زبان میں لکھی ہوئی ہیں کسی غیر زبان میں نہیں کہ ان کا سمجھنا مشکل ہو – ہندوستان کے کروڑوں آدمی ان کو سمجھ سکتے ہیں.کروڑوں آدمیوں کی آنکھ میں کھو کر خاک جھونکی جاسکتی ہے اور پھر غضب تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ خود حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.کہا جاتا ہے کہ نہیں کوئی تناقض نہیں.ان عبارتوں پر یہ اعتراض تو ہو سکتا ہے کہ اس جگہ نبوت کا تو سوال نہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ گو تناقض ہے لیکن تریا ق القلوب ناسخ ہے منسوخ نہیں اور جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی قابل اعتبار ہے لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ مذکورہ بالا دونوں تحریروں میں کوئی اختلاف نہیں.مگر یہ دونوں سوال بھی بالکل صاف ہیں اور ان کا جواب نہایت سہل ہے.سوال اول یعنی اس امر کے جواب کہ یہاں تو افضلیت کا سوال ہے نہ کہ نبوت و غیر نبوت کا.دو ہیں.(1) اول یہ کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص ایک نبی سے افضل بھی ہو اور پھر نبی نہ بنے کیونکہ جب وہ اپنی تمام شان میں ایک نبی سے افضل ہو گیا تو نہایت ظلم ہے کہ اسے اس درجہ سے محروم رکھا جائے جو دوسرے شخص کو دیا گیا ہے.(۲) دوم یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے تریاق القلوب میں مسیح کلی طور پر افضل نہ ہونے کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ غیرنبی کو نبی پر فضیلت نہیں ہو سکتی اور یاد رہے کہ تریاق القلوب کےوقت آپ محدثیت والی نبوت کے قائل تھے اور اس نبوت کا جو جز ئی ہوتی ہے دعویٰ کر چکے تھے مگر باوجود اس دعوی ٰکے کہ آپ محدثیت کی نبوت کے وارث ہیں اور آپ کو وہ نبوت حاصل ہے) آپ اپنے آپ کو مسیح سے افضل نہیں سمجھتے تھے کیونکہ محد ثیت کی نبوت صرف ایک جز ئی نبوت
انوار العلوم جلد - ۲ ۳۵۹ ہے اصلی نبوت نہیں.پس اس تغیر عقیدہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اب آپ نے اپنی نبوت کو ایک اور قسم کی نبوت قرار دیا ہے کیونکہ تریاق القلوب میں آپ باوجود محد ثیت کی نبوت کے دعویٰ ہونے کے جو ۱۸۹۱ء سے چلا آتا تھا اپنے آپ کو غیرنبی قرار دیتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محدث یا جزئی نبی در حقیقت نبی نہیں ہو تا تبھی تو آپ فرماتے ہیں کہ غیر نبی نبی سے افضل کیونکر ہو سکتا ہے؟ لیکن دافع البلاء میں اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دیتے ہیں جس سے صاف ثابت ہے کہ اب آپ اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ خود یہ قاعده بتا چکے ہیں کہ غیرنبی کو نبی پر فضیلت نہیں اور اگر کسی کو فضیلت ہے تو ثابت ہوا کہ وہ ضرورنبی ہے اگر وہ نبی نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود کے ظاہر کردہ عقیدہ کے مطابق نبی پر فضیلت نہ پاسکتا.پس افضلیت کا مسئلہ خود نبوت کے مسئلہ کو حل کردیتا ہے.اس جگہ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جبکہ حضرت مسیح موعود ؑنے تریاق القلوب کے حوالہ کو غلط قرار دے دیا ہے تو معلوم ہوا کہ آپ نے اس مسئلہ کو بھی غلط قرار دے دیا ہے کہ غیرنبی نبی سے افضل نہیں ہوسکتا.پس کیوں نہ خیال کر لیا جائے کہ پہلے حضرت مسیح موعودؑ کا خیال تھا کہ غیر نبی نبی سے افضل نہیں ہو سکتا.لیکن بعد میں آپ کا یہ خیال بدل گیا اور آپ نے معلوم کیا کہ غیر نبی بھی نبی سے افضل ہو سکتا ہے اس لئے اپنے آپ کو باوجود غیرنبی ہونے کے سب سے افضل قرار دیا لیکن یاد رہے کہ یہ شبہ بھی قلت تدبر کا نتیجہ ہو گا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقتۃ الوحی میں جہاں تریاق القلوب کے اس عقیدہ کو منسوخ فرمایا ہے کہ میں مسیح سے ہر شان میں افضل نہیں وہاں اس عقیدہ کو کہ غیر نبی نبی سے افضل نہیں ہوتا منسوخ نہیں فرمایا.اور معترض کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ بعد میں مجھے اس قاعد ہیں کہ غیر نبی نبی سے افضل نہیں ہو سکتا غلطی معلوم ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ ایسا ہو سکتا ہے اس لئے میں نے مسیح سے اپنے آپ کو افضل لکھ دیا بلکہ اس کی بجائے فرماتے ہیں کہ \" مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی“.اس حوالہ سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل اس لئے نہیں قرار دیا کہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ غیر نبی نبی سے افضل ہو سکتا ہے بلکہ اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی وحی نے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا اور وہ بارش کی طرح آپ پر نازل ہوئی اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آپ نے تریاق القلوب والے عقیدہ کو بدل دیا کیونکہ.
آپ نے تریاق القلوب میں لکھا تھا کہ مسیح سے میں صرف جز کی فضیلت رکھتا ہوں اور بعد میں فرمایا کہ میں تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں.جو لوگ کہتے ہیں کہ تریاق القلوب کے حوالہ کو منسوخ نہیں کیا گیا وہ ایک دفعہ سائل کےسوال کو پڑھ لیں کیونکہ جواب مسائل کے سوال کے مطابق ہوتا ہے.سائل نے حضرت مسیح موعودؑسے یہ سوال کیا ہے کہ آپ نے تریاق القلوب میں کچھ اور لکھا ہے اور ریویو مین کچھ اور پس اگران دونوں کتب میں کوئی اختلاف نہ تھاتو حضرت مسیح موعودؑ بھی تناقض کے اعتراض کو قبول کر کےجواب نہ دینے اور جبکہ اس اعتراض کو آپ نے قبول کیا ہے اور اس کا جواب دیا ہے تو کسی کاحق نہیں کہ کہے کہ آپ کا عقیدہ صرف براہین کے وقت اور تھا.ایسا کہنا مسیح موعودؑکی ہتک ہے کیونکہ یہ داناؤں کا کام نہیں کہ سوال کچھ اور کیا جائے اور جواب کچھ اور دیا جائے.سوال کرنے والا تو کہتا ہے کہ آپ تریاق القلوب میں کچھ اور لکھتے ہیں او ر ریویو میں کچھ اور پھر کس طرح ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعودؑاس کے جواب میں براہین کے زمانہ کے خیالات کا ازالہ شروع کردیں.وہ شخص جو کل دنیا کی ہدایت کے لئے آیا تھا اس کی نسبت ایسی لغو بات کا منسوب کرنا کیسا ظلم ہے وہ جو دنیا کو عقل سکھانے کے لئے آیا.وہ جو علوم روحانی کے خزانے لٹانے آیا.وہ جو دانائی کی کان تھا اور جاہلوں کو دانا بنانے والا تھا یا اس کی نسبت یہ خیال کیا جاسکتاہے کہ ایک شخص اس سے پوچھتا ہے کہ آپ تریاق القلوب میں کچھ اور لکھتے ہیں اور ریویو میں کچھ اور.تو وہ یہ جواب دیا ہے کہ ہاں براہین کے زمانہ میں میرا یہ خیال تھابعد میں نہ رہا.اس جواب کو پڑھ کر ایک بچہ بھی کہے گا کہ آپ سے تو تریاق القلوب اور ریویو کے اختلاف کی نسبت سوال کیا تھا آپ بر اہین کے زمانہ یا کسی اور پچھلے زمانہ کا ذکر کرنے لگے.کیا اگر کسی صحیح الدماغ انسان سے یہ سوال کیا جائے کہ پرسوں آپ نے فلاں بات یوں بیان فرمائی تھی اور کل اس کے خلاف بیان فرمائی یہ کیا بات ہے تو وہ اس کو یہ جواب دے کہ ہاں پچھلے سال میرا یہی خیال تھا لیکن بعد میں بدل گیا.کیا وہ یہ نہ پائے گا کہ میں کل اور پرسوں کے متعلق سوال کرتا ہوں آپ پچھلے سال کا ذکر کرتے ہیں اور کیا ایساجواب دینے والا عقلمند کہلا سکتا ہے؟ پس اس کلام سے بچو جس سے تم مسیح موعود ؑپر نعوزذباللہ بے وقوفی کا الزام لگاتے ہو مسیح موعودؑ خدائے تعالیٰ کا چنا ہوا تھا اور اس کا بر گزیدہ تھا اس کی باتیں دانائی سے پُر ہوتی تھیں.پس اس کا جواب سوال کے خلاف نہیں ہو سکتا.اور جبکہ تریاق القلوب اور ریویو کے مضامین میں صریح اختلاف ہے تو اس کا جواب کسی پہلے وقت کی طرف کیونکر منسوب ہو سکتا ہے غرض کہ یہ.
۳۶ بات بالکل ثابت ہے کہ تریاق القلوب اور ریویو کے مذکورہ بالا دونوں بیانات میں اختلاف ہے.’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے.کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو ایک غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.‘‘ (تریاق القلوب منم ۳۵۳ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۸۱) ریویو میں فرماتے ہیں: \"خدا نے اس امت میں سے امور بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے\".(ریویو آف ریلیجیز جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷) اوراس اختلاف کی نسبت ایک شخص نے آپ سے سوال کیا ہے کہ یہ کیوں ہے تو آپ نے وہ جواب دیا جو اوپر درج کیا گیا ہے اور آگے چل کر یہ بھی فرمایا \" خلاصہ ہے کہ میرے کلام میں کوئی تناقض نہیں میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں.جب تک مجھے اس کا علم نہ ہوا میں وہی کہتارہاجو اوائل میں میں نے کیا.اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا\"( حقیقۃ الوحی صفحہ۱۵۰) یعنی یہ اختلاف میرے کلام کا نہیں کہ مجھے جھو ٹاکہا جائے بلکہ بات یہ ہے کہ پہلے میں اجتہادسے کہتا رہا مگر بعد میں اللہ تعالی کی وحی پر غور کر کے مجھے اپنا عقیدہ بدلناپڑا اور میں پہلے قول کے مخالف کہنے لگا.پس یہ تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا علم تھانہ کہ میرے اقوال کا تناقض اور اختلاف پہلا قول میرا تھا اور دو سراخدا کا.اب اس جگہ وہ دو سرا اعتراض کیا جاتا ہے جو میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ اگر یہ بھی ثابت ہو جائےکہ تریاق القلوب میں کچھ اور لکھا ہے اور ریویو میں کچھ اور.تو بھی آپ کا مطلب ثابت نہیں ہوتاہم کس طرح مان لیں کہ تریاق القلوب کے حوالہ کو ریویو کے حوالہ نے منسوخ کر دیا کیوں نہ یہ کہا جائے کہ تریاق القلوب کے حوالہ نے ریویو کے حوالہ کو منسوخ کر دیا.اور ہماری بات اس دلیل سے اور بھی وزنی ہو جاتی ہے کہ ریویو کا مضمون دافع البلا ءسے لیا گیا ہے جو ۱۹۰۲ء کے ابتداءمیں شائع ہوا.اور تریاق القلوب اکتوبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ہے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو کتاب پہلے لکھی گئی وہ بعد کی کتاب کو منسوخ کردے کیا کوئی عقل سلیم اس امر کو تسلیم کر سکتی ہے کہ جو بات بعد میں لکھی گئی وہ اس بات سے منسوخ ہو جائے جو اس سے چھ ماہ پہلے لکھی گئی جو حکم بعد میں دیا جائے وہ پہلے حکم کا ناسخ ہو تا ہے نہ کہ پہلا حکم بعد کے حکم کا بیشک یہ ایک ایسا اعتراض ہے جو ظاہر میں بہت و زنی معلوم ہو تا ہے اور شائد بعض لوگ اس
۴۹۲ پر نہایت خوش ہوں کہ نہایت زبردست دلیل ہے اگر نسخ ثابت ہے تو تریاق القلوب کا حوالہ ناسخ ہے نہ کہ ریویو کا.کیونکہ ریویو کا مضمون پہلے کا ہے اور تریاق القلوب بعد کی کتاب ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اعتراض صرف دل خوش کن ہے ورنہ اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں.اس لئے کہ خود حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے یعنی آپ نے خود فرما دیا ہے کہ تریاق القلوب کا مضمون منسوخ ہے ریویو کے مضمون سے.اور اس بات کو سمجھنے کے لئے میں تریاق القلوب اور ریویو دونوں کے ان حوالہ جات کو پھر نقل کرتا ہوں جن میں اختلاف ہے.(تریاق القلوب کا حوالہ صفحہ ۳۵۳) ’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے.کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.(تریاق القلوب صفحہ ۵۳ روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۴۸۱) ریویو کا حوالہ جلداول صفحہ ۲۵۷: \"خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے\"-(ریویو آف ریلیجز جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷) اب ان دونوں حوالوں سے ثابت ہے کہ تریاق میں تو آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح سے صرف جزوی فضیلت رکھتا ہوں اور اس سے افضل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ نبی ہے اور میں غیر نبی.اس کے خلاف ریویو میں لکھتے ہیں کہ میں مسیح سے تمام شان میں بوڑھا ہوا ہوں اب دیکھنا چاہیے کہ ان دنوں خیالوں میں سے حضرت مسیح موعودؑ کس کو رد کرتے ہیں اور کسے درست فرماتے ہیں اگر حقیقۃ الوحی میں سائل کے جواب میں آپ نے یہ جواب دیا ہو کہ میرا پہلے یہ خیال تھا کہ میں مسیح سے افضل ہوں لیکن بعد میں میرا یہ عقیدہ نہ رہا اور مجھے خدا تعالی نے بتایا کہ تو نبی نہیں وہ بھی تھا.غیرنبی نبی سے افضل کس طرح ہو سکتا ہے تب تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تریاق القلوب والا عقيده ناسخ تھا اور ریویو والا عقیده منسوخ لیکن اگر اس کے خلاف آپ اس عقیدہ کو جو تریاق القلوب میں ظاہر فرمایا ہے.پہلا قرار دیں اور اپنے افضل ہونے والے عقیدہ کو بعد کا قرار دیں تو پھر ہر ایک شخص کو یہ قبول کرنا ہو گا کہ مسیح موعود ؑکے نزدیک تریاق القلوب والا حوالہ منسوخ ہے اور ریویو والا ناسخ.چنانچہ جب ہم حقيقۃ الوحی کو دیکھتے ہیں تواس میں یہ لکھاپاتے ہیں: ’’اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰؑ علیہ السلام کا ہے اور میں
۴۸۱ آخری خلیفہ اس نبیؐ\" کا ہوں جو خیرالرسل ہے اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے \" )حقیقت الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴) اس عبارت سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کم سے کم مسیح کے برابر تو سمجھتے ہیں لیکن آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ”پس خداد کھلا تا ہے کہ اس رسولؐ کے ادنی خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں\" پھر یہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سنو!اسی جگہ حضرت مسیح موعوڈؑ آگے چل کر فرماتے ہیں \" پھر جبکہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو.عزیز و ا!جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوص حد یثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہئے کہ آنے والا مسیح کچھ چیزہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم.جو کچھ ہے پہلا ہے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق مجھے بھیج دیا.اب خدا سے لڑو.ہاں میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلوسے نبی اور ایک پہلو سے امتی بھی.تا آنحضرت ﷺکی قوت قدسیہ اور کمال فيضان ثابت ہو“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۹) مذکورہ بالا عبارت میں آپ نہ صرف یہ کہ مسیح سے اپنے افضل ہونے کا ذکر فرماتے ہیں بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے حضرت مسیح سے افضل ہونے پر اعتراض کرنا شیطانی وسوسہ ہے اور یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی نہیں کہلا سکتے خدائے تعالیٰ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے.ہاں جیسا کہ آپ ہمیشہ فرماتے آئے ہیں آپ نبی بھی ہیں اور آنحضرت ﷺ کے امتی بھی.اور آپ نے اس جگہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ امتی نبی ہونا آپ ؐکے درجہ کے گھٹانے کے لئے نہیں بلکہ ”تا آنحضرت ﷺکی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو \" (حقیقۃ الوحی ۱۵۹) پس امتی نبی ہوا کمی درجہ کی علامت نہیں بلکہ علو درجہ کی علامت ہے اور ایسے نبی کے ذریعہ سے آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہوتاہے.اب میں پھر اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور ہر ایک انصاف پسند کو متوجہ کر کے کہتا ہوں کہ کیا جو حوالہ میں نے اوپر نقل کیا ہے اس سے ثابت نہیں ہو تاکہ حقيقۃ الوحی میں آپ اپنےآپ کو مسیح ؑسے افضل قرار دیتے ہیں.پس یہ کیسی الٹی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ تریاق القلوب
۳۹۴ , ناسخ تھی ریویو کے مضمون کی.پھر بھی حضرت صاحب حقیقۃ الوحی میں وہی مضمون پھر بیان کرتے ہیں جو ریویو میں کیا تھا حضرت مسیح موعود ؑکا حقیقۃ الوحی میں اپنے آپ کو حضرت مسیح ؑ سے افضل قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریویو کا مضمون ناسخ ہے اور تریاق القلوب کا منسوخ یا کم سے کم یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ ایسا ظاہر فرماتے ہیں اور اگر تریاق القلوب کا مضمون ناسخ ہو تا تو چاہئے تھا کہ آپ بعد کی کتب میں یہ تحریر فرماتے کہ ہم حضرت مسیح ؑسے افضل نہیں لیکن آپ تو بعد کی کتب میں اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہیں جس سے صاف ثابت ہوا کہ آپ اس تحریر کو جس میں آپ نے اپنے آپ کو مسیح ؑ سے افضل قرار دیا ہے ناسخ قرار دیتے ہیں اس تحریر کا جس میں اپنے آپ کو مسیح سے ادنیٰ قرار دیا ہے اور جس مضمون میں افضل قرار دیا ہے وہ ریویو کا مضمون ہے پس ہر ایک شخص جو ضد سے کام نہ لے سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ تریاق القلوب کے اس حوالہ کو منسوخ قرار دیتے ہیں ورنہ حضرت صاحب پر یہ اعتراض آئے گا کہ آپ نے خدائے تعالیٰ کی متواتر وحی سے ایک بات معلوم کی.لیکن آپ ایک ہی کتاب میں اس نئے عقیدہ کو لکھ کر بھول گئے.اور پھر وہی پرانا عقیدہ اپنی کتابوں میں لکھنا شروع کردیا کہ میں افضل ہوں مسیح ؑسے.اور تعجب ہے کہ خود حقیقۃ الوحی میں جس جگہ ریویو کے مضمون کو غلط قرار دیا اسی جگہ پر اپنی افضلیت پر زور دینے لگے.لیکن ایسا فعل حضرت مسیح موعود ؑکی طرف ہرگز منسوب نہیں ہو سکتا اور حق یہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ تریاق القلوب کے حوالہ کو منسوخ قرار دیتے ہیں ریو یوکے مضمون سے.اور جو شخص کہتا ہے کہ حضرت صاحب کی بعض عبارتوں کو کیوں منسوخ قرار دیتے ہو اس کا قول انہی لوگوں کا سا ہے جو کہتے ہیں کہ جس قدر کتب سماویہ اس وقت موجود ہیں سب قابل عمل ہیں اور خدائے تعالیٰ کا کلام منسوخ نہیں ہو سکتا.اس کا جواب یہی ہے کہ جن کتابوں کو اللہ تعالی نے منسوخ کرد یا ان کو ہم قابل عمل کیونکر کہہ سکتے ہیں یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہے حضرت صاحب اپنے اجتہاد سے ایک عقیدہ رکھتے تھے خدائے تعالی ٰنے آپ کو بتلایا کہ یہ عقیدہ درست نہیں درست یہ ہے پس ہم اس کو تسلیم کریں گے جسے خدائے تعالی ٰنے درست قرار دیا اور اسی کو تسلیم کریں گے جسے حضرت مسیح موعودؑنے ناسخ قرار دیا.ہاں جو شخص باوجود اس کے کہ مسیح موعودؑ ریویو کے مضمون کو ناسخ قرار دیتے ہیں یہ اعتراض کرے کہ آپ نے نعوذ باللہ یہ خلاف عقل بات کیوں لکھی کہ پہلی تحریر کو جائز قرار دیا ہے اور بعد کی تحریر کو منسوخ.تو وہ پہلے مسیح موعودؑ کا انکار کرے پھر ہم سے سوال کرے ہم اسے انشاء اللہ پوری طرح جواب دیں گے کیونکہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح
۳۶۵ موعودنے تریاق کے حوالہ کو منسوخ قرار دیا ہے تو اب جو اعتراض پڑے گا مسیح موعود ؑپر پڑے گانہ مجھ پر لیکن میں مضمون کو مکمل کرنے کے لئے اس جگہ فرض کر لیتا ہوں کہ ایک مخالف ہم سے پوچھتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو ریویو کے مضمون کو جو پہلا ہے تریاق القلوب کے مضمون کا جو بعد کا ہے ناسخ قرار دیا ہے تو اس سے آپ کا کیا مطلب ہے اور ایسے شخص کو جواب دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے جو کچھ لکھادرست لکھا اور اس میں ہرگز کوئی خلاف عقل بات نہیں بلکہ واقعہ میں ریویو کا مضمون تریاق القلوب کا ناسخ ہے اوراس سے پہلا نہیں بلکہ بعد کا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ تریاق القلوب اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی اور ریویو جون ۱۹۰۶ء کو بلکہ دافع البلاء جس سے ریویو میں مضمون لیا گیا ہے وہ تو اپریل ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی اور خود میں نے اپنے رسالہ القول الفصل میں تاریخ اشاعت کے لحاظ سے ۱۹۰۲ء تک ہی تریاق القلوب کی تیاری لکھی ہے لیکن چونکہ اس وقت اس امر کو بالتفصیل لکھنے کی گنجائش نہ تھی اس لئے اس رسالہ میں وہی تاریخ لکھ دی گئی جو تریاق القلوب پر لکھی ہوئی تھی اور اگر میں ایسانہ کر تاتوخوف تھا کہ بعض لوگ جھٹ مجھ پر جھوٹ کا الزام لگادیتے لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ تریاق القلوب اصل میں پہلے کی لکھی ہوئی کتاب ہے اور ریو یو بعد کا مضمون جو دافع البلاء سے لیا گیا ہے اس کے بعد کا بلکہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ بعد کا ہے اور اس کے لئے میرے پاس خدائے تعالیٰ کے فضل سے یقینی ثبوت ہیں بشرطیکہ کوئی شخص ان پر غور کرے اور ضد اور ہٹ سے کام نہ لے.اصل واقعہ یہ ہے کہ تریاق القلوب ۱۸۹۹ء سے لکھی جانی شروع ہو گی اور جنوری ۱۹۰۰ء تک بالکل تیار ہو چکی تھی لیکن چونکہ ان دنوں میں ایک وفد نصيبين جانے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود ؑنے ایک عربی رسالہ لکھنا شروع کردیا اور اس کی اشاعت رک گئی ۱۹۰۲ء میں جبکہ کتب خانہ کا چارج حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کے ہاتھ میں تھا آپ نے حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ خلیفہ اول سے عرض کی کہ بعض کتب بالکل تیار ہیں لیکن اس وقت تک شائع نہیں ہو ئیں آپ حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کی کہ ان کو شائع کرنے کی اجازت فرما دیں چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑسے ذکر کیا اور حضور ؑنے اجازت دے دی تریاق القلوب ساری چھپ چکی تھی.اور صرف ایک صفحہ کے قریب مضمون حضرت اقدس ؑکے ہاتھ کا لکھا ہوا کاتب کے پاس بچا پڑا تھا اس کے ساتھ حضرت اقدسؑ نے ایک صفحہ کے قریب مضمون اور بڑهادیا اور کل دو صفحہ آخر میں لگا کر کتاب شائع کردی گئی.یہ تو اصل واقعہ ہے جس سے غالبا ًجناب مولوی صاحب واقف ہوں گے اور امید ہے کہ حق
۳۹۹ کے اظہار کے لئے ضرور شہادت دے دیں گے لیکن اگر ان کو یاد نہ رہا ہو یا وہ اس واقعہ سے واقف نہ ہوں تو میں اس کے متعلق ذیل میں چند ثبوت دیتا ہوں.۱ - اول یہ کہ تریاق القلوب کے آخر میں ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کی تاریخ لکھی ہوئی ہے اور اس کتاب میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوٰة والسلام نے اپنے آپ کو مسیحؑ پر صرف جزئی فضیلت رکھنے والا ظاہر فرمایا ہے لیکن کتاب کشتی نوح جو ۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ہے اس میں آپ فرماتے ہیں’’ مثیل مو سیٰؑ موسیٰؑ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر (صفحہ۱۶ ) پھر صفحہ ۱۹ پر لکھتے ہیں کہ ’’گو خدا نے مجھے خبردی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں.اب آپ فرمائیں کہ کیا یہ ممکن تھا کہ آپ اسی مہینہ میں مطابق الہام کشتی نوح میں تو یہ لکھیں کہ میں مسیح ؑسے افضل ہوں لیکن ۲۰ دن بعد تریاق القلوب میں لکھیں کہ میں اس سے صرف جز ئی فضیلت رکھتا ہوں ورنہ میں اس سے بڑا نہیں ہو سکتا.اور پھر اس کے بعد حقیقۃ الوحی میں پھروہی مضمون بیان فرمائیں جو۵ اکتوبر کی کتاب کشتی نوح میں لکھا تھا.اس بات سے ثابت ہے کہ تریاق القلوب کا وہ حوالہ پہلے لکھا جا چکا تھا خصوصاً جبکہ ہم ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ مسیح موعود ؑنے حقیقۃالوحی میں ریویو کے مضمون کو تریاق القلوب کے خلاف تسلیم کر کے اسے ناسخ بھی قرار دیا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ تریاق القلوب ۱۸۹۹ء میں شروع ہوئی تھی.۲ - دوم یہ کہ کشتی نوح میں ہی یہ ذکر نہیں بلکہ اکتوبر کے مہینہ کی ڈائریوں میں بھی وہی ذکر ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۲ء کا مہینہ تو ایک خاص مہینہ تھا جس میں آپ اپنی افضلیت پر خاص زور دے رہے تھے.چنانچہ یکم اکتوبر کی سیر کی ڈائری میں لکھا ہے.”خداتعالی کی صریح وحی سے مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ محمدیؐ سلسلے کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر ہے\".(صفحہ ۱۱ - الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء) اسی طرح ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء کی فجر کی سیر کی ڈائری میں لکھا ہے.\"تم کہتے ہو مسیح کلمہ اللہ ہے ہم کہتے ہیں ہمیں خدا نے اس سے بھی زیادہ درجہ دیا\" ( البدر نمبر ۳ جلد ۱ ۱۱ ۷ نومبر۱۹۰۲) اب ان حوالوں پر غور کرو کہ ۱۹۰۱ء سے لے کر برابر حضرت مسیح موعودؑاپنی افضلیت پر زور دیتے چلے آرہے ہیں.اور اپر یل 19۰۲ء - پھر یکم اکتوبر ۱۹۰۲- پھر ۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء پھر ۲۰ اکتوبر۱۹۰۲ء کی آپ کی تحریروں اور تقریروں سے صاف ثابت ہو رہا ہے کہ آپ مسیح سے افضل تھے اور : نره ۳ جلده ۶۹۰۲
۳۹۷ ہر رنگ میں افضل تھے.اور یہ بات آپ کو الہام کے ذر یعہ بتائی گئی تھی.اسی طرح ۱۹۰۲ء کے بعد کی تحریرات کو دیکھیں تو ان سے بھی بلا استثناء یہ بات ثابت ہے کہ آپ اپنے آپ کو حضرت مسیح سے افضل قرار دیتے تھے.اور خود حضرت مسیح موعود ؑبھی حقیقۃ الوحی میں افضلیت کے عقیدہ کو دوسرے عقید کا ناسخ قرار دیتے ہیں تو کیا یہ بات اس بات کا صریح اور کھلم کھلا ثبوت نہیں کہ تریاق القلوب کا وہ حوالہ جس میں مسیح سے اپنے آپ کو کم درجہ پر بیان فرماتے ہیں اور ان سے تمام شان میں بڑا ہونا محال قرار دیتے ہیں.اور صرف جزئی فضیلت کے قائل ہیں.۱۹۰۱ء سے پہلے کا لکھا ہوا ہے.خصوصا ًجبکہ یہ بات خودتریاق القلوب سے بھی ثابت ہے کہ اس کی تیاری ۱۸۹۹ء میں شروع ہوئی.غرض کہ ۱۹۰۱ء سے لے کر وفات تک اس عقیدہ کے خلاف تحریروں کا موجود ہونا جو تریاق القلوب میں لکھا گیا.اور پھر تریاق القلوب کی اشاعت سے پانچ دن پہلے آپ کا اس عقیده کے خلاف تقریر کرناجو تریاق القلوب میں لکھا گیا تھا.اور اس بات کا ثابت ہونا کہ یہ کتاب دراصل۱۸۹۹ء میں شروع ہوگئی ہے.کیا اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ یہ حوالہ بھی واقعہ میں پہلے کا لکھا ہوا ہے اس لئے یہی منسوخ ہے نہ کہ ناسخ.۳- تیسری دلیل یہ ہے کہ اکتوبر کے مہینہ کی ڈائریاں دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ ان دنوں میں آپ عصمت انبیاء اور نزول المسیح لکھ رہے تھے.اور یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ آپ نے ان دنوں تریاق القلوب کے لئے بھی کوئی مضمون لکھا.اگر ان دنوں میں آپ نے تریاق القلوب کے آخری صفحات لکھے ہوتے تو ان کا ذکر ضرور ڈائری میں آتا.لیکن ہم اس مہینہ کی ڈائری کو دیکھتے ہیں تو ۱۹ اکتوبر کی ڈائری میں یہ لکھا پاتے ہیں کہ آپ آج کل عصمت انبیاء پر مضمون لکھ رہے ہیں.اور پھر۳۱ اکتوبر کے ہفتہ کے اخبار قادیان میں لکھا دیکھتے ہیں کہ آپ عصمت انبیاء اور نزول المسیح لکھ رہے ہیں.جس سے صاف ثابت ہے کہ آپ نے اس ماہ میں تریاق القلوب کا کوئی حصہ نہیں لکھا.اور جیسا کہ واقعات سے ثابت ہے صرف ایک صفحہ لکھ کر کتاب کی اشاعت کی اجازت دے دی.ورنہ اگر آپ کوئی خاصہ مضمون زائد کرتے تو ضرور اس کا بھی ذکر ہو اگر ثابت ہے کہ ان دنوں میں آپ اور کتابیں تصنیف فرمارہے تھے.۴- چوتھا ثبوت یہ ہے کہ آپ تریاق القلوب کے صفحہ ۱۳۷ پر لکھتے ہیں.’’ کہ اب اس وقت تک کہ۵ دسمبر۱۸۹۹ء ہے.اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ آپ۵ دسمبر۱۸۹۹ء کو تریاق القلوب کا صفحہ ۱۳۷ لکھ رہے تھے اور یہ حوالہ جس پر بحث ہے اس سے بیس صفحہ بعد کا ہے.اور یہ ۱۳
۳۹۸ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل میں کتاب تریاق القلوب دسمبر۱۸۹۹ء میں مکمل ہو چکی تھی گو بعض وجوہ سے شائع نہ ہو سکی کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے سارے دسمبر میں ۲۰صفحے بھی نہ لکھے ہوں گے...پانچویں دلیل حضرت مسیح موعودؑ کا ایک خط ہے.جس کی عبارت ذیل میں درج ہے’’ کتاب تریاق القلوب تو اب بالکل تیار ہے لیکن چونکہ مرزاخد ابخش صاحب نصیبین کی طرف تیار تھے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک عربی کتاب تیار کر کے ان کو دی جائے.سو کتاب تریاق القلوب جس میں سے صرف دوچار ورق باقی ہیں بالفعل ملتوی رکھی گئی اور کتاب عربی لکھنی شروع کردی گئی جس میں سے اب تک سو صفحہ چھپ چکا ہے“- دستخط کے ساتھ تاریخ ۱۵/ فروری۱۹۰۰ءدی ہے.یہ خط ہمارے پاس محفوظ ہے.آپ چاہیں تو ہم آپ کو دکھلا سکتے ہیں اس خط سے جو فروری ۱۹۰۰ء کا ہے.ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعوودؑ تریاق القلوب اسی وقت مکمل کر چکے تھے.اور بہت تھوڑا سا مضمون لکھ کر اسے شائع کر دینے کا ارادہ تھا.لیکن چونکہ اس کی اشاعت میں دیرہوگئی تھی.اس لئے حکیم صاحب مرحوم کے زور دینے پر ایک صفحہ اور بڑھا کر کتاب شائع کروی گئی.پھر حضرت مسیح موعودؑ کا یہ تحریر فرمانا کہ عربی کتاب کا بھی سو(۱۰۰) صفحہ چھپ چکا ہے ثابت کرتا ہے کہ جنوری اور فروری میں حضرت مسیح موعود ؑو ہی عربی کتاب لکھتے رہے ہیں نہ کہ تریاق القلوب جس سے ثابت ہے کہ تریاق القلوب دسمبر۱۸۹۹ء میں ہی مکمل ہو چکی تھی.اور ۱۹۰۲ء میں صرف شائع ہوئی لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک اور ثبوت ہے اور وہ یہ ہے: ۶ - کہ تریاق القلوب کتاب مکرمی صاجزادہ پیر منظور میر صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جو اس وقت حضرت صاحب کی کتب لکھا کرتے تھے.اور منہ ۵۸ اتک سب انہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.اور صرف صفحہ ۱۵۹،۱۶۰ منشی کرم علی صاحب کاتب کا لکھا ہے اور ہر ایک کاتب آپ کو بتاسکتا ہے کہ صفحہ ۵۸اور کاتب کا لکھا ہوا ہے اور ۵۹ او ۲۰ اور کاتب کا.اور باقی سب کتاب اسی کاتب کی لکھی ہوئی ہے.جس کا صفحہ ۱۵۸.صرف ٹا ئٹل کا پہلا صفحہ اور صفحہ ۵۹ اور ۶۰ارو سرے کاتب یعنی منشی کرم علی صاحب کے لکھے ہوئے ہیں اور یہ ایک یقینی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ حصہ جو تریاق القلوب کا ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا ہے صرف آخری دو صفحہ ہیں نہ کہ اس سے پہلے کے صفحے.اور حضرت صاحب کے خط سے جو اوپر نقل ہو چکا ہے ثابت ہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۰ء کی فروری سے اس قدر عرصہ پہلے تیار ہو چکی تھی کہ اس کے بعد سو(۱۰۰) صفحہ ایک اور کتاب کے لکھے گئے اور چھپ چکے
۳۹۹ تھے.پس صفحہ ۱۵۸ تک ساری کتاب کا پیر صاحب کے ہاتھوں سے لکھا جاتا اور صرف آخری دو صفحات کا منشی کرم علی صاحب کے ہاتھ سے لکھا جانا ثابت کرتا ہے کہ ان دو صفحوں کے علاوہ باقی سب کتاب یقینا ۱۹۰۰ء تک لکھی جا چکی تھی.اور حضرت صاحب نے اپنے فروری ۱۹۰۰ء کے خط میں تریاق القلوب کے جس حصہ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تیار پڑا ہے وہ صفحہ ۵۸ا تک کا ہے اور صرف دو صفحات کامنشی کرم علی صاحب کے ہاتھ سے لکھوایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف وہی بعد میں لکھوائے گئے.اور ان دو صفات کے ان سے لکھوانے کی بھی ایک وجہ تھی.اور وہ یہ کہ جیسا کہ جناب مولوی صاحب کو معلوم ہو گا.اس تاخیر کے عرصہ میں پیر صاحب سخت بیمار ہو گئے تھے.اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے کتابت کے بالکل نا قابل ہو گئے تھے.پس جب عرصہ تاخیر کے بعد کتاب دوبارہ لکھوانی شروع کرائی گئی تو پیر صاحب سے بقیہ مضمون لے کر جس کے آخر میں حضرت صاحب نے چند سطریں اور لکھ دی تھیں منشی کرم علی صاحب کا تب سے آخری دو صفحات لکھوائے گئے.اور کتاب شائع کر دی گئی.چنانچہ آپ کی تجربہ کار کاتب سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ تریاق القلوب کو بغور مطالعہ کر کے دیکھے.اور بتائے کہ کیا واقع میں کتاب تریاق القلوب ساری کی ساری سوائے آخری دو صفحوں اور ٹائٹل کے صفحہ کے ایک کاتب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے یا نہیں؟ ۷- ساتواں ثبوت یہ کہ صرف تحریرات کانی فرق نہیں بلکہ تریاق القلوب کے دونوں کاتب اور پریس مین اس وقت بفضل خدازنده موجود ہیں.اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ ہیں.جن کے حافظہ میں یہ واقعات اچھی طرح محفوظ ہیں.ان کی شہادتوں سے یہ امرپایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے.چنانچہ میں جناب مکری صاجزادہ پیر منظور صاحب ،منشی کرم علی صاحب اور مرزا اسماعیل بیگ صاحب پریس مین جن کی شہادتیں اور چند اور واقف حال گواہوں کی شہادتیں ذیل میں درج کرتا ہوں.بسم الله الرحمن الرحيم - نحمد و نصلی على رسوله الكريم میں خدا تعالی کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ شہادت دیتا ہوں کہ تریاق القلوب صفحہ ۱۵۸ تک میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.یہاں تک لکھنے اور چھپنے کے بعد تریاق القلوب بہت مدت تک چھپنے اور شائع ہونے سے رکی رہی.پھر اس کے بعد ۱۹۰۲ء میں جب اس کتاب کی اشاعت ہونے لگی توآخری کاپی سے بچا ہوا کچھ مضمون میرے پاس پڑا ہوا تھا جو قریب ایک صفحہ کے تھاوہ میں نے حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو دے دیا.جو دو سرے کاتب سے لکھوایا گیا.چھپنے کے بعد جب میں نے
۳۰ دیکھا تو اس بچے ہوئے مضمون کے ساتھ ایک صفحہ اور بڑھاکر کتاب کو ختم کر دیا گیا تھا.میں حلفیہ کہتا ہوں کہ تمام تریاق القلوب میں صرف ٹائٹل کا صفحہ اور صفحہ ۱۵۹- اور صفحہ ۶۰ایعنی کل تین صفحے دوسرے کاتب کے لکھے ہوئے ہیں.اور باقی کل تریاق القلوب مع ضمیمہ نمبر۳ و ضمیمہ نمبر و ضمیمہ نمبر۵میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.فقط به منظور بقلم خود.بسم الله الرحمن الرحيم - نحمد و نصلی على رسوله الكريم میں حلفیہ شہادت دیتا ہوں کہ تریاق القلوب کاصفحہ ٹائٹل پیج (PAGE اور آخری ورق یعنی صفحہ۱۵۹- اور صفحہ ۱۶۰ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.اور حکیم فضل الدین صاحب مرحوم نے مجھے مضمون دیا تھا کیونکہ ان دنوں میں میں ان کے ماتحت کام کیا کرتا تھا.اور اس سے پہلے تریاق القلوب مسلم ۵۸ایک مدت سے چھپی ہوئی پڑی تھی.جب میں نے ٹائٹل PAGE اور آخری ورق لکھا تب یہ کتاب شائع ہوئی.عاجز کرم علی کاتب ریویو آف ریلیجنز قادیان میں مرزا محمد اسماعیل بیگ جو ضیاء الاسلام میں پریس مین تھا.شہادت دیتا ہوں کہ تریاق القلوب میں نے چھاپی.اور چھپ کر ایک مدت تک پڑی رہی.پھر اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ٹائٹل اور صرف آخری ورق یعنی صفحہ ۱۵۹ اسفحہ ۱۶۰ چھاپ کراسے شائع کر دیا گیا.مرزا محمد اسماعیل بیگ سابق پریس مین أشهدان لا الہ الا الله وحده لا شریک واشهد ان محمدا عبده ور سوله میں دسمبر ۱۹۰۰ء میں قادیان میں آیا تو تریاق القلوب اور تحفہ گولڑویہ اور تحفہ غزنویہ طبع شده تھیں.جن کی فرمہ شکنی مولوی برہان الدین صاحب مرحوم جہلمی اور ڈاکٹر محمداسماعیل خان صاحب کی کوشش سے مہمانان نو وارد کیا کرتے تھے.صرف کسی قدر باقی تھی جو بروقت اشاعت بعد میں لکھوائی گئی.اور ۱۹۰۱ء میں جب میں ہجرت کر کے یہاں آیا تو بھی یہ کتابیں شائع نہیں ہوئی تھیں.پر ۱۹۰۲ء میں جب ان کی اشاعت کی ضرورت ہوئی تو منشی کرم علی صاحب کا تب سے ٹائٹل اور ایک ورق آخری لینی صفحہ ۱۵۹ تا ۱۶۰ لکھواکر کتاب شائع کی گئی.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۰۰ء میں یہ کتاب قریباً ساری چھپی ہوئی تھی.کسی قدر مضمون باقی مانده پیچھے سے لکھوایا گیا جو دو سرے
اسم کاتب کا ہے.اور ملاحظہ کتاب سے اس کی اصلیت معلوم ہو رہی ہے.میں اس وقت سے یہاںمستقل رہائش رکھتا ہوں.اور تحفہ گولڑویہ اور تحفہ غزنویہ اور تریاق القلوب تھوڑے تھوڑےعرصہ کے بعد مرةً بعد أخریٰ شائع کی گئی ہیں.مگر طبع شدہ پہلے کی موجود تھیں.جو باوجود یہاں کی موجودگی کے اس کے خلاف لکھتا ہے اور عمدا ًجھوٹ ہوتا ہے وہ لعنت الله على الكذبین کےثواب کا مستحق بنتا ہے.والسلام علی من اتبع الهدی الراقم مہدی حسین خادم المسیح مہاجر قادیان بقلم خود.واللہ با للہ ثم تالله کہ میں بخوبی جانتا ہوں اور مجھے بخوبی یاد ہے.اور میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حکیم فضل الدین صاحب مرحوم نے شفاخانہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب میں آکر حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس وقت مطیع کوئی قریبا ًتیرہ سوروپیہ کا مقروض ہے.اور باعث اس کا یہ ہے کہ تریاق القلوب اور اور چند كتابیں بالکل تیار پڑی ہوئی ہیں.اور حضرت صاحب کو نہ ان کی اشاعت کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی توجہ دلاتا ہے.اور بعض تو مقدمات وغیرہ کے باعث ر کی پڑی ہیں.اور ان سب پر بہت سارو پیہ لگا ہوا ہے اور جب تک وہ شائع نہ ہوں.تب تک مطیع کا چلانا بہت ہی دشوار ہے.جو ابھی ناتمام ہیں ان کو تو جانے دیجئے.مگر تریاق القلوب وغیرہ تو بالکل ختم ہیں.فقط بعد میں ایک دو سطریں لکھ کر مضمون کو ختم کر دینا ہے اور بس.اس پر مولانا صاحب نے وہ حساب کاکاغذ بھی لے لیا اور حکیم صاحب کو فرمایا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردوں گا.چنانچہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحب.میرے سامنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ تریاق القلوب کا مسودہ پیر منظور کم سے لے کر میرے پاس بھیج دینا کہ میں اس کے آخری مضمون کو دیکھ کر چند سطریں لکھ کر مضمون کو ختم کردوں گا.چنانچہ وہ مسودہ لایا گیا.تو اس میں سے کوئی ایک صفحہ کامضمون باقی تھا تو حضرت صاحب نے اس کے ساتھ چند سطریں اور لکھ کر مضمون کو ختم کر دیا تو پہلے جو کتاب تریاق القلوب مدت دراز سے چھپی ہوئی موجود تھی.اس کے آخر میں اس مضمون سے ایک ورق نیا چھاپ کر لگا دیا گیا.اور کتاب شائع ہو گئی.چنانچہ اسی عرصہ میں اور بہت سی کتا ہیں جو پہلے کی ہیں شائع کی گئی ہیں.اور یہ ایسا مشہور واقعہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو بھی ضرور معلوم ہو گا.اور میں یقین نہیں کر سکتا کہ وہ اس سے انکار کریں، (محمد سرور شاه احمدی قلم خود۱۴فروری ۱۹۱۵ء)
۳۷۲ بسم الله الرحمن الرحيم میں جو مقدمہ کلارک سے حضرت مسیح موعود ؑکے حالات تقریروں، الہامات اور پیشگوئیوں اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ضروری اور اہم واقعات کو شائع کرنے والا ہوں اور ۱۸۹۸ء سے خداکےفضل و کرم سے مستقل طور پر دارالامان قادیان میں رہنے کی سعادت رکھتا ہوں.اور چشم دیدواقعات کے شائع کرنے کا مجھے جا ئز فخر حاصل ہے بطور ایک وقائع نگار کے.اور سلسلہ کے حالات سے واقف کار کی حیثیت میں جو (الحکم کی گذشتہ ۱۸ مجلدات سے ظاہر ہے) محض خدا کی رضا اور حق کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کو حاضر نا ظر یقین کر کے اور اس کی قسم کھا کر اپنے صحیح علم کی بناء پر شہادت دیتا ہوں کہ کتاب تریاق القلوب جس کا پورا نام شروع میں تریاق القلوب و جاذب الارواح الیٰ حضرت المحبوب تھا.۱۸۹۹ء کی جولائی میں حضرت مسیح موعودؑ نے لکھی.اور پہلی مرتبہ ۳۱جولائی ۱۸۹۹ء کے الحکم میں اس کا اعلان ہوا.یہ کتاب ابتداًء ایک مختصر سار سالہ تھا.جو لاہوری ملہم کے ایک خط کی بناء پر جو اوائل جولائی ۱۸۹۹ء میں آیا لکھا گیا تھا.ابتداًوہ صرف ۲۳ صفحہ پر یکم اگست کو ختم ہو چکی تھی.مگر پھر حضرت اقدسؑ کو خیال آیا کہ اس میں لیکھرام کے نشان کو شامل کردیا جارے.چنانچہ بطور ضمیمہ اس کو لگایا گیا.اور خیال تھا کہ اگست ۱۸۹۹ء تک کے نشانات جو بڑے بڑے ہیں بطور ضمیمہ نمبر۲ لگاے جاویں.حضرت اقدسؑ کا معمول درباره تصنیف کتب یہ تھا کہ ایک کتاب شروع ہو کر بیچ رہ جاتی.اور اور شائع ہوتی جاتی تھیں.اس خصوص سے تریاق القلوب بھی باہر نہ تھی.چنانچہ ۹/ تمبر ۱۸۹۹ء کے الحکم میں اس کے متعلق اطلاع شائع کر دی گئی کہ اشاعت پر اطلاع دی جائے گی.کتاب مذکور 1898ء میں ختم ہوگئی تھی.یعنی جس قدر مسودہ حضرت نے دیا تھا قتادہ لکھا جا کر طبع ہو گیا.مگر پھر اور کتابوں کے سلسلہ نے اس سلسلہ کو معرض التواء میں ڈال دیا.یہاں تک کہ ۱۹۰۱ء میں مطبع کا انتظام بوجوہات حکيم فضل الدین مرحوم کو دیا گیا.جس کا باضابطہ اعلان الحکم میں بھی ہوا.چونکہ بہت سی نا تمام کتابیں پڑی ہوئی تھیں.حکیم صاحب نے اقتصادی اور مالی حالات مطبع کے لحاظ سے حضرت اقدس ؑکو توجہ دلائی کہ ان کتب کو شائع کر دیا جاوے.اس لئے حضرت صاحب نے تریاق القلوب کا ایک مصفحہ اور لگا کر اور ٹائٹل چھپوا کر شائع کر دیا.یہ ۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے.اکتوبر ۱۹۰۲ء کو
۳۷۳ شائع ہوئی.اور الحکم میں اس کا اعلان ہو گیا.اس درمیانی عرصہ میں صرف ۱۸۹۹ء پر ریویو کرتے ہوئے جنوری ۱۹۰۰ء میں تریاق القلوب کی تالیف و طبع کا میں نے ذکر کیا.اور پھر جیسا کہ ستمبر۱۸۹۹ء میں وعدہ کیاگیا تھا اس کے شائع ہونے پر اکتوبر۱۹۰۲ء میں اعلان کیا.یہ واقعات صحیح ہیں اور تاریخی ثبوت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور میں علم و یقین میں ان کوصحیح سمجھتا ہوں کہ ۱۸۹۹ء کے بعد از آخری ورق تریاق القلوب کے اور ٹائٹل کے حضرت اقدس نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا.الراتم خاکسار یعقوب علی.ا یڈیٹر الحکم- قادیان اوپر کے زبردست ولائل سے اور پھران شہادتوں سے یقینی طور پر ثابت ہے کہ تریاق القلوب۱۹۰۰ء کے ابتداء کی لکھی ہوئی کتاب ہے.اور ۱۹۰۲ء میں صرف شائع ہوئی.اور اشتہار غلطی کا ازالہ اور ریویو اور کشتی نوح کے مضامین باوجود پہلی تاریخوں کی اشاعت کے در حقیقت تریاق القلوب سے بعد کے ہیں اور اس کے ناسخ ہیں.اور اگر کوئی شخص باوجود ان ظا ہر ثبوتوں کے اپنی ضد کو ترک نہ کرے.تو اس کا معاملہ خدا سے ہے ایسا شخص غالباًکہہ دے گا کہ نزول المسیح اور براہین حصہ پنجم حضرت کی سب سے آخری کتابیں ہیں کیونکہ یہ ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی ہیں.حالانکہ ایک تو ۱۹۰۲ء سے لکھی جانی شروع ہوئی.اور پھر۱۹۰۳ء میں بند ہو گئی.اور بغیر کسی حرف کی زیادتی کے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں شائع کی گئی.اور دوسری کتاب ۱۹۰۵ء میں شروع ہوئی.اور اسی سن میں بند ہو کر پڑی رہی.اور آپ کی وفات کے بعد شائع ہوئی.پس ان دلائل اور ان نظائر کے موجود ہوتے ہوئے جو شخص اپنی ضد پر قائم رہے.اور باوجود مسیح موعودؑکی حقیقۃ الوحی والی اپنی تحریر کے پر بھی تریا ق القلوب کو بعد کی تصنیف قرار دے تو اس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے.اس کے سمجھانے کی طاقت کسی انسان میں نہیں.آخر میں ہم ایک اور دلیل بھی اس جگہ دیتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تریاق القلوب دافع البلاء سے پہلے کی ہے.و ھو ھذا.حضرت اقدس حقيقۃ الوحی میں فرماتے ہیں’’ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے....جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا.میں وہی کہتارہاجو اوائل میں میں نے کیا.اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں.بات یہی ہے جو شخص اسے قبول کرے یا نہ کرے“.(روحانی خزائن جلد۲۲ صفر ۵۳-۱۵۴)
۳۴ اس عبارت میں حضرت اقدس نے مسئلہ فضیلت کے متعلق اپنے عقیدہ کے زمانہ کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے.جن میں سے پہلے زمانہ کی آخری حد کو لفظ \"جب تک ظاہر کرتا ہے.اور دوسرے زمانہ کی ابتدائی حد کو لفظ ”جب“.ان دونوں زبانوں کے درمیان کوئی تیسرا زمانہ نہیں ہے.پہلے زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں بھی اپنے آپ کو سب سے افضل یا اس کےبرابر شان کا ظاہر نہیں کیا.اور اس تمام زمانہ میں ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ یہ مجھ سے افضل ہے.اور دوسرے زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں کبھی مسیح کو اپنے سے افضل یا برابر نہیں کہابلکہ اس زمانہ میں ہمیشہ اپنے آپ کو افضل بتایا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰحگايه عن عيسی فرماتا ہے.و کنت عليهم شهيدا مادمت فیهم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم الي عليهم (المائده :۱۸۸) اس آیت میں مسیح کا یہ بیان مذ کور ہے کہ مجھ پر دو زمانے آئے جن میں سے پہلے زمانہ کی آخری حد اور دوسرے زمانہ کی ابتدائی حد میری وفات ہے اور ان دو زمانوں میں سے پہلے زمانہ میں کبھی میں لوگوں سے الگ نہیں ہوا.ہمیشہ لوگوں کے درمیان موجود رہا اور دوسرے زمانہ میں یعنی توفّی کے بعد میں کبھی لوگوں میں نہیں آیا اور ہمیشہ ان سے الگ رہا.اور اس عرصہ میں میں ان میں کبھی نہیں رہا.غرض مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں بھی حضرت اقدس نے مسیح کو اپنے آپ سے افضل فرمایا ہے اس سے پہلے کبھی اپنے آپ کو اس سے افضل نہیں بتایا.اور جہاں کہیں بھی حضرت اقدس نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل بتایا ہے اس کے بعد کبھی بھی مسیح کو اپنے آپ سے افضل نہیں بتایا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ تریاق القلوب میں حضرت اقدسؑ نے صاف لفظوں میں مسیح کو اپنے آپ سے افضل قرار دیا ہے.پس ثابت ہوا کہ حضرت اقدس کی تریاق القلوب سے پہلے کی کوئی ایسی تقریر یا تحریر نہیں ہو سکتی جس میں حضور نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دیا ہو.پس دافع البلاء اور کشتی نوح اس سے بعد کی ہیں.اسی طرح دافع البلاء اور کشتی نوح میں فرمایا ہے کہ میں مسیح سے افضل ہوں پس ان سے بعد کی کوئی تحریر یا تقریر حضرت اقدس کی ایسی نہیں ہو سکتی.جس میں حضور نے مسیح کو اپنے آپ سے افضل بتایا ہو.پس ثابت ہوا کہ تریاق القلوب ان دونوں سے پہلے کی ہے نہ کہ بعد کی’’ بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے‘‘
۳۷۵ اس جگہ میں ایک اورشبہ کا بھی ازالہ کردینا ضروری خیال کرتا ہوں جو بعض شخصوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعو دؑنے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں ریویو اور تریاق القلوب میں تناقض کے پائے جانے کا اعتراض کرنے والے کو جو جواب دیا ہے.اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ میں خداتعالی ٰکی تیئس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کر سکتا ہوں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نے جس اختلاف کو تسلیم کیا ہے وہ تریاق القلوب کا نہیں کیونکہ تریاق القلوب کو شائع ہوئے تو ابھی چار سال ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میں تیئس سال کی متواتر وحی کو کیونکر رد کر سکتا ہوں.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ جس عقیدہ کو حضرت رد فرماتے ہیں وہ تیئس سال پہلے کا ہے نہ کہ تریاق القلوب کا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم روز روشن کی طرح ثابت کر چکے ہیں کہ تریاق القلوب میں وہ عقیده درج ہے جس کار د حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا ہے.تریاق القلوب اب تک موجود ہے اسے کھول کر دیکھ لو کیا اس میں مسیح کی فضیلت کو تسلیم کیاہے یا نہیں.اگر اس کتاب میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو حضرت مسیح ناصریؑ سے کلی طورپر افضل قرار دیا ہے تو پھر بیشک ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت صاحب نے جس خیال کو رد فرمایا ہے وہ تئیس سال پہلے کا ہے.لیکن جبکہ صریح الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تریاق القلوب میں مسیح کی فضیلت کا اقرار کرتے ہیں تو پھر تریاق القلوب کے حوالہ کے منسوخ ہونے میں اور اس کے بعد نیا خیال بدلنے میں کیا شک ہو سکتا ہے.ضرور ہے کہ تریاق القلوب کےبعد حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا عقیدہ بدلا ہو.یس تیئس سال والے فقرہ کے کوئی ایسے معنی کرنےچاہئیں.جن سے حضرت مسیح موعودؑ پر کوئی اعتراض نہ آتا ہو کیونکہ اگر اوپر والے معنی کئے جائیں تو حضرت مسیح موعودؑ پر دو اعتراض پڑتے ہیں.ایک تو یہ کہ آپ سے سوال تو تریاق القلوب والے زمانے کا کیا جا تا ہے.اور آپ جواب براہین کے زمانہ کے متعلق دیتے ہیں.اور دوسرا یہ کہ آپ نے نعوذ باللہ من ذالک خلاف بیانی کی کہ میں تیئس سال ہوئے اپنے آپ سے مسیح کو افضل خیال کرتا تھا.لیکن در حقیقت آپ تریاق القلوب میں بھی وہی خیال ظاہر فرما چکے تھے.سوم یہ کہ گویا آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ور زی کی کہ اللہ تعالی نے تو تیئس سال پہلے آپ کو حکم دیا تھاکہ تم اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دو.آپ نے منشائے الہٰی کو سمجھ بھی لیا.لیکن باوجود اس کےآپ نے تریاق القلوب میں علم الہٰی کے خلاف عقیدہ ظاہر فرمایا.اے دوستو! ان بحثوں میں اپنےمنشاء اور مدعا کو پورا کرنے کے لئے ایسے حد سے نہ نکل جاؤ کہ خود حضرت مسیح موعو دکو نشانہ
۳۷۹ اعتراض بنالو.آخر وہ شخص جس طرح ہمارا سردار ہے تمہارا بھی سردار ہے.اس کے کلام کی وہ تفسیر کیوں کرتے ہو؟ جس سے اس پر اعتراضوں کی بوچھاڑ شروع ہو جائے.اور اس کے دعویٰ اور اس کے تقوی ٰمیں شبہات پیدا ہو جائیں.تم اپنے بچاؤ کے لئے مسیح موعود کی تحریروں کو بدلتے ہو.اور اسے دنیا کی نظرمیں ادنیٰ ثابت کرتے ہو.خوب یاد رکھو کہ عزت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے نہ وہ کہ لوگ دیں.دنیاکیا دے سکتی ہے کچھ بھی نہیں.جو کچھ خدادے سکتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا.دلوں پر الله تعالی کی ہی حکومت ہے.اور جو شخص اللہ تعالی سے تعلق پیداکرے.اللہ تعالی اس کی حکومت دلوں پر قائم کرتا ہے.اور خود سعیدوں کے دل میں اس کی محبت پیداکردیتا ہے.پس اس محبت کی قدر کرو جو سعید روحوں سے حاصل کر سکتے ہو.خواہ پھٹے ہوئے کپڑوں اور میلے چیتھڑوں کے اندرہی وہ ارواح کیوں مخفی نہ ہوں.ایک صادق دوست ہزارہا منافق واہ واہ کرنے والوں سے بہتر ہو تاہے کیونکہ یہ خوشی اور راحت میں تعریف کرتے ہیں اور وہ رنج و غم میں جان دینے سے دریغ نہیں کر تا پس مسیح موعود کے کلام کے وہ معنی نہ کرو.جن پر دشمن کوہنسی کا موقع ملے.اور توبہ کرو کہ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے.سنو حضرت مسیح موعود ؑکا یہ کلام صاف ہے آپ کو براہین کے زمانہ سے جو وحی ہو رہی تھی اس میں آپ کو ایک دفعہ بھی مسیح سے کم نہیں کہا گیا بلکہ افضل بتایا گیا تھا لیکن آپ چونکہ اپنے آپ کو غیرنبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے.حتیّٰ کہ تریاق القلوب کے وقت بھی آپ کے یہی خیالات تھے.لیکن جب بعد کی و حیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان و حیوں کا یہی مطلب تھا کہ آپ مسیحؑ سے افضل اور نبی ہیں تو آپ نے تیئس سال کی وحی کو قبول کیا.پس یہ دونوں بات درست ہیں.یہ بھی کہ آپ کی تیئس سال کی وحی میں مسیح پر افضیت کا اظہار تھا.اور یہ بھی کہ آپ تریاق القلوب کے وقت تک حضرت مسیح کو افضل قرار دیتے تھے.اور بعد میں اس عقیدہ میں تبدیلی کی پہلی بات اس لئے درست ہے کہ واقعہ میں ہمیشہ سے وحی الہیٰ میں آپ کو صاف نبی کا خطاب دیا گیا تھا.اور دوسری اس لئے کہ آپ تریاق القلوب کے وقت تک اس وحی کی تاویل کرتے رہے.جناب مولوی محمد علی صاحب کے بعض اعتراضوں کا جواب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں اس خیال کے خلاف کم تریاق القلوب کے کسی
۳۷.عقیدہ کو حضرت مسیح موعو دؑنے بدل دیا.چند اعتراض بھی کئے ہیں.جن کو میں ذیل میں درج کر کے ان کے جواب بھی لکھ دیتا ہوں: ا- صفحہ ۶،۷ پر میری ایک عبارت نقل کر کے جی میں میں نے لکھا ہے \" حضرت مسیح موعودؑنے فیصلہ کردیا ہے کہ تریاق القلوب میں آپ نے اپنا عقیدہ نبوت کے متعلق لکھا ہے.بعد کی وحی نے اس سے آپ کو بدلادیا‘‘ آپ تین نتیجےنکالتے ہیں.(1) میاں صاحب کے اعتقاد میں حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ تک ناقص اور جزوی نبوت تھی.(۲) میاں صاحب کو علم ہے کہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کے بعد کوئی وحی حضرت مسیح موعودؑ پر نازل ہوئی.جس میں آپ کو یہ بتایا گیا کہ آپ اپ جزوی نبی نہیں رہے.(۳) ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء تک اور اس سے پہلے کی کسی کتاب کی کوئی عبارت مسئلہ نبوت کے متعلق حجت نہیں پکڑی جاسکتی.بلکہ اس مسئلہ میں صرف ۲۵ راکتوبر ۱۹۰۲ء کے بعد کی تحریر یں قابل سند ہیں.نتیجہ نمبر ۱ جواب تو یہ ہے کہ یہ نتیجہ آپ نے اپنے پاس سے ہی نکال لیا ہے.میرے الفاظ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا.میں تو لکھتا ہوں کہ بعد کی وحی نے آپ کو اس سے بدلا دیا.اور آپ میری طرف یہ قول کہ پہلے اور قسم کی نبوت تھی.اور بعد میں اور قسم کی نبوت ہوئی.منسوب کرتے ہیں.حالانکہ دونوں قولوں میں زمین و آسمان کافرق ہے.میں نے تو یہ لکھا ہے کہ پہلے حضرت صاحب اپنی نسبت اور خیال رکھتے تھے.بعد میں آپ کو یہ عقیدہ بدلنا پڑا کیونکہ اللہ تعالی کی متواتر وحی نے اس کے خلاف ظاہر کیا.پس آپ جیسے نبی پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے.نبوت میں کوئی تغیر نہیں آیا.ہاں آپ کے اپنے خیال میں تبدیلی پیدا ہوئی.اللہ تعالی ٰنے جن الفاظ سے آپ کو پہلے یاد فرمایا تھا.انہی الفاظ میں بعد میں یاد فرمایا.پہلے تو آپ عام عقیدہ کے مطابق اس کی اور تاویل کرتے رہے.لیکن بعد میں اس تاویل میں تبدیلی کرنی پڑی.کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے اپنے رسالہ میں حقیۃ الوحی کا ایک لمباحوالہ نقل کر دیا تھا.اور اس سے صاف الفاظ میں نتیجہ نکالا تھا.پھر بھی آپ اس غلط فہمی کا شکار رہے.مکرم مولوی صاحب !حضرت مسیح موعودنے تو معترض کے جواب میں صاف فرمایا ہے کہ یہ اختلاف و یساہی ہے جیسا کہ میں نے براہین احمدیہ میں لکھاتھا کہ مسیح زندہ ہے.حالانکہ مجھے
انوار العلوم جلد ۳۷۸ اس وقت الہام ہو چکا تھا کہ تو عیسیٰ ہے.سو میں پہلے ان الہاموں کی اور تاویل کرتا رہا.لیکن بعد میں اس تاویل کی غلطی معلوم ہو گی.اور اس تاویل کو ترک کر کے صاف اقرار کرنا پڑا کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.اب آپ فرمائیں کہ کیا آپ کے خیال میں اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم براہین احمدیہ کے زمانہ تک تو زندہ تھے.لیکن بعد میں فتح اسلام کے وقت فوت ہو گئے ہیں آپ ایسا نہیں کہہ سکتے.حضرت مسیح موعودؑ کی عبارت کا مطلب صاف ہے کہ گوایسےالہامات تو پہلے بھی موجود تھے لیکن باوجودان الہامات کے پھر بھی میں عام عقیدہ کے مطابق لکھتارہا.نہ یہ کہ پہلے واقعہ اور تھا اور بعد میں اور بدل گیا.حضرت مسیح تو براہین کے وقت بھی اسی طرح فوت شدہ تھے.جیسے کہ فتح اسلام یا ازالہ اوہام کے وقت.لیکن حضرت صاحب پہلے عام عقیدہ کی پیروی کرکے اپنے الہامات کی اور تاویل کرتے رہے لیکن بعد میں اللہ تعالی کی بار بار کی وحی نے آپ پر ثابت کیا کہ در حقیقت عام عقید ہ غلط تھا.اور یہ کہ در حقیقت آپ ہی مسیح موعود تھے.اسی طرح براہین احمدیہ کے زمانہ سے آپ کو نبی کے لفظ سے پکارا جاتا تھا.لیکن چونکہ عام عقیدہ اس کے خلاف تھا.آپ اس کے خلاف عقیدہ رکھتے رہے اور اگر کوئی لفظ آپ کی فضیلت کا آتا تو آپ اسے جز ئی فضیلت قرار دیتے کیو نکہ غیرنبی کو نبی پر تمام شان میں فضیلت نہیں ہو سکتی اور تریاق القلوب میں بھی آپ نے یہی عقیدہ بیان فرمایا.لیکن ۱۹۰۰ء کے بعد آپ کو یہ خیال بدلنا پڑا.کیونکہ جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے.بار بار کے الہام سے آپ نے سمجھا کہ خدا تعالی نے میرا نام نبی رکھا ہے.تعجب ہے ایسی صاف عبارت اور صاف حوالہ کے ہوتے ہوئے آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ میرے خیال میں پہلے مسیح موعود جزوی نبی تھے بعد میں نبی ہوئے.میں نے تو یہ لکھا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے براہین میں حیات مسیح کے عقیدہ کی مثال دے کر خوب واضح کردیا ہے کہ آپ کا درجہ نہیں بدلا.اور واقعات میں کچھ تغیر نہیں آیا.بلکہ آپ کی رائے میں تغیر ہوا.اور بعد میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اور علم دیا گیا.اب اگر ایسی صاف باتوں کے بھی ایسے الٹے معنی ہوئے شروع ہو گئے تو مجھے خوف ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ لکھ دے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا عقیدہ تھا کہ براہین کے وقت تو مسیح زندہ تھے.بعد میں فوت ہوئے.ایسی باتوں کا جواب میرے پاس تو کوئی نہیں.اور جب ایسے اہم مسائل میں بغیر کافی غور کے جواب دینے کی کوشش کی جائے.اور یہ بھی نہ غور کیا جائے کہ کہنے والا کہتا کیا ہے تو فیصلہ کی صورت کیا ہو سکتی ہے.جو لوگ اپنے آپ کو ذمہ دار او راہل الرائے خیال کرتے ہیں.ان لوگوں کو تو ضرور بات کو سمجھ کر اور پھر اس پر غور کر کے اگر غلط ہو تو اس کا
۳۷۹ جواب دینا چاہئے.معلوم ہوتا ہے کہ میرے رسالہ \" القول الفصل ‘‘کو اس نیت سے نہیں پڑھا گیا کہ اس میں اگر کوئی صداقت ہے تو اسے قبول کیا جائے بلکہ صرف اس نیت سے دیکھا گیا ہے کہ اس کا جواب لکھا جائے.اور جب انسان ایک چیز کو پہلے ہی غلط سمجھ لیتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے اس کا پور افہم حاصل نہیں ہوتا.اور ٹھوکر کھاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو بھی ایسی غلطی گئی.آپ نے پہلے ہی ’’القول الفصل‘‘ کی سب باتیں غلط تصور کر لیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو اس پر پورے غور کا موقع نہ ملا.مگر افسوس کہ آپ نے اس رسالہ کے بہت سے مطالب کو غلط سمجھا.اور بہت جلد ان نتائج پر پہنچ گئے.جن پر پہنچنا درست نہ تھا.میں آپ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں کہ نہ ہی میرا عقیدہ ہے.اور نہ حضرت مسیح موعود نے ایسا لکھا ہے کہ آپ کو پہلے اللہ تعالی نے جزوی نبی قرار دیا.بعد میں نبی بلکہ حضرت صاحب تو اسی جگہ لکھتے ہیں کہ میں تیئس بر س کی وحی کا کیو نکرانکار کر سکتا ہوں جس سے ثابت ہے کہ وحی الہٰی ہمیشہ آپ کو ظاہر کرتی رہی ہے.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود نے اس اختلاف کو حضرت مسیح کی حیات و وفات کے اختلاف سے تشبیہ دی ہے.اور براہین میں جب آپ نے حیات مسیح کا اعلان کیا تھا تو اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ اس وقت تک مسیح زندہ تھا بلکہ یہ وجہ تھی کہ گو ایسے الہام ہو چکے تھے جن سے اس کی وفات ثابت ہوتی تھی.لیکن آپ نے عام عقیدہ کو ترک کرنا پسند نہ کیا جب تک بار بار کے الہامات سے آپ کو اس طرف متوجہ نہ کیا گیا.اسی طرح اور بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کو جن الہامات میں نبی کہا جاتا تھا.آپ ان کو محد ثیت اور مجددیت کی طرف منتقل کر دیتے تھے.اور انبیاء کی احتیاط سے کام لے کر آپ نے اس وقت تک اپنے آپ کو کسی نبی سے افضل نہیں کیا.جب تک بار بار کی وحی نے آپ کو عام عقید سے ہٹانہ دیا.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں.’’اسی طرح اوائل میں میرایہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے.اور خدا کے بزرگ مقرّبین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اسکو جز کی فضیلت قرار دیا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلوسے نبی اور ایک پہلوسے امتی“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲،۱۵۳) پس خداتعالی نے کیا پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے.بلکہ بار بار کی وحی میں چونکہ آپ کوئی کہہ کر پکار آگیا اس لئے آپ کو علم ہو گیا کہ میں ہی ہوں (گو
امتی بھی) اور پھر اس لئے وہ الہامات جو مسیح پر میری فضیلت کا اظہار کرتے تھے.ان میں جزئی فضیلت مرادنہ تھی بلکہ اس کی تمام شان سے مجھے افضل قرار دیا گیا تھا.پس تریاق القلوب کی تحریر کے بعد آپ کے اجتہاد اور عقیدہ کو بدلا گیا نہ کہ امر واقعہ اور آپ کے درجہ کو.اور جس دن سے آپ مسیح موعود ہوئے.اسی دن سے آپ نبی تھے اور خدا تعالی ٰنے آپ کو نبی قرار دیا تھا لیکن جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں حیات مسیح کے مسئلہ کی طرح اس لفظ کی تاویل کرتے رہے حتیّٰ کہ متواتر وحی سے آپ کو پہلا عقید و بدلنا پڑا.نتیجہ دوم کی تردید بھی نتیجہ اول کی تردید سے خود بخود ہو جاتی ہے.کیونکہ اس میں آپ فرماتے ہیں کہ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ میاں صاحب کو کوئی ایسی وحی معلوم ہے کہ اب آپ جزوی نبی نہیں رہے.اور میں یہ بتا آیا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو منسوخ نہیں کیا.بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کا درجہ نبوت شروع سے ایک ہی تھا.پس ایسی وحی کی کوئی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ نےکب کسی الہام میں حضرت صاحب سے فرمایا ہے کہ آپ جزوی نبی ہیں.اگر میرا فرض ہے کہ میں یہ دکھاؤں کہ حضرت مسیح موعود جزوی نبی سے نبی کب بنائے گئے.اور یہ بھی خود حضرت مسیح موعودؑ کی اس تحریر کے موجود ہوتے ہوئے کہ بعد میں اللہ تعالی کی متواتر وحی نے آپ کو اس عقیده سے جو پہلے تھے ہٹادیا تو میں سوال کرتاہوں اور میراحق ہے کہ میں آپ سے سوال کروں کہ آپ وہ وحی شائع کریں جس میں حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے بتایا ہو کہ آپ جزوی نبی ہیں.اگر آپ اس کے لئے مختلف تاویلات کی طرف جھک جائیں تو سنیں کہ مومن کی شان سے بعید ہے کہ وہ دوسروں سے ایسا مطالبہ کرے جسے وہ خود پورا نہیں کر سکتا.پہلے آپ حضرت مسیح موعودؑ کاوہ الہام پیش کریں جس میں آپ کو مثلا ًیوں کہا گیا ہو کہ دنیا میں ایک جزوی نبی آیا.پرونیا نے اسے قبول نہ کیا الخ.پہلے آپ ایسی وحی پیش کریں پھر ہمارا فرض ہو گاکہ اس کی منسوخ کرنے والی وحی آپ کے سامنے پیش کریں.جبکہ آپ اپنے دعوے کو اس معیارپر ثابت نہیں کر سکتے ہے آپ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہم سے یہ مطالبہ کیوں کرتے ہیں اورہم سے وہ وحی کیوں پوچھتے ہیں جس میں جزوی نبوت کو منسوخ کیا گیا.جزوی نبوت کے دینے والاالہام ہی جب کوئی نہیں تو اس کے منسوخ کرنے کا الہام کیوں ہو تا.اللہ تعالیٰ نے تو ابتداء سے آپ کو نبی اور رسول کا خطاب دیانہ کہ جزوی نبی اور جزوی رسول کا.جب خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ایسا لفظ ہی کوئی استعمال نہیں فرمایا.تو پھر اس بات کو منسوخ کرنے کے کیا معنی ہوئے جو پہلے کہی ہی نہ
۳۸۶ تھی.اس جگہ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ اللہ تعالی ٰنے اگر حضرت مسیح موعودؑ کو جزوی نبی اور جزوی رسول کہہ کر نہیں پکارا.بلکہ رسول اور نبی کہا ہے تو یہ بات کہاں سے نکل آئی کہ آپ حقیقی نبی یعنی شریعت لانے والے نبی نہیں اور یہی بات کہاں سے نکلی کہ آپ مستقل نبی یعنی بلاواسطہ نبوت پانے والے نہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ نبوت کے لئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ اس میں شریعت ساتھ ہو یا ہے کہ بلا واسطہ حاصل ہو اس لئے اللہ تعالی ٰکے کلام میں نبی کے ساتھ حقیقی اور مستقل کالفظ نہیں ہو تا.اور تم یہ لفظ نہ قرآن کریم میں کسی نبی کی نبوت کے ساتھ دیکھو گے اور نہ دوسرے انبیاء کی و حیوں میں اور نہ احادیث میں.کیونکہ یہ ایسی خصوصیات ہیں جن کا علم واقعات سے ہوتا ہے اگر ایک شخص کو خداتعالی نبی کہہ کر پکارتا ہے.رسول کہہ کر پکارتا ہے پھر اسے مامور فرماتا ہے.اصلاح مفاسد کا کام اس سے لیتا ہے تو وہ نبی ہو جاتا ہے.اب اگر اس پر ایسی وحی نازل ہو جائے جس میں احکام شریعت ہوں تو خود پتہ لگ جائے گا کہ یہ صاحب شریعت نبی ہے اور ایسے نبی کا نام حضرت مسیح موعود ؑنے حقیقی نبی رکھا ہے.اسی طرح اگر اس نبی کو بلا واسطہ نبوت ملی ہے اور کسی کی اتباع سے نہیں ملی تو صاف پتہ لگ جائے گا کہ یہ بھی مستقل ہے.اور اگر نہ شریعت ملے اور نہ بلا اتباع أحد من الأنبياء اسے نبوت ملے تو پنہ لگے گا کہ اس نبی کے لفظ سے نبی امتی مراد ہے چنانچہ حضرت صاحب کے الہامات میں اشار ۃ ًان دونوں باتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے.آپ کے صاحب شریعت نبی نہ ہونے کے متعلق علاوہ اس بین واقعہ کے کہ آپ کوئی شریعت نہیں لائے یہ الہام دلالت کرتا ہے کہ الخير كله فی القراٰن پس جبکہ سب خیر قرآن کریم میں ہے تو ثابت ہوا کہ اس وقت کوئی نئی شریعت نہیں ہوگی بلکہ قرآن کریم ہی پر عمل کرنا ہر ایک کا فرض ہو گا اسی طرح حضرت مسیح موعود کایہ الہام کہ کل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فتبارک من علم و تعلم یعنی سب کی سب برکات آنحضرتﷺا سے ہیں پس بابرکت ہے استاد بھی اور شاگرد بھی.اس الہام میں اپنے اصل مضمون کی طرف اشارہ کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو جو کچھ ملا ہے آنحضرت ﷺ کی شاگردی سے ملا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بلا واسطہ ثبوت پانے والے نہ تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت ﷺ کا شاگرد قرار دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ آپ نے جو کچھ سیکھا.انہیؐ سے سیکھا.ہیں آپ کی نبوت بالواسطہ نبوت تھی جس کے پانے والے کا نام حضرت صاحب نے امتی نبی رکھا
ہے اور جس کے مقابل میں وہ انبیاء ہوتے ہیں جو بلاواسطہ نبوت پاتے ہیں اور ان کا نام مسیح موعودؑ نے مستقل نبی رکھا ہے.اور آپ ان میں سے نہ تھے بلکہ آپ ؑکی نبوت اتباع نبی کریم ﷺسے تھی.نکتہ.میں نے القول الفصل میں لکھا تھا کہ آنحضرت ﷺسے پہلے کوئی امتی نبی نہیں آسکتا تھا اس لئے کہ آپ سے پہلے جس قدر انبیاء گذرے ہیں ان میں وہ قوت قدسیہ نہ تھی جس سےوہ کسی شخص کونبوت کے درجہ تک پہنچا سکتے اور صرف ہمارے آنحضرت اﷺہی ایک ایسےانسان کامل گذرے ہیں جو نہ صرف کامل تھے بلکہ مکمل تھے یعنی دو سروں کو کامل بناسکتے تھے اور چونکہ اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ افاضئہ نبوت براہ راست ہو تا.اس لئے آئندہ کے لئے صرف امتی نبی آسکتا ہے.پس امتی نبی کے یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے سب انبیاء سے گھٹیا ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے بہت سے انبیاء سے یا آنحضرت ﷺ کے سوا باقی سب انبیاء سے افضل ہو کیونکہ آنحضرتﷺ کی تربیت کے ماتحت جو شخص پلے اور آپ ؐکے کمالات کو حاصل کرے وہ جس قدر بلند درجہ بھی حاصل کرے.قابل تعجب نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ اس شان کو پہنچے ہیں کہ آپ ؐکی شان نبیوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہے.اور آپؐ کے درجہ کو سمجھنا ہر ایک انسان کا کام نہیں.پس آپ کی تربیت کے ماتحت روحانیت میں ترقی حاصل کرنے والا جس درجہ کو بھی پالے.قابل تعجب نہیں کیونکہ بڑے استادوں کے شاگرد بڑے ہی ہوا کرتے ہیں اور بڑے بادشاہوں کےوزیر شان بلند ہی رکھتے ہیں جیسا کہ خود حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں \" ہمارانبیؑ اس درجہ کا نبیؑ ہے کہ اس امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے.اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے.حالانکہ وہ امتی ہے‘‘ (براہین حصہ پنجم صفحہ ۱۸۴) اسی طرح فرماتے ہیں کہ \"مثيل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل عیسی عیسیٰ سے بڑھ کر\".ان دونوں حوالوں سے ثابت ہے کہ امت محمدیہ میں سے نبی ہو نا آنحضرت اﷺکی عظمت کو ظاہر کرتا ہے.اور یہ کہ چونکہ آنحضرت ﷺموسیٰ سے بڑے تھے.آپ کا مسیح پہلے مسیح سے اپنی تمام شلت میں بڑا ہونا چاہئے تھا.مذکورہ بالا الہام بھی میرے اس خیال کی تائید کرتا ہے.اور ایک نہایت ہی لطیف پیرایہ میں اس میں یہ سب مضمون بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فتبارک من علم و تعلم پہلے حصہ میں تو آنحضرت ﷺکے کمالات کا بیان فرمایا ہے کہ کوئی ایسی برکت جو دنیا میں پائی جاتی ہو اور انسان کو حاصل ہو سکتی ہوایسی نہیں جو آنحضرت
۳۸۳ ﷺسے نہ مل سکتی ہو- كل بركة کے معنی عربی زبان میں یہی ہیں کہ جس قدر برکات ہیں ان میں سے ہر ایک برکت مل سکتی ہے کیونکہ جب لفظ کل کا مضاف کی نکرہ مفرد کی طرف ہو تو اس سے اس کا ہر فرد مراد ہوتا ہے.پس اس الہام کے یہی معنی ہیں کہ جس جس چیز کو برکت اور فضل کہہ سکتے ہیں وہ آنحضرت اﷺکے فیضان سے مل سکتی ہے خواہ دنیاوی ہو خواہ دینی خواه روحانی ہو خواہ جسمانی.اللہ تعالیٰ نے کی برکت کی قید نہیں لگائی اور کسی برکت کا استثناء نہیں کیا.پس وہ کل برکات جوانسان پا سکتا ہے انسان کو رسول اللہ ﷺ سے مل سکتی ہیں.اور نبوت سے بڑھ کر برکت اور کیا ہوگی پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ نبوت آنحضرتﷺ کی اتباع سے نہ ملے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم ہرایک برکت آپؐ سے ہے اور آپ کے فیضان سے جاری ہے اور آپ کے ذریعہ سے مل سکتی ہے.پس اس الہام میں اشارہ ہے اس طرف کہ آنحضرت ﷺکافیض ایسا وسیع ہے.اور آپؐ کا کمال اس درجہ ترقی کرچکا ہے کہ اب ہر ایک برکت آپ سے مل سکتی ہے.برکات کے حصول کے لئے کسی اور ذریعہ کی ضرورت نہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی فعل لغو نہیں.جبکہ آنحضرت اﷺکی اتباع سے اور آپ کی فرمانبرداری سے اور آپ کی غلامی سے ایک چیز حاصل ہو سکتی ہے تو پھر اس بات کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ براہ راست ملے.غرض چونکہ نبوت کا انعام انسان کو آنحضرتﷺ کےفیض سے حاصل ہو سکتا ہے اور آپ کو وہ قرب الہٰی حاصل ہے جو آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوا.اس لئے براہ راست موہبت کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے جو رتبہ آپؐ کو ملانہ آدمؑ کو نہ نوح ؑ کونہ ابراہیمؑ کو نہ موسیٰؑ کونہ عیسیٰؑ کو (علیهم السلام) کسی کو نہیں ملا.اور حضرت آدم ؑکی اولاد میں سے ایک بھی بیٹا ایسالائق نہیں ہوا جیسے ہمارے آنحضرتﷺ تھے آپ نے اطاعت الہٰی میں وہ حالت پیدا کی جو کوئی نبی نہیں پیدا کر سکا اور دربار شہنشار ارض و سماسے ان انعامات کے مستحق ہوئے جن کا کوئی اور نبی مستحق نہیں ہوا.اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں آپ کی نسبت فرماتا ہے کہ دنا فتدلی ہ فكان قاب قوسین او ادنی.(انجم : ۹-۱۰) اور حضرت مسیح موعوؑد کو فرماتا ہے کہ کل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم ہیں پس اس الہام سے ثابت ہے کہ یہ درجہ صرف آنحضرت ﷺکو ہی حاصل ہے کہ آپ کی اطاعت سے انسان انعام نبوت حاصل کر سکتا ہے اور آپ کی غلامی کا دم بھرتے ہوئے پھر بھی بہت سے نبیوں سے افضل ہو سکتا ہے اور آپ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس کی نسبت کہا جا سکے کہ کل بركة ہر قسم کی برکت
۳۸۴ اس سے ہے اور اس کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتی ہے یہ درجہ صرف اور صرف آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے پس یہ الہام بھی اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتا ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس وقت مستقل نبوت اس لئے بند کر دی گئی ہے کہ اب سب برکتیں انسان آنحضرت ﷺ کی غلامی میں حاصل کر سکتا ہے اور براہ راست موہبت کی کوئی ضرورت نہیں رہی چنانچہ اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی ہے کے ملاکر اس کے معنی اور بھی صاف ہو جاتے ہیں اوروہ معنی خود حضرت مسیح موعودنے کئے ہیں (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ کے صفحہ ۹۹ پر )آپ یہ الہام درج کرتے ہیں.یلقی الروح علی من یشاء من عبادہ کل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فتبارک من علم و تعلم اور خودیوں ترجمہ فرماتے ہیں جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے.اور یہ تو تمام برکت محمد اﷺسے ہے پس بہت برکت والا ہے جس نے اس بندہ (یعنی مسیح موعود ؑجیساکہ انجام آتھم اور اربعین میں فرمایا ہے) کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی \" اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ خود حضرت مسیح موعود ؑنے بھی بَرَ کَۃ کے معنی نبوت کئےہیں اور پہلے الہام کو ملا کر اس کے یہ معنی کئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہےمنصب نبوت بخشتا ہے.لیکن یہ بخشش اس کی اور موہبت اس کی براہ راست نہیں ہوتی.بلکہ آنحضرت ﷺ کے فیضان کے جاری کرنے سے ہوتی ہے اور وہ نبوت کی برکت آنحضرت ﷺ کے طفیل سے ہوتی ہے اور آپ ہی کی طرف سے ہوتی ہے.غرض کہ اس الہام کے پہلے حصہ میں اللہ تعالی ٰنے صاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا رتبہ ایسا بڑا ہے کہ ہر ایک برکت آپ ؐسے حاصل ہو سکتی ہے براہ راست موہبت کی ضرورت نہیں خواہ برکت نبوت ہو خواہ کسی اور قسم کی برکت.جو انسان آپ کی اطاعت کرے وہ دنیا میں کبھی نا مراد اور ناکام نہیں رہ سکتا بلکہ ہمیشہ کامیاب اور بامراد ہو گا اور ایسا درجہ اور کسی پچھلے نبی کو ہرگز نہیں ملا کہ سب برکتیں اسی کے واسطہ سے ملیں بلکہ آپ سے پہلے نبوت موہبت الہٰی سے براہ راست ملتی تھی نہ بتوسط انبیائے سابقین.پھراس الہام کے دوسرے حصے میں فتبارک من علم و تعلم فرما کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہ دعویٰ ہی نہیں کہ آنحضرت ﷺکے طفیل سے پرایک قسم کی برکت مل سکتی ہے بلکہ
۳۸۵ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے چنانچہ اس کی نظیرمیں مسیح موعوؑد کو دیکھ لو کہ اس نے آپؐ کی اطاعت اور غلامی سے ہر ایک قسم کی برکت کو پالیا.پس ثابت ہوا کہ استاد بھی برکتوں والا ہے اور شاگرد بھی.استاد اس لئے کہ اگر اس میں ہر قسم کی برکات کے افاضہ کی طاقت نہ ہوتی اور اس کافیضان ایساو سیع نہ ہو تاتو پھرده ایساشاگر د کیو نکر تیار کر سکتا تھا جو ہر قسم کی برکات سے حصہ پانے والا ہو.اور شاگرد اس لئے بہت برکت والا ہے کہ ایک تو اس نے اس وقت جبکہ دنیا اس فرد کامل سے جو سب دنیا کی نجات دینے کے لئے آیا تھاخواه عرب ہوں خواه عجم خواہ گورے ہوں خواہ کالے خواہ عالم ہوں خواہ جاہل غافل تھی اور اس کی خوبیوں سے بے خبر ہو رہی تھی لوگوں کو اس کی خوبیوں سے آگاہ کیا اور اپنے استاد کا نام پھر دنیا میں روشن کیا اور براہینِ قاطعہ دلائلِ نیرّه ححجج بالغہ اور آیات بینہّ سے اس کی عظمت اور جلال کو دنیا سے منوایا اور دوست و دشمن پر روشن کر دیا کہ محمد ﷺ نجات دہند ہ عالم ہیں اور قرآن کریم علوم و حکم کا ایک لازوال خزانہ ہے اب کوئی ضد و تعصب سے کام لے کر انکار کرے تو اس کا وبال اس کے سر پر ہے پس ایک تو اس لئے شاگرد کو برکت والا قرار دیا.اور دوسرے اس لئے بھی کہ دیکھو یہ شاگرد جس نے ایسے عظیم الشان استاد کے کمالات کو اپنے اند رلیا.اور اپنے آپ کو اسی کے رنگ میں رنگین کر کے ان علوم و فنون کا وارث ہؤ اجن سے دنیا ناواقف تھی اور اس درجہ تک پہنچ گیا جس سے نبوت محمدیہ کی شان نہایت چمک کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہوئی.کیسا با کمال ہے؟.اب میں پھر اصلی مضمون کی طرف آتا ہوں اور جناب مولوی صاحب کے دو نتیجوں کے غلط ثابت کرنے کے بعد ان کے تیسرے نتیجہ کی نسبت کچھ بیان کرتا ہوں.سو یاد رہے کہ جناب مولوی صاحب نے میری ایک عبارت نقل کر کے جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں میرا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ۱۹۰۲ ء سے پہلے کی کوئی عبارت مسلہ نبوت کے متعلق حجت نہیں اور اس پر انہوں نے لکھا ہے کہ ویکھو ریویو جسے ناسخ کیا جا تا ہے پہلے کا ہے اور تریاق القلوب بعد کی کتاب ہے اس لئے یہ بات ہی غلط ہے.اس کا جواب میں مفصل لکھ آیا ہوں اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ میں نے جو اپنے رسالہ میں۱۹۰۲ء تربات القلوب کی تاریخ لکھی ہے وہ اس کی اشاعت کی تاریخ ہے اور چونکہ اس وقت اس بحث کا چھیڑنار سالہ کو لمبا کر دیتا تھا.اس رسالہ میں بہت سے امور کے جواب دینے تھے اس لئے میں نے تاریخ ۱۹۰۲ء کو تسلیم کر لیا تاکہ اس جگہ بحث نہ چھڑے اور یہ بات ویسی ہی ہے جیسے حضرت صاحب پر تریاق القلوب اور ریویو کے مضامین میں اختلاف کے متعلق جب اعتراض کیا گیا تو آپ
۳۸۹ نے اختلاف کو تسلیم کیا پھر اس کی وجہ بتائی اور اپنی افضلیت کے مسئلہ کو اصل اور درست قرار دیا لیکن اس جگہ پہ بحث نہیں چھیڑی کہ میں نے کیوں اس مضمون کو ناسخ قرار دیا ہے جو پہلے کا چھپا ہوا ہے اور چونکہ میں جانتا تھا کہ تریاق القلوب در حقیقت پہلے کی کتاب ہے اسی لئے میں نے اپنے رسالہ میں بارہا ایک غلطی کے ازالہ والے اشارے حوالے پیش کئے ہیں جو ۱۹۰۱ء کا ہے کیونکہ میں جانتا تھا کہ درحقیقت یہ اشتہار تریاق القلوب سے بعد کا ہے جیسا کہ میں اوپر ثابت بھی کر آیا ہو.بناوٹی حوالہ مجھے اس جگہ ایک بات کے بیان کرنے پر بہت افسوس ہے لیکن میں مجبور ہوں کیونکہ میرا مضمون نامکمل رہ جاتا ہے اگر میں اس پر کچھ نہ لکھوں.اور وہ یہ ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اپنے رسالہ میں ایک غلط حوالہ دیا ہے اور ایک خطرناک تحریف کی ہے اگر آپ حضرت صاحب کی عبارت کو اپنے الفاظ میں لکھتے اور پھر کوئی خاص بات ترک کر جاتے ہو و وہ بھی ایک حد تک قابل اعتراض تھی لیکن ایک عبارت کو ایسے طور سے نقل کرنا جس سے معلوم ہو کہ وہ حضرت صاحب کے اصل الفاظ میں ہے اور درحقیقت اس کے الفاظ دہ نہ ہوں جو حضرت مسیح موعودؑ کی عبارت کے ہیں ایک ایسی غلطی ہے جس کا نتیجہ نہایت سخت ہو سکتا ہے آپ لکھتے ہیں ’’دوسری طرف تریاق القلوب کو دیکھتے ہیں تو اس کی وہ تحریر جس میں لکھاہے کہ ’’غیرنبی کونبی پرفضیلت ہو سکتی ہے جس کے تمام اہل علم اور اہل معرفت قائل ہیں‘‘ نشان نمبر ۷۵کے اندر آئی ہے.نشان \" \" ہمیشہ حوالہ کے لئے لکھا جاتا ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ عبارت تریاق القلوب میں نہیں جبکہ تریاق القلوب کی عبارت ہی ہے\" ایک جز ئی فضیلت ہے جو غیرنبی کونبی پر ہو سکتی ہے اور تمام اہل علم اور معرفت اس فضیلت کے قائل ہیں اور جو کچھ جناب مولوی صاحب نے لکھا ہے وہ درست نہیں اور وہ الفاظ نہیں جو حضرت صاحب کے ہیں حالانکہ اس عبارت کو آپ کے رسالہ میں علامت (\" \") کے درمیان لکھا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ اصل عبارت ہے اگر کتاب عربی میں ہوتی اور آپ اس کا ترجمہ فرماتے تب بھی ایک بات تھی کیونکہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ ترجمہ ہے ہماری سمجھ میں اس طرح آیا ہم نے اسی طرح کر دیا لیکن یہ بات بھی نہیں کتاب اردو زبان میں ہے پھر اگر الفاظ بدل جاتے اور مطلب میں فرق نہ آتا تب بھی ایک معقول عذر تھا لیکن مطلب ایسی طرزسے غلط ہو گیا ہے جس کا فائد ہ خود ان کو ہی حاصل ہو سکتا ہے جس سے خواہ مخواہ شک پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسے رنگ میں لفظ بدل دیئے گئے ہیں جن سے
۳۸۷ اپنے مطلب کی بات نکل سکے تو کیا ایسا تو نہیں کہ بجائے بے احتیاطی کے جان بوجھ کرایسا کردیا گیاہے لیکن میں ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرتا میرا خیال ہے کہ ضرور غلطی سے ہی ایسا ہو گیا ہے چونکہ بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ اس تغیرّ عبارت سے کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اس لئے میں یہاں ذرا زیادہ کھول دیتا ہوں باہر ایک شخص سمجھ سکے.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑنے تریاق القلوب میں اپنایہ مذہب بیان فرمایا ہے کہ غیرنبی کونبی پرجز ئی فضیلت ہو سکتی ہے نہ کہ پورے طور پر.چنانچہ آپ اپنی فضیلت کا ذکر فرماکر لکھتے ہیں کہ’’ اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ اس تقریر میں اپنے نفس کوحضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو غیرنبی کونبی پر ہو سکتی ہے اور تمام اہل علم اور معرفت اس فضیلت کے قائل ہیں“- صفحہ ۱۵۷، ۱۵۸پس اپنی فضیلت کے ذکر کے بعد اس بات کا ازالہ کرنا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مسیح پر اپنے آپ کو افضل قرار دیا ہے بلکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے ثابت کرتا ہے کہ آپ کا مذہب یہی تھا کہ ایک غیرنبی کو نبی پر فضیلت نہیں ہو سکتی مگر جز ئی فضیلت ہو سکتی ہے اور عرف عام میں بھی اور قواعد زبان میں بھی ایک شخص دوسرے سے افضل تب قرار پاتا ہے جبکہ و ہ اکثر باتوں میں یا کل باتوں میں افضل ہو اور ایک بات میں افضل ہونا افضل ثابت نہیں کر سکتااس لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ خیال نہ کرنا کہ میں نے اپنے نفس کو مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جز ئی فضیلت ہے حضرت صاحب کے مذکورہ بالا حوالہ سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ: ۱.آپ مسیح سے افضل نہیں.۲- اس بات کا اظہار اس لئے فرمایا کہ کوئی اس بات پر تعجب نہ کرے کہ آپ جو نبی نہیں آپ کو ایک نبی پر فضیلت کیونکر مل گئی.۳- یہ کہ آپ نے جس فضیلت کا اظہار فرمایا ہے اس سے مراد صرف جز ئی فضیلت ہے نہ یہ کہ آپ مسیح سے افضل ہیں.۴- جزئی فضیلت غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.اس کے بعد حقيقۃ الوحی میں فرماتے ہیں کہ میں مسیح سے افضل ہوں.اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے بار بار نبی کا خطاب دیا اس لئے میں پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہا.ان دونوں حوالوں سے یہ معلوم ہوا کہ تریاق القلوب کے وقت آپ اپنے آپ کو مسیحؑ سے اس لئے افضل نہیں جانتے تھے کہ آپ اپنے آپ کو نبی خیال نہیں کرتے تھے اور نبی سے غیرنبی
۳۸۸ افضل نہیں ہو سکتا اس لئے اپنی فضیلت کو جز ئی فضیلت قرار دیتے تھے نہ تمام شان میں.اور حقیقۃالوحی میں اپنے افضل ہونے کی وجہ بتاتے ہیں کہ مجھے بار بار نبی کہا گیا ہے اس لئے میں نے جانا کہ میں افضل ہوں پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ افضلیت کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا عقیدہ بدل گیاتھا تو یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ حضرت صاحب نے اپنے نبی ہونے کے متعلق بھی اعتقاد بدل لیا تھااور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ نہیں حضرت صاحب ہمیشہ اپنے آپ کو مسیحؑ پر ایک ہی قسم کی فضیلت دیتے رہے ہیں تو یہ ایک دلیل ہوگئی اس بات کے ثبوت میں کہ دعوائے نبوت کے متعلق حضرت صاحب کا خیال ایک سا رہا اور یہ مطلب تریاق القلوب کے حوالہ کے بدل دینے سے حاصل ہو گیا کیونکہ لکھ دیا گیا کہ ’’غیرنبی کو نبی پر فضیلت ہو سکتی ہے‘‘ اور اس طرح ایک خاص مطلب حاصل ہو گیا.اور وہ یہ کہ کوئی شخص تریاق القلوب اور حقیقۃالوحی کے حوالوں کو ملا کر کہہ سکتا تھا کہحضرت صاحب نے خود لکھا ہے کہ غیرنبی کو نبی پر فضیلت نہیں ہو سکتی ہاں جزئی فضیلت ہو سکتی ہے اور حقیقۃ الوحی میں اپنے افضل ہونے کا اعلان فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ دعوائے نبوت کرتے ہیں پس اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے اصل حوالہ کے الفاظ کو جو یہ تھے کہ \"یہ ایک جز ئی فضیلت ہے جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے\" بدل گریوں کر دیا کہ \"غیرنبی کو نبی پر فضیلت ہو سکتی ہے.‘‘ حقیقۃالوحی اور کشتی نوح میں یہ مضمون دیکھ کر کہ میں پہلے مسیحؑ سے افضل ہوں کوئی اس طرف ہدایت نہ پا جاۓ کہ آپ نبی تھے اور اس مسخ شدہ اور محرف حوالہ کو یادکرکے خیال کرلےکہ خیر حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو مسیحؑ پر تمام شان میں افضل قرار دے دیا تو کیا ہوا آپ اس سے نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ آپ خود ہی لکھ چکے ہیں کہــ غیرنبی کو نبی پر فضیلت ہو سکتی ہے.‘‘ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے حضرت مسیح موعودؑنے ہرگز ایسا نہیں کیا بلکہ یہ لکھا ہے کہ اس جگہ کوئی شخص یہ دھوکہ نہ کھاۓ کہ میں نے اپنے آپ کو فضیلت دی ہے.کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو نبی سے افضل قرار دیا جائے تو ضرور ہے کہ وہ نبی ہو.پس تریاق القلوب کے حوالہ سے جز ئی کالفظ مٹادینے سے معنی بالکل بدل گئے اور بالکل خلاف نتیجہ پیدا ہوا.پھر اسی پر بس نہیں ذرا آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس کے یہ معنی ہوۓ کہ مئی ۱۹۰۲ءمیں مسیح موعود ؑنے اعلان کیا کہ میرا جزوی نبوت کا دور ختم ہوا.اور آج کامل نبوت کا دور شروع ہوتا ہے، اور ۲۵/اکتوبر ۱۹۰۲ء کو یعنی چھ سات ماہ بعد لکھا کہ میری فضیلت حضرت عیسیٰؑ پرویسی ہی
