Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد مصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 16
رقيب عنوانات افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۱۹۴۰ء) مستورات سے خطاب (۱۹۴۰ء) سیر روحانی (۲) احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر اللہ تعالیٰ ، خاتم التبتين اور امام وقت نے مسیح موعود کو رسول کہا ہے افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۱۹۴۱ء) مستورات سے خطاب (۱۹۴۱ء) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۱ء) سیر روحانی (۳) جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء کے کارکنان سے خطاب خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ہمارا آئندہ رویہ خدام الاحمدیہ سے خطاب افتتاحی تقریر جلسه سالانه (۱۹۴۲ء) مستورات سے خطاب (۱۹۴۲ء) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۲ء) نظام کو ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ صفحه ง σ ۱۹ 1+9 ۱۳۵ ۱۴۱ ۲۲۵ ۲۳۱ ۲۴۳ ۴۰۱ ۴۰۵ ۴۱۹ ۴۲۵ ۴۴۷ ۴۵۵ ۴۶۵ ۴۹۷ ۶۰۷ رشمار ٨ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹
انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف که بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ تعارف کتب یہ انوار العلوم کی سولہویں جلد ہے جو سید نا حضرت فضل عمر خلیفتہ المسیح الثانی کی ۲۶ دسمبر ۱۹۴۰ء سے ۱۴ جنوری ۱۹۴۳ ء تک ۱۹ مختلف تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے.(۱) افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء یہ خطاب حضور انور نے مؤرخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۰ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر ارشاد فرمایا جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ کی علمی و عملی لحاظ سے تشریح و تفسیر فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- آج اس بیابان میں جمع ہونے والے تمام لوگ ایسے ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی اس وحی کی صداقت کی ایک علامت ہیں.لوگ کہتے ہیں مرزا صاحب کی صداقت اور سچائی کی کیا دلیل ہے؟ آج ہم انہیں ایک دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ - اُس وقت جب کہ آپ کا کوئی نام بھی نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے آپ کو بتا یا کہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جو تمہاری مدد کریں گے.آج ہم یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اس الہام کے پورا ہونے کا ثبوت ہے.1
انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب اس الہام کی تفسیر کے بعد حضور نے احباب جماعت کو نیز سلسلہ کے مبلغین اور علماء کو بھی اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.(۲) مستورات سے خطاب (۱۹۴۰ء) یہ خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۰ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر مستورات میں ارشاد فرمایا.جس میں حضور انور نے اس تصور اور خیال کی عقلی و نقلی دلائل سے تردید فرمائی ہے کہ عورتیں مردوں سے کوئی علیحدہ چیز ہیں.جس کی وجہ سے عورتیں اپنے آپ کو بعض ذمہ داریوں اور فرائض سے بری الذمہ سمجھتی ہیں.نیز مرد بھی عورتوں کو بعض لحاظ سے ایک الگ مخلوق سمجھتے ہیں.حالانکہ ہمارے مذہب میں ہر عمل میں مرد اور عورتیں یکساں طور پر شامل اور جواب دہ ہیں.لہذا عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے.چنانچہ آپ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:- پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو کہ عورت کوئی کام نہیں کرسکتی.میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو! تم اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو.آدمی کے معنی مرد کے ہیں.تم بھی ویسی ہی آدمی ہو جیسے مرد.خدا نے جو عقیدے مردوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں اور جو انعام اور افضال مردوں کے لئے مقرر ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں.پھر جب خدا نے فرق نہیں کیا تو تم نے کیوں کیا.جب تک تم یہ خیال اپنے دل سے نہ نکال دو گی کوئی کام نہیں کر سکو گی.جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں مرگیا ہوں تو وہ مر جاتا ہے اور جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کام کر سکتا ہوں تو وہ کر لیتا ہے.“ (۳) سیر روحانی (۲) 66 یہ معرکة الآراء خطاب حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء کو جلسہ سالانہ.
انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا.یہ روح پرور تقریر سیر روحانی کا ہی تسلسل ہے.اس تقریر میں حضور نے دو چیزوں کو موضوع بنایا ہے.پہلا موضوع مساجد ہیں.اس موضوع پر حضور نے ظاہری مساجد کا ذکر کر کے عالم روحانی کی شاندار مساجد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ مساجد کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے اور فوائد کیا ہیں.اس تعلق میں آپ نے مساجد کی دس خصوصیات بیان فرمائی ہیں اور صحابہ کرام کی روحانی طور پر مساجد کے ساتھ گہری نسبت ثابت فرمائی ہے.کیونکہ مساجد اور صحابہ کی خصوصیات میں مماثلت پائی جاتی ہے.مثلاً دعوت الی اللہ، مساوات کا قیام، تقدس اور ذکر الہی کا مرکز ، دینی تربیت کا مرکز بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت، امن کا ذریعہ، شر اور بدی سے بچانے کے لئے ، امامت کے قیام جیسے تمام امور میں مساجد اور صحابہ کے درمیان قدرمشترک پائی جاتی ہے.دوسرا مضمون قلعوں سے متعلق تھا جس میں قلعے بنانے کے اغراض و مقاصد بیان کر کے اُن کی گیارہ خصوصیات فرمائی ہیں.پھر ان دُنیاوی قلعوں کا روحانی قلعوں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی قلعوں کی برتری ثابت فرمائی.آپ نے اپنی اس تقریر میں عقلی و نقلی دلائل سے قرآن کریم کو سب سے عظیم اور محفوظ ترین روحانی قلعہ ثابت فرمایا ہے.،.(۴) احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم وتمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لئے قائم کی گئی یہ خطاب سید نا حضرت طلیقہ اسیح الثانی نے ار فروری ۱۹۴۱ء کو بیت الاقصی قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر ارشاد فرمایا پہلی دفعہ مورخه ۲، ۴، ۶ اکتوبر ۱۹۶۰ء کوروز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوا اور اب پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے.یہ خطاب تربیتی نوعیت کا ہے جو کئی قسم کی زریں ہدایات پر مشتمل ہے اور تمام خدام کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے.اس خطاب میں جن امور پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ حسب ذیل ہیں.ا.مرکز میں بار بار آنے کی ضرورت واہمیت.۲.حضرت مسیح موعود کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت.
انوار العلوم جلد ۱۶ ۳.خدام کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیئے.۴.مصائب و تکالیف کے دوران خدا کی رضا کے لئے صبر و تحمل اختیار کرنا.۵.ہمیشہ اور ہر حال میں سچائی کو اختیار کرنا اور جھوٹ سے نفرت کرنا.۶.عفوا ور درگز را ور چشم پوشی سے کام لینا.ے.یورپین کھیلوں کی بجائے دیسی ودیہاتی کھیلوں کو رواج دینا.تعارف کا ۸.مرکزی عہدیداران کا خود پروگراموں میں حصہ لینا اور تمام خدام کے ساتھ ذاتی تعلق اور واقفیت پیدا کرنا.۹.اعمال میں نفسانیت کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ تمام اعمال محض خدا کی رضا کے لئے ہوں.چنانچہ اس تعلق میں آپ خدام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:- میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں.اُن میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو.اُن میں بُزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو اور اُن میں تقویٰ کے خلاف کسی چیز کی آمیزش نہ ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اتنا مضبوط، اتنا بہادر اور اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود کہیں کہ تمہارا عفو خدا کے لئے ہے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں.ایسی قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے.“ (۵) عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر یہ خطاب حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی اس تقریر مشتمل ہے جو حضور نے عراق کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائی.یہ تقریر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ۲۵ رمئی ۱۹۴۱ء کونشر ہوئی اور اسے دہلی اور لکھنو کے اسٹیشنوں سے بھی نشر کیا گیا.اس تقریر کا محرک در اصل دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اٹلی کا عراق پر حملہ آور ہونا تھا.حضور نے اس تقریر میں پہلے تو عراق کی اسلامی تاریخ کے لحاظ سے جو اہمیت ہے نیز تمام امت مسلمہ کا جو عراق کے ساتھ جذباتی تعلق وابستہ ہے اُس پر روشنی ڈالی.اس کے بعد بتایا کہ عراق پر حملہ دیگر اسلامی ملکوں حتی کہ ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے.لہذا یہ وقت سوم
۵ انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب آپس میں بحث و تمحیص کا نہیں بلکہ کام کا ہے.آپ نے اپنی اس تقریر میں اس فتنہ سے بچاؤ نیز عراق میں امن قائم کرنے سے متعلق بہت عمدہ تجاویز بیان فرمائیں اور اُمتِ مسلمہ کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:- ان حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے.ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے.....اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دبانے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں تا کہ جنگ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دُور رہے.اور ٹرکی، ایران، عراق اور شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں.یہ وقت بحثوں کا نہیں کام کا ہے.اس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اِس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالم اسلام کو پیش آنے والا ہے تا کہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے.“ (1) اللہ تعالی، خاتم النبین اور امام وقت نے مسیح موعود کو رسول کہا ہے مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ مطبوعہ’الفضل‘۱۸ جون ۱۹۴۱ء بابت دعوی نبوت حضرت مسیح موعود کے جواب میں ایک مضمون شائع کیا.جس میں مولوی صاحب نے اپنے خیالات و نظریات کے تحت حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات اور عبادات سے غلط مفہوم اخذ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے مقام نبوت پر فائز ہونے کی تردید کی.نیز حضرت مصلح موعود کی ذات پر کیچڑ اُچھالا.حضرت مصلح موعود نے مولوی محمد علی صاحب کے اس مضمون کی تردید میں یہ مضمون تحریر فرمایا جو ۱۴ /اگست ۱۹۴۱ ء کے الفضل میں شائع ہوا.حضور نے اس مضمون میں مولوی صاحب کے حضرت مسیح موعود کی نبوت سے متعلق غلط نظریات کی عقلی و نقلی دلائل سے تردید فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود کے دعوی نبوت کو روزِ روشن کی طرح ثابت کیا ہے.نیز اپنی ذات پر کئے گئے اعتراضات والزامات کا جواب دیا ہے.حضرت مسیح موعود کی نبوت
انوار العلوم جلد ۱۶ کے حوالے سے یہ مضمون خاص اہمیت کا حامل ہے.(۷) افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ء تعارف کا ی مختصر مضمون سید نا حضرت خلیفۃ السیح الثانی کے افتتاحی خطاب بر موقع جلسہ سالا نہ ۱۹۴۱ء قادیان پر مبنی ہے.اس میں حضور نے مقررین اور سامعین کو ہر کام سے پہلے اپنی نیت درست کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے میں دراصل حکمت یہی ہے کہ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو درست کر کے صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہی مخصوص کر لینی چاہئے.اس جلسہ میں بھی شریک ہونے کے پیچھے دراصل یہی نیت اور ارادہ کار فرما ہونا چاہئے.(۸) مستورات سے خطاب (۱۹۴۱ء) یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے اُس روح پرور خطاب مشتمل ہے جو حضور نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مورخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۱ء کو مستورات میں ارشادفرمایا تھا.حضور نے اپنے اس خطاب میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۴ تا ۲۶ کی تفسیر کرتے ہوئے پہلے دنیوی نہروں، باغات اور زمینوں کا اُخروی نہروں، باغوں اور زمینوں کے ساتھ فرق بیان فرمایا ہے.اس کے بعد کلمہ طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کے ساتھ طیب کے درج ذیل چار معانی بیان فرمائے ہیں.۱ خوش شکل ۲.خوشبودار ۳.لذیذ ۴.شیریں طیب کے مذکورہ معانی بیان کر کے آپ نے لجنہ اماءاللہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:- وپس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے.لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا.اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ کلمہ طیبہ سے ملتی
انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کا ہے.جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مؤمن جنت کا درخت بن جاتا ہے.پس جب تک تم کلمہ طیبہ نہ بنوگی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی.قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے...جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو عمل کا پانی دو.اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کرو.جب تم ایسا کرو گی تو تم جنت کا درخت بن جاؤ گی.پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل ، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بناؤ.جب تم ایسا درخت بن جاؤ گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی جاؤ گی وہاں سے اُٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہوسکتا.“ (۹) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۱ء) یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے ایک بہت ہی اہم خطاب پر مشتمل ہے جو حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۴۱ ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے دوسرے روز ارشاد فرمایا.اس خطاب میں درج ذیل اہم امور پر روشنی ڈالی گئی ہے.ا.جماعتی اخبارات و رسائل کا تعارف.ان کی اشاعت اور خرید بالخصوص روز نامہ الفضل اور سیر روحانی کے خریداران میں اضافہ کی تحریک.۲.تفسیر القرآن کے کام کا جائزہ.نیز تفسیر کبیر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی طرف توجہ، پیغامیوں بالخصوص مولوی محمدعلی صاحب کی طرف سے تفسیر کبیر کی مخالفت پر تبصرہ..انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن کی تکمیل کی نوید سناتے ہوئے اس کی جلد از جلد اشاعت کی ضرورت پر زور.۴.دورانِ سال ہونے والی بیعتوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کی ضرورت پر زور.
۸ انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب ۵.جنگ عظیم دوئم کے جماعتی مساعی پر منفی اثرات بیان فرمائے.اس جنگ کے ہندوستان کے لئے امکانی خطرات پر روشنی ڈالی.اور اہل ہندوستان کو جنگ میں انگریزوں کی ممکنہ حد تک مدد کرنے کی تحریک کرتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت اور مدد کے طریق کار پر روشنی ڈالی.چنده تحریک جدید امانت فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے، سادہ زندگی اختیار کرنے نیز گریجوایٹس، انٹرنس پاس اور مولوی فاضل احباب کو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی.ے.کانگرس ، مسلم لیگ اور حکومت ہند کے مابین تناؤ پر محاکمہ..ذیلی تنظیموں مجلس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کی درج ذیل چھ اغراض پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.ا.ایمان بالغیب ۲.اقامت صلوۃ ۳.خدمت خلق ۴.ایمان بالقرآن ۵.بزرگانِ دین کا احترام ۶.جماعت میں تقویٰ اللہ پیدا کرنا.در حقیقت یہ خطاب بہت سارے متفرق پھولوں کا ایک گلدستہ ہے جو اپنے رنگ و بُو کے لحاظ سے انتہائی دلکش اور دلر با ہے.(۱۰) سیر روحانی (۳) ی تقریر سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے مؤرخہ ۱۸ دسمبر ۱۹۴۱ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی.یہ تقریر سیر روحانی کے مضمون کا ہی تسلسل ہے جس میں حضور نے اپنی سیر کے دوران جو تاریخی اور معروف مقبرے اور مینا بازار دیکھے تھے اُن پر سیر حاصل تبصرہ فرمایا ہے اور ان دُنیاوی مقبروں اور مینا بازاروں کا روحانی مقبروں اور مینا بازاروں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی مقبروں اور مینا بازاروں کی افادیت اور فوقیت ثابت فرمائی ہے.اس ضمن میں آپ نے بعض انبیائے کرام کے مقبروں پر بھی روشنی ڈالی ہے.نیز انبیائے سابقین کے متبعین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبروں کا بھی ذکر فرمایا ہے.اس سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:-
۹ انوار العلوم جلد ۱۶ دو تعارف کن پس دُنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بناؤ اور یا پھر اس بہشتی مقبرہ میں بناؤ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہیں.جہاں نوح بھی ہیں، جہاں ابراہیم بھی ہیں، جہاں موسیٰ بھی ہیں.جہاں عیسی بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں.اسی طرح تمہارے آباؤ اجداد بھی وہیں ہیں.پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُس کے رسولوں کا قرب حاصل ہو.“ حضور نے دُنیاوی اور جسمانی مینا بازاروں کا قرآن کریم میں مذکورہ روحانی مینا بازاروں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی بازاروں میں ملنے والی نعماء کا مفصل ذکر فرمایا ہے.مثلاً دائی خدمت کرنے والے غلام، اعلیٰ درجہ کی سواریاں ، ٹھنڈے مشروب، شیریں چشمے، دودھ کی نہریں، پاکیزہ شراب، شہد کی نہریں، پھل، گوشت، لباس اور دیگر زینت کے سامان وغیرہ سے جنتی لوگ ہمیشہ متمتع ہوں گے.روحانی مینا بازار کی فضیلت اور فوقیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:- یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے.جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لاؤ اپنا مال اور لاؤ اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپر د کروں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان، میں کہاں سے یہ دونوں چیز میں لاؤں.اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو میں تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو.غالب تھا تو شرابی مگر اُس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:.جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
انوار العلوم جلد ۱۶ (۱۱) جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ ء کے کارکنان سے خطاب تعارف کا حضرت مصلح موعود نے یہ مختصر خطاب مؤرخہ ۴ / جنوری ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے اختتام پر جلسہ سالانہ کے کارکنان سے ارشاد فرمایا:- اس موقع پر مختلف شعبہ جات کے ناظمین نے جو رپورٹس کارگزاری پیش کیں ان پر تبصرہ کرتے ہوئے انتظامی لحاظ سے جو کمزوریاں اور خامیاں سامنے آئیں ، کارکنان کو ان کی طرف توجہ دلائی.مثلاً یہ کہ مستورات کی جلسہ گاہ کے پہرہ کا انتظام مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے.اسی طرح خوراک کی پرچیوں کی تقسیم میں احتیاط برتنے سے خوراک کو ضیاع سے بچایا جا سکتا ہے.آخر پر جلسہ کی حاضری پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ :- خدا جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو آئندہ اور بھی بڑھائے.جماعت کی قربانیوں اور خدمات میں بھی زیادتی کرے اور زیادہ اپنے قرب میں جگہ دے.“ (۱۲) خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب حضرت مصلح موعود نے یہ خطاب مؤرخہ ۲۱ جون ۱۹۴۲ء کو برموقع اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مقامی قادیان ارشاد فرمایا.اس تقریر میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو نہایت قیمتی اور زریں نصائح اور مشوروں سے نوازا ہے جو آج بھی ہمارے نوجوانوں کے لئے اور دنیا کی تمام احمدی نوجوان تنظیموں کے لئے بے حد مفید اور کارآمد ہیں.اس تقریر میں حضور نے نہایت اعلیٰ رنگ میں اسلامی تاریخ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی مثالیں دے کر نصائح فرمائیں کہ علمی اور عملی طور پر تنظیموں کو کس طرح کام کرنا چاہئے اور خدام کی اصلاح کس طرح اور کس رنگ میں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
۱۱ انوار العلوم جلد ۱۶ ( ۱۳ ) ہمارا آئندہ رویہ تعارف کا یہ مضمون حضور نے کانگرس کی طرف سے ملک میں تعطل اور فساد پیدا کرنے کی دھمکی دینے پر تحریر فرمایا جو مؤرخه ۱۸ / اگست ۱۹۴۲ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا.اس مضمون میں حضور نے حکومت کی سابقہ روش اور پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ صورتحال میں مشروط طور پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:- ”ہمارا آئندہ طریق عمل حکومت کے فیصلہ پر منحصر ہے.اگر حکومت اس امر کا اعلان کر دے گی کہ تو بہ کا اعلان کئے بغیر وہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی اور کانگرس سے ڈر کر اس سے صلح نہ کرے گی ، تو ہم پورے طور پر اس کا ساتھ دیں گے.لیکن اگر وہ ایسا اعلان نہ کرے گی تو ہم اپنے قومی تعاون کو جنگی کوششوں تک محدود رکھیں گے.“ آخر پر حضور نے احباب جماعت کو پیش آمدہ حالات میں ذہنی طور پر تیار رہنے کے لئے بعض ہدایات سے نوازا.(۱۴) خدام الاحمدیہ سے خطاب مشتمل ہے جو حضور نے مجلس یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے اُس روح پر ور خطاب خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالانہ اجتماع کے موقع پر مؤرخہ ۱۸ / اکتوبر ۱۹۴۲ء کو قادیان میں ارشاد فرمایا تھا.حضور کا یہ خطاب ۷، ۸ نومبر ۱۹۴۲ ء کو روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا.اس خطاب میں حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کا اصل کام نوجوانوں کی اخلاقی لحاظ سے تعلیم و تربیت کرنا، اُن کو باجماعت نماز کا عادی بنانا ، قرآن کریم کا ترجمہ سکھلانا، نیز نو جوانوں میں علمی ذوق پیدا کرنا ، اسی طرح خدام کو دنیا کے فیشنوں کی تقلید کرنے سے بچانا اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دلانا ہے.ان امور کے متعلق حضور نے زریں نصائح فرمائیں.
۱۲ انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب خدام میں علمی ذوق پیدا کرنے کے سلسلہ میں ہدایت فرمائی کہ اجتماع کے موقع پر ایسے لیکچرز دلوائے جائیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم بیان کی جائے.نیز اس موقع پر مختلف علمی مقابلے کروائے جائیں.اسی طرح بعض امتحان مقرر کئے جائیں تا کہ خدام کا علمی معیار بلند ہو.(۱۵) افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء یہ تقریر حضور نے مؤرخہ ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضور نے احباب جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو ہمیشہ اپنے وہ مقاصد عالیہ پیش نظر رکھنے چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بیان کئے گئے ہیں.جن میں سے سب سے بڑا مقصد اس الہام میں بیان کیا گیا ہے کہ : - میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ پس اس الہام سے ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا بڑا مقصد دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو پہنچانا ہے.لہذا یہ مقصد ہمیں ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے.مقاصد عالیہ کو یاد رکھنے کی حکمت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :- اگر مقاصد عالیہ ہماری جماعت کے سامنے ہوں تو جو لوگ سست ہیں اُن میں نسبتی طور پر چستی پیدا ہو جائے گی اور جو چست ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ چست ہو جائیں گے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی اجتماع میں شامل ہوں ہماری توجہ کا مرکز خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہوں اور وہ مقاصد ہوں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کئے ہیں.“ (۱۶) مستورات سے خطاب (۱۹۴۲ء) یہ تقریر حضور نے مؤرخہ ۲۶ / دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں عورتوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے
۱۳ انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب ہوئے نہایت قیمتی نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا کہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس کا قول اُس کے فعل کی تائید نہ کرے.لہذا اپنے قول اور فعل میں مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح عملی زندگی کی اصلاح کے لئے نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنے ، شرک ، چغل خوری اور غیبت سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.نیز بچوں کی عمدہ تربیت کرنے اور اُن کو بہادر بنانے جیسے اہم امور کی ضرورت بیان فرمائی.آخر پر ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی.(۱۷) بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۲ء) یہ تقریر حضور نے ۱۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضور نے مختلف تعلیمی، تربیتی اور انتظامی امور پر روشنی ڈالی.مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں کے انتظام میں بعض اصلاحات کرنے کی طرف توجہ دلائی.اسی طرح جلسہ سالانہ کے موقع پر ملاقات کے طریق کار میں بعض اصلاحات کرنے کی ضرورت بیان فرمائی.نیز قحط سالی کے پیش نظر غلہ محفوظ کرنے کی تحریک فرمائی.اس سلسلہ میں زمینداروں کو بھی بعض ہدایات فرمائیں.اخبار نور میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر تبصرہ فرمایا.چینی کی جگہ گڑ اور شکر کے استعمال کرنے نیز مٹی کے برتن استعمال کرنے کی تحریک فرمائی.جنگ عظیم دوئم کے حالات پر تبصرہ فرمایا.جنگ کے سلسلہ میں اتحادیوں کی مدد کرنے کی تحریک فرمائی.چندہ تحریک جدید کے مختلف مقاصد اور مصارف پر روشنی ڈالی.نماز با جماعت کے قیام اور ہر احمدی کو قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.(۱۸) نظام کو تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۴۲ء کا سال دنیا کی سب اقوام کے لئے نہایت درجہ پریشانی کا سال تھا.جس میں ایک طرف خوفناک مادی جنگ لڑی جارہی تھی اور دوسری
۱۴ انوار العلوم جلد ۱۶ تعارف کتب طرف سرمایہ داری اور اشتمالیت و اشتراکیت کے نظام ہائے زندگی آپس میں شدید طور پر متصادم ہو رہے تھے اور دُنیا کا معاشرہ بے شمار معاشی اور اقتصادی مصائب میں گھر چکا تھا اور ضرورت تھی کہ کوئی مرد خدا دنیا کی راہنمائی کرے، یہ تھے وہ حالات جن میں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی اقوام عالم کی قیادت کے لئے آگے بڑھے اور آپ نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر ” نظام نو کی تعمیر پر یہ معرکتہ الآرا خطاب فرمایا.جس میں پہلے تو عہدِ حاضر کی اُن اہم سیاسی تحریکات، جمہوریت، اشتمالیت اور اشتراکیت وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی جو عام طور پر غریبوں کے حقوق کی علمبر دار قرار دی جاتی تھیں اور خصوصاً اشتراکیت کے سات بنیادی نقائص کی نشاندہی کی.ازاں بعد غرباء کی حالت سدھارنے کے لئے یہودیت ، عیسائیت ، ہندو ازم کی پیش کردہ تدابیر کا جائزہ لیا اور آخر میں اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کر کے اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق دنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور مؤثر انداز میں پیش کیا کہ سُننے والے عش عش کر اُٹھے.اس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن مجید کی عظیم الشان تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے مامور کے ہاتھوں دسمبر ۱۹۰۵ء میں نظام نو کی بنیاد نظام وصیت کے ذریعہ قادیان میں رکھی گئی.جس کو مضبوط کرنے اور قریب تر لانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۹۳۴ ء میں تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا القاء فرمایا گیا.اس عظیم الشان لیکچر کے آخر میں حضور نے پر شوکت الفاظ میں فرمایا کہ:- وو ” جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاء اللہ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی ، جوانوں کی باپ ہو گی ، عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اِس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی پس اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا.“
۱۵ انوار العلوم جلد ۱۶ (۱۹) ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ تعارف کا سرسکندرحیات صاحب کی وفات سے پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک طوفان کی کیفیت پیدا ہو گئی اور صوبہ کا امن خطرہ میں پڑ گیا.اس صورتحال کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے اس مضمون کے ذریعہ ممبرانِ اسمبلی کو بعض قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا.یہ مضمون ۱۴ / جنوری ء کے الفضل میں شائع ہوا.اس مضمون میں حضور نے ممبرانِ اسمبلی کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے ، ذاتی مفادات کو ملکی اور قومی مفاد کے لئے قربان کرنے نیز پارٹی بازی ، جنبہ داری کو ترک کر کے اتحاد و اتفاق کو ہر دوسرے امر پر مقدم کرنے کی ہدایات دیں اور متنبہ فرمایا کہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اس کے بہت خطرناک اور بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اور آپ اپنی اولادوں کی قبریں اپنے ہاتھوں سے کھودنے والے ہوں گے.آخر پر آپ نے ممبرانِ اسمبلی کو یہ انتباہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مہر نے اس موقع پر ذاتی دوستی کا لحاظ کیا اور اختلاف پیدا کرنے میں مدد کی تو جماعت احمد یہ اُس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی.
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۴۰ ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سب تعریف اللہ ہی کی ہے کہ جس نے آج سے ۵۲ سال پہلے دنیا کی اصلاح کے لئے قادیان میں ایک ایسے شخص کو اپنا پیغام دے کر بھیجا جس کی نسبت غیر تو الگ رہے اس کا اپنا باپ بھی یہ خیال کرتا تھا کہ یہ لڑکا نکھتا اور ناکارہ ہے اور اس کا خیال تھا کہ جہاں میرا بڑا بیٹا میرے کام کو جاری رکھے گا اور میرے خاندان کو قائم رکھنے کا باعث ہوگا وہاں یہ لڑکا اپنے خاندان کے نام کو بالکل مٹا دے گا.پھر ایک ایسی بستی میں جس کو ضلع کے لوگ بھی نہ جانتے تھے اور ایسے علاقہ میں جو کہ پنجاب میں سے جاہل ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے ایسے علاقہ میں سے اور ایسی بستی میں سے اور ایسے انسانوں میں سے کہ ان میں سے ہر ایک دُنیا کی نگاہ میں حقیر سمجھا جاتا تھا ایک انسان کو چنا اور اسے فرمایا.اُٹھ اور دنیا کو میرے نام سے باخبر کر ، لوگ میرے نام کو بھول چکے ہیں، دُنیا میں بسنے والے اس کام کی ذمہ داری کو فراموش کر چکے ہیں جو میری طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی، لوگوں نے دین کو بالکل بھلا دیا ہے، مذہب کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور حق وصداقت کو پھینک دیا ہے.تو اٹھ اور ان کو پیغام پہنچا یہ مت خیال کر کہ تو اکیلا اور تنہا ہے، تو یہ مت خیال کر کہ تیرا کوئی ساتھی اور مددگار نہیں ہے.فرمایا ہم تمہارے ساتھ ہیں.اور يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ ہم ضرور ایسے آدمی مقرر کریں گے جو تیری مدد کے لئے کھڑے ہوں گے اور ہم ان کے دلوں پر وحی نازل کریں گے.خدا تعالیٰ نے جب اپنا یہ پیغام نازل کیا اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے انسان
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء انوار العلوم جلد ۱۶ دُنیا میں سے میسر آجائیں گے اور کون یقین کر سکتا تھا کہ وہ خدا جسے مختلف مذاہب کی کتابیں پیش کرتی ہیں وہ اب بھی انسانوں کے دلوں پر وحی نازل کر سکتا ہے اور وحی نازل کر کے لوگوں کو اسے ماننے پر مجبور کر سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اُس وقت بتایا کہ میں ایسے آدمی کھڑے کروں گا اور پھر ایسا ہی کر کے دیکھا بھی دیا.کتنے ہی ہم میں سے ہیں جنہوں نے اس پیغام کو سُنا اور ان کے نفوس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن آخر اللہ تعالیٰ انہیں راہِ راست پر لے آیا اور ایک دن انہیں اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھے اور قادیان میں پیدا ہونے والا مامور سچا ہے.پھر کتنے ہی ہم میں سے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا اور اس بات کی توفیق دی کہ وہ احمدیت کا مطالعہ کریں اور عقل و فکر سے کام لیں اور ان پر خدا تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت کھول دی.اس طرح وہ اس لئے احمدی نہ ہوئے کہ ان کے ماں باپ احمدی تھے بلکہ اس لئے ہوئے کہ ان کے دل نے احمدیت کی صداقت کی گواہی دی ، ان کے مشاہدات نے گواہی دی.پس سارے کے سارے جو احمدیت میں داخل ہوئے وہ یا تو باہر سے آئے یا پھر احمدی گھرانوں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تحقیق کر کے اور جستجو کے بعد احمدیت کو قبول کیا نہ کہ ورثہ کے طور پر.یہ سارے کے سارے ایسے ہی لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ کہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جنہیں وحی کے ذریعہ تحریک کریں گے کہ وہ اس نبی کی مدد کریں.سو آج اس بیابان میں جمع ہونے والے تمام لوگ ایسے ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی اس وحی کی صداقت کی ایک علامت ہیں.لوگ کہتے ہیں مرزا صاحب کی صداقت اور سچائی کی کیا دلیل ہے؟ آج ہم انہیں ایک دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ اُس وقت جب کہ آپ کا کوئی نام بھی نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جو تمہاری مدد کریں گے.آج یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اس الہام کے پورا ہونے کا ثبوت ہے جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ - یہ کتنے نشانات ہیں صرف اس جلسہ میں ہی بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھو، عورتوں اور مردوں کے جلسہ میں آج شامل ہونے والوں کی تعداد میں ہزار کے قریب ہو گی اور اگر صرف رِجَال کو ہی لیا جائے تو آج ان کی تعداد ۱۵، ۱۶ ہزار ہو گی.
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء انوار العلوم جلد ۱۶ پھر جلسہ کے آخر تک اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ۲۰ ہزار تک پہنچ جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ایک بیج بویا اور اُسے اس قدر بڑھایا ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے اس احسان کی قدر کریں کہ اُس نے ہمارے دلوں کو مہبطِ وحی بنایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک کو وحی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد کے لئے کھڑا کریں گے.پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک صاحب وحی ہے.اگر کسی کو کبھی الہام نہ ہوا ہوا گر چہ اکثر لوگ ایسے ہیں جن کو الہام ہوتے رہتے ہیں تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بتا تا ہے کہ ہراحمدی کو الہام ہوا.چاہے وحی خفی ہو یا وحی جلی.وحی خفی دماغ پر نازل ہوتی ہے پس کوئی احمدی نہیں جو صاحب وحی نہ ہوا اور جب ہر احمدی صاحب وحی ہے تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی عظمت اور شوکت دنیا پر ظاہر کرے.پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا میں جماعت کے لوگوں کو ان کی عام ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یہ ایام خشیت اللہ کے اور خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے ہیں پس جو لوگ ان ایام میں یہاں آئے ہیں وہ جہاں آپس میں ملاقاتیں کریں ، دنیوی کام سرانجام دیں، وہاں ساتھ ہی خدا تعالیٰ کو زیادہ یاد کریں، زیادہ دعائیں کریں، زیادہ توجہ سے نمازیں پڑھیں.دیکھو! جب بارش ہوتی ہے تو زمیندار اپنے کھیتوں کی مینڈیں درست کرنا شروع کر دیتا ہے تا کہ کھیتوں میں پانی بھر لے نہ کہ گھر میں بیٹھا رہتا ہے.یہ ایام خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے دن ہیں.پس خدا تعالیٰ کی رحمت کے پانی سے اپنے سینوں کو بھر لو تاکہ سال بھر تمہارے کام آئے اور جب تک پھر تمہیں یہاں آنے کا موقع ملے اُس وقت تک تمہارے دلوں کی کھیتی سُوکھے نہیں.پس ان ایام میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو، زیادہ سے زیادہ عبادت کرو اور زیادہ سے زیادہ اپنے قلوب میں خشیت اللہ پیدا کرو.ہو سکتا ہے کہ اگلے سال تم میں سے کسی کو ایسی ضروریات اور مشکلات پیش آ جائیں جن کا علاج اُس کے پاس نہ ہو اور وہ سالانہ جلسہ میں شریک نہ ہو سکے.یا دوران سال میں ہی کوئی شیطان اس قسم کا وسوسہ ڈال دے جس کے ازالہ کے لئے اس جلسہ میں کوئی بات نہیں کہی گئی لیکن اگر ان ایام میں تم خصوصیت سے تہجد پڑھو گے، دعائیں کرو گے اور نمازیں ادا کرو گے تو اول تو اللہ تعالیٰ تقریریں کرنے والوں کی زبان پر ایسے الفاظ نازل کرے گا جو سارے سال تمہارے کام آئیں گے.یا پھر آپ کے دل میں ایسا چشمہ جاری کر دیگا جو سارا سال تمہارے ایمان کو تازہ رکھے گا اور کسی شیطان کی وسوسہ اندازی کچھ اثر نہ کرے گی.
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۰ء پھر ان ایام کا نہایت اہم کام جلسہ کی تقریروں کا سننا ہے مگر کئی دوست اُس وقت جب کہ تقریریں ہو رہی ہوتی ہیں اِدھر اُدھر پھرتے اور وقت ضائع کرتے ہیں.میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور زیادہ سے زیادہ جلسہ سے فائدہ اُٹھا ئیں.خود بھی تقریریں سنیں اور اپنے دوستوں کو بھی سننے کے لئے کہیں.میں اس موقع پر مبلغین اور علماء کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی تقریروں میں اخلاص اور ہمدردی کو مدنظر رکھیں.کوئی چبھتا ہوا یا سخت لفظ استعمال نہ کریں.بے شک اعتراضات کے جواب دیئے جائیں مگر جواب اپنے اندر اخلاص اور محبت رکھتا ہو.ایسے درد اور خیر خواہی کے ساتھ ہو کہ معترض بھی اسے محسوس کرے اور اگر کوئی سخت سے سخت دل ہو تو بھی صداقت کی گرمی سے متاثر ہو کر حق قبول کر لے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں.آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ پہلے جلسوں سے زیادہ اس جلسہ سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.پہلے اگر کچھ زنگ ہمارے دلوں پر باقی رہ گیا ہے تو اب ہمارے قلوب کو صاف کر دے ، ہمیں اپنے چنیدہ بندوں میں شامل کرے، اپنی اطاعت اور فرمانبرداری میں آگے ہی آگے بڑھنے ، تیز سے تیز قدم اُٹھانے اور بڑی سے بڑی برکتیں حاصل کرنے کا مستحق بنائے ، ہماری اولادوں کو سلسلہ کے وقار کو قائم رکھنے کے قابل بنائے انہیں ہر قسم کے فتنہ اور شر سے بچائے.پھر نہ صرف اپنے لئے ، نہ صرف اپنے خاندان کے لئے، نہ صرف جماعت احمدیہ کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے مفید بنائے وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ ہتھیار ثابت ہوں.پھر نہ صرف ہمیں اور ہماری اولاد کو بلکہ ایک لمبے سلسلہ کو ایسے پاک مظاہر بنائے کہ وہ دینِ اسلام اور احمدیت کے لئے عزت اور وقار کا موجب بنیں اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں.آمین.لے تذکرہ صفحہ ۵۰.ایڈیشن چہارم ( الفضل ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۴۰ء )
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب (۱۹۴۰ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مستورات سے خطاب فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - عورتوں کے متعلق ایک مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اُسے رات دن عورتوں کے کان میں ڈالا جائے اور صبح و شام اُن کو اور مردوں کو اس کی اہمیت بتائی جائے تو بھی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ کوشش تھوڑی ہو گی کیونکہ یہ مرض جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں ہزاروں سال سے دُنیا میں چلا آتا ہے اور جو مرض ہزاروں سال سے چلا آئے اُس کا ازالہ ایک دفعہ کہنے سے نہیں ہو سکتا.مردوں اور عورتوں دونوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتیں مردوں سے علیحدہ چیز ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی ذمہ داریاں جو اُن پر عائد ہوتی ہیں اُن کی طرف یا تو وہ توجہ نہیں دیتیں یا اُن کو وہ اہمیت نہیں دیتیں جو دینی چاہئے.یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کی اہمیت کو جتنا بھی ظاہر کیا جائے اتنا ہی ان کے لئے فائدہ مند ہے.میں نے دیکھا ہے یہ خیال اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ مرد یہ خیال کرتے ہیں کہ عورتیں کوئی الگ چیز ہیں اور عورتیں بھی اپنے آپ کو اُن سے علیحدہ چیز خیال کرتی ہیں.عورتیں ہمیشہ آدمی کے معنے مرد لیتی ہیں.اگر کسی مجلس میں مرد بیٹھے ہوں اور عورتوں سے پوچھا جائے کہ وہاں کون ہیں؟ تو جواب دیتی ہیں کہ آدمی بیٹھے ہیں حالانکہ آدمی کا مطلب انسانوں سے ہے اور جس طرح آدم کی اولاد مرد ہیں اسی طرح عورتیں.پھر جب عورتیں بیٹھی ہوں تو مرد کہہ دیتے ہیں کہ کوئی آدمی اندر نہ آئے وہاں عورتیں بیٹھی ہیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ دو نسلیں ہیں.ایک آدم کی دوسری شیطان کی.جب مرد اپنے آپ کو آدم کی اور عورتوں کو شیطان کی ذریت قرار دیں گے تو وہ کیسے ترقی کر سکیں گی.یہ خیال اتنا غالب آ گیا ہے کہ جب بھی پڑھی لکھی
تورات سے خطا انوار العلوم جلد ۱۶ عورت خواہ وہ گریجوایٹ ہو یا مولوی، مردوں کا ذکر کرے گی تو آدمی کہہ کر کرے گی حالانکہ خدا تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں انسانیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالارُحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبات فرمایا اے مردو اور عورتو! ) ہم تمہیں ایک بات بتاتے ہیں اسے یاد رکھو.تم پر کئی دفعہ مصیبتیں آتی ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت کا بچہ بیمار ہوتا ہے کبھی خاوند ، کبھی قرضہ ہو جاتا ہے، کبھی محلے والے دشمن ہو جاتے ہیں، کبھی تجارتوں میں نقصان ہو جاتا ہے، کبھی کوئی مقدمہ ہو جاتا ہے اُس وقت تمہیں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے تم ادھر ادھر پھرتے ہو کہ کوئی پناہ مل جائے.کوئی دوست تلاش کرتا ہے ، کوئی وکیل تلاش کرتا ہے، کوئی رشتہ دار کے پاس جاتا ہے فرماتا ہے اتنی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہو؟ ہم تمہیں ایک آسان راستہ بتاتے ہیں وہ یہ کہ اِتَّقُوا رَبَّكُمْ.تم اس تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو ڈھال کیوں نہیں بنا لیتے.چھوٹے بچے میں سمجھ نہیں ہوتی لیکن اس پر بھی جب مصیبت آئے تو سیدھا ماں کی طرف بھاگتا ہے.مگر بڑے آدمیوں کو دیکھو کوئی مشرق کی طرف جائے گا کوئی مغرب کی طرف کوئی جنوب کی طرف اور کوئی شمال کی طرف اور ان میں یہ پرا گندگی پائی جائے گی.تو فرمایا کہ اے انسان! تو بچپن میں سمجھ نہیں رکھتا تھا تو ماں کی طرف بھاگتا تھا.اب تو تو جوان ہو گیا ہے اب اُس خدا کی طرف کیوں نہیں بھاگتا جس نے تجھ کو پیدا کیا.بچپن میں تمہیں خدا کی سمجھ نہیں تھی اب تو تم بڑے ہو گئے ہو تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری ماں تو تمہاری حفاظت کر سکتی تھی مگر خدا نہیں کر سکتا.اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ إِن مصیبتوں کے وقت اپنے رب کو ڈھال بنا لیا کرو.اُس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا.ایک جان سے مراد مرد اور عورت کا مجموعہ ہے بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ یہاں آدم اور حوا مراد ہیں کیونکہ آدم کی پہلی سے حوا پیدا ہو گئی.اگر آدم کی پہلی سے توا پیدا ہو گئی تھی تو عورت کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی.ہمیشہ مرد کی پسلی سے بچہ پیدا ہو جاتا.تو نَفسِ وَاحِدَہ سے مراد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی چیز ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لَن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ سے اے موسیٰ ! ہم ایک کھانے پر کفایت نہیں کر سکتے.حالانکہ وہ من اور سلوی دو کھانے کھاتے تھے لیکن چونکہ دونوں کو ملا کر کھاتے تھے اس لئے انہوں
انوار العلوم جلد ۱۶ نے ایسا کہا.مستورات سے خطاب ماں کو بچے سے محبت ہوتی ہے مگر وہ پسلی میں سے پیدا نہیں ہوتا.اسی طرح ہر نر و مادہ میں محبت ہوتی ہے.سارس ایک جانور ہے اُن میں اِس قدر محبت ہوتی ہے کہ اگر نر یا مادہ مر جائے تو دوسرا ٹھوکا رہ کر مر جاتا ہے تو محبت کا مادہ اللہ تعالیٰ نے فطرت میں رکھا ہے جس طرح نر اور مادہ میں اس نے محبت رکھی ہے اسی طرح مرد اور عورت میں رکھی ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت نَفْسٍ وَاحِدَہ ہیں.جس طرح من و سلوی طعام واحد ہے اسی طرح مرد اور عورت نَفْسٍ وَاحِدَہ ہیں.وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.اور اس کی جنس میں سے ہی جوڑا بنایا.مرد کی جنس عورت ہے اور عورت کی جنس مرد مِنْهَا سے مراد مِنْ نَّفْسِهَا ہے.عورت کا زوج مرد اور مرد کا زوج عورت ہے.مرد عورت کی قسم سے اور عورت مرد کی قسم سے ہے.اس آیت میں یہ بتایا کہ عورت کے زوج کا لفظ مرد کے لئے بولا جاتا ہے اور مرد کے زوج کا لفظ عورت کے لئے بولا جاتا ہے.جیسے کہتے ہیں کہ جوتی کا جوڑا.ایک پاؤں ہو تو کہتے ہیں اس کا دوسرا جوڑا کہاں ہے وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا.پھر ہر مرد اور عورت کی آگے نسل چلائی.وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ - اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے ذریعے تم سوال کرتے ہو اور تقویٰ اختیار کرو اُس خدا کا جس نے تمہارے اندر محبت پیدا کی اور تمہاری اولاد کا سلسلہ جاری کیا.بے شک تم اپنے ماں باپ کا بھی خیال رکھو مگر خدا کو کبھی نہ بھولو کیونکہ ماں باپ نے تو تم کو عارضی زندگی دی لیکن خدا نے تم کو دائی زندگی دی.اسی طرح بے شک رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو لیکن جس کا تعلق تمہارے ساتھ سب سے زیادہ ہے یعنی خدا ، اُس کا بھی خیال رکھو.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.جس طرح ماں بچے کی نگران ہوتی ہے اسی طرح خدا تمہارا نگران ہے.پس یہ خیال غلط ہے کہ مرد کوئی اور چیز ہے اور عورت کوئی اور چیز ہے.جیسے مرد انسان ہے ویسے ہی عورت انسان ہے.ہاں کاموں میں فرق ہے.عورت بچہ جنتی ہے، بچے کی پرورش کرتی ہے ، مرد روزی کماتا ہے اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے.یہ کاموں کا جو فرق ہے اس سے میرے دل میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز ہے جو عورت کے درجہ کو کم کرنے والی ہے.کاموں کے فرق مردوں میں بھی پائے جاتے ہیں.میں خلیفہ ہوں لیکن ہر مرد تو خلیفہ نہیں اور نہ میرے خلیفہ ہونے سے باقی احمدی مرد ہونے سے خارج ہو گئے.کاموں کے فرق کی وجہ سے کوئی
انوار العلوم جلد ۱۶ جنس بدل جاتی ہے؟ مستورات سے خطاب عام طور پر خاندانوں میں کوئی بچہ کلرک ، کوئی مدرس اور کوئی پٹواری ہوتا ہے اور باپ کا کام اور ہوتا ہے بیٹے کا اور.اور پٹواری بھی مرد کہلاتا ہے ، ڈاکٹر بھی مرد کہلاتا ہے، تجارت کرنے والا بھی مرد کہلاتا ہے اسی طرح عورتوں میں دھوبن ، نائن ہوتی ہے.اب دھو بن بھی عورت ہے اور نائن بھی عورت.یہ تو نہیں ہوتا کہ دھو بن اور نائن ہونے سے وہ عورت نہیں رہتیں.اسی طرح ایک نوکر ہوتا ہے ایک آقا.تو کاموں کے فرق کی وجہ سے جنس نہیں بدلتی.مردوں کے پیشوں میں بھی فرق ہے اور عورتوں کے کاموں میں بھی فرق ہے.وہ دونوں آدمی ہیں صرف کام الگ الگ ہیں.یہ مسئلہ اگر عورتیں سمجھ لیں تو وہ اپنے حقوق کی خود ہی حفاظت کر نے لگ جائیں.اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم بھی آدمی ہیں اور مرد بھی انہیں آدمی سمجھنے لگ جائیں تو کسی کی طرف سے ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کاموں کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں فرق ہے لیکن خدا تعالیٰ نے عقائد میں کوئی فرق نہیں رکھا.سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ اُعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً خدا تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.اب کیا مردوں کو یہ حکم ہے عورتوں کو نہیں ؟ اسی طرح ملائکہ پر ایمان لانا ہے جس طرح مردوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ اسی طرح عورتوں سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ.تیسری بات الہام یعنی اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا ہے.نبیوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اے مردو! یہ کام کرو بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ اے مردو اور اے عورتو! یہ کام کرو.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لائے تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اے مردو اور عورتو! یہ کام کرو.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھیں.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی مرتبہ الہام ہوا تو آپ بہت گھبرائے اور اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ سے گھبراتے ہوئے کہا کہ میں یہ کام کس طرح کروں گا مجھے تو سخت فکر لگ گیا ہے.حضرت خدیجہ نے جواب دیا كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ اَبَدًا.خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے سپرد اتنا بڑا کام کرے اور پھر آپ کو رسوا کر دے.آپ مہمان نواز ہیں ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں وہ ضرور آپ کی مدد کرے گا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھی.غرض انبیاء جب کبھی
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب کلام الہی لے کر آتے ہیں تو اُن کے مخاطب عورتیں اور مرد یکساں ہوتے ہیں.اسی طرح قضاء وقدر کے مسائل ہیں ان میں بھی مرد اور عورت یکساں مخاطب ہوتے ہیں.جزاء وسزا پر ایمان لانا بھی جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے ضروری ہے.غرض عقیدوں کو دیکھ لو ایک عقیدہ بھی ایسا نہیں جو مردوں کے لئے ہو اور عورتوں کے لئے نہ ہو.اس کے بعد ہم عمل کی طرف آتے ہیں تو ہمیں عمل میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا.مثلاً عمل میں نماز کا حکم ہے.نماز کا حکم جیسا مردوں کے لئے ہے ویسا ہی عورتوں کو ہے.وہی رکھتیں مردوں کے لئے ہیں اور وہی عورتوں کے لئے.پھر ز کوۃ کا حکم ہے.اس کا حکم بھی جیسا عورتوں کو دیا ویسا ہی مردوں کو.روزوں کا حکم ہے اس میں بھی کوئی فرق نہیں.حج میں بھی سب برابر ہیں.صدقہ وخیرات کے حکم میں بھی دونوں برابر ہیں.پس عقائد ایک سے ہیں اور اعمال ایک ہیں.پھر اگر کوئی یہ کہے کہ عورتیں الگ جنس ہیں تو ہم کیسے مان سکتے ہیں.تعجب ہے کہ وہ اسلام جو اس لئے آیا تھا کہ عورت کی عزت قائم کرے آج اُسی کو ماننے والی عورتیں اپنے آپ کو نالائق قرار دے کر اعلیٰ دینی خدمات سے محروم ہو رہی ہیں.اسی طرح مرد بھی اس اہم فرض سے غافل ہیں.گویا دونوں نسلِ انسانی کو ختم کر رہے ہیں اور اپنی ذلت ورسوائی کا باعث بن رہے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے وَإِذَا الْمَوْدَةُ سُئِلَتْ - یعنی عورت کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اُسے زندہ کیوں گاڑا گیا.اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ عورتوں کی تباہی کی ذمہ داری صرف مردوں پر نہیں اور نہ صرف عورتوں پر بلکہ دونوں اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں.آج جب قریباً ہر عورت یہ خیال کر رہی ہے کہ میرے اندر کام کرنے کی طاقت نہیں تو ہر ایک عورت اپنے آپ کو نہیں بلکہ اپنی ساری نسل کو زندہ درگور کر رہی ہے جس طرح مرد اُن کو زندہ درگور کیا کرتے تھے.یہ وہ عورتیں ہیں جن کی آنکھیں تو گھلی ہیں لیکن دیکھتی نہیں اور سانس تو لے رہی ہیں مگر دل مردہ ہیں.اس موت کے ذمہ دار سب سے پہلے ماں باپ ہیں جنہوں نے اُن کو جنا.پھر اُن کی موت کے ذمہ دار بڑے بھائی بہن ہیں.پھر ان کی موت کے ذمہ دار خاوند ہیں.پھر اُن کی موت کے ذمہ دار اُن کے بیٹے ہیں.ان سب نے مل کر اُن کو مار ڈالا.اگر تمہارے اندر بیداری پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ عقائد اور کاموں کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں.صرف ایک کام ہے جس میں مرد اور عورت کا فرق ہے اور وہ جہاد
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب ہے.مگر اس میں بھی عورت کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پانی پلا سکتی ہے، مرہم پٹی کر سکتی ہے اور زخمیوں کی خدمت کر سکتی ہے.چنانچہ حضرت بلال کی بہن نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب اس بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا کام مرہم پٹی کرنا اور کھانا وغیرہ تیار کرنا ہے.پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت میں بھی عورت اور مرد کو برابر حصہ دیا ہے.صرف عورتوں کو لڑائی کے میدان سے الگ رکھا ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ ان کا پردہ قائم رہے.اگر وہ بھی لڑائی میں شامل ہوں تو نتیجہ یہ ہو کہ دشمن انہیں قید کر کے لے جائے کیونکہ جب دو ملک آپس میں لڑتے ہیں تو لڑنے والوں میں سے کئی لوگوں کو قید کر لیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے ان کو جہاد سے الگ کر دیا اور مرہم پٹی کا کام ان کے سپرد کر دیا.اگر عورتیں لڑائی میں حصہ لیتیں تو لازماً ان کو بھی قید کیا جاتا.پس ان کی عزت قائم رکھنے کے لئے انہیں لڑائی میں شامل ہونے سے روک دیا ورنہ دنیا میں ایسی ایسی عورتیں گزری ہیں جو بڑے بڑے جرنیلوں سے مقابلہ کرتی رہی ہیں.مثلاً چاند بی بی نے بہت سے کارنامے دکھائے ہیں.حضرت ضرار کی بہن نے بھی کئی لڑائیوں میں حصہ لیا.ایک دفعہ عیسائی لشکر کا بہت زیادہ دباؤ پڑا اتنا کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے.ضرار کی بہن نے ہندہ کو آواز دی کہ ہندہ نکلو یہ مرد لڑنے کے قابل نہیں ہم لڑیں گی.انہوں نے خیمے اُکھاڑ کر ڈنڈے ہاتھ میں لے لئے اور ان کے گھوڑوں کو مارنے لگیں.ابوسفیان نے اپنے بیٹے معاویہ سے کہا ” ان عورتوں کی تلوار میں عیسائیوں کی تلواروں سے زیادہ سخت ہیں.میں مرنا پسند کروں گا لیکن پیچھے نہیں لوٹوں گا، چنانچہ سب کے سب میدان جنگ میں کوٹ آئے.تو عورت لڑ بھی سکتی ہے مگر جولڑے اس کے قید ہونے کا بھی چونکہ احتمال ہوتا ہے " اس لئے اسلام یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ مسلمان عورت غیر کے ہاں جائے.پھر جہاد کے علاوہ ایک اور بات بھی ایسی ہے جس میں یہ امتیاز پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مرد نبی ہوسکتا ہے لیکن عورت نبی نہیں ہو سکتی.البتہ صدیق کا درجہ جو نبوت سے اتر کر دوسرا مقام ہے عورت کو مل سکتا ہے.تم نے سنا ہو گا کہ حضرت ابو بکر کو ابو بکر صدیق کہا جاتا ہے.اسی طرح کہا جاتا ہے مریم صدیقہ.عائشہ صدیقہ.گویا جو درجہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو دیا وہی عورتوں کو دیا.اسی طرح شہادت کا درجہ بھی عورت کو مل سکتا ہے.کوئی عورت اگر زچگی کی تکلیف سے مر جائے تو شہید ہو گی کیونکہ وہ نسلِ انسانی کے چلانے کا کام کر رہی تھی.اسی طرح عورت صالح بھی ہو سکتی ہے صرف نبوت کا درجہ عورت کو نہیں مل سکتا.لیکن نبی کو جو جنت میں انعام ملے گا اس میں عورت
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب بھی حصہ دار ہو گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے به فرماتا ہے الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِرَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيم.فرمایا خدا کا عرش اُٹھانے والے کچھ فرشتے ہیں.وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں.اور جو مومن مرد اور مؤمن عورتیں ہیں اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! ہر بات کا تجھے علم ہے ہم تجھ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ جو مومن بندے ہیں جو گناہ کر کے تو بہ کر لیتے ہیں تو اُن کو دوزخ کے عذاب سے بچا.اور اے ہمارے رب ! تو ان سارے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو جنت میں داخل کر جن کا تُو نے ان سے وعدہ کیا ہے.اگر بڑا مقام پانے والی کوئی عورت ہے تو اُس کے خاوند کو بھی وہاں رکھ.اور اگر بڑا مقام پانے والا کوئی مرد ہے تو اس کی بیوی کو بھی وہاں رکھ.اسی طرح باپ کے ساتھ اولاد کو اور اولاد کے ساتھ والدین کو رکھ.انگ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا وہ دعا قبول ہوئی یا نہیں ؟ اس کے لئے ہمیں قرآن کریم میں یہ آیات نظر آتی ہیں کہ جَنَّتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدار 9 یعنی مؤمنوں کو جنت ملے گی ہمیشہ رہنے والی.اور جو فرشتوں نے دُعا کی تھی وہ ہم نے سُن لی.جو بڑے درجہ کے لوگ ہوں گے اُن کے ساتھ ہم چھوٹے درجہ کے مؤمنوں کو بھی جو اُن کے رشتہ دار ہوں گے رکھیں گے.ان کے باپ دادے اور بیویاں سب کے سب اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوں گے اور فرشتے ان خاندانوں کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے اور کہیں گے کہ تمہارے رب نے تم کو سلام کہا ہے کیونکہ دنیا میں تم نے خدا کے لئے تکالیف اُٹھا ئیں اب مرنے کے بعد تم میری حفاظت میں آ گئے ہو.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دعا قبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے مؤمن کے ساتھ اُس کے باپ، ماں ، دادا، دادی، اولاد اور بیوی سب رکھے جائیں گے اور جب خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے تو عورت کے سب حقوق اس میں آ گئے.بے شک
تورات سے خطا انوار العلوم جلد ۱۶ موسیٰ نبی تھے اُن کی بیوی نبی نہیں مگر جنت میں جو انعام موسیٰ علیہ السلام کو ملے گا وہی ان کی بیوی کو ملے گا.اسی طرح سب سے بڑے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور سب سے بڑا مقام بھی آپ کا ہی ہو گا مگر آپ کی گیارہ بیویاں بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہی ہوں گی.غرض اعمال اور افعال کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں اور جہاں کوئی فرق ہے وہاں بدلہ ان کو زیادہ دے دیا ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بیوی ہوتی تو جنت میں وہ اکیلی آپ کے انعام میں شریک ہوتی مگر آپ کی گیارہ بیویاں تھیں اور تین بیٹیاں.اس طرح چودہ عورتیں وہی انعامات حاصل کریں گی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوں گے.پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو کہ عورت کوئی کام نہیں کرسکتی.میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو! تم اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو.آدمی کے معنے مرد کے ہیں.تم بھی ویسی ہی آدمی ہو جیسے مرد.خدا نے جو عقیدے مردوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں اور جو انعام اور افضال مردوں کے لئے مقرر ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں.پھر جب خدا نے فرق نہیں کیا تو تم نے کیوں کیا ؟ جب تک تم یہ خیال اپنے دل سے نہ نکال دوگی کوئی کام نہیں کر سکو گی.جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں مرگیا ہوں تو وہ مر جاتا ہے اور جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کام کر سکتا ہوں تو وہ کر لیتا ہے.جو ذمہ داریاں مردوں کی ہیں وہ تو انہیں پورا کر رہے ہیں.مردوں کی انجمنیں تو پنجاب میں ہر جگہ ہیں لیکن لجنات اماءِ اللہ سارے پنجاب میں نہیں بلکہ بہت تھوڑی جگہوں پر قائم ہیں.پس اول اپنی ذہنیت بدلو اور سمجھ لو کہ تم کو خدا نے دین کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.ہر عورت کا فرض ہے کہ ہر گاؤں میں لجنہ قائم کرے.جہاں جہاں احمدی ہیں وہاں لجنہ بنا لو گی تو خدا تعالیٰ کام کرنے کی بھی توفیق دے دیگا.حق بات تو یہ ہے کہ جتنی عورتوں کے ذریعے تبلیغ ہو سکتی ہے مردوں کے ذریعے نہیں ہوسکتی.اگر عور تیں تبلیغ کرنے لگ جائیں تو ملک کی کایا پلٹ جائے مگر بہت کم عورتیں ہیں جو اس کی طرف توجہ کرتی ہیں.عورت کو خدا نے ایسے ہتھیار دیئے ہیں کہ مرد مقابلہ نہیں کر سکتے مگر وہ غفلت کرتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ قیامت کے دن شاید میرا خاوند تو جنت میں چلا جائے اور میں جہنم میں چلی جاؤں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بجھتی ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتی.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو، ہر جگہ لجنہ قائم کرو، مرکز میں لکھو، اگر جواب نہ آئے تو
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب مجھے لکھو.مصباح میں مضامین دو.تعلیم یافتہ مستورات یہ کام اپنی اپنی جگہوں پر فرداً فرداً کریں.اور ہر جگہ لجنہ قائم کریں.اللہ تعالیٰ تم کو اس کام کی توفیق دے تا کہ تم بھی وہی انعامات حاصل کر سکو جو مؤمن کے لئے مقرر ہیں.ا النساء : ٢ البقرة : ٦٢ از مصباح جنوری ۱۹۴۱ء) النساء: ۳۷ بخاری کتاب بدء الوحي باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحِي (الخ) التكوير : ٩ ك فتوح الشام للواقدی.اُردو تر جمه صفحه ۳۹۲٬۳۹۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۶ء المؤمن: ٩،٨ الرعد: ۲۴، ۲۵
