Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
ド انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 17
ترتیب نمبر شمار 11 عنوانات محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ء) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳ء) اسوه حسنه دعومی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان ایک اہم ہدایت مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دعا اور اس کی حکمت میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات پر تقریر اہالیانِ لدھیانہ سے خطاب زندگی وقف کرنے کی تحریک لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض صفحہ - σ ۲۳ ۵۳ ۱۴۳ ۱۷۷ ۱۸۵ ۱۹۵ ۲۴۵ ۲۵۳ ۲۸۵ ۳۰۷ ۳۱۵
عنوانات غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو میری مریم خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۱۹۴۴ء) لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء) الموعود صفحہ ۳۳۹ ۳۵۵ ۳۶۹ ۳۹۷ ۴۲۱ ۴۲۷ ۴۳۵ ۴۶۱ ۵۱۳ ۱۴ ۱۶ ۱۷ ΙΔ 19 ۲۱ ۲۲
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ محض اللہ تعالی کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤ نڈیشن کو سید نا حضرت المصلح الموعود خلیفتہ امسیح الثانی کی حقائق و معارف سے بھر پور سلسلۂ تصانیف انوار العلوم کی سترہویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ انوار العلوم کی جلد ھذ ا سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کی ۲۶ دسمبر ۱۹۴۳ء سے ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۴ ء تک کی ۲۲ تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے.یہ عرصہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کئی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پسر موعود کی جو عظیم الشان پیش خبری عطا فرمائی تھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے اور جناب الہی کی طرف سے دنیا پر اس کے اعلان کا وقت آ گیا.اگر چہ حضرت مصلح موعود اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان خوشخبری کے تحت پیدا ہوئے اور روزِ اوّل سے آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق تھے لیکن آپ نے کسر نفسی کی وجہ سے اس کا اظہار نہ فرمایا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کی خبر دی تو پھر اس اذنِ الہی کا آپ نے پر شوکت اعلان فرمایا.جنوری ۱۹۴۴ ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی اپنی حرم حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ
کی بیماری کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم تھے تو ہم جنوری کی رات حضرت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی واقع ۱۳ ٹمپل روڈ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لمبی رؤیا سے نوازا جس سے آپ پر انکشاف کیا گیا کہ آپ ہی وہ پسر موعود اور مصلح موعود ہیں جس کی خوشخبری ۵۸ سال پہلے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء والی پیشگوئی میں دی گئی تھی.اس الہی انکشاف کے بعد حضرت مصلح موعود جب قادیان تشریف لائے تو ۲۸ / جنوری ۱۹۴۴ء کو مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ میں آپ نے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی رؤیا کی تفصیلات احباب جماعت کے سامنے بیان کرتے ہوئے یہ پُر شوکت اعلان فرمایا کہ: میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.اکناف عالم تک شہرت پانے والی اس پیشگوئی کے پر شوکت اظہار کیلئے ۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود نے ہوشیار پور، لاہور ، لدھیانہ اور دہلی میں جلسہ ہائے عام سے خطاب فرمایا اور اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بالبداہت اعلان فرمایا.چنانچہ اس سلسلہ میں پہلا پبلک جلسه ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو ہوشیار پور میں منعقد ہوا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا تھا.اس جلسہ میں حضور نے تفصیل سے پیشگوئی اور اپنی رؤیا کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے مصداق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِیفَتُهُ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی ہیں.پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا
ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام 66 پہنچانا ہے.اعلان پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے ہونے والے جلسوں میں حضرت مصلح موعود کے خطابات اور پھر جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ ء کے موقع پر الموعود کے نام سے موسوم رُوح پرور نقار یر جس میں پیشگوئی مصلح موعود کا تفصیل سے تذکرہ حضور نے فرمایا تھا یہ سب رُوح پرور اور ایمان افروز خطابات و تقاریر انوار العلوم کی جلد ھذا میں شامل اشاعت ہیں.۱۹۴۴ ء کا سال جہاں پیشگوئی مصلح موعود کے اعلان کے حوالہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے وہاں اس سال جماعت میں دو قیمتی اور بابرکت وجودوں کی وفات بھی ہوئی.پہلے حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ اُمم طاہر کی وفات ہوئی.آپ کی وفات پر حضرت مصلح موعود نے آپ کا ذکر خیر ” میری مریم“ کے عنوان سے ایک درد انگیز اور پُر شوکت مضمون تحریر کر کے فرمایا.یہ مضمون بھی انوار العلوم کی اس جلد کی زینت ہے.دوسرے با برکت وجود حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے جن کی وفات ایک نا قابل تلافی نقصان تھا.۱۷ / مارچ ۱۹۴۴ء کو حضرت میر صاحب کی وفات ہوئی.اُسی دن حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت کے سامنے ایک رقت آمیز تقریر فرمائی جس میں حضرت میر صاحب کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ فرمایا اور احباب کو حضرت میر صاحب کی طرح علمی و عملی میدان میں کمال حاصل کرنے کی تلقین فرمائی.حضور کی یہ تقریر بھی جلد ھذا میں شامل ہے.مندرجہ بالا تقاریر و تحریرات کے علاوہ جلسہ ہائے سالانہ ۱۹۴۳ ء اور ۱۹۴۴ء سے حضور کے خطابات اور بعض اہم مواقع کی تقاریر اور مضامین بھی جلد ۷ا کی زینت ہیں.الغرض انوار العلوم جلد ۱۷ ہمیں تاریخ احمدیت میں رونما ہونے والے کئی عظیم الشان واقعات سے آگاہی بھی دیتی اور ان مواقع پر حضرت مصلح موعود کے ولولہ انگیز اور رُوح پرور خطابات کے ذریعہ ہماری علمی و روحانی آبیاری کے سامان بھی کرتی ہے.یقیناً
حضرت مصلح موعود کی یہ تحریرات و خطابات پر مشتمل جلد ا حباب جماعت کے ازدیاد علم اور از دیا دایمان کا باعث بنے گی.اِنشَاءَ اللهُ.اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیان کرام نے اس اہم کام میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے نے مسودات کی ترتیب ، اصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں.نے پروف ریڈنگ ،حوالہ جات کی تلاش ، مسودات کی نظر ثانی ، اعراب کی درستگی اور Re-Checking کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کا تحریر کردہ خاکساران سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے اور اپنی بے انتہا رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.امِینَ.مہ
انوار العلوم جلد کا k بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب تعارف کتب یہ انوار العلوم کی ستر ہویں جلد ہے جو سید نا حضرت فضل عمر خلیفہ لمسیح الثانی کی ۲۶ دسمبر ۱۹۴۳ء سے ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۴ ء تک ۲۲ مختلف تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے.(۱) محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے حضرت فضل عمر نے یہ مختصر خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۴۳ء کا افتتاح کرتے ہوئے مؤرخہ ۲۶ / دسمبر کو ارشاد فرمایا جو مورخه ۳۱ دسمبر ۱۹۴۳ ء کوروز نامہ الفضل میں شائع ہوا.اس خطاب کا مرکزی نقطہ محبت الہی ہے جیسا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ :.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ دنیا کی روحانی ترقی کا سارا دار و مدارگلتی طور پر بغیر کسی استثناء کے اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ وابستہ ہے.جس انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم رہے، جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی گود میں داخل ہو جاؤں اور اس کے دامن کو پکڑ لوں ایسا انسان کبھی بھی خواہ وہ کتنے ہی گناہوں میں ملوث ہو گناہوں کی موت نہیں مرتا اور نہیں مرسکتا.(۲) مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ء ) حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۴۳ء کے موقع پر مؤرخہ ۲۷ / دسمبر کو لجنہ اماءاللہ سے یہ روح پرور خطاب فرمایا.اس خطاب کے آغاز میں حضور نے اپنی ناسازی طبع کے باعث تقریر مختصر کرنے کا اظہار فرمایا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر سٹیج پر بیٹھنے والی خواتین میں چائے پیش
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب کرنے کی روایت کے بارہ میں منتظیمات کو ہدایت فرمائی کہ یہ طریق درست نہیں ہے کیونکہ اس سے دوسری خواتین کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہے لہذا آئندہ اس روایت کو ختم کر دیا جائے.اسی ہدایت کے تسلسل میں حضور نے عہدیداران و کارکنان کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ اُنہیں اعتراضات اور تنقید کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا چاہئے کیونکہ اس سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں.ان نصائح کے بعد حضور نے اپنے اس روح پر ور خطاب میں سورۃ الکوثر کی مختصر طور پر بڑی لطیف اور حقائق و معارف پر مبنی تشریح و تفسیر فرمائی.حضور نے الکوثر کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.کوثر کے معنی ہیں کثرت بھلائی اور ایسا شخص جو بہت صدقہ و خیرات کرنے والا ہو.پس اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے یعنی ہر وہ چیز جو دنیا کی نعمت ہو سکتی ہے آپ کو دی ہے.خیر کثیر میں قرآن کریم بھی شامل ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب کتابیں بیچ ہیں.تیسرے معنی اس زمانہ کے متعلق ہیں یعنی میں تم کو ایسا آدمی دینے والا ہوں جو صلى الله بہت بڑا سخی ہو گا اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو گا.رسول کریم علیہ اس زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسیح موعود لوگوں میں روپیہ تقسیم کرے گا مگر لوگ رڈ کر دیں گے.لوگ غلطی سے اس کے معنی سونے چاندی کے لیتے ہیں حالانکہ سونے چاندی کو کوئی رد نہیں کیا کرتا“.حضور نے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر کا معنی کرتے ہوئے فرمایا کہ:.پس ہر وہ شخص جس کو خدا کی طرف سے خیر کثیر ملی ہے اُس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہے.وانحر اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے والا ہو.آخر پر ان شَانِئَكَ هُوَ الا بستر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.” جب تم اس مقام پر پہنچ جاؤ تو پھر تمہیں دشمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تم کامیاب ہو جاؤ گی تمہارے دشمنوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی اور سب لوگ
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب تمہارے مقابلے میں شکست کھا جائیں گے.کوثر والا مؤمن بڑی شان والا ہوگا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہو جائے گا.اُس کا ہر دشمن ذلیل وخوار ہو گا.(۳) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳ ء ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ عظیم الشان تقریر مؤرخہ ۲۷/ دیسمبر ۱۹۴۳ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے.ا.سب سے پہلے احباب جماعت کو اپنی صحت کے متعلق آگاہ فرمایا.۲.دوسری جنگ عظیم پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی متعد د رؤیا کی روشنی میں اتحادیوں کی فتح کے آثار پیدا ہونے کی توقع ظاہر فرمائی.اپنی بعض خوابوں کی روشنی میں جہاں اتحادیوں کی فتح کو یقینی قرار دیا وہاں اسلام، احمدیت کی ترقی کو اتحادیوں کی کامیابی کے ساتھ وابستہ قرار دیا یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس تقریر میں احباب جماعت کو اتحادیوں کیلئے دعا اور ان کی عملی طور پر مدد کرنے کی طرف توجہ دلائی اور احمدیوں کو کثرت سے فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک فرمائی..اپنی دور رس نگاہ سے آئندہ پیش آمدہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے احباب جماعت کو بالعموم اور قادیان کے احمدیوں کو بالخصوص غرباء کیلئے غلہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی تا کہ بعد میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے.- تحریک جدید پر تفصیلاً روشنی ڈالی اور تحریک جدید کا پس منظر اور اس کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے احباب جماعت کو اپنے وعدہ جات جلد از جلد لکھوانے کی تحریک فرمائی اور چندہ تحریک جدید کی مدد سے سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمین کی خریداری پر روشنی ڈالی.آپ نے اس زمین کی خریداری کو ریز رو فنڈ قرار دیا جس کے نتیجہ میں آئندہ لاکھوں مبلغین کی تیاری کی نوید سنائی.۵.اس طویل تقریر کے آخر میں حضور نے درج ذیل ہدایات بیان فرمائیں.(i) ایسی تمام بڑی جماعتوں کو جن کی تجنید کم از کم پانچ صدافراد پر مبنی ہے ہدایت فرمائی کہ ہر
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب سال ۲۹ فروری تک تقریر میں مذکورہ کوائف پر مبنی سالانہ رپورٹ بھجوا ئیں.(ii) عنقریب جنگ کے اختتام پذیر ہونے کی توقع کے پیش نظر تبلیغ کے سلسلہ میں ناظر صاحب دعوة و تبلیغ نیز انچارج صاحب تحریک جدید کو مختلف زبانوں میں ضروری لٹریچر تیار کرنے کی ہدایت فرمائی.(iii) غیر زبانوں میں تراجم قرآن کی تحریک فرمائی.(iv) قول و عمل میں مطابقت پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.(۷) معاہدات کی تکمیل کی اہمیت بیان فرمائی.(vi) حق شفع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.(۴) اُسوه حسنه حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تربیتی خطاب مؤرخہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۳ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا جسے الشرکۃ الاسلامیہ نے پہلی دفعہ افادہ عام کیلئے مورخہ ۱۲؎ دسمبر ۱۹۶۱ء کو کتابی صورت میں شائع کیا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے اس تقریر میں بڑے دلنشین انداز میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ہمیں اپنے ہر قول وفعل اور ہر حرکت و سکون میں یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارا کوئی کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل کے خلاف نہ ہو کیونکہ ہماری نجات آپ کی کامل اتباع میں اور آپ کے روحانی نقوش اپنے آئینہ قلب پر پیدا کرنے میں ہے.اگر ہم اس میں کامیاب ہو جا ئیں تو روحانی لحاظ سے ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو بڑی بھاری طاقت حاصل ہو سکتی ہے اور اُخروی زندگی میں ہم نجات کے مستحق ہو سکتے ہیں.حضور نے اس تقریر میں مسئلہ شفاعت کی حقیقت پر بھی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور کامل نجات کو شفاعت کے بغیر ناممکن قرار دیا ہے.اسی طرح آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل پانچ اخلاق فاضلہ کو آج بھی دنیا کی ضرورت قرار دیتے ہوئے ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین فرمائی:.
انوار العلوم جلد کا K تعارف کت ا.صلہ رحمی ۲.مہمان نوازی ۳.ناداروں اور معذوروں کی امداد ۴.ضرورت مند طبقہ کی اعانت ۵.قومی ترقی کیلئے نئے نئے راستوں کی تلاش حضور نے ان پانچوں اخلاق کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا:.یہ پانچ چیزیں ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اہلی زندگی کو بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو ہمیشہ کیلئے درست کر دیا.جن کے کام میں کوئی روک تھی اُن کی روک کو دور کر کے آپ نے ملک میں کام کا راستہ کھولا.جو لوگ اپاہج یا کمانے کے ناقابل تھے اُن کے لئے معیشت کا پورا سامان جمع کیا اور پھر قوم میں آئندہ ترقی کا ہمیشہ کیلئے دروازہ کھول دیا.گویا یہ نظام نو ہو گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا.(۵) دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی علامات بیان کرتے ہوئے ایک علامت یہ بیان فرمائی کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ یعنی وہ ( مسیح موعود ) شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد پیدا ہوگی.لوگ شادیاں کرتے ہیں اور شادیوں کے نتیجہ میں اولا دیں بھی پیدا ہوتی ہیں لہذا اس پہلو سے تو اس پیشگوئی میں بظاہر کوئی نشان والی بات نظر نہیں آتی ہے.ہاں البتہ ایسی غیر معمولی صفات والی اولا د جس نے مسیح موعود کے مشن کی تکمیل میں ممدومعاون ثابت ہونا تھا ایک نشان قرار پا سکتی ہے جس کی تائید دیگر آسمانی صحائف اور بزرگانِ اُمت کی پیشگوئیوں سے بھی ہوتی ہے جن میں مسیح موعود کے ہاں عظیم الشان صفات کے حامل ایک بیٹے کی پیدائش کا ذکر پایا جاتا ہے.جس نے مسیح موعود کا روحانی لحاظ سے وارث بننا تھا اور اس کے سلسلہ کو غیر معمولی تقویت پہنچا نا تھی.یہی مقصود اس حدیث کے پیش نظر تھا.چنانچہ اسی پس منظر کے تحت الہی تصرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور میں ایک چلہ کشی کی.اس چلہ کشی کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاں ایک غیر معمولی صفات کے حامل بیٹے کے پیدا ہونے کی خوشخبری عطا فرمائی.چنانچہ حضرت
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب مسیح موعود علیہ السلام نے اس پیشگوئی کو مؤرخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو اخبار ریاض ہند میں شائع کروا دیا.یہ عظیم الشان پیشگوئی جماعت احمدیہ میں ” پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے موسوم ہے.اس پیشگوئی کے عین مطابق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ولادت ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی اور پیشگوئی میں بیان فرمودہ تمام صفات آپ کے وجود میں بکمال تمام پوری ہوئیں اور اِس طرح آپ کے پسر موعود ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا.یہی وجہ ہے کہ احباب جماعت نے آپ کے نام کے ساتھ پیشگوئی مصلح موعود میں مذکور تمام صفاتی ناموں کا ذکر تحریر و تقریر میں شروع کر دیا مگر حضرت مصلح موعود اپنی عاجزی و انکساری کے باعث با قاعدہ طور پر دعوی مصلح موعود کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے.جنوری ۱۹۴۴ء میں حضرت اُمّم طاہر کی بیماری کے سلسلہ میں جب آپ حضرت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ کی کوٹھی واقع ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور میں مقیم تھے تو مؤرخہ 4 جنوری کی رات حضور نے ایک لمبی رؤیا دیکھی جس میں آپ پر انکشاف ہوا کہ آپ ہی وہ پسر موعود و مصلح موعود ہیں جس کا ذکر ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء والی پیشگوئی میں کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انکشاف کے بعد حضور انور مؤرخہ ۲۷ / جنوری کو قادیان تشریف لائے اور اگلے روز ۲۸ / جنوری کو مسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ میں اپنی تازہ رؤیا کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ:.دو میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.مصلح موعود کا ظہور مذہبی دنیا میں زبر دست تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا جو اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ بیرونی دنیا میں عموماً اور سرزمین ہند کے اکناف میں خصوصاً پورے زور سے یہ آواز بلند کر دی جائے.چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر ۱۹۴۴ ء کے شروع میں ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں پبلک جلسے منعقد کئے گئے.یہ چاروں جلسے الگ الگ نشان کے حامل اور نہایت درجہ روح پرور ، ایمان افروز اور کامیاب جلسے تھے جن میں خود حضرت سیدنا مصلح موعود نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور اپنی پُر شوکت تقریروں میں اپنے دعوئی مصلح موعود کا حلفیہ اور پر جلال اعلان فرمایا اور اہلِ ہند پر حجت تمام کر دی.
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب چنانچہ اعلانِ مصلح موعود کے سلسلہ کا پہلا جلسہ عام ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو ہوشیار پور میں منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور اور وجد آفرین خطاب فرمایا.اس میں آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ پیشگوئی کس طرح نہایت مخالفانہ حالات کے باوجود خارق عادت رنگ میں ظہور پذیر ہوئی ہے.اس سلسلہ میں حضور نے اس انکشاف سے متعلق اپنی تازہ رویا بھی بڑی شرح وبسط سے بیان کی اور پھر فرمایا کہ:.میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جور و یا بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے الا مَا شَاءَ اللہ کوئی خفیف سا فرق بیان کرنے میں ہو گیا ہو تو علیحدہ بات ہے.میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُهُ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچاتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا“.(۶) ایک اہم ہدایت حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے مؤرخہ 9 مارچ ۱۹۴۴ء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک قادیان میں یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں اہل قادیان کو روزانہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک قادیان میں ادا کرنے کی تلقین فرمائی.حضور نے اپنی اس تقریر میں مسجد مبارک قادیان کی عظمت اور فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.دو یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا نے بار بار مبارک کہا اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب برکت دہندہ اور نزولِ برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اس مسجد میں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز مبارک ہے جو اس مسجد میں ادا کی جائے ، وہ سجدہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ قومہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ تشہد مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ سلام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ تکبیر مبارک ہے جو اس مسجد میں کہی جائے اور وہ دعائیں مبارک ہیں جو اس مسجد میں کی جائیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں ، اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں اور پھر انسان ان برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے اور چھ مہینے یا سال کے بعد اس مسجد میں آ کر کوئی ایک نماز ادا کرے تو اس سے زیادہ محروم اور بدقسمت انسان اور کون ہوسکتا ہے“.(۷) مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو مسجد مبارک میں بعد نماز مغرب ایک مختصر خطاب فرمایا جس میں اپنے اس ارادہ کا ذکر فرمایا کہ میں نے غلبہ اسلام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر جا کر متواتر چالیس روز تک دعا کرنے کا پروگرام بنایا ہے کیونکہ بعض خاص وجودوں کے ساتھ دعا کی قبولیت کو خاص تعلق ہوتا ہے.چنانچہ اسلام کی فتح روحانی کیلئے ان دردمندانہ دعاؤں کا سلسلہ دوسرے دن مؤرخہ ۹ / مارچ ۱۹۴۴ء سے شروع ہو گیا.۹ / مارچ بعد نماز عصر حضور بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.اس موقع پر آپ نے دعا کرنے سے قبل چار دیواری کے دروازہ میں کھڑے ہو کر اس طریق اور عمل کی حکمت اور وضاحت پر مبنی مختصر خطاب فرمایا جو مؤرخہ ۷رمئی ۱۹۴۴ء کو روزنامه الفضل قادیان میں شائع ہوا.حضور انور نے اپنے اس پر معارف خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر متواتر چالیس روز دعا کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.,, ” ہماری غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھ کر ہمارے اندر رفت پیدا ہو اور ہم خدا تعالیٰ سے یہ عرض کریں کہ اے خدا! یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کر دی، یہ وہ شخص ہے جس پر تو نے الہامات نازل کئے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا احیاء ہوگا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی ، اب یہ شخص فوت ہو چکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے، ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ محبت رکھتے اور اس کے غلاموں میں شامل ہیں اس لئے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس ذمہ داری کو ادا کریں اور اُن وعدوں کو جو تو نے کئے پورا کرنے کے لئے اپنی جد و جہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں.(۸) میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں دعوی مصلح موعود کے سلسلہ میں دوسرا عظیم الشان جلسہ مؤرخہ ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا اس جلسہ میں نہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہندو، سکھ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ آخر وقت تک تمام جلسہ کی کارروائی سنی اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق فائدہ اُٹھایا.زیر نظر روح پرور اور پر جلال تقریر حضرت مصلح موعود نے اس جلسہ میں ارشاد فرمائی جس کا ایک ایک لفظ دل میں اُترنے والا اور قلوب کو صاف کرنے والا ہے.پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی ایک علامت یہ بیان کی گئی تھی کہ :.اس کا نزول ایسا ہوگا کہ كَاَنَّ اللَّهُ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ گویا خدا آسمان سے اتر آیا.وہ لوگ جو اس جلسہ میں شریک ہوئے ان میں سے ہر ایک شخص اس بات کی شہادت دے سکتا ہے کہ ایسا ہی روح پرور نظارہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ ایک مقام پر تو حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے یہ کلمات بلند ہوئے جو ہزاروں انسانوں نے اپنے کانوں سے سنے کہ:.اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنی تقریر کے پہلے حصہ میں اپنے خاندانی حالات اور پھر
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب ۱۹۱۴ء کے اختلافات کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود سے متعلق بشارت اور اس کے ظہور پذیر ہونے کا تذکرہ نہایت دلکش انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.غرض خدا تعالیٰ کی تازہ تائیدات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور اُس کی نصرت اور تائید اس کے شامل حال ہے اس طرح وہ پیشگوئی جو آج سے ۵۹ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے کی گئی تھی کہ میں تجھے ایک بیٹا عطا کروں گا جو خدا تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہوگا ، جو خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہو گا ، جو خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نشان ہوگا، اُس کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.وہ پیشگوئی بڑی شان اور جاہ وجلال کے ساتھ پوری ہو گئی.آج سینکڑوں ممالک زبانِ حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ میرے زمانہ خلافت میں ہی اسلام کا نام اُن تک پہنچا ، میرے زمانہ خلافت میں ہی احمدیت کے نام سے وہاں کے رہنے والوں کے کان آشنا ہوئے“.اس تقریر میں حضرت مصلح موعود نے اپنی بعض رؤیا اور اُن کے روز روشن کی طرح پورا ہونے کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا.پس یہ تقریر اہل لاہور کیلئے حجت تھی ، یہ تقریر غیر مبائع احباب کیلئے حجت تھی، غرضیکہ یہ تقریر ہر مخالف کیلئے حجت تھی.اس تقریر میں حضور نے بڑی تحدی کے ساتھ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور اپنے دعوی مصلح موعود کو پیش فرمایا.آخر میں حضور نے خدائے واحد و قہار کی قسم کھا کر نہایت درجہ پر شوکت الفاظ میں اعلان عام فرمایا کہ:.آج میں اس جلسہ میں اُسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۳ ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی.(۹) حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات پر تقریر حضرت اُمّم طاہر کی دردناک وفات کا زخم ابھی تازہ ہی تھا کہ مؤرخہ ۱۷ مارچ ۱۹۴۴ ء کو جماعت احمدیہ کے فقید المثال محدث اور عظیم المرتبت منتظم حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات کا صدمہ احباب جماعت کو برداشت کرنا پڑا.مؤرخہ ۷ار مارچ کو نماز مغرب وعشاء کے مابین حضرت میر صاحب کی وفات ہوئی اور نماز مغرب وعشاء پڑھانے کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے یہ تقریر ارشاد فرمائی.حضور نے یہ تقریر اس رفت اور سوز سے فرمائی کہ حضور کی آواز رُک رُک جاتی تھی اور سننے والوں کی چیچنیں نکل رہی تھیں.تقریر کے بعد حضور نے نہایت خشوع و خضوع سے دعا کروائی.اس تقریر میں حضور نے حضرت میر محمد الحق صاحب کے نمایاں اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:." میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے.در حقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو تھا، رات دن قرآن اور حدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا.وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بار موت کے منہ سے بچے.جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار اُن پر نمونیا کا حملہ ہوا.ایسے شخص کی وفات پر طبعا لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بنے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا “.اس تقریر میں حضور نے احباب جماعت کو حضرت میر صاحب کی طرح علمی و عملی میدان میں کمال حاصل کرنے کی تلقین فرمائی تا کہ علماء کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا ءساتھ ساتھ پورا ہوتا رہے.
انوار العلوم جلد کا ۱۲ (۱۰) اہالیان لدھیانہ سے خطاب تعارف کتب دعوی مصلح موعود کے سلسلہ میں تیسرا جلسہ مؤرخہ ۲۳ / مارچ ۱۹۴۴ء کو لدھیانہ میں منعقد ہوا.اس جلسہ کے انعقاد کے پروگرام کا اعلان ہوتے ہی اس جلسہ کو نا کام بنانے کیلئے مخالفین نے بیان بازی شروع کر دی اور اس جلسہ کو رکوانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا.اخبارات و رسائل میں بیان بازی کی ، جلسہ کے روز جلوس نکالے گئے اور جلسہ گاہ کے گرد منڈلاتے رہے غرضیکہ جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے ، دوران جلسہ موسلا دھار بارش ہونے اور سراسر نا موافق حالات کے باوجود یہ جلسہ بڑی کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح موعود نے اپنے روح پرور خطاب کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا.دمیں آج اس جگہ اِس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آج سے ۵۵ سال پہلے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبروں اور اُس کے ارشاد فرمائے ہوئے حکم کے ماتحت اس شہر لدھیانہ میں ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے بیعت لی تھی اور اس بیعت کے وقت صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لانے والے تھے.یہ ساری کی ساری پونجی تھی جسے لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی فتح کیلئے کھڑے ہوئے تھے باقی تمام دنیا ہندو، عیسائی، سکھ، ہندوستانی ، ایرانی ، عرب، چینی اور برطانوی وغیرہ سب کے سب آپ کے مخالف تھے اور آپ کو مٹادینے پر تلے ہوئے تھے مگر ان مخالفتوں کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو بتایا کہ: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.اس اعلان کے بعد باوجود شدید مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ کو بڑھانا شروع کیا.ان تمہیدی کلمات کے بعد حضور نے پیشگوئی مصلح موعود پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے دعویٰ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۳ تعارف کتب مصلح موعود کی وضاحت فرمائی اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے عقلی و نقلی دلائل پیش فرمائے.اس کے بعد حضور نے اہل لدھیانہ کی اس جلسہ کے سلسلہ میں مخالفت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان قرار دیا اور اہل لدھیانہ کی مخالفت کو اللہ تعالیٰ کے قانون اور انبیاء کی سنت کے مطابق قرار دیا.اس کے بعد آپ اہل لدھیانہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ:.”اے لدھیانہ کے لوگو! تم نے میری مخالفت کی اور میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.تم نے میری موت کی خواہش کی مگر میں تمہاری زندگی کا خواہاں ہوں کیونکہ میرے سامنے میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہے.آپ جب طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو شہر کے لوگوں نے آپ کو پتھر مارے اور لہولہان کر کے شہر سے نکال دیا.آپ زخمی ہو کر واپس آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا اگر آپ فرما ئیں تو اس شہر کو اُلٹا کر رکھ دوں.مگر میرے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ماں باپ، میری جان ، میرے جسم اور میری روح کا ذرہ ذرہ آپ پر قربان ہو، فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے.یہ لوگ ناواقف تھے ، نادان تھے اسلئے انہوں نے مجھے تکلیف دی اگر یہ لوگ تباہ کر دیئے گئے تو ایمان کون لائے گا.سواے اہلِ لدھیانہ ! جنہوں نے میری موت کی تمنا کی میں تمہارے لئے زندگی کا پیغام لایا ہوں ، ابدی زندگی اور دائی زندگی کا پیغام.ایسی ابدی زندگی کا پیغام جس کے بعد فنا نہیں اور کوئی موت نہیں.میں تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کا پیغام لایا ہوں جسے حاصل کرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی دُکھ نہیں رہتا اور مجھے یقین ہے کہ آج کی مخالفت کل دلوں کو ضرور کھولے گی اور دنیا دیکھے گی کہ یہ شہر اِنشَاءَ اللہ خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوگا.اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ کی مخالفت پر مبنی گزشتہ حالات و واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈال کر ثابت فرمایا کہ یہ مخالفت ہمارے سلسلہ کی راہ میں روک نہیں بن سکتی بلکہ ہر مخالفت کے بعد ترقیات کا ایک نیاد دور شروع ہو جاتا ہے.حضورانور نے اس تعلق میں اپنی ایک لمبی خواب بھی سنائی اور پھر اُس کی روشنی میں اہل لدھیانہ کو بعض نصائح فرمائیں.
انوار العلوم جلد کا ۱۴ (۱۱) زندگی وقف کرنے کی تحریک تعارف کتب حضرت میر محمد اسحق صاحب کی المناک وفات کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مصلح موعود کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ جماعت میں جلد سے جلد علماء اور علوم اسلامیہ کے ماہرین پیدا کرنے ضروری ہیں تا وہ پہلے بزرگوں کے قائمقام ہوسکیں اور جماعت کیلئے من حیث الجماعت اپنے علمی مقام سے گرنے کا امکان باقی نہ رہے.چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کے دوران تقریر کرتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ، حضرت قاضی امیر حسین صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کیلئے نو جوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی جس کے نتیجہ میں بہت سارے نوجوانوں نے حضور کی اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں.بعد ازاں سید نا حضرت مصلح موعود نے یکم مئی ۱۹۴۴ ء کو جماعت کے سامنے رضا کارانہ طور دو پر تبلیغ کرنے والوں کو اپنے آپ کو پیش کرنے کی تحریک فرمائی.آپ نے فرمایا کہ:.دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے؟ میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور و فکر کے بعد میں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا اُس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے...حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو.جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اُسی بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں.ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین
انوار العلوم جلد کا ۱۵ تعارف کتب دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے.“ (۱۲) لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے یہ تربیتی خطاب مؤرخه ۲۰ رمئی ۱۹۴۴ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان کے جلسہ میں ارشاد فرمایا.جس میں لجنہ اماءاللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور سنجیدگی کے ساتھ عورتوں کی اصلاح کرنے کے پروگرام بنانے کی تحریک فرمائی.اس سلسلہ میں تمام لجنات کو تجنید میں شامل کرنے کی ہدایت فرمائی.ہر مہینہ میں کم از کم ایک تربیتی اجلاس منعقد کرنے کی تلقین فرمائی جس میں تمام مستورات کو پابندی کے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جائے.اس خطاب میں حضور نے عورتوں کی اصلاح کی ضرورت سے متعلق اپنے الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.” مجھے جو یہ الہام ہوا ہے کہ اگر تم پچاس فی صدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.پچاس فیصدی سے یہی مراد ہے کہ پچاس فیصدی کی اصلاح بھی بہت بڑی بات ہے.محلہ کی پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کا فرض ہوگا کہ وہ سب عورتوں کو جلسہ میں شریک کرے.اگر تم صرف پچاس فیصدی عورتوں کو جلسہ میں لاؤ گی تو باقی پچاس فیصدی عورتوں کو تم ماررہی ہوگی کیونکہ وہ اپنے اخلاص میں کم ہوتی جائیں گی.پندرہ روزہ جلسہ محلہ کا ہو اور پندرہ روزہ مرکز کا.ایک جمعہ یا ہفتہ کو محلہ کا جلسہ ہو اور ایک ہفتہ مرکز کا.کام کو باقاعدگی سے کرنے سے ہی فائدہ ہوگا.تھوڑا کام کرو اور اُس کی عادت ڈالو پھر اُس کو اور بڑھاؤ اور بڑھاؤ“.(۱۳) تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز خطاب تعلیم الاسلام کالج قادیان کے
انوار العلوم جلد کا ۱۶ تعارف کتب افتتاح کے موقع پر مؤرخہ ۴ جون ۱۹۴۴ء کو ارشاد فرمایا.اس خطاب میں حضور نے کالج کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان فرمائے اور کالج کے پروفیسروں کو انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے کالج کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.یہ تقریب جو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دو گونہ مقاصد رکھتی ہے.ایک مقصد تو اشاعت تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی...دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم بہت سا اثر مذہب پر بھی ڈالتی ہے...اس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں اُن کا انہی علوم کے ذریعہ رد کیا جائے.کالج کے پروفیسروں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.پس جہاں دوسرے پروفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہوگی کہ وہ ان اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ رڈ کرتے چلے جائیں.“ حضور نے کالج کے منتظمین اور عملہ کو بھی بعض ہدایات فرمائیں کہ اس کالج میں داخلہ لینے والے کسی بھی غیر مذاہب کے طالبعلم کیلئے کوئی روک پیدا نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کالج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کر سکیں.نیز کالج سے منتظمین کو یہ ہدایت فرمائی کہ:.”وہ کالج کے پروفیسروں کے ایسے ادارے بنائیں جو ان مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں جمع کریں اور اپنے طور پر اُن کو رڈ کرنے کی کوشش کریں اور ایسے رنگ میں تحقیقات کریں کہ نہ صرف عقلی اور مذہبی طور پر وہ ان اعتراضات کو رد کر سکیں بلکہ خود اُن علوم سے ہی وہ اُن کی تردید کر دیں.66 حضور نے بڑی تحدی سے دعوی فرمایا کہ:.اس امر کو یا درکھو کہ تمام نئے علوم اور نئی تحقیقا تیں اسلام کی مؤید ہیں“.
انوار العلوم جلد کا ۱۷ تعارف کتب نیز فرمایا کہ ہمیں کامل یقین ہے کہ احمدیت کے بیج سے ایک ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا ہے جس کے سایہ تلے تمام دنیا آرام کرے گی.حضور نے اپنے اس خطاب میں طلباء کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ:.”ہمارا مقصد یہ ہے کہ جولڑ کے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں تو یقیناً وہ اِن آن گھڑے جواہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کر سکتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں ، ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنا ئیں اور ان کی مذہبی حالت بھی بہتر بنائیں“.حضور نے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.طلباء کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں...اور ان افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں.(۱۴) غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۱۶ / جون ۱۹۴۴ء کو مجاہد تحریک جدید چوہدری احسان الہی جنجوعہ مبلغ مغربی افریقہ کے اعزاز میں دیئے گئے عصرانہ کے موقع پر ارشاد فرمائی جس کا اہتمام مجاہدین تحریک جدید کی طرف سے کیا گیا.حضور نے اس خطاب میں صحابہ کرام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و وفا کے واقعات بیان فرمائے اور صحابہ کی قربانیوں کا روح پرور تذکرہ فرمایا با لخصوص غزوہ حنین کے موقع پر صحابه رضوان اللہ علیہم اجمعین کے صدق و وفا کے کار ہائے نمایاں بیان کرتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو وہی نمونہ دکھانے کی تلقین فرمائی آپ نے فرمایا:.
انوار العلوم جلد کا ۱۸ تعارف کتب ”جب تک ہم یہی نمونہ نہیں دکھاتے جو غزوہ حنین کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے جواب میں صحابہ کرام نے دکھایا ، جب تک روحانی طور پر اس نظارہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہی آواز ہماری روح سے نہیں نکلتی کہ لَبَّيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ لبیک ! ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنے ایمان کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے“.(۱۵) خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے یہ تقریر دلپذ یر ئؤ رخہ ۲۵ جون ۱۹۴۴ء کو بعد نماز عصر ایک تقریب کے موقع پر قادیان میں ارشاد فرمائی جو مؤرخہ ۲۴ رمئی ۱۹۶۰ء کو پہلی دفعہ روز نامہ الفضل میں شائع ہوئی.اس تقریر میں حضور نے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے یہ نقطہ بیان فرمایا کہ تمام انبیاء اپنی دینی ڈیوٹی سرانجام دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر خدا تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے قائم چلی آ رہی ہے.ہر شخص جو اُس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ ہمیشہ اپنی جڑیں اُس زمین میں پائے گا جو خدا کی رحمت کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں کیونکہ اس تعلق کیلئے موت نہیں.اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کو دائی زندگی بنا ئیں تو اس کیلئے اس زمانہ کے مامور اور نبی اللہ کے ذریعہ قائم کردہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم رکھنے کا اب یہی ایک ذریعہ ہے.اس لئے خلافت احمدیہ کو قائم رکھنا اور اس کے ساتھ وابستگی رکھنا ہمارا فرض ہے اور اس پر ہماری روحانی زندگی کا انحصار ہے.آپ فرماتے ہیں:.”اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ اس غفلت اور کوتا ہی کا ازالہ کرے اور خلافت احمدیہ کو ایسی مضبوطی سے قائم رکھے کہ قیامت تک کوئی دشمن اس میں رخنہ اندازی کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جماعت اپنی روحانیت اور اتحاد اور تنظیم کی برکت سے ساری دنیا کو اسلام کی آغوش میں لے آئے.
انوار العلوم جلد کا ۱۹ تعارف کتب (۱۶) میری مریم حضرت اُمّ طاہر سیده مریم بیگم صاحبه مورخه ۵ / مارچ ۱۹۴۴ء کو گنگا رام ہسپتال لاہور میں کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں.آپ کی وفات اگر چہ پوری جماعت کیلئے ایک دردناک المیہ کی حیثیت رکھتی تھی مگر طبعی طور پر اس کا سب سے زیادہ صدمہ خود حضرت سید نا مصلح موعود کو پہنچا لیکن حضور نے اس موقع پر نہ صرف بے مثال صبر و قتل اور رضاء بالقضاء کا نمونہ دکھایا بلکہ پوری جماعت کو صبر کی تلقین فرمائی.سیدنا حضرت مصلح موعود نے تقریباً ساڑھے تین ماہ تک حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی نسبت کچھ تحریر نہ فرمایا.ازاں بعد ارشاد نبوی اُذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمُ کے پیش نظر ایک مضمون رقم فرمایا جس میں حضور نے بڑی تفصیل سے حضرت سیدہ اُمّم طاہر کے سوانح ، ان کی خصائل و عادات ، ان کے کارنامے اور خدمات دینیہ کا ذکر فرمایا اور آخر پر آپ کی آخری بیماری کے درد ناک حالات و واقعات بیان فرمائے.حضور اس مضمون میں آپ کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:.مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں اُن کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا اس لئے ط ، ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں.مریم ایک بہا در دل کی عورت تھیں.جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا.ان کی نسوانی کمزوری اُس وقت دب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے.یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی.ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی.انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بد نامی ہے اور
انوار العلوم جلد کا تعارف کتب وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو ، بھول جاتیں کھانے پینے کو ، بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یا درہ جاتا تھا اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے.اور وہ کام ان کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا آپریشن ہوتا تھا“.(۱۷) خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ اجتماع کے موقع پر مؤرخہ ۱۵ اکتو بر ۱۹۴۴ء کو حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں حضور نے خدام کو بہت قیمتی اور زریں نصائح فرمائیں.خاص طور پر درج ذیل دو باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی.آپ فرماتے ہیں:.قوم کی ترقی کے لئے بنیادی طور پر یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اُس کا ہر فرد ان دو فقروں کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے، جس کے اندر ہم نے کیا کرنا ہے“ بھی شامل ہے اور دوسرے یہ کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے.جب یہ دونوں باتیں حل ہو جائیں اور پھر جو کچھ ہم نے کہنا ہو وہ اپنے اندر اہمیت بھی رکھتا ہو تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.نیز اس تقریر میں حضور نے دین کی واقفیت کیلئے اوّل قرآن کریم کا ترجمہ ، دوم حدیث اور سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کو ضروری قرار دیا ہے.علاوہ ازیں حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد اور خدام کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض بڑی پُر حکمت، مؤثر اور قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں.خدام کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے یہ خطاب بہت ہی قیمتی اور پرتاثیر ہے.
انوار العلوم جلد کا ۲۱ تعارف کتب (۱۸) تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ روح پرور خطاب مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاح کے موقع پر مؤرخہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۴۴ء کو ارشاد فرمایا.حضور نے اپنی اس تقریر میں مجلس انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اس موقع پر حضور نے انصار اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی اصلاح کا ایک گر بیان فرمایا کہ:.دو تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے اسی سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے، اسی سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے“.حضور نے اس طریق اصلاح کو ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:.اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردو پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصار اللہ ، لجنہ اماءاللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کی ہیں.(۱۹) افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء حضرت مصلح موعود نے یہ مختصر مگر روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۶/ دسمبر ۱۹۴۴ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی.جس میں حضور نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین ترین چہرہ جس کی برکت سے سورج اور چاند روشن ہیں لوگوں نے اُن کے مشن سے منہ موڑ رکھا ہے.وہ تعلق جو کسی زمانہ میں مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا آج اس میں بے انتہاء کمی آچکی ہے.ایسے حالات میں آج صرف جماعت احمد یہ
انوار العلوم جلد کا ۲۲ تعارف کتب ہی ہے جس نے اسلام کی حفاظت اور امداد کا بیڑہ اُٹھایا ہے پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی زمہ داریاں بہت اہم ہیں.اس تقریر میں حضور نے دعوئی مصلح موعود کو دُہراتے ہوئے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا ” میری تو ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں جان دے دوں اور محمد ﷺ کی کھوئی ہوئی وراثت آپ کے حضور پیش کر دوں.میں نے بارہا اپنے مولیٰ سے التجا کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہتا ہوں کہ الہی ! اگر میری مٹی بھی کسی ذلیل ترین مقام پر پھینک دینے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کچھ خدمت ہو سکتی ہے تو میری کسی لحاظ سے بھی کوئی پرواہ نہ کر اور محمد عے کے مقام کی عزت کے لئے جو بھی قربانی کی جانی ضروری ہو وہ مجھ سے لے اور مجھے توفیق دے.(۲۰) لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات حضرت مصلح موعود نے یہ تربیتی تقریر مؤرخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۴ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر خواتین کی جلسہ گاہ میں ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی..عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں ہر نام کا کوئی نہ کوئی معنی ہوتا ہے.اس کی وضاحت میں آپ نے لفظ اُم اور کوا“ کے معنوں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا کہ عربی زبان کی یہ خصوصیت کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتی.انسانی پیدائش کا مقصد اور غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور اس تعلق میں لفظ ”انسان“ کے معنوں کی وضاحت فرمائی ہے جس سے انسان کو اُس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے“ کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ :.,, قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ سے ہی آتی ہے.
انوار العلوم جلد کا K ۲۳ تعارف کتب -۴- لجنہ اماءاللہ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:.مہینہ کے اندراندریعنی جنوری ۱۹۴۵ء ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں.۵.حضور نے لجنہ کو احمدی خواتین کی تنظیم کی نسبت بیش قیمت ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ:.لجنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب اُن کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے.پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز ، روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دئیے جائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ ان کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر اُن کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو با ترجمہ قرآن مجید آ جائے.(۲۱) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) حضرت مصلح موعود نے یہ بصیرت افروز خطاب مؤرخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۴ء کو بر موقع جلسہ سالانہ قادیان ارشادفرمایا.اس میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے.سب سے پہلے تو حضور نے دورانِ سال حضرت سیدہ اُ تم طاہر صاحبہ اور حضرت سید میر محمد اسحق صاحب کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:." بے شک ہمیں بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے مگر ہم اپنے خدا کی رضا پر راضی ہیں اور اس کے فضلوں پر یقین رکھتے ہیں“.۲.سلسلہ احمدیہ کے ایک کھوئے ہوئے مبلغ مولوی محمد الدین صاحب (جن کے بارہ میں مغربی افریقہ جاتے ہوئے بحری جہاز کے غرق ہو جانے سے وفات پا جانے کا گمان کیا جا رہا تھا ) کا جہاز کو پیش آمدہ حادثہ سے زندہ بچ جانا اور جاپانیوں کی قید میں ہونے کی
انوار العلوم جلد کا ۲۴ تعارف کتب اطلاع ملنے پر ان کے متعلق تازہ صورتحال سے احباب جماعت کو مطلع فرمایا اور ان کی یورپ کے متعددممالک میں خدمات کی روشنی میں ذکر خیر کرتے ہوئے ان کی درازی عمر کیلئے دعا کی تحریک فرمائی.دعوی مصلح موعود کے بعد غیر مبائعین کی طرف سے پیدا ہونے والی مخالفت اور فتنہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے جماعتی ترقی کیلئے مفید قرار دیا اور جماعت کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تلقین فرمائی.۴.مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے موصولہ مقابلہ کے چیلنج پر سیر حاصل تبصرہ اور محاسبہ کرتے ہوئے ان کے چیلنج کا بطلان ثابت کیا.۵.مذکورہ بالا تمام امور بیان کرنے کے بعد حضور انور نے دورانِ سال جماعت پر نازل ہونے والے افضال الہی کا روح پرور تذکرہ فرمایا.(۲۲) الموعود حضرت الصلح الموعود خلیقة لمسیح الثانی نے یہ معرکۃ الہ راء خطاب مو رحمہ ۲۸ رودسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا جس میں اپنے دعوی مصلح موعود پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے نہ صرف پیشگوئی مصلح موعود کا پورا ہونا قطعی دلائل اور واقعات سے روز روشن کی طرح ثابت کیا بلکہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے اعتراضات کا رڈ بھی نہایت عمدہ طور پر فرمایا.حضور نے اس خطاب کے آخر پر احباب جماعت کو اُن کی بعض نئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ:.”آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق ہیں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں.بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقینا خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵ تعارف کتب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد آب روشنی آئے گی.پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا.میں تمہیں اُچھلنے کودنے سے نہیں روکتا.بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اُچھلو اور گو دو.لیکن میں کہتا ہوں اِس خوشی اور اُچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تا کہ ہم گفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور انشَاءَ اللہ ایسا ہی ہوگا.زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی با تیں کبھی ٹل نہیں سکتیں“.
انوار العلوم جلد ۱۷ 1 محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد کا محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے ( تقریر فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۴۳ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ.قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سب سے پہلے تو دوست میرے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس جلسہ کو اپنے منشاء کے مطابق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری ان ناچیز کوششوں کو بہت بڑے ثمرات پیدا کرنے کا موجب بنائے اور یہ جو چھوٹا سا بیج ایک ایسی زمین میں جو اس سے پہلے پھل دینے سے عاری تھی لگا یا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اُسی طرح بار آور فرمائے جس طرح اُس نے اُس پیج کو بار آور فرمایا جو وادی غَيْرِ ذِي زَرَع میں بویا گیا تھا.مکہ کا ایک ایسی جگہ واقع ہونا جو غیر ذی زرع تھی خودا اپنی ذات میں ایسی بات نہ تھی جو قرآن کریم میں خصوصیت سے بیان کی جاتی مگر اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مکہ کی بستی ایک ایسی جگہ بسائی گئی جہاں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی اس میں اس روحانی تقابل کی طرف اشارہ تھا کہ یہ وہ زمین ہے جو ہر قسم کے انسانوں کے بوئے ہوئے بیجوں کو ر ڈ کر دیتی تھی.اس میں خدا نے بیج لگایا ہے جو ایسے پھل دے گا کہ کوئی اور آبادی جو زراعت کے لحاظ سے مشہور ترین ہو وہ بھی مقابلہ نہ کر سکے گی.ویسی ہی یہ قادیان کی زمین بھی ہے.دنیوی تہذیب و تمدن کے مراتب سے دُور تعلیمی مراتب سے دُور ، دینیات اور دینی علوم کے مرکز سے دور ایک گوشہ میں پڑی ہوئی ہے ، ملک کے ایک ایسے صوبہ میں واقع ہے جو دوسرے صوبوں کے لوگوں کے مقابلہ میں
انوار العلوم جلد ۷ محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے تعلیم میں پیچھے ہے اور ایسا صوبہ ہے جو لڑائی اور فساد میں مشہور ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک بھولے بسرے گاؤں میں ایک ایسی تحریک جو دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے جاری فرمائی ہے.وہ صوبہ جو ہندوستان ایسے فسادی ملک میں فساد کی جڑ سمجھا جاتا ہے، وہ قومیں جو اشتعال انگیزی اور اشتعال پذیری میں پڑول کی سی شہرت رکھتی ہیں ، اس جگہ اور ان لوگوں میں امن عامہ کی تحریک کا پیدا کرنا اور پھر اُسے کامیاب بنانا ایک ایسا آسمانی نشان ہوگا کہ دنیا اس کی عظمت کا انکار نہ کر سکے گی.پس آؤ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس ناممکن کام کو جو ہماری طاقتوں اور قوتوں کے لحاظ سے ناممکن ہے ممکن کر دکھائے.کیونکہ اس کی طاقتوں اور قدرتوں کے لحاظ سے جس چیز کو وہ چاہے اور جس بات کا ارادہ کرے، وہ ناممکن نہیں ہے.( اس کے بعد حضور نے تمام حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی اور پھر فرمایا ) جلسہ کے بعد جلسہ کا پروگرام تو اور ہے مگر میں ایک دوضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں.دوستوں کو جیسا کہ پہلے اطلاع دی جا چکی ہے چونکہ میری طبیعت خراب ہے اس لئے میں ملاقاتوں کا بوجھ زیادہ برداشت نہ کر سکوں گا.اسی وجہ سے تقریروں میں بھی بہت کچھ کمی کرنے کی ضرورت ہو گی.احباب کو معلوم ہے کہ اس سال کے ماہ مئی کے شروع سے میری طبیعت خراب چلی آ رہی ہے.ڈلہوزی جانے پر دو ماہ کے قریب آرام رہا.عوارض اور علامات میں تخفیف رہی مگر نومبر کے درمیان سے پھر کھانسی شروع ہوگئی اور اس کی وجہ سے بعض دفعہ تو آواز اس قد ر بیٹھ جاتی ہے کہ اپنے قریب کے آدمی کو بھی نہیں سنا سکتا.شروع بیماری کے وقت تو ایسی حالت ہو گئی تھی کہ پاس کے کمرہ میں سے بھی کسی کو بلانا ہوتا تو آواز دینے کی بجائے تالی بجانی پڑتی یا کوئی چیز کھٹکھٹانی پڑتی تھی.یہاں تک کہ میں اپنی آواز دس بارہ فٹ تک بھی نہیں پہنچا سکتا تھا.اب بھی جس وقت کھانسی لمبی ہو جائے تو دورہ کے طور پر ایسی حالت ہو جاتی ہے.پرسوں جمعہ پڑھانے کے بعد جب میں گیا تو آواز بیٹھ گئی اور کئی گھنٹوں کے بعد یہ تکلیف دور ہوئی.ان حالات میں قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت احتیاط کی ضرورت ہوگی.
انوار العلوم جلد ۱۷ محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے یوں بھی ضعف کی کیفیت ایسی ہے کہ بعض اوقات سینہ میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ سینہ میں کوئی تھیلی تھی جو نیچے کو جھک گئی ہے اور اس کی وجہ سے کندھے وغیرہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہتے اور بعض دفعہ تو کپڑے بھی بوجھ محسوس ہوتے ہیں اور سارے جسم میں درد شروع ہو جاتا ہے.پس ان اسباب کی وجہ سے تقریروں اور ملاقاتوں میں بھی کمی کرنی ہو گی.میں سمجھتا ہوں دوست اس کو زیادہ محسوس نہ کریں گے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے.آخر کام ایک حد تک.ہی کیا جا سکتا ہے اس سے زیادہ ناممکن ہوتا ہے.میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا جلسہ کے ایام میں میں پوری طرح ملاقات بھی کر سکوں گا یا نہیں.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میری ایک بیوی طاہر احمد کی والدہ بیمار ہیں اور لاہور کے ہسپتال میں داخل ہیں.ان کے متعلق تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ سوائے آپریشن کے علاج کی اور کوئی صورت نہیں اور بدھ کے دن آپریشن کرنا تجویز کیا ہے.میں کوشش کروں گا کہ مریضہ کے متعلق خطرہ پیدا ہوئے بغیر اگر آپریشن ایک دو دن کے لئے ملتوی کیا جا سکے تو کر دیا جائے تا کہ میں جلسہ کے کام سے فارغ ہو کر وہاں چلا جاؤں.لیکن اگر ملتوی نہ کیا جا سکا تو منگل کی شام کو مجھے لاہور جانا پڑے گا.اس وجہ سے منگل کے بعد جو ملاقاتیں ہیں وہ نہ ہو سکیں گی.میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے بہت ہی عجز کے ساتھ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس مقصد پر قائم رکھے جس کے لئے یہ قائم کی گئی ہے اور جماعت کو اپنی گود میں لے لے.بہر حال انسان آتے اور چلے جاتے ہیں جو پناہ حقیقی اور دائی ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا کا وہ حصہ جبکہ میں نے محسوس کیا کہ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے ہو رہی ہے پورے طور پر بغیر ایک ثانیہ اور ایک سیکنڈ اپنے لئے یا اپنے عزیزوں کے لئے صرف کرنے کے ساری کی ساری دعا جماعت کے لئے کی ہے اور میں جب اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہا تھا کہ تو اس جماعت کو اپنی ہی گود میں لے لے اور خود اس کی حفاظت فرما کیونکہ تیری حفاظت کے بغیر وہ کام نہیں ہو سکتا جس کے کرنے کے لئے تو نے اس جماعت کو مقرر کیا ہے تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے نور اُترا اور اس جلسہ گاہ پر چھا گیا.پس میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیشہ ہی جماعت کا محافظ ہوگا اور جب تک جماعت
محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے انوار العلوم جلد ۱۷ اپنے مقصد میں کا میاب نہ ہو جائے وہ اِس میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اس کام کے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے ، جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق رکھنے والے ہوں گے اور اُس کے کلام اور پیغام کی اندرونی اور بیرونی طور پر اشاعت کرتے رہیں گے.پھر اللہ تعالیٰ اس جماعت کے کمزوروں کو اِس طرح اپنی گود میں اُٹھا لے گا جس طرح ماں اپنے پیارے بچہ کو اُٹھا لیتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی روحانی ترقی کا سارا دارو مدار گلی طور پر بغیر کسی استثناء کے اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ وابستہ ہے.جس انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم رہے، جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی گود میں داخل ہو جاؤں اور اُس کے دامن کو پکڑ لوں ، ایسا انسان کبھی بھی خواہ وہ کتنے ہی گناہوں میں ملوث ہو گناہوں کی موت نہیں مرتا اور نہیں مرسکتا.جن دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اُن کے گناہ ایسے ہوتے ہیں جیسے جسم کو تیل مل کر اوپر سے پانی ڈال دیا جائے.اللہ تعالیٰ نے پہلے عیسی علیہ السلام کا نام مسیح رکھا اور مسیح کے معنی یہی ہیں کہ جسے تیل ملا گیا ہو اور یہ جو آیا ہے کہ مسیح اور اُس کی ماں گناہوں سے پاک ہیں.اس کے یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا تیل اُن کو مل دیا.جب شیطان آزمائش کے لئے اُن کے پاس آ تا تو وہ آزمائش اُن پر سے اس طرح پھسل جاتی جس طرح تیل ملے جسم سے پانی پھسل جاتا ہے.ہمارے آنحضرت ﷺ کا درجہ حضرت مسیح سے افضل ہے کیونکہ تیل ملے جسم پر تو پانی ڈالا اور وہ پھسل کر باہر چلا گیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے شیطان کو مسلمان کر دیا ہے گویا حضرت مسیح کی کیفیت تو یہ تھی کہ بد تحریکیں اُن پر اثر نہ ڈالتی تھیں اُن کے ساتھ جب کوئی بدی ٹکراتی تو بجائے جسم میں داخل ہونے کے پھسل کر دُور چلی جاتی مگر رسول کریم ﷺ کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی آپ پر بداثر ڈالنا چاہتا تو اُس کی بات آپ کے کان میں جاتے ہی نیک تحریک بن جاتی.گویا ان دونوں روحانی معجزہ دکھانے والوں کی مثال یہ ہے کہ ایک پر پتھر پڑتے مگر اُ سے چُھو کر نیچے گر پڑتے اور دوسرے پر پتھر پڑتے لیکن اُس کے ہاتھ میں آتے ہی کوئی پتھر آم بن جاتا ، کوئی سیب بن جاتا ، کوئی انا ر بن جاتا اور وہ اُسے کھا لیتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جس کے جسم پر پتھر پڑیں اور اُسے گزند نہ پہنچائیں وہ خدا تعالیٰ کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶ محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے حفاظت میں ہوتا ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ وہ انسان جس کے جسم پر جو پتھر پڑیں اُن میں سے کوئی آم کوئی سیب، کوئی ناشپاتی، کوئی انار، کوئی انگور بن جاتا ہے جسے وہ خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے تو وہ اور بھی زیادہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے اور بہت زیادہ خدا تعالیٰ کے قریب ہے.غرض محبت الہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے اُسے پوری طرح حاصل کر لو پھر خواہ کوئی دشمن آئے تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.اس میں شبہ نہیں کہ دشمن بڑی ڈراؤنی شکل میں تمہارے سامنے آئے گا، خطر ناک سے خطر ناک عذاب اپنے ساتھ لائے گا تمہارے اوپر پہاڑ گرانے کی کوشش کرے گا اور تمہارے گلے میں پتھر باندھ کر سمندر میں ڈبونے کی سعی کرے گا مگر ہر تد بیر جو وہ تمہارے خلاف کرے گا اور جب وہ اپنے ذہن میں سمجھے گا کہ تمہاری تباہی کے سارے سامان اُس نے جمع کر دئیے اُس وقت خدا تعالیٰ مسکراتا ہوا آئے گا اور کہے گا چھوڑو جی میرے بچے کو اور تم کو لے کر اپنی گود میں اُٹھا لے گا.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ( الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۴۳ء) مسلم کتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان (الخ)
انوار العلوم جلد ۱۷ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ء) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ Λ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مستورات سے خطاب تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۳ء بر موقع جلسہ سالانہ.قادیان) تشہد ، تعوذ ،سورۃ فاتحہ اور سورۃ الکوثر کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جیسا کہ جماعت کے بھائی بہن اخبارات کے ذریعہ واقف ہیں گزشتہ مئی سے میری طبیعت بہت خراب چلی آتی ہے کھانسی اور گلے کی خرابی کی وجہ سے میں اچھی طرح بول نہیں سکتا اس وجہ سے آج میں مستورات کے جلسہ میں صرف تھوڑی دیر بولنے کا ارادہ رکھتا ہوں.اسی طرح مردوں میں جو تقریر ہوگی وہ بھی گزشتہ سالوں کی نسبت مختصر کرنی پڑے گی.چونکہ مردوں کے جلسہ کی تقریر اب لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سُن سکتی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس تیسری تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہیں مگر چونکہ فطری طور پر اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مقابلہ کی روح پیدا کی ہے اِس لئے اُن کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے چند منٹ بولنے کے لئے یہاں آ گیا ہوں.پیشتر اس کے کہ میں اس سورۃ کے متعلق بیان کروں ناظمات جلسہ کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میرے پاس شکایت آئی ہے کہ سٹیج پر بیٹھنے والی عورتوں میں چائے تقسیم ہوتی ہے جس پر دوسری عورتیں بُرا مناتی ہیں.میرے نزدیک سٹیج پر بیٹھنے والی بہنوں کو اپنی دوسری بہنوں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے اور آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے.اگر پہلے اس قسم کی کوئی غلطی ہوتی رہی ہے تو آئندہ اس سے اجتناب کیا جائے.بھوک اور پیاس ایسی چیزیں ہیں کہ مسیح پر بیٹھنے والیوں کو ویسی ہی بھوک اور پیاس لگتی ہے جیسی کہ نیچے بیٹھنے والیوں کو.وہ عورتیں جو نیچے
انوار العلوم جلد ۷ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) بیٹھی ہوئی ہیں جب وہ باوجو د تنگ اور سمٹ کر بیٹھنے کے اور دھوپ میں ہونے کے بھوک اور پیاس کو روک سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سٹیج والیاں روک نہیں سکتیں ؟ ہاں بیمار اس سے مستثنی ہیں.اکا دُکا بیمار ہوتی رہتی ہیں مگر یہ خیال کرنا کہ سب یہاں بیمار بیٹھی ہیں غلط ہے.شاذ و نادر ہی کوئی بیمار ہے.مثلاً اُس کا دل کمزور ہے تو اُس پر رحم کرنا چاہئے نہ کہ اعتراض.بہر حال مستورات کے سٹیج کے متعلق موجودہ نظام درست نہیں.اس سلسلہ میں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ سٹیج کا نظام قابل اصلاح ہے.مردوں کے سٹیج پر کسی کو اس لئے جگہ نہیں دی جاتی کہ وہ مال دار ہے یا کسی اونچے طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہاں صرف اُن کو جگہ دی جاتی ہے کہ جو بیرونی جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری ہیں اور اُن سے اُمید کی جاتی ہے کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو جماعتوں کو یہاں کے حالات سُنا ئیں گے سوائے اُن کے جو غیر احمدی ہوتے ہیں یا بیمار یا اونچاسُننے والے کہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں.میں سمجھتا ہوں مستورات میں بھی ایسا ہی نظام ہونا چاہئے.مختلف انجمنوں کی پریذیڈنٹ اور سیکرٹریوں کو بیٹھنے کا موقع دیا جائے یا مرکزی انتظام جن کے سپر دہوں وہ بیٹھ سکتی ہیں یا غیر احمدی جو باہر سے آتی ہیں وہ اتنی تکلیف برداشت کر سکتی ہیں اور یا پھر وہ بیٹھ سکتی ہیں جو معذور ہوں جو زمین پر زیادہ دیر نہ بیٹھ سکتی ہوں.اسی طرح جلسہ گاہ کے آخر میں بیج لگا دیئے جائیں تا کہ بیمار اور معذورعورتیں بیٹھ سکیں.میں اُمید کرتا ہوں که لجنہ اس بات کو نوٹ کر لے گی اور آئندہ سال اس قانون پر عمل کیا جائے گا.صرف لجنات کی پریذیڈنٹ ، سیکرٹری یا بیمار یا پھر غیر احمدی عورتوں اور منتظمات کو ہی سٹیج پر جگہ دی جائے.جن کو ان قواعد کے ماتحت بیٹھنے کا موقع نہ مل سکتا ہو آئندہ وہ نیچے بیٹھا کریں.اس موقع پر افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ کل اور آج سٹیج پر کھانا نہیں کھایا گیا اور نہ ہی چائے تقسیم ہوئی ہے.فرمایا ) یہ خوشی کی بات ہے کہ اس دفعہ کھانا نہیں کھایا گیا.مگر اس قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.جو کام انسان خدا کی خاطر کرتا ہے اُس پر جو اعتراض کئے جائیں وہ انسان کو بخوشی برداشت کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والا اعتراضوں پر خوش ہوتا ہے نہ کہ ناراض.پس اعتراض ایک کان سے سننے چاہئیں دوسرے سے نکال دینے چاہئیں.دین میں خدا کی
انوار العلوم جلد ۱۷ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) خاطر گالیاں سننے سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے.سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتراضوں کو برداشت کرتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں کسی دوست نے ایک نیک تحریک جاری کی.کچھ عرصہ کے بعد اُن سے پوچھا گیا کہ کام کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اچھا کام نظر نہیں آتا.معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو پسند نہیں کیونکہ نہ کسی نے گالی دی اور نہ اعتراض کیا.تو خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے اس پر ضرور اعتراض ہوتے ہیں اُن پر بر انہیں منانا چاہئے.پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ کہنے لگے کہ مبارک ہو یہ تحریک مبارک ہے.گالیوں سے بھرا ہوا ایک خط آیا ہے.تو خدا کی خاطر اعتراضات کو برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی کی روح ہے.اعتراضات کا فوراً جواب دینا تھر دلی کی علامت ہے.مولوی برہان الدین صاحب سلسلہ کے بزرگوں میں سے تھے.۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے.بڑا شاندار استقبال ہوا لیکن وہاں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں.جب حضور واپس آنے لگے تو لوگ پتھر مارنے لگے ، پتھروں کی کثرت کی وجہ سے گاڑی کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں.مولوی صاحب بیچارے بوڑھے آدمی تھے ، وہ ان لوگوں کے قابو چڑھ گئے کبھی داڑھی کھینچتے کبھی مکے مارتے کبھی دھکے دیتے وہ چلتے جائیں اور کہتے جائیں سُبحَانَ اللهِ ساڈیاں ایسیاں قسمتاں کتھوں آخر لوگوں نے پکڑ کر اُن کے منہ میں گوبر ڈال دیا تو کہنے لگے سُبحَانَ اللهِ ساڈی قسمت وچ ایہ نعمتاں کتھوں“ تو مؤمن پر دین کی وجہ سے جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اُس کی نجات کا موجب ہوتا ہے اس.اُسے گھبرانا نہیں چاہئے.حضرت ابوطلحہ رسول کریم ﷺ کے عزیز صحابی تھے.جنگِ اُحد میں جب حضور چند دوستوں کے ساتھ اکیلے رہ گئے تو حضرت ابوطلحہ حضور کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حضور کے منہ کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا.دشمن نے اس قدر تیر پھینکے کہ اُن کا ہاتھ شل ہو گیا یے کئی سال کے بعد کسی نے اُن کا ہاتھ دیکھا تو کہا ٹھنڈا.حضرت ابوطلحہ نے کہا کہ میرے لئے تو ساری برکتوں کا موجب یہ ہاتھ ہے.جنگ اُحد میں جب رسول کریم ﷺ پر دشمن نے وار کیا تو میں
انوار العلوم جلد ۷ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) نے یہ ہاتھ حضور کے منہ کے آگے رکھ دیا.وار ہوا تو میرا ہاتھ چھلنی ہو گیا کسی نے پوچھا آپ کو درد نہیں ہوا تھا ؟ کہنے لگے اُس وقت تو میرے منہ سے ہی تک نہیں نکلی.درد تو ہوتا تھا مگر میں اس ڈر کے مارے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ ہل جائے ، رسول کریم ﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے سی تک نہیں کرتا تھا.تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں کھانا، ماریں کھانا اور بے عزتی برداشت کرنا رتبہ حاصل کرنا ہے.اب میں اختصار کے ساتھ اس سورۃ کے متعلق جو میں نے ابھی پڑھی ہے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے اِنا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمائی.کوثر کے معنی ہیں کثرت بھلائی اور ایسا شخص جو بہت صدقہ و خیرات کرنے والا ہو تے پس اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے.یعنی ہر وہ چیز جو دنیا کی نعمت ہو سکتی ہے آپ کو دی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت کم لوگ تھے.آپ کے ملنے جلنے والے، رشتہ دار، عزیز سب مخالف تھے.دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ، دشمن اتنے طاقتور تھے کہ کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے گا اُس وقت اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إنَّا أعطيتك الكوثر ہم نے تجھ کو ہر نعمت بڑی تعداد میں دی ہے.یہ اُس وقت کا الہام ہے جبکہ مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں تھے.اُن کے لئے گلیوں میں چلنا پھرنا بھی مشکل تھا.خدا تعالیٰ نے اُس وقت رسول کریم ﷺ سے وعدہ کیا کہ ہم تجھے بہتات دیں گے اور ترقی دیں گے.حضرت عمرؓ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.ایک دن وہ گھر سے اس امر کا ارادہ کر کے نکلے کہ میں نَعُوذُ بِاللهِ ) رسول اللہ ﷺ کو قتل کروں گا.راستے میں کسی نے پوچھا عمر ! یہ تلوار لگائے کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جارہا ہوں.اُس نے کہا تمہارے بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں پہلے اُن کو قتل کرو.حضرت عمر نے کہا ہیں! یہ بات ہے! حضرت عمرؓ کوٹے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے.اُن کا دروازہ بند تھا وہ کسی سے قرآن سن رہے تھے.انہوں نے جاتے ہی دروازہ کھٹکٹھایا.انہوں نے جواب دیا ٹھہرو کھولتے ہیں.اوّل تو گھر کا دروازہ بند ہونا ہی بہت بڑی بات تھی پھر اُن کا یہ کہنا کہ ٹھہر وکھو لتے صلى الله
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۲ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) ہیں حضرت عمررؓ کا قحبہ بہت بڑھ گیا.پوچھا کہ دروازہ کیوں بند کیا تھا؟ کہنے لگے یونہی.حضرت عمر نے کہا تمہاری آواز میں آ رہی تھیں اور آگے بڑھ کر بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا.اُن کی بیوی خاوند کی محبت کی وجہ سے برداشت نہ کر سکیں ، آگے آ کر کھڑی ہو گئیں.کہنے لگیں کہ مارنا ہے تو مجھے مارو میں تمہاری بہن ہوں ان کو کیوں مارتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا ہوا تھا اور وہ آگے کی طرف حرکت کر رہا تھا ڑک نہ سکا اور پورے زور کے ساتھ اُن کی بہن کے منہ پر لگا اور ناک سے خون بہنے لگا.ایک بہادر آدمی کے لئے یہ چیز پریشان کر دینے والی تھی.بہن کا خون دیکھ کر اُن کا غصہ اُتر گیا اور کہنے لگے بہن معاف کرنا غلطی ہو گئی.جب دیکھا کہ بہن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو کہنے لگے اچھا وہ جوسُن رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ بہنوئی تو کچھ ڈرے مگر وہ صحابی جو قرآن سنا رہے تھے جوش سے باہر نکلے کہ عمر جیسا انسان قرآن شریف سننے کے لئے تیار ہے.حضرت عمرؓ نے ورق کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ان کی بہن نے ورق ہاتھ سے چھین لیا اور کہا کہ نا پاک ہاتھ نہ لگا ؤ پہلے غسل کرو اور پھر اس پاک کلام کو ہاتھ لگاؤ.ندامت اور شرمندگی تھی ، نہائے.اس کے بعد ایک آیت پڑھی تو دل نرم ہوا ، دوسری پڑھی اور نرم ہوا ، تیسری پڑھی تو اور حالت ہوئی، چوتھی پڑھی تو اور پانچویں پڑھی تو دل کی حالت اور ہوئی ، چھٹی پڑھی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.سورۃ ختم ہوئی تو خاموشی سے اُٹھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے.اُن کا بھی دروازہ بند تھا دستک دی.کسی نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا عمر بن الخطاب.عمر مکہ کے بہادر اور لڑا کے آدمی تھے.صحابہ نے آواز سنتے ہی عرض کیا يَارَسُوْلَ اللہ ! عمرلڑا کا آدمی ہے دروازہ نہ کھولنا چاہئے.رسول کریم ﷺ نے فرما یا کھول دو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بہت بہادر سپاہی تھے اُنہوں نے کہا دروازہ کھول دو میں دیکھوں گا عمر کس طرح گستاخی کا معاملہ کرتا ہے.عمر مجرموں کی طرح داخل ہوئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.عمر کس طرح آئے ہو؟ کہنے لگے يَارَسُولَ اللهِ ! آپ کا غلام ہونے آیا ہوں.صحابہ نے سنتے ہی اس قدر زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ گونج اُٹھا ہے تو مسلمان اتنے تنگ تھے کہ کھلے بندوں نماز تک نہیں پڑھ سکتے تھے.اُس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد ﷺ میں تجھے ہر چیز کی کثرت دوں گا اتنی قو میں تیرے مذہب میں داخل ہوں گی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۳ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ء) کہ گنی نہ جاسکیں گی.یہ غریب اور کنگال لوگ اتنے مالدار ہو جائیں گے کہ ان کے مال کا کوئی حساب نہ ہو سکے گا.وہ بات رکس رنگ میں پوری ہوئی.فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺے دس صلى الله ہزار قد وسیوں سمیت مکہ میں داخل ہوئے.ابوسفیان نے دُور سے لشکر دیکھا اور دیکھ کر کہا کہ یہ کونسا لشکر ہے؟ اُس کے ساتھیوں نے کہا کہ فلاں قبیلہ کا ہے اُس نے کہا کہ نہیں ان کے پاس اس قد لشکر کہاں.اس کے ساتھیوں نے تمام بڑے بڑے قبائل کا نام لیا.اُس نے کہا کسی کے پاس بھی اتنا لشکر نہیں.پھر انہوں نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں گے.ابوسفیان نے جواب دیا میں ابھی اُن کو مدینہ چھوڑ کر آیا ہوں.یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیسے ہو سکتے ہیں ھے تو آپ کے پاس اتنا بڑ الشکر تھا کہ عرب کی کسی قوم کے پاس اتنا بڑ الشکر نہیں تھا.ایک وہ وقت تھا کہ آپ ایک دوست کے ساتھ مکہ سے تن تنہا نکلنے کیلئے تیار ہوئے اُس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تجھے غریب و کنگال کہتے ہیں ہر چیز کی تجھے اتنی کثرت ملے گی کہ اس کا شمار نہ ہو گا.إنَّا أعطيتك العوشر.ہم نے تجھے کثرت دی اور برکت دی ، اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں عطا کیں ، خیر کثیر میں قرآن کریم بھی شامل ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب کتابیں بیچ ہیں.ہزاروں لاکھوں کتابیں دنیا میں تصنیف کی گئی ہیں.ہندوستان اور بیسیوں ملکوں میں کتب موجود ہیں.ہندوستان ایک غریب ملک ہے اور پنجاب ایک غریب صوبہ ہے مگر صرف اسی کے کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں.اسی طرح دنیا میں ہزاروں لائبریریاں ہیں اور ان میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں اور اس سے پہلے کروڑوں کتابیں لکھی گئیں اور تباہ ہو گئیں.بعض کتابیں ایسی ہیں کہ اُن کی سوسو جلدیں ہیں مگر ان سب کتابوں کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسے لوگ حفظ بھی کر لیتے ہیں مگر اس کے نور اور اس کے عرفان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر وسیع معانی ومفہوم رکھتا ہے.اس کی ایک آیت کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی کتاب بیچ ہے.زبان اتنی شیر میں ہے کہ بڑے سے بڑا ماہر اس کو سُن کر دنگ رہ جاتا ہے.عرب میں سات بڑے شاعر ہوئے جن کے قصیدے سونے کے حروف سے لکھ کر خانہ کعبہ کے دروازوں پر لٹکائے گئے.اُن میں سے ایک شاعر لبید مسلمان ہو گئے.حضرت عمر نے ایک دفعہ انہیں بلا یا اور کہا کوئی اچھا سا شعر سنا ئیں.
انوار العلوم جلد ۷ ۱۴ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) انہوں نے الم ذلك الكتب ا د یو پڑھ کر سنانا شروع کر دیا.حضرت عمرؓ نے کہا آپ اچھے شاعر ہیں ! انہوں نے کہا اے خلیفۃ الرسول! کیا قرآن کے ہوتے ہوئے کسی شعر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ اس کے مقابلے میں تو دنیا کی ساری شاعری ختم ہوگئی.عرب کا ایک دہر یہ شاعر تھا بادشاہ بھی دہر یہ تھا.اُس نے کہا کہ تمہاری ہمیشہ مسلمانوں سے بحث ہوتی رہتی ہے تم کیوں کوئی ایسی آیت نہیں لکھ دیتے جو مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں پیش کر دیں.شاعر نے کہا ہم لوگ کھانے پینے کے محتاج ہیں لوگوں کی تعریف کرتے ہیں اگر آپ کھانے پینے کا سامان کر دیں تو پھر لکھوں.بادشاہ نے کہا کیا چاہئے ؟ اُس نے کہا ایک باغ ہو ، لونڈیاں ہوں ، ہر قسم کا سامان موجود ہو اور چھ مہینے کی مہلت دی جائے.چھ مہینے بادشاہ اس خوشی میں بیٹھا رہا کہ اب مسلمانوں کے مقابلہ کی سورۃ تیار ہو جائے گی.جب چھ مہینے گزر گئے.پوچھا تیار ہو گئی ؟ کہنے لگا نہیں.بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپیہ اس نے کھالیا پھر کہتا ہے کہ نہیں تیار ہوئی.وہ کہنے لگا اے بادشاہ ! میں نے اپنی کوشش میں کمی نہیں کی.اس بات کا ثبوت آپ اندر جا کر دیکھ سکتے ہیں.بادشاہ نے دیکھا کہ کاغذوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے.وہ کہنے لگا قرآن کی مثال جب میں لکھنے لگتا تھا تو میری قلم رُک جاتی تھی.مجھے تو ہر قدم پر شرمندگی اور ذلت اٹھانی پڑی ہے.تو قرآن اتنی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کا علاج اور ہر قسم کی ہدایات اس میں موجود ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن ایسی نعمت بنائی ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا بیان ہے.انا اعطيك الكوثر ہم نے تجھے ہر چیز کی کثرت دی ہے.ہم بچے تھے تو ایک قصہ پڑھا کرتے تھے کہ عمر عیار کے پاس ایک زنبیل تھی جس میں سب کچھ نکل آتا تھا.کھانا ہوتا تو اس میں سے اعلیٰ قسم کے کھانے نکل آتے.مقابلہ کے لئے لشکر ، ہاتھی ، گھوڑے سب کچھ نکل آتا.وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس میں کوئی محبہ نہیں کہ قرآن کریم ایسی زنبیل رسول کریم ﷺ کو دی گئی کہ دنیا کی کوئی حاجت ، کوئی سوال عقلی اور نفلی ایسا نہیں جس کا کامل جواب اس میں موجود نہ ہو.اچھی باتوں کی تعریف ، بُری باتوں کا رڈ ، عورت اور مرد کے تعلقات صلح اور جنگ کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۵ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) احکام ، شادی بیاہ کے احکام ، تجارت اور اقتصاد کے احکام ، لین دین کے معاملات ، غرض کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے متعلق سوال کیا جائے اور اس کا جواب اس میں موجود نہ ہو.محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چیز ملی کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا تجربہ کیا ہے میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص ایسی بات پیش کرے جس کا جواب قرآن کریم میں موجود نہ ہو مگر آج تک کوئی ایسی بات پیش نہیں کر سکا.ایک دفعہ کوئی غیر احمدی مولوی آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب کی سچائی قرآن کی آیت سے بتا ئیں.میں نے کہا مرزا صاحب کی سچائی ہر آیت سے ثابت ہو سکتی ہے.وہ کہنے لگا اچھا اس آیت سے ثابت کریں.وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللوو بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ مومنین کے میں نے کہا یہ آیت ہمیشہ کیلئے ہے یا صرف اس زمانہ کیلئے ؟ کہنے لگے ہمیشہ کے لئے.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ قرآن کی موجودگی میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہوں گے.اگر اُمتِ محمدیہ میں سب نیک لوگ ہی پیدا ہوتے تو پھر نبی کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن اگر امت محمدیہ نے بگڑ جانا تھا تو اُن کے لئے خدا تعالیٰ کے مامور کی یقیناً ضرورت تھی.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہی بتا تا ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو منافق ہوں گے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں مگر دل سے نہیں ہوں گے.تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جو اُن کو حقیقت میں محمد رسول اللہ ﷺ کی امت بنائے.تو بعض دفعہ ایسا خدائی تصرف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے منہ سے بھی تائید کرا دیتا ہے.ایک دفعہ ایک پادری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا.اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ عربی زبان مختصر ہے کہ انگریزی.آپ نے فرمایا اچھا ”میرا پانی اس کی انگریزی کیا ہے؟ کہنے لگا ”مائی واٹر (MY WATER) حضرت صاحب نے فرمایا عربی میں صرف ”مائی“ کا لفظ کہنا کافی ہے.اس پر وہ شرمندہ ہو گیا.تو یہ خدائی تصرف تھا کہ خدا نے آپ کے منہ سے ایسا ہی لفظ نکلوا دیا جوعربی میں اپنے اندرا ختصار رکھتا تھا.
انوار العلوم جلد کا ۱۶ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ) تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے کوثر دی.کیا بلحاظ اس زمانہ کے آپ کے ماننے والے ساری دنیا میں پیدا ہو گئے.یہ خدائی طاقت ہے کہ اُس نے آپ کے ماننے والے ساری دنیا میں پھیلا دیئے.ہم اتنے عرصہ کے بعد بھی یہاں بیٹھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں.تیسرے معنی اس زمانہ کے متعلق ہیں یعنی میں تم کو ایسا آدمی دینے والا ہوں جو بہت بڑا سخی صلى الله ہو گا اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو گا.رسول کریم ﷺ اس زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسیح موعود لوگوں میں روپیہ تقسیم کرے گا مگر لوگ رڈ کر دیں گے لے لوگ غلطی سے اس کے معنی سونے چاندی کے لیتے ہیں حالانکہ سونے چاندی کو کوئی رد نہیں کیا کرتا.ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کو رات کے وقت صدقہ دیا.وہ چور تھا جسے اُس نے صدقہ دیا.چور نے ایک اور آدمی کے ہاتھ پر رکھ کر کہا کہ کوئی بیوقوف مجھے خود یہ روپیہ دے گیا ہے.صبح کو اُس نے اس کی ہنسی اُڑائی کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا.دوسرے دن اُس نے پھر صدقہ دیا وہ کوئی فاحشہ عورت تھی.لوگوں نے اُس کی ہنسی اُڑائی کہ ایسی عورت کو صدقہ دیا جس کا روپیہ بخش اور بدکاری میں صرف ہوتا ہے.تیسرے دن اُس نے پھر ایک اور آدمی کے ہاتھ پر سو پچاس روپیہ رکھ دیا.وہ کوئی امیر کبیر آدمی تھا تو صبح کو شور پڑ گیا کہ ایک امیر کبیر آدمی کو صدقہ دیا گیا بھلا اسے کیا ضرورت تھی 2ے تو سب نے روپیہ قبول کر لیا ، سونے چاندی کو تو کوئی چھوڑ نہیں سکتا.اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں میں جو آتا ہے کہ مسیح خزانے تقسیم کرے گا ایسے مسلمانوں کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں مسیح موعود اُن کے آگے قرآن کے خزانے رکھے گا مگر وہ اُسے اُٹھا اُٹھا کر پھینک دیں گے اور قبول نہیں کریں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا اعطيتك الكوتر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم تیری اولاد میں سے ایک روحانی بیٹا پیدا کریں گے جو علوم روحانی میں بڑی برکت والا ہوگا.وہ ان روحانی خزانوں کو دنیا کے چاروں طرف تقسیم کرے گا مگر بد قسمت لوگ ان خزانوں کو رڈ کر دیں گے.فصل الربك وانحر جب کسی کو غیر ملے تو وہ بہت قربانیاں کرے اور بہت عبادت بجالائے.تم میں سے کئی ہوں گی جن کے دل میں خیال آتا ہو گا کہ ہماری بھی کیا قسمت
انوار العلوم جلد ۷ ۱۷ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ ء ).ہے.ہماری اولاد نہیں ہے یا ہماری جائداد نہیں ہے یا ہمارے خاوند کا رتبہ بڑا نہیں ہے یا ہمارے پاس دنیا کے علوم نہیں مگر تم کو وہ چیز ملی ہے جو دنیا کے بادشاہوں کو نہیں ملی.سینکڑوں بادشاہ اس خزانے سے محروم ہیں.اُن کی اولادیں، اُن کے رشتہ دار، اُن کی عزتیں سب کی سب اس دنیا میں موت سے پہلے ختم ہو جائیں گی.فرشتے آئیں گے تو انہیں کوڑے لگائیں گے کہ نکالو اپنی جانیں.وہ لوگ اسی دنیا میں اپنی چیز میں چھوڑ کر چلے جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو چیز تم کو ملی وہ آخرت میں بھی تمہارے ساتھ جائے گی.خدا تعالیٰ نے عزت کے وہ خزانے تمہیں دیئے ہیں کہ جو کبھی ختم نہ ہوں گے.وہ لوگ جو سردار کہلاتے ہیں ، آقا کہلاتے ہیں، حاکم کہلاتے ہیں دوزخ میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہیں گے کہ ہمیں ایک قطرہ پانی دے دو مگر مؤمن کہیں گے ہمیں خدا نے اجازت نہیں دی.پس ہر وہ شخص جس کو خدا کی طرف سے خیر کثیر ملی ہے اُس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہے.دا نحز اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے والا ہو.خدا نے تم کو خیر کثیر دی ہے جس کے مقابلہ کی دنیا میں اور کوئی چیز نہیں.دو چیزیں ہیں جن کا خدا تعالیٰ مطالبہ کرتا ہے نماز سے اُس کا شکر یہ ادا کر و یعنی قدردان ادا اور شکر گزار بنو اور پھر وہ انسان جن کو اِس خیر کثیر سے حصہ نہیں ملا اُن کو دینے کی کوشش کرو.بنی نوع انسان کی اصلاح کی کوشش کرو.اُن کی حالت کو سدھارنے کے لئے اپنے او پر مشقتیں برداشت کرو.جو شخص دین کی خدمت کرتا ہے وہ مال دار ہے.اُسی کے پاس سونا ہے، اُسی کے پاس چاندی ہے جس کے پاس یہ نہیں وہ کنگال اور بھوکا ہے.وہ ایک لمبا عذاب مرنے کے بعد اُٹھانے والا ہے.پس تم اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرو.عورتیں نماز میں بہت سستی کرتی ہیں.عبادت تو خدا اور بندے کے درمیان تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.تم اپنے خاوندوں کے متعلق شکایت کرتی ہو کہ وہ باہر رہتے ہیں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملتا.مگر خدا خود کہتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ باتیں کرو.وہ محسن اور حسین ہے.کیا تمہارا خاوند اتنی محبت کر سکتا ہے جتنی کہ خدا کرنے والا ہے؟ جس مؤمن کو کوثر مل جائے اور اُس کے احکام پر عمل کرنے کا اُسے موقع مل
انوار العلوم جلد کا ۱۸ مستورات سے خطاب (۱۹۴۳ء) جائے اس سے بڑھ کر اور کون خوش قسمت ہوسکتا ہے.پھر فرماتا ہے راِنَّ شَانِئَكَ هُوَ ا لا بترا اے محمد ! رسول اللہ ﷺ اس خیر کثیر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیرا دشمن جو تیرے مقابلہ میں کھڑا ہو گا وہ ناکام و نا مراد ہوگا.جب تم اس مقام پر پہنچ جاؤ تو پھر تمہیں دشمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تم کامیاب ہو جاؤ گی تمہارے دشمنوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی اور سب لوگ تمہارے مقابلے میں شکست کھا جائیں گے.کوثر والا مؤمن بڑی شان والا ہو گا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہو جائے گا.اُس کا ہر دشمن ذلیل وخوار ہوگا.رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ گرفتار کرنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے سپاہی بھیجے.قاصدوں نے کہا کہ آپ کو ایران کے بادشاہ نے بلایا ہے.آپ چُپ چاپ ہمارے ساتھ چلیں.آپ نے فرمایا تین دن کے بعد جواب دوں گا.آپ تین دن دعا میں لگے رہے.تین دن کے بعد فرمایا جاؤ! اپنے بادشاہ سے کہہ دو میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا.وہی دن تھا اور وہی تاریخ کہ اس بادشاہ کے بیٹے نے اپنے باپ کے ظلموں کی وجہ سے اسے قتل کر دیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھ کو خیر کثیر دی ہے.اگر تم دنیا میں نیکی کرو گے ، عبادت کرو گے تو میں تمہارا محافظ ہوں گا.میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور نگران ہوں گا.تم ہمیشہ کامیاب ہو گے جو تمہاری بُرائی چاہے گا میں اس کی جڑیں کاٹ کر پھینک دوں گا.اب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے مردوں اور عورتوں کو اس خیر کثیر سے حصہ دے.دنیا کی بہتری کیلئے قربانیاں کرنے کی توفیق دے اور دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رکھے.آمین از مصباح جنوری ۱۹۴۴ء) بخاری کتاب المغازى باب اذْهَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ (الخ) الكوثر: ٢ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۰۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء سیرت ابن هشام جلد ۱ صفحه ۱۱۹ ،۱۲۰ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) ۵ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۴ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۲۶۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ ه ك البقرة: 9 بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم (الخ) 2 بخاری کتاب الزكوة باب اذا تصدق على غنى وهو لا يعلمه الكوثر: ٣ الكوثر: ۴ تاریخ طبرى الجزء الثانی صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ دارالفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء
انوار العلوم جلد ۱۷ : بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳ء) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳)
انوار العلوم جلد ۷ ۲۱ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْـ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بعض اہم اور ضروری امور تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۳ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے کل بھی یہ اعلان کیا تھا کہ بوجہ بیماری اور کمزوری اور کھانسی کی شکایت کے ملاقاتیں اور تقریریں گزشتہ سالوں کی نسبت نہایت مختصر ہی ہوسکیں گی.آج پھر دوستوں کو دوبارہ یا د کرانا چاہتا ہوں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے دو تین ماہ سے میری آواز بھی نسبتاً صاف ہوگئی ہے ، اور آگے سے اب کچھ طاقت بھی آگئی تھی مگر دوبارہ بیماری کا حملہ ہونے اور کھانسی شروع ہو جانے کی وجہ سے طاقت میں کمی ہوگئی اور اب متواتر بیٹھے رہنے اور بولنے سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے.چونکہ آج مجھے عورتوں کے اجلاس میں بھی بولنا پڑا اس لئے جتنی مجھے امید تھی کہ آواز بلند نکال سکوں گا اتنی نہیں نکال سکتا.مگر مجھے امید ہے اور عورتوں کے جلسہ میں تقریر کرتے وقت میں نے دیکھا ہے کہ گو شروع میں آواز کم تھی مگر پھر زیادہ زور کی ہوگئی اگر چہ آخر میں بیٹھنے لگ گئی.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ چاہے تو بولتے بولتے آواز میں زور اور طاقت پیدا ہو جائے گی.میں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اُس نے مجھے آج بولنے کی توفیق عطا فرمائی جب مجھے پہلے کھانسی کا شدید دورہ ہوا تو میری آواز بیٹھنی شروع ہو گئی.چونکہ اس قسم کی لمبی بیماری میں آواز بیٹھتی رہی تھی اس لئے مجھے وہم پیدا ہو گیا کہ شاید آئندہ کبھی میں تقریر نہ کر سکوں گا مگر اللہ تعالیٰ نے اگست کے قریب آواز کی اصلاح کر دی اور آہستہ آہستہ آواز اچھی ہونے لگی.
انوار العلوم جلد ۷ ۲۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) اس وقت سب سے پہلے تو میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ جو آثار گزشتہ سال ایک ایسی بنیاد کے معلوم ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ بنیا د اسلام کی ترقی و غلبہ کا موجب ثابت ہوگی اس کے متعلق یہ خیال غیر معمولی طور پر درست ثابت ہو رہا ہے اور ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ دنیا میں نیک تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے.گزشتہ سال جس طرح عیدین اور کئی اور ایک دوست نے لکھا ہے وَاللَّهُ أَعْلَمُ کہاں تک صحیح ہے کہ ہندوؤں کا سال بھی اس دفعہ جمعہ کے دن سے شروع ہوا ہے بہر حال موجودہ جنگ ایسے تغیرات اپنے اندر رکھتی ہے کہ جو اسلام کے لئے مفید ہیں اور اس خیال کی تائید میں یہ آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ غیر معمولی طور پر اتحادیوں کو فتوحات حاصل ہونا شروع ہو گئی ہیں.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اسلامی ترقیات جو غیر ممالک سے وابستہ ہیں وہ اتحادیوں سے وابستہ ہیں مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ ترقیات اتحادیوں کی فتح سے وابستہ ہیں خواہ وہ ترقیات اُن ممالک سے ہی شروع ہوں جو اس وقت اتحادیوں کے دشمن ہیں اور ان سے برسر جنگ ہیں.میرا یہ خیال اب اور بھی مضبوط ہو گیا ہے اس وجہ سے کہ کچھ عرصہ ہوا قادیان کے پاس ایک گاؤں میں فساد ہوا تھا.اس کے بعض حصہ کے متعلق یقین تھا اور اب بھی ہے کہ گورنمنٹ کے بعض حکام کا ان میں دخل ہے.حکومت انگریزی کے افسران کے متعلق پھر ہمیں حکومت کے افسروں سے یہ بھی شکوہ ہے کہ گو اُنہوں نے ہماری باتیں سن کر تسلیم کیا کہ ہم انہی باتوں کو درست سمجھتے ہیں جو تم نے بتائی ہیں مگر ساتھ ہی یہ کہا کہ قانون کو اسی طرح چلنے دیا جائے جس طرح وہ چلتا ہے حالانکہ قانون خود نہیں چلا کرتا اُسے انسان ہی چلاتے ہیں جس طرح کہ وہ چاہتے ہیں.مجھے یہ فعل گورنمنٹ کے بالا حکام کا انصاف ، دیانت اور تقویٰ کے خلاف نظر آیا.اس سے گورنمنٹ کی اُس ہمدردی اور خیر خواہی کو جو ہمارے دل میں ہے بہت صدمہ پہنچا.مجھے خیال آیا کہ ایسی حکومت جس کے افراد ہزاروں میل دُور سے اپنے گھروں سے یہ کہہ کر نکلتے ہیں کہ ہم عدل اور انصاف قائم کرنے کے لئے چلے ہیں اور ہمارے کام دیانت داری پر مبنی ہوں گے.پھر وہ ہزاروں روپے تنخواہ پاتے ہیں اور یہ روپے ہندوستانیوں کی جیبوں سے نکلتے ہیں ان کی اگر یہ حالت ہو کہ ایک بات کو درست اور صحیح
۲۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) انوار العلوم جلد ۱۷ سمجھتے ہوئے یہ کہیں کہ قانون کی آڑ میں جو ہوتا ہے اُسے ہونے دو، تو یہ ایسائبر انمونہ ہے کہ اس کی تقلید کا شوق کسی کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا.ایسے خیالات میرے دل میں پیدا ہوئے اور قریب تھا کہ وہ دعا ئیں جو پہلے ہم اس قدر شوق اور جوش سے انگریزوں کی کامیابی اور فتح کے لئے کرتے تھے وہ دل سے نکلنا بند ہو جائیں کہ انہیں ایام میں میں نے ایک رؤیا دیکھا.میں دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا انگریزوں کی فتح کے بارہ میں ایک رؤیا جزیرہ ہے میں اس میں ہوں اور تھوڑے سے پانی کے بعد ایک اور علاقہ ہے میں اُس علاقہ کا نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ مولوی عبدالکریم صاحب آئے ہیں اور انگریزوں کے حق میں ریکروٹنگ کے متعلق تقریریں کر رہے ہیں اُنہیں دیکھ کر میں حیران ہوتا ہوں کہ مولوی صاحب تو فوت ہو چکے ہیں اور اگلے جہان سے کوئی انسان اس دنیا میں آ نہیں سکتا.پھر یہ کیا بات ہے میں نے کسی سے دریافت کرایا یا کسی نے مجھے خود بتایا کہ مولوی صاحب اجازت لے کر آئے ہیں تا کہ اس موقع پر انگریزوں کے حق میں پرا پیگنڈہ کریں.پھر میں نے دیکھا کہ دوسرا علاقہ جو میرے سامنے ہے اُس پر بے تحاشہ اور بڑی کثرت سے لاریاں اور موٹرمیں سامانِ جنگ سے بھری ہوئی انترنی شروع ہوگئی ہیں.میں نے دیکھا اُدھر تو بے شمار اور لا تعدا د موٹریں اور لاریاں بے تحاشہ دوڑتی جارہی تھیں اور ادھر مولوی عبد الکریم صاحب تقریریں کر رہے تھے اُس وقت میں نے سمجھا کہ بعض افراد کی غلطیاں اس عظیم الشان حکمت پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظہور میں آنے والی ہے خواہ انگریز ہمارے بارے میں کتنی ہی غلطیاں کریں خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ یا پھر ان کے ہاتھوں ان کے دشمنوں کے ذریعے ایسے ذرائع اور اسباب پیدا کرنے والا ہے کہ جو اسلام اور احمدیت کے غلبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی فتح ضروری ہے اور اتنی ضروری ہے کہ جو بزرگ فوت ہو چکے ہیں اُن کی روحوں کو ان کی مدد کے لئے مقرر کیا گیا ہے.دوسرے دن اٹلی میں اتحادی فوجیں اُتر پڑیں اور تیسرے چوتھے روز اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ایک ولایتی اخبار کا اقتباس چھپا جس میں لکھا تھا کہ اٹلی میں اتنی اور اتنی لا ریاں اُتریں کہ جن کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا سوائے اس کے کہ کسی نے لندن کی کسی بڑی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) رٹریفک رُکنے کا نظارہ دیکھا ہو اور وہ اس تعداد کو کئی سو گنا بڑھا لے.اتفاق کی بات ہے کہ میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے.لندن میں ہم کہیں جا رہے تھے کہ پولیس نے راستہ روک دیا اور جب راستہ کھلا تو دوسری طرف کے لوگوں کو پولیس نے پہلے راستہ دیا.اُس وقت میں نے دیکھا کہ آدھ گھنٹہ تک ایک کی دُم سے لگی ہوئی دوسری موٹر چلتی رہی تب جا کر سٹرک صاف ہوئی اور پھر ہمیں گزرنے کی اجازت دی گئی.ولایت کے اخبار نے لکھا تھا کہ اس نظارہ کو اگر کئی سو گنے بڑھا لیا جائے تب اُن لاریوں اور موٹروں کی تعداد کا کسی قدر اندازہ لگایا جا سکتا ہے.میں نے خواب میں بھی یہی نظارہ دیکھا تھا کہ ایک کے ساتھ ایک لگی ہوئی دوسری لاری اور موٹر بھاگ رہی ہے اور تسلسل ختم ہونے میں نہ آتا تھا.اُنہی دنوں میں نے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ انگریز اور امریکن خوش ہیں کہ اٹلی میں اُنہیں جلد فتح حاصل ہو جائے گی مگر یہ فتح جلدی نہ حاصل ہوگی.مولوی عبدالکریم صاحب کی ریکروٹنگ کے لئے تقریریں کرنا بتاتا ہے کہ دیر میں فتح ہوگی اور بڑی مشکلیں پیش آئیں گی.چنانچہ اُس وقت جو بڑے بڑے وعدے کئے گئے تھے کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اُن کی بجائے اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اُس وقت جو باتیں کہی گئی تھیں وہ آئندہ کی صحیح امیدیں تو ہیں مگر یہ نہیں کہ وہ جلدی پوری بھی ہو جائیں گی.اس کے لئے بڑی جدو جہد کرنی پڑے گی.چنانچہ اب کہ اٹلی میں اتحادیوں کو داخل ہوئے چار ماہ ہو گئے ہیں اتحادی فوجیں روم تک بھی نہیں پہنچیں.تو اس خواب کے دوسرے حصہ میں اس طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ یہ جنگ جلدی ختم نہ ہوگی اور ادھر مجھے متنبہ کیا گیا کہ ایسے واقعات سے متاثر نہ ہونا انگریزوں کی فتح میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی کامیابی کی بنیاد رکھی ہے.اس کے چند روز بعد میں نے ایک اور رؤیا دیکھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس ایک اور رویا کی تعبیر کس رنگ میں ظاہر ہوگی مگر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کو دقتیں اور مشکلات پیش آنے والی ہیں.میں ڈلہوزی میں تھا کہ میں نے دیکھا ایک دریا کا موڑ ہے جہاں میں کھڑا ہوں اور ایسا معلوم ہوا کہ انگلستان سے ریڈیو پر آواز آ رہی ہے جس میں خبریں سنائی جارہی ہیں اور خبریں سنانے والے کی آواز غمگین سی ہے اور اُس میں رقت پائی جاتی ہے وہ یہ خبر سنا رہا ہے کہ ایک جگہ شاہی خاندان کے افراد سخت گولہ باری کی وجہ سے خطرہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) میں گھرے ہوئے ہیں اور وہاں برطانوی فوج بھی خطرہ میں ہے یہ خبر سنتے ہی میرے آگے سے حجاب اُٹھ گیا اور وہ جگہ مجھے نظر آنے لگی جہاں شاہی خاندان کے لوگ خطرہ میں تھے.میں نے دیکھا وہ ایسی جگہ ہے جیسے پہاڑ کا دامن ہوتا ہے اور وہاں ایسی شدید گولہ باری دشمن کر رہا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے پاس نہیں جا سکتا اور حالت یہ ہے کہ گولہ باری سے پہاڑی گرتی جاتی ہے اور گولے اُس جگہ کے قریب سے قریب تر پڑتے جا رہے ہیں جہاں شاہی خاندان ٹھہرا ہوا ہے.اُس وقت ریڈیو کی آواز اس طرح آ رہی ہے کہ اب گولے اور بھی قریب پڑنے لگ گئے ہیں اب اور بھی قریب پڑ رہے ہیں اور میں دیکھتا جاتا ہوں کہ فی الواقعہ ایسا ہی ہو رہا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ وہاں ملکہ معظمہ بھی ہیں اور دیکھا کہ ایک دریا سامنے بہہ رہا ہے اُس کے پہلو میں وہ جگہ ہے جہاں میں کھڑا ہوں اُس وقت میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کے مقابلہ سے بھاگتی چلی آ رہی ہے خواب میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ فوجی مجھے اس جگہ سے ہٹاتے نہیں جہاں میں کھڑا ہوں.اُس وقت گولیاں بڑے زور سے برس رہی ہیں اور فوجی کوئی میرے دائیں سے اور کوئی میرے بائیں سے بھاگتے جارہے ہیں.اسی دوران میں میں نے دیکھا کہ ملکہ کی گاڑی آرہی ہے جس کے پیچھے جرمن فوج کا ایک دستہ ہے جو گھوڑ چڑھے سوار ہیں اور گاڑی کا بڑے زور شور سے تعاقب کر رہے ہیں اور بڑے خوش ہیں کہ ملکہ کی گاڑی اُن کے ہاتھ آنے والی ہے.وہ دوسری جگہ جہاں انگریزی فوج اب جمع ہو رہی تھی دریا کے پار ہے اور جر من سمجھتے ہیں کہ دریا میں سے گاڑی نہیں گزر سکے گی.گاڑی بڑے زور سے دوڑی آ رہی ہے کو چوان گھوڑوں کو کوڑے پر کوڑے مارتا جا رہا ہے اور گاڑی بڑی تیزی سے بھاگتی آ رہی ہے اُس وقت میں انگریزوں کو جو دریا کے پار کھڑے ہیں روکتا ہوں اور کہتا ہوں یہ بڑی بزدلی اور بے عزتی کی بات ہے کہ تم ایسے موقع پر بھاگ جاؤ اور انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو ملکہ کی گاڑی آ رہی ہے اس وقت تم خوب جم کر مقابلہ کرو اور سمجھتا ہوں کہ ملکہ کی گاڑی اگر دریا پار کر لے تو انگریزی حکومت محفوظ ہو جائے گی اور جب میں انگریزوں کو روکتا ہوں تو میری بات اُن پر فوری اثر کرتی ہے اور جسے میں روکتا ہوں وہ رُک جاتا ہے اور جدھر سے گاڑی آ رہی ہے اُدھر گاڑی کی حفاظت کے لئے بھاگ پڑتا ہے اور دریا میں کود جاتا ہے اِس طرح بہت سے انگریز
انوار العلوم جلد ۷ ۲۶ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) گاڑی اور تعاقب کرنے والے جرمن دستہ کے درمیان پہنچ گئے ہیں.اس دوران میں کو چوان نے گاڑی کو دریا میں ڈال دیا اور گاڑی دریا میں گزر کر اُس جگہ جہاں میں کھڑا تھا آ گئی.اُس وقت ساری برطانوی حکومت سے تالیوں کی گونج سنائی دی اور باوجود اس کے کہ یہ ہما را طریق نہیں ہے اور ہم اسے اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں مگر میرے ہاتھ بھی تالی بجانے لگ گئے اور میں نے دو تین دفعہ تالی بجائی.میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے شاہی خاندان کے بعض افراد کو خطرات پیش آئیں اور وہ مشکلات دیکھیں کیونکہ ایک فرد سے مراد اُس سے تعلق رکھنے والے اور افراد بھی ہوتے ہیں.بہر حال ان خوابوں سے میرے دل میں جو انقباض تھا وہ جاتا رہا اور میں نے سمجھا بہر حال اتحادیوں کی فتح ہمارے لئے مفید ہے خواہ ہمیں ان سے کچھ تکلیفیں بھی پہنچیں پس اس وقت ہمیں ساری کوشش ان کو مدد دینے کے لئے کرنی چا ہے.رؤیا میں مجھے دریا دکھایا گیا ہے ممکن ہے بعض دریاؤں پر بڑی سخت لڑائی ہو اور اب اٹلی میں ایسا ہی ہو رہا ہے.پس میں دوستوں کو ان خوابوں کی بناء پر توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نو جوانوں کو چاہئے کہ شوق کے ساتھ اور کثرت سے بھرتی ہوں ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے.بے شک تلوار کے ذریعہ نہیں کیونکہ ہم نے تلوار نہیں چلانی مگر تلوار کھانی تو ہے اور اسلام نے دفاع کا بھی حکم دیا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ کسی جگہ پر حملہ کرو مگر یہ ضرور کہتا ہے کہ اپنے آپ کو بچاؤ اور حفاظت کے لئے اپنے پاس ہتھیار رکھو اور اُن کو چلانا سیکھو تا کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو تم اپنی حفاظت کر سکو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے ایسا ضروری قرار دیا ہے کہ مسجد میں جہاں ذکر الہی کے ہوا اور کوئی کام جائز نہیں اس میں فنونِ جنگ کی مشق کرائی ہے.ایک دفعہ آپ تیراندازی کا مقابلہ کرا رہے تھے کہ آپ خود بھی ایک پارٹی میں شامل ہو گئے.یہ دیکھ کر دوسری پارٹی نے کمانیں پھینک دیں کہ ہم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس پر آپ نے تیر چلانا چھوڑ دیا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فنونِ جنگ سے اتنا شغف تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ جرات اور دلیری ہتھیاروں کے استعمال سے ہی پیدا ہوتی ہے.پھر ہتھیار چلا سکنے والا ، دشمن پر ہتھیار نہ چلائے بلکہ درگزر سے کام لے تو اس کا بہت اثر ہوتا ہے ورنہ جو ہتھیار چلانا نہیں جانتا
انوار العلوم جلد کا ۲۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳ ) وہ اگر دشمن سے کہے کہ میں تم کو چھوڑتا ہوں اور تم پر وار نہیں کرتا تو اس کی کیا وقعت ہوسکتی ہے.ہمیں لڑائی کا فن آتا ہو ہم تلوار ، بندوق ، توپ مشین گن چلانا جانتے ہوں ، اعلیٰ درجہ کے ہتھیار بنا سکتے ہوں اور اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہوں پھر حملہ آور سے کہیں لو مارلوہم ہاتھ نہیں اُٹھاتے بلکہ تم سے محبت ہی کا اظہار کرتے ہیں تب قابل تعریف بات ہے.دیکھو ایک بچہ اگر کسی پہلوان سے کہے کہ تم بے شک مجھے مارلو میں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھاتا تو یہ ہنسی کی بات ہو گی مگر ایک مضبوط پہلوان کو کوئی کمزور مارنا چاہے اور پہلوان اُسے کہے بے شک تم مجھے مارلو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا تو یہ قابل تعریف بات ہوگی.اسی طرح جب ہم میں طاقت ہو ، ہمارے پاس ہتھیار ہوں، ہم ہتھیار چلانا جانتے ہوں اور پھر یہ کہیں کہ ہمارے تو خدا نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ہم ہاتھ نہیں اُٹھا ئیں گے تب اس کا اچھا اثر پڑے گا.دفاع کیلئے فنون سپہ گری سیکھنے کی ضرورت اسی لئے میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو فنون سپہ گری سے واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس کیلئے جو بھی موقع میسر آئے اُس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.جب ہم ایسا کر لیں گے اُس وقت اپنی گردنیں مخالف کے ظلم وستم کے سامنے جھکا دیں گے اور کہیں گے کہ ہم اس رنگ میں تمہارا مقابلہ تو کر سکتے ہیں مگر تمہاری محبت اور تمہاری خیر خواہی ہمیں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھانے دیتی تب لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوں گے اور اُن کی گردنیں ہمارے سامنے جھکیں گی.اس طرف میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر جماعت کا ایک حصہ ابھی تک فوج میں بھرتی ہونے کو ملازمت کرنا سمجھتا ہے حالانکہ ہم نوکری اور ملازمت کی خاطر بھرتی ہونے کیلئے نہیں کہتے بلکہ اس لئے کہتے ہیں کہ جو احمدی بھرتی ہو کر جائیں وہ فنونِ جنگ سیکھ کر آئیں تا کہ ضرورت کے وقت وہ کچی اور مؤثر قربانی کرسکیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ احمدی تشدد کا مقابلہ اس لئے نہیں کرتے کہ ان میں طاقت نہیں بلکہ یہ سمجھیں کہ وہ طاقت رکھتے ہوئے اس لئے ہاتھ نہیں اُٹھاتے کہ ان کو تعلیم یہی دی گئی ہے.پھر میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ غور تو کرو.اس بات کا کون ذمہ دار ہے کہ ہم پر وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جب ہمیں اس رنگ میں دنیا کا مقابلہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۸ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) کرنا پڑے.گزشتہ نبیوں کی اُمتوں میں ہم یہ نظارے دیکھتے ہیں کہ گو وہ امن پسند تھیں کسی کے خلاف ہاتھ نہ اُٹھانا چاہتی تھیں لیکن مخالفوں نے انہیں مار مار کر مجبور کر دیا کہ اپنی حفاظت کی طرف متوجہ ہوں اور آخر وہ وقت آ گیا جب خدا تعالیٰ نے انہیں کہا تمہیں بھی اب مقابلہ کرنے کی اجازت ہے.پس تمہیں کیا معلوم ہے کہ ہماری جماعت کیلئے کسی وقت ایسا ہی وقت آ جائے.کیا اُس وقت تم دشمن کے پاس یہ میمورنڈم بھیجو گے کہ دیکھو ہم ایک امن پسند جماعت ہیں اگر ہم پر حملہ کرنا ہی ہے تو کم از کم پانچ چھ سال کی مہلت دو تا کہ ہم بھی جنگ کرنا سیکھ لیں پھر ہم لڑائی کر سکیں گے.اگر تم ایسا کرو گے بھی تو اسے کون مانے گا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی بے وقوف بادشاہ تھا اُس نے ایک دن کہا کہ فوج پر خواہ مخواہ اتنا خرچ کرنا پڑتا ہے اور یہ کام کچھ نہیں دیتی اسے موقوف کر دیا جائے.چنانچہ فوج برخواست کر دی گئی.کسی نے کہا کہ اگر موقوف کر دیا گیا تو پھر دشمن کا مقابلہ کون کرے گا.بادشاہ نے کہا کہ اگر ایسا وقت آ گیا تو مقابلہ کیلئے ملک کے قصابوں کو جمع کر کے بھیج دیں گے.جب پاس کے کسی بادشاہ کو یہ معلوم ہوا کہ اس بادشاہ نے فوج موقوف کر دی ہے تو اُس نے اس ملک پر حملہ کر دیا.اس کے مقابلہ کیلئے قصابوں کو کہا گیا کہ اپنی چھریاں اور چھرے لے کر جاؤ اور مقابلہ کرو.قصاب چلے تو گئے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد بھاگتے ہوئے آئے که فریاد! فریاد! بادشاہ سلامت! اِن لوگوں کو روکا جائے کہ اس طرح جنگ نہ کریں ہم تو اُن میں سے کسی ایک کو پکڑ کر باقاعدہ زمین پر لٹاتے ہیں اور پھر بِسمِ اللهِ اللهُ اَكْبَرُ کہ کروبی کرتے ہیں لیکن وہ بے تحاشہ مارتے جاتے ہیں کچھ دیکھتے ہی نہیں.اُنہیں کہا جائے اس طرح بے تحاشہ قتل نہ کریں اتنے میں حملہ آوروں نے آ کر بادشاہ کو بھی مار دیا اور ساری حکومت پر قبضہ کر لیا.پس ایسی قو میں جو اپنی حفاظت کا سامان نہیں کرتیں ہلاک کر دی جاتی ہیں کیونکہ بے سروسامانی اور کمزوری ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جا تا.کمزوری کی حالت میں تم اگر کسی کی طرف منہ کر کے پھونک بھی مارو گے تو یہ کہہ کر تمہیں مجرم گردانا جائے گا کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں جادو کرنا آتا ہے اور اس طرح تم دوسروں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو.یا پھر یہ کہیں گے کہ تمہارے اس طرح کرنے سے چونکہ دوسروں کو اشتعال آتا ہے اس لئے تم قصور وار ہو.
انوار العلوم جلد ۷ ۲۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) در اصل قانون خود بخود نہیں چلتا بلکہ اُن افسروں کے ذریعہ چلتا ہے جو اسے چلانے کیلئے مقرر ہوتے ہیں.اگر ان افسروں میں انصاف نہ ہو، خدا ترسی نہ ہو تو وہ ہر بات کو کمزوروں کے خلاف بنا لیتے ہیں.میں تو کہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ نے احمد یہ جماعت کے نو جوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کیلئے انگریزوں اور جرمنوں کی جنگ کرا دی تو یہ حکمت بھی کوئی چھوٹی حکمت نہیں ہے.پچھلے دنوں بھرتی ہونے والوں کا شمار کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ قادیان میں جس قدر بھرتی ہونے والوں کے نام لکھے گئے وہ پونے بارہ سو کے قریب ہیں یہ صرف قادیان سے بھرتی ہونے والوں کی تعداد ہے اور یہاں احمدیوں کی تعداد دس بارہ ہزار کے قریب ہے.گویا ۱۲ ۱۴ بلکہ ۱۵ فیصدی نوجوان بھرتی ہو کر قادیان سے چلے گئے ہیں.اس طرح بیرونی جماعتوں میں سے بھرتی ہونے والوں کا اندازہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت تک ۱۵ ہزار کے قریب جوان بھرتی ہو کر لڑائی میں جاچکے ہیں حالانکہ ہماری تعداد آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے.جالندھر ڈویژن کے متعلق رپورٹ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا اس وقت تک سات ہزار رنگروٹ بھرتی ہو چکا ہے.تو اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے بہت لوگ بھرتی ہو کر جنگ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں.مگر ابھی بہت سے ایسے ہیں جو بھرتی ہو سکتے ہیں.پس یہ موقع جو خدا تعالیٰ نے بہم پہنچایا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہئے.ٹیکنیکل بھرتی میں بے شک تنخواہ زیادہ ملتی ہے اور میں اس میں بھرتی ہونے والوں کو فائدہ سے محروم کرنا نہیں چاہتا مگر ملک اور حکومت اور دنیا کی خدمت بلکہ جماعت کی خدمت کا زیادہ موقع لڑنے والی فوج میں بھرتی ہونے سے مل سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسی ٹرینینگ آ جاتی ہے کہ جب دشمن حملہ آور ہو تو کامیابی سے اُسکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.اس وقت اگر تم دشمن سے مار کھا لو اور مقابلہ میں زیادتی نہ کرو تو دنیا کہے گی کہ تم نے صبر سے کام لیا اور قابلِ تعریف حوصلہ دکھایا اور اس کا بہت اچھا اثر ہوگا.۱۹۳۲ء کے آخر میں جب میں سیالکوٹ گیا تو وہاں میرا لیکچر مقرر تھا.جب شام کے وقت میں لیکچر دینے کیلئے گیا تو کئی لوگوں کی طرف سے مجھے پیغام پہنچا کہ جلسہ گاہ کے گرد احراری بڑی جماعت میں جمع ہیں اور فساد کا خطرہ ہے آپ نہ آئیں.میں نے کہا چونکہ میری تقریر کا اعلان کر
انوار العلوم جلد ۱۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) دیا گیا ہے اس لئے میں ضرور تقریر کیلئے جلسہ گاہ میں آؤں گا.آخر جب میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو بعض معززین نے کہا کہ جلسہ میں فساد برپا کرنے کی پوری تیاریاں کی جاچکی ہیں اس جلسہ کو برخواست کر دیا جائے.میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تشریف لے جائیں کیونکہ خطرہ ہے ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہ ہو گا لیکن ہم چونکہ جلسہ عام کا اعلان کر چکے ہیں اس لئے اس ڈر سے کہ لوگ فساد برپا کرنا چاہتے ہیں جلسہ بند نہیں کر سکتے.اس پر وہ لوگ بھی جلسہ ہی میں بیٹھے رہے اور اُنہوں نے جانا پسند نہ کیا.آخر جب میری تقریر کا وقت ہوا اور میں تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہوا تو چاروں طرف سے لوگ پتھر مارنے لگ گئے.احباب جوش محبت سے میرے اردگرد جمع ہو گئے.مگر باوجود ان کی حفاظت کے دو تین پتھر مجھے بھی لگے اور میز پر پتھروں کا ڈھیر لگ گیا.اُس وقت ہم نے وہاں کے رؤساء سے کہہ دیا کہ آپ چلے جائیں اور وہ چلے گئے مگر اپنی جماعت کے لوگوں سے میں نے کہا ایسے موقع پر ہی انسان کی آزمائش ہوتی ہے تم سب لوگ بیٹھے رہو خواہ کچھ ہو صرف ڈاکٹر ز زخمیوں کو اُٹھانے اور پٹی کرنے کیلئے کھڑے ہوں.چند ہی منٹوں میں ہمارے قریب پچیس آدمی زخمی ہو گئے.تب حکام کو توجہ ہوئی اور اُنہوں نے پتھر مارنے والوں کو ہٹا دیا.ہماری جماعت میں سے خدا کے فضل سے اُس وقت کوئی نہ بھاگا ممکن ہے کوئی گیا ہو لیکن میں تو کھڑا تھا میں نے کسی کو جاتے نہ دیکھا.ہمارے آدمی جس طرح پیٹھیں کئے بیٹھے تھے اُسی طرح بیٹھے رہے.ایک بھائی اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اُنہوں نے پتھر مارنے والوں کو مغلظات سنانی شروع کر دیں.میں نے انہیں روکا تو کہنے لگے میں تو احمدی نہیں ہوں.اُس وقت وہ احمدی نہ تھے بعد میں انہوں نے بیعت کی.وہ اس نظارہ کو دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور زیادتی کرنے والوں کے خلاف بول اُٹھے.غیر مبائعین کی انجمن کے سیکرٹری ہمارے کتنے مخالف تھے لیکن وہ رات کے ایک بجے اُس مکان پر پہنچے جہاں میں پڑا ہوا تھا اور یہ کہہ کر ملنے کی اجازت مانگی کہ جب تک میں ان سے مل نہ لوں گا سو نہ سکوں گا.میں نے انہیں بلا لیا تو وہ کہنے لگے دنیا نے تیرہ سو سال قبل جو نظارہ بدر میں دیکھا تھا وہ آج ہم نے یہاں دیکھ لیا.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد میں گھر نہیں جا سکا کہ ان جذبات اور احساسات کا اظہار آپ سے کرنا ہے اور اسی غرض سے میں اس وقت آیا ہوں.
انوار العلوم جلد ۷ ٣١ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) تو ایسے مواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہادری اور جرات پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان مقابلہ کر سکے اور پھر نہ کرے ورنہ دشمن سمجھتا ہے کہ کمزور ہونے کی وجہ سے ڈر گیا اور بھاگ گیا.پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست ذرا زیادہ - جرات اور دلیری سے کام لے کر اور قربانی کر کے بھرتی ہونے کی کوشش کریں گے.خصوصاً احمد یہ کمپنیوں میں، کیونکہ ان میں جوانوں کی ضرورت ہے.گو اس وقت تک ہم ۱۵ ہزار کے قریب بھرتی دے چکے ہیں اور پنجاب میں سرکاری رپورٹ کی رو سے ہماری تعدادہ ۷ ہزار ہے اور ہم اپنی جماعت کی تعداد پنجاب میں دو اڑھائی لاکھ کے قریب سمجھتے ہیں اگر حکومت کی بتائی ہوئی تعداد ۷ ہزار مانی جائے تو اس لحاظ سے اگر سارا ہندوستان ۸ کروڑ بھرتی دے تب ہمارے ذمہ ۱۵ ہزار کی بھرتی آتی ہے لیکن اگر ہماری تعداد اڑھائی لاکھ تسلیم کی جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں ہندوستان کو ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی بھرتی دینی چاہئے.ہندوستان کی ساری بھرتی ۱۵ لاکھ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے ہمارا بھرتی دینے کا جتنا حق بنتا ہے اُس سے پندرہ گنا زیادہ ہم دے چکے ہیں اور گورنمنٹ کی مردم شماری کی رپورٹ کو مدنظر رکھیں تو چار سو گنے زیادہ دے چکے ہیں.مگر یہ ہمارے لئے خوشی کی بات نہیں ہے خوشی اُس وقت ہو سکتی ہے جب ہر احمدی نو جوان اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اُسے ادا کر نے کی کوشش کرے.اگر کسی وقت ملک میں فساد ہو جائے اور کسی طرف سے دشمن آ جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری بیویوں اور بیٹیوں کی عزت برباد ہو جائے گی اور نہ معلوم کیا کیا مصائب ہم پر ٹوٹ پڑیں گے لیکن اگر لوگوں کو یہ یقین ہو کہ کسی وقت فساد ہونے پر یا دشمن کے آ جانے پر ہمارے ہمسائے مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے جو ہماری حفاظت کریں گے تو وہ اطمینان کی زندگی بسر کر سکتے ہیں.دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے فوجی ٹرینگ کی ضرورت ہے پس جو بھی فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے اسے ضرور بھرتی ہو جانا چاہئے.انگریزی ترجمۃ القرآن اب میں انگریزی ترجمۃ القرآن کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کی اشاعت کے متعلق مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء میں فیصلہ کیا گیا تھا اور اب ۱۹۴۳ء بھی ختم ہو رہا ہے مگر ترجمہ شائع نہیں ہوا.وجہ یہ ہوئی کہ وہ
انوار العلوم جلد ۷ ۳۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳ ) پریس جس نے چھاپنے کا ٹھیکہ کیا تھا وہ عربی کا ٹائپ مہیا نہیں کر سکا.اب اس کے لئے حیدر آباد دکن میں انتظام کیا گیا ہے اگر وہاں عربی کا ٹائپ بن جائے تو انگریزی ترجمہ شائع ہوسکتا ہے.مجھے بتایا گیا تھا کہ ۳۰ / نومبر کو سیسہ حیدر آباد بھجوایا گیا تھا لیکن رپورٹ آئی ہے کہ وہاں ابھی تک نہیں پہنچا حالانکہ سواری گاڑی میں بھیجا گیا تھا.حیدر آباد والے کہتے ہیں کہ اگر سیسہ مل جائے تو دو تین ماہ میں عربی ٹائپ کا کام ختم کر لیں گے.ارادہ یہ ہے کہ سورۃ نحل تک کا ترجمہ پہلی جلد میں چھپے جو قریباً تیار ہے.اگر جنوری میں بھی ٹائپ آ جائے تو مجلس شوری سے پہلے پہلے تیار کر سکتے ہیں.مصالح تیار ہے صرف عربی ٹائپ کی دیر ہے.حیدر آباد کے دوست جلسہ سے واپس جا کر جلدی کام کرا دیں اور ٹائپ جلد بھجوا دیں تو میں سمجھتا ہوں پھر کام جلدی ہو جائے گا ورنہ جنگ کے بعد ہندوستان کے چھپے ہوئے کو انگریزوں کا پڑھنا مشکل ہوگا.غلہ منڈی کی تحریک اب میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آئندہ سال غلہ کے لحاظ سے بہت مشکلات لے کر آنے والا ہے.۱۹۴۲ء کے شروع میں گورنمنٹ نے غلہ پر کنٹرول کیا تھا مگر وہ بہت ناکام رہا.اُس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ضرورت کیلئے غلہ جمع کر لینا چاہئے.اُس وقت جنہوں نے جمع کیا وہ آرام میں رہے اور جنہوں نے اس طرف توجہ نہ کی انہوں نے بہت تکلیف اور نقصان اُٹھایا.۱۹۴۲ء میں میں نے قادیان کے غرباء کیلئے غلہ کی تحریک کی اس پر کافی غلہ جمع ہو گیا.اسی طرح ۱۹۴۳ء میں بھی تحریک کی گئی اور سترہ اٹھارہ ہزار روپیہ کے قریب غرباء کے غلہ کیلئے جمع ہوا اور غرباء کو پانچ پانچ ماہ کا غلہ دے دیا گیا.اگلے سال کچھ مزید وقتیں پیش آنے والی ہیں.اس سال ابھی تک بارش نہیں ہوئی اور اس وجہ سے بارانی فصلوں کی حالت خراب ہو رہی ہے.جوں جوں سردی لمبی ہوتی جائے گی اور گرد بڑھتی جائے گی فصلوں کی حالت خراب ہوتی جائے گی.اگر جلدی بارش نہ ہوئی تو ایسا نظر آتا ہے کہ پنجاب میں بھی قحط پڑ جائے گا.ادھر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر غلہ کم پیدا ہوا تو قیمت اور زیادہ بڑھادی جائے گی.اب گورنمنٹ ہند نے زور دے کر کہا ہے کہ غلہ کی قیمت گرائی جائے.کتنی گرائی جائے گی یہ معلوم نہیں مگر موجودہ نرخ سے کم کی جائے گی.ممکن ہے آٹھ روپے من یا اس سے بھی کم کر دی جائے تو ایسی صورت میں جب کہ ملک میں غلہ کم ہو یا
انوار العلوم جلد ۷ ۳۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) کم بچے تو بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں.ایسی صورت میں جبکہ غرباء کے پاس نہ غلہ ہوگا اور نہ پیسے، اُن کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.پس دوستوں کو ابھی سے غلہ فنڈ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جب اس کیلئے اعلان ہو تو ان غرباء کیلئے جو قادیان میں رہتے ہیں ضرور اپنے خرچوں سے بچا کر اس میں حصہ لیں.ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جو حصہ نہیں لیتا اگر سارے کے سارے لوگ حصہ لیں تو کافی غلہ جمع ہو سکتا ہے.پچھلے سال میں نے ہدایت کی تھی کہ زمیندار زیادہ سے زیادہ غلہ بوئیں.جنہوں نے اس پر عمل کیا اچھی بات کی اور جنہوں نے نہ کیا اُنہوں نے غلطی کی.اب جو غلہ بھی کسی قسم کا ہو سکتے ہوں ضرور ہوئیں تا کہ خود بھی تکلیف سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں.بارش کی کمی کو دیکھ کر ڈ رہی لگتا ہے کہ پنجاب نے چونکہ بنگال کی مصیبت کو دور کرنے میں پوری طرح حصہ نہیں لیا اس لئے پنجاب کو بھی (خدا کرے یہ میرا وہم ہو ) اسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے بارش برسا کر اس خطرہ کو دور فرمائے اور نہ صرف اس صو بہ کو بلکہ سارے ملک کو قحط کے عذاب سے نیز دوسرے ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ رکھے تا کہ لوگ تکلیف ما لا يُطَاق سے دو چار نہ ہوں.تحریک جدید اب میں تحریک جدید کی طرف آتا ہوں.یہ دسواں سال ہے اور تحریک جدید کے پہلے دور کا آخری سال ہے.یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کیلئے جمع ہوگئی ہیں.ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اُس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک وہ مٹا نہ لیں.دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کیلئے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے اُن کی امداد کرنی شروع کر دی.اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی.یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کیلئے گیا تو اُسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے پندرہ سو روپیہ روزانہ اُن کی آمدنی
انوار العلوم جلد ۷ ۳۴ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) ہے.تو اُس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متأثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھالئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا.چونکہ احرار کا دعویٰ تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اس لئے ہمیں اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے قدرتی طور پر کارروائی کرنی پڑی.اُس وقت ناظر امور عامہ نے اردگرد کی احمدی جماعتوں کو لکھا کہ قادیان آجائیں.گورنمنٹ نے ایک طرف تو احرار کو اجازت دے دی کہ سارے ہندوستان سے جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو جمع کر لیں اور دوسری طرف امور عامہ کی اتنی سی اطلاع کے متعلق سی آئی ڈی کے سپر نٹنڈنٹ کو بھیجا کہ جا کر تحقیقات کرو اور روکو کہ باہر سے لوگوں کو بُلانے کی احمدی تحریک نہ کریں.میرے پاس سپرنٹنڈنٹ صاحب آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اس کام کے لئے آیا ہوں.میں نے کہا ہمیں تو اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت چاہئے اگر اس بارے میں یقین دلا دیا جائے تو میں لوگوں کو یہاں آنے سے روک دوں گا.اُنہوں نے مجھے بعض تجاویز بتائیں کہ اگر یہ یہ انتظام ہو جائے تو آپ کا اطمینان ہو جائے گا.میں نے کہا ہاں.انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا ضرور ہو جائے گا آپ لوگوں کو آنے سے روک دیں.چنانچہ امور عامہ نے روک دیا کہ اس موقع پر کوئی احمدی نہ آئے اور فوراً اس قسم کی چٹھی بھجوا دی گئی.لیکن گورنمنٹ تو بھری بیٹھی تھی رات کے بارہ بجے بٹالہ کے مجسٹریٹ صاحب نے آکر مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جب میں نے پتہ کرایا تو یہ بتایا گیا کہ کریمینل ایمنڈ منٹ لاء کے ماتحت یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آپ نے جماعت کے جن لوگوں کو باہر سے بُلایا ہے اُن کو فوراً روک دیں ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی.حالانکہ اس سے پہلے روک دیا گیا تھا اور بلانے کا میں نے حکم نہیں دیا تھا.میں نے مجسٹریٹ کو لکھ دیا کہ یہ ظالمانہ حکم ہے اور اس طرح میری ہتک کی گئی ہے.مجسٹریٹ صاحب سمجھے یہ موقع اس کو ممنون کرنے کا ہے.کہنے لگے آپ نے یہ کیا لکھ دیا ہے سوچ لیں.میں نے کہا تم کو اس سے کیا تم گورنمنٹ کی چٹھی لائے ہو اب اس کا جواب لے جاؤ.پھر ہم چھ ماہ تک گورنمنٹ سے پوچھتے رہے کہ یہ حکم کس بناء پر جاری کیا گیا تھا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا.آخر حکومت پنجاب کے چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہم کافی ذلیل ہو چکے ہیں آپ
انوار العلوم جلد کا ۳۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳).آئندہ اس بات کو نہ اُٹھا ئیں.یہاں اُس زمانہ میں جس قسم کے افسر بھیجے گئے اُن کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک افسر نے کہا یہ تو میں ماننے کیلئے تیار ہوں کہ احمدی اچھے ہوتے ہیں لیکن میں یہ نہیں مان سکتا کہ جہاں احمدیوں کی کثرت ہو وہاں بھی وہ ظلم نہیں کرتے.غرض کیا احرار اور کیا دوسرے مسلمان ، کیا گورنمنٹ اور کیا دوسری اقوام سب لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے.دوسری اقوام کے اخبارات بھی احرار کی تائید اور حمایت کرتے تھے.ایسے وقت میں تحریک جدید کو جاری کیا گیا.جب میں نے اس کے متعلق ارادہ کیا تو میں خود نہ جانتا تھا کہ کیا کیا لکھوں گا مگر جوں جوں میں نوٹ لکھتا جاتا خدا تعالیٰ وہ طریق اور وہ ذرائع سمجھاتا جاتا جن سے احمدیت مضبوط ہو سکتی تھی.اُس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ تبلیغی ٹریکٹوں کی اشاعت سے ہم عاجز تھے.ایسے حالات میں میں نے تحریک جدید جاری کی اور اس کا ایک حصہ ریز رو فنڈ کا رکھا.جب میں نے اس کیلئے تحریک کی تو مجھے پتہ نہ تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں.اُس وقت میں نے جو تقریر کی اُس کے الفاظ کچھ ایسے مہم تھے کہ جماعت نے سمجھا کہ تین سال کیلئے چندہ مانگ رہے ہیں اور وہ اکٹھا دینا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ مثلاً کسی کا ا کا ارادہ سو روپیہ سال میں دینے کا تھا تو اُس نے تین سال کا چندہ تین سو رو پید اکٹھا دے دیا.ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے صحیح مفہوم سمجھا مگر ایسے بھی تھے جنہوں نے غلط سمجھا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے.جب دوسرے سال کیلئے تحریک کی گئی تو بعض لوگ کہنے لگے ہم نے تو تین سال کا اکٹھا چندہ دے دیا تھا اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ میں نے کہا یہ طوعی چندہ ہے آپ اب نہ دیں مگر انہوں نے کہا ہم تکلیف اُٹھا ئیں گے اور خواہ کچھ ہواب بھی ضرور چندہ دیں گے اور کہا کہ پہلے سے زیادہ دیں گے.اس طرح اُنہوں نے تین سال کیلئے جو اکٹھا چندہ دیا تھا دوسرے سال اُس سے زیادہ دیا کیونکہ وہ مجبور ہو گئے کہ اپنے اخلاص کو قائم رکھنے کیلئے چندہ پہلے سے بڑھا کر دیں.بعض مخلص ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا سارے کا سارا اندوختہ دے دیا تھا.ایک نے لکھا دوسرے سال میں نے شرم کی وجہ سے بتایا نہیں تھا میں نے اپنی کچھ اشیاء بیچ کر چندہ دیا تھا.پھر تیسرے سال سب کچھ بیچ باچ کر چندہ دے چکا ہوں اب رقم کم کرنے پر مجبور ہوں.لیکن نویں سال میں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے کچھ رقم جمع کرنے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) کی توفیق عطا کی اس لئے پہلے کی طرح ہر سال کا چندہ بڑھا کر ادا کروں گا.دراصل جب میں تحریک جدید کے چندہ کا اعلان کر رہا تھا خدا تعالیٰ ۲۵ لاکھ ریز رو فنڈ کی تحریک جو پہلے کی گئی تھی اُسے کامیاب بنانے کی بنیا درکھوا رہا تھا.میرا شروع سے ارادہ تھا کہ اس چندہ سے ریزرو فنڈ قائم کیا جائے جو تبلیغ اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں کام آئے.میں نے اس روپیہ سے زمین خریدی جو ساڑھے نو ہزار ایکڑ ہے اور تحریک جدید کی ملکیت ہے یہ زمین ابھی آزاد نہیں بلکہ مقاطعہ پر ہے مگر ۰ ۸ مربع پورے طور پر آزاد ہو چکے ہیں.ان کی ساری قیمت ادا کی جا چکی ہے اور ۱۲۰ مربع اس سال اور آزاد کرالئے جائیں گے.۱۶۰ مربعے باقی رہیں گے اور امید ہے کہ مارچ اور اپریل تک کچھ زمین کی آمد سے اور کچھ نئے چندہ سے رقم لے کر اور زمین آزاد کرائی جا سکے گی اور کل تین سو مربعے کے قریب زمین آزاد ہو جائے گی.اس وقت جو زمین مقاطعہ پر ہے یا جو خراب ہے وہ اگر چھوڑ دی جائے تو باقی زمین پنجاب کے ریٹ سے ۲۵ لاکھ کی اور وہاں کے ریٹ سے سترہ اٹھارہ لاکھ کی ہے اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہو تو ۲۵ لاکھ کی پہلی قسط اور دو تین سال میں ہم جمع کر لیں گے.اس کے بعد دوسرے ۲۵ لاکھ کیلئے کوشش شروع کر دیں گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر صوبہ بلکہ ہر ضلع میں ایسا مشن قائم کر دیا جائے گا کہ ہر زبان جاننے والے مبلغوں اور ہر زبان کیلئے ٹریکٹوں کے ذریعہ تبلیغ کرے.عیسائیوں کے اس وقت ساٹھ ہزار مشنری کام کر رہے ہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رویا کے یہ معنی سمجھتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ سپاہی مانگے.مگر آپ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار دیئے گئے ہیں.اس کے یہ معنی ہیں کہ پانچ ہزار چندہ دینے والوں سے پہلے فنڈ قائم کیا جائے گا پھر پانچ ہزار مبلغوں سے دوسرا قدم اُٹھایا جائیگا اور پھر ایک لاکھ مبلغوں سے تیسرا قدم اُٹھایا جائے گا.گو یا کم از کم ساٹھ کروڑ روپیہ خرچ کیا جائے گا اور یہ دس ارب روپیہ کے فنڈ سے حاصل ہوگا.دنیا کی کسی قوم نے اس قدر ریز رو فنڈ جمع نہیں کیا مگر یہ تو خدا تعالیٰ جمع کرنے والا ہے.پھر یہ ایک لاکھ مبلغ ایسے ہونگے جو اپنا سارا وقت خدمت دین اور تبلیغ احمدیت میں خرچ کریں گے ورنہ یوں تو سب کے سب احمدی مبلغ ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) تحریک جدید اور پیغامی تحریک جدید کے اس فنڈ کی کامیابی نے پیغامیوں میں ایک کسک پیدا کر دی ہے.وہ کہتے ہیں قادیان والے یونہی پانچ ہزار بنتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رؤیا کے مصداق تو ہم ہیں وہ کہتے ہیں کوئی امریکی آیا تھا اُس نے لکھا کہ ۵ ہزار پیغامی ہیں اس لئے ہم ہی اس رویا کے مصداق ہیں.حالانکہ اس خواب میں یہ نہیں کہ جنہیں کوئی پانچ ہزار کہہ دے وہ اس کے مصداق ہیں.پیغامیوں کی تعداد ہم نے پیغامیوں کے متعلق اندازہ لگایا تھا پیچھے مردم شماری کرائی گئی تھی سارا زور لگانے پر تین ہزار بنے تھے لیکن ہم تو کہتے ہیں کہ تحریک جدید کے رجسٹروں میں چندہ دینے والوں کے نام لکھے ہوئے دیکھ لو وہ پانچ ہزار ہیں مگر وہ کچھ نہیں بتاتے.پھر ہم پوچھتے ہیں پانچ ہزار پیغامی چندہ دینے والے ہیں یا ان میں وہ بھی شامل ہیں جو پوتڑوں میں پاخانہ پھرتے ہیں.اگر وہ اس تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل کرتے ہیں تو وہ سپاہی کس طرح کہلا سکتے ہیں.پس جب تک وہ پانچ ہزار چندہ دینے والے ثابت نہ کریں اُس وقت تک یہ خواب اُن پر نہیں لگ سکتی.مگر ہم چندہ دینے والے پانچ ہزار پیش کرتے ہیں.پھر پیغامی کہتے ہیں دس لاکھ کی تعداد میں سے پانچ ہزار نے چندہ دیا تو معلوم ہوا کہ ایک قلیل حصہ نے اس تحریک میں حصہ لیا اور یہ فخر کی بات نہیں بلکہ شرم کا مقام ہے مگر انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایک خاندان کے سارے کے سارے افراد چندہ نہیں دیا کرتے.خاندان میں بعض بچے چھوٹے ہوتے ہیں اگر دس لاکھ کی تعداد ہو تو چندہ دینے والے دولاکھ رہ گئے.پھر یہ تحریک جدید کا چندہ ہے دوسرا نہیں جس کا ادا کرنا ہر ایک کا فرض ہے.اس میں یہ شرط ہے کہ کم از کم پانچ رو پیر تک چندہ دے اور دوسرا چندہ بھی ساتھ دے.ہندوستان کی روزانہ فی کس آمدنی ہمارا ملک بہت غریب ہے گاندھی جی نے اعلان کیا تھا کہ یہاں اوسط آمدنی ڈیڑھ آنہ روزانہ ہے اور دو روپے تیرہ آنے ماہوار فی کس آمدنی بنتی ہے.اگر کوئی پانچ آدمیوں
انوار العلوم جلد کا ۳۸ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) کا کنبہ ہو تو اُن کے کھانے پینے ، شادی بیاہ ، موت وغیرہ کے اخراجات اُن کی چودہ روپیہ ماہوار آمد سے ہی ہوتے ہیں.پھر انہیں چندہ دینا ہوتا ہے، وصیت کا چندہ ادا کرنا ہوتا ہے ، جلسہ پر آنے کے اخراجات بھی ادا کرنے پڑتے ہیں، کوئی نہ کوئی اخبار خریدنا ہوتا ہے، کوئی کتاب خرید لی جاتی ہے، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کیلئے بھی کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے اس طرح آمدنی کا ایک تہائی یا کم از کم ایک چوتھائی حصہ چلا جاتا ہے.اتنے چندے ادا کرنے کے بعد اور اتنے غریب ملک میں لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ہر فرد کو چندہ دینا چاہئے کس طرح درست ہوسکتا ہے.معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب نے آمد کی اوسط چالیس روپیہ لگائی ہے اور اس کے مطابق ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اتنا چندہ بتاؤ.مجھے فرانس کی ایک ملکہ کی مثال یاد آ گئی.ایک دفعہ کچھ غریب اکٹھے ہو کر اُس کے محل کے پاس گئے اور روٹی روٹی کا شور مچایا.ملکہ نے پوچھا یہ لوگ کیوں شور مچارہے ہیں؟ بتایا گیا کہ کہتے ہیں روٹی نہیں ملتی.ملکہ نے کہا روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے.مولوی صاحب بھی معلوم ہوتا ہے ایسے ہی مرض میں مبتلاء ہیں.کہتے ہیں دس لاکھ جماعت ہے تو چالیس کروڑ چندہ ہونا چاہئے تھا حالانکہ صاف بات ہے پانچ ہزار تو وہ اپنی تعداد مانتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رویا اپنے آپ پر چسپاں کرنے کیلئے وہ اس لحاظ سے اپنا چندہ دو لاکھ دکھا دیں.آخر میں تو مولوی صاحب نے غضب ہی کر دیا.کہتے ہیں کہاں ہے ہیں لاکھ روپیہ چندہ کا ؟ دکھاؤ!! گویا ہم اُن کو منی آرڈر کر کے بھیج دیں تب وہ مانیں گے کہ ہمیں لاکھ روپیہ ہمیں چندہ وصول ہوا ہے.ہم تو ایسے حو صلے والے ہیں کہ مولوی صاحب قادیان سے جاتے ہوئے کئی ہزار روپیہ کی کتب لے گئے.میرے پاس اُس وقت لوگ آئے کہ یہ چیزیں لے جانے سے اُن کو روکا جائے.میں نے کہا جہاں مولوی صاحب جاتے ہیں وہاں ہی ان چیزوں کو بھی جانے دو مگر ان کی حالت یہ ہے کہ ہمارے گھر کا حساب مانگ رہے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جنہوں نے ابھی تک چندہ تحریک جدید نہیں لکھا یا وہ اب کے بڑھ چڑھ کر قربانی کریں گے.آئندہ کیلئے میرے مدنظر ایک اور سکیم ہے جو پچھلے سال نہ تھی مگر اس سال اس کا حصہ معتین طور پر میرے دل میں ہے.میں ابھی اس کا ذکر نہیں کرتا اگلے سال ظاہر
انوار العلوم جلد ۷ ۳۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) کروں گا اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالیٰ اور اگر خدا تعالیٰ کی یہ مشیت نہ ہوئی تو لکھ کر لفافہ میں بند کر دوں گا.میرے دل میں یہ اُمنگ ہے کہ پانچ ہزار چندہ دینے والے ایک لاکھ ۹۵ ہزار احمدی ہو جائیں اور پانچ ہزار مبلغ تمام دنیا میں ہم پھیلا دیں.پھر ایک لاکھ تک مبلغ پہنچا دئیے جائیں.یہ سکیم اس وقت پاگل کی بڑ ہے لیکن ایسی شاندار بڑ ہے کہ جس نے بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لیا اس بات کا خیال کر کے بھی اُس کی روح آسمان کی بلندیوں میں اُڑنے لگے گی کہ قیامت تک میرے لئے رات دن تبلیغ میں مصروف رہنے والے دنیا میں موجود ہو نگے.میں مر کر بے نام و نشان ہو جاؤں گا، میری ہڈیاں خاکستر ہو جائیں گی ، میری نسل سے پیدا ہونے والی اولا دکو بھی میرا پتہ نہیں ہو گا مگر اس چندہ سے مستقل طور پر میری طرف سے سارا سال کوئی مبلغ تبلیغ کر رہا ہوگا.میں سمجھتا ہوں جن لوگوں نے اس دور میں حصہ لیا ہے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ تھوڑی قربانی سے بھی زیادہ ثواب حاصل کریں.مگر آئندہ کیلئے شرائط زیادہ سخت کر دیئے جائیں گے اور نرم شرائط سے خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں لوگ داخل نہ ہو سکیں گے.اب میں تحریک جدید کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کرتا ہوں اور جو تشنہ تکمیل ہیں.میں جان بوجھ کر ان بعض حصوں کی طرف سے خاموش تھا.اس سال ارادہ ہے کہ ان پر بھی زور دیا جائے.مجھے اس کام میں ایک اور بات بہت تکلیف دہ معلوم ہوئی اور وہ یہ کہ جو کار کن تحریک جدید کی زمینوں پر بھیجے جا رہے ہیں اُن کے کام دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ احمدی ماں باپ اپنے بچوں کو محنت و مشقت کی عادت نہیں ڈالتے.ہم منشی وہاں بھیجتے مگر وہ بھاگ آتے پھر اور بھیجتے وہ بھی بھاگ آتے.اسی طرح کام کرنے کے لحاظ سے ایسے بھی تھے جو یہ کہتے کہ ہم رات کو کام نہیں کر سکتے ، ایسے بھی تھے جو یہ کہتے کہ آج نہیں کل کام کریں گے.ہمیں اس طرح جماعت کے نوجوانوں کے اخلاق دیکھنے کا موقع ملا.تعجب ہے کہ پرانے لوگ بہت کام کر لیتے مگر نئی پود میں کم محنت کرنے کی عادت پائی جاتی ہے.اُدھیڑ عمر والوں میں سے اکثر عمدگی سے کام کرنے والے ثابت ہوئے مگر نو جوانوں میں سے اکثر سکتے نکلے.میں جماعت کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس نے اگر ایسی ہی نسل پیدا کی تو وہ اسلام کی لڑائیاں نہیں لڑسکیں گے بلکہ بھگوڑے ثابت ہوں گے.اگر ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ محنت نہیں کر سکتے ، اگر ہمارے بچے
انوار العلوم جلد ۱۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) زیادہ سے زیادہ مشقت نہیں برداشت کر سکتے ، اگر ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ جفاکش نہیں ثابت ہو سکتے تو سمجھ لیجئے کہ وہ کچے انڈے کی طرح ہیں اور میں کہتا ہوں وہ روئی میں لپیٹ کر رکھنے کے قابل ہونگے.پس اگر ہماری جماعت نے ایسے بچے پیدا کئے ہیں تو اس نے کوئی کام نہیں کیا اور اگر خدام الاحمدیہ نے ایسے نوجوان پیدا کئے ہیں تو اس نے کچھ نہیں کیا.ان حالات کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر آئندہ کوئی ایسا موقع پیش آیا اور نوجوانوں نے ایسا نمونہ دکھایا تو ہم خدام کو سزا دیں گے.میں سمجھتا ہوں یہ بڑی شاک پہنچانے والی بات ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قومی اور جماعتی طور پر سزا دینا بھی ضروری ہوتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی قاتل نہ پکڑ ا جائے اور دبیت نہ دی جائے تو سارے علاقہ سے ہم دیت لیں گے.پس میں وقت پر اطلاع دیتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کا ایک حصہ سُست اور غافل ہے ، محنت و مشقت کرنے کا عادی نہیں ، اپنے فرائض کا اسے احساس نہیں اور اس کیلئے مقامی جماعتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ ان کا فرض ہے کہ محنت و مشقت سے کام کرنے والے، افسروں کی اطاعت کرنے والے، سمجھ و عقل سے کام کرنے والے، جفاکش اور محنتی نوجوان پیدا کریں.اگر کوئی جماعت ایسا نہیں کرتی تو وہ سمجھ لے کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے خواہ وہ دس کروڑ روپیہ بھی چندہ دے کیونکہ آدمیوں کے مقابلہ میں روپیہ کی کچھ حقیقت نہیں ہے.اس سال کیلئے جونئی تجاویر میں پیش کرنا چاہتا ہوں جماعتیں ان کو نوٹ کرلیں اور یاد کر لیں تا کہ ان پر عمل کر سکیں.ا.جس قدر بڑی جماعتیں ہیں اور (اپنی چھوٹی سی جماعت کو مد نظر رکھتے ہوئے) بڑی جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جس کے مرد، عورتیں اور بچے ملا کر پانچ سو کی تعداد میں ہوں.اُس جماعت کا فرض ہے کہ ہر سال اپنی مردم شماری کرائے اور نقشہ پُر کر کے مرکز میں بھیجے جس میں یہ امور درج ہوں.(۱) پچھلے سال افراد کی تعداد کتنی تھی (۲) ۱۲ ماہ کے بعد ان افراد میں سے کتنے کم ہوئے.(i) فوت سے (ii) ارتداد سے (iii) کہیں دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے
انوار العلوم جلد ۷ ۴۱ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) (۳) اس سال کتنے افراد کی زیاتی ہوئی (i) پیدائش کے ذریعہ (ii) باہر سے آنے کی وجہ ے (iii) احمدی ہونے کی وجہ سے.یہ نقشہ ہر سال بھجوانا ضروری ہوگا.لاہور، امرتسر، سیالکوٹ اور غالباً دہلی بھی اِن جماعتوں میں شامل ہے جن کے افراد کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے.پہلا نقشہ جنوری میں مل جانا چاہئے.اس قانون کے اندر کون سی جماعت آتی ہے یہ اعلان کرا دیا جائے گا.چونکہ کام زیادہ ہے اس لئے میں میعاد بڑھا دیتا ہوں یہ نقشے فروری کی ۲۹ تاریخ تک پہنچ جائیں.جن میں لکھا ہو کہ اس وقت کل افراد کی یہ تعداد ہے.پہلے سال کے نقشہ میں کمی بیشی نہ کھی جائے گی صرف یہ لکھا جائے گا.(۱) مرد اتنے ہیں (۲) عورتیں اتنی ہیں (۳) ۱۲ سال سے کم عمر کے بچے اتنے ہیں.چوتھا خانہ یہ ہوگا کہ اس سال میں کوئی فرد یا خاندان مرتد ہوا یا نہیں.پانچواں خانہ یہ کہ کمز ور اور قابل نگرانی کون کون ہیں.چھٹا یہ کہ لڑکے لڑکیوں میں سے کتنے تعلیم پارہے ہیں.کتنے ساتواں لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کتنے با ترجمہ قرآن پڑھ سکتے ہیں اور دینیات کتنے سیکھ رہے ہیں.یہ نقشہ اس سال فروری کے آخر تک اور آئندہ جنوری کی ۳۱ تاریخ تک بھیج دینا چاہیئے.پھر اس میں یہ بھی لکھنا چاہئے کہ ریلوے، ڈاک خانہ، سیکریٹریٹ اور عدالتوں میں کتنے ملازم ہیں یہ بھی اپنی الگ الگ انجمن بنائیں سوائے مقامی انجمن کے ، تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان محکموں میں کتنے احمدی ملازم ہیں.پھر اگلے سال بتائیں کہ ان میں سے کتنے تبدیل ہو کر دوسری جگہوں میں چلے گئے یا فوت ہو گئے.کتنے نئے ملازم ہوئے یا ملازم کرائے گئے.اس سال ان کی مجموعی تعداد کتنی ہے.اگلے سال کتنی تھی تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان ملازمین کی تنخواہ گر رہی ہے یا بڑھ رہی ہے.اگر گر رہی ہے تو اس کا سبب کیا ہے.یہ کام مرکز میں امور عامہ کے سپر د ہو گا.
انوار العلوم جلد ۷ ۴۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) عالمی جنگ ختم ہونے کے (۲) دوسری تجویز میں یہ کرتا ہوں کہ اس وقت آثار ایسے نظر آ رہے ہیں کہ سال دو سال تک جنگ ختم ہو بعد تبلیغ کے وسیع مواقع جائے گی اور اس کے بعد فور تبلیغی میدان وسیع ہو جائے گا.یہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ اور انچارج صاحب قرآن کریم کے تراجم تحریک جدید کا کام ہے کہ وہ کچھ اور واقف کا روں کو ساتھ ملا کر جنگ کے بعد مختلف ملکوں کیلئے تبلیغی لٹریچر کا نقشہ تیار کریں کہ کس ملک کیلئے کس قسم کا لٹریچر مفید ہو گا پھر اس کی منظوری مجھ سے لے کر جنگ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اس کے چھپوانے کا انتظام کیا جائے.پہلے تو یہ شکایت کی جاتی تھی کہ روپیہ جمع کرنا انجمن کے سپر د ہے اور اسلام واحمدیت کی ترقی کی تجاویز خلیفہ کے ذہن میں آتی ہیں جن پر عمل کرنے کیلئے روپیہ نہیں ہوتا.مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ ہے اور آتا رہے گا.اب ہمیں بعد جنگ مختلف ملکوں مثلاً برطانیہ، جرمنی، اٹلی ،فرانس ، جاپان ، چین ، امریکہ وغیرہ کی ضروریات کے متعلق کس قسم کا لٹریچر تیار کرنا چاہئے ، پہلے اس کا فیصلہ کر لینا چاہئے اس کے بعد میرے مشورہ سے ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جو لٹریچر تیار کریں.(۳) تیسری تجویز یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں مختلف ممالک کے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہم آسانی سے اچھے جرمنی، اٹالین اور روسی زبانیں جاننے والے لوگ پا سکتے ہیں یہ لوگ مصیبت زدہ ہیں اور تھوڑے روپیہ پر کام کر سکتے ہیں.ہم نے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو اس بارے میں لکھا تھا.انہوں نے جواب دیا ہے کہ میں اس بارے میں انتظام کر رہا ہوں.ترجمہ القرآن کے محکمہ کو میں ہدایت دیتا ہوں کہ جتنا حصہ وہ صاف کر چکے ہیں وہ شمس صاحب کو بھجوا دیں تا کہ وہ آگے کسی اور زبان میں ترجمہ کرانے کا انتظام کریں.اس طرح کام میں بہت سہولت ہو جائے گی.اس کے بعد عربی دان اس ترجمہ پر نظر ثانی کر لیں گے اور ہم جلد ہی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر سکیں گے.اس میں دیر نہ کرنی چاہئے جنگ کے بعد لوگ جلد حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوں گے اس لئے تفصیلات کی طرف زیادہ نہیں جانا چاہئے بلکہ زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وہ اسی طرح پہنچ سکتا ہے کہ جلد سے جلد تبلیغی لٹریچر تیار کیا جائے.
انوار العلوم جلد کا ۴۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) اس کے بعد جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا عمل اور نمونہ جو ہے وہ ہماری تبلیغ سے زیادہ اثر رکھتا ہے.جب تک ہم دنیا پر یہ روشن نہ کر دیں کہ ہم اچھے اور اعلیٰ اخلاق کے انسان ہیں، خدا کا خوف ہر موقع اور ہر قدم پر رکھنے والے انسان ہیں اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ صرف ہماری ظاہری باتوں سے لوگوں پر اثر ہوگا اور وہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے وہم ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہم جو نیک اور اچھے کام کرتے ہیں اُن کی بھی لوگ بُری تعبیر لیتے ہیں.ہمارے گھر میں حضرت اماں جان کی ایک خادمہ ہے وہ ہے تو نوکر ، مگر کہے، مجھے دکھانے کیلئے گھر والے نمازیں پڑھتے ہیں.گویا سال ہا سال سے اُسے دکھانے اور احمدی بنانے کیلئے سارے گھر کے لوگ نمازیں پڑھتے تھے.اب کچھ کہنے لگی ہے کہ خدا کیلئے نمازیں پڑھتے ہیں تو ہمارے اچھے سے اچھے کام کی بھی لوگ بُری تعبیر کر لیتے ہیں لیکن اگر ہم اچھے کام نہ کریں گے تو لوگ ہمیں بد نام کریں گے اور اُن کا حق ہوگا کہ جو چاہیں کہیں اور ہم اس بات کے مستحق ہونگے کہ اُن کی باتیں سنیں.آجکل میں دیکھتا ہوں کہ کچھ قوانین ایسے ہیں کہ احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ اُن پر عمل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا قا نو نا جائز ہے.مثلاً بعض فوجیوں نے بتایا کہ جب کسی شہر کو فتح کر کے اُس میں داخل ہوتے ہیں تو افسر کہہ دیتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے تک ہمیں کچھ نہ بتاؤ اور جو چاہو کر لو مگر کسی احمدی کیلئے اس اجازت کے باوجود اسلامی تعلیم کے خلاف کوئی بات کرنا جائز نہ ہوگا اور اگر احمدی اِس کا مرتکب ہوگا تو ہم اُسے سزا دیں گے.دراصل مؤمن انسانوں کے دشمن نہیں ہوتے بلکہ بُرے افعال کے دشمن ہوتے ہیں.ہم نہ اٹلی کے دشمن ہیں، نہ جرمنی کے، نہ جاپان کے، ہم مکاؤ اور ٹو جو اور ہٹلر کے دشمن نہیں بلکہ ان کے افعال کے دشمن ہیں.پس کسی فعل کے متعلق قانون کا جواز کوئی جواز نہیں ہے.جو اس دھوکا میں پڑ کر کوئی فعل اسلام کی تعلیم کے خلاف کرے گا وہ اپنے دین اور ایمان کو خراب کر لے گا.اس سال ایک دو واقعات اس قسم کے پیش آئے ہیں مثلاً ایک واقعہ تو یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی زمین کسی کے پاس فروخت کی.دس گیارہ ماہ کے بعد اس کے بیٹے نے زمین خرید نے والے پر نالش کر دی.انگریزی قانون اس کی اجازت دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقاً یہ جائز ہے؟ اگر ایسی بات ہو کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو اور بیٹے کو جائداد سے محروم کرنے کیلئے نیچے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۴ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) اور اگر بیٹا سمجھے کہ اس جائداد کے بغیر وہ گزارہ نہیں کر سکے گا تو اُس کا حق ہے کہ فروخت کردہ جائداد حاصل کرنے کی کوشش کرے ورنہ اگر باپ نے ایسا کیا تھا اور اُس کا حق مارا تھا تو بیٹے کو چاہئے کہ وہ نا خلف نہ بنے.اور اگر باپ بیٹے میں لڑائی جھگڑا نہیں وہ اکٹھے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں زمین خریدنے والے سے جا کر بیٹے کا لڑنا دھوکا بازی ہوگی کہ باپ نے روپیہ لے لیا اور بیٹے سے دعویٰ دائر کرا دیا.اگر اسے قانون جائز قرار دے اور آج تک کے سارے وائسرائے لکھ دیں کہ ایسا کرنا جائز ہے تو بھی یہ جائز نہ ہوگا.دنیا کی کون سی اسمبلی ہے جو اس بات کو جائز قرار دے سکے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار نہیں دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ میں بھی انسان ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زیادہ باتیں کرنے والا ہو اور میں اُس کے حق میں فیصلہ کر دوں.اس طرح میں جسے کچھ دلا دوں وہ اُس کیلئے دوزخ کا ٹکڑا ہو گا لیے پس جب خلاف حق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی امن پیدا نہیں کر سکتا اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا تو انگریز جو صرف سیاست سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایسے کیونکر ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی ایسی بات کو جائز قرار دے دیں جسے خدا تعالیٰ نے ناجائز قرار دیا ہے.مجھے اِس سلسلہ میں ایک اور تکلیف دہ تجربہ ہوا ہے اور وہ یہ کہ جب بیٹے کی طرف سے باپ کی فروخت کی ہوئی زمین کے خلاف نالش ہوئی تو جس شخص کے پاس زمین بیچی گئی تھی وہ غیر احمدی تھا.مگر اُس نے مجھے لکھا کہ میں احمدی ہوں اور مجھ پر احمد یوں کی طرف سے ظلم کیا جا رہا ہے.میں نے کہا اس میں احمدی اور غیر احمدی کا کیا سوال ہے جس بیٹے نے باپ کی فروخت کردہ زمین کے خلاف نالش کی ہے اُس نے غلطی کی ہے.اس پر احمدیوں کے خط آنے شروع ہو گئے کہ اس نے آپ کو دھوکا دیا ہے وہ غیر احمدی ہے.بے شک اُس نے غلطی کی کہ احمدی نہ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو احمدی کہا مگر انصاف کے معاملہ میں احمدی اور غیر احمدی کا کیا سوال ہے.غیر احمدی نہیں اگر کوئی دہر یہ ہو تو اُس سے بھی انصاف کرنا ضروری ہے.حضرت خلیفہ اول کی ایک لڑکی احمدیت سے پہلے امرتسر کے غزنویوں کے خاندان میں بیاہی گئی تھی.آپ جب قادیان تشریف لاتے تو امر تسر بھی اُترتے.ایک دن آپ نے اُن کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) نوکر کو کوئی سو دالانے کیلئے اٹھنی دی.وہ سودا لے آیا اور ساتھ اُٹھنی بھی لے آیا.آپ نے اُس سے پوچھا تم نے یہ کیا کیا ؟ کہنے لگا جب دُکاندار کوئی چیز لینے اندر گیا تو میں نے اٹھنی اُٹھالی اور چونکہ وہ کراڑ تھا اس لئے میرے لئے اُس کا مال لے لینا جائز تھا.انصاف کے معاملہ میں یہ کہنا کہ فلاں غیر احمدی ہے ایسی ہی بات ہے جیسی اس نوکر نے کی.بے شک اُس نے یہ جھوٹ بولا کہ اپنے آپ کو احمدی کہا یہ اُس کی کمزوری تھی اُس نے سمجھا اگر میں ان سے یہ کہوں گا کہ میں غیر احمدی ہوں تو وہ کہیں گے تمہارا مال لے لینا ہمارے لئے جائز ہے اس ڈر سے اُس نے جھوٹ بولا مگر میں کہتا ہوں اگر وہ دس ہزار دفعہ بھی خدا اور اُس کے رسول کا انکار کرتا ہو تو بھی فتویٰ یہی دیا جاتا کہ جو تیرا حق ہے وہ تجھے ملنا چاہئے.پس مجھے تعجب ہے اُن احمدیوں پر جنہوں نے مجھے لکھا کہ اس شخص نے اپنے آپ کو احمدی کہہ کر آپ کو دھوکا دیا ہے وہ دراصل غیر احمدی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ اس قسم کی باتوں سے بچیں.خواہ قانون کوئی چیز دلا دے جب تک اسلام اسے جائز نہ قرار دے وہ جائز نہیں ہوسکتی.باپ کی فروخت کی ہوئی زمین اُسی صورت میں لینی جائز ہو سکتی ہے جب باپ بیٹے کا دشمن ہو اور اسے نقصان پہنچانے کیلئے جائدادفر وخت کرے.ایسی حالت میں بھی بیٹے کی سعادت مندی یہی ہے کہ اُس جائداد کو چھوڑ دے.لیکن اگر چھوڑ دینا اُس کے بس کی بات نہ ہو تو حاصل کر سکتا ہے ورنہ جو کام باپ نے کیا خواہ دشمنی سے ہی کیا بیٹا اگر اس میں باپ کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ نا خلف ہے اور قصور وار ہے.اسی طرح ایک قانون اراضی ہے جس کے متعلق بہت گڑ بڑ پڑی ہوئی ہے.اگر تو کسی نے زمین قرضہ کے سود میں لوٹی ہو تو اُس سے زمین واپس لے لینا جائز ہے لیکن اگر کسی نے بیچی ہے اور قیمت وصول کی ہوئی ہے تو اُس کا اِس طرح واپس لینا جائز نہیں ہے.مجھے ایک شخص کے متعلق بتایا گیا جسے ہم اخلاقی طور پر مجرم قرار دے چکے ہیں کہ اُسے کسی نے کہا تم اپنی فروخت شدہ زمین واپس لے سکتے ہو تو اُس نے کہا میں ایسا بے شرم نہیں ہوں کہ بیچی ہوئی زمین واپس لے لوں.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.پس بیچی ہوئی چیز واپس نہیں لینی چاہئے خواہ حکومت کا قانون اُسے دلائے.حکومت نے یہ تو نہیں کہا کہ جو بیچی ہوئی زمین نہ لے گا اُس کو اتنی سزا دی جائے گی تو اس قانون کے ذریعہ زمین واپس لینا بھی جائز نہیں ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) تیسری بات ورثہ کے متعلق ہے ایک گزشتہ جلسہ کے موقع لڑکیوں کو ورثہ دیا جائے پر تمام جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ہم لڑکیوں کو ورثہ دیں گے اور بہت سے احمدیوں نے لڑکیوں کو اُن کے حصے دیئے بھی ہیں مگر ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے وعدے کئے اور وہ فوت ہو گئے مگر اُن کی ناخلف اولا د نے نہ دیئے.یا د رکھو یہ زمینیں اور یہ جائدادیں آئی گئی چیزیں ہیں آج ہمارے پاس ہیں تو کل دوسروں کے پاس.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا کرتے تھے بلکہ یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں سے بھی سنتے تھے کہ یہ تمہارا گاؤں تھا ، وہ تمہارا گاؤں تھا مگر آج وہاں ہمارے آدمیوں کو مارا اور بیٹا جاتا ہے.ایسی چیزوں کیلئے خدا تعالیٰ کے فضل کو ہاتھ سے دینا جو ہمیشہ ہمیش کیلئے قائم رہنے والا ہے کتنی بڑی غلطی ہے.میں پھر اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جب تک وہ عورتوں کو ورثہ نہ دیں گے اُن کے دلوں میں دین کی کامل محبت پیدا نہ ہوگی اور دنیا کی محبت سرد نہ ہوگی.آئے دن کئی لوگ لکھتے رہتے ہیں کہ میں فلاں خاندان کا آدمی ہوں ، ہمارے خاندان کے اتنے بڑے بڑے آدمی ہیں، میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں آپ مجھے کیا دیں گے اس قسم کی چٹھیاں ہر سال ۲۰، ۲۵ تک آ جاتی ہیں.میں جواب دیتا ہوں ہم ایمان دیں گے اور خدا کی راہ میں مار پیٹ اور گالیاں کھانے کی ہمت اور جرات پیدا کریں گے.اگر یہ آپ نہیں لینا چاہتے اور آپ کے پاس مربعے اور جائدادیں ہیں تو پھر آپ کو احمدیوں میں آنے کی کیا ضرورت ہے.اس قسم کے خطوط پڑھ کر مجھے تعجب آتا ہے کہ ایمان اور خدا تعالیٰ کی محبت سے لوگوں کے دل کس طرح خالی ہو گئے ہیں اور ایسے لوگوں نے ہم میں آ کر کیا لینا ہے.ہمارے ہاں تو ماریں پیٹیں ہیں اور ان کے جاری رہنے میں ہی ہمارے لئے لطف ہے جب یہ چلی گئیں تو لطف بھی جاتا رہے گا.قادیان کی ترقی جماعت کو خدا تعالیٰ دنیوی ترقیات بھی دے گا.قادیان بہت پھیلے گی اور ترقی کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا ہے کہ قادیان کے بازاروں میں بڑی بڑی توندوں والے جو ہری بیٹھے ہیں.ایسا وقت بھی آئے گا مگر کسی احمدی سے جو اس وقت قادیان میں چپڑاسی کا ہی کام کرتا ہوا سے کوئی پوچھے کہ
انوار العلوم جلد ۷ ۴۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) تمہیں آنے والی حالت پسند ہے یا موجودہ؟ تو وہ یہی کہے گا کہ اس وقت میرا چپڑاسی ہونا اُس زمانہ کے امیر و کبیر ہونے سے اچھا ہے.تو خدا تعالیٰ کی جماعتوں میں اس قسم کی چیزیں بھی آتی ہیں اور جماعت احمدیہ میں بھی آجائیں گی مگر جو مزا آج گالیاں کھانے اور ماریں سہنے میں ہے وہ اُس وقت نہیں آئے گا.کس قدر ہمیں اس وقت حسرت ہوتی ہے جب ہم حدیثیں پڑھتے ہیں کہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوتے اور آپ کی زیارت کا شرف حاصل کرتے خواہ کتنی دور سے زیارت نصیب ہوتی.خدا تعالیٰ نے یہ ہم پر فضل کیا ہے کہ اُس نے ایک ایسا انسان ہم میں بھیجا جسے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل قرار دیا ہے.مگر باوجود اس کے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل مل گیا اصل کو دیکھنے کی ایسی خواہش ہے کہ بعض اوقات تو نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.جب میں صحابہ کرام کی قربانیوں کا ذکر پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی اس لئے کھڑا ہے کہ آپ تک دشمن کا کوئی تیر نہ پہنچے اور تیر وہ اپنے جسم پر کھائے اور جب وہ تیر کھا کر مدہوش ہو جاتا اور گر پڑتا ہے تو ایک دوسرا اُس کی جگہ یہ کہہ کر لے لیتا ہے کہ اس نے تو کافی نعمت حاصل کر لی اب مجھے یہ نعمت حاصل کرنے دیں، تو دل بے تاب ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ۲۰۴۳ نصیب ہوا.اس کے مقابلہ میں دنیا کے مال اور دوسری چیزیں کیا حقیقت رکھتی ہیں.آج سے سو سال بعد دنیا کا جو بہت بڑا بادشاہ ہو اُس میں اگر احمدیت کا ایمان ہوگا تو وہ کہے گا آج بادشاہ ہونے کی بجائے اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈیوڑھی کا دربان ہوتا یا آپ کی بستی میں تنور کی دُکان کرتا تو بہت اچھا ہوتا.پس یہ دنیا کی چیزیں ہیں کیا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں.احمدیت کیلئے مال آئیں گے اور ضرور آئیں گے اس بات کا مجھے ڈر نہیں البتہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ ان اموال کو سنبھالنے والے دیانت دار ملیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت ایک لاکھ روپیہ آنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر اب آٹھ دس لاکھ
انوار العلوم جلد کا ۴۸ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۳) روپیہ سالانہ آ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو بعض اوقات ایسی حالت ہوتی تھی کہ اُس کا خیال کر کے رقت آجاتی ہے.زلزلہ کے دنوں میں جب اعلان کیا گیا کہ عذاب آنے والا ہے تو باہر سے مہمان زیادہ آنے لگے اور کثرت سے لوگ باغ میں ٹھہرے ہوئے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے والدہ کو بلا یا اور کہا آج میرے پاس کچھ ہے نہیں کہیں سے کچھ قرض لے لیں.یہ کہہ کر آپ نماز کیلئے گئے جب واپس آئے تو اندر جا کر دروازہ بند کر لیا اور پھر مسکراتے ہوئے باہر آئے اور والدہ سے فرمایا.میں نے ابھی کہیں سے قرض لینے کیلئے کہا تھا مگر ایک غریب نے جس کے تن کے کپڑے بھی ثابت نہ تھے یہ پوٹلی مجھے دی ہے.میں سمجھا اس میں دھیلے پیسے ہوں گے مگر جب اندر جا کر میں نے اسے کھولا تو اس میں سے دو سو سے زیادہ روپیہ نکلا ہے معلوم نہیں کس حالت میں وہ شخص لایا ہے.کہاں وہ زمانہ اور کہاں یہ.گو ہماری ضرورتیں بڑھ گئی ہیں اور مومن کا خرچ زیادہ اور آمد کم ہی رہتی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا جنون اپنے سر میں رکھتا ہے.جو کچھ اس کے پاس آتا ہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے.ریزرو فنڈ اسی لئے رکھا گیا ہے کیونکہ روپیہ پاس ہو تو خرچ ہو جاتا ہے.اپنی جماعت کے لحاظ سے یہ روپیہ دین کیلئے خرچ ہو جاتا ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے لحاظ سے میری ذات پر خرچ ہوتا ہے مگر خرچ ضرور ہو جاتا ہے تو مومن کے پاس روپیہ جمع نہیں رہتا.ہاں جب ضرورت پیش آئے تو خدا تعالیٰ ضرور دے دیتا ہے اور اس وقت جوایمان بڑھتا ہے وہ دنیا کے خزانوں سے کہاں بڑھ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ورثہ دو اِس سے تمہارا نقصان نہ ہوگا.جب تم سب کے سب اس پر عمل کرو گے تو تمہاری بیٹیاں اگر جائداد میں سے اپنا حصہ لے جائیں گی تو دوسروں کی بیٹیاں تمہارے ہاں لے بھی آئیں گی.پس ورثہ دینے کے متعلق میں پھر تاکید کرتا ہوں.ہمارا تمام سہا را خدا تعالیٰ پر ہے اور اُسی پر ہمیں بھروسہ ہے، اُس پر بدظنی نہ کرو کہ اگر اُس کے حکم پر عمل نہ کرو گے تو نقصان اُٹھاؤ گے.(ماخوذ از رجسٹر فضل عمر فاؤنڈیشن ) ابوداؤد كتاب القضاء باب فى قضاء القاضي اذا اخطأ الوصیت صفحه ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۹ ( مفهوماً)
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹ اُسوه حسنه از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد کا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اُسوہ حسنہ ( تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۳ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشهد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا : - آج جس موضوع پر میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اُس کے متعلق میرا ارادہ تو پہلے سے ہی تھا کہ میں اسے جماعت کے سامنے بیان کروں مگر مزید تحریک مجھے اس طرح ہوئی کہ ایک احمدی نوجوان نے مجھے لکھا کہ ہمارے جلسہ کی تقریروں میں جہاں علمی مضامین بیان کئے جاتے ہیں یا ایسے مضامین پر تقاریر کی جاتی ہیں جو بحث مباحثہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں وہاں جماعت کی تربیت اور اصلاح اخلاق کے متعلق بہت کم مضامین بیان کئے جاتے ہیں اس سے میں نے سمجھا کہ یہ ایک الہی تحریک ہے جو میرے ارادہ کے ساتھ ہی دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ جب میں یہاں آ کر بیٹھا تو ایک غیر مسلم دوست نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں اسی مضمون کے ایک حصہ کے متعلق خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ میں اس کے متعلق کچھ بیان کروں.میں نے ان دونوں تحریکات سے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ یہ مضمون جماعت کے سامنے بیان کر دیا جائے.نمونہ کی مطابقت دنیا کے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کیلئے ایک نمونہ مقرر کیا ہوا ہے جب ہم اُس نمونہ کی نقل ہر کام میں ملحوظ رکھی جاتی ہے کرتے ہوئے کسی چیز کو تیار کر لیتے ہیں تو ہم اپنے کام میں کامیاب سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ہمارے سامنے کوئی نمونہ نہیں ہوتا تو ہم کئی قسم کی
۵۱ انوار العلوم جلد ۷ غلطیاں کر جاتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں روزانہ تجارتی کاموں میں لڑائیاں ہوتی ہیں.ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ دس روپے لو اور مجھے اس کے عوض گندم بھجوا دو.جب گندم والا اُسے گندم بھجوا دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے تو ایسی گندم بھجوانے کے لئے نہیں کہا تھا میں نے تو اور قسم کی گندم کا مطالبہ کیا تھا اور جس نمونہ کے مطابق گندم بھجوانے کا میں نے آرڈر دیا تھا اُس کو تم نے ملحوظ نہیں رکھا.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب سو دالو تو دیکھ کر لوتا کہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو.یوروپین قوموں نے انہی جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے ہر ا قسم کے نمونے اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور انہی نمونوں کے مطابق وہ اجناس کی خرید و فروخت کرتے ہیں.اچھی گندم، اچھی کپاس، اچھی جوار اور اچھے چاولوں وغیرہ کے نمونے انہوں نے شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند کر کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں.اُن مرتبانوں پر وہ تمام کو ائف لکھ دیتے ہیں کہ یہ گندم یا کپاس فلاں قسم کی ہے.فلاں خصوصیات اس کے اندر پائی جاتی ہیں.اسی طرح اس کی صفائی وغیرہ کے متعلق بھی جو شرائط ضروری ہوں وہ بھی اُو پر درج کر دیتے ہیں اور جب وہ اُسی قسم کی جنس کہیں سے خریدنا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ نمونہ موجود ہے ہمیں ایسی گندم یا ایسی جوار یا ایسی کپاس چاہئے.اگر تاجر اس قسم کی گندم یا کپاس مہیا کر دینے کا وعدہ کرے تو گورنمنٹ اپنے ریکارڈ میں اس امر کو محفوظ کر لیتی ہے کہ فلاں فرم کے تاجر سے اس نمونہ کے مطابق گندم یا کپاس لینی ہے.پھر جب وہ گندم یا کپاس مہیا کرتا ہے تو ماہرین فن نمونہ کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ وہ جنس کہاں تک نمونہ کے مطابق ہے.اگر وہ نمونہ کے مطابق ہو اور کسی قسم کا نقص اُس میں نہ ہو تو گورنمنٹ اُس مال کو لے لیتی ہے ورنہ ماہرین فن یہ اندازہ لگا کر کہ نمونہ کے مقابلہ میں کس قدر کمی ہے حرجانہ ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ یہ نمونہ سے فلاں فلاں بات میں اختلاف رکھتی ہے اس لئے ہم اس قدر حرجانہ تجویز کرتے ہیں.غرض یقینی طور پر کسی چیز کے اعلیٰ ہونے کے متعلق تبھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس کوئی نمونہ موجود ہو اور یہ دیکھ لیا جائے کہ جنس نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں.انسانی کاموں میں چونکہ اُتار چڑھاؤ ہمیشہ جاری رہتا ہے اس لئے تھوڑی بہت کمی کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے مگر
انوار العلوم جلد ۷ ۵۲ جب بھی اس قسم کی کوئی کمی ہو وہ لوگ جو حج مقرر ہوتے ہیں فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ کمی اس قابل ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے یا یہ قابل گرفت کمی ہے.اگر تو وہ کہہ دیں کہ یہ کمی ایسی نہیں جو قابلِ توجہ ہو اسے نظر انداز کرنا چاہئے اور اس چیز کو ویسا ہی سمجھ لینا چاہئے جیسے نمونہ ہے تو اُسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ کمی ہو تو پھر اس کمی کے مطابق حرجانہ ڈال دیا جاتا ہے.بہر حال جب کسی چیز کو قبول کیا جاتا ہے تو اُسی صورت میں قبول کیا جاتا ہے جب وہ نمونہ کے مطابق ہو یا اگر نمونہ کے پورے طور پر مطابق نہ ہو تو ایسی معمولی کمی ہو کہ لوگ کہہ دیں کہ یہ چیز ویسی ہی ہے تھوڑی بہت کمی نظر انداز کئے جانے کے قابل ہے.اخلاقی امور میں اللہ تعالیٰ کے جس طرح دنیا کی اور چیزوں کے متعلق نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بغیر نمونہ کے لین دین مکمل انبیاء دنیا کیلئے نمونہ ہوتے ہیں نہیں ہو سکتا اور انسان کو یہ تسلی نہیں ہو سکتی کہ میں نے نمونہ کے مطابق کام کر لیا ہے یا نہیں.اسی طرح اخلاقی کاموں میں بھی کسی نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ نمونہ ہمیشہ ہی انبیاء کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کیا جاتا ہے.جیسا کہ باقی مذاہب بھی اس بات پر متفق ہیں کہ نبیوں کے ذریعہ ہی قوم کی اخلاقی اور روحانی ترقی ہوتی ہے جس جس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اخلاق کے جس نمونہ کی خریداری چاہتا ہے نبی کے ذریعہ وہ نمونہ بھجوا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے ایسا نمونہ چاہئے جو شخص اُس نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنائے گا اُسے قبول کر لیا جائے گا اور جو اُس نمونہ کے مطابق نہیں ہوگا اُسے رد کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ انْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ، اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے اموال لے لئے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کر دے گا.اس آیت میں جو اَنفُس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اُس سے ہر قسم کی جان مراد ہے یا بعض شرائط کے مطابق جان مراد ہے؟ اگر ہر قسم کی جان مراد لی جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ خواہ کوئی منافق شخص ہو یا عملی لحاظ سے کتنا ہی کمزور
انوار العلوم جلد کا ۵۳ أسووحن مومن ہو محض اس وجہ سے کہ اُس نے اپنے منہ سے ایمان کا اظہار کر دیا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی جان کو قبول کر لے اور اُسے جنت میں داخل کر دے مگر ظاہر ہے کہ یہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ محض ایمان کا دعوی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اصل ނ چیز دل کا اخلاص اور وہ عمل ہے جو ایمان کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے.پس جب کہ انفس ہر قسم کی جان مراد نہیں لی جاسکتی تو کوئی نہ کوئی معیار ایسا ہونا چاہئے جس کے مطابق لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ خدا تعالیٰ کسی قسم کی جان قبول فرمائے گا تا کہ اُس معیار اور اُس نمونہ کے مطابق لوگ اپنی جانوں کو بنانے کی کوشش کریں اور وہ سمجھ سکیں کہ اگر اس نمونہ کے مطابق ہماری جان ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرمالے گا اور اگر نہیں ہوگی تو اُسے رو کر دے گا.یہ نمونہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے زمانہ کا نبی ہوتا ہے.آدم کے زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جانہیں خریدیں تو مطلب یہ تھا کہ سب لوگ آدم کے مشابہ ہو جائیں.گویا آدم کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا کہ ہم یہ نمونہ تمہاری طرف بھیج رہے ہیں اس کے مطابق جو جانیں ہونگی وہ ہم قبول کر لیں گے.پس آدم کے زمانہ میں جو جان آدم کے مطابق تھی وہی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی، دوسری کوئی جان اُس نے قبول نہیں فرمائی.نوح کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ نوح کے مطابق اپنی جانیں لے آؤ میں انہیں قبول کرلوں گا.ابراہیم کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ ابراہیم کے نمونہ کے مطابق اپنی جانیں لے آؤ میں تمہیں قبول کرلوں گا.موسی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ موسی جیسے نفس میرے سامنے لے آؤ میں اُن نفوس کو قبول کرلوں گا.اسی طرح ہندوستان میں اُس نے حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو بھیج کر اعلان فرما دیا کہ یہ لوگ میرے نمونہ ہیں ان کے مشابہہ اپنے آپ کو بنالو، میں تمہیں نجات دے دوں گا.ایران میں اعلان فرما دیا کہ ہم زرتشت کو ایک نمونہ کے طور پر بھیج رہے ہیں اس کے مشابہہ اپنی جانوں کو بنا لو میں تمہیں جنت دینے کیلئے تیار ہوں.عراق کے علاقوں میں اعلان فرما دیا کہ ایوب نبی کی طرح اپنے آپ کو بنا لو میں تم سے راضی ہو جاؤنگا.غرض یہ سلسلہ آدم سے چلا اور چلتا چلا گیا.کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ نے داؤڈ کو نمونہ بنایا ،
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴ کسی زمانہ میں سلیمان کو نمونہ بنایا، کسی زمانہ میں اسحاق اور اسماعیل کو نمونہ بنایا اور کسی زمانہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کو نمونہ بنایا اسی طرح آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک نفس لے آؤ تو میں تمہیں نجات دے دونگا.غرض خدا تعالیٰ نے ایک طرف خریداری کا اعلان کر دیا اور دوسری طرف ایک نمونہ بھی بھیج دیا.جیسے مختلف ایسوسی ایشنز میں مختلف نمونے رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس ایسوسی ایشن کے ساتھ اگر سو دامے کرنا ہے تو اس کے تجویز کردہ نمونہ کے مطابق جنس لے آؤیا اگر نمونہ کے مطابق نہیں تو اس کے قریب قریب ضرور ہو.مگر اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا رحیم وکریم ہے اس لئے اُس نے دُنیوی ایسوسی ایشنز سے مختلف طریق رکھا ہوا ہے.یہ ایسوسی ایشنز قریب کے اور معنی لیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ قریب کے اور معنی لیتا ہے.یہ تو قریب کے یہ معنی لیتی ہیں کہ ہیں کی جگہ ہم پونے میں بھی قبول کر لیں گی مگر اللہ تعالیٰ چونکہ بہت ہی رحیم و کریم ہے اس لئے وہ ہیں کی جگہ سات آٹھ بھی قبول کر لیتا ہے اور اس کے نزدیک یہ بھی قریب قریب کے حکم میں ہی ہوتا ہے.صرف ایک حد تک مشابہت اس چیز میں موجود ہونی چاہیئے گویا ایک حد تک جب اعمال میں اصلاح ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو قبول فرما لیتا ہے اور کہتا ہے یہ چیز بھی ویسی ہی ہے.مسئلہ شفاعت کی حقیقت یہ جو نمونہ کا مسئلہ ہے اسی کو مسئلہ شفاعت بھی کہتے ہیں.لوگ اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے شفاعت پر بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ شفاعت کا مسئلہ ایسا ہی ہے جیسے کاٹن ایسوسی ایشنز یا گرین ایسوسی ایشنز اپنی طرف سے بعض لوگوں کو نمائندہ مقرر کر دیتی ہیں جو آرٹ مینز کہلاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ گندم نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں یا روئی کا جو نمونہ دکھایا گیا تھا اُس میں اور مہیا کردہ روئی میں کتنا فرق ہے.یا کھانڈ کا جو نمونہ دکھایا گیا تھا اُس کے مطابق کھانڈ مہیا کی گئی ہے یا نہیں اور پھر جو بھی وہ فیصلہ کرتے ہیں اُس کو قبول کر لیا جاتا ہے.اگر تو وہ کہتے ہیں کہ نمونہ میں اور مہیا کر دہ چیز میں بہت بڑا فرق ہے تو اُسے رڈ کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ کہتے ہیں یہ چیز نمونہ سے ملتی جلتی ہے تو اُسے قبول کر لیا جاتا ہے.یہی اصول اللہ تعالیٰ نے عالم روحانیات میں
انوار العلوم جلد کا ۵۵ رکھا ہوا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے جو نمونہ رکھا ہے وہ بولنے والا ہے.دنیا میں کپاس بول کر نہیں کہتی کہ فلاں کپاس میرے جیسی ہے اسی لئے کپاس کی طرف سے کوئی آدمی کھڑا کیا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ یہ کپاس نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں.گندم یا جوار نہیں کہتی کہ فلاں گندم یا جوار میرے جیسی ہے اسی وجہ سے گندم یا جوار کی طرف سے ایک شخص مقرر کیا جاتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ گندم نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں.مگر اللہ تعالیٰ دنیا میں جو نمونے بھیجتا ہے وہ بولنے والے ہوتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہر قوم کا نبی آئے گا اور وہ اپنی اپنی قوم کو دیکھے گا اگر تو وہ کہہ دے گا کہ یہ میرے جیسے ہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو قبول کر لے گا اور فرمائے گا کہ گو ان میں کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن چونکہ انہوں نے نبی کے نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کی تھی اس لئے یہ بھی نمونہ کے قریب قریب ہیں.لیکن اگر نبی یہ کہے گا کہ فلاں شخص مجھ سے نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل نہیں کرے گا یے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بھی یہی مفہوم ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں اس لئے آپ کی شفاعت یقیناً سب نیبوں کی شفاعت سے زیادہ ارفع اور زیادہ اعلیٰ ہوگی.آپ قیامت تک تمام زمانوں کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں اس لئے قیامت کے دن آپ لوگوں کے قلوب کو دیکھیں گے کہ انہوں نے کہاں تک محمدی نقش کو قبول کیا ہے.اگر اُن میں کچھ کمزوریاں، کچھ غلطیاں اور کچھ کو تا ہیاں پائی جاتی ہونگی لیکن بحیثیت مجموعی انہوں نے کوشش کی ہوگی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بن جائیں تو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے قلوب کو دیکھیں گے تو فرما ئیں گے یہ بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم تمہاری اس شفاعت کی وجہ سے ان کو جنت میں داخل کرتے ہیں.شَفَع لغت میں جوڑے کو کہتے ہیں.پس شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ یا اللہ ! یہ بھی میرا جوڑا ہے، یہ بھی میرا جوڑا ہے ، یہ بھی میرا جوڑا ہے پس جن لوگوں کی کمزوریوں کے باوجود اُن کا رسول قیامت کے دن یہ کہہ دے گا کہ ان کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہیں، انہوں نے نیکی میں بڑھنے کی کوشش کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ہے ، انہوں نے میرے نمونہ پر چلنے کی سعی کی ہے اور گو ان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر پھر بھی یہ میرے مشابہہ ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے متعلق اپنے رسول کی شفاعت کو منظور کر لے گا اور انہیں نجات یافتہ لوگوں میں داخل کر دے گا.کامل نجات شفاعت کے بغیر ناممکن ہے یہ شفاعت کا مسئلہ ایسا لطیف اور ایسا کے ہے ہی اعلیٰ درجہ کا مسئلہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اس پر اعتراض کیا جاتا دنیا کو یہ محسوس کرنا چاہئے تھا کہ کامل نجات شفاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں.آخر ساری دنیا کو یہ ماننا پڑے گا کہ انبیاء اسی لئے آئے کہ لوگ اُن کے نمونہ کی اقتداء کریں.ہندو بھی تسلیم کریں گے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ کرشن اور رام چندر کے نمونہ پر چلیں اور انہیں کے رنگ میں رنگین ہو جائیں.مگر کیا ہندو یہ ماننے کیلئے تیار ہیں کہ سارے ہندو کرشن اور رام چندر جیسے بن سکتے ہیں؟ اگر نہیں بن سکتے تو تسلیم کرنا پڑیگا کہ وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی کہ ہم کرشن جیسے بن جائیں ، جنہوں نے اخلاص اور محبت کے ساتھ اس راہ میں جدوجہد کی، جنہوں نے پورا زور لگایا کہ کرشن کی خوبو اور کرشن کے اخلاق ان کے اندر سرایت کر جائیں اُن میں اگر کچھ خامیاں رہ گئی ہوں تو عقلِ سلیم چاہتی ہے کہ حضرت کرشن قیامت کے دن اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہیں کہ اے خدا انہوں نے مجھ جیسا بننے کی پوری کوشش کی تھی اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل مجھ سے ملتے جلتے ہیں کچھ تھوڑی سی کمی باقی ہے، میں شفاعت کرتا ہوں کہ ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ اُن کی شفاعت کو قبول کر لے.یہی وہ مسئلہ شفاعت ہے جو اسلام کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت کرشن کہیں گے کہ یہ بھی مجھ جیسے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا! ہم نے انہیں نجات دے دی.حضرت رام چندر فرما ئیں گے یہ بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا.جب یہ رام چندر جیسے ہیں تو میں انہیں کیوں نہ بخشوں.غرض اسی طرح ہر قوم کا نبی آئے گا اور جن جن لوگوں کے متعلق اس قوم کا نبی یہ کہے گا کہ یہ مجھ سے ملتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن سب کو نجات دے دے گا اور فرمائے گا یہ موسی جیسے ہیں ، یہ ابراہیم جیسے ہیں، یہ عیسی جیسے ہیں، یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہیں ، ان کو
انوار العلوم جلد ۷ ۵۷ نجات دے دو.پس بغیر شفاعت کا مسئلہ ماننے کے انسانی نجات قطعی طور پر ناممکن ہے اسی صورت میں نجات کا امکان سمجھا جا سکتا ہے جب کہ دنیا میں جو لوگ نیک نیتی اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اُن کی نیک نیتی اور اخلاص کو عمل کا درجہ دے دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اُن کی نیک نیتی اور اُن کا اخلاص ہی عمل کا قائمقام ہے.دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے دو سپاہی لڑنے کے لئے جاتے ہیں.اُن میں سے ایک آخر تک زندہ رہتا اور فتح پا کر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے کو پہلے دن ہی گولی لگتی ہے اور وہ مر جاتا ہے.اب کیا پہلے کو ملک کا کم خیر خواہ سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کو زیادہ خیر خواہ سمجھا جاتا ہے؟ جو پہلے دن ہی گولی لگنے سے مر گیا اُس نے کب کہا تھا کہ مجھے گولی ماردو اور دوسرا جو آخر تک زندہ رہا اُس نے کب کہا تھا کہ مجھے گولی نہ مارو.اسی طرح لوگ مختلف ماحول میں رہتے اور اُس ماحول کے زیر اثر نیکی میں کم و بیش ترقی کرتے ہیں.کوئی شخص نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ نیکی میں ترقی کر جائے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کے لئے سارا زور صرف کر دیتا ہے لیکن بعض دفعہ موت اُسے روحانیت میں ترقی کرنے کی اجازت نہیں دیتی.بعض دفعہ گرد و پیش کے حالات اُسے بڑھنے کا موقع نہیں دیتے اور وہ اُسی حالت میں مر جاتا اور اُس اعلیٰ مقام کو حاصل نہیں کر سکتا جو ویسا ہی ایک دوسرا شخص حاصل کر لیتا ہے.اسی طرح بعض دفعه خلقی کمزوریاں انسانی ترقی کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں.ہر شخص کا دماغ ایک جیسا نہیں ہوتا.ایک شخص کا حافظہ تیز ہوتا ہے اور قوت فکر اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے مگر دوسرے کا ذہن گند ہوتا ہے.ایسی حالت میں جب یکساں کوشش اور جدو جہد کرنے کے باوجود ایک شخص میں کوتا ہی یا کمی پائی جائے گی تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی خلقتی کمزوری کو مدنظر رکھے گا اور قیامت کے دن فرمائے گا کہ گو اس میں کمی پائی جاتی ہے مگر چونکہ اُس نے اپنی طرف سے پوری جدو جہد کی اس لئے یہ بھی ویسا ہی ہے جیسے دوسرا شخص.مثلاً ایک شخص کا حافظہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہے وہ دو مہینے میں سارا قرآن حفظ کر لیتا ہے اور دوسرا شخص ایسا ہے جو دو مہینے میں ایک رکوع بھی پورے طور پر یاد نہیں کر سکتا.اب فرض کرو دونوں کوشش کرتے ہیں اور اُن میں سے ایک تو حافظ بن جاتا ہے اور دوسرا حافظ نہیں بن سکتا تو بیشک قیامت کے دن اُن میں سے صرف ایک شخص حافظوں کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸ صف میں کھڑا کیا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ دوسرے نے بھی تو حافظ بننے کی پوری کوشش کی تھی.پس گو وہ حافظ نہ بن سکا لیکن اُس کی اس کوشش کی وجہ سے اُس کے حق کو کیوں زائل کیا جائے.پہلا شخص اگر حافظ بنا تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کا دماغ ایسا اعلیٰ درجہ کا بنایا تھا کہ اُس نے دو مہینے میں قرآن حفظ کر لیا اور دوسرا شخص اگر حافظ نہ بنا تو اس لئے کہ اُس کا دماغ کمزور تھا اور وہ دو مہینہ میں ایک رکوع بھی حفظ نہیں کر سکتا تھا.مگر بہر حال چونکہ دونوں نے ایک جیسی کوشش کی ہوگی اس لئے ضرور ہے کہ ان دونوں کو انعام بھی ایک جیسا ملے.پس اگر ایک شخص اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے حافظوں میں شمار کیا جائے گا تو دوسرا شخص شفاعت کی وجہ سے حافظ سمجھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ چونکہ اس نے حافظ بننے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اس لئے اسے بھی حافظ ہی سمجھ لو.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بندوں کی نجات کا ایک ذریعہ یہ بنایا ہے کہ جب کوئی بندہ اخلاص اور نیک نیتی سے کوشش کرتا ہے مگر مجبوریوں یا پیش آمدہ حالات کی وجہ سے اعلیٰ مقام کو نہیں پا سکتا تو قیامت کے دن اُس قوم کا نبی جس کو دنیا میں نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا جب اُسے دیکھے گا تو کہے گا کہ یا اللہ ! یہ بھی میرے جیسا ہے اسے نجات دے دی جائے ، پس اللہ تعالیٰ اُسے نجات دے دے گا.نجات کا اصل گر یہی ہے کہ ہر شخص کا پس نجات کا اصل گر یہ ہے کہ انسان اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو یا اس عمل اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو قدر آپس میں مشابہت پائی جاتی ہو کہ نبی اُسے دیکھ کر کہہ سکے کہ یہ مجھ سے ملتا جلتا ہے اسے بھی نجات ملنی چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ آدم کے زمانہ میں نجات کا اصل مستحق آدم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب وہی شخص جنت میں جائے گا جو آدم سے ملتا جلتا ہوگا.جتنے لوگ آدم بنتے چلے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوتے چلے جائیں گے.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی آدم کی چھوٹی تصویر بنے اور کوئی آدم کی بڑی تصویر بنے ، کوئی چھوٹا آدم بنے اور کوئی بڑا آدم بنے مگر بہر حال اُس زمانہ میں آدم بننا ضروری تھا.جب تک کوئی شخص چھوٹا آدم نہ بن جاتا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا
انوار العلوم جلد کا ۵۹ تھا.اس کے بعد اگر نوح دوسرے نبی ہوئے ہیں تو پھر نوح اس بات کا حق رکھتا تھا کہ لوگ اُس کے مشابہہ ہو جائیں.کوئی چھوٹا نوح بن جائے اور کوئی بڑا نوح بن جائے مگر بہر حال نوح بننے کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں تھی.اسی طرح کرشن اور رام چندر کے زمانہ میں خدائی فیصلہ یہ تھا کہ جو لوگ کرشن اور رام چندر کے مشابہہ ہوتے چلے جائیں گے انہیں اس مشابہت کی وجہ سے قبول کر کے فضل اور رحمت کے دروازے میں داخل کر دیا جائے گا.پھر جب وہ آخری زمانہ آیا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جنت میں جائیں گے اور یا پھر وہ لوگ جائیں گے جن کو خدا محمد کا نام دے دے گا.ان میں وہ لوگ بھی شامل ہونگے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل بروز ہونگے ، وہ لوگ بھی شامل ہو نگے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جزوی بروز ہونگے ، وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے اخلاص اور محبت کے ساتھ اپنے دل پر نقش محمدی پیدا کرنے کی کوشش کی ، مگر اس کوشش میں انہیں پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی.اُنہوں نے اپنے آئینہ قلب پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تو اُتار لی مگر وہ تصویر ایسی مصفی اور اعلیٰ درجہ کی نہ تھی جیسی مصفی اور اعلیٰ درجہ کی ہونی چاہئے تھی.ایسے تمام لوگوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شفاعت کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ ! یہ بھی مجھ سے ملتا جلتا ہے، یا اللہ ! وہ بھی مجھ سے ملتا جلتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا! ہم انہیں بھی جنت میں بھیج دیتے ہیں.غرض ہر نبی کے زمانہ میں نجات کے اصل مستحق اُس نبی کے بروز ہوتے ہیں چاہے وہ ادنی بروز ہوں اور چاہے اعلیٰ بروز ہوں.چنانچہ انبیاء کے نمونہ ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا فَكَيْفَ اذا جتنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ سے یعنی اُس دن لوگوں کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر جِتُنَا اُمت کے سامنے اُن کے نبی کو جسے نمونہ کے طور پر بھیجا گیا تھا پیش کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے یہ نمونہ تمہاری طرف بھیجا تھا.اب تم جو کہتے ہو کہ ہمیں جنت میں داخل کیا جائے، تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے آپ کو کہاں تک اس نمونہ کے مطابق بنایا ہے.اگر تم اس نمونہ کے مطابق ہمیں نظر آئے تو تمہیں قبول کر لیا جائے گا اور اگر تم اس نمونہ کے مشابہہ نظر نہ آئے تو ہم تمہیں ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ صاف کہہ دیں گے کہ یہ سودا ہمیں منظور نہیں اور تم رد کر دئیے جاؤ گے.اسی طرح فرماتا وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ ہے.من أنفُسِهِمْ کے یعنی اُس وقت کا خیال کرو جب ہم ایک دن تمام قوموں میں سے ایک ایک نبی کھڑا کریں گے جو نمونہ ہو نگے اُن تمام اقوام کے لئے اور اُن سے کہیں گے کہ اس نمونہ کے مطابق ہمیں جنس دیتے چلے جاؤ.صلى الله سول کریم ﷺ کے متعلق قرآنی اعلان کے متعلق قرآنی اعلان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ خود آپ کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- وجاهدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِه ، هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ في الدين من حرج ، ملة ابنكُمْ إبراهيم، هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ : مِن قَبْلُ وَ في هُذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء على الناس فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّعُوةَ وَ اعْتَصِمُوا بِاللهِ ، هُو مؤليكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ فرماتا ہے اے لوگو ! اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچنے اور اُس کی مشابہت اختیار کرنے کیلئے پوری کوشش کرو اور جہاں تک زور چل سکتا ہے پورا زور لگا دو - هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِن حَرَج اللہ تعالیٰ نے تم کو بڑی برتری اور بزرگی بخشی ہے اور ایسے احکام نازل کئے ہیں جن پر عمل کرنا کچھ بھی مشکل نہیں.اگر تم ویسا ہی نمونہ بننا چاہو جیسے تمہارا نبی تھا تو بن سکتے ہو.اس میں کوئی مشکل امر نہیں ملة ابنكُمْ إبراهيم، ہم ابراہیمی طریقہ پر تم کو چلا رہے ہیں جس میں سہولت اور نرمی تھی اور خدا تعالیٰ تمہیں ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے پاک کرنا چاہتا ہے مگر ختی کرنا نہیں چاہتا.هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ : مِن قَبْلُ وَني هذا وہ کیا طریق تھا.وہ طریق یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اُمتوں میں بھی اور اس اُمت میں بھی تمہارا نام مسلم رکھا ہے یعنی وہ جو اپنے آپ کو کامل طور پر خدا تعالیٰ کے سپر د کر دے اور اس طرح نبی کا نمونہ اختیار کرتے ہوئے خود بھی نمونہ بن جائے.لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ اور ہم نے -
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۱ یہ اس لئے کیا تا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے نمونہ کے طور پر ہوں وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلى النا میں اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اختیار کر کے باقی سب دنیا کیلئے اپنے اپنے دائرہ میں نمونہ بن جاؤ.نماز اور زکوۃ کی ادائیگی فرماتا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اور تم باقی سب دنیا کیلئے نمونہ بن جاؤ تو فَاقِيمُوا الصلوة تم کو چاہئے کہ عبادت کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خاص طور پر اپنی برکات سے حصہ دے اور تم پر اپنے قُرب کے انوار نازل کرے.یہ امر مسلمہ ہے کہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کے قریب ہوں وہ ایک دوسرے کی صفات اور اس کے خواص کو اخذ کر لیتی ہیں.لوگ کہتے ہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ لیتا ہے.اسی طرح پُرانے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے گو ہم نے اس کا تجربہ نہیں کیا کہ شہد اور ایلوہ کو پاس پاس رکھیں تو شہد میں کڑواہٹ کا اثر آ جاتا ہے.علم الحیوانات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ پرندے جس قسم کے درختوں میں رہتے ہیں ویسا ہی رنگ اُن کے جسم اختیار کر لیتے ہیں.پھولوں میں رہنے والی تیتر یاں کے پھولوں کی مناسبت سے اُن جیسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں.سبز پتوں میں بیٹھنے والے طوطے سبز رنگ کے بن جاتے ہیں.اسی طرح جس قسم کے درخت کے پتے ہوں ویسی ہی سبزی یا نیلا ہٹ پرندوں کے پروں میں آ جاتی ہے.دریاؤں میں رہنے والی مچھلیاں دریا کی مناسبت اور ریت کی چمک کی وجہ سے سفید رنگ کی ہوتی ہیں.غرض یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس قسم کے ماحول میں کوئی چیز رہتی ہے اُس کے نقش کو قبول کر لیتی ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم نے اللہ کا نقش قبول کرنا ہے تو فَاقِيمُوا الصلوۃ تمہارا کام یہ ہے کہ تم نمازیں قائم کرو.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز خدا اور بندے کے درمیان ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتی ہے پس اس کے ذریعہ وہ الوہیت کا رنگ جو نبی کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے تم پر خوب چڑھ جائے گا اور تم بھی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ گے.و أتُوا الزَّكوة پھر اس کے ساتھ ہی ہم تمہیں یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ جہاں ایک طرف
۶۲ انوار العلوم جلد ۱۷ تم لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قرب کے مواقع بہم پہنچاؤ خود بھی نمازیں پڑھو اور دوسروں کو بھی نمازیں پڑھاؤ تا کہ تم پر خدا اور اُس کے رسول کا رنگ چڑھے وہاں اتوا الزكوة اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ اُسی کو اپنا بنا تا ہے جو اُس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے.مخلوق کی خدمت سے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول دنیا میں بہترین ذریعہ کسی کی محبت حاصل کرنے کا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے کسی عزیز سے محبت کی جائے.ریلوے سفر میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے پاس بیٹھے ہوئے دوست کے بچہ کو ذرا پچکار دیں یا اُسے کھانے کیلئے کوئی چیز دے دیں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اس کا باپ اس سے محبت سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے کہ گویا وہ اس کا بہت پرانا دوست ہے.تو فرماتا ہے اتوا الزحوۃ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اُس کا پائیدار ذریعہ یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت کرو اور انہیں آرام پہنچانے کے لئے حتی المقدور اپنے تمام ذرائع عمل میں لاؤ.جب تم ایسا کرو گے تو خدا کہے گا کہ چونکہ یہ میرے پیاروں کی خدمت کرتا ہے اس لئے اسے بھی میرے پیاروں میں داخل کر لیا جائے.اس کی تشریح بعض احادیث سے اس طرح معلوم ہوتی ہے ( گوانجیل میں بھی اس کا ذکر آتا ہے ) کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو! میں بیمار تھا مگر تم لوگ میری عیادت کیلئے نہ آئے.تب بندے کہیں گے اے ہمارے رب ! تو کس طرح بیمار ہوسکتا تھا تو تو ہر قسم کے نقائص سے منزہ ہے.تیرا کام تو لوگوں کی بیماریوں کو دُور کرنا ہے تو خود کس طرح بیمار ہو سکتا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب میرے بندوں میں سے بعض لوگ بیمار تھے اور تم اُن کی عیادت کے لئے نہ گئے تو گویا میں ہی بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی.پھر اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوں سے فرمائے گا کہ ایک دن میں سخت بھوکا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.وہی بندے پھر عرض کریں گے کہ اے خدا! تو تو بھوک اور پیاس سے پاک ہے یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ تجھے بھوک لگتی اور تو پیاس سے تکلیف اُٹھاتا.تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دنیا میں میرے بعض بندے ایسے تھے جو بھو کے اور پیاسے تھے جب تم نے اُن میں سے ایک ادنیٰ سے ادنی بندے کی بھوک اور پیاس کو دور کرنے کی بھی کوشش نہ کی تو گویا میری بھوک اور میری پیاس کو ہی دور کرنے کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۳ کوشش نہ کی.پھر خدا تعالیٰ اُن سے کہے گا دیکھو! میں ایک دن ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا.تب بندے کہیں گے اے خدا! یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تو نگا ہو.تو تو خود سب لوگوں کو لباس عطا فرماتا ہے.تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں میں سے بعض لوگ ننگے پھرتے تھے مگر تم نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہ کی.اگر تم ایک ادنیٰ سے ادنی بندے کا نگ ڈھانکنے کی طاقت رکھتے تھے مگر تم نے اس کا تنگ نہ ڈھانکا تو گویا میں ہی ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا ہے اس حدیث سے أتوا الزکوۃ کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے.یعنی میرے پیاروں سے پیار کرو.جب تم ایسا کرو گے تو میرا رنگ تم پر چڑھ جائے گا اور تم بھی میری صفات اپنے اندر جذب کر سکو گے.کوشش کرو کہ تم میں اور تمہارے پھر فرماتا ہے.واشتیا پالتو یہ واعْتَصِمُوا بِالله دوگر ہم نے تم کو روحانی ترقی کے بتائے خدا میں کوئی مغائرت باقی نہ رہے ہیں ان کو اختیار کرو اور اللہ تعالی کو اس طرح چمٹ جاؤ جس طرح بچہ اپنی ماں کو چمٹ جاتا ہے تا کہ خدا تمہارے آگے بھی ہو اور پیچھے بھی ہو.تمہارے دائیں بھی ہو اور تمہارے بائیں بھی ہو تا کہ جب کوئی شخص تم پر حملہ کرے تو اُس کے حملے کا وار تم پر نہ پڑے بلکہ خدا پر پڑے.عصمت کے معنی ہوتے ہیں محفوظ ہو جانا اور اعتصام کے معنی ہوتے ہیں کسی کے ذریعہ سے محفوظ ہو جانا.پس واعْتَصِمُوا بِاللہ کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو ہر قسم کے حملوں سے بچاؤ اس طرح کہ تم میں اور تمہارے دشمن میں خدا حائل ہو جائے اور جب وہ تم پر حملہ کرنے لگے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ اُس نے تم پر حملہ کیا ہے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اُس نے خدا پر حملہ کیا ہے.گزشتہ عالمگیر جنگ میں ایک شخص نے غلطی سے لفافہ پر اُلٹا ٹکٹ لگا دیا تھا.اس پر مقدمہ چلا اور مجسٹریٹ نے اُسے یہ کہتے ہوئے سزا دی کہ اس نے بادشاہ کی ہتک کی ہے حالانکہ بظاہر اُس نے بادشاہ کی ہتک نہیں کی تھی صرف ٹکٹ اُلٹا لگا دیا تھا.تو فرماتا ہے واعْتَصِمُوا بِاللهِ تم خدا تعالیٰ کے اس طرح ہم شکل بن جاؤ کہ جب تم پر کوئی شخص حملہ کرے تو خدا تعالیٰ یہ سمجھے کہ وہ جملہ مجھ پر کیا گیا ہے اور وہ تمہیں بچانے کیلئے خود آگے آجائے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ
انوار العلوم جلد کا ۶۴ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کی اقتداء کرتے کرتے ایسے بن جاؤ کہ خدا تمہارے دلوں میں اُتر پڑے.تمہارے ہاتھ اُس کے ہاتھ ، تمہارے پاؤں اُس کے پاؤں اور تمہاری زبان اُس کی زبان بن جائے.تم اپنے نفس سے کھوئے جاؤ اور خدا کے ہاتھ کا ایک ہتھیار بن جاؤ تا کہ تم میں اور تمہارے خدا میں کوئی دُوئی اور مغائرت باقی نہ رہے.مؤليكم وہ تمہارا مولیٰ ہے.جب تم اُس کے مشابہ ہو جاؤ گے تو وہ تمہارا محافظ اور نگران ہو جائے گا اور پھر وہ تم سے ایسی محبت کرے گا اور تمہاری ترقی کے لئے ایسے ایسے راستے کھولے گا کہ تم اُس کے ظل کہلانے لگ جاؤ گے، اُس کی شکل کہلانے لگ جاؤ گے.المولى ونعم النَّصِيرُ.اب تم بتاؤ کہ ایسا آقا تمہیں اور کون ملے گا جو غلام سے اتنی محبت کرے کہ اُسے آخر اپنے جیسا بنالے.مسلمانوں کو ہدایت کہ وہ پھر قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ انہیں اُن سب نمونوں کی اتباع کرنی چاہئے تمام انبیاء کے نمونہ پر چلیں جو پہلے گزر چکے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وتلكَ حُجَّتُنَا اينها را براهِيمَ عَلى قَوْمِهِ ، نَرْفَعُ دَرَجَبٍ مِّن نَّشَاءُ ان رَبَّكَ حَكِيمُ عَلِيمُ - وَوَهَبْنَا لَهُ اِشحَق وَيَعْقُوبَ ، كُلَّا هَدَيْنَاء b ونُوحًا هَدينَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَن وَآتُوبٌ ويُوسُفَ وَمُوسَى وَهَرُونَ، وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا ويحيى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّلِحِينَ - وَاسْمَعِيلَ وَالْيَسعَ رَيُونُسَ ولُوطَاء وَ كُلَّا فَضَّلْنَا عَلَى العلمينَ - وَمِن أبائِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَ هُوَ انِهِمْ واجتبيهُمْ وَهَدينَهُمْ إلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - ذلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِي يه مَن يَشَاءُ مِن عِبَادِهِ ، وَلَوْ اَشْرَكُو الحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ أولئك الذين اتهم الكتب والعلم والنُّبُوَّةَ ، فَإِن يَكْفُرُيما هؤلاء فَقَدْ وَكَلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَفِرِينَ - أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى
انوار العلوم جلد ۱۷ اللهُ فَيَهُدُهُمُ اقتدة، قُلاَ اسْلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًاء إنْ هُوَالا ذكرى لمعلمين اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ ہمارے بہت سے انبیاء گزرے ہیں جن کی بڑی شان تھی.اُن انبیاء میں نوح بھی تھے، ابراہیم بھی تھے ، اسحاق بھی تھے ، یعقوب بھی تھے ، داؤڈ بھی تھے ، سلیمان بھی تھے، ایوب بھی تھے ، یوسف بھی تھے ، موسیٰ بھی تھے ، ہارون بھی تھے.اسی طرح زکریا ، یتی، عیسی ، الیاس ، اسماعیل ، الیسع ، یونس اور لوط وغیرہ سب ہمارے مقربین میں شامل تھے یہ اور ان کے آباء اور ان کی نسلوں اور رشتہ داروں میں سے بہت سے لوگ تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کیلئے چن لیا.أُولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ مسلمان! یہ سارے کے سارے وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی.فيهديهم اقتده ، پس اب ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ان ساروں کی ہدایت کے پیچھے چل.ان آیات سے ظاہر ہے کہ ایک سچے مسلمان کو خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ تمام انبیاء کی ہداتیوں کے پیچھے چلے اور سب انبیاء کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھے.مگر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے نہ تو تمام گزشتہ انبیاء کی تصویر میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر ہم اپنی تصویر میں اُن کے مطابق بنا سکیں اور نہ اُن کی تعلیمیں اپنی اصل صورت میں موجود ہیں، نہ وہ اخلاقی احکام موجود ہیں جو انہوں نے دیئے، نہ اُن کے نمونے اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے پائے جاتے ہیں اور ایک ایسی دقت ہے جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء کی ہدایتوں اور اُن کے نمونوں کی اتباع کی جائے اور دوسری طرف ہمارے سامنے اُن میں سے کسی نبی کا مکمل نمونہ موجود نہیں کسی نبی کی مکمل تعلیم موجود نہیں.پس ہم اُن کی اقتداء کریں تو رکس طرح کریں؟ اس سوال کا جواب انہی آیات کے آگے چل کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وهذا كتب اللهُ مُبرَكَ مُصَوقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيو ولتنذر أم القرى وَ مَنْ حَولَهَا چونکہ انسانی فطرت میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ گزشتہ انبیاء کی جو تعلیمیں تھیں اور جن تعلیموں کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں سے نمونہ طلب کرتا ہے وہ تو اب موجود نہیں ہیں پھر اس کا کیا علاج ہو.اس لئے فرماتا ہے اس کا علاج آسان ہے.هذا كتب ان الله مبرک یہ وہ کتاب ہے جس میں سب علوم جمع کر دیئے گئے ہیں.