۳۸۹ ہے جیسے \"غیرنبی کو نبی پر ہوتی ہے اس خلاصہ سے بھی خوب پتہ چل سکتا ہے کہ کس طرز پر میری عبارات کو ڈھالا گیا ہے اس بحث پر میں مفصل بحث پہلے کر چکا ہوں ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ خلاصہ کی دیانت سے کیا گیا ہے.جناب مولوی صاحب ایک اور اعتراض بھی فرماتے ہیں.اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میں تیئس سال کی متواتر وحی کو کیونکر رد کر سکتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب وحی یکساں ہے اس میں نسخ کوئی نہیں ہو اگر میاں صاحب نے اس کے خلاف لکھا ہے لیکن میں پہلے جواب دے آیا ہوں کہ یہ اعتراض جناب مولوی صاحب کے قلت تدبر کا نتیجہ ہے نہ میں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو الله تعالیٰ نے پہلے اور قسم کا نبی بنایا اور بعد میں اور قسم کا.اور نہ حضرت مسیح موعودؑنے.بلکہ آپ نے اس اختلاف کو براہین والا اختلاف قرار دیا ہے.یعنی مسیحؑ کی حیات کے متعلق.اور وہ واقعہ اس طرح نہیں ہوا کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ بار بار الہام کرتا رہا کہ مسیحؑ زندہ ہے اور بعد میں فرمایا کہ نہیں وہ وفات یافتوں میں شامل ہے اسی طرح یہ اختلاف اس طرح نہیں ہوا کہ پہلے تو آپ کو الہام ہو تا رہا کہ آپ جزوی نبی ہیں لیکن بعد میں الہام ہوا کہ آپ نبی ہیں بلکہ ابتدائے ایام سے ایک ہی لفظ نبی اور رسول سے آپ کو پکارا گیا.ہاں پہلے آپ اپنے اجتہادسے اس کو جزوی قرار دیتے رہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنی فضیلت بعض نبیوں پر جزوی سمجھتے تھے اور جب اللہ تعالی نے مزید علم بخشا تو پھر جزوی کی شرط اڑادی جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اپنی فضیلت کو تمام شان میں تسلیم کیا او ر جزئی فضیلت کا عقیدہ ترک کردیا.جناب مولوی صاحب نے اپنے رسالہ کے پندرھویں صفحہ پر پھر کچھ سوالات کئے ہیں جن میں سے بعض چونکہ اس زیر بحث مسئلہ کے متعلق ہیں اس لئے ان کا جواب یہیں دیا جا تا ہے.۱- اول یہ کہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کے بعد آپ صرف ساڑھے پانچ پر زندہ رہے کیا ایک مخالف یہ نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باللہ آپ لوتقول والی آیت کے ماتحت پکڑے گئے کیونکہ آپ خود ہی اس سے پیشتر نبوت تامہ کاملہ کے دعویٰ کو افتراء قرار دے چکے تھے اور ای نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے مسدود ہونے کا اعلان کر چکے تھے.٢- دوسرا سوال یہ کہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء تک آپ کے دعویٰ مسحییت پر تیرہ سال سے زیادہ گذر چکے تھے جب تیرہ سال تک مسیح موعودؑایک مجدداور محدث ہو سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ نبوت تامہ کی ضرورت مسیح موعودؑ ہونے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک جزوی نبی اور ایک مجدد بھی مسیحؑ
۳۹۰ موعود ہو سکتا ہے اور نبوت کا دعویٰ بالکل کوئی علیحدہ چیز ہے جس کا لازمی تعلق مسیح موعودؑ کے دعوی ٰسے کچھ نہیں.٣- کیا آپ کے نزدیک یہ امر قابل اعتراض نہیں کہ ایک شخص موعود ہو کر جو کچھ کہتار ہا اور تیرہ سال تک اس کا سلسلہ جاری رہا اور وہ امر کوئی اجتہاد نہیں بلکہ اپنا دعوی ٰہے وہ سب غلط ثابت ہوا وہ کہتا تھا کہ نبوت تامہ کاملہ کا دروازہ مسدود ہے مگر وہ مسدود نہ تھا وہ کہتا تھا کہ جزوی نبوت کا دروازہ کھلا ہے.مگر وہ کھلا نہ تھا.یہ ایسے تین اعتراضات ہیں جن کا اس پہلی فصل سے تعلق ہے اس لئے میں ان کا جواب یہیں دیتا ہوں.پہلا اعتراض کہ اگر حضرت صاحب کادعویٰ تریاق القلوب کے وقت سے بدلا تو کیا ایک مخالف اعتراض نہیں کر سکتا کہ آپ نعوذ باللہ لو تقول والی آیت کے ماتحت پکڑے گئے کیونکہ اس کے بعد آپ صرف ساڑھے پانچ سال زندہ رہے.اس اعتراض کو مولوی صاحب نے بعض دوسری جگہ بھی بڑے زور سے پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر تم تریاق القلوب کے وقت سے تغیرّمانو تو پھر اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوں گے کہ مسیح موعود کو نعوذ باللہ کاذب قرار دو کیونکہ لوتقول والی آیت سے مفتری کا جلد ہلاک ہونا ثابت ہے پس تم جو عقیدہ رکھتے ہو اس سے نعوذباللہ حضرت مسیح موعود کی تکذیب لازم آتی ہے اس لئے یہ عقیدہ باطل ہے.مجھے اس سوال کو پڑھ کر نہایت تعجب ہو تا ہے اور خصوصاً اس بات پر کہ ایسی معمولی بات پراس قدر زور کیوں دیا جا تا ہے کیونکہ جس طرح میں اس سے پہلے مولوی صاحب کی چند غلطیاں لکھ آیا ہوں اسی طرح کی یہ بھی ایک غلطی ہے جو میرے رسالہ پر بلکہ خود قرآن کریم پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے اور درحقیقت اس کی اصلیت کچھ بھی نہیں چنانچہ ذیل میں میں اس سوال کے چند جوابات دیتا ہوں.۱ - اول یہ کہ جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں خدائے تعالی ٰکے کلام میں شروع سے آخر تک آپ کا ایک ہی نام رکھا گیا ہے لیکن نبی اور رسول.پس دعویٰ میں کوئی فرق نہیں.باقی رہا آپ کا اجتہاد سو جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو بعد میں اصل بات سے متنبہ کردیا تو اس اجتہاد کی وجہ سے اصل الہام میں کوئی شک پیدا نہیں ہو تا.اگر آپ آخر وقت تک اپنے خیال پر قائم رہے تب ہیں ہمارا کوئی حق نہ تھا کہ نئے معنی کرتے.لیکن جبکہ خود آپ نے بعد میں تشریح کردی ہے تو آپ کے اصل
۳۹.دعوی ٰمیں کوئی فرق نہ ثابت ہوا تو وہ الہامات کی بناء پر ہے اور الہامات میں تبدیلی نہیں ہوئی اور جب سے آپ کو الہامات ہونے شروع ہوئے آخر وقت تک ان میں سے کسی پچھلے نام کو منسوخ کر کے نیا نہیں بتایا گیا کہ ہم کہیں کہ تیئس سال کی میعاد پوری نہیں ہوئی.٢- دوسرا جواب اس بات کا یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم پر کافی غور نہ کرنے کی وجہ سے یہ دھوکا کھایا ہے قرآن کریم کے الفاظ ہیں لو تقول علينا بعض الأقاويل (الاقه : ۴۵) اور لو تقول کے معنی کسی لغت میں بھی یہ نہیں کہ لوتذبایعنی اگرنبوت کا دعویٰ کرتا بلکہ الفاظ قرآن کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم پر بعض باتیں جھوٹ بنا کر لوگوں کو سناتا کیونکہ تقول قول سے باب تفعل کاصیغہ ماضی ہے اور قول کے معنی بیان کرنے اور کہنے کے ہیں اور باب تفعل کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ تکلّف اور بناوٹ کے معنی دیتا ہے پس تقول کے معنی اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر کہہ دینے کےہیں اور تقول على أحډ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اپنی طرف سے ایک بات بنا کر کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرکے سنادینی.پس تو لو تقول علينا بعض الأقاويل کے یہ معنی ہوئے کہ اگر یہ شخص بعض باتیں اپنی طرف سے بنا کر ہماری طرف منسوب ہو کر تا.اور لوگوں کو سنا تاکہ خدا تعالیٰ نے اس طرح کا ہے (تو ہم اس کو ہلاک کردیتے) اب آپ غور فرمائیں کہ اس آیت کے کون سے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہلاک ہو تا ہے اگر جھوٹی نبوت کا دعوی ٰکرنے والا مراد ہو نا.تولوتذبا ہو تا.یعنی اگر یہ شخص جھوٹا نبی بن جا تا.مگر قرآن کریم میں لوتقول ہے.پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جھوٹے نبی کے لئے ہی یہ سزا مقرر نہیں فرمائی کہ وہ ہلاک کیا جا تا ہے بلکہ خواہ کوئی شخص صرف الہام کا دعوی ٰکرتا ہو اور مدّعی مأموریت ہو تب بھی وہ ہلاک کیا جاتاہے جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی تو آپ کا اعتراض دور ہو گیا.کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے الہام کادعویٰ ۱۸۸۰ء میں شائع کیا ہے.اور اس کے بعد آپ اٹھائیس سال تک زندہ رہے بلکہ زبانی طور پر تو اس سے بھی پہلے اپنے الہام شائع کر رہے تھے.اور تقریباًٍ چالیس سال متواتر اپنے الہامات کی اشاعت کرتے رہے اور اللہ تعالی نے آپ کو کامیاب و با مراد کیا.پس آپ پر لوتقول والی آیت کیونکر حجت ہو سکتی ہے یہ تو حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میں دلیل ہے.ہاں اگر قرآن کریم میں لوتذبا ہوتا یعنی اگر کوئی جھوٹا دعوی ٰنبوت کا کرے تو اس کو ہلاک کر دیا جاتا ہے تب اس بناء پر بیشک حضرت صاحب پر اعتراض ہو سکتا تھا کہ ابتدائے زمانہ میں تو آپ نے دعوی ٰنبوت نہ کیا تھا.اس لئے آپ کی زندگی کا
۳۳۹۲ وہ زمانہ سچائی کی دلیل نہیں ہو سکتا.بلکہ صرف اس زمانہ کو ہم دیکھ سکتے ہیں.جس میں آپ نےدعویٰ نبوت کیا.اور اسے تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ فرض کر کے آپ پر الزام لگا دیا جاتا.لیکن جبکہ یہ بات نہیں.اور آپ کے اعلان شائع کرنے پر اللہ تعالی نے آپ کو تیئس سال سے زیادہ عمر دی.تو آپ کی صداقت ثابت ہے.اور اگر فی الواقعہ ایسا ہی ہو کہ آپ نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۲ء میں میں کیا ہو تب بھی آپ پر کوئی الزام نہیں کیونکہ آپ کانداکی طرف سے ہوناتوپہلے ثابت ہو چکا تھا.پر آپ کسی وقت بھی کوئی نیا دعویٰ کرتے اور جلد فوت ہو جاتے تو آپ پر کوئی اعتراض نہ تھا.اگر کہو کہ نہیں ہم یہ نہیں مانتے.بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تیئس سال کی عمر سے تو صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ خدا تعالی ٰکی طرف سے تھے اور ملہم تھے.نبوت تبھی ثابت ہو سکتی ہے کہ نبوت کے دعوے پر پھر تیئس سال گزر جارویں تو میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی باطل ہے اس لئے کہ یہ شرط تو تم نے اپنے پاس سے لگائی ہے جبکہ خدا تعالی ٰصرف تقول کی شرط لگاتا ہے اور اس آیت کے ماتحت حضرت صاحب کی صداقت ثابت ہو چکی ہے تو اب یہ خیال کیا مجنونانہ ہو گا.کہ بیشک آپ مامور تو ثابت ہو جاتے ہیں لیکن آپ دعوی ٰنبوت میں جھوٹے تھے.کیا مامور اور خدا تعالیٰ کاملہم بھی جھوٹا ہو سکتا ہے پس جب اسی آیت سے آپ کا مامور اور ملہم اور خدا کی طرف سے ہو نا ثابت ہوگیا تو اب کسی وقت آپ کوئی نیا دعوی ٰکریں.یہ ضروری نہیں کہ اس کے بعد بھی ضرور تئیس سال زندہ رہیں کیونکہ یہ آیت تو صداقت ثابت کرنے کی ایک علامت تھی.جب ایک دعوے کی صداقت اسی آیت کے ماتحت ثابت ہوگئی تو کچھ ضرورت نہیں کہ ہر دورے پر اسی قدر عرصہ گزرے.جب ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہو گیا تو اس کا ہر دعوی سچاہے.خواہ کسی وقت کرے.کرشن ہونے کا دعویٰ بھی حضرت صاحب نے ۱۹۰۰ء کے بعد پیش کیا ہے.اب کیا ہم نعوذ باللہ آپ کو اس لئے کاذب کہیں کہ اس دعویٰ کے بعد آپ بہت کم مدت تک زندہ رہے.پھر اگر اس طرح اپنی طرف سے شرائط لگنی شروع ہو گئیں تو نہایت مشکل پیدا ہو جائے گی.اور شاید پھر اس بات کی بھی ضرورت پیش آئے کہ ہر ایک مامور کو تیئس سال پہلے سے الہام ہونے بند ہو جائیں ورنہ لوگ کہہ دیں گے کہ گو پہلے الہامات میں تو یہ شخص سچا تھا.مگر دیکھو کہ فلاں الہام پر تیئس سال نہیں گذرے اس لئے معلوم ہوا کہ وہ الہام اس نے خود بنا لیا تھا.اس لئے تیئس سال کے اند ر ہلاک ہو گیا.چناب ذرا غور تو کریں کہ آپ کی ان کچی اور بے دلیل باتوں سے دین کیسا قابل اعتراض بن جاتا ہے، اور اسلام قابل مضحکہ قرار پاتا ہے نعوذ باللہ من ذالک.پھر اگر آپ
نوار العلوم جلد ۲ ۳۹۳ کہیں کہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ نیا دعویٰ کرنے پر تیئس سال گزرنے چاہئیں نہ کہ ہر نئے الہام پر تو میں کہتا ہوں کہ یہ تو آپ نے اپنی طرف سے بات بنائی ہے.قرآن کریم کی کس آیت سے یہ شرط ثابت ہے اور پھر میں کہتا ہوں کہ اس آیت کے لفظوں پر تو غور کرو.اس میں تولو تقول لکھا ہے.اگر ہرنئے دعوے کے بعد تیئس سال گزرنے کی شرط ہے تو اس سے زیادہ ہرالہام پر تیئس سال گزرنے کی ضرورت ہوگی.کیونکہ آیت کے اصل الفاظ میں جھوٹے الہام کا ذکر ہے اور نبوت اس سے ضمناً ثابت ہوتی ہے اس وجہ سے کہ جو جھو ٹانبی بنے گا ضرور ہے کہ وہ جھوٹے الہام بھی بنائے.پس آپ کی لگائی ہوئی شرط اگر کوئی شرط ہے تواصل الفاظ زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا لحاظ رکھا جائے اور ضرور ہے کہ ہر الہام پر بھی تیئس سال گزر جائیں تب کوئی شخص اس میں سچا ثابت ہو.نعوذ بالله من هذه الخرافات - بات یہ ہے کہ ابتدائے الہام سے مدت گنی جاتی ہے نہ کہ درمیانی دعوؤں سے اگر ابتدائی الہام کے شائع کرنے کے بعد تیئس سال گزر جائیں.تو ایسامأمور سچا ثابت ہوگیا، ضروری نہیں کہ اس کے ہر ایک دعوے پر بھی تیئس سال گزریں.اور جو شخص دعوے پر تیئس سال گزر جانے کی شرط لگاتا ہے.وہ یاد رکھے کہ وہ خاتم النّبین پربھی اعتراض کرتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کو خاتم البنّین کا خطاب مدینہ میں ملا ہے.اور خاتم النّبين سورة احزاب میں آپ کو کہا گیا ہے، جو مدینے میں اتری ہے اور چھٹے سال میں اتری ہے.جن کے چار سال بعد آنحضرت ﷺ کا انتقال ہو گیا.لیکن کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ دیکھوآنحضرت ﷺ کو خاتم النبّین قرار نہ دو.ورنہ نعوزذباللہ من ذالک آپ جھوٹے ثابت ہوں گئے.کیا ایسے انسان کو آپ عقل و خردسے کورا خیال نہیں کریں گے اگر ایسا ہی سمجھیں گے تو کیوں؟ کیا یہ بھی ایک نیاد عویٰ نہیں تھابہت سے نبی دنیا میں گزر چکے تھے کسی نے یہ دعوی ٰنہ کیا تھا.جس سے معلوم ہوا کہ خاتم النّبین ہونا نبوت کی شرط نہیں.بلکہ ایک الگ دعویٰ ہے اور آنحضرت ﷺ اس دعوے کے بعد چار سال میں فوت ہو گئے.پس کیا نعوذ باللہ آپ مورد اعتراض ٹھہرے نعوذباللہ من ذلک.نعوذ بالله من ذلک.نعوذباللہ من ذلک.علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ اس شرط پر زور دیں.تو جس مطلب کو حاصل کرنے کے لئے آپ نے یہ دلیل دی ہے وہ خود باطل ہو جاتا ہے.آپ کی غرض تو اس اعتراض سے یہ ہے کہ مسیح موعود کا دعوی ٰباطل نہ ہو.لیکن اگر آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا.کہ اگر اس اصل کو تسلیم کیا جائے جیسا کہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ہر دعوے پر تیئس
۳۹۴ سال گزرنے ضروری ہیں خواہ الہام پر اس قدر سال گزر بھی چکے ہوں.تو اس اصل کے ماتحت حضرت مسیح موعودؑ پر خطرناک حملہ ہوتا ہے اس لئے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ مسیحیت۱۸۹۱ء میں فرمایا ہے.اب آپ کے مقرر کر دو اصل کے ماتحت یہ تو دیکھا نہیں جائے گا کہ آپ نے الہام کا اعلان کب سے کیا ہے.بلکہ یہ دیکھا جاوے گا کہ مسیح موعود ہونے کا دعوی ٰکب کیا.اور وہ۱۸۹۱ء میں ہوا ہے.جس کے بعد حضرت اقدسؑ صرف سترہ سال اور چند ماہ زندہ رہے.اب بتائیں کہ اگر کوئی شخص آپ کے ہی الفاظ میں ذرا تغیر کر کے یہ اعتراض کرے کہ \"۱۸۹۸ء کے بعد آپ صرف سترہ سال پانچ ماہ زندہ رہے کیا ایک مخالف یہ نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باللہ آپ تو تقول والی آیت کے ماتحت پکڑے گئے.کیونکہ آپ خودہی اس سے پیشتربراہین احمدیہ میں لکھ چکے تھے کہ مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا افسوس! ان لوگوں نے میری مخالفت میں کہاں سے کہاں نوبت پہنچائی ہے.اور کیسی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور کن راہوں پر چلتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ ہم جواصل بناتے ہیں اس سے خود مسیح موعود اور اس کے آقا آنحضرت ﷺ پر بھی حملہ ہو تا ہے.شاید کوئی شخص اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اصل بات یہ ہے کہ گو مسیح موعود نے مسیحیت کادعویٰ ۱۸۹۱ء میں کیا ہے اور براہین کے وقت آپ کا یہی اعتقاد تھا کہ مسیح زنده موجود ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو خود براہین احمدیہ میں ایسے الہامات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسیح ہیں ، چنانچہ اسی کتاب میں دو الہامات درج ہیں.جن میں عیسیٰ کے نام سے آپ کو پکارا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ایسا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اس وقت یہ بھی تو الہام ہو چکا تھا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا‘‘ جیسا کہ حضرت صاحب نے خود لکھا ہے کہ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا\" والے الہام کی ایک قراءت یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا.اور اگر لفظ نذیر کو ہی قائم رکھیں تب بھی اس کے معنی نبی کے ہی ہیں.کیونکہ لغت میں نذیر کے معنی نبی کے ہی ہیں اور قرآن کریم میں تو نذیر کا لفظ نبی ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے.اور بیسیوں کہ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے پھر یہ الہام بھی اسی کتاب میں ہے کہ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖاو ر خود حضرت مسیح موعود نے براہین میں لکھا ہے کہ یہ مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی ہے اور آپ خودہی مسیح موعود ہیں.اسی طرح آپ کا الہام ہے.جرى اللہ فی حلل الأنبیاء اور جزی کے معنی لغت میں نبی کے موجود بھی ہیں جس کی تشرت فی حلل الأنبیاء نے خوب کر دی ہے.پس اگر عیسیٰ کے نام کے الہامات کی موجودگی سے
۳۹۵ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ براہین سے سمجھاجائے گا تو نبی کے لفظ سے نبوت کا دعوی ٰبھی اسی وقت سے سمجھا جائے گا.اگر اس پر یہ کہا جائے کہ گونبی یا رسول کے الفاظ براہین میں موجود ہیں.لیکن حضرت صاحب نے تو ان کو اپنے پر چسپاں کر کے اس کے معنی نبی اور رسول کے نہیں لئے تو یاد رکھنا چاہئے کہ اسی طرح عیسیٰ اور ابن مریم اور دیگر الفاظ جن سے حضرت اقدس کا مسیح موعود ہونا ثابت ہے ان کے معنی بھی حضرت صاحب نے براہین میں وہ نہیں کئے جو بعد میں ۱۸۹۱ء میں کئے.پس اگر وہ حجت نہیں تو یہ بھی نہیں.غرض کوئی پہلو لے لو، اس اصل کو مان کر مسیح موعود کو نعوذباللہ جھوٹا کہنا پڑتا ہے پس حق وہی ہے جو میں لکھ آیا ہوں اور جو الفاظ قرآن سے ثابت ہے لیکن اگر کسی شخص پر الہام کا دعویٰ کرنے کے بعد تیئس سال گزر جائیں تو اس کو مرتکب تقول علی اللہ کہہ سکتے.خو اہ در میان میں وہ اور کسی قدرہی نئے دعوے کرے.اگر اس کا امور اور صاوق اور راستباز ہو ناخداتعالی ٰکی طرف سے ہزار ہا شہادتوں سے ثابت ہو جائے.اور تیئس سال کی وحی پاکر تقولکے الزام سے بھی بری ہو جائے.پھر کیا ضرورت ہے کہ اس کے ہر دعوے پر تیئس سال گزریں.ورنہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.ایسا خیال کرنے والے کو خود حضرت مسیح موعود کےمسیح موعود ہونے اور آنحضرت ﷺکے خاتم النبین ہونے میں شک لانا پڑے گا.۲ - اس کے بعد میں مولوی صاحب کا دوسرا اعتراض لیتا ہوں.اس میں مولوی صاحب تحریرفرماتے ہیں کہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء تک آپ کے دعویٰ مسیحت پر تیرہ سال سے زیادہ گزر چکے تھے.جب تیرہ سال تک مسیح موعود ایک مجدد اور محدث ہو سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ نبوت تامہ کی ضرورت مسیح موعود ہونے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک جزوی نبی اور ایک مجدد بھی مسیح موعود ہوسکتا ہے ، اور نبوت کا دعوی بالکل کوئی علیحدہ چیز ہے جس کا لازمی تعلق مسیح موعود کے دعوے سےکچھ نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود شروع دن سے ہی مجد داورمحدث سے بڑھ کر تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو نبی( یعنی ایسانبی جو کوئی نئی شریعت نہیں لایا اور جس کی نبوت آنحضرت ﷺ کی اتباع سے تھی) کا خطاب شروع سے ہی دیا ہوا تھا.یہ بات تی تخط ہے کہ حضرت مسیح موعود تیرہ سال تک صرف مجدداور محدث تھے آپ شروع دعوے سے ہی نبی تھے اور یہ سوال سرے سے ہی باطل ہے اور میرے مطالب کو غلط سمجھنےسے پیدا ہوا ہے.میں نے یہ نہیں لکھا کہ ۱۹۰۲ء میں آپ کا پہلا عہدہ منسوخ ہو کر نیاملا.بلکہ یہ لکھا ہے اور یہی حق ہے کہ آپ پر
۳۹۹ بعض معاملات جو پہلے پوشیدہ تھے اس وقت کھولے گئے.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۵۵ اپر کیے ہیں کہ \" پھر جبکہ خدا نے اور اسکے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے.تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تیئں افضل قرار دیتے ہو\" اس حوالہ سے ثابت ہے کہ جو شخص آپ کی افضلیت بر مسیح کا قائل نہ ہو اس کے خیال کوحضرت مسیح موعود شیطانی وسوسہ ظاہر فرماتے ہیں.اب کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ جبکہ آپ خودایک خیال کے مدت تک قائل رہے.تو پھر اسی خیال کو اب شیطانی وسوسہ کیوں ظاہر فرماتے ہیں.جب تیرہ سال تک آپ کو مسیح سے افضل نہ ماننے کے باوجود انسان حق پر رہ سکتا تھا.تو اب کیوں اسے شیطانی وسوسہ ظاہر کیا جا تاہے تواس کا صاف جواب یہ ہے کہ افضل تو آپ پہلے بھی تھے.اس وقت تک پورے طور پر بات نہ کھلی تھی.اس لئے آپ اس کی تاویل کرتے رہے اور بعد میں جب انکشاف ہواتو افضلیت کا اظہار فرمایا.اور جب خدا تعالی ٰکی طرف سے انکشاف ہوا تو اب جواس کے خلاف آواز اٹھائے اور شیطانی وسوسہ میں گرفتار ہے اسی طرح حضرت اقدس نے پہلے خود مسیح کے آسمان سے آنے کا عقیدہ ظاہر فرمایا اور بعد کی تحریروں میں لکھا ہے کہ یہ ایک شرک ہے اور جو اس عقیدہ کا ماننے والا ہے وہ خدا تعالی ٰکے حضور جوابدہ ہے.تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں پڑ سکتا کہ جب آپ اس عقیدہ کے اس قدر مدت تک قائل رہے تو خدا کے برگزید و او ر ملہم رہے اب کیوں یہ عقیدہ شرک ہو گیا؟ کیا اس سے معلوم نہیں ہو تاکہ یہ ایک معمولی عقیدہ ہے.سواس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ جب تک خدا تعالی ٰنے اس معاملہ کو کھولا نہیں یہ شرک نہ تھا.لیکن جب اس نے کھول دیا.تو اب یہ سخت شرک ہو گیا.یہی جواب نبوت کے متعلق ہے آپ نبی ابتداءسے تھے لیکن جب تک پورے طور پر انکشاف نہ ہوا آپ اس عقیدہ کو جو لوگوں میں رائج تھامانتے رہے.لیکن بعد میں جب انکشاف ہو گیا تو اس کو بدل دیا.اور اب اس عقیدہ کا اتنا ضروری ہو گیا اور چونکہ خدا کے نزدیک آپ شروع دعوی ٰسے نبی تھے اس لئے مسیحیت کے دعوے کے ساتھ نبوت بھی لازم و ملزوم تھی اگر کہو کہ ایسی کھلی بات مسیح موعود کو پہلے کیوں نہ معلوم ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح معلوم نہیں ہوئی جس طرح مسیح کی حیات کا مشرکانہ عقید و معلوم نہ ہوا.اور جس طرح بار جو و خداتعالی ٰکے فرمانے سب نبیوں کے اتفاق یہود و نصاریٰ کے اتفاق کے مسیح پر
۳۹ ، اپنی فضیلت کا علم نہ ہو سکا.تیسرے سوال کا جواب بھی دوسرے سوال کے جواب میں آجاتا ہے کیونکہ آپ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا تیرہ سال تک مسیح موعود جو کچھ کہتار ہا غلط کہتارہا.سو میں نے پہلے بتادیا ہے کہ ایسے اور بھی واقعات ہیں کہ مسیح موعود کو جن کی سمجھ بہت مدت کے بعد دی گئی اور جب تک کامل انکشاف نہ ہوا.آپ عام عقیدہ کا اظہار کرتے رہے.اور میں انشاء اللہ آگے چل کر یہ بھی بتاؤں گا کہ با وجود ایک حد تک تاویل کرنے کے آپ کا دعویٰ شروع دن سے ایک ہی تھا اور تغیرّ ایک ایسی قسم کاتھاجس کے ہونے سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا.انشاء الله تعالیٰ دوسری فصل اس باب میں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کس قسم کی تھی ابتدائے مضمون میں میں نے جناب مولوی صاحب کے مضمون کا خلاصہ دو سوالوں میں کیا تھا.اول یہ کہ آیا حضرت صاحب کے دعوے پر دو زمانے آئے ہیں یا ہمیشہ آپ اپنی نبوت کو ایک ہی قسم کی خیال کرتے رہے.کیونکہ اسی سوال کے حل ہونے پر یہ فیصلہ ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی کن تحریرات سے ہمیں اس امر کا فیصلہ کرنا چاہئے کہ آپ کامذہب نبوت کے بارے میں کیا تھا کیونکہ بغیر اس کے دقت ہوتی ہے مثلاً کوئی شخص اگر حضرت صاحب کی کتاب سے وفات و حیات مسیح کا مسئلہ دریافت کرنا چاہے اور اس امر کا فیصلہ نہ کرے کہ اس مسئلہ میں آپ کے دو عقیدے تھے.تو وہ براہین احمدیہ کو دیکھ کر ٹھوکر کھائے گا.اور سمجھے گا کہ حضرت صاحب کی تحریروں میں اختلاف ہے یا یہ کہ براہین کو پہلی کتاب خیال کر کے اسے محکم قرار دے گا.اور بعد کی کتب کی تاویلات کرنی شروع کر دے گا.لیکن اگر اسے خود حضرت صاحب کی کتب سے معلوم ہو جائے گا کہ اس مسئلہ میں آپ کے دو عقیدے رہے ہیں.ایک پہلے رائج الوقت عقائد کی بنا ء پر.اور ایک بعد میں انکشافات سماویہ کی بناء پر.تو اسے اب کوئی دقت نہ رہے گی اور وہ براہین احمدیہ کے بعد کی کتب سے اس مسئلہ کی تحقیقات کرے گا.اور یہی حال تمام مسائل کا ہے.مثلا نماز، نکاح ،جنازه وغیرہ من السائل کا کہ ایک وقت میں ان کے متعلق اور فتویٰ دیا ہے.اور دوسرے وقت میں اور پس جب تک انسان یہ نہ معلوم کرے کہ ان مسائل میں آپ نے دو مختلف اوقات میں مختلف احکام
۳۹۸ دیئے ہیں تو وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا.یا تواختلاف کا الزام حضرت مسیح موعود پردے گایا پہلے احکام کو محکمات قرار دے کر خود غلطی میں پڑے گا.لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں وقت سے فلاں مسئلہ میں تبدیلی حکم ہوئی ہے تو پھر اس مشکل سے بچ جائے گا.پس اس مشکل سے بچنے کے لئے ہم نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ نبوت کے متعلق شروع سے ایک ہی رہا ہے یا اس میں کبھی تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالی ٰکے فضل سے ثابت کیا ہے کہ اس عقیدہ میں ۱۹۰۰ء کے بعد تبدیلی ہوئی ہے اور سب سے آخری کتاب جس میں پہلے عقیدہ کا اظہار کیا گیا تھا.تریاق القلوب ہے جو ۱۸۹۹ء کی ہے اور جو بعض موانعات کی وجہ سے ۱۹۰۲ء میں شائع ہو سکی.پس مسئلہ نبوت کے متعلق جب بحث ہو.تو ہمیں ان تحریرات کو اصل قرار دینا ہو گا.جو ۱۹۰۱ء سے لے کر وفات تک شائع ہو گئیں اور پہلی تحریرات جو (1) بعد کی تحریرات کے خلاف ہوں.یا (۲) جن میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہوں کہ ان سے حضرت مسیح موعود کی نبوت میں کوئی نقص ثابت ہو تا ہو.اور حضرت مسیح موعود نے ان الفاظ کو ا۱۹۰ء سے ترک کر دیا ہو.انہیں منسوخ قرار دینا پڑے گا (یعنی وہ تحریرات جو مسئلہ نبوت کے متعلق ہوں.کیونکہ ان کے متعلق خود حضرت صاحب نے حقیقۃ الوحی میں فیصلہ کر دیا ہے) پہلے سوال پر تو میں بحث کر چکا ہوں.اب دوسراسوال باقی ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے یا نہیں.اگر تھے تو آپ کی نبوت کسی قسم کی تھی؟- اس سوال کے حل کرنے کے لئے میں پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نبوت کیا شے ہے؟ کیونکہ اس بیان سے یہ مسئلہ بہت کچھ صاف ہو جائے گا اور کوئی دقت نہ رہ جائے گی.سواے عزیزو! یاد رکھو کہ نبی نبأ سے نکلا ہے جس کے معنی راغب جو قرآن کریم کی لغات کے معنی بیان کرنے میں نہایت ماہر مانا جاتا ہے یہ بیان کرتا ہے.کہ نبأ اس خبر کو کہتے ہیں جس سے بہت بڑا فائدہ حاصل ہو اور جس سے علم حاصل ہو اور جو سچی ہو اور جھوٹ سے بکلی پاک ہو.اور نبی کے معنی لغت والے یہ لکھتے ہیں کہ جو اللہ تعالی ٰسے خبر دینے والا ہو.اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی توحید سے خبردار کیا ہو.اور غیب کی باتیں بتائی ہوں اور اسے کہا ہو کہ تو نبی ہے.اور اس لفظ میں مبالغہ بھی پایا جاتا ہے کیونکہ یہ نعیل کے وزن پر ہے.اور نبی وہی ہو سکتا ہے جو کثرت سے خبریں پانے والا اور خبریں دینے والا ہو.اور چونکہ نبی ایک عربی لفظ ہے اس لئے اس کی تحقیقات کے لئے عربی لغت ہی سند ہو سکتی ہے.اور جو معنی میں اوپر بتا آیا ہوں اس کے مطابق نبی الله اس کو کہیں گے جو اللہ تعالی ٰکی طرف سے مقرر ہو.اور اللہ تعالی ٰاس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کرے جو معمولی
۳۹۹ واقعات پر ہی مبنی نہ ہوں بلکہ اہم واقعات کی ان میں اطلاع دی گئی ہو.اور صرف چند خبریں دینے سے ہی کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا.بلکہ ضروری ہے کہ کثرت سے اسے امور غیبیہ پر مطلع کیا جائے.کیونکہ یہ نعیل کے وزن پر ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے.یہ وہ تعریف ہے جو لغت کے معنوں کی رو سے ہوتی ہے اور اس کے سوا کوئی اور تعریف عربی زبان کے رو سے نبی کی نہیں.جس میں یہ بات پائی جائے کہ وہ عظیم الشان واقعات کے متعلق خدا تعالی ٰسے خبرپا کر لوگوں تک پہنچانے اور اس کا نام اللہ تعالی نبی بھی رکھے تو وہ نبی ہو گا.اللہ تعالی کے نام رکھنے کی شرط اس لئے ہے کہ اس امر کا فیصلہ کہ اخبار غیبیہ جو کسی بندہ کو اللہ تعالیٰ بتائے ان کی اہمیت اور عظمت اور کثرت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے علاوہ ازیں اگر اللہ تعالی ٰکے نام رکھنے کے سوا انسان آپ ہی ایک دوسرے کو نبی قرار دیا کریں.تو ایک خطرناک نقص اور تباہی کا اندیشہ ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰنے نبیوں کے لئے بعض انعامات اور خصوصیات مقرر فرمائی ہیں.پس اگر انسان آپ ہی اس بات کا فیصلہ کر لیا کریں کہ کسی پر اس قدر اظہار غیب ہوتا ہے کہ وہ نبی کہلا سکے.تو بہت سے لوگ چند خوابوں یا چند الہامات کی بناء پر اپنے آپ کو نبی قرار دے کران خصوصیات کے وارث بن جائیں.اور ایک خطرناک تباہی آ جائے.مثلا ًیہ کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء:۶۵) یعنی جو رسول بھی دنیا میں آتا ہے.اس کی بعثت کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی فرمانبرداری کریں.اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انبیاء چونکہ اللہ تعالیٰ سے ایک گہرا تعلق رکھتے ہیں اور کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے ان کا دل ہر ایک قسم کے شک و شبہ سے پاک کر کے ان کو خاص معرفت اور نور عطا ہو تاہے.اس لئے ان کے اعمال دنیا کے لئے ایک بہترین نمونہ ہوتے ہیں.پس جب کوئی نبی دنیا میں بھیجا جائے تو اس وقت کے سب لوگوں کو اس کی اطاعت لازم ہو تی ہے.کیونکہ وہ الله تعالی ٰتک پہنچانے کا ایک یقینی ذریعہ ہو تا ہے.اور چونکہ اس کے ساتھ اللہ تعالی ٰکا خاص تعلق ہوتا ہے.وہ کسی غلطی پر اپنی وفات تک قائم نہیں رکھا جا تاپس اس کی اطاعت سب انسانوں پر واجب ہوتی ہے.اور اگر نبی کا نام خدا تعالیٰ نہ رکھے تو بہت سے لوگ جن کو چند رؤ یا ہو چکی ہوں.اپنے آپ کو نبی قرار دے کر دنیا پر اپنے قول کو حجت قرار دے دیں.اور شریعت کے فہم اور اس کی تفسیر میں اپنے آپ کو قابل اتباع قرار دے کر شریعت میں بہت سی غلطیاں پیداکردیں.پس چونکہ امور شرعیہ میں پوری اتباع سوائے انبیاء کے جو معاملات شریعت میں حکم دعدل
ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کی موجب خطره و نقصان ہے اس لئے اس نقصان کو روکنے کے لئے ضروری تھا کہ نبی ہو جس کو خوداللہ تعالی ٰنبی قراردے ورنہ انسانوں کا کام نہیں کہ آپ ہی کسی کو نبی قرار دیں.نبوت ایک مرہبت الہٰی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص کو میں نے امور غیبیہ پر اس قدر اطلاع دی ہے یا نہیں کہ وہ نبی کہلا سکے اور یہ کہ ایک خبر دینے والے کی اخبار ایسی مہتم بالشان ہیں یا نہیں کہ ان کی وجہ سے اسے نبی کہہ سکیں.پس جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں گی وہی ہوتا ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اپنے امور غیبیہ پر کثرت سے مطلع کیا جائے.جو خاص اہمیت اور عظمت رکھتے ہوں اور جس کا نام خود اللہ تعالی نبی رکھے.قرآن کریم کا جب ہم غور سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں نبی کی یہی تعریف معلوم ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وما نرسل المرسلین الا مبشرین و منذرین (لانعام :۴۹) یعنی رسول جو ہم بھیجتے ہیں تو ان کا یہ کام ہو تا ہے کہ بعض افراد اور جماعتوں کے لئےخوشخبریاں دیتے ہیں اور بعض کو ڈراتے ہیں لیکن ان کی اخبار معمولی نہیں ہوتیں بلکہ ایک قوم کی ترقی اور ایک دوسری قوم کی تباہی کی خبر لے کر وہ آتے ہیں اسی طرح کثرت مکالمہ و مخاطبہ کی نسبت فرمایا ہے کہ فلايظهر على غيبہ الا من ارتضی من رسول (الجن :۲۷.۲۶ یعنی الله تعالیٰ صرف ان لوگوں کو جن سے خوش ہوتا ہے یعنی رسولوں کو اپنے غیب پر غالب کرتا ہے یعنی امور غیبیہ اس کثرت سے ان پر ظاہر فرماتا ہے کہ گویا انہیں غیب پر غالب کر دیتا ہے.غرض کہ قرآن کریم نے بھی نبی الله کی وہی تعریف کی ہے جو لغت کے رو سے ثابت ہے.نبی کی تعریف کرنے کے بعد میں ہر ایک اس شخص کی توجہ جو حق طلبی کامادہ اپنے اندر رکھتا ہے اس طرف پھیرتا ہوں کہ قرآن کریم میں اور قرآن کریم سے پہلے دیگر کتب میں نبی کا لفظ بہت دفعہ استعمال ہوا ہے اور ایک جگہ بھی ایسی نہیں کہ جہاں نبی کے ساتھ کوئی اور لفظ ملا کر لکھا گیا ہو بلکہ قرآن کریم ہمیشہ نبی کا لفظ خالی ہی استعمال کرتا ہے.اور اسی طرح پہلے انبیاء بھی اس لفظ کو خالی ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور پہلی کتب میں ایک جگہ بھی ایسی نہیں دیکھو گے کہ نبی کے ساتھ کوئی اور لفظ استعمال کیا گیا ہو.پس قرآن کریم - احادیث رسول الله ﷺ اور دیگر کتب سماویہ کے محاورہ میں نبی ایک نام ہے جو بعض افراد بنی آدم کو خدا تعالی ٰکی طرف سے ملتا ہے.لیکن جب ہم انبیاء کے حالات کو دیکھتے ہیں تو وہ مختلف اقسام کے پائے جاتے ہیں کہ جن سے اللہ تعالی نے بلا حجاب کلام کیا.بعض دوسرے ایسے ہیں جن سے اس رنگ میں کلام نہیں ہوا.پھر بعض ایسے ہیں جو
صرف ایک قبیلہ کی طرف مبعوث ہوئے اور بعض ایک قوم کی طرف.اور بعض ایک ملک کی طرف.اور ہمارے آنحضرت ﷺ کل دنیا کی طرف.پس اس بات سے معلوم ہوا کہ انبیاء کے حالات میں فرق ہوتا ہے اور بہت بہت فرق ہوتا ہے لیکن باوجود ان فرقوں کے اللہ تعالیٰ ان سب کا نام نبی رکھتا ہے اور نہیں فرماتا کہ یہ فلاں قسم کانبی ہے اور وہ فلاں قسم کانبی.یا یہ کہ فلاں خصوصیت فلاں نبی میں پائی جاتی ہے اس لئے اسے ایسانبی خیال کرو اور فلاں خصومیت فلاں نبی میں پائی نہیں جاتی اس لئے اسے فلاں قسم کا نبی خیال کرو اور نہ ہی فرماتا ہے کہ جو شریعت لانے والے نبی ہیں ان کو سچے نبی اور حقیقی نبی سمجھو.اور جو شریعت نہیں لائے ان کو غیر حقیقی نبی خیال کرو.بلکہ جن جن افراد میں وہ باتیں جو میں اوپر لکھ آیا ہوں پائی جاتی ہیں ان کا نام اللہ تعالیٰ نبی بیان فرماتا ہے اور نبی کے نام سے ان کو پکارتا ہے اور گو ان کے مدارج میں فرق رکھا ہے لیکن ان کے نبی ہونے میں فرق نہیں رکھا.اور سب کو ہی نبی کہہ کر پکارا ہے.اور پھر ہم جب آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہیں جو قرآن کریم کے بہترین فہم رکھنے والے تھے.اور جو قرآن کریم کے سمجھنے والوں کے خاتم تھے اور ان سے بڑھ کر کوئی انسان قرآن کریم کو نہیں سمجھ سکتا.تو آپ بھی باوجود انبیاء کی حالتوں اور ان کے کاموں کے فرق کے سب کو نبی کہہ کر ہی پکارتے ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ نے نبی کہا ہے ان کی نبوت کا انکار نہیں کرتے.بلکہ جسے خدا تعالی ٰنے نبی کہہ دیا اس کی نبوت کے مقر ّہیں اور نبی ہی کہہ کر پکارتے ہیں.موسیٰؑ جو شریعت لانے والے تھے.ان کو بھی نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.اور مسیح جو کوئی جدید شریعت نہیں لائے ان کو بھی نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.زکریا اور یحییٰ جو صرف ایک محدود جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ان کو بھی نبی ہی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.پس اس بات کو دیکھ کر ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ کسی کے نبی ہو نے کے لئے شریعت کالا یا نہ لانا ایک قوم کی طرف مبعوث ہونا ایک ملک کی طرف ہرگز شرط نہیں.بلکہ جیسا کہ میں اوپر کے آیا ہوں ہر ایک وہ شخص جسے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی اور اہم امور کے متعلق اس نے پیشگوئیاں کیں اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھاوه نبی کہلایا اور واقعہ میں نبی تھا اور اس کے نبی ہو نے میں کوئی شک نہیں.قرآن کریم سارے کا سارا کھول کر دیکھ جاؤ اس میں ایک آیت بھی ایسی نہ ملے گی جس میں سے بتایا ہو کہ نبی وہی ہوتا ہے جو شریعت لائے بلکہ اس کے خلاف قرآن کریم سے تویہ ثابت ہے کہ ایسے بہت سے نبی گزرے ہیں جو شریعت نہیں لائے بلکہ پہلے انبیاء کے تابع تھے اور توریت پر عمل
۴۰۲ کرنے والے تھے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌۚ-یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَۚ- (المائدہ.۴۵)لیکن ہم نے توریت اتاری ہے اس میں ہدایت اور نور کی باتیں ہیں.کئی نبی جو اللہ تعالی کے فرمانبردار تھے اس کے ذریعہ سے یہودیوں کے درمیان فیصلہ کیا کرتے تھے.اور ربانی بھی بوجہ اس کے کہ انہیں کتاب اللہ یاد کرائی گئی تھی اور وہ اس پر نگران تھے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ بہت سے ایسے نبی گزرے ہیں جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے بلکہ توریت کے مطابق ہی وہ فیصلہ کیا کرتے تھے اور ان کا کام توریت کو منسوخ کرنانہ تھا بلکہ اس کی نگرانی اور حفاظت تھا.انجیل میں حضرت مسیح کا قول تو مشہور ہی ہے کہ میں توریت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.قرآن کریم میں تو حضرت ابراہیم کی نسبت بھی آتا ہے که وا من شيعته برمیم یعنی حضرت نوحؑ کی جماعت میں سے حضرت ابراہیم ؑبھی تھے.پس گو ہر ایک نبی پر کلام اترتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتوں اور نذر کے صحف ملتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دو صاحب شریعت بھی ہوں بلکہ مفید نصائح اور امور غیبیہ اور ہدایت و معرفت کی باتیں ان پر الہام ہوتی ہیں میں قرآن کریم سے صاف ثابت ہے کہ ایسے ہی بہت سے گذرے ہیں جو نبی تھے لیکن صاحب شریعت نہ تھے اور ان کے شریعت نہ لانے کی وجہ سے ان کی نبوت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی وہ بھی ثبوت کے لحاظ سے ویسے ہی نبی تھے جیسے کہ دوسرے گو بعض میں ایک نئی خصوصیت پیدا ہوگئی تھی اور علاوه اصلاح مفاسد کے کام کے شریعت کاپہنچانابھی ان کے سپرد کیا گیا تھا اور اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہ تھی کہ جس زمانہ میں وہ مبعوث ہوئےاس وقت پہلی شریعت یا تو مٹ گئی تھی یا ایسی مسخ ہو گئی تھی کہ اس کی اصلاح فضول تھی.پس ان کواللہ تعالی نے نئی شریعت دے کر بھیجا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: \"خداکے احکام جو امراور نہی کے متعلق ہوں وہ عبث طور پر نازل نہیں ہوتے بلکہ ضرورت کے وقت خدا کی نئی شریعت نازل ہوتی ہے یعنی ایسے زمانہ میں نئی شریعت نازل ہوتی ہے جبکہ نوع انسان پہلے زمانہ کی نسبت بد عقیدگی اور بد عملی میں بہت ترقی کر جائے اور پہلی کتاب میں ان کے لئے کافی ہدایتیں نہ ہوں“ ( چشمه معرفت صفحہ ۷۲ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۸۰) پس شریعت اسی وقت بھیجی جاتی ہے جب پہلی شریعت خراب ہو جائے.اور ہر ایک نبی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کوئی شریعت بھی لائے اور اگر ایسا ضروری ہو تا تو چاہئے تھا کہ وہ لوگ جو
کوئی شریعت نہیں لائے ، مثلا یوسف ،سلیمان ،زکریا، یحییٰ علیهم السلام ان کوئی نہ کہا جا تا.یا ناقص نبی ان کا نام رکھا جاتا.لیکن اللہ تعالیٰ ان کا نام بھی نبی ہی رکھتے ہیں اور آنحضرت ﷺ بھی ان کو نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.اور حضرت یح موعود بھی فرماتے ہیں کہ ’’بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے\" (بر منرو جلد ۵ رایج ۱۹۰۸ء پھر سارے قرآن کو غور سے پڑھ جاؤ ایک آیت بھی اس میں ایسی نہ ملے گی جس کا یہ مضمون ہو کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جسے بلا واسطہ نبوت ملی ہو.پس نبی کے لئے یہ شرط لگانی کہ نبی وہی ہو سکتاہے جو بلا واسطہ نبی بنا ہو.ایک ایسی بات ہے جس کا ہرگز کوئی ثبوت نہیں قرآن کریم میں تو یہ بھی نہیں لکھا کہ ایسا نبی کوئی نہیں گزرا جسے بالواسطہ نبوت ملی ہو یہ بات تو ہم صرف اپنی عقل سے معلوم کرتے ہیں ورنہ قرآن کریم نے صریح الفاظ میں ہرگز کہیں نہیں فرمایا کہ کل نبیوں کو نبوت بلاواسطہ ملی ہے اگر کہیں ہے تو اس آیت کو پیش کرو یہ بات تو ہم صرف اس بناء پر مانتے ہیں کہ چونکہ آنحضرت ﷺسے پہلے کوئی ایسانبی نہیں ہؤا یا کوئی ایسی کتاب نہیں گزری جسے خاتم النبّین اور خاتم الكتب کہا جا سکے( اور اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کریم کا نزول ہی کیوں ہوتا اس لئے پہلے نبیوں کو نبوت براہ راست ہی ملتی ہوگی نہ کسی دوسرے نبی کی اتباع سے.اور ضرور بعض انعامات ایسے ہوتے ہوں گے جو پہلے انبیاء یا پہلی کتب کی پیروی سے حاصل نہ ہو سکتے ہوں گے ورنہ جس نبی کی اتباع سے اور جس کتاب پر چل کر انسان نبی بن سکتا ہو اس نبی اور اس کتاب کے بعد کسی اور صاحب شریعت نبی کی ضرورت نہ رہتی اور وہی خاتم النبّین کہلا تااور اس کی کتاب خاتم الكتب کہلانے کی مستحق ہوتی.پس پہلے نبیوں اور کتابوں کے بعد اور نبیوں کا مبعوث ہونا اور دیگر کتابوں کا نازل ہونا ثابت کرتا ہے کہ ابھی تک دین ایسا کامل نہ ہوا تھا کہ اس پر چل کر انسان اعلیٰ سے اعلی ٰانعامات حاصل کر سکے اور ضرور ہے کہ پہلے انبیاء انعام نبوت براہ راست حاصل کرتے ہوں گے.اور یہ قیاس ایسے دلائل پر مبنی ہے کہ اس کا انکار نہیں ہو سکتا.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ ہمارا قیاس ہے اور قرآن کریم نے کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں فرمایا کہ پہلے کل انبیاء براہ راست نبوت حاصل کرتے تھے یا یہ کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو براہ راست نبوت پائے.اور عقل سے بھی کبھی اس لغو شرط کی اجازت نہیں دی کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو براہ راست نبوت حاصل کرے.جب نبوت ایک شخص کو حاصل ہو گئی تو پھر اس قول کے کیا معنی ہوئے کہ یہ نبی.
تب ہی کہلا سکتا ہے جب اسے کسی اور نبی کی اتباع سے نبوت نہ ملے بلکہ براہ راست نبوت ملے خدا تعالی ٰکے کام تو لغو نہیں ہوتے اور نہ اس کا جسمانی سلسلہ روحانی سلسلہ کے خلاف چلتا ہے.کیا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پانی صرف اسی کی پیاس بجھاتا ہے جو اسے خود کنویں سے نکال کر پئے اور جودوسرے کا نکالا ہؤا پانی پی لے اس کی پیاس نہیں بجھاتا.یا مثلاً یہ کہ کھانا اس کا پیٹ بھرتا ہے جو خود پکا کرکھائے ورنہ دوسرے کا پکا کر دیا ہوا کھانا سیر نہیں کرتا تو کیا اس کی بات کو کوئی تسلیم کر سکتا ہے؟ پھراس بات کو عقل سلیم کس طرح تسلیم کر سکتی ہے کہ نبی صرف وہی ہوتا ہے جو براہ راست نبوت پائے ورنہ جس کو نبوت واسطہ سے ملی اس کی نبوت نبوت ہی نہیں اور جبکہ قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور چھوٹے بڑے سب امور میں حکم ہے وہ اس مسئلہ میں خاموش ہے اور آنحضرت ﷺ جو قیامت تک کے لئے دنیا کے ہادی ہیں ایسی شرط کوئی نہیں لگاتے تو اپنے پاس سے یہ شرط لگانے والا کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو براہ راست شریعت لائے اپنے انجام پر غور کرے کہ ہدایت کے آجانے کے بعد ضلالت پر قائم رہنا خطرناک نتائج کا پیدا کرنے والا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ لغت عرب اور قرآن کریم کے محاورہ کے مطابق رسول اور نبی وہی ہوتے ہیں جو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائیں اور مہتم بالشان تغیرات کی جو قوموں کی تباہی اور ان کی ترقی کے متعلق ہوں خبردیں اور خدا تعالیٰ ان کا نام نبی رکھے اور جس انسان میں یہ بات پائی جائے وہ نبی ہے اور کوئی چیز اس کے نبی ہونے میں روک نہیں.اس امر کے سمجھ لینے کے بعد ہم حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کی نبوت میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی اللہ کے لئے لغت و قرآن و محاورہ انبیائے گزشتہ سے لازمی معلوم ہوتی ہیں یعنی آپ کو کثرت سے امور غیبیہ سے خبر دی گئی اور پھر اہم تغیرات کے متعلق دی گئی جو انذار و بشارت دونوں حصوں پر مشتمل تھی اور پھر یہ کہ آپ کا نام اللہ تعالی ٰنے نبی رکھا.پس آپ قرآن کریم و لغت و محاوره انبیاۓ گذشتہ کی مطابق نبی تھے اور آپ کی عدالت کے ثابت ہو جانے کے بعد کوئی شخص آپ کی نبوت میں شک نہیں لا سکتا.اب یہ سوال را جاتا ہے کہ اگر قرآن کریم اور لغت عرب اور اور انبیائے گذشتہ کے روسے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت ثابت ہے اور جو تعریف نبوت کی ہے وہ آپ پر صادق آتی ہے اورنفس نبوت کے لئے شرائط مذکورہ بالا سے زائد کی شرط کی اجازت نہیں تو آپ نے کیوں نبیوں کےساتھ مختلف الفاظ لگادئیے.ان الفاظ سے تو معلوم ہو تا ہے کہ شاید بعض حالات میں بعض نبی
۴۰۵ میں کہلا سکتے.سو یاد رہے کہ ہر ایک چیز کی کچھ شرائط ہوتی ہیں اور کچھ خصائص ہوتی ہیں.خصائص بعض شاملہ ہوتی ہیں اور بعض غیر شاملہ.جب تک شرائط نہ پائی جائیں اس چیز کا وجود پایا جانا ناممکن ہوتا ہے مثلاً ایک انسان کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ حیوان ناطق ہو اگر کوئی شئے حیوان ناطق نہیں تو وہ انسان نہیں کہلا سکتی.اسی طرح نبی کے لئے بھی بعض شرائط ہیں اگر وہ شرائط کسی انسان میں پورے طور پر نہ پائی جائیں تو انسان نبی نہیں کہلا سکتا اور وہ شرائط میں پہلے بتا آیا ہوں یعنی (1) وه کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائے.(۲) وہ امور مہمّہ کے متعلق جو انذار و تبشیر کے متعلق ہوں خبردے.(۳)اس کا نام خدا تعالیٰ نبی رکھے.اور ان کے علاوہ اور کوئی شرط نہیں جو شرائط میں سے کہی جائے بلکہ اورخاصے ہیں یعنی ایسی باتیں ہیں جنہیں شرائط نہیں کہا جاسکتا.اور وہ نفس نبوت سے متعلق نہیں ہیں بلکہ بعض خاصہ غیر شاملہ ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر نبی میں پائے جائیں.مثلاً یہ کہ شریعت لانا ایک خصوصیت ہے جو بعض نبیوں کو حاصل ہے سب کو نہیں.پس اسے نبوت کی شرائط میں سے نہیں قرار دے سکتے کیونکہ اس طرح بہت سے نبیوں کو نبوت سے معزول کرناپڑے گا یہ ایک خصوصیت ہے جو بعض نبیوں کو حاصل تھی اسی طرح بعض اور ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو بعض حالات کی مجبوری کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں ورنہ وہ اصل میں کوئی شے نہیں ہوتیں اور ان کو شرائط میں نہیں داخل کر سکتے مثلاً آنحضرت ﷺسے پہلے نہ تو دنیا اس امر کے لئے تیار تھی کہ ایک نبی سب دنیا کے لئے آئے اور نہ کوئی انسان اس درجہ کو پہنچا تھا کہ اسے سب دنیا کی طرف نبی کر کے بھیج دیا جائے.پس ان دونوں حالات کے ماتحت آپ سے پہلے جس قدر انبیاء آئےوہ سب ایک خاص ملک اور خاص قوم کی طرف مبعوث ہو کر آئے.اب کوئی شخص اس بات کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر اعتراض نہیں کر سکتا کہ دیکھو سب نبی آپ سے پہلے ایک خاص قوم کی طرف آئے تھے.اس لئے نبی وہی ہو سکتا ہے جو ایک خاص قوم کی طرف آئے.ایسانبی ہوہی نہیں سکتا جو سب دنیا کی طرف آئے کیونکہ پہلے ایسا کوئی نبی نہیں گزرا.اور اگر کوئی شخص ایسا اعتراض کرے تو اسے احمق قرار دیا جائے گا کہ اس نے اتنا غور نہیں کیا کہ ثبوت کے ساتھ اس بات کا کیا تعلق ہے کہ سب دنیا کی طرف آئے یا ایک قوم کی طرف جیسے جیسے حالات تھے ان کے ماتحت انبیاء آتے رہے.جب ایک قوم کی طرف نبی آنا ضروری تھا تو ایک قوم کی طرف نبی آیا اور جب سب دنیا کی طرف ضروری تھا تو سب دنیا کی طرف آیا پہلے نبیوں کی نظیر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ایک ویساہی ہونا چاہئے جیسے کہ پہلے نبی.کیونکہ جو چیز شرائط نبوت میں داخل نہیں وہ مختلف
۷۰۹ حالات کے ماتحت بدل سکتی ہے.اسی طرح جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں آنحضرت ﷺ سے پہلے کسی ایسے فرد کامل کی غیر موجودگی میں جو افاضہ نبوت کر سکتا ہو نبوت بلاواسطہ ملا کرتی تھی لیکن کوئی نادان اس بات کو دیکھ کر کہ پہلے سب انبیاء بلا واسطہ نبی تھے یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو شخص بلاواسطہ نبوت نہ پاۓ وہ نبی ہی نہیں کیونکہ نبوت کے مفہوم میں بالواسطہ شہوت کا پانا یا بلا واسطہ پانا داخل ہی نہیں اور یہ نبوت کی شرائط سے باہر ہے ان حالات کی مجبوری کی وجہ سے اور خاتم النبّین کی غیر موجودگی کی وجہ سے بلاواسطہ نبوت کا افاضہ کرنا پڑتا تھا.جب حالات بدل گئے اور وہ فرد کامل پیدا ہو گیا جس کی اطاعت میں نبوت مل سکتی تھی تو نبوت کے حصول کا ذریعہ اسے قرار دیا گیا.پس ایسے نبی کو جس نے آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور غلامی سے نبوت حاصل کی ہو اس بناء پر کہ یہ پہلے نبیوں کی طرح براہ راست نبی نہیں بنا نبیوں کی جماعت میں شامل نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار اس بناء پر کر دے کہ آپ پہلے نبیوں کے خلاف سب جہان کی طرف نبی ہو کر کیوں آئے ہیں.غرض نبی ہو نے کے ساتھ ان دونوں باتوں کا کوئی تعلق نہیں اوریہ صرف انسان کے اپنے یا دنیا کے یا انسان کامل کے حالات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.پس ان کے ہونے یا نہ ہونے سے نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا.جن لوگوں نے اس مضمون کو اچھی طرح سمجھ لیا ہو کہ کسی شئے کے لئے بعض شرائط ہوتی ہیں اور بعض اس کی خصوصیتیں ہوتی ہیں اور شرط کے نہ پائے جانے سے وجود باطل ہو جاتا ہے لیکن بعض خصائص کے نہ پائے جانے سے جو خاص حالات سے تعلق رکھتی ہوں و جود باطل نہیں ہوتا.ان کے لئے یہ سمجھنا بالکل آسان ہو گا کہ جب کہا جائے کہ فلاں انساں میں فلاں خصوصیت ہے اور فلاں میں فلاں خصوصیت.تو اس کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ وہ انسان نہیں بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہوں گے کہ لوگوں کو اچھی طرح پتہ لگ جائے کہ یہ فلاں خصوصیت رکھتا ہے اور وہ فلاں خصوصیت نہیں رکھتا.مثلا ًاگر یہ کہو کہ زید توپ خانہ کا افسر ہے اور بکر پیادہ کا.تو اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ زید افسرہے تو بکر نہیں.بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ زید کا تعلق توپ خانہ سے ہے اور بکر کا پیاده فوج سے.یا مثلاً یہ کہ اگر کہا جاۓ کہ زید فارسی کامدرّس ہے تو بکر عربی کا.تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زید مدرّس ہے اور بکر نہیں ہے.بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ زید اور بکردو نوں مد رّس تو ہیں لیکن ایک فارسی پڑھا تا ہے اور ایک عربی.یا مثلا ًیہ کہا جائے کہ زید نے پرائیویٹ بی اے پاس کیا ہے اور بکرنے کالج میں پڑھ کر.تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زید بی اے ہے اور بکر بی اے نہیں.بلکہ یہ
۴۰۵ مطلب ہے کہ دونوں کے امتحان پاس کرنے کے طریقوں میں فرق ہے یا مثلاً یہ کہا جائے کہ زید نے بلا کسی کی سفارش کے نوکری کے لئے درخواست دی تھی اوراسے نوکری مل گئی.اور بکر فلاں شخص کی سفارش سے نوکر ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زید تو نوکر ہو گیا لیکن بکر نہیں ہوا بلکہ یہ مطلب ہے کہ نوکر تو دونوں ہیں لیکن دونوں کے نو کر ہونے کے طریق مختلف ہیں.مذکورہ بالا سوالات کے جو نتائج میں نے نکالے ہیں وہ کیوں درست ہیں اسی لئے کہ افسر کےلئے توپ خانہ کایا پیادہ فوج کا افسر ہونا شرط نہیں بلکہ افسرہونے کی شرائط اور ہیں.اور توپ خانہ یاپیاده کا نام لینے سے ہماری مراد صرف ان کی خصوصیات بتانا تھی اور اسی لئے کہ مدرّس کے لئےفارسی یا عربی کا مدرس ہونا شرط نہیں جو لوگوں کے پڑھانے پر مقرر ہو وہ مدرّس ہے خواہ کسی علم کےپڑھانے پر لگا دیا جائے اور کسی کو فارسی یا عربی کامدرّس کہنا صرف اس کی خصومیت بتاتا ہے کہ اسےکیا خصوصیت حاصل ہے نہ یہ کہ وہ مدرّس ہے یا نہیں ہے.اسی طرح دوسری مثالوں کا حال ہے.اب نبوت کے مسئلہ کو لو، جس طرح میں نے پہلے مثالیں دیں ہیں.اسی طرح اب مختلف قسم کی نبوتوں کی مثالیں لو.کسی کو اگر کہیں کہ یہ صاحب شریعت نبی ہے.اور ایک دوسرے کو یہ کہیں کہ یہ صاحب شریعت تو نہیں لیکن اس نے نبوت بلا واسطہ حاصل کی ہے.اور ایک تیسرے کو کہیں کہ یہ نہ صاحب شریعت نبی ہے اور نہ اس نے نبوت بلا واسطہ حاصل کی ہے بلکہ اس نے نبوت کسی اور نبی کے فیض سے حاصل کی ہے تو ان فقرات کے یہ معنی نہیں کہ ان تین آدمیوں میں سے صرف پہلا آدمی نبی ہے یا پہلے دو نبی ہیں اور دوسرا اور تیسرا یا تیسرانبی نہیں.بلکہ اس کا مطلب بھی ان فقرات کی طرح جو میں اوپر لکھ آیا ہوں یہی ہو گا کہ پہلانبی ایک اور قسم کانبی ہے دوسرا ایک اور قسم کا.اور تیسرانبی ایک اور قسم کا.نہ یہ کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک نبی ہے ہی نہیں.اور یہ نتیجہ کیوں درست ہوگا اس لئے کہ نبی کی شرائط میں سے یعنی ان باتوں میں سے جو اگر نہ پائی جائیں تو کوئی شخص نبی ہو ہی نہیں سکتا.یہ باتیں نہیں ہیں بلکہ شرائط اور ہیں اور چونکہ وہ شرائط ان تینوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے تینوں نبی کہلائیں گے تو ایک شرعی نبی ایک بلا واسطہ نبوت پانے والا نبی.اور ایک بالواسطہ نبوت پانے والا امتی نبی کہلائے گا.اس کی مثال ایک اور سمجھ لو کہ انسانوں میں مختلف قومیں ہیں ایک سید ایک مغل ایک پٹھان.جب ہم کہیں کہ فلاں شخص سید ہے فلاں مغل فلاں پٹھان تو اس کے یہ معنی نہیں کہ سید آدمی ہیں اور مغل.پٹھان آدمی نہیں بلکہ صرف یہ کہ ایک انسانوں میں سے اس قسم میں شامل ہے جو آنحضرت ﷺ کی اولاد ہونے کی خصوصیت
۴۰۸ رکھتی ہے اور ایک اس قسم میں شامل ہے جو وسط ایشیا میں بستی تھی اور ایک اس میں جو أفغانستان میں رہتی ہے یا رہتی تھی اور انسان تو تینوں ہی ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے جونبی کے ساتھ بعض لفظ لگائے ہیں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ آپ نے نبی کے لئے اس کی شرائط مقرر فرمائی ہیں بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ فلاں فلاں قسم کے نبی ہوتے ہیں اور میں فلاں قسم کے نبیوں میں شامل ہوں.اور جس طرح انسان کے ساتھ مغل یاسید یا پٹھان لگا دینے سے کوئی انسان انسانیت سے نہیں نکل جاتا اسی طرح نبی کے ساتھ تشریعی غیر تشریعی، غیرامتی اور غیر تشریعی امتی کے الفاظ بڑھا دینے سے یہ مراد نہیں کہ ان تینوں قسموں کے نبیوں میں سے بعض نبی ہیں اور بعض نبی نہیں ہیں.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب قرآن کریم نے نبی کا لفظ عام طور پر بِلا کسی زیادتی یا اظہارخصوصیت کے استعمال کیا ہے تو حضرت مسیح موعودؑ نے کیوں بلاوجہ زائد الفاظ اس لفظ کے ساتھ شامل کردیئے ہیں اگر قرآن کریم میں حقیقی یا مستقل با تشریعی یا غیر امتی کے الفاظ انبیاء کے ساتھ نہیں بڑھائے گئے تو آپ نے کیوں بڑھائے.آپ کے ان الفاظ کے بڑھا دینے سے معلوم ہو تاہے کہ آپ شاید اپنی نبوت کو نبوت خیال نہیں کرتے ہوں گے سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کاقاعدہ ہے کہ وہ کوئی بات بلا وجہ نہیں بتاتا.اور اسی قدر بات کرتا ہے جس کی ضرورت ہے چونکہ اللہ تعالی ٰکے نزدیک سب نبی نبی ہی ہیں اور بعض خصوصیات سے ان کی نبوت میں فرق نہیں آجاتا گو قسم میں فرق آجا تا ہے.اس لئے قرآن کریم نے ہر جگہ نبی کے ساتھ ان الفاظ کو استعمال نہیں کیا بلکہ صرف نبی کا لفظ استعمال فرمایا آنحضرت ﷺ کو ایک خاص خصوصیت حاصل تھی جو اور نبیوں کو حاصل نہ تھی اور اس میں آپ کی خاص عظمت کا اظہار تھا اور اس کا اظہار کر دینا ضروری تھا اس لئے آپ کے لئے نبی کا لفظ بولتے ہوئے خاتم النبّین کالفظ استعمال فرمایا.کیونکہ بغیر اس کےکہ قرآن کریم اس خصومت کو بتا تا اس کا معلوم ہونا ناممکن تھا اگر یہ لفظ نہ ہوتے تو آنحضرت ﷺ کو کس طرح معلوم ہو تاکہ مجھے ایسا عظیم الشان درجہ عطا کیا گیا ہے اور پھر آپ کی امت کو کیونکر معلوم ہوا کہ ان کے نبی کی کیا شان ہے.پس چونکہ ختم نبوت کا مسئلہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ خودبتائے کوئی انسان نہیں بتا سکتا.اس لئے اسے اللہ تعالی نے بتادیا.باقی خصوصیات کے ذکر کی چونکہ ضرورت نہ تھی ہرنبی خود اپنی حالت کو سمجھ سکتا تھا.اسے صرف نبی کے لفظ سے پکارا کہ لوہم نے تم کو نبی بنا دیا.اب اگر اسے شریعت ملے گی تو وہ آپ سمجھ لے گا کہ میں صاحب شریعت ہوں اور اگر بلاواسطہ نبوت ملے گی تو بھی خود معلوم کر لے گا کہ نبوت بلاواسطہ ملی ہے اور اگر بالواسطہ
۴۰۹ ملے گی تو بھی اسے معلوم ہو جائے گا کہ مجھے یہ نبوت فلاں نبی کے فیضان سے ملی ہے اور لوگوں کو خود بتادے گا کہ میں کیسانبی ہوں چنانچہ اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں.حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف نبی کر کے پکارا ہے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ یہ ایسے نبی تھے جو شریعت موسویہ کی پابندی کرنے والے تھے اور قرآن کریم کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو جو الہام ہوئے ان میں بھی صرف نبی کا لفظ تھاغیر تشریعی غیرامتی کے الفاظ نہ تھے اور نہ ان کی ضرورت تھی کیونکہ خود حضرت مسیح نے اپنی وحی سے معلوم کر سکتے تھے کہ مجھ پر شریعت نازل نہیں ہوتی بلکہ صرف توریت کے بعض پوشیده اسرار کا انکشاف ہو رہا ہے اس لئے وہ آپ اپنی نبوت کی قسم بتاسکتے تھے.اور انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ متی باب 5 آیت ۱۷،۱۸ میں لکھا ہے: \"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے کو آیا.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شعشہ توریت ہرگز نہ مٹے گا.جب تک سب کچھ پورانہ ہوئے ان دونوں آیتوں کے ابتدائی الفاظ سے ثابت ہے کہ چونکہ لوگوں میں یہ غلطی پھیلنے کا خوف تھا یا یہ کہ پھیل گئی تھی کہ شاید مسیح نئی شریعت کا دعویٰ کرے گا.اور کوئی نئی شریعت لائے گا اس لئے حضرت مسیح نے اعلان کیا کہ میں ان نبیوں میں سے نہیں ہوں جو شریعت لائے ہیں بلکہ ان میں سے ہوں جو پہلی شرائع کو پورا کرنے اور کمال تک پہنچانے کے لئے آتے ہیں اور بد عملوں کو نیک اعمال والے بنانے کے لئے آتے ہیں.اب اس تشریح کو سن کر کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اپنی نبوت سے انکار کیا یا یہ کہ خداتعالی ٰکے الہام پر اس نے زائد بات لگا دی بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے بتایا ہے کہ میں کس قسم کا نبی ہوں اور چونکہ اس وقت تک صرف دو قسم کے نبی تھے ایک وہ جو صاحب شریعت ہوں اور ایک وہ جو غیر تشریعی غیر امتی ہوں اس لئے مسیح نے اپنے الفاظ میں لوگوں کو بتادیا کہ میری نبوت سے یہ دھوکا نہ کھانا کہ یہ کوئی نئی شریعت لانے والی نبوت ہے بلکہ میں ایسانبی ہوں جو پہلی شریعت کو پورا کرنے اور اس کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہوں.اسی طرح ہمارے امام حضرت مسیح موعود کو بھی اللہ تعالی ٰنے صاف طور سے نبی اور رسول کہہ کر پکارا ہے اوراسی طرح پکارا ہے جس طرح حضرت موسیٰ و عیسیٰ کو قرآن کریم میں رسول کرکے پکارا ہے اور خود آنحضرت ﷺ نے بھی آپ کو اسی طرح نبی کے لفظ سے یاد فرمایا ہے جس طرح اور انبیاء کو.لیکن آپ کو معلوم تھا کہ میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا.اور یہ بھی کہ میری نبوت برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ا نارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
حضرت نبی کریم ﷺ کے طفیل سے ہے.پس چونکہ لوگوں میں اس بد ظنی کے پھیلنے کا خطرہ تھایا یوں کہو کہ مخالف یہ خیال پھیلا رہے تھے کہ آپ کوئی جدید شریعت لائے ہیں یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے باہر ہو کر آپ نے دعوائے نبوت کیا ہے یا نبوت پائی ہے اس لئے ضرور تھا کہ آپ بھی لوگوں کو سمجھانے کے لئے اپنی نبوت کی قسم بتلا دیتے اور اعلان کردیتے کہ میں کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں اور چونکہ آنحضرت اﷺکے بعد کوئی شخص براہ راست نبی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ آپ خاتم النبّین تھے اس لئے اب یہ بھی ضروری تھا کہ آپ اس بات کا بھی اعلان کرتے کہ میں پہلے انبیاء کے خلاف ایک نبی کی اتباع سے نبی ہوا ہوں اور مجھے جو کچھ ملا ہے.آنحضرتﷺ کے فیض سے ملا ہے.اگر آپ یہ نہ فرماتے تو لوگوں کو دھوکا لگنے کا خطرہ تھا اور اگر وہ آپ کے طریق عمل سے یہ معلوم کر لیتے کہ آپ نئی شریعت نہیں لائے تب بھی آپ کے بتائے بغیر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ نے بلاواسطہ نبوت پائی ہے یا بالواسطہ اس لئے دور و نزدیک کے لوگوں کو واقف کرنے کے لئے آپ نے اعلان فرما دیا کہ میری نبوت تشریعی نبوت نہیں بلکہ میں قرآن کریم کا تابع ہوں اور یہ کہ مجھے بلاواسطہ نبوت نہیں ملی بلکہ آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے آپ کی اطاعت سے آپ میں فناء ہو کر آپ کی غلامی سے لیا ہے اور اس مطلب کے سمجھانے کے لئے آپ نے فقروں کی بجائے چند اصطلاحات مقرر فرمائیں تاکہ لوگ ایک لفظ میں بات کو سمجھ جائیں کہ آپ کی اس سے فلاں قسم کی نبوت مراد ہے اور یہ ہمارے مسیح کی پہلے مسیح پر ایک فضیلت ہے کہ اس نے ایک فقرہ میں ایک بات کو ادا کیا جس کا دہرانا بھی مشکل ہوتا ہے مگر ہمارے مسیح نے اپنی جماعت کی آسانی کے لئے ایک ایک لفظ میں فقرات کا مضمون ادا کر کے خاص اصطلاحات قرار دیں تا جماعت کو اپنا مفہوم سمجھانے میں آسانی ہو ورنہ ان اصطلاحات کے بنانے سے یہ بات بتانا ہرگز مقصود نہیں تھا کہ آپ نبی نہیں بلکہ صرف اس قدر بتانا مد نظر تھا کہ آپ شریعت جد ید ہ نہیں لائے اور یہ کہ آپ نے آنحضرت ﷺ کی اتباع سے نبوت پائی ہے ورنہ آپ نبی ہیں اور خدا نے اور اس کے رسولؐ نے انہی الفاظ میں آپ کو نبی کہاجن میں قرآن کریم اور احادیث میں پچھلے نبیوں کو نبی کہا گیا ہے افسوس ہے کہ جو اصطلاحات غیراحمدیوں کو سمجھانے کے لئے مسیح موعود نے بنائی تھیں ان کے معانی اور انکی مراد کو نہ سمجھ کر ہماری ہی جماعت کے بعض آدمی ابتلاء میں پڑ گئے اور نہ ان اصطلاحات میں جن چیزوں کی نفی حضرت مسیح موعود نے اپنے نفس
سے کی ہے وہ شرائط نبوت میں داخل نہیں ہیں.اور ان کے بغیر بھی ایک انسان نبی بن سکتا ہے.بشرطیکہ اس میں سب شرائط نبوت پائی جائیں اور شرائط نبوت جن کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں سب کی سب مسیح موعود ؑمیں پائی جاتی ہیں.اور آپ کے سواامت محمدیہ میں سے ایک شخص بھی آج تک ایسا نہیں گذرا جس نے ان تینوں شرطوں کو اپنے اندر جمع کیا ہو اور وه نبی کہلا سکے.گو قرآن کریم احادیث نبویہ اور لغت عرب کی صریح شہادت کے بعد اس بات کا خیال کر لینا بالکل آسان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی نبوت کی وہی تعریف فرمائی ہوگی جو لغت نے بیان کی ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے جس پر احادیث نبی کریمﷺ شاہد ہیں لیکن چونکہ لوگوں کی طبائع مختلف ہیں اور بعض لوگ اس بات کو معلوم کرنا پسند کریں گے کہ حضرت مسیح موعود نے نبی کی کیا تعریف فرمائی ہے اس لئے میں ذیل میں چند حوالہ جات نقل کرتاہوں جن سے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک بھی نبی کی تعریف وہی ہے جو میں اور قرآن کریم و احادیث اور لغت کے رو سے ثابت کر آیا ہوں اور ان شرائط سے آپ نے ایک شرط بھی نہیں بڑھائی اور نہ گھٹائی ہے جو میں لکھ چکا ہوں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: (1) نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے.(چشمہ معرفت ،۱۸۰روحانی خزائن جلد ۲۳ صفیه ۱۸۹) (۴) آپ لوگ جس امرکانام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اسکی کثرت کا نام بموجب حکم الہٰی نبوت رکھتا ہوں“.(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳) (۳) خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہوں‘‘( چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۵، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱) (۴)\" جبکہ وہ مکالمہ و مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کے روسے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہ دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے“ (الوصیت صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱) (۵) ’’( اور ایسے شخص میں ایک طرف تو خدا تعالی کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہوتا ہے ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور
۴۱۳ رسول اور محدث لکھتے ہیں اور وہ خداکے پاک مکالمات اور حالات سے مشرف ہوتے ہیں.اور خوارق ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں.اور اکثروعا ئیں ان کی قبول ہوتی ہیں (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۵) یہ حوالہ تو بہت ہی صاف ہے اور وہ پہلی شرائط نبوت جن کے پائے جانے سے انسان نبی کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا نام نبی رکھتا ہے نہایت وضاحت سے اس میں مذکور ہیں.اول یعنی کثرت مکالمات و مخاطبات کا پایا جا جس کی تشریح حوالہ نمبر۳ میں حضرت مسیح موعود نے خود فرما دی ہے کہ اس سے مراد وہ مکالمات ہیں جن میں کثرت سے غیب کی خبریں پائی جائیں دوم ان اخبار غیبیہ کا انذار و تبشیر کارنگ رکھنا ہے حضرت مسیح موعود نے خوارق کے نام سے موسوم فرمایا ہے.اور اس طرح ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کو الگ کردیا ہے.جنہیں بعض غیب کی خبریں تو بتائی جاتی ہیں لیکن وہ خوارق نہیں کہلا سکتیں.مثلا ًکسی کو رؤیا ہو جائے کہ تیرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا یا ہے کہ فلاں شخص مر جائے گا.اور یہ بات اسی طرح واقع بھی ہو جائے تو یہ رؤیاوحی نبوت کے ماتحت نہیں آئے گی جب تک ایسے آدمی کو اس قسم کے الہامات نہ ہوں جو اپنے اندر خارق عادت نشانات کی خبریں نہ رکھتے ہوں جس کا نام قرآن شریف نے تبشیر و انذار رکھا ہے لیکن ایک طرف تو اللہ تعالی اسے اس کے متبعین کی ترقیوں اور ان کے بڑھانے کے وعدے دے اور باوجو د دنیا کی مخالفت کے وہ غارق عادت طور پر پورے ہوں اور دوسری طرف اس کے مخالفین اور منکریوں کی ہلاکت اور تباہی کی خبریں دے جو باوجو و مخالفوں کی کثرت اور قوت اور شوکت کے بڑے زور سے پوری ہوں اور جو اس کا مقابلہ کرے وی انذاری پیشگوئیوں کے ماتحت ہلاک ہو جائے اور جو اس کی باتوں کو سچے دل سے قبول کرے اور راست بازی سے ان پر عمل کرے اس کی تبشیری پیشگوئیوں کے ما تحت اللہ تعالی کی نصرت کا ہاتھ دیکھے اور یہ دونوں باتیں ظاہر واقعات و اسباب و علل کی مخالفت میں پوری ہوں اور ان میں ایک خارق عادت نصرت الہٰی کا نشان پایا جائے.غرض کہ اس حوالہ سے بڑے روشن طور سے ثابت ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں نبی وہی ہوتا ہے جو محبت الہٰی میں فنا ہو کر شفقت علىٰ خلق اللہ کا سبق سیکھتا ہے اور پھر اس پر نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے.یعنی کثرت سے امور غیبیہ کی اطلاع اسے دی جاتی ہے اور وہ اپنے اندر انذار و تبشیر کا رنگ رکھتی ہیں اور خارق عادت طور پر ان کا ظہور ہو تا ہے اور عام ملہموں کے الہامات اہمیت میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے.
(۶) ’’عربی و عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنےوالا ہو اور بھی کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہو سکتے ‘‘(مکتوب مندر جہ اخبار عام ۲۶مئی ۱۹۰۸ء) (۷) ’’جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت فلا یظهر على غيبه کے مفہوم نبی کا صادق آۓ گا.\"- ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۸ اصفحہ۲۰۸)اس حوالہ سے ثابت ہے کہ قرآن کریم میں بھی نبی کی وہی تعریف کی گئی ہے جو میں اوپر لکھ آیا ہوں اور حضرت مسیح موعود بھی اسی آیت سے استدلال فرماتے ہیں.جس سے میں نے استدلال کیاتھا.(۸) \"ہم خدا کے ان کلمات کو جونبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے اسم سےموسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت اسی پیشگوئیوں بذریعہ وحی دی جائیں اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں\".(۹) \"یہ مکالمہ الہٰیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خداتعالی ٰکی طرف سے میرے پر نازل ہو تا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر..........اور چونکہ میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو.اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا.مگر بغیر شریعت کے.(تجلیات الہٰیہ صفحہ۲۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲) اس حوالہ سے بھی صاف ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں(یعنی نبی کی یہی تعریف ہے اور کوئی تعریف نہیں جس کی بناء پر کسی ایسے نبی کی نبوت کا انکار کر دیاجائے جس پر یہ تعریف صادق آتی ہو)(۱) جس پر خدا کا کلام یقینی اور قطعی طور پر بکثرت نازل ہو (۲)جو غیب پر مشتمل ہو (۳) اسی لئے خدا نے آپ کا نام نبی رکھا اور یہی وہ تعریف ہے جو میں اس سےپہلے نبی کی کر آیا ہوں (1) یعنی کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں (۴) جو انذار و تبشیر کا پہلورکھتے ہوں (۳) خدائے تعالیٰ اس کا نام نبی رکھے.حضرت مسیح موعودؑنے اس جگہ انذار و تبشیر کی جگہ یقینی اور قطعی کے الفاظ رکھے ہیں لیکن ان کا مطلب وہی ہے اس لئے کہ یقینی اور قطعی و حی وہی *بحوالہ بدرا۱جون ۱۹۰۸ ص۱۰
ہوتی ہے جو تبشیروانذار پر مشتمل ہو دو سری کوئی وحی یا الہام یار ؤ یا ایسی یقینی اور قطعی نہیں کہی جاسکتی کہ اس پر قرآن کریم کی طرح ایمان رکھا جائے اس کی یہ وجہ ہے کہ اگر کسی انسان کو الہام یا ردیا میں بتایا جائے کہ تیرے ہاں ایک بیٹا ہو گا اور وہ ہو جائے.یا اسے بتایا جائے کہ فلاں شخص مر جائے گا اور وہ مرجائے تو ظن غالب کہتا ہے کہ وہ رویا یا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی.لیکن یہ امکان بھی ضرور موجود ہے کہ شاید حدیث النفس ہی ہو یا یہ کہ شیطانی خواب ہو کہ ایسی خوابیں ہی گو اکثر غلط ہوتی ہیں لیکن کبھی درست بھی ہو جاتی ہیں لیکن وہ وحی جس میں تبشیر وانذار کا پہلو ساتھ ہوتا ہے یقینی ہوتی ہیں اس لئے کہ حدیث النفس اور شیطان کو قدرت اور طاقت حاصل نہیں ہے.انسان کے خیالات یا شیطانی وساوس انسان کی نظروں کے سامنے ایک نقشہ کھینچ سکتے ہیں جو کبھی پورا بھی ہو جائے لیکن وہ قدرت و جلال کا اظہار نہیں کر سکتے اور اس میں اللہ تعالی ٰکی قادرانہ قضاء کا رنگ نہیں پیدا ہو سکتا لیکن انبیاء کی وحی انذار و تبشیر کا پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی معرفت دنیا کو بتاتا ہے کہ اب دنیا میں کوئی پناہ کی جگہ نہیں سوائے اس کے کہ اس انسان کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھ لو اور اگر دنیا اس کی باتوں کو نہ مانے گی تو اسے تباہ کر دیا جائے گا اور جو مانیں گے ان کی نصرت و مدد ہوگی اور خدائے تعالی ٰاس وقت فرماتا ہے کہ \"دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیائے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘غرض کہ قادرانہ رنگ میں وہ شخص غیب کی خبریں دنیا کو سناتاہےاور وقت پرویسا ہی ہو جاتا ہے اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ اس کی وحی یقینی اور قطعی ہے اوراس پر ایمان لاناایسا ہی فرض ہوتا ہے جیسا اور دوسری الہامی کتابوں پر اور اس پر ایمان نہ لا نا اس میں شک کرایسا ہی کفر ہو تا ہے جیسے اور کتابوں پر ایمان نہ لانا یا ان میں شک کرتا.کیونکہ شیطان کوپراگندہ خیالات کو قادر انہ کام دکھانے کی طاقت نہیں جیسے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ’’ یہ مکالمہ الہٰیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے “ (دیکھو تجلیات الہٰیہ صفحہ ۲۰) غرض کہ وحی کاایسا یقینی اور قطعی ہونا اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس میں انذار و تبشیر کارنگ پایا جائے پس حضرت مسیح موعووؑکے نبی کی وحی کے لئے یقینی اور قطعی ہونے کی شرط لگانے کے یہی اور صرف یہی معنی ہیں کہ اس میں انذار و تبشیر کا رنگ ہو اور مذکورہ بالا حوالہ میں وہ تینوں شرائط نبوت بیان کی گئی ہیں جو میں نے لغت عرب اور قرآن کریم سے ثابت کی تھیں یعنی (1) کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانا(۴) اس کایقینی اور
۴۱۵ قطعی ہونایعنی عظیم الشان اخبار پر جو انذار و تبشیر کا پہلو رکھتی ہوں مشتمل ہونا(۳) خدائے تعالیٰ کا نبی کے نام سے پکارنا.اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ نبی اسی شخص کو کہتے ہیں نہ کسی اور شخص کو جس میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں.گو میں نے بعض حوالوں میں سے فرداً فرداً تینوں شرائط نبوت یا ان میں سے دو دو شرائط بھی ثابت کی ہیں لیکن ایک دفعہ سب پر نظرمار کر دیکھ لو حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک نبی کے لئے وہی شرئط ہیں جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ یہی نہیں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک نبی کی یہ شرائط ہیں بلکہ حوالہ نمبر۲ میں اس تعریف کی نسبت یہ فرماتے ہیں کہ یہ تعریف میں نے خدا کے حکم کے ماتحت سمجھی ہے اور حوالہ نمبر۳ میں فرماتے ہیں کہ خدا کی اصطلاح کے مطابق بھی نبی اسی کو کہتے ہیں جس میں یہ باتیں پائی جاتی ہوں اور حوالہ نمبر ۴میں سب نبیوں کا اس تعریف پر اتفاق ظاہر فرماتے ہیں پر حوالہ نمبر ۵میں اسلام کی اصطلاح کے مطابق بھی نبی کو قرار دیتے ہیں پھر حوالہ نمبر ۶ میں لغت کو بھی اس تعریف سے متفق بتاتے ہیں اور پھر حوالہ نمبر۷ میں آپ نے قرآن کریم کے مطابق جو تعریف نبی کی بیان فرمائی ہے وہ بھی اسی کے مطابق ہے پس ان حوالہ جات کو ملاکر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو تعریف نبی کی میں نے لغت و قرآن سے سمجھ کر اوپر بیان کی تھی وہی حضرت صاحب کے خیال میں درست ہے وہی تعریف خد اتعالی ٰکے نزدیک درست ہے وہی جملہ انبیاء کے نزدیک درست ہے وہی اسلام بیان فرماتا ہے وہی قرآن کریم ظاہر فرماتا ہے پس اب اس تعریف میں کیا شک ہوسکتا ہے اور مندرجہ بالا قاضیوں کے علاوہ اور کون سا قاضی ہے جس کا فیصلہ اس قضیہ میں فیصلہ کن ہو سکتا ہے؟ جبکہ لغت جو ہمارے خیالات کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے اور خدائے تعالی ٰجو نبیوں کا بھیجنے والا اور قرآن کریم جو اللہ تعالی ٰکے فیصلوں کے معلوم کرنے کا یقینی ذریعہ ہے اور انبیاء جو اللہ تعالی ٰکے مقرب بندے ہیں اور اس کے کلام کے معنی سمجھنے کی سب سے زیادہ لیاقت رکھتے ہیں اور اس زمانہ کا مامور اور مسیح موعود اور حکم و عدل ہےجسے اس وقت تمام جھگڑوں کے فیصلے کرنے کے لئے خدا نے بھیجا ہے یہ سب نبی کی مذکورہ بالا تعریف پر متفق ہیں تو بتاؤ کہ اب اس تعریف کے قبول کرنے میں کسی مؤمن کو کیا تر دّد ہو سکتا ہے جاہل اور نادان انسان کی جو چاہے تعریف کرے اور اپنے پاس سے انبیاء کی بعض تعریفیں قرار دے اور وہ کام جو خدائے تعالی ٰکا ہے اسے اپنے ہاتھ میں لے لے لیکن وہ شخص جس کا دل نور ایمان سے بکلی محروم نہیں ہوا جس کے دل میں محبت الہٰی کی چنگاری ابھی تک سلگ رہی ہے جس کی سعادت اور رُشد پر موت
۴۱۹.نہیں آگئی اسے اس تعریف کے قبول کرنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.شاید اس جگہ کوئی شخص کہہ دے کہ بےشک نبی کی یہی تعریف ہے جو تم نے اوپر بیان کی ہے لیکن یہ آج کل کی تعریف ہے قرآن کریم سے پہلے نبیوں کی یہ تعریف نہیں بلکہ ان کے نبی کہلانے کی اوروجہ ہے جو اس کے خلاف ہے تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دین کو کھیل اور تماشا مت بناؤ.اگرپہلے نبیوں کو کسی اور وجہ سے نبی کہتے تھے تو ہمارے سامنے وہ وجہ پیش کرو اور قرآن کریم سےثابت کرد کہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ان کو نبی کہا جاتا تھا اگر تم ایسا نہ کر سکو اور یقیناً نہیں کر سکتے تو خدائے تعالیٰ سے ڈرو کہ جو شخص بلادلیل کسی دینی بات پر اڑ جاتاہےاور اپنے فعل سے دین میں رخنہ ڈالتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے نیچےہے اور اسے چاہئے کہ جلد توبہ کرے.دوسرا جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا شرائط کے علاوہ کسی اور وجہ سے پہلے نبیوں کا نبی کہلا نا قرآن کریم اور احادیث سے ثابت نہیں پس کسی کاحق نہیں کہ ایسادعویٰ کرے بلکہ حضرت مسیح موعود نے خود ہی اس امر کا فیصلہ کر دیا ہے اور فرماتے ہیں.’’منجملہ ان انعامات کے وه نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی ، کہلاتے رہے\" (ایک غلطی کا ازالہ) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ سے پہلے جس قدر انبیاء گذرے ہیں ان کے نبی کہلانے کی بھی یہی وجہ تھی کہ کثرت سے امور غیبیہ پر ان کو اطلاع دی جاتی تھی پس جس شخص میں یہ بات پائی جائے گی وہ بلحاظ نبوت کے ویسا ہی نبی ہو گا جیسےپہلے بزرگ تھے گو مراتب کے لحاظ سے یا بعض خصوصیتوں کے لحاظ سے وہ اور قسم کا نبی ہو مثلا ًہرآدمی آدمی تو ہے لیکن ایک پڑھا ہؤا آدمی ایک خصوصیت رکھتا ہے جو سب دنیا کے آدمی نہیں رکھتے اور گو آدمیت کے لحاظ سے وہ شخص جو پڑھا ہوا ہے اور وہ جو نہیں پڑھا ہوا ایک سے ہیں کیونکہ پڑھنا آدمی ہونے کی شرط نہیں ہاں پڑے ہوئے آدمی کو ایک فضیلت ہے جو اَن پڑھ کو حاصل نہیں یا ایک خصوصیت ہے جس میں ان پڑھ اس کا شریک نہیں لیکن آدمیت کے لحاظ سےدونوں ایک سے آدمی ہیں.بعینہ اسی طرح وہ شخص جس میں آج وہ شرائط نبوت جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں پائی جائیں وہ نبی کہلائے گا اور کیا ہو گا اور نبوت کے لحاظ سے ایسا ہی نبی ہوگا جیسے کہ پہلے نبی تھے کیونکہ پہلے کی بھی اسی شرط یا شرائط کے پائے جانے کی وجہ سے نبی کہلاتے تھے گو ممکن ہے کہ بعض پہلے نبی اس شخص پر کوئی فضیلت رکھتے ہوں یا کوئی ایسی خصوصیت رکھتے ہوں جو اس میں
14 نہیں پائی جاتی.اب میں نبوت کی ایک جامع مانع تعریف کر چکا ہوں جس تعریف کی بناء پر کسی نبی کی نبوت سے انکار نہیں کرنا اور سب نبی اس تعریف میں جمع ہوجاتے ہیں اسی طرح یہ تعریف ایسی ہے کہ کوئی غیرنبی اس تعریف کے ہوتے ہوئے نبیوں کے گروہ میں ناجائز طور سے شریک نہیں ہو سکتا.پس یہ تعریف جامع اور مانع ہے اور جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں خدائے تعالیٰ، نے قرآن کریم نے، کل نبیوں نے، اسلام نے، حضرت مسیح موعودؑنے ،اور لغت نے نبی یہی تعریف کی ہے اور جس پر تعریف صادق آئے اس کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں اور جو اس تعریف کے صادق آنے کےباوجود پھر بھی ایک شخص کی نبوت کا انکار کرتا ہے وہ نادانی کے انتہائی نقطہ کو پہنچا ہواہے.میں اس جگہ ایک اور شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے اس سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی کے لئے وہ شرائط ہیں جو تم نے اوپر بیان کیں لیکن یہ کیونکر ثابت ہو کہ ان کے علاوہ اور کوئی شرط نہیں.ممکن ہے کہ شریعت کا لانا یا بلا واسطہ نبوت کا ملنا بھی نبی ہونے کے لئے شرط ہو.لیکن یہ شبہ بھی پہلے شبہ کی طرح بےبنیاد ہو گا اس لئے کہ جو تعریف نبی کی میں اوپر کر چکا ہوں اس سے ثابت ہے کہ امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا غیرنبی میں پایاہی نہیں جاتا پس جب ایک شخص کی نسبت ثابت ہو جائے کہ اسے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہے تو وہ بہرحال نبی ہو گا کیونکہ یہ بات مطابق ارشاد الہٰی غیر نبی میں پائی ہی نہیں جاتی جس سے معلوم ہوا کہ یہ شرط جہاں پائی جائے (مع اس تفصیل کے جو اس کے ساتھ مذکور ہوئی) وہاں نبوت ضرور پائی جائے گی.پس جس شخص کو اظہار على الغيب کا رتبہ ملے اسے کسی اور بنا ء پر نبیوں کی جماعت سے خارج نہیں کر سکتے.دوسرے یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبرپانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہٰیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ ہی ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کامتبع نہ ہو ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۶) پھر فرماتے ہیں’’نبی کا شارع ہونا شرط نہیں یہ صرف موہبت ہے جس سے امور غیبیہ کھلتے ہیں‘‘( ایک غلطی کا ازالہ ) اسی طرح شہادت القرآن صفحہ ۴۴ میں فرماتے ہیں \" بعد توریت کے صدہاسےنبی بنی اسرائیل میں سے آۓ کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء
کے ظہور کے مطلب یہ ہوتے تھے کہ ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑگئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اسی طرح فرماتے ہیں.\"بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے\" (بدر۵/ مارچ ۱۹۰۸ء) ان تینوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک نبی کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ کو ئی شریعت بھی لائے بلکہ آپ کے نزدیک بنی اسرائیل میں ایسے کئی نبی گزرے ہیں جو شریعت نہیں لائے تھے.اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ نبی کے لئے بلاواسطہ نبوت پانا بھی کوئی شرط نہیں.پس نبی وہی ہے جو مذکورہ بالا شرائط کے مطابق نبی ہو جو خدا اور اس کے رسولوں کی بیان کردہ شرائط ہیں اور کسی کے نبی ہونے کے لئے جو ایک آسمانی عہدہ اور خطاب ہے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں وہ شرائط پائی جائیں نہ یہ کہ دنیا کے ہر فرد بشر کی خود ساختہ تعریفِ نبوت کے مطابق بھی وہ نبی ہو.نبوت کی تعریف اور اس کی بعض خصوصیات کا ذکر کرنے کے بعد میں جناب مولوی صاحب کے ان حوالہ جات کی طرف توجہ کرتا ہوں.جن سے آپ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ مسیح موعود کی نبوت نبیوں کی نبوت نہ تھی بلکہ محدثوں کی سی نبوت تھی.لیکن اس سے پہلے پھر ایک دفعہ پچھلی تمہیدوں کا خلاصہ بیان کردیتا ہوں.کیونکہ اگر کوئی شخص اس تمہید کو جو میں نے اوپر لکھی ہے اچھی طرح سمجھ لے تو مسئلہ نبوت کا سمجھنا اس کے لئے ایسا آسان ہو جائے گا ہے انڈے پانی کا حلق سےاترنا.اور نہ صرف یہ کہ وہی حوالہ جات حل ہو جائیں گے جو جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں دیئے ہیں بلکہ جو شخص ان باتوں کو یاد کرلے.میں اللہ تعالی ٰسے امید کرتا ہوں کہ اگر کوئی نئے سے نیا اور مشکل سے مشکل حوالہ بھی اس کے سامنے پیش کیا جائے گاتو اس کے لئے اس کا حل کرنا مشکل نہ ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ خلاصہ یہ کہ میں اب تک یہ بتا چکا ہوں کہ نبی لغت عرب اور قرآن کریم کے رو سے اسے کہتے ہیں جو (۱) اللہ تعالیٰ سے کثرت سے امور غیبیہ کی اطلاع پائے (۲) جن غیب کی خبروں کی اطلاع اسے دی جائے وہ نہایت عظیم الشان قوی تباہیوں یا ترقیوں پر مشتمل ہوں (۳) یہ کہ خدا تعالی ٰنے اس کا نام نبی رکھا ہو اور جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں وہ ضرورنبی ہوگا.ہاں اس بات سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ شرائط نبوت کے علاوہ بعض خصوصیات بھی ہیں.جن کی وجہ سے نبیوں کی کئی اقسام ہو جاتی ہیں.لیکن سب کی نبی ہی ہوتے ہیں.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بعض باتوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض نبیوں میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں ()
۴۱۹ نہیں.جس سے معلوم ہوا کہ ان کے بغیر بھی انسان نبی ہو سکتا ہے.اور یہ بھی کہ جن باتوں کا مفہوم نبوت سے کوئی تعلق نہیں مثلا ًیہ کہ بلا واسطہ نبی ہو نا.اگر وہ سارے نبیوں میں پائی جائیں لیکن ایک شخص میں نہ پائی جائیں.تب بھی اس کی نبوت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا.اور آخر میں یہ کہ اگر خصوصیات کے اظہار کے لئے بعض الفاظ زائد کردیئے جائیں.تو ان سے یہ مطلب نہیں ہوا کرتا کہ نفس درجہ میں کوئی فرق آگیا بلکہ صرف خصومیت بتانی مد نظر ہوتی ہے اور ان باتوں کی تائید کے لئے میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں سے بعض حوالے بھی نقل کر دیے ہیں جن سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلؤ تو اسلام کے نزدیک بھی نبی کی وہی تعریف ہے جو میں نے قرآن کریم اور لغت عرب سے استنباط کر کے لکھی ہے.اور آپ اسی تعریف کو خدا تعالیٰ کی تعریف، قرآن کریم کی تعریف،نبیوں کی تعریف، اسلام کی تعريف، لغت کی تعریف قرار دیتے ہیں.اور یہ تعریف خدا کے حکم کے مطابق کرتے ہیں اور چونکہ پہلے نہایت وسعت سے میں یہ سب مضمون بیان کر آیا ہوں.اس لئے اس جگہ ان ہی مختصر الفاظ میں ان کا ذکر کر دینا کافی ہو گا.اور جو شخص ان باتوں کو سمجھ لے گا اس کے لئے نبوت کا مسئلہ بالکل آسان ہو جائے گا.اب میں مولوی صاحب کے وہ حوالے نقل کرتا ہوں.جن سے ان کے خیال میں حضرت مسیح موعود کی نبوت نبیوں کی سی نبوت نہیں رہتی بلکہ محدثین کی سی نبوت ثابت ہوتی ہے اور جن حوالوں سے انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ حضرت مسیح موعود کاد عویٰ شروع سے ایک ہی قسم کی نبوت کا رہا ہے کبھی تبدیل نہیں ہوا.کیونکہ آپ نے جو کچھ توضیح مرام میں جو آپ کی دعویٰ مسیحیت کے بعد پہلی کتاب ہے.لکھا ہے وہی آخر کی کتابوں میں لکھا ہے.اس بات کے متعلق تو میں پہلے مفصل جواب دے آیا ہوں کہ حضرت صاحب نے اپنے مذہب میں کوئی تبدیلی کی ہے یا نہیں.ہاں اس بات کا جواب کہ وہ کیا تبدیلی تھی آگے چل کر انشاء اللہ دوں گا.بہرحال جناب مولوی صاحب حوالہ جات پیش کرتے ہیں:( صفحہ۴ پر کتاب توضیح مرام سے) " ماسوا اس کے اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے.اور محدث بھی ایک معنی سے نبی ہو تا ہے کیونکہ وہ خداتعالی ٰسے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے.امورغیبی اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں.اور رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزّہ کیا جا تا ہے اور مغز شریعت اس پر کھولا جاتا ہے.اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں *گو اس کے لئے نبوت تامہ نہیں مگرتاہم جزوی طور پروه ایک نبی ہی ہے..
بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے.اور نبوت کے معنی اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں.اور اگر یہ عذر پیش ہو کہ باب نبوت مسدوردہے.اور وحی جو انبیاء نازل ہوتی ہے.اس پر مہرلگ چکی ہے میں کہتا ہوں کہ نہ من كل الوجوه بابِ نبوت مسدواد ہؤاہے اور نہ ہرایک طور سے وحی پر مہرلگائی گئی ہے بلکہ جزئی طور پر وحی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے.مگر اس بات کو بحضورِدل یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نبوت جس کا ہمیشہ کے لئے سلسلہ جاری رہے گا.نبوت تامہ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.وہ صرف ایک جز ئی ؎۱۲ نبوت ہے جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کے اسم سے موسوم ہے.جو انسان کامل کے اقتداء سے ملتی ہے.جو مستجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے.یعنی ذات ستودہ صفات حضرت سید نا ومولانامحمد مصطفٰی ﷺ فاعلم ارشدک اللّٰہ تعالیٰ انَّ النبی محدث والمحدّث نبی باعتبار حصول نوع من انواع النبوت و قد قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یبق من النبوت الا المبشرات ای لم یبق من انواع النبوت الا نوع واحد وھی المبشرات....بل الحدیث یدل علی ان النبوة التامة الحاملة لوحی الشریعة قد انقطعت ولٰٰکن النبوة التی لیس فیھا الا المبشرات فھی باقیة الی یوم القیامة لا انقطاع لھا ابدًا...حاصل کلامنا ان ابواب النبوة الجزئیة مفتوحة ابدًا و لیس فی ھٰذا النوع الا المبشرات او المنذرات من الامور المغیبة او اللطائف القرآنیة والعلوم اللدنیة.و اما النبوة التی تامة کاملة جامعة لجمیع کمالات الوحی فقد آمنّا بانقطاعھا (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۶۰- ۶۱ توضیح مرام صفحہ۲ ۱ - ۱۳ ) عربی حصے کا ترجمہ یہ ہے: جان لے.اللہ تعالی تجھے ہدایت دے کہ نبی محدث ہو تا ہے اور محدث نبی ہوتا ہے اس اعتبار سے کہ اسے نبوت کی قسموں سے ایک قسم حاصل ہوتی ہے اور رسول الله ﷺ نے فرمایاکہ سوائے مبشرات کے نبوت سے کچھ باقی نہیں رہا.یعنی نبوت کے انواع میں سے صرف ایک نوع باقی رہ گئی ہے.اور وہ مبشرات ہیں.بلکہ حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ نبوت؎۱۳ تامہ جووحی شریعت کی حامل ہوتی ہے.وہ منقطع ہو چکی ہے.لیکن وہ نبوت کہ جس میں سوائے مبشرات کےکچھ بھی نہیں.وہ قیامت کے دن تک پاتی ہے.اور کبھی منقطع نہیں ہوگی.حاصل کلام یہ ہے کہ جزئی ثبوت کے دروازے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں.اور اس نوع میں کچھ نہیں سوائے مبشرات اور
۴۳ منذرات کے جو امور غیبیہ سے ہوتے ہیں یا قرآنی طائف اور علوم لدنیہ کے اور وہ نبوت جو تامہ ہے کاملہ ہے.اور جس میں وحی کے سب قسم کے کمالات جمع ہوتے ہیں.ہم اس کے منقطع ہونے پرایمان لاتے ہیں.صفحہ ۹ پر کتاب چشمئہ معرفت سے \" ہم خد اکے ان کلمات کو جو نبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے اسم سےموسوم کرتے ہیں.اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں.یعنی اس قدرکہ اس کے زمانہ میں اس کی کوئی نظیر نہ ہو.اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں کیونکہ نبی اس کو کہتے ہیں جوخدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہٰیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے‘‘.(روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۸۹ چشمہ معرفت صفحہ ۱۸۰ - ۱۸۱ ) قرآن شریف مکالمہ الہیٰہ کے سلسلہ کو بند نہیں کرتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ یعنی خدا جس پر چاہتا ہے اپنا کلام نازل کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا یعنی مؤمنوں کے لئے مبشرالہام باقی رہ گئے ہیں گو شریعت ختم ہوگئی ہے کیونکہ عمر دنیا ختم ہونے کو ہے پس خدا کا کلام بشارتوں کے رنگ میں قیامت تک باقی ہے.‘‘ (روحانی خزائن جلد ۲۳ سنہ ۱۸۸ چشمہ معرفت کا حاشیہ ) تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں....مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں لیکن وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نورلیتی ہے.(روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۳۴۰)’’اور خدا کا پیار یہ ہے کہ...اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے.یہ اس لئے کہ اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے.نبوت اور رسالت کالفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صد ہا مرتبہ استعمال کیا ہے.مگر اس لفظ سے صرف دہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں‘‘( چشمہ معرفت ۳۲۵ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۰.۳۴۱) مولوی صاحب نے اسی قدر حوالہ دیا ہے اس سے آگے کی عبارت ترک کر دی ہے.لیکن ہم وہ ذیل میں درج کردیتے ہیں.’’اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک اپنی اصل میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے.لکل ان یصطلح ، سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکا لمات مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے *چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴
۴۲۲ یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں.اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرتﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے.مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے(" چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۵) روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱) صفحہ ۱۲ پر کتا ب حقیقۃ الوحی سے: حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۴ حاشیہ.’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعوی ٰکیا ہے.جو پہلے ؎۱۷ زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے.لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا یسادعویٰ نہیں ہے.بلکہ خدا تعالی ٰکی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے بے مرتبہ بخشاہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا.بلکہ ایک پہلوسے نبی.اور ایک پہلو سے امتی مدد اور میری نبوت آنحضرت ﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت ‘‘-( روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴ حاشیہ) ضمیمہ حقیقۃالوحی(عربی) صفحہ ۶۸۹\" وما عنی اللّٰہ من نبوّتی إلَّا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ، ولعنۃ اللّٰہ علٰی من أراد فوق ذالک، \"(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸۹) ترجمہ: اللہ تعالی ٰنے میری نبوت کے معنی سوائے کثرت مکالمت اور مخاطبت کے اور کچھ نہیں رکھے.اور اللہ کی لعنت اس پر ہو جو اس سے بڑھ کر ارادہ کرے“ حقيقة الوحی ضمیمه عربی صفحه۶۸۹ وسُمِّیتُ نبیّا من اللّٰہ علٰی طریق المجاز لا علٰی وجہ الحقیقۃ \" (روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸۹) (ترجمہ) اور میرا نام نبی اللہ کی طرف سے مجازی طور پر رکھا گیا ہے.نہ حقیقی طور پر\" صفحہ ۱۱پر کتاب مواہب الرحمٰن سے: مواهب الرحمن صفحہ ۷۱ ’’ہر کہ دعوی نبوت کند.و این اعتقاد ندارد که او از امت آنحضرت ﷺ است و ہر چه یافت از فیضان او یافت.و او یک ثمره الیت از باغ او و یک قطره از بارش او و سایہ تنک از روشنی او.پس او لعنتی است ولعنت خدابر انصار او و براتباع او و براعوان او - (روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۷) (ترجمہ) جو شخص دعویٰ نبوت کرے اور یہ اعتقادنہ رکھے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی امت سے ہے اور جو کچھ اس نے پایا.اس کے فیضان سے پایا.اور کہ وہ اس باغ میں سے ایک پھل ہے.اور اس کی بارش میں سے ایک قطرہ ہے.اور اس کی
۴۲۳ روشنی میں سے ایک ہلکا سایہ ہے.سووہ لعنتی ہے.اور خدا کی لعنت اس پر اور اس کے انصار پر اور اس کی پیروی کرنے والوں پر اور اس کے مددگاروں پر‘‘ صفحہ ۱۱پر کتاب الوصیت سے: الوصیت صفحہ ۱۳،۱۴ اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اوراس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے.جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ نبوت کاملہ تامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے.ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتمائی حالت میں اس پر صادق آسکتے ہیں.............پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی کا خطاب پایا\" (روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۱،۳۱۲) ان حوالہ جات کے ساتھ ہی میں کچھ اور ایسی ہی عبارتیں جن سے نبوت کے خلاف استدلال کیاجاتا ہے.نقل کر دیتا ہوں تاکہ سب کا جواب ایک ساتھ ہو جائے.اور وہ حسب ذیل ہیں:.۱۹۰۱ء سے پہلے کے وہ حوالہ جات جو حضرت مسیح موعودؑ کے نبی ہونے کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں ”اس عاجز نے سنا ہے کہ اس شہر(دہلی) کے بعض اکابر علماء میری نسبت یہ الزام مشہور کرتےہیں کہ یہ شخص نبوت کا مد عی.ملائک کا منکر، بہشت و دوزخ کا انکاری ،اور ایسا ہی وجود جبرائیل اورلیلۃ القدر اور معجزات اور معراج نبوی ؐسے بکلی منکر ہے لہذا میں اظہار اللحق عام و خاص اور تمام بزرگوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء ہے میں نہ نبوت کا مدعی ہوں.اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلة القدر وغیرہ سے منکر.بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جواسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں.اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ
۴۲۴ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیٰﷺ پر ختم ہوگئی ) ۲۴ (اشتہار ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء - مجموعه اشتہارات جلد صفحه ۲۳۰ - ۲۳۱ ) ’’كل انسانوں کے کمالات بہ ہیبت مجموعی ہمارے رسول الله ﷺ میں جمع ہیں اور اسی لئےآپ کل دنیا کے لئے مبعوث ہوئے.اور رحمۃ للعلمین کہلائے انک لعلی خلق عظیم میں بھی اسی مجموعی کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے.یہ ایک مسلم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علت غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کل مطالب بیان ہو جاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جا تا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علت غائی رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوئی.اور یہی ختم نبوت کے معنی ہیں.کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آکر اس کا خاتمہ ہوگیا.صفحہ ۱۷ سطر ۱۶ ’’اللہ تعالی ٰنے جو کمالات سلسلہ نبوت میں رکھے ہیں مجموعی طور پر وہ ہادی کامل پر ختم ہو چکےاب ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے مجددین کے ذریعہ سے دنیا پر اپناپر توڈالتے رہیں گے ؟ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قیامت تک رکھے گا“ (دین الحق صفحہ ۶۷ از تقریر نمبرا صفحہ ۲۲ جو ۱۸۹۹ء میں دوبارہ شائع ہوئی) الحمدللہ ه و الصلوۃ والسلام على رسولہ خاتم النبيین اما بعد تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محد ث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محد ثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محد ثیت نبوت ناقصہ ہےیہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کے روسے بیان کئے گئے ہیں ور نہ حاشاو کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام کے صفحہ ۱۳۷میں لکھ چکا ہوں میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے.جس حالت میں ابتداء سے میری نیت میں جس کو اللہ جلّشانہ خوب جانتا ہے.اس لفظ نبی سے مراد نبوت حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف محدث مراد ہے جس کے معنی آنحضرت اﷺنے مکلم مراد لئے ہیں یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا ہے.عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال النبی صلى الله عليه وسلم لقد كان
۴۲۵ فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال یكلمون من غير أن يكونوا أنبياء فان يكن من أمتى منهم احد فعمر (بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب مناقب عمر بن الطلاب )از مجموعه اشتہارات فروری ۱۸۹۲ء) ’’اور خدا تعالی ٰجانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں“( آسمانی فیصلہ صفحہ ۳ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ ۳۱۳) \" منصفو! سوچ کر جواب دو کہ کیا قرآن کریم میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت کوئی حقیقی طور پر صلیبوں کو توڑنے والا.اور ذمیوں کو قتل کرنے والا اور قتل ِخنزیر کا نیا کام لانے والا اور قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرنے والا ظہور کرے گا اور آیت اليوم أكملت لكم دينكم اور آیت حتی یعطوا الجزية عن يد (التوبہ:۲۹) اس وقت منسوخ ہو جائے گی.اورنئی وحی قرآنی وحی پر خط نسخ کھینچ دے گی اے لوگو! اے مسلمانوں کی ذریت کہلانے والو! دشمنِ قرآن نہ بنو.اور خاتم النبین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو.اور اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کے جاؤ گے ۸»‘‘ (آسمانی فیصلہ صفحہ ۲۵ روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۳۵) ’’دوم یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسرفاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں.معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کامدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے منہ پھیرنے والا\" آسمانی فیصلہ صفحہ ۳۷ روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۴۷) ’’نہ مجھے دعوی ٰنبوت و خروج از امت اور نہ میں منکر معجزات اور ملائک اور نہ لیلة القدر سے انکاری ہوں.اور آنحضرت ﷺ کے خاتم النبّین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی کریم اﷺخاتم الانبیاء ہیں.اور آنجناب کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گانیا ہو یا پرانا ہو اور قرآن کریم کا ایک شعشہ یا نقطہ منسوخ نہیں ہو گا ہاں محدّث آئیں گے جو اللہ جلّشانہ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور نبوت تامہ کی بعض صفات ظلّی طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں.اور بلحاظ بعض وجوہ شان نبوت کے رنگ سے رنگین کئے جاتے ہیں اور ان میں سے میں ایک ہوں.“ (نشان آسمانی صفحہ ۳۰.۳۱ اور روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۹۰.۳۹۱)
۴۲۶ \"یہی امت ہے کہ اگرچہ نبی تونہیں مگر نبیوں کی مانند خداتعالی ٰسے ہم کلام ہو جاتی ہے اوراگر چہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانند خداتعالی ٰکے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں.اور روحانی زندگی کے دریا اس میں بہتے ہیں.اور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے.کوئی ہے کہ جوبرکات اور نشانوں کے دکھلانے کے لئے مقابل میں کھڑا ہو کر ہمارے اس دعوے کا جواب دے“ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۲۴) ’’جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء الوراء ہو جاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلّی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے.اور انبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہو جاتا ہے وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہو جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیا ء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اوروحی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے اس میں محد ثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے حقیقت ایک ہی ہے لیکن باعث شدت اور ضعف رنگ کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں.اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبار کہ اشارت فرمارہے ہیں کہ محدث نبی بالقوہ ہوتا ہے، اور اگر باب نبوت مسدود نہ ہو تاتو ہر یک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہو جانے کی رکھتا تھا.اوراسی قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں کہ المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں، العنب خمر على القوة الإستعداد ومثل هذا الحمل شائع متعارف في عبارات القوم و قد جرت المحاورات على ذلك کمالا يخفى على کل ذکی عالم مطلع على کتب الأدب و الكلام والتصوفاورای حمل کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جانہ نے اس قراء ت کو جو ممارستان تور وب و محدث ہے خفقر کر کے قراء ت معانی میں صرف یہ الفاظ کافی قرار دیئے کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی ( الحج:۵۳) ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۳ تا ۲۳۹) \" قولہ.میرزا صاحب کے موافقین اور مخالفین نے پرلے درجے کی افراط اور تفریط کی ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ میں قرآن شریف کو مانتا ہوں.نماز پڑھتا ہوں.روزے رکھتا ہوں.اور لوگوں کو اسلام سکھاتا ہوں اس کو کافر کہنازیبا نہیں.مگر ایک عالم کے مرتبے سے بڑھا کر پیغمبری تک پہنچانا بھی نہیں.*و من قبلک
۴۲ اقول صاحب انصاف طلب کے بیان میں لیکن ان کے پہلے ہی قول شریف میں تناقض پایا جاتا ہے.کیونکہ ایک طرف تو وہ بہت ہی حق پسند بن کر نہایت مہربانی سے فرماتے ہیں کہ مسلمان کو کافر کہنازیبا نہیں اور پھر دوسری طرف اسی منہ سے میری نسبت رائے ظاہر کرتے ہیں کہ گویا میری جماعت در حقیقت مجھے رسول اللہ جانتی ہے اور گویا میں نے در حقیقت نبوت کا دعویٰ کیا ہے اگر راقم صاحب کی پہلی رائے صحیح ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں.تو پھریہ دوسری رائےغلط ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ میں خود نبوت کامدعی ہوں.اور اگر دوسری رائے صحیح ہے تو پھر وہ پہلی رائے غلط ہے جس میں ظاہر کیا گیا کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن شریف کو مانتا ہوں.کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے.قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے.اور کیا ایساوہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ولكن رسول الله وخاتم البین کو خدا کاکلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرت ﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں.صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اورلغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اسکو بھی پسند نہیں کر تاکہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جلشانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو میں بوجه مأمور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا.لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے ۳۴.وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے.اور اصل حقیقت جس کی میں علىٰ رؤوس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبي ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا- ومن قال بعد رسولنا وسيدنا انی نبی اورسول على وجه الحقيقة والافتراء وترك القران و احكام الشريعة الغراء وھو کافر كذاب غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت ﷺ کے دامن فيوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی الله بننا چاہتا تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عباد ات کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کردے گا.پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ؎۳۵ ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں
۴۲۸ کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.’’لیکن یاد رکھنا یا ہے کہ جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے بعض اوقات خدائے تعالی ٰکے الہامات میں ایسے الفاظ استعارو اور مجاز کے طور پر اس کے بعض اولیاء کی نسبت استعمال ہو جاتے ہیں اوروہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتے.سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعّصب اور طرف کھینچ کرلے گئےہیں.آنے والے مسیح موعود کا نام جو میں صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلاہے وہ انہی مجازی معنوں کی روسے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاوره مکالمات الہٰیہ کا ہے.ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا ‘‘(انجاآتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۶ تا ۲۸ حاشیہ) ’’یہ الفاظ بطور استعارہ ہیں جیسا کہ حدیث میں بھی مسیح موعود کے لئے نبی کالفظ آیا ہے ظاہر ہے کہ جس کو خدا بھیجتا ہے وہ اس کا فرستاده ہی ہو تا ہے اور فرستادہ کو عربی میں رسول کہتے ہیں اور جو غیب کی خبر خدا سے پا کر دیوے اس کو عربی میں نبی کہتے ہیں.اسلامی اصطلاح کے معنی الگ ہیں.اس جگہ محض لغوی به معنی مراد ہیں.ان سب مقامات کا مولوی حسین صاحب بٹالوی نے ریویو لکھا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بیس پریس سے تمام پنجاب و ہندوستان کے علماء ان الہامات کو براہین احمد یہ میں پڑھتے ہیں اور سب نے قبول کیا آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا.بجز دو تین لدھیانہ کے ناسمجھ مولوی محمد اور عہد العزیز کے“.(اربعین نمبر ۲ صٖفحہ ۲۴ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۳۶۶) ۱۹۰۱ء کے بعد کے حوالہ جات جو حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں انا مسلمون نؤمن بکتاب اللہ الفرقان و نؤمن بان سیدنا محمدا نبیہ و رسولہ و انہ جاء بخیر الادیان،و نؤمن بانہ خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ الا الذی ربی من فیضہ و اظھرہ وعدہ ،و للہ مکالمات و مخاطبات مع اولیائہ فی ھذہ الامة و انھم یعطون صبغة الانبیاء و لیسوا بنبیین فی الحقیقة فان القران اکمل وطر الشریعة ولا یعطان الا فھم القران ولا یزیدون علیہ ولا ینقصون منہ و من زاد او نقص فاولئک من الشیطین الفجرة و نعنی بختم النبوة ختم کما لاتھا علی نبینا الذی ھو افضل رسل اللہ و انبیائہ و نعتقد بانہ لا نبی بعدہ الا الذی ھو من امة و من اکمل اتباعہ الذی وجد الفیض کلہ من روحانیہ و اضاء بضیائہ فھنالک لا غیرولا مقام الغیرة و لیست بنبوة اخری
۴۲۹ و.(مواہب الرحمن مسلم ۹.۷۰ (روحانی خزائن جلد ۱۹ صنم ۲۸۵) ۲ \" اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریت سے پہنچا دیتی ہے.اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمه مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ نبوت کامل تامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے.ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آسکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے.‘‘ الوصیت صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۱)) ’’باوجود اس کے یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرتﷺ کے بالکل مسدود ہے.اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جونئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.‘‘ الوصیت ۱۳ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱) \" اور پھر ایک اور نادانی یہ ہے کہ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی ٰ کیا ہے.حالانکہ یہ ان کا سراسر افتراء ہے.بلکہ جس نبوت کا دعویٰ کرنا قرآن شریف کی رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعوی ٰنہیں کیا گیا.صرف یہ دعوی ٰہے کہ ایک پہلو سے میں امتی ہوں.اور ایک پہلو سے میں آنحضرت ﷺ کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں..اور نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالی ٰسے بکثرت شرف مکالمه و مخاطبہ پاتا ہوں.بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجد د صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمه و مخاطبہ الہٰیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے.لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمه و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے.( حقیقۃ الوحی روحانی خزائن ۲۲ صفحہ ۴۰۶) \" وليس مراد من النبوة الأكثر مكالمة اللہ و كثرة انباءمن اللہ وكثرة مايوحى و يقول ما نعنی من النبوۃ ما یعنی ابني في صحف الأولى بل ھی درجةلا تعطی الا من اتباع نبینا خیر الوری
۴۳۰ (ضمیمه حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ ص۶۳۷) ثم مع ذلك ذکرت غیر مرة ان اللہ ما أراد من نبوتی الا کثرة المكالمة و المخاطبة وھو مسلم عند اکابر اهل السنة فالنزاع ليس إلا نزاعا اا لفظيا لفظیا فلا تستعجلوا یا اهل العقل و الفطنة و لعنة اللہ من ادعی خلاف ذالک مثقال ذرة و معھا لعنة الناس و المائکہ ( ضمیمه حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ سنہ۶۳۷) ’’اب جبکہ ان حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ امتی ہے تو کلام الہٰی میں اس کا نام نبی رکھنا ان معنوں سے نہیں ہے.جو ایک مستقل نبی کے لئے مستعمل ہوتے ہیں.بلکہ اس جگہ صرف ہی مقصود ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے مکالمه مخاطبہ کرے گا.اور غیب کی باتیں اس پر ظاہر کرے گا.اس لئے باوجود امتی ہونے کے وہ نبی بھی کہلائے گا.‘‘ ( براہین احمدیہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ ص ۳۵۳) کوئی شخص اس جگہ میں ہونے کے لفظ سے دھوکہ نہ کھاوے.میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ وہ نبوت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوت کہلاتی ہے کوئی مستقل نبی امتی نہیں کہلا سکتا.مگر میں امتی ہوں.پس یہ صرف خداتعالی ٰکی طرف سے ایک اعزازی نام ہے جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے حاصل ہوا تاحضرت عیسیٰ سے تکمیل مشابہت..ہو‘‘.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۰) \" ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اه..اور نہ کوئی شریعت ہے.اور اگر کوئی ایسادعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردودر ہے.لیکن خداتعالی ٰنےابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت ﷺکے کمالات متعدیہ کے اظہار اور اثبات ان کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ بخشےکہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پرنبوت ۵ کارمنگ پیدا کردے.سو اس طور سے خدا نے میرا نام نبی رکھا.یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہو گئی.اور ظلیّ طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا تامیں آنحضرتﷺ کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۰) اب جبکہ میں وہ سب حوالہ جات جنہیں جناب مولوی صاحب نے اپنے بیان کی تائید میں پیش ۳۲۴
ا۳ کیا ہے نقل کر چکا ہوں.اور ان کے ساتھی اور وہ حوالہ جات جو ان کے بیان کی تائید میں مل سکتے تھے وہ بھی نقل کر چکا ہوں.تو میں اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتاہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے یہ امر ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب حوالہ جات ہرگز ہرگز ہمارے دعوے کے خلاف نہیں.ان سے حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت رد نہیں ہوتی بلکہ ثابت ہوتی ہے، اور آپ کا دعویٰ با طل نہیں ہوتا بلکہ قائم ہوتا ہے لیکن میں اس قدر بیان کر دینا اور ضروری خیال کرتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے تمہید فصل میں بیان کیا ہے.میں بجائے فرداً فردا ًہر ایک حوالہ کا جواب دینے کے سب حوالہ جات کا اکٹھاجواب دینا چاہتا ہوں تاکہ ہماری جماعت کے لوگوں کو ایک ایسا اصل معلوم ہو جائے جس سے وہ ہر ایک اعتراض کا جواب آئنده خودہی دے لیا کریں.اور اس کے لئے میں نے لغت عرب قرآن کریم محاوره انبیائے سابقین اور حضرت مسیح موعود کے بیان کے مطابق نبی کی ایک جامع مانع تعریف کی تھی جس تعریف کے ہوتے ہوئے نہ کوئی نبی نبیوں کی جماعت سے خارج ہوتا ہے اور نہ کوئی غیر نبیوں کی جماعت میں شامل ہو جا تا ہے پس ان حوالہ جات کے نقل کرنے کے بعد میں طالبان حق کو پھراسی تمہید کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ان حوالوں سے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت ردّ نہیں بلکہ ثابت ہوتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان حوالہ جات میں جہاں جہاں حضرت مسیح موعود نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کرنے سے انکار کیا ہے.اس سے کوئی شخص دھوکا نہ کھائے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑنے خودی ایسے تمام حوالوں کا جواب دے دیا ہے.اور آپ کے اپنے جواب کے بعد کسی کاحق نہیں کہ اس انکار کے کوئی اور معنی کرے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں: \"جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکراس کےواسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کانبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.‘‘ (ایک غلطی کا از الہ ۶،۷، روحانی خزائن جلد ۸ ا صفحہ ۲۱۰ - ۲۱۱ ) اس عبارت نے سب جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے.اور جہاں جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا
۴۳۲ ہے کہ میں نبی نہیں ہوں یا یہ کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہے یا یہ کہ آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بالکل مسدود ہے.اس کے صرف اور صرف یہ معنی ہیں کہ آپ نے شریعت جد یده لانے کادعوی ٰنہیں کیا.آپ کی نبوت آنحضرت ﷺ کے فیض سے ہے.آنحضرت ﷺکے بعد کوئی ایسانبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے یا آپؐ کے واسطے کے بغیر نبوت حاصل کرے.پس ایسی تمام عبارتوں کا تو حضرت مسیح موعود ؑنے ایک ہی جگہ فیصلہ کر دیا ہے.اور جو حضرت مسیح موعود ؑکے نبی ہونے سے اس لئے انکار کرتا ہے کہ آپ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ میں نبی نہیں اسے یاد رکھنا چاہے کہ آپ نے دوسری جگہ اس کے یہ معنی بھی کردیئے ہیں کہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ میں نئی شریعت لانے والا نبی نہیں.اور نہ بلا واسطہ نبوت پانے والا نبی ہوں.اور یہ مراد نہیں کہ میں نبی ہی نہیں.پس ایسے حوالوں سے آپ کی نبوت کا انکار نہیں ہو سکتا.انکار تو اسی صورت میں ہو گا.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ جو شخص نئی شریعت نہ لائے.یا براه راست نبوت نہ پائے نبی نہیں ہو سکتا.مفصل جواب اس بات کا کہ حضرت مسیح موعودؑ پہلے زمانہ میں اپنے نبی ہونے سے کیوں انکار کرتے رہے.آگے دیا جائے گا.اور سروست میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہو تا ہوں.یاد رہے کہ جناب مولوی صاحب نے صرف وہی حوالہ جات دئیے ہیں جن سے مسیح موعود کی نبوت کے خلاف استدلال ہو سکے.اور ان حوالہ جات کو بالکل ترک کر دیا ہے جن سے نبوت ثابت ہوتی ہو اور ہمیشہ فیصلہ اسی طرح ہوتا ہے کہ دونوں قسم کی باتوں کو لے کر ان پر بحث کی جائے.لیکن میں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انہی حوالوں کو لے لیإہے جو جناب مولوی صاحب نےپیش کئے ہیں بلکہ ان کے ساتھ وہ حوالہ جات جو ان کی تائید میں پیش کئے جاتے ہیں.انہیں بھی شامل کرلیا ہے تاسب کافیصلہ ایک ہی دفعہ ہو جائے.ہر ایک صاحب بصیرت جس نے اوپر کے حوالہ جات کو غور سے پڑھا ہو گا.اس نے اس بات کو معلوم کر لیا ہو گا کہ ان میں جگہ بہ جگہ یہ فقرات پائے جاتے ہیں.’’نبوت تامہ جو وحی شریعت لانے والی ہو بند ہو چکی ہے لیکن ”وہ نبوت جس میں سوائے مبشرات کے اور کچھ نہیں وہ باقی ہے.قیامت تک وہ کبھی بند نہیں ہو سکتی‘‘.ہمارا حاصل کلام یہ ہے کہ نبوت جزو یہ ہمیشہ کے لئے کھلی ہے.اوراس ثبوت میں نہیں ہوتے مگر امورغیبیہ جو بشارتوں اور انذار پر مشتمل ہوتے ہیں.’’اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاںبذریعہ وحی دی.
۴۳۳ :: جائیں.یعنی اس قدر کہ اس کے زمانہ میں اس کی کوئی نظیر نہ ہو.اس کا نام ہم بھی رکھتے ہیں\".مومنوں کے لئے مبشر الہام باقی رہ گئے ہیں گو شربت ختم ہوگئی ہے.تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں.یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے\".\"نبوت اور رسالت کالفظ چو شد اتعالی ٰنے اپنی وحی میں میری نسبت صد ہا مرتبہ استعمال کیا ہے.مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبت الہٰیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں.اور غیب پر مشتمل ہیں‘‘.’’اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعوی ٰکیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملتی ہے.لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں"."میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا.بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ‘‘.’’اور میری نبوت سے اللہ تعالیٰ کی مراد صرف کثرت مکالمات و مخاطبات ہے.اور جو اس سے زیادہ سمجھے اس پر خداتعالی کی لعنت ہو"."جو شخص دعوائے نبوت کرے.اور یہ اعتقاد نہ رکھے کہ وہ آنحضرت ﷺکی امت سے ہے، خدا کی لعنت اس پر".’’مگر اس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا.ہاں امتی اور نبی"."اے مسلمانوں کی ذریت کہلانے والو! دشمن قرآن نہ بنو.اور خاتم النبّین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو (جو قرآن کریم کو منسوخ کر دے جیسا کہ ماقبل سے ظاہر ہے)\".\" و نؤمن بانہ خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ الا الزی ربی من فیضہ و اظھرہ وعدہ خدا تعالیٰ اس سے مکالمہ مخاطبہ کرے گا.اور غیب کی باتیں اس پر ظاہر کرے گا اس لئے باوجود امتی ہونے کے وہ نبی کہلائے گا‘‘.یہ وہ نبوت نہیں جو مستقل نبوت کہلاتی ہے\".\ہاں امتی اورنبی دونوں لفظ اجتماعی طور پر اس پر صادق آسکتے ہیں"."خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت ﷺکے بالکل مسدودہے.‘‘ جس نبوت کا دعویٰ قرآن شریف کے روسے منع ہے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا\".\" میری نبوت سے کثرت مکالمه و مخاطبہ مراد ہے.‘‘ ’’ منجاب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں\" ان سب عبارات پر غور کرو.کیا ان کا یہی خلاصہ نہیں نکلتا کہ وحی شریعت بند ہو چکی ہے.اب صرف مبشرات اور منذرات کا دروازہ کھلا ہے.یہ دعوی ٰکرنا کہ کسی انسان کو آنحضرت ﷺ کے واسطہ کے بغیر نبوت ملی ناجائز ہے.آپ کی نبوت امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانے کا نام ہے آپ ایسے نبی ہیں جو امتی بھی ہیں.اب میری تمہید کو یاد کرو اور ان حوالہ جات کو دیکھو کہ کیا اس کے خلاف اس میں کوئی بات ہے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہوتا کہ حضرت صاحب ایسے نبی ہیں جو نئی شریعت لائے یاوحی شریعت اب تک جاری ہے.یا یہ کہ آپ کی نبوت بلاواسطہ تھی یا یہ کہ آپ.0
العلوم جلد ۲ ۴۳۴ امتی نہیں تھے بلکہ اطاعت آنحضرت ﷺسے آزاد تھے یا یہ کہ آپ کی نبوت سے مرادامورغیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا نہیں.بلکہ اور کچھ ہے.تو بیشک یہ حوالہ جات میرے خلاف استعمال ہوسکتے تھے.لیکن جبکہ میرا مذ ہب یہی ہے کہ آپ غیرتشر یعی امتی نبی تھے.تو پھر یہ حوالہ جات میرےخلاف کیو نکر استعمال ہو سکتے ہیں اگر تشریعی نبی یا غیر امتی نبی ہونا شرائط نبوت سے ہو تا.تب بیشک ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا کہ آپ میں شرائط نبوت نہیں پائی جاتی تھیں لیکن جبکہ تشریعی نبی یاغیرامتی نبی ہونانبی کی شرائط میں سے نہیں.تو پھر ان حوالوں کا کیا ثر ؟ نبی کے لئے صرف تین امورضروری ہیں.اول یہ کہ امورغیبیہ پر کثرت سے اطلاع پائے.دوم یہ کہ اس کی پیشگوئیاں انذاری و تبشیری رنگ رکھتی ہوں اور مہتم بالشان ہوں.سوم اسے خدا تعالی ٰنے نبی کہا ہو.اور مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کو کثرت سے امورغیبیہ سے اطلاع بھی دی گئی.اور آپ نے انذار و تبشیر کے لئے مہتم بالشان خبریں بھی دیں.اور آپ کا نام بھی خدا نے الہام میں نبی رکھا.پسنبی کی تعریف کے مطابق آپ نبی ہوئے.جس قدر حوالہ جات نبوت کے رد میں دیئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی تو ایسا حوالہ نہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے.بلکہ قریباً ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نبی تھے.کیونکہ حضرت مسیح موعودنے ابتدائے دعوائے مسیحیت موعودہ سے برابر اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ آپ پر خدا تعالی ٰکثرت سے امورغیبیہ ظاہر فرماتا ہے.اور حضرت صاحب کے الہاموں کو ابتداء سے دیکھ جاؤ - وہ کسی خاص ملک کے لئے نہیں.بلکہ ساری دنیا کے لئے بشارت و انذار کا پہلو رکھتے ہیں.اور سب دنیا کو ان میں انذار و تبشیر کیاگیا ہے.پر ابتدائے دعوے سے آپ کے الہامات میں آپ کو نبی کے نام سے پکارا گیا ہے.اور میں ثابت کر چکا ہوں کہ نبی کے لئے یہی تین شرائط ہیں.جس میں یہ تین شرائط پائی جائیں.وہ یقینا ًًنبی ہے.جو شخص حضرت صاحب کا یہ دعوی ٰنکال کر کہ میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا.بلکہ میرا تو صرف یہی دعوی ٰہے کہ مجھ پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جاتے ہیں.یا یہ دعویٰ نکال کر کہ میں نے جو کچھ پایا ہے آنحضرت ﷺ کی اتباع سے پایا ہے.یہ کہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ آپ نبی نہ تھے.اسے یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں تو ہم یہ آیت لکھ پاتے ہیں کہ فلا يظهر على غيبہ الا من ارتضی من رسول یعنی الله تعالیٰ غیب کی خبریں کثرت سے صرف اپنے رسولوں پر ہی ظاہر فرماتا ہے.ہم حضرت مسیح موعودؑکی کسی ایسی تحریر کا جس میں آپ لکھتے ہوں کہ میں کوئی
۲۳۵ شریعت نہیں لایا.بلکہ میں تو صرف بکثرت امورغیبیہ پر خبرپانے والا ہوں یہ مطلب کیونکر لے سکتےہیں کہ آپ نبی نہیں کیونکہ یہ بات تو نبی ہونے کی شرائط میں سے ہے.کیا شرائط نبوت کے پاۓجانے سے نبوت ثابت ہوتی ہے یا نبوت کا رد ہو تا ہے.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود نے کہیں لکھا ہو کہ اب نبوت سے باقی نہیں رہائر مبشرات و منذرات - تو اس کا یہ مطلب لینا کہ آپ نبی نہ تھے نادانی ہے.کیونکہ یہ تو نبوت کی شرائط میں سے ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وما نرسل المرسلين الا مبشرین ومنذرين – (الانعام: ۴۹) ہم رسولوں کو جو بھیجتےہیں تو ان کا کام ہی یہ ہو تا ہے کہ وہ مبشرات و منذرات لاتے ہیں.اب کیسے تعجب کی بات ہے کہ جس بات کو اللہ تعالیٰ عیں نبوت قرار دے.اسی کو نبوت کے انکار کی دلیل قرار دیا جائے یہ تو ایک ہی بات ہے جیسےکوئی شخص کہے فلاں شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ لکڑی سے میز بنا رہا تھا جس سے ثابت ہوا کہ وہ نجارنہیں.اور فلاں شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ ہل چلا رہا تھا.معلوم ہواکہ اسے ہل چلانا نہیں آتا.فلاں شخص کو دیکھا کہ وہ لڑکوں کو پڑھا رہا تھا ثابت ہوا کہ وہ استاد نہیں.کیا ایسی بات کوئی داناکہہ سکتا ہےہرگز نہیں.پس حضرت صاحب کی ایسی تحریرات سے جن میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا.بلکہ صرف کثرت سے امورغیبیہ پانے کا دعوی ٰہے.اور ان تحریرات سے جن میں آپ لکھیں کہ اب نبوت سے مصرف مبشرات و منذارات باقی رہ گئے ہیں.یہ نتیجہ نکالنا کہ آپ نبی نہ رہے.ایک ایسی بات ہے جس کی غلطی خودہی ظاہر ہے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.لغت اور قرآن کریم اور پہلے انبیاء کے عقائد اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے تو نبوت کی شرائط ہی یہ معلوم ہوتی ہیں کہ کثرت سے امو ر غیبیہ ظاہر ہوں جو انذار و تبشیر کی عظیم الشان خبروں پر مشتمل ہوں.اور خدا تعالیٰ نبی نام رکھے.پس جب یہ شرائط نبوت ہیں تو حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ کرناکہ صرف یہ باتیں مجھ میں پائی جاتی ہیں اس کے یہ معنی کس طرح ہوئے کہ آپ نبی نہیں.اگر یہ باتیں آپ میں پائی جاتی ہیں تو آپ نبی تھے.حضرت مسیحؑ ناصری کیوں نبی تھے ؟ کیا صرف انہی تین باتوں کی وجہ سے نہیں؟ حضرت سلیمانؑ نبی تھے.کیا ان کی نبوت ان تین شرائط کے سوا کسی اور شرط کی وجہ سے ثابت تھی؟ حضرت یحییٰ ؑ و زکریا ؑ الیاس ؑوایوبؑ و بارون ؑو یوسف ؑنبی تھے.پھر ان کی نبوت کسی نئی بات کی وجہ سے تھی؟ ان تین باتوں سے زیادہ اور کونسی بات تھی جس کی وجہ سے نبی ثابت ہوئے؟ حضرت موسیٰ و حضرت نوح علیهم السلام نبی تھے پھر کیا ان کی نبوت کسی اور وجہ سے تھی؟ نہیں اسی وجہ سے تھی کہ ان میں یہ تین شرائط پائی جاتی تھیں.یہ سب انبیاء ہیں.اورا نکونبی صرف
اس لئے کیا جا تا ہے کہ (1) ان کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی تھی (۲) وہ غیب کی خبریں جوان پر ظاہر ہوتی تھیں معمولی نہ ہوتی تھیں بلکہ وہ عظیم الشان خوشخبریوں اور خطرناک عذابوں کی خبریں تھیں (۳) خدا نے ان کو نبی کے نام سے پکارا ہے یہی اور صرف یہی تین باتیں ہیں.جن کےپائے جانے سے پہلے سب انبیاء نبی کہلائے جیساکہ خود حضرت مسیح موعودؑ نے لکھ دیا ہے کہ پہلے نبی بھی اسی وجہ سے نبی کہلائے (جو حوالہ کہ حضرت مسیح موعود ؑکے اپنے الفاظ میں پہلے گذر چکا ہے) پس اگر حضرت مسیح موعود ؑکی کتب میں ان تینوں باتوں کا دعوی ٰہے.تو وہ نبی ہیں اور اگر ان تین باتوں کا دعویٰ نہیں تو پھر وہ نبی نہیں ہیں میں نے بتایا ہے.اور وہ حوالے جو جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تائید میں پیش کئے ہیں ان حوالوں کے علاورجس قدر حوالہ جات ان کے عقید کی تائید میں پیش کئے جاتے ہیں یا کئے جاسکتے ہیں.درج کر دیئے ہیں.ان کو ایک ایک کر کے پڑھو.پھر حضرت مسیح موعود ؑکی وہ تمام کتب جو دعوائے مسیحیت سے بعد کی ہیں.ان کو پڑھو.ان سب میں یہ تینوں دعوے موجو دپاؤ گے.یا ان کے خلاف کوئی بات نہ دیکھو گئے.حضرت مسیح موعودؑ نے کہیں یہ بات نہیں کی کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کثرت سے امورغیبیہ نہیں ظاہر کرتا اور نہ یہ کہیں لکھا ہے کہ میرے الہامات میں عظیم الشان انقلابات کی خبریں نہیں.جو تمام دنیا کے متعلق ہوں بلکہ یہی فرمایا ہے کہ یہ دونوں باتیں میرے الہامات میں ہیں.اور کثرت کے ساتھ ہیں اور کبھی کہیں نہیں لکھا کہ میرے کسی الہام میں میرا نام نبی نہیں رکھا گیا بلکہ جب یہی فرمایا میں فرمایا کہ خدا تعالی ٰنے میرا نام نبی رکھا ہے.پس جبکہ فتح اسلام کے زمانہ سے لے کر وفات تک کی سب کتب میں یہ تینوں دعوے موجود ہیں یا یہ کہ کسی کتاب میں ان کے خلاف نہیں لکھا.تو بتاؤ کہ آپ نبی کیوں نہ ہوئے؟ جیساکہ میں پہلے تمید میں بتا آیا ہوں.لغت عرب، قرآن کریم، اصطلاح باری تعالیٰ، عقائد جمیع انبیاء اور حضرت مسیح موعودؑ کے مذہب کے رو سے تو نبی کہتے ہی اس کو ہیں جو ان تینوں شرائط کو پورا کرے.اور حضرت مسیح موعود ان تینوں شرائط کو پورا کرتے ہیں.پس آپ نبی ہیں.ہاں یہ سوال رہ جاتا ہے کہ نبیوں کی کس قسم میں داخل ہیں.سو آپ غیر تشریعی امتی نبی ہیں.یعنی نہ تو کوئی نئی شریعت آپ لائے.اور نہ بغیر واسطہ رسول اللہ ﷺکے آپ نے نبوت پائی.اور یہ دونوں خصوصیتیں ایسی نہیں ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں نبی نہ ہو.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یحییٰ میںشریعت لانے کی خصوصیت نہ تھی.اور وہ نبی تھے.اور بالواسطہ نبی ہونے کی خصوصیت نبوت کے معنوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی.اور نہ نقل بتاتی ہے کہ نبی وہی ہے جو براہ راست نبوت
۴۳۷ پائے قرآن کریم و حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں.اور نہ عقل بتاتی ہے کہ جو شخص کسی کے واسطہ سے بھی ہوا ہو.اس کو باوجود شرائط نبوت پورا کرنے کے نبی نہیں کہناچا ہیے.اور وه نبی نہیں ہو سکتا.پس جب یہ دونوں باتیں ہر ایک نبی میں نہ قرآن کریم کےرو سے نہ احادیٹ کے روسے نہ لغت عرب کے رو سے نہ عقل کے رو سے پائی جانی ضروری ہیں.تو پھر اگر مسیح موعودؑ ان دونوں باتوں سے انکار کریں.اور کہیں کہ مجھ میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں تو اس سے آپ کےنبی نہ ہونے پر کیا حجت قائم ہوئی.کیا قرآن کریم یا حدیث یا لغت عرب سے اس بات کا ثبوت ہے کہ جس میں یہ دو باتیں نہ پائی جائیں وہ نبی نہیں؟ پھر کیوں ایک ایسا دعویٰ کرتے ہو جو خداتعالی ٰکی طرف سے نہیں.نبی کے لئے جو شرائط ہیں اور جن کے بغیر نبی نہیں ہو سکتا.وہ تو تین ہی ہیں.اور سب نبی ان باتوں میں مشترک ہیں اور لغت سے اور آیات قرآنیہ سے ثابت ہیں.حضرت مسیح موعود وہی شرائط قرار دیتے ہیں.اسلام اور باقی کل نبیوں کی اصطلاح میں بھی ایسے ہی لوگوں کو نبی کہتے ہیں.جن میں دو تین باتیں پائی جائیں.اور وہ تینوں باتیں حضرت مسیح موعودؑ میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بھی حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے اندر ان تین باتوں کے پائے جانے یا ان میں سے ایک کے پائے جانے سے انکار نہیں کیا پس آپ کی کل کتب سے جو دعوائے مسیحیت کے وقت سے لکھی گئیں ثابت ہے کہ آپ اپنے عمدہ کی کیفیت کی جو تفصیل بیان کرتے رہے ہیں وہ آپ کی نبوت کی گواہ اورشاہد ہے اور اس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ نبی تھے.اور یہ کہ جہاں آپ نے انکار کیا ہے اس بات سے انکار کیا ہے کہ میں کسی ایسی نبوت کالانے والا نہیں ہوں.جس میں شریعت جدید ہو-اور نہ اس بات کا مدعی ہوں کہ مجھے نبوت بلا واسطہ ملی ہے.پس ان حوالوں سے نبوت پر کوئی اثرنہیں پڑتا.اور اگر دس ہزار ایسے والے بھی پیش کردیئے جائیں.تو حضرت مسیح موعود کی نبوت کے خلاف کوئی ثبوت نہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں تو شرائط نبوت میں ہیں ہی نہیں.بلکہ ایسی خصوصیات ہیں جو بعض میں پائی گئیں اور بعض میں نہیں.پہلی شرط تو بہت سے پچھلے نبیوں میں بھی میں پائی جاتی یعنی نئی شریعت کا لانا.اور دوسری بات نفس نبوت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی.نہ قرآن کریم نے اسے شرط نبوت قرار دیا ہے ، نہ لغت ، نہ عقل چاہتی ہے کہ نبی وہی ہونا چاہئے جو براہ راست نبی ہو.نہ پہلے انبیاء میں سے کسی نے ایسا کیا ہے نہ احادیث میں یہ شرط مذکور ہے.پس اے عزیزو!تم ان حوالوں سے کبھی مت گھبراؤ.بلکہ جب کوئی تمہارے سامنے ایسے حوالے پیش کرے.جن میں حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی نسبت لکھا ہے کہ میں نئی شریعت نہیں لایا.
.۴۳۸ تو اسے کہہ دو کہ ہم آنحضرت ﷺ کے بعد شریعت جد یده گے لانے کے مدعی کو لعنتی خیال کرتے ہیں.آنحضرت ﷺکے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی.اور اگر کوئی ایسا حوالہ دکھائے جس میں یہ لکھا ہو کہ میں نے براہ راست نبوت نہیں پائی.تب فورا ًکہہ دو کہ ہم ایسے شخص کو جو آنحضرت ﷺکے بعد براہ راست نبوت پانے کادعویٰ کرے جھوٹا اور فریبی خیال کرتے ہیں.کیونکہ آنحضرت اﷺکے مبعوث ہونے کے بعد براہ راست نبوت ملنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی اور جو کچھ مل سکتا ہے آپ ہی کے واسطہ سے اور طفیل سے مل سکتا ہے.پھر اگر وہ کوئی ایسا حوالہ دکھائے کہ جس میں حضرت صاحب نے لکھا ہو کہ میرا تو صرف یہ دعویٰ ہے کہ میں کثرت سے غیب کی خبروں پر اطلاع پاتا ہوں اور بڑے بڑے اہم معاملات جو دنیا کی تباہی یا ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کی خبرپاتا ہوں.اور خدا تعالیٰ نے انہی معنوں میں مجھے نبی کہا ہے.تو تم جواب دو کہ ہم اس سے زیادہ آپ کو کچھ نہیں مانتے اور اس دعوے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کو نبی کہتے ہیں اور کہنے پر مجبور ہیں.کیونکہ لغت عرب میں نَبِیُّ اللہ یہی تعریف ہے.اور قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے اور پچھلے انبیاء اور خود حضرت مسیح موعودؑ کا بھی اسی پر اتفاق ہے جبکہ تم خودتسلیم کرتے ہو کہ حضرت مسیح موعود نے ان تین باتوں کا دعویٰ کیا ہے تو اسی کا نام نبوت ہے.اس سے زیادہ کسی چیز کا نام نبوت نہیں.باقی جو کچھ ہے خصوصیات ہیں جو بعض نبیوں کو چھوڑ کر بعض میں پائی جاسکتی ہیں اور ان خصوصیات میں سے حضرت مسیح موعود ؑنے دو خصوصیات کا اپنی نسبت انکار کیا ہے یعنی تشریعی نبی ہونے کا.اور براہ ر است نبوت پانے کا.اور ہم بھی اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت ایسی نبوت نہ تھی.اور اگر کوئی شخص تم سے کہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں.تو جواب دو کہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے.اس سے ایک انچ ادھر ادھر ہونا کفر ہے.یہ حدیث تو ہماری تائید کرتی ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ نبوت میں سے مبشرات والی نبوت باقی ہے یعنی گو ایسی نبوت اب نہیں آسکتی جس میں نئی شریعت ہو.لیکن یہ نہ خیال کرنا کہ نبی بھی کوئی نہیں آسکتا.کیو نکہ وما نرسل المرسلين الا مبشرین ومنذرين کے ماتحت مبشرات جاری رہیں گی.اگر کوئی کہے کہ اس حدیث سے وہ تینوں شرائط کی طرح نکلتی ہیں تو اسے جواب دو کہ مبشرات سے تو مبشرین منذرین کی آیت کی طرف اشارہ ہے.اور بشارت کے ساتھ انذار ضروری ہو تا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو لکھ کر حضرت مسیح موعودؑنے تو ضیح مرام
۴۳۹ ۱۱: میں اس کی تشریح میں مبشرات کے ساتھ مندرات بھی لگادیا ہے.پس مبشرات کالفظ ثابت کر تاہے کہ منذ رات بھی ہوں گی کیونکہ کسی مامور کی قوم کی ترقی کی خبر اپنے اندر یہ خبر بھی رکھتی ہے کہ اس کے مخالف ہلاک ہوں گے اور سب ماموروں کی خواہ وہ نبی ہوں یا غیرنبی مخالفت ضرور ہوتی ہے.پس مبشرات کے لفظ سے منذرات خود نکل آتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود نے بھی یہ استنباط کیا ہے اور پھر مبشرات کے لفظ سے امور غیبیہ کی اطلاع بھی نکل آتی ہے کیو نکہ مبشرات ہمیشہ آئندہ کی خبروں کو کہتے ہیں.ورنہ اگر کسی امیر کو کوئی شخص جاکر کہے کہ تم امیر ہو تو یہ کوئی بشارت نہیں وہ اسے پہلے ہی جانتا ہے بشارت کہتے ہی اس خوش خبرکو ہیں جسے انسان پہلے نہ جانتا ہو اور نبوت کی مبشرات ہمیشہ آئندہ واقعات کے متعلق ہوتی ہیں.پس مبشرات میں ایک طرف تو تبشیر و انذار کی شرط ثابت ہے.دوم اظہار على الغیب کی شرط بھی ثابت ہے باقی رہی تیسری شرط تووہ صاف الفاظ میں موجو د ہے آنحضرت ﷺفرماتے ہیں لم يبق من النبوةالا المبشرات یعنی نبوت ہے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں.نبوت تو ہے لیکن بعض اقسام کی نبوت آئندہ کے لئے بند کی گئی ہے.اور صرف نبوت میں سے وہ نبوت باقی ہے جو بلا خصوصیت شریعت جدیدہ ہوتی ہے.پس اے دوستو! یہ حدیث تمہارے موافق ہے نہ مخالف.اور حضرت صاحب نے اپنی کل کتب میں اپنے دعوے کی کیفیت کی جو تفصیل بتائی ہے وہ ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اور وہی مفصل کیفیت آپ اپنے دعوے کی بتاتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم و محاوره انبیائے گذشتہ لغت عرب اور خود اپنی بیان کردہ تعریف کے روسے آپ نبی تھے.پس اے عزیز وا!جن کے دل میں مسیح موعود کی سچی محبت ہے اور جو اس کے حقیقی دعوے کو دنیا میں ثابت شدہ دیکھنا چاہتے ہو.اور اس کے کمالات کے چہرہ پر پردہ پڑاہؤادیکھنا پسند نہیں کرتے.یاد رکھو کہ مسیح موعود ؑنے اپنے دعوے کی جو مفصل کیفیت بیان فرمائی ہے وہ ہمیشہ آپ کی نبوت پر گواہ رہی ہے اور اس میں کبھی بھی نبوت کےخلاف کوئی امر نہیں اور کوئی ایسی بات اس میں بیان نہیں جس کے ہونے سے انسان نبی نہ بن سکے یا نبی نہ کہلائے اور نہ آپ نے کبھی کسی شرط نبوت سے انکار کیا ہے جس کی کمی سے آپ کے نبی ہونے میں شک پیدا ہو جائے.پس حضرت مسیح موعود کی تحریرات کو پڑھتے ہوئے اس اصل کو یا د رکھو جو میں نے ابتداء میں تمہارے سامنے پیش کیا ہے کہ نبی کی صرف تین ہی شرائط ہیں اس سے زیادہ نہیں اور باقی سب باتیں خصوصیات کے طور پر ہیں جن میں سے اگر بعض نہ پائی جائیں تو نبی نبی ہی رہتا ہے اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا.اور یہ میرا دعویٰ اپنا نہیں بلکہ لغت عرب کی سب
۴۴۰ سے زیاده مستند کتاب تاج العروسں کے حوالہ سے اور قرآن کریم کی شہادت سے اور پہلے انبیاء کی نظیر سے اور حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریرات سے وہی اصل ثابت ہے اس کے خلاف نہیں.پس تم کبھی فروعات کی بحث میں نہ پڑو بلکہ اس اصل کو مضبوط پکڑ کر معترضین کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اللہ تعالی سے دعا مانگ کر خد مت سلسلہ میں لگے رہو پھر کوئی دشمن تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گا.تم ان سے یہ دریافت کرو کہ نبوت کی مفصل کیفیت میں جو حضرت مسیح موعود نے اپنی مختلف کتب میں بیان کی ہے کہاں اور کن شرائط نبوت سے انکار کیا ہے.اگر وہ تم کو کہیں کہ حضرت مسیح موعود تو لکھتے ہیں کہ آپ صرف لغوی نبی ہیں.تو ان سے کہو کہ ذرا لغت کی کھول کر دیکھو -نبی اللہ کی تعریف اس میں کیا لکھی ہے؟ لغت کی تعریف تو یہی ہے کہ نبی وہ ہے جو کثرت کے ساتھ اور غیب کے اہم امور کی خبریں دے.اور اس کا نام اللہ تعالی ٰنے نبی رکھا ہو.اور قرآن کریم بھی یہی تعریف فرماتا ہے.پس لغت کے مطابق نبی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ آپ نبی نہیں.بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبی ہیں.کیونکہ لغت میں انبیاء کے لئے جو شرائط آئی ہیں وہی شرائط قرآن کریم میں مذکور ہیں.اور انہیں شرائط کی روسے پہلے انبیاء نبی ہوا کرتے تھے اور وہ تعریف حضرت مسیح موعود بیان فرماتے ہیں.پس اگر لغت کوئی اور تعریف کرتی.تو بیشک شک کا مقام تھا لیکن لغت تو وہی تعریف نبی کی کرتی ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اور جس کی رو سے پہلے انبیاء نبی تھے.پس اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح موعود قرآن کریم کے معنوں کے رو سے بھی نبی ہیں.اورلغت کے معنوں کے رو سے بھی نبی ہیں.اور کیا نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ لغت کے خلاف کسی اور معنوں کے رو سے نبی ہو.نہیں ایسا نہیں.فیصلوں کی اصل حَکم تو لغت ہے.اور اس کے بعد اصطلاحات خاص.پس جبکہ لغت میں نبی کے معنی اور قرآن کی اصطلاح ایک ہی ہیں تو اب کسی کا کیاحق ہے کہ اپنی طرف سے نئی شرائط تجویز کرے، غرض کہ جو تین شرائط میں نے ابتداء میں نبی کے لئے بتائی ہیں وہی شرائط ایسی ہیں کہ جس میں ہوں وہ نبی ہو گا.اور جس میں وہ تینوں یا ان میں سےایک نہ ہو وہ نبی نہیں کہلا سکتا.اور جس میں وہ تین شرائط پائی جائیں اور کوئی شخص اس کے نبی ہونے سے انکار کرے تو وہ شخص قرآن کریم کی ہتک کرنے والا ہے.لیکن قرآن کریم نے ان شرائط سے زیادہ اور کوئی شرط مقرر نہیں فرمائی.اسی طرح وہ پہلے نبیوں کی نبوت سے انکار کرنے پر مجبور ہے.کیونکہ اگر ان شرائط کو تعلیم نہ کیا جائے تو بہت سے نبیوں کی نبوت کے انکار کرنا پڑے گا.اور ایسے شخص کو لغت سے بھی انکار کرنا پڑے گا.کیونکہ لغت میں نبی انسان کا نام بتایا ہے جس
میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں.اور اس سے زائد کوئی اور شرط نہیں بتائی.پس جس میں یہ شرائط پائی جاویں اس کے نبی ہونے کا انکار کرنے والا لغت بھی چھوڑتا ہے.اور جو لغت کو چھوڑتاہے.اس سے بحث کرنا ہی فضول ہے.کیونکہ ممکن ہے وہ کل کو کہہ دے کہ کتاب فرشتوں کو اور فرشتہ رسول کو کہتے ہیں.اوراختر کھائے جانے سے کہہ دے کہ میں لغت کا اعتبار نہیں کرتا.اب میں جناب مولوی صاحب کے کل نقل کردہ حوالہ جات کا جواب ایک ہی جواب میں دے چکا ہوں یعنی ہے کہ نبی قرآن کریم کی اصطلاح اور پہلے نبیوں کی نبوت اورلفت عرب کے مطابق اس شخص کو کہتے ہیں.جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں.۱.کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائے.۲-اسے جو خبریں غیب کی بتائی جائیں وه امور مہمہ پر مشتمل ہوں اور منکروں کی تباہیوں اور ماننے والوں کی ترقیوں کی اطلاع ان میں دی جائے.٣-خدائے تعالیٰ نے اس کانام نبی رکھاہو.اور جو حوالے جناب مولوی صاحب نے دیئے ہیں.ان میں سے ایک میں بھی میں یہ لکھا نہیں پا تاکہ ان تین باتوں میں سے فلاں بات مجھ میں نہیں ہے.اور نہ ان کے سوا حضرت مسیح موعودؑ کی کسی اور تحریر میں.بلکہ ان سب میں یہ بات لکھی ہے کہ یہ باتیں مجھ میں موجود ہیں.پس جب ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے آپ کو ان تین شرائط کا پورا کرنے والا بتاتے ہیں.تو پھر آپ کے نبی ہونے میں کیا شک ہے.اگر حضرت صاحب کی نبوت کے خلاف ثبوت دینا ہوتو ہم کو وہ حوالہ جات دکھائیں جن میں ان تین امور میں سے کسی امر کا انکار کیا گیا ہو.لیکن ہمارےسامنے تو ایسے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعودؑ ان تین شرائط کا اقرارکرتے ہیں.ہاں کسی جگہ یہ لکھتے ہیں کہ وحی شریعت بند ہو گئی.کی جگہ لکھتے ہیں کہ کوئی شریعت جدید لانے والا نبی نہیں آ سکتا.کسی جگہ لکھتے ہیں کہ بلا واسطہ نبوت پانے والا نبی آنا اب ناممکن ہے.اور ان باتوں کو تو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کوئی جد ید شریعت نہیں لائے اور یہ کہ آپ کی نبوت فیض محمدیؐ سے تھی.پس ان حوالوں کے پیش کرنے سے کیا فائدہ؟ وہ تو ہمارے خیالات کی تائید کرتے ہیں.ہمارے خلاف توہی حوالہ جات پیش کئے جاسکتے ہیں.جن میں حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے اندر شرائط نبوت پورا ہونے سے انکار کیا ہو.جو باتیں ہر ایک نبی میں پائی جانی نہ قرآن کریم کے مطابق نہ لغت کے مطابق نہ حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریرات کے
۴۷۲ مطابق ضروری ہوں.اگر ان میں سے جس کا حضرت مسیح موعود انکار کر دیں اور کہیں کہ یہ میرے اندر نہیں ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ نبی بھی نہیں ہیں.جو باتیں نبی ہونے کے لئےضروری ہیں حضرت مسیح موعودان کا دعویٰ شروع سے آخر تک برابر کرتے رہے ہیں اور اس کے خلاف کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ حضرت صاحب نے کہیں لکھا ہو کہ : ۱- مجھے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع نہیں دی جاتی.- جن امور کی مجھے اطلاع دی جاتی ہے وہ معمولی باتیں ہوتی ہیں نہ تبشیر و انذار کے متعلق.٣- خدا تعالیٰ نے مجھے نبی کے لفظ سے کبھی نہیں پکارا.مگر میں یقیناً کہتا ہوں کہ یہ بات کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا.اور خواہ ۱۹۰۱ء کے بعد کی کتب ہوں یا پہلے کی.کسی میں بھی ان باتوں سے انکار نہیں بلکہ ان باتوں کے پائے جانے کا دعوی ٰہے.اور نبی اسی کو کہتے ہیں جس میں یہ باتیں پائی جائیں.میں آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دینا چاہتا ہوں کہ میری اس تحریر ہے کہ بعض انبیاء میں جو خصوصیات ہوتی ہیں.ضروری نہیں کہ وہ سرے انبیاء میں بھی پائی جائیں کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ انعامات نبوت بھی نبیوں سے جدا ہو سکتے ہیں.مثلاً یہ انعام کہ ہرنبی اپنے زمانہ کے لوگوں کا مطاع ہو.یا یہ کہ اس کے منکر اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دور کئے جائیں.یہ انعامات نبوت ہیں.خصوصیات انبیاء سے نہیں ہیں.اور ضروری ہے کہ ہر ایک شخص جب نبی بنے.تو ان انعامات کا مستحق ہو اور شرعی نبی ہونا یا بلا واسطہ نبوت پانا انعامات نبوت میں سے نہیں.کیونکہ بعض نبی شریعت نہیں بھی لاتے.جو ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ انعام نبوت نہیں ورنہ سب کو ملتا.اور بلاواسط نبوت پانا اس لئے انعامات نبوت میں سے نہیں ہے کہ انجام کیا شئے کا اس کے حاصل ہونے کے بعد ملتا ہے.اور بلا واسطہ نبوت کا پانا یا نہ پانا تو نبوت کے ملنے کے وقت کا کام ہے اس لئے انعام نبوت نہیں کہلا سکتا.نبوت کے متعلق اختلافات کا اصل سبب اب میں یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے کتاب تریاق القلوب لکھنے کے بعد اپنے نبی ہونے کے متعلق ایک تبدیلی فرمائی ہے.اور یہ کہ جون کے پرچہ ریویو میں جو مضمون ہے و تریاق القلوب کی تحریر کا ناسخ ہے اور اس کے بعد میں نے نبی کی تعریف از روئے قرآن کریم و
۴۴۳ اصطلاح ربانی و عقید و انبیائے سابقین و نسب حضرت مسیح موعودؑو لغت عرب کے بیان کر کے بتایا ہے کہ یہ تعریف من كل الوجوه حضرت مسیح موعود پر صادق آتی ہے.اور جس قدر شرائط نبی ہونے کے لئے ہیں.وہ سب آپ میں پائی جاتی ہیں.اور آپ شروع دعویٰ مسیحیت سے اس بات کا اقرار فرماتے رہے ہیں کہ وہ شرائط آپ کے اندر پائی جاتی ہیں.پس آپ نبی ہیں.اور اگر حضور علیہ الصلاة والسلام نے کسی جگہ یہ تحریر فرمایا ہے کہ میں کوئی شریعت نہیں لایا.یا یہ کہ میں نے جو کچھ پایا ہے آنحضرت ﷺکے طفیل سے پایا ہے.اس کا یہ مطلب نکالنا کہ آپ نبی نہ تھے غلط ہے کیونکہ یہ باتیں شرائط نبوت سے نہیں ہیں.اور جو باتیں شرائط نبوت سے ہیں.ان کا انکار حضرت مسیح موعودؑنے کبھی نہیں کیا.اس کے بعد میں ایک اور ضروری امر بھی کچھ تحریر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود اس بات کے مقرّتھے کہ آپ کے اندر سب شرائط نبوت پائی جاتی ہیں تو کیوں آپ اپنی بعض تحریرات میں نبی ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں اور صاف لکھتے رہے ہیں کہ آپ نبی نہیں بلکہ محدث ہیں.اور یہ کہ آپ کی نبوت صرف محدثوں والی نبوت ہے نہ کہ کسی اور قسم کی.گو یہ ممکن تھا کہ میں صرف یہ کہہ کر اس مضمون کو ختم کردیتا کہ حضرت مسیح موعودؑ خو دلکھ چکے ہیں کہ میرے انکار سے صرف شریعت جدیدہ اور نبوت بلاواسطہ مراد ہے.لیکن چونکہ میں چاہتا ہوں کہ حتی الامکان اس رسالہ میں ایسے کل امور کا جو مسیح موعود کی نبوت کے متعلق ہیں.اصولی طور پر فیصلہ کیا جائے.اس لئے میں صرف اس جواب پر کفایت کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ اس اصل سبب کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.جو اس اختلاف کا باعث ہوا ہے.اور اس غلطی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جس میں پڑ کر بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کردیا اور میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ اس غلطی کو اچھی طرح سمجھ لیں گے.وہ معلوم کرلیں گے کہ مو جو دہ اختلاف کسی طرح اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے.اور ان کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ایک لحاظ سے تو حضرت مسیح موعودؑ کی ابتدائی تحریرات اور آخری تحریرات میں اختلاف ہے اور ایک طور سے بالکل کوئی اختلاف نہیں.اور اسی نکتہ کونہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.چونکہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں سے وہ حوالے جن سے آپ کی نبوت کے خلاف استدلال کیا جاتا ہے.اوپر نقل کر دیئے ہیں اور ان کو دو حصوں پر تقسیم کیا ہے ایک ۱۹۰۱ء سے پہلے کے.اور ایک ۱۹۰۱ء کے بعد کے.اس لئے ہر ایک شخص بآسانی اس بات کو معلوم کر سکتا ہے کہ جن
۴۴۴ کتب میں آپ نے اپنے نبی ہونے سے صریح الفاظ میں انکار کیا ہے اور اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص اور محدثوں کی نبوت قرار دیا ہے وہ سب کے سب بلا استثناء ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب ہیں (اور یہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ تریاق القلوب بھی انہی کتب میں سے ہے اور ۱۹۰۱ ءکے بعد کی کتب میں سے ایک کتاب میں بھی اپنی نبوت کو جز ئی قرار نہیں دیا اور نہ ناقص اور نہ نبوت محد ثیت – اورنہ صاف الفاظ میں کہیں لکھا ہے کہ میں نبی نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میں شریعت والا نبی اور براہ راست نبوت پانے والا بھی نہیں ہوں.ہاں ایسانبی ضرور ہوں جس نے نبوت کا فیضان بواسطه آنحضرتﷺ پایا ہے.اس اختلاف سے اتناتو ضرور معلوم ہو جا تا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعودنے اپنے عقیدہ میں ایک تبدیلی ضرور کی ہے.یعنی پہلے اپنی نبوت کو محد ثیت قراردیتے تھے.لیکن بعد میں اس کا نام نبوت ہی رکھتے ہیں.اور نبوت کا انکار نہیں کرتے بلکہ شریعت جديده لانے اور براہ راست نبوت پانے کا انکار کرتے ہیں.پھر جب ہم آپ کی کتاب حقیقۃالوحی کو دیکھیں تو اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں آپ نے اپنے عقیدہ میں کوئی تبدیلی ضرور کی ہے کیونکہ آپ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خداکے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اسکو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیامگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلوسے امتی“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۵۳.۱۵۴ ) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ پہلے اپنے آپ کو اس بناء پر کہ مسیح نبی ہے اور آپ غیرنبی.مسیح سے افضل نہیں سمجھتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی وحی میں بار بار آپ کا نام نبی رکھا گیا تو آپ نے اس عقیدہ میں تبدیلی کرلی اور اپنے آپ کومسیح سے افضل قرار دیا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنی نبوت کا اقرار کیا کیونکہ غیرنبی نبی سے افضل نہیں ہو سکتا اور چونکہ تریاق القلوب کے زمانہ تک آپ نے اپنے آپ کو مسیح سے کلی طور پر افضل ہونے کا انکار کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے اور چونکہ ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا ہے جس میں آپ نے اپنی نبوت کا اعلان بڑے زور سے کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ءمیں آپ نے اپنے عقیدہ میں تبدیلی کی ہے اور ۱۹۰۰ء ایک درمیانی عرصہ ہے جو دونوں خیالات کے درمیان
۲۴۵.برزخ کے طور پر حد فاصل ہے پس ایک طرف آپ کی کتابوں سے اس امر کے ثابت ہونے سے کہ۱۹۰۱ء سے آپ نے نبی کا لفظ بار بار استعمال کیا ہے اور دوسری طرف حقيقة الوحی سے یہ ثابت ہونے سے کہ آپ نے تریاق القلوب کے بعد نبوت کے متعلق عقیدہ میں تبدیلی کی ہے یہ بات ثابت ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کے وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے.اب ایک اعتراض رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ جب یہ ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ شروع دعوی سے اپنے اندر نبیوں کی سب شرائط کے پائے جانے کے مدعی تھے تو پھر آپؑ کیوں اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے تھے اور اگر پہلے آپ انکار کرتے تھے تو بعد میں اسی دعوے کی بناء پر پھر وعوائے نبوت کیوں کیا؟ اگر یہ ثابت ہو جا تاکہ آپ نے اپنے دعوے میں بھی کوئی تبدیلی کرلی تھی تب تو یہ مانا جا سکتا تھا کہ پہلے آپ کادعویٰ وہ تھا جو غیر نبیوں کا ہو تا ہے اور بعد میں آپ نے وہ دعویٰ کیا جو نبیوں کا ہوتا ہے اسلئے نبی ہونے کا بھی اعلان کر دیا لیکن جبکہ کام اور درجہ ایک رہا تو پھرنام کے تبدیل کرنے کی کیا وجہ تھی.اگر اس دعوی ٰکے ہوتے ہوئے آپ ۱۹۰۱ء سے پہلے نبی تھے تو بعد میں بھی تھے اور اگر ۱۹۰۱ء سے پہلے اس دعوے کی موجودگی میں آپ نبی نہ تھے تو ۱۹۰۱ء کے بعد کونسی بات پیدا ہوگئی تھی کہ آپ اس کی وجہ سے نبی ہو گئے.اور پھر یہ بھی اعتراض پڑتا ہے کہ جب شروع دعوی ٰسے آپ میں نہ ہونے کی کل شرائط پائی جاتی تھیں تو کیوں آپ نبی ہونے سے انکار کرتے رہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف ایک نہایت چھوٹی سی بات سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں کہ ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.اس تمام اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود دو مختلف اوقات میں نبی کی دو مختلف تعریفیں کرتے رہے ہیں- ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ نبی کی اور تعریف کرتے تھے اور بعد میں آپ نے جب اللہ تعالیٰ کی متواتروحی پر غور فرمایا اور قرآن کریم کو دیکھا تو اس سے نبی کی تعریف اور معلوم ہوئی چونکہ جو تعریف نبی کی آپ پہلے خیال فرماتے تھے اس کے مطابق آپ نبی نہ بنتے تھے اس لئے باوجود اس کے کہ سب شرائط نبوت آپ میں پائی جاتی تھیں آپ اپنے آپ کو نبی کہنے سے پرہیز کرتے تھے اور اپنے الہامات میں جب نبی کا نام دیکھتے اس کی تاویل کر لیتے اور حقیقت سے ان کو پھیردیتے کیونکہ آپ جب اپنے نفس پر غور فرماتے تو اپنے اندر وہ باتیں نہ دیکھتے تھے جن کا انبیاء میں پایا جانا آپ ضروری خیال فرماتے تھے
۴۴۶ لیکن بعد میں جب آپ کو الہامات میں بار بار نبی اور رسول کہا گیا اور آپ نے اپنی پچھلی تیئس سالہ وحی کو دیکھا تو اس میں برابر ان ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا تھا پس آپ کو اپنا عقیدہ بدلنا پڑا.اور قرآن کریم سے آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی تعریف وہ نہیں جو آپ سمجھتے تھے بلکہ اس کے علاوہ اور تعریف ہے اور چونکہ وہ تعریف جو قرآن کریم نبی کی کرتا ہے اس کے مطابق آپ نبی ثابت ہوتے تھے اس لئے آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا.نبی کی وہ تعریف جس کے رو سے آپ اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ نبی ہی ہو سکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا یہ کہ اس نے بِلا واسطہ نبوت پائی ہو اور کسی دوسرے نبی کامتبع نہ ہو اور یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی.چونکہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کام کو نہ شروع کرتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آئے اس لئے اسی احتیاط انبیاء سے کام لے کر حضرت مسیحؤ موعود بھی اسی عقیدہ پر قائم رہے کہ نبی میں مذکورہ بالا تین باتیں پائی جانی ضروری ہیں اور چونکہ آپ میں ان باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جاتی تھی اس لئے آپ اپنے الہامات کی یہ تاویل فرماتے کہ نبی سے مراد محدث ہے اور آپ کا درجہ محد ثیت کا ہے نہ کہ نبوت کا.اور آپ کا نام صرف بعض جز ئی مشابہتوں کی وجہ سے رکھ دیا گیا ہے یا صرف لغت کے معنوں کے لحاظ سے کیو نکہ نبوت کے معنی خبر دینے کے ہیں.پس جو شخص خبر دے وہ جز ئی طور پر نبی کہلا سکتا ہے اور رسول کا نام پاسکتا ہے.لیکن بعد میں آپ نے معلوم کیا کہ نبی کے لئے شرط نہیں کہ وہ ضرور شریعت جدیده لائے یا بعض پچھلے حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبوت پائے بلکہ اس کے لئے اور شرائط ہیں جو آپ میں وعوائے مسیحیت کے وقت سے پائی جاتی ہیں اس لئے آپ نے اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کردیا اور اس کے بعد کبھی اپنے نبی ہونے سے انکار نہیں کیا.اگر کیا تو صرف اس بات سے کہ میں کوئی شریعت لانے والانبی نہیں اور نہ ایسانبی ہوں کہ میں نے بلاواسطہ نبوت پائی ہے.پس سارا اختلاف نبوت کی تعریف کے اختلاف سے پیدا ہوا ہے جب تک آپ نبی کی یہ تعریف کرتے رہے کہ اس کے لئے شریعت جد ید ہ لا نا بلاواسطہ نبی ہونا شرط ہے تب تک تو آپ اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے رہے اور گو ان باتوں کا اقرار کرتے رہے جو نبی ہونے کی اصلی شرائط تھیں اور جب آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی شرائط کوئی اور میں وہ نہیں جو پہلے سمجھتے تھے اور وہ آپ کے اندر پائی جاتی ہیں تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اقرار کیا چنانچہ حقیقت الوحی کی مذکورہ بالا تری سے بھی یہ امر ثابت ہے کیونکہ اس
۴۴۷.میں آپ لکھتے ہیں کہ میں پہلے تو مسیح سے اپنے آپ کو ادنیٰ خیال کرتا رہا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ نبی ہے اور میں غیرنبی.لیکن بعد میں جب بار بار مجھ پر وحی نازل ہوئی اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا تو مجھے اپنا عقیدہ بدلناپڑا.اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ نبی کے نام سے تو حضرت مسیح موعود کو براہین کے زمانہ سے یاد کیا جاتا تھا.پس صریح طور سے نبی کا خطاب دیا گیا کہ یہ معنی تو ہو نہیں سکتے کہ آپ کو پہلے نبی کا خطاب نہ دیا گیا تھا.بعد میں دیا گیا اس لئے فضیلت کا عقیدہ بدل دیا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے بھی نبی کے نام سے آپ کو پکارا تو جاتا تھا لیکن آپ اس کی تاویل کرتے رہتے تھے لیکن جب بار بار الہامات میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول کے نام سے پکارا تو آپ کو معلوم ہوا کہ آپ واقعہ میں نبی ہی ہیں غیرنبی نہیں.جیسا کہ پہلے سمجھتے تھے اور نبی کا لفظ جو آپ کے الہامات میں آتا ہے صریح ہے قابل تاویل نہیں.پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کونبی کا خطاب نیا دیا گیا بلکہ یہ مطلب ہے کہ بار بار کی وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا کہ تیئس سال سے جو مجھے کونبی کہا جا رہا ہے تو یہ محدث کا دوسرا نام نہیں بلکہ اس سے نبی ہی مراد ہے اور یہ زمانہ تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ تھا اور اس عقیدہ کے بدلنے کا پہلا ثبوت اشتہار ’’ایک غلطی کا ازالہ\" سے معلوم ہوتا ہے جو پہلا تحریری ثبوت ہے ورنہ مولوی عبدالکریم صاحب کے خطبات جمعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۰۰ء سے اس خیال کا اظہار شروع ہو گیا تھا تو پورے زور اور پوری صفائی سے نہ تھا چنانچہ اسی سال میں مولوی صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت مسیح موعود کو مرسل الہٰی ثابت کیا اور لَا نفرق بين أحدمنهم والی آیت کو آپ پر چسپاں کیا اور حضرت مسیح موعود ؑنے اس خطبہ کو پسند بھی فرمایا ہے اور یہ خطبہ اس سال کے الحکم میں چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پورا فیصلہ اس عقیدہ کا ۱۹۰۱ء میں ہی ہواہے.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود چو نکہ ابتداًء نبی کی تعریف یہ خیال فرماتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے یا بلا واسطہ نبی ہو اس لئے باوجود اس کے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لئے واقع میں ضروری ہیں آپ میں پائی جاتی تھیں آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے رہے اور گو ان ساری باتوں کا دعوی ٰکرتے رہے جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے بلکہ محدث کی شرائط سمجھتے تھے اس لئے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور
۴۴۸ نہیں جانتے تھے کہ میں دعوے کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں پائی نہیں جاتی اور نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعوے کی آپ شروع دعویٰ سے بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ کیفیت نبوت ہے نہ کہ کیفیت محدثیت.تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت کا انکار کیا.تمہارا یہ فرض تھا کہ بتاتے کہ ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے اسلام کو منسوخ کر دیا ہو یا آنحضرت ﷺ الگ ہو کر نبوت پائی ہو ورنہ نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے یہ میرا خیال ہی خیال نہیں بلکہ واقعہ ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ ۱۸۹۹ء کے ایک خط میں جو الحکم ۱۸۹۹ء میں چھپ چکا ہے نبی کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں فرماتے ہیں : ’’مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالی ٰسے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز مصطفی ٰﷺ کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبي ﷺخاتم الأنبياء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے\".الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹.۱۸۹۹ء) اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ اسلام کی اصطلاح کی رو سے نبی وہی ہو سکتا ہے جس میں مذکورہ بالا تین باتوں میں سے کوئی پائی جائے.یعنی (1) وہ جدید شرییت لائے.(۲) بعض احکام شریعت سابقہ منسوخ کرے.(۳) یا بلا واسطہ نبوت پائے اور چونکہ یہ باتیں آپ میں پائی نہ جاتی تھیں اس لئے آپ بالکل درست طور پر اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے تھے ہاں چونکہ لغت میں نبی کے لئے ان شرطوں میں سے کوئی شرط مقرر نہیں اس لئے آپ یہ فرما دیتے تھے کہ میرا نام صرف لغوی طور پر نبی رکھا گیا ہے اور اس کی یہ وجہ تھی کہ لغت میں جو شرائط نبی کی پائی جاتی تھیں وہ آپ اپنے اندر موجود پاتے تھے یعنی (۱) کثرت سے مکالمه و مخاطبہ (۲) انذار و تبشیر سے پر امور غیبیہ کا
۴۴۹ اظہار (۳) اور خدا تعالی ٰکا نبی نام رکھنا لیکن اسلامی اصطلاح کو اس تعریف کے خلاف سمجھ کر (کیونکہ عام مسلمانوں کا یہی عقیدہ تھا اور انبیاء انکشاف تام تک عام عقیدہ پر قائم رہتے ہیں) آپ باوجود سب شرائط نبوت کے موجود ہونے کے اور ان کے پائے جانے کا إقرار کرنے کے اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے.مگر بار بار کے الہامات نے آخر آپ کی توجہ کو نبی کے حقیقی مفہوم کی طرف پھیرا اور آپ کے دل پر پورے طور پر امر واقع کا انکشاف ہوا اور قرآن کریم کو بھی آپ نے عام لوگوں کے عقیدہ کے خلاف پایا.تو اس پہلے عقیدہ کو ترک کر دیا چنانچہ اس کا ثبوت وہ تحریرات ہیں جو آپ نے نبی کی تعریف میں ۱۹۰۱ء اور اس کے بعد لکھی ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.ا- خدا کی اصطلاح میں نبی کسے کہتے ہیں.’’خدا کی یہ اصطلاح ہے کہ جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے این ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں\" (چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۵ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱) ۲- انبیاء کے نزدیک نبی کی تعریف جبکہ وہ مکالمه مخاطبہ اپنی کیفیت و کمیت کے رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے\".(الوصیت صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۱) ۳- اسلام کی اصطلاح میں نبی کسے کہتے ہیں.’’ایسے شخض میں ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور رسول اور محدث کہتے ہیں اور وہ خدا کے پاک مکالمات و مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں".
۴۵۰ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۵) ۴.قرآن کریم میں نبی کی تعریف ’’جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت لا يظهر على غيبه کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۲۰۸) ۵- زبانِ عربی میں نبی کی تعریف ’’عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیشگوئی کرنے والا اور بغیر کثرت کے یہ معنی متحقق نہیں ہو سکتے“.(مکتوب مندر جہ اخبار عام ۱۹۰۸ء) ان تعریفوں سے جو سب کی سب ۱۹۰۱ء یا اس کے بعد کی ہیں صاف ثابت ہے کہ آپ نے نبی کی تعریف کو بعد میں بدل دیا تھا اور جیسا کہ ۱۸۹۹ء کے خط سے جس کا حوالہ میں اوپرنقل کر آیا ہوں ثابت ہے آپ پہلے تو اسلام کی اصطلاح میں نبی کے یہ معنی خیال کرتے تھےکہ نبی وہ ہے جو (1) یا تو نئی شریعت لائے.(۴) یا پہلی شریعت کے بعض حکم منسوخ کرے(۳) یا بلاواسطہ نبی ہو صفحہ ۱۲۷.اور چونکہ یہ باتیں آپ میں نہیں پائی جاتی تھیں ضرور تھا کہ آپ اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے لیکن ۱۹۰۱ء میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ،انبیاء کے نزدیک، اسلام کی اصطلاح کے مطابق ،قرآن کریم کے فیصلہ کےمطابق نبی کی تعریف وہی ہے جس کو آپ پہلے صرف لغت کی تعریف خیال کرتے رہے تھےاور اسلامی اصطلاح کے خلاف سمجھتے تھے یعنی کثرت سے امور غیبیہ کی خبر پاتن جو خارق عادت نشان ظاہر کرنے والے ہوں یعنی نبی کے اتباع کی عزت اور اس کے مخالفین کی تباہی کی خبر دینے والے ہوں.تو ایسے شخص کا جب خدا تعالی ٰنبی نام رکھے تو وہ نبی ہی ہوتا ہے نہ کہ محدث.تو آپ نے معلوم کیا کہ آپ واقعہ میں نبی ہیں.اور ابتدائے دعوی ٰسے اللہ تعالی ٰنے آپ کو نبی کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور یہ خیال آپ کا صرف قیاس کی بناء پر ہی نہیں بدلا بلکہ اللہ تعالی ٰکے حکم کے ماتحت حضور نے ایسا کیا جیسا کہ فرماتے ہیں." آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم.