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) سیر روحانی (۲) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ سیر روحانی (۲) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسه سالانه قادیان ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ایک خبر پر تبصرہ اور جلسہ سالانہ پیشتر اس کے کہ میں اپنا آج کا مضمون شروع کروں میں سول اخبار کی ایک آج کی خبر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا پر آنے والوں کو نصیحت ہوں جو میری گل کی تقریر کے بارہ میں اس میں شائع ہوئی ہے کسی نے کہا ہے.چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد یعنی وہ چور بھی کیسا بہادر ہے جو چوری کرنے کے لئے ہاتھ میں لیمپ لے کر آتا ہے حالانکہ لیمپ کی روشنی کی وجہ سے لوگ اُسے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُس کی چوری کے چھپے رہنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا.پہلے بھی ” سول میں جھوٹ بولا گیا تھا جب اس کا ایک نمائندہ اُس وقت مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آیا جب میں نے اپنی وصیت کا اعلان کیا تھا وہ خود بھی سوالات کرتا گیا اور میں اُس کی باتوں کا جواب دیتا رہا جب وہ اُٹھنے لگا تو میں نے کہا کہ مجھے اخبار والوں کا بڑا تلخ تجربہ ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ آپ کوئی ایسی بات شائع نہ کر دیں جو واقعات کے لحاظ سے غلط ہو میں چونکہ ایک ایسی جماعت کا امام ہوں جو چاروں طرف سے اعتراضات کا ہدف بنی ہوئی ہے اس لئے اگر آپ نے کوئی غلط بات درج کر دی تو لوگوں کو اور زیادہ اعتراض کرنے کا موقع مل جائے گا.وہ کہنے لگا آپ بالکل فکر نہ کریں ہم لوگ بہت دیانتدار ہیں اور کوئی بات خلاف واقعہ درج نہیں کیا کرتے.اس کے بعد وہ چلا گیا اور پھر اُس نے جور پورٹ شائع کی اُس میں واقعات کو بہت کچھ بگاڑ دیا گیا تھا.اخبارات والوں میں چونکہ ایک دوسرے کے متعلق رقابت ہوتی ہے اس لئے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ ’سٹیٹسمین “ کو جب معلوم ہوا کہ رسول کا نمائندہ وہاں گیا تھا تو اُس نے بھی اپنے ایک نمائندہ کو بھیجا مگر باوجود اس کے کہ اُسے صرف پندرہ بیس منٹ ہی وقت دیا گیا تھا اُس نے جو رپورٹ شائع کی وہ ایسی غلط نہیں تھی جیسے سول اخبار کے نمائندہ کی.بعض غلطیاں اس میں بھی تھیں مگر وہ قابلِ برداشت تھیں باقی تمام رپورٹ شریفانہ رنگ میں لکھی گئی تھی.بعض دوستوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ رسول اخبار کا لہجہ چھچھورا ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ شکوہ ایسا اہم نہیں وہ ایک دُنیوی اخبار ہے کوئی مذہبی پر چہ نہیں اور جو اخبار محض دُنیوی ہو اور جس کے شائع کرنے کی غرض یہ ہو کہ ایک ایک آنہ میں اس کے پرچے پک جائیں اس کے متعلق یہ امید رکھنا کہ اُس کی زبان چھچھوری نہ ہو صحیح نہیں.ایسے اخبارات شائع کرنے والوں کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ زبان ایسی ہو جس سے لوگ حظ اُٹھا ئیں اور اُن کا پرچہ فروخت ہو جائے بہر حال مجھے اس پر اعتراض نہیں.مجھے اعتراض یہ ہے کہ بعض باتیں واقعات کے لحاظ سے اس میں بالکل غلط لکھ دی گئی ہیں.مثلاً وہی رویا جو ۲۸ سو جہازوں والا تھا اور جسے گل میں نے تفصیلاً بیان کیا تھا اس کا ذکر میں نے سول کے نمائندہ کے سامنے بھی کیا تھا مگر اُس نے رپورٹ شائع کرتے وقت جہازوں کی تعداد ۲۸ سو کی بجائے ۲۴ سولکھ دی جس کی سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ پڑھنے والوں کو جب معلوم ہو کہ خواب میں تو ۲۴ سو جہاز بتائے گئے تھے اور امریکہ سے ۲۸ سو جہاز بھیجے گئے تو ان پر یہ اثر ہو کہ خواب جھوٹا نکلا.پھر وہ خود ہی سوال کرتا گیا کہ آپ کے بیٹے کتنے ہیں؟ آپ نے شادیاں کتنی کیں؟ اب ان باتوں کے جواب میں یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شروع کر دیتا.جب وہ میری ذات کے متعلق باتیں دریافت کر رہا تھا تو میرا فرض تھا کہ میں اُنہی باتوں کا جواب دیتا مگر اُس نے اخبار میں میرے متعلق یہ لکھ دیا کہ وہ اس عرصہ میں اپنی ذات کے متعلق ہی باتیں کرتے رہے حالانکہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ سوال تو میرے متعلق کرتا اور میں جواب میں پُرانے تاریخی واقعات بیان کرنا شروع کر دیتا یا قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر شروع کر دیتا.اب کل کی تقریر کے متعلق بھی اُس نے ایسا ہی کیا ہے اور چونکہ اُس نے ایک ایسی بات میری طرف منسوب کی ہے جو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے اس لئے میں اس کی تردید کرنا ضروری سمجھتا ہوں.رسول نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم عدم تشدد کے قائل نہیں اور یہ کہ ہم گورنمنٹ کو دکھا دیں گے کہ ہم کیسے ہیں.اب ان الفاظ کا سوائے اس کے اور کیا مفہوم ہوسکتا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ہے کہ ہم گورنمنٹ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے ، بم پھینکیں گے، پستول چلائیں گے اور قتل و خونریزی کا ارتکاب کریں گے حالانکہ شروع دن سے جماعت احمد یہ جس عقیدہ پر قائم ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کسی قسم کے فتنہ وفساد میں حصہ نہیں لینا چاہئے پس یہ بالکل جھوٹ ہے جو سول نے میری طرف منسوب کیا.احرار کی شورش کے زمانہ میں گورنمنٹ صراحتاً ہمارے خلاف حصہ لیتی تھی.اُس وقت کے گورنر صاحب باوجود اس کے کہ ذاتی طور پر مجھ سے دوستی کا اظہار کیا کرتے تھے انہیں سلسلہ سے کوئی پر خاش تھی اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جماعت احمد یہ حکومت کی وفا دار نہیں.اتفاقاً انہیں اُس وقت ڈپٹی کمشنر بھی ایسا مل گیا جس نے اپنا فائدہ اسی میں سمجھا کہ ہمیں بد نام کرے.چنانچہ انہوں نے پوری کوشش کی کہ جماعت کو بدنام کیا جائے مگر ہم نے ایسے رنگ میں مقابلہ کیا کہ اپنے اصول کو بھی نہ چھوڑا اور گورنمنٹ کو بھی شکست کھانی پڑی.اُس وقت جھوٹی رپورٹیں بھی کی گئیں ، جھوٹے مقدمات بھی بنائے گئے اور ہر رنگ میں ہمیں دُکھ دینے اور دنیا کی نگاہ میں ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہم نے ان سب باتوں کو برداشت کیا اور شرافت کے ساتھ اسلامی طریق سے مقابلہ جاری رکھا اور آخر گورنمنٹ کو نیچا دیکھنا پڑا.پس جب کہ پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسر اس فتنہ میں شامل تھے اور جب کہ ضلع کے حکام دیدہ دانستہ ہمارے خلاف شرارتیں کر رہے تھے اُس وقت بھی ہم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا تو اب جب کہ لوکل افسروں کی بُزدلی کا میں ذکر کر رہا تھا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں دھمکی دے دیتا کہ پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی جماعت کے خلاف ہے اور اگر اس نے اس پالیسی میں تبدیلی نہ کی تو اسے اس کے نتائج دیکھنے کے لئے تیار رہنا چاہئے پس یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور نہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ ہمارے سلسلہ کی تعلیم بھی اس کے مخالف ہے.پھر ایک اور عجیب بات اس نے لکھی ہے جسے پڑھ کر مجھے ہنسی آئی کہ میں نے اپنی تقریر میں کہا جب تک میں خدا تعالیٰ کی راہ نمائی کے ماتحت کام کر رہا ہوں اس جہاز کو حفاظت کے ساتھ چلاتا جاؤں گا اور ہر قسم کے خطرات سے اسے محفوظ رکھوں گا حالانکہ نہ میں نے اس کا ذکر کیا اور نہ ہی اس قسم کا کوئی مضمون تھا.معلوم ہوتا ہے غیر مبائعین کے متعلق میں نے جو یہ الہام بتایا تھا کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - غالبا اس روشن دماغ مضمون نگار نے اس الہام کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے تعجب ہے کہ ایسا ذمہ دار اخبار ایسے گودنے لوگوں کو رپورٹ لینے کے لئے کیوں بھیج دیتا ہے جو بات کو پورے طور پر سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ایسی خلاف واقعہ رپورٹیں خود اخبار کے لئے مضر ہوتی ہیں اور چونکہ متواتر اس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اس لئے میں نے اس کی علانیہ تردید کرنی ضروری سمجھی ہے.چنانچہ پہلے تو میری خواب کا ذکر کرتے ہوئے اس نے جہازوں کی تعداد اٹھائیس سو کی بجائے چوبیس سو لکھ دی.اسی طرح لکھ دیا کہ وہ دورانِ گفتگو میں اپنی ذات کے متعلق ہی باتیں کرتے رہے اور اب اس نے ہمارے اصول پر حملہ کر دیا.خواہ یہ حملہ دیدہ دانستہ ہو اور خواہ بے وقوفی کے نتیجہ میں بہر حال افسوسناک ہے.مجھے افسوس ہے کہ رسول کا رویہ ہمیشہ ہمارے خلاف ہوتا ہے حالانکہ سٹیٹسمین “ نے کبھی اس قسم کی شکایت کا موقع پیدا ہونے نہیں دیا.بہر حال یہ بات چونکہ ہمارے اصول کے خلاف تھی اس لئے میں نے اس کی تردید کرنی ضروری سمجھی.ورنہ ہمیں نہ رسول کے جھوٹ کی پرواہ ہے اور نہ ہم اس کے نمائندوں کی کوئی حقیقت سمجھتے ہیں.اب میں اس مضمون کو شروع کرتا ہوں جس کے نوٹ اس موقع پر بیان کرنے کے لئے میں نے لکھے ہوئے ہیں.مجھے اس دفعہ افسوس کے ساتھ اس شکایت کا علم ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہاں آکر مہمانوں میں عبادت اور ذکر الہی کے متعلق زیادہ مُستعدی پیدا ہوتی مساجد میں ان کی حاضری بہت کم ہو گئی ہے.ایک دن تو نماز کے وقت مسجد مبارک میں اتنی قلیل حاضری تھی کہ مسجد کا ایک حصہ خالی نظر آ رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے تمام مسجد بھر جایا کرتی تھی پھر مسجد کا چھت لوگوں سے بھر جاتا تھا اور پھر گلیوں میں بھی دُور دُور تک لوگ صفیں باندھ کر نماز پڑھنے پر مجبور ہو جاتے تھے اور وہ صفیں مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ تک پہنچ جایا کرتی تھیں.مگر اس دن جب میں نے نماز ختم کی تو مسجد کے نچلے حصہ میں بھی ابھی ایک دو سطر میں باقی تھیں.حالانکہ مسجد کا نچلا حصہ صرف قادیان کے رہنے والوں سے ہی بھر جایا کرتا تھا.اس کے معنے یہ ہیں کہ مہمانوں نے ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت بجالانے میں سُستی سے کام لینا شروع کر دیا ہے حالانکہ مسجد مبارک وہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ جو کام بھی اس جگہ کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا.اگر کوئی شخص قادیان آ کر بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا نہ وہ مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہوتا ہے اور نہ ہی سلسلہ کی ترقی کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اس کا آنا اپنے اندر کوئی معنے نہیں رکھتا.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ نیکی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی نستی اور غفلت سے انہیں ضائع نہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تو نیکیوں کے حصول کے لئے ایسے بے تاب رہتے تھے کہ ایک دفعہ
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ مجلس میں کسی صحابی نے ذکر کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جنازہ کے ساتھ جائے اور دفن ہونے تک وہیں ٹھہرا رہے اسے دو قیراط ثواب ملے گا اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہوگا.دوسرے صحابہ نے جب یہ بات سنی تو وہ اس صحابی پر ناراض ہوئے اور کہنے لگے نیک بخت! تو نے پہلے یہ بات ہمیں کیوں نہ بتائی معلوم نہیں ہم اب تک کتنے قیراط ضائع کر چکے ہیں.تو دوستوں کو ان دنوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اپنے اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت، ذکر الہی اور دعاؤں میں صرف کرنے چاہئیں.(الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۵۱ء) ، (۴) مساجد میں نے اس سفر میں جو چیزیں دیکھی تھیں ان میں سے کچھ مساجد بھی تھیں جو بڑی خوبصورت اور مختلف امتیازات والی تھیں.کسی میں کالے پتھر لگے ہوئے تھے، کسی میں سفید اور کسی میں سُرخ اور بعض میں اگر سادگی تھی تو وہ سادگی اپنی ذات میں اتنی خوبصورت تھی کہ دل کو لبھا لیتی تھی.اسی طرح بعض مساجد اتنی وسیع تھیں کہ ایک ایک لاکھ آدمی ان میں بیک وقت عبادت کر سکتا تھا اور بعض اتنی بلند تھیں کہ انسان اگر اُن کی چھت کو دیکھنے لگے تو اُس کی ٹوپی گر جائے غرض اپنے اپنے رنگ میں ہم میں سے ہر ایک نے اُن مساجد کو دیکھ کر لطف اُٹھایا اور جہاں موقع مل سکا وہاں ہم نے نفل بھی پڑھے.مساجد کی تعمیر میں نیتوں کا تفاوت میں نے جب ان مساجد کو دیکھا تو اپنے دل میں کہا کہ ان خدا کے بندوں نے کیسی کیسی عظیم الشان مساجد بنا کر خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کو دنیا میں قائم کرنے کا اہتمام کیا تھا مگر ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ مساجد گو بڑی شاندار ہیں اور ان کے بنانے والوں نے ان کے بنانے پر بہت سا وقت اور روپیہ خرچ کیا ہے اور بہت بڑی قربانی سے کام لیا ہے تا ہم نہ معلوم انہوں نے ان مسجدوں کو کس کس نیت سے بنایا.کسی نے ان کو اچھی نیت سے بنایا ہوگا اور کسی نے بُری نیت سے ، کسی نے تو اس خیال سے مسجد تعمیر کی ہوگی کہ لوگ کہیں گے یہ مسجد فلاں بادشاہ نے بنائی تھی.اس ریا کاری کی وجہ سے ممکن ہے وہ اس وقت جہنم میں جل رہا ہو اور لوگ مسجد دیکھ کر کہہ رہے ہوں کہ واہ واہ ! فلاں مسلمان نے کتنی بڑی نیکی کا کام کیا حالانکہ اُس نے چونکہ ریاء کی وجہ سے مسجد بنائی تھی اس لئے وہ جہنم میں اپنے اس فعل کی سزا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) پا رہا ہو گا.پھر کسی نے ایسی نیک نیتی سے مسجد تیار کی ہوگی کہ گو وہ مر گیا اور اُس کی بنائی ہوئی مسجد بھی ویران ہو گئی مگر اُس کو خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر روز جنت میں آکر سلام دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ تو نے دنیا میں چونکہ خدا کا گھر بنایا تھا اس لئے اب آخرت میں ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہیں.بیشک اُس کی مسجد میں اب لوگ نہیں آتے اور نہ وہاں آکر سلام کہتے ہیں مگر جنت میں اُسے فرشتے روزانہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہوں گے.غرض جب میں اس قلعہ کی چھت پر کھڑا تھا تو اُس وقت میرے خیالات یہ تھے کہ یہ دنیوی چیزیں تھیں جن کو میں نے دیکھا اور جن سے اپنی معلومات میں اضافہ کیا ، مگر ان دنیوی چیزوں کے مقابلہ میں بعض روحانی چیزیں بھی اسی قسم کی ہیں لیکن دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی.وہ اپنی شان میں ان دنیوی چیزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں ، وہ اپنی بلندی میں ان سے کہیں اونچی ہیں اور وہ اپنی خوبیوں میں ان سے کہیں اعلیٰ ہیں ، غرض وہ ایسی نادر روزگار چیزیں ہیں کہ دنیا کو اگر سینکڑوں نہیں ہزاروں صدیوں کا سفر کر کے بھی ان کی تلاش میں جانا پڑے تب بھی وہ سفر بیکار نہیں کہلا سکتا ، مگر با وجود اس کے لوگ ان کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتے اور نہ ان کے بنانے والوں کی کوئی قدر کرتے ہیں، لیکن ان دنیوی چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں.یہ خیالات تھے جو اُس وقت میرے دل اور دماغ پر مسلط تھے.عالم روحانی کی شاندار مساجد میں بتا چکا ہوں کہ میں نے اس سفر میں بعض پرانی اور شاندار مساجد دیکھیں ، ایسی وسیع اور شاندار مساجد جن میں ہزاروں آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.تب میں نے غور کیا کہ یہ تو دنیوی مساجد ہیں، کیا ان سے بھی بڑھ کر روحانی دنیا میں کوئی مسجدیں ہیں یا نہیں ؟ اور اگر ہیں تو دنیا ان سے کیا سلوک کر رہی ہے؟ جب میں نے اس امر پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ ان مساجد سے بہت زیادہ شاندار مساجد روحانی دنیا میں موجود ہیں.مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی نہیں، چونے اور پتھروں سے بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ مسجد میں ایمان کی اینٹوں سے تیار ہوئی ہیں اور ان کی شان کو کوئی اور مسجد کبھی نہیں پہنچ سکتی.مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں یہ مر یاد رکھنا چاہئے کہ دو چیزوں میں مشابہت کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مشابہت شکل میں ہوتی ہے اور کبھی کام میں.مثلاً ایک انسان کی تھوتھنی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ کہتا ہے، کوئی گردن اکڑا کر رکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سور ہے ، ایک انسان بڑا بہادر اور دلیر ہوتا ہے تو
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) لوگ کہتے ہیں یہ شیر ہے.اب کسی کو شیر یا کتا یا سوکر اس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ اُس کے بھی شیر کی طرح پنجے ہوتے ہیں، یا وہ بھی گئے اور سور کی طرح ہوتا ہے بلکہ کبھی روحانی اور اخلاقی مشابہتوں کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام دیدیا جاتا ہے اور کبھی ظاہری مشابہت کی بناء پر ایک کو دوسرے کا نام دیا جاتا ہے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ مسجد کے مشابہہ دنیا میں کونسی چیز ہے؟ میں نے اس کے لئے سب سے پہلے اس امر پر غور کیا کہ مسجد کا کام کیا ہوتا ہے اور وہ کس غرض کے لئے بنائی جاتی ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے آل عمران رکوع ۱۰ میں یہ آیت نظر آئی کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ | لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبْرَكاً وَّ هُدًى لِلْعَلَمِينَ " یہ آیت بیت اللہ کے متعلق ہے جو در حقیقت اوّل المساجد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے پہلی مسجد اور سب سے اول اور مقدم مسجد وہ ہے جو مکہ میں بنی اور جس کی نقل میں دوسری مساجد تیار ہوتی ہیں.یہاں بیت سے مراد در حقیقت بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہی کہلاتی ہیں، آگے بیان فرماتا ہے کہ اس بیت اللہ کا کام کیا ہے اور اسے دوسرے مقامات پر کیا فوقیت حاصل ہے فرماتا ہے بیت اللہ کے بنانے میں ہماری تین اغراض ہیں.بیت اللہ کی تین اہم اغراض اوّل وُضِعَ لِلنَّاسِ.یہ مسجد تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے کسی خاص فرد کے لئے نہیں.وہ زید کے لئے نہیں، بکر کے لئے نہیں ، خالد کے لئے نہیں بلکہ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے.پھر مُبَارَ گا وہ برکت والی ہے.تیسرے هُدًى لِلْعَلَمِینَ سب انسانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے.پس دنیا میں سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی اس کی تین اغراض تھیں.(۱) مساوات کا قیام اول وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی ، مطلب یہ کہ مسجد ایسا گھر ہوتا ہے کہ مساوات پیدا کرتا ہے اس میں غریب اور امیر اور مشرقی اور مغربی کا امتیاز بالکل مٹا دیا جاتا ہے.مسجد کے دروازہ کے باہر بیشک ایک بادشاہ بادشاہ ہے اور غلام غلام ، ایک شخص حاکم ہے اور دوسرا محکوم ، ایک افسر ہے اور دوسرا ماتحت مگر ادھر مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر امیر اور غریب ، حاکم اور محکوم سب برابر ہو گئے.کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو مسجد میں ایک غلام سے بھی یہ کہہ سکے کہ یہاں مت کھڑے ہو تم وہاں جا کر کھڑے ہو بلکہ اسلام میں یہ مساوات اس حد تک تسلیم کی جا چکی ہے کہ بنوامیہ کے زمانہ میں جب
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) بادشاہوں نے ظلم کرنے شروع کر دیئے تو پہلے تو مسجد میں جب بادشاہ آتا تو تعظیم کے طور پر لوگ اُس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے مگر بعد میں وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے اور جب نوکر کہتے کہ جگہ چھوڑ دو تو وہ کہتے کہ تم ہمیں مسجد سے اُٹھانے والے کون ہو؟ مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں.آجکل کا زمانہ ہوتا تو بادشاہ نوکروں سے لوگوں کو پٹوانا شروع کر دیتے مگر اُس وقت اسلام کا اس قدر رُعب تھا کہ بنوامیہ نے مسجد کے باہر مُجرے بنائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دیا مگر یہ جرأت نہ ہوئی کہ مسجد میں آ کر لوگوں کو اُٹھا سکیں.تو مسجد وُضِعَ لِلنَّاسِ ہوتی ہے اور اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے کھلے ہوتے ہیں.کالے اور گورے کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ، چھوٹے اور بڑے کا اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا ، بلکہ ہر ایک کا مسجد میں مساوی حق تسلیم کیا جاتا ہے.غرض مسجد کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں مساوات پیدا کرتی ہے.(۲) تقدس اور ذکر الہی کا مرکز دوسری غرض مسجد کی اللہ تعالی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مُبَارَكاً وہ مقام مبارک ہوتا ہے.میں مسجد کے مقامِ مبارک ہونے کی اور مثالیں دے دیتا ہوں.(الف) مسجد اس لئے مقامِ مبارک ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں، باقی گھروں میں تو اور کئی قسم کے دنیوی کام بھی کر لئے جاتے ہیں مگر وہاں دُنیوی کاموں کی اجازت نہیں ہوتی.یا اگر کئے بھی جائیں تو وہ اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جیسے مسجد میں اگر کوئی غریب شخص رہتا ہو تو اُسے اجازت ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کھا نا کھالے مگر بہر حال زیادہ تر کام مساجد میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں ذکر الہی کیا جاتا ہے اور درود پڑھا جاتا ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں اور اس طرح اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں.(ب) پھر مساجد اس لحاظ سے بھی مقام مبارک ہوتی ہیں کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں اور یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں گند پھینکا جائے ، مثلاً پاخانہ پیشاب کرنے تھوکنے یا بلغم پھینکنے کی اجازت نہیں ہوتی.اسی طرح حکم ہے کہ گندی اور بدبودار چیزیں کھا کر مسجد میں مت آؤ.جنبی کا مسجد میں آنا بھی منع ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ مساجد کو صاف ستھرا رکھو اور اس میں خوشبوئیں جلاتے رہو گے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے اور ان کی مسجدیں اتنی گندی ہوتی ہیں کہ وہاں نماز پڑھنے
انوار العلوم جلد ۱۶ تک کو جی نہیں چاہتا.سیر روحانی (۲) (۳) بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ تیسری غرض اللہ تعالی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ هُدًى لِلْعَلَمِینَ یعنی مسجدیں لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتی ہیں.وہ اس طرح کہ وہاں دین کی تعلیم اور تبلیغ کا انتظام مثلاً خطبہ ہوتا ہے جس میں وعظ ونصیحت کی جاتی ہے، دینی اور اخلاقی باتیں بتائی جاتی ہیں اور لوگوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا جاتا ہے.اسی طرح تذکیر و تحمید سے کام لیا جاتا ہے، دینی و دنیوی اصلاحات کے متعلق مشورے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی بہتری اور ان کی ترقی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں.اسی طرح مسجدوں میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، حدیث کا درس ہوتا ہے، پھر نمازوں میں سے تین نمازیں بالخصوص ایسی ہیں جن میں تلاوت بالجبر کی جاتی ہے اور تلاوت بالجبر ایک قسم کا وعظ ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے اور جب بلند آواز سے اُس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو لوگوں کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے.غرض مسجدیں هُدًى لِلْعَلَمِینَ کا کام دیتی ہیں وہاں لوگوں کی دینی تربیت ہوتی ہے، انہیں اعلیٰ روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں پس مسجد کی یہ تین اغراض اس آیت سے مستنبط ہوتی ہیں.مساجد کی بعض اور اغراض اس کے بعد میں نے اور غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی نظر آئی جس میں مساجد کے بعض اور.مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور وہ آیت یہ ہے.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ أَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّى وَ عَهِدْنَا إِلى إبراهيمَ وَإِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَ الْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مشابہ بنایا، یعنی تمام دنیا کے لئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور ملک اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر ایک انسان کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں مَشَابَةٌ کے لغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ مُجْتَمَعُ النَّاسِ وَ مَاحَولَ الْبِثْرِ مِنَ الْحِجَارَةِ يعنى مَشَابَة کے معنے ہیں جمع ہونے کی جگہ.اسی طرح مَشَابَة اُس منڈیر کو کہتے ہیں جو کنویں کے ارد گرد بنائی جاتی ہے اور جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر اُڑ کر اندر نہ چلا جائے، یا کوئی اور گندی چیز کنویں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) کے پانی کو خراب نہ کر دے.اسی طرح منڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنویں میں نہ گر جائے ، غرض منڈیر کا مقصد کنویں کو بُری چیزوں اور لوگوں کو گرنے سے بچانا ہوتا ہے.مساجد دینی تربیت کا مرکز ، بُرائیوں سے محفوظ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اس مسجد کو ایک تو اس غرض کے لئے بنایا رکھنے کا ذریعہ اور قیام امن کا موجب ہوتی ہیں ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس جگہ آئیں اور یہاں آکر دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق حاصل کریں.دوسرے ہم نے مسجد کو اس لئے بنایا ہے تا کہ وہ دنیا کے لئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی بُرائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے.تیسری غرض یہ بیان فرمائی کہ مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد فرماتا ہے وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ہم نے اس مسجد کو اس لئے بھی قائم کیا ہے تاکہ لوگ مقام ابراہیم پر بیٹھیں اور اسے مصلی بنا ئیں.اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بڑے زور سے یہ نصیحت کی تھی اَنْ طَهَّرَا بَيْتِی کہ تم میرے اس گھر کو پاک رکھو ( ان الفاظ میں بعض اور اغراض بھی بیان کر دی گئی ہیں ) لِلطَّائِفِينَ مسافروں کے لئے وَالْعَفِینَ اور مقیموں کے لئے وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس مسجد میں ذکر الہی کرنے کے لئے آ بیٹھے ہیں.اس آیت سے مسجد کی یہ مزید اغراض معلوم ہوتی ہیں.(۴) مساجد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۵) مساجد شر سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۶) مساجد امن کے قیام کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۷) امامت کو ان کے ذریعہ زندہ رکھا جاتا ہے.مسئلہ امامت کا دائمی احیاء چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مدینہ میں ہوتے تھے مگر مسلمان جہاں کہیں ہوتے ایک شخص کو امام بنا کر اُس کی اقتداء میں نمازیں ادا کر نے لگ جاتے اور اب بھی ہر مسجد میں ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء میں لوگ نماز میں ادا کرتے ہیں.امام در حقیقت قائمقام ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور مقتدی قائمقام ہوتے ہیں صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے.جس طرح صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کر تے تھے اسی طرح آج ہر مسجد میں مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں.گویا سابق نیکی کے لیڈروں کو زندہ رکھا جاتا اور مساجد کے ذریعہ امامت کو ہر وقت قوم کی آنکھوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) مساجد لوگوں کو یہ مسئلہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تم میں ایک امام ہونا چاہئے اور اس امام کی اقتداء میں تمہیں ہر کام کرنا چاہئے.(۸) مساجد مسافروں کے مسافر اور مقیم کے فوائد مساجد سے ہی وابستہ ہیں فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں.مثلاً مسافر وہاں ٹھہر سکتا ہے اور چند روزہ قیام کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو جا سکتا ہے.(1) الْعَكِفِينَ مساجد شہر میں بسنے والوں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں.مثلاً : - (الف) گھروں میں تو شور وشغب ہوتا ہے اور انسان سکون کے ساتھ ذکر الہی نہیں کر سکتا مگر وہاں ہر قسم کے شور وشر سے محفوظ ہو کر آرام سے لوگ ذکر الہی کر سکتے ہیں.(ب) وہ وہاں اجتماعی عبادت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اگر مساجد نہ ہوں تو ایک نظام کے ماتحت عبادت نہ ہو سکے.مثلاً جب جمعہ کا دن آتا ہے تو سب مسلمان اپنے اپنے محلوں کی مساجد کی بجائے جامع مسجد میں اکٹھے ہو جاتے اور اجتماعی عبادت بجا لاتے ہیں ، اس طرح مساجد ا نہیں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی عادت ڈالتی ہیں.(١٠) وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اُن میں وہ لوگ رہتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں.واقفین زندگی اور مساجد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے وہ مسجد میں ہی رہتے تھے اور انہیں اَصْحَابُ الصُّفّہ کہا جاتا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی باتیں سنا کرتے اور بعد میں لوگوں تک پہنچا دیتے.غرض مسجد میں واقفین زندگی کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں.گاؤں والے بعض دفعہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ الگ کسی جگہ مدرسہ نہیں کھول سکتے ایسی حالت میں وہ مسجد سے مدرسہ کا کام بھی لے سکتے ہیں ، کیونکہ ہمارا مدرسہ بھی مسجد ہے اور واقفین زندگی کی جگہ بھی مسجد میں ہے.مساجد کے مشابہہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں اب میں بتاتا ہوں کہ یہ اغراض اور مقاصد آیا کسی اور چیز کے بھی ہیں یا نہیں اور مسجد کے مشابہ عالم روحانی میں بھی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ اس کے لئے پہلے میں علم تعبیر الرؤیا کو لیتا ہوں کیونکہ رویا میں تمثیلی زبان استعمال کی جاتی ہے اور
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ خوابوں کی تعبیر سے انسان معلوم کر سکتا ہے کہ ظاہری چیزوں کی مشابہت رکن روحانی چیزوں سے ہوتی ہے.اس مقصد کے لئے جب ہم علم تعبیر الرؤیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد انبیاء کی جماعت کو کہتے ہیں.پس مساجد کے مشابہہ عالم روحانی میں اگر کوئی چیز میں ہیں تو انبیاء کی جماعتیں ہیں.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا انبیاء کی جماعتوں میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو مساجد کی اغراض ہیں؟ اگر پائی جاتی ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعہ میں روحانی دنیا میں بھی مساجد ہیں اور وہ ظاہری مساجد سے بہت زیادہ شاندار ہیں.آج تک دنیا میں خدا تعالیٰ کے بہت سے انبیاء ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں.اسی طرح حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت بیٹی اور حضرت عیسی علیہم السلام ہوئے ہیں اور ہرنبی نے کوئی نہ کوئی جماعت قائم کی ہے.پس اگر ہم غور کریں تو ہر نبی کی جماعت میں ہمیں یہ مشابہتیں نظر آ جائیں گی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے پورا کرنے کے لئے مختلف روحانی مساجد بنائی گئی تھیں مگر میں تفصیلاً ان کے حالات اس جگہ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ : - (۱) ایک تو مضمون لمبا ہو جاتا ہے.(۲) دوسرے سب مساجد کے تفصیلی حالات محفوظ نہیں.اس لئے میں صرف آخری مسجد کو لے لیتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تیار ہوئی اور جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَسْجِدِى اخِرُ الْمَسَاجِدِ = صحابہ کے متعلق ایک اُصولی نکتہ اب میں ایک ایک کرکے مساجد کی اغراض کی نسبت ثابت کرتا ہوں کہ وہ تمام کی تمام اس روحانی مسجد سے پوری ہوئی ہیں.مگر ایک بات میں کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق تاریخی طور پر بحث کی جائے تو وہ بہت لمبی ہو جاتی ہے اس لئے اصولی طور پر ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ آپ کے اخلاق و عادات اگر معلوم کرنا چاہو تو قرآن پڑھ لو جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا.حضرت عائشہ نے یہ بات جس موقع پر بیان فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں بعض لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ سُنائے جائیں.آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ مجھ سے حالات کیا پوچھتے ہو ، قرآن پڑھ کر دیکھ لو جتنی نیک اور پاک باتیں اس میں لکھی ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھیں.مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں تاریخ یا حدیث سے مدد نہ لی جائے بلکہ صرف قرآن کریم سے استنباط کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے ( کاش! کوئی شخص اسی اصل کے مطابق ایک مدلل کتاب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرے) غرض جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ نے یہ فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ آپ کے اخلاق عالیہ کا پتہ لگانے کے لئے تاریخی کتب کی ورق گردانی اور زید بکر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے قرآن اُٹھاؤ اور اسے پڑھ لو ، جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں.اسی طرح صحابہ کے متعلق بھی ہمیں ایک اصولی نکتہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وَلكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَ الْعِصْيَانَ فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جماعت ! تم وہ ہو کہ تمہارے دلوں میں خدا نے ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور تمہاری حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے تم اس پر فوری طور پر عمل کرنے لگ جاتے ہو اور اس نے ایمان کو تمہاری نظروں میں اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ تمہیں اس کے بغیر چین ہی نہیں آتا جس طرح خوبصورت چیز کی طرف مُجھکتے ہو اور اُسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَ الْعِصْيَانَ اور اُس نے کفر، فستق اور نافرمانی سے تمہیں اتنا متنفر کر دیا ہے کہ تم اس کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور صحابہ دو مترادف الفاظ ہیں اگر اسلام میں کوئی حکم پایا جاتا ہے تو صحابہ نے اس پر یقینا عمل کیا ہے اور اگر صحابہ نے کسی بات پر عمل کیا ہے تو اسلام میں وہ ضرور پائی جاتی ہے جس طرح حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقَهُ القُرانُ اسی طرح صحابہ جس بات پر عمل کریں اُس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پائی جاتی ہے اور اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں اُن کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر صحابہ نے ضرور عمل کیا ہے.اس تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مسجد کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا
انوار العلوم جلد ۱۶ کے صحابہؓ نے کس طرح پوری کیں.سیر روحانی (۲) صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت اوّل.غرض مسجد کی یہ ہے کہ لِلنَّاس ہوتی ہے یعنی اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے.اس بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ | تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ باللهِ یعنی اے مسلمانو! تم سب اُمتوں سے بہتر ہو.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کسی ایک قوم کے فائدہ کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تم کالوں کے لئے بھی ہو اور گوروں کے لئے بھی ہو ، مشرقیوں کے لئے بھی ہوا اور مغربیوں کے لئے بھی ہو، تمہارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم سب کو آواز دو اور کہو کہ آ جاؤ مشرق والو، آ جاؤ مغرب والو ، آ جاؤ شمال والو ، آ جاؤ جنوب والو ، آ جاؤ غر یبو، آ جاؤ امیر و ، آ جاؤ طاقتور و ، آ جاؤ کمزورو.غرض تم سب کو آواز دو کیونکہ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ قوم ہو جو ساری دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو.جس طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر ہے جو لِلنَّاسِ بنا، اسی طرح انبیاء کی جماعتیں بھی جب کھڑی کی جاتی ہیں تو لِلنَّاسِ کھڑی کی جاتی ہیں.موسیٰ کے زمانہ میں اُمتِ موسوی کا دروازہ گو صرف بنی اسرائیل کے لئے کھلا تھا مگر اپنے دائرہ میں وہاں بھی کامل مساوات تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس دائرہ کو ایسا وسیع کر دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس کے اندر شامل کر لیا گیا.پس فرماتا ہے اے مسلمانو ! تم لوگوں کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہو.اس کے بعد اس کا ذکر فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے لوگوں کو فائدہ کس طرح پہنچے گا.فرماتا ہے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو ، تمام بنی نوع انسان کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں نیک اخلاق سکھاتے ہو، کہتے ہو کہ فلاں فلاں بات پر عمل کرو تا کہ تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ اور تم بدیوں سے لوگوں کو روکتے ہو، وَتُؤْمِنُونَ باللهِ اور تم نڈر ہو کر یہ کام کرتے ہو.یہاں ایمان سے صرف مان لینا مراد نہیں، کیونکہ آمُر بِالْمَعْرُوفِ اور نَهى عَنِ الْمُنكَرِ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتا اور جب ایمان پہلے ہی حاصل تھا تو آخر میں تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ کہنے کی کیا ضرورت تھی.اگر اس ایمان سے مراد محض خدا پر ایمان لانا ہوتا تو آیت یوں ہوتی کہ
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ تُؤْمِنُوْنَ وَتَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ مگر آیت اس کے الٹ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے صرف مان لینے کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں.اور وہ معنے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ ہیں کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ خدا سے ہی ڈرتے ہو اور ان کاموں میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ نڈر ہو کر کام کرتے ہو جیسے فرماتا ہے.فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ اذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر غرض اس آیت میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ جس طرح مادی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے، اسی طرح یہ روحانی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور وہ اس پر عمل مندرجہ ذیل طریق سے کرتی ہے.(الف) تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ سب انسانوں کو حُسنِ سلوک کی تعلیم دیتی اور اس طرح لوگوں کے حقوق کو محفوظ کرتی ہے.تَأمُرُونَ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان صرف وعظ ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے نیک باتیں منواتے ہیں.اگر صرف تَعِظُونَ النَّاسَ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں مگر خدا نے تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں یہ بتایا ہے وہ لوگوں کو صرف وعظ ونصیحت کی بات کہہ دینا کافی نہیں سمجھتے بلکہ لوگوں سے عمل بھی کراتے ہیں.اگر تعلیم سے عمل ہو تو تعلیم دیتے ہیں، تربیت سے عمل ہو تو تربیت کرتے ہیں، منت سماجت سے کوئی عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کی منت سماجت کرتے ہیں اور اگر کوئی نگرانی کا محتاج ہو جیسے نابالغ بچے ہیں تو اسے حکم دیتے ہیں ( یعنی ان امور میں اور ان لوگوں کو جن میں اور جن کو حکم دینے کی اجازت ہے حکم دیتے ہیں ورنہ بالغ اور عاقل سے جبراً کوئی امر منوانا جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہو اسلام میں جائز نہیں ) غرض وہ صرف اپنی زبان سے بات نکال کر خوش نہیں ہو جاتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے لوگوں سے عمل کرانے کی جد وجہد کرتے ہیں اور جب تک لوگوں کی عملی حالت درست نہ ہو جائے خوش نہیں ہوتے.(ب) تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وہ تمام بنی نوع انسان کو ظلم اور تعدی اور شرارت سے روکتے ہیں.یہاں بھی نبی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وعظ کا نہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) تو کل عَلَى الله (ج) وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ اس جگہ تُؤْمِنُونَ کو آخر میں رکھنا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں عام ایمان مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کاموں میں کسی نقصان سے نہیں ڈرتے اور نڈر ہو کر کام کرتے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسجد نے اس غرض کو کس طرح پورا کیا اور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اُس نے مساوات کو قائم کیا.مساوات کے قیام کے لئے غلامی کو مٹا دیا گیا! مساوات کے قیام کے لئے اس جماعت نے سب سے پہلے غلامی کو مٹایا اور جس طرح مسجد میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا اسی طرح مسلمان ہو کر کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا.غلامی کے متعلق اسلام نے ایک مفصل تعلیم دی ہے میں صرف یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے سارا زور اس امر پر صرف کر دیا کہ دنیا سے غلامی کو مٹا دیا جائے.چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اصل بیان کیا ہے اور میں اپنی جماعت کے لیکچراروں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اسے بیان کیا کریں.وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُوَ إِمَّا فِدَاءُ کہ جب کوئی غلام پکڑا جائے تو اس کے متعلق شریعت میں صرف دوا ہی حکم ہیں یا تو احسان کر کے چھوڑ دو یا مجرم کا جرمانہ وصول کر کے چھوڑ دو، قید کا حکم کہیں نہیں.پس دو ہی حکم ہیں یا تو یہ کہ غلام پر احسان کرو اور اُسے آزاد کرو اور یا یہ حکم ہے کہ کچھ ٹیکس اور جرمانہ وصول کرو اور اُسے چھوڑ دو.پھر اس مجرمانہ کے متعلق بھی یہ شرط ہے کہ اگر غلام مکا تبت چاہے تو مکا تبت بھی کر سکتا ہے اور یہ مکاتبت کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے کہ فرض کرو ایک شخص کے پاس روپیہ تو نہیں مگر وہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ کرے تو کیا کرے؟ اگر نقد روپیہ دیکر غلام آزاد ہوسکتا تو جس کے پاس روپیہ نہ ہوتا وہ اعتراض کر سکتا تھا کہ میری رہائی کی کوئی صورت اسلام نے نہیں رکھی.مگر اسلام چونکہ کامل مذہب ہے اس لئے اُس نے اِس روک کو بھی دُور کر دیا اور یہ اصول مقرر کر دیا.کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ کرے تو اُسے مکاتبت دے دینی چاہئے.مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کہہ دے میں آزاد ہونا چاہتا ہوں تم میرا مجرمانہ مقرر کر دو.میں محنت اور مزدوری کر کے اپنی کمائی میں سے ماہوار قسط تمہیں دیتا چلا جاؤں گا.جب کوئی غلام یہ مطالبہ کرے تو اسلامی شریعت کے ماتحت قاضی کے پاس مقدمہ جائیگا اور وہ اُس کی لیاقت اور قابلیت کو دیکھ کر اور
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ یہ اندازہ لگا کر کہ وہ ماہوار کتنا کما سکتا ہے اُس کے ذمہ ایک رقم مقرر کر دیگا اور پھر اس کے ماہوار گزارے کو منہا کر کے مطالبہ کرے گا کہ اتنی رقم ماہوار تم تاوان کے طور پر ادا کرتے چلے جاؤ.اس طرح وہ اقساط کے ذریعہ تاوان ادا کرتا رہے گا مگر جزوی آزاد وہ اسی دن سے ہو جائے گا جس دن وہ قاضی کے سامنے یہ اقرار کریگا.اگر ادائیگی رقم سے پہلے وہ شخص فوت ہو جائے تو اُس کا بقیہ مال اور تر کہ آقا کو مل جائے گا.اور اگر وہ زندہ رہے گا تو اس فیصلہ کے ماتحت وہ اپنی رقم ادا کرنے پر مجبور ہوگا.غرض اسلامی جنگوں کے ماتحت جب بھی غلام گرفتار ہو کر آئیں گے انہیں یا تو ہمیں خود چھوڑ دینا ہوگا یا ہمیں حکم ہوگا کہ ہم تاوان وصول کریں.اگر اس کے بھائی بند اور رشتہ دار اُس وقت آزادی کی قیمت ادا کریں تو وہ اُس وقت آزاد ہو جائے گا.اور اگر اس کے رشتہ دار غریب ہوں یا وہ فدیہ ادا کرنا پسند نہ کریں تو وہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا اور مسلمان قاضی کا فرض ہوگا کہ وہ اُس کی حیثیت کے مطابق اس پر فدیہ عائد کرے اور پھر اس کا گزارہ مقرر کر کے مناسب رقم ماہوار بطور فدیہ آزادی ادا کرنے کا اُسے حکم دے.جب یہ عہد و پیمان تحریری طور پر ہو جائے گا تو اُس دن سے ہی وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے آزاد ہو جائے گا.اب دیکھو! اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی اپنی مرضی کے خلاف غلام رہ سکتا ہے؟ جب بھی کوئی غلام آئے گا ہم اس بات کے پابند ہونگے کہ یا تو اُسے خود آزاد کر دیں یا وہ فدیہ ادا کر کے آزاد ہو جائے.اور اگر اس کی طاقت میں یہ بات نہ ہو تو اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار فدیہ ادا کر دیں اور اگر وہ بھی ادا نہ کر سکتے ہوں تو قاضی کے پاس جا کر فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرے اور قاضی ادائیگی کی جو صورت تجویز کرے اُس پر عمل کرے، ان تمام صورتوں میں وہ آزاد ہو جائے گا.اور اگر کوئی شخص ان شرائط میں سے کسی شرط سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھتا ہے اور عرفِ عام کی رُو سے آزاد ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا.رض ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ کیسے ہو سکتا حضرت زید کا اپنی آزادی پر محمد رسول اللہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر کو اپنے صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دینا گھر سے بہتر قرار دے اور کسی شرط پر بھی آزاد ہونا پسند نہ کرے.سو اس کے لئے میں ایک مثال دید یتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ ہیں کہ کوئی شخص غلامی کو اپنے گھر کی آزادی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہو جائے وہ مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قدر غلام تھے اُن تمام کو حضرت خدیجہ سے شادی ہوتے ہی آپ نے آزاد کر دیا تھا.اس کے بعد تاریخ سے ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے پاس کوئی غلام رکھا ہو ہاں غلام کو آزاد کر کے اسے خادم کے طور پر رکھا ہو تو یہ اور بات ہے.لیکن ایک غلام جن کا نام زید تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور انہوں نے آزاد ہونا پسند نہ کیا.یہ ایک مالدار خاندان میں سے تھے.کسی جنگ میں انہیں یونانی لوگ پکڑ کر لے گئے تھے ، پھر فروخت ہوتے ہوتے یہ مکہ پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید لیا.جب حضرت خدیجہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنا تمام مال اور غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس ہبہ کے بعد میں پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے سب کو آزاد کر دیا.ادھر حضرت زید کے باپ اور چچا، زید کو تلاش کرتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے مکہ آنکلے.وہاں انہیں معلوم ہوا کہ زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے.وہ یہ سُن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بچہ آپ کے پاس غلام ہے آپ ہم سے روپیہ لے لیں اور اسے آزاد کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اسے آزاد کر چکا ہوں.انہیں خیال آیا کہ شاید یہ بات انہوں نے یونہی ہمیں خوش کرنے کے لئے کہہ دی ہے ور نہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے بغیر روپیہ لئے اسے آزاد کر دیا ہو.چنانچہ وہ پھر منت سماجت کرنے لگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آواز دی اور جب وہ آئے تو آ نے فرمایا یہ تمہارے باپ اور چاہیں اور تمہیں لینے کے لئے آئے ہوئے ہیں، میرے ساتھ مسجد میں چلو تا کہ میں اعلان کر دوں کہ تم غلام نہیں بلکہ آزاد ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں لے گئے اور اعلان کر دیا کہ زید غلام نہیں وہ آزاد ہے اور جہاں جانا چاہیے جا سکتا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تو ان کے باپ اور چچا دونوں بہت خوش ہوئے اور زید سے کہا کہ اب ہمارے ساتھ چلو ، مگر حضرت زید اُسی وقت مسجد میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اے لوگو! تم اِس بات کے گواہ رہو کہ گو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں اُن سے آزاد نہیں ہونا چاہتا اور انہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) باپ اور چچانے شور مچا دیا کہ تم عجیب بے وقوف ہو کہ اپنے گھر اور اپنے والدین پر اس شخص کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہو.انہوں نے کہا مجھے باپ سے بھی محبت ہے اور ماں سے بھی ، اسی طرح باقی سب رشتہ داروں سے مجھے اُلفت ہے مگر بخدا! یہ شخص مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس سے جُدا ہونا پسند نہیں کر سکتا.یہی وہ موقع ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ زید آب میرا بیٹا ہے.۱۳ گویا پہلے تو آپ نے زید کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنا بیٹا بنا لیا.اب دیکھو زید ایک غلام تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا مگر اس نے اپنے گھر کی آزادی اور دولت کو پسند نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا اُسے زیادہ پیارا معلوم ہو ا.جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکام اسی طرح جب بھی اسلامی جنگوں کے نتیجہ میں غلام گرفتار ہو کر آئیں اُن کے متعلق شریعت کا یہی حکم ہے کہ مسلمان یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں یا فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں یا مکاتبت کے ذریعہ سے چھوڑ دیں اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص آزاد نہیں ہوتا تو یہ اُس کی مرضی پر منحصر ہے.اگر اس کے پاس روپیہ نہیں تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا کر درخواست دے سکتا ہے کہ میرے پاس روپیہ نہیں میری حیثیت کے مطابق مجھ پر جرمانہ لگا دیا جائے ، میں روپیہ کما کر ماہوار اتنی رقم ادا کرتا چلا جاؤں گا.لیکن اگر اس کے باوجود وہ آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے پر ہونگے کہ مسلمان کا گھر اُسے ایسا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر کی آزادی کو پائے استحقار سے ٹھکرانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پس جس طرح مسجد مساوات کو قائم کرتی ہے اسی طرح اسلام نے غلامی کو مٹا کر دُنیا میں مساوات قائم کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی صورت کا یہ دکھایا کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اسی زید سے جو آزاد شدہ غلام تھا بیاہ دیا، حالانکہ عرب لوگ اسے بہت بُرا سمجھتے تھے.اسی طرح اسامہ جو زید کے بیٹے تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے لشکر کا سردار مقرر کر دیا جس میں دس ہزار مسلمان تھے اور جس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ تک شامل تھے حالانکہ عربوں میں غلاموں کے بیٹے بھی غلام ہی سمجھے جاتے تھے.اب بتاؤ دنیا کی اور کونسی قوم ہے جس نے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) لوگوں کو اس قسم کی آزادی عطا کی اور مساوات کا یہ حیرت انگیز ثبوت پیش کیا ہو کہ آزاد شدہ غلام کے بیٹے کو ایک لشکر جرار کا اُس نے سردار مقرر کیا اور اس لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہوں.پھر یہ نہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے اسامہ کے ماتحت جنگ کرنے میں کوئی ہتک محسوس کی ہو بلکہ وہ بڑی بشاشت اور خوشی کے ساتھ ان کی ماتحتی میں جنگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے ، بلکہ اس لشکر کو تو تاریخ اسلام میں ایسی عظمت حاصل ہوئی کہ اور کسی لشکر کو ایسی عظمت حاصل ہی نہیں ہوئی اور وہ اس طرح کہ یہ شکر ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ نہیں فرمایا تھا کہ آپ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے.آپ مجبوراً خلافت کی وجہ سے جنگ پر نہیں جا سکتے تھے ، مگر آپ از خود اس لشکر سے علیحدہ نہیں ہوئے بلکہ اسامہ کو لکھا کہ چونکہ مسلمانوں نے مجھے خلیفہ مقرر کیا ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں مدینہ میں ہی رہوں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی.پھر حضرت ابو بکڑ نے لکھ بھیجا کہ حضرت عمرؓ کا بعض ضروری معاملات میں مشورہ دینے کے لئے مدینہ میں رہنا ضروری ہے اس لئے اجازت دیجئے کہ عمر بھی یہیں رہیں چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی.گلے پس حضرت ابو بکڑ نے اپنی خلافت کے ایام میں ایک غلام بچہ کو اتنی عظمت دی کہ اس کی سیادت اور حکومت کا حق اپنی خلافت کے وقت میں بھی تسلیم کیا اور ایک آدمی بھی بغیر اجازت لشکر سے پیچھے نہیں رہا.مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا اہم حکم مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا حکم جس پر تمام صحابہ اور تمام مسلمان بھی شدت سے عمل کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ اسلام نے مجرم کی سزا میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رکھا.اسلام کے نزدیک مجرم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا بہر حال وہ تعزیر کا مستحق ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو روا نہیں رکھا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کی اور معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، ساتھ ہی بعض لوگوں نے سفارش کر دی اور کہا کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ معمولی تنبیہ کر دی جائے.رسول کریم کا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں.پھر
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) آپ نے فرمایا ، دیکھو پہلی قومیں یعنی یہود اور نصاریٰ اِس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اُسے سزا نہ دیتے ، جب کوئی چھوٹا آدمی مُجرم کرتا تو اسے سزا دیتے.مگر اسلام میں اس قسم کا کوئی امتیاز نہیں اور ہر شخص جو مجرم کرے گا اُسے سزا دی جائیگی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا.۱۵ تمدنی معاملات میں مساوات کی اہمیت پھر اسلام نے مساوات کو تمدنی پہلو میں اتنی عظمت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاس دودھ بطور تحفہ لایا.آپ نے کچھ دودھ پیا اور پھر خیال آیا کہ کچھ دودھ حضرت ابو بکر کو دیدوں کیونکہ وہ بھی اُس وقت مجلس میں موجود تھے اور پھر آپ کے رشتہ دار بھی تھے.مگر آپ نے دیکھا کہ وہ دائیں طرف نہیں بیٹھے بلکہ بائیں طرف بیٹھے ہیں اور دائیں طرف ایک نو جوان بیٹھا ہے.اسلام نے چونکہ دائیں طرف والے کا حق مقدم رکھا ہے اس لئے آپ نے اُس لڑکے سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر کو دیدوں ؟ اس لڑکے نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ میرا حق ہے یا آپ یونہی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا.بات یہ ہے کہ دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے اس دودھ پر تمہارا حق ہی ہے مگر میں تم سے اجازت چاہتا ہوں کہ اگر کہو تو ابو بکر کو دودھ دے دوں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! جب یہ میرا حق ہے تو پھر آپ کے تبرک کو کوئی کس طرح چھوڑ سکتا ہے اور یہ کہہ کر اُس نے دودھ کا پیالہ آپ سے لیکر پینا شروع کر دیا.مرض الموت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد و رول کر لی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کا وسلم کا خود کریم صلی.ایک واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح اسلام میں مساوات کا خیال رکھا جاتا ہے.جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو صحابہ کو آپ نے بار بار خدا تعالیٰ کی وحی سے خبر دی اور بتایا کہ اب میرا زمانہ وفات نزدیک ہے.اُس وقت ان پر ایک عجیب رقت طاری تھی اور دلوں میں سوز وگداز پیدا تھا.ایک دن آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے صحابہ کونصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا.اے لوگو! اسلامی قانون کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھ سے بدلہ لے لو.اور فرمایا کہ اس معاملہ میں اگر دنیا میں مجھے سزا مل جائے تو میں اسے زیادہ پسند کروں گا بہ نسبت اس کے کہ اس غلطی کے بارہ میں خدا تعالیٰ مجھ سے جواب طلبی کرے.جب آپ نے یہ فرمایا تو ایک
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میرا ایک حق آپ کے ذمہ ہے آپ نے فرمایا کیا ؟ اُس نے کہا فلاں موقع پر جبکہ آپ لڑائی میں مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے ، اگلی صف میں کچھ خرابی تھی آپ صف میں راستہ بنا کر آگے گزرے تو آپ کی گہنی مجھے لگ گئی.آپ نے فرمایا کہاں لگی تھی ؟ اُس نے پیٹھ پر ایک جگہ دکھائی اور کہا اس جگہ لگی تھی.آپ اُس وقت بیٹھ گئے اور فرمایا میرے بھی اسی جگہ گہنی مارلو.اس صحابی نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! اُس وقت میرے تن پر گرتا نہیں تھا، نگا جسم تھا اور ننگے جسم پر آپ کی کہنی لگی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اور یہ کہہ کر آپ نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا اب تم گہنی مارلو.صحابہ کی حالت کا تم اُس وقت اندازہ لگا سکتے ہو، ایک طرف اُن کے دلوں میں یہ جذبات موجزن تھے کہ خدا کا رسول عنقریب ہم سے جُدا ہونے والا ہے اور اس وجہ سے اُن کے دل سوز وگداز سے بھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس صحابی کا یہ مطالبہ ان کے سامنے تھا.اگر ان کا بس چلتا تو وہ یقیناً اس صحابی کی تکہ بوٹی کر دیتے مگر اسلامی شریعت انہیں روک رہی تھی اس لئے وہ خون کے گھونٹ پی پی کر صبر کر گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرتا اُٹھایا اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا کہ مجھ سے اب بدلہ لینے لگے ہو اور قیامت پر اُٹھا نہیں رکھا.تو وہ صحابی جنھوں نے مطالبہ کیا تھا پرنم آنکھوں کے ساتھ آپ پر جھکے اور آپ کی پیٹھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا يَارَسُوْلَ اللہ ! بیشک مجھے آپ کی گہنی لگی تھی مگر میں نے یہ سارا بہانہ اس وقت صرف اس لئے بنایا تھا تاکہ میں اس وقت کہ آپ اپنی جُدائی کا ذکر کر رہے ہیں آخری دفعہ آپ کے جسم کو بوسہ دے لوں کا یہ کس قد ر ز بر دست مساوات ہے جو اسلام نے قائم کی.کیا دنیا اس مساوات کی کوئی بھی نظیر پیش کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مسجد میں امیر اور غریب کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے، بادشاہ اور رعایا کا فرق جاتا رہتا ہے، اسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد تمام مساوات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رہتی.حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کا ایک زرین واقعہ پھر یہ عمل آپ تک ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی برابر جاری رہا، حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجہ میں گو آپ کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلتہ ابن اہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کئے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے چل پڑا.حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا، اتفاقاً کسی مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑ گیا.بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کا پاؤں اُس کے جُبہ کے دامن پر پڑ گیا.چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں، بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی.بہر حال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اُس کے پیر پر آپڑا تو اُس نے غصہ میں آکر زور سے اُسے تھپڑ مار دیا اور کہا تو میری ہتک کرتا ہے تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں، تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہئے تھا تو نے گستاخانہ طور پر میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھدیا.وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اور مسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں تو داخل ہوا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.بالخصوص اس گھر میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا.اُس نے کہا میں اس کی پرواہ نہیں کرتا.اس مسلمان نے کہا کہ عمر کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے.جبلہ ابن ایہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلہ ابن اہم کے منہ پر تھپڑ مارے.اس نے کہا کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمر تو ایسے ہی ہیں یہ سنکر اُس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپ کیا کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں.وہ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.پھر آپ نے کہا جبلہ ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے ؟ اس پر اُس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا، میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے.مگر وہ اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتد ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا.لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پرواہ نہ کی.۱۸ یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے.جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا
انوار العلوم جلد ۱۶ اسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں.سیر روحانی (۲) مساوات کے قیام کے لئے اسلام میں زکوۃ کا حکم پھر مساوات قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ اسلام نے اختیار کیا اور جس پر صحابہ بڑی شدت سے عمل کرتے تھے زکوۃ کا مسئلہ ہے.اسلام نے زکوۃ اسی لئے مقرر کی ہے تاکہ لوگوں میں مساوات قائم رہے یہ نہ ہو کہ بعض لوگ بہت امیر ہو جائیں اور بعض لوگ غریب ہو جائیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں.تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَاءِ هِمْ وَ تُرَدُّ عَلى فُقَرَاءِ هِمُ ا کہ وہ امیروں سے لی جائے گی اور غریبوں کو دی جائے گی ، کیونکہ ان کے اموال میں اس قدر حصہ در اصل غرباء کا ہے اور اُن کا حق ہے کہ اُن کا حصہ ان کو واپس دیا جائے.یہ زکوۃ سرمایہ پر اڑھائی فیصدی کے حساب سے وصول کی جاتی ہے اگر سرمایہ پر چھ فیصدی نفع کا اندازہ لگایا جائے تو اڑھائی فیصدی زکوۃ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ منافع کا چالیس فیصدی اللہ تعالیٰ غرباء کو دینے کا ارشاد فرماتا ہے گویا شریعت نے ایک بڑا بھاری ٹیکس مسلمانوں پر لگا دیا ہے تا کہ اس روپیہ کو غرباء کی ضروریات پر خرچ کیا جائے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا کئے جائیں.فتوحات میں حاصل ہونے والے اسی طرح کئی یعنی وہ اموال جو فتوحات میں حاصل ہوں ان کے متعلق شریعت کا حکم ہے اموال کی تقسیم کے متعلق قرآنی ہدایات کہ انہیں علاوہ اور قومی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے غرباء میں بھی تقسیم کیا جائے تا کہ امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے.مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ اَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبَى وَ الْيَتَمَى وَ الْمَسْكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الاغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ٣٠ کہ وہ اموال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو بغیر کسی محنت کے مل جایا کریں ، ان کے متعلق ہماری یہ ہدایت ہے کہ وہ اموال اللہ تعالیٰ کا حق ہیں شریعت کو جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے کیا مراد ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد یہ ہے کہ وہ مال غرباء اور ضروریات دین اور ضروریات قومی پر خرچ کیا جائے.ضروریات دینی و ضروریات قومی تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اللہ کے لفظ میں شامل