۶۶ انوار العلوم جلد ۷ مبرك كا لفظ بركة سے نکلا ہے اور بركة عربی زبان میں نیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش کے بعد اردگرد کا پانی بہہ کر جمع ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ کتاب ایک تالاب کے طور پر ہے.چنانچہ جس قدر گزشتہ نبیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی بارشیں ہوئی ہیں وہ سب بہہ کر اس تالاب میں جمع ہو گئی ہیں.پس آب تمہیں الگ الگ کسی پہلی الہامی کتاب پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ الگ الگ پہلے انبیاء کے نمونہ کو دیکھنے کی احتیاج ہے.تم ہمارے اس قرآن کو دیکھ لو جو کچھ ہم نے پہلے انبیاء کو دیا وہ سب کچھ اس میں موجود ہے.اور جو کچھ پہلے انبیاء نے نمونہ دکھا یا وہ سب کا سب نمونہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں موجود ہے.ہم تم کو کہتے ہیں کہ تم ابراہیم جیسے بنو.تم کہ دو گے کہ ہمیں پتہ نہیں ابراہیم کو کیسا بنایا گیا تھا.یہ صحیح ہے کہ تمہیں پتہ نہیں ابراہیم کیسا بنایا گیا تھا مگر آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ وہ کیسا بنایا گیا تھا.فرماتا ہے ہم نے اُسے جیسا بھی بنایا تھا اُس کا قرآن میں مکمل ذکر موجود ہے.ہم تمہیں کہتے ہیں تم نوح جیسے بنو تم کہہ دو گے ہمیں کیا معلوم کہ نوح کیسا تھا.سو آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ ہم نے نوح کو جیسا بنایا تھا اُس کا پورا ذ کر قرآن کریم میں موجود ہے.اسی طرح ہر نبی جو آج تک اس دنیا میں گزرا ہے اُس کی تعلیم کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور اُس کے اُن اخلاق کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جو اُس نے دکھائے.پس یہ کتاب مبارک ہے.یعنی ایک ایسی نشیب زمین کی طرح ہے کہ جو الہام نوح پر ہوا وہ بھی اِس میں جمع ہے.جو الہام موسٹی پر ہو ا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الهام رام چندر پر ہو ا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام عیسی پر ہوا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام کرشن پر ہوا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام زرتشت پر ہوا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام ایوب پر ہو اوہ بھی اِس میں جمع ہے اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ پر جونئی وحی نازل ہوئی وہ بھی اس میں جمع ہے.گویا یہ ایک ایسا تالاب ہے جس میں تمام چوٹیوں کا پانی اردگرد سے آ کر جمع ہو گیا ہے اور یہ کتاب جامع ہے سب نبیوں کے کمالات کی.اس پر چل کر گویا سب نبیوں کی اتباع ہو گئی.
انوار العلوم جلد ۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گزشتہ انبیاء کی تعلیموں کا سوال تو اس طرح حل کر دیا.اب سوال ہو سکتا تھا کہ ہم اُن انبیاء متابعت کی عظیم الشان برکات کا نمونہ کہاں تلاش کریں.سو اس سوال کا حل بھی قرآن کریم نے پیش کر دیا کہ بالکل آسان بات ہے تم محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی نقل کرو.تمام انبیاء کا نمونہ اسی میں آ جائے گا جیسا کہ هُوَ سَمَّكُمُ المُسلمين : مِن قَبْلُ وَ فِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَدَاء على الناس والی آیت سے تفصیل کے ساتھ یہ امر بیان کیا جائے جا چکا ہے.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اعمال پر جب ہم نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عمل وہی کچھ تھا جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.حضرت عائشہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو آپ نے فرمایا.تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو گانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ.آپ کے اخلاق وہی کچھ تھے جن کا قرآن میں ذکر آتا ہے.گو یا محمد رسول اللہ ﷺ کا عمل اور قرآن کریم کی بات ایک ہی تھی.جو کچھ قرآن میں لکھا تھا سمجھ لو کہ رسول کریم ﷺے ویسا ہی کیا کرتے تھے اور جو کچھ رسول کریم ﷺہ کیا کرتے تھے سمجھ لو کہ اُس کا حکم قرآن کریم میں ضرور موجود ہوگا.پس تمام انبیاء کی نقل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دے دی.جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کر لیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کا انعکاس اپنے آئینہ قلب میں پیدا کر لیتے ہیں.احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھتے تھے وہی کچھ خود کر نے لگ جاتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہی کام ہمیں کرنے چاہیں.پس اگر ہم بھی اپنے اخلاق کو درست کرنا چاہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی نمونہ اپنے سامنے رکھیں اور وہ نمونہ جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کا ہے.اخلاق کے معنی اخلاق کے معنی کیا ہیں؟ اخلاق در حقیقت صفات الہیہ کے اُس ظہور کا نام ہے جو بندے کی طرف سے ہو.پس ہم جب اللہ تعالیٰ کی صفات کی صلى الله
۶۸ انوار العلوم جلد ۱۷ نقل کرتے ہیں تو با اخلاق کہلاتے ہیں.گویا ایک ہی چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو تو اُس کی صفت کہلاتی ہے اور بندوں کی طرف سے ظاہر ہو تو خلق کہلاتی ہے.پھر خدا تعالیٰ کے اندر تو یہ صفات ازلی ابدی طور پر پائی جاتی ہیں اور ہمارے اندر کسی طور پر پائی جاتی ہیں.بہر حال جب یہ صفات ہمارے اندر آتی ہیں تو اخلاق کہلانے لگ جاتی ہیں اور جب خدا تعالیٰ کی طرف انہیں منسوب کیا جاتا ہے تو وہ اسماء یا صفات کہلاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاق کی درستی کیلئے محمد رسول ﷺ کو ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا ہے.اگر ہم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے محمد بن جاتے ہیں تو اس صورت میں ہم نجات کے مستحق ہوتے ہیں اور اسی صورت میں ہم با اخلاق کہلانے کے بھی مستحق ہوتے ہیں.پس دنیا میں کامل انسان بنے کیلئے یا بالفاظ دیگر نجات یافتہ نے کیلئے ضروری ہے کہ ہم محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے نقوش اپنے دلوں پر قائم کریں.عیسائیت کی ایک بہت بڑی غلطی یہاں عیسائیت نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.عیسائیت کہتی ہے کہ شریعت لعنت ہے حالانکہ شریعت کس چیز کا نام ہے؟ شریعت نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی جو تصویر پیدا کی ہے اُس کی ہم پوری طرح نقل کریں اور احکام کی مثال ایسی ہی ہے جیسے تصویر بنانے والے کو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ پر یہ رنگ پھیرو اور فلاں جگہ پر وہ رنگ پھیرو تا کہ یہ تصویر فلاں تصویر کے مشابہہ ہو جائے.اسی طرح اخلاق کی وہ تعلیم جو خدا تعالیٰ نے کبھی کسی صورت میں دی اور کبھی کسی صورت میں ، ایسی ہی تھی جیسے ڈرائنگ کی کا پیوں میں لڑکوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یہاں فلاں رنگ پھیرو اور وہاں فلاں رنگ پھیرو.پس شریعت اُن ہدایتوں کا نام ہے جن پر عمل کر کے ہم اپنے زمانہ کے نبی کی تصویر کھینچ سکتے ہیں.چونکہ نبی کی تصویر وہ ہوتی ہے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور اس لئے پیش کی جاتی ہے کہ لوگ اُس کی نقل کریں اس لئے جب ہم شریعت پر عمل کرتے ہیں تو گویا ہم خدا تعالیٰ کی تصویر اپنے آئینہ قلب پر کھینچ لیتے ہیں.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا که قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۹ یعنی اے محمد رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں خدا تعالیٰ کے حُسن کا آئینہ ہوں.اگر تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے تو لازماً تم یہی کوشش کرو گے کہ ہمیں بھی اپنے محبوب کا چہرہ دکھائی دے.سواگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے اور تم چاہتے ہو کہ تم اپنے خدا کو دیکھو تو فاتبعونی میرے پیچھے چلے آؤ.جب تم مجھ کو دیکھو گے تو چونکہ میں خدا تعالیٰ کو دیکھ چکا ہوں اور اُس کی تصویر اُتار چکا ہوں اس لئے نتیجہ یہ ہوگا کہ میرے پیچھے چلتے چلتے ایک دن تم بھی آئینہ بن جاؤ گے جس میں خدائی تصویر آ جائے گی اور تم بھی خدا تعالیٰ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے کیونکہ اُس کی شکل تم میں نظر آنے لگے گی اور خدا تعالیٰ نے یہی طریق رکھا ہوا ہے کہ جو اُسے دیکھ لے اور اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لے وہ اُس کا پیارا بن جاتا ہے.قرب الہی کے مختلف مدارج اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُول فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء والصّلِحِينَ وَحَسُنَ أوليك رفيقات ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِالله عليما " فرماتا ہے جو کوئی اللہ اور اُس کے اِس رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے منعم علیه گر وہ یعنی نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صلحاء میں سے کسی ایک میں شامل ہو جاتا ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے کئی درجے ہیں.کبھی کوئی شخص سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلانے لگ جاتا ہے کبھی کوئی اس سے بھی واضح تصویر محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنے دل پر کھینچ لیتا ہے اور وہ شہید کہلانے لگ جاتا ہے.کبھی کوئی شہید سے بھی زیادہ واضح اور روشن تصویر اپنے آئینہ قلب پر کھینچ لیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدیق بن جاتا ہے.پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اُس سے بھی آگے ترقی کر جاتا اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نبوت کا مستحق ہو جاتا ہے.پھر کوئی اُس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ سورۃ جمعہ کی آیت واخرِينَ مِنْهُم لَمّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم ۱۵ کے مطابق سارے نبیوں کی تصویر میں اپنے اندر لے لیتا اور ظلمی محمد کہلانے لگ جاتا ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.
انوار العلوم جلد ۷ پھر جب محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر میں سے کوئی شخص صرف عیسوی تصویر اتارلے تو وہ عیسی بن جاتا ہے، جب ابراہیمی تصویر اُتارلے تو ابراہیم بن جاتا ہے اور جب سارے انبیاء کے نقوش اور اُن کی تصویر میں اپنے دل پر اُتار لیتا ہے تو وہ ظل محمد بن جاتا ہے اسی لئے اُمت محمدیہ میں صرف وہی شخص نبی بن سکتا ہے جو ظل محمد ہو خالی موسیٰ کا ظل بننے یا خالی عیسی کا ظل بننے سے کوئی شخص نبی نہیں بن سکتا.کیونکہ محمد رسول اللہ یہ ساری دنیا کی طرف صلى الله مبعوث ہوئے تھے اور موسیٰ و عیسی خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوئے.پس جو شخص انبیائے سابقین میں سے کسی ایک نبی کی تصویر اتارتا اور اُس کے نقوش اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ بیشک عیسی ثانی بن سکتا ہے، موسیٰ ثانی بن سکتا ہے مگر وہ امت محمدیہ میں نبی نہیں بن سکتا.وہ ایسا ہی ہو گا جیسے حضرت معین الدین صاحب چشتی نے کہا کہ و میدم روح القدس اندر معینے دید من نے گویم مگر من عیسی ثانی شدم یعنی جبرئیل لحظه به لحظ معین الدین کے اندر آ کر اپنی روح پھونکتا ہے اس لئے میں تو نہیں کہتا مگر حقیقت یہی ہے کہ میں عیسی ثانی ہو گیا ہوں.پس بے شک کوئی عیسی ثانی بن جائے اِس نبوت کیلئے ظل محمد بننا ضروری ہے میں کوئی حرج نہیں مگر محمد رسول اللہ صلى الله کے زمانہ میں عیسی ثانی ہونے سے انسان نبی نہیں بن سکتا.اس زمانہ میں انسان نبی تبھی بنتا ہے جب وہ ظل محمد ہو جاتا ہے.اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ہر زمانے قتیل تازه بخواست غازه روئے او دم شہدا این سعادت چو بود قسمت し رفته رفته نوبت
انوار العلوم جلد ۱۷ اے کر بلا ئکیست صد آدمم حسین است سیر ہر در گریبا نم نیز احمد مختار در برم جامه ہمہ ابرار آنچه داد است ہر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام کا فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کے لئے اپنا ایک شہید پیدا کیا کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی شان دنیا میں انہی شہیدوں کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے اور اُس کے چہرے کا حسن انہی شہیدوں کے ذریعے نکھرا کرتا ہے.چونکہ میرے حصہ میں بھی یہ سعادت مقدر کی جا چکی تھی اس لئے آہستہ آہستہ میری نوبت بھی آگئی اور چونکہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میرا قتیل ہونا ضروری تھا اور یہ قرار دیا جا چکا تھا کہ میں اُس کے عشق میں مارا جاؤں اس لئے کر بلا نیست سیر ہر آنم میں نے کربلا کی سیر کی اور ہر گھڑی سیر کی.دشمن ، صداقت کا دشمن ، راستی اور نور کا دشمن مجھ پر بھی آج تیر برسا رہا ہے.مگر تیر کچھ ایسی بیدردی کے ساتھ برسا رہا ہے کہ گویا اُس کے سامنے ایک حسین نہیں سوحسین کھڑا ہے.آدمم نیز احمد مختار میں سارے نبیوں کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہوں آدم سے لیکر محمد رسول اللہ ہی ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں جس کے کمالات مجھ میں پائے نہ جاتے ہوں.در برم جامه ہمہ ابرار ہر نبی اور ہر ولی کا گر تہ مجھے پہنایا گیا ہے.آنچه دادست ہر نبی را جام داد آن جام مرا بتمام
انوار العلوم جلد ۷ ۷۲ خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو معرفت کا جو پیالہ پلایا اُن میں سے ہر ایک پیالہ مجھے بھی پلایا گیا ہے اور خوب بھر بھر کر پلایا گیا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پہلے نبی کو جو جام پلایا گیا ہو وہ چھوٹا ہومگر مجھے وہی جام دیا گیا تو وہ خوب بھرا ہو ا تھا.یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان کو اس زمانہ میں ظلی نبوت حاصل ہوتی ہے.یعنی وہ ظل محمد بن جائے تب نبی بنتا ہے.ظل موسیٰ یا ظلِ عیسی بننے سے نبوت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا.غرض تمام زمانوں میں نیکی اور اخلاق کامل کے معیار ان زمانوں کے وہ انبیاء تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے.نبی خدا کا نمونہ ہوتا ہے پس جو شخص نبی کا نمونہ بن جائے وہ نیک سمجھا جاتا ہے اور جو نبی کا نمونہ نہیں ہوتا اُسے نیک نہیں سمجھا جاتا.اس زمانہ میں اگر کوئی نیکی کا راستہ ہے تو محمد رسول اللہ علیہ کی تصویر اپنے دل و دماغ پر کھینچنے میں.پس اس زمانہ میں جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ کا نمونہ بن جائے اور آپ کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لے وہی شخص مومن یا نجات یافتہ یا با اخلاق سمجھا جا سکتا ہے.اس تمہید کے بعد اب میں محمد رسول اللہ علی کے اخلاق میں سے کچھ باتیں بیان کرتا ہوں تا ہر شخص جو اپنے دل پر جمال الہی کا نقش کرنا چاہے وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکے.در حقیقت ایک مسلمان کے لئے یہ وہم کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ رسول کریم کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھے بغیر وہ کوئی روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے.اگر کوئی شخص ایسا خیال کرتا ہے تو وہ اوّل درجہ کی حماقت کا ارتکاب کرتا ہے.ہم کوئی کمال حاصل نہیں کر سکتے جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر ہمارے سامنے نہ ہو اور اس تصویر کو ہم اپنے دل پر نہ کھینچ لیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم بار بار اپنی بنائی ہوئی تصویر کو محمد رسول اللہ علیہ کی تصویر کے ساتھ ملائیں اور دیکھیں کہ وہ اصل کے مطابق ہے یا نہیں.کوئی زائد لکیر ہو تو اُسے مٹا دیں ، کوئی پھیکا رنگ: ہو تو اُسے تیز کر دیں، کوئی زیادہ تیز رنگ ہو تو اُسے ہلکا کر دیں، پھر بار بارا سے اصل کے ساتھ ملائیں اور دیکھیں کہ وہ دونوں تصویر میں آپس میں کس حد تک مشابہہ ہو گئی ہیں.غرض ہماری زندگی کی تمام جد و جہد، تمام کوشش اور تمام سعی صرف اس کام کے لئے ہو کہ ہم محمد رسول اللہ کی تصویر اپنے قلوب پر کھینچ لیں.پس ہمیں ہر وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کو دیکھتے
انوار العلوم جلد کا رہنا چاہئے.اگر ہماری تصویر اُس کے مطابق ہو تو پھر بے شک ہم خوش ہو سکتے ہیں اور خیال کر سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے.لیکن اگر ہماری تصویر اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر میں کوئی مشابہت ہی نہ ہو تو پھر رسول کریم ﷺ کی شفاعت کی اُمید رکھنا صریح غلطی اور نادانی ہے.مسلمانوں میں شفاعت کی غلط تشریح میرے نزدیک یہ بالکل غلہ خیال ہے جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے کہ مستحق شفاعت گنہگار اند رسول کریم ﷺ کی شفاعت کے گنہ گار مستحق نہیں ہوں گے بلکہ آپ کی شفاعت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کا کچھ نقش اپنے اندر لے لیا اور وہ نقش ایسا ہوا کہ قیامت کے دن رسول کریم ﷺ سے دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے کہہ سکیں کہ اے میرے خدا! یہ بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں میں ان کی شفاعت کرتا ہوں ورنہ یہ تو سرا سر اظلم ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کسی رنگ میں بھی مشابہت نہ رکھتا ہو اور وہ کہے کہ یہ مجھ سے ملتا جلتا ہے.یہ مان لیا کہ ایک شخص دوسرے سے اپنے تمام خدو خال میں مشابہت نہ رکھتا ہومگر یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس کی آنکھیں دوسرے کی آنکھوں سے ملتی جلتی ہوں یا اُس کے ہاتھ دوسرے کے ہاتھ سے ملتے جلتے ہوں یا اُس کی آواز دوسرے کی آواز سے ملتی جلتی ہولیکن ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص میں مشابہت کی کوئی بات بھی نہ پائی جاتی ہو اور اُس کے متعلق یونہی کہہ دیا جائے کہ وہ فلاں سے ملتا جلتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہو گی جیسے بچپن میں میرے ایک عزیز کو مجھ سے کچھ رقابت تھی میں اُن کا نام نہیں لیتا اُن کی ہمیشہ یہ عادت تھی کہ میں جو بات بھی کہتا وہ ضرور اُس کے خلاف کہتے خواہ وہ کس قدر ہی معقول کیوں نہ ہوتی.اور میرے ایک اور عزیز تھے اُن کی یہ عادت تھی کہ جب وہ میرے خلاف کہتے وہ ہمیشہ اُس کی تصدیق کیا کرتے اور کہتے کہ ہاں یہ بالکل درست ہے اُس وقت ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے.ایک دن میرے وہی عزیز آئے اور کہنے لگے میں تو روس کا جب بھی نقشہ دیکھتا ہوں مجھے خواجہ جمال الدین صاحب انسپکٹر جموں یاد آ جاتے ہیں جو خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی تھے کیونکہ مجھے وہ بالکل خواجہ جمال الدین صاحب
انوار العلوم جلد کا ۷۴ جیسا معلوم ہوتا ہے.میں نے کہا آخر اس کا کیا مطلب ہے کیا آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے خواجہ جمال الدین صاحب موٹے ہیں اسی طرح آپ کو روس کا بڑا سا نقشہ دکھائی دیتا ہے کہنے لگے یہ تو نہیں مگر جب بھی میں روس کا نقشہ دیکھتا ہوں مجھے بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہیں.میں نے کہا تو کیا اُن کے سر سے نقشہ کا کوئی حصہ ملتا ہے؟ کہنے لگے یہ تو نہیں.میں نے کہا تو کیا اُن کے پاؤں سے نقشہ کا کوئی حصہ ملتا جلتا ہے؟ کہنے لگے یہ بھی نہیں.صرف یہ ہے کہ جب میں نقشہ دیکھتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہیں.میں نے کہا اگر وہ آپ کو مشابہہ معلوم ہوتے ہیں تو مشابہت کی کوئی بات تو بتا ئیں.مثلاً اٹلی کا نقشہ ہے اُس کے نیچے کی جگہ بُوٹ کے مشابہہ معلوم ہوتی ہے.اسی طرح آپ کو بتانا چاہئے کہ نقشہ میں وہ کونسی بات ہے جو آپ کو خواجہ جمال الدین صاحب کے مشابہ نظر آتی ہے.آیا اُن کے سر سے کوئی حصہ ملتا ہے یا وہ چوڑا ایسا ہے جیسے خواجہ صاحب چوڑے چکے ہیں یا اُن کے پیروں سے کوئی حصہ ملتا ہے.کہنے لگے ان میں سے تو کوئی بات نہیں مگر میں جب دیکھتا ہوں مجھے یہی معلوم ہوتا ہے.یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں میرے دوسرے عزیز آگئے اور میں نے سمجھا کہ آج تو یہ ضرور میری بات کی تائید کریں گے.چنا نچہ میں نے کہا ابھی یہ ذکر کر رہے تھے کہ روس کا نقشہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کی شکل ہے اور میں نے ان سے بار بار پوچھا ہے کہ آپ بتائیں آپ کو دونوں میں کس چیز کی مشابہت نظر آتی ہے مگر وہ بتا نہیں سکتے اور یہی کہتے جاتے ہیں کہ وہ نقشہ خواجہ صاحب کی شکل سے ملتا ہے.میں نے اس بات کا اُن سے ذکر کیا اور اپنے دل میں یہ سمجھا کہ آج تو یہ ضرور میری تائید کریں گے مگر وہ جھٹ کہنے لگے مجھے بھی یہ نقشہ بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہوں.الله تو ایسی مشابہت پر شفاعت کی اُمید رکھنا بالکل لغو بات ہے آخر کچھ نہ کچھ محمدیت سے مشابہت تو ضروری ہے ورنہ رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی مجھ سے ملتا جلتا ہے ، اسے بھی جنت میں داخل کر دیجئے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۷۵ اسوه حسنه نجات اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے در حقیقت نجات نام ہی ہے ان اعلیٰ صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا جو اللہ تعالیٰ کی صفات اندر پیدا کرنے کا نام ہے ہیں.یہ ایک غلط خیال ہے جولوگوں کے دلوں.میں پایا جاتا ہے کہ دوزخ سے بچ جانا یا جنت کامل جانا نجات ہے.جنت کا ملنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے کسی دوست سے ملنے کیلئے جاتا ہے تو وہ اُس کے آگے کھانا رکھ دیتا ہے.اب کوئی کمینہ ہی ہو گا جو اپنے دوست سے ملنے کیلئے جائے اور پھر کہے کہ مجھے کھانا بھی کھلاؤ.کھانا وہ اپنی مرضی سے کھلاتا ہے ورنہ اس کا اصل مقصد اپنے دوست سے ملنا اور اُس سے باتیں کرنا ہوتا ہے.اسی طرح جنت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو جو انعامات ملیں گے وہ ایک زائد چیز ہیں اور ایسے ہی ہیں جیسے دوست دوست سے ملنے کے لئے جاتا ہے تو وہ اُس کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا بھی رکھ دیتا ہے ورنہ نجات اصل میں جنت میں داخل ہونے کا نام نہیں بلکہ اُن صفات کا انسان کے اندر پیدا ہو جانا نجات ہے جو خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں.جب ہم سفلی اثرات سے محفوظ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں تو ہمیں اسی دنیا میں جنت مل جاتی ہے.اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَمَن كان في هذةٍ أَعْمَى فَهُوَفِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبیلا ١٨ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہو گا.یعنی اگر کسی شخص نے صفات الہیہ کا انعکاس اپنے آئینہ قلب میں پیدا نہیں کیا اور اس سفلی زندگی کا وہ شکار ہو چکا ہے تو اگلے جہان میں بھی اُسے کوئی ٹو ر نہیں ملے گا اور وہ اپنے آپ کو عذاب میں محسوس کرے گا کیونکہ اُس وقت حجاب اُٹھ چکا ہو گا اور اُسے علم عطا کر دیا جائے گا اور چونکہ اُس وقت اُسے اپنی نا بینائی کا علم ہو جائے گا اس لئے یہی احساس اُس کے لئے دُکھ اور عذاب کا موجب بن جائے گا.جیسے اگر کوئی شخص بیہوش ہو اور بیہوشی کی حالت میں ہی اُس کی آنکھیں ماری جائیں تو اُسے اس کا حساس نہیں ہوتا اور نہ کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن اگر اُسے ہوش آ جائے تو پھر یہی چیز اس کے لئے دُکھ اور عذاب کا موجب بن جاتی ہے.اسی طرح ایک شخص دنیا کی زندگی میں روحانی لحاظ سے اندھا ہوتا ہے مگر وہ سمجھتا نہیں کہ وہ اندھا ہے.ایک مدہوشی کی سی حالت اُس پر طاری رہتی ہے.لیکن
انوار العلوم جلد کا جب مرنے کے بعد حجاب اُٹھ جائے گا اور اُسے پتہ لگے گا کہ میں روحانی لحاظ سے اندھا ہوں ، تب وہ اپنے دل میں ایک شدید دُکھ محسوس کرے گا اور اسی کا نام دوزخ ہے.بیشک دوزخ کے عذاب کی مختلف شکلیں بھی ہوں گی لیکن اصل دوزخ اُس کے دل کا یہی احساس ہو گا کہ میں خدا تعالیٰ سے دُور ہوں اور میرے اندر وہ اعلیٰ صفات نہیں ہیں جن سے میری خدا تعالیٰ سے مشابہت ہو سکے تب اُسے عذاب شروع ہو جائے گا اور رات اور دن وہ اِس عذاب میں مبتلا رہے گا.آخرت میں آگ کے عذاب سے بھی میں مانتا ہوں کہ وہاں آگ کا عذاب بھی ہوگا لیکن پھر بھی اُس سخت تر عذاب خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہے آگ کے عذاب سے بھی سخت تر عذاب یہ ہوگا کہ اُسے اس بات کا احساس ہوگا کہ میرا خدا مجھ سے ناراض ہے.ہم نے دنیا میں بارہا یہ نظارہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بچہ روٹھ جاتا ہے ، بعض دفعہ بیوی سے ناراضگی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ دوست سے کسی بات پر شکایت پیدا ہو جاتی ہے ایسی صورت میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تکلیف کتنی شدید ہوتی ہے اور کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ یہ عذاب آگ کے عذاب سے کم ہوتا ہے.ہم نے تو دیکھا ہے یہ عذاب بعض دفعہ اتنا محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں دُکھوں سے بڑھ کر اس کی تپش انسان کو جلا رہی ہوتی ہے اور جب تک ہما را محبوب ہم سے راضی نہیں ہو جا تا اگر ہم روٹی کھاتے ہیں تو وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتی ، پانی پیتے ہیں تو اچھو ہونے لگتا ہے، سوتے ہیں تو نیند نہیں آتی ، سوچتے ہیں تو پاگلوں کی طرح ہماری سمجھ میں کوئی بات ہی نہیں آتی ، دل جو ہماری طاقت کا موجب ہوتا ہے وہ دھڑ دھڑ کر رہا ہوتا ہے ، پیر جن سے ہم چلتے ہیں وہ کانپ رہے ہوتے ہیں ، ہاتھ جن میں پکڑنے کی طاقت ہوتی ہے وہ پھل ہو کر رہ جاتے ہیں ، آنکھیں جن سے ہم ساری دنیا کا حسن دیکھتے ہیں انہی آنکھوں سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں ساری چیزیں پھیکی پھیکی نظر آتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چاروں طرف اُداسی چھائی ہوئی ہے.دنیا میں ہر شخص کو کسی نہ کسی سے خاص انس ہوتا ہے.کسی کو بیوی سے ہوتا ہے، کسی کو ماں سے ہوتا ہے، کسی کو باپ سے ہوتا ہے اور ہر شخص کو اپنے ہوتا اپنے دائرہ میں یہ تمام کیفیتیں اُس وقت معلوم ہو جاتی ہیں جب اُس کا محبوب اُس.
انوار العلوم جلد ۱۷ ناراض ہو جائے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ مَن كان في هذة أعمى فَهُوَفي الاخرة اعمی.اس دنیا میں جس کے اندر وہ نور نظر پیدا نہ ہوا جس سے وہ اپنے خدا کو شناخت کر سکے ، اگلے جہان میں بھی وہ اندھا ہی اُٹھے گا.فرق صرف یہ ہوگا کہ اس جہان میں اُسے احساس نہ تھا کہ وہ اندھا ہے مگر اگلے جہان میں حجاب اُٹھ جائے گا، تب اُس کے دل میں دُکھ اور درد پیدا ہوگا اور یہ دُکھ اور درد بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اُس کے دل اور اُس کے دماغ اور اُس کے جگر اور اُس کے تمام اعضاء پر حاوی ہو جائے گا.اُسے کھانے میں لذت نہیں آئے گی ، اُسے پینے میں لذت نہیں آئے گی ، اُسے ہر اچھی چیز بُری معلوم ہوگی اور وہ ہر وقت اپنے آپ کو ایک شدید عذاب میں گھر اہو اپائے گا.یہ عذاب کئی شکلیں اور کئی طریق بھی اختیار کرے گا مگر وہ سب اسی ایک عذاب کا نتیجہ ہوں گے.اور چونکہ ندامت انسان کے اندر احساس بیداری پیدا کرتی اور نیکی کا موجب بنتی ہے.اس لئے احساس گناہ اور خواہش اصلاح سے ہی اُس کے اندر ایک نور پیدا ہو گا اور نیکی کا یہ احساس اُسے خود بخو دعرفان کی حالت کی طرف منتقل کرتا چلا جائے گا اور آخر ایک دن اسی نور کے نتیجہ میں اُسے وہ آنکھیں حاصل ہو جائیں گی جن سے وہ اپنے خدا کو دیکھ لے گا اور اسی کا نام خدا تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونا رکھا ہے کیونکہ جنت وہ مقام ہے جہاں خدا دیکھا جاتا ہے.جس کی آنکھیں ہی نہیں اُس نے بھلا وہاں جا کر لینا ہی کیا ہے.کسی چیز کا نظارہ تو آنکھوں والے ہی دیکھ سکتے ہیں.گو ہمارے ملک میں بعض ایسے بیوقوف بھی ہیں جو سینما دیکھنے کیلئے چلے جاتے ہیں حالانکہ وہ اندھے ہوتے ہیں لیکن عقلمندوں کا یہ طریق نہیں ہے.جہاں کسی چیز کو دیکھنے کا سوال ہوگا وہاں ہمیشہ آنکھوں والے ہی جائیں گے، اندھے نہیں جائیں گے.تو جنت وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کی رؤیت ہوتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وُجُوهُ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةُ - إلى ربها ناظِرَةٌ 19 اس دن بعض لوگ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے خدا کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہوں گے.پس وہ جو اندھا ہے اُسے جنت میں لے جا کر کرنا ہی کیا ہے وہ باہر ہی رہے گا یہاں تک کہ اُس کے دل کی ندامت اور حسرت اور جلن سے اُس کی آنکھوں میں بینائی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ اُس
ZA انوار العلوم جلد ۱۷ کے متعلق کہے گا کہ آب یہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اسے بھی جنت میں لے آؤ.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ اگر ہم اپنے اخلاق کو درست کرنا چاہیں اور اپنی عادات میں ایسی تبدیلی پیدا کرنا چاہئیں کہ ہر قسم کے رزائل ہم سے دُور ہو جائیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے نمونہ سے فائدہ اُٹھا کر ہم کس رنگ میں ترقی کر سکتے ہیں؟ تعلق پاللہ کی بنیاد ایمان کامل پر یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ روحانی زندگی میں پر سب سے اہم چیز تعلق باللہ ہے جس کی بنیاد خص ایمانِ کامل پر ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ ایمان ہے جو انسان کی سنجیدگی پر دلالت کیا کرتا ہے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں کس قسم کا ایمان پایا جاتا تھا کیونکہ ویسا ہی ایمان اسلام ہمیں پیدا کرنے کی ہدایت کرتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آجکل لوگ ایمان کا دعوی تو بہت کرتے ہیں مگر ایمان کی حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مخلص لوگ موجود ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے نظر آ جاتے ہیں جو ایک وقت ایمان کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن دوسرے وقت مخالفوں کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں.میں دیکھتا ہوں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک می میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے ہماری جان آپ پر قربان ہے، ہمارا مال آپ پر قربان ہے، آپ کی غلامی کے بغیر تو زندگی کا کوئی لطف ہی نہیں مگر دوسرے وقت وہی شخص اپنی دیکھی ہوئی باتوں پر نہیں محض سنی سنائی باتوں پر مرتد ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں نے فلاں دوست سے ایسی ایسی بات سنی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جس ایمان کا وہ اظہار کیا کرتے تھے وہ کسی بصیرت پر مبنی نہیں تھا.انہوں نے ایک دوسرے سے سلسلہ کی باتیں سنی اور بیعت کر لی اور پھر ایک خیالی چیز کا نام انہوں نے ایمان رکھ لیا ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں ایمان راسخ ہو جائے اور پھر وہ ارتداد کے گڑھے میں گر جائے.گزشتہ دنوں میں نے ایک شخص کو اپنی جماعت سے خارج کیا ہے کیونکہ اُس نے بعض ایسی حرکتیں کی تھیں جو احمدیت کی تعلیم کے خلاف تھیں مگر مجھے یاد ہے ۱۹۲۸ء میں جب ٹربیون میں میری موت کی خبر شائع ہوئی تو یہی شخص اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیکر میرے ملنے کے لئے قادیان
انوار العلوم جلد کا ۷۹ آیا اور کہنے لگا میں تو یہ خبر سن کر مرنے ہی لگا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ خبر غلط ثابت ہوئی.جب وہ قادیان میں آئے تو رات کا وقت تھا مگر وہ میاں بیوی آتے ہی میری سیڑھیوں میں بیٹھ گئے اور دستک پر دستک دینے لگ گئے.میں نے دروازہ کھولا اور اُن سے ملاقات کی تو وہ کہنے لگے ہم تو یہ خبرسُن کر مرنے ہی لگے تھے بھلا آپ کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے.مگر مجھے تعجب آتا ہے کہ اب وہی مخالفوں میں بیٹھتے ہیں، مخالفانہ باتیں کرتے ہیں اور انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا.اس تغیر کی یہی وجہ ہے کہ پہلے جس چیز کو انہوں نے ایمان سمجھا تھا وہ در حقیقت ایمان تھا ہی نہیں محض ایک خیالی چیز کو انہوں نے ایمان سمجھ لیا تھا.ایسے ہی اور بھی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے تو ایمان کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن بعد میں مرتد ہو کر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور فخر الدین صاحب ملتانی کو ہی دیکھ لو کس قد را خلاص کے دعوے کیا کرتے تھے لیکن بعد میں جب انہوں نے مخالفت شروع کر دی تو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے جب پوچھا جاتا کہ آپ نے یہ باتیں کہاں سے سنیں تو وہ کہہ دیتے کہ فخر الدین صاحب سے سنی ہیں اور فخر الدین سے جب پوچھا جاتا کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ تو وہ جواب دیتا کہ مصری صاحب سے پوچھو وہ ایسا کہتے ہیں لیکن اس سے پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ دونوں سلسلہ پر فدا ہورہے ہیں.مجھے یاد ہے جلسہ سالانہ کی تقریر سے فارغ ہو کر جب بھی میں واپس جاتا شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا لڑکا اُن کا یہ پیغام لے کر پہنچ جاتا کہ مجھے اپنی تقریر کے نوٹ دے دیں.میں اُن کی نقل کرلوں ، معلوم نہیں یہ تقریر شائع کب ہو.اور یا آب اُن کی یہ حالت ہے کہ دنیا جہان کے سارے عیوب میری طرف منسوب کر رہے ہیں اور جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں جو ایسا کہتا ہے ہم کیوں نہ مانیں.تو درحقیقت ایمان ہوتا ہی وہ ہے جو عَلى وَجْهِ الْبَصِيرَت پیدا ہو.بغیر اس کے ایمانِ کامل پیدا ہی نہیں ہو سکتا.جو چیز انسان کی دیکھی ہوئی ہو اُس کے متعلق اُسے کبھی حبہ نہیں ہوسکتا اور نہ اُسے کوئی تذبذب میں مبتلا کر سکتا ہے.مثلاً آپ لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں اور میں آپ کے سامنے تقریر کر رہا ہوں اب اگر کوئی شخص آپ کو میرے متعلق یہ کہے کہ وہ تقریر نہیں کر رہے بلکہ فلاں جگہ سینما دیکھ رہے یا گا نائن رہے ہیں تو کیا آپ اسے مان لیں گے؟ کبھی نہیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۸۰ مانیں گے.آپ اُسے کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو کیونکہ وہ تو ہمارے سامنے تقریر کر رہے ہیں.تو دیکھی ہوئی بات کے متعلق کوئی شخص طبہ نہیں کر سکتا.حبہ اُسی چیز کے متعلق کیا جاتا ہے جو بے دیکھی ہو.اللہ تعالٰی محمد رسول اللہ علیہ کے اس رسول کریم کا غیر متزلزل ایمان غیر متزلزل ایمان کے متعلق جو آپ کو عَلى وَجْهِ الْبَصِيرَتْ حاصل تھا قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِن أيْت رَبِّهِ الكُبرى - أَفَرَأَيْتُمُ اللَّهَ وَالْعُزى وصلوة الثالثة الأخرى " اے لوگو! محمد رسول اللہ ﷺ نے ہم کو دیکھا ہے اور دیکھا بھی خوب اچھی طرح ہے.اُس طرح نہیں دیکھتا جیسے لوگ بعض دفعہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو بینائی کے نقص کی وجہ سے اُس کو صحیح طور پر نہیں دیکھ سکتے یا دُور سے دیکھ لیتے ہیں.ما زاغ البصر فرماتا ہے.دیکھنے میں دو نقص ہو جاتے ہیں.ایک نقص تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر پوری طرح اُس چیز تک نہیں پہنچتی اور ورے ہی رہ جاتی ہے.مثلاً ایک شخص سو گز تک اچھی طرح دیکھ سکتا ہے لیکن چیز ڈیڑھ سو گز پر پڑی ہے اب یہ لازمی بات ہے کہ ایسا شخص ڈیڑھ سو گز سے اُس چیز کو دیکھے گا تو اپنی بینائی کے اس نقص کی وجہ سے اُسے صحیح طور پر نہیں دیکھ سکے گا.لیکن فرماتا ہے ما زاغ البصر محمد رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں دیکھا تو اُن کی نظر اِدھر اُدھر نہیں چلی گئی بلکہ عین صحیح مقام پر پہنچی.زاغ کے معنی ہوتے ہیں ادھر اُدھر ہو جانا یا ورے رہ جانا.پس فرماتا ہے محمد رسول اللہ اللہ نے جب ہمیں دیکھا تو اُن کی نظر ایسی نہ تھی کہ وہ ورے رہ جاتی.انہوں نے دیکھا اور خوب اچھی طرح دیکھا گویا انہوں نے توجہ سے بھی دیکھا اور اُن کی نظر بھی صحیح طور پر پہنچی.ایسا نہیں ہوا کہ اُن کی نگاہ ورے ہی رہ گئی ہو.پھر فرماتا ہے دما طی.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے، دُور کی نظر اچھی ہوتی ہے اسی وجہ سے دونوں قسم کی عینکیں ہوتی ہیں.جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے اُن کو اور قسم کی عینک لگانی پڑتی ہے اور جن کی ڈور کی نظر کمزور ہوتی ہے اُن کو اور قسم کی
۸۱ انوار العلوم جلد ۱۷ عینک لگانی پڑتی ہے.میں بھی دُور کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا.لوگ یہاں جلسہ گاہ میں بیٹھے ہیں مگر مجھے اُن کی صرف سفید سفید پگڑیاں نظر آتی ہیں شکلیں صحیح طور پر نظر نہیں آتیں لیکن دوسری طرف اگر میں عینک لگا کر اپنے نوٹ پڑھنا چاہوں تو نہیں پڑھ سکتا.گویا میری قریب کی نظر ا چھی ہے دُور کی نظر اچھی نہیں.تو دنیا میں لوگوں کی آنکھوں میں دو قسم کے نقص ہوا کرتے ہیں.بعض لوگ قریب کی چیز کو اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں دُور کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے اور بعض لوگ ڈور کی چیز کو اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں قریب کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا زَاغَ البَصَرُ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں دیکھا اُن کی نظر کا فوکس بالکل اُسی جگہ پر تھا جہاں اُس کو پہنچنا چاہئے تھا.نہ اُس مقام کے لحاظ سے محمد رسول الله عله شارٹ سائیٹنڈ تھے اور نہ لانگ سائیٹڈ تھے.یعنی نہ تو ہم اتنے دُور تھے کہ اُن کی نظر قریب ہی رہ جاتی اور ہم دُور رہتے اور نہ ہم اتنے قریب تھے کہ اُن کی نظر دُور نکل جاتی اور ہم پیچھے رہ جاتے.گویا نہ تو محمد رسول اللہ علیہ کی نظرور ے رہ گئی اور ہم پر ے رہ گئے کیونکہ آپ ایسے نہ تھے کہ آپ صرف قریب کی چیز کو دیکھ سکیں دُور کی چیز کو نہ دیکھ سکیں.وماطفی اور نہ ایسا ہوا کہ ہم درے رہ گئے ہوں اور اُن کی نظر پرے چلی گئی ہو.گویا نہ آپ شارٹ سائیٹڈ تھے اور نہ لانگ سائیٹڈ تھے.یہ دونوں نقص محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر میں نہ تھے.رویت باری کا کامل نقشہ دیکھو! یہ کتنا کامل نقشہ محمدرسول اللہ ﷺ کی رویت کا کھینچا گیا ہے کہ ما زاغ البصر نہ تو جب محمد صلى الله الله رسول اللہ ﷺ نے خدا تعالیٰ کو دیکھا اُس وقت ایسی حالت تھی کہ خدا تعالیٰ بہت دُور تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر اتنی دُور نہ دیکھ سکتی ہو.وما طفی اور جب محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دیکھا تو یہ بھی نہیں تھا کہ ہم اتنے قریب ہوتے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر دور چلی جاتی.ہم وہیں کھڑے تھے جہاں کھڑے ہو کر محمد رسول اللہ اللہ ہمیں پوری طرح دیکھ سکتے تھے.الله لقد رأى من أيت ريه الكنبری پھر محمد رسول اللہ ﷺ نے صرف ظاہر کو نہیں دیکھا بلکه رأى من أيت ربه الکبری اُس نے اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات کو دیکھا.ایک رؤیت ایسی ہوتی ہے جس میں دشمن بھی شریک ہوتا ہے.جیسے ایک چور بھی حج کو دیکھتا ہے
انوار العلوم جلد کا ۸۲ اور اُس کے بیوی بچے بھی اُس کو دیکھتے ہیں.لیکن فرماتا ہے ہمیں جب محمد رسول اللہ علیہ نے دیکھا تو ہم اُس سے ایک محبت کرنے والے دوست کی طرح ملے اور اُس نے ہمارے بڑے بڑے نشانات دیکھے.افر آيتُمُ الله وَالْعُزَّى وَمَنْوة الثَّالِثَة الأخرى فرماتا ہے یہ تو محمد رسول الله الا الله کا حال ہے.اس کے مقابلہ میں کفار و مشرکین جو کہتے ہیں کہ ہم لات کو خدا مانتے ہیں ، ہم عربی کو خدا مانتے ہیں ، ہم منات کو خدا مانتے ہیں اُن کی حالت بھی دیکھو.فرماتا ہے لات ، منات اور عربی تو ایسی چیزیں ہیں جو حواس خمسہ سے دیکھی جاسکتی ہیں.تم لات، منات اور عڑی کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو، ہاتھوں سے چُھو سکتے ہو ان پر جو تیل وغیرہ ملا جاتا ہے اُس کی خوشبو اپنی ناک سے سُونگھ سکتے ہو، اُن جُوں کو ٹھکور کر اُن کی آواز میں سُن سکتے ہو، انہیں زبان لگا کر چکھ سکتے ہو.غرض ہر طرح ان بچوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور تم دعوی بھی کرتے ہو کہ ہم نے اپنے ان خداؤں یعنی لات ، منات اور عڑی کو خوب دیکھا ہو ا ہے پھر یہ کیا بات ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کے نتیجہ میں تم رات ، منات اور عڑی کے تو منکر ہو جاتے ہو جن کو تم صلى الله صلى الله اپنے پانچوں حواسوں سے دیکھ رہے ہوا اور محمد رسول اللہ یہ اس خدا کا وجو دلوگوں سے منوا لیتے ہیں جسے نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، نہ ہاتھوں سے چھوا جا سکتا ہے، نہ زبان سے چکھا جا سکتا ہے اور نہ اُس کا کلام ان مادی کانوں سے سُنا جا سکتا ہے.گویا پانچوں حواس ظاہری سے بتوں کو دیکھنے کے باوجود تم میں طاقت نہیں کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے ایمان میں خلل ڈال کر دکھا سکولیکن محمد رسول اللہ ﷺ تمہیں باوجود ان بتوں کو اپنے تمام ظاہری حواس سے دیکھنے کے محبہ میں ڈال دیتے ہیں اور تمہیں ان بتوں کی بجائے اُس خدا کی طرف لے جاتے ہیں جسے کوئی بھی اپنے ظاہری حواس سے نہیں دیکھ رہا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتنی زبردست دلیل ہے جومحمد رسول اللہ نے کی صداقت کی دلیل اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی صلى الله صداقت کی ایک زبر دست دلیل کہ دیکھنا تو اس کا ہوتا ہے جو دیکھنے کے بعد اپنی رؤیت میں کسی قسم کا شک نہ کر سکے مگر مشرکوں کی تو یہ حالت ہے کہ وہ اُن چیزوں کو دیکھنے کا
۸۳ انوار العلوم جلد ۱۷ دعوی کرتے ہیں جنہیں ظاہری حواس خمسہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے، جنہیں ظاہری حواس سے پہچانا جا سکتا ہے مگر باوجود اس کے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھنے کے مدعی ہیں جو حواس خمسہ سے نظر آ جاتی ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے.انہیں اپنے بتوں کو توڑنا پڑتا ہے، اپنے عقائد کو بدلنا پڑتا ہے، اپنے خیالات کو تبدیل کرنا پڑتا ہے اور اُس خدا پر ایمان لانا پڑتا ہے جو ظاہری حواس سے نہیں دیکھا جاتا.پس فرماتا ہے اے مشرکو! تمہیں حواس خمسہ سے محسوس کرنے کے باوجود بتوں کے وجود میں مشبہ ڈالا جا سکتا ہے لیکن حواس خمسہ سے بالا وجو د الہی کے بارہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبہ میں نہیں ڈالا جا سکتا.اس تقابل سے صاف ظاہر ہے کہ تم نے اپنے بتوں کو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا جسے اور لوگ نہیں دیکھ سکتے.پھر تمہیں تو حواسِ خمسہ سے دیکھنے کے باوجود دھوکا لگ گیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حواس خمسہ سے بالا وجود الہی کے دیکھنے میں کوئی دھوکا نہ لگا اور وہ ساری دنیا کو اُسی خدا کی طرف کھینچ کر لے گیا.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ ” جیسا کہ آفتاب اور اُس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اُس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اُس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے.اس یہ وہی بات ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ مشرک لات ، منات اور غنڈی کو اپنے حواس خمسہ سے دیکھنے کے باوجود اُن کو دیکھنے میں غلطی کر رہے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس ہستی کو دیکھ کر غلطی نہیں کر رہا جو ان حواسِ خمسہ سے نہیں دیکھی جاسکتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کے اُس یقین اور وثوق کا اظہار کرتے ہوئے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا بلکہ آپ کی اُمت اور آپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے یقین اور وثوق کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.قُل هذه سبيل ادْعُوا إِلَى اللَّهِ تَدَ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي ، وَ سُبحن الله و ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِكتین ۲۲ یعنی اے محمد رسول اللہ ! تو دنیا کو کہہ دے هذه سبیل یہ میرا راستہ ہے.چنانچہ اس سے پہلی آیتوں میں اس راستہ کا b
۸۴ انوار العلوم جلد ۱۷ تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے.ادْعُوا إلى الله جس کے نتیجہ میں میں دنیا کو خدا کی طرف ل - عَلى بَصيرة کسی شک یا گمان کی بناء پر میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ میں خدا کو جان کر اور اُسے اچھی طرح پہچان کر لوگوں کو اُس کی طرف بلاتا ہوں.وَ مَنِ اتَّبَعَنِي اور یہ خدا تعالیٰ کی معرفت کا مقام صرف مجھے ہی حاصل نہیں بلکہ جو لوگ میری صحبت میں رہنے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن میں بھی یہ ایمان پیدا کر دیا ہے.وسبحن اللهِ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ اور میں نے خدا کو اتنا دیکھا ہے اتنا دیکھا ہے کہ میرے دیکھنے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں.مگر جب میں نے یہ کہا ہے کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ مجسم ہے.سُبحن الله خدا تعالیٰ مجسم نہیں ہے.وَمَا أَنَا مِنَ المُشرکین اور میں مشرک نہیں ہوں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے تو اُس کا مطلب صرف یہ ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کو اُسی رنگ میں دیکھا ہے جس رنگ میں اُسے دیکھا جا سکتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ آپ کی زندگی کے واقعات سے کہاں تک درست ثابت ہوتا ہے.رسول کریم مال اللہ کا خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جب نگاہ دوڑائی جائے تو ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا کی ذات پر بے مثال یقین ہے کہ آپ کو خدا تعالی کی ذات پر جو یقین حاصل تھا اُس کی مثال اور کسی نبی میں نہیں مل سکتی.مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بڑی بڑی سازشیں اور بڑی بڑی شورشیں ہوئیں.آپ کو اس قدر تکالیف دی گئیں کہ آخر آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا اور آپ نے مکہ سے نکلتے وقت یہ الفاظ فرمائے کہ اے مکہ! تو مجھے تمام شہروں سے زیادہ عزیز تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ تجھے چھوڑوں مگر تیرے رہنے والوں نے مجھے ٹھکرا دیا.انہوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ وہ اس برکت کو اپنے درمیان رہنے دیں اس لئے میں اب تجھے چھوڑ کر چلا ہوں سے آپ کا مکہ کو چھوڑنا اور مدینہ ہجرت کر کے جانا الہی منشاء کے مطابق تھا.خدا تعالیٰ تو چاہتا تھا کہ مکہ والے اس برکت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ٹھکرا دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب ہم چاہتے ہیں کہ کوئی
انوار العلوم جلد کا ۸۵ اور قوم تجھ سے فائدہ اُٹھائے.چنانچہ آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.جب آپ مکہ سے نکلے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے آپ انہیں لے کر غار ثور میں پہنچے.یہ غار مکہ سے تین چار میل کے فاصلہ پر ہے.اوپر سے دو تین گز چوڑی ہے لیکن اندر سے پندرہ ہیں گز ہے.اُس زمانہ میں نقش پا پہچاننے والے اپنے فن میں بہت ماہر ہوا کرتے تھے.اب بھی پنجاب کے اس علاقہ میں جو جانگلی کہلاتا ہے ایسے ماہر کھو جی مل جاتے ہیں کیونکہ اُن کا روزمرہ کا یہی کام ہوتا ہے.کوئی کسی کی بکری لے جائے یا گائے یا بھینس چرا کر لے جائے تو وہ نقشِ پا کے پیچھے چلتے جاتے ہیں اور آخر چور کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں.بریکا نیر وغیرہ کی طرف بھی ایسے ماہر تھے.عرب لوگ بھی اُس زمانہ میں اس فن میں خاص طور پر ماہر تھے.مکہ والوں کا ارادہ اُسی دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا تھا جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہجرت کی.جب صبح ہوئی اور مکہ والوں نے اندر داخل ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو انہوں نے بعض ماہر اپنے ساتھ لے کر نقش پا کا پیچھا کیا اور آخر چلتے چلتے وہ ٹور پہاڑ پر جا چڑھے اور کھوجی نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس جگہ تک آئے ہیں اور پھر یہیں غار کے اندر چلے گئے ہیں.کھوجی کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے کہ یہ کیسی احمقانہ بات کر رہا ہے غار کے منہ پر تو مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے اگر وہ اندر گئے ہوتے تو جالا ٹوٹ نہ جاتا.بعض باتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں مگر عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایسے سامان پیدا فرمائے کہ مکڑی نے غار کے منہ پر جالا ئن دیا.جن لوگوں نے مکڑی کو جالا بنتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مکڑی اتنی جلدی جالا بنتی ہے کہ حیرت آتی ہے.اگر اُنگلی سے جالا تو ڑا جائے تو بعض دفعہ ایک منٹ کے اندراندر وہ پھر جالا بن دیتی ہے.پس غار میں جب کوئی آدمی اُترے اور اُس کے منہ پر جالا ہو تو لازماً وہ جالا ٹوٹ جانا چاہئے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اِدھر آپ اُترے اور اُدھر مکڑی نے پھر حالا بن دیا.لمبے لمبے تاگے ہوتے ہیں اور مکڑی اُن کو بڑی جلدی بُن دیتی ہے.جب کھوجی نے دیکھا کہ پاؤں کے آثار اسی جگہ تک آتے ہیں تو اُس نے کہا کہ وہ اب یہیں کہیں چھپے ہونگے.مگر غار کے منہ پر چونکہ مکڑی نے جالا بنا ہوا تھا اس لئے وہ سب ہنس پڑے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے.اس پر وہ کہنے لگا
انوار العلوم جلد ۷ ۸۶ کہ اگر وہ اس غار میں نہیں ہیں تو پھر یقیناً آسمان پر چلے گئے ہیں اور کسی طرف پاؤں کے آثار نہیں ہیں.یہ سن کر سارے کے سارے ہنسنے لگ گئے کہ آج یہ کھوجی کیسی احمقانہ باتیں کر رہا ہے معلوم ہوتا ہے یہ پاگل ہو گیا ہے اور کسی کو جرات نہ ہوئی کہ وہ جھانک کر اندر دیکھے کہ کیا اندر تو کوئی آدمی چھپا ہوا نہیں.جب تمام کفار غار ثور کے منہ پر پہنچ گئے اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبرائے.چنانچہ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یوں بیان فرماتا ہے.إذْ اخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا تَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ يصاحبه لا تحزن إن اللهَ مَعَنَا فَانْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وايدة بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى، وَكَلِمَةُ الله هي العليا، والله عَزیزُ حَكِيم ۲۴ فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب اُس کی قوم نے اور اُن لوگوں نے جو کافر تھے اُسے مکہ سے نکال دیا.ثاني اثنلن اُس وقت وہ صرف دو ساتھی تھے ایک وہ اور ایک ابوبکر.اِذْ هُمَا في الغار دونوں غار میں جا کر چھپ گئے.إذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنَ إِنَّ اللهَ مَعنا.جب کفار تلاش کرتے غارِ ثور کے منہ پر پہنچ گئے تو اُس کا ساتھی گھبرا گیا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ لوگ تو آ پہنچے.اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا.لا تحزن إن الله معنا گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے یہ لوگ کہاں ہم کو گرفتار کر سکتے ہیں.۲۵ اب کوئی انسان خواہ وہ ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، کسی مذہب وملت کا پیرو ہو ، وہ اس مقام پر غور کرے اور اپنے آپ کو اس جگہ پر کھڑا کر کے سوچے کہ کس قدر بے مثال ایمان اور بے مثال یقین تھا ذات باری پر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا تھا.غار میں بیٹھے ہیں دشمن سر پر آ پہنچا ہے.غار کا منہ بھی چھوٹا نہیں دو تین گز چوڑا ہے.اُن کے ساتھ وہ ماہر کھوجی ہے جس پر تمام قوم اعتماد رکھتی ہے جو اپنے فن میں پوری مہارت رکھتا ہے.جو نقش پا کو خوب اچھی طرح پہچانتا ہے وہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار میں ہیں اور اگر یہاں نہیں تو آسمان پر چلے گئے ہیں.اُس وقت جب تمام کفا ر غار کے سر پر کھڑے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑے
۸۷ انوار العلوم جلد ۱۷ اطمینان کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ لا تَحْزَنَ إِنَّ اللَّهَ مَعنا غم مت کرو، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کفار یہاں آ جائیں.جس طرح خدا ان دنیا کے اندھوں کو نظر نہیں آتا اسی طرح ہم بھی اِن لوگوں کو نظر نہیں آسکتے.کوئی بتائے کہ کیا ایسے الفاظ کسی ایسے شخص کے منہ سے نکل سکتے ہیں جس نے خدا تعالیٰ کو نہ دیکھا ہو، جس نے اُس کی نصرت کا مشاہدہ نہ کیا ہو، جو اُس کے وجود پر کامل یقین نہ رکھتا ہو اور اُس کی معرفت سے نا آشنا ہو.یقیناً یہ الفاظ کسی عام انسان کے منہ سے نہیں نکل سکتے اور یقیناً یہی وہ ایمان اور یقین ہے جو ایک اندھے انسان کو بھی خدا تعالیٰ کا کچھ نہ کچھ دیدار کرا دیتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے پھر کیا چیز تھی جس نے اُن کو اس قدر یقین اور وثوق سے بھر دیا.کونسی طاقت تھی جس کے بھروسہ پر ایسے حالات میں جب کہ دشمن سر پر کھڑا تھا اُسے روکنے والی کوئی چیز نہ تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایمان کا اظہار کیا.کھوجی ساتھ تھا اور وہ اصرار کر رہا تھا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسی غار کے اندر ہو سکتے ہیں اور کہیں نہیں.جاؤ اور دیکھو تو سہی کہ کیا وہ اندر تو نہیں مگر وہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے وہ ہنستے ہیں کہ آج ہمارے کھوجی کو کیا ہو گیا.آج اُس کی عقل کہاں گئی ، آج وہ کیوں دیوانوں کی سی باتیں کر رہا ہے.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بھلا اس غار میں ہو سکتے ہیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ مکڑی نے منہ پر جالا تن رکھا ہے؟ ایسے وقت میں، ایسی نازک گھڑیوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ لا تحزن إن الله معنا بتاتا ہے کہ جس طرح ایک انسان کو ایک اور ایک دو پر یقین ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خدا پر یقین تھا.فَانْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ پس اللہ تعالیٰ نے اُس پر سکینت نازل کی.فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ کا مرجع یاد رکھو! انتشار ضمائر عربی زبان کا خاصہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہاں دھوکا کھایا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اطمینان سے بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا لا تحزن إن الله معنا اور دوسری طرف فرما تا فَانزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ ہے.
انوار العلوم جلد کا ٨٨ عليه الله نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سکینت نازل کی.اتنے یقین کامل سے بھرے ہوئے ہونے کے بعد اُن کا دل تسلی سے کس طرح خالی ہو سکتا تھا اور پھر وجہ کیا ہے کہ لا تحزن إن الله معنا کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ فانزل الله سكينته عليہ یہ دھوکا در حقیقت اسی وجہ سے لگا ہے کہ انہوں نے ضمائر کو نہیں سمجھا.بات اصل میں یہ ہے کہ انزل اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے اور علی کی ضمیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف پھرتی ہے یعنی اَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ.جب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ابو بکر غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے تو ابو بکر کا دل تسلی پا گیا.وايدة بِجُنُود لفتردُهَا اِس میں ، کی ضمیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے لشکروں کے ساتھ مدد کی جن کو کا فر دیکھ نہیں سکتے تھے.اس سے مراد فرشتوں کا وہ لشکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کے لئے بھیجا جب وہ کا فر فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے تھے تو جو شخص فرشتوں کی فوج کے پیچھے کھڑا تھا اُسے کس طرح دیکھ سکتے تھے.وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلِ، وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُليا اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اُن کو ذلیل کر دیا اور خدا تعالیٰ کی بات اونچی ہوگئی.یہاں ایک عجیب بات بیان کی گئی ہے.اُس وقت واقعہ یہ تھا کہ کا فراو پر تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تھے.طریق یہی ہے کہ اوپر والے سے نیچے والا مار کھاتا ہے.جوشخص پہاڑی پر کھڑا ہو وہ پتھر پھینک پھینک کر ہی اپنے دشمن کو ہلاک کر سکتا ہے.لیکن نیچے کھڑا ہونے والا اگر پتھر اُسے مارنے کیلئے پھینکے گا بھی تو سو ڈیڑھ سو گز تک رہ جائے گا اور غالب اوپر والا ہی آئے گا لیکن فرماتا ہے باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت نیچے تھے اور کافر او پر اور ان کے لئے موقع تھا کہ وہ جھانکتے ، دیکھتے اور پتہ لگاتے کہ اندر کوئی چھپا ہوا تو نہیں.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید نے یہ کرشمہ دکھایا کہ جو اونچا تھا وہ نیچا ہو گیا اور جو نیچے تھا وہ اوپر ہو گیا.جو غالب تھا وہ مغلوب ہو گیا اور جو مغلوب تھا وہ غالب ہو گیا.
۸۹ انوار العلوم جلد ۱۷ حالانکہ بادی النظر میں اگر گفا ر چاہتے تو اُس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کو بلاک کر سکتے تھے مگر ہوا یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اسلام اور محمد رسول اللہ علیہ کی صداقت کا ایک زندہ نشان دنیا میں قائم ہو گیا.ہمیشہ کے لئے دشمنوں کی ناکامی اور اُن کی خدا تعالیٰ کی نصرت سے محرومی کا ایک زندہ نشان دُنیا میں قائم ہو گیا.ہمیشہ کیلئے دشمنوں پر حجت قائم کرنے کا خدا نے به سامان پیدا فرما دیا کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ خدا کا پیارا نہیں تھا ، اگر خدا اُس کے ساتھ نہیں تھا ، اگر اُس کی تائید اور نصرت کا نشان اُس کے شامل حال نہیں تھا تو یہ کس طرح ہو گیا کہ تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی تباہی کا جو سامان کیا تھا وہ اُس کی طاقت وقوت کے بڑھانے کا ایک ذریعہ بن گیا.حضرت ابوبکر کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ ضمنی طور پر میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے حضرت ابوبکر کے دل میں ایمان نہیں تھا کیونکہ وہ گھبرا گئے اور انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ دشمن ہمیں پکڑ لیں گے.حالانکہ اول تو یہ سوال ہے کہ اتنا بڑا ایمان دنیا میں کتنے لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے.آخر ہر شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تو نہیں ہو سکتا کہ دشمن سر پر کھڑا ہے، کھوجی کہتا ہے کہ اس غار میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) گئے ہیں اور وہ جس کے متعلق یہ باتیں ہو رہی ہیں بڑے اطمینان سے کہتا ہے کہ یہ ہمیں دیکھ کہاں سکتے ہیں ان کی مجال نہیں کہ اندر جھانکیں اور ہمارا پتہ لگا سکیں.کیا ہر شخص کی طاقت ہے کہ وہ ایسے نازک مواقع پر اس قسم کے ایمان اور یقین کا اظہار کر سکے؟ اربوں نہیں کھر بوں میں سے کوئی ایسا آدمی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین اور وثوق رکھتا ہے.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ حضرت ابو بکر کی اس بات سے یہ قحبہ پڑتا ہے کہ وہ یہ خیال کرنے لگ الله گئے تھے کہ دشمن اندر نہ آ جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کب اُن کو ایمان میں محمد رسول اللہ ﷺ کے برابر سمجھتے ہیں.بیشک انہوں نے رسول کریم ﷺ کی متابعت کی اور خوب کی مگر پھر بھی ہم اُن کو ویسا تو نہیں سمجھتے جیسے رسول کریم ﷺ تھے.پس اگر بالفرض یہ کسی کمزوری کا ثبوت ہے تو پھر بھی کیا ہوا آخر اُن کا ایمان رسول کریم محلہ جیسا تو نہیں تھا لیکن تاریخی لحاظ سے یہ بات بالکل غلط
انوار العلوم جلد ۱۷ ہے جو اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی ہے.تاریخوں میں آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ اب کیا ہو گا دشمن تو سر پر آ گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ وسلم نے یہ فرمایا کہ لا تحزن إن الله معنا تو حضرت ابو بکر رو پڑے اور فرمانے لگے يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھے اپنی جان کی فکر نہیں اگر میں مارا گیا تو میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں محض ایک آدمی مارا جائے گا لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی آنچ آئی تو دنیا تباہ ہو جائے گی.پس اُن کو غمگین اپنی جان کی فکر نے نہیں کیا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق نے انہیں غمگین کیا.انہیں یہ غم نہیں تھا کہ کہیں دشمن اُن تک نہ آ پہنچے بلکہ یہ غم تھا کہ کہیں رسول کریم ﷺ پر کوئی آنچ نہ آ جائے.یہ سوال کہ اُن کو خدا کا رسول سمجھتے ہوئے حضرت ابو بکر کے دل میں یہ خیال کس طرح آ گیا کہ کہیں دشمن سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے.اسے محبت کرنے والا انسان ہی سمجھ سکتا ہے.محبت اور عشق ایسی چیز ہے کہ کہتے ہیں عشق است و ہزار بد گمانی باوجود یہ یقین رکھنے کے کہ میرا محبوب اور میرا معشوق اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے پھر بھی عاشق کا دل لرزتا ہے، کا نپتا ہے کہ کہیں اُس پر کوئی آنچ نہ آ جائے.ماؤں کو دیکھ لو تھوڑی دیر بھی اُن کا بچہ گھر میں نہ آئے تو خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ کہیں کسی موٹر کے نیچے نہ آ گیا ہو، کبھی خیال کرتی ہیں کہ کسی کے کو ٹھے پر سے نہ گر گیا ہو، کبھی اُن کے دل میں یہ وہم پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ کسی کنویں میں نہ گر گیا ہو بچہ موجود ہوتا ہے، خیریت سے ہوتا ہے، کھیل کو درہا ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کا وقفہ بھی وہ برداشت نہیں کر سکتیں اور سب باتیں اُن کے لئے واقعات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں وہ دل میں بھی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی محبت کا جوش اُن سے یہ ساری باتیں منوا لیتا ہے.اسی طرح حضرت ابو بکڑ جانتے تھے کہ خدائی وعدوں کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی لیکن محبت اور عشق کی وجہ سے اُن کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن آپہنچے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ جائے.
انوار العلوم جلد ۷ ۹۱ میری زندگی کا ایک قابل فخر واقعہ میری زندگی میں بھی مجھ سے ایک ایسی ہی کمزوری سرزد ہوئی ہے مگر مجھے اپنے تمام اعمال سے زیادہ اس کمزوری پر خوشی ہوا کرتی ہے.وہ بیوقوفی کی بات تھی خالص پاگل پن تھا مگر مجھے جتنا اپنے اُس پاگل پن پر ناز ہے اتنا ناز مجھے اور کسی کام پر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تھا کہ ایک دفعہ قادیان میں بجلی گری اور اس زور سے گری کہ بڑی دُور تک اُس کی دہشت ناک آواز پھیل گئی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحن میں تھے.جب بارش شروع ہوئی تو آپ صحن سے اُٹھ کر کمرہ کے اندر تشریف لے جانے لگے.ابھی آپ صحن میں ہی تھے کہ یکدم بجلی گرنے کی خوفناک آواز پیدا ہوئی.میں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھا میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور آپ کے سر پر رکھ دیا یہ خیال کر کے کہ اگر بجلی گرے تو میرے ہاتھوں پر گرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہ گرے.یہ ساری ہی پاگل پن کی باتیں تھیں.اول یہ خیال کرنا کہ خدا کے مسیح پر بجلی گرے گی.دوم یہ خیال کرنا کہ اگر بجلی گری تو میرے ہاتھ اُسے روک لیں گے یہ دونوں ہی پاگل پن کی باتیں ہیں اور بعد میں میں اپنی اس حرکت پر ہنس بھی پڑا.مگر میں نے آج تک جتنے کام کئے ہیں اس سے زیادہ مجھے اور کسی کام پر فخر نہیں.یہ ہے تو ایک بیوقوفی لیکن اس بیوقوفی سے مجھے اُس وقت یہ یقین ہو گیا کہ میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پورا ایمان ہے.اگر یہ بیوقوفی مجھ سے سرزد نہ ہوتی تو مجھے اپنے اس اندرونی ایمان کا پتہ نہ لگتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خطرہ خیالی تھا مگر جس انسان کی خاطر میں نے یہ فعل کیا چونکہ وہ میرا محبوب تھا اس لئے میں نے اس خطرہ کو حقیقی خطرہ سمجھا اور یہ خیال میرے دل سے جاتا رہا کہ یہ وہم ہے.ایسا کب ہوسکتا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بھی اُس وقت ایسی ہی حالت تھی.بیشک عقل کی گھڑیوں میں انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خدا کے رسول ہیں اس لئے اُن پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آ سکتی کہ دشمن اُن تک پہنچ جائے لیکن عشق میں یہ بات نہیں سُوجھتی.جب معشوق خطرہ میں ہو تو عاشق کا دل دھڑکتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسے کوئی نقصان
انوار العلوم جلد ۱۷ پہنچ جائے.۹۲ خدا تعالیٰ کی نصرت پر اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے وہاں جس قوم سے لڑائی ہوئی یقین کامل کا ایک اور واقعہ اُس نے بعد میں فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں کا کھلے بندوں مقابلہ نہیں کر سکتے.ہم جب بھی مقابلہ کریں گے شکست کھا ئیں گے اس لئے ہمیں آئندہ مسلمانوں کا چوری چھپے مقابلہ کرنا چاہئے.چنانچہ اُن میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ میں اب محمد (ﷺ) کو مار کر ہی واپس آؤں گا.وہ گھر سے چلا اور چوری چھپے اسلامی لشکر کے پیچھے آتا رہا.جب مدینہ بہت تھوڑی دُوررہ گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کیلئے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے.صحابہ بھی اِس خیال سے کہ اب تو ہم اپنے علاقہ میں آگئے ہیں اردگرد جنگل میں پھیل گئے اور مختلف درختوں کے نیچے سو گئے.اتفاقاً اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شخص نہ رہا اور آپ اکیلے اُس درخت کے نیچے رہ گئے.آپ نے اپنی تلوار اُسی کیکر کی ایک شاخ کے ساتھ لٹکا دی اور سونے کیلئے لیٹ گئے.وہ شخص جو آپ کے تعاقب میں آ رہا تھا اُس نے اِس موقع کو تاڑا.وہ قریب آیا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس تلوار کو اُٹھا لیا جو کیکر کے درخت کے ساتھ لٹک رہی تھی.پھر اُس نے آپ کو جگایا اور کہنے لگا میں آپ کو مارنے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور میں قسم کھا کر چلا تھا کہ میں واپس نہیں جاؤں گا جب تک آپ کو ہلاک نہ کرلوں اب آپ مرنے کیلئے تیار ہو جائیں.پھر کہنے لگا بولو اب کون تمہارے ساتھ ہے؟ تمہارے لشکر نے ہماری قوم کو تباہ کر دیا مگر اب وہ لشکر تمہارے پاس نہیں.تم اکیلے میرے سامنے ہو اور تلوار میرے ہاتھ میں ہے بتاؤ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا.اللہ اب کہنے کو تو بعض دفعہ بچے بھی اس قسم کی باتیں کہہ دیتے ہیں مگر جس یقین اور وثوق کے ساتھ آپ کی زبان سے یہ لفظ نکلا وہ اس کے نتیجہ سے ظاہر ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سادگی سے فرمایا کہ اللہ تو اُس کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ نے اُسی وقت اُٹھ کر تلوار کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا بتا اب تجھے کون
انوار العلوم جلد ۷ ۹۳ بچا سکتا ہے وہ کہنے لگا آپ ہی رحم فرما دیجئے ، آپ کے سوا اور کون بچا سکتا ہے.۲۶ دیکھو! کتنا یقین اور وثوق ہے اللہ تعالیٰ کی ذات پر.یہ یقین اور وثوق ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سورج کے وجود پر مجھے ھبہ ہو سکتا ہے، چاند کے وجود پر مجھے شبہ ہو سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی ذات پر مجھے محبہ نہیں ہو سکتا ہے یہی یقین اور ایمان کامل اور ائتم طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا تھا اور آپ ہر وقت خدا تعالیٰ کو اپنے ساتھ دیکھتے تھے.غزوہ حنین میں خدا تعالیٰ کی پھر ایک اور واقعہ ہے جس سے آپ کے ایمان اور اُس یقین کا پتہ چلتا ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات نصرت پر غیر متزلزل یقین تھا.فتح مکہ کے بعد جب رسول کریم علی پر بعض عرب قبائل کے مقابلہ کے لئے غزوہ حنین میں تشریف لے گئے تو چونکہ مکہ میں بہت سے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اس لئے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو گئے اور جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ بھی صرف اظہار شان اور قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے اپنی کثرت اور طاقت پر لاف زنی شروع کر دی.اللہ تعالیٰ نے اُن کو اس کبر کی سزا دینے کیلئے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ جب مسلمانوں کا لشکر آگے بڑھا تو دشمن کمین گاہ میں چھپ گیا اور اُن کے بڑے بڑے ماہر تیرانداز کچھ دائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ بائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے.جب لشکر اس مقام سے گزرا جس کے دائیں بائیں ہزاروں تیرانداز چھپے بیٹھے تھے تو انہوں نے یکدم اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی.یہ دیکھ کر وہ حدیث العہد اور نئے مسلمان جن میں ابھی کمزوری پائی جاتی تھی اور مکہ کے وہ کافر جو صرف قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے بے تحاشہ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے.ایسی صورت میں جب اگلے لوگ بھا گئیں تو لازماً پیچھے آنے والوں کے گھوڑے بھی بدک جاتے ہیں اور وہ بھی بھا گنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ اس جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا.جب وہ حدیث العہد مسلمان اور کفار تیروں کی بوچھاڑ برداشت نہ کرتے ہوئے بھاگے تو صحابہ کے گھوڑوں اور اونٹوں نے بھی بھا گنا شروع کر دیا اور تمام اسلامی لشکر
۹۴ انوار العلوم جلد ۱۷ تتر بتر ہو گیا.یہ مصیبت یہاں تک بڑھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے ، باقی سب میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے.یہ دیکھ کر حضرت عباس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا.اب ٹھہرنے کا وقت نہیں گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تا کہ اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کر کے حملہ کیا جائے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے.یہ کہ کر آپ نے گھوڑے کی باگ اُٹھائی اور اُسے ایڈ لگا کر اور بھی آگے بڑھا دیا اور فرمایا:.ی لَا كَذِبُ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّ میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور میں جو آج اِن تیراندازوں سے نہیں ڈرا اور چار ہزار تیراندازوں کے نرغہ میں گھرے ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہوں تو اس نظارہ کو دیکھ کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں خدا ہوں یا مجھ میں بھی خدائی صفات پائی جاتی ہیں یا درکھو! میں خدا نہیں ، میں تو وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.مگر یہ لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں جب یہ حالت پیدا ہوئی اور دشمن خوش ہوا کہ اُس نے مسلمانوں کو مار لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو مخاطب کر کے فرمایا.عباس! آواز دو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے صحابہؓ کا جوش اخلاص جب حضرت عباس نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ دُہرایا کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے تو اُس وقت ایک انصاری کا بیان ہے کہ حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضہ سے نکلے جا رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ اور مدینہ کے ورے یہ نہیں رکیں گے.وہ بوجہ مکہ کے ہزاروں لوگوں کے بھاگنے کے اس قدر ڈر گئے تھے کہ کسی طرح واپس لوٹتے ہی نہ تھے.ہم اپنی سواریوں کی باگیں کھینچتے اور اس قدر زور لگاتے کہ اُن کا منہ اُن کی دُم کو آ لگتا ، مگر بجائے واپس لوٹنے کے وہ پیچھے کی طرف ہی بھا گئیں.ہماری یہی حالت تھی کہ ہمارے کانوں میں حضرت عباس کی یہ گونجنے والی آواز آئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.وہ کہتے
انوار العلوم جلد کا ۹۵ ہیں کہ اس آواز کے سنتے ہی ہماری یہ حالت ہوگئی کہ ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ ہمیں کوئی آدمی پکار رہا ہے بلکہ ہمیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ قیامت کا دن ہے اور مُردہ رُوحوں کو زندہ کرنے کیلئے صوراسرافیل پھونکا جا رہا ہے.اُس وقت ہمیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہ رہا اور صرف ایک ہی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگی اور وہ عباس کی آواز تھی.اُس وقت ہماری تمام کمزوری جاتی رہی اور یا تو ہمارے اندر یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ہم اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو نہیں روک سکتے یا پھر ہم نے آخری دفعہ پھر زور لگایا اور اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو موڑنے کی پوری کوشش کی.چنانچہ جو مُڑ گئے سو مڑ گئے اور جو نہ مڑے ہم نے تلوار میں نکال کر اُن کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ایمان سے فائدہ اُٹھایا.چنانچہ جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان تھی کہ خواہ کیسا ہی خطرہ ہو خدا آپ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا یہی شان اپنے درجہ کے مطابق صحابہ میں بھی پیدا ہو گئی.چنانچہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب غزوہ احزاب کا موقع آیا تو خطرہ بہت بڑھ گیا.اُس وقت دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ منافق بھی اُن کو دیکھ کر دلیر ہو گئے اور وہ کہنے لگے یہ مسلمان تو دنیا فتح کرنے کا ارادہ رکھتے تھے آج دیکھو ان کی کس طرح شامت آئی ہوئی ہے.قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ منافقوں نے اُس وقت یہ کہنا شروع کر دیا کہ اهل يَثْرِب لا مُقام لَكُمْ فَارْجِعُوا ۳۰ اے مدینہ والو ! اب تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہا.اب تمہاری نجات کی یہی صورت ہے کہ مرتد ہو جاؤ اور اسلام کو چھوڑ دو ورنہ سب کے سب مارے جاؤ گے.مگر اس کا مومنوں پر کیا اثر تھا؟ وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے.اُس وقت دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی ، عرب کے سارے قبائل جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے آگئے تھے اور مسلمان نہایت قلیل تعداد میں تھے ، اُدھر مدینہ کے اندر جو یہودی رہتے تھے وہ بھی مسلمانوں کے مخالف ہو گئے.دوسری طرف خود مسلمانوں کے ایک حصہ نے جو منافقوں پر مشتمل تھا انہیں طعنے دینے شروع کر دیے کہ بتاؤ تمہارے دنیا فتح کرنے کے خواب کدھر گئے اب تو مرتد ہونے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا.ایسے خطرناک حالات میں جب کہ اپنے بھی بگڑ چکے تھے، ہمسائے بھی مخالف ہو چکے تھے اور باہر بھی سارا ملک
۹۶ انوار العلوم جلد ۱۷ حملہ کرنے کیلئے جمع تھا، مسلمانوں کی کیا حالت تھی؟ اللہ تعالیٰ اس کا قرآن کریم میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.ولَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَاتِ ، قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنا الله وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُوله ، وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا ايْمَانًا وَتَسْلِيمًا ال فرما تا ہے جب چاروں طرف سے عرب کی قومیں مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہو گئیں ، جب یہود نے علم بغاوت بلند کر دیا ، جب منافقوں نے طعنے دینے شروع کر دیے کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور انہوں نے مسلمانوں کو کہنا شروع کر دیا کہ اگر اس حملہ سے بچنا چاہتے ہو تو مرتد ہو جاؤ تو ایسی نازک حالت میں بھی انہوں نے کہا ان فتنوں سے ہمیں کیا ڈراتے ہو، یہ تو وہی خطرے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا تھا اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ تمہیں ایسے ایسے خطرات پیش آئیں گے اور یہ تو وہی باتیں ہیں جن کی ہمیں پہلے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہوئی تھی اور بتا دیا تھا کہ اسلام پر یہ لوگ ایک دن متحدہ طور پر حملہ کرنے کیلئے آئیں گے.پس ان دشمنوں کے آنے سے اُن کا ایمان اور بھی بڑھ گیا اور انہوں نے کہا صدق الله ورسوله خدا اور اُس کے رسول نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا وما زادَهُمُ الّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا اور اس عظیم الشان فتنہ نے مومنوں کو اگر کسی چیز میں بڑھایا تو ایمان میں ہی بڑھایا.تو کل ترک عمل کا نام نہیں فرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سب پارس کی طرح تھے کہ آپ جس کو چھوتے اُس کے اندر بھی وہی ایمان پیدا ہو جاتا جو آپ کے اندر تھا مگر یہ ایمان سستی اور غفلت کا نہ تھا.اب بھی بعض لوگ ایسے نظر آ جائیں گے جو اس قسم کے ایمان کا اپنے منہ سے دعوی کریں گے مگر در حقیقت اُن کا ایمان سستی اور غفلت کا ایمان ہوگا اور بعض لوگ تو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک عمل کا نام ایمان اور توکل رکھ لیتے ہیں اور بعض اپنی سستی کو چھپانے کے لئے اس کا نام ایمان رکھ لیتے ہیں.مثلاً کوئی کام کرنا ہے، بارش آگئی ہے اور اسباب اُٹھا کر کمرہ کے اندر رکھنا ہے تو وہ شستی سے کام لیتے ہوئے اسباب کو تو نہ اُٹھائیں گے اور یونہی منہ سے کہہ دیں گے کہ اللہ خیر کرے گا.یا بارش کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کھیت کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور بیوی یا کوئی اور رشتہ دار عورت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۹۷ کہتی ہے کہ جاؤ ذرا منڈ پر درست کر آؤ تو وہ کہہ دیں گے کہ اللہ پر توکل کرو.مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھ سے اس وقت یہ کام نہیں ہو سکتا جو نقصان ہوتا ہے بیشک ہو جائے.پس یہ ایک نفس کا دھوکا ہے ایمان نہیں ہے.ایسے لوگ ایماندار اور متوکل نہیں ہوتے بلکہ سکتے اور قوم کیلئے بوجھ ہوتے ہیں.وہ قوم کی تباہی کا ذریعہ اور خدا کا ایک مجسم عذاب ہوتے ہیں.اُن کو متوکل یا ایماندار کہنا تو کل اور ایمان کی ہتک کرنا ہے.وہ شخص جسے خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو اور پھر ساتھ ہی اُسے یہ بھی یقین ہو کہ مجھے اُس نے ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے وہ ترک عمل کب کر سکتا ہے.وہ تو سب سے زیادہ عمل کرنے والا ہوتا ہے.پس یہ لوگ متوکل نہیں ہوتے بلکہ سُست سکتے اور غافل ہوتے ہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال آپ کے ایمان کی وجہ سے تھے کیونکہ جو شخص سمجھتا ہے کہ ایک خدا ہے اور اُس نے مجھے کسی خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے وہ اُس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشش بھی کرتا ہے.چنانچہ دیکھ لومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ایمان کا اظہار کرتے ہیں، جہاں غار ثور میں بیٹھے ہوئے حضرت ابو بکر سے کہتے ہیں.ابوبکر ! مت گھبراؤ خدا ہمارے ساتھ ہے اور وہی ہمارا محافظ ہے، وہاں آپ دین کے دوسرے کاموں میں رات اور دن اس طرح مشغول رہتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ساری خدائی کے کام آپ کے ہی سپرد کئے جاچکے ہیں.پس ایک طرف اگر آپ کو یہ یقین تھا کہ خدا ہے اور وہ اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے تو دوسری طرف آپ خدا کا امتحان لیتے نظر نہیں آتے.یہ نہیں کرتے کہ جب خدا نے کہہ دیا ہے کہ میں تجھے فتح دوں گا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اب فتح کیلئے کسی کوشش کی کیا ضرورت ہے ، اللہ اپنے وعدہ کے مطابق آپ فتح دے گا.آپ ایسا نہیں کرتے بلکہ فتح کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں.چنانچہ آپ لوگوں کو فوجی کر تب سکھاتے ہیں ، دشمن کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کرتے ہیں ،سواریوں کا انتظام کرتے ہیں ، ہتھیا را کٹھے کرتے ہیں، فوجیوں کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں، پھر ان تمام انتظامات کو مکمل کرنے کے بعد دشمن سے لڑنے کیلئے جاتے ہیں اور جب کوئی ایسا وقت آتا ہے جب دشمن زیادہ ہوتا ہے اور صحابہ کم ہوتے ہیں تو آپ بڑے یقین اور وثوق اور ایمان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ گو ہم تھوڑے ہیں مگر جیتیں گے ہم ہی.پس جہاں تک انسانی تدابیر آپ کر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۹۸ أسووحن سکتے تھے وہاں تک آپ تمام تدابیر سے کام لیتے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کرتے تھے.پس آپ کا ایمان جہالت اور سستی والا ایمان نہ تھا بلکہ آپ کا ایمان مشاہدہ والا ایمان تھا اور مشاہدہ والا ایمان اسی شخص کا ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں تو کل بھی کرتا ہے اور عمل بھی کرتا ہے، گو یا عمل اور تو کل دونوں کو اکٹھا رکھتا ہے.پس سیہ وہ ایمان ہے جو ہمارے لئے اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے اگر ہم یہ ایمان اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں یا اس جیسا ایمان پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ ہر شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تصویر نہیں ہو سکتا تو یقینا ہم اپنے دلوں میں ایمان پیدا ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں اور اطمینان حاصل کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس قسم کا ایمان ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اُس قسم کے ایمان کے لئے ہم نے صحیح کوشش شروع کر دی ہے.رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھو وہ ایک ایسا پیہم عمل ہے کہ حیرت آتی ہے.دنیا کا ایک پیہم عمل دکھائی دیتی ہے کوئی انسان اس قدر کام کرنے والا نظر نہیں آتا.وہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھاتے ہیں، قرآن کریم یا د کراتے ہیں، قرآن کریم کی تفسیر لوگوں کو سکھاتے ہیں ، قاضی ہیں لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے ہیں، محتسب ہیں اس بات کی نگرانی رکھتے ہیں کہ تاجروں اور زمینداروں کے لین دین درست رہیں، غریبوں کے کام کرتے ہیں، قوم کے خزانچی ہیں ، خزا نہ جمع کرتے ہیں اور اُسے تقسیم کرتے ہیں ، جرنیل ہیں فوج کی کمان کرتے ہیں ، انسٹرکٹر ہیں فوجی ہنر قوم کو سکھاتے ہیں، سیاسی آدمی ہیں مسلمانوں اور یہو دومشرکین وغیرہ کے جھگڑے چکاتے ہیں.جاسوس جا رہے ہیں ، معاہدات ہو رہے ہیں ، گھر میں جاتے ہیں تو عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں کہ یک انا رصد بیمار بھی ناممکن ہوتا ہے مگر یہاں تو ایک شخص ہزاروں کام کرتا ہے اور سارے ہی ٹھیک کرتا ہے.پھر اس کے ساتھ اچھا خاوند بھی ہے اور اچھا باپ بھی ہے اچھا رشتہ دار بھی ہے.غرض ہر ضرورت کو تاڑتے ہیں وقت پر ہر کام کرتے ہیں اور یہ نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں اللہ پر ایمان ہے وہ آپ ہی سب کام کر دے گا.آپ ایک صادق القول کی طرح خدا تعالیٰ کے ایمان کا اپنے عمل سے ثبوت دیتے
انوار العلوم جلد کا ۹۹ ہیں اور خدا تعالیٰ کا امتحان نہیں لیتے.عبادت کرتے ہیں تو پاؤں سوج جاتے ہیں اور لوگ توجہ دلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اَفَلَا اَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا سے پھر اتنے عمل پر کوئی کہتا ہے کہ آپ اپنے عمل سے نجات پائیں گے تو فرماتے ہیں نہیں میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگی سے وہاں اتنا عمل کر کے یہ انکسار ہے اور یہاں عمل ترک کر کے خدا تعالیٰ پر حق جتائے جاتے ہیں بلکہ احسان رکھا جاتا ہے.در حقیقت ہم جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایمان اپنے اندر پیدا نہیں کرتے ، ایمان کا دعویٰ ایک لغو دعویٰ ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کا ایمان اتنا ہی شاندار ہو مگر کم از کم اُس کی نقل کرنے کی کوشش تو ہونی چاہئے.راستہ تو وہ ہونا چاہئے ، پھر راستہ میں مرجانے پر بھی ہم نجات پاسکتے ہیں.لیکن اگر راستہ ہی اور ہو اور انسان اس طریق کو ہی اختیار نہ کرے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے اختیار کیا تھا اور جس کا نمونہ آپ نے ہمارے سامنے پیش کیا تو ایسی صورت میں نجات کی کیا اُمید ہو سکتی ہے.محبت الہی کے ایمان افروز نظارے پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ایک نمایاں علامت محبت ہوا کرتی ہے.جہاں ایمان ہو وہاں محبت ضرور موجود ہوتی ہے اور در حقیقت کامل معرفت کسی انسان کو حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کی کامل محبت اُس کے اندر نہ پائی جائے.رسول کریم ﷺ کی ذات میں ہمیں محبت الہی کا نظارہ ایسے شاندار طریق پر نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر محبت الہی میں ہی گزار دی.رسول کریم ﷺ کی روحانی بلوغت تامہ کی زندگی غار حرا سے شروع ہوتی ہے.آپ کا طریق تھا کہ آپ وہاں جاتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے.آپ کی اُس وقت بیوی موجود تھی، بچے موجود تھے مگر اُن سب کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کے جوش میں تین تین ، چار چار، پانچ پانچ دن وہاں رہتے اور ایک پہاڑی پر دو پتھروں کے درمیان بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے.پھر آپ واپس تشریف لاتے تو مسکینوں کی خبر گیری کرتے ، کمزوروں کی مدد کرتے ، اُن کی کوئی تکلیف معلوم ہوتی تو اُسے دُور کرنے کی کوشش کرتے اور پھر کھانا اپنے
انوار العلوم جلد ۷ اسوه حسنه صلى الله ساتھ لیکر کئی کئی دن تخلیہ میں عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں چلے جاتے.غرض آپ کی زندگی کی ابتداء محبت الہی سے ہوئی اور آپ کی زندگی کی انتہا بھی محبت الہی پر ہی ہوئی.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے انتقال فرمایا تو اُس وقت آپ کا سر میرے سینہ پر تھا اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ فِی الرَّفِيقِ الأعلى " اپنے آسمانی خدا کے پاس میں اب جانا چاہتا ہوں.اپنے آسمانی دوست کے پاس میں اب جانا چاہتا ہوں.یہ محبت الہی کے نظارے آپ کی زندگی میں ایسے ایسے شاندار نظر آتے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر حیرت آجاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کی توحید کے متعلق لوگوں کو وعظ کرنا شروع کیا اور شرک کی تردید شروع کی تو مکہ والوں کو یہ بات بہت ہی نا گوار گزری اور آخر ایک دن سمجھوتہ کر کے وہ ایک وفد کی صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ ہماری قوم کے سردار ہیں آپ کا ہم بہت ادب کرتے ہیں اور آپ کے ادب کی وجہ سے ہی ہم آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیں کہتے.مگر آب معاملہ حد سے گزر گیا ہے اور ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ اُس سے اس معاملہ میں ہماری طرف سے آخری بات کریں.اگر اُسے کوئی خوبصورت بیوی چاہئے تو ہم اُسے سب سے اعلیٰ گھرانے کی اور سب سے زیادہ حسین لڑکی دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر اُسے روپیہ کی ضرورت ہے تو ہم سب اُسے اپنی دولت میں سے ایک ایک حصہ دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر اُسے حکومت چاہئے تو ہم اُسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ اتنا لحاظ تو کرے کہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے.ہم اُسے یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمارے بتوں کو مان لے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے اور اگر وہ ہماری ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ مانے تو پھر آپ اُس کا ساتھ چھوڑ دیں ، ہم خودا سے نپٹ لیں گے.
انوار العلوم جلد ۷ 1+1 رسول کریم ﷺ نے ہر بڑی سے ابوطالب بڑے نیک آدمی تھے.صلى الله رسول کریم ﷺ سے بڑی محبت رکھتے بڑی لالچ کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا تھے مگر انہیں اپنی سرداری بھی بڑی صلى الله پیاری تھی.انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلوایا اور کہا آج تیری قوم میرے پاس آئی تھی اور وہ کہتی تھی کہ ابو طالب ہمیں تیر الحاظ ہے اور تیرے لحاظ کی وجہ سے ہی ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک کچھ نہیں کہا مگر آب بات حد سے گزرگئی ہے وہ اگر اور کوئی بات نہیں مانتا تو اُسے صرف اتنا کہہ دیا جائے کہ وہ ہمارے بچوں کو بُرا بھلا نہ کہے ہم اُسے اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر دولت چاہے تو اُسے اتنی دولت دینے کے لئے تیار ہیں کہ عرب میں اُس سے بڑھ کر اور کوئی مالدار نہ رہے.کوئی حسین بیوی چاہے تو ہم اچھی سے اچھی عورت سے اُس کی شادی کرنے کے لئے تیار ہیں.غرض وہ کوئی بھی مطالبہ کرے ہم اُسے پورا کرنے کے لئے تیار ہیں.وہ صرف اتنا کرے کہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابو طالب کے بڑے احسانات تھے، انہوں نے آپ کو بچپن سے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ پالا تھا اور ہر دُکھ اور مصیبت میں انہوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کی یہ حالت دیکھی تو اُن احسانات کو یاد کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.مگر آپ نے فرمایا چچا میں تو نہیں کہتا کہ آپ میری مدد کریں ، آپ بیشک اپنی قوم کا ساتھ دیں اور مجھے چھوڑ دیں.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں ایک خدا کے ذکر سے باز نہیں آؤں گاہ سے دیکھو! کتنا وثوق اور کتنا یقین ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر.حالانکہ سورج کا اپنی جگہ سے ہلنا اتنا بڑا معجزہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہو تو انسان حیران ہو کر رہ جائے.مگر آپ فرماتے ہیں اگر یہ سورج کو اُس کی جگہ سے ہلا دیں اور میرے پاس لا کر کھڑا کر دیں اگر یہ چاند کو اُس کی جگہ سے ہلا دیں اور میرے پاس لا کر کھڑا کر دیں تب بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر مجھے ایسا یقین اور وثوق ہے کہ میں ان چیزوں کو شعبدہ بازی سمجھوں گا.میں ان کی بُت پرستی پر ہمیشہ اعتراض کروں گا اور اپنے اس کام سے کبھی باز نہیں آؤں گا.
انوار العلوم جلد ۷ ۱۰۲ آپ کا دنیا پر آخرت کو تر جیح دینا اس طرح آپ کو خدا تعالیٰ سے جو حبت تھی وہ ایک اور واقعہ سے بھی ظاہر ہے.دنیا میں موت آتی ہے تو لوگ اُس سے بچنے کی ہزاروں تدبیر میں کرتے ہیں.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام آئے تو ایک دن آپ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے، اُس کو اُس کے خدا نے مخاطب کیا اور کہا اے میرے بندے! میں تجھے اختیار دیتا ہوں کہ چاہے تو دنیا میں رہ اور چاہے تو میرے پاس آجا.اس پر اُس بندے نے خدا کے قرب کو پسند کیا.جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا تو حضرت ابوبکر رو پڑے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں مجھے اُن کا رونا دیکھ کر سخت غصہ آیا کہ رسول کریم ﷺ تو کسی بندے کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو خدا تعالیٰ کے پاس چلا جائے اور اُس نے خدا تعالیٰ کے قرب کو پسند کیا ، یہ بڑھا کیوں رو رہا ہے؟ مگر حضرت ابو بکر کی اتنی ہچکی بندھی ، اتنی ہچکی بندھی کہ وہ کسی طرح رُکنے میں ہی نہیں آتی تھی.آخر آپ نے فرمایا ابوبکر سے مجھے اتنی محبت ہے کہ اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابو بکر کو بناتا.۳۶ے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے بعد وفات پاگئے تو اُس وقت ہم نے سمجھا کہ ابو بکر کا رونا سچا تھا اور ہمارا غصہ بیوقوفی کی علامت تھا.۳۷ے جذ بہ شکر کی فراوانی پھر بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ اس طرح دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں کہ جو شخص اُن باتوں کو دیکھتا یا سنتا ہے وہ اُن چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی خدا تعالیٰ کی محبت کا نظارہ کئے بغیر نہیں رہتا.حدیثوں میں آتا ہے بعض دفعہ بادل آتے اور اُس کے موٹے موٹے قطرے گرتے تو آپ کمرہ سے باہر تشریف لاتے اپنی زبان باہر نکالتے اور اُس پر بارش کے اُن قطرات کو لیتے اور فرماتے میرے رب کی طرف سے اُس کی رحمت کا یہ تازہ قطرہ آیا ہے.۳۸ اب یہ بظا ہر کتنی چھوٹی سی بات ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے ہر تازہ انعام سے خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو لذت اندوز ہوتے تھے اور اُسے اپنی زندگی کا ذریعہ سمجھتے تھے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۰۳ جذبہ غیرت کا اظہار پھر جس کے ساتھ انسان کو محبت ہوتی ہے اُس کے متعلق دل میں غیرت بھی پائی جاتی ہے اور درحقیقت غیرت علامت ہوتی ہے کامل تعلق کی.رسول کریم ﷺ کی غیرت جس شان کی تھی اُس کی مثال ہمیں دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی.اس غیرت کی ایک واضح مثال اُحد کا واقعہ ہے.رسول کریم ﷺ نے اس جنگ میں کچھ آدمی ایک درہ پر مقرر کئے تھے اور اُن کو آپ نے یہ ہدایت دی تھی کہ تم نے اس درہ سے نہیں ہلنا.جب اس جنگ میں کفار کو شکست ہوئی تو انہوں نے قیاس سے کام لیا اور کہا رسول کریم علیہ کا منشا آخر ہمیں یہاں کھڑا کرنے سے یہی تھا کہ ہم جنگ ختم ہونے تک کھڑے رہیں.اب جبکہ کفار کو شکست ہو چکی ہے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی ہے ہم یہاں کیوں ٹھہریں.چنانچہ وہ بھی وہاں سے چل پڑے اور درّہ خالی ہو گیا.حضرت خالد بن ولید اُس وقت تک کافر تھے اور عکرمہ بن ابو جہل بھی کافر تھے اور یہ دونوں اپنی فوجوں کے جرنیل تھے.انہوں نے عمرو بن العاص کو کہ وہ بھی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا فوج لیکر اس طرف سے حملہ کر دو.چنانچہ یہ حملہ آور ہو گئے.وہاں چند مسلمان جو اس وجہ سے رہ گئے تھے کہ رسول کریم ﷺ کا حکم ہمیں یہی تھا کہ ہم یہاں سے نہ ہمیں ، اُن کو انہوں نے مار ڈالا اور جب مسلمان اپنی فتح کے یقین کے ساتھ ادھر اُدھر پھیل چکے تھے اور اسلامی صفیں پراگندہ تھیں، انہوں نے یکدم پیچھے سے حملہ کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے مسلمان مارے گئے ، بہت سے زخمی ہوئے اور بعض لوگ بھاگ نکلے.یہاں تک کہ اُن میں سے بعض بھاگ کر مدینہ میں جا پہنچے.اس جنگ میں ایک وقت ایسا آیا جب صرف ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گیا.اور کسی وقت چھ کسی وقت سات اور کسی وقت بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے اردگرد رہ گئے ، باقی سب منتشر ہو گئے تھے.اُس وقت کفار نے یہ دیکھ کر کہ اب رسول کریم علیہ اپنے لشکر سے الگ ہیں اُن پر پتھر پھینکنے اور تیر برسانے شروع کر دیئے اور اس قدر تیر برسائے کہ آپ بیہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے اور پھر حفاظت کرنے والے صحابہ ایک ایک کر کے آپ پر گرنے شروع ہو گئے.یہاں تک کہ آپ کے جسم پر کئی صحابہ کی لاشیں آپڑیں اور عام طور پر یہی سمجھا گیا کہ شاید رسول کریم ﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں.کچھ دیر کے بعد جب مسلمان واپس الله صلى الله
انوار العلوم جلد کا ۱۰۴ آئے اور آپ کے خاندان کی بعض مستورات بھی وہاں پہنچ گئیں تو نیچے سے رسول کریم صلی اللہ نکالا گیا.آپ اُس وقت بے ہوش تھے مگر تھوڑی دیر کے بعد آپ کو ہوش آ گیا.وہ ایسے خطرے کا وقت تھا کہ مسلمانوں کے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی.دشمن کا تین ہزار سپاہی میدان میں صلى الله صلى الله موجود تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور چونکہ رسول کریم ﷺے بھی بے ہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے تھے اس لئے کفار نے یہ سمجھا کہ رسول کریم یہ بھی شہید ہو گئے ہیں.اُس وقت ابوسفیان بہت خوش ہوا اور اُس نے بلند آواز سے کہا.بتاؤ اب محمد کہاں ہے؟ صحابہ جواب دینا چاہتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو روک دیا.اس پر اُس نے بڑے جوش سے کہا.ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا ہے.حضرت عمرؓ اُس وقت فوراً جواب دینے لگے کہ رسول کریم ﷺ زندہ ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے انہیں جواب دینے سے روک دیا.اور فرمایا کہ یہ مصلحت کے خلاف ہے، چپ رہو.پھر اُس نے حضرت ابوبکر کا نام لیا اور کہا بتاؤ ابو بکر کہاں ہے؟ حضرت ابوبکر بولنا چاہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی مت بولے.اس پر پھر اُس نے بڑے جوش سے کہا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا ہے.پھر اُس نے پوچھا بتاؤ عمر کہاں ہے؟ حضرت عمرؓ کی زبان پر ابھی یہ الفاظ آنے ہی والے تھے کہ میں تمہارا سر توڑنے کے لئے موجود ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خاموش رہو، اس وقت بولنا مصلحت کے خلاف ہے.پندرہ میں آدمی اس وقت موجود ہیں اور وہ بھی زخمی اور دشمن تین ہزار کی تعداد میں ہے اس وقت بولنا مناسب نہیں ہے.چنانچہ حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے.اِس پر اُس نے بڑے جوش سے کہا ہم نے محمد کو بھی مار دیا ، ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا ، ہم نے عمر کو بھی مار دیا.پھر اس خیال سے کہ آخر ہمارا دین ہی سچا نکلا اور مسلمانوں کا دین جھوٹا ثابت ہوا وہ بلند آواز سے کہنے لگا.اُعْلُ هُبُل - مبل دیوتا کی شان بلند ہو، مبل دیوتا کی شان بلند ہو کہ ہم نے توحید پرستوں کو مار دیا.اس پر وہی محمد رسول اللہ ﷺے جو ایک انتہائی خطرہ کے مقام پر کھڑے تھے جنہوں نے ابو بکر کو چپ کرا دیا تھا اور کہا تھا کہ مت کہوا بو بکر زندہ ہے.جنہوں نے عمر کو چپ کرا دیا تھا اور کہا تھا کہ مت کہو عمر زندہ ہے.جنہوں نے خود اپنے متعلق صحابہ کو جواب دینے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا مت کہو میں زندہ ہوں اس وقت بولنا مصلحت کے خلاف ہے.وہ
انوار العلوم جلد کا ۱۰۵ بیتاب ہو گئے ، آپ کی غیرت اس بات کو برداشت نہ کرسکی اور آپ نے صحابہ سے فرمایا تم جواب کیوں نہیں دیتے.انہوں نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا کہو اللهُ أَعْلَى وَاَجَل ۳۹ ہمارا خدا ہی سب سے بڑا ہے.ہما را خدا ہی سب سے بڑا ہے.دیکھو! اس واقعہ میں کیسا عجیب تقابل پایا جاتا ہے.سارے واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اس مقام کی نزاکت کا خوب احساس تھا.آپ کو علم تھا کہ اگر دشمن کو اس بات کا پتہ لگا کہ ہم زندہ موجود ہیں تو ہماری جانوں کی خیر نہیں.اسی وجہ سے وہ آپ کا نام لیتے تو آپ صحابہ کو چپ کرا دیتے اور فرماتے مت جواب دو.ابو بکر کا نام لیتے ہیں تو آپ چپ کرا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں مت جواب دو.عمرؓ کا نام لیتے ہیں تو چپ کرا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں مت جواب دو.مگر اُسی حالت میں ، اُسی موقع پر اور انہی لمحات میں جب وہی زخمی صحابہ میدان میں موجود ہیں ، وہی دشمن کا تین ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے، جب کفار اپنے دیوتاؤں کا نام بلند کرتے ہیں تو آپ کصحابہ سے فرماتے ہیں بولتے کیوں نہیں؟ کہو اللہ أعْلَى وَاجَلُّ اللهُ اَعْلَیٰ وَاَجَلُ.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے جو غیرت تھی وہ دنیا میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتی.مرض الموت میں تو حید کے متعلق دوسری مثال اس غیرت کی یہ ہے کہ جب رسول کریم ﷺ فوت ہونے لگے تو سخت صلى الله آپ کی بے چینی اور اضطراب بیماری کی حالت میں آپ کروٹیں بدلتے ، کبھی دائیں طرف ہوتے اور کبھی بائیں طرف ہوتے اور فرماتے اللہ لعنت کرے یہود اور نصاری پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ہے آپ سمجھتے تھے کہ آپ کی موت اب قریب ہے اس لئے آپ بار بار یہ الفاظ فرماتے اور اس طرح صحابہ کو بتاتے کہ دیکھنا میری عظمت اور میری شان کو دیکھ کر کہیں میری طرف کوئی خدائی صفات منسوب نہ کر دینا.خدا کی شان اور اُس کی عظمت اُس کے ساتھ ہی مخصوص ہے.ایسا نہ ہو کہ یہود اور نصاری کی طرح تم میری طرف بھی کوئی خدائی صفت منسوب کر دو.یہ کرب، یہ اضطراب اور یہ گھبراہٹ آپ کے اندر کیوں تھی؟ اسی لئے آپ کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کسی شخص کو خدا کا شریک
انوار العلوم جلد ۱۷ 1+4 ٹھہرایا جائے اور آپ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ میری اُمت میں سے بھی کوئی اس غلطی کا ارتکاب کرے اسی لئے آپ بار بار ذکر فرماتے تھے مگر افسوس آج مسلمانوں میں ہی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب حاصل تھا یا اسی قسم کی بعض اور خدائی صفات آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں.آپ کا اپنے بیٹے کی وفات پر اعلان کہ سورج غیرت کی تیسری مثال جو آپ کی زندگی میں ہمیں اور چاند گرہن کا کسی کی موت سے تعلق نہیں نظر آتی ہے اور جو ایک نہایت ہی لطیف مثال ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا جو آپ کی آخری عمر کی اولا د تھے اور بڑی اُمیدوں کے بعد اور بہت دیر کے بعد پیدا ہوئے تھے تو طبعی طور پر صحابہ کو سخت صدمہ ہوا.اس خیال سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی لڑکا تھا اور وہ بھی فوت ہو گیا.اتفاقاً اُسی دن سورج کو گرہن لگ گیا اور صحابہ نے کہنا شروع کر دیا کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا خدا کے بندے بندے ہی ہوا کرتے ہیں ، خدا نہیں ہوتے.سورج اور چاند گرہن خدا تعالیٰ کی آیتوں میں سے ایک آیت ہیں ، اُن کا کسی بندے کی موت سے کوئی تعلق نہیں.۴۱ خشیت الہی خشیت اللہ بھی ایمان کیلئے ایک لازمی چیز ہے.اس کے بغیر انسان کا ایمان کبھی کامل نہیں ہوسکتا.ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جب اس نقطہ نگاہ سے غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خشیت اللہ آپ پر اس قدر غالب تھی اور اس قدر نمایاں طور پر آپ میں پائی جاتی تھی کہ اُس کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک کامل نبی اور خاتم النبیین کے اندر اسی قسم کی خشیت اللہ پائی جانی چاہیئے.اول تو رسول کریم ﷺ کی نمازوں کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اتنی رفت سے نمازیں پڑھا کرتے تھے کہ بعض دفعہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی دیگ کے نیچے آگ جل رہی اور اُس کا پانی اُبل رہا ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۱۰۷ پھر بعض دفعہ آپ گھر جاتے اور بستر پر آپ کو کوئی کھجور پڑی ہوئی نظر آتی تو اُسے کھانے لگتے مگر پھر خیال آتا کہ یہ کھجور کہیں صدقہ کی نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ میں غریبوں کا حق کھا جاؤں چنانچہ آپ کھجور کو اُسی طرح رکھ دیتے اور اپنے منہ میں نہ ڈالتے.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ صدقہ کی کچھ کھجوریں آئیں.حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپ کے دونو ا سے تھے اور یہ دونوں آپ کو بہت پیارے تھے کیونکہ آپ کی اور کوئی اولاد نہ تھی ان دونوں کی اُس وقت دو دو تین تین سال کی عمر تھی ان میں سے حضرت حسن نے آتے ہی ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فوراً حضرت حسنؓ کے منہ میں سے کھجور نکال لی اور فرمایا یہ تمہارا حق نہیں یہ دوسروں کا حق ہے.۲ اب میں وہ اخلاق جو دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے دوران میں انسان سے ظاہر ہوتے ہیں اُن کی بعض مثالیں بیان کر دیتا ہوں.سب سے پہلے میں اخلاق فاضلہ میں سے اخلاق فاضلہ میں بلند ترین مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصولی اخلاق بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک تمام اخلاق کی کنجی ہیں اور جن کا اس روایت میں ذکر آتا ہے جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اُس گواہی کا ذکر ہے جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق دی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس خیال سے کہ اتنا بڑا کام میں کس طرح کر سکوں گا.ایسا نہ ہوئیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب نہ ہوسکوں آپ سخت گھبرائے اور اسی گھبراہٹ کی حالت میں آپ اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے.اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور یہ الفاظ کہے کہ كَلَّا وَ اللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا (۱) إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ (٢) وَتَحْمِلُ الْكَلَّ (۳) وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ (۴) وَتَقْرِى الضَّيْفَ (۵) وَتُعِيْنَ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ۲۳ یعنی آپ گھبرائیں نہیں.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ نا کام ہو جائیں.آپ کے اندر پانچ عظیم الشان خصلتیں پائی جاتی ہیں اور ان نیک خصلتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۰۸ أسووحن آپ کو کبھی نا کام نہیں ہونے دے گا.چنانچہ وہ اس کی تشریح کرتی ہیں اور کہتی ہیں انگ لَتَصِلُ الرَّحِمَ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہیں وَتَحْمِلُ الْكَلَّ اور جو لوگ کسی کام کے بھی قابل نہیں آپ اُن کے بوجھ اٹھاتے ہیں.وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ اور وہ علوم اور اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو گئے ہیں آپ اُن کو پیدا کرتے ہیں.وَتَقْرِى الضَّيْفَ اور آپ مہمان نوازی کرتے ہیں.وَتُعِینُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ اور جن لوگوں پر کوئی حقیقی من آ جائے آپ اُن کی مدد کرتے ہیں.یہ وہ پانچ اصولی خوبیاں ہیں جن سے دنیا بس رہی ہے یا بس سکتی ہے.دوسرے لفظور میت میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ نظام ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے.صلہ رحمی صلہ رسی میں افراد خاندان ، قبیلہ، قوم اور ملک سب شامل ہیں اور ہر ایک سے اُس کے درجہ اور مقام کے لحاظ سے حسنِ سلوک کرنا صلہ رحمی میں داخل ہے.دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رشتہ داروں سے تو حسن سلوک نہیں کرتے لیکن اگر کوئی غیر اُن کے پاس آ جائے تو اُس کی بڑی خاطر تواضع کرتے ہیں.بھائی یا چچا آ جائے تو اُس کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات بھی نہیں کرتے اور غیر قوم والوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں.انگریزی پڑھے ہوئے ہندوستانیوں میں خصوصیت سے یہ مرض پایا جاتا ہے.اگر کوئی انگریز اُن سے ملے تو بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں.مگر جب کسی ہندوستانی سے بات کرنے لگیں تو کہتے ہیں ہم نہیں جانتے تم کون ہو.اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ اردو کا ایک لفظ بھی ان کے کانوں میں کبھی نہیں پڑا.اسی طرح خواہ اُن کا اپنا رنگ بعض ہندوستانیوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہو جیسے چاند کے سامنے تو ا ہوتا ہے مگر وہ اُن سے بات کریں گے تو کہیں گے دیو کا لا لوگ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں سے اپنی قوم کی محبت اُٹھ چکی ہوتی ہے اور صلہ رحمی مٹ چکی ہوتی ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تھے جو اپنوں اور بیگانوں ہر ایک سے اچھا سلوک کرتے تھے.اُن کے دل میں قریبیوں کی بھی محبت تھی ، پھر اُن سے جو بعید تھے اُن کی بھی محبت تھی ، دوستوں اور تعلق رکھنے والوں کی بھی محبت تھی اور آپ ہر ایک کے ساتھ اُس کے مقام اور درجہ کے لحاظ سے محبت سے پیش آتے اور اُس کی خیر خواہی کرتے اور در حقیقت یہی وہ چیز ہے
انوار العلوم جلد ۱۷ 1+9 جو دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اس کے بعد دوسرا اصولی خُلق یہ ہے کہ وَتَقْرِى الضَّيْفَ باہر سے آنے مہمان نوازی والے مہمان کے ساتھ عزت کا سلوک کیا جائے اور اُس کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کی جائے.لیکن مہمان نوازی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک مہمان نوازی تو یہ ہے کہ لاہور سے کوئی مہمان آئے یا پشاور سے مہمان آئے تو ہم اُس کی مہمان نوازی کریں.یہ مهمان نوازی در حقیقت مہمان نوازی کی ایک ادنیٰ قسم ہے کیونکہ اس مہمان نوازی میں ایک یہ غرض بھی پوشیدہ ہوتی ہے کہ جب ہم لاہور یا پشاور جائیں گے تو یہ شخص ہماری مہمان نوازی کرے گا.پس یہ مہمان نوازی ایسی اعلیٰ نہیں.اس سے بڑھ کر ایک اور مہمان نوازی یہ ہوتی ہے کہ یو.پی کا ہمارے ہاں کوئی مہمان آجائے یا سرحد سے ہمارے ہاں کوئی مہمان آجائے یا بنگال اور بہار سے ہمارے ہاں کوئی مہمان آجائے تو ہم اُس کی خدمت کریں.یہ مہمان نوازی پہلی مہمان نوازی سے زیادہ اعلیٰ ہے کیونکہ یو.پی یا سرحد یا بنگال یا بہار میں ہمیں جانے کا اتنا موقع نہیں مل سکتا جتنا لا ہور یا پشاور جانے کا مل سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ سب ہمارے ملک کے لوگ ہوتے ہیں.ہم سے ایک قسم کا تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے اندر یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر آج یہ ہمارے پاس آئے ہیں تو ممکن ہے کبھی ہمیں بھی ان کے علاقہ میں جانا پڑے پس یہ مہمان نوازی کسی دوسرے وقت خود ہمارے ہی کام آ سکتی ہے.لیکن ایک مہمان وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے ملک کا ہوتا ہے.مثلاً آسٹریا کا کوئی باشندہ ہو یا کینیڈا کا کوئی باشندہ ہو جن کا ملک اور ہے ، جن کی زبان اور ہے، جن کے رسم و رواج اور ہیں، جن کی طرز معاشرت اور ہے ، جن کی حکومت اور ہے ایسے ممالک کے رہنے والوں میں سے اگر کوئی شخص ہمارے ہاں آتا ہے اور ہم اُس کی مہمان نوازی میں حصہ لیتے ہیں تو یقیناً یہ مہمان نوازی زیادہ شاندار ہے کیونکہ ہم نے اُس شخص کی مہمان نوازی کی جس کے ہاں جانے کی ہمیں کوئی توقع ہی نہیں تھی.غرض دنیا میں مختلف قومیں اپنے مہمانوں سے مختلف سلوک کرتی ہیں.بعض قو میں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی قوم والوں سے تو اچھا سلوک کرتی ہیں لیکن اگر کوئی غیر قوم والا اُن کے پاس چلا جائے تو اُس سے کوئی سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں.جیسے آسٹریلیا ہے یا ساؤتھ افریقہ
11.انوار العلوم جلد ۱۷ ہے یا یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے یا برازیل وغیرہ ہیں.ان ممالک کے باشندے اپنے ملک کے لوگوں سے یا اپنے ہمسایہ ممالک کے لوگوں سے تو حسن سلوک کرتے ہیں مگر دوسروں سے حسن سلوک نہیں کرتے مگر یہ مہمان نوازی بھی دراصل حقیقی مہمان نوازی نہیں ہوتی بلکہ ایک قسم کا سودا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اگر آج ہم نے اُن کی خدمت کی ہے تو کل ہمیں ان کے ہاں جانا پڑے گا اور اُس وقت ہمیں ان کی خدمت کی ضرورت ہوگی.پس یہ تو ایک قسم کا سودا ہے لیکن اگر ہم آسٹریلیا سے آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں یا یونائیٹڈ سٹیٹس سے آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں تو یہ حقیقی مہمان نوازی ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اُس وقت یہ امید نہیں ہوتی کہ کسی وقت ہم بھی آسٹر یلیا یا امریکہ میں اُس کے پاس جائیں گے پس مہمان نوازی مختلف اقسام رکھتی ہے.بعض ممالک ایسے ہیں جن کے افراد آج بھی اپنی خود داری کی وجہ سے غیر اقوام کے آدمیوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے.جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے یا آسٹریا، جنوبی امریکہ اور روس وغیرہ ممالک ہیں.وہ جرمنوں سے اچھا سلوک کرنے کیلئے تیار ہیں ، وہ اطالویوں سے اچھا سلوک کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ انہیں دیکھیں گے تو ہاتھ ملا ئیں گے ، اپنے گھر میں انہیں مہمان ٹھہرائیں گے لیکن ایک ہندوستانی کو دیکھتے ہی اُن کی ناک بھوں چڑھ جائے گی.بلکہ ریل کے ڈبہ میں اگر وہ اُن کے ساتھ ایک کوچ پر بھی بیٹھ جائے تو وہ اس پر بھی بُرا منائیں گے کہ یہ ہندوستانی ہمارے کمرہ میں کیوں آ گیا اور کیوں ہمارے ساتھ بیٹھا.غرض مهمان نوازی میں مختلف قوموں کے مختلف اصول ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تھے جن کی مہمان نوازی صرف اپنی قوم کے ساتھ مخصوص نہ تھی ، اپنے ملک کے ساتھ مخصوص نہ تھی، بلکہ جو بھی اجنبی خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملت سے تعلق رکھنے والا ہو آپ کے پاس آتا ، آپ اُس کی مہمان نوازی میں حصہ لیتے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اس کیلئے رستہ کھولا اور اپنی تعلیم سے بھی لوگوں کو مشورہ دیا کہ قومی تعصب مٹا دوسب لوگوں سے بلا امتیاز مذہب وملت محبت و پیار کا سلوک کرو.ہر آنے والے کی مہمان نوازی کرو اور اس طرح دنیا کی ترقی میں مدد دو.
انوار العلوم جلد ۷ 111 ناداروں اور معذوروں کی امداد تیسری صفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی.تَحْمِلُ الْكُلَّ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.در حقیقت اس کے بغیر بھی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا تَحْمِلُ الكَلَّ کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص کسی کام کا نہ ہو اُس کی مدد کرنا.مثلاً لولے لنگڑے اور اندھے جو خود کام کرنے سے معذور ہوتے ہیں اُن کی مدد کرنا تَحْمِلُ الكَلَّ کے مفہوم میں شامل ہے.اسی طرح اگر کسی کے ماں باپ مر جائیں اور بچے یتیم رہ جائیں تو اُن بچوں کو تعلیم دلانا.یا جن کے لئے کمائی کرنے والا کوئی نہ رہا ہو اُن کی پرورش کرنا یہ بھی تَحْمِلُ الكَلَّ میں شامل ہے.پس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.آپ وہ شخص ہیں کہ صرف اپنا بوجھ نہیں اُٹھاتے بلکہ اُن لوگوں کے بھی بوجھ اُٹھاتے ہیں جن کا بوجھ اُٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوتا.یہ بھی ایک ایسی خوبی ہے جو قومی ترقی کا جز و اعظم ہے اور اس کے بغیر کبھی کوئی قوم اعلیٰ مدارج تک نہیں پہنچ سکتی.میں نے نظام نو کے متعلق جو تقریر کی تھی اور جو کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے ، اُس میں میں نے اسی امر کے متعلق توجہ دلائی تھی کہ قوم کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی معذوری کی وجہ سے کمائی نہیں کر سکتے اُن کے لئے کھانا ، کپڑا اور دوائی وغیرہ مہیا کرے.اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے وہ ہر گز کا میاب حکومت نہیں کہلا سکتی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یہ بیان فرماتی ہیں کہ آپ اُن لوگوں کی بھی مدد کیا کرتے تھے جو کسی کام کے نہیں ہوتے تھے.متوسط الحال مگر ضرورت مند طبقہ کی اعانت ایک اور خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کی ہے کہ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اُن کی مدد تو کر دیتے ہیں جو بالکل معذور ہوتے ہیں جیسے اندھے اور اپاہج وغیرہ لیکن وہ مصیبت زدہ لوگ جو کما تو سکتے ہیں لیکن پوری طرح نہیں سما سکتے اُن کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں کرتے حالانکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا بوجھ کسی حد تک تو اُٹھا لیتے ہیں لیکن پورا نہیں اُٹھا سکتے.ایسے مصیبت زدہ لوگوں کو دنیا میں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے.مثلاً ایک شخص پچاس روپے کما لیتا ہے لیکن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۱۲ اُسے ضرورت ستر روپوں کی ہوتی ہے ایسے لوگوں کو چونکہ دنیا کھا تا پیتا دیکھتی ہے اس لئے اُن کی طرف اسے توجہ پیدا نہیں ہوتی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اتنی وسیع تھی کہ آپ اُن لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے جن کے پاس کچھ سامان ہوتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا.کیونکہ بعض دفعہ ایسے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے بوجھ کو کوئی اور شخص آ کر اُٹھائے.وہ نہ تو اتنے لولے لنگڑے ہوتے ہیں کہ اپنا بوجھ نہ اُٹھا سکیں اور نہ اُن کا کندھا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ سب بو جھ بغیر کسی تکلیف کے اُٹھا سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایسے لوگوں کی مددفرمایا کرتے تھے جس کے بعد وہ اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہو جاتے اور تُعِینُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ کے الفاظ میں حضرت خدیجہ نے ایسے ہی لوگوں کی مدد کا ذکر کیا ہے.مگر شرط یہ ہے کہ ایسے لوگ سستی اور غفلت سے کام لینے والے نہ ہوں بلکہ وہ واقعہ میں مدد کے محتاج ہوں اور اگر بعض لوگ سُستی اور غفلت سے کام لیتے ہوں تو اُن کو کام پر مجبور کرنا حکومت اور قوم کا فرض ہے.قومی ترقی کیلئے نئے نئے راستوں کی تلاش جب ان باتوں پر عمل کر کے قوموں میں ایک حد تک ترقی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا اندرونی نظام قائم کر لیتی ہیں، صلہ رحمی اُن کا شیوہ ہو جاتا ہے، غریبوں اور یتیموں کی پرورش اُن میں شروع ہو جاتی ہے، غیر قوموں سے صلح اور حسن سلوک اُن کے طریق عمل میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ مصیبت زدہ جواپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اُن کی مدد کا بھی انہیں خیال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک نظام کے ماتحت یہ تمام کام سرانجام دیتی ہیں تو پھر بھی وہ صحیح طور پر ترقی نہیں کر سکتیں جب تک ایک نئی خوبی اُن میں پیدا نہ ہو اور وہ خوبی وہی ہے جو تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.ہم دیکھتے ہیں آج دنیا ترقی کی طرف جا رہی ہے مگر اُس کی ترقی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نئے علوم ظاہر ہور ہے اور نئی نئی ایجاد میں دنیا میں ہو رہی ہیں.ہر نیا علم دنیا کو ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے اور ہر نئی ایجاد دنیا کے ذہنی اور فکری قومی کو اور زیادہ چلا دے دیتی ہے.اگر نئے علوم ظاہر نہ ہوں اور علمی لحاظ سے دنیا کسی مقام پر آ کر رُک جائے ، اگر نئی ایجادیں نہ ہوں اور دنیا پرانی ایجادات تک ہی رُک جائے تو کبھی لوگوں کو ترقی حاصل نہ ہو اور کبھی اُن کے علمی اور دماغی قومی کونئی قوت اور روشنی حاصل نہ ہو.پس
انوار العلوم جلد ۱۷ اخلاق فاضلہ اور علوم کو زندہ رکھنے کیلئے نئی نئی ایجادوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے اور وہ قو میں کبھی زندہ نہیں رہتیں جن میں نئے علوم اور ایجادات کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے.تَكْسِبُ الْمَعْدُومِ کے الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ چیزیں جو دنیا والوں کو آج معلوم نہیں آپ اُن کو بھی دریافت کر کے دنیا میں پھیلا رہے ہیں.گویا آپ کے ذریعہ دنیا میں ترقی اور ایجاد کا مادہ قائم ہے.نظام نو کا قیام یہ پانچ چیزیں ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اہلی زندگی کو بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو ہمیشہ کیلئے درست کر دیا.جن کے کام میں کوئی روک تھی اُن کی روک کو دور کر کے آپ نے ملک میں کام کا راستہ کھولا.جو لوگ اپاہج یا کمانے کے ناقابل تھے اُن کے لئے معیشت کا پورا سامان جمع کیا اور پھر قوم میں آئندہ ترقی کا ہمیشہ کیلئے دروازہ کھول دیا.گویا یہ نظام نو ہو گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا ہے.یہ پانچوں اخلاق جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتے ہیں وہ آپس میں حسنِ سلوک سے کام لیتی ہے، اپنے ہمسائیوں اور غیر ممالک والوں سے بھی حسنِ سلوک کرتی ہے ، وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو کسی کام کے اہل نہ ہوں اُن کے لئے روزی کا سامان مہیا ہو جائے ، وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو اپنی کچھ روزی کما سکتے ہیں اور کچھ نہیں کما سکتے اُن کی پریشانی بھی دور ہو جائے اور اُن کی بقیہ ضرورتیں پوری ہو جائیں وہ تَكْسِبُ الْمَعْدُومِ پر بھی عمل کرتی اور ملک میں یونیورسٹیاں قائم کرتی ہے تا کہ علوم میں ترقی ہو، ملک کی صنعت و حرفت میں ترقی ہو اور لوگ ان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کر کے جب باہر نکلیں تو وہ دینی اور دنیوی علوم میں نئی نئی تحقیقات سے کام لیں.وہ عِلمُ الاخلاق کو ترقی دیں ، وہ عِلمُ الادیان کو ترقی دیں ، وہ عِلْمُ الاَبُدَان کو ترقی دیں ، وہ عِلْمُ الْحَيَوَانَات کو ترقی دیں ، وہ عِلْمُ النفس کو ترقی دیں.غرض نئے نئے علوم پیدا کریں اور نئی نئی ایجادات ملک کی ترقی کے لئے کریں تو بتاؤ اس قوم کے لئے پھر اور کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے.
انوار العلوم جلد کا ۱۱۴ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نبوت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے نظام نو کا بیچ رکھ دیا تھا اور آپ کے اخلاق شروع سے ہی ایسے تھے جن پر آئندہ دنیا کا نیا نظام قائم ہونے والا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں ذرا تفصیل سے بعض مثالیں دیتا ہوں جن سے ظاہر ہوسکتا ہے کہ رسول کریم کے اخلاق فاضلہ کی بعض مثالیں صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کے اخلاق فاضلہ دکھایا کرتے تھے.سب سے پہلی بات جو اخلاق فاضلہ سے تعلق رکھتی ہے اور جو درحقیقت نہایت ہی اہم اور ضروری ہے وہ سچائی ہے.سچائی کا بلند ترین معیار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے جس کے پاس کوئی اخلاقی کتاب نہیں تھی.مگر ایسی قوم میں پیدا ہو کر سچائی کا جو اعلیٰ معیار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا وہ نہایت ہی حیرت انگیز ہے.آپ میں سچائی ایسی اعلیٰ درجہ کی پائی جاتی تھی کہ قوم میں آپ کا نام ہی صادق مشہور ہو گیا تھا اور لوگ بجائے آپ کے نام سے آپ کو پکارنے کے آپ کو صادق کے نام سے پکارا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے وہ صادق ، وہ راست باز اور وہ سچا آدمی اس طرح کہتا ہے.یہ خوبی آپ میں اس قدر غالب تھی کہ دنیا میں آپ کو جاننے والا کوئی شخص ایسا نہ تھا جو آپ کے صدق پر شبہ کر سکتا.خواہ بظاہر آپ انہونی بات ہی کیوں نہ کہہ دیتے.چنانچہ ایک دفعہ آپ کھڑے ہوئے اور قوم کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا تم جانتے ہو میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا.انہوں نے اقرار کیا اور کہا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے آپ نے آج تک کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے میری قوم کے لوگو ! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ ایک بڑ الشکر مکہ کے پاس پڑا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری اس بات کو تسلیم کر لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم مان لیں گے حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ مکہ کے پاس کوئی لشکر چھپ ہی نہیں سکتا تھا.وہاں اگر کوئی لشکر آئے تو ایک بچہ بھی اُسے دیکھ سکتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۱۵ جب یہ فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ مکہ کے دامن میں ایک بہت بڑا لشکر چھپا بیٹھا ہے اور وہ عنقریب تم پر حملہ کرنے والا ہے خود تم میں سے کوئی شخص اُس لشکر کو نہ دیکھے تو کیا تم میری اس بات کو جو بظا ہر بالکل ناممکن دکھائی دیتی ہے مان لو گے؟ انہوں نے کہا یقینا ہم آپ کی بات مان لیں گے کیونکہ آپ وہ ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی بات ہے اور تمہیں میری سچائی پر اس قد راعتماد ہے تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ مجھے خدا نے یہ کہہ کر تمہاری طرف بھیجا ہے کہ میں تمہیں توحید کی طرف بلاؤں.اس پر لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہنا شروع کر دیا.۴۴ تو دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا معیار اتنا بلند تھا کہ آپ نے اپنی قوم کے سامنے ایک ایسی بات پیش کی جو کسی صورت میں بھی ممکن نہیں تھی.آپ نے کہا اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ مکہ کے پاس ایک بہت بڑا لشکر چھپا بیٹھا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری اس بات کو مان لو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ہم ضرور آپ کی بات مان لیں گے.بیشک اس لشکر کو ہم نہ دیکھیں، بے شک ہم میں سے ایک فرد بھی باوجود کوشش کے لشکر کو نہ دیکھ سکے لیکن چونکہ ہمیں آپ کی سچائی پر پورا یقین ہے اس لئے ہم اپنی آنکھوں کو جھوٹا کہہ لیں گے مگر آپ کو جھوٹا نہیں کہیں گے.مگر باوجود اس کے انہوں نے آپ کے دعوی کو نہ مانا.بہر حال اس سے اتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ مکہ والوں نے سچائی کے معیار میں آپ کو ایسے عظیم الشان مقام پر دیکھا تھا کہ آپ خواہ کوئی بات کہیں اُس کا انکار اُن کے لئے بالکل ناممکن تھا.میں نے بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جو خو بیاں پائی جاتی ہیں جب تک ہم اُن تمام خوبیوں کو اپنے اندر پیدا نہ کر لیں اور جب تک ہم اپنے اپنے دائرہ میں ایک چھوٹے محمد نہ بن جائیں اُس وقت تک ہم کبھی نجات نہیں پاسکتے.اسی طرح ہمارے اندر جب تک ویسی ہی سچائی کی طاقت پیدا نہیں ہو جاتی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پائی جاتی تھی اُس وقت تک ہم کسی صورت میں بھی نجات اور خدا تعالیٰ کے فضل کے مستحق نہیں ہو سکتے.صلى الله جھوٹ کے متعلق اُمت کو انتباہ رسول کریم ﷺ کو صداقت کا اس قدر خیال تھا کہ ابی بکرہ روایت کرتے ہیں.آپ نے
صلى الله صلى الله ١١٦ انوار العلوم جلد ۱۷ ایک دفعہ صحابه کوفرمایا الا أُنَبِّئُكُمْ بِاَكْبَرِ الْكَبَائِرِ.اے میرے صحابہ! کیا میں تمہیں اُن گناہوں کی خبر نہ دوں جو سب سے بڑے ہیں.صحابہ نے کہایا رَسُولَ اللهِ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا.اَلْإِشْرَاكُ بِاللہ سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار دینا ہے.پھر فرمایا - وَعَقُوقُ الْوَالِدَيْنِ بڑے بڑے گناہوں میں سے ایک اور بڑا گناہ یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی کی جائے ، اُن کو دُکھ دیا جائے اور اُن کی باتوں کو نہ مانا جائے.یہ کہہ کر آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے.وَكَانَ مُتَّكِنا.اس سے پہلے آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے اور پھر بڑے زور سے فرمایا.اَلا وَقَوْلَ النُّورِ - آلَا وَقَوْلَ الرُّوُر - اَلا وَقَوْلَ الرُّوُر - ۳۵ کان کھول کر سُن لو کہ پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے، پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے ، پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے.پھر رسول کریم ﷺ نے بڑے درد اور کرب سے اس بات کو اتنی بار دہرایا کہ ہمیں آپ کی تکلیف کا شدید احساس ہوا اور ہم نے اپنے دل میں خیال کرنا شروع کیا کہ کاش! رسول کریم ع آب خاموش ہو جائیں ، کیونکہ ہم نے آپ کی بات خوب سمجھ لی ہے.مگر کتنے ہیں جو آج سچائی کو وہ اہمیت دیتے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دی.ہم تو ا دیکھتے ہیں لوگ ذرا ذرا سی بات پر جھوٹ بول لیتے ہیں اور اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ اسلام نے سچائی کو کس قدرا ہمیت دی ہے.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے سچائی کو بہت حد تک اپنے معاملات میں ملحوظ رکھتی ہے لیکن پھر بھی ابھی ایک طبقہ ایسے لوگوں کا پایا جاتا ہے جو جھوٹ سے نفرت نہیں کرتا بلکہ بعض لوگ میرے سامنے آ کر بھی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں واقعہ ہوا تو یوں ہے مگر میرے پاس فلاں شخص اس کے متعلق کچھ دریافت کرنے آیا تو میں نے اُسے کہہ دیا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں.میں اُس وقت حیرت سے اُس کے منہ کو دیکھتا ہوں کہ یہ خلیفہ وقت کے سامنے جہ ، جب جھوٹ بول رہا ہے تو پھر دوسرے لوگوں کے سامنے یہ کس قدر جھوٹ بولتا ہو گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے اس قدر نفرت تھی کہ آپ نے درد کے ساتھ اس فقرہ کو اتنا دُہرایا اتنا ہرایا کہ صحابہ کہتے ہیں ہم نے اپنے دل میں کہا خدایا ! رسول کریم علی آب خاموش ہو جائیں آپ کی تکلیف ہم سے دیکھی نہیں جاتی.
انوار العلوم جلد ۷ ۱۱۷ صلى الله اور.رسول کریم ﷺ کی اخلاق فاضلہ میں سے ایک اور طلق امانت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امانت میں بھی اتنا اعلیٰ درجہ حاصل تھا کہ دیانت وامانت کا شہرہ مکہ کے لوگ آپ کو امین کہتے تھے.آپ کی امانت کی تاریخ میں جو مثالیں پائی جاتی ہیں اُن میں سے ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت خدیجہ نے آپ کو اپنا مال دے کر تجارت کی غرض سے شام کی طرف بھیجا تو چونکہ آپ کی تمام تر توجہ اس بات کی طرف رہتی تھی کہ دیانت داری کے ساتھ کام کیا جائے اور اس غرض کے لئے آپ اپنی طرف سے پورا زور لگایا کرتے تھے اس لئے آپ نے اُن کے مال کی ایسی نگرانی کی کہ تجارت میں غیر معمولی نفع ہوا اور آپ نہایت کامیاب ہو کر اس سفر سے واپس تشریف لائے.حضرت خدیجہ کا پہلا تجربہ یہ تھا کہ جو لوگ اُن کا مال لے کر تجارت کے لئے جایا کرتے تھے وہ بد دیانتی سے کام لیتے تھے لیکن رسول کریم ﷺ نے نہ خود کوئی مال لیا اور نہ کسی اور ملازم کو لینے دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تو وہ غلام جو آپ کے ساتھ حضرت خدیجہ نے بھجوائے تھے انہوں نے حضرت خدیجہ سے ذکر کیا کہ اس شخص سے بڑھ کر نیک اور دیانت دار شخص ہم نے عمر بھر میں کوئی نہیں دیکھا.سے یہی وہ گواہی تھی جس کی بناء پر حضرت خدیجہ نے خود خواہش کر کے آپ سے شادی کی حالانکہ وہ ایک بہت بڑی مالدار عورت تھیں اور رسول کریم اس وقت کے لحاظ سے بالکل مفلس تھے.رسول کریم ﷺ کا اعلیٰ درجہ کا علم علم بھی اخلاق فاضلہ میں سے ایک تعظیم الشان کا اعلی درجہ کاعلم علنی کے مینی لوگوں کومعاف کرنا اور ان سے ہے.الله نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آنا.اس خلق کے لحاظ سے بھی رسول کریم ﷺ نے ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ آج اُس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ صدقہ و خیرات تقسیم کر رہے تھے کہ تقسیم کرتے کرتے جس قدر مال آپ کے پاس آیا تھا وہ ختم ہو گیا.جب سب مال تقسیم ہو چکا تو ایک بدوی آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا لائیے مجھے بھی کچھ دیجئے.آپ نے فرمایا آب میرے پاس کچھ نہیں جس قدر مال آیا تھا وہ میں تقسیم کر چکا ہوں.وہ آخر بدوی تھا، ایمان اُسے حاصل
انوار العلوم جلد ۷ ۱۱۸ نہیں تھا اُس نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اُسے مروڑ نا شروع کر دیا کہ میرا حصہ ہے یا نہیں؟ یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں.مگر آپ نے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ دیکھو ! میں بخیل نہیں اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تمہیں ضرور دے دیتا.ہے اس واقعہ کی اہمیت اُس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلوک بدوی نے آپ سے اُس وقت کیا جب آپ عرب کے بادشاہ تھے.آج کسی انگریز کے چپڑاسی سے بھی اس قسم کی بات کہو تو وہ فوراً دوسرے کو پیٹنا شروع کر دے گا اور کہتا جائے گا تم نہیں جانتے میں ہوں کون ، حالا نکہ وہ ہوتا چپڑ اسی ہے.اسی طرح آپ ایک دفعہ صدقہ و خیرات تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص نے جسے یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے کم حصہ ملا ہے رسول کریم ﷺ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا آپ ظلم کر رہے ہیں.صحابہ اس بات کو گب برداشت کر سکتے تھے.حضرت عمرؓ نے تلوار نکال لی کہ ابھی میں اس کو قتل کرتا ہوں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو.۴۸ غیر مذاہب کے پیرؤوں دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا بھی ایک بہت بڑی بات ہوتی ہے.انسان جب کسی دوسرے کے جذبات کا احترام انسان کے پاس جائے تو طبعی طور پر اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اُس سے کوئی ایسا سلوک نہ کرے جس کے نتیجہ میں اُسے دُکھ پہنچے مگر سوال یہ ہے کہ آج کتنے لوگ ہیں جو اس کا خیال رکھتے ہیں.ہم تو دیکھتے ہیں کہ کسی سے ذرا سا بھی کوئی ایسا کام ہو جائے جو دوسرے کے منشاء کے خلاف ہو تو وہ فوراً چڑ جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ کچھ عیسائی آئے اور مسجد میں آپ سے مذہبی مسائل پر بحث کرتے رہے.اُس روز اتوار کا دن تھا جب اُن کی عبادت کا وقت آیا تو انہوں نے کہا اب ہم مسجد سے باہر جاتے ہیں تا کہ اپنے مذہب کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجدیں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہی ہوتی ہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ، اسی جگہ عبادت کر لیں.۴۹ یہ وہ رواداری ہے جس کا رسول کریم علیہ نے نمونہ دکھایا اور جس کے ماتحت ہمارے لئے
انوار العلوم جلد ۱۷ 119 بھی یہی ہدایت ہے کہ اگر غیر مذہب کا کوئی پیرو ہماری مساجد میں اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے تو وہ بیشک کر لے ، اس میں کسی قسم کی روک نہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہم میں اس کا پورا احساس پیدا نہیں ہوا اور ایسی اعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے ہم میں سے بعض ایسی تنگ دلی کا اظہار کرتے ہیں جو نہایت قابل تعجب ہوتی ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جس سے مجھے بہت ہی تعجب ہوا اور میں نے سمجھا کہ ابھی تک ہمارے اندر غیر مذاہب والوں سے حسن سلوک کا وہ جذ بہ پیدا نہیں ہوا جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.سندھ کی زمینوں کے کام کے لئے ہمیں مختلف قسم کے ماہرین کی ضرورت ہوا کرتی ہے.بیشک قومی کام ہونے کی وجہ سے ہم احمدیوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر اپنے فن میں ماہر احمدی نہ مل سکیں تو پھر مجبوراً غیر اقوام کے لوگوں کو ملازم رکھنا پڑتا ہے.اسی سلسلہ میں ہم نے ایک سکھ کو ملازم رکھ لیا کیونکہ وہ اپنے فن میں ماہر تھا مگر مجھے تعجب ہوا کہ ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ اگر آپ سکھ ملازم رکھنے لگے تو پھر ہمارے لئے کام کرنا مشکل ہے.میں نے اُسے لکھا کہ اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو پھر بے شک آپ تشریف لے جائیے ہمیں آپ کی ضرورت نہیں.ہم تو لوگوں کو یہ سکھاتے سکھاتے تھک گئے کہ سب مذاہب والوں کو اپنا بھائی سمجھو اور کام کرنے کے لحاظ سے اگر تمہیں ایک انگریز بلکہ ایک چوہڑے کے ماتحت بھی کام کرنا پڑتا ہے تو بیشک کرو.مگر حالت یہ ہے کہ بعض احمد یوں کو یہ بھی بُرا لگتا ہے کہ کسی سکھ کو کیوں ملازم رکھ لیا گیا ہے.پس ابھی اپنی جماعت کے اندر بھی یہ کامل احساس پیدا کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے لیکن رسول کریم علی کی یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس عیسائی آتے ہیں ، وہ لوگ آتے ہیں جن سے روزانہ آپ کی لڑائیاں رہتی ہیں مگر جب وہ عبادت کرنے کے لئے باہر جانے لگتے ہیں تو آپ انہیں منع کرتے ہیں اور فرماتے ہیں آپ باہر کیوں جاتے ہیں یہیں عبادت کر لیجئے.ایک بدوی کے ساتھ ملاطفت اسی طرح ایک دفعہ ایک بدوی آیا اسے پتہ نہ تھا کہ مسجد میں پیشاب کرنا منع ہے وہ آیا اور مسجد صلى الله میں پیشاب کرنے لگ گیا.صحابہ ڈنڈے لے کر اُٹھے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو ، اس کا پیشاب رک جائے گا.اس بیچارے کو کیا پتہ کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے.آرام
انوار العلوم جلد کا ۱۲۰ صلى الله سے بیٹھو اور اسے پیشاب کر لینے دو جب وہ پیشاب کر کے چلا گیا تو رسول کریم ﷺ نے : فرمایا.اب لوٹے بھرو اور پیشاب کی جگہ پانی بہا دو ، جگہ صاف ہو جائے گی.۵۰ تو دیکھو رسول کریم ﷺ نے اُس کے جذبات اور احساسات کا کیسا خیال رکھا کہ صحابہ کو منع کرنے بھی نہ دیا اس خیال سے کہ وہ دوسروں کے سامنے ذلیل اور شرمندہ ہوگا.ڈھولک کے گیت پر رسول کریم اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ آپ کا حکیمانہ طریق عمل گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عائشہ کے یپاس مدینہ کی دولڑکیاں آئیں اور انہوں نے ڈھولک کے ساتھ کوئی گیت گانا شروع کر دیا.اوپر سے حضرت ابو بکر آ گئے انہوں نے ڈانٹا کہ یہ کیا کر رہی ہو.تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں اور اُن کے سامنے یہ شیطانی کام کرتی ہو مگر رسول کریم ﷺ نے ان سے کچھ نہیں کہا.آپ نے صرف اتنا کیا کہ چار پائی پر لیٹے لیٹے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا.حضرت عائشہ سمجھ گئیں کہ رسول کریم ﷺ کا کیا منشاء ہے.چنانچہ جب رسول کریم ﷺ کو نیند آنے لگی تو وہ فرماتی ہیں میں نے لڑکیوں کو اشارہ کیا کہ اب چلی جاؤ اے چنانچہ وہ اُٹھ کر چلی گئیں.آب دیکھو یہ امر بظا ہر رسول کریم ﷺ کی شان کے خلاف تھا اور کہنے والوں نے یہی کہنا تھا کہ رسول کریم ﷺ ڈھولک کے ساتھ گانا سنتے ہیں.مگر آپ نے اُن لڑکیوں کا دل رکھنے کے لئے خاموشی اختیار کی اور ایسا طریق اختیار کیا جس سے حضرت عائشہ بھی سمجھ گئیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا منشاء ہے اور اُن لڑکیوں کا دل بھی نہ دُکھا.رسول کریم ع کی رحم دلی کی رحم دلی درہم بھی بڑی اعلی درجہ کی صفت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.چنانچہ فتح مکہ اس کا ایک روشن ترین ثبوت ہے.فتح مکہ میں جو کچھ ہوا اُس کی تفصیل کو میں چھوڑتا صلى الله ہوں.میں اس وقت ایک اور مشہور واقعہ بیان کر دیتا ہوں.رسول کریم ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دفعہ ایک قبیلہ کے چند لوگ حملہ کر کے رسول کریم ﷺ کی اونٹنیاں لے گئے.اُن اونٹیوں کی حفاظت کیلئے جو نو کر مقرر تھا وہ دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا يَارَ سُولَ اللَّهِ !
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۲۱ رض کچھ لوگ حملہ کر کے آئے تھے اور وہ آپ کی اونٹنیاں چرا کر لے گئے ہیں.انوع ایک صحابی تھے وہ اُس وقت اکیلے وہاں موجود تھے اور اونٹنیوں کو لے جانے والے بہت زیادہ تھے مگر وہ یہ سنتے ہی اونٹنیاں واپس لانے کے لئے تیار ہو گئے.انہوں نے آواز دی کہ کوئی اور شخص بھی مدد کے لئے آئے مگر اُس وقت کوئی شخص نہ پہنچا اور وہ اکیلے ہی چل پڑے.وہ تھے تو اکیلے لیکن ا چونکہ تیرا نداز تھے اس لئے وہ درختوں کے پیچھے چُھپ کر اُن پر تیر چلا دیتے جس سے وہ زخمی ہو جاتے.اس طرح انہوں نے کئی میل تک اُن کا تعاقب کیا اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اُن پر اس قدر تیر برسائے کہ آخر وہ زخمی ہونے کی وجہ سے اونٹنیوں کو سنبھال نہ سکے اور اکوع تمام اونٹنیاں چھڑا کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے.جب وہ رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے يَارَسُوْلَ اللهِ ! وہ لوگ سخت پیاسے تھے اور وہ اونٹنیوں کا دودھ پینے کی کوشش کرتے تھے.مگر جب بھی وہ دودھ پینے لگتے میں انہیں تیر مار کر زخمی کر دیتا اور اس طرح سب کو نا کارہ کر کے میں اونٹنیاں چھڑا لایا ہوں.اب آپ کچھ آدمی بھیجوا دیجئے وہ زیادہ دُور نہیں ہیں ، دس بارہ میل کے اندر ہیں اور زخموں کی وجہ سے وہ بھاگ بھی نہیں سکتے.اس لئے اُن کو آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.انکو ! ہمیں اپنا مال تو مل گیا اب اُن غریبوں کو تم کیوں دُکھ دیتے ہو، انہیں جانے دو تعاقب کی ضرورت نہیں.۵۲ دیکھو! یہ رحمدلی کی کیسی شاندار مثال ہے.اُس صحابی کو جوش ہے اور وہ کہتا ہے کہ اُن کو ضرور گرفتار کرنا چاہئے.وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ پیا سے اور زخمی ہیں اس وجہ سے بھاگ نہیں سکتے بڑی آسانی سے گرفتار ہو سکتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہماری چیز تو ہمارے پاس آ گئی ،اب تعاقب کی کیا ضرورت ہے.اسی طرح ایک اور واقعہ بھی جو غیر معروف ہے رسول کریم ﷺ کے جذبات رحم کو نمایاں الله کرتا ہے.ایک دفعہ آپ ایک انصاری کو ملنے کے لئے گئے اور اُس سے کچھ دیر باتیں کرتے رہے.جب واپس آنے لگے تو اُس نے گھوڑے پر کاٹھی ڈال دی اور رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اس گھوڑے پر سوار ہو کر واپس تشریف لے جائیں.پھر اُس نے اپنے ایک عزیز کو جس کا
صلى الله ۱۲۲ انوار العلوم جلد ۱۷ نام قیس تھا بلا یا اور کہا تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ اور آپ کو اپنے گھر چھوڑ آؤ.جب رسول کریم ﷺ باہر نکلے تو آپ نے اُس سے فرمایا قیس ! یہ تو بُرا لگتا ہے کہ میں سواری پر بیٹھوں اور تم میرے ساتھ پیدل چلو.اُس نے کہا یار سُوْلَ اللهِ! میں تو اِسی طرح جاؤں گا، مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیس ! بیا تو تمہیں میرے ساتھ گھوڑے پر سوار ہونا پڑے گا اور یا پھر واپس چلے جاؤ.مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میں گھوڑے پر سوار رہوں اور تم پیدل ساتھ چلو.اُس نے کہا يَارَسُوْلَ اللهِ ! پھر مجھے اجازت دیجئے کہ میں واپس چلا جاؤں.آپ نے فرمایا بہت اچھا تم واپس جاسکتے ہو ، چنانچہ وہ واپس چلا گیا.۵۳ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ کسی دوسرے کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے.رحم آپ کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپ کے لئے کسی کو تکلیف کی حالت میں دیکھنا بالکل نا قابل برداشت تھا.جانوروں پر شفقت اسی طرح سول کریم ﷺ نے جانوروں پر بھی رحم کیا.لوگ جب جانوروں کو داغ دیا کرتے تھے تو اُن کی گردن یا منہ پر داغ دیا کرتے تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور ہدایت کی کہ آئندہ منہ یا گردن کی بجائے جانوروں کی پیٹھ پر داغ دیا جائے کیونکہ اُن میں بھی جان ہوتی ہے اور منہ پر داغ لگانے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے.۵۴ انصاف بھی اخلاق فاضلہ میں سے ایک عدل وانصاف کے چند واقعات بہت بڑا خلق ہے اور رسول کریم ﷺ کی زندگی میں اس کی بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں.میں صرف ایک مثال بیان کر دیتا ہوں.الله حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسول کریم ﷺ کے چاتھے ، وہ بدر کی جنگ میں قید ہو گئے.اُس زمانہ میں چونکہ ہتھکڑیاں نہیں ہوتی تھیں اس لئے قیدیوں کو رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے جکڑ کر کسی ستون یا لکڑی کے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا.حضرت عباس کو بھی اسی طرح رسیوں سے باندھ دیا گیا.چونکہ گر ہیں سخت تھیں اور حضرت عباس ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے
انوار العلوم جلد ۷ ۱۲۳ اِس لئے تمام رات اُن کے کراہنے کی آواز آتی رہی.رسول کریم ﷺ کو ان کے کراہنے کی وجہ سے نیند نہ آئی اور صحابہ نے یہ دیکھا کہ آپ کبھی دائیں کروٹ بدلتے ہیں اور کبھی بائیں.صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اس کی وجہ سے انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ رسول کریم ﷺ کو آج نیند نہیں آ رہی اور اس کی وجہ غالبا حضرت عباس کا کراہنا ہے.ایک صحابی کہنے لگا تم چُپ رہو، میں عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور اُس نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں.رسیوں کے ڈھیلا ہوتے ہی اُن کے کراہنے کی آواز بند ہوگئی.تھوڑی دیر کے بعد جب رسول کریم ﷺہ کو حضرت عباس کی آواز نہ آئی تو آپ نے فرمایا عباس کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آتی؟ صحابہ نے عرض کیا یار سُولَ اللهِ ! ہم نے اُن کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں.آپ نے فرمایا یہ تو مناسب نہیں یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو اور یا پھر عباس کی رسیاں بھی سخت کر دو.۵۵ یہ وہ لوگ تھے جو تلواریں لے کر مسلمانوں کے مقابلہ کیلئے نکلے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں کے قتل کے ارادہ کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلے تھے جب مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ عباس میرا چچا ہے اس کی رسیاں بے شک ڈھیلی کر دو اور باقی قیدیوں کی رسیاں سخت رکھو بلکہ آپ نے فرمایا یا تو سب کی رسیاں ڈھیلی کر دو اور یا پھر عباس کی بھی سخت کر دو.اسی طرح حضرت عباس کی قید کے بعد صحابہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے يَارَسُولَ اللهِ ! ہم آپ سے کچھ مانگنے آئے ہیں.ہماری ایک بہن کا بیٹا عباس ہے، اس کا فدیہ معاف کر دیا جائے ( جنگ بدر میں کفار کے جس قدر آدمی قید ہوئے تھے اُن کے متعلق یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ فدیہ دیکر رہا ہو سکتے ہیں ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا یا تو سب کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور یا ان سے بھی فدیہ وصول کیا جائے.۵۶ یہ وہ انصاف تھا جو رسول کریم ﷺ کے اندر پایا جاتا تھا.ادھر صحابہ کا کمال ادب دیکھو کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ يَارَ سُولَ اللهِ ! آپ کے چچا عباس کا فدیہ ہم معاف کرانے کے لئے آئے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ سمجھا جاتا کہ وہ رسول کریم ﷺ پر کوئی احسان کر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۲۴ رہے ہیں بلکہ یہ درخواست کی کہ ہماری بہن کا ایک بیٹا عباس ہے اُس کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم اُن سے فدیہ وصول نہ کریں.بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے تڑپ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے آپ کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی تھی : « لَعَلَّكَ بَاخِعُ نَفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنین ۵۷ سے ظاہر ہوتی ہے.اسی طرح بخاری میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود آپ کے پاس آئے.آپ نے اُن سے فرمایا عبداللہ ! کچھ قرآن شریف پڑھ کر سُنا ؤ.انہوں نے کہايَارَ سُولَ اللَّهِ ! وحی آپ پر نازل ہوتی ہے اور قرآن میں آپ کو پڑھ کر سناؤں آپ نے فرمایا ہاں مجھے دوسروں سے قرآن سننے میں مزا آتا ہے.انہوں نے سورۃ نساء کی چند آیتیں پڑھ کرسنا ئیں.جب وہ اس آیت پر پہنچے کہ فَكَيْفَ إِذَا جِتُنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدةً جِثْنَابِكَ عَلَى هَؤُلاء شهيدًا یعنی اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان لوگوں کے متعلق بطور شاہد پیش کریں گے.تو حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں مجھے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ.جب میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے.میں ابھی بتا چکا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو لوگوں کے سامنے کھڑا کرے گا اور فرمائے گا یہ وہ نمونہ ہے جس کی نقل کرنے کے لئے میں نے اسے دنیا میں بھیجا تھا.آج اگر تم اس نمونہ کے مطابق نظر آئے تو تم جنت میں داخل کر دیئے جاؤ گے ورنہ اس نمونہ کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں تمہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا.جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قرآن کریم پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو رسول کریم ﷺ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم کتنے لوگ ہوں گے جو اس تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوزخ میں گرا دئیے جائیں گے.کیسی عظیم الشان نعمت تھی جو اُن کے سامنے پیش کی گئی مگر پھر کس قدر لوگ ہیں جو تعصب یا جہالت یا غصہ کی وجہ سے اس نعمت سے محروم ہو گئے اور وہ خدا تعالیٰ کے ابدی انعامات کو حاصل نہ کر سکے.اس خیال کا پیدا ہونا تھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، رقت آپ پر غالب آ گئی اور آپ نے فرمایا صلى الله
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۲۵ آگے نہ پڑھو اب مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتا.۵۸ عورتوں سے حُسنِ سلوک کی تعلیم چونکہ عورتیں بھی اس وقت تقریرئن رہی ہیں.اس لئے میں اب عورتوں سے حسن سلوک الله کے متعلق رسول کریم ﷺ کی تعلیم میں سے چند باتیں بیان کر دیتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے حُسنِ سلوک کرنے کے متعلق ایک نہایت ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے.نادان اس پر اعتراض کرتے اور اُسے نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم عل الله کی جہالت قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ اُس سے بہتر ناممکن ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو! عورتوں سے زیادہ بختی کا معاملہ نہ کیا کرو.کیونکہ خُلِقنَ مِنْ ضلع ۵۹ وہ پہلی سے پیدا کی گئی ہیں.اگر تم زیادہ زور دو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی سیدھی نہیں ہو سکے گی.نادان دشمن اعتراض کرتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے عورت کو پسلی سے پیدا شدہ قرار دیا ہے اور یہ امر واقعات کے بالکل خلاف ہے.حالانکہ خُلِقَ مِنْ فُلانٍ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں مادہ اُس میں رکھا گیا ہے.پس خُلِقَنَ مِنْ ضلع کے یہ معنی نہیں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت پسلی کی شکل میں پیدا کی گی ہے.اب دیکھ لو پسلی کی شکل میں عورت کو پیدا کرنا کتنا لطیف استعارہ بن جاتا ہے.انسانی جسم میں پسلیاں ہی ایک ایسی چیز ہیں جو دل کی طرف منہ کر کے جھکی ہوئی ہوتی ہیں اور پھر وہ جسم میں ایک علیحدہ حصہ بھی نظر آتی ہیں.پس خُلِقَنَ مِنْ ضِلْعِ میں رسول کریم نے عورت کے ساتھ انسان کے تعلق کی مثال بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ تم عورت سے تعلق رکھتے وقت پہلی کی مثال کو اپنے سامنے رکھا کرو.پہلی اگر ایک طرف پوری طرح جھلکی ہوئی ہوتی ہے اور اُس کا رُخ انسانی قلب کی طرف ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ جسم میں ایک علیحدہ وجود بھی نظر آتی ہے.گویا ایک ہی وقت میں دونوں باتیں اُس میں دکھائی دیتی ہیں.وہ جسم کے ساتھ بھی پیوست ہوتی ہے اور اس کا ہر حصہ علیحدہ علیحدہ بھی نظر آتا ہے.پس در حقیقت اس مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر کیا ہے اور صلى الله
۱۲۶ انوار العلوم جلد ۱۷ عورت کو پسلی سے مشابہہ قرار دے کر اُس سے حسن سلوک کرنے کی طرف نہایت لطیف پیرا یہ میں اشارہ کیا ہے.چنانچہ غور کر کے دیکھ لو دنیا میں جس قدر رشتے پائے جاتے ہیں اُن میں سے صرف عورت کا ہی ایک ایسا رشتہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے خاوند کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اگر اُسے الگ کرو تو وہ الگ بھی ہو جاتی ہے.ماں بیٹی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا، باپ بیٹے کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا، بھائی بھائی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا لیکن خاوند اور بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ وقت آنے پر وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے.بسا اوقات ایک میاں بیوی میں اس سے بھی زیادہ محبت ہوتی ہے جتنی ماں باپ کو اپنے بیٹوں سے محبت ہوتی ہے.خاوند بیوی پر جان قربان کرتا ہے اور بیوی خاوند پر فدا ہوتی ہے اور وہ اس طرح اپنے خاوند کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے جیسے پسلیاں دل کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور اگر اُس پر زیادہ سختی کرو تو وہ علیحدہ ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جسم کا ٹکڑہ ہی نہ تھی.پس اس حدیث میں رسول کریم اللہ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی کے تعلقات جہاں بے انتہا محبت پر مبنی ہوتے ہیں وہاں یہ تعلق ایسا نازک بھی ہے کہ بعض اوقات آپس میں نفرت بھی پیدا ہو جایا کرتی ہے اس لئے عورتوں پر زیادہ سختی نہ کیا کرو.بیشک عورت کی اصلاح کی کوشش کرو لیکن ایسا نہ ہو کہ تمہاری سختی کی وجہ سے عورت کا دل تمہاری طرف سے پھر جائے اور وہی جو تم پر جان دیتی تھی تمہیں چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے.عورتوں کے متعلق آپ کا عملی نمونہ ای طرح ایک دفعہ جب کہ آپ غزوہ خبیر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور آ کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں.راستہ میں اونٹ پرک گیا اور آپ اور حضرت صفیہ دونوں گر گئے.حضرت ابوطلحہ انصاری کا اونٹ آپ کے پیچھے ہی تھا وہ فوراً اپنے اونٹ سے کود کر آپ کی طرف گئے اور کہنے لگے یَارَ سُولَ اللَّهِ ! میری جان آپ پر قربان آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟ جب ابوطلحہ آپ کے پاس پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے فرما یا ابوطلحہ ! پہلے عورت کی طرف ، پہلے عورت کی طرف.وہ تو رسول کریم ﷺ کے عاشق تھے ب آپ کی جان کا سوال ہو تو اُس وقت انہیں کوئی اور کیسے نظر آ سکتا تھا.مگر رسول کریم علی صلى الله
۱۲۷ انوار العلوم جلد ۱۷ نے فرمایا جاؤ اور پہلے عورت کو اُٹھاؤ.۶ غرض عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور اُن کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنے کے متعلق ہمیں رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایسا اعلیٰ نمونہ ملتا ہے جس نے دنیا میں عورت کے معیار کو بلند کر دیا ہے.اسی طرح آپ نے انہیں ورثہ میں حصہ دلایا اور اس طرح اُن کے حقوق کو ہمیشہ کے لئے قائم کر دیا.اب میں دو تین واقعات آپ کی وفات سے تعلق رکھنے والے بیان کر دیتا ہوں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں اخلاق فاضلہ کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا.رسول کریم ہے جب فوت ہونے لگے تو آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں صحابہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا دیکھو! میں تم کو عورتوں کے متعلق خاص طور پر وصیت کرتا ہوں ، اُن کا خیال رکھنا اور اُن پر کبھی سختی نہ کرنا.1 دوسری طرف آپ کو اپنے خادموں اور شاگردوں سے جو محبت تھی اُس کا نظارہ بھی ہمیں آپ کی ذات میں دکھائی دیتا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ تکلیف کی حالت میں لوگ اپنے آرام کا کس قدر فکر رکھتے ہیں مگر رسول کریم ﷺ کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کی مرض نے شدت اختیار کر لی اور آپ اس تکلیف کی وجہ سے نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں نہ جا سکتے تھے تو صحابہ جب نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے تو بعض دفعہ یہ خیال کر کے کہ رسول کریم علی بیمار ہیں اور نماز کے لئے نہیں آ سکتے اُن کو اِس قد رصدمہ ہوتا کہ وہ رونے لگ جاتے اور اُن کی چینیں اِس زور سے نکلتیں کہ دُور دُور تک اُن کی آواز سُنائی دیتی.ایک دفعہ جبکہ رسول کریم علی کو تیز بخار چڑھا ہوا تھا آپ نے اپنی بیوی سے فرمایا پانی کی مشکیں لاؤ اور مجھ پر ڈالو.چنانچہ آپ ایک لگن میں بیٹھ گئے اور پانی کی سات آٹھ مشکیں آپ نے اپنے جسم پر ڈلوائیں اور ارادہ کیا کہ با ہر نماز کے لئے تشریف لائیں مگر حالت خراب ہوگئی اور آپ تشریف نہ لا سکے.اس کے بعد جب آپ کو کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے پھر اپنے اوپر پانی ڈلوایا اور چاہا کہ نماز کے لئے تشریف لے جائیں مگر آپ پھر بھی تشریف نہ لے جا سکے.کچھ دیر کے بعد جب پھر آپ نے افاقہ محسوس کیا تو پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا حضور ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں.اس پر آپ نے پھر غسل کیا مگر تین دفعہ فنسل
انوار العلوم جلد کا ۱۲۸ کرنے کے بعد بھی جب آپ نے طاقت محسوس نہ کی تو فرمایا ابو بکڑ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں.۶۲ غرض آپ نے اپنے صحابہ کی خاطر جس قدر قربانی ممکن تھی کی اور اُن کے جذبات اور احساسات کا ہر طرح خیال رکھا.صحابہ کی دلداری کی کوشش اسی طرح ایک دفعہ جب آپ کو بخار چڑھا ہوا تھا اور الی حالت خراب تھی آپ سہارا لے کر قریب کی کھڑکی کے پاس گئے اور پردہ اُٹھا کر آپ نے صحابہ کو نماز پڑھتے دیکھا اور مسکرائے.صحابہ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ قریب تھا بعض صحابہ خوشی میں اپنی نمازیں توڑ دیتے.پھر آپ سہارا لے کر چار پائی پر لیٹ گئے.اس کے بعد آپ کو اُٹھنے کا موقع نہیں ملا.۶۳ دیکھو! یہ محبت کا کیسا شاندار نظارہ ہے.اُس محبت کا جو ہمارے آقا کو اپنے خادموں اور غلاموں سے تھی.حقیقت تو یہ ہے کہ غلام بھی اپنے آقاؤں کے لئے وہ قربانی نہیں کیا کرتے جو خود ہمارے آقا نے اپنے غلاموں کے لئے کی.آپ کے انصاف کی ایک مثال میں نے پیچھے بیان کی ہے مگر ایک مثال میں نے عمداً چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ آپ کی وفات کے ساتھ تعلق رکھتی تھی.اب جبکہ میں آپ کی وفات کے حالات بیان کر رہا ہوں اُس جذبۂ انصاف کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو رسول کریم ﷺ کے اندر پایا جاتا تھا اور جس کا نمونہ آپ نے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں دکھایا.جسم اطہر پر ایک صحابی کا بوسہ جب رسول کریم ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا و آپ نے اپنے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو! میں بھی انسان ہوں جیسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے تم میں سے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اب بجائے اس کے کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوں کہ تم مدعی بنو ، میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی کو مجھے سے کوئی نقصان پہنچا ہو تو وہ اسی دنیا میں مجھ سے اپنے نقصان کی تلافی کرا لے.صحابہ کو رسول کریم اللہ سے جو عشق تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول کریم ہے صيد صلى الله
انوار العلوم جلد کا ۱۲۹ کے ان الفاظ سے اُن کے دل پر کتنی چھریاں چلی ہوں گی اور کس طرح اُن کے دل میں رقت طاری ہوئی ہو گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.صحابہ پر رقت طاری ہوگئی.اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اُن کیلئے بات کرنا مشکل ہو گیا.مگر ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا.يَارَ سُولَ اللهِ ! جب آپ نے کہا ہے کہ اگر کسی کو میں نے کوئی نقصان پہنچایا ہو تو وہ مجھ سے اس کا بدلہ لے لے تو میں آپ سے ایک بدلہ لینا چاہتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں.جلدی بتاؤ تمہیں مجھ سے کیا نقصان پہنچا ہے.وہ صحابی کہنے لگے.يَارَسُولَ اللَّهِ ! فلاں جنگ کے موقع پر آپ صفیں درست کروا رہے تھے کہ ایک صف سے گزر کر آپ کو آگے جانے کی ضرورت پیش آئی.آپ جس وقت صف کو چیر کر آگے گئے تو آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگ گئی آج میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.صحابہ بیان کرتے ہیں اُس وقت غصہ میں ہماری تلوار میں میانوں سے باہر کل رہی تھیں اور ہماری آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا اگر رسول کریم ﷺ اس وقت ہمارے سامنے موجود نہ ہوتے تو یقیناً ہم اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے مگر رسول کریم ﷺ نے اپنی پیٹھ اُس کی طرف موڑ دی اور فرمایا.لو اپنا بدلہ لے لو اور مجھے بھی اُسی طرح کہنی مار لو.اُس آدمی نے کہا.يَارَسُولَ اللهِ ! ابھی نہیں.جب آپ کی کہنی مجھے لگی تھی اُس وقت میری پیٹھ نگی تھی اور آپ کی پیٹھ پر کپڑا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا.میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو کہ یہ شخص اپنا بدلہ مجھ سے لے لے.جب صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا دیا تو وہ صحابی کا نپتے ہوئے ہونٹوں اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگی پیٹھ پر محبت سے ایک بوسہ دیا اور کہا.یَارَسُولَ اللَّهِ ! گجا بدلہ اور گجا یہ نا چیز غلام ! جس وقت حضور سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جس کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو میں نے چاہا کہ میرے ہونٹ ایک دفعہ اس با برکت جسم کو مکس کر لیں جسے خدا نے تمام برکتوں کا مجموعہ بنایا ہے.پس میں نے اس کہنی لگنے کو اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک بہانہ بنایا اور میں نے چاہا کہ آخری دفعہ آپ کا بوسہ تو لے لوں.۶۴
انوار العلوم جلد کا يَارَسُوْلَ اللهِ ! کہنی لگنا کیا چیز ہے.ہماری تو ہر چیز آپ کیلئے قربان ہے.میرے نفس نے تو یہ ایک بہانہ بنایا تھا تا کہ آپ کا بوسہ لینے کا موقع مل جائے.وہ صحابہ جو اُس شخص کو قتل کرنے پر آمادہ ہور ہے تھے جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ کہتے ہیں پھر ہم میں سے ہر شخص کو اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ ہمیں کیوں نہ یہ موقع ملا کہ ہم اپنے پیارے کا بوسہ لے لیتے یہ وہ شخص تھا جو ہمارا ہادی اور راہنما تھا جس نے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے لئے وہ نمونہ دکھایا جس کی مثال اور کسی نبی میں نہیں مل سکتی.اسلام ہر مسلمان کو آرٹسٹ بنا تا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں وقت کی قلت اور اپنی بیماری کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی مکمل تصویر نہیں کھینچ سکا مگر بہر حال جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اُسی کی ہم نقل کرنے لگیں اور انہیں اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو شاید صدیوں ہمیں اس کی نقل کرنے میں لگ جائیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ان اخلاق کی نقل کرنے کے بغیر دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک ہم میں سے ہر شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تصویر کو جو میں نے کھینچی ہے معہ اُن اخلاق کے جومیں نے بیان نہیں کئے اپنے دل پر نہیں کھینچ لیتا اور جب تک ہم میں سے ہر شخص ایک چھوٹا محمد نہیں بن جاتا اُس وقت تک ہم کبھی خدا تعالیٰ کے پیارے نہیں ہو سکتے.لوگ کہتے ہیں اسلام نے تصویر بنانا منع کر کے آرٹ کو نقصان پہنچایا ہے وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اسلام تو ہر مسلمان کو آرٹسٹ بناتا ہے.وہ تصویر بنانے سے نہیں روکتا بلکہ ادنی اور بے نفع تصویر میں بنانے سے روکتا ہے اور وہ تصویر بنانے کا حکم دیتا ہے جو اس دُنیا میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے اور آخرت میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے.لوگ تصویر میں بناتے ہیں تو کیا کرتے ہیں.وہ بُرش لے کر کبھی گتے کی تصویر بناتے ہیں، کبھی گدھے کی تصویر بناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے گتے یا گدھے کی تصویر بنالی مگر اسلام کہتا ہے اے مسلمانو! تم میں سے ہر شخص رات اور دن ، صبح اور شام، بچپن اور جوانی اور بڑھاپے میں عقل اور فہم کا برش لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچتا ر ہے جو ہماری
انوار العلوم جلد ۱۷ تصویر ہے.۱۳۱ پس اس تصویر کوکھینچو اور بار بار کھینچو، یہاں تک کہ تم بھی محمد بن جاؤ اور چونکہ محمد ہماری تصویر ہے اس لئے جب تم محمد بنو گے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تم بھی ہمارے قرب میں آ جاؤ گے.پس ہر مسلمان آرٹسٹ ہے ، ہر مسلمان مصور ہے مگر وہ اُس قیمتی چیز کی تصویر بناتا ہے.جو دنیا کے لئے بھی مفید ہے اور آخرت کیلئے بھی مفید ہے.وہ لغو چیزیں نہیں بناتا جن سے بہتر تصویر میں نیچر نے پہلے ہی تیار کی ہوئی ہیں.ورنہ اسلام ہر مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ جلوہ الہی قلب محمد پر پڑ رہا ہے.اُس نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لی ہے مگر تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ کے اس قدر قریب ہونے کی توفیق نہیں ہے.اس لئے تم محمد رسول اللہ کے دل کی تصویر اپنے دلوں پر کھینچو.اس طرح اصل کو دیکھ نہ سکو تو اس کی تصویر سے تم ایک اور تصویر کھینچ سکو گے.غرض تمام انسان محمدی تصویر سے جمال الہی کی تصویر کھینچنے کے قابل ہیں.صرف ہمت کی ضرورت ہے اور کوشش کی ضرورت ہے ورنہ راستہ کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا.دوستوں کو ایک قیمتی نصیحت میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر یہ ملکہ پیدا کریں کہ جب بھی وہ کوئی کام کریں اس حیثیت سے نہ کریں کہ مثلاً اللہ دتا یا عبداللہ یا شکر اللہ یہ کام کر رہا ہے بلکہ جب بھی وہ کوئی کام کرنے لگیں اُس وقت سوچیں اور غور کریں کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا وہ وہی کام کرتے جو میں کر رہا ہوں.آخر خدا ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ وہ ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور آپ کی عادات کی پوری پوری نقل کریں اور وہی کام کریں جو آپ نے کئے.پس ہر کام کے کرتے وقت اپنے دل سے یہ سوال کر لیا کرو کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں آیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے نمونہ کے مطابق ہے؟ اور اگر اس وقت میری جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو کیا وہ یہی کام کرتے ؟ پھر تم خود بخود محسوس کرو گے کہ تمہارے دل میں اپنے افعال پر کتنی ندامت اور شرمندگی پیدا ہوتی ہے.ایک شخص تم سے کوئی
۱۳۲ انوار العلوم جلد ۱۷ بات کہتا ہے اور تم غصہ میں اُسے ماں یا بہن کی گالی دے دیتے ہو.اگر گالی دیتے وقت تم یہ سوچو کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا یہ گالی اُن کے منہ سے نکل سکتی تھی ، تو یقیناً تمہارے دل میں ندامت پیدا ہو گی.اُس وقت تمہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں.اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے متعلق اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ بھی میرے جیسا ہے، اسے جنت میں داخل کر دیا جائے.یا تم دیکھتے ہو کہ ایک شخص بھوکا مر رہا ہے اور تم اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور چپ کر کے وہاں سے چلے آتے ہو.اُس وقت تمہیں سوچنا چاہئے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا وہ اسی طرح خاموشی سے گزر جاتے اور بھوکے کی کوئی مدد نہ کرتے.پس تم اپنی زندگی میں وہ اعمال بجا لاؤ جن کا نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے سامنے رکھا ہے.تمہارے لئے نجات کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ تم اپنے دل پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچو اور اپنے آپ کو انہی جیسا بنانے کی کوشش کرو.بلکہ تمہارے لئے تو اس زمانہ میں اور بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ وہ تصویر جومٹ چکی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اُس کو دوبارہ روشن کر دیا ہے.مٹی ہوئی تصویر سے نقشہ کھینچنا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر تصویر پر دوبارہ رنگ پھیر دیا جائے تو نقشہ اُتارنے میں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موجودہ زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو تصویر دُھندلی پڑ گئی کا ایک زندگی بخش کارنامہ تھی اور لوگوں کو نظر آنی مشکل ہوگئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسی پر رنگ پھیر کر اُس کو روشن کر دیا ہے.پس اگر اب بھی غفلت سے کام لو، اب بھی اس تصویر کو اپنے دل پر اُتارنے کی کوشش نہ کرو، اب بھی اُس کی نقل کرنے میں کوتاہی سے کام لو تو یہ بہت بڑا گناہ ہوگا.خدا نے ہمارے لئے ایک آسان صورت پیدا کر دی ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت
۱۳۳ انوار العلوم جلد ۱۷ کے وہ تمام جام جو دوسروں کو پلائے گئے تھے وہ سب بھر بھر کر مجھے پلائے گئے ہیں.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل میں جب ہم نے آپ کی تصویر کو دیکھ لیا تو آج ہمارے لئے کوئی بھی بہانہ باقی نہیں رہا.آج کوئی بھی خلق ایسا باقی نہیں رہا جس کا نمونہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو.حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے کھول کھول کر قرآن کریم کے احکام کی وہ تشریحات ہمارے سامنے رکھ دی ہیں جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے.پس ہم میں سے ہر شخص کا خواہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا ، بچہ ہو یا ادھیڑ عمر کا فرض ہے کہ وہ مصور بن جائے اور ایسا کامل مصور بنے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کے مشابہ تصویر اپنے قلب پر کھینچ لے.میں نے بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ سے زیادہ شکل جو ممکن ہے خدا سے ملتی ہے.پس جب ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنے دل پر کھینچنے کی کوشش کریں گے تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر خدا کی تصویر ہے، اس لئے خدا کی تصویر ہمارے اندر آ جائے گی اور جب خدا کی تصویر ہمارے اندر آ جائے گی تو ہمارے لئے کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا ، ہمارے سامنے کوئی ٹھوکر کا مقام نہیں آئے گا ، ہماری اُمید میں آپ ہی آپ حاصل ہو جائیں گی.خطرات آپ ہی آپ دُور ہو جائیں گے کیونکہ خدا ان سب باتوں سے مستغنی ہے.اُسے نہ کوئی خطرہ پیش آسکتا ہے اور نہ اُس کا کوئی ارادہ پورا ہونے سے رہ سکتا ہے اسی لئے مومنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جنت میں وہ جو چاہیں گے انہیں حاصل ہو جائے گا.۶ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے اور اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لینے کے نتیجہ میں اُن کے دلوں میں وہی خواہش پیدا ہوگی جو پوری ہونے والی ہوگی.عورتوں کو نصیحت عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے زیادہ احسان اُن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ دنیا کے پردہ پر عورتوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم قوم نہ تھی.وہ حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھیں
انوار العلوم جلد ۷ ۱۳۴ اور اُن کو کہیں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے اُن کی قدرو منزلت قائم کی اور اُن کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے کی مردوں کو ہدایت کی.اس احسان کی یاد میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن پر کیا ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپ کے اعمال اور اخلاق کی نقل کریں اور اعمال و اخلاق کے یہی نقوش اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں.آج کا انسان دراصل مجبور ہوتا ہے اُن اخلاق سے جو نو یا دس سال کی عمر میں اُس کے بنا دئیے جاتے ہیں.وہ نو یا دس سال کی عمر تک ماں کی گود میں پلتا اور اُسی سے اخلاق و عادات سیکھتا ہے.پس بہترین مصور دنیا میں عورتیں ہوسکتی ہیں جن کی گود میں اُن کے بچے پلتے ہیں اور جو چھوٹی عمر میں ہی اُن کے قلوب پر جو تصویر اُتارنا چاہیں اُتار سکتی ہیں.پس تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر کھینچو تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں کسی نئی تصویر کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ اُن کے بڑے ہونے کے ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تصویر بھی بڑی ہو جائے جو اُن کی ماؤں نے اُن کے دلوں پر کھینچی تھی.اس کے ساتھ ہی میں بڑوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ جو کوتا ہی آپ لوگوں سے اب تک اس سلسلہ میں ہو چکی ہے اُس کو دُور کرو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ پیش کرو کہ دنیا والوں کو اِس جہان میں اس کے سوا اور کوئی چیز نظر ہی نہ آئے.جیسے ایک شاعر نے کہا ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے اسی طرح ان اخلاق میں ترقی کرتے کرتے ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہم جدھر بھی دیکھیں ہمیں سوائے محمدؐ کے اور کوئی نظر نہ آئے.خواہ وہ چھوٹا محمد ہو یا بڑا محمد ہوا اور یقینی بات ہے کہ جب اس دنیا میں ہمیں محمد ہی محمد نظر آنے لگیں گے تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفات کی ایک تصویر ہیں اس لئے دنیا میں تو حید کامل پیدا ہو جائے گی اور شرک
انوار العلوم جلد ۷ ۱۳۵ باقی نہیں رہے گا کیونکہ جہاں خدا ہی خدا ہو وہاں شرک باقی نہیں رہ سکتا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ التوبة: ااا کے بنی اسرائیل: ۷۲ النحل : ٩٠ الحج : ۷۹ ایلوہ: (ایلوا ).ایک نہایت کڑوی دوا ( مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ۱۹۶۱ء) النساء: ۴۲ تیتریاں: تیتری کی جمع.ایک خوبصورت پروں والا کیڑا تلی.بھنیری بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب الصلوات الخمس كفارة مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض ا الانعام: ۸۴ تا ۹۱ لا الانعام: ۹۳ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۲۱۶ مطبوعہ مصر ۱۳۱۳ھ ال عمران: ۳۲ ۱۴ النساء : اے دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ صفحہ ۵۶ در نمین فارسی صفحه ۲۳۸.ناشر نظارت اشاعت ر بوه ۱۵ الجمعة : ۴ بنی اسرائیل ۱۹۷۳ القيامة : ۲۴،۲۳ ٢٠ ۲۱۳۱۸ النجم: ۱۸ تا ۲۱ تجلیات الہیہ صفحه ۲۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ۲۲ یوسف : ۱۰۹ ٢٣ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۱ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ ۲۴ التوبة : ٤٠ ۲۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب المهاجرين وفضلهم ۲۶ زرقانی شرح مواهب اللدنية جلد ۲ صفحه ۱۵ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ ۲۷
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۳۶ مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوه حنين ۲۹ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۹ ۱۰ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ٣٠ الاحزاب : ۱۴ ا الاحزاب : ۲۳ ۳۲ بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن محارم الله ۳۳ بخاری كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل ۳۴ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم و وفاته ۳۵ سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۸۹ مطبوعه مصر ۱۹۹۵ء صلى الله صلى الله ۳۶ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علم باب قول النبي علم سدو الابواب الا باب ابی بکر ۳۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۲۶۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ٣٩ بخارى كتاب المغازى باب غزوة أحد ام صلى الله بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي علم و وفاته بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عندصرام النحل (الخ) م بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى (الخ) بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة اللهب ۲۵ بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدين من الكبائر ۴۶ صلى الله بخاری کتاب فرض الخمس باب ماكان النبي علم يعطى المؤلفة قلوبهم بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام ٢٩ السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۲۳۹ مطبع محمد علی صبیح مصر ۱۹۳۵ء ۵۰ بخارى كتاب الوضوء باب صب الماء على البول في المسجد
انوار العلوم جلد ۷ ۱۳۷.۵.۱ بخاری کتاب العيدين باب الحراب والدرق يوم العيد ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۶ الشعراء: ۴ ۵۸ بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة النساء باب فكيف اذا جئنا (الخ) ۵۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ٢٠ بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يقول اذا رجع من الغزو الترمذى كتاب الرضاع باب ماجاء فى حق المرأة على زوجها ۶۲ ۶۳ طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحه ۳۵۹،۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء ۱۴ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۵ لَهُمْ فِيهَا مَايَشَاءُ وُنَ (النحل:۳۲)
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۳۸ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان دعومی مصلح موعود کے متعلق پُر شوکت اعلان از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۱۳۹ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان تقریر فرمود ه ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء بمقام ہوشیار پور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس سے پہلے کچھ قرآنی ادعیہ پڑھوں گا.ہماری جماعت کے احباب آہستہ آہستہ اپنے منہ میں یعنی زیادہ بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستگی سے میرے ساتھ وہ دعائیں پڑھتے جائیں.-١ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أو أخطأنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِل عَلَينا إصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طاقة كتابه وَاعْفُ عَنّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا انْتَ مَولنا فانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَفِرِيت ل وتفر ربنا اما بما انزلت واتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاعْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ - ربنا اغفر لنا ذنوبنا وإشرافنا في أمرِنَا وَثَبَتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - ربنا إنّنا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان - -٥ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي بلايمان آن امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامنا ه -٢ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان آن امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا ربنا فاغفِرَ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ عَرُ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبرار - 1
انوار العلوم جلد ۷ ۱۴۰ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان ربنا و اينا مَا وَعَدتَنَا عَلى رُسُلِكَ وَلا تُخْرُنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ.إنك لا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ - - رَبَّنَا لا تُزع قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - یہ اللہ تعالیٰ کی وہ دعائیں ہیں جن میں انبیاء اور ان کی ابتدائی جماعتوں کے لئے خدا نے ایک طریق راہ بیان فرمایا ہے.اس کے بعد میں قرآنی الفاظ میں ہی اپنے رب کو مخاطب کر کے اُس کے حضور نذر عقیدت پیش کرتا ہوں.دوست بھی اِن الفاظ کو دُہراتے جائیں.امنا باللومَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا اُنْزِلَ إِلَى إِبْرَهِم وَاسْمَعِيلَ وَ اسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَا مُسْلِمُونَ 2 جیسا کہ آپ لوگوں نے سنا ہے آج سے پورے ۵۸ سال پہلے جس کو آج ۵۹ واں سال شروع ہو رہا ہے ۲۰ فروری کے دن ۱۸۸۶ء میں اِس شہر ہوشیار پور میں اس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہو یا حسب ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں، قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے ، لوگوں کی اِس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اُس کی نصرت اور تائید کا نشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اُس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں.چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اُس کو ایک نشان دیا.وہ نشان یہ تھا کہ میں نہ صرف ان وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اس وعدہ کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے میں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متصف ہو گا.وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، کلامِ الہی کے
انوار العلوم جلد کا دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان معارف لوگوں کو سمجھائے گا، رحمت اور فضل کا نشان ہوگا اور وہ دینی اور دنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اُسے عطا کئے جائیں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اُس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.یہ اعلان بانی سلسلہ احمدیہ نے یہاں سے کیا اور اُس وقت کیا جبکہ وہ ابھی بانی سلسلہ نہیں تھے اور جماعت احمدیہ کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی.قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی اور اب بھی وہ ہوشیار پور سے ایک تہائی ہے.ہوشیار پور کی آبادی چالیس ہزار ہے اور قادیان کی آبادی چودہ پندرہ ہزا ر لیکن جس وقت وہ یہاں آئے ہیں اُس وقت قادیان کی آبادی ۱۸ سو کس کی تھی اور دنیوی وجاہت کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لحاظ سے آپ کو کسی قسم کی عزت حاصل نہیں تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کا خاندان ایک معزز زمیندار خاندان تھا اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلطنت مغلیہ کے عہد میں اس خاندان کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے عہد میں بھی اس خاندان کے بعض افراد کو معزز عہدے حاصل رہے ہیں لیکن اس زمانہ میں یہ خاندان اپنی قدیم عزت کو کھو چکا تھا اور بعض وجوہ سے اس کی جائداد کا اکثر حصہ ضبط ہو چکا تھا.پس اس زمانہ میں دُنیوی لحاظ سے اس کی حیثیت ایک معمولی زمیندار کی سی تھی اور پھر ان کو اپنی عزت بڑھانے کا کوئی شوق بھی نہیں تھا.باپ نے انہیں بار بار توجہ دلائی کہ وہ مستقل طور پر کوئی ملازمت اختیار کر لیں مگر انہوں نے انکار کر دیا.ایسا شخص اُس زمانہ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو پھیلائے گا اور پھر میرے کام کو لمبا کرنے کے لئے مجھے ایک خاص بیٹا عطا فرمائے گا کیونکہ یہ زمانہ بہت بڑے مفاسد کا ہے اور ان مفاسد کی اصلاح کے لئے ایک لمبے عرصہ کی جدوجہد کی ضرورت ہے.اب وہ زمانہ نہیں رہا جبکہ جنگ اور قتال سے فیصلہ ہو جا تا تھا بلکہ آب دلائل اور لمبی بحثوں کے بعد فیصلہ ہوتا ہے اور یہ کام ایک طویل عرصہ چاہتا ہے.پس چونکہ موجودہ زمانہ کی اصلاح ایک لمبے عرصہ کی منتقضی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ وہ آپ کو ایک بیٹا عطا فرمائے گا اور جیسا کہ بعض دوسری خبروں میں اس کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ لڑکا 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا ، تمہارا جانشین ہوگا اور ان صفات سے متصف ہوگا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۴۲ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان یہ خبر ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں دیانت کا مادہ رکھتا ہو اس کے پورے ہونے سے انکار نہیں کر سکتا اور اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے ہی تھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں تھا کہ وہ ایسی خبر دے سکتا.اول تو کوئی کہ نہیں سکتا کہ وہ خود بھی زندہ رہے گا یا نہیں.پھر اگر وہ زندہ بھی رہے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا.پھر اگر بیٹا پیدا ہو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضرور زندہ رہے گا اور لمبی عمر پائے گا.پھر اگر وہ خود بھی زندہ رہے اور اُس کا بیٹا بھی زندہ رہے تو کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ کسی زمانہ میں اُسے اتنی عزت حاصل ہو جائے گی کہ اُس کے جانشین مقرر ہوا کریں گے.پھر اگر کسی کو ایسی عزت مل بھی جائے کہ اُس کے جانشین مقرر ہوا کریں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اُس کا بیٹا ضرور جانشین ہوگا.پھر اگر کسی کا بیٹا جانشین بھی ہو جائے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اُس سے برکت حاصل کریں گی.غرض اس پیشگوئی پر جس قدر غور کیا جائے اُتنی ہی اس کی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے اور انسان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کو پورا کرنا کسی انسان کی طاقت میں ہر گز نہیں تھا.کون شخص ہے جو کہہ سکے کہ میں اتنا عرصہ ضرور زندہ رہوں گا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ بیٹا 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ کسی زمانہ میں میں اتنی عظمت حاصل کرلوں گا کہ دنیا میں میرے جانشین مقرر ہوا کریں گے.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرا بیٹا ایک زمانے میں میرا خلیفہ اور جانشین ہو گا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے بیٹے کے زمانہ میں اسلام سارے جہان میں پھیل جائے گا اور اس کے دنیا پر غالب آجانے کے سامان پیدا ہو جائیں گے.یہ اتنے نشان ایک پیشگوئی میں جمع ہیں کہ کسی انسان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کرسکتا اور پھر دنیا میں اعلان کر کے کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئی ایک دن ضرور پوری ہو گیلیکن یہ پیشگوئی جو آج سے اٹھاون سال پہلے کی گئی تھی پوری ہوئی اور بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی.۱۸۸۶ء میں جب بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ پیشگوئی شائع کی اُس وقت آپ کا کوئی مرید نہ تھا.آپ کی حیثیت ایک فردِ واحد کی سی تھی.اس کے بعد ۱۸۸۷ء میں آپ کے ہاں ایک بیٹا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۴۳ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان پیدا ہوا جو ۱۸۸۸ء میں فوت ہو گیا.آپ نے اُس لڑکے کے متعلق کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اُس سے برکت حاصل کریں گی لیکن اُس لڑکے کے فوت ہونے پر لوگوں نے شور مچا دیا کہ جس لڑکے کے متعلق اتنے بڑے دعوے کئے گئے تھے، وہ زندہ ہی نہ رہا اور آخر یہ شور اتنا بڑھا کہ وہ جو آپ کے ساتھی تھے اُن میں سے بھی بعض اُس وقت آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے.وہ لوگ آپ کے مرید نہ تھے صرف آپ سے ملنے والے اور آپ سے حسنِ عقیدت رکھنے والے تھے لیکن اس لڑکے کی وفات پر اُن کو بھی ابتلاء آ گیا اور وہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے.ایسے نازک حالات میں جب لوگوں کے لئے ایک ابتلاء کی سی حالت تھی اور جب اپنے بھی آپ کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تو لوگوں سے بیعت لے اور ایک سلسلۂ روحانی قائم کر.لوگ ایسے ابتلاؤں کے وقت اس قد رگھبرا جاتے ہیں کہ اُن کے ہوش بھی ٹھکانے نہیں رہتے مگر چونکہ وہ موعود تھا اس لئے جب لوگ ہنس رہے تھے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی ایسے خطرات اور انکار کے زمانہ میں اُس نے احمدیت کی بنیا درکھی اور لوگوں سے بیعت لینے کا اعلان فرما دیا.یہ اعلان آپ نے ۱۸۸۸ء کے آخر میں فرمایا اور ۱۸۸۹ء میں پیشگوئی کے مطابق آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے تفاؤل کے طور پر ( کیونکہ آپ نے لکھا کہ ابھی مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے ) محمود رکھا کیونکہ اُس بیٹے کا ایک نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمود بتایا گیا تھا اور چونکہ الہام میں اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اس لئے اُس کا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.خدا کی قدرت ہے اتفاقاً اس لڑکے کی جو کھلائی مقرر کی گئی وہ شدید امراض میں مبتلا تھی.ایسے شدید امراض میں کہ اس کے سات آٹھ بلکہ نو بچے کچھ بچپن میں اور کچھ بڑے ہو کر سل اور دِق سے مرگئے تھے.اُس عورت نے بغیر اس کے کہ لڑکے کے والدین سے اجازت حاصل کرتی اِس کو دودھ پلا دیا.عموماً اس قسم کی عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور اس وجہ سے کہ بچہ انہیں جلدی واپس نہ لانا پڑے اُسے دودھ پلا دیتی ہیں.اس عورت نے بھی بغیر اجازت کے اس لڑکے کو دودھ پلا
۱۴۴ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۱۷ دیا اور اس طرح دق اور سل اور خنازیر کے جراثیم اس بچے کے اندر چلے گئے.چنانچہ جب وہ دو سال کا ہوا تو پہلے اُسے کھانسی ہوئی اور پھر وہ شدید خنازیر میں مبتلا ہو گیا اور کئی سال تک مدقوق و مسلول رہا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے ذریعہ ایک بہت بڑا نشان ظاہر کرنا تھا ، اس لئے خدا نے اُس کو بچالیا.لیکن خنازیر کا مرض برا بر اُسے رہا بلکہ بعض دفعہ خنازیر کی گلٹیاں پھول کر گیند کے برابر برابر ہو جاتیں اور مسلسل بارہ تیرہ سال تک ایسا ہی ہوتا رہا.ڈاکٹر اور طبیب مختلف ادویہ کی اُسے مالش کراتے اور کھانے کے لئے بھی کئی قسم کی دوائیں دیتے.جب وہ لڑکا جوان ہوا تو اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کر لی اور اُسے سات آٹھ مہینے متواتر بخار آتا رہا.اطباء کہتے تھے کہ اس کا بچنا مخدوش ہے اور اب شاید ہی یہ جان بر ہو سکے اس وجہ سے وہ مدرسے میں بھی پڑھ نہیں سکتا تھا.جب وہ مدرسے میں جاتا تو چونکہ اُس کی آنکھوں میں مکرے بھی تھے اس لئے وہ بورڈ کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر دیکھتا تو اُس کے سر میں درد شروع ہو جاتا اس وجہ سے وہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کر سکتا تھا.یہاں تک کہ اُس کے اُستادوں نے بانی سلسلہ سے شکایت کی کہ یہ لڑکا پڑھتا نہیں.انہوں نے کہا یہ بیمار ہے اس پر زیادہ زور نہ دو.مدرسے میں آتا رہے اور کوئی لفظ اس کے کان میں پڑ جائے اتنا ہی کافی ہے زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں.یہاں تک کہ اُس نے سکول کا کوئی امتحان پاس نہ کیا.پرائمری میں شاید پاس ہوا ہو تو ہوا ہو اور غالبا وہ پرائمری میں بھی پاس نہیں ہوا لیکن مڈل میں وہ یقینا فیل ہوا اور انٹرنس میں بھی یقیناً فیل ہوا.جب وہ انٹرنس میں پڑھتا تھا تو اُس کی لیاقت کا یہ حال تھا کہ امتحان پر جانے سے پہلے اُس نے گھر کا امتحان دیا تو TWO جو انگریزی کا ایک معمولی سا لفظ ہے اس کو اُس نے TOW لکھ دیا اور اُستاد نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا لفظ ہے؟ میں تو اسے نہیں جانتا یہ اُس کی تعلیم کا حال تھا.پھر جب بانی سلسلہ احمدیہ فوت ہوئے تو جماعت کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ ان کا بھی ایک خلیفہ مقرر ہونا چاہئے جیسے اسلام کی سنت ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مقرر کر دیا اور لوگوں نے سمجھا کہ وہ پیشگوئی جو ایک لڑکے کے جانشین ہونے کے متعلق تھی وہ غلط ثابت ہوئی اور خلیفہ کوئی اور شخص بن گیا.اس کے بعد جماعت میں تفرقہ پیدا ہوا.صدرانجمن احمد یہ جو مرکزی مجلس تھی اس کا اکثر حصہ کسی بات میں
انوار العلوم جلد کا ۱۴۵ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان دوسرے لوگوں سے لڑ پڑا.زیادہ جھگڑا یہ تھا کہ یہ نوجوان کہیں بانی سلسلہ احمدیہ کا جانشین نہ بن جائے اور انہوں نے سر سے پیر تک اُس کی مخالفت میں زور لگایا.یہ لوگ بڑے مشہور لیکچرار تھے اور دُور دُور تک ان کا نام پہنچا ہوا تھا.ان میں سے ایک کا نام غالباً آپ نے سُنا ہو گا خواجہ کمال الدین صاحب تھا.وہ جہاں جاتے ان کے لیکچر مشہور ہو جاتے.انگلستان میں بھی وہ مبلغ رہے ہیں اور ٹرکی ، مصر اور افریقہ کے علاقہ میں بھی وہ پھرے اور انہیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی.دوسرے مولوی محمد علی صاحب تھے یہ اُن دنوں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے بہت مشہور تھے.اسی طرح ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، یہ سب اس لڑکے کے مخالف ہو گئے اور چونکہ یہ صدرانجمن احمدیہ کے بھی ممبر تھے اس لئے انہوں نے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دورے کرنے شروع کر دیے تا کہ جماعت میں اس لڑکے کے خلاف شورش پیدا ہو جائے اور تا ایسا نہ ہو کہ یہ لڑکا خلیفہ بن جائے.گو یا اگر اس لڑکے کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری ہونی تھی تو دنیا نے پورا زور لگایا کہ وہ پیشگوئی پوری نہ ہو.اگر وہ لڑ کا چپ کر کے خلیفہ ہو جاتا جیسے پیروں میں طریق ہوتا ہے کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین بنتا ہے تو لوگ کہتے مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی اتفاقی طور پر پوری ہوئی ہے.چونکہ پیروں میں قاعدہ ہے کہ بڑا مر جائے تو بیٹا خلیفہ بنتا ہے اس لئے مرزا صاحب کی وفات کے بعد ان کا بیٹا جانشین بن گیا اس میں عجیب بات کون سی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مقرر کیا اور اس طرح وہ سوال اُٹھ گیا کہ یہ جانشینی پیروں کے عام دستور کے مطابق ہوئی ہے.پھر اگر حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وفات کے بعد وہ لڑکا بغیر مخالفت کے خلیفہ بن جاتا تو بھی لوگ کہہ سکتے تھے کہ چونکہ اس لڑکے کے والد صاحب کی بزرگی کا احساس جماعت میں قائم تھا اس لئے انہوں نے اس بزرگی کا احساس کرتے ہوئے ان کے لڑکے کو خلیفہ بنالیا.لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ جماعت کے تمام سرکردہ لوگ اُس لڑکے کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اس قدر شدید مخالفت کی کہ ساری جماعت میں ایک آگ سی لگا دی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو جائے یہ لڑکا خلیفہ نہ ہو بلکہ غصہ میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۴۶ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان کہ جماعت کا کوئی خلیفہ ہونا ہی نہیں چاہئے.لیکن جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے اور جماعت آپ کی وفات پر جمع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے جس کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ پیشگوئی ضرور پوری ہو ایسے سامان کر دیئے کہ اِن لوگوں نے اس ڈر سے کہ کہیں جماعت اُس لڑکے کو ہی خلیفہ نہ بنا لے، جماعت کے ایمان کے خلاف یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلافت ہی نہیں ہونی چاہئے.نتیجہ یہ ہوا کہ جب ان کے یہ خیالات جماعت کے سامنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ یہ کہتے کہ فلاں خلیفہ نہ ہو بلکہ فلاں ہو تو اور بات تھی مگر اب تو یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا سلسلہ ہی جاری نہیں رہنا چاہئے اور یہ بات ہمارے اصول کے خلاف ہے اسے ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں.چنانچہ اُس وقت جماعت نے اس لڑکے کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح وہ پیشگوئی جو حضرت مرزا صاحب نے ہوشیار پور سے شائع کی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہوگا اور وہ میرا جانشین ہو گا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.آپ لوگ جانتے ہیں میں اس وقت کس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ لڑکا میں ہی ہوں جو بارہ تیرہ سال تک خنازیر کے مرض میں مبتلا رہا.میں ہی وہ ہوں جو مہینوں نہیں سالوں مدقوق ومسلول لوگوں کی طرح بیمار رہا جیسے ہماری زبان میں بعض لوگوں کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ وہ ہینگ لگتے ہیں.میں ہی وہ ہوں جو نہایت کمزور ، ڈبلا اور نحیف تھا.پھر میں ہی وہ ہوں جس کی آنکھوں میں تیرہ چودہ سال کی عمر میں شدید کرے ہو گئے اور میں پڑھائی کے ناقابل ہو گیا یہاں تک کہ میں بورڈ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.میں ہی وہ ہوں مڈل میں بھی فیل ہوا اور انٹرنس میں بھی.اور میں ہی وہ ہوں جسے انگریزی کا ایک معمولی لفظ Two بھی نہیں لکھنا آتا تھا اور جس نے Two کی بجائے Tow لکھ دیا.پھر میں ہی وہ ہوں جس کے خلاف جماعت کے بڑے بڑے لوگ کھڑے ہو گئے.تمام محکموں پر ان کا قبضہ تھا ، مدرسہ ان کے پاس تھا، لنگر ان کے پاس تھا، ریویو ان کے پاس تھا ، جماعت کا انتظام ان کے ہاتھوں میں تھا ،خزانہ ان کے پاس تھا اور مختلف عہدے ان کو حاصل تھے.پھر میں ہی وہ ہوں جو اپنا بھی مخالف تھا چنانچہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ خلافت کا انکار نہ کریں کسی ایک شخص کا نام پیش کر دیں میں سب سے پہلے اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو
۱۴۷ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۱۷ تیار ہوں مگر باوجود اس کے کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کو یہ کہا کہ آپ کسی کا نام پیش کریں میں اُس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں چونکہ خدا کا منشا یہ تھا کہ اس شہر میں اُس نے جو الہامات نازل فرمائے تھے اُن کو پورا کرے اور دنیا کو اپنی قدرت کا نشان دکھائے اس لئے ان کی عقل پر ایسے پتھر پڑ گئے کہ انہوں نے میری اس بات کو تسلیم نہ کیا اور چونکہ جماعت اس بات پر مصر تھی کہ کسی شخص کو خلیفہ ضرور بنایا جائے اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی بات کو کسی نے نہ مانا اور جماعت نے مجھے اپنا خلیفہ بنالیا.میں بتا چکا ہوں کہ میں تعلیم سے بچپن سے ہی کو راہوں وہ سمجھتے تھے کہ ایسا آدمی جب ایک علمی جماعت کا امام بنے گا تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے اس بات کا امکان ہو سکتا تھا.چنانچہ اُس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جو ایک کامیاب ڈاکٹر تھے ، انہوں نے باہر نکل کر ہمارے مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آج ہم تو جارہے ہیں کیونکہ جماعت نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا لیکن تم تھوڑے ہی دنوں تک دیکھو گے کہ اس مدرسہ پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور تمام عمارت ان کے پاس چلی جائے گی.یہ اُس وقت کہا گیا تھا جب ہمارے سالانہ جلسہ پر دواڑھائی ہزار آدمی آیا کرتے تھے اور اُس وقت کہا گیا تھا جب خزانہ میں صرف گیارہ بارہ آنے کے پیسے تھے اور سترہ اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا.یہ لوگ جو بڑے بڑے مالدار تھے اور جماعت میں عزت اور وقار رکھتے تھے انہوں نے سمجھا کہ جب ہم قادیان کو چھوڑ کر چلے جائیں گے تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اُس وقت میری عمر پچیس سال کی تھی اور میری ساری عمر بیماریوں میں گزرگئی تھی.میں نے دینی یا دنیوی تعلیم کسی مدرسہ میں حاصل نہیں کی تھی اور میرے مقابلہ میں جولوگ کھڑے تھے وہ قوم کے لیڈر، سردار اور معزز تھے ، پس دینوی لحاظ سے یہی خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ قوم ڈوب جائے گی جسے ایسا راہنما اور سردار ملا ہو لیکن جس وقت اُنہوں نے یہ کہا کہ اس مدرسہ پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور تمام عمارتیں اُن کے پاس چلی جائیں گی اور جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ اب قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اُس وقت میں اپنے گھر میں گیا اور میں نے اپنے خدا سے یہ دعا کی کہ خدایا ! میں اس عہدے کے لئے کبھی متمنی نہیں ہوا، میں نے کبھی تجھ سے
انوار العلوم جلد ۷ ۱۴۸ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان نہیں چاہا کہ تو مجھے خلیفہ مقرر کر دے.اب جب کہ تو نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور تو نے خود مجھے اس کام کے لئے چنا ہے تو اے میرے ربّ! تو مجھے طاقت بھی دے جس سے میں ان صنادید کا مقابلہ کرسکوں ورنہ میرے اندر ان کا مقابلہ کرنے کی قطعاً طاقت نہیں.ان میں سے بعض میرے اُستاد ہیں اور باقی ایسے ہیں جن کا انجمن کے مال اور محکموں پر قبضہ ہے اُس وقت ہمارے اندر اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اگر یہ لوگ ہمیں کہتے مسجد سے نکل جاؤ تو ہم اپنی مسجد میں بھی ٹھہر سکتے.غرض میں نے خدا سے یہ دعا کی.رات کو جب میں لیٹا تو مجھے الہام ہوا.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور چونکہ اِن لوگوں نے کہا تھا کہ جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور آج سے وہ تباہی و بربادی کے راستہ پر چل پڑے گی اس لئے خدا نے مجھے الہام کیا کہ لَيُمَزِ قَنَّهُمُ اے محمود! یہ لوگ جو اپنے علم اور اپنی طاقت اور اپنے جتھے اور اپنی دولت کے دعوے کر رہے ہیں ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے.چنانچہ میں نے اُسی وقت اس مضمون کا ایک اشتہار شائع کر دیا وہ اشتہار آج تک موجود ہے غیر بھی گواہی دے سکتے ہیں اور اپنے بھی کہ اُس میں جو کچھ لکھا گیا تھا وہ کس شان سے پورا ہوا.میں نے اُس اشتہار کا ہیڈ نگ ہی یہ رکھا تھا کہ ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے " پھر میں نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ لَیمَزَ قَنَّهُمُ وہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.اُس وقت ہماری جماعت کا ۹۵ فیصدی حصہ ان کے ساتھ تھا اور پانچ فیصدی ہمارے ساتھ تھا اور وہ لوگ فخر کے ساتھ اس بات کو شائع کرتے تھے کہ ہم وہ ہیں جن کے ساتھ جماعت کی اکثریت ہے اور یہ بات ہمارے حق پر ہونے کا گھلا ثبوت ہے.لیکن ابھی تین ہفتے اس الہام پر نہیں گزرے تھے کہ جماعت کے ۹۵ فی صدی حصہ نے میری بیعت کر لی اور پانچ فیصد ان کے ساتھ رہ گئے.یہ خدا کا وہ نشان ہے جو اُس نے پورا کیا اور جس میں بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ خبر دی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہوگا جو میرا خلیفہ ہوگا اور خدا اُس کی تائید کرے گا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر میری تائید اور نصرت کرنی شروع کر دی.میں نے بتایا ہے کہ میں نے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے
۱۴۹ انوار العلوم جلد ۷ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان مجھے رویا میں بتایا کہ مجھے اُس کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا کیا گیا ہے اور چونکہ قرآن کریم کے علم میں دنیا کے سارے علوم شامل ہیں اس لئے اس کے بعد جماعت اور اسلام کے لئے مجھے جس علم کی بھی ضرورت محسوس ہوئی وہ خدا نے مجھے سکھا دیا.چنانچہ آج میں دعوے کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں بلکہ آج سے نہیں ہیں پچیس سال سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ دنیا کا کوئی فلاسفر، دنیا کا کوئی پروفیسر، دنیا کا کوئی ایم.اے، خواہ وہ ولایت کا پاس شدہ ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا ہو، خواہ وہ فلسفہ کا ماہر ہو، خواہ وہ منطق کا ماہر ہو، خواہ وہ علم النفس کا ماہر ہو، خواہ وہ سائنس کا ماہر ہو، خواہ وہ دنیا کے کسی علم کا ماہر ہو میرے سامنے اگر قرآن اور اسلام پر کوئی اعتراض کرے تو نہ صرف میں اُس کے اعتراض کا جواب دے سکتا ہوں بلکہ خدا کے فضل سے اُس کا ناطقہ بند کر سکتا ہوں.دنیا کا کوئی علم نہیں جس کے متعلق خدا نے مجھ کو معلومات نہ بخشی ہوں اور اس قدر صحیح علم جو اپنی زندگی درست رکھنے یا قوم کی راہنمائی کے لئے ضروری ہو مجھ کو نہ دیا گیا ہو.پھر اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے فوراً مجھے ہمت بخشی اور میں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دئیے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے اُس وقت صرف ہندوستان اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمد یہ مشن قائم نہیں تھا.مگر جیسا کہ خدا نے پیشگوئی میں بتایا تھا وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا، اے اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمد یہ مشن قائم کروں.چنانچہ میں نے اپنی خلافت کے ابتدا میں ہی انگلستان ،سیلون اور ماریشس میں احمد یہ مشن قائم کئے.پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا چنانچہ ایران میں ، روس میں ، عراق میں، مصر میں ، شام میں فلسطین میں لیگوس نائیجیریا میں ، گولڈ کوسٹ میں، سیرالیون میں ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں سے انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں ، زیکوسلواکیہ میں ، ہنگری میں، پولینڈ میں یوگوسلاویہ میں، البانیہ میں ، جرمنی میں، یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ میں ، ارجنٹائن میں ، چین میں، جاپان میں ، ملایا میں ،سٹریٹ سیٹلمنٹس ۱۲ میں ،سماٹرا میں، جاوا میں، سرو بایا میں ، کاشغر میں خدا کے فضل سے مشن قائم ہوئے.ان میں سے بعض مبلغ اس وقت دشمن کے ہاتھ میں قید ہیں، بعض کام کر رہے ہیں اور بعض مشن جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر
۱۵۰ انوار العلوم جلد ۱۷ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان دیئے گئے ہیں غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے.حکومتیں اس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں.چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلغ گیا تو اُسے سخت تکلیفیں دی گئیں.اُسے مارا بھی گیا، پیٹا گیا اور ایک لمبے عرصہ تک قید رکھا گیا لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلہ کو پھیلائے گا اور میرے ذریعہ اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اُس نے اپنے فضل وکرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کر دیں.بہر حال جب اس قسم کی علامتیں ظاہر ہوئیں تو جماعت نے کہا کہ وہ پیشگوئی جس کی خبر شیخ مہر علی صاحب کے طویلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی مگر میں نے ہمیشہ اس کو قبول کرنے سے احتراز کیا اور میں نے یہ کبھی دعوی نہ کیا کہ میں اس پیشگوئی کا مصداق ہوں.میں نے اپنے دل میں کہا جو خدا کا کلام ہے جب تک خدا اس کے متعلق یہ تصدیق نہ کرے کہ یہ میرے ذریعہ سے پورا ہو چکا ہے اُس وقت تک بولنا میرے لئے مناسب نہیں ہے.مجھے کیا خبر ہے کہ میں اس پیشگوئی کا مصداق ہوں یا نہیں ہوں ؟ اگر میں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہوں تو کیوں میں ایک غلط بات کہوں اور اگر میں اس کا مصداق ہوں تو جس خدا نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے اُس کا یہ کام ہے کہ وہ مجھے خبر دے کہ میں اس کا مصداق ہوں.پس گو جماعت نے متواتر اصرار کیا کہ میں اس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قرار دوں مگر میں نے کبھی اس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قرار نہ دیا اور جب بھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی میں اس پر سے خاموشی کے ساتھ گزر جا تا.اس عرصہ میں دشمن نے پہیلنج بھی کئے کہ اگر یہ شخص اس پیشگوئی کا مصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں.مگر میں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ خدا پر تقدم تقویٰ کے خلاف ہے.پس میں خاموش رہا اور باوجود جماعت کے اصرار اور دشمنوں کے چیلنج کے میں نے کبھی اس کے متعلق کچھ نہیں کہا.یہاں تک کہ تمہیں سال کا لمبا عرصہ اس پر گزر گیا اور یہ مضمون قریباً ٹھنڈا ہو گیا.دوستوں نے زور لگایا کہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کروں مگر میں خاموش رہا.دشمنوں نے کہا کہ اگر یہ اس پیشگوئی کا مصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں؟ مگر میں نہ بولا.