ا۴۵ الہٰی نبوت رکھتا ہوں“.(تتمه حقیقۃ: الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳) پس جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود بتلایا کہ نبوت شریعت لانے یا بلا واسطہ نبی ہونے کانام نہیں بلکہ امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانے کا نام ہے اور ایسے ہی شخص کا نام اللہ تعالیٰ جب نبی رکھتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے نہ محدث.تو آپ نے اپنے پہلے خیال کو ترک کر دیا.اور ۱۹۰۱ء کے بعد پھر کبھی نہیں لکھا کہ میں نبی نہیں ہوں.ہاں جب اپنے آپ کو نبی کہا تو یہ بھی لکھتے رہے کہ میں فلاں قسم کا نبی نہیں بلکہ فلاں قسم کانبی ہوں.میں اس جگہ ایک اور حوالہ بھی دے دیتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بر خلاف اس عقیدہ کے جو حضرت مسیح موعود ؑنے ۱۸۹۹ء میں نبی کے متعلق ظاہر فرمایا.۱۹۰۱ء کے بعد آپ کا یہی مذہب تھا کہ نبی کے لئے شریعت جد ید ہ کا لانا کوئی شرط نہیں اور نہ یہ کہ کسی اور نبی کا متبع نہ ہو چنانچہ آپ فرماتے ہیں : "نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبه الہٰیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کےلئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو پس ایک امتی کو ایسانبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا" (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۲) مذکورہ بالا حوالہ جات سے بالکل بین ہو جاتا ہے کہ 1901ء سے پہلے آپ نبی کی اورتعریف کرتے تھے اور ۱۹۰۱ء اور اس کے بعد اور تعریف کرتے رہے اور یہ تغیر اپنی رائےاور قیاس سے نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور قرآن کریم کی تصریحات کے مطابق تھاپس جب تک کہ آپ نبی کی یہ تعریف کرتے رہے کہ اس کے لئے شریعت جديده لانا یابلاواسطہ نبوت پانا ضروری ہے آپ اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے رہے اور جب یہ معلوم پڑا کہ یہ باتیں شرائط نبوت سے نہیں ہیں اور جو شرائط نبوت ہیں وہ سب آپ میں پائی جاتی ہیں تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اقرار کیا.اور یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کی وجہ سے ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص قرار دیتے رہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو آپ کو جو درجہ دیا گیا تھا اسے آپ نبوت نہ سمجھتے تھے اور دوسری طرف خدا تعالی ٰآپ کو نبی قرار دیتا تھا اس لئے
۳۵۲ آپ دونوں باتوں کو مطابق کرنے کے لئے یہ تاویل کرتے کہ میں ہوں تو محدث.لیکن کثرت مکالمہ کی وجہ سے مجھے باوجود اس کے کہ میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا نبی کہہ دیا جاتا ہے لیکن جب آپ کو معلوم پڑا کہ آپ جس درجہ پر کھڑے ہوئے ہیں وہ جزو نبوت نہیں بلکہ عین نبوت ہے اس وقت کے بعد آپ صرف یہ بتاتے تھے کہ میری نبوت فلاں قسم کی ہے اور یہ کبھی نہ کہتے تھے کہ میں نبی نہیں ہوں صرف ایک جزو نبوت کے پائے جانے سے میرا نام نبی رکھ دیا گیا ہے.اسی طرح یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا کہ ایک وقت تو آپ اپنے آپ کو مسیح پر جزئی فضلیت رکھنے والا بتاتے رہے کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ وہ نبی ہے اور میں نبی نہیں اور غیرنبی نبی پر کھلی فضیلت نہیں پا سکتا لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ نبی ہی ہیں اور نبی کی تعریف آپ پر صادق آتی ہے تو اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دے دیا.اسی طرح یہ بھی تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کے سبب سے ایک وقت تو اپنے آپ کو نبی کہنے سے جماعت کو روکتے رہے اور دوسرے وقت میں خود اپنے آپ کو نبی اور رسول کے لکھنے لگے یہاں تک کہ جب ایک شخص نے آپ کے دعوائے رسالت و نبوت سے انکار کیا تو اس کو ڈانٹ دیا.پھر اسی طرح یہ بھی تعریفوں کے اختلاف کے ہی سبب سے ہوا کہ ایک وقت تو آپ نے اشتہار دیا کہ نبی سے میری مراد صرف محدث ہے اور لوگوں کو چاہئے کہ نبی کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ محدث رکھ لیں لیکن اس کے بعد اس کے خلاف یہ اعلان فرمایا کہ : ’’اگر خدا تعالی ٰسے غیب کی خبریں پانے والانبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلا ؤکسی نام سےاس کو پکارا جائے اگر کو اس کا نام محدث رکھنا چاہے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے“.(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ روحانی خزائن جلد ۱۸ مه ۲۰۹) ۱۹۰۱ء سے پہلے تو کہتے ہیں کہ نبی سے مراد صرف محدث ہے اور ۱۹۰۱ء کو اعلان کرتے ہیں کہ وہ تو نبی ہی کہلا سکتا ہے محدث تو وہ ہو نہیں سکتا کیونکہ محدث کے معنی اظہار غیب کرنے کے نہیں ہیں اور یہ اختلاف اسی وجہ سے ہوا کہ آپ پہلے تو نبی کی اور تعریف کرتےتھے اور چونکہ اپنے آپ کو نبی نہیں سمجھتے تھے اس لئے آپ کا خیال تھا کہ نبی سے نیچے اتر
۴۵۳ کر جو درجہ ہے وہ محدث کا ہے میں وہی ہوں گا اور اس درجہ کا نام محدث ہی ہو گا لیکن آپ کو جب معلوم ہوا کہ وہ درجہ نبوت کا درجہ ہے اور جس تعریف کو آپ محدثیت کی تعریف خیال کرتے تھے وہ در حقیقت نبوت کی تعریف تھی تو آپ نے اپنے محدث ؔ۵۵ہونے سے انکار کر دیا.اور نبی ہونے کا اعلان کیا.پھر اسی طرح یہ نبی کی تعریفوں کے اختلاف کے سی سبب سے تھا کہ ایک وقت جب آپ اپنے آپ کو نبی خیال نہ کرتے تھے تو اپنے لئے جب نبی کا لفظ الہامات میں دیکھتے تو اس کے یہ معنی کر لیتے کہ ہر محدث ایک رنگ میں جزئی نبی ہوتا ہوگا اس لئے نبی کہا جاتاہے.اور اسے صوفیوں کی معمولی اصطلاح قرار دیتے تھے اور اس وجہ سے اپنے اس درجہ میں سب پہلے بزرگوں کو شامل خیال کرتے تھے لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو درجہ آپ کو ملا ہے وہ نبوت کا درجہ ہے اور جو کیفیت اپنے درجہ کی آپ بیان کرتے رہے ہیں وہ نبوت کی کیفیت تھی نہ کہ محد ثیت کی.تو آپ کو مجبوراً اپنے سے پہلے سب محدثوں کو اپنے درجہ سے علیحدہ کہنا پڑا.اور صاف کہہ دیا کہ وہ میری نبوت میں شریک نہیں.حالانکہ ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ اپنی نبوت پہلے محدثوں کی کی نبوت قرار دیتے تھے جیسا کہ پہلے گذر چکا لیکن۱۹۰۱ ء کے بعد نبی کی حقیقی تعریف کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکشاف ہونے کے بعد آپ نے صاف لکھ دیا کہ: ’’جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں » (حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶.۴۰۷) اسی طرح لکھا ہے : ’’اگر دو سرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمه و مخاطبه الہٰیہ اور امورغیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جا تا.اس لئے خداتعالی ٰکی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کوپورے طور پر پانے سے روک دیا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ، ہی ہوگاوہ پیشگوئی پوری ہو جائے“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۷)
۴۵۴ غرض کہ جب تک آپ اپنے درجہ کو محدثوں کا درجہ سمجھتے تھے جن الفاظ سے آپ کو یاد کیا جاتا ان میں پہلے بزرگوں کو بھی شامل کر لیتے لیکن جب نبی کی حقیقی تعریف کا علم ہوا توآپ نے جان لیا کہ وہ لوگ میرے مقام تک نہیں پہنچے اور میں محدث نہیں بلکہ نبی ہوں.اس لئے آپ کو لکھنا پڑا کہ پہلے بزرگ رتبہ نبوت میں میرے شریک نہ تھے.غرض کہ اپنے دعوے کی تفصیلی کیفیت کے لحاظ سے تو آپ ہمیشہ ایک ہی بیان شائع کرتے رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مجھے کثرت سے امور غیبیه پر اطلاع دی جاتی ہے جو انذار و تبشیر کا رنگ رکھتے ہیں اور خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی اپنی نبوت سے انکار نہیں کیا بلکہ اپنے دعوے کی تفصیلی کیفیت جو بیان کرتے رہے ہیں اس کے صاف معنی یہ تھے کہ آپ نبی ہیں.لیکن اس لحاظ سے کہ آپ نبوت کی تعریف ۱۹۰۱ء سے پہلے اور خیال کرتے تھے اورباوجود اپنے اندر شرائط نبوت کے پائے جانے کے لفظ نبی کی تاویل کرتے تھے آپ کےعقیدہ میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور اگر ایک وقت آپ اپنے آپ کو نبی کہنے سے منع کرتے رہے ہیں تو دوسرے وقت آپ کے نبی ہونے سے انکار کرنے والے کو آپ نےڈانٹ دیا ہے.پس جہاں جہاں آپ نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے یا نبی معنی محدث ليا ہے.اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ آپ شریعت جدیدہ کے لانے کا براہ راست نبوت کے پانے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ اس وقت آپ کے نزدیک نبی کے یہی معنی تھے اور یہی وجہ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں" ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸،صفحہ ۲۱۰) غرض ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ اگر اپنے نبی ہونے کے منکر تھے تو صرف اس لئے کہ اس وقت تک انبیاء کی احتیاط سے کام لے کر آپ عام عقیدہ کے مطابق نبی کے لئے صاحب شریعت ہونا یا براہ راست نبوت پانے والا ہونا شرط خیال کرتے تھے (جیسا کہ اوپر حوالہ نقل ہو چکا ہے) اور اس وجہ سے آپ کے انکار کے صرف یہی معنی کئے جا سکتے ہیں جو آپ نے خود کر دیئے ہیں کہ آپ نے جب انکار کیا در حقیقت شریعت جديده لانے یا براہ راست
۴۵۵ نبوت پانے سے کیا ہے کیونکہ آپ کے خیال میں اس وقت نبی کے یہی معنی تھے پس یہ نہ دیکھا جائے گا کہ آپ نے لفظ نبی سے انکار کیا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ نبی کے لفظ کے کیامعنی سمجھ کر اس سے انکار کیا ہے اور جن معنوں کے رو سے آپ نے انکار کیا ہے انہی معنوں تک آپ کا انکار محدود رکھنا ہوگا اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس وقت تک آپ نبی کے معنی یہی خیال کرتے تھے کہ جو شریعت جديده لاۓ یا براہ راست ثبوت پائے مگر بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا کہ یہ معنی درست نہیں اور یہ باتیں نبوت کے لئے شرائط ہیں.نبی کے لئے اور شرائط ہیں اور وہ آپ میں پائی جاتی ہیں.غرض کہ اے عزیزو! یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے حضرت صاحب کی مختلف تحریروں میں اختلاف معلوم ہوتا ہے اور جسے دیکھ کر ہماری جماعت کے ہی بعض لوگوں کو ٹھوکر لگ گئی ہے لیکن در حقیقت یہ نزاع لفظی ہے.اور انہوں نے نہیں دیکھا کہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اس وقت آپ کے ذہن میں نبی کے کیا معنی تھے.اور پھر اس پر غور نہیں کیا کہ آپ کی بعد کی تحریرات سے ثابت ہے کہ اسلامی اصطلاح اور قرآن کریم کی اصطلاح کے رو سے نبوت کی تعریف اور ہے اور یہ کہ اس تعریف کے رو سے آپ نبی تھے میں مانتا ہوں کہ پہلی تعریف کو بھی آپ نے اسلامی اصطلاح کہا ہے لیکن اس کے ساتھ قرآن کریم سے کوئی دلیل نہیں دی مگر بعد میں جو تعریف کی اس کے لئے قرآن کریم سے استدلال کیا اور فرمایا کہ خدا کے حکم کے مطابق میں اس کا نام نبوت رکھتا ہوں.پس اس تعریف نے پہلی تعریف کو بدلا دیا اور ۱۹۰۱ء سے پہلے جس قدر تحر یرات سے نبی ہونے کا انکار پایا جاتا تھا ان کے معنی بھی بدل دینے اور اس کے صرف یہ معنی رہ گئے کہ آپ نے شریعت جدیده لانے یا براہ راست نبوت پانے سے انکار کیا ہے پس اب بھی چاہئے کہ دانا انسان اس امر پر غور کریں اور اس نکتہ کو سمجھیں اور اپنی آخرت کی سنوار کی فکر کریں اور اللہ تعالیٰ کے مامور اور مرسل کی ہتک سے باز آئیں کہ اس کا نتیجہ نہایت برا ہوتا ہے جس طرح افراد بری ہے تفريط بھی بری ہے جسے خدا نے نبی قرار دیا اس کے نبی ہونے سے انکار نہ کریں کہ یہ خدا کا مقابلہ ہے بیشک بعض تحریرات میں انہیں اختلاف نظر آتا ہے.لیکن وہ غور کر کے دیکھ لیں کہ وہ اختلاف صرف نبی کی تعریف کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے اور جبکہ خود حضرت مسیح موعود ؑنے نبی
۴۵۶ کی ایک تعریف کر دی ہے تو نہایت نادان ہے وہ جواب بھی ٹھوکر کھاتا ہے جب سورج چڑھ گیا تو پھر ٹھوکریں کھانا آنکھوں والوں کا کام نہیں.پس اپنی آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ سورج نصف النہار میں آگیا.اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کا اظہار کر رہا ہے اور اپنی طاقت کا جلوہ دکھاتا ہے اس کے جلال کا اقبال کرو اور اس کی قرنا کا جواب دو جو اس کانبی مسیح موعودؑ ہے جس نے اپنے سب کمالات آنحضرت ﷺاکے طفیل سے اور آپ کے واسطہ سے پائے.پس کیاہی مبارک ہے وہ جس نے اس قدر فيضان کا دریا بہادیا.اور کیاہی مبارک ہے وہ جس نے اس فیضان کو اپنے اندر لے لیا.اور اس قدر وسیع ہو اکہ ظلّلی طور پر کل کمالات محمدیؐہ ہے کو پالیا.آہ!کیاہی قابل افسوس اور جائے تعجب و حیرت ہے یہ امر کہ وہ غلطی جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کی معرفت دور کروائی تھی او ر و ہ حقیقت جو اس کے ذریعے دنیا پر روشن کی تھی اسی غلطی کا مرتکب احمدی جماعت کا ایک حصہ ہو رہا ہے اور اسی حقیقت کا منکر اس کے پیروؤں کا ایک گروہ ہو رہا ہے.نادان مسلمانوں کا خیال تھا کہ نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا پہلےاحکام میں سے کچھ منسوخ کرے یا بلا واسطہ نبوت پائے لیکن اللہ تعالی ٰنے مسیح موعودؑ کےذر یعہ اس غلطی کو دور کروایا اور بتایا کہ یہ تحریف قرآن کریم میں تو نہیں.قرآن کریم تو یہ فرماتا ہے کہ فلا يظهر على غيبه أحدا إلا من ار تضی من رسول وہ پھر تم کیوں نبی کے لئے ایسی شرائط مقرر کرتے ہو جو اس کے لئے خدائے تعالیٰ نے مقرر نہیں کیں اس نے قرآن کریم سے ثابت کیا کہ نبوت کی وہی تعریف ہے جو وہ کرتا ہے اس نے اعلان کیا کہ خدا کے حکم کے ماتحت میں یہ تعریف کرتا ہوں اس نے اس تعریف کے قبول نہ کرنے والوں کو ڈانٹا اور زجر کیا اور کہا کہ تم اپنی نادانی اور جہالت سے نبی کی غلط تعریف کر رہے ہو نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں نبوت تو ایک موہبت ہے جس میں شریعت لانے نہ لانے کا کوئی دخل نہیں اور کہا کہ : ”نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہٰیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے.‘‘ چشمه معرفت صفحہ ۱۸۱٬۱۸۰ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۸۹) لیکن افسوس کہ باوجود اس کے مسیح موعود نے اس باطل اور بلا دلیل عقیدہ کی تردید کر دی جس میں اس وقت کے مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ مبتلاء تھا لیکن خود مسیح موعودؑ کی جماعت میں سے
۴۵۷ ایک گروہ اٹھتا ہے اور اس نادانی کا مرتکب ہوتا ہے جس کا الزام حضرت مسیح موعودؑ اپنے دشمنوں کو دیتے رہے کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کیایہ حسرت کی بات نہیں کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ طبیب خود بیمار ہو گیا.اور تیراک خود ڈوب گیا اور بدرقہ خود بھول گیاوہ جماعت جس کا فرض تھا کہ لوگوں کو جہالت سے نکالے اور وہ جماعت جس کا فرض تھا کہ مسیح موعودؑ کے لائے ہوئے نور سے دنیا کی ظلمت کو دور کرے اس کا ایک گروہ خود اسی جہالت میں جاگرتا ہے جس سے نکالنے کا کام مسیح موعودؑ نے اس کے سپرد کیا تھا اور آپ اس ظلمت میں اپنا گھر بنالیتا ہے جس کے دور کرنے کے لئے مسیح مدعو دنے اسے مقرر کیا تھا.آه! جہالت اور نادانی کے لئے کیسی خوشی کادن ہے اور علم و حقیقت کے لئے کیسے افسوس کی گھڑی ہے کہ پولیس مین چوروں میں جا ملا اور فوج کا سپاہی باغیوں کے ساتھ شامل ہو گیا کسی نے کیا سچ کہا ہے کہ : مژده باراے مرگ عیسیٰ آپ ہی بیمارہے وہ مسیح کی جماعت جو شیطان کے آخری حملہ کو توڑنے پر مقرر کی گئی تھی اس میں سے ایک جماعت جاده اعتدال کو چھوڑ کر غلط عقائد کو دوبارہ اختیار کرتی ہے لیکن نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جماعت کا اکثر حصہ حق کو سمجھ چکا ہے اور جو لوگ کہ اس وقت تک اپنے مرکز سے علیحدہ ہیں وہ بھی کسی ضد اور ہٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فہمی کی وجہ سے اور ناواقفیت کے سبب سے.ان میں سے بہتوں کے دل مسیح موعودؑ کی محبت سے پُر ہیں اور قریب ہے کہ خدا کی رحمت ان کی آنکھیں کھول ہے اور وہ دیکھ لیں کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں وہ اس راستہ کے خلاف ہے جس پر مسیح موعود ؑنے ان کو چلایا تھا اور جس جگہ کو یہ امن و امان کی جگہ خیال کر رہے ہیں وہ وہی تاریک گڑھا ہے جس سے لوگوں کو نکالنے کے لئے مسیح موعودؑ کوشش کرتا رہا.کیادنیاکے یکتا موتی اور فروجو ہر او رلاثانی ہادی محمدﷺ کی دعائیں ضائع جائیں گی ؟ کیا اس زمانہ کے امام اور اپنے استاد کے تمام کمالات کے اخذ کرنے والے مسیح موعود ؑکی آہ و زاریاں رائیگاں جائیں گی؟ نہیں یہ نہیں ہو سکتا ضرور ہے کہ جلد یا بدیر بھولے ہوئے واپس آئیں اور گم شدہ گھر کوپالیں.خدائے تعالیٰ بڑار حمٰن ہے بڑا رحیم ہے بڑا کریم ہے پھر میں کس طرح مان لوں کہ وہ اس جماعت کو جو اس نے مسیح موعودؑکے ہاتھوں سے قائم کروائی ہے پر آئندہ ہونے دے او راس کشتی کو جسے اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بنوایا ہے سمندر کی لہروں اور سنگین چٹانوں سے ٹکرا کرا کر ٹوٹنے دے.یہ جدائی عارضی ہے اور یہ علیحدگی وقتی ہے ورنہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ لوگ جنہوں نے مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر
۴۵۸ بیعت کی اور اس کے پر جلال کلام کو سنتے رہے وہ اس بات کو معلوم کرنے کے بعد بھی کہ جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ مسیح موعود ؑکی ہتک کرنے والا ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی قوت فیضان کو بھی کمزور ثابت کرنے والا ہے اس طریق کو نہ چھوڑیں گے اور ضد پر قائم رہیں گے نہیں یہ نہیں ہو سکتا وہ کون ساشاگر د ہے جو اس بات کو معلوم کر کے بھی کہ اس کا تیر اس کے استاد کی چھاتی پر پڑتا ہے اور وہ کون سا بیٹا ہے جو یہ معلوم کر کے بھی کہ اس کی بندوق کا نشانہ اس کی ماں اور باپ دونوں ہیں اپنی کمان کو نیچے نہ کر لے گا.اور اپنی بندوق کا رخ دوسری طرف نہ کردےکا یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ کسی خطرناک گہرے ابتلاء میں پڑ گئے ہوں لیکن و ہ سینکڑوں آدمی جو اس وقت تک بعض ایسے خیالات پر قائم ہیں جن سے مسیح موعودؑ اور آنحضرت ﷺ کی ہتک ہوتی ہے ان سب کی نسبت میں ہر گز گمان نہیں کر سکتا کہ وہ صرف شرارت سے ایسا کرتے ہیں بلکہ ضرور ہے کہ اس مخالفت کا اصل باعث بہتوں کے لئے غلط فہمی او ر ناواقفیت ہو.ہاں مبارک ہیں وہ جو صبح کو بھول کر شام کو پھر اپنے گھر واپس آگئے اور اپنے باپ کو چھوڑ کر پھر اس سے معافی خواہ ہوئے وہ ضرور ایک دن اپنی حالت پر غور کریں گے اور اپنی حالت پر زار زار روئیں گے جب ان کو معلوم ہو گا کہ ایک معمولی غلطی کی بناء پر وہ مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف کرتے رہے ہیں وہ اس کے احکام اور اس کے کام کو پاؤں کے نیچے روندتے رہے وہ اس پر تیر چلاتے رہے جس نے ان کی طرف کبھی انگلی بھی نہ اٹھائی تھی وہ اس کی پگڑی اتارتے رہے جس نے ان کے سروں پر پگڑیاں رکھی تھیں وہ اس سے دشمنی کرتے رہے جو ان کی محبت میں چور تھا آج اگر مسیح موعودؑ دنیا پر پھر واپس آئے تو وہ اس انتظار و کو دیکھ کر کیا کہے کہ وہ غلطی جو میں نے دور کی تھی اسے پھر پھیلایا جا رہا ہے اور وہ بات جو میں نے خدا سے معلوم کر کے کہی تھی اسے رد کیا جا رہا ہے بیشک یہ ایک دردناک نظارہ ہو لیکن وَ رَبِّ محمد وه اپنے آقا کی طرح اس بات سے پاک ہے کہ اس پر دو موتیں آئیں خدائے تعالیٰ اس کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے خود سامان کرے گا اور جیسا کہ اس نے فرمایا ہے ولا بقى لك من المخزيات ذکرایعنی ان باتوں کو جو تیرے نام کے لئے دھبہ اور بد نام کن ہوں میں بالکل مٹادوں گا وہ ضرور اس بات کو جس میں اس کی ہتک ہوتی ہے مٹا دے گا.اور خدائے تعالیٰ کا فعل خود ظاہر فرمائے گا کہ آیا مسیح موعودؑ کو نبی ماننے میں اس کی اور آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے یا عزت.اور اب بھی وہ اپنے فعل سے ظاہر کر رہا ہے اور روز بروز گم گشتوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور پراگندہ جماعت پھر اکٹھی ہو رہی ہے اور گو اب دو فیصدی احمدی بھی
۴۵۹ اس حق سے دور نہیں ہیں لیکن کیا کوئی باپ جس کے دس بیٹے ہوں اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک مرجائے؟ نہیں وہ اس بات پر بھی خوش نہیں ہو سکتااسی طرح ہم بھی اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ مسیح موعود ؑکی جماعت سے ایک آدمی بھی خواہ غلطی اور نادانی سے ہی کیوں نہ ہو الگ ہو جائے.دردانسان کو بیتاب کر دیتا ہے اور میں بھی درد میں کہیں سے کہیں نکل گیا میرا مطلب یہ تھا کہ یہ غلطی جو اس وقت جماعت کے ایک حصہ کو لگی ہوئی ہے اور یہ فتنہ جو پڑا ہوا ہے اس باعث سے ہے کہ یہ نہیں سمجھا گیا کہ نبی کسے کہتے ہیں اور وہ تعریف ہے حضرت مسیح موعود نے بعد کی تحریرات سے منسوخ کر دیا اسے برقرار رکھا جاتا ہے حالانکہ مسیح موعود نے اسے نادانی قرار دیا ہے اور وہ تحریرات جو اس تعریف کو مان کر آپ نے لکھی تھیں کہ نبی وہی ہوتا ہے جو نئی شریعت لائے یا براہ راست نبی ہو اور اس وجہ سے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا تھا ان کو محکم قرار دیا جا تا ہے.حالا نکہ نبی ہونے سے انکار آپ نے تب کیا ہے جب آپ نبی کے لئے شریعت کا لانا یا بلاواسطہ نبی بننا ضروری خیال کرتے تھے جیسا کہ ۱۸۹۹ء میں آپ نے ظاہر فرمایا.اور جب آپ نے اللہ تعالی ٰکے حکم کے مطابق اور قرآن کریم کے فیصلہ کے مطابق نبی کی پہلی تعریف کی غلطی معلوم کرلی جیسا کہ۱۹۰۱ء اور اس کے بعد کی تحریرات سے میں نے ثابت کیا ہے تو اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کر دیا کیونکہ اب جو شرائط نبوت آپ کو معلوم ہو گئیں وہ شروع دعوے سے آپ میں پائی جاتی تھیں اس لئے آپ نبی تھے.ٍ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ سب جھگڑا جو ثبوت کے متعلق پیدا ہوا ہے وہ صرف ثبوت کی دو مختلف تعریفوں کے باعث ہے ہمارا مخالف گروہ نبی کی اور تعریف کرتا ہے اور ہم اور تعریف کرتے ہیں.ہمارے نزدیک نبی کی تعریف یہ ہے کہ: (1) وہ کثرت سے امور غیبیه پر اطلاع پائے - (۲) وہ غیب کی خبریں انذار و تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہوں.(۳) خدائے تعالیٰ اس شخص کا نام نبی رکھے.جن لوگوں میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں وہ ہمارے نزدیک نبی ہوں گے.ہاں انبیاء مختلف خصوصیتیں رکھتے ہیں.بعض شریعت لاتے ہیں بعض نہیں لائے.بعض ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں.بعض سب ملکوں کی طرف مبعوث ہو کر آتے ہیں.لیکن شرائط نبوت وہی تین ہیں جن میں وہ پائی جائیں.نبوت کے لحاظ سے وہ ایک ہوں گے.جس طرح سب انسان انسان ہونے کے
۴۶۰ لحاظ سے ایک ہیں آگے نبیوں کے درجوں میں فرق ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے.نبوت کے لحاظ سے جیسے حضرت یحیٰی نبی ہیں ویسے ہی ہمارے آنحضرت ﷺ نبی ہیں.لیکن درجہ اور کمالات کے لحاظ سےآنحضرت ﷺکا مقابلہ حضرت یحییٰ ہرگز نہیں کر سکتے.اسی طرح نبوت کے لحاظ سے حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعودؑ دونوں نبی ہیں.فیضان پانے کے لحاظ سے حضرت مسیح ناصری نے براہ راست فیضان پایا ہے.اور حضرت مسیح محمدیؐ نے محمد ﷺ کی اتباع سے سب کچھ حاصل کیا ہے.پھر درجہ کے لحاظ سے اور قرب الہٰی کے لحاظ سے حضرت مسیح محمدی ؐکا حضرت مسیح ناصری بالکل مقابلہ نہیں کرسکتے.ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلامِ احمد ؐہے غرض نبیوں میں جو فرق ہے وہ ہمارے نزدیک نبوت سے تعلق نہیں رکھتا.بلکہ وہ بعض خصوصیات کی وجہ سے ہے.اس کے مخالف بعض لوگ ان تین شرائط کے پائے جانے کا نام نبوت نہیں رکھتے اور ان کے علاوہ اور شرائط مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کے لئے یا تو شریعت جدید ہ لانا ضروری ہے یابلاواسطہ نبوت پانا.اور اگر ان دونوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی لگاتے ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں.اور چونکہ یہ شرائط حضرت مسیح موعود میں نہیں پائی جائیں.اس لئے ان کے نزدیک حضرت مسیح موعودنبی نہیں.بلکہ صرف محدث ہیں.اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر نبوت کی تعریف یہی ہے تو بے شک حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے.اور جن کے نزدیک یہ تعریف درست ہے.اگر وہ مسیح موعود کو نبی کہیں.تو یہ ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ شریعت جدیدہ کا آنا قرآن کریم کے بعد ممتنع ہے اور بلاواسطہ نبوت کا دروازہ آنحضرت ﷺ کے بعد مسدودہے.پس جن لوگوں کے نزدیک تعریف نبوت یہ ہے نہ وہ جو ہم بیان کرتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود کو دیگر محدثین میں شامل کرتے ہیں.گو کسی قدر بڑے درجہ کا محدث کہتے ہیں اور ہم چونکہ اس کے خلاف تعریف کرتے ہیں.اور وہ اس امت میں کسی اور انسان پر بجز حضرت مسیح موعود کے صادق نہیں آتی.اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں آئندہ کا حال پردہ غیب میں ہے.اس کی نسبت ہم کچھ کہ نہیں سکتے آئندہ کے متعلق ہر ایک خبر پیشگوئی کارنگ رکھتی ہے اس پر بحث کرنا انبیاء کا کام ہے نہ ہمارا.پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گذرا.
۴۶۱ کیونکہ اس وقت تک نبی کی تعریف کسی اور انسان پر صادق نہیں آتی.ہم جو کچھ کہتے ہیں.حضرت صاحب کی کتب سے کہتے ہیں.اور قرآن کریم اس کی تائید کرتاہے.اور ہمارے خلاف جو کچھ کہا جا تا ہے وہ محض عقائد عوام اور ظنیات کی بناء پر ہے.ورنہ قرآن کریم سے اور احادیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں.اور نہ حضرت مسیح موعود کے آخری مذہب کے مطابق ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے آپ نے ظاہر فرمایا.پس حق وہی ہے جو ہم نے کہا اور جس کے ثبوت میں اوپر پیش کر آیا ہوں.اب جس کا جی چاہے قبول کرے اور جس کا جی چاہے ردکرے.اور حق کے مقابلہ کا عذاب اپنے اوپر وارد کرے اور صداقت کا مقابلہ کر کے مورد عتاب ہو.وما علينا البلاغ.میری پہلی تحریر پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ اگر جس طرح تم کہتے ہو.حضرت مسیح موعودؑنے ۱۹۰۱ء میں اپنے عقیده متعلقہ نبوت میں کوئی تبدیلی کی تھی تو کیوں آپ نے اعلان نہ فرمایا کہ پہلے میں نے یوں لکھا تھا.لیکن اب اس کے خلاف مجھ پر ظاہر ہوا ہے.اور چونکہ آپ نے ایسا نہیں کیا.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ نے اپنے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی.اور یہ آپ کا خیال ہی خیال ہے واقعہ نہیں.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کی شائع شدہ تحریر موجود ہے.جس میں آپ نے اسلام کی اصطلاح میں شریعت لانے والے یا براہ راست نبوت پانے والے کو نبی قرار دیا ہے.اور یہ تحریر ۱۹۰۱ء سے پہلے کی ہے اوراسی طرح آپ کی وہ تحریر بھی موجود ہے جس میں آپ اسلام قرآن بلکہ خود خداتعالی ٰکی بتائی ہوئی اصطلاح میں نبی کی تعریف صرف فلا يظهر على غيبه أحدا ( الجن : ۲۶) کی آیت کے مفہوم کو قرار دیتے ہیں.اور لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تونبی اسی کو کہتے ہیں جس میں یہ باتیں ہوں شریعت لانایا متبع نہ ہونا ضروری نہیں.اور حقیقت الوحی میں خود لکھتے ہیں کہ تریاق القلوب کے زمانہ کے بعد آپ کے خیالات میں ایک تبدیلی ہوئی تو کیا اس قدر دلائل ایک حق پسند کو تسلی دلانے کے لئے کافی نہیں.کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں نبی کے لئے شریعت جدید ہ کا لانا ضروری بھی ہو.اور اسلام کی اصطلاح میں اور قرآن کریم میں اور خداتعالی ٰکے الہامات میں اسے ضروری نہ بھی قرار دیا جائے کیا یہ دونوں ضد یں ایک وقت میں جمع ہو سکتی ہیں.ضرور ہے کہ اگر پہلی بات درست ہو تو دو سری درست نہ ہو.اور اگر دوسری بات درست ہو تو پہلی درست نہ ہو.اور جبکہ خود حضرت مسیح موعود نے لکھ دیا ہے کہ جہاں میں نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے ان معنوں کی رو سے کیا ہے کہ میں کوئی شریعت جدیدہ نہیں
۴۶۲ لایا.اور نہ براہ راست نبوت میں نے پائی ہے.تو کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوا کہ جن تحریروں میں آپ نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اس جگہ آپ کی مراد نبوت نہیں.بلکہ نبوت کی وہ دو خصوصیات ہیں جن کے پائے جانے کو وہ ان ایام میں ضروری خیال کرتے تھے اس لئے ان کےموجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنی نبوت کا انکار کرتے تھے.پس جبکہ واقعات سے ثابت ہے کہ بات وہی ہے جو میں نے لکھی ہے تو اس قول کا کیا فائدہ؟ کہ آپ نے کوئی اعلان کیوں نہیں کیا.جب ایک بات ایک خاس وقت کے بعد ترک کر کے اس کے صریح خلاف کہنا شروع کر دیا تو ہر ایک عقلمند انسان خیال کر سکتا ہے کہ اب پہلا عقیدہ تبدیل ہو گیا.اس کی کیا ضرورت ہے کہ یہ بھی اعلان کیا جائے کہ پہلے جو بات میں نے لکھی تھی غلط تھی.جبکہ آپ نے ایک عقیدہ کا اظہار کرنے والوں کو نادان کیا.نبوت کی شرائط میں شریعت کو داخل کرنے سے انکار کر دیا تو خود ہی وہ پہلی تحریرجس میں اس کے خلاف لکھا تھا منسوخ ہو گئی.براہین احمدیہ میں آپ نے مسیح کے زندہ ہونے کااقرار کیا ہے لیکن فتح اسلام میں اس کے خلاف لکھتے ہوئے یہ نہیں لکھا کہ براہین احمدیہ میں میں نےجو کچھ لکھا تھا اسے منسوخ کر تا ہوں.ہاں بعض نادانوں نے جب اعتراض کیا تو اس وقت بتادیا کہ وہ عقیدہ میرا اپنا اجتہاد تھا.اب انکشاف تامہ کے بعد لکھتا ہوں.اب فرض کرو کوئی شخص براہین احمدیہ کی تحریریاد دلا کر آپ پر اعتراض نہ کرتا.اور آپ اس کا جواب نہ دیتے تو کیا کوئی نادان یہ کہہ سکتا تھا کہ چونکہ اس عقیدہ کے منسوخ کرنے کا اعلان نہیں فرمایا.اس لئے میں فیصلہ محکم ہے.نہ کہ منسوخ.جب آپ نے پہلے عقیدہ کے خلاف یہ لکھ دیا کہ مسیح فوت ہو گیا ہے تو اب ہر ایک شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ پہلا كلام منسوخ ہوا.اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ پہلے اپنے آپ کو مسیح سے افضل نہیں قرار دیتے تھے.اور آپ نے اپنایہ مذہب تریاق القلوب میں بھی لکھا ہے.پھر دافع البلاء میں اس کے خلاف لکھا ہے کہ میں افضل ہوں.کیا پھر اس جگہ یہ لکھا ہے کہ میں پہلا عقیده منسوخ کر تا ہوں یا مثلا ًکشتی نوح میں اس کے خلاف لکھا ہے کیا وہاں لکھ دیا ہے کہ میں پہلے عقیدہ کو منسوخ کر تا ہوں.پھر کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ پہلا عقیدہ منسوخ نہیں ہوا آپ نے تو اس وقت تک پہلے عقیدہ کو منسوخ قرار نہیں دیا.جب تک حقیقۃ الوحی میں آپ پر اعتراض نہیں ہوا.تب بے شک آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح نازل ہونے والی وحی سے میں نے پہلا عقیده بدل دیا.لیکن کیا اس سے پہلے بھی کبھی لکھا تھا کہ پہلے میرا فلاں عقیدہ تھا.اب اسے منسوخ سمجھو اور اس کی جگہ یہ عقیدہ سمجھ لو.انسان کے مخاطب ہمیشہ د انا انسان ہوتے ہیں نہ وہ جو بات کو سمجھ ہی نہ.
۴۶۳ سکیں.جب پہلے عقیدہ کے خلاف ایک دوسرا عقیدہ شائع ہو گیا اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم اسلام اور انبیائے سابقین اسی کی تائید کرتے ہیں.اور خداتعالی ٰکے حکم کے ماتحت میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں.اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کو نادان تک کہہ دیا.تواب بتاؤ کہ پہلا عقیدہ منسوخ ہوا یا نہیں.کیا یہ اعلان کافی نہ تھا اور کچھ ضرورت باقی رہ گئی تھی.داناؤں کے لئے تو جو کچھ حضرت مسیح موعود نے لکھ دیا وہی کافی ہے.اور جو کسی بات کو ضد سے نہ سمجھنا چاہیں.ان کا علاج خداتعالی ٰکے سوا کسی کے پاس نہیں ہے.اس جگہ میں اس بات کا اظہار کر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہوناچاہئے کہ اگر نبی کی تعریف وہی تھی جو قرآن کریم اور لغت سے آپ کے ہیں کہ ثابت ہے.اور حضرت مسیح موعود ؑاس کے خلاف تعریف کرنے والوں کو نادان فرماتے ہیں.تو حضرت مسیح موعودؑایک مدت تک اس عقیدہ کو کیوں مانتے رہے اور کیا خود حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض وارد نہیں ہوتا.کیونکہ یہ شبہ بالکل بے اصل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات جب تک پوشیدہ اور پردہ اخفاء میں ہو اسے اصل کے خلاف ماننا ایک اور بات ہے.لیکن پردہ اٹھ جانے پر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود ؑبے شک ایک وقت تک نبی کی وہی تعریف کرتے رہے.جو آج کل کے مسلمان کرتے ہیں.لیکن چونکہ اس وقت تک آپ پر اس مسئلہ کا پوری طرح انکشاف نہ ہوا تھا.آپ کا احتیاط کا پہلو اختیار کرنا اور عام مسلمانوں کے عقیدہ پر قائم رہنا.اور باوجود بار بار نبی کے خطاب سے یاد کئے جانے کے اس کی تاویل کرنا ایک نہایت مستحسن بات تھی.اور انبیاء کے ایمان کا اظہار تھا.لیکن جب آپ پر حق کھول دیا گیا اور آپ نے لوگوں کو بتادیا کہ نبی کی یہ نہیں بلکہ یہ تعریف ہے.تو اب اس پرانے عقیدہ پر قائم رہنا ایک نادانی اور جہالت ہے.جس پر اظہار ناراضگی کرنا ضروری تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ پچھلی صدیوں میں قریباًسب دنیا کے مسلمانوں میں مسیح کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا.اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیده پر فوت ہوئے اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے.گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے.حتیّٰ کہ حضرت مسیح موعودؑ با وجودمسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک کی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے.حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ مسیح بنا چکا تھا جیسا کہ براہین کے الہامات سے ثابت ہے.لیکن آپ کے اس فعل کو مشرکانہ نہیں کہہ سکتے.بلکہ یہ ایک نبیوں کی سی احتیاط تھی.لیکن جب تاویل کی کوئی گنجائش نہ رہی.تو آپ نے حق کا اعلان کر دیا.اسی طرح نبوت کی
۴۶۴ آپ پہلے اور تعریف خیال کرتے رہے.جو عوام کے عقیدہ کے مطابق تھی.لیکن بعد میں مزید انکشاف پر وہ غلط معلوم ہو گی.اور اب اس پر ضد کرنا ایک نادانی کا فعل ہے.پس اس معاملہ کی مشابہت بالکل مسیح کی وفات کے مسئلہ سے ہے.حضرت مسیح موعود کے دعوی ٰسے پہلے جس قدر اولیاء صلحاء گزرے ہیں.ان میں سے ایک بڑا گر وہ عام عقیدہ کے ماتحت حضرت مسیح کو زندہ خیال کرتا تھا.لیکن وہ مشرک اور قابل مواخذہ نہ تھا.مگر جب حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم سے وفات سے ثابت کر دی.اور حیات کے عقیدہ کو مشرکانہ ثابت کر دیا.تو آب جوش حیات مسیح کا قائل ہو وہ مشرک اور قابلِ مواخذہ ہے.اسی طرح نبی کی تعریف قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے لیکن عوام میں ایک غلط خیال پھیل رہا تھا.اور بہت سے علمائے امت اسی خیال پر گذر گئے.اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ نادان تھے جس طرح نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح کی حیات کے عقیدے وہ مشرک تھے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے کچھ اسرار ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے وقت پر ظاہر کرتا ہے.اور یہ مسائل بھی انہیں مسائل میں سے تھے.تاسچوں اور جھوٹوں کے ایمانوں کی آزمائش کی جائے.جب خدا تعالی ٰنے ان پوشیده صداقتوں کو مسیح موعود پر کھول دیا تو اب اس کے خلاف عقیدہ رکھنا نادانی ہے.ممکن ہے کسی شخص کو اس جگہ یہ شبہ گزرے کہ اگر جیسا کہ آپ بیان کرتے ہیں نبی کی تعریف ایسی صاف تھی.اور قرآن کریم میں کہیں بھی نبی کے لئے صاحب شریعت ہونے یا بلاواسطہ نبوت پانے کی شرط مذکور نہ تھی تو ہم کس طرح مان لیں کہ حضرت مسیح موعود عام عقیدہ پر قائم رہے.اور باوجود قرآن کریم کے صاف الفاظ کے آپ نے اپنے عقیدہ کو بدلا نہیں.یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کریم آپ نے ۱۹۰۱ء میں دیکھا ہے آپ تو قرآن کریم کے عاشق تھے اور اپنی جوانی اسی کے مطالعہ میں خرچ کر چکے تھے اور باریک در بار یک مطالب پر آگاہ تھے پھر اس مسئلہ میں آپ کیوں دھوکے میں رہے؟ اور کیوں صریح الفاظ قرآن کی موجودگی میں عوام کے عقائد کی پیروی کی ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلطی اس طرح ہوئی.جس طرح مسیح کی وفات کے متعلق ہوئی مسیح کی وفات بھی تو قرآن کریم میں صاف الفاظ میں مذکور ہے.اور سارے قرآن میں ایک لفظ بھی اس کی زندگی پر دلالت نہیں کرتا.بلکہ آسمان پر جانے کا صاف انکار کیا گیا ہے پھر یہ کیونکر ہوا کہ وفات مسیح پر تیس(۳۰) آیات کی موجودگی میں حضرت مسیح موعود عوام کے عقیدہ کے قائل رہے اور اس بات کو معلوم نہ کر سکے کہ قرآن کریم سے مسیح کی وفات ثابت ہے اگر کوئی کہے کہ مسیح کی حیات
انوار العلوم جلد۲ ۴۶۵ ماننے کی تو ایک وجہ تھی.اور وہ کہ گوالفاظ قرآن سے تو وفاتِ مسیح ثابت تھی لیکن چونکہ قرآن کریم میں رفع اور احادیث میں نزول مسیح کا ذکر تھا.اس لئے اس شبہ کا پیدا ہو جانا کچھ بعید نہ تھا کہ حضرت مسیح زنده ہی ہیں اور خصوصاً اسی حالت میں کہ سب مسلمان انہیں زندہ مانتے تھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح نبوت کا مسئلہ بھی تھا کہ باوجود اس کے کہ الفاظ قرآن صاف شاہد تھے کہ نبی کے لئے شریع ت جديده لانے یابراہ راست نبوت پانے کی کوئی شرط نہیں لیکن پھر بھی قرآن کریم میں خاتم النبین اور حدیث میں لا نبی بعدی کے الفاظ شبہ پیدا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی آنا محال ہے اور خصوصاً اسی حالت میں کہ عوام کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ نبی وہی ہو تا ہے جو شریعت جدیده لانے یا براہ راست نبوت پائے.پس اس غلطی کا لگ جانا بھی کچھ بعید نہ تھا.اور جیسا کہ میں بارہا اشارہ کر چکا ہوں انبیاء تو نہایت محتاط ہوتے ہیں.وہ تو صریح حکم کے بغیر اپنے پاس سے کوئی بات کہتے ہی نہیں.اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان حکمتوں میں سے ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحم فرماکر اور ان کے ایمانوں کو آہستہ آہستہ مضبوط کرنے کے لئے بعض باتوں کو رفتہ رفتہ ظاہر کرتا ہے جیسے کہ قرآن کریم کی نسبت فرمایا ہے کہ وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةًۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا (الفرقان : ۳۳)یعنی مخالف لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس پر قرآن کریم ایک ہی دفعہ کیوں نہ نازل ہو گیا.اسی طرح ہوا کہ تیرے دل کو ہم اس سے ثابت کریں اور ہم نے آہستہ آہستہ قرآن کریم پڑھ کر سنایا ہے اسی سنت قدیمہ کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے سلوک کیا.اور آپ کی جماعت کو بہت سے ابتلاؤں سے بچالیا.اگر آپ کو یک لخت مسیح کی وفات اور اپنی نبوت کے اعلان کرنے کا حکم ہوتا تو آپ کی جماعت کے لئے سخت مشکلات کا سامنا ہو تا.پس اللہ تعالی ٰ نے پہلے آپ سے براہین احمد یہ لکھوائی اور گو اس میں آپ کوظ قراردیا.لیکن انکشاف تامہ نہ کیا.تاآپ کو اس عظیم الشان کام کے لئے تیار فرمائے جس پر آپ کو مقرر فرمانا تھا.اور مسیح کی وفات پر پردہ اس لئے ڈالے رکھا کہ اگر حضرت مسیح موعود کو اس وقت یہ بات معلوم ہو جاتی تو آپ اس کااسی وقت اعلان کر دیتے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کے تحت چاہتا تھا کہ سب کام ترتیب وار اور آہستہ آہستہ ہو.پس اس نے مسیح موعود کوبھی اصل بات سے ناواقف رکھا.اسی طرح آپ کو براہین کے زمانہ میں ہی نبی قرار دیا.لیکن اس پر بھی ایک پردہ اخفاء ڈالے رکھا.دونوں باتیں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ظاہر تو اس لئے کیں تاکہ یہ نہ ثابت ہو کہ کوئی منصوبہ ہے.اور پوشیدہ اس لئے میں تامتلاشیان صداقت پر حد
۴۶۶ سے زیادہ بوجھ نہ پڑ جائے.پھر دس سال بعد وفات کے مسئلہ پر سے پردہ اٹھا رہا.لیکن مسئلہ نبوت پر ایک پردہ پڑا رہا.تاکہ جماعت اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرلے، حتی کہ ۱۹۰۱ء میں اس پردہ کو بھی اٹھایا.اور حقیقت کھل گئی اور صداقت ظاہر ہو گئی.اور یہ جو کچھ ہوا.اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے ماتحت ہوا اور نبوت کا مسئلہ بالکل مسیحیت کے مسئلہ کے مطابق ہے جس طرح اوائل میں باوجود مسیح نام پانے کے مسیح کو زندہ سمجھتے رہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑباوجودنبی کا نام پانے کے ختم نبوت کے یہ معنی کرتے رہے.جو لوگ کرتے تھے.پھر جس طرح دعوائے مسیحیت کے بعد شروع شروع میں یہ کہتے رہے کہ ممکن ہے ابھی کوئی اور مسیح بھی ظاہر ہو.اور اپنی طرح اور مسیح بھی مانتے رہے.لیکن بعد میں انکشاف تام پر لکھ دیا کہ میرے بعد اور کوئی مسیح نہیں.اسی طرح آپ پہلے اپنی نبوت کو جزوی قرار دے کر امت محمدیہؐ میں سے اور بہت سے لوگوں کو بھی اس انعام میں اپنا شریک سمجھتے رہے.لیکن بعد میں انکشاف تمام پر لکھ دیا کہ میرے سوا اور کوئی شخص اس نام کا مستحق نہیں.پس یہ ایک حکمت الہٰی کا کرشمہ تھا.اور اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کا اظہار تھا اور نادان ہے وہ جو اس پر اعتراض کرے اور اسے مستبعد قرار دے کیونکہ ایسا اعتراض کل نبیوں پر پڑے گا.میں اس جگہ یہ بھی لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ شیطان کسی شخص کو یہ دھوکا نہ دے کہ جبکہ تعریفوں کے اختلاف کی وجہ سے حضرت صاحب کے نبی ہونے یا نہ ہونے کا جھگڑا پیدا ہوگیا ہے تو پھر اس میں کیا حرج ہے کہ ایک جماعت نبی کی وہی تعریف قرار دے کر جو عوام میں مشہور ہے.مسیح موعود کی نبوت کا انکار کرتی رہے اور یہ تو آپ بھی مانتے ہیں کہ ان معنوں میں جو عوام میں نبی کے مشہور ہیں.حضرت مسیح موعود نبی نہیں ہیں.سواس دھوکے کے ازالہ کے لئے یاد رکھنا چاہے کہ جب خد اتعالیٰ نے خود ایک بات کی تشریح فرما دی.تواس تشریت کو چھوڑنا صرف لفظی بحث نہیں سمجھا جائے گا.بلکہ یہ اللہ تعالی ٰکے احکام کی ہتک اور ان کی بے قدری ہوگی.جب خدا تعالیٰ ایک شخص کونبی قرار دے.اور قرآن کریم اس کی نبوت کی شہادت ہے.تو پھر نبی کے اور معنی کر کے اس کی نبوت کا انکار کرنا گویا اللہ تعالی ٰکے فیصلوں سے تمسخر کرنا اور اس کے رسولؐ کی ہتک کرنا ہے.اور ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے کاموں سے بچے جو اسے جہنم کے قریب کردیں.اور چاہیے کہ بجائے اپنے خیالات پر جمارہنے کے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو اور اس کے حکم کو قبول کیا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ اوپر کے مضمون کو غور سے پڑھیں گے.انہیں معلوم ہو جائے گا
۴۶۷ کہ جناب مولوی صاحب نے جو اپنے رسالہ میں حضرت صاحب کی مختلف تحریر میں نقل کر کے یہ بتانا چاہا ہے کہ دیکھو حضرت مسیح موعود ہمیشہ ایک ہی دعویٰ کرتے رہے ہیں.یہ صرف ایک غلطی فہمی کا نتیجہ ہے اور ان تحریروں سے تو ہمارا دعوی ٰثابت ہوتا ہے نہ ان کا.یہی ہمارا دعوی ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے دعویٰ کی جو تفصیل بیان کرتے رہے ہیں.وہ ہمیشہ سے وہی رہی ہے.جو نبیوں کے دعوے کی ہوتی ہے.گو ایک وقت ایسا بھی گذرا ہے کہ اس کو نبوت کے نام سے موسوم نہیں فرماتے تھے.نبی کسے کہتے ہیں؟ موجودہ اختلاف اور شور پر میں جس قدر غور کر تا ہوں.حیران ہوتا ہوں کہ کس طرح ایک بے توجہی کے باعث یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے.سب سے پہلا سوال جو مسیح موعود کی نبوت کے متعلق بحث کرتے وقت پیدا ہو نا چاہئے تھا.وہ یہ تھا کہ نبی کہتے کسے ہیں؟ مثلا اگر کسی شخص کی نسبت یہ بحث ہو کہ وہ لوہار ہے یا نہیں ہے.تو اول بحث کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ لوہار کہتے کسے ہیں ؟ اگر ان کو لوہار کی تعریف بھی معلوم نہیں تو وہ بحث کرہی نہیں سکتے.جس چیز کا علم ہی نہیں کہ وہ کیا شےہے؟ اس پر بحث کیا ہوگی؟ پس اول فرض تو ہر ایک شخص کا یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرےکہ نبی کی تعریف کیا ہے ؟ مگر معلوم ہو تا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کے منکروں نے اس سوال پر کبھی غور ہی نہیں کیا.وہ اس پر تو بحث کرتے ہیں کہ فلاں شخص نبی ہے یا نہیں ہے.لیکن خوداس قدر بھی علم نہیں کہ نبی کے معنی کیا ہیں؟ اور ان کی بحث کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بچے آپس میں بادشاہ اور وزیر بن کر کھیلنے لگتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ بادشاہ ہو تا کیا شئے ہے بس ایک نام سنا ہوا ہوتا ہے.اسی کی بناء پر اپنے خیال سے ایک عمارت کھڑی کر لیتے ہیں.اور وہ واقعہ کے خلاف ہوتی ہے.اور جب کوئی کام ناواقفیت کی حالت میں کیا جائے گا.تو ضرور انسان غلطیوں میں مبتلاء ہو گا.میں نے سنا ہے کسی جگہ کچھ زمیندار اس امر پر بحث کرتے ہوئے دیکھے گئے کہ قرآن کریم میں جو کہیں مومنون آتا ہے اور کہیں مومنین - تو ان دونوں لفظوں کے معنوں میں کیا فرق ہے.بڑی سخت بحث ہو ئی اور مختلف معانی بیان ہوتے رہے.کوئی کچھ فرق بتا تا اور کوئی کچھ.اور یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ انہوں نے یہ معلوم نہ کیا کہ مؤمنون اور مومنین ان دونوں لفظوں کے کیا معنی ہیں اگر کسی واقف سے معنی دریافت کر لیتے تو ساری بحث کا خاتمہ ہو جاتا.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بحث شروع ہی نہ ہوتی.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود کی نبوت کا انکار کرنے
۴۶۸ والے لوگ پہلے اس بات کی تحقیقات کرتے کہ نبی کہتے کسے ہیں؟ اور نبی کے کیا معنی ہیں.لغت عرب میں اس کے کیا معنی ہیں؟ قرآن کریم نے اس کے کیا معنی کئے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے اس کے کیا معنی کے ہیں ؟ تو میں امید کرتا ہوں.وہ ہمیں حق پرپاتے اور یہ جھگڑاہی چھوڑ دیتے.عربی زبان کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ اس میں تمام اسماء کی کوئی وجہ تسمیہ ہوتی ہے اور بے معنی الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے.اور یہی خصوصیت ہے.جس نے عربی زبان کورو سری زبانوں پر ممتاز کر دیا ہے.اور اس کے ام الا لسنہ ہونے پر شاہد ہے پھر وہ الفاظ جو قرآن کریم میں استعمال کیے جاتے ہیں.وو توافصح ہیں کیونکہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا مقابلہ عربی کی کوئی اور کتاب نہیں کرسکتی.اور یہ قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے قرآن کی تمام آیات فصاحت و بلاغت کا خزانہ ہیں.اور اس کے تمام الفاظ فصاحت کا بہترین نمونہ.پس نبی کا لفظ جو عربی جیسی زبان کا لفظ ہے.اور قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے بے معنی نہیں ہو سکتا.اور ہم قرآن کریم کی نسبت کبھی یہ گمان نہیں کر سکتے کہ اس نے ایک ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس کی حقیقت سمجھنے سے دنیا معذور ہے.اور جس کے معانی کا علم کسی کو بھی نہیں.نبی کا لفظ ضرور کوئی معنی رکھتا ہے اور اسکی کوئی حقیقت ہے.مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا معنی ہیں؟ اور وہ کیا حقیقت ہے ؟ کیا حضرت مسیح موعود کی نبوت کے منکروں نے کبھی اس سوال پر بھی غور کیا ہے.کیا ہم یہ سمجھیں کہ وہ نبی اور رسول کا لفظ قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ پڑھتے ہیں.لیکن اس پر غور کئے بغیر گذر جاتے ہیں اسے ایک بے معنی لفظ خیال کرتے ہیں جس سے کوئی حقیقت مراد نہیں.اگر ایسا نہیں تو وہ ہمیں بتائیں کہ قرآن کریم نے ان دونوں لفظوں کے کیا معنی بتائے ہیں؟ اور نبی اور رسول سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ قرآن شریف دنیا کی آخری کتاب ہے.اور کل علوم روحانی اس کے اندر جمع ہیں.وہ ایک ایسا خزانہ ہے جس میں ہر ضرورت کی شے موجود ہے.دنیا کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور آخری کتاب ہے.وہ بنی نوع انسان کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے.انسان کی روحانی ترقی اور دینی علم کے لئے کس شئے کی ضرورت ہے جو قرآن کریم میں موجود نہیں.وہ ہماری تمام حاجتوں کا پورا کرنے والا اور ہماری سب بیماریوں کا دور کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ اسے کتاب مفصل اور کتاب مبارک فرماتا ہے.اور مبارک کے معنی ہیں جو سب اشیاء کو اپنے اندر جمع کرے اور کل علوم بہہ کر اس میں آپڑیں.پس ایسی کتاب پر یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ اس نے نبی پر ایمان لانے کا توحکم دیامگر یہ نہ بتایا کہ نبی کہتے کسے ہیں؟ قرآن کریم نے نبی کی تعریف ضرور کی ہوگی.اور کی ہے پس پہلے اسے دریافت
۴۶۹ کرلو.پھر حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق جھگڑے کا بھی خود بخود فیصلہ ہو جائے گا.اور اس خیال میں نہ رہو کہ قرآن کریم نے نبی کی کوئی تعریف کی ہی نہیں.کیونکہ یہ ایک غلط خیال ہے.ایمانیات سے وہ کونسی بات ہے جس کے ماننے کا قرآن کریم نے حکم دیا ہو.اور یہ نہ بتایا ہو کہ وہ ہے کیا.اللہ تعالی ٰپر ایمان لانے کا حکم ہمیں دیا گیا ہے تو ہمیں بالتفصیل اللہ تعالی ٰکی ذات و صفات کا علم بھی دیا گیا ہے.اور قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک اس کی ذات اور اس کی صفات کا نقشہ ہمارے سامنے کھینچتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسے کہتے ہیں تانہ ہو کہ ہم مختلف جھوٹے معبودوں کے پھندے میں پھنس جائیں.اور حقیقی معبود کو ترک کردیں.ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم ہے.اور قرآن کریم نے ایک بے معنی لفظ پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا.بلکہ مفصل بتایا ہے کہ ملائکہ کون ہیں.ان کے کیا کام ہیں بندوں سے ان کا کیا تعلق ہے ان کے وجود کا کیا ثبوت ہے پھراسی طرح کتب پر ایمان لانے کا حکم ہے.بتایا گیا ہے کہ الہٰی احکام اور اس کے شرائع کا نام کتاب ہوتا ہے.کتابوں پر کس طرح عمل کرنا چاہئے.ان کےسمجھنے کے آسان طریق کیا ہیں.ان کے معانی کرنے میں کن کن احتیاطوں کی ضرورت ہے ان کا کسی حد تک ادب و پاس ہونا چاہئے.ان کے الفاظ و معانی کی کس کس طرح حفاظت کرنی چاہئے.کتابوں کے اترنے کی غرض کیا ہے.پھر یوم آخر پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کی بھی پوری کیفیت بیان کی گئی ہے.قیامت کیا ہوگی- وہاں انسان کے ساتھ کس کس طرح کا بر تاؤ ہو گا.جنت و دوزخ کی کیفیت ان دونوں مقاموں کے مکینوں کے حالات بعث ما بعد الموت کے ثبوت اور دلائل سب بیان کئے گئے ہیں.غرض جس بات پر ایمان لانے کا ذکر ہے ہمیں اس کے نشان بھی بتائے گئے ہیں کہ وہ کیا ہے اور اس کے متعلق جس قدر ضروری امور ہیں.سب پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ جو وراء الورا ہے.اور ملا ئکہ جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں اور قیامت جو مرنے کے بعد کی بات ہے اس کا حال تو ہمیں بتایا جائے.اور دوزخ و جنت جن سے حشر کے بعد معاملہ پڑنے والا ہے اس کی کیفیت بھی انسان پر روشن کی جائے.لیکن اگر نہ بتایا جائے تو یہ کہ نبی جوانسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک واسطہ کا کام دیتا ہے اور جس پر ایمان لانے یا نہ لانے پر ہی انسان کی نجات و عذاب کا دارومدار ہے.وہ کیا شئے ہے اورنبی کسے کہتے ہیں؟ میرے مخاطب اس وقتغیر احمدی نہیں جو دلیل و برہان کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے.اور ہر چیز کو اند هادھند ماننے کے عادی ہیں جو اسلام کو اس لئے مانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ::
۴۷۰ ہوئے جو قرآن کریم کی فضیلت میں خیال کرتے ہیں کہ اس کی زبان بڑی عمدہ ہے یا یہ کہ وہ ان کی کتاب ہے بلکہ میری مخاطب و ہ جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود کے زیر تربیت بڑھی ہے اور جس نے پہلے دن سے ہی آواز متواتر سننی شروع کی ہے کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے وہ سب روحانی امور کو بیان کرتا ہے وہ کوئی لغو بیان نہیں کرتا.وہ عقل کے خلاف باتوں کو نہیں منوا تا.وہ ہر بات کو مبرہن کر کے بیان کرتاہے اور جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے.پس میں ان سے پوچھتاہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم نے نبیوں پر ایمان لانے کا تو ہمیں حکم دیا ہو اور ہمیں یہ نہ بتایا ہو کہ نبی کہتے کسے ہیں.جب ایک شے کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے تو اس پر ایمان کیا لائیں.ہم جو انبیاء کی طرف دنیا کو بلائیں تو کیا کہہ کر بلائیں.اگر کوئی شخص پوچھے کہ نبی کسے کہتے ہیں تو اسے کیا جواب دیں.ضرور ہے کہ نبی کی کوئی حقیقت ہو.اور نبی کے کوئی معنی ہوں.اورضرور ہے کہ قرآن کریم نے ان معنوں کو بیان بھی کیا ہو.کیونکہ وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ نبیوں پر ایمان لاؤ- پس ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی نبوت پر بحث کرنے سے پہلے قرآن کریم پر غور کرے.اور دیکھے کہ قرآن کریم نبی کی کیا تعریف کرتا ہے میں اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کریم سے نبی کی تعریف کر چکا ہوں.لیکن چونکہ بعض لوگ بغیر قرآن کریم پر غور کرنے کے محض اپنے گمانوں کی بناء پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ نبوت شاید کوئی خاص شئے ہے جس کے ملنے پر انسان نبی ہو جاتا ہے.اس جگہ اس امر پر بھی کچھ لکھ دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم سے معلوم ہو تا ہے کہ نبوت ایمان کا ہی ایک اعلیٰ مرتبہ ہے اور تقوی ٰمیں ترقی کرتے کرتے انسان اس مرتبہ کو پہنچ جاتاہے جسے نبی کہتے ہیں.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ (النساء : ۷۰) یعنی مومن جب ترقی کرتے ہیں تو وہ نبیوں صدیقوں، شہداء اور صالحین کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں.اس آیت سے انسان کی ترقی کے چار درجے معلوم ہوتے ہیں.اول صلحاء میں اچھے لوگ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بادشاہ کی نیک اور خدمت گذار رعایا ہوتی ہے کہ ان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بادشاہ ان پر خوش ہوتاہے اور ہر طرح ان کی آسائش و آرام کا فکر کرتا ہے.چنانچہ صالح کے معنی لغت میں اس آوئی کے آتے ہیں.جو اپنے سب حقوق و فرائض کو ادا کرتا ہے.دوسرا درجہ انسان کی ترقی کا شہید کا درجہ ہوتا ہے جس کے معنی حاضر اور سچے گواہ کے ہیں.سچے گواہ کو بھی اسی لئے شہید کہتے ہیں کہ سچی
۴۷۱ گواہی کے لئے موقعہ پر موجود ہونا ضروری ہو تا ہے.اور سچا گواہ و ہی ہو سکتا ہے جو سنی سنائی بات پر گواہی نہ دے.شہید کے لفظ سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اس جماعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے.جو دنیاوی درباروں میں درباری کے نام سے موسوم ہوتے ہیں.اور مطلب یہ ہے کہ جب انسان حقوق الله و حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال اخلاص ظاہر کرتا ہے.تو اسے شہیدوں یعنی دربار الہٰی کے حاضرباشوں میں شامل کرلیا جاتا ہے اور اے ای معرفت الہٰی حاصل ہوتی ہے کہ گویا وہ ہر وقت اللہ تعالٰی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہے.اور جو شخص حاضر ہو گا وہ کلام بھی سنے گا.اس لئے شہید محدث بھی ہوتاہے لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کا کام شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت عمرؓ محدث تھے اور اللہ تعالی ٰنے ان کو شہداء میں شامل فرمایا ہے بلکہ ظاہری شہادت بھی دی ہے.پس شہید سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی ٰکے حضور حاضر رہتے ہیں لیکن اپنے دل کی آنکھوں سے ہر وقت اس کے جلال اور اس کی شان کا مطالعہ کرتے ہیں.اور اس کے قریب ہو جاتے ہیں.اور عام صالحین سے ان کا درجہ بلند ہو جاتا ہے کیونکہ عام رعایا تو کبھی کبھی دربار شاہی میں جاسکتی ہے لیکن یہ لوگ ہروقت اسی دربار میں رہتے ہیں اور چونکہ یہ لوگ کسب سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے علم پاتےہیں اس لئے ان کا علم نہایت درست ہوتا ہے.اور یہ لوگ جو کچھ اللہ تعالی کی نبوت اور اس کے دین کی نسبت بیان کرتے ہیں.چونکہ خود اللہ تعالی ٰکے فیضان سے حاصل کرتے ہیں وہ نہایت راست اور درست ہوتا ہے.اور وہ باریکیاں جن تک وو سروں کی عقل نہیں پہنچ سکتی.ان کے لئے معمولی ہوتی ہے.اور نہایت باریک نظر ان کو عطا کی جاتی ہے پس اس لئے بھی کہ ان کا بیان نہایت سچا ہوتا ہے.ان کا نام شہید رکھا جاتاہے جس کے معنی سچے گواہ کے بھی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان دینے والا انسان بھی شہید اسی لئے کہلاتا ہے کہ وہ اپنی جان دے کر اپنی گواہی کی صداقت ثابت کر دیتا ہے کہ میں جو دعوی ٰایمان کیا کرتا تھا.اور اپنے ایمان کے متعلق جو کچھ بیان کرتا تھا.وہ سچ تھا جھوٹ نہ تھا غرض صالح سے ترقی کر کے انسان شہید بن جاتا ہے اور یہ درجہ محد ثیت کا درجہ ہے اور جب انسان اس درجہ پر پہنچ کر اور فرمانبرداری دکھاتا ہے اور زیادہ اطاعت کرتا ہے تو اس وقت یہ اللہ تعالٰی کا اور کبھی مقبول اور پیارا ہو جاتا ہے.اور شہیدوں میں سے بھی خاص رتبہ اسے بخشا جاتا ہے.اور یہ اللہ تعالی ٰکے ان بندوں میں سے ہو جاتا ہے.جن پر اللہ تعالی ٰاپنی خاص نظر عنایت فرماتا ہے اور انبیاء کی طرح ان کی زبان پر بھی خون جاری ہو جاتاہے.اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو اللہ تعالیٰ پوری کر دیتا ہے.اور اس طرح یہ لوگ صدیق ہو
۴۷۲ جاتے ہیں یعنی صدق میں درجہ کمال تک پہنچے ہوئے.اور ان کو صدیق اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی معرفت زیادہ ہو کر ان کی نظر شہداء سے بھی زیادہ تیز ہو جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جیساان کا بیان سچا ہو تا ہے.اس حد تک شہداء کا علم نہیں پہنچتا.اور یہ جن بار یک صداقتوں کا اظہار کرتے ہیں.شہداء ان کو بیان نہیں کرسکتے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ ؐمسجد میں آئے اور ایک خطبہ بیان کیا.اور اس خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے سامنے دو باتیں پیش کیں.ایک تو یہ کہ وہ دنیا کو اختیار کرے.اور دوسری یہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسے پسند کرے.پس اس بندے نے جو کچھ خدا تعالی ٰکے پاس ہے اسے قبول کرلیا.اس پر حضرت ابو بکر صدیق ؓبے اختیار رو پڑے اور آپ کی چیخیں نکل گئیں.اور آپ نے فرمایا.یا رسول اللہ ﷺہم آپ پر اپنے ماں باپ قربان کردیں گے.آپ کے رونے اور اس طرح بول اٹھنے پر صحابہؓ بہت حیران ہوئے اور بعض نے کہا کہ ان کو کیا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تو کسی بندہ کا حال ناتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دو باتوں میں سے ایک بات پسند کرنے کا اختیار دیا تھا.اور یہ اسے سن کر رو رہے ہیں.لیکن ابو بکر ؓنے جس صدق کو پایا تھا.اور جس راستی کو سمجھ لیا تھا.اس کو نہ حضرت عمرؓ سمجھ سکے.نہ کوئی اور صحابی.بات یہ تھی کہ اس وقت سید الکونین اپنی وفات کی خبر دے رہے تھے جسے سن کر اس صادق القول کادل جس نے اپنے قول کی اپنے عمل سے شہادت دے دی تھی.اور جو اپنے ہادی کی ہر ایک حرکت اور سکون اور ہر ایک قول کا نہایت غور سے مطالعہ کرتا رہتا تھا اور گویا اپنے وجود کو اس کے وجود میں فنا کر چکا تھا ہے بے اختیار ہوگیا.غرض صدیق یعنی بہت ہی سچ بولنے والا انسان شہید سے اوپر ہو تا ہے.اور اپنے ہر قول کی تائیداپنے عمل سے کرتا ہے.اور اس کی فطرت نبیوں کی سی فطرت ہوتی ہے اور اس کے کام نبیوں کےسے کام ہوتے ہیں.لیکن کسی قدر کمی اور نقص کی وجہ سے وہ درجہ نبوت پانے سے روکا جاتا ہے.ورنہ اس حد تک پہنچا ہوا ہو تا ہے کہ قریب ہے کہ وہ نبی ہوہی جائے بلکہ جزوی نبوت اسے مل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے تجدید دین کا کام لیتا ہے.چنانچہ حضرت ابو بکرؓ کو بھی جو صدیق تھے تجدیددین کا کام کرنا پڑا اور آنحضرت ﷺکے بعد سب عرب مرتد ہو گیا اور آپ کی سعی جمیل سے پھراس نے ہدایت پائی اور اس طرح آپ نے بھی ایک رنگ میں تجدید دین کردی گواس قدر فرق تھا کہ آنحضرت ﷺ کو ایک نئی جماعت بنانی پڑی تھی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ایک بگڑی ہوئی
۴۷۳ جماعت کو درست کرنا پڑا تھا.پس صدیق اسے کہتے ہیں جو شہید سے بڑھ کر صداقت پر اپنے آپ کو قائم کرے اور ایساصدق ظاہر کرے کہ اللہ تعالی ٰکا کلام سننے کا بہت زیادہ مستحق ہو جائے اور ایسے آدمی پر اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی بارش نازل کرتا ہے اور یہ محدث کا آخری درجہ ہو تا ہے اور یہ درجہ امت محمدیہ ؐہے میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں نے پایا ہے یہ لوگ بھی کلام الہٰی کے سننے میں خاص حصہ رکھتے ہیں.لیکن اس کثرت کو نہیں پاتے جس سے رتبہ نبوت کو پہنچ جائیں اس درجہ سے بڑھ کرنبی یا رسول کا درجہ ہے جسے اللہ تعالی ٰنے مذکورہ بالا آیت میں سب سے آخر میں رکھا ہے اور یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے بادشاہ کے راز دار.اور وہ انہی کی معرفت دنیا پر اپنے غیب ظاہر کرتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی ٰفرماتا ہے کہ فلا يظهر على غيبه أحدا الأمن ارتضى من رسول (الجن : ۲۶-۲۷» یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن سے راضی ہو تا ہے یعنی جو اس کے رسول کہلاتے ہیں انہی کو اپنے غیب پر غالب کرتا ہے.اور یہ بات ہر ایک شخص جانتا ہے کہ رازوں پر صرف خاص دوستوں کو واقف کیاجاتا ہے پس اللہ تعالی ٰبھی اپنے غیبوں پر غالب اسی کو کر تا ہے جو اس کی محبت کے انتہائی نکتہ پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کا کسی شخص کو اپنے غیب پر غالب کردینا یعنی کثرت سے امور غیبیہ پر اسے مطلع کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اب یہ شخص محبت کے انتہائی نقطے کو پہنچ گیا ہے اور دائرہ نبوت میں داخل ہو گیا.میرا اس تمام بیان سے یہ مطلب ہے کہ نبوت کوئی الگ چیز نہیں کہ وہ مل جائے تو انسان نبی ہو جاتا ہے بلکہ اصل بات یہی ہے جیسا کہ میں اوپر قرآن کریم سے ثابت کر آیا ہوں کہ انسانی ترقی کےآخری درجہ کا نام نبی ہے جو انسان محبت الہٰی میں ترقی کر تاہؤاصالحین سے شہداء اور شہداءسےصدیوں میں شامل ہو جاتا ہے وہ آخر جب اس درجہ سے بھی ترقی کرتا ہے تو صاحبِ سرِّالہٰی بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے غیبوں پر غالب کر دیتا اور اعتماد کے آخری مرتبہ پر اسے پہنچادیتاہےکیونکہ واقف اسرار کردینے کے بعد کوئی دوئی نہیں رہتی اور غیب واسرارسے مرادوه بار یک در باریک مقامات معرفت ہیں جن تک کسی غیرکی نظر نہیں پہنچ سکتی اور جن کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء معلوم کرتے ہیں اور پھر بندوں تک پہنچاتے ہیں اسی طرح آئندہ کا حال ہے یہ بھی اسرار الہٰی میں سے ہے اور اللہ تعالی ٰنے اسے اپنے ہی قبضہ میں رکھا ہے لیکن اپنے ان بندوں کو اللہ تعالی ٰاس سےبھی واقف کرتا ہے.اور گو وہ عالم الغيب ان معنوں سے تو نہیں ہوتے کہ ہر بات ان کو معلوم ہولیکن اللہ تعالیٰ بہت سے اسرار ان پر کھولتا رہتا ہے جو عظیم الشان امور کے متعلق ہوتے ہیں.پس
۴۷۴ اظہار على الغیب کادرجہ یعنی جس درجہ محبت کو حاصل کر کے انسان کو غیب الہٰی پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے جس کے معنی کثرت کے ہیں اسی کا نام رسالت اورنبوت ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ نبوت اظہار على الغیب کے مقام کا نام ہے جس کا اردو میں ترجمہ رازدار ہو گا جس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نبی کے سوا کسی کو اظہار على الغيب کار تبہ نہیں سکتا.خلاصہ کلام ہے کہ نبوت کی تعریف اور اس کے حصول کا طریق اللہ تعالی ٰنے قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کر دیا ہے اور بتادیا ہے کہ یہ ایک انسانی کمال کار تبہ ہے جس پر پہنچ کر انسان غیب الہٰی سے واقف کیا جا تا ہے اور اس سے پہلے مراتب صا لح شہید اور صدیق کے ہیں اور رسول اس درجہ کے پانے والے کو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جاتا ہے اور نبی اس لئے کہ وہ غیب کی اخبار لوگوں کو بتاتا ہے اور چونکہ قوت ایمانی اس وقت تک کامی نہیں ہو سکتی جب تک دلائل و براہین ساتھ نہ ہوں اس لئے بھی اللہ تعالی ٰاپنے ایسے بندوں کو جن کو رسول کرتا ہے اظہار على الغیب کا رتبہ ہوتا ہےتا جس طرح ان کے اپنے ایمان تازہ ہیں وہ لوگوں کے ایمان بھی تازه کرسکیں.یہ باتیں میں نے بطور اختصار اس لئے بتائی ہیں تا معلوم ہو جائے کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے اور اس نے ہر ایک ضروری بات بیان کردی ہے.اور یہ بات غلط ہے کہ اس نے نبی کی تعریف نہیں کی اس نے خود نبی کی تعریف اور اس کے شرائط اور اس کا درجہ بیان کر دیا ہے اور جوکچھ اس نے بیان فرمایا ہے اس کے رو سے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت ثابت ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہرگز شریعت لانے یا نہ لانے کی شرط نہیں لگائی اور میں خیال کرتا ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے منکر ہیں انہوں نے آج تک اس بات پر غورہی نہیں کیا کہ نبوت چیز کیا ہے اور نبی کون ہوتا ہے؟ ورنہ اگر وہ قرآن کریم پر تدبر کرتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے اوران کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں.بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی دو سرے نبی کامتبع نہیں ہو سکتا.اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰقرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ما ار سلنا من رسول الا لطاع بإذن الله.(النساء: ۶۵) اور اس سے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے خلاف استدلال کرتے ہیں.لیکن یہ سب سبب قلت تدبر ہیں جب اللہ تعالی ٰخود سری جگہ فرماتا ہے کہ اناانزلنا التورة فيها ھدی ويحكم بها النبیون ( المائدہ : ۴۵) یعنی ہم نے توریت اتاری ہے جس میں ہدایت و نور ہے اس
۴۷۵ کے ذریعہ بہت سے انبیاء یہودیوں کے فیصلہ کرتے رہے ہیں.اب بتاؤ کہ اگر ایک نبی دوسرے نبی کے ماتحت کام نہیں کر سکتاتو بہت سے انبیاء تو ریت کے ذریعہ فیصلہ کیونکر کرتے رہے.ان کاتو ریت پر عمل پیرا ہونا بتاتا ہے کہ موسیٰ کی شریعت کے وہ پیرو تھے.گو یہ ایک اور بات ہے کہ انہوں نے موسیٰ کے ذریعہ نبوت حاصل نہیں کی.پس یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بہت سے نبی حضرت موسیٰ کے ماتحت ان کی امت کی اصلاح پر مقرر تھے خود حضرت ہارون حضرت موسی ٰکے ماتحت کام کرتے تھے.جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ پہاڑ پر گئے تو ان کو اپنی بجائے خلیفہ مقرر کر گئے.اور جب کچھ فساد ہوا تو آکر ان کو مارنے کے لئے تیار ہو گئے اور فرمایا کہ اَفعَصَيتَ اَمرِی کیا تو نے میری نافرمانی کی جس سے ثابت ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے ماتحت تھے.ورنہ حضرت موسیٰ انہیں حکم کیونکر دے سکتے تھے.اگر حضرت موسیٰ کے ماتحت حضرت ہارون نہ تھے.تو ثابت کرو کہ وہ کونسی امت تھی جو ان کی اطاعت کرتی تھی اور پھر وہ اگر حضرت موسیٰ سے آزاد تھے تو وہ ان کو اپنی امت کے لئے خلیفہ کس طرح بناگئے.اور پھر آنحضرت ﷺ یہ کس طرح فرماسکتے تھے کہ لوكان موسى و عيشي حين انا اتباع پس اس آیت کے وہ معنی کیوں کرتے ہو جس سے خود دوسری آیات اور تار یخ کی تکذیب ہوتی ہو.اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہرنبی لوگوں کا مطاع ہو تا ہے.لوگوں کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کریں.یہ تو مطلب نہیں کہ وہ کسی کا مطیع نہ ہو.ورنہ ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ نبی کو خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے کا بھی حکم نہیں.کیونکہ اِلَّا لِیُطَاعَ کارتبہ جو اسے مل گیا.غرض اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہو تاکہ کوئی رسول مطیع نہیں ہو سکتا.بلکہ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ ہر ایک رسول کی اطاعت ضروری ہے.اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام میں بھی موجود ہے.اور آپ کی اطاعت کو اللہ تعالی ٰنے ضروری قرار دیا ہے.اور اسے مدار نجات ٹھہرایا ہے.چنانچہ آپ وحی الہٰی لا تخاطبني في الذين ظلموا انهم مغرقونکی تفسیر میں فرماتے ہیں.’’جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے.وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے.اور ہر ایک حال میں مجھے حَکَم ٹھہراتا ہے، اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا.اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے، کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں رکھتا.اس لئے آسمان پر اس کی ؎سو اليواقيت و الجواهر مؤلفه الامام شعرانی جلد ۲ صفحہ ۲۰
۴۷۶ عزت نہیں“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۴) اور نیز فرماتے ہیں: خدا تعالی ٰنے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہےُ فلک یعنی کشتی کے نام سےموسوم کیا جیسا کہ ایک الہام الہٰی کی یہ عبارت ہے وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا و وحینا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدھمیعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح ؑکی کشتی قرار دیا.اور تمام انسانوں کے لئے ان کو مدار نجات ٹھہرایا جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.اور جس کے کان ہوں سنے‘‘( اربعین نمبر چہار م صفحہ ۹۳حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۳۵) پس ایسے معترضوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا خوف کر کے تدبر اور غور سے کام لیا کریں تا تفسیر بالراۓ کی وعید کے نیچے نہ آجائیں.اس شبہ کے ازالہ کے ساتھ ہی میں ایک اور شبہ کا ازالہ بھی کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اچھا اگر حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے.اور قرآن کریم کے فیصلہ کے ماتحت ان کو نبی ہی قرار دینا پڑتا ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ان کا دعویٰ تدریجاً بڑھتا ر ہا ہے.کیا اس کی نظیر پہلے انبیاء میں مل سکتی ہے.اگر اس کی نظیر پہلے انبیاء میں نہیں ملتی.تو پھر اس کی صداقت کا یقین کیونکر آئے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود تدریجاً نبی بنے ہیں.کیونکہ جیسا کہ میں ثابت کر آیا ہوں.حضرت مسیح موعود اپنے دعوے کی جو تفصیل شروع دعوائےمسیحیت سے بیان کرتے رہے ہیں.وہ آپ کے نبی ہونے پر شاہد تھی.میں آپ کا دعوی ٰشروع ابتداء سے ہی نبیوں کا سا تھا.اگر کوئی تغیر ہوا ہے تو صرف اس بات میں کہ آپ نے ۱۹۰۱ء سے اس نام کو زیا دو وضاحت سے اختیار کیا ہے.پس تدریج کوئی نہیں.بلکہ ابتداء سے یکساں حال رہا ہے.اس کادو سراجواب یہ ہے کہ تدریج منع نہیں.اور اس پر اعتراض کرناایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائی کہاکرتے ہیں کہ دیکھو قرآن کریم آہستہ آہستہ اترا ہے.اور یہ پہلے انبیاء کے منہاج کے خلاف بات ہے.حضرت موسیٰ پر یکدم کتاب نازل ہوئی تھی اسی طرح یہ کتاب بھی یکدم نازل ہونی چاہئےتھی.چونکہ قرآن کریم کو آہستہ آہستہ نازل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت ضرورت
۴۷۷ ایک حکم گھڑ کر نا یا جا تاتھا.نعوذ باللہ من ذالک.ایسے معترض نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں حکمت ہوتی ہے.اور وہ مختلف حکمتوں کے مطابق کام کرتا ہے قرآن کریم کے آہستہ آہستہ اترنے کی غرض یہ تھی کہ صحابہؓ اس پر پورے طور پر عامل ہو جائیں.اور ایک ایک حکم کو اچھی طرح یاد کر لیں.حضرت موسیٰ پر یکدم کتاب اس لئے نازل ہوئی کہ ان کی سب جماعت ان کے ماتحت تھی.اور وہ بادشاہانہ اقتدار رکھتے تھے.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺکو ایک خطرناک مخالف قوم کو منوانا اور پھر راہ راست پر چلانا پڑتا تھا.پس اپنے بندوں کی آسانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ کتاب اتاری.اس وقت حضرت مسیح موعود کے دعوے کا اظہار بھی اسی لئے آہستہ آہستہ ہوا.اور گوخدا تعالیٰ تو براہین کے وقت سے اپنا فیصلہ صادر فرما چکا تھا.لیکن اس کا ظہور آہستہ آہستہ ہوا.یعنی اول ۱۸۹۱ء میں اور پھرا۱۹۰ء میں.اور اس طرح اللہ تعالی ٰنے بہت سی کمزور طبائع پر رحم فرما کر انہیں ٹھوکر کھانے سے بچالیا.اور جس قدر استعداد پیدا ہوتی گئی ان پر اظہار کیا جاتا رہا اور آنحضرت ﷺ کاد عویٰ بھی اسی طرح ہؤا.سب سے پہلے آپ پر اقرا باسم ربك الذي خلق( العلق : ۲) نازل ہوئی.اس میں دیکھ لو کہ نبی کے نام سے آپ کو نہیں پکارا گیا.پھر سورة مزمل کی ابتدائی چند آیات نازل ہوئیں اور آپ کو مامور مقرر کیا گیا لیکن ان میں بھی نبی اور رسول کا لفظ نہیں.ہاں چند ماہ کے اندر آپ کو رسول کے لفظ سے یاد کیا گیا.جیسا کہ سورة مزمل کی آخری آیات سے ظاہر ہے.اسی طرح کل دنیا کی طرف ہونے کا دعویٰ آنحضرت ﷺ نے بہت بعد میں کیا.اور قرآن کریم کی وہ آیات جن میں سب دنیا کو اس نور و ہدایت کی پیروی کی دعوت دی گئی ہے بہت مدت بعد کی ہیں.پھر خاتم النبّین ہونے کا اعلان بھی مدینہ میں ہؤا ہے اسی طرح حضرت مسیح کا دعوی ٰبھی آہستہ آہستہ ہوا ہے.اور کلیسیا کی تاریخ کے واقفوں نے اس امر پر کتاہیں لکھی ہیں کہ حضرت مسیح نے آہستہ آہستہ اپنے دعوی ٰکو ظاہر کیا.اور اناجیل کو جو شخص غور سے پڑھے گا وہ بھی یہ بات معلوم کرلے گا کہ حضرت مسیح کا دعویٰ بھی بتدریج ظاہر ہؤا.غرض کہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.کیونکہ اللہ تعالی ٰاصل دعویٰ کو اپنے کلام میں ظاہر تو پہلے ہی کر دیتا ہے لیکن اس پر ایک پردہ ڈال دیتا ہے.جسے ایک خاص وقت پر اٹھادیتا ہے.ہمارے آنحضرت اﷺجب مبعوث ہوئے تو اسی وقت سے خاتم النبیّن تھے.اور قرآن کریم کی ایک ایک آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے بعد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں.لیکن ظاہر الفاظ میں بعد میں اعلان کیا گیا کہ اب یہ شخص خاتم النبیّن ہے.'