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ ہیں ، غرباء کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے لفظ میں کس طرح شامل ہیں ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِى الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا یعنی ہر چلنے والی چیز جو زمین پر رینگتی یا چلتی ہے اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اسے رزق پہنچائے.پس جب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہر جاندار کا رزق ہے تو جاندار ایسے ہیں کہ ان کے لئے رزق کمانے کا طریق خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اگر وہ رزق نہ کما سکیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ سے انہیں رزق دینا ہوگا اور سب سے مقدم خزانہ اللہ تعالیٰ کا وہی مال ہے جسے خدا کا مال شریعت نے قرار دیا ہو.حدیث میں بھی اس آیت کی تشریح دوسرے الفاظ میں آتی ہے لکھا ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو فرمائے گا کہ تم جنت میں جاؤ کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.تب مؤمن حیران ہو کر کہیں گے کہ اے خدا! تو ہم سے ہنسی کرتا ہے، آپ ننگے کب ہو سکتے تھے، آپ بھو کے اور پیاسے کب ہو سکتے تھے کہ ہم آپ کو کپڑے پہناتے ، ہم آپ کو کھانا کھلاتے اور ہم آپ کو پانی پلاتے.تب خدا تعالیٰ فرمائیگا کہ تم میری بات کو نہیں سمجھے ، جب دُنیا میں کوئی غریب بندہ بھوکا ہوتا تھا اور تم اسے کھانا کھلاتے تھے تو تم اسے کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ مجھے کھانا کھلاتے تھے اور جب دُنیا میں کوئی غریب آدمی پیا سا ہوتا تھا اور تم اسے پانی پلاتے تھے تو تم اسے پانی نہیں پلاتے تھے بلکہ مجھے پانی پلاتے تھے اور جب دنیا میں کوئی غریب آدمی نگا ہوتا تھا اور تم اسے کپڑے پہناتے تھے تو تم اسے کپڑے نہیں پہناتے تھے بلکہ مجھے کپڑے پہناتے تھے.۲۲ اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ غریبوں کو دینا اللہ تعالیٰ کو دینا ہے کیونکہ ان کا رزق اللہ تعالی کی ذمہ داریوں میں سے ہے پھر فرماتا ہے.وَلِلرَّسُولِ ان اموال میں ہمارے رسول کا بھی حصہ ہے اور رسول کے حصہ سے مراد بھی غرباء میں اموال تقسیم کرنا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ اس قسم کے اموال اپنے پاس نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خدا تعالی کی ہیں وہی خلقی طور پر رسول کی ہیں اس لئے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر جو رقم خرچ ہوگی وہ رسول کو دینا ہی قرار دی جائیگی.پھر فرماتا ہے وَلِذِي الْقُرُبَى ذِى القربي کا بھی اس میں حق ہے شیعہ لوگ اسکے عام طور پر یہ معنے کرتے ہیں کہ اموال فئے میں رسول کریم
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے حالانکہ اس قسم کے اموال میں ان کا کبھی بھی حصہ نہیں سمجھا گیا.حقیقت یہ ہے کہ ذی القربی سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ کہہ کر ایک آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی قرب الہی حاصل کرنے والے لوگ اور وہ درویش جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور ان کے گزارہ کی کوئی معتین صورت نہیں ہوتی.گو اسی جماعت میں شامل ہو کر اہلِ بیت ان اموال کے اول حقدار قرار دئیے جا سکتے ہیں.پھر فرماتا ہے وَاليَتمى ان اموال میں یتامی کا بھی حق ہے اور یتامی بھی غریب ہی ہوتے ہیں وَالْمَسَاكِينِ اسی طرح مسکینوں کا حق ہے وَابْنِ السَّبِيلِ اور مسافروں کا بھی حق ہے اور مسافر بعض حالات میں عارضی طور پر ناداروں کی طرح ہو جاتا ہے.آگے فرماتا ہے ہم نے یہ تقسیم اس لئے کی ہے گئ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ تا کہ مال امیروں کے ہاتھوں میں ہی چکر نہ لگاتا رہے بلکہ غریبوں کے پاس بھی جائے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں پس ہم حکم دیتے ہیں کہ یہ اموال غرباء میں تقسیم کئے جائیں تا کہ امراء کے ہاتھوں میں مال چکر نہ کاٹتا رہے.ایک زمیندار دوست کا واقعہ زمیندار بعض دفعہ بات کرتے ہیں تو بڑے پتہ کی کرتے ہیں.ایک زمیندار دوست نے سنایا کہ میں ایک دفعہ گورنر صاحب سے ملا اور میں نے اُن سے کہا کہ حضور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور اور وہ یہ کہ سرکار بعض دفعہ رعایا پر خوش ہوتی ہے اور سرکا ر ڈپٹی کمشنر کو کھتی ہے کہ ڈیڑھ دوسو مربع غرباء میں تقسیم کر دیا جائے.آپ کے ڈپٹی کمشنر غرباء کو تلاش کرتے ہیں تو انہیں کوئی غریب دکھائی ہی نہیں دیتا ، جس گاؤں کو دیکھتے ہیں اُنہیں امیر ہی امیر نظر آتے ہیں.آخر بڑی مشکل سے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب کو اتنے مربعے دیدئیے جائیں اور فلاں چوہدری صاحب کو اتنے مربعے دیئے جائیں کیونکہ بھو کے مر رہے ہیں.ملک صاحب کے پاس تو صرف تمہیں ہزار ایکڑ زمین ہے اور چوہدری صاحب کے پاس بیس ہزار ایکڑ ، اسی طرح کسی کے پاس ۱۵ ہزا را یکٹر زمین ہے اور کسی کے پاس دس ہزار، اگر ان کو مربعے نہ دیئے گئے تو بیچارے بھو کے مر جائیں گے، چنانچہ سب زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتی ہیں.اس کے کچھ عرصہ بعد جب اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے کے بدلے گورنمنٹ کچھ انعامات تقسیم کرنا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ اب یہ انعامات اعلیٰ خاندانوں میں تقسیم کئے جائیں ، اس پر پھر ڈپٹی کمشنر صاحب
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ جب اعلیٰ خاندانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہی لوگ جو پہلی دفعہ انہیں غریب دکھائی دیئے تھے اب انہیں امیر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور انہی میں پھر انعامات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں.سرکار یہ دیکھ کر ہمیں تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ہم بڑے ہیں کہ چھوٹے ہیں.پس آجکل اموال کی تقسیم کا طریق یہ ہے کہ بڑے بڑے امراء اور متمول لوگوں کو چن کر اُن میں تمام اموال تقسیم کر دیئے جاتے ہیں، مگر اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ تم غرباء میں اموال تقسیم کرو.كَى لَا يَكُونَ دُوْلَةٌ بَيْنَ الأغْنِيَاءِ مِنْكُمْ تا کہ مالداروں کے ہاتھوں میں ہی روپیہ جمع نہ رہے بلکہ غرباء کے ہاتھوں میں بھی آتا رہے.اسی لئے اسلام نے کہیں وراثت کا مسئلہ رکھ کر ، کہیں زکوۃ کی تعلیم دے کر اور کہیں سُود سے روک کر امراء کی دولت کو توڑ کر رکھدیا ہے اور اس طرح امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے.قیام مساوات کے لئے دنیا کے تمام پھر ایک مساوات یہ ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان انصاف قائم کیا جائے ، اسلام مذاہب کے متعلق ایک پر حکمت اصول اس مساوات کا بھی حکم دیتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے.وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَّ مَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ کہ اگر دنیا میں ہم مسلمانوں کو کھڑا نہ کرتے اور اس طرح اسلام کے ذریعہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہودیوں کی عبادت گاہیں ، عیسائیوں کے گرجے ، ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں امن کا ذریعہ نہ ہوتیں بلکہ فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی آما جگاہ ہوتیں.یہ امر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ایسا ہے جس نے اپنی مساجد میں ہر قوم کو عبادت کا حق دیا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر قوم کو عبادت کا مساوی حق حاصل ہو.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آزادی سے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی اس کی مثال کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو اس کام کے لئے کھڑا نہ کرتے اور مسلمان اپنا خون بہا کر اس حق کو قائم نہ کرتے تو دنیا میں ہمیشہ فتنہ و فساد رہتا اور کبھی بھی صحیح معنوں میں امن قائم نہ ہوسکتا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) مساجد کی دوسری غرض کا صحابہ کرام کے ذریعہ ظہور (۲) مسجد کی دوسری غرض ایک مقامِ مبارک کا قیام ہے اور وہ دو طرح ہوتا ہے (الف) اس طرح کہ وہ ذکرِ الہی کے لئے مخصوص ہوتی ہے.اس جماعت کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ذکر الہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ فرماتا ہے.فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقَامِ الصَّلَوةِ وَ إيتَاءِ الزَّكَوةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَ الْاَبْصَارُ " یعنی خدا کی رحمتیں اور برکتیں اُن گھروں پر نازل ہونگی اذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ جن کے متعلق خدا نے یہ حکم دے دیا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے وَ يُذْكَرَفِيْهَا اسْمُهُ اور اُن میں خدا کا نام لیا جائے گویا وہ ذکر الہی کے لحاظ سے بالکل مسجدوں کی طرح ہو جائیں گے اور اس کا موجب ان گھروں میں رہنے والے ہونگے يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُو وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لا تُلهيهم | تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ صبح شام ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کو ہر قسم کی تجارت ملکی ہو یا درآمد برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو اسی طرح زمیندارہ، صنعت وحرفت کے کارخانے ذکر الہی سے غافل نہیں کرتے ( اس آیت میں دو لفظ ہیں تجارت اور بیچ اور کوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی.پس مراد یہ ہے کہ بعض کا موں میں دونوں جہت یعنی خرید وفروخت سے انسان نفع کماتا ہے وہ تجارت ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ کام کرنے والا خرید تا نہیں صرف فروخت کرتا ہے جیسے زمیندار یا صناع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اس کی پیداوار ہے پس اس کا کام در حقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں اسے تجارت سے الگ بیان کر کے تجارتی کاروبار کی سب قسمیں بیان کر دی ہیں ) گویا کوئی بات بھی انہیں نہ تو نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے اور نہ زکوۃ کی ادائیگی سے ان کی توجہ پھراتی ہے.يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ وہ فقط اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہوگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہونگے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ ذکر الہی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور یہی مسجد کا خاص کام ہے پس وہ ایک چلتی پھرتی مسجد بن جاتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) عبادت اور ذکر الہی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش صحابہ ذکر الہی میں ترقی کرنے کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی یہ جد وجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی ، احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر يَارَسُول اللہ! ہم زکوۃ اور صدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا ، میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتا تا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد تینتیس دفعہ سُبحَانَ اللهِ تینتیس دفعہ الْحَمدُ لِلهِ اور چونتیس دفعہ اللهُ اَكْبَر کہہ لیا کرو، وہ وہاں سے بڑی خوشی سے اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے.آپ نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جو بات اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ہم اب کیا کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر نیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں روک کس طرح سکتا ہوں ؟ ۲۵ یہ وہ فضیلت تھی جس نے صحابہؓ کو جیتی جاگتی مسجد بنا دیا تھا.صحابہ کی پاکیزگی اور طہارت پر الہی شہادت (ب) دوسری صورت مقام مبارک کی یہ ہے کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کی جماعت کو پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اسکے متعلق قرآن کریم میں شہادت موجود ہے کہ صحابہ پاک کئے گئے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ ٣٦ کہ یہ رسول صحابہؓ کے سامنے ہمارے نشانات بیان کرتا ہے وَ يُزَكِّيهِمْ اور ان کو پاک کرتا ہے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گویا خدا خود صحابہ کی پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے.دوسری جگہ ان کی پاکیزگی کی شہادت ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ الله تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ.راضی ہو گئے.تیسری جگہ یہ شہادت اس طرح دی گئی ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَنتَظِرُ یعنی یہ خدا کے اتنے نیک بندے ہیں کہ ان میں سے بعض تو اُس عہد کو جو انہوں نے خدا سے کیا تھا پورا کر چکے ہیں اور بعض گودل سے پورا کر چکے ہیں مگر ابھی عملی رنگ میں انہیں عہد کو پورا کر کے دکھانے کا موقع نہیں ملا اور وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انہیں بھی خدا کی طرف سے یہ موقع عطا ہو ، حدیثوں میں صحابہ کی اس قربانی کے متعلق ایک مثال بھی بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کو کس طرح پورا کیا.ایک صحابی کی عظیم الشان قربانی جب جنگ بدر کا موقع آیا تو صحابہ کو یہ احساس نہیں تھا کہ کوئی لڑائی ہونے والی ہے بلکہ خیال یہ تھا کہ ایک قافلہ کی شرارتوں کے سدباب کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہیں ، اسی لئے کئی صحابہ مدینہ میں بیٹھے رہے تھے اور ساتھ نہیں گئے مگر جب اسی لشکر کے باہر نکلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کے لشکر سے بغیر امید کے جنگ ہو گئی اور کئی صحابہ نے قربانی کا بے مثال نمونہ دکھا یا تو جو لوگ اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کے دلوں میں رشک پیدا ہوا.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت انس کے چچا تھے، جب کسی مجلس میں جنگ بدر کے کارناموں کا ذکر ہوتا اور شامل ہونے والے صحابہ کہتے کہ ہم نے یہ کیا ہم نے وہ رکیا تو پہلے تو وہ خاموشی سے سنتے رہتے مگر آخر وہ بول ہی پڑتے اور کہتے تم نے کیا کیا.اگر میں ہوتا تو تم کو بتا تا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.صحابہؓ اس بات کو سنتے اور ہنس پڑتے مگر آخر خدا تعالیٰ نے اُن کی دعائیں سن لیں اور اُحد کا دن آ گیا.اس جنگ میں مسلمانوں کی غفلت سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گر د صرف گیارہ صحابی رہ گئے.مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار تین ہزار تھے.جب دشمن نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف چند آدمی رہ گئے ہیں تو اُس نے یکدم حملہ کر دیا اور کفار کے لشکر کا ایسا ریلا آیا کہ اُن گیارہ آدمیوں کے بھی پاؤں اکھڑ گئے.حملہ چونکہ سخت تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے اور آپ کے خود کا ایک کیل آپ کے سر میں گھس گیا اور دندانِ مبارک بھی ٹوٹ کر.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) گر گئے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے.۲۹ اس کے بعد آپ کے جسم اطہر پر بعض اور صحابہ شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح آپ کا جسم لوگوں کی نگاہ سے چُھپ گیا.مسلمانوں نے آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر چونکہ آپ نظر نہ آئے اس لئے یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں بعد میں جب صحابہ کی لاشیں نکالی گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نظر آگئے آپ اُس وقت صرف بیہوش تھے مگر بہر حال اس افواہ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوں کے حواس جاتے رہے.بعد میں جب انہیں معلوم ہو ا کہ آپ زندہ ہیں تو اُن کی تکلیف جاتی رہی اور وہ بہت خوش ہو گئے.اس جنگ میں چونکہ ابتداء میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی اس لئے بعض مسلمان اطمینان سے اِدھر اُدھر چلے گئے اُنہی میں حضرت انس کے چچا بھی تھے.وہ ایک طرف آرام سے کھجور میں کھاتے پھرتے تھے کہ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں.وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ عمر! کیا یہ رونے کا وقت ہے یا خوشی منانے کا وقت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رور ہے ہو.انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگے مجھے تو کچھ پتہ نہیں.حضرت عمرؓ نے کہا فتح کے بعد دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.وہ انصاری کھجوریں کھا رہے تھے اور اُس وقت اُن کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی ، انہوں نے اُس کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت کے درمیان اس کھجور کے سوا اور ہے ہی کیا.یہ کہتے ہوئے انہوں نے اُس کھجور کو پھینک دیا اور پھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے واہ عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور تم رو ر ہے ہو، ارے بھائی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے ہیں وہی جگہ ہماری بھی ہے.یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ایک ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اور دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو لاتوں سے انہوں نے دشمن کو مارنا شروع کر دیا اور جب لاتیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا ، غرض آخری سانس تک وہ دشمن سے لڑائی کرتے رہے.بعد میں جب ان کی تلاش کی گئی تو معلوم ہوا کہ دشمن نے ان کے جسم کے ستر ٹکڑے کر دیے تھے اور وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے ، حدیثوں میں آتا ہے کہ یہ صحابی انہی لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ یہ وہ برکت والے گھر تھے جس کی وجہ سے خدا نے ان کے متعلق یہ فرمایا کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کے یہی معنے ہیں کہ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کر لی.صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض ایمان افزاء واقعات پھر ان کی ظاہری برکات کے بھی کئی نمونے موجود ہیں ایک دفعہ صحابہ کسی جگہ گئے تو وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک کو سانپ نے کاٹ لیا، پرانے دستور کے مطابق وہ دم کرنے اور کچھ پڑھ کر پھونک مارنے والے کو بلایا کرتے تھے انہوں نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا میں ہوں.وہ اُسے ساتھ لے گئے اور انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا اور وہ شخص پالکل اچھا ہو گیا.اس خوشی میں گھر والوں نے انہیں کچھ بکریاں تحفہ کے طور پر دیں جو انہوں نے لے لیں، باقی صحابہ نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور جب مدینہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کا ذکر کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس صحابی کے دل کو خوش کرنے کے لئے فرمایا کہ اس تحفہ میں سے میرا حصہ بھی تو لاؤ یعنی یہ تحفہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے تھا.مطلب یہ کہ اس قسم کے جنتر منتر تو اسلام میں نہیں ، لیکن ان لوگوں کو ایمان دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو برکت بخشی اور ایک نشان دکھایا.پس جو تحفہ ملا وہ بابرکت سے ہے اس برکت میں سے مجھے بھی حصہ دو.تو دیکھو صحابہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کیسی برکت ملی کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک ماری اور مارگزیدہ اچھا ہو گیا.بعض لوگ اس کی نقل میں آجکل بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے دم میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی غیر مومن سو دفعہ بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مارے تو کوئی اثر نہیں ہوگا.سورۃ فاتحہ اُس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی بابرکت ہو سکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو.پھر ایک اور واقعہ اسی قسم کا مولانا روم نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کو جب شکست ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد قیصر روم کو سر درد کا دورہ شروع ہو گیا.ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر اسے کسی نے کہا کہ تم مسلمانوں کے خلیفہ کو لکھو وہ اپنی کوئی برکت والی چیز تمہیں بھیج دیں جس سے ممکن ہے تمہیں آرام آ جائے.قیصر نے حضرت عمر کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ مجھے اپنی کوئی برکت والی چیز بھیجیں میرے سر درد کو آرام نہیں آتا، ممکن ہے اس سے آرام آ جائے.عرب کے لوگ اپنے بالوں میں خوب تیل لگانے کے عادی تھے، حضرت عمر نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جسے تیل لگا ہوا تھا اور جس پر بالشت بالشت بھر میں جمی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ بھیج دی اور
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) پیغام دیا کہ اسے اپنے سر پر رکھا کر و.قیصر جو سر پر تاج رکھنے کا عادی تھا اُس نے جو گاڑھے کی میلی کچیلی ٹوپی دیکھی تو وہ سخت گھبرایا مگر ایک روز جب اُسے درد کا شدید دورہ ہو ا تو اُس نے مجبوراً ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی اور خدا تعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا، ادھر اس نے اپنے سر پر ٹوپی رکھی اور ادھر ا سے آرام آ گیا.پھر تو اُس کا دستور ہی یہی ہو گیا کہ جب وہ دربار میں بیٹھتا تو حضرت عمر کی میلی پھیلی اور پھٹی پرانی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا.تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو برکتیں دیتا ہے اُن کی چیزوں میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سل کا مادہ پیدا ہو گیا تھا.ایکسرے کرایا تو بھی یہی نتیجہ نکلا ، آخر وہ کہتے ہیں میں قادیان آگیا کہ اگر مرنا ہے تو قادیان چل کر مروں اور میں نے تمام علاج چھوڑ کر آپ سے دعا کرائی.نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے آرام آنا شروع ہو گیا اور آخر با لکل صحت ہو گئی.میں پھر لاہور گیا اور ایکسرے کرایا تو انہیں ڈاکٹروں نے جنھوں نے پہلے میرا ایکسرے کیا تھا، ایک بار ایکسرے کیا پھر دوسری بارا یکسرے کیا اور جب کہیں بھی انہیں سل کا مادہ نظر نہ آیا تو وہ کہنے لگے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہڈی ہی بدل گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو برکت دیتا ہے اُن کی باتوں میں، اُن کے کپڑوں میں، اُن کی دعاؤں میں اور اُن کی تمام چیزوں میں برکت رکھ دیتا ہے.غرض جس طرح مسجد ایک برکت والی چیز ہے اسی طرح صحابہ کا گروہ برکت والا تھا اور دنیا نے اس گروہ کی جسمانی اور روحانی برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.صحابہ کرام تمام دنیا کے لئے ہدایت کا موجب تھے مسجد کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ هُدًى لِلْعَلَمِينَ ہوتی ہے یہ بات بھی صحابہ میں پائی جاتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے.وَ مِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهُدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ٣٠ اس رکوع میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہود کی بُرائیاں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے نالائق ہیں اس کے بعد فرماتا ہے کہ سارے ہی ایسے نالائق نہیں بلکہ اس رسول کے ذریعہ ہم نے جن لوگوں کو کھڑا کیا تھا وہ ایسے ہیں جو سچائی کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انصاف سے کام لیتے ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کی ہدایت کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں.اَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم اسے کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس طرح تم کسی ستارے کو نشان قرار دیکر چل پڑو تو منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہو،
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ اسی طرح تم میرے کسی صحابی کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں خدا کے دروازہ پر پہنچا دیگا.چنانچہ سب صحابه هُدًى لِلْعَلَمِینَ کا ایک عملی نمونہ تھے اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دینے میں سب سے آگے رہتے تھے.مکی زندگی کا یہی ایک واقعہ صحابہ کے اس طریق عمل پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے.ایک صحابی جن کا نام عثمان بن مظعون تھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے ، اُن کا باپ عرب میں بہت وجاہت رکھتا تھا.جب یہ مسلمان ہو گئے تو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس نے جو اُن کے باپ کا دوست تھا انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا آجکل مسلمانوں کی سخت مخالفت ہے، میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں تمہیں کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکے گا.انہوں نے اُس کی بات مان لی اور اُس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمان میرے بھائی کا بیٹا ہے اسے کوئی شخص دُکھ نہ دے.عربوں میں یہ طریق تھا کہ جب ان میں سے کوئی رئیس کسی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دے تو پھر ا سے کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا اگر ایسا کرتا تو اُسی رئیس اور اُس کے قبیلہ سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی.ایک دن حضرت عثمان کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان غلام کو کفار بڑی بیدردی سے مار پیٹ رہے ہیں.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بہت بُری بات ہے کہ میں تو مکہ میں امن سے رہوں اور میرے بھائی تکلیف اُٹھاتے رہیں چنانچہ وہ سیدھے اُس رئیس کے پاس پہنچے اور اُسے کہا کہ آپ نے جو مجھے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا میں اس ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کرتا ہوں اور آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا.اس نے کہا تم جانتے نہیں کہ مکہ مسلمانوں کے لئے کیسی خطرناک جگہ ہے اگر میں نے اپنی پناہ واپس لے لی تو لوگ فوراً تم کو ایذاء دینے لگ جائیں گے.انہوں نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں ، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ میں تو آرام سے رہوں اور میرے بھائی تکلیفیں اُٹھاتے رہیں.چنانچہ ان کے اصرار پر اُس نے خانہ کعبہ میں جاکر اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعون اب میری پناہ میں نہیں رہا.اس اعلان پر ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عرب کا ایک مشہور شاعر جس کا قصیدہ سبعہ معلقہ میں شامل ہے مکہ میں آگیا.اہلِ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مشہور شاعر آتا تو بہت بڑی مجلس منعقد کی جاتی اور اُس کے کلام سے لوگ محفوظ ہوتے.اس کے آنے پر بھی ایک بہت بڑی مجلس منعقد کی گئی اور تمام مکہ والے اس میں شامل ہوئے.حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کا کلام سننے کے لئے وہاں جا پہنچے اُس نے شعر پڑھتے پڑھتے ایک مصرع یہ پڑھا کہ :-
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ع وَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بِاطِلٌ ۳۲ سنوسنو ! خدا کے سوا دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے حضرت عثمان اس مصرعہ پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے.شاعر نے جس کا نام لبید تھا شور مچا دیا کہ اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کسی شریف آدمی کی قدر نہیں رہی ، میں عرب کا باپ ہوں اور یہ کل کا چھوکرا مجھے داد دے رہا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا ، ٹھیک کہا.یہ میری عزت نہیں بلکہ ہتک ہے اور میں اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتا.لبید کے اس اعتراض پر لوگوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور وہ عثمان کو مارنے کیلئے اٹھے لیکن بعض نے کہا نادان بچہ ہے ایک دفعہ تو اس نے ایسی حرکت کر دی ہے اب آئندہ نہیں کریگا.چنا نچہ لوگ خاموش ہو گئے.اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا ع وَكُلُّ نَعِيمِ لَا مَحَالَةَ زَائِلٌ ٣٣ ہر نعمت آخر ز ائل اور تباہ ہو جائے گی.اس پر حضرت عثمان بن مظعون پھر بول اُٹھے کہ بالکل غلط ہے، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی.اب تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ جو شخص ان کی تعریف سے ناراض ہو ا تھا وہ ان کی تردید پر کس قدر جوش سے بھر گیا ہو گا.چنانچہ جب انہوں نے سر مجلس کہہ دیا کہ یہ بات غلط ہے تو اُس نے نظم پڑھنی چھوڑ دی اور کہا کہ میری ہتک کی گئی ہے.اس پر بعض نوجوان غصہ سے اُٹھے اور انہوں نے مارنا شروع کر دیا، ایک نے اس زور سے آپ کی آنکھ پر گھونسہ مارا کہ انگوٹھا اندر جنس گیا اور آنکھ کا ڈیلا پھٹ گیا.وہ رئیس جس نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا تھا اُس وقت وہیں موجود تھا اور چونکہ ان کا باپ اُس کا دوست تھا اس لئے عثمان کی تکلیف کو دیکھ کر اُس کے دل میں محبت کا جوش پیدا ہوا.لیکن سارے مکہ کے جوش کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر کمزوروں کی طرح عثمان بن مظعونؓ پر ہی غصہ نکال کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنا چاہا، چنانچہ غصہ سے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میری پناہ میں رہو، آخر تمہاری ایک آنکھ لوگوں نے نکال دی.حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی آنکھ کا خون پو نچھتے ہوئے فرمایا، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سچ کے بدلے میری ایک آنکھ نکل گئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اسی قسم کے سلوک کا انتظار کر رہی ہے.۳۴ اب دیکھو صحابہ کس طرح هُدًى لِلْعَلَمِينَ ثابت ہوئے ہے." وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حق کے خلاف کوئی بات سنیں اور اُس کی تردید نہ کریں.ایک صحابی سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آجکل بنوامیہ کی حکومت ہے تم کوئی بات نہ کرو،
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) اگر وہ اس حکومت کے ارکان تک پہنچ گئی تو تمہیں نقصان ہو گا.وہ فرمانے لگے مجھے اس کی پروا نہیں ، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ اگر کسی کو کوئی سچی بات معلوم ہو اور اُس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہو تو اُسے چاہئے کہ تلوار چلنے سے پہلے جلدی سے حق بات اپنے منہ سے نکال دے.تو ہدایت کے پہنچانے میں صحابہ نے ایسا کمال دکھایا تھا کہ اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی.مسلمانوں کا اذانیں دینا، خطبے پڑھا نا سب اس کے ماتحت ہے کیونکہ ان ذرائع سے بھی حق کی بات دوسروں تک پہنچتی اور اُن کو ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے.پھر صحابہ دوسروں کو ہدایت دینے میں جس سرگرمی اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر دین سکھانے میں لگا دی.اور اتنی حدیثیں جمع کر دیں کہ آج اگر ان کو جمع کیا جائے تو پختاروں کے پختا رے ۳۵ے لگ جائیں.آجکل تحریر کا زمانہ ہے اور روایات بڑی آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایات جمع کرنے میں وہ کوشش نہیں کی جو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے جمع کرنے میں کی تھی.کئی صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی واقعات معلوم ہیں مگر ابھی تک وہ ان کے سینوں میں ہی ہیں اور انہوں نے ظاہر نہیں کئے ، اسی طرح کئی تابعین ہیں جنہوں نے کئی صحابہ سے روایات سنی ہوئی ہیں، ان کا بھی فرض تھا کہ وہ ایسی تمام روایات کو ضبط تحریر میں لے آتے مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی حالانکہ چاہئے تھا کہ وہ رات دن ایسی باتیں سناتے رہتے تا کہ وہ دنیا میں محفوظ رہتیں.صحابہ رسول اکرم نے یہ کام کیا اور ایسی عمدگی سے کیا کہ آج حدیثوں کی سو دو سو جلد میں پائی جاتی ہیں ، یہ ان کی ہدایتِ عام کی سند اور هُدًى لِلْعَلَمِینَ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے.انصار اور مہاجرین کی باہمی مؤاخات (۴) مساجد کا چوتھا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں، یہ کام بھی انبیاء کی جماعتیں کیا کرتی ہیں.جس طرح مسجد کہتی ہے کہ آ جاؤ عبادت کی طرف، یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اور وہ سب لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہماری طرف آ جاؤ.چنانچہ قرآن کریم میں صحابہ کے ایک حصہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَ لَا يَجِدُونَ فِى صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ٣٦ یعنی انصار اتنے وسیع الحوصلہ ہیں کہ ان کے دلوں میں دُنیوی اموال اور نعمتوں کی کوئی خواہش ہی نہیں اُن کا یہی جی چاہتا ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں خواہ خود انہیں تنگی ہو یا تکلیف ، وہ دوسروں کو آرام پہنچانے کا فکر رکھتے ہیں.جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انصار نے اپنی جائدادیں بانٹ دیں اور مکان دیدئیے.جب مہاجرین ہجرت کر کے مدینہ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں ، آؤ میں تم دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادوں.چنانچہ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی بھائی بنا دیا.ہمارے ہاں بعض لوگ بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں مگر وہ کسی کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے ، لیکن انصار کا یہ حال تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ان کا بھائی بنا دیا تو ان میں سے بعض نے اُس وقت گھر جا کر اپنی جائداد میں تقسیم کر دیں اور مہاجرین سے کہا کہ آدھی جائداد ہماری ہے اور آدھی تمہاری.بعض جو تاجر تھے انہوں نے مہاجرین کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا.مہاجرین نے بیشک انکار کر دیا اور کہا کہ تم ہمیں اُجرت دیدینا ہم تمہاری خدمت کریں گے مگر اُنہوں نے اپنی طرف سے احسان کرنے میں کوئی کمی نہیں کی.بلکہ ایک صحابی نے تو اس حد تک غلو کیا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے اُن کی دو بیویاں تھیں اور پردہ کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا، انہوں نے اپنی دونوں بیویاں اُن کے سامنے کر دیں اور کہا کہ ان میں سے جس کو تم پسند کرو میں اُسے طلاق دیدیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو.یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو انصار نے کی.جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لئے کھول دیئے.یہ اتنی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے کہ تاریخ میں اس قسم کے وسعت حوصلہ کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی.انتخاب خلافت کے وقت انصار کا پھر سب سے بڑی حوصلہ کی مثال انصار نے اُس وقت قائم کی جب خلافت کے انتخاب کا وقت عدیم النظیر ایثار اور وسعت حوصلہ آیا.مسائل خلافت، نبی کے زمانہ میں ہمیشہ مخفی رہتے ہیں، اگر نبی کے زمانہ میں ہی یہ باتیں بیان کر دی جائیں تو ماننے والوں کی جانیں نکل جائیں کیونکہ اُن کو نبی سے ایسی شدید محبت ہوتی ہے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے وہ تو زندہ رہیں اور نبی فوت ہو جائے اس لئے نبی کے زمانہ میں خلافت کی طرف صرف اشارے کر دیے جاتے ہیں.یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کا تھا، وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو انصار نے خلافت کے متعلق الگ مشورہ شروع کر دیا اور مہاجرین نے الگ.انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہر والے ہیں اور مہاجرین باہر کے رہنے والے ہیں ، اس لئے باہر سے آنے والوں کا کوئی حق خلافت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا ، یہ ہمارا ہی حق ہے اور لیڈر ہم میں سے ہی ہونا چاہئے.مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی تو ان میں سے بھی بعض وہیں آگئے.حضرت ابوبکر ، حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو عبیدہ ان میں شامل تھے.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے وہاں گئے تھے بلکہ وہ اسلام میں تفرقہ پیدا ہونے کے خوف سے وہاں گئے اور انہوں نے چاہا کہ انصار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مسلمانوں کے لئے مضر ہو.غرض جب یہ وہاں پہنچے تو میٹنگ ہو رہی تھی.مہاجرین نے کہا کہ پہلے ہماری بات سُن لو اور وہ یہ ہے کہ عرب لوگ آپ کی اطاعت کے عادی نہیں ، اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو ا تو مسلمانوں کو بہت سی مشکلات پیش آنے کا ڈر ہے اس لئے مکہ کے لوگوں میں سے آپ جس کو چاہیں اپنا امیر بنالیں مگر انصار میں سے کسی کو نہ بنائیں.اس پر ایک انصاری نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو پھر مِنَّا اَمِيرٌ وَ مِنْكُمْ اَمِیرٌ چلو ایک خلیفہ ہمارا ہو جائے اور ایک آپ کا.حضرت ابو بکر نے اس کے نقائص بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہوا تو عرب کے لوگ اسے نہیں مانیں گے.اس پر بعض انصار جوش میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ انصار ہمیشہ غلامی ہی کرتے رہیں ؟ وہ اس وقت بھی مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مان لیں اور بعد میں بھی مہاجرین میں خلیفہ بنتے رہیں، انصار میں سے کوئی خلیفہ نہ بنے اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے غلام اور ماتحت رہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر انصار کو بہت سی نصیحتیں کیں اور فرمایا ہم آپ لوگوں کا احسان مانتے ہیں، مگر آپ کو اِس وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ کس بات میں ہے؟ یہ سُن کر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک تقریر کی جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی.انہوں نے انصار کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے لوگو ! تم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) میں خدا کی رضا کے لئے بلایا تھا یا خلافت کے حصول کے لئے ؟ اور اگر تم نے اسلام میں داخل ہو کر بڑی بڑی قربانیاں کیں تو اس لئے کی تھیں کہ خدا راضی ہو جائے یا اس لئے کی تھیں کہ خلافت ملے؟ اگر تمام قربانیاں تم نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے کی تھیں تو خدا را! اب اپنی قربانیوں کو خلافت کی بحث میں برباد نہ کرو.مہاجرین جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مناسب یہی ہے کہ تم اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو اور اپنی تجاویز کو جانے دو.اُس صحابی کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ساری قوم نے شور مچا دیا، بالکل درست ہے بالکل درست ہے.چنانچہ مہاجرین میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اور انصار نے خوشی سے اُس کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کر لیا.۳۷ یہ عجیب بات ہے کہ آج تک بھی انصار میں سے کسی کو بادشاہت نہیں ملی ، گو تصوف والے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اب تمہیں دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا جو کچھ لینا ہے حوض کوثر پر آ کر لے لینا.مگر سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن کسی کو اجر ملنا کوئی کم برکت والی چیز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بیشک دنیوی انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر اصل انعام وہی ہیں جو انسان کو عالم آخرت میں ملیں.پس اگر انہیں قیامت کے دن انعامات مل گئے تو پھر تو انہیں سب کچھ مل گیا.لیکن بہر حال انصار نے دنیا میں کبھی حکومت نہیں کی اور یہ ایسی شاندار قربانی ہے جو بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح اپنے دل اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھول رکھے تھے.صحابہ کرام لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھے! پانچویں خصوصیت مساجد کی یہ ہے کہ وہ شر اور بدی سے عَنِ روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۳ کہ نماز انسان کو بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے اس بارہ میں بھی صحابہ نے بے نظیر مثال قائم کی ہے چنانچہ شر سے بچانے کا بہترین ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کا ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں کس طرح انصاف قائم کیا.جب اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دیتے دیتے شام تک چلا گیا تو ایک وقت ایسا آیا جبکہ رومی بادشاہ اپنا سارا لشکر جمع کر کے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو گیا، اُس وقت اسلامی جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر اُن علاقوں کے لوگوں سے چونکہ انہوں نے ٹیکس اور جزیے وصول کئے ہوئے تھے اور
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ اس ٹیکس اور جزیہ کے وصول کرنے کی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ اسی روپیہ کو خرچ کر کے لوگوں کی جان و اموال کی حفاظت کی جائے.اس لئے جبکہ وہ ان علاقوں سے واپس جا رہے تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے ان کے ٹیکس انہیں واپس نہ کئے تو یہ ظلم ہو گا ، چنانچہ انہوں نے تمام شہر والوں کو ان کا جزیہ واپس دیدیا اور کہا کہ اب ہم واپس جارہے ہیں اور چونکہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہارا ٹیکس تمہیں واپس دیتے ہیں.اس واقعہ کا یروشلم کے عیسائیوں پر ایسا اثر ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائی بادشاہ تھا اور باوجود اس کے کہ وہ اُسے لاکھوں روپیہ بطور نذرانہ دیا کرتے تھے جس وقت صحابہ کا لشکر یروشلم کو چھوڑنے لگا تو عورتیں اور مرد چینیں مار مار کر روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو پھر اس جگہ واپس لائے.دنیا کی کسی تاریخ میں اس قسم کی مثال ڈھونڈ نے پر بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی قوم اُس وقت جبکہ وہ کسی علاقہ کو خالی کر رہی ہو لوگوں کو اُن کے وصول شھید ہ ٹیکس واپس دے دے بلکہ آجکل تو ایسی حالت میں لوگوں کو اور زیادہ کوٹ لیا جاتا ہے.اسی طرح شر سے روکنے کی مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر میں وہ مثالیں دینا چاہتا ہوں جن کو سب دنیا مانتی ہے حتی کہ مسلمانوں کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں.شراب اور جوئے کی ممانعت چنانچہ ایک مثال میں جوئے کی پیش کرتا ہوں اس سے اسلام نے روکا ہے.اسی طرح شراب سے اسلام نے بڑی سختی سے روکا ہے کیونکہ شراب بھی بڑی خرابیوں کا موجب ہوتی اور اس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے شر اور فساد کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَهُونَ ٣٩ فرمایا ہم نے شراب اور جوئے سے تمہیں روکا ہے مگر جانتے ہو ہم نے کیوں روکا ہے؟ اس لئے کہ ان کے ذریعہ فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ چیزیں ذکر الہی اور عبادت کی بجا آوری میں روک بنتی ہیں اس طرح آپس میں عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے.آج تمام یورپ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور یوروپین مد تر چاہتے ہیں کہ شراب نوشی روک دیں مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے.امریکہ نے شراب کے خلاف بڑا زور مارا مگر اڑھائی پرسنٹ (PERCENT ) شراب کی اس نے بھی اجازت دیدی.گویا اس معاملہ میں امریکہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) کہتے ہیں ایک کشمیری کہیں بیٹھا ہوا تھا اور اُس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی چادر لپیٹی ہوئی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بچہ بھی ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی نہیں.اس نے کہا نہیں سچ سچ بتاؤ ایک یا دو تو ہوں گے، کہنے لگا سچ کہتا ہوں میرا تو ایک بچہ بھی نہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ کشمیری اُٹھا تو چادر کے نیچے سے چار بچے نکل آئے ، یہ دیکھ کر وہی شخص اسے کہنے لگا کہ تم تو کہتے تھے کہ میرا ایک بچہ بھی نہیں اور یہ تو چار بچے تمہارے ساتھ ہیں.اس پر وہ کشمیری کہنے لگا ، حضرت چار پتر بھی کوئی پتر ہوندی ہے یعنی چار بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں ( یہ مثال لوگوں نے اسی امر کے اظہار کے لئے بنائی کہ مَا شَاءَ اللہ کشمیریوں کے اولاد بہت ہوتی ہے ) اسی طرح امریکہ والوں نے کہہ دیا کہ ۲ پرسنٹ شراب کوئی شراب نہیں.مگر اس قدر ا جازت دینے کے باوجود جب اس نے قانوناً شراب کی ممانعت کر دی تو ملک میں خطرناک فساد برپا ہو گیا.ہزار ہا آدمی سالانہ محض اس کی وجہ سے مارا جاتا تھا کیونکہ جنہیں شراب پینے کی عادت تھی وہ شراب کے لئے دوسروں کو روپیہ دیتے اور وہ چوری چھپے لے آتے.آخر لفنگوں اور بدمعاشوں کی کمیٹیاں بن گئیں جو لوگوں سے روپیہ وصول کرتیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح شراب مہیا کر دیتیں اور چونکہ اس طرح مختلف کمیٹیوں والوں کی آپس میں رقابت ہوگئی اس لئے وہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کے آدمیوں کو مروا دیتیں.پھر پولیس کو مقدمات چلانے پڑتے اور درجنوں کو گورنمنٹ پھانسی کی سزا دیتی.غرض ہزاروں مقدمات چلے ، لاکھوں آدمی مارے گئے اور لاکھوں اس طرح مرے کہ جب انہیں شراب نہ ملتی تو وہ میتھی لیٹڈ سپرٹ (METHYLATED SPIRIT) پی لیتے جو سخت زہریلی چیز ہے اور اس طرح کئی مرجاتے اور کئی اندھے ہو جاتے.غرض امریکہ اڑھائی فیصدی شراب کی اجازت دے کر بھی اپنے ملک کو شراب پینے سے نہ روک سکا اور لاکھوں قتل ہوئے ، لاکھوں مقدمات ہوئے اور لاکھوں اندھے اور بیکار ہو گئے.یہاں تک کہ آخر میں حکومت کو اپنا سر جھکانا پڑا اور اس نے کہدیا کہ ہم ہارے اور شراب پینے والے جیتے چنانچہ اس نے ممانعت شراب کا قانون منسوخ کر دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان میگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو جب یہ آیت اتری کہ شراب پر صحابہ نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے حرام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مدینہ کی گلیوں میں اس کا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) اعلان کرنے کے لئے مقرر کیا تو احادیث میں آتا ہے ایک جگہ شادی کی مجلس لگی ہوئی تھی اور گانا گایا جا رہا تھا اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے، لکھا ہے جس وقت یہ اعلان ہوا اُس وقت وہ لوگ شراب کا ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے ابھی رہتے تھے.نشہ کی حالت ان پر طاری تھی اور وہ شراب کی ترنگ میں گا بجارہے تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی ہے.یہ سنتے ہی ایک شخص نشہ کی حالت میں بولا کہ کوئی شخص آوازیں دیتا ہے اور کہتا ہے شراب حرام ہو گئی ہے.دروازہ کھول کر پتہ تو لو کہ بات کیا ہے؟ اول تو کوئی شرابی نشہ کی حالت میں اس قسم کے الفاظ نہیں کہہ سکتا مگر ان کا دینی جذبہ اس قدر زبردست تھا کہ انہوں نے معاً آواز پر اپنا کان دھرا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ دروازہ کھول کر دریافت کرو کہ بات کیا ہے؟ دوسرا شخص جس کو اس نے مخاطب کیا تھا وہ دروازہ کے پاس بیٹھا تھا اور اُس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا پکڑا ہو ا تھا اس نے جواب دیا کہ پہلے میں ڈنڈے سے مٹکوں کو توڑوں گا اور پھر دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے؟ جب ہمارے کان میں یہ آواز آ گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے تو اب اس کے بعد ایک لمحہ کا توقف بھی جائز نہیں اس لئے میں پہلے مٹکے توڑوں گا اور پھر دروازہ کھول کر اس سے دریافت کرونگا.چنانچہ اس نے پہلے مٹکے توڑے اور پھر منادی والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اُس نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے.اُس نے کہا الْحَمدُ لِلَّهِ ہم پہلے ہی مٹکوں کو توڑ چکے ہیں.۴۰ اب بتاؤ کہ کونسی مسجد ہے جو اس طرح بدیوں کو مٹا سکتی ہے.قتل اولاد کی ممانعت دیکھو تل اولاد ایک مانی ہوئی بدی ہے.ساری قومیں اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ قتل اولاد بہت بڑا جرم ہے مگر کسی قوم نے اس کے متعلق شرعی حکم نہیں دیا.صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کو رکھا اور بتایا کہ اولاد کا مارنا حرام ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بہت بڑے شر سے بچایا.عورتوں کے حقوق کی حفاظت اسی طرح عورتوں پر ظلم ہوتے تھے آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں، عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیئے ہیں حالانکہ ان کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم اُس کے پاسنگ بھی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت وسیع حقوق دیئے ہیں.عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی ماؤں کو بھی تقسیم کر لیتے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا، بیوی کو خاوند کا ، بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی.پھر فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ ہے کہ انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو ، اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں.چنانچہ گل ہی میں نے عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیئے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُنہیں یکساں شریک قرار دیا ہے اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعام عورتوں کو بھی ملیں گے.بلکہ گل تو مجھے ایک عجیب استدلال سو جھا.میں نے کہا کہ قرآن اور حدیث نے تمہارا صرف ایک ہی مذہبی حق چھینا ہے اور وہ یہ کہ نبی مرد ہو سکتا ہے ، عورت نبی نہیں ہوسکتی.صرف یہ ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق عورت کہہ سکتی ہے کہ مجھے کم انعام دیا گیا ہے اور مرد کو زیادہ مگر میں نے انہیں بتایا کہ نبوت صرف ایک عہدہ ہے اور اس عہدہ کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، پس اس لئے خدا نے اسے نبی نہیں بنایا.مگر انعامات کے لحاظ سے جو انعام عالم آخرت میں نبی کو ملے گا وہی اُس کی بیوی کو بھی ملے گا، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّيَّتِهِمْ وَ الْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ " کہ جو لوگ جنت میں داخل ہو نگے اُن کے ساتھ اُن کے والدین ، اُن کی بیویوں اور اُن کے بچوں کو بھی رکھا جائے گا.اگر ایک شخص خود تو جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا مگر اُس کی بیوی کسی ادنی مقام پر ہوگی تو اللہ تعالی بیوی کو اسی جگہ رکھے گا جہاں اس کا خاوند ہوگا اور یہ پسند نہیں کرے گا کہ میاں بیوی جُداجدا ہوں.پس موسی کی بیوی موسی“ کے ساتھ رکھی جائے گی داؤد کی بیوی داؤد کے ساتھ رکھی جائے گی، سلیمان کی بیوی سلیمان کے ساتھ رکھی جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی جائیں
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ گی.بیشک موسی کی بیوی نبی نہیں مگر نبوت کے انعام میں وہ بھی شریک ہو جائے گی.بیشک داؤد کی بیوی نبی نہیں مگر داؤد کے انعام نبوت میں ان کی بیوی بھی شریک ہو جائے گی.اسی طرح حضرت سلیمان کی بیویاں گو نبی نہیں مگر خدا انہیں وہی انعامات دے گا جو وہ سلیمان کو دیگا.پھر میں نے انہیں کہا کہ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں اور تین بیٹیاں تھیں، گویا ایک مرد کے ساتھ چودہ عورتیں انعام میں شریک ہو گئیں یہ کس قدر وسیع فیضان ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اور کس طرح اس نے اپنی رحمت میں عورتوں کو ڈھانپ لیا ہے کہ نہ اس دنیا میں ان کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں انہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے، حالانکہ عورتوں کی قوم اتنی مظلوم تھی کہ عرب لوگ روپوں کے بدلے اپنی ماؤں اور بیو یوں تک کو بیچ دیا کرتے تھے.پس یہ مسجد کنویں کی منڈیر کا کام کرتی ہے یعنی وہ رسوم یا عادات یا اعمال جن سے لوگ تباہ ہوں اُن سے بچاتی اور گندگی کو اندر گر نے سے روکتی ہے.قیام امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (1) چھٹے مسجد امن کا موجب ہوتی ہے اور یہ مسجد ایسی ہے کہ جب اس کا نام ہی اسلام ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مسلم اور مسلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جو دوسروں کو امن دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں.الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ يَدِهِ وَ لِسَانِهِ کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان کے شر سے ہر وہ شخص محفوظ ہوتا ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا.اب میں تفصیل بتا تا ہوں کہ امن کن چیزوں سے برباد ہوتا ہے سو یا درکھنا چاہئے امن چار چیزوں سے برباد ہوتا ہے.ا.امن بر باد ہوتا ہے بدظنی سے.۲.امن بر باد ہوتا ہے ظلم سے.۳.امن بر باد ہوتا ہے غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دے ینے سے.۴.امن بر باد ہوتا ہے لالچ سے.غرض دنیا میں جس قدر فسادات ہوتے ہیں وہ انہی چار وجوہ سے ہوتے ہیں یعنی یا تو
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) بدظنی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا ظلم کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا غصے کو غالب آنے دینے سے فساد ہوتا ہے یا لالچ کی وجہ سے فساد ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں امن بھی چار چیزوں سے قائم ہوتا ہے.ا.امن قائم ہوتا ہے خیر خواہی سے.۲.امن قائم ہوتا ہے مغفرت سے.مثلاً اگر کوئی گالی دے اور دوسرا معاف کر دے تو لڑائی کس طرح ہو سکتی ہے، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے جب فریقین میں سے ایک مغفرت سے کام لے اور عفو و درگز ر کا سلوک کرے تو لڑائی بڑھ ہی نہیں سکتی..اسی طرح احسان سے امن قائم ہوتا ہے.۴.پھر امن دین کو دُنیا پر مقدم رکھ کر بھی ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی انسان اُخروی حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اُس کو دنیا کی زندگی پر ہر لحاظ سے ترجیح دیتا ہو تو وہ امن کے قیام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کر سکتا ہے.اب یہ آٹھوں باتیں جو نفی اور مثبت سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ صحابہ میں پائی جاتی تھیں یا نہیں؟ اسلام میں بدظنی کی ممانعت اول بدظنی ہے اس کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَ لَا تَجَسَّسُوا " کہ اے مومنو! تم اکثر گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض ظن ایسے ہیں جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.وَلَا تَجَسَّسُوا اور تم دوسروں کے عیوب تلاش نہ کیا کرو.اب اگر کوئی شخص دوسرے پر حُسن ظنی کرے تو وہ اس کے عیب کو تلاش ہی نہیں کر سکتا.عیب اُسی وقت انسان تلاش کرتا ہے جب دل میں بدظنی کا مادہ موجود ہو.اب ہم صحابہ کے طریق عمل کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں حسنِ ظنی کس حد تک پائی جاتی تھی.تاریخ اسلام میں جب صحابہ کے واقعات دیکھے جاتے ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اُن میں کس قدر خوبیاں پائی جاتی تھیں.ان میں نیک ظنی تھی تو کمال درجہ کی اور دیانت وامانت تھی تو اس حد تک کہ اس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی.ان کی نیک ظنی کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے حضرت عمرؓ کے عہد میں ایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور قضاء نے اُس کے خلاف فیصلہ دیتے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ ہوئے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیدیا.جب اُسے قتل کرنے کے لئے لوگ لے گئے تو اُس نے کہا کہ میرے گھر میں کئی قیموں کی امانتیں پڑی ہوئی ہیں، مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر میں جا کر وہ امانتیں اُن کو واپس دے آؤں ، پھر میں اس جگہ اتنے دنوں میں حاضر ہو جاؤں گا.انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی ضامن لاؤ.اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا آخر اُس کی نظر ابوذر صحابی پر جا پڑی اور اُس نے کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں.ابوذر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں.خیر انہوں نے ضمانت دی اور وہ گھر چلا گیا.جب عین وہ دن آیا جو اُس کی حاضری کے لئے مقرر تھا تو صحابہ ادھر ادھر گھبراہٹ سے پھرنے لگے کیونکہ وہ شخص ابھی تک آیا نہیں تھا جب بہت دیر ہو گئی اور وہ نہ آیا تو صحابہ نے حضرت ابوذر سے پوچھا کہ کچھ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کون شخص تھا ؟ انہوں نے کہا مجھے تو علم نہیں.صحابہ کہنے لگے اُس کا جرم قتل تھا اور آپ نے بغیر کسی واقفیت کے اس کی ضمانت دے دی، یہ آپ نے کیا کیا ؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی.انہوں نے کہا، بیشک میں اُسے جانتا نہیں تھا مگر جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا نام لیا تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا اور کس طرح یہ بدظنی کر سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ حاضر ہی نہ ہو.اب دیکھو اُن میں باطنی کا کس قدر مادہ پایا جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی انہیں کچھ بھی واقفیت نہیں اُس کی اُنہوں نے ضمانت دیدی محض اس وجہ سے کہ وہ بدظنی کرنا نہیں چاہتے تھے.جب وقت بالکل ختم ہونے لگا تو صحابہ کو دُور سے گرد اڑتی دکھائی دی اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سوار بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا آرہا ہے.سب کی نظریں اُس سوار کی طرف لگ گئیں جب وہ قریب پہنچا تو وہ وہی شخص تھا جس کی حضرت ابوذر نے ضمانت دی ہوئی تھی.وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور چونکہ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دوڑاتا چلا آیا تھا اس لئے اُس کے اُترتے ہی گھوڑا گر کر مر گیا.اُس نے پاس آ کر کہا کہ مجھے معاف کرنا، یتامی کی امانتیں تقسیم کرتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں جلدی نہ آسکا اور اب میں گھوڑے کو دوڑاتا ہی آ رہا تھا تا کہ وقت کے اندر پہنچ جاؤں سو خدا کا شکر ہے کہ میں پہنچ گیا ، اب آپ اپنا کام کریں.اس کی اس وفاداری کا اس قدر اثر ہوا کہ جن لوگوں کا مجرم تھا انہوں نے فوراً قاضی سے کہد یا کہ ہم نے اپنا جرم اس شخص کو معاف کر دیا.۴۵ یہ وہ نیک ظن لوگ تھے جو دوسروں پر بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر خدا بھی ان
انوار العلوم جلد ۱۶ کے نیک ظنوں کو پورا کر دیتا تھا.سیر روحانی (۲) اسلام میں ہر قسم کے ظلم کی ممانعت پھر فساد ظلم سے پیدا ہوتا ہے اور ظلم کی کئی قسمیں ہیں مگر اسلام نے اُن سب کو مٹا دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً " کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہوتا ہے اور دوسرے کی عزت پر اس سے حملہ ہوتا ہے.دوسری چیز مال ہے جس کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے.وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ که جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو.پھر جان ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا وَلَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ " کہ اپنے آپ کو قتل مت کرو.اسی طرح تجارت میں بعض دفعہ ظلم کا ارتکاب کر لیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی روکا اور فرمایا وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ - وَإِذَا كَالُوهُمْ اَوْ وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ٢٩ کہ لعنت ہے اُن پر ، ہلاکت ہے اُن پر جو لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور جب چیزیں لیتے ہیں تو تول میں پوری لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں گویا اسلام نے ظلم کی تمام شقوں سے روک دیا اور اس طرح اُس نے جان کو بھی محفوظ کر دیا، عزت کو بھی محفوظ کر دیا اور صحابہ نے اس پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ جس طرح حرم میں داخل ہو کر انسان امن میں آ جاتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی عزتوں اور ان کے مالوں اور ان کی جانوں کے محافظ تھے اور امانتیں تو ان کے پاس اس طرح محفوظ رہتی تھیں کہ آجکل کے بنکوں میں بھی ویسی محفوظ نہیں رہتیں.ایک صحابی ایک دفعہ ایک گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے اور انہوں نے اس کی دوسو دینار قیمت بتائی.ایک اور صحابی نے کہا کہ میں یہ گھوڑا لینا چاہتا ہوں مگر تم غلط کہتے ہو کہ اس کی دوسو دینار قیمت ہے اس کی تو پانچ سو دینار قیمت ہے وہ کہنے لگے میں صدقہ خور نہیں کہ زیادہ قیمت لے لوں اس کی اصل قیمت دو سو دینا رہی ہے.اب وہ دونوں جھگڑ نے لگ گئے.بیچنے والا کہتا تھا کہ میں دو سو دینار لوں گا اور خرید نے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سو دینار دونگا.اب بتاؤ جہاں اس قسم کے لوگ ہوں وہاں امن کس شان کا ہوگا مگر اب تو جتنا کوئی مالدار ہو
انوار العلوم جلد ۱۶ اُتنا ہی دوسروں کو ٹوٹنے کی کوشش کرتا ہے.سیر روحانی (۲) میں ایک دفعہ بمبئی میں ایک دُکان پر کپڑا لینے کے لئے گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں مگر وہاں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور دُکاندار ایک اور شخص سے جھگڑنے میں مصروف رہا.آخرمیں نے اُس سے کہا کہ بات کیا ہے اور اتنی دیر سے جھگڑ کیوں رہے ہو؟ اُس نے کہا کیا بتاؤں آج تو میں مصیبت میں پھنس گیا تھا یہ شخص بمبئی کا سب سے بڑا مشینوں کا مالک ہے.اس نے مجھ سے بیس پچپیس کپڑے لئے اور میں نے اِن کا بل ایک سو آٹھ روپیہ کا بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا.اس پر یہ جھگڑنے لگا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میری رعایت کیا تم نہ کرو گے؟ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری دُکان پر ایک قیمت ہوتی ہے اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد اس کے سیکرٹری نے سو کا نوٹ رکھ دیا اور کہا کہ اب بس کرو باقی رقم کا مطالبہ نہ کرو اور میری یہ حالت کہ میں اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا ، لیکن دوسری طرف اگر قیمت کم لیتا ہوں تو میری دُکان کا اصول ٹوٹتا ہے اب یہ زور سے کم قیمت دے کر چلا گیا ہے.غرض مسلمان اپنے غلبہ کے وقت میں اتنا سیر چشم تھا کہ اگر کوئی غلطی سے کم قیمت مانگتا تھا تو وہ اصرار کرتا تھا کہ میں اس کی قیمت زیادہ دونگا، مگر آج کے کروڑ پتی بھی سودے میں کچھ معاف کروانے کے لئے خواہ جائز ہو یا نہ ہو گھنٹوں صرف کر دیتے ہیں ، دوسری طرف دُکاندار اور کارخانہ دار قیمت زیادہ وصول کرنے پر مُصر ہوتے ہیں.تکبر کی بُرائی اسی طرح دنیا میں خیالات کی خرابی کی وجہ سے بھی ظلم ہوتا ہے ایک انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح وہ تکبر میں آ کر دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو بھی توڑا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَمْشِ ى الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.اے انسان! تُو زمین میں متکبرانہ طور پر نہ چلا کر کیونکہ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ تُو زمین میں سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا.یہی تیرے غریب بھائی جو تیرے ارد گرد ہیں ان سے تجھے دن رات کام رہتا ہے اور تو نے ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے.خرق کے معنے پھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سے گزرنے کے بھی.مطلب یہ ہے کہ تو نے اس زمین میں سے کہیں نکل نہیں جانا بلکہ اس دنیا میں رہنا ہے اور دنیا میں انسان کو آرام اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل جُل کر نہ رہے.پس اللہ تعالیٰ لوگوں کو نصیحت