انوار العلوم جلد ۷ ۱۵۱ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان جب موافق اور مخالف سب اس مضمون پر بخشیں کر کر کے تھک گئے تو اس سال کے شروع میں ۵، ۶ جنوری ۱۹۴۴ ء کی درمیانی رات کو میں نے ایک رؤیا دیکھا.رؤیا کی حالت میں دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں دشمن کی فوج کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے.وہاں کھڑے ہو کر میں کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں کہ یکدم مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے جرمن فوج نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے جہاں میں ہوں اور ایسی شدت سے حملہ کیا ہے کہ جس فوج کے پاس میں تھا اُس نے شکست کھانی شروع کر دی.میں یہ دیکھ کر خواب میں خیال کرتا ہوں کہ اب یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں مجھے بھاگ کر کہیں اور چلے جانا چاہئے.چنانچہ میں اُس مقام سے باہر نکلا مگر جو نہی باہر آیا معاً میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کسی سابق پیشگوئی کے ماتحت میں اس مقام سے بھاگنے کے لئے نکلا ہوں اور اب میرا آئندہ سفر اس پیشگوئی کے مطابق ہوگا.چنانچہ میں نے دوڑنا شروع کر دیا.رویا میں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس تیزی سے دوڑ رہا ہوں کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے اور میں میلوں میں ایک آن میں طے کرتا جا رہا ہوں.میری اُس تیزی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جتنی دیر میں کوئی شخص گز بھر چلتا ہے میں خواب میں اتنی دیر میں پچاس ساٹھ میل بڑھ جاتا ہوں.جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور میرے ساتھیوں کو بھی گو قدرت کی طرف سے دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ گئے یہاں تک کہ میں دوڑتے دوڑتے ایک پہاڑی دامن میں جا پہنچا.وہاں مختلف رستے مجھے دکھائی دیئے کوئی کسی طرف جاتا تھا اور کوئی کسی طرف.میں ان رستوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا تا میں معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق میں نے کونسا راستہ اختیار کرنا ہے.اُس وقت میں ایک ایسی سٹرک کی طرف جارہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اس پر میرا ایک ساتھی مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سٹرک پر نہیں دوسری سٹرک پر جاؤں.جب میں اس کے کہنے کے مطابق اُس سڑک کی طرف جو انتہائی دائیں طرف تھی واپس لوٹتا ہوں تو خدا تعالیٰ کی قدرت کے زبر دست ہاتھ نے مجھے پکڑ کر ایک درمیانی راستہ پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آواز میں دیتا چلا جاتا ہے کہ اس طرف آئیں اُس طرف نہ جائیں مگر میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں اور اُسی راستے پر دوڑتا چلا جاتا ہوں اور یہ محسوس کرتا ہوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۵۲ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان کہ یہ رستہ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا منشا ہے.غرض میں اُس رستے پر چلتا چلا جاتا ہوں.اسی دوران مجھے خیال آیا کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی تھی اس میں یہ بھی ذکر تھا کہ اس کے بعد ایک جھیل آئے گی وہ جھیل کہاں ہے؟ جب مجھے یہ خیال آیا تو یکدم میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے ایک جھیل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے اس جھیل کو پار کرنا ضروری ہے.اُس وقت میں نے دیکھا کہ جھیل پر کچھ کشتی نما چیزیں تیر رہی ہیں جن پر بعض لوگ سوار ہیں.خواب میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ لوگ جن پر سوار ہیں ان کے بت ہیں اور اُس وقت یہ لوگ اپنے سالانہ تہوار پر بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں.میں نے جب اُس جھیل کو عبور کرنے کا اور کوئی طریق نہ دیکھا تو جھٹ کو دکر ایک بُت پر سوار ہوا تو اردگرد کے لوگوں نے ایسے کلمات کہنے شروع کر دیئے جن سے ان کے بتوں کی عظمت ظاہر ہوتی تھی.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ میرا اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے.چنانچہ میں نے تو حید کی دعوت اُن لوگوں کو دینی شروع کی اور بڑے زور سے میں نے شرک کی بُرائیاں بیان کیں.اُس وقت خواب میں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے اور عربی میں ہی میں انہیں تو حید کی تعلیم دے رہا ہوں.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری اس تقریر سے متاثر ہو کر بعض مجاوروں کے دلوں میں تو حید پر ایمان پیدا ہونا شروع ہوا اور وہ یکے بعد دیگرے مجھ پر ایمان لاتے چلے گئے مگر میں نے اپنی تبلیغ جاری رکھی یہاں تک کہ میں نے اُن سے کہا جب اس جھیل کا کنارہ آئے گا تو تمہارے یہ بُت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.غرض اسی طرح میں تبلیغ کرتا چلا گیا.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں نے اُن کو حکم دیا کہ ان بتوں کو پانی میں غرق کر دو اور اُن سب نے میرے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان بتوں کو جھیل میں غرق کر دیا.اس کے بعد میں پھر کھڑا ہو گیا اور انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.اُس وقت مجھے محسوس ہوا کہ وہ لوگ خدائے واحد پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتے جارہے ہیں مگر قوم کا کچھ حصہ ابھی ایمان نہیں لایا.اُس وقت میں اُنہی میں سے ایک شخص کو جس کا اسلامی نام میں نے عبدالشکور
انوار العلوم جلد ۷ ۱۵۳ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان رکھا ہے مخاطب کر کے کہتا ہوں اے عبدالشکور ! میں تم کو اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں تمہارا فرض یہ ہوگا کہ تم اپنی قوم میں توحید قائم کرو اور شرک کو مٹا دو اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو بتاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اور تمہارا یہ بھی فرض ہوگا کہ تم اس قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی طرف توجہ دلا ؤ.میں جب واپس آؤں گا تو تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تو نے ان فرائض کو کہاں تک ادا کیا ہے.رویا کی حالت میں جب میں اُس سے کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ تو ان لوگوں کو یہ سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور تو ان لوگوں سے یہ اقرار لے کہ اَشْهَدُ اَنْ لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ.تو اُس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری زبان سے اللہ تعالیٰ خود بول رہا ہے اور جب میں نے کہا تمہیں لوگوں سے یہ اقرار بھی لینا پڑے گا کہ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - یکدم مجھے معلوم ہوا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو اجازت دی ہے کہ وہ میری زبان پر قابو پائیں اور خود میری زبان سے کلام فرما ئیں.چنانچہ جب میں کہتا ہوں تمہیں یہ اقرار لینا پڑے گا کہ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میری زبان سے بولے اور آپ نے فرمایا.أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اے لوگو ! سن لو کہ میں محمد ہوں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول.پھر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قدرت دی گئی اور جب میں نے اُسے کہا کہ تمہیں اپنی قوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا بھی اقرار لینا پڑے گا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے فرمایا.اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ اے لوگو! میں تم کو بتاتا ہوں کہ میں وہی مسیح ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا.اس کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور میں ان سے کہوں کہ میں مسیح موعود کا خلیفہ ہوں مگر اُس وقت بجائے یہ الفاظ جاری ہونے کے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اَنَا الْمَسِيحُ المَوْعُودُ مَشِيلُهُ وَخَلِیفَتُهُ میں بھی مسیح موعود ہی ہوں یعنی اُس کا مشابہ، نظیر اور خلیفہ.جب خواب میں میں نے اپنے متعلق یہ الفاظ کہے تو یکدم میں گھبرا گیا کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا ہے اس پر معا مجھے القاء ہوا کہ یہ وہی پیشگوئی ہے جو مصلح موعود
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۵۴ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان کے بارہ میں کی گئی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل اور نظیر ہو گا.تب میں نے سمجھا کہ یہ پیشگوئی خدا نے میرے لئے ہی مقدر کی ہوئی تھی.رؤیا کی حالت میں میں نے اور بھی بعض باتیں بیان کی ہیں مثلاً میں نے ان سے کہا میں وہی ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.یہ در حقیقت انجیل کی ایک پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو بعض قو میں مجھ پر ایمان لائیں گی اور بعض انکار کر دیں گی اُس وقت ان قوموں کی مثال ایسی ہوگی جیسے دس کنواریاں جن میں سے کچھ ہوشیار تھیں اور کچھ سُست ، دولہا کے انتظار میں بیٹھ گئیں جو سُست تھیں اُن کا انتظار کی حالت میں ہی تیل ختم ہو گیا اور جب وہ دوبارہ تیل لینے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آ گیا اور وہ اُس کے ساتھ شامل ہونے سے محروم رہ گئیں لیکن جو ہوشیار تھیں اور جنہوں نے تیل اپنے ساتھ رکھا تھا وہ دولہا کو اپنے ساتھ لے کر اُس کے قلعہ میں چلی گئیں.اس تمثیل میں حضرت مسیح ناصری نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو کچھ تو میں جو ہوشیار ہونگی وہ مجھے مان لیں گی لیکن کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے مجھے ماننے سے محروم رہ جائیں گی.پس اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رؤیا کی حالت میں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جس کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں انتظار کر رہی تھیں تو کچھ نوجوان عورتیں جو سات یا نو ہیں اور جو کنارہ سمندر پر بیٹھی ہوئی میری طرف دیکھ رہی تھیں ان الفاظ کے سنتے ہی دوڑتے ہوئے میری طرف آئیں اور انہوں نے میرے ارد گر دگھیرا ڈال لیا اور کہا ہاں ہاں تم سچ کہتے ہو ہم اُنیس سو سال سے تمہارا انتظار کر رہی تھیں.اس کے بعد میں پھر اُن کو ہدایتیں دے کر کسی اور طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ خواب میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ میں اور آگے جاؤں گا.چنانچہ خواب کی حالت میں ہی میں اُس شخص سے جس کا نام میں نے عبدالشکور رکھا ہے کہتا ہوں جب میں اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ تیری قوم توحید پر قائم ہو چکی ہے، اسلام کی تعلیم پر کار بند ہو چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر ایمان لا چکی ہے؟
انوار العلوم جلد ۷ ۱۵۵ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان اس رؤیا نے جس میں کشف اور الہام کا بھی حصہ ہے مجھ پر واضح کر دیا کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مقام سے شائع فرمائی تھی وہ میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے چنانچہ وہ بات جس کے متعلق میں تمہیں سال تک خاموش رہا اُس کا میں نے دنیا میں اعلان کرنا شروع کر دیا.اس وقت یہاں احمدی بھی موجود ہیں ، غیر احمدی بھی موجود ہیں، ہندو بھی موجود ہیں ، سکھ بھی موجود ہیں، میں ان سب سے کہتا ہوں کہ دیکھو! خدا سے بڑا کوئی نہیں ، خدا کے قہر سے بڑھ کر کسی کا قہر نہیں اور خدا کے عذاب سے بڑھ کر کسی کا عذاب نہیں.دنیا کی بادشاہتیں اور حکومتیں سب اُس کے سامنے بیچ اور ذلیل ہیں اور اُس کی جھوٹی قسم کھانا انسان کو عذاب میں گرفتار کر دیتا ہے میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جو ر و یا بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ کوئی خفیف سا فرق بیان کرنے میں ہو گیا ہو تو علیحدہ بات ہے.میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُهُ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موعود بھی آئیں گے اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے.بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہو گا نازل ہوگی اور وہ میرے نقشِ قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا.پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس شہر
انوار العلوم جلد کا ۱۵۶ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان ہوشیار میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق ہو سکے.یہ پیشگوئی کسی بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھی بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے تحریر فرمایا اس زمانہ کے لوگوں کے ایمان کی زیادتی کے لئے یہ پیشگوئی کی گئی تھی.پس ضروری تھا کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ میں پوری ہوتی اور ان لوگوں کے سامنے پوری ہوتی جن کے سامنے یہ شائع کی گئی تھی.ہم میں ابھی سینکڑوں وہ لوگ زندہ موجود ہیں جنہوں نے اپنے سامنے اس اشتہار کو شائع ہوتے دیکھا اور پڑھا.اُنہوں نے وہ تمام مخالفتیں دیکھیں جو پیشگوئی کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ہوئیں اور پھر انہوں نے اس پیشگوئی کی اکثر علامات کو پورا ہوتے دیکھا.پس آج ہم اس جگہ پر اس لئے جمع ہوئے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کریں جس نے ایک گمنام شخص کو ایسے گمنام شخص کو ، جو گھر میں بھی پہنچانا نہیں جاتا تھا دنیا کے کونے کونے تک مشہور کر دیا.آپ ایسی گمنامی کی حالت میں دعا کرتے تھے کہ بعض دفعہ جب دُور کے رشتہ دار آتے تو وہ سجدہ میں آپ کو بیٹھا دیکھ کر یہ خیال کیا کرتے تھے کہ کوئی ملاں بیٹھا ہے، بعض دفعہ آپ پر ایسی ایسی حالت بھی گزر جاتی کہ خود فاقہ کرنا پڑتا اور اپنا کھانا کسی مہمان کو کھلا دینا پڑتا.چونکہ ہماری جدی جائداد پر تایا صاحب کا قبضہ تھا اس لئے ہماری تائی صاحبہ بعض دفعہ اس غصہ میں کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے انہیں کھانا بھی نہیں بھجواتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ خود سنایا کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ جب کوئی میرے پاس مہمان آتا اور میں کھانے کیلئے اُن کو کہلا بھیجتا تو وہ کہ دیتیں کہ ہمارے پاس مہمان کے لئے کوئی کھانا نہیں.اس پر چپ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے.ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک لمبے عرصہ تک آپ کے پاس مہمان رہا آپ کا طریق یہ تھا کہ اپنے لئے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور خود چنے بھنوا کر اُن پر گزارہ کرتے.آپ اپنے اشعار میں بھی فرماتے ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۵۷ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِى وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الَا هَالِى ١٣ اے لوگو! تم جانتے ہو کہ ایک وقت مجھ پر ایسا گزرا ہے جب دستر خوانوں کے ٹکڑے اور بچی ہوئی روٹی مجھے کھانے کے لئے دی جاتی تھی لیکن آج وہ دن ہے کہ سینکڑوں خاندان اور قبیلے میرے ذریعہ پرورش پارہے ہیں.پس وہی جس کو دنیا نے رڈ کیا ، جس کو ذلیل اور حقیر سمجھا آج اُس کی آواز پر لاکھوں انسان اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں.دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی آج ایسا نہیں مل سکتا جس کے ساتھ اس قدر لوگ عقیدت اور اخلاص رکھنے والے ہوں اور جس کے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے وہ لوگ تیار ہوں.قو میں بے شک وطنیت کے ماتحت آج قربانی کر رہی ہیں مگر دنیا کے پردہ پر کوئی فرد ایسا نہیں جس کے نام پر اتنے آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں جتنے آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں حالانکہ یہ وہی شخص تھا جو ایک طویلہ میں چالیس دن تک چلہ کشی کرتا رہا اور جس کو سوائے چند لوگوں کے دنیا میں کوئی شخص نہیں جانتا تھا.پھر خدا نے اُس کو بڑھایا اور دنیا میں اُس کے نام کو پھیلایا.جب دنیا اُس کا انکار کر رہی تھی ، جب دنیا اُس کی مخالفت کر رہی تھی، جب دنیا اُس کو مٹانے کے لئے تیارا پنا سارا زور صرف کر رہی تھی اُس وقت خدا نے اُس کو مخاطب کیا اور فرمایا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.۱۴.سود یکھو! خدا نے زور آور حملوں سے اس کی سچائی دنیا پر ظاہر کی یا نہیں ؟ آج لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو اس انسان پر ایمان لاتے ہیں صرف ہندوستان میں ہی نہیں بیرونی ملکوں میں بھی.آج پنجاب اور ہندوستان میں جماعت کو ایسی طاقت حاصل ہے اور اس قدر اعلیٰ طور پر وہ منتظم ہے کہ اور کوئی جماعت اپنی طاقت اور اپنی تنظیم میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اتنی تعداد چھوڑ اس سے سو گنا بڑی جماعت بھی دنیا میں کوئی ایسی نہیں جو وہ قربانیاں کر رہی ہو جو یہ جماعت دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ایسے زور آور حملوں کے ساتھ پورا
۱۵۸ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۱۷ کیا ہے کہ میں نہیں سمجھتا دنیا کا کوئی شخص دیانتداری سے غور کرنے کے بعد یہ کہہ سکے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ خدا کی پیشگوئی ہے.اُسی خدا کی جو عالم الغیب ہے جس کے قبضہ و تصرف میں زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ ہے.پس یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جو خدا نے ظاہر کیا.میں اس نشان کو پیش کرتے ہوئے ان لوگوں سے جو اس وقت یہاں جمع ہیں کہتا ہوں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ لوگ خدا کے اس نشان پر غور کریں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کے ان زور آور حملوں کو دیکھنے کے بعد اُس کے مامور کو قبول کریں تا کہ دنیا میں امن اور آشتی پیدا ہو اور صلح کا دور دورہ ہو؟ یا درکھو! جب تک خدا کے بھیجے ہوئے مامور کی راہنمائی کو دنیا قبول نہیں کرتی اُس وقت تک اسے کبھی امن حاصل نہیں ہو سکتا چاہے وہ کتنا زور لگا لے اور چاہے کتنا ہی امن کے حصول کے لئے جد و جہد کرلے.دنیا کے لئے ایک ہی ذریعہ امن حاصل کرنے کا ہے کہ وہ اس درخت کے سایہ کے نیچے آجائے جو خدا نے لگایا ہے.جب تک وہ اس درخت کے سایہ کے نیچے نہیں آتی اُس وقت تک اُسے کبھی حقیقی امن اور اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا.میں نے بتایا ہے کہ یہ پیشگوئی صرف ایک پیشگوئی نہیں بلکہ اس میں اتنی کثیر خبر میں جمع ہیں کہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں تھا کہ وہ ایسی خبریں دے سکتا.دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا ، وہ 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا، وہ زندہ رہے گا، وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ رحمت اور فضل کا نشان ہوگا، تو میں اُس سے برکت پائیں گی، اسیر اُس سے رستگار ہوں گے اور دین اسلام کا شرف اُس کے ذریعہ ظاہر ہوگا.یہ تمام امور ایک ایک کر کے اس بات کی شہادت پیش کر رہے ہیں کہ یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے تھی.پھر اسی قدر نہیں اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور بھی بہت سی باتیں بتائی گئی تھیں چنانچہ وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پیشگوئی میں بتائی گئی ہیں وہ یہ ہیں.اول یہ بتایا گیا تھا کہ وہ لڑکا خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہوگا یعنی وہ زندہ رکھا جائے گا تا کہ اُس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو.دوسرے وہ رحمت کا نشان ہوگا.یعنی اس کے ظہور سے احمدیت کی ترقی ہوگی اور مخالفین اسلام
انوار العلوم جلد کا ۱۵۹ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان کے حملوں سے نجات حاصل ہو گی.تیسرے وہ قربت کا نشان ہوگا.یعنی کچھ لوگ اس جماعت میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو گرانے اور جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کریں گے.ان کے حملوں کا وہ دفاع کرے گا اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحیح مقام اور درجہ لوگوں پر ظاہر کر دے گا.چوتھے وہ فضل کا نشان ہوگا.یعنی سلسلہ کی ترقی اُس کے ساتھ وابستہ ہوگی.پانچویں وہ احسان کا نشان ہو گا.یعنی مقاصد کی تکمیل اُس کے ذریعہ سے ہوگی.چھٹے وہ فتح کی کلید ہو گا.ساتویں وہ ظفر کی کلید ہوگا.آٹھویں وہ صاحب شکوہ ہوگا.نویں وہ صاحب عظمت ہوگا.دسویں وہ صاحب دولت ہوگا.ا گیارہویں وہ اپنے مسیحی نفس سے لوگوں کو بیماریوں سے شفا دے گا.بارہویں وہ روح الحق کی برکت اپنے ساتھ رکھتا ہوگا.تیر ہوئیں وہ کلمتہ اللہ ہوگا.چودہویں وہ کلمہ تمجید سے بھیجا جائے گا.پندرہوں وہ سخت ذہین ہوگا.سولہویں وہ سخت فہیم ہو گا.سترہویں وہ دل کا حلیم ہو گا.اٹھارویں وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.انیسویں وہ علوم باطنی سے پر کیا جائے گا.بیسویں وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.اکیسویں دوشنبہ سے اُس کا خاص تعلق ہوگا.
انوار العلوم جلد ۱۷ بائیسویں فرزند دلبند ہوگا.تیسویں گرامی ارجمند ہوگا.چوبیسویں مظہر الا ول ہوگا.پچیسویں مظہر الآ خر ہوگا.چھبیسویں مظہر الحق ہوگا.ستائیسویں مظہر العلا ہوگا.17.دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان اٹھائیسویں وہ ایسا ہو گا جیسے خدا نے اِس زمانے میں آسمان سے نزول کیا.انتیسویں اُس کا نزول بہت مبارک ہوگا.تیسویں اُس کا نزول جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.اکتیسویں وہ نور ہوگا.بتیسویں وہ رضائے الہی کے عطر سے ممسوح ہوگا.تینتیسویں اُس میں خدا اپنی روح ڈالے گا یعنی کلام الہی اُس پر نازل ہوگا.چونتیسویں خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا.پینتیسویں وہ جلد جلد بڑھے گا.چھتیسویں وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.سینتیسویں وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اڑتیسویں تو میں اُس سے برکت پائیں گی.اُنتالیسویں اُس کا نفسی نقطہ آسمان ہو گا.چالیسویں وہ دیر سے ظاہر ہوگا.اکتالیسویں وہ دور سے آئے گا.بیالیسویں وہ فخر رُسل ہوگا.تینتالیسویں اُس کی ظاہری برکتیں تمام جہان پر پھیلیں گی.چوالیسویں اُس کی باطنی برکتیں تمام جہان پر پھیلیں گی.
انوار العلوم جلد ۱۷ 171 دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان پینتالیسویں یوسٹ کی طرح اُس کے بھائی اُس کی مخالفت کریں گے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ قوم کے لیڈر میرے مخالف ہو گئے.چھیالیسویں اُس کی کئی شادیاں ہوں گی.چنانچہ اس وقت تک میں چھ شادیاں کر چکا ہوں دو بیویاں فوت ہو چکی ہیں اور چار موجود ہیں.سینتالیسویں وہ عالم کباب ہوگا.یعنی اُس کے زمانہ میں بڑی بڑی جنگیں ہوں گی.چنانچہ پہلی جنگ عظیم بھی میرے زمانہ خلافت میں ہوئی اور اب دوسری جنگ بھی میرے زمانہ میں ہی ہو رہی ہے.اڑتالیسویں وہ بشیر الدولہ ہوگا.یعنی جس حکومت میں وہ ہوگا خدا اُس حکومت کی فتح کی خبر اُسے دے گا.انچاسویں وہ محمود ہوگا.پچاسویں وہ ذ کی ہوگا.اکاون وہ اولوالعزم ہوگا.باون وہ حضرت عمرؓ کی طرح دوسرا خلیفہ ہوگا.تریپن وہ حسن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہو گا.چون وہ احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا.پچپن وہ کلمۃ العزیز ہوگا.چھپن وہ کلمتہ اللہ خان ہوگا.ستاون وہ ناصرالدین یعنی دین کی مدد کر نے والا ہوگا.اٹھاون وہ فاتح الدین ہوگا.یہ وہ اٹھاون نام یا پیشگوئیاں ہیں جن کا الہامات میں ذکر آتا ہے ان پر تفصیلی بحث تو بعد میں کسی رسالہ میں کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ ان میں سے کتنی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور کتنی ابھی پوری ہونے والی ہیں لیکن ایک سرسری نظر ان الہامات پر ڈال کر آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ باتیں کس عظمت کے ساتھ پوری ہوئیں.
۱۶۲ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۱۷ جس زمانہ میں میں خلیفہ ہوا ہوں لوگ کہا کرتے تھے کہ ایک بچہ جماعت کا خلیفہ ہو گیا ہے اب یہ جماعت ضرور تباہ ہو جائے گی.مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہی جماعت جو ایک بچہ کے سپرد کی گئی تھی آج اُس سے کئی گنا زیادہ ہے جب وہ میرے سپرد کی گئی تھی.آج جماعت احمد یہ اُس وقت سے بیسیوں گنے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے، آج جماعت کی عزت میں اُس وقت سے بیسیوں گنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے.آج جماعت کے خزانہ میں اُس وقت سے بیسیوں نہیں سینکڑوں گنا زیادہ روپیہ ہے.پھر وہی شخص جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ جاہل ہے علوم سے نابلد ہے.خدا نے اُس کو اپنے پاس سے علم دیا چنانچہ میرے ذریعہ سے مسائل اسلامیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایسے علوم جمع کر دیئے ہیں کہ آج دشمن سے دشمن بھی اُن کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ اسلام کی تشریح اس سے بہتر ناممکن ہے.کچھ عرصہ ہوا فورمین کرسچین کالج کے پروفیسر مسٹر لوکس جو امریکہ کے رہنے والے تھے قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے.بعد میں انہوں نے سیلون میں ایک تقریر کی جس میں کہا عیسائی اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا آئندہ مصر سے مقابلہ ہو گا.کبھی وہ خیال کرتے ہیں اگر مصر نہیں تو کسی اور اسلامی ملک سے ہمارا مقابلہ ہوگا یہ بالکل غلط ہے میں ابھی ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہو کر واپس آ رہا ہوں.وہاں ریل بھی نہیں جاتی مگر وہاں رہ کر میں نے جو کچھ دیکھا ہے اُس کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ یہ فیصلہ کہ دنیا کا مذہب اسلام ہو یا عیسائیت؟ یہ اور کسی جگہ نہیں ہو گا صرف قادیان میں ہوگا اور دنیا کے پردہ پر اور کسی جگہ یہ لڑائی نہیں لڑی جائے گی یہ لڑائی اگر لڑی گئی تو قادیان میں ہی لڑی جائے گی مصر یا شام یا فلسطین میں نہیں لڑی جائے گی.یہ ایک عیسائی کی رائے ہے جو اسلام کا شدید ترین دشمن تھا.وہ پادری تھا اور اُس کا کام لوگوں کو عیسائی بنانا تھا مگر وہ پادری قادیان کو ایک دفعہ دیکھنے کے بعد اس رائے کا اظہار کرنے پر مجبور ہوا کہ اگر عیسائیت اور اسلام کی جنگ ہوئی تو اس کا فیصلہ قادیان میں ہوگا اور کسی جگہ نہیں ہوگا.یہ وہ نشان ہیں جن کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا اور ان نشانات کو پورا ہوتے دیکھ کر انسان یقین کر سکتا ہے کہ باقی نشانات بھی ایک دن پورے ہو کر رہیں گے.میں نے بتایا ہے کہ اس
انوار العلوم جلد کا ۱۶۳ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان پیشگوئی کے اکثر حصے پورے ہو چکے ہیں صرف تھوڑی سی باتیں ہیں جن کے لئے ابھی کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا.بہر حال یہ ایک ایسا عظیم الشان آسمانی نشان ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومنوں کے دل اس یقین اور ایمان سے بھر جاتے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.میں جماعت کے احباب کو خصوصیت سے اس موقع پر توجہ دلاتا ہوں کہ اس نشان کے بعد آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر آپ لوگوں نے بیعت کی ہے اُس کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرے.پس آپ لوگوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو گئی ہے.آپ کا کام یہ ہے کہ اُس وقت تک آرام کا سانس نہ لیں جب تک خدا کی با دشاہت اسی طرح زمین پر نہیں آجاتی جس طرح وہ آسمان پر ہے اور جو لوگ ابھی ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں اُن سے کہتا ہوں کہ کب تک انتظار کرتے چلے جاؤ گے؟ جو آنے والا تھا آ گیا اب اس کے بعد کوئی نہیں جو تمہاری امیدوں کے مطابق آسمان سے اُترے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ چاہے قیامت تک تم ناک رگڑتے رہو تمہارا مسیح آسمان سے نہیں اُتر سکتا جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے اسی طرح میں کہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس مثیل اور نظیر نے آپ کی پیشگوئی کے مطابق دنیا میں آنا تھا وہ آچکا ہے اب چاہے قیامت تک انتظار کرتے رہو اور کوئی شخص اس پیشگوئی کا مصداق پیدا نہیں ہوسکتا.پس ہماری جماعت کو اس مقام پر جمع ہو کر اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے.یہ مکان جو سامنے دکھائی دے رہا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چالیس روز تک چلہ کشی کی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں اُس زمانہ میں شہر کے ایک کنارہ پر ہوا کرتا تھا.مگر اب شہر کی آبادی میں ترقی ہو چکی ہے اور اس کے اردگر د بھی کئی عمارتیں بن گئی ہیں یہاں خدا نے ایک عظیم الشان نشان کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائی جس کو اٹھاون سال کے بعد ہماری جماعت نے پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.یہ ایک نشان ہے اور بہت بڑا نشان.اگر ہماری جماعت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ نشان خدا نے ظاہر فرمایا ہے تو جماعت کو اس امر کا بھی یقین کر لینا چاہئے کہ اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہونے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۶۴ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان والی ہے.یا تو شیطان کی طرف سے اسلام پر کوئی شدید حملہ ہونے والا ہے جس کے دفاع کے لئے ہر شخص کو اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینا پڑے گا یا پھر اسلام کی طرف سے عنقریب غیر اسلامی دنیا پر کوئی ایسا شدید حملہ ہونے والا ہے جس میں ہر شخص کو اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینا پڑے گا.دونوں صورتیں ایسی ہی جن میں قربانی کرنی پڑے گی ، دونوں صورتیں ایسی ہیں جن میں اپنی جانوں اور مالوں کو ایک حقیر چیز کی طرح خدا کی راہ میں پیش کرنا پڑے گا.پس ہر احمدی جو آج اس مجمع میں موجود ہے اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہنے والی ہے یا تو کفر کا اسلام پہ کوئی نیا حملہ ہونے والا ہے اور یا پھر اسلام کا کفر کے قلعہ پر حملہ ہونے والا ہے.بیشک آپ لوگوں نے پہلے بھی قربانیاں کی ہیں مگر آئندہ آنے والی قربانیوں کے مقابلہ میں وہ قربانیاں بالکل بیچ ہو جائیں گی اور وہی شخص اس امتحان میں کامیاب اُترے گا جو اپنی جان اور اپنے مال ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی قربانی کرنے میں ایک لمحہ کیلئے ا بھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لے گا.وہ ابراہیم کی طرح آگے بڑھے گا اور جس طرح ابراہیم نے خدا کے حکم کے ماتحت اپنے اکلوتے بچہ کے گلے پر چھری رکھ دی تھی اسی طرح وہ اپنی ہر خواہش ، اپنی ہر عزت ، اپنی ہر دولت اور اپنے ہر آرام پر چھری پھیر کر لبیک کہتا ہوا اللہ تعالی کی آواز کی طرف دوڑے گا.اُس کی روح آستانہ الہی پر گر جائے گی اُس کا دل ایمان سے پُر ہوگا اور وہ اپنی ہر چیز کو حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے گا.اُس کی آنکھوں میں سوائے خدا کے اور کسی کا جلوہ نظر نہیں آئے گا.اُس کے دل پر سوائے خدا کے اور کسی کی حکومت نہیں ہوگی اور اُس کے کانوں میں سوائے اُس کے مامور اور مرسل کی آواز کے اور کسی کی آواز نہیں آئے گی وہ ایک فرض شناس سپاہی کی طرح کفر کے مقابلہ کے لئے نکلے گا اور اُس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک کفر کو مٹا نہیں لیتا یا اس جدو جہد میں اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر دیتا.پس میں نے آج وہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر عائد کی گئی تھی ادا کر دی.میں نے جماعت پر بھی حجت کر دی اور میں نے ہوشیار پور کے رہنے والوں کو بتا دیا کہ خدا نے اس مقام کو ایک بہت بڑی عزت بخشی ہے.اس مقام سے اُس نشان کا اعلان ہوا
انوار العلوم جلد کا ۱۶۵ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان جسے خدا نے رحمت کا نشان قرار دیا ہے جسے فضل اور احسان کا نشان قرار دیا ہے پس اپنے وعدہ کے مطابق خدا اس نشان کو لوگوں کے لئے رحمت اور فضل کا ہی موجب رکھے گا جب تک وہ اُس کی رحمت اور فضل کے نشان کو رڈ کر کے عالم کباب ہونے والے نشان کا مطالبہ نہ کریں مگر یہ سب کچھ آپ لوگوں کے اختیار میں ہے.آپ کے اختیار میں ہے کہ اگر چاہیں تو اُس کے رحمت اور فضل کے نشان کو اپنی ذات میں دیکھیں اور اگر چاہیں تو اس کے عالم کباب ہونے والے نشان کا اپنی ذات میں مشاہدہ کریں.خدا تعالیٰ کے مامور جو دنیا کی ہدایت کے لئے آیا کرتے ہیں اُن کے ایک ہاتھ میں تریاق کا پیالہ ہوتا ہے اور اُن کے دوسرے ہاتھ میں زہر کا پیالہ ہوتا ہے اور لوگوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو زہر کا پیالہ پی لیں اور اگر چاہیں تو تریاق کا پیالہ پی لیں.پس اپنے عمل سے آپ لوگوں نے رحمت کا نشان دیکھنا ہے اور اپنے عمل سے آپ لوگوں نے اُس کے عالم کباب ہونے والے نشان کا مشاہدہ کرنا ہے.خدا کے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں.اس کے پاس موت بھی ہے اور اُس کے پاس حیات بھی ہے مگر کیسا بد بخت ہے وہ انسان جوحی و قیوم خدا سے موت مانگنے کے لئے تو تیار ہو جاتا ہے مگر زندگی مانگنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.کتنے ہی لوگ ہیں جو نبیوں سے کہا کرتے ہیں ہمیں کوئی ایسا نشان دکھاؤ جس کے نتیجہ میں اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہلاک ہو جائیں.ان بدبختوں کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ ہلاکت اور بربادی کا نشان طلب کرنے کی بجائے ہدایت اور رحمت کا نشان کیوں طلب نہیں کرتے حالانکہ رحمت بھی اُس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جس طرح ہلاکت اُس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.پس اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشانِ رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے نشانات اُسے دکھا دے گا اور اگر وہ ہلاکت اور بربادی کا نشان دیکھنا چاہے تو اُسے یا د رکھنا چاہئے کہ جس خدا کے پاس حیات ہے اُس خدا کے پاس ہلاکت بھی ہے جب آسمان پر دنیا کی ہلاکت اور بربادی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے تو نہ بادشاہ اُس ہلاکت کو روک سکتے ہیں نہ پارلیمنٹیں اُس ہلاکت کو روک سکتی ہیں ، نہ تنظیمیں اُس ہلاکت سے بچ سکتی ہیں نہ جمعیتیں اُس ہلاکت سے محفوظ رہ سکتی ہیں.جب آسمان سے عذاب نازل ہوتا ہے اُس وقت بڑے سے بڑے بادشاہ اُس عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں اور
۱۶۶ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۱۷ کوئی حکومت اور کوئی سلطنت اور دنیا کی کوئی طاقت اُن کو عذاب سے محفوظ نہیں رکھ سکتی.لیکن جب رحمت کا نشان نازل ہوتا ہے تو اُس وقت معمولی معمولی کاموں کے حیرت انگیز نشان ظاہر ہوتے ہیں اور برکات اور انوار کا دریا ہر طرف موجیں مارتا دکھائی دیتا ہے.غرض آج میں نے اپنے فرض کو ادا کر دیا اور میں نے سب لوگوں کو بتا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی جو آپ نے اپنے ایک لڑکے کے متعلق فرمائی تھی اور جس میں بتایا تھا کہ وہ زمیں کے کناروں تک شہرت پائے گا میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور میں ہی آپ کا وہ موعود بیٹا ہوں جس کا اُس اشتہار میں ذکر کیا گیا تھا جو آپ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء کو شائع کیا.میں اس پیشگوئی پر زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنا چاہتا تھا مگر چونکہ اب وقت نہیں اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.اب مختلف ملکوں کے نمائندے باری باری تقریر میں کریں گے اور بتائیں گے کہ اس پیشگوئی کے مطابق دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا نام میرے ذریعہ سے اور میرے بھیجے ہوئے آدمیوں کے ذریعہ سے ہی پہنچا ہے.(حضور کے اس ارشاد پر مختلف ملکوں کے نمائندوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ کس طرح حضرت مصلح موعود کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.) اس کے بعد حضور نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.اس وقت مختلف ممالک کے مبلغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا.مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اُس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی.اسی طرح ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھیجے ہوئے مبلغین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور ساتھ ہی آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس
انوار العلوم جلد ۷ ۱۶۷ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان میں آپ نے فرمایا تھا کہ ”میرا ایک لڑکا ہوگا جو زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا، جس کے معنے یہ تھے کہ وہ پہلی پیشگوئی جو زمین کے کناروں تک تبلیغ پہنچنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میرے اس لڑکے کے ذریعہ پوری ہوگی جس نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کرنی ہے.اب ہر شخص غور کر کے دیکھ لے کہ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا.وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اس تبلیغ کو اس وقت تک دنیا کے کناروں تک پہنچنے سے روکے رکھا جب تک وہ لڑکا ظاہر نہ ہو گیا.اور پھر وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے میرے مبلغوں کے ذریعہ جاپان سے لے کر شمالی امریکہ تک تمام دنیا میں اس سلسلہ کو پھیلانا شروع کر دیا بلکہ ہر ملک کے افراد کو اس میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ان میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سننا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپ پر درود اور سلام بھیجتے اور صبح شام آپ کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں.ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے نا آشنا تھے مگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے اُن لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا.صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے تمام روکوں کو دُور کیا اور صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے زمین کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام میرے ذریعہ سے پہنچایا.پس یہ پیشگوئی جس مقام سے کی گئی تھی اُسی مقام کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان آپ لوگوں کے سامنے کر دیا گیا ہے تا کہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ خدا کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی.ان تقاریر کے دوران بعض ایسے ممالک کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں احمدیوں کو خاص طور پر تکلیفیں دی گئی ہیں چنانچہ بعض ممالک میں ہمارے مبلغ سنگسار کئے گئے اور بعض ممالک میں حکومتوں نے اُن کو ملک بدر کر دیا.مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس جس ملک کی حکومت نے ہمارے مبلغین کے ساتھ ایسا سلوک کیا تھا خدا نے اُن حکومتوں کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑا.وہ بڑے بڑے ممالک جن میں ہمارے مبلغین کے ساتھ سختی کی گئی افغانستان، روس ، پولینڈ اور البانیہ ہیں.یہ وہ ممالک ہیں جہاں خصوصیت سے احمدیوں کو تکالیف پہنچائی گئیں اور حکومتوں نے یا تو ہمارے آدمیوں کو مار ڈالا یا ان کو اپنے ملک سے نکال دیا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۶۸ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان پس میں اُن لوگوں کو جو ابھی جماعت میں شامل نہیں توجہ دلاتا ہوں کہ مغرب کے کناروں سے مشرق کے انتہائی کناروں تک ہم اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس سلسلہ کی حقیقت پر غور کریں اور خدا تعالیٰ کے اُن نشانات سے فائدہ اُٹھائیں جو دنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں اور اگر آپ لوگ ابھی اس سلسلہ کی صداقت پر غور نہیں کر سکتے تو کم سے کم خدا تعالیٰ کا اتنا خوف اپنے دل میں ضرور پیدا کریں کہ جب اس جماعت کے افراد اسلام کی تبلیغ کے لئے نکلیں تو اُس وقت ان کی مخالفت کرنے سے احتراز کریں اور سمجھ لیں کہ یہ وار ان پر نہیں خدا کے دین پر ہو گا اور اس کا نقصان افراد کو نہیں بلکہ مذہب اور اسلام کو ہوگا.اسی طرح میں اُن لوگوں سے بھی جو ابھی اسلام کی صداقت کے قائل نہیں کہتا ہوں کہ ہم مبلغ ہیں تبلیغ ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم نے ہمیشہ کرنا ہے خواہ کوئی ہندو ہو ، سکھ ہو ، عیسائی ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے تبلیغ کریں اور اسلام کی تعلیم اس کے کانوں تک پہنچا ئیں.میں یہ نہیں کہتا کہ تبلیغ کرنا صرف ہمارا حق ہے اُن کا بھی حق ہے کہ وہ ہمیں تبلیغ کریں.ہمیں اس پر کوئی گلہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کے مقابلہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ ہماری تبلیغ پر چڑیں نہیں.ہم مجبور ہیں کہ ہم نرمی اور پیار اور محبت سے ان کو تبلیغ کریں اور جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ لوگ اس دین کو اختیار کریں تو پھر چاہے لوگ ہمیں ماریں ، پیٹیں ، گالیاں دیں ہم مجبور ہیں کہ اُن کو اسلام کی تبلیغ کرتے چلے جائیں.کسی کا بچہ کنویں میں گر رہا ہو تو دوسرا شخص اُسے دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتا.کسی جگہ آگ لگ رہی ہو تو کوئی شخص اُس آگ کو دیکھ کر آرام سے بیٹھ نہیں سکتا.پھر جب کہ ہم کو بھی اُن سے ویسی ہی محبت ہے جیسے ایک باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے یا بھائی کو اپنے بھائی سے ہوتی ہے اور جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اسلام میں داخل نہیں وہ ایک آگ میں گرے ہوئے ہیں تو پھر ہم پورا زور لگائیں گے کہ وہ اس آگ سے بچ جائیں خواہ اس جدو جہد میں ہماری اپنی جان بھی کیوں نہ چلی جائے.پس تبلیغ کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اپنے اس فرض کو ہمیشہ ادا کرتے رہیں گے لیکن آپ لوگ مت سمجھیں کہ آپ خدا کی تقدیر کو پورا ہونے سے روک سکتے ہیں.خدا کی تقدیر ایک دن پوری ہو کر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے.میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں،
۱۶۹ دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد ۷ میں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں، میں ہوشیا پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.اگر لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور اُن کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.میرا اپنا واقعہ ہے جب میں دمشق میں گیا تو عبد القادر مغربی جو اس علاقہ کی اسلامی تحریکات کی مجلس کے صدر تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ہندوستانی لوگ جاہل ہیں وہ اسلام اور قرآن سے ناواقف ہیں اور اس ناواقفیت سے فائدہ اُٹھا کر آپ نے اُن لوگوں میں اپنے سلسلہ کو پھیلا لیا.عرب لوگ قرآن کی بولی جانتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کیا کہتا ہے اس لئے یہاں ان عقائد کا ہرگز نام نہ لیں اور یا درکھیں کہ ایک عرب بھی آپ کے سلسلہ کو قبول نہیں کر سکتا.میں نے اُن سے کہا آپ کہتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ چونکہ جاہل ہیں اس لئے اُن میں ہمارا سلسلہ پھیل گیا عرب کا کوئی آدمی ہمارے سلسلہ کو قبول نہیں کر سکتا میں یہاں سے جاتے ہی اپنا مشن بھیجوں گا اور اس وقت تک اس علاقہ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک عربوں میں سے کئی لوگوں کو احمدی نہ بنالوں.چنانچہ میں نے آتے ہی اپنے مبلغین کو اس علاقہ میں بھجوا دیا اور اب بڑے بڑے ڈاکٹر ، بیرسٹر اور تعلیم یافتہ اشخاص ہمارے سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور ہزاروں روپیہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے خرچ کر رہے ہیں.پس یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا انکار کرے اور انکار کرتی چلی جائے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جسے خدا نے بھیجا ہے اُس پر لوگ ایمان نہ لائیں مگر مبارک ہیں وہ جو اب ایمان لاتے ہیں ، مبارک ہیں وہ جو خدا کی آواز کو سنتے اور اُس پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ جو شخص خدا کے مامور کی آواز کو سنتا ہے وہ درحقیقت خدا کی آواز کو سنتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز کو رڈ کرتا ہے وہ در حقیقت خدا تعالیٰ کی آواز کو رو کرتا ہے.پس بڑی ہی بدقسمتی ہوگی اگر لوگ ایمان نہ لائیں اور خدا کے اس مامور کو قبول نہ کریں جو خدا نے ان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا.(اس کے بعد حضور اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
انوار العلوم جلد ۱۷ 16.دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان ۱۸۸۶ء میں چلہ کشی فرمائی تھی اور قبلہ رو دوزانو بیٹھ کر اسلام کی ترقی اور اُس کی شان و شوکت الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۵۶ء، و۱۹ رفروری ۱۹۶۰ء) کے لئے پُر سوز دُعا کروائی.) البقرة: ۲۸۷ ال عمران: ۵۴ ال عمران: ۱۴۸ ہتا ہے.آل عمران: ۱۹۴ ۱۹۵ ال :عمران ٩ ٩ البقرة: ۱۳۷ ھینگ ہگنا: پیچش کے مرض میں مبتلا ہونا.بیمار پڑا رہنا.نہایت کمزورونا تو اں ہونا ا تذکرہ صفحہ ۳۹.ایڈیشن چہارم سٹریٹ سیٹلمنٹس(STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.آئینہ کمالات اسلام جلد ۵ صفحه ۵۹۶ ۱۴ تذکرہ صفحه ۱۰۴.ایڈیشن چہارم اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ ۷ مطبوعہ لا ہور۱۹۸۷ء) ۱۵ تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ تذکرہ صفحہ ۳۱۲.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۷ ایک اہم ہدایت از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی ایک اہم ہدایت
انوار العلوم جلد ۷ ۱۷۲ ایک اہم ہدایت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک اہم ہدایت با قادیان کے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک میں پڑھے ( تقریر ۹ / مارچ ۱۹۴۴ ء بعد نماز عصر بمقام بیت مبارک قادیان) تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.دیکھو! بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے مگر وہ بہت بڑے نتائج پیدا کر دیتی ہے.میں نے آپ لوگوں میں یہ تحریک کی تھی کہ جو لوگ قادیان آتے ہیں اُن کو روزانہ کوئی نہ کوئی نماز مسجد مبارک میں آکر ادا کرنی چاہئے.قادیان کی آبادی اس وقت بارہ ہزار ہے.اس میں سے چھ ہزار اگر عورتیں نکال دی جائیں اور باقی چھ ہزار میں سے دو ہزار بچے یا بیمار یا بوڑھے اور کمزور لوگ نکال دیئے جائیں تو چار ہزار کی آبادی رہ جاتی ہے.چار ہزار آدمی اگر پانچ نمازوں میں تقسیم ہوں تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ قادیان کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے آٹھ سو آدمی فی نماز مسجد مبارک میں آنا چاہئے.لیکن حال یہ تھا کہ مسجد کی دو یا تین صفوں کے بعد عموماً مسجد خالی پڑی رہتی تھی.اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے دلوں میں تحریک پیدا کر دیتا ہے.میں جب مسجد کی اس حالت کو دیکھتا تو میرے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی کہ میں کس رنگ میں جماعت کے سامنے تحریک کروں.جب خدا تعالیٰ نے مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اب اسلام کے غلبہ کا وقت آ پہنچا ہے تو وہ مختلف پہلو میرے ذہن میں آنے شروع ہوئے جو اس غلبہ کے لئے ضروری ہیں.وہ بیسیوں پہلو ہیں اور کسی ایک خطبہ یا تقریر میں اُن کو بیان نہیں کیا جا سکتا.میرا ارادہ ہے کہ لاہور بالدھیانہ کے جلسہ کے بعد روزانہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۷۳ ایک اہم ہدایت مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں بیٹھا کروں اور دوستوں کو اُن باتوں میں سے کچھ نہ کچھ سنایا کروں تا کہ وہ آگے کی طرف قدم بڑھا سکیں.انہی اُمور میں سے ایک بات یہ بھی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی کہ جو مقامات مقدس ہوا کرتے ہیں وہ اپنے حق کا لوگوں سے مطالبہ بھی کیا کرتے ہیں اور اگر افراد جماعت اُن مقامات کا حق ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں تنبیہہ ہوتی یا اُن پر عذاب نازل ہوتا ہے.پس میرے دل میں ایک یہ بات بھی آئی کہ مسجد مبارک کی صفوں کی صفیں ہر نماز میں خالی پڑی رہتی ہیں حالانکہ قادیان کی آبادی اس وقت بارہ ہزار ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اس مسجد کا ایک ایک انچ خدا تعالیٰ کے حضور زبانِ حال سے فریاد کر رہا تھا کہ یہ جماعت کہتی تو یہ ہے کہ اس نے دنیا فتح کرنی ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہ اُس مسجد کو بھی اب تک آباد نہیں کر سکی جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ برکت دینے والی جگہ ہے.یہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور ہر کام جو یہاں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا.اس بات کے کہنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ خدا کہہ رہا ہے.اگر خدا ایک دفعہ بھی کسی چیز کو مبارک قرار دے دے تب بھی اُس کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.مگر یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا نے بار بار مبارک کہا اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد برکت دہندہ اور نزول برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اس مسجد میں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز مبارک ہے جو اس مسجد میں ادا کی جائے ، وہ سجدہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ قومہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ تشہد مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ سلام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ، وہ تکبیر مبارک ہے جو اس مسجد میں کہی جائے اور وہ دعا ئیں مبارک ہیں جو اس مسجد میں کی جائیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں ، اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں اور پھر انسان ان برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے اور کبھی چھ مہینے یا سال کے بعد اس مسجد میں آ کر کوئی ایک نماز ادا کرے تو اس سے زیادہ محروم اور بدقسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے.اگر اسی وقت جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو مہینوں بعد بھی اس مسجد میں آکر ایک نماز ادا نہیں کرتے.مگر اللہ تعالیٰ چونکہ ستار ہے اس لئے ہم بھی جائزہ نہیں لیتے.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو تین تین
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۷۴ ایک اہم ہدایت سال سے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آئے.اس صورت میں وہ خود ہی غور کریں ان کی روحانیت کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ابھی میں لاہور میں ہی تھا کہ مجھے ایک دوست ملے جو قادیان کے رہنے والے تھے انہوں نے اپنے متعلق ذکر کیا کہ میری حالت یہ ہے کہ جب تک میں قادیان میں رہتا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ میری روحانیت ماری گئی ہے مگر جب میں باہر جاتا ہوں تو اُس وقت سلسلہ کی محبت کا ایک جوش اپنے اندر پاتا ہوں.میں نے اُن سے کہا آپ ٹھیک کہتے ہوں گے مجھے انکار نہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہوگا لیکن جب حالت یہ ہے تو آپ اپنی روحانیت کو کیوں تباہ کرتے ہیں آپ باہر ہی رہا کریں قادیان میں نہ رہیں.تو حقیقت یہ ہے کہ محض قادیان میں آجانے سے انسان کو برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ برکت اُن ذمہ واریوں کو ادا کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہیں.جو شخص یہاں آ کر ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا وہ اگر دانستہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہو گا.اور اگر نا دانستہ ایسا نہیں کرتا تو گو اُسے عذاب نہ ہو مگر اُس کے دل پر زنگ ضرور لگ جائے گا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو گولی مار کر ہلاک کر لیتا ہے اور وہ خود کشی کا مرتکب سمجھا جاتا ہے لیکن دوسرا شخص خود تو اپنے آپ کو گولی نہیں مارتا ہاں غلطی سے اُس کی بندوق اُس کے ہاتھ سے اُسی کی طرف چل جاتی ہے.ایسی صورت میں گو وہ خود کشی کا مرتکب نہ سمجھا جائے مگر ہلاک ضرور ہو گا.اسی طرح جو شخص دانستہ ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا وہ عذاب کا مستحق ہوگا اور جو شخص نا دانستہ ان ذمہ واریوں کو ادا نہیں کرتا وہ گو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ نہ بنے مگر اُس کے دل پر زنگ ضرور لگ جائے گا.غرض خدا تعالیٰ کی طرف سے جب میرے دل پر یہ خیال غالب آ گیا تو میں نے جماعت کے دوستوں میں تحریک کی کہ وہ یہاں آ کر نمازیں پڑھا کریں.اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو قبول فرمایا.چنانچہ کجا تو یہ حالت تھی کہ آج سے چار پانچ دن پہلے یہ مسجد خدا سے فریادی ہورہی تھی کہ میرے پاس جگہ خالی پڑی ہے قادیان میں احمدی موجود ہیں مگر وہ اسے پر کرنے کے لئے نہیں آتے.تو کہتا ہے کہ اگر وہ اس مسجد میں آ کر نماز پڑھیں گے تو انہیں برکت ملے گی مگر وہ اس برکت کو لینے کے لئے تیار نظر نہیں آتے اور کجا یہ حالت ہے کہ اب اس کثرت سے لوگ یہاں
۱۷۵ ایک اہم ہدایت انوار العلوم جلد ۱۷ نمازیں پڑھنے کے لئے آرہے ہیں کہ گل سے میں بھی سوچ رہا ہوں اور بعض دوسرے دوست بھی کہ اب یہ مسجد اس قابل نہیں رہی کہ سب لوگ اس میں سماسکیں بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بڑھا دیا جائے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں پہلی برکت تو یہ نازل ہوئی ہے کہ آج ہی میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس مسجد کو پہلو کی طرف بڑھا دیا جائے.اس سے انشَاءَ اللهُ یہ مسجد موجودہ مسجد سے دُگنی ہو جائے گی.مسجد کے لئے یہ جگہ سالہا سال سے خریدی جا چکی تھی لیکن جبکہ پہلے ہی مسجد کی کئی صفیں نمازیوں سے خالی رہتی ہوں تو یہ تحریک کس طرح کی جاسکتی تھی کہ اسے اور بڑھا دیا جائے.مگر اب جبکہ پرسوں سے لوگ کثرت کے ساتھ اس مسجد میں نماز کے لئے آنے شروع ہو گئے ہیں صاف پتہ لگ رہا ہے کہ پہلے تو مسجد خدا تعالیٰ کے حضور فریادی تھی اور کہہ رہی تھی کہ خدایا! تو نے مجھے بے کس کیوں چھوڑ رکھا ہے اور آج نمازی فریادی ہیں کہ اے خدا! ہمیں اس مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جگہ نہیں مل رہی تو اس مسجد کو اور بڑھا دے تا کہ ہم اس کی برکات سے حصہ لے سکیں.یہ کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے کہ آج سے چار دن پہلے روحانی نگاہ سے فرشتے زمین کی طرف حسرت سے دیکھ رہے تھے کہ کیوں خدا کے بندے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے اور چار دن کے بعد آج آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور انسان حیرت سے کہہ رہے ہیں کہ خدایا ! تو ہم پر اور فضل کیوں نازل نہیں کرتا.میں نے بتایا ہے اس غرض کے لئے زمین خریدی جا چکی تھی اب انشَاءَ اللَّهُ اِس مسجد کو بڑھا دیا جائے گا.میں اپنے قلب میں ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف ہوتا ہے.گو کسی الہام یا رویا کی بناء پر میں یہ نہیں کہہ رہا مگر میرا قلب یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر شخص جو یہاں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے وہ سلسلہ کی ترقی کے لئے ایک نیا باب کھولتا ہے.ہر نماز جو وہ یہاں ادا کرتا ہے خدا کے سامنے کہہ رہی ہوتی ہے کہ اے خدا ! لوگوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی اب تو اور جگہ لا جہاں اور آدمی آئیں اور اپنے رب کی عبادت کریں.پہلے خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں سے شکوہ تھا کہ وہ اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے کیوں نہیں آتے اور کیوں اسے خالی رکھتے ہیں اور آج بندے خدا سے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ خدایا ! ہم پر جو فرض عائد تھا وہ ہم نے پورا کر دیا آب تو اور فضل نازل فرما اور اپنی اور زیادہ برکات سے نہیں
انوار العلوم جلد کا ایک اہم ہدایت حصہ عطا فرما.اور در حقیقت یہی انسان کی ترقی کا راز ہے.بندے جب اللہ تعالیٰ کے سارے فضلوں کو لے لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں اے اللہ ! ہم پر اور فضل نازل فرما تو خدا ان پر اور فضل نازل فرما دیتا ہے.وہ شخص جس کی جھولی میں روٹیاں بھری ہوئی ہوں اُسے کون خیرات ڈالتا ہے.جو شخص بھی اُسے دیکھے گا یہی کہے گا کہ تمہاری جیب میں تو پہلے ہی کافی روٹیاں موجود ہیں تمہیں اور خیرات کی کیا ضرورت ہے.لیکن جب اُس کی جیب خالی ہو تو پھر ہر شخص اُسے خیرات دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.اسی طرح جب تک یہاں جگہ خالی تھی اللہ تعالیٰ کے مزید فضل نازل ہونے کے لئے بظاہر کوئی محرک نہ تھا کیونکہ آدمی موجود تھے لیکن وہ توجہ سے کام نہیں لیتے تھے.مگر اب جبکہ جگہ پر ہو گئی ہے ، فرشتے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے ہیں اور ہر نماز میں میں محسوس کرتا ہوں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! پہلی جگہ تو بھر گئی اب تو اور جگہ دے جس میں تیرے اور مومن بندے آئیں اور تیری عبادت بجالائیں.چنانچہ آج ہی میں نے اس غرض کے لئے احکام جاری کر دیئے ہیں اور قریباً اتنی ہی اور مسجد انشَاءَ اللہ بن جائے گی.یہ نئی برکت آپ لوگوں کے صرف تین دن یہاں آ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے نازل ہوئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مسجد بناتا ہے، خدا اُس کا گھر جنت میں بناتا ہے لیے بے شک تعمیر مسجد سے بھی جنت ملتی ہے مگر جو اپنے آنے کی وجہ سے مسجد بنوا تا یا اس کی توسیع کا موجب بنتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جنت میں اپنا گھر بنواتا ہے.جو شخص روپے خرچ کرتا ہے اور اُس کی وجہ سے مسجد کیلئے زمین خریدی جاتی ہے یا اینٹیں خریدی جاتی ہیں یا اور ضروریات مہیا کی جاتی ہیں وہ اگر جنت میں جا سکتا ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اِن مومنوں کو کیوں جنت نہیں ملے گی جو مسجد میں آ کر نماز پڑھتے ہیں اور جن کے نماز پڑھنے کی وجہ سے مسجد تنگ ہو جاتی ہے اور اسے وسیع کرنا پڑتا ہے.تو بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر بڑے بڑے نتائج پیدا کر دیا کرتی ہیں.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو ابھی آپ لوگوں نے کرنی ہیں اور میں اِنْشَاء الله وقتاً فوقتاً وہ باتیں بتا تا رہوں گا جب آپ لوگ ان باتوں کو پورا کرلیں گے تو اس کے بعد آپ کو ترقیات ملیں گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہماری جماعت کے لئے کھل جائیں گے.مگر اس
انوار العلوم جلد ۱۷ 122 ایک اہم ہدایت.کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے آپ کو قربانیاں کرنے کے لئے تیار کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب قربانی کے لئے نئے راستے کھلتے ہیں تو بعض لوگ ابتلاء میں آ جاتے ہیں اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ثبات قدم عطا فرمائے اور ہمیں قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.ابھی ہم قیاس بھی نہیں کر سکتے کہ ہمیں کن کن مشکلات میں سے گزرنا پڑے گا.ہاں ہم اتنا جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا تو وہ مشکلات ہمارے لئے لذت اور سرور کا موجب ہوں گی تکلیف اور عذاب کا موجب نہیں ہوں گی.وہ دنیا کے لئے عذاب ہوں گی مگر ہمارے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کا پیش خیمہ ہوں گی کیونکہ مومن کا دل خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ابتلا ؤں میں کچی راحت پاتا ہے اور وہ ان میں اسلام اور اپنے مقصد کی کامیابی دیکھتا ہے.جیسے بچہ کے پیدا ہونے پر ہر ماں کو در دیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی وہ خوش ہوتی ہے بلکہ بعض دفعہ ڈاکٹر ہدایت دے دیتا ہے کہ آئندہ بچہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا لیکن ماؤں کی طرف سے پھر بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ دعا کریں کہ ہمارے ہاں بچہ ہو جائے.اسی طرح مومن کو بے شک مشکلات پیش آتی ہیں مگر اس کی سب مشکلات اور تکلیفیں آخر میں راحت سے بدل جاتی ہیں.الفضل ۶ را پریل ۱۹۴۴ء ) مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلوة باب فضل بناء المساجد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۷۸ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دعا اور اُس کی حکمت از بد نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اصبح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۱۷۹ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دعا اور اُس کی حکمت ( تقریر فرموده ۱۹ مارچ ۱۹۴۴ ء بعد نماز عصر بمقام بہشتی مقبره قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.گل میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ یہاں آ کر جو دعا ہمیں مانگنی چاہئے وہ قرآن شریف کی ہی ایک دعا ہے اور رسول کریم ﷺ ہمیشہ وہ دعا پڑھا کرتے تھے.ہمارا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ دعا یہاں آ کر بار بار مانگی جائے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُس کے وعدے پیش کر کے اور اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر عاجزی اور تضرع سے اُس کو پکارا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑ کے اور اُس کا فضل ہم پر نازل ہو.بعض دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ ایسی باتوں سے بعض لوگ مشر کا نہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ قبروں پر جانا اور وہاں دعا کرنا شاید اس لئے ہے کہ قبر والے سے دعا مانگی جاتی ہے.میں امید تو نہیں کرتا کہ کسی احمدی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بندہ ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی کیوں نہ ہوں اور ہم اُن سے بھی دعا ئیں نہیں مانگتے بلکہ کبھی ہمارے واہمہ اور خیال میں بھی یہ نہیں آیا کہ اگر ہم دعا مانگیں تو وہ اسے قبول کر سکتے ہیں بلکہ حدیث میں جو آتا ہے کہ مُردے نعلین کی آواز سُن لیتے ہیں لے میں فطرتا الله
انوار العلوم جلد ۷ ۱۸۰ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت اس حدیث کو بھی ظاہری معنوں میں نہیں لیتا بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مُردوں کو اگلے جہان میں اپنے عزیزوں کے پاؤں کی آہٹ سُنا دیتا ہے.ورنہ جو شخص مٹی کے نیچے دفن ہے وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے اس سے زیادہ اُس کی کوئی حیثیت نہیں.میں اس بات کا بھی قائل نہیں کہ انبیاء کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور مٹی انہیں نہیں کھاتی.بائبل سے صاف ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان لائی گئیں ( بعض احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے ) پس یہ ایک خیال ہے کہ انبیاء کا جسم ضرور محفوظ رہتا ہے.جو شخص مٹی کی قبر میں دفن ہے وہ مٹی ہے.جس طرح انبیاء کھانا کھاتے اور پاخانہ کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ پاخانہ کی بجائے مشک ان کے جسم سے نکلے.اسی طرح انسان کے مادی جسم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں وہ ان کے جسم پر بھی عائد ہوتے ہیں.باقی رہا بعض لوگوں کے جسموں کا محفوظ رہنا اور ہمارے مشاہدہ میں اس بات کا آنا سو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ بعض زمینیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن میں جسم گلتے نہیں بلکہ سلامت اور محفوظ رہتے ہیں لیکن اس میں نبی یا مومن کی کوئی شرط نہیں.ایک کا فر بھی وہاں دفن کیا جائے تو اُس کا جسم محفوظ رہے گا.اس کے مقابلہ میں بعض زمینوں میں اس قسم کے کیمیائی مادے ہوتے ہیں کہ وہاں جو شخص دفن ہو اُس کا جسم تھوڑے دنوں میں ہی مٹی ہو جاتا ہے.وہاں کا فر ، مومن، نبی اور غیر نبی جو بھی دفن ہوگا میرا یقین ہے کہ اُس کا جسم کچھ عرصہ کے بعد ضرور متغیر ہو جائے گا.پس یہ خیالات جو مشرکانہ ہیں ہم ان کے قریب بھی نہیں جاتے.اگر کسی احمدی کے دل میں ایسا خیال ہو تو اُسے اپنے دل سے اسے بالکل دور کر دینا چاہئے.مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے تبرک کے طور پر مٹی لے جاتے ہیں.بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پھول چڑھا جاتے ہیں.یہ سب لغو باتیں ہیں ان سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور ایمان ضائع چلا جاتا ہے.بھلا قبر پر پھول چڑھانے سے مُردے کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اُن کی روحیں تو اس قبر میں نہیں ہوتیں وہ تو اور مقام پر ہوتی ہیں.ہاں اس میں شبہ نہیں کہ روح کو اس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گومرنے والوں کی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ ان ظاہری قبروں سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۱ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب میں دعا کر رہا تھا تو صاحب قبرا اپنی قبر سے نکل کر میرے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا.مگر اس سے مراد بھی یہ نہیں کہ اُن کی روح اس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُس بزرگ کو اپنی اصلی قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی.وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آماته فا قبرة سے اُسی قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے.ورنہ یہ قبریں دنیا میں ہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور ان کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا.بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اُسی جگہ دوسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے.پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے.یہاں تک کہ ایک ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سو سو آدمی دفن ہو جاتے ہیں اور وہ سب مٹی ہو جاتے ہیں.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے اس قبر کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر دیا ہے اس وجہ سے قبر پر آنے سے طبیعت میں جو رقت اور خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے وہ دوسرے مقام پر کم ہوتا ہے.پس ہماری غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھ کر ہمارے اندر رقت پیدا ہو اور ہم خدا تعالیٰ سے یہ عرض کریں کہ اے خدا ! یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کر دی، یہ وہ شخص ہے جس پر تو نے الہامات نازل کئے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا احیاء ہوگا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی ، اب یہ شخص فوت ہو چکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے، ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ محبت رکھتے اور اس کے غلاموں میں شامل ہیں اس لئے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو ادا کریں اور اُن وعدوں کو جو تو نے کئے پورا کرنے کے لئے اپنی جد و جہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں.مگر ہم کمزور ہیں ہمارے اندر کئی قسم کی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو طاقت دے، ہمارے نا تو ان ہاتھوں کو مضبوط بنا اور ہماری کوششوں میں ایسی برکت پیدا فرما کہ تیرے وعدے پورے ہوں اور تیرا دین دنیا پر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۲ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت غالب آ جائے.یہ وجہ ہے جس کی بناء پر ہم نے یہاں دعاؤں کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے.پس اس موقع پر ہمیں تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں اور ہمیں یہ خیال آنا چاہئے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت زندہ ہوتے تو وہ کس قسم کی قربانیاں اسلام کی فتح کیلئے کرتے.یہی غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے میں ہے.اگر اس غرض کیلئے ہم رسول کریم کے مزار پر پہنچ سکتے تو وہاں بھی پہنچ کر ہم ضرور دعا کرتے.تو صرف ان اُمور کی طرف توجہ پیدا کرنے اور زیادہ تضرع سے دعائیں مانگنے کے لئے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے.بچوں کو دیکھ لو وہ سارا دن کھیلتے رہتے ہیں لیکن جب اپنی تازہ مری ہوئی ماں یا اپنے باپ کی قبر پر جاتے ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ پہلے سے مرے ہوئے ہوتے ہیں.اسے انسانی کمزوری سمجھ لو یا انسانی فطرت کا ایک خاصہ قراردے لو بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے کسی بزرگ کی قبر پر دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں رفت زیادہ پیدا ہوتی ہے.پھر جب ہم دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ایک رنگ میں ہمارے لئے بھی بلندی درجات کا موجب بنتی ہے.چنانچہ ہم جب درود پڑھتے ہیں تو اس کے صلى الله نتیجہ میں جہاں رسول کریم ﷺ کے درجات بلند ہوتے ہیں وہاں ہمارے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ان کو انعام مل کر پھر ان کے واسطہ سے ہم تک پہنچتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھلنی میں کوئی چیز ڈالو تو وہ اس میں سے نکل کر نیچے جو کپڑا پڑا ہواس میں بھی آگرتی ہے.اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اِس اُمت کے لئے بطور چھلنی بنایا ہے پہلے خدا ان کو اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے اور پھر وہ برکات ان کے توسط اور ان کے طفیل سے ہمیں ملتی ہیں.جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خدا تعالیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے اس پر اُن کے دل میں ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دے دیتا ہے.میں اپنے متعلق بتا تا ہوں کہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر پر دعا صلى الله کرنے کے لئے آتا ہوں میں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریم ہے کے لئے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۳ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت.دعا کیا کرتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کرتا ہوں اور دعا یہ کیا کرتا ہوں کہ یا اللہ ! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں اپنے ان بزرگوں کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کر سکوں.میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لئے میں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہو تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ ! یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ہے؟ اور جب خدا انہیں بتاتا ہے تو وہ اُس کیلئے دعا کرتے ہیں اور اس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے.اسلام کا مسلمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دعا ئیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں.قرآن کریم نے بھی فَحيوا بأحسن منها " کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص تحفہ پیش کرے تو تم اُس سے بہتر تحفہ اُسے دو ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اُس نے دیا.قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریم ﷺ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے دعا کریں گے اور ان پر درود اور سلام بھیجیں گے تو خدا تعالیٰ ہماری طرف سے اِس دعا کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا.ہم نہیں جانتے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ان نعمتوں کو خوب جانتا ہے اس لئے جب ہم دعا کریں گے کہ الہی ! تو رسول کریم ہے کو کوئی ایسا تحفہ دے جو اس سے پہلے اُنہیں نہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ انہیں دیا جاتا ہوگا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہوگا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس علم کے بعد وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لئے دعا نہ کریں.ایسے موقع پر بے اختیار اُن کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پرگر جائے گی اور کہے گی کہ اے خدا! اب تو ہماری طرف سے اس کو بہتر جزاء عطا فرما.اس طرح فَحَيوا بِاحْسَنَ مِنْهَا کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہو گی.پس یہ ذریعہ ہے جس سے بغیر اس کے کہ کوئی مشرکانہ حرکت ہو ہم خود بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور قوم بھی فائدہ اُٹھا سکتی ہے.گویا قومی اور فردی صلى الله
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۴ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.باقی یہ کہنا کہ اے خدا کے مسیح موعود ! تو مجھے فلاں چیز دے.یا یہ کہنا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! میری فلاں خواہش پوری فرما ئیں یہ پاگل پن کی بات ہے.کوئی مومن ایسی حرکات کو برداشت نہیں کر سکتا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہمارا جو تعلق ہے محض خدا کے واسطہ سے ہے.اگر یہ واسطہ نہ ہوتا تو پھر ہماری طرح وہ آدمی ہی تھے اس سے بڑھ کر اُن میں کون سی بات تھی.پس جو شخص ایسا پاگل ہو کہ وہ خدا کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگے ، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ احمدی ہے ہی نہیں.پس دعا کے وقت اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے تا کہ ہماری دعا کا کوئی پہلو ایسا نہ ہو جو مشر کا نہ ہو.دعا کرنے سے پہلے درود پڑھا جائے اور اس کے بعد وہی دعا مانگی جائے جو ہم روزانہ یہاں آ کر مانگتے ہیں اور جو امت کیلئے بہترین دعا ہے.یعنی یہ دعا کہ ربنا اتنا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلايْمَانِ آنْ أمِنُوا بِرَبِّكُم فامتا ۵ اے ہمارے رب ! ہم نے تیری طرف سے ایک منادی کو یہ پکارتے سنا کہ خدا پر ایمان لے آؤ سو ہم نے اس کی آواز کو سنا اور تجھ پر ایمان لے آئے.ایمان کے بعد ہم پر بہت سے فرائض عائد ہو گئے ہیں مگر ہم کمزور اور ناتواں ہیں.ربّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفْرَ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مع الابرار اے ہمارے رب! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہمارے گناہوں کو بخش.ہمیں ہمت اور توفیق عطا فرما اور اپنی بخشش ہم پر نازل فرما اور ہماری موت جب بھی آئے ہم نیک لوگوں میں شامل ہوں.اس طرح جب ہم اس سے اپنی کمزوریاں معاف کرالیں تو اس کے بعد ہم کہتے ہیں ربَّنَا وَ اتِنَا مَا وَعَدَ تَنَا عَلى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ ، إنَّكَ لا تُخْلِفُ المیعاد کے جب آپ ہمارے قصور معاف فرما چکے ہیں تو اب ہمارے ذریعہ سے وہ وعدے پورے فرمائیے جو نبی سے آپ نے کئے تھے.یہی ذریعہ ہے جس سے اُمتیں ترقی کرتی ہیں کہ پہلے نبیوں کو انعام ملتا ہے اور پھر وہی انعام اُن کی اُمتوں کو مل ( الفضل ۷ رمئی ۱۹۴۴ ء ) جاتا ہے.بخاری کتاب الجنائز باب الميت يسمع خفق النعال
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۵ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت یشوع باب ۲۴ آیت ۳۲ کے الفاظ یہ ہیں."یوسف کی ہڈیوں کو جنہیں بنی اسرائیل مصر سے اُٹھا لائے تھے “.( برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) عبس: ۲۲ النساء: ۸۷ ۲۵ آل عمران ۱۹۴ آل عمران: ۱۹۵
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۸۶ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں از ید نا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ ۱۸۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں ( تقریر فرموده ۱۲ / مارچ ۱۹۴۴ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے مگر قرآن کریم نے ہمیں کچھ اور دعا ئیں بھی سکھائی ہیں.چونکہ خدائے عزوجل کی تمام برکات اُس کے بندوں کے عجز اور اُن کی انابت اور انکسار کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہیں اس لئے میں وہ دعائیں پڑھتا ہوں ہماری جماعت کے احباب بھی میرے ساتھ ان دعاؤں میں شریک ہوں اور خدا تعالیٰ کے حضور بعجز و انکسار سے آمین کہیں.ا رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا انْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِرِينَ لا -۲ ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا ل ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةً انَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ : ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ التَّارِه ه ربنا لا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أو أخطأ نَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِل عَلَينا إصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا ل طاقة لنا به ۵ -٢ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لا طاقة لنا به -
انوار العلوم جلد ۷ ۱۸۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَابه - -٨ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا انْتَ مَوْلنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - 1 رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاشرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبَتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفرين - - ١٠ ربنا إنّنا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان آن امِنُوا بِرَيْكُمْ فَامنا ربنا فاغفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَ عَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الابرار - ١١ - دينا وأينَا مَا وَعَدَتَنَا عَلى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ، إنك لا تُخْلِفُ الميعاد - 2 ١٢ - ربنا وأينا مَا وَعَدَتَنَا عَلى رُسُلِكَ وَلا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ، إنَّكَ لا تُخْلِفُ الميعاد - یہ وہ دعائیں ہیں جو پہلے انبیاء کی اُمتوں نے قرآن کریم کے فرمان کے مطابق کی ہیں یا ہماری اُمت کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہمیشہ یہ دعا ئیں اُس سے مانگتے رہتے تھے چونکہ اب میں ایک ایسی پیشگوئی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور اسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے اس لئے قرآن کریم کے الفاظ میں ہی وہ اقرار خدا تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں جو اِتِّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلايْمَانِ کے جواب میں مسلمانوں کے منہ سے قرآن کریم میں دُہرایا گیا ہے.دوست بھی آہستہ آہستہ میرے ساتھ وہ الفاظ کہیں تا کہ ہم سب کی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور یہ اقرار ہو جائے کہ ہم اُس کے کلام پر ایمان لائے اور ہم اپنی زندگیاں اُس کے احکام کے مطابق بنانے کے لئے تیار ہیں.امنا بالله وما أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أنزل إلى الرجم واسمعيل وإسحق وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أوتي مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ رَ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ا
انوار العلوم جلد کا ۱۸۹ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں برادران ! اللہ تعالیٰ کے حضور ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان سارے ہی اُس کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے ایک جیسے ہیں اور وہ سب کا خیر خواہ اور سب سے ہی محبت کرنے والا ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ تو اُس کی باتوں کو سن کر اُس کی رحیمیت والے احسان کو قبول کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کی رحمانیت والے احسان کو ( یعنی اللہ تعالیٰ کے اُس احسان کو جو بغیر محنت کے نازل ہوتا ہے ) حاصل کرتے ہیں.محنت اور کوشش والے انعام کو حاصل کرنے کی جدو جہد نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو اُن کی اس غفلت کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جب کبھی اُن کے دل اُس سے پھر جاتے ہیں ، جب کبھی غفلت اور تاریکی دنیا میں چھا جاتی ہے، جب کبھی لوگوں میں جہالت، دین سے بعد اور خدا تعالیٰ سے منافرت پیدا ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے ما موروں کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو صاف کریں.اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف واپس لائیں، نیکی اور تقویٰ دنیا میں قائم کریں اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح اس زمین پر آ جائے جس طرح وہ آسمان پر ہے.ایسے ہی لوگوں میں سے بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ تھے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہمیشہ اُس کی طرف سے آنے والے لوگ ادفی حالت سے ترقی کیا کرتے ہیں، ویسی ہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا خاندان بادشاہوں کی نسل میں سے ہے.چنانچہ ہمارے خاندان کا مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو امیر تیمور کے چچا تھے اور جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ علاقہ کش کے اصل بادشاہ حاجی بر لاس ہی تھے ، تیمور نے حملہ کر کے ان کے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا.اسی وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد جاہلیت کے زمانہ میں جبکہ احمدیت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی اور جبکہ قرآنی تعلیم ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی ، تیموری نسل کی لڑکیاں تو لے لیتے تھے مگر تیموری نسل کے مغلوں کو اپنی لڑکیاں نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ اُن کو اپنے مقابلہ میں ادنی سمجھتے تھے.لیکن بہر حال جہاں تک ظاہری و جاہت کا سوال ہے وہ قریب قریباً تباہ اور برباد ہو چکی تھی.مغلیہ سلطنت کے مٹنے کے بعد جب سکھوں کا دور شروع ہوا تو اُس وقت ہماری تمام ریاست سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی.اس کے بعد مہا راجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے پانچ گاؤں واگزار کر دیئے.مگر جب
انوار العلوم جلد ۷ 19 + میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انگریزی حکومت کا دور شروع ہوا تو اُس وقت پھر ہماری خاندانی ریاست کو صدمہ پہنچا اور ہماری وہ جائداد بھی ضبط کر لی گئی جو کسی قدر باقی رہ گئی تھی.یہ ہمارے خاندان کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا.اگر ہماری یہ ریاست اپنی پہلی حالت میں قائم ہوتی تب بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی اور اتنی چھوٹی ریاست کو بھلا پوچھتا ہی کون ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اتنی ریاست بھی پسند نہ کی تاکہ اُس کی صفات پر کوئی دھبہ نہ آئے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ سابقہ عزت کی وجہ سے انہیں ترقی حاصل ہوئی ہے.ہمارے دادا کو بڑا فکر رہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ایسے کام پر لگا دیں جس سے وہ اپنا گزارہ آسانی کے ساتھ کر سکے.مہاراجہ کپورتھلہ کے شاہی خاندان سے بھی ہمارے خاندان کے چونکہ پرانے تعلقات ہیں اس لئے انہوں نے کوشش کر کے بانی سلسلہ احمدیہ کے لئے وہاں ایک معزز عہدہ تلاش کر لیا.چنانچہ ان کے لئے انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے عہدہ کی منظوری آ گئی.قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں ایک سکھ صاحب رہا کرتے تھے جو اکثر ہمارے دادا کے پاس آیا جایا کرتے تھے.انہوں نے خود سنایا کہ میں اور میرا بھائی اکثر بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آ جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ہم دونوں ان سے ملنے کے لئے گئے تو وہ کہنے لگے کہ مرزا غلام احمد کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں میں حیران ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا.میں نے اس کے متعلق کپورتھلہ میں کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں سے آرڈر آ گیا ہے کہ اِسے ریاست کا افسر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے.میں اگر اسے کہوں تو شاید مجھے جواب نہ دے تم دونوں اس کے ہم عمر ہو تم اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ اس عہد ہ کو قبول کر لے.وہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مبارک ہو ریاست کپورتھلہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ وہاں کے افسر تعلیم مقرر کئے گئے ہیں.آپ کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ آپ یہ نوکری اختیار کر لیں اور ریاست کپورتھلہ میں چلے جائیں.وہ کہتے ہیں جس وقت ہم نے یہ بات کہی اُنہوں نے ایک آہ کھینچی اور کہا والد صاحب تو خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا آب میں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.وہ کہتے ہیں ہم دونوں واپس آگئے اور آپ کے دادا صاحب کو کہا کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۹۱ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں وہ تو کہتے ہیں کہ والد صاحب یونہی بے فائدہ فکر کر رہے ہیں میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی اب میں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر وہ کہتے ہیں کہ آپ کے دادا صاحب نے کہا اگر اس نے یہ کہا ہے تو خیر رہنے دو وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا.پھر جب آپ بڑے ہوئے تو اُس وقت بھی ساری جائداد آپ کے بھائی کے قبضہ میں رہی.آپ نے اُس میں سے اپنا حصہ نہ لیا.جائداد خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تھی بلکہ اب تک اس قدر جائداد ہے کہ باوجود اس کے کہ ایک لمبے عرصے تک ہم اس کو بیچ کر کھاتے رہے ہیں ، پھر بھی وہ لاکھوں روپیہ کی موجود ہے.غرض جائداد تھی مگر وہ سب ہمارے تایا صاحب کے قبضہ میں تھی.بانی سلسلہ احمدیہ اس جائداد میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے.جب ہمارے تایا صاحب فوت ہو گئے تو آپ نے پھر بھی جائداد نہ لی اور وہ تائی صاحبہ کے پاس چلی گئی.آپ کو کھانا ہماری تائی صاحبہ ہی بھجواتی تھیں اور چونکہ وہ آپ کی شدید مخالف تھیں ادھر آپ بہت بڑے مہمان نواز تھے اس لئے بسا اوقات جب آپ ہماری تائی صاحبہ کو کہلا بھیجتے کہ آج ایک مہمان آیا ہوا ہے اُس کے لئے بھی کھانا بھیجوا دیا جائے تو وہ صرف آپ کا کھانا بھجوا دیتیں اور مہمان کے لئے کوئی کھانا نہ بھجواتیں.اس پر ہمیشہ آپ اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کر لیتے.اُس زمانہ کے آدمی سنایا کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی مہمان آپ کے پاس آتا آپ چپ کر کے اپنا کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے اور خود بھوکے رہتے یا چنوں وغیرہ پر گزارہ کر لیتے.ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک دفعہ قریباً چالیس دن تک آپ کا مہمان رہا.آپ با قاعده صبح و شام اندر سے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور آپ دانے چبا کر گزراہ کر لیتے.آپ خود فرماتے ہیں.لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الَّا هَالِي !! کہ اے لوگو! تم کو یاد نہیں ایک دن میرا یہ حال تھا کہ دستر خوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میرے کھانے میں آیا کرتے تھے یعنی دوسروں کے رحم و کرم پر میرا گزارہ تھا لیکن آج یہ حال ہے کہ
انوار العلوم جلد کا ۱۹۲ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میرے ذریعہ سے کئی خاندان پرورش پارہے ہیں.ایسی حالت میں آپ کو خبر دی گئی کہ اسلام کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا ہے.جس وقت یہ آواز آپ کے کان میں پڑی آپ کی حالت یہ تھی کہ اور لوگ تو الگ رہے خود قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہیں جانتے تھے.میں نے خود قادیان کے کئی باشندوں سے سُنا ہے کہ ہم سمجھتے تھے بڑے مرزا صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے دوسرے کا ہمیں علم نہیں تھا.آپ اکثر مسجد کے حجرے میں بیٹھے رہتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے.اُس وقت خدا تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ کو بہت بڑی برکت دے گا اور آپ کا نام عزت کے ساتھ دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.یہ الہام بھی ایک عجیب موقع پر ہوا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اہلحدیث کے ایک مشہور لیڈر تھے جب وہ نئے نئے مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھ کر آئے تو اُس وقت حنفیوں کا بہت زور تھا اور اہلحدیث کم تھے.مولوی محمد حسین صاحب جب تعلیم سے فارغ ہو کر بٹالہ میں آئے تو ایک شور مچ گیا کہ یہ مولوی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے.اتفاقاً اُنہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنے کسی کام کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے.لوگوں نے زور دیا کہ آپ چلیں اور مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کریں کیونکہ وہ بزرگوں کی ہتک کرتا ہے اور اسلام پر تبر چلا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کے ساتھ جامع مسجد میں چلے گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی و ہیں موجود تھے.آپ نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب ! مجھے معلوم نہیں آپ کے کیا عقائد ہیں.پہلے آپ اپنے عقائد بیان کریں اگر وہ غلط ہوئے تو میں ان کی تردید کروں گا اور اگر صحیح ہوئے تو انہیں تسلیم کرلوں گا.مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی جس میں بیان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ، قرآن کریم پر اور محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں.قرآن چونکہ خدا تعالیٰ کا ایک یقینی اور قطعی کلام ہے اس لئے ہم اسے سب سے مقدم قرار دیتے ہیں اور جو کچھ قرآن میں لکھا ہے اسے مانتے ہیں.دوسرے نمبر پر ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے اور اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو اس صورت میں ہم قرآن کریم کے بیان کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی بات ہمیں قرآن اور
انوار العلوم جلد کا ۱۹۳ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں حدیث دونوں میں نظر نہ آئے تو پھر قرآن اور حدیث کی روشنی میں جو کچھ ہمیں سمجھ آئے اس پر ہم عمل کرتے ہیں.جب انہوں نے یہ تقریر کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سن کر فرمایا یہ تو بالکل ٹھیک باتیں ہیں ان میں سے کسی کی تردید کی ضرورت نہیں.وہ ہزاروں آدمی جو آپ کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اُن سب نے کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور بُرا بھلا کہنے لگے کہ تم ڈرپوک ہو ، بزدل ہو، ہار گئے ہو.غرض آپ پر خوب نعرے کے گئے.آپ گئے تھے ہزاروں کے ہجوم میں اور نکلے ایسی حالت میں جبکہ لوگ آپ کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے.گئے تھے ایسی حالت میں کہ لوگ سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ جا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم اسلام کا ایک پہلوان اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں مگر نکلے ایسی حالت میں کہ لوگ آپ کو ایک بھگوڑا قرار دے رہے تھے اور آپ کے خلاف نعرے گس رہے تھے.مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے واپس چل پڑے.اُسی رات آپ پر الہام نازل ہوا کہ :.تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.‘۱۲ غرض آپ پر یہ الہام ہوا اور آپ نے اُسی وقت اس الہام کو دنیا میں شائع کر دیا.تب اس الہام دنیا میں چاروں طرف سے آپ کے خلاف آواز میں اُٹھنی شروع ہوگئیں.بعضوں نے کہا مکار ہے اور اس ذریعہ سے اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے ، بعضوں نے کہا یہ شخص یونہی اسلام کی تائید کر رہا ہے ورنہ در حقیقت اسلام میں سچائی پائی ہی نہیں جاتی.غرض جو لوگ اسلام کے قائل تھے انہوں نے بھی اور جو لوگ اسلام کے قائل نہیں تھے انہوں نے بھی ہر رنگ میں آپ کی تضحیک شروع کر دی.اُس وقت خصوصیت سے پنڈت لیکھرام نے شور مچایا کہ یہ جو معجزات دکھانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں.اگر اسلام سچا ہے، اگر قرآن سچا ہے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے.اسی طرح ایک منشی اندر من صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی شور مچایا کہ یہ نشان نمائی کے دعوے سب غلط ہیں اگر اسلام کی صداقت میں نشان دکھایا جا سکتا ہے تو ہمیں
۱۹۴ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انوار العلوم جلد ۱۷ نشان دکھایا جائے.اسی طرح قادیان کے ہندوؤں نے بھی یہ مطالبہ کیا اور مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ ان کے ہمنوا ہو گئے.چنانچہ انہی میں سے لدھیانہ کا ایک خاندان ہے جو اپنی مخالفت پر ہمیشہ فخر کیا کرتا ہے اُس کے خیال میں اُس کا یہ فعل قابل فخر ہے مگر ہمارے نزدیک یہ اس خاندان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ابتدا سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہا ہے.بہر حال جب ان لوگوں نے بہت شور مچایا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! میرے ہاتھ پر اسلام کی تائید میں کوئی ایسا نشان دکھا جسے دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو کہ ایسا نشان انسانی تدبیر اور کوشش سے ظاہر نہیں ہو صلى الله سکتا.مزید برآں یہ نشان ایسا ہو جو رسول کریم ﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت کو روشن کرے اور خدا کا جلال دنیا میں ظاہر ہو.چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ہوشیار پور جائیں اور وہاں اس مقصد کے لئے دعا کریں.اس پر آپ صرف تین آدمیوں کے ساتھ ہوشیار پور تشریف لے گئے.ان میں سے ایک کھانا پکاتا تھا، ایک سو دا لاتا تھا اور ایک دروازے پر بیٹھا رہتا تھا تا کہ کوئی شخص آپ سے ملنے کے لئے اندر نہ جائے.وہاں ایک مکان میں جو اُن دنوں شیخ مہر علی صاحب ریئس ہوشیار پور کا طویلہ کہلا تا تھا آپ فروکش ہوئے.اب یہ مکان ایک معزز ہندو دوست سیٹھ ہرکشن داس صاحب کی ملکیت میں ہے.سیٹھ صاحب بڑے بھاری تاجر ہیں.ان کی چین میں بھی تجارت ہے اور بعض دوسرے ممالک میں بھی ، ان کے چائے کے باغات بھی ہیں.غرض اس کے بالا خانہ پر بیٹھ کر آپ چالیس دن مسلسل اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتے رہے کہ اے خدا! اسلام کی شوکت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے اظہار کے لئے مجھے کوئی ایسا نشان دے جولوگوں کے لئے نا قابل انکار ہو اور جس کو دیکھ کر وہی لوگ انکار کر سکیں جوضد کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہتے ہیں.چنانچہ اُس وقت آپ پر وہ الہامات نازل ہوئے جو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج ہیں.جس وقت آپ نے یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہ تھا، جبکہ جماعت احمدیہ کا وجود بھی ابھی تک قائم نہیں ہوا تھا.یہ اشتہار ۱۸۸۶ء کا ہے اور آپ نے لوگوں سے بیعت اس اشتہار کے تین سال بعد ۱۸۸۹ ء میں لی ہے.گویا بیعت سے تین سال
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۹۵ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں پہلے ۱۸۸۶ء میں خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ تمہارے ہاں ایک بیٹا ہوگا اور وہ یہ یہ صفات اور کمالات اپنے اندر رکھتا ہو گا جیسا کہ میں ابھی اُن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کروں گا.بہر حال آپ نے یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شائع فرما دی اور دنیا میں اعلان فرما دیا.کہ میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کے عروج کا باعث ہوگا.جب آپ نے یہ پیشگوئی شائع فرمائی لوگوں نے شور مچا دیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے ہمیشہ لوگوں کے ہاں بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.حالانکہ یا درکھنا چاہئے کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا اُس وقت آپ کی عمر ۵۲ سال کی تھی اور اُس وقت آپ نے یہ بھی شائع فرما دیا تھا کہ میری اور بھی بہت سی اولا د ہوگی جن میں سے کچھ زندہ رہیں گے اور کچھ بچپن میں فوت ہو جائیں گے اور یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ چارلڑکوں کا میرے ہاں پیدا ہونا ضروری ہے.غرض آپ نے یہ پیشگوئی اُس وقت کی جب آپ کی عمر ۵۲ سال کی تھی اور ۵۲ سال کی عمر میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی آئندہ اولا د ہونی بند ہو جاتی ہے لیکن اگر اولاد ہو بھی تو کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹے پیدا ہوں گے.یا اگر بیٹے ہوں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ رہیں گے.اور اگر بعض بیٹے زندہ بھی رہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ چار ضرور ہوں گے.غرض کوئی شخص اپنی طرف سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا جب تک خدا اسے خبر نہ دے.بہر حال لوگوں نے اعتراض کیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے لوگوں کے ہاں ہمیشہ بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کسی نے اس کو نشان قرار نہیں دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا کہ اول تو میری عمر اس وقت بڑھاپے کی ہے.جوانی میں بھی انسان کی زندگی کا اعتبار نہیں ہوتا مگر بڑھاپے میں تو ایک دن کے لئے بھی انسان وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ رہے گا کجا یہ کہ وہ اس قدر لمبا عرصہ رہے کہ اُس کے ہاں چار بیٹے پیدا ہو جائیں.پھر اصل سوال یہ نہیں کہ اس عمر میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں یا نہیں.بعض دفعہ سو سال کی عمر میں بھی انسان کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن کیا اس شان کا بیٹا بھی اتفاقی طور پر پیدا ہوسکتا ہے جس شان کا بیٹا پیدا ہونے کی میں خبر دے رہا ہوں.کیا یہ میرے اختیار کی بات ہے کہ میں بیٹا پیدا کروں اور وہ بیٹا بھی ایسا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے اور خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر
انوار العلوم جلد ۷ ۱۹۶ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں نازل ہو.اگر ایسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی طرف سے بنالی تو ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب نَعُوذُ بِاللهِ خدا ہیں کیونکہ باتیں آپ نے وہ کہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں کہہ سکتا اور اگر وہ خدا نہیں اور اگر مرزا صاحب کو خدا قرار دینا یقیناً شرک ہے، وہ اُس کے بندوں میں سے ایک بندے تھے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ باتیں جو انہوں نے کہیں ناممکن ہے کہ کوئی انسان اپنی طرف سے کہے اور پھر وہ پوری ہوسکیں.چنانچہ انہی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس کے معنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سمجھ میں نہیں آئے مگر ان الفاظ میں جو بات بیان کی گئی تھی وہ ۱۸۸۹ ء میں آکر پوری ہو گئی.پیشگوئی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اُس لڑکے کا نام محمود ہوگا اور چونکہ اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ وہ جو پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا یہ امر کئی رنگوں میں میرے ذریعہ سے پورا ہو گیا.چنانچہ انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ ء میں شائع کی گئی تھی.پس ۱۸۸۶ ء ایک، ۱۸۸۷ ء دو، اور ۱۸۸۸ء تین اور ۱۸۸۹ء چار ہوئے اور ۱۸۸۹ ء ہی وہ سال ہے جس میں میری پیدائش ہوئی.پس تین کو چار کرنے والے کا مطلب یہ تھا کہ آج سے چوتھے سال وہ لڑکا تولد ہو گا.چنانچہ اس پیشگوئی کے عین چوتھے سال ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء کو میری پیدائش ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان شائع کیا کہ وہ جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی وہ پیدا ہو گیا ہے.مگر ابھی اس بارے میں انکشاف تام نہیں ہوا کہ یہی وہ لڑکا ہے جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا تھا یا وہ کسی اور وقت پیدا ہوگا اور آپ نے تفاؤل کے طور پر میرا نام بشیر اور محمود رکھ دیا.پھر تین کو چار کرنے والی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی میرے ذریعہ سے پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی بیوی سے مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز افضل احمد صاحب دو بیٹے ہوئے تیسرا بیٹا ہماری والدہ سے بشیر احمد اوّل پیدا ہوا اور چوتھا میں پیدا ہوا.گویا پیشگوئی میں بتایا یہ گیا تھا کہ وہ چوتھا بیٹا ہو گا اور اپنی پیدائش کے ساتھ تین بیٹوں کو چار کر
انوار العلوم جلد ۱۷ دے گا.۱۹۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اب یہ جو پیشگوئی ہے اس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں.پہلا حصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے.بعض بڑے بڑے مصنف ہوتے ہیں اور وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں.اس وجہ سے اُن کا نام مشہور ہو جاتا ہے.بعض بُرے کام کرتے ہیں اور اس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں.بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں لیکن بہر حال اُن کی اچھی یا بری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی کسی ایک علاقہ یا ایک حصہ ملک میں اُن کی شہرت ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.پس یہ پیشگوئی اسی صورت میں عظیم الشان پیشگوئی کہلا سکتی تھی جب آپ کی شہرت غیر معمولی حالات میں ہوتی ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا.جب میں پیدا ہوا تو اس کے دواڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہوگئی.۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو ہمارے سلسلہ کی بنیاد پڑی ہے اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو حالت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ تمام مسلمان آپ کے دشمن تھے.اپنے کیا اور بیگانے کیا، رشتہ دار کیا اور غیر رشتہ دار کیا، سب آپ کی مخالفت کرنے لگ گئے یہاں تک کہ گورنمنٹ کی نظروں میں بھی آپ کا دعوی کھٹکنے لگا کیونکہ آپ نے یہ دعوی کیا تھا کہ میں مہدی ہوں اور مہدی کے متعلق مسلمانوں میں مشہور تھا کہ وہ کفار کا خون بہائے گا.پس گورنمنٹ کو شبہ پڑا کہ ایسا نہ ہو اس کے ذریعہ دنیا میں کوئی فساد پیدا ہو.چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے اُس وقت قادیان میں ہمیشہ ایک کانسٹیبل رہتا تھا اور جو شخص بھی آپ سے ملنے کے لئے آتا اُس کا نام نوٹ کر کے وہ گورنمنٹ کو اطلاع دے دیتا اور اگر کبھی کوئی سرکاری افسر
انوار العلوم جلد ۷ ۱۹۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں احمدی ہو جاتا تو بالا افسر اُسے اشاروں ہی اشاروں میں سمجھاتے کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ فرقہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تمہیں اس میں شامل ہونے سے اجتناب اختیار کرنا چاہئے.یہ مخالفت آخر بڑھتے بڑھتے اتنی شدید ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بچپن سے آپ کے دوست تھے اور ہمیشہ آپ سے تعلقات رکھتے تھے جنہوں نے براہین احمدیہ پر ایک زبر دست ریویو بھی لکھا تھا وہ بھی آپ کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنتہ میں یہ الفاظ لکھے کہ میں نے اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گراؤں گا.۱۳) اسی شہر لا ہور کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مریض کی عیادت کیلئے سنہری مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور بند گاڑی میں سوار ہوئے.اُن دنوں بند گاڑی موشکرم کہا جاتا تھا.جب آپ دہلی دروازہ سے روانہ ہوئے تو وہاں اُن دنوں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ اس چبوترے پر کھڑے ہو کر ایک شخص شور مچار رہا تھا کہ دیکھو! یہ شخص مرتد ہے ، کافر ہے، اس پر پتھر پھینکو گے تو ثواب حاصل ہوگا اور اُس کے اردگرد بہت بڑا ہجوم تھا.جب گاڑی قریب سے گزری تو لوگ آپ پر لعنتیں ڈالنے لگے اور آوازیں کسنے لگے.بعض نے آپ پر پتھر بھی پھینکے اور گالیاں دینی شروع کر دیں.میرے لئے بچپن کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی.میں نے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا اور میں نے دیکھا کہ اُس شخص کے پاس جو یہ شور مچا رہا تھا ایک اور شخص کھڑا تھا اور بڑا سا جبہ پہنے ہوئے تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کوئی مولوی ہے مگر اُس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اُس پر زرد زرد ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں میں نے دیکھا کو وہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا مرز اٹھ گیا ، مرز انٹھ گیا.گویا وہ اپنے زخمی ہاتھ کو بھی دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک ثواب کا کام کر رہا ہے.پھر یہیں لاہور میں میلا رام کے منڈو ہے میں ۱۹۰۴ء میں آپ کا ایک دفعہ لیکچر ہوا.محمود خان صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس کے والد رحمت اللہ خان صاحب اُن دنوں شہر کے کوتوال تھے انہوں نے پولیس کا بڑا اچھا انتظام کیا مگر پھر بھی چاروں طرف سے انہیں اس قدر فساد کی رپورٹیں پہنچیں کہ انہوں نے چھاؤنی سے گورا سپا ہی منگوائے اور آپ کے آگے پیچھے کھڑے کر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۱۹۹ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں دیئے.پھر مجھے وہ نظارہ بھی خوب یاد ہے جبکہ قادیان میں جس کا واحد مالک ہمارا خاندان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا اور لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا گیا ، چوڑھوں کو کہا گیا کہ وہ صفائی نہ کریں، کمہاروں کو کہا گیا کہ وہ برتن نہ بنائیں ، سقوں کو کہا گیا کہ وہ پانی نہ بھریں، نائیوں کو کہا گیا کہ وہ حجامت نہ بنا ئیں قلعی گروں کو کہا گیا کہ وہ آپ کے برتنوں پر قلعی نہ کریں.غرض نہ کوئی صفائی کرتا ، نہ کوئی قلعی کرتا بڑی مصیبت سے اردگرد کے گاؤں والوں سے اِن ضروریات کو پورا کیا جاتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازے پر آپ کی مسجد کے سامنے دیوار کھینچ دی گئی تا کہ کوئی شخص اس میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آسکے.اسی طرح آپ پر مختلف قسم کے مقدمات دائر کئے گئے اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر چاہا کہ آپ کو مٹا دیا جائے.یہاں تک کہ ایک پادری نے آپ پر اقدام قتل کا نہایت جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ایک شخص کو پیش کیا جو کہتا تھا کہ مجھے مرزا صاحب نے اس پادری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے.آخر اسی شخص نے عدالت کے سامنے اقرار کیا کہ مجھے جھوٹ سکھایا گیا تھا تا کہ کسی طرح مرزا صاحب سزا یاب ہوں ورنہ وہ اس الزام سے بالکل بری ہیں.کرنل ڈگلس جو ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کے سامنے ہی مقدمہ پیش ہوا اور باوجود اس کے کہ یہ مقدمہ عیسائیوں کی طرف سے تھا اور اس بناء پر تھا کہ مرزا صاحب اسلام کی تائید کرتے اور عیسائیوں کو دجال قرار دیتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عیسائیوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے.یہ وہی شخص تھے جنہوں نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی انہیں گراؤں گا.مسٹر ڈگلس جن کے سامنے یہ کیس پیش ہوا ( اور جو ۲۵ فروری ۱۹۵۷ء کو لنڈن میں وفات پاگئے ہیں ) پہلے ایسے متعصب عیسائی تھے کہ جب وہ گورداسپور آئے تو انہوں نے آتے ہی اس بات پر اظہار تعجب کیا کہ ابھی تک اس شخص کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا جو اپنے آپ کو مسیح موعود کہتا ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بٹالہ میں اُن کے سامنے پیش ہوئے تو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۰ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے ہی اُن کی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ شخص مجرم نہیں ہو سکتا.چنانچہ مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر نے ڈائس پر اپنے پہلو میں کرسی بچھوائی اور اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تشریف رکھنے کے لئے کہا.یہ وہی دن تھا جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی وہ اس امید پر آئے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے.مگر جب وہ اندر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مدعی اور اُس کے ساتھی تو باہر کھڑے ہیں اور ملزم کرسی پر بیٹھا ہوا ہے.یہ دیکھ کر اُن کو آگ لگ گئی اور اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ میرے لئے بھی کرسی کا انتظام کیا جائے.ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو کیوں کرسی دی جائے.آپ ایک گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں اور گواہوں کو کرسی نہیں ملا کرتی.اس پر وہ زیادہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں مجھے ضرور کرسی دی جائے.مسٹر ڈگلس کہنے لگے میں نے کہہ جو دیا ہے کہ آپ کو کرسی نہیں ملے گی.اس پر بھی وہ خاموش نہ ہوئے اور کہنے لگے میں لاٹ صاحب کے پاس ملنے جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دے دیتے ہیں آپ مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے.یہ سن کر ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا اگر ایک چوڑھا بھی ہم سے مکان پر ملنے کے لئے آئے تو ہم اُسے بھی کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے یہاں تمہیں کرسی نہیں مل سکتی.وہ اس پر بھی خاموش نہ ہوئے اور پھر کرسی کے لئے اصرار کرنے لگے.آخر ڈ پٹی کمشنر نہایت غصہ سے کہنے لگا بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.یہ اُس شخص کا حال ہوا جس نے کہا تھا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اِس کو گراؤں گا.وہاں سے اپنی ذلت کروا کے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی اُس پر آ کر بیٹھ گئے.مگر مشہور ہے کہ نوکر آقا کے پیچھے چلتے ہیں.چپڑاسی جو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ اندر ڈپٹی کمشنر ان پر سخت ناراض ہوئے ہیں اُس نے جب دیکھا کہ برآمدہ میں یہ کرسی پر آ کر بیٹھ گئے ہیں تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور آ کر کہنے لگا مولوی صاحب ! کرسی سے اُٹھیے یہاں آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں.وہاں سے اٹھے تو باہر ہجوم میں آگئے.وہاں کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی.یہ جاتے ہی اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے یہاں
انوار العلوم جلد ۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں چادر پر بیٹھا دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے کمرہ عدالت میں بھی اچھی جگہ ملی ہو گی.مگر وہ جس نے خدا کے مامور کے متعلق کہا تھا کہ میں نے ہی اسے بڑھایا ہے اور اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا خدا نے اُسے یہاں بھی ذلیل کیا.ابھی وہ چادر پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک باغیرت مسلمان دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا میری چادر پلید مت کرو تم ایک مسلمان کے خلاف ایک عیسائی کے حق میں گواہی دینے آئے ہو.آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اُٹھنا پڑا.پھر میں نے خود انہیں مولوی محمد حسین صاحب کو اس حالت میں دیکھا کہ عجز اور مسکنت ان کی صورت سے ظاہر ہوتی تھی.میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تو وہ کسی کام کے لئے مجھ سے ملنے کے لئے آئے مگر انہیں شرم آتی تھی کہ جس شخص کی ساری عمر میں شدید مخالفت کرتا رہا اُس کے بیٹے سے کس طرح ملوں.چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ کمرے میں آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے پھر آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے چار پانچ دفعہ انہوں نے اسی طرح کیا.ہمارے ہاں ایک ملازم ہوا کرتا تھا پیرا اُس کا نام تھا وہ بالکل ان پڑھ اور جاہل تھا.نماز تک اُسے یاد نہیں ہوتی تھی بیسیوں دفعہ اسے یاد کرائی گئی مگر وہ ہمیشہ بھول جاتا.اُسے کبھی تاریں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بٹالہ بھجوادیا کرتے تھے یا کوئی پلٹی آتی تو اُسے چھڑوانے کے لئے اُسے بٹالہ بھجوا دیا جاتا.ایک دفعہ اسی طرح وہ کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ گیا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُسے مل گئے.مولوی صاحب کی عادت تھی کہ وہ اسٹیشن پر جاتے اور لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے ایک دن انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو پیرے کو ہی انہوں نے پکڑ لیا اور کہنے لگے.پیرے تم مرزا صاحب کے پاس کیوں رہتے ہو وہ تو کافر اور بے دین ہیں.وہ کہنے لگا مولوی صاحب میں تو پڑھا لکھا آدمی نہیں نماز تک مجھے نہیں آتی کئی دفعہ لوگوں نے مجھے سکھائی ہے مگر مجھے یاد نہیں ہوتی پس مجھے مسائل تو آتے ہی نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے جو میں نے دیکھی ہے.مولوی صاحب کہنے لگے وہ کیا؟ پیرے نے کہا میں ہمیشہ تاریں دینے یا بلٹیاں لینے کے لئے بٹالے آتا رہتا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو یہاں پھرتے اور لوگوں کو ورغلاتے دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص قادیان نہ جائے.مولوی صاحب ! اب تک
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۲ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں آپ کی اس کوشش میں شاید کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی مگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں سنتا.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر بھی ساری دنیا اُن کی طرف کھینچی چلی جاتی ہے.آخر ان کے پاس کوئی سچائی ہے تبھی تو ایسا ہورہا ہے ورنہ لوگ آپ کی بات کیوں نہ سنتے.تو دنیا جس قدر مخالفت کر سکتی تھی اُس نے کی مگر با وجود اس کے ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک اور ایک کے بعد ایک اِس سلسلہ میں داخل ہونا شروع ہوا.ہندوستان کے ہر گوشہ سے لوگ آئے اور اس جماعت میں شامل ہوئے.پھر صرف ہندوستان میں ہی نہیں افغانستان میں بھی یہ سلسلہ پھیلا.یہاں تک کہ وہ شخص جس نے امیر حبیب اللہ خان کے سر پر تاج رکھا تھا وہ بھی آپ کی بیعت میں شامل ہو گیا اور اسی ایمان کی وجہ سے کابل میں سنگسار کیا گیا.ان کی سنگساری سے پہلے امیر حبیب اللہ خان نے اُن کو بار بار کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کے دکھانے کے لئے ہی کہہ دیں کہ میں احمدی نہیں، میں آپ کی ہتھکڑی اُتارنے کے لئے تیار ہوں.مگر وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ بادشاہ ! تم کو کیا پتہ کہ یہ ہتھکڑی مجھے سونے کے کڑوں سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے.جب اُنہیں سنگسار کرنے کے لئے پتھر پھینکے گئے تو وہ لوگ جو اُس وقت پاس موجود تھے بتاتے ہیں کہ ادھر اُن پر پتھر پڑ رہے تھے اور ادھر اُن کی زبان سے یہ کلمات نکل رہے تھے کہ اے خدا! میری اس قوم کو بخش دے اور اسے ہدایت دے کیونکہ اسے پتہ نہیں کہ میں سچائی پر قائم ہوں.بہر حال اُس وقت صرف افغانستان تک ہی جماعت احمدیہ پہنچی تھی اور ممالک میں صرف اِکا دُکا کوئی احمدی تھا.خود ہندوستان میں اُس وقت جماعت احمدیہ کی یہ حالت تھی کہ گو اس کے اکثر حصوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچ چکا تھا مگر جماعت کا رُعب ابھی قائم نہیں ہوا تھا.لوگ مخالفت کرتے اور شدت سے کرتے تھے.اسی شہر لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر جو کچھ کیا گیا وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ جماعت احمدیہ کی اُس وقت کیا حالت تھی.اور اے لاہور کے لوگو! ہم نے آپ لوگوں کو گو اپنے دل سے بخش دیا ہے مگر آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر جو سلوک ہم
انوار العلوم جلد ۱۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں سے کیا وہ دنیا میں کوئی شریف انسان کسی دوسرے شریف انسان سے نہیں کیا کرتا.دنیا میں ایک انسان کا معمولی باپ مر جاتا ہے جس پر اُس کا گزارہ بھی نہیں ہوتا ، دنیا میں کسی شخص کی ماں مر جاتی ہے، دنیا میں کسی شخص کا بچہ مر جاتا ہے تو سب لوگ اُس سے ہمدردی کرنے کے لئے آتے ہیں.مگر ہم میں اُس شخص کی وفات ہوئی جو میرے لئے ہی نہیں ساری جماعت کے لئے خدا کا ایک نور تھا، ہمارا مقتدا اور پیشوا تھا جس سے ہماری نجات وابستہ تھی مگر ادھر آپ کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی نعش کو قادیان لے جانے کی تیاری کرنے لگے اور ادھر لاہور کے ہزاروں آدمیوں نے چارپائی پر ایک شخص کو لٹا کر اور اُس پر کفن کی طرح کپڑا ڈال کر اپنے کندوں پر اُٹھا لیا اور ہمارے دل دُکھانے کے لئے ان ہزاروں آدمیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہائے ہائے مرزا.ہائے ہائے مرزا.مگر ہمارے حوصلے ہیں کہ ہم نے کبھی اس کا گلہ نہیں کیا.ہمارے دل سے کبھی اے لاہور والو! تمہارے متعلق بد دعا بھی نہیں نکلی.ہم نے تمہارا یہ فعل اپنی آنکھ سے دیکھا مگر پھر ہم نے اپنے خدا سے یہی کہا کہ خدایا ! یہ نا واقف لوگ ہیں ان کو پتہ نہیں کہ جس شخص کی یہ مخالفت کر رہے ہیں وہ تیرا رسول اور دنیا کا نجات دہندہ ہے.اے ہمارے رب ! انہوں نے جو کچھ کیا یہ سمجھ کر کیا کہ وہ ایک سچائی کی تائید کر رہے ہیں پس تو بھی ان کو معاف فرما دے اور ان کو اپنے کسی عذاب میں مبتلا مت کر بلکہ ان کو ہدایت دے اور ان کے دل اپنی سچائی کیلئے کھول دے تا کہ یہ تیرے نبی کا جھنڈا بلند کرنے کا باعث ہوں اسے گرانے اور دین کو رُسوا کرنے کا موجب نہ ہوں.بہر حال یہ وہ حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں اس سلسلہ کا اب خاتمہ سمجھو.تب اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خلیفہ مقرر کریں.چنانچہ سب جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور وہ خلیفہ اول مقرر ہوئے.جب لوگوں نے دیکھا کہ جماعت کا شیرازہ بکھرا نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب ترقی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے اس سلسلہ کو حاصل ہو رہی تھی.وہ پیچھے بیٹھ کر کتا بیں لکھتے اور مرزا صاحب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۴ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اپنے نام سے شائع کر دیتے تھے.بس اس کی زندگی تک اس سلسلہ نے ترقی کرنی ہے ، مولوی نورالدین صاحب کے مرتے ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.مگر خدا کی قدرت ہے اپنے تمام زمانہ خلافت میں حضرت خلیفہ اول نے ایک کتاب بھی نہ لکھی اور اس طرح وہ اعتراض باطل ہو گیا جو مخالف کرتے رہتے تھے کہ کتابیں مولوی نورالدین صاحب لکھتے ہیں اور نام مرزا صاحب کا ہوتا ہے بلکہ کچی بات تو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول کا طرز تحریر ہی بالکل اور رنگ کا تھا.مگر بہر حال لوگوں نے یہ سمجھا کہ حضرت مولوی صاحب تک ہی اس سلسلہ کی زندگی ہے اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر وہ خدائے واحد و قہار جس نے بانی سلسلہ احمدیہ کو خبر دی تھی کہ تیرا ایک بیٹا ہو گا جو تیرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور دین اسلام کی شوکت قائم کرنے کا موجب ہوگا اُس نے مخالفوں کی اِس امید کو بھی خاک میں ملا دیا.آخر وہ وقت آ گیا جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی.اُس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہو گیا.جماعت کے ایک برسراقتدار حصہ نے جس کے قبضہ میں صدر انجمن احمد ی تھی ، جس کے قبضہ میں خزانہ تھا اور جس کے زیراثر جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ تھے کہنا شروع کر دیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب جیسے سحر البیان لیکچرار ، مولوی محمد علی صاحب جیسے مشہور مصنف ، شیخ رحمت اللہ صاحب جیسے مشہور تاجر ، مولوی غلام حسین صاحب جیسے مشہور عالم جن کے سرحدی علاقہ میں اکثر شاگرد ہیں ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جیسے با رسوخ اور صاحب جائداد ڈاکٹر یہ سب ایک طرف ہو گئے اور اِن لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایک بچہ کو بعض لوگ خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.وہ بچہ جس کی طرف ان کا اشارہ تھا میں تھا.اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے مجھے قطعا علم نہیں تھا کہ میرے متعلق یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ میں جماعت کا خلیفہ بنوں.اللہ تعالیٰ گواہ ہے نہ میں اِن باتوں میں شامل تھا اور نہ مجھے کسی بات کا علم تھا.سب سے پہلے میرے کانوں میں یہ آواز شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس کی طرف سے آئی.میں نے سنا کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر سلسلہ کو تباہ کیا جا رہا ہے.مجھے اُس وقت اُن کی یہ بات اتنی عجیب معلوم ہوئی کہ باہر نکل کر میں نے دوستوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۵ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں سے پوچھا کہ وہ بچہ ہے کون جس کا آج شیخ رحمت اللہ صاحب ذکر کر رہے تھے.وہ میری اس بات کوسُن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے وہ بچہ تم ہی تو ہو.غرض میں ان باتوں سے اتنا بے بہرہ تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں زیر بحث ہوں اور میرے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت تباہ ہو رہی ہے.مگر خدا تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ وہ مجھے دنیا کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود آگے کرے اور میرے سپر د جماعت کی نگرانی کا کام کرے.میں نے امن قائم رکھنے اور جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی بڑی کوشش کی مگر خدا تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے.آخر وہی ہوا جو اُس کا منشاء تھا.جوں جوں حضرت خلیفہ اول کی وفات نزدیک آتی گئی ان لوگوں نے جماعت میں کثرت کے ساتھ پراپیگینڈا شروع کر دیا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ جاری نہیں ہونا چاہئے.جس دن حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے دنیا نے کہا اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ جس شخص پر اس سلسلہ کا تمام انحصار تھا وہ اُٹھ گیا.اُس دن جب مخالفوں کی زبان پر یہ تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا.میں نے جماعت کو تفرقہ سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو کی اور میں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی شخص کو خلیفہ مقرر کریں میں اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ جب میں بیعت کرلوں گا تو وہ لوگ جو میرے ساتھی ہیں وہ بھی میرے ساتھ ہی خود بخود بیعت کر لیں گے اور اس طرح تفرقہ پیدا نہیں ہوگا.مگر باوجود میری تمام کوششوں کے آخری جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ آپ جانتے ہیں جماعت والے کس کو خلیفہ مقرر کریں گے اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے.حالانکہ میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ جس دن عصر کی نماز کے وقت لوگوں نے میری بیعت کی اُسی دن صبح کے وقت میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ہمیں ضد نہیں کرنی چاہئے اگر وہ خلافت کو تسلیم کر لیں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہلِ بیت نے اس امر کو تسلیم کر لیا.پھر میری یہ حالت تھی کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے چند دن پہلے میں اُس مقام پر گیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کیا کرتے تھے اور میں نے وضو کر کے اللہ تعالیٰ سے
۲۰۶ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انوار العلوم جلد ۱۷ دعا مانگی.میری عمر اُس وقت اتنی چھوٹی نہ تھی مگر بڑی بھی نہ تھی.۲۵ سال میری عمر تھی ، میری والدہ موجود تھیں ، میری بیوی موجود تھیں اور میرے بچے بھی تھے مگر میں نے اُس وقت نیت کر لی کہ چونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری وجہ سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہو رہا ہے اس لئے میں خاموشی سے کہیں باہر نکل جاؤں گا تا کہ میں تفرقہ کا باعث نہ بنوں.چنانچہ میں نے دعا کی کہ خدایا ! میں اس جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والا نہ بنوں تُو میرے دل کو تقویت عطا فرما تا کہ میں پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقہ میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکل جاؤں اور میری وجہ سے کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.اس کے بعد میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ کہیں نکل کر چلا جاؤں گا مگر خدا کی قدرت ہے دوسرے تیسرے دن ہی اچانک حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی اور میں اس جھگڑے میں پھنس گیا.تب جماعت کے غریب طبقہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اور وہ جو بڑے بڑے لوگ کہلاتے تھے جماعت سے الگ ہو گئے.ان میں سے ایک ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.انہوں نے وہاں سے روانہ ہوتے وقت ہماری عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو جاتے ہیں کیونکہ جماعت نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا لیکن تم دیکھ لو گے کہ دس سال کے عرصہ میں ان جگہوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کے ہاتھ سے یہ تمام جائدادیں نکل جائیں گی.اُس وقت میرے ہاتھ پر دو ہزار کے قریب آدمیوں نے بیعت کی ، باہر کی اکثر جماعتیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھیں.یہاں تک کہ پیغا م صلح میں لکھا گیا کہ پچانوے فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے.مگر ابھی دو مہینے نہیں گزرے تھے بلکہ ابھی صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ساری کی ساری جماعت میری بیعت میں شامل ہو گئی اور پیغام صلح نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ۹۵ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی ہمارے ساتھ.پھر میری مخالفت بھی تھوڑی نہیں ہوئی میرے قتل کی کئی بار کوششیں کی گئیں.احرار کی شورش کے ایام میں ہی ایک دفعہ قادیان میں سرحد کی طرف سے ایک پٹھان آیا اور میرے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر اُس نے لڑکا اندر بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے.میں تو ان باتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتا میں آنے ہی لگا تھا کہ مجھے باہر کچھ شور کی آواز سنائی
انوار العلوم جلد ۷ ۲۰۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.دی.معلوم ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست جو پٹھان ہیں انہوں نے اُسے پکڑ لیا اور اُس کے نیفے میں سے چھرا نکال لیا.بعد میں اُس نے تسلیم کیا کہ میں واقع میں قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا.اسی طرح یہاں لاہور میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی کو پھانسی ہوئی.جے میتھوز اُس کا نام تھا.اُس نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں سیشن جج نے اُسے پھانسی کی سزا دی.اُس نے اپنے بیانات میں اس امر کا اظہار کیا کہ میں ایک دفعہ پستول لے کر مرزا محمود احمد کو مارنے کے لئے قادیان گیا تھا مگر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں اُن سے مل نہ سکا اور وہ دریا پر چلے گئے.پھر میں پستول لیکر اُن کے پیچھے پیچھے دریا پر گیا.وہاں ایک دن میں نے اُن کے ایک ساتھی کو بندوق صاف کرتے دیکھا جس سے میں ڈر گیا کہ بندوق تو دُور تک وار کر جاتی ہے، ایسا نہ ہو میں خود ہی مارا جاؤں چنانچہ میں واپس آ گیا اور اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑ کر میں نے اُسے قتل کر دیا.یہ ایک عدالتی بیان ہے جو سیشن جج کی عدالت میں اُس نے لاہور میں دیا.اُس نے یہ بھی ذکر کیا کہ لوگوں کی جوش دلانے والی باتیں سن کر میں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تھا.پھر اسی قسم کا ایک اور کیس ہوا.ایک شخص ہماری دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا.بعد میں پولیس نے اُسے پاگل قرار دیکر چھوڑ دیا حالانکہ وہ دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا وہ قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا.چوتھا واقعہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے سالانہ جلسہ میں تقریر کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی شخص نے ملائی دی کہ جلدی سے حضرت صاحب تک پہنچا دی جائے آپ تقریر کرتے کرتے تھک گئے ہیں.چنانچہ گھبراہٹ میں لوگوں نے جلدی جلدی ملائی آگے پہنچانی شروع کر دی.یہاں تک کہ وہ سٹیج پر پہنچ گئی.سٹیج پر کسی شخص کو ہوش آیا اور اُس نے ذراسی ملائی اپنی زبان پر لگائی تو لگاتے ہی اُس کی زبان کٹ گئی.تب اِدھر اُدھر تلاش کیا گیا کہ ملائی دینے والا کون تھا مگر وہ نہ ملا.غرض ہر رنگ میں دشمنوں نے مجھے مٹانے اور گرانے کی کوشش کی.مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اُن کو ناکام و نا مرا درکھا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں گزشتہ سالوں میں ہی لاہور میں سر سکندر حیات خاں نے اپنی کوٹھی پر مجھے اس غرض کے لئے بلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کو ایسی میٹنگ میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ مجھے سیاسیات سے کوئی دلچسپی ہے.میں تو ایک مذہبی آدمی ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس قسم کے جھگڑے جلد دُور ہو جائیں.وہاں احرار کی طرف سے چوہدری افضل حق صاحب شامل ہوئے اور انہوں نے بڑے غصہ سے کہا کہ میں ان سے ہر گز صلح نہیں کر سکتا کیونکہ میں جب الیکشن کے لئے کھڑا ہوا تھا تو انہوں نے میری دو دفعہ مخالفت کی تھی.میں نے اُن سے کہا کہ مخالفت کرنا ہر شخص کا حق ہے مگر یہ درست نہیں کہ میں نے آپ کی دو دفعہ مخالفت کی ہے.ایک دفعہ مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے.سرسکندرحیات خاں بھی اِن سے کہنے لگے کہ آپ بھولتے ہیں آپ نے خود مجھے کہا تھا کہ امام جماعت احمدیہ سے چونکہ میرے دوستانہ تعلقات ہیں اس لئے میں آپ کے متعلق ان کے پاس سفارش کر دوں اور میں نے آپ کے کہنے پر سفارش کی اور انہوں نے آپ کی مدد کی.پس یہ درست نہیں کہ انہوں نے دو دفعہ مخالفت کی ہے.ایک دفعہ انہوں نے مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے.اس پر چوہدری افضل حق صاحب کہنے لگے خواہ کچھ ہوئیں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دوں گا.اسی طرح وہ غصہ میں اور بھی بہت کچھ کہتے چلے گئے میں مسکراتا رہا اور خاموش رہا.جب وہ اپنا غصہ نکال چکے تو میں نے کہا چوہدری صاحب ! ہما را دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اگر ہمارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے تو آپ کی کسی نے کوشش کی ضرورت نہیں خدا خود ہمارے سلسلہ کو کچل دے گا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ سلسلہ ہے تو پھر آپ کی کیا حیثیت ہے دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ہمارے سلسلہ کو کچلنا چاہیں تو وہ خود گچلے جائیں گے مگر ہمارے سلسلہ کو کچل نہیں سکتے.اُس وقت مجلس میں نواب مظفر خان صاحب موجود تھے، شیخ محمد صادق صاحب موجود تھے ، نواب احمد یار خاں صاحب دولتانہ موجود تھے، جب مجلس ختم ہوئی تو شیخ محمد صادق صاحب چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے گھر تک گئے اور انہیں کہا کہ چوہدری صاحب ! آپ نے اچھا نہیں کیا.گھر پر بلا کر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۰۹ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں امام جماعت احمدیہ کی آج شدید ہتک کی گئی ہے چنانچہ بعد میں واپس آ کر انہوں نے خود ہی ذکر کیا کہ میں چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے دروازہ تک گیا تھا اور اُن سے کہا تھا کہ آپ نے آج جو کچھ کیا ہے اچھا نہیں کیا اور چوہدری افضل حق صاحب کہتے تھے کہ اب میں بھی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئے تھے اصل بات یہ ہے غصہ میں میری زبان قابو میں نہیں رہی تھی.تو لوگوں نے ہر طرح زور لگایا کہ ہمارے سلسلہ کو مٹا دیں.یہاں تک کہ ۱۹۳۴ء میں انگریزی گورنمنٹ بھی ہماری جماعت کی مخالف ہوگئی.سرایمرسن جو گورنر پنجاب رہ چکے ہیں گورنری سے پہلے میرے بڑے دوست تھے.یہاں تک کہ لندن سے انہوں نے مجھے چٹھی لکھی کہ میں اب گورنر بن کر آ رہا ہوں اور امید کرتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے مگر یہاں آتے ہی ہماری جماعت کے شدید مخالف ہو گئے یہاں تک کہ سر فضل حسین صاحب نے ایک ملاقات کے دوران میں مجھ سے کہا کہ نہ معلوم سرایمرسن کو کیا ہو گیا ہے وہ تو آپ کے سلسلہ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں.پھر انہوں نے کریمنل لاء ایمنڈ من(CRIMINAL LAW AMENDMEN) ایکٹ مجھ پر لگانا چاہا اور قادیان میں احرار کا جلسہ کرایا جس میں ہمارے سلسلہ کی شدید ہتک کی گئی.غرض ہر رنگ میں ہماری مخالفت ہوئی اور ہر طبقہ نے مخالفت کی.افغانستان میں میرے زمانہ میں جماعت احمد یہ کے چار آدمی یکے بعد دیگرے شہید کئے گئے حالانکہ افغانستان کے وزیر خارجہ نے خود ہمیں چٹھی لکھی تھی کہ افغانستان میں آپ کو تبلیغ کی اجازت ہے بے شک اپنے مبلغ بھجوا ئیں.مگر جب ہم نے اپنے مبلغ بھجوائے تو حکومت نے اُن کو سنگسار کر دیا.غرض جتنا زور دنیا لگا سکتی تھی اس نے لگا کر دیکھ لیا مگر باوجود اس کے خدا نے ہمیں بڑھایا اور ایسی ترقی دی جو ہمارے وہم اور خیال میں بھی نہیں تھی.جب میں خلیفہ ہوا اُس وقت ہمارے خزانہ میں صرف چودہ آنے کے پیسے تھے اور ۱۸ ہزار کا قرض تھا یہاں تک کہ میں نے اپنے زمانہ خلافت میں جو پہلا اشتہار لکھا اور جس کا عنوان تھا.”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اُس کو چھپوانے کے لئے بھی میرے پاس کوئی روپیہ نہ تھا.اُس وقت ہمارے نانا جان کے پاس کچھ چندہ تھا جو اُنہوں نے مسجد کے لئے لوگوں سے
۲۱۰ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انوار العلوم جلد ۱۷ جمع کیا تھا اُنہوں نے اُس چندہ میں سے دو سو روپیہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے دیا اور کہا کہ جب خزانہ میں روپیہ آنا شروع ہو جائے گا تو یہ دوسو رو پیدا دا ہو جائے گا.غرض وہ روپیہ اُن سے قرض لے کر یہ اشتہار شائع کیا گیا.مگر اُس وقت جب جماعت کے سرکردہ لوگ میرے مخالف تھے ، جب جماعت کے لیڈر میرے مخالف تھے ، جب خزانہ خالی تھا، جب صرف چودہ آنے کے پیسے اس میں موجود تھے، جب اٹھارہ ہزار کا انجمن پر قرض تھا، جب انجمن کی اکثریت میری مخالف تھی ، جب انجمن کا سیکرٹری میرا مخالف تھا، جب مدرسہ کا ہیڈ ماسٹر میرا مخالف تھا میرے یہ الفاظ ہیں جو میں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اُس اشتہار میں شائع کئے کہ : خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اُکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اُس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.پھر میں نے لکھا.اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا.جیسے نبی اکیلا ہی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بو جھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اُس کی مدد میرے شاملِ حال نہ ہو تو میں کچھ نہیں کر سکتا.لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے 66 کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی.“ غرض طرح طرح کی مخالفتیں ہوئیں سیاسی بھی اور مذہبی بھی ، اندرونی بھی اور بیرونی بھی
۲۱۱ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انوار العلوم جلد ۱۷ مگر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں جماعت کو اور زیادہ ترقی کی طرف لے جاؤں.چنانچہ یہ جماعت بڑھنی شروع ہوئی یہاں تک کہ آج دنیا کے کونے کونے میں یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے.اسی شہر لاہور میں پہلے جماعت احمدیہ کے صرف چند افراد ہوا کرتے تھے مگر آج ہزاروں کی تعداد میں یہاں جماعت موجود ہے اسی طرح دنیا کے ہر گوشہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور اسلام کا پیغام میرے ذریعہ سے پہنچ چکا ہے اور وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی وہ میرے وجود میں بڑی شان سے پوری ہو چکی ہے.اس پیشگوئی میں اُنسٹھ باتیں بتائی گئی ہیں.مگر ان تمام باتوں کے متعلق اس وقت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی جا سکتی.صرف ایک دو باتیں میں بیان کر دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس طرح میرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی طرح میرا بیٹا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.دنیا کے کناروں کے لحاظ سے امریکہ ایک طرف ہے اور جاپان دوسری طرف.درمیان میں یورپ اور افریقہ کا علاقہ ہے.ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے مطابق مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں احمد یہ مشن قائم کروں.چنانچہ اس وقت امریکہ میں احمد یہ مشن قائم ہے، انگلستان میں احمد یہ مشن قائم ہے، شمالی اور جنوبی افریقہ میں احمد یہ مشن قائم ہے، چین اور جاپان میں بھی احمد یہ مشن قائم کئے گئے تھے مگر جنگ کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے بند کر دیئے ہیں، سماٹرا اور جاوا میں احمد یہ مشن قائم ہیں، اسی طرح جرمنی میں اور ہنگری میں ، ارجنٹائن میں ، یوگوسلاویہ میں ، البانیہ میں ، پولینڈ میں ، زیکوسلواکیہ میں ، سیرالیون میں ، گولڈ کوسٹ میں، نائیجیریا میں ، مصر میں فلسطین میں، ماریشس میں ، شام میں، روس میں، سیٹلمنٹر 10 میں ، ایران میں ، کابل میں، ملایا میں اور دوسرے کئی ممالک میں اللہ تعالیٰ سٹریٹ نے میرے ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کہ دنیا کے کناروں تک وہ اسلام اور احمدیت کا نام پہنچائے گا.یہ پیشگوئی جس نے شائع کی اُس کا اپنا نام اُس گاؤں کے رہنے والے بھی نہیں جانتے تھے جو اُس کا وطن تھا مگر اُس نے کہا نہ صرف میرا نام دنیا کے کونہ کونہ میں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۲ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں مشہور ہوگا بلکہ میرا ایک بیٹا ہوگا اور اُس کا نام بھی دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.یہ پیشگوئی جس شان کے ساتھ پوری ہو چکی ہے اس سے کوئی شخص جس کے دل میں سچائی اور دیانت کا ایک ذرہ بھر بھی مادہ ہو ا نکار نہیں کر سکتا.۱۸۸۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی مزید تشریح کرتے ہوئے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو سبز رنگ کے کاغذوں پر شائع ہوا.ہماری جماعت میں اس اشتہار کا نام ہی سبز اشتہار مشہور ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ وہ مکان جس میں آپ نے چالیس روز اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جو اب ایک ہندو دوست کے قبضہ میں ہے اور جسے ہم ہوشیار پور میں دیکھ آئے ہیں اُس کا رنگ بھی سبز ہی ہے.گویا ۱۸۸۸ء کا اشتہار بھی سبز رنگ کے اوراق پر شائع ہوا اور اُس مکان کا رنگ بھی سبز ہی ہے جو اُس ہندو دوست کے قبضہ میں ہے.سیٹھ صاحب قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے میں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیونکر خیال آگیا کہ اس مکان پر سبز رنگ کیا جائے کوئی اور رنگ نہ ہو.وہ کہنے لگے ہمارا کاروبار چونکہ بہت وسیع ہے (چنانچہ ایک ہسپتال انہوں نے بنایا ہوا ہے جس میں سینکڑوں مریضوں کو روزانہ مفت دوا دی جاتی ہے اسی طرح اُن کی ایک سرائے ہے ) اس لئے جب یہ مکان بنا تو ایک کمپنی جس کا نام انہوں نے غالباً ڈیکو بتایا اُس کا ایجنٹ ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا ہماری فرم آپ کی کوٹھی پر مفت پینٹ کرنا چاہتی ہے بتائیے آپ کو نسا روغن کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کوئی روغن کر دیں.اُس نے روغنوں کی کاپی نکال کر میرے سامنے رکھ دی کہ ان میں سے کوئی سا روغن پسند کر لیں.اُس وقت بے اختیار میری اُنگلی سبز رنگ کی طرف اُٹھ گئی اور میں نے کہا کہ یہ رنگ ہماری کوٹھی پر کر دیں چنانچہ سبز رنگ کر دیا گیا اور وہ اشتہار بھی سبز رنگ کا ہی تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی خبر کی مزید تشریح فرمائی تھی.بعض لوگ کہتے ہیں مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چار سو سال کے بعد آئے گا موجودہ زمانہ میں نہیں آسکتا.مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۳ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں رکھتا.چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے اندرمن اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے.آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں اے خدا! تو ایسا نشان دکھا جو ان نشان طلب کرنے والوں کو اسلام کا قائل کر دے، تو ایسا نشان دکھا جو اندر من مراد آبادی و غیرہ کو اسلام کا قائل کر دے.اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہوگا.کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازہ پر جائے اور کہے بھائی ! مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے خدا کے لئے مجھے پانی پلاؤ اور وہ آگے سے یہ جواب دے کہ صاحب! آپ گھبرائیں نہیں میں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے وہاں سے اسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجہ کا ایسنس آجائے گا اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلا دیا جائے گا.کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا.کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اُس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا.پنڈت لیکھرام، منشی اندر من مراد آبادی اور قادیان کے ہند و تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعوئی ہے اگر اس دعوی میں کوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے رحمت کا نشان دکھا ، تو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما.پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونا چاہئے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.۱۸۸۹ ء میں جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ نشان مانگا تھا پھر جوں جوں میں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے.بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی پہلے کالی کھانسی ہوئی اور پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ بارہ سال کی عمر تک میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتارہا کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۴ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میری زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی.اسی دوران میں میری آنکھیں دُکھنے آ گئیں اور اس قدر دکھیں کہ میری ایک آنکھ قریباً ماری گئی.چنانچہ اس میں سے مجھے بہت کم نظر آتا ہے.پھر جب میں اور بڑا ہوا تو متواتر چھ سات ماہ تک مجھے بخار آتا رہا.اور سل اور دق کا مریض مجھے قرار دے دیا گیا.ان وجوہ سے میں باقاعدہ پڑھائی بھی نہیں کر سکتا تھا.لاہور کے ہی ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کی مسلم ٹاؤن میں کوٹھی ہے ہمارے سکول میں حساب پڑھایا کرتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ پڑھنے نہیں آتا اور ا کثر غائب رہتا ہے.میں ڈرا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ناراض ہوں گے مگر آپ فرمانے لگے ماسٹر صاحب ! اس کی صحت کمزور رہتی ہے ہم اتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتا ہے اور کوئی بات اس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے زیادہ زور اس پر نہ دیں.بلکہ مجھے یاد ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہم نے حساب سکھا کر اسے کیا کرنا ہے.کیا ہم نے اس سے کوئی دُکان کرانی ہے.قرآن اور حدیث پڑھ لے گا تو کافی ہے.غرض میری صحت ایسی کمزور تھی کہ دنیا کے علم پڑھنے کے میں بالکل نا قابل تھا میری نظر بھی کمزور تھی میں پرائمری مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں فیل ہوا ہوں کسی امتحان میں پاس نہیں ہوا.مگر خدا نے میرے متعلق خبر دی تھی کہ میں علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جاؤں گا.چنانچہ با وجود اس کے کہ ڈ نیوی علوم میں سے کوئی علم میں نے نہیں پڑھا اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان علمی کتابیں میرے قلم سے لکھوائیں کہ دنیا ان کو پڑھ کر حیران ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس سے بڑھ کر اسلامی مسائل کے متعلق اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا.ابھی تفسیر کبیر کے نام سے میں نے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ لکھا ہے اسے پڑھ کر بڑے بڑے مخالفوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اِس جیسی آج تک کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی.پھر ہمیشہ میں لاہور میں آتا رہتا ہوں اور یہاں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ سے کالجوں کے پروفیسر ملنے آتے ہیں ،سٹوڈنٹس ملنے آتے ہیں ، ڈاکٹر ملنے آتے ہیں، مشہور پلیڈر اور وکیل ملنے آتے ہیں مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بڑے سے بڑے مشہور عالم نے میرے سامنے اسلام اور قرآن پر کوئی اعتراض کیا ہو اور میں نے اسلام اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ہی اُسے ساکت اور لا جواب نہ کر دیا ہو اور اسے یہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۵ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں تسلیم نہ کرنا پڑا ہو کہ واقعہ میں اسلام کی تعلیم پر کوئی حقیقی اعتراض نہیں ہوسکتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہے ورنہ میں نے دنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی علم نہیں سیکھا لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا نے مجھے اپنے پاس سے علم دیا اور خود مجھے ہر قسم کے ظاہری اور باطنی علوم سے حصہ عطا فرمایا.میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تصویر کے فریم کی صورت اختیار کر گئی.پھر میں نے دیکھا کہ اُس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی.تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر بلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اُس میں سے کو دکر ایک وجود میرے سامنے آ گیا اور اُس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں اور تمہیں قرآن کریم کی تفسیر سکھانے کے لئے آیا ہوں.میں نے کہا سکھاؤ.تب اُس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين لا تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنے مفسر گزرے ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں.چنانچہ اُس نے ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی.اس رؤیا کے معنی در حقیقت یہی تھے کہ فہم قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے.چنانچہ یہ ملکہ میرے اندر اِس قدر ہے کہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں اور جس مجلس میں چا ہوئیں یہ دعویٰ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ سورۃ فاتحہ سے ہی میں تمام اسلامی علوم بیان کرسکتا ہوں.میں ابھی چھوٹا ہی تھا سکول میں پڑھا کرتا تھا کہ ہمارے سکول کی فٹ بال ٹیم امرتسر کے خالصہ کالج کی ٹیم سے کھیلنے کے لئے گئی.مقابلہ ہوا اور ہماری ٹیم جیت گئی.اس پر با وجود اُس مخالفت کے جو مسلمان ہماری جماعت کے ساتھ رکھتے ہیں چونکہ ایک رنگ میں مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی تھی اس لئے امرتسر کے ایک رئیس نے ہماری ٹیم کو چائے کی دعوت دی.جب ہم وہاں گئے تو مجھے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کر دیا گیا.میں نے اس تقریر کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی.جب مجھے کھڑا کیا گیا تو معا مجھے یہ رویا یاد آ گیا اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! تیرا فرشتہ مجھے خواب میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھا گیا تھا.آج
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۶ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میں اس بات کا امتحان لینا چاہتا ہوں کہ یہ خواب تیری طرف سے تھا یا میرے نفس کا دھوکا تھا.اگر یہ خواب تیری طرف سے تھا تو تو مجھے سورہ فاتحہ کا ہی آج کوئی ایسا نکتہ بتا جو اس سے پہلے دنیا کے کسی مفسر نے بیان نہ کیا ہو.چنانچہ اس دعا کے معاً بعد خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نکتہ ڈالا اور میں نے کہا دیکھو! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے کہ غیر المغضوب عليهم ولا الضالین کا اے مسلما نو ! تم پانچ نمازوں میں اور اپنی نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کیا کرو کہ ہم مغضوب اور ضَالّ نہ بن جائیں.مَغْضُوبِ کے معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں میں خود بیان فرمائے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ނ ہیں مغضوب کے معنی ہیں الْيَهُود اور صال کے معنی ہیں نصاری ۱۸ پس غیر الْمَغْضُوبِ - مراد یہ تھا کہ الہی ! ہم یہودی نہ بن جائیں اور ولا الضالین سے مراد یہ تھا کہ ہم نصاری نہ بن جائیں.اس امر کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اس اُمت میں ایک مسیح آئے گا.پس جو لوگ اُس کا انکار کریں گے وہ لازماً یہودصفت بن جائیں گے.دوسری طرف آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عیسائیت کا فتنہ ایک زمانہ میں خاص طور پر بڑھ جائے گا لوگ روٹی کے لئے ، ملازمت کے لئے سوسائٹی میں عزت حاصل کرنے کے لئے عیسائیت اختیار کر لیں گے یا دھوکا کھا کر اور اپنے مذہب کی تعلیم کو نہ سمجھ کر عیسائیت قبول کر لیں گے 19 مگر یہ عجیب بات ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور اُس وقت نہ عیسائی اسلام کے زیادہ مخالف تھے اور نہ یہودی اسلام کے زیادہ مخالف تھے.اُس وقت سب سے زیادہ مخالفت مکہ کے بُت پرستوں کی طرف سے کی جاتی تھی.مگر دعا یہ نہیں سکھائی گئی کہ الہی ! ہم بُت پرست نہ بن جائیں بلکہ دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ الہی ! ہم یہودی یا نصاری نہ بن جائیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ مکہ کے بُت پرست ہمیشہ کے لئے مٹا دئیے جائیں گے اور اُن کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا.پس اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے متعلق مسلمانوں کو کوئی دعا سکھائی جائے ہاں یہودیت اور عیسائیت یا دونوں باقی رہیں گے اور تمہارے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے فتنہ سے بچنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو.جب میری یہ تقریر ہو چکی تو بعد میں بڑے بڑے
انوار العلوم جلد کا ۲۱۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں رؤسا مجھے ملے اور کہنے لگے آپ نے قرآن خوب پڑھا ہوا ہے.ہم نے تو اپنی ساری عمر میں یہ نکتہ پہلی دفعہ سنا ہے.چنانچہ واقعہ یہی ہے ساری تفسیروں کو دیکھ لوکسی مفسر قرآن نے آج تک یہ نکتہ بیان نہیں کیا.حالانکہ میری عمر اُس وقت ہیں سال کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ مجھ پر کھولا.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اُس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے.دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضیلت اُس پر ظاہر نہ کر سکوں.یہ لاہور شہر ہے یہاں یو نیورسٹی موجود ہے، کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں ، بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پائے جاتے ہیں میں اِن سب سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے ، دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آجائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اُس کے اعتراض کا رڈ ہو گیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا کے کلام سے ہی اُس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو رڈ کر کے دکھا دوں گا.دوسری پیشگوئی میرے متعلق یہ کی گئی تھی کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوگا.یہ پیشگوئی بھی میری ذات میں پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے سینکڑوں مرتبہ غیب کی باتیں مجھ پر ظاہر کیں.میں اس وقت صرف دو تازہ مثالیں دے دیتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے کلام سے نوازا اور غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرمائی.۱۹۳۹ ء کی بات ہے میں اُس وقت دھرم سالہ میں تھا اور خبر میں یہ آرہی تھیں کہ انگریزوں اور جرمنی میں لڑائی چھڑنے والی ہے.انہی دنوں میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور ایک فرشتہ میرے سامنے انگلستان اور فرانس کی حکومتوں کی باہمی خط و کتابت پیش کر رہا ہے وہ کا غذات میرے سامنے پیش کرتا چلا جاتا ہے اور میں ان کا غذات کو پڑھ کر اُسے واپس دیتا چلا جاتا ہوں گو یا فائل میں سے وہ ایک ایک کاغذ نکالتا اور میرے سامنے پیش کرتا ہے اور میں پڑھنے کے بعد اُسے واپس دے دیتا ہوں.اسی
انوار العلوم جلد ۷ ۲۱۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں دوران میں اُس نے ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا اور میں نے دیکھا کہ وہ ایک خط ہے جو انگلستان کے وزیر اعظم نے فرانسیسی حکومت کی طرف لکھا ہے اور اُس کا مضمون یہ ہے کہ جنگ کی حالت ایسی خطرناک ہوگئی ہے کہ آج ہمارا ملک دشمن کے ہاتھوں میں چلے جانے کے خطرہ میں ہے.میں اس نہایت ہی نازک حالت میں فرانس کو پیشکش کرتا ہوں کہ فرانسیسی اور انگریزی دونوں حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے اس طور پر کہ شہریت کے حقوق مشترک ہو جائیں یعنی حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں ملا دی جائیں.خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے.یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں میں سخت گھبرا گیا کہ کیا انگلستان کی ایسی حالت ہونے والی ہے کہ وہ فرانس کو یہ آفر (OFFER) پیش کرے گا کہ ہماری اور تمہاری دونوں حکومتیں ایک ہو جائیں اور شہریت کے حقوق مشترک کر دیئے جائیں.جب میں گھبراتا ہوں تو فرشتہ مجھے کہتا ہے یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی چھ مہینہ کے بعد حالت بدل جائے گی اور انگلستان کی کمزوری کی یہ حالت جاتی رہے گی.میں نے یہ رویا اُسی وقت دوستوں کو سنا دی تھی.چنانچہ اس رویا کے عین مطابق بعد میں واقعات رونما ہوئے.اس رویا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں بتائی گئی تھیں وہ یہ تھیں.اول.جرمنی اور انگریزوں کی لڑائی ہو گی.دوم.انگلستان اور فرانس ایک طرف ہوں گے.یہ تو سب لوگ کہتے ہی تھے جہاں سے پیشگوئی کا حصہ شروع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ میں انگلستان پر ایک ایسا نازک وقت آئے گا جب انگریزی حکومت فرانسیسی حکومت سے درخواست کرے گی کہ انگریزی اور فرانسیسی گورنمنٹ کو ایک کر دیا جائے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں یہاں پر بڑے بڑے پروفیسر موجود ہیں ، تاریخ دان بیٹھے ہوئے ہیں ، میں ان سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی ملک کی تاریخ نکال کر دیکھ لو تمہیں کہیں یہ مثال نہیں ملے گی کہ دوز بر دست حکومتوں میں سے جب ایک کو خطرہ محسوس ہوا ہو تو اُس نے دوسری حکومت سے یہ کہا ہو کہ آو ہم تم دونوں ایک ہو جائیں.کوئی انسانی دماغ ایسی بات نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ انسانی دماغ وہی بات کہہ سکتا ہے جس کی مثالیں پہلے ملتی ہوں مگر میں نے بتایا ہے چھ سات ہزار سال کی تاریخ موجود ہے.امریکہ کی تاریخ لے لو،
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۱۹ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں انگلستان کی تاریخ لے لو ، ہندوستان کی تاریخ لے لو، ایران ، مصر اور عرب کی تاریخ لے لو ، چین اور جاپان کی تاریخ لے لو، دنیا کی کسی تاریخ میں سات ہزار سال کے لمبے عرصہ میں تمہیں یہ مثال نہیں ملے گی کہ دوز بر دست حکومتوں میں سے ایک نے دوسری کو یہ پیشکش کی ہو کہ آؤ اس موقع پر ہم دونوں ایک ہو جائیں اور دونوں حکومتوں کو باہم ملا دیا جائے.مگر سب لوگ جانتے ہیں۱۹۴۰ء میں جب فرانسیسی حکومت کو شکست ہوئی تو اُس وقت برطانیہ نے خیال کیا کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو اس وقت تک کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے جاری رہے گی اس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے اور اس کی نو آبادیاں بھی کسی نہ کسی صورت میں جنگ جاری رکھیں گی لیکن اگر اس نے صلح کر لی تو جرمنی کا سارا زور ہم پر آپڑے گا.چنانچہ اُس وقت حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر آج تک دنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی اور انگلستان کے وزیر اعظم نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے.پس وہ الفاظ جو آج سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کبھی سنے نہیں گئے تھے خدا نے مجھے بتائے اور وہی الفاظ انگلستان کے وزیر اعظم نے فرانسیسی حکومت کو لکھ کر بھیج دیئے.پھر اس رؤیا میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی.چنانچہ جب رؤیا کا ایک حصہ پورا ہو گیا تو ہماری جماعت کے دلوں میں ایک جوش پیدا ہوا اور اُنہوں نے چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جانے کی خبر کثرت سے لوگوں میں پھیلانی شروع کر دی.چنانچہ یہ بات لوگوں میں خوب پھیل گئی بلکہ بعض لوگوں نے تو اپنے گھروں میں یہ خبر لکھ کر لٹکا لی.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی یہ رؤیا بہت سے انگریز حکام تک پہنچا دی کہ چھٹے مہینہ تک انگریزوں کی حالت بدل جائے گی.چنانچہ ایک دفعہ لارڈ نلتھگو وائسرائے ہند نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے کہا کہ ظفر اللہ خاں! کیا تم سمجھتے ہو کہ ہماری یہ حالت کبھی درست ہو سکے گی ؟ اس پر چوہدری صاحب نے کہا یقیناً ۱۵ / دسمبر کو یہ حالت بدل جائے گی ( کیونکہ برطانیہ نے دونوں حکومتوں کے الحاق کی پیشکش ۱۵ جون ۱۹۴۰ء کو کی تھی) چنانچہ عین چھٹے مہینے اٹلی کی فوجوں کو مصر میں شکست ہونی شروع ہوئی اور حالات جنگ میں یہ پہلی تبدیلی اتحادیوں کی فتح کا پیش خیمہ بن گئی.دوسری رؤیا جس کے کئی انگریز بھی گواہ ہیں اور ہندوستانی بھی.وہ بھی ایسی ہی ہے جس کا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۰ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں کوئی سلیم الطبع انسان انکار نہیں کر سکتا.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان میں ہوں اور مجھے کہا گیا ہے کہ کیا آپ ہمارے ملک کو دشمن کے حملہ سے بچا سکتے ہیں.میں اُن سے کہتا ہوں کہ مجھے جنگی سامانوں اور اپنے کارخانوں کا معائنہ کرنے دو.اس کے بعد میں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں گا.چنانچہ میں نے انگریزوں کے جنگی سامان کا معائنہ کیا اور میں نے کہا اور تو سب کچھ ٹھیک ہے صرف ہوائی جہاز کم ہیں.اگر ہوائی جہاز مل جائیں تو انگلستان کو فتح حاصل ہوسکتی ہے.جب میں نے یہ کہا کہ انگریزوں کے پاس صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے اگر یہ کمی پوری ہو جائے تو انہیں فتح حاصل ہو سکتی ہے تو یکدم رویا کی حالت میں میں نے دیکھا کہ امریکہ سے تار آیا ہے جس میں لکھا ہے: The British Representative from America wishes that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.یعنی امریکن گورنمنٹ نے ۲۸ کو ہوائی جہاز بھیجوا دیئے ہیں.جب یہ تار آتا ہے تو میں نے کہا اب میں انگلستان کی حفاظت کا کام آسانی سے سرانجام دے سکوں گا.یہ رؤیا مجھے ستمبر ۱۹۴۰ ء میں آئی.دوسرے تیسرے دن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب قادیان آئے اور میں نے اُن سے اس رؤیا کا ذکر کیا انہوں نے کئی انگریز حکام کو اس رویا کی خبر دے دی.یہاں تک سر کلو جو کہ اُس وقت ریلوے ممبر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے اُن سے بھی اِس کا ذکر کر دیا.اسی طرح سر راما سوامی مدلیار اور دوسرے معزز لوگوں سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہہ دیا کہ امام جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز برطانیہ کی مدد کیلئے بھجوائے گی.دیکھو! قیاس سے انسان یہ تو کہ سکتا ہے کہ امریکہ انگلستان کی مدد کرے گا.قیاس سے انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے شاید ا مریکہ ہوائی جہاز بھجوا دے مگر مسٹر چرچل بھی قیاس سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے گا اور نہ دنیا کا کوئی انسان محض عقل سے کام لے کر یہ تعداد معین کر سکتا تھا.مگر اس رؤیا کے تیسرے مہینے ہی میں ایک مسجد میں بیٹھا تھا اور دوستوں سے باتیں کر رہا تھا کہ ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا آپ کے کمرے کا دروازہ بند ہے اور اندر ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی ہے معلوم ہوتا ہے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۱ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں کوئی ضروری فون آیا ہے.میں گیا اور رسیور اُٹھا کر مرکز سے میں نے دریافت کیا کہ مجھے کون فون کر رہا تھا ؟ ہمارا ٹیلیفون کا مرکز امرتسر ہے وہاں سے جواب آیا کہ دہلی سے آپ کی طرف فون آیا ہے.میں نے کہا میں آ گیا ہوں دہلی سے کنکشن کر دو.تھوڑی دیر کے بعد سر ظفر اللہ خان صاحب کی آواز آئی جو کانپ رہی تھی کہ مبارک ہو.میں نے کہا خیر مبارک مگر مجھے پتہ نہیں لگ سکا کہ یہ کیسی مبارک ہے.انہوں نے کہا آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے ایک رؤیا سنایا تھا کہ امریکہ سے تار آئی ہے کہ اُس نے برطانیہ کی مدد کے لئے ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے ہیں.میں نے کہا مجھے خوب یاد ہے.وہ کہنے لگے مبارک ہو اس وقت تار میرے سامنے پڑی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ :.The British Representative from America wishes that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.پھرانہوں نے کہا کہ جس وقت یہ تار مجھے ملی میں نے اُسی وقت اُن سرکاری حکام کو فون کیا جن کو میں نے یہ خواب بتائی ہوئی تھی اور اُن سب کو یاد دلایا کہ دیکھو! امام جماعت احمدیہ کی جو خواب میں نے تم کو بتائی تھی وہ آج کس شان کے ساتھ پوری ہوگئی.انہوں نے بتایا کہ میں نے سرکلو کو بھی فون کیا کہ تم کو معلوم ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی میں نے تمہیں ایک خواب بتائی تھی ؟ بعض دفعہ خدا تعالیٰ انسان سے غلطی کر دیتا ہے تا کہ اُس پر زیادہ حجت ہو.سرکلو کہنے لگے ظفر اللہ خاں ! تار تو آئی ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی اتنی تعداد کا تار میں ذکر نہیں.ظفر اللہ خاں کہتے ہیں میں نے کہا تمہیں کیا یاد ہے؟ وہ کہنے لگے تم نے تو ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں ۲۵ کو ہوائی جہاز بھیجوانے کا ذکر ہے انہوں نے جلدی سے ۲۸ سو کو ۲۵ سئو پڑھ لیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہنے لگے تمہارے پاس تار ہے وہ کہنے لگے ہاں میرے سامنے ہی پڑی ہے چوہدری صاحب کہنے لگے اسے پھر پڑھو.سرکلو نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگے.اوہو! ظفر اللہ خاں یہ تو ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے.یہ دو مثالیں میں نے اس امر کی بیان کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کس طرح اپنے غیب کا اظہار کیا.ابھی میری ایک بیوی (اُم طاہر ) فوت ہوئی ہیں وہ میری نہایت پیاری بیوی تھیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۲ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں سلسلہ کے کام میں ہمیشہ میرے ساتھ تعاون کرنے والی تھیں.۲۳ سال میرے ساتھ رہیں.ان کی وفات سے بارہ سال پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی کہ ان کا آپریشن ہوگا اور پھر ان کا ہارٹ فیل ہو جائے گا.اسی طرح مجھے بتایا گیا تھا کہ جب وہ فوت ہوں گی تو دو عورتیں ان کے پاس ہوں گی.وہ جب تک بیمار رہیں ہمیشہ ایک عورت خدمت کے لئے ان کے پاس موجود رہی مگر وفات سے چار پانچ دن پہلے اُنہوں نے اصرار کر کے ایک اور عورت کو بلوایا.اور جب ان کی وفات ہوئی تو ایک عورت اِن کے دائیں طرف بیٹھی تھی اور دوسری بائیں طرف.غرض اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں مرتبہ مجھے اپنے غیب سے اطلاع دی ہے اور اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوگا.لوگوں نے کہا کہ مرزا صاحب جھوٹ بولتے ہیں ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ خدا ان سے ہمکلام ہوتا ہے مگر در حقیقت خدا ان سے ہمکلام نہیں ہوتا.تب خدا نے یہ عظیم الشان نشان اِن کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ ان کا خدا سے تعلق ہے اور خدا اپنے اسرار ان پر ظاہر فرماتا ہے.دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں ضرور بیٹا پیدا ہوگا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بیٹا زندہ رہے گا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا امام بنے گا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کا کلام اُس پر نازل ہوگا.یقینا کوئی انسان ایسی باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا اور نہ کسی انسان کی طاقت اور قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ان باتوں کو پورا کر سکے.پس یہ نشانات جو میرے ذریعہ سے ظاہر ہوئے انہوں نے روز روشن کی طرح ظاہر کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مسیح نے جو خبر دی تھی وہ سچی ثابت ہوئی.پس اے لوگو ! میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں.میں تم سب سے کہتا ہوں کہ إنّنا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلايْمَانِ أنْ أمِنُوا بِرَتِكُمْ فَامنا.ہم نے خدا کے مامور کو آواز دیتے سنا اور ہم اس پر ایمان لائے اور ہم آپ لوگوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ آپ اس امر پر غور کریں گے، آپ اپنی جانوں پر رحم کریں، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں پر رحم کریں ، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کر کے اپنی عاقبت کو درست کر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۳ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں لیں.یقیناً جو لوگ خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کریں گے ، خدا تعالیٰ اُن کے گھروں کو اپنی برکتوں سے بھر دے گا.مگر وہ جو خدا تعالیٰ کے مامور کو رڈ کر دیں گے اُن پر اُس کی برکتوں کے دروازے بند کر دیے جائیں گے اور ایسے وجود انتہائی طور پر بدقسمت ہوں گے.خدا نہ کرے آپ اُن بدقسمت لوگوں میں سے ہوں اور خدا تعالیٰ کے مامور کورڈ کر کے اُس کی رحمت کے دروازوں کو بند کرنے والے ہوں.ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے دلوں کو کھول دے.حق آپ پر واضح کر دے اور محمدی فوج میں آپ سب کو داخل کر دے تا کہ محمد رسول اللہ علہ کے سچے متبعین میں شامل ہو کر آپ دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے کا موجب ہوں.روحانیت کی ترقی ہو، تقویٰ کا قیام ہوا اور سب لوگ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر دنیا کے ہر ملک اور دنیا کے ہر گوشہ میں خدا تعالیٰ کے انوار کو پھیلا دیں.ہم نہ مسلمانوں کے دشمن ہیں نہ عیسائیوں، ہندوؤں اور یہودیوں کے دشمن ہیں بلکہ ہم سب کے دوست اور خیر خواہ ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے کانوں تک اپنی آواز پہنچا ئیں.میں حیران ہوں کہ لوگ ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہیں.جب ہم مانتے ہیں کہ وہ ایک غلط راستہ پر ہیں تو کیا ہما را فرض نہیں کہ ہم دوسروں کو صحیح راستہ پر لائیں اور غلط راستہ پر چلنے سے انہیں روکیں.مان لو کہ ہم غلطی پر ہیں مگر بہر حال جب ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ایک ایسے راستہ پر چل رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم لوگوں کو سمجھا ئیں اور انہیں صحیح راستہ پر چلا ئیں ؟ اگر ایک شخص کنویں میں گر رہا ہو تو کیا دوسرے کا فرض نہیں ہوتا کہ وہ اُس کو بچانے کی کوشش کرے.ہم جب سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ علی خدا تعالیٰ کے آخری شرعی رسول ہیں، جب ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن اُس کا آخری شرعی کلام ہے، جب ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام خدا کا نور ہے اور اُس کی برکتیں اُنہی لوگوں کو مل سکتی ہیں جو اُس کے احکام پر عمل کریں تو پھر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم دوسروں کو تبلیغ کریں اور انہیں سمجھا ئیں کہ صحیح راستہ کون سا ہے اور غلط راستہ کونسا.پس اگر ہماری جماعت کے افراد آپ لوگوں کے پاس تبلیغ کے لئے آتے ہیں تو آپ کو ہماری ہمدردی اور ہمارے جذبہ اخوت کی قدر کرنی چاہئے کہ ہم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۴ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں تکلیف اُٹھا کر اور اپنے وقت کی قربانی کر کے آپ لوگوں کے پاس آتے ہیں.اگر آپ لوگوں کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آتا تب بھی آپ کا فرض ہے کہ ہماری قدر کریں اور ہمارے جذبات اخلاص اور محبت کو اُسی نگاہ سے دیکھیں جس نگاہ کے یہ مستحق ہیں.آب ہماری جماعت کے وہ مبلغ جو اس وقت یہاں موجود ہیں آپ لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح میرے زمانہ میں اسلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آپ نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کہ اُس کے زمانہ میں سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلے گا.بعض مبلغ اس وقت جنگ کی وجہ سے بیرونی ممالک میں قید ہیں اِس لئے اُن کی جگہ بعض دوسرے دوست مختصر طور پر سلسلہ کے حالات بیان کریں گے.اس پر بعض مبلغین سلسلہ نے بتایا کہ مصلح موعود کے مبارک دور میں کس طرح اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچا.آخر میں حضور نے فرمایا.) ابھی بہت سے تبلیغی مشنوں کی رپورٹیں باقی ہیں.چنانچہ چین مشن ، جاپان مشن ، سماٹرا مشن ، جا وامشن ، ملا یا مشن ، سٹریٹ سیٹلمینٹس، بور نیومشن ، سرو با یا مشن ، ایران مشن ، کابل مشن اور اسی طرح بعض دوسرے تبلیغی مشنوں کے حالات سنانے باقی ہیں.مگر چونکہ بہت سے لوگوں نے ساڑھے چھ بجے کی گاڑی سے واپس جانا ہے اس لئے ان مشوں کی تبلیغی رپورٹیں ملتوی کر دی گئی ہیں اور اس کی بجائے میں نے صرف ان مشنوں کے نام سنا دیئے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں ان تمام ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے مشن قائم کروں.چنانچہ ایران میں احمد یہ مشن قائم ہوا ، چین میں احمد یہ مشن قائم ہوا، جاپان میں احمدیہ مشن قائم ہوا، سماٹرا میں احمد یہ مشن قائم ہوا ، جاوا میں احمد یہ مشن قائم ہوا، ملایا میں احمد یہ مشن قائم ہوا ، سٹریٹ سیٹلمینٹس میں احمد یہ مشن قائم ہوا.بور نیو میں احمدیہ مشن قائم ہوا اور اسی طرح ہر اُس ملک میں احمد یہ مشن قائم ہوا جس کے حالات ابھی مختصر طور پر آپ لوگوں کے سامنے بیان کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں اسلام کی تبلیغ ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ ہزار ہا لوگ جو اسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت سے مایوس ہو چکے
انوار العلوم جلد کا ۲۲۵ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں تھے اُن کے دلوں میں پھر یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اسلام دنیا میں پھیل کر رہے گا اور دنیا کا کوئی مذہب اس پر غالب نہیں آ سکتا.بعض ممالک میں ہمارے مبلغین پر بڑی سختی بھی کی گئی مگر ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں ہمارے مبلغین سے بُرا سلوک کیا گیا ہو اور خدا نے اُسے سزا دیئے بغیر چھوڑا ہو.پولینڈ میں جب میں نے اپنے مبلغ کو بھیجا اور اُس نے عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو ترقی دینی شروع کی تو وہاں کی حکومت کو فکر پڑگئی کہ ایسا نہ ہو یہاں کے مسلمان منظم ہو جائیں اور عیسائیت کے لئے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے.وہاں صدیوں سے مسلمان رہتے ہیں مگر بالکل کسمپرسی اور بے کسی کی حالت میں.جب ہمارا مبلغ گیا اور اُس نے تبلیغ کی اور اسلام کی صداقت ثات کرنی شروع کی تو حکومت نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو مسلمان منظم ہو جائیں اور وہ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں چنانچہ اُس نے راتوں رات ہمارے مبلغ کو پکڑا اور اُسے اپنے ملک سے نکال کر زیکوسلواکیہ کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا.اُس نے خیال کیا کہ وہ احمدیت کو اس طرح مٹا سکے گی وہ اسلام کو پولینڈ میں پھیلنے سے روک سکے گی مگر خدا نے اُس حکومت سے بدلہ لیا.ہٹلر نے اس ملک پر فوج کشی کی اور راتوں رات وہاں کی حکومت اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی اور اس طرح خدا نے بتا دیا کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے.دوسرا ملک جہاں ہمارے مبلغ پرسختی کی گئی البانیہ ہے.شاہ زوغو کی حکومت نے بھی سختی سے ہمارے مبلغ کا مقابلہ کیا اور اُسے اپنے ملک سے نکال دیا.مگر پھر وہی بادشاہ جس نے ہمارے مبلغ کو نکالا تھا تاج و تخت سے محروم کر دیا گیا اور اُسے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا.تیسری حکومت جس نے ہمارے مبلغین سے سختی کی افغانستان کی حکومت ہے.امیر امان اللہ خان نے اعلان کیا کہ ان کے ملک میں تبلیغ کی اجازت ہے بلکہ محمودطرزی صاحب سابق وزیر خارجہ حکومت افغانستان نے ہمیں خود لکھا کہ آپ اپنے مبلغ اس علاقہ میں بھجوا دیں انہیں تبلیغ کی مکمل آزادی ہوگی مگر جب میں نے اپنے مبلغ بھجوائے تو حکومت افغانستان نے ملا نوں کے شور سے مرعوب ہو کر ہمارے چار آدمی یکے بعد دیگرے سنگسار کر دیئے تب خدا نے اس حکومت سے بھی بدلہ لیا اور امان اللہ خان جو افغانستان کے تاج و تخت کا مالک تھا خدا نے اُسے ایسی سزا دی کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر بھا گا اور آج تک جلا وطنی میں اپنی زندگی بسر کر رہا ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۲۲۶ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں غرض خدا تعالیٰ کی تازہ تائیدات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور اُس کی نصرت اور تائید اس کے شامل حال ہے اس طرح وہ پیشگوئی جو آج سے ۵۹ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے کی گئی تھی کہ میں تجھے ایک بیٹا عطا کروں گا جو خدا تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہوگا، جو خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہوگا ، جو خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نشان ہو گا ، اُس کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.وہ پیشگوئی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ پوری ہوگئی.آج سینکڑوں ممالک زبانِ حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ میرے زمانہ خلافت میں ہی اسلام کا نام اُن تک پہنچا ، میرے زمانہ خلافت میں ہی احمدیت کے نام سے وہاں کے رہنے والوں کے کان آشنا ہوئے.ایک نہیں، دو نہیں بیسیوں ممالک میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچا اور خدا نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں ایک غریب جماعت کے ذریعہ ان ممالک میں اسلام کا جھنڈا بلند کروں.اسی لاہور شہر میں ایک مشہور اخبار کا ایڈیٹر ہمیشہ اپنے اخبار میں شور مچاتا رہتا ہے کہ احمدیوں کا گروہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے، ایک حقیر اور ذلیل گروہ ہے، زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد ایک لاکھ ہے.یہ ایک لاکھ اگر مسلمانوں سے خارج کر دیئے جائیں تو اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.مگر وہ ایک لاکھ افراد جن کو اسلام اور مسلمانوں سے خارج قرار دے کر اس اخبار کے ایڈیٹر کے نزدیک مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا وہی اور صرف وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے ، وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچا رہا ہے ، وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بڑی مضبوطی سے گاڑ رہا ہے.یہ ایک مٹھی بھر جماعت ہے مگر اس مٹھی بھر جماعت نے دنیا میں جس قدر تبلیغی مشن قائم کر کے دکھائے ہیں ان سے آدھے مشن ہی کروڑوں مسلمان کہلانے والے ہمیں دنیا میں دکھا دیں جو اُنہوں نے قائم کئے ہوں.وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ شرک کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ، وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ عیسائیت کو چھوڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ دین اسلام
انوار العلوم جلد کا ۲۲۷ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میں شامل ہوئے اُن کے مقابلہ میں مسلمان ہمیں نصف ہی ایسے لوگ دکھا دیں جنہوں نے ان کے ہاتھ پر شرک اور کفر سے توبہ کی ہو ، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام اور قرآن کی صداقت کا اعتراف کیا ہو.پھر میرے ذریعہ بیرونی ممالک میں صرف احمد یہ مشن ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں میرے زمانہ خلافت میں خود بخو داحمدیت کا نام پہنچ گیا اور خدا تعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ایسے ممالک میں جن کا ہمیں علم تک نہیں تھا تبلیغ کے رستے کھل گئے اور وہاں کے رہنے والے آپ ہی آپ ہمارے سلسلہ میں شامل ہو گئے.چنانچہ سعد پاشا جو گردوں کے لیڈر تھے اُنہوں نے ایک بیان میں اقرار کیا کہ میں احمدی ہوں حالانکہ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ وہ احمدیت اختیار کر چکے ہیں.گر د قوم نے مصطفیٰ کمال کے زمانہ میں ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی جس کے نتیجہ کے طور پر جنرل سعد پاشا جو کر د قوم کے لیڈر تھے گرفتار کر لئے گئے اور اُن کا کورٹ مارشل کیا گیا ہے.اُنہوں نے گرفتاری کے بعد جو بیان دیا وہ ترکی اخبارات میں شائع ہوا اور وہاں سے بعض مصری اخبارات نے نقل کیا جس سے ہمیں اُن کے حالات کا پتہ مل گیا.اُن سے پوچھا گیا کہ ترکی حکومت جو اسلامی حکومت ہے اُس کے خلاف اُنہوں نے کیوں بغاوت کی ؟ کر دلیڈر نے جواب دیا کہ گومیری قوم سیاستاً ترکوں سے الگ ہونا چاہتی تھی مگر مجھے سیاسیات سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ بعض مذہبی رسائل پڑھ کر میں دل سے جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکا تھا جس کا مرکز قادیان ہے اور میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب قادیان چلا جاؤں گا اور اپنی بقیہ عمر اسی جگہ گزار دوں گا کیونکہ مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ اسلام کی آئندہ فتح تلوار سے نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوگی پس میں چاہتا تھا کہ اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کردوں اور اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے قادیان چلا جاؤں.اسی دوران میں میں نے چند ترک سپاہیوں کو دیکھا کہ وہ گر دلڑکیوں کی ہتک کر رہے ہیں.میں نے انہیں سمجھایا کہ ایسا مت کرو.اِس پر اُن میں سے ایک نے مجھے مارا.یہ دیکھ کر مجھے جوش آ گیا اور میں نے اپنا پستول نکال کر اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا.ایسی صورت میں مجبور ہو کر مجھے باغیوں سے ملنا پڑا اور اُنہوں نے مجھے اپنا لیڈر بنالیا.