۴۷۸ یہ میری ہی تحقیق نہیں.حضرت مسیح موعود ؑنے بھی اپنا عقیده اسی کے مطابق بیان فرمایا ہے.اور مسیح موعود کے بیان کے فیصلہ کے بعد مومن کو تردد کی گنجائش نہیں رہتی.آپ فرماتے ہیں: ’’جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا.اسی طرح اس کے معارف بھی دلوں پر یک دفعہ نہیں اترتے.اسی بناء پر محققین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت اﷺکے معارف بھی یک دفعہ آپ کو نہیں ملے.بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پورا کیا ہے.ایسا ہی میں ہوں، جو بروزی طور پر آپ کی ذات کا مظہر ہوں.آنحضرت ﷺکی تدریجی ترقی میں سرّ یہ تھا کہ آپ کی ترقی کاذریعہ محض قرآن تھا.پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا.اسی طرح آنحضرت ﷺ کی تکمیل معارف بھی تدریجی تھی.اور اسی قدم پر مسیح موعود ہے جو اس وقت تم میں ظاہر ہؤا.".(نزول المسیح صفحہ ۴۵، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۴۲۱) نبوت کے متعلق بعض اصطلاحات میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے مختصر طور پر یہ لکھ دینا پسند کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑنے جو مختلف اصطلاحات نبوت کے متعلق قرار دی ہیں.ان سے کیا مطلب ہے؟ یاد رہے کہ حضرت مسیح موعودنے بے شک بعض اصطلاحات نبوت کی تشریح کے لئے مقرر فرمائی ہیں.لیکن وہ اصطلاحات قرآن کریم یا حدیث کے الفاظ نہیں ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے لوگوں کو نبوت کی اقسام سمجھانے کے لئے خود وضع فرمائی ہیں اور چونکہ آپ نے خود ان اصطلاحات کو وضع فرمایا ہے.اس لئے ان کے وہی معنی کرنے درست ہوں گے.جو آپ نے خود فرما دیئے ہیں نہ کہ کوئی اور معنی مثلاً قرآن شریف میں صلوٰة کے معنی نماز کے ہیں نماز تو آنحضرت اﷺنے مقرر فرمائی ہے اس سے پہلے تو تھی نہیں.اس لئے گو صلوٰة کے معنی دعا کے ہیں لیکن جب شریعت اسلام میں بغیر کسی اور قرینہ کے صلوٰۃ کا لفظ آئے گا تو اس کے معنی نماز کے ہوں گے نہ کہ دعا کے.پس اسی طرح حضرت مسیح موعود نے جو اصطلاح تجویز کی ہے اور پہلے وہ ان معنوں میں لغت میں استعمال نہیں ہوئی تو ہمیں اس اصطلاح کے وہی معنی کرنے ہوں گے جو خود حضرت مسیح موعودنے کردیئے ہیں.اور اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو حضرت مسیح موعود کے مدعا کے خلاف ہم آپ کی عبارتوں کا کچھ سے کچھ مطلب بنادیں گے میں اس جگہ چند ایسی اصطلاحیں اور ان کے جو معنی خود حضرت مسیح موعود
۴۷۹ نے کئے ہیں درج کردیتا ہوں تاکہ ہر ایک طالب حق ان کو یاد رکھے اور دھوکے میں پڑنے سے بچ جائے.اصطلاحات مسیح موعوداس کے معنی خودحضرت مسیح مو عودنے فرمائے حقیقی نبوت ومن قال بعد رسولنا وسیّدنا انّی نبیّ او رَسُول علٰی وجہ الحقیقۃ والافتراء وترک القرآن واحکام الشریعۃ الغرّاء فھو کافرٌ کذّابٌ.غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کرکے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہوکر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہتاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا.اور عبادت میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کردے گا.پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذّاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.“ (انجام آتھم - روحا ني خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۷،۲۸ حاشیہ) مستقل نبوت ’’ بنی اسرائیل میں اگر چہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا.(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰ حاشیہ ) مستقل نبی یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوی ٰکرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسانبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی بھی حاجت نہیں رکھتا.(اخبار عام ۲۳مئی ۱۹۰۸ء) * بحوالہ بدر نمبر۳۳ جلد ۷ صفحہ ۱۰ ۱۱ جون ۱۹۰۸ء
۴۸۰ نبوت ظلّی یا بروزی ’’ یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے.پس منجملہ ان انعامات کے دو نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیھم السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن شریف بجزنبی بلکہ رسول ہونے کے دو سروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت فلایُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ أَحَداً إِلاّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ سے ظاہر ہے.پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انعمت عليهم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفّٰی غیب سے یہ امت محروم نہیں.اور مصفّٰی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتاہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لئے محض بروز اور ظلّیت اور فنا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.فتد بر.‘‘ منه.(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ ) ظلّی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا.وہ قیامت تک باقی رہے گی“.(حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰) امتی نبی ’’ جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرتﷺ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہ راست"(تجليات الہٰیہ صفحہ ۹ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۱) نبوت تامہ الحدیث یدل علی ان النبوة التامة الحاملة لوحی الشریعة قد انقطعت (توضیح مرام صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۱) ترجمہ مذکورہ حدیث بتا رہی ہے کہ نبوت تامہ جووحی تشریعی والی ہوتی ہے بندہ ہوچکی ہے.جزئی نبوت اس کی تعریف میں حضرت صاحب لکھتے ہیں ‘’ وہ صرف ایک جزئی نبوت ہے جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کے اسم سے موسوم ہے جو انسان کامل کے اقتدء سے ملتی ہے جو مستجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے" (توضیح مرام صفحہ ۱۲ روحانی خزائن جلد ۳ صلہ ۶۰) *صلی اللہ علیہ وسلم
۴۸۱ ’’محدث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے گو اس کے لئے نبوت تامہ نہیں مگر تاہم جزوی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے کیونکہ وہ خدا تعالی ٰسے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے امور غیبیه اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں‘‘ (توضیح مرام صفحہ ۱۲روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰) جز ئی نبوت کی یہ تعریف جو آپ نے کی ہے تو ضیح مرام میں ہے اور جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں تو ضیح مرام کے وقت آپ کا یہی خیال تھا کہ جس قسم کی نبوت مجھے حاصل ہے یہ در حقیقت نبوت نہیں اور سب محدث میرے شریک ہیں.چنانچہ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آپ نے اس میں محدث کونبی قرار دیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں اوپر ثابت کر آیا ہوں بعد میں آپ نے اس بات کو کہ محدث بھی نبی کہلا سکتا ہے غلط ثابت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ محدث نبی نہیں کہلا سکتا.پس یہ حوالہ تو محدثیت کے عقیدہ کے ترک کرنے کے ساتھ ہی ۱۹۰۱ء سے منسوخ ہے.اور حضرت مسیح موعود اس خیال کو ہی رد کر چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ۱۹۰۰ء کے بعد حضرت مسیح موعود نے اپنی نبوت کے متعلق میں کہیں بھی جزوی یا ناقص نبوت نہیں لکھا.حالانکہ اس سنہ ۴کے بعد جس کثرت سے نبوت کا ذکر آپ کی کتابوں میں پایا جاتا ہے.پہلی کتابوں میں اس کثرت سے نہیں ملتا.پس ایک طرف محدثین کے نام کا ترک اور نبوت کی تعریف میں تبدیلی اس بات پر شاہد ہیں کہ جزوی نبوت کی اصطلاح کو حضرت صاحب ترک کر چکے ہیں تو دوسری طرف اس لفظ کاہی ترک کر دینا ثابت کرتاہے کہ آپ اپنے آپ کو پہلے ایسانبی خیال نہیں کرتے تھے.ہاں اگر کوئی شخص جزوی نبی کی اصطلاح سے یہ مرادلے کہ نبوت توہے.لیکن ساتھ شریعت جد ید ہ نہیں تو ان معنوں سے ہم اس لفظ کو قبول کرسکتے ہیں ورنہ نہیں.حضرت مسیح موعودؑ کی مذکورہ بالا اصطلاحات اور ان کے دو معنی جو خود حضرت مسیح موعودؑنے کئے ہیں.دیکھ کر ہر ایک دانا انسان اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ان سب اصطلاحات کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ ایک نبی شریعت لانے والے ہوتے ہیں.ایک بغیر شریعت کے ہوتے ہیں.اور ایک نبی دوسرے کی اتباع سے نبی بنتے ہیں.پس اگر حضرت مسیح موعود نے کہا کہ میں حقیقی نبی نہیں ہوں یا مستقل نبی نہیں ہوں یا میری نبوت تامہ نہیں ہے تو ان سب اصطلاحات کے صرف اس قدر معنی ہوں گے کہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے اورنہ آپ کو نبوت بلا واسطہ ملی ہے اور اگر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں ظلّی یا بروزی کہتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کی نبوت بالواسطہ ہے اور
۴۸۲ آنحضرت ﷺ کی اتباع سے ہے اور یہی عقیدہ ہمارا ہے لیکن ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی نادان ان معنوں کو چھوڑ کر جو خود حضرت مسیح موعود نے ان حوالہ جات کے کئے ہیں اور معنی کرےاور کہے کہ دیکھو مسیح موعود نے اپنی نبوت سے انکار کیا ہے حضرت مسیح موعود کے اپنے کئے ہوئے معنوں سے باہر جانے کی اجازت کسی کو نہیں.کیونکہ یہ الفاظ لغت میں ان معنوں کے ساتھ استعمال نہیں ہوتے.جن میں حضرت مسیح موعود نے ان کو استعمال کیا ہے پس یہ حضرت مسیح موعود کی اصطلاحات سے ہیں.اور وہی معنی ان کے جائز ہو سکتے ہیں جو خود آپ نے کئے.نہ وہ جو دو سرا اپنے ذہن سے بنالے اور نہ وہ جو لغت میں آئیں.پس ہماری جماعت کے لوگ خوب یاد رکھیں کہ یہ حضرت صاحب کی اپنی اصطلاحات ہیں اور اگر کوئی شخص ان کو پیش کر کے ان کے معنی اپنے پاس سے کرنے لگے مثلاً یہ کہہ دے کہ حقیقی نبی وه ہوتا ہے جو واقعہ میں نبی ہو کیونکہ حقیقی کے لغت میں یہی معنی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ میں حقیقی نبی نہیں.سو معلوم ہوا کہ آپ در حقیقت نبی نہ تھے تو ایسے شخص کو صاف کہہ دیں کہ اس غلط بیانی سے باز آؤ اور مسیح موعود کی کتابوں سے تمسخر نہ کرو مسیح موعود نے جب خود ان الفاظ کے معنی کردیئے ہیں تو تم کون ہو کہ اور معنی کرو.اور وہ معنی جو حضرت مسیح موعودنے کیے ہیں یہ ہیں کہ میں کوئی نی شریعت نہیں لایا.اور میری نبوت بلا واسطہ نہیں.اور یہی ہمارا مذہب ہے.اصطلاحات کے معنی کرنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور اپنی طرف سے معنی کرنے جائز نہیں ورنہ حق کی مخالفت ہوگی.اور جب انسان حق کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی زبان پر ایسا كلام جاری ہو جاتا ہے جو اسے حق سے دورہی دور کرتا چلا جا تا ہے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں وہ خدا کے سب بزرگوں سے منکر ہو رہے ہیں اور حفظ مراتب کا خیال ان کے دل سے نکل گیا ہے.اور اپنے جوشوں میں اندھے ہو کر خدا تعالیٰ کے برگزیدوں پر ہاتھ ڈالنے سے نہیں ڈرتے جو ایک قابل خوف علامت ہے.مومن کو چاہئے ہر ایک بحث و تکرار کے وقت اپنے جوش کو قابو میں رکھے.اور اپنے مد مقابل کی حالت پر نظر نہ کرے بلکہ یہ دیکھے کہ میں کس شخص کے متعلق کام کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کے لئے نہایت غیور ہوتا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے.اس وقت تک لاکھوں برگزیده انسان گذر چکے ہیں اور لاکھوں کروڑوں نے ان کی مخالفت کی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کی ہتک کرنے والا اور ان کو دکھ دینے والا انسان سزاے بچ گیا ہو.اور اگر ہو تو لوگ دین سے بالکل پھر
۴۸۳ جائیں اور بہتوں کے ایمان ضائع ہو جائیں.اللہ تعالی ٰاپنی ہستی کا ثبوت تو قادر ان کاموں سے ہی دیتا ہے ورنہ اللہ تعالی ٰکو انسان کی مادی آنکھ کہاں دیکھ سکتی ہے.اور اگر اس کی قدرت اپنے ظہور سے رک جائے تو خدا تعالی ٰکا ماننا انسان کے لئے ناممکن ہو جائے.پس یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کی ہتک ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی غیرت اس پر بھڑک اٹھتی ہے مجھے یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا ہے کہ بعض لوگ جن کو یہ نہیں معلوم کہ حضرت مسیح موعود نے مذکورہ بالا اصطلاحات کے کیا معنی کئے ہیں.اپنی طرف سے ان اصطلاحات کے معنی کرتے ہیں.اور پھر حضرت مسیح موعود کی ہتک کر بیٹھتے ہیں.چنانچہ ذیل میں اس قسم کا ایک واقعہ لکھا جاتاہے.برادرم قاضی محمد یوسف خان صاحب پشاور کی جو مبائعین کی جماعت میں شامل ہیں.اور ایک اور شخص کے در میان جو غیر مبائعین سے ہے اور جس کا نام لینے کی ضرورت نہیں کسی موقع پر نبوت کے متعلق گفتگو ہو پڑی.غیر مبائع صاحب نے کہاکہ مردان کے منشی محمد یوسف صاحب کا لکھ ہیں کہ ہم تو آنحضرت ﷺ اور مرزا صاحب دونوں کو ایک جیسامانتے ہیں اس پر قاضی محمد یوسف صاحب نے جواب دیا کہ درجہ کے لحاظ سے تو ہم ایک جیسا نہیں مانتے آنحضرت ﷺ آقا تھے.حضرت مسیح موعود غلام تھے.آنحضرت ﷺ استاد تھے.مسیح موعود شاگرد تھے.ہاں یہ ہمارا ایمان ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ ظلّی طور پر آنحضرت ﷺکے کمالات پانے کی وجہ سے آپ ان کے مشابہ ہو گئے.اور یہ ان کا قول بالکل درست تھا لیکن غیر مبائع صاحب اس بات کو سن کر جوش میں آگئے.اور کہنے لگے کہ ظل کیا شئےہے ظل تو اصل کا پاخانہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہو تا.اور جب ان کو کہا گیا کہ آپ تو مسیح موعود کی ہتک کرتے ہیں تو آپ بجائے شرمندہ ہونے کے کہنے لگے کہ ظل تو اس قابل ہے کہ پاؤں میں روند کر پاخانہ میں پھینک دیا جائے.جب اس پر پھر ان کو سمجھایا گیا.تو کچھ سوچ کر اپنی غلطی معلوم کی.اور اپنے پچھلے فقرات کی اور کوئی تاویل کرنی چاہی اور کہا کہ میرا مطلب وہ نہ تھاجو آپ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اور تھا.چنانچہ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک یہودی کا پاخانہ دھویا تھا.لیکن یہ خیال نہ کیا کہ میں آنحضرت ﷺ کی افضلیت پر بھی حملہ کر رہا ہوں انالله وانا اليه رٰجعون یہ سب نتیجہ تھاحق کی مخالفت کا.اور فعل کے معنی نہ سمجھنے کا.احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن سات قسم کے مومنوں کے سر پر اللہ کا سایہ ہو گا.اب بتاؤ کہ کیا اس ظل کی بھی ہتک
۴۸۴ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے.بادشاہ ظل اللہ کہلاتا ہے.کیا اسے بھی اسی اصول کے ماتحت مارنے پر آمادہ ہو جاؤ گے.کیا ظل کا لفظ صرف اس سایہ کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے جو انسان یا درخت کا دھوپ کی وجہ سے زمین پر پڑتا ہے اگر نہیں تو پھر اس سایہ پر مسیح موعود کی نبوت کا قیاس کیوں کرتے ہو.مسیح موعود تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور مقرب تھا.اور ایک محبوب کی حیثیت رکھتا تھا.اور آنحضرت ﷺ اسے اپنا وجود قرار دیتے ہیں.اپنانام اور اس کا نام ایک بتاتے ہیں.تم کسی ایسے ظل کی ہی ہتک کر کے بتادو جو ظاہر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.یعنی کسی دنیاوی بادشاہ کے ملک میں اس کا ایک مجسمہ بنا کریا اس کی تصویر لے کراسے علی الاعلان جلادو- یا کسی افسر کے سامنے جا کر اس کے سایہ کو جوتیاں مارنے لگ جاؤ - ویکھو تو تمہارا کیا حال ہوتا ہے یا پاگل خانہ میں بھیجےجاؤ گے یا جیل خانہ میں ہندوستان میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ بعض شریروں نے ملکہ معظمہ یا ملک ایڈورڈ ہفتم کے بت کی ہتک کی.تو ان کو سزا دی گئی.پس جب دنیاوی بادشاہوں اور افسروں کے ظل اور مجسموں کی جو بے جان ہیں اور اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتے تنگ کرنے پر سزا ملتی ہے تو کیوں خدا تعالیٰ کا مامور اور آنحضرت ﷺ کا ظل ہی ایسی حقیر شئےہے کہ اس کی جس طرح چاہو ہتک کرلو؟ کسی قسم کی سزا کا خوف نہیں.کوئی کہتا ہے ظل کو جوتیاں مارنا جائز ہے کوئی کہتا ہے اسے پاخانہ میں پھینک دینا جائز ہے.کیا خدا تعالیٰ کا خوف دل سے بالکل نکل گیا ہے کہ اس حد تک نوبت پہنچ گئی.خوب یاد رکھو کہ اس عمل کے وہ معنی نہیں جو یہ لوگ خیال کرتے ہیں.بلکہ اس عمل کے معنی صرف یہ ہیں کہ آپ نے سب کمالات آنحضرت ﷺ کی اتباع سے پائے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اپنے جوشوں سے اندھے ہو کر مسیح موعود کی ہتک کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں سمجھ دے اور ان کی آنکھیں کھولے ناحق و باطل میں تمیز کر سکیں اور خدا تعالی ٰکا مقابلہ کر کے اپنے آپ کو تباہ کرلیں.اللهم آمین.مجازی نبی جو اصطلاحات میں نے اوپر ذکر کی ہیں ان کے علاوہ ایک اصطلاح اور بھی ہے جس کا ذکرمیں الگ کرنا چاہتا ہوں.اور وه مجازی نبی کی اصطلاح ہے.جناب مولوی صاحب نے اس اصطلاح پر خاص زور دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ دیکھو حضرت مسیح موعود نے صاف لکھ دیا ہے کہ شتنت سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقہ\" (ترجمہ).اور میرا نام نبی اللہ کی طرف سےمجازی طور پر رکھا گیا ہے نہ حقیقی طور پر میں حیران ہوں جب میاں صاحب کے اس فقرہ کو پڑھتا
۴۸۵ ہوں کہ’’ اگر حقیقی کے مقابلے میں نقلی یا بناوٹی یا ا سمی نبی کو رکھا جائے تو میں آپ کو حقیقی نبی مانتاہوں مگر مرزا صاحب باوجود نقلی بناوٹی یا اسمی نبی نہ ہونے کے کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام حقیقی رنگ میں نبی نہیں رکھا بلکہ صرف مجازی طور پر.میں کس طرح سمجھ لوں کہ میاں صاحب کو آج تک یہ بھی علم نہیں کہ حضرت مسیح موعودنے حقیقی کن معنوں میں استعمال کیا ہے.جب ایک مرتبہ نہیں کئی بار حضرت کی تحریروں میں حقیقی کے بالمقابل اپنی نبوت کو مجازی کہا ہے کیا حقیقت اور مجاز کافرق میاں صاحب کو معلوم نہیں ؟ پھر کیوں انہوں نے جان بوجھ کر حقیقی کے خلاف بناوٹی اور نقلی رکھا ہے محض اس لئے کہ حقیقت پر پردہ پڑارہے.حضرت صاحب تو حقیقی کے مقام پر مجازی رکھیں اور میں حقیقی کے مقابل نقلی اور بناوٹی رکھ کر آپ کی تحریر کا استخفاف کرتے ہیں“.مجھے افسوس ہے کہ جناب مولوی صاحب کو میرے حقیقی کے مقابلے پر اگر کے ساتھ مشروط کرکے نقلی رکھنے پر اس قدر طیش آگیا.اور میرے یہ الفاظ آپ کی تکلیف کا باعث ہوئے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ اس طیش کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی میں نے لکھا تھا کہ اگر حقیقی کے معنی یہ کئے جائیں کہ نئی شریعت لانے والانبی (جو معنی خود مسیح موعود نے کئے ہیں) تو میں بھی حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی نہیں مانتا.لیکن اگر حقیقی کے مقابلہ میں بناوٹی یا اسمی رکھاجائے تو میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں.اب ظاہر ہے کہ میں نے اگر کے ساتھ مشروط کر کے بتایا تھا کہ اگر فلاں معنی کئے جائیں.تب میں آپ کو بناوٹی نہ قرار دوں گا بلکہ حقیقی لیکن جناب مولوی صاحب کو نہ معلوم اس پر کیوں طیش آگیا.حالانکہ قرآن کریم میں وہ لکھا دیکھتے ہیں کہ ان کان للرحمن ولد فانا اول العبدین (الزخرف:۸۲) اگر رحمٰن کا بیٹا ہو تو میں اس کی سب سے پہلے پرستش کرنے کو تیار ہوں (مگر چونکہ ہے ہی نہیں میں پرستش نہیں کرتا )اسی طرح وہ میرے فقرہ کو سمجھ لیتے کہ حضرت مسیح موعود کے معنوں کے خلاف اگر کوئی شخص حقیقی کے یہ معنی کرے کہ نقلی یا بناوٹی نہ ہو تو میں مسیح موعود کو حقیقی نبی ہی سمجھوں گا.اور اگر مولوی صاحب کو بھی میں اس فقرہ کا مطلب یہی ہے کہ میں نے آپ کو حقیقی کہاتوغالبا ًاس آیت سے کہ ان کان للرحمن ولد فانا اول العبدین یعنی اگر رحمٰن کا بیٹا ہو تو میں اس کی سب سے پہلے پرستش کرنے کے لئے تیار ہوں وه یہی مطلب لیتے ہوں گے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالی کا بیٹا مانتے تھے.اگر وہ کہیں کہ جبکہ ہم سارے قرآن کریم میں یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہیں تو اس آیت سے جس کے پہلے اگر لگا ہؤا ہے کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آپ خدا کا بیٹاانتے تھے تو وہ بتائیں کہ جب القول الفصل میں کئی جگہ میں نے لکھا ہے کہ
۴۸۶ میں مرزا صاحب کو حقیقی نبی نہیں مانتا تو پھر اس فقرہ سے جس کے پہلے اگر لگا ہوا ہے کس طرح حقیقی نبی کا مفہوم سمجھا گیا.میں نے تو اس جگہ یہ بتایا تھا کہ اصطلاحات کے تغیرّسے الفاظ کے استعمالات میں بھی تغیر پیدا ہو جاتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ اس طیش میں آکر جناب مولوی صاحب نے مجھ پر دھوکے کا الزام بھی لگایا ہے.لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں.اس لئے قابل افسوس نہیں.اب میں اس بات کی طرف آتا ہوں کہ حقیقۃ الوحی میں جو یہ عبارت ہے کہ میرا نام اللہ تعالیٰ نے مجاز کے طور پر نبی رکھا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر.اس کے کیا معنی ہیں.اور کیا اس نبوت کو مجازی قرار دینا ثابت نہیں کرتا کہ حضرت مسیح موعود حقیقت میں نبی نہ تھے بلکہ جس طرح بہادر آدمی کو مجاز اً شیر کہہ دیتے ہیں.اور وہ اس سے در حقیقت شیر نہیں ہو جاتا.اسی طرح حضرت صاحب کو نبی کہہ دیا گیا ہے اور اس سے آپ در حقیقت نبی نہیں ہو گئے.سواس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایساخیال مجاز و حقیقت کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اگر جناب مولوی صاحب بجائے مجھ پر الزام لگانے کے کہ میں مجاز کے معنوں کو چھپاتا ہوں.اس بات کی کوشش فرماتے کہ حقیقت کے معنی دریافت کرلیں تو شاید انہیں حضرت صاحب کی مذکورہ بالا تحریر میں مجاز کا لفظ دیکھ کر اس قدر خوشی نہ ہوتی جواب حاصل ہوئی ہے کیونکہ اس صورت میں ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ حوالہ ان کے لئے ہرگز مفید نہیں بلکہ اس حوالہ سے صرف اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کوئی نئی شریعت نہیں لائے اور اس بات کا انکار کسے ہے کہ آپ غیر تشریعی تھے.پس اس حوالہ سے یہ ثابت کرنا کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ آپ کو نبی اسی رنگ میں کہا گیا ہے جس رنگ میں کہ ایک بہادر آدمی کو شیر کہاجاتا ہے.اور جس طرح وہ بہادر آوی شیر نہیں ہو جاتا.آپ اس طرح نبی کہنے سے نبی نہیں ہو جاتے ہر گز درست نہیں.چنانچہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں علم اصول کی کتاب نور الانوار سے حقیقت و مجاز کی تعریف نقل کر دیتا ہوں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو کیا دهوکا لگا ہے.نور الانوار میں حقیقت و مجاز کی تعریف حسب ذیل لکھی ہے: اما الحقيقة قاسم لکل لفظ أریدبه ماوضع له...والمراد بالوضع تعينہ للمعنى بحيث یدل علیہ من غیر قرينة فان كان ذلك اتعیين من جهة راضع اللغة فوضع لغوى وان كان من الشارع فوضع شرعی وان كان من قوم مخموص فوضععرفی خاص والا فوضع عرفی عام والمعتبر فی الحقیقة ، فھو الوضع بشی من
۴۸۷ الأوضاع المذكر في المجاز عد مہ\" نور الانوار شرح النار صله ۹۲) (ترجمہ) حقیقت اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے مرادوی معنی لئے گئے ہوں جن کے لئے وہ مقرر کر لیا گیا ہو......اور وضع یعنی مقرر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس لفظ سے کسی قرینہ کے بغیر وہ معنی سمجھے جاتے ہیں.اب اگر یہ تعیین واضع لغت کی طرف سے ہو تو وضع لغوی کہلائے گی.اور اگر شریعت نے تعیین کی ہو تو وضع شرعی ہوگی.اور اگر کسی خاص گروہ کی تعیین ہو تو وضع عرفی خاص کہلائے گی.اور اگر عرف عام سے یہ تعیین پیدا ہوگئی تو وضع عرفی عام کہلائے گی.اور حقیقت کی تعریف میں یہ تمام قسمیں ملحوظ ہیں (پس حقیقت کی چار قسمیں ہوں گی.حقیقۃ لغویہ - حقیقیۃ شرعیہ.حقيقة عرفیہ خاص.حقیقۃ عرفیہ عام )اور مجاز میں بھی انہی تعیینوں کا عدم ملحوظ ہے (پس مجاز کی بھی چار قسمیں ہوں گی.مجاز وضعی.مجاز شرعی - مجاز عرفی خاص.مجاز عرفی عام) اس عبارت سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ حقیقت کی چار قسمیں ہیں.حقیقت لغویہ – حقیقت شرعیہ.حقیقت عرفہ خاص اور حقیقت عرفہ عام.اور ان میں سے ہر ایک حقیقت کے مقابلہ میں ایک مجاز ہوتا ہے یعنی اگر حقیقت لغویہ ہو تو اس کے مقابلہ میں مجاز لغوی ہو گا.اور اگر حقیقت شرعیہ ہے تو اس کے مقابلہ میں مجاز شرعی ہو گا.اور اگر حقیقت عرفہ خاص ہے تو اس کے مقابلہ میں مجاز عرفی خاص ہو گا.اور اگر حقیقت عرفیہ عام ہے تو اس کے مقابلہ میں مجاز عرفی عام ہو گا.اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ مجاز ہمیشہ حقیقت کے مقابلہ میں ہو تا ہے.اور حقیقت سے مجاز کا پتہ لگایا جاتا ہے نہ کہ مجاز سے حقیقت کا.اب اس مسئلہ کے صاف ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جو حقیقی نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے تو مذکوره بالا چار حقیقتوں میں سے کس حقیقت کے ماتحت یہ لفظ آتا ہے تاکہ مجاز کے معنی اسی حقیقت کے مقابل کی مجاز کے کئے جائیں اب ہم نبی کے معنی جب لغت میں تلاش کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس پر کثرت سے أمور غیبیہ ظاہر ہوں جو اہم امور کے متعلق ہوں.اور خدا تعالیٰ اس کا نام نبی رکھے.اور شریعت لانے والے کی شرط دنیاکی کسی لغت میں نہیں پاتے پس معلوم ہوا کہ یہ حقیقت لغویہ نہیں ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ حقیقت شرعیہ ہے تو قرآن کریم یا احادیث میں بھی نبی کے معنی و ہی ملتے ہیں.جو لغت کرتی ہے.اور جو میں بالتفصیل پہلے لکھ آیا ہوں.پس یہ حقیقت شرعیہ بھی نہیں.ہاں اگر عوام کے محاورہ کو دیکھیں تو ان کے ہاں میں بے شک اسی کو کہتے ہیں جو شریعت جد ید ہ لائے یا بلاواسطہ نبوت پائے.پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام اپنی نادانی سے نبی کی جو حقیقت بتاتے ہیں اس کے
۴۸۸ لحاظ سے حضرت مسیح موعود پر نبی کا لفظ مجاز استعمال ہوتا ہے مگر اس کے معنی صرف یہ ہوں گے کہآپ عوام کی اصطلاح کے رو سے نبی نہ تھے یعنی شریعت جد ید ہ نہ لائے تھے.اور یہ معنی نہ ہوں گے کہ آپ شریعت کے معنوں سے بھی مجازی نبی تھے.اب رہی چو تھی حقیقت یعنی حقیقت عرفیہ خاص.سو اور لوگوں کی اصطلاحات تو ہمیں تلاش کرنے کی حاجت نہیں.حضرت مسیح موعود کی کتب میں دیکھیں تو آپ نے بھی عوام کو اپنی نبوت کی قسم سمجھانے کے لئے ایک اصطلاح قرار دے لی ہے اوراس کی یہ حقیقت قرار دی ہے کہ وہ شریعت لائے.اور اس کی وجہ صاف ہے، اور وہ ہے کہ عوام الناس میں نبی کی حقیقت شریعت کا لانا سمجھا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود نے بھی عوام کو سمجھانے کے لئے انہی کی فرض کردہ حقیقت کو تسلیم کر کے انہیں سمجھایا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ کوئی شریعت جدیده لایا ہوں.بلکہ ان معنوں کے رو سے میں مجازی نبی ہوں یعنی شریعت لانے والے نبیوں سے ایک رنگ میں مشابہت رکھتا ہوں.گو شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں.کیونکہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی جدید شریعت نہیں.پس یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے عوام الناس کے خیال میں نبی کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے اور عوام الناس کو سمجھانے کے لئے جو حقیقت نبوت بطور ایک اصطلاح کے فرض کی ہے.اس کے لحاظ سے بھی آپ مجازی نبی ہیں.اور اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آپ شریعت میں لائے نہ یہ کہ اسلام کی اصطلاح میں بھی آپ نبی نہیں ہیں.اب بتاؤ کہ وہ کون سا شخص ہے جو حضرت مسیح موعود کی نبوت کو تشریعی نبوت قرار دیتا ہےجس کے قائل کرنے کے لئے مجازی نبوت پر اس قدر زور دیا جاتا ہے.میں اور میرے سب مرید توآپ کو ایسا ہی نبی تسلیم کرتے ہیں جس نے کوئی جدید شريعت جاری نہیں کی اور نہ آنحضرتﷺ کی اطاعت کے بغیر نبی ہوئے بلکہ ہم تو اسے خیال کو کفر خیال کرتے ہیں.اور ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے آنحضرت اﷺکے بعد اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے سب دروازے بند ہیں.اور سوائے اس شخص کے جو اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کی محبت میں فناکردے.اور کسی کو کوئی درجہ نہیں مل سکتا.اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جو آپ کی فرمانبرداری کا جواپنی گردن پر اٹھاتا ہے.اور جو شخص آپؐ کی جناب سے روگردانی کرتا ہے وہ اس دنیامیں بھی ذلیل ہے اور اگلے جہان میں بھی.عزت صرف آپؐ کی غلامی میں ہے.اور بڑائی آپؐ کی کفش برداری میں.خدا تعالیٰ کی معرفت آپؐ کی معرفت پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا قرب آپ ؐکے قرب پر بند.نبوت تو ایک
۲ ۴۸۹ بڑی شئے ہے.ہمارا خیال کیا یقین ہے کہ آپؐ کی اطاعت کے بغیر تو معمولی تقویٰ بھی نصیب نہیں ہو تا.پس ہمارے مقابلہ میں آپ وہ حوالے کیوں پیش کرتے ہیں.جن سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت آنحضرت ﷺکے فیضان سے ہے.ہم نے کب انکار کیا ہم تو آپ سے بہت زیادہ اس امر کے قائل ہیں.اور مسیح موعود کے درجہ کی بلندی کی وجہ صرف یہی مانتے ہیں کہ مسیح موعود آپؐ کی فرمانبرداری میں سب پہلوں اور پچھلوں سے بڑھ گیا.اور آنحضرت ﷺکی جو معرفت آپ نے پائی اور کسی نے نہ پائی اور یہی تو وجہ ہے کہ آپ کو نبوت کا درجہ ملا.اور کسی کو نہ ملا.ممکن ہے اوپر کے مضمون کا ایک حصہ بعض لوگ نہ سمجھیں.کیونکہ اس میں بعض اصطلاحات آگئی ہیں.اور ایسے لوگوں کو بعض لوگ شیر کی مثال دے دے کر ڈرانا چاہیں اس لئے میں اس مضمون کو اور رنگ میں عام فہم کر کے بیان کر دیتا ہوں.تاہر ایک طالب حق اس کو سمجھ لے.اور جان لے کہ یہ شیر کی مثال بھی ایک ڈراوا ہے ورنہ اس کا اثر حضرت صاحب کے دعوے پر کچھ نہیں پڑتا.اس مضمون کے اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مجازی کا لفظ جب کسی اور لفظ کے ساتھ ملایا جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وو در حقیقت کچھ ہے ہی نہیں.اور صرف نام رکھ دیا گیا ہے.بلکہ یہ لفظ مختلف معنی دیتا ہے.اور ہمیشہ اس سے یہی مراد نہیں ہوتی کہ جس لفظ کے ساتھ وہ لگایا گیا ہے.اس میں کسی قسم کی بھی حقیقت ثابت نہیں.بلکہ جس حقیقت کو مدِّنظر رکھ کر یہ لفظ بڑھایا جائے.صرف اسی کے عدم پردلالت کرتاہے.شیر ایک جانور کا نام ہے.اور اردو کا لفظ ہے.جب ایک آدمی کو ہم شیر کہہ دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ لغت میں شیر جس چیز کا نام ہے یہ شخص اس سے مشابہت رکھتا ہے.اور لغت کے لحاظ سے آدمی کا نام شیر مجازی معنوں کے درد سے ہے.لیکن فرض کرو.اگر کوئی جماعت شیر کے لفظ کے کوئی اور معنی مقرر کرے.تو جب ان اصطلاحی معنوں کے رو سے شیر کا لفظ بولا جائے گا تو لغت کے لحاظ سے تو وہ حقیقت کے خلاف ہو گا لیکن اس جماعت کی اصطلاح کے روسے وہ حقیقت ہی ہو گا.یہ تو ایک فرضی مثال ہے.اب میں ایسی مثالیں دیتا ہوں.جو اس وقت ہماری زبان میں موجود ہیں.نماز اروو فارسی میں اس عبادت کا نام مشہور ہے جو مسلمانوں میں رائج ہے.اگر کوئی مسلمان نماز کا لفظ بولتا ہے.تو مسلمانوں میں مشہور ہونے کے لحاظ سے نماز کے حقیقی معنی اس عبادت کے
۴۹۰ ہوں گے جو مسلمان کرتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان اس لفظ کو ہندوؤں کی عبادت یا عیسائیوں کی عبادت یا پارسیوں کی عبارت کے لئے استعمال کرے.مثلاً عیسائیوں کے گر جاکرنے کا نام ہی رکھے کہ عیسائی نماز پڑھ رہے ہیں یاپارسیوں کے دعا کرنے کا نام ہی رکھے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے.تو اس مسلمان کا عیسائیوں یا پارسیوں کی عبادت کو نماز کا مسلمانوں کے عرف کے لحاظ سے مجازی کہلائے گا.یعنی در حقیقت وہ اسلامی نماز تو نہیں.لیکن چونکہ عبادت کے لحاظ سے مشابہ ہے.اس لئے اس کا نام مجاز۱ًنماز رکھ دیا گیا مگر یہی لفظ ایک پارسی کہ وہ بھی اپنی عبادت کو نماز کہتا ہے.کیونکہ نماز فارسی لفظ ہے اور فارس کا مذہب اسلام سے پہلے زرشتی مذہب تھا.یا ایک بابی کہ وہ بھی اپنی عبادت کا نام نمازی ہی رکھتا ہے.اپنی عبادت کے متعلق استعمال کرتے اور کہتے کہ ہم نماز پڑھنے لگے ہیں.تواب یہ پارسیوں یا بابیوں کے مذہب کے رو سے مجاز نہیں ہو گا.بلکہ اپنے حقیقی معنوں کے روسے ہو گا.کیونکہ ان کے نزدیک نمازایسی عبادت کا نام ہے جو وہ کرتے ہیں.پس چونکہ نماز ایک شرعی کام ہے مسلمانوں کے منہ سے یہ لفظ اسلامی عبادت کے متعلق نکلے تو حقیقی معنوں کے روسےہو گا.اور پارسیوں یا بابیوں کی عبادت کے متعلق نکلے تو مجازی معنوں میں اس کا استعمال سمجھاجائے گا اس کے خلاف ایک پارسی یا بابی جب اپنی عبادت کے متعلق نماز کا لفظ استعمال کرے تووہ حقیقی معنوں کے رو سے ہو گا.اور جب اسلامی عبادت کے متعلق استعمال کرے توده مجازی معنوں کے روسے ہو گا.اسی طرح رسول کا لفظ ہے.لغت میں اس کے معنی بھیجے ہوئے کے ہیں جب زبان عربی میں رسول کے لفظ کا کسی ایسے شخص پر سے کسی کام کے لئے بھیجاگیاہے استعمال کیا جائے گا.تو لغت کے لحاظ سے یہ بالکل درست ہو گا.اور کہیں گے کہ یہ لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے.لیکن شریعت اسلام میں رسول کا لفظ اللہ کے بھیجے ہؤوں اور نبیوں پر استعمال کیا جا تا ہے پس جب شریعت اسلام میں یہ لفظ نبی کے معنی میں استعمال ہو گا.تو کہیں گے کہ یہ حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے.لیکن جب کتب دینیہ میں کسی ایسے شخص کو جو فی الواقعہ رسول نہیں رسول کہہ دیا جائے تو کہیں گے کہ یہ لفظ مجازی طور پر استعمال ہواہے گو لغت کے لحاظ سے حقیقی طور پر ہی کیوں نہ استعمال ہوا ہو.اسی طرح لغت میں رسول کا لفظ مجازی تب کہا جائے گا کہ ایک شخص کو کسی نے بھیجا تو نہیں.مگر کی اور وجہ سے اسے رسول کہہ دیا جائے تو کہیں گے مجاز اً اسے رسول کہہ دیا گیا ہے.غرض شریعت کے لحاظ سے تو مجازی رسول کے اور معنی ہوں گے اور لغت کے لحاظ سے اور معنی ہوں گے.
۴۹۱ اسی طرح مشکل کا لفظ ہے.قرآن کریم کی اصطلاح میں اس لفظ کے معنی ہیں ایک بات اور قول کے جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ( المؤمنون -۱۰۰.۱۰۱)یعنی جب کفار میں سے کسی پر موت وارد ہوتی ہے تووہ کہتا ہے کہ اے الہٰی مجھے واپس لوٹادیجئے.مجھے واپس لوٹادیجئے مجھے واپس لوٹادیجئے تاکہ میں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہوں.کچھ نیک عمل کرلوں.خبردار !یہ ایک بات ہی ہے جو اس نے کہہ دی.ورنہ ان کے پیچھے تو ایک روک حائل ہے قیامت تک.اس آیت میں ایک پورے فقرہ کو کلمہ کہا ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں کہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے.اور ہر جگہ جملے اور فقرہ کے معنوں میں ہی آیا ہے.رسول الله ﷺ بھی انہی معنوں میں اسے استعمال فرماتے ہیں.جیسے کہ فرمایا اصدق کلمة قالھا لبیدالا كل شي ماخلا الله باطل.پس محاوره اسلام میں کلمہ کالفظ جملہ اور فقره کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اسی طرح عوام میں بھی یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہوتاہے.لیکن صرف و نحو کی کتب میں یہ لفظ ایک الگ اصطلاح کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے.اور کلمہ لفظ مفرد کو کہتے ہیں پس ایک نحوی جب اس لفظ کو مفرد کے معنوں میں بولے گا تو اس کے حقیقی معنی ہوں گے.اور اگر جملہ کے معنوں میں بولے گا تو یہ اس کے مجازی معنی ہوں گے لیکن اگر عام بول چال یا دین کی گفتگو میں کلمہ کا لفظ آئے گا.اور اس سے مراد جملہ یا فقرہ لیا جائے گا تو اسے مجازی نہیں کہیں گے.بلکہ یہی کہیں گے کہ عام بول چال کے لحاظ سے حقیقی معنوں میں استعمال ہؤا ہے.اور نحویوں کی اصطلاح کے روسے مجازی معنوں میں اور اس مجازی کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ فقره در حقیقت کلمہ ہو تاہی نہیں.غرض کہ مجاز بھی حقیقت بن جاتاہے اور کبھی حقیقت مجاز بن جاتی ہے، اور ایک ہی لفظ ایک معنوں کے لحاظ سے شریعت میں مجاز ہوتا ہے لیکن لغت میں حقیقت ہو جا تا ہے ، اور کبھی لغت میں مجاز ہوتا ہے.اور عرف خاص میں حقیقت ہو جاتا ہے اور مجاز کے معنی ہمیشہ ایک سے ہی نہیں رہتے بلکہ مختلف حالات میں بدلتے رہتے ہیں.اور جس لفظ کی نسبت کہہ دیں کہ یہ مجازی رنگ میں استعمال ہوا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی اعتبار سے بھی اسے حقیقت نہیں کہہ سکتے.بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جن حقیقی معنوں کو مد نظر رکھ کر اسے استعمال کیا گیا ہے.وہ اس میں نہیں پائے جاتے.گو ممکن ہے کہ کسی دوسرے اعتبار سے وہ لفظ حقیقت بھی ہو.جیسا کہ تلویح جوعلم
۴۹۲ اصول کی انتہائی کتب میں سے ہے.اس میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے.( دیکھوتلویح مطبوعہ نولکشورصفحہ ۱۱۰تا۱۱۲) یہی حقیقت ہے جس کے نہ ھونے کی وجہ سے جناب مولوی محمد علی صاحب کو حضرت صاحب کی کتب میں مجازی کا لفظ ر کھ کر دھوکا لگا ہے.کیونکہ انہوں نے مجازی شیر کی مثال سنی ہوئی تھی.اور ان کا خیال تھا کہ شاید یہ مثال مجاز کے معنی ظاہر کرنے کا واحد ذریعہ ہے.حالانکہ وہ مثال صرف لغوی مجاز کو ظاہر کرتی ہے.اور باقی مجاز کی تین قسموں پر اس سے بالکل روشنی نہیں پڑتی.بات یہ ہے کہ اگر لغت میں نبی کے معنی شریعت لانے والے کے ثابت ہو جائیں یا یہ کہ وہ بلا واسطہ نبوت پائے تو جو شخص شریعت نہیں لایا.اور نہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ہے اسے اگر مجازاً نبی کہہ دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ لغت جسے نبی کہتی ہے یہ وہ نبی نہیں بلکہ اس سے کسی قسم کی مشابہت ہے.اور اگر شریعت اسلام میں نبی کی یہ دونوں شرطیں ثابت ہو جائیں اور پھر کسی کی نسبت دینی کتب میں مجازی نبی کا لفظ مستعمل ہو تو شریعت اسلام کی اصطلاح کے روسے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ شریعت اسلام جسے نبی کہتی ہے.یہ وہ نبی نہیں ہے بلکہ اسے نبی سے کوئی مشابہت ہے.اور اگر عرف عام سے نبی میں ان دونوں شرائط کا پایا جانا ثابت ہو.اور پھر کسی کو عرف عام کے معنوں کو مد نظر رکھ کر مجازی نبی کہہ دیں.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ عام لوگوں کے نزدیک جسے نبی کہتے ہیں.یہ و یسانبی نہیں ہے.گو شریعت کے مطابق نبی ہو.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ نبی ایک اسلامی اصطلاح ہے.پس اگر کسی کی نبوت شریت اسلام کی تعریف کی رو سے ثابت ہو جائے تو وہ شریعت اسلام کے مطابق نبی ہو گا.خواہ لغت یا عوام کےنزدیک حقیقی نبی نہ ہو.اگر ایک شخص شریعت اسلام کی اصطلاح کے مطابق نبی ہو.اور کسی اوراصطلاح کے روسے مجازی نبی.تو اس سے اس کے نبی ہونے میں شک نہیں ہوسکتا.کیونکہ نبی اصل میں ایک اسلامی عہدہ ہے.اس لئے اسلامی اصطلاح کالحاظ رکھنا ضروری ہوگا.حقیقی اور مجازی کی اس تشریح کو سمجھنے کے بعد حضرت صاحب کے اس فقرہ کو لو کہ میں مجازی طور پر نبی ہوں.اور حقیقی طور پر نبی نہیں ہوں.اور شریعت اسلام کو دیکھو کہ وہ نبی کسے کہتی ہے اور چونکہ شریعت اسلام قرآن کریم میں ہے اسے جب ہم دیکھتے ہیں.تو اس میں نبی کی تعریف یہی معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص پر کثرت سے اظہار غیب ہو اور انذاری اور تبشیری رنگ اس کی پیشگوئیوں میں پایا جائے اب یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود میں پائی جاتی ہیں.اور تیسری یہ
۴۹۳ بات بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام نبی رکھا.پس شریعت اسلام نبی کے جو معنی کرتی ہے.اس کے معنی سے حضرت صاحب ہرگز مجازی نبی نہیں ہیں.بلکہ حقیقی نبی ہیں.ہاں حضرت مسیح موعود نے لوگوں کو اپنی نبوت کی قسم سمجھانے کے لئے اصطلای طور پر نبوت کی جو حقیقت قراردی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شریعت جدیدہ لائے.اس اصطلاح کے رو سے حضرت مسیح موعودؑ ہرگز حقیقی ہی نہیں ہیں.بلکہ مجازی نبی ہیں.لیکن کوئی جدید شریعت نہیں لائے.خلاصہ کلام یہ کہ مجازی نبی کے لفظ سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں کہ آپ شریعت اسلام کے مطابق نبی نہ تھے.بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ نے حقیقی نبی کی جو اصطلاح مقرر فرمائی ہے.اور خود ہی اس کے معنی بتا دیئے ہیں.وہ اصطلاح آپ پر صادق نہیں آتی.اور اس اصطلاح کے روسے آپ کے مجازی نبی ہونے کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے.اور نہ براہ راست نبی بنے ہیں.نہ یہ کہ آپ نبی ہی نہیں.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں: ’’جس جس جگہ میں نے نبوت با رسالت سے انکار کیا ہے.صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں.اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں ہے کہ میں نے اپنے رسول ؐمقتداسے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکراس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں.مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا\" (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶.۷ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰-۲۱۱) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تمام ان تحریرات کا جن سے یہ معلوم ہو تا ہو کہ آپ نبی نہیں.صرف اس قدر مطلب ہے کہ آپ کو کئی جدید شریعت نہیں لائے.اور نہ آپ نے براہ راست نبوت پائی.اور میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ مجازی نبی کے معنی بھی حضرت صاحب کی کتب میں اسی قدر ہیں.اس سے زیادہ نہیں اور جن لوگوں نے شیر کی مثال پر مجاز کو حصر کر لیا ہے انہوں نے حقیقی نبی کی حقیقت تو الگ رہی خود حقیقت و مجاز کی حقیقت کو بھی نہیں سمجھا.اوراسی سے دھوکا کھا کر حضرت صاحب کی کتابوں میں على طرنت المجاز کا لفظ دیکھ کر دھوکے میں پڑ گئے اور یہ نہ سوچا کہ اس مجاز کے صرف اتنے معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے جو معنی حقیقی نی 쌤
۴۹۴ کئے گئے ہیں.وہ معنی آپ میں نہیں پائے جاتے.نہ یہ کہ آپ خدا اور رسول اور شریعت اسلام کی شریف کےرو سے بھی نبی نہیں.اس مسئلہ کو اور بھی روشن کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود نے جہاں اپنے آپ کو مجازی نبی کہا ہے.اس سے قرآن کے معنوں کے روسے مجازی نبی مراد نہیں ہے.میں ایک ثبوت خود قرآن کریم سے ہی دیتا ہوں مگر اس سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مجازی شئے وہی ہوتی ہے.جس میں وہ حقیقت نہ پائی جائے جو حقیقی شئے میں ہے.مثلاًشیر ایک جانور کا نام ہے.جب ہم کسی انسان کو شیر کہتے ہیں تو اس سے ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ جو حقیقت شیر کی ہے وہ تو اس میں نہیں پائی جاتی ہے لیکن کیا اور مشابہت کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھ دیا گیا ہے پس مجازی شبر کے بے معنی ہوں گے کہ اس میں وہ شئے نہیں پائی جاتی.جو شیر کو دوسرے جانوروں سے الگ کر دیتی ہے بلکہ کوئی اور مشابہت ہے جس کی وجہ سے اسے شیر کہہ دیا گیا ہے.اور اگر کسی جانور میں وہ بات پائی جائے جو شیر کو دوسرے جانوروں سے علیحدہ کر دیتی ہے تو اسے ضرور شیر کہیں گے کیونکہ جب ہم کسی شیر کو دیکھ کر پہچانتے ہیں کہ یہ شیر ہے تو انہی خصوصیات کی وجہ سے پہچانتے ہیں جو اس کودوسرے جانوروں سے علیحدہ کر دیتی ہے مثلاً شیر بہادری میں مشہور ہے.لیکن یہ اس کی ایسی خصوصیت نہیں جو اور جانوروں میں نہ پائی جائے.پس اگر کسی جانور یا آدمی کو ہم بہادری کی وجہ سے شیر کہتے ہیں تو شیر کا استعمال مجازی سمجھا جائے گا.لیکن اگر کسی جنگل میں ہم ایک جانور دیکھیں اور صرف اس کی برادری دیکھ کر اسے شیر نے کہہ دیں بلکہ اس میں وہ باتیں پائیں جو شیر کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتیں تو اس کے حقیقی شیر ہونے میں کوئی شک نہ رہے گا.اور یہ جائز نہ ہو گا کہ ہم کہیں کہ یہ مجازی شیر ہے کیونکہ مجاز کا لفظ تب ہی استعمال کیا جا تا ہے جب کوئی مشابہت ہو اور اس وقت استعمال نہیں کیا جا تاب جو اورحقیقت کسی شئے میں موجود ہو.یا مثلا ًہاتھی میں ایک خصوصیت سونڈ کی ایسی ہے جو اور کسی جانور میں نہیں پائی جاتی.اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہاتھی کے سوا سونڈ کی جانور میں نہیں پائی جاتی.مگر اس سونڈ کے علاوہ بھی بہت موٹابھی ہوتاہے لیکن اس کا موٹا ہو ناکو ئی ایسی صفت نہیں جو اور جانوروں میں نہ پائی جاوے.پس اگر ہم کسی موٹے جانور کو ہا تھی کہہ دیں تو یہ مجاز کہلائے گا.لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ ہم نے ایک سونڈ والا ہاتھی دیکھا تو اس کے ہر گز یہ معنی نہ ہوں گے کہ مجازی ہاتھی دیکھایعنی کوئی موٹا آدمی دیکھ لیا.بلکہ اس کے معنی میں ہوں گے کہ حقیقی ہاتھی دیکھا.اس مثال سے میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ کسی لفظ کے استعمال کو مجازی اس وقت تک
۴۹۵ کہتے ہیں.جب اس میں وہ حقیقت نہ پائی جائے.جو اصل کے سوا کسی اور میں نہیں پائی جاتی.اور جب وہ حقیقت پائی جائے جو کسی اور میں نہیں پائی جاتی تو اسے مجازی نہیں کہہ سکتے.اس اصل کو سمجھ کرجب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس میں نبیوں اور رسولوں کی ایک ایسی خصومت بیان ہے جس کی نسبت وہ فرماتا ہے کہ یہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی.پس جس میں وہ خصوصیت پائی جاۓ گی اسے ہم مجازی نبی نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ شریعت اسلام کے روسےحقیقی نبی ہو گا خواہ کسی اور اصطلاح کے رو سے مجازی نبی ہو وہ خصوصیت اظہار على الغیب ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے فلا يظهر على غيبة احدا الأمن ارتضی من رسول یعنی سوائے رسولوں کے میں اظہار على الغيب کا مرتبہ تو کسی کو نہیں دیتا.پس یہ خصوصیت جس میں پائی جائے گی وہ شریعت اسلام کے روسے مجازی نبی کبھی نہیں کہلا سکتا.بلکہ اسلام کی اصطلاح میں وہ حقیقی نبی ہو گا کیونکہ اللہ تعالی ٰفرماتا ہے کہ میں رسولوں کے سوا کسی کو غیب پر غلبہ دیتاہی نہیں.اور حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے غیب پر کثرت سے اطلاع دی جاتی ہے.پس ثابت ہوا کہ اسلام کی اصطلاح کے روسے حضرت مسیح موعودؑ ہرگز مجازی نبی نہیں.اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے میں ایک اور مثال دیتا ہوں.کیونکہ مثالوں سے مطلب خود سمجھ میں آجاتا ہے.اور وہ مثال یہ ہے کہ جب ہم یہ کہیں کہ سوجاکھوں کے سوا کوئی شخص رنگ نہیں پہچان سکتا.اور پھر ہم کسی شخص کی نسبت کہیں کہ وہ رنگ پہچان لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ لغت کے معنوں کے لحاظ سے حقیقی سوجا کھاہے.گو علم باطن کے لحاظ سے وہ اندھا ہو یعنی حق کو پہچان نہ سکتا ہو.مگر جب اس کی نسبت یہ کہا جائے کہ وہ رنگ پہچان لیتا ہے.تو لغت کے رو سے وہ مجازی سوجا کھا بھی نہیں کہلا سکتا بلکہ حقیقی سوجا کھا ہو گا.پس جب اللہ تعالی ٰنے ایک شرط لگا دی کہ سوائے رسول کے اظہار على الغیب کا مرتبہ کسی کو نہیں ملتا.تو جس شخص میں یہ بات پائی جائے گی.وہ قرآن کے رو سے حقیقی رسول اور نبی ہو گا.اور چونکہ حضرت مسیح موعود میں یہ بات پائی جاتی ہے.اس لئے قرآن کریم کی رو سے.اسلام کی اصطلاح کے روسے.آپ حقیقی نبی تھے گو اس اصطلاح کے رو سے جو آپ نے لوگوں کو اپنی قسم نبوت کے سمجھانے کے لئے بنائی تھی.اور جو یہ ہے کہ حقیقی نبی وہ ہو تا ہے جو شریعت لائے.آپ مجازی نبی تھے مگر اس اصطلاح کے رو سے نہ کہ قرآن کریم کے روسے.پس جو شخص باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود میں وہ بات پائی جاتی ہے.جو غیر نبی میں نہیں پائی جاسکتی.آپ کو ان معنوں میں مجازی نبی خیال کرتا ہے کہ آپ شریعت اسلام اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کے لحاظ سے نبی نہیں.سخت دھوکے میں پڑا
۴۹۶ ہوا ہے.اور ایسے آدمی سے خطرہ ہے کہ کل کو بعض آدمیوں کی نسبت وہ یہ نہ کہہ دے کہ وہ مجازی آدمی ہیں کیونکہ اگر اس کے سامنے کھول کھول کر بیان کر دیا جائے کہ ان لوگوں میں وہ خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو آدمیوں کے سوا کسی اور جانور میں نہیں پائی جاتیں.مگر وہ کہہ سکتا ہے کہ خواہ ان میں وہ خصوصیات پائی جائیں جو غیر آدمی میں نہیں پائی جائیں مگر ہیں یہ مجازی آدمی.میرے خیال میں تو ایسے خیالات کا آدمی رفتہ رفتہ سوفسطائی ہو جائے گا.یعنی جن کے خیال میں ہر ایک شئے و ہم ہی وہم ہے.حقیقت کچھ ہے ہی نہیں.مگر میں امید کرتا ہوں کہ جب مسیح موعود کی نبوت کے منکر حقیقت و مجاز کی پوری کیفیت معلوم کریں گے.تو اپنے خیالات میں اصلاح کرلیں گے.اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم مجاز کے جو معنی سمجھتے ہیں.وہ مجاز کی حقیقت سے بالکل بعيد ہیں.اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں اپنی نسبت جہاں جہاں مجازی نبی یا مجازی نبوت کا ذکر آیا اس کا اس قدر مطلب ہے کہ آپ کو کئی جدید شریعت نہیں لائے اور نہ براہ راست نبی ہے.اور یہ ہرگز مطلب نہیں کہ شریعت اسلام کے روسے آپ نبی نہ تھے.اور صرف آپ کا نام کسی معمولی مشابہت کی وجہ سے نبی رکھ دیا گیا تھا.مجازی نبی کے معنی سمجھنے کے لئے ایک اور آسان طریق بھی ہے.اور وہ یہ کہ جب کسی لفظ کو مجاز قرار دیا جائے.تو اس کی یہ شرط ہوتی ہے کہ اس کے لئے کوئی قرینہ ہو.کیونکہ اگر بغیر قرینہ کے کوئی لفظ مجاز استعمال کیا جائے تو کوئی شخص معنی سمجھ ہی نہیں سکتا.مثلاً مولوی صاحب نے جو مثال شیر کی دی ہے اسی کو لے لیں.اگر کسی آدمی کو شیر کہیں گے تو ضرور ہے کہ کوئی قرینہ ایساموجود ہو جس سے لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ اس جگہ شیر کا لفظ اپنے اصل معنوں میں استعمال نہیں ہوا.مثلاً یہ کہ کوئی آدمی سامنے کھڑا ہے اور ہم اسے شیر کہتے ہیں تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت لفظ شیر سے مراد وہ حقیقت نہیں.جس کے لئے شیر کا لفظ لغت نے وضع کیا تھا.یا اگر وہ شخص غائب ہے تو یوں کہہ دیں کہ فلاں شخص تو شیر ہے.بڑا بہادر ہے ، اب بھی سننے والا سمجھ سکتا ہے کہ شیر سے مراد کوئی آدمی ہے.کیونکہ ایک تو آدمی کا نام لے دیا گیا.دوسرے یہ بھی ظاہر کر دیا گیا ہے کہ شیر کا لفظ بہادری کی وجہ سے استعمال کیا گیا ہے.پس جب ایک لفظ جو دراصل اور حقیقت کے لئے وضع کیا گیا ہو کسی اور معنی پر بولا جائے.اور اس کا استعمال مجاز ہو ، تو اس کے لئے ہمیشہ قرینہ کی شرط ہے جس سے پتہ لگ جائے کہ بولنے والے کی مراد اصل شئے نہیں ، بلکہ اس کے مشابہ کوئی اور شئے ہے لیکن اگر بلا قرینہ کے کوئی لفظ بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ وہی ہوں گے جس کے
۴۹۷ لئے وہ لفظ بنایا گیا ہے.مثلا ًکہہ دیں کہ ہم نے ایک شیر دیکھا تو چونکہ اس فقرہ میں کوئی اور قرینہ ہیں جس سے یہ سمجھا جائے کہ شیر سے مرادشیر نہیں.بلکہ کوئی اور شے ہے.اس لئے اس جگہ شیر کے معنی اصلی شیر کے ہی کئے جائیں گے نہ مجازی شیر کے.لیکن اگر کوئی ایسا قرینہ موجود ہو.جس سے اصلی شیر ہونے کا ثبوت ملتا ہو.تب تو مجازی شیر سمجھنا کسی طرح جائز ہی نہیں.مثلا ًیہ کہیں کہ ہم جنگل میں گذر رہے تھے کہ اچانک ایک شیر نظر پڑا.ہم تو بہت ہوشیار ہو گئے کہ اچانک حملہ نہ کر ہے.لیکن وہ اپنی دم پھیلائے سو رہا تھا.اور بالکل خیر گذری.اب اس عبارت کو سن کر کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ کہہ دے کہ لغت کے لحاظ سے اس شیرسے مجازی شیر مراد ہے، کیونکہ حقیقت کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ بغیر قرینہ کے ہو.اور جب قرینہ بھی ہو تو اسے مجاز کہہ ہی نہیں سکتے.اسی طرح مثلا آگ ایک خاص شے کا نام ہے جو جلا دیتی ہے.لیکن مجازا ًآگ کا لفظ دل کی تڑپ اور گھبراہٹ پر بھی بولا جاتا ہے.اب اگر کوئی شخص تڑپ رہا ہے اور کہتا ہے کہ آگ لگ گئی.آگ لگ گئی.تو اس کے تڑپنے کے قرینہ سے ہم معلوم کر لیں گے کہ آگ سے اس کی مراد تڑپ اور بے قراری ہے.لیکن اگر اگر زور کی آواز آئے.کہ آگ لگ گئی.تو اب یہ نہیں کہ لوگ اس آواز کو سن کر خاموش بیٹھے رہیں کہ مجازی آگ مراد ہے بلکہ فور اًاٹھ کر دیکھیں گے کہ کہاں آگ لگ گئی.اور ایسا کیوں کریں گے.اس لئے کہ اس آواز کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ نہ تھا جس سے سمجھا جا تاکہ آگ سے مراد مجازی آگ ہے.اسی طرح مثلاً کہیں کہ فلاں شخص کو جب ہم نے وہ بات کہی.تو اس کے تن بدن کو آگ لگ گئی.تو اس سے مراد اصل آگ نہ ہوگی.بلکہ مجازی آگ مراد ہوگی.کیونکہ بات سے آگ لگنے کا قرینہ بتا رہا ہے کہ یہ آگ اصل آگ نہیں.لیکن اگر یہ کہیں کہ فلاں شخص کے کپڑوں کو آج آگ لگ گئی.یا فلاں شخص آج آگ سے جل گیا.تو اس کے یہ معنی نہ ہوں گئے کہ وہ غصہ سے جل گیایا غم سے جل گیا.کیونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں جو بتائے کہ آگ سے اصل آگ مراد نہیں.اور اگر یہ کہہ دیں کہ فلاں شخص کے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بو تل تھی کسی طرح اسے آگ لگ گئی.اور وہ آدمی کئی جگہ سے جل گیا.تو اب آگ کے معنی مجازی آگ کرنے کسی زبان میں جائز ہی نہیں.غرض مجازی معنی لینے تبھی جائز ہوتے ہیں جب کوئی قرینہ موجود ہو.لیکن حضرت مسیح موعودؑ کو شریعت کے روسے مجازی نبی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی.کیونکہ نہ صرف یہ کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں کہ جس سے آپ کا مجازی نبی ہونا ثابت ہو.بلکہ اس کے بر خلاف ایسےقرینے موجود ہیں جو شریعت کے لحاظ سے آپ کو نبی ثابت کرتے ہیں لیکن جو باتیں
۴۹۸ نبیوں میں پائی جاتی ہیں.وہ آپ میں پائی جاتی ہیں.اور جو باتیں نبیوں کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جاتیں وہ بھی آپ میں پائی جاتی ہیں.پس جس طرح حقیقت کے لئے قرینہ کے ہوتے ہوئے آگ کو مجازی آگ اور شیر کو مجازی شیر کہنا کسی طرح بھی جائز نہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی نبوت کے شریعت اسلام کے مطابق نبوت ہونے پر قرائن کے موجود ہوتے ہوئے آپ کی نسبت یہ کہنا کہ شریعت اسلام کے رو سے آپ مجازی نبی تھے کسی طرح جائز نہیں.کیونکہ نبی کے لئے جو شرائط و انعامات قرآن کریم میں موجود ہیں.سب آپ میں پائے جاتے ہیں.پس شریعت اسلام کی اصطلاح کے مطابق جن لوگوں کو نبی کہتے ہیں.اس کے لحاظ سے تو آپ حقیقی معنوں میں ہی نبی ہیں.لیکن آپ نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے جو نبی کی ایک حقیقت قرار دی تھی.اس کے لحاظ سے بے شک آپ کی نبوت مجازاً نبوت تھی.یعنی اس حقیقت کو اگر نبی کی شرط تسلیم کر لیا جائے.یعنی یہ کہہ دیا جائے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو شریعت جد ید ہ لائے.تو اس لحاظ سے آپ نبی نہ تھے.اور جب اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ پر لفظ نبی مجاز۱ً استعمال کیا جائے گا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ میں شریعت لانے کی خصوصیت نہیں.گو ان نبیوں سے جو شریعت لائے.ایک مشابہت ہے.اور وہ مشابہت حضرت مسیح موعودؑ نے خودہی اربعین میں بیان فرما دیا ہے کہ مجھ پر بھی قرآن کریم کی بعض ایسی آیات دوباره اتری ہیں جو احکام سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں: \"شریعت کی چیز ہے.جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امراور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا.وہی صاحب الشریعت ہو گیا.پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری وحی میں امربھی ہیں اور نہی بھی.مثلاً یہ الہام قل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں.اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے“ (اربعین نبر۴صفحہ۹۴ وروحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ (۴۳۵-۴۳۶) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوی جدید شریعت نہیں لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ چند احکام و نواہی حضرت مسیح موعود ؑپر بھی دوبارہ نازل ہوئے ہیں.لیکن قرآن کریم کے ہی الفاظ میں.نہ نئی طرز پر.جس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اول یہ کہ اب کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.پس حضرت مسیح موعود شریعت لانے والے نبی نہیں بن سکتے.دوسری یہ بات کہ آپ پر بعض احکام قرآن دوبارہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے.جس کے یہ معنی ہوۓ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ
۴۹۹ کو ایک رنگ میں تشریعی نبیوں کے مشابہ کردیا.پس مجازی نبی کے یہ معنی نہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنبی نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ نبی کی حقیقت یہ تسلیم کر کے کہ اس کے لئے شریعت لانا ضروری ہے حضرت مسیح موعود میں یہ حقیقت تو نہیں پائی جاتی.لیکن ایسے نبیوں سے مشابہت ہے.پس مجازی نبی کے یہ معنی نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا درجہ کم ہو گیا.اور آپ نبی ثابت نہ ہوئے کیونکہ نبی کی حقیقت شریعت اسلام کے رو سے شریعت کا لانا نہیں ہے پس شریعت اسلام کے معنوں کے رو سے تو نبی کا لفظ آپ پر مجازاً نہیں استعمال ہوتا.بلکہ حقیقتاً ہوتا ہے.ہاں اگر نبی کی حقیقت یہ قرار دی جائے کہ اس کے لئے شریعت لانا ضروری ہے.تو اس حقیقت کے روسے جب حضرت مسیح موعود پر مجازاًنبی کا لفظ استعمال کیا جائے گا.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود شریعت لانے والے نبی تو نہیں.لیکن ان سے ایک مشابہت رکھتے ہیں کہ بعض احکام دوباره آپ پر بھی نازل کئے گئے ہیں اور اس حقیقت کے روسے بے شک مولوی صاحب کی شیروانی مثال درست رہتی ہے.لیکن جس طرح کسی آدمی کو شیر کہنے سے وہ شیر نہیں ہو جاتا.اسی طرح نبی کی حقیقت شریعت لانا فرض کر کے حضرت مسیح موعود تشریعی نبی نہیں ہو جاتے بلکہ اس حقیقت کو فرض کر کے اگر آپ کے متعلق نبی کا لفظ استعمال کیا جائے.تو اس کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ آپ کو شریعت لانے والے نبیوں سے ایک مشابہت ہے.ورنہ یہ ہرگز نہیں کہ آپ کو ئی جدید شریعت لائے تھے.نعوذ باللہ من ذالک.کیونکہ قرآن کریم کے بعد کوئی اورشریعت نہیں.اور آنحضرتﷺ کے بعد اس حقیقت والا کوئی نہیں اور حضرت مسیح موعود محض اتباع نبی کریم ﷺ اور عمل بالقرآن سے نبوت کے درجہ پر پہنچے.اور آپ کی سب عمرخد مت خاتم النبّین اور خدمت قرآن میں گزر گئی.جس طرح حضرت موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو ان کی عمر بھی آنحضرت ﷺ کی اتباع میں گذر جاتی اور وہ بھی جو کچھ پاتے آپ کے فیض سے پاتے پس مجازی نبی کے یہ معنی نہیں کہ حضرت مسیح موعود نبی نہیں، کیونکہ قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق آپ نبی ہیں.بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ شریعت کوئی نہیں لائے.ہاں اللہ تعالیٰ نے محض بلندی درجہ کے اظہار کے لئے بعض احکام قرآن آپ پر دوباره نازل فرمائے ،تا اپنے متنوع اور مطاع سید الکونین حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے کامل مشابہت ہو جائے.اور یہ لفظ آپ کی عزت کو بڑھاتا ہے نہ کہ گھٹاتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آئندہ کے لئے اس امر کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں
۵۰۰ گے کہ حضرت مسیح موعود نے جہاں مجازی نبی اپنے آپ کو فرمایا ہے اس سے صرف اس حقیقت کا انکار مراد ہے.جو عوام الناس میں نبی کے متعلق سمجھی گئی ہے یا اس حقیقت کا جو عوام الناس کو سمجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود نے بطور اصطلاح قرار دی ہے.ورنہ یہ مراد نہیں کہ آپ شریعت کی اصطلاح کے مطابق نبی نہیں.اور یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کونبی نہیں سمجھتے تھے اور نہ یہ کہ آپ لغت کے معنوں کے روسے نبی نہ تھے.کیونکہ قرآن کریم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں نبی کی جو حقیقت لکھی ہے.وہ حضرت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے.پس اس حقیقت کے لحاظ سے بھی حضرت صاحب کو مجازی نبی نہیں کہہ سکتے.اور لغت نے جو حقیقت نبوت بیان کی ہے.وہ بھی حضرت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے.لغت کے لحاظ سے بھی آپ مجازی نبی نہیں کہلا سکتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے خود جو حقیقت نبوت کی اپنے مذہب کے طور پر بتائی ہے.وہ بھی آپ میں پائی جاتی ہے.کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت نبی اسے کہتا ہوں جو کثرت امور غیبید پر اطلاع پائے.اسی طرح لکھا ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.وہ صرف یہ ہیں کہ کثرت سے انسان امور غیبیہ پر مطلع کیا جائے.اسی طرح لکھا ہے کہ نبی کے لئے شرط نہیں کہ کوئی جدید شریعت لائے یا یہ کہ کسی پہلے نبی کا متبع نہ ہو.پس حضرت مسیح موعو د نبی جس شخص کا نام رکھتے ہیں اور آپ کا یہ مذہب خدا کے حکم کے ماتحت ہے اس کے لحاظ سے بھی آپ مجازی نبی نہیں کہلا سکتے.ہاں یہ ضرور ہے کہ عوام الناس کی نبی کی تعریف کے ماتحت آپ مجازی نبی تھے.اور اسی طرح اس حقیقت کے مقابلہ میں جو بطور اصطلاح آپ نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے مقرر کی ہے.آپ مجازی نبی تھے.لیکن کوئی جدید شریعت نہ لائے تھے.پس میرامذہب یہی ہے کہ اگر حقیقی نبی کے یہ معنی کئے جائیں کہ جو شریعت لائے تو حضرت مسیح موعود ایسے نبی نہ تھے.اور اگر یہ معنی کئے جائیں کہ جو شریعت اسلام کے روسے نبی ہو.تو ان معنوں کے لحاظ سے آپ حقیقی نبی تھے.غیرنبی نہ تھے.کیونکہ قرآن کریم نے نبی کے لئے یہ شرط کہیں بھی مقرر نہیں کی کہ وہ شریعت جديده لائے.یا یہ کہ پہلے کسی نبی کامتبع نہ ہو یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ براہ راست نبوت پائے.
۵۰۱ تیسری فصل نبوت مسیح موعودؑ کے متعلق چند ضروری امور کے بیان میں گو حقیقۃ النبوة کے ابتدائی صفحات میں میں نے نبوت کے متعلق بٹ کو دو فصلوں میں تقسیم کر دیا تھا.اور وہ دونوں فصلیں معه ضروری ضمیمہ جات کے میں لکھ چکا ہوں.لیکن چونکہ میرامنشاء ہے کہ اس مسئلہ پر اس رنگ میں بحث کر دی جائے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو سعید روحوں کے لئے وہ ایک مخزن کا کام دے.اور ہمیشہ مسئلہ نبوت کے متعلق بحث کرتے وقت جہاں تک اللہ تعالیٰ ان کو فہم دے.وہ اس کتاب کے ذریعہ اپنے مخالف پر حجت پوری کر سکیں.اس لئے میں نے تیسری فصل اور بڑھا دی ہے جس میں نبوت مسیح موعود کے متعلق بعض دلائل بیان کرنے اور اس امر پر بحث کرنے کا ارادہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے علاور اس امت میں کوئی اور بھی نبی گزرا ہے یا نہیں.اوراگر | نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے.اور کیا وجہ ہے کہ اب تک کوئی اور نبی نہیں ہوا.اسی طرح اور ایسے امور جن پر کچھ تحریر کرنا ضروری ہے.لکھ دیئے جائیں.انشاء اللہ تعالیٰ و ماتوفيقي الا بالله العلي العظيم - حضرت مسیح موعود کی نبوت پر بعض دلائل گو میرا ارادہ تھا کہ اس رسالہ میں جواب کتاب کی صورت اختیار کر چکا ہے ختم نبوت پر بھی کسی قدر اجمال کے ساتھ بحث کر دوں لیکن چونکہ اس سے حصہ اول کا حجم بہت بڑھ جائے گا.اور اشاعت میں دیر ہو جائے گی.اس لئے اس امر کو حصہ دوم کی تالیف تک ملتوی رکھتا ہوں.اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحم سے اس امر کی توفیق عنایت فرمائے کہ میں حقيقۃ النبوة کے حصہ ووم کی تالیف کا کام کر سکوں تو اسی میں ختم نبوت پر بحث کر دی جائے گی تاکہ یہ مسئلہ نہ صرف احمدیوں کے لئے صاف ہو جائے بلکہ غیراحمدیوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ ہدایت کا رستہ کھول دے وان الله على كل شي قدير فی الحال میرا ارادہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی
۵۰۲ نبوت پر کچھ دلائل بیان کروں جن سے ہر طالب حق نبوت مسیح موعود پر یقین حاصل کر سکے.لیکن میں ایک دفعہ پھر یہ بات ظاہر کردینا چاہتا ہوں کہ میرا اور تمام ان احمدیوں کا جو حضرت مسیح موعودؑکے ساتھ صحیح تعلق رکھتے ہیں.اور خود حضرت مسیح موعود کا بھی ہرگز ہرگز یہ مذہب نہیں کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی اور نبی آسکتا ہے جو قرآن کریم کو منسوخ کرے، یا اس کے بعض احکام پر خط نسخ کھینچ دے.یا یہ کہ آنحضرت ﷺکی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر ہو کر کچھ حاصل کر سکے بلکہ ہم ایسے شخص کو جو بعد آنحضرتﷺ کے بلاواسطہ فیض پانے کا دعویٰ کرتا ہے.یا بعد قرآن کریم کے نئی شریعت لانے کا مدعی ہے.لعنتی اور کذاب خیال کرتے ہیں.کیونکہ ہمارے نزدیک آنحضرت اﷺکے بعد کوئی اور نبی نہیں سوائے اس کے کہ آپ کے فیض سے فیض باب ہو.اور بعد قرآن کریم کے کوئی اور شریعت نہیں.نہ پورے طور پر اسے منسوخ کرنے والی.اور نہ اس کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے والی قرآن کریم کا ایک نقطہ اور شعشہ بھی کوئی شخص بدل نہیں سکتا اور نہ اس کی زیی زبر میں تغیر کر سکتا ہے چہ جائیکہ کہ اس کے بعض احکام کو بدل دے مارایہ ایمان ہے کہ آنحضرت اﷺسے بڑھ کر کوئی صاحب کمال نہیں گزرا.پس کمال کے بعد کسی اور شئے کی حاجت نہیں رہتی.اب جو آئے گا.آپ کے کمالات کے اظہار اور اس کے اثبات کے لئے آئے گا.نہ کہ آپ سے الگ ہو کر اپنی حکومت جمانے.جس شخص نے آپ کے نور کو نہ دیکھاوه اندھا ہے.اور جس شخص نے آپ ؐکے درجہ کو نہ پہچانا وہ بد بخت ہے.اور اس کا انجام خراب ہے.بد قسمت ہے وہ انسان جس نے آپ ؐکے دامن کو نہ پکڑا اور بد نصیب ہے وہ انسان جس نے آپؐ کی غلامی کا جوڑا اپنی گردن پر نہ رکھا.اللہ تعالی کے قرب کا ایک ذریعہ ہے.اور وہ یہ کہ انسان آنحضرت اس کی اطاعت میں کمال پیداکرے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قل إن كنتم تحبون اللهفاتبعونی يحببكم الله (ال عمران :۳۲) یعنی اے ہمارے رسول ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالی ٰسے محبت رکھتے ہو تو تم میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا.پس اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا ایک اور صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان آنحضرت ﷺ کی غلامی اختیار کرے.جس قدر کوئی شخص آپؐ کی اطاعت کرے گا.اسی قدر اللہ تعالیٰ کی محبت اس سے بڑھے گی.پس جب ہم کسی شخص کو آپؐ کی امت میں سے نبی کہتے ہیں تو اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص آپ کے غلاموں میں سے سب سے زیادہ فرمانبردار غلام ہے.اس کا نبی ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع میں کمال کو پہنچ گیا :
۵۰۳ ہے.پس اس قسم کے نبی ماننے میں ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک نہیں کرتے.بلکہ آپ کے درجہ کی بلندی کا اظہار کرتے ہیں.اور جو شخص اپنے قول یا فعل سے رسول اللہ اﷺکی ہتک کر تاہے وہ بے شک ملعون ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس کے لئے بند ہیں.نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ ﷺکے لئے ہے.وہ کیا جانے کہ محمدﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے وہ میری جان ہے.میرا دل ہے میری مراد ہے.میرا مطلوب ہے.اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے.اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے.اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے، وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے.پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں.وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں.میراحال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے.کہ بعد از خد ابعشقِ محمدؐ مخبّرم گر کفرایں بود بخداسخت کافرم اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے.کہ باب نبوت کے بھی بند ہونے کےعقیدہ کو چماں تک ہو سکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے.بے شک اگر یہ مانا جائے کہ کوئی شخص ایک ایسی شریعت لایا ہے جو قرآن کریم کو منسوخ کر دے گی تو اس میں آنحضرتﷺ کی ہتک ہے.اور اگر یہ مانا جائے کہ آنحضرت اﷺکے بعد کوئی ایسانبی آئےگا.جو آپ کی اطاعت کے بغیر انعام نبوت پائے گا تو اس میں بھی آپ اﷺکی ہتک ہے.کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آنحضرت اﷺکا فیضان کمزور ہے کہ آپ کی موجودگی میں براہ راست فیضان کی حاجت پیش آئی لیکن اسی طرح اس عقیدہ میں بھی آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ آپ ؐکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا فیضان ناقص اور آپ کی تعلیم کمزور ہے کہ اس پر چل کر انسان اعلی ٰسے اعلیٰ انعامات نہیں پا سکتا.دنیا میں وہی استاد لا ئق کہلاتا ہے جس کے شاگر دلا ئق ہوں اور وہی افسر معزز کہلاتا ہے جس کے ماتحت معزز ہوں.یہ بات ہر گز فخر کے قابل نہیں کہ آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے اعلیٰ مراتب نہیں.
۵۰۴ پائے.بلکہ آپ کی عزت بڑھانے والی یہ بات ہے کہ آپ کے شاگردوں میں سے ایک ایسالائق ہو گیا جو دوسرے استادوں سے بھی بڑھ گیا.آنحضرتﷺ کے بعد بعثت انبیاء کو بالکل مسدود قرار دینے کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دنیا کو فیض نبوت سے روک دیا.اور آپ ؐکی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو بند کر دیا.اب بتاؤ کہ اس عقیدہ سے آنحضرت ﷺ رحمة للّعالمین ثابت ہوتے ہیں یا اس کے خلاف (نعوذ باللہ من ذالک) اگر اس عقیدہ کو تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ آپ ؐنعوذ باللہ دنیا کیلئے ایک عذاب کے طور پر آئے تھے اور جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ لعنتی اور مردود ہے.آپ ان سب دنیا کے لئے رحمت ہو کر آئے تھے.اور آپ کے آنے سے اللہ تعالی ٰکے فیضان دنیا کے لئے اور بڑھ گئے نہ کہ کم ہو گئے کیا تم نہیں دیکھتے کہ موسوی سلسلہ کے مسیح نے بلاواسطہ حضرت موسیٰ کے فیضان پایا تھا.لیکن آنحضرت ﷺکے آخری خلیفہ نے جو کچھ پایا آپ کے فیضان سے پایا.اور پھر بھی مسیح ناصری سے اپنی تمام شان میں بڑھ گیا.پس آنحضرت ﷺ کا وجود دنیا کے لئے رحمت ہے.اور آپؐ کی اتباع سے انسان ہر قسم کے فیوض حاصل کر سکتا ہے.آپ کا وجود اللہ تعالیٰ کے فیوض کی راہ میں روک نہیں ہؤا بلکہ آپ کی دعاؤں نے اللہ تعالیٰ کے جود و کرم کو اور بھی جذب کیا ہے اور پہلے اگر اس کے فضلوں کی پھوار پڑتی تھی.تو اب ایک تیز بارش شروع ہو گئی ہے.پس جو شخص کہتا ہے کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا.اور آپ نے دنیا کو اس فیضان سے محروم کر دیا.ایسا شخص رسول اللہ ﷺ کی ہتک کرتا ہے وہ آپ کو اس ٹیلہ کی طرح قرار دیتا ہے جس نے گر کر دریا کا پاٹ بند کردیا.یا اس بادشاہ کی طرح قرار دیا ہے جس کے ماتحت کوئی زبردست آدمی نہیں، بادشاہوں کی عزت اسی طرح بڑھتی ہے کہ بڑے بڑے سردار ان کی خدمت کرنے پر آمادہ ہوں.اور شہنشاہ کا رتبه شمار سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے پس دنیا ہمیں لا کھ ملامت کرے.اور کو تہ اندیش لوگ ہم پربیزار اعتراض کریں.ہم اس عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتے.جس میں آنحضرت اﷺکی شان کا اظہار ہے، اور نہ اس عقیدہ کو اختیار کر سکتے ہیں.جس میں آپ کی ہتک ہوتی ہے.ہمارا آقا نہایت زبردست طاقتیں رکھتا تھا.وہ ایسار تبہ رکھتا تھا.کہ اس کی قوت قدسیہ سے ایک نبی کا پیدا ہو جانا کچھ بھی بعید نہیں.اور مجھے اس بات میں کچھ شک ہے.اس نے در حقیقت خاتم النبّین کے کمالات کو سمجھا ہی نہیں وہ اپنی ہوا و ہوس پر رسول اللہ ﷺ کی عزت و حرمت کو قربان کر رہا ہے اورلوگوں کے خوش کرنے کے لئے اپنے آقا پر حملہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے.اور.
۵۰۵ ان کو راہ راست کی طرف رہنمائی کرے.اس تمہید کے بعد میں حضرت مسیح موعود ؑکی نبوت کے متعلق چند دلا ئل ذیل میں درج کر تاہوں.(۱) اول دلیل.حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے پر یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نےحضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیم ؑاور حضرت یعقوب ؑاور حضرت یوسفؑ کونبی کہہ کہ پکارا ہے.حضرت مسیح موعود کو بھی قرآن کریم میں رسول کے نام سے یاد فرمایا ہے.چنانچہ ایک تو آیت مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد(الصف:۷)سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کانام اللہ تعالی ٰرسول رکھتا ہے دوم آیت اذا الرسل اقتت( المرسلات :۱۲) سے ثابت ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہو گا.کیونکہ اس آیت میں مسیح موعود کی پیشگوئی کی گئی ہے.اور اس کے زمانہ کی نسبت ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ جب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گئے.یعنی ایک ہی وقت میں سب رسولوں کو جمع کر دیا جائے گا اور مسیح موعود کے وجود میں وہ ظاہر ہوں گے.اس آیت کو بھی خود حضرت مسیح موعود نے اپنے پرچسپاں کیا ہے.پس جس کا نام قرآن کریم رسول رکھتا ہے.اس کے نبی اور رسول ہونے میں کیا شک کیا جاسکتا ہے.جبکہ ہم پہلے سب نبیوں کو اسی بناء پر نبی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام نبی رکھا ہے.تو مسیح موعود کے رسول نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں.جو دلیل پہلوں کے نبی ہونے کی ہے.وہی حضرت مسیح موعور کے نبی ہونے کی ہے.اگر حضرت مو سیٰ و عیسیٰ علیہما السلام نبی اور رسول تھے.تو مسیح موعود بھی نبی تھے اور اگرحضرت مسیح موعود نبی نہ تھے تو پہلے بزرگ بھی نبی نہ تھے.دونوں کی نبوت پر ایک ہی کتاب شاہدہے.پس اگر پہلوں کی نبوت کے متعلق قرآن کریم کی گو اہی قابل اعتبار ہے تو مسیح موعود کی نبوت کے متعلق بھی اس کی گواہی قابل اعتبار ہے اور قرآن کریم سے بڑھ کر اور کس کتاب کی شہادت قابل قبول ہو سکتی ہے.ان دونوں آیات کے سوا دو آیات اور بھی ہیں کہ انہیں بھی حضرت مسیح موعود نے اپنی نسبت بیان فرمایا ہے.اور ان میں حضرت مسیح موعود کا نام رسول رکھا گیا.اول آیت تو یہ ہے کہ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ (الصف:۱۰) اس آیت کی نسبت اکثر مفسرین کا اتفاق ہے کہ مسیح موعود کے لئے ہے.اور اس کے زمانہ میں پوری ہوگی.اور یہ ان کا قول ہی نہیں بلکہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملا ہے.کیونکہ یہ آیت قرآن کریم میں تین جگہ آئی ہے اور تینوں جملہ مسیح موعود کے ذکر کے ساتھ - وو
۵۰۶ جگہ تو صاف مسیح کا ذکر ہے اور ایک جگہ انجیل کا ذکر ہے.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اس آیت کا مسیح سے تعلق ہے اور چونکہ یہ آیت اپنے پہلے مظہر آنحضرت ﷺ رسالت کا ثبوت ہے.اس لئے اس کے دوسرے مظہر مسیح موعود کی رسالت کا بھی اس سے ثبوت نکلتا ہے دوسری آیت جس میں مسیح موعود کو رسول قرار دیا ہے.واخرين منھم لما يلحقوا بهم (الجمعہ : ۴)کی آیت ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے دو بعث بتائے گئے ہیں.پس ضرور ہے کہ دو سرابعث بھی رسالت کے ساتھ ہو.غرض کہ یہ چاروں آیات قرآن کریم کی مسیح موعود کی نبوت پر ایک گواہ کے طور پر ہیں جن کا انکار کوئی نہیں کر سکتا.(۲) دوسری دلیل حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے پر بھی ہے کہ آپ کو آنحضرتﷺ نے نبی کے نام سے یاد فرمایا.اور نواس بن سمعان کی حدیث میں نبی اللہ کہہ کے آپ کوپکارا گیا ہے.پس آنحضرت ﷺشاہد ہیں اس امر کے کہ حضرت مسیح موعود نبی ہیں.اب ہم آنحضرت ﷺ کی شہادت کو کس طرح چھوڑ دیں.جسے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کہتا ہے.اور ھوالذي ارسل رسوله بالهدی میں اس کی نسبت پیشگوئی کرتا ہے.اور رسول الله ﷺ اس کے نبی ہونے کی شہادت دیتے ہیں.اس کی نبوت کا انکار کرنا کسی مومن کے لئے جائز نہیں ہو سکتا.وہ شخص جو آنحضرتﷺ کے قول کی عزت نہیں کرتا اور اسے سن کر منہ پھیر لیتا ہے.اور اس کا سینہ نہیں کھل جاتا ہے.وہ اپنی روحانیت کا علاج کرے.کہ کوئی ایسا شخص مومن نہیں ہو سکتا.فلا وربك لايؤمنون حتى يحکموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا فی أنفسهم حرجامما قضیت و یسلموا تسلیما.(النساء:۶۶) پس آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اگر آپؐ نے لانبی بعدی فرمایا ہے تومسیح کو نبی اللہ بھی فرمایا ہے.پس ان دونوں اقوال کو ملا کر یہ معنی کرنے پڑیں گےکہ ایک قسم کے نبی آپ کے بعد نہیں ہوں گے اور ایک اور قسم کے ہوں گے.اور آنے والا مسیح نہیں ہو گا.جو شخص آنحضرت ا ﷺکے اقوال میں سے ان کو چن لیتا ہے جو اس کی خواہشات کے مطابق ہوں.اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے وہ آپؐ کا مطیع نہیں کہلا سکتا.حضرت عائشہ نے ایسے ہی لوگوں سے ڈر کر شاید یہ فرمایا تھا کہ قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ ( الدر المنثور جلد ۵ صفحه ۴۰۴) خاتم الانبیاء تو کہ لولیکن لا نبی بعدہ نہ کہو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا ہو گا کہ کچھ دن کے بعد بعض لوگ نبوت کا ورد و از بالکل مسدود نہ سمجھ لیں، اور وقت پر خدا
۵۰۷ تعالی ٰکے کسی نبی کا انکار نہ کر بیٹھیں.پس آپ نے بتادیا کہ خاتم النبّین تو رسول اللهﷺ کو بےشک کہو کیونکہ آپ کے لیں اور آپ کی عمر کے بغیر کوئی نیاب نہیں آسکا.لیکن لا نبی بعدی کی حدیث پر زور نہ دیا کرو.کیونکہ اس کے وہ معنے نہیں جو تم لوگ سمجھے ہو.لیکن حضرت عائشہؓ نےجس بات کا خوف کیا تھاوہی در پیش آئی.اور بعض لوگ رسول الله اﷺکے ایک قول کو تو حجت پکڑتے ہیں.اور دوسرے کو ردکرتے ہیں.مگر مومن کی شان سے یہ امر بعید ہے اور اسے چاہئے کہ آپ کے سب اقوال کی عزت کرے.لانبی بعدی کے قول کو بھی نہ چھوڑے.اور مسیح کو نبی اللہ کے نام سے جو آپ نے یاد فرمایا ہے.اس کی بھی عزت کرے اور ان دونوں اقوال میں تطبیق دے.اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے.کہ تشریعی نبوت اور نبوت مستقلہ کا دروازه مسدود سمجھے اور اس نبوت کو تاقیامت جاری خیال کرے جو آپؐ کے فیضان سے ملتی ہے.شاید اس جگہ کوئی کہہ دے کہ ہم بھی مسیح موعود کو مجازی نبی تو جانتے ہیں.پس ہم اس حدیث کے منکر نہیں.سواس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماننا نہ ماننے کے برابر ہے.کیونکہ تم مجازی نبی کے معنی غیر نبی کے کرتے ہو.اورجو غیر نبی ہے وہ بہرحال غیر نبی ہی ہے نبی نہیں ہو سکتا.پس یہ ماننا ایک لفظی اقرار سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتا.اور ایسے نبی ماننے سے نہ ماننا بہترکہ لوگوں کو دھوکہ نہ لگے.ماننا یہی ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ نبی فرماتے ہیں.اس کی نبوت کا اقرار کیا جائے خواہ اس میں ساری دنیا ہی کیوں ناراض نہ ہو جائے سب دنیا کی تکذیب کرنی بہتر ہے.اس امرسے کہ رسول اللہ ﷺکی تکذیب کی جائے.بعض لوگ مسلم کی حدیث سن کر کہہ دیتے ہیں.کہ اس حدیث میں تو سب استعارے ہی استعارے بھرے پڑے ہیں پس اگر اس حدیث میں مسیح موعود کے لئے نبی کا لفظ آگیا ہے تو اسے بھی استعارہ ہی قرار دینا چاہے.لیکن ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ استعارہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.اگر ایک عبارت میں کچھ استعارے ہوں تو اس کے سب الفاظ کو استعاره ۸ نہیں قرار دے سکتے، استعارہ کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہئے ان الفاظ میں جو علامت کے طور پر ہوں استعارہ ہو سکتاہے کیونکہ اس سے آزمائش مراد ہوتی ہے لیکن ایک شخص کا عہدہ بیان کرنے میں استعارہ کا کیا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ پیار کے طور پر نبی کا نام کسی کو دے دے تو مانا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ تونبی کا عہدہ نہیں بخشتے.کہ آپ نے اظہار محبت کے لئے مسیح موعود کا نام نبی رکھ دیا.پس گو اس حدیث میں کثرت سے استعارہ استعمال ہوا ہو مگر مسیح موعود کے عہدہ کو استعارہ نہیں کہہ
۵۰۸ سکتے.ورنہ کوئی شخص کہہ دے گا کہ اس حدیث میں چونکہ سب استعارے ہی استعارے ہیں.اس لئے مسیح بھی ایک استعارہ ہے.اور مہدی بھی ایک استعارہ ہے نہ کوئی مسیح آئے گا نہ کوئی مہدی آئے گا.یہ سب استعارات ہیں جنہیں نہ سمجھ کر لوگ مسیح و مہدی کی انتظار کر رہے ہیں.چنانچہ بعض لوگ اس مذہب کے ہیں بھی جو مسیح کی آمد اور مہدی کی آمد کی احادیث کو یا تووضعی قرار دیتےہیں یا صرف استعارات.پس اگر ہرلفظ کو استعارہ قرار دیا جائز کر لیا جائے گا.تو کسی کا یہ بھی حق ہوگاکہ مسیح اورمہدی کو بھی ایک استعارہ ہی قرار دے دے.کسی لفظ کے استعارهً استعمال کی بھی کوئی وجہ ہوتی ہے نہ کہ بلا ثبوت ہر لفظ کو استعارہ قرار دیا جاسکتا ہے.مگر صرف اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کا نام نبی نہیں رکھا گیا.اس کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے جس میں مسیح موعود کونبی کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور وہ یہ ہےالانبیاء اخوة لعلات امھا تھم شتی و دینھم واحد و انا اولی الناس بعیسی بن مریم لانہ لم یکن بینی و بینہ نبی و انہ نازل فاذا رایتموہ فاعرفوہ رجلا مربوعا الی الحمرة و البیاض علیہ ثوبان ممصران کان راسہ یقطر و ان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب و یقتل الخنزیر و یضع الجزیة و یدعوا الناس الا الإسلام فیھلک اللہ فی زمانہ العلل کلھا الاالاسلام و یھلک اللہ فی زمانہ المسیح الدجال و تقع الامنة علی الأرض حتی ترتع الأسود مع الابل والنمار مع البقر والذناب مع الغنم و یلعب الصبیان بالحیات لا تضر ھم فیمکث اربعین سنة ثم یتوفی و یصلی علیہ المسلمون.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۰۶ مطبوعہ بیروت) یعنی انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ان کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں اور دین ایک ہوتا ہے.اور میں عیسی ٰبن مریم سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں.کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں.اور وہ نازل ہونے والا ہے.پس جب اسے دیکھو تو اسے پہچان لو کہ وہ درمیانہ قامت سرخی سفیدی ملا ہؤا رنگ-زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے.اس کے سرسے پانی ٹپک رہا ہو گا گو سر پر پانی نہ ہی ڈالا ہو.اور وہ صلیب کو توڑے گا.اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جز بہ ترک کر دے گا.اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے گا.اس کے زمانہ میں اللہ تعالی ٰسب مذاہب کو ہلاک کردے گا اور صرف اسلام ره جائے گا.اور اس کے زمانہ میں اللہ تعالی ٰسے دجال کو ہلاک کردے گا اور زمین میں امن قائم ہوگا یہاں تک کہ شیراونٹوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ
۵۰۹ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہ دیں گے عیسیٰ بن مریم چالیس سال تک رہیں گے اور پھر فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کے جنازہ کی نماز پڑہیں گے.اس حدیث میں صاف طور پر آنے والے عیسیٰ کونبی کہا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ نبی کہا ہے.بلکہ سب نبیوں کی جماعت میں اسے شریک کیاگیاہے.پس آنحضرت ﷺکی شہادت کی موجودگی میں مسیح موعود کی نبوت کا انکار کون کر سکتا ہے اگر کوئی کہے کہ ہم اس حدیث کو آنے والےمسیح نسبت سمجھتے ہی نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث خود اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ اسے آنے والےمسیح پرہی چسپاں کیا جائے.کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ نبی مسیح نازل ہو گا.اب یا تو یہ مانو کہ حضرت مسیح موعود مسیح موعود ہی نہیں.بلکہ نعوذباللہ من ذالک آپ اپنے دعوے میں غلطی پر تھے.اور ابھی ہمیں کسی اور مسیح کا انتظار کرنا چاہئے.یا اس بات کو تسلیم کرو کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے.کیونکہ اس حدیث میں مسیح موعود کو نبیوں کی جماعت میں شامل کیا گیا ہے.اور پھر الگ طور پر بھی نبی کہاگیا ہے.کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے اور اس کے در میان کوئی اور نبی نہیں جس سے ثابت ہے کہ وہ نبی ہے.پس اس حدیث میں دو دفعہ مسیح موعود کونبی کہا ہے.پہلے تو سب انبیاء کے زمرہ میں شامل کر کے اپنا علاتی بھائی قرار دیا ہے اور پھر لم يكن بيني وبينه نبی کہہ کر اسے دوبارہ نبی کہا ہے.غرض اب دو راہوں میں سے ایک ہی راہ کھلی ہے.یا تو یہ اقرار کیا جائےکہ مسیح ناصری ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور یا اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے.اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس حدیث میں صاف الفاظ میں نبی کا لفظ مسیح کی نسبت کہاں استعمال کیاگیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دو جگہ مسیح کو صاف طور پر نبی کہا گیا ہے.اول تو اس قول میں کہ الانبیاء اخوة لعلات کہ انبیاء سب علاتی بھائی ہوتے ہیں.کیونکہ اس حدیث میں تو مسیح كاہی ذکر ہے.اگر اس سے دو سرے انبیاء مراد ہیں.اور مسیح بیچ شامل نہیں.تو یہ فقرہ ہی لغوجاتاہے.کیونکہ ان کے ذکر کے ساتھ اس کا تعلق کوئی نہیں بنتا.پس اس کا یہی مطلب ہے کہ مسیح کے ساتھ اپنا تعلق بیان کرنے کے لئے آنحضرت ﷺنے یہ فقرہ فرمایا ہے کہ سب انبیاء کا تعلق آپس میں علاتی بھائیوں کاسا ہو تا ہے.پس مسیح سے بھی میرا تعلق ایسا ہی ہے.اور پھر آگے فرماتے ہیں کہ لم يكن بينی و بینه نبی تب میرے اور اس کے در میان کوئی نبی نہیں اس فقرہ سے بھی ثابت ہے کہ وہ نبی ہے.کیونکہ اگر وہ بھی نبی نہیں تو پھر اس فقرہ کی کیا ضرورت تھی اورپھر مسیح کی کیا خصوصیت تھی.قیامت تک کوئی نبی ہی نہیں ہو نا تھا تو یہ کیوں فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان
۵۱۰ کوئی نبی نہیں.پس آپ کا یہ کلام صاف ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والا مسیح ضرور نبی ہو گا.اور یہ نہیں کہ صرف اس کا نام نہیں ہو گا.کیونکہ نام نبی تو ہزاروں لوگ رکھ لیتے ہیں.کئی آدمی اپنا نام محمد نبی رکھ لیتے ہیں.پس نام نبی والے تو کئی انسان گزر چکے ہیں اور اگر نام نبی ہی مراد ہوتا تو پھر آنے والا مسیح علاتی بھائیوں میں کس طرح شامل ہو جاتا.کیونکہ وہ تو سب انبیاء ہیں نہ کہ صرف نام نبی پانے والے.پس یہ حدیث بالکل صاف ہے اور اس میں آنے والے مسیح کو نہ صرف نبی کہا گیا ہے بلکہ انبیاء کے گروہ میں شامل بتایا گیا ہے.اور اس بات کا ثبوت کہ یہ حدیث آنے والے نبی کے متعلق ہے خود الفاظ حدیث ہیں.کیونکہ اس میں اس مسیح کا یہ کام بتایا ہے کہ وہ قتل خنزیر کرے گا.صلیب توڑے گا.جزیہ موقوف کرے گا وغیرہ.اور یہ سب کام آنے والے مسیح کے ہیں نہ کہ پہلے.مسیح کے.پھر ہلکے زرد رنگ کی دو چادریں بھی آنے والے مسیح کی ہی علامت ہیں پس سوائے اس کے کہ اس حدیث کو آنے والےمسیح پر چسپاں کیا جائے.اور کوئی صورت نہیں.اور چونکہ اس حدیث سے آنے والے مسیح کا نبی ہونا اور نبیوں کے گروہ میں شامل ہونا ثابت ہے اس لئے بات مسیح موعود کے دعوے کا انکار کیا جائے ورنہ ان کو نبی مانا جائے.پھر علاوہ اس قرینہ کے کہ جس مسیح کا ذکر اس حدیث میں ہے اس کا کام ظاہر کرتا ہے کہ وہ آنے والا مسیح ہے.اس حدیث کے مسیح موعود کی نسبت ہونے کا یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں الانبیاء اخوة لعلات امھا تھم شتی و دینھم واحد و انا اولی الناس بعیسی بن مریم لانہ لم یکن بینی و بینہ نبی انبیاء کا تعلق علاتی بھائیوں کا سا ہو تا ہے ان کی مائیں مختلف اور دین ایک ہی ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں کی نسبت میرا تعلق عیسیٰ بن مریم سے بہت زیادہ ہے کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں.اب اگر اس حدیث کو مسیح ناصری کے متعلق سمجھا جائے تو یہ سوال ہو گا کیا عیسیٰ بن مریم ناصری سے (انبیاء کی جماعت) رسول اللہ ﷺ اولی الناس تھے یا حضرت یحییٰ کیونکہ رسول الله ﷺ تومسیح کے چھ سو سال بعد ہوئے.اور حضرت یحییٰ خود حضرت مسیح کے زمانہ کے نبی بلکہ ان کے استار تھے.اور اگر صرف کسی نبی کا درمیان میں نہ ہو نا تعلق کو بڑھا دیتا ہے تو ایک زمانہ میں ہونا اور بھی تعلق کو بڑھادے گا.پس لم يكن بيني وبينه تب کی دلیل سے تو حضرت مسیح ناصری سے حضرت یحییٰ کا تعلق زیادہ ثابت ہوتا ہے اور خود آنحضرت ﷺمعراج کی حدیث میں حضرت یحییٰ کو حضرت مسیح کے پاس بیٹھا دیکھ بھی چکے ہیں.پس حضرت مسیح ناصری سے تو اولی الناس حضرت یحییٰ ہیں نہ کہ ہمارے
۵۱۱ آنحضرت ﷺ- کیو نکہ وہ ان کے زمانہ کے نبی ہیں.پھر ان کے استاد ہیں.پھر رشتہ دار ہیں.پھران کے لئے بطور ایک نشان کے بھی ہیں.اور الیاس نبی کی دوبارہ آمد کے مظہرہیں.پس آنحضرت اﷺحضرت مسیح ناصری سے اولی الناس ہو ہی نہیں سکتے.اب ایک ہی صورت ہے.اور وہ یہ کہ اس حدیث کو آنے والے مسیح پر چسپان کیا جائے.جس پر یہ بالکل چسپان ہو جاتی ہے.اول اس طرح سے کہ آنے والا مسیح آپ ؐکی امت میں سے بھی ہے اور آپ کا شاگرد بھی ہے.آپؐ ہی کےکام کے لئے آیا ہے.پس آپؐ کا جو تعلق مسیح موعود سے ہو سکتا ہے وہ کسی اور شخص کا نہیں ہو سکتا.کیونکہ مسیح موعود آپؐ ہی کا شاگرد آپؐ ہی کا تبيع - آپ ؐہی کا قائم مقام ہے اس لئے کسی اور کو اس سے ایسا تعلق نہیں ہو سکتا.اور خود حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں کہ : دگر استاد رانا مے ندانم کہ خواندم درد بستان محمدؐ دوسرے اس وجہ سے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اس کے اور میرے درمیان کوئی اور نبی نہیں.پس چونکہ اور کوئی نبی درمیان میں نہیں.اور جو تعلق ایک نبی کو دوسرے نبی سے ہو سکتا ہے ، وہ غیرنبی کو نبی سے نہیں ہو سکتا.کیونکہ انبیاء علاتی بھائی کی مانند ہیں اس لئے رسول اللہ اﷺنے فرمایا.انی ا ولى الناس بعيسى ابن مريم شاید کوئی شخص اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ حدیث میں تو لم يكن بينن و بینه تب کے الفاظ آتے ہیں.جن کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اور میرے درمیان کی کوئی نہیں ہوا.جس سےمعلوم ہو تا ہے کہ یہ پچھلا مسیح ہے نہ کہ آئندہ آنے والا.کیونکہ آئندہ آنے والا مسیح مراد ہو تاتوبجائے ثم يكث کے لاگو کے الفاظ حدیث میں ہونے چاہئیں تھے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ پیشگوئیوں میں استقبال کے لئے ماضی کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں.اور قرآن کریم میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ لفظوں سے تو یہ پایا جاتاہے کہ ایسا ہو چکا ہے لیکن مراد یہ ہے کہ آئندہ ہو گا.حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں اس مضمون پر مفصل بحث کی ہے.وہاں سے اس کی تفصیل بھی دیکھی جاسکتی ہے.بلکہ خود حضرت مسیح موعود کے اپنے الہامات میں یہ رنگ پایا جاتا ہے پس گو الفاظ ماضی کے ہیں مگر مراد آئندہ کا زمانہ ہے.اور اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ جو حال بتایا گیا ہے وہ آنے والے مسیح کا ہے پس اگر ماضی کے معنی کئے جائیں تو حدیث بالکل لغو ہو جائے گی.اور اس کا مطلب یہ بن جائے گا کہ پچھلے مسیح اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں گزرا.پچھلا مسیح خنزیر قتل کرے گا اور صلیب توڑے گاوغیرہ وغیرہ.اب ان معنوں کے روسے یا تو رسول الله
۵۱۲ ﷺ پریہ اعتراض آتا ہے کہ ذکر تو پچھلے مسیح کا کرتے ہیں.اور کام اگلے مسیح کا بتاتے ہیں یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح ناصری اب تک زندہ ہے.او روہی دوبارہ دنیا میں آئے گا.اور یہ دونوں باتیں نا ممکن ہیں.پس سوائے اس کے کہ لم یکن کے معنے پیشگوئیوں کے محاورہ کے مطابق استقبال کے کریں اور کوئی چارہ نہیں.شاید کوئی شخص یہ کہہ دے کہ گو مسیح موعود تو اسی امت میں سے پیدا ہونا تھا لیکن آنحضرتﷺ یہی خیال کرتے تھے کہ پچھلے مسیح نے ہی دوبارہ آنا ہے اس لئے آپ نے اسی خیال کےماتحت آنے والے مسیح کانام نبی رکھ دیا.لیکن چونکہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے آگیا اس لئےنبی نہیں کہلا سکتا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس صورت میں آنحضرتﷺ پر اعتراض پڑے گا کہ آپ باوجود اس کے کہ خود آپ پر مسیح کی وفات کی وحی نازل ہوئی تھی اپنی وفات تک مسیح کی زندگی کے قائل رہے اور اس سے تو غیر احمدیوں کو خاص تقویت حاصل ہوگی.اور دوسرے حضرت مسیح موعود کے ان تمام اقوال کی تکذیب ہوگی.جن میں حضرت مسیح موعود نے اس امر پر زور دیا ہے کہ آنحضرت اﷺکا بھی یہی مذہب تھا.کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے اور صحابہؓ کا بھی اسی پر اجماع تھا.کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں.غرض اس کے سوا کوئی صورت نہیں بنتی کہ اس حدیث کو آنے والے مسیح پرچسپاں کیا جائے اور جب اس پر چسپاں کیا جائے تو ضروراسے نبی بھی قرار دینا پڑتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی شہادت سے ثابت ہے کہ وہ نبی ہے پس خدا تعالیٰ کی شہادت اور پراس کے رسول کی شہادت کے ہوتے ہوئے مسیح موعود کو غیر نبی قرار دینا بعیداز انصاف و راستبازی ہے.(۳) تیسری شہادت مسیح موعود کے نبی ہونے پر انبیائے گزشتہ کی شہادت ہے سب سے پرانی شہادت تو زرتشت نبی کی ہے.جو ایران کا ایک نبی ہے اور جس کے پیرو پارسی کہلاتےہیں.اور ہندوستان میں خاص طور پر معزز خیال کئے جاتے ہیں، اور دنیاوی ترقی میں دوسری ہندوستانی قوموں سے ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں.اس نبی نے اپنے بعد تین نبیوں کے آنے کی خبردی تھی.جن میں سے ایک تو آنحضرت اﷺکی نسبت پیشگوئی کی تھی.اور آپ کے نشانات بھی بتائے تھے.اور یہ بھی لکھا تھا.کہ اس وقت ایران کی حکومت تباہ ہو جائے گی اور اس کا سبب ایرانیوں کی بد کاری اور عیاشی ہو گا.آپ کے علاوہ ایک دوسرے نبی کی پیش کی تھی جس کی نسبت ہم نہیں کہہ سکتے کہ پہلے گزر گیا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے.لیکن جس تیسرے نبی کی پیشگوئی اس
۵۱۳ نے کی ہے.وہ حضرت مسیح موعود ہیں.اور اس نے اس کا نام بھی بتایا ہے اور وہ مسیاور بہمی ہے بعض عیسائی اس پیشگوئی کواپنے مسیح پر چسپاں کرتے رہے ہیں.لیکن یہ آپ پر چسپاں نہیں ہو سکتی.اس لئے کہ گو آپ کا نام بھی مسیح تھا.جس کی طرف مسیاکالفظ صاف اشارہ کر رہا ہے.لیکن ان پر وہ نشانات صادق نہیں آتے.جو اس نبی کے بتائے گئے ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیا کی آخری عمر میں آئے گا.اور اس کے زمانہ میں شیطان اور رحمٰن کی فوجوں کی آخری جنگ ہوگی اور وہ شیطان کو قتل کرے گا.تلوار سے نہیں بلکہ دعاؤں سے اور اس کے زمانہ میں بڑامن ہو گا.بچےسانپوں سے کھیلیں گے.ان نشانات سے ظاہر ہے کہ پہلا مسیح اس پیشگوئی سے مراد نہیں ہو سکتا.کیونکہ پہلامسیح دنیا کا آخری مصلح نہیں، بلکہ دو سرا مسیح ہے.پس جب سان مسیا کے نام سے زرتشت نے ایک نبی کی خبر دی تھی تو اس نام کا مستحق رجل من اھل الفارس اس فارسی نبی کی خبر کا پورا کرنے والا مسیح موعود ضرور نبی ہے.دوسری شہادت اس سلسلہ میں کرشن نبی کی ہے حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں اوتار کےمعنی نبی کے تسلیم فرمائے ہیں.اور سری کرشن جی نے آخری زمانہ میں ایک نہہ کلنک او تار کی خبردی تھی جس کے زمانہ کے سب نشانات آج کل پورے ہو رہے ہیں.اور خدا تعالی ٰنے بھی مسیح موعود کا کام کرشن رکھا ہے.پس آپ ہی نہہ کلنک او تار ہیں یعنی نبی ہیں کیونکہ اوتار کے معنے نبی کے ہی ہیں.تیسری شہادت دانیال نبی کی ہے.کہ انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی کی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں.آپ کا نام انہوں نے نبی رکھاہے.پھر کتاب طالمود میں بھی مسیح موعود کا نام نہیں رکھا گیا ہے.اب میں ان تمام صداقت پسندوں سے جن کا دعوی ٰہے کہ وہ حق کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات عقل سلیم تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک شخص جو غیر نبی ہے اس کی نسبت ہزاروں سال پہلے سے انبیاء خبریں دے رہے تھے.کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ ایک غیر نبی کی خبرابتدائے زمانہ سے نبی دیتے آئے ہیں، کیا مسیح موعود کی نسبت ہر مذہب میں پیشگوئیوں کا موجود ہونا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ وہ نبی ہے.لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں.وہ سب نبی جو مسیح موعود کی خبر دیتے ہیں اسے او تاراورنبی کر کے یاد کرتے ہیں.تو کیا ان سب نبیوں کی شہادتوں کے باوجود جو انہوں نے ہزاروں سال پہلے دی تھیں.ہم مسیح موعود کو غیر نبی تسلیم کرسکتے