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو! تکبر نہ کرو کیونکہ اگر تم تکبر کرو گے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ذلیل اور حقیر سمجھو گے تو تم اکیلے پھرتے رہو گے اور لوگ تمہیں غیر جنس خیال کرنے لگ جائیں گے اور اس وجہ سے تمہیں امن میسر نہیں آسکے گا.بھلا کبھی گھوڑوں اور گدھوں میں رہ کر بھی انسان کو امن حاصل ہو سکتا ہے امن تو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی جنس کے ساتھ رہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میاں دیکھو تم نے کسی اور جگہ نہیں جانا بلکہ تمہارے ان غریب بھائیوں نے ہی رات دن تمہارے کام آنا ہے اگر تم اپنے آپ کو کوئی غیر جنس سمجھو گے تو دُنیا میں اس طرح رہو گے جس طرح چڑیا گھر میں انسان رہتا ہے.پھر فرماتا ہے وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً اگر تم نے یہ طریق جاری رکھا تو یاد رکھو تم اس صورت میں کبھی بھی قوم کے سرداروں میں شامل نہیں ہو سکو گے.اس لئے کہ جب تم قوم کو ذلیل سمجھو گے تو قوم تمہیں اپنا سردار کس طرح بنائے گی وہ تو تمہاری دشمن ہوگی اور تمہیں اپنی قوم کی نگاہوں میں عزت نہیں بلکہ ذلت حاصل ہوگی.قومی اخلاق کو بگاڑنے کی ممانعت پھر قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَا يُحِبُّ الله الجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ ا کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرما تا کہ کوئی بُری بات اونچی آواز سے کہی جائے.لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بیشک اجازت ہے کہ وہ برسر عام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اس کی اجازت نہیں.مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے.گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریق سے روکتا اور فرماتا ہے کہ تو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ تو سمجھنا چاہئے کہ تو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے جیسے اگر کوئی ماں بہن کی گندی گالیاں دینا شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں تو ہر شریف آدمی اسے روکتا اور کہتا ہے کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اسی طرح خدا فرماتا ہے تو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہوا ہے مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ تو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے.بَيْنَ الاقوامی مناقشات کا سدِ باب پھر ایک اور ظلم حکومتوں پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی کئی ہدایات دی ہیں اس کے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ متعلق تفصیلی بحث میری کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں موجود ہے.میں اس جگہ مختصراً چند باتیں بیان کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ طَائِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ۵۲.اگر دو مومن حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی تمام حکومتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ان سے کہیں کہ آپس میں صلح کر لو.اگر ان میں سے کوئی صلح کی تجویز کو مان کر باغی ہو جائے یا صلح کی تجویز کو قبول ہی نہ کرے اور لڑائی پر آمادہ رہے تو وہ حکومت جس نے بغاوت سے کام لیا ہو اس کے ساتھ سب مل کر لڑو اور مظلوم کو اکیلا نہ رہنے دو حَتَّى تَفِیءَ إِلَى اَمْرِ اللهِ یہاں تک کہ ابتداء کرنے والی حکومت یا قوم خدا تعالیٰ کے فیصلے کو مان لے فَاِنْ فَاءَ ت اگر وہ ظلم سے باز آ جائے اور اقرار کر لے کہ اس سے غلطی ہوئی تو پھر اس سے انتقام نہ لو اور اپنے آپ کو فریق مخالف قرار دے کر اس سے بیجا مطالبات نہ کرو، بلکہ ابتدائی مخاصمین کے درمیان صلح کرا دو.وَأَقْسِطُوا اور انصاف سے کام لو ایسا نہ ہو کہ تم غصہ سے کسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کر دو جو عدل وانصاف کے منافی ہو اور کہو کہ چونکہ اس نے پہلے ہماری بات کو نہیں مانا تھا اس لئے اب اس پر سختی کرنی چاہئے.تمہیں جنبہ داری اور کینے کے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ الله تعالى انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.میں اس وقت تفصیلاً اس مسئلہ کو بیان نہیں کر سکتا.تین چار سال ہوئے جب ایسے سینیا پر اٹلی نے حملہ کیا تھا تو اُس وقت جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ امن کے قیام کے لئے ایسی ہی لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) کام دے سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی اصول پر ہو.اگر اسلامی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہ رکھی جائے تو وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتی.اس وقت یہ دستور ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہو جاتی ہے تو اسے ہر ممکن طریق سے ذلیل اور رسوا کر نیکی کی کوشش کی جاتی ہے جیسے گزشتہ جنگ کے اختتام پر جرمنی کو معاہدہ وارسائی، ۵۳ کے ذریعہ کچلنے کی پوری کوشش کی گئی اور انصاف کی حدود کو نظر انداز کر دیا گیا، حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کوئی قوم ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد جو بھی معاہدہ کیا جائے اُس کی بنیاد
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) انصاف پر ہونی چاہئے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اور ہار چکا ہے اس لئے اس کے خلاف سخت فیصلہ کر کے اسے ذلیل کیا جائے یا اس سے بدلہ لیا جائے.گویا صلح کرانے والوں کو اپنے آپ کو فریق مخالف نہیں بنا لینا چاہئے بلکہ جنگ کے باوجود اپنے آپ کو ثالثوں کی صف میں رکھنا چاہئے.دوسرے آجکل کی لیگ کے قوانین میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ اگر کسی فریق نے مقابلہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے گی بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم منوانے کی کوشش کریں گے.اب جسے پتہ ہو کہ میرا کام صرف منوانے کی کوشش کرنا ہے وہ لڑائی کے لئے تیاری کیوں کرے گا اور بد اندیشے رکھنے والے لوگ اِس لیگ سے ڈریں گے کیوں؟ تیسرے اسلام نے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر دو متحارب فریقوں میں سے ایک لڑائی پر آمادہ ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام مل کر اس کے ساتھ لڑیں اور چونکہ ایک قوم سب اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اس لئے لازماً وہ ہتھیار ڈال دے گی اور صلح پر آمادہ ہو جائے گی مگر لیگ آف نیشنز میں ایسا کوئی قانون نہیں اس لئے اس کے فیصلہ سے کوئی قوم مرعوب نہیں ہوتی اور چونکہ ان نقائص کی وجہ سے بار ہا لیگ آف نیشنز امن کے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب بڑے بڑے مدبر بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے پیچھے کوئی فوج ہونی چاہئے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کے پاس صرف فوج ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کے علاوہ اس میں وہ باتیں بھی ہونی چاہئیں جو اسلام نے بتائی ہیں ورنہ امن قائم نہیں ہوسکتا.اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت ہی تو ہوتا ہے غیر پرظلم مگر ایک علم فن پر بھی ہوتا ہے جیسے انسان شادی کرنا چھوڑ دے.اب یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص شادی نہ کرے مگر جو خواہشات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پیدا کی گئی ہیں اُن کو وہ کس طرح دبا سکتا ہے.اسی طرح کوئی شخص بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر بھوک کی خواہش کو نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ خدا نے پیدا کی ہے.اور کسی انسان کا اپنی جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا یہ بھی ایک ظلم ہے جو کسی غیر پر نہیں بلکہ اپنے نفس پر ہے اور اسلام اس ظلم سے بھی روکتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا رَهْبَانِيَةَ فِي الْإِسْلَامِ اسلام میں رہبانیت نہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رہبانیت جو بعض مذاہب نے شروع کر رکھی ہے اس کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کی اپنی ایجاد ہے.اس
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) طرح قرآن کریم میں آتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۵۵ کہ اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو.ہم نے بیشک تمہیں حکم دیا ہے کہ تم تبلیغ کرو، ہم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم تعلیم دو، ہم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دوسروں کی تربیت کرو لیکن اگر کبھی کوئی ایسا موقع آجائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بیشک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو.دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اُس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے.سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہوا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہوا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں.ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا اُس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ سردار صاحب ! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور.یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کار بند نہیں.اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے ، پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں.انہوں نے کہا بہت اچھا.چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سو روپیہ کی تھیلی اُس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب ! اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے، ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سے بات بھی نہیں مان سکتے.اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، صرف آج شراب پی لیں.اُس نے سو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اُٹھا کر پی لیا.سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کے بر ہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی.یہ نتیجہ تھا در حقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا حالانکہ اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ اگر روٹی کا سوال ہو تو بیشک خود ٹھو کے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلاؤ لیکن جہاں ہدایت کا سوال آ جائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دُور ہو جاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہئے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.شرک کی ممانعت تیرا علم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اسکے بارہ میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۵ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.غرض اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے تو حید کو دنیا میں قائم کیا اور اس طرح اس ظلم کا خاتمہ کر دیا جس کا خدا سے تعلق ہے اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کیا اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی اپنے نفس پر بھی ظلم نہیں کیا اور اس طرح اس نے امن کے برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ کر دیا.بے جا غضب کی ممانعت (۳) امن کو برباد کرنے والا تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے.قرآن کریم نے اس بدی کی بھی بیخ کنی کی ہے اور اصولی طور پر ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا ۵ کہ ہم نے تمہیں اُمَةً وَسَطًا بنایا ہے یعنی ایسی امت جو ہر کام میں اعتدال کو مد نظر رکھتی ہے پس تمہارا فرض ہے کہ تم نہ تو غصہ میں بہہ جاؤ اور نہ محبت میں بہہ جاؤ بلکہ اگر محبت کرو تو ایک حد تک اور اگر غصہ کرو تو ایک حد تک.پھر فرماتا ہے وَالْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۵۸ که مؤمن لوگ اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں.حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اُس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے ، اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے.میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو ایک پانی لیکر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں.لَيْسَ الشَّدِيدُ بالصُّرْعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِندَ الْغَضَبِ ۵۹ کہ بہادر اُس کو نہیں کہتے جو گشتی میں دوسرے کو گرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اُسے روک لے.پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں ، بڑا بہا در گرسنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو ر کھے اور اُس کو روک لے.اس بارہ میں حضرت علی کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے.جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اُسے گرا لیا اور آپ اُس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دیں.اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.اس پر حضرت علی اُسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے.وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا ؟ چنانچہ اُس نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کرونگا تو میر اقتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا ، خدا کے لئے نہیں ہوگا.پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے.یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ اُن کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو.لالچ اور حسد کی ممانعت (۴) امن کے برباد کرنے کا چوتھا سبب لالچ ہوتا ہے اللہ تعالی اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا انْهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ " کہ یہودی قوم بھی کوئی قوم ہے کہ خدا تو لوگوں پر فضل کرتا ہے اور یہ حسد سے مری جاتی ہے.دوسری جگہ فرماتا ہے وَ لَا تَتَمَنَّوُا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ خدا نے دنیا میں مختلف قوموں پر جو فضل کئے ہیں ان کی وجہ سے ان قوموں سے حسد نہ گر و بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.-
انوار العلوم جلد ۱۶ قیام امن کے ذرائع اب اسکے مقابل پر میں امن کے ذرائع کو لیتا ہوں.سیر روحانی (۲) خیر خواہی (۱) پہلا ذریعہ قیام امن کا خیر خواہی ہے ہمارے ملک میں یہ جذ بہ اتنا کم ہے کہ جب بھی کوئی افسر بدلتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا افسر آتا ہے تو وہ پہلے افسر کے کام کے ضرور نقائص نکالتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر آتا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر کا نقص نکالتا ہے، کمشنر آتا ہے تو وہ پہلے کمشنر کے کام کی خرابیاں بتا تا ہے اور اگر جرنیل آتا ہے تو پہلے جرنیل کی سکیموں میں نقص نکالتا ہے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے وہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ " سچا مسلمان وہ ہوتا ہے کہ جب خدا اسے کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو پہلے لوگ جو فوت ہو چکے ہوں اُنکے متعلق یہ نہیں کہتا کہ فلاں سے یہ غلطی ہوئی اور فلاں سے وہ غلطی ہوئی بلکہ وہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور اگر بعض سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ان کے متعلق دعائیں کرتا رہتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھے بھی بخش اور میرے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو مجھ سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں مؤمنوں کا کوئی کینہ نہ رہنے دیجیئو.اے رب ! تو بڑا مہربان ہے تو ان پر بھی رافت اور رحم کر اور ہمارے دل میں ان کے متعلق محبت کے جذبات پیدا فرما تا کہ ہم اپنے پیشروؤں کے نقص نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے عادی ہوں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ | لا خِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ۳ کہ کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کی نسبت وہ تمام باتیں نہ چاہے جو وہ اپنی نسبت چاہتا ہے.غور کرو کتنی وسیع خیر خواہی ہے جس کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے.مغفرت (۲) امن کے قیام کا دوسرا ذریعہ مغفرت ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے متقی وہ ہوتے ہیں وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کے گناہوں کو معاف کرتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ ۶۴ کہ عفو کو اپنی عادت بنالو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم کبھی کبھار کسی کو معاف کردو بلکہ دوسروں کو معاف کرنا تمہاری عادت میں داخل
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ہونا چاہئے اور جو نیک اور پسندیدہ باتیں ہیں ان کا لوگوں کو حکم دو اور اگر کوئی تمہیں غصہ دلائے تو اس کے فریب میں نہ آنا بلکہ ایسے جاہلوں سے اعراض کرنا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا یا رَسُولَ اللهِ ! انسان دن میں کتنی دفعہ مغفرت کرے؟ آپ نے فرمایا: ستر مرتبہ.اب ستر سے مرا دستر ہی نہیں کیونکہ انسان دن بھر میں دو یا چار قصور کرے گا، ستر قصور نہیں کر سکتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ستر دفعہ معاف کرو.دراصل اس ستر سے مراد کثرت ہے کیونکہ ستر یا سات کے معنے عربی زبان میں کثرت کے ہوتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے وَلَيَعْفُوا وَلَيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ اَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُم وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ها مؤمنوں کو چاہئے وہ عفو کریں، درگزر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے گناہ بخشے؟ جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گنا ہوں کو بخشے تو اے مؤ منو ! تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو ، اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا.احسان (۳) امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اسکے متعلق بھی قرآن کریم میں حکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ کہ مؤمن وہ ہیں جو غصے کو دباتے ہیں ، جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں، اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبي ل کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتائے ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے ان تینوں کی مثال میں میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں میں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا.اتفاقاً وہ برتن اُس نے بے احتیاطی سے اُٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا، وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا.اس پر اس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالكَظِمِينَ الْغَيْظَ کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں.حضرت امام حسنؓ نے فرمایا كَظَمُتُ الْغَیظ کہ میں نے اپنے غصہ کو دبا لیا اس
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ پر اُس نے آیت کا اگلہ حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کہ مؤمنوں کو صرف یہی حکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں.حضرت امام حسنؓ فرمانے لگے عَفَوتُ عَنكَ جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا اس پر وہ کہنے لگا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ اِس سے آگے یہ بھی حکم ہے کہ مؤمن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا.گویا پہلے انہوں نے اپنے غصہ کو دبایا، پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اُسے آزاد کر دیا.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا (۴) چوتھی بات جس کا امن کے قیام کے ساتھ تعلق ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی نہیں کر سکتا ، کیونکہ کچھ قربانیاں تو ایسی ہیں جن کا دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے مگر بیسیوں قربانیاں ایسی ہیں جن کا دنیا میں کوئی بدلہ نہیں ملتا.پس حقیقی قربانی بغیر اُخروی زندگی پر یقین رکھنے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی قربانی کو ضائع سمجھتا ہے اور چونکہ حقیقی قربانی کے بغیر امن نہیں ہو سکتا اس لئے جب تک اُخروی زندگی پر ایمان نہ ہو اُس وقت تک حقیقی امن دنیا کو نصیب نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے بَل تُؤْثِرُونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّابْقَى کہ مؤمن تو دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے مگر تم وہ ہو جو دنیا کو دین پر مقدم کر رہے ہو.إِنَّ هذا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُؤسَى ۲۸ پہلے نبیوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو مگر ان کے اتباع نے اس تعلیم کو بُھلا دیا اور دنیا کا امن برباد ہو گیا غرض یہ آٹھوں باتیں جو امن کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں.وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، وہ محسن تھے ، وہ مغفرت سے کام لیتے تھے ، وہ خیر خواہ تھے ، وہ بدظنی سے بچتے تھے ، وہ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے تھے ، وہ لالچ سے محفوظ رہتے تھے اور وہ غصے کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتے تھے.امامت کے وجود کا ظہور (۷) ساتویں بات یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ قیام امامت کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے تا کہ یہ سبق بھولے نہیں اور
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ امام حقیقی کے وقت کام آئے، دوسرے سابقون کی نیکیاں قوم میں زندہ رکھنے کا خیال رہے.در حقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد کو تازہ رکھتا ہے.اب دیکھ لو اس امر کو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقام ابراہیم کو مصلی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا.پہلے حضرت ابو بکر ، پھر حضرت عمرؓ ، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی مقام ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا با لکل مسجد کا نمونہ تھا جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنا لیا.اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمد یہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں ؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اس مولوی کو بھی جا کر سنا دی.وہ کہنے لگا مولوی نور الدین دین سے واقف تھا وہ چالا کی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے.جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیدا ہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اُس نے سمجھا کہ اب تو جماعت ضرور ٹھو کر کھا جائے گی.چنانچہ اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یاد رکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مطاع تسلیم کر لینا ہے مگر معا یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی.یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو.خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو.جس طرح مسجد بنائی ہی اسی لئے جاتی ہے تا کہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے.پس جس
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) طرح مسجد خانہ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی.ایک خانہ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو.مقام ابرا نہیمی کو مصلی بنانے کا مفہوم مقام ابراہیم کو علی جانے کے یہ معنے ہیں کہ ہر شخص ان کے مصلی پر جا کر کھڑا ہو یہ تو قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھو تو اول تو یہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نماز پڑھی تھی یا وہاں ؟ اور اگر بالفرض یہ پتہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوں نے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے.صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں ، اگر حنفیوں کی طرح نماز میں مُرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دو منٹ صرف ہونگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تمہیں اور چوبیس گھنٹے میں سات سو میں آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتاؤ کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا کریں گے؟ اور باقی مسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی.پس اگر اس حکم کو ظا ہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا.پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنے نہیں بلکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تا کہ اس طرح سنتِ ابراہیمی پوری ہوتی رہے، درحقیقت آیت انِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ - وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ آمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی 19 میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ اِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں.اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا وَ مِنْ ذُرِّيَّتِی میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر میں مر گیا تو کام کس طرح چلے گا ؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے.ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ سنت ابراہیمی کو قائم رکھیں جو
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائیں گے.اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے، ایک امامت نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامت خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتا ہے اور جس کی طرف وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کے لئے کوشش کرتے رہو.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامت نبوت نہ ہو تو امامت خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو اس حکم پر کوئی عمل نہیں کر سکتا.اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور (۸) آٹھویں بات یہ ہے کہ مساجد مسافروں کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ خوبی بھی اسلام اور مسلمانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے.کیونکہ شریعتِ اسلامی میں مسافروں کی مہمان نوازی کا شدید حکم ہے خود قرآن کریم نے اِبنُ السَّبِیل کی خدمت کو خاص احکام میں شامل کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس حکم پر اس طرح عمل کیا جا تا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے.ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آ گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟ اُس نے عرض کیا کہ بہت اچھا.چنانچہ وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے موجود ہے؟ اُس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آ گیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھ پکا کر میں سلا دیتی ہوں.صحابی نے کہا یہ تو ہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے.بیوی نے پوچھا وہ کیا؟ خاوند کہنے لگا جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھر ہم کیا کریں گے؟ (اُس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا )
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اُس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کر دو.اور میں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اُٹھوں گی اور چراغ کو بجھا دونگی تا کہ اند ھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.دستر خوان بچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو.بیوی اٹھی اور اُس نے چراغ کو بجھا دیا.جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سلگاؤ اور چراغ روشن کرو.بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں ، اُس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو.اُس نے کہا اس وقت ہمسائے کو کون جاکر تکلیف دے بہتر ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے.مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے.چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا.خاوند اور بیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہوا تھا اس لئے مہمان تو کھاتا رہا اور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.خیر کھا ناختم ہوا اور مہمان چلا گیا.اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دیدی.جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو! کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہوا ؟ صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا.پھر آ نے ہنتے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیوں نہ ہے.کے اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے.اسی طرح ایک واقعہ ہم نے بچپن میں اپنے کورس میں پڑھا تھا بعد میں اس کا پڑھنا کسی بڑی کتاب میں یاد نہیں.وہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا جو بڑا ہی خبیث الفطرت تھا.رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سونے کے لئے بستر دیا ، تو اُس نے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس بستر میں پاخانہ پھر دیا اور علی الصبح اُٹھ کر چلا گیا مگر جاتے ہوئے وہ اپنی کوئی چیز بھول گیا.جب صبح ہوئی تو کسی خادمہ
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ نے دیکھ لیا اور وہ غصہ میں آکر اُس یہودی کو گالیاں دینے لگ گئی.اتفاقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اُس کی آواز کو سن لیا اور جب دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ یہودی بستر میں پاخانہ پھر کر چلا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا پانی لاؤ میں خود دھو دیتا ہوں چنانچہ وہ پانی لائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر کو صاف کرنا شروع کر دیا.اسی دوران میں یہودی اپنی بھولی ہوئی چیز لینے کے لئے آ گیا.جب وہ قریب آیا تو اُس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بستر کو دھو رہے ہیں اور اُس خادمہ سے کہہ رہے ہیں کہ چُپ چُپ ! گالیاں مت دو.اگر یہ بات پھیل گئی تو وہ شخص شرمندہ ہو گا.اس بات کا اُس یہودی کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا.تو ضیافت میں مسلمانوں نے کمال کر دکھایا تھا اور مسلمانوں کے گھر مسجدیں بن گئے تھے جس طرح مسجد میں مہمان آ کر ٹھہرتے ہیں اسی طرح ان کے دروازے ہر وقت مہمانوں کیلئے کھلے رہتے.اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت فرض ہے اور اگر کسی گاؤں کے رہنے والے اس فرض کو ادا نہ کریں تو اُن سے تین دن تک زبر دستی دعوت لینے کی اجازت ہے اسے بلکہ اس حکم کا مسلمانوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک صوفی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کماتے نہیں تھے ایک دفعہ کسی دوسرے بزرگ نے انہیں نصیحت کی کہ یہ عادت ٹھیک نہیں.ساری دنیا کماتی ہے آپ کو بھی رزق کے لئے کچھ نہ کچھ جدوجہد کرنی چاہئے.انہوں نے کہا کہ مہمان اگر اپنی روٹی خود پکائے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے.میں خدا کا مہمان ہوں اگر خود کمانے کی کوشش کروں تو اس سے خدا ناراض ہو گا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ خدا کے مہمان ہوں گے مگر آپ کو معلوم ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے.وہ کہنے لگے یہ تو مجھے بھی معلوم ہے مگر میرے خدا کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے جس دن تین ہزار سال ختم ہو جائیں گے اُس دن میں بھی اس کی مہمانی چھوڑ دونگا.ذکر الہی اور دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا جتھا (۹) نویں بات یہ ہے کہ مساجد کا ایک فائدہ شہریوں کے لئے ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وَالْعَكَفِينَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے.دوسری جگہ قائِمِینَ کا لفظ آتا ہے اور ان ہر دو کے مفہوم میں شہری ہی داخل ہیں اور شہریوں کو مسجد سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہر قسم کے شور وشغب سے محفوظ ہو کر ذکر الہی کرتے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ اور عبادت الہی بجالاتے ہیں اور یہی کام سب انبیاء کی جماعتیں کرتی ہیں.ایک جتھا ذکر الہی کے لئے بن جاتا ہے اور وہ عبادت کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے جو اکیلے اکیلے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.مسلمانوں میں بھی یہی طریق رائج تھا بعض بعض کو پڑھاتے تھے اور بعض دوسروں کو لوگوں کے ظلموں سے بچاتے تھے جیسے حضرت ابو بکر نے بہت سے غلام آزاد کئے اگر وہ لوگ متفرق ہوتے تو یہ فائدہ نہ ہو سکتا.قومی ترقی کیلئے اجتماعی کاموں کی تلقین (ب) مساجد کا شہر یوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی عبادت کا کام دیتی ہیں.یہ کام بھی انبیاء کی جماعت کا ہوتا ہے اور مسلمانوں نے کیا.مثلاً وہ چندے جمع کر کے غرباء کی خدمت کرتے ، اکٹھے ہو کر جہاد کرتے ، اسی طرح قوم کی ترقی کے لئے اقتصادی اور علمی کام سرانجام دیتے.أمر بالمعروف اور نی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والاگروہ (1) دسواں کام مساجد کا یہ بتایا کہ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ یعنی مساجد میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں مسلمانوں نے یہ نمونہ بھی دکھایا چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کہ تم میں ایک ایسی امت ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بُلائے ، انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور انہیں بُری باتوں سے روکے، یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اس حکم کے مطابق مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی تھی جن کا دن رات یہی کام تھا مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابو ذر غفاری ، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابو ہریرۃ اور حضرت انس بن مالک وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کر دی تھیں اور ان لوگوں کا کام صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم دین سیکھنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا تھا.ان کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو گو کچھ دُنیوی کام بھی کرتے تھے مگر اکثر وقت اسی کام میں لگے رہتے تھے.ان میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم شامل تھے.ان لوگوں نے ایسے کٹھن اور صبر آزما
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) حالات میں یہ کام کیا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات پڑھ کر رونا آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ کی دین کیلئے فاقہ کشی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں داخلِ اسلام ہوا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گزر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوں گا تا کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میں فوراًئن لوں اور اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں.چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے.ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھیجوا دیتا لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدتِ بُھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میں اُن دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں.غرض میں تو بھوک کے مارے بیہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑا تر جوتے مارتے چلے جاتے.کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں؟ مانگ میں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک لقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا.آخر میں مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گزرے اور میری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آ جائے اور وہ کھانا بھجوا دے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر چلے آرہے ہیں.میں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ حضرت ابوبکر نے اس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے.حضرت ابو ہریرہا کہتے ہیں کہ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں.خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آ گئے.میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اور کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ انہوں نے بھی اس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے.مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمرؓ مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اِس لئے معنے پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنے کر کے آگے چل دیئے.جب ا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہوا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابو ہریرہ ! کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے ، پھر آپ نے فرمایا ، ادھر آؤ ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرما یا مسجد میں نظر ڈالو، اگر کوئی اور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اُسے بھی اپنے ساتھ لے آؤ.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج شامت آئی.دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کیلئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا.بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بیچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا میں اُن کو اپنے ہمراہ لیکر کھڑکی کے پاس پہنچا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں دیدیا.میں نے کہا بس اب خیر نہیں ، اس نے دودھ چھوڑ نا نہیں اور میں بھوکا رہ جاؤں گا.خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا.میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو.جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تو میں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائیگا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دیدیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں ، اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اُس کے پینے کے بعد بھی دودھ بیچ رہا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دے دیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیدیا.اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابو ہریرہ ! اب تم دودھ پیو.میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء وصلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تا کہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تا کہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے ) غرض حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھدیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ ! اور پیو.میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ پیالہ رکھدیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ ! اور پیو.میں نے اس پر پھر دودھ پینا شروع کر دیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ دودھ کی تراوت میرے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے، آخر میں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! اب تو بالکل نہیں پیا جا تا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے پیالہ لے کر بقیہ دودھ خود پی لیا.کے غرض صحابہ کی قربانی کا یہ حال تھا کہ وہ بعض دفعہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے تا کہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرما ئیں اور وہ اسے سننے اور لوگوں تک پہنچانے سے محروم رہ جائیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ انہیں ہمیشہ فاقے آتے تھے کیونکہ مسلمان انہیں کھلاتے بھی رہتے تھے اور بعض صحابہ کے گھروں سے تو انہیں باری باری کھانا آتا تھا البتہ کبھی کبھی انہیں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ہر جمعرات یا جمعہ کو انہیں چقندر پکا کر بھیجتی تھی اسی طرح کسی دن کوئی صحابی کھانا بھجوا دیتا اور کسی دن کوئی.جب وہ عورت فوت ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا علم نہ ہوا.چند دن کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ فلاں عورت کئی دنوں سے دیکھی نہیں.صحابہ نے عرض کیا کہ يَارَسُوْلَ اللہ ! وہ تو فوت ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟ وہ تو اصحاب الصفہ کو چقندر کھلایا کرتی تھی اگر تم مجھے بتاتے تو میں خود اُس کا جنازہ پڑھاتا."کے غرض صحابہ نے وہ سب کام کر کے دکھائے جو مسجد سے مقصود ہوتے ہیں وہ عبادت کے محافظ تھے ، وہ عابدوں کے جمع کرنے والے تھے ، وہ شر سے بچانے والے تھے ، وہ امن کو قائم کرنے والے تھے ، وہ امامت کو زندہ رکھنے والے تھے وہ مسافروں کے لئے ملجاء، وہ متوطنوں کے لئے ماوی ، وہ واقفین زندگی کے لئے جائے پناہ تھے.ان کے مقابل پر یہ شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں.اُس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر الہی کا نمونہ دکھایا وہ ان مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہوا.مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں ، لیکن قرآن ، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اُس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمد نامی تھا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جس مسجد کی بناء سرخ و سفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی.یہی وہ مسجد ہے جس کو دیکھ کر ہر عقلمند اور شریف انسان جس کے اندر جذبات شکر اور احسان مندی پائے جاتے ہوں بے اختیار
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کہہ اُٹھتا ہے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (۵) مادی قلعے کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ میں نے اس سفر میں کئی قلعے دیکھے چنانچہ گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا ، فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھا ، اسی طرح دہلی کے کئی قلعے دیکھے اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ : - (۱) ان قلعوں کے ذریعہ سے کیسے کیسے حفاظت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں.(۲) اور پھر ساتھ ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے ہیں اور ان کو بنانے والا اب کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، بلکہ اب تو بہت سے قلعوں میں جانور آزادانہ پھرتے ہیں اور گوبر سے ان کے صحن آٹے ہوئے ہیں.بہت سے قلعوں میں گوجروں نے گھر بنا رکھے ہیں کیونکہ انہیں شہر کے باہر مکان چاہئیں اور یہ قلعے ان کے کام خوب آتے ہیں.کئی قلعے جو کسی حد تک محفوظ ہیں اب ان حکومتوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے وہ قلعے بنائے تھے.ان بادشاہوں کی اولا د کو تو ان قلعوں میں جانے کی اجازت نہیں، لیکن ان کے دشمن ان میں اکڑتے پھرتے ہیں اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں ان کی گردنیں لقا کبوتروں کی طرح اینٹھی ہوئی ہیں.دتی کا قلعہ جس میں داخل ہوتے ہوئے ہندو راجے بھی سات سات دفعہ جھک کر سلام کرتے تھے اب بقالوں اور بنیوں کے قبضہ میں ہے اس سے پہلے سمندر پار کے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اور اس کے بنانے والے مغل بادشاہوں کے کئی شاہزادے اس کے سامنے مشکیزوں سے پانی پلا کر پیسے کماتے ہیں اور بے چھنے آٹے کی روٹی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں.ان میں اکڑ کر چلنے والے بادشاہوں کی روحیں آج اپنی اولادوں کی اس بیکسی کو دیکھ کر کس طرح بے تاب ہو رہی ہونگی.ان قلعوں کو بنانے والوں نے تو یہ قلعے اس لئے بنائے تھے کہ یہ ہماری حفاظت کریں گے مگر یہ قلعے بھی مٹ گئے اور ان کو بنانے والے بھی کوئی نہ رہے پس میں نے سوچا کہ ان
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ قلعوں کو ان بادشاہوں نے کیوں بنایا تھا ؟ اور پھر خود ہی میرے دل نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ اس لئے کہ دشمن اُن کے ملک پر حملہ نہ کر سکے اور ان کی رعایا دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہے مگر میں نے دیکھا کہ باوجود ان قلعوں کے دشمن غالب آتا رہا اور ان قلعوں کی دیواروں کو تو ڑ کر اندر داخل ہوتا رہا.گولکنڈہ کا قلعہ بڑی اعلیٰ جگہ پر ہے آخر اور نگ زیب نے اسے فتح کر ہی لیا.اسی طرح دہلی اور آگرہ کے قلعے مغلوں نے بنائے اور انگریزوں نے ان کو توڑ دیا اور اب وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں.پس میں نے سوچا کہ کیا کوئی ایسا قلعہ بھی ہے جسے عالم روحانی میں قلعہ کا مقام دیا گیا ہو اور جو اِن شاندار قلعوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار ہونے کا مدعی ہو.قلعہ کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مگر میں نے اس تلاش سے پہلے یہ غور کرنا ضروری سمجھا کہ قلعہ کیوں بنائے جاتے ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ تین باتوں کے لئے :- اوّل.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ مُلک کے لئے وہ نقطہ مرکزی ہو جائیں اور فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اور اطمینان سے ملکی ضرورتوں کے متعلق غور کر سکے.دوم.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ غیر پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اور جس کو روکنا چاہیں اس قلعہ کی فصیلیں روک دیں اور اندر امن رہے.سوم.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ ارد گرد کے علاقہ کی حفاظت کر کے امن قائم رکھیں چنانچہ قلعوں پر تو ہیں لگا دی جاتی ہیں یا پرانے زمانہ میں منجنیقیں لگا دی جاتی تھیں اور ان سے صرف قلعہ ہی کی نہیں بلکہ ارد گرد کے علاقہ کی بھی حفاظت ہوتی تھی مگر یہ سب تدبیریں یا تو ناقص ثابت ہوتیں یا پھر ایک وقت تک کام دیتی تھیں.اس کے بعد یہ قلعے صرف اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کر کے زائرین کے لئے لاچار آنسو بہانے کا موجب ہوتے تھے.ان قلعوں کو دیکھ کر کہ آیا ان عبرت پیدا کرنے والے قلعوں کے مقابلہ میں کوئی خدائی قلعہ بھی ہے جو ان اغراض کو بھی پورا کرتا ہو جن کے لئے یہ قلعے بنائے جاتے تھے اور پھر امتدادِ زمانہ سے پیدا ہونے والی بلاؤں سے بھی محفوظ ہو؟ غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ایک روحانی قلعہ کا ذکر قرآن میں ہے جسے خدا تعالیٰ نے انہی اغراض کے لئے بنایا جن کے لئے قلعے بنائے جاتے تھے.اور اسے ایسا مضبوط بنایا کہ کوئی غنیم اسے فتح نہیں کر سکتا اور جو سب دوسرے قلعوں پر غالب آ جاتا ہے اور قیامت تک اسی طرح کھڑا رہے گا جس طرح کہ وہ ابتداء میں تھا اور کبھی بھی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) کسی دشمن کے ہاتھ میں اس طرح نہیں آئے گا کہ اپنے بنانے والے کی غرض کو پورا نہ کر سکے.بیت اللہ کی اہم اغراض قرآن کریم میں اس قلعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ أَمْناً وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى وَ عَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ o وَاذْقَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هذَا بَلَدًا آمِنًا وَّارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرُّةَ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ٤ اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو مَثَابَہ بنایا.مَثَابَہ کے معنے ہیں مُجْتَمَعُ النَّاسِ ) یعنی لوگوں کے لئے جمع ہونے کا مقام.اسی طرح مَشَابَہ کے ایک معنی لغت میں کنویں کی منڈیر کے بھی آتے ہیں.ہے گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تا کہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مقام بنایا.اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ نا پسندیدہ عناصر اندر نہ آ سکیں اسی طرح بیت اللہ کو خدا نے منڈیر بنایا تا کہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دُور رہیں.پھر قلعہ کی تیسری غرض اِرد گرد کے علاقہ کی حفاظت کر کے امن قائم رکھنا ہوتی ہے یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اہنا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اسے قیامِ امن کے لئے بنایا گیا ہے گویا بیت اللہ نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے، غیر پسندیدہ عناصر کے دُور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے.پھر میں نے اور غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک یہ آیت نظر آئی کہ جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ البَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ ^ کہ ہم نے کعبہ کو جو خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا محفوظ گھر ہے قِيَامًا لِلنَّاسِ بنایا ہے.قیام کے معنی نظام یا ستون کے ہوتے ہیں ؟ کے اور ان تمام چیزوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی اصل حالت پر رہے اور قیام کے معنے خبر گیر اور نگران اور انتظام کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۵۰ پس قِيَامًا لِلنَّاسِ کے معنے ہوئے کہ کعبہ انسانوں کے نظام کو درست رکھنے کے لئے اور ان کی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کی حالت کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لئے اور ان کی خبر گیری اور نگرانی کے لئے بنایا گیا ہے.جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو قلعہ کے مشابہہ ہے کیونکہ اس کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ: - (1) لوگ اس میں جمع ہوں اور تمدن انسانی ترقی کرے.(۲) وہ بنی نوع انسان کو بیرونی ناجائز دخل اندازی سے محفوظ رکھے.(۳) دنیا کے امن کا ذریعہ ہو اور اس کی توپوں سے ارد گرد کے علاقوں کی بھی حفاظت کی جائے.(۴) اس کے ذریعہ سے انسانی تمدن کی چھت کو گرنے سے بچایا جائے.(۵) اس کے ذریعہ سے انسانی صحیح نظام کو درست رکھا جائے.(1) اس کے ذریعہ سے انسان کی خبر گیری کی جائے اور مصیبتوں سے اسے بچایا جائے.اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات پیشتر اس کے کہ میں یہ دیکھتا کہ آیا یہ کام اس قلعہ کے پورے ہوئے ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا آؤ میں مقابلہ کروں کہ لوگ قلعے رکن جگہوں پر بناتے ہیں اور کن امور کو اُن کے بنانے میں مد نظر رکھتے ہیں تا کہ میں فیصلہ کر سکوں کہ آیا یہ قلعہ ان امور کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے قلعہ کی اغراض کو پورا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب میں نے سوچا اور دنیا کے مشہور قلعوں کی تاریخ پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اچھے قلعوں کی تعمیر میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جاتا ہے.(۱) قلعے ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کا با فراغت انتظام ہو تا کہ اگر کبھی محاصرہ ہو جائے تو لوگ پیاسے نہ مر جائیں.(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ جہاں نہر ، دریا یا سمندر ہو وہیں قلعے بنائے جاتے ہیں چنانچہ فتح پور سیکری کا قلعہ موسی ندی کے پاس ہے.اسی طرح دتی کا قلعہ جمنا کے کنارے واقعہ ہے پس قلعے بالعموم یا تو سمندر کے کنارے بنائے جاتے ہیں یا دریاؤں اور نہروں کے پاس بنائے جاتے ہیں.اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو نہانے دھونے کی ضرورت بآسانی پوری ہوسکتی ہے.دوسرے جانوروں کے لئے بھی بافراغت پانی میسر آسکتا ہے.تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں محاصرہ مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشتیوں کے ذریعہ انسان باہر نکل سکتا ہے اسی طرح رسد وغیرہ قلعہ والوں کو دریا کے رستے پہنچ سکتی ہے.پھر اس ذریعہ سے آگ بجھائی جاسکتی ہے.خندقیں پُر کی جاسکتی ہیں اور ذرائع رسل ورسائل کُھلے رہ سکتے ہیں.(۳) تیسری بات میں نے یہ دیکھی کہ لوگ قلعہ بناتے وقت اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) علاقہ ایسا ہو کہ اُس میں خوراک کے ذخائر کافی ہوں اور کافی مقدار میں غلہ پیدا ہو سکے تا محصور ہونے کی صورت میں فوج خوراک کے ذخائر جمع کر سکے.(۴) چوتھے قلعہ بالعموم ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جس کے ارد گرد یا جس کے پاس جنگل ہوں جہاں سے ایندھن کافی جمع ہو سکے اور دشمن پر حملہ کرنے میں سہولت ہو چنانچہ گوریلا واریا جنگ چپاول جنگلوں میں بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے اسی لئے عام طور پر قلعے جنگلوں کے قریب بنائے جاتے ہیں تاکہ تھوڑی فوج بھی بڑے غنیموں کو دق کر سکے.(۵) پانچویں اگر پہاڑی علاقہ ہو تو قلعہ ہمیشہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے تا کہ سب طرف نگاہ پڑ سکے اور دشمن تو حملہ نہ کر سکے مگر خود آسانی سے حملہ کیا جا سکے.(۲) چھٹے قلعہ کی تعمیر نہایت اعلیٰ درجہ کے چونا اور پتھروں سے کی جاتی ہے تا کہ اگر دشمن اس پر گولے برسائے یا کسی اور طرح حملہ کرے تو اس کی دیواروں کو ضعف نہ پہنچے.(۷) ساتویں قلعہ کی تعمیر اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ شہر کی حفاظت کر سکے اور اس کی فصیلیں شہر کے رگر دپھیلتی جائیں.(۸) آٹھویں اس کی طرف آنے والے راستے ایسے رکھے جاتے ہیں جن کو ضرورت پر آسانی سے بند کیا جا سکتا ہو مثلاً تنگ وادیوں میں سے راستے گزریں تا کہ چند آدمی ہی دشمن کو قلعہ سے دُور رکھ سکیں.(9) نویں قلعوں میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے گر دارگر دکوخوب مضبوط کیا جائے اور جنگی چوکیوں کے ذریعہ سے اُس کی حفاظت کی جائے.(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو بہادر اور جنگجو بنایا جاتا ہے تا کہ وہ دشمن سے خوب لڑسکیں.(۱۱) گیارھو میں اس میں حملہ کرنے ، تو پوں سے بم پھینکنے یا منجنیقوں سے پتھراؤ کرنے کے لئے باہر کی طرف سوراخ ہوتے ہیں اور اس میں باہر کی طرف تو پہیں یا منجنیقیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں.یہ وہ گیارہ خصوصیتیں ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں بڑے بڑے انجینئر مد نظر رکھا کرتے ہیں.یہ روحانی قلعہ ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں پانی کم یاب تھا اب میں نے کہا آؤا میہ قلعہ جو قرآن نے پیش کیا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ہے اس پر غور کر کے دیکھیں کہ یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور میں نے ایک ایک کر کے ان امور کی اس روحانی اصول پر تیار شدہ قلعہ کے متعلق پڑتال کی اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ :- (۱) اس قلعہ کے لئے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا صرف ایک چشمہ اس کے قریب تھا اور وہ بھی کھاری اور پھر اس کا پانی بھی اتنا کم تھا کہ لوگوں کی ضروریات کے لئے کسی صورت میں کافی نہیں تھا.ملکہ زبیدہ نے بعد میں وہاں ایک نہر بنوا دی تھی جسے نہر زبیدہ کہتے ہیں مگر وہ نہر ایسی ہی ہے جیسے کوئی نالا ہوتا ہے.غرباء عام طور پر زمزم کا پانی استعمال کرتے ہیں اور باقی لوگ بارش ہوتی ہے تو تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہتے ہیں.غرض وہاں پانی کی اتنی کمی ہے کہ دنیا کا کوئی سمجھ دار انجینئر وہاں قلعہ نہیں بنا سکتا تھا.یہ روحانی قلعہ دریا اور سمندر سے دُور بنایا گیا (۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ آیا وہ کسی نہر یا دریا یا سمندر کے کنارے واقع ہے؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ نہ وہاں کوئی دریا ہے نہ سمندر، گویا اس بارہ میں بھی خانہ خالی تھا اور نہر یا دریا کا نام و نشان منزلوں تک نہ تھا.وہ جسے لوگ نہر زبیدہ کہتے ہیں وہ صرف نالی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.رہی بندرگاہ سو وہ سو ڈیڑھ سو میل دور تھی اور اب نئی بندرگاہ جدہ بھی پچاس میل کے قریب دُور ہے گویا سمندر بھی دُور ہے اور اندر بھی کوئی نہر نہیں کہ لوگ کثرت سے فوجی ضروریات کے لئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ رکھ سکیں.بندرگاہ بے شک موجود تھی مگر اول تو وہ اتنی دور تھی کہ اس سے کوئی فائدہ اُٹھا یا نہیں جا سکتا تھا دوسرے اگر ممکن بھی ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا سمندر کے نام سے دم نکلتا تھا.یہ روحانی قلعہ ایک بنجر علاقہ میں بنایا گیا (۳) تیسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ علاقہ زرخیز ہو تا کہ خور و نوش کا سامان پیدا کیا جاسکے اور بوقت ضرورت جمع کیا جا سکے.مگر میں نے دیکھا کہ اس قلعہ کو جو بنانے والا ہے وہ خود کہتا ہے کہ بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ یہ وادی غَيْرِ ذِي زَرْعٍ ہے اور اس میں ایک دانہ تک پیدا نہیں ہوتا نہ گیہوں، نہ باجرا، نہ گندم، نہ چنا.بلکہ ایک شخص نے وہاں باغ لگانا چاہا تو اس کے لئے وہ دوسرے ملکوں سے مٹی منگوا تا رہا اور آخر بڑی مشکل سے اس نے چند درخت لگائے اور وہی چند درخت اب باغ کہلاتے ہیں.میں نے خود اس قلعہ کو جا کر
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) دیکھا ہے قریب سے قریب سبزی طائف میں ہے اور طائف وہاں سے تین منزل کے فاصلہ پر ہے باقی چاروں طرف بے آب و گیاہ جنگل کے سوا کچھ نہیں ، نہ غلہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے جمع کرنے کے کوئی سامان ہیں.اس قلعہ کے ارد گرد کوئی جنگل نہیں تھا (۴) چوتھے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ گر دو پیش جنگل ہو تا کہ ایندھن مل سکے اور دشمن پر حملہ میں آسانی ہو مگر میں نے اس قلعہ کو دیکھا کہ میلوں میل تک اس کے پاس جنگل چھوڑ درخت تک بھی کوئی نہیں.یہ روحانی قلعہ اونچے مقام کی بجائے نشیب مقام میں بنایا گیا (0) پانچویں اگر پہاڑی پاس ہو تو قلعہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے مگر یہ قلعہ ایسا ہے کہ اس کے پاس ”حراء “ اور ” نور“ دو پہاڑیاں ہیں، لیکن یہ قلعہ نشیب میں بنایا گیا ہے اور اس طرح دشمن پہاڑوں پر قبضہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے.اسکتا.اس قلعہ کی تعمیر میں معمولی گارا اور پتھر استعمال کئے گئے (۲) چھٹے یہ مر مد نظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر عمدہ مصالحہ سے ہو مگر اس قلعہ کی تعمیر نہایت معمولی مصالحہ اور گارے وغیرہ سے ہے.اس قلعہ کے ارد گرد کوئی فصیل نہیں (۷) ساتویں یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر اس طرح ہو کہ شہر کی حفاظت ہو سکے اور فصیلیں دُور تک پھیلی ہوئی ہوں مگر یہ عجیب قلعہ ہے کہ شہر ار در گرد ہے اور قلعہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اور فصیل کا نام ونشان نہیں جس کی وجہ سے شہر کی حفاظت میں وہ کوئی مدد نہیں دے سکتا.اس قلعہ کے چاروں طرف کھلے راستے پائے جاتے ہیں (۸) آٹھویں بات یہ مد نظر رکھی جاتی ہے کہ اس کی طرف آنیوالے راستے ایسے ہوں کہ حسب ضرورت بند کئے جاسکیں مثلاً تنگ وادیوں میں سے گزاریں مگر اس قلعہ کے راستے نہایت کُھلے اور بے روک ہیں.قرآن کریم خود فرماتا ہے عَلى كُلِّ ضَامِرٍ يَّأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۱۲ کہ اس قلعہ کی طرف لوگ دوڑے چلے آتے ہیں اور انہیں آنے میں کسی قسم کی روک نہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ کھلے راستے اور وہ بھی ناہموار اس کے چاروں طرف موجود ہیں.سیر روحانی (۲) اس قلعہ کے گرد کوئی جنگی چوکیاں نہیں (9) نویں بات یہ ہے کہ قلعہ کے گر دار گردو کو جنگی چوکیوں سے محفوظ کیا جاتا ہے تا کہ قلعہ سے دُور دشمن کے حملہ کو روکا جا سکے مگر یہ قلعہ عجیب ہے کہ اس کے گر دکئی کئی میل کے دائرہ میں اسلحہ لیکر پھرنے سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیدیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کے ارد گرد چار چار پانچ پانچ میل تک کوئی ہتھیار لے کر نہ چلے.اس قلعہ میں رہنے والوں کو شکار تک کی ممانعت (۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو جنگجو بنایا جاتا ہے مگر اس کے اندر رہنے والوں کو حکم ہے کہ کوئی شکار نہ ماریں سوائے سانپ ، بچھو، چیل اور چوہے کے جن کا مارنا ضرور تا ہوتا ہے نہ کہ جنگجوئی پیدا کرنے کے لئے.دشمن کے حملہ کو روکنے کیلئے توپوں اور منجنیقوں کی (1) گیارھویں بات میں نے یہ بتائی تھی کہ قلعہ کے اندر حملہ بجائے نمازوں اور دعاؤں سے کام لینے کا ارشاد کو روکنے کے لئے باہر کی طرف منہ کر کے منجنیقیں یا تو پیں رکھی ہوتی ہیں مگر اِس قلعہ میں مشابہ اور امن کا ذریعہ یہ بتایا ہے کہ فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی یعنی جب دشمن حملہ کرے تو مَثَابَہ اور امن کے قیام کے لئے دشمن کی طرف پیٹھ کر کے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ.غرض قلعوں کو مضبوط بنانے یا دیر تک محاصروں کی برداشت کر سکنے کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف یہ کہ اس میں پائے نہیں جاتے بلکہ اکثر امور میں ان کے برعکس حالات پائے جاتے ہیں جو قلعوں کو اُجاڑنے کا موجب ہوتے ہیں مثلاً بے پانی، بے غذا، نہروں سے دُور، جنگلوں سے پرے فصیلوں اور چوکیوں کے بغیر کوئی قلعہ قلعہ نہیں کہلا سکتا مگر یہ قلعہ ایسا تھا کہ اس میں مجھے ان سامانوں میں سے کوئی سامان بھی دکھائی نہ دیا حتی کہ اس قلعہ کے ارد گر داسلحہ لے کر پھرنے سے بھی روک دیا گیا تھا.یہ قلعہ کب بنایا گیا ؟ اب میں نے سوچا کہ یہ قلعہ ہے کب کا ؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے کیونکہ خود حضرت کو الہام ہوا کہ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ اس پرانے گھر کا لوگ آ کر طواف کیا کریں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے.اسی طرح آتا ہے إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بَبَكَّةَ مُبَارَكاً وَّ هُدًى لِلْعَلَمِيْنَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنتُ مَّقَامُ اِبْراهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۵۴ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ اور ان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام جہانوں کے لوگوں کے لئے اس میں ہدایت کے سامان اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ بڑے بڑے اور روزِ روشن کی طرح واضح نشان وابستہ کر دیئے گئے ہیں وہ آخری دور میں ابراہیم کا مقام بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جو اس میں داخل ہوا سے امن دیا جائے گا.حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام باجرہ اور اسماعیل کو مکہ کے مقام پر چھوڑ کر واپس کوٹے تو حضرت ہاجرہ کو شک گزرا کہ ہمیں چھوڑ چلے ہیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس بارہ میں اُن سے سوالات کرنے شروع کر دیئے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے اور رقت کے غلبہ کی وجہ سے اُن کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی.آخر حضرت ہاجرہ نے کہا يَا إِبْرَاهِيمُ اَيْنَ تَذْهَبُ وَ تَتْرُكُنَا فِي هَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيْهِ أَنِيْسٌ وَلَا شَي - اے ابراہیم ! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہم کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ رہے ہیں جس میں نہ آدمی ہے اور نہ کھانے کی کوئی چیز؟ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا و جَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا حضرت ہاجرہ نے یہ بات بار بار دہرائی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صدمہ کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیتے تھے.جب حضرت ہاجرہ نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بولتے ہی نہیں تو انہوں نے کہا اللهُ اَمَرَكَ بِهَذَا؟ اچھا اتنا تو بتا دو کہ کیا خدا نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے؟ قَالَ نَعَمُ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا کہ ہاں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب حضرت ہاجرہ نے سُنا تو با وجود اس بات کے جاننے کے کہ یہاں پانی نہیں ، یہاں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں اور یہاں کوئی آدمی نہیں جو ضرورت کے وقت مدد دے سکے، انہوں نے نہایت دلیری سے کہا إِذَا لَّا يُضَيعُنَا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ بے شک جائیے ثُمَّ رَجَعَتْ اس کے بعد حضرت ہاجرہ واپس لوٹ آئیں فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ اور حضرت ابراہیم واپس چلے حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِ الْبَيْتِ یہاں تک