انوار العلوم جلد کا ۲۲۸ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اب دیکھو ایک قوم کا لیڈ ر احمدی ہو گیا مگر ہمیں اس کے احمدی ہونے کا کوئی علم نہ تھا اور نہ ہمارے اختیار میں تھا کہ ہم اُسے احمدی بنا سکتے.خدا نے خود اُس کا دل کھولا اور اُسے احمدیت کا شیدا بنا دیا.اسی طرح ترکی پارلیمنٹ کا ایک ممبر ذکر کرتا ہے کہ میں ایک دفعہ چین میں گیا اور وہاں میں نے چین کے ایک شہر کا فٹن میں ایک مسجد کے سامنے چندلوگوں کو جھگڑتے دیکھا.میں نے دریافت کیا کہ وہ کیوں جھگڑ رہے ہیں؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت ہے جو ہندوستان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہندوستان کے ایک شہر میں خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح اور مہدی کو بھیج دیا ہے اور ہم اُس کو ماننے والے ہیں.یہ جماعت دوسرے مسلمانوں سے جامع مسجد کے متعلق جھگڑ رہی تھی.احمد یہ جماعت کے افراد کہتے تھے کہ یہ مسجد ہماری ہے اور دوسرے مسلمان کہتے تھے کہ یہ مسجد ہماری ہے.اب دیکھو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ وہاں احمد یہ جماعت قائم ہے مگر ترکی پارلیمنٹ کا وہ ممبر اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ نہ صرف وہاں جماعت موجود ہے بلکہ اتنی بڑی جماعت موجود ہے کہ وہ ایک مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے مسلمانوں سے جھگڑتی اور اپنا حق دوسروں سے فائق سمجھتی ہے.غرض خدا تعالیٰ نے ایسے غیب سے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ ہماری جماعت آپ ہی آپ مختلف ممالک میں پھیلتی جارہی ہے اور وہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ یہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی اور چونکہ اکثر علامات جو اس بیٹے کی بتائی گئی تھیں وہ سالہا سال سے پوری ہو رہی تھیں اس لئے جماعت ہمیشہ مجھے یہ کہا کرتی تھی کہ مصلح موعود آپ ہی ہیں.مگر میں نے اس امر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور میں نے کہا جب تک خدا مجھے آپ یہ اطلاع نہ دے کہ میں اس پیشگوئی کا مصداق ہوں اُس وقت تک میرا اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دے کر دعویٰ کرنا درست نہیں ہو سکتا.یہی حالت ایک لمبے عرصہ تک رہی یہاں تک کہ اس سال کے شروع میں ۵ اور ۶ جنوری کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ بتایا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۲۹ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں میں ذکر کیا گیا تھا اور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی ، میرے ذریعہ ہی شرک کو مٹایا جائے گا اور میرے ذریعہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.خصوصاً مغربی ممالک جہاں تو حید کا نام مٹ چکا ہے وہاں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ تو حید کو بلند کرے گا اور شرک اور کفر کو ہمیشہ کیلئے مٹا دیا جائے گا.تب جبکہ خدا نے مجھے یہ خبر دیدی میں نے اس کا دنیا میں اعلان کرنا شروع کر دیا.چنانچہ آج میں اس جلسہ میں اُسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بیچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳ ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی.پس یہ جلسہ اس غرض کیلئے کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ عظیم الشان پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں فرمائی تھی پوری ہوگئی.اس پیشگوئی کی صداقت پر وہ لاکھوں لوگ گواہ ہیں جو میرے ذریعہ اسلام پر قائم ہوئے ، جو میرے ذریعے توحید پر قائم ہوے، جو میرے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے والہ وشیدا بنے.عیسائی اس بات کے گواہ رہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، آریہ اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، مسلمان اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.آج سے اُنسٹھ سال پہلے خدائے علیم وخبیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہوگا اور وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، انگلستان اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، پین اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، اٹلی اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، برلن اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری گئی ، ہنگری اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، البانیہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، یوگوسلاویہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، پولینڈ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، زیکوسلواکیہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی
انوار العلوم جلد کا ۲۳۰ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں پوری ہوگئی ، شمالی امریکہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، جنوبی امریکہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، سیرالیون اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، گولڈ کوسٹ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، نائیجیر یا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، مصر اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، کینیا کا لونی اِس بات پر گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، یوگنڈا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، زنجبار اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، ٹانگانیکا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، سیلون اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، ماریشس اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ،فلسطین اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، شام اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، روس اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، چین اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، جاپان اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ،سماٹرا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، جاوا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، ملایا اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، بور نیو اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، ایران اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، کا بل اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ، ہندوستان کا گوشہ گوشہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس میں یہ طاقت ہو کہ وہ دلوں کو فتح کر سکے ، دنیا میں کون ایسا انسان ہے جولوگوں کو اس عظیم الشان قربانی پر آمادہ کر سکے.یہ خدا تعالیٰ کا ہی ہاتھ تھا جس نے دنیا میں اس قدر تغیرات پیدا کئے ، یہ خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے لوگوں کے دلوں کو کھینچا اور انہیں اسلام کے لئے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرنے کے لئے آمادہ کر دیا.چنانچہ ایک طرف اگر خدا نے یہ خبر دی کہ وہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کرے گا تو دوسری طرف اس نے ایک غریب جماعت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وہ ایمان پیدا کر دیا جس کی مثال آج روئے زمین پر اور کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی.ابھی ایک خطبہ جمعہ میں میں نے جماعت کے سامنے اعلان کیا کہ اسلام اس وقت تم سے خاص قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے تم اگر خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی تمام جائداد میں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دو تا کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۱ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں جب بھی اسلام پر کفر کا حملہ ہو ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے یہ پریشانی نہ ہو کہ ہم روپیہ کہاں سے لائیں بلکہ ہر وقت ہمارے پاس جائدادیں موجود ہوں جن کو فروخت کر کے یا گرو رکھ کر ہم اسلام کی تبلیغ آسانی سے کر سکیں.ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے، ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر جمعہ کے دن دو بجے میں نے یہ اعلان کیا اور ابھی رات کے دس نہیں بجے تھے کہ چالیس لاکھ روپیہ سے زیادہ کی جائدادیں انہوں نے میری آواز پر خدمت اسلام کیلئے وقف کر دیں.جن میں سے پانچ سو سے زیادہ مربعہ زمین ہے اور ایک سو سے زیادہ مکان ہیں اور لاکھوں روپیہ کے وعدے ہیں.یہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت کے نشانات ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جن کے بعد کوئی از لی شقی ہی خدا تعالیٰ کے اس نور کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے.میں نے اس سے پہلے جس قدر مبلغ دنیا میں بھجوائے وہ قریباً سب کے سب اناڑی تھے کوئی کالج میں سے نکلا تو میں نے اُس سے کہا کہ خدا کے دین کے لئے آج مبلغوں کی ضرورت ہے کیا تم اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہو؟ اور میرے کہنے پر وہ تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہوا.یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اُس وقت لڑکے ہی تھے.میں نے ان سے کہا کیا تم روس جاؤ گے؟ انہوں نے کہا میں جانے کے لئے تیار ہوں.میں نے کہا جاؤ گے تو پاسپورٹ نہیں ملے گا.کہنے لگے بے شک نہ ملے میں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے جاؤں گا.آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دیئے ہیں.خدا نے مجھے وہ تلوار میں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں ، خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں، میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں، میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں گو د جانے کا حکم دوں تو وہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۲ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں جلتے تنوروں میں گو دکر دکھا دیں.اگر خود کشی حرام نہ ہوتی ، اگر خود کشی اسلام میں نا جائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا.خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کے لئے کھڑا کیا ہے، خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے.دنیا ما یوس ہو چکی تھی اسلام کی ترقی سے، دنیا کہہ رہی تھی کہ اسلام اب دنیا پر غالب نہیں آ سکتا.تب خدا نے میرے ہاتھ سے ان اناڑی لوگوں کو دنیا میں بھجوایا اور انہوں نے ہزاروں افراد کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا دیا مگر یہ پہلی فوج اناڑیوں کی تھی.اب با قاعدہ ایک تعلیم یافتہ گروہ اس غرض کے لئے تیار ہو رہا ہے جس نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے.ان میں سے اکثر گریجوایٹ ہیں اور ان کی تعداد ۲۵ کے قریب ہے.مگر میرا ارادہ ان کو ایک سو تک پہنچانے کا ہے.ان لوگوں کو تمام دینی علوم پڑھائے جائیں گے اور پھر جنگ کے بعد ان کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا دیا جائے گا.ان کے اخراجات اور تبلیغی ضرورتوں کیلئے میں نے ایک فنڈ جاری کیا ہوا ہے جس کا نام تحریک جدید ہے اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک اعلیٰ درجہ کی چار سو مربع زمین خریدی جاچکی ہے اور آئندہ کے لئے سکیم یہ ہے کہ اس فنڈ کی آمد سے ہی تمام اخراجات پورے کئے جائیں گے.غرض کام ہو رہا ہے اور وہ دن رات محنت کر کے دینی تعلیم کو مکمل کر رہے ہیں گویا پہلے اناڑیوں کی فوج تھی مگر اب باقاعدہ تعلیم یافتہ لوگوں کی فوج تیار ہو رہی ہے جن کو جنگ کے بعد دنیا کے کناروں تک پھیلا دیا جائے گا اور وہ دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں اسلام اور قرآن کی تبلیغ کریں گے.جہاں آج خدائے واحد کا نام بھی نہیں لیا جاتا وہاں تھوڑے دنوں تک ہی تم دیکھ لو گے ان علاقوں کے کونے کونے سے یہ آواز اُٹھتی سنائی دے گی کہ اَشْهَدُ اَنْ لا إِله إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ قوموں نے ہماری مخالفت کی ، ملکوں نے ہماری مخالفت کی حکومتوں نے ہماری مخالفت کی مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا اور جس کے ساتھ خدا ہو اُسے نہ حکومتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، نہ سلطنتیں نقصان پہچا سکتی ہیں ، نہ بادشاہتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں.پس اے اہل لاہور ! میں تم کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۳ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں خدا کا پیغام پہنچا تا ہوں.میں تمہیں اُس ازلی ابدی خدا کی طرف بلاتا ہوں جس نے تم سب کو پیدا کیا.تم مت سمجھو کہ اس وقت میں بول رہا ہوں.اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے.میرے سامنے دین اسلام کے خلاف جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے گا اُس کی آواز کو دبا دیا جائے گا، جو شخص میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ ذلیل کیا جائے گا ، وہ رُسوا کیا جائے گا، وہ تباہ اور برباد کیا جائے گا مگر خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اور اس کی تائید کے لئے ایک عظیم الشان بنیا د قائم کر دے گا.میں ایک انسان ہوں میں آج بھی مرسکتا ہوں اور گل بھی مر سکتا ہوں لیکن یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میں اس مقصد میں نا کام رہوں جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے.میں ابھی سترہ اٹھارہ سال کا ہی تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - اے محمود ! میں اپنی ذات کی ہی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یقیناً جو تیرے متبع ہوں گے وہ قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے.یہ خدا کا وعدہ ہے جو اُس نے میرے ساتھ کیا.میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بے شک دو دن بھی زندہ نہ رہوں مگر یہ وعدہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا جو خدا نے میرے ساتھ کیا کہ وہ میرے ذریعہ سے اشاعت اسلام کی ایک مستحکم بنیاد قائم کرے گا اور میرے ماننے والے قیامت تک میرے منکرین پر غالب رہیں گے.اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ اسلام مغلوب ہو گیا ، اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ میرے ماننے والوں پر میرے انکار کرنے والے غالب آ گئے تو بے شک تم سمجھ لو کہ میں ایک مفتری تھا لیکن اگر یہ خبر سچی نکلی تو تم خود سوچ لو تمہارا کیا انجام ہوگا کہ تم نے خدا کی آواز میری زبان سے سنی اور پھر بھی اُسے قبول نہ کیا.ال عمران ۵۴ ۳،۲ آل عمران: ۹ ( الفضل ۱۸ رفروری ۱۹۵۸ء) البقرة: ۲۰۲ ٢،٥ البقرة: ۲۸۷ ك آل عمران: ۱۴۸ آل عمران: ۱۹۴ آل عمران: ۱۹۵ البقرة: ۱٣٧ ا آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۹۶ روحانی خزائن جلد ۵
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۴ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں ۱۲ تذکرہ صفحہ ۱۰.ایڈیشن چہارم اشاعة السنة جلد ۱۳ نمبرا ۱۸۹۰ ء صفحه ۴ منڈ وہ: تھیٹر ، تماشا گاہ ، پنڈال ۱۵ سٹریٹ سیٹلمنٹس( STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ سے مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۷ء) ١٦ الفاتحة: ۵ كام الفاتحة: 2 ۱۸، ۱۹ ترمذی ابواب تفسير القرآن باب ومن سورة فاتحة الكتاب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۵ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیه اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۲۳۶ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات پر تقریر ( تقریر فرموده ۱۷ / مارچ ۱۹۴۴ء) اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص کو اپنے قریب کی چیزوں کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور جو چیز بعید ہوتی ہے اُس کا احساس اس کو کم ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو صحابہ کرام کے لئے وہ ایک موت کا دن تھا مگر جب حضرت ابو بکر فوت ہوئے تو وہ تابعین جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا تھے اور اسلام حضرت ابو بکڑ سے ہی سیکھا تھا اُن کو اس وفات کا شدید ترین صدمہ ہوا ویسا ہی صدمہ جیسا کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ہوا تھا.اسی طرح ایک کے بعد ایک زمانہ کے لوگ گزرتے چلے گئے اور جب سارے گزر گئے تو کسی وقت عالم اسلامی کے لئے حسن بصری یا جنید بغدادی کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی جیسی صحابہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مگر یہ احساس نتیجہ تھا اس بات کا کہ حسن بصری اور جنید بغدادی جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شاذ پیدا ہوتے تھے.اگر ساری اُمت ہی حسن اور جنید ہوتی تو وہ در داور وہ چُبھن جو ان بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں یوں بلند نہ ہوتیں.بدقسمتی سے اکثر لوگ رونا بھی جانتے ہیں، اظہار غم کرنا بھی جانتے ہیں مگر اکثر لوگ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنا نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حزن وغم کی چادر پڑی رہتی ہے.اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگے ہوتے تو دنیا کا عرفان اور علم ایسے بلند معیار پر آ جاتا کہ کسی قابل قدر، خادمِ اسلام کی وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۷ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر کریں گے، یہ کبھی نہ ہوتا.میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے.در حقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو تھا، رات دن قرآن اور حدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا.وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بارموت کے منہ سے بچے.جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار اُن پر نمونیا کا حملہ ہوا.ایسے شخص کی وفات پر طبعا لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا.جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے تو کسی کارکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کر رہے ہیں.عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا.موت کا رنج تو لازمی بات ہے مگر یہ رنج مایوسی پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر شخص ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اُس نے وقت پر چاروں کونوں کو سنبھال لیا تھا.احباب کی اس غلطی کی وجہ سے کہ ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد نمائندہ تصور نہ کیا اور اس کے لئے کوشش نہ کی آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا نقصان ہے کہ نظر آ رہا ہے اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس طرز کے آدمی تھے.ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے اور تیسرے اس رنگ میں میر صاحب رنگین تھے.اور ان کی وفات کا بڑا صدمہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان جیسے اور لوگ جماعت میں موجود نہیں ہیں اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بے شک ان کی وفات کا صدمہ ہوتا ویسا ہی صدمہ جیسا ایک عزیز کی وفات کا ہوتا ہے مگر جماعتی پہلو محفوظ ہوتا اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہو گیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا اُس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں ، جماعت کے لوگ مایوس نہ ہوتے اور وہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائم مقام موجود ہیں.مگر قحط الرجال ایسی چیز ہے کہ جولوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا اور دشمن بھی کہتا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی اب اس کا کام چلانے والا کوئی نہیں.لیکن اگر ایک کے بعد کام کرنے والے کئی
انوار العلوم جلد کا ۲۳۸ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع مل سکتا ہے.پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے بر وقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں.لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے ہم نے دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے ہزار ہا علماء درکار ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت اتنی بڑھ رہی ہے کہ آٹھ دس علماء تو ہر وقت ایسے چاہئیں جو مرکز میں رہیں اور مختلف مساجد میں قرآن وحدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس با قاعده جاری رہے اور اس طرح نظر آئے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں زندہ موجود ہیں.اب کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود خلیفہ اسے نہیں سنبھال سکتا.اگر قرآن کریم کا درس ہم میں جاری رہے تو گویا کہ زندہ خدا ہم میں موجود ہو گا.اگر حدیث کا درس جاری رہے تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں زندہ ہوں گے ، اگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درس جاری رہے تو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں زندہ ہوں گے و یہ کتنی بڑی غفلت ہے جو جماعت سے ہوئی.میں تو اس کا خیال کر کے بھی کانپ جاتا ہوں کتنے تھوڑے لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یادگار تھے اور اب تو وہ اور بھی بہت کم رہ گئے ہیں.اگر ان کے مرنے سے پہلے پہلے جماعت نے اس کمی کو پورا نہ کیا تو اس نقصان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا جو جماعت کو پہنچے گا.ذرا غور کرو ہمارے سامنے کتنا بڑا کام ہے اور کتنی بڑی کوتا ہی ہے جو جماعت سے ہوئی.پس اب بھی سنبھلو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد گار لوگ اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور شاید تھوڑے ہی دن ہیں.پھر میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کہ میری عمر کتنی ہوگی اور اعلان مصلح موعود کی پیشگوئی پوری ہونے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جتنا کام لینا ہو لے لیا ہو.پس یہ بڑے خطرات کے دن ہیں اس لئے سنبھلو، اپنے نفسوں سے دنیا کی محبتوں کو سرد کر دو اور دین کی خدمت کے لئے آگے آؤ اور ان لوگوں کے علوم کے وارث بنو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی تا تم آئندہ نسلوں کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۳۹ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر سنبھال سکو.تم لوگ تھوڑے تھے اور تمہارے لئے تھوڑے مدرس کافی تھے مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور ان کے لئے بہت زیادہ مدرس درکار ہیں.پس اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے.جو شخص یہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں وہ کبھی خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ کی نصرت اُسی کو ملتی ہے جو اس کا نام لے کر سمندر میں کود پڑتا ہے چاہے موتی اُس کے ہاتھ میں آجائے اور چاہے وہ مچھلیوں کی غذا بن جائے.پس مومن کا کام عرفان کے سمندر میں غوطہ لگا دینا ہے وہ اس بات سے بے پروا ہوتا ہے کہ اُسے موتی ملتے ہیں یا وہ مچھلیوں کی غذا بنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو تا اللہ تعالیٰ دلوں سے گھبراہٹ دور کر دے اور بشارات دیگر دلوں کو مضبوط کر دے.پس آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں خصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی جائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلاء مقدر ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹال دے اور اگر تمہارا خیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کر دے اور اپنے فضل سے ایسی سچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ ٹھوکر سے بچ جائیں.پس خوب دعا ئیں کرو اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے.خصوصاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بہت دعائیں کریں ( حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض صحابہ کے نام بھی لئے ) وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا اور انہیں موقع ملا کہ وہ حضور علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہے خاص طور پر میرے مخاطب ہیں وہ آج رات بھی اور آئندہ بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے واقعات اور ابتلاؤں سے بچائے جو کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیں اور جن سے افسردگی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور ان دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہئے بلکہ دلوں میں ایسا عزم صمیم ہونا چاہئے کہ جس کے ماتحت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر سکیں.پس خوب دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کمزور لوگوں کو ٹھوکر سے بچائے اور ایسی بشارات دے کہ جو دلوں کو مضبوط کر دیں اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴۰ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات پر تقریر اطمینان پیدا کریں ایسا اطمینان کہ جو پھر کبھی نہ چھینا جائے اور جماعت کو کوئی ایسا نقصان نہ ہو جو ارادوں کو پست کرنے اور ہمتوں کو توڑنے والا ہو.اور اللہ تعالیٰ دلوں میں ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے بڑھیں.اور ایسی روح پیدا ہو کہ ہم اور ہماری اولادیں اللہ تعالیٰ کے نور پر اس طرح فدا ہونے کیلئے تیار ہو جائیں کہ جس طرح برسات کی رات پروانے شمع پر قربان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قرآن کے نور کی شعاعیں ہمارے دلوں پر ڈالے اور اُس نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں انہیں اپنے فضل سے پورا فرمائے ، ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے ، ہمارے دلوں کو ڈھارس دے، ہمیں اور ہماری اولادوں کو اپنی پسندیدہ راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے حتی کہ ہم اُس کے ہی ہو جائیں اور کوئی چیز ہمارے اور اُس کے درمیان روک نہ ہو اور کوئی چیز اُس کو ہم سے جدا کرنے والی نہ ہو وہ ہمارا اور ہمارا اور ہمارا ہی ہو جائے اور ہم بھی اُس کے اور اُس کے اور صرف اُسی کے ہو جائیں.آمین (الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء )
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴۱ اہالیانِ لدھیانہ سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی اہالیان لدھیانہ سے خطاب
انوار العلوم جلد ۷ ۲۴۲ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اہالیانِ لدھیانہ سے خطاب ( تقریر فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۴۴ء بمقام لدھیانہ ) تشهد ، تعوّذ ، سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کی بعض ادعیہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - میں آج اس جگہ اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آج سے ۵۵ سال پہلے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبروں اور اُس کے ارشاد فرمائے ہوئے حکم کے ماتحت اس شہر لدھیانہ میں ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے بیعت لی تھی اور اس بیعت کے وقت صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لانے والے تھے.یہ ساری کی ساری پونجی تھی جسے لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی فتح کیلئے کھڑے ہوئے تھے باقی تمام دنیا ہندو، عیسائی ،سکھ ، ہندوستانی ، ایرانی، عرب، چین اور برطانیہ وغیرہ سب کے سب آپ کے مخالف تھے اور آپ کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے مگر ان مخالفتوں کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو بتایا کہ: وو دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“ لے اس اعلان کے بعد باوجو د شدید مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ کو بڑھانا شروع کیا مگر اس وقت میں جس چیز کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بیعت سے بھی قبل یعنی ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد.ایم.اے جو لدھیانہ ہی کے باشندے ہیں ابھی آپ کو بتا چکے ہیں اپنے تین خدام کے
انوار العلوم جلد کا ۲۴۳ اہالیان لدھیانہ سے خطاب ساتھ دعائیں کرنے کے لئے ہوشیار پور تشریف لے گئے تا کہ جو لوگ مطالبہ کرتے تھے کہ ایسے نشان دکھائے جائیں جو اسلام کی صداقت کی علامت ہوں اور جن سے یہ یقین ہو سکے کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور اپنے بندوں پر غیب ظاہر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر کرے اور وہاں ایک مکان میں ٹھہرے جو اُس وقت شیخ مہر علی صاحب کا طویلہ کہلاتا تھا اور اب وہاں لالہ ہرکشن لال صاحب بینکر کا مکان ہے.یہ مکان اُس وقت شہر سے باہر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش بھی یہی تھی کہ شہر سے باہر رہیں تا کہ علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی عبادت کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں چالیس روز دعا کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے.اس دوران میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بعض الہامات ہوئے.ان الہاموں میں سب سے لمبا اور واضح الہام جسے قدرت، رحمت اور فضل کا نشان قرار دیا گیا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ قریب عرصہ میں ہی اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکا دے گا جو تین کو چار کرنے والا ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل نازل ہوں گے.اس الہام میں اس لڑکے کی ساٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کا خدا عالم الغیب اور تمام قدرتوں کا مالک خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے اور دنیا کا کوئی قانون اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر ۵۲ سال کی تھی اور اس سے قبل آپ پر بعض امراض کے شدید حملے ہو چکے تھے جن کی وجہ سے آپ بہت کمزور تھے.حتی کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب جو اُس وقت دیو بند کے طالب علم تھے بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے آپ کو دیکھا تو اپنے ایک دوست سے کہا کہ ان کے دعوے پر غور کرنے کی ضرورت نہیں یہ زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ میں فوت ہو جائیں گے.غرض ایسی حالت میں جبکہ ستر فیصد لوگوں کے ہاں اولاد کا ہونا بند ہو جاتا ہے اور صرف تمہیں فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں اولاد ہو سکتی ہے اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کی صحت سخت کمزور تھی آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ آپ کے ہاں اولا د پیدا ہوگی اور ایک سے زیادہ بچے پیدا ہوں گے اور آپ کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا بعض خاص خصوصیات کا حامل ہوگا جو اس الہام میں
انوار العلوم جلد کا ۲۴۴ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بالتفصیل بیان کی گئی ہیں.اس پیشگوئی پر مختلف اعتراض کئے گئے اور کہا گیا کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں لوگوں کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود ہے علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا کہ اوّل تو اس عمر میں انسان موت کے قریب ہوتا ۵۵ سال کی عمر میں گورنمنٹ بھی پنشن دے دیتی ہے گویا وہ یہ مجھتی ہے کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا.ہمارے ملک میں اوسطاً عمر ۲۶ سال ہے اور آپ گویا اُس وقت اس سے دُگنی عمر پاچکے تھے.ایسی عمر میں گو اولاد کا ہونا نا ممکن نہیں مگر ستر فیصدی لوگوں کے ہاں نہیں ہوتی مگر آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ آپ کے ہاں اولاد ہو گی ، پھر اگر اولا د ہو بھی تو کون سا قانون ہے جس کے ماتحت کوئی یہ دعوی کر سکے کہ وہ زندہ بھی ضرور رہے گی ، پھر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک اس کے ہاں اولا د ہوتی رہے گی ، کئی بچے زندہ رہیں گے اور بعض کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور پھر اس اولاد میں سے ایک لڑکا ایسا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا خاص طور پر وارث ہو گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان ہوگا.دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس قسم کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی جھوٹ بولے تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھا دے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولو اور اگر کوئی کہہ بھی دے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شریر اور جھوٹے آدمی کی اولاد ایسی نہ ہو.ابو جہل کے لڑکے عکرمہ کی مثال ہمارے سامنے ہے اُنہوں نے شہادت کا درجہ پایا.پس اگر کوئی شخص اپنی اولا دکو نصیحت بھی کر دے کہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرو تو کیا یہ ممکن نہیں کہ لڑکوں میں ایسا شعور، نیکی اور تقویٰ ہو کہ وہ کہہ دیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں.رسول کریم ﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ لایا گیا ہے اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کے لئے ہے.یہ خواب دیکھ کر آپ گھبرا کر اُٹھ بیٹھے مگر در حقیقت اس کی تعبیر یہ تھی کہ اس کے لڑکے عکرمہ کو جنت ملے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا تے اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے لڑکے کو ایسا نیک کیا کہ اس نے دین کے لئے شاندار قربانیاں کیں.ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا.عیسائی تیرانداز تاک تاک کر مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر مارتے تھے اور صحابہ شہید ہوتے جاتے تھے.عکرمہ نے کہا مجھ سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴۵ اہالیان لدھیانہ سے خطاب یہ نہیں دیکھا جاتا اور اپنی فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان پر حملہ کروں اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لے کر دشمن کے لشکر کے قلب پر حملہ کر دیا.اور ایسا شدید حملہ کیا کہ اُس کے کمانڈر کو جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا جس سے دشمن کے لشکر میں بھی بھگدڑ مچ گئی.یہ جانباز ایسی بہادری سے لڑے کہ جب اسلامی لشکر وہاں پہنچا تو تمام کے تمام یا تو شہید ہو چکے تھے یا سخت زخمی پڑے تھے.حضرت عکرمہ بھی سخت زخمی تھے.ایک افسر پانی لے کر زخمیوں کے پاس آیا اور اُس نے پہلے عکرمہ کو پانی دینا چاہا مگر آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیل بن عمر پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں.آپ نے اُس افسر سے کہا کہ پہلے سہیل کو پانی پلاؤ پھر میں پیوں گا.میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا بھائی پیاس کی حالت میں پاس پڑا رہے اور میں پانی پی لوں.وہ سہیل کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اُن کے پاس حارث بن ہشام زخمی پڑے تھے.سہیل نے کہا پہلے حارث کو پلاؤ.وہ حارث کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے.پھر وہ واپس سہیل کے پاس آیا تو وہ بھی وفات پاچکے تھے اور جب وہ مکرمہ کے پاس پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی.سے تو یہ مکرمہ ابو جہل کے لڑکے تھے.پس اگر کوئی شخص شریر ہو، بے دین اور جھوٹا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کا بیٹا بھی ضرور اُس جیسا ہوگا.مگر خدا تعالیٰ کے کلام میں ایسی شہادتیں ہوتی ہیں جو اس کی صداقت کو واضح کر دیتی ہیں اور جس میں شہادت نہ ہو وہ ماننے کے قابل ہی نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی میں بھی دوسری پیشگوئیوں کی طرح بہت سی شہادتیں موجود ہیں.آپ نے ایسے وقت میں جب قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے یہ پیشگوئی فرمائی.قادیان کے کئی بوڑھے لوگوں نے سُنایا ہے کہ ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے.ہم سمجھا کرتے تھے کہ غلام مرتضی صاحب کا ایک ہی لڑکا مرزا غلام قادر ہے.تو ایسا شخص جو خود گمنام ہو جسے اُس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اولا د دے گا جو زندہ بھی رہے گی اور اُس کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ایسا ہو گا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اُس کے ذریعہ اس کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گی.کون ہے جو اپنے پاس سے ایسی بات کہہ سکے.پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس کے یہ معنی بھی تھے کہ وہ اس پیشگوئی سے چوتھے سال میں پیدا ہو گا چنانچہ آپ
انوار العلوم جلد کا ۲۴۶ اہالیان لدھیانہ سے خطاب نے یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء میں کی اور میری پیدائش ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ہماری جماعت میں بھی اور باہر بھی بہت چرچا ہے اور عموماً یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکا کون ہے؟ پیشگوئی میں اُس لڑکے کا نام محمود بھی بتایا گیا تھا اس لئے بطور تفاؤل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرا نام محمود بھی رکھا اور چونکہ اُس کا نام بشیر ثانی بھی تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا.جہاں تک اولاد ہونے اور اُس کے زندہ رہنے کا تعلق تھا یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور ایک بیٹے کا نام محمو د ر کھنے کی بھی توفیق آپ کو ملی.مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ یہ پیشگوئی کس لڑکے کے متعلق ہے چنانچہ آج میں یہی بتانے کے لئے لدھیانہ میں آیا ہوں.لدھیانہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کئی رنگ میں تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی بیعت اسی شہر میں لی.آپ کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے اور اُن کی شادی لدھیانہ میں ہی حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں ہوئی تھی اور اس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس بیوی کے بطن سے پیدا ہوا جولدھیانہ میں بھی رہی ہیں.مجھے یاد ہے بچپن میں کچھ عرصہ میں بھی یہاں رہا ہوں.میں اُس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اُس زمانہ کی یاد نہیں ہیں کیونکہ اُس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے سر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی.میں اپنے مکان سے باہر آیا تو ایک چھوٹا سا لڑ کا دوسری طرف سے آ رہا تھا.اُس نے میرے پاس آکر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی.میں اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہوا گھر کی طرف بھاگا.اُس بازار کا نقشہ مجھے یاد ہے وہ سیدھا بازار تھا گو اب میں نہیں جانتا کہ وہ کونسا تھا.ہمارا مکان ایک سرے پر تھا تو میں نے کئی ماہ اپنے بچپن کی عمر کے یہاں گزارے ہیں.پس اس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کے دعوئی کا اعلان یہاں سے کیا ، پہلی بیعت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴۷ اہالیان لدھیانہ سے خطاب یہاں سے شروع فرمائی ، حضرت خلیفہ اول کی شادی یہاں ہوئی اور پھر اُن کی اُس بیوی سے جو اس شہر کی ہیں ایک لڑکی تھیں جن کے ساتھ میری شادی ہوئی ، پھر میں نے بچپن کا کچھ زمانہ یہاں گزارا، ان باتوں کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اعلان بھی اِس شہر میں کروں.میں اب اس شہر میں سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ بعض لوگ ایک جلوس بنا کر جا رہے تھے اور کہتے تھے مرزا مر گیا، مرزا مر گیا.لیکن ہمیں ان باتوں کی پرواہ نہیں کہ ہمارا یہ جلسہ ان لوگوں کی ناراضگی کا باعث ہوا ہے.ہم نے ہوشیار پور میں بھی ایسا ہی جلسہ کیا تھا مگر وہاں کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی ، پھر لاہور میں پندرہ ہزار کے مجمع میں میں نے تقریر کی وہاں بھی کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی ، مجھے کئی دفعہ یہ خیال آتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے اُن کی مخالفت لوگ ضرور کرتے ہیں معلوم نہیں میرے اس اعلان کے بعد کہ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اب تک کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی.سوخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج لدھیانہ میں یہ مخالفت بھی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے قانون اور انبیاء کی سنت کے مطابق لدھیانہ کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی باتوں پر استہزاء کیا.وہ ایک دائمی حیات پانے والے انسان کے متعلق کہہ رہے تھے کہ مر گیا مگر ہم اِن لوگوں سے ناراض نہیں ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی باتوں سے استہزاء کیا.ہم ان کیلئے بھی دعا ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا ! اِن لوگوں نے جو کچھ کیا نادانی سے کیا ، نا واقعی سے کیا ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے استہزاء کیا مگر اے خدا! تو ان کو معاف کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کے قلوب کو سچ کے قبول کرنے کے لئے کھول دے اور جس طرح آج میں نے ان کو دین کے ساتھ استہزاء کرتے دیکھا ہے میں اپنی آنکھوں سے ان کو دین کے لئے قربانیاں کرنے کی غرض سے آگے بڑھتا ہوا دیکھوں.انہوں نے آج اس بات پر استہزاء کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس پر استہزاء کا اب تک نہ ہونا مجھے حیران کر رہا تھا.سو اللہ تعالیٰ نے آج میری یہ خواہش بھی ان لوگوں کے ذریعہ پوری کر دی کیونکہ انہوں نے خوب مخالفت کی اور ہنسی اُڑائی.اس قسم کا سلوک اب تک کسی اور شہر میں ہمارے ساتھ نہیں ہوا تھا.سو میں ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے میری اس خواہش کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ اِن کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۴۸ اہالیان لدھیانہ سے خطاب اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے، ان کو ہدایت دے اور ایمان بخشے.اس وقت اس جلسہ میں لدھیانہ کے لوگ غالباً بہت کم ہوں گے، زیادہ تر بیرونی لوگ ہیں لیکن اگر یہاں ایک بھی لدھیانہ کا شخص ہے تو میں اُس کے ذریعہ اہل لدھیانہ کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اے لدھیانہ کے لوگو! تم نے میری مخالفت کی اور میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.تم نے میری موت کی خواہش کی مگر میں تمہاری زندگی کا خواہاں ہوں کیونکہ میرے سامنے میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہے.آپ جب طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو شہر کے لوگوں نے آپ کو پتھر مارے اور لہولہان کر کے شہر سے نکال دیا.آپ زخمی ہو کر واپس آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا اگر آپ فرما ئیں تو اس شہر کو اُلٹا کر رکھ دوں.مگر میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ماں باپ، میری جان ، میرے جسم اور میری روح کا ذرہ ذرہ آپ پر قربان ہو، فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے.یہ لوگ ناواقف تھے ، نادان تھے اسلئے انہوں نے مجھے تکلیف دی اگر یہ لوگ تباہ کر دیئے گئے تو ایمان کون لائے گا.کے سواے اہلِ لدھیانہ ! جنہوں نے میری موت کی تمنا کی میں تمہارے لئے زندگی کا پیغام لایا ہوں، ابدی زندگی اور دائمی زندگی کا پیغام.ایسی ابدی زندگی کا پیغام جس کے بعد فنا نہیں اور کوئی موت نہیں.میں تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کا پیغام لایا ہوں جسے حاصل کرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی دُکھ نہیں رہتا اور مجھے یقین ہے کہ آج کی مخالفت کل دلوں کو ضرور کھولے گی اور دنیا دیکھے گی کہ یہ شہر انشَاءَ اللہ خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوگا اور میرے کام میں میرا ممد و معاون بنے گا.میں خدا تعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوں اور اُس کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا.آج یہاں ہماری مخالفت ہوئی ہے ، ہمیں گالیاں دی گئی ہیں، استہزاء کیا گیا ہے اور بعض لوگوں کو پتھر بھی پڑے ہیں مگر آج سے چار پانچ سال قبل یعنی اِن بُری باتوں کو سننے سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ مجھے اس شہر کے متعلق خوشخبری بھی دے چکا ہے.چار پانچ سال کی بات ہے میں نے رویا دیکھا جس میں کسی بیرونی خیال کا کوئی دخل نہ تھا.میں نے دیکھا کہ میں لدھیانہ میں ہوں اور ایک ایسے مکان میں ٹھہرا ہوا ہوں جو ایک لمبی سڑک
انوار العلوم جلد ۷ ۲۴۹ اہالیان لدھیانہ سے خطاب کے کنارے پر واقع ہے یہ سڑک بہت چوڑی ہے اور بازار لمبا ہے جس میں کھانے کی دُکانیں بھی ہیں میں اس بازار میں ٹہلتا ہوں اور کوئی شخص مجھے کچھ نہیں کہتا اور نہ کوئی مخالفت کرتا ہے اور میں دل میں کہتا ہوں کہ اس شہر میں تو ہمیں گالیاں ملا کرتی تھیں پھر آج یہ کیا تغیر ہوا ہے کہ کوئی ہمیں کچھ بھی نہیں کہتا.تو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت جب اُس کے بندوں کو کوئی صدمہ یا تکلیف پہنچنے والی ہوتی ہے تو وہ پہلے سے ہی اُن کے ساتھ دلداری بھی کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اظہار ہمدردی پر مشتمل خواب مجھے عرصہ ہوا دکھایا جا چکا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور پورا ہوکر رہے گا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس وقت یہ پیشگوئی فرمائی اُس وقت تک آپ نے بیعت نہ لی تھی اور ایک شخص بھی آپ کا مرید نہ تھا.چار سال کے بعد آپ نے لدھیانہ میں بیعت لینی شروع کی اور صرف چالیس آدمی آپ کی بیعت میں شامل ہوئے مگر ساری دنیا میں آپ کی مخالفت کا شور بپا ہو گیا.چاروں طرف سے آپ کو گالیاں دی جانے لگیں اور آپ کو کا فرو دجال کہا گیا، آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا، اسلام کا دشمن بتایا گیا اور ہر قوم و مذہب کے لوگ آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے.عیسائیوں نے کہا کہ یہ شخص ہمارے عیسی کو وفات یافتہ ٹھہراتا ہے اسے مار دینا چاہئے.ہندوؤں نے شور مچایا کہ یہ ہمارے مذہب کو نقصان پہنچا رہا ہے اسے مار دیا جائے.گورنمنٹ بھی مخالف تھی قادیان جانے والوں کے نام پولیس نوٹ کرتی تھی.کوئی احمدی ہوتا تو اُسے بلا کر ڈرایا دھمکایا جا تا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ لوگ احمدی نہ ہوں.حتی کہ سر ایبٹس گورنر ہو کر آئے اور اُنہوں نے تمام حالات کا جائزہ لیکر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا مطالعہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کو یہ رپورٹ کی کہ اس جماعت کے ساتھ یہ سلوک نا مناسب ہے.یہ بڑی ناشکری کی بات ہے کہ جس شخص نے امن قائم کیا اور جو امن پسند جماعت قائم کر رہا ہے اس پر پولیس چھوڑی گئی ہے.یہ بڑی احسان فراموشی ہے اور میں اسے مٹا کر چھوڑوں گا.اِس طرح ۱۹۰۷ ء میں یہ حالت تبدیل ہوئی اور احمدیوں کی نگرانی کا سلسلہ بند ہوا.پھر مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کی سخت مخالفت کی گئی اور احمدیوں کو بھی انتہائی تکالیف پہنچائی جاتی تھیں حتی کہ قادیان میں جس کا ہمارا خاندان واحد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۰ اہالیان لدھیانہ سے خطاب مالک ہے خاندان کے دوسرے حصہ کے بعض افراد کے زیر اثر احمد یوں کو سخت تکالیف دی جاتی تھیں.دھوبی ، ماشکی اور حجام اِن کا کام نہ کرتے تھے، مسجد کو جانے والی گلی میں دیوار کھینچ کر اندر جانے کا رستہ بند کر دیا گیا جو کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گروا دی.میں اُس زمانہ میں بہت چھوٹا تھا۱۲ ،۱۳ سال کی عمر تھی اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بچے رویا ہوتے تھے.چنانچہ ایک رؤیا اسی دیوار کے متعلق اُس زمانہ میں ہوا.دیوار گرانے کے لئے عدالت میں دعوی دائر کیا گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس مسجد کی سیڑھیوں کے ایک جانب کھڑا ہوں اور بعض لوگ اِس دیوار کو گرا رہے ہیں کہ دوسری جانب سے حضرت خلیفہ اول جو منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے داماد تھے آ رہے ہیں اور پاس آ کر کھڑے ہو گئے ہیں.آخر اس مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا اور اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جب سرکاری پیادہ دیوار کو گرانے کے لئے آیا اور دیوار گرائی جانے لگی تو میں سیڑھیوں میں اسی جگہ کھڑا تھا جہاں میں نے خواب میں اپنے آپ کو کھڑا دیکھا تھا اور عین اُس وقت حضرت خلیفہ اول مسجد اقصیٰ کی طرف سے درس دے کر آئے اور آ کر اُسی جگہ کھڑے ہو گئے جہاں میں نے خواب میں اُن کو دیکھا تھا.یہ باتیں ایسی ہیں جو انسان عقل سے معلوم نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ شروع سے ہی میرا تعلق اُس کے ساتھ ایسا رہا ہے کہ وہ غیب کی باتیں مجھے بتا تا رہتا ہے.میں بیان کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالت ایسی کمزور تھی کہ کوئی شخص خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ تمام دنیا تو کجا پنجاب میں بھی کوئی شہرت حاصل کر سکے گا.آپ کے قتل کے منصوبے کئے گئے ، دوسروں کو قتل کرانے کے جھوٹے مقدمات آپ پر بنائے گئے مگر ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد اور نصرت کی اور پھر دنیا میں چاروں طرف آپ کا نام پھیلا اور عزت کے ساتھ لیا جانے لگا اور جب آپ فوت ہوئے تو آپ کے ماننے والوں کی تعدا د لا کھوں تک پہنچ چکی تھی مگر پھر بھی آپ کی جماعت ابھی اتنی کمزور تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت جب ہم لوگ انتہائی درد کی حالت میں تھے، جب کہ ہمارا ایسا لیڈ رجس کے متعلق ہمارا یقین اور ایمان تھا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے ہم سے رُخصت ہو گیا اور جب ہمارے دل اتنے زخمی تھے کہ کسی یتیم کا دل بھی اتنا زخمی نہیں ہوتا اُس وقت لاہور میں مخالفوں نے ایک جنازہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۱ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بنا کر بازاروں میں سے گزارا جس پر وہ گوبر اور پاخانہ اور اینٹیں اور پتھر پھینک رہے تھے اور اس طرح ہنسی اُڑا رہے تھے.مگر خدا تعالیٰ نے جو آپ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کو میرے ذریعہ پورا کروانا چاہتا تھا اس نے اپنے فضل سے مجھے اس بات کی توفیق دی کہ جب میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالف اس طرح تمسخر کر رہے ہیں اور خوشی منا رہے ہیں اور بعض اپنی جماعت کے لوگوں کے قدم بھی ڈگمگا رہے ہیں تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش کے پاس گیا اور آپ کے سرہانے کی طرف کھڑا ہو کر خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! میں تیرے اس مامور کے پاس کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس کام کے لئے تو نے اسے مامور کیا تھا میں اسے سرانجام دوں گا اور اگر ساری کی ساری جماعت بھی خدانخواستہ مرتد ہو جائے تب بھی میں اسے نہیں چھوڑوں گا اور اس کام میں کسی کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کروں گا.اُس وقت میری عمر ۱۹ سال کی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ایک انیس سالہ نوجوان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوائے اور پھر اُس نے اپنے فضل سے ہی مجھے یہ بھی توفیق دی کہ اپنے وعدہ کو پورے زور کے ساتھ پورا کروں اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا موجب بنوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی تھیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے اور میں جو ایک کمزور اور بیمار انسان تھا، ایسے وقت میں جب دنیا سمجھ رہی تھی کہ سلسلہ کا کام آب بند ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ میں آپ کے کام کو ضرور کروں گا.آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر اکٹھا کر دیا.مولوی صاحب مرحوم بہت بڑے عالم تھے.جب وہ خلیفہ ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ مولوی صاحب ہی پہلے اِس سلسلہ کو چلا رہے تھے.پہلے آپ پیچھے تھے اب آپ آگے آگئے ہیں اُن کی زندگی تک تو یہ سلسلہ نہیں ٹوٹے گا مگر اُن کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن ابھی چھ ماہ کا ہی عرصہ گزرا تھا کہ جماعت کے وہ لوگ جو سب سے زیادہ رسوخ جماعت میں رکھتے تھے وہ خلافت کی مخالفت کیلئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن کو اپنا قائم مقام بنایا ہے، مولوی صاحب کو بزرگ سمجھ کر ہم نے ان کی بیعت کر لی ہے مگر کام چلانے کی ذمہ داری انجمن پر ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۲ اہالیان لدھیانہ سے خطاب جب اس مخالفت نے سر نکالا تو حضرت خلیفہ اول نے اعلان کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں کوئی پیر نہیں ہوں کسی کی طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کر سکے.اس پر یہ لوگ بظاہر یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ ہم اب ان کی بیعت کر چکے ہیں اور اس طرح ان کے قبضہ میں ہیں مگر اس کے ساتھ دوسرا ہتھیار یہ استعمال کرنے لگے کہ مجھے بے گناہ کو جسے کبھی یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ میں خلیفہ بنوں گا ، یہ کہ کہہ کر بدنام کرنا شروع کر دیا کہ اس بچہ کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور میرے خلاف ایسا پرو پیگنڈا شروع کیا کہ میرے بعض عزیز دوست بھی مجھے اس خیال سے تحقیر کی نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ گویا میں جماعت میں فتنہ ڈالنے والا ہوں.ہم نے ایک مجلس بنائی ہوئی تھی جس میں تقریروں کی مشق کی جاتی تھی ، حضرت خلیفہ اول اس کے صدر تھے مگر اِن لوگوں نے اس کے اجلاس کا پروگرام ایسا بنایا کہ میری تقریر اس میں نہ ہو سکے.چنانچہ ایک دن جب میں حضرت خلیفہ اول کے پاس اس لئے گیا کہ پروگرام میں اس طرح تبدیلی کی جائے تو ایک دوست نے بڑے غصہ سے کہا کہ ہم یہاں تمہاری تقریریں سنے کیلئے نہیں آئے.یہی لوگ ہر قسم کے انتظامات پر قابض تھے، سیکرٹری بھی انہی میں سے تھا، رسالوں کی ایڈیٹری پر بھی یہی قابض تھے اور یہ سب مجھے بدنام کر رہے تھے.ایسی حالت میں ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کا انتقال ہو گیا.ان کی وفات سے قبل ہی مولوی محمد علی صاحب نے خفیہ طور پر ایک ٹریکٹ چھاپ کر رکھا ہوا تھا کہ مولوی صاحب کی وفات کے بعد کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں.حضرت خلیفہ اول کی وفات سے قبل جب میں نے انہیں کہا کہ ہمیں مل کر یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہم میں کوئی اختلاف و جھگڑا وغیرہ نہیں تھا انہوں نے مجھے یہ جواب دیا کہ ان باتوں کا قادیان سے باہر کسی کو علم بھی نہیں کیا ضرورت ہے کہ اس بارہ میں کوئی اعلان لکھا جائے مگر خود خفیہ طور پر یہ ٹریکٹ چھپوا کر رکھ چھوڑا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کا نظام انجمن کے سپر د کیا ہے خلافت کی کوئی ضرورت نہیں.حضرت خلیفہ اول کی بیعت تو اس لئے کر لی گئی تھی کہ آپ قابل اور بزرگ آدمی تھے.میں نے یہ دیکھ کر مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ جماعت میں اتفاق رہنا چاہئے اور اس کو قائم رکھنے کے لئے میں یہ پیشکش کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کی پارٹی جس کو بھی خلیفہ منتخب کرے میں اُس کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۳ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بیعت کرلوں گا اور جن لوگوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ میری پارٹی میں ہیں اُن کا جب کوئی ہیڈ نہ رہے گا تو وہ بھی خود بخود بیعت کر لیں گے.مگر مولوی صاحب نے کہا ہم خلافت کے قائل ہی نہیں اس لئے یہ صورت منظور نہیں کر سکتے.مولوی صاحب نے میری اس قربانی کو جو میں جماعت میں اتفاق قائم رکھنے کی غرض سے کرنے کو تیا ر تھا رڈ کر دیا.میں نے اصرار اور خوشامد سے ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا مگر وہ نہ مانے.آخر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت جماعت میرے ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی.میں وہ شخص ہوں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے کو را ہوں.یوں تو میں نے انٹرنس کا امتحان بھی دیا مگر یہ یاد نہیں کہ کوئی امتحان پاس بھی کیا ہو.پھر دینی تعلیم بھی میں نے کسی مدرسہ میں نہیں پائی اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا انتخاب بطور خلیفہ عقل کے خلاف بات ہے اگر عقل سے کام لیا جا تا تو مولوی محمد علی صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب وغیرہ میں سے کوئی خلیفہ ہونا چاہئے تھا.چنانچہ میرے اپنے ایک برادر نسبتی اور بچپن کے دوست نے مجھے سنایا کہ میں یہ ارادہ کر کے آیا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب یا مولوی محمد احسن صاحب کی بیعت کروں گا اور خود میں نے بھی یہ پیشکش کی تھی جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں مگر خدا کی قدرت کہ جب جماعت کے لوگ جمع ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب نے یہ تقریر کرنی چاہی کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے مگر جماعت کے لوگوں نے کہا کہ چونکہ جماعت خلافت پر ایمان رکھتی ہے اس لئے اس بارہ میں وہ آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں.اِس پر وہ لوگ مسجد سے چلے گئے اور میں جس کی نہ صحت اس قابل تھی اور نہ تعلیم اس کے ہاتھ پر جماعت جمع ہو گئی.اور یہ لوگ مخالف تھے اور اُس زمانہ کے اخبارات کے فائل گواہ ہیں کہ یہ لوگ خود کہتے ہیں کہ پانچ فیصدی ہی لوگوں نے مرزا محمود احمد کی بیعت کی ہے اور باقی ہمارے ساتھ ہیں اور مالی حالت یہ تھی کہ خزانہ میں صرف ۱۴ آنے تھے اور اٹھارہ ہزار کے بل قابل ادائیگی تھے ایسے حالات میں وہ لوگ جو جماعت میں بارسوخ تھے قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے.اور اُس وقت وہ آئندہ کے متعلق جو امید میں رکھتے تھے اُس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ایک یعنی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے قادیان کے ہائی سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو یہاں سے جار ہے ہیں لیکن ابھی
انوار العلوم جلد کا ۲۵۴ اہالیان لدھیانہ سے خطاب دس سال نہیں گزرنے پائیں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگا.تو ایسے حالات میں جماعت کی امامت ایک ایسے شخص کے سپرد ہوئی جو نہ دُنیوی علوم رکھتا تھا اور نہ دینی مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی اللہ تعالیٰ کا اس کے متعلق یہ وعدہ تھا کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ اُسے آسمان سے اپنے علوم سکھائے گا اور فرشتے وہ علوم اُسے پڑھا ئیں گے جو دین کے لئے ضروری ہیں.میری حالت یہ تھی کہ میں انگریزی کی دو سطریں بھی صحیح نہیں لکھ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود میری ایسی تربیت کی کہ ہر علم میں مجھے ملکہ عطا کیا اور ہر قسم کے علوم سکھائے.میں نے کئی دفعہ یہ دعوی کیا ہے کہ کسی علم کا کوئی کتنا بھی ماہر کیوں نہ ہو وہ اپنے علم کے رو سے قرآن کریم پر کوئی اعتراض کرے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے مُسکت جواب دوں گا.پھر ( با وجود اس کے کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور میں سیاسی آدمی نہیں ) سیاسیات میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا ملکہ اور شعور عطا کیا کہ سرفضل حسین صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہلا بھیجا کہ آپ سیاسیات میں کیوں دخل نہیں دیتے ؟ مولوی فضل الحق صاحب سابق وزیر اعظم بنگال اور عبداللہ سہر وردی صاحب نے کہا کہ ہم آپ کے سیاسی مرید ہیں اور ڈاکٹر محمود صاحب نے میرے ایک سیاسی رسالہ کا ذکر کر کے کہا کہ میں اسے ہر وقت جیب میں رکھتا ہوں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیاسی امور میں بھی ہمیشہ میرا مشورہ ٹھیک ثابت ہوا ہے.جب دہلی میں خلافت کا نفرنس ہوئی تو مجھے بھی اُس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی.میں نے ایک رسالہ رکھ کر وہاں تقسیم کرانے کے لئے بھیج دیا اور اُس میں بعض مشورے اس تحریک کی کامیابی کے لئے دیئے مگر اُس وقت کارپردازوں نے اُن پر توجہ نہ کی اور عمل کرنے سے انکار کر دیا مگر وفات سے کچھ عرصہ قبل مولانا شوکت علی صاحب مجھ سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ فلاں فلاں وجہ سے ہماری یہ تحریک فیل ہوگئی ہے.میں نے کہا کہ میں نے فلاں فلاں مشورہ آپ لوگوں کو دیا تھا اگر آپ اُن پر عمل کرتے تو آج نا کامی کا منہ دیکھنا نہ پڑتا.انہوں نے افسوس کے ساتھ اِس بات کا اظہار کیا کہ مجھے آپ کا وہ رسالہ نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ نے سیاسیات میں بھی مجھے راہنمائی کی توفیق دی.اسی طرح اقتصادیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے راہنمائی کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں
انوار العلوم جلد کا ۲۵۵ اہالیان لدھیانہ سے خطاب جماعت کا قدم بلندی کی طرف اُٹھا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم میں نے فرشتوں سے پڑھا ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت دنیا کے پردہ پر قرآن کریم کے مسائل کو حل کرنے کے لئے مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ماتحت الہام اور وحی سے ایسے معانی قرآن کریم کے مجھے سمجھائے ہیں کہ اسلام اور قرآن کریم پر سے سب اعتراضات دُور ہو جاتے ہیں اور سننے والا اس کی خوبی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.غرض یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں پوری کی کہ بظاہر اس کے پورا ہونے کی توقع نہ کی جاسکتی تھی.مجھ میں کوئی ذاتی خوبی نہ تھی ، کوئی علم نہ تھا مگر الہام میں کہا گیا تھا کہ وہ لڑ کا الہام الہی سے حصہ پائے گا اور اللہ تعالیٰ نے بچپن میں مجھے غیب کی خبروں سے آگاہ کیا اور اس زمانے میں تو یہ نشان اس کثرت سے ظاہر ہوا ہے کہ شدید ترین مخالف کے لئے بھی انکار کی گنجائش نہیں.ستمبر ۱۹۴۰ ء میں میں شملہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا کہ میں نے وہاں خواب میں دیکھا کہ لیبیا کی طرف سے انگریزی علاقہ کی طرف اطالوی فوجیں بڑھ رہی ہیں.انگریزی فوجیں اُن کا مقابلہ کرتی ہیں مگر اُن کے قدم جھتے نہیں یہاں تک کہ اُنہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا.میدانِ جنگ مجھے ایک ہال کی شکل میں دکھایا گیا جس کی ایک طرف دروازہ کی جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور وہ سیٹرھیاں اُس ہال میں اُترتی ہیں.میں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر پھر دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی سیڑھیوں پر سے اُترنا شروع کیا اور دشمن کی فوجوں نے آگے بڑھنا شروع کیا.انگریزی فوجیں لڑتی ہیں مگر پھر سیڑھیوں پر سے اترنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ تمام سیٹرھیاں ختم ہو گئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اُتر آئیں اور دشمن کی فوج بھی اُن کے پیچھے ہال میں اُترنے لگ گئی جب میں نے رویا میں اس طرح انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو گھبرا گیا کہ اب کیا ہو گا.میں تیزی سے گھر کی طرف آیا اور میاں بشیر احمد صاحب کو تلاش کیا وہ مجھے ملے تو اُن سے کہا کہ ہم فوج میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری صحت ایسی نہیں کہ فوج میں با قاعدہ بھرتی ہو سکیں ہم باہر سے انگریزوں کی مدد کر سکتے ہیں آپ کے پاس رائفل ہے اور میرے پاس بھی ، چلو ہم اپنی رائفلیں
انوار العلوم جلد کا ۲۵۶ اہالیان لدھیانہ سے خطاب لیں اور دشمن پرحملہ کر دیں.چنانچہ میں اُن کو اپنے ساتھ لیکر وہاں گیا.اُس وقت لڑائی گو ہال میں ہو رہی تھی مگر ہم باہر کھڑے ہو کر اندر کا تمام نظارہ دیکھ رہے ہیں.وہاں ایک جگہ جھاڑی دیکھ کر میں لیٹ گیا یا دو زانو ہو گیا اور میں نے کچھ فائر کئے.ان فائدوں کے بعد اٹلی والوں کو انگریزی فوج دبانے لگی اور پھر انہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کیا جن پر سے اتری تھیں.انگریزی فوج دشمن کو دباتے دباتے دوسرے سرے تک بڑھ گئی اور اُس وقت مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے.۵ چوہدری صاحب وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے جارہے تھے ، انہوں نے کہا کہ میں یہ خواب وہاں سناؤں گا.چنانچہ انہوں نے ممبروں سے اس کا ذکر کیا اور انہیں بتایا کہ ہمارے امام کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ لیبیا کی لڑائی میں پہلے انگریز کمزور ہوں گے مگر آخر فتح پا جائیں گے.لیتھویٹ، وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے انہوں نے کہا کہ میں یہ خواب خود امام جماعت احمدیہ کی زبان سے سنا چاہتا ہوں.چنانچہ چوہدری صاحب اگلے روز کیلئے اُن کو چائے کی دعوت دے آئے اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ میں یہ خواب اُن کو سناؤں.چنانچہ میں نے سنائی اور آخر بالکل اُسی طرح ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں سے آخری فتح انگریزوں کو عطا کر دی جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا.دشمن مصر کی سرحد کے اندر آ کر واپس بھا گا.العالمین کے محاذ پر جب لڑائی شروع ہوئی تو مسٹر چرچل نے کہا تھا کہ اگر آب ہم یہاں سے ہٹے تو پھر قدم نہ جم سکیں گے.العالمین کے محاذ پر ایک طرف سمندر اور دوسری طرف دلدلیں تھیں اور ایک تنگ علاقہ میں لڑائی ہو رہی تھی اور انگریز خود مانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو جرمن دائیں بائیں سے حملہ کر کے ضرور کامیاب ہو جاتے.تو اللہ تعالیٰ نے بظا ہر شکست کو فتح سے بدل دیا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے خود انگریز بھی گواہ ہیں.غرض العالمین کے محاذ پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو میری دعاؤں سے فتح دی.اسی طرح اور بھی کئی واقعات ہیں.ہماری جماعت کے ایک ڈاکٹر مطلوب خان ہیں جو گزشتہ جنگ میں شامل تھے کانگڑھ کے رہنے والے اور آنکھوں کے علاج میں شہرت رکھتے ہیں.گزشتہ جنگ میں وہ میدانِ جنگ میں گئے ہوئے تھے کہ اُن کے بوڑھے والدین مجھ سے ملنے آئے.اُن کے والد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۷ اہالیان لدھیانہ سے خطاب کی عمر ۵ ۸۰۰۷ برس کی تھی.وہ کبڑے ہو چکے تھے اور منہ پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں وہ مجھے مل کر گئے اور تھوڑا ہی عرصہ بعد اُن کے بھتیجے نے میرے بھائی میاں شریف احمد صاحب سے ذکر کیا کہ میرے چا کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ اُن کو گورنمنٹ کی طرف سے یہ تا رآئی ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خان جنگ میں مارے گئے ہیں.اُن کے والدین چونکہ اُنہی دنوں میں مجھے مل کر گئے تھے اور میں نے اِن کے بڑھاپے اور کمزوری کی حالت کو خود دیکھا تھا اس لئے مجھے یہ خبر سن کر بہت افسوس ہوا اور میں نے دعا کی کہ یا الہی ! ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہوں.مگر دعا کرتے وقت مجھے یہ خیال بھی آیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے یقینی اطلاع ملنے کے بعد اس دعا کے کیا معنی ہیں.مجھے چاہئے کہ اپنے نفس کو اِس دعا سے روکوں مگر پھر بھی میں دعا کرتا گیا.اس پر مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ اطلاع آئی ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہیں اور تین دن کے بعد زندہ ہو گئے ہیں.میں نے اپنے بھائی مرزا شریف احمد صاحب سے ذکر کیا اور اُنہوں نے مطلوب خاں کے چچا زاد بھائی کو بتایا اور انہوں نے اپنے چچا کو لکھ دیا اور آخر ڈاکٹر صاحب کا اپنا تاراُن کے والدین کو ملا کہ میں زندہ ہوں.اس پر سب حیران تھے کہ یہ کیا بات ہے ، گورنمنٹ کی اطلاع تھی کہ مارے گئے اور اُن کی تاریہ ہے کہ میں زندہ ہوں.اُن کو لکھا گیا کہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ عرب کے ساتھ لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ میرا ایک سکھ دوست جو ڈا کٹر تھا مجھ سے ملنے آیا وہ تھا تو سکھ مگر کیس نہ تھے ، داڑھی تھی ، رنگ وغیرہ بھی یکساں ہی تھا لڑائی ہوئی تو وہ سکھ مارا گیا اور مجھے عرب قید کر کے لے گئے.سکھ چونکہ بُری طرح زخمی ہو چکا تھا اس لئے اچھی طرح پہچانا نہ جاتا تھا اور سرکاری ریکارڈ کے رو سے وہاں کوئی اور ڈاکٹر تھا ہی نہیں اِس لئے اُس کی داڑھی وغیرہ سے یہ اندازہ کر لیا گیا کہ میں مارا گیا ہوں.عربوں نے جہاں مجھے قید کیا ہوا تھا وہاں انگریزوں نے بم باری کی اور عرب گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے اور میں تین دن کے بعد وہاں سے واپس اپنے کیمپ میں آ گیا.اب غور کریں کیا کوئی انسانی دماغ ایسی بات بنا سکتا ہے، یہ کتنی عظیم الشان علامات ہیں.یہ لوگ زندہ ہیں اور کوئی چاہے تو حلفاً اِن سے دریافت کر سکتا ہے.پھر ان پیشگوئیوں کے عیسائی گواہ ہیں جن کے مذہب کو مٹانے کے لئے ہم کھڑے ہیں.پھر گورنمنٹ کے ریکارڈ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۸ اہالیان لدھیانہ سے خطاب ا ان کے پورا ہونے پر گواہ ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کثرت سے مجھے قبل از وقت ایسی خبریں دیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں مگر میں اس وقت تفاصیل میں نہیں جا سکتا.بہر حال اللہ تعالیٰ اپنے منشاء کے مطابق جب چاہے رویا کے ذریعہ غیب پر مشتمل خبر میں مجھے دیتا ہے.پھر اس کے ساتھ جماعت کی امامت کے متعلق جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں منتخب کیا جب خزانہ میں چند آنے تھے اور ہزاروں روپیہ قرض تھا اور جو لوگ جماعت کے لیڈر تھے وہ چھوڑ کر جاچکے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ اب یہ جماعت برباد ہو جائے گی.مگر واقعہ یہ ہے کہ جب سلسلہ کی باگ میرے ہاتھ میں آئی تو ہندوستان سے باہر کوئی ایک مشن بھی نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے خلافت کے پہلے سال ہی انگلستان میں مشن قائم کر دیا.اللہ تعالیٰ نے خود لوگوں کے قلوب میں الہام کیا اور انہوں نے اپنی زندگیاں اشاعت اسلام کیلئے وقف کیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ مشنری دیئے جو تمام دنیا میں پھیل گئے حتی کہ سخت خطرات کے دنوں میں پاسپورٹ کے بغیر روس میں گھس گئے.قیدیں کاٹیں ، جیلوں میں مصائب برداشت کئے ، ماریں کھائیں مگر تبلیغ کی.افغانستان میں گئے اور وہاں سنگسار ہوئے مگر احمدیت کے پیغام کو وہاں پہنچا دیا.اُن کو طرح طرح کی تکالیف بھی دی گئیں مگر وہ اپنے کام سے نہ رکے.پھر وہ سپین میں گئے ، اٹلی گئے ، ہنگری گئے ، یوگوسلاویہ ، بلغاریہ، رومانیہ، جرمنی، پولینڈ، البانیہ، یونان ، چیکوسلواکیہ، فرانس میں پہنچے.ایران، عرب، مصر، شام اور فلسطین میں گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا.وہ افریقہ کے تمام ممالک میں پہنچے.گولڈ کوسٹ ، یوگنڈا ، ٹانگا نیکا ، نشال میں گئے.غرض دنیا کا کوئی علاقہ اور کوئی ملک نہیں جہاں میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں پوری نہ کیں.جنوبی امریکہ اور شمالی امریکہ میں احمدی مبلغ گئے اور اس طرح دنیا کے گوشہ گوشہ میں میری طرف سے مشنری گئے اور اسلام کی تبلیغ کی اور آج دنیا میں میرے سوا کوئی ایک بھی مسلمان ایسا نہیں کہ جس کے ذریعہ دنیا کے تمام بر اعظموں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے پیدا ہوئے ہوں.جس کے ذریعہ شمالی اور جنوبی امریکہ، فرانس، انگلستان اور دوسرے یورپین ممالک کے عیسائیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں.اسی طرح سماٹرا ، جاوا ، بور نیو،
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۵۹ اہالیان لدھیانہ سے خطاب سٹریٹ سیٹلمنٹ کے کے بُت پرست اور عیسائی آب درود بھیجتے ہیں.مغربی افریقہ کے تین ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزار ہا لوگ عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ میرے ذریعہ سے ہوا.پھر میرے ہی ذریعہ مشرقی افریقہ کی پرانی اقوام ہزاروں کی تعداد میں عیسائیت یا بت پرستی کو چھوڑ کر رسول کریم ﷺ پر درود بھیجنے لگی ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ سے مقام محمود کا جو وعدہ فرمایا تھا اس کا ایک حصہ مجھ محمود کے ذریعہ بھی اس طرح پورا کرایا کہ میرے بھیجے ہوئے واعظوں کے ذریعہ ہزاروں لوگ مسلمان ہو کر آپ پر درود بھیج رہے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی درود بھیجتے ہیں اور وہ میرے بھی ممنون ہیں جو انہیں کھینچ کر جنت میں لے گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر گوشہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو میرے نام اور کام سے واقف ہیں اور جو میرے کہنے پر اسلام کی خاطر جان و مال کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں اور یہ اُس فرزند کی ایک بہت بڑی علامت تھی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس کی ساٹھ علامات بیان فرمائی ہیں اور ان سب کے متعلق اس وقت میں بیان نہیں کر سکتا بلکہ آج میں جو کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دسمبر ۱۹۴۳ء میں میری بیوی شدید بیمار تھیں اور میں انہیں علاج کیلئے لاہور لے گیا.وہاں ہوشیار پور ہی کے رہنے والے اور شیخ مہر علی صاحب ہوشیار پوری کی برادری سے تعلق رکھنے والے شیخ نیاز محمد صاحب کے مکان میں جس میں آجکل شیخ بشیر احمد صاحب رہتے ہیں میں ٹھہرا ہوا تھا کہ میں نے وہاں ایک رؤیا دیکھا.اس میں شبہ نہیں کہ اُس موعود فرزند کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو علامات بیان فرمائی ہیں اُن میں سے کئی ایک کے پورا ہونے کی وجہ سے ہماری جماعت کے بہت سے لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ پیشگوئی میرے ہی متعلق ہے مگر میں ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے یہ حکم نہ دے کہ میں کوئی ایسا اعلان کروں میں نہیں کروں گا.آخر وہ دن آ گیا جب خدا تعالیٰ نے میری زبان سے اس کا اعلان کرانا تھا.ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں ، نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یاٹر نچز ہیں ، بہر حال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۰ اہالیان لدھیانہ سے خطاب ہیں.وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے اُن سے تعلق ہے، میں ان کے پاس ہوں.اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں برسر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا کہ میں وہاں ہوں اور اُس نے اُس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اُس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی اس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا.بہر حال وہاں جو فوج تھی اُس کو جرمنوں سے دبنا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جر من اُس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں میں تھا.تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے.اُس وقت میں رویا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں.میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میں ایک آن میں طے کرتا جا رہا ہوں.اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمنی فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے آ رہے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رویا میں یوں معلوم ہوا کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے.ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رویا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ، اُس میں اِس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا.چنانچہ رؤیا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اُس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اُس رستہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۱ اہالیان لدھیانہ سے خطاب کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں نا کام رہے گا.چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اُس مقام پر مجھے کئی پگڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.میں اُن پک ڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے ایسا نہ ہوئیں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کر لوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں.اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں دوسری سڑک پر جائیں اور میں اُس کے کہنے پر اُس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں.وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اس لئے میں لوٹ کر اُس سڑک کی طرف چلا.مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبر دست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اُس زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پک ڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اس طرف ، اُس طرف نہیں اس طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگ ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں.جب میں تھوڑی دُور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں میں اُسی راستہ پر آ گیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا.اُس وقت رویا میں میں اس کی کچھ تو جیہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے.چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جور رویا میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دُنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مردا خالص دینی طریق ، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے
انوار العلوم جلد ۷ ۲۶۲ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہوگی.یعنی کچھ تدبیر میں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعا ئیں اور تقدیریں ہوں گی اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو! قرآن شریف نے اُمتِ محمدیہ کو اُمَّةً وَّسَطاً قرار دیا ہے اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنی ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہوگی اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں.غرض میں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے.اتنی دور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے.مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے.اُس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس راستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا.اُس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب میں نے یہ کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیز میں تیر رہی ہیں وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے جیسے ۵ وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں.وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اثر دہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے جیسے کے گھونسلے سے سفیدی زردی اور خا کی رنگ ملا ہوا، وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور ان کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں.خواب میں میں سمجھتا ہوں یہ بت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں اُن کے بُہت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں.جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بُت پر سوار ہو گیا.تب میں نے سُنا کہ بتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے.اس پر میں نے
انوار العلوم جلد کا ۲۶۳ اہالیان لدھیانہ سے خطاب دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے تو حید کی دعوت اِن لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی بُرائیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.رویا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گوان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح اُن کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اُس کشتی نمائت والا جس پر میں سوار ہوں یا اُس کے ساتھ کے بُت والا بُت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحد ہو گیا ہے.اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا ، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں اُن کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا پانی میں غرق کر دیا جائے.اس پر جو لوگ موحد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جوا بھی موحد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے.صرف پجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں.اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی.اس لئے میں نے اُن کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.یہ تبلیغ میں اُن کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں.جب میں انہیں تبلیغ کر رہا ہوں تا کہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۴ اہالیان لدھیانہ سے خطاب سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں.جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا.غرض میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے.بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالبا کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو، ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا ، بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اُس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے.میں اُس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے میں اب آگے جاؤں گا اس لئے اے عبدالشکور ! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نا ئب مقرر کرتا ہوں.تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں تو حید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہو گا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے.میں واپس آ کر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کیلئے مقرر کیا ہے ان کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے.اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے بندہ اور اُس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اُسے حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں.جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں ( جو خود الہامی ہے ) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ.اس کے بعد میں اُن کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں.چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے وَأَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِيفَتُهُ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اُس کا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۵ اہالیان لدھیانہ سے خطاب مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں.تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اُس وقت معا میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مَشِيلُه میں اُس کا نظیر ہوں وَخَلِیفَتُهُ اور اُس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا اس کے مطابق اور اُسے پورا کرنے کیلئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اُس کا مثیل ہونے اور اُس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کیلئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں ” میں وہ ہوں جس کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں، تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں.مجھے السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کیلئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم اُنیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں، اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اُس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رویا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اُس میں یہ بھی خبر تھی کہ ” جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہوگی اور جب اُس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اُس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائے گی تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا اُس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی کہ ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گئے.چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے.جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو.اُس وقت میں وہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۶ اہالیان لدھیانہ سے خطاب خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم با وجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اُس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں.ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے.تب میں کہتا ہوں دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.اس کے بعد پھر اُن کو ہدا یتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں.اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں.چنانچہ اسی لئے میں اُس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں اب میں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور ! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے، موحد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کار بند ہوچکی ہے.یہ وہ رویا ہے جو میں نے جنوری ۱۹۴۴ء ( مطابق صلح ۱۳۲۳ ہش ) میں دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی.جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میں اُردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں چنا نچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رؤیا پر غور کرتا اور سوچتا رہا.مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے.یہ رویا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا اور چونکہ اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ موعود فرزند اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا نشان ہوگا اِس لئے میرا فرض ہوا کہ میں دنیا کو یہ رویا سنا دوں.پس ۲۰ ر فروری کو جس دن کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی لکھی تھی ہوشیار پور میں اِس کا اعلان کر دیا گیا.۱۲ / مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور میں ( جہاں مجھے رؤیا ہوئی تھی ) جلسہ کر کے یہ رؤیا سنا دی گئی اور آج یہاں اعلان کرنے کیلئے میں آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا تو صرف چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی مگر آج یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں افراد پر مشتمل ہے.پچاس ہزار سے زائد تو صرف مغربی افریقہ میں ہیں.
انوار العلوم جلد ۷ اہالیان لدھیانہ سے خطاب یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ننگے پھرتے تھے اور بالکل وحشی تھے مگر اب دین سیکھ رہے ہیں اور ان میں سے ہی بعض اب مبلغ اور مدرس بھی ہیں.ایسے جنگلوں میں جہاں میلوں میں کوئی آبادی نہیں ملتی اور جہاں شدید قسم کا ملیریا ہوتا ہے، جہاں ایسی نسلیں بھی آباد ہیں جو آدمی کو کھا جاتی ہیں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام تبلیغ کر رہے ہیں.پس میں آج اہل لدھیانہ کو یہ خبر دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر قدرت اور فضل اور رحمت کے جس نشان کی خبر دی تھی وہ ظاہر ہو چکا.جن لوگوں کے کان میں یہ آواز پہنچے وہ اُن لوگوں تک اسے پہنچا دیں جو سُن نہیں رہے.اور میں لدھیانہ والوں کو یہ پیغام دے کر بری الذمہ ہوتا ہوں اور اُن کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ انکار کر کے نقصان نہ اُٹھا ئیں.یہ عظیم الشان پیشگوئی غیر معمولی حالات میں پوری ہو چکی ہے.پہلے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمر اور غلبہ عطا کیا.پھر جیسا کہ نعمت اللہ صاحب ولی کی پیشگوئی میں بھی چار پانچ سو سال قبل بتایا گیا تھا کہ: پسرش یادگار ے بینم اور جیسا کہ پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی بتایا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولا د دی اور پھر ایسا بیٹا عطا کیا جو ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے نشانوں کے ساتھ کھڑا کیا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کس رنگ میں اور کس طریق سے اپنے کام کو پورا کرے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کام ہو کر رہے گا.میرے ذریعہ یا مجھ سے دین سیکھنے والے کسی اور کے ذریعہ.اور جہاں آج دنیا میں ہر طرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے ہیں، وہاں گھر گھر سے درود کی آواز میں آئیں گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا.(اس کے بعد حضور کے ارشاد کے ماتحت مختلف ممالک کے مبلغین نے تقریریں کیں پھر آپ نے فرمایا ) اب آپ لوگوں نے وہ حالات سُن لئے ہیں جو تبلیغ اسلام کے متعلق میرے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.نیز ایک پیشگوئی یہ فرمائی تھی کہ وہ موعو دلڑ کا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اس طرح یہ دونوں پیشگوئیاں پوری
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۶۸ اہالیان لدھیانہ سے خطاب 6* ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچی اور میرا نام بھی جو اس پیشگوئی کا مصداق ہوا دنیا کے کناروں تک پھیلا.پھر آج جو بارش ہوئی ہے یہ بھی ایک پیشگوئی کو پورا کرتی ہے جو اس موعو دالر کے کے بارہ میں ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہوشیار پور میں جو ہمارا جلسہ ہوا تو وہاں پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ” نور آتا ہے نور.۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو وہاں ہمارا جلسہ ہوا.اس سے کئی روز قبل بارش ہو رہی تھی.۱۹ / فروری کو عشاء کے وقت مجھے بذریعہ فون اطلاع دی گئی کہ بارش ہورہی ہے مگر میں نے کہا کہ ہم انشَاءَ اللہ پہنچ جائیں گے.۲۰ فروری کو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ بارش بالکل بند رہی اور خوب دھوپ نکل آئی اور ہم جب وہاں سے آگئے تو پھر بارش ہونے لگی.گویا پہلے بھی بارش اور بعد میں بھی بارش.مگر بیچ میں دھوپ اور اس طرح اس پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ” نور آتا ہے نور.آج کے جلسہ میں بھی اس موعود دلڑکے کے متعلق پیشگوئی کا ایک دوسرا حصہ پورا ہوا ہے.الہام الہی میں اس کے متعلق کہا گیا تھا کہ اِنَّا اَرْسَلْنَاهُ شَاهِداً وَّ مُبَشِّراً وَ نَذِيرًا كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَتٌ وَرَعْدٌ وَ بَرق 2 یعنی اس کی مثال اس بارش کی سی ہوگی جس میں ظلمت اور گرج اور چمک ہو.یہ الہام ظاہری رنگ میں آج پورا ہو گیا ہے.آج بارش میں ہی ہم نے نماز پڑھی اور بارش ہی میں میں نے تقریر کی.ہمارے مخالف خوش ہوتے ہوں گے کہ بارش شروع ہوگئی ہے اور یہ ان کے جلسہ کو روک دے گی لیکن میرا دل اس بارش کو دیکھ کر خوشی سے لبریز ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور نشان پورا ہو رہا ہے.اور لدھیانہ کے لوگ اِس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کا اعلان یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں کیا گیا تھا.اب میں لدھیانہ کے لوگوں کو اور اُن لوگوں کو بھی جو باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آسمان کی آواز ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کی ہے اسے بند کرنا آسان نہیں.یہ جماعت شروع میں صرف چالیس افراد پر مشتمل تھی مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے.تمام دنیا نے ہماری مخالفت کی مگر سب مخالف ناکام ہوئے اور آئندہ بھی نا کام ہوں گے اور دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کی ترقی کو روک نہیں سکے گی.پھر ان رؤیا کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں اور بھی کئی باتیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا ئیں اور وہ پوری ہوئیں جو خدا
۲۶۹ اہالیان لدھیانہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۷ آسمانوں اور زمینوں کا خدا ہے ، جو پہلوں کا خدا ہے، حال کا خدا ہے اور آئندہ کا خدا ہے جس کے ہاتھ میں میری اور سب کی جان ہے اور جس کے سامنے مر کر ہم سب نے پیش ہونا ہے، میں اسی خدائے قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں اُسی نے مجھے بتائیں اور اُسی نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ میرے ماننے والوں کو منکرین پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دے گا.میں انسان ہوں مرسکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اُس کا یہ وعدہ نہیں ٹل سکتا.اس سلسلہ کی تائید کیلئے خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور روز بروز یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام اُن ممالک تک جو آپ پر ایمان نہیں رکھتے ضرور پہنچے گا اور جس طرح پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں اور پھر اُن سے نہریں نکلتی ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی نہریں میرے ذریعہ ساری دنیا میں جاری ہوں گی.اسلام دنیا میں جیتے گا اور ضرور جیت کر رہے گا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان لوگوں کے دشمن ہیں جو ابھی تک ایمان نہیں لائے.ہم اُن کے حقیقی خیر خواہ ہیں اور اُن کی خیر خواہی سے مجبور ہو کر ہی اُن کو سمجھاتے ہیں.جس طرح ایک ماں جب دیکھتی ہے کہ اُس کا بچہ کنویں میں گرنے لگا ہے تو وہ پوری کوشش کر کے اُس کو بچاتی ہے اسی طرح ہم ان لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.جب ہم اسلام کو سچا سمجھتے ہیں تو پھر ہم یہ بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ سچائی کو دنیا میں پھیلائیں.ہمارے مخالف اگر ایمان نہ لائیں تو بھی ان کو چاہئے کہ ہماری خیر خواہی کے قائل ہوں اور اس بات کو مانیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں ان کی ہمدردی کیلئے کہتے ہیں اور کہتے چلے جائیں گے چاہے وہ ہم کو کتنے دُکھ کیوں نہ دیں، کتنی تکالیف کیوں نہ پہنچا ئیں.خواہ ہمیں وہ آروں سے چیر دیں، خواہ شیروں کے آگے ڈالیں، پتھروں سے سنگسار کریں، پہاڑوں سے گرا کر ہلاک کریں ، سمندر میں پھینک دیں ہم خدا کا نام لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے رہ نہیں سکتے.جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم یہ آواز بلند کرتے چلے جائیں گے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ تعلیم ضرور پھیل کر رہے گی اور زبر دست سے زبر دست قو میں بھی ہمارے راستہ میں اگر کھڑی ہوں گی تو وہ ناکام ہوں گی.بیشک ہمارے جسموں کو وہ مٹا سکتی ہیں مگر ہماری روحیں بلند ہوں گی اور یہ پیغام بند نہ ہوگا.پس
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۰ اہالیان لدھیانہ سے خطاب بہتری اسی میں ہے کہ ہماری آواز کو سنو.اپنی عاقبت کی بہتری کیلئے سنو ! اور اس آواز کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلند ہو رہی ہے غور سے سنو اور سمجھنے کی کوشش کرو.اے خدا ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو اِن لوگوں کے دلوں کو کھول دے اور ساری دنیا کے کانوں تک اس آواز کے پہنچنے کے سامان پیدا کر دے.جس طرح ہم تیرے بندے ہیں اسی طرح وہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی تیرے پیارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں پہچانا تو اُن کو ہدایت دے اور سب کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر دے.دنیا سے فساد، بدامنی ، بے دینی ، ظلم، فسق و فجور ایک دوسرے کے مال کو کھانے اور آپس میں لڑنے کی روح کو دنیا سے مٹا دے اور امن و آشتی کی روح پیدا کر دے.اب میں دعا کرتا ہوں دوست بھی دعا کریں تا اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دے اور دنیا کی بد حالی کو خوشحالی میں تبدیل کر دے.( الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۵۹ء) ا تذکرہ صفحه ۱۰۴.ایڈیشن چہارم السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۳ صفحه ۱۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء صلى الله مسلم كتاب الجهاد باب مالقى النبي له من اذى المشركين و المنافقين ه الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۴۲ء سٹریٹ سیٹلمنٹس(STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینا نگ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد صفحہ ۷۴ مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۷ء) بیے : بیا : چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ.اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے.و تذکرہ صفحہ ۱۴۹.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۱ زندگی وقف کرنے کی تحریک از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی زندگی وقف کرنے کی تحریک
انوار العلوم جلد ۱۷ بِسْمِ اللهِ ا اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۲۷۲ زندگی وقف کرنے کی تحریک نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ زندگی وقف کرنے کی تحریک ( تقریر فرموده یکم مئی ۱۹۴۴ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- میری تحریک پر ہماری جماعت کے بہت سے دوستوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کیلئے وقف کی ہیں میں سمجھتا ہوں شاید قادیان میں سے ہی ساٹھ ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ نوجوانوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے.وقف کا جو مفہوم اس وقت تک عمل میں آ رہا ہے اس کے لحاظ سے میں نے تبلیغی اخراجات کا ایک معمولی سا اندازہ لگایا ہے اور غور کیا ہے کہ اگر دنیا کے ایک معتد بہ حصہ میں جس طرح پانی کا ایک چھینٹا دے دیا جاتا ہے اسی طرح اگر ہم چھینٹے کے طور پر ہی تبلیغ کریں تو جماعت پر مالی لحاظ سے کتنا بار پڑ جاتا ہے.اخراجات کا وہ معمولی اندازہ بھی ایسا ہے جو در حقیقت ہماری جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک اچھا خاصہ بوجھ ہے.مثلاً سب سے پہلے تبلیغی نقطۂ نگاہ سے ہمارے سامنے ہندوستان ہے.ہندوستان جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی بعثت کیلئے منتخب فرمایا ہے اس میں اس وقت گیارہ صوبے ہیں.سندھ ، سرحد، پنجاب، یوپی، بہار، اڑیسہ، بنگال ہی پی، بمبئی ، مدراس، آسام.یہ وہ صوبے ہیں جو گورنروں کے صوبے ہیں.ان کے علاوہ بلوچستان ہے، وہ بھی ایک مستقل ملک ہے.اگر اس کو ملا لیا جائے تو بارہ بن جاتے ہیں.پھر بعض بڑی بڑی ریاستیں ہیں جو در حقیقت صوبوں کی قائم مقام ہیں جیسے کشمیر، حیدر آباد، میسور، بڑودہ، گوالیار اور ٹراونکور ہیں.بارہ وہ اور چھ یہ اٹھارہ ہو گئے.اس کے بعد درمیانی درجہ کی ریاستوں میں سے بیکانیر ہے، جے پور ہے ، جودھ پور ہے یہ سب ریاستیں مل کر کئی صوبوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۳ زندگی وقف کرنے کی تحریک کے برابر ہو جاتی ہیں.اگر ان میں چار مرکز بھی مقرر کئے جائیں تو بائیس مقامات ہو گئے جہاں ہمیں اپنے تبلیغی مراکز قائم کرنے چاہئیں.اگر ایک ایک مبلغ فی صوبہ مقرر کیا جائے تو میں مبلغ رکھنے پڑتے ہیں.مگر ان میں سے کئی صوبے ایسے ہیں جو خاص توجہ کے محتاج ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے ان میں تبلیغ کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.مثلاً پنجاب مرکز ہے احمدیت کا اور اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ لاہور، راولپنڈی اور ملتان خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے کہ بیعت شروع ہوئی تھی لدھیانہ سے ، لدھیانہ بھی اہم مقام ہے اور اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے زیادہ تر سیالکوٹ میں رہے ہیں ، سیالکوٹ بھی خاص توجہ چاہتا ہے.اسی طرح امرتسر پنجاب میں مشہور شہر ہے.یہ چھ جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمیں چھ مبلغ رکھنے چاہئیں.ایک مبلغ چونکہ صوبہ کے لحاظ سے آ گیا تھا اس لئے اُس کو نکال کر چھپیں مبلغ ہو گئے.اس کے بعد یو پی لے لیا جائے.یو پی اس لحاظ سے کہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کا مرکز رہا ہے زیادہ توجہ کا محتاج ہے گو وہاں مسلمان اب کم ہیں مگر پھر بھی لکھنو ، الہ آباد، کانپور اور بنارس خاص جگہیں ہیں.اگر صوبہ کا ایک مبلغ نکال دیا جائے تو تین مبلغ اور بڑھ گئے.گویا پچپیں اور تین اٹھائیس ہو گئے.بنگال میں ڈھا کہ اور کلکتہ کے علاوہ میمن سنگھ ایک اہم جگہ ہے اور مسلمانوں کا مرکز ہے.وہاں مولوی کثرت سے پائے جاتے ہیں ان مقامات میں کم سے کم ہمیں دو مرکز قائم کرنے چاہئیں.اٹھائیں پہلے تھے دو یہ ہو گئے گویا تمیں مبلغ ہو گئے.سندھ میں حیدر آباد ایسا شہر ہے جہاں مستقل مرکز کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں سے تاجر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اس طرح اکتیس مبلغ ہو گئے.بمبئی میں احمد آباد اور پونہ خاص مقام ہیں اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو تینتیس ہو گئے.مدراس میں مالا بار وہ جگہ ہے جہاں احمدیت کی ابتدا ہوئی.دوسرا اہم شہر مدراس میں مڈورا ہے جو پانچ لاکھ کی آبادی رکھتا ہے.ان دو کو شامل کر کے پینتیس مبلغ ہو گئے.ان میں سے بعض شہر ایسے ہیں جن میں ایک ایک مبلغ کافی نہیں ہو سکتا جیسے کلکتہ ہے یا بمبئی ہے یا اسی طرح کے بعض دوسرے شہر ہیں.اگر ان شہروں کے لئے جن میں دہلی بھی شامل ہے پانچ اور مبلغ رکھے جائیں تو چالیس مبلغ ہو گئے.چالیس مبلغوں کے لئے اگر ان شہروں کے اخراجات کو مدنظر رکھا جائے ، مکانات کا کرایہ دیکھا جائے اور ادھر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۴ زندگی وقف کرنے کی تحریک اُدھر پھرنے پر جو اخراجات ہوتے ہیں ان کو لوظ رکھا جائے تو درحقیقت دوسو روپیہ فی مبلغ خرچ کا اندازہ ہے.پھر خالی مبلغ رکھنا کافی نہیں ہوسکتا بلکہ تبلیغ کیلئے ٹریکٹوں وغیرہ کی اشاعت بھی ضروری ہوتی ہے ایسے کاموں کے لئے اگر سو روپیہ ماہوار رکھا جائے تو تین سو روپیہ ماہوار ایک مبلغ پر خرچ آ سکتا ہے.چالیس کو تین سو سے ضرب دی جائے تو بارہ ہزار روپیہ ماہوار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے.اگر چھ ہزار روپیہ بعض اور تبلیغی ضروریات کیلئے رکھ لیا جائے کیونکہ بعض دفعہ فوری طور پر ایسے اخراجات آپڑتے ہیں جن کا خیال تک نہیں ہوتا تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے بعد ہم ادنیٰ سے ادنی تبلیغی مرکز ہندوستان میں کھول سکتے ہیں اور یہ ابھی صرف شہر ہیں دیہات کا حساب نہیں کیا گیا حالانکہ دیہات کی طرف ہمارا توجہ کرنا اور بھی ضروری ہے.اس سے کم توجہ کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے اور اگر ہم کم توجہ کریں تو دنیا کی آبادی کے مقابلہ میں یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص شہر کی ایک تنگ گلی کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک تنگ کوٹھڑی میں دروازے بند کر کے شور مچانا شروع کر دے.ابتداء میں جب ہم نے احمدیت کا اعلان کرنا تھا یہ صورت ہمارے لئے کافی ہو سکتی تھی مگر موجودہ صورت میں چالیس مبلغوں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ سے کم میں ہندوستان کے شہروں میں تبلیغ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے.پھر جہاں چالیس مبلغ ہوں گے وہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی بیمار ہو جائے یا ان میں سے کوئی چھٹی پر چلا جائے.ان امور کو دیکھتے ہوئے در حقیقت دس مبلغ ہمیں زائد رکھنے پڑیں گے تا کہ جو لوگ چھٹی پر آئیں اُن کی جگہ وہ اس عرصہ میں تبلیغ کر سکیں بلکہ چالیس مبلغوں کے لحاظ سے دس مبلغ ریز رو ر کھنے بھی کم ہیں اصل میں میں مبلغ ہونے چاہئیں.بہر حال دس ہی سمجھ لوتو پچاس ہو گئے.دس مبلغوں کو ان اچانک پیش آنے والی ضروریات کے لئے اگر مرکز میں رکھا جائے تو چونکہ ان کے اخراجات اتنے نہیں ہو سکتے جتنے اُن مبلغوں کے اخراجات ہو سکتے ہیں جو باہر رہتے ہیں ، اس لئے میں سمجھتا ہوں ان کے لئے ہیں ہزار روپیہ ہمیں زائد رکھنا چاہئے.گویا ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ ہو گیا.یہ کم سے کم وہ تبلیغی اخراجات ہیں جو ہندوستان کے بعض شہروں پر ہو سکتے ہیں لیکن اس رقم میں لٹریچر کے اخراجات صرف نام کے طور پر رکھے گئے ہیں.ان اخراجات سے ایسا لٹریچر شائع نہیں کیا جا سکتا جو سارے ہندوستان میں شور مچا دینے والا ہو.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۵ زندگی وقف کرنے کی تحریک اگر اس کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار زائد طور پر ایسے لٹریچر کے لئے رکھنا چاہئے تو تمہیں ہزار روپیہ سالانہ ہو گیا اور ایک لاکھ ستر ہزار میں شامل کر کے پورا دو لاکھ روپیہ بن گیا.یہ تو صرف ہندوستان کے شہروں کی تبلیغ کا اندازہ ہے.گاؤں کی تبلیغ اس کے علاوہ ہے.گاؤں کی آبادی شہروں سے نو گنے زیادہ ہے مگر چونکہ وہاں خرچ شہروں سے کم ہوتا ہے.اگر پانچ گنے زیادہ خرچ گاؤں کی تبلیغ کا رکھا جائے تو ہندوستان کی تبلیغ کیلئے جو معمولی ہوگی پچاس شہری مبلغ اور ساڑھے سات سو گاؤں کے مبلغ اور بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی.اب رہی باہر کی تبلیغ.میں نے سوچا ہے کہ بیرونی ممالک میں سے انگلستان سب سے مقدم ہے.اسی ملک کے لوگ ہندوستان میں آئے اور انہوں نے ہمارے ملک کو فتح کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی انگلستان کے متعلق بڑی بڑی پیشگوئیاں ہیں اور اُن پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر انگلستان کیلئے اسلام لانا مقدر ہے.اس وقت وہاں ہمارا صرف ایک مبلغ رہتا ہے اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی ہے.ایک مبلغ چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں رکھنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور پھر اس ایک مبلغ کیلئے بھی ہم صحیح طور پر تبلیغی سامان بہم نہیں پہنچار ہے.اگر وہ مبلغ سال میں صرف ایک دفعہ دو صفحے کا اشتہار شائع کرے تو چار کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ اشتہار شائع ہونا چاہئے.اگر ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو دو صفحہ کا اشتہار دو روپیہ میں ہزار چھپے گا اور چونکہ ہم نے ایک کروڑ اشتہار شائع کرنا ہے اس لئے ایک کروڑ کے لئے ہیں ہزار روپیہ ضروری ہوگا.گویا اگر ہم اپنے مبلغ کو بیس ہزار روپیہ دیں تو وہ اس کے ذریعہ سال میں صرف ایک دفعہ انگلستان کے ہر آدمی تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ بچوں وغیرہ کو نکال دیا جائے.میں نے سوا دو کروڑ بچوں وغیرہ کو نکال کر بقیہ آبادی کے نصف پر اندازہ لگایا ہے مگر سال میں ایک دفعہ اشتہار پہنچنے پر کسی کو کوئی خاص توجہ نہیں ہو سکتی.ضروری ہے کہ بار بار اشتہارات شائع کئے جائیں.اس نقص کے ازالہ کیلئے اگر ہم صرف ہیں لاکھ آدمیوں تک اپنی آواز پہنچائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ان میں سے ہر شخص آگے پانچ پانچ آدمیوں کو وہ اشتہار پہنچا دے گا اور اس طرح ایک کروڑ آدمیوں تک ہماری آواز پہنچ جائے گی تو سال میں ہیں لاکھ اشتہار ہم پانچ دفعہ شائع کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ یکدم ایک کروڑ اشتہار شائع ہو.اس صورت میں
انوار العلوم جلد ۱۷ زندگی وقف کرنے کی تحریک ہیں ہزار روپیہ کے ذریعہ ہم ملک کی چوتھائی آبادی تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں.بلکہ درحقیقت ہم صرف بیسویں حصہ تک آواز پہنچائیں گے آگے یہ امید کر لیں گے کہ وہ اور لوگوں کو بھی یہ پیغام پہنچا دیں گے.گو یا اگر ہم انگلستان کے مبلغ کو بیس ہزار روپیہ لٹریچر کے لئے دیں تب وہ مبلغ تھوڑا بہت کام کرتا ہوا نظر آ سکتا ہے.مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم اسے ہیں ہزار تو گجا دوسو روپیہ بھی نہیں دیتے گویا وہ وہاں بیٹھا صرف روٹی کھا رہا ہے.پھر تبلیغ کے لئے صرف اشتہار ہی کافی نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں سے ملا جائے اور اُن سے ذاتی طور پر واقفیت پیدا کر کے انہیں تبلیغ کی جائے.مگر اتنا بڑا ملک جو ایک لمبے عرصہ سے دنیا کی آلائشوں میں ملوث چلا آ رہا ہے اور دنیا کی محبت اُس پر غالب ہے اُن کے پاس ایک آدمی کس طرح پہنچ سکتا ہے.پس میں نے یہ سوچا ہے کہ وہاں ہمارے کم سے کم پانچ مبلغ ہونے چاہئیں.دو مبلغ ہر وقت لندن میں رہیں اور دو مبلغ مختلف شہروں میں دورہ کرتے رہیں اور جو لٹر پچر وغیرہ شائع ہوا سے لوگوں میں تقسیم کریں تا کہ بار بار کے دوروں سے لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہو کہ فلاں اشتہار جو ہمیں ملا تھا اُس کا لکھنے والا مولوی بھی آج یہاں آیا ہوا ہے، اس سے ہم ذاتی طور پر بھی مل لیں اور پوچھیں کہ وہ کیا کہتا ہے.اس طرح لوگوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوگی اور ایک مبلغ بطور سیکرٹری کے ہو جو لٹریچر وغیرہ کی اشاعت، فروخت اور دوسرے ایسے ہی کاموں کی نگرانی کرے.پس پانچ مبلغ صرف انگلستان میں ہونے چاہئیں.انگلستان کے علاوہ یورپ میں یوں تو دس پندرہ ملک ہیں لیکن اگر مرکزی ممالک ہی لئے جائیں تو وہ جرمنی، اٹلی اور فرانس ہیں.ان ممالک میں ابتدائی طور پر کم سے کم چھ مبلغ ہونے چاہئیں، ورنہ میرے نزدیک تو پندرہ مبلغوں کی ضرورت ہے.چھ مبلغ ایک ایک جگہ رہیں اور چھ مبلغ دورہ کرتے رہیں.مثلاً ہمارے کچھ مبلغ جرمنی ، اٹلی اور فرانس کے بڑے بڑے شہروں میں بیٹھ جائیں اور کچھ مبلغ ان ممالک میں تبلیغی دورے کرتے رہیں، کبھی کسی ملک میں جائیں اور کبھی کسی ملک میں اور تین مبلغ مراکز میں بطور سیکرٹری کام کریں.پس پانچ انگلستان کے مبلغ اور چھ یہ ، گویا گیارہ مبلغ یورپ کے لئے ایک اقل ترین چیز ہیں.اصل میں تو وہاں ہمیں مبلغ ہونے چاہئیں تب ہم اپنی آواز ایک محدود حلقہ تک پہنچا سکتے ہیں.پھر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۷ زندگی وقف کرنے کی تحریک یونائیٹیڈ اسٹیٹس امریکہ ہے.وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور ہندوستان سے دوگنا ملک ہے مگر ہم نے وہاں صرف ایک مبلغ رکھا ہوا ہے.اگر سارے ہندوستان میں ہم ایک مبلغ رکھنے کی تجویز پیش کریں تو ساری مجلس قہقہہ لگا کر ہنس پڑے گی کہ یہ عجیب تبلیغ ہے کہ سارا ہندوستان سامنے ہے اور مبلغ ایک رکھا جا رہا ہے.مگر ہم نے امریکہ میں جو ہندوستان سے دو گنا ملک ہے اپنا ایک ہی مبلغ رکھا ہوا ہے.اگر امریکہ کو ہم چار حصوں میں تقسیم کریں تو وہاں بھی چار مبلغ ہونے چاہئیں اور یہ بھی اقل ترین تعداد ہے.گیارہ وہ اور چار یہ پندرہ ہو گئے.پھر جنوبی امریکہ میں مبلغوں کی ضرورت ہے.اسی طرح کینیڈا میں مبلغوں کی ضرورت ہے.ان مقامات کے لئے اگر پانچ مبلغ اور تجویز کریں تو اکیس ہو گئے.پھر عربی ممالک بھی توجہ کے محتاج ہیں.ان میں مصر ہے ، شام ہے، فلسطین ہے، عراق ہے.ان میں بھی اگر وہی بات مدنظر رکھی جائے جو یورپین ممالک میں مد نظر رکھی گئی ہے اور ہم ان ممالک کے لئے دو جگہ سنٹر قائم کریں تو دونوں جگہ تین تین مبلغ ہونے چاہئیں.ایک ایک مبلغ تو سنٹر میں رہے اور رسالے وغیرہ کی ایڈ یٹری کرے اور دو مبلغ ہر وقت گشت لگاتے رہیں گویا کم سے کم یہ چھ مبلغ اور ہمیں چاہئیں.اکیس اور چھ ستائیس ہو گئے.پھر اگر سماٹرا اور جاو اوغیرہ جزائر کو مدنظر رکھا جائے تو کم سے کم چھ اور مبلغوں کا ہمیں شمار کرنا چاہئے.ستائیس پہلے اور چھ یہ تینتیس مبلغ ہو گئے.بیرونی ممالک کی تبلیغ اور اشاعت لٹریچر کے لحاظ سے اوپر کے سولہ مشنوں پر کم سے کم چھ سو روپیہ ماہوار فی مشن خرچ کی ہم کو گنجائش رکھنی چاہئے.یہ خرچ اندازاً ایک لاکھ سولہ ہزار کا ہوتا ہے.اس کے علاوہ مبلغوں کے آنے جانے کے اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی یا جو مبلغ آئیں گے اُن کی جگہ دوسروں کو بھیجنے کی ضرورت ہوگی.بہر حال تینتیس بیرونی مبلغین کے سالانہ ذاتی اخراجات کو اور تینتیس مبلغ جو مرکزی پہلے مبلغوں کے قائمقام ہو کر جانے کیلئے رکھے جائیں گے، اُن کے اخراجات کو محوظ رکھ کر ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.افریقہ کے مختلف مشنوں کا خرچ بھی کم سے کم ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ رکھا جانا چاہئے.گویا تین لاکھ بہتر ہزار روپیہ سے بیرونی ممالک میں ہم اقل ترین تبلیغ کر سکتے ہیں.اگر ان میں بارہ لاکھ روپیہ ہندوستان کی تبلیغ کا بھی شامل کر لیا جائے تو پندرہ لاکھ بہتر ہزار اور مرکز کے اخراجات کو.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۸ زندگی وقف کرنے کی تحریک شامل کر کے پونے سترہ لاکھ روپیہ سالانہ اگر ہم تبلیغ پر خرچ کریں تو ہندوستان اور یورپ میں اقل ترین تبلیغ کی جاسکتی ہے.لیکن تحریک جدید کی تو دس سالہ آمد ملا کر بھی اتنی نہیں کہ ان اخراجات کو صرف ایک سال کے لئے برداشت کر سکے.یہ سال گزشتہ تمام سالوں سے اچھا رہا ہے مگر اس سال بھی جماعت کی طرف سے صرف سوا تین لاکھ روپیہ کے وعدے آئے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان وعدوں میں سے پورے کتنے ہوں گے.ابھی پچھلے سالوں کے وعدوں میں سے بھی پچاس ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے.گویا اگر ہم تحریک جدید کی ایک سال کی ساری آمد بھی تبلیغ پر خرچ کر دیں تو ہم ہندوستان اور بیرون ہند میں اقل ترین تبلیغ بھی نہیں کر سکتے.ابھی ہماری زمینوں سے اتنی آمد شروع نہیں ہوئی کہ یہ کمی پوری ہو سکے بلکہ ہمیں اپنی زمینوں کے لئے ابھی اچھے کا رکن بھی میسر نہیں آسکے.اگر ان زمینوں کی اچھی پیداوار ہو تو ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی اس ذریعہ سے بھی امید ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم اس آمد کو تبلیغ کے جاری اخراجات پر خرچ کر دیں تو پھر ریز رو فنڈ قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اگر ہم تحریک جدید کا چندہ آئندہ سالوں میں جاری رکھیں تب بھی ہم نے تبلیغی اخراجات کا جواقل ترین اندازہ لگایا ہے بمشکل اس کا نواں حصہ پورا ہو سکتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ جیسا براعظم جس کی تمیں کروڑ سے زیادہ آبادی ہے وہاں ایک لاکھ آدمیوں پر ایک مبلغ ہوتب صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے.گویا تمیں کی بجائے ہمیں وہاں تین سو مبلغ رکھنے چاہئیں.اور اگر امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان مبلغوں کی تعداد چھ سو تک بڑھانی پڑتی ہے.ہندوستان جو ہمارا مرکز ہے یہاں درحقیقت ہما را کم سے کم دو ہزار مبلغ ہونا چاہئے لیکن اگر ان باتوں کو دور کی باتیں سمجھ لو تو بھی پانچ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ تو ایک معمولی بات ہے مگر ابھی ہماری جماعت میں اتنی وسعت نہیں کہ ان اخراجات کو پورا کر سکے یا ابھی اتنا قربانی کا مادہ نہیں کہ اس خرچ کو برداشت کر سکے.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت یہ فیصلہ کر لے کہ جیسے حضرت مسیح ناصری کی جماعت کے لوگ فقیر کہلانے لگ گئے تھے اسی طرح وہ خدا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جا ئیں تو یہ پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم بڑی آسانی سے مہیا ہوسکتی ہے.مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص کے دل میں اعلیٰ درجہ کا ایمان ہو.کچھ لوگ ایمان کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں کچھ ادنی درجہ رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو درمیانی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۷۹ زندگی وقف کرنے کی تحریک مقام پر ہوتے ہیں.یہ حالات مدنظر رکھتے ہوئے جبکہ ابھی ہماری جماعت کو وہ مالی وسعت حاصل نہیں کہ ان اخراجات کو برداشت کر سکے یہی صورت نظر آتی ہے کہ لوگ اپنے اپنے اخراجات پر باہر نکل جائیں اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کریں.مثلاً مغربی افریقہ ہے میں نے اور ممالک کا ذکر کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا تھا.یہاں ہماری جماعت کے لئے ایک بہت بڑا تبلیغی میدان پڑا ہے اور پرانی اقوام دین کی باتیں سننے کے لئے پیاسی بیٹھی ہیں.یہاں اخراجات بھی بہت کم ہیں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ روپیہ میں آسانی سے گزارہ ہو سکتا ہے اور پھر ان لوگوں میں بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قربانی کرنے والے ہیں باوجود جاہل ہونے کے باوجود دینی تعلیم سے کورے ہونے کے اور باوجود موجودہ تہذیب و تمدن کی روشنی سے نا آشنا ہونے کے وہ اتنی جلدی اپنے تبلیغی اخراجات برداشت کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی لوگ اتنی جلدی تبلیغی اخراجات برداشت نہیں کرتے.وہ فورامدر سے قائم کر لیتے ہیں، مسجد میں بنا لیتے ہیں اور اخراجات کا بوجھ خود اٹھانے لگ جاتے ہیں.پس بہت بڑی بیداری ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اور قربانی کی روح ہے جو اُن میں نظر آتی ہے.یہ علاقہ ہماری تبلیغ کے لئے بہت ہی مبارک ہے.ہمیں وہاں روپیہ بھجوانے کی بہت کم ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ وہاں کی جماعتیں خود اپنے اخراجات برداشت کر لیتی ہیں.ابھی ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ اگر وہاں تبلیغ کے لئے جماعت کے دوستوں کو بھجوایا جائے تو چھ مہینہ کے بعد مقامی جماعتیں ان کے اخراجات برداشت کرلیں گی.یہ لوگ ایسے ہیں جیسے کوئی سخت پیاسا ہوتا ہے اور پانی کے لئے چاروں طرف دیکھ رہا ہوتا ہے.دنیا نے اِن لوگوں پر اس قدر مظالم کئے ہیں کہ اب وہ اس بات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور اُن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر کے انہیں عزت و آبرو کے مقام تک پہنچائے اور یہ بات اسلام اور احمدیت کے سوا انہیں کسی جگہ میسر نہیں آسکتی.افریقہ کے مغربی اور مشرقی یہ دو علاقے ایسے ہیں جن میں میرے نزدیک ہمیں اس وقت ایک سو مبلغوں کی ضرورت ہے.وہاں کا گزارہ پچاس روپیہ ماہوار میں ہو جاتا ہے کچھ گزارہ ہمیں مبلغین کے اہل وعیال کو بھی دینا پڑتا ہے.اسی طرح لٹریچر کے اخراجات اور آمد و رفت کے کرایہ وغیرہ کو شامل کر کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوسکتا ہے لیکن مبلغین کے اخراجات چونکہ بالعموم وہ لوگ خود برداشت کر لیتے
انوار العلوم جلد ۷ ۲۸۰ زندگی وقف کرنے کی تحریک ہیں اس لئے اگر سو مبلغ ہوں تو ساٹھ ہزار روپیہ سال کے خرچ سے ہم وسیع طور پر وہاں تبلیغ کر سکتے ہیں.اگر ہم وہاں سو مبلغ مقرر کریں تو میرا اندازہ یہ ہے کہ ایک ایک سال میں ہی لاکھ دولاکھ احمدی ہو جائیں اور دس بارہ سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے افریقہ کا اکثر حصہ احمدی ہو جائے کیونکہ تبلیغی لحاظ سے وہ اس قسم کا علاقہ ہے جسے کسی کو کوئی کان مل جاتی ہے یا خزانہ اُس کے ہاتھ آ جاتا ہے.اب ہمارا کام ہے کہ اس کان کو کھو دیں اور اس خزانہ سے فائدہ اُٹھا ئیں.اگر ہم افریقہ میں صحیح طور پر تبلیغ کریں تو جیسے نبیوں کی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایک دن يَدْخُلُونَ فِي دِينِ الله افواجا کا نظارہ انہیں نظر آنے لگتا ہے اسی طرح ہم يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہ افواجا کا نظارہ افریقہ میں دیکھ سکتے ہیں.وہاں بعض دفعہ ایک ایک دن میں سو سو ، دو دو سو بلکہ ہزار ہزار احمدی ہوئے ہیں.ہمارے ہاں تو جماعت کو اگر کہیں کامیابی ہو تو دوسری جگہ کے لوگ لٹھ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ تمہیں وہاں تو کامیابی ہوگئی تھی اب ہمارے ہاں آ کر دیکھو ہم کس طرح تمہاری خبر لیتے ہیں مگر وہاں یہ بات نہیں.وہاں اُلٹا دوسرے لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمیں کیوں بھول گئے کیا دوسرے زیادہ حق رکھتے تھے کہ آپ اُن کے پاس گئے اور ہمارے پاس نہیں آئے.پس درحقیقت وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں اس بات کے کہ اُن کی طرف توجہ کی جائے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوان اخراجات کو برداشت کرنے کی بھی ہماری جماعت میں طاقت نہیں لیکن فرض کر و جماعت ان اخراجات کو برداشت کر لے تو پھر بھی کیا ہوسکتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ یہ تبلیغ آٹے میں نمک کے برابرا بھی نہیں.میں نے سر دست صرف ۸۰ مبلغین کا اندازہ کیا ہے.پچاس ہندوستان کے لئے اور تمیں بیرون ہند کے لئے.اور اگر ان مبلغین کو بھی شامل کر لیا جائے جو بیرونی ممالک کے مبلغین کی جگہ بھیجوانے کیلئے تیار کئے جائیں گے تو یہ تعداد ایک سو دس تک پہنچ جاتی ہے لیکن اگر ہماری جماعت اس کو اہم کام قرار دے کر مطمئن ہو جائے اور اُس کا دل اس تبلیغ پر تسلی پا جائے تو میں اس کو جنون سے کم نہیں سمجھوں گا.حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے.میں نے بہت سوچا ہے مگر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۸۱ زندگی وقف کرنے کی تحریک بڑے غور وفکر کے بعد میں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا اُس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت بدھ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ پھرتے پھراتے جب اپنے باپ کے علاقہ میں آئے تو چونکہ اُنہوں نے تاج و تخت چھوڑ دیا تھا اور جیسے ہماری شریعت میں قانون ہے کہ یتیم پوتے کو ورثہ نہیں ملتا سوائے اس کے کہ اگر دادا چاہے تو اپنی جائداد کے اُس حصہ میں سے جس کی وصیت اس کے لئے جائز ہے کچھ حصہ اُسے ہبہ کر دے.اسی طرح اس ریاست میں یہ قانون تھا کہ اگر بیٹا بادشاہ نہ بنتا تو پوتا تاج و تخت کا وارث نہیں ہو سکتا تھا.حضرت بدھ کے باپ کو بڑا فکر تھا کہ میرے بیٹے نے تو تخت کو چھوڑ ہی دیا تھا اس لئے میرے پوتے کے ہاتھ سے بھی بادشاہت نکل جائے گی.ایک دفعہ اتفاقاً حضرت بدھ اسی علاقہ میں آئے تو اُن کے باپ نے اپنے پوتے کو جو دس گیارہ سال کا تھا ایک پیالہ دے کر کہا کہ جاؤ اور اپنے باپ سے بھیک مانگ لا.مطلب یہ تھا کہ آپ نے تو گدی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے اب اپنے اس حق کو میری طرف ہی منتقل کر دیں کیونکہ اس ملک میں یہ دستور تھا کہ گوایسی حالت میں پوتا بادشاہ نہیں بن سکتا تھا لیکن اگر باپ اُس کی طرف بادشاہت منتقل کر دے تو وہ منتقل ہو جاتی تھی.چنانچہ حضرت بدھ جہاں تعلیم دے رہے تھے وہیں اُن کا بیٹا جا پہنچا اور اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مہاراج! میں اپنا حق لینے آیا ہوں.بدھوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی کو بھکشو بناتے ہیں تو اُس کا سرمنڈوا دیتے ہیں جیسے عیسائی بپتسمہ دیتے ہیں.وہ بھکشو بنانے کیلئے سرمنڈوانا ضروری سمجھتے ہیں.جب اُس نے کہا مہاراج! میں آپ سے اپنا حق لینے آیا ہوں تو حضرت بدھ نے نائی بلایا اور اُس کا سرمنڈوا دیا.گویا وہ تو گدی لینے گیا تھا مگر اُنہوں نے اُس کو بھی بھکشو بنالیا.اُن کے باپ کو جب معلوم ہوا کہ بدھ نے میرے پوتے کو بھی بھکشو بنا دیا ہے تو وہ ان پر ناراض ہوا کہ تم نے آپ تو گدی چھوڑی تھی اپنے بیٹے کو بھکشو بنا کر تو تم نے اپنے خاندان کی جڑ ہی کاٹ دی اور ہماری نسل کو ہی تباہ کر دیا.( بدھ بھکشو شادی نہیں کر سکتا اس لئے آئندہ اولاد کا چلنا ناممکن ہو گیا ) انہوں نے کہا میں کیا کرتا جب میرا بیٹا مجھ سے خیرات لینے کے لئے آیا تو میں اسے کیا دیتا میرے پاس سب سے بڑی دولت یہی تھی اس لئے میں نے اسے یہی چیز دے دی.دنیا میرے پاس تھی نہیں کہ میں اسے دیتا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۸۲ زندگی وقف کرنے کی تحریک میرے پاس تو یہی ایک چیز تھی سو میں نے اسے دے دی.باپ کہنے لگا اب تو جو کچھ ہو چکا سو ہوچکا آئندہ کے لئے کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنانا.حضرت بدھ نے وعدہ کر لیا چنانچہ اب تک بدھ مذہب کے احکام میں یہ شامل ہے کہ کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنایا جائے.یہی طریق عیسائیوں کی تبلیغ کا تھا.حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو.جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہر نا پڑے اسی بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اپنی امت کو سکھائی ہے.آپ نے فرمایا ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے.ایک صحابی نے عرض کیايَا رَسُولَ اللہ ! اگر بستی والے کھانا نہ کھلا ئیں تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا تم زبر دستی اُن سے لےلوٹے گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلا ئیں.میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم ﷺ نے تبلیغ کے طریق کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں ، ہاں اگر تین دن سے زائد ہر کر تم اُن سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیگ ہو گی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں.ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جب وقف زندگی کا اعلان کیا تو گو وقف زندگی کی شرائط آپ نے خود نہیں لکھیں بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے لکھوائیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو دیکھا اور کچھ اصلاح کے ساتھ پسند فرمایا.مجھے خوب یاد ہے ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا.یہی وہ طریق ہے جس سے صحیح طور پر تبلیغ ہو سکتی ہے.جب ہم اعدادو شمار سے کام لینے لگتے ہیں تو اخراجات کا اندازہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ یہ
انوار العلوم جلد کا ۲۸۳ زندگی وقف کرنے کی تحریک اخراجات کس طرح پورے ہو سکیں گے.پس اصل تبلیغ ہم اسی طرح کر سکتے ہیں اس کے بغیر اگر ہم تبلیغ کرنا چاہیں تو مجھے اس میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.چونکہ بہت سے دوستوں نے میرے اعلان پر اپنی زندگیوں کو سلسلہ کے لئے وقف کیا ہے اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قربانی کا ارادہ اور عزم اپنے اندر پیدا کریں ورنہ سلسلہ کبھی کامیاب تبلیغ نہیں کر سکتا.اگر وہ یسے مبلغ آئیں جو بغیر کسی معاوضہ کے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہو گا.مگر آب تو لوگ اُدھر زندگی وقف کرتے ہیں اور ادھر ہمیں فکر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ بھی ہے یا نہیں کہ ہم ان کا وقف قبول کریں.لیکن اگر وہ ہم سے معاوضہ لئے بغیر نکل جائیں، سادہ لباس پہنیں اور سادہ خوراک استعمال کریں، اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں تو نہ سلسلہ پر بار پڑ سکتا ہے اور نہ ان کو کوئی خاص پریشانی لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ جب وہ اخلاص سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈال دے گا اور ان کے اردگرد ایک جماعت پیدا کر دے گا.پھر وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی موزوں مقام کا انتخاب کر کے وہاں بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں.پس اس طریق کے ماتحت یہ نہیں ہوگا کہ وہ ہمیشہ پھرتے رہیں گے بلکہ اگر کسی علاقہ میں زیادہ لوگ احمدی ہو جائیں تو وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اُسی جگہ بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں.درس سے اُن کی کمائی کی صورت بھی پیدا ہو جائے گی اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہو جائے گا.ہندوستان میں بہت بڑا اثر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے طریق تبلیغ کا ہوا ہے.حضرت سید احمد صاحب در حقیقت حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کے علمی طور پر شاگر د ہی تھے اور ان دونوں بزرگوں نے جس طریق سے کامیابی حاصل کی وہ یہی تھا کہ انہوں نے درس جاری کر دیئے جن میں جوق در جوق لوگوں نے شامل ہونا شروع کر دیا اور اس طرح سارے ہندوستان میں ان کے شاگر د پھیل گئے.پہلے ایک شخص ان سے تعلیم لے کر نکلا، پھر دوسرا شخص نکلا ، پھر تیسرا شخص نکلا یہاں تک کہ انہوں نے درسوں کے ذریعہ سب جگہ اپنے عقائد پھیلا دیئے.مگر یہ تبلیغ کا دوسرا ذریعہ ہے پہلا ذریعہ یہی ہے کہ انسان خود علم سیکھے اور دوسروں کو تبلیغ کرے.جب تبلیغ کرتے کرتے اُسے کوئی مرکز نظر آ جائے اور وہ
۲۸۴ انوار العلوم جلد ۱۷ زندگی وقف کرنے کی تحریک سمجھ لے کہ اب دس پندرہ آدمی میری باتوں میں دلچسپی لینے لگ گئے ہیں تو وہ اُسی جگہ بیٹھ جائے اور مدرسہ جاری کر دے جس میں لوگوں کو دین کی باتیں سکھائے.جوں جوں لوگ اس سے پڑھیں گے وہ اردگرد کے گاؤں اور دیہات میں ان اثرات کو پھیلائیں گے.آگے وہ اور لوگوں تک اِن باتوں کو پہنچائیں گے یہاں تک کہ اس کے ذریعہ ہزارہا معلم اور ہزار ہا مدرس پیدا ہو جا ئیں گے جو لاکھوں کروڑوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے.یہ وہ روح ہے جس کو پیدا کئے بغیر تبلیغ میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.پھر تبلیغ کے لئے لٹریچر کی اشاعت بھی بڑی ضروری چیز ہے اور چونکہ دنیا میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مختلف زبانوں میں لٹریچر موجود ہو.اب تو یہ حالت ہے کہ جامعہ احمدیہ سے ایک طالب علم نکلتا ہے تو دعوۃ و تبلیغ والے کہتے ہیں اسے تبلیغ کے لئے لو.پھر وہ اسے دفتر میں بٹھا لیتے ہیں اور جب گجرات یا جہلم سے کوئی چٹھی آتی ہے تو اسے تقریر کے لئے وہاں بھجوا دیتے ہیں.اُنہوں نے کبھی اِس بات کو مد نظر ہی نہیں رکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام صرف قادیان یا پنجاب کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے جس میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں.پس ان کا فرض تھا کہ وہ دنیا کی ہر زبان کے لئے مبلغ تیار کرتے اور ہر زبان میں لٹریچر تیار کراتے.مگر پچاس سال گزر گئے انہوں نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں کی بلکہ ساری دنیا کو جانے دو، سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں ہی صرف اُردو زبان بولی جاتی ہے کوئی اور زبان نہیں بولی جاتی ؟ جب ہندوستان میں ہی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو محکمہ دعوۃ و تبلیغ نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ وہ اُردو میں بولنے والے مبلغ رکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا ہے.پنجاب میں بے شک اُردو بولی جاتی ہے مگر بنگال میں اُردو زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ بنگالی کام آتی ہے.اڑیسہ میں ار یہ زبان کام آتی ہے.بمبئی میں مرہٹی یا گجراتی کام آتی ہے.سی پی میں بھی گجراتی کام آتی ہے.مدراس میں تامل، تلنگو ، اور مالا باری کام دیتی ہے.صوبہ سرحد میں پشتو اور فارسی کام دیتی ہیں.پھر بڑے بڑے شہروں مثلاً کلکتہ، بمبئی ، ڈھاکہ، مدراس اور کراچی وغیرہ میں بھی اُردو کام نہیں آتی بلکہ انگریزی کام آتی ہے.سندھ میں سندھی زبان بولی جاتی ہے مگر انہوں نے اس بات کو کبھی مد نظر ہی نہیں رکھا.بس اپنا کام صرف اتنا ہی سمجھ لیا کہ مبلغوں کو دفتر
انوار العلوم جلد کا ۲۸۵ زندگی وقف کرنے کی تحریک میں بٹھا لیا اور جب گجرات یا جہلم یا کسی اور جگہ سے کوئی چٹھی آئی تو وہاں دو دن کے لئے مبلغ بھیجوا دیا اور پھر دو دو مہینے اسے آرام کرنے کے لئے اپنے گھر میں بٹھا دیا.پھر کسی جگہ سے چٹھی آتی تو پھر چند دنوں کے لئے انہیں تقریر کرنے کے لئے بھیجوا دیا.اب میں نے بڑی مشکل سے ان مبلغوں کو باہر نکالا ہے مگر ان میں سے اکثر ایسے مبلغ ہیں جو پنجاب کے باہر اور کہیں کام نہیں کر سکتے.حالانکہ سرحد میں تبلیغ کا خدا نے ایک بہترین ذریعہ یہ پیدا کر رکھا ہے کہ وہاں ہمارے شہداء نے اپنے خون سے سلسلہ کی صداقت کی وہ تحریر لکھ رکھی ہے جو ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوسکتی ہے.مگر افسوس اس زبان میں تبلیغ کی طرف توجہ ہی نہیں کی گئی.اسی طرح سندھ میں تبلیغ کا بڑا میدان ہے مگر ہمارے پاس سندھی زبان کا ماہر کوئی مبلغ موجود نہیں.اسی طرح گجراتی ، مرہٹی ، تامل، تلنگو ، بنگالی، ہندی اور اڑیہ وغیرہ زبانیں جانے والے ہمارے پاس کوئی مبلغ نہیں.اگر دعوۃ و تبلیغ والے سوچتے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں تو وہ کب سے بیدار ہو چکے ہوتے اور انہیں محسوس ہوتا کہ وہ ایک غلط قدم اُٹھا رہے ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اور زبانوں کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ کوئی ایسا مبلغ بھی تیار نہیں کیا جو انگریزی میں عمدگی سے تقریریں وغیرہ کر سکے.اس وقت دنیا میں ایک شور مچ رہا ہے.اور بمبئی ، کلکتہ اور مدراس وغیرہ سے چٹھیاں آ رہی ہیں کہ ہماری طرف مبلغ بھیجے جائیں جو انگریزی میں تقریریں وغیرہ کر سکیں.مگر دعوت وتبلیغ والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریزی بولنے والا مبلغ نہیں.پچاس سال سے کفر کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی ہے اور ابھی تک انہیں خیال ہی پیدا نہیں ہوا کہ ہم اپنے مبلغوں کو کس کس رنگ میں تیار کریں.سوتے ہوئے دیوؤں کے متعلق بھی مشہور ہے کہ انہیں چھ مہینے کے بعد ہوش آ جاتی ہے مگر یہاں پچاس سال گزر گئے اور ابھی تک آنکھ نہیں کھلی.اب وقت آ گیا ہے کہ اس رنگ میں کام کیا جائے.چنانچہ میں جن واقفین زندگی کو تیار کر رہا ہوں اُن کے متعلق میری یہی سکیم ہے کہ اُنہیں دنیا کی ایک ایک زبان کا ماہر بنا دیا جائے تا کہ ہر زبان میں کام کرنے والے تحریک جدید کے مبلغ ہمارے پاس موجود ہوں اور ہم انہیں دنیا میں پھیلا کر اسلام کی اشاعت کا کام سرانجام دے سکیں.ان واقفین کی تعلیم پر بہت سا وقت ضائع بھی ہوا ہے کیونکہ ہر چیز تجربہ سے حاصل ہوتی ہے لیکن اب چونکہ ایک تجربہ ہو چکا ہے اس لئے
انوار العلوم جلد کا ۲۸۶ زندگی وقف کرنے کی تحریک میں اُمید کرتا ہوں کہ جتنا وقت ان پر صرف ہوا ہے آئندہ اس سے آدھے عرصہ میں نے مبلغ تیار ہو جایا کریں گے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہوں گے کہ اُن میں سے کوئی جرمن زبان کا ماہر ہوگا ، کوئی فرانسیسی زبان کا ماہر ہو گا ، کوئی ڈچ زبان کا ماہر ہوگا ، کوئی اٹالین زبان کا ماہر ہوگا، کوئی روسی زبان کا ماہر ہو گا، کوئی سپینش زبان کا ماہر ہو گا اور کوئی پرتگیزی زبان کا ماہر ہو گا.اسی طرح ہندوستان کی زبانوں میں سے کسی کو اڑیہ زبان سکھائی جائے گی ،کسی کو بنگالی زبان سکھائی جائے گی ، کسی کو مرہٹی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تامل زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تلنگو زبان سکھائی جائے گی ، کسی کو سندھی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو پشتو زبان سکھائی جائے گی تا کہ وہ ہر زبان میں کام کر سکیں اور ہر زبان کے جاننے والوں کو اسلام میں داخل کر سکیں.پس تبلیغ کا ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں مہارت پیدا کی جائے اور پھر تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے.دوسرا ذریعہ تبلیغ کاطب ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک طالب علم کو خاص طور پر دہلی میں طب کی تعلیم دلوائی ہے.طب کی موٹی موٹی باتیں انسان چھ ماہ میں سیکھ کر ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.ابھی ہمارے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ڈاکٹری کی بجائے دیسی طب کا علاج ہے اور انسان اگر معمولی توجہ سے بھی کام لے تو وہ طب میں مہارت پیدا کر کے کئی قسم کی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے مثلاً داڑھ درد ہے یا بخار ہے یا تلی ہے یا سردرد ہے یا قبض ہے یا کھانسی ہے یا نزلہ ان امراض کے متعلق ایسی ایسی سستی دوائیں موجود ہیں جو چند پیسوں میں تیار ہوسکتی ہیں اور بیسیوں لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.اگر گولیاں بنائی جائیں تو وہ بھی چند آنوں میں دو دو تین تین سو تیار ہو سکتی ہیں.جب کسی بیمار کو ایسا شخص دوائی دے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ فائدہ محسوس ہونے پر دوسرا شخص خدمت کرنے کی کوشش کرے گا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک دفعہ علاج کے لئے بمبئی بلایا گیا.آپ نے یہ سفر جہاز میں کیا تھا.آپ فرماتے تھے کہ دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ خرید لیں مگر میں نے کہا میں تو ڈیک کا ٹکٹ لوں گا.جب جہاز میں سوار ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ تمام جگہ لوگوں سے بھری ہوئی ہے.آپ نے ایک جگہ اپنا بستر بچھایا تو لوگوں نے اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا.وہ گجراتی طرز کے لوگ تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیافہ شناسی میں بڑا ملکہ عطا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۸۷ زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمایا ہوا تھا اور طب میں تو ماہر ہی تھے آپ نے اُن میں سے ایک شخص کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور چونکہ سمندری کنارہ کے رہنے والوں میں قوت باہ کی کمی ہوتی ہے اس لئے آپ نے اُسے کہا مجھے تمہاری شکل سے معلوم ہو گیا ہے کہ تم میں قوت باہ کی کمزوری ہے.وہ کہنے لگا آپ کو کس طرح پتہ لگا ؟ آپ نے کہا میں تمہارے چہرے سے تاڑ گیا ہوں کیونکہ میں طبیب ہوں.اُس نے کہا آپ بالکل درست فرماتے ہیں.مہربانی فرما کر کوئی نسخہ لکھ دیں آپ نے ایک نسخہ لکھ دیا.فرماتے تھے اُس ایک نسخے کا لکھنا تھا کہ یوں معلوم ہوا جیسے سب جہاز والے قوت باہ کے مریض ہیں.ہر ایک نے اپنا اپنا حال آپ سے بیان کرنا شروع کر دیا.کچھ اور امراض کے مریض بھی نکل آئے اور آپ نے ہر ایک کو علاج بتایا.اس کا ایسا اثر ہوا کہ یا تو انہوں نے آپ کا بستر اُٹھا کر پھینکا تھا اور یا درمیان میں ایک بڑی سی جگہ بنا کر بڑی عزت سے انہوں نے آپ کا بستر بچھا دیا.پھر کوئی کھانا پکا کر دیتا ، کوئی پاخانہ میں لوٹا رکھ دیتا، کوئی پانی پلانے کے لئے موجود ہوتا ، کوئی دبانے کے لئے پاس بیٹھا رہتا اس طرح آپ فرماتے کہ میں ڈیک میں اتنے آرام سے پہنچا کہ سیکنڈ کلاس میں بھی اتنا آرام میسر نہیں آ سکتا تھا.تو طب بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے.اگر کوئی شخص با قاعدہ علم طب حاصل نہیں کر سکتا تو وہ چھوٹی موٹی باتیں تو یا درکھ سکتا ہے.عربی میں مثل ہے مَالَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّه.جو چیز ساری حاصل نہیں کی جاسکتی وہ ساری چھوڑ نی بھی تو نہیں چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طب میں سرجری نہیں اسی طرح بعض اور تحقیقاتوں میں وہ ڈاکٹری سے بہت پیچھے ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مخلوق کو ابھی طب سے جس قدر فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے وہ فائدہ ابھی تک نہیں پہنچایا گیا.اگر ہمارے مبلغ طب سیکھ لیں تو انہیں روٹی مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی.وہ جہاں جائیں گے لوگ انہیں عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کی خدمت کر کے خوش ہوں گے.پس یہ بھی ایک ذریعہ ہے جس سے ہماری جماعت کے دوست تبلیغ کر سکتے ہیں.اسی طرح تبلیغ کا ایک یہ بھی ذریعہ ہے کھاتے پیتے لوگ اپنی اولا دوں کو خود خرچ دیں اور ان کے ذریعہ تبلیغ کرائیں.حقیقت یہ ہے کہ قوم اُسی وقت تبلیغ میں کامیاب ہوسکتی ہے جب وہ اپنے گھروں سے.اُسی طرح نکل کھڑی ہو جس طرح بارش کے بعد زمین میں سے کیڑے مکوڑے نکلنے شروع
۲۸۸ زندگی وقف کرنے کی تحریک انوار العلوم جلد ۱۷ ہو جاتے ہیں تب کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے جب بارش کے بعد کیڑے مکوڑے نکلنے شروع ہوتے ہیں درحقیقت وہ بھی ایک چھوٹا سا حشر ہوتا ہے.جب زمین پر پانی کا چھینٹا پڑتا ہے تو کوئی دولاتوں کا ٹڑا، کوئی چار لاتوں کا ٹڑا ، کوئی موٹا ، کوئی چھوٹا سب زمین میں سے نکل آتے ہیں.یہی خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب دنیا پر نبوت کی بارش نازل ہو تو اس کے بعد عالم بھی اور جاہل بھی تھوڑے علم والے بھی اور زیادہ علم والے بھی ، لائق بھی اور نالائق بھی سب اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں جب وہ ایسا کرتے ہیں تو چونکہ سچائی میں ایک طاقت ہوتی ہے اس لئے لوگ خود بخود ہتھیار ڈال دیتے ہیں.اسی طرح اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ پرانے علماء کی طرف توجہ کی جائے اور اُنہیں احمدیت کی طرف مائل کیا جائے.اگر دس پندرہ بڑے بڑے صاحب رسوخ مولوی ہماری جماعت میں داخل ہو جا ئیں تو ان کے اثر کی وجہ سے ایک ایک کے ساتھ ہزار ہزار دو دو ہزار آدمی آ سکتے ہیں.پس ہمیں اپنی جماعت میں مولویوں کو کھینچ کھینچ کر لانا چاہئے بلکہ اگر ہمیں اُن کو قادیان آنے اور یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے اُن کی منتیں بھی کرنی پڑیں تو کوئی حرج نہیں.مولوی قوم کے راجہ ہوتے ہیں جس طرح راجہ کے پیچھے اُس کی رعایا چلتی ہے اسی طرح جب کوئی صاحب اثر مولوی احمدیت قبول کر لے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا بیعت میں شامل ہو جانا بالکل آسان ہوتا ہے.ہماری جماعت میں مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے اثر کے ماتحت بہت لوگ داخل ہوئے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جہلم سے مقدمہ کی پیروی کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ بہت ہی متاثر تھے کیونکہ مولوی برہان الدین صاحب کا وہاں بڑا اثر تھا اور آپ جہاں جاتے یہی وعظ کرتے تھے کہ مرزا صاحب آ رہے ہیں جاؤ اور اُن کو دیکھو.پھر اُن کے وعظ کا رنگ بھی عجیب تھا کہ بار بار کہتے سُبحَانَ اللہ ایہ نعمتاں کتھوں.“ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب جہلم تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سٹیشن سے کچہری تک لوگوں کے اثر دہام کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ اگر تھالی پھینکی جاتی تو اُن کے سروں پر اُڑتی چلی جاتی.ایک علاقہ کے علاقہ میں اتنی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۸۹ زندگی وقف کرنے کی تحریک بڑی بالیچل کا پیدا ہو جانا محض مولوی برہان الدین صاحب کے اثر کا نتیجہ تھا.اسی طرح اگر اب علماء کی طرف توجہ کی جائے تو ہزاروں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں.ایک دوست نے علاقہ سرگودھا کے حالات بیان کر کے عرض کیا کہ یہ علاقہ بھی تبلیغی نقطہ نگاہ سے حضور کی توجہ کا محتاج ہے.اس پر آپ نے فرمایا ) سرگودھا بے شک تبلیغ کے لحاظ سے ہم پر حق رکھتا ہے کیونکہ حضرت خلیفہ اول اسی علاقہ کے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے جب سکھوں نے قادیان فتح کر لیا تو ہمارے خاندان کے افراد کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں کی ریاست نے ان کو گزارہ کے لئے دو گاؤں دے دیئے.کپورتھلہ میں ہی ہمارے پر دادا صاحب فوت ہو گئے تھے.ہمارے دادا کی عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پر دادا اپنے والد کے برخلاف جو بہت بڑے پارسا اور عزم کے مالک تھے کم ہمت تھے اور اسی وجہ سے ہمارے خاندان کو یہ ذلت پہنچی لیکن ہمارے دادا ہمت والے تھے.اُس وقت جب ہمارے پر دادا فوت ہوئے وہ صرف سولہ سال کے تھے لیکن انہوں نے کہا میں اپنے باپ کو قادیان میں ہی دفن کروں گا.چنانچہ وہ اُن کی لاش یہاں لائے سکھوں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا مگر کچھ تو اُن کی دلیری کی وجہ سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ ہمارے آباء اِس علاقہ پر حکمران رہ چکے تھے سارے علاقہ میں شورش ہوگئی اور لوگوں نے کہا ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کو اب یہاں دفن ہونے کے لئے بھی جگہ نہ دی جائے.چنانچہ سکھوں نے اجازت دے دی اور وہ انہیں قادیان میں دفن کر گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دادا نے جب یہ سلوک دیکھا تو انہوں نے کہا چونکہ اس زمانہ میں ساری عزت علم سے ہے اس لئے میں اب علم حاصل کر کے رہونگا تا کہ ہمارے خاندان کو عزت حاصل ہو.چنانچہ انہوں نے گھر کو چھوڑ دیا اور دتی چلے گئے.اُن کے ساتھ اُس زمانہ کے طریق کے مطابق ایک میراثی بھی چل پڑا.اُنہوں نے سنا ہوا تھا کہ مساجد میں تعلیم کا انتظام ہوتا ہے جہاں لڑکے پڑھتے ہیں.وہ بھی گئے اور ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گئے مگر کسی نے اُن کو پوچھا تک نہیں یہاں تک کہ تین چار دن فاقہ سے گزر گئے.
انوار العلوم جلد ۷ ۲۹۰ زندگی وقف کرنے کی تحریک تیسرے چوتھے دن کسی غریب کو خیال آیا اور وہ رات کے وقت انہیں ایک روٹی دے گیا مگر معلوم ہوتا ہے وہ کوئی بہت ہی غریب شخص تھا کیونکہ روٹی سات آٹھ دن کی تھی اور ایسی سوکھی ہوئی تھی جیسے لوہے کی تھالی ہوتی ہے.وہ اپنے ہاتھ میں روٹی لے کر انتہائی افسردگی کے عالم میں بیٹھ گئے اور حیرت سے منہ میں انگلی ڈال کر اپنی حالت پر غور کرنے لگے کہ کس حد تک ہماری حالت گر چکی ہے.میراثی اُن کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اس وقت یہ سخت غم کی حالت میں ہیں اور اُس نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو یہ صدمے سے بیمار ہو جائیں، میراثیوں کو چونکہ بنسی کی عادت ہوتی ہے اِس لئے اُس نے سمجھا کہ اب مجھے کوئی مذاق کر کے ان کی طبیعت کا رُخ کسی اور طرف بدلنا چاہئے.چنانچہ وہ مذاقاً کہنے لگا.مرزا جی ! میرا حصہ.وہ جانتا تھا کہ یہ کوئی حصے والی چیز نہیں مگر چونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کا صدمہ کسی طرح دُور ہو اس لئے اُس نے مذاق کر دیا.انہیں یہ سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے زور سے روٹی اُس کی طرف پھینکی جو اُس کی ناک پر لگی اور خون بہنے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ اُٹھے اور میراثی سے ہمدردی کرنے لگے.اس طرح اُن کی دماغی حالت جو صدمہ سے غیر متوازن ہو گئی تھی درست ہوگئی ورنہ خطرہ یہی تھا کہ وہ اس غم سے کہیں پاگل نہ ہو جائیں.پھر خدا نے اُن کیلئے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ وہ وہاں سے خوب علم پڑھ کر واپس آئے.تو جب انسان کسی بات کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے اصل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ قربانی کی قدر کرتا ہے.اگر لوگ دیکھیں کہ واقعہ میں کوئی شخص تکلیف اُٹھا رہا ہے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنے نفس کو مشقت میں ڈال رہا ہے تو اُن کے دلوں میں ضرور جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اس سے کوئی نیک سلوک کر کے ثواب میں شامل ہو جا ئیں.( عشاء کی نماز کے بعد فرمایا) میں نے جو تبلیغ کی سکیم بتائی ہے اس سے میری غرض یہ ہے کہ دوست اس کی اہمیت کو سمجھیں اور یہ بھی جان لیں کہ ان تبلیغی اخراجات کو برداشت کرنا ہمارے بس سے باہر ہے.ایسے حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ ہم دعاؤں میں مشغول
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۹۱ زندگی وقف کرنے کی تحریک ہو جا ئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنے فضل سے ایسے راستے کھول دے جن سے تبلیغ میں آسانی پیدا ہو.ایسی وسیع دنیا میں ستر مبلغ اور چالیس اُن کے قائم مقام گویا صرف ایک سو دس آدمی میں نے تجویز کئے ہیں مگر پھر بھی سالانہ خرچ کا اندازہ پانچ لاکھ روپیہ تک بن جاتا ہے.پس یہ ایسی چیز ہے جس کے لئے بہت بڑی دعاؤں، گریہ وزاری اور نفس کی اصلاح کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ان مشکلات کو دور فرما دے.روپیہ تو ہا تھ کی میل ہوتی ہے اور وہ پانچ کروڑ بھی اکٹھا ہو سکتا ہے مگر صرف روپیہ تبلیغ کے لئے کافی نہیں ہوتا اس کے لئے دلوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہوتی ہے.پس جماعت کے دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں سے کام لینا چاہئے تا کہ ان مشکلات میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ہماری جماعت اپنے قلوب کی اصلاح کر کے اس کے فضلوں کی وارث ہو جائے.اَللهُمَّ امِينَ (الفضل ۲۲،۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۴۴ء) ل النصر : ٣ مسلم كتاب اللقطة باب الضيافة و نحوها
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۹۲ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے از بد نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اصبح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ ۲۹۳ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے ( تقریر فرموده ۲۰ رمئی ۱۹۴۴ء) تشہد ، تعوّذ ، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- دُنیا میں انسان کے لئے سب سے قیمتی جو ہر سنجیدگی ہے.قرآن کریم نے اس کا نام اخلاص اور ایمان رکھا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیدُ لِلْمُصَلِينَ، ایک طرف تو فرماتا ہے کہ نمازیں پڑھو مگر دوسری طرف نماز پڑھنے والوں کے لئے ہلاکت کا لفظ کہا ہے.اس سے مراد وہی نماز ہے جس میں اخلاص نہ ہو.نما ز انسان اور خدا کے درمیان ملاقات کا ذریعہ ہے.اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے نماز خدا کے حضور حقیقی نماز نہیں کہلا سکتی.روزہ حقیقی روزہ نہیں کہلا سکتا اگر اخلاص نہ ہو.اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے زکوۃ اور صدقہ بھی ہے اگر اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں.ایک ایکٹر بادشاہ بنتا ہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے لیکن ایک پندرہ میں گھماؤں کا چوہدری آتا ہے تو لوگ اُس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ اس میں اصلیت ہے.ایک ایکٹر بڑا چور بنتا ہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے کیونکہ اُس کا چور ہونا ایک تماشہ ہوتا ہے لیکن ایک شخص معمولی چوری کرنے والا ہوتا ہے جو دو آنے پر الیتا ہے تو لوگ اُس کے آنے پر ڈرنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو! چور آ گیا ہے ہوشیار رہنا.لوگ تھیٹر میں جاتے ہیں اور وہاں ایک درزی دیکھتے ہیں جس کے پاس بڑے بڑے لارڈ وغیرہ کپڑے لے کے جاتے ہیں مگر دوسرے دن وہ اُس کے پاس اپنا کپڑا نہیں لے جاتے بلکہ اپنے معمولی درزی کے پاس جس کی سلائی چار آنے ہوتی ہے اپنا کپڑا سلانے کیلئے لے جاتے ہیں کیونکہ وہ سچا درزی ہے
انوار العلوم جلد ۷ ۲۹۴ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے اور اول الذکر جھوٹا.اسی طرح ڈاکٹر کے بیٹے کے پاس لوگ نہیں جاتے حالانکہ بعض دفعہ وہ عرفاً ڈاکٹر کہلاتا ہے کیونکہ حقیقت میں ڈاکٹر نہیں.اسی طرح لوگ معمولی عطار کے پاس جا کر علاج کرا لیتے ہیں مگر ناٹک کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے.پس جب تم دنیاوی کاموں میں اتنی احتیاط کرتے ہو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا اپنے کاموں میں احتیاط نہیں کرتا ؟ اگر تم سو فیصدی احتیاط کرتے ہو تو خدا تعالیٰ دوسو فیصدی کرتا ہے اور جب تم اپنے آپ کو اس قدر عقلمند سمجھتے ہو تو کیا خدا تعالى نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ اتنا بے وقوف ہے کہ وہ تمہاری بغیر اخلاص کے نماز قبول کر لے.تمہارے کھوٹے سے کھوٹے روپے کو صدقہ کے طور پر قبول کر لے.اصل چیز اخلاص ہے جب تک اخلاص پیدا نہ ہو جائے تب تک ترقی ممکن نہیں.بڑی دقت یہی ہے کہ لوگ اخلاص سے بہت دُور ہیں.عورتیں بالعموم لفاظی کو قبول کر لیتی ہیں.عورتیں احمدی کہلاتی ہیں لیکن سب بُرائیاں ان میں پائی جاتی ہیں حالانکہ عمل اور اخلاص کی ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی ناممکن ہے.موجودہ حالت میں مردوں کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ یا تو احمدی عورتیں اخلاص پیدا کریں یا پھر وہ ان کو چھوڑ دیں.اس وقت تک ایک بھی مثال ہمارے پاس ایسی نہیں کہ مرد مُرتد ہوا ہو اور عورت بچ گئی ہو.مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مُرتد ہو جاتی ہیں.جس کے یہ معنی ہیں کہ عورت کا اپنا کوئی ایمان نہیں اُس کا ایمان اُس کے خاوند کا ایمان تھا.دس ہیں میں سے ایک عورت تو ایسی ہوتی جس کے متعلق ہم کہہ سکتے کہ اُس کا اپنا ایمان تھا.ان کے ایمان اپنے ایمان نہیں بلکہ خاوندوں اور باپوں اور بیٹوں کے ایمان تھے.دیگ ایک چاول سے پہچانی جاتی ہے یہ ایک نمونہ ہمارے سامنے ہے.شاید خدا تعالیٰ نے بھی اسی لئے یہ ارتداد دکھایا کہ عورتوں کے ایمان کا پتہ لگ جائے.جب عبدالرحمن مصری مرتد ہوا تو میرا خیال تھا کہ اُس کی بیوی شاید اُس کے ساتھ مرتد نہ ہو.میرے اُستاد کی وہ بیٹی تھی بڑے پختہ ایمان کی عورت معلوم ہوتی تھی لیکن آخر خاوند کے ساتھ وہ بھی مرتد ہوئی.تو یہ باتیں بتاتی ہیں کہ جو اخلاص اور ایمان چاہئے وہ ہماری عورتوں میں نہیں ہے اور اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے.میں خصو صالجنہ کو خطاب کرتا ہوں.ہر محلہ کی لجنہ اپنے آپ کو منظم کرے اور ایک ہفتہ کے اندراند رسب جوان، بوڑھی عورتوں کو جمع کر کے ان کی
انوار العلوم جلد کا ۲۹۵ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے تعدا د معلوم کرے اور جبراً اُن کو لجنہ میں داخل کرے اور جو داخل نہ ہو اُس کے متعلق سمجھ لو کہ وہ احمدی نہیں ہے.پہلے لجنہ کا ایک ہی اجلاس ہوتا تھا جس میں سب ممبرات شامل ہوتی تھیں.مگرسُستی طاری ہوتی گئی اور محلہ وار کام شروع ہوا اب صرف چندہ لینے تک کام محدودرہ گیا.کئی سال سے کوئی رپورٹ میرے پاس نہیں آئی اس لئے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ کام ہوتا ہی نہیں.میں نے اسی لئے آج تم کو جمع کیا ہے کہ اصولی ہدایات تم کو دوں.ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنے آپ کو منظم کر لو اور ہر احمدی عورت کو لجنہ میں شامل کرو اور پھر جمع ہو کر اپنے لئے کام متعین کرو.بہت سی عورتیں صحیح پر دہ نہیں کرتیں.غیر احمد یوں، بدمعاشوں کے اڈے یہاں بن چکے ہیں جن کی وجہ سے بہت بدنامی ہورہی ہے.ایسی آوارہ عورتوں کا جس گھر میں جانا ہوگا وہ ایک غیر مرد کے آنے کے برابر ہے.پھر عورت کا اپنے مرد کے بغیر سفر پر جانا خلاف شریعت ہے مگر مجھے معلوم ہوا کہ بعض عورتیں بغیر اپنے مرد کے بٹالہ یا امرتسر کا سفر کرتی ہیں.پھر سینما دیکھنے سے ہم نے روکا ہوا ہے مگر محلوں کے لڑکے بعض ریلوے گارڈوں سے دوستانہ کر کے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں اور بٹالہ جا کر سینما دیکھتے ہیں.آخر سینما والے انہیں مفت کیوں تماشہ دکھاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اُن سے اُن کے دوستانہ ہوتے ہیں اور ہر دوستانہ جو جرم میں محمد ہوتا ہے خود بھی ایک جرم ہے.اگر اُن کی مائیں اُن کی نگرانی کریں تو وہ کبھی نہ جاسکیں.پھر قادیان میں بیسیوں ریڈیو لگے ہوئے ہیں اور گانے سُنے جاتے ہیں.ریڈ یو خبروں کے لئے علمی وادبی مضامین کے لئے ہیں.اگر اس دن کے بعد کوئی رپورٹ میرے پاس آئی کہ کسی نے گانا سنا ہے خواہ تم کہو کہ نعت سُنی ہے تو اس کا مقاطعہ کر دیا جائے گا.علمی وادبی تقاریر اور خبروں کے لئے ریڈیو مفید ہے یا کوئی ادبی مضمون یا ڈرامہ جس میں گانا نہ ہو.باقی قوالی ، نعت وغیرہ سب ناجائز ہے.بچہ بھی آ آ کرتا ہے اور نگا پھرتا ہے قوالی گانے والے بھی آ آ کرتے ہیں اگر گانے والے آآکریں تو تم شوق سے سنو اور اگر وہ ننگے آ کھڑے ہوں تو تم اُن سے دور بھاگتی ہو.تو گانے میں وہی حرکت جو بچے کرتے ہیں وہی گانے والے بھی کرتے ہیں.
انوار العلوم جلد ۷ ۲۹۶ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے یہ ساری باتیں گندی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں اور وقار کو تباہ کرنے والی ہیں.یہ لجنہ کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کرے.مجھے جو یہ الہام ہوا ہے کہ اگر تم پچاس فی صدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.پچاس فیصدی سے یہی مراد ہے کہ پچاس فیصدی کی اصلاح بھی بہت بڑی بات ہے.تم میں اور غیر احمدی میں اس کے سوا کیا فرق ہے کہ تم اپنے پیسے چندے میں دے دیتی ہو اور وہ سینما میں دے دیتی ہیں.حقیقی روح ایمان کی ابھی تم کو بھی حاصل نہیں ہوئی تم میں سے کوئی عورت علمی بات کرنے کے قابل نہیں، کسی مجلس میں بول نہیں سکتی.تم گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے بچے ہوئے اوقات کو جو تم خدا کو دے سکتی تھیں جب خدا کو دینے کی بجائے ریڈیوسن کر میراثیوں اور کچنوں کو دے دیئے تو خدا کے گھر میں تمہارے لئے کیا حصہ ہو گا.تمہاری نسلیں کس طرح اصلاح پذیر ہوں گی.آئندہ نسلوں کی اصلاح کا کون ذمہ دار ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ تم شادیاں کرو تا تمہاری نسل بڑھے اور اسلام ترقی کرے ہے مگر ایسی نسل سے کیا فائدہ جو اسلام کے سپاہی نہ ہوں.پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے.اگر نوکری کرو گی تو بچوں کو کون سنبھالے گا ؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیست بد ہوتی ہے اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہو گا.اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتیجے ہی پیدا ہوں گے.جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر اُن کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.ہاں اگر لڑ کیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لئے حاصل کریں.اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اُس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے.سیه ساری باتیں لجنہ سے تعلق رکھتی ہیں جن کی وہ اصلاح کرے.مرکزی لجنہ کی سیکرٹری تمام محلہ جات سے رپورٹ لیکر مجھے دکھائے اور میں یہ قانون بنا تا ہوں کہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ یا فی الحال دو ماہ میں ایک دفعہ قادیان کی سب عورتیں اکٹھی ہوں اور اُن کو غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے محلہ میں کون کون سے نقائص ہیں اور اُن کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے.محلہ کی پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کا فرض ہوگا کہ وہ سب عورتوں کو جلسہ میں شریک کرے.اگر تم صرف پچاس فیصدی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۹۷ لجنہ اماءاللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے عورتوں کو جلسہ میں لاؤ گی تو باقی پچاس فیصدی عورتوں کو تم مار رہی ہو گی کیونکہ وہ اپنے اخلاص میں کم ہوتی جائیں گی.پندرہ روزہ جلسہ محلہ کا ہو اور پندرہ روزہ مرکز کا.ایک جمعہ یا ہفتہ کو محلہ کا جلسہ ہوا اور ایک ہفتہ مرکز کا.کام کو باقاعدگی سے کرنے سے ہی فائدہ ہوگا.تھوڑا کام کرو اور اُس کی عادت ڈالو پھر اُس کو اور بڑھاؤ اور بڑھاؤ.ہر عورت سے عہد لیا جائے کہ وہ لجنہ کے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکلتے وقت کسی اور گھر نہ جائے اور اپنے کام کو پورا کرے تا کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ لجنہ کے جلسہ کے بہانے سے عورتیں بے فائدہ دوسرے گھروں میں پھرتی ہیں.الماعون : ۵ (اخبار الفضل ۲۴ رمئی ۱۹۴۴ء) ابوداؤد کتاب النكاح باب النهى عن تزويج من لم يلدمن النساء
انوار العلوم جلد ۱۷ ۲۹۸ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض از رنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۲۹۹ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ( تقریر فرموده ۴/ جون ۱۹۴۴ء.برموقع افتتاح تعلیم الاسلام کالج قادیان ) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے معوذتین کی تلاوت کی اور اس کے بعد فرمایا : - یہ تقریب جو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دو گنا مقاصد رکھتی ہے.ایک مقصد تو اشاعتِ تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی.جہاں تک تعلیمی سوال ہے یہ کالج اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لئے کھلے رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا حصول کسی ایک قوم کے لئے نہیں ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم کو بحیثیت ایک انسان ہونے کے ہر انسان کے لئے ممکن اور سہل الحصول بنا دیں.میں نے لاہور میں ایک دو ایسی انسٹی ٹیوٹ دیکھیں جن کے بانی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان میں کسی مسلمان کا داخلہ نا جائز ہو گا.مجھ سے جب اس بات کا ذکر ہوا تو میں نے کہا اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی ایسی ہی انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور اس میں یہ واضح کریں کہ اس میں کسی غیر مسلم کا داخلہ نا جائز نہ ہوگا، کیونکہ ایک مسلم کا اخلاقی نقطہ نگاہ دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے.پس جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ہر مذہب وملت کے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو.اس کالج کے دروازے ہر مذہب وملت کے لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور انہیں ہر ممکن امداد اس انسٹی ٹیوٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دی جائے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم بہت سا اثر مذہب پر بھی ڈالتی ہے.ہم یقین
تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض انوار العلوم جلد ۱۷ رکھتے ہیں کہ وہ غلط اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے خلاف ہوتا ہے.ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ خدا کا فعل اُس کے قول کے خلاف ہوتا ہے، نہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ خدا کا قول اُس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے.ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ خواہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہ بھی ہوں جن سے اِن اعتراضات کا اسی رنگ میں دفعیہ کیا جا سکتا ہو جس رنگ میں وہ اسلام پر کئے جاتے ہیں یا جن علوم کے ذریعہ وہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اُنہی علوم کے ذریعہ اُن اعتراضات کا رڈ کیا جا سکتا ہو.پھر بھی یہ یقینی بات ہے کہ جو اعتراضات خدا تعالیٰ کی ہستی پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات خدا تعالیٰ کے رسولوں پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات اسلام کے بیان کردہ عقائد پر پڑتے ہیں وہ تمام اعتراضات غلط ہیں اور یقینا کسی غلط استنباط کا نتیجہ ہیں.چونکہ اس قسم کے اعتراضات کا مرکز کالج ہوتے ہیں اس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں اُن کا انہی علوم کے ذریعہ رد کیا جائے.اور ہمارے کالج میں جہاں اِن علوم کے پڑھانے والے پروفیسر مقرر ہوں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہو کہ وہ انہی علوم کے ذریعہ ان اعتراضات کو رڈ کریں اور دنیا پر ثابت کریں کہ اسلام پر جو اعتراضات اِن علوم کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں وہ سرتا پا غلط اور بے بنیاد ہیں.پس جہاں دوسرے پروفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہوگی کہ وہ ان اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ رڈ کرتے چلے جائیں.اب تک ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا.انفرادی طور پر ہماری جماعت میں پروفیسر موجود تھے مگر وہ چنداں مفید نہیں ہو سکتے تھے اور نہ اُن کے لئے کوئی موقع تھا کہ وہ اپنے مقصد اور مدعا کو معتد بہ طور پر حاصل کرسکیں.پس جہاں ہمارے کالج کے منتظمین کو اور عملہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ غیر مذاہب کے طالب علم جو داخل ہونے کے لئے آئیں اُن کے داخلہ میں کوئی ایسی روک نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کا لج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کر سکیں وہاں منتظمین کو یہ بھی چاہئے کہ وہ کالج کے
انوار العلوم جلد ۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض پروفیسروں کے ایسے ادارے بنا ئیں جو ان مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں جمع کریں اور اپنے طور پر اُن کو رڈ کرنے کی کوشش کریں اور ایسے رنگ میں تحقیقات کریں کہ نہ صرف عقلی اور مذہبی طور پر وہ ان اعتراضات کو رڈ کر سکیں بلکہ خودان علوم سے ہی وہ اُن کی تردید کر دیں.میں نے دیکھا ہے بسا اوقات بعض علوم جو رائج ہوتے ہیں محض ان کی ابتداء کی وجہ سے لوگ ان سے متاثر ہو جاتے ہیں.ذرا کوئی تھیوری نکل آئے تو بغیر اُس کا ماحول دیکھنے اور بغیر اُس کے مَالَهُ اور مَا عَلَيْهِ پر کافی غور کرنے کے وہ ان سے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے علمی تحقیق قرار دے دیتے ہیں.مثلاً پیچھے سو سال سے ڈارون تھیوری نے انسانی دماغوں پر ایسا قبضہ کر لیا تھا کہ گو اس کا مذہب پر حملہ نہیں تھا مگر لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس تھیوری کی وجہ سے تمام مذاہب باطل ہو گئے ہیں کیونکہ ارتقاء کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے.حالانکہ جس مذہب پر اس تھیوری کا براہ راست حملہ ہو سکتا تھا وہ عیسائیت ہے، اسلام پر اس کا کوئی حملہ نہیں ہوسکتا تھا.اسی طرح جہاں تک خدا تعالیٰ کے وجود کا علمی تعلق ہے ارتقاء کے مسئلہ کا مذہب کے خلاف کوئی اثر نہیں تھا صرف انتہائی حد تک پہنچ کر اس مسئلہ کا بعض صفات الہیہ کے ساتھ ٹکراؤ نظر آتا تھا اور درحقیقت وہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ تھا لیکن ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈارون تھیوری کے خلاف کوئی بات کہنا عقل اور سائنس پر حملہ کرنا ہے.مگر اب ہم دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ وہی یورپ جو کسی زمانہ میں ڈارون تھیوری کا قائل تھا اب اس میں ایک زبر دست رو اس تھیوری کے خلاف چل رہی ہے اور اب اس پر نیا حملہ حساب کی طرف سے ہوا ہے.چنا نچہ علم حساب کے ماہرین اس طرف آرہے ہیں کہ یہ تھوری بالکل غلط ہے.مجھے پہلے بھی اس قسم کے رسالے پڑھنے کا موقع ملا تھا مگر گزشتہ دنوں جب میں دہلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے ماہر پروفیسر مولرے ملے جنہیں پنجاب یونیورسٹی نے پچھلے دنوں لیکچروں کے لئے بلایا تھا اور اُن کے پانچ سات لیکچر ہوئے تھے انہوں نے بتایا تھا کہ علم حساب کی رُو سے یہ قطعی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ سورج اڑتالیس ہزار سال میں اپنے محور کے گرد چکر لگاتا ہے اور جب وہ اپنے اِس چکر کو مکمل کر لیتا ہے تو اُس وقت مختلف سیاروں سے مل کر اُس کی گرمی اتنی
انوار العلوم جلد ۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض تیز ہو جاتی ہے کہ اس گرمی کے اثر کی وجہ سے اس کے اردگرد چکر لگانے والے تمام سیارے پکھل کر راکھ ہو جاتے ہیں.میں نے کہا اگر اڑتالیس ہزار سال میں تمام سیارے سورج کی گرمی سے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہوتی.وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے دنیا کی عمر اس سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتی.میں نے کہا ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم قطعی طور پر صحیح ہے لیکن اگر آپ کی رائے کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ڈارون تھیوری اور جیالوجی کی پرانی تھیوری بالکل باطل ہے.وہ کہنے لگے یقیناً باطل ہیں.میں نے کہا علوم کا اتنا بڑا ٹکراؤ آپس میں کس طرح ہو گیا ؟ انہوں نے کہا وہ تو علوم ہیں ہی نہیں عقلی ڈھکو سلے ہیں اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم حساب کی رُو سے کہتے ہیں.بہر حال اب ایک ایسی رو چل پڑی ہے کہ وہ بات جس کے متعلق سو سال سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے بغیر علم مکمل ہی نہیں ہو سکتا اب اسی کو ر ڈ کرنے والے اور علوم ظاہر ہور ہے ہیں.اسی طرح نیوٹن کی تھیوری جو کششِ ثقل کے متعلق تھی ایک لمبے عرصہ تک قائم رہی مگر آب آئن سٹائن کے نظریہ نے اس کا بہت سا حصہ باطل کر دیا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جن باتوں سے دنیا مرعوب ہو جاتی ہے وہ بسا اوقات محض باطل ہوتی ہیں اور اُن کا لوگوں کے دلوں پر اثر نے علم کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے.جب دنیا میں ہمیں یہ حالات نظر آ رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسائل جنہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی ہمارے پروفیسر دلیری سے یہ کوشش نہ کریں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں بعض علوم ان کو باطل کر دیں ہماری انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی ان کا غلط ہونا ظاہر کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلام پر ان علوم کے ذریعہ جو حملے کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں.اگر وہ کوشش کریں تو میرے نزدیک ان کا اس کام میں کامیاب ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ خدا کی مدد سے ، محمد رسول اللہ ﷺ نے جو دین قائم کیا ہے اس کی مدد سے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو روشنی لائے ہیں اس کی مدد سے اور احمدیت نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس کی مدد سے وہ بہت جلد اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور جو کام اور لوگوں سے دس گنا عرصہ میں بھی نہیں ہوسکتا وہ ہمارے پروفیسر قلیل سے قلیل مدت میں سرانجام دے سکتے ہیں.
تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض انوار العلوم جلد ۱۷ پس میری غرض کالج کے قیام سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ایک ایسا مرکز مل جائے جس میں ہم بیج کے طور پر ان تمام باتوں کو قائم کر دیں تا کہ آہستہ آہستہ اس پیج کے ذریعہ ایک ایسا درخت قائم ہو جائے ، ایک ایسا نظام قائم ہو جائے ، ایک ایسا ماحول قائم ہو جائے جو اسلام کی مد دکر نے والا ہو، جیسے یورو بین نظام اسلام کے خلاف حملہ کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہے.پس ہمارے کالج کے منتظمین کو مختلف علوم کے پروفیسروں کی ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہئیں جن کی غرض یہ ہو کہ اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے بڑے علوم کے ذریعہ جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا دفعیہ انہی علوم کے ذریعہ کریں.اور اگر وہ دیکھیں کہ موجودہ علوم کی مدد سے ان کا دفعیہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ پوانٹ نوٹ کریں کہ کون کون سی ایسی باتیں ہیں جو موجودہ علوم سے حل نہیں ہوتیں اور نہ صرف خود ان پر غور کریں بلکہ کالج کے بالمقابل چونکہ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے اس لئے وہ پوائنٹ نوٹ کر کے اس.انسٹی ٹیوٹ کو بھجواتے رہیں اور انہیں کہیں کہ تم بھی ان باتوں پر غور کرو اور ہماری مدد کرو کہ کس طرح اسلام کے مطابق ہم ان کی تشریح کر سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ان باتوں کا محتاج نہیں اسلام وہ مذہب ہے جس کا مدار ایک زندہ خدا پر ہے پس وہ سائنس کی تحقیقات کا محتاج نہیں.مثلاً وہی پر و فیسر مولر جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے جب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور نیو یارک کے بعض اور پروفیسر بھی تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یو نیورس کا ایک مرکز ہے.اس مرکز کا انہوں نے نام بھی لیا تھا جو مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا.اُنہوں نے بتایا کہ سارے نظامِ عالم کا فلاں مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اُس کے علاوہ اور لاکھوں کروڑوں سورج چکر لگا رہے ہیں اور انہوں نے کہا میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے.گویا اس تحقیق کے ذریعہ ہم خدا کے بھی قائل ہیں، یہ نہیں کہ ہم دہریت کی طرف مائل ہو گئے ہوں.پہلے سائنس خدا تعالیٰ کے وجود کو رڈ کرتی تھی مگر آب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے.میں نے کہا نظام عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں قرآن کریم سے بھی ثابت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۰۴ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ہے کہ دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے.مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں.میں نے اُن سے کہا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنے کلام اور الہام کے ذریعہ وہ مجھے قبل از وقت بتا دیتا ہے.آپ بتائیں کہ کیا آپ جس مرکز کو خدا کہتے ہیں وہ بھی کسی پر الہام نازل کر سکتا ہے؟ وہ کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا.میں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کرلوں کہ وہی مرکز خدا ہے.مجھے تو ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں.کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی دوسال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے.پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا آپ مجھے بتائیں کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے اٹھائیس سو ہوائی جہاز بھجوایا جائے گا.وہ کہنے لگے اس کرہ سے تو کوئی ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جا سکتی.میں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اِس کرے کا اور اسی طرح اور کروں کا خدا کوئی اور ہے، یہ خود اپنی ذات میں خدا نہیں ہیں کیونکہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اس مرکز کے ذریعہ کسی کو کوئی خبر قبل از وقت نہیں پہنچ سکتی لیکن میں اپنے تجر بہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے.پس آپ بیشک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں لیکن ہم تو ایک علیم و خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں.اُس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر جلال بھی ہوتا ہے، اُس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندرخی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر سمیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر حلیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر واسع ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے غرض بیسیوں قسم کی صفات ہیں جو اُس کے اندر پائی جاتی ہیں.اسی طرح اُس کا نور ہونا ، اُس کا وہاب ہونا، اُس کا شکور ہونا ، اُس کا غفور ہونا ، اُس کا رحیم ہونا ، اُس کا ودود ہونا ، اُس کا کریم ہونا ، اُس کا ستار ہونا اور اسی طرح اور کئی صفات کا اُس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں.کیا یہ صفات اس مرکز میں بھی پائی جاتی ہیں جس کو آپ خدا
۳۰۵ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض انوار العلوم جلد ۱۷ کہتے ہیں؟ جب ایک طرف اس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو اپنی ان صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اُس کا کلام پورا ہو جاتا ہے اور جو کچھ اُس نے کہا ہوتا ہے وہی کچھ دنیا کو دیکھنا پڑتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح مان سکتے ہیں.اس پر وہ کہنے لگا اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ تھیوری باطل ہے.اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو تو مذہب کے لحاظ سے ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں.ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم سائنس کے علوم کی مدد سے خدا تعالیٰ کو حاصل کریں خدا بغیر سائنس کے بھی انسان کو مل جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو آپ نے نہ فلسفہ پڑھا، نہ سائنس پڑھی ، نہ حساب پڑھا، نہ کوئی اور علم سیکھا مگر پھر بھی خدا آپ سے اس طرح بولا کہ آج تک نہ کسی سائنسدان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے، نہ کسی حساب دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے ، نہ کسی فلسفی کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نہ یہ فلسفہ پڑھا، نہ یہ سائنس پڑھی ، نہ یہ حساب پڑھا لیکن جس رنگ میں خدا نے آپ سے کلام کیا وہ نہ کسی فلسفے والے کو نصیب ہوا ، نہ کسی سائنس والے کو نصیب ہوا ، نہ کسی حساب والے کو نصیب ہوا.اسی طرح اب میرے ساتھ جس طرح خدا متواتر کلام کرتا اور اپنے غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرماتا ہے یہ نہ سائنس کا نتیجہ ہے، نہ فلسفے کا نتیجہ ہے، نہ حساب کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے نہ سائنس پڑھی ہے ، نہ فلسفہ پڑھا ہے، نہ حساب پڑھا ہے تو ہمیں کسی سائنس یا فلسفہ یا حساب کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لوگ جو دن رات ان علوم میں محو رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ اگر ہم اُس کے سامنے اپنے الہامات پیش کریں اور وہ اِن پر غور کرے تو ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ جائے گا.جیسے پروفیسر مولر جب میرے پاس آیا اور میں نے اُس سے سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیں تو وہ حقیقت کو سمجھ گیا.اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ میں مجھے قبل از وقت الہام کے ذریعہ کئی خبر میں دی گئی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہو ئیں.اس وجہ سے اُس کی راہ میں مشکلات تھیں لیکن اُس نے اتنا
انوار العلوم جلد ۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ضرور تسلیم کر لیا کہ اگر الہام ثابت ہو جائے تو پھر یہ مان لینا پڑے گا کہ جس تھیوری کو میں پیش کرتا ہوں وہ غلط ہے.جب اُس نے الہام کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو غلط مان لیا تو وہ جن کے سامنے الہام پورے ہوتے ہیں وہ ایسی تھیوری کو کب مان سکتے ہیں.وہ تو ایسے ہی خدا کو مان سکتے ہیں جو قادر ہے، کریم ہے، ہیمن ہے ، عزیز ہے، سمیع ہے، مجیب ہے ، حفیظ ہے اسی طرح اور کئی صفاتِ حسنہ کا مالک ہے.اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو کون رڈ کر سکتا ہے.تو سائنس بھی اور فلسفہ بھی اور حساب بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے ایک تھیوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ان کو ماننے والا کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ غلط ہوں یا شاید یہ صیح ہوں اسے قطعی اور یقینی وثوق ان علوم کی سچائی پر نہیں ہو سکتا لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر جو یقین ہے اور وہ ہر قسم کے شبہات سے بالا تر ہے وہ یقین ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے خدا! میں سورج کا انکار کر سکتا ہوں، میں اپنے وجود کا انکار کر سکتا ہوں مگر جس طرح تو مجھ پر ظاہر ہوا ہے میں اس کا کبھی انکار نہیں کر سکتا.یہ وہ یقین ہے جو خدا پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتا ہے.مگر کیا ایسا یقین کسی سائنسدان کو اپنے کسی سائنس کے مسئلہ کی سچائی پر ہو سکتا ہے یا کیا ایسا یقین کسی حساب دان کو اپنے حساب کے کسی مسئلہ کی سچائی پر ہوسکتا ہے؟ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ حساب قطعی اور یقینی چیز ہے مگر اب نئی دریافتیں ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حساب کے متعلق بھی شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.مگر حساب سے عام سودے والا حساب مراد نہیں بلکہ وہ حساب مراد ہے جو فلسفہ کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور فلسفہ خود مشکوک ہوتا ہے.ہر زمانہ میں جو فلاسفر ظاہر ہوتا ہے اُس کے علوم کا انکار کرنے والا علوم جدیدہ کا منکر قرار دیا جاتا ہے لیکن ابھی پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلسفی کھڑا ہو جاتا ہے جو اس پہلے فلاسفر کی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا اور نئے نظریات پیش کرنا شروع کر دیتا ہے.اُس وقت جولوگ اُس کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لوگ ان کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ علوم جدیدہ کے منکر ہیں مگر پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلاسفر اس تحقیق کو قدیم تحقیق قرار دے کر ایک نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور پہلی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا ہے.کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ خدا کا وجود بھی غلط قرار دیا گیا ہو؟ یا کبھی کوئی نبی ایسا کھڑا -
انوار العلوم جلد ۷ ۳۰۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ہوا ہو جس نے کہا ہو کہ خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں جو خیال پایا جاتا تھا وہ موجودہ تحقیق نے غلط ثابت کر دیا ہے؟ آدم سے لیکر اب تک ہمیشہ ایسے وجود آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے اور پھر دلائل و براہین سے اُس کے وجود کو ایسا ثابت کیا کہ دنیا اُن دلائل کا انکار نہ کر سکی.انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی طرف سے کھڑے ہوئے ہیں اور خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا.چنانچہ دنیا نے اُن کی مخالفت کی مگر خدا نے اُن کو کامیاب کر کے دکھا دیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ اس عالم کا حقیقتاً ایک قادر اور مقتدر خدا ہے جو اپنے پیاروں سے کلام کرتا اور مخالف حالات میں اُن کو کامیاب کرتا ہے.پس خدا کے وجود پر انبیاء کی متفقہ گواہی ایک قطعی اور یقینی شہادت ہے جو اُس کی ہستی کو ثابت کر رہی ہے.آج تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی تردید کی ہو.ہرسائنسدان پہلے سائنسدان کی تردید کرتا ہے، ہر فلاسفر پہلے فلاسفر کی تردید کرتا ہے، ہر حساب دان پہلے حساب دان کی تردید کرتا ہے مگر انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ اُن کی تردید کرے، وہ اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کو باطل ثابت کرے.قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں پیش کیا تھا جسے عیسائیوں نے غلطی سے نہ سمجھا اور اعتراض کر دیا کہ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ : یعنی دنیا میں ایک ہی سلسلہ ہے جس میں ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا ہے اس کی تکذیب اور تردید نہیں کرتا.آدم سے لیکر حضرت محمد مصطفی ماہ تک اور محمد اللہ سے لیکر مسیح موعود تک ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس نے پہلے انبیاء اور اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کا انکار کیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ پہلوں کی تصدیق کرتا ہے.لیکن دوسرے تمام علوم چونکہ ظنی ہیں ، وہمی اور خیالی ہیں اس لئے ہر نئی سائنس پہلی سائنس کی تردید کرتی ہے اور ہر نیا فلسفہ پہلے فلسفہ کی تردید کرتا ہے، ہر نیا حساب پہلے حساب کی تردید کرتا ہے.بیشک انبیاء کی تعلیمیں منسوخ بھی ہوتی ہیں مگر منسوخ ہونا اور چیز ہے اور ان تعلیموں کو غلط قرار دینا اور چیز ہے.فلسفہ والے کہتے ہیں کہ صلى الله علوم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۰۸ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض.فلاں زمانہ میں جو فلسفی گزرا تھا اُس کا فلسفہ غلط تھا کیونکہ نئی تحقیقات نے اس کو باطل ثابت کر دیا ہے سائنسدان کہتے ہیں پہلے سائنسدانوں نے غلطی کی ، انہوں نے فلاں فلاں مسائل بالکل غلط بیان کئے تھے.اسی طرح علم حساب کی تحقیق ہوتی ہے حساب دان یہ کہتے ہیں کہ فلاں حساب دان نے یہ غلطی کی تھی اور فلاں حساب دان نے وہ غلطی کی تھی لیکن دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہوا اور اُس نے یہ کہا ہو کہ فلاں نبی نے غلط بات کہی تھی.انبیائے سابقین کی تعلیمیں بیشک منسوخ ہوتی رہی ہیں مگر منسوخ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ تعلیمیں غلط تھیں.ان تعلیموں کے منسوخ ہونے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ وہ تعلیمیں اُس زمانہ کے لئے تھیں بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھیں.پس ہمیں ذاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سائنس اور فلسفہ اور حساب اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت ثابت کریں ، اسلام ان سب سے بالا ہے لیکن چونکہ دنیا میں کچھ لوگ ان وہموں میں مبتلا ہیں اور وہ اِن علوم کے رُعب کی وجہ سے اسلام کی تائید میں اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے اس لئے اُن کی ہدایت اور راہ نمائی کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مرکز کھولیں اور اُن کی زبان میں اُن سے باتیں کرنے کی کوشش کریں اور انہیں بتائیں کہ علومِ جدیدہ کی نئی تحقیقا تیں بھی اسلام کی مؤید ہیں.اسلام کی تردید کرنے والی اور اس کو غلط ثابت کرنے والی نہیں ہیں.یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے چونکہ یہ نیا کام ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کام میں وقتیں پیش آئیں لیکن ایک وقت آئے گا جب آہستہ آہستہ ان علوم کے ذریعہ بھی اسلام کی صداقت دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل جائے گی اور لوگ محسوس کریں گے کہ علوم خواہ کس قدر بڑھ جائیں ،سائنس خواہ کس قدر ترقی کر جائے اسلام کے کسی مسئلہ پرزد نہیں پڑسکتی.دنیا میں ہمیشہ دشمن کے قلعہ پر پہلے گولہ باری کی جاتی ہے اور یہ گولہ باری فوج کا بہت بڑا کام ہوتا ہے لیکن جب گولہ باری کرتے کرتے قلعہ میں سوراخ ہو جاتا ہے تو پھر فوج اس سُرعت سے بڑھتی ہے کہ دشمن کے لئے ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا.ہم نے بھی کفر کے مقابلہ میں ایک بنیا د رکھی ہے اور ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے پرانے زمانہ کی منجنیقیں اپنے ہاتھ میں لیکر کوئی شخص موجودہ زمانہ کے مضبوط ترین قلعوں
انوار العلوم جلد ۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض کو سر کرنے کی کوشش کرے یا غلیلوں سے دشمن کو شکست دینے کا ارادہ کرے.ہم کو بھی جب دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.وہ عظیم الشان قلعے جو کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں، جن کی تعمیر میں بڑے بڑے قیمتی مصالحے صرف ہوئے ہیں ، جن کو ایلیون پونڈر گنز(Eleven Pounder Guns) سیون ٹی فائیو لی میٹر گنز(75M.Meter Guns) بھی بمشکل سر کر سکتی ہیں، ان قلعوں کو وہ ان پتھروں یا غلیلوں سے کس طرح تو ڈسکیں گے مگر جو خدا کی طرف سے کام ہوتے ہیں وہ اسی طرح ہوتے ہیں.پہلے دنیا اُن کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے ایسا ہونا ناممکن ہے مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی دنیا کہتی ہے اس کام نے تو ہونا ہی تھا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے.جب محمد رسول اللہ ﷺ آئے تو لوگوں نے اُس وقت یہی کیا کہ ان دعووں کا پورا ہونا ناممکن ہے.انہوں نے آپ کو مجنون کہا، انہوں نے آپ کے متعلق یہ کہا کہ اس شخص پر نَعُوذُ بِاللهِ ہمارے بتوں کی لعنت پڑ گئی ہے مگر آج یورپ کے مصنفوں کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو، وہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں قیصر کی حکومت کو شکست ہوگئی ، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں کسری کی حکومت کو شکست ہوگئی ، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم نہیں ٹھہر سکی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور اُس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے جومحمد اللہ کی تائید میں تھے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں تو آپ کے دعوئی کو پاگل پن اور جنون سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے دعوی کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تو اس میں کون سی عجب بات ہے، زمانہ کے حالات اس دعوئی کے مطابق تھے اور لوگوں کی طبائع آپ کے عقائد کو تسلیم کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو چکی تھیں.یہی احمدیت کا حال ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا لوگ کہتے تھے کہ ناممکن ہے کہ یہ شخص دنیا پر فتح حاصل کر سکے ، یہ اپنی آئی آپ مر جائے گا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے یہ کہ دیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گراؤں گا.سے مگر آپ کے سلسلہ کو دن بدن ترقی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ شخص جسے قادیان میں بھی لوگ اچھی طرح نہیں جانتے تھے ، اُس کی جماعت پہلے پنجاب کے مختلف حلقوں میں پھیلنی شروع
انوار العلوم جلد ۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ہوئی.پھر پنجاب سے بڑھی اور افغانستان میں گئی ، بنگال میں گئی ، بمبئی میں گئی ، مدراس میں گئی ، یو.پی میں گئی ، سندھ میں گئی ، بہار میں گئی ، اڑیسہ میں گئی سی پی میں گئی ، آسام میں گئی اور پھر اس سے بڑھ کر بیرونی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی.چنانچہ انگلستان میں احمدیت پھیلی ، جرمنی میں احمدیت پھیلی ، ہنگری میں احمدیت پھیلی، امریکہ میں احمدیت پھیلی ، ارجنٹائن میں احمدیت پھیلی، یوگوسلاویہ میں احمدیت پھیلی، البانیہ میں احمدیت پھیلی، پولینڈ میں احمدیت پھیلی، زیکوسلواکیہ میں احمدیت پھیلی، سیرالیون میں احمدیت پھیلی ، گولڈ کوسٹ میں احمدیت پھیلی ، نائیجیریا میں احمدیت پھیلی ، مصر میں احمدیت پھیلی، مشرقی افریقہ میں احمدیت پھیلی ، ماریشس میں احمدیت پھیلی ،فلسطین میں احمدیت پھیلی ، شام میں احمدیت پھیلی ، روس میں احمدیت پھیلی ، کاشغر میں احمدیت پھیلی، ایران میں احمدیت پھیلی ، سٹریٹ سیٹلمنٹس کے میں احمدیت پھیلی ، جاوا میں احمدیت پھیلی ، ملایا میں احمدیت پھیلی ، چین میں احمدیت پھیلی ، جاپان میں احمدیت پھیلی غرض دنیا کے کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دنیا میں کچھ پاگل لوگ بھی ہوتے ہیں.اگر چند پاگلوں نے احمدیت کو مان لیا ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں مگر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ دنیا میں احمدیت کی ایسی مضبوط بنیا د قائم ہو جائے گی کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ احمدیت کی فتح کی امید ایک مجنونانہ خیال ہے بلکہ کہا جائے گا کہ احمد بیت کو مار دینے کا خیال ایک مجنونانہ خیال ہے.وہ دن دور نہیں کہ وہی لوگ جو آج احمدیت کی ترقی کو ایک ناممکن چیز قرار دے رہے ہیں جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ احمدیت ترقی کر گئی ہے ، احمدیت ساری دنیا پر چھا گئی ہے، احمدیت نے روحانی لحاظ سے ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے، تو وہی لوگ کہیں گے احمدیت کی کامیابی اور اس کی فتح کوئی معجزہ نہیں.اگر احمدیت فتحیاب نہ ہوتی تو کیا ہوتا اُس وقت یورپ اتنا مضمحل ہو چکا تھا ، اُس وقت انسانی دماغ اتنا پراگندہ ہو چکا تھا، اُس وقت سائنس اپنی حد بندیوں کو تو ڑ کر اس طرح کا ایک فلسفہ بن چکی تھی کہ اگر احمدیت نے فتح پائی تو یہ کوئی معجزہ نہیں.اُس وقت کے حالات ہی اس فتح کو پیدا کر رہے تھے.پس یہ بیچ جو ہم بور ہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ پیج پھیل جائے گا.ہمیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض ہمارا خیال ہے کہ یہ پیج کبھی ضائع نہیں ہوگا ہم اسے خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیج ایسا ہے جس میں سے ایک دن ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا ہے جس کے سایہ میں بیٹھنے کے لئے لوگ مجبور ہوں گے.اور اگر وہ نہیں بیٹھیں گے تو تپتی دھوپ.میں وہ اپنے دماغوں کو جھلسا ئیں گے اور انہیں دنیا میں کہیں آرام کی جگہ نہیں ملے گی.پس ہم جانتے ہیں کہ جس راستہ کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ ضرور ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے.کسی خیال کے ماتحت نہیں کسی وہم اور گمان کے ماتحت نہیں بلکہ اُس علیم وخبیر ہستی کے بتانے کی وجہ سے یہ یقین ہمیں حاصل ہوا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی ، جس کی بتائی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی.یہ ہوسکتا یہ کہ جن لوگوں پر اعتبار کر کے ہم نے انہیں اس کالج میں پروفیسر مقرر کیا ہے، ان میں سے بعض نا اہل ثابت ہوں مگر ان کے نا اہل ثابت ہونے کی وجہ سے اس کام میں کو ئی نقص واقعہ نہیں ہو سکتا.جس طرح دریا کے دہارے کے سامنے پتھر آ جائے تو وہ بہہ جاتا ہے مگر دریا کے دہارے کو وہ روک نہیں سکتا ، اسی طرح اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے یا اپنے کام کے لئے کوئی غلط طریق اختیار کرتا ہے وہ احمدیت کے دریا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کرتا ہے وہ مٹ جائے گا مگر جس دریا کو خدا نے چلایا ہے ، جس کی حفاظت کے لئے اُس نے اپنے فرشتوں کو آپ مقرر کیا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی.خواہ وہ یورپ کی ہو، خواہ وہ امریکہ کی ہو، خواہ وہ ایشیا کی ہو اور خواہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کی ہو.ہمیں نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے یورپ میں بھی اُتر رہے ہیں، امریکہ میں بھی اُتر رہے ہیں، ایشیا میں بھی اُتر رہے ہیں اور ہر شخص جو اس مشن کا مقابلہ کرتا ہے، ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو رڈ کرتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے آپ سامان کرتا ہے.آج اور گل اور پرسوں اور ترسوں دن گزرتے چلے جائیں گے، زمانہ بدلتا چلا جائے گا ، انقلاب بڑھتا چلا جائے گا اور تغیر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.روز بروز اس سلسلہ کی راہ سے روکیں دور ہوتی جائیں گی ، روز بروز یہ دریا زیادہ سے زیادہ فراخ ہوتا چلا جائے گا.دریا کے منبع کے پاس چھوٹے چھوٹے نالے ہوتے ہیں جن پر سے ہر شخص آسانی سے کود کر گز رسکتا ہے.میں نے خود
انوار العلوم جلد کا ۳۱۲ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض جہلم کے منبع کے پاس ایسے نالے دیکھے ہیں اور میں خود بھی ان نالوں پر سے کو دکر گزرا ہوں مگر آہستہ آہستہ دریا ایسا وسیع ہوتا جاتا ہے کہ بڑے بڑے گاؤں اور بڑے بڑے شہر بہا کر لے جاتا ہے.اسی طرح ابھی ہم دریا کے منبع کے قریب ہیں.ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب لوگ ہماری جماعت کے متعلق سمجھتے تھے کہ یہ ایک نالے کی طرح ہے، جو شخص چاہے اس پر سے کود کر گزر جائے مگر اب ہم ایک نہر کی طرح بن چکے ہیں.لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کے بڑے سے بڑے دریا کی وسعت بھی اس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائے گی.جب اس کا پھیلا ؤ اتنا وسیع ہو جائے گا ، جب اس کا بہاؤ اتنی شدت کا ہوگا کہ دنیا کی کوئی عمارت اور دنیا کا کوئی قلعہ اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکے گا.پس ہمارے پروفیسروں کے سپر دوہ کام ہیں جو خدا اور اُس کے فرشتے کر رہے ہیں.اگر وہ دیانتداری کے ساتھ کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو ہم یہی دعا کریں گے کہ خدا اُنہیں تو بہ کی توفیق دے اور اُنہیں محنت سے کام کرنے کی ہمت عطا فرمائے لیکن اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ اِس سلسلہ کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بن سکیں گے.جس طرح ایک مچھر بیل کے سینگ پر بیٹھ کر اُسے تھکا نہیں سکتا اسی طرح ایسے کمزور انسان احمدیت کو کسی قسم کی تھکاوٹ اور ضعف نہیں پہنچا سکیں گے.جن سوالات کو اس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے ان سب کے متعلق میں ابھی فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک لباس کا سوال ہے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو آسان اور سہل الحصول بنانا چاہئے اور کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جسے طالب علم برداشت نہ کر سکیں تا ایسا نہ ہو کہ غریب لڑکے اس بوجھ کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائیں.جہاں تک کھیلوں کا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ کالجوں میں بعض ایسی کھیلیں اختیار کر لی گئیں ہیں جن پر روپیہ بھی صرف ہوتا ہے اور صحت پر بھی وہ بُرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے یورپین رسالوں میں پڑھا ہے انگلستان میں کھیلوں کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی جس نے بہت کچھ غور کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ ہاکی کے کھلاڑیوں میں سل کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے.یہ تحقیق تو آج کی گئی ہے لیکن میں نے آج سے ۲۱ سال پہلے اس کی طرف توجہ دلا دی تھی اور میں نے
انوار العلوم جلد ۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض کہا تھا کہ میں ہاکی سے نفرت کرتا ہوں یہ صحت کے لئے مضر ہے.اس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے.۵ اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ہا کی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر کرتی ہے.ہاکی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں اس طرح با وجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا ہے جب میں نے یہ بات کہی اُس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ہاکی سے سینہ کمز ور ہوکر رسل کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.مگر اب دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ اسی طرف آرہے.عزیزم مرزا ناصر احمد کا ان الفاظ میں کہ:.وہ تمام قو میں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ توجہ اتھلیٹکس ATHLETICS) کی طرف رہتی ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلباء کی صحتوں پر کوئی بُرا اثر نظر نہیں آتا غالبًا جرمنی کی طرف اشارہ ہے جہاں ان کھیلوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان کھیلوں پر روپیہ اور وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر صحت کو کم فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ ان کھیلوں کی بجائے انہوں نے جو دوسری کھیلیں اختیار کی ہیں ان کا صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور روپیہ بھی کم خرچ ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دوسری کھیلوں کا رواج اب دن بدن بڑھ رہا ہے.انگریزی ممالک میں شاید اس وجہ سے کہ وہاں کہر زیادہ ہوتی ہے اس قسم کی کھیلوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے جو دوڑ دھوپ والی ہوں لیکن وسطی یورپ یا جنوبی یورپ میں ان کا زیادہ رواج نہیں.میں یورپین کھیلوں میں سب سے کم مضر فٹ بال سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے سینہ پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ سینہ چوڑا اور فراخ رہتا ہے.ہاکی میں چونکہ دونوں ہاتھ بند ہوتے ہیں اُدھر سانس سینہ میں پھولتا نہیں اس لئے ہاکی کے نتیجہ میں اکثر سینہ پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ کمزور ہو پڑتا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاکی کو مصر سمجھتا رہا ہوں.مگر اب چار پانچ سال ہوئے انگلستان میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ کی ہے کہ ہا کی پلیئر میں سل کا مادہ نسبتاً زیادہ دیکھا گیا ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۳۱۴ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض بہر حال یہ ایک ابتدائی کام ہے اور جیسا کہ بتایا گیا ہے ایسے لڑکے کالج میں نہیں آئے جو بڑے بڑے نمبروں پر پاس ہوئے ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے پرو فیسر کوشش کریں اور وَالشَّزِعَتِ غَرقاً کے کے ماتحت اپنے فرض کی ادائیگی میں پوری طرح منہمک ہو جائیں اور وہ سمجھ لیں کہ تعلیمی طور پر تربیت تعلیم سے باہر نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ہی شامل ہے ہم نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جولڑ کے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں تو یقیناً وہ اِن اَن گھڑے جواہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کر سکتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں ، ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنا ئیں اور ان کی مذہبی حالت بھی بہتر بنا ئیں.میں اس موقع پر اساتذہ اور طلبا دونوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہما را مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے.کئی باتیں اس قسم کی ہیں جو دوسرے کالجوں میں جائز سمجھی جاتی ہیں لیکن ہم اپنے کالج میں اُن باتوں کی اجازت نہیں دے سکتے.طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور ان افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں.اگر کسی شخص کو کوئی شکایت پیدا ہو تو اسلامی طریق کے رُو سے یہ جائز ہے کہ وہ بالا افسر کے پاس اُس معاملہ کو پہنچائے اور حقیقت ظاہر کرے اور اگر وہ افسر توجہ سے کام نہ لے تو اُس سے بھی بالا افسر کے پاس اپیل کرے.یہ دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے اور وہ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے.ہمارا یہ طریق نہیں کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ہم کسی کی بات نہیں سنتے.ہم صداقت کو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کے منہ سے سُن کر بھی قبول کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ صداقت اگر ایک چوہڑے کے منہ سے نکلے تو ہم اُس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر صداقت نہ ہو تو خواہ سارا کا لج مل کر زور لگائے ہم وہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.پس جو روایت ہمارے سکول میں
۳۱۵ انوار العلوم جلد ۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض قائم ہے میں امید کرتا ہوں کہ کالج میں بھی اس کو قائم رکھا جائے گا.احمدی طالب علموں کے متعلق تو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس پر پوری طرح قائم رہیں گے لیکن چونکہ اس کا لج میں دوسرے طالب علم بھی داخل ہوں گے اِس لئے امید کرتا ہوں کہ ہمارے احمدی طلباء اپنے اثر سے دوسروں کو بھی اس روایت پر قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور کوئی ایسی حرکت نہیں ہونے دیں گے جو کالج کے نظام کے خلاف ہو اور جس سے یہ شبہ پڑتا ہو کہ زور اور طاقت سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ زور اور طاقت سے ماننے کے لئے یہاں کوئی شخص تیار نہیں ہے.دنیا میں لوگ زور اور طاقت سے اپنے مطالبات منواتے ہیں مگر وہ اُس وقت منواتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ دوسرا فریق زور اور طاقت سے مرعوب ہو جائے گا.اگر انہیں یہ یقین نہ ہو تو وہ زور اور طاقت استعمال کرنے کی جرات بھی نہ کریں.واقعہ مشہور ہے کہ کوئی یتیم لڑکا جس کی ماں چکی پیس پیس کر گزار کیا کرتی تھی ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا مجھے دو آنے چاہئیں.اُس نے اُسے کہا میرے پاس تو صرف ایک آنہ ہے وہ لے لو.مگر لڑ کا ضد کرنے لگا اور کہنے لگا میں تو دو آنے ہی لوں گا.وہ لڑکا اُس وقت چھت کی منڈیر پر بیٹھا تھا ماں کو کہنے لگا مجھے دو آنے دو ورنہ میں ابھی چھلانگ لگا کر مر جاؤں گا.اُس بیچاری کا ایک ہی لڑکا تھا وہ اُسے ہاتھ جوڑے، منتیں کرے اور بار بار کہے کہ بیٹا ایک آنہ لے لے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں مگر وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مجھے دو آنے دے نہیں تو میں ابھی چھلانگ لگا تا ہوں.ماں نیچے کھڑی روتی جائے اور بچہ اوپر بیٹھ کر چھلانگ لگانے کی دھمکی دیتا چلا جائے.اُس وقت اتفاقا گلی میں سے کوئی زمیندار گزر رہا تھا.وہ پہلے تو باتیں سنتا رہا آخر اُس نے وہ آلہ جس سے توڑی ہلائی جاتی ہے اور جسے سانگھا کہتے ہیں نکال کر اُس لڑ کے کے سامنے کیا اور کہا تو اوپر سے آمیں نیچے سے سانگھا تیرے پیٹ میں ماروں گا.لڑکا یہ سنتے ہی کہنے لگا میں نے چھلانگ تھوڑی لگانی ہے میں تو اپنی ماں کو ڈرا رہا تھا.تو اس قسم کی باتیں وہیں سُنی جاتی ہیں جہاں زور اور طاقت سے دوسرے لوگ مرعوب ہو جاتے ہوں لیکن ہم وہ ہیں جنہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ صداقت خواہ ایک کمزور سے کمزور انسان کے منہ سے نکلے اُسے قبول کر لو اور صداقت کے خلاف کوئی بات قبول مت کرو چاہے وہ ایک طاقتور کے منہ سے
انوار العلوم جلد ۷ ٣١٦ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض نکل رہی ہو.قادیان سے باہر بے شک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمارے سلسلہ کی کسی انسٹی ٹیوٹ میں اس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جاسکتیں.پس ہمارے نو جوانوں کو خود بھی احمدیت کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور دوسرے نوجوانوں پر بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہاں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کیا جا سکتا جو دین کے خلاف ہو اور مذہبی روایات کے منافی ہو.ہم نے یہ کالج دین کی تائید کے لئے بنایا ہے اگر کسی وقت یہ محسوس ہو کہ یہ کالج بجائے دین کی تائید کرنے کے بے دینی کا ایک ذریعہ ثابت ہو رہا ہے تو ہم ہزار گنا یہ زیادہ بہتر سمجھیں گے کہ اس کالج کو بند کر دیں بجائے اس کے کہ بے دینی اور خلاف مذہب حرکات کو برداشت کریں.اس کالج کے پروفیسروں کو بھی یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ بیرونی دنیا میں عام طور پر صداقت کو اُس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اس بات کو پیش کر رہے ہیں.اگر ایک جتھہ کی طرف سے کوئی بات پیش کی جارہی ہو تو اُسے مان لیتے ہیں لیکن اگر ایک کمزور انسان کے منہ سے صداقت کی بات نکلے تو اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے.ہمیں اس طریق کے خلاف یہ عمل کرنا چاہئے کہ اگر صداقت صرف ایک لڑکے کے منہ سے نکلتی ہے تو ہم اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب تک سولر کا اُس کی تائید میں نہیں ہوگا ہم اُسے نہیں مانیں گے بلکہ ہمیں فورا وہ بات قبول کر لینی چاہئے کیونکہ صداقت کو قبول کرنے میں ہی برکت ہے اور صداقت کو قبول کرنے سے ہی قومی ترقی ہوتی ہے.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا طریق سارے کا سارا اسلامی ہونا چاہئے بے شک ہندو، سکھ ، عیسائی جو بھی آئیں ہمیں فراخ دلی کے ساتھ اُنہیں خوش آمدید کہنا چاہئے مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اُن کے اخلاق سرتا پا مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.اُن کی عادات مذہب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوں، اُن کے افکار مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں ، اُن کے خیالات مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.پس جہاں ہمارے پروفیسروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں وہاں اُن کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ رات دن اس کام میں لگے رہیں کہ لڑکوں کے اخلاق اور اُن کی عادات اور اُن کے خیالات اور اُن کے افکار ایسے اعلیٰ ہوں کہ دوسروں کے لئے مذہبی لحاظ سے وہ ایک مثال اور نمونہ ہوں.اگر
۳۱۷ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض انوار العلوم جلد ۱۷ خدا تعالیٰ کی توحید کا یقین ہم لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ہندؤوں اور سکھوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور سکھ بھی خدا کے قائل ہیں.اگر ہم دہریت کو مٹاتے ہیں ، اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کا درس اُن کو دیتے ہیں تو اُن کے ماں باپ یہ سن کر بُرا نہیں منائیں گے بلکہ خوش ہوں گے کہ ہمارے لڑکے ایسی جگہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی مذہبی لحاظ سے بھی تربیت کی جارہی ہے.پس جہاں تک تو حید کے قیام کا سوال ہے، جہاں تک مذہب کی عظمت کا سوال ہے، جہاں تک خدا تعالیٰ کی محبت کا سوال ہے مسلمان، ہندو، سکھ ، عیسائی سب اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کو یہ تعلیم دی جائے کیونکہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی باتیں سکھاتا ہے.میرے نزدیک ہمیں ان باتوں پر اس قدر زور دینا چاہئے کہ ہمارے کالج کا یہ ایک امتیازی نشان بن جائے کہ یہاں سے جو طالب علم بھی پڑھ کر نکلتا ہے وہ خدا پر پورا یقین رکھتا ہے ، وہ اخلاق کی حفاظت کرتا ہے ، وہ مذہب کی عظمت کا قائل ہوتا ہے.اگر ایک ہندو یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے ، اگر ایک سکھ یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے ، وہ دہریت کے دشمن ہوں ، وہ اخلاق سوز حرکات کے دشمن ہوں ، وہ مذہب کو نا قابل عمل قرار دینے والوں کے مخالف ہوں اور یورپین اثر سے پوری طرح آزاد ہوں.وہ چاہے احمدیت کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں مگر مذہب کی بنیادی باتیں اُن کے دلوں میں ایسی راسخ ہوں کہ اُن کو وہ کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں.اسی طرح ہمارے کالج کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر ایک عیسائی یا یہودی اس جگہ تعلیم حاصل کرے تو وہ بھی بعد میں یہ نہ کہے کہ سائنس یا حساب یا فلسفہ کے فلاں اعتراض سے مذہب باطل ثابت ہوتا ہے بلکہ جب بھی کوئی شخص ان علوم کے ذریعہ اس پر کوئی اعتراض کرے وہ فوراً اُس کا جواب دے اور کہے میں ایک ایسی جگہ سے پڑھ کر آیا ہوں جہاں دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جو سب پر حکمران ہے میں ایسے اعتراضات کا قائل نہیں ہوں.