۵۱۴ ہیں.اور ان تمام پیشگوئیوں میں جہاں جہاں اسے نبی کر کے یاد کیا گیا ہے.ان سب مقامات کی یہ تاویل کر سکتے ہیں.کہ نبی سے مراد نبی نہیں بلکہ کسی مشابہت کی وجہ سے نبی کہہ دیا گیا ہے.آخرتاویل کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.ہزاروں سال پہلے ایک نبی ہند میں مسیح موعود کونبی قرار دیتا ہے.تو ایک فارس میں اور ایک شام میں.لیکن باوجود دنیا کے عظیم الشان انبیاء کی پیشگوئیوں کے اور اسےنبی کہنے کے.وہ پھر بھی غیرنبی کاغیرنبی ہی رہا.اور سب باتوں کو جانے دو.صرف اسی امر کو لے کراس پر غور کرو کہ کیا عقل اس بات کو باو رکر سکتی ہے یہ عجیب غیرنبی ہے کہ نبیوں سے زیا دہ اس کی نسبت ہزار ہا سال سے خبریں دی گئیں ہیں.اور کل دنیا کو اس کے انتظار کا شوق لگایا گیا ہے.لیکن جب وہ آتا ہے تو ایک غیرنبی کا غیرنبی اور ایک معمولی مجدد.نہ اسے نبی کہہ سکتے ہیں نہ رسول اور پھرتعجب یہ ہے کہ نہ صرف اس آنے والے کی نسبت پہلے نبیوں نے نبوت ہی کی ہے.بلکہ اسے نبی کر کےسب پکارتے آئے ہیں.مگر ہمیں بتایا جا تا ہے کہ سب کا منشا ء نبی سے کچھ اور بھی تھا.در حقیقت مسیح موعود نبی نہیں ہو سکتا.میں یقیناًکہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی شخص مخلى بالطبع ہو کر اس بات پر غورکرے گا تو اسے اس خیال کی لغویت خودی معلوم ہو جائے گی.اور روز روشن کی طرح اس پر ظاہرہو جائے گا کہ مسیح موعود ضرورنبی ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص کا نام قرآن کریم نبی رکھے.آنحضرت ﷺ نبی رکھیں.کرشن نبی رکھے - زرتشت نبی رکھے.دانیال نبی رکھے.اورہزاروں سالوں سے اس کے آنے کی خبریں دی جارہی ہوں.لیکن باوجود ان سب شہادتوں کے وہ پر بھی غیر نبی کا غیر نبی ہی رہے اور سب پچھلے نبیوں کی بات قرآن کریم کی شہادت.اور آنحضرتﷺکے فرمان کی تاویل کرلی جائے اگر تاویل ہی کرنی ہے تو کیوں اپنے خیالات اور گمانوں کی تاویل نہ کی جائے اور کیوں بلا سبب اس قدر شہادتوں کو ان کی حقیقت سے پھیر دیا جائے ؟ اوراس قدر زبردست ثبوتوں سے منہ پھیر لیا جائے.(۴) چوتھی شہادت حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق خود آپ کی وحی اورالہامات ہیں جن میں کثرت سے آپ کو نبی کا خطاب دیا گیا.اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو آپ کو بار بار الہام ہوئے ہیں پس کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے آپ کو سینکڑوں دفعہ نبی کا خطاب دیا ہے وحی الہٰی جس میں نبی یا رسول کا خطاب دیا گیا ہے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.(1) هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (۲) انی لا یخاف لدی المرسلون (۳) كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْؕ(۴)جری اللہ فی حلل الانبیاء (۵)ما ارسلنٰک الا رحمة للعٰلمین(۶) دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا سے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا
۵۱۵ (۷) دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(۸) انی مع الرسول أقوم و الوم من یلوم و اعطیک ما یدوم (۹) صدق الله ورسوله كان أمر اللہ مفعولا(۱۰) لا تخف انی لا یخاف لدی المرسلون (11) وقالوا لست مرسلا قل كفى بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتب (۱۲) ینبی اللہ کنت لا اعرفک (۱۳) اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا ﳔ شَاهِدًا عَلَیْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.(۱۴) انی مع الرسول أقوم و افطر و اصوم(۱۵) يسٓ وَٱلۡقُرۡءَانِ ٱلۡحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ ٱلۡمُرۡسَلِينَ عَلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٖ (۱۶)تالله لقد ار سلنا الى امم من قبلک فزین لهم الشيطین (۱۷) مبشروں کا زوال نہیں ہو تاگور نرجنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا.(۱۸) سيقول العدولست مرسلا سناخذہ من مارن او خرطوم و انا من الظلمین منتقمون.(۱۹) یو م يعض الظالم على يديه ياليتني اتخذت مع الرسول سبیلا.(۲۰) قل إنی نذیر مبین- (۲۱) هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق و تهذيب الاخلاق لتنذر قوما ما انذر اباءھم ولتدعوا قوما اخرین (۲۲) ذرنی والمکذبین انی مع الرسول أقوم ان یوم لفصل عظیم(۲۳) انی مع الرسول أقوم و من یلومہ الوم ا فطرو أصوم (۲۴) ا انی مع الرسول اجیب و اخطی و اصیب.(۲۵) انی مع الرسول أقوم و لن ابرح الأرض الی الوقت المعلوم.(۴۶) انی مع الرسول أقوم و اقصدک و اروم (۲۷)انی مع الرسول فقط.(۲۸) انی انا الرحمن لايخاف لدى المرسلون (۲۹) انی الوم من يلوم واعطيك مايدوم انی مع الرسول أقوم واروم مایروم.(۳۰) مقام او مبین از راه تحقیرد و رانشرسولاں ناز کردند (۳۱) بر همین او تارسے مقابلہ کرنا اچھا نہیں (۳۲) ما ارسل نبی الا اخزی بہ اللہ قوما لا یؤمنون، (۳۳) ان خبر رسول اللہ واقع (۳۴) وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا (۳۵) یایها النبی اطعموا بطوا جائع و المعتر (۳۶) يبدي لك الرحمن شيئا اتى امر اللہ فلا تستعجلوہ بشارة تلقا ما النبيون.( ۳۷ )انا ارسلنا احمد الی قومہ فاعرضوا و قالوا کذاب اشر(۳۸) یا احمد جعلت مرسلا (۳۹) قل یاایھا
۵۱۶ الناس انی رسول اللہ اليكم جميعا ان الہامات کے علاوہ اور بھی بہت سے الہامات ہیں جن میں آپ کو نبی یا رسول کر کے تو نہیں پکارا گیا.لیکن نبیوں اور رسولوں کے ناموں سے پکارا گیا ہے کہیں آپ کو موسیٰ کہا ہے کہیں محمدؐ کہا سے کہیں عیسیٰ اور کہیں داؤد کہیں سلیمان کہیں ابراہیم کہیں نوح کے نام سے پکارا گیا ہے.غرض بہت سے انبیاء کے نام سے آپ کو پکار اگیا ہے جو مزید ثبوت ہے آپ کی رسالت و نبوت کا.اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس قدر الہامات کی موجودگی میں ہم حضرت مسیح موعود کو غیرنبی قرار دیں.اللہ تعالیٰ تو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں.بیسیوں اور سینکڑوں دفعہ آپ کو نبی کے نام سے یاد فرماتا ہے (کیونکہ بعض الہام بار بار اور کثرت سے ہوتے تھے) اور ہم ان سب جگہ پر ہی تاویل کر لیں کہ ان سب الہامات سے مراد اسی قدر ہے کہ آپ نبی نہیں مگر نبیوں کی کوئی صفت آپ میں پائی جاتی ہے کیا اس کی نظیردنیا میں کسی اور انسان میں بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بار بارنبی کہہ کر پکارتا ہے لیکن وہ در حقیقت نبی نہیں ہوتا.اور تعجب یہ ہے کہ جو آپ کا اصل عہدہ تھااس کا ذکر نہیں کیا جاتا اور شاید ایک ہی جگہ آپ کو محدث کر کے پکار اگیا ہے.لیکن وہ نام جو آپ کو یونہی دے دیا گیا تھا.جب پکارتا ہے.اللہ تعالیٰ اسی نام سے پکارتا ہے اور اصل عہده پر بالکل زور نہیں دیا جا تا.کیا اس امر کو عقل سلیم تسلیم کر سکتی ہے؟ کیا یہ تاویل معقول معلوم ہوتی ہے؟ اگر آپ کو پیارسے نبی کہہ دیا گیا تھا.یا رسول کہہ دیا گیا تھا.تو چاہئے تھا.کہ آپ کے الہامات میں کثرت سےمحدث کا لفظ آتا.نہ یہ کہ نبی اور رسول کالفظ آتا لیکن نبی اور رسول تو سینکڑوں دفعہ کہا گیا ہے.اور محدث صرف ایک ہی دفعہ کہا گیا ہے پھر کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک نبی تھے.اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو ہمیشہ نبیوں سے مشابہت دی جاتی تھی.اور پہلے مجد دین میں سے صرف سید عبدالقادؒر کے نام سے آپ کو یاد کیا گیا ہے ورنہ ہمیشہ نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی علیہم السلام کے نام سے آپ کو پکارا گیا ہے جو اس بات کا زبردست ثبوت ہےکہ آپ نبی تھے.دنیا میں وہ کونسانبی گزرا ہے جس کے نبی قرار دینے کے لئے کوئی اور وجہ قرار دی جاتی ہے ؟ کیاسب نبیوں کو ہم اس لئے نبی نہیں مانتے کہ خدا تعالی ٰنے ان کو نبی کہا.پھر کیا وجہ ہے.کہ وہی خداجس نے موسیٰ سے کہاکہ تو نبی ہے تو وہ نبی ہو گیا.اور عیسیٰ سے کہا کہ تو نبی ہے تو وہ نبی ہو گیا.لیکن آج مسیح موعود سے کہتا ہے کہ تو نبی ہے.وہ نبی نہیں ہو تا.اگر نبی بنانے کے لئے کوئی اور لفظ ہوتے ہیں تو انہیں ہمارے سامنے پیش کرو جن سے ہمیں معلوم ہو سکے کہ پہلے نبیوں کو تو
۵۱۷ اس طرح نبی کہا جا تا تھاتب وہ نبی ہوتے تھے اور مسیح موعود کو اس کے خلاف کسی اور طرح نبی کہاگیاہے پس وہ نبی نہیں ہوئے.کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی یقینی وحی کی موجودگی میں کوئی شخص مسیح موعود کی نبوت کا انکار کر سکتا ہے اور جو شخص انکار کرتا ہے.اسے ضرور پہلے نبیوں کا بھی انکار کرنا پڑے گا.کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح ؑ کی نبوت جن دلائل اور جن الفاظ سےثابت ہوتی ہے ان سے بڑھ کردلا ئل اورصاف الفاظ حضرت مسیح موعود یکی نبوت کے متعلق موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے اگر مسیح موعود نبی نہیں تو دنیا میں آج تک کبھی کوئی نبی ہؤاہی نہیں.اوراگر وہ دلا ئل حضرت مسیح موعود کی نبوت ثابت نہیں کرتے.تو ہمارے سامنے وہ دلائل پیش کرو جن کے روسے کسی نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے.اگر ضد اور تعصب کو چھوڑ دیا جائے تو اس سے زبردست دلیل اور کیا ہو سکتی ہے.کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے متواتر تیئس سال تک نبی اور رسول کے نام سے یاد کیا ہے.میں حیران ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود کی نبوت پر معترض ہیں.اتنا تو سوچیں کہ نبی بناناخدا کا کام ہے یا انسان کا.اگر خدا کا کام ہے.تو وہ کسی کو نبی کس طرح بنا تا ہے ، کیا ہمیں خداتعالی ٰکےکسی کو نبی بنانے کا علم اس طرح نہیں ہوتا کہ اس نے اسے نبی اور رسول کا خطاب دیا ہے ؟ اگر اسی طرح ہمیں کسی شخص کے نبی بن جانے کا علم ہوتا ہے تو کیا حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے تیئس برس نبی اور رسول کے نام سے نہیں پکارا.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نبی نہ ہوئے.کیا انسان کی طاقت ہے کہ وہ خدا کے ہاتھ کو پکڑلے کہ گو تو کسی کو نبی بنائے مگر ہم اسے نہیں بننے دیں گے.حضرت مسیح موعود پر جب لوگ اعتراض کرتے تھے کہ یہ مسیح کس طرح ہو گئے.تو آپ جواب دیا کرتے تھے کہ یہ خدا کا کام تھا.اس نے کر دیا.اگر تم کو یہ فیصلہ منظور نہیں.تو جاؤاخدا سے جنگ کرو.میں بھی منکرین نبوت مسیح موعود سے کہتا ہوں کہ نبی بنانا خدا کا کام ہے اور اس نے اپنے حکم سے مسیح موعود کو نبی بنا دیا.اب اگر کسی کو اس فعل الہٰی پر اعتراض ہے تو وہ خدا سے لڑے.مگر کیا کسی کی طاقت ہے کہ جسے خداننی بنائے اسے وہ نبی ہونے سے روک دے.یہ کسی انسان کی طاقت نہیں پس نادان ہے وہ انسان جو اللہ تعالی ٰکے فیصلے کے بعد پھر بھی مسیح موعود کی نبوت کو مٹانا چاہتاہے کیونکہ جس بات کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے کرلیا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا.اور جو انعام خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو دیا ہے.اسے کوئی واپس نہیں کر سکتا.نبوت کی اور اللہ تعالی ٰنے خود مسیح موعود کے کاندھوں پر ڈال دی ہے.اب کسی انسان کی طاقت نہیں کہ اس چادر کو مسیح موعود کے کاندھوں
۵۱۸ پرسے اتارے.(۵) پانچویں دلیل حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی جو تعریف قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے وہ آپ پر صادق آتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں فلا يظهر علی غیبہ أحدا إلا من ار تضی من رسول اللہ تعالیٰ نہیں غالب کرتا اپنے غیب پر مگر اپنے پسندید ہ بندوں یعنی رسولوں کو (یعنی کثرت سے امور غیبیہ کا اظہار رسول پر ہی کرتا ہے) اور یہ شرط حضرت مسیح موعودؑ میں پائی جاتی ہے.یہ شرط معمولی نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم رسولوں کے سوا کسی کو اظہار على الغیب کی طاقت نہیں دیتے ہیں جبکہ اظہار على الغیب کی طاقت سِوا رسولوں کے اور کسی کو ملتی ہی نہیں اور حضرت مسیح موعود کو یہ طاقت کی ہے.تو آپ کی رسالت اظہر من الشمس طور سے ثابت ہو جاتی ہے.جس کا انکار کوئی ذی عقل کرہی نہیں سکتا.کیونکہ وہ شرط جو رسولوں کے سوا کسی اور میں نہیں پائی جاتی.وہ حضرت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے.پس آپ رسول ہیں.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود کو الله تعالی ٰنے اولوالعزم رسولوں کی مانندو طریق سے غیب پر غالب کیا ہے لیکن ایک پچھلے غیب پر اور ایک آئندہ کے غیب پر.پچھلے غیب سےمیری مراد پچھلی پیشگوئیاں ہیں جو آپ کے وقت میں پوری ہو کر آپ کے لئے نشان صداقت ہو ئیں.جب سے یہ دنیا چلی ہے.سب نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کی نسبت خبر دی تھی.کہ اس کے زمانہ میں شیطان کی اور ملائکہ کی آخری جنگ ہوگی اور بہتوں نے اس کے لئے نشان مقرر کئے تھے ، پس وہ سب نشانات جو پہلے غیب کے طور پر تھے اس زمانہ میں مسیح موعود کے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں.اور یہ بھی ایک قسم کااظہار على الغیب ہے.کہ بیسیوں پیشگوئیاں جو بصورت غیب تھیں مسیح موعود نے ان کو ظاہر کردیا ہے.اور وہ مسیح موعود کی صداقت پر شاہد ہیں.دوسرا طریق اظہار على الغیب کا یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالی ٰنے ہزاروں لاکھوں نشانات دکھائے ہیں.اور ہزاروں غیب کی خبروں کا آپ کو قبل ازوقت علم دیا ہے جو اپنے وقت پرآکر پوری ہو ئیں.اور ہو رہی ہیں.اور آئندہ ہوں گی پس واقعات پکار پکار کر اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ مسیح موعود میں وہ شرط پائی جاتی ہے.جو سوائے نبیوں کے اور کسی انسان میں نہیں پائی جاتی.علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے نبیوں کی نسبت یہ بھی بیان فرمایا ہے وما نرسل
۵۱۹ المرسلين الامبشرین ومنذرین یعنی ہم رسولوں کو جو بھیجتے ہیں تو ان کا کام تبشیری اور انذاری رنگ کی پیشگوئیاں کرنا ہوتا ہے.اس آیت میں اظہار على الغیب کی اللہ تعالیٰ نے تفسیر فرما دی ہے کہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع ملنے سے یہ مراد ہے.کہ وہ قوموں کی ترقیوں اور تباہیوں کے متعلق ہوں.اور یہ شرط بھی حضرت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے.پس آپ بموجب فرموده قرآن کریم نبی ہیں.(۶) چھٹی دلیل حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے کی یہ ہے کہ اگر آپ کو نبی نہ مانا جائے.تو ایک خطرناک نقص پیدا ہو جاتا ہے جو انسان کو کافر بنا دینے کے لئے کافی ہے یعنی یا تو اللہ تعالیٰ پر نعوذ باللہ من ذلک غلط بیانی کااتہام لگانا پڑتا ہے یا حضرت مسیح موعود پر جھوٹ کا الزام اور اللہ تعالیٰ تو وہ پاک ذات ہے کہ جو سب خوبیوں کی جامع ہے.اور سب بدیوں سے منزّہ ہے.اور بدی تو الگ رہی.بد کن سے بھی بیزار ہے.اور نیکی اور خوبی تو اس کی پیدا کی ہوئی ہے.اس کے سب کام اچھے اور ہر بات خیروالی ہے.قرآن کریم میں اس کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے کہ له الأسماء الحسنی سب اچھے نام ہی اللہ کے لئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی نقص منسوب کرنا اول درجہ کا کفر ہے.کہ اس سے بڑھ کر کفر اور کوئی نہیں.کیونکہ جو شخص خداتعالی ٰکو نہیں مانتا.وہ تو پھر بھی معذور ہے لیکن جو شخص اسے مان کر پھر اس کی طرف نقص اور بدی کو منسوب کرتا ہے.اس سے بڑھ کر خبیث النفس اور کوئی نہیں.اسی طرح مسیح موعود خدا تعالیٰ کا پیارا ہے.اور اللہ تعالیٰ گندوں اور بد کاروں اور فاسقوں کو اپنا پیارا نہیں بناتا.کیونکہ وہ خود پا ک ہے.اور پاکوں سے ہی تعلق رکھتا ہے.اس کا رحم سب دنیا پر وسیع ہے.لیکن اس کا خاص تعلق اور اس کی رضاء کے مستحق صرف نیک اور راستباز انسان ہی ہوتے ہیں.اور چونکہ مسیح موعود اس کے مقرّب بندوں میں سے ہے اس لئے اس کے صادق اور راستباز ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہو سکتا.اور جو شخص اسے کاذب قرار دے.وہ بھی سخت خطرہ کی حالت میں ہے.اور حضرت مسیح موعود کو نبی نہ قراردینے پر اللہ تعالیٰ یا مسیح موعود دونوں میں سے ایک پر ضرور الزام لگانا پڑتا ہے.اور ہر دو باتیں انسان کے تباہ کر دینے والی ہیں مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کا انکار کیا ہے انہوں نے بھی اس امر پر پورا غور نہیں کیا.ورنہ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ان میں سے بہت سے حق پسند اور نیک فطرت اور سعید انسان اس خیال سے فور۱ً توبہ کر لیتے.اور اپنے عقیدہ پر پشیمان ہوتے اور پچھتاتے.اور مجھے امید ہے کہ جب ان لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح موعود ؑکی
۵۲۰ نبوت کا انکار کر کے کیسے خطرناک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ ضرور توبہ کرلیں گے کیونکہ راستباز انسان جب ایک امریکی صدات کو معلوم کرے.تو فوراً اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جا تا ہے.اور ایک دم کے لئے بھی اس سے دور ہو نا پسند نہیں فرماتا.ہاں جو لوگ دھڑہ بندی اور خود پسندی سے کام کرنے والے ہوں.ان کا کوئی علاج نہیں.اور ان کے بانے سے دین کو کوئی تقویت بھی حاصل نہیں ہوتی.بہرحال جس امر کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ فلا يظهر على غيبه أحدا من ارتضى من رسول اللہ تعالیٰ کسی شخص کو غیب پر کثرت سے اطلاع نہیں دیتا.مگر اپنے رسولوں کو.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ یہ ہمار ی سنت ہے کہ سوائے رسولوں کے ہم کسی پر کثرت سے غیب ظاہر نہیں کرتے.اب اس آیت کے مقابلہ پر حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتب میں بار بار فرماتے ہیں جیسا کہ میں فصل دوم میں حوالہ نقل کر چکا ہوں کہ آپ پر کثرت سے اظہار غیب کیا گیا ہے.اب ہمارے لئے سوائے دو راہوں کے اور کوئی راہ نہیں.۱.اول تو یہ بات مان لیں کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے اور آپ کا یہ فرمانا کہ مجھ پرکثرت سے اظہار غیب ہوا ہے.قرآن کریم کے مخالف نہیں بلکہ عین مطابق ہے.کیونکہ قرآن کریم بھی یہی فرماتا ہے کہ اللہ تعالی ٰکثرت سے اظہار غیب سوائے رسولوں کے اور کسی پر نہیں کرتا.۲- دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اس بات پر اصرار کریں.کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے.مگر اس صورت میں ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات قبول کرنی ہوگی.اول یہ بات کہ نعوذ باللہ من ذالک اللہ تعالی ٰنے قرآن کریم میں یہ بات غلط بیان فرمائی ہے کہ وہ سوائے رسولوں کے اور کسی کو اظہار على الغیب کا مرتبہ نہیں عطا فرما تا حالا نکہ واقعات نے اس کی صریح تردید کر دی.کہ مرزا صاحب کو جو غیرنبی ہیں.اس نے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی ہے جو قرآن کریم کے بیان کے صریح خلاف ہے.پس ایک تو یہ بات ہے.جو مرزا صاحب کی نبوت کا انکار کرنے والے کہہ سکتے ہیں.کیونکہ اس کے بغیر مسیح موعود کی نبوت سے انکار نہیں کیا جا دوم - ہاں ایک اور راہ بھی ہے.جو مسیح موعود کی نبوت کے منکر اختیار کر سکتے ہیں.اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تو غلط بیانی کو منسوب نہ کریں.اور نہ قرآن کریم کی تکذیب کریں.بلکہ یوں کہہ
۵۲۱ دیں کہ نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود نے غلط کیا ہے کہ آپ کو غیب پر کثرت سے اطلاع دی جاتی تھی.کیونکہ آپ غیرنبی تھے.اور نبی کے سوا کسی کو کثرت سے غیب پر اطلاع نہیں دی جاتی.پس یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کو غیب پر کثرت سے اطلاع دی گئی ہو.لیکن ہرایک وہ شخص جو مسیح موعود پر ذرہ بھی ایمان رکھتا ہے.ان قول کے کہنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا.اور جو یہ جرأت کرے گا.اس کا ایمان یقیناً سلب ہو جائے گا اور آخر بے ایمانی کی موت مرے گا.غرض کہ فلايظهر علی غیبه کی آیت کے ماتحت جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں تین باتوں میں سے ایک بات ضردرماننی پڑتی ہے.یا تو یہ کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے اور خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سوائے رسولوں کے دو سروں پر وہ کثرت سے امور غیبیہ ظاہر نہیں کیا کر تا- اور حضرت مسیح موعود نے بھی کہا ہے کہ آپ پر اظہار غیب کثرت سے ہواکر تا تھا.اور یا یہ کہ آپ نبی نہ تھے.لیکن یہ آیت نبی ہونے کے لئے حجت نہیں.کیونکہ یہ بات نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نے غلط فرمائی ہے کہ وہ سوائے رسولوں کے دو سروں پر اظہار غیب کثرت سے نہیں کرتا.حالانکہ وہ ایسا کر دیا کرتا ہے جیسے کہ مرزا صاحب کے ساتھ اس نے ایسا ہی سلوک کیا ہے جو غیرنبی ہیں.یا تیسری بات یہ ماننی پڑے گی.کہ اللہ تعالیٰ نے تو جو کچھ فرمایا ہے درست ہی فرمایا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ غلط کہتے رہے ہیں.کہ آپ پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے گئے ہیں.آپ تو غیرنبی تھے.آپ کے ساتھ یہ سلوک کس طرح ہو سکتا تھا.حضرت مسیح موعود کی نبوت کو مان کر یا اس سے انکار کر کے ان تینوں راہوں میں سے کوئی راہ ضرور اختیار کرنی پڑے گی.اور اب یہ ہر ایک شخص کا اپنا کام ہے کہ جس راہ کو چاہے اختیار کرلے.یا تو حضرت مسیح موعود کو نبی مان کر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کوئی عیب نہ منسوب کرے اور نہ حضرت مسیح موعود کو جھوٹا کہے.خدا اور اس کے رسول دونوں کی تصدیق کرے.اور یا حضرت مسیح موعودکی نبوت کا انکار کر کے خدا تعالیٰ یا مسیح موعود دونوں میں سے ایک پر جھوٹ کا اتہام اور بہتان لگاوے.اور اپنی آخرت تباہ کر لے.مجھے اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.کہ ان دونوںراہوں میں سے کونسی راہ پر امن اور خطرات سے خالی ہے.اور کونسی راہ ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہے.انسان ناواقفیت کی وجہ سے ایک بات کہہ دے تو وہ اور بات ہے.لیکن صداقت معلوم ہونے پر باطل پر قائم رہنا مؤمن کا کام نہیں.اس لئے مجھے امید ہے کہ وہ تمام
۵۲۲ اصحاب جو ثبوت مسیح موعود کا انکار اس وجہ سے کر رہے تھے.کہ اب تک انہیں اس صداقت کا علم نہ تھا صداقت کے ظاہر ہونے کے بعد اور اس کے رد کر دینے سے جو خطرات پیدا ہو سکتے ہیں ان کے معلوم کر لینے کے بعد ایک منٹ کے لئے بھی ایسے عقیدہ پر قائم نہ رہیں گے جو بالواسطہ اللہ تعالیٰ یا اس کے مسیح موعود پر ایک مکروہ بہتان باندھنے کا باعث ہو تا ہے.ممکن ہے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ اس آیت سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ سوائے رسولوں کے اور کسی پر اللہ تعالیٰ کثرت سے غیب ظاہر نہیں کرتا بلکہ ہم تو اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ رسولوں پر ضرور غیب ظاہر کرتا ہے.باقی بھی کسی پر کردے تو کچھ حرج نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے.کہ ایساخیال صرف جہالت اور عربی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتا ہے.ورنہ جو لوگ عربی زبان جانتے ہیں انہیں یہ خیال بھی نہیں پیدا ہو سکتا.کہ اس آیت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ رسولوں کے سوا اور لوگوں پر بھی کثرت سے امور غیبیہ کا اظہار ہو سکتا ہے.پس ایسے شخص کو چاہئے کہ کسی عربی زبان کے واقف سے جاکر اس آیت کے معنے کرالے پھر اعتراض کی کوشش کرے.اس آیت کے معنی سوائے دوکے اور تیسرے بن ہی نہیں سکتے.اور وہ یہ ہیں.- اگر من تبعیضیه مانا جائے تو اس آیت کے یہ معنی ہوں گے.کہ اللہ تعالی ٰکسی کو اپنےغیب پر کثرت سے اطلاع نہیں دیتا.سوائے ان کے جن پر راضی ہو تاہے رسولوں میں سے یعنی رسولوں میں سے جن پر راضی ہو تا ہے.ان پر اظہار غیب کرتا ہے نہ کہ سب پر.سواگر یہ معنی کریں.تب یہ مطلب نکلے گا.کہ اظہار على الغیب کا مرتبہ ایسا بڑا ہے.کہ رسولوں میں سے بھی سب کو حاصل نہیں ہو تا.بلکہ بعض کو حاصل ہو تا ہے پس یہ معنے اگر کئے جائیں تب بھی اس آیت سے یہی ظاہر ہے کہ غیر تو غیر بعض رسولوں کو بھی یہ مرتبہ نہیں ملتا.جس سے یہ امر بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے کہ غیر نبی کو اظہار على الغیب کا مرتبہ بھی نہیں دیا جاتا.لیکن مث کو تبعیضیه بنانا بعض دوسری آیات کے خلاف ضرور معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے.وما نرسل المرسلين الا مبشرين ومنذرين جس سے معلوم ہو تا ہے.کہ سب رسولوں سے تبشیر و انذار کا کام لیا جاتا ہے نہ کہ بعض سے.لیکن ہمارا مطلب ان معنوں سے بھی بہرحال ثابت ہے.٢- دو سرے معنی اس آیت کے بھی ہو سکتے ہیں کہ مِن کو بیانی قرار دیا جائے اور یہ معنی کئے جائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں یعنی رسولوں پر اظہار غیب کر تا ہے ان کے سوا اور کسی
۵۲۳ پر نہیں کرتا.ان معنوں کے رویے سب رسولوں پر اظہار على الغیب کا انعام ثابت ہوتا ہے نہ کہ بعض پر.لیکن رسولوں کے سوا اور کسی پر اظہار على الغیب ہونے کی نفی ان معنوں کے رو سے بھی ثابت ہے پیں خواہ کوئی معنے کریں یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ رسولوں کے سوا اظہار على الغیب کا انعام کسی اور پر بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہو تاہیں اس جواب سے کوئی شخص اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتا کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ اظہار على الغیب صرف رسولوں کے لئے ہی ہو بلکہ جو شخص مسیح موعود کوئی نبی نہیں مانتا اسے بہرحال اللہ تعالی ٰپر با حضرت مسیح موعود پر اعتراض کرنا ہو گا.ونعوذ باللہ من ذالک.میں اس جگہ حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر بھی نقل کر دیتا ہوں جس سے معلوم ہو جائے گاکہ حضرت مسیح موعود نے امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانے کا دعوی ٰکیا ہے یا نہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود نے یہ دعوی ٰہی نہیں کیا.اس لئے اس آیت سے استدلال کر ناہی جائز نہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں بیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں.اسے نبی کہتے ہیں.اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں." (بدر نمبر ۹ جلد ۷،۵ مارچ ۱۹۰۸ء) ۷.ساتویں دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے خود اپنے آپ کو نبی کے لفظ سےپکارا.اگر آپ نبی نہ ہوتے تو کیوں اپنے آپ کو نبی اور رسول کرکے پکارتے.جن لوگوں کا نام نبی رکھ دیا جاوے وہ اس طرح اپنے آپ کو نبی کہہ کر نہیں پکارا کرتے.میں اس جگہ چند وہ حوالجات دیتا ہوں جن سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو نبی کہا ہے.اور اس بات کا بار ثبوت حضرت مسیح موعود کی نبوت کے منکرین پر ہو گا کہ وہ کسی اور بزرگ یا ولی کی تحریر سے بھی اس قسم کے الفاظ دکھادیں کہ وہ اپنی نسبت نبی کے الفاظ استعمال کیا کر تاہو.حوالہ ا.پگٹ جو انگلستان کا ایک جھوٹا مدعی نبوت تھا.اس کے خلاف اشتہار لکھا.اور اس کے آخر میں جہاں راقم مضمون کا نام لکھا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود ؑنے یہ الفاظ لکھے.The Prophet Mirza Ghulam Ahmad.(1) ’’اس امت میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں.اور ایک وہ بھی ہؤا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.(حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ حاشیہ)
۵۲۴ (۲) "جس آنے والے مسیح موعو دکاجدثیوں سے پتہ لگتا ہے اس کا انہیں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہو گا.اورامتی بھی.( حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱) (۳) ”سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.‘‘ (۴) ”خدا تعالی ٰنے مجھے انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے.اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں.میں شیث ہوں.میں نوح ہوں میں ابراہیم ہوں.میں اسحٰق ہوں.میں اسمٰعیل ہوں.میں یعقوب ہوں.میں یوسف ہوں.میں موسیٰ ہوں.میں داؤد ہوں.میں عیسیٰ ہوں.اور آنحضرت اﷺکے نام کا میں مظہراتم ہوں.یعنی ظلّی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۷۶ حاشیہ) (۵) (الہام) يومئذ تحدث اخبارھا بان ر بك أوحي لها (ترجمہ از حضرت مسیح موعودؑ) ’’اس دن زمین اپنی باتیں بیان کرے گی کہ کیا اس پر گزراخدااس کے لئے اپنے رسول پر وحی نازل کرے گا کہ یہ مصیبت پیش آتی ہے." (حقيقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۵) (۶) "خدا کی مہرنے یہ کام کیا.کہ آنحضرتﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلوسے وہ امتی ہے.اور ایک پہلوسے نبی\" (حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۹،۱۰۰ حاشیہ) (۷)" اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت اﷺکی امت میں بنی اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے.اور ایک ایسا ہو گا کہ ایک پہلوسے نبی ہو گا.اور ایک پہلو سے امتی- وہی مسیح موعود کہلائے گا‘‘.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ سصفحہ ۱۰۴ حاشیہ ) (۸) خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضئہ رو حانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا\" (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ھاشیہ۱۵۴) (۹) پس اس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری پانی کے لئے ایک نشان ہے یاد رہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں کذب ہو.مگراس نگزیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں.حقیقة الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۹۵) (۱۰) ” اور کانگڑہ اور بھاگو کے پہاڑ کے صد ہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے ان کا کیا قصور تھا.*حقيقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ ص۶۴ حقيقة الوحی
۵۲۵ انہوں نے کوئی مذہب کی تھی سو یاد رہے کہ جب خدا کے کیا مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ گزیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خدا تعالی کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے.“ (حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۷۷) (1) \" اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا.اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کارب ٹھہروں گا.ورنہ قوم پر لازم ہو گا کہ خدا تعالی سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں.اور خدا کے رسول کا مقابلہ کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کریں.حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفها۴۰۱) (۱۴) نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶،۴۰۷ ) (۱۳) پس خدا تعالی نے اپنی سنت کے مطابق ایک نی کے مبعوث ہونے تک و و عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا............................تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزا دی | جاوے.“ تتمہ حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۱) (۱۴) میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے.اور اسی نے میرا نام نہیں رکھا ہے.“ (تمہ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳) (۱۵) و ماكنامعذبين حتی نبعث رسولا (بنی اسرائل :1۶) پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہو تاہے.او روی مسیح موعود ہے.\"تتمہ حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۰) (۱۶) واخرين منهم لما يلحقوا بهم (الجمعہ :.۴...........) یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیار کی ہے.“ (تتمہ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۵۰۲) (۱۷) مرتع طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.(حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴) (۱۸) \" جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے.اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے میچ کو افضل سمجھتا ہے اس کو نصوم حد نفیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہئے کہ آنے والا میں کچھ چیزیں نہیں.نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ تم جو کچھ ہے پہلا ہے.» روحانی خزائن جلد ۲۲ ص۱۵۹) (19)\" میں مسیح موعود ہوں.او روہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اللہ رکھا ہے\"
نزول المسیح صفحہ ۵۱ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۲۷) (۲۰) میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے.میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمد ی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ (نزول المسیح صفحہ ۵ حاشیه روحانی خزائن جلد ۸ ا صفحہ ۳۸۱) (۲۱) ایسا ہی خداتعالی نے اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے.اور تمام خدا تعالی کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے.اور اس کو تمام انبیاء کی صفات کاملہ کامظهر ٹهہرایا ہے.(نزول المسیح صفحہ ۵۰ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۴۲۶) (۲۲) اس فیصلہ کے کرنے کے لئے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز پھونکے گا.وہ قرنا کیا ہے؟ وہ اس کانبی ہو گا.“ (چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۸، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۴) (۲۳) اس طرح پر میں خدا کی کتاب میں عیسیٰ ابن مریم کہلایا.چونکہ مریم ایک امتی فرد ہے اور عیسیٰ ایک نبی ہے پس میرا نام مریم اور عیسیٰ رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ میں امتی بھی ہوں.اور نبی بھی.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم - روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۳۶۱) (۲۴) ” خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑے.......قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا.کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے..............سچاخدا وہی ہے جس نے قاریان میں اپنا رسول بھیجا.( دافع البلاء صفحہ ۱۳ تا ۱۵، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۹-۲۳۰-۲۳۱) (۲۵) ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کر تا ہے.اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایساجواب صحیح نہیں ہے.( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۲، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۶) (۲۶) ” میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیو نکر انکار کر سکتا ہوں.( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶ ، روحانی خزائن جلد ۱۸، صفحہ ۲۱۰) (۲۷) اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمدﷺ اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں.اور نبی بھی ہوں.“ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۱) (۳۸) میں خدا کے علم کے موافق نبی ہوں.\" (آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام ۲۶ مئی ۹۰۸ ۱ء بحوالہ بدر اا جون ا۹۰۸ صفحہ ۱۰) (۲۹)\" میں صرف اس وجہ سے نبی کہلا تا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں
۵۲۷ کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیشگوئی کرنے والا اور بغیر کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہوسکتے.(آخری خط مندر جہ اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) (۳۰) * پس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانے میں کثرت مکالمه مخاطبہ الہیه اور کثرت اطلاع بر علوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے.(آخری خط حضرت اقدس مندر جہ اخبار عام ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء) (۳۱) \" ہمارادعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.دراصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالی جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخالبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت رو سروں سے بہت بڑھ کر ہو.اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں.اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.“ (بدر۵ مارچ ۱۹۰۸ء ) (۳۲) \"جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیو نکرانکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.“ (آخری خط حضرت اقدس مندر جہ اخبار عام ۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء) (۳۳) میں نبی بھی ہوں اور امتی بھی ہوں تاکہ ہمارے سید و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہو گا.اور نبی بھی ہوگا.(آخری خط مندر جہ اخبار عام ۲۶/ مئی ۱۹۰۸) (۳۴) یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے.اور انتشار رو حانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتاہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصہ لیتی ہے.ایاہی اس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے، تب ان ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے.اور جس قدر لوگوں کو خواہیں با الهام ہوتے ہیں.دراصل ان کے کھلے کا دروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسان سے عام طور پر ایک روشنی اترتی ہے.جس سے ہر ایک شخص سب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور باران خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے آیا ہوا ہے گردہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے.اور اس کا زمانہ ایک *بحوالہ البدر ۱۱ جون ۱۹۰۸ص۱۰
۵۲۸ لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍسلم ( القدر :۵-۶)جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے.منہ (حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۹) (۳۵) اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے کیونکہ خدا کے نبی اس کی صور ہوتے ہیں“(چشمه معرفت صفحہ ۷۷، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۸۵) (۳۶) کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے.اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے.اور کبھی وحی ایک امرمیں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے.پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبرواحد کی طرح ہو اور مجمل ہو.( لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۴۵) (۳۷) اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قد ر نیک اور راستباز مقدس میں گزر چکے ہیں.ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں.سورہ میں ہوں اسی طرح اس زبان میں تمام بروں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے.فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا.یا ابوجہل ہو.سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ منہ۱۸۷) (۳۸) ” ایمان در حقیقت وی ایمان ہے جو خدا کے رسول کو شناخت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے.ہاں جو شخص سرسری طور پر رسول کا تابع ہو گیا.اور اس کو شناخت نہیں کیا.اور اس کے انوار سے مطلع نہیں ہوا اور اس کا ایمان بھی کچھ چیز نہیں اور آخر وہ ضرور مرتد ہو گا.جیسا کہ مسیلمہ کذاب اور عبداللہ بن ابی سرح اور عبید اللہ بنشیں آنحضرت ا کے زمانہ میں.اور پورا اسکریو ملی اور پانو اور عیسائی مرد حضرت علی کے زمانہ میں.اور جموں والا چراغ دین اور عبدالعلیم خان ہمارے اس زمانہ میں مرتد ہوئے.(حقیقت الوی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۳) (۳۹) سخت عذاب بغیر ہی قائم ہونے کے آتانی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتا ہے وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا.پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھارہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے.اے نانلو! تلاش تو کرد شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو.“ تجلیات الہٰیہ ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۱،۴۰۰) آٹھویں دلیل.حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے پر یہ ہے کہ قرآن کریم میں نبیوں کے.
۵۲۹ متعلق جو انعامات بتاتے ہیں.ان سب سے آپ نے حصہ وافرلیا.اور وہ سب حالات جو نبیوں کے متعلق قرآن کریم نے بتائے ہیں وہ بھی آپ کے متعلق پورے ہوئے ہیں وہ باتیں جو اللہ تعالی نبیوں کے متعلق فرماتا ہے جب سب کی سب آپ میں پائی جاتی ہیں تو کس طرح ہم آپ کوئی نہ کہیں.مثال کے طور پر چند آیات قرآنیہ زیل میں درج کی جاتی ہیں.(1)وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪ (البقره: ۲۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو بھی یہ معجزه دیا گیا.(2)اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرً.(البقرة ۱۲۰) آپ بھی حق لے کر اور بیرونذر ہو کر آئے آپ کو اپنی جماعت کے حق میں بڑی بڑی عظیم الشان بشارتیں دی گئیں.اور مخالفین کے حق میں بڑی بڑی انذاری پیشگوئیاں کی گئیں.(۳)تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ (البقرہ:۲۵۴) آپ میں یہ سب خصوصیات موجود ہیں.(۴)وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ(ال عمران ۸۲) یہ وصیت آنحضرت کی بابت کی گئی تھی.آپ کے متعلق بھی آنحضرت نے وصیت فرمائی کہ اسےمیری طرف سے سلام کہنا اور فرمایا.کیف انتم اذا انزل فیكم ابن مريم و امامكم منكم (۵)لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(ال عمران:۱۶۵) یہ سارے کام بھی آپ نے کئے.اور آپ ایسے وقت میں آئے جب کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جا چکا تھا.اور ایمان ثریا پر جا چکا تھا.(6)رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ
۵۳۰ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ( النساء : ۱۶۶) آپ ایسے زمانہ میں آئے جبکہ اگر نہ بھیجے جاتے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق لوگوں کو اعتراض کاحق تھا.(7) یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ٘-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(المائدہ ۲۰) (۸) قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(الانعام۱۲) آپ کے منکرین و مخالفین پر بھی اسی طرح تباہیاں ہیں.(۹) قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةًؕ-قُلِ اللّٰهُ- شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ(الانعام۲۰) آپ کی صداقت بھی اللہ تعالی نے اپنی طرح طرح کی شہادتوں کے ساتھ ثابت کی.(۱۰) وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(الانعام۲۲) اللہ تعالی نے آپ کو ہر طرح سے کامیابی بخش کر آپ کی صداقت ثابت کی.(۱۱) وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(الانعام۴۳) آپ کی بعثت کے بعد اللہ تعالی نے طرح طرح کےمصاب تحط - زلازل بیماریاں بھیجیں.(۱۲)وما نرسل المرسلین الا مبشرین و منذرین(الانعام۴۹) آپ کو بھی اپنی قوم موافقین و مخالفین کے حق میں بڑی بڑی تبشیری اور انڈاری خبریں دی گئیں.(۱۳) ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ(الانعام۱۳۲) اس زمانہ میں جس قدر عالمیگر تباہیاں دنیا میں آئیں.اگر اس زمانہ میں کسی رسول کا آنانہ تسلیم کیا جائے تواس آیت کی تکذیب لازم آئے گی.(۱۴) وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(الأعراف ۸۸) اس معیار کے رو سے بھی اللہ تعالی نے آپ کی صداقت ثابت کی.اور اپنی نصرت کے نشانوں کے ساتھ ظاہر کردیا کہ وہ کس کے ساتھ ہے.(۱۵) وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(الأعراف ۱۳۱) آپ کے زمانہ میں جس قدر خشک سالی اور تھانےزور آور حملے کئے وہ کچھ محتاج بیاں نہیں.(۱۶) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ(الانفال ۲۵) اس اظہر من الشمس نشان سے کوئی چشم بینا انکار نہیں کرسکتی.
۵۳۱ (۱۷)اولم یروا انا ناتی الأرض ننقصھا من اطرافھا(الرعد ۴۲) اللہ تعالیٰ دن بدن آپ کی جماعت کو بڑھا رہا ہے اورمخالفین کو کم کر رہا ہے.بعض کو سلسلہ حقہ میں داخل کر کے اور بعض کو ہلاک کرکے.(۱۸)وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(بنی اسرائیل ۱۶) اس زمانہ میں جو عذاب آرہے ہیں وہ اس آیت کے ماتحت ولالت کرتے ہیں کہ کوئی رسول آگیا.(۱۹) وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ(طہ ۱۳۵) یہ آیت بھی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ کوئی رسول اس زمانہ میں خدا کی طرف سے آ چکا ہے.(۲۰)وما اھلکنا من قریہ الا لھا منذرون(الشعرا۲۰۹) (۲۱)فوھب لی ربی حکما و جعلنی من المرسلین(الشعرا ۲۲) آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالی نے حکم اور مرسل بناکر بھیجا ہے.(۲۲) وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(الفرقان ۲۸) آپ کو بھی اللہ تعالی نے یہ آیت الہام فرمائی.(۲۳) وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۚ-وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ(القصص۶۰) عام عذاب اور تباہی آتی ہی نہیں جب تک کوئی رسول نہ آجائے.اس زمانہ میں جیسی عالمگیر تباہی طرح طرح سے آئی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں.اس جگہ کوئی شخص یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ ندرےہ کے وقت کونارسول آیا واقا فلاں تبانی کے وقت کونا نی آیا تھا کیونکہ آنحضرت كل عالم کے لئے نی ہیں.اس لئے آپ کی اقلیت میں جو نبی آئے گا ضرور ہے کہ وہ بھی تمام عالم کی طرف آئے.پس اس کی تکذیب و مخالفت پر تبانی بھی عالمگیری آنی ضروری ہے.مگر آنحضرت کے بعد عالمگیر تباہی صرف مسیح موعود کے وقت میں آئی.(۲۴) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرً(الأحزاب ۴۶،۴۷) یہ سب باتیں آپ میں موجود ہیں.(۲۵)وما ارسلنک الا کافة للناس بشیرا و نذیرا(سبا۲۹) یہ خصوصیت بھی آپ میں موجود ہے.(۲۶) اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ(المؤمن ۵۲) اللہ تعالی نے بڑے زور سے آپ کی تائید فرمائی.جیسا کہ پہلے سے آپ کو خبر دی گئی تھی کہ ” دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدااے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(۲۷) هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ(الفتح ۲۹) اس آیت میں مسیح موعود کی بابت پیار کی ہے اورسولہ سے آپ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس پر اکثر مفسرین کا بھی اتفاق ہے.پھر یہ آیت آپ پر بھی الا نازل ہوئی.اور آپ کا دعوی ہے کہ میں اس کامصداق ہوں.اور خدا تعالی نے اسی زمانہ میں آپکے ہاتھ سے ہی حسب وعدہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ بخشا.(۲۸) وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ(الحاقہ ۴۵،۴۷) اس آیت کو بھی آپ نے اپنے اوپر چسپاں کیا ہے.(۲۹)و انھم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اللہ أحدا(الجن ۸) اس زمانہ میں بھی لوگوں نے میری سمجھا ہو اتھا.(۳۰) عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا(26)اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(الجن ۲۶،۲۷) (۳۱) وَ اِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗۚ-وَ اِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْؕ(المأمن ۲۹) اس آیت کے دونوں پہلو آپ کی صداقت کو روزروشن کی طرح ثابت کر رہے ہیں.اگر آپ کا دعوی نعوذ باللہ جھوٹا ہوتاتو مطابق آیت فعلیہ کذبہ کے صادقوں والی عمر نہ پا سکتے.اور آپ کی پیشگوئیوں کی صداقت ثابت نہ ہوتی.لیکن الله تعالی نے آپ کو دعوئے الہام کے بعد تئیس برس سے ڈیڑھ چند سے بھی زیاره رعرصہ عمر دی.اور آپ کی پیشگوئیوں کو موافقوں اور مخالفوں پر پورا کر کے آپ کی صداقت ثابت کردی.(۳۲) قالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍۚ-وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(طہ ۶۲) اس آیت میں اللہ تعالی پر افتراء کرنے والوں کے دونشان بتائے گئے ہیں.ایک یہ کہ ان کی بیخ کنی کی جاتی ہے.دوم یہ کہ انہیں ناکام رکھا جاتا ہے ان دونوںمعیاروں کی رو سے آپ کی صداقت ثابت ہے.
۵۳۲
نویں دلیل آپ کی نبوت پر یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں حضرت مسیح موعودنے لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ شرط نہیں کہ وہ جدید شریعت لائے یا یہ کہ پہلے نبی کا متبع نہ ہو.اورجب آپ نے نبوت کے متعلق انکار کیا ہے تو یہی کہاہے کہ میں شریعت جدیدہ نہیں لایا.اور نہ میں نے براہ راست نبوت پائی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نبوت کے مدعی تھے کیونکہ آپ نے ان چیزوں سے انکار نہیں کیا جو نبوت کے لئے شرط ہیں.دسویں دلیل.جب کبھی حضرت مسیح موعود پر اعتراض ہواکہ آپ نبوت کے مد عی ہیں تو اس کا جواب آپ نے یہ نہیں دیا.کہ میں نبی نہیں ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نبی تھے.ورنہ معترضین کے جواب میں یہ کہہ دینا آسان تھا کہ میں تو نبی نہیں ہوں مگر ۱۹۰۱ء کے بعد جب جواب دیا ہے یہی دیا ہے کہ میں ایسانبی نہیں ہوں جو شریعت لائے یا بلا واسطہ نبوت پائے ورنہ آسان بات تھی آپ صاف جواب دے دیتے کہ میں نبی نہیں ہوں.مگر آپ نے ایسا بھی نہیں کیا.گیارہویں دلیل.حضرت مسیح موعود کے دعوے کے متعلق جب ایک شخص سے سوال ہوا کہ کیا وہ دعوائے نبوت کرتے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں ایسا کوئی دعویٰ نہیں اس پر حضرت مسیح موعود نے ایک غلطی کا ازالہ نامی ایک اشتہار شائع کیا.اور اس شخص کو ڈانٹا.اور اپنی نبوت کا اعلان کیا.اگر آپ ویسے ہی نبی ہوتے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ صرف آپ کا نام نبی رکھا گیا ہے تو آپ نے غلطی کا ازالہ اشتہار کیوں شائع کیا.معترض نے تو یہ اعتراض کیا تھا کہ کیا ان کا دعویٰ نبی ہونے کا ہے اور مجیب نے جواب میں کہا کہ نہیں ایسا کوئی دعویٰ نہیں اگر حضرت مسیح موعودکا ایسا کو ئی دعویٰ نہ تھا اور آپ کی نبی نہ تھے تو اشتہار کیوں دیا.دعویٰ تو وہ کہلاتا ہے جس میں انسان کسی درجہ پانے کا مد عی ہو تا ہے نہ کہ نام دعویٰ کہلاتا ہے مثلاً ایک شخص کا نام کمال الدین ہو اور اس سے کوئی شخص یہ سوال کرے کہ کیوں صاحب کیا آپ نے دین کے کمال ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ اس کے جواب میں یہ کبھی نہ کہے گا کہ ہاں میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کیونکہ نام پانادعویٰ نہیں کہلا تا.اور اس کا دین کا کمال ہونے کے دعوی ٰکے انکار سے اس پر جھوٹ کا الزام نہ آئے گا.اسی طرح مثلا ًایک شخص حکیم صاحب کے نام سے مشہور ہو اور کوئی شخص اس سے پوچھے کہ جناب کیا آپ حکیم صاحب ہیں تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ہاں لیکن اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ حکیم ہونے کا دعوی ٰکرتے ہیں تو اس کا جواب وہ یہ دے گا کہ نہیں مجھے حکیم ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں اور یہی
۵۳۵.جواب درست ہو گا.اسی طرح جب ایک احمدی سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا تمہارے پیر نے دعویٰ نبوت کیا ہے تو اگر حضرت مسیح موعود واقع میں نبی نہ ہوتے بلکہ صرف نام پایا ہو تا تو اس احمدی کا انکار بالکل درست اور راست تھا.لیکن حضرت مسیح موعود اس پر ایک اشتہار شائع کرتے ہیں کہ یہ اس کی غلطی تھی جس سے صاف ثابت ہے کہ آپ کو دعوائے نبوت تھا.اور آپ نبی تھے.بارھویں دلیل.حضرت مسیح موعود حقيقۃ الوحی کے صفحہ ۱۵۴ پر فرماتے ہیں.’’ بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرتﷺ کے افاضئہ رو حانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا " اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود کو صرف نام نبی نہیں دیا گیا تھا بلکہ آپ واقع میں نبی تھے کیونکہ آپ فرماتے ہیں \" مجھے نبوت کے ؎۵۹ مقام تک پہنچایا‘‘ اگر آپ نبی نہ ہوتے تو یہ نہ فرماتے کہ نبوت کے مقام تک مجھے پہنچایا.بلکہ یہ فرماتے کہ گو فیضان نبوت تو اب بند ہو چکا تھا اور میں نبی نہ ہو سکتا تھا لیکن اللہ تعالی ٰنے مجھے نبی نام دے دیا.لیکن آپ اس کی بجائے یہ فرماتے ہیں کہ مقام نبوت تک پہنچایا.بعض لوگ جو حضرت صاحب کے نبی ہونے کو ایسا ہی قرار دیتے ہیں جیسے آدمی کو شیر کہہ دیناوہ اس کا جواب دیں کہ جس آدمی کو شیر کہتے ہیں کیا اس میں شیر کی سب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اگر نہیں تو جبکہ حضرت مسیح موعود صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ نبوت کے مقام تک مجھے پہنچایا.اس کا یہ مطلب کیو نکر لیا جاسکتاہے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ نام رکھ دیا گیا تھا.نبوت کا منصب بھی جب آپ کو دیا گیا.اور نبی نام بھی ہو گیا.تو آپ کے نبی ہونے میں کیا کسر باقی رہ گئی.تیرھویں دلیل مذکورہ بالا حوالہ سے ہی حضرت مسیح موعود کی نبوت کا ایک اور بھی ثبوت ملتا ہے اور وہ یہ کہ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کا فیضان ثابت کرنے کے لئے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ہے، اب اگر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کا نام نبی رکھ دیا گیا ہے تو اس سے افاضہ کا کیا ثبوت ملا آنحضرت ﷺ کا افاضہ تو تب ثابت ہوتا ہے جب نبوت ملے نہ کہ کسی کا نام نبی رکھ دینے سے آپ کا فیضان ثابت ہو جا تا ہے.ایک استاد کا فیضان یہ ہو تاہے کہ وہ اپنے شاگرد کو لائق بنائے نہ یہ کہ اس کے شاگرد کا نام لائق رکھ دیا جائے کالجوں کے پروفیسروں کی لیاقت اس طرح ثابت ہؤا کرتی ہے کہ ان کے شاگر دبی اے یا ایم اے میں واقعی طور پر کامیاب ہو جائیں یا اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ ان کے انٹرنس پاس طالب علم کا نام بی اے یا ایم اے رکھ دیا جائے اس قسم کا افاضہ تو بچوں میں ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ بن جاتا ہے اور کسی کو پھانسی ؎ حاشیہ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۲.
۴۳۶ کا حکم دے دیتا ہے اور کسی کو وزیر بنادیتا ہے اور کسی کو کمانڈر مقرر کر دیتا ہے اور کسی کو امیرالامراء بنادیتا ہے مگر یہ سب نام ہی نام ہوتے ہیں اس کے اندر حقیقت کوئی نہیں ہوتی.اور ان کی اس کارروائی سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس معنوی بادشاہ میں بڑی طاقت ہے کہ جو چاہتا ہے کرتاہے بلکہ اس کی حقیقت ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہوتی.پس آنحضرت ﷺ کی قوت افاضہ اس بات سے ثابت نہیں ہو جاتی کہ آپ کی امت میں سے ایک شخص کا نام نبی رکھ دیا جائے کیونکہ اس کا افاضہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں نام تو خداتعالی ٰنے رکھا ہے آنحضرت ﷺکے افاضہ کا اس سے کا ثبوت ملا؟ آپ کے افاضہ کا ثبوت تب ملے کہ آپ کی اتباع میں واقعی کوئی شخص نبی بن جائے اور آپؐ کی شاگردی اس کے قلب کے اند رایسی طہارت اور صفائی پیدا کردے کہ اس کا دل مصفّٰی آئینہ کی طرح ہو جائے ورنہ نام رکھنے سے کچھ نہیں بنتا.ایک مصور کا کمال اس طرح ثابت ہوتاہے کہ اس کی تصویر واقعہ میں اعلیٰ درجہ کی ہو یا اس طرح کہ اس کی کسی تصویر کی لوگ تعریف شروع کر دیں ؟ اگر وہ واقع میں اعلیٰ تصویر نہیں تو اس کے ہنر کا کوئی ثبوت نہیں اسی طرح آنحضرت ﷺکے کسی شاگرد کا نام نبی رکھنے سے آپ ؐکے افاضہ کا کمال ہرگز ثابت نہیں ہوتا، آپ ؐکے افاضہ کا کمال اسی طرح ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی شاگردی میں واقع میں کوئی شخص نبیوں کے کمالات حاصل کرے.اگر واقع میں کوئی شخص نبیوں کے مقام تک آپ ﷺ کی اتباع سے نہیں پہنچ سکتا تو صرف کسی کا نام بھی رکھ دینے سے آپؐ کے افاضہ کا کمال ثابت نہیں ہو سکتا.غرض کہ حضرت مسیح موعود کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ کے افاضہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مقام نبوت پر پہنچایاثا بت کرتا ہے کہ آپؐ کو واقع میں نبی بنا دیا گیا.ورنہ کسی اور معنے کے روسے آنحضرت اﷺکے افاضہ کا کمال ثابت نہیں ہوتا.چودھویں دلیل حضرت مسیح موعود حقيقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:.’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہےاور خدائے بزرگ مقر بین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جز ئی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلوسے نبی اور ایک پہلوسے امتی (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳-۱۵۴) اس عبارت سے یہ نتائج نکلتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ کسی زمانہ میں مسیح سے اپنے آپ کو افضل
۵۳۷ نہ قرار دیتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اسے نبی سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو غیرنبی.اس لئے اس پر اپنے آپ کو فضیلت نہ دیتے تھے.دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ نے اپنی وحی میں نبی کے صریح لفظ کو دیکھ کر آخر کار اس عقیدہ کو بدل دیا اور مسیح پر اپنے افضل ہونے کا اعلان کیا.ان دونوں نتیجوں کو ملائیں تو تیسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ واقع میں نبی تھے نہ کہ آپ کا نام نبی تھا کیونکہ آپ مسیح سے افضل ہیں اور غیرنبی نبی پر من كل الوجوه افضل نہیں ہو سکتاپ آپ فی الواقع نبی ہیں ورنہ نبی نام پانے سے کوئی شخص نبی سے افضل نہیں ہو سکتا جس کا ثبوت یہ ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعود حضرت مسیح ناصری سے اپنے آپ کو افضل نہیں قرار دیتے تھے اس وقت بھی نبی کے نام پانے کے مدعی تھے کیونکہ ایسے افضل نہ ہونے کا عقیدہ تریاق القلوب میں بھی درج ہے جو ۱۸۹۹ء کی تصنیف ہے اور جزوی نبی ہونے کا یانبی نام پانے کا دعویٰ توضیح مرام میں بھی موجود ہے جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی جس سے ثابت ہوا کہ صرف نام پانے والایا جزوی نبی بھی اسی نبی سے افضل نہیں ہو سکتا.اور جو شخص کی نبی سے افضل ہوگا وہ ضرور نبی ہو گا اور چونکہ حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل کہا ہے اس لئے آپ واقع میں نبی تھے نہ کہ آپ کا نام اسی طرح نبی رکھ دیا گیا تھا جس طرح آدمی کو شیر کہہ دیتے ہیں.پندرھویں دلیل حضرت مسیح موعوداپنی کتاب نزول المسیح کے صفحہ ۶ حاشیہ پر تحریر فرماتےہیں ’’دونوں سالوں کا تقابل پورا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی شان نبوت کے ساتھ آوے تااس نبوت عالیہ کی کسرشان نہ ہو اس لئے خدا تعالی ٰنے میرے وجود کو ایک کامل ظلّیّت کے ساتھ پیدا کیا اور ظلّی طور پر نبوت محمدی اس میں رکھ دی تاایک معنی سے مجھ پر نبی اللہ کا لفظ صادق آوے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے.\" (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۸۲) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک سلسلہ محمدیہ الله موسویہ کا مقابلہ تبھی کر سکتا تھا کہ جس طرح اس کا آخری خلیفہ نبی تھا.اس کا آخری خلیفہ بھی نبی ہو.اور اگر ایسانہ ہو تو سلسلہ محمدیہؐ کی کسر شان ہے اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسی نقص کو دور کرنے کیلئے اللہ تعالی ٰنے آپ کو نبی بنایا.اس حوالہ پر غور کرو یہ بھی حضرت مسیح موعود کی نبوت پر ایک روشن دلیل ہے کیونکہ اگر یہی مانا جائے جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے بلکہ آپ محدث تھے اور نبی آپ کا نام صرف جزوی کمالات کی وجہ سے رکھ دیا گیا تھا تومذ کوره.
۵۳۸ بالادلیل جو حضرت مسیح موعود نے دی ہے باطل ہو جاتی ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ محمدی سلسلہ کام سے بھی موسوی سلسلہ کے مسیح کی طرح شان نبوت کے ساتھ آنا چاہئے تھا تا نبوت محمدیہ کی کسر شان نہ ہو.اب اگر اس سے مراد صرف نام ہے درجہ نبوت نہیں تو نام سے کام نہیں چل سکتا.کیا محمدیؐ سلسلہ کے آخری خلیفہ کا نام نبی رکھ دینے سے وہ مسیح کے برابر ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے محمدی سلسلہ کی شان نقص سے پاک ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.جبکہ محمدیؐ مسیح غیرنبی کا غیرنبی ہی رہا تو اس کا نام نبی رکھ دینے سے وہ محدث کی بجائے نبی کس طرح بن سکتا ہے.اور محمدیؐ سلسلہ موسوی سلسلہ کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہے ؟ اس طرح نام بدل بدل کر تو عزت کبھی قائم نہیں رہ سکتی اور یہ تو آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے کہ آپ اپنی عزت اس طرح قائم کرتے ہیں کہ اپنے امتیوں کا نام نبی رکھ دیتے ہیں تا موسوی سلسلہ سے مشابہت ہو جائے.حضرت خلیفت المسیح الاولؓ اپنے درسوں میں ایسے ہی موقع کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ صرف نام سے برابر ہو نا چاہتے ہیں.اور ایک واقعہ سناتے تھے کہ ہمارے ضلع میں ایک عورت نے اپنے بیٹے کا نام خان بہادر رکھامیں نے اس سے دریافت کیا کہ تو نے یہ نام کیوں رکھا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہمارے خاندان کے کئی آدمیوں کو گورنمنٹ نے خان بہادر کا خطاب دیا ہے ہم غریب لوگ ہیں خیر ہے ہمارے بیٹے کو یہ خطاب مل سکے گا یا نہیں وہ اس لائق ہو گا یا نہیں، اس لئے میں نے اپنے شریکوں کی برابری کرنے کے اس کا نام ہی خان بہادر رکھ دیا ہے.اب گورنمنٹ خطاب دے یانہ دے لوگ تو اسے خان بہادر ہی کہہ کر پکارا کریں گے.لیکن کیا اس سے وہ عورت اور اس کا لڑکا واقع میں ان امراء کے برابر ہو گئے.اور کیا نام بدلنے سے ان کی حیثیت بھی بدل گئی ؟ اگر نہیں تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود نبی نہیں اتنا تو خیال کریں کہ اس خیال سے آنحضرت ﷺ کی کس قدر ہتک ہوتی ہے.مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اگر مسیح محمدی شان نبوت سے نہ آتاتومحمدی سلسلہ کی کسر شان تھی لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمدی مسیح واقع میں نبی نہ تھا بلکہ غیر نبی محدث کو بعض مشابہتوں کی وجہ سے نبی کا نام دے دیا گیا تھا.اب بتاؤ کہ اس خیال سے آنحضرت ﷺکی کسرشان ہوتی ہے یا نہیں.کیا یہ معاملہ خان بہادر والے معاملہ کے مشابہ نہیں بن جاتا؟ پھر کیوں اس عقیدہ کے پیچھے پڑے ہو جس سے آنحضرت اﷺکی ہتک ہوتی ہے توبہ کرو تو بہ.تااللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں نہ پڑ جاز – خوب یاد رکھو کہ محمدی سلسلہ کی شان اسی صورت میں قائم رہتی ہے کہ اس کا آخری خلیفہ بھی نبی ہو اور سچانبی ہو نہ کہ ایمائی کسی کا نام نبی رکھ دیا جائے اور وہ صرف ایک محدث ہی ہو.مسیح موعود کے نبی
۵۳۹ ہونے کے بغیر آنحضرت ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اور اسے ایک محدث قرار دیتے ہیں جس نے نبی کا نام پا لیا ہے محمدی سلسلہ کی کسر شان ہے اور الله تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے اور مسیح موعود کو محدث ثابت کرنے کے لئے آنحضرت ﷺکی کسرِشان کر تاہے.اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ براہ راست نبوت پانے سے نبی کا درجہ بلند نہیں ہو جاتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ محمدیؐ سلسلہ کی عظمت اس طرح قائم ہو جاتی ہے کہ اس کے آخر میں بھی ایک نبی ہو پس اگر براہ راست نبوت پانے والاہی نبی ہو تا ہے یا بڑادرجہ رکھتا ہے.تو ایک امتی نبی کے بھیج دینے سے وہ نقص دور نہ ہو سکتا تھا جس کے دور کرنے کے لئے وہ بھیجا گیا اور چونکہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک ایک امتی نبی کے آنے سے کسرشان کا خطرہ جاتا رہا.اس سے معلوم ہواکہ امتی نبی ہو تادر جہ کو کم نہیں کردیتا.شاید کوئی شخص اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اگر آخری خلیفہ کے نبی نہ ہونے سےمحمدی سلسلہ کی کسر شان ہوتی تھی تو کیوں درمیانی خلفاء کے نبی نہ ہونے سے محمدی سلسلہ کی ہتک نہیں ہوتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض مسیح موعود پر ہے نہ مجھ پر آپ ایسا فرماتے ہیں.میں نے یہ بات اپنی طرف سے تو نہیں بتائی.لیکن اعتراض کو قبول کر کے میں اس کا جواب دیتا ہوں کہ جب کسی شئے کا اول اور آخر مل جائے تو وہ برابر ہو جاتی ہے اور درمیانی حصہ کا مقابلہ کرنا ضروری نہیں ہوتا.دوم یہ کہ موسوی سلسلہ کے نبی حضرت موسی ٰکے فیضان سے نبی نہ بنےتھے لیکن محمدیؐ سلسلہ کا خلیفہ آنحضرتﷺ کے فیضان سے نبی بنا ہے.اور یہ ایک ایسی عظمت ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ نہیں کر سکتے ہیں.اس ایک نظیر نے محمدی سلسلہ کو موسوی سلسلہ پر وہ فضیلت دے دی کہ اب اس پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا.کیونکہ آنحضرت اﷺکا درجہ استادی ثابت ہو گیا.اور موسوی سلسلہ پر محمدی سلسلہ کی فضیلت ثابت ہو گئی اور اسی کا ثابت کرنامد نظر تھا.(۱۶) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وما كنا معذبين حتی نبعث رسولا(بنی اسرائیل :1۶) ہم اس وقت تک عذاب نازل نہیں کیا کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۚ-وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ (القصص:۶۰) یعنی تیرا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک کہ اس علاقہ کے اس مقام میں جو اس کا مرکز ہونے کی اہلیت رکھتا ہے کوئی رسول مبعوث نہ کردے.جو ان لوگوں پر ہماری آیات پڑھ کر سنائے.اور نہ ہم ہلاک -
۵۴۰ کرنے والے تھے بستیوں کو.مگر اس صورت میں کہ اس کے باشندے ظالم ہو جائیں.ان دونوں آیات سے ثابت ہے کہ اس وقت تک کوئی عام عذاب الہٰی نہیں آتا.جب تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی رسول مبعوث نہ ہو.لیکن اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی تباہیاں اور عذاب آرہے ہیں کہ اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اس وقت کوئی رسول دنیا میں مبعوث ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود ؑنے چونکہ اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے اس لئے آپ کی رسالت کے ماننے کے بغیر کوئی چارہ نہیں.(۱۷) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:." ہمارا نبی اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے.حالانکہ وہ امتی ہے.\" (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۵۵) یہ عبارت بھی حضرت مسیح موعود کی نبوت پر شاہد ہے، کیونکہ حضرت مسیح موعود آنحضرتﷺ کی بلند شان کا یہ ثبوت دیتے ہیں کہ آپ کی امت کا ایک شخص نبی ہو سکتا ہے.لیکن اگر یہ تعلیم کیا جائے کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا.تو پھر یہ فضیلت ایک بناوٹی فضیلت ٹھہرتی ہے.کیونکہ جو چیز ہے ہی نہیں اسے فرض کر کےفضیلت ثابت نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود کے قول سے تو صاف ثابت ہے کہ اس امت میں سے نبی ہو سکتا ہے کیونکہ آپ اس بات کو آنحضرت ﷺ کی فضیلت قرار دیتے ہیں.پس اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس امت میں نبی آ ہی نہیں سکتا تو حضرت مسیح موعود کی یہ دلیل غلط جاتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی جناب سے جو فیضان جاری ہی نہیں.اس کی بناء پر آپ کی فضیلت ثابت کرنی درست نہیں لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود اسے فضیلت آنحضرت ﷺبتاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد نبی آسکتا ہے.اور جب نبی کا آنا منع نہ ہوا تو مسیح موعود کی نبوت ثابت ہے.۱۸- اب میں ایک زبردست دلیل دیتا ہوں.جس سے روز روشن کی طرح ثابت ہو جا تا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایسانبی جو فی الواقعہ نبی ہو، آسکتا ہے.جو اپنے درجہ میں نبیوں میں شامل ہو گا نہ کہ محدثوں میں.اور یہ کہ حضرت مسیح موعود ایسے ہی نبی ہیں.حضرت مسیح موعود محد ثیت کی نسبت 3 فروری ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں لکھتے ہیں.اس لفظ نبی سے مراد نبوت، حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف محدث مراد ہے جس کے معنے آنحضرت ﷺ نے مکلم مراد لئے ہیں.یعنی محد ثوں کی نسبت فرمایا ہے.عن أبى هريرة رضى ”
۴۱ ۵ ( الله تعالى عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم قد كان فيمن قبلكم من بني اسرائيل رجال يكلمون من غیر ان يكونونبيا فان یک فی امتی منھم احد فعمر (صحیح بخاری کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب ؓ ، )تو پھر مجھے اپنے مسلمان بھائیوں کی دلجوئی کے لئے اس لفظ کو دوسرے پیرایہ میں بیان کرنے سے کیا عذر ہو سکتا ہے سو دو سرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کا ٹا ہو اخیال فرمالیں.\" (ماخوذ از اشتہار حضرت مسیح مو مرز ۳/ فروری ۱۸۹۲ء) اس عبارت سے مفصلہ ذیل نتائج نکلتے ہیں.(1) یہ کہ محدث نبی نہیں ہوتا بلکہ کسی مشابہت کی وجہ سے اس کا نام نبی رکھ دیا جاتاہے.(۲) یہ کہ محدث سے صرف مکلم مراد ہے یعنی جس سے خدا تعالیٰ کاکلام ہو تا ہو نہ کہ نبی.(۳) یہ کہ ایسے محدث بنی اسرائیل میں بہت گزرے ہیں.(3) یہ کہ اس امت میں سے بھی ایسے محدثوں کے ہونے کی امید ہے.(۵) یہ کہ حضرت مسیح موعود نے جہاں جزوی نبی کا لفظ اپنی کتابوں میں لکھا تھا اس سے مراد صرف محدث تھا اور لوگوں کو چاہئے کہ اسے کاٹ کر محد ث ہی لکھ دیں.یہ وہ نتائج ہیں جو حضرت مسیح موعود کی مذ کور ہ بالا تحریر سے نکلتے ہیں.اور نہ صرف یہ کہ آپ کی تحریر سے نکلتے ہیں.بلکہ صحیح بخاری کی حدیث سے آپ ان کی صحت پر دلیل لاتے ہیں.اور اس طرح اس قول کو اور بھی مضبوط کردیتے ہیں.اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جن کو الہام تو ہوا کرتا تھا لیکن وہ نبی نہ تھے.پس اگر میری امت میں سے ایسے آدمی ہوئے تو عمر ؓضرور ہوں گے.غرض کہ اس حوالہ سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل میں محدث بہت سے گزرے ہیں.اب میں ایک اور حوالہ حضرت مسیح موعود کا نقل کر تا ہوں.آپ ختم نبوت کی تشریح میں فرماتے ہیں:." وہ خاتم الانبیاء بنے.مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا.اورؔ اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجُزاُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے.“ (حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰-۲۹)
۵۴۲ اس حوالہ سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں.(1) یہ کہ آنحضرتﷺ کے خاتم النبین ہونے کے یہ معنے نہیں کہ آپؐ کے بعد فیض روحانی بند ہے.بلکہ یہ معنے ہیں.کہ آپ کے بعد ایسافیضان جاری ہے.(۲) یہ کہ آپ کے فیضان سے ایک ایسی نبوت ملتی ہے جو پہلے کسی نبی کی اطاعت سے نہیں ملتی تھی.اور اس نبوت کا پانے والا امتی ہی کہلاتا ہے.اب پہلے حوالہ اور اس حوالہ کو ملا کر دیکھو کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے.پہلے حوالہ میں فرماتے ہیں.کہ محد ث جسے جزوی نبی بھی کہہ سکتے ہیں.پہلی امتوں میں ہوتے رہے ہیں.اور اس حوالہ میں فرماتے ہیں کہ امتی نبی و درجہ ہے جو پہلے نبیوں کی اتباع سے نہیں ملا کر تاتھا.اور ان کا درجہ ایسا بڑانہ تھا کہ ان کی اتبا ع سے کوئی فردان کی امت کا نبی بن جائے.پس ان حوالوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی امتوں میں محدث یا جزوی نبی تو ہوتے تھے.لیکن پہلے نبیوں میں اس قدر طاقت نہ تھی کہ ان کے فیضان سے امتی نبی ہو سکے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں صرف محدثیت ہی جاری نہیں.بلکہ اس سے اوپر نبوت کا سلسلہ بھی جاری ہے.کیونکہ محدث یا جزوی نبی کا درجہ تو وہ ہے جو پہلی امتوں کے بعض افراد کو بھی مل جایا کرتا تھا لیکن امتی نبی کا وہ درجہ ہے جو پہلے رسولوں کی اتباع سے نہیں مل سکتا تھا.کیونکہ وہ خاتم النبّين نہ تھے.اور جزوی نبی کے اوپر کا درجہ سوائے نبی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا.کیونکہ جزو کے بعد کل ہی ہو تا ہے.پس یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے.مگر نبوت صرف آپ کے فیضان سے مل سکتا ہے.براہ راست نہیں مل سکتی.اور پہلے زمانہ میں نبوت براہ راست مل سکتی تھی.کسی نبی کی اتباع سے نہیں مل سکتی تھی.کیونکہ وہ اس قدر صاحب کمال نہ تھے جیسے آنحضرت ﷺ.اور جبکہ نبوت کا دروازہ علاوہ محد ثیت کے امت محمدیہ میں کھلا ثابت ہو گیا.تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مسیح موعود بھی نبی اللہ تھے.نہ یہ کہ آپ کا اصل درجہ تو محدث ہونے کا تھا.نبی کا خطاب بعض مشابہتوں کی وجہ سے دے دیا گیا.کیونکہ آپ کو خود رسول اللہ اﷺنے نبی کہا ہے.اگر کوئی شخص کہے کہ یہ بات آپ نے کہاں سے نکال لیا.کہ محد ث پہلے نبیوں کی اتباع سے ہوسکتے تھے؟ حدیث میں تو یہ ہے کہ ایسے لوگ بنی اسرائیل میں ہوا کرتے تھے.یہ تو نہیں فرمایا کہ وہ امتی بھی ہوا کرتے تھے.پس تم ان دونوں حوالوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رسول الله
۵۴۳ ﷺکے زمانہ سے پہلے تو محدث بھی براہ راست ہوا کرتے تھے.لیکن آپ کی امت میں محدث آپ کے واسطہ سے ہونے لگے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ بات تو آپ نے اپنے پاس سے لگالی ہے.حضرت مسیح موعود نے تو صرف انبیاء کی نسبت لکھا ہے کہ ان کو براہ راست نبوت ملا کرتی تھی.محدثوں کی نسبت کہیں نہیں لکھا کہ ان کو بھی محد ثیت براہ راست ملا کرتی تھی.پس بلا وجہ نئی شرط لگانے کی کوئی وجہ نہیں.یا تو اس دعوے کا ثبوت قرآن کریم سے دینا چاہئے یا حدیث سے یا پھر مسیح موعود کے کلام سے لیکن تینوں جگہ اس ثبوت کے مہیا کرنے میں ناکامی اور نامرادی ہوگی پس اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ محدث کے علاوہ اس سے بڑھ کر ایک اور نبوت ہے جو پہلے نبیوں کے فیض سے نہیں مل سکتی تھی.صرف نبی کریم ﷺکے فیض سے مل سکتی ہے حالانکہ محد ثیت پہلی امتوں کو بھی مل جاتی تھی.اور اب بھی مل جاتی ہے.لیکن وہ نبوت پہلی امتوں کو نہیں ملتی تھی اب مل جاتی ہے.اور محد ثبت چونکہ جزوی نبوت کا نام ہے اس لئے وہ نبوت سواۓ نبیوں والی نبوت کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی.اور جبکہ نبوت کا دروازہ کھلا پڑا، تو مسیح موعود سے رسول الله ﷺنے بھی نبی کہا ہے اور خدا تعالی ٰنے بھی تو اس کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں رہا.علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود اس نبوت کے لئے جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے مل سکتی ہے.نہ کہ کسی اور نبی کی اتباع سے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس کے لئے امتی ہونا ضروری ہے.پس اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ پہلے محدث بغیر فیضان انبیائے سابقین کے محدث بن جاتے تھے تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ وہ امتی نہ ہوتے تھے.کیونکہ امتی کے یہ معنے ہیں کہ وہ جو کچھ پائے اپنے نبی کے فیضان سے پائے اور جس شخص نے نبوت کی طرح محد ثیت بلا اتباع کا پرانے نبی کے حاصل کی.وہ امتی نہیں کہلا سکتا.اور نبی تو وہ ہے ہی نہیں.کیونکہ محدث در حقیقت نبی نہیں ہوتا.بلکہ بعض مشابہتوں کی وجہ سے اسے جزوی نبی کہہ سکتے ہیں.(دیکھو اشتہار۳ فروری ۱۸۹۲ء) پس اس صورت میں مانناپڑے گا.کہ نبی اور امتی کے سوا کوئی اور گروہ بھی ہوتا ہے جو نہ نبی ہو تا ہے نہ امتی.کیونکہ محدث اگر براہ راست محدث بنے تونہ نبی کہلا سکتاہے نہ امتی لیکن اس گروہ کا ہونا محال ہے.ہر ایک گروہ جو اللہ تعالی ٰسے تعلق رکھتا ہے وہ دو حالت سے خالی نہیں یانبی ہے یا امتی: یہ نہیں ہو سکتا کہ نہ نبی ہو اور نہ امتی ہو.گو یہ ہو سکتا ہے کہ نبی بھی ہو اور امتی بھی.کیونکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہے تو نبی.لیکن اس نے دوسرے نبی کے واسطے سے نبوت پائی
۵۴۴ ہے.اور اس کی امت میں سے ہے.اور یہ بات محال نہیں ہے.پس محد ثیت کی نسبت یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ وہ براہ راست مل سکتی ہے.اور بہرحال ماننا پڑے گا کہ پہلے نبیوں کی امت میں محدث یعنی جزوی نبی ہوتے تھے اور اسلام میں بھی محدث یعنی جزوی نبی ہوتے ہیں.لیکن پہلے نبیوں کے فیض سے نبوت نہیں مل سکتی تھی.اور آنحضرت اﷺکے فیض سے نبوت مل سکتی ہے اور جب نبوت مل سکتی ہے تو مسیح موعود ہو ئے نہ کہ محدث.(۱۹) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ( واخرین منھم لما یلحقوا بھم) ’’ یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جاوے.جو آنحضرت ﷺکے بعد پیدا ہونے والے تھے.جنہوں نے آنحضرت اﷺکو نہیں دیکھا.آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا اخرين من الأمة اللہ نے فرمایا واخرين منھم اور ہر ایک جانتا ہے کہ منھم کی ضمیراصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف راجع ہے.لہٰذا وہی فرقہ منہم میں داخل ہو سکتا ہے.جس میں ایسارسول موجود ہو.کہ جو آنحضرت ﷺ کا بروز ہے.اور خداتعالی ٰنے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمدؐ اوراحمدؐ رکھا ہے اور آنحضرت اﷺکا بروز مجھے قرار دیا ہے.\"تتمہ حقیقۃ الوحی..روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۲) اس حوالہ کے لئے تو کسی طول طویل تشریح کی ضرورت ہی نہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ واخرين منهم میں ایک گردہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جوصحابہؓ کی مانند ہو گا اور صحابہ کی مانند وہ گروہ ہو نہیں سکتا.جب تک اس میں رسول بھی موجود نہ ہو.پس آپ رسول ہیں.اور ایسے رسول ہیں کہ جیسے رسول پہلے اس امت میں نہیں گزرے.یعنی آپ جزوی نبی یا رسول نہیں ہیں کیونکہ واخرين منهم کی آیت کو تو حضرت مسیح موعود نے اپنے پر چسپاں کیا ہے.بلکہ بعض جگہ صاف الفاظ میں اپنی ہی جماعت کی نسبت اٰ خرین کے لفظ پر حصر کیا ہے.اور اگر آپ سے پہلے بھی کوئی رسول اسی قسم کامانا جائے ہے کہ آپ تھے تو اس کی جماعت بھی داخرين منهم کے ماتحت صحابہ رسول اللہ بن جائے گی.لیکن چونکہ اس امت میں سوائے حضرت مسیح موعود کی جماعت کے کی جماعت کو آخرین نہیں قرار دیا گیا.معلوم ہوا کہ رسول بھی صرف مسیح موعود ہیں اور چونکہ محدثین تو پہلے بہت گزر چکے ہیں.اس لئے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسیح موعود کی رسالت محد ثیت والی نہیں، کیونکہ باوجود محدث ہونے کے پہلے لوگ اس آیت کے مصداق نہ بن سکے جس میں ایک
۵۴۵ رسول کی خبردی گئی تھی.(۲۰) کہاجاتا ہے کہ رسول اللہ اﷺچو نکہ خاتم النبّین ہیں.اس لئے خواہ کسی کو الہامات میں کتنی دفعہ ہی نبی کے نام سے پکارا جائے تب بھی وہ ہی نہیں ہوسکتا.کیونکہ نبوت کا سلسلہ تو بند ہو گیا.اب اگر نام رکھ دیا جائے تو رکھ دیا جائے اورمحدث بوجہ الہام پانے کے جزوی نبی کہلائے تو کہلائے.مگرنی فی الواقع نہیں ہو سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.’’میں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں.جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت ﷺ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے.اور وہ خاتم الانبیاء ہیں، اور میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہو گا.اور میرے عہد پر ہو گا.‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۷۰،۷۱ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۶۹.۷۰) اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود خاتم الاولیاء ہونے کاوعویٰ فرماتے ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک خاتم کے وہی معنی ہیں جن کے ذریعہ سے آئندہ نبیوں کا سلسلہ روکا جاتا ہے.تو خاتم الاولیاء کے یہ معنی کرنے پڑیں گے کہ اب دنیا میں کوئی ولی نہیں ہو سکتا.بلکہ کبھی اگر خداتعالی ٰکسی کا نام ولی رکھ دیا گیا ہے..تو اس سے یہ مطلب نہ ہو گا کہ وہ ولی ہو گیا ہے.بلکہ اس کا مطلب صرف اس قدر ہو گا کہ اس کا نام ولی رکھ دیا گیا ہے.ورنہ وہ ولی نہیں.لیکن اگر یہ معنی نہیں بلکہ یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے بعد کوئی شخص ولی نہیں بن سکتا جب تک آپ کی فرمانبرداری کا جؤ ااپنی گردن پر نہ رکھے.تو خاتم النبین کے معنے بھی یہی ہیں کہ کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا.جب تک آنحضرت ﷺکی غلامی نہ اختیار کرے.ورنہ نبوت کا دروازہ مسدود نہیں.اور جبکہ بابِ نبوت کھلا ہوا ہے تو مسیح موعود بھی ضرور نبی ہے.گو نبوت کے دلائل تو بہت سے ہیں.لیکن اس جگہ اسی قدر پر کفایت کی جاتی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ اگر سب دلائل جمع کئے جائیں تو ایک سو سے زائد دلائل مسیح موعود کی نبوت پر مل سکتے ہیں جنہیں کسی اور موقعہ پر پیش بھی کیا جاسکتا ہے مگر فی الحال اسی قدر کافی ہیں.اور حق پسند انسان کی ہدایت کے لئے اس سے زیادہ کی حاجت نہیں.دلائل نبوت میں میں نے نبی اور رسول دونوں کے حوالے نقل کئے ہیں لیکن ممکن ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ لا يظهر على غيبه والی آیت اور بعض اور دلائل میں رسول کالفظ ہے نہ نبی کا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے خود اس آیت کا مطلب یہ نکالا ہے کہ یہ نبوت
۵۴۶ کی شرط ہے پس جبکہ مسیح موعود نے نبی و رسول میں فرق نہیں کیا.تو کسی احمدی کاحق نہیں کہ فرق کرے.اور اگر کرے بھی تو پھر بھی اسے کچھ فائدہ نہیں.کیونکہ جن لوگوں نے ان دونوں ناموں میں فرق کیا بھی ہے وہ رسالت کے درجہ کو نبوت کے درجہ سے بلند قرار دیتے ہیں.او رکہتے ہیں کہ ہر نبی رسول نہیں.لیکن ہر رسول نبی بھی ہے.پس اگر رسالت سے رسالت ہی مراد لو تب بھی رسالت کے ثابت ہوتے ہی نبوت خود ثابت ہو جائے گی.اس سوال کا جواب کہ کیا مسیح موعود ؑکے سوا کوئی اور نبی بھی اس امت میں گزرا ہے یا نہیں؟ ایک یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ اس امت میں مسیح موعود کے سوا کوئی اور نبی میں گزرا ہے یا نہیں تو اس کا جواب مختصر تو یہ ہے کہ نہیں.اور سب سے پہلے اس بات کے لئے بطور دلیل خود آنحضرت ﷺ کی احادیث کو پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ آنحضرت اﷺنے صرف ایک شخص کا نام نبی رکھا ہے.اور ہماراحق نہیں کہ آپ ؐکے حکم کے سوا اور کسی کا نام نبی رکھ دیں پھر یہی نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے صرف مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے بلکہ یہ بھی فرما دیا ہے کہ لیس بينی وبينه نبی یعنی اس کے اور میرے درمیان کوئی اور نبی نہیں.پس خاتم الانبیاء کی گواہی کے باوجو و ہم کسی کونبی کس طرح کہہ سکتے ہیں.نبی تو وہ شخص ہو سکتا ہے جس کی صداقت پر آنحضرت ﷺ کی مہرہو.اور آپ سے پہلے اس امت کے کسی اور آدمی کی نبوت پر مہر صداقت لگانے سے انکار فرماتے ہیں.پس ہم بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ مسیح موعود سے پہلے اس امت میں کسی اور امتی نبی کے وجود سے انکار کر دیں.دو سری شہادت اس بات کی تائید میں کہ حضرت مسیح موعود سے پہلے کوئی اور ولی بزرگ یا محدث نبی نہیں ہوا.گو بوجہ محد ثیت جزوی نبوت ان لوگوں میں پائی جاتی ہو.خود حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریر یں ہیں.اور مسیح موعوروہ شخص ہے جس کو رسول الله ﷺحکم و عدل بیان فرماتے ہیں.پس اس کا فیصلہ رد کرنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا.آپ فرماتے ہیں:.’’غرض اس حصہ کثیروحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد
۵۴۰ مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکےہیں.ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کیلئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ بشرط ان میں پائی نہیں جاتی (حقيقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۴۰۶.۴۰۷) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے اس امت میں اپنے سے پہلے کسی اور شخص کے نبی ہونے سے قطعی انکار کیا ہے.پس جب مسیح موعود کہتا ہے.کہ امت محمدیہ میں اس وقت تک صرف میں ہی ایک شخص ہوں جونبی کہلانے کا مستحق ہوں تو اب بتاؤکہ جو لوگ ہر بزرگ اور ولی کو نبی بنا رہے ہیں اور اس طرح مسیح موعود کی نبوت کو باطل کرنا چاہتے ہیں ان کا کیا حال ہو گا.اور وہ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے حضرت مسیح موعود ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸حاشیہ فرماتے ہیں کہ:." جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے.اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہرا تا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کیا.ان میں تم نخوت اور خود پسندی اور خوداختیاری پاؤگئے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا.اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.(روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۴) اور پھر کتاب نزول اس میں فرماتے ہیں:.’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدائے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا.اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا.اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جا ؤ.نزول المسیح صفحہ ۲۷ ر و حانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۳) پس ہر ایک مومن پر فرض ہے کہ مسیح موعود کی تحریروں کی قدر کرے.اور ان کو اپنے خیالات کے مطابق بنانے کی بجائے اپنے خیالات ان کے مطابق بنا ئے.اور مسیح موعود ؑکے فیصلہ کورد نہ کرے اور نہ اس کے الفاظ کو الٹ پھیر کر اپنے مطلب سے پھیرے کہ یہ ایک خطرناک گناه ہے.
۵۴۸ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا یہ مطلب ہے کہ احادیث میں چونکہ صرف مسیح کا نام نبی رکھا گیا ہے.اس لئے اس نام سے وہ مخصوص ہے.ورنہ نبی تو سب محدث تھے.لیکن یہ لوگ اس قدر خیال نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود صرف یہی تو نہیں فرماتے کہ میں اس نام سے مخصوص ہوں.تا ہم خیال کر لیں کہ آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کو حدیث میں بھی نبی کر کے پکاراگیا ہے بلکہ آپ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ شرط نبوت پہلے بزرگوں میں پائی نہیں جاتی.اور جب شرط نبوت نہیں پائی جاتی.تو پھروہ نبی کس طرح ہو سکتے ہیں.غرض کہ حضرت مسیح موعود کے الفاظ صاف ہیں، آپ نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو نبی کے نام پانے کا ایک ہی مستحق قرار دیتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ پہلے اولیاء میں دو شرط ہی پائی نہیں جاتی.اس لئے وہ نبی ہوہی نہیں سکتے.اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت محد ثوں والی جزوی نبوت نہ تھی.کیونکہ محد ث تو اس امت میں پہلے بھی بہت سے گزر چکے ہیں.پھر اگر آپ کی نبوت محد ثیت والی جز وی نبوت ہوتی تو وہ محدث بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ نبوت میں شریک ہوتے لیکن باوجود اس کے کہ اس امت میں بہت سے محدث گزرے ہیں.جن میں جزوی نبوت تعلیم کی جاسکتی ہے.پھر بھی حضرت مسیح موعود ان کی نسبت فرماتے ہیں کہ ان میں شرط نبوت نہیں پائی جاتی.اور مجھ میں پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود محد ثیت کی جزوی نبوت سے اوپر کسی اور نبوت کے مدعی تھے.جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں ایک تقسیم کی ہے کہ ایک کیفیت نبی کی نبوت کی ہے اور ایک محدث کی نبوت کی.لیکن اگر کوئی غور سے دیکھے تو وہ تقسیم ان کی اپنی خود ساختہ ہے.نبی کی اصل تعریف کو انہوں نے محد ثیت کی نبوت کے ماتحت رکھ کر حضرت صاحب کو محدثوں میں شامل کرنا چاہا ہے حالانکہ مسیح موعود سب محدثوں کو اس شرط کے پورا کرنے سے قاصر ظاہر فرما کر اپنے آپ کو اس امت کے باقی سب افراد سے علیحدہ کرتے ہیں.مولوی صاحب نے ایسی ہی بات کی ہے جیسے کوئی شخص مثلاً ڈاکٹر کی یہ تعریف کرے کہ ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو ولایت کا پاس یافتہہو او راس تعریف کی بناء پر جس قدر اسسٹنٹ سرجن ہیں ان کے ڈاکٹر ہونے سے انکار کردے.مولوی صاحب نے بھی یہی کیا ہے.نبوت کی بعض خصوصیتوں کو اصل نبوت قرار دے کر اور ان نبیوں کے خصوصی نام لکھ کر کہہ دیا کہ دیکھو یہ نبیوں والی بوت ہو تی ہے اور یہ حضرت مرزا صاحب میں پائی نہیں جاتی.حالانکہ وہ نبوت ہے ہی نہیں وو تو بعض خصوصیتیں ہیں، نبوت کی جو تعریف تھی
۵۴۹ حقيقۃ النبوة (حصہ اول) اس کو محد ثیت کی تعریف سے ملا کر ایک طرف رکھ دیا ہے اور لکھ دیا ہے.یہ محدثوں والی نبوت ہوتی ہے کوئی پو چھے کہ جناب نے قرآن کریم کی کسی آیت سے یہ تعریف نکالی ہے.حضرت مسیح موعور تو فرماتے ہیں کہ جو شرط ثبوت ہے.وہ اس امت کے اور کسی بزرگ میں نہیں پائی جاتی.اور آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو اپنی نبوت محد ثوں والی نبوت قرار دیتے رہے.اگر آپ کی نبوت محدثوں والی تھی تو آپ محدثوں سے اپنی علیحدگی کیوں ظاہر فرماتے ہیں اور کیوں کہتے ہیں کہ جس شرط کے پائے جانے پر میں نبی ہوں وہ پہلے بزرگوں ولیوں اور اقطاب میں نہیں پائی جاتی لیکن حضرت مسیح موعود کے اس صریح فیصلہ کے ہوتے ہوئے اب دوہی راہیں ہیں یا تو مسیح موعود کو نبی قبول کیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ حضرت مسیح موعود ہیں تو محدث ہی.لیکن آپ پہلے بزرگوں کو شرط نبوت سے اس لئے محروم قرار دیتے ہیں کہ دراصل اب تک مسلمانوں میں کوئی محدث ہؤاہی نہیں.مگر اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اب تک امت محمد یہؐ میں کوئی شخص مکالمات و مخاطبات کے شرف سے مشرف کیاہی نہیں گیا جو بالبداہت باطل ہے.اور پھر یہ بھی ہو گا کہ وہ سب لوگ جن کو جناب مولوی صاحب اور ان کے دوستوں کی طرف سے محدث قرار دے کر نبوت کا خطاب دیا گیا تھا.ان سب سے بھی یہ خطاب واپس لینا پڑے گا.اور پھر مرزا صاحب ایک ہی فرد رہ جائیں گے.جنہوں نے کسی قسم کی نبوت پائی ہے.اور یہی خصوصیت ہے جس کے مٹانے کے لئے اس قدر جوش دکھایا جاتا ہے.غرض سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کو محدثوں کی نبوت سے علیحدہ نبوت قرار دیا جائے.اور وہ ایک ہی ثبوت ہے یعنی نبیوں کی نبوت.اور اگر کوئی تیسری نبوت اور ہے تو اس کا ثبوت دیا جائے اور بتایا جائے کہ ایک نبوت نبیوں کی ہوتی ہے.ایک محدثوں کی نبوت ہوتی ہے.اور ایک اور تیسری نبوت ہوتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جناب مولوی صاحب اپنے رسالہ میں اس دروازو کو بھی بند کر چکے ہیں.اور مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں نبوت کی تین قسمیں بتاتا ہوں.حالانکہ حضرت مسیح موعود صرف دو نبو تیں قرار دیتے ہیں.ایک نبیوں کی اور ایک محدثوں کی.اور مجھ سے ثبوت مانگا ہے کہ میں تیری نبوت کو ثابت کروں.پس اب ان کے لئے یہ راہ نجات بھی بند ہے.تیسری نبوت کا دروازہ کھولنا بھی ناممکن ہو گیا ہے.میں اس جگہ یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ جناب مولوی صاحب نے میرا مطلب غلط سمجھ کر مجھ پر نبوت کی تین قسمیں قرار دینے کا الزام دیا ہے.اصل بات یہ ہے.جیسا کہ وہ دوست جنہوں نے میری اس کتاب کا شروع سے مطالعہ کیا ہے سمجھ چکے ہوں گے کہ میں نبوت کی ایک ہی قسم سمجھتا
.ہوں.یعنی نبیوں کی نبوت کیونکہ جو غیرنبی ہے.اس میں بعض کمالات کے پائے جانے کی وجہ سے ایک الگ نبوت تو قائم نہیں ہو جاتی.آخر وہ جو کچھ ہے.وہی رہے گا.ہم جو محدثوں کی نبوت کبھی لکھتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ یہ ایک الگ قسم کی نبوت ہے.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ محدث میں بھی بعض کمالات نبوت پائے جاتے ہیں.ورنہ نبوت تو نبیوں کی ہی ہوگی.پس قسم نبوت کے لحاظ سے ہم صرف ایک نبوت سمجھتے ہیں.جس میں وہ تین شرائط پائی جائیں جو میں اوپر لکھ آیا ہوں تو وہ نبی ہے.اور اس میں نبوت پائی جاتی ہے.اور جس میں وہ تین شرائط نہ پائی جائیں وہ نبی نہیں.اور اگر اس کی طرف ہم نبوت کا لفظ منسوب کرتے ہیں تو صرف اس مطلب کو سمجھانے کے لئے کہ اس میں بھی بعض کمالات نبوت پائے جاتے ہیں نہ یہ کہ اس میں فی الواقعہ نبوت سے نبی تو ایک اصطلاح شریعت اسلام ہے اور لغت بھی اسی اصطلاح کے معنوں کا اظہار کرتی ہے.پس اس اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت جب ہم کہیں گے تو اس کے معنے ان تین شرائط کا پایا جاتا ہے.اور جس میں یہ نبوت پائی جائے گی.پھر وہ نبی ہی ہو گا.غیرنبی کس طرح ہو سکتا ہے.غرض نفس نبوت کے لحاظ سے ہم صرف ایک ہی قسم کی نبوت مانتے ہیں.باقی رہیں خصوصیات ان کے لحاظ سے سینکڑوں اقسام کی نبوت ہو سکتی ہے جیسے سب آدمی آدمیت کے لحاظ سے تو ایک ہیں.لیکن خصوصیات کولو تو انسانوں کی ہزاروں قسمیں بن جاتی ہیں.کوئی سید ہے کوئی پٹھان ہے کوئی مغل ہے کوئی شیخ ہے کوئی یورپین ہے کوئی ایشیائی ہے کوئی امریکی ہے.پھر کوئی ہندی ہے کوئی چینی ہے کوئی عالم ہے کوئی جاہل ہے کوئی بے دین ہے کوئی دیندار ہے.غرض اگر خصوصیات کے لحاظ سے اقسام مقرر کی جائیں تو آدمیوں کی ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں.مگر کیا اس سے یہ مطلب ہے کہ نفس آدمیت کے لحاظ سے آدمیوں کی کئی قسمیں ہیں ؟نہیں یہ مطلب نہیں.اسی طرح نبیوں کا حال ہے کہ نفس نبوت کے لحاظ سے تو سب نبی نبی ہیں.لیکن بعض خصوصیات کی وجہ سے ان کی کئی اقسام ہیں.جن میں سے ایک تقسیم کا بیان میں نے اپنے رسالہ میں کیا تھا کہ ایک شریعت لانے والے نبی.ایک بلاواسطہ نبوت پانے والے نبی.ایک امتی نبی.اس تحریر سے یہ کہاں سے نکال لیا گیا کہ میں نفس نبوت کے لحاظ سے تین قسمیں نبیوں کی قرار دیتا ہوں.اس لحاظ سے تو میں ایک ہی قسم نبوت کی سمجھتا ہوں.ہاں خصوصیات کو لو تو سینکڑوں اقسام بھی بن سکتی ہیں خود اللہ تعالی ٰقرآن کریم میں فرماتا ہے تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ (البقره: ۲۵۴) پس جبکہ خدا تعالی ٰنے
۵۵۱ بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی تو جس قدر قسمیں نبیوں کی بلحاظ درجہ کے فرق کے بنیں گی وہ بھی ہمیں ماننی پڑیں گی.پھر اس کےماننے کے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ایک نبی شریعت لاۓ ایک نہیں لائے.ایک نبی ایسا آیا جو سب دنیا کی طرف تھا.پہلے نبی ایسے نہ تھے پس خصوصیات کے لحاظ سے تین کیا سینکڑوں قسمیں بن سکتی ہیں.میں نے تو ان تین کا ذکر کیا تھا جن کا میرے مضمون سے تعلق تھا.میں نے اقسام نبوت کو گننے کا تو ارادہ نہیں کیا تھا.ہاں یہ یاد رہے کہ نفس نبوت کے لحاظ سے میں ایک ہی نبوت مانتا ہوں جسے آپ نے نبیوں کی نبوت کے نام سے یاد فرمایا ہے.ہاں محدث کی نبوت جو میرے کلام میں آتی ہے یا حضرت مسیح موعود کے کلام میں آتی ہے اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اس میں بعض کمالات نبوت پائے جاتے ہیں جو بوجہ درجہ کمال کو نہ پہنچنے کے اسے نبی نہیں بنا سکتے.پس ان کمالات کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محدث میں بھی ایک قسم کی نبوت ہے یا یہ کہ محدث بھی ایک قسم کانبی ہے ورنہ نفس نبوت کے وجود کی وجہ سے نہ اسے نبی کہہ سکتے ہیں اور نہ اس میں کسی نبوت کو مان سکتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے کہیں تو یہ لکھا ہے کہ محدث میں ایک جزوی نبوت ہوتی ہے.اور کہیں لکھا ہے کہ محدث کو کس لغت میں نبی کہتے ہیں؟ پس یہ دونوں قول اوپر کے بیان کردہ اعتباروں کے لحاظ سے ہیں اور دونوں درست ہیں.اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے صاف فیصلہ سے ظاہر ہے کہ آپ سے پہلے اس امت میں کوئی اور نبی نہیں گزرا لیکن اس حوالہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی اور تحریروں سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ آپ سے پہلے اس امت میں کوئی اور نبی نہیں گزرا.آپ فرماتے ہیں:.’’حکمت الہٰی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو بر عایت ختم نبوت بھیجا جائے اور ان کا نام نبی نہ رکھا جائے.اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے.تا ختم نبوت پر یہ نشان ہو.پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تاخلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کی نبوت ظلّی طور پر ہے کیوں کہ وہ آنحضرت اﷺکا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے.‘‘ (تذکرة الشہاد تین صفحہ ۴۵ ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵) اس حوالہ سے بھی صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود سے پہلے کوئی اور شخص اس امت میں سے نہیں گزرا بلکہ صرف مسیح موعودنے ہی یہ نام و مرتبہ پایا ہے.پھر حضرت مسیح موعود فرماتے
۵۵۲ ہیں:.-’’اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہٰیہ اور أمور غیبیہ سے حصہ پا لیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.اس لئے خدا تعالی ٰکی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا.جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایک شخص ایک ہی ہوگاوہ پیشگوئی پوری ہو جائے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۷) ان دونوں حوالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلے صلحائے امت کو امور غیبیہ پر اس کثرت سے اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ وہ نبی کہلا سکیں.اور یہ کہ ایسا شخص ایک ہی ہے.اور یہ کہ اگر پہلے صلحاء کو بھی اس نعمت نبوت سے حصہ دیا جاتا تو ختم نبوت کا امر مشتبہ ہو جاتا ہے.اب خدارا ان عبارتوں پر غور کرو.اور سوچو کہیں تم ختم نبوت کے امر کو مشتبہ تو نہیں کر رہے.حضرت مسیح موعود تو فرماتے ہیں کہ پہلے صلحاء کو نبی قرار دینے سے ختم نبوت کا امر مشتبہ ہو جا تا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قدر کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع نہیں دی کہ وہ نبی ہو سکتا.پس جب اللہ تعالی ٰنے ان کو نبوت نہیں دی تو کیوں تم ان کو نبی قرار دیتے ہو.تمہارے خیال میں تو الله تعالیٰ بھی اب کی کو نبوت نہیں دے سکتا.مگر اپنی طاقتوں کے سمجھنے میں کیوں دھوکا کھاتے ہو اور کیوں خدا تعالیٰ کے اختیار کو ہاتھ میں لے کر پہلے صلحاء کو نبوت تقسیم کر رہے ہو.بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں صاف لکھ دیا ہے کہ " پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا.‘‘جس سےثابت ہوتا ہے کہ آپ کے سوا کچھ اور لوگوں نے بھی نبوت کادر جہ پایا ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت صاحب نے جب صاف الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ سوائے میرے اس امت میں اور کوئی اس د رجہ کو نہیں پہنچا.اور پھر اس پر دلیل بھی دی کہ اس لئے کوئی شخص نبی نہیں ہوا کہ کسی نے اس قدر کثرت سے غیب پر اطلاع نہیں پائی جو نبوت کے لئے شرط ہے تو اب وہ معنے جو خود حضرت مسیح موعود کے کلام کے خلاف ہوں کس طرح جائز ہو سکتے ہیں.بہرحال وہی معنے کرنے چاہیں جو آپ کے کلام سے ثابت ہوں.اور آپ کے کلام سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آپ کے سوا کسی نے منصب نبوت نہیں پایا تو اب یا تو میں ایسے معنے تلاش کرنے چاہئیں جن سے دونوں حوالے سچے ہو جائیں.یا یہ کہ ایک ناسخ ہو ایک منسوخ.اگر ناسخ منسوخ قرار دو جو میرے نزدیک درست.