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کہ جب موڑ پر پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور بچہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو اُن کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے.انہوں نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا اور ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا کی : رَبَّنَا إِنّى اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّم 2 اے میرے رب ! میں اپنی اولا دکو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں کوئی کھیتی نہیں جس میں کوئی چشمہ نہیں محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں.پس تو ہی ان کی حفاظت فرما اور ان کو شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ.اس سے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا.سرولیم میور کی شہادت تاریخ بھی اس کے نہایت قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے چنانچه سرولیم میور لائف آف محمد میں لکھتے ہیں کہ مکہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیروڈوٹس ۵۶ نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا الالات کا ذکر کرتا ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ مکہ کا یہ بڑا بت اس قدیم زمانہ میں بھی پوجا جاتا تھا.یہ ہیروڈوٹس ایک یونانی مورخ تھا جو ۴۸۴ قبل مسیح سے ۴۲۵ قبل مسیح تک ہوا، گویا حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ سے مدتوں پہلے لات کی شہرت وغیرہ دُور تک پھیلی ہوئی تھی پھر لکھا ہے کہ ڈایوڈ ورس سکولس مؤرخ جو مسیحی سند سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحیرہ احمر کے کنارے پر ہے اس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں ۵۸ پھر لکھتا ہے قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے یعنی ایسے قدیم زمانہ کا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بنا ء کا پتہ نہیں چلتا.پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا اور کچھ عرصہ تک ان کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہوئے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ ا چکے ہیں اور وہ اس کے بانی نہ تھے یہ گھر ان سے بھی پہلے کا ہے انہوں نے اس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا خروج باب ۱۲ آیت ۸، ۱۹ اور گنتی باب ۲۴ آیت ۲۰ سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تباہ کیا تھا.پس ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے کیونکہ عمالقہ نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں اڑھائی سو سال سے چار سو سال کا فاصلہ ہے.اگر عمالقہ کی سو ڈیڑھ سو سال کی حکومت بھی فرض کر لی جائے تو بھی اُن کا اسے دوبارہ تعمیر کرنا کئی سو سال پہلے کے عرصہ پر دلالت کرتا ہے اور اس وقت بھی اس کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرمت ثابت ہوتی ہے.اب میں نے سوچا کہ اس قدر قدیم قلعہ جس کی سارا ملک عرب عزت کرتا تھا اگر اس طرح تمام معلومہ اصول کے خلاف تیار ہو ا تھا تو اسے یقینا تباہ ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ تباہ نہیں ہوا تو پھر یقیناً وہ ایسی عجیب قسم کا قلعہ ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ بغیر ظاہری سامانوں کے وہ قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے.قدیم اقوام کے متواتر حملوں میں اس روحانی قلعہ کی سلامتی جب میں نے غور کیا کہ کیا ان علاقوں کی طرف جہاں یہ قلعہ تھا قدیم زبردست اقوام نے حملے کئے تھے؟ اور میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے نینوا والوں نے ایشیائے کو چک سے نکل کر ادھر حملہ کیا اور شام اور فلسطین کو پامال کرتے ہوئے مصر کی طرف نکل گئے.وہ نینوا سے چلتے ہیں اور جنوب مغرب کی طرف آتے ہیں مگر جس وقت اس قلعہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں تو آگے بڑھنے کی جرات نہیں کرتے اُس وقت میں نے سمجھا کہ اس قلعہ کے لئے ضرور کوئی ایسے مخفی سامان حفاظت تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ادھر رُخ نہ کر سکے اور وہ مرعوب ہو گئے.بابلیوں کی چڑھائی تب میں نے سوچا کہ کیا اس کے بعد بھی کوئی دشمن اٹھا ہے یا نہیں؟ اور میں نے دیکھا کہ ان کے بعد بابلیوں نے انہی علاقوں پر چڑھائی کی.وہ عراق کی طرف سے بڑھے اور انہوں نے شام فتح کیا ، مصر فتح کیا ، مگر وہ بھی اسی راہ پر نکل گئے اور اس قلعہ کی طرف انہوں نے رُخ نہ کیا.کیا نیوں کی فتوحات پھر میں نے دیکھا کہ کیا نیوں نے ایران سے نکل کر عراق فتح کیا ، ایشیائے کو چک فتح کیا ، شام فتح کیا، فلسطین، مصر، یونان، رومانیہ اور اوکرین کو مغرب کی طرف فتح کیا اور بلخ، بخارا ، سمرقند ، افغانستان، بلوچستان اور پنجاب کو مشرق میں فتح کیا، لیکن اس قلعہ کو درمیان سے وہ بھی چھوڑ گئے.سکندر رومی کی یلغار پھر میں نے سکندر رومی کو بڑھتے ہوئے دیکھا وہ بجلی کی طرح گوندا اور یورپ سے نکل کر ایشیائے کو چک وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرتے
انوار العلوم جلد ۱۶ ہوئے ہند وستان تک بڑھ آیا ، لیکن اس قلعہ کو وہ بھی درمیان میں چھوڑ گیا.سیر روحانی (۲) پھر میں نے رومی حکومت کو مشرق کی طرف آتے رومی حکومت کا مشرق پر اقتدار ہوئے دیکھا اُس نے مصر فتح کیا ، طرابلس فتح کیا ، ایسے سینیا جو مکہ کے مقابل پر ہے اسے فتح کیا ، شام اور فلسطین کو فتح کیا ، شمالی عرب سے بعض علاقوں کو فتح کیا اور آخر عراق تک فتح کرتے ہوئے نکل گئے ، لیکن درمیان میں اس قلعہ کی طرف انہوں نے بھی رُخ نہ کیا.ابرہہ کا بیت اللہ پر حملہ جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا یہ قلعہ واقعہ میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہے کہ مشرق سے آندھی اُٹھتی ہے تو وہ اسے چھوڑ جاتی ہے اور مغرب سے طوفان اُٹھتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی ایک سوال حل طلب ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس قلعہ کے جائے وقوع کے لحاظ سے فاتحین کو خیال بھی نہ آیا ہو کہ وہ اسے فتح کریں کیونکہ وہ اس میں کوئی فائدہ نہ دیکھتے تھے.اس خیال کے آنے پر میں نے تاریخ پر نگاہ ڈالی اور میں نے دیکھا کہ چھٹی صدی مسیحی میں ایسے سینیا کی حکومت بہت طاقتور ہو گئی تھی اور اُس نے عرب کے بعض علاقوں کو فتح کر لیا تھا اُس کی طرف سے ابرہہ نامی ایک شخص یمن میں گورنر مقرر ہوا اور اس نے عرب میں مسیحیت کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کی.اور یمن کے دارالحکومت صنعاء میں اس نے ایک بہت بڑا گر جا بنایا اور خوف اور لالچ سے لوگوں کو اس گر جا کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا ، مگر جب کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد اُس نے اپنے ارادہ میں ناکامی دیکھی اور اُسے محسوس ہوا کہ عرب اُس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو اس نے اپنے درباریوں کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا کہ کیوں میری کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ میں ایک گھر ہے، عرب کے لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے.جب تک وہ گھر موجود ہے صنعاء کا گر جا آباد نہیں ہوگا.پس اگر صنعاء کو آباد کرنا چاہتے ہو تو اُسے جا کر گرا دو.چنانچہ ابرہہ نے ۵۶۹ء میں ایک بہت بڑی فوج اور ہاتھی ساتھ لے کر مکہ کا رُخ کیا عرب قبائل نے مقابلہ کیا مگر ایک کے بعد دوسرا شکست کھاتا چلا گیا اور وہ مکہ سے تین دن کے فاصلہ پر مشرق کی طرف طائف تک جا پہنچا اور طائف کے لوگوں سے کہا کہ مکہ تک پہنچنے میں میری مدد کرو.طائف والے جو مکہ پر اس لئے حسد کرتے تھے کہ ان کے بُت کی خانہ کعبہ کے آگے کچھ نہ چلتی تھی انہوں نے انعامات کے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ لالچ اور مکہ والوں کے بغض کی وجہ سے ایک راہنما دیا مگر وہ رستہ میں ہی مر گیا.آخر ا بر ہ کا لشکر مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر جا ٹھہرا اور ابرہہ نے ایک وفد بھجوایا اور مکہ والوں کو کہلا بھیجا کہ ہم عیسائی ہیں اور فطر تا رحمدل ہیں اس لئے میں تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا اور نہ تم سے مجھے کوئی گلہ ہے.میں صرف کعبہ کے پتھر گرا کر واپس چلا جاؤں گا یا خود ہی کعبہ کو گرا دو تو میں آگے نہیں بڑھوں گا اور واپس چلا جاؤنگا.مکہ اور حجاز کے لوگوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تمہاری حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں، ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنی آمد کا ایک ٹکٹ ہر سال دیتے رہیں مگر خدا کے لئے کعبہ کو نہ گر ا ؤ لیکن وہ نہ مانا.آخر سفیروں نے اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابرہہ کے پاس وفد لے کر جائیں اور اسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں.چنانچہ عبدالمطلب اور بعض دوسرے عمائدینِ مکہ ابرہہ کے پاس گئے.ابرہہ، عبدالمطلب کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ مجھ سے آپ جو بھی خواہش کریں میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں.اس سے پہلے ابرہہ کے سپاہیوں نے چھاپہ مارکر عبدالمطلب کے دوسو اونٹ پکڑ لئے تھے.جب ابرہہ نے کچھ مانگنے کو کہا تو انہوں نے اپنے دوسو اونٹ جو اُس کے سپاہیوں نے پکڑ لئے تھے طلب کئے اور کہا کہ وہ مجھے واپس کر دئیے جائیں.اس پرابر ہہ نے کہا کہ میں تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ کے اس جواب نے میرے دل پر سے ان اثرات کو بالکل دھو دیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے کس خیال سے ایسا معمولی مطالبہ کیا.اس وقت حالت یہ ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے اور آپ مجھ سے بجائے یہ خواہش کرنے کے کہ میں کعبہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دوں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے دوسو اونٹ آپ کو واپس دلوا دوں.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو اونٹوں کی تو فکر ہے مگر کعبہ کی کوئی فکر نہیں.عبدالمطلب کہنے لگے، بات یہ ہے کہ وہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے، لیکن کعبہ خدا کا گھر ہے اس لئے اس کی فکر خدا کو ہوگی مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کر واپس آگئے.ابرہہ نے نوٹس دیدیا کہ فلاں دن حملہ ہوگا.انہوں نے واپس آکر مکہ والوں کو اطلاع دیدی.انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ فضول ہے.اس قدیم قلعہ کو خالی کر کے پہاڑوں پر چڑھ جاؤ پاس ہی جبل حراء اور جبل ثور ہے.انہوں نے مکہ کو خالی کر دیا اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے.حضرت عبدالمطلب کی عاجزانہ دعا جب وہ اس قدیم قلعہ کو چھوڑ رہے تھے تو اس وقت عبدالمطلب نے اُس حکم کو یاد کیا کہ جو
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی میں دیا گیا ہے کہ جب کبھی مصیبت کا وقت آئے تم اس توپ خانہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو.چنانچہ وہ بیت اللہ کے دروازہ پر آئے اور اُس کی زنجیر کو پکڑ کر کہا اے خدا! ہم میں طاقت نہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں یہ تیرا گھر ہے تو اپنے اس گھر کی آپ حفاظت کر اور صلیب کو کعبہ پر فتح نہ پانے دے.یہ کہا اور سب لوگوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر پہاڑوں کو چل دیئے.انسانی آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے سپاہیوں کی گولہ باری اب یہ قلعہ خالی تھا اور اس کی بظاہر کمز ور دیوار میں ابرہہ کو چیلنج کر رہی تھیں کہ دیکھو! میں اب انسانوں سے خالی ہوں آ اور مقابلہ کر.پھر کہا کہ سُن تو تو یہاں آ کر حملہ کرے گا اور میں یہیں سے تجھ پر گولہ باری کرتا ہوں.چنانچہ کعبہ کی دیواروں سے نہ نظر آنے والے سپاہیوں نے گولہ باری شروع کر دی ابر ہہ کے ہاتھی چھد گئے ، اُس کے اونٹ چھد گئے ، اُس کے گھوڑے چھد گئے ، اُس کے سپاہی ان گولیوں کی بے پناہ بوچھاڑ سے زخمی ہو کر گرنے لگ گئے ، لشکر کا نظام ٹوٹ گیا، اُس میں بھا گڑ پڑ گئی اور سر پر پاؤں رکھ کر لشکر واپس لوٹا.ابرہہ بھی یمن پہنچنے سے پہلے پہلے ان گولیوں سے مارا گیا اور سب لشکر تباہ و برباد ہو گیا اور مسیحی حکومت یمن میں ایسی کمزور ہوگئی کہ اس علاقہ پر ایرانی حکومت نے قبضہ کر لیا.یہ کعبہ سے چلنے والی گولیاں جب وہاں تک پہنچتی تھیں تو چیچک کی صورت میں اُس کے لشکر کو چمٹ جاتیں جس سے دانوں کو کھجلا کھجلا کر سپاہی مر جاتے اور پرندے اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اُن کو پتھروں پر مار مار کر کھاتے.اور جس طرح وہ کعبہ کے پتھر توڑنے آیا تھا اسی طرح کعبہ کے گرد کے پتھروں نے ان کی بوٹیوں کو توڑا.یہ سپاہی جو گولیاں چلا رہے تھے خدا تعالیٰ کے فرشتے تھے اور وہ جو اِن گولیوں کے نشانہ بنے وہ ابر ہر اور اُس کے ساتھی تھے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے وہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيْلِ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَ هُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَّ اَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلِ : فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاكُولٍ ۵۹ فرماتا ہے دیکھو! ایک شخص تھا جو مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں کعبہ کے پتھروں کو توڑ دونگا ہم نے اُس کی سزا کے لئے پرندوں کو بھیجا اور وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے کے لئے آئے تھے انہی کی بوٹیاں اُن پتھروں پر مار مار کر توڑیں یہ بتانے کے لئے کہ کیا تم نے کعبہ کے
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ پتھروں کو تو ڑ لیا ؟ عربی زبان میں ب کے معنے علی کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی قلب نسبت بھی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں پر نالہ چلتا ہے تو تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجَيْلِ کے معنے یہی ہیں کہ وہ ان کی بوٹیاں پتھروں پر مار مار کر کھاتے تھے اور یہی چیلوں وغیرہ کا طریق ہے وہ بوٹی کو پتھر پر مارتی اور پھر کھاتی ہیں.تو وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے چلا تھا اس کی بوٹیاں جانوروں نے پتھر پر مار مار کر کھائیں.مسیحی اس روحانی قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے جب میں نے یہ نظارہ د یہ نظارہ دیکھا تو میں نے کہا کون کہہ سکتا ہے کہ اس قلعہ پر حملہ نہیں ہوا.حملہ ہوا اور اس میں یہ قلعہ مضبوطی سے قائم رہا.اس کے بعد اور زمانہ گزرا.ایک دفعہ مسیحیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ باوجود اس غصہ کے کہ مسلمانوں نے اُن کے معابد پر قبضہ کیا ہے اس قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے.ہلا کو خاں بھی اس قلعہ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا اور ایک دفعہ ہلاکوخاں نے بغداد اور اسلامی ممالک کو تباہ کیا مگر اس قلعہ کو وہ بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا.پھر جنگ عظیم کا وقت آیا اور ٹرک جن کے قبضہ میں یہ قلعہ تھا وہ فاتح اقوام کے خلاف کھڑے ہو گئے.میں نے کہا اب اس قلعہ کے لئے خطرہ ہے مگر تب بھی یہ محفوظ رہا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص سامان پیدا کر دیئے پھر یہ نئی جنگ شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اب کے پھر دونوں فریق اس کی حفاظت کا اعلان کر رہے تھے.غرض ہزاروں سال کی تاریخ میں اس عجیب و غریب قلعہ کو دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اور ہمیشہ مجھے یہ محفوظ و مصئون ہی نظر آیا.یہ نہیں کہ اس کے کبھی مغلوب ہونے کی خبر ہو.بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت یہ مغلوب ہوگا اور کعبہ گرایا جائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بات قیامت کی علامت ہوگی.اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عارضی طور پر دشمن اس پر قبضہ کرے گا مگر اس پر قیامت آ جائے گی اور وہ فتنہ اور خونریزی ہوگی کہ الامان اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ حقیقی قیامت کے وقت جب اس کی ضرورت نہ رہے گی ، اس قلعہ کا مالک اسے گرنے دے گا.اس عظیم الشان قلعہ کی حفاظت کیلئے ایک اور چھوٹے قلعہ کی تعمیر اب اس زمانہ میں کہ اس قلعہ
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ کے گرد یا جوج و ماجوج چکر لگا رہے ہیں جیسا کہ قلعوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ جب قلعہ پر حملہ ہو تو لشکر باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بنا کر مدافعت کرتا ہے تا کہ دشمن وہیں حملہ کرتا رہے اور قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے ایک اور قلعہ بنا دیا ہے اور اس کے سپرد اس بڑے قلعہ کی حفاظت کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ قلعہ بھی دین کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے اس لئے اسے بھی ارضِ حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے چنانچہ اس قلعہ کی تعمیر میں جس نے حصہ لیا وہ خود کہتا ہے :- خدا کا ہم پر بس لطف و کرم ہے وہ نعمت کونسی باقی جو کم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے ظہور عون و نصرت دمبدم ہے حسد سے دشمنوں کی پشت خم ہے سنو! اب وقت توحید اتم ہے ستم اب مائلِ مُلک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي ساکنین ارض حرم کے فرائض یہ قلعہ خدا نے خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے قائم کیا ہے، یہ قلعہ اس لئے قائم ہوا ہے تا کہ دشمن کے حملوں کو وہ اپنے اوپر لے اور اُسے خانہ کعبہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھنے نہ دے اور چونکہ یہ قلعہ خانہ کعبہ کی حفاظت کر رہا ہے اس لئے لازماً یہ بھی ارضِ حرم کا جُزو ہے اور جو لوگ اس قلعہ کے سپاہیوں میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں وہ یقیناً ارض حرم کے ساکن ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائیں اور اسے کعبہ کی طرف بڑھنے نہ دیں.پس اے قادیان کے رہنے والو! اور اے دوسرے احمدی مراکز کے رہنے والو! آج خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے تم ان لوگوں میں سے ہو جو بڑے قلعوں کی حفاظت کے لئے باہر کی طرف بٹھا دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ دشمن کی مدافعت کریں اور گولیوں کو اپنے اوپر لیں.پس تم بہادری کے ساتھ اپنے سینوں کو آگے کرو اور دشمن کے ہر حملہ کا پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کرو.طاعون کے طوفانی حملہ میں اس قلعہ کی حفاظت میں تمہیں اس قلعہ کی حفاظت کا بھی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا دنیا پر ایک غنیم نے حملہ کیا وہ قلعہ پر قلعہ تو ڑتا چلا آیا، آبادیوں پر آبادیاں اُس نے ہلاک کر دیں اور گاؤں کے بعد گاؤں اُس نے ویران کر دیئے.اُس وقت اس قلعہ کی تعمیر کرنے والا
سیر روحانی (۲) انوار العلوم جلد ۱۶ ابھی زندہ تھا اُس نے دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ اس حملہ سے میرا قلعہ محفوظ رہے گا، گولہ باری سے تھوڑا صدمہ پہنچے تو پہنچے مگر اس قلعہ کو اس حملہ آور کا حملہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.چنانچہ ایسا ہی ا ہوا.یہ حملہ آور بڑھا اور قادیان پر حملہ آور ہو ا کئی سال تک اس نے متواتر حملہ پر حملہ کیا مگر ناکام رہا یہ قلعہ محفوظ رہا اور دشمن سے دشمن نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کا اقرار کیا.یہ حملہ آور مرضِ طاعون تھا جس کے حملوں سے حفاظت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے سے خبر دیدی.احمدی نوجوانوں سے خطاب اب میں احمدی نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ اس قلعۂ عظیمہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد ہوا ہے انہیں یہ امرا چھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محض ایک جماعت کے فرد نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے اس کے ارد گرد جو قلعے بنائے گئے ہیں اس کے وہ سپاہی ہیں.پس اے عزیز و! جس طرح قلعہ پر جب دشمن حملہ آور ہو تو فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حملوں کی مدافعت کرے اور اس کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائے اسی طرح اے احمدی نوجوانو! تم آگے بڑھو اور دجالی سنگینوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہوئے کعبہ کے دشمنوں پر حملہ آور ہو.یاد رکھو! خدائے قہار تمہارا کما نڈر ہے اور شیطانی فوجیں حملہ آور ہیں.پس اس قدیم صداقت کے دشمن کو کچلتے اور اپنے پاؤں تلے مسلتے ہوئے آگے بڑھو اور اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دو تا کہ پھر کعبہ کے قلعہ کی طرف کوئی بُری نگاہ سے نہ دیکھ سکے اور یہ گڑھی جو اس قلعہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اپنے وجود کی ضرورت کو دنیا سے منوا لے اور لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ فی الواقع یہ زمین ارضِ حرم کا ہی حصہ ہے کیونکہ وہ جس نے حرم کی حفاظت کی وہ حرم ہی کا حصہ ہے وہ جس کی رگوں میں ماں کا خون دوڑ رہا ہوتا ہے وہی ماں کی حفاظت کرتا ہے اور جو ماں پر حملہ ہوتے ہوئے خاموش رہتا ہے وہ ہرگز حلال کا بچہ نہیں ہوتا اور نہ اُس کا لڑکا کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.پس دنیا کے اعتراضوں کی پرواہ مت کرو، تمہارے سپر د خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کیا ہے پس تم دلیری دکھاؤ اور جرات سے کام لو.خدا تمہارے آگے چل رہا ہے اور اُس کی فوجیں تمہارے دائیں اور بائیں ہیں جس دن تم ہمت کر کے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو گے اُس دن خدا تمہارے لئے وہی نشان دکھائی گا جو اُس نے ابرہہ کے لشکر کے لئے دکھایا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ مگر یہ کیا خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزہ معمولی معجزہ ہے ؟ تاریخی شہادت موجود ہے کہ ایسے حالات میں جبکہ اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا ایک لشکر کعبہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بڑھا مگر پیشتر اسکے کہ وہ کعبہ تک پہنچتا خدا نے اُس کو تباہ و بربادکر دیا.غرض جب ڈ نیوی طور پر کعبہ پر حملہ ہوا تو اُس نے چیچک بھیج دی اور جب دینی طور پر اس پر حملہ ہونے لگا تو اس کے مقابلہ کیلئے اُس نے مسیح موعود کو بھیج دیا.پس احمدیوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض خانہ کعبہ کی حفاظت ہے یعنی جن اغراض کے لئے خانہ کعبہ کو قائم کیا گیا ہے وہی اغراض ہماری جماعت کے قیام کی ہیں.پس ہماری جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے تا کہ تمام دنیا میں امن قائم کیا جائے.خدائے واحد کی عبادت کو رائج کیا جائے ، شرک اور بدعت کو مٹا دیا جائے ، مسافر اور مقیم دونوں کی ترقی کی تدابیر سوچی جائیں اور نظام کو ایسا مکمل کیا جائے کہ لوگوں کا ایک حصہ رات دن بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے کاموں میں مصروف رہے جب تک ہم اس کام کو نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے والے قرار نہیں دیئے جاسکتے.پس صرف چندے دینا کافی نہیں ، صرف جلسہ سالانہ پر مرکز میں آجانا کافی نہیں ، صرف نمازیں ہی پڑھنا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس دجالی فتنہ کو روکے جو خانہ کعبہ کے خلاف بر پا ہے.اس کے لئے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ساری دنیا پر چھا جائیں اور اس لئے واقفین زندگی کی تحریک شروع کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی.شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو یاد رکھو! خدا نے قادیان کو بھی ایک چھوٹا قلعہ بنایا ہے اور قلعہ اسی لئے بنایا جاتا ہے تا کہ اس میں سے آسانی سے حملہ کیا جا سکے.جو جرنیل یہ سمجھتا ہے کہ اس کے لئے صرف مدافعت کرنا کافی ہے وہ کبھی فتح نہیں پاسکتا.یاد رکھو! تم مدافعت سے نہیں بلکہ حملہ سے جیتو گے.اگر تم قادیان میں بیٹھے رہے تو دشمن شکست نہیں کھائے گا بلکہ دشمن اُس وقت شکست کھائے گا جب تم جاپان میں جا کر دشمن سے لڑو گے، چین میں جا کر دشمن سے لڑو گے، افریقہ میں جا کر دشمن سے لڑو گے، انگلستان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، امریکہ میں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) جا کر دشمن سے لڑو گے اور شیطان کو اُس کی غاروں سے کان سے پکڑ کر نکال دو گے اگر تم ایسا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب ہو گے اور یقیناً تمہارا دشمن نا کامی کی موت مرے گا.خلاصہ یہ کہ میں نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ایک ایسا قلعہ دیکھا جو تمام قلعوں کے اصول کے خلاف تعمیر ہوا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی اس قلعہ کو کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کی مضبوطی بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ وہ ساری دنیا کا مرجع ہو گیا اور میں نے کہا انسان ، بے وقوف انسان قطب شاہیوں کے گولکنڈہ کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر تعجب کرتا ہے اور فتح پور سیکری کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر حیران ہوتا ہے اور دہلی کے تُغلقوں کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر واہ واہ کہتا ہے حالانکہ یہ قلعے سو دو سو سال بھی نہ گزار سکے اور اب ان کی مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں اور لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان قلعوں کو فتح کیا مگر وہ اس حیرت انگیز قلعہ کے دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا اور اس کی تعمیر کی داد نہیں دیتا جو انجینئر نگ کے تمام معلومہ اصول کے خلاف پایا گیا.فنِ حرب کے تمام اصول کے خلاف اس کے لئے مقام چنا گیا.قیادت کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ، پھر بھی وہ کھڑا رہا، کھڑا ہے کھڑا رہے گا.إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی.ا کودن: گند فہم.مورکھ.نادان بخاری کتاب الایمان باب اتباع الجنائز من الايمان ال عمران: ۹۷ ابوداؤد كتاب الصلوة باب اتخاذ المساجد فِي الدُّوَرِ البقرة: ١٢٦ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷.مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء مسلم كتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مَكَّةَ و المدينة مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ مطبوعه ۱۳۱۳ ھ مطبع ميمنة مصر الحجرات : ٨ ۱۲ محمد : ۵ ل ال عمران: ااا ال المائدة : ۵۵ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحه ۲۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ تاريخ الامم و الملوک لابی جعفر محمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحه ۴۶
انوار العلوم جلد ۱۶ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء سیر روحانی (۲) ۱۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب ذكر أسامة بن زيد بخارى كتاب الاشربة باب الايْمَنُ فِى الشُّرُب.کل سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ١٨ فتوح البلدان بلاذری صفحه ۱۴۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۹ھ 19 بخارى كتاب الزكوة باب وجوب الزكوة ٢٠ الحشر : ٨ هود: ۷ ۲۲ مسلم کتاب البر والصلة و الادب باب فضل عيادة المريض الحج : ۴۱ ۲۴ النور : ۳۸،۳۷ ۲۵ مسلم کتاب الصلوة باب استحباب الذكر بعد الصلوة ٢٦ الجمعة : ٣ التوبة :١٠٠ ۲۹ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۴ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ٣٠ الاعراف : ١٨٢ مشكوة كتاب المناقب باب مناقب الصحابة الاحزاب : ۲۴ ۳۲ تا ۳۴ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۳۵ پشتارہ : ڈھیر، انبار ٣٦ الحشر :١٠ ۳۷ تاریخ طبری اُردو حصہ دوم صفحہ ۳۲٬۳۱ مطبوعہ کراچی.٣٨ العنكبوت : ۴۶ ٣٩ المائدة :٩٢ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة المائدة باب ليس على الذين امنوا و عملوا الصلحت ١ البقرة : ٢٢٩ ۲۲ الرعد : ۲۵،۲۴ م بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ٤٤ الحجرات : ۱۳ ۲۵ تاریخ اہل عرب مصنفہ سائمن او کلے
انوار العلوم جلد ۱۶ ٤٦ الحجرات :١٣ البقرة : ١٨٩ سیر روحانی (۲) النساء : ٣٠ ٤٩ المطففين : ۲ تا ۴ ۵۰ بنی اسراءیل : ۳۸ اه النساء : ۱۴۹ ۵۲ الحجرات :١٠ ۵۳ معاہدہ وارسا: مغربی ممالک کے حملوں کی روک تھام کے لئے ۴ مئی ۱۹۵۵ ء کو ایک معاہدہ ہوا.مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی ، ھنگری، رومانیہ، پولینڈ اور روس کے درمیان اس معاہدہ پر دستخط ہوئے.یہ معاہدہ رُکن ممالک کے درمیان بیس سال کے عرصہ کے لئے باہمی مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں طے پایا تھا.اس کا صدر دفتر ماسکو میں ہے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۸۲۱۷۸۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۵۴ النهاية لابن الاثير جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ مطبع الخیر یہ مصر ۱۳۰۶ھ ۵۵ المائدة : ۱۰۶ ۵۸ آل عمران: ۱۳۵ ۵۶ النساء : ۳۷ ۵۹ بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب ۶۰ النساء : ۵۵ ال النساء : ٣٣ البقرة : ۱۴۴ الحشر : ١١ بخاری کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب لاخيه ما يحب لِنَفْسِه الاعراف : ۲۰۰ الاعلى : ۱۸،۱۷ ۱۵ النور : ٢٣ الاعلى : ۲۰،۱۹ النحل: 91 ١٩ البقرة : ۱۲۵، ۱۲۶ بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله عَزَّ وَ جَلَّ وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ - اك بخاری کتاب الادب باب إكرام الضيف وخدمته ۲ ال عمران : ۱۰۵ بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله علیہ وسلم...بخارى كتاب الأطعمة باب السلق والشعير (مفهوماً) ٢۵ البقرة : ۱۲۶ ، ۱۲۷ ٤٤٦ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء المائدة : ٩٨ ٤٠٤٩ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۰۵۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۲) ٢ الحج : ٢٨ الحج :٣٠ ا ابراهيم : ۳۸ ۱۴ ال عمران : ۹۸،۹۷ ۸۵ بخاری کتاب احادیث الانبياء باب يزفون حیروڈوٹس (HERODOTUS) یونانی مؤرخ اور نثر نگار.اس نے عالم شباب میں یونان، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے سفر کئے اور اس دوران مختلف اقوام کی عادات اور مذاہب کا مطالعہ کیا.چار سال ایتھنز میں رہنے کے بعد ۴۴۳ ق م میں جنوبی اٹلی میں تھوری(THURII) کے مقام پر رہائش اختیار کی اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا.اس کی تاریخ یونانی اور اہل فارس کی جد وجہد کی وضاحت کے لئے کافی مواد پیش کرتی ہے.اس کے علاوہ بھی اس نے تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں.وہ تاریخ عالم کا پہلا مؤرخ ہے جس نے تنقیدی احساس کے ساتھ تاریخ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) کو قلمبند کیا ہے.LIFE OF MAHOMET- BY SIR WILLIAM MUIR LONDON 1877 PAGE XIV.스스스스 ۸۹ الفيل : ۲ تا آخر 20 بخاری کتاب الحج باب هدم الكعبة ۹۱ در مشین اُردو صفحه ۵۶، ۵۷
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے تقریر فرموده ۶ / فروری ۱۹۴۱ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میرا دل تو آج چاہتا تھا کہ میں بہت سی باتیں اس اجتماع میں کہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پرسوں سے میری آواز بیٹھتی چلی جارہی ہے اور آج تو ایسی بیٹھی ہوئی ہے اور گلا ایسا ماؤف ہے کہ اگر میں زیادہ دیر تک تقریر کروں تو ممکن ہے گلے کو کوئی مستقل نقصان پہنچ جائے اور مجھے اس بات کا ذاتی تجربہ بھی ہے میری آواز پہلے بہت بلند ہوا کرتی تھی ایسی بلند کہ بعض دوستوں نے بتایا کہ چھوٹی مسجد میں ہم نے آپ کی قراءت سن کر اور سمجھ کر مدرسہ احمدیہ میں نماز پڑھی ہے.یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے.مگر ایک دفعہ میرا اسی طرح گلا بیٹھا ہوا تھا کہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گیا.اُس نے کہا کہ آپ قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں میں گراموفون میں ریکارڈ بھروانا چاہتا ہوں آپ کسی سورۃ کی تلاوت کر دیں.میں نے معذرت کی کہ مجھے نزلہ وزکام ہے اور گلا بیٹھا ہوا ہے مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ میں تو آج اس غرض کے لئے تیار ہو کر بیٹھا ہوں.چنانچہ میں نے سورہ فاتحہ یا کوئی اور سورۃ ( مجھے اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں رہا) ریکارڈ میں بھروا دی.اس کے بعد میری آواز جو بیٹھی ہوئی تھی وہ تو درست ہو گئی مگر آواز کی بلندی میں قریباً ۲۵ فیصد کی ہمیشہ کے لئے کمی آ گئی.تو ایسی حالت میں زیادہ بولنا بہت دفعہ مُضر ہوتا ہے.کھانسی کی حالت میں تو میں کافی تقریر کر لیا کرتا اور اس کی میں چنداں پر واہ
انوار العلوم جلد ۱۶ نہیں کیا کرتا مگر گلے کی خراش اس سے مختلف چیز ہے.احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.خدام الاحمدیہ کا یہ اجلاس اس لحاظ سے پہلا اجلاس ہے کہ اس میں باہر سے بھی دوست تشریف لائے ہیں گو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کے آنے کی وجہ سے پورے طور پر خوش ہوں کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے بہت کم دوست باہر سے آئے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.شاید گل تعداد کا چھٹا یا ساتواں یا آٹھواں یا نواں بلکہ دسواں حصہ آیا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مجلس میں بیٹھنے والے اکثر دوست گورداسپور کے ضلع کے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر زمیندار ہیں جن کے لئے پیدل سفر کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا.ان کا اس جگہ آنا زمینداروں کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بے شک ایک قابلِ قدر قربانی ہے مگر ان کے آنے کی وجہ سے اس مجلس کے افراد کی تعداد کا بڑھ جانا دوسرے شہروں کے خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی خوشکن امر نہیں ہوسکتا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور اُن رپورٹوں سے جو میرے پاس پہنچتی رہی ہیں اندازہ لگا سکا ہوں گورداسپور کو چھوڑ کر بیر ونجات سے دواڑھائی سو آدمی آیا ہے اور یہ تعداد خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کم ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی قریب میں ہی جلسہ سالانہ گزرا ہے لیکن نوجوانوں کی ہمت اور ان کا ولولہ اور جوش ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا.یہ جلسہ تو ایک مہینہ کے بعد ہوا ہے.میں جانتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی نوجوان ایسے تھے جو لاہور سے ہرا تو ار کو با قاعدہ قادیان پہنچ جایا کرتے تھے.مثلاً چوہدری فتح محمد صاحب اُن دنوں کا لج میں پڑھتے تھے مگر ان کا آنا جانا اتنا با قاعدہ تھا کہ ایک اتوار کو وہ کسی وجہ سے نہ آ سکے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے پوچھا.محمود! فتح محمد اس دفعہ نہیں آیا؟ گویا ان کا آنا جانا اتنا با قاعدہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے ایک اتوار کے دن نہ آنے پر تعجب ہوا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں نہیں آئے؟ وہ بھی کالج کے طالب علم تھے، کالج میں پڑھتے تھے اور ان کے لئے بھی کئی قسم کے کام تھے پھر وہ فیل بھی نہیں ہوتے تھے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ وہ پڑھتے نہیں ہوں گے.پھر وہ کوئی ایسے مالدار بھی نہیں تھے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جا سکے کہ انہیں اُڑانے کے لئے کافی روپیہ ملتا ہو گا.میں سمجھتا ہوں لاہور کے کالجوں کے جو سٹوڈنٹس یہاں آئے ہوئے ہیں یا نہیں آئے ان میں سے نوے فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کو اس سے زیادہ گزارہ ملتا ہے جتنا چوہدری فتح محمد صاحب کو ملا کرتا تھا مگر وہ با قاعدہ
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدبیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..ہرا تو ار کو قادیان آیا کرتے تھے.اسی طرح اور بھی کئی طالب علم تھے جو قادیان آیا کرتے تھے گواتنی باقاعدگی سے نہیں آتے تھے مگر بہر حال کثرت سے آتے تھے.اُس وقت لاہور میں احمدی طالب علم دس بارہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک دو کو مستقلی کرتے ہوئے باقی دس میں سے دو تین تو ایسے تھے کہ وہ ہفتہ وار یا قریباً ہفتہ وار قادیان آیا کرتے تھے اور نصف تعداد ایسے طالب علموں کی تھی جو مہینے میں ایک دفعہ یا دو دفعہ قادیان آتے تھے اور باقی سال میں چار پانچ دفعہ قادیان آ جاتے تھے اور بعض دفعہ کوئی ایسا بھی نکل آتا جو صرف جلسہ سالانہ پر آ جاتا تھا.مگر اب صرف ہیں بچھپیں فیصدی طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو قادیان میں سال بھر میں ایک دفعہ آتے ہیں.یا ایک دفعہ بھی نہیں آتے.آخر یہ فرق اور امتیاز کیوں ہے؟ میں نے کہا ہے اگر ہماری مالی حالت ان لڑکوں سے کمزور ہوتی جو اُس وقت کالج میں پڑھتے تھے تو میں سمجھتا کہ یہ مالی حالت کا نتیجہ ہے.اور اگر یہ بات ہوتی کہ اب تمہیں دین کے سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی تمہارے لئے اس قدرا علیٰ درجہ کے روحانی سامان لاہور اور امرتسر اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں کہ تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں تو پھر بھی میں سمجھتا کہ یہ بات کسی حد تک معقول ہے لیکن اگر نہ تو یہ بات ہے کہ تمہاری مالی حالت ان سے خراب ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ باہر ایسے سامان موجود ہیں جن کی موجودگی میں تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں اور پھر اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اب قادیان کا سفر بالکل آسان ہے یہ بات میری سمجھ سے بالکل بالا ہے کہ کیوں ہماری جماعت کے نوجوانوں میں اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے.پہلے شام کی گاڑی سے ہمارے طالب علم بٹالہ میں اُترتے اور گاڑی سے اُتر کر راتوں رات پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے یا آٹھ نو بجے صبح اترتے تو بارہ ایک بجے دو پہر کو قادیان پہنچ جاتے تھے.طالب علم ہونے کی وجہ سے بالعموم ان کے پاس اتنے کرائے نہیں ہوتے تھے کہ یکہ یا تانگہ لے سکیں.ایسے بھی ہوتے تھے جو یوں میں آ جایا کرتے تھے.مگر ایسے طالب علم بھی تھے جو پیدل آتے اور پیدل جاتے تھے مگر اب ریل کی وجہ سے بہت کچھ سہولت ہو گئی ہے.ریل وقت بچا لیتی ہے، ریل کوفت سے بچا لیتی ہے ، اور ریل کا جو کرایہ آجکل بٹالہ سے قادیان کا ہے وہ اس کے کرایہ کے نصف کے قریب ہے جو اُن دنوں یکہ والے وصول کیا کرتے تھے.اُس زمانہ میں ڈیڑھ دو روپیہ میں یکہ آیا کرتا تھا اور ایک یکہ میں تین سواریاں ہوا کرتی تھیں گو یا کم سے کم آٹھ آنے ایک آدمی کا صرف ایک طرف کا کرایہ ہوتا تھا مگر آجکل چھ سات آنے میں بٹالہ کا آنا جانا ہو جاتا ہے تو جو وقتیں مالی لحاظ سے پیش آسکتی تھیں یا وقت کے لحاظ سے پیش آ سکتی
احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ تھیں وہ کم ہوگئی ہیں اور جو ضرورتیں قادیان آنے کے متعلق تھیں وہ ویسی ہی قائم ہیں.پس میں ان خدام کے توجہ نہ کرنے کی وجہ سے جو اس اجتماع میں نہیں آئے افسوس اور تعجب کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی غرض ان میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں اور خادم وہی ہوتا ہے جو آقا کے قریب رہے.جو خادم اپنے آقا کے قریب نہیں رہتا وقت کے لحاظ سے یا کام کے لحاظ سے وہ خادم نہیں کہلا سکتا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے باہر سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.اور اگر گورداسپور کے دیہات کے افراد نہ آجاتے اور قادیان کے لوگ بھی اس جلسہ میں شامل نہ ہو جاتے تو یہ جلسہ اپنی ذات میں ایک نہایت ہی چھوٹا سا جلسہ ہوتا اور ایسا ہی ہوتا جیسے مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں طالب علموں کے جلسے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹا.میں جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے سپر د ایسے کام کئے گئے ہیں جو دنیا میں عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہیں.موجودہ دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.دنیا کی تہذیب اور دنیا کے تمدن کی وہ عمارت جو تمہیں اس وقت دکھائی دے رہی ہے اس کی صفائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کی لپائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کے پوچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس پر رنگ اور روغن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کا پلستر بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کی چھت پر مٹی ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کی کانسوں کو درست کرنے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے ، اس کے ٹوٹے ہوئے فرش کو بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے توڑ دو اس تہذیب اور تمدن کی عمارت کو جو اس وقت دنیا میں اسلام کے خلاف کھڑی ہے.ٹکڑے ٹکڑے کر دو اُس قلعہ کو جو شیطان نے اس میں بنا لیا ہے، اُسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اُکھیڑ کر پھینک دو اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ہے.یہ کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں.ہر
احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں، دنیا کی جس گلی میں سے ہم گزریں، دنیا کے جس گاؤں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹا کر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہو ہمارا کام ہے پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہارا طور اور تمہارا طریق اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جب کہ تم دنیا میں ایک خدا نما وجود بنو اور اسلام کی اشاعت کے لئے کفر کی ہر طاقت سے ٹکر لینے کے لئے تیار رہو.یہ نہیں کہ دنیا تم کو اپنا سمجھتی ہو اور تم اس کو اپنا سمجھتے ہو، بے شک انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اصلاح کے لئے تمہیں کھڑا کیا گیا ہے لیکن جہاں انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اسی کی درستی اور اصلاح کے لئے تم کھڑے کئے گئے ہو وہاں اس کے خلاف اسلام کردار سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم اس کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں اسے اپنے پیچھے چلانے کے لئے کھڑے کئے گئے ہو.اگر تم ایسا نہیں کرتے ، اگر تم اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہو، اگر تم اس کے ناجائز افعال کی اصلاح سے غافل رہتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر منافقت کی رگ پائی جاتی ہے اور تم اپنے فرائض کی بجا آوری سے غافل ہو.مجھے ہمیشہ حیرت آتی ہے ان لوگوں پر جو میرے پاس شکایتیں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں ہم کیا کریں.میں انہیں کہتا ہوں تم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ لوگ تمہاری کیوں مخالفت کرتے ہیں.اگر وہ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ تمہارے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تم اسلام کے دشمن ہو تو اس مخالفت کو دور کر نے اور ان کو اپنا دوست بنانے کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں.یا تو تمہیں اپنے دعوئی احمدیت کو چھوڑنا پڑے گا اور تمہیں بھی ویسا ہی بننا پڑے گا جیسے تمہارا مخالف ہے پھر بے شک وہ تمہاری طرف محبت کا ہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں اور یا پھر تمہیں کوشش کر کے اس کو بھی اپنے جیسا بنانا پڑے گا اور درست طریق یہی ہے کہ تم اسے بھی اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کرو.اس صورت میں بھی وہ تمہاری طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ یہ میرا محسن ہے اور تمہاری آپس کی
احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ مخالفت ختم ہو جائے گی لیکن اگر تم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے اور یہ شور مچاتے چلے جاتے ہو کہ لوگ ہمارے دشمن ہیں تو اس سے زیادہ بے وقوفی کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے.اگر تم نے احمدیت کو سمجھا ہے اور اگر تم نے احمدیت کے مغز کو حاصل کیا ہے تو تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس کے کہ کوئی شخص سچائی کی تحقیق کر رہا ہو اور اُس پر ایک حد تک سچائی گھل چکی ہو.یا سوائے ان کے جو مادر پدر آزاد ہوتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں مگر مسلمان نہیں ہوتے ،عیسائی کہلاتے ہیں مگر عیسائی نہیں ہوتے ، یہودی کہلاتے ہیں مگر یہودی نہیں ہوتے ، ہند و کہلاتے ہیں مگر ہندو نہیں ہوتے ، باقی کسی انسان سے تمہارا یہ امید کرنا کہ جس عظیم الشان کام کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اُس میں تمہاری کوئی مخالفت نہ کرے ایک بالکل احمقانہ اور مجنونانہ خیال ہے.یہ مخالفت اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جب تم ان کو اپنا دوست بناؤ اور وہ دوست اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب تم ان کی غلط فہمیوں کو دور کر دو اور انہیں اسلام اور احمدیت کی برکات سے روشناس کرو.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرو اور اس خیال میں مت رہو.(خصوصاً میں زمینداروں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں ) کہ فلاں مشکل پیدا ہوگئی ہے کسی آدمی کو قادیان بھیجا جائے جو کسی ناظر سے ملے ناظر خدا نہیں، میں خدا نہیں ، جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ جو لوگ اس کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوں گے انہیں ابتلاؤں اور امتحانوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑے گا تو کوئی انسان تمہاری کیا مدد کر سکتا ہے.اگر تم آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو یا درکھو کہ آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیں کیونکہ احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ اپنے عقائد کو ترک کر کے اور مداہنت سے کام لے کر دنیا سے صلح کر لے، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ گاؤں کے چند نمبردار اس کا اقرار کر لیں اور وہ تمہیں دُکھ نہ دیں، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ چند بڑے بڑے چوہدری اس کی صداقت کا اقرار کر لیں، بلکہ احمدیت اس لئے آئی ہے کہ سارے گاؤں، سارے شہر، سارے صوبے، سارے ملک اور سارے براعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیئے جائیں.پس یہ چیزیں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے جس دن یہ آگ تم میں پیدا ہوگئی تم اپنے آپ کو مضبوطی میں ایک پہاڑ محسوس کرو گے لیکن جب تک یہ آگ تم میں پیدا نہیں ہو گی تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہو گے جیسے بیمار مر رہا ہوتا ہے تو وہ افیون کی گولی کھا لیتا ہے.افیون کی گولی سے اس کا درد بے شک کم ہو جائے مگر اسے آرام نہیں آئے گا.اس کے
احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ مقابلہ میں عقلمند انسان افیون نہیں کھائے گا بلکہ وہ کہے گا میں درد برداشت کرلوں گا مگر صحیح رنگ میں اپنا علاج کراؤ نگا اس صورت میں وہ بچ بھی جائے گا پس ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی پروا مت کرو.تم کو خدا نے عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری مثال بعض دفعہ ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے مشہور ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے ڈوگروں کی فوج کے علاوہ ایک دفعہ کشمیریوں کی بھی فوج بنائی مگر اس سے وہ کشمیری مراد نہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں اور جو ہر لڑائی میں ڈنڈالے کر آگے آ جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کشمیری آکر بہادر ہو جاتا ہے اور کشمیر میں پنجابی جا کر بُزدل ہو جاتا ہے بہر حال مہاراجہ نے کشمیریوں کی بھی ایک فوج تیار کی.ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور گورنمنٹ برطانیہ کو مختلف راجوں مہاراجوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی طرف سے فوجی امداد دی.کشمیر کے مہاراجوں نے بھی اس فوج کو سرحد پر جانے کا حکم دیا اور کہا ہم امید کرتے ہیں کہ تم اچھی طرح لڑو گے سالہا سال تو ہم سے تنخواہ لیتے رہے ہو اب حق نمک ادا کرنے کا وقت آیا ہے اس لئے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم اس نازک موقع پر اپنے فرائض کو عمدگی سے سرانجام دو گے.کشمیریوں نے جواب دیا کہ سرکار ! ہم نمک حرام نہیں ہم خدمت کے لئے ہر وقت حاضر ہیں مگر حضور کے یہ خادم سپاہی ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں.لڑائی کا موقع تھا اور مہا راجہ ان کو خوش کرنے کے لئے تیار تھا اُس نے سمجھا اگر یہ راشن بڑھانے کا مطالبہ کریں گے تو راشن بڑھا دوں گا، تنخواہ میں زیادہ کا مطالبہ کرینگے تو تنخواہ زیادہ کردوں گا چنانچہ اس نے کہا بتاؤ کیا چاہتے ہو ؟ کشمیری کہنے لگے حضور! ہم نے سنا ہے پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ہمارے ساتھ پہرہ ہونا چاہئے.گویا وہ جان دینے کو تیار ہیں ، لڑائی پر جانے کے لئے آمادہ ہیں مگر کہتے ہیں پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ساتھ پہرہ ہونا چاہئے.وہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہیں مگر پھر خیال کرتے ہیں کہ فلاں نے چونکہ ہمیں مارا پیٹا ہے اس لئے دوڑ و اور قادیان چل کر شکایت کرو وہ بھی درحقیقت ایسے ہی ہیں وہ بھی کہتے ہیں ہمارے ساتھ کسی ناظر کا پہرہ ہونا چاہئے ایسا تو سپاہی کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.سپاہی وہی کہلا سکتا ہے جو بہادر ہوا اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.در حقیقت احمدیت قبول کرنا اوکھلی میں سر دینے والی بات ہے.کسی نے کہا ہے اوکھلی میں سردینا تو موہلوں کا کیا ڈر یعنی جب اوکھلی میں سر دے دیا تو اس ڈنڈے کا جس سے چاول گوٹے جاتے ہیں کیا ڈر ہو سکتا ہے.اسی طرح جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مجھ پر مصائب بھی آئے تو میں ان تمام خص
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدبیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.مصائب کو برداشت کروں گا اور کسی موقع پر بھی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹاؤں گا.پس یاد رکھو وہ کامیابیاں اور ترقیاں جو آنے والی ہیں ان کے لئے مصائب کی بھٹی میں سے گزرنا تمہارے لئے ضروری ہے.اس کے بعد کامیابیاں بھی آئیں گی خواہ وہ تمہاری زندگی میں آئیں یا تمہاری موت کے بعد.شریف آدمی یہ نہیں دیکھا کرتا کہ قربانی کا پھل اُسے کھانے کو ملتا ہے یا نہیں بلکہ وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کا پھل چکھنے کا اسے موقع بھی نہیں ملتا کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور پہنچ جاتا ہے.تم اگر غور کر و تو تم میں سے اچھے کھاتے پیتے تو وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے خود نہیں کھایا اور کنگال وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے جو کچھ کمایا تھا وہ کھا لیا.آخر یہ بڑے بڑے زمیندار جو آج تمہیں نظر آ رہے ہیں کیسے بن گئے؟ یہ بڑے زمیندار اسی طرح بنے کہ ان کے باپ دادوں نے تنگی سے گزارہ کیا اور ایک ایک پیسہ بچا کر ایک کنال یہاں سے اور ایک کنال وہاں سے خریدی.پھر رفتہ رفتہ ایک گھماؤں زمین ہو گئی.اور پھر ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے ہمیں گھماؤں زمین کے وہ مالک بن گئے اور جب وہ مرے تو ان کی اولاد نے ان کی زمینوں سے فائدہ اُٹھایا.مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اولا د نا خلف ہوتی ہے وہ باپ دادا کی جائداد کو اُڑا دیتی اور آہستہ آہستہ مقروض ہو جاتی ہے اور وہی زمین جوان کے باپ دادا نے بڑی مشکلات سے اکٹھی کی ہوتی ہے بنیوں کے قبضے میں چلی جاتی ہے اور جب آگے ان کی اولاد آتی ہے تو وہ بھوکوں مرنے لگتی ہے اور وہ ان بنیوں کو گالیاں دیتی ہے جو ان کی زمینوں پر قبضہ کئے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں گالیاں اپنے ماں باپ کو دینی چاہئیں جو اپنی اولاد کا حصہ کھا گئے.تو باپ دادوں کی محنت ہمیشہ اولاد کے کام آتی ہے اور اگر کوئی شخص محنت نہیں کرتا تو اس کی اولا د بھی اس محنت کے فوائد سے محروم رہتی ہے.تم غریب سہی ، تم کنگال سہی لیکن اگر تم میں سے کسی کی ایک کنال زمین بھی ہے تو جب تم اس زمین پر کھڑے ہوتے ہو تو یوں سمجھتے ہو کہ یہاں سے امریکہ تک سب جگہ تمہاری ہی حکومت ہے اور تمہارا دل اتنا بہادر ہوتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں کسی کی کیا پرواہ ہے.اور اگر تمہاری ایک گھماؤں زمین ہوتی ہے یا دس گھماؤں زمین ہوتی ہے یا بیس گھماؤں زمین ہوتی ہے تو پھر تو تمہاری یہ حالت ہوتی ہے کہ تم ایک طرف کھڑے ہو کر کہتے ہو کہ ہماری ایک پیلی اِس سرے پر ہے اور ایک پہیلی اُس سرے پر.خواہ درمیان میں دس زمینداروں کی اور بھی زمینیں ہوں مگر ایسی حالت میں جب تم اپنی زمین پر تکبر کے ساتھ کھڑے
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..ہوتے ہو ایک شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں تمہارے پاس آ جاتا ہے اور کہتا ہے میں مسافر ہوں میری مدد کی جائے.تم اُس سے پوچھتے ہو تم کون ہو؟ اور وہ کہتا ہے سید.یہ سنتے ہی تم فوراً اپنی چادر اس کے لئے بچھا دیتے ہو اور اس کے ساتھ ادب سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو.آخر اس کے ساتھ کون سی طاقت ہے جو تمہیں اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ تم اس کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور اس سے ادب کا سلوک کرو.وہ یہی طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے پس اس کی طاقت اپنی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاقت ہے جو آپ نے سادات میں منتقل کی اور جو آپ نے ہر مسلمان کے اندر منتقل کی اور ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس طاقت کو اپنے اندر جذب کر کے اس سے فائدہ اُٹھایا.ابو بکر نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، عمرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا ، عثمان نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، علی نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، طلحہ اور زبیر نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور تمہارے باپ دادوں نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.اب تم جیسا کام کرو گے دنیا میں ویسا ہی تغیر پیدا ہو گا اور جتنا زور سے گیند پھینکو گے اتنا ہی دُور وہ چلا جائے گا.پس یہ نادانی کا خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان قربانیوں سے کیا فائدہ اُٹھانا ہے.اگر ہماری قوم، ہمارے خاندان اور ہماری نسل کے لئے عزت کا مقام حاصل ہو جائے تو درحقیقت وہ عزت ہمیں ہی حاصل ہوگی.پس اس قسم کے وسوسوں کو چھوڑ کر اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو جو تمہیں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ کر دے اور تمہیں سچا بہا در بنا دے.میں نے جب مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی تو در حقیقت میں نے تم سے یہ امید کی تھی کہ تم بچے بہادر بن جاؤ اور سچا بہادر وہ ہوتا ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا، جو شخص دلیری سے کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے مگر بعد میں اپنے اس فعل پر بشر طیکہ وہ بُرا ہو نادم ہوتا ہے اور اسے چھپانے کی کوشش کرتا نہیں وہ سچا بہادر ہے لیکن اگر وہ کوئی غلطی تو کرتا ہے مگر جب پکڑا جاتا ہے تو کہتا ہے میں نے یہ فعل نہیں کیا تو وہ جھوٹا بہادر ہے.اگر وہ اس کام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا تو اس نے وہ کام کیا کیوں؟ اور اگر غلطی سے کر لیتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا اقرار کیوں نہیں کرتا.اسلام جس بہادری کا تم سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تم بے شک معاف کرو مگر اُس وقت جب تم اپنے عفو سے بہادر
احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ کہلا سکو، تم بے شک چشم پوشی کرو مگر اُس وقت جب تم چشم پوشی سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک غریب پروری کرو مگر اُسی وقت جب تک غریب پروری سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک مظلوم بنو مگر اُسی وقت جب تم مظلوم بن کر بہادر کہلا سکو اور اگر تمہارا دین اور تمہارا ایمان کہتا ہے کہ اب چشم پوشی کا وقت نہیں اب پیچھے ہٹنے کا وقت نہیں تو اس صورت میں تم اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آگے بڑھو اور پھر جو کچھ درست سمجھتے ہو اس کو دلیری سے کرو.مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ایک احمدی دوسرے کو گالی دیتے سُن کر جوش میں آ جاتا ہے اور خود بھی اس کے مقابلہ میں گالی دے دیتا ہے حالانکہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ تم گالی سن کر صبر کرو.یا اگر کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے اور تم بھی جواب میں اسے تھپڑ مار دیتے ہو تو یہ اسلامی بہادری نہیں.اسلامی بہادری یہ ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارے تو تم اسے کہو کہ تم نے جو کچھ کیا ناواقفیت سے کیا مگر میرا مذہب مجھے یہی کہتا ہے کہ میں دوسرے کو معاف کردوں اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہتا بلکہ معاف کرتا ہوں بشرطیکہ تم یہ سمجھو کہ اس کو معاف کرنے کا فائدہ ہے اور یاد رکھو کہ نوے فیصدی فائدہ ہی ہوتا ہے.پس بہادری یہ ہے کہ تم نوے فیصدی لوگوں سے کہہ دو کہ بے شک ہمیں مارلو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے بشرطیکہ تمہارے بازو میں طاقت ہو، بشرطیکہ تمہاری آنکھوں میں حدت ہو اور بشرطیکہ تمہارا سینہ اُبھرا ہوا ہو.تب بے شک تمہارے اس عفو کا دوسرے پر اثر پڑے گا لیکن اگر تم گبڑے ہوں تمہارا ہاتھ خالی ہو تمہارے باز و دبلے پتلے ہوں تمہاری آنکھوں میں چمک نہ ہوا اور تم دوسرے کو یہ کہو کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں تو ہر شخص کہے گا عصمت بی بی از بے چارگی مقابلہ کی طاقت نہیں اور زبان سے معاف کیا جاتا ہے.دیکھو! اسلام تم سے صبر کا مطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے رحم کا مطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے عفو کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اسلام تم سے بہادری کا بھی مطالبہ کرتا ہے.اگر تم دس آدمیوں کو پچھاڑ سکتے ہو لیکن جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے تو تم گردن جھکا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے آتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو سارا گاؤں تمہارے اس فعل سے متاثر ہو گا.لیکن اگر تم کمزور ہونے کی وجہ سے ایک شخص کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اور پھر اسے کہتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو ہر شخص تم پر ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ معاف کرنے والا جھوٹا ہے جانتا ہے کہ اگر میں نے ہاتھ اُٹھایا تو دوسرا تھپڑ مار کر میرے سارے دانت توڑ دے گا اس لئے یونہی اس نے کہہ دیا ہے کہ میں نے معاف کیا ورنہ جانتا ہے کہ مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں.میں نے اگر تمہیں ورزش کی