انوار العلوم جلد ۷ ۳۱۸ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض اگر ہم دہریت کی تمام شاخوں کی قطع و برید کر دیں ، اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین کالج میں تعلیم پانے والے لڑکوں کے دلوں میں اس مضبوطی سے پیدا کر دیں کہ دنیا کا کوئی فلسفہ، دنیا کی کوئی سائنس اور دنیا کا کوئی حساب انہیں اس عقیدہ سے منحرف نہ کر سکے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.چونکہ اب شام ہو گئی ہے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں لیکن میں آخر میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری نیت یہ ہے کہ جلد سے جلد اس کالج کو بی.اے بلکہ ایم.اے تک پہنچا دیں اس لئے کالج کے جو پروفیسر مقرر ہوئے ہیں انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بڑھانے کا فکر کرنا چاہئے اور آئندہ ضروریات کے لئے انہیں ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے تا کہ جب بڑی کلاسز کھولی جائیں تو قواعد کے لحاظ سے اور ضرورت کے لحاظ سے اور تجربہ کے لحاظ سے وہ اُن کلاسز کو تعلیم دینے کے لئے موزوں ہوں اور اس کام کے اہل ہوں اور چونکہ ہمارا منشاء آگے بڑھنے کا ہے اس لئے جہاں کالج کے پروفیسروں کو اپنا تعلیمی معیار بلند کرنا چاہئے اور اپنے اندر موجودہ قابلیت سے بہت زیادہ قابلیت پیدا کرنی چاہئے وہاں انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب کالج میں وسعت پیدا ہو تو جو ا چھے اور ہونہار طالب علم ہوں اور دین کا جوش اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو اس قابل بنائیں کہ وہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں اور ساتھ ہی اُن کے دینی جوش میں ترقی ہو تا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ صرف دنیا کمانے میں ہی نہ لگ جائیں بلکہ اس کالج میں پروفیسر یا لیکچرار کا کام کر کے سلسلہ کی خدمت کرسکیں.پس ایک طرف وہ اعلیٰ درج کے ذہین اور ہوشیار لڑکوں کے متعلق یہ کوشش کریں کہ وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوں اور دوسری طرف انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ جب وہ اپنے تعلیمی مقصد کو حاصل کر لیں تو اس کے بعد اپنی محنت اور دماغی کا وش کا بہترین بدلہ بجائے سونے چاندی کی صورت میں حاصل کرنے کے اس رنگ میں حاصل کریں کہ اپنے آپ کو ملک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.اس کے بغیر کالج کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا.پس ایک طرف ہمارے پروفیسر خود علم بڑھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف آئندہ پروفیسروں کے لئے ابھی سے سامان پیدا کرنے شروع کر دیں اور نوجوانوں سے کہیں کہ وہ قوم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۱۹ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.پھر خواہ انہیں کالج میں رکھ لیا جائے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر لگایا جائے بہر حال ان کا وجود مفید ثابت ہو سکتا ہے.سکول میں میں نے دیکھا ہے جب افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو اس کے بعد ہمیں سکول میں سے ہی ایسے کئی لڑکے مل گئے جنہوں نے اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.میں امید کرتا ہوں کہ یہی طریق کالج میں بھی اختیار کیا جائے گا تا کہ جو طالب علم اس کالج سے تعلیم پا کر نکلیں اُن کے متعلق ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ تعلیم کے بعد دین کے میدان میں ہی آئیں گے.یہ نہیں ہوگا کہ دنیا کمانے میں مشغول ہو جائیں اور تاکہ ہم فخر سے کہ سکیں کہ ہمارے کالج کا ہر طالب علم اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے پیش کر دیتا ہے.صرف ہمارے بچے ہوئے طالب علم ہی دنیا کی طرف جاتے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم کوئی کام کریں ہماری اصل دوڑ مذہب کی طرف ہی ہونی چاہئے اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور یہ پیج جو اس مقام پر ہم بور ہے ہیں اس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو، ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو جس کے ذریعہ کفر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے.اللَّهُمَّ آمِينَ الفضل ۱۲، ۱۴ ، ۱۵، ۱۶ / فروری ۱۹۶۱ء ) MULLER PAUL HERMANI: (۱۸۹۹ ء.۱۹۶۵ ء) سوئس محقق کیمیا.اس نے ۱۹۳۹ء میں ڈی ڈی ٹی کے کرم کش خواص دریافت کئے.جس کے صلے میں اسے ۱۹۴۸ ء میں فعلیات اور طب کا نوبل انعام ملا.البقرة: ۴۲ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۴۶.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) اشاعة السنة جلد ۱۳ نمبر اصفحه ۴،۳ ۱۹۸۰ء
تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض انوار العلوم جلد ۱۷ سٹریٹ سیٹلمنٹس(STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ ۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ ء ) ه الفضل ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۳ ء صفحه ۸ الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء النزعت: ۲
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۱ غز وہ جنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونه از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۳۲۲ غزوہ غز و چنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ ( تقریر فرموده ۶ ارجون ۱۹۴۴، ال تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا :- آج سے تیرہ سو سال پہلے بلکہ اب تو کہنا چاہئے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ایک جنگل میں کچھ لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمع کیا اور انہیں کہا ہمارے سامنے دو دشمن ہیں.ایک دشمن تو وہ قافلہ ہے جو شام سے مکہ والوں کے لئے غذاؤں کا سامان اور لباسوں کا سامان لا رہا ہے اور ایک دشمن وہ ہتھیار بند فوج ہے جس کی تعداد ہماری تعداد سے کہیں زیادہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مقابلہ غالبا اس ہتھیار بند فوج سے ہوگا مجھے الہی اشارات سے یہی معلوم ہوتا ہے اب تم لوگ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ ایک کے بعد دوسرا مہاجر اُٹھنا شروع ہوا اور ہر ایک نے یہی کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں آپ ہمیں آگے بڑھنے کا حکم دیجئے.جب کوئی مہاجر مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اے لوگو! تم مجھے مشورہ دو جب متواتر آپ نے یہی ارشاد فر مایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! شاید آپ کی مراد ہم سے ہے.آپ متواتر فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو حالانکہ مشورہ آپ کومل رہا ہے اور ہمارے کئی مہاجر بھائی کھڑے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں پس غالباً آپ کی مراد ہم انصار سے ہے کہ اس موقع پر ہم بولیں.آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے.انہوں نے کہا يَارَسُولَ اللَّهِ! ہم اس لئے چپ تھے کہ ہمارے ان مہاجر بھائیوں کے بھائی ہم سے لڑنے کیلئے آئے ہوئے ہیں
غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۳ اور ہماری محبت اور شرافت چاہتی تھی کہ ہم خاموش رہیں تا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اپنے بھائیوں کے بھائیوں کو مارنے کے لئے آمادہ بیٹھے ہیں.ورنہ يَارَسُولَ اللَّهِ ! یہ تو کوئی سوال ہی نہیں ہم ہر طرح لڑنے کے لئے آمادہ ہیں.پھر اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! آپ جو بار بار فرمارہے ہیں کہ اے لوگ مجھے مشورہ دو تو شاید اس سے آپ کا اشارہ بیعت عقبہ کی طرف ہے یعنی اُس پہلی بیعت کی طرف جو مدینہ میں ہوئی اور جس میں ہم نے اقرار کیا تھا کہ ہم آپ کی صرف اُس وقت مدد کریں گے جب آپ مدینہ میں ہوں گے اگر آپ مدینہ سے باہر لڑنے کیلئے جائیں گے تو ہم آپ کی مدد کے ذمہ وار نہیں ہوں گے.يَارَسُولَ اللهِ! جب ہم نے وہ عہد کیا تھا کہ ہم صرف اُسی وقت مدد کے ذمہ وار ہوں گے جب آپ مدینہ میں ہوں گے اگر مدینہ سے باہر نکل کر آپ کو کسی قوم کا مقابلہ کرنا پڑا تو ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ، اُس وقت ہمیں آپ کی شان کا پوری طرح علم نہیں تھا اور اسی وجہ سے ہم نے یہ شرطیں لگائی تھیں لیکن اب جبکہ ہمیں آپ کی شان کا پتہ لگ چکا ہے.يَا رَسُولَ اللهِ ! یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ مدینہ میں جنگ ہو یا مدینہ سے باہر ہو.يَارَسُولَ اللهِ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے.آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا ج تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے ہے یہ اُس وقت کا جذبہ ایمان ہے جب ابھی رسول کریم ﷺ کا نور پورا ظاہر نہیں ہوا تھا.بہت سے معجزات ہیں جو اِس کے بعد ظاہر ہوئے ، بہت سے نشانات ہیں جو اس کے بعد ظاہر ہوئے ، بہت سا حصہ قرآن کا ہے جو اِس کے بعد نازل ہوا.اگر ہر معجزہ انسان کے ایمان کو بڑھاتا ہے،اگر ہر نشان انسان کے ایمان کو بڑھاتا ہے، اگر قرآن کی ہر آیت انسان کے ایمان کو بڑھانے والی ہے تو یقیناً بعد میں ان کے لئے اپنے ایمان بڑھانے کے زیادہ مواقع تھے.کیونکہ وہ اجمالی ایمان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انہیں حاصل ہوا تھا بعد میں تفصیلی ایمان کو جگہ دے کر ہلتا چلا گیا اور آخر میں ایک ایسا تفصیلی ایمان اُن کو نصیب ہوا جس کا کوئی زاویہ، جس کا کوئی کونہ اور جس کا کوئی گوشہ ایسانہ تھا جو مکمل نہ ہو.جس کی تعمیر نہ ہو چکی ہو اور جس کی تزئین و تحسین نہ ہو چکی ہولیکن اس ابتدائی زمانہ میں ہی اس صحابی نے یہ کیسا شاندار فقرہ کہا کہ جب
انوار العلوم جلد ۷ ۳۲۴ غزوہ غز وہ جنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ عليه يَا رَسُولَ اللهِ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.یہ اُس وقت انہوں نے کہا تھا جب رسول کریم علی جسمانی طور پر زندہ تھے، جب رسول کریم ﷺ کے ہاتھوں میں یہ طاقت تھی کہ دشمن کے ہتھیار کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا سکتے ، جب آپ کے اندر یہ طاقت موجود تھی کہ آپ اُس کے حملہ کو روک سکتے ایسی صورت میں انسان کو اپنی حفاظت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب وہ ہتھیار نہیں اُٹھا سکتا ، مثلاً وہ سویا ہوا ہو.سو یا ہوا انسان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اُس وقت اُسے اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے.یا فرض کرو وہ غیر حاضر ہے اور اس کی غیر حاضری میں کوئی شخص اُس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے تو اُس وقت بھی اُسے اپنے دوستوں کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے.منہ دیکھے کی محبت جتانے کے لئے سارے ہی موجود ہوتے ہیں لیکن اصل محبت وہ ہوتی ہے جو غیبت میں ہوتی ہے.تو وہ وقت ایسا تھا جب رسول کریم ﷺ اپنی جان کی خود بھی حفاظت کر سکتے تھے اور انہوں نے ایسا الله کر کے دکھا بھی دیا.اُحد کی جنگ میں جب ایک شدید دشمن آگے بڑھا اور رسول کریم ﷺ کا نام لیکر کہنے لگا وہ خود کیوں میرے مقابلہ میں نہیں نکلتے.تو چونکہ وہ ایک مشہور اور تجربہ کار جرنیل تھا ، صحابہ آپ کے ارد گر د ا کٹھے ہو گئے مگر آپ نے فرمایا آگے سے ہٹ جاؤ اور اُ سے آنے دو.جب وہ آپ کے سامنے آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نیزہ بڑھا کر اُس کے سینہ کو چھو دیا اور بہت ہلکا سا زخم لگایا مگر وہ اِس معمولی زخم سے ہی بھاگ اُٹھا اور درد سے اُس نے تڑپنا شروع کر دیا.جب لوگ اُسے کہتے تجھے ہوا کیا ہے، زخم تو بہت معمولی سا ہے تو وہ کہتا تمہیں کیا معلوم مجھے اس زخم سے ایسی سخت تکلیف ہے کہ گویا وہ ہزار نیزوں کے زخموں سے بھی بڑھ کر ہے.سے تو رسول کریم خدا کی حفاظت میں تھے پھر بھی اس دنیا میں آپ جب تک بقید حیات تھے اور دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے آپ نے اُس کا مقابلہ کیا اور لوگوں کیلئے ایک نمونہ قائم کر کے دکھا دیا.چنانچہ حنین کے موقع پر ہم دیکھتے ہیں ایک حادثہ کی وجہ سے قریباً سارے صحابہ میدانِ جنگ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۵ غزوہ غز وہ جنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ سے پیچھے ہٹ گئے اور صرف بارہ صحابہ آپ کے اردگرد رہ گئے.اُس وقت حضرت عباس نے حضرت ابوبکر کے مشورہ سے آپ کو پیچھے ہٹانا چاہا مگر آپ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو کہ میں آگے جاؤں گا.کے اسی طرح صحابہ نے بھی وہ قربانیاں کیں جو عدیم المثال ہیں لیکن آج وہ زمانہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں.آج آپ پر اعتراض کرنے والے لوگوں کا دفعیہ صرف آپ کے محبت ہی کر سکتے ہیں.ایک وقت آپ دنیا میں موجود تھے لوگ اعتراض کرتے تو آپ اپنے صحابہ سے کہہ دیتے کہ ان کو جواب دو.حسان کو آپ کئی دفعہ کھڑا کر دیتے اور فرماتے اللهُمَّ ايّدُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ خدایا! تو حسان کی اپنے نشانات سے مددفرما.بعض دفعہ آپ انہیں بتاتے بھی کہ اس طرح جواب دینا ایسا رنگ اختیار نہیں کرنا کہ ہم پر حملہ ہو جائے.یہ چیزیں سب موجود تھیں مگر آب خدا کا وہ آخری شریعت لانے والا رسول ہم میں نہیں ہے اور جس قسم کا طعن اور جس قسم کا حملہ آج اسلام پر ہورہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا.الله آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مکہ میں رہنے والے جن کو رسول کریم ﷺ کی ہر حرکت کا پتہ تھا ، جن کو رسول کریم ﷺ کے ہر سکون کا پتہ تھا، جن کو آپ کے رات کے اعمال کا بھی پتہ تھا اور آپ کے دن کے اعمال کا بھی پتہ تھا، جن کو آپ کے معاملات کا بھی علم تھا اور آپ کی عبادات کا بھی علم تھا ، جنہیں آپ کی گفتگو کا بھی علم تھا اور آپ کے چال چلن کا بھی علم تھا، اُن سے جب رسول کریم ﷺ نے پوچھا کہ اے لوگو ! بتاؤ تم مجھے کیا سمجھتے ہو تو اُن سب نے کہا ہم آپ کو صدوق اور امین سمجھتے ہیں.مگر آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد یورپ کے نا دان اور ظالم مصنف سینکڑوں صفحے بھر دیتے ہیں ان دلیلوں سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ باللهِ ایک فریب کارانسان تھے ، ایک چالباز انسان تھے ، آپ نے جھوٹا دعوی کیا اور جھوٹے دلائل سے لوگوں کو ورغلا ور غلا کر اپنی جماعت میں شامل کیا.وہ جو شاہد و غائب کے جاننے والے تھے ، انہوں نے تو آپ کو صدوق اور امین قرار دیا مگر آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد یورپین مصنف اُس کے بالکل الٹ محض اِس لئے کہ تلوار ان کے ہاتھ میں ہے، طاقت ان کے ہاتھ میں ہے ، حکومت ان کے ہاتھ میں ہے، فوجیں ان کے پاس ہیں، بنک ان کے پاس ہیں، جہاز ان کے پاس ہیں ، اپنی حکومت اور طاقت کے نشہ میں اس بل بوتے پر کہ اب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۶ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ صلى الله ان حملوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں، اس بل بوتے پر کہ وہ جتنی اشاعت اپنے لٹریچر کی کرنا چاہئیں کر سکتے ہیں اعتراضوں پر اعتراض بکھیر تے چلے جارہے ہیں.پھر تعلیم بھی ان کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ کالجوں میں لڑکے جب تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں تو انہی کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں.ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد جب وہ وہاں سے نکلتے ہیں تو رسول کریم علی کی محبت سے ان کے دل بالکل خالی ہوتے ہیں.ایک تاجر جو لین دین کے لئے ، جو سو دا خرید نے یا سودا بیچنے کے لئے ان کی کوٹھیوں میں جاتا ہے جب وہ ان کی کوٹھیوں سے نکلتا ہے اُس کا دل رسول کریم ﷺ کی محبت سے خالی ہوتا ہے یہی حال قریباً سب ایشیائی اور افریقن لوگوں کا ہے.کیونکہ اپنی روزی کمانے کے لئے یا نوکری حاصل کرنے کے لئے سب ان کے محتاج ہیں اور جب بھی کوئی شخص ان کی نوکری اختیار کرتا ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ اپنے دین اور ایمان کو بیچ دیتا ہے.اُس کا دل ایمان اور محبت رسول سے خالی ہو جاتا ہے.ایک مسلمان کو ان کی نوکری کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے چھوٹے عہدہ کے لئے بھی مذہب چھوڑنا پڑتا ہے بلکہ اُس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ دے.ابھی میری جیب میں ہی وہ خط پڑا ہے جو ڈلہوزی سے چلتے ہوئے مجھے ملا.جب میں ڈلہوزی سے روانہ ہونے لگا تو مجھے پنجاب کے ریکروٹنگ افسر کا جو ایک انگریز ہیں خط ملا کہ انہیں بحری فوج کے افسر نے اطلاع دی ہے کہ آپ کے احمدی بعض دفعہ دوسروں کو تبلیغ کر بیٹھتے ہیں اس لئے مجھے حکم ملا ہے کہ آئندہ احمد یوں کو بحری فوج میں بھرتی نہ کیا جائے قطع نظر اس سے کہ ہم ایک قلیل جماعت ہیں یہ سلوک آج مسلمانوں کے ہر فرقہ سے ہو رہا ہے.خواہ وہ احمدی ہوں یا کوئی اور، کیونکہ مسلمان کمزور ہیں اور کہتے ہیں کہ ”زبردست کا ٹھینگا سر پر.نزلہ جب گرتا ہے عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک انگریز سرمیور گورنر یو.پی جس کے متعلق یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ ہر قوم سے عدل و انصاف کا سلوک کرے، جو بحری فوج سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کی طرح کوئی رنگروٹ نہیں تھا بلکہ ایک صوبے کا گورنر تھا اور گورنر کو ایسے امور میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی پھر بھی اُس نے اپنے مذہب کی تبلیغ کی.چنانچہ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ کثیر الاشاعت کتاب سرمیور گورنر یو پی کی ہی لکھی ہوئی ہے.مگر کسی نے اُس سے نہیں پوچھا کہ
الله ۳۲۷ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ انوار العلوم جلد ۱۷ کیا تم کو چھ ہزار میل دور دس ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم مسلمانوں اور ہندوں اور سکھوں اور عیسائیوں کے درمیان عدل و انصاف کر دیا تمہیں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے اکثر اوقات کو ایک ایسے کام کے لئے خرچ کرو جس سے مسلمان رعایا کے دل دُکھیں.پس فرق کیا ہے؟ فرق یہی ہے کہ احمدی رنگروٹ ایک کمزور اور ضعیف قوم کا فرد ہے لیکن سرمیور ایک حاکم قوم کا فرد ہے اس لئے جو بات اس کے لئے جائز ہے وہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں.ایک انگریز کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ جائز ہے، ایک عیسائی کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ جائز ہے لیکن ایک احمدی کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ ان کے نزدیک جائز نہیں ہے.تو آج جس طرح رسول کریم ﷺ پر حملے ہو رہے ہیں وہ کوئی مخفی بات نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے.ہم فلسفہ کی کتابوں کو اُٹھاتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں ، ہم سائنس کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں.ہم تاریخ کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں.آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے قرآن نے مسلمانوں کو ایک سبق دیا تھا جس کو بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھلا دیا لیکن یورپ نے اس کو اختیار کر لیا.قرآن نے بتایا تھا کہ لكل وجهَةٌ هُوَ مُوَلَيْهَا ہر شخص کے سامنے ایک مقصود اور مطمح النظر ہوتا لِكُلِّ ہے جو ہر وقت اُس کے سامنے رہتا ہے.یا درکھو تمہارا بھی ایک مطمح نظر ہونا چاہئے.یہ نہ ہو کہ تشنت قومی کے ماتحت کوئی کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے اور کوئی کسی مقصد کو یا فرمایا تھا.وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ اے مسلما نو ! تم مدینہ میں تو آ گئے ہو مگر ل مسلمانو! یا د رکھو اسلام کی ترقی فتح مکہ کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے تم جہاں بھی جاؤ یہ مقصد تمہارے سامنے رہنا چاہئے کہ ہم نے چکر کاٹ کر بہر حال مکہ میں پہنچنا ہے اور جس طرح ہو اس کو فتح کرنا ہے.جب تک یہ مرکز اور یہ قلعہ تمہیں حاصل نہیں ہو گا سارے عرب اور پھر ساری دنیا پر نہیں غلبہ میسر نہیں آ سکے گا.یہ سبق آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مسلمانوں کو دیا گیا.مسلمان اس سبق کو بھول گئے لیکن یورپ نے اس سبق کو سیکھا اور افسوس کہ کس ظالمانہ طور پر سیکھا.اُس نے دیکھ لیا کہ الله صلى الله اسلام کا نقطہ مرکزی محمد ﷺ کی ذات ہے.چنانچہ یورپ کا جو مصنف بھی اُٹھتا ہے محمد ﷺ کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۸ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ صلى الله ذات پر حملہ شروع کر دیتا ہے.خواہ وہ فلسفہ کی کتاب لکھے ، خواہ وہ سائنس کی کتاب لکھے ، خواہ وہ تاریخ کی کتاب لکھے ، وہ چاہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو لوگوں کی نظروں سے گرا دے.وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اس نقطہ مرکزی سے منحرف کر دے.سبق ہم کو سکھایا گیا تھا مگر اس کا فائدہ کہو یا نا جائز فائدہ ہمارا دشمن اُٹھا رہا ہے.ایسے وقت میں جبکہ میں نے بتایا ہے رسول کریم ہے خود اپنے جسم اطہر کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہیں ، ایک محبت کرنے والے مسلمان کی غیرت کتنی بھڑک اُٹھنی چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ہے جہاں تک آپ کے فیوض کا تعلق ہے زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے، لیکن جہاں تک جسم کا تعلق ہے وہ فوت ہو چکے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی با غیرت انسان ایسا ہو سکتا ہے جس کے زندہ باپ پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو وہ اُس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھے لیکن اگر اُس کے باپ کی لاش پر کوئی حملہ کرے تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے.یقینا جس طرح وہ اپنے زندہ باپ کی حفاظت کرے گا اسی طرح اگر اُس کے اندر غیرت موجود ہے تو میں یقیناً سمجھتا ہوں جب وہ اپنے باپ کی لاش پر کسی شخص کو حملہ کرتے دیکھے گا تو اُس کے اندر دیوانگی کی سی روح پیدا ہو جائے گی.مُردہ جسم بے شک کام نہیں آ سکتا مگر اُس کے ساتھ جو محبت کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں وہ اُس کی قیمت زندہ سے بھی بڑھا دیتے ہیں یا درفتہ اپنے اندر ایک ایسا در درکھتی ہے، ایک ایسا اُبال رکھتی ہے کہ انسان اپنی ہر چیز ایک ساعت کے اندر فنا کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً کسی کے زندہ باپ کو کوئی شخص مارے تو بھی اُسے غصہ آئے گا لیکن اگر یہ مشہور ہو جائے کہ کسی کے باپ کی لاش کو جوتیاں ماری گئی ہیں تو وہ کہے گا میں اب دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا.جب محبانِ صادق نے رسول کریم ﷺ کی زندگی میں یہ کہا کہ يَارَسُولَ اللهِ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور يَا رَسُولَ اللهِ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.تو اب جبکہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیں ، اب جبکہ آپ کی عزت و ناموس پر دشمن چاروں طرف سے حملہ کر رہا ہے ، اب جبکہ وہ خود دنیا میں ان حملوں کا جواب دینے کے لئے موجود نہیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۲۹ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ سے سچی محبت رکھنے والے اس صحابی سے سو گنا زیادہ جوش سے بلکہ ہزار گنا زیادہ جوش سے یہ کیوں نہیں کہیں گے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! آپ ہمارے اندر موجود نہیں ہیں مگر آپ کی عزت و ناموس پر حملہ کرنے والا آپ تک نہیں پہنچ سکتا.يَارَسُوْلَ اللهِ! ہم اپنی عزت و ناموس کو قربان کر دیں گے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور يَا رَسُولَ اللَّهِ! جب تک دشمن ہماری عزت و ناموس کو کچلتا ہوا انہیں گزرے گا آپ کی عزت و ناموس تک وہ نہیں پہنچ سکتا.اگر ہم میں سے ہر شخص کے دل سے یہ آواز نہیں نکلتی ، اگر ہم میں سے ہر شخص حنین کے غزوہ کی طرح دیوانہ وار لبیک کہتے ہوئے آپ کی طرف نہیں دوڑتا تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے اندر ایمان کا ایک شمہ بھی پایا جاتا ہے.غزوہ حنین کے موقع پر جب اسلامی لشکر میں انتشار پیدا ہو گیا تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عباس سے کہا عباس! آواز دو کہ اے انصار ! اے بیعت رضوان میں شامل ہونے والے لوگو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے صحابہ کہتے ہیں جب یہ آواز ہمارے کانوں میں پہنچی تو ہماری حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے میدانِ جنگ سے بھاگے چلے جارہے تھے.ہم انہیں روکتے تھے مگر وہ رُکتے نہ تھے، ہم اونٹوں کو موڑتے تھے مگر وہ مڑتے نہ تھے.جب ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے تو جن کی سواریاں مرسکیں انہوں نے اپنے پورے زور سے سواریاں موڑ لیں اور جن کی سواریاں نہ مریں انہوں نے تلوار میں نکال کر اپنے اونٹوں اور گھوڑں کی گردنیں کاٹ دیں اور لَبَّیک يَا رَسُولَ اللَّهِ لَبَّیک کہتے ہوئے پیدل ہی رسول کریم ﷺ کی طرف دوڑ پڑے کے جب تک ہم یہی نمونہ نہیں دکھاتے جو غزوہ حنین کے موقع پر رسول کریم ﷺ کی آواز کے جواب میں صحابہ کرام نے دکھایا ، جب تک روحانی طور پر اس نظارہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہی آواز ہماری روح سے نہیں نکلتی کہ لبیک يَارَسُوْلَ اللهِ لَبَّيْكَ ! ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنے ایمان کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں يَارَسُولَ اللهِ! ہم ان حملوں کے دفاع کیلئے حاضر ہیں اُسی جوش اور اُسی اخلاص کے ساتھ حاضر ہیں جو صحابہ نے دکھایا.بلکہ ان کے جوش اور اخلاص سے بھی بڑھ کر ہم الله
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۳۰ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ اپنے جذبات عقیدت کا اظہار آپ کی خدمت میں کرتے ہیں.يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ہماری عزت و ناموس آپ کی عزت و ناموس پر قربان، ہماری عزتیں پہلے قربان ہوں گی، ہمارا ناموس پہلے کچلا جائے گا اور دشمن آپ کی عزت و ناموس تک اُس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری عزت و ناموس کو کچل کر نہیں گزرتا.بے شک ان حملوں کے دفاع کے لئے تلوار ہمارے پاس نہیں مگر تلوار سے کب لوگوں کے دلوں کو تسکین ہو سکتی ہے.مسلمانوں نے تلوار استعمال کی اور سپین کھو دیا.آج ہم قرآن استعمال کریں گے اور پھر خدا کے فضل سے سپین کو واپس لیں گے.مسلمانوں نے سپین اس طرح کھویا کہ جب اسلامی حکومت کا زمانہ ممتد ہو گیا اور عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف کسی طرح عیسائی قوم میں جوش پیدا نہیں ہوتا تو انہوں نے مشورہ کر کے یہ تدبیر کی کہ بعض عیسائیوں کو جامع مسجد میں بھجوا دیتے اور جب خطیب تقریر کر رہا ہوتا تو وہ کھڑے ہو کر نا شائستہ الفاظ رسول کریم ﷺ کی ذات اور قرآن اور اسلام کے متعلق استعمال کرنا شروع کر دیتے.جس پر جو شیلے مسلمان انہیں وہیں قتل کر دیتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ جب یکے بعد دیگرے کئی عیسائی قتل ہونے شروع ہو گئے تو سارے عیسائیوں میں جوش پیدا ہو گیا.وہ اکٹھے ہو گئے اور اُنہوں نے مسلمانوں کو سپین سے نکال دیا.اگر مسلمان عیسائیوں کی اس تدبیر کے مقابلہ میں دانائی سے کام لیتے ، اگر وہ عیسائیوں کو قتل کرنے کی بجائے اپنے آپ پر ماتم کرتے کہ ہم نے آٹھ سو سال اس ملک پر حکومت کر کے بھی یہاں کے رہنے والوں کو مسلمان نہیں کیا ، ہم عمارتوں کی تکمیل میں تو لگے رہے ، ہم سر بفلک محلات تیار کرنے میں تو مشغول رہے، ہم اپنی عزتوں کے قائم کرنے میں تو مصروف رہے مگر ہم نے محمد ﷺ کی عزت قائم کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عیسائی ہمارے منہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہے ہیں اور پھر بجائے تلوار سے اُن لوگوں کو قتل کرنے کے اُن سے کہتے کہ بے شک تم نے سخت کلامی کی ہے مگر چونکہ ہمارے آقا کی یہی تعلیم ہے کہ ہم دشمن سے نرمی کا برتاؤ کریں اس لئے ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے تو عیسائیوں کی ساری سکیم دھری کی دھری رہ جاتی اور اسلام کو سپین میں ایک نئی زندگی حاصل ہوتی مگر انہوں نے اپنی طاقت اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں یہ سمجھا کہ تلوار سے اُن کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ٣٣١ غزوہ غز وہ جنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ کامیابی ہو جائے گی.حالانکہ یہاں دلوں کو فتح کرنے کا سوال تھا اور دلوں کو فتح کرنے کے لئے تلواریں کام نہیں دے سکتیں.غرض اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمن جب کہ چاروں طرف سے حملہ کر رہا ہے رسول کریم اللہ کے محبین ان حملوں کے دفاع کے لئے آگے بڑھیں.وہ اپنے وطنوں کی محبت کو بھول جائیں ، وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت کو بھول جائیں ، وہ اپنی عزت اور اپنے مناصب، اپنے آرام اور اپنی سہولت کو مد نظر نہ رکھیں بلکہ جہاں ضرورت ہو، جہاں اسلام کے قلعہ پر حملہ ہو رہا ہو ، یا جہاں دشمن کے قلعہ پر کامیاب حملہ کیا جا سکتا ہو وہاں جائیں اور اپنی زندگیاں اور اپنے اوقات اسلام کی ترقی اور اُس کی عظمت کے لئے قربان کر دیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج ہمارے ایمانوں کے امتحان کا وقت ہے.پہلے لوگ آئے اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کی حفاظت کا سوال تھا وہاں انہوں نے اپنی جانوں کو قربان کرنے سے دریغ نہ کیا.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے.آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی حفاظت کا سوال نہیں بلکہ آج رسول کریم ﷺ کی عزت اور آپ کے ناموس کی حفاظت کا سوال ہے.پس آج ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ وہ دشمن کے اس چیلنج کو قبول کرے اور اُسے کہے کہ با وجود تمہاری طاقت اور قوت کے ، اور باوجود تمہاری شوکت کے میں تمہاری حقیقت ایک پر پشہ کے برابر بھی نہیں سمجھتا.اگر رسول کریم ﷺ کے ننگ و ناموس پر حملہ کرو گے تو پہلے تمہیں میرے ننگ و ناموس کو چاک کرنا پڑے گا.ہر شخص جس کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا اُسے ایمانِ کامل حاصل نہیں بلکہ میں کہتا ہوں اُسے ایمان ناقص بھی حاصل نہیں کیونکہ محبت کا ایک ادنی جذ بہ بھی انسان کو بے تاب کر دیتا ہے.پس وہ مبلغ جو تبلیغ کے لئے پہلے گئے ہوئے ہوں یا آب جا رہے ہیں میں اُن کو کہتا ہوں بے شک آپ لوگ وہ ہیں جنہیں رسول کریم ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے کا پہلا موقع ملا مگر یاد رکھیں آپ اس وقت اکیلے نہیں بلکہ ہر بچے احمدی کا دل آپ کے ساتھ ہے کیونکہ ہر سچا احمدی اس میدان میں اپنی شہادت کو بہترین انعام سمجھتا ہے اور ہر بچے احمدی کا دل اس بات پر غمگین صلى الله
انوار العلوم جلد کا ۳۳۲ غزوہ حنین کے موقع پرصحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ ہے کہ جو موقع اُن لوگوں کو ملا جو اس میدان میں بڑھ چکے ہیں کاش! یہ موقع اُسے میسر آتا.حضرت خالد بن ولیڈ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو وہ اپنی چار پائی پر لیٹے ہوئے رو رہے تھے.اُن کا ایک دوست اُس وقت اُن کے پاس پہنچا اور کہنے لگا خالد ! یہ رونے کا کونسا موقع ہے.آج تو تمہارے لئے خوش ہونے کا دن ہے کہ خدا سے انعامات لینے کا وقت آ گیا.اُس نے سمجھا شاید خالد موت کے ڈر سے رور ہے ہیں.حضرت خالد نے کہا تم میری بات کو نہیں سمجھے کہ میں کیوں رو رہا ہوں.تم میرے سینہ پر سے کپڑا اُٹھاؤ.اُس نے کپڑا اُٹھایا تو حضرت خالد نے کہا بتاؤ کیا میرے سینہ پر کوئی جگہ خالی ہے جہاں تلوار کے زخم نہ ہوں؟ اس نے کہا کوئی جگہ خالی نہیں.حضرت خالد نے کہا اب میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھاؤ.اُس نے کپڑا اٹھایا تو انہوں نے پوچھا بتاؤ کیا میری پیٹھ پر کوئی جگہ ایسی ہے جو تلوار کے زخموں سے خالی ہو؟ اُس نے کہا کوئی جگہ خالی نہیں.حضرت خالد نے کہا اب میرا پاجامہ اوپر اُٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا میری ٹانگوں پر کوئی جگہ ایسی ہے جہاں تلوار کے زخم نہ ہوں؟ اُس نے ایک ایک کر کے دونوں ٹانگوں پر سے پاجامہ اُٹھایا اور کہا کوئی جگہ خالی نہیں ہر جگہ تلوار کے زخموں کے نشان لگے ہوئے ہیں.یہ نشانات دکھا کر حضرت خالد کہنے لگے میں نے ہر موت کی جگہ میں جہاں مجھے شہادت نصیب ہو سکتی تھی اپنے آپ کو نڈر ہو کر ڈال دیا مگر مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی.اس کے مقابلہ میں میرے بہت سے بھائی ایک ایک جنگ میں شریک ہوئے اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو گئے.لیکن میں جس نے ہر خطرہ میں اپنے آپ کو ڈالا تھا آج رو رہا ہوں اور چار پائی پر مر رہا ہوں.خالد اپنی محبت اور اخلاص کی وجہ سے اپنی چارپائی پر مرنے کو بُرا محسوس کر رہا تھا لیکن عارف کی آنکھ جانتی ہے اور خدا تعالیٰ کے مقرب بندے سمجھتے ہیں کہ جہاں دوسروں کو ایک ایک شہادت کا ثواب ملا وہاں خالد کو بیسیوں شہادتوں کا ثواب مل چکا.صرف تلوار سے مرنا انسان کو انعام کا مستحق نہیں بناتا بلکہ شہادت کی خواہش شدید انسان کو شہید بنایا کرتی ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حمزہ تو شہید ہوئے لیکن محمد ﷺ شہید نہیں ہوئے مگر یہ بالکل غلط ہے.اگر حمزہ ایک دفعہ شہید ہوئے تھے تو محمد عبد اللہ سینکڑوں بار شہید ہوئے.خود صحابہ کہتے ہیں جب اُن سے پوچھا.
۳۳۳ غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ انوار العلوم جلد ۱۷ گیا کہ تم میں سے سب سے بڑا بہادر کون تھا ؟ تو انہوں نے کہا ہم میں سے سب سے بڑا بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو جنگ میں رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑا ہوتا اس لئے کہ دشمن اپنا سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کرتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو شہید کرے.پس آپ کے پاس کھڑا الله ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا.پھر انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑے ہونے کا سب سے زیادہ موقع ابو بکر کو ملتا تھا.تو صحابہ کرام کی گواہی ہے کہ رسول کریم ﷺ سب زیادہ خطرے میں ہوتے تھے.اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کو بچالیتا تھا اور آپ اپنی طرف سے جان دینے کے لئے تیار رہتے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ محمد ﷺ شہید نہ ہوئے.محمد یہ تو ان سے ہزاروں گنا زیادہ شہادت کا ثواب لے گئے کیونکہ ہر موقع پر انہوں نے اپنا نفس قربان کرنے کے لئے پیش کر دیا.اگر انہیں ظاہری شہادت نصیب نہیں ہوئی تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں یہ خدا کا فعل ہے.خدا نے یہی چاہا کہ اُس کا رسول زندہ رہے اور لوگوں کی تربیت کا کام کرتا رہے.پس جو پیچھے رہنے والے ہیں ان میں سے ہر سچا احمدی اپنے دل میں یہ در درکھتا ہے کہ کاش ! اس میدان میں اُسے آگے جانے کا موقع ملتا.جب نعمت اللہ خاں صاحب کا بل میں شہید ہوئے تو میں اُن دنوں انگلستان میں تھا.مجھے جب ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو اُس وقت بے اختیار میری زبان پر یہ شعر آ گیا کہ خدا شاہد ہے اُس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں مرا ہر ذرہ تن جھک رہا ہے التجا ہو کر پس ہر مومن کا دل اُدھر ہی مشغول ہے جس طرف وہ جا رہا ہے اور ہر مومن کی دعائیں اُس کے ساتھ ہیں صرف اتنی بات ہے کہ خدا نے اس کو اس خدمت کے لئے دوسروں سے پہلے چنا.ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ انعام کے طور پر ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کا یہ انتخاب بطور انعام نہ ہو بلکہ بطورا بتلا ہو اس لئے یہ بہت ہی خوف کا مقام ہے.انہیں دعاؤں اور زاری سے کام لیتے ہوئے آگے جانا چاہئے تا کہ وہ اپنی کسی غلطی اور قصور کی وجہ سے اس انعام کو عذاب میں نہ بدل لیں کیونکہ جہاں خدا کی طرف سے کام کے مواقع بہم پہنچائے جاتے ہیں وہاں کوئی موقع ایسا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۳۴ غزوہ غز وہ جنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونہ آتا ہے کہ انسان بخشا جاتا اور انعام کا مستحق ہوتا ہے اور کوئی موقع ایسا آتا ہے جب وہ پکڑا جاتا اور سزا پاتا ہے.اب میں دعا کر دیتا ہوں دوست بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں.الفضل ۲۷ فروری ۱۹۴۵ء) ۱۶ جون ۱۹۴۴ء مجاہدین تحریک جدید نے چوہدری احسان الہی صاحب جنجوعہ مبلغ مغربی افریقہ کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ تقریر فرمائی.بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى اذتستغيثون + سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲، ۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين ( مفهوماً ) البقرة: ۱۴۸ البقرة: ۱۵۱ ک سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۲ صفحه ۱۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۳۵ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
انوار العلوم جلد کا ۳۳۶ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو ( تقریر فرموده ۲۵ / جون ۱۹۴۴ء بمقام قادیان ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسانی زندگی بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب بنائی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ساری ہی چیزیں اپنی جگہ پر ضروری بھی ہیں اور غیر ضروری بھی.جو خالصہ ضروری چیز ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے.ہر چیز اپنے وقت میں اور اپنے ماحول میں ضروری نظر آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک مرکز ہے دنیا کا جس کے گرد ساری دنیا چکر لگا رہی ہے مگر باوجود اس کے پھر ایک وقت پر وہ چیز جاتی رہتی ہے ایک اثر اور ایک نشان تو وہ ایک عرصہ کے لئے چھوڑ جاتی ہے لیکن دنیا پھر بھی جاری ہی رہتی ہے.پھر نئے وجود دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جن کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کے بغیر آب دنیا نہیں چل سکتی.پھر وہ مٹ جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے وہ اپنا اثر اور نشان چھوڑ جاتے ہیں مگر پھر خدا کی طرف سے اُس وقت کے ماحول کے ساتھ لوگوں کو ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب یہ نئے وجود نہایت ضروری ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں پیدا کیا اُس وقت ابھی دنیا کی ابتداء تھی.ابھی لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کیسی کیسی مخلوق دنیا میں بھجوانے والا ہے.خدا کا تازہ کلام اور ان معنوں میں تازہ کلام کہ اس شکل میں اس سے پہلے نازل نہیں ہوا تھا آدم پر اُترا اور لوگوں کے لئے ابھی ایمانیات سے باہر اور کوئی دلیل ایسی نہ تھی جس کی بناء پر وہ سمجھتے کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۳۷ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو یہ کلام پھر بھی دنیا میں اُترے گا اور انسان اپنے تجر بہ کا غلام ہوتا ہے.جس وقت آدم کے ساتھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ آدم بھی ایک دن اس دنیا سے گزر جائے گا وہ وقت اُن کے لئے کیسا تکلیف دہ ہوتا ہوگا.ان کے لئے کوئی مثال موجود نہ تھی کہ آدم کا قائم مقام کوئی اور آدمی بھی ہوسکتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے سارے فضلوں کو آدم میں ہی مرکوز دیکھتے تھے اور آدم سے بڑھ کر کسی اور وجود میں ان فضلوں کا مشاہدہ کرنا اُن کے نزدیک خام خیالی تھی کیونکہ اور کوئی انسان انہوں نے نہیں دیکھا تھا جو آ دم سے بڑھ کر ہوتا.غرض آدم جس کی تعلیم کا نشان سوائے قرآن کے اور کہیں نہیں ملتا ، آدم جس کی تربیت کا نشان دنیا کی کسی تاریخ سے مہیا نہیں ہوتا وہ اُن لوگوں کیلئے اپنے زمانہ کے لحاظ سے ایسا ہی ضروری تھا جیسے حیات کے قیام کے لئے ہوا اور پانی ضروری ہوتا ہے.وہ آدم کو اپنی روحانی حیات کے قیام کا ذریعہ سمجھتے تھے اور روحانی حیات کو آدم کا نتیجہ قرار دیتے تھے مگر ایک دن آیا جب خدا کی قدرت نے آدم کو اُٹھا لیا.آدم کے مومنوں پر وہ کیسا تکلیف کا دن ہو گا.وہ کس طرح تاریکی اور خلا اپنے اندر محسوس کرتے ہوں گے مگر وہ نسل گزری اور اُس نسل کی نسل گزری اور اسی طرح کئی نسلیں گزرتی چلی گئیں اور آدم کی قیمت اُن کے دلوں سے کم ہو گئی یہاں تک کہ وہ اُس وجود کو بھی بھول گئے جس کی وجہ سے آدم کی قدر و قیمت تھی یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کو بھی بھلا دیا.اُس سے قطع تعلق کر لیا اور اُن کی ساری کوششیں دنیا میں ہی محمد ود ہوگئیں.محدود تب خدا نے نوح کو دنیا میں بھیجا.یا کم سے کم ہمارے لئے جس شخص کے ذکر کی ضرورت سمجھی گئی ہے وہ نوح ہی ہے.درمیان میں بعض اور وجود بھی آئے ہوں گے مگر وہ اہم وجود جس کا قرآن نے ذکر کیا نوح ہی ہے.نوح کے زمانہ میں جو لوگ اُس پر ایمان لائے کس طرح انہیں محسوس ہوتا ہوگا کہ وہ تاریکی سے نکل کر نور کی طرف آگئے ہیں.وہ تنہائی کی زندگی کو چھوڑ کر ایک نبی کی صحبت سے لطف اندوز ہورہے ہیں.خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اور اُس کی پُر معرفت باتیں سن کر ان کے اندر کیسی زندگی پیدا ہوتی ہوگی، کیسا یقین پیدا ہوتا ہوگا، کتنی خوشی ہوتی ہوگی کہ کس طرح انہوں نے یہ غلط خیال کر لیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اُس کا نور آب دنیا میں نہیں آئے گا.وہ سوچتے ہوں گے کہ ہم کس طرح دنیا میں مشغول تھے کہ خدا کا ہاتھ پھر ہماری طرف
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۳۸ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو لمبا ہوا اور اُس نے ہمیں تاریک گڑھوں سے نکال کر معرفت کی روشنی میں کھڑا کر دیا لیکن اُس زمانہ کے لوگ بھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ نوح جیسی نعمت کے بعد اور کیا نعمت ہو گی ، کون سی برکت ہوگی جو اُس کے بعد بھی آئے گی.وہ خیال کرتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی آخری نعمت ہم کو حاصل ہوگئی اب ہماری زندگیاں خوشی کی زندگیاں ہیں اب ہم علیحدگی اور تنہائی کی بدمزگیوں سے بچ گئے.اب خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم خدا کے ساتھ ہیں لیکن پھر ایک زمانہ آیا جب خدا کی حکمت کا ملہ نے نوح کو اُٹھا لیا.اُس وقت نوح کے ماننے والوں کی جو کیفیت ہو گی اُسے ہم تو سمجھ سکتے ہیں جنہیں ایک نبی کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا مگر دوسرے لوگ اِس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.کسی طرح چمکتا ہوا سورج اُن کے لئے تاریک ہو گیا ہوگا ، کس طرح نور والا چاند اُن کے لئے اندھیرا ہو گیا ہوگا ، کس طرح اللہ تعالیٰ کا روشن چہرہ جو ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اُنہیں دُھند لکے میں چھپا ہوا دکھائی دینے لگا ہوگا اور کس طرح وہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ دنیا اب ہلاکت کے گڑھے میں گر گئی.لیکن ابھی نوح کا پیدا کردہ ایمان لوگوں کے دلوں میں موجود تھا اُس ایمان کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہوں گے کہ جس طرح آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح کو کھڑا کر دیا اسی طرح شاید نوح کے بعد کسی اور کو کھڑا کر دے.پس وہ ایک ہلکی سی امید اپنے دل میں رکھتے ہوں گے گو یہ امید اپنے ساتھ ایسا زخم رکھتی ہوگی ، ایسا درد اور اضطراب رکھتی ہوگی جس کی مثال انبیاء کی جماعتوں کے باہر اور کہیں نہیں مل سکتی.پھر خدا تعالیٰ کے فضل نے نہ معلوم کتنے عرصے کے بعد ، کتنے تغیرات کے بعد، کتنی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کے بعد ابراہیم کو پیدا کیا اور پھر وہی کیفیت جو نوح کے زمانہ میں لوگوں پر گزری تھی ابراہیم کے زمانہ میں دکھائی دینے لگی.اب لوگوں کی دماغی ترقی کو دیکھ کر خدا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پے در پے اپنے انبیا ء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے چنانچہ ابراہیم کے بعد اسحاق کو ایک ملک میں اور اسماعیل کو دوسرے ملک میں کھڑا کیا گیا.پھر یعقوب آئے پھر یوسف آئے اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا اور لوگ نور ہدایت سے منور ہوتے رہے.مگر پھر ایک ایسا وقت آیا جب دنیا تاریکی کے گڑھوں میں گر گئی ، گمراہی میں مبتلا ہوگئی ، خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں سے
انوار العلوم جلد کا ۳۳۹ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو محروم ہوگئی اور یہ دورِ ضلالت جاری رہا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اُنہوں نے بندوں کا خدا سے پھر تازہ عہد باندھا.اس کے بعد پے در پے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے آتے رہے.داؤد آئے ،سلیمان آئے ، الیاس آئے ، بی آئے ، عیسی آئے اور آخر میں ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.جس طرح آدم کے زمانہ میں لوگوں کو یہ احساس تھا کہ خدا نے ایک نیا نور پیدا کیا ہے، ایک نئی چیز دنیا میں ظاہر کی ہے اور وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی چیز پھر دنیا میں کب آ سکتی ہے وہ اپنے تجربہ کے مطابق آدم کو ہی اول الانبیاء اور آدم کو ہی آخر الانبیاء سمجھتے تھے.اسی طرح کا احساس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا شروع ہو گیا.بات یہ ہے کہ سارے ہی نبی اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ہر نبی کی اُمت یہی سمجھ لیتی ہے کہ یہ نبی آخری نبی ہے.قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے تو اُن کی قوم نے کہا اب یوسف کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کی مہربانی اور اُس کی شفقت اور اُس کی عنایت اور اُس کی رافت کا ایسا دلکش نمونہ ہوتے ہیں کہ اُن کو دیکھنے کے بعد لوگ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ایسے وجود دُنیا پھر بھی پیدا کر سکتی ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تو ایسا تھا جس کے متعلق یہ دعویٰ بھی موجود تھا کہ آپ خاتم النبین ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک تو اس کے یہ معنی تھے کہ آپ آخری شرعی رسول ہیں اور یہ کہ اب دنیا میں جو بھی رسول اور مصلح آئے گا وہ آپ سے روحانی فیوض حاصل کر کے اور آپ کا غلام اور شاگرد بن کر آئے گا.مگر جو دیکھنے والے تھے جن کو ابھی آئندہ کا تجربہ نہیں تھا اُن میں سے بعض شاید یہی سمجھتے ہوں کہ آپ دنیا کے لئے آخری روشنی ہیں اور وہ یہی خیال کرتے ہوں کہ اس روشنی کو خدا اب واپس نہیں لے گا اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا خیال بھی اُن کے لئے ایک ایسا صدمہ تھا جن کو برداشت کرنا اُن کی طاقت سے بالکل باہر تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو یہ بات صحابہ کے لئے اس قدر صدمہ کا موجب ہوئی کہ وہ لمبی تعلیم جو متواتر تیئیس سال تک خدا کا رسول اُن کو دیتا رہا اُس کو بھی وہ بھول گئے.جس رسول نے بڑے
انوار العلوم جلد ۷ ۳۴۰ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو زور سے اُن پر یہ واضح کیا تھا کہ مرنے کے بعد انسان اس دنیا میں واپس نہیں آتا ، جس رسول نے بڑے زور سے واضح کیا تھا کہ ہر انسان جو اس دنیا میں آیا وہ ایک دن مرے گا اور جس رسول کے کلام میں یہ بات موجود تھی کہ ایک دن وہ خود بھی مرنے والا ہے اُس کی اُمت کے ایک جلیل القدر فرزند نے کہنا شروع کر دیا کہ جو شخص کہے گا محمد رسول اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اُس کی تلوار سے گردن اُڑا دی جائے گی ہے ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا زمانہ نہیں دیکھا شاید اس پر تعجب کرتے ہوں گے اور یہ واقعہ پڑھ کر اُن کو خیال آتا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو گیا کہ آپ فوت نہیں ہو سکتے.مگر جب وہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے تو اِس بات کا سمجھنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا کہ جن وجودوں سے شدید محبت ہوتی ہے اُن کی جدائی کا امکان بھی دل پر گراں گزرتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جس کا تصور بھی انسان کو بے چین کر دیتا ہے تو عارضی طور پر انسان پر ایک سکتہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.کیا ہی سچے جذبات کا آئینہ ہے حسان کا وہ شعر جو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا جب آپ کی وفات اُن پر ثابت ہوگئی تو انہوں نے کہا ھے كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَيَّ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ ـ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ ٣ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو میری آنکھ کی پتلی تھے آج آپ فوت ہوئے تو میری آنکھ بھی جاتی رہی.یا درکھنا چاہئے کہ اس شعر کی عظمت اور اس کی خوبی کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شعر کہنے والا آخری عمر میں نابینا ہو گیا تھا اور اندھے کی نظر پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے.پس اُس کے یہ کہنے کا کہ آپ میری آنکھ کی پتلی تھے آپ کی وفات سے میں اندھا ہو گیا مطلب یہ تھا کہ باوجود اس کے کہ میں اندھا تھا آپ کی موجودگی میں مجھے اپنا اندھا پن بُرا معلوم نہیں ہوتا تھا ، بے شک میں نے اپنی جسمانی آنکھیں کھو دی تھیں مگر میں خوش تھا، میں شاداں تھا میں فرحاں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری روحانی آنکھیں موجود ہیں، مجھے وہ پتلی حاصل ہے جس کے ساتھ میں اپنے خدا کو دیکھ سکتا ہوں.اگر میری جسمانی آنکھیں نہیں ہیں ، اگر میں لوٹے اور
۳۴۱ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو انوار العلوم جلد ۱۷ گلاس کو نہیں دیکھ سکتا تو کیا ہوا مجھے وہ پہلی تو ملی ہوئی ہے جس سے میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کو دیکھ سکتا ہوں.بھلا لوٹے اور گلاس اور رنگ کو دیکھنے میں کیا مزا ہے.مزا تو یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کو دیکھ سکے لیکن آج جب وہ پہلی مجھ سے لے لی گئی ہے ، جب وہ عینک مجھ سے چھین لی گئی ہے تو فَعَمِيَ عَلَيَّ النَّاظِرُ اے لوگو! تم مجھے پہلے اندھا کہا کرتے تھے لیکن حقیقتا میں اندھا آج ہوا ہوں.مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ میری بیوی بھی ہے ، میرے بچے بھی ہیں اور عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں مگر اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ اُن میں سے کون مرجاتا ہے جو بھی مرتا ہے مر جائے اُس کی موت میرے لئے اس نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی جس نقصان کا موجب میرے لئے یہ موت ہوئی ہے.فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ - يَارَسُولَ اللهِ ! میں تو اسی دن سے ڈرتا تھا کہ میری یہ بینائی کہیں چھین نہ لی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کی تاریکیوں سے لوگوں کو نکالا ، جس قسم کی تباہیوں سے عربوں کو بچایا ، جس قسم کی ذلت سے اور رُسوائی سے نکال کر ان کو ترقی کے بلند مقام تک پہنچایا اُس کو دیکھتے ہوئے آپ کے احسانوں کی جو قدرو قیمت صحابہ کے دل میں ہو سکتی تھی وہ بعد میں آنے والے لوگوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی.مگر پھر بھی دنیا چلی اور چلتی چلی گئی یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صرف زبانوں پر رہ گئی دلوں میں سے مٹ گئی.خدا تعالیٰ کا نور کتابوں میں تو رہ گیا مگر دماغوں میں سے جاتا رہا.دنیا خدا کو بھول گئی اور اُس کی لذتیں دنیا سے ہی وابستہ ہو گئیں.جس طرح کسی درخت کو ایک زمین سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا کی زمین میں سے لوگوں کی جڑیں اُکھڑ گئیں اور شیطان کی زمین میں جا لگیں، ان کا ماحول شیطانی ہو گیا اور اُن کی تمام لذت اور اُن کا تمام سرور شیطانی کاموں سے وابستہ ہو گیا.تب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا.دنیا ان کی بعثت پر حیران رہ گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب خدا تعالیٰ کے انعامات کو اس رنگ میں پانے والا کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر خدا اور بندے کو آمنے سامنے کر دے کوئی نہیں آ سکتا.جن لوگوں کی آنکھیں کھلی تھیں انہوں نے حضرت
انوار العلوم جلد ۷ ۳۴۲ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے یوں محسوس کیا جیسے ایک کھویا ہوا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ جاتا ہے.انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو صدیوں سے خدا سے دُور جاچکے تھے اس شخص کے ذریعہ خدا کی گود میں جا بیٹھے ہیں.اُن کی خوشیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ، اُن کی فرحت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا.وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کے کسی نبی کا مبعوث ہونا ناممکن ہے جہاں اُن کے غصہ کی کوئی حد نہ تھی وہاں مومنوں کی خوشی اور اُن کی مسرت کی بھی کوئی حد نہ تھی اور اُنہوں نے یہ خیال کرنا شروع کر لیا کہ اتنے صدموں کے بعد اب کوئی اور صدمہ انہیں پیش نہیں آئے گا.چنانچہ ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتا تھا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ جس کا ایمان ابھی اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا یہ تو نہیں سمجھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت نہیں ہوں گے مگر ہر شخص یہ ضرور سمجھتا تھا کہ کم سے کم میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگی.مگر ایک دن آیا کہ ہر شخص جو یہ سمجھ رہا تھا کہ میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود السلام فوت ہوں گے اُس نے دیکھا کہ وہ تو زندہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اُٹھا لیا.وہ وقت پھر اُن لوگوں کے لئے جو سچے مومن تھے نہایت مصیبت کا وقت تھا اور یہ صدمہ ایسا شدید تھا کہ جس کی چوٹ کو برداشت کرنا بظاہر وہ ناممکن خیال کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چیز آتی ہے اُسے بہر حال لینا پڑتا ہے اور انسان کو نئی حالت کے تابع ہونا پڑتا ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ: ” اے عزیز و ! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقد رتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھا دے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری
انوار العلوم جلد ۷ ۳۴۳ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی“ ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ جماعت کی یہ حالت کب تک رہے گی ، کب تک خدا کا نور ہمارے در میان موجود رہے گا ، کب تک ہم اپنے آپ کو اس نور سے وابستہ رکھیں گے ، مگر بہر حال یہ لمبا سلسلہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک کے بعد ایک چیز آئی.لوگ جب پہلی چیز کو بھول جاتے ہیں تو خدا دوسری چیز کو بھیج دیتا ہے اور دنیا کی خوشی اور اُس کی شادمانی کا سامان مہیا کر دیتا ہے لیکن ایک چیز ہے جو شروع سے آخر تک ہمیں تمام سلسلہ میں نظر آتی ہے.آدم آیا اور آدم کے ساتھ خدا آیا.آدم چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا، نوح آیا اور نوح کے ساتھ خدا آیا.نوقح چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا ، ابراہیم آیا اور ابراہیم کے ساتھ خدا آیا ابراہیم فوت ہو گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اس دنیا میں موجود رہا.اسی طرح اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، موسی عیسی اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر ایک کے ساتھ خدا آیا.اُن میں سے ہر شخص فوت ہو گیا لیکن ہمارا خدا زندہ رہا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا.ہر شخص جو اُس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ ہمیشہ اپنی جڑیں اس زمین میں پائے گا جو خدا کی رحمت کے پانی سے سیراب ہوتی ہے.اُس پودے کی طرح اپنے آپ کو نہیں پائے گا جس کی جڑیں اچھی زمین میں سے اُکھیڑ کر ایک خراب اور ناقص زمین میں لگا دی جاتی ہیں.پس یا د رکھو! جسمانی تناسل انسان کو موت اور فنا کی طرف لے جاتا ہے گو وہ انسان کے لئے خوشی کا بھی موجب ہوتا ہے، راحت کا بھی موجب ہوتا ہے مگر روحانی تناسل جس کے ذریعہ ایک پاک انسان دوسرے پاک انسان کو پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے دنیا سے رنج اور غم کو بالکل مٹا دیتا ہے کیونکہ اس تعلق کیلئے موت نہیں، اس تعلق کیلئے فنا نہیں اور اگر بنی نوع انسان چاہیں تو وہ اپنی زندگی کو دائمی زندگی بنا سکتے ہیں.جس کا طریق یہی ہے کہ ہر نسل قدرت ثانیہ کے مظاہر کے ذریعہ اس طرح خدا تعالیٰ سے وابستہ رہے جس طرح پہلی نسل اُس سے وابستہ رہی ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.کیونکہ روحانی تناسل کا انقطاع ایک موت ہے لیکن جسمانی تناسل کا انقطاع صرف ایک عارضی صدمہ.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۴۴ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو تم عیسائیوں کو دیکھ لو انہیں تم کچھ کہہ لو.چاہے اُن کو خدا کا منکر کہو، چاہے اُن کو صلیب پرست کہو، چاہے اُن کو مشرک کہو اور چاہے اُن کو ضالین کہہ لو مگر ایک مثال اُن کے اندرایسی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آنکھ اُن کے سامنے جھک جانے پر مجبور ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ تمہارے اندر خلافت قائم کی جائے گی اور اس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر خلافت قائم بھی کی لیکن مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کو اپنی نادانی سے اُڑا دیا اور عیسائیوں نے خود خلافت قائم کی جو اُنیس سو سال کا لمبا عرصہ گزارنے کے باوجود آج تک اُن کے اندر قائم ہے.عیسائیوں کے پوپ کو دیکھ لو اُس کو وہ خلیفہ کے برابر ہی سمجھتے ہیں اور باوجود یکہ مذہب نے اُن کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی گزشتہ سنت کو دیکھتے ہوئے اسی میں اپنی بہتری سمجھی اور کہا آؤ ہم اس خدائی سنت سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اپنے اندر خلافت قائم کریں.وہ قوم دینی لحاظ سے بالکل تباہ ہوگئی ، وہ قوم اچھے اعمال کو کھو بیٹھی ، اس قوم نے اپنے آپ کو گلی طور پر دنیوی رنگ میں رنگین کر لیا، اس قوم نے خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی لیکن اُنہوں نے آج تک اس چیز کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے کہ آج بھی ان کا پوپ یورپ کے بڑے سے بڑے تاجدار اور شہنشاہ کی برابری کرتا ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بادشاہت ہمیں پوپ سے ہی پہنچی ہے.یہ وہ چیز تھی جو اُن کی کامیابی کا موجب ہوئی.اگر مسلمان بھی اِس کو قائم رکھتے تو آج ان کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.انہوں نے خلافت کو اُڑا دیا اور پھر اپنے دلوں کو تسکین دینے کے لئے ہر بادشاہ کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا مگر گجا لکڑی کی بنی ہوئی بھینس اور گجا اصل بھینس.لکڑی کی بنی ہوئی بھینس کو دیکھ کر کوئی شخص خوش نہیں ہو سکتا لیکن وہ اپنی اصل بھینس کو دیکھ کر ضرور خوش ہوتا ہے چاہے وہ کتنی ہی لاغر اور دبلی پتلی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ دودھ دے یا نہ دے.مسلمانوں نے چونکہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کی ناقدری کی اور اُسے اُڑا دیا اور پھر اس کی برکات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوئے دُنیوی بادشاہوں کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا اس لئے وہ خلافت کی برکات سے محروم ہو گئے.اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ اس غفلت
۳۴۵ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو انوار العلوم جلد ۱۷ اور کوتاہی کا ازالہ کرے اور خلافت احمدیہ کو ایسی مضبوطی سے قائم رکھے کہ قیامت تک کوئی دشمن اس میں رخنہ اندازی کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جماعت اپنی روحانیت اور اتحاد اور تنظیم کی برکت سے ساری دنیا کو اسلام کی آغوش میں لے آئے.بے شک جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دنیا چلتی چلی جاتی ہے اور ایسے رنگ میں جاری ہے کہ ہر زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو پہلوں سے ترقی یافتہ سمجھتے ہیں.مرنے والے مر جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں اب کیا ہوگا؟ لیکن ابھی ایک صدی بھی نہیں گزرتی کہ لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں آب ہم زیادہ عقلمند ہیں پہلے لوگ جاہل اور علوم صحیحہ سے بے بہرہ تھے.گویا وہی جن کے متعلق ایک زمانہ میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا انہیں آئندہ آنے والے احمق اور جاہل قرار دیتے ہیں لیکن روحانی تعلق ایسا نہیں ہوتا کہ اس میں ایک دوسرے کو جاہل کہا جا سکے نہ یہ تعلق اس قسم کی مایوسی پیدا کرتا ہے جس قسم کی مایوسی جسمانی تعلق کا انقطاع پیدا کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص خدا سے تعلق پیدا کر لیتا ہے اُسے بھی غم ہوسکتا ہے لیکن مایوسی اُس کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتی.غم ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے روحانی ترقی کے لئے اس دنیا میں ضروری قرار دیا ہے.دو وفائیں ہیں جو خدا نے ضروری قرار دی ہیں ایک اپنے ساتھ اور ایک اپنے بندوں کے ساتھ.اگر غم نہ ہو تو یہ بندوں کے ساتھ وفا نہیں سمجھی جائے گی اور اگر مایوسی ہو تو یہ خدا کے متعلق بے وفائی ہوگی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے مگر ہم کہتے وہی ہیں جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا.ہے تو جہاں انسان کو دنیا میں کئی قسم کی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں وہاں اُسے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب خوشیاں عارضی ہیں.اُسے وہ حقیقی تعلق استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جوموت کو مٹا دے.موت اُسی صورت میں موت ہے جب انسان یہ سمجھتا ہو کہ میں ایک ایسی چیز سے محروم کیا گیا ہوں جس کا کوئی قائم مقام نہیں.روحانیت میں چونکہ انسان کا اصل تعلق خدا سے ہوتا ہے اور اس تعلق میں انقطاع واقع نہیں ہو سکتا جب تک کوئی شیطان سے تعلق پیدا نہ کر لے اس لئے کسی کی موت اُسے اپنے محبوب سے جدا نہیں کر سکتی.اس طرح اگر جسمانی طور پر اُس
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۴۶ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وابستہ رہو کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے بعض لوگ مر جاتے ہیں تو مایوسی اُس پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے اور ایک دن آنے والا ہے جب ہم پھر ایک دوسرے سے مل جائیں گے لیکن جب انسان کا خدا سے تعلق نہیں ہوتا تو ہر موت ، ہر جدائی اور ہر تفرقہ اُسے دائی معلوم ہوتا ہے اور وہ اُس کے دل کو ہمیشہ کیلئے مایوسی اور تاریکی میں مبتلا کر دیتا ہے.( الفضل ۲۴ رمئی ۱۹۶۰ء) ل وَلَئِن أَطَعْتُمْ بَشَرًا مَثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخْسِرُونَ (المؤمن : ۳۵) اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ مطبوعه آرام باغ کراچی الوصیت صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵ صلى الله بخاری کتاب الجنائز باب قول النبى علم انا بك لمحزونون
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۴۷ میری مریم از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی میری مریم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۴۸ میری مریم اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّطْنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ میری مریم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ ! بلانے والا ہے اُسی ނ پیارا اے دل تو جاں فدا کر قم فرمود و حضرت خلیلة اسم الثانی) رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيناً وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالْقُرْآن حَكَماً.سیدہ اُمم طاہر کا بچپن چھتیں سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد سے پڑھوایا.اس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خوا میں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے ان کے انداری پہلو کو بدلنا مقصود تھا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جاملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے نا واقف تھی بیوہ کہلانے لگی.اُس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ اُن کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اُس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے کھیلنے کے لئے اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تو میں کبھی مریم کو اُٹھا کر کبھی نصیرہ کو اُٹھا کر گول کمرہ میں چھوڑ آیا کرتا تھا اُس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچی جسے میں اُٹھا کر نیچے لے جایا کرتا ہوں کبھی میری بیوی بننے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۴۹ میری مریم والی ہے اور یہ خیال تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ میں پھر اُس کو اُٹھا کر نیچے لے جاؤں گا مگر گول کمرہ کی طرف نہیں بلکہ قبر کی لحد کی طرف.اس خیال سے نہیں کہ گل پھر اس کا چہرہ دیکھوں گا بلکہ اس یقین کے ساتھ کے قبر کے اس کنارہ پر پھر اس کی شکل کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہوگا.۱۹۰۷ء سے ۱۹۱۷ ء تک کا عرصہ عزیز مبارک احمد فوت ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہو گئی.وہ بھی واپس اپنی ملازمت پر رعیہ ضلع سیالکوٹ چلے گئے.سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اُس وقت سکول میں پڑھا کرتے تھے دونوں میرے دوست تھے مگر ڈاکٹر حبیب عام دوستوں سے زیادہ تھے.ہم یکجان دو قالب تھے مگر اُس وقت کبھی وہم بھی نہ آیا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی.اُن کی دوستی خود اُن کی وجہ سے تھی اس کا باعث یہ نہ تھا کہ اُن کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی.دن کے بعد دن اور سالوں کے بعد سال گزر گئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے مٹ گیا.مگر حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات کے بعد ایک دن شاید ۱۹۱۷ ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امتہ الحی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا اُس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی میں نے دیکھا ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اُس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لباس سمٹا لیا.میں نے کمرہ میں جا کرامتہ الحی مرحومہ سے پوچھا امتہ الحی ! یہ لڑ کی باہر کون کھڑی ہے.انہوں نے کہا آپ نے پہچانا نہیں ، ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے.میں نے کہا اُس نے تو پردہ کیا تھا اور اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اُسے کب پہچان سکتا تھا.۱۹۰۷ ء کے بعد اس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی.سیدہ اُمم طاہر سے نکاح آب میں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی طاہر سے نکاح بھی کہیں تجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں ، ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہوگئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۵ میری مریم تھی.میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا.آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئے ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کر لے لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا.تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہئے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں مریم سے خود نکاح کرلوں گا اور ۱۹۲۰ء میں اس کی بابت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم سے میں نے درخواست کر دی جو اُنہوں نے منظور کر لی اور ے فروری ۱۹۲۱ء کو ہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہو گیا.وہ نکاح کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا.دعاؤں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور گریہ وزاری سے سب کے رُخسار تر تھے.آخر ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کر میں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت اُم المومنین کے گھر میں ان کو اُتارا جنہوں نے ایک کمرہ ان کو دے دیا جس میں ان کی باری میں ہم رہتے تھے.وہی کمرہ جس میں اب مریم صدیقہ رہتی ہیں وہاں پانچ سال تک وہ رہیں اور وہیں اِن کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا.یعنی طاہر احمد ( اول ) مرحوم اور اس کے چلے میں وہ سخت بیمار ہوئیں جو بیماری بڑھتے بڑھتے ایک دن ان کی موت کا موجب ثابت ہوئی.شادی کے ابتدائی ایام شادی کے ابتدائی ایام میں د وخت دیلی بیگی ہوتی تھیں اور وہ پتلی شکل میں بعض ایسے نقص تھے جو میری طبیعت پر گراں گزرا کرتے تھے.اسی طرح وہ ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں اور مجھے گھر میں کسی کا پنجابی بولنا ز ہر معلوم ہوتا ہے.ان کی طبیعت ہنسوڑ تھی وہ مجھے چڑانے کے لئے جان کر بھی اُردو بولتے ہوئے پنجابی الفاظ اس میں ملا دیا کرتی تھیں.اسی طرح چونکہ باپ ماں کی وہ بہت لاڈلی تھیں ذراسی بات میں بھی اگر نا پسند ہوتی تو اُس پر چڑ کر رونے لگ جاتی تھیں اور جب رونے لگتیں تو آنسوؤں کا ایک سیلاب آ جاتا تھا، دو دو دن تک متوار روتی رہتی تھیں.شاید یہ مرض ہسٹیریا کے سبب سے تھا.جب میں انگلستان گیا ہوں تو امتہ الحی مرحومہ اور ان کی باہمی لڑائی کی وجہ سے میں ان سے کچھ خفا تھا مگر مجھے واپس آکر معلوم ہوا کہ غلطی زیادہ امتہ الحی مرحومہ کی تھی.اس خفگی کی وجہ
انوار العلوم جلد ۷ ۳۵۱ میری مریم سے سفر کے پہلے چند روز میں نے مریم کو خط نہ لکھا مگر الحَمدُ لِلَّهِ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جلد سمجھ دے دی اور میں نے ان کو نا جائز تکالیف میں پڑنے سے بچالیا.اٹلی سے میں نے ان کو ایک محبت سے پُر خط لکھا.جسے اُنہوں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اس میں ایک شعر تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ روم اچھا شہر ہے مگر تمہارے بغیر تو یہ بھی اُجاڑ معلوم ہوتا ہے.اتفاقاً ایک دفعہ اس شعر کا ذکر ۱۹۳۰ ء میں یعنی سفر ولایت کے سات سال بعد ہوا تو وہ جھٹ اُٹھ کر وہ خط لے آئیں اور کہا کہ میں نے وہ خط سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہی شعر میں نے امتہ الحی مرحومہ کو بھی لکھا تھا.خدا کی قدرت یہ دونوں ہی فوت ہو گئیں اور روم کی جگہ اس دنیا میں مجھے ان کے بغیر زندگی بسر کرنی پڑی.سیدہ امتہ الحی سے آخری وقت کا وعدہ بہر حال جب میں سفر انگلستان واپس آیا اور آنے کے چند روز بعد امتہ الحی فوت ہو گئیں تو ان کے چھوٹے بچوں کا سنبھالنے والا مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا.ادھر مرحومہ کے دل پر ان کی وفات کے وقت اپنے بچوں کی پرورش کا سخت بو جھ تھا.خصوصاً امتہ القیوم بیگم کے بارہ میں وہ بار بار کہتی تھیں کہ رشید کو دائی نے پالا ہے اسے میرا اتنا خیال نہ ہو گا.خلیل ابھی ایک ماہ کا ہے اسے میں یاد بھی نہ رہوں گی امتہ القیوم بڑی ہے اس کا کیا حال ہو گا.کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی دوسرے کی طرف مگر اس بارہ میں میری طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھیں.شاید سمجھتی ہوں گی مرد بچوں کو پالنا کیا جانیں.میں بار بار ان کی طرف دیکھتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دوسرے لوگوں کی موجودگی سے شرما جا تا تھا.آخر ایک وقت خلوت کا مل گیا اور امتہ الحی سے کہا امتہ الحی ! تم اس قدر فکر کیوں کرتی ہو.اگر میں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور انشاء اللہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا.میں نے اِن کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں.وعدہ کا ایفاء بوجھ آ پڑا ہے کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار برکتیں ان کی آخرامہ الحی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا مریم ! مجھ پر ایک روح پر ہوں وہ فوراً بول پڑیں ہاں میں ان کا خیال رکھوں گی.جس طرح ماں اپنے بچوں کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۵۲ میری مریم پالتی ہے میں ان کو پالوں گی اور دوسرے دن قیوم اور رشید کو لا کر میں نے ان کے حوالے کر دیا نہ انہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ ہم اس وقت ان کی موت کے فیصلہ پر دستخط کر رہے تھے کیونکہ اس ذمہ واری کی وجہ سے انہیں بھی اور مجھے بھی بہت تکالیف پہنچیں مگر ہم ان تکالیف کی وجہ سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہیں.مجھے امتہ الحی بہت پیاری تھی اور پیاری ہے مگر میں دیانتداری سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتیں تو اس طرح اپنے بچوں کی بیماری میں ان کی تیمارداری کر سکتیں جس طرح مریم بیگم نے ان کے بچوں کی بیماریوں میں ان کی تیمارداری کی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو اپنی گود میں اُٹھالے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی فضل فرمائے.اُنیس سالہ لڑکی کا یکدم تین بچوں کی ماں ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگر اُنہوں نے خوشی سے اور جوش سے اس بوجھ کو اُٹھایا اور میری اُس وقت مدد کی جب ساری دنیا میں میرا کوئی مددگار نہ تھا.انہوں نے مجھے اس وعدہ کی ذمہ واری سے سبکدوش کیا جس سے سبکدوش ہونا میرے بس کی بات نہ تھی.میری نظروں کے سامنے وہ نظارہ آج بھی ہے جب میں قیوم اور رشید کو مرحومہ کے پاس لایا اور اُنہوں نے پرنم آنکھوں سے ان کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے کہا کہ آب سے میں تمہاری اُمّی ہوں اور یہ سہمی ہوئی بچیاں بھی اُس وقت سسکتی ہوئیں ان کے گلے سے لگ گئیں.میں نے ان سے اُس وقت وعدہ کیا کہ محبت کے لئے دعا جو خدا نے سن لی مریم ! تم ان بے ماں کے بچوں کو پالو اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم سے بہت محبت کروں گا اور میں نے خدا تعالیٰ سے رورو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی محبت میرے دل میں پیدا کر دے اور اُس نے میری دعا سن لی.میں نے اُس دن سے ان سے محبت کرنی شروع کر دی.ان کی طرف سے سب انقباض دل سے نکل گیا اور وہ میرے دل پر مسلط ہو گئیں.ان کی وہی شکل جو میری آنکھوں میں چھتی تھی ، اب مجھے ساری دنیا میں حسین ترین نظر آنے لگی اور ان کا لا ابالی پن جس پر میں بُرا منایا کرتا تھا اب مجھے انکا پیدائشی حق معلوم دینے لگا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۵۳ نہ میری مریم غضب کی ذہانت مریم کچھ زیادہ بھی پڑھی تھیں اور ان کا خط بھی بہت خراب تھا.غضب کی ذہانت استقلال سے پڑھنے لکھنے کا ملکہ بھی نہ تھا.صرف چند دن سبق لے کر چھوڑ دیتی تھیں مگر ذہانت غضب کی تھی.آنکھ سے ، ماتھے کی شکنوں سے ، سانس سے، چال سے، اشارہ سے راز کو اس طرح پالیتی تھیں کہ حیرت آتی تھی.انسان خیال کرتا تھا کہ انہیں غیب معلوم کرنے کا کوئی نسخہ آتا ہے.طبیعت سخت حساس تھی.جہاں طنز مدنظر نہ ہوتی تھی انہیں طنز نظر آتی تھی ، جہاں خنکی کا شاہ بھی نہ ہوتا تھاو و خنکی کے آثار محسوس کرتی تھیں دوسروں سے بڑھ کر بھی ان سے سلوک کرو تو وہ سمجھتی تھیں کہ مجھ سے بے انصافی ہورہی ہے.یہ معاملہ ان کا مجھ سے ہی تھا اور اسی معاملہ میں آکر ان کی ذہانت بے کار ہو جاتی تھی.احمدیت پر سچا ایمان مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا اس لئے ط ، ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں.علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں.جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی پر میں اس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دے گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ قیاس میرا شاذ ہی غلط ہوتا تھا.میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا.خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھر تھر ا ہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی.بہا در دل کی عورت مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں.جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا.ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے.یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی.ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی.انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۵۴ میری مریم اپنے آپ کو ، بھول جاتیں کھانے پینے کو بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یا درہ جاتا تھا اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے.اور وہ کام ان کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا آپریشن ہوتا تھا.دیگر صفات لذت حاصل کرنے کا مادہ مریم میں غضب کا تھا.ایک مردہ دل کو زندہ دل بنا دیتی تھیں.گھوڑے کی سواری کی بے انتہا شوقین تھیں ، بندوق چلانا بھی جانتی تھیں اور اگر کبھی ان کا نشانہ میرے نشانہ سے بڑھ جاتا تو ان کی خوشی کی حد نہ رہتی.پہاڑ و دریا کی سیر سے لذت اُٹھانا انہی کو آتا تھا.۱۹۲۱ء میں کشمیر میرے ساتھ گئیں تو وہ ان کے ساون بھادوں کا موسم تھا.میں سنجیدگی کی طرف بلاتا اور وہ قہقہوں کی طرف بھاگتیں نتیجہ یہ ہوا کہ نہ سنجیدگی رہی اور نہ قہقہے ساون کی جھڑیوں کی طرح جو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوئے تو کشمیر سے واپسی تک بہتے ہی چلے گئے.دوسری دفعہ ہم پھر میریم ہی کے کہنے پر کشمیر گئے ۱۹۲۹ ء کا زمانہ تھا.اب تین بچے مریم کے اپنے تھے اور تین امتہ الحی مرحومہ کے اس سبب سے کچھ تو مریم میں سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی کچھ مجھے امتہ الحی مرحومہ کے بچوں کے پالنے کی وجہ سے ان کا لحاظ زیادہ ہو گیا تھا اس لئے اب ان کے قہقہوں کے لئے فضا سازگار ہو گئی تھی.پس اس دفعہ کشمیر کی خوب سیر کی اور ۱۹۲۱ ء کی کمی پوری کر لی مگر یہ حسرت پھر بھی رہ گئی کہ مجھے ایک دفعہ کشمیر کیلئے دکھا دو یعنی جب کوئی دوسری بیوی ساتھ نہ ہو.مریم کی طبیعت میں یہ عجیب متضاد بات تھی کہ میرے سب بچوں عجیب متضاد بات سے خواہ کسی ماں سے ہوں وہ بے انتہا محبت کرتی تھیں بلکہ ادب تک کرتی تھیں.لیکن میری بیویوں سے ان کی نہ بجھتی تھی.گنواروں کی طرح لڑتی نہ تھیں مگر دل میں غصہ ضرور تھا.ان کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کسی نہ کسی امر میں ان سے امتیازی سلوک ہوا اور چونکہ خدا اور رسول کے ماتحت میں ایسا نہ کر سکتا تھا ، وہ یہ یقین رکھتی تھیں کہ میں اِن
انوار العلوم جلد کا ۳۵۵ میری مریم سے محبت نہیں کرتا اور دوسری بیویوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں.w سیدہ اُمم طاہر کا ایک بعض دفعہ خلوت کی گھڑیوں میں پوچھتی تھیں کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ اور میں اس کا جواب سوال اور اُس کا جواب دیتا کہ اس جواب سے مجھے خدا تعالیٰ کا حکم روکتا ہے اور وہ ناراض ہو کر خاموش ہو جاتیں.ہاں گزشتہ چند سال سے انہوں نے یہ سوال کرنا چھوڑ دیا تھا.آج اگر انہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آکر میرے دل سے نکلتے ہوئے ان شعلوں کو دیکھنے کا موقع دے جو دل سے نکل نکل کر عرش تک جاتے ہیں اور رحم کی استدعا کرتے ہوئے عرش کے پایوں سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے سوال کا کیا جواب تھا.آج اگر انہیں دُنیا میں آنے کا موقع مل جائے اور وہ میرے ذکر الہی کے وقت یہ دیکھیں کہ جب خدا تعالی کی سبوحیت بیان کرتے کرتے اُس کی پاکیزگی کا احساس میرے تن بدن کو ڈھانپ لیتا ہے تو میرے بدن پر ایک کپکپی آ جاتی ہے اور اس سبوحیت کے آخری جلوہ کے وقت میرے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے کہ اے سبوح خدا! کیا میری مریم کو بھی تو پاک نہیں کر دے گا.یا جب اُس کی حمد کا ذکر کرتے کرتے ساری دنیا میری نگاہ میں اُس کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے اور زمین و آسمان پر حمد ہی حمد کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے تو یکدم میرا جسم ایک جھٹکا کھاتا ہے ، میرے دل کو ایک دھکا لگتا ہے اور میری زبان پر بے اختیار جاری ہو جاتا ہے اے وہ خدا جس کی حمد ذرہ ذرہ کر رہا ہے کیا میری مریم کو تو اپنی حمد کا مورد نہیں بنائے گا.ہاں اگر ان کی روح اس نظارہ کو دیکھ لے تو وہ کتنی شرمندہ ہوں اُس لمبی بدگمانی پر جو انہوں نے مجھ پر کی.اے میرے رب ! اے میرے رب ! میں نے بھی ایک لمبے عرصہ تک تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے نفس پر جبر کیا ہے.کیا تو اس کے بدلہ میں میری مریم کو اگلے جہان میں خوش نہیں کر دے گا.میرے آقا ! تیری رحمت کے دامن کو چھوتا ہوں اور تیرے عرش کے سامنے جبین نیاز رگڑتا ہوں.میری اس التجا کوسن اور اس چنگاری کو جو تو نے میرے دل میں سُلگا دی ہے ہم دونوں کے لئے کافی سمجھ اور اسے ہر آسیب اور ہر وحشت سے محفوظ رکھ.
انوار العلوم جلد ۷ ۳۵۶ میری مریم رشتہ داروں سے محبت میری مریم کو میرے رشتہ داروں سے بہت محبت تھی وہ ان کو اپنے عزیزوں سے زیادہ پیار کرتی تھیں.میرے بھائی ، میری بہنیں ، میرے ماموں اور ان کی اولادیں انہیں بے حد عزیز تھے.ان کی نیک رائے کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور اس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی تھیں.حضرت اُم المومنین کی خدمت کا بے انتہاء شوق تھا.اوّل اوّل جب آپ کے گھر میں رہی تھیں تو ایک دو خادمہ سے اُن کو بہت تکلیف پہنچی تھی اس وجہ سے ایک دوسال کچھ حجاب رہا مگر پھر یہ حجاب دُور ہو گیا.ہمارے خاندان میں کسی کو کوئی تکلیف ہو سب سے آگے خدمت کرنے کو مریم موجود ہوتی تھیں اور رات دن جا گنا پڑے تو اس سے دریغ نہ ہوتا تھا.بچوں کی ولادت کے موقع پر شدید بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود زچہ کا پیٹ پکڑے گھنٹوں بیٹھتیں اور اُف تک زبان پر نہ آنے دیتیں.انتہاء درجہ کی مہمان نوازی مہمان نواز انتہاء کی تھیں.ہر اک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں.خود تکلیف اُٹھا تیں ، بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں.بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بوجھ لا دلیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آخر مہمان خانہ کا عملہ اسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو.آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے مگر اس بارہ میں کسی نصیحت کا ان پر اثر نہ ہوتا.کاش! اب جبکہ وہ اپنے رب کی مہمان ہیں ان کی یہ مہمان نوازیاں ان کے کام آجائیں اور وہ کریم میزبان اس وادی غربت میں بھٹکنے بلا کا حافظہ والی اس تنہا روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کر کے لے جائے.امتہ الحی مرحومہ کی وفات پر لڑکیوں میں تعلیم کا رواج پیدا کر نے کیلئے میں نے ایک تعلیمی کلاس جاری کی اُس میں مریم بھی داخل ہوئیں مگر ان کا دل کتاب میں نہیں ، کام میں تھا.وہ اس بوجھ کو اُٹھا نہ سکیں اور کسی نہ کسی بہانہ سے چند ماہ بعد تعلیم کو چھوڑ دیا.مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ اُس وقت کی پڑھی ہوئی بعض عربی کی نظمیں اب تک انہیں یاد
انوار العلوم جلد کا ۳۵۷ میری مریم تھیں.ابھی چند ماہ ہوئے نہایت خوش الحانی سے ایک عربی نظم مجھے سنائی تھی.سیدہ سارہ بیگم کے بچوں سے سلوک جب میں نے تعلیم نسواں کے خیال سے ساره بیگم مرحومہ سے شادی کی تو مرحومہ نے خوشی سے اِن کو اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا مگر اِس وعدہ کو نباہ نہ سکیں اور آخرا لگ الگ انتظام کرنا پڑا.یہ باہمی رقابت سارہ بیگم کی وفات تک رہی مگر بعد میں ان کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے ان کو اپنی ماں کی طرح عزیز سمجھتے تھے.بیماری کی ابتداء میں بتا چکا ہوں کہ مریم بیگم کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری لگ گئی تھی جو ہر بچہ کی پیدائش پر بڑھ جاتی تھی اور جب بھی کوئی محنت کا کام کرنا پڑتا تو اس سے اور بھی بڑھ جاتی تھی.میں نے اس کے لئے ہر چند علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا.دو دفعہ ایچی سن ہاسپٹل میں داخل کروا کر علاج کروایا.ایک دفعہ لا ہور چھاؤنی میں رکھ کر علاج کروایا.کرنل نلسن ، کرنل ہیز کرنل کا کس وغیرہ چوٹی کے ڈاکٹروں سے مشورے بھی لئے ، علاج بھی کروائے مگر مرض میں ایسی کمی نہیں آئی کہ صحت عود کر آئے بلکہ صرف عارضی افاقہ ہوتا تھا چونکہ طبیعت حساس تھی کسی بات کی برداشت نہ تھی ، کئی دفعہ ناراضگی میں بے ہوشی کے دورے ہو جاتے تھے اور اُن میں اندرونی اعضاء کو اور صدمہ پہنچ جاتا تھا.آخرمیں نے دل پر پتھر رکھ کر ان سے کہہ دیا کہ پھر دورہ ہوا تو میں علاج کیلئے پاس نہ آؤں گا.چونکہ دورے ہسٹیریا کے تھے.میں جانتا تھا کہ اس سے فائدہ ہوگا اس کے بعد صرف ایک دورہ ہوا اور میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر خود چلا گیا اس وجہ سے آئندہ انہوں نے اپنے نفس کو روکنا شروع کر دیا اور عمر کے آخری تین چار سالوں میں دورہ نہیں ہوا.لجنہ کے کام کو غیر معمولی ترقی دی میں نے اوپر لکھا ہے کہ ان کا دل کام میں تھا کتاب میں نہیں.جب سارہ بیگم فوت ہوئیں تو مریم کے کام کی روح اُبھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا.جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا.انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی.آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امتہ الحی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی.
انوار العلوم جلد کا ۳۵۸ میری مریم آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے.انہوں نے کئی کو ناراض بھی کیا مگر بہتوں کو خوش کیا ، بیواؤں کی خبر گیری، بیتامی کی پرورش، کمزوروں کی پرسش ، جلسہ کا انتظام ، باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات ،غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی اور جب یہ دیکھا جائے کہ اس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چار پائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا تو احسان شناس انسان کا دل اس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے.اے میرے رب ! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی.۱۹۴۲ ء کی بیماری ۱۹۴۲ء میں میں سندھ میں تھا کہ مرحومہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہوگئی.مجھے تا رگئی کہ دل کی حالت خراب ہے.میں نے پوچھا کہ کیا میں آ جاؤں؟ تو جواب گیا کہ نہیں اب طبیعت سنبھل گئی ہے.یہ دورہ مہینوں تک چلا اور کہیں جون جولائی میں جا کر کچھ افاقہ ہوا.اُس سال انہی دنوں میں اُتم ناصر احمد کو بھی دل کے دورے ہوئے.نہ معلوم اس کا کیا سبب تھا.۱۹۴۳ء کے مئی میں میں ان کو دہلی لے گیا کہ ان کا علاج حکیموں سے کرواؤں.حکیم محمود احمد خان صاحب کے صاحبزادے کو دکھایا اور علاج تجویز کروایا مگر مرحومہ علاج صرف اپنی مرضی کا کروا سکتی تھیں چنانچہ وہ علاج انہیں پسند نہ آیا اور انہوں نے پوری طرح کیا نہیں.وہاں بھی چھوٹا سا ایک دورہ اندرونی تکلیف کا ہوا مگر جلدی آرام آ گیا.اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لٹیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کوسیٹوں پر لٹوایا.دہلی سے واپسی کے معاً بعد مجھے سخت دورہ کھانسی بخار کا ہوا جس میں مرحومہ نے حد سے زیادہ خدمت کی.ان گرمی کے ایام میں رات اور دن میرے پاس رہتیں اور اکثر پاخانہ کا برتن خود اُٹھا تیں اور خود صاف کرتیں، کھانا بھی پکا تیں حتی کہ پاؤں کے تلوے ان کے گھس گئے.جاگتا تو ساری ساری رات ساتھ جا گئیں.سو جاتا اور کھانسی اُٹھتی تو سب سے پہلے وہ میرے پاس پہنچ چکی ہوتی تھیں.جب کچھ افاقہ ہوا اور ہم ڈلہوزی آئے تو وہاں بھی باورچی خانہ کا انتظام پہلے انہوں نے لیا اور کوٹھی کو با قرینہ سجایا.یہاں ان کو پھر شدید دورہ بیماری کا ہوا مگر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۵۹ میری مریم میری بیماری کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا اظہار نہ کیا.چنبہ کا سفر جب مجھے ذرا اور افاقہ ہوا اور میں چنبہ گیا تو با وجود بیمار ہونے کے اصرار کے ساتھ وہاں گئیں اور گھوڑے کی سواری کی کیونکہ کچھ حصہ سفر میں ڈانڈی سکنہ ملی تھی میں نے سمجھایا کہ اس طرح جانا مناسب نہیں مگر حسب دستور یہی جواب دیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں سیر نہ کروں میں ضرور جاؤں گی.آخر ان کی بیماری کی وجہ سے میں نے دوسروں کو روکا اور اُن کو ساتھ لے گیا.رمضان میں مشقت اس کے بعد رمضان آ گیا اور ہندوستانی عادت کے ماتحت قافلہ کے لوگوں نے غذا کے بارہ میں شکایات شروع کیں اور ملا زم آخر ملازم ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ مرحومہ نے اس جان لیوا بیماری میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر تین تین چار چار سیر کے پراٹھے سحری کے وقت پکا کر لوگوں کے لئے بھیجے جس سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت جسم سے بالکل جاتی رہی.میں تو کمزور تھا روزے نہ رکھتا تھا جب مجھے علم ہوا تو میں نے ان کو روکا مگر اِس کا جواب انہوں نے یہی دیا کہ کیا معلوم پھر ثواب کمانے کا موقع ملے یا نہ ملے اور اس عمل سے نہ رکیں.ہم واپس آئے تو اُن کی صحت ابھی کمزور ہی تھی.تین چار ہفتوں کے بعد ہی شدید دوره پھر شدید دورہ ہو گیا.میں اُس وقت گردے کی درد سے بیمار پڑا ہوا تھا.اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ دورہ ایسا سخت ہے کہ بچنے کی امید نہیں یہ پہلا موقع تھا کہ مریم کی موت میری آنکھوں کے سامنے آئی.میں چل تو سکتا نہ تھا ، اس لئے جب میرا کمرہ خالی ہوا چار پائی پر اوندھے گر کر میں نے اپنے رب سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ ان کیلئے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس وقت موت ٹل گئی اور میں اچھا ہوکر وہاں جانے لگ گیا.مرض الموت کا حملہ کچھ دنوں بعد پھر مجھے نقرس کا دورہ ہوا اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا.اُس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا ٹیکہ لگایا گیا جس کے خلاف مریم بیگم نے بہت شور کیا کہ یہ ٹیکہ مجھے موافق نہیں آتا.اس کے بعد اُس ٹیکہ کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۰ میری مریم متعلق مجھے لا ہور کے قیام میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے معلوم ہوا کہ مرحومہ کے مخصوص حالات میں وہ ٹیکہ واقعہ میں مضر تھا.اُس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ ان کا پیٹ یکدم پھول گیا اور اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا.میں بیماری میں لنگڑاتا ہوا وہاں پہنچا اور ان کی حالت زیادہ خطر ناک پاکر لاہور سے کرنل ہیز کو اور امرت سر سے لیڈی ڈاکٹر وائن کو بلوایا.دوسرے دن یہ لوگ پہنچے اور مشورہ ہوا کہ انہیں لاہور پہنچایا جائے جہاں سترہ دسمبر ۱۹۴۳ء کو موٹر کے ذریعہ سے انہیں پہنچایا گیا.کرنل کی رائے تھی کہ کچھ علاج کر کے کوشش کروں گا کہ دواؤں سے ہی فائدہ ہو جائے چنانچہ ۱۷ / دسمبر سے ۹۷۸ جنوری تک وہ اس کی کوشش آپریشن کرتے رہے.مگر آخر یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی مگر مجھے اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا.اس لئے میں نے مرحومہ سے ہی پوچھا کہ یہ حالات ہیں، تمہارا جو منشاء ہو اس پر عمل کیا جائے.انہوں نے کہا کہ آپریشن کروا ہی لیں.گو مجھے اس طرح محفوظ الفاظ میں مشورہ دیا مگر اُن کے ساتھ رہنے والی خاتون نے بعد میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ مجھ سے کہتی رہتی تھیں کہ دعا کرو کہیں وقت پر حضرت صاحب کا دل آپریشن سے ڈر نہ جائے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزد یک آپریشن کو ضروری سمجھتی تھیں.بہر حال ۱۴ جنوری کو ان کا آپریشن ہوا.اُس وقت اِن کی طاقت کا پورا خیال نہ رکھا گیا اور ۱۵ جنوری کو ان کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہوگئی.اُس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہوگئی اور اچھی ہوتی گئی.افاقہ کے بعد تشویشناک حالت یہاں تک کہ ۲۵ / تاریخ کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک اِن کو ہسپتال سے رخصت کر دیا جائے گا اور میں اجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آ گیا.میرے قادیان جانے کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہو گئی اور وہ زخم جسے مندمل بتایا جا تا تھا پھر دوبارہ پورا کا پورا کھول دیا گیا مگر مجھے اس سے غافل رکھا گیا اور اس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادیان ٹھہرا رہا.ڈاکٹر
انوار العلوم جلد ۷ میری مریم غلام مصطفیٰ جنہوں نے اُن کی بیماری میں بہت خدمت کی.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اچا نک جمعرات کی رات کو شیخ بشیر احمد صاحب کا فون ملا کہ برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمشیرہ مریم کی حالت خراب ہے ، آپ کو فوراً آنا چاہئے.جس پر میں جمعہ کو واپس لا ہور گیا اور ان کو سخت کمزور پایا.یہ کمزوری ایسی تھی کہ اس کے بعد تندرستی کی حالت ان پر پھر نہیں آئی.بیماری پر خرچ دو ر میں ان پر رات اور دن کے پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ ان کا خرچ پچاس ساٹھ روپیہ روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اِس کا اِن کے دل پر بہت بوجھ ہے اور وہ بعض سہیلیوں سے کہتیں کہ میری وجہ سے ان پر اس قدر بوجھ پڑا ہوا ہے.مجھے کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے ان کو تسلی دلائی کہ مریم ! اس کی بالکل فکر نہ کرو میں یہ خرچ تمہارے آرام کے لئے کر رہا ہوں تم کو تکلیف دینے کیلئے نہیں اور ان کی بعض سہیلیوں سے بھی کہا کہ ان کو سمجھاؤ کہ یہ خرچ میرے لئے عین خوشی کا موجب ہے اور میرا خدا جانتا ہے کہ ایسا ہی تھا.یہاں تک کہ ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہو رہا ہے، روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا ؟ تو دل میں بغیر ادنی انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کوٹھی دارالحمد اور اُس کا ملحقہ باغ فروخت کر دوں گا.میں نے دل میں کہا کہ اس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اسے اونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچھتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اس طرح اگر ایک سال بھی مریم کیلئے یہ خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک ان کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی اور یہی نہیں میرا نفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کیلئے تیار تھا تا کسی طرح وہ زندہ رہیں خواہ بیماری ہی کی حالت میں.مگر کچھ دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا بیماری کی تکلیف سے بچانے کیلئے دعا کہ وہ بیماری سے سخت اذیت محسوس کر رہی ہیں جو زخم کے درد کی وجہ سے نا قابل برداشت ہے.تب میں نے اپنے رب سے
انوار العلوم جلد کا ۳۶۲ میری مریم درخواست کرنی شروع کی کہ اے میرے رب ! تیرے پاس صحت بھی ہے پس تجھ سے میری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ تو مریم بیگم کو صحت دے لیکن اگر کسی وجہ سے تو سمجھتا ہے کہ اب مریم بیگم کا اس دنیا میں رہنا اس کے اور میرے دین و دنیا کیلئے بہتر نہیں تو اے میرے رب ! پھر اسے اس تکلیف سے بچالے جو اس کے دین کو صدمہ پہنچائے.اس دعا کے بعد جو ان کی وفات سے کوئی آٹھ نو دن پہلے کی گئی تھی میں نے دیکھا ان کی درد کی تکلیف کم ہونی شروع ہو گئی مگر ان کے ضعف اور دل کے دوروں کی تکلیف بڑھنے لگی.ظاہری سبب یہ بھی پیدا ہوا کہ ڈاکٹر بڑو چہ نے جن کے علاج کے لئے اب ہم انہیں سرگنگا رام ہسپتال میں لے آئے تھے انہیں افیون بھی دینی شروع کر دی تھی.آخری لمحات بہر حال اب انجام قریب آ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ پر امید قائم تھی ، میری بھی اور ان کی بھی.وفات سے پہلے دن ان کی حالت نازک دیکھ کر اقبال بیگم ( جو ان کی خدمت کیلئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ رہیں اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدارج عطا فرمائے ) رونے لگیں.اُن کا بیان ہے کہ مجھے روتے ہوئے دیکھ کر مریم محبت سے بولیں پگلی روتی کیوں ہو، اللہ تعالیٰ میں سب طاقت ہے.دعا کرو، وہ مجھے شفا دے سکتا ہے.۴ / مارچ کی رات کو میر محمد اسماعیل صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت بہت نازک ہو چکی ہے اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا اس لئے میں دیر تک وہاں رہا.پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کیلئے چلا گیا.کوئی چار بجے آدمی دوڑا ہوا آیا کہ جلد چلیں حالت نازک ہے.اُس وقت میرے دل میں یہ یقین ، پیدا ہو و گیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رُخصت ہونے کو ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کر دی.اب دل کی حرکت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی تھی اور میرے دل کی ٹھنڈک دار الآخرة کی طرف اُڑنے کے لئے پر تول رہی تھی.کوئی پانچ بجے کے قریب میں پھر ایک دفعہ جب پاس کے کمرہ سے جہاں آخری بات میں معالجین کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس گیا تو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے اور شدید ضعف کے آثار ظاہر ہو رہے تھے مگر ابھی بول سکتی تھیں.کوئی بات انہوں نے کی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۳ میری مریم جس پر میں نے انہیں نصیحت کی.انہوں نے اس سے سمجھا کہ گویا میں نے یہ کہا ہے کہ تم نے روحانی کمزوری دکھائی ہے رحم کو اُبھارنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میرے پیارے آقا! مجھے کا فر کر کے نہ ماریں یعنی اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھ پر ناراض نہ ہوں ، مجھے صحیح بات بتا دیں.اُس وقت میں نے دیکھا کہ موت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے.میرا حساس دل اب میرے قابو سے نکلا جا رہا تھا ، میری طاقت مجھے جواب دے رہی تھی مگر میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ اور مرحومہ سے وفاداری چاہتی ہے کہ اس وقت میں انہیں ذکر الہی کی تلقین کرتا جاؤں اور اپنی تکلیف کو بھول جاؤں.میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور ٹانگوں کو زور سے قائم کیا اور مریم کے پہلو میں جھک کر نرمی سے کہا تم خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرو.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ( وہ سید تھیں ) اور مسیح موعود علیہ السلام کی بہو کو کا فر کر کے نہیں مارے گا.آخری گفتگو اُس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں ان سے کچھ محبت کی باتیں کرلوں مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اس جہان کی روح نہیں اُس جہان کی ہے اب ہمارا تعلق اس سے ختم ہے.اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے اس واسطہ میں خلل ڈالنا اس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے اور میں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلاؤں تا کہ وہ ذکر الہی میں مشغول ہو جائیں مگر صاف طور پر کہنے سے بھی ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر الہی کا موقع پانے سے پہلے ہی بیٹھ نہ جائے.آخر سوچ کر میں نے ان سے اِس طرح کہا کہ مریم! مرنا تو ہر ایک نے ہے دیکھو! اگر میں پہلے مرجاؤں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو تمہاری ملاقات کے لئے اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہو گئیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دے دیا کرے اور مریم ! اس صورت میں تم میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلام کہنا.تلاوت قرآن اس کے بعد میں نے کہا مریم اتم بیماری کی وجہ سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں آؤ میں تم کو قرآن کریم پڑھ کر سناؤں.پھر میں نے سورہ رحمن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۴ میری مریم جوان کو بہت پیاری تھی پڑھ کر سنانی شروع کی ( مجھے اس کا علم نہ تھا بعد میں ان کی بعض سہیلیوں نے بتایا کہ ایسا تھا ) اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنانا شروع کیا.جب میں سورۃ پڑھ چکا تو انہوں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اور پڑھیں تب میں نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے آخری وقت کا احساس کر چکی ہیں اور تب میں نے سورۃ لیسن پڑھنی شروع کر دی.آخری دعا ئیں اس کے بعد چونکہ اب اپنے آخری وقت کا انکشاف ہو چکا تھا کسی بات پر جو انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پیارے! تو میں نے ان سے کہا مریم ! اب وہ وقت ہے کہ تم کو میرا پیار بھی بھول جانا چاہئے.اب صرف اُسی کو یاد کرو جو میرا بھی اور تمہارا بھی پیارا ہے.مریم ! اسی پیارے کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے اور میں نے کبھی لا إِلهُ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اور کبھی رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اَنْتَ اور کبھی بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ پڑھنا شروع کیا اور ان سے کہا کہ وہ اسے دُہراتی جائیں.کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خود بخود اذکار پر چل پڑی ہے.چہرہ پر عجیب قسم کی ملائمت پیدا ہوگئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر ناز سے اُس کے رحم کی درخواست کر رہی ہیں.نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار باريَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اسْتَفِيتُ کہنا شروع کیا.یہ الفاظ وہ اس انداز سے کہتیں اور اَسْتَفِیت کہتے وقت ان کے ہونٹ اس طرح گول ہو جاتے کہ معلوم ہوتا تھا اپنے ربّ پر پورا یقین رکھتے ہوئے اُس سے ناز کر رہی ہیں اور صرف عبادت کے طور پر یہ الفاظ کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کی روح اس سے کہہ رہی ہے کہ میرے رب ! مجھے معلوم ہے تو مجھے معاف کر ہی دے گا.اس کے بعد میں نے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو بلوایا کہ اب مجھ میں برداشت نہیں ، آپ تلقین کرتے رہیں.چنانچہ انہوں نے کچھ دیر تلاوت اور اذکار کا سلسلہ جاری رکھا.اس کے بعد کچھ دیر کے لئے پھر میں آ گیا.پھر میر صاحب تشریف لے آئے.باری باری ہم تلقین کرتے رہے.اب ان کی آواز رُک گئی تھی مگر ہونٹ ہل رہے تھے اور زبان بھی حرکت کر رہی تھی.اس وقت ڈاکٹر لطیف صاحب دہلی سے تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بیماری کی
انوار العلوم جلد ۷ ۳۶۵ میری مریم وجہ سے سانس پر دباؤ ہے اور ڈر ہے کہ جان کندن کی تکلیف زیادہ سخت نہ ہو اس لئے آکسیجن گیس سنگھانی چاہئے.چنانچہ وہ لائی گئی اور اس کے سنگھانے سے سانس آرام سے چلنے لگ گیا مگر آہستہ ہوتا گیا لیکن ہونٹوں میں اب تک ذکر کی حرکت تھی.خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا آخر دو بج کر دس منٹ پر جب کہ میں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا، عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہر نکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے جائیں.اس اشارہ کے معنی یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے.میں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہوا پایا مگر چہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے.ان کی لمبی تکلیف اور طبیعت کے چڑ چڑا پن کی وجہ سے مجھے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں کسی بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں اس لئے ان کے شاندار اور مؤمنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار الْحَمدُ للهِ نکلا.سجدہ شکر اور میں ان کی چارپائی کے پاس قبلہ رخ ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گیا اور دیر تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے ان کو ابتلاء سے بچایا اور شکر گزاری کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا.اس کے بعد ہم نے ان کے قادیان لے جانے کی تیاری کی اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر لا کر انہیں غسل دیا گیا.پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کر کے قادیان خدا کے مسیح کے گھر میں ان کو لے آئے.ایک رات ان کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ان کو خدا تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرام گاہ میں خود میں نے سر کے پاس سے سہارا دے کر اُتارا اور لحد میں لٹا دیا.اللَّهُمَّ ارْحَمْهَا وَارَحَمْنِي مرحومہ کی اولا د چار بچے ہیں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا.یعنی امتہ الحکیم، امتہ الباسط ، اولاد طاہر احمد اور امتہ الجميل سَلَّمَهُمُ اللهُ تَعَالَى وَكَانَ مَعَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ جب مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امتہ الجمیل جو ان کی اور میری بہت لاڈلی تھی اور گل سات برس کی عمر کی ہے ، اُسے میں نے دیکھا کہ ہائے امی ! ہائے امی ! کہہ کر چھینیں مار کر رو رہی ہے.میں اُس بچی کے پاس گیا اور اُسے کہا جمی ! ( ہم اُسے جمی کہتے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۶ میری مریم ہیں ) اتی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں وہاں اُن کو زیادہ آرام ملے گا اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں.دیکھو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ، تمہارے دادا جان فوت ہو گئے کیا تمہاری اُمّی اُن سے بڑھ کر تھیں.میرے خدا کا سایہ اس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو، میرے اس فقرہ کے بعد اُس نے ماں کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی بلکہ دوسرے دن جنازہ کے وقت جب اُس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے ، صدمہ سے شیخ مار کر بے ہوش ہو گئی تو میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جا کر میری جھی اُن سے کہنے لگی چھوٹی آپا ! انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں ) باجی کتنی پاگل ہے.ابا جان کہتے ہیں امی کے مرنے میں اللہ کی مرضی تھی ؟ یہ پھر بھی روتی ہے.اے میرے رب ! اے میرے رب ! جس کی چھوٹی بچی نے تیری رضاء کے لئے اپنی ماں کی موت پر غم نہ کیا ، کیا تو اُسے اگلے جہان میں ہر غم سے محفوظ نہ رکھے گا.اے میرے رحیم خدا ! تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے اور اِس امید کا پورا کرنا تیرے شایانِ شان ہے.ایک دوسرے کو سمجھنے کی حسرت میری مریم جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اپنی بیماری کی وجہ سے اس وہم میں اکثر مبتلا رہتیں کہ میں اُن سے محبت نہیں کرتا یا یہ کہ دوسروں سے کم کرتا ہوں اور اس وجہ سے دوسرے لوگوں سے تو اچھی رہتیں مگر مجھ سے بہت دفعہ جھگڑ پڑتیں اور ہماری زندگی محبت اور تنازع کا ایک معجون ساتھی.میں ان سے بے حد محبت کرتا تھا اور تکلیف کے وقت ان کی شکل دیکھ لینا میری کوفت کو کم کر دیتا تھا.مگر وہ اس وہم میں رہتیں کہ مجھ سے محبت کم کی جاتی ہے.لیکن آخری بیماری میں جو دوعورتیں باری باری ان کی صحبت میں رہیں ، اُنہوں نے مجھے الگ الگ سنایا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا.پہلی نے سنایا کہ انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب کو مجھ سے محبت نہیں مگر یہ غلط ہے.میری بیماری میں جو انہوں نے خدمت کی ہے اس سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ ان کو مجھ سے بہت محبت ہے.اگر میں زندہ رہی تو میں ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی اور دوسری نے سنایا کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ اب مجھے تسلی ہو گئی ہے کہ مجھ سے ان کو بہت محبت ہے.اگر میں زندہ رہی تو میں اپنی عمر ان کی خدمت میں خرچ کر
انوار العلوم جلد ۷ میری مریم دوں گی.مگر قسمت کا پھیر دیکھو کہ دونوں نے ان کی وفات کے بعد یہ بات مجھ سے بیان کی اگر وہ ان کی زندگی میں مجھ سے یہ بات کہتیں تو میرے لئے کتنی خوشی کا موجب ہوتا.میں ان کے پاس جا تا اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہتا کہ مریم! تم فکر نہ کرو تم کو نہ خدمت کی ضرورت ہے اور نہ پاؤں دھونے کی.تمہارے دل میں اس خیال کے آنے سے ہی مجھے میری ساری محبت کا بدلہ مل گیا ہے.شاید اس سے انہیں بھی تسلی ہوتی اور میرا دل بھی خوش ہو جاتا.اگر ایک منٹ کے لئے بھی ہم ایک دوسرے کے سامنے اس طرح کھڑے ہو جاتے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہوتے تو یہ لحہ ہم دونوں کیلئے کیسا خوش گن ہوتا.مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا.شاید ہمارے گناہوں کی شامت ہم سے ایک بڑی قربانی کا تقاضا کر رہی تھی.عجیب بات ہے کہ باوجود اس قدر لمبی حواس آخری سانس تک قائم رہے بیماری سے مریم بیگم کے حواس منزع کی آخری گھڑیوں تک قائم رہے.وفات سے دو دن پہلے جب ضعف انتہاء کو پہنچ گیا تھا مجھ سے کہا کہ چھوٹے میز پوش منگوا دیں.میں نے مریم صدیقہ سے کہا کہ وہ موٹر میں جا کر پسند کر لائیں.میں نے جب مرحومہ کو میز پوش دکھایا تو غنودگی کی حالت میں انہوں نے کہا کہ اچھا ہے، ایک درجن میز پوش منگوا دیں.میں نے سمجھا کہ ان کے حواس ٹھیک نہیں رہے کیونکہ ہسپتال کے کمرہ میں تو ایک چائے کی میز تھی.میں نے کہا بہت اچھا ، بہت اچھا! اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں گھبرا کر باہر آ گیا.تھوڑی دیر کے بعد ان کی مصاحبہ کمرہ سے باہر آئی اور کہا کہ بی بی بلاتی ہیں.میں گیا تو انہوں نے زور سے اپنی غنودگی پر قابو پا لیا تھا مگر ضعف بدستور تھا مجھے اشارہ سے نزدیک کر کے کہا کہ آپ گھبرا گئے ، میں ہوش میں ہوں میں نے ہسپتال کے لئے نہیں بلکہ گھر کے لئے میز پوش منگوائے تھے.میں سمجھتا ہوں یہ بات ان کے کمزور دل نے بعد میں بنائی.اصل میں یہی بات تھی کہ وقتی غنودگی ان پر آئی لیکن اس قدر سمجھ تھی کہ میری گھبراہٹ کو تاڑ لیا اور ان کے نفس نے اپنا محاسبہ کر کے معلوم کر لیا کہ میں کوئی غلطی کر بیٹھی ہوں اور اس رنگ میں میز پوشوں کی بات کو حل کیا کہ وہ بات معقول ہوگئی اور پھر مجھے بلا کر تسلی دینے کی کوشش کی.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۸ میری مریم تیمارداری کرنے والوں کیلئے دعا مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خاں صاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی اقبال بیگم نے خدمت کی.اڑھائی مہینہ اس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اِس طرح خدمت کی کہ مجھے وہم ہونے لگ گیا تھا کہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ان پر اور اُن کے سارے خاندان پر ہمیشہ اپنے فضل کا سایہ رکھے.پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو اُن کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقع ملا.شیخ بشیر احمد صاحب نے کئی ماہ تک ہماری مہمان نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی.میاں احسان اللہ صاحب لاہوری نے دن رات خدمت کی یہاں تک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اُن کا خاتمہ بالخیر کرے.حکیم سراج الدین صاحب بھائی دروازہ والوں نے برا بران کی ہمراہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے.ڈاکٹر معراج الدین صاحب کو رعشہ کا مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں اس حالت میں کانپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آ کر کھڑے ہو جاتے کہ میں نکلوں تو وہ مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ نا کارہ کی محبت اُس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے، میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے.لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات ادا کیں.سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے.حیدر آباد جیسے دُور دراز مقام سے پہلے ان کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رہیں اور بار بار لا ہور جا کر خبر پوچھتی رہیں.آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزم سیٹھ محمد اعظم اپنا کاروبار چھوڑ کر حیدر آباد سے لاہور آ بیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس گئے.ڈاکٹر لطیف صاحب کئی دفعہ دہلی سے دیکھنے آئے.میرے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی محبت سے قربانیاں کیں.مگر ان پر تو حق تھا میں ان لوگوں کو سوائے دعا کے اور کیا بدلہ دے سکتا ہوں.اے میرے رب ! تو ان سب پر اور ان سب پر جن کے نام میں نہیں لکھ سکا یا جن کا مجھے علم بھی نہیں ، اپنی برکتیں اور فضل نازل کر.اے میرے رب ! میں محسوس کرتا ہوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۶۹ میری مریم کہ یہ تیرے نیک بندے مجھ سے زیادہ مخلص اور خادم رہنما کے مستحق ہیں.میں اور کن لفظوں سے ان کی سفارش تیرے پاس کر سکتا ہوں.جماعت کی طرف سے اظہا را خلاص مریم بیگم کی وفات پر جس اخلاص کا اظہار جماعت نے کیا وہ ایمان کو نہایت ہی بڑھانے والا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت ہی ہے جس نے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کو قبول کرے، ان کی غلطیوں کو دُور کرے اور نیکیوں کو بڑھائے اور ان کی آئندہ نسلوں کی اپنے ہاتھوں سے تربیت فرمائے.اللَّهُمَّ آمِينَ اے میرے رب ! میں اب اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں اور بخاری میں مذکور مشہور واقعہ کو تجھے یاد دلاتے ہوئے تجھ سے کہتا ہوں کہ اگر مریم بیگم کی وفات کے وقت با وجود دل سے خون ٹپکنے کے میں نے اس کے آخری لمحوں کو صرف تیری ہی محبت کے لئے وقف رکھنے کے لئے کوشش کی تھی اور اپنے جذبات کو اس لئے قربان کر دیا تھا کہ تیرے ایک بندہ کی روح تیری ہی محبت سے چمٹ کر تیرے پاس پہنچے تو اے میرے پیارے! اگر میرا وہ فعل تیرے لئے اور تیرے نام کی بڑائی کے لئے تھا تو تو اُس کے بدلہ میں میرے دل سے مریم کی تکلیف دہ یا د کو نکال دے.اے میرے رب ! جب مریم بیگم نے امتہ الحی مرحومہ کے بچوں کو پالنے کا وعدہ کیا اور میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس سے بہت محبت کروں گا تو اُس وقت میں نے تجھ سے دعا کی تھی کہ تو اس کی محبت میرے دل میں ڈال دے اور تو نے میری دعائنی اور باوجود ہزاروں بدمزگیوں کے اس کی محبت میرے دل سے نہیں نکلی.آج میں تجھ سے پھر عرض کرتا ہوں کہ اس کی محبت تو میرے میں رہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا رہوں مگر اس کی تکلیف دہ یا د میرے دل سے جاتی رہے.تا میں تیرے دین کی خدمت اچھی طرح اور آخری وقت تک ادا کرتا رہوں.اے میرے رب ! میں یقین رکھتا ہوں کہ اب کہ مریم اگلے جہان میں ہیں اور حقائق اُن پر واضح ہو چکے ہیں اگر تو اُن پر یہ امر منکشف فرمائے تو وہ بھی اس امر کو بُر انہیں منائے گی بلکہ خود بھی تجھ سے یہی عرض کرے گی کہ میرے خاوند نے میری روح کو با برکت بنانے کیلئے مجھ سے میری
انوار العلوم جلد ۱۷ میری مریم آخری گھڑیوں میں درخواست کی تھی کہ مریم میری محبت کو بھول جاؤ خدا تعالیٰ ہی ہمارا پیارا ہے پس اُسی کو یا درکھو ، اب میں اس کی سفارش کرتی ہوں کہ اس کے دل سے میری وہ محبت جو اُس نے تجھ سے دعا کر کے لی تھی اب واپس لے لے نہ اس قدر کہ وہ میرے لئے دعاؤں میں غافل ہو جائے بلکہ وہ محبت جو اس کے دل میں تشویش پیدا کرنے والی ہواور اس کے کام میں روک بننے والی ہو.ساری جماعت کیلئے جامع دعا اے میرے رب! تو کتنا پیارا ہے.نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے میں آج ہی اپنی ساری اولا داور اپنے سارے عزیز واقارب اور ساری احمد یہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں.اے میرے رب ! تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں.میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں ، یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو ان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں.خدایا ! صدیوں تک تو مجھے اِن کا دکھ نہ دکھا ئیو اور میری روح کو ان کے لئے غمگین نہ کیجیوا اے میرے رب ! میری امتہ الحی اور میری سارہ اور میری مریم پر بھی اپنے فضل کر اور اُن کا حافظ و ناصر ہو جا اور اُن کی ارواح کو اگلے جہان کی ہر وحشت سے محفوظ رکھ.اَللَّهُمَّ امِيْنَ اے مریم کی روح ! اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو آخری درد بھرا پیغام لو یہ میرا آخری درد بھرا پیغام سن لو اور جاؤ خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا ، جہاں درد کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا ، جہاں ہم ساکنین ارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی.وَالسَّلَامُ وَ آخِرُ دَعْوَتَنَا وَ دَعُونَكُمُ اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ أَبْكِي عَلَيْكِ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ اَرْثِيكِ يَا زَوْجِئ بِقَلْبِ دَامِي میں تجھ پر ہر دن اور ہر رات روتا ہوں.اے میری بیوی! میں تیری وفات کا افسوس خون بہانے والے دل سے کرتا ہوں.
انوار العلوم جلد ۱۷ میری مریم صِرْتُ كَصَيْدِ صِيْدَفِي الصُّبْحِ غَبْلَةً قَدْ غَابَ عَنِّى مَقْصِدِى وَ مَرَامِي میں تیری موت پر اُس شکار کی طرح ہو گیا.جسے صبح کے وقت جب وہ بے فکر غذا کھانے کے لئے نکلتا ہے پھانس لیا جاتا ہے.ایسا یکدم صدمہ پہنچا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں بھول گیا ہوں کہ میرا رخ کدھر کو تھا اور میں کدھر جا رہا تھا.لولَمْ يَكُنْ تَائِيدُ رَبِّي مُسَاعِدِى لا صَبَحْتُ مَيْتًا عُرُضَةً لِسِهَامِي اگر خدا تعالیٰ کی تائید میری مدد پر نہ ہوتی تو میں اپنے ہی دل کے تیروں کا نشانہ بن کر مردار کی طرح ہو جاتا وَلكِنَّ فَضْلَ اللَّهِ جَاءَ لِنَجْدَتِي وَانْــقَـــــدَنِي مِن زَيَّةِ الأَقْدَامِ مگر اللہ کا فضل میری مدد کے لئے آ گیا اور اُس نے مجھے قدموں کے پھسلنے سے محفوظ رکھا.يَارَبِّ سَرْنِي بِجُنَّةِ عَفْوِكَ كُنْ نَاصِرِى وَمُصَاحِبِي وَمُحَامِي اے میرے رب! مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ لے.اے میرے مددگار! اے میرے ساتھی ! اور میرے محاظ ! الْغَمُ كَالضَّرُ غَامِ يَأْكُلُ لَحْمَنَا لا تَجْعَلَنِي لُقْمَةَ الضَّرُ غَامِ غم شیر کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے گوشت کو کھا جاتا ہے.اے خدا! مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے يَارَبِّ صَاحِبُهَا بِلُطْفِكَ دَائِماً وَاجْعَلْ لَهَا مَاوَى بِقَبْرٍ سَامِي اے میرے ربّ! ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا اور اپنا فضل اس پر نازل کرتے رہنا.اور اس کا ٹھکانا
انوار العلوم جلد ۱۷ ایک بلندشان قبر میں بنانا ۳۷۲ میری مریم يَارَبِّ اَنعِمُهَا بِقُرُبِ مُحَمَّدٍ ذِي المَجدِ وَالْإِحْسَانِ وَالْإِكْرَام اے میرے ربّ! اپنے فضل سے اسے محمد رسول اللہ کے قرب میں جگہ دینا.جو بڑی بزرگی والے ہیں ، بڑا احسان کرنے والے ہیں اور جن کو تو نے بہت عزت بخشی ہے.اس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی.اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ہے.اُس میں ہو کر ہم اپنے مادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں اور اُس سے جدا ہو کر ہم سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں.ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات اُن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے.پس میں تو یہی کہتا ہوں کہ میرا دل جھوٹا ہے اور میرا خدا سچا ہے.وَالْحَمْدُ للهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ.خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب.مرزا محمود احمد البقرة: ۱۵۷ ( الفضل ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۴ء ) ڈانڈی: ایک قسم کی پہاڑی سواری جس کے دونوں طرف لکڑی اور بیچ میں دری لگی ہوتی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۷۳ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة أصبح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۷ بِسْمِ اللهِ ا اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۷۴ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں ( تقریر فرموده ۱۵ ۱۷ کتوبر ۱۹۴۴ء بر موقع چھٹا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے مسوڑھوں کی سوزش اور دانتوں کے درد کی وجہ سے بولنا تو نہیں چاہئے لیکن چونکہ میں گزشتہ سال بھی خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں تقریر نہیں کر سکا اس لئے باوجود تکلیف کے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے کچھ نہ کچھ اِس موقع پر ضرور آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہئے.جب میں گھر سے چلنے لگا تو قدرتی طور پر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں آج کس مضمون پر تقریر کروں؟ اس خیال کے پیدا ہوتے ہی دو مضمون میرے ذہن میں آئے جن میں سے ایک مضمون فوراً ہی اپنی ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے ایسی صورت اختیار کر گیا کہ میں نے سمجھا نہ یہ موقع اس مضمون کے مناسب حال ہے اور نہ وقت اتنا ہے کہ میں اس مضمون کے متعلق اپنے خیالات پوری طرح ظاہر کر سکوں.وہ مضمون اپنی ذات میں ایک کتابی صورت کی تمہید بننے کے قابل ہے تھوڑے سے وقت میں اُس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا جا سکتا تب میں نے دوسرا مضمون لے لیا.در حقیقت میرا منشاء یہ تھا کہ یہ دوسرا مضمون اُس تمہید کی تفصیل ہو لیکن وہ تمہید ایسا رنگ اختیار کر گئی کہ میرے نزدیک وہ زیادہ اہم کتاب کی تمہید بننے کے قابل ہے اس لئے میں نے دوسرے حصہ کو جسے میں اُس تمہید کی تفصیل کے طور پر بیان کرنا چاہتا تھا منتخب کر لیا اور میں نے سمجھا کہ اس مضمون کو میں چھوٹا بھی کر سکتا ہوں اور بچوں کے لحاظ سے اس کا بیان کرنا زیادہ مناسب بھی ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۳۷۵ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کی تنظیم در حقیقت دو حصے رکھتی ہے جن میں سے ایک حصہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ ہماری جماعت دوسری جماعتوں سے مختلف ہے اور دوسرا حصہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی قوم فقال نہیں بن سکتی.حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کسی مقصد کو لے کر کھڑی نہیں ہوتی نہ اُس میں اپنے کام کے متعلق جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ اُس کا ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ قدم بڑھ سکتا ہے.اسی طرح اگر کسی قوم میں صحیح قوت عملیہ نہ پائی جائے اور وہ اُن طریقوں کو اختیار نہ کرے جن کے ذریعہ قوم اپنے خیالات اور اپنے عقائد کو کامیاب طور پر دنیا میں پھیلا سکتی ہے تو اُس وقت تک بھی وہ قوم کا میاب نہیں ہو سکتی.پس ایک طرف ہمارے لئے اس امر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ آیا کوئی اہم مقصد ہمارے سامنے ہے یا نہیں تا کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور دوسری طرف ہماری تربیت اس رنگ میں ہونی چاہئے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے.ہر قوم کی ترقی کے لئے بنیادی طور پر یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اُس کا ہر فرد ان دو فقروں کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے، جس کے اندر ” ہم نے کیا کرنا ہے“ بھی شامل ہے اور دوسرے یہ کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے“.جب یہ دونوں باتیں حل ہو جائیں اور پھر جو کچھ ہم نے کہنا ہو وہ اپنے اندرا ہمیت بھی رکھتا ہوتو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.یہی وہ چیز ہے جسے یورپ کے لوگ آجکل خاص طور پر اہمیت دیتے ہیں بالخصوص اخبارات کے نمائندے جب کسی لیڈر سے ملتے ہیں تو اُس سے کہتے ہیں آپ کا پیغام کیا ہے یعنی آپ دنیا کو وہ کونسی بات بتانا چاہتے ہیں جسے وہ جانتی نہیں.یا جس کو وہ بھولی ہوئی ہے اور اُسے یاد دلانے کی ضرورت ہے.لیکن چونکہ وہ ایک عظیم الشان مضمون کو چند لفظوں میں بیان کرانا چاہتے ہیں اس لئے بسا اوقات بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.درحقیقت یہ غلط فہمی یوروپین نامہ نگاروں اور یوروپین مصنفین کو مسیحیت سے لگی ہے.مسیحیت نے یہ کہہ کر کہ شریعت لعنت ہے تمام مذہبی تفصیلات کو بے کار قرار دے دیا ہے اور صرف اس ایک نقطہ نگاہ کو پیش کیا ہے کہ خدا محبت ہے.اس ایک نقطہ کو لے کر انہوں نے باقی ساری چیزوں کو ترک کر دیا ہے اور پھر ” خدا محبت ہے“ کی ترجمانی بھی انہوں نے خدا کے سپر دنہیں کی بلکہ اپنے ذمہ لے لی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں پس چونکہ اُنہوں نے مذہب کے معنی ایک فقرہ کے کرلئے ہیں اور چونکہ اس ایک فقرہ کے نتیجہ میں اُنہوں نے خدا اور اُس کے رسولوں کو مذہب کی تفصیلات بیان کرنے سے چھٹی دے دی ہے اور اُن کو اس کام سے بالکل معطل کر دیا ہے اس لئے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ باقی مذاہب بھی کسی ایک لفظ یا کسی ایک فقرہ میں ساری تفصیلات کو بیان کر سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باقی مذاہب کے بھی بعض خلاصے ہیں مگر اُن مذاہب کے پیروؤں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے اُن خلاصوں کو اتنا پھیلایا نہیں کہ دنیا اُن خلاصوں سے ہی سمجھ سکتی کہ وہ مذاہب دنیا کے سامنے کون سا پیغام لے کر کھڑے ہوئے ہیں.مثلاً اسلام کو لے لو.اسلام بھی کہتا ہے کہ خدا محبت ہے اور اسلام نے بھی اپنے مذہب کا ایک خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله مگر جس طرح عیسائیت نے خدا محبت ہے“ کی تشریح، مختلف جہتوں اور مختلف شعبوں سے مختلف عبارتوں میں انسانی جذبات سے وابستہ کر کے کی ہے اُس طرح کا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی تشریح نہیں کی گئی.اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب خدا محبت ہے کی ایک چھوٹی سی تشریح بھی کسی نامہ نگار کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ دنیا کے لئے کارآمد باتیں ہیں لیکن اگر تم کسی نامہ نگار کے سامنے یہ کہو کہ میں دنیا کے لئے یہ پیغام لایا ہوں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ تو چونکہ اس کی بار بار اور مختلف پیراؤں سے تشریح نہیں کی گئی اس لئے اس خلاصہ سے تعلق رکھنے والے کئی مضامین کی باریکیاں اُس کی وسعتیں اور اُس کے وسیع دائرے اُس کے ذہن میں نہیں آتے.وہ حیران ہو جاتا ہے اور وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اسلام جس کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا ایک ہے اور جس کا یہ دعوی ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ اس کے رسول ہیں اُس کے اِس فقرہ میں دنیا کے لئے نیا پیغام کونسا ہے.یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ایک لمبے عرصہ سے اسلام کی طرف سے پیش کی جارہی ہے حالانکہ خدا ایک ہے اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس کا کروڑواں حصہ بھی اس فقرہ میں بیان نہیں کیا گیا کہ ”خدا محبت ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ALAA GALA TAN الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کے مقابلہ میں اس فقرہ کی اتنی حیثیت بھی نہیں جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں مچھر کی ہوتی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ وہ فقرہ یاد کرایا گیا ہے اور یہ فقرہ یاد نہیں کرایا گیا.اُس فقرہ کے مطالب کو بار بارلوگوں کے سامنے
خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں انوار العلوم جلد ۱۷ پیش کیا گیا ہے اور اس فقرہ کے مطالب کو بار بار لوگوں کے سامنے نہیں رکھا گیا.اسی وجہ سے جب ہم لوگوں کے سامنے یہ وسیع مضمون بیان کرتے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم اس بات کو جو دنیا کو پہلے بھی معلوم ہے ایک نیا پیغام کس طرح قرار دے رہے ہیں حالانکہ اصل کو تا ہی اُن کی اپنی نظر کی ہوتی ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ جب اُن کے سامنے ان تمام وسیع مضامین کا ایک مجموعہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ متاثر نہیں ہوتے لیکن جب اُن کے سامنے اسلام کے اس خلاصہ کا ہزارواں بلکہ کروڑواں حصہ نکال کر پیش کیا جاتا ہے اور اُس کی کوئی ایک تشریح اُن کے سامنے کی جاتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز واقعہ میں ایسی ہے جو دنیا کے لئے ایک نیا پیغام کہلاسکتی ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کیا جائے اور بنی نوع انسان سے شفقت کی جائے.یہ خلاصہ اگر ہم لوگوں کے سامنے بیان کریں تو تمام یوروپین مصنف اور نامہ نگار اسے ایک نیا پیغام قرار دیں گے.وہ اس سے متاثر ہوں گے اور وہ تسلیم کریں گے کہ یہ نظریہ یقیناً ایسا ہے جو دنیا کے سامنے بار بار آنا چاہئے اور جس کو قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنی انتہائی کوششیں صرف کرنی چاہئیں لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ خلاصہ آگے پھر خلاصہ ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا.در حقیقت لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله بہت سے وسیع مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے صرف ایک مضمون کا خلاصہ وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے لیکن اسلام کے اس پیش کردہ خلاصہ کو نہ جاننے کی وجہ سے یوروپین نامہ نگار لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ سے متاثر نہیں ہوں گے.ہاں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خلاصہ کو پیش کیا جائے کہ مذہب کی اہم اغراض دو ہیں ” خدا سے تعلق اور بنی نوع انسان سے محبت تو ساری دنیا اس سے متاثر ہوگی اور وہ سمجھے گی کہ ترقی کا یہ ایک نیا پہلو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے اور ایک نئی چیز ہے جو ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے.عیسائی اگر کوشش کریں تو وہ بھی ” خدا محبت ہے میں سے یہ دونوں باتیں نکال سکتے ہیں لیکن وہ اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ایک نیا طریق بیان ہے جس سے بنی نوع انسان کو نیکی کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے.
انوار العلوم جلد کا خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں پس ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہئے کیونکہ کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے بغیر انسان کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اُسے کوئی پیغام دیں اور گومغربی لوگ اس پیغام کا دائرہ نہایت محدود رکھتے ہیں لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایک مختصر پیغام دنیا میں عظمت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے تو تفصیلی پیغام یقیناً زیادہ عظمت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مقاصد کی اہمیت کو سمجھیں اور اُن کے مطابق دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں.پس سب سے پہلی چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی مقصد ہونا چاہئے جس کی بناء پر ہم کہہ سکیں کہ ہم نے لوگوں سے کچھ کہنا ہے.دوسرے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے.کس طرح کہنے میں بھی بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے.سکول کا کورس ایک ہوتا ہے، یونیورسٹی ایک ہوتی ہے مگر اس فرق کی وجہ سے کہ ایک شخص جانتا ہے اُس نے جو کچھ کہا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور دوسرا اس امر سے ناواقف ہوتا ہے.ایک شخص تو ترقی کرتے کرتے محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر مقرر ہو جاتا ہے اور دوسرا اسی ڈگری کا شخص سکول کی مدرسی میں ہی اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے.اسی امتیاز کی وجہ سے دنیا میں قابلیت کے الگ الگ مدارج تجویز کر دیئے گئے ہیں.کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے پرائمری رکھا ہوا ہے، کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے مڈل رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے انٹرنس رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے ایف اے اور بی اے رکھا ہوا ہے تو کس طرح کہنے کا فرق بھی زمین و آسمان کا تغیر پیدا کر دیا کرتا ہے.پرائمری کے بعض طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو آئندہ مڈل میں تعلیم پانے والوں کے لئے نمونہ بننے والے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ادنیٰ سے ادنی سکول کیلئے بھی ذلت کا موجب ہوتے ہیں.کچھ پرائمری کے ماسٹر اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اُن کو ترقی دے کر مڈل کی تعلیم اُن کے سپرد کی جائے اور بعض ماسٹر کچھ کہنے سے اس طرح نا واقف ہوتے ہیں کہ اُن کا پرائمری میں رکھا جانا بھی انسپکٹروں کی نا واقعی یا جنبہ داری اور لحاظ کی بناء پر ہوتا ہے ذاتی قابلیت کا اُس میں دخل نہیں ہوتا.تو کہنے کے طریق سے بھی انسان کی عملی زندگی میں بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے.وہ کتابیں مقرر ہوتی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۷۹ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں ہیں جن سے پرائمری کا امتحان پاس کیا جا سکتا ہے، وہ کتابیں مقرر ہوتی ہیں جن سے مڈل اور انٹرنس اور ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کئے جاسکتے ہیں لیکن پڑھانے والوں کے نقص یا اُن کی خوبی کی وجہ سے بعض کے شاگرد بالکل نالائق رہتے ہیں اور بعض کے شاگر د اعلیٰ درجہ کی قابلیت حاصل کر لیتے ہیں تو صرف اتنا ہی ضروری نہیں کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ہم نے کچھ کہنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور وہ طریق ہمارے فرائض کی ادا ئیگی میں ممد ہو سکتے ہیں یا نہیں.یہی دو چیزیں ہیں جن کو گزشتہ تقاریر میں مختلف پیراؤں میں میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا اور یہی وہ چیز ہے جسے آج میں پھر خدام الاحمدیہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.جس طرح پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی جاتی ہے تا کہ لوگوں کے لئے وہ دلکشی اور جاذبیت کا موجب ہو سکے اسی طرح آج میں اُسی پُرانی شراب کو جسے میں بارہا پیش کر چکا ہوں نئی بوتلوں میں تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں.یہ امرا چھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک خدام الاحمدیہ کے کارکن اور خدام الاحمدیہ کے تمام رکن اس بات کو مد نظر نہیں رکھیں گے کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور پھر جو کچھ کہنا ہے اس کے متعلق تمام خدام کے ذہنوں میں یہ امر مستحضر نہیں ہوگا کہ اسے کس طرح کہنا ہے اُس وقت تک اس انسٹی ٹیوٹ اور اس محکمہ یا ادارہ کی کامیابی قطعاً غیر یقینی اور شکی ہوگی بلکہ بعض صورتوں میں یہ لاعلمی نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے.اگر ہماری جماعت کے نوجوانوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اُنہوں نے کیا کہنا ہے تو وہ قومی خیالات کو مٹانے والے ہوں گے اور اگر انہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور اس کے پیش کرنے کا صحیح یق کیا ہے تب بھی جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اُس کو وہ قائم نہیں کر سکتے.جس طرح چھت پر پڑے ہوئے پانی کو نکالنے کے لئے جب صحیح راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو وہ چھت میں سوراخ بنا کر مکان کو گرانے کا موجب بن جاتا ہے اسی طرح اگر نو جوانوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے تو اُس وقت تک بھی وہ قوم کی صحیح خدمت کبھی سرانجام نہیں دے سکتے.پس یہ دونوں باتیں خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہیں.ان کے لئے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۰ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں ضروری ہے کہ انہیں اسلام کی مکمل واقفیت ہو اور ان کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اسلام کو پیش کرنے کا صحیح طریق معلوم ہو کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ سب کا سب اسلام میں بیان ہو چکا ہے.اگر خدام الاحمدیہ اسلام کے مفہوم اور اس کی تعلیم کو اچھی طرح سمجھ لیں تو ان کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ اسلام حاوی ہے تمام اعلیٰ تعلیموں پر.اور جو شخص اسلام کی تعلیم سے مکمل طور پر آگاہ ہوا سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اُس نے دنیا سے کیا کہنا ہے.پس اصل چیز اسلام ہی ہے اگر ہم اس کا نام احمدیت رکھتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ احمدیت، اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ہے بلکہ اسلام کا نام ہم احمدیت اس لئے رکھتے ہیں کہ لوگوں نے اسلام کو ایک غلط رنگ دے دیا تھا اور ضروری تھا کہ اسلام کے غلط مفہوم کو واضح کرنے اور اسلام کی حقیقت کو روشن کرنے کیلئے کوئی امتیازی نشان قائم کیا جاتا اور وہ امتیازی نشان احمدیت کے نام کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے ورنہ اسلام کا ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جسے کوئی شخص بدل سکے بلکہ ایک شوشہ تو کیا ایک زبر اور ایک زیر بھی ایسی نہیں جو تبدیل کی جا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا وہ سب کا سب خدا کے کلام اور رسول کریم ﷺ کے کلام سے ماخوذ ہے بلکہ نہ صرف آپ نے جو کچھ کہا وہ قرآن کریم اور حدیث سے ماخوذ ہے بلکہ آپ نے وہی کچھ کہا جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہی کچھ جو حدیث میں موجود ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اگر قرآن اور حدیث میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے الگ ہو کر ایک شوشہ بھی بیان کیا جائے بلکہ ایک زبر اور ایک زیر کا بھی اضافہ کیا جائے تو وہ یقیناً کفر ہو گا ، الحاد ہو گا اور اُس کی اشاعت سے دنیا میں علم نہیں پھیلے گا بلکہ جہالت اور بے دینی میں ترقی ہو گی.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم الله قرآنی تعلیم کو سمجھیں اور اس کو اپنے دلوں اور دماغوں میں پوری مضبوطی سے قائم کریں.میں نے کہا تھا کہ ہر احمدی نوجوان کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو.اصل میں تو یہ ہر احمدی نوجوان کا فرض ہے کہ وہ عربی جانتا ہو لیکن کم سے کم اتنا تو اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم میں کیا لکھا ہے اور خدا ہم سے کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے.عربی جاننے سے یہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کا مفہوم سمجھنے کی منزلیں جلد طے ہو جاتی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۱ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں ہیں لیکن اگر کوئی شخص زیادہ عربی نہ جانتا ہو تو اُسے کم سے کم اتنی عربی تو ضرور آنی چاہئے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کو وہ سمجھ سکے.میں نے ۱۹۴۲ء کے اجتماع کے موقع پر سوال کیا تھا کہ کتنے خدام ہیں جنہیں قرآن کریم کا سارا ترجمہ آتا ہے؟ اُس وقت سات آٹھ سو میں سے قادیان کے خدام میں سے ۱۵۲ اور بیرونی خدام میں سے ۳۲ کھڑے ہوئے تھے سے اب میں دو سال کے بعد پھر یہی سوال کرتا ہوں.میرے اس سوال کے مہمان مخاطب نہیں بلکہ صرف خدام اور اطفال مخاطب ہیں.جو خدام اور اطفال اس وقت پہرے پر یا کسی اور ڈیوٹی پر مقرر ہیں وہ بیٹھ جائیں تا کہ تعداد شمار کرنے میں کوئی غلطی نہ ہو.(حضور کے اس ارشاد پر سب بیٹھ گئے تو حضور نے فرمایا.) قادیان کے خدام الاحمدیہ یا اطفال الاحمدیہ کے وہ ممبر جو قرآن کریم کا سارا ترجمہ پڑھ چکے ہیں کھڑے ہو جا ئیں.(حضور کے اس ارشاد پر ۱۸۸ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا.) بیرونی خدام کو شامل کر کے ساری تعداد ایک ہزار کے قریب ہے.پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ قادیان کے خدام میں سے قریباً اکیس فی صدی نوجوان قرآن کا ترجمہ جانتے ہیں.آب جو دوست باہر سے بطور نمائندہ آئے ہوئے ہیں اور جن کی تعداد ایک سو ہے ان میں سے جنہوں نے سارا قرآن ترجمہ سے پڑھا ہوا ہے وہ کھڑے ہو جائیں.( ۲۳ دوست کھڑے ہوئے فرمایا.) یہ تعداد قادیان والوں سے بھی زیادہ رہی ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ قادیان والوں میں ۲۷۰ کے قریب اطفال بھی ہیں.یہ تعداد بھی نہایت افسوسناک ہے.قرآن شریف ہی تو وہ چیز ہے جس پر ہمارے دین کی بنیاد ہے اگر ہمارے چنیدہ نو جوانوں میں سے بھی صرف ۲۰ فیصدی قرآن جانتے ہوں اور ۸۰ فیصدی قرآن نہ جانتے ہوں تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اگر ہم ساروں کو شامل کر لیں تو غالباً چار پانچ فیصدی نوجوان ایسے نکلیں گے جو قرآن کو جانتے ہوں گے اور پچانوے فیصدی ایسے نو جوان نکلیں گے جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتے ہوں گے.تم خود ہی سوچ لو جس قوم کے صرف
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۲ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں چار پانچ فیصدی نوجوان قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں اور ۹۵ فیصدی نہ جانتے ہوں کیا اُس کی کامیابی کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے؟ ہم اپنی قوت واہمہ کو کتنا ہی وسیع کر لیں اور اس و ہم کو شک بلکہ خیال فاسدہ کی حد تک لے جائیں تب بھی جس قوم کے پچانوے فیصدی افراد قرآن نہ جانتے ہوں اور صرف ۵ فیصدی قرآن کا ترجمہ جانتے ہوں اُس کی ترقی اور کامیابی کی کوئی صورت انسانی واہمہ اور خیال میں بھی نہیں آ سکتی.میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ جب تک قرآن کریم سے ہر چھوٹے بڑے کو واقف نہیں کیا جاسکتا اُس وقت تک ہمیں اپنی کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے اور اگر ہم رکھتے ہیں تو ہم ایک ایسا نقطہ نگاہ اپنے سامنے رکھتے ہیں جو عقلمندوں کا نہیں بلکہ مجنونوں اور پاگلوں کا ہوتا ہے.آج میں اس امر کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں اور نو جوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی جلد سے جلد کوشش کرنی چاہئے.میں نے اعلان کیا تھا کہ جو انجمنیں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کی خواہش کریں گی اور وہ اپنی اس خواہش سے ہمیں اطلاع دیں گی اُن کو مرکز کی طرف سے قرآن کریم پڑھانے والے بھجوا دیئے جائیں گے مگر تجربہ سے یہ طریق کامیاب ثابت نہیں ہوا اس لئے اب میں یہ ہدایت دیتا ہوں کہ ہر سال مرکز کی طرف سے باہر سے آنے والے خدام کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا انتظام کیا جائے اور ہر جماعت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا ایک ایک نمائندہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے.یہاں اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا باقاعدہ انتظام کیا جائے گا اور اس کے بعد اُن کو اِس امر کا ذمہ وار قرار دیا جائے گا کہ وہ باہر اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کا درس جاری کریں اور جن کو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھائیں یہاں تک کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بچہ، نہ جوان ، نہ بوڑھا جسے قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو.پس آج میں یہ نئی ہدایت دیتا ہوں کہ ہر خدام الاحمدیہ کی جماعت میں سے ایک ایک نمائندہ قرآن کریم کے اس درس میں شامل ہونے کے لئے بلو یا جائے تاکہ وہ اور لوگوں کو اپنی جماعت میں تعلیم دے سکیں.میں ابھی یہ نہیں کہتا کہ جبرا ہر جماعت میں سے ایک ایک نمائندہ بُلوایا جائے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ مرکز کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۳ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں اپنی کوشش ضرور کرنی چاہئے جو جبر کے قریب قریب ہو.گو یا جبر بھی نہ ہو اور معمولی کوشش بھی نہ ہو بلکہ پوری کوشش کی جائے کہ ہر جماعت کے نمائندے قادیان بلوائے جائیں اور اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے.اس غرض کے لئے ہر سال ایک ماہ کی مدت کافی ہے.اس ایک مہینہ میں باہر سے آنیوالے نمائندگان کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے جماعت کے چوٹی کے علماء مقرر کئے جاسکتے ہیں اور خدام الاحمدیہ اگر چاہیں تو اس بارہ میں مجھ سے مدد لے سکتے ہیں.ہم اس ایک مہینہ کے درس کے لئے انہیں اپنی جماعت کے چوٹی کے عالم دے دیں گے جو آنے والوں کو قرآن کریم پڑھا دیں گے.یہ ضروری نہیں کہ پہلے سال میں انہیں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ پڑھا دیا جائے اگر ایک مہینہ میں دس یا پندرہ سیپارے بھی پڑھائے جاسکیں تو اگلے ایک یا دو سالوں میں وہ سارا ترجمہ پڑھ سکتے ہیں.اِس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین سال کے اندر اندر ہر جماعت میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں گے جو قرآن کریم کو اچھی طرح جانتے ہوں گے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم پڑھا سکیں گے.قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے کسی قدر صرف و نحو کی بھی ضروت ہوا کرتی ہے اس غرض کے لئے ایک کورس مقرر کر دیا جائے گا تا کہ وہ صرف ونحو سے بھی واقف ہو جا ئیں ممکن ہے صرف ونحو کے اس کورس کی وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ زیادہ نہ پڑھایا جا سکے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ سالوں میں صرف ونحو جاننے کی وجہ سے وہ زیادہ عمدگی سے قرآن کریم کا بقیہ حصہ پڑھ سکیں گے اور زیادہ عمدگی سے پڑھا سکیں گے.جب تک تھوڑی بہت صرف و نحو نہ آتی ہو اُس وقت تک دوسروں کو پڑھانا آسان نہیں بلکہ مشکل ہوتا ہے.دوسری ہدایت تعلیمی نقطہ نگاہ سے یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کا نہ صرف قرآن کے ترجمہ سے بلکہ بعض اور دینی علوم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے مگر وہ علوم آہستہ آہستہ ہی حاصل ہو سکتے ہیں فوری طور پر اُن کا حاصل ہونا ناممکن ہے.اور اصل بات تو یہ ہے کہ سارے علوم قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اگر انسان کو قرآن کا صحیح علم ہو تو اُسے اور علوم خود بخو د حاصل ہو جاتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر سال یہاں بیرونی جماعتوں سے آنے والے نمائندگان کو قرآن پڑھانے کا انتظام ہونا چاہئے.مگر جب تک یہ سکیم مکمل نہیں ہوتی اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۴ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں جب تک دو تین سال کے بعد یہاں سے تعلیم حاصل کر کے لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں درس شروع نہیں کر دیتے اُس وقت تک ضروری ہے کہ دینی علوم سے جماعت کے لوگوں کو واقف رکھنے کے لئے بعض اور ذرائع پر بھی عمل کیا جائے.جب انہیں دینی لحاظ سے مکمل واقفیت حاصل ہو جائے گی تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگا کہ اُنہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اُسے لوگوں کے سامنے کس طرح پیش کرنا چاہئے.خدام الاحمدیہ نے دینی واقفیت بڑھانے کے لئے کچھ عرصہ سے ایک طریق جاری کیا ہوا ہے جو بہت مفید ہے اور وہ طریق یہ ہے کہ ہر سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا یا میری لکھی ہوئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا وہ امتحان لیتے ہیں.یہ طریق یقیناً مفید ہے اور اس میں شامل ہو کر ہر شخص اپنی دینی معلومات میں بہت کچھ اضافہ کر سکتا ہے.اس کے علاوہ میں آجکل حدیث کی ایک نئی کتاب مرتب کرا رہا ہوں جس میں ایک ہزار حدیثیں جمع ہوں گی.آٹھ سو حدیثیں منتخب کی جا چکی ہیں صرف دو سو حدیثیں باقی ہیں اُن کا بھی اِنشَاءَ اللہ جلدی انتخاب کر لیا جائے گا.اور پھر اس کتاب کو شائع کر کے اسے مدرسہ احمدیہ کے نصاب میں شامل کر دیا جائے گا.حدیث کی اس کتاب کا امتحان ہر خادم کے لئے لازمی قرار دیا جائے تا کہ ہم میں سے ہر شخص کو معلوم ہو کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری عملی زندگی کے متعلق کیا ہدایات دی ہیں.جس طرح میری سکیم کے ماتحت آئندہ قرآن کریم کا درس ہوا کرے گا اسی طرح حدیث کی اس کتاب کو بھی اِنْشَاءَ اللہ پڑھایا جائے گا تا کہ حدیث سے بھی ہر شخص کو مس اور مؤانست پیدا ہو جائے.گویا دینی واقفیت کے لئے یہ تین چیزیں ضروری ہیں.اول قرآن کریم کا ترجمہ.دوم حدیث اور سوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب.حدیث کی واقفیت کے لئے میں نے بتایا ہے کہ کتاب لکھی جارہی ہے اور عنقریب چھپنے والی ہے.ہر خادم کے لئے اُس کتاب کا پڑھنا اور پھر اُس کتاب کے امتحان میں شامل ہونا لازمی ہوگا کیونکہ اُس کتاب میں ایسی ہی حدیثیں جمع کی گئی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے کیریکٹر کے متعلق
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۵ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں ہیں یا انسانی فرائض اور ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہیں اور یا پھر ہمارے عقائد کے متعلق ہیں.اکثر حدیثیں منتخب کر لی گئی ہیں صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے جس کے متعلق میں امید کرتا ہوں کہ وہ بھی جلد پورا ہو جائے گا.اس کے علاوہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ علماء کی مجلس سے مشورہ لے کر ایک مختصر کورس شائع کیا جائے جو عقائد، فقہ اور اخلاق پر مشتمل ہو یعنی کتاب تو ایک ہومگر اُس کا ایک باب علم العقائد کے متعلق ہو ، ایک باب علم الاعمال کے متعلق ہو جس میں فقہی کتابوں سے موٹے موٹے عنوانات لے لئے جائیں اور اُن کے متعلق جو ضروری مسائل ہیں وہ جمع کر دیئے جائیں اور تیسرا حصہ علم الاخلاق کے متعلق ہو جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اخلاق کے متعلق کیا تعلیم دی ہے.میرا منشاء یہ ہے کہ ایک مختصر سی کتاب تیار ہو جائے جو اڑھائی تین سو صفحوں سے زائد نہ ہو اور جس میں یہ تینوں باب الگ الگ ہوں تا کہ پڑھنے اور یاد کرنے میں سہولت ہو اور پھر اس کورس کا بھی ہر خادم کے لئے پڑھنا ضروری قرار دیا جائے.دوسراحصہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے اُس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کس طرح کہنا ہے.در حقیقت ہمارے اخلاق کبھی بھی درست نہیں ہو سکتے جب تک ہم اس امر کو اچھی طرح ذہن نشین نہیں کر لیتے کہ ہمیں دوسرے سے کوئی بات کس طرح کہنی چاہئے.مگر یہ امر یا د رکھو کہ کہنا چاہئے میں کرنا چاہئے، بھی شامل ہے.جس طرح ہم نے کیا کہنا ” ہے“ میں ” کیا کرنا بھی شامل ہے اسی طرح ” کس طرح کہنا چاہئے میں کس طرح کرنا چاہئے، بھی شامل ہے.اس کی طرف بھی بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے.علمی حصہ کی کمی بعض اور ذرائع سے بھی پوری ہوتی رہتی ہے مثلاً سلسلہ کی طرف سے مختلف کتا میں چھپتی رہتی ہیں، اخبار شائع ہوتا ہے اور اس طرح علمی لحاظ سے جماعت کے سامنے ہمیشہ مفید معلومات پیش ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور کس طرح کرنا چاہئے اس کی خالص ذمہ داری خدام الاحمدیہ پر عائد ہوتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں اس لحاظ سے ابھی بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے.مثلا عملی لحاظ سے تبلیغ ہمارا سب سے اہم فرض ہے مگر تبلیغ اچھی طرح تبھی ہو سکتی ہے جب تبلیغ کرنے والے کا عملی نمونہ اعلیٰ درجہ کا ہومگر میں نے دیکھا ہے ابھی
انوار العلوم جلد ۷ ۳۸۶ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں تک اس قسم کی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ نوجوان جب کہیں باہر سفر پر جاتے ہیں تو اُن میں سے بعض ریلوں کے ٹکٹ نہیں لیتے ، بعض غلط ڈبوں میں بیٹھ جاتے ہیں یا دوسروں سے دوستی پیدا کر کے سنیما دیکھنے چلے جاتے ہیں یا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو جلدی غصہ میں آجاتے ہیں یا جلدی لڑائی شروع کر دیتے ہیں یا اگر انہیں قاضی کے سامنے کسی معاملہ میں بیان دینا پڑے اور وہ بیان اُن کے کسی دوست کے خلاف پڑتا ہو یا اُن کے ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف پڑتا ہو تو وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.یا اگر انہیں کسی ذمہ داری کے کام پر مقرر کیا جائے تو پوری طرح اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے یا اگر روپیہ اُن کے ہاتھ میں دیا جائے تو وہ دیانت دار ثابت نہیں ہوتے.چنانچہ اِس قسم کی شکایات میرے پاس کثرت کے ساتھ پہنچتی رہتی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ خدام الاحمدیہ کے قیام کی وجہ سے ان شکایتوں میں کوئی کمی آئی ہو حالانکہ اصل کام یہی ہے کہ خدام الاحمدیہ کے عہدہ دار نو جوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھیں اور اُن کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ تعلیمی حصہ کی طرف توجہ نہ کریں یا اس میں سستی اور غفلت سے کام لیں میرا مطلب یہ ہے کہ تعلیمی حصہ بعض اور ذرائع سے بھی جماعت کے سامنے بار بار آتا رہتا ہے مگر عملی نگرانی کا کام سست ہے.یعنی ہم نے جو کچھ کہنا ہے اُسے کس طرح کہنا چاہئے اور جو کچھ کرنا ہے وہ کس طرح کرنا چاہئے یہ کام ہے جو خدام الاحمدیہ کا ہے.پس اُس کے ہر فرد کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون سے اخلاق ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں جن کے بعد ہم اپنی تعلیم دنیا تک صحیح رنگ میں پہنچا سکتے ہیں.اگر ہمارے اندر سچائی نہیں ، اگر ہمارے اندر دیانت نہیں، اگر ہمارے اندر محنت کی عادت نہیں ، اگر ہمارے اندر عقل نہیں ، اگر ہمارے اندر عزم نہیں ، اگر ہمارے اندر قربانی اور اختیار کا مادہ نہیں تو ہم اپنے پیغام کو خواہ کتنے ہی شاندار الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کریں اور خواہ کس قدر اُس کی تشریح اور تفصیل بیان کریں ہرگز ہرگز اور ہرگز ہم دنیا پر غالب نہیں آ سکتے اور ہماری ناکامی اور نامرادی اور شکست میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.پس ضروری ہے کہ اس پہلو کو نمایاں کیا جائے اور نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھی جائے.جہاں وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی پہلو کو نمایاں کریں وہاں خدام الاحمدیہ کے
انوار العلوم جلد کا ۳۸۷ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں لئے ضروری ہے کہ وہ عملی پہلو کو نمایاں کریں کیونکہ آئندہ تمام کام نوجوانوں کو ہی کرنا پڑے گا.پس خدام الاحمدیہ کی نگرانی کی جائے اور اُن میں قوت عملیہ پیدا کی جائے.مجھے افسوس کے ساتھ بیان کرنا پڑتا ہے کہ نوجوانوں کے متعلق مجھے بعض نہایت ہی تلخ تجارب ہوئے ہیں شاید اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت سندھ کی زمینوں کا کام اسی لئے میں نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مجھ پر اپنی جماعت کے نوجوانوں کے اخلاق کی حقیقت منکشف کرنا چاہتا تھا.باوجود اس کے کہ مجھے فرصت نہیں تھی اور باوجود اس کے کہ اور کاموں کے علاوہ تحریک جدید کا بوجھ بھی مجھ پر پڑا ہوا تھا پھر بھی میں نے سندھ کی زمینوں کا کام اپنی نگرانی میں لے لیا اور مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ ابھی تک دیانت بھی بعض احمدیوں میں نہیں پائی جاتی اور ابھی تک کام کرنے کا صحیح مفہوم بھی کئی نو جوان نہیں جانتے.ایسے ایسے آدمی بھی ہماری جماعت میں ہیں کہ اگر اُن کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ بھی اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے بھی ہیں جو سلسلہ کی ضروریات کیلئے اپنے اوقات کی ادنیٰ سے ادنی قربانی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے.چنانچہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود اس کے کہ سلسلہ کے نفع اور نقصان کا سوال در پیش تھا بعض نوجوان چھ سات گھنٹہ کام کرنے کے بعد گھروں میں بیٹھ گئے اور سلسلہ کا دس بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا.ان میں وہ بھی شامل ہیں جو مجاہد کہلاتے ہیں اور وہ بھی شامل جو مجاہد تو نہیں کہلاتے مگر عام خدام میں سے ہیں.پس یہ حصہ نہایت ضروری ہے اور قوم کے نوجوانوں میں محنت سے کام کرنے کی عادت پیدا کرنا خدام الاحمدیہ کا اہم فرض ہے.مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ ایسے طریق ایجاد کریں جن سے انہیں معلوم ہو سکے کہ ہر احمدی جو مجلس خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے وہ کیا کام کرتا ہے اور اگر کسی کے متعلق معلوم ہو کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہا تو اُسے کسی نہ کسی کام پر مجبور کیا جائے.اسی طرح آپ لوگوں کو سکولوں اور بورڈنگوں وغیرہ کا معائنہ کر کے افسروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور ایسی سکیمیں سوچنی چاہئیں جن سے لڑ کے پڑھائی میں غفلت نہ کریں.اسی طرح کھیل کو د میں بھی وہ باقاعدگی سے حصہ لیں.آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کسی محلہ میں کوئی لڑکا آوارہ نہ پھرے.آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۸ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں رکھنی چاہئے کہ کون کون سے نوجوان ہیں جو لغو باتیں کرنے کے عادی ہیں اور پھر ان نوجوانوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ دُکانوں پر خرید وفروخت کرتے ہوئے دُکاندار اور تاجر دیانت داری سے کام لیتے ہیں یا نہیں اسی طرح اور معاملات میں اُن کی دیانت اور امانت کا کیا حال ہے.یہ عام امور ایسے ہیں جن کی نگرانی رکھنا خدام الاحمدیہ کا کام ہے مگر اب تک اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کیا.میرے پاس رپورٹیں پہنچ رہی ہیں کہ کئی مہینوں سے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری ہے اور دُکان دار دھوکا سے گراں قیمت پر اپنی اشیاء فروخت کرتے رہتے ہیں.اگر گوئی شخص دُکان پر گاہک بن کر آئے تو وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں چیز نہیں ہے لیکن اگر وہ ایک کی بجائے دوروپے دے دے تو چوری چھپے وہ اُسے چیز لا کر دے دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ کا نظام اتنا وسیع بنا دیا گیا ہے کہ ہر پندرہ سے چالیس سالہ عمر کے نوجوان کا اِس مجلس میں شامل ہونا لازمی ہے پھر بھی اس حرکت کا انسداد نہیں کیا گیا بلکہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کئی مہینوں سے قادیان میں ایسا ہو رہا ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سو نمبر ہیں میں اس تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں اگر مجلس خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کو پوری خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہوتی اور اگر اُس کے آٹھ سو جاسوس قادیان کے گلی کوچوں میں موجود ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ان آٹھ سو جاسوسوں کے ہوتے ہوئے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری رہتی اور دھوکا بازی سے گراں قیمت پر اشیاء فروخت ہوتی رہتیں.دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے یا تو ان آٹھ سو جاسوسوں میں سے ایک حصہ کو اپنی قوم کا غدار کہنا پڑے گا اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ اُن کو اپنے فرائض سے ایسا غافل رکھا گیا ہے کہ اُنہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ اُنہیں کا م کس طرح کرنا چاہئے ور نہ اگر یہ بات ہو رہی ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ سے قادیان کے دُکانداروں میں یہ عادت پیدا ہوگئی ہے اور دوسری طرف قادیان مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سو یا آٹھ سو پچاس جاسوس موجود ہوتے تو یہ ناممکن تھا کہ اُن کی موجودگی میں یہ بات جاری رہتی.میں جاسوس کا لفظ اُن کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہوں ورنہ جاسوس کا لفظ جس قسم کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۸۹ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں لوگوں کے لئے آجکل استعمال کیا جاتا ہے اس قسم کی جاسوسی اسلام میں منع ہے.میں نے صرف اُن کے فرائض پر زور دینے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے ورنہ صحیح الفاظ یوں ہیں کہ اگر احمدیت کے اخلاق کے آٹھ سو نمائندے قادیان میں موجود ہوتے اور کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جس میں ایک نمائندہ موجود نہ ہوتا یا اگر کوئی ایک گھر خالی ہوتا تو اس کے قریب کے گھر میں اخلاق احمدیت کا نمائندہ موجود ہوتا تو اس قسم کے حالات کے پیدا ہونے پر اُن میں سے ہر شخص آگے بڑھتا اور کہتا میں اپنے باپ کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے چچا کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے دوست کے خلاف شہادت دیتا ہوں کہ وہ گراں قیمت پر چوری چھپے اشیاء فروخت کر رہا ہے.جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ اگر تمہیں اپنے باپ یا اپنی ماں یا بھائی یا اپنے کسی اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو تم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے نڈر ہو کر گواہی دے دو اور رشتہ داری کی کوئی پرواہ نہ کرو.اسی طرح اگر خدام خلق یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کر چکے ہوتے تو ہر محلہ میں سے ایسے نوجوان نکل کر کھڑے ہو جاتے جو ہمارے پاس آکر کہتے ہمارے باپ کے پاس فلاں چیز موجود ہے مگر وہ دُکان پر تو یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس نہیں لیکن جب کوئی چوری چھپے زیادہ قیمت دے دیتا ہے تو اُسے وہ چیز دے دیتا ہے.اسی طرح کوئی اور نو جوان نکلتا اور کہتا کہ میری ماں جو کپڑا بیچا کرتی ہے وہ دُکان پر تو یہ کہہ دیتی ہے کہ میرے پاس فلاں کپڑا نہیں لیکن جب کوئی گھر میں آکر زیادہ قیمت دے دیتا ہے تو اس قیمت پر وہ کپڑا نکال کر اسے دے دیتی ہے.اگر خدام الاحمدیہ نے اپنے فرائض کو ادا کیا ہوتا اور ہر نوجوان کے دل میں اخلاق کی اہمیت کو قائم کیا ہوتا تو ہمیں آج اپنے اندر وہی نظارہ نظر آتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کے اخلاق کا نظر آیا کرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک منافق نے کہہ دیا کہ مدینہ چل لینے دو وہاں سب سے زیادہ معزز آدمی یعنی نَعُوذُ بِاللہ) عبداللہ بن ابی ابن سلول سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ سے نکال دے گا.جب اُس نے یہ بات کہی تو اس کے بعد سب سے پہلا شخص جو یہ شکایت لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا اسی عبداللہ بن ابی ابن سلول کا بیٹا تھا.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میرے باپ نے ایسا کہا ہے اور اُس
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۰ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں کے اس فعل کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی.يَا رَسُولَ اللهِ! میں صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرما ئیں تو مجھے اُس کے قتل پر مقرر کیا جائے کسی اور کو مقرر نہ کیا جائے کیونکہ اگر کسی اور نے میرے باپ کو قتل کیا تو ممکن ہے میرے دل میں اُس کے خلاف جوش پیدا ہو اور میں کسی خلاف شریعت فعل کا ارتکاب کر بیٹھوں.تو اگر واقعہ میں خدام خلق میں یہ جذبہ پیدا ہو چکا ہوتا اور وہ جرائم کی شناعت کو سمجھتے تو بجائے اس کے کہ اس موقع پر ہمیں تحقیق کرنی پڑتی کہ کون کون لوگ ایسے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں ہر شخص آگے بڑھتا اور کہتا کہ میرا باپ یا میرا بھائی یا میری ماں یا میرا فلاں رشتہ دار یہ جرم کر رہا ہے اور میں اس کے خلاف اپنی شہادت پیش کرتا ہوں..فردی جرم بے شک ایسی چیز ہے جس پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے لیکن قومی جرائم پر کبھی پردہ نہیں ڈالا جا سکتا اگر قومی جرائم پر بھی پردہ ڈالا جائے تو قوم کی ترقی بالکل رُک جائے اور اس کے افراد اعلیٰ اخلاق کو بالکل کھو دیں.قومی جرائم کے ارتکاب کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہر محلہ بلکہ ہر گھر میں سے لوگ نکلیں اور بدی کا ارتکاب کرنے والوں کے راز کھول دیں.جب قومی جرائم کے ارتکاب پر اس طرح راز کھولے جائیں تو جن لوگوں کی اصلاح اور ذرائع سے نہیں ہوسکتی اُن کی اصلاح اس طریق سے ہو جاتی ہے اور جبری طور پر اُن میں نیکی پیدا ہو جاتی ہے.بدی پر جرات انسان کو اُسی وقت ہوتی ہے جب اُسے یقین ہوتا ہے کہ میرے دوست یا میرے رشتے دار میرے راز کو ظاہر نہیں کریں گے لیکن اگر اسے یقین ہو کہ میں نے جو بھی بُرا فعل کیا اُسے میرے دوست خود بخود ظاہر کر دیں گے تو وہ کبھی بُرے افعال کے ارتکاب کی جرات نہیں کر سکتا.دیکھ لو چور ہمیشہ رات کی تاریکی میں چوری کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا انتظام ہوتا کہ جونہی کوئی چور سیندھ لگا تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان پر کوئی ستارہ ایسا ظاہر ہوتا جس کی چمک اور روشنی کی وجہ سے لوگ فوراً دیکھ لیتے کہ کون شخص چوری کر رہا ہے تو کیا اس کے بعد کسی ایک شخص کو بھی چوری کی جرات ہوسکتی ؟ یقیناً کوئی شخص چوری نہ کرتا کیونکہ وہ ڈرتا کہ ادھر میں نے چوری کی تو ادھر ساتھ ہی میری گرفتاری عمل میں آ جائے گی اور لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ اس فعل کا ارتکاب کس نے کیا ہے.اسی طرح
۳۹۱ انوار العلوم جلد ۱۷ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی سوسائٹی کے لئے ایک چمکتا ہوا ستارہ بن جائے تو کمز ور لوگوں کو اخلاق اور شریعت کے خلاف افعال کرنے کی جرأت نہ رہے اور وہ بھی نیکی اور تقویٰ کے لباس میں ملبوس ہو جائیں.یہی امید خدا تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے رکھتا ہے کہ وہ سب کے سب ہدایت اور رہنمائی کے چمکتے ہوئے ستارے بنیں اور جب بھی کوئی شخص کسی بُرائی کا ارتکاب کرے وہ اُس پر اُسی وقت اپنی روشنی ڈال دیں تا کہ آئندہ وہ اپنی اصلاح کر سکے اور قومی ترقی میں روک واقع نہ ہو.یہی خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ذریعہ ایک روحانی جماعت قائم کرنے سے منشاء ہوتا ہے.پس تم کو اپنا نور اتنا پھیلانا چاہئے اتنا پھیلانا چاہئے کہ تمہاری وجہ سے تاریکی کا کہیں نشان تک نہ رہے اور اگر بعض لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے قومی جرائم کا ارتکاب کریں تو تمہارا فرض ہے تم ان کو فوراً ظاہر کرو.بے شک اگر کسی شخص میں کوئی فردی کمزوری پائی جاتی ہے تو تم اُس کے عیب کو ظاہر نہ کرو بلکہ علیحدگی میں اُسے سمجھاؤ اور دل میں اُس کی ہدایت اور اصلاح کے لئے دعائیں کرتے رہو.تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم فردی کمزوریوں کا لوگوں میں ذکر کرتے پھر ولیکن جس طرح فردی جرائم کا ظاہر کرنا گناہ ہے اسی طرح قومی جرائم کا چھپانا گناہ ہے.جب تمہیں قومی جرائم کا علم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اُن جرائم کا ارتکاب کر نے والوں کو ظاہر کرو.میرے نزدیک اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہر مجلس اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں اپنے پاس ریکارڈ رکھے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ کن کن اخلاق کی طرف ہمیں زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے.میں نے بتایا ہے کہ فردی جرائم میں صرف نصیحت کرنا کافی ہے جرم کرنے والے کے نام کو ظاہر کرنا ضروری نہیں لیکن ریکارڈ میں بغیر نام ظاہر کرنے کے اس امر کی صراحت کی جا سکتی ہے کہ ہم نے اتنے لوگوں کو فلاں فلاں قسم کے فردی جرائم کی بناء پر نصیحت کی اور اُن کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے.اسی طرح جب کوئی قومی جرم کا ارتکاب کرے تو اُس کا بھی ریکارڈ میں ذکر آنا چاہئے.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر مجلس یہ بتا سکے گی کہ سو میں سے اتنے فیصدی فلاں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، اتنے فیصدی لوگوں میں فلاں قسم کی کمزوری پائی جاتی ہے اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۲ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں اتنے فیصدی لوگ فلاں عیب میں مبتلاء ہیں.بے شک اگر اِن لوگوں کا نام ظاہر کیا جائے گا تو شریعت کے خلاف ہو گا لیکن بغیر نام کی صراحت کے ایک عام ریکارڈ کے ذریعہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کن کن اخلاق کی نوجوانوں میں کمی ہے اور کن امور کی طرف ہمیں زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مثلاً سچائی ہے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مجلس میں کتنے فیصدی نو جوان سچائی اختیار کرنے میں اعلیٰ نمونہ نہیں دکھا رہے.یا اشاعتِ فحش ایک جرم ہے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کتنے لوگ ہمارے اندر موجود ہیں.بہر حال اخلاق کی نگہداشت خدام الاحمدیہ کا اہم فرض ہے اور ہر رکن کے لئے اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ قومی جرم کا چھپانا ایک خطر ناک جرم ہے.جس طرح فردی جرم کو ظاہر کرنا جرم ہے.قومی جرم سے مراد در حقیقت دو قسم کے جرائم ہوتے ہیں.اول وہ جرم جو قوم کے خلاف ہوتے ہیں اور جن کا قومی لحاظ سے شدید نقصان ہوتا ہے.دوسرے وہ افعال جو کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کسی دوسرے پر قاتلانہ حملہ کرنے کے متعلق کوئی بات کر رہا ہو اور اُس کا علم کسی اور شخص کو ہو جائے تو یہ فردی جرم نہیں ہو گا بلکہ قومی جرم ہوگا کیونکہ اس کا نقصان قوم کے ایک فرد کو پہنچنے کا امکان ہے.اس صورت میں اگر وہ اخفاء سے کام لیتا ہے اور دوسرا شخص حملہ کر کے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ جس نے بات کو سنا تھا اور جسے اس سازش کا پہلے سے علم ہو چکا تھا مگر اُس نے ظاہر نہیں کیا وہ بھی اس قتل میں شریک سمجھا جائے گا.اگر وہ وقت پر بتا دیتا تو اصلاح کی جاسکتی تھی لیکن چونکہ اُس نے وقت پر نہ بتایا اس لئے وہ بھی قاتل سمجھا جائے گا اور شریعت کے نزدیک مجرم ہو گا.پس قومی جرم سے مراد وہ جرم ہیں جن کا ضرر کسی دوسرے انسان کو پہنچ سکتا ہوا اور فردی جرم سے مراد وہ جرم ہیں جن کا ضرر کسی دوسرے کو نہ پہنچتا ہو یا کسی کے ایسے گزشتہ جرم کا ذکر کرنا جو خواہ اپنی ذات میں قومی جرم ہی ہو لیکن وہ حال سے منقطع ہو چکا ہو وہ بھی فردی جرم ہی سمجھا جائے گا.مثلاً فرض کرو ایک شخص نے آج سے دس سال پہلے کوئی چوری کی تھی اب چوری کرنا ایک قومی جرم ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے دس سالہ گزشتہ چوری کے واقعہ کا ذکر کرتا ہے تو اس چوری کو قومی جرم نہیں بلکہ فردی جرم قرار دیا جائے گا.ایسی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۳ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں صورت میں ضروری ہوگا کہ وہ دوسرے کے فعل پر پردہ ڈالے اور اس کا لوگوں میں اظہار نہ کرے.دس سال پہلے اگر اُس نے کسی کی پنسل چرائی تھی یا ایسی ہی کوئی اور چیز چرالی تھی تو گو چوری کے لحاظ سے اس کا یہ جرم کچھ کم نہیں تھا مگر چونکہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے اب اس کا اظہار کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اب ایسی چوری کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسان تو بہ کرے.اپنے گزشتہ قصور پر استغفار کرے اور آئندہ کے لئے عہد کرے کہ وہ ایسا فعل کبھی نہیں کرے گا.بہر حال اتنا لمبا عرصہ گزرنے پر اس کا یہ فعل قومی جرم نہیں رہا بلکہ ایک فردی جرم بن گیا ہے.پس ہر وہ جرم جس کا ازالہ نہیں ہو سکتا یا جس فعل کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں وہ فردی جرم ہے.اور ہر وہ جرم جس کا ازالہ ہو سکتا ہے اور جس کا اثر قوم پر پڑتا ہے وہ قومی جرم ہے.پس قومی اور فردی جرائم میں جو فرق ہے وہ بار بار نو جوانوں کو بتانا چاہئے تا کہ ایک طرف جہاں لوگوں میں تجسس کا مادہ پیدا نہ ہو وہاں دوسری طرف لوگوں کے اخلاق کی نگرانی ہو سکے اور معلوم ہو سکے کہ کون لوگ اخلاقی حصوں پر عمل کرنے میں سستی سے کام لے رہے ہیں.اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے اس رنگ میں اصلاح اخلاق کی کوشش کی جاتی تو میرے سامنے یہ ذکر نہ آتا کہ قادیان میں مخفی طور پر بعض لوگ گراں قیمت پر اشیاء فروخت کر رہے ہیں.مجھے نہیں معلوم کہ قادیان میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا لیکن اگر ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بالکل ناکام رہے ہیں.ان کے نمائندے ہر محلہ میں موجود ہیں، ہر گھر میں موجود ہیں اور وہ اگر چاہتے تو اس نقص کا آسانی کے ساتھ ازالہ کر سکتے تھے لیکن چونکہ انہوں نے اِس طرف توجہ نہیں کی اس لئے میں سمجھتا ہوں اس کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ کے کارکنوں پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ باتیں بار بار اپنے نمائندوں کے سامنے نہیں رکھیں ورنہ اس سستی اور غفلت کا ان کی طرف سے مظاہرہ نہ ہوتا.تیسری چیز لڑائی جھگڑا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ عادت بھی ابھی برابر جاری ہے.ذرا سی بات ہوتی ہے لیکن اس پر آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے.یہ بھی ایک خطر ناک نقص ہے جس کا ازالہ ضروری ہے.بسا اوقات انسان ہنسی مذاق میں کوئی بات کہ رہا ہوتا ہے مگر دوسرا اس مذاق کو برداشت نہ کر کے لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کر دیتا ہے حالانکہ ایسے حالات میں
انوار العلوم جلد ۷ ۳۹۴ خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں بات کو ہنسی میں ٹال دینا زیادہ مناسب ہوا کرتا ہے.مگر بعض دفعہ ایک شخص غصیلا ہوتا ہے اور مذاق کو برداشت نہ کر کے وہ لڑ پڑتا ہے.جہاں ایسی صورت پیدا ہو وہاں دوسرے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاموش رہے اور وہاں سے اُٹھ کر چلا جائے.ہر بات جو نا پسند ہے اُس پر لڑائی شروع کر دینا معاملہ کو بلا وجہ طول دینا اور تفرقہ و شقاق کی صورت پیدا کر کے مقاطعہ تک نوبت پہنچانا اور بول چال بند کر دینا ہرگز ایک مومن کے شایانِ شان نہیں ہے.اگر ہر شخص کو اس امر کی اجازت دی جائے کہ وہ جس سے چاہے بول چال بند کر دے جس سے چاہے تفرقہ اختیار کر لے تو قوم کی ٹوٹتے ٹوٹتے کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہ جاتی.یہ باتیں ہیں جن کی طرف خدام الاحمدیہ کو میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ انہیں جہاں بھی پتہ لگے کہ دو احمدی نوجوان کسی وجہ سے آپس میں گفتگو نہیں کرتے تو اُن کے اس فعل کو قومی جرم قرار دیا جائے اور انہیں نصیحت کی جائے کہ مقاطعہ کرنا یا بول چال بند کر دینا جائز نہیں ہے.یہ تین چیزیں ہیں جن کی طرف میں اس وقت خصوصیت سے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور اصل بات تو یہ ہے کہ درد کی وجہ سے مضمون کا تسلسل بھی قائم نہیں رہا اور اب مزید کچھ کہنا میرے لئے ناممکن ہے اس لئے میں انہی تین شقوں پر آج کی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے کارکنوں اور تمام خدام اور اطفال کو اپنی اپنی ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قدم پر وہ آپ لوگوں کی راہنمائی فرمائے تا کہ وہ باتیں جو آپ لوگوں کو معلوم ہیں اُن پر آپ عمل کر سکیں اور جو باتیں معلوم نہیں وہ خدا تعالیٰ خود آپ لوگوں کو سکھائے تا کہ آپ دین کی باتوں کو اچھی طرح جانیں اور ہمیشہ ان پر عمل کرتے رہیں.( الفضل ۹ رنومبر ۱۹۴۴ء ) گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۱.یوحنا باب ۴ آیت ۸.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء الفضل ۸/ نومبر ۱۹۴۲ء صفحه ۲
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۵ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۷ بِسْمِ اللهِ ا اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۹۶ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے ( تقریر فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۴ء بر موقع سالانہ اجتماع انصار اللہ قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- میں صرف مجلس انصار اللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کر دعا سے اس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جاؤں گا.انصار اللہ کی مجلس کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے.زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ: اول تنظیم کامل ہو جائے.دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے.اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جا ئیں.میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصار اللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں.انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی ، حرکت عمل ابھی ان میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے مگر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے اور کم از کم اِس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو جاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثارا بھی نظر نہیں آتے.غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور قادیان کی مجلس انصاراللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ واری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۷ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے.نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ اُن پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں.مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اس لئے اُن کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہو گیا ، مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لئے اُن کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا، ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالا رنگ کے ہوتے ہیں، سبز سبز درختوں پر بسیرا ر کھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے ، جنگلوں اور سُوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سُوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اُسی قسم کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں حالانکہ اُن میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی تو انسانوں کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کی وجہ سے کیوں نہیں بدل سکتے.خدا تعالیٰ نے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ کُونُوا مَعَ الصَّدِقِین کے یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو جائے جو اُس میں پایا جاتا ہے.پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں ہی اُس کی اپنی اصلاح ہے.ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے.بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر دم تک اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کرتے
انوار العلوم جلد ۷ ۳۹۸ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے رہے.پس اگر خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور پچھلوں کا سردار ہے جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہو گا اور جس نے خدا تعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتا ہے، اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوکر اهدنا الصراط المستقیم کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے.اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خدا تعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا.پس جو شخص اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا کیونکہ اس قسم کا استغناء عزت نہیں بلکہ ذلت ہے، ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازے کی طرف بھاگا جارہا ہے.پس تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے اسی سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے، اسی سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے.دعا ئیں بھی وہی قبول ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے دعا مانگنے کے لئے اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردو پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصار الله، لجنہ اماءاللہ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمد یہ قائم کی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصار اللہ مرکز یہ اِس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصاراللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تا کہ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گردو پیش کی اصلاح کیلئے بھی ہوں اور ان کی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۳۹۹ تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے کونے کو سیراب کر دیں.اب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں.خدا کرے مجلس انصاراللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں پیج کے طور پر ہوں جن سے آگے خدا تعالیٰ ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لئے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خدا کی روحانی بادشاہت اُسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اُس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے.امِینَ ( الفضل ۶ راگست ۱۹۴۵ء) ل التوبة : ١١٩ الفاتحة: ۷،۶
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ ء انوار العلوم جلد ۱۷ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۷ بِسْمِ اللهِ ا اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۴۰۱ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ ء نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء وہ وقت آ گیا ہے جب ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اُٹھے گا یا نیچے گر جائے گا تقریر فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۴۴ء بر موقع افتتاح جلسه سالانه قادیان) تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - ہم پھر ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اُس کے دین کی خدمت اور اُس کے محبوب محمد رسول اللہ اللہ کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.آج وہ حسین ترین چہرہ جس سے سورج اور چاند روشن ہیں دنیا کی نگاہوں میں تاریک نظر آ رہا ہے.کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان سب کی نگاہیں آج اُس چہرہ سے ہٹ کر دوسری چیزوں پر پڑ رہی ہیں.وہ محبت اور وہ اخلاص اور وہ تعلق جو کسی زمانہ میں مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا آج اس میں بے انتہاء کمی آچکی ہے.ایک وقت جس کے معمولی اشارے پر لوگ بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے میں فخر سمجھتے تھے آج اُس کی آواز اور اُس کی پکار کو سننے کے لئے بھی کان تیار نہیں ہیں.آسمان سے اور عرش سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پکارتا ہے اور جنت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آوازیں دے رہی ہے مگر مسلمان ہیں کہ اپنے کانوں میں روئی ڈالے ہوئے ہیں نہ ان پر عرش کی پکار کا اثر ہوتا ہے اور نہ جنت کی آوازیں سنتے ہیں.یاسن سکتے ہی نہیں بلکہ لہو ولعب اور دنیا کے کاروبار سے انہیں فرصت ہی نہیں.کفر روز بروز اسلام کو کھائے جا رہا ہے، اسلامی روحانیت کچلی گئی ہے ، شیطان پھر آزاد ہو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۰۲ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ ء گیا ہے اور اُس نے پھر اسلام پر حملہ شروع کر دیا ہے.مسلم ہر جگہ اور ہر میدان میں اور ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں شکست کھا رہا ہے، اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہو رہا ہے اور کفر کا جھنڈا اونچے مقام پر اہرارہا ہے مگر پھر بھی مسلمانوں کے دلوں میں کوئی جوش ، کوئی حرارت اور کوئی غیرت پیدا نہیں ہوتی.اسلام دن بدن کمزور ہورہا ہے اور روز بروز گرتا جا رہا ہے ایسی حالت میں صرف اور صرف ایک ہی جماعت ہے جس نے اسلام کی امداد اور حفاظت کا بیڑہ اُٹھایا ہے اور وہ جماعت احمد یہ ہے.آج سے پچاس سال پہلے اسلام کی خدمت اور حفاظت کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا اور آج کے دن تک کوئی گھڑی ، کوئی لمحہ اور کوئی ساعت ایسی نہیں گزری کہ جس میں آپ یا آپ کی جماعت کی طرف سے اسلام کی خدمت نہ ہوئی ہو مگر جس حالت میں اس وقت آپ کی جماعت ہے اس کی تعداد اور طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کمزور اور قلیل التعداد جماعت زبر دست اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کفر کو زیر کر لے گی اور اس پر غالب آ جائے گی لیکن خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں اور کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی.ہمیں وہ نظارے بھی یاد ہیں جب دو چار آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے اور آج ہم یہ نظارہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں، دنیا کی ہر قوم میں ، ہر نسل میں اور ہر زبان بولنے والوں میں احمدی موجود ہیں اور ان میں ہمت اور اخلاص اور فداکاری کے جذبات اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور وہ قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے ہیں.آج خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کو روک رہا ہے ورنہ وہ آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.پر دانے موجود ہیں شمع ہی انہیں قربان ہو جانے سے روک رہی ہے اور وہ جل جانے کی خواہش اور تمنا میں جل رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تھوڑی سے بڑھ کر اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے اور اتنا وسیع کام اس کے سامنے ہے کہ جو قو میں اس مقام پر پہنچ جاتی ہیں وہ یا تو اوپر نکل جاتی اور سب رُکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہیں یا پھر تنزل کے گڑھے میں گر جاتی ہیں.دراصل یہ مقام سب سے زیادہ خطر ناک ہوتا ہے بہت لوگ یہاں سے جب گرتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں چلے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۰۳ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ ء گئے مگر بہت اس مقام سے آگے بڑھ کر اِس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کا عرش نظر آنے لگتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سنتے اور اس کے خاص انعامات کے مورد بنتے ہیں.خدا اُن کا ہو جاتا ہے وہ خدا کے ہو جاتے ہیں.پس اس نازک وقت اور نازک مقام کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور آج آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ یا تو ہما را قدم نہایت بلند مقام کی طرف اُٹھے گا یا پھر نیچے کو گر جائے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت اور ارادہ کے ماتحت اس بات کا ارشادفرمایا کہ میں اعلان میں اقرار کروں کہ میں وہی ہوں جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء کے اعلان میں خبر دی ہے اور جس کے متعلق لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی لے پھر فرمایا:.تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ز کی غلام تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا“ ہے سوخدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے ماتحت میں نے پہلے بھی اعلان کیا اور اس موقع پر بھی اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کا میں ہی مصداق ہوں مجھے کسی دعوی کی ضرورت نہیں اور کسی عزت کی خواہش نہیں.میری تو ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں جان دے دوں اور محمد علی کی کھوئی ہوئی وراثت آپ کے حضور پیش کر دوں.میں نے بارہا اپنے مولیٰ سے التجا کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہتا ہوں کہ الہی ! اگر میری مٹی بھی کسی ذلیل ترین مقام پر پھینک دینے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کچھ خدمت ہوسکتی ہے تو میری کسی لحاظ سے بھی کوئی پرواہ نہ کر اور محمد ﷺ کے مقام کی عزت کے لئے جو بھی قربانی کی
انوار العلوم جلد کا ۴۰۴ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء جانی ضروری ہو وہ مجھ سے لے اور مجھے توفیق دے کہ میری زندگی اور میری موت تیرے لئے اور تیرے رسول کے لئے ہو اور میری ہی نہیں میرے دوستوں اور میرے عزیزوں کی زندگیاں بھی اسی کے لئے ہوں.ہم تیرے دین کے لئے تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قائم کرنے والے ہوں.پس میں اب دعا کر کے اس جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے ہمارے دلوں میں کامل یقین اور ایمان پیدا کرے، ہم سب کو روحانی بینائی عطا کرے.کوئی ہم میں سے نابینا نہ مرے.وہ ہماری آنکھیں اِس طرح کھول دے کہ ہمارے سوتے جاگتے ، زندہ رہتے اور مرتے وقت خدا تعالیٰ ہمارے سامنے رہے اور وہ کسی وقت بھی ہم سے مخفی نہ ہو کیونکہ اُس سے ایک منٹ کی دوری بھی تباہی ہے.مادی ہزار آنکھ بھی اگر پھوٹ جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں مگر دین کی آنکھ ضائع نہ ہو.ہر حسین چہرہ ہم سے اوجھل ہو جائے تو ہو جائے مگر خدا تعالیٰ کا چہرہ اوجھل نہ ہو.سب دوست دعا میں شریک ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو با برکت بنائے.خدا تعالیٰ کا چہرہ ہمیں اس شان سے نظر آئے کہ پھر وہ ہم سے اوجھل نہ ہو.اسلام کو اس قدر بلندی حاصل ہو کہ آج جس مقام پر کفر ہے اسلام اس سے بہت بلند مقام پر پہنچے.دنیا کا ایک ہی بادشاہ ہو یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ایک ہی خالق اور رب ہو یعنی اللہ.تمام مجمع سمیت دعا کرنے کے بعد فرمایا.) دوستوں کو میں یاد دلاتا ہوں کہ یہ ایام خاص دعاؤں کے ہیں تمام احمدی جماعتوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے کہ اپنی جماعت کے سب لوگوں کو دین کے کام میں لگائے رکھیں اور ادھر اُدھر نہ پھرنے دیں.اسی طرح لجنہ اماء اللہ کو چاہئے کہ عورتوں میں یہ تبلیغ جاری رکھیں کہ نمازوں کی پوری طرح پابندی کریں، دعاؤں میں مصروف رہیں ، پردہ کا خیال رکھیں ، ایسے ہجوم میں پردہ کا خیال کم رکھا جاتا ہے لیکن اگر ہمارا کام اسلام کو قائم کرنا ہے تو اسی صورت میں قائم کرنا ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا ورنہ اگر کسی اور شکل میں قائم کریں گے تو یہ اسلام کی
انوار العلوم جلد کا ۴۰۵ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ ء خدمت نہ ہوگی بلکہ اسلام کی دشمنی ہوگی اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم نہ ہوں گے بلکہ آپ کے دشمن ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے افعال سے بچائے جو خدا اور اُس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہوں اور ایسے افعال کی توفیق دے جو خدا اور اُس کے رسول کو خوش کرنے (الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۴۴ء) والے ہوں.ا تذکرہ صفحہ ۱۳۶ ، ۱۳۷.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۰۶ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۴۰۷ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۴ء بر موقع جلسه سالانه قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ اب ایسا انتظام موجود ہے کہ باہر (مردانہ جلسہ ) سے بھی یہاں تقریر میں سُن لی جاتی ہیں اور باہر بھی مجھے تقریر کرنی ہوتی ہے اس لئے عورتوں اور مردوں میں مشترک تقریریں ہو جاتی ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا ضرورت تو نہیں تھی کہ میں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریر کروں مگر پھر بھی چونکہ بعض امورا ایسے ہوتے ہیں جو عورتوں کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی طرف عورتوں کو توجہ دلانا ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض دفعہ ضرورت پیش آسکتی ہے کہ میں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریر بھی کروں مگر گزشتہ سالوں میں عورتوں کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ میں ضرور اُن کے جلسہ میں الگ تقریر کیا کروں.یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ ہر انسان اپنا حق چاہتا ہے.میں اس تقاضا کو بھی رد نہیں کر سکتا لیکن میرے گلے کی حالت اس قسم کی ہے کہ تقریر بھی شروع نہیں کی اور گلا بیٹھ گیا ہے.میں حیران ہوں کہ اس دفعہ میں کیونکر اپنی تقریر میں مناسب طور پر کر سکوں گا.بہر حال میں کچھ نہ کچھ عورتوں کے جلسہ میں بھی کہنا چاہتا ہوں خصوصاً اس لئے کہ اس دفعہ بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں.ہماری الہامی کتاب یعنی قرآن مجید ایک ایسی زبان میں نازل ہوئی ہے جو زبان اپنے اندر معنی رکھتی ہے.یعنی اس میں ہر نام کے کوئی معنی ہوتے ہیں.باقی زبانوں میں اگر کسی چیز کا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۰۸ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات نام بدل کر اُس کی جگہ اور نام رکھ لیا جائے تو اُس کے معنوں میں فرق نہیں پڑے گا لیکن عربی کا نام اگر بدل کر اور نام رکھ دیا جائے تو یقیناً اس کے معنوں میں فرق پڑ جائے گا.مثلاً اُتم کا لفظ لے لو.اُتم کے معنی عربی زبان میں جڑا اور مقصود کے ہیں یعنی ایسی چیز جس میں سے اور چیزیں نکلیں اور جس کی طرف دوسرے متوجہ ہوں.اب اگر ماں کے لئے اُتم کی جگہ عربی میں کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے تو یہ معنی بالکل بدل جائیں گے لیکن اگر پنجابی میں یا اُردو میں ماں کی جگہ کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے مثلاً پاں کہ لیا یا تاں کہہ لیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا.چاہے ب.الفن کہہ لیں یات - الف - ن کہہ لیں یا د - الف - ن کہہ لیں اور جو چاہیں اس سے مراد لے لیں معنوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن عربی کے لحاظ سے اگر ہم نام کو بدل دیں تو وہ نام بے معنی ہو جائے گا.وہ صرف علامت ہوگی اُس کے کوئی معنی نہیں ہوں گے جیسے اُتم کا لفظ ہے اس کی بجائے عربی میں اگر ہم کم کہہ دیں گے تو وہ صرف علامت رہ جائے گی اس کے وہ معنی نہیں ہوں گے جو اُتم کے لفظ میں پائے جاتے ہیں.ماں کو عربی میں اُتم اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے بچوں کیلئے.دوسرے بچے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے محتاج ہوتے ہیں.پس اُتم کے معنی عربی زبان میں اُس چیز کے ہیں جو بطور جڑ کے ہو اور جس کی طرف دوسرے لوگ متوجہ ہوں اور ماں کو اسی لئے اُتم کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے نیز بچوں کی تربیت کا مرکزی مقام ہے جس کی طرف بچے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متوجہ ہوتے ہیں.اب اگر اُم کا لفظ بدل کر اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے تو اِس لفظ سے ہرگز یہ معنی پیدا نہیں ہوں گے جو اُتم کے لفظ سے پیدا ہوتے ہیں صرف ایک علامت رہ جائے گی.اسی طرح ہمارے قرآنِ مجید میں بنی نوع یعنی مرد اور عورت کا جو مشتر کہ نام ”انسان“ رکھا ہے.یہ ”انسان“ کا لفظ بھی ایک بامعنی لفظ ہے.اصل میں یہ لفظ انسان ہے جس کے معنی ہیں دو محبتیں.پس یہ لفظ جو مرد اور عورت دونوں پر مشتمل ہے اس کے معنی ہیں ایسا وجو د جو دو محبتوں کا ظاہر کرنے والا ہے.یعنی ایک طرف یہ لفظ اُس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان ہے اور دوسری طرف اُس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو بندوں کو بندوں سے ہے.پس انسان کے معنی ہیں وہ وجود جو ایک طرف خدا سے محبت کرنے والا ہو اور دوسری
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۰۹ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات طرف بندوں سے محبت کرنے والا ہو.ایسا وجود سوائے انسان کے دنیا میں اور کوئی نہیں.انسان میں اگر حیات پائی جاتی ہے تو دوسرے جانوروں میں بھی حیات پائی جاتی ہے، انسان دیکھتا ہے تو دوسرے جانوروں کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ بھی دیکھتے ہیں، انسان کے کان ہیں تو دوسرے جانوروں کے بھی کان ہوتے ہیں ، جس طرح انسان کھاتا پیتا ہے، اسی طرح وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ، انسان میں چلنے اور دوڑنے کی صفت پائی جاتی ہے تو باقی جانور بھی چلتے پھرتے اور دوڑتے ہیں، انسان کے نرومادہ ہوتے ہیں تو باقی جانوروں میں بھی نرومادہ ہوتے ہیں اور وہ بھی بچے جنتے ہیں اور پالتے ہیں لیکن ایک چیز جو انسان کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور جو چیز باقی جانوروں میں نہیں پائی جاتی وہ نسیت ہے جو بندے کو خدا سے ہوتی ہے.انسانوں میں ہی وہ لوگ نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ سے محبت کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی اُس کے دروازہ سے الگ نہیں ہوتے لیکن کسی حیوان میں یہ ملکہ نہیں پایا جاتا اس لئے حیوان اسی دنیا میں اپنی زندگی کو پورا کر لیتے ہیں اور مرنے کے بعد اُن کو دوبارہ زندگی نہیں ملتی لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتا ہے اور اپنی دائمی زندگی گزارنے کے لئے وہ ایک نئی سڑک پر قدم مارتا ہے جو سٹرک کبھی جنت میں سے ہو کر گزرتی ہے اور کبھی دوزح میں سے ہو کر گزرتی ہے.پس انسان کے معنی ہیں دو محبتیں رکھنے والا وجود.ایک خدا تعالیٰ سے محبت اور دوسرے بنی نوع انسان سے محبت.چنانچہ اسی نام کی وجہ سے اسلام نے مذہب کی جو حقیقت بیان کی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور انسان کو بنی نوع انسان سے ہمدردی اور محبت کرنا سکھائے.مذہب کی ساری تفاصیل یا خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کرنے کے متعلق ہوتی ہیں اور یا بنی نوع انسان سے نیک تعلق رکھنے کے متعلق ہوتی ہیں.نماز کیا ہے یہ اُس تعلق کا اور اُس محبت کا اظہار ہے جو بند سے اور خدا کے درمیان ہوتی ہے.جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو یاد کرتی ہے جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کو یاد کرتا ہے، جس طرح بھائی بھائی کو یاد کرتا ہے، جس طرح دوست دوست کو یاد کرتا ہے، جس طرح خاوند بیوی کو یاد کرتا ہے ، جس طرح بیوی خاوند کو یاد کرتی ہے اسی طرح ایک نیک انسان
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۰ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات اپنے خدا کو فراموش نہیں کرتا اور دن میں متعدد بار اپنے خدا کو یاد کرتا ہے.اسی کا نام عبادت ہے اور یہی نماز ہے.ہم دیکھتے ہیں جہاں حقیقی محبت ہو وہاں کوئی شخص کسی کو اُس کی یا د سے روک نہیں سکتا.ایک ماں کو کتنا ہی سمجھاؤ کہ وہ اپنے بچہ کی یا دچھوڑ دے، بچہ کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنی ماں کو یاد نہ کرئے ، دوست کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے دوست کو یاد نہ کرئے ، بھائی کو کتنا ہی کہو وہ اپنے بھائی کو یاد نہ کرے، باپ کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے بیٹوں کو یاد نہ کرے ، بیٹوں کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے باپ کو یاد نہ کریں ، بیوی کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے خاوند کو یا د نہ کرے یا خاوند کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنی بیوی کو یاد نہ کرے وہ قطعاً اس بات کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ جن کے ساتھ اُن کو محبت ہے وہ اُن کی یاد چھوڑ دیں کیونکہ اُن میں حقیقی محبت ہوتی ہے مگر انسانوں میں سے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے ہیں جو اپنے اندر انسانیت کی حقیقت نہیں رکھتے.وہ اپنے خدا کو بھلا بیٹھے ہیں اور وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کو یاد دلایا جائے کہ اُن کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہی اُن کا حقیقی مالک ہے.اگر اُن کو یہ بات یاد کرا دی جائے تو پھر وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کے دل میں خدا تعالیٰ کی یاد تازہ رکھی جائے اور پھر وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ یاد دلا دلا کر خدا تعالیٰ سے اُن کا تعلق مضبوط کیا جائے یہ ایک کمزوری ہے جو انسان میں حیوانیت کی وجہ سے آئی ہے.انسان چونکہ پیدائش کے لحاظ سے حیوانوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے جب اس پر حیوانیت غالب آجاتی ہے تو جہاں ہمیں ایسے انسان نظر آتے ہیں جو ہر قسم کے تعلقات پر خدا تعالیٰ کو ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کی محبت پر خدا تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہیں وہاں اس حیوانیت کے غالب آجانے کی وجہ سے ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے تعلق کو بھلا کر حیوانوں کی طرح کھانے پینے ، عیش اور آرام کرنے ، عمدہ اور آرائش کے سامان مہیا کرنے ، سیر و تفریح کرنے اور دنیا کی لذات حاصل کرنے میں ہی زندگی سمجھتے ہیں اور اُخروی زندگی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اُن کی ساری کی ساری خواہشات اس دنیا کی زندگی سے وابستہ ہوتی ہیں.مجھے اس پر تعجب آتا ہے.جس طرح ہر انسان موت سے ڈرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جس طرح
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۱ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات موت کو اپنے سے دُور رکھنے کے لئے ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے اگر ہماری زندگی صرف اسی دنیا کے ساتھ وابستہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ موت سے بچنا چاہتا ہے.ہمیں اس زندگی میں ہزار ہا بلکہ کروڑہا انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کے پاس دنیا کے بہترین سامانوں سے مال و دولت ، آرام و آسائش اور اس دنیا کی باقی تمام لذتوں سے کچھ بھی موجود نہیں مگر با وجود اس کے وہ اس دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں.اُن کے اندر اس خواہش کا پایا جانا بتا تا ہے کہ کسی اور اہم مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُن کو پیدا کیا گیا ہے.اگر کسی اور اہم مقصد کے لئے اُن کو پیدا نہیں کیا گیا تو پھر وہ کونسی چیز ہے جو با وجود تکالیف کے اُن کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور زندہ رہنے کی اور موت سے بھاگنے کی تلقین کرتی ہے.پس یہ وہی خواہش اور وہی حس ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے کہ وَ ما خَلَقْتُ الْجِنِّ و الانس إلا ليعبدون ) کہ جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا گیا ہے تا کہ وہ عبادت الہی میں اپنا وقت گزاریں اور آئندہ زندگی کے لئے روحانی آنکھیں پیدا کریں جو خدا تعالیٰ کو دیکھنے کے قابل ہوں.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے مَنْ كَانَ في هذا أَعْمَى فَهُوَفِي الآخِرَةِ أعمى کے یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے اور اُس کی روحانی آنکھیں نہیں جو خدا تعالیٰ کو دیکھ سکیں آخرت میں بھی وہ اندھا ہی اُٹھایا جائے گا کیونکہ آخرت میں اُس کی روحانی آنکھیں اسی دنیا کی رؤیتِ الہی سے پیدا ہوں گی.پس جس نے اس دنیا میں خدا تعالیٰ کو دیکھنے والی روحانی آنکھیں پیدا نہ کی ہوں گی وہ اگلے جہان میں بھی نابینا اُٹھایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکے گا.قرآن مجید میں آتا ہے کہ اس قسم کے لوگ جب اندھے اُٹھائے جائیں گے تو وہ کہیں گے ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا تو خدا تعالیٰ اُن کو یہ جواب دے گا کہ تم پچھلے جہان میں اندھے تھے اور تم نے میرے دیکھنے والی آنکھیں پیدا نہیں کیں جو اسی جہان میں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اب تم مجھے نہیں دیکھ سکتے.اُس وقت ایسے لوگ کہیں گے کہ اگر ہم تجھے دیکھنے کے قابل نہیں تو ہماری اس زندگی کا فائدہ ہی کیا ہے.پس یہ خدا سے تعلق پیدا کرنے اور دائی زندگی حاصل کرنے کی خواہش انسان کے اندر مخفی ہے جسے یہ ظاہر میں بھلا بیٹھا ہے مگر یہی خواہش اُس کو اندر ہی اندر زندہ رہنے کی تلقین کرتی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۲ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی سے منع کیا ہے.اگر انسان کو کھانے پینے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پھر اس کو خود کشی پر سزا ملتی ہے؟ ایک انسان کی اپنی مرضی ہے خواہ وہ کھانے پینے کے لئے زندہ رہے خواہ زندہ نہ رہے اُس کو اِس دنیا سے جُدا ہونے پر سزا دینے کی وجہ کیا ہے؟ یہی اور صرف یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس دنیا میں انسان اگلے جہان کے لئے تیاری کرے.اگر وہ اگلے جہان کے لئے تیاری کرنے میں سستی یا غفلت کرتا ہے اور اس وقت کو ضائع کر دیتا ہے تو وہ مجرم ہے کیونکہ یہ وقت ایسا ہی ہے جس طرح سکول میں طالب علم کی پڑھائی کا وقت ہوتا ہے.اگر کوئی طالب علم کلاس سے غیر حاضر رہے تو اُس کو سزا ملتی ہے کہ اُس نے اپنے پڑھائی کے وقت کو ضائع کیا اور تعلیم حاصل کرنے میں کو تا ہی کی.اسی طرح اگر کوئی شخص اس دنیا کی زندگی میں اگلی زندگی کے لئے تیاری نہیں کرتا تو وہ سزا کا مستحق ہے کہ اُس نے اپنے وقت کو ضائع کر دیا.پس انسان کے لفظ میں خدا تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا نام انسان اس لئے رکھا گیا ہے کہ تم دو محبتیں اور دو تعلق پیدا کر و.ایک خدا سے محبت کرو اور اُس سے تعلق پیدا کرو اور دوسرے بنی نوع انسان سے محبت اور اُس سے تعلق پیدا کرو.عبادت کے جتنے حصے ہیں وہ سارے کے سارے پہلی شق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کے ساتھ اُن کا تعلق ہے.اور باقی جتنے اس قسم کے احکام ہیں کہ جھوٹ نہ بولو، چوری نہ کرو، خیانت نہ کرو، فریب نہ کرو، دھوکا نہ دو، غیبت نہ کرو، چغل خوری نہ کرو، ترش روئی سے پیش نہ آؤ ، ہشاش بشاش رہو، نیک سلوک کرو ، بزرگوں کی عزت کرو، اپنے اموال میں مستحقین کا حصہ قائم کرو، دوسروں کے دُکھوں اور غموں میں شریک ہو، عدل وانصاف کا معاملہ کرو، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو یہ سارے کے سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں.پس انسان اُس وجود کا نام ہے جو دو محبتیں اور دو تعلق رکھنے والا ہو ایک خدا سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے.اگر یہ دونوں باتیں اُس میں پائی جاتی ہیں تو وہ انسان ہے اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تو وہ حیوان ہے خواہ اُس کی شکل انسانوں جیسی ہو کیونکہ خالی شکل کوئی چیز نہیں صرف حقیقت ہی ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے ورنہ خالی شکل تو ایسی ہی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۳ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات ہے جس طرح کسی چیز کی تصویر ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.بڑے سے بڑے پہلوان کی تصویر ایک بچہ پھاڑ کر پھینک سکتا ہے اگر رستم کی تصویر کا غذ پر بنی ہوئی ہو تو دو سال کا بچہ آسانی سے اُسے پھاڑ سکتا ہے.پس وہ انسان جس کے اندر انسانیت والی یہ دو باتیں نہیں پائی جاتیں وہ بھی محض ایک تصویر ہے جس کی خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی قدرا اور کوئی عزت نہیں.آگے پھر انسان کے دو حصے ہیں ایک آدم کہلاتا ہے اور ایک کو حوا کا نام دیا گیا ہے اور جب ہم آدمی کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں آدم کی اولاد، مرد ہو یا عورت.بچوں کو ڈرانا ہو تو عورتیں حوا کا نام لے کر ڈراتی ہیں وہ بھی یہی حوا ہے.بعض بُڑھیا عورتیں جن کے دانت نکل چکے ہوں کمر خمیدہ ہو چکی ہو اُس کے قریبی رشتہ دار بچے بھی اُس کو دیکھ کر ڈرنے لگتے ہیں یہ خیال کر کے کہ اتنے ہزار سال پہلے کی دادی حوا اگر آ جائیں تو یقیناً اُس کو دیکھ کر ڈر کے مارے بچے بھاگتے پھریں.حوا حوا کہہ کر عورتیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں مگر یہ حوا دراصل وہی دادی حوا ہیں جو آدم علیہ السلام کی بیوی تھیں.آدم علیہ السلام کا نام تو قرآن مجید میں آتا ہے اور حوا کا نام اسلامی لٹریچر اور احادیث وغیرہ میں مذکور ہے.یہ دونوں نام یعنی آدم اور حوا بامعنی لفظ ہیں.آدم کے معنی ہیں سطح زمین پر رہنے والا جو کھیتوں میں کام کرتا ہے ، تجارتیں کرتا ہے ، سفر کرتا ہے.عربی میں آدیم الارض سطح زمین کو کہتے ہیں اور آدم اُس وجود کا نام ہے جو سطح زمین پر رہتا ہے اور میدانوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتا ہے.اور حوا کا لفظ خواى يَحْوِی سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا.کسی چیز کو جمع کر لینا یا کسی چیز کا مالک ہو جانا تو حوا کے معنی ہیں جو بچوں کو گھیر کر اپنے اردگرد جمع کر لیتی ہے اور اُن پر حکومت کرتی ہے اور گھر کی مالکہ کہلاتی ہے.پس یہ دونوں نام با معنی ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس کو ہم آدم کہتے ہیں واقعہ میں اُس کا نام ہی آدم تھا یا اُس کی ان صفات کی وجہ سے اُس کا نام آدم رکھا گیا ہے اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں جس وجود کا نام حوا رکھا گیا ہے واقعہ میں اُس کا نام ہی تو تھا یا اس کی ان صفات کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے.بہر حال جو کچھ بھی ہواگر فی الواقعہ یہ اُن کے نام تھے تو اُن کے یہ نام حقیقت کو ظاہر کرنے والے تھے اور اگر یہ اُن کی صفات تھیں تو پھر تو صفات ہی تھیں.پس آدم کے معنی ہیں جو محنت کرے ، میدانوں میں
انوار العلوم جلد ۷ ۴۱۴ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کام کاج کرے، کھیتوں میں ہل چلائے اور زمین کو درست کر کے رہنے کے قابل بنائے.اور حوا کے معنی ہیں وہ عورت جو گھر میں بیٹھتی ہے، بچوں کی نگرانی کرتی ہے اور گھر کی رانی کہلاتی ہے.پس ہر عورت جو آج بھی ان صفات کو اپنے اندر رکھتی ہے یعنی گھر کی نگرانی کرتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے وہ حوا ہے اور ہر شریف آدمی جو محنت کرتا ہے اور کام کرتا ہے اور زمین کو رہنے کے قابل بناتا ہے وہی انسان صحیح معنوں میں آدمی ہے.اور جو لوگ غفلت کی وجہ سے گھر میں بیٹھے مکھیاں مارتے ہیں اور محنت نہیں کرتے یا بعض امراء اور عیاش لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے باپ دادا کی کمائیاں کھاتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے وہ آدمی تو ہیں مگر صرف نام کے ، کام کے آدم نہیں کیونکہ آدم کے معنی ہیں جو باہر نکل کر کام کرے اور زمین کی درستی کر کے اُسے رہنے کے قابل بنائے.اسی طرح وہ عورتیں جو گھر کی خبر گیری نہیں کرتیں، بچوں کی تربیت نہیں کرتیں ، گھر کے تمام سامانوں کا انتظام نہیں کرتیں اور اپنی اولاد کی تربیت اس رنگ میں نہیں کرتیں کہ آئندہ نسل نیک متقی ، بہادر اور جری اور دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی کرنے والی اور دین کا علم حاصل کرنے والی ہو وہ اور ہیں حوا کی بیٹیاں صرف نام کی ہیں کام کی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے اردگر د جمع نہیں کیا اور صحیح طور پر گھر کی مالکہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا اور جیسا کہ گھر کی مالکہ کا حق تھا.بچوں کی بہتری اور اُن کی تربیت کا خیال رکھے اس حق کو ادا نہیں کیا اور اولاد کی نگرانی کا جو اُن پر فرض تھا اس فرض کو ادا نہیں کیا.پس وہ عورت جو بچوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے اُن کی بہتری اور اُن کی تربیت کے سامان نہیں کرتی اور گھر کے کاموں کی نگرانی نہیں کرتی وہ ہوا ہے مگر صرف نام کی نہ کہ کام کی.پس اگر ایک عورت حوا کی حقیقی بیٹی کہلانا چاہتی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ گھر کے انتظام کو درست رکھے، اولاد کی صحیح تربیت کرے، ایسی تربیت کہ وہ گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق ہو.مالک کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ماتحت اس کے فرمانبردار ہوں لیکن اگر ایک عورت بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتی تو اولا د نا فرمان ہوگی کیونکہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں یہ عادت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بات نہیں مانتے اور پھر اُن میں بدی کی عادت ترقی کرتی چلی جاتی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۵ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کہتے ہیں ایک آوارہ گر دلڑکا تھا.اُس کی ماں اُس سے بہت محبت کرتی تھی جو محبت غلط قسم کی تھی وہ اُس کو کسی بُرائی سے نہیں روکتی تھی.شروع شروع میں جب وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی چوری کرتا تو وہ اُسے منع نہ کرتی اور اگر کوئی اُس کی ماں سے شکایت کرتا تو کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں.یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اُس نے بڑی بڑی چوریاں شروع کر دیں اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی.آخر کسی کو قتل کرنے کے جرم میں پکڑا گیا اور اُس کو پھانسی کی سزا ملی.جب پھانسی کا وقت قریب آیا تو حکام نے کہا اگر تمہاری کوئی خواہش ہو یا کسی سے ملنا چا ہو تو ہم اس کا انتظام کر دیں.اُس نے کہا ہاں میری ماں کو بلو ا دو میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں.چنانچہ جب اُس کی ماں کو بلوایا گیا تو اُس نے اپنی ماں سے کہا میں کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں.ماں نے جب اپنا کان اُس کے قریب کیا تو اُس نے اتنے زور سے اُس کے کان پر کاٹا کہ وہ تڑپ اُٹھی.جیل کے ملازم جو قریب ہی کھڑے تھے یہ نظارہ دیکھ کر کہنے لگے ارے ظالم ! تم ابھی چند منٹ کے اندر پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے ہو پھر بھی ایسا ظلم کر رہے ہو یہ کہاں کی شرافت ہے کہ تم نے اس آخری وقت میں اپنی ماں کا کان کاٹ کھایا.اُس نے کہا آج اسی ماں کی وجہ سے تو مجھے پھانسی کی سزا ملی ہے اگر یہ میری صحیح تربیت کرتی تو آج میں بھی نیک انسان ہوتا لیکن اِس نے میری صحیح تربیت نہ کی.بچپن میں جب میں غلطیاں کرتا تو یہ ماں اُن غلطیوں پر پردہ ڈالتی اگر میں کسی کی کوئی چیز اُٹھا لاتا اور وہ اُس کی تلاش میں میرے پیچھے آتے تو یہ کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو تمہاری چیز نہیں لایا.اسی طرح آہستہ آہستہ میرے اخلاق بگڑتے گئے یہاں تک کہ میں ظالم، چور اور ڈاکو بن گیا اور آج میں ان گناہوں کی وجہ سے پھانسی کی سزا پانے والا ہوں.پس عورت اسی صورت میں صحیح معنوں میں حوا کی بیٹی کہلا سکتی ہے جب وہ بچوں کی صحیح تربیت کرے اور اُن کے اخلاق کی نگرانی کرے.اگر بچوں کے اخلاق کی نگرانی نہیں کرتی تو وہ ہرگز حوا کی بیٹی اور گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق نہیں.پس حوا کی بیٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولا د کی صحیح رنگ میں تربیت کریں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ ہی آتی ہے ، ہے کہ ماں کے قدموں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۶ صلى الله لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کے نیچے جنت ہے.یہ کتنا لطیف فقرہ ہے اور آنحضرت ﷺ نے ماں کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے.عام طور پر لوگ اِس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ ماں کی اطاعت اور فرمانبرداری میں جنت ملتی ہے یہ بھی درست ہے لیکن اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ در حقیقت قوم میں جنت تبھی آتی ہے جب مائیں اچھی ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں.اگر مائیں اچھی نہ ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت نہ کریں تو اولا د بھی کبھی اچھی نہیں ہوگی اور جس قوم کی اولا دا چھی نہیں ہو گی اُس قوم میں جنت بھی نہیں آئے گی.پس در حقیقت قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ سے ہی آتی ہے.قوم کی مائیں جس رنگ میں بچوں کی تربیت کریں گی اُسی رنگ میں اُس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے یا بُرے پیدا ہوں گے.اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت کریں گی تو اُس قوم کے کاموں کے نتائج اچھے پیدا ہوں گے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی اور اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت نہیں کریں گی تو اس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے پیدا نہیں ہوں گے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گی.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ اگر کسی شخص کے ہاں تین لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ شخص جنت کا مستحق ہو جائے گا.ایک صحابی نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! اگر کسی کے تین لڑکیاں نہ ہوں بلکہ دو ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے دولڑ کیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ بھی جنت کا مستحق ہو جائے گا.پھر آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے ہاں ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اُس کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ جنت کا مستحق ہو جائے گا.ہے صلى الله الله اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے عورتوں کو تعلیم دلانے کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے.حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا.مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا ہے کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.حقیقت یہی ہے کہ جب تک دنیا پر یہ ظاہر نہ کر دیا جائے کہ اسلام نے عورت کو وہ درجہ دیا ہے اور عورتوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اس میں اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اُس وقت ہم غیروں کو اسلام کی
انوار العلوم جلد کا ۴۱۷ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات طرف لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک غیر مذہب کا آدمی قرآن مجید کا مطالعہ اور اس پر غور اور اس پر عمل تو تب کرے گا جب وہ مسلمان ہو جائے گا.مسلمان ہونے سے پہلے تو وہ ہمارے عمل اور ہمارے نمونہ سے ہی اسلام کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے.پس عورتوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے.قادیان میں تو اس کام کے لئے ہر قسم کی جد و جہد ہو رہی ہے.یہاں تعلیم کا انتظام بھی موجود ہے.لڑکیوں کے لئے مدرسہ اور دبینیات کا کالج بھی ہے مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ کام ہمارے بس کا نہیں بلکہ یہ کام تمہارے ہاتھوں سے ہوسکتا ہے جب تک تم ہماری مدد نہ کرو اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو اور جب تک تم اپنی زندگیوں کو اسلام کے فائدہ کے لئے نہ لگاؤ گی اُس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اس کے اندر الگ الگ جذبات پیدا کئے ہیں.عورت مرد کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مردعورت کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا پس چونکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات پہچاننے سے قاصر ہیں اس لئے مردوں کی صحیح تربیت مرد ہی کر سکتے ہیں اور عورتوں کی صحیح تربیت عورتیں ہی کر سکتی ہیں.ہم عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتے ہمارے دلوں میں تو مردوں والے جذبات ہیں عورتوں کے دُکھ اور اُن کی ضروریات عورتیں ہی سمجھ سکتی ہیں اور وہی اُن کے شکوک کا ازالہ اور اُن کی مشکلات کا حل اور اُن کی صحیح اصلاح کر سکتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے وہی مذہب مفید ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.اگر انسان مذہب بنائے گا اور اُس مذہب کا بنانے والا مرد ہو گا تو وہ صرف مردوں کے جذبات اور مردوں کے خیالات کو ہی ملحوظ رکھے گا وہ عورتوں کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گا.اور اگر اُس مذہب کو بنانے والی عورت ہو گی تو وہ صرف عورتوں کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کو ملحوظ رکھ سکے گی اور مردوں کے جذبات اور مردوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گی.پس اس خلیج کو جو مرد اور عورت کے درمیان حائل ہے اگر کوئی وجود پاٹ سکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی ہے اور وہی مذہب ساری دنیا کے لئے مفید ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.