۵۵۳ نہیں.تب بھی حقیقۃ الوحی وصیت کے بعد کی ہے.اور اس میں یہ لکھا ہے کہ آپ کے سوا اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہوا.اگر تطبیق دو.تب بھی صاف بات ہے.کیونکہ الوصیت ہی میں.اس حوالہ سے ایک صفحہ پہلے ہی حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں کہ یہ ممکن نہ تھا کہ مرتبہ نبوت اس امت میں ایک فرد بھی نہ پاتا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ایک ہی نبی خیال کرتے ہیں.کیونکہ اگر آپ کے نزدیک بہت سے نبی گزرے ہیں تو آپ یوں لکھتے کہ ممکن نہ تھا کہ یہ انعام امت کے اولیاء نہ پاتے، لیکن آپ نے یہ لکھا ہے کہ ممکن نہ تھا کہ تمام افراداس انعام سے محروم رہتے.اور ایک شخص بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک ایک ہی شخص نے اس مرتبہ کو پانا تھا (اصل الفاظ دیکھو الوصیت صفحہ ۱۱) اسی طرح اس صفحہ پر لکھتے ہیں کہ نبوت نام ہے امور غیبیه پر اطلاع پانے کا جبکہ وہ کیفیت و کمیت میں کمال کو پہنچ جائے.اور جو حوالہ کہ میں حقییقۃ الوحی سے ابھی نقل کر چکا ہوں اس سے ثابت ہے کہ امت کے دوسرے لوگوں کو کثرت سے مکالمہ نہیں ہوا.یعنی کمیت میں کمی رہی.پس خود الو صیت کی رو سے ہی پہلے کوئی نبی ہونے کے لائق نہ تھا پھر ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودنے جبکہ نبوت کا ثبوت دو جگہ سے لیا ہے.ایک اپنی نسبت نبی کا لفظ لکھے ہونے سے اور ایک علما امتی کانبیاء بنی اسرائیل سے تو تم حضرت صاحب کے اقوال کو اختلاف سے بچانے کے لئے یہ معنے کر سکتے ہو کہ دوسرے افراد تو انبیاء بنت اسرائیل کے ماتحت نبی کا خطاب پانے والے تھے.اور ان کی نبوت محدثوں والی نبوت تھی.اور حضرت مسیح موعود کی نبوت انبیاء کی سی نبوت.کیونکہ ان کو نبیوں سے مشابہت دی گئی ہے.اور مسیح موعود کو نبی کہاگیا ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں:.’’اسی طرح یہ قرآنی دعا آنحضرت اﷺکے ذریعہ سے قبول ہو کر اخیار و ابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فردانبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس امت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گو مخفی طور پر بہت سے اخیار و ابرار نے انبیائے بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے ، مگر اس امت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل پر کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدیؐ سلسلہ کی مماثلت سمجھ آجائے.‘‘( کشتی نوح صفحہ ۵۴.۵۵ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۲-۵۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ پہلے اولیاء اور مسیح موعود میں ایک خاص فرق ہے اور وہ یہ کہ گووه بھی اپنے اندر ایک قسم کی مماثلت پہلے انبیاء سے رکھتے تھے.لیکن کامل مماثلت جو کسی شخص کو کسی
۵۵۴ نبی سے ہوئی وہ حضرت مسیح موعود ہی ہیں.اور آپ ہی کو حکم و ازن سے مامور کیا گیا ہے اور پہلے لوگ ایک مخفی مشابہت رکھتے تھے تو مسیح موعود کی مشابہت اس زور کی تھی کہ اپنے اندر ایک جلال رکھتی تھی.پس ہم اس حوالہ کے ماتحت حضرت صاحب کی تحریروں میں جو بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہو اسے اس طرح ایک کر سکتے ہیں کہ جہاں حضرت مسیح موعودؑنے بعض افراد کو نبی کا خطاب دیا ہے لکھا ہے اس کے یہ معنی کرلیں کہ اس سے وہ نبوت مراد ہے جو کانبیا بنی اسرائیل کی حدیث سے ثابت ہے لیکن ایک مشابہت ہے.گو وہ نبی بنائے نہیں گئے اور اس نبوت میں بھی مسیح موعود شامل ہے.کیونکہ بڑے درجہ میں چھوٹے درجے خود آجاتے ہیں.لیکن مسیح موعود کی نبوت اس سے الگ بھی تھی اور وہ نبوت لايظهر على غيبہ خدا کی آیت کے ماتحت تھی جس میں آپ کا شریک اور کوئی نہیں تھا.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے خودہی لکھ دیا ہے جیسا کہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں کہ اس نعمت کا وارث کوئی اورولی اس امت کا نہیں ہوا.پس آیت فلايظهر على غيبہکے ماتحت تو آپ ہی نبی تھے.اور بوجہ اعلیٰ درجہ کے مکالمه و مخاطبہ کے جسم میں اس کثرت سے اظہار على الغیب نہ ہو جو نبیوں سے مختص ہے.دوسرے ولی بھی کمالات نبوت رکھتے تھے.اور کانبیاء بنی اسرائیل کے مصداق تھے.پس نبوت انبیاء تو صرف حضرت مسیح موعودؑ میں پائی جاتی تھی اور محد ثیت کی نبوت یعنی بعض کمالات نبوت کے پائے جانے کی وجہ سے جزوی نبوت اور افراد میں بھی تھی جو بوجه مشابہت نبی بھی کہے جاسکتے ہیں.غرض کہ ایک تو یہ طریق آپ کے اقوال کی تطبیق کا ہے.لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس جگہ حضرت مسیح موعودنے بعض افراد سے صرف اپنے آپ کو مراد لیا ہے.اور یہ بات بعید از قیاس نہیں.کیونکہ زبان میں اس کی نظریں ملتی ہیں.کہ بعض افراد سے ایک ہی شخص مراد لے لیا جاتا ہے.مثلاً جب ایک شخص ایک بات بیان کرے اور سننے والا اسے پسند نہ کرتا ہو تو بعض دفعہ وہ یوں بھی کہہ دیتا ہے کہ شاید بعض افراد اسے پسند نہ کریں حالانکہ ان کی مراد صرف اپنانفس ہو تا ہے.اگر کوئی شخص اپنے کلام پر غور کرے تو بہت دفعہ اپنے منہ سے بعض افراد یا اسی قسم کے اور الفاظ سنے گا.جس سے صرف اس کا نفس مراد ہو گا.غرض کہ جمع کا لفظ بعض دفعہ بولا جاتا ہے لیکن ہو تا ایک شخص ہی مراد ہے.قرآن کریم میں ایک جگہ آتا ہے کہ کافر کہیں گے رب ارجعون اے ہمارے رب! ہمیں واپس لوٹادے جو لفظ اس آیت کے ہیں.ان کے رو سے اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اے ہمارے تین یا اس سے زیا دہ خد اؤ ! ہمیں روٹا دو - لیکن اسلام تو صرف ایک خدا کی طرف
۵۵۵ بلاتا ہے.پس اس جگہ جمع سے مراد ایک لے لیا گیا ہے بوجہ اس کی عظمت اور جلال کے.حالانکہ قرآن کریم میں جب اللہ تعالی ٰکو مخاطب کیا گیا ہے واحد کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے.مگر اس آیت میں اس کے خلاف ہے.اور گو آج کل معزز آدمی کو اردو کی طرح جمع کے لفظ سے پکار لیتے ہیں.لیکن قرآن کریم کے زمانہ کی زبان اور خود قرآن کریم کےمحاورہ کے یہ خلاف ہے اور صرف اظہار عظمت کے لئے آیا ہے جیسا کہ مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی میں فرمایا کہ اذا الرسل اقتتحالانکہ مراد صرف مسیح موعود ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.اور حوالہ آئے گزر چکا ہے.پس چونکہ مسیح موعود ؑبوجہ اپنی کئی حیثیتوں کے کئی انبیاء کا مظہر ہے اس لئے بعض افراد کے نام سے حضرت مسیح موعود نے اپنے نفس کو مراد لیا ہے.اور حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے کلام میں اس کی نظیر پائی جاتی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالی ٰقرآن شریف میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہ دیتا ہے.اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہو گئی.اور اب ظاہر ہے کہ اس امت میں بجز میرے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا.اور پھراس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے اور خوب غور کر کے دیکھ لو.اور دنیا میں تلاش کر لو کہ قرآن شریف کی اس آیت کا بجزمیرے کوئی مصداق نہیں.پس یہ پیشگوئی سورت تحریم میں خاص میرے لئے ہے.پس اس تمام امت میں وہ میں ہی ہوں.میرا نام ہی خدا نے براہین احمدیہ میں پہلے مریم رکھا.اور بعد اس کے میری کی نسبت یہ کہا کہ ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی.اور پھر روح پھونکنے کے بعد مجھے ہی عیسیٰ قرار دیا پس اس آیت کا میں ہی مصداق ہوں.میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعوی ٰنہیں کیا کہ پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا.اور مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی جس سے میں عیسیٰ بن گیا.\" حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۰-۳۵۱ حاشیہ) اس حوالہ کو دیکھو کہ ایک ہی جگہ پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ اس امت کے بعض افراد کا خدا تعالیٰ نے سورہ تحریم میں مریم نام رکھا ہے.لیکن پھر فرماتے ہیں کہ اس آیت کا صرف میں ہی مصداق ہوں جس سے یہ بات پایہ ثبوت بن گئی کہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ بعض افراد سے آپ صرف اپنے آپ کو مراد لیتے ہیں.پس جبکہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے صاف ثابت ہے کہ آپ سے پہلے کوئی ولی اس امت کا نبی نہیں ہوا.کیونکہ اس کے لئے کثرت اطلاع بر امور غیبیہ شرط ہے جو ان میں نہیں پائی جاتی.اور اس لئے کہ اس سے امر ختم نبوت *دنیا میں
۵۵۶.مشتبہ ہو جاتا ہے.اور دوسری طرف یہ بھی ثابت ہے کہ آپ بعض افراد سے مراد صرف اپنا نفس ہی لیتے ہیں.تو پھر اس بات میں کیاشک ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ بعض افراد امت نے نبی کا خطاب پایا.اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ خود حضرت مسیح موعود نے نبی کا خطاب پایا ہے نہ کہ کسی اور نے.اور اگر اس کے خلاف معنے کئے جائیں تو پھر حضرت مسیح موعود کے اقوال میں تناقض ہو گا.اور خود مصنف کی تشریح سے اور کس کی تشریح معتبر ہو سکتی ہے.شاید کوئی شخص یہ کہہ دے کہ امر ختم نبوت کس طرح مشتبہ ہو جاتا ہے.جب ایک نبی ہو سکتا ہے تو بہت سے بھی ہو سکتے ہیں.سو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن ختم نبوت ان کے نبی ہونے سے مانع ہے اور اس امر کے سمجھنے کے لئے پہلے ختم نبوت کے معنوں پر غور کرنی چا ہیے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.’’مگرآ نحضرت ﷺ کویہ فخردیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسانبی ہے جو ان کی امت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہٰیہ دیا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کوئی مستقل نبی.‘‘ ( چشمہ و معرفت صفحہ ۹ و روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۸۰) اس حوالہ سے ختم نبوت کے دو معنے معلوم ہوئے:.(۱) یہ کہ آنحضرت ﷺ پر سب کمالات نبوت ختم ہو گئے.اور نبوت کا کوئی کمال نہیں جوآپؐ میں نہ پایا جاتا ہو بلکہ آپ سب کمالات کے جامع ہیں.گویا خاتم النبّین کے معنے ایسے ہی ہیں جیسے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص پر تو بہاد ری ختم ہوگئی.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر بہادر نہیں ہو سکا اور بہادری کی تمام جزئیات اس کے اندر جمع ہو گئیں ہیں.پس خاتم النبیّن کے یہ معنے ہوئے کہ آپ جامع جمیع کمالات انبیاء ہیں.(۲) دوسرے یہ معنے معلوم ہوئے کہ آپ کے بعد نہ کوئی جدید شریعت آسکتی ہے اور نہ کوئی بلاواسطہ نبی آسکتا ہے.بلکہ جو نبی ہو گا.امتی نبی کہلائے گا نہ کہ پر اور است فیض پانے والا مستقل نبی.ان دونوں معنوں کے رو سے دیکھو تو دوسرے معنوں نے آنحضرت اﷺکے بعد دو قسم کی
۵۵۷ نبوتوں کو روک دیا.یعنی تشریعی اور مستقل نبوت کو پس ایسے نبی ہو سکتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے نبی ہوں.اب ہم دوسرے حوالہ کو دیکھتے ہیں.کیا یہ بھی نبوت کے دروازہ کو کسی قدربند کرتا ہے کہ نہیں.لیکن اس سے پہلے اس قدر اور بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نبوت امت محمدیہ میں ملتی کی طرح ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.’’اگر کوئی شخص اسی خاتم النبّین میں ایساگم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اس کانام پالیا ہو.اور صاف آئینہ کی طرح محمدیؐ چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا.“ (ایک غلطی کا از الہ صفحہ ۵ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفی ۲۰۹) پھر فرماتے ہیں:.’’مسیح موعود کی نبوت ظلّی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے.“ (تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۴۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵) مذکورہ بالا دونوں حوالوں کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ اس امت میں نبوت پانے کا یہی طریق ہے کہ انسان آنحضرت ﷺ کا بروز کامل ہو.اور آپ کے کمالات کو اپنے اندر جذب کرے.اورایسا محو ہو کہ خدا تعالیٰ اس کا نام محمد و احمد رکھ دے اور یہ کہ اب نبوت کوئی نئی نہیں بلکہ بوجہ كمال مشابہت اور آنحضرت اﷺکے کل کمالات کو آئینہ کی طرح اپنے اندر لے لینے کے ایک شخص نبی ہو سکتا ہے کیونکہ جو بروز کامل ہو گاوہ ضرور نبوت کا عکس بھی حاصل کرے گا.اب ختم نبوت کے ان معنوں کو لو کہ رسول الله ﷺ میں نبوت کے کل کمال پائے جاتے تھے.اور ادھر اس بات پر غور کرو کہ نبی وحی ہو سکتا ہے جو آنحضرت ﷺ کامظہرا تم ہو.کیونکہ اس امت کے نبی کو آنحضرت اﷺکی نبوت ہی ظلّی طور پر حاصل کرنی پڑتی ہے نہ کوئی جدید نبوت.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺسے پہلے یہ قاعدہ نہ تھا بلکہ بنی اسرائیل میں سے ہر ایک نبی کے لئے ضروری نہ تھا کہ وہ خود حضرت موسیٰ جیسے کمال پیدا کرے تب نبی ہو.کیونکہ نبوت ظلّی نہ تھی بلکہ براہ راست ملا کرتی تھی.لیکن اب ظلّی نبوت ہے اور اسی وقت مل سکتی ہے جب کوئی شخص آنحضرت اﷺکے کل کمالات اپنے اندر ظلیّ طور پر اخذ کرے.اور گویا من تو شدم والا معاملہ ہو کر اس کا ہر کام رسول اللہ ﷺ کا نمونہ ہو جائے.اور ہم قرآن کریم میں واخرين منهم والی آیت سے معلوم کرتے ہیں کہ ایسا شخص مسیح موعو وہی ہو گا.پس وہی نبی ہو سکتا تھا.اور اگر
۵۵۸ دوسرے خلفاء و محدث نبی کہلاتے تو اس سے ختم نبوت میں نقص آجا تا.کیونکہ امت محمدیہ میں کسی کونبی کہنے سے یہ مراد ہے.کہ وہ آنحضرت ﷺ میں ایسافنا ہوا ہے کہ بالکل آپ کا عکس بن گیا ہے.اور آپ ؐکے کل کمالات کو اس نے اپنے اندر لے لیا ہے لیکن پہلے مجددین اس درجہ کونہ پہنچے تھے.اس لئے ان کو نبی قرار دینے کے یہ معنی ہوتے کہ وہ آنحضرت ﷺ کا کامل بروز ہیں.حالانکہ وہ خاتم النبّین یعنی جامع جمیع کمالات نبوت کے مظہراتم نہ تھے.بلکہ بعض کمالات کا مظہر تھے پس ان کو نبی قرار دے کر انہیں رسول اللہ ﷺ کا نمونہ قرار دینے سے ختم نبوت کی شان لوگوں کے دلوں سے کم ہو جاتی.اور ان مجددین پر رسول اللہ اﷺکے سب کمالات کو قیاس کرتے اور دھوکا کھاتے.کیونکہ وہ تمام کمالات کے مظہر نہ تھے.لیکن مسیح موعود آنحضرت ﷺکے مظہر اتم تھے اور آپ کے وجود کو اللہ تعالی ٰنے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺکا وجود قرار دیا ہے.پس آپ ہی خاتم النبّین کی شان کو ظاہر کرنے والے تھے.جیساکہ آپ فرماتے ہین من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی و ما اری (خطبہ الہامیہ صفحہ ۲۵۹ روحانی خزائن جلد ۶اصفحہ ۲۵۹)اس کےیہ معنے ہیں کہ آپ کا اور آنحضرت ﷺ کا درجہ ایک ہو گیا.بلکہ آپ کا درجہ تو آنحضرتﷺکے مقابلہ میں غلام اور شاگرد کا سا تھا.لیکن کامل بروزی تصویر ہونے کے لحاظ سے نہیں کہہ سکتے کہ مرزا غلام احمد اور ہے اور محمد مصطفیٰ اور پس یہی شخص نبی کہلانے کا مستحق ہوا.تاختم نبوت کا امر مشتبہ نہ ہو.خلاصہ کلام یہ کہ ختم نبوت کے دو معنے جو حضرت صاحب نے کئے ہیں.ان میں سے ایک نے توشریعت جديده لانے والی نبوت اور براہ راست حاصل ہونے والی نبوت کا دروازہ مسدود کر دیا.اور ختم نبوت کے دوسرے معنوں نے یعنی آنحضرت ﷺکے جامع جمیع کمالات انبیاء ہونے نے ایسے کل لوگوں کو جو آنحضرت ﷺ کے کامل پروزاور مظہراتم نہ ہوں درجہ نبوت پانے سے روک دیا.اور ایسا شخص جو آپؐ کا مظہرا تم ہو.چونکہ مسیح موعودہی ہوا جس کے کامل مظہر ہونے کی گواہی قرآن کریم کی آیت واخرین منھم بھی دے رہی ہے.اس لئے وہی نبی کہلا یا تااس کی نبوت ختم نبوت کے لئے ایک نشان ہو.اور لوگ اس کو دیکھ کر اس کے آقا اور استاد حضرت محمد مصطفےﷺ کے کمالات کو معلوم کریں اور اپنے بوسیدہ ایمانوں کو پھر تازہ کر لیں اور صحابہؓ کے ساتھ مشابہت حاصل کریں.چنانچہ ایک طا ہر فرق مسیح موعود میں اور پہلے مجد دین میں یہ دیکھ لو کہ ان میں سے ایک بھی
۵۵۹ سب دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوا.حالانکہ مسیح موعودسب دنیا کی طرف مبعوث ہوا.خواہ وہ کسی علاقہ کے ہوں.اب سب دنیا میں اس کے لئے نشانات دکھائے گئے پس مسیح موعود کے سوا کوئی گزشتہ ولی آنحضرتﷺ کا مظہراتم نہیں ہوا تااسے نبی کہا جا سکے.اور اگر بغیر مظہراتم ہونے کے اسے نبی قرار دیا جاتا.تو چونکہ امت محمدیہ میں نبوت ظلّی ہے ختم نبوت کا امر مشتبہ ہو جاتاس امت میں صرف ایک شخص مسیح موعود ہی ہے جس کے مظہراتم ہونے کی شہادت اللہ تعالی ٰنے قرآن کریم میں تو اپنے قول سے دی ہے.اور رسول اللہ اﷺکی طرح سب دنیا کی طرف مبعوث کر کے اس کے مظہراتم ہونے کی شہادت اپنے فعل سے دی ہے.پس مسیح موعود کے مظہراتم ہونے کے لئے خدا تعالی ٰکی قولی اور فعلی دونوں شہادتیں موجود ہیں.اور وہی نبی کہلا سکتا ہے نہ کوئی اور.ہاں جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں.پہلے مجددین اور اولیاء محدث تھے.اور محدث کو بھی چونکہ انبیاء سے ایک مشابہت ہوتی ہے اور چونکہ وہ بھی آنحضرت ﷺ کے بعض کمالات کے مظہر تھے.وہ بھی جزوی نبوت سے حصہ لیتے رہے ہیں.یعنی بعض کمالات ثبوت ان کے اندر بھی موجود تھے اور اگر امت محمدیہ میں نبوت ظلّی نہ قرار دی جاتی تو ممکن تھا کہ ان میں سے بعض اعلىٰ استعدادوں والے محدث نبی ہو بھی جاتے لیکن چونکہ اس امت میں ختم نبوت کی وجہ سے نبوت کا درجہ بڑھ گیا ہے اور اب نبی وہی ہو سکتا ہے جو آنحضرت ﷺ كامظہرا تم ہو اس لئے وہ نبی نہ بن سکے.ہاں اپنے استعدادات کی وجہ سے بعض کمالات نبوت انہوں نے حاصل کئے.اس لئے جزوی نبوت پائی.چنانچہ بہت سے صوفیاء نے اپنی کتب میں اپنے اندر اپنے کمالات پائے جانے کا دعویٰ کیا ہے اور ہم ان کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ راستباز اور خداتعالی ٰکے برگزید ہ یقین کرتے ہیں.ان کو بھی رسول اللہﷺ کی بعض شان کا ملہراتے ہیں.بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض آنحضرت کی بعض شان کے مظہراتم بھی ہوں یعنی بعض کمالات کو انہوں نے کامل طور پر بلحاظ ظلّیّت حاصل کر لیا ہو.چنانچہ مکرم مولوی غلام احمد صاحب اختر نے اوچ سے حضرت محی الدین ابن عربی کا ایک حوالہ فتوحات سے نقل کر کے بھیجا ہے جو یہ ہے تین فمن کرامة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد ان جعل من امتہ و اتباعہ رسلا وان لم یرسلوا فھم من اھل المقام الذی منہ یرسلون و قد کانوا ارسلوا فعلم ذالک فلما انتقل محمد صلی اللہ علیہ وسلم بقی الامر محفوظا بھؤلاء الرسل فثبت الدین قائما بحمداللہ ماانھدم منہ رکن از کان لہ حافظ یحفظہ
۵۶۰ ( الفتوحات المكيہ جلد ۲ صفحہ۶) یعنی رسول اللہ ﷺ کی کرامت میں سے یہ بھی ہے آپ کی امت میں سے اور آپ کے اتباع میں سے رسولوں کی شان رکھنے والے لوگ پیدا کئے گئے ہیں گودہ رسول کر کے نہیں بھیجے گئے پس وہ ان مدارج تک پہنچ جاتے تھے پس اس بات کو سمجھ لے پس جب آنحضرتﷺ وفات پا گئے تو بے امراسی طرح ان رسولوں کی معرفت محفوظ رہا.اور جس ذریعہ سے دین اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت رہا.اس کا کوئی رکن گرا نہیں.کیونکہ ہر وقت اس کا کوئی نہ کوئی حافظ موجود رہا.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ میں ایسے صاحب کمالات لوگ پیدا ہوئے ہیں کہ جو اس مقام تک پہنچے کہ جہاں سے رسالت کابعث ہوتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کے علوشان کی وجہ سے انہیں رسول کرکے مبعوث نہیں کیاگیا.بلکہ وہ اولیاء میں ہی شامل رہے گو جزوی طور پر آنحضرت اﷺکے کمالات کا مظہر ہونے کی وجہ سے وہ رسولوں کے مشابہ ہو گئے مگر مسیح موعود کی شان اور ہے.جیسا کہ خود ابن عربی صاحب مسیح موعود کی نسبت تحریر فرماتے ہیں فلہ یوم القیمة حشر ان یحشر مع الرسول رسولا و یحشر معنا ولیا تابعا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یعنی مسیح موعود کے قیامت کے دن رو حشر ہوں گے ایک رسولوں کے ساتھ رسول کی حیثیت سے اور ایک ہم اولیاء کے ساتھ ایک کامل ولی متبع رسول الله ﷺ کے طور پر حضرت ابن عربی صاحب نے ان دونوں عبارتوں میں ان مطالب کو جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں.نہایت طاقت سے بیان کیا ہے.یعنی ایک رنگ میں محدثین کو رسولوں سے مشابہت بھی دی ہے اور پھر یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ رسول نہیں بنے.اس کے مقابلہ میں مسیح موعود کو دور رنگ دیئے ہیں ایک تو یہ کہ وہ رسول بنا.اور دوسرا یہ کہ وہ امتی بھی رہا.پس قیامت کے دن اس کی دو شانیں ہوں گی.ایک رسول کی شان اور ایک ان دو سرے اولیاء کی شان.جو اپنی بعض شان میں رسولوں کے مشابہ ہوئے لیکن رسول نہ بنے.اگر حضرت ابن عربی صاحب کا یہ منشاء ہو تا.کہ دیگر اولیاء بھی رسول بن گئے تھے.جس طرح مسیح موعودؑ.تو وہ یہ نہ لکھتے کہ صرف مسیح موعود کے دو حشر ہوں گے.بلکہ سب اولیاء کے اس طرح کے دو حشر بیان کرتے لیکن انہوں نے اس رسالت کے پانے والوں کو جو اولیاء پاتے ہیں صرف امتی ہی رکھا ہے نبیوں کے گروہ میں شامل نہیں کیا.اور اس کی یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کی وجہ سے نبوت کا معیار بہت اونچا ہوگیا ہے او را س با کمال رسول کی پیدائش سے جو سب نبیوں کا سردار تھا اس عہدہ کی اہمیت اس سے بہت
۵۶۱ زیادہ ہو گئی ہے جو پہلے تھی.اور یہ بات رسول اللہ اﷺکی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک زبردست ثبوت ہے.جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ کوئی شخص اس جگہ یہ سوال کرے کہ جب ختم نبوت سے نبوت کی شان ایسی بڑھ گئی.کہ رسول الله ﷺ کاکامل مظہرہی نبی ہو سکتا ہے.تواب بتاؤ کہ رسول الله ﷺکاوجود باجو د تو ہزاروں سالوں کے بعد پیدا ہوا.پھر مسیح موعود جسے تم آپ ﷺ کامظہرا تم بتاتے ہو.اتنی جلدی کس طرح پیدا ہو گیا؟ سو اس کا یہ جواب ہے کہ رسول الله ﷺ اپنے زورسے بلا کسی اور انسان کے سہارے کے اس درجہ کو پہنچے جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود صرف اپنی ذاتی استعداد کے ساتھ اس رتبہ کو نہیں پہنچے.بلکہ آپ کی ذاتی اقدار کے ساتھ فیضان محمدی مل گیا.اور ایک تو مسیح موعود کی فطری طاقتوں نے اس کو اوپر اٹھایا.اور دوسرے رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلند کیا.اس لئے پہلے کی نسبت جلد ایسا کامل انسان ظاہر ہوا.اور تیرہ سو سال کے اندر ایک ایسے کامل انسان کا ظہور بھی آنحضرت اﷺکے قوت فیضان کے کمال کا ایک زبردست ثبوت ہے.
۵۶۲ خاتمہ کتاب گو یہ کتاب صرف جناب مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کے جواب کے متعلق نہیں رہی بلکہ میں نے اس میں نبوت کے متعلقہ تمام ضروری امور پر بحث کردی ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو بیسیوں مسائل پر اس میں بحث کر دی گئی ہے.لیکن چونکہ میں جس وقت اس کتاب کو لکھنے بیٹھا ہوں.اس وقت جناب مولوی صاحب کاہی رسالہ میرے مدنظر تھا.اور اسی کی تحریک سے یہ کتاب لکھنے کا موقعہ مجھے ملا ہے.اس لئے بار بار جناب مولوی صاحب کا ذکر در میان میں آجاتا ہے.اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وہ تمام باتیں جن کازذکر آپ نے اپنے رسالہ میں کیا ہے ان میں سے بھی کوئی بات باہر رہ نہ جائے گی اس وقت تک میں آپ کے رسالہ میں جس قدر قابل جواب با تیں تھیں سب کا جواب دے چکا ہوں.لیکن ایک بات ابھی باقی ہے جس کا جواب خاتمہ میں دیتا ہوں.مولوی صاحب اپنے ٹریکرٹ ’’القول الفصل کی ایک غلطی کا ازالہ‘‘ صفحہ ۹ میں تحریر فرماتے ہیں.’’حضرت مسیح موعودنے الہامی رسالہ توضیح مرام میں یہ تو صاف لکھ دیا ہے‘‘ جناب مولوی صاحب نے اس رسالہ کو الہامی جس لئے لکھا ہے یہ تو ظاہری ہے.بات یہ ہے کہ وہ الہامی کے لفظ سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں چو نکہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ الہامی ہے اس لئے وہ منسوخ کیونکر ہو سکتا ہے لیکن اول تو اس حوالہ سے جو انہوں نے تو ضیح مرام سے نقل کیا ہے.ان کا کوئی مطلب ثابت نہیں ہو تا.کیونکہ جیسا کہ میں اس سے پہلے ثابت کر چکا ہوں.حضرت مسیح موعود کادعو یٰ شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی رہا ہے صرف نام میں تغیر ہؤا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ توضیح مرام کتاب ساری کی ساری ہر گز الہامی نہیں.یہ بات مولوی صاحب کو کسی نے غلط بتائی ہے.کیونکہ میں یہ بدظنی نہیں کر سکتا.کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایک غلط بات لکھی ہو.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو اس بات کا علم ہوا تھا.کہ وہ اپنا دعوائے مسیحیت شائع کریں.اور اللہ تعالی ٰکے فضل کا اظہار کریں.اس پر حضرت مسیح موعودنے رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام لکھے اور شائع کئے.اور یہ دونوں رسالے الگ نہیں بلکہ در حقیقت ایک ہی کتاب ہے جیسا کہ توضیح مرام کے سرورق سے ظاہر ہے جس پر حصہ دوم فتح اسلام لکھا ہوا ہے.اور اسی وجہ سے اس کتاب کے سرورق پر الہامی لکھا گیا ہے.اور اس کا اظہار سرورق کے نیچے کے حصے میں کر.
۵۶۳ دیا گیا ہے چنانچہ اسلام جو تو ضیح مرام کا پہلا حصہ ہے.اس کے اوپر بھی الہامی لکھا ہوا ہے اور نیچے لکھا ہے.”باہتمام شیخ نور احمد مالک مطیع ریاض ہند امرتسر میں طبع ہو کر ہدایت عام و تبلیغ پیام اور اتمام حجت کی غرض سے با مرواذن الہٰی شائع کیا گیا.‘‘.اس عبارت سے ہر ایک اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.کہ آیا کتاب الہامی ہے یا اپنے دعوی ٰ کا شائع کرنا الہامی ہے.اگر یہ کتاب الہامی تھی.تو حضرت مسیح موعود نے اس کتاب پر ہی کیوں لکھایا کہ یہ آپ کی تالیف کردہ ہے.کیا آپ نے اپنے کسی الہام کے متعلق بھی لکھا ہے کہ یہ میرا تالیف کردہ ہے اس کتاب کو الہامی قرار دیا تو حضرت مسیح موعود پر ایک خطرناک حملہ ہے.کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے.کہ حضرت مسیح موعوداپنے الہام خود بنایا کرتے تھے.یہ کتاب چونکہ اللہ تعالیٰ کے اس علم کی بناء پر لکھی گئی کہ اپنا دعوی ٰشائع کرو.اس لئے اس پر الہامی لکھ دیا گیا.اورنیچے وجہ بھی بتادی گئی.پھر اسے الہامی کہنے سے کیا مراد ہو سکتی ہے.شاید کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک خطبہ کو بھی تو الہامی کہا ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس خطبہ کا حال بالکل مختلف ہے.اس کا واقعہ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا کہ تم فلاں بات لوگوں کو سنادو.اور اسے الہامی قرار دے دیا گیا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالی ٰنے حضرت مسیح موعود کے لئے ایک نشان مقرر فرمایا تھا کہ آپ ایک خطبہ عربی میں پڑھیں.اور تائید ایزدی سے آپ کو وسیع مطالب اور فنی عمارت پر قدرت دی جائے گی.پس وہ خطبہ نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود اسے اپنانشان قرار دیتے رہے ہیں.لیکن کیا کبھی تو ضیح مرام کی نسبت بھی لکھا ہے کہ یہ کتاب میرے نشانات سے ایک نشان ہے پھراس خطبہ کا نام اس الہام کو یاد دلانے کے لئے اور اس نشان کے تازہ رکھنے کے لئے خطبہ الہامیہ رکھا گیا.اور ہم جب اسے خطبہ الہامیہ کہہ کر پکارتے ہیں.تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ کتاب جس کا نام خطبہ الہامیہ ہے.نہ یہ کہ وہ الہامی ہے.لیکن توضیح مرام کے نام میں تو الہام کالفظ نہیں.کہ آپ اس لفظ کے لکھنے پر مجبور ہو گئے.حضرت صاحب نے کبھی اس کتاب کو الہامی کتاب یا الہامی رسالہ لکھا ہو تو اسے پیش کریں.یا کبھی کوئی اس کی عبارت بطور الہام پیش کی ہو تو اس کی سند دیں.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود نے ۱۸۹۲ء میں جو اشتہار دیا ہے.اور جس کی بعض عبارات اس سے پہلے کئی جگہ نقل ہو چکی ہیں.اس میں لکھا ہے کہ توضیح مرام و غیره رسالہ میں جہاں لفظ جزوی نبی و غیره آیا ہے.وہ سادگی سے لکھا گیا ہے اب بتایئے کہ کیا الہام کی طرف بھی سادگی کا لفظ منسوب ہو سکتا ہے.نعوذ باللہ من ذلک.
۵۶۴ ۵۹۴ اب میں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں.اور تمام حق پسندوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جو باتیں انہوں نے اس کتاب میں پڑھی ہیں.ان کے مطالب پر اچھی طرح غور کریں اور سوچیں.کہ حق کس طرف ہےتا ایسا نہ ہو کہ آنحضرت ﷺکی کسر شان کے مرتکب ہوں.اور مسیح موعود کے فیصلہ کے رد کرنے والے بنیں بے شک ہر ایک جماعت کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ وہ بے جا غلو سے بچے.اور افراد سے اپنا دامن پاک رکھے.لیکن میرے دوستو! تفریط سے بچنا بھی مومن کا فرض ہے.اور حق پر قائم رہنا اس پر واجب ہے.کیا یہ ضروری ہے کہ غلو کے خوف سے ہم بزرگوں کی ہتک شروع کردیں.یہود پر اللہ تعالی ٰنے ہمیشہ کے لئے لعنت کی ہے.اور اسی لئے کہ انہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا.پس یہ شان مؤمنانہ کے خلاف ہے کہ وہ صرف اس ڈرسے کہ کہیں غلو نہ ہو جائے.حق کے اظہار سے بچے.قرآن کریم تو ہمیں عدل کی تعلیم دیتا ہے.پس عدل پر قائم رہو اور نہ کسی بات کو حد سے بڑھا اور نہ حد سے گھٹاؤ کہ دونوں باتیں بری ہیں.وہ جو غلوکرتاہے اور ایک نی کوندا بنا دیتا ہے وہ بھی شال ہے.لیکن جو خدا تعالی کے ایک رسول کی ہتک کرتا ہے اور اسے اس کے اصلی درجہ سے گرا دیتا ہے مغضوب علیہم گروہ سے اسے بھی مشابہت پیدا ہو گئی ہے اور ان دونوں مقاموں میں سے کوئی مقام بھی نہیں کہ جہاں مومن کھڑا رہنا پسند کرے.خوب یاد رکھو کہ حق کی پیروی انسان کو نجات دلا سکتی ہے کیا ہم ہر صداقت کو اس لئے چھوڑ سکتے ہیں کہ کہیں غلو نہ ہو جائے غلو تو حد سے بڑھادینے کو کہتے ہیں.پس کسی بات کو غلو قرار دینے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے.کہ آباوه حق کے خلاف ہے.اگر وہ دلائل قاطعہ سے حق ثابت ہوجائے.تو پھر غلو کے کیا معنے ہوۓ؟ کسی بات کو اس کے اصل درجہ تک مانناتو عین ثواب ہو تا ہے.نہ کہ غلو.پس مسیح موعود ؑکی ہتک اس جوش میں نہ کرو کہ تم غلو سے دور جارہے ہو.کیونکہ جنہوں نے مسیح کی ہتک کی.وہ آج تک سکھ اور چین کی زندگی نہیں پا سکے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ افراط اور تفریط دونوں برے ہیں اور یہ بالکل درست ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ وہ یہ بات کہتے ہوئے تفریط سے کام لیتے ہیں اور مسیح موعودؑ کا درجہ گھٹارہے ہیں.اور اسی طرح قابل الزام ہیں.جس طرح بعض وہ لوگ جو اطراء کی طرف راغب ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم لوگ وسط میں ہیں.اور ایک طرف اگر آنحضرت ﷺ کی عظمت و جلال کے قائل اور آپ کے خاتم النبّين ماننے کو جزو ایمان قرار دیتے ہیں.تو دوسری طرف مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کر کے ختم نبوت کی کرشان کرنے سے محفوظ ہیں.جناب مولوی صاحب اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں.کہ حدیث میں آتا
۵۶۵ ہے کہ مسلمان ایک وقت یہودو عیسائیوں کے مشابہ ہو جائیں گے.اس لئے ہمیں خوف کرنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ ضالین میں داخل ہو جائیں.میں ان کی اس نصیحت کی قدر کرتا ہوں کیونکہ كلمة الحکمة ضالة المؤمن اخذھا حیث وجدھا یعنی حکمت کی بات مؤمن کی گم شدہ چیز ہے جہاں سے ملے اسے لے لے.پس میں اس نصیحت کی قدر کرتا ہوں اور ہر ایک مومن کا فرض خيال کرتا ہوں کہ وہ ضالّ بننے سے بچے.لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ انہوں نے نصاریٰ کا مصداق ہمیں کس طرح سمجھ لیا کیونکہ اول تو نصاریٰ کا فتنہ اس وقت موجود ہے ہزاروں مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں.اور ہو رہے ہیں پس جبکہ نصاریٰ میں شامل ہونے والے لوگ موجود ہیں اور پادریوں کا فتنہ بھی خطرناک طور سے موجود ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو عیسائی کر رہے ہیں تو ایک نیا گروہ عیسائیوں کا بنانے کی کیاوجہ پیش آگئی دوسرے خود حضرت مسیح موعود اپنی کتاب خطبہ الہامیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ لیکن جو لوگ ضالین کے وارث ہوئے ان میں بعض نصاریٰ کی خو خصلت اور شعار کو دوست رکھتے ہیں اور اس طرف جھک گئے ہیں لباس میں کوٹوں میں ٹوپیوں اور جوتیوں میں اور طرز زندگی میں اور باقی سب خصال میں ان کی نقل کرتے ہیں اور جو شخص اس طرز کے خلاف کرے اس پر ہنستے ہیں اور عیسائی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں اور اسی پر ان کادل آتا ہے اور بعض ان میں سے جو ضالین ہو گئے ہیں وہ ہیں کہ جو فلسفہ نصاریٰ کی طرف جھک گئے ہیں اور دینی امور میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور بہت ہی نامناسب باتیں ان کے منہ سے نکلتی رہتی ہیں اور اللہ کے دین کی پرواہ نہیں کرتے.اور بعض ضالین میں شامل ہونے والے وہ ہیں کہ انہوں نے ضلالت کو کمال تک پہنچادیا ہے اور اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں اور بے وقوفی سے اس کے دشمن بن گئے ہیں (ترجمہ عبارت خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۰۸،۱۰۷) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ضالیّن سے مشابہ ہونے والا گروہ بھی حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مخالفوں کو ہی قرار دیا ہے مگر تعجب ہے کہ آپ کو اپنی وفات تک اس قدر بھی علم نہ ہوا کہ جس ضالین کے گروہ کی اصلاح کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اسے میں خود تیار کر رہا ہوں.اور جن کو ضالین سمجھ کر ان کی اصلاح کی فکر میں ہوں وہ اصل میں المغضوب علیہم کا گروہ ہے.غرض جبکہ خود حضرت مسیح موعودؑجو مغضوب علیہم اور ضالین کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے مغضوب علیم اور ضالین کے گروہ کی تعیین کر چکے ہیں تو اور کسی کا کیا حق ہے کہ اپنے مخالف خیالات کو دیکھ کر رسول اللہ اﷺکی ایک حدیث کا غلط استعمال کرے.آپ لاہور میں ایسے ؎ * ترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الفقه على العبادة (مفهوما)
۵۶۶ لوگوں کی ایک جماعت روزانہ دیکھتے ہوں گے پھر آپ کو احمدی جماعت کے ضاّل بنانے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟- آپ پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی امت پہلی امتوں میں سے ایسی بھی گزری ہے جس نے تفریط سے کام لیا ہو سب قو میں افراط سے ہی کام لیتی رہی ہیں پس ثابت ہوا کہ اس وقت بھی افراط سے ہی کام لیا جارہا ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا پہلی امتوں میں سے کوئی ایسی امت گزری ہے جس میں خود اس جماعت نے جونبی کے ہاتھ پر تیار ہوئی ہو اور اس کے فیض صحبت سے تیار ہو گئی ہو افراط سے کام لیا ہو اور اس جماعت کا اکثر حصہ غالی اور ضاّل ہو گیا ہو.اگر پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا.اور یقینا ًکبھی نہیں ہوا.تو آپ جو پہلی امتوں کی نظیر سے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں بتائیں کہ آپ ہم پر غلو کا الزام کس طرح لگا سکتے ہیں.یہ ممکن ہے کہ ایک قلیل گروہ کو ٹھوکر لگی ہو لیکن یہ بات آپ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے کہ نبی کے وقت کی جماعت کا اکثر حصہ گندہ ہو گیا ہو اور آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ آپ قلیل ہیں اور ہم زیادہ ہیں مگر شاید كثير منهم فاسقون کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ اکثر فاسق ہوتے ہیں تو آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ان جماعتوں کی نسبت نہیں جو نبی کی تیار کردہ ہوتی ہیں اگر ان کے اندر بھی اگر فاسق ہوں اور کم ہدایت یافته تو نبی پر ناکام جانے کا الزام آتا ہے.اور اگر آپ کے اس قاعدہ کو انبیاء اور مامور ین کے وقت کی جماعتوں پر بھی لگایا جائے تو اس وقت مولوی یار محمدؐ صاحب کی جماعت بہت کم ہے.اور پھر تیما پوری صاحب کی کہ اول الذکر کے ساتھ دو تین آدمی ہیں.اور موخر الذکر کے ساتھ دس پندرہ یا کچھ زیادہ پس آپ کے بتائے ہوئے قاعده کے ماتحت تو وہ دونوں ہدایت پر ہوں گے اصل بات یہ ہے کہ جب کبھی آیات قرآنیہ کا غلط استعمال کیا جائے گا ضرور ٹھوکر لگے گی.ہاں آپ ایک جواب اور دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہ مسیح ناصری کے بعد اس کی جماعت میں غلو پیدا ہو گیا..اور حواری بگڑ گئے.لیکن آپ کا یہ قول کسی مسیحی پر حجت ہوگانہ مسلمانوں پر کیونکہ قرآن کریم میں حواریوں کے بگڑنے کے ذکر کی بجائے ان کی تعریف کی ہے اور مسلمانوں کو کہا ہے کہ تم بھی حواریوں کی طرح انصار اللہ بن جاؤ.پس حواریوں کی نظیر کو تبھی پیش کیا جاسکتا ہے جب قرآن کریم کو چھوڑ دیا جائے.ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعد میں تو امتوں نے غلو کیا ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ بعد میں تفريط بھی کی ہے خود لاہور میں چکڑالویوں کی جماعت موجود ہے ان سے دریافت کر لیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کادرجہ کیا سمجھتے ہیں اور ان کے قول کو کہاں تک حجت خیال کرتے
۵۶۷ ہیں یس بعد کی جماعتیں اگر افراد میں مبتلاء ہوئی ہیں تو تفریط کا بھی شکار ہوئی ہیں ہاں ایک نظیر آپ کو اور دے دیتا ہوں کہ رسول اللہ اﷺکی زندگی میں ایک قلیل گر وہ ایسا بھی تھا جس نے رسول الله ﷺکے درجہ میں تفریط سے کام لیا.چنانچہ ایک شخص نے آپ کے منہ پر کہہ دیا کہ حضور عدل سے تقسیم کریں مطلب یہ کہ آپ عدل نہیں کرتے اور دوسرے لوگوں کی طرح مبتلائے خيانت ہو سکتے ہیں.نعوذ باللہ من ذالک.اور جب بعض صحابہؓ اس کے مارنے پر تیار ہوئے تو آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اسے جانے دو اس کی ہم خیال ایک اور جماعت اس امت میں سے پیدا ہونے والی ہے چنانچہ خوارج کا گروہ جو الحکم للہ جیسا کلمہ کہہ کر اس سے باطل مرادلیتا تھا اس پیشگوئی کے ماتحت پیدا ہوا.غرض قلیل جماعتوں میں افراط و تفریط کے تو نمونے موجود ہیں لیکن اس جماعت کے اکثر حصہ کے گمراہ ہونے کی نظیر نہیں ملتی جو نبی کا صحبت یافتہ ہو پس مقام خوف ہے.میری غرض ان سوالوں کے جواب دینے سے یہ تھی کہ بعض باتیں بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہیں لیکن در حقیقت بہت بودی ہوتی ہیں ان کی بجائے معقول باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے ورنہ انسان گمراہ ہو جا تا ہے.نبوت کا مسئلہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے میں سب ایسے لوگوں سے جو اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتے ہیں درخواست کرتاہوں کہ اس میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھیں کیونکہ مسیح موعود ؑپر ہاتھ ڈالنادر حقیقت خدائے تعالی ٰکا مقابلہ کرنا ہے اگر ایسا شخص آگ و میں کود پڑ تایا شیر کے منہ میں اپناہاتھ دے دیتا تو اس کے لئے بہتر ہو تا بہ نسبت اس کے کہ مسیح موعودؑ پر ہاتھ ڈالتا- آپ لوگوں نے اس کتاب کو پڑھ کر معلوم کر لیا ہو گا کہ نبوت مسیح موعود ؑسے انکار کرنا در حقیقت اسلام کی کمزوری اور آنحضرت اﷺکے فیضان کی کمی بلکہ آپ کا دنیا کے لئے ایک عذاب ہونے کا اقرار کرنا ہے نعوذ باللہ من ذالک.پس یہ کبھی خیال مت کرو کہ تم مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کر کے در حقیقت مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کرتے ہو بلکہ جو شخص ایساکرتاہے وہ خود آنحضرت ﷺ کی شان کم کرتا ہے اور آپؐ کے وجود کو ایک چاند گرہن یا سورج گرہن کے طور پر قرار دیتا ہے جس نے نبوت کے فیضان سے دنیا کو روک دیا.اب کوئی لاکھ سر مارے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں گداز ہو جائے آپ کی اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کر دے یہ انعام جو پہلے لوگوں کو ملا کرتا تھا اب نہیں ملتا.اے مسلمانو ! اے احمدیو !! خدارا اس عقیدہ کے خطرناک نتیجہ پر غور کرو.اور دیکھو کہ جو شخص مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کرتا ہے وہ در حقیقت کشتی اسلام پر کلہاڑے کی ایک خطرناک ضرب مارتا ہے وہ اس نادان کی طرح ہے جس نے اپنے آقا کے منہ پر مکھی بیٹھی دیکھ
۵۶۸ کر اسے ہٹایا.لیکن وہ پھر آکر بیٹھ گئی.اس نے پھر ہٹایا تو وہ پھر بیٹھ گئی پھر ہٹایا توہ پر بیٹھ گئی.اس پر اے مکھی پر سخت طیش آیا اور ایک بڑا پتھر اٹھا کر اس مکھی پر دے مارا کہ یہ کمبخت میرے آقا کو سونے نہیں دیتی لیکن اس کا کیا نتیجہ ہوا.اس کا آقا مکھی کے ساتھ ہی اس جہان سے رخصت ہو گیا.آہ !مسیح موعودؑ کی نبوت کا انکار کرنے والا یہ نہیں خیال کرتا کہ وہ بھی اس نوکر کی طرح ایک مکھی کے اڑانے کے لئے جو درحقیقت اس کے اپنے وہم کا نتیجہ ہے (ور نہ اس کی حقیقت کوئی نہیں) اپنے آقا کا سر کچلنے پر تیار ہو گیا ہے.اسلام کو تباہ کر رہا ہے جو شخص ایک شاخ کے بچانے کے لئے جڑھ کاٹتا ہے وہ یاد رکھے کہ نہ جڑھ رہے گی نہ شاخ - اسلام میں نبوت کا مسئلہ ہی تو ایک زبردست مسئلہ ہے جو اسے پچھلے ادیان پر فضیلت دیتا ہے آنحضرت اﷺکے فیض سے نبوت کامل جاناہی تو ایک کمال ہے جو آپ کو دوسرے انبیاء سے افضل ثابت کرتا ہے ورنہ محدث تو پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی ہوتے تھے پس اگر آنحضرت ﷺ کی امت میں بھی محدث ہی آسکتے ہیں تو آپ کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت ہوئی ؟ہمارا نبی ؐخاتم النبین ہے وہ کل کمالات کا جمع کرنے والا ہے کل خوبیاں اس پر ختم ہو گئیں وہ خاتم النبّین ہی نہیں وہ خاتم المومنین بھی ہے دنیا کے پردہ پر کسی جگہ کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس سے فیض نہ پائے لیکن اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ خاتم النبیّن ہے لیکن نہ صرف نبی ہے بلکہ نبی گر ہے دنیا میں بہت سے نبی گزرے ہیں مگر ان کے شاگرد محد ثیت کے درجہ سے آگے نہیں بڑھے سوائے ہمارے نبی ﷺکے کہ اس کے فیضان نے اس قدر وسعت اختیار کی کہ اس کے شاگردوں میں سے علاوہ بہت سے محدثوں کے ایک نے نبوت کا درجہ بھی پایا اور نہ صرف یہ کہ نبی بنا بلکہ اپنے مطاع کے کمالات کو ظلّی طور پر حاصل کر کے بعض اولوالعزم نبیوں سے بھی آگے نکل گیا.چنانچہ خدائے تعالی ٰنے مسیح ناصری جیسے اولوالعزم نبی پر اسے فضیلت دی اور یہ سب کچھ صرف آنحضرت ﷺکے فیضان سے ہوانہ اس کے اپنے زور سے.پس اے آنحضرت ﷺ کی محبت کا دم بھرنے والو! مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کرنا در حقیقت آنحضرت ﷺکی قوت فیضان کا انکار کرنا ہے اور مسیح موعود ؑکے نبی ہونے سے آنحضرت ﷺ کی شان میں نقص نہیں آتا.اور نہ آپ اﷺکی اس میں ہتک ہے بلکہ یہ سراسر عزت ہے اور وہ عزت ہے جس میں کوئی اور رسول آپ کے ساتھ شامل نہیں جہاں غیر وارث ہو وہاں غیرت ہوتی ہے، لیکن جہاں اپنا شاگرد اور روحانی فرزند وارث ہو وہاں غیرت کا کیا تعلق شاگر د کا بڑهناتو استاد کی قابلیت پر دلیل ہوتا ہے نہ کہ اس سے استاد کی قابلیت پر کوئی حرف آتا ہے پس مسیح
۵۶۹ موعوڈ کے بڑھنے پر حسد مت کرو.کہ اس کا بڑھنا در حقیقت آنحضرتﷺ کا بڑھنا ہے اور اس کی ترقی پر تیوری مت پڑھاؤ کہ جو اس کی ترقی پر منہ بناتا ہے.اس کا دل در حقیقت آنحضرت اﷺکی ترقی کو دیکھ کر جلتا ہے.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالی ٰنے رسول الله ﷺ نے پہلے انبیاء نے مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے کل شرائط نبوت اس میں پائی جاتی ہیں اس کی نبوت کا انکار کرنے سے خود اللہ تعالی ٰکی ذات پر غلط بیانی کا الزام آتا ہے یا مسیح موعود پر جھوٹ کا.پس اس بات سے توبہ کرو جس سے خدائے تعالی ٰرسول اللہ ﷺ پہلے انبیاء اور مسیح موعود کی تکذیب ہوتی ہے کیونکہ یہ راہ خطرناک ہے اور اس میں طرح طرح کے مصائب ہیں اپنے قدموں کو واپس کر لو کہ تمہارے سامنے ایک گڑھا ہے جس میں گر کر ہلاک نہ ہو جاو.اللہ تعالی ٰنے مسیح موعودؑسے فرمایا ہے.’’کہ دنیا میں ایک نبی آیا پردنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ بجائے اس کی جماعت کو بڑھانے اور اس کے انکار کرنے والوں کو گٹھانے کے وہ اس کی جماعت کے اکثر حصہ کو چھوڑ دے اور گمراہ کر دے کیا وہ خدا جوازل سے سچ بولنا آتا ہے اور جس نے اس زمانہ میں بھی زبردست نشانوں سے اپنی طات اور اپنی صداقت کو ثابت کیا ہے.ان دنوں اپنے وعدہ کے خلاف کرے گا.پس بات کو سمجھو اور اچھی طرح سمجھو.کہ اللہ تعالی ٰکا وعدہ ہے کہ مسیح موعودؑ جب دعوائے نبوت کرے گا تو کچھ لوگ اس کی نبوت کے منکر ہوں گے لیکن اللہ تعالی ٰزبردست نشانوں سے مسیح موعود ؑکی صدات ظاہر کر دے گا اب بتاؤ کہ اگر حضرت مسیح موعود ؑکے بعد جماعت نے فوراًً غلو کرنا شروع کردیا تھا تو چاہئے تھا کہ الہام کے الفاظ یوں ہوتے کہ دنیا میں ایک جزوی نبی آیا پر دنیا نے اسے نبی قرار دے دیا لیکن خدائے تعالی ٰاس کی جزوی نبوت ثابت کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کے درجہ کی کمی ثابت کر کے دکھادے گا.نہ یہ کہ وہ الفاظ ہوتے جو اب الہام میں موجود ہیں اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ لوگ اس کی نبوت کا انکار کریں گے اور یہ انکار ہی چلا جائے گا حتّٰی کہ اللہ تعالی ٰاس جماعت کو غالب کردے لیکن اس کی بجائے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسیح آیااس کی نبوت کا لوگوں نے انکار کیا اور ابھی انکار کرنے والے ہی زیادہ تھے اور دنیا میں اس کی جماعت کو کوئی خاص ترقی نہ ہوئی تھی اور ابھی زبردست حملے منکروں کو منوانے کے لئے ہوہی رہے تھے کہ اس کی جماعت نے اس کے
۵۷۰ درجہ میں غلو کرنا شروع کر دیا حالانکہ یہ بات الہام کے الفاظ کے صریح خلاف ہے الہام تو یہ بتارہا ہے کہ مسیح موعود کی نبوت کا انکار کرنے والی جماعت پر اللہ تعالیٰ حملہ کرتا چلا جائے گا اور برابر اس کی جماعت کی تائید کرتا چلا جائے گا جب تک کہ غلبہ نہ ہو پس غلبہ تک مسیح موعود ؑکی اکثر جماعت کا اس کے درجہ میں غلو کرنامذکورہ بالا الہام کے خلاف ہے اور اللہ تعالی ٰاپنی شہادت سے ہمارے حق پر ہونے کا شاہد ہے کیونکہ اگر کوئی نیا فرقہ نکلا بھی ہے تو اول تو وہ بہت کم ہے ہے وہ بوجہ قلت جماعت احمدیہ نہیں کہا جا سکتا.اور دوسرے وہ مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کرنے والا ہے نہ ان کی نبوت کا اقرار کرنے والا.غرض کہ یہ بات سنت اللہ اور مسیح موعود ؑکے الہامات کے بالکل خلاف ہے کہ ایک سلسلہ ابھی پورا نہ ہوا ہو اور اس کو ابھی اپنے ملک میں بھی غلبہ نہ حاصل ہؤا ہو اور ابھی وہ ایسی جماعت نہ بنی ہو جو دنیا کی نظروں میں ایک جماعت خیال کی جائے کہ خدائے تعالی ٰاسے چھوڑ دے اور اس کے اکثرافرادحق سے دور ہو جائیں اور راستی کو ترک کر دیں.اور غلو میں مبتلاء ہو جائیں.اگر ہمارے خیال کے لوگ کم ہوتے تو بے شک کیا جا سکتا تھا کہ انبیاء کی جماعت میں سے کبھی کوئی مرتد بھی ہو جاتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک نبی کے صحبت یا فتوں میں سے اکثر خراب ہو جائیں اور ایسے خراب ہو جائیں کہ ان کی نسبت کا فر کا لفظ استعمال ہو سکے کیونکہ ختم نبوت کے بعد کوئی ایسانبی ماننا جو ازروئے قرآن نہیں آسکتا کفر ہے پس اگر مسیح مو عو دویسانبی نہیں جیسا کہ ہم خیال کرتے ہیں تو پھر ہم پر کفر کا الزام آتا ہے اور بہت سے اشارات اشارات میں ہمیں اس بات کی طرف متوجہ بھی کیا جارہا ہے کیونکہ لکھا جاتا ہے کہ خاتم النبین کے بعد نبی ماننا کفر ہے لیکن یہ سنت اللہ کے بالکل خلاف ہے کہ اس طرح ایک مامور کے ساتھ ہی اس کی جماعت کو تباہ کر دیا جائے اگر کہو کہ آئنده نیک لوگ پیدا ہو جائیں گے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ مسیح موعود اور فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے زمانہ کے ہیں وہ آئندہ آنے والی نسلوں سے بہتر ہیں پس موجودہ جماعت کا ستانوے فیصدی حصہ تو یوں کافر ہو گیا اور آئندہ کے لئے کوئی امید نہ رہی تو مسیح موعود نے کیا کام کیا؟ میرے دوستو !نہایت خوف کا مقام ہے نہایت ہی خوف کا مقام ہے نہایت ہی خوف کا مقام ہے اللہ تعالی ٰسے ڈرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انی محین من اراداحانتک پس مسیح موعود کی ہتک سے اجتناب کرو کہ اس کی ہتک دراصل اس کے آقا کی ہتک ہے کیا کوئی شخص جو آئینہ کے عکس کانقص نکالتا ہے کہہ سکتا کہ میں تو آئینہ میں جو عکس ہے اس کا نقص نکالتا ہوں نہیں جو عکس کا نقص نکالتا ہے
۵۷۱ وہ درحقیقت عکس والے کے نقص نکالتا ہے اور جو تصویر کو بدصورت کہتا ہے وہ درحقیقت اس کو جس کی تصویر ہے بدصورت کہتا ہے پس مسیح موعود کی نبوت کاجو آنحضرت ﷺ کا بروز کامل ہے انکار نہ کرو کہ یہ اس کی نبوت کا انکار ہو گا جس کا وہ ظلّ ہے اور جس کے مظہر اتم ہونے کا وہ اعلان کرتا ہے اگر دلائل سے نہیں سمجھ سکتے تو خاموشی اختیار کرو اور دعاؤں پر زور دو اور خدائے تعالیٰ سے فیصلہ چاہو شاید اللہ تعالی ٰتمہاری گریہ و زاری پر رحم کر کے تم کو ہدایت دے اور تاتم جرأت بے جا کر کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ میں نے صدات پیش کر دی ہے اب جس کا جی چاہے قبول کرے اور جس کا جی چاہے ردکردے لیکن ردکرنے والا یہ نہ خیال کرے کہ وہ میری تحریرکو رد کر تا ہے نہیں بلکہ وہ خدا اور اس کے رسول کی باتوں کو رد کرتا ہے کیونکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کی باتوں سے لکھا ہے اللہ تعالی ٰآپ لوگوں کو ہدایت دے اور اسلام کی عظمت کو ظاہر فرمائے اور آنحضرت اﷺکے جلال اور مسیح موعود کی صداقت کو ظاہر فرمائے آمین.واخر دعوانا ان الحمدلله رب العلمين خاکسار مرزا محموداحمد
۵۷۲ ضمیمہ نمبر۱ نقل مطابق اصل بسم الله الرحمن الرحیم نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم ایک غلطی کا ازالہ ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا.اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعو یٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایساجواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالٰی کی ووہ پاک و حی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا وفعہ پھر کیونکر ہی جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں.بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہونے بائیس برس ہوئے.یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں.چنانچہ وہ مکالمات الہٰیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں.ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ.اس میں صاف طور پراس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے.پھر اس کے بعداسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی الله ہے جری اللّٰہ فی حلل الانبیاءیعنی خدا کار سول نبیوں کے حلوں میں پھراسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ.اس وحی الہٰی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحہ ۵۵۷براہین میں درج ہے’’ دنیا میں ایک نذیر آیا ‘‘اس کی دوسری قراء ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا.اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا ؎ براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر ا حاشیہ صفحہ ۵۹۳ ایضا صفحہ ۶۰۱
۵۷۳ گیا سواگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت اﷺتو خاتم النبیّن ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں.اور پھر اس حالت میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں.بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت ﷺسے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے بیشک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولكن رسول اللہ و خاتم النبیین اور حدیث لانبی بعدی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ ولكن رسول اللہ و خاتم النبیین او ر اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰاس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کانبی ہو نا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے.اسی لئے اس کا نام آسمان پر محمدؐ اور احمد ؐہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمدؐ کی نبوت آخر محمدؐ کو ہی ملی گوپروزی طور پر.مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب:۴۱) اس کے معنی یہ ہیں کہ لَیْسَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِ الدُّنْیَا وَلٰکِنْ ھُوَاَبٌ لِرِجَالِ الْاٰخِرَۃ لِاَنَّہٗ خَاَتَمَ النّبِیِّیْن وَلَا سَبِیْل اِلٰی فَیُوضِ اللّٰہ مِن غَیْرِتُوَسّطِہٖ غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمدؐ اور احمدؐ ہونے کے ہے.نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا.لہٰذا خاتم النبّین کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسی ٰکے اترنے سے ضرور فرق آئے گا.اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پاکر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے.کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفّٰی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی.اور یہ آیت روکتی ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ (الجن: ۲۷، )اب اگر
۵۷۴ آنحضرت اﷺکے بعد ان معنوں کے روسے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہٰیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجاب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لا يظهر على غيبه کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خداتعالی ٰکی طرف سے بھیجا جائے گا اس کو ہم رسول کہیں گے.فرق در میان یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے بعد قیامت تک ایسانبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجنابؐ اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمدؐ اور احمدؐ رکھا جائے.یو نہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے ومن ادعی فقد کفر اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبّین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پرده مغایرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا.تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبیّن پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم البنّين میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاداور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدیؐ چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ؐہے گو ظلّی طور پر.پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلیّ طور پر محمدؐ اور احمد ؐرکھا گیا.پھر بھی سید نامحمدؐ خاتم النبّین نہیں رہا.کیونکہ یہ محمدؐ ثانی اسی محمد ﷺکی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسیٰ بغیر مہرتوڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہو سکتا.تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اهدنا الصراط المستقیم صراط الذين أنعمت عليهم سو یاد رکھنا چاہئے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالی ٰسے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس طرح سے اس کو پکارا جائے اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنے اظہار امرغیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جبکہ خودخداتعالی ٰنے یہ نام میرے رکھے
۵۷۵ ہیں تو میں کیونکر ردّ کر دوں یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰؔ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولااور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللّٰہہوں مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائیداُن کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبییّن کی مُہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلّی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الٰہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی
۵۷۹ حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مُہر نہیں ٹوٹتی* یہ بات ظاہر ہے کہ جیساکہ میں اپنی نسبت کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے رسول اور نبی کے نام سے پکارا ہے ایسا ہی میرے مخالف حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوبارہ دنیا میں آئیں گے.اور چونکہ وہ نبی ہیں اس لئے ان کے آنے پر بھی وہی اعتراض ہوگا جو مجھ پر کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ خاتم النبییّن کی مہر ختمیت ٹوٹ جائے گی.مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبییّن تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں.اور نہ اسؔ سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیتواخرین منھم لما یلحقوا بھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمدہوں صلی اللہ علیہ وسلم پس اس طور سے خاتم النبییّن کی مُہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہرحال محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی رہا نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا اور اس کے اہل بیت میں سے ہوگا* اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہوگا.یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہوگا اور اسی کی روح کا روپ ہوگا اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق بیان کیا یہاں تک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو.سو یہ خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان معرفت کے سراسر خلاف ہے کہ آپ اس
۵۷۷ بیان کو تو چھوڑ دیں جو اظہار مفہوم بروز کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق.اور اگر بروز کے لئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کی ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹاہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں اُس موعود کے رفیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اُس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہوگا، اس کے نام کا وارث، اس کے خلق کا وارث، اس کے علم کا وارث، اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا اور اس میں فنا ہو کر اس کے چہرہ کو دکھائے گا.پس جیسا کہ ظلی طور پر اُس کا نام لے گا، اُس کا خلق لے گا، اُس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہوگئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبییّن کی مُہر ٹوٹ گئی کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں.اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد زیں من دیگرم تو دیگری لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیرؔ خاتم النبییّن کی مُہر توڑنے کے کیونکر دنیا میں آ سکتے ہیں.غرض خاتم النبییّن کا لفظ ایک الٰہی مُہر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مُہر ٹوٹ جائے ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ
۵۷۸ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واخرین منھم لما یلحقوا بھم اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مقام سے آگے نکل گئے تو کیونکر رو رو کر اپنی غیرت ظاہر کی.تو پھر جس حالت میں خدا تو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسیٰ کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلآزاری کا موجب ہوگا.غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسیٰ سے ہوا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آیت کریمہ وَلکِن رسولَ اللّهِ و خاتَمَ النَّبِیّینَ نعوذباللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے.اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مُہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مُہر ہے.ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مُہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا خیال جو !مستلزم تکذیب آیت وَلکِن رسولَ اللّهِ و خاتَمَ النَّبِیّینَ َ ہے وہ ختمیت کی مُہرکو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہو سکتا کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے اس آیت میں ایک لطافت بیان یہ ہے کہ اس گروہ کا ذکر تو اس میں کیا گیا جو صحابہ میں سے ٹھہرائے گئے لیکن اس جگہ اس مورد بروز کا بتصریح ذکر نہیں کیا یعنی مسیح موعود کا جس کے ذریعہ سے وہ لوگ صحابہ ٹھہرے اور صحابہ کی طرح زیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھے گئے.اس ترک ذکر سے یہ اشارہ مطلوب ہے کہ مورد بروز حکم نفی وجود کا
۵۷۹ رکھتا ہے اس لئے اس کی بروزی نبوت اور رسالت سے مُہر ختمیت نہیں ٹوٹتی.پس آیت میں اس کو ایک وجود منفی کی طرح رہنے دیا اور اس کے عوض میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا ہے اور اسی طرح آیت انا اعطینک الکوثرمیں ایک بروزی وجود کا وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں سچے اہل اسلام ہو جائیں گے.اس آیت میں بھی ظاہری اولاد کی ضرورت کو نظر تحقیر سے دیکھا اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی.اور گو خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی اور دونوں خونوں سے حصہ رکھتا ہوں لیکن میں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے.اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں.میں اس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں.ہاں میں اس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی میں نے بیان کیا ہے.پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے.مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں.میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی، علیہ الصلوٰۃ والسلام.خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان.۵؍ نومبر ۱۹۰۱ء
۵۸۰ ضمیمہ نمبر ۲ حضرت اقدس مسیح موعودو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے آخری مکتوب اپنی نبوت کے متعلق مندرجہ اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء جس کی نقل اخبار بد ر نمبر۳۳ جلد ۷ مؤرخہ ۱۱ جون ۱۹۰۸ء میں بھی شائع ہو چکی ہے ۱۷ ماہ مئی ۱۹۰۸ء کو بمقام لاہور جلسہ دعوت میں جو تقریر حضرت اقدس نے فرمائی تھی اس تقریر کی بناء پر یہ غلط خبر پر چہ اخبار عام ۲۳ ع؎مئی ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی کہ آپ نے اس جلسہ دعوت میں دعوائے نبوت سے انکار کیا ہے.تو اسی روز حضور نے ایڈیٹر اخبار مذکور کی طرف ایک خط لکھا جس میں اس غلط خبر کی تردید کی.چنانچہ حضرت اقدس کا وہ خط یہ ہے:.جناب ایڈیٹر صاحب پرچہ اخبار عام ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا مَیں نے جلسہ دعوت میں نبّوت سے انکار کیا- اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ مَیں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا مَیں ایسی نبّوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ مَیں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں، یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعوٰے نبّوت کا میرے نزدیک کفر ہے- اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ مَیں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے- اور جس بناء پر مَیں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالے ٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آیندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیّت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہیں
۵۸۱ انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے- سو مَیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر مَیں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا- اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو مَیں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں- مَیں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گذر جائوں- مگر مَیں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا مَیں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں- میری گردن اس جُوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا- اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے- سو مَیں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتاہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا اور بغیر کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہو سکتے جیسا کہ صرف ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں کہلا سکتا- سو خدا نے اپنے کلام کے ذریعہ سے بکثرت مجھے علم غیب عطا کیا اور ہزارہا نشان میرے پر ظاہر کئے ہیں اور کر رہا ہے- مَیں خود ستائی سے نہیں مگر خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دُنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف مَیں کھڑا کیا جائوں اور کوئی ایسا امر پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دے گا اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہو گا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا- بس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانہ میں کثرت مکالمہ مخاطب اﷲ اور کثرت اطلاع برعلوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے اور جس حالت میں عام طور پر لوگوں کو خوابیں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتا ہے اور کسی قدر ملونی کے ساتھ علم غیب سے بھی اطلاع دی جاتی ہے مگر وہ الہام مقدار میں نہایت قلیل ہوتا ہے اور اخبار غیبیہ بھی اس میں نہایت کم ہوتی ہیں اور باوجود کمی کے مشتبہ اور مکدّر اور خیالات نفسانی سے آلودہ ہوتے ہیں تو اس صورت میں عقل سلیم خود چاہتی ہے کہ جس کی وحی اور علم غیب اس کدورت اور نقصان سے پاک ہو اس کو دوسرے معمولی انسانوں کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس کو کسی خاص نام کے ساتھ پکارا جائے تاکہ اس میں اور ا س کے غیر میں امتیاز ہو- اس لئے محض مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا اور یہ مجھے ایک عزّت کا خطاب دیا گیا ہے تاکہ ان میں اور مجھ میں فرق ظاہر ہو جائے- ان معنوں سے مَیں نبی بھی ہوں اور امّتی بھی تاکہ ہمارے سیّد و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح مسیحی امّتی بھی ہو گا اور نبی بھی ہو گا- ورنہ حضرت عیسٰی جن کے دوبارہ آنے کے بارے میں ایک جھوٹی امید اور جھوٹی طمع لوگوں کو دامنگیر ہے وہ امّتی کیونکر بن سکتے ہیں- کیا آسمان سے اُتر کر نئے سرے وہ مسلمان ہو ں گے اور کیا اس وقت
۵۸۲ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں رہیں گے-وَالسَّلام علٰی من اتبع الھدیٰ الراقم خاکسارالمفتقرالی اﷲ الاحد ا غلام احمد عفی اﷲ عنہ ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء از شہر لاہور ضمیر نمبر۳ امرحق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہئے ۵ مارچ ۱۹۰۸ء کے پرچہ اخبار بدر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی ڈائری کےذیل میں مذکور ہے کہ ایک احمدی سے ایک نواب ریاست نے سوال کیا کہ کیا حضرت مرزا صاحب رسالت کے مد عی ہیں جس کے جواب میں اس احمد ی دوست نے کہا کہ ان کا ایک شعر ہے.من نیستم رسول د نیاوردہ ام کتاب ہاں ملہم استم و زخداوند منذرم اس سوال و جواب کاذ کراس احمد ی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کی خدمت میں گیا.جس پر حضور نے فرمایا کہ:.اس کی تشریح کر دینا تھا کہ ایسا رسُول ہونے سے انکار کیا گیا ہے جو صاحب کتاب ہو دیکھو جو امور سماوی ہوتے ہیں.ان کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئیے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہلِ حق کا قاعدہ نہیں.صحابہ کرام کے طرز عمل پر نظر کرو.وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھا وہ صاف صا ف کہہ دیا.اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے جبھی تو لا یخافون لامۃ لائم کے مصداق ہوئے.ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسُول ہیں.اصل میں یہ نزاعِ لفظی ہے.خدا تعالےٰ کے سا تھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے جو بلحاظ کمیت وکیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے.ایسے دعویٰ کو تو ہم کُفر سمجھتے ہیں.بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خد ا کی طرف سے پیشگوئیا ں کرتے تھے جن سے موسوی دین کی شوکت وصداقت کا
۵۸۳ اظہار ہو.پس وہ نبی کہلائے.یہی حال اس سلسلہ میں ہے.بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتا ز کرے.دیکھو اَور لوگوں کو بھی بعض اوقات سچے خواب آجاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ کوئی کلمہ بھی زبان پر جاری ہو جاتا ہے جو سچ نِکل آتا ہے.یہ اس لئے تا اُن پر حجّت پوری ہو اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم کو یہ حواس نہ دئیے گئے.پس ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یہ کس بات کا دعویٰ کرتے ہیں.آ پ کو سمجھانا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ کس قسم کی نبوت کے مدعی ہیں.ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مُردہ ہے.یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو جو ہم مُردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ اُن میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا.اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصّہ گو ٹھہرے.کس لئے اس کو دوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں.مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ ہونا چاہیئے اور وہ بھی ایسا کہ جس میں پیشگوئیاں ہوں اور بلحا ظ کمےّت وکیفیت کے بڑھ چڑھ کر ہو.ایک مصرعہ سے تو شاعر نہیں ہو سکتے.اسی طرح معمولی ایک دو خوابوں یا الہاموں سے کوئی مدعی رسالت ہو تو وہ جھُوٹا ہے.ہم پر کئی سالوں سے وحی ناز ل ہو رہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں.اسی لئے ہم نبی ہیں.امر حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہئیے.(بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء جلد ۷ نمبر ۹صفحہ ۲)
۵۸۴ تتمہ حقيقۃ النبوة نبوت مسیح موعود کے متعلق بعض اعتراضوں کا جواب میں اپنی طرف سے کتاب حقیقۃ النبوۃ کو ختم کر چکا تھا کہ چند اعتراضات حضرت مسیح موعود کی نبوت پرمیرے سامنے اور پیش کئے گئے جو منکرینِ نبوت مسیح موعودؑ کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور گو میں نبوت کے متعلق ایسی طرز پر اصولی بحث کر چکا ہوں کہ ہر ایک صاحب فہم وذ کا اسے پڑھ کر ہر ایک اعتراض کا خود ہی جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ میرا ارادہ ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق جس قدر مختلف حوالہ جات مل سکیں سب کا جواب دے دیا جائے اس لئے میں تتمہ کے طور پر مختصراً اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں تاکہ بعض لوگ ناواقفوں کو دھوکا نہ دے سکیں.کہاجا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے اپنی نبوت کاصاف الفاظ میں انکار کر دیا تھا.پس وہ آخری گفتگو ہے جس سے اس جھگڑے کا قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے.میں اس اعتراض کے جواب دینے سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی وہ ڈائری بدر سے نقل کر دیتا ہوں تا کہ اس کے اصل مضمون سے لوگوں کو آگاہی ہو جائے اور وہ یہ ہے: سلسلہ نبوتلاہور ۲۵مئی ۱۹۰۸ء ظہر.ایک شخص سرحدی آیا بہت شوخی سے کلام کرنے لگا.اس پر فرمایا: "میں نے اپنی طرف سے کوئی اپنا کلمہ نہیں بنایا.نہ نماز علیحدہ بنائی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کو دین و ایمان سمجھتا ہوں.یہ نبوت کا لفظ جو اختیار کیا گیا ہے صرف خدا کی طرف سے ہے جس شخص پر پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا اظہار بکثرت ہو اسے نبی کہا جاتا ہے خدا کا وجود خداکے نشانوں کے ساتھ پہچانا جاتا ہے.اسی لئے اولیاء اللہ بھیجے جاتے ہیں.مثنوی میں لکھا ہے آں نبی وقت باشد اے مرید - محی الدین ابن عربی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے.حضرت مجدد
۵۸۵ نے بھی یہی عقیدہ ظاہر کیا پس کیا سب کو کافر کہو گے.یاد رکھو یہ سلسلہ نبوت قیامت تک جاری رہے گا‘‘ مجدّد کی ضرورتاس پر اس سرحدی نے سوال کیا کہ دین میں کیانقص رہ گیا تھا جس کی تکمیل کے لئے آپ تشریف لائے.فرمایا: ’’احکام میں کوئی نقص نہیں.نماز ، قبلہ ،زکوٰة کلمہ وہی ہے.کچھ مدت کے بعد ان احکام کی بجا آوری میں سستی پڑ جاتی ہے بہت سے لوگ توحید سے غافل ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی طرف سے ایک بندے کو مبعوث کرتا ہے جو لوگوں کو از سر نو شریعت پر قائم کرتا ہے سو برس تک سستی واقع ہو جاتی ہے.ایک لاکھ کے قریب تو مسلمان مرتد ہو چکا ہے.ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں.لوگ قرآن چھوڑتے جاتے ہیں.سنت نبویؐ سے کچھ غرض نہیں اپنی رسوم کو اپنا دین قرار دے لیا ہے اور ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں‘‘ اس پر اس شخص نے کہا کہ اس وقت تو سب کافر ہوں گے کوئی تیس چالیس مومن رہ جائیں گئے فرمایا : ’’کیا مہدی کے ساتھ جو مل کر لڑائی کریں گے وہ سب کافر ہی ہوں گے......انسان جب فسق و فجور میں پڑتا ہے تو کافر کا حکم رکھتا ہے.اگر ہر صدی میر مجدد کی ضرورت نہ تھی تو بقول آپ کےقرآن کریم اور علماء کافی تھے.تو پھر نبیﷺ پر اعتراض آتا ہے.حج کرنے والے حج کو جاتے ہیں زکوٰۃ بھی دیتے ہیں.روزے بھی رکھتے ہیں.پھر بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سو برس کے بعد مجدد آئے گا.مخالفین بھی اس بات کے قائل ہیں.پس اگر میرے وقت میں ضرورت نہ تھی تو پیشگوئی باطل جاتی ہے.ظاہری حالت پر ہی نہیں جانا چاہیے.غیب کا حال تو اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں‘‘ بدر جلد ۷ نمبر ۲۳ جون ۱۹۰۸ء اس ڈائری سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے کیونکہ آپ نے اپنے آپ کو مجّد دین سے تشبیہ دی ہے اور مثنوی رومی کا ایک مصرعہ مخالف کے سامنے پیش کیا ہے کہ ع آں نبی وقت باشد اے مرید.اسی طرح محی الدین صاحب ابن عربی اور مجدد الف ثانی ساحب کے عقائد کی طرف بھی اسے توجہ دلائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ آپ ویسے ہی نبی تھے جیسے اور مجد دین.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ میں اس سے پہلے قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت کر چکا ہوں کہ نبی کی جو تعریف ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ پر صادق آتی ہے اور قرآن کریم لغت عرب محاورہ انبیائے
۵۸۶ گزشتہ سے میں نے نبوت کی ایک تعریف کی ہے اور پھر دکھایا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بھی اس تعریف سے متفق ہیں اور آپ نے صاف لکھ دیا ہے کہ نبی کے لئے یہ شرط نہیں کہ جدید شریعت لائے یا کسی دوسرے نبی کامتبع نہ ہو اور یہ بھی کہ نبی کے لئے بموجب قرآن کریم کثرت اطلاع بر امور غیبیہ شرط ہے اور یہ بات آپ میں پائی جاتی ہے پس جبکہ نبی کی وہ تعریف جو قرآن کریم و لغت انبیائے گذشتہ کے عقائد کے اتفاق سے ثابت ہے حضرت مسیح موعودؑ پر صادق آئی تو آپ ضرورنبی ہوئے اور اگر اس نبوت کا نام محد ثیت رکھو گے کل انبیاء کو محدث قرار دینا پڑے گا کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے وہ سب بھی اس شرط کے پائے جانے کی وجہ سے نبی کہلائے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ میں پائی جاتی تھی.چنانچہ فرماتے ہیں : ’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے و عدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے ہیں منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگو ئیاں ہیں جن کے روسے انبیاء علیم السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن شریف بجزنبی و رسول ہونے کے دو سروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت فلايظهر على غيبہ الا من ارتضی من رسولا (الجن: ۲۷) سے ظاہر ہے پس مصطفٰی غیب پانے کے لئے بھی ہونا ضرور ی ہوا".پھر جبکہ خود حضرت مسیح موعود ؑنے ایک طرف تو یہ لکھا ہے کہ جہاں جہاں میں نے نبوت سے انکار کیا ہے شريعت جد ید ہ لانے یا بلا واسطہ نبوت پانے سے انکار کیا ہے نہ نبوت سے اور دوسری طرف یہ لکھا ہے کہ نبی کے لئے شریعت لانا یا متبع نہ ہونا شرط نہیں تو پھر اس حوالہ سے اگر کوئی انکار ثابت بھی ہو گا تو صرف اس قدر کہ آپ کو ئی جدید شریعت نہیں لائے اور نہ آپ بلا واسطہ نبی بنے اور اس کا انکار کسے ہے؟ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی آخری تقریر میں جو بمقام لاہور فرمائی.کچھ ایسے فقرات فرمائے تھے جن سے لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ نے نبوت سے انکار کر دیا ہے اور اخبار عام کے ۲۳ / مئی ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں یہ بات شائع بھی ہو گئی.اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے اسی دن یعنی ۲۳/ مئی ۱۹۰۸ء کو ایک تردید ی اعلان اخبار عام کو بھیجا جس کا ایک فقرہ یہ ہے.’’اس جلسہ میں میں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں.اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے بھی تعلق باقی نہیں رہتا.اور جس کے یہ معنی
۵۸۷ ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تیئں ایسانبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں.اور آنحضرت اﷺکے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے........اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیو نکر......انکار کر سکتا ہوں میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں." (بحوالہ بدر ۱۱ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰ اب غور کرو کہ اگر آپ فی الواقع نبی نہ تھے بلکہ محدث تھے تو یہ کیا وجہ تھی کہ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ آپ نبی نہیں ہیں یا یہ کہ آپ نے نبوت سے انکار کردیا ہے تو آپ فور اًاس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ایسانبی نہیں جیساتم خیال کرتے ہو لیکن قرآن کریم کو منسوخ کرنے والا لیکن میں نبی ہوں کیا بھی آپ نے اپنی جماعت کو اس بات پر بھی ڈانٹا تھا کہ مجھے آدمی کیوں قرار دیتے ہو مجھے تو اللہ تعالیٰ بمنز لہ ولدی فرماتا ہے پس بمنزلہ ولد اللہ کہاکرو یا یہ کہ مجھ میں قادرانہ تصرف ماناکرو کیونکہ میں نے رؤیا میں زمین و آسمان بنائے ہیں مگر آپ نے ایسا اعلان بھی شائع نہیں کیا جس سے معلوم ہو تا ہے کہ نبوت کا مسئلہ ان مسائل سے کچھ مختلف ہے غرض کہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ ۲۳ مئی کو تو آپ اعلان کریں کہ میں نبی ہوں اور میں نے نبوت سے انکار نہیں کیا.لیکن ۲۵ مئی کو پھر یہ ثابت کریں کہ میں نبی نہیں ہوں.باقی رہا ہے کہ آپ نے پہلے مجددین کی نسبت بھی نبوت کو منسوب کیا ہے اور اپنے آپکو ان میں شامل کیا ہے.سو اس کا جواب آسان ہے اور جن لوگوں نے اس حوالہ سے دھوکا کھایا ہے وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم پر غور نہیں کیا.اور بحث مباحثہ کر کے اپنی عزت و شہرت قائم کرنے کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ جو کام ہم اپنی عزت قائم کرنے کے لئے کرتے ہیں وہ درحقیقت ہماری جہالت اور نادانی کے اظہار کاذریعہ ہے اور بجائے حق طلبی کے ثبوت کے ہماری ضد و تعصب کے آشکار کرنے کا باعث ہے اگر وہ لوگ غور کریں تو ان کو معلوم ہو جائے کہ وہ اس وقت عیسائیوں اور آریوں کے طریق اعتراض کو اختیار کر رہے ہیں.وہ بھی اسی قسم کے اعتراض کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں اور ایک آیت قرآن لے کربلا اس بات کے خیال کے کہ اسی مضمون کی تشریح دو سری جگہ سے بھی ہوتی ہے اس پر اعتراض کردیتے ہیں مثلاً رسول اللہ ﷺکی نسبت لفظ استغفار اورذنب کادکھا کر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو تمہارانبی (نعوذ باللہ من ذلک) گناہگار تھا.یا وجدك ضالا فھدی کو پیش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک.اس
۵۸۸ سے آپ کا گمراہ ہونا ثابت ہے.اسی طرح فلا تكن من الممترين کی آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺبھی قرآن کریم کے و حی الہٰی ہونے پر شک رکھتے تھے وہ نادان نہیں چاہیے کہ ان آیات کے علاوہ قرآن کریم کی اور آیات بھی ہیں جن کو ملا کر ان آیات سے نتیجہ نکالنا چاہئے اور کام کے ماتحت متشابہ کو کرنا چاہئے اور جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان الله لا يجب المعتدين کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں اور حد سے نکلنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت یہ فرماتا ہے کہ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله( ال عمران۳۲) کہ اگر تم اللہ تعالی ٰسے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو کہ تم اللہ تعالی ٰکے محبوب ہو جاؤ گے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جس کی پیروی بھی خداتعالی ٰکا محبوب بنادیتی ہے وہ گنہگار نہیں ہو سکتا.کیونکہ اللہ تعالی ٰتو گنہگار سے محبت نہیں کرتا پھر یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی ٰرسول الله ﷺ کی نسبت فرماتا ہے کہ لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة(الاحزاب:۲۲) تمہارے لئے ہمارے اس رسول میں نہایت عمده قابل انواع و نقل نمونہ ہے.اسی طرح دو لوگ امتراء کی آیت کو تو پیش کرتے ہیں لیکن اس محکم آیت پر غور نہیں کرتے کہ قل هذه سبيل ادعوا الى الله على بصیرة انا ومن اتبعنى (يوسف :۱۰۹) کہہ دے کہ میری راہ ہے میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں میں اور میرے متبع ایسی ہدایت پر قائم ہیں جو ہمارے لئے ایسی یقینی ہے جیسے آنکھوں دیکھی.اسی طرح ضال کا لفظ تو دیکھتے ہیں.مگر ان کو قرآن کریم میں یہ آیت ہمیں نظر آتی.کہ ماضل صابكم وماغوی غرض کہ اس طرح ایک ایک حوالہ سے نتائج نکالنے شروع کر دیئے جائیں تو نہ اسلام اسلام رہتا ہے اور نہ قرآن قرآن.کیا یہ معترض لوگ اتنا خیال نہیں کرتے کہ ہم اپنے طریق عمل سے خود قرآن کریم پر اعتراض کر رہے ہیں اور عیسائیوں اور آریوں کی پیٹھ بھر رہے ہیں مگر مجبوری یہ ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کریم کے مطالب پر تو عبور ہے ہی نہیں اور اگر ہو تا تو یہ بھی اعتراض ہی نہ کرتے کیونکہ قرآن کریم نے تو نبی کی تعریف ایسے صاف الفاظ میں کر دی ہے کہ اس کے بعد کسی اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی ان لوگوں کو تو صرف حوالہ کے مقابلہ میں حوالہ نکال کر بحث گرم کرنے کا شوق ہے نہ کہ تحقیق حق اگر تحقیق حق مراد ہوتی اور ان مخلصین کو دھوکا دینا مدنظر نہ ہو تا جو نیک نیتی مگر غلط فہمی سے ان کے پیچھے چل پڑے ہیں تو کسی اصل اور قاعدہ کے ماتحت بات کرتے نہ کہ متشابہات کے ذریعہ لوگوں کو بہکاتے مگروہ یاد رکھیں کہ اس طرز سے اسلام کو بلکہ اپنے ایمان کو نقصان پہنچارہے ہیں.جبکہ حضرت مسیح موعو دؑ صاف طور پر فرما چکے
۵۸۹ ہیں کہ:.ہیں کہ " غرض اس حصہ کثیر وحی الہٰی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیراس نعمت کا نہیں دیا گیا اس وجہ سے نبی کانام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی.“(حقیقت الوحی.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحہ.۴۰۷ ۴۰۶) پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر پہلے لوگ اس خطاب کو پاتے تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جا تا جیسا کہ پہلے کسی موقعہ پر لکھا جا چکا ہے تو اب باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعودؑ لکھتے ہیں کہ:.(۱) " پہلے بزرگ نبی کا نام پانے کے مستحق نہیں (۲) کثرت اطلاع بر امور غیبیہ کی اس میں شرط ہے جو ان میں نہیں پائی جاتی (۳) اس نام سے آپ ہی مخصوص ہیں (۴) اگر پہلوں کو بھی نبی بنا دیا جا تاتو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا‘‘ اور آپ کے سوا اس امت میں سے کسی اور شخص کو نبی کس طرح کہا جا سکتا ہے.بتاؤ کہ ایسے محکم حوالہ کے ہوتے ہوئے جس میں آپ پہلوں کے نبی ہونے کی نفی کرتے ہیں اس کی وجہ بھی بتاتے ہیں اس نام کے پانے کا مستحق صرف اپنے آپ کو بتاتے ہیں اور پہلے بزرگوں کے نبی قرار دینے سے ختم نبوت میں نقص پیدا ہو جانے کا احتمال بتاتے ہیں کسی شخص کا ایک ایسے حوالہ سے جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ پہلے مجددین سے اپنے آپ کو مشابہ قرار دیتے ہیں اور ان کی نبوت کی نسبت بھی اقرار کرتے ہیں اگر سند پکڑ نا عیسائیوں والی چال نہیں تو اور کیا ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص نبی کا رتبہ پانے کے لئے مخصوص ہو.اس کے بغیر کوئی شخص اس نام کا مستحق نہ ہو جن شرائط کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی بنتا ہو وہ دوسروں میں پائی بھی نہ جاتی ہوں اگر وہ نبی بن جائیں تو امر ختم نبوت مشتبہ بھی ہو جائے.اور پھر بھی پہلے اولیاء نبی ہو جائیں.خدارا ایسے لوگ بات کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیا کریں کہ ہم کسی جہالت اور نادانی کی طرف لوگوں کو لے جارہے ہیں کیا ان کو اس قدر توفیق نہ ملی کہ وہ حضرت مسیح موعوردؑکے کسی اور حوالہ کو تلاش کر کے ان دونوں حوالوں کی تطبیق کرتے کیا انہوں نے یہ کوشش نہ کی کہ قرآن کریم پر غور کر کے اس قسم کی مثالیں تلاش کرتے اور پھر دیکھتے کہ ان کی تطبیق کس طرح کی جاتی ہے وہ اس قدر تو سوچتے کہ جس طرح حضرت مسیح موعودؑنے حقیقۃ الوحی میں نبوت کے متعلق خیالات کے ایک تغیر کو قبول کیا ہے.کیا اس کے بعد بھی کسی جگہ پر ایسی تحریر شائع کی ہے.کیا پھر یہ ممکن ہے ۲۳
۵۹۰ تاریخ کو ایک بات کہہ کر ۲۵ کو اس کے خلاف کہیں گے.کیا انہوں نے اس حوالہ پر غور نہ کی کہ جہاں میں نے نبوت سے انکار کیا ہے اس سے صرف فلاں قسم کی نبوت مراد ہے مگر یہ توفیق ان کوتب ملتی کہ اول تو علم قرآن نصیب ہو یا پھر تقویٰ اللہ سے کام لیتے جہاں نہ فہم قرآن حاصل ہو اور نہ تقویٰ اللہ سے کام لیا جائے وہاں احتیاط کا گزر کس طرح ہو.جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک قسم کی نبوت جو جزوی نبوت کہلاتی ہے محد ثین میں بھی قبول کی ہے اور جب تک آپ نبی کی تعریف شریعت جدید ہ کالا نایا بلاواسطہ نبوت پانا قرار دیتے رہے.اس وقت تک اپنے آپ کو بھی ان محد ثین سانبی قرار دیتے رہے تو کیوں اس حوالہ کو دو سرے حوالہ سے اس طرح مطابق نہیں کرتے کہ جہاں دوسرے محدثوں میں اپنے آپ کو شامل کرتے ہیں اس سے محد ثیت والی جزوی نبوت کی مشابہت مراد ہے اور جہاں ان سے الگ کرتے ہیں وہاں وہ نبوت مراد ہے جو اس امت میں اور کسی شخص کو نہیں ملی.اور اگر نہیں کرتے تو بتاؤ کہ عیسائیوں کے اعتراضوں کا تمہارے پاس کیا جواب ہے.ہم کب کہتے ہیں کہ محدثوں میں بھی ایک قسم کی ثبوت نہیں پائی جاتی اور ہم کب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑمحدث نہ تھے.آپ بھی اسی طرح محدث تھے.جس طرح رسول الله ﷺ محدث تھے اور آخرت ان کی نسبت حضرت مسیح موعود نے مجدد اعظم کا لفظ استعمال کیا ہے شاید کوئی نادان اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ آنحضرت ﷺ بھی ایک مجدد تھے لیکن ذرابڑے مجدد تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے انہیں بھی مجد د کہا ہے مگر کیا کوئی دانا کہہ سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو کیوں؟ صرف اسی لئے کہ بڑے درجہ میں چھوٹاخود شامل ہو تا ہے.پس جو نبی ہو اور ضرور ہے کہ محدث بھی ہو اور جو محدث ہوا ضرور ہے کہ وہ محسن اور صالح بھی ہو اور جو صالح ہو وہ مسلمان بھی ہو.اگر کسی محدث کو مسلمان کہہ دیں یا مسلمانوں میں اس کو شامل کر دیں تو ضروری نہیں کہ اس کا آخری رتبہ یہی ہو.یوں تو رسول الله ﷺ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ وانا اول المومنين تو اب کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ بس آپ ایک مومن تھے اس سے اوپر آپ کی کو ئی حیثیت نہیں.ایسا خیال رکھنے والا جاہل ہو گا.کیونکہ وہ دوسری جگہ دیکھے کہ آپؐ کو نبی کہا گیا ہے پس آپؐ کوگو مومنوں میں شامل کیاگیا ہے لیکن نبی کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ آپ کو دوسرے مومنوں سے ایک خصوصیت ہے ، اور وہ یہ کہ آپ نبی بھی ہیں اسی طرح کوئی شخص نبی کالفظ دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ ویسے ہی نبی ہیں جیسے دوسرے اور صرف عرب کی طرف آئے ہیں نہ کہ سب جہاں کی طرف کیونکہ وہ اگر اپنی نظر وسیع کرے گاتو
۵۹۱ اسے معلوم ہو جائے گا کہ قل يايها النا انی رسول اللہ اليكم جميعا (الاعراف :۱۵۹) نے آپ کو سب دنیا کی طرف مبعوث ہونے کی خصوصیت دے دی ہے اوراس خصومت نے آپ کو اور بلند مقام پر کھڑا کر دیا ہے اس طرح کوئی اس خصوصیت کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ بس آپ یہی ہیں کیونکہ خاتم النبّین کی خصوصیت نے آپ کا درجہ اور بھی بلند کر دیا ہے اسی طرح اگر حضرت مسیح موعودؑ کبھی اپنے آپ کو دوسرے مجد دین میں شامل کردیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بس آپؐ مجدد ہی ہیں ایسی ہی حماقت ہے جیسے کوئی شخص انا اول المومنین کو دیکھ کر کہہ دے کہ بس رسول اللہ ﷺکو صرف مومن کا خطاب دیا گیا ہے اور کوئی نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اگر یہ راستہ کھلا تو اس کے نتیجے بڑے خطرناک ہوں گے.حضرت سلیمان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ و ما كفر سليمان سلیمان کافر نہ تھا.اس نے اب یہ سمجھ لو کہ حضرت سلیمان کو اللہ تعالی ٰنے ایسے شخصوں میں شامل کیا ہے جو کافر نہ ہوں.اور نعوذباللہ ان کو متقیوں میں بھی شامل کرنا جائز نہیں ایسے نادان کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ سلیمان علیہ السلام کو کہیں مومنوں سے اوپر بھی بتایا ہے کہ نہیں ؟ اگر کسی بلند درجہ کی طرف رہنمائی کی ہے تو سمجھو کہ اگر سلمان کسی حکمت اور ضرورت کے ماتحت کیا ہے اور اس سے یہ مراد نہیں کہ حضرت سلیمان نبی نہیں اسی طرح بعض جگہ پر نبیوں کی نسبت آتا ہے کہ وكذلك نجزی المحسنینہم محسنوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں اس لئے فلاں نبی سے بھی ایسا ہی سلوک کیا اب کوئی شخص کہہ دے کہ اللہ تعالی ٰنے تو حضرت موسیٰ یا حضرت یوسف کے انعامات کو محسن ہونے کے ماتحت رکھا ہے اور باقی سب محسنوں کے ساتھ شامل کیا ہے معلوم ہوا کہ آپ کا محسن ہو نا اللہ تعالی ٰثابت کرنا چاہتا ہے نہ کہ نبی.مگر وہ نادان نہیں جانتا کہ لوگ موسی ٰعلیہ السلام کو محسن کی جگہ ظالم خیال کرتے تھے پس ان کو سمجھانے کے لئے محسنوں کی مثال دی.تاکہ ان کو معلوم ہو کہ یہ سلوک تو محسنوں سے ہوا کرتا ہے.پس سوال کرنے والے کی حیثیت کے مطابق جواب ہوتا ہے اور چھوٹے درجہ والوں کی مشابہت بتانے سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتی کہ بڑا درجہ حاصل نہیں کہ اگر دو سری جگہ عموم کی تخصیص کردی گئی ہوتو تخصیص زیادہ معتبر ہوگی اور یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جس سے کسی عقلمند کو انکار ہی نہیں ہو سکتا.ایک دفعہ میں لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کا مدرسہ دیکھنے کے لئے گیا.وہاں ایک مولوی ندوة العلماء کے مد رس پٹھان میرے ملنے کو آئے اور آکر الہام پر گفتگو شروع کر دی کہ الہام کا سلسلہ تو اب بند ہے مرزا صاحب نبی کیونکر ہو گئے.میں نے اس کو سمجھایا کہ قرآن کریم میں الہام و وحی کی جو.