انوار العلوم جلد ۱۶ احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.نصیحت کی تو اسی لئے کہ اگر اسلام کے احکام کے ماتحت تم کسی وقت عفو سے کام لو تو لوگ تمہارے اس عفو کو بُزدلی کا نتیجہ نہ سمجھیں ، دھوکا اور فریب نہ سمجھیں.جب تمہارے بازو میں یہ طاقت ہو کہ تم ایک دفعہ کسی پر ہاتھ اُٹھاؤ تو اُس کے دو چار دانت نکال دو اور پھر اس کے قصور پر اسے معاف کر دو تو دیکھو اس کا کتنا اثر ہوتا ہے.لوگ زبر دست کی معافی سے متاثر ہوتے ہیں کمزور کی معافی سے متاثر نہیں ہوتے اور بہادری اُسی کی سمجھی جاتی ہے جس میں طاقت ہو اور پھر عفو سے کام لے.حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لڑائی میں شامل تھے.ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر سکتے تھے آپ کے مقابلہ پر آیا اور کئی گھنٹے تک آپ کی اور اس یہودی پہلوان کی لڑائی ہوتی رہی.آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپ نے اس یہودی کو گرا لیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ پنجر سے اُس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.آپ فوراً اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے وہ یہودی سخت حیران ہوا اور کہنے لگا یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی کشتی کے بعد آپ نے مجھے گرایا اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں یہ آپ نے کیسی بے وقوفی کی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے بے وقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گرایا اور تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو یکدم میرے دل میں غصہ پیدا ہوا کہ اس نے میرے منہ پر کیوں تھوکا ہے مگر ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا اگر اس کے بعد میں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصہ کی وجہ سے ہو گا خدا کی رضا کے لئے نہیں ہوگا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت میں تجھے چھوڑ دوں جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے میں تجھے گرا لونگا ہے تو انہیں اپنے عمل کے پاکیزہ ہونے کا اس قدر احساس تھا کہ انہوں نے اس خطرہ کو تو بر داشت کرلیا کہ دشمن سے دوبارہ مقابلہ ہو جائے مگر یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان کے اعمال میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو.میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں ان میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو.ان میں بزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو، اور ان میں تقویٰ کے خلاف کسی چیز کی آمیزش نہ ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اتنا مضبوط، اتنا بہادر اور اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود یہ کہیں کہ تمہارا عفو خدا کیلئے ہے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں.ایسی قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے اور ایسے انسان پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ حملہ کرنے والے کا دل فتح ہو جاتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدبیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے میں چھوٹا تھا کہ میں نے اور دوسرے بچوں نے مل کر جہلم سے ایک کشتی منگوائی.وہ کشتی نیلام ہوئی تھی اور ہمیں سستی مل گئی تھی یوں تو ویسی کشتی اُن دنوں سو ، سوا سو روپیہ میں تیار ہوتی تھی مگر ہمیں صرف سترہ روپیہ میں مل گئی اور چھیں روپے کرایہ لگا.جب وہ یہاں آ گئی تو جو خریدنے والے تھے ان میں سے کئی باہر چلے گئے اور آخر نگران میں ہی مقرر ہوا.ہم نے اُس کو ایک زنجیر سے باندھ کر ڈھاب کے کنارے رکھا ہوا تھا.بعض دفعہ جب ہم وہاں موجود نہ ہوتے تو لڑکوں نے کشتی کھول کر لے جانا اور خوب گودنا اور چھلانگیں لگانا اور چونکہ وہ بے احتیاطی سے استعمال کرتے تھے اس لئے کشتی کے تختے روز بروز ڈھیلے ہوتے چلے گئے.میں نے اس کے انسداد کے لئے کچھ دوست مقرر کر دیئے اور انہیں کہہ دیا کہ تم نگرانی رکھو اور پھر کسی دن اگر لڑ کے کشتی کو کھول کر پانی میں لے جائیں تو مجھے اطلاع دو.چنانچہ ایک دن قادیان کے بہت سے لڑکے اکٹھے ہو کر وہاں گئے انہوں نے کشتی کھولی اور خوب گودنا پھاندنا شروع کر دیا.اس طرح پانی میں کوئی کشتی کو ادھر سے کھینچتا کوئی اُدھر سے، مجھے بھی اطلاع ہوئی میں غصے سے ہاتھ میں بید لئے دوڑتا ہوا وہاں چلا گیا اور وہاں چاروں طرف لڑکے مقرر کر دیئے کہ کسی کو بھاگنے نہیں دینا.جب لڑکوں نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے ادھر اُدھر بھاگنا چاہا مگر چاروں طرف آدمی کھڑے تھے.آخر وہ اُسی طرف آئے جس طرف میں کھڑا تھا اور کشتی کو کنارے پر لگاتے ہی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور تو نکل گئے لیکن ایک قصاب کا لڑکا میں نے پکڑ لیا اور گو وہ مجھ سے بہت مضبوط تھا اور اُس کا جسم بھی ورزشی تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا.کچھ اُس میں فطرت کی اس کمزوری کا بھی دخل تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ ہم پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ ہم یہاں کے مالک ہیں.غرض بچپن کی جو نا عقلی ہوتی ہے کہ انسان اپنے رُعب سے بعض دفعہ ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے اس کے مطابق میں نے زور سے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مارنا چاہا.اُس نے پہلے تو اپنا منہ بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا جس پر مجھے اور زیادہ طیش آیا اور میں نے زیادہ سختی سے اُسے تھپڑ مارنا چاہا مگر ابھی تھپڑ اُسے نہیں مارا گیا تھا کہ اُس نے اپنا منہ میرے سامنے کر دیا اور کہنے لگا لو جی مارلو.اس پر یکدم میرا ہاتھ نیچے گر گیا اور میں شرمندہ ہوا کہ فتح آخر اس کی ہوئی حالانکہ جسمانی لحاظ سے وہ گو مجھ سے طاقت ور تھا مگر رُعب کے لحاظ سے وہ مجھ سے کمزور تھا لیکن چونکہ اُس نے مقابلہ سے انکار کیا اور کہا کہ مارلو تو میری انسانیت نے مجھے کہا اب اگر تو نے اسے مارا تو تو انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہے گا.لیکن اگر وہ تندرست اور
احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ زبر دست نوجوان ہونے کی بجائے ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا ، اُس کی پیٹھ میں خم ہوتا، اس کے سینہ میں گڑھا پڑا ہوا ہوتا ، اس کی گردن ڈیلی پتلی ہوتی ، اس کی ناک سے رال بہہ رہی ہوتی اور وہ کہتا مارلو تو مجھ پر کچھ بھی اثر نہ ہوتا کیونکہ میں جانتا کہ اس میں مقابلہ کی طاقت ہی نہیں.پس میں نے اگر جسمانی ورزش کی ہدایت دی ہے تو اس لئے کہ تمہاری قربانی دنیا کو سچی معلوم ہو یہ نہ ہو کہ تم ماریں بھی کھاؤ اور قربانی بھی کچی معلوم نہ ہو.وہ مارلوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بنتی ہے جو طاقت رکھتے ہوئے کھائی جائے مگر جو مار بُزدلی کی وجہ سے کھائی جائے اس سے حقارت اور نفرت بڑھتی ہے.جب لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ایک تھپڑ ماریں تو دوسرا دو تھپڑ مار سکتا ہے ، وہ اگر ایک گال پر خراش پیدا کریں تو دوسرا ان کے دانت نکال سکتا ہے، وہ اگر کھوپڑی پر چوٹ لگا ئیں دوسرا ان کے سر کو چھوڑ سکتا ہے تو اگر ایسی طاقت رکھنے والا انسان ایک کمزور انسان سے کہے کہ میں تم سے مار کھا لیتا ہوں تو دوسرے انسان کے دل پر ضرور چوٹ پڑتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جس نے اسے اتنی بڑی قربانی پر آمادہ کر دیا اور وہ سچائی کو قبول کر لیتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھو آپ نے مکہ میں صبر کیا اور ایسا صبر کیا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.مگر لوگ کہہ سکتے تھے کہ نَعُوذُ باللهِ بُزدل ہے اس لئے لڑائی سے کنارہ کرتا ہے.مگر پھر اللہ تعالیٰ آپ کو مدینہ میں لے گیا اور وہاں فوجوں کی کمان آپ کو کرنی پڑی اور ایسے ایسے مواقع آئے جن میں آپ کو اپنی بہادری کے جوہر دکھانے پڑے.اُحد کے موقع پر ہی ایک شخص جو مکہ کا بہت بڑا جرنیل تھا آگے آیا اور اس نے کہا میں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا اس لئے میرے مقابلہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہی نکالا جائے.صحابہ بڑے بہادر اور تجربہ کار تھے، وہ شمشیر زنی سے واقف تھے، وہ نیزہ بازی کو خوب جانتے تھے ، وہ لڑائی کے اصول اور فن کے ماہر تھے ، وہ سارے اس نیت سے کھڑے ہو گئے کہ ہم مر جائیں گے مگر اس شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن آپ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو.صحابہ نے آپ کے حکم کے ماتحت رستہ خالی کر دیا.اس پر یہ جرنیل شیر کی طرح گر جتا ہوا آپ کے مقابلہ میں آیا.آپ نے اپنا نیزہ بڑھا کر اُس پر وار کیا اور اُس کی گردن پر ایک معمولی سا زخم لگا دیا وہ اُسی وقت چیخ مار کر واپس کوٹ گیا.لوگوں نے اُس سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا ؟ یا تو اس بہادری سے حملہ کرنے کے لئے گئے تھے اور یا اس بُزدلی کے ساتھ واپس بھاگ آئے اور پھر تمہارا تو زخم بھی کوئی بڑا نہیں اُس نے کہا بے شک
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.یہ ایک چھوٹا سا زخم ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہنم کی آگ اس میں بھر دی گئی ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.یہ ایک نشان تھا جو خدا تعالیٰ نے دکھایا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرے لئے رستہ چھوڑ دو اس نے بتادیا کہ مکہ میں کفار کے مظالم آپ کمزوری یا بُزدلی کی وجہ سے برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ بہادری اور طاقت کے ہوتے ہوئے برداشت کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ آپ کی قربانیوں کو دیکھ کر لوگ ہدایت پا جاتے تھے.قرآن آپ نے سنایا اور سالوں سنایا مگر حمزہ پر جو آپ کے چچا تھے کوئی اثر نہ ہوا، توحید کے وعظ آپ نے کئے اور سالوں کئے مگر حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا، اصلاحی تعلیم آپ نے دی اور سالوں دی مگر حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا ، نمازیں آپ نے پڑھیں اور پڑھائیں اور سالوں پڑھیں اور پڑھائیں مگر حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے صدقے دیئے اور دلائے اور سالوں صدقے دیئے اور دلائے مگر آپ کے چا حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا، آپ خانہ کعبہ سے باہر پتھر کی ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آ گیا اور اُس نے پہلے تو آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر غصہ میں اُس نے زور سے آپ کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا.حمزہ کی ایک لونڈی اُس وقت دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی وہ اس کو برداشت نہ کر سکی اور اندر ہی اندر سارا دن گڑھتی رہی.حمزہ شکار کے بہت شوقین تھے اور وہ گھوڑے پر چڑھ کر شکار کے لئے حرم سے باہر نکل جایا کرتے تھے اُس دن وہ شکار کر کے فخر سے گھر میں داخل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی لونڈی جو دیر سے ان کے گھر میں رہتی تھی اور جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اور جو آپ سے آپ کے دادا کو محبت تھی اُسے بھی جانتی تھی وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہے.حمزہ نے پوچھا بی بی کیوں روتی ہو؟ عرب لوگ گھر کی ماماؤں اور خادماؤں کی بڑی عزت کرتے تھے.انہوں نے سمجھا کسی نے اس کی ہتک کی ہوگی اور اب میرا فرض ہے کہ میں اس ہتک کا بدلہ لوں.لونڈی نے اپنا سر او پر اُٹھایا اور کہا بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.حمزہ نے کہا کیوں کیا ہوا ؟ کونسی شکایت پیدا ہوگئی ہے؟ وہ کہنے لگی تم ہتھیار لگائے پھرتے ہو اور آج آمنہ کے بیٹے کو بغیر کسی قصور کے ابو جہل نے مارا ہے.حمزہ وہیں سے پلٹے اور جہاں ابو جہل مکہ کے دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا وہاں پہنچے اور اُس کے سر پر زور سے کمان مار کر کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صبر کیا اور تم نے اُس پر ظلم کیا.تم اگر اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہو اور تم میں طاقت ہے تو آؤ اور مجھ سے مقابلہ کر لو.اس کے بعد وہ اس جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
انوار العلوم جلد ۱۶ ہیں.احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..پاس تشریف لے گئے.جس شخص کے دل پر قرآن سنے کا اثر نہیں ہوا تھا، جس شخص کے دل پر توحید کے وعظوں سے کوئی اثر نہیں ہوا تھا ، جس شخص کے دل پر اخلاق کے نمونے اور تعلیم نے کوئی اثر نہیں کیا تھا ، جس شخص کے دل پر صدقہ و خیرات نے کوئی اثر نہیں کیا تھا چونکہ وہ بہادر تھا یہ چیز اسے کاٹ کر رکھ گئی کہ ایک بہادر آدمی صبر کرتا ہے اور ظالم سے مار کھا لیتا ہے.چنانچہ انہوں نے آپ کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں ایمان لاتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس کے رسول اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہادر نہ ہوتے ، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلیر نہ ہوتے ، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجاع نہ ہوتے تو آپ کا صبر حمزہ کی ہدایت کا موجب کبھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ کمزور تو صبر کیا ہی کرتا ہے.بے شک کمزوروں پر ظلم بھی لوگوں کے دلوں میں رحم پیدا کرتا ہے مگر وہ ظلم صرف رحم پیدا کرتا ہے ہدایت کا موجب نہیں ہوتا.ہدایت ہمیشہ طاقت ور کے ظلم کے نتیجہ میں ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے.کمزور کے ظلم کو دیکھ کر لوگ رو دیتے ہیں، آہیں بھر دیتے ہیں مگر کمزور کے ظلم کو دیکھ کر مذہب تبدیل نہیں کرتے.مذہب اُس وقت تبدیل کرتے ہیں جب وہ ایک بہادر اور جری انسان کو گالیاں سنتے اور صبر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب وہ کہتے ہیں کہ اس کا صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدائی حکم کی وجہ سے ہے.پس جب میں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے وقتوں میں سے کچھ وقت کھیلوں میں لگاؤ تو میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم اتنا وقت دنیا کے کاموں میں خرچ کرو بلکہ میں تمہیں اصلاح و ہدایت کا بہترین نمونہ بنانا چاہتا ہوں.جب تم کبڈی کھیلتے ہو یا کوئی اور کھیل کھیلتے ہو اس نیت اور ارادہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو درحقیقت تم نیکی کرتے ہو کیونکہ تمہارا سب کام لوگوں کی ہدایت اور اسلام کو پھیلانے کیلئے ہے.پس بہادر بنو اور بچے بہادر بنو جیسا کہ میں نے بتایا ہے سچا بہادر وہ ہے جو ظلم کے وقت صبر سے کام لیتا اور طاقت رکھتے ہوئے عفو سے کام لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جب قربانی کا وقت آتا ہے وہ عواقب سے نہیں ڈرتا.بعض لوگ اس کے بُرے معنے لیتے ہوئے میری طرف غلط باتیں منسوب کیا کرتے ہیں مگر میں ان کے اعتراضوں سے ڈر کر اس سچائی کو نہیں چھپا سکتا جس کے بغیر اخلاق مکمل نہیں ہو سکتے اور جس کا دوسروں کو سکھانا میرا فرض ہے.میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی موقع پر اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کی ضرورت ہے اور تمہیں اس بات کا موقع ملتا ہے اور تمہارے ہاتھ سے کسی کو نادانستہ طور پر کوئی
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہ کہو کہ میں وہاں نہیں تھا بلکہ دلیری سے کہو کہ میں نے ہی یہ فعل کیا ہے.اور سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی ترک نہ کرو.تم اگر ظلم کے سہتے وقت یہ نمونہ دکھاؤ کہ تم سے کمزور تمہارے منہ پر تھپڑ مارے اور تم اپنی دوسری گال بھی اُس کی طرف یہ کہتے ہوئے پھیر دو کہ اے میرے بھائی! اگر تو مجھے مارنے پر ہی خوش ہے تو بے شک مجھے مار لے مگر خدا کی باتیں تھوڑی دیر کے لئے سن لے تو تمہارے اس نمونہ سے سارا گاؤں متاثر ہوگا.اور اگر کبھی تمہیں ظلم کا مقابلہ کرنا پڑے اور تمہارے ہاتھوں سے دوسرے کو نا دانستہ طور پر کوئی نقصان پہنچ جائے اور معاملہ عدالت میں جائے تو تم عدالت میں جا کر بھی صاف طور پر کہو کہ اے حاکم! میں نے ان حالات میں یہ فعل کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچانے کی کبھی کوشش نہ کرو.اگر تم ایسا کرو تو تمہاری کامیابی اور ترقی یقینی ہے.لیکن اگر گالی کے مقابلہ میں تم بھی گالی دو گے، مار کے مقابلہ میں تم بھی مارو گے تو تمہارے اس فعل کی وجہ سے احمدیت کو کوئی ترقی نہیں ہو گی.پس تم ان دونوں طریقوں کو اختیار کرو ماریں کھاؤ اور کھاتے چلے جاؤ، پیٹو اور پیٹتے چلے جاؤ ، سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کا حکم کہے کہ اب تمہاری جان کا سوال نہیں ، اب تمہارے آرام کا سوال نہیں ، اب دین کی حفاظت کا سوال ہے، ایسی صورت میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ تم مقابلہ کرو اور اس نیکی کے حصول سے ڈرو نہیں.اگر مظلوم ہوتے ہوئے اور دفاع کرتے ہوئے تمہارے ہاتھوں سے نادانستہ طور پر کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے اور درحقیقت تم ظالم نہیں ہو تو تمہارے لئے جنت کے دروازے اور زیادہ پھل جاتے ہیں.پس بہادر بنو اسی طرح کہ جب لوگ تم پر ظلم کریں تو تم عفو اور چشم پوشی اور درگزر سے کام لومگر جب دیکھو کہ چشم پوشی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور تمہیں دفاع اور خود حفاظتی کے لئے مقابلہ کرنا پڑتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا مقابلہ کرو اور اگر اس دوران میں تمہارے ہاتھوں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر صاف کہہ دو کہ میں نے ایسا کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے فعل پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض بہادر بننا ہے اور بہادری کا ایک حصہ سچ بھی ہے.بغیر سچ کے کوئی شخص بہادر نہیں ہو سکتا مگر سچ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر بات بیان کر دو.اگر ایک ڈا کو تم سے پوچھتا ہے کہ تمہارے ماں باپ اپنا روپیہ گھر میں کہاں رکھتے ہیں یا چور پوچھتا ہے کہ تمہاری بہن یا تمہاری بیوی کا کتنا زیور ہے اور وہ کہاں رکھا ہوا ہے تو تمہارا یہ کام
انوار العلوم جلد ۱۶ احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..نہیں کہ اسے اپنے زیورات کی فہرست بتاؤ اور کہو کہ ہم فلاں جگہ رکھا کرتے ہیں.سچ کے معنے صرف یہ ہیں کہ جو بات بیان کی جائے وہ بالکل صحیح ہومگر جو بات تم بیان نہیں کرنا چاہتے اس کے متعلق صاف طور پر کہہ دو کہ میں بیان کرنا نہیں چاہتا.یہ کوئی ضروری نہیں کہ تم ہر بات بیان کرو.مرد وعورت کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں مگر کوئی شخص ان تعلقات کا ذکر دوسرے کے پاس نہیں کرتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو عورت اپنے مرد کے تعلقات کا ذکر اپنی کسی سہیلی سے بھی کرتی ہے اُس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے لعنت کرتے ہیں.اب کیا وہ عورت سچ نہیں بولتی ؟ سچ ہی بول رہی ہوتی ہے مگر اس سچ بولنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت برستی ہے کیونکہ وہ بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں.پس ہر بات کو بیان کرنا سچ نہیں بعض دفعہ وہ بات بیان کرنا ظلم کا موجب ہوتا ہے، بعض دفعہ اخلاق کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ بے حیائی کا موجب ہوتی ہے.لیکن بہر حال انسان کا یہ فرض ہے کہ جب وہ کسی بات کو بیان کرے تو سچ سچ بیان کر دے.پس تم سچ بولو اور اگر کسی بات کا چُھپانا ضروری ہو تو بے شک اُس کو چُھپا لو تمہیں کوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ تم ضرور ہر بات بیان کرو.بعض باتوں کے بیان کرنے سے شریعت انسان کو روکتی ہے.ایسی باتوں کے متعلق ہی حکم ہے کہ انہیں مت بیان کرو کیونکہ شریعت ان کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی.یہ اغراض ہیں جو خدام الاحمدیہ کے قیام کی ہیں.پھر خدام الاحمدیہ کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ وہ احمدی اخلاق سیکھیں، نیکی کے کام بجالائیں اور پابندی نماز کی عادت ڈالیں.تمہارا فرض ہے کہ تم سُست لوگوں کے پاس جاؤ اور ان میں نماز با جماعت کی پابندی کی عادت پیدا کرو مگر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بھی کہا تھا نا جائز دباؤ سے کام مت لو.اسی طرح جتنا بڑا کوئی عہدہ دار ہوا سے اتنا ہی چست اور عملی کام کرنے والا ہونا چاہئے مگر آجکل مصیبت یہ ہے کہ بڑے آدمی خیال کرتے ہیں کہ ہاتھ سے کام کرنا اُن کی ہتک کا موجب ہے حالانکہ میرے نزدیک جو شخص ہاتھ سے کام نہیں کرتا وہ حرام خور ہے.خدا نے انسان کو ہاتھ اس لئے نہیں دیئے کہ وہ ان سے کوئی کام نہ لے بلکہ ہاتھ کام کرنے کے لئے ہی خدا نے دیئے ہیں.پس جس طرح خدا تعالیٰ نے زبان دی ہے اور زبان کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، خدا تعالیٰ نے پاؤں دیئے ہیں اور پاؤں کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہاتھ دیئے ہیں اور ہاتھوں کا استعمال نہ کرنا بھی گناہ ہے.جو شخص قیدی بن کر چار پائی پر لیٹا رہتا ہے اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیتا رہتا ہے کہ اس
احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ طرح کرو اور اُس طرح کرو وہ حرامخوری کرتا ہے.پس ہر شخص کو اپنے ہاتھوں سے کام کرنا چاہیئے اسی لئے خدام الاحمد یہ روزانہ ہاتھوں سے مشقت کا کام کرتے ہیں اور ایک دن خاص طور پر سب لوگوں کو اس میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اس قسم کے اجتماعی عمل کی غرض یہی ہے کہ ہر انسان ان نعمتوں کا شکر ادا کرے جو خدا تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہیں.وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا ہوں اور لوگ بے شک کام کریں مگر میں نہیں کر سکتا وہ شرم وحیا سے عاری انسان ہے.پس جو تمہارے عہدہ دار ہیں انہیں زیادہ کام کرنا چاہئے اور مرکزی عہدہ داروں کو کاموں میں خود حصہ لینا چاہئے.اب تو اس طرح ہوتا ہے کہ عہدہ دار معتمد کو ہدایت بھیج دیتا ہے اور معتمد آگے ہدایت بھیج دیتا ہے لیکن آئندہ کے لئے عہدہ داروں کو خود محلوں میں جا جا کر خدام کا کام دیکھنا چاہئے.اسی طرح سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ بھی خود بار بار محلوں میں پھر کر کام کی نگرانی کریں صرف ہدایت لکھ کر بھیج دینی کافی نہیں ہے.میرے نزدیک تمام مرکزی عہدہ داران کو ہفتہ میں دو تین بار ضرور عملی کام میں شریک ہونا چاہیئے اور خدام میں بیٹھ کر ان سے باتیں کرنی چاہئیں.اسی سلسلہ میں میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض مشورہ کے قابل امور ایسے ہوتے ہیں جن میں صرف عہدہ دار شامل ہو سکتے ہیں.مگر جب کسی اجتماع کے موقع پر سب لوگ اکٹھے ہوں تو پھر سب سے مشورہ لینا چاہئے اور اس غرض کے لئے ایسے اجتماع میں مشورہ کے قابل امور کو پیش کرنا چاہئے اور ہر ایک کو رائے دینے کی آزادی حاصل ہونی چاہئے.میرے نزدیک ایسے جلسوں سے پہلے جماعتوں کو لکھ کر اُن سے دریافت کر لینا چاہئے کہ انہیں کام میں کیا کیا دقتیں پیش آ رہی ہیں؟ اور پھر ان مشکلات پر بحث کر کے آئندہ کے لئے سکیم بنانی چاہئے.مثلاً ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو جب کوئی ہدایت دی جاتی ہے تو وہ اسے مانتے نہیں ان کا کیا علاج ہونا چاہئے؟ اور اگر غور کیا جائے تو کئی تدابیر سامنے آجائیں گی جو دلچسپ اور مفید ہونے کے علاوہ عقلی ترقی کا موجب ہوں گی.اسی طرح اگر کوئی دقت ہو تو اسے سالانہ اجتماع کے موقع پر تمام خدام کے سامنے رکھا جائے.اس کا فائدہ یہ ہو گا جب خدام کی اکثریت کے فیصلہ کو نافذ کیا جائے گا اس پر زیادہ کامیابی کے ساتھ عمل کیا جاسکے گا.ہر شخص کہے گا کہ یہ فیصلہ ہم نے خود کیا ہے اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے اجلاسوں میں اہم امور کے متعلق لوگوں سے مشورے لینے چاہئیں اور ان کے مطابق اپنی سکیمیں بنانی چاہئیں.باقی نظام کی روح ضرور قائم
انوار العلوم جلد ۱۶ احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..رکھنی چاہئے یعنی لوگ شور نہ مچائیں اور صدر کی اجازت کے بغیر نہ بولیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو آداب کے خلاف ہو.اسی طرح عہد یداروں کا فرض ہے کہ وہ خدام سے ذاتی واقفیت پیدا کریں یہاں تک کہ وہ کسی کو دیکھتے ہی پہچان لیں کہ یہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے.پس ذاتی واقفیت کو جتنا بڑھا سکتے ہو بڑھاؤ اب تو ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے پھر بھی جلسہ سالانہ کے ایام میں باوجود کوفت اور تکلیف کے میں سب سے مصافحہ کرتا ہوں اور اس طرح ہر سال کچھ نہ کچھ نئے لوگوں سے واقفیت ہو جاتی ہے.خدام الاحمدیہ کے لئے تو ابھی کافی موقع ہے کہ وہ اپنی واقفیت کو وسیع کریں.میں نے دیکھا ہے کہ اس نقص کی وجہ سے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے کم ہیں بعض دفعہ شہری جماعتیں بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتیں.میرے نزدیک اس طرح بھی خدام الاحمدیہ کا امتحان لینا چاہئے کہ عہد یدار خود اپنے خدام کو انٹروڈیوس کرائے اور ان کے حالات بیان کرے اس طرح پتہ لگ جائے گا کہ عہد یدار ان سے واقف ہے یا نہیں ؟ اس طرح دلوں میں بشاشت اور اُمنگ پیدا ہو جاتی ہے اور کام میں ترقی ہوتی ہے.پھر میرے نزدیک اس دفعہ کے پروگرام میں یہ بھی غلطی ہے کہ کام کی ٹریننگ کے متعلق بہت کم تقریریں رکھی گئی ہیں صرف وعظ کے طور پر بعض تقریر میں رکھ دی گئی ہیں.حالانکہ انہیں بتانا یہ چاہئے تھا کہ اب تک کام میں کیا کیا وقتیں پیش آئی ہیں اور ان دقتوں کا حل انہوں نے کیا تجویز کیا ہے.جو زیادہ سمجھ دار عہدیدار ہیں یا مرکز میں رہتے ہیں انہیں تفصیلاً یہ تمام باتیں بیان کرنی چاہئیں تھیں کہ خدام کی تنظیم کے کام میں ان سے کام لینے کے دوران میں کیا کیا دقتیں پیش آئیں ، انہوں نے ان کا کیا علاج تجویز کیا اور کس طرح ان وقتوں کو دُور کیا.ایسے مضامین پر زیادہ زور دینا چاہئے تھا تا دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکتے اور وہ یہاں سے خدام الاحمدیہ کے کام کو سیکھ کر جاتے.کھیلوں کے متعلق بھی میں خدام کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کل کی ورزشیں ایسی ہیں جو امیر اور غریب میں فرق کرتی ہیں.آپ لوگ جو گاؤں والے ہیں کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ آپ کا اگر ایک لڑکا بھی سکول میں پڑھتا ہے تو آپ ہیڈ ماسٹر کی خوشامد میں کرتے پھرتے ہیں کہ میرے لڑکے کی فیس معاف کر دیں.پھر اگر وہ لڑ کا پاس ہو جائے تو آپ لوگوں کا بڑا معیار یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں نائب مدرس ہو جائے یا پٹواری بن جائے یا کانٹیبلوں میں بھرتی ہو جائے.آپ لوگوں کے پاس بھلا کہاں طاقت ہے کہ آٹھ دس روپے کا بلا خریدیں اور
انوار العلوم جلد ۱۶ احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..وہ دو مہینہ کے بعد ٹوٹ جائے.پھر آپ لوگوں کو یہ کہاں توفیق ہے کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ کا گیند لیں جس پر اگر چند ہٹیں بھی لگ جائیں تو وہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی بجائے دوسرا گیند لایا جائے.آپ لوگوں کے لئے تو سب سے بڑی ورزش یہ ہے کہ جتنا دوڑ سکتے ہوں دوڑ میں کھلے میدان آپ کے سامنے ہوتے ہیں اور جتنا دوڑنا چاہیں دوڑ سکتے ہیں شہری جو آپ کے بھائی ہیں ویسے ہی خدا کے بندے ہیں جیسے آپ ہیں.مگر جب وہ سفید فلالین کی پتلونیں پہن کر اور آدھی آدھی باہوں کی ٹول (TWILL) کی نمیض پہن کر نکلتے ہیں تو زمیندار سمجھتے ہیں کہ شاید وہ کسی ساہوکار کے بیٹے ہیں یا انہیں گورنمنٹ میں کوئی بڑا عہدہ حاصل ہے.جب وہ سفید پتلونیں اور پٹیاں لگا کر اور آدھی آدھی بانہوں کی قمیض پہن کر کرکٹ کھیلنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں تو زمیندار دور کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگ جاتے ہیں اور ہر ایک ہٹ کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ شاید بی اے یا ایم اے کو یہ کوئی خاص ہنر سکھایا گیا ہے اور کالج کا طالب علم بھی جب ہٹ مار کر اور تکبر سے گردن موڑ کر چلتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سارے زمیندار جن میں سے کوئی اُس کا دادا ہوتا ہے اور کوئی اُس کا پڑدادا ہوتا ہے جانور ہیں.پھر کرکٹ کے لئے اتنی بڑی فیلڈ ہونی چاہئے جو ہماری اس مسجد اقصیٰ سے اپنی وسعت میں چار گھنے بلکہ سات آٹھ گنے زیادہ ہو.اور اتنی بڑی فیلڈ صرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لئے کافی ہوتی ہے تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر صرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لئے اتنی بڑی فیلڈ کی ضرورت ہو سکتی ہے تو شہروں اور گاؤں کے لئے کتنی فیلڈوں کی ضرورت ہوسکتی ہے مثلا پھیر و چیچی میں چار پانچ سو مرد ہیں اگر سب کرکٹ کھیلیں تو اس کے لئے ۲۲ ۲۳ فیلڈوں کی ضرورت ہوگی بھلا اتنی زمین وہ کہاں سے لا سکتے ہیں یہ تو صرف پھیر و چیچی کا حال ہے جو ایک گاؤں ہے.لاہور کی پانچ لاکھ آبادی ہے جس میں سے اڑھائی لاکھ مرد ہیں اور گو اب عورتیں بھی کھیل میں شامل ہوتی ہیں لیکن اگر مردوں کے لئے ہی فیلڈ میں ہوں تو ساٹھ ہزار ایکٹر زمین کی ضرورت ہو گی تب کہیں صرف لاہور والے کرکٹ کھیل سکتے ہیں.بھلا یہ بھی کوئی کھیلیں ہیں اور کیا دنیا کا کوئی معقول انسان ان کھیلوں کو ہر جگہ رائج کر سکتا ہے.یہ تو یورپ والوں کی کھیلیں ہیں جہاں امیر اور غریب کو الگ الگ رکھا جاتا ہے ان میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو ڈیڑھ دو لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد رکھتے ہیں مگر یہاں سارے ضلع گورداسپور کے بڑے بڑے زمینداروں کی آمد کو اکٹھا کیا جائے تو وہ وہاں کے ایک شخص کی آمد کے دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں بنیں گی.پھر وہاں جو تاجر ہیں ہیں ہیں، تمہیں تھیں ، چالیس چالیس
احمدبیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن.انوار العلوم جلد ۱۶ بلکہ پچاس پچاس کروڑ روپیہ سرمایہ رکھتے ہیں اور جو درمیانی طبقہ کہلاتا ہے وہ بھی ایسا ہوتا ہے جس کے ہر فرد کی دو تین ہزار روپیہ آمد ہوتی ہے اور غریب مزدور بھی وہاں سو سے تین سور و پیر تک کماتا ہے مگر تمہارے گاؤں کے مزدور کو تو صرف تین چار روپیہ مہینہ پڑتا ہے پس یہ کھیلیں تمہارے لئے موزوں نہیں یہ تو یورپ کے مالدار لوگوں نے اپنے بچوں کے لئے بنائی تھیں تا کہ وہ دوسرے لوگوں سے ملیں نہیں کہتے ہیں اس سے کیریکٹر بنتا ہے اور امیرانہ اخلاق پیدا ہوتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں نے بندر کی طرح ان کی نقل کرنا شروع کر دی اور اس بات کو سمجھا ہی نہیں کہ یہ کھیلیں امیر اور غریب میں تفرقہ ڈالنے والی ہیں اور طالب علم کا دماغ بالکل خراب کر دیتی اور اسے بالکل پاگل بنا دیتی ہیں.وہی طالب علم جو گاؤں کا رہنے والا ہوتا ہے کالج میں تعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو کوئی الگ مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے اور جب اپنے گاؤں میں واپس جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ لڑ کے گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں یا اپنے پڑدادا کے زمانے کا سوت لے کر اُس کا کھڈول انہوں نے بنایا ہوا ہے اور درخت کی لکڑی کاٹ کر اُس کے ساتھ کھیل رہے ہیں تو وہ ناک بھوں چڑھا لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں کس وحشی ملک میں آ گیا ہوں حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو کھیلیں گاؤں کے لوگ کھیلتے ہیں وہی اصلی کھیلیں ہیں اور ان سے بڑھ کر کوئی کھیل نہیں.ابھی میں پچھلے دنوں ایک دن سیر کے لئے دریا پر گیا تو ایک گاؤں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ دولڑکوں کے ہاتھ میں درخت کی چھڑیاں ہیں اور وہ ایک کھڈو کے ساتھ کھیل رہے ہیں.وہ کھیلتے کھیلتے روڑیوں پر بھی چلے جاتے تھے، کھیتوں میں بھی گھس جاتے تھے وٹوں میں بھی دوڑتے پھرتے تھے اور ایک اِدھر سے اس کھڈو کو سوٹی مارتا تھا اور ایک اُدھر سے.میں نے دیکھا تو کہا یہ وہ کھیل ہے جس میں سارا پھیرو چیچی شامل ہو سکتا ہے، جس میں سارا لا ہور شامل ہو سکتا ہے اور جس کے لئے کسی خاص فیلڈ کی ضرورت نہیں جہاں زمین نظر آئی کھڈو پھینکا اور کھیلنا شروع کر دیا یہ کھیلیں ہیں جو ہمارے ملک کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور یہی کھیلیں خدام الاحمدیہ کو کھیلنی چاہئیں.میں جانتا ہوں کہ ٹوپیوں والے اس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شہروں میں رہ کر ہندوستانی نہیں رہے.ان کی شکلیں بے شک ہندوستانیوں کی ہیں، ان کا رنگ بے شک ہندوستانیوں کا ہے، ان کی زبان بے شک ہندوستانیوں کی ہے، ان کے ماں باپ بے شک ہندوستانی ہیں اور ان کی بیویاں بے شک ہندوستانی ہیں مگر ان کے اندر انگریزی خون کی ایسی پرکاری بھر دی گئی ہے کہ اب وہ ہندوستانیوں کی نہیں بلکہ یوروپین لوگوں کی نقل کرنا باعث فخر سمجھتے
انوار العلوم جلد ۱۶ احمد بیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..ہیں.وہ آج بے شک اس پر فخر کر لیں مگر کل جب قوم میں بیداری پیدا ہو گی اُس وقت انہیں نظر آئے گا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں تباہ کر دی ہیں.آخر تم کرکٹ کھیل کر کس طرح زمینداروں کی راہنمائی کر سکتے ہو.ہاں رکھڈو کھیل کر تم اِن میں ضرور رہ سکتے ہو.پس کالج کا لڑکا جس کی تعلیم کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ زمینداروں کو فائدہ پہنچائے وہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے والا ہے جب تک وہ گاؤں میں جا کر زمینداروں کی سی زندگی بسر کرنے کی عادت نہیں ڈالتا ، جب تک وہ سرسوں کا ساگ اور جوار کی روٹی نہیں کھاتا ، جب تک وہ رکھڈ وکھونڈی سے کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اپنی تعلیم سے زمینداروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ پاگل خانے کا کوئی آدمی اچھے کپڑے پہن کر آ گیا ہے.دیکھو حدیثوں میں آتا ہے صحابہ ا کہتے ہیں اَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَتَكَلَّمَ النَّاسَ عَلى قَدْرِ عُقُولِهِمْ = ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہم لوگوں کی عقل کے مطابق گفتگو کیا کریں.پس لوگوں کی عقلوں کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب تم سادہ خوراک کھاؤ ،سادہ لباس پہنو، سادہ کھیل کھیلو مثلاً میروڈ بہ کھیلو یا کھڈ وکھونڈی کھیلو، انگریزی کھیلیں فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ ہندوستانیوں کے لئے موزوں نہیں یہ انگریز امراء نے اپنے بچوں کے لئے بنائی تھیں اور امیرا اور غریب میں فرق کرنے والی ہیں ان کھیلوں کا یہاں کھیلنا اپنے مُلک کے ساتھ دشمنی ہے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی دشمنی ہے.ہماری زندگی تو ایسی سادہ ہونی چاہئے کہ گاؤں والے بغیر شرم کے ہمارے پاس آ سکیں اور ہم بغیر شرم کے ان کے پاس جا سکیں.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ جو کھیلیں ہونگی وہ اس قسم کی ہونگی اور ان میں میری ہدایات کو ملحوظ رکھا جائے گا میں چاہتا ہوں کہ تم وہ کھیلیں کھیلو جو تمہاری آئندہ زندگی میں کام آئیں.مثلا گھوڑے کی سواری نہایت مفید چیز ہے.میں بچپن میں جب گھوڑے کی سواری سیکھنے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے ( آپ اُس وقت تک خلیفہ نہیں ہوئے تھے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے ) مجھے فرمایا میاں ! یوں سواری نہیں آتی گھوڑے کی سواری سیکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان پہلے گدھے پر بغیر پالان کے چڑھے جب گدھے کی سواری آ جائے تو پھر گھوڑے کی سواری خود بخود آ جاتی ہے اس کے بعد فرمانے لگے ہم نے بھی اسی طرح سواری سیکھی تھی ہم گدھے پر سوار ہوتے تھے تو وہ دولتیاں مارتا تھا اور اُچھلتا کودتا تھا ہم بھی خوب اچھلتے اور اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی کوشش کرتے اس طرح لاتیں موڑ تو ڑ کر بیٹھنے کی عادت ہوگئی کہ گدھا لاکھ اُچھلتا کودتا ہم
انوار العلوم جلد ۱۶ احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن..وہیں بیٹھے رہتے.تو گھوڑے کی سواری سے پہلے گدھے کی سواری بھی آنی چاہئے اور زمینداروں کے لئے اس میں کوئی دقت نہیں چھوٹے چھوٹے زمیندار لڑکے کھڑے ہوتے ہیں کہ پاس سے گدھا گزرتا ہے اس پر فوراً ایک ادھر سے پلا کی مار کر اُس پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اُدھر سے پلا کی مار کر اس پر چڑھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر سواری کرنے کے بعد ہنستے ہوئے اُتر جاتے ہیں مگر شہر والوں کو یہ نعمتیں کہاں میسر ہیں وہ تو جب تک کا ٹھی نہ ہو اور سدھایا ہؤا گھوڑا نہ ہو اُس پر سوار ہی نہیں ہو سکتے.بہر حال گھوڑے اور گدھے کی سواری بھی نہایت مفید چیزیں ہیں اسی طرح اور دیسی کھیلیں ہیں ان سے تمہارا جسم مضبوط ہوگا.نوکری تمہیں آسانی سے مل سکے گی گھروں کی حفاظت کر سکو گے، کوئی ڈوب رہا ہو گا تو اُس کو نکال لو گے ، آگ لگی ہوئی ہوگی تو اُس کو بجھا سکو گے ، غرض یہ کھیل کی کھیل ہے اور کام کا کام کہتے ہیں ” ایک پنتھ دو کاج اس سے بھی دونوں فائدے حاصل و سکتے ہیں کھیلوں کا فائدہ بھی اور کاموں کا فائدہ بھی.میں امید کرتا ہوں کہ باہر سے جو دوست آئے ہوئے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ صرف کھیلیں نہیں بلکہ ان میں کئی حکمتیں ہیں پس کھیلو اور خوب کھیلو اور مت سمجھو کہ یہ دنیا ہے.جو باپ اپنے بچہ کو کھیلنے نہیں دیتا وہ یاد رکھے کہ جس بچے نے کھیل میں اپنے ہاتھ مضبوط نہ کئے وہ کھیتی باڑی بھی نہیں کر سکے گا وہ بل بھی نہیں چلا سکے گا اور وہ دنیا کے اور کاموں میں بھی حصہ نہیں لے سکے گا.پس تم اپنے بچوں کو کھیلنے دو بلکہ اگر تمہارا کوئی بچہ نہیں کھیلتا تو اُسے مارو کہ تو کھیلتا کیوں نہیں ، گود نا پھاندنا، دوڑیں لگانا، تیرنا، گھوڑے اور گدھے کی سواری کرنا یہ بڑے مفید کام ہیں تم ان چیزوں کو سیکھو اور سکھاؤ اور انہیں دنیا نہ سمجھو بلکہ دین کا حصہ سمجھو.الفضل ۲ ، ۶،۴، ۷.اکتوبر ۱۹۶۰ء) کانس: انگریزی لفظ ”کارنس“ کا بگڑا ہوا.کنگی.چھجا سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۵ - مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ (مفہوماً ) سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۹۸-۹۹ - مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ رکھڈو : گیند ك كنز العمال جلد ۱۰ صفحہ ۲۴۲ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء میں یہ الفاظ آئے ہیں.اُمِرُنَا اَنْ تكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهم
انوار العلوم جلد ۱۶ عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریر عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریر نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ عراق کے حالات پر آل انڈیاریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر تقریر فرموده مورخه ۲۵ رمئی ۱۹۴۱ء بوقت ۸:۵۰ صبح) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - عراق کی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بھی اور ہندوستانیوں کے لئے بھی تشویش کا موجب ہو رہی ہے.عراق کا دارالخلافہ بغداد اور اس کی بندرگاہ بصرہ اور اس کے تیل کے چشموں کا مرکز موصل ایسے مقامات ہیں جن کے نام سے ایک مسلمان اپنے بچپن سے ہی روشناس ہو جاتا ہے.بنو عباس کی حکومت علوم وفنون کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے طبعا مسلمانوں کے لئے ایک خوشکن یادگار ہے لیکن الف لیلہ جو عربی علوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہترین دوست ہے اس نے تو بغداد اور بصرہ اور موصل کو ان سے اس طرح روشناس کر رکھا ہے کہ آنکھیں بند کرتے ہی بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی سرائیں ان کے سامنے اس طرح آکھڑی ہوتی ہیں گویا کہ انہوں نے ساری عمر انہیں میں بسر کی ہے.میں اپنی نسبت تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد اور بصرہ مجھے لندن اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میرے علم کی دیواروں کے اندر بند تھے اور ثانی الذکر میری قوتِ واہمہ کے ساتھ تمام عالم میں پرواز کرتے نظر آتے تھے.جب ذرا بڑے ہوئے تو علم حدیث نے امام احمد بن حنبل کو ، فقہ نے امام ابو حنیفہ اور امام یوسف کو ، تصوف نے جنید ، شبلی اور سید عبدالقادر جیلانی کو، تاریخ نے عبدالرحمن ابن قیم کو علم التدریس نے نظام الدین طوسی کو ، ادب نے مبر دسیبویہ، جریر اور فرزدق کو، سیاست نے ہارون، مامون اور ملک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یاد گارِ زمانہ تھے اور ہیں ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے لا کر اس طرح کھڑا کیا کہ اس
عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریر انوار العلوم جلد ۱۶ تک ان کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امیدوں سے پُر ہیں اور افکار بلند پروازیوں میں مشغول.ان کمالات کے مظہر اور ان دلکشیوں کے پیدا کرنے والے عراق میں فتنہ کے ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے دل دُکھے بغیر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابر جود نیوی نہیں روحانی رشتہ سے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہمیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے؟ عراق سنی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے وہ مقام کے لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کے قلب میں واقع ہے پس اس کا امن ہر مسلمان کا مقصود ہے آج وہ امن خطرہ میں پڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے اور وہ خاموش نہیں ہیں.دنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان اس وقت گھبراہٹ ظاہر کر رہے ہیں اور ان کی یہ گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ وہ جنگ جس کے تصفیہ کی افریقہ کے صحرا اور میڈیٹیرین کے سمندر میں امید کی جاتی تھی اب وہ مسلمانوں کے گھروں میں لڑی جائے گی.اب ہماری مساجد کے صحن اور ہمارے بزرگوں کے مقابر کے احاطے اس کی آماجگاہ بنیں گے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جرمنوں نے جن ملکوں پر قبضہ جما رکھا ہے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے اگر شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کے لئے یہ خطرہ پیدا نہ ہوتا..اس فتنہ کے نتیجہ میں ترکی گھر گیا ہے، ایران کے دروازہ پر جنگ آ گئی ہے، شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے، عراق جنگ کی آماجگاہ ہو گیا ہے، افغانستان جنگ کے دروزاہ پر آ کھڑا ہوا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ مقامات جو ہمیں ہمارے وطنوں ، ہماری جانوں اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں جنگ عین اُن کی سرحدوں تک آ گئی ہے.وہ بے فصیلوں کے مقدس مقامات، وہ ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل لٹک رہے ہیں اب بم باروں اور جھپٹانی طیاروں کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہوا ہے کیونکہ ان کی اس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات سے سینکڑوں میل پرے تھی.ان حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام میں جرمنی اور اٹلی کی فوجیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیں ہوئیں اگر خدانخواستہ بڑی تعداد میں فوجیں یہاں داخل ہو گئیں تو یہ کام آسان نہ رہے گا.جنگ کی آگ سرعت کے ساتھ عرب
انوار العلوم جلد ۱۶ کے صحرا میں پھیل جائے گی.عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریر اس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید علی صاحب یا مفتی یروشلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا جا سکتا ، انہیں غدار کہہ کر ہم اس آگ کو نہیں مجھا سکتے.میں شیخ رشید صاحب کو نہیں جانتا لیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر واقف ہوں میرے نزدیک وہ نیک نیست آدمی ہیں اور اُن کی مخالفت کی یہ وجہ نہیں کہ اُن کو جرمنی والوں نے خرید لیا ہے بلکہ اُن کی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو وعدے اتحادیوں نے عربوں سے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے.ان لوگوں کو بُرا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان کے واقف اور دوست اشتعال میں آجائیں گے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنے تجربے کی بناء پر دیانتدار سمجھتا ہے تو جب کوئی اس دوسرے شخص بددیانتی کا الزام لگائے تو خواہ جس فعل کی وجہ سے بددیانتی کا الزام لگایا گیا ہو بُرا ہی کیوں نہ ہو چونکہ اس پہلے شخص کے نزدیک وہ فعل بد دیانتی کے باعث سے نہیں ہوتا وہ اس الزام کی وجہ سے جسے وہ غلط خیال کرتا ہے اس دوسرے مجرم شخص سے ہمدردی کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے افعال میں شریک ہو جاتا ہے.پس ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جو عالم اسلامی میں شیخ رشید اور مفتی یروشلم سے حُسنِ ظنی رکھتے ہیں ٹھو کر اور ابتلاء سے بچانے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقع پر اپنی طبائع کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات کہیں اس میں صرف اصلاح کا پہلو مد نظر ہو، اظہار غضب مقصود نہ ہوتا کہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں.یادر ہے کہ اس فتنہ کے بارہ میں ہمارے لئے اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ شیخ رشید علی صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ فعل اسلامی ملکوں اور اسلامی مقدس مقامات کے امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب ہوا ہے.ہمیں ان کی نیتوں پر حملہ کرنے کا نہ حق ہے اور نہ اس سے کچھ فائدہ ہے اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دبانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں تا کہ جنگ، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دُور رہے اور ترکی ، ایران، عراق اور شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں.یہ وقت بحثوں کا نہیں، کام کا ہے اس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالم اسلام کو پیش آنے والا ہے تا کہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور جو قربانی بھی اس سے ممکن ہو ا سے پیش
عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریر انوار العلوم جلد ۱۶ کر دے.جنگ کے قابل آدمی اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں، روپیہ والے لوگ روپیہ سے امداد دیں، اہلِ قلم اپنی علمی قوتوں کو اس خدمت میں لگا دیں اور جس سے اور کچھ نہیں ہو سکتا وہ کم سے کم دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ سے اسلامی ملکوں کو محفوظ رکھے اور ہمارے جن بھائیوں سے غلطی ہوئی ہے ان کی آنکھیں کھول دے کہ وہ خود ہی پشیمان ہو کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے میں لگ جائیں.میرے نزدیک عراق کا موجودہ فتنہ صرف مسلمانوں کے لئے تازیانہ تنبیہہ نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام اقوام کے لئے تشویش اور فکر کا موجب ہے کیونکہ عراق میں جنگ کا دروازہ کھل جانے کی وجہ سے جنگ ہندوستان کے قریب آ گئی ہے اور ہندوستان اب اِس طرح محفوظ نہیں رہا جس طرح پہلے تھا.جو فوج عراق پر قابض ہے عرب یا ایران کی طرف سے آسانی سے ہندوستان کی طرف بڑھ سکتی ہے پس ہندوستان کی تمام اقوام کو اس وقت آپس کے جھگڑے بھلا کر اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت کی امداد کرنی چاہئے کہ یہ اپنی ہی امداد ہے.شاید شیخ رشید علی جیلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میں عربوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی مگر ہوا یہ کہ عرب جو پہلے ترکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب چار پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں بیشک انگریزوں نے عراق کو ایک حد تک آزادی دی ہے مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ کی تھیں اگر اس غلطی کے ازالہ کا عہد کر لیا جائے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہو کر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزا د ر کھنے کی کوشش کرے گی اور بالواسطہ طور پر اس کا عظیم الشان فائدہ انگریزی حکومت کو بھی پہنچے گا.اس جنگ کے بعد پولینڈ اور زیکو سلواکیہ کی آزادی ہی کا سوال حل نہیں ہونا چاہئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا بھی سوال حل ہو جانا چاہئے جس میں سے اگر یمن ، حجاز اور نجد کو الگ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر شام ، فلسطین اور عراق کو ایک متحد اور آزاد حکومت کے طور پر ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہئے.انصاف اس کا تقاضا کرتا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اس انصاف کے تقاضا کو پورا کر کے برطانوی حکومت آگے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی.الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۱ ء )
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت اللہ تعالی ، خاتم النبیین اور امام وقت نے مسیح موعود کو رسول کہا ہے از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اصبح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت نے مسیح موعود کو رسول کہا ہے (تحریر فرمود و حضرت خلیفۃالمسیح الثانی) مولوی محمد علی صاحب نے میرے مولوی محمد علی صاحب میرے خطبہ کے جواب میں خطبہ مطبوعہ الفضل ۱۸ جون ۱۹۴۱ء کے جواب میں ایک مضمون شائع کیا ہے میں نے اس کے ایک حصہ کا جواب اپنے ۲۴ / جولائی کے خطبہ میں دیتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ میں مولوی صاحب کے مضمون کا بقیہ حصص کا جواب اِنْشَاءَ اللہ الگ مضمون کی صورت میں دوں گا سو اس وعدہ کا ایفاء میں آج اس من مضمون کے ذریعہ سے کرتا ہوں.مولوی صاحب اپنے مضمون کے شروع میں رفاقت کہاں رہی اور فخر کس بات کا میرے خطبہ کے مطبوعہ عنوان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اس خطبہ کا عنوان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے متعلق اللہ تعالیٰ آنحضرت صلعم ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت“ اور ” میں اس رفاقت پر جس قدر بھی فخر کروں بے جانہ ہوگا“ اے کاش ! مولوی صاحب سنجیدگی سے یہ فقرہ تحریر فرماتے تو ہمارے دل خوشی سے بھر جاتے اور پھر پُرانے زمانہ کی رفاقت تازہ ہو جاتی مگر افسوس کہ انہوں نے صرف تمسخر کے طور پر یہ فقرہ تحریر فرمایا ہے ورنہ ان کا منشاء یہ
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ نہیں کیونکہ اس عنوان کا مطلب تو یہ ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اور ایک زمانہ میں خود جناب مولوی محمد علی صاحب نے بھی مسیح موعود کو نبی ہی قرار دیا ہے.اگر مولوی صاحب واقعہ میں اس رفاقت پر فخر کرتے ہیں تو اب بھی اعلان کر دیں کہ میں مسیح موعود کو نبی سمجھتا ہوں لیکن اگر اب وہ آپ کو نبی نہیں سمجھتے تو رفاقت کہاں رہی اور فخر کس بات کا.وہ تو اُس شخص کو جو دعویٰ نبوت کرے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی غیر تشریعی کلمہ گو اسلامی شریعت کے محافظ نبی کی آمد کا اقرار کرے کافر، دشمن اسلام اور خاتم النبین کا منکر قرار دیتے ہیں.اور اگر اس عنوان کا مضمون درست ہے تو وہ تو (خدا تعالیٰ انہیں تو بہ کی توفیق دے) اللہ تعالیٰ جل جلالہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ فِدَاهُ نَفْسِى وَرُوحِى، بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام ايَّدَهُ اللهُ بِنَصْرِہ اور خود ۱۹۰۸ء کے پہلے کے مولوی محمد علی صاحب کو خطرناک سے خطرناک الفاظ سے یاد کرنے والے ٹھہرتے ہیں ان تینوں کی رفاقت تو اِن مولوی محمد علی صاحب کو حاصل ہے جو ۱۹۰۸ ء سے پہلے رسالہ ریویو میں انہی کے مطابق خیال ظاہر کیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی اور رسول کہہ کر پکارا کرتے تھے مگر اس مضمون کے مولوی محمد علی صاحب تو وہ ہیں جو اس خدا کی معیت کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کہتا ہے ، اس خاتم النبیین کی معیت کو جو مسیح موعود کو نبی کہتا ہے ، اُس امام وقت کی معیت کو جو مسیح موعود کو نبی کہتا ہے بلکہ اس مولوی محمد علی صاحب کی معیت کو جو ۱۹۰۸ ء سے پہلے ریویو آف ریلیجنز کا ایڈیٹر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی اور رسول لکھتا تھا ایک قابل نفرت اور حقارت بات تصور فرماتے ہیں حتی کہ ان کے اس فعل کو دیکھ کر اس مادی دنیا سے دور اور روحانی عالم کی فضاؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک پرانی رفاقت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ جناب مولوی صاحب آگے چل کر شکایت فرماتے ہیں غیر مبائعین کو پیغامی کیوں لکھا کہ میں نے غیر مبائعین کو پیغا می کیوں لکھا ہے اور اس کا نام ” قادیانی خوش کلامی رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ موزوں بھی یہی ہے کہ جس اسلام کے ہم پیرو اور مبلغ کہلاتے ہیں اس کی تعلیم کا کوئی نمونہ بھی دنیا کو دکھایا جائے.پھر فرماتے ہیں کہ میاں صاحب کی اولوالعزمی ہے کہ باوجود لَا تَنَابَزُوا بِالا لقَابِ کی طرف توجہ دلانے کے وہ
66 اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ اس نام سے ہمیں یاد کرتے ہیں حالانکہ نہ ہم نے اپنا یہ نام رکھا ، نہ دنیا میں ہم اس نام سے مشہور ہیں اور اس سے ان کی غرض اپنے مُریدوں کے دلوں میں ہمارے لئے تحقیر پیدا کرنا ہے.کے کاش! مولوی صاحب ان الفاظ کو تحریر فرمانے سے پہلے اپنے گھر پر نظر ڈال لیتے اور حقیقت حال کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے.یہ امر ظاہر ہے کہ احمدی کہلانے والے دو گروہ اس وقت موجود ہیں اور دونوں ہی لوگوں میں معروف ہیں ان میں اختلاف بھی ہے اور ایک دوسرے کے بعض عقائد اور افعال سے وہ اپنے آپ کو بری بھی قرار دینا چاہتے ہیں اس ضرورت کے ماتحت جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کو بار بار غیر احمدیوں میں یہ لٹریچر شائع کرنا پڑتا ہے کہ ” قادیانی لوگ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور ہم انجمن احمد یہ اشاعت اسلام والے ایسے عقیدہ کو کفر قرار دیتے ہیں اسی طرح ہم لوگوں کو بھی اس عقیدہ سے براءت کرنی پڑتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب ترقیات کو روکنے والے تھے اور قطعی وحی کا دروازہ بند کرنے والے تھے اور یہ کہ مسیح موعود اپنے درجہ اور مقام میں پہلے مسیح سے کم ہیں بلکہ سب نبیوں سے کم ہیں گویا جو کچھ ہے پہلا مسیح ہے دوسرا کچھ بھی نہیں اب ہم دونوں فریق احمدی کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کر کے پیش کرتے ہیں.لازماً اس مجبوری کی وجہ سے ہمیں کوئی علامت ایسی بیان کرنی پڑتی ہے جس سے دوسرے فریق کو سمجھایا جا سکے اور بولنے والے شخص اور مشار الیہ شخص میں کوئی امتیاز قائم ہو جائے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کبھی تو ہم اپنے آپ کو مبائع احمدی اور مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کو غیر مبائع احمدی کہتے اور لکھتے ہیں اور کبھی ہم اپنے آپ کو قادیان سے تعلق رکھنے والے احمدی اور آپ لوگوں کو لاہور سے تعلق رکھنے والے احمدی بھی لکھتے رہے ہیں.اس پر لاہور کی مبائع جماعت نے اعتراض کیا کہ لاہور میں نہ غیر مبائعین کا زور ہے نہ اکثریت.اکثریت تو ہماری ہے اس طرح دھوکا لگتا ہے پس ان کو لاہوری یا لا ہور سے تعلق رکھنے والے نہ کہا جائے تب بعض لوگوں نے بطور شناخت آپ لوگوں کو پیغا می لکھنا شروع کر دیا.اور بعض دفعہ یہ لفظ میں بھی استعمال کر لیتا ہوں اس میں گالی یا سب و شتم یا استہزاء یا تَنَابُزِ بِالَا لَقَابُ کا کیا دخل ہے.کیا پیغام کوئی گندہ لفظ ہے یا اس سے مخفی اشارہ کسی اور تعلق کی نفی کا نکلتا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو یہ بُرا لگتا ہے اگر ایسا ہے تو آپ اظہار فرما دیں ہم اس سے حتی الوسع اجتناب کرینگے.جہاں تک مجھے معلوم ہے پیغام کا لفظ کسی خاص بُرے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا اور نہ اس تعلق سے ضمنا یا اشارہ کسی اور تعلق کی نفی کا مفہوم نکلتا ہے سوائے اس کے کہ یہ مضمون نکلتا ہے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ کہ یہ لوگ پیغام کے بالمقابل اخبار الفضل“ سے تعلق نہیں رکھتے اور یہ مفہوم کوئی بُرا مفہوم نہیں کہ اس پر بُرا منایا جائے.خلاصہ کلام یہ کہ یہ لفظ تحقیر اور تذلیل کے لئے نہیں بلکہ ایک امتیازی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری نیت اِس سے ہرگز کسی بُرے مفہوم کی طرف اشارہ کرنے کی نہیں ہوتی اور ہو بھی کیا سکتی ہے جب کہ پیغام کسی گندی یا مکروہ یا قابل تحقیر چیز کا نام نہیں ہے.جناب مولوی صاحب جو اس زور شور سے مجھے مولوی محمد علی صاحب اور لَا تَنَابَزُوا بِالا نصاب کا مخاطب اور بُرا نمونہ دکھانے کا مجرم قرار دیتے ہیں خود اسی مضمون میں ہم کو ” قادیانی لکھتے ان کے رفقاء کا طریق عمل ہیں جیسا کہ ان کے الفاظ ” قادیانی خوش کلامی سے ظاہر ہے.اور پھر ان کے مضمون کے حاشیہ میں بھی ہمیں قادیانی لکھا گیا ہے.( نہ معلوم ان کی طرف سے یا وہ پیغام کی طرف سے ) خودمولوی صاحب کے دل میں بھی یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ جس امر کا الزام دیتا ہوں اس سے بڑے جرم کا میں اور میرے دوست مر تکب ہیں اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہم کو پیغامی کہا جاتا ہے حالانکہ نہ ہم نے کبھی اپنا وہ نام رکھا نہ دنیا میں ہم اس نام سے مشہور ہیں، اور اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر لوگوں میں کوئی نام مشہور ہو جائے تو اس نام سے پکارنا معیوب نہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یو، پی وغیرہ کی طرف احمدیوں کو قادیانی کہا جاتا ہے اس لئے قادیانی کہنا کوئی معیوب امر نہیں.مگر مولوی صاحب نے یہ خیال نہیں کیا کہ اول تو یو، پی وغیرہ میں سب احمدیوں کو قادیانی کہا جاتا ہے نہ کہ صرف ان احمدیوں کو جو بیعت خلافت میں شامل ہیں اور آج اس کا استعمال شروع نہیں ہوا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے آپ پر ایمان لانے والوں کو قادیانی کہا جاتا تھا.پس ان لوگوں کے محاورہ میں قادیانی کے لفظ سے ہم ہی لوگ مراد نہیں بلکہ اس میں مولوی صاحب اور ان کے رفقاء بھی شامل ہیں ان کی مراد تو قادیانی سے مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کے مُرید ہیں.کیا مولوی صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کا مرید سمجھتے ہیں یا نہیں؟ اگر سمجھتے ہیں تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ہمارا امتیازی نام نہیں بلکہ ہر احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے یو، پی میں یہی نام ہے جس طرح پنجاب میں تمام احمدیوں کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے
انوار العلوم جلد ۱۶ ، اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت ”مرزائی مشہور ہے.کیا وہ اسے پسند کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے افراد کو خواہ مبائعین میں سے ہوں یا مولوی صاحب کے رفقاء میں سے ہوں احمدی کی جگہ قادیانی یا مرزائی کہا جائے ؟ اگر نہیں تو ہماری جماعت کو اس نام سے پکارنا کیا لَا تَنَابَزُوا بالا نقاب کے حکم کے ماتحت نہیں ؟ اور لقَابِ اگر وہ اسے بُر انہیں سمجھتے تو پھر احمدی کہلانے کی ان کو ضرورت نہیں.یوپی میں قادیانی اور پنجاب میں مرزائی نام عوام کی زبان پر بلکہ بہت سے خواص کی زبان پر جاری ہو چکا ہے مولوی صاحب کا لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ کی آیت مجھے سنانے کی بجائے اپنے دوستوں کو سنانی چاہئے کیونکہ ہم تو اگر پیغامی یا غیر مبائع ان کو کہتے ہیں تو پھر بھی اس سے پیغامی احمدی یا غیر مبائع احمدی مراد لیتے ہیں لیکن ان کے رفقائے کار کی حالت مندرجہ ذیل حوالہ سے ظاہر ہے.پیغام صلح ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۱۷ء کے صفحہ۲ پر لکھا ہے معلوم نہیں ”الفضل“ کو یہ کس نے بتا دیا کہ ہم نے کبھی ان بھیڑوں کے قائمقام ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے جو اپنی عقل و فہم کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تکمیل ایک شخص کے ہاتھ میں دے چکے ہیں.اور نہ قرآن حدیث سے انہیں واسطہ ہے اور نہ حضرت مسیح موعود کی تعلیمات سے.”الفضل“ کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ہم نے کبھی ایسے لوگوں کے قائم مقام ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہم ان کو احمدی کہہ کر پکارتے ہیں.ان کا نام محمودی ہے احمدی نہیں میں جناب مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ یہ تو آپ کے نزدیک لَا تَنَابَزُوا بِالالْقَابِ کے خلاف نہ ہوگا اور یقیناً یہ کلمات آپ اور آپ کے رفقاء کی اولوالعزمی‘ پر دلالت کرتے ہونگے.اور جس اسلام کے آپ پیرو اور مبلغ کہلاتے ہیں اس کی تعلیم کا کوئی اچھا سا نمونہ دنیا کو دکھانے کے لئے لکھے گئے ہونگے کیا یہی وہ اسلامی نمونہ ہے جو آپ پیش کرتے ہیں اور تمام احمدی جماعت جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں صحابہ بھی شامل تھے ان کا نام بھیٹرمیں رکھ کر اور پھر ان کے ناکوں میں تکمیلیں دے کر کس طرح لَا تَنَابَزُوا بِالالْقَابِ کے حکم پر عمل فرماتے ہیں؟ آپ غصہ میں آکر اس کا یہی جواب دیں گے کہ بعض الفاظ جو ہماری جماعت کی طرف سے جواباً لکھے گئے ہوں انہیں پیش کریں.لیکن یادر ہے کہ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ اَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ اگر ایسے الفاظ جو جوابی طور پر لکھے گئے ہوں آپ پیش بھی کر دیں تو سوال یہ باقی رہ جاتا ہے.کہ لَا تَنَابَزُوا بِالَا لَقَابِ کا طعنہ دیتے وقت آپ کو اپنے اور اپنے رفقاء کی اصلاح کا تو خیال رکھنا چاہئے تھا.جس چیز کو آپ گناہ قرار
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.دیتے ہیں اُس میں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں ملوث ہوئے اور کیوں آپ نے اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو نصیحت نہ کی؟ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم آپ کو پیغامی کہیں یا غیر مبائع ، ساتھ ہی احمدی بھی کہتے ہیں.لیکن آپ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ نہ ہم ان کو احمدی کہہ کے پکارتے ہیں.ان کا نام محمودی ہے احمدی نہیں.“ پھر مولانا! آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا نام کفار میں صابی مشہور تھا.جب کوئی مسلمان ہوتا تھا تو لوگ کہتے تھے فلاں شخص صابی ہو گیا ہے.کیا دشمنوں میں اس شہرت کی وجہ سے مسلمان کو صابی کہنا درست ہوگا؟ کاش ! آپ غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ لوگوں میں کسی نام سے کسی کا مشہور ہو جانا دوسروں کو یہ حق نہیں دے دیتا کہ وہ اسے اس نام سے پکاریں.اصل سوال تو یہ ہوتا ہے کہ اس نام سے پکارنے کی کوئی خاص وجہ ہے اور کیا اس نام میں کوئی سیکی یا تحقیر کا پہلو تو نہیں اور اگر آپ غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہو جا تا کہ پیغامی نام محض امتیازی ہے اور پیغام کا لفظ ہر گز گالی نہیں.لیکن محمودی کا لفظ یقینا گالی ہے کیونکہ اس سے آپ کے رفقاء کا (جیسا کہ حوالہ اوپر آچکا ہے ) اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ احمدی نہیں ہیں ہاں اگر آپ امتیاز کے طور پر ہمارے لوگوں کو بدلہ لینے کے لئے ” الفضلی“ کہیں تو یہ صحیح جواب ہوگا اور اس کی کوشش آپ کی جماعت کر بھی چکی ہے مگر چونکہ اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی اس لئے وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ بعض لوگ کبوتر کی مولوی محمد علی صاحب اور بلّی کا محاورہ طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم محفوظ ہو گئے ہیں مولوی صاحب اس کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ابھی ابھی مولانا غلام حسن صاحب اور صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب (دوکبوتروں ) کی گردن مروڑ چکے ہیں کیونکہ ان بزرگوں کے عقیدے اب تک وہی ہیں جو ہمارے ہیں مگر عقائد کی طرف سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور قادیانیت کی بلی کا شکار ہو گئے، کے مولوی صاحب کو اس سے خوشی تو بہت ہوئی ہو گی کہ مولوی غلام حسن صاحب اور صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب کو اگر بحث اور مباحثہ میں نقصان نہیں پہنچا سکے تو کم سے کم اپنے مضمون میں ان بزرگوں کی گردن مروڑ نے کا فقرہ استعمال کر کے اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا لی گئی.