۴۱۸ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات انوار العلوم جلد ۱۷ خدا تعالیٰ ہی ہے جس نے مردوں کو بھی پیدا کیا ہے اور عورتوں کو بھی ، اور جو عورتوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور مردوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے اور مردوں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے اور مردوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کے جذبات کو بھی سمجھتا ہے اور مردوں کے جذبات کو بھی جانتا ہے قرآن مجید میں آتا ہے.مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيْنِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا تبغين ٥ وہ کہ اس دنیا میں دو دریا پاس پاس اور اکٹھے بہتے ہیں مگر باوجود پاس پاس اور ا کٹھے بہنے کے آپس میں ملتے نہیں.یہ دو دریا مرد اور عورت ہی ہیں جو ایک دوسرے کے پاس پاس رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے اُن کو محبت اور پیار بھی ہوتا ہے.بہن بھائی سے محبت کرتی ہے اور بھائی بہن سے محبت کرتا ہے، خاوند بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیوی خاوند سے محبت کرتی ہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کی خاطر بعض دفعہ اپنی جانیں بھی قربان کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی عورت عورت ہی ہے اور مرد مرد ہی ہے اِن دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے اور یہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے سوائے اِس کے کہ خدا تعالیٰ میں ہو کر آپس میں مل جائیں یہی ایک رشتہ ہے جو ایک دوسرے کو آپس میں ملاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس لئے مجھے کہا ہے کہ عورتوں کی اصلاح کرو کہ میں امام ہوں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کام تمہاری مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.تم ہی ہو جو یہ کام کر سکتی ہو.تم ہی ہو جو اسلام کی ترقی کی داغ بیل ڈال سکتی ہو.یہ کام صرف تمہارے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے اور تمہاری مدد اور تعاون کے بغیر اس کام میں کامیاب ہو ناممکن نہیں.پس میں یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا تا ہوں کہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.پس جو عورتیں اسلام کا درد رکھتی ہیں اور اس کی ترقی چاہتی ہیں اور اپنے اندرا خلاص رکھتی ہیں اُن کا فرض ہے کہ عورتوں کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوں.میں نے عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم کی ہوئی ہے لجنہ کو چاہئے کہ وہ اپنی منظم کو مکمل کرے اور عورتوں کی اصلاح اور اُن کی تربیت اور اُن کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرے اور عورتوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے جن سامانوں کی ضروت ہے وہ سامان مہیا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۱۹ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کرے.قادیان میں تو لجنہ اماءاللہ دیر سے قائم ہے باقی سارے ہندوستان میں چالیس پچاس لجنائیں ہیں حالانکہ اس کے مقابل مردوں کی آٹھ سو سے اوپر انجمنیں ہیں.جہاں مردوں کی آٹھ سو سے او پر انجمنیں ہیں وہاں عورتوں کی چالیس پچاس لجناؤں کے معنی یہ ہیں کہ ابھی تک عورتوں کا بیسواں حصہ بھی منظم نہیں ہوا.کام کا سوال تو دوسری چیز ہے پہلا کام تو یہی ہوتا ہے کہ تنظیم مکمل کی جائے جب تک تنظیم کے سامان ہی پیدا نہ ہوں اُس وقت تک آگے کام کس طرح ہوسکتا ہے.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جتنی عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہیں اگر اُن کے ہاں لجنہ اماءاللہ قائم نہیں ہے تو وہ یہاں سے واپس جا کر لجنہ اماءاللہ قائم کریں اور اگر وہاں لجنہ اماء اللہ قائم کرنے کے سامان نہ ہوں مثلاً وہاں کوئی پڑھی لکھی عورت نہ ہو جو کام کر سکے تو وہ مرکزی لجنہ اماءاللہ سے مل کر بات کرتی جائیں اور ہدایات لے لیں اور اپنا نام و پتہ وغیرہ اُن کو لکھاتی جائیں تاکہ ان کے ہاں لجنہ کے قیام کا سامان کیا جائے.اگر ہم عورتوں کی اصلاح کا کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ عورتیں ہوں وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے.لجنہ کے معنی ہیں کمیٹی.اردو میں جس کو کمیٹی کہتے ہیں عربی میں اس کا نام لجنہ ہے پس ہر احمد یہ جماعت میں مستورات کی ایک کمیٹی ہو جہاں پڑھی لکھ عورتیں موجود ہوں وہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے خط و کتابت کر کے قواعد وغیرہ منگوالیں اور اپنے ہاں کی عورتوں کو جمع کر کے اُن کو وہ قواعد وغیرہ سُنائیں اور لجنہ قائم کریں.اور جہاں پڑھی لکھی عورتیں موجود نہ ہوں وہ کسی مرد سے خط لکھوا لیں اور مرکزی لجنہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں اور اگر وہ عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہوں تو وہ خود لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کارکنوں سے مل کر اپنی ضرورتیں ان کے سامنے بیان کریں تا کہ مرکزی لجنہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مسئلہ کو حل کر سکے اور ہر جماعت میں لجنہ قائم ہو سکے.پس جب تک تمام عورتوں تک آواز نہ پہنچائی جا سکے اُس وقت تک کام نہیں ہو سکتا اور آواز پہنچانے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تمام عورتوں کو منظم کیا جائے اور ہر گاؤں اور ہر قصبہ اور ہر شہر میں لجنا ئیں قائم کی جائیں.اس وقت ہندوستان سے باہر بھی بعض جگہوں پر لجنا ئیں قائم ہیں لیکن نہ تو ہندوستان کے اندر پوری طرح کام ہو رہا ہے اور نہ باہر ہی کام ہو رہا ہے پس میں
انوار العلوم جلد ۷ ۴۲۰ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات جماعت کی خواتین کو خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہاں سے یہ پختہ ارادہ کر کے جائیں کہ اپنے شہر اور اپنے گاؤں میں لجنہ قائم کئے بغیر وہ دم نہیں لیں گی اور اگر اُن کے ہاں پڑھی لکھی عورتیں نہ ہوں اور خط و کتابت کرنے میں دقت ہو تو وہ کسی مرد سے خط لکھوا لیں اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں یا مجھے خط لکھوا دیں میں اُن کی ضروریات پورا کرنے کا انتظام کرادوں گا.میرا منشاء ہے مبلغین کے سپر دبھی یہ کام کیا جائے کہ جہاں جہاں وہ جائیں وہاں لجنہ اماءاللہ ضرور قائم کریں اور اس سال کے اندر اندر ہر گاؤں ، ہر قصبہ اور ہر شہر میں یہ کام ہو جائے.اس وقت گاؤں تو الگ رہے کئی شہروں میں بھی ابھی لجنا ئیں قائم نہیں.پس اس سال اس کے لئے پوری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ۱۹۴۵ء کے اندر اندر ہر جماعت میں عورتوں کی تنظیم اور لجنہ کا قیام ہو جائے تاکہ خدا تعالیٰ توفیق | دے تو دوسرے سال ہم عورتوں کی اصلاح اور تربیت کی طرف قدم اُٹھا سکیں.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو بھی میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دفتر کو مضبوط کرے اور اپنے کام کی اہمیت کو سمجھے.اس وقت تک قادیان کی لجنہ اماءاللہ کو ہی لجنہ مرکز یہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ قادیان کی لجنہ دوسرے شہروں کی لجناؤں کی طرح الگ ہو اور لجنہ مرکز یہ الگ ہو.پھر لجنہ مرکز یہ چھ سات مختلف کاموں کے لئے مختلف سیکرٹری مقرر کرے اور اُن کے الگ الگ دفاتر بنا کر جن جماعتوں کا اُنہیں پتہ ہو اُن کے ساتھ خط و کتابت کریں اور جن جماعتوں کا اُنہیں علم نہ ہو اُن کا پتہ صدر انجمن احمدیہ کے دفتر سے لے لیں اور پھر وہاں کے مرد سیکرٹری سے خط و کتابت کر کے وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کر لیں اور پھر وہاں پر لجنہ قائم کرنے کی کوشش کریں.پس ایک طرف تو میں ہر عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہاں سے وہ اس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ وہاں جا کر ضرور لجنہ اماءاللہ قائم کرے گی اور دوسری طرف میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس سال کے اندراندر ہندوستان کے ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں ضرور لجنہ اماءاللہ قائم کر دے گی اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بنا ئیں قائم کرنے کی کوشش کرے گی.میں دونوں کو اس لئے توجہ دلاتا ہوں کہ بعض دفعہ افراد سستی کر جاتے ہیں اور بعض دفعہ مرکز شستی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۱ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کر جاتا ہے اس لئے میں نے دونوں کو توجہ دلا دی ہے کہ اگر مرکز شستی کرے گا تو افراد اس سستی کو دور کرنے کی طرف مرکز کو توجہ دلا سکیں گے اور اگر افراد شستی کریں گے تو مرکز اُن کی اصلاح کی کوشش کرے گا.اس وقت تک مرکزی لجنہ کا قصور ہے اور اُن کی غلطی ہے کہ ابھی تک اُنہوں نے اپنے دفتر کو منظم نہیں کیا.بڑے کام بغیر کسی عملہ کے نہیں ہو سکتے میں نے کئی دفعہ لجنہ کی عورتوں کو توجہ دلائی کہ وہ دفتر میں ایسی مستقل کا رکن عورتیں مقرر کریں جو پورا وقت دفتر میں کام کریں.آخر عورتیں مدرسوں میں پڑھاتی ہیں.ڈاکٹری کرتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ مستقل طور پر کام کرنے والی عورتیں دفتر کو نہ مل سکیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ ایسی عورتیں مل سکتی ہیں جو مناسب گزاره پر کلرک یا سیکرٹری کے طور پر باقاعدہ دفتر میں کام کریں اور باہر کی لجنات سے خط و کتابت کریں.اس وقت یہ کام ایسی عورتوں کے سپرد ہے جن کو کبھی فرصت ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی اس لئے وہ اِس رنگ میں کام نہیں کر سکتیں جس رنگ میں کہ ہونا چاہئے.میں نے خدام کو بھی شروع شروع میں نصیحت کی تھی کہ اپنے دفتر میں مستقل کا رکن رکھو اور اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ ایسے کارکنوں کو گزارے کے لئے کچھ رقم دینی پڑے گی کیونکہ جب تک تم مستقل کا رکن نہیں رکھو گے اُس وقت تک تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.چنانچہ خدام نے ایسے کارکن رکھے اور بہت حد تک ہندوستان میں اُن کی تنظیم ہو چکی ہے اسی طرح نجنہ بھی جب تک مستقل کا رکن دفتر میں مقرر نہیں کرے گی اُس وقت تک وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ بغیر مستقل طور پر کام کرنے والی عورتوں کے وہ اس کام میں کامیاب ہوسکیں گی.شاید عورتیں آج سے پانچ سال پہلے منظم ہو جاتیں اگر مرکزی دفتر میں مستقل طور پر کام کرنے والی کلرک عورتیں مقرر ہوتیں جو باقاعدہ باہر کی عورتوں سے خط و کتابت کرتیں.پس میں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنوری ۱۹۴۵ء میں وہ اپنے کام کی سکیم مرتب کر لیں اور ایسی کلرک عورتیں اپنے دفتر میں مقرر کریں جن کا یہ کام ہو کہ وہ ہر روز بیرون جات کی عورتوں سے خط و کتابت کریں اور جہاں کے پتے ان کو معلوم نہ ہوں صدرانجمن کے ذریعہ سے وہاں کے مرد سیکرٹریوں کے پتے دریافت کر کے اُن کو خط لکھ کر وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کرلیں اور پھر ان عورتوں سے خط و کتابت کر کے وہاں لجنہ قائم کریں.اس طرح جب ہر جگہ لجنہ اماءاللہ
انوار العلوم جلد کا ۴۲۲ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات قائم ہو جائے گی تو اُن کی ضرورتوں کا لجنہ مرکز یہ کو علم ہوتا رہے گا اور اُن کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ ہو سکے گی.اگر کسی جگہ قرآن مجید جاننے والی کوئی عورت نہ ہوگی تو وہاں کی عورتیں لجنہ مرکز یہ کولکھیں گی کہ ہمارے لئے اُستانی مقرر کرو جو ہمیں قرآن شریف پڑھائے.اگر کسی جگہ اُردو جاننے والی کوئی عورت نہیں ہوگی تو وہاں کی عورتیں ، لجنہ مرکز یہ کولکھیں گی کہ کسی اُستانی کا انتظام کیا جائے جو ہمیں اُرود پڑھائے تا کہ ہم سلسلہ کے اخبار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ سکیں.تو وہاں کی لجنہ ، مرکزی لجنہ سے خط و کتابت کر کے اپنی ضرورتیں اُن کے سامنے بیان کرے گی اور لجنہ مرکزیہ کا کام ہوگا کہ اُن کی اس قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے.پس جب تک عورتوں کی تربیت کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کام نہیں بن سکتا.عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشہ کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آ سکتا ہے لیکن اُس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے.پس جب تک افراد کی درستی نہ ہو اُس وقت تک قوم کبھی درست نہیں ہو سکتی کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے پس لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے بہت بڑا کام کرنا ہے جو یہ ہے کہ جماعت کی تمام عورتوں کو اس قابل بنادیا جائے کہ وہ دین کی باتوں کو پڑھ کر اُن پر غور کر سکیں اور اُن کو سمجھ سکیں.جب دینی باتوں کی تفصیلات پر غور کرنے کا مادہ اُن کے اندر پیدا ہو جائے گا اس کے بعد پھر یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکیں اور دین کے لئے مفید کام کر سکیں.جس طرح انسان کا ہاتھ ہی ہوتا ہے جو سارے کام کرتا ہے لیکن بندھا ہوا یا زخمی ہاتھ کیا کام کر سکتا ہے اسی طرح عورتیں بے شک قیمتی اور مفید وجود ہیں جو بہت کام کر سکتی ہیں لیکن پہلے ان کو مفید اور کام دینے کے قابل بنانا پڑے گا.اور جس طرح پہلے ہیرے کو تراشا جاتا ہے اور پھر وہ مفید اور زینت کا موجب ہوتا ہے اسی طرح عورتوں کی بھی اصلاح کرنی پڑے گی پھر وہ دین کے لئے مفید ہو سکیں گی.پس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ابھی بہت لمبی منزل طے کرنی ہے اور بہت بڑا کام اُس کے سامنے ہے جس کے لئے رات اور دن قربانی کی ضرورت ہے اور ایسی عورتوں کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کریں جس طرح مرودں نے اپنے آپ کو وقف
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۳ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات کیا ہے.پس میں لجنہ مرکزیہ کو ایک مہینہ تک کی مہلت دیتا ہوں کہ اس مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری ۱۹۴۵ء ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں.دفتر کے لئے زمین بھی خریدی جا چکی ہے جو امم طاہر مرحومہ کی یاد گار ہے اس کی قیمت قرض لے کر ادا کر دی تھی.یہ جگہ دار الانوار کو جاتے ہوئے پر لیس کے قریب ہے جہاں سٹرک کا موڑ ہے وہاں لجنہ کے دفاتر اچھی طرح بن سکتے ہیں.یہ جگہ خالص احمدی علاقہ میں ہے جہاں عورتوں کو جمع ہونے میں کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی وہاں سے قریب ہیں جہاں سے ضرورت کے موقع پر ہر قسم کی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں.جنگ کی وجہ سے پیدا ھمد ہ مشکلات کی وجہ سے ہم فی الحال وہاں پر عمارت تو نہیں بنا سکتے زمین وقت پر ملک عمر علی صاحب سے خرید لی گئی تھی جو اُس وقت ملک صاحب نے سلسلہ کی خاطر قربانی کر کے چار ہزار روپیہ میں دیدی تھی جو اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے بھی سستی تھی اگر وہ اس سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کرتے تو ان کا حق تھا.میں نے اُم طاہر مرحومہ سے کہا کہ تم ملک صاحب سے کہو کہ سلسلہ کے لئے اس زمین کی ضرورت ہے بغیر کسی نفع کے وہ یہ زمین سلسلہ کے لئے دیدیں.چنانچہ اُنہوں نے بغیر کسی نفع لئے دیدی حالانکہ اُس وقت بھی اس کی قیمت اس رقم سے زیادہ تھی جو انہوں نے لی اور اب تو موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے وہ چھپیں تیس ہزار روپیہ کی ہے.اگر جنگ کے بعد وہاں عمارت بنائی جائے تو میرا ندازہ ہے کہ تھیں چالیس ہزاز روپیہ عمارت پر خرچ آئے گا جس میں کچھ کمرے دفاتر کے لئے مخصوص ہوں ، تقریروں وغیرہ کے لئے ایک ہال ہو جس میں ہزار ڈیڑھ ہزار عورتیں جمع ہو کر اپنے اجلاس وغیرہ کرسکیں ، کچھ کمرے بطور مدرسہ کے ہوں، کچھ کواٹر بن جائیں تا کہ دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والیاں وہاں رہ سکیں ، ایک لائبریری بھی ہو ان سب کاموں کے لئے کم از کم پندرہ بیس کمرے ہوں اور ایک ہال ہو جس میں اجلاس وغیرہ ہوسکیں.میرا اندازہ ہے کہ غالباً ت میں چالیس ہزار روپیہ اس عمارت پر خرچ آئے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مستورات کے لئے اس رقم کا جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں.میں نے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ گو ہماری جماعت کی مستورات دوسری مستورات سے تعلیم میں زیادہ نہیں ہیں مگر ان کے اندر خدا کے فضل سے قربانی کی ایسی روح اور ایسا اخلاص پایا جاتا ہے کہ چندہ کی جو تحریک بھی ان کے سامنے پیش کی جائے فورا ہی وہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۴۲۴ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات آج سے بیس سال قبل میں نے برلن میں مسجد بنانے کے لئے جماعت کی عورتوں میں چندہ کی تحریک کی تو اُس میں نمایاں کامیابی ہوئی اور فوراً ہی ستر ہزار روپیہ عورتوں نے جمع کر دیا.میں سمجھتا ہوں ہندوستان میں کسی قوم کی عورتیں بھی ایسی نہیں جن کے اندر قربانی کا ایسا مادہ پایا جا تا ہوجیسا کہ ہماری جماعت کی عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے.اگر ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی قوم کے برابر بھی ہماری تعداد ہوتی تو آج خدا کے فضل سے ہمارے مرد تو مرد ہماری عورتیں بھی دین کی خاطر اتنی رقم پیش کر دیتیں کہ یورپ کے مال دار ممالک کے لوگ بھی مذہب کی خاطر اتنی رقم پیش نہ کر سکتے اور نہیں کیا کرتے.اس وقت ہماری کل تعداد چار پانچ لاکھ ہے اور سکھوں کی تعداد جو ہندوستان میں سب سے چھوٹی اقلیت ہیں چالیس لاکھ ہے گویا ہم اُن سے بھی آٹھواں دسواں حصہ ہیں لیکن اگر ہماری تعدا د سکھوں کے برابر بھی ہوتی تو ہماری جماعت کی عورتیں مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع کر دیتیں کہ یورپ کی بڑی بڑی مالدار قومیں بھی مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع نہ کرسکتیں اور نہیں کیا کرتیں.پس قربانی کا مادہ تو ہماری جماعت کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے پایا جاتا ہے اور وہ ایمان بھی اسے حاصل ہے جو قربانی کرایا کرتا ہے.صرف ہماری طرف سے ہی کوشش میں کوتاہی ہوتی ہے.پس یہ سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا کیونکہ جب ہم خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ کام ہو جائے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے حُسن اور وہ کام ہو جاتا ہے.پس روپیہ کی دقت نہیں روپیہ تو ہماری جماعت کی عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی سے ادا کر دیں گی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لجنہ اماءاللہ کے مرکزی دفتر کو منظم کیا جائے اور مستقل کام کرنے والی عورتیں دفتر میں رکھی جائیں اور ہر جگہ کی عورتوں کے پتے دریافت کر کے اُن کے ساتھ خط و کتابت کی جائے اور ہر جگہ لجنہ قائم کی جائے اور وہاں کی عورتوں کو منظم کیا جائے.اس کے بعد جس طرح مردوں کے دو اجتماع ہوتے ہیں ایک یہ جلسہ سالانہ اور ایک مجلس شوری اسی طرح عورتیں بھی اس جلسہ کے علاوہ کسی اور موقع پر اپنا ایک دوسرا اجتماع کیا کریں اور ہندوستان کی تمام لجنات کی طرف سے نمائندہ عورتیں اس اجتماع میں شامل ہو کر اپنے کاموں پر غور کریں اور ایسے قواعد مرتب کریں جن سے وہ مزید ترقی کر سکیں.لجنہ مرکز یہ کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۵ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات چاہئے کہ اس موقع ( جلسہ سالانہ ) پر جو عورتیں باہر سے آئی ہوئی ہیں اُن سے مل کر مشورہ کرے کہ وہ اجتماع کس موقع پر رکھا جائے.اگر وہ اجتماع مجلس شورای کے موقع پر رکھ لیا جائے اور تمام لجنات کی مختلف کاموں کی سیکرٹریوں کو اُس موقع پر بلا لیا جائے تو شاید میں بھی اُس موقع پر وقت نکال کر انہیں ہدایات دے سکوں کہ وہ کس طرح اپنے کام کو منظم بناسکتی ہیں.جب وہ منظم ہو جائیں گی تو پھر اُن کی اصلاح کے لئے اگلا قدم یہ اُٹھایا جائے گا کہ ہر ایک عورت اپنی مروجہ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھ لے.در حقیقت جس قوم کو اپنی زبان میں لکھنا اور پڑھنا آ جائے اُس کیلئے باقی سارے علوم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے.جس کو ہم منطق یا لاجک (LOGIC) کہتے ہیں یہ وہی چیز ہے جو ہر مرد اور ہر عورت روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتے ہیں.جب تم کسی کی بیوقوفی پر ہنستی ہو تو اس کی یہی وجہ ہوتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ تم اُس کی بات کو غیر منطقی یا ان لاجیکل (UN-LOGICAL) سمجھتی ہو.جب تم کسی بات پر کہتی ہو کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ بات خلاف عقل ہے تو اسی کا نام غیر منطقی یا آن لاجیکل رکھ کر تمہیں ڈرایا جاتا ہے.ور نہ وہ کوئی اور علم نہیں جو مردوں کو آتا ہے اور تمہیں نہیں آتا بلکہ یہ وہی چیز ہے جو تم روز مرہ کی بول چال میں استعمال کرتی ہو.اسی قسم کی ہزار ہا باتیں ہیں جن کا نام تم غیر زبان میں سُن کر حیران اور مرعوب ہو جاتی ہو ورنہ وہ کوئی اور چیز نہیں ہوتی وہی چیز ہوتی ہے جو تمہاری عام بول چال میں پائی جاتی ہے.پس اگر تم اپنی اُردو زبان میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لو تو اُن تمام باتوں کو تم آسانی سے سمجھ سکتی ہو اور ہر علم سے فائدہ اُٹھا سکتی ہو اور آج جن علوم کے بڑے بڑے نام رکھ کر تمہیں مرعوب کیا جاتا ہے اُردو جان لینے پر ان تمام باتوں کا سمجھنا تمہارے لئے بالکل معمولی معلوم ہوگا.پس لجنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب اُن کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز ، روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے جائیں اور پھر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۶ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تا کہ اُن کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر اُن کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو با ترجمہ قرآنِ مجید آ جائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو.اس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہوگی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو.میری حیثیت اُستاد کی ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اگر میں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں.میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں اس لئے جو ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں.(حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہو گئیں جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا ) بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں.اَلْحَمْدُ لِلهِ.اب بیٹھ جاؤ.میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے.میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں.میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہو گی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی اور مجھے خوشی اُس وقت ہو گی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہیں جانتی ہو بلکہ قرآن مجید کو بجھتی بھی ہو.اور مجھے حقیقی خوشی اُس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو اور پھر اس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہوگا جس دن خدا تعالیٰ تمہارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس تقریر سے میری جو غرض تھی وہ پوری ہو چکی ہے پرسوں سے نزلہ میرے گلے میں گر رہا ہے جس کی وجہ سے آواز بیٹھی جا رہی ہے.ابھی میں نے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۷ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات باہر جا کر مردوں میں لمبی تقریر کرنی ہے جو یہاں بھی آپ سُن لیں گی اِس لئے اب میں اسی پر بس کرتا ہوں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں انہیں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ : (۱) آپ میں سے ہر خاتون یہاں سے اس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ جاتے ہی اپنے ہاں لجنہ قائم کرے گی.(۲) اور لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ایک ماہ کے اندر اندر منظم ہو جائے اور ایسی کوشش اور محنت کے ساتھ کام کرے کہ اس سال کم از کم تمام عورتوں کی تنظیم ہو جائے اور تمام ممالک میں بالخصوص ہندوستان میں ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر شہر میں لجنہ اماءاللہ قائم ہو جائے.اس کے بعد میں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں میں نے جو قرآنِ مجید کے سات زبانوں میں تراجم کی تحریک کی تھی اُس میں سے ایک زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ اور کسی ایک اسلامی کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ یعنی اُٹھائیس ہزار روپیہ میں نے عورتوں کے ذمہ لگایا تھا اور میں نے کہا تھا کہ جرمن زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اِس کے چھپوانے کا خرچ اور جرمنی زبان میں کسی ایک اسلامی کتاب کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اُس کے چھپوانے کا خرچ جس کے لئے اُٹھائیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے یہ رقم جماعت کی عورتیں مل کر ادا کریں.چنانچہ ہماری جماعت کی عورتوں نے اپنی قدیم روایتوں کو قائم رکھا ہے اور اس وقت تک ۳۴ ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں.گو خدا تعالیٰ کے فضل سے رقم پوری ہو چکی ہے بلکہ جتنا مطالبہ کیا گیا تھا اس سے زائد وعدے ہو چکے ہیں لیکن ابھی جماعت کی عورتوں کا ایسا حصہ باقی ہے جنہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا اور میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک عورت اس میں شامل ہو جائے وہ ایک ادھنی یا ایک پائی ہی دے مگر اس نیکی میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جن عورتوں نے ابھی تک حصہ نہیں لیا وہ بھی ضرور حصہ لیں.اگر کوئی عورت ادھنی دے سکتی ہے تو وہ ادھنی دے کر ہی اس نیکی میں شامل ہو جائے کیونکہ رقم کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس وقت جرمن زبان میں یہ ترجمہ شائع ہو گا تو ہر آدمی جو اس ترجمہ سے فائدہ اُٹھائے گا وہ ان عورتوں کو دعا دے گا کہ اُن پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں جن کے ذریعہ یہ نعمت ہم تک پہنچی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۲۸ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات اور جو شخص بھی اس ترجمہ کے ذریعہ مسلمان ہو گا اُس کے ایمان لانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمتیں اُن عورتوں پر نازل ہوں گی جنہوں نے اس ترجمہ میں حصہ لیا ہو گا.پس میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی عورت بھی اس ثواب سے محروم نہ رہے اور تم میں سے کوئی عورت بھی ایسی نہ رہے جو ان رحمتوں سے حصہ لینے والی نہ ہو.اگر وہ ایک کوڑی دینے کی ہی حیثیت رکھتی ہے تو ایک کوڑی دے کر ہی اِس میں شامل ہو جائے.اگر کسی کی حیثیت کوڑی دینے کی ہی ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوڑی ہی کروڑ روپیہ کے برابر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس رقم کو نہیں دیکھتا کہ وہ کتنی ہے بلکہ خدا تعالیٰ اُس اخلاص اور اُس نیت کو دیکھتا ہے جس اخلاص اور جس نیت کے ساتھ وہ دی گئی ہے.اس کے علاوہ میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری گولڈ کوسٹ کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہاں ایک زنانہ سکول بھی جاری کیا جائے جس کے لئے وہاں کے ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپیہ کی زمین دے دی ہے اور اب وہاں کی لجنہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عورتیں چندہ جمع کر کے وہاں سکول بنائیں مجھے وہاں سے چٹھی آئی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی احمدی بہنوں سے کہیں کہ وہ بھی اس کام میں ہماری مدد کر یں.چنانچہ میں نے اس کے متعلق لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے بات کی ہے اور اُنہوں نے چار ہزار روپیہ بھجوانے کا وعدہ کیا ہے.اس چار ہزار میں سے پندرہ سو کا وعدہ تو دہلی کی لجنہ اماءاللہ نے چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی معرفت کیا ہے اور باقی رقم لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مختلف لجناؤں پر ڈال دی ہے جس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچ جائے گی.بہت تھوڑی تھوڑی رقم لجنات کے ذمہ ڈالی گئی ہے حتی کہ بعض کے ذمہ تو صرف چار چار پانچ پانچ روپے ڈالے گئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جب اس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچے گی تو اس چندہ میں بھی وہ ضرور حصہ لیں گی.گویہ چار ہزار روپیہ کی رقم اتنی تھوڑی ہے کہ میں اگر چاہتا تو قادیان سے ہی بھجوائی جاسکتی تھی لیکن میں چاہتا ہوں کہ ساری جماعت کے اندر قربانی کی روح اور بیداری پیدا کی جائے اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک فرد کو دین کے کاموں میں شامل کیا جائے اس لئے میں نے یہ رقم جماعت کی مستورات پر پھیلا دی ہے.ہر لجنہ کو اس کی اطلاع پہنچ جائے گی جب ان
۴۲۹ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات الله انوار العلوم جلد ۱۷ کو یہ اطلاع ملے تو ہر ایک عورت اس میں شامل ہوتا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہے.گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ کے اُس علاقہ میں ہے جہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو ننگے پھرتے ہیں اور کچی چیزیں کھاتے ہیں اور درختوں کے نیچے رہتے ہیں وہاں ہمارے مبلغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا عظیم الشان کام کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے سکول اور بورڈ نگ جاری ہیں جس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ننگے پھرنے والے کپڑے پہن رہے ہیں، درختوں کے نیچے رہنے والے مکان بنا رہے ہیں اور حبشی قرآن مجید اور نماز میں پڑھتے ہیں اور اس طرح وہاں اسلام ترقی کر رہا ہے اور رسول کریم ﷺ کا جھنڈ اوہاں گاڑا جا رہا ہے اور ہمارے مبلغوں کے سامنے عیسائی مبلغ بھاگ رہے ہیں.پس اس چندہ میں جس سے اِس ملک میں زنانہ سکول جاری کیا جائے گا ہر ایک عورت ضرور حصہ لے اور یہ سمجھ کر حصہ لے کہ اس چندہ سے جو سکول بنے گا اُس کے ذریعہ سے ایسی جاہل عورتیں دین کی تعلیم حاصل کریں گی جو رسول کریم اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں تھیں.ایک اور بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال قادیان میں زنانہ بورڈ نگ کے قیام کے لئے کوشش شروع کر دی جائے.باہر کے لوگ ہمیشہ یہ شکایت کیا کرتے تھے کہ قادیان میں زنانہ بورڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری لڑکیاں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں اب میں اعلان کرتا ہوں کہ اِس سال اِنْشَاءَ اللہ یہ کام شروع ہو جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ بورڈنگ کی عمارت بھی بن جائے گی کیونکہ جنگ کی وجہ سے عمارت بنانے میں بہت سی مشکلات ہیں بہر حال اس سال بورڈنگ شروع کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ توفیق دے کہ تم دینی تعلیم حاصل کرو اور سلسلہ کے لئے ایسا مفید وجود بنو کہ جب تک تم دنیا میں رہو تو دنیا تم سے علم سیکھے اور فائدہ اُٹھائے اور جب تم خدا کے پاس جاؤ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنو اور دنیا تمہاری نیکیوں کی وجہ سے تمہارے لئے دعائیں کرتی رہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندر سچی محبت اپنی پیدا کرے اور سچی محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کرے اور سچی محبت قرآن اور دین اسلام کی پیدا کرے اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۳۰ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات سچی محبت بنی نوع انسان کی پیدا کرے اور تم دنیا میں ایسا بہترین وجود بنو کہ دنیا میں تمہاری مثال نہ ہو اور جب تم اس دنیا سے جاؤ تو خدا تعالیٰ بھی تم سے خوش ہو ، خدا تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے خوش ہو، گھر والے بھی تم سے خوش ہوں ، محلے والے بھی تم سے خوش ہوں اور دنیا بھی تم سے خوش ہو.تم میں سے کئی مائیں ہیں اور کئی مائیں بننے والی ہیں اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے خدا کرے تم حقیقی مائیں بنوا اور تمہارے ذریعہ سے اس دنیا میں ہماری قوم میں جنت پیدا ہوا اور جب تم اس دنیا سے جدا ہو کر اگلے جہان میں جاؤ تو خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں اور تم خدا کی جنت الفضل ۱۶ ، ۱۸ / جنوری ۱۹۴۵ء) حاصل کرنے والی بنو.آمین الذريت: ۵۷ بنی اسرائیل: ۷۳ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء سنن ابی داؤد کتاب الادب باب في فضل من عال يتمى ه الرحمن: ۲۱،۲۰
انوار العلوم جلد ۱۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء ) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۷ ۴۳۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بعض اہم اور ضروری امور ( تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۴ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب سے پہلے میں اُن دو نقصانات بے شک ہمیں بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس سال مگر ہم اپنے خدا کی رضا پر راضی ہیں سلسلہ احمدیہ کو پہنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ میری ذات کو پہنچے ہیں.اور اس کے فضلوں پر یقین رکھتے ہیں یعنی ایک اہم طاہر مرحومہ کی وفات اور ایک میر محمد اسحق صاحب کی وفات.جہاں تک آپس کی نسبت کا سوال ہے نہ صرف دونوں میرے عزیز تھے اور اس طرح آپس میں بھی عزیز تھے بلکہ ان دونوں میں ایک صفت مشترک بھی پائی جاتی تھی اور وہ یہ کہ دونوں غرباء کا بہت خیال رکھتے تھے.میر صاحب جب فوت ہوئے تو ان کو دفن کرنے کے بعد جب میں واپس آ رہا تھا تو میں نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ابھی چند روز ہوئے عورتیں یتیم ہو گئی تھیں اور آج ہم مرد بھی یتیم ہو گئے.یہ ایک جذباتی بات ہے دور نہ حقیقت یہ ہے کہ خدائی جماعتیں کبھی یتیم نہیں ہوتیں.مومن کا خدا ایسا ہے کہ اس پر کسی انسان کے پیدا ہونے یا مرنے سے کوئی اثر نہیں ہوتا.دنیا آتی بھی ہے اور جاتی بھی ہے ، لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی با دشاہت چلتی ہی چلی جاتی ہے اور جو لوگ خود اپنے لئے خدا تعالیٰ کی ذات کو مارنہیں لیتے ان کا
انوار العلوم جلد ۷ ۴۳۳ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) زندہ خدا ہمیشہ ان کا وارث ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور اُس پر موت کبھی وارد نہیں ہو سکتی مگر اُس کا سلوک اپنے بندوں سے یہی ہے کہ کوئی بندہ اُسے جیسا سمجھتا ہے وہ اُس کے لئے ویسا ہی ہو جاتا ہے.حضرت خلیفۃ اصبح الاول سنایا کرتے تھے کہ اُن کے ایک اُستاد بھوپال میں تھے انہوں نے رویا میں خدا تعالیٰ کو کوڑھی کی شکل میں دیکھا جو چلنے پھرنے سے معذور تھا، تمام جسم پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور وہ شہر سے باہر ایک پل پر پڑا تھا.اُنہوں نے اُسے دیکھا اور کہا خدایا ! میں تو تیری تعریفیں قرآن وحدیث میں پڑھ کر تجھے کچھ اور ہی سمجھتا تھا.میں تو سمجھتا تھا کہ تو سارے دکھوں کا دور کرنے والا اور سب خوبیوں سے متصف ہے مگر تو تو خود بیماریوں سے سٹر رہا ہے اور بیکسی کی حالت میں پڑا ہے.یہ سُن کر اُس نے اُن سے کہا کہ جو تو سمجھتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے اور جو تو دیکھتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے.قرآن کریم کا خدا ویسا ہی ہے جیسے تو نے پڑھا مگر جسے تو یہاں پڑا دیکھتا ہے یہ بھوپال کا خدا ہے.تو انسان جہاں خدا تعالیٰ کی حکومت کے تابع ہے، جہاں خدا تعالیٰ نے اُسے پیدا کیا اور اُس کی تمام ضروریات مہیا کرتا ہے وہاں یہ بھی سچ ہے کہ انسان اپنے لئے خدا کو خود پیدا کرتا ہے اور اُسے صفات بخشتا ہے.یعنی جیسا اُس کا یقین خدا تعالیٰ کے متعلق ہوتا ہے ویسا ہی خدا تعالیٰ اُس سے معاملہ کرتا ہے.اگر انسان خدا تعالیٰ کو ایک بے کار محض وجود سمجھتا ہے تو اُس کے معاملات میں خدا تعالیٰ بھی بے کار محض ہو جاتا ہے، جو انسان اُس کی قدرتوں کا انکار کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کے لئے اپنی قدرتیں کبھی نہیں دیکھا تا لیکن جو انسان خدا تعالیٰ کو قا در یقین کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے، جو اُ سے زندہ خدا یقین کرتا ہے خدا بھی اُس کے لئے زندگی کا ثبوت مہیا کرتا ہے، جو اُ سے رب العلمین سمجھتا ہے خدا اُس کا مربی اور نگران بن جاتا ہے اور جو خدا کو رحمن مانتا ہے وہ بھی اُس پر رحمانیت کی بارشیں برساتا ہے.اگر انسان خدا کو رحیم مانتا ہے تو وہ بھی رحیم بن کر اُس پر ظاہر ہوتا ہے.پس جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے مومن کے لئے زندہ خدا کے بعد اور کسی چیز کی ضرورت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۳۴ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) نہیں مگر دیرینہ تعلقات اور محبتیں اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں اور انسان جسے اللہ تعالیٰ نے روح کے با وجود جسم بھی عطا فرمایا ہے بسا اوقات اُس کی روح تندرست ہوتی ہے مگر اُس کا جسم زخمی ہوتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ جو دن اُن کو صلیب دیئے جانے کے لئے مقرر تھا اُس رات اُنہوں نے دعا مانگی کہ:.”اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے.تاہم جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہو“ لے پس ہمارے دل تو راضی ہیں مگر نفس بوجھ محسوس کرتے ہیں اور ہم اپنے خدا سے یہی کہتے ہیں کہ تیری ہی مرضی ہو کہ ہمارے لئے اسی میں برکت ہے.خدا تعالیٰ کا مومن بندہ اسی قسم کی کیفیات کے ساتھ اُس کے حضور کھڑا ہوتا ہے.انسان ہونے کے لحاظ سے ہم زخموں کا انکار نہیں کر سکتے ، بہتے ہوئے خون کو بند نہیں کر سکتے مگر خدا تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بات جسے ہم تکلیف سمجھتے ہیں اسے وہ ہمارے لئے اور ہمارے دوستوں کے لئے برکت کا موجب بنا دے گا.اللہ تعالیٰ نے ہر دُکھ کے نیچے اپنے فضلوں کے خزانے مخفی رکھے ہیں جس طرح دنیوی خزانے بڑی بڑی چٹانوں کے نیچے مخفی ہوتے ہیں.بے شک غموں کا اُٹھانا اور دکھوں کا برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے مگر جس طرح چٹانوں کو اُٹھائے بغیر قیمتی خزائن بھی حاصل نہیں کئے جا سکتے ان دُکھوں کو اُٹھائے بغیر اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل نہیں ہوسکتیں.پس ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری ہوئی اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسی میں ہماری بہتری ہوگی.ہم اُس کے بندے ہیں اور اُس کی بادشاہی کی طرف با وجود اپنی کمزوریوں اور اپنے نقائص کے کوئی بدی منسوب نہیں کر سکتے اور یقین رکھتے ہیں کہ ہما را مہربان آقا جو کرتا ہے ہماری بہتری اور بھلائی کے لئے کرتا ہے اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی حکمتوں اور رحمتوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور اگر ہم ان کے سمجھنے میں کوتاہی کریں تو ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے
انوار العلوم جلد ۷ ۴۳۵ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) اور ہمیں ہمت اور حوصلہ عطا کرے تا کہ ہم ہر گھڑی اور ہر لحظہ اُس کی یاد کو سب یادوں پر مقدم کر سکیں ، اُس کی محبت کو سب محبتوں اور اُس کے کام کو سب کا موں پر مقدم کرنے والے ہوں.ہماری زندگی بھی اور ہماری موت بھی اُس کے لئے ہو تا جب ہم اُس کے حضور جائیں تو ہمارا جانا ہمارے عزیزوں کے لئے دُکھ اور غم کا موجب ہو ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو کہ ہم ادنیٰ کو چھوڑ کر اعلیٰ کی طرف جا رہے ہیں اور چھوٹے پیار کرنے والوں کو چھوڑ کر بڑے پیارے کرنے والوں کی طرف لوٹ رہے ہیں.( الفضل جلسہ سالا نہ نمبر ۱۹۶۳ء) اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ کا اِس امر پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے ایک کھوئے ہوئے مبلغ کے متعلق جن کی زندگی کے بارہ میں اکثر دوست مایوس تھے حال ہی میں یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ جاپانیوں کی قید میں ہیں.جہاز کے غرق ہونے کے بعد جن لوگوں کو بچا لیا گیا اُن کی فہرست میں ان کا نام بھی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اپنے فضل سے محفوظ رکھے اور خیر وعافیت سے واپس لائے.اسلام کا یہ سپاہی بے وقت اپنی جان نہ کھوئے اور اس کے تجربات سے جو اس نے یورپ کے مختلف ممالک میں حاصل کئے اسلام اور احمدیت پورا پورا فائدہ اُٹھا سکیں.مولوی محمد الدین صاحب اگر چه انگریزی علوم سے نا واقف تھے اور اُن کو تجربہ بھی نہ تھا مگر یورپ میں تبلیغ کے زمانہ میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.وہ پہلے البانیہ گئے اور وہاں تبلیغ شروع کی متعد دلوگ داخلِ اسلام بھی ہوئے مگر مخالفین نے حکومت کے پاس شکایات کیں کہ یہ شخص مذہب کو بگاڑ رہا ہے.البانیہ کی حکومت مسلمان تھی مسلمانوں نے شور کیا اور کنگ زد عز نے آرڈر دے دیا کہ مولوی صاحب کو وہاں سے نکال دیا جائے.پولیس ان کو پکڑ کر سرحد پر چھوڑ آئی.وہاں سے نکالے جانے پر انہوں نے یونان میں تبلیغ شروع کر دی اور میرے لکھنے پر وہاں سے یوگوسلاویہ چلے گئے.البانیہ کی سرحد یوگوسلاویہ سے ملتی ہے.میں نے لکھا کہ وہاں بھی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کی تبلیغ سے بعض ایسے لوگ بھی مسلمان ہوئے جو مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل
انوار العلوم جلد ۷ ۴۳۶ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) تھے.حکومت یوگوسلاویہ کو حکومت البانیہ نے توجہ دلائی اور تحریک کی کہ مولوی صاحب کو وہاں سے بھی نکال دیا جائے.چنانچہ انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا.اس پر وہ اٹلی آگئے اور پھر وہاں سے مصر اور وہاں سے ہندوستان واپس آگئے.پھر ان کو مغربی افریقہ بھیجا گیا تھا اور وہ وہاں جا رہے تھے کہ ان کا جہاز ڈوب گیا اور اب معلوم ہوا ہے کہ وہ زندہ ہیں حالانکہ اکثر دوست یہی خیال کرتے تھے کہ وہ فوت ہو چکے ہوں گے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مردہ کو جسے اس نے زندہ کیا ہے بہت سے روحانی مردوں کو زندہ کرنے کا موجب بنائے.اس کے بعد میں ایک ایسی بات کا ذکر کرتا ہوں جو میرے اصل مضمون کا تو حصہ نہیں مگر تازہ پیدا ہوئی ہے اس لئے اس کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.پرسوں یہاں پر ایک جلسہ کیا گیا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو جماعت سے نکالے ہوئے ہیں یا نکالے گئے ہیں.اس جلسہ میں ہمارے خلاف بہت کچھ سب وشتم سے کام لیا گیا ہے.جس کی وجہ سے ہمارے سلسلہ کے بعض کارکن بہت غصہ میں تھے.انہوں نے مجھے اس امر کی رپورٹ کی اور دریافت کیا کہ ہم اس کا ازالہ چاہتے ہیں کیا کارروائی کریں.میرا خیال ہے ہماری جماعت کے دوست بعض دفعہ بھول جاتے ہیں کہ خدائی جماعتیں ہوتی ہی گالیاں کھانے کے لئے ہیں.جب تک وہ اس حقیقت کو یاد نہ رکھیں گے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.مشہور مثل ہے کہ ایاز قدرے خودشناس‘ مومنوں کی جماعت ہمیشہ گالیاں کھانے کیلئے ہوتی ہے.اگر وہ گالیاں نہ کھائیں تو دوسروں کا حق ہے کہ یہ اعتراض کریں کہ اگر تم صداقت پر ہو تو کیوں تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو خدا تعالیٰ کی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں ، مارا گیا، صحا بہ کو گالیاں ملتی تھیں اور تکالیف پہنچائی جاتی تھیں کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بُرا مناتے تھے اور کیا اسلام میں اس سے کوئی فرق آتا تھا ؟ پھر ہم کیوں ان گالیوں پر بُرا منا ئیں.یہ حقیقت ہے کہ ہم ان ہی رستوں پر چل کر خدا تعالیٰ کو پاسکتے ہیں جن پر چل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کو پایا ، جن پر چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسی علیہ السلام نے
انوار العلوم جلد ۷ ۴۳۷ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) خدا تعالیٰ کو حاصل کیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا سکھائی ہے.جسکے معنی یہ ہیں کہ ہم کو اُس رستہ پر چلا جو سیدھا اور تیرے نبیوں کا رستہ ہے آگے فرمایا صِرَاطَ الَّذينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین کے گویا مومن کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں اس رستہ میں خطرات بھی ہوتے ہیں مگر میں ان خطرات سے نہیں گھبرا تا بلکہ ان کو برا دشت کرنے لئے تیار ہوں.میں تو منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں اِن تکالیف سے نہیں گھبرا تا جو تیرے بندوں کو پہنچتی رہی ہیں.اس تازہ انکشاف کے بعد جو مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا ہے لازمی طور کچھ عرصہ کے لئے مخالفت کا بڑھ جانا ضروری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس انکشاف کے بعد میں روزانہ دشمن کی طرف سے بیداری کا منتظر رہتا تھا اور اگر دشمن کی طرف سے مخالفت نہ ہوتی تو میرے دل میں پوری طرح تسلی نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اس قسم کی باتوں کا پیدا ہونا انسان کے لئے بھی اور خدا تعالیٰ کی شان کے اظہار کے لئے بھی ضروری ہے.اگر ہم آرام کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں اور دشمن کوئی مخالفت نہ کرے تو خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ کہاں نظر آئے.خدا تعالیٰ اِس طرح اپنا ہاتھ دکھانا اور اپنے آپ کو روشناس کرانا چاہتا ہے اور خطرات پیدا کر کے اپنی طاقت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے.جب تک تکالیف پیش نہ آئیں خدا تعالیٰ کی قدرت ظاہر نہیں ہوتی.پس مخالفت کا جو نیا دور احراریوں کی طرف سے شروع ہوا ہے یا قادیان کے مخالفین نے جو مخالفت از سر نو شروع کی ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا تعالیٰ پھر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا چاہتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس سے اچھی بات ہمارے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرے اور نشان دکھائے.اُس کی قدرت مخالفت کے زمانہ میں ہی ظاہر ہوتی ہے.میں نے حضرت مسیح موعود سے بارہا سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابو جہل کو بہت گندا تھا
بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء) انوار العلوم جلد ۷ - ۴۳۸ لیکن اگر وہ گندا نہ ہوتا تو قرآن کریم بھی نہ ہوتا.ابوبکر جیسوں کے لئے تو صرف بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرّحیم ہی کافی تھا.اتنا قرآن کریم تو مختلف مدارج رکھنے والے، طرح طرح کی تاریکیوں اور ظلمتوں میں پڑے ہوئے اور جہالتوں میں مبتلا لوگوں کے لئے ہی نازل ہوا اور نہ مومن کے لئے تو بسم الله الرحمن الرحیم ہی کافی تھا.تو اس قسم کی مخالفتیں بہت فائدہ کا موجب ہوئی ہیں اور ضروری ہیں ان سے گھبرا نا مومن کی شان کے خلاف بات ہے.بلکہ ہمیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ خود کوئی نشان دکھائے.ان گالیوں کو سننا اور ان تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے ان پر بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں.زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ ہوسکتا ہے کہ کوئی کمزور اس سے گمراہ نہ ہو جائے لیکن جو شخص ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گمراہ ہوسکتا ہے وہ ہمارے اندر رہ کر بھی کیا فائدہ دے سکتا ہے.ایمان تو ایسی چیز ہے کہ اس راہ میں قدم مارنے والوں کو جان ہتھیلی پر لے کر چلنا پڑتا ہے.صرف کثرت کوئی خوبی کی بات نہیں ہم کتنے تھوڑے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے کس قدرقربانی ہم کر رہے ہیں اور کتنی خدمت اسلام کی بجالا رہے ہیں.چالیس کروڑ مسلمان مل کر بھی اسلام کے لئے وہ قربانی نہیں کر سکتے جتنی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم چار پانچ لاکھ کر رہے ہیں.اور اس لحاظ سے ایک احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ہزار مسلمانوں کے برابر ہے.ہزار مسلمان مل کر اتنی قربانی نہیں کرتے جتنی کہ ایک احمدی کرتا ہے.مسٹر جناح نے مسلم لیگ کے لئے سات کروڑ مسلمانوں سے دس لاکھ روپیہ چندہ طلب کیا تھا اور مسلمانوں میں ایسے ایسے لوگ ہیں کہ ایک ایک کروڑ کروڑ روپیہ دے سکتا ہے.مگر سال چھ ماہ کے بعد جب آمد دیکھی گئی تو صرف تین لاکھ روپیہ جمع ہوا تھا.اس کے بالمقابل ہماری جماعت جو بالعموم غریبوں کی جماعت ہے اس میں کس طرح ہر تحریک محض خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہی ہے اور ہماری جماعت میں ایسے ایسے مخلص لوگ ہیں کہ جو خود فاقے کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو فاقے کراتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے خزانہ میں چندہ لا کر دے دیتے ہیں یہ چیز ایمان سے پیدا ہوتی ہے.پس ہم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۳۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) بھی اگر چار پانچ نہیں چالیس لاکھ ہو جائیں مگر ویسے ہی سست ہوں جیسے دوسرے مسلمان تو اس کثرت کا ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس یہ گالیاں اور یہ تکالیف ہمیں کھرا کرنے کے لئے ہیں.ان سے کھوٹا کھرا الگ الگ ہو جائیں گے.اگر مخالفوں کی مخالفت کے نتیجہ میں کوئی دھوکا کھاتا اور ہم سے الگ ہوتا ہے تو ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے آخر ہمیں خود بھی تو بعض کو نکالنا پڑتا ہی ہے.مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں کو میں نے خود ہی نکال دیا تھا.پس اگر کوئی خود دھوکا کھا کر الگ ہوتا ہے تو یہ تو ہمارے لئے اچھا ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اُسے الگ کرنے کی مصیبت سے بچا لیا اور جو گندا تھا وہ خود بخود نکل گیا.کسی انسان کے جسم پر کوئی پھوڑا نکلے تو کیا وہ خود پسند کرتا ہے کہ خود بخود پھوٹ کر بہہ جائے ؟ یا ڈاکٹر کے چاقو سے اُس کا چیرا جانا پسند کرتا ہے؟ ہر عقلمند اس بات کو پسند کرتا ہے کہ پھوڑا خود بخود پھوٹ جائے اسی طرح اگر کوئی گندا آدمی ہم میں سے خود بخو دا لگ ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہئے اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں اپنے ساتھی کو خو دا لگ کرنے کے الزام سے بچا لیا.ایک اور بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا ایک چیلنج مجھے دیا گیا ہے کہ جو اُن کی طرف سے جلسہ کے موقع پر تقسیم کیا گیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ وہ مجھے بار بار مقابلہ کے لئے بلاتے ہیں مگر میں سامنے نہیں آتا.اس موقع پر جبکہ یہاں پر بہت سے غیر مسلم، ہندو، سکھ اور غیر احمدی معززین بھی جمع ہیں میں اس امر کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے اگر کسی کو خدا تعالیٰ توفیق دے تو وہ اس معاملہ میں دخل دے کر اس عقدہ کو حل کرا دیں.میں شروع سے ہی ان کو توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ان امور کے بارے میں جن کے متعلق ہمارے مابین اختلاف ہے وہ میرے ساتھ فیصلہ کر لیں.مگر وہ ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی شرط پیش کر دیتے ہیں کہ جسے ماننے کے لئے میں ہر گز تیار نہیں ہوسکتا.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مذہبی امور کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی حج ہو اور یہ ایک ایسی شرط ہے جسے میں نہیں مان سکتا.میں کبھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مذہب کسی کی خاطر بدلا جا سکتا ہے.اگر مذہب کے بارہ میں کسی کی رائے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۴۰ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) وہ کو مانا جا سکے تو ماں باپ کا سب سے زیادہ حق ہے اُن کی رائے مان لی جائے.مگر مذہب کے بارہ میں تو ماں باپ کی رائے کو ماننے کی بھی اجازت اسلام نے نہیں دی.جب کوئی شخص مذہب کو تبدیل کرنے لگے تو اُس کے ماں باپ اور بہن بھائی اُس کی مخالفت کرتے اور اُسے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ ایسا نہ کرے.اب اگر مذہب کے بارہ میں جائز ہو تو ماں باپ کی رائے کو کیوں نہ مانا جائے.اگر مذہب کے بارہ میں بھی جائز ہو تو کوئی شخص مذہب کو تبدیل کر ہی نہیں سکتا.جب بھی کوئی مذہب تبدیل کرنے لگے اُس کے ماں باپ اور بھائی بہن یہی کہتے ہیں کہ وہ غلطی کرنے لگا ہے اور اگر کسی غیر شخص کو مذہب کے معاملہ میں حج ماننا جائز ہو تو ماں باپ کی رائے کو ہی کیوں نہ مانا جائے.یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں کسی صورت میں نہیں مان سکتا میری تو یہ حالت ہے کہ باوجودیکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں پیدا ہوا.ابھی میری عمر گیارہ برس کی تھی کہ میں نے ایک دن خیال کیا کہ کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اِس لئے مانتا ہوں کہ میں اُن کا بیٹا ہوں یا میرے پاس اُن کی صداقت کے ثبوت ہیں.میں اُس وقت گھر سے باہر تھا اور میں نے خیال کیا کہ اگر میرے پاس ان کی صداقت کے ثبوت نہیں ہیں تو میں گھر میں واپس نہ جاؤں گا بلکہ یہیں سے اسی وقت کہیں باہر چلا جاؤں گا.جب میں نے اپنے دل میں اس سوال کو حل کرنا شروع کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوی میں بچے ہیں یا نہیں؟ تو میں نے اس سوال کو قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں حل کرنا چاہا.اس پر مجھے خیال آیا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں ان کو بھی اسی لئے سچا سمجھتا ہوں کہ میں نے ماں باپ سے سنا ہے کہ یہ سچے ہیں.تب میں نے اپنے دل میں اس سوال پر بحث شروع کی کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم بچے ہیں؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیا توحید الہی کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں اسے صرف اس لئے مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ اس کے قائل ہیں.تب میں نے خدا تعالی کی پیدا کی گئی کائنات اور
۴۴۱ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۱۷ اُس کی قدرتوں سے اِس سوال کو حل کرنا شروع کیا اور توحید الہی پر غور کرتا گیا حتی کہ میرا دماغ تھک گیا اور آرام کرنا چاہا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ یا تو میں اِس سوال کو حل کر کے چھوڑوں گا اور یا میں گھر میں داخل نہ ہوں گا.اُس وقت آسمان صاف تھا اور یہ آخری سوال تھا جسے میں حل کرنا چاہتا تھا میں نے خیال کیا کہ جب ہر چیز کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہو جاتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو غیر محد دو ماننا کیونکر درست ہو سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کو غیر محدود ماننا درست ہے تو دوسری چیزوں کے متعلق بھی ایسا کیوں نہ سمجھا جائے.اور میری طبیعت یہاں آکر رکی کہ خدا تعالیٰ کا غیر محدود ہو نا سمجھ میں نہیں آسکتا اور محدود خدا نہیں ہو سکتا.میری نظر ستاروں پر پڑی اور وہ بہت خوبصورت نظر آتے تھے.میں نے خیال کرنا شروع کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا ؟ میرے نفس نے جواب دیا کہ اور ستارے ہوں گے پھر میں نے خیال کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا ؟ اور پھر میرے نفس نے جواب دیا کہ اور ستارے ہونگے.اور ان کے پیچھے؟ تب میرے نفس نے جواب دیا کہ یہ تو ایک لامتناہی سلسلہ بن گیا یہ کہاں ختم ہوگا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ محدود دماغ میں نہیں آسکتا اور اس کی حد بندی نہیں کی جاسکتی.تب میرا دماغ واپس لوٹا اور میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو اپنی قدرتوں سے ظاہر کرتا ہے اور مجھے پتہ لگ گیا کہ اسی سوال کوحل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے.ہم ستاروں کے بارہ میں جب یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوتا ہے اور زمین کے بارہ میں بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اس کی جگہ پہلے کیا تھا ؟ کہا جاتا ہے پہلے پانی ہی پانی تھا تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کیا تھا اور پھر اس سے پہلے کیا تھا، یہ ایک لا متناہی سلسلہ بن جاتا ہے کہ جسے سمجھنا ممکن نہیں مگر ہم ان دونوں چیزوں کا انکار بھی نہیں کر سکتے.اگر کوئی ان کا انکار کرے تو لوگ اُسے پاگل کہیں گے اور ان کی موجودگی میں خدا تعالیٰ کے بارہ میں شبہ کرنا بھی ویسا ہی پاگلا نہ خیال ہے اور اس طرح یکدم مجھے خدا تعالیٰ کا ثبوت مل گیا.اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید سے آپ کے بچے ہونے کا ثبوت مل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق سے حضرت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۴۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مل گیا.تو میں جس نے مذہب کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بغیر ثبوت کے حکم ماننا تسلیم نہ کیا وہ کسی اور کو مذہبی عقائد کے بارہ میں حج کیوں کر مان سکتا ہے؟ پھر مولوی محمد علی صاحب ایک اور بات پیش کرتے ہیں.بعض ایسے امور ہیں جو عقائد سے تعلق نہیں رکھتے.ان کے بارہ میں بھی میں چاہتا ہوں کہ فیصلہ ہو جائے اور ان کے متعلق میں ان کی جج بنائے جانے کی شرط کو ماننے کو تیار ہوں.مگر وہ اس بارہ میں بھی ایک عجیب بات پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تین حج میری جماعت میں سے ہوں اور تین اُن کے ساتھیوں میں سے ہوں لیکن جماعت احمدیہ میں سے تین آدمی وہ نا مزد کر یں اور اُن کے ساتھیوں میں سے تین میں کروں حالانکہ یہ بات بھی بالکل غیر معقول ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ دو آدمیوں میں کوئی مقدمہ ہو اور ایک جا کر عدالت میں کہے کہ مجھے اختیار دیا جائے کہ دوسرے فریق کی طرف سے وکیل میں مقرر کروں اور میری طرف سے وہ کرے یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی معقول آدمی منظور نہیں کر سکتا.صحیح طریق یہ ہے کہ میں اپنے نمائندے مقرر کروں اور وہ اپنے کریں مگر وہ اُلٹی بات کہتے ہیں یعنی یہ کہ میرے نمائندے وہ مقرر کریں اور اُن کے میں کروں.اور جب میں اِس کا انکار کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ تم بات کو نہیں مانتے کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہاری جماعت میں منافق ہیں اس لئے ڈرتے ہو اور یہ کہ میرے ساتھیوں میں چونکہ منافق نہیں ہیں اس لئے میں نہیں ڈرتا مگر اس کی وجہ یہ کیوں نہ سمجھی جائے کہ مولوی صاحب ہماری جماعت کے منافقوں سے تعلقات رکھتے ہیں اور میں ایسا نہیں کرتا.یا وہ منافق بنا کر ہماری جماعت میں داخل کرتے ہیں گو میں یہ بھی نہیں کرتا.پھر اس کا ایک اور پہلو بھی ہے یہ ایمان یا منافقت کا سوال نہیں ہر شخص بات کو سمجھنے اور اُسے حل کرنے کا اہل نہیں ہوتا.بعض لوگ تفقہ کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ مومن نہیں منافق ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بہت سے مسائل یاد تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
انوار العلوم جلد کا ۴۴۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) نے فرمایا ہے کہ وہ تفقہ میں کمزور تھے.پس اگر وہ ہماری جماعت میں سے کسی ایسے آدمی کو مقرر کر دیں جو تفقہ کے لحاظ سے کمزور ہو یا ہمارے نقطہ نگاہ کو واضح نہ کر سکے تو اس میں ہمارا نقصان ہوگا.پس یہ منافقت کا سوال نہیں تفقہ اور بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت کا سوال ہے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جب میں اس شرط کو اپنے لئے مانتا ہوں تو آپ کیوں نہیں مانتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کو مجھ پر حسن ظنی ہے کہ میں اس بارہ میں دیانتداری سے کام لوں گا مگر مجھے ان پر نہیں.ان کے پچھلے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے میں یہی سمجھنے پر مجبور ہوں کہ وہ ضرور کوئی چالا کی کرنے کی کوشش کریں گے تو اُن کی ایسی ہی باتیں ہیں جو فیصلہ نہیں ہونے دیتیں.وہ کیوں اسی طرح فیصلہ نہیں کرتے جس طرح دنیا ہمیشہ کرتی آئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق عمل بھی یہی تھا.آپ جاتے تھے اور اپنے دلائل سناتے تھے ماننے والے مان لیتے تھے اور انکار کرنے والے انکار کر دیتے تھے.وہ بھی کیوں اس طرح نہیں کر لیتے ؟ وہ اپنے دلائل بیان کریں میں اپنے کروں گا.وہ ایسا طریق کیوں اختیار کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا ، جو حضرت موسیٰ نے اختیار نہیں کیا بلکہ جو کسی بھی نبی نے اختیار نہیں کیا.نئے نئے طریقے پیش کرنے کے معنی تو یہی ہیں کہ وہ کوئی چالا کی کرنا چاہتے ہیں.پس اس وقت جبکہ غیر مذاہب کے بھی بہت سے معزز اصحاب موجود ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی صاحب مہربانی کر کے مولوی صاحب کو فیصلہ پر آمادہ کریں اور ان سے بات چیت کر کے مجھے اطلاع دیں اور انہیں سمجھائیں کہ فیصلہ کا جو طریق ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اُس کے مطابق وہ کیوں فیصلہ پر آمادہ نہیں ہوتے.اُن کی یہ بات کہ مذہب کے فیصلہ کے لئے جج مقرر ہوں بالکل نا جائز ہے.یا ایسے امور کے فیصلہ کیلئے جو عقائد میں داخل نہیں میرے حج مقرر کئے جانے کی شرط مان لیتے.پر اُن کا یہ کہنا کہ میرے نمائندے وہ مقرر کریں اور اُن کے میں کروں با لکل خلاف عقل بات ہے.پھر میں تو فیصلہ کے نہایت آسان طریق ان کے سامنے پیش کر چکا ہوں.مثلاً میں نے کئی بار کہا ہے کہ :.
انوار العلوم جلد کا ۴۴۴ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) ا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے جو عقائد تھے اور جن کی اشاعت کی جاتی تھی وہی عقائد صحیح ہو سکتے ہیں.میں اُن کو اُس زمانہ کی تحریروں میں سے اُن کے عقائد نکال دیتا ہوں اور وہ میری اس زمانہ کی تحریروں میں سے میرے عقائد نکال لیں.ان کو اکٹھا شائع کر دیا جائے اور ہم دونوں اُن کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے یہی عقائد ہیں وہ میرے حوالے نکال دیں میں اُن کے نکال دیتا ہوں اپنی طرف سے کوئی کچھ نہ لکھے.ہاں اگر کوئی فریق دوسرے کے حوالہ کو ادھورے رنگ میں پیش کرے تو اُسے حق ہے کہ اُسے مکمل طور پر درج کرنے کا مطالبہ کرے اور اس کے ساتھ اُس حصہ کو شامل کرا سکے جس سے اُس کی عبارت پوری طرح واضح ہوتی ہو اور دونوں نیچے لکھ دیں کہ یہ ہمارے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں تھے اور آج بھی ہم ان پر قائم ہیں اور اس سے سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا مگر وہ اس طریق کی طرف بھی نہیں آتے.۲.پھر ایک اور طریق یہ ہے کہ وہ جب بعض حوالے پیش کرتے ہیں تو ہم کیا کرتے ہیں کہ ان کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آخری زمانہ میں ایک غلطی کا ازالہ نامی رسالہ میں کی ہیں کہ جو بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نبوت کے ہے.گروہ.بارہ میں شروع میں تھا اور جو تشریح آپ اس کی شروع میں فرماتے تھے وہی اس رسالہ میں ہے.اور میں نے ان کے سامنے فیصلہ کا یہ طریق پیش کیا ہے کہ دونوں اس رسالہ پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور پھر اسے شائع کر دیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر پر دستخط کرنے کو تیار ہوں گا مگر وہ نہیں کرتے.میں کہتا ہوں کہ اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کی تشریح میں تبدیلی کی ہے مگر وہ اس بات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں بلکہ اس میں بھی وہی بات دُہرائی گئی ہے جو آپ اس سے پہلے بیان فرماتے رہے.اور میں نے کئی بار فیصلہ کا یہ طریق ان کے سامنے پیش کیا ہے کہ دونوں اِس پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ ہمارا یہی عقیدہ ہے اور پھر اس رسالہ کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۴۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) مشتر کہ خرچ سے لاکھ دولاکھ کی تعداد میں شائع کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے.میں تو فیصلہ کے کئی طریق پیش کرتا ہوں مگر وہ پہلے کھڑے ہو کر میں نہ مانوں میں نہ مانوں کہہ دیتے ہیں اور بجائے کسی فیصلہ کے لئے تیار ہونے کے میرے متعلق سخت کلامی پر اتر آتے ہیں حالانکہ میں نے ان کے متعلق کبھی سخت کلامی نہیں کی.وہ کئی بار مجھے یزید کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اس پر بُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں.یزید ایک بادشاہ تھا یہ تو عزت افزائی ہے اور اتنا نہیں سوچتے کہ نمرود اور فرعون بھی تو بادشاہ تھے اگر اُن کو ان ناموں سے مخاطب کیا جائے تو کیا وہ خوش ہوں گے اور اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے یا بُر امنا ئیں گے.پس اس وقت جو غیر احمدی یا غیر مسلم دوست بیٹھے ہیں میں ان کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی صاحب ایسے ہوں جو ان پر کوئی اثر رکھتے ہیں تو وہ ان کو توجہ دلائیں کہ ان طریقوں میں سے کسی کے مطابق فیصلہ کرلیں اور نہیں تو وہ جسے مامور الہی سمجھتے ہیں اُس کی تحریر پر دستخط کر دیں.۳.پھر ایک اور طریق فیصلہ کا بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں انہوں نے عدالت میں ایک شہادت دی تھی وہ ان کی اپنی شہادت ہے میری نہیں وہ اُسی پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ آج ان کا عقیدہ وہی ہے میں اُس پر دستخط کر دوں گا اور لکھ دوں گا کہ میرا عقیدہ بھی یہی ہے.گویا ان کے اپنی ہی شہادت پر دستخط کر دینے سے بات ختم ہو جاتی ہے.یہ کیسے سہل طریق ہیں اور جائز اور تقویٰ کے مطابق ہیں مگر وہ ان کی طرف نہیں آتے اور عجیب عجیب شرطیں پیش کرتے رہتے ہیں.مثلاً یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میرے وکیل وہ مقرر کریں اور اُن کے میں کروں.اس طرح تو بٹیر لڑانے والے بھی نہیں کرتے کہ میرا بیٹرا تو لڑا اور تیرا میں لڑاؤں اور جوطریق بیٹر باز بھی اختیار نہیں کرتے میں دینی امور کے بارہ میں اُسے کس طرح اختیار کرلوں.اب میں اس سال کے بعض کاموں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تا جماعت کو مجموعی طور پر ان
انوار العلوم جلد ۱۷ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) کی طرف توجہ ہو.اس سال دو نئے ادارے قائم کئے گئے ہیں ایک تعلیم الاسلام کالج ہے اور ایک فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ.کالج کی پہلی جماعت یعنی ایف اے کا پہلا سال شروع ہو چکا ہے اور آئندہ سال کوشش کی جائے گی کہ بی اے کا پہلا سال بھی شروع کیا جا سکے.خیال یہ تھا کہ چونکہ پہلا سال ہے اور اعلان بھی پوری طرح نہیں ہو سکا اس لئے ۵۰،۴۰ طالب علم بھی آجائیں تو بہت ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ۸۰ طالب علم آگئے ہیں جن میں دس بارہ ہندو اور سکھ بھی ہیں.گویا کالج کی ابتداء نہایت خوش کن ہے اور امید ہے کہ اگر جماعت نے اس روح کے ماتحت کام کیا تو یہ بہت ترقی کر جائے گا اور اگر اس سال ۸۰ طالب علم آئے ہیں تو اگلے سال اور بھی زیادہ آئیں گے.اس سال پندرہ سولہ طالب علم تو ایسے آئے ہیں کہ جنہوں نے تعلیم ختم کر رکھی تھی یعنی میٹرک پاس کرنے کے بعد دو دو چار چار سال سے بیٹھے تھے.جب یہاں کا لج شروع ہوا تو وہ آکر داخل ہو گئے.ان کے والدین نے ان کو یہاں بھیج دیا اور اس طرح گویا یہ طالب علم کالج کو مفت مل گئے اور جو نئے آئے ہیں اُن کی تعداد قریباً ۶۵ ہے.پھر کوئی ادارہ نیا نیا جاری ہوتا ہے تو لوگوں میں نیا نیا جوش بھی ہوتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اس کا تجربہ کرے مگر کچھ عرصہ کے بعد نئے ہونے کی لذت جاتی رہتی ہے.یہ وہ نقطہ نگاہ ہے جس کی طرف میں منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کا خیال رکھیں اور جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اب کالج کھل چکا ہے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طلباء کو بھجوائیں تا وہ اعلیٰ درجہ کی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کر سکیں.یہاں اخراجات بھی باہر کی نسبت کم ہوں گے اور ان کے بچے دوسرے شہروں کی مسموم ہوا سے بھی محفوظ رہیں گے.بالعموم جب طالب علم کالجوں میں جا کر داخل ہوتے ہیں تو اُن کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اور اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زہریلی ہوا اُن پر اثر کرتی ہے لیکن اگر یہاں بی اے تک کی تعلیم وہ پاسکیں تو پھر وہ ہوا جو ا باحت اور بے دینی پیدا کرتی ہے اُن پر اثر نہ کر سکے گی خواہ وہ کہیں چلے جائیں.کیونکہ یہاں وہ اُن لوگوں سے تعلیم حاصل کریں گے جو ان اعتراضات اور مسائل کو حل کرنے والے ہوں گے جو نو جوانوں کے
انوار العلوم جلد کا ۴۴۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) اندر بے دینی اور لامذہبیت پیدا کرتے ہیں اور پھر یورپین فلسفہ کا اثر اُن پر بہت کم ہو گا یا بالکل نہیں ہوگا.یہاں کا لج کا جاری کرنا ضروری تھا کیونکہ جس قسم کے حملہ کی تیاریاں باہر ہو رہی ہیں اُس کے دفاع کا انتظام اس کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا.جو نو جوان ملا زمت اختیار کر لیتے ہیں یا دوسرے کام کاج میں لگ جاتے ہیں اُن کو مطالعہ کا موقع بہت کم ملتا ہے اور اگر وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو صرف لطف اُٹھانے کے لئے ، اور اس طرح ان پر اثر کم ہوتا ہے.لیکن کالج کے طالب علموں کا چونکہ یہی کام ہوتا ہے اور پھر ان کے پروفیسر وغیرہ بھی اس قسم کے ہوتے ہیں اور دن رات اُن کو ایسے لوگوں میں رہنا پڑتا ہے جو عام طور پر بے دین ہوتے ہیں اس لئے باہر کی مسموم ہوا کا اُن پر زیادہ اثر ہوتا ہے اس لئے یہاں کالج کا ہونا ضروری تھا تا جہاں ہزاروں پروفیسر اسلام کے خلاف مواد جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یورپین علوم کو اسلام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں وہاں کم سے کم پندرہ سولہ ہی ایسے ہوں جو ان ہی علوم کو اسلام کی تائید میں استعمال کریں اور ان سے اسلامی مسائل کی تائید کا پہلو نکالیں.میں نے کالج کے منتظمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی مختلف سوسائٹیاں قائم کریں کہ جو سائنس اور مختلف علوم کے نظریات سے اسلام کے مسائل کی تائید کے پہلوؤں پر غور کریں.پہلے ان سوالات کو جمع کیا جائے جو اسلام پر پڑتے ہیں اور پھر ان کے جوابات سوچیں.باہر سے مشہور پروفیسروں کو یہاں منگوائیں اور اُن سے ایسی تقریریں کرائیں جو مذہب کے خلاف ہوں اور پھر اُن کے جواب تیار کریں اور وہ جواب باہر کے پروفیسروں کو بھجوائیں اور لکھیں کہ اب تک یہاں تک بحث فلاں فلاں بات کے متعلق ہو چکی ہے اگر آپ ان پر مزید روشنی ڈالنا چاہیں تو ڈالیں تا مزید غور ان کے متعلق ہو سکے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہے تا جب یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم باہر جائیں تو وہ سارے سوالات جو اسلام پر کئے جاتے ہیں اُن کے سامنے آچکے ہوں اور ان کے جواب بھی ان کو معلوم ہوں.ایسے مضامین شائع بھی کئے جاسکتے ہیں تا با ہر کے جولوگ بھی چاہیں تو ان میں حصہ لے سکیں.
۴۴۸ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۷ ریسرچ کی غرض فضل عمر سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ سائنس کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ ایک حد تک سائنس پہنچتی ہے اور اُس کے بعد مذہب کی تائید کا پہلو اُس میں سے نکلتا ہے اور اس انسٹی ٹیوٹ کی غرض یہ ہے کہ سائنس کے جن مسائل کا مذہب پر اثر پڑتا ہے انہیں حل کر کے دنیا کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کہ ان سے اسلام کی تائید ہوتی ہے.اس کے متعلق بھی میں نے ایک سوسائٹی کے قیام کی ہدایت کی ہے جو باہر سے اہل علم لوگوں کو بلائے گی اور مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسائل میں ان کی تقریریں کرائے گی.پھر ان کے جواب میں تقریروں کا انتظام کرے گی اور پھر باہر کے لوگوں کو جواب الجواب کا موقع دے گی.یہ مضامین بھی شائع کئے جائیں گے اور لکھا جائے گا کہ فلاں مسئلہ سے اس حد تک مذہب کی تائید ہوتی ہے اگر گوئی اس کے خلاف تقریر کرنا چاہے تو آ کر کر سکتا ہے.یا اگر کوئی یہاں نہ آسکے تو لکھ کر بھیج سکتا ہے.اور بعض اوقات ایسے لوگوں کو جو تقریر میں وغیرہ کرنے کے سلسلہ میں آئیں کرایہ وغیرہ بھی دیا جائے گا.گویا کہ کالج کے ذریعہ اسلام کو ڈیفنس کرنے کا انتظام کیا جائے گا اور اس سے دیگر مذاہب کے خلاف جارحانہ کا رروائی کا سامان مہیا کیا جائے گا.پھر اس کا یہ بھی کام ہوگا کہ ایسی مختلف چیزوں کو دریافت کرے جو تجارتی لحاظ سے مفید ہوسکیں گو یا مادی حصہ کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا.اِس کام کا ایک حصہ شروع ہو چکا ہے اور امید ہے اگلے سال تک تیاری مکمل ہو جائے گی.اگر خدا تعالیٰ اس کام میں کامیابی بخشے تو بعض ایجادات کا فائدہ تحریک جدید کو پہنچ سکتا ہے.بعض میں دوسرے افراد کو بھی اگر ضرورت ہو تو شامل کیا جا سکے گا اور بعض ایسی بھی ہو سکتی ہیں جنہیں ہم خود نہ چلا سکتے ہوں انہیں فروخت کر کے ریز رو فنڈ کو مضبوط کیا جا سکتا ہے.بظاہر یہ ایک خیالی بات معلوم ہوتی ہے مگر جس حد تک بعض کارروائیاں ہو چکی ہیں اُن سے امید کی جا سکتی ہے کہ مادی طور پر بھی اس کام کو مفید بنایا جا سکتا ہے.
انوار العلوم جلد ۷ ۴۴۹ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) کالج کے لئے میں نے دولاکھ روپیہ چندہ کی اپیل کی تھی.پہلی تحریک ایک لاکھ پچاس ہزار کی تھی مگر بعد میں دولاکھ کی کی تھی اور اب تک ایک لاکھ ستاون ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں اور ۴۳ ہزار باقی ہے احباب کو چاہئے کہ اِس رقم کو جلد از جلد پورا کریں.میں نے جہاں تک غور کیا ہے کالج کے چندہ کا بوجھ صرف چند لوگوں نے اُٹھایا ہے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا.بیت المال پھر تحریک کر رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ جماعت کے دوست ۴۳ ہزار روپیہ جلد از جلد پورا کر دیں گے.اگر دوست تھوڑا تھوڑا بھی حصہ لیں تو یہ رقم نہایت آسانی سے پوری ہو سکتی ہے.مستقل اخراجات کیلئے چالیس پچاس ہزار روپیہ کی مزید ضرورت ہوگی اور بی اے.بی ایس سی کی کلاسیں جاری کرنے کے لئے ایک لاکھ کے قریب روپیہ کی ضرورت ہوگی مگر اس کے لئے اعلان ۱۹۴۵ ء کے کسی حصہ میں کیا جائے گا.سر دست دو لاکھ روپیہ میں سے جتنا باقی ہے اسے پورا کر دیا جائے.لیکن اس کے ساتھ ہی باقاعدہ چندے بھی درست با شرح اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے رہیں تا سلسلہ کے دوسرے کاموں پر کوئی اثر نہ پڑے.ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جس کا میں نے ذکر کیا ہے اسے صحیح طور پر چلانے کے لئے تو کم از کم تمہیں لاکھ روپیہ چاہیئے اِس میں ۲۵ ،۳۰ ایم ایس سی یا بی ایسی سی کام کرنے والے ہونے چاہئیں.ہم بالعموم زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر فی کس دوسو روپیہ بھی سب کو وظیفہ دیا جائے تو ۷۲ ہزار روپیہ سالانہ تو صرف تنخواہوں کا خرچ ہوگا.اس کے علاوہ آلات کا خرچ ہے، کیمیکلز کا خرچ ہے، دھاتوں وغیرہ کا خرچ ہے، بجلی کا خرچ ہے اور اس قسم کے کئی دوسرے اخراجات ہیں.جن کے لئے کافی روپیہ چاہیئے تو یہ سب سے زیادہ اخراجات والی چیز ہے.مگر چونکہ یہ ادارہ خود بھی آمد پیدا کرے گا.اس لئے امید ہے کہ اس کے لئے زیادہ چندوں کی ضرورت پیش نہ آئے گی.بہر حال کچھ عرصہ کے بعد پتہ لگ سکے گا کہ ہم اس سکیم کو کس طرح چلا سکتے ہیں.اس سکیم کے ماتحت پانچ نو جوان ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ایک دوست جو پہلے گورنمنٹ سروس میں تھے استعفیٰ دے کر یہاں آچکے ہیں اس سال اُن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵۰ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) کوP.H.D کی ڈگری حاصل ہوئی ہے اور اب وہ D.S.C کا امتحان دینے والے ہیں.بعض نوجوان ابھی چھوٹی جماعتوں میں تعلیم پارہے ہیں اور ا بھی کہا نہیں جا سکتا کہ کب تیار ہوں گے بہر حال اس کے لئے بہت اخراجات کی ضرورت ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے امید ہے کہ وہ اسے مکمل کرا دے گا اور کوئی نہ کوئی ایسے ذرائع پیدا کر دے گا کہ یہ کام اچھی طرح چل سکے اور ہم اس کے ذریعہ ایک مضبوط ریز رو فنڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے.اس کے علاوہ یہ ادارہ تبلیغ کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ہوگا اس سے ہم یورپ اور امریکہ کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کر اسکیں گے اس کام کی طرف مجھے اس لئے بھی توجہ ہوئی کہ ساری قو میں سائنس میں ترقی کر رہی ہیں اور ایسے ادارے قائم کر کے اپنی اپنی قوم کی مادی ترقی میں کوشاں ہیں مگر مسلمانوں کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے حالانکہ قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ نیچر کے مسائل پر غور کرنا چاہئے مگر مسلمان اس سے غافل تھے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ہم ہی اسے شروع کر دیں.سر دست یہ کام قرض لے کر شروع کر دیا گیا ہے.تجارتی تنظیم اس کے ساتھ یہ بھی ضروی ہے کہ جماعت کی تجارتی تنظیم بھی ہو جائے.اس کے بارہ میں میں نے ایک خطبہ بھی پڑھا تھا مگر عمر بھر میں میرا کوئی اور خطبہ ایسا نہیں جس پر اس قدر بے تو جہی سے جماعت نے کام لیا ہو جتنا اس پر لیا ہے.باہر سے کسی تاجر کا کوئی خط نہیں آیا جس میں کوئی مشورہ دیا گیا ہو یا تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ہو.میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے کہ جو تحریک جماعت کو مخاطب کر کے کی گئی اُس پر کوئی توجہ نہیں ہوئی.ممکن ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے کہا تھا کہ اس کیلئے مرکز میں ایک ادارہ قائم کر دیا جائے گا.مگر وجہ خواہ کچھ ہو عملی طور پر ہوا یہی ہے کہ بعض ایسے تجربہ کارلوگوں نے جن کا تجارت کے پیشہ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں بعض بڑی بڑی لمبی اور تفصیلی سکیمیں ارسال کی ہیں.یہ بھی ایک مرض ہے کہ جب بھی کوئی نئی بات پیش ہوتی ہے بعض ایسے لوگ جن کا کوئی واسطہ اُس سے نہیں ہوتا لمبی لمبی تفاصیل اس کے متعلق لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور بڑی تجاویز
انوار العلوم جلد ۷ ۴۵۱ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ).پیش کرتے ہیں.اسی طرح اس تحریک کے متعلق ہوا ہے بعض ایسے لوگوں کی طرف سے جن کا اس فن سے کوئی تعلق نہیں بہت سی تجاویز آئی ہیں ایسی تجاویز جن پر عمل کرنا ناممکن ہے.مگر جو ماہرین فن ہیں انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی بہر حال اب میں نے مرکز میں اس کے لئے ایک ادارہ بھی قائم کر دیا ہے اور سیکرٹری مقرر کر دیا ہے کیونکہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ تجارتی تنظیم کا کام بہت ضروری ہے.اب بعض چیزیں قریب تیار ہیں مگر انہیں کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے دوستوں کے تعاون کی ضرورت ہے.مثلاً یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کی چیزوں میں دلچسپی لینے والے تاجر کون ہیں جن کے پاس ان کو فروخت کیا جا سکتا ہے یا جن کے ساتھ مل کر کام کو چلایا جا سکتا ہے.اگر دوست اس کام میں دلچسپی لیں تو خود ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.اور سب سے بڑی چیز جو میرے مد نظر ہے یہ ہے کہ تاجروں کو منظم کر کے تبلیغ کے کام کو وسیع کیا جائے.بعض سکیمیں ایسی ہیں کہ جن سے تاجروں کو بھی کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور تبلیغ کے کام میں بھی مددمل سکتی ہے مگر میں اُن کو پبلک میں بیان نہیں کر سکتا.اگر ان کو پبلک میں بیان کر دیا جائے تو مخالف بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں یہ سب باتیں میں اسی صورت میں بیان کر سکتا ہوں کہ تجارتی تنظیم مکمل ہو جائے اور احمدی تاجروں کی انجمن قائم ہو جائے.جماعتی تعاون تجارت میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کئی ایسے لوگ ہیں جو تجارتی کاموں میں پڑنا چاہتے ہیں مگر اُن کو واقفیت نہیں ہوتی کہ کیا کام شروع کریں، کس طرح کریں اور کہاں سے کریں.بعض کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا ، بعض کے پاس سرمایہ تو تھوڑا بہت ہوتا ہے مگر انہیں کام کرنے کا ذریعہ معلوم نہیں ہوتا.اگر جماعت کی تجارتی تنظیم ہو جائے تو ایک دوسرے کو بہت مددمل سکتی ہے.پھر کئی ایسے ممالک ہیں کہ اگر احمدی تاجر وہاں جائیں تو بہت جلد ترقی کی امید کر سکتے ہیں مگر یہ سب معلومات پبلک میں بیان نہیں کی جاسکتیں.اگر پبلک میں یہ باتیں بیان کر دی جائیں تو دوسرے لوگ فائدہ اُٹھا لیں گے اور اُن علاقوں کے تاجر بھی سمجھیں گے کہ یہ لوگ بالا راد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵۲ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) ایک سکیم کے ماتحت یہاں آئے ہیں اور اس لئے وہ زیادہ مخالفت کریں گے.پس میں جماعت کے تاجروں کو اپنے اس خطبہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ سلسلہ کے لئے اُن کا جلد از جلد منظم ہونا بہت ضروری ہے.ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اس وقت مزدوروں اور کارخانہ داروں کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں لیکن ہم ایسے رنگ میں اس سکیم کو چلانا چاہتے ہیں کہ ایسے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں اور دونوں ترقی کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور ہم اس کیلئے بہت سی باتیں بتا سکتے ہیں مگر پبلک میں ان کا بیان کرنا مناسب نہیں.تا جر ا حباب جلد سے جلدا اپنی انجمن بنالیں جس کے سامنے میں یہ باتیں بیان کر دوں گا.احمدی تاجروں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے نام تحریک جدید کے دفتر میں بھجوا د میں اور جس قسم کا تعاون کر سکیں کریں.ان کا موں کے چلانے کے لئے واقفین کی بھی ضرورت ہے اور نو جوانوں کو چاہئے کہ ان کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.۱۸۰ مربعه اراضی گزشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا کہ سندھ سے ۱۸۰ مربعہ اراضی آزاد کرائی جا چکی ہے اس سال تک یہ رقبہ تین سو مربعہ یعنی ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ کے قریب ہے جو آزاد کرایا جا چکا ہے دو ہزار ایکڑ کے قریب باقی ہے جس میں سے ہزار ڈیڑھ ہزار ایکڑ کے قریب زمین خریدی جا چکی ہے اور باقی کی خرید کے معاہدے ہو چکے ہیں.جو خریدی جا چکی ہے اُسے قریبی عرصہ میں آزد کرانے کی کوشش کی جائے گی.پانچ چھ سو ایکڑ تو عنقریب ہی آزاد ہو جائے گی.اس کے علاوہ کچھ رقبہ ایسا ہے جس کے متعلق خیال ہے کہ وہ خریدنے کے قابل ہی نہیں.امید ہے کہ ۱۹۴۵ء میں ساری کی ساری زمین جو ہم خریدنا چاہتے ہیں ہم خرید کر آزاد کرا سکیں گے.تحریک جدید کے دس سالہ دور میں کل قریباً ساڑھے نو ہزارایکڑ اراضی خریدی گئی ہے اس کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ روپیہ قرض لے کر ادا کیا گیا ہے اور باقی تحریک جدید کے چندوں سے.سندھ میں چونکہ کاشت کرنے والے بہت کم ہیں اس لئے وہاں زمینوں کی قیمتیں پنچاب کی نسبت بہت کم ہیں پھر بھی
انوار العلوم جلد ۷ ۴۵۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) سندھ کی موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے یہ جائداد ساڑھے بائیس لاکھ روپیہ کی ہے اور اگر پنجاب میں زمینوں کی قیمتوں پر اندازہ کیا جائے تو یہ ساٹھ سے اتنی لاکھ تک مالیت کی ہے.مگر صوبہ سندھ زراعت میں پنجاب سے بہت پیچھے ہے اور وہاں کاشت کرنے والے بھی کم ہیں.پنجاب میں تو یہ حالت ہے کہ مزار عین مالکان اراضی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں مگر وہاں مالکان مزارعین کے پیچھے پھرتے ہیں اور وہ زیادہ پروا نہیں کرتے.یہاں تو مزارعین پیشگی دے کر ٹھیکے اور کاشت پر مربعے لیتے ہیں مگر وہاں مالکان مزارعین کو پیشگی رقوم دے کر آمادہ کرتے ہیں کہ کاشت کریں.پھر یہاں تو زمیندار زمین کو ایسا تیار کرتے ہیں کہ وہ بہت پیدا وار دیتی ہے مگر وہاں کسان اتنی محنت نہیں کرتے وہ صرف بیج پھینک آتے ہیں اور باقی سارا کام مالک خود کراتے ہیں.پھر بھی حالات بدل رہے ہیں.۱۹۳۴ء میں جب میں نے پہلی دفعہ سندھ کا سفر کیا تھا تو گھوڑوں پر کیا تھا اور حالت یہ تھی کہ کئی جگہ رستہ نہیں ملتا تھا اور اردگرد آدمی بھیج کر دریافت کرانا پڑتا تھا کہ راستہ کس طرف ہے مگر اب وہاں ریل جاری ہوگئی ہے اور بعض ریلوں میں اتنی بھیٹر ہوتی ہے کہ جگہ نہیں ملتی.جس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ علاقے آباد ہو رہے ہیں اور امید ہے آہستہ آہستہ وہاں بھی زمینوں کی قیمت پنجاب جتنی ہی ہو جائے گی مگر سر دست کم ہے.پھر بھی ساڑھے بائیں لاکھ روپیہ کی یہ جائداد ہے اور اگر باقی کی زمین بھی آزاد ہو جائے تو گویا تمہیں لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ قائم ہو جائے گا.وہاں کام کرنے کے لئے بھی کارکنوں کی بہت ضرورت ہے اور میں تحریک کرتا ہوں کہ وہاں کام کرنے کے لئے بھی ایسے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں جو زمیندارہ کام سے واقف ہوں.ان کے لئے اکاؤنٹنٹ مینیجر اور منشیوں کا کام کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے اور جو لوگ وہاں خدمت سرانجام دیں گے وہ بھی سلسلہ کے ایسے ہی خادم سمجھے جائیں گے جیسے سلسلہ کے مبلغ ہیں.جو شخص وہاں جا کر منشی کا کام کرتا ہے وہ ثواب کا ویسا ہی مستحق ہے جیسے امریکہ کا مبلغ ، اس لئے میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ میں سے تھیں سال تک کی عمر کے نوجوان جو پرائمری یا مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں سندھ کی اراضیات پر کام کرنے کے لئے اپنے نام پیش کریں اور زندگیاں وقف کریں تا اُنہیں کام کے لئے تیار کر کے وہاں
۴۵۴ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۱۷ بھجوایا جا سکے.پھر وہاں مینیجروں کی بھی ضرورت ہے اس کے لئے دو گریجوایٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں.ان میں سے ایک کو ہم ایم ایس سی کی دوسرے کو بی ایس سی کی تعلیم دلا رہے ہیں.اور بھی ایسے نو جوان جو بی اے یا بی ایس سی ہوں اور جنہیں زمیندارہ کام کا تجربہ ہوا گر اپنے نام پیش کریں تو بہت اچھا ہے.ایک اور خطرہ جو ہمارے دفتری کاموں کے سلسلہ میں ہے میں اُس کا ذکر دفتری نظام بھی کر دینا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ موجودہ ناظر جب سے مقرر ہوئے ہیں وہی کام کر رہے ہیں ان کا کوئی قائم مقام تیار نہیں ہوا.یہی چند ایک لوگ ہیں جو بیس بیس سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہے ہیں اور آگے ہمارے پاس کوئی ایسے آدمی نہیں ہیں جو ان کی جگہ لے سکیں.میں نے مجلس مشاورت کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ میں تحریک جدید کے واقفین میں سے ایسے آدمی دوں گا جنہیں ایسے رنگ سے ٹریننگ دی جائے کہ وہ آئندہ جا کر نظارتوں کا کام کر سکیں.چنانچہ میں نے واقفین میں سے چھ نو جوان صدر انجمن احمد یہ کو دیئے ہیں کہ انہیں مختلف محکموں میں ٹریننگ دی جائے تا جب کسی ناظر کی کوئی جگہ خالی ہو تو وہ کام کو سنبھال سکیں.یہ نو جو ان واقفین میں سے دیئے گئے ہیں.ہم ان کو صرف گزارہ دیں گے جو صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید کو ادا کر دیا کرے گی.ان کو ترقیات اور گریڈ وغیرہ کوئی نہیں دیئے جائیں گے کیونکہ وہ واقف ہیں.تبلیغ کے کام کو وسعت دینے کے لئے اس سال کراچی، بمبئی اور کلکتہ میں باقاعدہ مشن کھول دیئے گئے ہیں.میری عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ ان مقامات پر مشن کھولے جائیں جو ہندوستان....مگر افسوس کہ اب تک اس طرف توجہ نہ دی گئی.اب یہ مشن کھل گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی کامیابی ہو رہی ہے خصوصاً کلکتہ میں زیادہ کامیابی ہو رہی ہے وہاں اب تک ایک درجن اچھے کام کرنے والے آدمی سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور درجنوں ہیں جو تیار ہو رہے ہیں اور قریب آ رہے ہیں.کراچی میں بھی بیداری کے آثار نظر آتے ہیں کچھ لوگ وہاں بھی احمدی ہوئے ہیں اور امید ہے کہ وہاں جلد مرکز مضبوط ہو کر زیادہ اچھے نتائج پیدا ہو سکیں گے.بمبئی میں دیر سے مشن قائم ہوا ہے ابھی موزوں جگہ بھی نہیں مل سکی مگر وہاں نیر صاحب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء) بطور مبلغ گئے ہیں جو پُرانے تجربہ کار آدمی ہیں وہ کوشش بھی کر رہے ہیں اور امید ہے اِنْشَاءَ الله وہاں بھی جلد کامیابی ہو جائے گی.اس کے بعد مدراس اور پشاور رہ جائیں گے اگر وہاں بھی مشن قائم ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرحدیں مضبوط ہو جائیں گی.کوئٹہ کو میں نے پہلے شامل نہیں کیا تھا مگر اب اسے بھی شامل کرنا ہے وہاں بھی مشن کا قائم ہونا ضروری ہے.وہاں سے بھی افغانستان کو آنے جانے والے قافلے گزرتے ہیں اور اگر وہاں بھی ہمارا مشن ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو تبلیغ ہو سکتی ہے.اس کے بعد میں مساجد کی تحریک کا ذکر کرتا ہوں.میں نے اس سال یہ مساجد کی تحریک تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں کافی کامیابی ہوئی ہے.أمم طاہر احمد مرحومہ کی وفات کے بعد میں نے مسجد مبارک کی توسیع کی تحریک کی تھی اور احباب نے دیکھ لیا ہو گا کہ اب کیسی شاندار مسجد بن چکی ہے.پہلے تو اندازہ تھا کہ اس پر ۱۲ ۱۳ ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ بیرونی دوستوں کو بھی اس میں حصہ لینے کا موقع دوں گا.مگر میں نے عصر کی نماز کے بعد یہ تحریک کی کہ میں چاہتا ہوں اس مسجد کو وسیع کیا جائے اور عشاء کی نماز تک سولہ ہزار کی بجائے قادیان کی جماعت نے ہی ۲۴ ہزار روپیہ جمع کر دیا.اس تحریک کے نتیجہ میں مسجد مبارک پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے اور ابھی بعض اور سامان بھی اُس کی وسعت کے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہے تو اس سے بھی وسیع ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسجد اقصیٰ کو وسیع کیا جائے.چند ہی سال ہوئے ہم نے اس مسجد کو بڑھایا تھا.شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور نے مہربانی کر کے اپنا مکان انجمن کے پاس فروخت کر دیا جسے مسجد میں شامل کر لیا گیا.بعض نادانوں نے اُس وقت اعتراض بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے مکان بہت مہنگا دیا مگر یہ اعتراض صحیح نہیں.انہوں نے جو قیمت لی وہ واجبی تھی اور میں سمجھتا ہوں اُنہوں نے اپنا مکان دے کر قربانی ہی کی تھی ورنہ جس مکان میں آدمی ایک عرصہ سے رہ رہا ہو اُسے دے دینا آسان نہیں ہوتا.اب وہ مسجد بھی تنگ ہوگئی ہے دوسری طرف باہر کے دوستوں کی طرف سے میرے پاس یہ شکایت پہنچتی ہے کہ مسجد مبارک کے چندہ کی تحریک میں انہیں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا اب اگر مسجد اقصیٰ میں توسیع کی تحریک کی گئی تو باہر کے دوستوں کو ضرور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵۶ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا مگر ابھی اس تحریک کا موقع نہیں.اگر اس مسجد کو بڑھایا گیا تو میرا خیال ہے اس پر پچاس ہزار روپیہ بلکہ ممکن ہے ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو.اب جن عمارات کو اس میں شامل کر کے اسے وسعت دی جاسکتی ہے وہ بہت قیمتی جائدادیں ہیں.اس لئے اسے وسیع کرنے پر کافی خرچ آئے گا اور جب اس کا موقع آئے گا میں تحریک کر دوں گا اور باہر کی جماعتوں کو اس میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا.اس سال میں نے یہ تحریک بھی کی تھی کہ ہندوستان کے سات اہم مقامات پر مساجد تعمیر کرنا چاہئیں یعنی پشاور، لاہور، کراچی، دہلی، بمبئی ، مدراس اور کلکتہ میں.اور یہ تحریک بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہی ہے.دہلی کے دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور سب نے ایک ایک ماہ کی آمد چندہ میں دی اور اس طرح اس مد میں تیس ہزار روپیہ کے وعدے ہو چکے ہیں اور کچھ روپیہ امانت فنڈ سے دے دیا گیا ہے.دو کنال زمین خرید لی گئی ہے جس کی قیمت پچاس ہزار روپیہ ہے یہ نواب پٹواری کی جائداد ہے.ستر ہزار روپیہ عمارت کی تعمیر پر خرچ ہونے کا اندازہ ہے.یہ جگہ جو خریدی گئی ہے یہاں پہلے عیسائیوں کا مشن بنا تھا.مجھے اس سلسلہ میں ایک بات یاد آئی جس سے بہت لطف آیا.قریباً تمیں سال پہلے مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ہائی سکول اور بورڈنگ کی عمارتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ہم تو قادیان سے جا رہے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.اُن کی یہ بات تو خدا تعالیٰ نے غلط ثابت کر دی اور ہمیں توفیق دی کہ دہلی میں عین اُس مقام پر ہم مسجد بنا رہے ہیں جہاں سب سے پہلے عیسائیوں نے اپنا مشن قائم کیا تھا اور اس طرح بجائے اس کے کہ عیسائی ہماری عمارتوں پر قبضہ کر سکتے ہم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جگہ دے دی جہاں اُنہوں نے پہلے اپنا مشن قائم کیا.امید ہے کہ ایک لاکھ ہیں ہزار روپیہ میں وہاں ایک مسجد اور ایک ہال تعمیر ہو جائے گا.میرا تو اندازہ تھا کہ کم سے کم سوالاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو گا مگر دہلی کے دوستوں نے بتایا ہے کہ بعض تجاویز ایسی ہیں کے اِنْشَاءَ اللہ انہیں سامان سستا مل سکے گا اور اس طرح بہت جلد وہاں مسجد ، ہال اور ایک مہمان خانہ تعمیر ہو سکے گا اور ہندوستان کے سیاسی مرکز میں ہمارا تبلیغی مرکز قائم ہو جائے گا.
انوار العلوم جلد کا ۴۵۷ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) دوسری جماعت جس نے جماعت دہلی سے بھی بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا ہے وہ کلکتہ کی جماعت ہے.ابھی پانچ سات سال کی بات ہے کہ کلکتہ کی جماعت کا چندہ دو چار ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہوتا تھا مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا ہے کچھ نئے آدمی وہاں گئے اور جو پہلے سے وہاں موجود تھے اُن میں سے بعض کی حالت سدھر گئی اور اب یہ حالت ہے کہ اس جماعت نے ۶۶ ہزار روپیہ چندہ مسجد کے لئے دیا ہے اور ان میں سے بعض نے تحریک کی ہے کہ اس چندہ کو ڈبل کیا جائے گویا ایک لاکھ میں ہزار کے قریب.ایک جگہ بھی انہوں نے مسجد کیلئے تجویز کی ہے جو امید ہے ساٹھ پینسٹھ ہزار میں مل جائے گی.ایک اور ٹکڑہ زمین کا شہر کے اندر ہے مگر اُس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے میں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ شہر کے باہر کے علاقہ میں بنائیں.باہر کے علاقہ میں تبلیغ میں سہولت ہوتی ہے وہاں مخالفت بھی بڑی ہوتی ہے تو اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کلکتہ میں سامان ہو رہا ہے اور جماعت نے ۶۶ ہزار روپیہ جمع کر دیا ہے.بمبئی میں ابھی جگہ خریدی نہیں گئی مگر وہاں بھی سامان ہو رہا ہے.وہاں قبرستان کے لئے بھی جگہ حاصل کی جا رہی ہے.بعض ممبروں کے دستخط بھی ہو چکے ہیں صرف ایک کے باقی ہیں.فی الحال بمبئی میں زمین خریدنے کے لئے روپیہ مرکز سے بھجوایا گیا ہے.پشاور میں پہلے سے مسجد ہے مگر چھوٹی ہے وہاں مبلغ کے لئے مکان اور لیکچر ہال کی بھی ضرورت ہے اور میں صوبہ سرحد کے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ کسی ایسی جگہ کا خیال رکھیں جہاں پاس آبادی بھی ہو اور جگہ کھلی مل سکے تا اگر ہو سکے تو وہاں عربی مدرسہ بھی جاری کیا جا سکے.کراچی میں چار کنال کے قریب زمین میں دیر سے خرید چکا ہوا ہوں یہ دراصل اراضیات سندھ کے سلسلہ میں خریدی گئی تھی کیونکہ خیال تھا کہ کراچی میں شاید رکھنا پڑے گا جو کہ حکام وغیرہ سے.کچھ تو میں نے ذاتی طور پر خریدی تھی اور کچھ انجمن کی طرف سے خریدی تھی.لاہور میں بھی اچھے موقع پر سات ایکٹر زمین خرید لی گئی ہے مگر اب حکومت کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے اور وہ اسے واپس لینا چاہتی ہے کوشش کی جائے گی کہ وہ واپس نہ لے کیونکہ
انوار العلوم جلد ۷ ۴۵۸ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) ہمارے پاس تو وہاں اور کوئی زمین ہے نہیں اور اگر انصاف سے کام لیا گیا تو ہم سے یہ زمین جبرانہ لی جائے گی.مدراس میں کوئی کوشش نہیں کی گئی اگر وہاں بھی مسجد بن سکتی تو تبلیغ کا بہت اچھا موقع پیدا ہو سکتا تھا.حیدر آباد بھی ہندوستان میں ایک اہم جگہ ہے سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور اُنہوں نے ۲۵ ،۳۰ ہزار روپیہ صرف کر کے وہاں ایک احمد یہ جو بلی ہال تعمیر کرایا ہے.ہے تو وہ مسجد ہی مگر کہلاتی ہال ہے اب انہوں نے اسے اور بڑا کر دیا ہے اور وہ اب تک اس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ کر چکے ہیں.اس کے بعد میں بیرونی مشنوں کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.بیرونی مشعوں کے متعلق اس سال جنگی مشکلات کے باوجود انگلستان، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغی لحاظ سے اچھی کامیابی ہوئی ہے.انگلستان اور امریکہ وغیرہ ممالک میں یہ حالت ہے کہ قریباً تمام مرد جنگی خدمات کے سلسلہ میں بھرتی ہو چکے ہیں.یا تو وہ فوج میں کام کرتے ہیں اور یا کارخانوں میں، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انگلستان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو توفیق دی اور انہوں نے انگلستان کے بڑے طبقہ کے لوگوں میں احمدیت کو روشناس کرا دیا.اسی طرح امریکہ میں بھی اچھی کامیابی ہوئی ہے مگر سب سے زیادہ کامیابی افریقہ میں ہوئی ہے.وہاں اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے تین مشن ہیں (۱) نائیجریا میں.جو ہندوستان کے بعد سب سے بڑا اسلامی ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی دس کروڑ کے قریب ہے اور وہاں دو تین کروڑ ہے.(۲) گولڈ کوسٹ.یہاں بھی کثرت سے مسلمان آباد ہیں.ނ ہے.(۳) سیرالیون.یہاں بھی مسلمان آباد ہیں ان علاقوں میں عیسائیوں نے مشن کھول رکھے ہیں اور عیسائی حکومت بھی ان کی مدد کرتی ہے.حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ عیسائیوں کے سکولوں کے سوا کسی سکول کو کوئی امداد نہ دی جائے.ہم نے بھی وہاں کئی سکول قائم کئے ہیں اور لڑ بھڑ کر حکومت سے امداد بھی لی ہے ان تینوں علاقوں میں ہمارے مدارس قائم ہیں جن میں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۵۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء) ہزاروں طالب علم تعلیم پا رہے ہیں اور ایسی کامیابی سے تبلیغ ہو رہی ہے کہ ہزاروں لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہوئے ہیں.وہاں جماعت کی ترقی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک کانفرنس میں تین ہزار نمائندے شریک ہوئے تھے.صرف ایک ملک میں مردم شماری کرائی تو تعداد ۲۵ ہزار تھی.بعض علاقوں میں تو یہ حالت ہے کہ امراء شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری طرف تبلیغ کیوں نہیں کرتے.ایک چیف کی بہت خواہش تھی کہ کوئی احمدی مبلغ اُس کی ریاست میں آئے وہ دو سال انتظار کرتا رہا مگر کوئی نہ جا سکا اب وہ فوت ہو چکا ہے.تو وہاں لوگوں کے دلوں میں تڑپ پائی جاتی ہے کہ ہماری باتیں سنیں مگر ہمارے مبلغ اُن تک پہنچ نہیں سکتے.وہاں تبلیغ میں بعض مشکلات بھی ہیں وہاں نئے نئے قوانیں رائج ہیں مثلاً عدالت میں بیان دیتے وقت ایک سٹول پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانی پڑتی ہے.احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم ایک زندہ خدا کے ماننے والے ہیں اور اُس کے سوا کسی کی قسم نہیں کھا سکتے.ان کے ساتھ سختیاں بھی کی گئیں.ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ پرانے قانون کو احمدیوں کے لئے تو ڑا نہیں جا سکتا اور جو احمدی انکار کرتا اُسے جیل بھیج دیا جاتا.مگر احمدی دلیری سے جیل میں جانے لگے اور اب حکومت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ احمدیوں کو خدا کی قسم کھانے کی اجازت ہے.جیسا کہ کئی احباب نے دیکھا ہوگا نیر صاحب ان علاقوں کے لوگوں کی تصویر میں دکھایا کرتے ہیں.پہلے وہاں ہزاروں لوگ ننگے پھرا کرتے تھے مگر اب وہ کپڑے پہننے لگے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں.ہمارے سیرالیون کے مبلغ واپس آرہے ہیں.حیفا سے اُن کا تار آیا ہے کہ ویز ا چونکہ جلدی نہیں مل سکا اس لئے جلسہ سالانہ پر نہیں پہنچ سکا.اب وہ عراق کی طرف روانہ ہو گئے ہیں وہ جلسہ پر نہیں پہنچ سکے ورنہ میں چاہتا تھا کہ وہ خود اپنی مشکلات پیش کرتے.وہاں تبلیغ کا میدان بہت وسیع ہے اور درجنوں مبلغ ہوں تو کام دے سکتے ہیں.چھ چھ ماہ کے بعد ان مبلغوں کا خرچ مقامی لوگ برداشت کر سکتے ہیں وہاں بہت سے افریقن مبلغ بھی کام کرتے ہیں.کچھ دن ہوئے مجھے ایک مقامی مبلغ کا خط آیا تھا اُس نے لکھا تھا کہ :.مولوی نذیر احمد صاحب کے کام کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی مولوی نذیر احمد صاحب ہوتی ہے وہ بہت جانفشانی سے کام کر رہے ہیں.یہاں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۰ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) کام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ملیر یا بہت ہے اور مچھر بہت ہیں.راستے بھی دشوار گزار ہیں مگر مولوی صاحب ان سب مشکلات کے باوجود بہت محنت سے کام کرتے ہیں اور انہوں نے بعض علاقوں میں جو بالکل جنگلی ہیں سو سو اور دو دو سو میل لمبے سفر پیدل کئے ہیں گو وہ اس کے عادی نہ تھے.اس مقامی مبلغ نے لکھا تھا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسی قربانی کی توفیق عطا فرمائے.اور ہمارے مبلغین کی ان جانفشانیوں کا نتیجہ ہے کہ ان ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ترقی حاصل ہو رہی ہے اور کالے چمڑے والے قیامت کے دن سفید شکلوں میں اُٹھیں گے.ان کے دل نور ایمان سے منور ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور اِس ملک پر وسیع طور پر پھیل جائے گا اور گری ہوئی اقوام جلد ترقی کریں گی.ٹا نگانیکا میں نئی احمد یہ مسجد تعمیر ہوئی ہے اور مدرسہ بھی کھل چکا ہے وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ اگر جماعت احمدیہ حبشیوں کی آبادی میں سکول کھولے تو وہ مدد دے گی اور وہاں کے تاجروں نے جو غیر احمدی ہیں ہزاروں روپیہ کی امداد کا وعدہ کیا ہے چنانچہ وہاں سکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.حبشہ میں سب سے پہلے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو تبلیغ کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی تھی تو اُن کی تبلیغ سے تو اس ملک کا کوئی باشندہ احمدی نہ ہوا تھا مگر فلسطین کے مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ رسالہ البشریٰ پڑھ کر حبشہ کے ایک صاحب احمدی ہوئے ہیں جو مصری پولیس میں انسپکٹر تھے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور سوڈان میں رہتے ہیں.گویا وہ تین ملکوں سے نسبت رکھتے ہیں حبشہ کے باشندہ ہونے کی وجہ سے ، مصری حکومت میں ملازمت کرنے کی وجہ سے اور سوڈان میں بود و باش رکھنے کی وجہ سے.سوڈان میں پہلے بھی ایک دوست احمدی تھے احمدیت کی وجہ سے وہاں اُن کو دکھ دیئے گئے اس لئے وہ عدن آگئے تھے.جنگ کی وجہ سے بعض احمدی ایسے سینیا گئے اور اُن کو تبلیغ کا موقع ملا اور اس طرح جنگ کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مفت تبلیغ کے راستے ہمارے لئے کھول دیئے.ایک اور نوجوان جزیرہ لگا دیپ کے رہنے والے اب قادیان آئے ہیں.سٹریٹ سیٹلمینٹس اور ہندوستان کے درمیان بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں ان میں سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۱ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) ایک جزیزہ سے ایک جہاز ہندوستان کی طرف آ رہا تھا کہ چا پانی آب دوز نے تارپیڈو مارکر غرق کر دیا تمام مسافر سوائے تین کے ڈوب گئے.یہ تینوں بمبئی پہنچے وہاں پہنچ کر دو مر گئے اور ایک بیچا.اسے ایک احمدی دوست مل گئے جب اِس نوجوان نے اپنے حالات جہاز کی غرقابی اور مصائب اُٹھا کر بمبئی پہنچنے کے واقعات بیان کئے تو اُس احمدی دوست نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کے نتیجہ میں دُنیا پر عذاب آ رہے ہیں.اس نوجوان نے پوچھا کہ مسیح موعود کون ہیں؟ اور اس طرح اس احمدی کو موقع مل گیا کہ اسے تبلیغ کرے چنانچہ اب وہ نو جوان یہاں پہنچ گیا ہوا ہے.یہ نوجوان اپنے جزیزہ کے سلطان کے وزیر کا لڑکا ہے.بعد میں وہاں سے کچھ اور لوگ ہندوستان آئے ہیں یہ اطلاع ملی ہے اس نوجوان کے متعلق وہاں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے تو اس طرح اللہ تعالی تبلیغ کے نئے نئے راستے کھول رہا ہے اور سامان وسیع کر رہا ہے.دیہاتی مبلغ اس سال پندرہ دیہاتی مبلغ تیار کئے گئے ہیں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ، موٹے موٹے دینی مسائل اور طب وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے.ان کے علاقے بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں.تین ضلع سیالکوٹ میں، تین ضلع گورداسپور، دو ضلع لاہور ، دو ضلع سرگودھا ، ایک ضلع ملتان ، ایک ضلع کرنال ، ایک ضلع امرتسر اور دو ضلع گوجرانوالہ میں لگائے گئے ہیں یہ سکیم میں پہلے شائع کر چکا ہوں.میرا منشاء یہ ہے کہ دس پندرہ یا میں دیہات کے لئے ایک مبلغ مقرر کیا جائے.یوں تو بہت سے دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے اگر صرف ان مقامات پر ہی دیہاتی مبلغ رکھے جائیں جہاں جماعتیں ہیں تو بھی آٹھ سو جماعتیں ہیں.اگر ہر دیہاتی مبلغ کا حلقہ چار چار جماعتوں پر پھیلا ہوا ہو تو بھی دوسو دیہاتی مبلغ درکار ہوں گے.لیکن اگر دوسو دیہاتی مبلغ بھی مہیا کئے جائیں تو اُن پر سوا لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.اگر ہر مبلغ کا خرچ پچاس روپیہ بھی سمجھ لیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے دس ہزار روپیہ ماہوار.یعنی ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ سالانہ.مگر ابھی ہم اتنا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے میری تجویز ہے کہ فی الحال پچاس تیار کئے جائیں.اس کے لئے بھی بیس سے تیس سال تک کی عمر کے نوجوان جن کی تعلیم مڈل کے درجہ تک ہو اپنے نام پیش کریں.چالیس سال تک کی عمر کے وہ لوگ بھی لئے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۲ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) جاسکتے ہیں جو اس کام کے لئے موزوں سمجھے جائیں.ترجمة القرآن ایک کام ترجمۃ القرآن کا بھی ہے جس کے لئے میں نے چندہ کی تحریک کی تھی.مگر بعض جماعتوں کو اس کا علم نہیں ہو سکا اور وہ حصہ نہیں لے : سکیں.یہ سوال نہیں کہ کوئی کتنی رقم دے کر اس میں حصہ لیتا ہے بلکہ ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کچھ بھی وہ دے سکے دے کر شامل ہو تا کوئی بھی اس ثواب سے محروم نہ رہے.میں نے اس کام کے لئے ایک لاکھ ۹۴ ہزار روپیہ چندہ کی تحریک کی تھی اور الگ الگ حلقے مقرر کر دیئے تھے.ایک حلقہ قادیان، ایک لجنہ اماءاللہ کا حلقہ، لاہور کا حلقہ ، صوبہ سرحد کا حلقہ، دہلی کا حلقہ، کلکتہ کا حلقہ اور ساتواں حیدر آباد کا حلقہ.یہ سات حلقے مقرر کئے گئے تھے.ان پر کلکتہ اور حیدر آباد دکن کی جماعتوں نے فوراً اطلاع دی کہ وہ اِس ذمہ داری کو بخوشی اُٹھاتی ہیں اور مقررہ رقم جمع کر کے دینے کی ذمہ دار ہیں خواہ اُن سے ملحقہ جماعتیں پوری طرح حصہ لیں یا نہ لیں وہ مقررہ رقم ضرور پوری کر دیں گی.دہلی ، صوبہ سرحد اور لاہور کی جماعتوں نے بھی رقوم پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے.پشاور کے دوست باوجود یکہ مالدار نہیں ہیں پھر بھی انہوں نے اخلاص کا نمونہ دکھلایا ہے اور کہا ہے کہ چاہے کچھ ہو وہ رقم پوری کریں گے.ان کے وعدے ہیں ہزار کے آگئے ہیں.لاہور کا وعدہ ابھی کم ہے مگر شاید وہ ابھی اپنے طور پر کوشش کر رہے ہوں.قادیان کا وعده ۲۳ ہزار تک کا ہے مگر ابھی خاص قادیان میں کوشش جاری ہے اور باہر کی بعض جماعتیں ابھی باقی ہیں.اب تک کل وعدے دو لاکھ ۱۲ ہزار کے ہو چکے ہیں حالانکہ بہت سے جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ابھی حصہ نہیں لیا.اور میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں ضرور حصہ لیں خواہ ایک دھیلہ ہی دے سکیں تا جہاں جہاں قرآن کریم کے یہ تراجم چھپ کر جائیں ثواب میں اُن کا حصہ بھی ہو.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک کوڑی دیکر بھی آدمی حصہ لے سکتا ہے اتنی رعایت کے باوجود بھی جو حصہ نہیں لیتا وہ اپنے آپ کو بہت بڑے انعام سے محروم رکھتا ہے.پس ہر دوست اس میں حصہ لے خواہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ دے کر ہی حصہ لے سکے.غرض یہ ہے کہ ہر شخص اس ثواب میں شامل ہو سکے.اترسوں مجھے بذریعہ تا رانگلستان سے اطلاع ملی ہے کہ جرمن ، روس اور انگریزی زبانوں میں بارہ بارہ سیپاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے ڈچ ، اطالوی اور سپنیش میں آٹھ اور دس سیپاروں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۳ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) کے درمیان ہو چکے ہیں اور اب تک کچھ اور کام بھی ہو چکا ہوگا بقیہ اور امید کی جاتی ہے کہ ۱۹۴۵ء میں انشاء اللہ سات زبانوں میں تراجم کا کام مکمل ہو جائے گا اور اس کے بعد طباعت کا انتظام کیا جائے گا.چندہ کی رقم خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو چکی ہے بلکہ زیادہ ہو چکی ہے اور جو تم بچ جائے گی اُسے تراجم اور تبلیغی کتب کا سیٹ چھپوانے پر صرف کیا جائے گا.میں نے چندہ کی جو رقم مقرر کی تھی اُس میں قرآن کریم کے ترجمہ اور طباعت کے ساتھ ایک کتاب کے ترجمہ اور طباعت کے اخراجات بھی شامل ہیں مگر جو روپیہ زائد آئے گا اُسے دوسری کتابوں کے تراجم اور طباعت پر خرچ کیا جائے گا.اسی طرح اس سال ہم نے ستیارتھ پر کاش کا جواب لکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو لکھا جا رہا ہے بہت سے باب لکھے گئے ہیں اور باقی لکھے جا رہے ہیں امید ہے دو ماہ تک یہ مکمل ہو جائے گی.چودھویں باب کا جواب جس میں اسلام پر اعتراضات ہیں میں خود لکھوں گا.یہ کتاب ہزار پندرہ سو صفحات کی ہوگی اور خدا تعالیٰ چاہے تو جلد شائع ہو جائے گی.اصول اس جواب میں یہ رکھا گیا ہے کہ مصنف نے جو اعتراضات کئے ہیں خواہ وہ کسی مذہب پر ہیں خواہ وہ سکھوں پر ہیں یا عیسائیوں پر یا بدھوں اور جینیوں پر اور خواہ دوسرے ہندوؤں پر وہ اگر غلط ہیں تو ان سب کے جواب دیئے جائیں گے.ایک ہزار احادیث کا مجموعہ اس کے علاوہ ایک ہزار منتخب احادیث کا مجموعہ بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے جس میں عام مسائل آجائیں گے ساڑھے سات سو احادیث میں نے منتخب کر کے دی ہیں اور باقی بعض اور دوستوں کے سپرد کی ہیں اس میں یہ امر مد نظر ہے کہ تمام اہم امور کے متعلق احادیث جمع ہو جائیں جو تحقیق شدہ ہوں یہ مجموعہ یہاں کے سکولوں میں پڑھایا جائے گا اس مجموعہ میں بہت سے اخلاقی اور علمی مسائل آجائیں گے یہ مجموعہ بھی اِنشَاءَ اللہ جلد شائع ہو جائے گا.عربی بول چال کی کتاب اسی طرح عربی بول چال کی ایک کتاب بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشاء تھا کہ ایک ایسی کتاب ہونی چاہئے یہ بھی تیار ہو رہی ہے اور مولوی ابوالعطاء
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۴ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) صاحب کے سپرد اس کی تیاری کا کام کیا گیا ہے.کچھ اسباق میں نے بھی دیئے ہیں جو اس میں شامل کئے جائیں گے.بعض سکیمیں اس کے بعد میں بعض سکیموں کا ذکر کرتا ہوں جن کو آئندہ سال جاری کرنے کا ارادہ ہے.گور مکھی اور ہندی رسالے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اگر کاغذ کی اجازت مل جائے تو گورمکھی اور ہندی میں مؤقف الشيوع رسالے شائع کئے جائیں تا کہ گور لکھی جاننے والے سکھوں اور ہندی جاننے والے ہندوؤں میں تبلیغ ہو سکے اور اُن تک بھی ہمارے خیالات بآسانی پہنچ سکیں اور اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دُور ہوسکیں.پنجاب میں سکھوں اور مسلمانوں میں کئی مقامات پر نماز اور اذان پر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں.سکھ صرف ناواقفی کی وجہ سے اذان وغیرہ پر اعتراض کرتے ہیں.اگر اذان گورمکھی میں ہو اور سکھوں کو معلوم ہو سکے کہ یہ کیا چیز ہے تو وہ بھی اس پر اعتراض نہ کریں بلکہ اذانیں دلوانے میں مدد کریں.اسی طرح ہندی زبان میں تبلیغ کا انتظام کرنا بھی بہت ضروری ہے.ہمارے ملک میں ہندوؤں کی کثرت ہے.ہندوستان میں ۷۵ فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اُردو پڑھنا نہیں جانتے اور ان میں تبلیغ کیلئے ضروری ہے کہ ہندی میں لٹریچر ہو.پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کاغذ کی اجازت مل جائے تو ان دونوں زبانوں میں رسالے جاری کئے جائیں تا سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ ہو سکے.چاہے شروع میں یہ رسالے سہ ماہی ہی ہوں.بعد میں ان کو ہفتہ وار بھی کیا جا سکتا ہے مگر شروع میں ہی اس رنگ میں کام کرنا مناسب نہیں کہ جس کا بوجھ نہ اُٹھایا جا سکے.بہر حال خواہ سہ ماہی ہی شائع ہوں مگر ہوں ضرور.مزید دیہاتی مبلغ تیار کئے جائیں دوسرے میرا ارادہ ہے کہ مزید مبلغ تیار کئے جائیں اور دیہاتی مبلغین کی نئی کلاس جاری کرنے کا ارادہ ہے.پندرہ پہلے تیار ہو چکے ہیں جو جلد اپنے اپنے حلقوں میں کام کرنے لئے چلے جائیں گے.اب نئی کلاس کیلئے مزید نو جوان زندگیاں وقف کریں.کم از کم پچاس نو جوان اس کلاس میں لئے جائیں گے.اس سکیم کیلئے اخراجات کی بھی ضرورت ہے.اگر ان
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۵ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ء) میں سے ہر ایک کا زمانہ تعلیم میں ۲۵ روپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو قریباً پندرہ ہزار روپیہ سالانہ خرچ ان پر ہوگا.مگر اس خرچ کو اُٹھانے کے نتیجہ میں پچاس نئے حلقے تبلیغ کے کھل جائیں گے یہ اتنی عظیم الشان چیز ہے کہ یہ خرچ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اور امید ہے کہ مغربی افریقہ میں کچھ عرصہ کے بعد مقامی جماعتیں مبلغین کا خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہیں یہاں بھی ایسا ہو سکے گا.اور ان مبلغین کی کوششوں سے جب جماعتیں ترقی کریں گی تو وہ بوجھ بھی برداشت کر سکیں گی.میری تجویز ہے کہ جن جماعتوں میں یہ مبلغ لگائے جائیں اُن کا موجودہ چندہ نوٹ کر لیا جائے اور پھر اس میں جو اضافہ ہوتا جائے اُس کا آدھا اُن ہی جماعتوں کو مقامی تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے کیلئے دے دیا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان بہت جلد اپنے نام زندگیاں وقف کرنے کیلئے پیش کریں گے.مجھے افسوس ہے کہ مختلف علاقوں کے ایسے نوجوانوں نے ابھی تک زندگیاں وقف نہیں کیں جو ان علاقوں کی زبانیں جانتے ہوں.اب ایسے علاقوں کی جو جماعتیں ملاقات کیلئے آتی رہی ہیں میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ اُنہوں نے واقفین میں کتنے آدمی دیئے ہیں ؟ اور وہ اس سوال پر شرمندہ ہو جاتی رہی ہیں.مثلاً صوبہ سرحد میں ایسے ہی نوجوان کا میابی سے تبلیغ کر سکتے ہیں جو پشتو اور فارسی جانتے ہوں.صوبہ سرحد میں اگر صحیح رنگ میں تبلیغ کی جائے تو بہت کامیابی کی امید ہو سکتی ہے.وہاں بعض لوگ علمی خاندانوں کے داخلِ سلسلہ ہوئے ہیں اور بعض اچھے زمینداروں میں سے ہوئے ہیں.اعلیٰ طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ صوبہ سرحد میں جس نسبت سے جماعت میں داخل ہوئے ہیں اُس کے لحاظ سے پنجاب میں بہت کم ہیں.یہاں بالعموم درمیانی طبقہ کے لوگ جماعت میں شامل ہوئے ہیں.بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بہت کم ہیں.شاید ہزار دو ہزار میں ایک ہو.مگر صوبہ سرحد میں جماعت کی نسبت کے لحاظ سے اعلیٰ خاندانوں یا بڑی بڑی جائدادیں رکھنے والے یا اُن کے رشتہ دار جو داخل ہوئے ہیں اُن کی نسبت میرے خیال میں آٹھ دس فیصدی ہے.پس میں اس صوبہ میں تبلیغ کو خاص اہمیت دیتا ہوں مگر اب تک اس صوبہ سے ہمیں ایسے نو جوان نہیں مل سکے جو دینی تعلیم حاصل کر کے وہاں تبلیغ کا کام کریں.اب سید عبد اللطیف صاحب شہید کے خاندان کا ایک بچہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۶ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) آیا ہے اور ایک اور بھی پڑھ رہا ہے.اگر یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کے کاموں میں نہ لگ گئے تو امید ہے ان سے تبلیغ کے کام میں مدد مل سکے گی.اس صوبہ کے آدمی وہاں کامیابی سے تبلیغ کر سکتے ہیں.پنجابیوں کے اور ان کے تمدن میں بہت فرق ہے اس لئے پنجابی مبلغ وہاں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتے.اسی طرح صوبہ سندھ سے بھی بہت کم طالب علم آتے ہیں جو آئے بھی ہیں وہ یا تو بیچ میں ہی تعلیم کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور یا اگر پوری تعلیم حاصل کی تو پھر دُنیاوی کاموں میں لگ گئے ہیں تبلیغ کے کام کیلئے زندگیاں وقف کرنے والے ان صوبوں سے بہت کم آئے ہیں.اسی طرح صوبہ بہار کے دوست جب ملنے آئے تو اُنہوں نے مبلغ مانگا اور میں نے اُن سے یہی سوال کیا کہ آپ لوگوں نے اپنے صوبہ سے کتنے طالب علم بھیجے ہیں کہ انہیں تعلیم دے کر و ہیں تبلیغ کیلئے بھیجا جا سکے.بنگال سے بھی کوئی طالب علم نہیں آیا.صوفی مطیع الرحمن صاحب نے زندگی وقف کی مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد.یوپی کا خانہ بھی خالی ہے.اگر ذوالفقار علی خاں صاحب کو علیحدہ رکھا جائے تو صوبہ یوپی کا خانہ بالکل خالی ہے.بمبئی کے صوبہ سے بالکل کوئی طالب علم نہیں آیا.مالا بار نے بے شک ہمت دکھائی ہے گو وہاں جماعت کم ہے مگر وہاں سے آدمی ملتے رہے ہیں اور مل رہے ہیں تو ہر صوبہ سے ایسے طالب علم یہاں آنے چاہئیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے صوبوں میں جا کر کام کر سکیں.ہمارے دوستوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے آسمان سے فرشتے آ کر نہیں کریں گے اور احمدیوں نے ہی کرنا ہے.یہ کام ایسا نہیں کہ غیر قوموں کے آدمی اس کیلئے ملازم رکھ لئے جائیں.صوبہ پنجاب نے قربانی کی ہے مگر بعض اضلاع پنجاب کے بھی خالی ہیں.مثلاً اضلاع فیروز پور اور منٹگمری ہیں ان اضلاع کے دوست جب ملنے آئے تو اُن سے بھی میں نے یہی سوال کیا کہ انہوں نے کتنے آدمی دیئے ہیں.پس میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ دوست زندگیاں وقف کریں اور اپنے نام پیش کریں.ہر علاقہ کے لوگ ایسے آدمی دیں.یہ ٹھیک نہیں کہ دوسرے علاقوں کے لوگ ان کے وہاں جا کر کام کریں.ایک علاقہ کے لوگ جب مبلغ مانگتے ہیں تو اُن کا فرض ہے کہ وہ ایسے آدمی دیں جن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۶۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) کو تعلیم دلا کر وہاں بھیجا جا سکے.پہلے تو مبلغ بننے کیلئے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا مگر اب تو ہم مڈل پاس نو جوانوں کو لے رہے ہیں اور انہیں سال ڈیڑھ سال تعلیم دلا کر کام پر لگا رہے ہیں.انہیں موٹے موٹے دینی مسائل سکھا دئیے جاتے ہیں اور کچھ طب پڑھا دی جاتی ہے تا وہ اپنی مدد آپ کرنے کے بھی قابل ہو سکیں.انہیں طبیبوں اور عطاروں سے کام سکھایا جاتا ہے اور اس لئے اب مبلغ بنے کیلئے اتنی قربانی کی ضرورت نہیں جتنی پہلے کرنی پڑتی تھی.پھر بھی اگر کسی علاقہ کو مبلغ نہ ملے تو اُسے مرکز پر شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنے آپ سے شکوہ کرنا چاہئے.دیہاتی مبلغین کی نئی کلاس کیلئے پچاس نو جوانوں کی ضرورت ہے اس لئے اگر سو دوسو درخواستیں آئیں تو ان میں سے پچاس منتخب کئے جاسکیں گے.کیونکہ ہر شخص جو اپنا نام پیش کرتا ہے وہ کام کے قابل نہیں ہوتا.اگر پچاس نوجوان مل جائیں تو پندرہ جو تیار ہو چکے ہیں اُن کو ملا کر تمام ملک میں اچھا خاصا شور تبلیغ کا مچایا جا سکتا ہے.گرلز ہوسٹل ایک اور سکیم یہ ہے کہ جس کا میں عورتوں میں بھی اعلان کر آیا ہوں.دوستوں کی طرف سے متواتر یہ تحریک ہو رہی تھی کہ قادیان میں ایک زنانہ بورڈنگ ہونا چاہئے تا باہر سے لڑکیاں آکر دینی تعلیم حاصل کر سکیں.دوستوں کو یہ شکایت تھی کہ با ہر وہ لڑکیوں کیلئے تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے اور یہاں ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہیں اور وہ چاہتے تھے کہ یہاں زنانہ بورڈنگ قائم کیا جائے.اب تک تو میں انکا ر ہی کرتا رہا ہوں کیونکہ ہمارے پاس ایسی تعلیم یافتہ عورتیں نہ تھیں جو نگرانی کر سکتیں.مگر اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہے تو اس سال زنانہ بورڈنگ جاری کر دیا جائے تا جو دوست با ہر اپنی لڑکیوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے یہاں بھیجنا چاہیں وہ بھیج کر دینی تعلیم دلوا سکیں یا جو زنانہ ہائی سکول میں تعلیم دلانا چاہیں وہ بھی دلواسکیں.کمیونزم کا خطرہ اس کے بعد ایک اور ضروری امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو تو بہ دلانا چاہتا ہوں.میں چند دن ہوئے اس کا اعلان کر چکا ہوں جو الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۴ء میں شائع ہو چکا ہے.اس وقت سب جگہوں کے دوست یہاں جمع ہیں
۴۶۸ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۱۷ اس لئے میں پھر اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ کمیونزم کا خطرہ ہے.جماعت کو اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جانا چاہئے.ہمیں آخری لڑائی اسی فتنہ کے ساتھ لڑنی پڑے گی کیونکہ اس کی بنیاد دہریت پر ہے یہ فتنہ ہر جگہ پھیل رہا ہے اور ہمارے صوبہ میں بھی زور پکڑ رہا ہے اور ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کمیونسٹ قادیان پر خصوصیت کے ساتھ حملہ کرنا چاہتے ہیں.پہلے بھی یہاں اس فتنہ کو پھیلانے کی کوشش کی جاچکی ہے.ایک دفعہ یہاں سکھ کمیونسٹ آیا اور مسلمان بن کر رہا اور ایک غیر احمدی ، احمدی بن کر رہا.انہوں نے آہستہ آہستہ یہاں اپنے خیالات پھیلانے کی کوشش کی لیکن مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہاں لوگ خصوصیت کے ساتھ قادیان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ہماری جماعت کو اس فتنہ کے مقابلہ کیلئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہئے.اس فتنہ کی بنیاد دہریت پر ہے اور یہ لوگ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ہنسی اُڑاتے ہیں کہ ایک مومن سننا بھی پسند نہیں کر سکتا.مثلاً روس میں ایسے ڈرامے کئے جاتے ہیں کہ ایک شخص حج بنتا ہے اور اس کے سامنے نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ کو ملزم کی حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے اور اُس پر یہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ اُس نے دنیا میں امراء پیدا کئے ہیں اور بعض کو غریب پیدا کیا ہے اور کہ یہ دنیا پر مصائب نازل کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اور حج اُس کے متعلق فیصلہ دیتا ہے کہ اُسے پھانسی دے دیا جائے.اور پھر ایک مجسمہ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے.اس فتنہ کو مذہب کے مقابل پر کھڑا کیا جا رہا ہے.مگر یہ لوگ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ مذہب میں کوئی دخل نہیں دیتے اور اس میں بچوں کو ماؤں سے جدا کر لیا جاتا ہے اور پھر اُن کو دہریت کی تعلیم دی جاتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم ان کو آزاد خیال بناتے ہیں تو اس کا مقابلہ ہمیں سب سے زیادہ کرنا پڑے گا.دہریت اور عیسائیت سے ہمارا مقابلہ عیسائیت سے بھی ہمارا مقابلہ ہے اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کا شریک بناتی ہے اور اسے صفت خلق سے جواب دیتی ہے مگر یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کو خدائی سے ہی جواب دیتے ہیں.پس یہ سب سے بڑے دشمن ہیں اور ہمیں ان کا پوری طرح مقابلہ کرنا ہوگا.میں جماعت کے مصنفین اور مضمون نگاروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان کا لٹریچر پڑھیں اور جماعت کو
انوار العلوم جلد کا ۴۶۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) اس سے اچھی طرح آگاہ کریں.یہ اپنے آپ کو بظا ہر...غریبوں کے ہمدرد ہیں مگر حقیقت یہ نہیں.شیطان بھی تو جنت میں اچھی شکل میں داخل ہوا تھا تا آدم کو ورغلا سکے.پس ان لوگوں کے دھوکوں سے ہمارے دوستوں کو اچھی طرح آگاہ رہنا چاہئے.ان کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف ہے کہ میں نے دیکھا کہ زار روس کا عصا میرے ہاتھ میں دیا گیا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فتنہ ہمارے ہی ہاتھوں سے کچلا جائے گا مگر تبلیغ کے ذریعہ نہ کہ مادی طاقت سے.سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں جب خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ سے تلوار چھین ہی لی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اب ہم نے تلوار سے کام نہیں لینا بلکہ تبلیغ کے ذریعہ دلوں کو فتح کرنا ہے.اِس وقت روس برطانیہ کا اتحادی ہے اور اس لئے جنگ میں اس کی فتح برطانیہ کی فتح ہے.روسی ہمارے دشمن نہیں ہیں روسی ہمارے دشمن نہیں ہیں مگر جہاں تک مذہب کے متعلق ان کے عقائد کا تعلق ہے یہ ہمارے بدترین دشمن ہیں اور جماعت کو ان کے عقائد کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے.سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اس کے بعد میں اپنے ملک کی سیاسیات کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ حقیقی سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں.ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور اگر ہم سیاسیات میں پڑ جائیں تو اپنا اصل کام نہیں کرسکیں گے مگر چونکہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اس لئے کوئی نہ کوئی سوال لازماً ہمارے سامنے آ ہی جاتا ہے.اس وقت زمیندارہ لیگ اور مسلم لیگ کی ایک نئی کشمکش مسلمانوں میں شروع ہوگئی ہے اور ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی بعض لوگ کوشش کرتے ہیں.مجھے باہر سے خطوط آتے رہتے ہیں کوئی لکھتا ہے کہ بعض لوگ آتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ.بتایا جائے کہ ہم اور کوئی لکھتا ہے کہ بعض سرکاری حکام زور دیتے ہیں کہ زمیندارہ لیگ میں شریک ہو جاؤ، ہمیں بتائیں کہ ان کو کیا جواب دیں ہر ایک اپنا سیاسی اثر ڈالنا چاہتا ہے.میں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان میں سے کسی میں بھی کوئی حصہ نہ لیں..
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۷۰ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) مسلم لیگ میں جو طبقہ برسر اقتدار ہے اس کا کوئی اصول نہیں وہ تھالی کے بینگن کی طرح ہیں.پنجاب میں جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کا کوئی متفقہ پروگرام ہی نہیں ہے.ان میں کمیونسٹ پرو پیگنڈا کرنے والے بھی شامل ہیں اور ان کو کمیونسٹوں کی امداد بھی حاصل ہے ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض امور میں کانگرس کی بھی تائید کرتے ہیں.مثلاً سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سوال ہے وہ اِس مطالبہ میں کانگرس کی حمایت کرتے ہیں اور یہ حمایت کرنے والے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مشورہ سے کانگرسی قید کئے گئے تھے.مطلب یہ کہ یہ لوگ مصلحت وقت کے ماتحت کام کرتے ہیں.پنجاب کی مسلم لیگ کا کوئی مقصد ہی نہیں.نام تو مسلم لیگ ہے مگر وہ بعض کانگرسی مطالبات کی تائید بھی کرتی ہے جیسا کہ کانگرسی قیدیوں کی رہائی کے سوال کا میں نے ذکر کیا ہے.پھر اس میں کمیونسٹوں کے حامی بھی ہیں گویا وہ ہر دلعزیز بننے کی کوشش کرتی ہے.دوسری پارٹی مسلمانوں کی جو ہے اس میں زیادہ سنجیدہ لوگ ہیں مگر وہ بھی بعض خرابیاں کر رہی ہے اور اس کی طرف سے بعض ایسی حرکات ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں سرکاری افسروں کی اخلاقی حالت گر رہی ہے.خواہ کوئی اس امر کا اقرار کرے یا نہ کرے یہ واقعہ ہے کہ اس پارٹی کی طرف سے سرکاری افسروں پر ایسا دباؤ ضرور ڈالا جاتا ہے کہ وہ اس کی تقویت کیلئے کام کریں اور اس کی حمایت کریں.مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے کہا کہ میں نے اس پارٹی کیلئے چندہ جمع کرنا ہے اور اتنی رقم پیش کرنی ہے کیونکہ مجھ سے فلاں بڑے آدمی نے یہ خواہش کی تھی کہ اس پارٹی کو چندہ دلاؤں اور میرے نزدیک سرکاری حکام کا پارٹی بازی میں حصہ لینا نہایت ہی خطرناک بات ہے.میں یہ مان لیتا ہوں کہ بعض وزراء کا اس میں دخل نہ ہوگا لیکن اس میں شک نہیں کہ سرکاری حکام سے اس پارٹی کی حمایت کا کام ضرور لیا جاتا ہے جو نہایت ہی بُری بات ہے.برطانوی سیاست اسی لئے کامیاب ہے کہ انگریز حکام کسی سیاسی پارٹی میں حصہ نہیں لیتے جو بھی پارٹی برسر اقتدار ہو اُس کی اطاعت کرتے ہیں.اگر لبرلوں کی حکومت ہو تو اُس کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر لیبر پارٹی کی حکومت ہو تو اُس کی اطاعت کرتے ہیں خود کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے.
انوار العلوم جلد کا ۴۷۱ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) سیاسیات میں حکومت کے افسران سرکاری نظام کا سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونا بہت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی کا شامل ہونا خطرناک ہے بات ہے.یونان میں اس وقت جو فسادات ہو رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ سرکاری حکام کو سیاسی پارٹیوں میں گھسیٹا گیا.اگر کوئی سرکاری افسر آج زمیندارہ لیگ کے لئے چندہ جمع کرتا ہے تو کل اگر مسلم لیگ کی حکومت بن جائے گی تو وہ کہے گی کہ تم نے زمیندارہ لیگ کو سات لاکھ چندہ جمع کر کے دیا تھا اب ہمیں دس لاکھ کر کے دو.اور اگر کوئی اور پارٹی برسر اقتدار آ جائے گی تو وہ کہے گی ہمیں پندرہ لاکھ جمع کر کے دو.اور اگر اسی طرح سیاسی پارٹیوں کیلئے چندہ جمع ہوتا رہے تو غریب زمینداروں کی تو شامت آ جائے گی.اب تو زمیندار سرکاری حکام کے کہنے پر زمیندارہ لیگ کیلئے چندے دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معمولی بات ہے تھوڑا سا چندہ دے کر افسروں کو خوش کریں مگر جہاں ڈیما کریسی ہو وہاں کبھی کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں رہ سکتی.یہ بات ناممکن ہے کہ پنجاب میں ہمیشہ زمیندارہ لیگ ہی کی حکومت رہے.آج اس کی حکومت ہے تو اگلے انتخابات میں کسی اور پارٹی کی ہو سکتی ہے اور اس سے اگلے میں کسی اور کی.اس طرح حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر افسر نہیں بدلتے وہ تو مستقل ہوتے ہیں.اور اگر افسروں کی اخلاقی حالت بگڑ جائے تو انتظام کا قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے.اور اپنے ملک کی بہتری کیلئے ہر مسلمان ، ہر ہندو اور ہر سکھ کا فرض ہے کہ اگر وہ وزیر ہو یا کسی دوسری بڑی پوزیشن کا تو کبھی کسی سرکاری حاکم کو اپنی پارٹی کی مدد کیلئے نہ کہے.سیاسی آدمی تو ہمیشہ بدلتے رہیں گے مگر سرکاری افسر مستقل ہوتے ہیں اور ملک کے فائدہ کیلئے ضروری ہے کہ اُن کو پارٹیوں سے آزا د ر کھا جائے اور اُن پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہونا چاہئے.ور نہ ان کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ سرکاری حکام پارٹی بازی میں حصہ لیتے ہیں.ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس ہمارے آدمیوں کا ایک وفد گیا اور اسے توجہ دلائی کہ اس ضلع میں ہمارے خلاف شورش ہوئی ہے اُسے دبائیں.ہماری جماعت ہمیشہ حکومت سے تعاون کرتی ہے اور وفادار ہے.اُس ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ کبھی ایسا ہو گا اب تو آپ لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی جماعت حکومت کی وفادار ہے اور اس سے تعاون کرتی ہے.کیونکہ فلاں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۷۲ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) چوہدری صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کی جماعت کے فلاں آدمی کو زمیندارہ لیگ کی سیکرٹری شپ پیش کی گئی تھی مگر اُس نے انکار کر دیا پھر آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت حکومت کی وفادار ہے.تو سرکاری حکام کو سیاسیات میں گھسیٹنے سے ان کے اخلاق ضرور خراب ہوتے ہیں.پھر اس پارٹی میں ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس کا اپنا کوئی قومی پروگرام نہیں.اس میں ہندو بھی ممبر ہیں جو ہندوؤں کے نمائندہ ہیں ، سکھ بھی ہیں جو سکھوں کے نمائندے ہیں اور ان کی پارٹیوں کے اپنے مقررہ پروگرام ہیں اور اس پارٹی کو ان سب کے پروگراموں کو سمجھ کر چلانا پڑتا ہے.اس پارٹی کا اپنا کوئی پروگرام نہیں.اس میں جو مسلمان ممبر ہیں وہ پہلے مسلم لیگ میں تھے مگر اب اُس میں نہیں رہے اور ان کا اپنا کوئی پروگرام ہے نہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب یہ پارٹی ٹوٹی تو ان لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جہاں کسی کے سینگ سمائیں.شامل ہو جائے اور یا پھر نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے “ والی حالت ان کی ہوگی.میں سندھ گیا تو ریلوے سٹیشن پر ایک ہند وسیٹھ نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی.اُس زمانہ میں وہاں خاں بہا در اللہ بخش وزیر اعظم بنے تھے.میں نے باتوں باتوں میں اُن سے دریافت کیا کہ ٹھا کر صاحب! آپ کسی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں.میرے اس سوال پر وہ مسکرائے اور جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب سر غلام حسین کی حکومت تھی ہم اُس کے ساتھ تھے اب اللہ بخش کی حکومت ہے تو اُس کے ساتھ ہیں.مسلمانوں کے متعلق تو میرا پہلے سے یہ تجربہ تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ اس اصل پر چلتے ہیں کہ جس کی حکومت بنی اُسی کے ساتھ ہو گئے مگر ہندوؤں کے متعلق ایسا نہ سمجھتا تھا مگر ان کی بات سن کر مجھے معلوم ہوا کہ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں.ان کا جواب سن کر میں نے کہا کہ ٹھا کر صاحب ! پھر خواہ غلام حسین کی وزارت ٹوٹے اور خواہ اللہ بخش کی ، آپ کی وزارت کبھی نہ ٹوٹے گی.تو ایسے لوگ اپنی وزارت رکھنا چاہتے ہیں کوئی اصول ان کا نہیں ہوتا.پس اگر یہی حالات رہے جو اس وقت پنجاب میں ہیں تو اخلاقی حالت بہت گر جائے گی.اگر زمیندارہ لیگ کسی وقت ٹوٹی تو ہندو اور سکھ ممبر تو اپنی اپنی پارٹیوں میں جا کر شامل ہو جائیں گے مگر مسلمان ممبروں کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا.مسلم لیگ کو تو یہ لوگ پہلے جواب دے چکے ہیں اور دوسری کوئی ایسی مجلس ہے نہیں جس میں یہ شامل ہوسکیں.جہاں تک
انوار العلوم جلد ۷ ۴۷۳ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) سیاسیات کا تعلق ہے ہم ہندوستان کی کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو سکتے اور پنجاب میں جو دو پارٹیاں اس وقت ہیں ان میں سے بھی ہم کسی کے ساتھ نہیں مل سکتے.کیونکہ ایک تو ان میں سے بد اصول ہے اور دوسری بے اصول.ایک کا پروگرام تو ہے مگر غلط ہے اور وہ ابن الوقتی کا ثبوت دے رہی ہے اور دوسری کا کوئی پروگرام ہے ہی نہیں.اور سرکاری حکام کے اخلاق اس کی وجہ سے بگڑ رہے ہیں میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حکام کو آزا د ر ہنے دیں.ہمارے صوبہ کیلئے وہ دن بہت بُرا ہوگا جب سرکاری حکام کو سیاسی پارٹیوں میں گھسیٹا جائے گا.جو سرکاری افسر احمدی ہیں اُن کو میرا حکم ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل نہ ہوں اور جو شامل ہوگا وہ بددیانت ہوگا اور بد دیانتی کی روٹی کھانے والا ہوگا.وہ جو سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے زمیندارہ لیگ یا کسی اور سیاسی پارٹی کی مدد کرے گا یا مخالفت کرے گا وہ بد دیانتی کرنے والا ہوگا.اُن کے لئے نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی مدد کرنا جائز ہے اور نہ مخالفت کرنا.ملازم کیلئے صرف اُس حکم کی تعمیل کرنی ضروری ہے جو اُ سے سرکاری طور پر ملے.اگر کسی سرکاری افسر سے کوئی کہے کہ کسی سیاسی پارٹی کیلئے چندہ کر کے دو تو اسے چاہئے کہ ایسا کہنے والے سے کہے کہ مجھے لکھ کر یہ حکم دے دیں.اور اگر کوئی ایسا حکم دے دے تو اسے پبلک میں شائع کر دے.سرکاری ملازم کا یہ کام ہرگز نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی مدد کرے یا اُس کی مخالفت کرے.پس احمدی سرکاری ملازم کسی پارٹی کی حمایت نہ کریں اور نہ ہی کسی کی مخالفت کریں.اسی طرح افراد جماعت بھی کسی پارٹی میں شامل نہ ہوں.باقی رہا چندہ دینے کا سوال تو اگر افسر مجبور کر کے چندہ لینا چاہیں تو دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ پر عمل کرتے ہوئے کوئی معمولی سی رقم دے کر چھٹکارا حاصل کر لیں.میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اِس طرح کرنا چاہے تو ہم اسے روکتے نہیں.میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب دنیا پر ایسا نازک وقت آ رہا ہے کہ ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوستان کی دوسری قوموں میں جو سیاسی جھگڑے ہیں وہ سب ختم ہو جانے چاہئیں اور اسی طرح انگریزوں اور ہندوستانیوں میں جو جھگڑے ہیں وہ بھی ختم کر دینے کا وقت آ گیا ہے.اس سے پہلے ان جھگڑوں میں زیادہ خطرہ کی بات نہ تھی مگر اب ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ جو لوگ الہامی کتابوں سے فائدہ اُٹھانے کے عادی نہیں ہیں اگر تہران کا نفرنس کے حالات ہی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۷۴ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) انہوں نے پڑھے ہیں تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا پر ایسی مصائب آنے والی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی قوموں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا.اور اگر یورپ اور ایشیا میں پیدا ہونے والے حالات اور واقعات ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ دنیا میں زندہ رہنے کے بھی قابل نہیں ہیں.اسی طرح انگریزوں کے گردو پیش جو حالات پیدا ہور ہے ہیں اُن کے پیش نظر ضروری ہے کہ انگریزیت اور ہندوستانیت کے سوال کو کسی نہ کسی طرح جلد از جلد حل کر لیا جائے.اس وقت دونوں کی زندگی کا انحصار ایک دوسرے کی اعانت پر ہے اور اگر دیانتداری سے دونوں نے اپنے اختلافات دُور کرنے کی کوشش نہ کی تو بہت ہی تھوڑے عرصہ کے بعد دونوں کی زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی اور پھر دونوں کو بیٹھ کر رونا ہوگا.اس سوال کی زیادہ وضاحت تو میں نہیں کر سکتا مگر پرانی کتب میں بھی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں اور میرے بعض کشوف بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کیلئے بہت نازک دن آنے والے ہیں.میں زیادہ وضاحت سے اس بات کو یہاں اس لئے بیان نہیں کر سکتا کہ ممکن ہے بعض انگریز افسروں کے نزدیک میرا ایسا کرنا مناسب نہ ہو.یہاں جو ایک انگریز افسر آتے ہیں وہ بالعموم تیسرے درجہ کے ہوتے ہیں وہ خود بھی اعلیٰ درجہ کے سیاست دان نہیں ہوتے اور فوراً اعتراض کا پہلو ان کو نظر آنے لگتا ہے اس کا ہمیں پہلے بھی تجربہ ہو چکا ہے.میں نے ایک دفعہ ایک مضمون لکھا جو الفضل میں شائع ہوا تھا تو پنجاب سی آئی ڈی نے رپورٹ کی کہ یہ مضمون ضبط ہونا چاہئے بہت خطرناک ہے.مگر اُس زمانہ میں جو صاحب پنجاب کے گورنر تھے وہ چونکہ ذاتی طور پر مجھے جانتے تھے اُنہوں نے کہا کہ نہیں ایسے آدمی نہیں کہ اِن کے مضامین قابل ضبطی ہوں.وہی مضامین ہمارے ایک بنگالی رسالہ میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے تو وہاں کی حکومت نے ایڈیٹر و پر نٹر کو نوٹس دیا کہ ایسے خطر ناک مضامین کیوں شائع کئے گئے ہیں؟ اور حکم دیا کہ آئندہ سنسر کرا کر مضمون شائع کیا کرو.اُنہوں نے بہتیرا کہا کہ ہماری جماعت ایسی جماعت نہیں ہے کہ اس پر حکومت کی مخالفت کا مبہ کیا جائے مگر کسی نے اس بات پر غور نہ کیا.لیکن وہی مضامین جب ولایت میں پہنچے تو ہمارے مبلغ نے ان کا انگریزی میں ترجمہ کر کے وہاں کے بڑے بڑے سیاسی آدمیوں کو بھجوایا تو انہوں نے بہت پسند کیا.لارڈ زیلینڈ نے
۴۷۵ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۱۷ لکھا کہ یہ نہایت اعلیٰ مضامین ہیں اور شکریہ ادا کیا.مسٹر چیمبر لین کے سیکرٹری نے ان کی طرف سے لکھا کہ یہ مضامین لکھ کر امام جماعت احمدیہ نے بہت بڑی خدمت کی ہے.تو یہاں جو افسر ہوتے ہیں وہ چونکہ تھر ڈگر یڈ طبقہ سے عام طور پر ہوتے ہیں اس لئے ایسے مضامین بھی ان کو پسند نہیں آتے جنہیں برطانیہ کے وزیر اعظم بہت بڑی خدمت قرار دیتے ہیں اور شکر یہ ادا کرتے ہیں.پس میں اس مضمون کو اس لئے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہاں بیان نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے انگریز سیاست دان کہیں گے کہ یہ کیا بم گرا دیا گیا ہے.مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور دونوں کو چاہئے کہ اپنے سیاسی نقطۂ نظر میں تبدیلی کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح کرنے کیلئے قدم اُٹھا ئیں.اور میں اپنی جماعت کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس بارہ میں پورا پورا تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں.ہندوستانیوں کی اور انگریزوں کی اور ہندوستان کی مختلف قوموں کی آپس میں صلح نہایت ضروری ہے اور اسے کرانے کیلئے ہم ہر قسم کی مدد دینے کیلئے تیار ہیں.پرانے اختلافات کو اب نئے نقطہ نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے.بعض نئے فتنوں کی بنیادیں مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بعض نئے فتنوں کی بنیادیں پیدا ہو چکی ہیں اور میں نے جو رؤیا اس بارہ میں دیکھا تھا اُس کے بعد ہی یہ سب بنیادیں بنی ہیں اور ہندوستان اور انگلستان دونوں کیلئے مشکلات پیدا ہونے والی ہیں اور دونوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ ایک دوسرے سے صلح کر لیں.انگلستان کو بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر غور کرنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کو کہاں تک آزادی دے سکتا ہے اور ہندوستانیوں کو ان حالات کے پیش نظر یہ سوچنا چاہئے کہ اگر وہ انگریزوں کی کوئی بات مان لیں تو ان کے لئے بہت فائدہ ہوگا.اور اسی طرح ہند و مسلمان بھی بدلنے والے حالات کے پیش نظر اپنے نقطہ نگاہ میں تبدیلی کر لیں تو ان کیلئے بہت اچھا ہوگا.اور اس بات پر غور کریں کہ جب ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں جو بہت خطرناک ہیں تو وہ اگر کسی غیر کی بجائے اپنے بھائی کو کچھ دے دیں تو کیا حرج ہے.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت ان کو چاہئے کہ اپنی سیاسیات میں تبدیلی پیدا کر لیں.