۵۹۲ تعریف ہے وہ الہام ووحی بند نہیں ہاں آپ لوگوں نے جووحی کی جھوٹی تعریفیں گھڑی ہیں کہ وہ ضرور حامل شریعت ہو اس کے ذمہ دار آپ ہیں نہ کہ ہم - ہم تو مسیح موعود پر اس وحی کے آنے کے مقرّ ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہے اس پر اس نے اس قدر کج بحثی شروع کی کہ میں حیران ہو گیااور بڑے زور سے یہ بات بار بار پیش کی کہ قرآن کریم کی تشریح کو جانے دو.وہ تعریف جو فقهاءنےلکھی ہے اس کو لو اور ثابت کرو کہ مرزا صاحب پر وحی نازل ہوتی ہے اور اگر ثابت نہیں کر سکتے تومعلوم ہوا کہ آپ جھوٹے ہیں.نعوزذباللہ من ذالک.میں نے اس کو بہت سمجھایا کہ مرزا صاحب تواللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں ان اصطلاح سازوں کے بھیجے ہوئے تو نہیں کہ ان کی بنائی ہوئی تعریف کے مطابق ان کی وحی ثابت ہو جائے تب اس پر یقین کیا جائے ورنہ رد کر دی جائے آپ کیا کوئی مشخص میری گفتگو کو سن کر یہ کہہ سکتا تھا کہ میرا یہ مطلب ہے کہ جسے الہام ہو جائے وہ مسیح موعوداور نبی ہو جاتا ہے کیونکہ تب ہی تو حضرت مسیح موعود کے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے یہ جواز الہام پر زور دے رہا ہے بلکہ پچھلے ملہموں کے حوالے دے رہا ہے ؟ پس اصل بات یہ ہے کہ سائل جو سوال کرتا ہے اس کے مطابق جواب ہوتا ہے چونکہ اس مدرس ندوہ کے خیال میں اب اس امت میں سے کسی شخص کا کوئی رتبہ پاناس لئے ناممکن ہے کہ وحی بند ہے اس کے سامنے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ الہام کا دروازہ کھلا ہے اور تجدید دین کے لئے ہمیشہ مجددین آتے رہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہو گا کہ اس سے مسیح موعود کے مسیح ہونے یا نبی ہونے کا انکار مراد ہے.اس سرحدی شخص کے سوالات کو دیکھو.اس کی بھی یہی حالت ہے وہ مجددین کاہی منکر ہے اور اس کے خیال میں آنحضرت ﷺکے بعد قرآن کریم اور علماء کافی ہیں.کسی مجدد کی ضرورت نہیں.اور وہ نبوت کے معنے نیا کلمہ بنانا اور نئی عبارت مقررکرنی سمجھتا ہے اب بتاؤ کہ جو شخص تجدید دین کاہی قائل نہیں اور ندوہ کے مولوی کی طرح الہام کے دروازہ کو مسدو وخیال کرتا ہے اور مجد دین کی بجائے علماء کا جو کافی سمجھتا ہے.اور اس کا خیال ہے کہ مجدد صرف دین کا نقص نکالنے آتے ہیں اور اس احمق کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک شخص جو لاکھوں آدمیوں کا پیشوا اور ایک بڑی جماعت کا نام ہے بڑے بڑے لوگ اس کی غلامی میں ہیں اور اس کی جوتیاں اٹھانی فخر خیال کرتے ہیں اس کے سامنے گفتگو کس طرح کرنی چاہئے کیونکہ جیسا کہ بدر میں لکھا ہے کہ اس نے نہایت شوخی سے کلام شروع کیا تھا.کیا یہ درست اور مناسب ہو سکتا تھا کہ اس کے سامنے آپ نبوت کی اقسام اور اس کی تشریح شروع کرتے کہ ایک نبوت تشریح ہوتی ہے ایک غیرتشریعی ایک
۵۹۲ نبی بلا واسطہ نبوت پاتے ہیں.ایک بالواسطہ - ایک نبوۃ محدثوں میں بھی پائی جاتی ہے تو اس شخص کی سمجھ میں کیا آسکتا تھا وہ تو سرے سے الہام اور مجد دین کاہی منکر تھا.پھر آپ اس کے سامنے یہ تقریر کس طرح کرتے کہ میں مجددوں سے بڑھ کر ایک اور رتبہ پر فائز ہوں اور امتی نبی ایک خاص درجہ ہے اس کے عقائد کے مطابق تو یہی جواب تھا کہ اگر نبی کے لفظ سے تم چڑتے ہو تو پہلے بزرگوں نے بھی یہ لفظ استعمال کیا ہے پھر ان کو بھی کافر کہو اور اگر مجدد نہیں آسکتے تو رسول اللہﷺ پراعتراض کرو کہ آپ نے مجددوں کی پیشگوئی کیوں کی.اس جواب سے تو اس کو یہ سمجھانا تھا کہ مصلحین کا آنا بند نہیں اور بہت سے مجدد گزر چکے ہیں کہ بعض نے یہ عقیدہ بھی ظاہر کیا ہے کہ نبی ہو سکتے ہیں جیسے کہ مثنوی رومی والوں نے محی الدین ابن عربی صاحب نے.مجد دالف ثانی صاحب نے اور عوام مثنوی والوں کے بہت ہی معتقد ہوتے ہیں اور پٹھان مجدد صاحب کے فدائی ہیں اور وہ شخص چونکہ نبوت اور تجدید دین کے معنے میں یہ خیال کرتاتھا کہ دین کے کچھ نقص نکالے جائیں اور نیا کلمہ اور نئی نماز یں بنائی جائیں اس لئے اسے ان بزرگوں کے اقوال کی طرف جن کی عظمت عام طور پر لوگوں کے دلوں میں ہے متوجہ کیاگیا اور حدیث رسول اللہ ﷺ اس کو سنائی گئی تاکہ اسے معلوم ہو کہ نبوت اور تجدید دین کےیہی معنے نہیں ہوتے کہ دین کے نقص نکالے جائیں اور نئی شریعت لائی جائے بلکہ یہ الفاظ مختلف معنے رکھتے ہیں چنانچہ بعض پچھلے بزرگوں نے نبوت کو اسلام میں جاری مانا ہے تو کیا ان کو بھی کافر کہو گے ؟ اور جب ہم ان بزرگوں کے اقوال کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے کسی نے بھی رسالت کے ساتھ مبعوث ہونے کا دعویٰ نہیں کیا پس ان حوالوں سے یہ خیال کرنا کہ وہ نبی تھے صرف قلت تدبر کے باعث ہے ان کا تو یہی مذہب تھا کہ نبی آسکتا ہے اپنی نسبت مبعوث رسول ہونے کادعویٰ انہوں نے کبھی نہیں کیا اور نہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر کبھی یہ شائع کیا ہے کہ تم کو رسول کرکے بھیجا جا تا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود کو الہام ہواہے کہانا ارسلنا أحمد الى قومہ فقالوا کذاب ا شر اور یہ بات تیره سو سال میں ایک ولی اور ایک محدث میں بھی نہیں پائی جاتی کہ وہ رسالت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہو.بے شک مقام رسالت تک ان میں سے بعض پہنچے لیکن چونکہ کل کمالات ختم نبوت انہوں نے حاصل نہ گئے اس لئے جزوی طور پر نبی تھے نہ کہ فی الواقع نبی ہوئے کیونکہ ظلّی نبوت ہر پہلواور ہر کمال میں عکس تام کی متقضی ہے جو ان میں نہ تھا غرض کہ سوال کے مطابق جواب ہوتاہے اوراس سے صرف اس قدر مطلب نکالنا جائز ہو تا ہے جس کے لئے وہ جواب دیا گیا نہ کہ اس سے زائد اور
۵۹۴ جبکہ حضرت مسیح موعود اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ مجھے ایک قسم کی نبوت ملی ہے جو میرے سوا اور کسی کو نہیں ملی اور قرآن کریم اور احادیث بھی صرف مسیح موعود کی رسالت پر گواہ ہیں اور تعریف ِنبوت پہلے مجددین پر صادق بھی نہیں آتی اس لئے اب ہم اس حوالہ کے سوائے اس کے اور معنی نہیں کر سکتے کہ آپ ایک نبوت میں تو پہلے مجددین کے ساتھ شامل ہیں جس طرح حضرت ﷺ بھی شامل تھے کیونکہ آپ کبھی مجدد تھے لیکن ایک نبوت میں ان سے الگ ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ الگ تھے.ایک اور مثال سے بھی اس حوالہ کے معنے کھل جاتے ہیں اور وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود نے وفات مسیح کے متعلق جواب دیتے ہوئے اپنے مخالفوں کو کہا ہے کہ اگر تم اس مسئلہ کی بناء پر مجھ پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہو تو پھر فلاں فلاں گزشتہ علماء پر بھی یہ فتویٰ لگاؤ بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ پھر توکل معتزلیوں کو کافر کہنا پڑے گا.اب کیا اس مشابہت کے یہ معنے ہیں کہ حضرت صاحب اپنے آپ کو معتزلی ظاہر کرتے تھے یا یہ کہ آپ مجدد نہ تھے بلکہ پہلے علماء کی طرح ایک عالم تھے لیکن ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ مطلب آپ کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس خیال میں وہ میرے متفق تھے گو اتفاق کی مختلف وجوہ تھیں معتزلی اس لئے متفق نہیں کہ اس سے شرک لازم آتا ہے یا یہ کہ آیات قرآنیہ کے خلاف ہے بلکہ ان کا مسیح کو وفات شدہ خیال کرنا اصل میں صرف عقل سے بالا باتوں کے انکار کی وجہ سے تھا اسی لئے وہ سب ایسی باتوں کی تاویل کرتے تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں کہ مثنوی رومی والے ابن عربی صاحب اور مجد د الف ثانی صاحب بھی اس بات کے قائل تھے کہ دروازہ نبوت کھلا ہے اور اس بات کی قائل تو حضرت عائشہؓ بھی تھیں.تبھی تو وہ فرماتی ہیں کہ لا تقولوا لا نبی بعدہ پس اس کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ وہ سب لوگ نبی تھے نہ تو مثنوی والوں نے اپنے آپ کو نبی کہا ہے نہ ابن عربی صاحب اور مجدد صاحب نے اپنے آپ کو مبعوث نبی کہا ہے.ہاں یہ عقیدہ انہوں نے ضرور ظاہر کیا ہے کہ مسیح موعو د نبی ہو گا اور وہ زمانہ نبوت کا زمانہ ہو گا.بلکہ مجد و صاحب تو اپنے درجہ کی بلندی کی وجہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ میں مہدی کے زمانہ کے قریب ہوں پس رسول اللہ اﷺکی شعاع نبوت جو اس پر پڑ رہی ہے اس کا اثر مجھ پر بھی پڑتا ہے اور اسی وجہ سے وہ پچھلے بزرگوں پر اپنے آپ کو فضیلت دیتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ اس حوالہ کو دوسرے حوالوں سے ملا کر معنے کرنے چاہئیں اور متشابہات کے ماتحت محکمات کو کرنا سخت گناہ ہے.اس بات کا انکار بار بار ہوتے ہوئے کہ اس امت میں آپ کے
۵۹۵ سوا اور کوئی شخص کثرت مکامله و مخاطبہ سے جو امور غیبیہ پر مشتمل ہو اور جو نبیوں کے لئے ضروری ہو بہرہ ور نہیں ہوا.اس حوالہ کے وہ معنی کیوں کئے جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی تکذیب کرتے ہوں بلکہ خود ان بزرگوں کی تکذیب کرتے ہوں جن کی طرف حضرت مسیح موعود نے اشارہ فرمایا ہے چونکہ سائل نبوت کے معنے شریعت جدید ہ کالا نا اور تجدید کے معنے دین میں نئے مسائل کا پیدا کرنا خیال کرتا تھا.اس کو ان بزرگوں کی مثال سے سمجھایا گیا جن کاوہ بھی قائل تھا ورنہ اس سے یہ مراد نہ تھی کہ اس سے بڑھ کر آپ کا کوئی درجہ نہیں.آپ تو صاف لکھتے ہیں کہ جس کثرت کا نام نبوت قرآن کریم نے رکھا ہے وہ سوائے میرے اور کسی ولی میں نہیں پائی گئی.پس محد ثیت کی نبوت کے اوپر ایک اور درجہ آپ کا ثابت ہے اور دیگر محدثین میں اگر کبھی اپنے آپ کو شامل کر بھی دیں تو اس کا صرف اس قدر مطلب ہوگا کہ آپ کو وہ درجہ بھی حاصل ہے جیسے ہمارے آنحضرت ﷺ کو مومنوں اور حضرت موسیٰؑ کو محسنوں میں شامل کرنے سے یہ مطلب ہے کہ آپ ان لوگوں میں بھی شامل ہیں نہ یہ کہ اس سے بڑا درجہ آپ کو کوئی حاصل نہیں.(۲) دوسرا سوال یہ پیش کیا جا تا ہے کہ حضرت مسیح موعو دؑنے خود تحریر فرما دیا ہے کہ ہر ایک نبی مطاع ہوتا ہے نہ کہ مطیع اور چونکہ آپ مطيع تھے اس لئے آپ میں ثابت نہ ہوئے.اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں کتاب حقیقۃ النبوۃ کے شروع میں لکھ آیا ہوں اور حضرت مسیح موعود کے اپنے حوالوں سے ثابت کر چکا ہوں آپ ۱۹۰۰ء سے پہلے یہی خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے شریعت جدیده لانا یا بلاواسطہ نبی نہ ہونا اور کسی دوسرے نبی کامتبع اور مطیع نہ ہونا شرط ہے اور اس وقت تک اس آیت سے استدلال کرتے رہے لیکن جب آپ کو انکشاف تام ہوا تو آپ نے اپنا خیال بدل دیا اور صاف لکھ دیا کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ دوسرے کامتبع نہ ہو.پس جبکہ آپ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ نبوت کے متعلق آپ کا خیال بدلا ہے اور یہ بھی کہ آپ کے نزدیک نبی کے لئے دوسرے نبی کا متبع نہ ہو نا شرط نہیں تو اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نے ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء ۶۵)کے خودہی معنے فرمادئیے ہیں اور بتادیا ہے کہ یہ شرط نبوت نہیں اور جبکہ قرآن کریم کی دوسری آیات صاف صاف بتا رہی ہیں کہ ایک نبی دو سرے نبی کا مطیع ہو تا ہے اور ہو تا رہا ہے چنانچہ ہمارے آنحضرت ﷺ سے پہلے گو کل انبیاء بلا واسطہ نبوت پاتے تھے مگر پھر بھی بعض دوسرے انبیاء کے ماتحت کام کرتے تھے جیسے حضرت ہارون سلیمان یحییٰ زکریا علیہم السلام.پس ایسے صریح ثبوت اور مشاہد ہ کی موجودگی میں قرآن کریم
۵۹۶ کی آیت کے ایسے معنی کرنے جو مشاہدہ اور دوسری آیات کے مفہوم کے خلاف ہوں ہر گز درست نہیں اس آیت کے تو صرف یہ معنے ہیں کہ ہر رسول اسی لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ اس کا حکم مانیں اور یہ معنے ہرگز نہیں کہ وہ کسی کی نہ مانے اور مشاہدات کے یہ بات خلاف ہے اللہ تعالی ٰقرآن کریم میں فرماتا ہے اطيعوا الله وأطيعوا الرسول و اولی الامر منكم( النساء ۶۰ ) تو کیا او لو الا مرگو رسول کی اطاعت سے آزادی حاصل ہو گئی پھر اس قدر تو غور کرو کہ حضرت مسیح اپنے وقت کے حکام کی اطاعت کرتے تھے یا نہیں پس کیا ان کی نبوت سے انکار کر دیں.جب ایک غیرمذ ہب کے حاکم کی اطاعت سے رسالت میں فرق نہیں آجاتا تو ایک دوسرے نبی کی اطاعت سے کیوں فرق آجاتا ہے اگر کہو کہ دین میں اطاعت کسی اور کی نہ کرے تو میں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے کیا نبی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا.معلوم ہؤا کہ خصوصیتیں تو ضرور ساتھ لگانی پڑیں گی.پس یہ کوئی اعتراض نہیں حضرت مسیح موعود ایک زمانہ میں عوام کے عقیدہ کے مطابق نبی کی ایک تعریف کرتے رہے اور عوام کے عقیدہ کے مطابق اس آیت سے بھی یہ استدلال کرتے رہے کہ کسی قسم کا نبی کسی اور نبی کا مطیع نہیں ہو سکتا لیکن جب انکشاف تام ہوا تو پھران معنوں کو بدل دیا.اگر کہو کہ کیا آیت قرآنی بھی حضرت مسیح موعود درست نہ سمجھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء نہایت محتاط ہوتے ہیں جب تک کوئی بات خدا کی طرف سے نہ بتائی جائے.وہ عوام کے عقائد کا تتبع کرتے ہیں.رسول اللہ ﷺ نے باوجود نفرت کے شراب اور متعہ کو اور سود کو اس وقت تک حرام نہ کیا جب تک وحی الہٰی کا فیصلہ نہ ہؤااسی طرح حضرت مسیح موعود اپنے دعوے سے پہلے متوفیک کے معنے اپنے انعامات سے وافر حصہ دوں گا کرتے رہے حالانکہ بعد کی کتب میں لکھا کہ جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی ذی روح مفعول ہو تو اس وقت اس لفظ کے معنے صرف قبض روح کے ہوتے ہیں پس بات یہی ہے کہ جب تک انکشاف تام نہ ہو یہ لوگ عوام کے خیالات کو نہیں چھوڑتے.لیکن یہ ضرور ہے کہ وفات سے پہلے ان کو اس بات کا پتہ بتادیا جاتا ہے.تانہ ہو کہ لوگ ان کی ہر ایک بات کو غیر الہامی کہہ کر ٹال دیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود متوفیک کے معنے پہلے پورے طور پر انعام کرنے کے کرتے رہے حالانکہ بعد میں لکھ دیا کہ اس لفظ کے معنے جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو تو قبض روح کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتے اسی طرح اس وقت تک کہ آپ نبی کے لئے یہ شرط سمجھتے تھے کہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو آیت مذکورہ کے یہی معنے کرتے رہے کہ کوئی نبی دوسرے نبی کامتبع نہیں ہو سکتا اور بعد میں صاف لکھ دیا کہ نبی کے لئے یہ کوئی شرط نہیں کہ وہ کسی
۵۹۷ اورنبی کا متبع نہ ہو اور قرآن کریم کی مختلف آیات سے اور تاریخ سے یہی بات حق معلوم ہوتی ہے بلکہ اگر غور کرو تو خود اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ لوگوں پر نبی کی اتباع کرنی فرض ہے نہ یہ کہ وہ نبی بھی کسی اور نبی کا مطیع نہ ہو.اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًاوَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا(61)فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ ﳓ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا(62)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْۗ-فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًاوَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًفَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.(النسا ء: 61’66)) (ترجمہ) کیاتونے نہیں دیکھا ان لوگوں کی طرف جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس وحی الہٰی پر جو تجھ پر نازل کی گئی اور اس پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی.چاہتے ہیں کہ فیصلے لے جاویں بڑے سرکشوں کے پاس حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ ان کی نہ مانیں اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بالکل گمراہ کر دے اور جب انہیں کہا جائے کہ اس وحی الہٰی کی طرف آؤ جو اللہ تعالی ٰنے نازل کی ہے اور رسول کی طرف آؤ تو تو منافقوں کو دیکھتا ہے کہ وہ تجھ سے بالکل رک جاتے ہیں پس ان کا کیا حال ہو گا.جبکہ پہنچے گی انہیں کوئی مصیبت بسبب اس کے جو وہ اپنے ہاتھوں سے کر چکے ہیں پھر تیرے پاس آئیں گے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہوئے کہ ہمارا اراده بجز بہتری چاہنے اور موافقت کرنے کے اور کچھ نہیں تھا.ان لوگوں کی بابت اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے پس تو ان سے اعراض کر اور انہیں نصیحت کر اور ان کے دل میں گھر کرنے والی گفتگو کر.نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگراس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر یہ لوگ جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تیرے پاس آکر اللہ تعالی ٰسے بخشش چاہتے اور رسول بھی ان کے لئے بخش چا ہتاتو اللہ تعالی ٰکو بڑاہی توبہ قبول کرنے والا رحمت کرنے والاپاتے یس تیرے رب
۵۹۸ کی قسم یہ لوگ ہرگز مومن نہیں رہیں گے جب تک تجھ سے فیصلہ نہ کرائیں.اس نزاع کا جوان میں واقع ہو پھر نہ پائیں اپنے دلوں میں کچھ تنگی اس فیصلہ سے جو تو کرے اور اسے پورے طور پر قبول کریں.ان آیات کو پڑھنے سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ اس جگہ یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ یہ لوگ بجائے رسول سے فیصلہ چاہنے کے شیطانی باتوں کو مانتے ہیں حالانکہ ان کو تو یہ علم ہے کہ رسول کی باتوں کو قبول کریں مگر یہ ایسا نہیں کرتے ہیں جب کوئی تکلیف ہوتی ہے تب بھاگے آتے ہیں کہ حضور!قصور ہو گیا ہم نے غلطی کی کہ حضور کا حکم نہیں مانا اصل میں ہماری نیت نیک تھی.لیکن ان کو تو یہ خیال کرنا چاہئے کہ ہم جو رسول بھیجتے ہیں اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی باتوں کو مانا کریں نہ کہ اس کے احکام کو رد کر دیا کریں مگر خیراگر غلطی بھی ہو جائے تو پھر توبہ کر لیں مگر مومن ہونے کی یہ شرط ہے کہ تیرا حکم بہرحال قبول کریں.اب بتاؤ کہ ان آیات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ نبی کسی اور کا متبع نہیں ہو سکتا کہاں تک جائز ہے.یہاں تو یہ ذکر ہے کہ جس قوم کی طرف کوئی رسول آئے اسے اس کے احکام کو قبول کرنا چاہتے ہیں حضرت مسیح موعود کی صریح تشریح کے بعد اور قرآن کریم کے کھلے کھلے الفاظ کے ہوتے ہوئے لوگوں کو دھوکا دینادیانت کے خلاف ہے.شاید کوئی شخص یہ کہ ہے کہ حضرت مسیح مو عودنے مسیح ناصری کے دوبارہ آنے کے خلاف بھی یہ بات پیش کی ہے کہ وہ مستقل نبی ہو کر اس امت کی اصلاح کے لئے کس طرح آسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ وہ آنحضرتﷺ کا مطیع کیونکر ہو سکتا ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ اب امتی نبی کے سوا کسی اور نبی کے آنے میں آنحضرتﷺ کی ہتک ہے کیونکہ جس شخص نے نبوت کادرجہ آپ کی اطاعت میں نہیں پایا وہ امتی نہیں کہلا سکتا اور جب وہ مستقل نبی ہو اتو اس کا آپ ؐپر احسان ہو گا نہ کہ آپؐ کا اس پر احسان ہو گا اور مستقل نبی کے آنے سے ختم نبوت کی مہربھی ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ غیرکاقدم در میان آجاتا ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ کی بھی ہتک ہے کیونکہ اگر ان کو دوبارہ لایا جائے تو مستقل نبی کی حیثیت میں تو نہیں آ سکتے کیونکہ اس میں آنحضرت اﷺکی ہتک ہے اور امتی نبی وہ تب کہلا سکتے ہیں کہ نبیوں کے زمرہ سے جدا کر کے ان کو پہلے امتی بنایا جائے اور پھر دوبارہ نبوت پائیں اوراس میں ان کی ہتک ہے.غرض کوئی صورت لو.اس میں یا رسول اللہ اﷺکی ہتک ہوتی ہے یا خود حضرت مسیح کی.اس لئے ان کا آنا جائز نہیں
۵۹۹ نہ اس لئے کہ ایک نبی دوسرے کی کامتبع نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کہ اس سے یا مہر نبوت ٹوٹتی ہے یا حضرت مسیح کی ہتک ہوتی ہے.اگر کہو کہ پہلے نبیوں کے ماتحت بھی تو مستقل ہی کام کرتے رہے ہیں اور آنحضرت اﷺکا ان سے بڑادر جہ ہے آپؐ کے ماتحت کیوں مستقل نبی کام نہیں کر سکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے نبی خاتم النبیّن نہ تھے اس لئے ان کے بعد براہ راست نبوت پانے والے نبیوں کا آنان کی ہتک کا باعث نہ تھا مگر ہمارے آنحضرت ﷺخاتم النبیّن ہیں اس لئے آپ کی اس میں ہتک ہے آپ کی قوت فیضان ایسی ہے کہ آپ اپنے شاگردوں میں سے اعلیٰ درجہ کے انسان پیدا کر سکتے ہیں اور ضرورت نہیں کہ دوسرے نبیوں کو اپنی مدد کے لئے بلائیں.(۳) یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ مانعنی من النبوة مايعني في الصحف الأولى سواس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے پہلے مصحف میں نبوت سے مراد وہ نبوت ہوتی تھی جو براہ راست ملتی تھی کیونکہ وہ نبی بلاواسطہ نبی بنتے تھے لیکن آپ کی تحریروں میں جہاں نبی کا لفظ آیا ہے اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے فیضان سے نبوت کا درجہ پایا ہے ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے نبی کسی اور وجہ سے نبی کہلاتے تھے اور آپ اور وجہ سے.نبوت کے لحاظ سے تو ایک ہی نبوت ہے ہاں ذکورہ بالا حوالہ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح پہلے صحف میں نبی کے لفظ سے یہ مراد ہوتی ہے کہ انہوں نے براہ راست نبوت پائی میری نسبت جب لفظ نبی بولا جائے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی جیسا کہ فرماتے ہیں:.’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعو یٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسادعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت اﷺکے افاضئہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپؐ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا-"( حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴ حاشیہ) پس اس حوالہ سے میری مراد یہی ہے کہ آپ کی نبوت پہلے نبیوں کی طرح براہ راست نہیں ورنہ نبوت کے لحاظ سے آپ کوئی فرق تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ فرماتے ہیں’’ منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگو ئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.‘‘( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵
۶۰۰ حاشیہ , روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحہ ۲۰۹ ) غرض فرق بتایا ہے تو صرف طريق حصول نبوت میں بتایا ہے.ورنہ نبوت کے متعلق تو آپ فرماتے ہیں کہ کثرت اطلاع بر امور غیبیہ ہی کی وجہ سے پہلے لوگ نبی کہلائے.(۴) ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے نزول جبریل کو نبوت کے لئے شرط ٹهہرایا ہے اور اپنی نسبت جبریل کے نزول کا دعویٰ نہیں کیا.سو یاد رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایسا دعویٰ کیا ہے جیسا کہ آپ کا الہام ہے \" جاءنی ائل واختار واداراصبعہ وأشار ان وعد اللہ اتی فطوبی لمن وجد ورای الامراض تشاع والنفوس تضاع حاشیہ پر لکھتے ہیں اس جگہ آئل خداتعالی نے جبریل کا نام رکھا ہے اس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے.حقیقت اوگی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفر ۱۰۲ - ۱۰۷) پس خداتعالی ٰنے الہام میں آپ کے پاس جبریل کے آنے کی خبر دی ہے.(۵) میں نے حقیقۃ النبوة میں یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی اس کثرت سے کہ اس کی نظیر نبیوں میں ہی ملتی ہے پس آپ بموجب آیت لا يظهر علی غیبہ کے رسول ہوئے ممکن ہے کوئی شخص اس جگہ ازالہ اوہام کے اس حوالہ سے دھو کہ کھائے کہ: ’’اس عاجز کو رویا صالحہ اور مکاشفہ اور استجابت دعا اور الہامات صحیحہ صادقہ سے حصہ وافره نبیوں کے قریب قریب دیا گیا ہے.‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۷۸) پس یاد رہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات او روحی پچھلے انبیاء کے برابر نہ تھی اس لئے وہ نبی نہ تھے کیونکہ ازالہ اوہام حضرت مسیح موعود کی ابتدائی کتاب ہے اور اس وقت تک گو آپ کثرت و حی کے مد عی تھے لیکن چونکہ اپنے آپ کو غیر نبی خیال کرتے تھے اس لئے ضرور تھا کہ اپنی وحی کو انبیاء کی وحی کے برابر نہ سمجھتے کیو نکہ اپنی وحی کو انبیاء کی وحی کے برابر بتانا خود دعوائے نبوۃ ہے پس یہ تحریر بھی اسی خیال کے بیان پر ہے جس کاذ کر اس کتاب میں کئی موقعہ پر ہو چکا ہے ہاں جب آپ کو معلوم ہواکہ آپ نبی ہیں تو اپنے الہامات کی کثرت کا اس حد تک اقرار کیا جو نبیوں کے الہاما ت میں ہو تی ہے.پس اول تو اس سے کثرت وحی کا انکار ثابت نہیں اور اگر ہو تو زیادہ سے زیادہ ہیں کہہ سکتے ہیں کہ بجائے ابتدائے دعوی ٰکے جیسا کہ میں نے لکھا
۶۰۱ ہے آپ نے ایک دو سال بعد کثرت وحی کا اقرار کرنا شروع کیا ہے لیکن اس سے بھی مخالف کو کچھ فائدہ نہ ہو گا اور زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکے گا کہ حضرت مسیح موعود ؑنے تفصیل دعویٰ کا بھی اظہار ایک دو سال بعد میں کیا ہے مگر اس بحث پر اس سے کچھ اثر نہ پڑے گا لیکن اصل بات یہی ہے کہ اس جگہ حضرت مسیح موعود نے کثرت مکالمہ سے انکار نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے کہ آپ اپنے آپ کو نبی نہ جانتے تھے.نبیوں سے فرق کرنے کے لئے یہ لکھ دیا ہے کہ آپ کی وحی نبیوں کے قریب قریب ہے لیکن اس وقت بعض لوگ حضرت مسیح موعود ؑکی نبوت کا انکار کر کے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی ہتک کرنے سے بھی باز نہیں آتے چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے رسالہ المہدی میں اس کے ایڈیٹر حکیم محمد حسین المعروف بہ مریم عیسیٰ نے یوں لکھا ہے ’’ کیا چند الہامات اور کشوف اور غیب کی خبروں سے جو صرف اس کی اپنی ہی ذات یا متعلقین یا چند دیگر اشخاص یا حوداث کے متعلق ہیں وہ محمد رسول الله ﷺ جیسا نبی ہو گیا ’’اگر اس کی یہ مراد ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود کو درجہ میں آنحضرتﷺ کے برابر خیال کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ نہیں اور اگر نفس نبوت مراد ہے تو وہ اپنے ہی رسالہ کے آخری صفحوں میں مرزا یعقوب بیگ صاحب کا مضمون دیکھے جہاں وہ لکھتے ہیں ” آنحضرت اﷺکی نبوت اور پہلے نبیوں کی نبوت میں بلحاظ نبوت کوئی فرق نہ تھا.‘‘ اور سمجھ لے کہ بلحاظ نبوت ہم بھی مرزا صاحب کو پہلے نبیوں کے مطابق مانتے ہیں اور بلحاظ درجہ کے آنحضرت ﷺکو آقا اور حضرت مسیح موعود ؑکو خادم مانتے ہیں اور اگر مسیح موعود بلحاظ نبوت چند الہامات کی بناء پر آپ کے مشابہ نہیں ہو جاتا تو وہ مجھے بتلائے کہ اور دوسرے نبی حضرت مسیح موعود سے کم الہام پا کر بلحاظ نبوت آنحضرت ﷺکے برابر کس طرح ہو سکتے ہیں وہ خوب یاد رکھے کہ حضرت مسیح موعود کو جو نشانات ملے ہیں وہ چند الہامات نہیں جو صرف ان کی اپنی ذات کی نسبت ہوں بلکہ مسیح موعود کو خدا تعالی ٰنے اس قدر کثرت سے غیب پر اطلاع دی ہے کہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.\"اور اگر کہو کہ اس وی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی مجزات اور پیشگوئیاں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیار و مجازات او را پیشگو ئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں نزول المسی صنم ۸ روحانی خزائن جلد سنہ ۲۶۰) آنحضرت ﷺ کے سوا اور کونسانبی گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں ایسے جلال اور عظمت اور
۶۰۲ زور کے ساتھ پوری ہوں اور کل دنیا کی نسبت ہوں جیسی حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں.مسیح موعود تواکثر نبیوں کی پیشگوئیوں سے اپنی پیشگوئیوں کو زائد بتاتے ہیں اور بعض نبیوں کی پیشگوئیوں کی نسبت فرماتے ہیں کہ ان کو میری پیشگوئیوں سے کوئی نسبت ہی نہیں لیکن یہ نام نہارداحمدی کس حقارت کے ساتھ کہتا ہے کہ چند الہامات جو صرف اس کی ذات کی نسبت یا بعض حوادث کی نسبت ہیں اس پر تم نے اسے نبی ہی بنا دیا اگر مسیح موعود ان چند الہامات سے نبی نہیں بنا تو جن لوگوں کے الہامات کو اس کے الہامات سے نسبت ہی نہیں وہ کس طرح نبی بن گئے حضرت مسیح موعور تو چشمه معرفت میں فرماتے ہیں کہ :.’’اور خدا تعالی نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار تھی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے ثبوت ثابت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری جملہ تھا اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار با نشان ایک جگہ جمع کر دیئے لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے اور محض افتراء کے طور پر ان کے اعتراض پیش کر دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا کا قائم کردہ سلسلہ تاہو ر ہو جائے مگر خدا چاہتا ہے کہ اپنے سلسلہ کو اپنے ہاتھ سے مضبوط کرے جب تک کہ وہ کمال تک پہنچ جاوے.“ (پایه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۲) لیکن بر خلاف اس تحریر کے آج علی الاعلان احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے رسالہ میں بہ لکھا جاتاہے کہ کیا چند الہامات کی بنا ء پر جو صرف حضرت مسیح موعود کی ذات کے متعلق اور بعض حوادث کے متعلق تھے ان کو نبی قرار دیا جاتا ہے.آہ!فسوس احمدیت کہاں گئی لکھنے والا ہمیشہ سے اسی گند میں مبتلاء چلا آیا ہے مگر ان لوگوں کو کیا ہوا جو آج سے پہلے مسیح موعود کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کہتے تھے.کیا میرے مقابلہ کے لئے انہوں نے اپنے دل اس قدر سخت کر لئے ہیں کہ مسیح موعود کی ہتک کے رسالے ان کے خرچ پر شائع کئے جاتے ہیں.کیا ان کے لئے اس قدر کافی نہیں کہ وہ مجھے اور میرے باقی رشتہ داروں کو گالیاں دے لیں اور صرف مسیح موعود کو اس سے مستثنیٰ کر لیں کہ وہ تو ان کا بھی محسن ہے.ہو سکتا ہے کہ خلافت کے مسئلہ کو رد کیا جائے اور نبوت پر اصولی بحث کی جائے لیکن وہ مسیح موعود کو جھٹلانے کی تو کوشش نہ کریں اور اس کی ہتک کے لئے تو ہاتھ نہ اٹھائیں وہ تو کہتا ہے کہ مجھے جس قدر امور غیبیه پر اطلاع دی گئی اس کے مقابلہ میں بعض نبیوں
۶۰۳ کی پیشگوئیاں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتیں اور وہ تو اپنے الہامات کل دنیا کے لئے بتاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا کہ اس کی خبر اس نے پہلے نہ دی تھی مگر ضد اور تعصب انسان کو ایسا اندھا کر دیتا ہے کہ آج احمدیوں کے روپیہ سے ایسے رسالے شائع کئے جاتے ہیں جن میں مسیح موعود کو جھوٹا قرار دیا جا تا ہے اور وہ شخص جو کہتا ہے کہ میرے معجزات کے مقابلہ میں بعض پہلے انبیاء کے معجزات کی کوئی نسبت ہی نہیں اور یہ کہ اس کے نشانات کو اگر ہزار نبیوں پر تقسیم کیا جائے تو ان کی نبوت بھی اس سے ثابت ہو جاتی ہے.اس کے الہامات کو نہایت حقارت سے \" چند \" کے لفظ سے یاد کیا جا تا ہے اور وہ جو اس بات کامدعی تھا کہ میرے لئے خدا تعالی ٰنے کل دنیا میں نشانات دکھائے اور دکھاتا رہے گا اس کی نسبت یہ کہا جا تا ہے کہ اس کے الہامات صرف اس کی ذات یا اس کے رشتہ داروں یا بعض اشخاص و حوادث کی نسبت تھے ، کیا اس سے بڑھ کر اور کوئی ہتک ہو گی.پر یس ایکٹ اس سے زیادہ شاید کچھ اور کہنے کی بھی اجازت نہ دینا ہو گا.کیا اگر خدا کا خوف نہ تھا تو اس قدر بھی شرم نہ آئی کہ آخر یہ رسالہ احمدیوں کے خرچ پر چھپے گا.انہی کے روپیہ سے انہی کے ہادی اور پیشوا کی نسبت حقارت کے الفاظ لکھ کر شائع کر ناکس شرافت کے ماتحت جائز ہو سکتا ہے.خدا کے لئے یہ تو خیال کیا ہو یا کہ مسیح موعود گو میرے بھی والد ہیں لیکن ایک لحاظ سے تو تم لوگوں کے بھی والد ہیں.عبدا لحکیم نے بھی تو یہی باتیں کہی تھیں جن پر اسے جماعت سے خارج کر دیا گیا تھا.پس اللہ تعالیٰ کا خوف کرو انی مھین کے ماتحت پکڑے نہ جاؤ اور اسی دنیا میں عذاب الہٰی کا مزہ نہ چکھو.تم بے شک کہو کہ ہم فتووں سے نہیں ڈرتے اور میرے فتووں سے بے شک نہ ڈرو لیکن خدا کے فتووں سے تو خوف کرو یہ تو نہ ہو کہ غیر احمدیوں کی طرح مسیح موعود کے الہامات کی بھی ہتک کرو یاد رکھو کہ اگر تم بعض لوگ مسیح موعود کی محبت دل سے نکال چکے ہو تو لاکھوں آدمی اس پر اپنی جان قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں اور خود تمہارے ساتھیوں میں سے بہت ایسے ہیں جو دل سے مسیح موعود کے عاشق ہیں.پس اس کی ہتک کر کے ہمارے دل مت دکھاؤ کہ دکھے ہوئے دل کی آواز عرش عظیم کو بھی ہلا دیتی ہے اور خدا تعالی ٰکا غضب دل دکھانے والے پر بھڑک اٹھتا ہے کیا ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایسے ہی رنگ سے خاتم النبیّن ثابت کیا جائے جس سے مسیح موعود کو جھوٹا قرار دیا جائے اور اس کے ہزاروں نشانات اور ہزاروں الہامات و کشوں کو چند کے نام سے یاد کیا جائے جن میں سے ایک بڑی تعداد تین جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے اور ہزاروں الہامات ہیں جو شائع نہیں ہوئے اور پھر اس کا ہر الہام اپنے اندر ایک خارق عادت عظمت رکھتا ہے.
۶۰۴ مسئلہ نبوت کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل میں تتمہ حقيقۃ النبوۃ بھی لکھ چکا تھا کہ ایک دوست نے پیغام لاہور کا ایک پرچہ نمبر۸۳ جلد ۲مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۱۵ء مجھے دکھایا جس میں " مسئلہ نبوت کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل" کی سرخی کے نیچے بڑے زور کے یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو اپنی بات بلادلیل منوائے.چنانچہ لکھا ہے پس یہ فرق یاد رکھو کہ ایک نبوت کا کام ہوتا ہے اور دوسرا انعام.کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر لوگوں کو پہنچاتا ہے اور بلا کسی دلیل کے اس حکم کو ماننے اوراس پر عمل کرنے کے لئے کرتا ہے ایسا شخص حقیقی اور مستقل ہو تا ہے لیکن جس کا حکم بغیر کسی ۵ اور دلیل کے واجب التعمیل میں وہ حقیقی معنوں میں نبی نہیں ہو سکتا.مثلا ًاگر مرزا صاحب وفات مسیح کی بابت خدا سے علم پاکر بغیر کسی اور دلیل کے ہمیں منواتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ حقیقی اور مستقل نبی ہیں لیکن جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور باوجود خدا سے علم حاصل کرنے کے اس پرعالمانہ بحث اور جرح و قدح کی ہے اور پھر قرآن سے دلائل دے کر ہمیں منوایا ہے تو اس صورت وہ حقیقی نبی نہیں ہوسکتے.‘‘ میں تو اس مضمون پر جس قدر غور کر تاہوں حیرت و تعجب زیادہ ہی زیادہ ہوتا جاتاہے.اول تو حیران ہوں کہ بلا دلیل منوانے کا مطلب کیا ہے کیانبی ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بات بلا دلیل ہو یا یہ کہ نبی اسی کو کہتے ہیں جو لوگوں سے بلا دلیل بات منوائے؟ اگر اس بات کودرست مان لیا جائے تو اول تو نبیوں سے زیادہ قابل رحم جماعت دنیا میں کوئی نہیں رہتی کہ وہ جوبات کہتے ہیں بلا دلیل کہتے ہیں کیونکہ دلیل کا نام آیا اور نبوت باطل ہو گئی.دوم اس دلیل سےعیسائیوں کی خوب چڑھ بنے گی وہ آگے ہی اپنی بے سروپا باتوں کے لئے میں دلیل دیا کرتے ہیں کہ انجیل میں یونہی آیا ہے تم لوگ مان لو خدا کے نو شتوں میں ایسا لکھا ہے قبول کرو جب کہا جائے کہ آپ لوگوں پر حجت ہے نہ ہم پر.تو کہہ دیتے ہیں.نہیں خدا کا کلام ہے سب پر حجت ہے پس اس دلیل سے تو ان کی بات ثابت ہے.کیونکہ نبی کے لئے شرط ہے کہ اس کی باتیں بلا دلیل ہوا کریں اور دلیل نہ دیا کرے صرف اس قدر کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا کہا ہے اسے مان لو تیرے یہ نقص آتا ہے کہ قرآن کریم کی اور آنحضرت اﷺکی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ قرآن کریم
۶۰۵ میں تو ہم کوئی ایسا علم نہیں دیکھتے جو بلا دلیل ہو قرآن کریم تو شروع سے لے کر آخر تک دلائل کا مجموعہ ہے اور سب دعووں کے ساتھ دلیل دیتا ہے.سب احکام کے ساتھ ان کی عصمتیں بیان کرتاہے.وہ خداتعالی ٰکا وجود نام سے منوانا ہے تو اس کے لئے زبردست ولائل پیش کرتا ہے.وہ ملائکہ کاوجود ہم سے منواتا ہے تو اس کے لئے زبردست دلا کل ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.وہ کتابوں کاو جود نام سے منواتا ہے تو اس کے لئے دلا ئل دیتا ہے رسولوں کو منواتا ہے تو اس کے لئے دلائل دیتاہے.قیامت پر ایمان لانے کے لئے کہتا ہے تو اس کے لئے دلائل دیتا ہے غرض وہ کونسی بات ہےجس کے ماننے کا قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے اور اس کے لئے دلا ئل نہیں دیتا.حضرت مسیح موعود نے تو مباحثہ آتھم میں یہ شرط پیش کی تھی کہ سچی کتاب وہی ہو سکتی ہے اور دعویٰ بھی خود کرے اور دلیل بھی خود دے.شکر ہے کہ وہ مولوی صاحب جنہوں نے نبی کی مذکورہ بالا تعریف ایجاد کی ہےاس وقت نہ تھے ورنہ پادری صاحب کی بڑے زورسے تائید کرتے اور حضرت مسیح موعودسے کہتےکہ جناب اگر دلیل کا نام در میان میں آئے تو رسول کی رسالت باطل ہو جاتی ہے آپ کیوں ایسامطالبہ کرتے ہیں جس سے بجائے صداقت ثابت ہونے کے رسالت باطل ہو جاتی ہے.افسوس کہ مولوی صاحب نے قرآن کریم پر بھی غور نہ کیا کہ وہ تو ہر ایک بات بادلائل منواتا ہے نہ کہ بے دلیل.اگر کہو کہ ہم نے تو لفظ حکم کارکھاہے عقائد کا تو یہاں ذکر ہی نہیں بلکہ صرف اعمال کا ذکر ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ نے مثال تو وفات مسیح کی دی ہے کیا وفات مسیح بھی کوئی کام ہے جس کا حکم مسیح موعود نے دیا ہے لیکن احکام کو بھی لو تو ان میں بھی دلا ئل ساتھ ہیں نماز ،زکوة، روزہ، حج سب احکام کے قرآن کریم نے دلائل دیئے ہیں اور ان کی خوبیاں بیان کی ہیں اگر کہو نہیں ہمارا یہ مطلب ہے کہ الہام الہٰی میں تو بے شک دلیل ہو لیکن وہ نبی کوئی دلیل نہ دے تو یہ خود ایک دعویٰ ہو گا جس کا ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا.اور چونکہ مولوی صاحب نبی نہیں ہیں اس لئے خود اپنے عقیدہ کے مطابق انہیں یہ دعوی ٰقرآن کریم سے ثابت کرنا ہو گا کہ نبی وہی ہوتا ہے جو اپنے الہام کے علاوہ کوئی دلیل نہ دے.لیکن پھر یہ مشکل پیش آئے گی کہ رسول اللہ ﷺکے کلام میں بیسیوں امور کے متعلق دلائل موجود ہیں اب تو تحریر کا زمانہ ہے اس لئے مسیح موعود کی سب کتابیں موجود ہیں پہلے نبی بھی خاموش نہ رہتے تھے مگر ان کی باتیں محفوظ نہیں لیکن جس قدر ہیں ان سے دلائل کا پتہ چلتا ہے.احادیث میں بکثرت دلائل موجود ہیں.انجیل کو ہی دیکھ لو.اس میں حضرت مسیح کی طرف دلائل منسوب ہیں پھر میں کہتا ہوں دو سری کتاب کی ضرورت نہیں خود قرآن کریم میں
۶۰۶ حضرت ابراہیمؑ کے مباحثات درج ہیں.حضرت موسیٰؑ کے مباحثات درج ہیں.حضرت نوح کےمباحثات درج ہیں اور سب میں دلا ئل مذکور ہیں پس ان کی نبوت کا بھی انکار کر دینا چاہئے.افسوس کہ اس جگہ گنجائش نہیں ورنہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے جو مباحثات درج ہوئے ہیں ان میں سے بعض کی تشریح کر کے بتاتا کہ وہ کیسے بادلائل ہیں مگر تیسرے ہی پارہ میں حضرت ابراہیمؑ اور ایک بادشاہ کا مباحثہ درج ہے اسے دیکھو کہ وہ بادلا ئل ہے یا نہیں.پھر حضرت مسیح موعود پر کیا الزام ہے کہ وہ دلیل کیوں دیتے ہیں ؟ یہ تو سخت مشکل پیدا ہو گئی کہ مخالف تو اعتراض کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب دلیل نہیں دیتے اس لئے صادق نہیں.اب کچھ اپنے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ چونکہ دلیل دیتے ہیں اس لئے آپ کی نبوت ثابت نہیں اگر کہو کہ پہلی کتابوں کے حوالوں سے کوئی بات ثابت نہیں کرنی چاہیے اور حضرت مسیح موعود اپنے دعوی ٰکے ثبوت کے لئے قرآن کریم کو پیش کرتے رہے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ انجیل میں بھی پہلے نبیوں کی کتابوں سے دلیل لی گئی ہے اور قرآن کریم نے بھی ومن قبلہ کتب موسیٰ (الاحقاف: ۱۳) کہہ کر حضرت موسیٰ کو اپنا گواہ پیش کیا ہے اور یجدونه مكتوبا عندهم في التوراة والإنجيل (الاعراف:۱۵۸) کہہ کر دونوں کتابوں کو اپنا گواہ بنایا ہے اور افمن كان على بينة (محمد۱۵) سے رسول اللہ کے دعوی کوبا دلیل ثابت کیا ہے غرض کہ یہ ایک ایسالغودعوی ٰکیا گیا ہے جس کا ثبوت نہ قرآن کریم سے نہ حدیث سےملی نہیں سکتا اور نہ عقل اسے باور کرتی ہے چونکہ کاپی کے صرف دو صفحات خالی تھے اس لئے میں نے اختصار سے کام لیا ہے اور زیادہ لکھنے میں دیر کا خطرہ ہے ورنہ میں اس پر اور مفصل لکھتا.شاید اللہ تعالیٰ پھر موقعہ دے دے.اصل بات یہ ہے کہ مولوی صاحب دعویٰ اور دلیل میں فرق نہیں سمجھتے.وہ نبی کی جو تعریف کرتے ہیں اور جس کو وہ قرآن کریم سے ہرگز ثابت نہیں کر سکتے.اسی کو انہوں نے دوسرے لفظوں میں بدل کر دلیل کے طور پر پیش کر دیا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مدعی اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے خود ہی گواہ بن جائے اور یہ سزا ملی ہے ان کو رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو بے دلیل کہنے کی.خاکسار مرزا محموداحمد
۶۰۷ ؎۱ میں اپنے مضمون کا اکثر حصہ ختم کرچکاتھاکہ سولہ تاریخ کو مجھے وہ رسالہ ڈاک میں مل گیاگو کافی دیر کے بعد.منہ ؎۲ اس نشان کرده عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اس جگہ اپنی فضیلت کسی اور معاملہ میں بیان نہیں فرماتے بلکہ نبی اورحکم ہونے کے لحاظ سے اپنی فضیلت کا ذکر فرماتے ہیں کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اسے ثابت کرناچاہئے کہ آنے والا مسیح نہ نبی کہلاسکتاہے نہ حکم.جس سے معلوم ہؤا کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ پہلامسیح نبی تھا.اور حضرت مسیح موعودؑنبی نہ تھے بلکہ اسی طرح آپ کانام نبی رکھ دیا گیا تھا جیسے آدمی کو شیر کہہ دیں.وہ جھوٹا ہے.مرزامحموداحمد ؎۳ اس جگہ کوئی اس بات سے دھوکہ نہ کھاۓ کہ حضرت صاحب تو فرماتے ہیں کہ اس کتاب کے دو چار ورق باقی ہیں اور جس حوالہ پربحث ہے وہ آخری دوورق کے اندر ہے کیونکہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت مسیح موعود نے کتاب کے شائع کرنے کے وقت صرف ایک صفحہ زائد لکھا ہے اور جبکہ حضرت مسیح موعود خود اس عقیدہ کو جو اس حوالہ میں درج ہے منسوخ قرار دے چکے ہیں.ان کتابوں سے جو ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئیں تو صاف ثابت ہے کہ یہ حوالہ پہلے کا لکھا تھا اور حضرت مسیح موعودؑنے کتاب کو ختم کرنے کے لئے صرف ایک صفحہ اور لکھ کر شائع کرنے کی اجازت دی اور حضرت مسیح موعود کی بات کی تصدیق شہادت نمبر سے ۶.۷ سے بھی ہوتی ہے.؎۴ یعنی اپنی طرف سے جھوٹے الہام بناکر خدا کی طرف سے اپنے مامور ہونے کادعوی کرتا.منه ؎۵ شرط سے مراد اس وقت ہماری اجزائے فصل ہیں شرط کا لفظ اس لئے اس جگہ استعمال کیا گیا ہے تا عوام سمجھ سکیں.اسی طرح خصوصیت و خصوصیات سے خاصہ غیرشاملہ مراد ہوگی.منہ ؎۶ اس تحریر سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نبی اور محدث کو ہم معنے خیال کرتے ہیں کیونکہ یہاں محدث کالفظ اس لئے بڑھایا گیا ہے کہ ہر ایک نبی محدث بھی ہوتا ہے ورنہ محدث اور نبی ایک نہیں ہیں جیسا کہ حضرت اقدس نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کانام نہیں رکھتاتو پھربتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے‘‘ مرزامحموداحمد.؎۷ اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نبی کے لئے لغت کے لحاظ سے بھی اور قرآن کریم کے لحاظ سے بھی کثرت اطلاع برامور غیبیہ شرط ہے کیونکہ یہ صیغہ مبالغہ کا ہے لیکن جب لفظ نبوت بولیں تو اس کے دومعنے ہوں گے ایک تو اس لفظ کے معنے نبی کے مفہوم کو علیحدہ کر کے ہوں گے اور وہ صرف خبردینے کے ہیں اور دوسرے معنے اس کے نبوت انبیاء کے لحاظ سے ہوں گے اس وقت اس کے معنوں میں کثرت کی شرط پائی جائے گی پس ایک شخص جو ایک زبردست خبردے اس کی خبر کویارؤیا کو نبوت کہہ سکیں گے لیکن وہ نبی کا نام پانے کا مستحق نہ ہو گا جب تک اس کے الہامات میں کثرت سے غیب کی خبریں نہ ہوں اور اہم امور کی نسبت نہ ہوں مرزا محمود احمد(دیکھو حوالہ نمبر ۸جو آگے آتا ہے) ؎۸ اس بات کی تائید میں حضرت مسیح موعود عکی کتاب حقیقۃ الوحی کا یہ حوالہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے ’’مگر بعد میں جو خداتعالی ٰکی وحی بارش کی طرح میرے پرنازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ نبی کا خطاب اللہ تعالی ٰہی دے تودے ورنہ آدمی کاحق نہیں کہ آپ ہی نبی بن جائے یا کسی دوسرے کو نبی کا خطاب دے دے جیساکہ بعض لوگ سید عبد القادر جیلانی ؒاور امام حسین ؓکو نبی کہتے ہیں ایسے لوگ ایک طور پر خدائی کادعوی ٰکرتے ہیں اور جو کام خدا کا ہے اسے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں تعجب ہے کہ جن لوگوں نے دعوائے نبوت کیا بھی نہیں ان کو تو نبی بنایاجاتا ہے اور جس کانام خدا اور رسول نبی رکھتے ہیں جو اپنا نام آپ نبی رکھتا ہے اس کی نبوت کی سوسو تاویلیں کی جاتی ہیں اور دوسروں کو اس کے ساتھ شامل کر کے اس کی نبوت کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے.العجب العجب العجب.حضرت موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا قابل غور ہے ’’انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہےسو میں خدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں اور اگر میں اس نے انکار کردیں تو میرا گناہ ہوگا’’ اس سے بھی ظاہر ہے کہ نبی وہی ہے جس کانام خدانبی رکھے اور اس کے حکم سے وہ اپنی نبوت کا اعلان کرے نہ کہ ہر کسی و ناکس اٹھ کر جسے چاہے نبی کا خطاب دے دے خان بہادر کا خطاب تو گورنمنٹ کے سوا کوئی نہ دے سکے لیکن نبی جو چاہے کسی کو بنادے.؎۹ اس جگہ کسی کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود حقيقة الوحی میں تحریر فرماتے ہیں " یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کرد ھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویامیں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کوملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایساد عویٰ نہیں (حقيقة الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۴حاشیه)اور یہ اس حوالہ کے خلاف ہے کیونکہ اس جگہ حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ بلاواسطہ نبوت پانے والاہی نبی کہلاتا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میری نبوت اس قسم نبوت سے نہیں جو پہلے انبیاء کو بلاواسطہ ملتی تھی اور قسم کے بدلنے سے نبوت کی نفی نہیں ہوتی بلکہ جیسا کہ میں
۶۰۸ اوپر کے آیا ہوں اس سے نبوت میں اتناہی فرق پڑتا ہے جس قدر کسی آدمی کوسید یا پٹھان کہہ دینے سے اس کی آدمیت میں.منہ ؎۱۰ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ درحقیقت آیت.لَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ.مین ان تینوں شرائط کا مفہوم آجاتا ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہیں.اور ان تینوں شرطوں کا ایک ہی شرط بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ہر ایک شخص کی سمجھ ایسی تیز نہیں ہوتی کہ وہ خود باریک باتوں کا استخراج کر لے.اس لئے میں نے ہر شخص کے سمجھانے کے لئے تینوں باتوں کو الگ الگ بیان کر دیا ہے تا ہر شخص کو سمجھنے میں دقت نہ ہو.ورنہ فَلَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ أَحَداً.إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِن رَّسُولٍ.کی آیت میں غلبہ علی الغیب کے معنے ہی یہ قرار دیئے ہیں کہ وہ اخبار انذار وتبشیر اپنے اندر رکھتے ہوں اور آیت.اِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ.(الانعام:49)درحقیقت کوئی الگ شرط نہیں لگاتی بلکہ اسی آیت کی تفسیر ہے.اور نبی کا نام خدا کی طرف سے رکھا جانا بھی اسی آیت سے ثابت ہے کیونکہ غیر نبی پر تو اﷲ تعالیٰ کثرت سے غیب ظاہر کرتا ہی نہیں جیسا کہ آیت مذکورہ بالا سے ثابت ہے.اور جبکہ اﷲ تعالیٰ رسول کو رُسُلِہ میں اپنی طرف نسبت دیتا ہے تو یہ بات ہے کہ نام بھی وہ خود ہی رکھتا ہے.ورنہ دوسرے اشخاص کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں شخص اب اس درجہ کو پہنچ گیاپس کثرت سے اظہار امور غیبیہ کا ہونا ایک ایسی شرط ہے جو درحقیقت ایک ہی شرط نبوت ہے.اور دوسری دونوں شرطیں اسی کی تشریح ہیں.گو قرآن کریم سے صاف طور پر ثابت ہیں اور ہم نے ان کو الگ اس لئے بیان کیا ہے تاہر شخص کی نظرتلے رہیں ورنہ خطرہ تھا کہ بعض لوگ انہیں نظرانداز کرکے ٹھوکر کھاتے.منہ ۱۱.حضرت مسیح موعود نے بعد میں خود محدث کے نام کو ترک کر دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتاتو پربتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے اگر کہو اس کانام محدث رکھناچاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹) اسی طرح فرمایا ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اورشخص نبی کے نام پانےکا مستحق نہیں گزرا حالانکہ محدث گزرے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ حضور نے آئندہ اپنے آپ کو محدث سے بڑے درجہ والا قرار دیا ہے.محموداحمد.۱۲.جزئی نبوت کا لفظ بھی حضرت نے ۱۹۰۰ء کے بعد سے ترک کردیا ہے.محمود احمد ۱۳.اس حوالہ سے بھی یہی ظاہر ہے کہ آپ نے شریعت والی نبوت کا انکار کیا ہے.مرزامحمود احمد ۱۴.اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ نبوت کی بعض اقسام کے بند ہونے کا حضرت مسیح موعود ذکر فرماتے ہیں نہ کہ نبوت بند ہونے کاکیونکہ خود فرماتے ہیں کہ مگر ایک قسم کی نبوت بند نہیں.۱۵.اس عبارت کابھی یہی مطلب ہے کہ حضرت کی نبوت سے مراد کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پاناہے.مرزا محمود احمد ۱۶.اس عبارت کو دیکھ کر غور کرلو کہ حوالے دینے میں مولوی صاحب نے کس دیانت سے کام لیا ہے وہ عبارت چھوڑہی گئے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ اس کثرت مکالمہ کا نام خداتعالی کی اصطلاح میں نبوت ہے.۱۷.اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو نبوت براہ راست نہیں ملی.نہ یہ کہ نبوت ہی نہیں ملی.۱۸.امتی نبی کے معنے آگے بتائے جائیں گے.مرزا محمود احمد ۱۹.ظلی نبی کے معنےآگے بتائے جائیں گے.مرزا محمود احمد ۲۰.اس حوالہ سے بھی صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کی قسم کثرت مکالمہ والی ہے نہ کہ شریعت لانے والی نبوت مرزا محموداحمد.۲۱.اس حوالہ کا بھی یہی مطلب ہے کہ حضرت صاحب شریعت نہیں لائے کیونکہ حقیقی نبوت کے معنے خود آپ نے شریعت والی نبوت کئے ہیں.مجازی نبوت کی تشریح آگے پوری طرح آجائے گی انشاء اللہ.۲۲.اس میں کیاشک ہے کہ حضرت مسیح موعود ایک لحاظ سے آنحضرت ﷺ کے بروز تھے اور ایک لحاظ سے آپ کے باغ کے ایک پھل تھے آنحضرت ﷺ کی امت میں لاکھوں آدمی گزرے ہیں جو نہایت نیک تھے پس تعداد کے لحاظ سے آپ باغ میں سے ایک پھل ہی تھے اور بارش میں سے ایک قطرہ اس سے یہ نتیجہ کس طرح نکلا کہ ا ٓپ نبی نہ تھے.آ نحضرت ﷺ نے فرما یا کہ میں نبوت کے مکان کی آخری اینٹ ہوں تو کیا اس سے ثابت ہؤا کہ آپ چونکہ ایک اینٹ تھے اس لئے نبی نہ تھے.درجہ کے لحاظ سے آپ نبوت کے مکان میں جس قدر اینٹیں تھیں سب سے افضل اور اعلیٰ تھے.اور سب کے جامع تھے.لیکن تعداد کے لحاظ سے آپ ہزاروں لاکھوں میں سے ایک تھے.اسی طرح درجہ کے لحاظ سے مسیح موعود آنحضرت ﷺ کے بروز کامل تھے.مگر اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کے طفیل کروڑوں آدمی اولیاء اﷲ ہوگئے.آپ ان کے باغ کے ایک پھل اور بارش سے ایک قطرہ تھے.مرزا محمود احمد.۲۳.اس کا جواب کہ صرف مسیح موعودنبی تھے یااور بھی افراد ایسے گزرے ہیں آگے آئے گا انشاءاللہ مگراس حوالہ سے بھی صرف یہ ظاہر
۶۰۹ ہوتا ہے کہ آپ صرف نبی نہ تھے بلکہ امتی بھی تھے اور اس بات کے ہم مقر ہیں امتی ہونے سے یہ کیونکر ثابت ہواکہ آپ نبی نہیں.مرزا محمود احمد ۲۴.اس حوالہ میں بھی نام نبوت اورنبی ہونے سے انکار کیا ہے یہ نہیں فرمایاکہ مجھے کثرت سےغیب کی اطلاع نہیں دی جاتی یایہ کہ خدا نے میرا نام نبی نہیں رکھا اور اوپر کے الزامات سے معلوم ہو تا ہے کہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ میں کوئی نیامذہب نہیں لایا کیونکہ ان الزامات میں ملائکہ کا انکار جبریل کا انکار اور بہشت و دوزخ کا انکار بھی شامل ہے نبوت کے انکار سے کیا مطلب ہے اس کا بیان آگےمذکور ہوگا.مرزا محمود احمد ۲۵.اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کے معنے ہی حضرت مسیح موعودیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ پرتمام کمالات ختم ہوگئے اور آپ کے بعد اب کوئی شخص کسی قسم کاکمال حاصل نہیں کر سکتا جب تک آپ سے ظلی طور پراسے حاصل نہ کرے جو لوگ ظلی کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ صرف نام اور کچھ نہیں جیسے یہ کہتے ہیں کہ ظلی نبی سے یہ مطلب نہیں کہ نبی ہو گئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ کا نام نبی رکھ دیا گیاروہ اس حوالہ پر غور کریں اس جگہ حضرت مسیح موعود نے کل کمالات نبوت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ ظلی طور پر حاصل ہوتے ہیں اگر ظلی کے معنے وہی کئے جائیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو پھر اس کا یہ مطلب ہوگا کہ الہام اور رؤیا اور کشوف درحقیقت اولیاء اللہ کو کوئی نہیں ہوتے صرف الہام اور روؤیا اور کشوف ان کانام رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ الہام اور رؤیا تو بہت بڑے کمالات نبوت میں سے ہیں پس اب کسی کو نہیں مل لئے حضرت صاحب کی تحریر کے مطابق تواب یہ کمال بھی ظلی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اور جو معنے ظلی نبی کے کئے جاتے ہیں ان کے روسے ظلی شئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی پس جب الہامات بھی ظلی ثابت ہو گئے تو الہامات سے بھی انکار کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود نبی نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو ظلی نبی کہتے ہیں اسی طرح ان کے الہام در حقیقت الہام نہیں کیونکہ وہ ہر کمال نبوت کو ظلی کہتے ہیں اورالہامات اعلیٰ ترین کمال نبوت ہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود اور ان سے پہلے بزرگوں کو ان کے رتبہ اور درجہ سے جواب دیناپڑے گا پھر میں کہتا ہوں کہ آپ کی مسیحیت اور مہدویت بھی تو ظلی ہے پس چاہئے کہ جس طرح نبی کہنا جائز نہیں سمجھتے مسیح بھی نہ کہا کریں اور مہدی بھی نہ کہاکریں کیونکہ حضرت عمسیح موعود تو تمام کمالات نبوت کو ظلی قرار دیتے ہیں اور مسیحیت سے مراد وہ کمالات ہیں جو حضرت مسیح میں تھے جو نبی تھے اور مہدویت سے مراد وہ کمالات ہیں جو مہدی اعظم حضرت و مصطفٰی ﷺ میں تھے پس آپ کو نہ مسیح کہنا چاہے اور نہ مہدی کیونکہ آپ کو جو کچھ ملا ظلی طور سے ملا لیکن یہ خیال باطل ہے ظلی کے معنے صرف یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے جو کچھ پایا آنحضرت ﷺسے پایا نہ یہ کہ آپ نہ نبی کہلا سکتے ہیں نہ مسیح نہ مہدی آپ نبی بھی تھے اور مہدی بھی تھے اور یہ سب مدارج آپ کے ظلی تھے یعنی آنحضرت ﷺکی معرفت اور آپ کے عکس کو اخذ کر کے پائے اور جو اس کے خلاف سمجھتا ہے وہ حق پر نہیں.مرزا محموداحمد.۲۶.اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ اس اشتہار میں حضرت صاحب نے اپنے ناقص نبی ہونے کی بھی تادیل فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ لفظ بھی صرف سادگی سے لکھا گیا ہے اور پھر لکھتے ہیں کہ میری مرادنبی سے صرف محدث ہے جہاں نبی کالفظ لکھا جاچکا ہے اس کی جگہ محدث لکھ لیں اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں کئی لوگ ایسے گزرے ہیں کہ ان کو الہام ہوتا تھا مگر وہ نبی نہیں تھے لیکن یاد رہے کہ یہاں صرف کلام الہیٰ لکھا ہے اور یہ نہیں لکھا کہ ان کو کثرت سے الہام ہوتے تھے جو اخبار غیب پر مشتمل تھے اور نبی ہونے کے لئے کثرت شرط ہے اس لئے وہ لوگ بار جو دم ہونے کے نبی نہیں کہلائے جیساکہ آج کل کئی ایسے شخص ہیں جن کو الہام ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کے الہاموں میں کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع نہیں ہوتی اس لئے نبی نہیں کہلا سکتے.اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نے اس جگہ یہ لکھاہے کہ میں نبی نہیں محدث ہوں اور نبی سے میری میری مراد صرف محدث ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ مجھے کثرت سے غیب نہیں بتلایا جا تا پس آپ نبوت کی شرائط سے اس وقت بھی انکار نہیں کرتے باقی رہایہ کہ آپ نے اپنے آپ کو بجائے رسول و نبی کے محدث کیوں کہا اس کا جواب مفصل آگے آئے گا.مرزا محموداحمد ۲۷.اس کا مطلب بھی آگے چل کر بیان ہو گامگریاد رہے کہ اس جگہ بھی حضرت مسیح موعودنے کیفیت نبوت کی تفصیل سے انکار نہیں کیا یعنی یہ نہیں کہاکہ مجھے اظہار على الغيب کارتبہ حاصل نہیں.مرزا محمود احمد ۲۸.اس حوالہ سے صاف ثابت ہے کہ آپ اس نبوت کا انکار کرتے ہیں جس سے قرآن شریف کو منسوخ قرار دیا جائے اورنئی شریعت آئے.مرزا محمود احمد ۲۹.اس عبارت میں بھی اسی نبوت کا انکار کیا گیا ہے جس میں عقائد اسلام سے منہ پھیرلیا جائے نہ کہ کسی اور نبوت کا لیکن اگر اسی کو تعلیم کر لیا جائے کہ ہر ایک نبوت کے آنے کا انکار کیا گیا ہے تو بھی اس کی تشریح آگے آجائے گی ہاں یہ یاد رہے کہ اس عبارت سے بھی یہ ثابت نہیں ہو تاکہ آپ پر کثرت سے غیب ظاہر نہیں ہو تا تھا.مرزا محمود احمد.
۶۱۰ ۳۰.اس عبارت میں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ ان کے درجہ کا نام محدث ہے نہ نبی اور یہ کہ آپ بہت سے محدثوں میں سے ایک محدث ہیں اس امت میں کوئی نبی نہ آئے گانہ نیانہ پرانا.لیکن اس جگہ بھی یہ نہیں فرمایاکہ آپ کو کثرت سے امور غیبیہ پراطلاع.نہیں دی جاتی.اور باقی باتوں کا جواب آگے مفصل آئے گا.مرزا محمود احمد ۳۱.اس جگہ بھی گو فرمایا ہے کہ میں نبی نہیں رسول نہیں لیکن یہ انکار نہیں کیا آپ کو اظهار على الغیب کا مرتبہ حاصل نہ تھا بلکہ فرماتے ہیں کہ رسولوں کی مانند خدا تعالیٰ کے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور نام نبی کے انکار کی وجہ آگے تائی جائے گی.مرزامحمود احمد ۳۲.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ نے انبیاء کے انعامات پانے کادعوی کیا ہے.گویا اس کے نام بدلے ہیں اور اس کی وجہ آگے مذکور ہو گی.مرزا محمود احمد ۳۳.اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ آپ ایسانبی ہونے سے منکر ہیں جو قرآن شریف کو چھوڑ کر اور شریعت لائے.مرزا محموداحمد.۳۴.نوٹ.ایسے لفظ نہ اب سے بلکہ سولہ برس سے میرے الہامات میں درج ہیں چنانچہ براہین احمدیہ میں ایسے کئی مخاطبات الہٰیہ میری نسبت پا ؤگے.منہ (حضرت مسیح موعود) ۳۵.اس عبارت سے پہلی سب تحریر حل ہوگئی اور وہ یہ کہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ نبی سے مراد وہ نبی ہے جو آپ براہ راست نبی بن جائے اور آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر کوئی الگ دین بنائے اور ہم حضرت مسیح موعود کو ایسا نبی ہر گز نہیں مانتے.مرزا محمود احمد.۳۶.اس جگہ بھی حضرت مسیح موعود نے یہ انکار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبی نہیں آسکتانبی کالفظ صرف ایک معمولی محاورہ ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ مجھے امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع نہیں دی جاتی جو صرف رسولوں کو ملتی ہے نبی کے لفظ سے انکار کی تشریح آگے کی جائے گی.مرزا محموداحمد ۳۷.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے آپ کو لغوی معنوں میں نبی قرار دیتے ہیں اور میں بتا آیا ہوں کہ لغوی معنے نبی کے وہی ہیں جو قرآن کریم نے نبی کے کئے ہیں.پس آپ کی نبوة ثابت ہے ہاں یہ جو فرمایا کہ اسلامی اصطلاح کے معنے الگ ہیں اس.کا مطلب آگے بیان کیا جائے گا.مرزا محمود احمد.۳۸.اس حوالہ سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لانبی بعدہ کے آپ یہ معنے نہیں کرتے کہ نبی ہو گا ہی نہیں بلکہ یہ کہ وہی نبی ہوگا جو آپ کےفیض سے نبی بنا اور آپ کے وعدہ نے اسے ظاہر کیا.۳۹.دیکھو اس جگہ اس نبی سے اولیاء کو علیحدہ کیا ہے کہ ایک توده نبی ہے جو آپ کے فیض سے نبی ہوا اور جس کی بابت آپ کی پیشگوئی تھی کہ وہ نبی اللہ ہو گا.اور ایک اولیاء ہیں کہ ان کو بھی مکالمات و مخاطبات سے حصہ ملتاہے لیکن اولیاء کے لئے کثرت کی شرط نہیں لگائی صرف مکالمات و مخاطبات فرمایا ہے اگر کوئی شخص کہے کہ بعض جگہ حضرت مسیح موعود نے اپنی نسبت بھی کثرت کالفظ ترک کردیا ہے سو کیوں نہ خیال کیا جاوے کہ اس جگہ بھی کثرت مراد ہے گو لفظ کثرت کا ترک کردیا ہے تویاد رہے کہ بے شک حضرت مسیح موعود اپنی نسبت بھی بعض جگہ کثرت مکالمہ کی بجائے مکالمہ کالفظ استعمال کر جاتے ہیں لیکن جبکہ دوسری جگہوں میں آپ نے اپنے مکالمہ کے ساتھ کثرت اور امور غیبیہ کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں.تو اگر بعض جگہ آپ ان الفاظ کو ترک کر دیں تو بھی ہمیں ان کاوہی مفهوم سمجھنا پڑے گا.لیکن دیگر اولیاء کے ساتھ آپ نے کثرت مکالمہ اور کثرت سے امور غیبیہ کے اظہار کی شرط نہیں بیان فرمائی.پس اس جگہ کثرت کا مفہوم نہیں نکال سکتے اور اس حوالے سے دو الگ چیزیں ثابت ہیں ایک نبوت کا وجود جو فیض محمدی سے حاصل ہونے والی تھی اور ایک ولایت کاوجود وہ بھی فیض محمدی سے حاصل ہوتاہے لیکن اس کے لئے کثرت مکالمات شرط نہیں اور جو لوگ ان اولیاء کو بھی نبیوں کے گروہ میں شمال کریں جن کی نسبت قرآن کریم میں اظہار على الغیب کی شرط لگی ہوئی ہے وہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان کی نسبت شیطان کالفظ استعمال فرمایا ہے.مرزا محموداحمد.۴۰.ختم نبوت کے معنی بھی اس جگہ صاف کر دیئے ہیں کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ کوئی نبی آپ کے بعد نہ آئے گا بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ پر سب کمالات ختم ہو گئے.اور لا نبی بعدی کے معنی بھی بتائے کہ آپ کے بعد کوئی ایسانبی نہیں جو آپ کی امت سے باہر ہو نہ یہ کہ کوئی نبی ہو گاہی نہیں ایک اور لطیف بات بھی اس جگہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایسا نبی ہو نا مقام غیرت نہیں جس سے آپ کی نبوت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اگر آپ غیرنبی تھے تو غیرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتاغیرت کا سوال تو تبھی پیدا ہو سکتا تھاجب آپ نبی ہوتے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ غیرت کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ گو میں نبی ہوں لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ کے نور اور روحانیت سے نبی بنا ہوں اس لئے مقام غیرت نہیں اور یہ جواب بالکل درست ہے ایک باپ غیور ہو تا ہے اس بات پر کہ اس کامال کوئی اور نہ سنبھال لے لیکن اپنے بیٹے کے وارث ہونے پر تو خوش ہوتا ہے اسی طرح اگر کوئی براہ راست نبوت پاتا
۶۱۱ تو جائے غیرت تھی لیکن جبکہ وارث نبوۃ آنحضرت ﷺ کاہی ایک روحانی فرزند ہواتو غیرت کا کیا سوال؟ ۴۱.اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ امتی نبی کا وجود ختم نبوت کی شان کو بند کرتا ہے مرزا محموداحمد.۴۲.اس عبارت سے ہر ایک صاحب فراست معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود جس نبوت کو بعد آنحضرت ﷺ بند فرماتے ہیں وہ در حقیقت شریعت لانے والی نبوت ہے یا جس نبوت سے آنحضرت ﷺ کی پیروی معطل ہونہ کہ نبوت بند ہے.مرزا محمود احمد ۴۳.اس عبارت پر غور کرد کیسا صاف ہے کہ آپ نے جس نبوت سے انکار کیا ہے وہ ایسی نبوت ہے جس کا ہونا قرآن کریم میں منع ہے نہ یہ کہ ہر ایک نبوت سے انکار کیا ہے.۴۴.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ صرف اس نبوت سے انکار کرتے ہیں جس میں آپ آنحضرت ﷺ کی امت سے نکل جائیں یہ نہیں فرماتے کہ میں نبی ہوں ہی نہیں.۴۵.عبارت نہایت صاف طور پر ایک نبی اور ایک مامور میں فرق کرد کھاتی ہے کیونکہ اس میں بتایاگیا ہے کہ گو اس امت کے بعض افراد ملہم ہیں لیکن نبی وہ ہو تا ہے جس پر بکثرت امور غیبیہ کا اظہار ہو اور حضرت مسیح موعود اس بات کے مد عی ہیں کہ مجھ پر أمور غیبیہ کثرت سے ظاہر کئے جاتے ہیں پس آپ دو سرے مامور ملہموں میں شامل نہیں بلکہ نبیوں میں شامل ہیں.مرزا محمود احمد.۴۶.اس حوالہ میں بھی آپ نے نبوت کی شرائط کا اقرار کیا ہے.۴۷.اس جگہ بھی صرف قسم کی نبوت سے انکار کیا ہے جو پہلے نبیوں کو براہ راست ملتی تھی نہ کہ نبوت سے بلکہ فرمایا ہے کہ یہ نبوت اتباع خاتم النبیین سے ملتی ہے.۴۸.اس عبارت سے بھی صاف ظاہر ہے کہ آپ کثرت مکالمہ کادعویٰ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کا نام نبوت ہے ہاں جاہل لوگ اسے نبوت خیال نہیں کرتے اور اس جگہ اورلفظ رکھنا چاہتے ہیں.۴۹.صاف ظاہر ہے کہ آپ نبی ہونے سے انکار نہیں کرتے بلکہ مستقل نبی ہونے سے انکار کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نبوت براہ راست نہیں پائی بلکہ آنحضرت ﷺکے واسطہ سے پائی ہے.مرزامحموداحمد.۵۰.اس عبارت کا بھی مطلب ظاہر ہے کہ مستقل نبی جس نے براہ راست نبوت پائی ہو اب نہیں آسکتا اور نہ حضرت مسیح موعود کاایسا دعوی تھاپس نبی کا نام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دیا تویہ ایک اعزازی نام تھا.اور اس سے صرف یہ مراد تھی کہ درجہ نبوت کو پہنچ گئے ورنہ اس سے یہ مطلب نہ تھا کہ آپ نے براہ راست نبوت حاصل کی ہے یا یہ کہ آپ شریعت اسلام کے ناسخ ہیں اور اگر اس سے مرادیہ لیا جائے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ یو نہی نام رکھ دیا گیاتھاتواس سے مشابہت بہ مسیح نہیں ثابت ہوتی کیونکہ ایک آدمی کو اگر شیر کہہ دیا جاوے تو اس سے اسے شیرسے مشابہت تو پیدا نہیں ہو جاتی.بلکہ اس سے تو یہ مراد ہے کہ یہ شیر سے بہادری میں مشابہ ہے نہ یہ کہ شیر کہنے سے شیر کے مشابہ ہوگیا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ اگر نبی بھی مان لو.پھر بھی مشابست پیدا نہیں ہوتی کیونکہ حضرت مسیح نے براہ راست نبوت پائی تھی اور حضرت مسیح موعود نے بواسطہ آنحضرت ﷺ تواس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص نبی ہو گیا اس کی دوسرے نبیوں سے مشابہت ہو گئی مشابہت کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ نبوت کس طریق سے ملی ہے.ایک کپڑا کو دوسرے کپڑا کے مشابہ کہیں اور اس کی شکل اور اس کی صفت کے لحاظ سے اس کی مشابہت درست ہو تو ایسا کہنادرست ہوگایہ ضروری نہیں کہ اگر ایک مشین کا بنا یاہوا ہے تو دوسرا بھی مشین کاہی بنایا گیا ہو.خواہ ہاتھ سے بنایا گیا ہو یا مشین سے، جب شکل صورت صفت میں مشابہ ہے تو اسے مشابہ ہی کہیں گے اور یہ کبھی نہ ہو گا کہ ایک ململ کے تھان کا نام لٹھے کا تھان رکھ دیں کہ تا دوسرے لٹھے کے تھانوں سے اس کی مشابہت ہو جائے مشابست تو تبھی ہوگی کہ جب دونوں لٹھے کے تھان ہوں ہاں اس کی ضرورت نہیں کہ وہ دونوں بنائے بھی ایک ہی طرح ہوں بعینہ اسی طرح ایک شخص دوسرے سے نبوت کے معاملہ میں تبھی مشابہ ہو گا جب اسے واقع میں بھی بتادیا جائے نہ اس طرح کہ صرف اس کانام بھی رکھ دیا جائے اور اگر واقع میں اسے نبی بنادیا جائے تو دونوں ایک دوسرے کے مشابہ ہو جائیں گے اور یہ سوال نہ ہو گا کہ ان دونوں کو نبوت کس طریق سے ملی ہے نبوت خواہ بلاواسطہ ملے یا بالواسطہ اس سے کوئی حرج نہیں ہو تامگر شاید کوئی شخص یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود نے تو اپنے آپ کو حضرت مسیح سے تمام شان میں افضل قرار دیا ہے پھر مشابہت کہاں رہی تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود صرف مسیح موعود نہ تھے بلکہ مہدی کا عظیم الشان ظہور ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا بھی بروز تھے.پس مسیحیت کے لحاظ سے آپ مسیح کے مشابہ تھے لیکن آنحضرت ﷺ کابروز کامل ہونے کی وجہ سے اس سے افضل تھے اور مشابہت میں اس سے فرق نہیں آتا یہاں ایک اور شبہ بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اوروه یہ کہ آنحضرت ﷺ تو علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل فرماتے ہیں اور اپنی امت کے علماء کو بنی اسرائیل سے مشابہ قرار دیتے ہیں اس لئے کیا پھر سب علماء نبی تھے اور انکو نبی کہنا جائز ہے کیونکہ تم نے مشابہت کے معنے یہی کئے ہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ
۶۱۲ حدیث نہایت ہی مجروح ہے لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود نے اس سے استدلال فرمایا ہے اس لئے ہم اسے درست ہی سمجھتے ہیں مگر اس میں یہ نہیں بتایاگیا کہ انبیاء سے کسی بات میں مشابہ ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود کی مسیح سے مشابہت میں اوراس میں فرق ہے مشابہت بھی صرف کسی خاص بات میں ہوتی ہے اور اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں انبیاء حفاظت دین کے لئے آتے رہے میری امت میں اللہ تعالی ایسے علماء پیدا کرتا رہے گا جو اس کام کو کرتے رہیں گے لیکن ان کو پہلے انبیاء سے کامل مشابہت نہیں فرمائی اور نہ یہ فرمایا کہ وہ رسالت میں مشابہ ہوں جسے فرمایا کہ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولا اور اس سے پہلے أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولا فرما کر بتا دیا کہ مشابہت رسالت میں ہے پس نہ تو اس حدیث میں کامل مشابہت قرار دی ہے اور نہ بتایا کہ نبوت میں مشابہت ہے لیکن مسیح موعود کو مشابہ نہیں کہا اور کاف حرف تشبیہ کا نہیں لگایا کہ عیسی ابن مریم اور نبی کے لفظ سے یاد فرماکرکامل.مشابہت ظاہر فرمائی جس کے لئے نبی ہونا ضروری ہے.مرزامحموداحمد.۵۱.مستقل نبوت کے معنے خود حضرت مسیح موعود نے کر دیئے ہیں کہ وہ نبوت براہ راست ملے پس اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسانبی نہیں آسکتا جس کو براہ راست نبوت ملے.۵۲.اس سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں نبی کاہونا آپ کے کمالات کو ثابت کرتا ہے نہ کہ باطل.مرزا محمود احمد.۵۳.لَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ والی آیت کے ماتحت اپنی نبوت کا اقرار کرتے ہیں.مرزا محمود احمد ۵۴.یاد رہے کہ ممکن ہے بعض لوگ شاید دھوکا دینے کیلئے لغت کی چھوٹی چھوٹی کتاب نکال کر د کھائیں جن میں نہایت اختصار سے معنی دیے جاتے ہیں اور لفظ کے منعے پورے نہیں بیان کئے جاتے اور نہ کل خصوصیات بیان کی جاتی ہیں پس ان لغات کا اس معاملہ میں کوئی اعتبار نہیں بلکہ اعتبار انہی لغات کا ہوگا جو بڑی ہیں اور جن میں تفصیل سے معنے بتائے جاتے ہیں اورعربی کی سب سے بڑی لغت تاج العروس ہے اور دوسرے نمبر پر لسان العرب ہے پہلی کتاب میں تو نبی کی بالکل وہی تعریف ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری کتاب میں بھی تقریباوہی بیان ہے سوائے اس کے کہ اس میں یہ نہیں لکھا کہ اس کا نام نبی خداتعالی رکھے لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ بات تو عقل چاہتی ہے اور بغیر اس کے کوئی نبی کہلاہی نہیں سکتا.محموداحمد.۵۵.محدث ہونے سے انکار کے یہ معنے ہیں کہ آپ نے اس سے بڑے درجہ پانے کا دعوی کیاورنہ ہر نبی محدث بھی ہے حتی کہ ہمارے آنحضرت ﷺ اب بھی محدث تھے.منہ ۵۶.ایک شخص نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو صرف یہ خصوصیت ہے کہ حدیث میں آپ کانام نبی آیا ہے اور یہ آپ کو دوسرے اولیاء پر فضیلت ہے ورنہ ایسے نبی تو سب بزرگ تھے اس شخص کو یہ لفظ یاد رکھنے چاہئیں کہ ان کو یہ حصہ کثیراس نعمت کا نہیں دیا گیا اور یہ کہ دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں اور جبکہ نہ تو ان لوگوں نے نبی کاخطاب پانے کے قابل درجہ پایا اور نہ وہ اس نام کے مستحق ہیں تو پھر اس کے کیا معنے؟ کہ وہ بھی ایسے نبی تھے جیسے مرزا صاحب صرف بڑے چھوٹے کا فرق تھا اگر وہ ویسے ہی نبی تھے تو وہ اس نام کے مستحق کیوں نہیں؟ مرزامحموداحمد.۵۷.حضرت مسیح ناصری نے فرمایا کہ اس تنکاکوجو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے کیوں دیکھتا ہے پر کانڈی پر جو تیری آنکھ میں ہے نہیں خیال کر تاوہ لوگ جو ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ تم مسیح موعود کونبی قرار دیتے ہواتنا نہیں سوچتے کہ ہم ایک شخص کو نبی قراردیتے ہیں اور پھر اس کو جسے خدا نے اور اس کے رسول نےنبی کہا ہے تو وہ اس قدر ناراض ہوتے ہیں اور کافر و مرتد بناردینے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور لعنتوں کی بھرمار کرنے کا خوف دلاتے ہیں لیکن اپنا یہ حال ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو( جن کو نہ خدا نے نبی کہانہ اس کے رسول نے نہ انہوں نے خود اپنے آپ کونبی کہااورنہ مسیح موعود نے ان کو نبی کہا بلکہ مسیح موعود نے تو یہ کہاکہ وہ نبی کانام پانے کے مستحق نہیں،) نبی قرار دیتے ہیں شاید وہ کہیں کہ ہم جزوی نبی کہتے ہیں سو یاد رہے کہ قرآن کریم کی کس آیت سے ثابت ہے کہ بغیر خد اتعالی کے اذن کے اور بغیر کسی قرینہ کے کسی کو جزوی نبی کہنا جائز ہے؟ درحقیقت یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک سزا ہے جو ان لوگوں کو ملی ہے بئس للظالمين بدلاً مسیح موعود کی نبوت سے انکار کیا اور اس کے نبی کہنے والوں کو اشاروں اشاروں میں کافروملعون قرار دیا اور خود ہزاروں کو نبی کا خطاب دے دیا ایک طرف طرف تو وہ تنگ دلی کہ جس خدا نبی کہتا ہے اور اس کا رسول بھی اس کی نبوت سے انکار ہے اور دوسری طرف روہ سعت قلب کہ جنہوں نے نہ خود اپنے آپ کو نبی کہا اور نہ خدا نے نہ اس کے رسول نے ان کونبی کہا کہ مسیح موعود نے ان کے نبی ہونے سے انکار کیا ہمیں بھی نبی کا خطاب دے دیا جاتا ہے.مرزا محموداحمد ۵۸.شریعت نے نبی کی جو تعریف کی ہے اگر اسے لیاجائے تو مسیح موعود پر اس حدیث میں نبی کالفظ استعارۃ استعمال نہیں ہوا لیکن اگر لفظ نبی کے حقیقی معنے وہ قرار دیئے جائیں جو عوام الناس میں غلطی سے استعمال ہو رہے ہیں تو ان معنوں کے رو سے ہم مسیح موعود کی نسبت نبی کے لفظ کا استعمال استعارۃ ہی مانتے ہیں کیونکہ اس صورت میں اس کے یہی معنے ہوں گے کہ ایسا نبی جو شریعت نہیں لایا اوراس
۶۱۳ سے ہمیں پورا پورا اتفاق ہے.(مرزا محموداحمد) ۵۹.مقام نبوت سے مراد اس جگہ منصب نبوت ہے کیونکہ ایک اور جگہ حضرت صاحب نے تصریح کے ساتھ منصب نبوت پانے کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ الہام یلقی الروح علٰی من یشاء من عبادہٖ.کلّ برکۃ من محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتبارک من عَلَّمَ وَتَعَلَّم.خدا کی فیلنگ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا.لکھ کراس کاترجمہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:.جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی رُوح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اسکو بخشتا ہے اور یہ تو تمام برکت محمد ﷺسے ہے.پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا جس نے تعلیم پائی.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اسکے محسوس کرنے اور نبوت کی مُہر نے جس میں بشدت قوت کا فیضان ہے.بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں(۱) خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرتؐ کی مُہرنبوت کا فیضان.۶۰.حضرت محی الدین صاحب ابن عربی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ رسالت کے درجہ تک پہنچ گئے تھے گو ان کو الله تعالی نے رسالت کے ساتھ مبعوث نہیں کیا اس بات میں بھی مسیح موعود میں اور ان میں ایک فرق ہے کیونکہ مسیح موعود کی نسبت اللہ تعالی نے فرمایا ہے ان ارسلنا احمد الیٰ قَوْ مِهٖ فاعرضوا وقالو ا کذاب اشر پس آپ کو خدا تعالی نے رسول کرکے مبعوث بھی کیا ہے اور اس طرح آپ کی رسالت ممتاز ہے دوسروں سے.منہ ۶۱.یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جوپہلے نبی اورصدیق پا چکے پس منجملہ ان انعامات کے ده نبوتیں اورپیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیھم السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دو سروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیساکہ آیت لايُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ سے ظاہر ہے پس مصفیٰ غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت انعمت علیھم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفیٰ غیب سے یہ امت محروم نہیں اورمصفیٰ غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور دو طریق براه راست بند ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لئے محض بروزاور ضلیت اور فنا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.فتدبر منہ ۶۲.یہ کیسی عمدہ بات ہے کہ اس طریقے سے نہ تو خاتم النبیین کی پیشگوئی کی مہرٹوٹی اورنہ امت کے کل افراد نبوت سے جو آیت لا يظهر علیٰ غیبہ کے مطابق ہے محروم رہے مگر حضرت عیسیٰ کو دوباره اتارنے سے جن کی نبوت اسلام سے چھ سو برس پہلے قرار پاچکی ہے اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور آیت خاتم النبیین کی صریح تکذیب لازم آتی ہے اسکے مقابل پر ہم صرف مخالفوں کی گالیاں سنیں گے سو گالیاں دیں وَسَيَعْلَمُ الَّـذِيْنَ ظَلَمُـوٓا اَىَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ (الشعراء:۲۲۸ ) ۶۳.یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی اس کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ سلمان منا اھل البیت علٰی مشرب الحسن.میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سِلم.اور سِلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں یعنی مقدر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی.ایک اندرونی کہ جو اندرونی بغض اور شحنا کو دور کرے گی دوسری بیرونی کہ جو بیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کر کے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکا دے گی.معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے اس سے بھی میں مراد ہوں ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی.اور میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اُس حدیث کے جو کنز العمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں چنانچہ یہ کشف براہین احمدیہ میں موجود ہے.۶۴.پچنانچہ جو فقرہ بطور سند منکرین نبوت پیش کرتے ہیں خود اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں بل ھی درجة لا تعطی الا من اتباع نبینا خیر الوریجس سے صاف ثابت ہے کہ آپ کی مراد یہی ہے کہ مجھے وہ رسالت ملی ہے جو صرف رسول الله کی اتباع سے ملتی ہے نہ یہ کہ پہلے نبیوں کی نبوت تونبوت تھی.اور آپ کی نبوت نبوت نہ تھی.منہ.۶۵.غالباً مولوی صاحب کا یہی مذہب ہے کہ حضرت مسیح موعود کے کسی حکم کی وجہ اگر ثابت ہو جائے تو اسے ماننا چاہئے ورنہ نہیں.منہ