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ اور قادیانیت کی بلی" کا لفظ استعمال کر کے بھی دل ٹھنڈا کر لیا مگر یہ امور انسانوں کی نگاہ میں تو مزے دار جواب کہلا سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں یہ امور ناپسندیدہ ہیں مگر مولوی صاحب کو میں کیا نصیحت کروں کہ اس سے بڑھ کر ان کے پاس نصیحت موجود ہے یعنی وہ قرآن کریم کے مفسر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پاچکے ہیں مگر باوجود اس کے کہ وہ جناب مولوی غلام حسن صاحب کو خلیفہ اسی تجویز کر چکے ہیں اور ان کے اخبار ”پیغام صلح ، میں انہیں خلیفۃ امسیح لکھا جاتا رہا ہے.چنانچہ پیغام صلح ۱۹ ؍ دسمبر ۱۹۱۷ء میں جو ان کی انجمن کے سالانہ جلسہ کا پروگرام چھپا ہے اس میں جناب مولوی غلام حسن صاحب کے مضمون کا یوں اعلان کیا گیا ہے.حضرت خلیفہ المسیح مولا نا مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری“ آج وہ جناب مولوی صاحب کی نسبت گردن مروڑنے کی پھبتی اُڑاتے ہیں.اس کا علاج تو اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.جناب مولوی محمد علی صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بلی کا محاورہ ان کا پرانا محاورہ ہے.آج میری ایک تمثیل پر ہی انہیں یہ پھبتی نہیں سوجھی بلکہ اس سے پہلے بھی دوسروں کو بلی بنانے کا شوق وہ پورا کرتے رہے ہیں.چنانچہ پیغام صلح ۳۰ جولائی ۱۹۴۰ء میں میرے خطبہ سے ایک سال پہلے جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے.جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ حکیم عبدالعزیز بار بار خلیفہ صاحب کو مباہلہ کا چیلنج دے رہے ہیں.”اور ان کے مقابلہ میں خلیفہ صاحب بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں“ کیا میں اس پر کہہ سکتا ہوں کہ ائے اسلام کے پیرو اور مبلغ اسلام بلکہ مفسر قرآن کریم آپ کا یہ فقرہ کس طرح اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کر رہا ہے.دوسرے کی ایک مثال پر اس قدر غم وغصہ کا اظہار ہے مگر خود یہ حالت ہے کہ اپنے شیر حکیم عبدالعزیز کے سامنے بلی نہیں بلکہ بھیگی بلی بنا کر مجھے بٹھا دیا ہے اور خود اس نظارہ کا لطف اٹھا رہے ہیں.ناظرین دیکھ چکے ہیں کہ جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان مولوی محمد علی صاحب اور کے رفقاء کے نزدیک جماعت احمدیہ کے تمام افراد بھیٹر میں ان کے رفقاء کی گوہر افشانی ہیں.( جو ایک نجاست خور جانور ہے ) اور بھیڑ میں بھی ایسی کہ وہ عقل و خرد کو بالائے طاق رکھ چکی ہیں اور ان سب کے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.ناکوں میں نکیل پڑی ہوئی ہے اور ان کا امام ایک بلی ہے اور وہ بھی بھیگی ہوئی اور وہ بھیڑ میں تو اپنے امام کے ہاتھ میں نکیلیں دے کر بے بس ہو کر بیٹھی ہوئی ہیں اور امام خود بھیگی بلی بن کر مولوی صاحب کے شیر حکیم عبدالعزیز کے سامنے بے کس ہو کر دی کا بیٹھا ہے گویا یہ ساری کی ساری جماعت جانوروں کی شکل میں جناب مولوی صاحب کے ایک ہی بہادر جرنیل کے آگے اس طرح دیکی بیٹھی ہے کہ اسے تاپ مجال نہیں ہے.مگر اسی پر بس نہیں مولوی صاحب بقول خود اسلامی تعلیم کے اور بھی کئی نمونے پیش فرماتے ہیں اور خوش کلامی کی مثالیں بہم پہنچاتے ہیں.چنانچه ۳۰ / جولائی ۱۹۴۰ء کے پرچہ میں میری نسبت تحریر فرماتے ہیں اللهُ اَكْبَرُ یہ کیسا ظالم انسان ہے 3 پھر اور گوہر افشانی ملاحظہ ہو ۱۷ جنوری ۱۹۳۸ء کے پیغام میں تحریر فرماتے ہیں.دعاؤں کو ہم کیا کریں دعائیں تو حضرت نوح نے بھی اپنے بیٹے کے متعلق بہت کی تھیں، اس فقرہ سے اس قدر کا بھی علم ہو جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی مولوی صاحب کے دل میں ہے.دعاؤں کو ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو ) ہم کیا کریں.اس جملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کسی گہری عقیدت کا اظہار، کس ایمان کا مظاہرہ ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس عقیدت کے بعد مجھے تو کسی امید رکھنے کی گنجائش ہی نہیں.پھر مجھے کیا شکوہ کہ مولوی صاحب نے مجھے ابن نوح قرار دیا ہے اور یہ ایک دفعہ نہیں کہا گیا بلکہ مولوی صاحب کے رفقاء دیر سے اس لفظ کا استعمال کرتے چلے آئے ہیں.مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کے اس خروار میں سے ایک اور لطیف دانہ بھی قابل ملاحظہ ہے.آپ فرماتے ہیں ”میاں صاحب خوب یاد رکھیں کہ انہوں نے اپنے لئے جو فرضی خلافت تجویز کی ہے اس کی مثال انہیں خلفائے راشدین میں نہیں ملے گی بلکہ اگر ملے گی تو صرف باطنیہ فرقہ میں ملے گی جنہوں نے قتل وغارت اور ہر قسم کے فسق و فجور کو جائز کرنے کے لئے یہ دروازہ کھولا تھا اور آج میاں صاحب یہ کہہ کر کہ مجھ پر سچا اعتراض کرنے والا بھی جہنم میں جائے گا حسن بن صباح کی پیروی کر رہے ہیں، اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب ہماری جماعت کو باطنی فرقہ کے مشابہ اور مجھے حسن بن صباح اور قتل وغارت اور فسق و فجور کو جائز کرنے والا قرار دیتے ہیں مگر ان کے نزدیک یہ گالی نہیں ، یہ تنابز بالا نقاب نہیں، یہ اسلام کی پیروی اور اس کے مبلغ ہونے کے خلاف نہیں ،
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.یہ اسلام کی تعلیم کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ایک مفسر قرآن کی شان کے عین مطابق.ان مبلغین اسلام کے اسلامی تعلیم کے نمونوں میں سے وہ نمونہ بھی قابل توجہ ہے جو مولوی محمد علی صاحب کی انجمن کے ایک مبلغ سید اختر حسین صاحب نے دکھایا ہے.انہوں نے ،، ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ' قادیانی خلیفہ محمد رسول اللہ صلعم کا بدترین دشمن ہے.‘، ۳ کیا ہی اعلیٰ درجہ کا یہ اخلاقی نمونہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کو کس قدر بڑھانے والا مضمون ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل، عتبہ، شیبہ پیدا ہوئے اور انہوں نے سخت سے سخت مخالفتیں کیں لیکن وہ بدترین دشمنی کا نمونہ پیش نہ کر سکے ، ابولہب بھی اس سے قاصر رہا اس کے بعد ہزاروں دشمن پیدا ہوئے پادریوں میں سے فنڈ ر، ہندوستان میں آتھم ، فتح مسیح اور وارث وغیرہ لوگ پیدا ہوئے.ہندوؤں میں سے لیکھر ام اور مصنف ”رنگیلا رسول“ لوگ پیدا ہوئے مگر اسلام کو بدترین دشمن نہ ملا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا کیا تا کہ ان کے نطفہ سے وہ شخص پیدا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدترین دشمن ثابت ہوا اور باوجود اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر بھی دے دی کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور آپ کے ادب کی یہ ایک عمدہ مثال ہے.دو مگر اسی پر بس نہیں مولوی صاحب کے بعض رفقاء نے مجھے یزید کے لقب سے یاد فرمایا اور بعض احمدی دوستوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو مولوی صاحب نے ان کے زخم دل پر ان الفاظ میں مرہم رکھا کہ باقی رہا یہ کہ کسی نے میاں صاحب کو یزید سے مشابہت دے دی تو یہ کوئی گالی نہیں یزید بھی تو اُولُو الامر میں سے تھا ہر سمجھدار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ جواب کیسا معقول ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب کو اس لئے کہ وہ امیر کہلاتے ہیں اور اولو الامر کا دوسرا نام عربی میں امیر ہے کوئی شخص یزید کہے تو یقینا وہ اس پر خوش نہ ہوں گے اور یہ نہ فرمائیں گے کہ یزید بھی اُولُو الا مر تھا اور میں بھی بوجہ امیر جماعت ہونے کے اُولُو الامر ہوں اس لئے یہ گالی نہیں بلکہ صرف میری شان کا اظہار ہے.یه تمسخر مولوی صاحب نے مجھ سے نہیں کیا بلکہ ان تمام انبیاء سے جن کو خدا تعالیٰ نے مأمور کیا تھا ان سے کیا ہے اور خلفائے راشدین سے بھی کیا ہے کیونکہ حضرت موسی بھی اُو لُو الامر تھے ،
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُولُو الامر تھے ، حضرت ابوبکر بھی اُولُو الامر تھے ، حضرت عمرؓ بھی اُولُو الامر تھے ، حضرت عثمان بھی اُولُو الامر تھے اور حضرت علی بھی اُولُو الامر تھے.اگر کسی شخص کے اُولُو الا مر ہونے کی وجہ سے یزید کا نام اس کے لئے استعمال کرنا کوئی شخص جائز سمجھتا ہے تو وہ اپنی عاقبت کو خراب کرتا ہے.اور ان کو گالی دیتا ہے جن کے آگے خدائے قہار بطور ڈھال کھڑا ہے.مولوی صاحب نے جن رفقائے کار کے اوپر والے اسلامی نمونہ کی تشریح فرمائی ہے مضمون نامکمل رہے گا اگر میں ان کی تحریروں کے بعض اقتباس بھی پیش نہ کروں.ان کی انجمن کے ایک معزز رکن اور مدعی الہام مولوی محمد یامین صاحب دا توی تھے انہوں نے اس مضمون پر دارالخلافہ دمشق ( یعنی قادیان موجودہ ) کے عنوان کے نیچے یوں خامہ فرسائی فرمائی ہے.” بے شک قادیان دمشق ہے اور قادیان کے پیدا شدہ اکثر یزیدی ہیں اور جہاں یزیدی ہوں وہاں ایک خلیفہ یزید کا ہونا بھی ضروری ہے اور الہامات پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ جس طرح شامی دمشق میں دوسرا خلیفہ یزید تھا یہاں بھی اس دمشق میں دوسرا ہی خلیفہ یزید از روئے حدیث نبوی و الہام مسیح موعود اور واقعات چشم دید سے کہلایا.اور جس طرح پہلے یزید کا باپ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھا.خلیفہ تھا ایسا ہی یزید ثانی کا باپ بھی خلیفہ ہی تھا.اور جس طرح پہلے یزید کی خلافت میں ایک خلیفہ (علی) کے بیٹے کی جان ضائع ہوئی ویسے ہی اس خلافت کے ایام میں بھی ایک خلیفہ برحق کے بیٹے کی جان ضائع ہوئی..1766 اس حوالہ سے مندرجہ ذیل امور ظاہر ہیں :- اول.لکھنے والے کے نزدیک اکثر باشندے قادیان کے (اور یہ احمدی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہی یہاں کی اکثریت ہیں ) یزیدی ہیں.ہاں مضمون نگار نے اکثر کا لفظ استعمال فرما کر اپنے اعلیٰ اخلاق کو قائم رکھنے کے لئے غیر احمد یوں، ہندوؤں اور سکھوں کو مستی کر لیا ہے تا ان کے حق میں بے انصافی نہ ہو جائے.دوم.احمدیوں کا خلیفہ دوم یزید ثانی ہے.سوم.اس نے ایک خلیفہ برحق (یعنی حضرت خلیفہ اول) کے ایک لڑکے کو مروا دیا.(یعنی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.عزیزم عبد الحی مرحوم کو جو ٹائیفائڈ سے فوت ہؤا.) چہارم.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے اُموی خلیفہ معاویہ کے مثیل تھے.اور دوسرا اُموی خلیفہ ان کا بیٹا یزید ثانی ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ کا مثیل اور خلیفہ قرار دے کر اس پر نوٹ لکھا ہے کہ :- اگر چہ اب انجمن نبی سازان قادیان نے مرنے کے بعد ان کو نبی بنا دیا ہے.“ یعنی یزید ثانی کا باپ ہونے کے لحاظ سے ان کے معاویہ کا مثیل اور خلیفہ ہونے کا ثبوت ظاہر اور باہر ہے.ان کو نبی قرار دینا قادیان کے نبی ساز لوگوں کی کارستانی ہے ورنہ یزید اول کا باپ اگر خلیفہ تھا تو یزید ثانی کا باپ نبی کیونکر ہوسکتا ہے؟ اللہ اللہ ! میری دشمنی میں یہ لوگ کس قدر بڑھ گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درجہ ابو یزید اور معاویہ کا سا قرار دیتے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ کی خلافت کو ملوکیت قرار دیا ہے اور خلفائے راشدین سے خارج کیا ہے.ہاں اس شخص کے نزدیک حضرت مولوی نور الدین صاحب علی کی طرح خلیفہ تھے گو یہ تشریح نہیں کی کہ معاویہ اور یزید کے درمیان علی کس طرح آدھمکا اور نہ یہ بتایا ہے کہ اگر حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی خلیفہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی خلیفہ تھے تو پھر یہ یزید ثانی دوسرا خلیفہ کیونکر ہو گیا.جیسے کہ لکھا ہے:- یہاں بھی اس دمشق میں دوسرا ہی خلیفہ یزید اور از روئے 66 حدیث والهام مسیح موعود اور واقعات چشم دید سے کہلایا.“ اگر حضرت مولوی صاحب خلیفہ تھے تو پھر تو میں تیسرا خلیفہ قرار پاتا ہوں اور ساری دلیل جس پر بنیاد مضمون کی رکھی گئی ہے باطل ہو جاتی ہے.اس ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معاویہ اور آپ کے خادم اور شاگرد کو جس کی ساری عزت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں تھی علی قرار دیا گیا ہے.اور پھر اس کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گو حضرت معاویہ کی نسبت یہ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں وہ باغی اور طافی تھے اور لکھا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وَ مَنْ قَاتَلَهُ فِي وَقْتِهِ فَبَغِی و طغی کا یعنی جو لوگ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں آپ کے مقابلہ پر لڑتے رہے وہ
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ اس زمانہ میں ضرور باغی اور طافی تھے پس معاویہ کی مشابہت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گویا کسی وقت باغی اور طاغی رہے تھے.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِکَ.جناب مولوی محمد علی صاحب کے اس طرح ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونکنے کا کیا نتیجہ نکلا ؟ وہ مندرجہ ذیل حوالہ سے ظاہر ہے جب مولوی صاحب نے اپنے رفقاء کی اس گالی گلوچ کی جی بھر کر داد دی اور اپنے نزدیک ان کے اس فعل کو مستحسن اور عین مطابق اسلام ثابت کر دیا تو پھر ان کے اتباع کیوں نہ اس حملہ میں اور دلیر ہو کر اپنے امیر کی داد کے طالب ہوتے.چنانچہ مولوی صاحب کی یزید کے لقب کی تشریح کے بعد انجمن احمد یہ اشاعت اسلام کے ایک پروفیسر اور مبلغ مولوی احمد یار صاحب نے اپنے ایک مضمون میں ذیل کے فقرات لکھے :- عبارت بالا سے کم از کم دو باتیں نہایت واضح طور پر معلوم ہوئی ہیں.ایک یہ کہ حضرت مرزا صاحب سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مشابہت رکھتے ہیں.دوسری یہ کہ قادیان نے بوجہ دمشق کے مشابہہ ہونے کے کسی یزیدی الصفت خلیفہ کا پایہ تخت ہونا ہے جو قسم قسم کے جھوٹے منصوبے باندھے گا اور ہزار ہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ کرے گا.“ پھر لکھا ہے کہ : - ایسا ہونا ضروری تھا تا کہ حضرت مسیح موعود کی مشابہت حضرت امام حسین کے ساتھ اور قادیان کی دمشق کے ساتھ بالکل مکمل طور پر پوری ہو جائے.اگر قادیانی خلیفہ اور اس کے رفیق کا رایسی سازشیں اور نازیبا حرکات نہ کرتے جس سے جماعت لاہور کے پاک ممبروں کو مجبوراً قادیان چھوڑنا پڑا تو پھر قادیان دمشق کے مشابہہ اور یزید کا پایہ تخت کیسے بنتا ؟ یہ حوالہ اپنی حقیقت کا آپ مظہر ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس مبلغ اسلام کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشابہ بہ حسین تھے اور دوسرے یہ کہ قادیان دمشق ہے اور اس نے ا ایک یزیدی الصفت کا (جو بقول صاحب مضمون اس امام حسین کا بیٹا ہے ) پایہ تخت ہونا تھا.تیسرے یہ کہ میں قسم قسم کے جھوٹے منصوبے باندھتا ہوں اور ہزار ہا ظالمانہ احکام جاری کرتا ہوں.چوتھے یہ کہ لاہور کے پاک ممبران کو میری اور میرے رفقاء کار کی سازشوں اور نازیبا حرکات کی وجہ سے قادیان چھوڑنا پڑا اور پانچویں یہ کہ قادیان یزید کا پایہ تخت ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ ، اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.استدلال کی خوبی تو ظاہر ہی ہے.پہلے ممبر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ بنا کر مجھے یزید ثابت کیا تھا.دوسرے مبلغ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امام حسین ثابت کر کے مجھے یزید ثابت کرنے کی کوشش کی ہے گویا پہلا یزید بھی حضرت امام حسین کے بعد گزرا تھا اور ان کا بیٹا تھا.حالانکہ اگر استدلال پر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام حسین کے مثیل ثابت نہیں ہوتے بلکہ لاہور کے پاک ممبر جس سے مراد جناب مولوی محمد علی " صاحب ہیں کیونکہ وہی قادیان سے گئے ہیں مثیل امام حسین ثابت ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت جو ان مبلغ صاحب کو ہے وہ بھی ظاہر ہے اوپر کے حوالہ میں دو دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آیا ہے اور دو دفعہ امام حسین کا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے ساتھ ایک دفعہ بھی ”علیہ السلام“ کا لفظ نہیں لکھا.مگر حضرت امام حسین کے نام کے ساتھ ایک دفعہ مفصل علیہ السلام لکھا ہے اور دوسری دفعہ ان کے نام کے اوپر جو علیہ السلام کا نشان ہے ڈالا ہے جن لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ادب باقی رہ گیا ہے ان سے مجھے اور دوسرے احمدیوں کو کسی نیک سلوک کی کیا امید ہوسکتی ہے ،،، نُفَوِّضُ أَمْرَنَا إِلَى اللهِ هُوَ وَلِيُّنَا وَ حَافِظُنَا وَ نَاصِرُنَا عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ.میں نے اپنے خطبہ میں کہا تھا کہ بعض لوگ ہر بات کا انکار کر دیتے ہیں ان کی مثال اس تماشہ کی سی ہے کہ بازی گر بعض دفعہ کرتب دکھاتے ہیں تو ان میں سے ایک کہہ دیتا ہے.میں نہ مانوں.مولوی صاحب اس پر بہت ناراض ہوئے ہیں حالانکہ یہ صرف انکار کرنے کی مثال ہے ور نہ اگر اس سے نٹوں سے مشابہت مراد ہو تو جیسا کہ خود مولوی صاحب نے تحریر فرمایا ہے بازی گر خود میں بنتا ہوں.پس جبکہ اس مثال کو اگر بازی گروں سے مشابہت مانا جائے تو خود میں اپنے آپ کو بازی گر قرار دیتا ہوں.تو یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس مثال سے مراد اس طبقہ سے مشابہت دینا ہے بلکہ اس سے مراد تو صرف انکار پر اصرار کی ایک مثال دینا ہے.اس کے بعد مولوی صاحب نے خطبہ کے سالہا سال سے ایک غلط اعتراض کا تکرار مضمون کا جواب دینے کی طرف توجہ فرمائی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ میرے مضمون کو قارئین پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہیں بشرطیکہ میں ان کے مضمون کو جس کا میں جواب لکھ رہا ہوں.”الفضل“ میں شائع کرا دوں.اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد میرے جواب کا انتظار کئے بغیر مولوی صاحب یہ فیصلہ فرما دیتے ہیں کہ گویا میں
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت..نے ان کی اس تجویز کو رڈ کر دیا ہے اور ان کے خیالات کو اخبار میں لانے سے ڈر گیا ہوں اور نہایت زور سے جماعت احمدیہ پر یوں اتمام محبت فرماتے ہیں کہ :- اگر جناب میاں صاحب غور نہیں فرماتے تو ان کے مرید ہی غور کریں کہ اپنے دلائل کو کمزور کون شخص سمجھتا ہے.وہ جو دوسرے کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے آنے سے روکتا ہے یا وہ جو بار بار یہ سہل سی تجویز پیش کر چکا ہے (یعنی مولوی صاحب کا یہ مضمون اور میرا مضمون اکٹھا شائع ہو جائے ) افسوس مولوی صاحب مفسر قرآن ہیں اور قرآن کریم کی اس تعلیم کو پڑھتے ہیں کہ عدل وانصاف سے کام لینا چاہئے لیکن ابھی ان کا مضمون چھپا تک نہیں مجھے اس کے مضمون کا علم تک نہیں ہوا اور وہ جماعت مبائعین کے سامنے یہ حجت بھی پیش کرنے لگ جاتے ہیں کہ بتاؤ تمہارا خلیفہ سچا ہے جو میرا یہ مضمون چھاپنے کو تیار نہیں یا میں سچا ہوں جس نے اس کا خطبہ چھاپنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے.میں حیران ہوں کہ دنیا کا کونسا انسان اس تحریر کو معقول قرار دے گا.میں اس حصہ کا جواب پہلے دے چکا ہوں اور وہ ” الفضل“ میں شائع ہو چکا ہے.(الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۱ ء ) اور اب مختصر جواب اِس کا یہ ہے کہ میں الفضل ۱۴ را گست ۱۹۴۱ء میں جناب مولوی صاحب کا مضمون شائع کرا چکا ہوں اور آج اس کا جواب شائع کر رہا ہوں.اب دیکھتا ہوں کہ جناب مولوی صاحب عام دستور کے مطابق میرا مضمون، اپنا جواب اور میرا جواب الجواب اپنے اخبار میں چھاپتے ہیں یا نہیں.میں انصاف کے تقاضے کے مطابق ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء! آپ کا امیر سچا ہے جس نے میرا مضمون اخبار ”پیغام صلح میں نہیں شائع کیا یا میں جس نے آپ کے امیر کا مضمون اخبار الفضل“ میں شائع کر دیا ہے بلکہ میں مولوی صاحب کے عمل کا انتظار کروں گا اور اُن کے عمل کو دیکھ کر اگر ضرورت ہوگی تو اس کے متعلق کچھ لکھوں گا.میں اس موقع پر اس امر پر اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مولوی صاحب کا یہ اعتراض کہ میں اپنی جماعت کو ان کا لٹریچر پڑھنے سے روکتا ہوں آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے اور میں اس کا جواب آج سے تیئیس سال پہلے بھی دے چکا ہوں اور ایسا جواب دے چکا ہوں کہ جسے ہر عقلمند صحیح تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا مگر مولوی صاحب موصوف نے اس آسان طریق فیصلہ کی طرف جو اس جواب کے آخر میں میں نے پیش کیا ہے کبھی بھی توجہ نہیں کی لیکن اعتراض کو وقتاً فوقتاً زبانی یا
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.تحریری دُہراتے رہتے ہیں.جس جواب کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے وہ میرے رسالہ حقیقت الامر میں جس پر تاریخ تصنیف ۲۱ ستمبر ۱۹۱۸ لکھی ہوئی ہے شائع ہوا ہے اور اس کے صفحہ ۵ سے شروع ہوتا ہے.میں اسے لفظ بہ لفظ اس جگہ نقل کر دیتا ہوں تا مولوی صاحب کو یاد آ جائے کہ وہ یہ اعتراض دیر سے کرتے چلے آتے ہیں اور میں اس کا تفصیلی جواب جسے ہر عقلمند مانے پر مجبور ہے ان کو دے چکا ہوں.مگر افسوس کہ انہوں نے اس کے مطابق فیصلہ کی طرف کبھی توجہ نہیں کی بلکہ اعتراص دُہرانے تک اپنی کوشش کو محدود رکھا.وہ جواب یہ ہے:.مولوی صاحب! آپ شکایت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے مریدوں کو منع کیا ہوا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں اور آپ چاہتے ہیں کہ میں اعلان کروں بلکہ حکم دوں کہ وہ ضرور آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں مگر میرے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے.میں نے بار ہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ ہر ایک عقیدہ کو سوچ سمجھ کر قبول کریں بلکہ بار ہا یہ کہا ہے کہ اگر وہ کسی بات کو زید و بکر کے کہنے سے مانتے ہیں تو گو وہ حق پر بھی ہوں تب بھی ان سے سوال ہوگا کہ بلا سوچے انہوں نے ان باتوں پر کیونکر یقین کر لیا اور میرے خطبات اس پر شاہد ہیں ہاں ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے کیونکہ جب تک کوئی شخص اپنی کتب سے واقف نہیں اگر مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے گا تو خطرہ ہے کہ ابتلاء میں پڑے.ایک شخص اگر قرآن کریم تو نہ پڑھے اور انجیل اور دید اور ژرند اوستا اور ستیارتھ پرکاش کا مطالعہ رکھے اور کہے کہ میں تحقیق کر رہا ہوں تو کیا ایسا شخص حق پر ہوگا اور اس کا یہ عمل قابل تحسین سمجھا جاوے گا ؟ ہاں جو شخص اپنے مذہب سے اچھی طرح واقف ہو وہ دوسرے لوگوں کی باتوں کو بھی سن سکتا ہے.سوائے ان لوگوں کے جو ہمارے لٹریچر سے پوری طرح واقف نہیں اور جو مسائل مختلفہ میں کما حقہ میری کتب اور رسائل و اشتہارات اور دیگر واقف کاران جماعت کی کتب و رسائل کا مطالعہ نہیں کر چکے ہیں باقی کسی کو میں آپ کے لٹریچر کے پڑھنے سے نہیں روکتا اور نہ میں نے کبھی روکا ہے.ہاں مطالعہ دوسری کتب کا ہمیشہ دو ہی شخص کیا کرتے ہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.یا تو وہ جنہوں نے مخالف کے اعتراضات کا جواب دینا ہو یا وہ جن کی غرض صرف زیادتی علم ہو.پہلے گروہ کو تو کوئی روک ہی نہیں.دوسرے لوگوں میں سے وہ جو پہلے اپنی کتب و رسائل اچھی طرح پڑھ چکے ہوں اور ان پر خوب عمدہ طور پر عبور رکھتے ہوں اور ان کا دل ایسے دلائل سے جو پھر کسی مزید تحقیقات کی ضرورت باقی نہ رکھتا ہوتسلی یافتہ ہو دوسرے ہر ایک مذہب کی کتاب کو پڑھ سکتے ہیں.ان کو کوئی روک نہیں کیونکہ جسے باوجود اپنے مذہب کے مطالعہ کے ایسا شرح صدر عطا نہیں ہوا کہ جس کے بعد کسی اور مزید دلیل کی ضرورت نہ رہے اور عیا نا وہ اپنے مذہب کی سچائی کو نہیں دیکھتا اس کے لئے ضروری ہے کہ پوری تحقیق کرے تاکہ قیامت کے دن اس سے باز پرس نہ ہو.اور یہ جو میں نے ایسے لوگوں کا استثناء کیا ہے جو عیاناً اپنے عقائد کی سچائی دیکھ چکے ہوں اور کسی مزید دلیل کے محتاج نہ ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ان کتب کا مطالعہ کرنا لغو اور بے ہودہ فعل ہوگا کیونکہ انہوں نے جواب تو دینا نہیں اور ان کو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں.پھر وہ کیوں اپنے وقت کو ضائع کریں اور ممکن ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض اور لوگ جو اپنے مذہب سے آگاہ نہیں ان کی تتبع کر کے تباہ ہوں.اور اگر آپ فرما دیں کہ جب دوسرے مذاہب کا ان لوگوں نے مطالعہ نہیں کیا تو ان کو کیونکر معلوم ہوگا کہ وہ جس عقیدہ پر قائم ہیں وہی بجا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی مذہب کی صداقت معلوم کرنے کے لئے صرف یہی طریق نہیں کہ دوسرے خیالات سے اس کا مقابلہ کیا جائے بلکہ سچے عقیدے اپنے اندر بھی ایسی خوبیاں رکھتے ہیں کہ وہ اپنی صداقت پر آپ گواہ ہوتے ہیں اور ان کی صداقت کا انسان معائنہ کر سکتا ہے.مثلاً اسلام اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ بغیر اس کے کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جاوے اس کا ایک کامل پیرو اس کی صداقت پر تسلی پاسکتا ہے اور اس کے دلائل دے سکتا ہے ورنہ نَعُوذُ بِاللہ یہ ماننا پڑے گا کہ صحابہ کا ایمان کامل نہ تھا کیونکہ انہوں نے دیگر مذاہب کی تحقیق نہیں کی تھی.بلکہ کوئی شخص
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.بھی اس اصل کے مطابق ایسا نہ ملے گا جسے یقین کرنے کا حق حاصل ہو کہ وہ بچے مذہب پر ہے اور مزید تحقیق کی اسے ضرورت نہیں.کیونکہ کوئی ایسا انسان نہیں ملے گا کہ جس نے دنیا کے سب مذاہب کا کما حقہ، مطالعہ کیا ہو بلکہ خود آپ بھی کہ جن کو اِس وقت اس قدر خدمت دینی کا دعوی ہے اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتے.تو کیا ہم یہ کہیں کہ آپ کا حق نہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی پر مطمئن ہوں.کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا مذ ہب بھی نکل آوے جس کے دلائل سے آپ آگاہ نہ ہوں اور وہ سچا ہو.کیا سچے مذہب کے اندر کوئی ایسی صداقت موجود نہیں ہوتی کہ جو اپنی ذات کے اندر اپنی دلیل رکھتی ہو.اگر ایسا ہے اور ضرور ہے تو پھر ایمان کے کمال کے لئے بھی ضروری نہیں کہ ہر ایک مخالف کی کتاب پہلے پڑھ لی جائے اگر آپ کو یہ شبہ پیدا ہو کہ اس طرح تو ہر ایک شخص یہ کہہ دے گا کہ مجھے ایسا کامل ایمان حاصل ہو چکا ہے کہ مجھے مزید غور کی ضرورت نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خود ایک دعویٰ ہوگا جو دلیل کا محتاج ہوگا.اور اگر کوئی اپنے ایمان کو عینی ایمان ثابت کر دے گا تو پھر بے شک اس کا حق ہوگا کہ اس کا دعوی تسلیم کر لیا جاوے.علاوہ ازیں یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ یہ استثناء صرف میرا ہی قائم کردہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو بائبل پڑھتے ہوئے دیکھا اور اس پر آپ کو ڈانٹا.چنانچہ جابر سے روایت ہے.اَنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ہے.أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنَ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَ وَجُهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرِ تَكَلَتْكَ التَّوَاكِلُ مَاتَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلى وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَ غَضَبٍ رَسُولِهِ - یعنی حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے پاس ایک نسخہ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.تو رات کا تھا.آپ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! یہ تو رات ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور حضرت عمرؓ نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہورہا تھا اس پر حضرت ابو بکر نے کہا.رونے والیاں تم پر روئیں.عمر! دیکھتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کیا ظاہر ہوا ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے منہ اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ میں خدا اور اُس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں.اب کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ تھا کہ حضرت عمر اس حق کو دیکھ کر نَعُوذُ بِاللهِ اسلام سے بیزار ہو جاویں گے؟ کیا اس کی صرف یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت عمرہ مذہبی مباحثات کرنے والے آدمی نہ تھے اور اس مرتبہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب مزید تحقیق کی ان کو ضرورت نہ تھی پس ان کا یہ فعل بے ضرورت تھا اور خطرہ تھا کہ ان کو دیکھ کر بعض اپنے مذہب کی پوری واقفیت نہ رکھنے والے بھی اس شغل میں پڑ جاویں اور ان باتوں کی تصدیق کر دیں جو باطل ہیں اور ان کی تکذیب کر دیں جو حق ہیں.اور کوئی تعجب نہیں کہ اسی وجہ سے روکا ہو کہ آپ عام مجلس میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اور اس سے خطرہ ہوا کہ ان کو دوسرے لوگ دیکھ کر ان کی اتباع نہ کریں الگ پڑھتے تو شاید آپ کو نہ روکا جاتا.پس کیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو بھی نَعُوذُ بِاللهِ بُزدلانہ فعل قرار دیں گے.عِيَاذَا بِاللهِ مولوی صاحب ! تو بہ کریں کہ آپ ہمیشہ میری مخالفت میں خدا تعالیٰ کے برگزیدوں کی ہتک کرتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود کا ایک حکم بھی اس کی تائید کرتا ہے چنانچہ مباحثہ مائین مولوی عبد اللہ چکڑالوی ومولوی محمد حسین پر ریو یو لکھتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں.ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حد بیٹوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بہ دل منظر اور بیزار ہو.اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں.اس جگہ آپ نے چکڑالویوں سے ملنے جلنے سے حتی الوسع بچنے کی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے اور ملنا اور کتابیں پڑھنا ایک ہی جیسا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے تھے کہ چکڑالویوں کے ز بر دست دلائل سے کہیں ہماری جماعت مرتد نہ ہو جائے اور آپ ان کو پہلوان نہیں بنانا چاہتے تھے؟ ایک اور واقعہ بھی ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کی شہادت اس امر کی تصدیق میں ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کو ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ فلاں برہموں کی کتاب نہ پڑھنا.اب کیا خدا تعالیٰ بھی ڈرتا تھا یا مولوی صاحب کا ایمان کمزور تھا ؟ نَعُوذُ بِاللهِ یہ دونوں باتیں نہ تھیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتب ایسے پیرا یہ میں لکھی ہوئی تھیں کہ ان سے سادہ لوحوں کو دھوکا لگنے کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو بذریعہ الہام روک دیا تا آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جو اہلیت نہیں رکھتے نہ پڑھنے لگیں اس واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان لوگوں کو بھی جو مخالفین کو جواب دیتے ہیں.مصلحتا روک دیا جاتا ہے.مولوی صاحب! یہ تینوں واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ کا اعتراض مجھ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور حضرت مسیح موعود پر ہے اور میں ایک اور بات بھی پوچھتا ہوں کہ مہربانی فرما کر آپ مجھے اپنا بھی وہ اعلان دکھا ئیں جس میں آپ نے حکماً اپنے ہم خیالوں کو لکھا ہو کہ وہ میری سب کتب اور رسالہ جات اور اشتہارات کو مطالعہ کر کے حق کا فیصلہ کریں.اگر آپ نے بھی ایسا نہیں کیا تو مجھ پر کیا گلہ ہے.اگر فرما دیں کہ میں نے کب روکا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے بھی تو کبھی نہیں روکا.ہاں میرے نزدیک مخالف کی کتب پڑھنے کے متعلق مذکورہ بالا شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے.اور مجھے یقین ہے کہ میرے اکثر مریدان کے پابند ہیں.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ.چنانچہ آسانی سے اس کا علم اس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ مہربانی فرما کر اپنے ہم خیالوں میں سے ان لوگوں کی ایک فہرست شائع کر دیں کہ جنہوں نے ہماری کتب کا مطالعہ کیا ہو اور ہر ایک کے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.نام کے ساتھ لکھ دیں کہ اس نے فلاں فلاں کتاب یا رسالہ تمہارا پڑھا ہے اور میں اپنے مریدوں میں سے ایسے لوگوں کی ایک فہرست شائع کرا دوں گا جنہوں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے نام کے آگے ان کتب و رسالہ جات کی فہرست جو انہوں نے آپ کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر میں سے پڑھے ہوں درج کر دوں گا.اس سے خود دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ کون لوگ بے تعصبی سے دوسرے کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں.۲۰۰ یہ جواب آج سے تیس سال پہلے شائع ہو چکا ہے.اب مولوی صاحب فرما ئیں انہوں نے اس کی طرف کیا توجہ کی اور کیا کبھی اس کے مطابق فیصلہ کی کوشش کی؟ جواب کے علمی حصہ کو مولوی صاحب جانے دیں اس جواب کے آخر میں میں نے جو تین سادہ تجاویز پیش کی تھیں کیا مولوی صاحب نے ان پر عمل کر کے حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی ؟ اول تجویز میری یہ تھی کہ مولوی صاحب میری وہ تحریر دکھا دیں جس میں میں نے یہ لکھا ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی آدمی مولوی صاحب یا ان کے رفقاء کی تحریریں نہ پڑھا کرے.آخر مجھ پر جو یہ الزام ہے کہ میں مولوی صاحب کے خیالات کو پڑھنے سے لوگوں کو روکتا ہوں اس کا کوئی ثبوت چاہئے.میں اس سے انکار کرتا ہوں کہ میں نے جماعت کو ایسا کہا ہو.پس اس کا بار ثبوت تو مولوی صاحب پر ہے ان کو چاہئے کہ وہ میری وہ تحریر پیش کریں جس میں میں نے لوگوں کو ان کی تحریریں پڑھنے سے روکا ہو.دوسری تجویز میری یہ تھی کہ اگر مولوی صاحب میری خاموشی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ میں جماعت کو اپنی تحریرات پڑھنے سے روکتا ہوں اور چونکہ میں نے کوئی ایسا حکم جماعت کو نہیں دیا کہ ان کی تحریر میں پڑھا کرو اس لئے مولوی صاحب کا حق ہے کہ وہ یہ نتیجہ نکالیں کہ میں جماعت کو ان کی تحریریں پڑھنے سے روکتا ہوں تو پھر وہ اپنا وہ حکم دکھا دیں جس میں انہوں نے اپنے رفقاء کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ میری تحریرات پڑھا کریں.اگر ایسا حکم نہ دینے سے مناھی کا حکم نکلتا ہے تو مولوی صاحب بھی جب تک ایسا حکم نہ دکھا ئیں گے ان پر بھی یہی الزام ثابت ہوگا.تیسری تجویز میری یہ تھی کہ اگر مولوی صاحب اس کے لئے بھی تیار نہیں تو ایسے غیر مبائعین کی فہرست شائع کر دیں جن کے ناموں کے آگے ان کتابوں کی فہرست دی ہوئی ہو جو انہوں نے میری تصانیف میں سے پڑھی ہوں اور میں اپنی جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرست شائع کر دوں گا
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.جنہوں نے مولوی صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا.اس سے معلوم ہو جائے گا کہ مولوی صاحب کے رفقاء میری کتب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں یا میرے مرید ان کی کتب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں؟ مگر مولوی صاحب نے ان تینوں تجویزوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا.نہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تجاویز میں میں نے کونسی چالاکی سے کام لیا ہے اور کس طرح اپنے حق کو زیادہ محفوظ کر لیا ہے اور ان کے حق کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے.مگر افسوس سخت افسوس ہے کہ وہ ناواجب اور غیر منصفانہ طور پر ایک غلط اعتراض کو دُہراتے چلے جاتے ہیں اور فیصلہ کی طرف نہیں آتے.میرے مضمون میں سے مولوی صاحب نے سب سے اِس اُمت میں مجد دہی آئیں گے پہلی بات قابل جواب یہ چینی ہے کہ بیشک آپ نے فرمایا ہے کہ میری اُمت میں مجددین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا ہے کہ نبی بھی ہوگا.“ اور اس کی تشریح آگے چل کر یوں فرماتے ہیں کہ ” جناب میاں صاحب اپنے خلاف خود ڈگری دے رہے ہیں کسی دوسرے کو حکم بنانے کی ضرورت نہیں.اعتراف اول کے رو سے میاں صاحب کا مسلّمہ مذہب کہ اِس اُمت میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے باطل ہو گیا کیونکہ آپ نے یہاں یہ تسلیم کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس اُمت میں مجددین ہی آئیں گے.ہاں ایک اور صرف ایک نبی ہوگا.“ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب مولوی صاحب کی حوالوں میں ادل بدل کرنے کی عادت ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ اس عادت کو وہ بالکل ترک نہیں کر سکے.میرا فقرہ نقل فرما کر جس کے یہ الفاظ ہیں کہ بیشک آپ نے فرمایا کہ میری اُمت میں مجددین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا کہ نبی بھی ہوگا.آپ میری طرف یہ مضمون منسوب فرماتے ہیں.کہ اس اُمت میں مجددین ہی آئیں گے اور پھر یہ کہ ”ہاں ایک اور صرف ایک نبی ہوگا.حالانکہ نشان کردہ موٹے حروف نہ میرے فقرہ میں ہیں اور نہ ان سے یہ مضمون نکلتا ہے.نہ میں نے یہ لکھا ہے کہ مجددین ہی آئیں گے.اور نہ یہ کہ ایک اور صرف ایک نبی ہوگا.پس یہ درست نہیں کہ میں نے اپنے خلاف خود ڈگری دیدی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اپنے خلاف خود ڈگری دیدی ہے اور اس بارہ میں مجھے کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر میں کچھ لکھوں گا تو جناب مولوی صاحب کو شکایت ہوگی کہ ہمیں بُرا کہا جاتا ہے.مولوی صاحب میرے اوپر کے فقرہ سے یہ عجیب استدلال فرماتے ہیں کہ اعترافِ اول کے رو سے میاں صاحب کا مسلّمہ مذہب کہ اس امت میں نبوت کا
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.دروازہ کھلا ہے باطل ہو گیا.ایک منٹ کے لئے فرض کر لو کہ میرے فقرہ میں مجددین کے بعد ہی کا بھی لفظ ہے اور نبی سے پہلے ایک اور صرف ایک“ کے الفاظ بھی ہیں تو بھی یہ مصنوعی فقرہ نبوت کا دروازہ بند نہیں کرتا کیونکہ بند دروازے میں سے تو ایک شخص بھی نہیں نکل سکتا دروازہ کھلا ہی ہوگا تو کوئی شخص اس میں سے نکلے گا.یہ کیا منطق ہے کہ چونکہ صرف ایک شخص اس دروازے میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا ہے اس لئے وہ دروازہ بند ہے.اگر وہ دروازہ بند ہے تو وہ ایک شخص کیونکر نکلا ؟ اور جس شخص کے نزدیک ایک شخص اس دروازہ میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نکل آیا ہے تو اس شخص کے نزدیک وہ دروازہ بند کیونکر سمجھا جائے گا اور اس کے خلاف اقبالی ڈگری کیونکر سمجھی جائے گی ؟ اگر مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ ”ہی اور ایک اور صرف ایک کے لفظ میرے فقرہ میں بڑھا دئیے جائیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس اُمت میں صرف ایک نبی ہوگا ایک سے زیادہ نہیں ہوں گے.تو مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو یہ لفظ مولوی صاحب کے اپنے پیدا کردہ ہیں میرے ہیں ہی نہیں.لیکن اگر فرض کرو کہ یہ لفظ میرے ہی ہوں یا میرے فقرہ سے نکلتے ہوں تو بھی اس سے مولوی صاحب کو کیا فائدہ پہنچا ؟ کیا مولوی صاحب کو اس عقیدہ پر اعتراض ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی نبیوں کے آنے کا دروازہ کھلا ہے (جیسا کہ میرا عقیدہ ہے ) یا اس عقیدے پر اعتراض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک امتی نبی تو آ سکتا ہے کئی امتی نبی نہیں آ سکتے.اگر دوسرے عقیدہ پر اعتراض ہے تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ صرف لفظی نزاع ہوگا کیونکہ اصل اختلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق ہے.باقی رہا یہ کہ آپ کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں یا نہیں یہ ایک علمی مسئلہ ہے ہمیں اس پر جھگڑنے کی ضرورت نہیں اس کو خدا پر چھوڑ دینا چاہئے.اگر کوئی نبی آئندہ آیا تو وہ آپ اپنا دعویٰ منوالے گا ہمیں ”آب ندیده موزه از پاکشیدہ کی مثل پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے.اگر مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اس امر کو تسلیم کر لیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے دروازے سے ایک اور صرف ایک شخص آپ کے امتیوں میں سے نبی کا عہدہ پا کر آ گیا ہے تو آئندہ کا معاملہ ہم یقیناً خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے کیونکہ اصل باعث نزاع ہمارے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ہے.اگلے لوگ اپنا معاملہ آپ مسلجھائیں گے ہمیں ان کی خاطر جماعت میں فتنہ ڈالنے کی کیا
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.ضرورت ہے.لیکن اگر مولوی صاحب ایک اور صرف ایک نبی اور وہ بھی امتی نبی کے آنے سے بھی باب نبوت کو کھلا سمجھتے ہیں اور ختم نبوت کو ٹوٹا ہوا تو پھر مولوی صاحب انصاف سے جواب دیں کہ یہ محرف فقرہ میری طرف منسوب کر کے بھی کہ ایک اور صرف ایک نبی اِس اُمت میں ہوگا وہ یہ اقبالی ڈگری میرے خلاف کیونکر دے رہے ہیں کہ میں باب نبوت کو مسدود سمجھتا ہوں.پھر مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ”مگر ایسی کوئی حدیث ایسی کوئی حدیث نہیں جس پیش نہیں کی جس میں انبیاء کے آنے کا ذکر ہو.“ جیسا کہ میں میں نبی کے آنے کا ذکر ہو او پر لکھ آیا ہوں ہم میں اور غیر مبائعین میں نزاع کی بنیاد یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی کوئی اور نبی آئیگا ہاں نزاع کی بنیاد یہ ہے کہ اس وقت تک امت محمدیہ میں محدث آتے رہے ہیں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے.اگر اس کو میں غلط سمجھا ہوں اور جناب مولوی محمد علی صاحب کو ایک نبی آنے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ایسی صورت میں باپ نبوت کو کھلا اور ختم نبوت کو ٹوٹا ہوا خیال کرتے ہیں کہ اگر اس اُمت میں کئی انبیاء آئیں تو موجودہ زمانے کے لحاظ سے بحث ختم ہو جاتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی تسلیم کر لیں اور اعلان کر دیں کہ ایک نبی کے آنے سے باپ نبوت کے مسدود ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہماری ان کی بحث ختم ہو جائیگی.لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تو ان کا اس پر زور دینا کہ ایسی کوئی حدیث پیش نہیں کی گئی جس میں انبیاء کے آنے کا ذکر ہو کیا اثر رکھتا ہے اور اس کا ہمارے اختلافات کے طے کرنے میں کیا دخل ہو سکتا ہے.آگے چل کر جناب مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ نواس بن سمعان کی حدیث کو میاں صاحب کو اعتراف ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کو جونواس بن سمعان نے بیان کی ہے اور جس میں آنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے مسیح موعود کو نبی کہا گیا ہے ضعیف قرار دیا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس حدیث کو حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) بھی نے ضعیف قرار دیا ہے.ضعیف ہی قرار دیتے ہیں اور اس کی تائید میں مولوی صاحب ازالہ اوہام صفحہ ۲۳۸ کا یہ حوالہ پیش فرماتے ہیں کہ وہ دمشقی حدیث جو امام مسلم نے پیش کی ہے خود مسلم کی دوسری حدیث سے ساقط الاعتبار ٹھہرتی ہے.نیز یہ حوالہ کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ نواس بن سمعان کی حدیث کو از قبیل استعارات و کنایات خیال کرتے تھے ، اسی طرح یہ کہ یقیناً سمجھو کہ اس حدیث اور ایسا ہی اس کی مثال کے ظاہری معنے ہرگز مراد نہیں اور قرائن قویہ ایک شمشیر برہنہ لے کر اس کو چہ کی طرف جانے سے روک رہے ہیں بلکہ یہ تمام حدیث ان مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے.۲۳ اور ان حوالوں سے نتیجہ نکالتے ہے.“ ہیں کہ ”بات موٹی ہے.حضرت مسیح موعود نے اسے ساقط الاعتبار قرار دیا ہے اور تمام کی تمام حدیث کو مع اس حصہ کے جس میں مسیح ابن مریم کے نام کیساتھ نبی اللہ کا لفظ بولا گیا ہے صرف اس صورت میں قبول کیا ہے کہ اس کو استعارہ اور مجاز قرار دیا جائے.پھر فرماتے ہیں کہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نبی والا حصہ اس سے متقی ہے کیونکہ اس حصہ کو خاص طور پر آپ نے استعارہ قرار دیا ہے اور اس کے لئے یہ حوالے درج کئے ہیں.آ نے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالماتِ الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا، ۲۴.وہ نبی کر کے پکارنا جو حد یثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا.یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آ گیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسا ہوا کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور..تو بہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو.۲۵۷ مولوی صاحب ان حوالوں سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حدیث کو ضعیف بلکہ ساقط الاعتبار قرار دیا ہے.اور اسی صورت میں اس کو قابلِ اعتبار قرار دیا ہے کہ اسے استعارات سے پر سمجھا جائے.پس میرا یہ کہنا کہ گو بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ قول ان کا درست نہیں گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو رد کرنا ہے مگر جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوپر کے حوالہ جات کو غور سے پڑھے گا اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولوی صاحب کا یہ بیان کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
.ہے.اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت..انوار العلوم جلد ۱۶ نواس بن سمعان کی حدیث کو حدیث کے لحاظ سے ساقط الاعتبار قرار دیا ہے درست نہیں.کیونکہ اگر آپ اس حدیث کو بحیثیت حدیث ساقط الاعتبار قرار دیتے تو خود ہی اس سے استدلال کیوں فرماتے ؟ اور کیوں فرماتے کہ یقیناً سمجھو کہ اس حدیث اور ایسا ہی اس کی مثال کے ظاہری معنی ہرگز مراد نہیں بلکہ یہ تمام حدیث ان مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے.‘۲۶ کیا ساقط الاعتبار احادیث مکاشفات میں سے ہوتی ہیں اور کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے گئے مکاشفات ساقط الاعتبار ہوتے ہیں؟ پس ان الفاظ سے اور ان حوالجات سے جو میں آگے نقل کروں گا صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کو اس لحاظ سے ساقط الاعتبار نہیں قرار دیتے کہ یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی.بلکہ اس لحاظ سے ساقط الاعتبار قرار دیتے ہیں کہ اس کے بیان کرنے میں راوی سے بعض غلطیاں ہو گئی ہیں اور اس کی تشریح کے لئے دوسری احادیث سے مدد لینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور قرآن کریم کی روشنی میں اس کی تشریح ضروری ہے.چنانچہ میرے اس دعویٰ کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک دوسرے حوالہ سے ہوتی ہے.جس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ :- دو لیکن خوب غور سے سوچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دراصل ۲۷،، حدیث موضوع نہیں ہے ہاں استعارات سے پُر ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حتمی طور پر اس حدیث کی صحت کا اقرار فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ غور سے سوچنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ استعارات سے پر ہے تو یہ کہنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ضعیف اور ساقط الاعتبار قرار دیا ہے صرف اس امر کا اقرار کرنا ہے کہ ایسا کہنے والے شخص نے اس حدیث کو غور سے نہیں سوچا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو آپ نے نہیں کہی.باقی رہا یہ امر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے استعارات سے پُر قرار دیا ہے.سو اس کا کسی کو انکار نہیں ہم بھی اسے استعارات سے پر قرار دیتے ہیں اور اس میں استعارات کا وجود تسلیم کرتے ہیں.ہاں اس امر کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں جو نبی کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد کوئی ایسا استعارہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.في الواقعہ نبی نہ تھے اور اس عقیدہ کے وجوہ میں آگے چل کر بیان کرونگا.مولوی صاحب کو اس امر پر اصرار ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ۲۸،، تمام حدیث ان مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے.۲۸۰ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ کے معنی اردو میں یہی ہوتے ہیں کہ کثرت سے اس کا وجود پایا جاتا ہے ورنہ بلا قومی قرینہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ کلی طور پر بلا استثناء وہ بات پائی جاتی ہے.یہ ہماری زبان کا ایک عام محاورہ ہے بلکہ ہر زبان کا محاورہ ہے.اور اس کو ایسا گلیہ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ اس سے مستشنی کوئی چیز ہو ہی نہ سکے بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ خود مولوی صاحب بھی ایسے لفظ کئی دفعہ بول جاتے ہوں گے.جیسے کہ مثلاً کھانے میں نمک زیادہ ہو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں تو نمک ہی نمک ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ نہ گوشت ہے نہ دال ہے نہ مرچ ہے نہ دوسری کوئی اور شے ہے.خود حدیث کے الفاظ کو بھی دیکھا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض الفاظ تو اس میں ضرور بغیر استعارہ کے استعمال ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے میری کسی سابق تحریر سے یہ فقرہ نقل کر کے کہ ”ورنہ کوئی شخص کہہ دے گا کہ میسج بھی ایک استعارہ ہے اور مہدی بھی ایک استعارہ ہے.“ میری ہنسی اُڑائی ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ میں نے حدیث کو غور سے نہیں پڑھا.کیونکہ حدیث میں مہدی کا لفظ نہیں آیا اور مسیح بھی نہیں آیا بلکہ مسیح ابن مریم آیا ہے.حالانکہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اس حدیث میں مہدی کا لفظ آیا ہے بلکہ مہدی کے لفظ کو صرف اس لئے شامل کر لیا گیا ہے کہ لَا مَهْدِى إِلَّا عِیسَی کی حدیث کے رو سے آنے والے مسیح نے مہدی بھی ہونا تھا پس اس اشتراک کی وجہ سے مسیح کے ساتھ مہدی کا لفظ بھی شامل کر لیا گیا.یہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی اور نہ اس خاص لفظ سے کوئی مستقل نتیجہ نکالا گیا تھا کہ مولوی صاحب کو اس پر اعتراض ہوتا.وہ مہدی کے لفظ کو چھوڑ دیں.مسیح کا لفظ ہی رہنے دیں.مولوی صاحب کا یہ فرمانا کہ مسیح ابن مریم کا لفظ حدیث میں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ بخاری میں بھی مجھے نبی کہا گیا ہے (ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ صفحہ ۲۴ طبع دوم ) اس جگہ آپ نے بھی اس طریق کو استعمال فرمایا ہے کہ مسلم کی حدیث میں چونکہ نبی اللہ صاف آ گیا ہے اور بخاری میں نزول عیسی کا ذکر ہے.آپ نے عیسی کے نام کی وجہ سے جو نبی تھے بخاری کی طرف بھی یہ بات منسوب کر دی ہے ورنہ مولوی صاحب بخاری کا وہ حوالہ دکھا ئیں جس میں عیسی آنے والے کو نبی اللہ کہا گیا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.استعارہ ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مریم بے شک استعارہ ہے لیکن مسیح تو ایک عہدہ ہے وہ استعارہ کس طرح کہلا سکتا ہے.مسیح کا لفظ تو اپنے اصل معنوں میں ہی مستعمل ہوا ہے.لیکن صرف یہی لفظ تو اس حدیث میں نہیں جو بغیر استعارہ کے استعمال ہوا ہے.اس کے سوا اور الفاظ بھی ہیں مثلا عِندَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاء " کے الفاظ ہیں.ان میں کونسا استعارہ ہے.منارہ بیضاء خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوا دیا ہے اسی طرح ارض کا لفظ بھی اس حدیث میں ہے.طبریہ کا لفظ ہے.ان سے مراد زمین اور طبر یہ ہی ہیں نہ کچھ اور.ان کے علاوہ اور بھی کئی الفاظ اس حدیث میں ہیں جو ہرگز استعارہ نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ” لفظ لفظ “ سے بلا استثناء سب الفاظ کو مراد لینا درست نہیں.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک آیت قرآنی بھی نقل ہے.یعنی مِنْ كُلِّ حَدَبِ يُنْسِلُونَ کے ہر موج سمندر پر سے وہ قوم تیزی سے بڑھتی آئے گی.کیا یہ بھی استعارہ ہی ہے اور کیا آپ نے اسے اپنی تفسیر میں استعارہ ہی قرار دیا ہے اور اگر استعارہ ہے تو پھر کیا یہ آیت بھی ساقط الاعتبار ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس حدیث کا کوئی ایک لفظ بھی استعارہ کے بغیر نہیں.اگر مولوی صاحب جواب میں کہیں کہ یہ چونکہ آیت ہے اسے آیت کی تصدیق کی وجہ سے ساقط الاعتبار نہ کہا جائے گا تو میں کہتا ہوں کہ اسی طرح نبی اللہ کے لفظ کی چونکہ دوسرے کلام الہی سے تصدیق ہوتی ہے اسے بھی ساقط الاعتبار نہ کہا جائے گا.اگر مولوی صاحب کو اصرار ہو کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لفظ لفظ لکھا ہے اس لئے میں تو لفظ لفظ کو ہی استعارہ قرار دوں گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں اس حدیث کو پورا نہیں نقل کیا بلکہ صرف ایک حصہ کو نقل کیا ہے اور دجال کے باب لڈ پر قتل ہونے تک کے واقعہ پر اکتفاء کی ہے.پس کہا جاسکتا ہے کہ جو لفظ لفظ کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمائے ہیں وہ اسی حصہ کے متعلق ہیں نہ کہ باقی کے متعلق.لیکن اس سے بھی بڑھ کر اس امر کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ساری حدیث کے ہر لفظ کو نہیں بلکہ اس کے اکثر حصہ کو استعارہ سمجھتے تھے.مندرجہ ذیل حوالہ سے نکلتا ہے اور اس کے بعد کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی.آپ انجام آتھم صفحہ ۱۲۹ پر تحریر فرماتے ہیں:- وَأَمَّا مَاجَاءَ فِي حَدِيثِ خَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ ذِكْرِ دِمَشْقَ وَغَيْرِهِ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.مِنَ الْأَنْبَاءِ فَأَكْثَرُهُ اسْتِعَارَاتٌ وَ مَجَازَاتٌ مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ، ۳۲ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جو دمشق وغیرہ کا ذکر آتا ہے اس کا اکثر حصہ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہے.اس حوالہ سے ثابت ہے کہ دمشقی حدیث کے اکثر حصہ کو آپ استعارہ اور مجاز قرار دیتے ہیں.نہ کہ فی الواقعہ اس کے ہر ہر لفظ کو.جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس حدیث پر ایک اور اعتراض بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہی حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے اور اس میں نبی اللہ کے الفاظ نہیں.” جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ کا لفظ کسی راوی کا ذاتی تصرف ہے.حضرت مولوی صاحب نے بات تو خوب دُور کی نکالی ہے مگر افسوس کہ جہاں وہ مجھ پر الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور احادیث کو غور سے نہ دیکھنے کا لگا یا کرتے ہیں وہاں وہ خود زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیتے.مولوی صاحب اس استدلال کو پیش کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیتے کہ مسلم کی حدیث اور ترمذی کی حدیث کے راوی کون کون ہیں؟ مسلم میں یہ حدیث دو سلسلوں سے مروی ہے.ایک سلسلہ ابوخیثمہ سے شروع ہوتا ہے اور ایک محمد بن مہران سے.یہ دونوں آگے ولید بن مسلم سے روایت کرتے ہیں.گویا صرف آخری راوی الگ ہیں اوپر کے راوی ایک ہی ہیں.ترمذی میں یہ روایت علی بن حجر سے مروی ہے مگر وہ آگے ولید بن مسلم اور عبد اللہ بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہیں گوترندی کے راوی بھی وہی ہیں صرف آخری راوی میں اختلاف ہے.اس صورت میں اگر راوی کا ذاتی تصرف ہو سکتا ہے.تو آخری راویوں میں سے کسی کا ہو سکتا ہے کیونکہ اوپر کے راوی مسلم کے بھی وہی ہیں اور ترمذی کے بھی وہی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لفظوں میں فرق پڑا ہے تو کس روایت میں پڑا ہے.مسلم کی روایت میں یا ترمذی کی روایت میں.تو اول تو ترندی نے خود لکھا ہے کہ دَخَلَ حَدِ يْتَ أَحَدِهِمَا فِي حَدِيْثِ الْاخَرِ ، یعنی میرے پاس روایت کرنے والے راوی کو حدیث پوری طرح محفوظ نہیں رہی بلکہ اس نے جن دو آدمیوں سے حدیث سنی ہے ان کی روایت کو اس نے آپس میں ملا دیا ہے.دوم ایک زبر دست ثبوت اس امر کا کہ مسلم کی حدیث کے لفظ محفوظ ہیں اور جو غلطی ہوئی ہے ترندی سے ہوئی یہ ہے کہ یہ حدیث علاوہ مسلم اور ترمذی کے ابن ماجہ میں بھی آئی ہے اور اس میں بھی یہ روایت مسلم اور ترمذی کی طرح عبد الرحمن بن یزید سے مروی ہے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ اور ان سے اوپر کے سب راوی مسلم اور ترمذی کے راویوں سے مشترک ہیں.ہاں عبد الرحمن بن یزید سے نیچے کے راوی یہاں بھی مختلف ہیں جس طرح مسلم اور ترمذی کے مختلف ہیں.اور اس روایت میں بھی عیسی نَبِی اللہ کے الفاظ چار دفعہ اسی طرح بیان ہوئے ہیں جس طرح مسلم میں بیان ہوئے ہیں.اب جناب مولوی صاحب بتائیں کہ یہ ذاتی تصرف کس نے کیا ہے؟ اگر تو عبدالرحمن بن یزید یا اوپر کے راویوں میں سے کسی نے تو وہ سب حدیثوں میں مشترک ہیں.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلم اور ابن ماجہ کی روایت میں وہ ذاتی تصرف کر دیتے اور ترندی میں نہ کرتے.اور اگر کہو کہ نچلے راویوں میں سے کسی نے ذاتی تصرف کر دیا ہے تو یاد رہے کہ مسلم اور ابن ماجہ دونوں حدیث کی کتب نبی اللہ کے لفظ پر متفق ہیں ۳۵ اور پھر مسلم نے دوراویوں سے یہ روایت کی ہے پس اگر غلطی کی ہے تو ترندی کے راوی نے کی ہے کیونکہ وہ اکیلا ہے اور مسلم اور ابن ماجہ کے تین الگ راوی ہیں جو نبی اللہ کے لفظ پر متفق ہیں.مولوی محمد علی صاحب نے آخری دلیل یہ پیش کی حدیث میں مسیح موعود علیہ السلام کو نبی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ نبی کا استعمال فرمایا ہے وہ ضرور استعارہ ہے اور اس کہہ کے حقیقی معنوں میں نہیں پکارا گیا کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ حوالے پیش کئے ہیں:- آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالماتِ الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا دوسرا حوالہ یہ درج کیا ہے کہ :- وہ نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا.یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے..جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آ گیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسا ہؤا.کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور ؟ تو بہ کرو اور خدا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو.'' اللہ تعالی ، خاتم النبیین اور امام وقت.میں اس حوالہ کو نقل کر کے اس پر کچھ لکھنے ہی لگا تھا کہ مجھے خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیا کہ مولوی محمد علی صاحب پر حوالوں میں اعتبار کرناخت خطر ناک ہوتا ہے.خصوصاً جب وہ نقطے ڈالیں تو سمجھ لینا چاہئے کے ایک حوالہ میں تحریف کہ ضرور کوئی ضروری حصہ اس جگہ متروک ہے یا اس متروک حصہ سے مفہوم کو کوئی دوسرا رنگ ضرور مل جاتا ہے.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی میں نے سراج منیر نکال کر اصل عبارت دیکھی تو وہ یوں تھی.بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مُرسل اور نبی کے میرے الہام میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں.اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا.یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے.میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکلی بند ہیں.اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رو سے آ سکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی.مگر ہمارے ظالم مخالف ختم نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مسیح اسرائیلی نبی طہ کے واپس آنے کے لئے ابھی ایک کھڑ کی کھلی ہے.پس جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آ گیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسے ہوا.کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور.کیا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا فرضی مسیح وحی سے بکلی بے نصیب ہو کر آئے گا.تو بہ کرو ،، اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو.“ اس عبارت کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے اپنی عبارت سے پہلے کے فقرات چھوڑ کر یہ مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا ہے کہ حدیث میں جو لفظ نبی کا آیا ہے وہ استعارہ ہے.حالانکہ اصل عبارت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا دیا ہوا علم صرف یہ ہے کہ حقیقی نبوت کا دروازہ
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بند ہے اور اس مفہوم کو چسپاں کر کے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی نبی کے لفظ کے یہی معنی ہیں.اور یہ ہرگز مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ حدیثوں میں اس لفظ کا فلاں مفہوم نہیں فلاں ہے.چنانچہ اگلے فقرہ سے اس کی تشریح ہو جاتی ہے.اور وہ فقرہ یہ ہے.”میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکنی بند ہیں.“ اس فقرہ اور اس کے بعد کے ایک دو فقروں کو حذف کر کے نیز عبارت کے شروع کے فقروں کو حذف کر کے جناب مولوی صاحب نے یہ اثر پیدا کرنا چاہا ہے کہ گویا خاص طور پر الہام میں اس حدیث کی تشریح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اس حدیث میں لفظ نبی سے مراد نبی نہیں ہے.چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہاں تک ہوشیاری کی ہے کہ فقرہ کو درمیان سے کاٹا ہے.اصل فقرہ تو یہ تھا کہ ” اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کر کے پکارنا الخ مگر آپ نے نشان کردہ نجز وفقرہ کا اُڑا دیا تا کوئی یہ خیال کر کے کہ فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی اسی سے ملتا ہوا مضمون ہے میں اس کو بھی نکال کر دیکھ لوں ساری عبارت نہ دیکھ لے.اسی طرح مولوی صاحب نے عبارت میں سے ایک یہ فقرہ بھی حذف کر دیا ہے کہ ” مگر ہمارے ظالم مخالف ختم نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مسیح اسرائیلی نبی کے واپس آنے کے لئے ابھی ایک کھڑکی کھلی ہے.پس اس فقرہ کے حذف کرنے سے ان کی غرض یہ ہے کہ انہوں نے نقطوں کے بعد جو فقرہ نقل کیا ہے یعنی ” جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آ گیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسے ہوا.کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور اس سے لوگوں کا ذہن اس طرف نہ منتقل ہو کہ اس جگہ ایک سابق نبی حضرت عیسی کا ذکر ہے جو نبوت کے حصول میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آزاد تھے اور جن کی وحی قرآن کریم کی وحی کے تابع نہ تھی.اس کا مزید ثبوت کہ مولوی صاحب نے دیدہ دانستہ اس فقرہ کو حذف کیا ہے اور ان کا منشاء یہ تھا کہ اسرائیلی مسیح کا ذکر اس جگہ پر نہ آئے اور لوگ یہی خیال کریں کہ یہاں محمدی مسیح کی نبوت کی بحث ہے.کسی سابق نبی کی نبوت کا ذکر نہیں یہ ہے کہ ان کے نقل کردہ فقرہ کے بعد ایک مختصر فقرہ پھر حضرت مسیح ناصری کی طرف اشارہ کرتا تھا.انہوں نے درمیان سے اس کو بھی حذف کر دیا ہے اور وہ فقرہ یہ ہے.کیا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا فرضی مسیح وحی سے بکنی بے نصیب ہو کر آئے گا.ہاں اس کے بعد کا فقرہ درج کر دیا ہے کہ ” تو بہ کرو اور خدا سے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ ڈرو اور حد سے نہ بڑھو.“ اس مختصر سے فقرہ کو حذف کرنے کے اس کے سوا کوئی معنی نہ تھے کہ وہ ذہنوں کو اس طرف سے روکنا چاہتے تھے کہ اس جگہ ایک ایسے نبی کا ذکر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کے بغیر نبی ہوا تھا اور جس کی وحی قرآن کریم کی وحی کے تابع نہ تھی.اب رہا یہ سوال کہ بہر حال حضرت مسیح موعود نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دینے کا مطلب علیہ السلام نے نبی کے لفظ کو اس جگہ استعارہ قرار دیا ہے اس کا کیا مطلب ہے تو اس کا جواب وہ ہے جو میں حقیقۃ النبوۃ میں بانتفصیل دے چکا ہوں کہ حقیقت استعارہ اور مجاز کے الفاظ نسبتی الفاظ ہیں.ایک قوم کی اصطلاح کے مطابق جو معنی حقیقی ہوتے ہیں دوسری کے نزدیک وہ مجازی ہو جاتے ہیں.جیسے اسلام کے نزدیک صلوٰۃ کے حقیقی معنی اسلامی عبادت کے ہیں اور دوسرے لوگوں کی عبادت یا صلوۃ کے دوسرے لغوی معانی مجازی ہیں.اسی طرح اسلام کی اصطلاح میں کلمہ ایک فقرہ کا نام ہے لیکن نحویوں کے نزدیک کلمہ کے معنی ایک لفظ کے ہیں.لغت کے رو سے حرف کے معنی بولے ہوئے یا ملفوظ کے ہیں اور یہ لفظ کلمہ کے معنوں میں مستعمل ہے.لیکن عام بول چال کے لحاظ سے اس کے معنی حروف ھجاء میں سے کسی حرف کے ہیں.اور نحویوں کے نزدیک اُس ایک یا زیادہ حرفوں سے بنے ہوئے لفظ کے بھی ہیں جو اپنی ذات میں کوئی مستقل معنی نہیں رکھتا.اب ان میں سے ہر اک گروہ کی اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے اِن الفاظ کے حقیقی معنی وہ ہوں گے جو اس گروہ میں رائج ہیں اور دوسرے سب معانی مجازی ہونگے.ہم نحویوں سے مخاطب ہونگے تو کلمہ اور حرف کے حقیقی معنی وہ ہو نگے جوانکی اصطلاح میں ان الفاظ کے مقرر کئے گئے ہیں.اور اگر دینی کتب میں کلمہ کا لفظ استعمال کریں گے تو کلمہ کے حقیقی معنی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے ہونگے اور دوسرے ب معنی مجازی ہونگے.یہی حال باقی سب اصطلاحات کا ہے.اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ فرمایا ہے کہ حدیث میں انہی مجازی معنوں کے رو سے نبی کا لفظ بولا گیا ہے جو عام صوفیائے کرام کے نزدیک مسلم ہیں.یعنی ایک ایسے نبی کی خبر دی گئی ہے جو براہِ راست نبوت حاصل کرنے والا نہیں ہے بلکہ وہ نبوت کا مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے حاصل کرے گا.اور وہ صاحب شریعتِ جدیدہ نہ ہوگا.یہی وہ تعبیر ہے جو حقیقی نبی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور اس میں ہمیں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء سے ہرگز کوئی اختلاف نہیں.ہمارا عقیدہ ہے اور ہم شروع سے اس وقت تک اس پر
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.قائم ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہرگز کوئی نئی شریعت نہیں لائے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم کے قیام کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور آپ کی نبوت سابق انبیاء کی طرح براہ راست حاصل ہونے والی نبوت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاگردی اور آپ کے فیضان کی وجہ سے آپ کو نبوت ملی ہے اور آپ امتی نبی ہیں.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں ہو کر آپ کو یہ مقام حاصل ہوا ہے.اس کے سوا کسی نبوت کے نہ ہم قائل ہیں اور نہ اسے جائز سمجھتے ہیں.نہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی شخص قرآن کریم کے نزول کے بعد کوئی ایسی وحی پاسکتا ہے جو قرآن کریم کے خلاف ہو یا اس پر کچھ زائد کرنے والی ہو.اور نہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے فیضان کے بغیر نبوت حاصل کرنے والا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آ سکتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ ہم مسیح یا کسی اور نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور اسے ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں.اس امر کا ثبوت کہ اوپر کے حقیقی نبوت سے مراد شریعتِ جدیدہ کی حامل نبوت ہے حوالوں میں حقیقی نبوت سے مراد وہی نبوت ہے جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو اور براہ راست حاصل ہو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے نکلتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- "وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُولِنَا وَ سَيِّدِنَا إِنِّي نَبِيٌّ أَوْ رَسُولٌ عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ وَالْإِفْتِرَاءِ وَتَرَكَ الْقُرْآنَ وَ أَحْكَامُ الشَّرِيعَةِ الْغَرَّاءِ فَهُوَ كَافِرٌ كَذَّابٌ، ۳۸ یعنی جو شخص ہمارے رسول اللہ اور آقا کے بعد یہ دعوی کرے کہ وہ علی وجہ الحقیقت نبی ہے اور افتراء سے کام لے اور قرآن اور احکام شریعت عالیہ کا انکار کرے وہ کافر اور کذاب ہے.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقی نبی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ صاحب شریعت جدیدہ ہونے کا مدعی ہو اور قرآن کریم کو چھوڑ دینے کی تعلیم دے.اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی نبوت کا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا ہے اور نہ ہم آپ کو ایسا نبی مانتے ہیں بلکہ ایسے مدعی کو آپ کی اتباع میں کا فرو کذاب سمجھتے ہیں.اسی حوالہ کے آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اردو میں تحریر فرماتے ہیں:.د غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت..کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سر چشمہ سے جُدا ہو کر آپ ہی براہِ راست نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہ ملحد بے دین ہے.اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر وتبدل کر دے گا.پس بلا شبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے.‘۳۹ ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ پر حقیقی نبی سے وہ مراد لیتے ہیں کہ جو نئی شریعت لانے کا مدعی ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے بغیر براہِ راست نبوت پانے کا مدعی ہو.اور اس تعریف کو مدنظر رکھ کر اپنے لئے احادیث یا اپنے الہاموں میں لفظ نبی کو ایک استعارہ قرار دیتے ہیں.یعنی اگر نبوت حقیقی کی یہ تشریح ہو تو آپ ایسے نبی ہرگز نہیں بلکہ اس صورت میں آپ کے لئے نبی کا لفظ بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے.اور اس مضمون کا ہم نے کبھی انکار نہیں کیا اور اسے ہمیشہ سے درست اور صحیح تسلیم کرتے چلے آئے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی نبوت کی یہ تشریح قرآن کریم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا انبیائے سابقین یا اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہے؟ یا صرف لوگوں میں مشہور ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعریف حقیقی نبوت کی وہ ہے جو اس وقت کے مسلمانوں میں رائج ہے اور چونکہ داعی مخاطبین کے خیالات کا خیال رکھتا ہے تا کہ انہیں دھوکا نہ لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تعریف کے ماتحت اپنے حقیقی نبی ہونے کا انکار کیا ہے کیونکہ اگر آپ بغیر اس تشریح کے اپنے آپ کو نبی کہتے تو یقیناً لوگوں کو دھوکا لگتا اور وہ لوگ جو پہلے ہی اپنے علماء سے یہ سنتے چلے آرہے تھے کہ یه شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے اور قرآن کریم کو نَعُوذُ بِاللهِ منسوخ کر رہا ہے اور اپنا کلمہ لوگوں سے پڑھواتا ہے وہ دھوکا کھا جاتے اور ہدایت پانا ان کے لئے مشکل ہو جاتا.پس آپ نے اس طرح ان لوگوں کو دھوکا سے بچایا اور ہدایت کا پانا ان کے لئے آسان کر دیا.یہ خیال کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نئی شریعت قائم کی ہے علماء کی طرف سے اس قدر پھیلایا گیا ہے کہ اب تک کہ پچاس سال سلسلہ کو قائم ہوئے ہو گئے ہیں اس کا اثر بعض لوگوں کے دلوں پر موجود ہے.چنانچہ دو سال کی بات ہے کہ میں حیدر آباد سے آتے ہوئے دہلی میں ایک دو روز کے لئے ٹھہرا.تو جناب خواجہ سید حسن نظامی صاحب نے میری شام کی دعوت کی.چونکہ اُسی دن روزے شروع ہوئے تھے انہوں نے مقامی لوگوں کو مد نظر رکھتے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ ہوئے افطاری کی بھی دعوت ساتھ کر دی.شام کے وقت افطاری کے بعد نماز کا سوال ہوا تو جناب خواجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ نماز کا دو جگہ انتظام ہے ایک چھت پر اور ایک نیچے ، آپ کس جگہ نماز پڑھنا پسند کریں گے.میں نے عرض کیا کہ آپ صاحب خانہ ہیں جہاں آپ فرمائیں گے ہم نماز پڑھ لیں گے.اس پر ایک صاحب بولے کہ کیا نماز میں بھی تفرقہ ہوگا ؟ میں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار ہوں.اِس پر دوسرے صاحبان بھی آمادہ ہو گئے کہ نماز ایک ہی جگہ ہو اور میں نماز پڑھاؤں.اس دعوۃ میں مغلیہ شاہی خاندان کے ایک معزز فرد بھی شامل تھے مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا سب انہیں شہزادہ صاحب کہہ کے پکارتے تھے اس تجویز کوسن کر شاہزادہ صاحب ایک دوسرے صاحب کی طرف جھکے اور اُن کے کان میں کچھ کہا جس پر انہوں نے سر ہلا کر کہا کہ ہاں ہاں نما ز تو ایک ہی طرح کی ہے.پھر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ شاہزادہ صاحب مجھ سے دریافت فرماتے تھے کہ کیا یہ مغرب کی تین ہی رکعتیں پڑھیں گے اور مسلمانوں والی نماز ہی ہوگی اور میں نے انہیں تسلی دلائی ہے کہ نمازیں ایک ہی طرح کی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ اب تک بعض علماء کا غلط پروپیگنڈا لوگوں پر اثر انداز ہے.اور وہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی نمازوں سے احمدیوں کی نمازیں جُدا ہیں.پس اس قسم کے غلط خیالات کو رد کرنے کے لئے ضروری تھا کہ نبی کی وہ تعریف جو لوگوں میں مروج تھی اس کے مطابق نبی ہونے سے انکار کیا جاتا اور یہ کام نہایت ضروری اور اہم تھا جسے باحسن وجوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پورا کیا.غیر احمدیوں کے نزدیک نبی کی تعریف اب میں بتا تا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے یہ ثابت ہے کہ غیر احمدی لوگ نبی کی یہی تعریف سمجھتے تھے کہ وہ شریعتِ جدیدہ لائے یا سابق شریعت میں کچھ رڈ و بدل کرے یا یہ کہ دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرماتے ہیں کہ :- دو بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں یہ لکھا ہے کہ آنے والا عیسی اسی اُمت میں سے ہوگا لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اسی اُمت میں ،، سے ہوگا.“
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اس اعتراض سے ظاہر ہے کہ غیر احمدی مسلمان خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کی امت میں سے نہ ہو یا شریعت جدیدہ لائے اور وہ نبی کی تعریف یہ کرتے تھے کہ جو شخص شریعت جدیدہ لائے یا براہ راست نبوت کے مقام کو پائے وہی نبی کہلا سکتا ہے.( بلکہ یہ عقیدہ تو ایسا پھیلا ہوا ہے کہ اوروں کو جانے دو مجھے بہت سے غیر مبائعین ملے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں.پس یہ عقیدہ نہ صرف غیر احمدیوں میں رائج ہے بلکہ خود غیر مبائعین میں بھی رائج ہے ) ان لوگوں کا جو جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے میں وہ بھی ذیل میں درج کر دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بدقسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا منبع نہ ہو.۲۱ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا بلکہ اب تک ہے کہ نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ صاحب شریعت ہو یا کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.اور جو مدعی صاحب شریعت بھی نہ ہو اور دوسرے نبی کا متبع بھی ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا.پس جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دیا ہے اس سے یہی مراد ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی تعریف نبوت کے بالمقابل آپ اس لفظ کو استعارہ قرار دیتے ہیں اور یہ درست ہے کہ اگر نبی کی تعریف یہ قرار دی جائے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت نبی کا لفظ جہاں بھی آئے خواہ حدیث میں خواہ کسی اور کتاب میں اسے ایک استعارہ ہی قرار دینا پڑے گا تا کہ اس عقیدہ کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے.یہ جواب اس امر کو مدنظر رکھ کر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ء کے بعد بھی بعض مواقع پر اپنی نبوت کے لئے استعارہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ آپ بھی عام مسلمانوں کے عقیدہ کی بناء پر خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے شریعت جدیدہ کا لانا یا دوسرے نبی کا متبع نہ ہونا ضروری ہے.اور اس بناء پر آپ سمجھتے تھے کہ نبی کا
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ لفظ اگر آپ کی نسبت کہیں استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد غیر نبی ہے مگر بعد میں جب خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نازل ہوئی تو آپ نے اس عقیدہ میں تبدیلی فرما دی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا (یعنی اب اسے جزئی فضیلت قرار نہیں دیتا بلکہ گلی فضیلت قرار دیتا ہوں.مرزا محمود احمد ) مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹-۱۵۰) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آپ کسی زمانہ میں اس بناء پر کہ حضرت مسیح نبی ہیں اور آپ نبی نہیں حضرت مسیح پر اپنی فضیلت کو جزئی قرار دیتے رہے لیکن بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے جو بارش کی طرح ہوئی آپ کو نبی کہہ کر پکارا تو آپ نے اس جزئی فضیلت کے عقیدہ کو ترک کر دیا اور سمجھ لیا کہ چونکہ خدا تعالیٰ مجھے نبی قرار دیتا ہے اس لئے مسیح پر جو میری فضیلت کا ذکر الہامات میں آتا ہے وہ جزئی فضیلت نہیں بلکہ ہمہ نوع فضیلت ہے کیونکہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر گلی وہ فضلیت ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور حوالہ بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مخالف آپ کے نبوت کے دعوی سے اپنے عقیدہ کی بناء پر اس دھوکا میں پڑ جاتے تھے کہ گویا آپ اسلامی شریعت منسوخ کرتے ہیں یا براہ راست نبوت کا دعوی کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں.یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوی کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے.“ ( مکتوب اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء )
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت.غرض یہ امر ثابت ہے کہ عام مسلمان چونکہ اس عقیدہ پر قائم تھے کہ نبی اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لائے یا براہ راست نبوت پائے اور آپ کے نبی ہونے کے دعوی کو سن کر فوراً یہ سمجھنے لگتے تھے کہ آپ نے نئی شریعت یا نئے کلمہ کا دعویٰ کیا ہے آپ اُن کو سمجھانے کے لئے ان کے عقیدہ کو مد نظر رکھ کر استعارہ کا لفظ استعمال فرماتے تھے اور یہ امرحق ہے کہ دوسرے مسلمانوں کی تعریف نبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال استعارہ ہی سمجھا جائے گا.یعنی وہ اس حقیقت سے خالی سمجھا جائے گا جو عام مسلمانوں کے نزدیک نبوت میں پائی جاتی ہے.اس موقع پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہوا کہ بعد میں کسی وقت خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کی یہ تعریف نہ سمجھتے تھے کہ اس کے لئے شریعت جدیدہ کا لانا یا کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہونا ضروری ہے.اور پھر یہ کہ جو تعریف نبی کی وہ سمجھتے تھے اس کے مطابق اپنے آپ کو سچ سچ کا نبی یقین کرتے تھے سو اس کے جواب میں اول تو میں وہ حوالہ جات پیش کرتا ہوں.جن.نبوت کی وہ تعریف معلوم ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک مسلم تھی اور اس کے بعد ثابت کرونگا کہ اس تعریف کے ماتحت آپ اپنے آپ کو نبی سمجھتے تھے.پہلا حوالہ جو اس بارہ نبی کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق میں میں نقل کرتا ہوں وہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبی کی کیا تعریف ہے.خدا تعالیٰ کی اصطلاح آپ فرماتے ہیں.خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے.۲ قرآن کریم کی بیان کردہ تعریف : پھر فرماتے ہیں :- Ę جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہو نگے پا لضرورت اس پر مطابق آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسلام کی اصطلاح میں نبی کی تعریف: پھر آپ فرماتے ہیں:.ایسے شخص میں ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور رسول اور محدث
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.کہتے ہیں.اور وہ خدا کے پاک مکالمات و مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں ان کی قبول 6❝ ہوتی ہیں.“۴ ۴۴۰۰ پھر فرماتے ہیں:- " خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل ز بر دست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رو سے ۲۵ نبی کہلا تا ہے.“ گزشتہ انبیاء کے نزدیک نبوت کی تعریف: پھر آپ فرماتے ہیں:- وو جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.،، عربی اور عبرانی زبانوں کے مطابق نبی کی تعریف: پھر فرماتے ہیں:.عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنیوالا.اور بغیر کثرت کے یہ معنے متحقق نہیں ہو سکتے.“ مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) پھر فرماتے ہیں:.اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.آپ کے نزدیک نبی کی تعریف: پھر فرماتے ہیں:- ،، آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکیم الہی نبوت رکھتا ہوں.“ اسی طرح فرماتے ہیں:- ،، خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.،، ہوں اسے نبی کہتے ہیں.‘‘ ۴۹ پھر فرماتے ہیں:- نبی اُس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے.‘۵۰ پھر فرماتے ہیں:- ” میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو.‘۵۱۷ نبی کے لئے شریعت لانا یا صاحب شریعت کا متبع نہ ہوناضروری نہیں پھر فرماتے ہیں:.یہ تمام بدقسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.‘۵۲ پھر فرماتے ہیں:- دو نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ کھلتے ہیں..مذکورہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نبی کی تعریف خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں ، قرآن کریم کی اصطلاح میں، سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی اسلام کی اصطلاح میں، انبیائے سابقین کی اصطلاح میں لغت کے اصطلاح میں اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت صرف یہ ہے کہ کسی کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اور جب یہ امر متحقق ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ حدیث میں جو لفظ نبی کا آپ کی نسبت استعمال ہوا ہے.اسے اگر آپ نے کبھی بھی استعارہ قرار دیا ہے تو یہ استعارہ کا لفظ عام مسلمانوں کی تعریف نبوت کو مد نظر رکھ کر ہے ورنہ مذکورہ بالا ہستیوں کی تعریف کے مطابق نبی کا لفظ حدیث میں بطور استعارہ استعمال نہیں ہوا بلکہ حقیقت پر مبنی ہے.کیونکہ اگر مذکورہ بالا ہستیوں کی تعریف کے مطابق حدیث مسلم میں اس لفظ کو
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ حقیقی نہ سمجھا جائے بلکہ استعارہ سمجھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر نہیں کئے گئے بلکہ صرف استعارہ کہہ دیا گیا ہے کہ آپ کو امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع دی گئی ہے کیونکہ ان ہستیوں کے نزدیک نبی کی تعریف صرف یہ ہے کہ کسی ا کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے.اور ایسا خیال کرنا کہ آپ کو اخبار غیبیہ فی الحقیقت کثرت سے نہیں دی گئیں بلکہ محض استعارہ ایسا کہ دیا گیا ہے بالبداہت غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام متواتر اس امر کا دعویٰ فرما چکے ہیں کہ مجھ پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرما چکے ہیں کہ :- ”خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے.لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار ہا نشان ایک جگہ جمع کر دیئے لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے.“‘۵۴ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہے بلکہ اس کثرت سے اطلاع دی گئی ہے کہ اگر اسے ہزار نبیوں پر تقسیم کر دیا جائے تو ہزار نبی کی نبوت بھی ثابت ہو جائے.اسی طرح فرماتے ہیں:- اور اگر کہو کہ اس وحی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی معجزات اور پیشگوئیاں ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں.بلکہ بعض گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگویوں سے کچھ نسبت ہی نہیں.۵۵۰ اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اکثر انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں سے بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں عطا ہوئیں.اور بعض سے تو اس قدر زیادہ یہ نعمت ملی ہے کہ ان نبیوں کی پیشگوئیوں اور معجزات کو آپ کی پیشگوئیوں اور معجزات
انوار العلوم جلد ۱۶ سے کچھ نسبت ہی نہیں ہے.اللہ تعالی ، خاتم النبیین اور امام وقت.جب آپ کی پیشگوئیوں اور اظہار عَلَی الْغَیب کا یہ حال ہے تو پھر آپ کی نسبت نبی کی اس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دینے کے صرف یہ معنی ہونگے کہ گزشتہ انبیاء میں سے اکثر بھی نبی نہ تھے بلکہ ان کے لئے استعارہ نبی کا لفظ استعمال ہوا ہے.اور یہ بھی بالبداہت باطل ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ سے ظاہر ہے.پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.۵۶۰ خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو حدیث میں نبی کے لفظ کے استعمال کو استعارہ قرار دیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی اصطلاح قرآن کریم کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح اور گزشتہ انبیاء کی اصطلاح اور اپنی اصطلاح کے مطابق نہیں قرار دیا بلکہ کسی اور اصطلاح کے مدنظر استعارہ قرار دیا ہے.مگر جہاں تک دین کا تعلق ہے ہم اسی اصطلاح پر اپنے عقیدہ کی بنیا درکھ سکتے ہیں جو مذکورہ بالا ہستیوں کی طرف سے مقرر ہو کسی دوسرے شخص کی اصطلاح کے مطابق اگر مذکورہ بالا صفات والا شخص نبی نہ قرار پاتا ہو تو یہ اصطلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زمرہ انبیاء سے خارج نہیں کر سکتی.ہاں اُس کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم یہ بھی کہتے رہیں کہ اس کی اصطلاح کے مطابق یہ لفظ استعارہ استعمال ہوا ہے تا کہ اسے دھوکا نہ لگے اور وہ ٹھوکر نہ کھائے.اب رہا یہ سوال کہ کیا اس تعریف کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ کو نبی کہا ہے ؟ تو اس کے لئے مندرجہ ذیل حوالے پیش کئے جاتے ہیں آپ فرماتے ہیں.چونکہ میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.‘۵۷ اسی طرح فرماتے ہیں:- ”خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت...دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اُس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں.۵۸۰ خلاصہ اوپر کے مضمون کا یہ ہے کہ حدیث میں نبی کے لفظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعارہ قرار دیا ہے وہ محض اس بناء پر ہے کہ عام مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ نبی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شریعت جدیدہ لائے اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.اور آپ بھی اُس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے آپ کے خیال میں تبدیلی نہ کر دی عام مسلمانوں کے خیال کے مطابق ایسا سمجھتے رہے.پس ایک زمانہ تک تو عام مسلمانوں کے خیال اور اس کے مطابق اپنے خیال کی بناء پر آپ اسے استعارہ قرار دیتے رہے اور بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی وحی نے آپ پر حقیقت کو واضح کر دیا تو آپ صرف عوام کی تشریح کے مطابق اور ان کو دھوکا سے بچانے کے لئے اسے استعارہ قرار دیتے رہے تا وہ آپ کے دعوی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کو صاحب شریعت ہونے کا دعوی ہے ورنہ اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں ، قرآن کریم کی اصطلاح میں ، اسلام کی اصطلاح میں ، سابق انبیاء کی اصطلاح میں لغت کی اصطلاح اور خدا تعالیٰ سے علم پانے کے بعد خود آپ کی اصطلاح میں نبی کی ہے آپ نے کبھی اسے استعارہ نہیں قرار دیا.اور جو شخص ان اصطلاحات کی بناء پر بھی آپ کی نبوت کو محض استعارہ نبوت قرار دیتا ہے اُسے دو باتوں میں سے ایک کو ضرور تسلیم کرنا پڑیگا.یا تو اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کو کثرت سے امور غیبیہ عطاء نہیں ہوئیں یا اسے پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سابق انبیاء میں سے بھی اکثر نبی نہ تھے.اس جگہ ایک شبہ پیش کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی ایک ایک شبہ کا ازالہ تحریر میں یہ درج ہے کہ :- اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکامِ شریعتِ سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے ،، خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.“ ۵۹ اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ شریعت جدیدہ لانے یا براہ راست نبی ہونے کی شرط کو نبی کے لئے عوام مسلمانوں کا عقیدہ قرار نہیں دیتے بلکہ اسلام کی اصطلاح قرار دیتے ہیں اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسلام کی اصطلاح پہلے کچھ تھی اور بعد میں کچھ اور ہوگئی.