انوار العلوم جلد ۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) ہند و سیاست کی مجھے بھی سمجھ نہیں آئی ہندوؤں کی سیاست کی مجھے بھی سمجھ نہیں آئی.جب ملک میں ان کی اکثریت ہے اور ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہندو ہیں تو ان کو مسلمانوں سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے.بہر حال اب وقت ایسا ہے کہ سب اختلافات کو نظر انداز کر کے صلح کی طرف قدم بڑھانا چاہئے.(ماخوذ از رجسر فضل عمر فاؤنڈیشن ) حلف الفضول کے اصول اب میں اپنے ایک رؤیا کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو جولائی ۱۹۴۴ء میں میں نے دیکھا اور جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.” میں نے دیکھا کہ میں گویا اپنی اولا د کو مخاطب کر کے کچھ کہہ رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ جس طرح حلف الفضول رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوتی تھی ایسا ہی ایک معاہدہ میری اولا دکرے.تو اس کے نتیجہ میں اُس پر خدا کے فضل خاص طور پر نازل ہوں گے اور وہ کبھی تباہ نہ ہوگی.‘۵ حلف الفضول ایک معاہدہ تھا جو رسول کریم علیہ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے آپس میں کیا تھا.اس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین ایسے آدمی تھے جن کے نام فضل تھے اور اسی وجہ سے اسے حلف الفضول کہتے ہیں.اس کا مقصد یہ تھا کہ حلف الفضول والے مل کر یا اکیلے اکیلے مظلوم کا حق دلوایا کریں گے.رسول کریم ﷺ نے اُس زمانہ میں ابھی دعوی نہیں کیا تھا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اُس صلى الله نے تحریک کی کہ آپ بھی اس میں شریک ہوں.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نیک کام ہے اور میں اس میں ضرور شامل ہوں گا.چنانچہ آپ اس میں شامل ہوئے اور آپ اس کی پوری طرح پابندی کرتے رہے.حتی کہ جب آپ نے دعوی کیا اور اہل مکہ آپ کی مخالفت کر رہے تھے تو اُس زمانہ میں کسی گاؤں کا ایک آدمی مکہ میں آیا جس سے ابو جہل نے کوئی مال خریدا تھا اور وہ
انوار العلوم جلد ۱۷ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) اُس کی قیمت ادا نہ کرتا تھا.وہ حلف الفضول میں شامل ہونے والے لوگوں میں سے ہر ایک کے پاس باری باری گیا اور اُن سے کہا کہ ابو جہل سے میری رقم دلوادیں مگر سب نے اُس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ہر ایک ابو جہل جیسے بدگو آدمی کے پاس جانے سے ڈرتا تھا.لوگوں نے اُس شخص کو مشورہ دیا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ.وہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ بھی اس معاہدہ میں شامل ہیں آپ میرے ساتھ چلیں اور ابو جہل سے میری رقم دلوادیں.جن لوگوں نے اُسے آپ کے پاس جانے کا مشورہ دیا وہ جانتے تھے کہ ابو جہل آپ کا سخت مخالف ہے اس لئے آپ اُس کے پاس نہ جائیں گے مگر جب اُس شخص نے آ کر آپ سے کہا کہ میرے ساتھ چلیں.تو آپ نے فرمایا چلو.چنانچہ آپ اُس کے ساتھ ابو جہل کے مکان پر گئے اور جا کر دروازہ پر دستک دی.ابو جہل باہر آیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ نے اس شخص کی کچھ رقم دینی ہے؟ اُس نے کہا ہاں دینی تو ہے.آپ نے فرمایا کہ پھر دے دیں آپ بڑے آدمی ہیں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی رقم نہ دیں.یہ سن کر ابو جہل فوراً اندر گیا اور رقم لا کر اُس کے حوالہ کر دی.لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ابو جہل آپ کی بات ہرگز نہ مانے گا اور اُن کو موقع مل جائے گا کہ کہیں کہ دیکھو! یہ نبی بنے پھرتے ہیں کیا ابو جہل سے اس شخص کی رقم دلوادی؟ مگر جب وہ شخص واپس آیا تو لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ اُس نے کہا کہ میری رقم مجھے مل گئی ہے.اُنہوں نے پوچھا کس طرح؟ اُس نے سارا واقعہ سنا دیا.اس پر لوگ بہت حیران ہوئے اور ابو جہل کے پاس گئے اور کہا تم ہم لوگوں کو تو کہتے ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات تک نہ کرو، اُن پر ظلم کرو ، خوب تنگ کرو، مگر خود تم نے اُن کے کہنے پر اس شخص کی رقم فوراً ادا کر دی ہے.ابو جہل نے کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا.جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس شخص کے ساتھ آئے اور اُنہوں نے دروازہ پر دستک دی تو میں با ہر آیا.اُنہوں نے کہا کہ اس شخص کی رقم اگر تمہارے ذمہ ہے تو ادا کر دو.میں چاہتا تو تھا کہ یہی جواب دوں کہ تم کون ہو جو مجھے نصیحت کرنے آئے ہو مگر مجھے یوں معلوم ہوا کہ ان کے دائیں اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۷۸ بعض اہم اور ضروری امور ( ۱۹۴۴ ء ) بائیں دومست اونٹ ہیں جو مجھ پر حملہ آور ہونے لگے ہیں اور مجھ سے سوائے اس کے کچھ جواب نہ بن پڑا کہ ٹھہرئیے ابھی لا دیتا ہوں.چنانچہ میں نے رقم لا کر اُس شخص کو دے دی.مدینہ کی زندگی میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے حلف الفضول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سنا ہے آپ بھی اس میں شامل ہوئے تھے آپ نے فرمایا ہاں اگر جاہلیت کی کسی ایسی ہی چیز کی طرف جس طرح کہ حلف الفضول تھی مجھے بلایا جائے تو میں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں شامل ہوں.تو یہ رویا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ میری اولا د تباہ نہیں ہو گی اگر وہ حلف الفضول کا معاہدہ کرے.گورویا میں میں نے اپنے بیٹوں کو دیکھا مگر اولاد سے مراد روحانی اولا د بھی ہوتی ہے اور جب میں نے رویا میں اپنی اولا د کو مخاطب کیا تو گویا روحانی اولا دکو خطاب کیا ہے.اس رؤیا کے شائع ہونے کے بعد بعض دوستوں نے اپنے نام اس میں شامل ہونے کے لئے مجھے لکھے مگر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس تحریک کو شروع کروں اور یہی مناسب سمجھا کہ میں ایسے وقت میں اس کی تحریک کروں گا جب میری روحانی اولاد کا ایک کثیر حصہ سامنے ہوگا.سواب کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو یہاں جمع کیا ہے اور مجھے آپ لوگوں کے لئے بمنزلہ والد بنایا ہے اور آپ لوگ میری روحانی اولاد ہیں میں آپ کے سامنے حلف الفضول والا معاہدہ پیش کرتا ہوں مگر اس کیلئے کچھ شرطیں ہیں جو میں بیان کرتا ہوں کیونکہ ہر ایک اس بار کو نہیں اُٹھا سکتا.معاہدہ یہ ہوگا کہ :.اس میں شریک ہونے والا یہ عہد کرے گا کہ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ مظلوم کی مدد کرے گا خواہ مظلوم اُس کا یا اُس کی اولاد کا دشمن ہی کیوں نہ ہو.وہ اس میں کسی قرابت اور دوستی کی پروا نہیں کرے گا اور مظلوم خواہ اُس کا دشمن ہی کیوں نہ ہو اُس کی حمایت کرے گا اور اگر جماعت کے دوست ایسا معاہدہ کریں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا ہے وہ تباہ نہیں ہوگی.جو اس معاہدہ میں شامل ہونا چاہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ سات دن تک مسلسل بغیر ناغہ کے
۴۷۹ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) انوار العلوم جلد ۱۷ استخارہ کرے، نماز عشاء میں دعا کرے یا عشاء کی نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کرے کہ الہی ! اگر میں اس کو نباہ سکتا ہوں اور اسے تو ڑ کر تیرے غضب کو اپنے لئے بھڑ کانے والا نہ ہوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق دے.پس جو دوست اس میں شامل ہونا چاہیں وہ سات روز تک مسلسل استخارہ کرنے کے بعد مجھے اطلاع دیں.دوسرے اس میں شامل ہونے والوں کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ کسی بھائی سے خواہ اُن کا کتنا شدید اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اُس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا ترک نہ کریں گے.اور اگر وہ دعوت کرے گا تو اُسے رڈ نہ کریں گے.اور خواہ کسی سے جائداد کا جھگڑا ہو خواہ کوئی اور جھگڑا ہو، کسی نے اُن کو یا اُن کے بیوی بچوں کو کتنی تکلیف کیوں نہ دی ہو اور خواہ اُس سے اِن کے مقدمات چل رہے ہوں وہ بات چیت کرنا ترک نہ کریں گے.اُس کی دعوت کو رڈ نہ کریں گے اور نماز پڑھانے والے امام کے ساتھ اگر ان کا جھگڑا ہو تو اُس کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہرگز گریز نہ کریں گے جو دوست یہ وعدہ کرنے کو تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں ورنہ نہیں.تیسرا اقرار جو اُن کو کرنا ہوگا اور جو دراصل ہر احمدی بیعت میں شامل ہوتے وقت بھی کرتا ہے یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اُن کیلئے جو ذریعہ اصلاح تجویز کیا جائے اُسے بخوشی قبول کریں گے.چوتھے یہ کہ اس کام کو وہ نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان اور قرابت و رشتہ داری کے خیالات کے ماتحت ہرگز نہ کریں گے اور ہمیشہ مظلوم کی مدد کے جذبہ کے ماتحت کھڑے ہوں گے اور یہ بھی خیال نہ کریں گے کہ مظلوم اُن کا رشتہ دار اور عزیز ہے یا دوست ہے بلکہ اُس کی مدد خالصہ اس لئے کریں گے کہ وہ مظلوم ہے.پھر مظلوم کے معنی احمدی یا مسلمان کے ہی نہیں ہیں بلکہ مظلوم خواہ کسی مذہب اور کسی فرقہ اور کسی ملک کا ہو اُس کی مدد کریں گے جو شخص ان شرائط کو پورا کرنے کا عہد کرے گا اُس کے شامل کرنے کے متعلق میں غور کروں گا اور کسی کے متعلق نہیں.آگے مدد کس طرح کرنی ہوگی یہ سب تفاصیل بعد میں بتائی جائیں گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا ہے اور عقلی طور پر بھی میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کا معتد بہ حصہ اس میں شامل ہو
انوار العلوم جلد کا ۴۸۰ بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۴ ء ) جائے اور عمدگی سے کام کرے تو خدا تعالیٰ جماعت کو یقیناً ہر قسم کی تباہی سے بچائے گا اور ہماری ترقی کی نئی نئی راہیں کھول دے گا.متی باب ۲۶ آیت: ۳۹ (مفہوماً) الفاتحة : ٦ الفاتحة: 6 ( الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۶۰ء) P☑ الفضل ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۴۴ء
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۸۱ الموعود از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی الموعود
انوار العلوم جلد ۷ ۴۸۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ الموعود تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۴ء بر موقع جلسه سالا نه قادیان) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل قرآنی دعائیں پڑھیں.ا ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٢ ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - ربنا اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - -۴ ربنا لا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أو أخطانًا رَبَّنَا وَلا تَحْمِل عَلَينا إصْرًا كَمَا حَمَلتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لا طاقة لنا بها ه وَاعْفُ عَنّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا انت مولنا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِين - ربنا إننا سمعنا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان آن امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامنا ربنا فاغفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ عَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرارِ ) الموعود
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۸۳ الموعود -- ربنا و اينا مَا وَعَدَتَنَا عَلى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ، إنك لا تُخْلِفُ الميعاد - ٥ ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً انكَ أنتَ الْوَقَابُ : و امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا انْزِلَ إِلَى ابْرُهم وَاسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ ويَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أوتي مؤسى و عِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ من ربهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ) اس کے بعد فرمایا: آج میرا گلا بالکل بیٹھا ہوا ہے گوگل کی نسبت رات سے کسی قد رفرق ہے.رات کو تو آواز بالکل ہی نہیں نکلتی تھی اور آب نکلتی تو ہے مگر زور اور تکلیف کے ساتھ.اللہ تعالیٰ ہی توفیق دے کہ میں اپنا مضمون آج بیان کر سکوں کیونکہ سینہ میں مجھے اس قسم کی جلن اور سوزش ہے کہ میں ڈرتا ہوں شاید میں زیادہ دیر تک بول نہ سکوں اور مضمون اس قسم کا ہے کہ دو تین گھنٹہ سے کم میں اِس کا بیان ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ وقت صرف ہو جائے.گل میں بعض باتیں بیان کرنا بھول گیا تھا اور تقریر کے بعض حصے مجھے چھوڑ نے بھی پڑے تھے کیونکہ وقت زیادہ ہو گیا تھا.آج میں اُن باتوں میں سے دو تین باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں.رسالہ ”فرقان ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رسالہ ” فرقان“ کے متعلق میں نے یہ اجازت دی ہے کہ اسے دو سال تک اور شائع کیا جائے مگر آئندہ صرف غیر مبائعین کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین کا ہی اس میں جواب نہ دیا جائے بلکہ بہائیوں کے زہر کا بھی ازالہ کیا جائے.گویا آئندہ ” فرقان“ دونوں قسم کے مضامین پر مشتمل ہو گا.کچھ تو پیغامیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین ہوں گے اور کچھ بہائیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین ہوں گے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب جس طرح پہلے اس کی اشاعت کے ثواب میں شامل ہوتے ہیں اسی طرح اس دوسرے دور میں بھی وہ ” فرقان“ جاری رکھنے والوں کی ہمت افزائی کریں گے اور اس رسالہ کی اشاعت کر کے اِن دونوں فتنوں کے ازالہ کی
انوار العلوم جلد ۱۷ کوشش کریں گے.۴۸۴ الموعود ایک بات مجھے شیخ یعقوب علی سیرت حضرت اماں جان کا دوسرا حصہ صاحب عرفانی نے کہی ہے کہ میں سیرت حضرت اماں جان کی خریداری کے متعلق دوسروں کو تحریک کروں.غالبا ان کی مراد یہ ہے کہ سیرت حضرت اماں جان کا دوسرا حصہ جو ان کی طرف سے شائع ہو رہا ہے دوست اس کی خریداری میں اور زیادہ سے زیادہ اشاعت میں حصہ لیں.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس کتاب کی خریداری کا بھی خیال رکھنا چاہئے.میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ دوسرا حصہ شیخ محمود احمد صاحب مرحوم کا لکھا ہوا ہے یا شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اسے مرتب کیا ہے بہر حال پہلی جلد کو مرتب کرنے میں بہت بڑی محنت سے کام لیا گیا تھا اور جماعت کے دوستوں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس دوسری جلد کی اشاعت میں بھی ان کی امداد کریں گے.سلسلہ کے آئندہ تبلیغی کاموں کے متعلق بھی افریقہ میں زنانہ بورڈنگ مدرسہ بعض باتیں گل کی تقریر میں رہ گئی تھیں جن میں سے چند باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں ایک اعلان تو میں نے کر دیا تھا کہ افریقہ میں بھی زنانہ بورڈ نگ مدرسہ جاری کرنے کا ہمارا ارادہ ہے.مجھے یاد نہیں میں نے اس کے ساتھ ہی اس امر کا ذکر کیا تھا یا نہیں کہ افریقہ کے ایک دوست نے اس غرض کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی زمین وقف کر دی ہے اور وہاں کی احمدی مستورات چندہ جمع کر کے اس سکول کو جاری کرنا چاہتی ہیں.ان کا خط میرے نام آیا ہے جس میں اُنہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہندوستان کی احمدی خواتین بھی اس تحریک میں حصہ لیں.میں نے لجنہ اماءاللہ کو تحریک کی تھی کہ وہ اس میں حصہ لے چنانچہ لجنہ نے اس غرض کے لئے چار ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس کے علاوہ وہاں اِنْشَاءَ الله ایک ایسا سکول جاری کرنے کا بھی ارادہ ہے جو لنڈن میٹرک یا سینئر کیمبرج کا لڑکوں کو امتحان دلا سکے.یہاں ہندوستان میں تو الگ الگ یونیورسٹیاں ہیں اور ہر یونیورسٹی سے لوگ امتحان دے کر ملازمت حاصل کر سکتے ہیں مگر مغربی افریقہ میں یونیورسٹیاں نہیں ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۸۵ الموعود اس وقت وہاں ہماری جماعت کی طرف سے صرف مڈل سکول قائم ہیں اور مغربی افریقہ کے قانون کے مطابق مڈل پاس لڑکوں کو معمولی ملازمتیں تو مل جاتی ہیں مگر اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں ہمارے ہاں تو آجکل مڈل بلکہ انٹرنس کا بھی کوئی سوال نہیں لیکن ایک زمانہ ہندوستان پر بھی ایسا گزرا ہے جب مڈل پاس لڑکوں کو یہاں ملازمتیں مل جاتی تھیں اور وہاں ابھی وہی زمانہ ہے.وہ لوگ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں بلکہ وہاں کے باشندوں کا ایک حصہ ایسا ہے جو نگا پھرا کرتا تھا پھر احمدی مبلغوں کے زور دینے پر انہوں نے کپڑے پہننے شروع کئے.وہاں چونکہ جماعت کے لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُنہیں تحریک کی جاتی ہے کہ وہ جماعت کے مدارس میں داخل ہوں اور ہمارے مدرسوں میں انگریزی کی وہ اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی جو دوسرے عیسائی مدرسوں میں دی جاتی ہے اس لئے ملازمتوں کے معاملہ میں ہماری جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اعلیٰ درجہ کی ملازمتیں ہماری جماعت کے نو جوانوں کو نہیں ملتیں.اب تجویز یہ ہے کہ لنڈن میٹرک یا سینئر کیمبرج کے اصول پر وہاں ایک سکول جاری کیا جائے.جس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑ کے ان امتحانات کو پاس کر کے اعلیٰ درجہ کی ملازمتیں حاصل کر سکیں.واقفین میں سے ایک نوجوان کو اس غرض کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.وہ پہلے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جائیں گے اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے تو انہیں ویسٹ افریقہ میں مقرر کر دیا جائے گا.امید ہے کہ وہ دو تین ماہ تک یہاں سے انگلستان روانہ ہو جائیں گے.مغربی افریقہ کیلئے ایک اور مبلغ کا مطالبہ ایک اور درخواست افریقہ سے میرے پاس پرسوں ہی پہنچی ہے جس کا مجھے پہلے علم نہیں تھا.میں نے مغربی افریقہ میں جو مبلغین بھجوائے ہیں اُن کے علاوہ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نے ایک اور مبلغ کا بھی مطالبہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ نائیجریا کے ایک حصہ میں عیسائی مشنوں نے اتنا کام کیا ہے کہ قریباً سب کے سب لوگ عیسائی ہو چکے ہیں.چنانچہ جو وہاں کے اصل باشندے ہیں اُن میں سے بمشکل ایک فیصدی کوئی مسلمان نظر آئے گا ورنہ سب کے سب عیسائی ہیں.آبادی کے لحاظ سے بیشک آٹھ دس فیصدی مسلمان ہیں مگر وہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۸۶ الموعود مسلمان ایسے ہیں جو دوسرے علاقوں سے وہاں آئے ہوئے ہیں اصل باشندے نہیں.پس انہوں نے درخواست کی ہے کہ ایک مبلغ جو کم سے کم بی اے ہو اور اگر ایم اے ہو تو زیادہ اچھا ہے اُس علاقہ میں تبلیغ کیلئے بھجوایا جائے.سو انشَاءَ اللہ اس سال وہاں ایک گریجوایٹ مبلغ بھیجوانے کی کوشش کی جائے گی تا کہ وہ عیسائیت کا مقابلہ کرے.تفسیر القرآن کے متعلق اعلان میں یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت قرآن کریم کی تفسیر کی دو جلد میں تیار ہو رہی ہیں.ایک جلد آخری پارہ کی ہے جو نصف کے قریب ہو چکی ہے اور ایک جلد پہلے پارہ کی ہے جو نصف سے زیادہ ہو چکی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا تو جلسہ سالانہ کے بعد دو چار ماہ کے اندر اندر آخری پارہ کی تفسیر لکھی جائے گی اور پھر دو تین مہینہ کے اندر شائع کر دی جائے گی.اس کے بعد انشَاءَ اللہ پہلے پارہ کی تفسیر شائع کی جائے گی.پہلے میرا منشاء تھا کہ ابتدائی پانچ پاروں کی تفسیر اکٹھی شائع ہو مگر جب تفسیر لکھنے لگا تو پہلے پارہ کی تفسیر ہی بہت بڑھ گئی کیونکہ شروع میں بہت سے مضامین کو کھول کر بیان کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے.پھر میں نے ارادہ کیا کہ سورہ بقرہ کی تفسیر ایک جلد میں شائع ہو جائے مگر اس ارادہ کو بھی منسوخ کرنا پڑا کیونکہ ابھی تک نصف پارے سے کچھ او پر تفسیر لکھی گئی ہے اور چھ سو سے زیادہ صفحات ہو چکے ہیں اگر اگلے نصف حصہ کی تفسیر کو مختصر کر دیا جائے تو بھی آٹھ نوسو بلکہ ہزار صفحہ تک ایک پارہ کی تفسیر پہنچ جائے گی اور اگر سورہ بقرہ کی تمام تفسیر کو پہلی جلد میں شامل کیا جائے تو دو ہزار صفحات سے کم میں یہ تفسیر نہیں آسکے گی.پچھلی تفسیر جب شائع ہوئی تو بعض نوابوں کی طرف سے مجھے پیغام پہنچا کہ ہمیں تفسیر پڑھنے کا بڑا شوق ہے مگر ہماری عادت یہ ہے کہ ہم سوتے وقت کتاب پڑھتے ہیں کوئی ہلکی سی کتاب ہوئی اُسے سینہ پر رکھ لیا اور پڑھنا شروع کر دیا.پڑھتے پڑھتے جب نیند آ گئی تو سو گئے مگر آپ نے اتنی بڑی کتاب لکھ دی ہے کہ سینہ پر اُسے رکھنے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور ہم اسے نہیں پڑھ سکتے.اگر آپ نے تفسیر ہمیں بھی پڑھانی ہے تو ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سو صفحہ کی کتاب لکھیں جو آسانی سے ہم لوگ پڑھ سکیں اور آسانی سے اُٹھا بھی سکیں اتنی بڑی کتاب نہ اُٹھائی جاتی ہے نہ
انوار العلوم جلد ۷ ۴۸۷ الموعود آسانی سے پڑھی جاتی ہے.اگر سورہ بقرہ کی ہی دو اڑھائی ہزار صفحات میں تفسیر شائع ہو تو اس قسم کے لوگ اوروں کو بھی ڈرا دیں گے اس لئے میں سمجھتا ہوں ہمیں پہلے پارہ کی تفسیر الگ شائع کرنی پڑے گی.بہر حال یہ دونوں تفسیر میں انشَاءَ اللہ جلد شائع ہو جائیں گی.آخری پارہ کی تفسیر کے متعلق میری یہ خواہش تھی کہ جلسہ سالانہ تک اس کے تین چار سو صفحے چھپ جائیں مگر مشکل یہ ہوئی کہ قادیان میں کوئی پر لیں اس غرض کے لئے فارغ نہیں تھا اُن کے پاس اور بہت سے کام تھے یا اُن کی چھپوائی اتنی اچھی نہیں تھی جتنی اچھی چھپوائی ہم تفسیر کی چاہتے ہیں.دو مہینے کی بات ہے کچھ کا پیاں ایک پریس پر لگائی گئیں تو وہ سب کی سب اُڑ گئیں.اب میں نے تحریک جدید کی طرف سے ایک پریس خرید لیا ہے اور دس ہزار روپیہ اُس پر صرف آیا ہے اور انشاء الله جنوری میں فٹ ہو کر تفسیر کی چھپوائی شروع ہو جائے گی.یہ دقتیں تھیں جن کی وجہ سے تفسیر شائع نہ ہو سکی ورنہ اگر پہلے چھپ سکتی تو جس طرح پہلے سال میں نے شائع شدہ تفسیر کا کچھ حصہ دوستوں کے لئے دفتر میں رکھوا دیا تھا اسی طرح اس سال بھی میں اُس کا کچھ حصہ رکھوا دیتا مگر پریس کی مشکلات کی وجہ سے باوجود اس کے کہ مضمون تیار ہے اور باوجود اس کے کہ کا پیاں لکھنے والے فارغ ہیں اور کچھ کا پیاں لکھی ہوئی بھی موجود ہیں ہم اس کا کوئی حصہ چھپوا نہیں سکے جس کی وجہ سے احباب کو تفسیر کا نمونہ دکھانے سے ہم قاصر رہے ہیں.(الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۴۵ء) اس کے بعد اصل مضمون ” الموعود کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.) براہین احمدیہ کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عظیم الشان کتاب ” براہین احمدیہ کی آخری سے غیر مذاہب میں تہلکہ جلد شائع ہوئی تھی.اس کتاب کے شائع ہونے پر قدرتی طور پر غیر مذاہب کے وہ مشنری اور مبلغ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم اسلام کو کھا جائیں گے ، اُن کے اندر بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہوگئی کیونکہ اس سے پہلے ایک طرف تو عیسائی یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان ہمارا شکار ہیں اور دوسری طرف ہندوؤں میں پنڈت دیانند صاحب بانی آریہ سماج کی کوششوں کی وجہ سے ایک مذہبی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور وہ بھی یہ خیال کر رہے تھے کہ مسلمان اب ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے.اسی طرح بر ہمو سماج والے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۸۸ الموعود بھی اسلام کے خلاف کوشش کر رہے تھے اور اپنی اس جدو جہد میں انہیں کامیابی حاصل ہو رہی تھی.ایسے وقت میں جب عیسائی، ہندو، آریہ اور برہمو سب یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان ہمارا شکار ہیں اب ہم اُن کو اسلام سے منحرف کر کے اپنے مذہب میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”براہین احمدیہ“ شائع ہوئی.اس کتاب میں آپ نے تین سو دلائل کے ساتھ اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا.چار جلدیں اس کتاب کی شائع ہوئیں، ایک جلد اشتہار کے طور پر اور تین جلد میں اصل مضمون کے طور پر اور پھر یہ تین جلدیں جو آپ کی طرف سے شائع ہوئیں ان میں بھی اسلام کی صداقت کی دراصل ایک ہی دلیل بیان ہوئی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر نہیں بلکہ دلیل ابھی جاری تھی کہ کتاب بند ہو گئی.اس آدھی دلیل سے ہی جو براہین احمدیہ کی تین جلدوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے غیر مذاہب میں ایسا تہلکہ مچ گیا کہ یا تو اُن مذاہب کے لیڈروں اور ان مذاہب کے پیروؤں کے دلوں میں یہ خیال قائم ہو گیا تھا کہ وہ اسلام کو کھا جائیں گے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیں گے یا اب اُن کو یہ فکر پیدا ہو گیا کہ کہیں اسلام دنیا پر غالب نہ آ جائے اور ہمارے اپنے بھائی اسلام کی طرف نہ کھینچے جائیں.چنانچہ اس کتاب کے شائع ہوتے ہی دشمنانِ اسلام نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو ” ہونہار پر وا کے چکنے چکنے پات کے مطابق اپنے لئے ایک مستقل خطرہ کا الارم سمجھ کر اپنے تیروں کا ہدف بنانا شروع کر دیا اور وہ سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے.اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہیں تھا، صرف اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں آپ نے یہ کتاب لکھی تھی.جب اس کتاب کو لکھتے لکھتے آپ چوتھی جلد تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے الہامات سے آپ سمجھ گئے کہ اب الہبی منشاء کسی اور رنگ میں آپ سے خدمت دین لینے کا ہے.چنانچہ آپ نے براہین احمدیہ جلد چہارم کے ٹائٹل پیج پر ” ہم اور ہماری کتاب“ کے زیر عنوان اعلان فرما دیا کہ :- ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اِس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسی کی طرح ایک
انوار العلوم جلد کا ۴۸۹ الموعود ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے انسی أَنَا رَبُّک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سواب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظَاهِراً و بَاطِناً حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اُس نے جلد چہارم تک انوارِ حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کیلئے کافی ہیں اور اُس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکتی دُور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مدد گار رہے گا.اگر چہ اِس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حی و قیوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دینِ اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا.۵ بہر حال یہ کتاب چونکہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو ایک نئے رنگ میں دنیا پر ظاہر کرنے والی تھی ، اس لئے آریوں ، ہندوؤں ، عیسائیوں اور برہموؤں وغیرہ نے مل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کر دیا اور افسوس یہ ہے کہ مسلمان بھی اس حملہ میں اُن کے ساتھ مل گئے حالانکہ یہ ایک موٹی بات تھی جس کو وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کہ اسلام کی تائید میں یہ پہلی کتاب نہیں تھی جو شائع ہوئی ہو بلکہ اس سے پہلے خود مسلمان بیسیوں کتا ہیں اسلام کی تائید میں شائع کر چکے تھے مگر اُن کتابوں سے نہ عیسائیوں میں کوئی جوش پیدا ہوا ، نہ ہندوؤں میں کوئی جوش پیدا ہوا، نہ آریوں میں کوئی جوش پیدا ہوا اور نہ برہموؤں میں کوئی جوش پیدا ہوا.پھر وجہ کیا تھی کہ اُن کتابوں سے تو اُن کے دلوں میں کوئی جوش پیدا نہ ہوا لیکن اِس کتاب کے نکلتے ہی عیسائی بھی جوش میں آگئے ، ہندو بھی غصہ سے بھر گئے ، آریہ بھی مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے ، برہمو سما جی بھی اس کے اثر کو باطل کرنے کی طرف متوجہ ہو گئے اور تمام غیر مذاہب کے مشنری اور مبلغ اشتہاروں، ٹریکٹوں اور کتابوں کے ذریعہ اُس کا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۰ الموعود جواب دینے لگ گئے.یہاں تک کہ بعض نے اچھا خاصا گند اُچھالا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے وہ دلائل جو براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائے تھے اُن کے خلاف انہوں نے پے در پے لکھنا شروع کر دیا.یہ شور جو غیر مذاہب کے مشنریوں اور اُن کے مبلغوں میں پیدا ہوا اور جس نے اُن کی صفوں میں ایک تزلزل پیدا کر دیا مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا اور وہ اگر ذرا بھی غور اور تدبر سے کام لیتے تو اس حقیقت کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کہ اس کتاب میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جس سے مسیحی مبلغ اور آریہ مشنری سخت گھبراتے ہیں.اگر کوئی ایسی چیز اس کتاب میں موجود نہ ہوتی تو وہ سب کے سب آپ کے پیچھے کیوں پڑ جاتے.مخالفت کا اصل راز اصل بات یہ ہے کہ دشمن کی توجہ ہی صحیح حقیقت کا انکشاف کیا کرتی ہے اور بااثر طبقہ کی طرف سے مخالفت ہی کسی چیز کی اہمیت کا ثبوت ہوا کرتی ہے.اگر کوئی چیز دشمن کے مقابلہ میں پیش کی جائے تو خواہ پیش کرنے والا اُسے کتنا ہی بڑا کامیاب حربہ قرار دے اگر دشمن اُس کی مخالفت نہیں کرتا ، اگر وہ اُس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تو یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ وہ چیز فی الواقع دشمن کے لئے خطرناک ہے یا بہت بڑا کامیاب حربہ ہے لیکن اگر وہ فوراً مخالفت شروع کر دیتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اُس پر کاری حملہ ہوا ہے اور اب اُسے اپنے بچاؤ کا فکر لاحق ہو گیا ہے.پس مخالفین اسلام کا گھبرانا ، اُن کا شور مچانا ، اُن کا گند اچھالنا ، اور اُن کا براہین احمدیہ کی اشاعت پر اس کی تردید کے لئے کمر بستہ ہو جانا خود اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اس کتاب کو اپنے لئے ایک زبر دست خطرہ سمجھنے لگ گئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر اسلام کی حفاظت کا یہ سلسلہ اِسی رنگ میں جاری رہا تو اسلام غالب آ جائے گا اور ہم مغلوب ہو جائیں گے.مگر مسلمانوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا اور انہوں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملے شروع کر دیئے اور اس طرح عیسائیت اور آریہ سماج کا ہاتھ مضبوط کر نے لگ گئے.پنڈت لیکھرام اور منشی اندر من حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ حالات دیکھے تو آپ نے اشتہاروں کے مراد آبادی کا مقابلہ ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا.اس
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۱ الموعود مخالفت میں خصوصیت کے ساتھ اُس وقت کی آریہ سماج کے لیڈر پنڈت لیکھرام صاحب اور منشی اندرمن صاحب مراد آبادی پیش پیش تھے.بالخصوص پنڈت لیکھرام صاحب نے اس مخالفت میں نمایاں حصہ لیا اور انہوں نے تکذیب براہین نامی کتاب بھی لکھی.یہ حالات بتاتے ہیں کہ آریہ سماج نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حملہ کی سختی اور طاقت کو محسوس کر لیا تھا ورنہ اُن کے لیڈر کو اپنی عمر آپ کی تردید میں اس طرح خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی.کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھتے تو وہ وقت پر خطرہ سے آگاہ ہو جاتے.مگر اُنہوں نے خود بھی آپ کی مخالفت میں حصہ لے کر دشمنان اسلام کے ہاتھ کو مضبوط کرنا شروع کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اُس وقت اپنا کوئی دعوی نہیں تھا جس کی تردید کے لئے یہ لوگ کھڑے ہوئے ہوں بلکہ اُس وقت آپ کا صرف اتنا دعویٰ تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے لوگوں نے قرآن کریم پر غور نہیں کیا اور غور نہ کرنے کی وجہ سے ہی وہ اس کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں اب میں قرآن کریم کی تعلیم کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کروں گا کہ لوگوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسی بدلائل اور پاکیزہ کتاب دنیا میں اور کوئی نہیں.اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ مخالفین اسلام کا اصل حملہ آپ پر نہیں تھا کیونکہ آپ تو محض اسلام کے ایک وکیل کی حیثیت سے دنیا میں کھڑے ہوئے تھے اُن کا اصل حملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن کریم کی حقانیت پر تھا.وہ نہیں چاہتے تھے کہ دنیا میں قرآن کریم کا نور ظاہر ہو یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی راستبازی کا دنیا کو علم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چلہ کشی کا ارادہ جب آپ نے دیکھا کہ غیر مسلم تو الگ رہے خود مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے جس نے آپ کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ہے حالانکہ آپ اسلام کی تائید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کے اظہار کیلئے کھڑے ہوئے تھے تو آپ کے دل میں سخت درد پیدا ہوا اور آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنی شروع کیں کہ تو مجھے اپنی تائید سے ایسا موقع بہم پہنچا کہ میں اُن تمام وساوس کو جو اسلام کے خلاف پھیلائے جاتے ہیں اور اُن تمام حملوں کو جو اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جاتے ہیں کامیابی سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۲ الموعود دُور کر سکوں اور اسلام کی محافظت اور دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا فرض پوری خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے سکوں.اس غور و فکر میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ میں چالیس دن تک چلہ کروں اور کسی علیحدہ مقام پر خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کروں کہ وہ ایسی تائیدات کے سامان میرے لئے مہیا فرمائے جن سے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا کامل اور روشن تر ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر سکوں.چنانچہ آپ نے دعاؤں اور استخاروں سے کام لینا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ الہی ! بعض مقامات بھی خاص طور پر بابرکت ہوتے ہیں اور ان مقامات کے ساتھ تیرے خاص فضل وابستہ ہوتے ہیں.وہاں اگر دعائیں کی جائیں تو وہ اور دعاؤں کی نسبت زیادہ شان سے اور قریب ترین عرصہ میں شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں.تو اپنے خاص فضل سے اس بارہ میں بھی میری راہنمائی فرما کہ میں یہ دعا ئیں کہاں کروں اور کس جگہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنے کے لئے جاؤں.پور کے حالات ان دعاؤں اور استخارہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود ہوشیار علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا کہ آپ ہوشیار پور میں چلہ کریں.مولوی عبداللہ صاحب سنوری اُس وقت آپ کے معتقد تھے.انہیں جب معلوم ہوا کہ آپ چالیس دنوں تک خاص دعائیں کرنا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ جب آپ چلہ کریں تو مجھے بھی اطلاع دیں کہ کس جگہ چلہ کیا جائے گا تا کہ میں بھی خدمت کا ثواب حاصل کر سکوں.وہ اُس وقت پٹیالہ میں پٹواری ہوا کرتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ہوشیار پور کے مقام پر چلہ کرنا پسند کرتا ہے تو آ نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو لکھا کہ میں چلہ کیلئے ہوشیار پور جا رہا ہوں آپ بھی فوراً پہنچ جائیں تا کہ قادیان سے ہم اکٹھے روانہ ہو سکیں.چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری قادیان پہنچ گئے اور آپ ۲۱ جنوری ۱۸۸۶ ء کو ہوشیار پور روانہ ہوئے.آپ کے ساتھ صرف تین آدمی تھے.اول مولوی عبداللہ صاحب سنوری.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۳ الموعود دوم حافظ شیخ حامد علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت پرانے خادموں میں سے تھے اور لمبے عرصے تک آپ کی خدمت کرتے رہے ہیں.دوم فتح خاں صاحب جو رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کے ایک زمیندار دوست تھے.آپ نے جانے سے پہلے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو جو آپ کے واقفوں اور دوستوں میں سے تھے ایک خط لکھا کہ میں وہاں دو ماہ کے لئے آنا چاہتا ہوں آپ میرے لئے کسی مکان کا انتظام کریں جہاں ٹھہر کر میں علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکوں.آپ نے یہ بھی لکھا کہ میں نہیں چاہتا ان ایام میں لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آئیں.میں صرف اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا چاہتا ہوں اس لئے مکان ایسا ہو جو شہر کے ایک طرف ہو اور اُس میں بالا خانہ بھی ہو تا کہ دعا اور توجہ الی اللہ میں کوئی نقص واقع نہ ہو.چنانچہ انہوں نے اپنا ایک خاندانی مکان جو کسی وقت طویلے کے طور پر کام آتا تھا اور اسی نام سے مشہور تھا آپ کے لئے خالی کرا - دیا اور لکھا کہ میں نے آپ کے لئے ایک مکان کا انتظام کر دیا ہے جو شہر سے باہر ہے لیکن اتنی دور بھی نہیں کہ شہر سے چیزیں لانے میں تکلیف محسوس ہو آپ جب چاہیں تشریف لے آئیں.اس اطلاع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲۱ جنوری ۱۸۸۶ء کو روانہ ہوئے اور راستہ میں ایک رات رسول پور ٹھہرتے ہوئے ۲۲ / جنوری جمعہ کے دن وہاں پہنچ گئے.جاتے ہی آپ نے شیخ مہر علی صاحب کے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور پھر اُن تینوں دوستوں کو جو آپ کے ساتھ تھے الگ الگ ڈیوٹیوں پر مقرر فرما دیا.مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے سپر دکھانا پکانے کا کام ہوا.فتح خان صاحب کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سو دا وغیرہ لایا کریں اور حافظ شیخ حامد علی صاحب کا یہ کام مقرر کیا گیا کہ وہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والوں کی مہمان نوازی کریں.آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں سے بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آئے.میرا کھانا بھی او پر پہنچا دیا جائے مگر اس بات کا انتظار نہ کیا جائے کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے یا نہیں بلکہ کھانا رکھ کر فوراً کھانا لانے والا واپس چلا جائے اور خالی برتن دوسرے وقت لے جایا کرے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان ایام میں کسی اور کام کی طرف توجہ کروں.چنانچہ چالیس دن آپ نے اس
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۴ الموعود بالا خانہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور علیحدگی میں دعائیں کیں.اس دوران میں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض عظیم الشان انکشافات ہوئے جن کی بناء پر ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء کو ہفتہ کے دن ہوشیار پور میں ہی آپ نے ایک اشتہار لکھا اور اُسے شائع کر کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیا.مصلح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس وقت جو اشتہار لکھا اُس کا کچھ حصہ یہ ہے جو کی ایک عظیم الشان پیشگوئی میرے آج کے مضمون کے ساتھ تعلق رکھتا ہے آپ فرماتے ہیں:- پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عز وجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے جَلَّ شَأْنُهُ وَ عَزَّاسُمُهُ مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر ! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں.اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۵ الموعود خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اُس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اُس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کر نے والا ہو گا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور.جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اُس سے برکت پائیں گے.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا.“ 66 پیشگوئی کی غرض وغایت یہ وہ اشتہار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہوشیار پور میں شائع فرمایا.اس اشتہار سے ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی تھی کہ :- (1) جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آ ئیں.(۲) تا دین اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.(۳) تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.(۴) تا لوگ سمجھیں کہ خدا قادر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۶ الموعود (۵) اور تا وہ یقین لائیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے.(۶) اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے.(۷) اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.جب یہ اشتہار شائع ہوا تو دشمنوں دشمنان سلسلہ کی طرف سے اعتراضات نے اس پر بھی اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.تب ۲۲ / مارچ ۱۸۸۶ء کو آپ نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا.دشمنوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا.کیا ہمیشہ لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا نہیں ہوا کرتے.شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا کوئی لڑکا نہ ہو یا جس کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں.ورنہ عام طور پر لوگوں کے ہاں لڑ کے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کبھی اُن کی پیدائش کو کوئی خاص نشان قرار نہیں دیا جاتا.پس اگر آپ کے ہاں بھی کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تو اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگا کہ دنیا میں اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا کوئی خاص نشان ظاہر ہوا ہے.آپ نے لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ۲۲ مارچ کے اشتہار میں تحریر فر مایا کہ :- وو یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدا ئے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا.پھر اسی اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا:.” بفضلہ تعالیٰ و احسانه و برکت حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند کریم نے اِس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.اے بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاں محض ایک بیٹا پیدا ہونے کی خبر دیتے تب بھی یہ خبر اپنی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۷ الموعود ذات میں ایک پیشگوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک حصہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو بہر حال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں کوئی اولا د نہیں ہوتی.دوسرے آپ نے جب یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کی عمر پچاس سال سے اُو پر تھی اور ہزاروں ہزار لوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ہاں پچاس سال کے بعد اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں مگر پیدا ہونے کے تھوڑے عرصہ ہی بعد مر جاتے ہیں.اور یہ سارے شبہات اس جگہ موجود تھے.پس اوّل تو کسی لڑکے کی پیدائیش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہو سکتا.لیکن آپ بطور تنزل اِس اعتراض کو تسلیم کر کے فرماتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ محض کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا.تو سوال یہ ہے کہ میں نے محض ایک لڑکے کی پیدائش کی کب خبر دی ہے.میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما کر ایک ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.آپ کے دشمن یہ تو کہہ سکتے تھے کہ سو میں سے نانوے لوگوں کے ہاں اولا د پیدا ہو جاتی ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ سو نہیں ہزار انسانوں میں سے ایک کے ہاں ضرور ایسی اولاد پیدا ہوتی ہے جو تمام زمین میں شہرت پا جاتی ہے اور اُس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام لوگوں میں پھیل جاتی ہیں بلکہ وہ تو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ لاکھ میں سے ایک شخص کی اولا دضرور ساری دنیا میں مشہور ہو جاتی ہے بلکہ اس کو بھی جانے دو وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ کروڑ لڑکوں میں سے ایک لڑکا ضرور ایسا ہوتا ہے جو ساری دنیا میں شہرت پا جاتا ہے.غرض آپ کے دشمن تو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں سو میں ننانوے پیشگوئی کا مصداق ہو سکتے ہیں اس لئے یہ کوئی پیشگوئی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے جواب دیا کہ میں نے جو پیشگوئی کی ہے اس کے مطابق سو میں سے نانوے نہیں کروڑ انسانوں میں سے ایک شخص کی اولا دبھی اس کا مصداق ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ پیشگوئی یہ ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہوگا جو دینی لحاظ سے تمام زمین میں شہرت پائے گا.اور دینی لحاظ سے تمام زمین میں شہرت پا جانے کی اس زمانہ میں ایک مثال بھی دشمنوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۸ الموعود کی طرف سے پیش نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس زمانہ میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دینی لحاظ سے تمام دنیا میں شہرت حاصل کی لیکن آپ تو اس پیشگوئی کا جزو اعظم تھے.آپ کے علاوہ کوئی اور ایسا شخص نہیں جسے دینی لحاظ سے شہرت کا یہ مقام حاصل ہوا ہو.اگر دو ارب دنیا کی آبادی سمجھ لی جائے اور اس میں سے ایک ارب عورتوں اور بچوں کو نکال دیا جائے تو باقی ایک ارب لوگوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مستی کرتے ہوئے کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی جس نے دینی لحاظ سے تمام دنیا میں شہرت حاصل کی ہو.یہ بالکل واضح اور نمایاں بات ہے کہ اگر دینی لحاظ سے بعض لوگوں نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کی ہو تو جتنی نسبت ایسے شہرت پانے والے شخصوں کی دنیا کی باقی آبادی کے مقابلہ میں ہوگی وہی نسبت اس پیشگوئی کی عظمت یا اس کی عدم عظمت کے درمیان سمجھی جائے گی.فرض کرو ساری دنیا میں سے دس آدمی ایسے پیش کئے جا سکتے ہوں جنہوں نے دینی لحاظ سے تمام دنیا میں شہرت پائی ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسی پیشگوئی کی جو بیس کروڑ میں سے ایک پر پوری ہوسکتی ہے اور جہاں ہیں کروڑ چانس نفی کے ہوں کیا وہاں ایک منٹ کے لئے بھی کوئی شخص ایسی پیشگوئی کرنے کی جرات کر سکتا ہے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں کوئی ایک مثال بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے سلسلہ کے باہر ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کسی شخص نے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کر کے مذہبی لحاظ سے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی ہو.عیسائی ہیں انہیں دنیوی لحاظ سے بڑی طاقت حاصل ہے اور اُن کے بادشاہوں کی شہرت بھی دنیا کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہے لیکن اُن کو اس مثال کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں یہ شرط ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اسلام کی متابعت کرتے ہوئے ساری دنیا میں شہرت حاصل کرے گا اور یہ بات ایسی ہے جو اُن میں سے کسی کو حاصل نہیں.وہ طاقتور ہیں ، وہ غالب اقوام میں سے ہیں اور اپنی طاقت اور غلبہ کے زور سے دنیا میں شہرت حاصل کر رہے ہیں اس لئے شہرت حاصل نہیں کر رہے کہ انہوں نے اسلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے.اسی طرح کئی سیاسی لیڈر ہیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۴۹۹ الموعود جن کی شہرت دینا کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہے.مثلاً ہمیں اس سے ہرگز انکار نہیں کہ مسٹر چرچل ، مسٹر ایڈن ، لارڈ ہیلی فیکس یا مسٹر روز ویلٹ وغیرہ کو تمام دنیا میں شہرت حاصل ہے اگر ان میں سے کسی کا نام کوئی شخص پیش کر دے یا مسٹر سٹالن کا نام لے اور کہے کہ تم نے کونسی نرالی پیشگوئی کی ہے یہ لوگ دنیا میں ایسے موجود ہیں جو بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ بیشک اِن لوگوں کو اور اِسی طرح اور بیسیوں لوگوں کو شہرت حاصل ہوئی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پیشگوئی فرمائی ہے اُس میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک ایسا بیٹا پیدا ہو گا جو دینِ اسلام کی خدمت اور قرآن کو پھیلا نے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہو گا حالانکہ دین ایک ایسی چیز ہے جسے آج دنیا میں سب سے زیادہ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسلام وہ مذہب ہے جس کی طرف آج کسی کو بھی توجہ نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ رسول ہیں جن کی آج سب سے زیادہ تحقیر کی جاتی ہے لیکن آپ فرماتے ہیں اس دین کی غلامی کرتے ہوئے ، اس مذہب کی اشاعت کرتے ہوئے اور اس پاک رسول کے نام کو بلند کرتے ہوئے وہ ساری دنیا میں شہرت پائے گا اور زمین کے کناروں تک عزت کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا.ان شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص بتا دے کہ گزشتہ پچاس یا سو سال میں سے کسی ایک شخصر نے ہی اسلام کی خدمت کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک شہرت حاصل کی ہو اور قوموں نے اُس سے برکت پائی ہو.اگر ایک ارب دنیا کی آبادی سمجھی جائے اور چھپیں سال ایک نسل کی اوسط عمر سمجھی جائے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ چار ارب آدمیوں میں سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی نے دین کی خدمت کرتے ہوئے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی ہو اور جو مثال اتنی نایاب ہو کہ چار ارب میں سے کوئی ایک شخص بھی اس پر پورا نہ اتر سکتا ہوا سے انسانی واہمہ یا قیاس کا نتیجہ کس طرح کہا جا سکتا ہے.اگر ایسی پیشگوئی کی جائے تو ہر سمجھدار انسان کو ماننا پڑے گا کہ یہ پیشگوئی قیاس سے نہیں کی گئی کیونکہ اس میں ایسی شرائط موجود ہیں جو چار ارب میں سے کسی ایک پر پوری نہیں ہوسکتیں.پھر فرماتے ہیں.جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے
انوار العلوم جلد ۱۷ الموعود معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ اُن کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے دنیا کے سامنے اس حقیقت کو پیش فرمایا تھا کہ یہ نشان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہوگا اور اس سے دنیا پر آپ کے معجزات کا سچا ہونا ثابت ہو جائے گا.مصلح موعود کی پیدائش کیلئے نو سال کی میعاد کا تقریر اسی طرح آپ نے اشتہار میں لکھا کہ:.ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.اس طرح آپ نے پیشگوئی میں ایک اور شرط بڑھا دی.پہلے تو کسی میعاد کی تعیین نہیں تھی.انسان کہہ سکتا تھا کہ ممکن ہے دس یا پندرہ یا بیس سال میں لڑکا پیدا ہو جائے مگر اس اشتہار کے ذریعہ آپ نے ایک مزید شرط کا اعلان فرما دیا اور بتا دیا کہ الہام الہی سے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ وہ لڑکا جس کی پہلے اشتہار میں خبر دی گئی تھی 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہو جائے گا خواہ جلد ہو یا دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.اس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ ۹ سال تو بہت لمبی میعاد ہے اتنے عرصہ میں کسی لڑکے کا پیدا ہو جانا کونسی بعید بات ہے.جب آپ کو یہ اعتراض پہنچا تو آپ نے ۱۸ پریل ۱۸۸۶ء کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ : - جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی معیاد سے گو ۹ برس سے بھی دو چند ہوتی اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا بلکہ صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے.۱۴ یعنی ہم صرف ایک لڑکے کی پیدائش کی خبر نہیں دے رہے بلکہ ایک ایسے لڑکے کی پیدائش کی خبر دے رہے ہیں جو 9 سال میں پیدا ہو گا ، دین اسلام کی خدمت کرے گا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلائے گا اور دین کی خدمت کرتے ہوئے زمین کے کناروں تک
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۰۱ الموعود شہرت پائے گا.قریب زمانہ میں پیدا ہونے والے ایک اورلڑکے کی خبر پھر اسی اشتہار لکھا کہ : - میں آپ نے توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا با لضرور اس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں 9 برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.۱۵ غرض اس اشتہار کے ذریعہ سے جو ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء کو شائع کیا گیا تھا آپ نے لوگوں کے اعتراض کا جواب دے دیا کہ اوّل تو تم جو اعتراض کرتے ہو کہ کسی لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا اس لحاظ سے درست نہیں کہ میں نے صرف ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر نہیں دی بلکہ ایک ایسے لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دی ہے جو اپنے ساتھ کئی قسم کی صفات رکھتا ہوگا اور اُن صفات خاصہ کے ساتھ کسی کی پیدائش کی خبر دینا انسانی قیاس کا نتیجہ نہیں ہوسکتا.دوسرے تم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ 9 برس بہت لمبی معیاد ہے اِس قد ر لمبے عرصہ میں تو بہر حال کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے.پس تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہو گیا کہ ۹ برس بہت لمبی میعاد ہے.اتنے عرصہ میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو ہی سکتا ہے کیونکہ میں ایک ایسے لڑکے کی بھی خبر دیتا ہوں جو قریب زمانہ میں پیدا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جولڑ کا اب قریب ترین عرصہ میں پیدا ہونے والا ہے یہ وہی موعود دلڑ کا ہے یا وہ کسی اور وقت میں 9 برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.غرض جس قدر اعتراضات لوگوں کی طرف سے ہوئے اُن تمام کے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متواتر اپنے اشتہارات میں
انوار العلوم جلد کا الموعود دیئے اور دشمنانِ اسلام پر ہر طرح اتمام حجت کر دیا.بشیر اوّل کی پیدائش ان پیشگوئیوں کے شائع ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں ۷ اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا دیکھو اشتہار ۷/ اگست ۱۸۸۷ء) جس کا نام آپ نے بشیر رکھا اور اسے ۱/۸ پریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں جو ایک اور لڑکے کی پیشگوئی تھی جو قریب مدت میں پیدا ہونے والا تھا اُس کا مصداق قرار دیا.۱/۸ پریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں پیشگوئی کے یہ الفاظ تھے کہ:.اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدت حمل سے تجاوز نہ کرے گا.اس سے ظاہر ہے کہ ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں 9 برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا اور پھر اس کے بعد الہام ہوا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تلیں.۱۶ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے ان اعتراضات کی وجہ سے کہ ۹ برس میں پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے جو مدت مقرر کی گئی ہے وہ بہت لمبی ہے اس عرصہ میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا ہو ہی جاتا ہے آپ نے دعا کی تو آپ پر یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہو نیوالا ہے.ایک کا لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں ظاہر فرمایا کہ جولڑ کا قریب ہی ہونے والا ہے وہ وہی 9 سالہ میعاد میں پیدا ہونے والا موعو دلڑکا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اور ہو.اس پیشگوئی کی اصل غرض دشمنوں کے اس اعتراض کو دور کرنا تھی کہ لمبی مدت میں لڑکے کا ہونا عجیب بات نہیں پیشگوئی قریب زمانہ کے متعلق ہونی چاہئے.گو اُن کے اعتراض کا اصل جواب تو یہ دیا گیا کہ جس شان کا لڑکا موعود ہے اس شان کا لڑکا 9 چھوڑ اٹھارہ سال میں بھی اگر ہو جائے تو پیشگوئی کی عظمت میں فرق نہیں آتا لیکن اُن کے اعتراض کو خود اُن کے دعووں کے مطابق ہی رڈ کرنے کے لئے یہ دوسرا طریق اختیار کیا گیا کہ بہت اچھا ! ہم ایک لڑکے کی قریب مدت میں بھی خبر دے دیتے ہیں اس کے بعد تم کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے.اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نوٹ بھی اپنی طرف سے لکھ دیا کہ یہ "
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۰۳ الموعود نہیں کہہ سکتے کہ جولڑ کا قریب مدت میں ہوگا وہی موعود ہوگا یا یہ کہ یہ پیشگوئی بالکل الگ ہے اور ایک دوسرے لڑکے کی خبر دیتی ہے.یعنی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے 9 سالہ میعاد کو مختصر کر کے قریب مدت سے محصور کر دیا ہے یا یہ کہ 9 سالہ میعاد الگ قائم ہے اور یہ ہے اور یہ پیشگوئی الگ ہے.بہر حال اس نوٹ سے دشمن کو اعتراض کا کوئی حق نہ پہنچتا تھا کیونکہ دشمن کا اعتراض صرف یہ تھا کہ مدت لمبی ہے تھوڑا وقت مقرر ہونا چاہئے چنانچہ آپ نے ایک مدت حمل میں لڑکا پیدا ہونے کا اعلان کر دیا.یہ لڑ کا خواہ وہی موعو دلڑ کا ہوتا جس کی خبر ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء کے اشتہار میں دی گئی تھی یا دوسرالڑ کا ہوتا ، دشمن کا اعتراض بہر حال اس قریب مدت میں لڑکا پیدا ہو جانے سے دور ہو جاتا تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لکھنا کہ نا معلوم قریب مدت میں پیدا ہونے والا لڑ کا موعود ہے یا نیا لڑکا ، صرف یہ فائدہ دیتا ہے کہ اس پیشگوئی میں دونوں امکان ہیں یہ بھی کہ ایک اور لڑکے کی خبر بھی دی گئی ہے جو جلد پیدا ہوگا اور یہ بھی کہ شاید مصلح موعود کی میعاد کو گھٹا کر کم کر دیا گیا ہے.دوسرا الہام اس اشتہار میں یہ درج ہے کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ میں یعنی لوگ اُس کی پیدائش پر سوال کریں گے کہ کیا یہی لڑکا جو قریب مدت میں پیدا ہوا ہے آنے والا موعود ہے یا وہ اس کے بعد پیدا ہو گا.اس الہام کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ پیشگوئی دولڑکوں کی پیدائش کا امکان اپنے اندر رکھتی ہے کیونکہ اگر دولڑکوں کا امکان اس سے پیدا نہ ہوتا تو لوگوں کی زبان سے یہ فقرہ نہ کہلوایا جاتا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.یہ فقرہ اُسی وقت کہا جاتا ہے جب کہ ایک سے زیادہ وجودوں کی خبر ہو جن میں سے ایک خاص علامات رکھنے والا وجود ہو.جب ایک وجود اس خبر کے بعد ظاہر ہو تو طبعاً لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ وجود عام موعود ہے یا خاص موعود ہے.اس لڑکے یعنی بشیر اول سے پہلے اور آٹھ اپریل ۱۸۸۶ ء والے اشتہار کے چند ماہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جس کا نام آپ نے عصمت رکھا تھا.اُس لڑکی کی پیدائش پر دشمنوں نے شور مچایا کہ لڑکے کی پیشگوئی غلط نکلی کیونکہ لڑکی پیدا ہوئی ہے.حالانکہ الہام یہ تھا کہ پیدا ہونے والا لڑ کا ایک مدت حمل سے تجاوز نہ کرے گا اور مدت حمل نو اور دس ماہ
انوار العلوم جلد کا ۵۰۴ الموعود کے درمیان ہوتی ہے.جولڑ کی پیٹ میں تھی اور دو تین ماہ میں پیدا ہونے والی تھی اُس کی نسبت یہ الفاظ استعمال کرنے تو بالکل لغو ہو جاتے ہیں اگر اس حمل کی طرف اشارہ ہوتا.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار محک اخیار میں لکھا ہے ” اس حمل“ کے الفاظ چاہیئے تھے نہ کہ مدت حمل کے.بشیر اول کی وفات پر لوگوں کے اعتراضات پھر کیم دسمبر ۱۸ء کو بشیر اول کی وفات پر آپ نے وہ اشتہار شائع فرمایا جو سبز اشتہار کہلاتا ہے.اس میں آپ نے لوگوں کے اُس شور و شر کا جواب دیا جو بشیر اول کی وفات پر پیدا ہوا تھا کہ پیشگوئی تو ایک بہت بڑی شان اور عظمت رکھنے والے لڑکے کے متعلق کی گئی تھی مگر وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا.یہ شورش سراسر غلط تھی کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے الہامات میں ایک لفظ بھی ایسا نہ تھا جس سے یہ ثابت ہوتا کہ پہلا بشیر اس پیشگوئی کا مصداق تھا.الہامات میں تو صرف ایک خاص صفات والے لڑکے کی خبر تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا.ہاں ایک اور لڑکے کی بھی خبر تھی جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ ایک مدت حمل میں پیدا ہوگا اور تشریح کر دی گئی تھی کہ اس وقت حضرت اماں جان حاملہ ہیں یا اس حمل میں یا اس کے قریب کے حمل میں وہ پیدا ہو جائے گا.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق بشیر اول پیدا ہوا.اور ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء کی پیشگوئی کے ہی ایک دوسرے حصہ کے مطابق جس میں اُسے مہمان قرار دیا گیا تھا وہ ۴/ نومبر ۱۸۸۸ ء کو فوت ہو گیا.۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء والی پیشگوئی کے ”سبز اشتہار میں یہ بھی بتایا گیا متعلق حضرت مسیح موعود کی الہامی تصریح کہ ۲۴ فروری ۱۸۶ء کے اشتہار میں درحقیقت دو پیش گوئیاں تھیں.”مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے ان الفاظ تک بشیر اول کے متعلق پیشگوئی تھی اور اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا ان الفاظ سے وہ پیشگوئی شروع ہوتی ہے جو صلح موعود کے متعلق ہے.گویا یہ پیشگوئی جو پہلے صرف ایک لڑکے کے متعلق سمجھی گئی تھی اس کے متعلق بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً یہ
انوار العلوم جلد ۷ بات معلوم ہوئی کہ اس کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ پیشگوئی کا یہ ہے کہ :.الموعود سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ذریت ونسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.“ پیشگوئی کے اس حصہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا کہ یہ پہلے بشیر کے متعلق ہے.دوسرا حصہ پیشگوئی کا وہ ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور وہ حصہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے.جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘اور گــــان أَمْراً مَّقْضِيًّا، تک جاتا ہے.پھر آپ نے اسی اشتہار میں جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو آپ نے شائع فرمایا یہ بھی تحریر فرمایا کہ ہم نے اپنے کسی اشتہار میں یہ نہیں لکھا کہ بشیر اول ہی مصلح موعود ہے.چنانچہ میں نے تمام حوالجات سنا دیئے ہیں.ان میں اشارہ بھی یہ ذکر نہیں آتا کہ بشیر اول ہی مصلح موعود ہے.صرف ایک جگہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ:.غالبا ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا با لضرور اس کے قریب حمل میں لیکن وہاں آپ نے صراحنا تحریر فرما دیا تھا کہ مجھ پر : یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں 66 ۹ برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.“ ہاں آپ لکھتے ہیں کہ بوجہ بشیر اول کے اُن ذاتی کمالات کے جو الہامات میں بیان ہوئے تھے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید یہی وہ لڑکا ہومگر اِس کے باوجود اس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیا کہ ضرور یہ لڑ کا پختہ عمر کو پہنچے گا کیونکہ وہ استعدادی کمالات جو بشیر اوّل کے بیان کئے گئے تھے ایسے نہیں تھے جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا بلکہ وہ ذ والوجوہ اور تاویل طلب تھے.اسی
انوار العلوم جلد کا الموعود سلسلہ میں آپ نے تحریر فرمایا.اگر ہم اس خیال کی بناء پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسر متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نور اللہ اور صیب اور چراغ دین وغیر ہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اور روشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصل و مبسوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا تب بھی صاحبانِ بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا کیونکہ اُن کا منصفانہ خیال اور ان کی عارفانہ نگاہ فی الفور انہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے کیا گیا ہے جو فِي حَدِ ذَاتِہ صاف اور گھلے گھلے نہیں ہیں بلکہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں.“ کلے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ بیشک مبشر اور بشیر اور نور اللہ اور صیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء متوفی لڑکے کے رکھے گئے تھے مگر یہ سب کی سب اس کی صفات ذاتیہ تھیں.اس کے عمر پانے کی کوئی شرط الہام میں مذکور نہیں تھی بلکہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں ہی یہ لکھا ہوا تھا کہ:.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے“ اور مہمان وہی ہوتا ہے جس کا قیام عارضی اور چند روزہ ہو.ہاں اُس کی ذاتی فضیلت کے متعلق جو الہامات تھے اور جن میں اُسے مبشر اور بشیر اور نور اللہ اور صیب اور چراغ دین وغیرہ قرار دیا گیا تھا اُن سے صرف اتنا پتہ لگتا تھا کہ وہ استعداد ذاتی میں اعلیٰ درجہ کا ہوگا یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ زندہ بھی رہے گا اور لمبی عمر پائے گا.آپ نے فرمایا یہ بات ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر فرمایا لَو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقاً نَبيَّاً - ١٨ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی بن جاتا.اب یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنے پاس سے ابراہیم کو نبوت کا مقام نہیں دے سکتے تھے کیونکہ نبی خدا بناتا ہے انسان نہیں بنا تا اور جبکہ آپ اسے اپنی طرف سے نبوت کا مقام نہیں دے سکتے تھے تو آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۰۷ الموعود رہتا تو نبی بن جا تا صاف بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتایا تھا کہ ابراہیم کی ذاتی قابلیت نبوت کی مستحق ہے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ عمر پانے والا نہیں تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ بشیر اول بیشک اپنے ذاتی کمالات کے لحاظ سے مبشر تھا ، بشیر تھا ، نور اللہ تھا، صیب تھا، چراغ دین تھا مگر خدا کی مشیت میں وہ عمر پانے والا نہیں تھا جیسا کہ خدا کی طرف سے ہی بتایا گیا تھا کہ وہ مہمان کی طرح تمہارے پاس صرف چند دنوں کے لئے آئے گا.لیکن بعد کی خبریں اس بچہ کے متعلق ہیں جس کے متعلق یہ خبر ہے کہ وہ مصلح موعود ہوگا اور اسلام صلى الله اور رسول کریم علیہ کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.ظلمت کے بعد روشنی کے ظہور کی خبر پھر فرمایا.الها می...عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسر متوفی کے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق.اس ترتیب کے رُو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی (یعنی جب وہ فوت ہو گیا تو کئی لوگوں کو ٹھو کر لگی.اُن کے دلوں میں کئی قسم کے شکوک وشبہات پیدا ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں لوگوں کے یہ اعتراضات اُن کی کم فہمی کا نتیجہ تھے.اس ظلمت کا پہلے وارد ہونا الہامات کے رُو سے ضروری تھا ) اور پھر اس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے.‘‘ 19 یعنی بشیر اوّل کی وفات سے جو ابتلا کی ظلمت پیدا ہوگئی تھی وہ اب دُور ہوگی اور اس کے بعد رعد اور روشنی کا ظہور ہو گا یعنی وہ لڑکا پیدا ہو گا جو زندہ رہنے والا ،اسلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچانے والا اور رسول کریم ﷺ کی شان اور آپ کی عظمت کو بلند کرنے والا ہوگا اور وہ تمام کام سرانجام دے گا جن کا پیشگوئی میں تفصیلاً ذکر آتا ہے.66 پھر اور زیادہ وضاحت سے تحریر فرماتے ہیں.”صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے کے قدموں کے نیچے
انوار العلوم جلد کا ۵۰۸ ہیں یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے، اُن کا آنا ضرور ہے.سواے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.۲۰۰۰.پھر حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کے نام اپنے ایک خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں.وفات بشیر پر لوگوں کی شورش پر یہ الہام ہوا.اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَتُونَ - وَقَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَوا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتَّى تَكُوْنَ حَرَضاً أَوْتَكُونَ مِنَ الْهَالِكِيْنَ - شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ إِنَّ الصَّابِرِينَ يُوَفَّى لَهُمْ أَجْرُهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ - ) ( یعنی کیا لوگ یہ سمجھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بغیر امتحان لینے کے یونہی چھوڑ دے گا ایسا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے خاص بندوں کے زمانہ میں لوگوں کے ایمانوں کا امتحان لیا کرتا ہے اور اس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوگا.چنانچہ اسی وجہ سے یہ پیشگوئی بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنی کیونکہ انہوں نے غلط اجتہاد سے کام لیا اور اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ پیشگوئی سچی ثابت نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لوگ تجھے کہیں گے کہ جس کی خبر تو دے رہا ہے وہ تجھے کبھی نہیں ملے گا جس طرح یوسف کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کا ذکر کرتا رہے گا یہاں تک کہ تیری عقل یا تیرے جسم میں بیماری پیدا ہو جائے گی اور یا تو اسی غم میں ہلاک ہو جائے گا.اس زمانہ کے لوگ بھی تجھے کہیں گے کہ تیرے ہاں کوئی ایسا بیٹا پیدا نہیں ہو گا تو اسی طرح اس کا ذکر کرتے کرتے مر جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَاهَتِ الْوُجُوهُ - اِن کہنے والوں کے منہ کالے ہو جائیں گے.فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِینِ.کچھ دیر کے لئے تو ان سے منہ پھیر لے.اللہ تعالی بہر حال اس پیشگوئی کو پورا کرے گا.اِنَّ الصَّابِرِينَ يُوَفَّى لَهُمُ أَجْرُهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اعلیٰ سے اعلیٰ اجر عطا فرمائے گا.) پھر اسی خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں.الموعود
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۰۹ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیر رکھا ہے.چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا.یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسرا نام محمود ہے.جس کی نسبت الموعود فرمایا اولوالعزم ہوگا اور حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا.يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۲۲ ان الہامات اور حوالوں سے ثابت ہے کہ جس موعود کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی تھی ، اُس نے یقیناً ایسے ہی زمانہ کے لوگوں میں آنا تھا جو اس پیشگوئی کے مخاطب تھے کیونکہ جو سات اغراض اس پیشگوئی کی ظاہر کی گئی ہیں وہ اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.وہ سات اغراض میں پہلے بیان کر چکا ہوں.لیکن اس موقع پر پھر اُن کا ذکر کرنا ضروری ہے.پیشگوئی مصلح موعود کی سات اہم اغراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پیشگوئی جو دنیا کے سامنے کی گئی ہے ، اس کی کئی اغراض ہیں.اوّل یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں.اگر یہ سمجھا جائے کہ اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد پورا ہونا ہے تو اس کے معنی یہ بنیں گے کہ میں نے یہ پیشگوئی اس لئے کی ہے کہ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں وہ بے شک مرے رہیں چار سو سال کے بعد اُن کو زندہ کر دیا جائے گا.یہ فقرہ بالبداہت باطل اور غلط ہے.آپ فرماتے ہیں یہ چلہ اس لئے کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگ جو دینِ اسلام سے منکر ہیں ، اُن کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ظاہر ہو اور جو رسول کریم علیہ کی کرامت کا انکار کر رہے ہیں ان کو ایک تازہ اور زبر دست مثبوت اس بات کا مل جائے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے.وہ الہامی الفاظ جو اس پیشگوئی کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہیں یہ ہیں کہ: ” خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں با ہر آدیں.اب اگر اُن لوگوں کے نظریہ کو مسیح سمجھ لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ مصلح موعود تین چار سو سال
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۰ الموعود کے بعد آئے گا تو اس فقرہ کی تشریح یوں ہوتی ہے کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے تا کہ وہ لوگ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں مرے رہیں چار سو سال کے بعد اُن کی نسلوں میں سے بعض لوگوں کو زندہ کر دیا جائے گا مگر کیا اس فقرہ کو کوئی شخص بھی صحیح تسلیم کر سکتا ہے.دوسرے یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی تھی تا دینِ اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر عیاں ہو.اس فقرہ کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ دین اسلام کا شرف اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں.اسی طرح کلام اللہ کا مرتبہ اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں.مگر کہا یہ جاتا ہے کہ خدا نے یہ پیشگوئی اس لئے کی ہے تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ آج سے تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد جب یہ لوگ بھی مر جائیں گے، ان کی اولادیں بھی مر جائیں گی اور اُن کی اولادیں بھی مر جائیں گی ، لوگوں پر ظاہر کیا جائے.جب نہ پنڈت لیکھرام ہوگا نہ منشی اندرمن مراد آبادی ہوگا نہ ان کی اولادیں ہوں گی اور نہ اُن اولادوں کی اولادیں ہوں گی.اُس وقت دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا جائے گا.بتاؤ کہ کیا کوئی بھی شخص ان معنوں کو درست سمجھ سکتا ہے؟ تیسرے آپ نے فرمایا یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے تا کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کہ حق اس وقت کمزور ہے اور باطل غلبہ پر ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسا نشان ظاہر ہو کہ عقلی اور علمی طور پر دشمنانِ اسلام پر حجت تمام ہو جائے اور وہ لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام حق ہے اور اس کے مقابل میں جس قدر مذاہب کھڑے ہیں وہ باطل ہیں.چوتھی غرض اس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.اب یہ غور کرنے والی بات ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو اس صورت میں کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد ایک ایسا نشان ظاہر ہوگا جس سے تم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کا خدا قادر ہے، ایسی پیشگوئی کو لیکھرام کیا اہمیت دے سکتا تھا یا وہ لوگ جو اُس وقت دین اسلام پر اعتراضات کر رہے تھے، رسول کریم ﷺ کے نشانات کو باطل قرار دے رہے تھے ، اسلام کو ایک مُردہ مذہب قرار دے صلى الله
انوار العلوم جلد ۷ ۵۱۱ الموعود رہے تھے اُن پر کیا حجت ہو سکتی تھی کہ تم چار سو سال کے بعد خدا تعالیٰ کو قا در سمجھنے لگ جاؤ گے.چار سو سال کے بعد پوری ہونے والی پیشگوئی سے وہ لوگ خدا تعالیٰ کو کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے.وہ تو یہی کہتے کہ ہم ان زبانی دعووں کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ چار سو سال کے بعد ایسا ہو جائے گا.یہ تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے بات تب ہے کہ ہمارے سامنے نشان دکھایا جائے اور اسلام کے خدا کا قادر ہونا ثابت کیا جائے.پانچویں غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں.اگر اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد ہی پورا ہونا تھا تو اُس زمانہ کے لوگ یہ کس طرح یقین کر سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے.چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے.اس کے معنی بھی یہی بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو میرے زمانہ میں اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں ، اُن کے سامنے میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ اُنہیں اسلام کی صداقت کی ایک بڑی کھلی نشانی ملے گی مگر ملے گی چار سو سال کے بعد.جب موجودہ زمانہ کے لوگوں بلکہ ان کی اولادوں اور اُن کی اولادوں میں سے بھی کوئی زندہ نہیں ہوگا.ساتو میں آپ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے تاکہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ وہ جھوٹے ہیں.چار سو سال کے بعد آنے والے وجود سے اس زمانہ کے لوگوں کو کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے.پھر اشتہارات میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا تھا کہ ایسا لڑکا بموجب نو سالہ میعاد البسام النبی 9 سال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ الہام الہی اس کی پیدائش کو ۹ سال میں ضروری قرار دیتا ہے.یہاں اجتہاد کا کوئی سوال نہیں بلکہ آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ الہام ہے کہ وہ لڑکا 9 سال کے اندر ضرور پیدا ہو جائے گا.پس تین یا چار سو سال کے بعد اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعوی کرے تو بہر حال ایسا شخص ہی اس کے مصداق ہونے کا اعلان کر سکتا ہے جو پیدا 9 سال میں ہوا ہولیکن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۲ الموعود ظاہر تین سو یا چار سو سال کے بعد ہوا ہو کیونکہ الہام اس بات کی تعیین کرتا ہے کہ آنے والے موعود کو بہر حال ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء سے ۲۰ فروری ۱۸۹۵ ء تک کے عرصہ کے اندراندر پیدا ہو جانا چاہئے اس عرصہ کے بعد پیدا ہونے والا کوئی شخص اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہوسکتا.مصلح موعود کی پیدائش پھر فرمایا کہ الہام الہی نے بتایا تھا کہ: - اول کے ساتھ مقدر تھی اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا“.اس سے بھی ظاہر ہے کہ مصلح موعود کی پیدائش بشیر اوّل کے ساتھ وابستہ ہونی چاہئے ورنہ یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ بشیر اول فوت ہو جائے اور اس کے تین یا چار سو سال کے بعد مصلح موعود ظاہر ہو اور اُس کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ بشیر اول کے ساتھ آیا ہے.کوئی انسان ایسا نہیں ہوسکتا جو دو مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آنے والا کہہ سکے.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ بشیر اول جو پیدا ہو کر فوت ہو گیا اُس کے ساتھ آنے والا اُس شخص کو قرار دیا جائے جو تین یا چار سو سال کے بعد ظاہر ہو.اگر اس طرح ایک کی پیدائش دوسرے کے ساتھ وابستہ سمجھی جاسکتی ہے تو پھر تو کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں آدم کے ساتھ پیدا ہوا تھا.مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ بات غلط ہے.”ساتھ“ کے مفہوم میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ دوسرا پیدا ہونے والا اتنا قریب ہو کہ اُسے پہلے کے ساتھ کہا جا سکے.ظلمات اور رعد و برق پھر فرمایا کہ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْهِ ظُلُمَتٌ وَّرَعْدٌ و برق کے الہام میں ظلمات سے مراد بشیر اول کی موت ہے اور رعد و برق سے مراد دوسرے بشیر کا ظہور ہے.اس الہام میں ایک ہی نام دونوں کے رکھ کر یعنی صیب قرار دے کر دو ظہوروں کی خبر دینا بتاتا ہے کہ دونوں ایک ہی زمانہ میں ہوں گے.بشیر اول کا ظہور فِيهِ ظُلمت والے حصہ کی صداقت کا ثبوت ہوگا اور بشیر ثانی کا ظہور رعد اور برق والے حصہ کی صداقت کا ثبوت ہو گا.گویا با دل تو ایک ہی ہے مگر اس کے نتائج تین ہیں.ہر بادل جو آسمان پر آتا ہے اُس کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ تاریکی پیدا کر دیتا ہے اس کے بعد جب بارش برستی ہے تو اس کے نتیجہ میں رعد پیدا ہوتی ہے اسی طرح بجلی کے چمکنے سے روشنی ظاہر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۳ الموعود ہوتی ہے گویا صیب تو ایک ہوتا ہے مگر اس کے نتائج تین ہوتے ہیں.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے با دل ایک رکھا ہے مگر اس کے نتائج تین بیان کئے ہیں.یعنی ظلمات ، رعد اور برق.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ اس صیب کا ایک نتیجہ جو ظلمات سے تعلق رکھتا ہے بشیر اول ہے اور دوسرا نتیجہ جو رعد اور برق سے تعلق رکھتا ہے بشیر ثانی ہے.اگر یہ معنی لئے جائیں گے کہ بشیر ثانی تین سو سال کے بعد ظاہر ہوگا تو اس کے معنی یہ بنیں گے کہ بادل تو آج آیا ہے اور اس بادل کی ظلمات بھی آج ظاہر ہو گئی ہیں مگر اس بادل کی رعد اور برق تین سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی.حالانکہ یہ بالکل عقل کے خلاف ہے کہ ایک بادل کی ظلمات آج ظاہر ہوں اور اُس کی رعد اور برق تین چار سو سال کے بعد ظاہر ہوں.بیشک مثال مثال ہی ہوتی ہے مگر مثال کے چسپاں کرنے کے لئے دونوں میں مشابہت کا پایا جانا تو ضروری ہوتا ہے.اگر مشابہت نہ ہوتو مثال دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.یہاں اللہ تعالیٰ نے بادل کی مثال دی ہے اور غور کر کے دیکھ لو دنیا میں کوئی بادل ایسا نہیں ہوتا جس کی تاریکی آج ظاہر ہو اور اُس کی رعد اور برق چار سو سال کے بعد ظاہر ہو.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رعد اور برق ظلمت کے بعد اتنے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونی چاہئے کہ ان تینوں کا ایک ہی زمانہ قرار دیا جائے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے یعنی بشیر اوّل کی موت کے بعد دوسرا بشیر قریب ترین عرصہ میں پیدا ہو جائے تا کہ دوسرے بشیر کو پہلے بشیر کے ساتھ قرار دیا جا سکے.پھر فرماتے ہیں الہام سے ظاہر ہے کہ ظلمت اور روشنی دونوں بشیر اوّل کے قدموں کے نیچے ہیں.یعنی اُس کی موت کے بعد یہ دونوں امر ظاہر ہوں گے.اس سے بھی ظاہر ہے کہ بشیر ثانی کا ظہور بشیر اول کی موت کے ساتھ ہی ہونے والا تھا ورنہ اُس کے قدموں کے نیچے ہونا ایسے امر کو کس طرح کہا جا سکتا تھا جو تین سو سال کے بعد ہونے والا تھا.ایک شبہ کا ازالہ یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ انبیاء کے سلسلہ میں بعض دفعہ ایک نبی کو دوسرے نبی کے ساتھ آنے والا قرار دے دیا جاتا ہے خواہ ان دو نبیوں کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو مگر یہاں اس مثال کو پیش نہیں کیا جا سکتا.اس لئے کہ بشیر اول مامور نہیں تھا.اگر ایک مامور دنیا میں آئے تو اس کے بعد دوسرے مامور کی بعثت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۴ الموعود تک کا تمام زمانہ ایک ہی سمجھا جاتا ہے اور جب دوسرا اما مور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مامور فلاں مامور کے ساتھ آیا.مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہوں نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا.اب اُن کا زمانہ صرف اتنا ہی نہیں تھا جتنے عرصہ تک وہ زندہ رہے بلکہ چھ سو سال تک اُن کا زمانہ جاری رہا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے.پس بیشک انبیاء علیہم السلام میں بعض دفعہ ایک نبی کو دوسرے نبی کے ساتھ آنے والا قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اُن دونوں کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا ہے لیکن یہاں اس مثال کو اس لئے پیش نہیں کیا جا سکتا کہ بشیر اول مامور نہیں تھا بلکہ ایک بچہ تھا جو چند دن زندہ رہ کر فوت ہو گیا اس کے ذریعہ کوئی ایسا نشان قائم نہیں ہوا جو تین سو سال تک جاری رہتا.اگر تو بشیر اول زندہ رہتا ، ماموریت کا دعویٰ کرتا اور پھر تین سو سال کے بعد دوسراماً مور آ جاتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ دوسراماً مور پہلے مامور کے ساتھ آیا.درمیانی تین سو سال کے عرصہ کو بشیر اول کی ماموریت کا زمانہ قرار دے دیا جاتا.مگر جس شخص کو صرف جسمانی حیات حاصل ہوئی ہے، ماموریت نہیں ملی ، اُس کے ساتھ آنے والا کبھی ایسے شخص کو نہیں کہا جا سکتا جو تین سو سال کے بعد ظاہر ہو.پس بشیر اوّل اور بشیر ثانی کا تین سو سال کا وقفہ کسی طرح بھی درست ثابت نہیں ہوسکتا.خوشی سے اُچھلنے کے الفاظ سے استنباط پھر فرماتے ہیں.”اے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو.بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.اس فقرہ کو بھی اگر اُس تشریح کی روشنی میں دیکھا جائے جس میں تین سو سال کے بعد مصلح موعود کا ظاہر ہونا بتایا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اے لوگو! تم حیرانی میں کیوں پڑتے ہوئے ہو آج سے تین سو سال کے بعد روشنی آنے والی ہے اور اے لوگو ! جو ظلمت میں اپنی عمریں گزار رہے ہو تم خوشی سے اُچھلو اور گو دو کیونکہ تین سو سال کے بعد روشنی ظاہر ہوگی.اس کے جواب میں کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم کیوں اُچھلیں اور گو دیں.اگر اُچھلنے کی
انوار العلوم جلد کا ۵۱۵ الموعود ضرورت ہے تو وہ نسلیں اُچھلیں گی جن کے زمانہ میں یہ روشنی ظاہر ہوگی ہم سے یہ کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہم اس ظلمت میں ہی اچھلنے اور گودنے لگ جائیں.ہمارے سامنے تو اسلام پر اعتراضات ہورہے ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا سے مٹایا جا رہا ہے ، قرآن کریم کو نَعُوذُ بِاللهِ ایک ناقابل عمل کتاب قرار دیا جا رہا ہے مگر کوئی روشنی ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہوئی جو اس ظلمت کو دُور کر دے.اگر کسی آنے والی روشنی پر اُچھلنا ضروری ہے تو وہی لوگ خوشی سے اُچھل سکتے ہیں جو اس روشنی کو دیکھ لیں.ہم نے تو اس روشنی کو دیکھا ہی نہیں پھر ہم کس طرح خوشی منا سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ہی کہ:.”اے لوگو ! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی 66 سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.“ صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے ہزاروں لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ یہ روشنی ظاہر ہو جائے گی اس لئے وہ لوگ جو اس روشنی کو اپنی آنکھوں - دیکھ لیں گے اُن سے کہا گیا کہ وہ خوش ہوں اور خوشی سے اُچھلیں.غرض یہ الفاظ بھی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ہی خوشی سے اچھلنے اور گودنے کا وقت ہے کیونکہ یہ روشنی اُن کے سامنے ظاہر ہوگی.شَاهَتِ الْوُجُوهُ پھر حضرت خلیفہ اول کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے خط میں ایک الہام تحریر فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں تو یوسف کی یاد کرتے کرتے یا تو دیوانہ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا یعنی تیرے زمانہ میں وہ ظاہر نہیں ہوگا مگر فرماتا ہے.شَاهَتِ الْوُجُوهُ.ان دشمنوں کے منہ کالے ہو جائیں گے اور تُو ضرور یوسف کو دیکھے گا.اس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس موعود کا پیدا ہونا ضروری ہے ورنہ حضرت یوسٹ اور حضرت یعقوب کی مثال کے کیا معنی ہو سکتے ہیں.حضرت یوسف اور حضرت یعقوب کی مثال اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی تھی جب آپ کو بھی اپنا یوسف زندگی میں مل جاتا کیونکہ حضرت یعقوب نے حضرت یوست کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۶ الموعود اپنی زندگی میں دیکھ لیا تھا.یہ نہیں ہوا کہ اُن کی وفات کے تین سو سال کے بعد کہیں ان کی نسل کو یوسف کا پتہ لگا ہو.یہ پیشگوئی صاف بتا رہی تھی کہ لوگ اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ تو یوسف کی یاد کرتے کرتے یا دیوانہ ہو جائے گا یا اسی حالت میں مر جائے گا تیرے زمانہ میں وہ ظاہر نہیں ہوگا لیکن فرماتا ہے شَاهَتِ الْوُجُوهُ - اللہ تعالیٰ ان دشمنوں کے منہ کالے کر دے گا اور تو اپنی زندگی میں یوسف کو دیکھ لے گا یعنی یہ پیشگوئی کسی اور زمانہ میں نہیں بلکہ تیرے زمانہ میں اور تیری زندگی میں ہی پوری ہو جائے گی.پھر فرماتے ہیں ایک دوسرے بشیر کا وعدہ ہے جس کا بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں ہم محمد بھی ہے.چنانچہ فرمایا.خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں الوالعزم ہوگا.يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ، ۲۳ اسی طرح پندرہ جولائی ۱۸۸۸ ء کے اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں:.66 ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہو گا، ۲۴ اس سے معلوم ہوا کہ بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں اور محمود کی نسبت یہ وعدہ ہے کہ وہ قریب مدت میں پیدا ہوگا.گویا اس میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں.اول یہ کہ بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں.دوسرے یہ کہ وہ بشیر اوّل کے بعد قریب مدت میں پیدا ہو گا.اِن الہامات کے مطابق لازماً بشیر اوّل کی وفات کے بعد قریب مدت میں اس موعود کا پیدا ہونا ضروری تھا.ان تمام الہامات سے جو اوپر بیان کئے جاچکے ہیں ثابت ہوتا ہے کہ مصلح موعود کا ۹ سال میں اور قریب مدت میں بشیر اول کے قریب زمانہ میں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اور اُن لوگوں کی زندگی میں جن کو بشیر اول کی وفات کا صدمہ ہوا تھا اور بہت سے اُن دشمنوں کی زندگی میں جو اسلام کی اُس وقت مخالفت کر رہے تھے اور اسلام کی فتح سے گھبراتے تھے پیدا ہونا ضروری تھا اور یقینا مصلح موعود ۹ سال کے عرصہ میں ، قریب مدت میں ، بشیر اول کے قریب زمانہ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی پیدا ہوا اور اُن
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۷ الموعود لوگوں کی زندگی میں ظاہر ہوا جن کو بشیر اول کی وفات کی وجہ سے لوگوں کے طعنے سننے پڑتے تھے اور بہت سے اُن دشمنوں کی زندگی میں پیدا ہوا جو اسلام کی صداقت کا کوئی نشان دیکھنا چاہتے تھے ، جو اسلام کی اُس وقت شدید ترین مخالفت کر رہے تھے اور اسلام کی فتح سے سخت گھبراتے تھے.مصلح موعود کی احادیث میں خبر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم بی مصلح موعود کی خیر دیتے ہیں اور اُس کا ظہور زمانہ مسیح موعود میں ہی بتاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ ۲۵ مسیح موعود شادی کرے گا اور اُس کے ہاں اولا د پیدا ہوگی.اب اس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ مسیح موعود کے ہاں ویسی ہی معمولی اولاد پیدا ہو جائے گا جیسی اور لوگوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے کیونکہ اگر اس کے یہی معنی ہوں تو پھر اس پر وہی اعتراض پیدا ہو گا جو غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی پر کیا کرتے تھے کہ اولا د ہونا کونسی بڑی بات ہے، دنیا میں ہر شخص کے ہاں اولا د ہوا ہی کرتی ہے اور یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ اگر محض اتنی خبر دی جائے کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا تو یہ کوئی خاص پیشگوئی نہیں کہلا سکتی.اسی طرح جب رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ مسیح موعود کے ہاں اولاد پیدا ہوگی تو اس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اُس کے ہاں معمولی اولا د پیدا ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو رسول کریم ﷺ کو خاص طور پر یہ خبر دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ کا یہ خبر دینا بتاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا منشاء یہ تھا کہ اُس کے ہاں خاص اولا د پیدا ہوگی ویسے ہی کمالات اور ویسے ہی اوصاف رکھنے والی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوكَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ۲۶ بخاری کتاب التفسیر میں بھی یہ حدیث آتی ہے اور وہاں الفاظ یہ ہیں کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجَلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ عَ یعنی اگر ایمان ثریا پر بھی جا چکا ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اُسے زمین پر واپس لائیں گے.پس صرف مسیح موعود کے متعلق ہی رسول کریم ﷺ نے پیشگوئی نہیں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۸ الموعود فرمائی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے بعض اور افراد کے متعلق بھی پیشگوئی فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ تمام افراد مل کر ثریا سے ایمان واپس لائیں گے.اب اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے تین سو سال کے بعد پوری ہوگی اور دوسرا رجل آئندہ کسی اور زمانہ میں آئے گا تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ مسیح موعود کے ذریعہ پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہونے کے بعد پھر ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور پھر بشیر ثانی اُس کو آسمان سے واپس لائے گا حالانکہ خود مولوی محمد علی صاحب کا بھی یہ عقیدہ نہیں.وہ تسلیم کرتے ہیں کہ تین سو سال تک یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا درمیان میں کوئی گمراہی اور ضلالت کا دور نہیں آئے گا اور جبکہ یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا تو انتہائی ترقی کے دور میں مصلح موعود کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے.مصلح موعود تین سو سال کے بعد اسی صورت میں آ سکتا ہے جب مسیح موعود کے ذریعہ پہلے ہدایت کا بیج بویا جائے ، پھر گمراہی اور ضلالت کا دور آ جائے اور پھر ایک فارسی الاصل انسان ایمان کو ثریا سے واپس لائے.حالانکہ غیر مبائعین بھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ تین سو سال تک ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا.بہر حال مصلح موعود کا زمانہ مسیح موعود میں ہی ظاہر ہونا ضروری تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور آپ کی تشریحات سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا.ایک عظیم الشان رویا اس پیشگوئی کو جماعت کے کئی افراد مجھ پر چسپاں کیا کرتے تھے : مگر میں سنجیدگی سے کبھی اس مسئلہ پر غور نہیں کرتا تھا ، کیونکہ جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے میں سمجھتا تھا اگر اس پیشگوئی کے مصداق کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ الہام الہی سے دعوی کرے تو مجھے اپنی طرف سے اس دعویٰ کی ضرورت نہیں.اگر خدا میری زبان سے اس کے متعلق کوئی اعلان کرانا چاہے گا تو وہ خود کرا لے گا اور اگر اس کے مصداق کے لئے کسی الہام کی ضرورت نہیں تو مجھے بھی کسی دعوی کی ضرورت نہیں.بہر حال یہ ایک پیشگوئی ہے جس پر غور کر کے لوگ فیصلہ کر سکتے ہیں.اگر اس کے لئے الہام کی ضرورت ہے تو میں بغیر الہام کے دعوی کر کے کیوں گنہ گار بنوں.جسے الہام ہو گا وہ خود دعوی کر دے گا اور اگر
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۱۹ الموعود اس کیلئے الہام کی ضرورت نہیں تو پھر دعوی کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.یہاں تک کہ جنوری ۱۹۴۴ء کے دوسرے ہفتہ میں مجھے ایک رؤیا ہوا.پہلے میں نے کہا تھا کہ یہ رویا غالباً پانچ اور چھ ( جنوری ) کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی.مگر اب تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ رویا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہوا.کیونکہ یہ رویا میں نے اپنی بیوی مریم صدیقہ کے ہسپتال جانے کے بعد دیکھا تھا اور مریم صدیقہ کا آپریشن لاہور میں جمعہ کے جنوری کو ہوا تھا اور اُس دن وہ ہسپتال میں داخل ہو چکی تھیں.پس یہ رویا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہوا.اُس رات وہ میرے کمرہ میں نہیں تھیں بلکہ آپریشن کے لئے ہسپتال میں داخل تھیں.یہ رویا میں نے دوسرے ہی دن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو سُنا دیا تھا اور اس کے ایک دن بعد اُن کے برادر نسبتی کا ولیمہ تھا جو معلوم ہوا ہے کہ اتوار کو تھا.بہر حال یہ رویا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو میں نے دیکھا.یہ رویا میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں مگر اس موقع پر میں وہ رؤیا ایک بار پھر دوستوں کو سُنا دیتا ہوں.میں نے دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہورہی ہے.وہاں کچھ عمارتیں ہیں نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یاٹر نچز (TRENCHES) ہیں.بہر حال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں.وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے اُن سے تعلق ہے، میں اُن کے پاس ہوں اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اُس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں برسر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اُس نے اُس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اُس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی ، اس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا.بہر حال وہاں جو فوج تھی اُس کو جرمنوں سے دینا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی.جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اُس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں میں تھا.تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے ، یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے.اُس وقت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۰ الموعود میں رویا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں.میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میں ایک آن میں میں طے کرتا جا رہا ہوں.اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ گئے اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے آ رہے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رویا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے.ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے، رویا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اُس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اُس مقام سے دوڑے گا تو اِس اِس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا.چنانچہ رویا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اُس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اُس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا.چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اُس مقام پر مجھے کئی ایک پک ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.میں اُن پگڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے.ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں.اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سڑک
انوار العلوم جلد ۷ ۵۲۱ الموعود پر نہیں ، دوسری سڑک پر جا ئیں اور میں اُس کے کہنے پر اُس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں.وہ جس سڑک کی طرف مجھے آواز میں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی.پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اس لئے میں لوٹ کر اُس سڑک کی طرف چلا مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اس زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آواز میں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اس طرف ، اُس طرف نہیں اس طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پک ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں.( اس جگہ کی شکل رؤیا کے مطابق اس طرح بنتی ہے ) دایاں پہاڑی راستہ درمیانی پگڈنڈی جو آگے جا کر پھر دوشاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے.بایاں پہاڑی راستہ شمال دامن کوہ کا علاقہ مشرق جب میں تھوڑی دُور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں میں اُسی راستہ پر آ گیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا.اُس وقت رویا میں میں اس کی کچھ تو جیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے.چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رؤیا میں دکھایا گیا ہے، اس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دُنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور
انوار العلوم جلد کا ۵۲۲ الموعود دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق ، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی.یعنی کچھ تدبیر میں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعا ئیں اور تقدیر میں ہوں گی.اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو! قرآن شریف نے اُمت محمدیہ کو اُمَّةً وَسَطاً ۲۹ قرار دیا ہے.اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنی ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہوگی اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ درمیانی راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں.غرض میں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے.اتنی دُور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے.مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے.اُس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا.اُس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب میں نے کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں.وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے جیسے ۳۰ وغیرہ کے گھونسلے نہایت بار یک تنکوں کے ہوتے ہیں وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اثر دہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیے کے گھونسلے سے سفیدی ، زردی اور خا کی رنگ ملا ہوا ہو ، وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور اُن کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں.خواب میں میں سمجھتا ہوں یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں، اُن کے بُت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جار ہے ہیں.جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۳ الموعود اور ایک بُت پر سوار ہو گیا.تب میں نے سُنا کہ بتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے گرنے لگے.اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے تو حید کی دعوت اُن لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی بُرائیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے.چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.رویا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں ، یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتیں خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح اُن کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی.ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسی کشتی نمابت والا جس پر میں سوار ہوں یا اُس کے ساتھ کے بُت والا بُت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحد ہو گیا ہے.اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا ، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں اُن کو حکم دیتا ہوں کہ ان بچوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا پانی میں غرق کر دیا جائے.اس پر جولوگ موحد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں، میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بچوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے.صرف پجاری پکڑ کر اُن کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں.اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا.کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اس لئے میں نے اُن کو تبلیغ کرنی شروع کر دی، یہ تبلیغ میں اُن کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں.جب میں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۴ الموعود اُنہیں تبلیغ کر رہا ہوں تا کہ وہ لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں جیسے خطبہ الہامیہ تھا ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا.غرض میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے.بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالبا سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالبا کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو.ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے با اثر اور مفید وجود تھا.بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اُس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے.میں اُس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے، میں اب آگے جاؤں گا اس لئے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں.تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں تو حید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہو گا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے ؟ میں واپس آ کر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لئے مقرر کیا ہے اُن کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے.اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہو گا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اُس کے بندہ اور رسول ہیں.اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اُسے حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں.جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں ( جو خود الہامی ہے ) یوں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں.آنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے.اور آپ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۵ الموعود فرماتے ہیں."أَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ “ 66 اس کے بعد میں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں.چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے.وَانَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُهُ اور میں بھی مسیح موعود ہوں.یعنی اُس کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں.تب خواب میں ہی مجھے پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں ؟ اُس وقت معا میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ میلہ میں اس کا نظیر ہوں.وَخَلِیفَتُهُ اور اُس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہو گا اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اُس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہی ہوں.کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اُس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.اور جب میں کہتا ہوں." میں وہ ہوں جس کے لئے اُنیس سوسال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں، تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا ۹ ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں.مجھے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ”ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم اُنیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں.اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اِس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اُس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رؤیا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی ، اُس میں یہ بھی خبر تھی کہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۶ الموعود جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہوگی اور جب وہ اُس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اُس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائے گی.تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا، اُس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے.چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے.جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو.اُس وقت میں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم باوجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اس کا ایمان نہیں لایا ، بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے.تب میں کہتا ہوں دیکھو! وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.اس کے بعد میں پھر اُن کو ہدایتیں دے کر اور بار بار تو حید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں چنانچہ اِسی لئے میں اُس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب میں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور ! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے، موحد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کار بند ہو چکی ہے.اسے نے یہ رویا سات آٹھ جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی شب خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا جس سے یہ بات آسمانی طور پر مجھ پر ظاہر ہو گئی کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام - اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی اور جس کے متعلق یہ تعین فرمائی تھی کہ و ۲۰۰ فروری ۱۸۸۶ء سے ۹ سال کے عرصہ کے اندراندر پیدا ہو جائے گا ، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ اُسے آپ کا جانشین بنائے گا، اُس سے آپ کے کام کی تکمیل کروائے گا اور اُس کے وجود میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کو بھی پورا کرے گا ، وہ میں ہی ہوں.چنانچه ۲۸ جنوری کو قادیان کی مسجد اقصیٰ میں جمعہ کے دن میں نے اپنے خطبہ میں اس کا اعلان
انوار العلوم جلد ۷ ۵۲۷ الموعود کر دیا اور چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ انکشاف کیا گیا ہے اس لئے گو میں پہلے بھی مختلف مقامات پر اس کا اعلان کر چکا ہوں مگر اب جبکہ ساری جماعت یہاں جمع ہے میں اس کے سامنے ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اذن اور اسی کے انکشاف کے ماتحت میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ اسلام اور رسول کریم ﷺ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے جلالی نشانات کا حامل ہوگا ، وہ میں ہی ہوں اور میرے ذریعہ ہی وہ پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں.یادر ہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعوے دار نہیں ہوں.میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے.اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوی ہے نہ مجھے کسی دعوئی میں خوشی ہے.میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو.مجھے کسی دعوے کا شوق نہیں ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی جب خدا اُن کو کہتا ہے تو وہ دعوے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.خود اُن کو دعوی کرنے کا شوق نہیں ہوتا.میری ذاتی کیفیت تو جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے یہ ہے کہ اگر خدا مجھ سے دین کی خدمت کا کام لے لے تو چاہے کوئی شخص میرا نام چوڑھا یا چوڑھے سے بھی بدتر رکھ دے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی مگر چونکہ خدا نے مجھے دعوی کرنے کیلئے کہا ہے اور چونکہ اس اجتماع میں بعض ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کو میرے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع نہ ملا ہو اور وہ اس امر کو نہ سمجھتے ہوں کہ میں سچ بولنے والا ہوں یا جھوٹ بولنے والا ہوں اس لئے جس طرح پہلے مختلف مقامات پر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس امر کا اعلان کر چکا ہوں اسی طرح اب جب کہ جماعتوں کے نمائندے یہاں ہزاروں کی تعداد میں چاروں طرف سے جمع ہیں اور غیر بھی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۲۸ الموعود سینکڑوں کی تعداد میں یہاں موجود ہیں میں اللہ تعالیٰ کی جو زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والا ہے.جس نے مجھے بھی پیدا کیا اور میرے آباؤ اجداد کو بھی.جس کی بادشاہت سے کوئی چیز باہر نہیں.جس کا مقابلہ کرنا انسان کو لعنتی بنا دیتا اور دینی اور دُنیوی تباہیوں کا مستوجب بنا دیتا ہے میں اُسی وحدہ لاشریک خدا کی جو قرآن، اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا ہے قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے اس وقت جو ر ڈ یا بیان کیا ہے وہ میں نے حقیقتاً اسی رنگ میں دیکھا تھا اور میں نے بغیر کسی قطع و برید کے اور بغیر کسی زیادتی کے (سوائے اس کے کہ رویا کو بیان کرتے ہوئے کوئی لفظ بدل گیا ہو ) اس کو اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رویا دکھایا گیا.اگر میں اپنے اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹوں کی سزا دے لیکن میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی مجھے دکھایا گیا ہے اور خدا تعالیٰ خود ایک نظارہ دکھا کر اپنے کسی بندہ کو ذلیل نہیں کیا کرتا.مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی خبر آب تک نہیں ملی کہ میرے ذمہ کوئی کام باقی ہے یا نہیں لیکن خواہ میری زندگی میں سے ایک منٹ بھی باقی رہتا ہو میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا دشمن خواہ کتنا زور لگالے وہ اسلام کی تاریخ سے میرا نام نہیں مٹا سکتا کیونکہ میں راستباز ہوں اور میں نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو یہ اطلاع دی ہے اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کی.پیشگوئی کے وہ حصے جو غیروں آب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل پیشگوئی کی طرف آتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ کیلئے بھی حجت ہیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا.اصل پیشگوئی بڑی تفصیلی پیشگوئی ہے.جس میں آنے والے موعود کی کئی علامات بیان کی گئی ہیں.مثلاً ایک یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ 9 سال کے عرصہ کے اندراندر پیدا ہو جائے گا.اب اس علامت سے صرف اتنی ہی بات ثابت ہو سکتی ہے کہ 9 سال کے عرصہ میں جو بچے
انوار العلوم جلد کا ۵۲۹ الموعود پیدا ہوں اُن میں سے کسی ایک پر یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی لیکن یہ علامت اس بات کا ثبوت نہیں ہوسکتی کہ پیشگوئی کا مصداق زید ہے یا بکر یا کوئی اور ہے اس لئے میں اس قسم کی علامتوں کو چھوڑتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ان سے میعاد کی تعیین تو ہو جاتی ہے لیکن کسی فرد کی تعیین نہیں ہوتی.پھر پیشگوئیوں کے بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جن کو مومن تو مان سکتے ہیں مگر وہ غیروں کیلئے حجت نہیں ہو سکتے.مثلاً یہ علامت کہ اُسے خدا کا قرب حاصل ہو گا اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت اور پیار کرے گا.یہ علامت محض مومنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جو لوگ ماننے والے ہیں وہ تو کہیں گے کہ واقعہ میں فلاں شخص کو خدا کا قرب حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت اور پیار کرتا ہے لیکن دوسرے لوگ اس بات کو نہیں مان سکتے.وہ کہیں گے کہ یہ محض ڈھکوسلا ہے کہ فلاں کو خدا کا قرب حاصل ہے ، ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے.لیکن بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جو غیروں کے لئے بھی دلیل اور حجت ہوتے ہیں اور وہ پیشگوئیوں میں اس لئے رکھے جاتے ہیں تا کہ غیروں سے بھی منوایا جائے کہ یہ پیشگوئی فلاں شخص کے ذریعہ پوری ہوگئی ہے.میں اس وقت بعض ایسے حصے ہی اس پیشگوئی کے لیتا ہوں جو میرے نزدیک غیروں کیلئے بھی دلیل بن سکتے ہیں اور دشمن سے دشمن بھی پیشگوئی کے ان حصوں کے پورا ہونے سے انکار نہیں کر سکتا.آنے والے موعود کی باون علامات جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ بڑی تفصیلی پیشگوئی ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ آنے والا اپنے اندر کئی قسم کی خصوصیات رکھتا ہو گا.چنانچہ اگر اس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی یہ یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہو گا.دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہوگا.تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہوگا.چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہو گا.پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہوگا.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۳۰ الموعود چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب شکوہ ہوگا.ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب عظمت ہوگا.آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ صاحب دولت ہو گا.نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہوگا.دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ اللہ ہوگا.بارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اُسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہوگا.تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہوگا.چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہو گا.پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہوگا.سولہو میں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا.سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم باطنی سے پُر کیا جائے گا.اٹھارویں علامت یہ بیان کی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.اُنیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دوشنبہ کا اس کے ساتھ خاص تعلق ہوگا.بیسیویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزند دلبند ہوگا.اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہوگا.بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الا قول ہوگا.تئیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الآ خر ہو گا.چوبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الحق ہو گا.پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر العلاء ہوگا.چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ کا مصداق ہوگا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۳۱ الموعود ستائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کا نزول بہت مبارک ہوگا.اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.اُنتیسو میں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہو گا.تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضامندی کے عطر سے ممسوح ہوگا.اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اُس میں اپنی روح ڈالے گا.بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا.تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قو میں اس سے برکت پائیں گی.سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.اڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہو گا.انتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دُور سے آنے والا ہوگا.چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخر رسل ہوگا.اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسف کی طرح اُس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے.چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر الدولہ ہوگا.پینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہوگا.چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالم کباب ہوگا.سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا.اڑتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ العزیز ہو گا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۳۲ الموعود اُنچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ اللہ خان ہوگا.پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہوگا.اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہوگا.با ونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر ثانی ہوگا.یہ علامتیں ہیں جو اس پیشگوئی میں آنے والے کے متعلق بیان کی گئی ہیں.ان میں سے کچھ علامتیں تو ایسی ہیں جو صرف مومنوں کے متعلق ہیں اور وہی ان کی صداقت کی گواہی دے سکتے ہیں.لیکن بعض علامتیں ایسی ہیں جو نہ ماننے والوں کے متعلق ہیں اور اُن علامات کو پیش کر کے اُن پر حجت تمام کی جاسکتی ہے.میں اس وقت ایسی ہی علامات کو لیتا ہوں جن کے پورا ہونے کا دشمن سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا.پہلی پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ صلح موعود کا علوم ظاہری سے پر کیا جانا علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا.اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علومِ ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اُسے یہ علوم سکھائے جائیں گے.یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ علوم ظاہری میں خوب مہارت رکھتا ہوگا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور طاقت اُسے یہ علوم ظاہری سکھائے گی.اُس کی اپنی کوشش اور محنت اور جدو جہد کا اس میں دخل نہیں ہو گا.یہاں علوم ظاہری سے مُراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں پر کیا جائے گا“ کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور حساب اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے.پس پیشگوئی کے ان الفاظ کا کہ وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے گا یہ مفہوم ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اُس کا معلم ہوگا.میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا.میرے اساتذہ میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض فوت ہو چکے ہیں.میری تعلیم کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۳۳ الموعود سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا ہے.آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں! میں پڑھتا جا تا ہوں تم سنتے جاؤ.اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت مگرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دُکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف گروں کی وجہ سے پیدا ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے.بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے.جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی.چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے.میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا.دو چارفٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اُس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اُس کی شکل نظر نہیں آ سکتی.صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اُس میں بھی کرے پڑ گئے اور ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے اُستادوں سے کہہ دیا تھا کہ اس کی پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی.یہ جتنا پڑھنا چاہیے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو.اس کے علاوہ آپ نے مجھے کچھ اور پڑھنے کے لئے کبھی کچھ نہیں کہا.ہاں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ ہمارے حساب کے استاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر
انوار العلوم جلد ۷ ۵۳۴ الموعود سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اُتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ پڑھتا نہیں.کبھی مدرسہ میں آ جاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چُھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سُن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدر سے چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت تو اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دُکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے.حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم ﷺ یا آپ کے صحابہ نے کونسا حساب سیکھا تھا.اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے.یہ سُن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے.میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسہ میں جانا ہی چھوڑ دیا.کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی.غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا.چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا.پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی.ریڈ آئیوڈائیڈ آف مرکزی (MERCURY) کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی.اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی.غرض آنکھوں میں کرے، جگر کی خرابی ، عظم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اُترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے.ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی
انوار العلوم جلد کا ۵۳۵ الموعود قابلیت کا کیا حال ہوگا.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے میرا اُردو کا امتحان لیا.میں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اُس زمانہ میں تو میرا اتنا بد خط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے.اُنہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگا ئیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا.میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں.میرے خط کا نمونہ صرف میری لڑکی امۃ الرشید کی تحریر میں پایا جاتا ہے.اُس کا لکھا ہوا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ہم نے امتۃ الرشید کے لکھے ہوئے پر ایک روپیہ انعام مقرر کر دیا تھا کہ اگر خود امتہ الرشید بھی پڑھ کر بتا دے کہ اُس نے کیا لکھا ہے تو اُسے ایک روپیہ انعام دیا جائے گا.یہی حالت اُس وقت میری تھی کہ مجھ سے بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا بھی پڑھا نہیں جاتا تھا.جب میر صاحب نے پر چہ دیکھا تو وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ تو ایسا ہے جیسے لنڈے لکھے ہوئے ہوں.اُن کی طبیعت بڑی تیز تھی.غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقاً اُس وقت گھر میں ہی تھا.ہم تو پہلے ہی اُن کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نہ معلوم کیا ہو.خیر میر صاحب گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں.میں نے اس کا اُردو کا امتحان لیا تھا، آپ ذرا پر چہ تو دیکھیں اس کا اتنا بُر اخط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا.پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا بلا ؤ حضرت مولوی صاحب کو.جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اول کو بلا لیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مولوی صاحب ! میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلا یا ہے کہ میر صاحب میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا بالکل پڑھا نہیں جاتا.میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے.یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
انوار العلوم جلد ۷ ۵۳۶ الموعود قلم اُٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فر مایا اس کو نقل کرو.بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا.میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اُس کو نقل کر دیا.اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا.الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کو دیکھا تو فرمانے لگے مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے.حضرت خلیفہ اول پہلے ہی میری تائید میں ادہا ر کھائے بیٹھے تھے فرمانے لگے حضور ! میر صاحب کو یونہی جوش آ گیا ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے.حضرت خلیفہ اول مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں ! تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو.میرے پاس آجایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو.چنانچہ انہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی.یہ نہیں کہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے.کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے.آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا.اس کے بعد پھر کچھ نافھے ہونے لگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے پھر مجھے کہا کہ میاں! مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو.دراصل میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی میں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گونانے ہوتے رہے.اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی.طب کا سبق میں نے اور میر محمد اسحق صاحب نے ایک دن ہی شروع کیا تھا بلکہ میر صاحب کا ایک لطیفہ ہے جو ہمارے گھر میں خوب مشہور ہوا کہ دوسرے ہی دن میر محمد اسحاق صاحب اپنی والدہ سے کہنے لگے اماں جان! مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ مولوی صاحب دیر سے مطب میں آتے ہیں.میں پہلے مطب میں چلا جاؤں گا تا کہ مریضوں کو نسخے لکھ لکھ کر دوں
انوار العلوم جلد کا ۵۳۷ الموعود حالانکہ ابھی ایک ہی دن اُن کو طب شروع کئے ہوا تھا.غرض میں نے آپ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی.قرآن کریم کی تفسیر آپ نے دو مہینے میں ختم کرا دی.آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سُنا دیتے.کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے.اسی طرح بخاری آپ نے دو تین مہینہ میں مجھے ختم کرا دی.ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا.چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا.غرض یہ میری علمیت تھی مگر اُنہی دنوں جب میں یہ کورس ختم کر رہا تھا مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا دکھایا.قرآنی علوم کا انکشاف میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں.مشرق کی طرف.میرا منہ ہے کہ آسمان پر سے مجھے ایسی آواز آئی جیسے گھنٹی بجتی ہے یا جیسے پیتل کا کوئی کٹورہ ہو اور اُسے ٹھکور میں تو اُس میں سے باریک سی ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے.پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی یہاں تک کہ تمام جو میں پھیل گئی.اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ آواز متشکل ہو کر تصویر کا چوکٹھا بن گئی.پھر اُس چوکٹھے میں حرکت پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس میں ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی تصویر نظر آنے لگی.تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر بلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اُس میں سے گود کر ایک وجود میرے سامنے آ گیا اور کہنے لگا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ.وہ سکھاتا گیا ،سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا.یہاں تک کہ جب وہ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيّاكَ نَسْتَعِينُ ۳۲ تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین گزرے ہیں ، اُن سب نے یہیں تک تفسیر کی ہے لیکن میں تمہیں آگے بھی سکھانا چاہتا ہوں.میں نے کہا سکھاؤ.چنانچہ وہ سکھاتا چلا گیا یہاں تک کہ ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر اُس نے مجھے سکھا دی.جب میری آنکھ کھلی تو اُس وقت فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے کچھ باتیں مجھے یاد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۳۸ الموعود تھیں مگر میں نے اُن کو نوٹ نہ کیا.دوسرے دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے اس رویا کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے کچھ باتیں یاد تھیں مگر میں نے اُن کو نوٹ نہ کیا اور اب وہ میرے ذہن سے اُتر گئی ہیں.حضرت خلیفہ اول پیار سے فرمانے لگے کہ آپ ہی تمام علم لے لیا کچھ یا در کھتے تو ہمیں بھی سناتے.یہ رویا اصل میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل اور دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے.چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، کبھی کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اُس کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے قرآن کریم کے تمام مشکل مضامین مجھ پر حل کر دیئے ہیں.یہاں تک کہ بعض ایسی آیات جن کے متعلق حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اُن کے معانی کے متعلق پوری تسلی نہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان آیات کے معانی بھی مجھ پر کھول دیئے گئے ہیں اور آب قرآن کریم میں کوئی بات ایسی موجود نہیں جس کے مضمون کو میں ایسے واضح طور پر نہ بیان کر سکوں کہ دشمن سے دشمن کیلئے بھی اُس پر اعتراض کرنا ناممکن ہو.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی شکست تسلیم نہ کرے لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ میں قرآن کریم کے رُو سے دشمن پر حجت تمام نہ کر دوں اور اُس کے اعتراضات کا ایسا جواب نہ دوں جو عقلی طور پر مُسکت اور لا جواب ہو.تفسیر القرآن کے متعلق دنیا کو چیلنج می میں نے اس بارہ میں بار بار لوگوں کو چیلنج دیا.ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں میرا مقابلہ کر لیں مگر آج تک کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ قرآنی تفسیر میں میرا مقابلہ کر سکے.اس میں کوئی حبہ نہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب میرے اس چیلنج کے مقابلہ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اُن کے دلوں میں دیانتداری کے ساتھ یہ جرات نہیں پائی جاتی کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق میرے چیلنج کو قبول کریں.مولوی ثناء اللہ صاحب اس کے جواب میں یہ لکھ دیا کرتے ہیں کہ میری طرف سے صرف اتنی شرط ہے کہ بے ترجمہ
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۳۹ الموعود قرآن کریم اور کاغذ قلم ، دوات لے کر ہم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جائیں اور قرآن کریم کی تفسیر لکھیں.مجھے اُن کی اِس بات سے ہمیشہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ غالباً اُن کو یہ یقین ہے کہ مجھے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا.اگر سادہ قرآن کریم میرے ہاتھ میں دے دیا گیا تو میں کہوں گا کہ اب میں کیا کروں مجھے تو ترجمہ ہی نہیں آتا، میں تفسیر کس طرح لکھوں.حالانکہ جب میں قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق چیلنج دے رہا ہوں اور دنیا کے تمام علماء سے کہتا ہوں کہ اگر اُن میں ہمت ہے تو وہ میرا مقابلہ کر لیں ، تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا ترجمہ تو مجھے بہر حال آتا ہو گا مگر معلوم ہوتا ہے مولوی ثناء اللہ صاحب با وجود اس کے کہ میری طرف سے تفسیر نویسی کا چیلنج دیا جا رہا ہے سمجھتے ہیں کہ اگر میرے پاس سادہ قرآن ہوا تو میں کچھ نہ لکھ سکوں گا.بہر حال وہ ہمیشہ یہی بات پیش کر کے خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ میرا اصل چیلنج جو پہلے بھی شائع ہو چکا ہے اور اب بھی قائم ہے، یہ ہے کہ:.غیر احمدی علما مل کر قرآن کریم کے وہ معارف روحانیہ بیان کریں جو پہلے کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی.پھر میں اُن کے مقابلہ پر کم سے کم ڈگنے معارف قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھے ہیں اور اِن مولویوں کو تو کیا کو جھنے تھے پہلے مفسرین و مصنفین نے بھی نہیں لکھے.اگر میں کم سے کم دُگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں.طریق فیصلہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحبان معارف قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اِس کے بعد میں اُس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی.اس مدت میں جس قدر باتیں اُن کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں اُن کو میں پیش کروں گا.اگر ثالث فیصلہ کر دیں کہ وہ باتیں واقعہ میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اُس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ اُن کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف قرآنیہ بیان ہوں جو پہلی کتب میں نہیں پائے جاتے.اس کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پرلکھوں گا جو پہلے کسی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۰ الموعود مصنف اسلامی نے نہیں لکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اُس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا منصف تسلیم کریں اُس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ اُن کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ میرے بیان کردہ معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے لئے گئے ہوں گے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں گے، ان علماء کے معارف قرآنیہ سے کم از کم دُگنے ہیں یا نہیں جو اُنہوں نے قرآن کریم سے ماخوذ کئے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں.اگر میں ایسے دُگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں.لیکن اگر مولوی صاحبان اس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھا ئیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا.یہ ضروری ہوگا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معا بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج دے.مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دگنی چوگنی قیمت کا ، وی پی میرے نام کر دیں.اگر مولوی صاحبان اس طریق فیصلہ کو نا پسند کریں اور اِس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اُس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اُسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی روشنی میں اُس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چندایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اُس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے.٣٣ یہ ہے اصل چیلنج جو میری طرف سے دیا گیا لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب اس کے جواب میں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۱ الموعود.یہ لکھ دیتے ہیں کہ صرف سادہ قرآن اور کاغذ، قلم، دوات لے کر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہو گا کسی اور کتاب کے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کیسی غیر معقول بات ہے اوّل تو ترجمہ یا بے ترجمہ قرآن کریم کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا لیکن معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب کی عقل اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ باوجود اس کے کہ اُنہوں نے میری متعدد کتابیں پڑھی ہوں گی پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ جب میرے ہاتھ میں بے ترجمہ قرآن آیا تو میں اُن کے مقابلہ میں بالکل رہ جاؤں گا.دوسرے یہ کہنا کہ اپنے پاس قرآن کریم کے علاوہ اور کوئی تفسیر کی کتاب نہ رکھی جائے یہ بھی بے معنی بات ہے.اس لئے کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں ایسی تفسیر لکھوں گا جس میں نئے مضامین ہوں گے پُرانے مضامین نہیں ہوں گے.میں نے یہ نہیں کہا کہ میں پُرانی تفسیروں کا حافظ ہوں.وہ اگر اپنے آپ کو پُرانی تفسیروں کا حافظ سمجھتے ہیں تو بے شک اس کا اعلان کر دیں.لیکن میں پُرانی تفسیروں کا حافظ نہیں اور جب میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں اپنی تفسیر میں ایسی نئی باتیں لکھوں گا جو پُرانے مفسرین نے نہیں لکھیں تو اس لحاظ سے ضروری ہے کہ اس وقت میرے پاس تفسیر میں بھی موجود ہوں تا کہ میں صرف وہ مضامین بیان کروں جو نئے ہوں کوئی ایسا مضمون بیان نہ کروں جو پہلے کسی تفسیر میں لکھا ہوا ہو.پھر میں نے اس امر کی طرف بھی اُن کو توجہ دلائی ہے کہ اگر تفسیروں کے موجود ہونے سے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ شاید میں اُن تفسیروں میں سے کچھ پھر الوں تو پھر تو اُن کو بڑا اچھا موقع میسر آ سکتا ہے اور وہ ساری دنیا میں شور مچا سکتے ہیں کہ دیکھ لو دعوی تو یہ تھا کہ میں ایسے معارف بیان کروں گا جو جدید ہوں گے مگر فلاں فلاں مضمون ، فلاں فلاں تفسیر سے چرا لیا گیا ہے اس صورت میں تو اُن کی فتح اور کامیابی یقینی ہے کیونکہ میرا دعوی یہ ہے کہ میں ایسی باتیں بیان کروں گا جو پہلی تفسیروں میں نہیں آئیں.پس اگر میں ان تفسیروں میں سے کچھ چھالوں گا تو وہ اعلان کر دیں گے کہ دعوئی تو یہ کیا گیا تھا کہ میں نئے علوم اور نئے معارف پیش کروں گا مگر فلاں فلاں بات امام رازی یا علامہ ابن حیان بھی بیان کر چکے ہیں اس صورت میں میرا چیلنج خود بخود باطل ہو جائے گا.پھر سوال یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو گیا ہے کہ مجھے پرانی تفسیروں میں سے کچھ چرانا زیادہ آتا ہے اور اُن کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۲ الموعود نہیں آتا.وہ پکے مولوی ہیں.اگر میرے سامنے وہ تفاسیر ہوں گی تو آخر وہ تفاسیر ان کے سامنے بھی تو ہوں گی.اگر میں نے اُن سے کچھ چرا لینا ہے تو مولوی صاحب بھی تو چرا سکتے ہیں.علومِ جدیدہ کی میرے پاس کوئی خاص تفاسیر تو نہیں ہیں جو میں نے چھپا رکھی ہیں.پھر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم تو عربی میں ہے اور تفسیر میں بھی عربی میں ہیں.اُن کے نزدیک جب میں عربی جانتا ہی نہیں اور اسی لئے وہ بے ترجمہ قرآن رکھنے کی شرط پیش کرتے ہیں تو اُن کو یہ کیونکر خیال پیدا ہو گیا کہ میں عربی تفسیروں سے مضمون چرالوں گا.پھر قرآن تو صرف عربی میں ہے مگر تفاسیر میں علم صرف کے مضامین بھی آتے ہیں ، علم نحو کے مضامین بھی آتے ہیں، علم کلام کے مضامین بھی آتے ہیں، علم فلسفہ کے مضامین بھی آتے ہیں، علم منطق کے مضامین بھی آتے ہیں.اگر ایک شخص قرآن کریم کا ترجمہ تک نہیں جانتا تو وہ ان تفسیروں سے مختلف مضامین کس طرح چرا سکتا ہے.پس میں نہیں سمجھتا کہ ایسی شرائط کو پیش کرنے سے اُن کی غرض کیا ہے.سوائے اس کے کہ وقت ضائع کیا جائے مگر مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا نہیں کیا کہ میں کھیل میں اپنے وقت کو ضائع کر دوں.مجھے بعض دفعہ یہ بھی خیال آیا کرتا ہے کہ ممکن ہے اُن کا خیال ہو کہ میں بعض ایسی تفسیریں اپنے ساتھ چھپا کر لے جاؤں گا جو اُن کے پاس نہیں ہوں گی اور اس طرح میں غالب آ جاؤں گا.اگر اُن کو یہ خیال ہو تو میں اعلان کرتا ہوں کہ مجلس میں بیٹھ کر اگر وہ میری تفسیروں کو دیکھنا چاہیں تو وہ اُن کو دیکھ سکتے ہیں.وہ اُن سب کے نام نوٹ کر لیں اور پھر حوالہ دیکھنے کے لئے جس کتاب کی ضرورت ہو وہ بیشک مجھ سے مانگ لیں میں اُن کو وہ کتاب حوالہ دیکھنے کے لئے عاریتاً بھجوا دوں گا.میں جیسا کہ بتا چکا ہوں ہمیشہ یہ شرط پیش کیا کرتا ہوں کہ قرعہ ڈال کر قرآن کریم کے بعض رکوع نکال لئے جائیں اور پھر وہ بھی بیٹھ جائیں اور میں بھی بیٹھ جاؤں اور ہم دونوں قرآن کریم کے اُن رکوعوں کی تفسیر لکھیں.مگر شرط یہ ہوگی کہ تفسیر میں ایسے ہی مضامین بیان کئے جائیں جو پہلی تفسیروں میں نہ آچکے ہوں اور پھر صرف نحو اور لغت وغیرہ علوم کے لحاظ سے سے وہ معنی درست ہوں.اسی طرح قرآن کریم کے سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی وہ معنی صحیح ہوں.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۴۳ الموعود میں اس بات کے لئے بھی تیار ہوں کہ اس غرض کے لئے بعض لوگ بطور قاضی یا حج مقرر کر دیئے جائیں جو بعد میں غور کر کے فیصلہ کر دیں کہ کس فریق نے قرآن کریم کے ایسے نئے علوم بیان کئے ہیں جو پہلی کسی تفسیر میں بیان نہیں ہوئے لیکن یہ ضروری ہوگا کہ وہ با دلائل فیصلہ لکھیں.یہ کوئی عقائد سے تعلق رکھنے والی بات نہیں جس میں جوں کا مقرر کرنا خلاف اصول ہو.محض ایک علمی چیز ہے اور اس کے لئے جوں کو فیصلہ کے لئے مقرر کیا جا سکتا ہے.میں جس فیصلہ کرنے والے بورڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کرتا ہوں اور وہ ایسا بورڈ ہوتا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عقائد کے متعلق فیصلہ کرے گا اور میں اس بات کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ عقائد کے تصفیہ کے متعلق کوئی بورڈ مقرر کیا جا سکتا ہے یا کسی اور کا فیصلہ تسلیم کیا جا سکتا ہے.عقائد کے بارہ میں کسی شخص کی کوئی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی.لیکن یہ ایک علمی مقابلہ ہے اس میں بعض لوگ اگر بطور جج مقرر ہو جائیں تو میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ میں نے جو طریق فیصلہ پیش کیا ہے اس میں مخالف علماء کو کیا محبہ ہے اور میں اُن سے کس طرح دھو کا کرلوں گا.مولوی محمد علی صاحب کا جواب تفسیر نویسی کے اس چیلنج کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے.اسی طرح مصری صاحب نے بھی اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے.ان میں سے ایک نے اسمةَ احمد ۳۴ کی آیت کو اور دوسرے نے ولكِن رَّسُول اللہ وخاتم النبین ۳۵ والی آیت کو پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان آیات کی تفسیر میں مقابلہ کر لیا جائے حالانکہ یہ سیدھی بات ہے کہ جو آیتیں ایسی ہیں کہ ان کے معانی کے بیان کرنے میں ہم میں اور غیر احمد یوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اُن میں کوئی لطیف سے لطیف بات بھی مخالفین کے دلوں کو مطمئن نہیں کر سکتی.خواہ ہم آیت خاتم النبیین کے کیسے ہی لطیف معنی کریں یا اسمة خمر کی کتنی اعلیٰ درجہ کی تشریح کریں غیر احمدی ہمارے معنوں کو ضرور نا پسند کریں گے اس لئے ایسے اختلافی مسائل کے متعلق اُن کی رائے صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکتی.اُن کی رائے ایسے ہی امور کے بارہ میں صحیح طور پر معلوم ہو سکتی ہے جو عام مضامین سے تعلق رکھتے ہوں.اسی غرض کے لئے میں نے کہا ہے کہ قرعہ ڈالو اور
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۴ الموعود قرآن کریم کے کوئی رکوع نکال لو.اگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہوگی کہ آیت خاتم النبیین یا آیت اسمة احمد کی تفسیر کی جائے تو قرعہ میں یہی آیات نکل آئیں گی.انہیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے وہ سیدھی طرح مقابلہ میں آئیں اور قرعہ کی تجویز کو منظور کر لیں جو رکوع بھی قرعہ کے نتیجہ میں نکل آیا اُس کی میں تغییر لکھ دوں گا.اور اگر وہ قرعہ کی تجویز کو بھی منظور نہیں کرتے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اُن کو اپنے دلوں میں یقین ہے کہ خدا میرے ساتھ ہے.اگر ہم نے قرعہ بھی ڈالا تو وہی آیات نکلیں گی جن کی تفسیر اس کو اچھی آتی ہو گی لیکن ہمیں ان کی تفسیر نہیں آتی ہوگی اور اگر یہ بات نہیں تو وہ ڈرتے کیوں ہیں.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے کئی سو رکوع ہیں وہ قرعہ ڈال لیں پھر جو بھی آیات نکل آئیں گی میں اُن کی تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہوں.اگر قرعہ کا طریق نظر انداز کر دیا جائے اور جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں اُن آیات کی تفسیر لکھی جائے جن کے معانی میں ہم میں اور غیر احمد یوں میں اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ اُس تفسیر کے متعلق فیصلہ کرنے میں اُن کا دماغ آزاد نہیں ہو گا.اور وہ آسانی سے فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ کس کی تفسیر زیادہ اعلیٰ ہے.لیکن اگر اختلافی مسائل سے تعلق رکھنے والی آیت نہ ہو تو اُس کی تفسیر کے متعلق اُن کا دماغ آزاد ہو گا اور آسانی سے وہ فیصلہ کر سکیں گے کہ میری تفسیر زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے یا مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے.قرعہ میں یہ بھی کوئی شرط نہیں کہ اگر آیت خاتم النبین اسمة احمد نکلی تو اس کی تفسیر نہیں لکھی جائے گی.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تائید اُن کو حاصل ہے تو کیوں وہ خدا تعالیٰ پر یہ یقین نہیں رکھتے کہ خدا تعالیٰ قرعہ میں اُن کے حسب منشاء آیات نکلوا دے گا اور اس طرح اُن کے غلبہ اور تفوق کے سامان پیدا فرما دے گا.اُن کا بار بار ایسی ہی آیات کو تفسیر کے لئے پیش کرنا جن کے متعلق ہم میں اور غیر احمدیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے بتا تا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ ہم تفسیر میں مقابلہ نہیں کر سکتے اسی لئے وہ ان آیات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں جن میں ہمارا غیراحمدیوں کے ساتھ اختلاف پایا جاتا ہے تا کہ اگر وہ معارف یا علوم کے لحاظ سے غالب نہ آ سکیں تو کم از کم غیر احمدیوں کی تائید تو اُن کو حاصل ہو جائے.دوسرے اُن کا قرعہ سے گھبرانا اور اس طریق کو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۵ الموعود قبول نہ کرنا اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں خدا اس کے ساتھ ہے اگر ہم نے قرعہ کا طریق منظور کر لیا تو خدا قرعہ میں ایسی ہی آیات نکلوائے گا جن کی تفسیر اس کو اچھی طرح آتی ہوگی اور ہم شَاهَتِ الْوُجُوہ کے مصداق بن کر رہ جائیں گے.باقی رہے مصری صاحب سو وہ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں.وہ ایک لمبا عرصہ یہاں رہے ہیں اور میرے سامنے شاگردوں کی طرح بیٹھتے رہے ہیں جب بھی میں جلسہ سالانہ کے بعد تقریر سے فارغ ہو کر گھر جاتا تو مصری صاحب دروازہ پر ہی مجھے روک لیتے اور کہتے حضور نوٹ عنایت فرماویں.میں کہتا کہ نوٹوں کی کیا ضرورت ہے تقریر چھپ جائے گی.اس پر وہ کہتے کہ کون تقریر کے چھپنے کا انتظار کرے آپ اپنے نوٹ مجھے دے دیں جب تک تقریر شائع نہیں ہوتی میں ان معارف سے فائدہ اُٹھا تا رہوں گا.وہ شخص جو اس طرح لمبے عرصہ تک میرے علوم سے فائدہ اُٹھا تا رہا ہے اور شاگردوں کی طرح میرے سامنے بیٹھتا رہا ہے، اب وہ مجھے تفسیر نویسی کا چیلنج دے رہا ہے.ان کو یا درکھنا چاہئے کہ انہیں ہرگز کوئی نیابتی پوزیشن حاصل نہیں ہے اور نہ وہ اس قابل ہیں کہ انہیں تفسیر نویسی کا اہل سمجھا جائے.بہر حال تفسیر نویسی کا جو راستہ میں نے بتایا ہے وہ نہایت منصفانہ ہے.قرعہ ڈالنے میں کسی کو کوئی خاص رعایت نہیں ملتی.غیر احمدیوں کا کوئی نمائندہ جو فی الواقع نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہو یا مولوی محمد علی صاحب اِس طرح مقابلہ کر لیں اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا اور صداقت کو ظاہر کر دے گا.اس کے علاوہ قرآن کریم کے بہت سے حصوں کی تفسیر میری طرف سے لکھی ہوئی موجود ہے.اس شائع شدہ تفسیر سے بھی اس پیشگوئی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.بعض دشمن اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں غیر مبائعین میں سے بھی اور دوسروں میں سے بھی کہ ہم مانتے ہیں آپ بہت ذہین ہیں ، باتیں خوب نکال لیتے ہیں اور مناسب مضمون اخذ کر لیتے ہیں.مگر اس اعتراض سے بھی میری صداقت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس اعتراف کے معنی یہ بن جائیں گے کہ مرزا صاحب نے ایک پیشگوئی کی تھی کہ 9 سال کے عرصہ میں میرے ہاں ایک ایسالڑ کا پیدا ہوگا جو بہت ذہین ہوگا اور بڑا چالاک ہوگا اور پرانی تفسیروں میں سے ایسے ایسے علوم چرانے کا اُسے ملکہ حاصل ہوگا کہ اُس وقت کے بڑے بڑے تجربہ کار بھی اس قسم کی علمی چوری میں اُس کا
انوار العلوم جلد کا ۵۴۶ الموعود مقابلہ نہ کرسکیں گے اور پھر وہ زندہ بھی رہے گا اور اپنی چالا کی اور ہوشیاری سے ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گا.اگر یہی نتیجہ نکالا جائے تو میں کہتا ہوں کہ کیا کسی انسان کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ ایسی پیشگوئی کر سکے اور کہہ سکے کہ ۹ سال کے اندر میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو ایسا ذہین اور ہوشیار ہوگا کہ بڑے بڑے مولوی بھی اُس کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکیں گے پھر کیا وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایسا لڑکا زندہ رہے گا.اور کیا وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایسا لڑکا اپنی چالاکی سے ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گا ؟ اگر وہ یہ بہانہ کرتے ہیں تو بیشک وہ میرا نام چالاک رکھ دیں، مجھے ہوشیار اور تجربہ کار کہہ لیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کی صداقت میں قحبہ نہیں ہو سکتا اور ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خبر دی تھی کہ آپ کے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو مولویوں کو شکست دے گا ، وہ خبر سچی ثابت ہوئی.خدا نے مجھے ایسی مدد دی ہے اور میری تائید میں اپنے نشانات کو اس طرح پئے در پے نازل کیا ہے کہ آج دشمن میرے مقابل پر سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کوئی بھی معقول اور صحیح بات اپنی زبان پر نہیں لا سکتا اور اس طرح اپنی شکست کو تسلیم کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کی صداقت کو وہ اپنے عمل سے واضح کر رہا ہے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ چیلنج ہر اُس شخص کے لئے اب بھی قائم ہے جو مقابلہ کا اہل ہو.یعنی وہ اس حیثیت کا ہو کہ اُس سے مقابلہ کرنا کوئی فائدہ رکھتا ہو.ورنہ یوں تو ہر آدمی چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کر سکتا ہے اور وقت کے ضیاع سے زیادہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.مصلح موعود کا علوم باطنی سے پر کیا جانا دوری خبر اس پیشگوئی میں مہدی کی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپر د کرتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ سے اُن کا تعلق ظاہر ہو اور وہ اُن کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں.سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوا ہیں اور الہام مجھے ہوئے ہیں جو علوم غیب پر مشتمل ہیں مگر میں مثال کے طور پر صرف چند کا اِس جگہ ذکر کرتا ہوں.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۴۷ الموعود مبائعین کے مقابلہ میں (۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی جبکہ خلافت کا کوئی سوال بھی ذہن غیر مبائعین کی ناکامی کی خبر میں پیدا نہیں ہوسکتا تھا مجھے اللہ تعالی کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ یعنی وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے اُن لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے.یہ الہام میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سُنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا.یہ وہی آیت ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے مگر وہاں الفاظ یہ ہیں.وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ - ٣٦ کہ میں تیرے منکروں پر تیرے مومنوں کو قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں.مگر مجھے جو الہام ہوا وہ یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ - جو پہلے سے زیادہ تاکیدی ہے یعنی میں اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقیناً تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.یہ الہام جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا.میں عرصہ دراز سے یہ الہام دوستوں کو سنا تا چلا آ رہا ہوں.اس کے نتیجہ میں دیکھو کہ کس کس طرح میری مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح دی.غیر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہ کہہ کہہ کر کہ ایک بچہ ہے جس کی خاطر جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پراپیگنڈہ کیا مگر بالکل بے اثر ثابت ہوا.میں ان باتوں سے اُس وقت اتنا نا واقف تھا کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت میں حضرت اماں جان کے کمرہ میں جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد میں سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں.اُن میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی.میں نے سُنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تقومی کرنا چاہئے ، خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے ایک بچہ کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے ، ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے.میں اُس وقت اِن باتوں سے اس قدر نا واقف تھا کہ مجھے اُن کی یہ بات سُن کر سخت 66
انوار العلوم جلد ۷ ۵۴۸ الموعود حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں.چنانچہ میں نے باہر نکل کر غالباً شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے.وہ بچہ ہے کون جس کی طرف شیخ صاحب اشارہ کر رہے تھے؟ وہ مجھے ہنس کر کہنے لگے وہ بچہ تم ہی تو ہو اور کون ہے.گویا میری اور اُن کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ ایک نا بینا اور بینا دونوں کھانا کھانے بیٹھے.نابینا نے سمجھا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا اور اسے سب کچھ نظر آتا ہے، لازماً یہ مجھ سے زیادہ کھا رہا ہو گا.چنانچہ یہ خیال آتے ہی اُس نے جلدی جلدی کھانا ، کھانا شروع کر دیا.پھر اُسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہوگی اور اب یہ بھی جلدی جلدی کھانا کھانے لگ گیا ہوگا میں کیا کروں؟ چنا نچہ اُس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر سمجھا کہ اب یہ بھی اس نے دیکھ لیا ہوگا اور اس نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہوگا ، میں اب کس طرح زیادہ کھاؤں؟ اس خیال کے آنے پر اُس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دیئے.پھر اُسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اُس نے دیکھ لی ہوگی اور اُس نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا ہوگا.یہ خیال آنے پر اُس نے تھالی اُٹھالی اور کہنے لگا بس اب میرا حصہ ہی رہ گیا ہے تم اپنا حصہ لے چکے ہو اور اُس بیچارے کی یہ حالت تھی کہ اُس نے ایک لقمہ بھی منہ میں نہیں ڈالا تھا.وہ اس نابینا کی حرکات دیکھ دیکھ کر ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ یہ کیا کر رہا ہے.یہی میرا اور اُن کا حال تھا.یہ بھی اُس نابینا کی طرح ہمیشہ سوچتے رہتے کہ اب یہ یوں کر رہا ہوگا ، اب یہ اس طرح جماعت کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہو گا اور مجھے کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے خلاف کیا کچھ ہورہا ہے.میں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات پر تو کل رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور حالات سے ایسا نا واقف تھا کہ سمجھتا تھا کوئی اور بچہ ہے جس کا یہ ذکر ہو رہا ہے.مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ اُس وقت بڑا رسوخ رکھتے تھے اور جماعت پر ان کا خاص طور پر اثر تھا ، اللہ تعالیٰ نے اُن کے تمام پراپیگنڈہ کو بے اثر ثابت کیا اور مجھے اُس نے فتح اور کامرانی عطا کی.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۴۹ الموعود غیر مبائعین کی ایک اور عبرتناک نا کامی (۲) پھر میری خلافت کے جنت جب مسجد نور میں جماعت کے لوگوں نے میری بیعت کی.انہوں نے الوصیۃ“ کے ایک حوالہ کے ماتحت جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے.وہ بیعت لینے کا مجاز ہوگا.‘۳۷ے کوشش کی کہ میرے مقابل میں کسی کو خلیفہ بنالیں.اس حوالہ کے تو اور معنی ہیں مگر بہر حال انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ کسی طرح خلافت کو چھوڑ نہیں سکتے تو انہوں نے چاہا کہ ہم بھی مقابل میں ایک خلیفہ بنا لیں.چنانچہ ماسٹر عبدالحق صاحب جنہوں نے پہلے پارے کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور جنہوں نے شروع میں میری بیعت نہ کی تھی بلکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تھے ، بعد میں بتایا که مولوی صدرالدین صاحب رات کے وقت ہاتھ میں لالٹین لے کر دو ہزار احمدیوں کے مکانوں پر ماسٹر عبدالحق صاحب اور ایک اور صاحب سمیت چکر لگاتے رہے کہ چالیس آدمی ہی اس خیال کے مل جاویں مگر اتنے آدمی بھی اُن کو نہ ملے جو اُن کا ساتھ دیتے بلکہ اُن کی روایت تھی کہ صرف تیرہ آدمی ملے جو اس خیال کے حامی تھے ، چالیس کی تعداد پوری نہ ہوئی.اب دیکھو یہ خدا تعالیٰ کی کیسی عظیم الشان قدرت ہے کہ اُس وقت سارا کام ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا.انجمن پر ان کا قبضہ تھا ، تصانیف ان کے ہاتھ میں تھیں ، عہدے ان کے قبضہ میں تھے.مگر سارا زور لگا کر قادیان میں سے تیرہ سے زیادہ آدمی نہ نکلے جو اس بات پر متفق ہوں کہ میرے مقابل میں کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.انہوں نے اس غرض کے لئے سید عابد علی شاہ صاحب کا نام تجویز کیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ اُن کی خلافت کے لئے چالیس آدمی تیار کئے جائیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کو نہ صرف اِس طرح شرمندہ کیا کہ اتنے بڑے مجمع میں سے ساری رات گشت لگانے کے باوجود چالیس آدمی بھی نہ مل سکے اور وہ نا کام اپنے گھروں کو واپس لوٹے بلکہ خدا نے اُن کو اس طرح بھی شرمندہ کیا کہ آخر سید عابد علی شاہ صاحب نے میری بیعت کر لی.مگر بعد میں اُن کو جنون ہو گیا اور دماغی نقص کی وجہ سے انہوں نے نبوت کا دعوی کر دیا اور اعلان کر دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرے گھر میں طاعون نہیں آئے گی لیکن اِس
انوار العلوم جلد ۱۷ الموعود اعلان کے بعد وہ خود ہی طاعون سے مر گئے.غرض قوم کے لیڈر میرے مقابل میں کھڑے ہوئے جن کے ہاتھ میں سلسلہ کا خزانہ تھا اور جن کا جماعت کے قلوب پر اس قدر رُعب تھا کہ اسی مسجد نور میں کھڑے ہو کر ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب نے جماعت کے سامنے چندے کی تحریک کی تو بعض احمد ی اُٹھ کر کسی کام کے لئے باہر جانے لگے.مولوی محمد علی صاحب جن کی طبیعت جو شیلی ہے یہ دیکھ کر غصہ میں آگئے اور کہنے لگے اب میں نے چندے کی تحریک کی ہے تو تم بھاگنے لگے ہو.یا د رکھو کہ میں تم سے جونیوں سے چندہ وصول کروں گا.اِن الفاظ سے اُن کے اخلاق کا جو نمونہ ظاہر ہوتا ہے وہ تو عیاں ہی ہے لیکن میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انہوں نے اتنے سخت الفاظ جماعت کو مخاطب کر کے کہے مگر کسی ایک شخص نے بھی چوں تک نہیں کی اور سب خاموش رہے.غرض اُن کا اُس وقت اتنا رعب تھا اور اس قدر رسوخ اُن کو حاصل تھا کہ جماعت کے معززین کو اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ میں جوتیاں مار کر تم سے چندہ وصول کروں گا تو پھر بھی وہ خاموش رہتے تھے.تاریخوں میں لکھا ہے.نپولین کو ایک دفعہ شکست ہوئی.اُس کی فوج کے سپاہی اور جرنیل بھاگتے چلے آ رہے تھے کہ راستے میں ایک جرنیل نے کہا.وہ جرمن فوج آگئی.جرمن فوج واقعہ میں پیچھے سے آ رہی تھی اور اُس نے جو کچھ کہا درست تھا مگر نپولین نے اُسے جواب دیا.گتا ! تم کو ہر وقت جرمن ہی نظر آتے ہیں.وہ کہتا ہے اگر میرا باپ بھی مجھے یہ الفاظ کہتا تو میں اُسی وقت تلوار اُس کے پیٹ میں گھونپ دیتا.مگر نپولین کیلئے ہم کہتے ہی تھے وہ ہمیں بُوٹ مارتا اور ہم اُس کے پاؤں چاہتے.شریف اور معزز احمدی سامنے بیٹھے ہیں اور مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ میں جوتیاں مار مار کر تم سے چندہ وصول کروں گا.بعد میں بعض احمد یوں نے مجھے یہ بات پہنچائی تو میں نے کہا میں امید نہیں کرتا کہ اُنہوں نے یہ الفاظ کہے ہوں مگر کئی لوگوں نے شہادت دی کہ واقعہ میں انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے.غرض وہ شخص جسے اتنا بڑا رعب حاصل تھا میرے مقابل میں آیا تو
انوار العلوم جلد کا ۵۵۱ الموعود اللہ تعالیٰ نے اُس کی کوئی بات نہ چلنے دی اور اُسے خائب و خاسر کر دیا.احرار کی شکست (۳) اسی طرح احرار میرے مقابل میں اُٹھے.احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی.کیونکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی گئی تھی اس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اس زور کو تو ڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں یا پھر کشمیر کے خلاف ہی اپنی جد و جہد کو شروع کر دیں.چنانچہ احرار نے ۱۹۳۴ء میں شورش شروع کی اور اس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑکا دیا.اُس وقت مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر میں نے اپنے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ.” خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے.جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اُس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و با مراد کرنے والے ہیں.اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں اُن کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں ، اتنی ہی نمایاں مجھے اُن کی موت دکھائی دیتی ہے.۳۸ چنانچہ ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ شہید گنج کا واقعہ ہو گیا اور یا تو وہ ساری دنیا میں ہمارے خلاف شور مچاتے تھے اور لوگ انہیں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور یا پھر لاہور میں جو اُن کا مرکز تھا وہ ایسے ذلیل اور رُسوا ہوئے کہ دو سال تک لوگوں نے اُن کو جلسہ نہ کرنے دیا.بیشک ہماری جماعت کی مخالفت ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی ہے.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر قدم پر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاتا ہے اور کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن کے حملہ کی وجہ سے ہماری جماعت کم ہو گئی ہو.ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ھتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک دن بھی ہم پر ایسا نہیں چڑھا جب ہماری تعداد میں پہلے.اضافہ نہ ہو گیا ہو.پس کامیابی ہماری ہے اور نا کامی ہمارے دشمن کی.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۵۲ الموعود اس موقع پر بعض غیر مبائعین یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے.اس لئے یہ زیادتی اور ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہے تمہارا اس سے اپنی صداقت کے متعلق کوئی استدلال کرنا درست نہیں ہوسکتا.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ سلسلہ کی تمام ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہی منسوب ہوں گی.مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا الہام میں یہ بھی ذکر تھا کہ یہ الہام ایک جھوٹے کے ذریعہ پورا ہوگا.مولوی محمد علی صاحب جو بچے ہوں گے اُن کے ذریعہ پورا نہیں ہو گا.آخر وہ کیا ہے کہ ایک کاذب کے ذریعہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام پورا ہو رہا ہے اور جماعت احمد یہ اکناف عالم میں پھیلتی جا رہی ہے مگر صادق کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.مبائعین کے غلبہ کا ایک بین ثبوت ایک دفعہ غیر مباھین نے لکھا کہ ہماری ! جماعت میں علمی لوگ زیادہ ہیں مگر تمہاری جماعت میں علمی لوگ کم ہیں.میں نے اُس وقت چیلنج دیا کہ تم اپنی جماعت کے تمام بی.اے اور ایم.اے تعلیم یافتہ لوگوں کی فہرست شائع کر دو.میں اپنی جماعت کے بی.اے اور ایم.اے پاس افراد کی فہرست شائع کر دوں گا.پھر خود بخود پتہ لگ جائے گا کہ علمی لوگ ہماری جماعت میں زیادہ ہیں یا تمہاری جماعت میں.اسی طرح انہوں نے صحابہ کا ذکر کیا کہ ہماری جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زیادہ شامل ہیں.میں نے کہا کہ تم اپنی جماعت کے صحابہ کی فہرست شائع کر دو میں اپنی جماعت کے صحابہ کی فہرست شائع کر دوں گا.پھر خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ صحابہ کی اکثریت کس طرف ہے.مگر وہ اس مقابلہ میں نہ نکلے اور نہ نکل سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری جماعت ہر لحاظ سے اُن پر فوقیت رکھتی ہے اور یہ اس الہام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مجھے ہوا کہ إنّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ غیر مبائعین میں افتراق پیدا ہونے کی خبر (۲) دوسرے اللہ تعالی نے غیر مبائعین کے فتنہ کے شروع
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۵۳ الموعود میں ہی مجھے خبر دی تھی.لَيُمَزِ قَنَّهُمُ.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.چنانچہ یہ الہام اُسی وقت میں نے اُس ٹریکٹ میں شائع کر دیا تھا جس کا نام ہے کون ہے جو خدا کے کام روک سکے.یہ الہام بھی پورا ہوا، یہاں تک کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ۹۵ فیصدی کہا کرتے تھے اُن کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ وہ واقعہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں.اُن میں اتنے شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور آپس میں ایسی ایسی سخت مخالفتیں ہوئیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی اس الہام کی صداقت کا اقرار کیا.خواجہ صاحب میرے اُستاد تھے کیونکہ انہوں نے سکول میں مجھے دو دن پڑھایا تھا.اُن کے متعلق یہ روایت ہے جو اُن کے بعض واقفوں نے مجھے پہنچائی کہ وہ اپنی وفات سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ میاں محمود کی کوئی اور بات سچی ہو یا نہ ہومگر اُن کا یہ الہام تو پورا ہو گیا ہے کہ لیمز قَنَّهُمُ اور ہم واقعہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں.اس الہام سے پہلے مولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ وہ دانت کاٹی روٹی کھایا کرتے تھے.مگر جب وہ میرے مقابل میں کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس الہام کے مطابق اُن میں ایسا تفرقہ پیدا کر دیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا گیا اور اُن کی اور مولوی محمد علی صاحب کی آپس میں شدید مخالفت ہو گئی.اسی طرح ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے ایک دفعہ احمد یہ مسجد میں کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ ایسا ایسا آدمی یہاں آئے تو سہی میں اُس کی ٹانگیں نہ توڑ ڈوں اور اِس سے اُن کی مراد مولوی محمد علی صاحب تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب سے بھی اُن کی مخالفت ہوئی اور وہ اس قدر بیزار ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی وفات سے پہلے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے ارد گر دسخت اندھیرا ہے اور میں اپنے خیالات کا پورے طور پر اظہار نہیں کر سکتا.آپ میری طرف اپنا کوئی آدمی بھیجیں، میں اُس کے ذریعہ آپ تک بعض باتیں پہنچانا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر کو خط دے کر لاہور بھیجا مگر اُس وقت بیماری کی وجہ سے اُن کے تمام رشتہ دار ا کٹھے تھے وہ کوئی گفتگو نہ کر سکے.گزشتہ جنگ عظیم کے متعلق رویا (۳) تیسرے گزشتہ جنگ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت جبکہ اٹلی اور ٹرکی
انوار العلوم جلد کا ۵۵۴ الموعود دونوں جنگ میں شامل نہیں تھے ایک رؤیا دکھایا.میں نے دیکھا کہ جرمنی سے لڑکی کی طرف کنکشن ہوا ہے اور کوئی خبر ہے جوٹر کی کے نام جرمنی کی طرف سے پہنچائی جا رہی ہے.اسی دوران میں کسی نے آلہ میرے کان میں لگا دیا اور میں نے سُنا کہ جرمن حکومت ٹرکی سے یہ گفتگو کر رہی ہے کہ اٹلی ہمارے خلاف انگریزوں سے ملنے والا ہے، تم ہمارے ساتھ مل جاؤ.یہ رویا مجھے اُس وقت ہوا جبکہ اٹلی جرمنی کا حلیف تھا اور آسٹریا، جرمنی اور اٹلی تینوں کا آپس میں معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، اسی لئے اُن TRIPLE ALLIANCE ( ٹریپل الائنس ( یعنی تین طاقتوں کا اتحاد قرار دیا جاتا تھا.مگر اس رؤیا کے عین مطابق واقعہ یہ ہوا کہ اٹلی انگریزوں سے جاملا اور ٹر کی جرمنوں کے ساتھ شامل ہو گیا.گویا دو پہلو تھے جو اس رویا میں بتائے گئے تھے ایک یہ کہ اٹلی جرمنوں سے غداری کرے گا اور دوسرا یہ کہ ٹرکی اس کے مقابلہ میں جرمنوں سے جا ملے گا.دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا سیاست دان بھی قبل از وقت ایسی بات نہیں کر سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر بتائی اور جیسا کہ مجھے دکھایا گیا تھا ویسا ہی وقوع میں آگیا.ایک اور اہم رؤیا (۴) اسی طرح گزشتہ جنگ کے موقع پر جب بیلجیئم پرحملہ ہوا اور جرمن بڑے زور سے آگے بڑھ رہے تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے.جرمن فٹ بال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گول ہو نہیں سکا.اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا.جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال لیکر دوڑنے لگے.مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنالیں جن کے اندر وہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بھی بیٹھ گئے.بعینہ اسی طرح گزشتہ جنگ میں جرمن لشکر نے جب حملہ کیا تو اس کی فوجیں بڑھتے بڑھتے پیرس تک پہنچ گئیں یہاں تک گورنمنٹ کے ذخائر بھی دوسری جگہ تبدیل کر دیئے گئے مگر پھر اُسے واپس لوٹنا پڑا اور جب وہ سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اِس نے ٹرنچز(TRENCHES) بنا لیں اور اُس کے اندر بیٹھ گیا اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۵۵ الموعود مشکلات کے ہجوم میں خدا تعالیٰ کے (۵) پانچویں خواب جو میں ہمیشہ سے سنا تا چلا آ رہا ہوں اور شیخ عبدالرحمن صاحب فضل اور رحم پر بھروسہ رکھنے کی تلقین مصری بھی اس کے گواہ ہیں.وہ یہ ہے کہ میں نے ۱۹۱۳ء میں جبکہ میں شملہ کے مقام پر تھا، رویا میں دیکھا کہ کوئی بہت بڑا اور اہم کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے راستہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں.ایک فرشتہ میرے پاس آتا ہے اور وہ مجھے کہتا ہے کہ اس کام کی تکمیل کے راستہ میں بہت سی رُکاوٹیں حائل ہوں گی اور شیطان اور ابلیس مختلف طریقوں سے تمہیں ڈرا ئیں گے اور تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے مگر اُن کا کوئی خیال نہ کرنا بلکہ جب بھی کوئی ایسی روک دکھائی دے تم نے یہ کہنا شروع کر دینا کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ چنانچہ میں چل پڑا.میرا راستہ دو پہاڑیوں کے درمیان میں سے گزرتا ہے.میں نے دیکھا کہ میں جنگل میں سے جارہا ہوں.بالکل سنسان بیا نان ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت خطرہ اور خوف کی جگہ ہے.میں اسی طرح جا رہا ہوں کہ دُور سے شور سنائی دیتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں میرے کانوں میں آنے لگتی ہیں.کوئی مجھے گالی دیتا ہے اور کوئی مجھ سے بیہودہ سوال کرتا ہے لیکن میں اُن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہوں اور جب میں یہ الفاظ کہتا ہوں تو وہ شور بند ہو جاتا ہے.مگر تھوڑی دور اور آگے گیا تو مجھے بعض عجیب قسم کے وجو د نظر آنے لگے اور اُن کی عجیب عجیب شکلیں دکھائی دینے لگیں ، کسی کے کئی کئی ہاتھ ہیں، کسی کا سر بہت بڑا ہے اور کسی کا بہت چھوٹا.کوئی وجود تو انسان کا ہے مگر اُس کا سر ہاتھی کا ہے اور کسی کا دھڑ شیر کا ہے اور سر انسان کا ہے، کہیں خالی دھڑ ہی دھڑ ہیں اور کہیں خالی سر ہی سر ہیں.یہ سب کے سب مجھے ڈراتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور مجھے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں مگر جب بھی میں کہتا ہوں.” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تو یہ سب شکلیں غائب ہو جاتی ہیں.اس کے تھوڑی دیر بعد بعض اور بھیا نک نظارے نظر آنے لگ گئے.کوئی ہاتھ کٹا ہوا علیحدہ نظر آتا ہے، کوئی سر بغیر دھڑ کے دکھائی دیتا ہے اور کوئی دھڑ بغیر سر کے نظر آتا ہے، کوئی ،،
انوار العلوم جلد کا ۵۵۶ الموعود 9966 شکل ایسی نظر آتی ہے کہ جس کی لمبی سی زبان با ہر نکلی ہوئی ہے، کسی کے بال گھلے ہوئے ہیں، کسی کی آنکھیں حلقوں سے باہر نکل رہی ہیں اور وہ شکلیں طرح طرح سے مجھے ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں.مگر میں ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہوں اور جب میں یہ الفاظ کہتا ہوں تو یہ تمام جن اور بھوت غائب ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ میں منزل مقصود پر پہنچ گیا.یہ رویا حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی زندگی میں ۱۹۱۳ ء کے شروع میں میں نے دیکھا تھا.اُس وقت میں نے سمجھا کہ میری زندگی میں کوئی ایسا تغیر پیدا ہونے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص کام میرے سپرد کیا جائے گا.دشمن مجھے اُس کام سے غافل کرنے کی کوشش کرے گا وہ مجھے ڈرائے گا، دھمکائے گا اور گالیاں دے گا مگر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ میں اُن کی گالیوں کی طرف توجہ نہ کروں اور ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاؤں.یہی وجہ ہے کہ میرے ہر مضمون پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ: ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ اس رؤیا کو دیکھو کہ کس طرح میری زندگی میں اس کا ایک ایک حرف پورا ہوا.بار ہا لوگوں نے چاہا کہ وہ مجھے اپنی باتوں میں اُلجھا کر اصل مقصد سے غافل کر دیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ میں اُن کے منصوبوں میں نہ آؤں اور خدا تعالیٰ نے میرے سپر د جو کام کیا ہے اُس کو کرتا چلا جاؤں.مولوی محمد علی صاحب یا مولوی ثناء اللہ صاحب لغو اور بیہودہ شرائط پیش کر کے کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے چینج کو قبول نہیں کیا جاتا مگر میں اُن کی اِن باتوں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا.کیونکہ میرے خدا نے مجھے کہا کہ میں لغو باتوں میں اپنا وقت ضائع نہ کروں اور ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا منزل مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاؤں.آخر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کتنی لغو بات ہے کہ عقائد پر بحث ہو تو میری جماعت میں سے حج مولوی محمد علی صاحب مقرر کریں اور اُن کی جماعت سے میں مقرر کروں.بچے بھی ایسی بیہودہ بات نہیں کرتے مگر مولوی محمد علی صاحب ہمیشہ ایسی ہی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے 66
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۵۷ الموعود رہتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ میں بھی ان باتوں میں اُلجھ جاؤں یا کفر و اسلام وغیرہ مسائل میں کوئی کمزوری دکھاؤں یا غیر احمدیوں کے جنازہ کے متعلق یا اُن کے رشتہ ناطہ کے متعلق کوئی ایسی بات کہہ دوں جو میرے عقائد کے خلاف ہومگر میں ایسے لغوا مور پر اپنے وقت کو ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اگر صفائی نیت کے ساتھ سیدھے طور پر بحث کرنے کے لئے وہ تیار ہوں تو مجھے اُن سے بحث کرنے پر کوئی اعتراض نہیں.لیکن اگر وہ لغو شرائط اور بیہودہ باتیں پیش کرنا شروع کر دیں تو میں اُن شراط کی طرف توجہ نہیں کر سکتا کیونکہ میرے خدا نے مجھے ان باتوں سے منع کیا ہوا ہے.یہی بات میں نے رویا میں دیکھی تھی کہ جب میں چلا تو راستے میں ایک بڑا جنگل آ گیا اور مختلف قسم کی رُوحوں نے مجھے اپنے مقصد سے منحرف کرنے کی کوشش کی اور بعض نے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں مگر میں نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہ کی.پھر بڑھا تو عجیب عجیب شکلوں نے میرے سامنے ناچنا گودنا شروع کر دیا.کسی کا منہ جانور کا تھا اور دھڑ انسان کا اور کسی کا دھڑ انسان کا تھا مگر سر گدھے کا.میں نے پھر بھی توجہ نہ کی اور یہ یہی کہتا چلا گیا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اس رویا پر میں نے ہمیشہ عمل کیا اور اب بھی میرا عمل اسی کے مطابق ہے.اگر میں شکست خوردہ ہوں، اگر میں میدانِ مقابلہ سے بھاگنے والا ہوں، اگر میں بہانے بنا بنا کر بحثوں کو ٹالنے والا ہوں تو مخالفین کو آخر سوچنا چاہئے کہ وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی لاتا ہے میرے پاس لاتا ہے.وہ ہمارے راستہ میں اِس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح منکرین انبیاء کے راستہ میں بیٹھا کرتے ہیں.مگر اِس کے باوجود اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور جو بھی آتا ہے میرے پاس آتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ لوگ پیر پرست تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے کو جب اُنہوں نے خلیفہ بنتے دیکھا تو فوراً اُسے مان لیا.مگر میں کہتا ہوں وہ لوگ تو ساری جماعت کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں.اگر انہوں نے پیر پرستی کی وجہ سے مجھے مان لیا تھا تو سوال یہ ہے کہ اب جو لوگ غیروں میں سے لاکھوں کی تعداد میں آ رہے ہیں یہ کونسی پیر پرستی کی وجہ سے آ رہے ہیں.یہ تو تمہاری باتیں سُن کر اور تمہارے فتووں کو پڑھ کر میری طرف آئے ہیں اور ان کی تعداد ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ وو ہے جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پیر پرستی کی وجہ سے میری بیعت میں شامل ہوئے تھے.
انوار العلوم جلد کا ۵۵۸ الموعود میرے پاس ایک دفعہ اوکاڑہ کے ایک تاجر آئے اور کفر و اسلام اور نبوت وغیرہ مسائل پر بڑی بحث کرتے رہے.وہ حاجی تھے اور بڑی عمر کے تھے جب وہ بہت بحث کر چکے تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ مرزا صاحب کو تو مانتے ہیں صرف آپ کو نبوت یا کفر و اسلام وغیرہ چند مسائل میں ابھی اطمینان نہیں.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانتے ہیں تو کم از کم پہلا قدم تو اُٹھائیے اور اگر میری بیعت نہیں کر سکتے تو لا ہور میں جا کر مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لیجئے.وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہیں مانتے.میری یہ بات سُن کر وہ بے تاب ہو کر کہنے لگے میں بیعت کروں گا تو آپ کی ہی کروں گا آدھے راستے میں تو میں نہیں ٹھہر سکتا.گویا وہ جو اُن کے ہم خیال ہیں وہ بھی اُن کی بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں اور اُن کے دل میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے کہ اگر ہم نے بیعت کی تو قادیان میں ہی جا کر کریں گے.قلوب پر یہ عظیم الشان تصرف جو نظر آ رہا ہے، انہیں سوچنا چاہئے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے.لوگوں کو اشتعال وہ دلاتے ہیں ، الزام وہ لگاتے ہیں ، جوش وہ دلاتے ہیں مگر اس کے با وجود اللہ تعالیٰ لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر میری طرف لا رہا ہے اور وہ خالی ہاتھ بیٹھے ہیں.کوئی اِکا دُکا اُن کی طرف چلا جائے تو علیحدہ بات ہے.گویا ہماری اور اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جال والا اپنے جال کے ذریعہ بہت سی مچھلیاں پکڑ کر لے آتا ہے اور دوسرا شخص پہر کی پھینکی ہوئی مُردہ مچھلی کو اُٹھا کر اپنے گھروں میں لے جاتا ہے.(1) پھر چھٹی پیشگوئی جو سیٹھ عبد اللہ بھائی کے متعلق ایک عجیب خدا تعالیٰ نے مجھ سے کروائی وہ بھی اپنی ذات میں ایک زندہ ثبوت اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اخبار غیبیہ سے اطلاع دیتا اور اُن کو نہایت ہی شان کے ساتھ پورا کرتا ہے.۱۹۱۵ ء یا ۱۹۱۶ ء کی بات ہے کہ ہمارے مبلغ حیدر آباد دکن گئے اور وہاں سے انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ ایک خوجہ قوم کے تاجر ہیں جن کا نام عبداللہ بھائی ہے.ہم انہیں تبلیغ کرنے گئے تھے انہوں نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں جو آپ کی خدمت میں بھیجے جا رہے ہیں.انہوں نے کہا ہے کہ اگر اُن کی تسلی ہو گئی تو وہ احمدی ہو جا ئیں گے.جب مجھے یہ خط پہنچا میں نے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۵۹ الموعود اُن سوالات کے جواب لکھوائے اور ساتھ ہی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت عطا فرمائے.رات کو میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک میدان ہے جس میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اور اس پر سیٹھ عبداللہ بھائی بیٹھے ہیں.ساتھ ہی میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آسمان میں سے ایک کھڑ کی کھلی ہے اور اُس میں سے نور کے بورے بھر بھر کر فرشتے اُن پر ڈال رہے ہیں.میں نے اُسی وقت اِس رؤیا کی اپنے دوستوں کو اطلاع دے دی.چنانچہ چند دنوں کے بعد ہی اُنہوں نے بیعت کر لی.یوں تو بیسیوں تاجر ہماری جماعت میں داخل ہوتے رہتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ مجھے اُن کے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلی کوئی خواب آیا ہو.لیکن سیٹھ عبد اللہ بھائی ابھی ہماری جماعت میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق رویا دکھایا کہ آسمان میں سے خدا کا نور اُن پر چاروں طرف سے برس رہا ہے جس کے معنی یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے خاص طور پر خدمت دین کا کام لے گا اور انہیں اسلام کا نور دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا کرے گا.سیٹھ عبداللہ بھائی کی علمی قابلیت زیادہ اعلیٰ درجہ کی نہیں بلکہ اُن کی اُردو بھی درحقیقت ہمارے نقطہ نگاہ سے صحیح نہیں.انگریزی میں بھی اُن کی تعلیم بہت معمولی ہے.وہ ابھی چھوٹے بچے تھے کہ اُن کے والد فوت ہو گئے اور انہیں تعلیم کی بجائے تجارت کے کام کی طرف توجہ کرنی پڑی.مگر با وجود اس کے کہ اُن کی تعلیم معمولی تھی ، اُن کی انگریزی تعلیم بھی زیادہ نہ تھی اور اُردو بھی زیادہ صحیح نہ لکھ سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کو ایسی شان کے ساتھ پورا کیا کہ اسے دیکھ کر اُس کی قدرت اور طاقت کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے.اس رویا کے بعد وہ احمدی ہوئے اور اُنہوں نے سلسلہ کی کتابیں پڑھیں اور پھر تبلیغ کی طرف ایسے جوش کے ساتھ متوجہ ہو گئے کہ اس وقت تک ڈیڑھ لاکھ روپیہ وہ سلسلہ کی کتابوں اور تبلیغی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ پر خرچ کر چکے ہیں.اب دیکھو ایک شخص ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جاتا ہے کہ اُس پر آسمان سے خدا کا نور برس رہا ہے.پھر اس رؤیا کے عین مطابق اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ روحانی علوم کو دنیا میں پھیلائے اور لوگوں کو احمدیت میں داخل کرے.پھر باوجود اس کے کہ اُن کی صحت کمزور تھی ، خدا نے اُن کو لمبی زندگی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۶۰ الموعود خدمت دین کے لئے عطا فرمائی.اُن کے کان اتنے خراب تھے کہ آلہ لگا کر لوگوں کی باتیں سنتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے بعد میں اپنے فضل سے اُن کی شنوائی کو درست کر دیا اور وہ بغیر آلہ کے ہی باتیں سننے لگ گئے.یہ کتنی عظیم الشان خبر ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ نہ انہیں احمدیت کا علم تھا نہ اُن کا علمی مذاق تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی اور پھر اس کے بعد آپ ہی آپ اُن کے دل میں القاء اور الہام ہوا اور اُنہوں نے سلسلہ کی تائید میں کتا میں لکھنی شروع کر دیں.یہاں تک کہ اُن کی کتب اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو مختلف زبانوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں.انگریزی میں بھی اور اُردو میں بھی اور گجراتی میں بھی.اسی طرح اب تک وہ ایک لاکھ روپیہ انعام دینے کے اشتہارات شائع کر چکے ہیں بشرطیکہ مخالف اُن کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق اختلافی مسائل کا تصفیہ کرنے پر آمادہ ہوں.لوگ دس دس، بیس ہیں اور سو سو روپیہ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں مگر وہ ہزاروں روپے انعام دیتے ہیں اور کوئی شخص لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا.یہ کیسی زبر دست پیشگوئی ہے جو سیٹھ عبداللہ بھائی کے ذریعہ پوری ہوئی.اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تاجر قوم میں سے ، ایک ایسی قوم میں سے جو اردو بھی صحیح نہیں جانتی اور جس کی انگریزی تعلیم بھی بہت معمولی ہے، ایک شخص احمدیت میں داخل ہو گا وہ بظاہر علمی دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھتا ہوگا مگر خدا اُسے قبول کرے گا اور آسمان سے نور کے بورے بھر بھر کر اُس پر برسائے گا.چنانچہ پھر وہ شخص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہے اور تبلیغ کا ایسا جنون اُس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دس لاکھ کتابیں اور اشہارات سلسلہ کی تائید کے لئے شائع کرتا اور علاوہ اور چندوں میں حصہ لینے کے یہ تمام اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرتا ہے.سر سکندر حیات خاں کے متعلق ایک رویا ) ( ۷ ) پھر دس بارہ سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ سر سکندر حیات خاں کی طرف سے ایک آدمی آیا ہے جس نے ایسی وردی پہنی ہوئی ہے جیسے پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے اردلیوں کی ہوتی ہے اور اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ ہے جو تار کی شکل کا ہے مگر ہے خط.وہ کہتا ہے کہ یہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے لئے ہے.میں نے اُسے کہا کہ لاؤ یہ خط مجھے دے دو.اُس نے مجھے دے دیا.میں نے اُسے دیکھا تو اُس میں
انوار العلوم جلد کا ۵۶۱ الموعود سر سکندر حیات خاں نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو یہ لکھا تھا کہ میں کسی کام کے متعلق آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں ، آپ مجھے ملیں.اس خواب کا ایک حصہ تو اُسی وقت پورا ہو گیا کیونکہ سر سکندرحیات خاں جو اُس وقت بہاولپور میں وزیر تھے اُن کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے نام تار آیا کہ میں بھو پال گورنمنٹ کے ایک کام کے لئے بمبئی جارہا ہوں اور آپ سے بھی مشورہ لینا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں.لیکن اس خواب کا ایک دوسرا حصہ بھی تھا اور وہ یہ کہ وہ پنجاب گورنمنٹ میں وزارت کے عہدے پر پہنچیں گے کیونکہ میں نے اُن کے اردلی کو ایسی وردی پہنے دیکھا تھا جو پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے اردلیوں کی ہوتی ہے.خواب کا یہ حصہ بعد میں اس طرح پورا ہوا کہ وہ پہلے ریونیو ممبر بنے اور پھر پنجاب گورنمنٹ کی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہو گئے.سر سکندر حیات خاں نے بے شک اپنی زندگی کامیاب طور پر بسر کی ہے مگر اُن کی پہلی زندگی ایسی کامیاب نہیں تھی.جب سرمانٹیگو آئے تو اُس وقت میں بھی دہلی گیا.سر سکندرحیات اُس وقت نوجوان تھے ۲۴، ۲۵ سال اُن کی عمر تھی اور وہ دہلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے.مجھے سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کہ خان بہا در راجہ پائندہ خاں جنجوعہ کو آپ اجازت دیں کہ وہ زمینداروں کے اُس وفد میں شامل ہوں جو ہماری طرف سے سرمانٹیگو کے سامنے پیش ہونے والا ہے.میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری طرف سے بھی ہوں اور آپ کی طرف سے بھی ممکن ہے آپ کے میمورنڈم میں کوئی ایسی باتیں ہوں جو ہمارے نزدیک درست نہ ہوں اور ہم اُن کے خلاف اپنے میمورنڈم میں اظہار خیالات کر چکے ہوں.وہ کہنے لگے پھر کیا کیا جائے اُن کا شامل ہونا نہایت ضروری ہے.میں نے کہا پھر ایک شرط ہے اپنا میمورنڈم لائے تا کہ میں اُسے دیکھ لوں.اگر اس میں کوئی اختلافی بات ہوئی تو میں اُسے کاٹ دوں گا.پھر بے شک وہ آپ کی طرف سے بھی پیش ہو سکتے ہیں.اُنہوں نے یہ بات منظور کر لی.وہ میمورنڈم لائے اور میں نے اُس میں سے پانچ سات غلطیاں نکالیں جن کو اُنہوں نے تسلیم کیا اور اُن کی اصلاح کی.غرض اُس وقت اُن کی حیثیت بالکل طالب علمانہ تھی اور مجھ سے اس طرح مشورہ لیتے تھے جس طرح شاگرد اپنے اُستاد سے مشورہ لیتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۶۲ الموعود ایسے شخص کے متعلق جس کی سیاسی دنیا میں کوئی خاص شہرت نہیں تھی ، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خبریں دیں ایک تو یہ کہ وہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو اپنے کسی کام کے لئے بلائیں گے اور دوسری یہ کہ وہ گورنمنٹ پنجاب میں وزارت کے عہدہ پر آجائیں گے.ان میں سے ایک خبر تو معا انہی دنوں میں پوری ہوگئی اور دوسری خبر کچھ عرصہ کے بعد جا کر پوری ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کی خبر (۸) آٹھویں خیر مجھے اللہ تعالی کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کے متعلق ملی.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں سے آ رہا ہوں کہ راستہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اسیح وفات پاگئے ہیں.یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ حضرت خلیفہ اول بیمار تھے.اُنہی ایام میں مجھے ایک ضروری کام کے لئے لا ہور جانے کی ضرورت محسوس ہوئی مگر اس رؤیا کی وجہ سے میں نے لاہور جانا ملتوی کر دیا اور میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ مجھے رویا میں گاڑی میں سوار ہونے کی حالت میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کی خبر ملی ہے ایسا نہ ہو کہ میں باہر جاؤں اور یہ واقعہ ہو جائے.پس میں نے اپنے سفر کو ملتوی کر دیا تا کہ یہ خواب کسی طرح ٹل جائے.مگر انسان خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے بچنے کی خواہ کس قدر کوشش کرے بعض دفعہ تقدیر پوری ہو کر رہتی ہے.آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کے حکم کے ماتحت جمعہ بھی اور دوسری نمازیں بھی میں ہی پڑھایا کرتا تھا.ایک دن جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد اقصیٰ میں گیا اور نماز سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے لئے میں اپنے گھر چلا گیا.اتنے میں خان محمد علی خان صاحب کا ایک ملازم میرے پاس اُن کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور اُن کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں اُن کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر اُن کے مکان کی طرف روانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں ہی تھے کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا کہ حضرت خلیفہ امسیح فوت ہو گئے ہیں.اس طرح وہ رویا پورا ہو گیا جو میں نے دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں کہیں سے آ رہا ہوں کہ مجھے حضرت خلیفہ اسیح کی وفات کی خبر ملی ہے.میں نے محض اس لئے کہ یہ خواب ٹل جائے باہر جانے سے اپنے آپ کو روکا مگر خدا تعالیٰ نے قادیان میں ہی اس کو پورا کر دیا.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۶۳ الموعود دیوار گرائے جانے کی خبر (۹) پھر میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ہمارے شرکاء نے جو خب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شدید مخالف تھے ، مسجد کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر کے اُس کا دروازہ بند کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کے لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اُو پر سے چکر کاٹ کر اور سخت تکلیف اُٹھا کر آتے.اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب لوگوں کو دعا کرنے کے لئے کہا اور مجھے بھی دعا کا ارشاد فرمایا.میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی میں نے دعا کی تو مجھے ایک رؤیا ہوا جس میں میں نے دیکھا کہ میں بڑی مسجد سے آ رہا ہوں کہ دیوار گرائی جا رہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بھی تشریف لا رہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جا رہی ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے پہلے ایک مقدمہ ہوا جس میں ناکامی ہوئی پھر دوسرا مقدمہ ہوا اور اُس میں نا کامی ہوئی آخر تیسرے مقدمہ میں کامیابی ہوئی اور عدالت نے دیوار گرائے جانے کا حکم دے دیا.مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اول اُس روز درس دے رہے تھے.جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفہ اول آ رہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جارہی ہے.گویا جس طرح میں نے خواب میں نظارہ دیکھا تھا ویسا ہی وقوع میں آ گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے یہ خواب حضرت خلیفہ اول کو سُنایا ہوا تھا.چنانچہ آپ نے اُس وقت میری بات سُن کر فرمایا لومیاں تمہاری خواب پوری ہوگئی.یہ دیوار اس مقام پر تھی جہاں آجکل محاسب کا دفتر ہے.ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کے (۱۰) پھر پچھلی جنگ کا واقعہ ہے.ہم اُن دنوں حضرت اماں جان کے گھر تینوں بھائی کھانا متعلق ایک حیرت انگیز رویا کھایا کرتے تھے.اُس وقت ہما را دستور یہ تھا کہ ہم ایک وقت کا کھانا اُن کے ہاں کھایا کرتے تاکہ اُن کا دل بہلا ر ہے.جب ہم تینوں بھائی وہاں اکٹھے تھے تو میاں شریف احمد صاحب نے (جن سے ماسٹر محمد نذیر خاں صاحب نے یہ بات بیان کی تھی ) ذکر کیا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے متعلق یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ جنگ
انوار العلوم جلد کا ۵۶۴ الموعود میں مارے گئے ہیں.اس سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کی والدہ اور اُن کے والد قادیان میں آئے تھے.میں نے گھر میں اُن کی والدہ کو دیکھا تھا اور باہر جبکہ میں ایک خطبہ نکاح پڑھا رہا تھا، میں نے اُن کے والد کو دیکھا تھا وہ اُس وقت میرے سامنے ہی بیٹھے تھے اور اُس وقت اتنے کمزور اور منحنی تھے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب تو بتاتے ہیں کہ اُن کی عمر اُس وقت پینسٹھ سال تھی مگر مجھے وہ پچھتر سال کے نظر آتے تھے اور بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے.سات آٹھ دن کے بعد جب میں نے سُنا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب فوت ہو گئے ہیں تو مجھے یہ خبر سُن کر شدید صدمہ ہوا.مجھے اُس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے علاوہ اُن کے اور بھی لڑکے ہیں.میں سمجھتا تھا کہ وہ اُن کے اکلوتے بیٹے ہیں.بہر حال میں نے جب اس خبر کو سنا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی کہ اس عمر میں اکلوتے بچے کی وفات کا انہیں بہت ہی صدمہ ہوا ہو گا.چنانچہ میں کھانا تو کھاتا جاؤں مگر بار بار دل سے دعا نکلے کہ خدایا! وہ زندہ ہی ہوں.پھر میں اپنے دل کو سمجھاؤں کہ کیا مردے بھی کبھی زندہ ہو سکتے ہیں.مگر باوجود اس علم کے کہ مُردے زندہ نہیں ہو سکتے ، دل سے بار بار یہی دعا اُٹھے کہ خدایا! وہ زندہ ہی ہوں.یہی کیفیت مجھ پر طاری رہی.رات کو جب میں سویا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا ہے اور وہ آ کر کہتا ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں چند دن فوت رہنے کے بعد زندہ ہو گئے ہیں.دوسرے دن پھر میں نے اسی مجلس میں ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک تو مُردہ زندہ نہیں ہو سکتا مگر ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں.معلوم نہیں اس خواب کا کیا مطلب ہے ، حالانکہ اُن کے متعلق تو اطلاع بھی آچکی ہے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں.ماسٹر محمد نذیر خاں صاحب کو یہ خبر مرزا معظم بیگ صاحب نے بتائی تھی جو آجکل گلگت میں قونصل خانہ کے ہیڈ کلرک ہیں اور اُن دنوں وہ بغداد میں تھے اور بصرہ کے راستے واپس ہندوستان آئے تھے انہیں بصرہ ہسپتال سے معلوم ہوا تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خان صاحب مارے گئے ہیں اور انہوں نے ہی ماسٹر نذیر خاں صاحب کو اس کی اطلاع دی.ماسٹر صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب یا میاں شریف احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا اور اُنہوں نے یہ بات میرے آگے بیان کی لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ
انوار العلوم جلد کا الموعود ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب چند دن کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان کئے کہ بعد میں گورنمنٹ کی طرف سے اطلاع آ گئی کہ ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کی موت کی خبر غلط ہے ، وہ زندہ ہی ہیں.چونکہ انہیں عرب لوگ قید کر کے لے گئے تھے اور اس پارٹی کے قریب تمام آدمیوں کو عربوں نے قتل کر دیا تھا ، اس لئے اُن کو بھی مردہ سمجھ لیا گیا تھا ورنہ دراصل وہ زندہ تھے.پہلے میری سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ اُن کی موت کی خبر کس طرح مشہور ہوگئی مگر اترسوں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کو بلا کر میں نے اُن سے تفصیلی حالات پوچھے تو مجھے اس حقیقت کا علم ہوا.اُنہوں نے بتایا کہ ۱۹۲۰ ء میں جب عراق میں بغاوت ہوئی تو مجھے ناصریہ سے جہازوں کے ایک قافلہ کے ہمراہ دریائے فرات کی طرف روانہ کیا گیا تا کہ ایک فوجی جہاز گرین فلائی جو دریائے فرات کے کنارہ پر ریت میں پھنس گیا تھا اور ایک ماہ سے اُس کے آدمی بغیر راشن کے تھے اُن کو ضروری راشن اور روپیہ وغیرہ دیا جائے اور اگر ہو سکے تو جہاز کو بھی کھینچ کر نکالا جائے.اسی طرح سماوہ میں ایک انگریزی فوج گھری ہوئی تھی اس کو بھی راشن ، روپیہ اور گولہ با رود پہنچانا ہمارا کام تھا.وہ کہتے ہیں راستہ میں عربوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے جہاز کے چند آدمی خطرناک طور پر زخمی ہو گئے.اُن کو مرہم پٹی کرتے وقت میرا جسم بھی خون سے لتھڑ گیا بلکہ کارتوسوں کے کچھ چھترے میرے جسم پر بھی لگے جن سے خون جاری ہو گیا.دوسرے جہاز جو ساتھ آئے تھے وہ بھی اِس جہاز کو چھوڑ کر آگے نکل گئے.عربوں نے جب دیکھا کہ یہ جہاز ا کیلا کنارے پر رہ گیا ہے تو وہ اپنے مورچوں سے باہر نکل آئے اور پھر تختہ جہاز پر چڑھ کر ٹوٹ مچادی.کسی کو منجر سے مارا ، کسی کو گولی سے اور کسی کو تلوار سے اور جس قد رسامان تھا سب لوٹ لیا.ڈاکٹر مطلوب خاں کہتے ہیں میں نے ایک عرب کی جو ایک گاؤں کا شیخ تھا ، پناہ لی اور آخر جہاز سے اُنہوں نے مجھے نکالا اور قید کر کے اپنے ساتھ لے گئے.چونکہ جہاز میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے وقت اور کچھ گولیوں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کا جسم سر ، پیر تک لہولہان ہو گیا تھا اس لئے ایک جمعدار نے جو وہاں سے بھاگ نکلا تھا اور زخمی ہو کر
انوار العلوم جلد کا الموعود بصرہ ہسپتال میں اپنے علاج کے لئے داخل ہوا تھا ، اُس سے ہسپتال کے ڈاکٹر نے پوچھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں کا کیا حال ہوا ؟ تو اُس نے بتایا کہ وہ سخت زخمی تھے اور غالباً مارے گئے ہیں.اُس نے چونکہ اُن کو خون میں لتھڑا ہوا دیکھا تھا ، اس لئے کچھ بات اپنے پاس سے ملا کر کہہ دیا کہ وہ غالبا مرچکے ہیں.اُس ڈاکٹر نے اپنے ایک دوست کو جو دھرم سالہ چھاؤنی ہسپتال میں کام کرتا تھا ، اطلاع دی کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں.دھرم سالہ میں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے ماموں اور اُن کے سُسرال تھے.انہیں اُس ڈاکٹر سے اس بات کا علم ہوا اور پھر رفتہ رفتہ یہ بات قادیان میں مجھ تک پہنچ گئی.اُن کے والد صاحب نے گورنمنٹ کو لکھا تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں کے بارہ میں کیا اطلاع ہے.گورنمنٹ نے جواب دیا کہ اُن کی موت کی خبر مصدقہ نہیں وہ مسنگ لسٹ (MISSING LIST) پر ہیں.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہوائی جہاز اس علاقہ میں گئے جہاں وہ قید تھے اور اُنہوں نے اوپر سے بمباری کی.ساتھ ہی انگریزی فوج کی کمک بھی پہنچ گئی اور وہاں دو دن تک سخت مقابلہ ہوا.تیسرے دن برطانیہ کو فتح ہوئی.اُس وقت ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں، میں نے عرب شیخ سے کہا کہ اب وہ مجھے چھوڑ دے.اُس نے کہا دو تین دن تک ٹھہرو میں تمہیں گھوڑے پر سوار کر کے بھیجوں گا.مگر میں نے کہا کہ مجھے پیدل چلنے میں کوئی تکلیف نہیں.آخر اُس نے ایک شخص کے ہمراہ بہت خاطر مدارات کے ساتھ انہیں واپس کیا اور اس طرح ایک مُردہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہو گیا.اب دیکھو ایک شخص کے متعلق خبر آتی ہے کہ وہ مارا گیا ہے.گورنمنٹ بھی شک میں پڑی ہوئی ہے اور وہ کہتی ہے کہ ہم نے اس کا نام مسنگ لسٹ میں رکھا ہوا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر چکا ہے.مگر خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ وہ چند دنوں کے بعد زندہ ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے.کچھ عرصہ کے بعد وہاں ہوائی جہاز پہنچتے ہیں ، وہ بمباری کرتے ہیں اور اس طرح انہیں آزاد ہونے کا موقع مل جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اُس کی طاقت کا کیسا زندہ نشان ہے اور کس طرح اُس نے ایک مُردہ کو زندہ کر کے دکھا دیا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۶۷ الموعود انگلستان پر جرمنی کے حملہ اور انگریزی (۱۱) پھر انگلستان اور جرمنی کی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے اور فرانسیسی حکومتوں کے الحاق کی خبر دھرم سالہ میں جہاں میں اُن دنوں تبدیل آب و ہوا کے لئے مقیم تھا رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور میرا منہ مشرق کی طرف ہے کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے جیسا کہ سرشتہ دار ہوتے ہیں بعض کا غذات میرے سامنے پیش کرنے شروع کر دیئے.وہ کاغذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.مختلف ڈاکیومنٹر (DOCUMENTS) کے بعد ایک ڈاکیومنٹ میرے سامنے پیش کیا گیا.میں نے اُسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی ہے جو انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کو لکھی گئی ہے اور اُس کا مضمون یہ ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں گھر گیا ہے.جرمنی اُس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اُسے مغلوب کر لے.اس لئے ہم آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ انگریزی اور فرانسیسی دونوں حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے ، دونوں ایک نظام کے ماتحت آ جائیں اور دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیا جائے کہ دونوں کے شہریت کے حقوق یکساں ہوں.یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں میں سخت گھبرا گیا اور قریب تھا کہ اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بالکل بدل جائیں گے اور انگلستان کی خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.یہ رویا میں نے اُنہی دنوں بعض دوستوں کو سُنا دیا تھا.جب میں نے یہ رویا دیکھا اُس وقت لوگوں کو ابھی جنگ کے شروع ہونے کا بھی یقین نہیں آتا تھا.لوگ عام طور پر کہتے تھے کہ ہٹلر ڈراوے دے رہا ہے.یہ رویا دھرم سالہ میں جولائی ۱۹۳۹ء کے آخر یا اگست کے شروع میں میں نے دیکھا تھا.اس کے بعد ستمبر ۱۹۳۹ء میں جنگ شروع ہوئی اور وہ بھی ایسے رنگ میں کہ مارچ تک کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہٹلر غالب آ جائے گا.بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ برابر کی ٹکر ہے.مارچ کے آخر تک یہی حالت رہی مگر اس کے بعد جرمنی نے نہایت شدت سے حملہ کیا اور ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور بیلجیئم پر قبضہ کر لیا.پھر وہ فرانس کی طرف بڑھا اور اُس پر بھی شدید حملہ کیا.جب فرانس رگر نے لگا تو اُس وقت
انوار العلوم جلد کا ۵۶۸ الموعود برطانیہ نے خیال کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے جاری رہے گی.اُس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے اور اُس کی نو آبادیاں بھی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گی لیکن اگر وہ صلح کر لے تو اُس کے جہاز بھی جرمنی کو مل جائیں گے نو آبادیاں بھی اُسے مل جائیں گی اور اس صورت میں جرمنی کے حملے کا سارا زور ہم پر آپڑے گا.چنانچہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک نہیں ملتی.یعنی اُس نے ۷ ارجون ۱۹۴۰ء کو فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جائے.حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ کو بھی ایک ہی سمجھا جائے.۳۹ے میں دنیا کے تمام تاریخ دانوں کو موقع دیتا ہوں کہ وہ دنیا کی تاریخ پر غور کریں اور اس قسم کی کوئی ایک مثال ہی پیش کریں کہ دوز بر دست طاقتوں میں سے ایک نے دوسری کے سامنے یہ تجویز رکھی ہو کہ دونوں حکومتوں کو ایک بنا دیا جائے.یہ وہ واقعہ ہے جس کی آدم سے لیکر آب تک کوئی مثال نہیں ملتی.اور جس کی ایک بھی مثال دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ملتی ہو اُسے یقیناً انسانی دماغ نہیں بنا سکتا.اُس وقت انگریزوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ مسٹر چرچل نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا اب وہ دن آ گیا ہے کہ ہماری قوم پر جرمن حملہ آور ہوں.ہم سمندر کے کناروں پر جرمنوں کا مقابلہ کریں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر مقابلہ نہ ہو سکا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو ہم اپنے شہر میں اُن کا مقابلہ کریں گے.ہم لندن کی گلیوں میں اُن کا مقابلہ کریں گے اور اگر پھر بھی ہم دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور وہ ہمارے ملک پر قابض ہو گیا تو ہم کینیڈا چلے جائیں گے اور وہاں سے اُس کا مقابلہ کریں گے.گویا برطانیہ کا وزیراعظم بھی اس بات کا امکان سمجھتا تھا کہ جرمن ساحلِ انگلستان پر حملہ کرے گا اور اس میں کامیاب ہو جائے گا.پھر لندن پر حملہ کرے گا اور اس میں کامیاب ہو جائے گا.یہاں تک کہ وہ اِس بات کا بھی امکان سمجھتے تھے کہ حکومت لندن سے بھاگ جائے اور کینیڈا چلی جائے.مگر ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری خبر یہ دی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے یعنی چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی.اُس وقت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے جیسا کہ اُنہوں نے بعد
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۶۹ الموعود میں سنایا وائسرائے نے یا کسی اور نے ایک دفعہ پوچھا کہ ظفر اللہ خاں ! تم اس جنگ کا کیا نتیجہ سمجھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے امام نے خواب دیکھا ہوا ہے کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالات بدل جائیں گے اس لئے میں تو یقین رکھتا ہوں کہ چھ ماہ تک یہ خطرہ کی حالت دُور ہو جائے گی.چنانچہ عین چھ ماہ کے بعد ۱۵ دسمبر کو اٹلی کو پہلی شکست ہوئی اور انگریزوں کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو گئی اور ۱۹ / دسمبر ۱۹۴۰ء کو پرائم منسٹر نے ہاؤس آف کامنز میں اعلان کیا کہ اب ہم پہلے سے محفوظ ہو گئے ہیں اور ہم نے ایک ایسی حالت سے ترقی کی ہے جبکہ ہمارے بہترین دوست بھی اِس بات سے مایوس ہو چکے تھے کہ ہم مقابلہ جاری رکھ سکیں گے.‘۴۰ یه دو دھاری تلوار تھی جو مجھے عطا کی گئی کہ ایک رڈیا کے ذریعہ دوخبر میں دی گئیں.ایک خبر تو ایسی دی گئی کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی اور دوسری خبر یہ دی گئی کہ چھ ماہ کے بعد یہ خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.چنانچہ ٹھیک چھ ماہ کے بعد حالات میں تبدیلی رونما ہوئی اور مسٹر الیگزینڈر جو انگریزوں کے وزیر بحری تھے ، انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جون جولائی میں ( جب حکومت برطانیہ نے حکومت فرانس کو تا ر دیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق ہو جانا چاہئے ) ہر وہ شخص جو جنگی فنون سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ ہم پھر امن میں آجائیں گے.اگر کوئی ایسی بات کہتا تو یا تو میں اُسے سیاست سے بالکل نابلد اور نا واقف کہتا اور یا میں اُسے احمق اور پاگل خیال کرتا.گویا انگریزوں کی حالت اتنی نازک اور خراب تھی کہ اُن کے نزدیک اس قسم کا خیال کرنا بھی کہ اُن کی حالت چھ ماہ تک بدل جائے گی ، احمقانہ اور مجنونانہ خیال تھا.مگر جبکہ حکومت کے بڑے بڑے مد بر یہ کہ رہے تھے کہ انگریز خطرہ میں گھر گئے ہیں، اب اُن کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ کینیڈا چلے جائیں اور مقابلہ جاری رکھیں ، خدا نے مجھے خبر دی کہ ۱۵ دسمبر تک یہ حالات بدل جائیں گے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مین ۱۵ دسمبر کو حالات نے یکدم پلٹا کھایا اور انگریزوں کے قدم مضبوط ہو گئے.
انوار العلوم جلد ۷ الموعود انگلستان کو امریکہ سے اٹھائیس (۱۲) ایک اور خبر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس جنگ کے متعلق بتائی اور نہایت ہی عجیب سو ہوائی جہاز بھیجوائے جانے کی خبر رنگ میں پوری ہوئی ، وہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور انگریزی گورنمنٹ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں.میں نے اُس سے کہا کہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو، پھر میں بتا سکوں گا کہ میں تمہارے مُلک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں.اس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور میں اُن کو دیکھتا چلا گیا.آخر میں میں نے کہا کہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے.اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتا ہوں.جب میں نے یہ کہا تو معامیں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ : - The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دیئے ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ رویا میں نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو بتا دیا تھا اور انہوں نے آگے اپنی کئی انگریز دوستوں سے اس کا ذکر کر دیا.یہاں تک کہ سر کلو جو اُس وقت ریلوے کے وزیر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے ، اُن کو بھی چوہدری صاحب نے یہ ر و یا بتا دیا تھا.اس رویا کے چھ ہفتہ کے بعد ایک دن عصر کی نماز کے بعد میں مسجد مبارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک ضروری فون آیا ہے میں گیا اور امرتسر والوں سے میں نے پوچھا کہ مجھے کون بلا رہا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ شملہ یا دہلی سے کوئی دوست بات کرنا چاہتے ہیں.تھوڑی دیر گزری تو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی آواز آئی.اُن کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ کیا آپ نے وہ خبر پڑھ لی ہے اور دوسرا فقرہ یہ تھا کہ مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہو گئی.میں نے کہا کیا بات ہے.وہ کہنے لگے ابھی ابھی وہ تا ر آیا ہے جو برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۱ انگریزی حکومت کو بھجوایا ہے اور وہ میرے سامنے پڑا ہوا ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں:.الموعود The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطانوی حکومت کو بھجوائے ہیں.پھر چوہدری صاحب کہنے لگے میں نے اُسی وقت اُن تمام لوگوں کو فون کیا ہے جن کو میں پہلے سے یہ خبر بتا چکا ہوں کہ دیکھو! امام جماعت احمدیہ نے جو خواب دیکھی اور جو میں نے تمہیں قبل از وقت بتا دی تھی ، کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.چونکہ اُنہوں نے سرکلو سے بھی اس رڈیا کا ذکر کیا ہوا تھا، انہوں نے سرکلو کو بھی فون کیا کہ کیا آج کا تارتم نے پڑھا ہے؟ وہ کہنے لگا میں نے ابھی نہیں پڑھا.چوہدری صاحب نے کہا پڑھو.اُس نے پڑھا تو کہنے لگا ظفر اللہ خاں! تا رتو آیا ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی اتنی تعداد کا تو اس میں ذکر نہیں.چوہدری صاحب نے کہا تمہیں کیا یا د ہے؟ وہ کہنے لگا تم نے تو ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں پچپیں سو لکھا ہے.معلوم ہوتا ہے اُس نے جلدی میں اٹھائیس سو کو چھپیس سو پڑھ لیا.چوہدری صاحب کہنے لگے تار کو پھر پڑھو.اُس نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگا اوہو! اس میں تو اٹھائیس سو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے.اب دیکھو چھ ہفتے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ کیسی عظیم الشان خبر مجھے دی جو اُسی شکل میں پوری ہوئی جس شکل میں مجھے بتائی گئی تھی.گورنمنٹ کے بڑے بڑے ذمہ دار افسر دو چار دن پہلے تک یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے گا.مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے چھ ہفتے پہلے بتا دیا کہ تار آئے گا، تا را مریکن گورنمنٹ کی طرف سے آئے گا اور تار کا مضمون یہ ہوگا کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز برطانیہ کے لئے بھجوائے رہا ہے.گویا تار بتا دیا ، تار کا مضمون بتا دیا، یہ بتا دیا کہ تارکس کی طرف سے آئے گا، یہ بتا دیا کہ چیز کیا ہے اور پھر یہ بتا دیا کہ اس چیز کی تعداد کیا ہے.حکومت امریکہ کے جنگ (۱۳) پھر ۱۹۴۰ء میں میں نے رؤیا بیان کیا تھا کہ میں نے دیکھا ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو میں شامل ہونے کی خبر تالاب ہے اُس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظاہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں اور کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۲ الموعود تو یکدم حالات میں تغیر پیدا ہو جائے گا اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہوگئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی.یه رویا ۱۹۴۰ء کے شروع میں میں نے اُس وقت دیکھا تھا جب کسی کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ امریکن گورنمنٹ اِس لڑائی میں شامل ہو جائے گی.مگر پھر ایسے حالات بدلے کہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل ہونا پڑا.یہاں تک کہ امریکن فوجیں ہندوستان میں آگئیں چنانچہ آب کراچی اور بمبئی میں جگہ جگہ امریکن سپاہی دیکھے جا سکتے ہیں.بیلجیئم کے بادشاہ (۱۴) پھر ۲۶ مئی ۱۹۴۰ء کو ہزاروں لوگوں کے مجمع میں میں نے اپنے ایک کشف کا ذکر کیا تھا جو تین دن کے اندر کے معزول ہونے کی خبر اندر پورا ہوگیا.میں ۲۵ رمئی کو کراچی کے سفر سے واپس آرہا تھا کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا ایک میدان ہے جس میں اندھیرا سا ہے اور اُس میں ایک شخص سیاہی مائل سبزی وردی پہنے کھڑا ہے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بادشاہ ہے.پھر الہام ہوا ” ایب ڈی کیڈ (ABDICATED) میں نے اپنے اس کشف کا ذکر ۲۶ رمئی کو ایک بہت بڑے مجمع میں کر دیا تھا جبکہ لوگ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے متعلق دعا کرنے کے لئے جمع تھے اور میں نے اس کی تعبیر یہ کی تھی کہ کوئی بادشاہ اس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول شدہ بادشاہ کے ذریعہ کوئی تغیر واقعہ ہو گا.چنانچہ اس الہام پر ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ کو نا گہانی طور پر معزول کر دیا.ایب ڈی کیڈ کے لغت کے لحاظ سے یہ معنی کہ کوئی ایسا شخص جو اپنے اختیارات کو چھوڑ دے BY DENOUNCEMEN کسی اعلان کے ذریعہ OR DEFAULE یا عملاً اپنے فرائض منصبی کو ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے.گویا یا تو وہ خود کہہ رہے ہیں کہ میں بادشاہت سے الگ ہوتا ہوں یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ بادشاہت کے فرائض کو ادا نہ کر سکے.بعینہ یہی الفاظ بیلجیئم گورنمنٹ نے استعمال کئے اور اُس نے کہا کہ ہمارا با دشاہ جرمن قوم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۳ الموعود کے ہاتھ میں ہے اور اب وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا.پس آب بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ.اس لئے بیلجیئم کے لوگوں کو لیوپولڈ کی بات نہیں ماننی چاہئے بلکہ ہماری بات ماننی چاہئے.تم غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھایا.تین دن پہلے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی اور منگل کی رات کو بغیر اس کے کہ کسی اور کو علم ہو بیلجیئم کے بادشاہ نے اپنے آپ کو جرمنوں کے سپر د کر دیا اور وہ معزول ہو گیا.یہ وہ خبر تھی جو ہزاروں آدمیوں کی مجلس میں میں نے قبل از وقت سُنا دی تھی.لیبیا کے محاذ پر انگریزی فوجیوں کی کامیابی کی خبر (۱۵) پھر تمبر ۱۹۴۰ء کی بات ہے.میں چندا دنوں کے لئے شملہ گیا اور وہاں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے مکان پر ٹھہرا.غالبا ۲۰ دسمبر کے دو چار دن بعد کی کوئی تاریخ تھی کہ میں نے رات کو رویا میں دیکھا کہ میں مصر میں ہوں اور لیبیا کے محاذ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے.اُس وقت لڑائی کا میدان مجھے اس شکل میں دکھایا گیا کہ گویا انگریزی علاقہ ایک ہال کی طرح ہے.اُس ہال میں ایک طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں.چوڑی چوڑی سیڑھیاں کچھ دُور تک سیدھی جا کر پھر ایک طرف کو مڑ جاتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس ہال میں آنے کا راستہ ہے.میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے بہتی ہے.وہ بڑی بہادری سے لڑتی ہے مگر دشمن کا زور اتنا زیادہ ہے کہ وہ اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی رائفلیں دونوں فریق کے ہاتھ میں ہیں اور دونوں ایک دوسرے پچBAYONET CHARG کرتی ہیں.میں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر سے اترنا شروع ہو گئیں.دشمن اس کے پیچھے پیچھے آتا جاتا ہے یہاں تک کہ سیڑھیاں ختم ہوگئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اُتر آئیں دشمن کی فوج بھی اُن کے پیچھے اُترنا شروع ہوگئی.اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ انگریزی فوج کمزور حالت میں ہے اور میں اپنے دل میں جوش محسوس کرتا ہوں کہ اُن کی مددکروں.اس خیال کے آنے پر میں
انوار العلوم جلد کا ۵۷۴ الموعود تیزی سے گھر کی طرف آتا ہوں اور گھر پہنچ کر میاں بشیر احمد صاحب کی تلاش کرتا ہوں وہ مجھے ملے تو میں نے اُن سے کہا ہم فوج میں تو داخل نہیں ہو سکتے مگر ہمارے پاس رائفلیں اور بندوقیں ہیں وہی لے کر ہم اپنے طور پر دشمن پر حملہ کر دیں یہ کہ کر میں اُن کو ساتھ لے کر گیا ہوں.خواب کا نظارہ بھی عجیب ہوتا ہے.اُس وقت گولڑا ئی ہال میں ہو رہی ہے مگر ہم باہر کھڑے ہو کر اندر کا تمام نظارہ دیکھ رہے ہیں اور ہال کی دیوار میں اس نظارہ میں روک نہیں بنتیں.وہاں ایک جھاڑی دیکھ کر میں لیٹ گیا یا دوزانو ہو گیا اور میں نے کچھ فائر کئے.یہ یاد نہیں کہ میاں بشیر احمد صاحب نے بھی کوئی فائر کیا ہے یا نہیں.بہر حال میں نے دیکھا کہ ان فائروں کے بعد انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی اور اُنہوں نے پھر اُنہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا جن پر سے وہ اتری تھی.دشمن کی فوج پیچھے ہٹتے ہوئے نہایت سختی سے مقابلہ کرتی ہے مگر پھر بھی انگریزی فوج اُسے دباتے ہوئے سیڑھیوں تک لے گئی اور پھر اُسے ہٹاتی ہوئی دوسرے سرے تک چڑھ گئی.جب میں نے یہ نظارہ دیکھا تو اُس وقت مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے.گویا دو تین دفعہ دشمن اسی طرح انگریزی فوج کو دبا کر لے آیا ہے اور پھر انگریزی فوج اُسے دباتی ہوئی اپنے علاقہ سے باہر لے گئی ہے.سیہ وہ وقت تھا جب لیبیا میں انگریزی فوج نے کوئی پیش قدمی نہیں کی تھی.اٹلی کی فوجیں مصر میں تھوڑا سا آگے بڑھ آئی تھیں اور دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی.دوسرے دن میں نے یہ رویا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو سُنایا.وہ اُس وقت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کے لئے جارہے تھے.جب واپس آئے تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے آپ کے اس رویا کا علاوہ اور لوگوں کے ہز ایکسی لنسی وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری سر لیتھویٹ سے بھی ذکر کیا تھا اور اُنہوں نے اس کو سُن کر بہت تعجب کیا.اگلے دن اُنہوں نے چوہدری صاحب کے ہاں چائے پر آنا تھا.چوہدری صاحب نے کہا کہ انہوں نے خواہش کی تھی کہ میں یہ رو یا خود اُن کی زبان سے بھی سنا چاہتا ہوں.چنانچہ اُن کی خواہش پر میں نے اُن سے یہ کمل رؤیا بیان کر دیا اور جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اس جنگ میں ایسا ہی دو تین بار ہوا.پہلے ۱۹۴۰ ء کے شروع میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور اُنہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا.لیکن ۱۹۴۰ء کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۵ الموعود آخر میں پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں..ا ۱ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہوا مصر کی سرحد پر لے آیا اور اء کے آخر میں انگریز پھر بڑھے اور دشمن کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے کئی سو میل تک لے گئے.جون ۱۹۴۲ء میں پھر دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور ایسا شدید حملہ کیا کہ العالمین ۲۹ کے مقام پر انگریزوں کی حالت ایسی نازک ہوگئی کہ اُن کا بچنا مشکل نظر آتا تھا.مسٹر چرچل خود اس محاذ پر پہنچے اور انگریز مد برین کو سخت فکر لاحق ہو گیا.مگر اُس وقت جب انگریز یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم آب شکست کھا جائیں گے، العالمین کی جنگ سے چند دن پہلے میں نے اپنے خطبہ میں اعلان کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا رویا دکھایا ہوا ہے اس کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ آخری حملہ میں انگریزوں کو ہی کامیابی ہوگی.چنانچہ چند دن کے اندر اندر العالمین کے مقام پر دشمن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں شکست دی که خود انگریز حیران رہ گئے کہ حالات میں یکدم یہ کیسا غیر متوقع تغیر پیدا ہو گیا ہے.العالمین کے مقام پر انگریزوں کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اس بات کا شدید خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ انگریز اس مقابلہ میں رہ جائیں گے.یہاں تک کہ ایک دن دشمن فوجوں نے انگریزی صفیں توڑ ڈالیں اور وہ اپنے ٹینک اور فوجی آگے لے آئے.قریب تھا کہ انگریز بالکل شکست کھا جاتے کہ انگریزی فوج کا ایک تازہ دم دستہ جو مدد کے لئے آیا تھا وہ آگے بڑھا اور اُس سے کچھ مڈ بھیڑ ہوئی.ابھی تھوڑی دیر ہی لڑائی ہوئی تھی کہ یکدم مخالف فوج کے ٹینک پیچھے ہٹ گئے اور باقی سپاہیوں نے مقابلہ کرنا بند کر دیا.جب انگریزی فوج کے سپاہی اُن کے پاس پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں ، حلق خشک ہیں اور ایسی بُری حالت میں ہیں کہ ایک منٹ کے مقابلہ کی بھی وہ اپنے اندر تاب نہیں رکھتے.واقعہ یہ بتایا جاتا ہے کہ جب دشمن کی فوج انگریزی صفوں کو تو ڑ کر آگے بڑھی تو اُس نے ایک پمپ پر قبضہ کر لیا.لیکن چونکہ خدا نے اُس کو شکست دینی تھی اس لئے ایسا اتفاق ہوا کہ انگریز افسروں نے پمپ کا تجربہ کرنے کیلئے اُس میں سمندر کا نمکین پانی چھوڑا ہوا تھا کیونکہ میٹھا پانی قیمتی ہوتا ہے اور اُسے تجربوں پر ضائع نہیں کیا جا سکتا.دشمن فوج کو اس کا علم نہیں تھا جب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۶ الموعود اس کے سپاہی وہاں پہنچے تو گرمی کی وجہ سے انہیں شدید پیاس لگی ہوئی تھی.انہوں نے یہ پانی پینا شروع کر دیا اور چونکہ سمندر کا پانی شدید نمکین ہوتا ہے اس لئے بجائے پیاس بجھنے کے اُن کی زبانیں باہر نکل آئیں اور اُن کی مقابلہ کی سکت بالکل جاتی رہی.اس طرح یہ لڑائی ایک خدائی فعل کی وجہ سے دشمن کی شکست اور انگریزی فوجوں کی فتح کی صورت میں بدل گئی ورنہ انگریزوں کی کامیابی کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.گویا وہی نظارہ جو خدا نے مجھے دکھایا تھا کہ میرے فائروں کی وجہ سے جرمن فوجوں کو شکست ہوئی، اس رنگ میں پورا ہو گیا کہ میری دعا کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ باوجود اس کے کہ جرمن فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں وہ اس بات پر مجبور ہو گئیں کہ انگریزی فوجوں کے مقابلہ میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیں.مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر یہ چند واقعات جو بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں ، یہ بھی اس بات کو ثابت کرنے کیلئے بہت کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو علاوہ اور کمالات رکھنے کے علوم باطنی سے بھی پر کیا جائے گا ، وہ بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.مصلح موعود کی زمین کے کناروں تک شہرت اور اسلام کی اکناف عالم میں اشاعت ۳.تیسری پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کی تبلیغ اُس کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں ہوگی.یہ پیشگوئی بھی ایسے رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا.جب خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا اس وقت جماعت کی حالت یہ تھی کہ خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا.مالی حالت ایسی کمزور تھی کہ وہ اشتہارات جو ہم غیر مبائعین کے جواب میں شائع کرنا چاہتے تھے ، اُن کے لئے بھی ہمارے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۷ الموعود پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.اشتہارات تو ہم لکھ سکتے تھے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اُن اشتہارات کے شائع ہونے کی کیا صورت ہوگی.ابتداء ہونے کی وجہ سے چندہ کی تحریک بھی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ ڈرتھا کہ لوگ گھبرا نہ جائیں.اسی فکر میں میں تھا کہ ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے شاید تمہیں اشتہارات کے متعلق یہ خیال ہوگا کہ اُن کی اشاعت کیلئے روپیہ کہاں سے آئے گا.میرے پاس اس وقت دار الضعفاء کا چندہ ہے یہ لے لو جب روپیہ آئے تو واپس کر دینا.چنانچہ اُنہوں نے پانچ سو روپیہ کی تھیلی میرے سامنے رکھ دی.اس طرح جو چندہ ملا اُس سے وہ پہلا اشتہار شائع کیا گیا جس کا عنوان ہے.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے پھر ایسی حالت میں جب کہ جماعت کے بڑے بڑے لیڈر مخالف تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ یہ اعلان کرایا کہ لَيُمَةِ قَنَّهُمُ الله تعالیٰ اُن کو ٹکڑے کر دے گا.غرض ایک طرف تو یہ اعلان شائع ہوا کہ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور دوسری طرف یہ اعلان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور اُن کی جمعیت کو پراگندہ کر دے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما دیئے کہ نہ صرف اُس نے ہمیں اپنی حالت کو سنبھالنے کی توفیق عطا فرمائی بلکہ باہر کی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی بھی اُس نے طاقت دی.اُس وقت غیر مبائعین اپنے متعلق عَلَى الْإِعْلان کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ہے اور ان کے ساتھ صرف پانچ فیصدی ہے.مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوت عطا فرمانی شروع کر دی اور ایسے علماء اُس نے اپنے فضل سے مجھے عطا فرمائے جو ے حکم پر غیر ممالک میں نکل گئے اور اُنہوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچایا.اس سے پہلے صرف افغانستان ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں کسی اہمیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا تھا، با قاعدہ جماعت اور کسی ملک میں قائم نہیں تھی.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب بے شک انگلستان گئے مگر وہاں اُنہوں نے احمدیت کا ذکر سم قاتل قرار دے دیا اِس لئے اُن کے ذریعہ انگلستان میں جو مشن قائم ہوا وہ احمدیت کی تبلیغ اور اُس کی اشاعت کا موجب نہیں ہوا.اگر نام پھیلا تو خواجہ صاحب
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۸ الموعود کا نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا.بہر حال بیرونی ممالک میں سے سوائے افغانستان کے اور کوئی ملک ایسا نہیں تھا جہاں میری خلافت سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا ہو.مگر جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے (۱) سیلون (۲) ماریشس (۳) سماٹرا (۴) جاوا (۵) سٹریٹس سیٹلمینٹس (۶) چین (۷) جاپان (۸) بخارا (۹) روس (۱۰) ایران (۱۱) عراق (۱۲) شام ( ۱۳ ) فلسطین (۱۴) مصر (۱۵) سوڈان (۱۶) ابی سینیا (۱۷) مراکو (۱۸) سیرالیون (۱۹) نائیجیریا (۲۰) گولڈ کوسٹ (۲۱) نثال ۳۲ (۲۲) انگلستان (۲۳) جرمنی (۲۴) سپین (۲۵) فرانس (۲۶) اٹلی (۲۷) ہنگری (۲۸) یونان (۲۹) البانیا (۳۰) پولینڈ (۳۱) زیکوسلواکیہ (۳۲) یوگوسلاویا (۳۳) یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ (۳۴) ارجنٹائن اور اسی طرح اور کئی علاقوں میں تبلیغ اسلام اور احمدیت پھیلائی اور ہزاروں مسیحی میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل ہوئے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - اس طرح میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی جو تبلیغ ہوئی ہے وہ ساری دنیا پر حاوی ہو جاتی ہے.ان میں سے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ انگلستان میں ہماری بڑی جماعت ہے اسی طرح اٹلی میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.ہنگری میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.عراق میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں.فلسطین میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھنے والی جماعت پائی جاتی ہے.وہ لوگ اپنا رسالہ نکالتے اور عربی ممالک میں تبلیغ احمدیت کا کام بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں.اسی طرح مصر میں بھی ہماری جماعت پائی جاتی ہے اور اب تو سوڈان اور اب سینیا میں بھی ایک ایک دو دو احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو گئے ہیں.ویسٹ افریقہ میں تو ہماری اتنی بڑی جماعت قائم ہے کہ اس کی تعداد ۷۵ ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے.غرض دنیا کے چاروں کونوں میں احمدیت میرے زمانہ میں اور میرے ذریعہ سے پھیلی اور ہزار ہا لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام سے آشنا نہ تھے ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آشنا نہ تھے، جو اسلام کے دشمن ، عیسائی مذہب کے پیرویا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۷۹ الموعود بت پرست تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل کیا اور اس طرح مجھے اُس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا جو مصلح موعود کے متعلق کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت پائیں گی.وہ مبلغ جو میرے زمانہ خلافت میں بیرونی مالک میں بھیجے گئے اُن میں سے بعض اس وقت یہاں موجود ہیں.میں ان سب مبلغین سے کہتا ہوں کہ وہ یہاں سٹیج پر آ جائیں اور مختصر طور پر اپنے تبلیغی کوائف کا ذکر کریں.حضور کے اس ارشاد پر مندرجہ ذیل مبلغین نے جو جلسہ سالانہ مبلغین سلسلہ کی تقاریہ سے موقع پر موجود تھے سیٹ پر کھڑے ہو کر بتایا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد کے ماتحت وہ غیر ممالک میں گئے اور انہوں نے اسلام اور احمد بیت کا نام بلند کیا.ا.جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ۲.مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل.جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر اعلیٰ ۴.عبدالاحد خان صاحب افغان ۵.خافظ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ۶.جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ے.خاں صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب جرمنی روس انگلستان کابل ماریشس شام انگلستان انگلستان فلسطین انگلستان.جناب مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے ۹.جناب مولوی ابو العطا ء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ۱۰.مولوی محمد یا ر صاحب عارف مولوی فاضل ا.مسٹر محمد مدثر صاحب ایم.اے ( جو مغربی افریقہ کے باشندہ ہیں) نائیجیریا انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہوں جس میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ دنیا کے کناروں سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.چنانچہ میں مغربی افریقہ سے یہاں آیا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آج مجھے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸۰ اس دوسری پیشگوئی کے سنے کا بھی موقع عطاء فرما دیا جو مصلح موعود کے متعلق تھی) ۱۲.مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل مصر ۱۳.جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( سابق مہر سنگھ ) سیلیون.انڈیمان جزائر نکو با راور برما ۱۴.( پروفیسر ) محمد ابراہیم صاحب ناصر ۱۵.جناب اے.پی ابراہیم صاحب مالا باری ۱۶ - با بوفقیر علی صاحب ۱۷.مولوی عبد اللہ صاحب مالا باری ۱۸ - شیخ عبدالواحد صاحب واقف زندگی ۱۹.جناب مولوی محمد دین صاحب ۲۰.جناب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے ۲۱.مولوی احمد خان صاحب نسیم مولوی فاضل ۲۲ - محمد زہدی صاحب ان تقاریر کے بعد حضور نے فرمایا.ہنگری سیلون ایران مالا بار چین امریکہ جاپان برما سٹریٹس سیٹلمنٹ الموعود بعض ممالک کے مبلغ چونکہ اس وقت جنگ کی وجہ سے قید ہیں اور بعض قادیان میں موجود نہیں اس لئے اُن کا ذکر اس وقت نہیں کیا گیا.بہر حال تمہیں کے قریب مختلف ممالک ہیں جن میں اسلام احمدیت اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے مبلغ بھیجوانے کی توفیق عطا فرمائی.باوجود اس کے کہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت مالی لحاظ سے بے طاقت ہے اُس نے نہ صرف ہندوستان میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا بلکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام پہنچا دیا.ارجنٹائن ( جنوبی امریکہ ) میں مولوی رمضان علی صاحب ہماری جماعت کی طرف سے تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.البانیہ، یوگوسلاویہ اور زیکو سلواکیہ میں مولوی محمد دین صاحب تبلیغ کرتے رہے ہیں.پولینڈ میں حاجی احمد خاں صاحب ایاز نے کام کیا.لندن میں اس وقت مولوی جلال الدین صاحب شمس کام کر رہے ہیں.امریکہ میں صوفی مطیع الرحمن صاحب کام کر رہے ہیں.ملک محمد شریف
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸۱ الموعود صاحب اٹلی میں کام کرتے رہے ہیں اور چوہدری محمد شریف صاحب مصر، فلسطین اور شام میں تبلیغی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور مشرقی افریقہ میں شیخ مبارک احمد صاحب اور سماٹرا جاوا اور ملایا میں مولوی رحمت علی صاحب، مولوی محمد صادق صاحب ، مولوی غلام حسین صاحب ایاز ، ملک عزیز احمد صاحب اور سید شاہ محمد صاحب کام کر رہے ہیں.اسی طرح مغربی افریقہ یعنی سیرالیون ، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ہمارے بہت سے مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں مولوی نذیر احمد صاحب ابن بابو فقیر علی صاحب ، مولوی نذیر احمد صاحب مبشر حکیم فضل الرحمن صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں.اس وقت ویسٹ افریقہ کے ایک نمائندہ دوستوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں.اور اُنہوں نے اپنی زبان سے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو کس طرح پورا کیا.غرض جماعت کی قلت اور اس کی غربت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کیا اور اس نے میرے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام روشن کیا.اسیروں کی رستگاری ۴.ایک پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو بھی میرے ذریعہ سے پورا کیا.اوّل تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے اُن قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ ہی نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں.وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں.نہ اُن میں تعلیم پائی جاتی تھی ، نہ اُن کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا ، نہ اُن کی تربیت کا کوئی سامان تھا جیسے افریقن علاقے ہیں کہ اُن کو دُنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بریگا را اور خدمت کے کام آتے تھے.ابھی مغربی افریقہ کے ایک نمائندہ آپ لوگوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اس ملک کے بعض لوگ تو تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرونِ ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے تھے اور ننگے پھرا کرتے تھے ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزار ہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے.وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸۲ الموعود لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے.اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقرر ہے.اُس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رُک گئی ہے.اُس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اُس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے.غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قو میں کثرت سے اسلام لا رہی ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے اِن اسیروں کا رستگار بنایا اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ آزادی کشمیر کے لئے جد و جہد بھی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبر دست ثبوت ہے اور ہر شخص جو ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی.کشمیر کی قوم اس طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ زمین اُن کی نہیں بلکہ راجہ صاحب کی ہے گویا سارا ملک ایک مزارع کی حیثیت رکھتا تھا اور راجہ صاحب کا اختیار تھا کہ جب جی چاہا اُن کو نکال دیا.انہیں نہ درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور نہ زمین سے کسی اور رنگ میں فائدہ حاصل کرنے کی.بے گار کا یہ حال تھا کہ 1909ء میں میں کشمیر گیا تو ایک مقام سے چلتے وقت میں نے تحصیلدار سے کہا کہ ہمارے لئے کسی مزدور کا انتظام کر دیا جائے.اُس نے رستہ میں سے ایک شخص کو پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دیا کہ اس کے سر پر اسباب رکھوا دیں ہم نے اُسے سامان دے دیا مگر ہم نے دیکھا کہ وہ راستہ میں بار بار ہائے ہائے کرتا تھا.آخر ایک جگہ پہنچ کر اُس نے تھک کر ٹرنک نیچے رکھ دیا.میں نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ کشمیری تو بہت بوجھ اُٹھانے
انوار العلوم جلد ۷ ۵۸۳ الموعود والے ہوتے ہیں تم سے یہ معمولی ٹرنک بھی نہیں اُٹھایا جاتا.وہ کہنے لگا میں مزدور نہیں ہوں میں تو زمیندار ہوں اپنے گاؤں کا معزز شخص ہوں اور دولہا ہوں جو برات میں جار ہا تھا کہ مجھے راستہ میں تحصیلدار نے پکڑ لیا اور اسباب اُٹھانے کے لئے آپ کے پاس بھیج دیا.میں نے اُسی وقت اُسے چھوڑ دیا کہ تم جاؤ ہم کوئی اور انتظام کر لیں گے.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کس قد رادنی اور گری ہوئی حالت میں تھے.میں نے خود کشمیر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سو دوسو کے قریب مسلمان جمع ہیں اور ایک ہندو اُن کو ڈانٹ رہا ہے اور وہ بھی کوئی افسر نہیں تھا بلکہ معمولی تا جر تھا اور وہ سارے کے سارے مسلمان اُس کے خوف سے کانپ رہے تھے.تحریک کشمیر کے واقعات جب تحریک کشمیر کا آغاز ہوا اس وقت شملہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں میں بھی شامل ہوا.سرا قبال اُس وقت زندہ تھے وہ بھی شریک ہوئے سرمیاں فضل حسین صاحب بھی موجود تھے.ان سب نے مجھ سے کہا کہ اس بارہ میں آپ وائسرائے سے ملیں اور اس سے گفتگو کر کے معلوم کریں کہ وہ کس حد تک کشمیر کے معاملات میں دخل دے سکتا ہے جس حد تک دہ دخل دے سکتا ہو اُس حد تک ہمیں یہ سوال اُٹھانا چاہئے.چونکہ گورنمنٹ کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ریاستی معاملات میں زیادہ دخل نہ دیا جائے اس لئے وائسرائے سے پہلے مل لینا ضروی ہے تا کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ وہ کس حد تک ان معاملات میں دخل دے سکتے ہیں.میں نے اُن سے کہا کہ میں اس مجلس میں اس شرط پر شریک ہو سکتا ہوں کہ وائسرائے سے نہیں بلکہ ہم کشمیریوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے کیا مطالبات ہیں اور پھر ہم کوشش کریں گے کہ گورنمنٹ اُن مطالبات کو منظور کرے.یہ طریق درست نہیں کہ وائسرائے سے پوچھا جائے کہ وہ کس حد تک دخل دے سکتا ہے بلکہ ہم سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر اُن کے مطالبات کو پورے زور کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے.سر اقبال کہنے لگے پھر آپ ہی اس کمیٹی کے پریذیڈنٹ بن جائیں ہمیں آپ کی صدارت پر اتفاق ہے.میں نے کہا میں پریذیڈنٹ بنا تو لوگ شور مچا دیں گے کہ ایک کا فر کو پریذیڈنٹ بنا لیا گیا ہے کسی اور کو بنا لیجئے.وہ کہنے لگے میں تو
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸۴ الموعود.تیار ہوں کہ آپ کو پریذیڈنٹ تسلیم کروں دوسرے لوگوں نے بھی اس پر زور دیا اور آخر میں پریذیڈنٹ بن گیا کیونکہ خدا چاہتا تھا کہ میرے ذریعہ سے اسیروں کی رستگاری ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو.جب میں صدر بنا تو اس کے بعد لارڈ ولنگڈن سے میں اس غرض سے ملا.پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے جب میں نے کشمیر کا نام لیا تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے آپ تو مذہبی آدمی ہیں مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا میں بے شک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہئے مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اور یہ وہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے بلکہ اُسے کرنا چاہئے اس لئے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی انسانی حقوق دلواؤں جو ریاست نے چھین رکھے ہیں.آپ اس بارہ میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں تا کہ کشمیریوں پر جو ظلم ہورہے ہیں اُن کا انسداد ہو.وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے.میں نے کہا میں یہ جانتا تو ہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے بھی دیتے ہیں.چنانچہ میں نے کہا کیا حیدر آباد میں آپ نے انگریز وزیر بھجوائے ہیں یا نہیں ؟ کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیں نظام حیدر آباد کیسا بُر امنا تا ہے؟ میں نے کہا یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدر آباد بُرا منائیں تو آپ اُن کی کوئی پرواہ نہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر بُرا منا ئیں تو آپ اُن کے معاملات میں دخل دینے سے رُک جائیں.یہ ہندو مسلم میں سوتیلے بیٹوں والا فرق آپ کیوں کرتے ہیں ؟ آخر یا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ریاستی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی اور یا کہنے لگے کہ جب مجھے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا تو وزیر ہند نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی حالت سخت خراب ہے کیا تم اس کو سنبھال لو گے؟ میں نے کہا کہ میں سنبھال تو لوں گا مگر شرط یہ ہے کہ مجھے چھ مہینہ کی مہلت دی جائے اور مجھ پر اعتراض نہ کیا جائے کہ تم نے کوئی انتظام نہیں کیا.ہاں اگر چھ مہینے کے بعد بھی میں انتظام نہ کر سکا تو آپ بے شک مجھے الزام دیں.انہوں نے کہا بہت اچھا.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۸۵ الموعود چھ مہینے یا سال نہیں میں آپ کو ۱۸ مہینے کی مہلت دیتا ہوں آپ اس عرصہ کے اندر یہ کام کر کے دکھا دیں.لارڈ ولنگڈن کہنے لگے وزیر ہند نے تو مجھے ۱۸ مہینے کی مہلت دی تھی اور آپ مجھے کچھ بھی مہلت نہیں دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر میں یہ کام کر دوں.میں نے کہا اگر یہی بات ہے تو پھر جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں.انہوں نے تو ۱۸ مہینے کی آپ کو مہلت دی ہے میں آپ کو ۱۸ سال کی مہلت دینے کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ آپ مجھے یقین دلائیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سدھر جائے گی.انہوں نے کہا پانچ چھ ماہ تک مجھے حالات دیکھنے دیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں کروں گا اور کشمیر کے مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا.چنانچہ اس کے بعد بڑے بڑے واقعات ہوئے جن کو تفصیل کے ساتھ سُنایا نہیں جا سکتا.بہر حال میں نے کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسی طاقت عطا فرما دی کہ کشمیر کی گورنمنٹ سخت گھبرا گئی اور اُس نے دو دفعہ مجھے پیغام بھیجا کہ آپ جموں آئیں اور مہاراجہ صاحب سے مل کر فیصلہ کر لیں.آپس کی گفتگو کے بعد جن حقوق کے متعلق اتفاق ہو گا وہ کشمیر کے مسلمانوں کو دے دیئے جائیں گے.میں نے کہا میرے فیصلے کا کوئی سوال نہیں.کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ ہونا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا.میں یہ نہیں چاہتا کہ میں آؤں اور آپ سے باتیں کر کے کچھ فیصلہ کر لوں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے حقوق کا سوال ہے اُن کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقع دیا جائے.آخر وہی وائسرائے جنہوں نے کہا تھا کہ میں ان معاملات میں دخل نہیں دے سکتا جب بار بار اُن کو واقعات بتائے گئے تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ کشمیر میں بہت سی خرابیاں ہیں جن کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا نے بھی کشمیر گورنمنٹ پر زور دینا شروع کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر ہری کشن کول جو وزیر اعظم تھے اس بات پر مجبور ہوئے کہ میری طرف توجہ کریں اور آخر انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے آدمی بھجوا دیں جن سے بات کر کے وہ حقوق جو مسلمانوں کو دیے جا سکتے ہوں اُن کو دے دیئے جائیں.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۸۶ الموعود میں اِس وقت دو خطوط سُنا تا ہوں جن میں سے ایک لارڈ ولنگڈن کا ایک خط لارڈ ولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری کا ہے.لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو جو حقوق ملے ہیں وہ دوسروں کی کوشش کے نتیجہ میں ملے ہیں حالانکہ یہ حیح نہیں.چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر میں یہ خط پیش کرتا ہوں جو لارڈ ولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری الکیوٹر آئیلے کا لکھا ہوا ہے.اور ا ۳ /نومبر ۱۹۳۱ ء کا ہے.وہ اپنے خط میں D.O.No.10407 G.M The Viceroy's House, New Delhi, 13th.November 1931.لکھتے ہیں.Your Holiness His Excellency wishes me to thank you for your letter of the 7th November.He regrets very much to learn that you are dissatisfied with his previous reply and feel that the efforts made by you and your community in the interests of peace in Kashmir have received scanty appreciation or attention from the Government of India.His Excellancy is sure that this is due to some misunderstanding for it has certainly never been his intention to be liltle in any way the loyal assistance which your community is always ready to render to Government.You will recognise, however, that in the internal affairs of an Indian State it is practically impossible for Government to insist upon the State dealing with any outside committee however wellintentioned and representative and the negotiations must take place, if the Ruler so desires, direct with the Government of India.
الموعود ۵۸۷ انوار العلوم جلد کا His Excellency wishes me to assure you that he has throughout given the Kashmir question his most anxious and sympathetic consideration and has left nothing un-done which in his view could lead to a peaceful and satisfactory solution of the present troubles.He would be the last to say that all Governmen action has been exactly right or has been taken at exactly the right moment but he does claim that it has been with the one purpose of obtaining an early and satisfactory settlement betwee the Maharaja and his Moslem subjects.He trusts that his efforts in this direction will soon begin to have effect and that confidence will be restored among the Muslim community in Kashmir.His Excelloncy wishes me to thank you for the frank and candid expression of your views and opinions which will be of much value to him in appreciating and dealing with a very difficult situation.His Excellency is assured that he can rely upon you and the other members of the All-India Kashmir Committee to use your best efforts to produce the peaceful atmosphere.Which will go far to assist an early and satisfactory solution.Yours Sincerely Το His Holiness M.B.Mahmud Ahmad, Head of The Ahmadiyya Community and President, All India Kashmir Committee, `Al- Faiz`, 6, Lytton Road, Lahore.
انوار العلوم جلد کا ۵۸۸ اس خط کا ترجمہ یہ ہے.ہز ایکسی لنسی حضور وائسرائے نے فرمایا ہے کہ میں آپ کے خط مورخہ ۷/نومبر ۱۹۳۱ء کا شکر یہ ادا کروں.ہز ایکسی لنسی کو اس بات کے معلوم ہونے پر افسوس ہوا کہ آپ اُن کے پہلے جواب کو نا تسلی بخش خیال فرماتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو آپ نے اور آپ کی جماعت نے کشمیر میں امن کی خاطر کوششیں فرمائی ہیں.اُن کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا اور یہ کہ حکومت ہند نے اُس کی طرف توجہ نہیں فرمائی.ہز ایکسی لنسی کو یقین ہے کہ اس کا باعث کوئی غلط فہمی ہے کیونکہ اُن کا ہرگز کبھی یہ ارادہ نہیں ہوا کہ آپ کی اور آپ کی جماعت کی اس وفا دارانہ امداد کو جو آپ ہمیشہ حکومت کی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں کسی طرح استخفاف کی نظر سے دیکھا جائے.لیکن آپ اس بات کو تسلیم فرمائیں گے کہ حکومت کے لئے یہ بات عملاً ناممکن ہے کہ کسی ہندوستانی ریاست کے اندرونی معاملات کے متعلق ریاست پر یہ زور دے کہ وہ کسی بیرونی کمیٹی کے ساتھ معاملہ کرے خواہ وہ کمیٹی کیسی ہی نیک نیت اور نمائندہ حیثیت رکھتی ہو اور اگر والی ریاست ایسا چاہے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ اس بارہ میں براہ راست حکومت ہند کے ساتھ گفت و شنید کی جائے.حضور وائسرائے نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں آپ کو یقین دلاؤں کہ انہوں نے شروع سے ہی سوال کشمیر پر پورے فکر اور ہمدردی کے ساتھ غور کیا ہے اور انہوں نے موجودہ مشکلات کے تسلی بخش اور پُر امن حل کا ذریعہ نکالنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا.حضور وائسرائے آخری آدمی ہوں گے جو یہ کہیں کہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ بالکل درست ہے.یا یہ کہ وہ صحیح وقت کیا گیا ہے.لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے اس کا واحد مقصد یہی تھا کہ مہاراجہ صاحب اور اُن کی مسلمان رعایا کے مابین جلد سے جلد اور تسلی بخش تصفیہ ہو جائے اور انہیں امید ہے کہ اس معاملہ میں اُن کی کوششیں جلد ہی نتیجہ پیدا کریں گی اور یہ کہ مسلمانان کشمیر میں پھر اعتماد پیدا ہو جائے گا.الموعود
انوار العلوم جلد کا ۵۸۹ الموعود حضور وائسرائے فرماتے ہیں کہ میں آپ کا شکر یہ ادا کروں کہ آپ نے نہایت صفائی سے اپنے خیالات اور آراء کو ظاہر فرما دیا ہے اور یہ اُن کے لئے ایک مشکل سوال کے صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے حل کرنے میں بہت مفید اور قیمتی ثابت ہو گا.ہز ایکسی لنسی کو یقین ہے کہ وہ آپ پر اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبروں پر یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہترین کوششوں کے ساتھ ایک پرامن ماحول پیدا کریں گے جس سے جلد اور تسلی بخش حل کرنے میں بہت بڑی مدد ملے گی.پرسنل اسٹنٹ وزیر اعظم کشمیر کا خط دوسرا خط وزیر اعظم کشمیر کے پرسل پرائیوٹ سیکرٹری کے نام لکھا وہ خط یہ ہے.سرینگر کشمیر مورخہ ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء اسٹنٹ کا ہے جو انہوں نے میرے مکرم پرائیوٹ سیکرٹری صاحب تسلیم.آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۱۳/ نومبر ۱۹۳۱ء جناب حضور والا شان پرائم منسٹر صاحب بہادر کے ملاحظہ سے گزرا.مختصراً جواب عرض کرتا ہوں کہ ابتدا سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانانِ کشمیر کو ابتدائی جائز حقوق دینے میں بے حد جلدی کی جاوے اور خاص طور پر گزشتہ ایک ہفتہ سے تو شب و روز سوائے اس کام کے پرائم منسٹر صاحب کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.البتہ دو تین روز کے لئے جموں کے واقعات نے مجبور کیا کہ وہاں پرائم منسٹر صاحب خود تشریف لے جاویں.جموں کے واقعات نے جس کے ذمہ دار احرار ہیں.معاملہ مطالبات کو قدرے التواء میں ڈال دیا اور صدر صاحب کے ساتھ گفت وشنید یا خط و کتابت میں بھی دیر محض اسی وجہ سے ہوئی ( لوگ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے کشمیر میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ یہ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے معاملہ مطالبات کے منظور ہونے میں دیر ہوگئی ورنہ بات جلدی طے ہو جاتی ) علاوہ بریں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے
انوار العلوم جلد کا ۵۹۰ نمائندگان مقیمی سرینگر عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا اسماعیل غزنوی صاحب کے ساتھ اکثر تبادلۂ خیالات ہوتا رہتا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ کو بتلا سکیں گے کہ حکومت ہند نے اس معاملہ میں کس قدر دلچسپی لی ہے.( دراصل گورنمنٹ کشمیر نے مجھے لکھا تھا کہ اپنے دو نمائندے یہاں بھجوا دیں جن سے ہم وقتا فوقتا گفتگو کرتے رہیں.اس پر میں نے مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کو بطور نمائندہ بھجوا دیا تھا ) کسی قدر یہ ہمیں تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آ کر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں.( یہ درست ہے میں ہزارے کی طرف جا کر کشمیر کے نمائندوں سے ملا تھا اور اُن سے میں نے تمام حالات معلوم کئے تھے ) صدر صاحب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مساجد وغیرہ کے اعلان میں صدر صاحب اور ہماری منشاء کے خلاف ہمیں اعلان کو جلد شائع کرنے کے لئے کس طرح سے رائے دی گئی.جو مجبوری کی حد تک پہنچ گئی ( میں نے انہیں کہا تھا کہ تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے اس پر وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں کشمیر کے نمائندوں نے مجبور کیا تھا کہ ہم اس قسم کا اعلان کر دیں ) آپ نے صدر صاحب کے خیال کو اس شکل میں رکھا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ پر پہنچنے کی غرض سے گفتگو کر نا ہمارا مقصد نہیں.یہ محض غلط فہمی ہے افسوس ہے کہ صدر صاحب نے ہماری مصروفیت اور مشکلات کا اندازہ نہیں کیا لیکن ہر بات کا علاج وقت اور میعاد ہے.صدر صاحب عنقریب یقین کرنے پر تیار ہو جاویں گے کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں یا مختصر اور کہاں تک اس کے مشورہ صائب کے مطابق عمل کر رہے ہیں.آپ کے لکھنے کے مطابق صدر صاحب کی خواہش محض مسلمانان کشمیر کو حقوق دلوانے کی ہے جس میں حکومت پورے طور سے خود مصروف ہے.آپ کا صادق جیون لعل پرسنل اسسٹنٹ الموعود
انوار العلوم جلد کا ۵۹۱ الموعود ان خطوط سے معلوم ہوسکتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا بھی میری تحریک پر کام کر رہی تھی اور کشمیر گورنمنٹ کے وزیر اعظم بھی میرے مشورہ سے ہی کام کرتے تھے.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب ہمیں کامیابی حاصل ہوئی تو انہوں نے احرار کو اپنے ساتھ ملا کر اس معاملہ کو خراب کرنا شروع کر دیا.میں نے پھر زور سے مقابلہ شروع کر دیا.مہاراجہ صاحب کشمیر کا ملاقات کرنے سے انکار آخر سر ہری کشن کول نے مجبور ہو کر مجھے لکھا کہ آپ اپنے چیف سیکرٹری کو بھیج دیں مہاراجہ صاحب کہتے ہیں میں خود اُن سے بات کر کے ان معاملات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھیج دیا مگر ساتھ ہی اُنہیں کہہ دیا کہ یہ پرائم منسٹر کی کوئی چال نہ ہو.تیسرے دن اُن کا تار پہنچا کہ میں یہاں تین دن سے بیٹھا ہوا ہوں مگر مہا راجہ صاحب ملاقات میں لیت و لعل کر رہے ہیں.میں نے کہا آپ اُن پر حجت تمام کر کے واپس آجائیں.چنانچہ اُنہوں نے ایک دفعہ پھر ملاقات کی کوشش کی مگر جب اُنہیں کامیابی نہ ہوئی تو وہ میری ہدایت کے ماتحت واپس آگئے.چوہدری صاحب کے واپس آنے کے بعد سر ہری کشن کول کا خط آیا کہ مہاراجہ صاحب تو ملنا چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا.اُن کے سیکرٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے.اتفاق کی بات ہے اس کے چند دن بعد ہی میں لا ہور گیا تو سر ہری کشن کول مجھ سے ملنے کے لئے آئے.میں نے اُن سے کہا کہ مہاراجہ صاحب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا آپ تو اُن کے سیکرٹری ہیں اور آپ سے ملنے میں میری ہتک ہے.میرا یہ جواب سن کر وہ سخت گھبرایا.میں نے کہا پہلے تو میں تم سے ملتا رہا ہوں کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ سیکرٹری کے ساتھ ملنے سے انسان کی ہتک ہو جاتی ہے لیکن آب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سیکر ٹری سے ملاقات کی جائے تو ہتک ہو جاتی ہے؟ اس لئے میں اب تم سے نہیں مل سکتا.گو یا خدا نے فوری طور پر اُن سے بدلہ لینے کا موقع عطا فر ما دیا.چوہدری افضل حق صاحب کی مخالفت آخر اسی دوران میں ایک دن سر سکندر حیات خاں صاحب نے مجھے کہلا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۹۲ الموعود نمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں میں تبادلۂ خیالات ہو جائے.کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں.میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں.چنانچہ یہ میٹنگ سر سکند رحیات خاں کی کوٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اس میں شامل ہوا.چوہدری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے.باتوں باتوں میں وہ جوش میں آ گئے اور میرے متعلق کہنے لگے کہ انہوں نے الیکشن میں میری مددنہیں کی اور آب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمد یہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں.میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر جماعت احمد یہ کسی انسان کے ہاتھ سے پچلی جاسکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے چل سکتا ہے تو یقیناً یہ رہنے کے قابل نہیں ہے.پھر میں نے کہا یہ بھی درست نہیں کہ میں نے الیکشن میں آپ کی مدد نہیں کی ایک الیکشن میں میں نے آپ کی مخالفت کی ہے اور ایک الیکشن میں آپ کی مدد کی ہے.سر سکندرحیات خاں بھی کہنے لگے.افضل حق ! تم بات بھول گئے ہو انہوں نے ایک الیکشن میں تمہاری مدد کی تھی صرف ایک الیکشن میں انہوں نے تمہاری مخالف کی ہے.وہ کہنے لگے میری بڑی ہتک ہوئی ہے اور اب تو میں نے احمدیت کو کچل کر رکھ دینا ہے.مسلمانان کشمیر کی جلد بازی جب اس طرح کوئی فیصلہ نہ ہوا تو گورنمنٹ آف انڈیا نے ایک والی ریاست کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ کسی طرح اس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں.انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معاملہ کسی طرح ختم نہیں ہوگا.میں نے کہا مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دُور ہو جائے.آخر ان کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں.میں دہلی گیا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ تھے.دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سکیم تیار کی اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ ان ان شرائط پر صلح ہو جانی چاہیئے.اُس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا.چنانچہ پیشتر اس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے مسلمانوں نے اُن سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۹۳ الموعود حالانکہ اُن سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے.غرض کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا تمام کام میرے ذریعہ سے ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا کہ مصلح موعود اسیروں کا رستگار ہوگا.سر ہری کشن کول کی وزارت سے علیحدگی انہی ایام میں آخری دفعہ جب میں لا ہور گیا تو سر ہری کشن کول بھی وہاں آئے ہوئے تھے.اُن کا میرے نام پیغام آیا کہ اپنے آدمی بھیج دیں تا کہ شرائط کا اُن کے ساتھ تصفیہ ہو جائے.میں نے کہلا بھیجا کہ تصفیہ ان ان شرائط پر ہو گا اگر مان لو تو صلح ہوسکتی ہے ورنہ نہیں.وہ کہنے لگے یہ شرائط تو بہت سخت ہیں اگر ان کو تسلیم کر لیا گیا تو ہماری قوم بگڑ جائے گی.میں نے کہا یہ تمہاری مرضی ہے چاہو تو صلح کر لو اور چاہو تو نہ کرو.در دصاحب اُس کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے آخررات کے گیارہ بجے اُس نے کہہ دیا کہ ان شرائط پر صلح نہیں ہو سکتی.مجھے در دصاحب نے یہ بات پہنچائی تو میں نے اُن سے کہا آپ سر ہری کشن کول سے جا کر کہہ دیں کہ اگر ان شرائط پر وہ صلح کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ بھی وزیر نہیں رہ سکتے.درد صاحب نے یہ بات اُسے کہی تو وہ کہنے لگا میں تجربہ کار ہوں میں ایسے بلف (BLUFF) سے نہیں ڈرا کرتا.میں نے درد صاحب سے کہا آپ اُن سے دریافت کریں اور پوچھیں کہ کرنل بکسر جموں گیا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ جموں گیا ہے اور مہا راجہ صاحب سے ملا ہے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا مہا راجہ صاحب نے آپ کو وہ باتیں بتائی ہیں؟ اگر نہیں بتا ئیں حالانکہ مہاراجہ آپ کو اپنا باپ کہا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو الگ کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آب آپ کا زمانہ گزر چکا ہے اب آپ وزیر اعظم نہیں رہ سکتے.مہاراجہ صاحب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو الگ کر دیا جائے اور کالون صاحب کو وزیر اعظم بنا دیا جائے.یہ سنتے ہی اُس کا رنگ فق ہو گیا اور کہنے لگا بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے.پھر اُسی وقت اُس نے اپنا موٹر تیار کیا اور در دصاحب سے کہا کہ آپ اُن سے اجازت لے کر آئیں اور میرے ساتھ چلیں جو شرائط بھی آپ لکھیں گے میں اُن پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہوں.اُنہوں نے کہا آب دستخط کرنے کا وقت نہیں رہا کل صبح تم پرائم منسٹر ہو گے ہی نہیں.اُس کو ایسا فکر ہوا کہ وہ اُسی وقت
انوار العلوم جلد کا ۵۹۴ الموعود راتوں رات موٹر پر جموں گیا مگر جب صبح ہوئی تو مہا راجہ نے اُسے کہہ دیا کہ تمہیں وزارت سے الگ کیا جاتا ہے.غرض کشمیر کے لوگوں کو جو کچھ ملا وہ میری جدو جہد کے نتیجہ میں ملا اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ جلدی نہ کرتے تو گورنمنٹ آف انڈیا کی معرفت جو سمجھوتہ ہوتا اُس میں انہیں زیادہ حقوق مل جاتے اور گائے کا سوال بھی حل ہو جاتا.میں نے ان واقعات کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیں اور بعض والیان ریاست کا نام بھی نہیں لیا.اگر میں آخری مرحلہ کی تفصیل بیان کروں تو شاید بعض والیان ریاست اسے اپنی ہتک خیال کریں.مگر چونکہ یہ واقعہ اب گزر چکا ہے اس لئے اس کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں.جلال الہی کا ظہور.پانچویں خبر یہ دی گئی تھی کہ اس کا نزول جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.یہ خبر بھی میرے زمانہ میں ہی پوری ہوئی.چنانچہ میرے خلافت پر متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ شروع ہے.جس سے جلال الہی کا دنیا میں ظہور ہو رہا ہے.شاید کوئی شخص کہہ دے کہ اس وقت لاکھوں کروڑوں لوگ زندہ ہیں اگر ان لڑائیوں کو تم اپنی صداقت میں پیش کر سکتے ہو تو اس طرح ہر زندہ شخص ان کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہ جنگیں میری صداقت کی علامت ہیں.اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ اگر اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جو اس وقت زندہ ہیں ان جنگوں کی خبریں دی گئی ہیں تو یہ ہر زندہ شخص کی علامت بن سکتی ہیں اور اگر اُن کو ان لڑائیوں کی خبر میں نہیں دی گئیں تو پھر جس کو ان جنگوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اسی کے متعلق جلال الہی کا یہ ظہور کہا جائے گا.مصلح موعود کا نام ”عالم کباب بھی رکھا گیا ہے اور گو یہ پیر منظور محمد صاحب کے لڑکے کا نام رکھا گیا تھا لیکن اس کے معنی یہی تھے کہ وہ لڑکا منظور محمد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہوگا اور محمدی بیگم سے مراد سیدانی کی اولاد ہے.ہر سیدانی بوجہ آنحضرت ﷺ کی ذریت ہونے کے محمدی بیگم ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت ذریت رکھنے والی بیگم.
انوار العلوم جلد ۷ ۵۹۵ الموعود دوسرے معنی اس کے یہ بھی تھے کہ سب سے پہلے مصلح موعود کا اعلان پیر منظور محمد صاحب کریں گے اور چونکہ اس لحاظ سے وہ اس خیال کو سب سے پہلے بحث میں لانے والے تھے اور تصنیف مصنف کی معنوی اولاد ہوتی ہے اس لئے پیشگوئی پر پردہ ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ رنگ اختیار کیا اور بتایا کہ جماعت میں سب سے پہلے اس پیشگوئی کی حقیقت کی طرف پیر منظور محمد صاحب اشارہ کریں گے.مخالفین کی ارادہ قتل میں نا کامی ۶ چینی شہر یہ دیکھی تھی کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.یعنی اللہ تعالیٰ اُس کا حافظ و ناصر ہوگا اور اُسے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس الہام کی صداقت میں متواتر میری حفاظت اور نصرت کی ہے.مجھے اس وقت تک کوئی ایسا الہام نہیں ہوا جس کی بناء پر میں کہہ سکوں کہ میں انسانی ہاتھوں سے نہیں مروں گا لیکن بہر حال میں اس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک میرا کام باقی ہے اُس وقت تک کوئی شخص مجھے مارنہیں سکتا.میرے ساتھ متواتر ایسے واقعات گزرے ہیں کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اُن کے حملوں سے مجھے محفوظ رکھا.پہلا واقعہ ایک گزشتہ جلسے کا واقعہ ہے میں تقریر کر رہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تا کہ گلا درست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہو رہا ہے چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو وہ پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ سٹیج پر پہنچ گئی.سٹیج پر اتفاقا کسی شخص کو خیال آ گیا اور اُس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اُس کی زبان کٹ گئی.تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملی ہوئی ہے اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور میں خدانخواستہ اُسے چکھ لیتا تو اور کچھ اثر ہوتا یا نہ ہوتا اتنا ضرور ہوتا کہ تقریر رُک جاتی.
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۹۶ الموعود دوسرا واقعہ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی آیا جس کا نام جے میتھیوز تھا اور اُس کا ارادہ تھاوہ مجھے قتل کر دے.یہاں سے جب وہ نا کام واپس کو ٹا تو اُس کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور اُس نے اُسے قتل کر دیا.اس پر عدالت میں مقدمہ چلا اور اُس نے سیشن کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ارادہ اپنی بیوی کو ہلاک کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں مرزا صاحب کو ہلاک کرنا چاہتا تھا.میں نے ایک جگہ کسی مولوی کی تقریر سنی جس نے ذکر کیا کہ قادیان کے مرزا صاحب بہت بُرے آدمی ہیں اور اُن میں یہ یہ بُرائیاں ہیں.میں نے اُس کی تقریر کے بعد فیصلہ کیا کہ میں قادیان جا کر مرزا صاحب کو مارڈالوں گا.چنانچہ میں پستول لے کر قادیان گیا اتفاقاً اُس روز جمعہ تھا.جمعہ کے خطبہ میں چونکہ بہت لوگ اکٹھے تھے اس لئے مجھے اُن پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی.دوسرے دن میں نے سُنا کہ وہ پھیرو چیچی چلے گئے ہیں.میں پستول لے کر اُن کے پیچھے یچے پھیرو چیچی گیا اور میں نے سمجھا کہ وہاں آسانی سے میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوں گا.مگر وہاں بھی میں نے دیکھا کہ اُن کے دروازہ پر ہر وقت پہرہ دار بیٹھے رہتے ہیں اس لئے میں واپس آ گیا.گھر آ کر میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور میں نے اُسے مار ڈالا.یہ سارا واقعہ اُس نے عدالت میں خود بیان کیا حالانکہ ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ کوئی شخص کس نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے لیکن ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور اُسے حملہ کرنے میں نا کام رکھا.تیسر ا واقعہ تیسرا واقعہ یہ ہے کہ احرار کی شورش کے ایام میں میں ایک دن اپنی کوٹھی دار الحمد میں تھا کہ ایک افغان لڑکا آیا اور اُس نے کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.میرے چھوٹے بچے اندر آئے اور اُنہوں نے بتایا کہ ایک لڑکا باہر کھڑا ہے اور وہ ملنا چاہتا ہے.میں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے شور کی آوازسُنی.میں حیران ہوا کہ یہ شور کیسا ہے.چنانچہ میں نے دریافت کرایا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ لڑ کا قتل کے ارادہ سے آیا تھا.مگر عبدالاحد صاحب نے اُسے پکڑ لیا اور اُس سے ایک چھرا بھی انہوں نے برآمد کر لیا ہے.میں نے عبدالاحد صاحب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ قتل کے ارادہ سے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۹۷ الموعود آیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ یہ لڑکا پٹھان تھا اور ہم پٹھانوں کی عادات کو اچھی طرح جانتے ہیں.جب یہ باتیں کر رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اس نے اپنی ٹانگوں کو اس طرح پہلا یا کہ میں فوراً سمجھ گیا کہ اُس نے چھرا چھپایا ہوا ہے.چنانچہ میں نے ہاتھ ڈالا تو چھرا نکل آیا.پولیس نے اُس پر مقدمہ بھی چلایا تھا اور غالباً اُس نے اقرار کیا تھا کہ میں قتل کی نیت سے ہی قادیان آیا تھا.اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس جیل خانہ میں قید تھا جہاں میں افسر لگا ہوا تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں پہلے دھرم سالہ تک ان کو قتل کرنے لئے گیا تھا مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی.آخر میں قادیان گیا اور پکڑا گیا ) چوتھا واقعہ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ام طاہر کے مکان کی دیوار پھاند کر ایک شخص اندر گودنا چاہتا تھا کہ لوگوں نے اُسے پکڑ لیا.پولیس والے چونکہ ہمارے خلاف تھے اس لئے اُنہوں نے یہ کہہ کر اُسے چھوڑ دیا کہ یہ پاگل ہے.پانچواں واقعہ بالکل تازہ ہے جو کل ہی ہوا ہے.کل ہمارے گھر میں پانچواں واقعہ دودھ رکھا ہوا تھا کہ میری بیوی کو شبہ پیدا ہوا کہ کسی نے دودھ میں کچھ ڈال دیا ہے چنانچہ اس طبہ کی وجہ سے اُنہوں نے کہہ دیا کہ اس دودھ کو استعمال نہ کیا جائے.ایک دوسری عورت جسے اس کا علم نہیں تھا یا اُس نے خیال کیا کہ یہ محض وہم ہے اُس نے وہ دودھ پی لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُسے اب تک متواتر قئمیں آ رہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شبہ کیا گیا تھا وہ درست تھا.لیکن باوجود اس کے کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ہر رنگ میں اُنہوں نے زور لگایا.چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ خدا کا سایہ میرے سر پر ہو گا اس لئے وہ ہمیشہ میری حفاظت کرتا رہا اور اُس وقت تک کرتا رہے گا جب تک وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اپنی تکمیل کو نہ پہنچ جائے.قبولیت دعا کا نشان خدا کا سایہ سر پر ہونے کے دوسرے معنی یہ بھی ہیںکہ اللہ تعالی اس کی کثرت سے دعائیں سنے گا.یہ علامت بھی اتنی بین اور واضح طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے کہ اس امر کی ہزاروں نہیں ، لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں کہ
۵۹۸ الموعود انوار العلوم جلد ۱۷ غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سنیں.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ پھر یہ نہیں کہ میری دعاؤں کی قبولیت کے صرف احمدی گواہ ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں عیسائی ، ہزاروں ہندو اور ہزاروں غیر احمدی بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق میری دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور اُن کی مشکلات کو دُور کیا.”الفضل میں بھی ایسے بیسیوں خطوط وقتاً فوقتاً چھپتے رہتے ہیں کہ کس طرح مخالف حالات میں لوگوں نے مجھے دعاؤں کے لئے لکھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کی مشکلات کو دُور کر دیا.اس معاملہ میں بھی میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ میں ہی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے.مگر کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس رنگ میں دنیا کو مقابلہ کا چیلنج دے چکے ہیں.آپ فرماتے ہیں.” میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں یا دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے.جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں.یعنی اس طرح پر کہ دو خطر ناک بیمار لے کر جو جُدا جُدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کے لئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکلی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اُس کی عمر زیادہ کی جائے وہی فریق سچا سمجھا جاوے.۴۲ یہ چیلنج میری طرف سے بھی ہے اگر لوگ اس معاملہ میں میری دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بعض سخت مریض قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون ہے جس کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے.کس کے مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کے مریض اچھے نہیں ہوتے.ے.ساتویں اُس کا نام یوسف رکھا گیا تھا اور یوسف کا واقعہ بھی یوسف ثانی کی خبر ہی ہے کہ اس کے بڑے بھائیوں نے اسے کم کر دیا اور پھر باپ لو کہنے لگے کہ اب وہ نہیں ملتا تم اُس کی یاد میں مر جاؤ گے لیکن اُسے نہ پاؤ گے اسی طرح میرے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۵۹۹ الموعود ساتھ ہوا.ہماری جماعت میں جو بڑے لوگ تھے اُنہوں نے انکار کیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں یوسف نے ظاہر نہیں ہونا.صرف فرق یہ ہے کہ یوسف کے بھائی آخر تائب ہوئے اور وہ یوسف پر ایمان لے آئے.مگر میرے یہ بڑے بھائی جو یوسف کے بھائیوں سے بھی مخالفت میں بڑھ گئے ہیں ایمان نہیں لائے اور درحقیقت ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں تو یہ خبر دی گئی تھی کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند یوسف کو سجدہ کر رہے ہیں.مگر یہاں یہ خبر نہیں دی گئی کہ وہ بڑے بھائی سجدہ کریں گے بلکہ یہاں یہ خبر دی گئی تھی که شَاهَتِ الْوُجُوه - آے اُن کے منہ کالے کر دیئے جائیں گے دیکھو! یہ پیشگوئی کتنا بڑا نشان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا کیسا عظیم الشان ثبوت ہے.آپ فرماتے ہیں يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ اور پھر فرماتے ہیں اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ فارسی الاصل لوگوں میں سے بعض رجال اُسے واپس لے آئیں گے اب ایک آنے والے کی خبر سُن کر جھوٹا شخص بھی فائدہ اُٹھانے کے لئے دعوی کر سکتا ہے مگر وہ ان دو باتوں کا ثبوت کہاں سے لائے گا کہ اولاد بھی ہو اور اُس کے کام کو چلانے والی اور اسلام کو پھیلانے والی ہو اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا یہ کیسا زبر دست ثبوت ہے کہ لڑکا ہوا، پھر وہ ایسے حالات میں سے گزرا کہ اُس کی عمر خطرہ میں اور اُس کا علم صفر تھا، پھر خدا تعالیٰ نے اس کی مخالفت کروائی اور بڑے بڑے لوگوں کو اُس کے خلاف کھڑا کر دیا جنہوں نے یہاں تک کہا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر چند دنوں کے بعد ہی تم دیکھو گے کہ یہاں عیسائی قبضہ کر لیں گے.مگر ایک ایک کر کے وہ سب مخالفتیں ختم ہو گئیں اور آج اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم الشان نشان نظر آ رہا ہے کہ ہزاروں لوگ یہاں جمع ہیں.پس ایک ایک آدمی جو یہاں بیٹھا ہے وہ میری سچائی کا نشان اور اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا.مولوی محمد علی صاحب کا پہلا اعتراض مولوی محمدعلی صاحب نے اس پیشگوئی کے متعلق لکھا ہے کہ موعود تین سو سال کے بعد آئے گا اس کا جواب میں دے چکا ہوں.
انوار العلوم جلد ۷ الموعود دوسرے انہوں نے کئی مخالف دلائل اس اصل پر دیئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے سند یا تو غلط ہے یا مستند نہیں.میں اس بحث میں پڑتا ہی نہیں کہ وہ سند درست ہے یا نہیں کیونکہ میں تو صرف الہامات اور اُن کے مفہوم کو لیتا ہوں باقی انہوں نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پیشگوئی کو مبارک احمد پر چسپاں کیا اور وہ اجتہاد غلط نکلا.میں اس بارہ میں مولوی صاحب کی بات کو تسلیم کر لیتا ہوں کہ چلو وہ پیشگوئی آپ نے مبارک احمد پر لگائی اور آپ کا اجتہا دغلط نکلا کیونکہ میری تشریح کا سب دارد مدار تو اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہے نہ کہ مامور کے اجتہاد پر.مگر اسی سلسلہ میں انہوں نے ایک نہایت افسوسناک حرکت کی ہے اور وہ یہ کہ اُنہوں نے اس جوش میں کہ وہ ہماری جماعت کو جھوٹا کہیں اپنی پانچویں دلیل کا ہیڈ نگ یہ قائم کیا ہے کہ.الہام الہی کے بغیر مصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لعنت کی ہے.اور اس کا ثبوت اُنہوں نے یہ دیا ہے کہ:.ہے.حضرت مسیح موعود نے جس زور سے پسر موعود کے بارے میں الہام کا مطالبہ اپنے مخالفین سے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدوں کھلے کھلے الہامِ الہی کے کسی کو مصلح موعود قرار دینا ایک خطرناک غلطی ہے.”حُجَّةُ الله“ میں جو سراج منیر کے بعد طبع ہوئی ذیل کے الفاظ آج ہمارے احباب کو بہت غور سے پڑھنے چاہئیں اور سوچنا چاہئے کہ وہ کن لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں صفحہ ۱۰ پر فرماتے ہیں.ہاں اگر اس پیشگوئی میں کوئی ایسا الہام میں نے لکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ الہام نے اسی کو موعود لڑ کا قرار دیا تھا تو کیوں وہ الہام پیش نہیں کیا جاتا.پس جبکہ تم الہام کے پیش کرنے سے عاجز ہو تو کیا یہ لعنت تم پر ہے یاکسی اور اور بالفرض اگر میری یہی مراد ہوتی تو میرا کہنا اور خدا کا کہنا ایک نہیں ہے.میں انسان ہوں ممکن ہے کہ اجتہاد سے ایک بات کہوں اور وہ صحیح نہ ہو پُر میں پوچھتا ہوں کہ وہ خدا کا الہام کونسا ہے کہ میں نے ظاہر کیا تھا کہ پہلے حمل میں ہی لڑکا
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۰۱ الموعود پیدا ہو جائے گا یا جو دوسرے میں پیدا ہو گا وہ در حقیقت وہی موعود لڑکا ہوگا اور وہ الہام پورا نہ ہوا.اگر ایسا الہام میرا تمہارے پاس موجود ہے تو تم پر لعنت ہے اگر وہ الہام شائع نہ کرو ۲۵ اس حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تو یہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں نے الہام کے مطابق بشیر اوّل کو اپنا موعود لڑکا قرار دے دیا تھا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنا لعنتیوں کا کام ہوتا ہے.اگر اُن کے پاس میرا کوئی ایسا الہام ہے تو اُن پر لعنت ہے اگر وہ اُس الہام کو شائع نہ کریں.یہ نہیں فرماتے کہ الہام الہی کے بغیر تعیین کرنا لعنت ہوتی ہے اس طرح تو مولوی محمد علی صاحب خود بھی زیر الزام آ جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے بائبل کی کئی پیشگوئیوں کو رسول کریم ﷺ پر چسپاں کیا ہے اور ر یو یو آف ریلیجنز اُردو کے گزشتہ مضامین اس امر پر شاہد ہیں.وہ بار بار ان مضامین میں لکھتے رہے ہیں کہ بائبل کی فلاں پیشگوئی رسول کریم ﷺ پر چسپاں ہوتی ہے کیا انہوں نے یہ تعیین الہام الہی کے مطابق کی تھی یا بغیر الہام الہی کے.اگر الہام الہی کے بغیر تعیین کرنا لعنتیوں کا کام ہوتا ہے تو پھر یہ لعنت کا کام مولوی محمد علی صاحب نے کیوں کیا ؟ لیکن سب سے زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ اس فقرہ کے لکھنے کے چند صفحات بعد اسی کتاب میں، یہ نہیں کہ کسی دوسری کتاب میں یا اسی کتاب کے کسی دوسرے ایڈیشن میں بلکہ اسی کتاب اور اسی ایڈیشن میں یہ لکھنے کے بعد کہ:.الہام الہی کے بغیر مصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت مسیح موعود نے لعنت کی ہے“ صلى الله محمد علی صاحب لکھتے ہیں.” خدا را غور کرو که مصلح موعود کی تعیین حضرت مسیح موعود نے کس کے حق میں کی ہے.یا درکھو کہ مصلح موعود صرف ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کے دوسرے حصہ کا موعود ہے اور اُس کو اپنی ساری تحریروں میں حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ بھی سوائے مبارک احمد کے اور کسی لڑکے پر نہیں لگایا.۴۶ اب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ الہام الہی کے بغیر مصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۰۲ الموعود مسیح موعود علیہ السلام نے لعنت کی ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بغیر الہام الہی کے مصلح موعود کی تعیین کی اور اس پیشگوئی کو مبارک احمد پر چسپاں کیا یہ کتنی کور باطنی ہے کہ ایک شخص مرید ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر ایک طرف تو کہتا ہے کہ جو شخص بغیر الہام الہی کے مصلح موعود کی تعین کرتا ہے وہ لعنتی ہے اور دوسری طرف وہ اسی شخص کو جس کا وہ مرید ہے لکھتا ہے کہ اُس نے بغیر الہام الہی کے مبارک احمد کے متعلق تعیین کی اور کہا کہ وہ اس پیشگوئی کا مصداق ہے.دوسرا اعتراض مولوی صاحب نے تین کو چار کرنے والے الہام پر بہت زور دیا ہے اور میرے متعلق لکھا ہے کہ یہ علامت اُن پر کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوسکتی.میں جیسا کہ پہلے بھی بتا چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے جب کہ آپ پر اس کے معنی ہی حل نہیں ہوئے تو اگر کسی جگہ آپ نے اس کے کوئی ایسے معنی لئے ہیں جو میرے خلاف پڑتے ہیں تو بہر حال وہ آپ کا ایک اجتہاد سمجھا جائے گا جسے اُن معنوں کے قطعی حل کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جا سکے گا.مگر مولوی محمد علی صاحب کی عادت ہے کہ اگر میرے خلاف کوئی حوالہ پڑتا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا لکھ دیا ہے تو ہم اس کے خلاف کس طرح کہہ سکتے ہیں اور اگر میری تائید میں کوئی حوالہ ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے حالانکہ اگر اجتہاد میں ایک جگہ غلطی ہوسکتی ہے تو دوسری جگہ کیوں نہیں ہوسکتی.پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ تین کو چار کرنے والے کی علامت مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوں.اوّل اس طرح کہ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب ، مرزا افضل احمد صاحب ، اور بشیر اول پیدا ہوئے اور چوتھا میں ہوا.دوسرے اس طرح کہ میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے اور اس طرح میں نے اُن تین کو چار کر دیا یعنی مرزا مبارک احمد ، مرزا شریف احمد ، مرزا بشیر احمد اور چوتھا میں.
انوار العلوم جلد ۷ ۶۰۳ الموعود تیسرے اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندہ اولاد میں سے ہم صرف تین بھائی یعنی میں ، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے.مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریت میں شامل نہیں تھے.انہیں حضرت خلیفہ اول پر بڑا اعتقاد تھا مگر با وجود اعتقاد کے آپ کے زمانہ میں وہ احمدی نہ ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ہدایت مقدر کی ہوئی ہے وہ رویا یہ ہے آپ نے دیکھا کہ.”مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سرتا پا سیاہ ہے.ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی اُسی وقت معلوم ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے اُس وقت میں نے گھر میں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے“." آپ کا مرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ ”یہ میرا بیٹا ہے بتا رہا تھا کہ اُن کے لئے آپ کی روحانی ذریت میں شامل ہونا مقدر ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کے زمانہ میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے.جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ وہ میرے ذریعے سے احمدیت میں داخل ہو گئے.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اور بڑے بھائی کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ بیعت کے بعد اُنہوں نے خود بتایا کہ میں ایک عرصہ تک اسی وجہ سے بیعت کرنے سے رُکتا رہا کہ اگر میں بیعت کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتا یا حضرت خلیفہ اول کی کرتا جن پر مجھے بڑا اعتقاد تھا اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرلوں مگر کہنے لگے آخر میں نے کہا یہ پیالہ مجھے پینا ہی پڑے گا.چنانچہ اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنا دیا.کیونکہ پہلے روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت میں ہم
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۰۴ الموعود صرف تین بھائی تھے مگر پھر تین سے چار ہو گئے.پھر اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا.۱۸۸۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی اور ۱۸۸۹ ء میں میری پیدائش ہوئی.۱۸۸۶ ء ایک ، ۱۸۸۷ ء دو، ۱۸۸۸ تین ، اور ۱۸۸۹ء چار.گویا تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ میری پیدائش پیشگوئی سے چوتھے سال ہوگی اور اس طرح میں تین کو چار کرنے والا بنوں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.۱۸۸۶ ء میں پیشگوئی ہوئی اور ۱۸۸۹ء میں اس پیشگوئی کے عین مطابق میری ولادت ہوئی.تیسرا اعتراض ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ مامور کی پہلی زندگی پر اعتراض نہیں ہوتے لیکن میاں صاحب کی زندگی پر بڑے بڑے اعتراض ہوئے ہیں.اُن کے دوست اور اُن کے نہایت مخلص مُرید ایک دو نہیں ، بیسیوں کی تعداد میں اُن پر نہایت گندے الزام لگاتے رہے ہیں.مولوی صاحب نے یہ اعتراض کرتے ہوئے جس قسم کے الفاظ میرے متعلق استعمال کئے ہیں مجھے اُن کا شکوہ نہیں کیونکہ انسان کے جیسے اخلاق ہوتے ہیں ویسی ہی اس سے حرکات سرزد ہوتی ہیں.میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب نے اپنے خیال میں یہ دلیل میرے خلاف دی ہے لیکن ہے میرے حق میں اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنے والے کے بارہ میں لکھتے ہیں.دو تمہیں یادر ہے کہ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے.یا بعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے قابلِ اعتراض ٹھہرے“.۴۸ یہ پیشگوئی تھی جو میرے متعلق پائی جاتی تھی کہ بعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے مجھے قابلِ اعتراض ٹھہرایا جائے گا.اگر مولوی صاحب یہ اعتراض نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی.پس اُن کے اس اعتراض کے صرف اتنے معنی ہیں کہ میرے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور پیشگوئی پوری ہوگئی.
انوار العلوم جلد ۷ الموعود چوتھا اعتراض ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے آنے والے کی نسبت لکھا ہے کہ :.میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا.۴۹ گویا وہ موعود الہام الہی سے کھڑا ہوگا اور ماموریت کا مدعی ہوگا.نہ یہ کہ خلافت کی طرح اُس کا انتخاب ہو جائے گا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے امر سے کھڑا کرے گا پس اُس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نشان یہ ہوگا کہ وہ مامور ہو گا.مگر اس کا جواب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام’الوصیت میں دے چکے ہیں.آپ فرماتے ہیں.آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیه نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.۵۰ آب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں وہی الفاظ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق استعمال کئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب نے مصلح موعود کے متعلق استعمال کئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے یہ الفاظ استعمال کئے کہ :.میں تیری جماعت کیلئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا.“ اور مولوی محمد علی صاحب نے ان کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ:.اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے امر سے کھڑا کرے گا“ بعینہ یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق استعمال کر دیئے اور فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات پر جب صحابہ کو شدید صدمہ ہوا اور بہت سے بادیہ نشین نا دان مرتد ہو گئے.
انوار العلوم جلد ۷ ۶۰۶ الموعود تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کیا“ اسی طرح اگر میں کھڑا ہوا تو میرے کھڑے ہونے کو خدا تعالیٰ کا کھڑا کرنا کیوں نہ کہا جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ جن معنوں میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اُنہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا بلکہ ایک زائد امر یہ ہے کہ اُنہوں نے الہام سے کھڑے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اس دعوی کے بارہ میں مجھے الہی اشارہ ہوا اور میں نے الہا ما دنیا کے سامنے اپنے مصلح موعود ہونے کا دعوئی پیش کیا.پانچواں اعتراض ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ مجھے خواب میں یہ نہیں.کہا گیا کہ میں مصلح موعود ہوں یہ تو میں نے اجتہاد کیا ہے.مگر یہ اعتراض بھی درست نہیں.خواب میں صراحتا یہ باتیں موجود ہیں.چنانچہ رویا میں میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ : أَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيلُهُ وَخَلِيفَتُهُ میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی مسیح موعود کا مثیل اور اُس کا خلیفہ.اور میں نے بتایا ہے کہ خواب میں ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی کہ مَثِيْلُهُ وَخَلِیفَتہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کا مصداق ہوں جو آپ نے ایک موعود کے متعلق فرمائی تھی اور جس کے متعلق بتایا تھا کہ وہ حسن واحسان میں میرا نظیر ہو گا.اور یہ وہی پیشگوئی ہے جو مصلح موعود کے متعلق ہے.پس یہ کہنا کہ خواب میں اس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ مجھے مصلح موعود قرار دیا گیا ہے، غلط ہے.یہ الہامی الفاظ اور پھر ان الفاظ کی تشریح سب خواب کا حصہ ہیں اور مَشِيلُہ میں اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.چھٹا اعتراض ایک اعتراض مولوی صاحب کا یہ ہے جو پہلے بھی کئی دفعہ کر چکے ہیں که خوابوں کا کیا ہے خوا ہیں تو کن چنیوں کو بھی آجایا کرتی ہیں.مولوی صاحب جب میرے متعلق سنتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں خوا میں آئی ہیں یا فلاں فلاں الہامات ہوئے ہیں تو انہیں بُرا لگتا ہے اور وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۰۷ الموعود ہیں کہ خوابوں کا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لکھا ہے بعض فاسق اور فاجر بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اُن کو کبھی کبھی کچی خوا میں آ جاتی ہیں بلکہ کنچنیاں بھی بعض دفعہ کچی خوا ہیں دیکھ لیتی ہیں اِس لئے خوابوں کا آنا کوئی قابلِ فخر بات نہیں.مجھے تعجب آتا ہے کہ مولوی صاحب یہ اعتراض تو مجھ پر کرتے ہیں مگر کیا اُنہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ وہ خدا جو کنچنیوں پر بھی رحم کر دیتا ہے باوجود اس کے کہ وہ سخت گنہگار ہیں وہ اُن پر جو مفسر قرآن ہیں کیوں رحم نہیں کرتا اور کیوں اُن سے وہ سلوک نہیں کرتا جو وہ کنچنیوں سے بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.وہ مجھ پر تو چوٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوابوں کا کیا ہے خوا ہیں کنچنیوں کو بھی آ جاتی ہیں مگر انہیں یہ بھی خیال نہیں آتا کہ خدا نے اُن کو کیسا محروم رکھا ہے کہ اُن پر وہ الہام بھی نہیں ہوتا جو کن چنیوں پر ہوسکتا ہے اگر ایک مفسر قرآن پر خدا اتنا بھی رحم نہیں کرتا جتنا رحم وہ کنچنیوں پر کیا کرتا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اُن سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جس نے انہیں اس نعمت سے محروم کر دیا ہے.ساتواں اعتراض ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ تم جو کہتے ہو ہم نے بڑی ترقی کی اور یہ ترقی ہماری سچائی کا ثبوت ہے یہ بالکل غلط ہے.تمہارے ساتھ ایک بڑی جماعت ہے اور ہمارے ساتھ صرف چند آدمی.چند آدمیوں کا کام کر کے دکھا دینا زیادہ قیمتی ہوتا ہے بہ نسبت ایک جماعت کے کام کرنے کے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ساتھ جماعت ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے شدید مخالفت کے باوجو د ترقی کی ہے اور یہ ترقی ہماری صداقت کا ثبوت ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ مسیلمہ کے ساتھ بھی ایک بڑی جماعت تھی یا اسود عنسی کے ساتھ بھی ایک بڑی جماعت تھی مگر سوال یہ ہے کہ مسیلمہ کی کس نے مخالفت کی یا اسود عنسی کی کس نے مخالفت کی؟ وہ اُٹھے اور بغیر مخالفت کے انہیں لاکھوں لوگ مل گئے.گو تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ خود بھی مٹ گئے اور اُن کی جماعتوں کا بھی نام ونشان نہ رہا لیکن بہر حال اُن کی مخالفت نہیں ہوئی.یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو تو اُن کی شدید مخالفت ہوئی ہو اور پھر وہ دنیا پر غالب آ گئے ہوں لیکن ہماری جماعت وہ ہے جس کی شدید مخالفت ہوئی اپنوں نے بھی کی غیروں نے بھی کی اور جماعت کے بڑے بڑے
انوار العلوم جلد کا ۶۰۸ الموعود لیڈروں نے بھی کی.ایسے حالات میں جبکہ جماعت کی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر الہام نازل کیا اور فرمایا کہ میں تیرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.میں تیری تمام مشکلات کو دور کروں گا اور تجھے غلبہ اور کامیابی عطا کروں گا چنانچہ باوجود اس کے کہ قدم قدم پر مشکلات حائل تھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ہماری جماعت کو ترقی دی اور ایسی ترقی دی کہ وہ جو اپنے آپ کو پچانوے فیصدی کہا کرتے تھے آج اپنے آپ کو پانچ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم قرار دے رہے ہیں اور ہمارے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ اس جماعت کی تعداد زیادہ ہے، اس کی طاقت زیادہ ہے اور اس میں کام کرنے والے آدمی زیادہ ہیں.یہ ترقی یقیناً ہماری صداقت کا ثبوت ہے.کیونکہ یہ وہ ترقی ہے جو مخالف حالات میں ہوئی.دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دے مگر خدا نے ہمیں کامیاب کیا اور ہمیں ہر لحاظ سے غلبہ واقتدار عطا فرمایا اور وہ دشمن جو ہماری تباہی کے منصوبے سوچ رہے تھے خدا تعالیٰ نے اُن کو ناکام و نامراد کیا.یہ چیز ہے جسے ہم اپنی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ چیز ایسی ہے جس کا کوئی دشمن سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا.آٹھواں اعتراض پھر مولوی صاحب نے ایک اور اعتراض یہ کیا ہے کہ تم جو کہتے ہو ہم نے بڑی ترقی کی ، یہ بالکل غلط ہے.ترقی تو ہم نے کی ہے کہ ہماری پہلے سال آمد صرف سات ہزار روپیہ تھی جو اب ترقی کر کے سوا چار لاکھ روپیہ تک جا پہنچی ہے اور تمہاری پہلے سال دولاکھ روپیہ آمد تھی جو اب ترقی کر کے چھ لاکھ تک پہنچی ہے.گویا تم نے صرف تین گنا ترقی کی اور ہم نے ساٹھ گنا کی.چنانچہ مولوی صاحب لکھتے ہیں.آمدنی جو سال اول میں صرف سات ہزار روپے تھی ترقی کر کے سوا چار لاکھ تک پہنچی جو سال اوّل سے ساٹھ گنا ہے اور قا دیانی جماعت اپنے سارے بلند بانگ دعاوی کے ساتھ دولاکھ آمدنی سے ترقی کر کے صرف چھ لاکھ سالانہ آمدنی تک پہنچی.جو ابتدائی حالت سے تگنی ہے.کجا ساٹھ گئی ترقی اور کہاں تگنی.‘۵۱۴ مولوی صاحب کی عادت ہے کہ وہ واقعات کو بگاڑے بغیر نہیں رہ سکتے.اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بڑھیا تھی جسے چوری کی عادت تھی.ایک دفعہ وہ کسی کے
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۰۹ الموعود گھر گئی تو ایک آدمی اُس کے ساتھ ساتھ رہا تا کہ وہ کوئی چیز چرا نہ سکے.جب وہ واپس آنے لگی تو اُس نے دہلیز سے ذراسی مٹی اُٹھالی.کسی نے اُس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا ہے؟ وہ کہنے لگی عادت جو پوری کرنی ہوئی اور کوئی چیز نہیں ملی تو میں نے کہا چلومٹی ہی اُٹھا لیں.یہی بات مولوی صاحب میں پائی جاتی ہے کہ وہ حوالوں میں کتر بیونت یا واقعات کو مسخ کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے.جب بھی کوئی بات پیش کریں گے اُس میں ضرور کوئی نہ کوئی غلط بات شامل کر دیں گے.اول تو ہم کہتے ہیں کہ اگر مولوی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اُن کا پہلے سال کا بجٹ صرف سات ہزار روپیہ کا تھا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ اُن کے ساتھ تھے اُن کے ایمان نہایت کمزور تھے اور وہ دین کے لئے قربانی کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے تھے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب، ڈاکٹر غلام محمد صاحب اور اسی طرح ان کے دوسرے ساتھی بڑی بڑی آمد نہیں رکھتے تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب ہی تین سو روپیہ ماہوار چندہ دیا کرتے تھے.اگر صرف اُن کا چندہ ہی شامل کر لیا جائے تو سال کا ۳۶۰۰ روپیہ بن جاتا ہے.پھر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ، ڈاکٹر بشارت صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب وغیرہ کی آمد میں بھی تین تین چار چار ہزار روپیہ سالانہ سے کم نہیں تھیں.اگر ان میں سے ایک ایک شخص کے سالانہ چندہ کی اوسط ۱۸۰ روپیہ بھی جائے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ۹۰۰ روپیہ سالانہ صرف پانچ ڈاکٹروں کی طرف سے ہی آ جاتا تھا.۶۰۰ ۳ و ہ اور ۹۰۰ روپیہ یہ ساڑھے چار ہزار روپیہ ہو گیا.پھر لائل پور کے شیخ مولا بخش صاحب ہیں.اسی طرح وزیر آباد کے شیخ نیاز احمد صاحب ہیں اِن سب کی آمدنیوں کو ملا لیا جائے تو کئی لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.لائل پور کے تاجر ملک التجار کہلاتے ہیں اور بعض لوگ بتاتے ہیں کہ اُن کو ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ تک آمد ہو جاتی ہے.اگر اس میں کچھ مبالغہ بھی ہو اور اُن کی ہیں لاکھ روپیہ سالانہ آمد سمجھ لو تب بھی سوالاکھ روپیہ تو انہیں صرف ایک خاندان سے مل سکتا تھا.اگر اس قدر دولت رکھنے والے لوگوں کے باوجود ان کا سالانہ چند صرف سات ہزار روپیہ تھا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کمزور طبیعت کے تھے.ایمان اور اخلاص کے ساتھ وہ مولوی صاحب کے ساتھ شامل نہیں ہوئے تھے.
انوار العلوم جلد ۱۷.۶۱۰ الموعود پھر مولوی صاحب کی طرف سے جو کہا جاتا غیر مبائعین کا ۳۸.۱۹۳۷ء کا بجٹ ہے کہ ان کا چندہ ترقی کر کے آپ سوا چار لاکھ روپیہ تک جا پہنچا ہے یہ بھی درست نہیں.میرے پاس اس وقت اُن کی انجمن کا ۳۸.۱۹۳۷ء کا بجٹ ہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انجمن کے کتنے صیغے ہیں اور ہر صیغہ کے آمد وخرچ کی کیا نسبت ہے.اس نقشہ میں ۳۸.۱۹۳۷ ء کا اصل آمد وخرچ ۳۸.۱۹۳۷ء کا تخمینہ بجٹ اور ۳۸.۱۹۳۷ء کا 9 ماہ کا اصل آمد و خرچ اور تین ماہ کا تخمینہ آمد وخرج دکھایا گیا ہے جو یہ ہے.تخمینہ بجٹ آمد صیغہ جات احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور احمدیہ تفصیل اصل آمد ایک سال تخمینه آمد بابت اصل آمد نو ماه از یکم تخمینه آمد ۳ ماه از کم میزان اصل آمد بابت ۳۷.١٩٣٦ء سال نومبر ۱۹۳۷ ء تا آخر اگست ۱۹۳۸ ء تا نوماه معه تخمینه آمد ۳۸.۱۹۳۷ء جولائی ۱۹۳۸ ء آخر اکتوبر ۱۹۳۸ ء | تعین ماه ۴۹۴۶۶-۶-۵ ۱۵۷۹۴-۱۴-۱۰ ۱۰۲۲۹ ۳۹۹۳۷ -۶-۵ ۷۹۱۵۰ ۶۱۲۱۴ - ۱۳۴ ۴۳۰۰ ۱۱۴۹۳-۱۴-۱۰ ۱۷۶۰۰ ۲۱۸۳۸ - ۱۰-۹ ۶۰۳۵ ۱۵۸۰۳-۱۰-۹ ۲۸۲۰۰ ۲۱۶۰۴-۱۲-۹ ۷۸۶۲-۱۱-۹ ۵۱۰۲ ۱۶۵۰۲-۱۲-۹ ۲۰۹۰۰ 12+1 ۶۱۶۱-۱۱-۹ ۱۰۲۱۵ صیغہ اغراض عام صیغه تالیف و تصنیف ۷-۱-۱۵۰۶۳ صیغہ اراضی اسلام آباد ۹-۱-۲۱۵۴۴ صیغہ لا ہورسکول صیغه بدوملہی سکول | ۱۱.۷.۶۶۸۷ صیغه متفرق غیر معمولی میزان ۴۵۴۰۰۰۰ ۴۵۰۰۰ ۴۰۰۰۰ ۷۲۳۶۷ ۹۰۲۹۹-۸-۲ ۲۰۶۰۶۵ ۱۲۴۸۳۵-۹-۴ اس بجٹ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ۳۸.۱۹۳۷ء میں صیغہ اغراض عام میں ۵-۶-۴۹۴۶۶ آئے.کتا ہیں فروخت کرنے سے اُنہیں ۱۵۷۹۴ روپے ۱۴ آنے ۱۰ پائی آمد ہوئی.صیغہ اراضی اسلام آباد میں ۲۱۸۳۸ روپے ۱۰ آنے ۹ پائی آئے.صیغہ لاہور سکول میں ۲۱۶۰۴ یہ صیغہ احتیاطاً فرضی طور پر رکھا جاتا ہے کہ اگر دورانِ سال میں کوئی خاص ضرورت چندہ وغیرہ کی پڑ جائے تو اس صیغہ کے آمد و خرچ سے وہ پوری ہو.
انوار العلوم جلد ۷ ۶۱۱ الموعود روپے ۱۲ آ نے ۹ پائی کی آمد ہوئی.صیغہ بدوملہی سکول میں ۷۸۶۲ رو پے ۱۱ آنے ۹ پائی آئے اور صیغہ متفرق غیر معمولی میں ۵۰۰۰۰ کا تخمینہ بتایا گیا مگر یہ پچاس ہزار روپیہ محض بجٹ کو زیادہ دکھانے کیلئے رکھا جاتا ہے.اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اگر دورانِ سال میں کوئی خاص ضرورت پیش آ جائے تو وہ اس صیغہ سے پوری کی جائے.بہر حال ۳۸.۱۹۳۷ ء میں ۲۰۶۰۶۵ آمد کا تخمینہ بتایا گیا.لیکن اصل آمد جو 9 ماہ میں ہوئی وہ آئندہ تین ماہ کی آمد کے تخمینہ کے ساتھ صرف ۱۶۲۶۶۶ روپے ۸آنے ۶ پائی ہے.اس ایک لاکھ باسٹھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپیہ میں سے اگر پچاس ہزار دست غیب والی آمد نکال دی جائے تو ایک لاکھ بارہ ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپیہ رہ جاتا ہے اور یہ روپیہ وہ ہے جس میں کتب کی آمد بھی شامل ہے ، سکولوں کی آمد بھی شامل ہے ، زمینوں کی آمد بھی شامل ہے اور چندہ عام کا 9 ماه کا۹۰۲۹۹ روپے ۸ آنے ۶ پائی بھی شامل ہے.گویا اصل میں اُن کی آمد صرف ایک لاکھ کے قریب قریب ہے.جسے انہوں نے سوا چار لاکھ روپیہ قرار دیا ہے اور اسے اپنی ساٹھ گنا ترقی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے.مجھے بعض معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اُن کا اغراض عامہ کا بجٹ اِس سال نوے ہزار روپیہ کا ہے اور باقی دوسری مدات کا.جن میں سے کچھ وقتی چندے ہیں اور کچھ فرضی.اس کے مقابلہ میں اُنہوں نے ہمارا بجٹ اول تو صرف چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا بتایا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں.ہمارا بجٹ آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوتا ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی آمد وخرچ کے بجٹ میں ہماری زمینوں کی آمد کا بجٹ شامل نہیں ہوتا.اسی طرح تحریک جدید کا چندہ اس سے علیحدہ ہوتا ہے.اگر تحریک جدید کا چندہ اس میں شامل کیا جائے تو وہ سوا تین لاکھ روپیہ کے قریب ہوتا ہے.آٹھ لاکھ وہ اور سوا تین لاکھ یہ سوا گیارہ لاکھ روپیہ ہو گیا.پھر کالج کا چندہ اس میں شامل نہیں جو ڈیڑھ لاکھ کے قریب اکٹھا ہوا.مساجد کا چندہ اس میں شامل نہیں حالانکہ تھیں ہزار روپیہ کے وعدے تحریک مساجد میں صرف دہلی کی جماعت نے پیش کئے اور ۶۶ ہزار روپیہ کلکتہ والوں نے جمع کیا مسجد مبارک کی توسیع کے لئے جو چندہ ہوا وہ اس سے علیحدہ ہے.اسی طرح تین لاکھ
انوار العلوم جلد ۷ ۶۱۲ الموعود ہماری زمینوں کی آمد کا بجٹ ہوتا ہے.سترہ لاکھ کے قریب یہ بن گیا.پھر انہوں نے اپنے بجٹ میں لا ہور اور بدوملہی کے سکولوں کی آمد بھی شامل کی ہے.لیکن ہمارے مقامی سکولوں کے بجٹ اس میں شامل نہیں ہوتے حالانکہ افریقہ، امریکہ اور دوسری جگہوں کے اخراجات ملاؤ تو دولاکھ یہ بڑھ جائیں گے.غرض اس طرح اگر تمام اخراجات اور ہر قسم کے چندے شامل کئے جائیں تو ہمارے بجٹ کا اندازہ ۲۴، ۲۵ لاکھ تک جا پہنچتا ہے.مگر مولوی صاحب نے حسب عادت دونوں طرف سے دخل اندازی کی ہے.ایک طرف کی ڈنڈی اُنہوں نے اونچی کر دی اور دوسری طرف کی نیچی کر دی.ہمارے ۲۴، ۲۵ لاکھ کے بجٹ کو اُنہوں نے چھ لاکھ کا بجٹ قرار دے دیا اور اپنے ایک لاکھ کے بجٹ کو سو اچار لاکھ کا بجٹ کہہ دیا.دعوی مصلح موعود کے متعلق حلفیہ اعلان اور مخالفین کو مباہلہ کی دعوت خلاصہ یہ کہ مولوی صاحب کے تمام اعتراضات بے حقیقت ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس تازہ انکشاف کے بعد تو وہ اور بھی بے حقیقت ہو جاتے ہیں.میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے اُن پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرما ئیں.جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی موکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اُسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کا ذب ہے اور کون صادق.اور اگر وہ کہتے ہیں کہ خواب تو سچا ہے جیسا کہ مصری صاحب نے کہا تو پھر اس کی حقیقت پر وہ مضمون لکھیں.میں اُن کے اِس مضمون کا جواب دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ اِس
انوار العلوم جلد ۷ ۶۱۳ الموعود مقابلہ میں آئے تو ایسی منہ کی کھائیں گے کہ مدتوں یا درکھیں گے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اُس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اب دشمنانِ اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور اُن پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں.کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں.خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے.بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ ۱۸۸۶ ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اُس کے ہاں 9 سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا ، وہ جلد جلد بڑھے گا ، وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ اسلام اور رسول کریم ﷺ کا نام دنیا میں پھیلائے گا ، وہ علومِ ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا ، وہ جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اُس کی قربت اور اُس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہوگا.یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا.خدا نے یہ خبر دی اور پھر اُسی خدا نے اس خبر کو پورا کیا.اُس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا.میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہہ دیا کہ اسے سل ہو گئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اسے بھجوا دیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جا کر میں اُداس ہو گیا اور اس وجہ سے جلدی ہی واپس آ گیا.غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی ؟ اُس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اُس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۱۴ الموعود کے سامنے مہیا کرے.پھر میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا ؟ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھو ٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فر مایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا اُستاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زورلگالے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مل جائیں ، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے ، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اُس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.اے میرے دوستو ! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں نہ جب تک خدا تعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار.ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا میں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے
انوار العلوم جلد ۱۷ ܬܙܪ الموعود پاؤں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے گھلنے میں میرے گزشتہ یا آئندہ کا موں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہوگا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر چلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی اُن میں سے ایک ایڑی میری بھی ہوگی.اِنشَاءَ اللهُ تَعَالَی.میں اس سچائی کو نہایت گھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے.یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے.یہ سچائی نہیں ٹلے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا.مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اُٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مُرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اُڑتا ہوا دکھائی دے گا.میں اس موقع پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کر دیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی.وہاں میں آپ لوگوں کو اُن ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں.آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق ہیں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمد بیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں.بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا.میں تمہیں اُچھلنے کودنے سے نہیں روکتا.بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اُچھلو اور گو دو.لیکن میں کہتا ہوں اس خوشی اور اُچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو.جس طرح خدا نے مجھے رویا میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جا رہی ہے اسی طرح
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۱۶ الموعود اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا.پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سُرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں مگر اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی شست روی کو ترک کر دیں.مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس شخص پر جوسستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے.اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تا کہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور اِنْشَاءَ اللہ ایسا ہی ہوگا.زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ۱۹۶۱ ء ) البقرة: ٢٠٢ ٣،٢ البقرة: ۲۸۷ ہ آل عمران ۱۹۴ ۵ آل عمران: ۱۹۵ ك البقرة: ١٣٧ آل عمران: ۹ براہین احمدیہ.جلد چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۷۳ طویلے: طویلہ.گھوڑوں کا تھان.اصطبل ا مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۱۴ ۱۲،۱۱ مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۱۱۵ ۱۳ مجموعه اشتہارات جلد ۱ صفحه ۱۱۳ ۱۴، ۱۵ مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحہ ۱۱۷ ۱۶ مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۶۷ کلاه سبز اشتهار صفحه ۴ ، ۵ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۵۱،۴۵
انوار العلوم جلد ۱۷ ۶۱۷ ابن ماجه كتاب الجنائز باب ماجاء في الصلواة على ابن رسول الله الله الخ ۱۹ سبز اشتہار صفحہ ۱۶، ۱۷.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۶۳،۴۶۲ ۲۰ سبز اشتہا ر صفحہ ۱۷.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ ال خلافت محمود مصلح موعود صفحه ۴ ۵ مطبوعه ۱۹۱۴ء مصنفہ میر قاسم علی ۲۲ خلافت محمود مصلح موعودصفحه ۵۵ مطبوعه ۱۹۱۴ء مصنفہ میر قاسم علی ۲۳ سبز اشتہا ر صفحہ ۱۷ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ حاشیہ ۲۴ مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۱۶۲ ۲۵ مشکوة كتاب الفتن باب نزول عیسیٰ ۲۶ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۱۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة ٹرنچز: خندقیں ٢٩ البقرة: ۱۴۴ ۳۰ بیے : بیا.چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ.اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے.ا الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء ۳۲ الفاتحه : ۵ ۳۳ الفضل ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۲۵ء ۳۴ الصف: ۷ ۳۵ احزاب: ۴۱ ۳۶ آل عمران: ۵۶ ۳۷ الوصیت صفحہ ۸ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ حاشیہ ۳۸ الفضل ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء صفحه ۵ ۳۹ لندن ٹائمنز مؤرخہ ۱۸ / جون ۱۹۴۰ء ۴۰ لندن ٹائمنر مؤرخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۰ء ال سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینا نگ، ملکا اور الموعود
انوار العلوم جلد ۷ ۶۱۸ الموعود سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ سے مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) ۲۲ مثال: مشرقی و جنوبی افریقہ کا صوبہ.۱۸۳۷ء میں بوئر نقل مکان کر کے نشال پہنچے اور زولو قبیلے کو ۱۸۳۸ء میں شکست دے کر جمہوریہ نشال کی بناء ڈالی.۱۸۴۲ء میں برطانیہ نے نشال کا الحاق کر لیا.۱۸۵۶ ء میں یہ شاہی نو آبادی بنا اور ۱۸۹۷ ء میں زولینڈ کو شامل کر لیا.۱۹۱۰ء میں یہ جنوبی افریقہ کا صوبہ بنا.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۰۹الا ہور ۱۹۸۸ ء ) ۲۳ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴ ۴۴ تذکرہ صفحہ ۱۶۳.ایڈیشن چہارم ۲۵ حجة الله صفحه ۲۰.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۸ لمصلہ اصلح الموعود صفحہ ۲۱.ایڈیشن اوّل تذکرہ صفحه ۵۳۲.ایڈیشن چہارم الوصیت صفحہ ۸ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ حاشیہ ٤٩ الوصیت صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵ ۵۰ الوصیت صفحه ۴، ۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ ۵۱ پیغام صلح ۲۶ / جولائی ۱۹۴۴ صفحه ۲
7 ۲۷ ۲۹ ۳۲ ۴۰ ۴۵ 1 انڈیکس مضامین آیات قرآنیہ ۲.احادیث ۴.اسماء مقامات کتابیات
مضامین مومن کا دل خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ابتلاؤں احمدیت / جماعت احمدیہ ۱۶۴،۱۵۶،۱۵۵،۱۴۹ ،۲۷ آ.آخرت اگلے جہان سے کوئی انسان میں کچی راحت پاتا ہے اجتہاد اس دنیا میں آ نہیں سکتا ۲۷ آریہ سماج ۵۲۴،۵۲۳،۵۲۰ آمدثانی ۱۸۴ ۵۳۹ ۱۷۲ تا ۲۲۱،۱۹۹،۱۷۵، ۲۳۴ تا ۲۴۰ ۱،۲۵۹ ۲۸۱،۲۷، ۲۸۸ تا ۲۹۴،۲۹۴ ۳۲۰،۳۰۴،۳۰۳، ۳۲۷ تا ۳۳۵ ۶۳۵،۶۳۳،۵۴۴،۵۴۱ | ۳۷۶، ۴۰۵، ۴۱۴، ۴۶۶، ۴۸۸ تا ۴۹۱ احرار ر احراری ۲۱۸،۲۱۶ ۶۱۰،۵۹۳،۵۹۲۰ تا ۶۱۵ ۶۴۸،۶۴۶،۶۳۶،۶۲۵ ۶۲۲،۵۸۴،۲۱۹ تا ۶۲۵ ۶۲۹ اس سلسلہ کی تائید کیلئے مسیح ناصری نے اس امر ۱۹۳۴ء میں احرار نے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اعلان کر دیا کہ انہوں کہ جب میں دوبارہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور یہ سلسلہ آؤں گا تو کچھ قو میں جو ہوشیار ہونگی وہ مجھے مان لیں گی 17.آیت استخلاف سورہ نور میں مسلمانوں کے سے متاثر ہو کر ہمارے خلاف ساتھ خلافت کا مشروط ہتھیار اٹھالئے نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اُس وقت گورنمنٹ انگریزی ۳۷ پھیلتا چلا جائے گا سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتراضوں نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی کو برداشت کرتا ہے ۳۸ ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو ۲۸۲ ۱۳۶ ہمارے سلسلہ کی بنیاد پڑی ۲۰۷ وعدہ ہے ۳۶۵ قادیان میں احرار کا جلسہ ۲۱۹ احمدیت کیلئے مال آئیں ابتلاء احرار نے ۱۹۳۴ء میں شورش گے اس بات کا مجھے ڈر بعض لوگ ابتلاء میں آ جاتے شروع کی اور اس قدر مخالفت نہیں البتہ اس بات سے ہیں اس لئے دعائیں کرنی کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری ڈرتا ہوں کہ ان اموال کو چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب جماعت کے خلاف بھڑکا دیا ۵۸۴ سنبھالنے والے دیانت دار کو ثبات قدم عطا فرمائے ۱۸۴ احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ ۵۸۴ ملیں گے؟ احرا ۵۱
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں اخلاص ۱۳۹،۱۳۶ ، ۳۳۲،۲۷۸،۱۴۰ تا ۳۳۵ جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو، جو یہ محسوس اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے زکوۃ اور صدقہ بھی ہے ۴۱۰ تا ۴۱۸، ۰۲،۴۴۸ ۵ تا ۵۰۴ ۶۳۷،۵۸۳،۵۵۸ نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک اگر اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں ۳۰۹ اخلاق در حقیقت صفات الہیہ اصل چیز دل کا اخلاص اور کے اُس ظہور کا نام ہے جو بندے کی طرف سے ہو وہ عمل ہے جو ایمان کے ساتھ بڑھتا ہوا سیلاب ہے جوان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے ۱۴۸ کام کر رہا ہوتا ہے جماعت کا اتحاد ایک ہی ۵۸ | اخلاق درست کرنے کیلئے ۷۲ ۷۲ حضور ﷺ کی ذات نمونہ ہے جولوگ نیک نیتی اور اخلاص طریق سے ہوسکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے سے کام کرتے ہیں اُن کی اخلاق فاضلہ اور علوم کو نیک نیتی اور اُن کا اخلاص زندہ رکھنے کیلئے نئی نئی اُس کے ہاتھ پر بیعت کی ہی عمل کا قائمقام ہے ۶۲ ایجادوں کا ہونا جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اُس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا ۲۲۰ ۱۱۸ نہایت ضروری ہوتا ہے اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں تو نہ سلسلہ پر بار پڑسکتا ہے اخلاق فاضلہ میں سچائی کی نہایت اہمیت ہے اور نہ ان کو کوئی خاص پریشانی خدا نے ہمیں اسلام کی تائید لاحق ہو سکتی ہے کیلئے کھڑا کیا ہے، خدا نے صلى الله ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بلند کرنے کیلئے کھڑا کیا ہے ۲۴۲ ۲۹۸ | اخلاق فاضلہ اور امانت اصل چیز اخلاص ہے جب تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاق کی درستی کیلئے محمد رسول علی اخلاص پیدا نہ ہو جائے تب تک ترقی ممکن نہیں ۳۰۹ کو ہمارے لئے کامل نمونہ دُنیا میں انسان کیلئے سب سے قوموں نے ہماری مخالفت کی، ملکوں نے ہماری مخالفت کی ، قیمتی جو ہر سنجیدگی ہے.حکومتوں نے ہماری مخالفت کی قرآن کریم نے اس کا مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا احمدیہ مشن ۲۴۲ بنایا ہے حضور ﷺ کے اخلاق کے بارہ میں حضرت عائشہ نام اخلاص اور ایمان رکھا ہے ۳۰۹ کی گواہی ۱۱۵ اخلاق فاضلہ ۱۱۲ تا ۱۱۹ حضور ﷺ کے پانچ بنیادی ۲۳۷ ،۲۳۴،۲۲۱ ۱۲۲ ، ۱۳۲،۱۲۷، ۱۳۵ | اخلاق فاضله ۱۱۹ ۱۲۲ ۱۲۲۷۳ ۷۲ ۱۱۲ تا ۱۲۴
جب ہم اللہ کی صفات کی اسلام نے دفاع کا بھی اسلام نے خود کشی سے منع ۲۷ کیا ہے نقل کرتے ہیں تو با اخلاق حکم دیا ہے کہلاتے ہیں ۷۲ ۷۳ اسلام میں محض ایمان کا دعویٰ خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کوئی حقیقت نہیں رکھتا اصل کے لئے کھڑا کیا ہے جماعت کی تربیت اور اصلاح اخلاق کے متعلق چیز اخلاص اور وہ عمل ہے میرے سامنے دین اسلام بہت کم مضامین بیان کئے جوایمان کے ساتھ کام کر کے خلاف جو شخص بھی اپنی جاتے ہیں انصاف بھی اخلاق فاضلہ میں سے ایک بہت بڑا خلق ہے ۱۲۷ اخلاقی امور میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا کیلئے نمونہ ہوتے ہیں ۵۷ ہمیں نو جوانوں کے اخلاق کی نگرانی کرنی چاہئے استخاره حضرت مسیح موعود کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کیلئے غم کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعا کرو اور استخارے کرو اسلام آئندہ یہ فیصلہ کہ دنیا کا مذہب اسلام ہو یا عیسائیت؟ یہ اور کسی جگہ نہیں ہو گا ۴۱۱ رہا ہوتا ہے ۵۸ آواز بلند کرے گا اُس کی آواز ۱۳۵ اگر قرآن اور اسلام پر کوئی اسلام تو ہر مسلمان کو آرٹسٹ کو دبا دیا جائے گا بناتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے اس بات اعتراض کرے تو میں خدا کے کی طرف توجہ دلائی کہ آب فضل سے اُس کا ناطقہ بند اسلام کے غلبہ کا وقت آ پہنچا ہے ۷۹ کر سکتا ہوں اسلام خدا کا نور ہے اور اُس اگر تم پچاس فی صدی عورتوں کی کی برکتیں انہی لوگوں کومل اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی سکتی ہیں جو اُس کے احکام پر عمل کریں اگر ہمارا کام اسلام کو قائم ۲۵۰ کرنا ہے تو اسی صورت میں قائم کرنا ہے جس میں محمد اللہ نے قائم کیا خدا نے خبر دی کہ وہ میرے ۲۳۳ ۴۳۲ خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کیلئے کھڑا کیا ہے،خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بلند کرنے کیلئے کھڑا کیا ہے ۴۴۲ ۲۴۲ ۲۴۳ ۳۱۲ ۲۴۲ اسلام کی آئندہ فتح تلوار سے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کرے گا ۲۴۰ نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوگی صرف قادیان میں ہوگا ۱۶۸ اسلام کا مسلمہ اصل ہے کہ اسلام نے بھی اپنے مذہب اسلام دنیا میں جیتے گا اور دعائیں مرنے والے کو کا ایک خلاصہ ان الفاظ میں ضرور جیت کر رہے گا ۲۸۲ ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں 191 پیش کیا ہے کہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ ۲۳۷
مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ۴۰۱ اس پر ضرور اعتراض ہوتے کوئی کتنا بھی ماہر کیوں نہ ہو وہ اسلام کے خلاف سب سے ہیں اُن پر بُرا نہیں منانا چاہئے اپنے علم کے رو سے قرآن کریم زیادہ کثیر الاشاعت کتاب سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی پر کوئی اعتراض کرے میں خاطر اعتراضوں کو برداشت خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے سر میور کی ہی لکھی ہوئی ہے ۳۴۵ اشاعت اسلام ۱،۲۴۳ ۲۷۲،۲۷ اسلامی تعلیم اسلامی علوم کرتا ہے ۲۷۹، ۶۴۳،۳۳۷ جو کام انسان خدا کی خاطر کرتا ۵۵۹،۴۰۵ مسکت جواب دوں گا حضور کی ستیارتھ پرکاش کے ۲۶۷ ہے اُس پر جو اعتراض کئے چودھویں باب کے اعتراضات کے جواب لکھنے کی خواہش جائیں وہ انسان کو بخوشی سورۃ فاتحہ سے ہی میں تمام برداشت کرنے چاہئیں.اعمال اسلامی علوم بیان کر سکتا ہوں ۲۲۵ اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے جب اعمال میں اصلاح ہو والا اعتراضوں پر خوش ہوتا جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے اصلاح بنی نوع انسان کی اصلاح کی ۴۹۳ انسان کو قبول فرما لیتا ہے ہے نہ کہ ناراض پس اعتراض آپ کا عمل وہی کچھ تھا جس کا کوشش کرو.اُن کی حالت کو ایک کان سے سننے چاہئیں اور سدھارنے کے لئے اپنے دوسرے سے نکال دینے چاہئیں او پرمشقتیں برداشت کرو ۲۰ خدا کی خاطر اعتراضات کو اگلے جہان سے کوئی انسان برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی اس دنیا میں آنہیں سکتا ۲۷ کی روح ہے اطاعت ۵۰۱،۴۴۶،۳۳۲ مؤمن پر دین کی وجہ سے جو ماں کی اطاعت اور فرمانبرداری اعتراض کیا جاتا ہے وہ اُس کی نجات کا موجب ہوتا ہے میں جنت ملتی ہے ۴۴۶ اطفال الاحمدیہ ۴۱۹،۴۰۶، ۴۲۵ قیام کی غرض ۴۲۵ ۱۲ ۱۳ ۱۳ ۵۹ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے ۷۲ حضرت محمد م کے اعمال آپ کے ایمان کی وجہ سے تھے ۱۰۲ اپنی زندگی میں وہ اعمال بجالاؤ جن کا نمونہ محمد علی نے تمہارے سامنے رکھا ہے افضلیت معاندین کا اعتراض کرنا کہ اگر ہمارے آنحضرت عیہ کا درجہ حضرت مسیح سے افضل ہے اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے ۲۲۳ امت محمدیہ ۵۵۵،۲۷۵،۱۸ اعتراض / اعتراضات اسلام کی تعلیم پر کوئی حقیقی اگر امت محمدیہ میں سب نیک خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے اعتراض نہیں ہوسکتا ۲۲۵ لوگ ہی پیدا ہوتے تو پھر Y
نبی کی کوئی ضرورت نہ تھی ۱۸ خدا تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور ندامت انسان کے اندر اگر امت محمدیہ نے بگڑ جانا تھا اُس پر موت کبھی وارد نہیں احساس بیداری پیدا کرتی اور تو اُن کیلئے خدا تعالیٰ کے ماً مور ہو سکتی کی یقیناً ضرورت تھی ۱۸ ۴۶۴ نیکی کا موجب بنتی ہے بنتی حضرت خلیفہ مسیح الاول کے انسانی حقوق امت محمدیہ میں صرف وہی شخص ایک اُستاد کا رویا میں خدا تعالیٰ انسانی فطرت نبی بن سکتا ہے جو ظل محمد کو کوڑھی کی شکل میں دیکھنا ۴۶۴ اللہ نے انسانی فطرت کو ایسا ہو خالی موسیٰ کا ظل بننے یا پہلے سائنس خدا تعالیٰ کے بنایا ہے کہ ہر شخص کو اپنے خالی عیسی کا ظل بننے سے کوئی وجود کورڈ کرتی تھی مگر اب قریب کی چیزوں کا زیادہ شخص نبی نہیں بن سکتا ۵۵ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ أمَّةً وَسَطًا احساس ہوتا ہے اس سارے نظام کا ایک مرکز انصار الله ہے اور وہی مرکز خدا ہے قرآن شریف نے اُمت محمدیہ كوامةً وَسَطاً قرار دیا ہے ۵۵۵ امانت | اللہ تعالیٰ رہستی باری تعالیٰ اخلاق فاضلها در خلق امانت ۱۵ تا ۱۰۴،۳۳،۲۶،۲۰ تا ۱۲۱،۱۰۷ | انصاف ۱۲۴ ۱۳۴۱۳۰ ،۱۷۳ تا ۷۵ ۱۸۰ تا انصاف بھی اخلاق فاضلہ میں ۱۹۱ ۲۰۶۳۲۰۰، ۲۲۱۷۲۱۵ ۲۲۵ سے ایک بہت بڑا خلق ہے ۲۳۱ تا ۲۳۷، ۲۴۰، ۲۵۸ تا ۲۶۴ | انگریز ۳۱۰،۳۰۳،۳۰۱،۲۷۴ ،۲۷۲،۲۶۷ ۳۱۸ تا ۳۳۲،۳۲۹،۲۲۳، ۳۳۵ ۳۳۶، ۳۵۷ تا ۴۱۹،۴۱۶،۳۶۵ ۲۴ ۴ تا ۴۳۰،۴۲۶، ۴۴۰ تا ۴۴۸ انگریزوں کی فتح کے بارہ میں ایک رویا انسان بنی نوع انسان کی اصلاح کی ۴۵۴ تا ۱،۴۶۷ ۴۷ ، ۵۴۰،۴۸۵ کوشش کرو.اُن کی حالت ۵۵۹،۵۵۴،۵۴۹،۵۴۲ تا ۵۶۶ ۵۷۵ تا ۵۹۱،۵۸۸،۵۸۴ تا ۶ ۶۰ کو سدھارنے کے لئے اپنے ۶۳۱،۶۱۰ تا ۶۴۱،۶۳۹تا۶۴۹ او پرمشتیں برداشت کرو ۳۲۱ ۱۲۲ ۱۲۷ ۲۷ تا ۳۰ ۸۲ ۶۷ ۲۴۷ انصار اللہ کی ذمہ داریاں ۴۲۳ تا ۴۲۶ تین بنیادی مقاصد ۴۲۳ تنظیم نو کی اہمیت ۴۲۴ ایمان ۱۴ ،۱۰۰ تا ۱۰۴ ۱۵۸،۱۵۲،۱۲۳،۱۱۱ تا ۱۹۲۰۱۶۰ ۱۸۸،۷۵، ۱۷۰،۱۶۹،۱۶۳ ۲۴۰،۲۳۲،۲۱۲،۲۰۲،۱۹۸ ،۱۹۲ ۲۷۶،۲۶۶،۲۶۳،۲۶۱،۲۵۵ ۳۰۹،۲۹۳،۲۸۲،۲۷۹،۲۷۷ ۳۴۵ ،۳۴۲،۳۲۴،۳۱۲،۳۱۰ ۳۷۶،۳۶۳،۳۵۹،۳۵۰،۳۴۸ ۴۵۴،۴۳۲،۴۲۵،۳۹۲،۳۸۵ ۵۲۷ ، ۴۹۰،۴۷۳ ،۴۶۹،۴۵۸ ۵۵۶،۵۵۱،۵۵۰،۵۴۴،۵۲۹ ۶۳۲،۵۸۰،۵۷۹،۵۵۹،۵۵۷ ۶۴۲،۶۳۶
اہم چیز تعلق باللہ ہے جس کی خواہ مخواہ اتنا خرچ کرنا پڑتا بلکہ برکت اُن ذمہ واریوں کو ادا بنیاد ایمان کامل پر ہوتی ہے ۸۳ ہے اِسے موقوف کر دیا جائے ۲۳ کرنے سے حاصل ہوتی ہے ایمان تو ایسی چیز ہے کہ اس بت پرستی راہ میں قدم مارنے والوں کو جان ہتھیلی پر لے کر چلنا پڑتا ہے اسلام میں محض ایمان کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا اصل چیز اخلاص اور وہ عمل ہے جو ۴۶۹ ۲۷۲۱۰۶ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۵۵۶،۲۷۶ عائد کی گئی ہیں بجٹ بجلی ۶۴۲ تا ۶۴۵ بر ہمو سماج بھکشو حضرت مسیح موعود ۱۸۱ ۵۲۰ ۲۹۶ ،۲۹۵ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ لدھیانہ میں ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء میں قادیان میں بجلی گر نے کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ایمان کے ساتھ کام کر رہا کا واقعہ ہوتا ہے آدم سے لیکر اب تک ہمیشہ ۵۸ ۹۶ نے بیعت لی تھی بدھ مت ۲۹۵ تا ۲۹۷ پہلے دن لدھیانہ میں چالیس بدھوں میں دستور ہے کہ جب آدمی حضرت اقدس کی ۲۵۹،۲۵۵ ایسے وجود آتے رہے ہیں وہ کسی کو بھکشو بناتے ہیں تو اُس بیعت میں شامل ہوئے ۲۷۹،۲۶۲ کا سر منڈوا دیتے ہیں جیسے سفر جہلم میں سینکڑوں لوگوں جنہوں نے اپنے تجر بہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے عیسائی بپتسمہ دیتے ہیں.وہ نے حضرت مسیح موعود کی یہ حقیقت پیش کی کہ اس دنیا بھکشو بنانے کیلئے سرمنڈوانا بیعت کی تھی کا ایک خدا ہے ۳۲۵ ضروری سمجھتے ہیں خشیت اللہ بھی ایمان کیلئے بركات ایک لازمی چیز ہے.اس کے ۲۹۲ بیعت خلافت جس شخص کے ہاتھ پر آپ بغیر انسان کا ایمان کبھی کامل اسلام خدا کا نور ہے اور اُس لوگوں نے بیعت کی ہے اُس کی برکتیں انہی لوگوں کومل کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ نہیں ہوسکتا بادشاہ سکتی ہیں جو اُس کے احکام پر وہ خدا کی بادشاہت کو دنیا عمل کریں ۲۳۳ میں قائم کرے محض قادیان میں آجانے سے جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق ایک بادشاہ کا قصہ کہ فوج پر انسان کو برکت حاصل نہیں ہوتی سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے ٣٠٣ ۱۶۹
خلیفہ بنایا ہے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اُس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا آپ کا فرمانا کہ میری خلافت ۲۲۰ ۲۳۸ تا ۲۴۹،۲۴۰، ۲۵۶ تا ۲۶۰ پیشگوئی مصلح موعود ۵۲۷، ۵۲۸ ،۲۶۸،۲۶۷ ،۲۶۴۲۶۲ ۲۷۲ تا ۲۷۶، ۲۷۸ تا ۲۸۱، ۴۶۸ پیشگوئی مصلح موعود کا اعلان پیشگوئی مصلح موعود کی ۵۲۷ تا ۵۴۹،۵۴۵ تا ۵۵۱ ۵۵۳ تا ۵۶۱،۵۵۹،۵۵۸۰۵۵۶ غرض و غایت پیشگوئی مصلح موعود کی ۵۹۱،۵۷۹،۵۷۸،۵۶۵،۵۶۲ ۴۳۱ ۵۲۹تا۵۳۰ کے وقت مسجد نور میں جماعت کے لوگوں نے میری بیعت کی ۵۸۲ بیعت رضوان پادری ۳۴۸ ۶۱۲،۶۰۹،۵۹۳ تا ۶۱۵، ۶۱۷ | میعاد ۵۴۰،۵۳۹،۵۳۳ ۶۲۶، ۶۳۲۶۲۸ تا ۶۳۵، ۶۳۷ پیشگوئی مصلح موعود پر ہونے ۶۴۵،۶۳۹ تا ۶۴۸ | والے اعتراضات کے آج سے سو سال بعد دنیا کا جوابات ۵۳۳تا۵۳۹ جو بہت بڑا بادشاہ ہوگا وہ کہے پیشگوئی مصلح موعود کی سات گا آج بادشاہ ہونے کی بجائے اہم اغراض ۵۴۲ تا ۵۴۴ ایک پادری کا حضرت مسیح موعود اگر میں حضرت مسیح موعود کی سے عربی یا انگریزی زبان کے ڈیوڑھی کا دربان ہوتا یا مختصر ہونے پر بحث کرنا ۱۸ آپ کی بستی میں تنور کی پنج ہزاری مجاہدین پوپ ام دُکان کرتا تو بہت اچھا ہوتا ۵۱ پیغامی ( غیر مبائعین ) ۳۴ ۵۸۲،۵۸۰۵۶۱۵۵۱ ۶۴۳،۶۰۹،۵۸۵ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر پیغامی چندہ کی حقیقت ۶۴۲،۴۲،۴۱ خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں عیسائی پوپ کوخلیفہ کی طرح سکتیں سمجھتے ہیں ۶۴۹ تبلیغ ۱۷۲،۱۵۸ تا ۱۷۴ ۳۶۵ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.۲۱۹، ۲۳۳ تا ۲۴۲،۲۴۱،۲۳۷ عیسائیوں میں پوپ کی شکل اگر لوگوں کے دل سخت ہوں ۲۷۸ ،۲۷۶،۲۷ ۱،۲۶۱،۲۵۸ میں آج تک خلافت قائم ہے ۳۶۵ گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ ۲۸۱،۲۸۰ ، ۲۸۷ تا ۲۹۵، ۲۹۷ تا ۳۰۶ پیر پرستی پیشگوئیاں ۵۹۰ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور اُن ۱۴۸ تا ۱۵۲ ۴۱۰،۳۵۰،۳۴۶،۳۴۵ ،۳۳۷ ۴۸۵ ،۴۸۴ ،۴۸۰،۴۶۶ ،۴۳۲ کے لئے احمدیت میں داخل ۱۵۵ تا ۱۹۵،۱۷۳،۷۲،۱۹۹،۱۶۴ ۴۸۷ تا ۴۹۱،۴۹۰،۴۸۹ ۴۹۴ تا ۵۴۰،۵۱۹،۵۰۰،۴۹۸ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۰۵ تا ۲۲۲۲۲۱،۲۰۷ ۲۲۶ تا ۲۳۴،۲۳۲،۲۲۸، ۲۳۶ رہے گا ۱۷۵ ۵۹۲،۵۹۱،۵۵۹،۵۵۷،۵۵۶ ۶۰۹،۵۹۳ تا ۶۱۵،۶۱۳،۶۱۱
ہم مغرب کے کناروں سے جوں جوں میں نوٹ لکھتا جاتا اغراض و مقاصد ۳۱۷ تا ۳۳۷ افتتاحی تقریب سے خطاب ۳۹ نا جائز نہ ہوگا مشرق کے انتہائی کناروں تک خدا تعالیٰ وہ طریق اور وہ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ۷۴ ذرائع سمجھاتا جاتا جن سے اس میں کسی غیر مسلم کا داخلہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تبلیغ کریں احمدیت مضبوط ہو سکتی تھی اور اسلام کی تعلیم لوگوں تک میں امید کرتا ہوں کہ جنہوں قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے پہنچا ئیں ۷۴ نے ابھی تک چندہ تحریک جدید کہ مذہب پر جو اعتراضات اسلام کی آئندہ فتح تلوار سے نہیں لکھایا وہ اب کے بڑھ چڑھ مختلف علوم کے ذریعہ کئے نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوگی ۲۳۷ کر قربانی کریں گے ۴۳ جاتے ہیں اُن کا انہی علوم ترجمۃ القرآن ہما را عمل اور نمونہ ہماری تبلیغ کے ذریعہ رد کیا جائے سے زیادہ اثر رکھتا ہے ترک عمل ۴۷ انگریزی ترجمہ کی اشاعت کا پروگرام ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی ۳۶،۳۵ چاہئیں جن کی غرض یہ ہو کہ ۳۱۷ ۳۱۷ ۳۱۸ ۳۲۱ ۳۳۲ ۳۸۰ بعض لوگ اپنی جہالت کی وجہ دیگر زبانوں میں تراجم کی اسلام اور احمدیت پر سے ترک عمل کا نام ایمان اور تو کل رکھ لیتے ہیں 1+1 تجویز و تحریک تعلق بالله تحریکات اہم چیز تعلق پاللہ ہے جس کی خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے بنیاد ایمان کامل پر ہوتی ہے ۴۷ ،۴۶ ۸۳ اعتراضات کا جواب دیں ہمارا مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے تعلیم نسواں اس پر ضر ور اعتراض ہوتے ہیں ان پر بُر انہیں منانا چاہئے ۱۳ تحریک جدید ۳۳۰،۲۹۳،۲۴۲ ۸۴۴ ،۵۲۰،۴۸۴ ، ۲۴۸۲،۴۷۸ ، ۴۱۲ تفسیر القرآن جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ تفسير سورة الكوثر ۱۴ تا ۲۰ اللہ تعالیٰ کی گود میں داخل ہو رویا میں ایک فرشتے کا جاؤں اور اُس کے دامن کو پکڑ حضرت مصلح موعود کو لوں، ایسا انسان کبھی بھی خواہ قرآن کریم کی تفسیر سکھانا تحریک جدید کا پس منظر ۳۷ تا ۴۰ وہ کتنے ہی گناہوں میں ملوث جب میں نے تحریک جدید ہو گناہوں کی موت نہیں مرتا تقوى ۲۲۵ کے متعلق ارادہ کیا تو میں خود تعلیم الاسلام کالج خدا پر تقدم تقویٰ کے خلاف ہے ۱۵۶ اللہ تعالیٰ اپنے ماً موروں کو نہ جانتا تھا کہ کیا لکھوں گا مگر کالج کے قیام کے
مبعوث فرماتا ہے تا کہ وہ خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں لوگوں کے دلوں کو صاف کریں.اُن کو خدا تعالیٰ کی کاٹ کر رکھ دیتی ہیں طرف واپس لائیں، نیکی اور توحید تقومی دنیا میں قائم کریں ۱۹۹ رسول کریم نے جب اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں اللہ تعالیٰ کی توحید کے متعلق ۲۴۱ ٹریکٹ ٹریکٹوں کے ذریعہ تبلیغ ۴۰،۳۹ تبلیغ کیلئے ٹریکٹوں وغیرہ کی اشاعت بھی ضروری ہوتی ہے ۲۸۹ حضور کا ایک ٹریکٹ میں کون ہے جو خدا کے کام روک سکے تو نہ سلسلہ پر بار پڑسکتا ہے لوگوں کو وعظ کرنا شروع اور نہ ان کو کوئی خاص پریشانی لاحق ہوسکتی ہے ۲۹۸ بہت ہی نا گوار گزری ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت مصلح موعود کا خواب میں کیا تو مکہ والوں کو یہ بات کا الہام شائع کرانا ۱۰۵ ج ۵۸۶ لوگوں کو تو حید کی دعوت دینا ۱۳۹ جامعه احمدیه ( قادیان) ۶۱۲،۲۹۹ وہ اخلاص اور تقویٰ اور حضور کا فرمانا کہ مغربی ممالک جبرئیل جہاں توحید کا نام مٹ چکا ۳۳۲ جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا ہے وہاں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ تو حید کو بلند کرے گا گر یہی ہے کہ صادقوں کی حضور کا بچپن سے ہی تو حید الہی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقوی کا وہی رنگ تمہارے نیک کا قائل ہونا توکل بعض لوگ تو اپنی جہالت کی ہمسایہ کے اثر کے ماتحت وجہ سے ترک عمل کا نام ایمان پیدا ہو جائے تلوار ۴۲۴ اور تو تکل رکھ لیتے ہیں تدبیر اور تو گل ۲۳۹ ۱۰۱ تا ۱۰۳ 1+1 ۱۰۳ ۷۵ ۲۵ ، ۱۲،۱۱ ۴۵۴،۴۳۷ ، ۴۲۹،۴۲۷ ،۲۴۸ ۵۱۵،۴۹۰،۴۶۶ ،۴۶۳،۴۵۵ ۶۱۲،۵۷۸ ،۵۲۰،۵۱۹ برکات جلسہ سالانہ جنگ اُحد حضرت ابوطلحہ کا جنگ اُحد میں حضور کے منہ کے سامنے اپنا ہاتھ رکھنا اور ہاتھ مکمل ہو جانا رسول کریم ﷺ کا اس جنگ میں کچھ آدمی ایک درہ پر مقرر فرمانا ۶،۵ ۳۴۳ ۱۳ اسلام کی آئندہ فتح تلوار سے غار ثور کے موقع پر حضور را ۱۰۸ نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوگی ۱۳۷ کا عظیم توکل علی الله ۱۰۲ جنگ اُحد کے حالات ۱۰۸ تا ۱۱۰
۱۲ جنگ بدر بڑی بڑی مالدار قومیں بھی خدمت میں ابو جہل سے قرض بدر کے موقع پر آپ ﷺ کا فرمانا مذہب کی خاطر اتنا چندہ دلانے کیلئے حاضر ہونا اور کہ یا تو سب کی رسیاں ڈھیلی جمع نہ کر سکتیں ۴۵۶ آپ کا اس معاہدہ کے تحت اس کی مددفرمانا تعلیم الاسلام کالج کیلئے کر دو اور یا پھر عباس کی بھی سخت کر دو ۱۲۸ چندہ کی تحریک ۴۷۹ آپ ﷺ کا فرمانا کہ اگر بدر کے موقع پر آپ ﷺ کا فرمانا ترجمۃ القرآن کیلئے چندہ کی جاہلیت کی کسی ایسی ہی چیز کہ یا تو سب کا فدیہ معاف کر دو یا پھر حضرت عباس سے تحریک ۴۹۲ 乙 کی طرف جس طرح کہ حلف الفضول تھی مجھے بلایا جائے تو میں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں بھی وصول کیا جائے جھوٹ ۱۲۸ حج اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے شامل ہوں جھوٹ کے متعلق اُمت کو انتباہ ۱۲۱ زکوۃ اور صدقہ بھی ہے اگر ۵۰۸ ۵۰۹ چ چنده طوعی چنده اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں ٣٠٩ اخلاق فاضلہ اور خلق حلم ۱۲۲ حلف الفضول ۵۰۷تا۵۰۹ خ ۳۹ حلف الفضول ایک معاہدہ چندہ تحریک جدید کی حکمت ۴۰ تھا جو رسول کریم علی چندہ تحریک جدید دینے خدام الاحمدیہ ۲۸۰، ۴۰۴،۳۹۹،۳۹۷ تا ۴۱۹ کے زمانہ میں بعض لوگوں ۴۵۱،۴۲۵ والے مجاہدین نے آپس میں کیا تھا.اس ۴۲ میں زیادہ جوش کے ساتھ خدام الاحمدیہ کی چندہ وصیت تحریک جدید کا چندہ آئندہ حصہ لینے والے تین ایسے ذمہ داریاں ۴۰۰،۳۹۹ انہیں اسلام کی مکمل واقفیت ہو ۴۰۵ سالوں میں جاری رکھیں ۲۹۳ آدمی تھے جن کے نام فضل انہیں اسلام کو پیش کرنے کا ہماری جماعت کی عورتیں تھے اور اسی وجہ سے اسے صحیح طریقہ معلوم ہو ۴۰۵ مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع حلف الفضول کہتے ہیں ۵۰۷ احمدی نوجوان کا فرض ہے کہ کر دیتیں کہ یورپ کی ایک شخص کا حضور پینے کی قرآن مجید کا ترجمہ جانتا ہو ۴۰۵، ۴۰۷
دینی علوم سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے حدیث کا علم ضروری ہے کتب حضرت مسیح موعود سے واقفیت ضروری ہے اخلاق کی حفاظت خدام الاحمدیہ میں نگرانی کر کے قوت عملیہ پیدا کی جائے ہر مجلس اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں اپنے پاس ریکارڈ رکھے لڑائی جھگڑے سے اجتناب کریں اگر خدام الاحمدیہ اسلام ۴۰۸ ۴۰۹ ۱۳ خلفاء ۱۳ ، ۱۲۱ سے وابستہ رہو ۱۴۸ ، ۱۵۰ تا ۱۵۴ ،۱۵۹ ، ۱۶۷ | سورہ نور میں مسلمانوں کے ۲۱۳،۱۹۸ تا ۲۱۶، ۲۲۰،۲۱۹، ۲۴۹ ساتھ خلافت کا مشروط ۲۶۳،۲۶۰،۲۵۹تا۲۷۸،۲۶۶ وعدہ ہے ۳۵۸،۳۶۵،۳۰۴،۳۰۱،۲۷۹ ۴۰۹ ۵۷۱،۵۶۹،۵۶۸،۵۵۹ ۴۱۰ ۵۹۶،۵۹۵،۵۹۰،۵۸۲،۵۸۰ مسلمانوں نے خلافت کی ناقدری کی ۴۱۲ خلافت ۶۱۰ ،۶۳۶، ۶۳۹ | خلافت احمدیہ ۱۵۵،۱۵۲ ۳۵۷ ۳۶۵ ۳۶۶،۳۶۵ ۳۶۶،۳۶۴ خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ ۱۹۷ ، ۲۱۴، ۲۲۰،۲۱۹،۲۱۵ سے وابستہ رہو ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۶۴ تا ۲۶۷ | حضور کا فرمانا کہ میں نے اپنی ۳۶۵،۳۵۷ ،۳۵۵ ،۲۷۱ ۴۱۶ ۶۱۱،۶۰۹،۵۸۲،۵۸۰،۳۶۶ ۶۵۰،۶۳۹،۶۳۸ ،۶۲۷ ،۶۱۲ ۴۱۸ اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ تمہارے خلافت کے ابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمد یہ مشن قائم کئے حضور کا فرمانا کہ جب میں ۳۵۷ ۱۵۵ کے مفہوم اور اس کی تعلیم خلیفہ ہوا اُس وقت ہمارے اندر خلافت قائم کی جائے کو اچھی طرح سمجھ لیں تو ان گی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں خزانہ میں صرف چودہ آنے کے اندر خلافت قائم بھی کی کے پیسے تھے اور ۱۸ ہزار کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ سکتی ۴۰۵ | لیکن مسلمانوں نے خلافت کا قرض تھا نوجوانوں کی ذمہ داریاں ۴۴ ۴۵ کو اپنی نادانی سے اُڑا دیا ۳۶۵ جماعت کا کام ہے کہ وہ ۶۰۹،۲۱۹ مسلمانوں نے چونکہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کی غفلت اور کوتا ہی کا خشیت الہی کی قائم کردہ خلافت کی خشیت اللہ بھی ایمان کیلئے ازالہ کرے اور خلافت احمدیہ ناقدری کی اس لئے وہ کو ایسی مضبوطی سے قائم رکھے ایک لازمی چیز ہے.اس خلافت کی برکات سے کہ قیامت تک کوئی دشمن اس کے بغیر انسان کا ایمان کبھی محروم ہو گئے ۳۶۶،۳۶۵ میں رخنہ اندازی کرنے کی کامل نہیں ہوسکتا 11 | خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ جرات نہ کر سکے ۳۶۶،۳۶۵
۶۴۰ ۴۴۲ ۱۹۱ ۱۹۱ ۱۴ ۲۷۱ ہے بعض فاسق اور فاجر بھی جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق اپنی زندگیاں اشاعت اسلام حضرت مسیح موعود نے تو لکھا سے ہوسکتا ہے کہ جسے خدا نے کیلئے وقف کیں خلیفہ بنایا ہے اُس کے ہاتھ حضرت خلیفہ اول مجھے فرمایا ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اُن پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک کرتے تھے کہ میاں ! تمہاری کو کبھی کبھی سچی خوا نہیں آ جاتی شخص جو اُس کے خلاف چلے صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ ہیں بلکہ کنچنیاں بھی ۲۲۰ سکو.میرے پاس آ جایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے گا تفرقہ کا باعث ہوگا حضور کا فرمانا کہ کئی ایسے رہا کرو ممالک ہیں جہاں میرے ۵۶۹ بعض دفعہ سچی خوا ہیں دیکھ لیتی ہیں خودکشی خلیفہ امسیح الاوّل حضرت زمانہ خلافت میں خود بخود ۲۳۷ اسلام نے خودکشی سے منع آپ کا فرمانا کہ میں اللہ تعالیٰ کیا ہے حمدیت کا نام پہنچ گیا کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں کسی کی خلیفہ اسیح الثانی حضرت طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کر سکے ۲۶۵ درود شریف جیسے حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے تھے اُنہی معنوں میں خواب اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا حضرت مسیح موعود کی ۶۳۹ جب ہم رسول کریم ما رسول کریم ﷺ نے خواب یا حضرت مسیح موعود پر درود زندگی میں ہی جبکہ خلافت دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے اور سلام بھیجیں گے تو خدا تعالیٰ ہماری طرف سے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ کا کوئی سوال بھی نہیں لایا گیا ہے اور پھر آپ کو اس دعا کے نتیجہ میں انہیں تھا مجھے الہام ہوا بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کوئی تحفہ پیش کر دے گا إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ.۵۸۰ کے لئے ہے ۲۵۷ دعا میں نے خلافت کے پہلے حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ اسلام کا مسلمہ اصل ہے کہ سال ہی انگلستان میں مشن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص دعائیں مرنے والے کو قائم کر دیا اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں خو دلوگوں کے قلوب میں خواہیں اور الہام مجھے ہوئے جب ہم رسول کریم الله الہام کیا اور انہوں نے ہیں جو علوم غیب پر مشتمل ہیں ۵۷۹ یا حضرت مسیح موعود کیلئے دعا
۱۵ کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے گلی طور پر اللہ کی محبت کے طرف سے اس دعا کے نتیجہ مگر قرآن کریم نے ہمیں کچھ ساتھ وابستہ ہے اور دعا ئیں بھی سکھائی ہیں ۱۹۷ روزه رمضان المبارک میں انہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا ۱۹۱ دہر یہ شاعر روزہ حقیقی روزہ نہیں کہلا سکتا اگر دعا کے وقت اس امر کو ایک عرب دہریہ شاعر کا اخلاص نہ ہو ۳۰۹ مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری قرآن مجید کی مثل لکھنے کا واقعہ کا ریزرو فنڈ دعا کا کوئی پہلوا ایسانہ ہو جو مشر کا نہ ہو ۱۹۲ دہریت ریز رو فنڈ کی تحریک کمیونزم کے خطرہ کا مقابلہ دنیا کی کسی قوم نے اس قدر حضرت مسیح موعود کی سنت تھی کرنے کیلئے اسی فتنہ کے ساتھ ریز رو فنڈ جمع نہیں کیا مگر یہ کہ جب کبھی سلسلہ کیلئے غم جنگ لڑنی پڑے گی کیونکہ اس تو خدا تعالیٰ جمع کرنے والا ہے کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں کی بنیاد دہریت پر ہے ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور یہ فتنہ ہر جگہ پھیل رہا ہے ۴۹۸ | فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ استخارے کرو ۲۵۰ ہمارا مقابلہ عیسائیت اور کے قیام کی غرض اسلام نے دفاع کا بھی حکم دہریت سے ہے ۴۹۹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ دیا ہے بعض لوگ ابتلاء میں آ جاتے ۲۷ ہیں اس لئے دعائیں کرنی ڈارون تھیوری چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب یورپ جو کسی زمانہ میں ڈارون کو ثبات قدم عطا فرمائے تھیوری کا قائل تھا اب اس جب ہم دوسرے کیلئے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ہمارے لئے بھی بلندی درجات کا موجب بنتی ہے مزار حضرت مسیح موعود پر ۱۸۴ ۱۹۰ میں ایک زبر دست رو اس تجارتی تنظیم کا کام بہت ضروری ہے زكوة ز اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے ۴۸۱ زکوۃ اور صدقہ بھی ہے اگر تھیوری کے خلاف چل رہی ہے روحانی ترقی ۳۱۹ اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں س سائنس دعا اور اُس کی حکمت ۱۶۹ روحانی ترقی کا سارا دارو مدار پہلے سائنس خدا تعالیٰ کے
۱۶ وجو دکور ڈ کرتی تھی مگر آب ہی میں تمام اسلامی علوم بیان رسول کریم ﷺ کی شفاعت ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ کر سکتا ہوں ۲۲۵ یقینا سب نبیوں کی شفاعت اس سارے نظام کا ایک مرکز سورۃ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی سے زیادہ ارفع اور زیادہ اعلیٰ ہے اور وہی مرکز خدا ہے ۳۲۱ اور اُس وقت نہ عیسائی اسلام ہوگی سچائی کے زیادہ مخالف تھے اور اخلاق فاضلہ میں سچائی کی نہ یہودی نہایت اہمیت ہے ۱۱۹ | سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے کامل نجات شفاعت کے ۲۲۶ بغیر ناممکن ہے اسلام نے سچائی کو بڑی اہمیت مگر قرآن کریم نے ہمیں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ سلم دی ہے ۱۲۱ کچھ اور دعائیں بھی سکھاتی ہیں سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتراضوں کو ش برداشت کرتا ہے شادی خان 192 حضور ﷺ کا صحابہ سے ۶۰ ۶۴۶۱ شفقت و محبت کا سلوک ۱۳۳ ۱۳۴ آپ کصحابہ کی دلداری کی کوشش کرتے سکھ مت ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور پیشگوئی مصلح کی پینتالیسویں بخار کی حالت میں آپ کا سکھ بھی خدا کے قائل ہیں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ پردہ اُٹھا کر صحابہ کونماز ۳۳۵ ہندوؤں،مسلمانوں ،سکھوں وہ شادی خاں ہوگا اور ہندوستان کی دوسری شریعت ۵۶۴ پڑھتے دیکھنا اور مسکرانا ایک صحابی کا حضور ﷺ کے قوموں میں سیاسی جھگڑے ۵۰۴ عیسائیت کی غلطی ہے جو کہتی جسم اطہر پر بوسہ دینا سنجیدگی ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے ۷۳ حضرت عمر فاروق کے ایمان دُنیا میں انسان کیلئے سب شعبده بازی ۱۰۶ لانے پر صحابہ " کا نعرہ تکبیر بلند کرنا سے قیمتی جو ہر سنجیدگی ہے.شفاعت ۵۹ تا ۶۶، ۷۹،۷۸ قرآن کریم نے اس کا بغیر شفاعت کا مسئلہ ماننے احادیث سے ثابت ہے کہ نام اخلاص اور ایمان رکھا ہے ۳۰۹ کے انسانی نجات قطعی طور پر صحابہ جو کچھ رسول کریم ہے سورة فاتحہ ناممکن ہے ۶۲ ۱۳۳ ١٣٣ ۱۳۴ کو کرتے دیکھتے تھے وہی حضور کا فرمانا کہ سورۃ فاتحہ سے شفاعت کی حقیقت ۵۹ کچھ خود کرنے لگ جاتے تھے ۷۲
۵۵ ۷۶ ۱۷ حنین کے موقع پر صحابہ کا اخلاص و وفا تیر مارتے تھے اور صحابہؓ شخص نبی بن سکتا ہے جو ۹۹ ۱۰۰ شہید ہوتے جاتے تھے ۲۵۷ | ظل محمد ہو خالی موسی جس طرح محمد رسول الله الله غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا ظل بننے یا خالی عیسی کی یہ شان تھی کہ خواہ کیسا ہی کا قابل تقلید نمونہ ۳۴۱ تا ۳۴۸ کا ظل بننے سے کوئی شخص خطرہ ہو خدا آپ کی آنکھوں صداقت حضرت مسیح موعود نبی نہیں بن سکتا سے اوجھل نہیں ہوتا تھا یہی ایک غیر احمدی مولوی کا شان اپنے درجہ کے مطابق سوال کرنا کہ مرزا صاحب سارے نبیوں کے کمالات صحابہ میں بھی پیدا ہوگئی کی سچائی قرآن کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آیت سے بتا ئیں Ι حضرت اقدس کا فرمانا کہ میں اپنے اندر رکھتا ہوں ع بیٹے حضرت ابراہیم جب صدر انجمن احمد یہ علم الابدان فوت ہوئے تو طبعی طور پر صحابہ کو سخت صدمہ ہوا صحابہ جب نماز پڑھنے کے لئے ۴۵۳ ،۴۵۱،۴۵۰،۴۸۴ صفات باری تعالیٰ 111.11+ علم الادیان علم النفس نجات اعلیٰ صفات الہیہ کو اپنے عملی نمونہ اندر پیدا کرنے کا نام ہے ۸۰ ہمارا عمل اور نمونہ ہماری تبلیغ مسجد میں آتے تو بعض دفعہ یہ خیال کر کے کہ رسول کریم ما صله رحمی بیمار ہیں اور نماز کیلئے نہیں آسکتے اُن کو اس قد رصدمہ ہوتا کہ وہ رونے لگ جاتے جب رسول کریم اللہ کا وصال ہوا تو صحابہ کرام ۱۳۲ ۱۱۳، ۱۱۷ سے زیادہ اثر رکھتا.صلہ رحمی میں افراد خاندان ، عورت ۱۱۹ ۱۱۹ ۱۵۵،۱۱۹ اگر تم پچاس فی صدی عورتوں قبیلہ، قوم اور ملک سب شامل ہیں اور ہر ایک سے کی اصلاح کر لو تو اسلام ۳۱۲ کو ترقی حاصل ہو جائے گی اُس کے درجہ اور مقام کے کیلئے وہ ایک موت کا دن تھا ۲۴۷ لحاظ سے حسن سلوک کرنا فطری طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا.صلہ رحمی میں داخل ہے ۱۳ مردوں اور عورتوں میں مقابلہ ظ کی روح پیدا کی ہے 11 عیسائی تیرانداز تاک تاک کر ظلی نبوت ۷۴ ۷۷ لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک ۵۰ مسلمانوں کی آنکھوں میں اُمتِ محمدیہ میں صرف وہی عورتوں سے حسن سلوک کی
۱۸ اسلامی تعلیم ۱۳۰ تا ۱۳۳ عیسائیت کی غلطی ہے جو کہتی کا واقعہ بہترین مصور دنیا میں عورتیں ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے ۷۳ غار ثور میں پناہ کے وقت ہوسکتی ہیں جن کی گود میں اُن عیسائیت کا فتنہ ایک زمانہ کے بچے پلتے ہیں عیسائی حضور ﷺ کا عظیم تو گل ۱۴۳ میں خاص طور پر بڑھ جائے علی اللہ ۲۳ ۱۲۴ گالوگ سوسائٹی میں عزت غار حرا ۹۰ تا ۹۴ ۱۵۳، ۱۲۸ ، ۱۷۴ ،۱۹۹ ،۲۰۹ حاصل کرنے کیلئے عیسائیت رسول کریم ﷺ کی روحانی ۲۱۱، ۲۱۷، ۲۵۵،۲۳۹،۲۲۶ اختیار کرلیں گے ۲۲۶ بلوغت تامہ کی زندگی غار حرا سے شروع ہوتی ہے یہودیت اور عیسائیت دونوں ۳۳۴،۲۹۶،۲۷۲،۲۷۰،۲۵۷ ۴۵۹،۴۰۲،۳۴۹،۳۴۶،۳۳۵ باقی رہیں گے ان کے فتنہ سے ۴۸۹،۴۸۶، ۵۲۰،۵۱۸ تا ۵۲۲ ۶۴۷ ،۶۳۲،۶۲۹،۵۳۱ ۶۴۸،۴۰۰،۲۵۹ ۱۶۸ بچنے کے لئے ہمیشہ دعا ئیں کرتے رہو ہمارا مقابلہ عیسائیت اور دہریت سے ہے مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے غ ۲۲۶ ۴۹۹ ۶۴۸ حضور اللہ کھانا ساتھ لیکر کئی کئی دن تخلیہ میں عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں چلے جاتے غزوہ حنین غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام کا قابل تقلید نمونه غلبه مبائعین کے غلبہ کا ایک ۱۰۲ ۱۰۴ ۱۰۵ ۳۴۱ تا ۳۴۸ مسیحیت آئندہ یہ فیصلہ کہ دنیا کا مذہب اسلام ہو یا عیسائیت؟ یہ اور کسی جگہ نہیں ہو گا صرف قادیان میں ہوگا حضور اللہ کا عیسائیوں کو مسجد کے اندر عبادت کی اجازت مرحمت فرمانا ۱۲۳ عیسائی پوپ کو خلیفہ کی طرح غار ثور سمجھتے ہیں ۳۶۵ جب آ ب آپ ﷺ مکہ سے نکلے بین ثبوت ف عیسائیوں میں پوپ کی شکل تو حضرت ابو بکر آپ کے عیسائیت کا فتنہ ایک زمانہ میں آج تک خلافت قائم ہے ۳۶۵ ساتھ تھے آپ انہیں لے کر میں خاص طور پر بڑھ جائے عیسائیوں کے اس وقت غار ثور میں پہنچے ۹۰ گالوگ سوسائٹی میں عزت ساٹھ ہزار مشنری کام کر رہے ہیں ۴۰ غارثور میں پناہ گزیں ہونے حاصل کرنے کیلئے عیسائیت ۵۸۵
اختیار کرلیں گے ۲۲۶ ۱۹ کوئی چارہ نہیں رہے گا ۱۷۵ فنون سپه گری عیسائیت کے فتنہ سے بچنے رویا میں ایک فرشتے کا ہماری جماعت کے لوگوں کو کیلئے دعائیں کرتے رہیں ۲۲۶ حضرت مصلح موعود کو قرآن کریم فنون سپہ گری سے واقفیت حاصل احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ ۵۸۴ کی تفسیر سکھانا فدیہ حضور کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ بدر کے موقع پر آپ متی و کا نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ فرمانا کہ یا تو سب کا فدیہ مجھے قرآن کریم کا علم معاف کرد و یا پھر حضرت عباس سے بھی وصول کیا جائے فرشتے ۱۲۸ ۲۲۷ ،۲۲۵ ۵۹۷ ،۵۸۸،۵۷۰،۲۶۱،۲۲۸ ۶۳۶،۶۰۰ عطا فرمایا ہے حضور کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم میں نے فرشتوں سے پڑھا ہے فرشتوں کا رویا میں نور کے ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۶۸ کرنی چاہئے اور اس کیلئے جو بھی موقع میسر آئے اُس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے فوج ایک بادشاہ کا قصہ کہ فوج پر خواہ مخواہ اتنا خرچ کرنا پڑتا ۳۱ ہے اسے موقوف کر دیا جائے ۲۳ ق بورے بھر بھر کر ڈالنا ۵۹۲ قانون اراضی اس سلسلہ کی تائید کیلئے فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ قبر خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ قبر کی حقیقت سے اُتریں گے اور روز بروز یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا کا نزول ۲۸۲ کے قیام کی غرض ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ تجارتی تنظیم کا کام بہت کشف قبور ۴۹ ۴۷۸ قبروں پر سجدہ کی ممانعت ۱۸۹ 11+ قبروں پر دعا کرنے کی حقیقت ۱۸۷ ۱۸۸ ۹۳ ضروری ہے ۴۸۱ حضرت اقدس کا ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنا اور اس بزرگ ہوں گے تو فرشتے اُن کو رسول کریم ﷺ کی جو اپنے ہاتھ سے ملیں گے فنونِ جنگ سے شغف کی کا کشفاً حضور سے باتیں کرنا ۱۸۹ قبولیت دعا حضور ﷺ کیلئے فرشتوں یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.اگر لوگوں کے دل سخت فنون جنگ یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں وجہ یہی تھی کہ جرات اور دلیری میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ گے اور اُن کے لئے احمدیت ہتھیاروں کے استعمال سے اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ میں داخل ہونے کے سوا ہی پیدا ہوتی ہے ۳۰ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ
میں ہی میرا مقابلہ کر کے جس کا جواب قرآن کریم میں ۱،۴۳۰ ۴۳ ۴۵۲،۴۴۴ تا ۴۵۴ دیکھ لے ۶۳۱ موجود نہ ہو مگر آج تک کوئی ۴۹۰،۴۸۵،۴۶۹،۴۵۸ ۶۴۲،۴۹۷ میری دعاؤں کی قبولیت کے ایسی بات پیش نہیں کر سکا ۱۸ جب کسی کو خیر ملے تو وہ بہت صرف احمدی گواہ ہیں بلکہ ایک غیر احمدی مولوی کا قربانیاں کرے اور بہت ۱۹ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں سوال کرنا کہ مرزا صاحب عبادت بجالائے عیسائی، ہزاروں ہندو اور کی سچائی قرآن کی آیت فنون جنگ اور قربانی کی اہمیت ۳۱ ہزاروں غیر احمدی بھی سے بتا ئیں ۱۸ صحابہ کرام کی قربانیوں کا تذکرہ ۵۱ اس بات کے گواہ ہیں ۶۳۱ قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے آپ نے اپنے صحابہ کی خاطر قرآن کریم ۱۶،۳ تا ۱۸ کہ نیچر کے مسائل پر غور کرنا جس قدر قربانی ممکن تھی کی اور ۱۲۹،۱۰۳،۱۰۱،۱۰۰ ، ۱۵۱،۱۳۸ چاہیئے ۴۸۰ ان کے جذبات اور احساسات ۱۹۱،۱۵۵، ۱۹۷ ، ۲۰۲،۱۹۸ ۲۰۴ قرآن مجید ایک ایسی زبان کا ہر طرح خیال رکھا ۲۲۴ تا ۲۵۵،۲۴۹،۲۲۷، ۲۶۷ میں نازل ہوا ہے جو زبان جب قربانی کے لئے نئے ۳۶۰،۳۲۵،۳۲۱،۳۰۹،۲۶۸ اپنے اندر معنی رکھتی ہے ۴۳۷ راستے کھلتے ہیں تو بعض ۳۷۶، ۳۸۶، ۴۰۵ تا ۴۱۴،۴۰۹ قرآن اور احادیث ۱۹۱ لوگ ابتلاء میں آجاتے ہیں ۴۶۴ ، ۴۶۷، ۴۸۰،۴۷۱،۴۶۸ قرآن اور اسلام ۳۴۹،۱۵۵ اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں قرآنی تعلیم ۱۹۹، ۴۰۵ کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ۵۴۸ ،۵۳۴،۵۱۹،۴۹۳ ،۴۹۱ ۵۷۰ تا ۶۱۳،۵۸۰،۵۷۸، ۶۴۷ | قرآنی دعائیں ترجمہ قرآن جاننے کی اہمیت ۴۵۶ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نے سنجیدگی کا نام اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اخلاص اور ایمان رکھا ہے ۳۰۹ کی دعا سکھائی ہے جسکے معنی یہ قرآن اتنی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہیں کہ ہم کو اُس رستہ پر چلا جو ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کا علاج اور ہر قسم کی ہدایات اس میں موجود ہیں کوئی شخص ایسی بات پیش کرے سیدھا ہے قربانی ۵۰۵ ثبات قدم عطا فرمائے دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں جس کے نام پر اتنے آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے ۴۶۷ تیار ہوں جتنے آدمی حضرت ۱۳۳،۳۵،۳۱ ۱۷ ۲۹۴،۲۹۳،۲۷۲،۲۶۶ ،۲۴۱ ۱۳۳ ۱۸۴ مسیح موعود کے نام پر تیار ہیں ۱۶۳ ۰،۱۶۳ ۲۴۰،۲۳۴،۱۸۴،۷ قیامت صلى الله ۴۱۲،۴۱۱،۱۳۹۰۳۰۵،۲۹۸ آپ ﷺ قیامت تک تمام
۴۳۲ ۲۰۹،۲۰۸ ۱۹۹ ۶۴۵ ۲۱ زمانوں کے لئے نمونہ کے طور کمیونزم کے خطرہ کا مقابلہ جاری رکھنی چاہئے پر پیدا کئے گئے ہیں کرنے کیلئے اسی فتنہ کے لیکچر لاہور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ساتھ جنگ لڑنی پڑے گی منڈ وہ میلا رام لاہور میں بعض لوگوں سے کہے گا کہ کیونکہ اس کی بنیاد دہریت ۱۹۰۴ ء میں حضرت مسیح موعود دیکھو میں بیمار تھا مگر تم لوگ پر ہے یہ فتنہ ہر جگہ پھیل رہا ہے ۴۹۸ کا لیکچر ہونا میری عیادت کیلئے نہ آئے قیامت کے دن اللہ حضور کولوگوں کے سامنے کھڑا کر ۶۷ گ گناه سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ مامور من الله کے کہے گا یہ وہ نمونہ ہے جس کی نقل کرنے کیلئے میں نے اسے دنیا میں بھیجا تھا حضرت مسیح موعود نے تحریر ۱۲۹ کا کسی کو شریک قرار دینا ہے ۱۲۱ اللہ تعالیٰ اپنے ماً موروں کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولنا بہت لوگوں کے دلوں کو صاف بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے حدیث میں والدین کی فرمایا ہے کہ چاہے قیامت تک نافرمانی بہت بڑا گناہ قرار تم ناک رگڑتے رہو تمہارا دیا گیا ہے ۱۲۱ ۱۲۱ کریں.اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف واپس لائیں، نیکی اور تقویٰ دنیا میں قائم کریں مباہلہ مسیح آسمان سے نہیں اُتر سکتا ۱۹۹ جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی گود میں داخل معاندین کو مباہلہ کی دعوت ہو جاؤں اور اُس کے دامن کو مبلغین سلسله پکڑلوں ، ایسا انسان کبھی بھی مبلغین کا ذکر خیر جو حضرت کشش ثقل نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری ۳۲۰ خواہ وہ کتنے ہی گناہوں میں مصلح موعود کے زمانہ خلافت میں بیرون ممالک بھیجے کلمه طیبه اسلام نے بھی اپنے مذہب ملوث ہو گناہوں کی موت نہیں مرتا کا ایک خلاصہ ان الفاظ میں ل گئے پیش کیا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ۴۰۲۴۰۱ لجنہ اماءاللہ کو عورتوں میں کمیونزم الجنہ اماء الله مبلغین اور تبلیغ ۶۱۲ تا ۶۱۴ ۲۹۸ مبلغین کی جانفشانیوں کا ذکر ۴۹۸ نمازوں کی پابندی کی تبلیغ مجاہدین تحریک جدید ۳۵۳
۲۲ مجلس مشاورت ۳۵ حکومتوں نے ہماری مخالفت کی بنی نوع انسان سے شفقت ۲۴۲ کرنا ہے مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارہ لا اله الا الله ۴۸۴،۴۵۵،۴۵۴ مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا محبت ”انسان“ کا لفظ بھی ایک میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مُذيب با معنی لفظ ہے.یہ لفظ انسان کہ لازمی طور پر کچھ عرصہ کیلئے مخالفت کا بڑھ جانا ہے جس کے معنی ہیں دو محبتیں ۴۳۹،۴۳۸ | ضروری ہے کا خلاصہ ہے مزار ۴۶۸ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور محبت الہی ۱۰۴،۳،۱، ۱۰۵ ہماری جماعت کی مخالفت ہوتی اُس کی حکمت محبت الہی ہی ساری چلی آئی ہے اور اب بھی ہے.حضرت اقدس کے مزار پر دعا ترقیات کی جڑ ہے ۳، ۷ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کرنے کا طریق ۴۰۲ ۴۰۲ ۱۶۹ 191.190 روحانی ترقی کا سارا دارو مدار ہر قدم پر خدا تعالیٰ ہماری مساجد کی تحریک ۵۸۵،۴۸۵ گلی طور پر اللہ کی محبت کے ساتھ جماعت کو بڑھا تا ہے وابستہ ہے مخلوق رسول کریم ﷺ کی ذات میں ! اللہ تعالیٰ کے حضور ہندو، ہمیں محبت الہی کا نظارہ ایسے عیسائی ، سکھ اور مسلمان سارے ۵۸۴ مسیح موعود علیہ السلام حضرت آپ کا سفر سیالکوٹ آپ کا سفر ہوشیار پور ۲۵۵ تا ۲۵۷ آپ کا سفر لدھیانہ ۲۵۴ سفر جہلم میں سینکڑوں لوگوں حیثیت سے ایک جیسے ہیں شاندار طریق پر نظر آتا ہے ہی اُس کی مخلوق ہونے کی کہ آپ نے اپنی ساری عمر محبت الہی میں ہی گزاردی کامل معرفت کسی انسان کو حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب ۱۰۴ مذہب ۱۹۹ ۱۲۳،۱۵ ۲۳۵،۲۲۶،۱۷۴،۱۶۸ ،۱۶۶ نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی ۲۷۰،۲۶۲، ۳۱۷ تا ۳۲۱،۳۱۹ آپ کا فرمانا کہ میں نے تو تک خدا تعالیٰ کی کامل محبت ۳۴۵،۳۳۷ ،۳۳۵،۳۳۴،۳۲۳ ۴۳۹،۴۰۲،۴۰۱،۳۶۵،۳۴۶ جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا آب اُس کے اندر نہ پائی جائے مخالفت قوموں نے ہماری مخالفت کی ، ۱۰۴ ۴۵۴،۴۴۷، ۴۶۶، ۴۷۲،۴۷۰ میں کسی اور کی نوکری کرنے ۴ ۴۷ ، ۷ ۴۷، ۴۹۹،۴۹۴،۴۷۸ کے لئے تیار نہیں ہوں ۵۳۲،۵۲۴،۵۲۱،۵۱۰،۵۰۰ ۶۴۶،۶۱۱،۵۴۳ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ملکوں نے ہماری مخالفت کی، مذہب کا خلاصہ تعلق باللہ اور جائداد میں کوئی دلچسپی نہیں ۲۰۰
لیتے تھے آپ کا شعر کہ ۲۳ ۵۵۰،۵۴۹،۵۴۷ ،۵۴۵،۵۴۲ ۲۰۱ ۶۰۹،۵۷۹،۵۶۵،۵۶۰،۵۵۱ ۶۲۸،۶۲۷ ،۶۲۶،۶۱۳،۶۱۲ مشن قائم کر دیئے بعض ایسے موعود بھی ہوں لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي ۲۰۱ ،۶۳۳ تا ۶۳۵، ۶۳۹،۶۳۸ گے جو صدیوں کے بعد پیدا لاہور میں میلا رام کے منڈ وہ ۱۹۳۲ء میں آپ کا میں ۱۹۰۴ء میں آپ کا لیکچر سفر سیالکوٹ ہونا ۲۰۹،۲۰۸ ۶۵۰،۶۴۸،۶۴۵ ۳۴،۳۳ ہوں گے آپ کا فرمانا کہ اس وقت ۱۶۱ میں نہیں بول رہا بلکہ خدا آپ کا فرمانا کہ میں وہ ہوں میری زبان سے بول رہا ہے ۲۴۳ حضرت مسیح موعود کی سنت تھی جس کے ظہور کے لئے کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ غم کا کوئی موقع ہوتا آپ منتظر بیٹھی تھیں ۵۵۸،۱۶۱ | ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دوستوں سے فرماتے کہ آپ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجے گا.دعائیں کرو اور استخارے کرو ۲۵۰ مجھے رویا میں بتایا کہ مجھے میری روح ایک زمانہ میں مسلم لیگ ۴۶۹ ۵۰۰ تا ۵۰۳ اُس کی طرف سے قرآن کریم کسی اور شخص پر جو میرے مسٹر جناح نے مسلم لیگ کیلئے کا علم عطا کیا گیا ہے ۱۵۴ ، ۱۵۵ جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا نازل سات کروڑ مسلمانوں سے خدمت دین کی خاطر آپ کی ہوگی اور وہ.....دنیا کی اصلاح دس لاکھ روپیہ چندہ طلب کیا تھا مصلح جان دینے کی خواہش ۴۳۱ کرے گا ۴۶۹ آپ کا فرمانا کہ میں نے الہاماً پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے سامنے اپنے مصلح موعود مصلح موعود مسیح موعود کا مثیل دنیا میں جو بھی رسول اور مصلح ہونے کا دعویٰ پیش کیا ۶۳۹ اور نظیر ہوگا حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں مصلح موعود کے ذریعہ الله آئے گا وہ آپ ﷺ سے روحانی فیوض حاصل کر کے کر آئے گا ۱۶۱ ۱۶۱ ۱۶۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور حضرت اقدس کی دعوت زمین اور آپ کا غلام اور شاگرد بن موعود بھی آئیں گے ۱۶۱ کے کناروں تک پہنچ چکی ہے ۱۷۲ ۳۶۰ خدا تعالیٰ نے فوراً مجھے ہمت اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے مصلح موعود ۱۴۳ ، ۱۴۵ بخشی اور میں نے دنیا کے ذریعہ بتایا کہ میں ہی وہ ۱۴۹ ۱۷۲،۱۶۰ ،۱۹۵ ، ۲۲۲،۱۹۷ مختلف اطراف میں اسلام اور مصلح موعود ہوں جس کا ۴۶۸،۲۴۹،۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۴ احمدیت کو پھیلانے کیلئے ۵۳۶،۵۳۳،۵۲۷، ۵۳۷ تا ۵۴۰ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی
میں ذکر کیا گیا تھا ۲۳۹،۲۳۸ ۲۴ مصلح موعود کا علوم ظاہری و باطنی مقابلہ مسابقت مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارہ سے پر کیا جانا ۵۶۵ تا ۵۶۷ فطری طور پر اللہ تعالیٰ نے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر مصلح موعود کی زمین کے مردوں اور عورتوں میں مقابلہ کیا کہ لازمی طور پر کچھ عرصہ کناروں تک شہرت ۶۰۹ تا ۶۱۴ کی روح پیدا کی ہے ۴۶۸ ۵۲۸ ،۵۲۷ ۵۳۶ تا ۵۳۸ مقدمه مارٹن کلارک ۲۰۹ تا ۲۱۱ بشیر اوّل ۵۴۰، ۴۵ ۵ تا ۵۵۰،۵۴۹،۵۴۷ بشیر ثانی ۶۳۵،۶۳۴ ملک التجار ۱۴۹، ۲۵۹،۲۰۶ لاسکپور کے تاجر ملک التجار ۴۵ ۵ تا ۶۵۶٬۵۵۱،۵۴۹،۵۴۷ کہلاتے ہیں ۶۴۲ کیلئے مخالفت کا بڑھ جانا ضروری ہے پیشگوئی مصلح موعود پیشگوئی مصلح موعود کی پیشگوئی مصلح موعود کی ۵۶۵،۵۶۳،۵۲۸ ۵۲۶،۳۹۱،۳۸۱،۳۷۹،۲۹۷ معیاد ۵۴۰،۵۳۹،۵۳۳ | موعود لڑکا ۲۸۰ مهمان نوازی کی غرض وغایت ۱۱۴ شاہ نعمت اللہ دہلوی کی پیشگوئی ۲۸۰ ۵۵۴ تا ۶۳۴۶۳۳،۵۳۶ غرض وغایت ۵۲۹ تا ۵۳۰ کلمة الله ۱۶۷ ،۱۶۵ مہمان نوازی ۱۱۳ تا ۱۱۶ دوسری پیشگوئی میرے متعلق نور الله ۵۲۸، ۵۴۰٬۵۳۹،۵۳۸ مہمان نوازی کی اقسام ۱۱۴ یہ کی گئی تھی کہ اس پر خدا کا کلام معرفت الہی نازل ہوگا.یہ پیشگوئی بھی میری حضرت اقدس کا فرمانا کہ ہر نبی ذات میں پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے سینکڑوں مرتبہ مہمان نوازی تین دن فرض ہے ۲۹۷ مہمان نوازی میں مختلف قوموں کو معرفت کا جو پیالہ پلایا اُن میں سے ہر ایک پیالہ مجھے غیب کی باتیں مجھ پر ظاہر کیں.۲۲۷ بھی پلایا گیا ہے اور خوب کے مختلف اصول ہیں مومنین پیشگوئی مصلح موعود پر ہونے بھر بھر کر پلایا گیا ہے ۷۷ مومن کا خدا ایسا ہے کہ اس پر کامل معرفت کسی انسان کو کسی انسان کے پیدا ہونے یا والے اعتراضات کے جوابات پیشگوئی مصلح موعود کی ۱۱۵ ۵۳۳تا۵۳۹ حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب مرنے سے کوئی اثر نہیں ہوتا ۴۶۳ تک خدا تعالیٰ کی کامل محبت سات اہم اغراض ۴۲ ۵ تا ۵۴۴ | اُس کے اندر نہ پائی جائے مصلح موعود کی احادیث مغلية سلطنت ۱۰۴ ۱۹۹، ۱۴۷ نبی رانبیاء ۱۳۵،۱۱۱،۱۸ ۲۲۰،۲۱۳،۱۹۸ ،۱۹۲،۱۸۸،۱۴۶ میں خبر ۵۵۱،۵۰۰ ۳۲۴،۲۸۰،۲۷۳،۲۶۰ تا ۳۲۶
۳۳۳ K ۱۲۵ واقعات ۲۵ ۴۱۶،۳۶۳،۳۶۰،۳۵۹، ۴۲۵ کے اصل مستحق اُس نبی کے ۵۳۹،۵۲۹،۵۲۲،۵۰۸ ،۴۷۳ ۵۴۶،۵۴۰، ۵۶۰۰۵۵۳،۵۴۷ بروز ہوتے ہیں چاہے وہ ۵۹۱،۵۹۰، ۶۴۷ ادنی بروز ہوں اور چاہے انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر ایک یتیم لڑکے کا اپنی ماں سے اعلیٰ بروز ہوں ۶۴ نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ دو آ نے مانگنے پر اصرار کرنا نجات یافتہ ہونے کیلئے اپنے سے پہلے آنے والے ایک عرب دہر یہ شاعر کا ضروری ہے کہ ہم محمد اللہ انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے ۳۲۵ کے نقوش اپنے دلوں پر قرآن مجید کی مثل لکھنے کا واقعہ اخلاقی امور میں اللہ تعالیٰ کے قائم کریں ۷۳ جب مدینہ میں ایک قبیلہ کے انبیاء دنیا کیلئے نمونہ ہوتے ہیں ۵۷ نجات کا اصل گر یہ ہے کہ اپنے اندر پیدا کرنے کا نام ہے نجات اعلیٰ صفات الہیہ کو لوگوں نے حضور کی حضور ﷺ کے عدل وانصاف کے واقعات جب تک ہم اپنے اپنے دائرہ اونٹنیاں چرالیس انسان اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو اخلاقی امور میں اللہ تعالیٰ کے ۶۳ انبیاء دنیا کیلئے نمونہ ہوتے ہیں ۵۷ نجات 101.10.۲۱۳،۱۶۵،۱۳۷ ،۱۲۱ ، ۱۲۰ ، ۱۰۴ ۵۴۲،۵۲۸ ،۵۲۷ میں ایک چھوٹے محمد نہ بن جنگ اُحد کے واقعات جائیں اُس وقت تک ہم غار ثور میں پناہ گزیں ہونے کبھی نجات نہیں پا سکتے ۱۲۰ کا واقعہ ندامت آپ کا فرمانا کہ میری نجات ندامت انسان کے اندر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احساس بیداری پیدا کرتی ہی ہوگی ۱۰۴ دمشق میں حضرت مصلح موعود کا علامہ المغربی سے ملاقات کرنا اور نیکی کا موجب بنتی ہے ۸۲ لا ہور میں ایک مخالف شخص کا کامل نجات شفاعت کے نظام نو بغیر ممکن ہی نہیں نجات کا اصل گر یہ ہے کہ انسان اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو ہر نبی کے زمانہ میں نجات حضرت مسیح موعود کو کا فرقرار ۶۴۶۱ حضور ﷺ کا قائم فرمودہ نظام نو ۱۱۸ دینا ۶۳ ایک پٹھان لڑکے کا قتل کی ۱۲۸ ،۱۲۷ ۱۱۰،۱۰۸ ۹۰ تا ۹۴ نیت سے قادیان آنا قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ نیچر کے مسائل پر غور کرنا چاہئے ۴۸۰ حضرت مصلح موعود کیلئے کسی شخص کا زہریلی ملائی بھجوانا ۱۷۵ ۲۰۸ ۲۱۶ ۲۱۷
٣٣١ ۴۲۴ ، ۱۱۵ ۲۶ حضرت مصلح پر بچپن میں ایک اشاعتِ اسلام کیلئے وقف کیں ۲۷۱ ہاکی پلیئر میں سل کا مادہ بچہ کا چھپکلی پھینکنا ۲۵۹ آپ کی تحریک پر ا حباب کا نسبتا زیادہ دیکھا گیا ہے حضرت مولوی برہان الدین خدمت دین کیلئے زندگیاں وقف کرنا ۲۸۷ ہمسائے ہندور ہندومت صاحب کا ۱۹۰۳ء کے سفر سیالکوٹ کا واقعہ حضرت مسیح موعود نے بھی ہندو بھی تسلیم کریں گے کہ سُبْحَانَ اللهِ ساڈیاں جب وقف کا اعلان کیا تو ایسیاں قسمتاں کتھوں وقف زندگی کی شرائط آپ حضرت کرشن اور حضرت حضرت مسیح موعود نے خود نہیں لکھیں بلکہ رام چندر کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا تھا کہ اس زمانہ میں قادیان میں بجلی گر نے کا واقعہ ایک جنگ کے موقع پر ۲۹۷ کے لوگ ان کے نمونہ پر چلیں علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میر حامد شاہ صاحب سے لکھوائیں ۹۶ وقف کرنے والوں کو نصیحت ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور کرنا کہ وہ قربانی کا ارادہ سکھ بھی خدا کے قائل ہیں حضور ﷺ کا دشمن کو فرمانا کہ اور عزم اپنے اندر پیدا کریں ۲۹۸ مجھے اللہ بچا سکتا ہے ۹۷ سندھ کی اراضیات پر کام کرنے کے لئے زندگیاں وقف کریں حلف الفضول کے تحت حضور اللہ کا ایک شخص کی امداد تا انہیں کام کیلئے تیار کر کے کیلئے ابو جہل کے پاس تشریف وہاں بھجوایا جا سکے ۵۰۸ نو جوانوں کو زندگیاں وقف لے جانا مسجد شہید گنج کا واقعہ ۵۸۴ کرنے کی تحریک ورثه لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک ۵۰ ماکی وقف زندگی ۴۸۳ ۴۹۶ ۳۳۰ ہندوؤں،مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوستان کی دوسری قوموں میں جو سیاسی جھگڑے ہیں ہندؤوں کی سیاست ۶۱ ۳۳۵ ۵۰۴ ۵۰۷ ۴۹۵،۴۹۴،۳۰۰ ہندی ی یہودا یہودیت ۲۲۶،۱۰۰، ۳۳۵ یہودیت اور عیسائیت دونوں ہا کی صحت کیلئے مضر ہے.اس باقی رہیں گے ان کے فتنہ اللہ تعالیٰ نے خودلوگوں کے سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے قلوب میں الہام کیا اور کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے اُنہوں نے اپنی زندگیاں تحقیق سے ثابت ہے کہ ٣٣١ سے بچنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو ۲۲۶
الفاتحة آیات قرآنیہ اَوْ اَخْطَأْنَا (۲۸۷) ۱۴۵ ، ۵۱۵،۱۹۷ | هُوَ سَتْكُمُ الْمُسْلِمِينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (۲) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) آل عمران ١٣٦ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَ ۵۷۰،۲۵۵ (۷۹) التوبة بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (۹) ۱۴۶، ۱۹۷ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ ۷۰،۶۵ ۱۹۸ ،۵۱۲،۵۱۵ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (۳۱) ۹۱ تا ۹۳ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنْ الْمُؤْمِنِينَ (Y) ۴۲۴، ۴۲۵، ۴۶۷ فَاتَّبِعُونِي...(۳۲) ۷۳ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (111) بِأَنفُسِهمُ (ااا) كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ وَلَا الضَّالِّينَ (۷) ۲۲۶ ، ۴۶۷ الى يَوْم الْقِيَامَةِ (۵۶) ۵۸۵،۵۸۰ (۱۱۹) البقره رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا يوسف الم ذَلِكَ الْكِتَابُ (۲) مُنَادِيًا يُنَادِی (۱۹۴ ،۱۹۵) ۱۳۵ قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي ادْعُوا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ امَنَّا بِاللهِ (۱۸) ۱۷ ۱۹۲ ، ۱۹۷، ۲۳۲،۱۹۸، ۵۱۶،۵۱۵ إِلَى اللهِ (۱۰۹) النساء فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا بِكُمُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمُ (۴۲) ۳۲۵ امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا...شهيدًا (۴۲) ۱۹۸،۱۳۶، ۵۱۲ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ (۱۳۷) النحل وَ يَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا (۹۰) بنی اسرائیل مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَحَيُّوا بِأَحْسَنِ مِنْهَا (۸۷) ١٩١ فَهُوَ (LM)........الانعام الانبياء وَلِكُلّ وَجُهَةٌ هُوَ مُوَلِيُهَا فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ (۱) ۷۴ (۱۴۹) وَحَيْتُ مَا كُنتُمْ ۳۴۶ ۴۲۴ ٨٨ ۴۴۱،۸۰ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمُ (۱۵۴) ۳۴۶ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَا هَا لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحْنَكَ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا إِبْرَاهِيمَ ( ۸۴ تا ۹۱) ۷۰۶۹ | إِنِّي كُنْتُ (۸۸) ۳۸۷
۲۸ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ (٤١) ۵۷۶ القيامة وَجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاظِرَةٌ مَرَجَ الْبَحْرَيْنَ يَلْتَقِيَان (۲۰) ۴۴۸ (۲۴۳۳) نَنْقُصُهَا (۴۵) ٣٣٦ الرحمن الحج وَجَاهَدُوا فِي الله الذريت حَقَّ جِهَادِ.....(۷۹) ۶۵ تا ۶۹ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ عبس ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (۲۲) الشعراء وَالْإِنْسَ إِلَّا (۵۷) ۴۴۱ الماعون لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (۴) ۱۲۹ النجم وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (۵) الاحزاب مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى الكوثر يَا أَهْلَ يَشْرَبَ لَا مُقَامَ لَكُمُ (۱۸ تا ۲۱) ۸۷،۸۵ (اله) وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الأحزاب.....(٢٣) وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَ 1+1 أَفَرَأَيْتُمُ اللَّتُ وَ الْعُزَّى (۱۸ تا ۲۱) ۸۷،۸۵ الصف اِسْمُهُ أَحْمَدُ (۷) ۵۷۷،۵۷۶ ۸۲ ۱۸۹ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (۲) ۱۴ ۲۰،۱۹،۱۶ ۱۹ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ (٣) ١٩ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ (۴) ۲۱
۲۱ ۴۴ ۵۶ ۶۶ ۶۷ ۷۲ رسول کریم ﷺ کا ایران کے بادشاہ کے بارہ میں فرمانا کہ جاؤ ! اپنے بادشاہ سے کہہ دو میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ۲۹ احادیث ل أَفَلا يَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ۱۰۴ لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ اَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ۱۲۱ صِدِّيقاً نبياً الا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ الاشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعَقُوقُ عِندَ القُرَيَّا ۵۳۹ ۶۳۲،۵۵۰ اگر کوئی قاتل نہ پکڑا جائے الْوَالِدَيْنِ اَلا وَقَوْلَ النُّورِ ۱۲۱ ی اور دیت نہ دی جائے تو اللهُ أَعْلَى وَاجَلٌ 11+ يَتزَوَّجُ وَيُوْلَدُلَهُ ۶۳۲،۵۵۰ سارے علاقہ سے ہم إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدَقُ الْحَدِيثِ ۱۱۲ ، ۱۱۶، ۱۷۷ احادیث بالمعنی دیت لیں گے جب سو دالو تو دیکھ کر لوتا کہ ( ترتیب بلحاظ صفحات) بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو اللَّهُمَّ اَيَّدُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۳۴۴ اللہ تعالیٰ نے میرے شیطان کو تَكْسِبُ الْمَعْدُومِ ۱۱۸ مسلمان کر دیا ہے أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ حدیثوں میں جو آتا ہے کہ مسیح نماز خدا اور بندے کے درمیان ملاقات کا ایک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو محمد رسول اللہ بعض لوگوں سے کہے گا کہ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ ۹۹ خزانے تقسیم کرے گا ایسے ذریعہ ہوتی ہے صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے دیکھو! میں بیمار تھا...والے ہیں مسیح موعود اُن کے آگے قرآن کے خزانے رکھے گا مگر وہ اُسے اُٹھا اُٹھا کر پھینک دیں گے اور قبول نہیں کریں گے ۱۹ صحابہ جو کچھ رسول کریم اللہ کو کرتے دیکھتے تھے وہی کچھ خود کر نے لگ جاتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے نبی ۱۰۵ ۷۲ خ خُلِقْنَ مِنْ ضِلُعِ ف فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ
۱۲۵ ۱۲۷ ۱۳۸ ۱۲۹ ۱۲۹ میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں بڑا لشکر مکہ کے پاس پڑا موڑا کرتے خدا لعنت کرے یہود اور 99 ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری اس نصاری پر کہ انہوں نے بات کو تسلیم کر لو گے؟ اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا نے ڈھولک کے ساتھ کوئی گیت گانا شروع کر دیا.اوپر سے حضرت ابوبکر ۱۱۹ آگئے.مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت قیس ایا تو تمہیں میرے ساتھ ۱۰۰ کے لئے ہی ہوتی ہیں ۱۲۳ گھوڑے پر سوار ہونا پڑے گا خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج ایک دفعہ ایک بدوی آیا اور اور یا پھر واپس چلے جاؤ.کو میرے دائیں اور چاند مسجد میں پیشاب کرنے لگ مجھ سے یہ برداشت نہیں کو میرے بائیں بھی لاکر گیا.صحابہ ونڈے لے کر ہوسکتا کہ میں گھوڑے پر کھڑا کر دیں تب بھی میں اُٹھے تو رسول کریم علی ایک خدا کے ذکر سے باز نہیں آؤں گا نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو، ۱۰۶ اس کا پیشاب رک ابوبکر سے مجھے اتنی محبت ہے جائے گا سوار رہوں اور تم پیدل ساتھ چلو آپ کا فرمانا کہ سب قیدیوں ۱۲۴ کی رسیاں ڈھیلی کر دو اور یا کہ اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل ایک دفعہ صدقہ کی کچھ کھجور میں پھر عباس کی رسیاں بھی بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر کو بناتا آئیں.حضرت حسن اور سخت کر دو ۱۰۷ حضرت حسین نے آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما نا بعض دفعہ بادل کے موٹے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال کہ مجھے دوسروں سے قرآن موٹے قطرے گرتے تو لی.رسول کریم ﷺ نے سننے میں مزا آتا ہے حضوری کمرہ سے باہر دیکھا تو فوراً حضرت حسن ایک دفعہ حضرت عبداللہ تشریف لاتے اپنی زبان کے منہ سے کھجور نکال لی ۱۱۲، ۱۲۵ بن مسعود آپ کے پاس باہر نکالتے اور اُس پر بارش ایک دفعہ آپ گھر میں بیٹھے آئے.آپ نے اُن سے کے اُن قطرات کو لیتے..۱۰۷ ہوئے تھے کہ حضرت فرمایا عبداللہ ! کچھ قرآن اے میری قوم کے لوگو! اگر عائشہ کے پاس مدینہ کی شریف پڑھ کر سنا ؤ میں تم سے یہ کہوں کہ ایک دولڑ کیاں آئیں اور انہوں رسول کریم ﷺ نے
۳۱ فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی پر بھی سختی نہ کرنا ۱۳۲ جنت ہے ۴۶۰ ، ۴۴۷ ، ۴۴۵ کے تعلقات جہاں بے انتہا محبت پر مبنی ہوتے ہیں وہاں کو تیز بخار چڑھا ہوا تھا آپ ایک شخص آیا اور اُس نے ایک دفعہ جبکہ رسول کریم علی رسول کریم ﷺ کے پاس تعلق ایسا نازک بھی ہے نے اپنی بیوی سے فرما یا پانی تحریک کی کہ آپ بھی کہ بعض اوقات آپس میں کی مشکیں لا واور نفرت بھی پیدا ہو جایا کرتی ہے مجھ پر ڈالو اس لئے عورتوں پر زیادہ مُردے نعلین کی آواز سختی نہ کیا کرو.....۱۳۱ سن لیتے ہیں رسول کریم ہے جب رسول کریم اللہ نے فرمایا ۱۳۲ ۱۸۷ اس ( حلف الفضول) میں شریک ہوں.آپ نے فرمایا میں اس میں ضرور شامل ہوں گا اگر جاہلیت کی کسی ایسی ہی مغضوب کے معنی ہیں الْيَهُود فوت ہونے لگے تو آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس اور ضال کے معنی ہیں چیز کی طرف جس طرح ۲۲۶ کہ حلف الفضول تھی مجھے میں صحابہ سے مخاطب ہوتے نصاری ہوئے فرمایا دیکھو ! میں تم ہر بستی پر باہر سے آنے کو عورتوں کے متعلق خاص والے کی مہمان نوازی طور پر وصیت کرتا ہوں، تین دن فرض ہے اُن کا خیال رکھنا اور اُن ماں کے قدموں کے نیچے ۲۹۷ بلایا جائے تو میں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں شامل ہوں
۵۰۳ ۳۳ اسماء ہو جانا ۱۳ اللہ بخش خان بہادر ابوالعطاء.جالندھری مولانا ۴۹۴ اتم طاہر.حضرت مریم بیگم ۲۸ آدم علیہ السلام.حضرت ۳۶۴،۳۶۰،۳۵۹،۳۵۷ ،۳۲۵ ۴۹۹،۴۵۰ ، ۴ ۴ ۴ ۴ ۴۳ ۴۲۴ ۶۰۸،۶۰۱،۵۴۵ آئن سٹائن ۳۲۰ ابراہیم علیہ السلام، حضرت ۵۳۹ ۶۱۲ ۳۷۱،۳۶۹،۲۳۱،۲۱ تا ۳۸۲،۳۸۰ احسان اللہ لاہوری.ملک ۳۸۴ تا ۴۸۵،۴۶۳،۴۵۳،۳۹۳ ( سابق مبلغ مغربی افریقہ) احسان الہی جنجوعہ.چوہدری ۳۹۱ ( سابق مبلغ مغربی افریقہ) ۳۵۳ ابراہیم.حضرت ابن رسول ) احمد جان صوفی لدھیانوی ۵۳۹،۱۱۱ حضرت احمد خان ایاز.حاجی ابوسفیان ۱۳۳، ۷۳۱،۶۲۲۶۲۱ ابوبکر صدیق ، حضرت احمد خان نسیم.مولوی ۱۰۲ احمد یار خان.نواب ابو جہل ۲۴۷ ، ۱۳۳،۱۲۵ ، ۱۱۰ ، ۱۰۹ ، ۱۰۷ ۶۳۸،،۴۶۸،۳۵۲،۳۴۴ ۶۴۷ ،۶۳۹ ۲۵۷ ، ۱۰۸ اسحاق علیہ السلام.حضرت اسماعیل علیہ السلام.۲۶۳،۲۵۹ ۶۱۳ ۲۱۸ ۳۶۴،۳۵۹ آپ کی سیرت و شمائل اور اخلاص کا تذکرہ ۶۳۰،۵۵۲ ۳۹۱۳۳۷۰ ۳۸۸ امان اللہ خان.امیر کابل ۳۳۵ امة الباسط - صاحبزادی امت الجمیل.صاحبزادی امتہ الحکیم.صاحبزادی ۳۸۸ ۳۸۸ امت الحئی.صاحبزادی ۳۷۲ تا ۳۹۳،۳۹۲،۳۸۰ امۃ القیوم بیگم اندر من مراد آبادی منشی ۳۷۴ ۲۲۳ ۵۴۳،۵۲۳ ۳۶۴،۳۵۹ حضرت ۵۰۸،۵۰۷ ، ۴۶۸ ،۲۵۸ ابوطلحہ حضرت ۱۳۳،۱۳۲،۱۳ حضرت ابوطلحہ کا جنگ اُحد میں اسود عنسی افضل حق.چوہدری حضور ﷺ کے منہ کے سامنے اقبال.ڈاکٹر علامہ سر محمد ۶۴۰ ۲۱۹،۲۱۸ ۶۱۶ ایاز J.۴۶۷ ۲۶۲ اپنا ہاتھ رکھنا اور ہاتھ شل اقبال بیگم (خادمہ) ۳۹۱٬۳۸۵ | بدھ علیہ السلام.حضرت ۲۹۶، ۲۹۷
حشمت اللہ.حضرت ڈاکٹر ۳۹۱،۳۸۵ ۳۴ ۲۳۰ € برہان الدین جہلمی.مولوی حضرت سیالکوٹ میں معاندین کے آپ پر مظالم ۳۰۴،۳۰۳،۱۳ چرچل سر ونسٹن ۶۰۸،۶۰۱،۵۳۲،۲۶۹ بشارت احمد.ڈاکٹر ۶۴۲ بشیر احمد ایڈووکیٹ.شیخ ۲۳۹ حاجی برلاس ۱۹۹ ۳۹۱٬۳۸۸،۳۸۵،۳۸۴،۲۷۲ خالد بن ولید.حضرت خدیجہ الکبری.حضرت ۱۱۲ ۱۱۶ تا ۱۲۲،۱۱۸ بشیر احمد ایم اے.حضرت مرزا حارث بن ہشام ۲۵۸ ۶۰۷ ،۵۹۷ ،۳۸۸،۲۶۸ حامد علی شاہ سیالکوٹی.حضرت میر پہلی وحی کے موقع پر آپ کی گواہی ۱۱۲ ۳۷۴ ۵۴۱ ۶۷۴،۵۵۷ ۲۰۹ ۵۲۰ ۳۲۰،۳۱۹ ۲۱۰،۲۰۹ حضرت مسیح موعود نے جب خلیل احمد.مرزا وقف زندگی کا اعلان کیا تو پائندہ خان.خان بہادر ۳۹۴ وقف زندگی کی شرائط میر حامد شاہ صاحب سے پیرا دتا.حضرت اقدس ۲۱۱ لکھوائیں کے ایک ملازم تیمور.امیر ثناء اللہ امرتسری.مولوی ۲۹۷ داؤد غزنوی مولوی حامد علی.حضرت حافظ ۵۲۶ وحیہ کلبی.حضرت ۲۱۲ ۱۹۹ حبیب اللہ خان.امیر دیانند.پنڈت ۵۷۱ تا ۵۸۹،۵۷۴ ج حبیب اللہ شاہ - حضرت ڈاکٹر ۶۳۰،۳۸۴،۳۷۳،۳۷۲ حسان بن ثابت.حضرت آپ کا مشہور شعر ۳۶۷ ،۳۶۱،۳۴۴ جلال الدین شمس - مولانا ۴۸۸ | كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى ڈ ڈارون.چارلس ڈگلس..مسٹر رائم.حضرت ۶۱۳ حسن.حضرت امام ۱۱۲ ہندو بھی تسلیم کریں گے کہ جیون لعل ۶۲۳ حسین.حضرت امام ۱۱۲ حضرت کرشن اور حضرت
۳۵ رام چندر کو خدا تعالیٰ نے سید احمد بریلوی.حضرت ۲۹۸ ۱۳۳،۱۲۵ اسی لئے بھیجا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ان کے نمونہ عباس.حضرت 1++ ۳۴۸،۳۴۴ ، ۱۲۹ ،۱۲۸ پر چلیں شاہ محمد سید ۶۱۴ ۶۱ عبدالاحد خان (افغان) ۶۲۹،۶۱۲ رحمت اللہ خان ۲۰۸ شریف احمد.صاحبزادہ عبدالرحمن مصری.شیخ ۴۸ رحمت الله شیخ ۲۱۵ ،۲۱۴ حضرت مرزا شوکت علی.مولانا ۵۹۷ ،۵۹۶،۲۷۰ ،۵۷۶،۴۶۹،۳۱۰،۲۸۸ ۲۶۷ ۶۴۲،۵۸۶،۵۸۱،۵۸۰ رحمت علی.مولوی شیر محمد خان ( مبلغ انڈونیشیا) ۶۱۴ رشید احمد.مرزا ۳۷۴ صفیہ - حضرت رمضان علی.مولوی ۶۱۳ رنجیت سنگھ ۱۹۹، ۱۴۷ طاہر احمد (اوّل) ز زوغو.شاہ البانیہ طاہر احمد.حضرت مرزا ۲۳۵ (خلیفة المسیح الرابع ) زین العابدین ولی اللہ شاہ.حضرت ۶۱۳ ۳۹۱ عبدالرحیم درد.مولانا ۶۲۳،۶۱۲ عبدالرحیم نیر.مولانا ۴۸۹،۴۸۴ ۱۳۱ | عبدالستار شاہ.حضرت ڈاکٹر ۳۷۳ ۳۸۸ ۳۷۱ تا ۳۷۴ عبدالشکور ۵۹ ۵۵۹،۵۵۷ ،۲۷۰،۲۷۷ ، ۱۶۰ عبدالقادر المغربي عبدالکریم سیالکوئی.حضرت مولوی ۱۷۵ ۲۴۸ ،۲۹،۲۸ ظفر اللہ خان.حضرت سر محمد عبد اللہ بن ابی بن سلول ۲۲۹ تا ۲۳۱، ۲۶۹،۲۶۸،۲۶۷ ۴۱۴ سرورشاہ.حضرت سیّد سعد پاشا ( کر دلیڈر ) ۲۵۶ ۲۳۷ ۵۹۵،۵۹۴،۵۹۳،۵۵۲ عبداللہ سنوری.۶۰۱ تا ۶۰۷، ۲۶۷۶۲۵، ۲۶۹،۲۶۸ | حضرت منشی سکندرحیات خان سر ۵۹۳٬۲۱۸ ظہور حسین بخارا.مولوی ۶۱۲٬۲۴۱ عبد اللہ الہ دین سیٹھ سلطان احمد خان بہادر.حضرت مرزا ع ۵۲۶۵۲۵ ۴۸۸ عبداللہ.بھائی سیٹھ ۵۹۱ تا ۵۹۳ ۶۳۶،۶۳۵،۲۰۶ عائشہ صدیقہ - حضرت ۱۰۵ | عبدالله سهروردی ۲۶۷
۳۶ عبداللہ مالا باری عبدالقدیر نیاز.صوفی عزیز احمد.ملک ۶۱۳ ۶۱۳ ۶۱۴ عصمت بی بی.صاحبزادی ۵۳۶ ۳۶۱ تا ۳۷۱،۳۶۳ تا ۳۷۳ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ۵۲۶ ۴۰۲،۳۸۶،۳۷۶، ۴۰۹،۴۰۵ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا ۴۶۸،۴۵۲،۴۳۱،۴۳۰ آنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمُ ۴۷۱ تا ۴ ۴۹۹،۴۹۴،۴۹۱۰۴۷ لَا يُفْتَنُونَ ۵۲۳،۵۲۱،۵۲۰ تا ۵۳۲ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ عکرمہ حضرت ۱۰۸، ۲۵۷، ۲۵۸ ۵۳۴ تا ۵۴۶،۵۴۴،۵۴۲،۵۴۰ | فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى عمر فاروق.حضرت ۱۴ تا ۱۷ ۵۴۸ تا ۵۵۷،۵۵۱ تا ۵۶۴،۵۶ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۱۶۷ ،۱۲۳،۱۰۹۱۰۷ عیسی علیہ السلام.حضرت ۲۱ ۵۴۷ ، ۴۶۷ ،۳۶۴،۳۶۰،۲۶۲ ۵۶۶ تا ۵۷۹،۵۷۳،۵۷۲۵۶۹ ۵۳۹ ۲۴۳ ۵۸۳،۵۷۸ ۵۹۶،۵۹۱،۵۹۰،۵۸۵،۵۸۰ وَقَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَوا تَذْكُرُ ۶۰۹ تا ۶۱۲، ۶۱۷، ۶۲۴،۶۲۷ ترف يُوسُفَ ۶۳۱،۶۲۹،۶۲۷ تا ۶۴۰،۶۳۸ | شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَتَوَلَّ ۶۴۸،۶۴۶،۶۴۵ ۵۳۹ عَنهُم.حین ۵۴۶،۵۳۹ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود إِنَّ الصَّابِرِينَ يُوَفَّى لَهُمْ غلام احمد قادیانی علیہ السلام.کولوگوں کی ہدایت کیلئے حضرت مرزا.۳۲،۲۰،۱۸،۱۳ ۱۵۶ ۱۵۵، ۱۵۲ ۱۵۱،۱۳۸،۱۳۷ مبعوث کیا أَجْرُهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ٣٦٢ إِنَّا اَرْسَلْنَاهُ شَاهِداً ۵۳۹ دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں جس و مُبَشِّرًا وَنَذِيراً ۱۵۹ تا ۱۶۵،۱۶۳، ۱۶۹،۱۶۷ کے نام پر اتنے آدمی اپنی جانیں كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ۱۷۳،۱۷۲ ،۱۸۵،۱۷۵، ۱۸۷ تا ۱۹۲ قربان کرنے کیلئے تیار ہوں ظلمتتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ ۴۵۳،۲۸۱ ۱۹۸ ، ۱۹۹ ، ۲۰۲،۲۰۰ تا ۲۱۳ تا ۲۳۲ جتنے آدمی حضرت مسیح موعود ۲۳۹،۲۳۸،۲۳۶،۲۳۴ ۲۴۸ تا ۲۵۱ ۲۵۵ تا ۲۵۹ ۲۶۲ تا ۲۶۵، ۲۷۲،۲۶۷ ۲۷۷ تا ۲۸۰۲۸۲ تا ۲۸۲، ۲۸۸ ۳۰۴،۳۰۳،۲۹۹،۲۹۷ ،۲۹۰ ۳۲۷ ،۳۲۴،۳۲۳،۳۲۰ لَيُمَزِّ قَنَّهُمْ کے نام پر تیار ہیں ۱۳ | اُردو الہامات ۶۱۰،۵۸۴ ، ۱۵۴ آپ کے خاندانی حالات ۱۹۹ بادشاہ تیرے کپڑوں سے عربی الہامات مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ برکت ڈھونڈیں گے وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا ۴۵۰،۲۷۸
۳۷ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا.فضل احمد.صاحبزادہ مرزا ۲۰۶ کمال الدین ایڈووکیٹ.یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسرا فضل حسین - سر نام محمود ہے ۵۴۰ فضل حق.مولوی تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں فضل الرحمن.موت کے پنجہ سے نجات پاویں.اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس ۵۴۱ ۶۱۶،۲۱۹ ۲۶۷ ۶۱۰،۵۸۶،۲۱۴،۱۵۱ خواجه ل لوکس.مسٹر حضرت حکیم ۶۱۴،۵۱۸ فورمین کرسچین کالج کے پروفیسر فقیر اللہ.حضرت ماسٹر ۲۶۴ لیتھویٹ ۱۶۸ کے آنے کے ساتھ آئے گا فقیر اللہ.بابو ۶۱۴۶۱۳ وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری ۲۶۹ ۵۴۳ ۲۸۱ لیکھرام پشاوری.پنڈت ۲۰۳ نور آتا ہے نور غلام حسین.سر ۵۰۳ غلام فرید.ملک ۶۱۲ غلام قادر.مرزا (حضرت اقدس کے بھائی) ۲۵۸ غلام محمد.حضرت صوفی (مبلغ ماریشس) ۶۱۲ غلام محمد.ڈاکٹر ۶۴۲ ق قاسم علی.حضرت میر ،۵۴۳،۵۲۴،۵۲۳،۲۲۳ کرشن علیہ السلام.حضرت ہندو بھی تسلیم کریں گے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو خدا تعالیٰ نے اسی محمد مصطفی عل.حضرت ۱۳ تا ۱۷ ،۱۰۱،۱۰۰،۶۱،۳۰،۲۱،۱۹ ۱۰۳ تا ۱۱۲ ۱۱۵ تا ۱۳۵ ، ۱۳۷ تا ۱۳۹ ۱۸۳،۱۵۹ ، ۱۹۰،۱۸۷ تا ۱۹۲ ۲۴۷ ،۲۲۶،۲۰۴ ،۲۰۲،۱۹۸ لئے بھیجا تھا کہ اس زمانہ کے غلام مرتضی.حضرت لوگ ان کے نمونہ پر چلیں فتح خان فتح محمد سیال.۵۲۶ کسر می شاه ایران اس کا رسول کریم ﷺ کی گرفتاری کیلئے سپاہی بھیجنا ۶۱ ۲۹۷ ،۲۸۲،۲۷۲،۲۷۱،۲۵۷ ۳۴۱،۳۲۳،۳۱۲ تا ۳۵۰،۳۴۹ ۳۶۰،۳۵۲ تا ۳۶۶،۳۶۳ ۴۲۹،۴۲۴ ،۴۱۴ ،۴۱۰ ، ۴۰۹ ،۴۰۵ ۴۵۹،۴۴۶ ،۴۴۵ ، ۴۳۳،۴۳۲ ۶۲۴،۶۱۲ اور حضور کا فرمانا کہ کہہ دو حضرت چوہدری فخر الدین ملتانی ۸۴ میرے خدا نے تمہارے خدا ۴۶۰ ، ۴۷۱،۴۶۷ تا ۴۷۳ ، ۵۰۷ ۵۲۳،۵۲۱ تا ۵۳۱٬۵۲۵ تا ۵۳۳ فرزند علی خان.مولوی ۶۱۲ کو مار دیا ۲۱ ۵۴۷ ،۵۴۳،۵۴۲،۵۴۰،۵۳۹
۳۸ ۵۶۷،۵۶۰٬۵۵۱٬۵۵۰،۵۴۸ اکرام ضیف ۱۱۳ تا ۱۲۴ مبارک احمد شیخ ۶۳۴۶۳۲۶۱۱، ۶۳۸ دوسروں کی تکلیف کا ۶۴۶، ۶۴۹،۶۴۷ | احساس ۱۳۳ تا ۱۲۴ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاق کی مصیبت زدگان کی مدد کرنا ۱۱۳ تا ۱۲۴ درستی کیلئے محمد رسول کو رسول کریم ﷺ نے خواب ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا ہے ۶۳ دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ کی شریعت آخری شریعت ہے ۳۶۰ لایا گیا ہے عیسائیوں کو مسجد کے اندر ایک بدوی کے مسجد میں پیشاب ۶۱۴ مبارک احمد.حضرت مرزا ۳۷۱ ۶۳۵،۶۳۴،۳۷۲ محمد احسن امروہی.مولوی ۲۶۶ محمد اسحاق.حضرت سید میر آپ کا ذکر خیر ۲۴۵ ۵۶۹،۵۶۸،۲۴۸ محمد اسماعیل غزنوی مولوی ۶۲۳ عبادت کی اجازت مرحمت فرمانا ۱۲۳ کرنے پر فرمانا کہ اسے کچھ محمد اسماعیل.حضرت ڈاکٹر میر ۳۸۳ ۳۸۷ ،۳۸۵ ۳۹۱ آپ ﷺ کے عربوں پر نہ کہو، اس کا پیشاب رُک احسانات ۳۶۲ جائے گا ۱۲۴، ۱۲۵ محمد اعظم.سیٹھ حضرت خدیجہ کی آپ کے آپ کا عفو درگز راور نرمی ۱۲۲ ۱۲۳ محمد دین.مولوی حق میں گواہی ۱۱۲، ۱۱۸ | ایک بدوی کا آپ کے گلے محمد الدین.مولوی ایک جنگ کے موقع پر حضور ہے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا ۱۲۳ مبلغ سلسلہ البانیہ کا دشمن کو فرمانا کہ مجھے اللہ بچا آپ کی سچائی کا معیار بہت محمد حسین بٹالوی.مولوی سکتا ؟ ۹۷ بلند تھا ۱۲۰۱۱۹ آپ کی زندگی کے آخری ایام ۱۰۷ آپ اتنی رقت سے نمازیں محمد حسین.ڈاکٹر سید رسول کریم ﷺ کی شفاعت پڑھا کرتے تھے کہ بعض دفعہ یقینا سب نیبوں کی شفاعت یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی دیگ سے ارفع اور اعلیٰ ہوگی آپ کے پانچ بنیادی اخلاق فاضلہ صله رحمی ۶۱۳ ۴۶۶ ۲۰۸ تا ۲۱۱، ۳۲۷ ۱۵۱ ۶۴۲،۵۸۶،۲۱۴ محمد شریف.چوہدری مولوی ۶۱۴ ۶۱۴ ۲۱۸ کے نیچے آگ جل رہی اور محمد صادق.سماٹری اُس کا پانی اُبل رہا ہے ۱۱۳ تا ۱۲۴ محمد صادق شیخ ناداروں اور معذوروں کی محمد رسول الله علی کو خدا تعالیٰ محمد صدیق امرتسری.مولانا ۶۱۴ نے کوثر دی ۱۹ امداد ۱۱۳ تا ۱۲۴
۳۹ محمد علی جناح.قائد اعظم حضرت مسیح موعود کے وصال کے سامنے آجائے اور وہ اپنے مسٹر جناح نے مسلم لیگ کیلئے وقت آپ کا عظیم الشان عہد کرنا ۲۶۴ علوم کے ذریعہ قرآن کریم سات کروڑ مسلمانوں سے آپ کا گیارہ سال کی عمر میں پر حملہ کر کے دیکھ لے..دس لاکھ روپیہ چندہ طلب کیا تھا ۴۶۹ تحقیق کر کے حضرت مسیح موعود میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا دوں گا......۲۲۷ محمد علی ایم اے.مولوی ۱۵۱ تا ۱۵۳ پر ایمان لانا ۴۷۲،۴۷۱ کے کلام سے ہی اُس کو جواب آپ کا حضرت خلیفہ اول سے طب اور تفسیر پڑھنا ۵۷۰ تفسیر نویسی کا چیلنج ۵۷۱ تا ۵۷۷ ۴۷۰،۲۶۶،۲۶۵،۲۱۵ ،۲۱۴ ۵۷۶،۵۷۱،۵۵۱،۴۸۶،۴۷۲ ۵۸۹،۵۸۶،۵۸۵،۵۸۳،۵۷۷ ۶۳۸،۶۳۵،۶۳۴،۶۳۲،۵۹۱ محمد غوث.سیٹھ محمد مدثر افریقہ ۳۹۱ ۶۱۲ محمد نذیر خان.ماسٹر ۵۹۷،۵۹۶ رؤیا میں فرشتے کا آپ کو کشوف الہامات سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھانا ۵۷۰ کون ہے جو خدا کے کام کو رؤیا کی حالت میں دیکھا کہ روک سکے میں ایک ایسی جگہ پر ہوں مجھے الہام ہوا ہے کہ اگر تم جہاں دشمن کی فوج کے ساتھ پچاس فی صدی عورتوں کی جنگ ہورہی ہے ۱۵۷ اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی ۶۱۰،۱۵۴ محمد یار عارف.مولوی ۶۱۲ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک حاصل ہو جائے گی ۴۴۶،۳۲۷ زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا ایب ڈی کیٹڈ محمد یوسف شیخ ایڈیٹر اخبار نور ۴۸۵ | میں بھیجے گا (Abdicated) | ۱۶۱ ۱۴۹ ، ۱۶۷ میری روح ایک زمانہ میں محمود احمد خان.حکیم کسی اور شخص پر جو میرے محمود خان.ڈپٹی کمشنر ۵۴۲،۲۷۲،۲۵۹،۲۴۳،۲۰۶ ۵۸۶،۵۶۸ محمود احمد.حضرت مرزا جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا نازل محمود طرزی بشیر الدین.خلیفتہ المسیح الثانی ہوگی اور وہ.....دنیا کی اصلاح ۱۴۳،۲۳ ، ۷ ۱۷ ، ۲۱۶،۱۸۵، ۲۷ | کرے گا ۳۰۷ ،۲۸۵،۲۶۶،۲۵۳،۲۴۵ ۳۶۹،۳۵۵،۳۳۹،۳۱۵ سابق افغان وزیر ) ۱۲۱ مولا بخش.شیخ آپ کے چیلنج مصطفیٰ کمال پاشا ۳۸۱ ۲۰۸ ۲۳۵ ۶۴۲ ۲۳۷ ۴۳۵،۴۲۷ ،۴۲۱،۳۹۷ ،۳۹۵ میں ان سب سے کہتا ہوں دنیا مطلوب خان.ڈاکٹر ۵۱۳،۴۶۱ کے کسی علم کاما ہر...میرے ۲۷۰ ۵۹۶ تا ۵۹۹
معراج الدین.ڈاکٹر ۳۹۱ کثیر الاشاعت کتاب سرمیور نیاز احمد.شیخ مطیع الرحمن بنگالی.صوفی ۴۹۷ مظفر خان.نواب ۶۱۳ ۲۱۸ گورنر یو پی کی ہی لکھی نیاز محمد.حضرت شیخ ہوئی ہے ۳۴۵ نیوٹن.سر آئزک ۶۴۲ ۲۷۲ کشش ثقل کی تھیوری کا موجد ۳۲۰ ۱۹۹ نذیر احمد.مولوی ۶۱۴،۴۹۰ ۴۹۰ بادی بیگ.مرزا نذیر احمد.ڈاکٹر ۶۱۴ ہرکشن داس سیٹھ نذیر احمد مبشر.مولانا نذیر حسین دہلوی.مولوی ۲۰۲ و ۲۰۴ نصرت جہاں بیگم.ولی اللہ شاہ دہلوی.حضرت ۲۹۸ حضرت سیدہ اماں جان ۵۱۷ ۵۹۶،۵۸۰،۵۳۷ یعقوب بیگ.ڈاکٹر مرزا ۱۵۱ ۴۸۶،۲۶۶،۲۱۶ ، ۱۲۴ ۱۵۳ ۶۴۶،۶۴۲ ۲۸۰ ۳۵۹ ۳۶۴ منظور محمد.حضرت پیر ۶۲۸،۶۲۷ ۳۶۰ موسیٰ علیہ السلام.حضرت ۵۲۱،۴۷۳ ،۴۶۷ ،۳۶۴ ۲۰۰ ۶۲۴۶۱۷ مہاراجہ کپورتھلہ مہاراجہ کشمیر مہر علی رئیں.شیخ مولا بخش شیخ ۵۲۶،۲۷۲،۲۵۶،۲۰۴ ۶۴۲ نعمت اللہ ولی دہلوی.شاہ میتھیوز.جے نوح علیہ السلام.حضرت ایک دیسی پادری جو حضرت مصلح موعود کے قتل کے ارادے نورالدین بھیر دی.حضرت مولانا ۱۵۰،۱۳ تا ۲۱۳،۱۵۲ تا ۲۱۶ یعقوب علی عرفانی.حضرت شیخ ۵۸۱،۵۷ ۱۴۰ یوسف علیہ السلام.حضرت ۳۶۰،۳۵۹،۱۹۳،۱۸۸،۱۹۷ ۴۵۹،۵۴۸ ،۵۴۱،۳۶۴ ۶۳۲،۶۳۱،۵۶۴ ۶۲۹ سے قادیان آیا تھا میور.سرولیم ( سابق گورنر یو پی ) اسلام کے خلاف سب سے زیادہ ۳۰۴،۳۰۱،۲۶۵،۲۶۳،۲۶۰ ۵۶۹،۵۶۸،۵۶۶ ،۵۴۱ ،۴۶۴ ۵۹۶،۵۹۵،۵۸۹،۵۸۰ ۳۴۶،۳۴۵
J.۳۱۱،۲۱۱،۲۰۹،۲۰۲ ۶۴۶۴۳ ۱۷۶ بٹالہ بد و ملهی بدو برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی ۶۵۰،۳۳۸،۲۸۳،۲۴۴ 3 البانية مقامات ۱۷۳،۱۵۵ ۳۲۸،۲۷۱،۲۳۹،۲۳۵،۲۲۱ ۶۱۳،۶۱۱،۴۶۶ ۲۸۸ ۱۵۵،۱۱۵ الله آباد امریکہ ۲۲۸،۲۲۳،۲۲۱،۱۷۳،۱۷۲،۱۹۸ ۶۰۳،۳۲۸ ،۲۸۷ ،۲۳۰ ۵۸۷ ،۱۱۵، ۱۱۴ ۳۹۱،۱۵۵ ۶۱۱ آسام آسٹریا آسٹریلیا الى سينيا برطانیہ ۲۹۳،۲۹۲،۲۷۱،۲۴۰،۲۳۱،۲۳۰ ۴۸۳،۴۸۰،۳۲۹ ،۳۲۸ ،۳۲۲ ۶۰۳،۴۸۸ تا ۶۱۳،۶۱۱،۶۰۵ ۲۲۹ تا ۲۳۱، ۲۸۳،۲۵۵،۲۴۴ ۶۰۱،۵۹۹،۵۰۶،۵۰۰،۳۳۸ ۶۵۱۶۵۰،۶۰۵،۶۰۴۶۰۲ ۳۰،۲۸،۲۷ ۳۷۴،۲۹۱،۲۷ ۱،۲۶۹ ،۲۹۹ ۶۰۷ ،۶۰۲،۵۸۷ ،۵۸۶،۴۶۶ ۶۱۴،۶۱۱ ۶۱۳ ۲۸۷ ۲۸۷ برما بڑودہ ۶۴۷ ،۶۴۵،۶۱۵ ۲۲۵ ۶۰۳،۴۹۱،۳۱۱،۲۸۸ ،۲۳۱ ۲۳ بلوچستان ۲۹۹،۲۸۸ ،۲۸۷ ۴۸۶،۴۸۴،۳۲۸ ،۳۰۱،۳۰۰ ۶۰۵ ،۵۹۴،۴۹۷ ،۴۹۱،۴۸۷ ۲۸۸ ۲۴۰،۲۳۴ ۲۸۸ ،۲۸۷ ،۲۶۷ ،۱۱۴ ۴۹۷ ،۳۲۸ ،۲۹۹ ۴۹۷ ،۳۲۸ ،۲۸۷ ،۱۱۴ سبتی ۱۵۵،۱۵۱،۲۸ امرتسر ۲۸۸ ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸،۱۵۵ ۳۲۸،۲۹۹،۲۸۷ انڈیمان ddܙܙܝܺܙ انگلستان اٹلی احمد آباد ارجنٹائن اڑیسہ افریقہ ۲۹۲،۲۷۹،۲۷۲،۲۷ ۱،۲۲۱۱۵۵ ۴۵۹،۳۵۳،۳۲۸ ،۲۹۵،۲۹۴ ۵۱۸،۵۱۷ ،۴۹۵،۴۸۸ ،۴۶۶ ۶۵۱،۶۴۵،۶۱۵،۶۱۴،۶۱۲،۶۱۱ ۱۷۳،۱۵۵ افغانستان ۲۲۱، ۲۲۷ تا ۲۷۱،۲۳۹،۲۳۰ ۳۳۰،۳۲۸،۳۲۲،۲۹۱،۲۹۰ ۳۷۴،۳۷۳،۳۵۲،۳۳۱، ۴۸۸ | بنارس ۴۹۳، ۶۰۱،۶۰۰،۵۱۸،۵۰۶ | بورنیو ۲۷۱،۲۳۵،۲۱۹،۲۱۲، ۳۲۸ | ایران ۶۱۰،۶۰۳ تا ۶۱۲ ، ۶۱۵ بنگال ۲۲۹،۲۲۱۱۵۵،۲۱ ۲۳۴ ،۲۷۱،۲۴۰، ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸ پہار ۶۱۱،۶۱۰،۴۸۵
۶۱۳،۶۱۱،۲۴۰ حیدر آباد ح ۲۸۸ ،۲۸۷ ۴۹۲،۵۹۱،۴۹۲،۴۸۸ ،۳۹۱ ۴۹۱،۴۹۰ ۳۴۸،۳۴۳ ،۳۴۱،۳۳۹ ۴۸۹ ۲۳۱،۲۰۸ ۴۹۰،۲۷۱ ۲۸۷ ۴۲ ۳۸۸،۱۸۷ | ٹانگانیکا (افریقہ ) بہشتی مقبره قادیان بیروت ۲۸۳،۱۴۲،۱۴۱،۲۱ ٹرا ونکور ( ہندوستان ) ۶۵۰،۴۶۰،۳۵۳ ج بیکانیر بيلجيئم پٹیالہ ۲۸۷ ۵۸۷ ۶۰۶،۶۰۵،۶۰۰ J³ ۵۲۵ جاپان ۱۷۲،۱۵۵ ۲۳۴،۲۲۹،۲۲۱،۱۷۳ ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸ | حنین ۲۲۱۱۵۵ | حیفا جاوا (انڈونیشیا) پشاور ۴۸۵،۱۱۴، ۴۸۶، ۴۹۲،۴۸۷ جرمنی پنجاب ۱۵۱،۳۵،۱۶ ۲۲۹،۲۲۸ ،۲۲۷ ،۲۷۳،۲۷۱ ۷۲،۱۵۵ ۳۲۸،۲۹۱،۲۲۹،۲۲۱،۱۷۳ دہلی ۳۸۱،۳۱۹،۳۰۱،۲۸۸ ،۲۷۶ ۴۸۷ ، ۴۸۶ ،۴۵۸ ،۳۹۱،۳۸۷ ۶۴۴،۶۲۵،۶۰۳،۵۹۴،۴۹۲ ۶۱۲،۶۱۱،۶۰۱،۶۰۰،۵۸۷ ،۳۳۱ ۵۶۵،۲۲۱ ۶۰۰ ۲۹۹،۲۸۸ ۲۸۸ ۳۷۲ ۱۵۵،۱۱۵ ۱۶۳، ۲۱۶، ۲۶۳،۲۱۹، ۲۸۷ تا ۳۰۰ ۴۸۲،۳۴۵،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۱۹ ۴۹۷ ، ۴۹۶ ،۴۹۴ ،۴۸۳ جنوبی افریقہ جنوبی امریکہ ۲۹۲،۲۷۱،۲۴۰ ، ۱۱۵ ۵۰۰ تا ۵۹۳،۵۰۵ تا ۵۹۵ جنوبی یورپ ۳۳۱ ڈنمارک پولینڈ ۲۳۵،۲۲۱،۱۵۵ ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸،۲۷۱،۲۳۹ جودھ پور ۲۸۷ | ڈھاکہ جہلم ۳۳۰،۳۰۳،۳۰۰،۲۹۹ راولپنڈی رعیہ (ضلع نارووال) ۲۷۱،۲۴۱،۲۴۰،۲۲۱،۱۷۳ ،۱۵۶ روس ۶۱۲،۶۱۱،۵۰۰،۴۹۹،۴۹۳،۳۲۸ ۳۷۴،۲۸ ۲۸۷ ۲۲۱۱۵۵ جے پور چیکوسلواکیہ ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸،۲۳۹،۲۳۵ ۱۵۵،۴۶ ۳۲۸،۲۳۴،۲۲۹،۲۲۱،۲۰۴ ، ۱۷ ۶۱۹ ۲۸۸ پھیرو چیچی ہونا تامل ۳۰۱،۳۰۰،۲۹۹ چین ٹانڈہ (ضلع ہوشیار پور ) ۵۲۶
۲۲۱،۱۶۸ ۴۹۰،۳۲۸ ،۲۹۲،۲۷ ۱،۲۴۰ ۶۱۴،۶۱۲،۶۱۱ لدم7 فلسطين فیروز پور ۴۳ ۶۱۴،۶۱۱،۳۴۱،۲۴۰،۱۶۸ ۱۶۸ ۶۴۶،۶۱۶،۶۰۶،۶۰۳،۵۸۸ ۲۶،۲۵،۱۱،۳ ۱۲۸،۱۵۳،۱۴۷ ،۱۴۶،۳۳ قادیان ۲۰۲،۲۰۰،۱۸۷ ، ۱۸۱،۱۸۰،۱۷۹ ۲۱۶،۲۱۳،۲۱۱،۲۰۹ ،۲۰۷ ،۲۰۴ ۲۳۷ ،۲۳۰،۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۹ ،۲۱۷ ۲۸۷ ،۲۶۶،۲۶۵،۲۶۲،۲۵۸ ۳۱۲،۳۱۱،۳۰۴،۳۰۳،۲۹۹ ۳۸۳،۳۵۷ ،۳۳۴،۳۲۷ ،۳۱۷ ۲۶۱ ۲۶۱ شام ۶۱۱،۳۴۹،۲۷۱،۱۵۵ ۴۹۱،۲۳۴ چین سیٹلمنٹس سٹریٹ سرحد ۴۹۶ ،۴۹۲،۴۸۷ ،۲۹۹ شملہ سرگودہا لدها الله ولد سرو بایا ۲۳۴،۱۵۵ سرینگر ۶۲۳،۶۲۲ طائف سماٹرا ۲۳۴،۲۲۱ آپ جب طائف میں تبلیغ کیلئے ۶۱۱،۲۹۲،۲۷۱،۳۴۰ ۶۱۴ گئے تو شہر کے لوگوں نے آپ ۲۹۹،۲۸۸،۲۸۷ ،۱۲۴ ۴۸۲،۴۱۲،۳۸۱،۳۲۸ ،۳۰۰ ۵۰۳،۴۹۶،۴۸۷ ،۴۸۳ کو پتھر مارے اور لہولہان کر کے شہر سے نکال دیا ۷۶ عراق ۴۱۳،۴۰۸ ، ۴۰۶ ،۳۹۱،۳۸۸ ۵۹۸ ،۴۹۰،۲۹۲ ۴۳۷ ، ۴۲۹،۴۲۳،۴۱۸ ، ۴۱۴ ۱۷ ،۱۶ ۶۵۱،۳۳۸ ،۲۸۳، ۲۴۴ ۴۵۹،۴۵۸ ،۴۵۰،۴۴۹۰ ۴۴۷ ۴۸۶،۴۸۵،۴۶۸ ،۴۶۳ ۶۱۱،۴۹۱ ۱۷۵،۱۲۳، ۱۰۶ ،۱۰۱ ، ۱۰۰ ۳۴۶،۲۷۱،۲۷۰،۲۵۵ ،۲۲۹ ۳۲۸ ،۲۹۹،۲۸۷ ۴۹۱ تا ۴۹۳، ۵۱۵،۴۹۹،۴۹۸ ۵۹۹،۵۹۸ ۵۹۱،۵۸۲،۵۵۹،۵۲۵ ،۵۲۰ الله ۶۱۳،۶۰۴،۵۹۹،۵۹۷ ،۵۹۵ ۴۹۱،۳۷۲،۲۸۸ ،۳۳ ۶۳۰،۶۲۹ لله الله الله ۶۱۲،۳۵۲،۲۴۰،۲۳۴ کابل ۵۹۸ ۲۲۹،۲۲۸ ،۲۷ ۶۱۱۶۰۲،۶۰۱،۶۰۰،۲۹۱،۲۷۱ فارس فرات فرانس سندھ سنگاپور سوڈان سی پی سیالکوٹ سیرالیون ۲۲۱ ۶۱۴،۶۱۱،۴۸۹،۳۲۸ ،۲۴۰ سیلون (سری لنکا) ۶۱۳،۶۱۱،۲۴۰،۱۶۸
۶۰۶ ۲۲۱۱۵۵ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے ماریشس ۴۹۱،۲۰۹ ۳۲۸،۱۵۵ ۶۱۴،۴۸۹،۴۵۹ ۱۷۹،۷۶ ،۱۱۴ ۴۴ ۲۸۸ گورداسپو ۲۹۹، ۳۶۷ گولڈ کوسٹ ل لاہور ۶۰۵،۴۸۷ ،۴۸۶ ،۴۸۴ ۱۹۹ ۲۸۷ ،۲۱۸ کانپور کراچی ར་ ۶۱۲۶۱۱،۳۲۸،۲۴۰ ۲۹۹،۲۸۸ ،۲۸۷ ۲۲۱،۲۱۸،۲۷ ،۲۱۳،۲۱۲،۲۰۸ ۶۱۵،۵۸۴،۳۷۷ تا ۶۱۸ ۲۲۴، ۲۲۷، ۲۳۶، ۲۴۲،۲۳۹ | مدراس ۶۲۱ تا ۶۲۷ ۱۶ ۳۰۰،۲۹۹ ۲۷۹،۲۷۲،۲۶۶،۲۶۳،۲۷۹ مدینه منوره ۳۲۸ ،۳۰۰،۴۸۸ ،۴۸۶،۴۸۵ 101.10.17 ۳۴۶،۳۴۲،۱۲۶ ،۱۲۵ ، ۱۰۸ ۵۰۹ ،۴۱۴ ۲۷۲،۲۶۶،۲۶۳،۲۶۰،۲۴۴ ۳۳۸،۳۳۷ ،۳۱۷ ،۲۸۸ ،۲۸۳ ۴۱۹ ،۳۹۱،۳۸۴ ،۳۸۳،۳۸۰ کعبة الله کلکتہ ۶۴۴ ،۴۹۲،۴۸۷ ، ۴۸۶ ،۴۸۴ ۲۸۸ ۶۱۱ کنعان بائبل سے ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی ہڈیاں مصر سے ۴۸۶ ، ۴۹۳،۴۹۲،۴۹۱،۴۸۷ | ڈوره ۶۲۴،۵۹۵،۵۸۶،۵۸۴،۵۵۲ تا ۶۵۱،۶۴۵،۶۴۳،۶۲۶ مرا کو مسجد اقصیٰ قادیان ۴۸۵،۲۶۳ ۵۹۶،۵۹۵،۵۵۹ ۲۰۴،۱۷۹ ۲۵۳، ۲۵۹،۲۵۵ تا۲۶۲ مسجد مبارک قادیان ۷۹ ۱۸۰ ۶۴۴،۶۰۳،۴۸۵،۳۷۳ ۲۱، ۱۴۰ تا ۱۴۲ ۲۲۹،۲۲۱،۱۹۳ ، ۱۸۸،۱۶۸،۱۵۱ ۲۹۲،۲۸۳،۲۷۱،۲۶۹،۲۴۰ ۴۶۶،۳۵۳،۳۲۸، ۶۰۶ تا ۶۰۸ ۶۱۴،۶۱۱ ۱۰۵،۲۶،۱۵،۳ ۵۲۷ ،۲۸۸ ،۲۸۱،۲۸۰ ۲۸۸ ۲۸ ،۲۷ ۶۵۰،۶۱۳،۶۰۱،۲۹۱،۲۱۹ ۱۸۸ لدھیانہ لکھنو لندن ۴۸۵ ۲۴۰ ۶۰۲،۶۰۱،۲۹۲،۱۱۴ کنعان لائی گئیں کوئٹہ کینیا کینیڈا گجرات ۳۰۰،۲۹۹ لیبیا ۶۰۷ ،۲۶۹،۲۶۸ گوالیار ۲۸۷ حضور کا رویا میں دیکھنا کہ گوجرانوالہ ۴۹۲ | مصر میں ہوں اور لیبیا کے محاذ مکہ معظمہ
۲۱۴،۱۵۶ ۴۹۷ ،۳۴۵،۲۸۸،۲۸۷ ۱۷۲،۱۵۵ ۲۹۱، ۳۱۹،۲۹۳، ۳۲۷تا۳۲۹ ۴۵ وزیر آباد ولایت و ۶۴۲ | پیامه ۵۰۶،۳۷۴،۲۵۵،۲۸ | یو پی یورپ ۶۰۰ ۳۴۱،۲۲۶،۱۲۶،۱۲۲،۱۲۰ ۵۰۷ ،۳۴۶،۳۴۴ ۷۶،۱۵۵ ملایا (انڈونیشیا) ۳۲۸ ،۲۸۳ ،۲۴۴ ، ۲۳۴ ملتان ۴۹۱،۲۸۸ ہالینڈ ۴۹۷ ہندوستان منٹگمری (ساہیوال) ۴۰۰،۳۶۵،۳۴۶،۳۴۴ ،۳۳۱ ۳۵،۱۶ ۲۳۸،۲۲۹،۲۱۶،۲۱۲،۱۶۳،۱۵۱ ۶۴۷ ، ۵۰۵ ،۴۸۰ ،۴۶۶ ،۴۵۴ ۲۸۷ ۲۹۰،۲۸۹،۲۸۷ ،۲۷۱،۲۴۰ ۲۲۱۱۵۵ یوگوسلاویہ ۲۹۲ تا ۲۹۵، ۳۰۱،۲۹۹،۲۹۸ ۴۶۶ ،۴۶۰،۳۲۸،۲۷۱،۲۳۹ ۲۷۱،۲۴۰ 171h45 ۶۱۱،۶۰۴،۵۰۱ ۴۵۷ ، ۵۴۵ ،۴۵۱،۴۵۰،۴۴۹ ۴۸۸،۴۸۶،۴۸۴،۴۶۶ ،۴۵۸ ۵۰۳،۴۹۵،۴۹۱ تا ۵۱۷،۵۰۶ ۲۸۸ ۶۰۰ میسور میمن سنگھ (بنگال) ن ناروے نائیجیریا یوگنڈا ۶۱۷ ،۶۱۳،۶۰۵،۵۹۷ ،۵۸۴،۵۱۸ ۲۳۹،۱۵۵ | یونان ۶۱۳،۶۱۱،۳۲۸،۲۷۱ ہنگری ۲۴۰،۱۵۵ ۶۱۴،۶۱۲،۶۱۱،۵۱۸ ،۴۸۸ ،۳۲۸ ۶۵۱،۶۱۱،۲۷۱ ثال گولڈ
۱۴۲ ۱۴۰ ۱۴۰ ۴۹۳ ۲۱ ۴۶ र آ.کتابیات آئینہ کمالات اسلام ۷۶ ۲۴۳ تجلیات الہیہ | ابن ماجہ.سنن ۲۵۰ تذکرہ مجموعہ الہامات ابوداؤد.سنن ۴۶۰،۳۱۳،۵۲ اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا ۱۷۲ تذكرة الشهادتين ۶۵۱،۲۸۳،۲۴۴ تفسیر کبیر ( مصلح موعود ) الاستيعاب في تفسیر کبیر پڑھ کر مخالفوں نے ۱۴۰ | طبقات ابن سعد ۶۵۱،۲۴۴ ۱۷۶ b دیوان خواجہ معین الدین چشتی در مشین فارسی معرفة الاصحاب ۳۵۳،۲۸۳ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس جیسی سبز اشتہار ۳۵۳،۱۴۲،۱۴۱ ۲۸۳،۱۴۰ آج تک کوئی تفسیر نہیں ستیارتھ پرکاش لکھی گئی ۲۲۴ سیرت ابن ہشام ترمذی.جامع صحیح ۲۴۴ تکذیب براہین احمدیہ ۵۲۴ السيرة الحلبية چ سیرت حضرت اماں جان ۶۵۱ اس کی خریداری کے متعلق تحریک ۵۱۷ ش ۳۸۳ شرح دیوان حسان بن ثابت ۳۸۳ ۳۸۳،۲۱ ۲۱ ۱۶۰ اسد الغابة اقرب الموارد انجیل بائیل ( عہد نامہ قدیم وجدید ) ۱۸۸ چشمه معرفت حجة الله خ ل خطبہ الہامیہ ۲۷۷، ۷۷۵ لائف آف محمد محمد ۶۳۴ ،۴۱۹ ،۱۹۳ ۱۶۰۶۷ ۵۱۱ ۱۴۱ ،۱۴۰،۲۱ انجیل متی بخاری.جامع صحیح ۶۵۰،۳۸۳،۳۵۳،۱۴۲
۱۷۶ الفضل قادیان ۳۰۶،۲۸۳،۲۵۱،۲۴۳ ، ۱۹۲،۱۸۴ ۳۶۷ ،۳۵۳،۳۳۸ ،۳۳۷ ،۳۱۳ ۱۱۶ ۴۷ ۴۶۰،۴۳۳،۴۲۶ ،۴۱۹ ،۳۹۵ ۶۵۱،۶۵۰،۳۸۳،۵۲ ۵۱۱،۵۰۷ ، ۵۰۵ ،۴۹۸ ، ۴۶۶ ۶۵۰،۶۳۱،۵۲۰ ۶۵۱ ۲۷ لندن ٹائمز سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۴۴ ۶۵۱،۲۱۶ مجموعه اشتہارات جلد اول ۶۴۹ نظام نو الوصيت اخبارات ورسائل اشاعة السنة جلد ١٣ پیغام ام صلح لاہور ۱۴۰ ۶۵۰،۴۶۰،۱۴۲ مشکوۃ المصابیح مسند احمد بن حنبل مسلم.جامع صحیح ۱۴۰ ۳۵۳،۳۰۶،۲۸۳،۱۸۴ ۶۵۱ المصلح الموجود