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ جو حوالے میں او پر لکھ آیا ہوں ان میں سے دو میں آپ نے اسلام کی اصطلاح میں نبوت کی یہ تعریف کی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے امور غیبیہ پر مطلع کیا جائے وہ نبی ہوتا ہے.ان میں سے ایک حوالہ تو الحکم کی ڈائری کا ہے اور دوسرا حوالہ آپ کی تصنیف لیکچر سیالکوٹ کا ہے.اب اس مخالف حوالہ کو مدنظر رکھ کر ہم دو میں سے ایک بات تسلیم کر سکتے ہیں یا تو یہ کہ ان میں سے ایک حوالہ غلط ہے یا پھر یہ کہ ان حوالوں میں اسلام کی اصطلاح کے الفاظ دو مختلف معنوں میں مستعمل ہوئے ہیں.اگر اس اختلاف کی یہ تاویل کی جائے کہ الحکم ۱۸۹۹ء کا حوالہ درست ہے اور دوسرے دو حوالے غلط ہیں تو یہ بالبداہت باطل ہے.کیونکہ اول تو ”الحکم“ کے اس حوالہ کے مقابل پر دو حوالے ہیں جن میں سے ایک ڈائری کا حوالہ ہے اور دوسرا خود آپ کی تصنیف کا.اگر آپ کی تحریر کے مقابل پر صرف ڈائری ہوتی تو خیال کیا اسکتا تھا کہ ڈائری غلط ہے مگر جب کہ ڈائری کی تائید آپ کی تصنیف کر رہی ہے اسے غلط کس طرح کہا جا سکتا ہے.اور اگر یہ تاویل کی جائے کہ ان دونوں قسم کے حوالوں میں اسلام کی اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی ہے تو میرے نزدیک ۱۸۹۹ء کے الحکم کے حوالہ میں اسلام کی اصطلاح کے معنے اہلِ اسلام کی اصطلاح کے ہیں اور یہ مراد نہیں کہ دینِ اسلام کی اصطلاح میں نبی اسے کہتے ہیں کہ جو شریعت لائے یا براہ راست نبی ہو.اور اگر یہ تاویل کی جائے تو پھر اس حوالہ سے نفسِ مضمون پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا کیونکہ یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے نزدیک نبوت کے یہی معنے ہیں.اہل اسلام کو لفظ اسلام سے تعبیر کرنا محاورہ بھی ہے مثلا مسلمانوں کے روز مرہ میں یہ بولا جاتا ہے کہ آج اسلام کی یہ حالت ہے کہ ہر جگہ وہ ذلیل ہو رہا ہے اور اس سے مذہب اسلام نہیں بلکہ مسلمان مراد لئے جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں الحکم ۱۸۹۹ء کا حوالہ ہی اصل ہے یا یہ کہ اس میں تو اسلام سے مراد دین اسلام ہے اور دوسرے دو حوالوں میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہل اسلام کی اصطلاح ہے تو میں کہتا ہوں کہ ایسے شخص کو دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.اول تو اسے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک نبی اسے کہتے ہیں کہ جو محض مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور غیب کی اخبار پر اسے غلبہ دیا جائے اور یہ بالبداہت غلط ہے.مسلمان تو اس عقیدہ کو کلی طور پر رڈ کرتے ہیں یہ عقیدہ تو بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا ہے مگر آپ کے مخالف اسے خود ساختہ تعریف قرار دے کر
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ اس امر پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ نبی کے لئے نیا کلمہ اور نئی شریعت لانا ضروری ہے اور وہ دوسرے نبی کا متبع نہیں ہوسکتا اگر غیر احمدیوں کے نزدیک نبوت کی صرف یہ تعریف ہوتی کہ جو مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے مقابل پر اس قدر مشکلات کا سامنا کیوں ہوتا؟ نیز اس تاویل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی رڈ فرماتے ہیں کیونکہ آپ فرماتے ہیں.یہ تمام بد قسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اُس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا منبع نہ ہو.‘Y اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف نبی کی یہ تعریف نہیں مانتے تھے کہ وہ بغیر شریعت کے بھی آسکتا ہے اور کسی دوسرے نبی کا متبع بھی ہو سکتا ہے.دوسری مشکل یہ پیش آئے گی کہ جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف طور پر تحریر فرما چکے ہیں کہ نبی کی تعریف خدا تعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت خود آپ کے نزدیک یہی ہے کہ وہ مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہو اور امور غیبیہ کثرت سے اس پر ظاہر کئے جائیں.پس اگر میرے بیان کردہ اوپر کے حوالوں کی یہ تاویل کی گئی کہ اِن میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہلِ اسلام کی اصطلاح ہے نہ کہ مذہب اسلام کی اصطلاح تو خلاصہ مطلب یہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت خود آپ کے نزدیک یہی ہے کہ وہ مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہو اور امور غیبیہ کثرت سے اُس پر ظاہر کئے جائیں.پس اگر میرے بیان کردہ اوپر کے حوالوں کی یہ تاویل کی گئی کہ ان میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہلِ اسلام کی اصطلاح ہے نہ کہ مذہب اسلام کی اصطلاح تو خلاصہ مطلب یہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک تو نبوت کی تعریف یہ ہے کہ جو مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں.لیکن اسلام کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ جو شریعت جدیدہ لائے یا براہ راست نبوت پائے.یہ معنی کیسے خلاف عقل ہونگے اور وہ مذہب اسلام کون سا ثابت کیا
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.جائے گا جو خدا تعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کریم کی اصطلاح اور سابق انبیاء کی اصطلاح اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام سے قائم کردہ اصطلاح کے خلاف کوئی اور اصطلاح پیش کرتا ہے.غرض یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ یا تو الحکم کے حوالہ میں اہل“ کا لفظ چُھوٹ گیا ہے یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الفاظ تحریر فرمائے تھے اُس وقت آپ کی مراد اسلام سے دین اسلام نہ تھی بلکہ اہل اسلام تھی ( گو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اُس وقت تک اس عام طور پر تسلیم کی ہوئی تعریف کو خود بھی صحیح تسلیم کرتے ہوں ) اور جب آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں اسلام کی اصطلاح کے الفاظ استعمال فرمائے تو اُس وقت اس انکشاف کے ماتحت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ہو چکا تھا آپ کی مراد اسلام کی اصطلاح سے وہی اصطلاح تھی جو خدا تعالیٰ اور قرآن کریم اور سابق انبیاء کی اصطلاح ہے اور یہی تأویل ہے جو ہر قسم کے اعتراضات سے آپ کی تحریرات کو بچاتی ہے.جناب مولوی محمد علی صاحب کے بیان کردہ چار اعترافوں جناب مولوی محمد علی صاحب کے کا جواب میں یکجائی طور پر اوپر دے آیا ہوں اب میں ان کے قول کے مطابق اپنے پانچویں اعتراف پر کچھ روشنی نزدیک میرا پانچواں اعتراف ڈالتا ہوں.مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو کہ حدیث نواس بن سمعان میں نبی کا لفظ استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اس لئے پس پشت ڈالتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کو مجد دنہیں کہا.پھر فرماتے ہیں کہ بات تو صاف تھی کہ جب وعدہ صرف مجددوں کے آنے کا دیا ہے تو جو بھی آئے گا مجدد ہی آئے گا مجدد کہنے کی ضرورت نہ تھی.“ مگر بقول مولوی صاحب اس مشکل کو بھی میں نے خود ہی حل کر دیا ہے کیونکہ میں نے خود ہی لکھ دیا کہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ فرما کر اس طرف توجہ دلا دی کہ وہ آنے والا مسیح تم میں سے ہوگا یعنی امت محمدیہ کا فرد ہو گا.ا یہ فقرہ لکھ کر تحریر فرماتے ہیں.اب وقت کیا رہی اِمَامُكُمْ مِنكُم تو صراحت سے بتاتا ہے کہ وہ اس امت کا ایک مجدد ہو گا.سُبحَانَ اللہ کیا لطیف استدلال ہے دعوی کو دلیل کے طور پر پیش کرنا اسی کو کہتے ہیں.مولوی صاحب کو نہ معلوم اس موقع پر یہ امر کیوں بھول گیا کہ ہم لوگ تو نبی کی یہ تعریف کرتے ہی نہیں کہ جو امت میں سے نہ ہو بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲۰،
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ کا امتی ہوتے ہوئے ایک شخص نبی ہو سکتا ہے پھر امامُكُمُ مِنْكُمُ کی حدیث لکھنے سے میرا کونسا اعتراف ثابت ہوا جس پر وہ اس قدر خوش ہیں.اگر یہ اعتراف ہے تو اس کے لئے انہیں میرے خطبہ ۶ / جون ۱۹۴۱ ء کے انتظار کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ میں تو شروع سے ہی یہ کہتا چلا آ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں.یہ اعتراف تو ہوش سنبھالنے کے زمانہ سے ہے جس پر کوئی چالیس سال گزر چکے ہیں کوئی نیا اعتراف نہیں.اگر اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے وہ ہمیں نبوت کے مسئلہ میں نئی بات پیدا کرنے والا نہیں سمجھتے تو اس قدرشور کس امر کا ہے.مولوی صاحب موصوف کو یاد رہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہو کر نبی بنے تھے اور ان ہی معنوں میں ہم آپ کو نبی اور رسول کہتے ہیں.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی آپ کا نام نبی رکھا گیا ہے.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو مولوی صاحب فرمائیں کہ اسے کس نام سے پکارا جائے.اگر وہ یہ فرمائیں کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہیں.مگر نبوت کے معنے اظہار امر غیب کے ہیں.اور پھر میں مولوی صاحب سے کہتا ہوں کہ نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس جب ہمارا یہ عقیدہ ہے تو اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ سے یہ اقبالی ڈگری کیونکر میرے خلاف جاری ہوگئی کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع مانتا ہوں اس لئے میں اقبال کرتا ہوں کہ آپ مجدد تھے نبی نہ تھے.مولوی صاحب کو نہ معلوم میری تحریر میں سے صرف پانچ اقبالی ڈگریاں کیوں ملیں ایسی اقبالی ڈگریاں تو میری تصانیف میں سینکڑوں موجود ہوں گی..پھر جناب مولوی صاحب ازالہ اوہام صفحہ ۵۹ کا یہ حوالہ مسیح موعود اپنے وقت کا مجدّد ہوگا پیش کرتے ہوئے مجھ پر لا علمی کا الزام رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ابتداء سے یہی مقرر ہے کہ مسیح اپنے وقت کا مجد د ہو گا ، پھر میں اِس کا انکار کیوں کر رہا ہوں.یہ میری لا علمی کی دلیل نہیں بلکہ
۶۴ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ مولوی صاحب کی لاعلمی کی دلیل ہے کیونکہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجدد نہ تھے.ہم تو بارہا مخالفوں کے سامنے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام صادق نہیں تو بتاؤ کہ چودھویں صدی کا مجدد کہاں ہے؟ پس یہ مولوی صاحب کی ہمارے عقیدہ سے لاعلمی کا ثبوت ہے کہ ان کے خیال میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجد د نہیں سمجھتے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں، مؤمن بھی سمجھتے ہیں، صالح بھی سمجھتے ہیں ، شہید بھی سمجھتے ہیں کہ آپ نے اسلام کی خدمت میں ہر لحظہ اپنی جان قربان کی ، صدیق بھی سمجھتے ہیں، محدث بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا، مجدد بھی سمجھتے ہیں کہ آپ نے زمانہ کے فسادات کو دور کیا اور نبی بھی سمجھتے ہیں.جس طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اول المؤمنین سمجھتے ہیں، صالح سمجھتے ہیں، شہید سمجھتے ہیں ، صدیق سمجھتے ہیں، محدث سمجھتے ہیں، مجدد اعظم ؟ سمجھتے ہیں.اور نبی اور رسول بھی سمجھتے ہیں اور سید الانبیاء بھی سمجھتے ہیں اور خاتم النبین بھی سمجھتے ہیں.کیا مولوی صاحب کا یہ عقیدہ نہیں اور ان کے خیال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اس کے کہ محدث ہوتے یعنی ان سے کلامِ الہی ہوتا اور بغیر اس کے کہ وہ مجدد ہوتے یعنی مفاسد زمانہ کی اصلاح کرتے نبی اور رسول ہو گئے تھے.اگر آپ محدث نہ تھے یعنی خدا تعالیٰ آپ سے کلام نہیں کرتا تھا ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ تِلْكَ الْخُرَافَاتِ) اور اگر آپ مجدد نہ تھے یعنی دنیا میں کوئی نیا علم آپ نہیں لائے تھے ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ) تو پھر فرمائیے کہ آپ صاحب شریعت جلیلہ و فائقہ نبی کیونکر ہو گئے؟ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ اگر اسی قسم کے دلائل پر اپنی تحریرات کی بنیا درکھنے لگے تو جن نبیوں کے متعلق صِدِّيقًا نَّبِيًّا يا نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ " کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں ان کے متعلق بھی اقبالی ڈگریاں دینے لگ جائیں گے کہ بس جب مان لیا کہ صالح اور صدیق تھے تو پھر نبی کس طرح ہو گئے.جناب مولوی صاحب! ہمارا اور آپ کا یہ اختلاف نہیں کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام محدث یا مجدد نہ تھے بلکہ یہ اختلاف ہے کہ آپ کے نزدیک وہ صرف محدث اور مجدد تھے مگر ہمارے نزدیک وہ باقی سب انبیاء کی طرح محدّث اور مجدد ہونے کے علاوہ نبی کے مقام پر بھی ۶۵ فائز تھے.پس آپ نے میرے اعتراف کو پیش نہیں کیا بلکہ اپنی غلط فہمی کا اعتراف فرمایا ہے.پھر اس اعتراف کے ذکر کے دوران میں جناب مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حوالہ کو بھی پیش کیا ہے کہ ” نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محد ثیت کا دعوی ہے جو
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.،، خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس معاملہ میں میری لا علمی ہے یا جناب مولوی صاحب کی.مگر میں اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس کے کبھی بھی منکر نہیں ہوئے کہ آپ خدا تعالیٰ کے حکم سے محدث تھے ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ آپ سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا تھا اس لئے آپ خدا تعالیٰ کے حکم سے محدث تھے اور آپ نے ان خرابیوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دور کیا جو مسلمانوں میں پڑ گئی تھیں اس لئے آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مجدد تھے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر امور غیبیہ کو کثرت سے ظاہر کیا آپ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے.باقی رہا یہ سوال کہ آپ فرماتے ہیں کہ نبوت کا دعویٰ نہیں، سو یہ بات بار بار ثابت کی جا چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک وقت تک عام مسلمانوں کے خیال کے مطابق یہ خیال تھا کہ نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ شریعت جدیدہ لائے یا یہ کہ کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو اس وقت تک آپ اپنی نسبت نبی کے الفاظ کے استعمال کی تاویل فرماتے تھے اور یہ قرار دیتے تھے کہ اس کے معنے محض محدث کے ہیں جو نبی نہیں ہوتا.مگر بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی متواتر اور بارش کی طرح کی وحی نے آپ کو نبی کا خطاب دیا تو آپ نے یہ عقیدہ بدل لیا.پس یہ حوالہ کسی طرح بھی ہمارے عقیدہ پر اثر انداز نہیں خصوصاً جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانیوالا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب“ اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.‘۱۸ اب جناب مولوی صاحب توجہ فرمائیں کہ نبوت کا دعویٰ نہیں کے معنے اس حوالہ کی موجودگی میں یہی لئے جائیں گے کہ آپ صاحب شریعت جدیدہ یا براہ راست نبی نہ تھے بلکہ رسول کریم صلی اللہ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.علیہ وسلم کے فیض سے رسول ہوئے اور اس سے کسے انکار ہے اگر آپ کو بھی یہی اقرار ہو تو ہمارا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں.باقی رہا یہ سوال کہ بلکہ محدثیت کا ہے" کے الفاظ سے اور کسی دعوے کا انکار نکلتا ہے تو اس کا جواب میں پہلے دے آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر جتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے.،،، اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت آپ پر یہ امر منکشف ہو چکا تھا کہ اظہار عَلَى الْغَيْبِ والے شخص کا مقام محدث کے مقام کے اوپر ہے پس اس انکشاف کے بعد بھی اگر مولوی صاحب پ ہم کو غافل رہنے کی تلقین کریں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے اس میں کسی کا لحاظ نہیں کیا جاسکتا.اس کے علاوہ میں آپ کو مندرجہ ذیل حوالہ کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- ”خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں.“ ( بدر ۵ / مارچ ۱۹۰۸ء) جبکہ آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت جہاں جہاں نبی کا لفظ آتا ہے اس کے معنے محض محدث کے ہیں تو اِس حوالہ میں ذرا محدث کا لفظ رکھ کر دکھا دیجئے.محدث کا لفظ اس جگہ رکھنے سے عبارت یوں ہو جاتی ہے.” خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے محدث کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم محدث ہیں.اب ذرا اس عبارت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ بھی ملاحظہ فرمائیے.غرض اِس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اِس اُمت میں سے گزر چکے ہیں اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ دیا گیا.کے اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اوپر کے حوالہ میں نبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھ کر اور دوسرے حوالہ سے ملا کر پڑھنے سے کیا یہ بات نہیں نکلتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے کوئی محدث اِس اُمت میں نہیں گزرا.کیونکہ آپ کی تشریح کے مطابق بدر ۵/ مارچ ۱۹۰۸ ء کی ڈائری میں اگر نبی کی جگہ محدث کے الفاظ رکھ دیئے جائیں تو اس کے صرف یہی معنے نکلتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف اور صرف ایک محدث اس اُمت میں گزرے ہیں چلیے چھٹی ہوئی.نبوت سے اس اُمت کو پہلے جواب مل چکا تھا اب تیرہ سو سال کے محدثین کو بھی جواب مل گیا ہے مگر مشکل یہ پیش آئے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر اِس اُمت میں محدث ہوئے تو عمر ضرور ان میں ہوگا اسے اگر عمر کو محدثیت سے جواب دیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہوتی ہے.اور اگر کم سے کم حضرت عمرؓ کو محدث تسلیم کر لیا جائے تو یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کی تغلیط ہوتی ہے یا پھر حضرت عمرؓ کو نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ اِس اُمت سے جواب ملتا ہے.کیونکہ اس تعریف کے رو سے اِس اُمت میں تو اور کوئی محدث گزرا نہیں اور ان سب مشکلات پر مزید یہ مشکل پیش آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے 66 معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب کے نہیں ہیں.“ ۷۲ پس اگر نبی کی جگہ محدث کے الفاظ رکھ دیں تو یہ حوالہ اس حوالہ کو کاتا ہے اور اس کے خلاف فتویٰ دیتا ہے.پھر جناب مولوی محمد علی صاحب فرماتے ہیں کہ :- دو مسیح موعود کو یہ بتا کر کہ آپ کا اصل مقام محدث ہے نبی نہیں اس غلطی کو دور کر دیا گیا.مگر جو خود اس غلطی میں رہنا چاہیں انہیں کون نکال سکتا ہے.“ میرا جواب یہ ہے کہ یہ سوال ایسا آسان نہیں کیونکہ اگر بقول آپ کے ازالہ اوہام میں اس غلطی کا ازالہ کر دیا گیا تھا تو پھر ایک غلطی کے ازالہ میں آپ نے یہ کیوں تحریر فرمایا.اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے.کیونکہ اگر
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.وہ رسول نہ ہو.تو پھر غیب مصفے کی خبر اس کو مل نہیں سکتی.اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے.بالضرور اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.‘، ۷۴ اور آپ نے آخری خط میں جو اخبار عام میں چھپا ہے یہ کیوں فرمایا.جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.‘۵ کے مولوی صاحب آپ نے غور فرمایا کیا آپ کے الفاظ کہ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.حضرت مسیح ناصری کے اس قول کی طرز پر تو کلام نہیں کیا گیا.جس میں وہ فرماتے ہیں وكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّادُمُتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ے اور کیا یہ تو اشارہ نہیں کہ میں اپنی زندگی میں تو اس دعوی سے پھرتا نہیں.میرے مرنے کے بعد اگر بعض احمدی اس سے پھر جائیں تو میں ان کا ذمہ دار نہیں.اس کے بعد مولوی صاحب نے بعض حوالے نقل کئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں جہاں لفظ نبی آیا تحریرات میں نبی سے مراد محدث ہے ہے اس سے مراد محدث ہے.مثلاً سراج منیر صفحہ ۴۰۳ سے ایک حوالہ درج کیا ہے جس کے بعض الفاظ یہ ہیں.سوخدا کی اصطلاح ہے جو اس نے ایسے لفظ استعمال کئے.ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ کوئی نیا نبی آ سکتا ہے اور نہ پرانا.قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا مُرسل کے لفظ سے یاد کرے.‘ے کے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اس حوالہ سے اگر کچھ نکلتا ہے تو صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق نبی کہا جاسکتا ہے.ہاں ایک حقیقی معنے ایسے بھی ہیں کہ ان کے رو سے آپ کو نبی نہیں کہا جا سکتا.ان کے رو سے آپ کی نسبت یہ لفظ مجاز ہے.سو ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نبی کی جو تعریف عام طور پر رائج ہے اس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقیقی نبی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس تعریف کے رو سے نبی کے لئے شریعت کا لانا یا براہ راست نبوت پانا شرط ہے.اور یہ شرط حقیقی طور پر آپ میں نہیں پائی جاتی ہاں چونکہ آپ علوم قرآن کو لائے ہیں اور قرآن کے مطالب عالیہ جن کو مسلمانوں نے مُردہ کی طرح کر دیا تھا اُن کو پھر آپ نے زندہ کیا ہے اور آسمان سے واپس لائے ہیں اس لئے مجازی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ شریعت لائے ہیں مگر وہی شریعت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے نہ کہ کوئی اور.اور وہی قرآن بلا کم و کاست جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور جو مطابق پیشگوئی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرآنِ إِلَّا رَسْمُهُ ۸ صرف لفظوں کا ایک چولہ رہ گیا تھا اور اس کے اندر کا مغز اور اس کی معجزانہ تاثیر جاتے رہے تھے آپ پھر دنیا میں واپس لائے.پس شریعت لانے کے ان مجازی معنوں کے رو سے آپ عام مسلمانوں کی تعریف نبوت کے مطابق مجازی نبی کہلائے کیونکہ حقیقی کتاب کوئی نہیں لائے صرف مجازی طور پر آپ کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ آپ کتاب لائے یعنی قرآن کریم جو رسم کے طور پر رہ گیا تھا اسے پھر اس کی پاک تاثیرات کیسا تھ آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا.نیز جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک عرصہ تک مسلمانوں کی عام تعریف کو خود بھی درست تصویر فرماتے تھے اور اُس وقت تک اس تعریف کے مطابق اپنے آپ کو مجازی نبی ہی تصویر فرماتے تھے.مگر جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے جو بارش کی طرح نازل ہوئی.آپ کو اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا کہ تو آپ خدا تعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح اور سابق نبیوں کی اصطلاح کے مطابق اپنے آپ کو في الحقيقت نبی سمجھنے لگے لیکن عام مسلمانوں کی اصطلاح کی رو سے پھر بھی اپنے آپ کو مجازی نبی قرار دیتے تھے.جیسے کہ ہم بھی اس اصطلاح کی رو سے اب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجازی نبی اور استعارہ نبی کا نام پانے والا قرار دیتے ہیں.گو جہاں تک دین کا اور عقیدہ کا تعلق ہے ہمیں اسی اصطلاح سے واسطہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ، قرآن کریم کی ، اسلام کی اور سابق انبیاء کی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.ہے اور عوام مسلمانوں کی اصطلاح سے صرف اسی قدر واسطہ ہے کہ ان کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے ہم اس کا بھی لحاظ رکھ لیتے ہیں.دوسرا حوالہ مولوی صاحب نے انجام آتھم سے درج کیا ہے جس کے بعض فقرات یہ ہے.اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا.اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانامستلزم کفر نہیں.مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے.۱۰۰ اس حوالہ سے بھی وہی مطلب نکلتا ہے جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں.بلکہ اس میں تو یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کے خوف سے آپ اس لفظ کے عام استعمال کو منع فرماتے ہیں.ظاہر ہے کہ اس جگہ عام مسلمانوں سے مراد احمدی نہیں بلکہ غیر احمدی ہیں اور ان کو یہ دھوکا نہیں لگ سکتا تھا کہ وہ آپ کو نبی سمجھنے لگ جاتے کیونکہ جو محدث بھی نہیں مانتا وہ نبی کب ماننے لگا.انہیں صرف یہ دھوکا لگ سکتا تھا کہ وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مستقل نبوت کے مدعی ہیں جو دوسرے کسی نبی کی اتباع کے بغیر حاصل ہوتی ہے اور قرآن کریم کی شریعت کو منسوخ قرار دیتے ہیں.ان کو اس مغالطہ سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس حقیقت کا انکار کیا جاتا جو وہ لفظ نبی کے ساتھ مستلزم سمجھتے تھے مگر اس حقیقت کا ہمارے دین اور مذہب سے کیا تعلق؟ ہمارا عقیدہ تو خدا تعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کریم کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح، سابق انبیاء کی اصطلاح اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مبنی ہے اور ان کے رو سے نبی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاق پائے اور اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوحتی کہ اس کی وحی میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو اور اس میں شک کرنا کفر کا مستلزم ہو.۵۱ جناب مولوی محمد علی صاحب آگے چل کر کیا 190 ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں؟ تحریر کرتے ہیں کہ وہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ گویا ۱۹۰۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی تحریرات دربارہ نبوت منسوخ ہیں اور پھر اس پر فرماتے ہیں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایسا کہا ہے کہ میری ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں؟
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ میرا جواب یہ ہے کہ نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کہا کہ میری ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں اور نہ میں نے کبھی کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی تحریرات درباره نبوت منسوخ ہیں میں نے جو کچھ کہا ہے فقط یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو دور آئے ہیں.ایک وہ دور جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو آپ کو نبی اور رسول کہا جاتا تھا اور آپ بھی یہ دعوی فرماتے تھے کہ مجھے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں میں یہ خیال رائج تھا کہ نبی وہ ہے جو شریعت لائے یا سابق نبی کا متبع نہ ہو آپ اپنے الہامات کی تاویل فرماتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نبی کی حقیقت میرے اندر نہیں پائی جاتی.اور دوسرا دور وہ آیا کہ اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرف پھرا دیا کہ آپ فی الواقع نبی ہیں اور نبی کی حقیقی تعریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نہیں کہ وہ شریعت جدیدہ لائے یا کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو تب آپ نے اس تعریف کے مطابق اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کر دیا لیکن مسلمانوں میں رائج معنوں کے رو سے اپنے آپ کو پھر بھی نبی نہیں کہا بلکہ ان معنوں کی رو سے نبوت کے دعوی کا انکار کرتے رہے.اب اس پر یہ کہنا کہ میں ۱۹۰۱ء سے پہلے کی سب تحریرات دربارہ نبوت کو منسوخ قرار دیتا ہوں مجھ پر ایک افتراء ہے میں تو ان تحریرات کو سوائے اس کے کہ بعد میں آپ نے عوام مسلمانوں کی تعریف نبوت اور خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں فرق بتایا اور سوائے اس کے کہ پہلے آپ سمجھتے تھے کہ آپ حقیقی تعریف نبوت کے ماتحت نبی نہیں ہیں اور بعد میں یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ وہ حقیقی تعریف نہیں ہے آپ نبی ہیں اور کسی امر کو منسوخ قرار نہیں دیتا بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اپنے دعوی کی جو تشریح آپ نے شروع میں بیان فرمائی وہی آخر تک بیان فرماتے رہے اور اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہوا آپ ابتداء سے اس امر کے مدعی تھے کہ آپ پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے گئے ہیں اور یہی دعویٰ آپ کا آخری بھی تھا اس میں سرِ مو فرق نہ آیا.پس میرے اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے جسے میں نے اپنی کتاب حقیقت النبوۃ میں بھی بیان کر دیا ہے یہ کہنا کہ گویا میں دربارہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریرات کو منسوخ قرار دیتا ہوں مجھ پر ایک اتہام ہے اور ایسا اتہام لگانے والا یقیناً اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے.میری مندرجہ ذیل تحریرات اس بارہ میں قابل غور ہیں: خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے.۵۲۰۷ پس تریاق القلوب کی تحریر کے بعد آپ کے اجتہاد اور عقیدہ کو بدلا گیا نہ کہ امر واقعہ اور
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ آپ کے درجہ کو ۵۳ یعنی تعریف نبوت کے بارہ میں آپ کے اجتہاد کو بدلا گیا نہ یہ کہ جس حقیقت کا اپنے اندر پایا جانا بتاتے تھے اس میں کوئی تبدیلی ہوئی.میں آپ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں کہ نہ یہ میرا عقیدہ ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھا ہے کہ آپ کو پہلے اللہ تعالیٰ نے جزوی نبی قرار دیا بعد میں نبی ۵۴ اسی سلسلہ میں مولوی محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ " کیا جناب میاں صاحب نے یا ان کے مریدین نے کبھی یہ غور کیا کہ ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی تحریروں کو منسوخ کہنے کے کیا معنے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۱۸۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو یہ کہا تھا کہ آپ محدث ہیں نبی نہیں اور ۱۹۰۱ء میں کہا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں اس لئے ۱۸۹۱ ء میں جو کچھ کہا تھا وہ منسوخ ہو گیا مگر محدث ہیں نبی نہیں نبی ہیں محدث نہیں دونوں متضاد باتیں ہیں ان میں سے کچی صرف ایک ہی ہو سکتی ہے.۵۵ اس الزام کا جواب اوپر گزر چکا ہے نہ میرا یہ عقیدہ ہے اور نہ میں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۱ء میں یہ کہا کہ آپ محدث ہیں نبی نہیں اور ۱۹۰۱ء میں کہا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں اور نہ یہ استدلال تعریف نبوت کے بدلنے کے عقیدہ سے ہو سکتا ہے.یہ محض مولوی صاحب کی زبردستی ہے اور چونکہ اب وہ اس عقیدہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے بارہ میں وہ پہلے رکھتے تھے پھر گئے ہیں اس لئے اب انہیں یہ باتیں سو جھنے لگی ہیں.میں تو بارہا لکھ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو شروع میں فرمایا تھا وہی آخر میں فرمایا جس امر میں تبدیلی ہوئی ہے وہ صرف آپ کا اجتہاد دربارہ تعریف نبوت ہے اور بس.اگر الہام کے متعلق مولوی صاحب کا دعوی سچا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام پیش کریں جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ محدث ہیں نبی نہیں مگر وہ بھی ایسا الہام پیش نہیں کر سکتے.وہ جو کچھ پیش کر سکتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد دربارہ نبوت ہے اس سے زیادہ وہ کچھ پیش نہیں کر سکتے.مولوی صاحب کا یہ فقرہ تو نہایت مضحکہ خیز ہے کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں کیونکہ ہر نبی محدث ہوتا ہے اور بغیر محدث ہونے کے یعنی خدا تعالیٰ سے الہام پانے کے کوئی شخص نبی ہو ہی کیونکر سکتا ہے.میں مولوی صاحب کے ان استدلالات کے مقابل پر مولوی صاحب کو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کی طرف توجہ دلاتا ہوں.
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.سو یاد رکھنا چاہئے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اُس کو پکارا جائے؟ اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے....اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ گھلتے ہیں پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کرسکتا ہوں.‘،۸۶ یہ حوالہ خود واضح ہے اور اگر مولوی صاحب غور فرما ئیں تو حقیقت امر کو پاسکتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے دل سے اس غیظ کو دور فرمائے جو میری نسبت اور مبائعین کی نسبت ان کے دل میں پیدا ہو رہا ہے اور جو ان کو حقیقت پر غور کرنے سے مانع ہے.مولوی صاحب غور تو فرمائیں کہ اگر اس حوالہ میں نبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھا جائے تو عبارت یوں ہوتی ہے.اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے..اور محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.اب کونسا معقول آدمی اس عبارت کو صحیح تسلیم کرے گا کہ محدث اسے نہیں کہتے ہیں کہ جس پر امور غیبیہ کثرت سے کھلتے ہیں اور پھر یہ کہ محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ایک ہی سانس میں محدث کے نام کے لئے امور غیبیہ کی کثرت کا انکار اور کثرت سے امور غیبیہ کھلنے والے کی نسبت یہ کہنا کہ اس صفت کی وجہ سے وہ محدث نہیں کہلا سکتا اور دوسرے فقرہ میں اس پر اصرار کہ محدثیت ایک موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں ، کیا معقول ہو سکتا ہے اور کیا آپ اس فقرہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا پسند کرتے ہیں؟ اور پھر ان الفاظ پر بھی مولوی صاحب غور فرمائیں کہ نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.کیا اس میں نبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ فقرہ اپنے دعوئی کے متعلق ہے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت...انوار العلوم جلد ۱۶ اور آپ کے نزدیک آپ کا دعویٰ محدثیت کا تھا.پس اس فقرہ کو دوسرے الفاظ میں آپ کے عقیدہ کے رو سے یوں بھی لکھا جا سکتا ہے.محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ، یعنی ضروری نہیں کہ ہر محدث شارع ہو.بعض محدث بغیر نبی ہونے کے شارع ہو سکتے ہیں لیکن بعض محدث ایسے بھی ہوتے ہیں جو شارع نہیں ہوتے کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ بعض غیر نبی بھی شارع گزرے ہیں ؟ اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں تو اس جگہ نبی کی جگہ پر محدث کا لفظ کس طرح رکھا جائے؟ پھر آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعوی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم وو.،، سے کیا گیا.‘، ۵۷ اور پھر اس پر اعتراض کیا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جھوٹ نہیں لکھا تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کا الزام آتا ہے مگر یہ استدلال بھی آپ کا غلط ہے کیونکہ محدثیت کے دعوی کی نسبت آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جس دعوی کو آپ محدثیت قرار دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہی حکم سے کیا گیا تھا اس میں جھوٹ کا کیا ذکر ہے؟ یہ تو آپ نے نہیں فرمایا کہ محد ثیت کی تعریف آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی ہے.پھر یہ بھی یاد رہے کہ ہر نبی محدث بھی ہوتا ہے.۸۸ اس کے بعد جناب مولوی صاحب مواہب الرحمن مواہب الرحمن کا حوالہ کہ اللہ تعالی اولیاء کا ایک حوالہ پیش فرماتے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر ۱۹۰۱ ء سے کلام کرتا اور اُن کو نبیوں کا رنگ دیتا ہے میں اللہ تعالی نے حضرت سیح موعود علیہ السلام کو یہ بتایا تھا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں تو پھر ۱۹۰۳ء میں آپ نے کیوں لکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ساتھ مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور اُن کو نبیوں کا رنگ دیا جاتا ہے اور وہ درحقیقت نبی نہیں ہوتے.پھر بڑے زور سے اعتراض فرماتے ہیں کہ :- میاں صاحب کے سامنے یہ تحریر حضرت صاحب کی بیسیوں دفعہ پیش کی گئی مگر اس کا جواب وہ کبھی نہیں دیتے اور دیں کس طرح ، اس کا جواب کوئی ہے ہی نہیں.اسی لئے وہ مباحثہ کے میدان میں نکلنے سے گریز 1966 کرتے ہیں.۵۹۰۰.“
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.میں پہلے تو ان کے اس دعوی کو لیتا ہوں کہ انہوں نے بیسیوں دفعہ اس حوالہ کو پیش کیا ہے مگر میں اس کا جواب نہیں دیتا.مجھے افسوس ہے کہ اس اعتراض میں انہوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا.حقیقت یہ ہے کہ حقیقۃ النبوۃ میں جہاں میں نے ان کے پیش کردہ ان حوالوں پر بحث کی ہے جوا ۱۹۰ ء کے بعد کے ہیں وہاں سب سے پہلے ان کے اس حوالہ کو لیا ہے اور اس کا جواب دیا ہے.پس مولوی صاحب کا یہ تو حق ہے کہ کہیں کہ وہ جواب درست نہیں.یہ حق نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ ان کے اس حوالہ کا میں نے کبھی جواب نہیں دیا.انہیں اپنا یہ قول تو بھلا نا نہیں چاہئے کہ :- ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ جو جواب ہو وہ تو ذکر کر دیا جائے پھر اس کے اوپر بے شک لکھیں کہ یہ جواب صحیح نہیں.۹۱ اصل بات یہ ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اس حوالہ کو نقل کرتے ہوئے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں.یعنی اُس حصہ کو ترک کر دیا ہے جو ان کے خلاف پڑتا تھا سارا حوالہ یہ ہے." إِنَّا مُسْلِمُونَ نُؤْمِنُ بِكِتَابِ اللهِ الْفُرْقَانِ وَ نُؤْمِنُ بِأَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا نَبِيَّةَ وَ رَسُوْلُهُ وَ انَّهُ جَاءَ بِخَيْرِ الْادْيَانِ وَ نُؤْمِنُ بأَنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِى رُبِّيَ مِنْ فَيُضِهِ وَ أَظْهَرَهُ وَعْدُهُ - وَ لِلَّهِ مُكَالَمَاتُ وَ مُخَاطَبَاتُ مَعَ أَوْلِيَائِهِ فِي هذِهِ الْأُمَّةِ وَ إِنَّهُمْ يُعْطَوْنَ صِبْغَةَ الْانْبِيَاءِ وَ لَيْسُوا نَبِيِّينَ فِي الْحَقِيقَةِ ، اس کا ترجمہ یہ ہے.”ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لاتے ہیں.اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور آپ سب سے اچھا دین لائے ہیں.اور ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آپ خاتم النبین ہیں.آپ کے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو آپ کے فیض سے تربیت یافتہ ہو اور آپ کے وعدہ کے مطابق ظاہر ہوا ہو.نیز اللہ تعالیٰ اس اُمت کے اولیاء سے مکالمات و مخاطبات فرماتا ہے اور وہ نبیوں کا رنگ دیئے جاتے ہیں لیکن وہ فی الحقیقت نبی نہیں ہوتے.“ کیا اس پورے حوالے کے بعد مجھے کسی جواب کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ امت کے دو قسم کے لوگوں کا ذکر فرماتے ہیں.ایک تو وہ شخص ہے جو آنحضرت صلی اللہ
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ علیہ وسلم سے فیض پا کر نبوت کا مقام پاتا ہے اور جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کہہ کر خبر دی ہے.اور ایک وہ جماعت اولیاء ہے جو اوپر کی تعریف میں نہیں آتی.اور نبی والی صفت یعنی کثرت امور غیبیہ ان میں نہیں پائی جاتی.صرف مکالمات و مخاطبات سے مشرف ہوتی ہے اس میں نبیوں کا سارنگ تو ہوتا ہے مگر وہ حقیقتا نبی نہیں ہوتی.اس حقیقت کا انکار کون کرتا ہے؟ ہمارا تو اس کے ایک ایک لفظ پر ایمان ہے مولوی صاحب ہی ہیں جو صرف حوالہ کے آخری حصہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نقل کرتے وقت وہی حصہ نقل کرتے ہیں پہلا چھوڑ جاتے ہیں.ہم سارے حوالہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اس اُمت میں ایک وہ بھی ہے جو ایک جہت سے امتی اور ایک جہت سے نبی ہے.اور وہ لوگ بھی ہیں جو صرف محدث ہیں اور نبیوں کا سا رنگ دیئے جاتے ہیں مگر نبی نہیں ہوتے.یہ حوالہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں.اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں.اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمتی بھی ہے اور نبی بھی.‘۹۳ یا اسی طرح فرماتے ہیں :- وو اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہہ لوگ پیدا ہو نگے.اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے اُمتی ، وہی مسیح موعود کہلائے گا.۹۴ دیکھو حقیقۃ الوحی کا یہ حوالہ بالکل مواہب الرحمن کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے.اس میں بھی ایک امتی نبی کی خبر دی گئی ہے اور اس میں بھی کہا گیا ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہو.اس میں بھی بتایا ہے کہ ایک ایسے شخص کی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جو ایک پہلو سے اُمتی اور ایک پہلو سے نبی ہوگا اور وہی مسیح موعود کہلائے گا.اور مواہب الرحمن میں بھی بتایا ہے کہ ایسے اولیاء بھی اِس اُمت میں ہیں کہ جو نبیوں کے رنگ میں رنگین ہیں لیکن نبی نہیں.اور اس حوالہ میں بھی ہے کہ میرے سوا اور اولیاء بھی اس اُمت میں ہیں کہ جو بنی اسرائیلی نبیوں کے مشابہہ ہیں لیکن نبی کہلانے کے مستحق نہیں.اس حوالہ کو پڑھ کر اور مواہب الرحمن کے حوالہ کے اس حصہ کو شامل کر کے جسے مولوی صاحب نے بغرض سہولت چھوڑ دیا
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ ہے کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں نبی کے آنے کا انکار ہے اس میں تو صریح اقرار ہے.باقی مولوی صاحب اس حوالہ کو بیسیوں چھوڑ ہزاروں دفعہ انکار کے ثبوت میں پیش کرتے جائیں تو ان کو روکنے والا کون ہے.وہ اپنی اس حرکت کے خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونگے.مولوی صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود اس کے بعد جناب مولوی محمد علی صاحب نے مجھے توجہ دلائی ہے کہ ان کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی میں غلط علیہ السلام کے الہام کی تشریح تشریح کر رہا ہوں.وہ الہام یہ ہے.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ تاویل کر کے کہ گویا میں (یعنی جناب مولوی صاحب ) صالح تھا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دُور ہو گیا ہوں تاویل باطل کا ایک بے نظیر ثبوت دیا ہے.حالانکہ اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ میں آپ ہی کا کام آپ کے بعد کر رہا ہوں اس لئے جب میں فوت ہو جاؤں گا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھ سے فرمائیں گے کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے مگر لوگوں نے بدگمانی کی آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ.وو پھر فرماتے ہیں.میاں صاحب تو بال کی کھال اُتارنے میں ماہر ہیں.“ ( کیا یہ اسلامی اخلاق کی مثال ہے جس کی طرف مولوی صاحب نے مضمون کے شروع میں دعوت دی ہے ) مگر الہام کے اس لفظ بھی“ پر کیوں غور نہیں کرتے اور کون صالح تھا اور نیک ارادہ رکھتا تھا کہ آپ کو یہ کہنا پڑا کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے وہی جو اپنے پاس بٹھاتا ہے.مولوی صاحب کا یہ شکوہ درست نہیں.” بھی" کے لفظ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے خوب غور کیا ہوا ہے اور با وجود اس کے ہم وہ معنے نہیں سمجھ سکتے جو مولوی صاحب کرتے ہیں.” بھی بے شک ایک سے زیادہ وجودوں پر دلالت کرتا ہے لیکن اس لفظ کے معنے ایک وجود کے کرنے ضروری نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں وجود ” بھی“ کے لفظ میں آ سکتے ہیں.پس ” بھی“ کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی الہام کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ آپ کے بعد کے انشقاق کو دکھائے گا تو آپ بزبانِ حال فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری جماعت میں ہزاروں صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے لوگ تھے ان میں سے آپ بھی ایک تھے.پھر کیا وجہ ہے کہ جبکہ ان میں سے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.بہت سے ہمارے پاس مقبرہ بہشتی میں آگئے ہیں آپ نے اپنی وصیت جو قادیان میں کرائی تھی منسوخ کرا دی ہے اور میرے اس حکم سے سرتابی کی ہے کہ اس مقبرہ کو اللہ تعالیٰ نے صالحین جماعت کے جمع کرنے کیلئے بنایا ہے تا کہ جس طرح انہیں زندگی میں قرب اور معیت حاصل تھی مرنے کے بعد بھی قرب اور معیت حاصل رہے اور ہم سے دور چلے گئے.آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ مگر افسوس کہ آپ نے اس دعوت کو ر ڈ کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس نہ بیٹھے.اس امر کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے ہزاروں آدمیوں کو صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے قرار دیتے ہیں مندرجہ ذیل حوالوں سے بخوبی ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں:.د میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تھوڑی سے جماعت میں ہزار ہا ایسے آدمی موجود ہیں جو متقی اور نیک طبع اور خدا تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.‘۹۶ نیز فرماتے ہیں:- میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت ،، میں ایسے ہیں کہ بچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ اِن کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.پس یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے شخص تھے اور دوسرے آپ ہیں اور اس کی طرف ” بھی“ کے لفظ میں اشارہ ہے گویا حضرت خلیفہ امسیح الاوّل اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور ہزاروں دوسرے مقربین جماعت جو آپ سے پہلے سلسلہ میں داخل ہوئے اور ابتدائی ایام کی تلخیاں انہوں نے دیکھیں وہ تو اِس " بھی میں شامل نہیں ہیں آپ ہی اس ” بھی“ سے حصہ پانے والے ہیں.نیز یہ الفاظ کہ صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے ایسا معیاری مقام نہیں کہ ہم یہ خیال کریں کہ اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.بلکہ اس سے مراد آپ کی جماعت کے
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.دوسرے افراد ہیں جو آپ کے پاس بیٹھ گئے نہ کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام.اس کے بعد مولوی صاحب تحریر فرماتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس نے چھوڑا؟ ہیں کہ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب تحریروں کو قبول کرتا ہوں اور آپ صرف ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۸ ء تک کی تحریرات کو، اب بتائیں کہ کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑا یا آپ نے؟ میں اس کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ یہ مجھ پر افتراء ہے کہ میں ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریروں کو چھوڑتا ہوں اور اس قسم کے افعال کے ارتکاب سے اس کے سوا اور کوئی امر ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس قسم کی غلط بات پر اصرار آپ کیوں کرتے جاتے ؟ جناب مولوی صاحب ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارہ میں بھی میں نے نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے چھوڑا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں.سوال (۱) - تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے ) لکھا ہے.اس جگہ کسی کو یہ و ہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے کہ جو غیر نبی کو نبی پر ہوسکتی ہے پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے.” خدا نے اِس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.پھر ریو یوہ صفحہ ۴۷۵ میں لکھا ہے.” مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا.“ خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.الجواب: - یادر ہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر تھہراؤں.خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : - قُل اُجَرِّدُ نَفْسِي مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ ، یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا.سو اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.ہے کہ جیسے براھین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں.اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہونگے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنیوالا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنیوالا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کر کے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی اُمت میں سے آئے گا.اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صد ہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں.میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اُس نے گوشئہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا ؟ میرا اس میں کیا قصور ہے.اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اُس کو مجز کی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے
،، اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اس رسالہ میں بھی لکھی ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے.۹۸۰ اس تحریر کے مطابق میں نے اپنا ایمان کر لیا مگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ گئے.میں نے تو یہ طریق رکھا کہ جدھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رُخ کیا میں نے بھی ادھر کر لیا مگر آپ اس پر مصر رہے کہ جس طرف پہلے رُخ تھا میں تو ادھر ہی رکھوں گا.جس طرح بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ ہم تو مرزا صاحب کے اصل متبع ہیں انہوں نے براہین احمدیہ میں مسیح کو آسمان پر بتایا تھا ہم اس عقیدہ پر اب تک قائم ہیں.مرزا صاحب اب اس عقیدہ کو چھوڑ گئے ہیں تو ہم اب کیا کریں.مولوی صاحب ! اگر آپ غور فرمائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے چھوڑا جو آپ کی زندگی میں تو عدالت میں قسم کھا کر کہتا تھا کہ مرزا صاحب نبی ہیں اور اب اس کا انکار کر دیا ہے.اُس نے چھوڑا جو آپ کی زندگی میں تو آپ کو پیغمبر آخر زماں کر کے لکھتا تھا اور آپ کی صداقت کو دوسرے صلحائے امت کی زندگی پر پر کھنے کی دعوت دینے والوں پر اظہارِ غضب کرتا تھا مگر اب آپ کو صلحاء کے زمرہ میں شامل کرتا ہے اور آپ کو نبی کہنے والے کو کافر اور مرتد قرار دیتا ہے.انَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پھر میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے چھوڑا جو آپ کی نسبت لکھتا ہے کہ : - خود حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں اپنے الہامات کو کتاب اللہ اور حدیث پر عرض کرتا ہوں.اور کسی الہام کو کتاب اللہ اور حدیث کے مخالف ،، پاؤں تو اسے کھنگار کی طرح پھینک دیتا ہوں 99 یا اس نے جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بہتان ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی یقینی ہے اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.“ نیز یہ کہ وہ کلام جو آپ پر نازل ہوا.یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت..اُس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اُس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا.اور یہ کہ ”میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر ۱۰۰ میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ وہ حوالہ کہاں ہے جو انہوں نے لکھا ہے اور وہ الہامات کون سے ہیں جو حضور علیہ السلام کھنگار کی طرح پھینک دیتے تھے.ان میں سے کوئی ایک ہی الہام پیش کر دیں.مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر نویسی آخر میں جناب مولوی صاحب اپنی تفسیر نویسی کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ چونکہ میں نے انگریزی میں یر لکھی ہے اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام کر نیوالا اور آپ کی شاخ ہوں.مگر یہ یاد نہیں رہا کہ پہلی تفسیر ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد نے لکھی تھی.پھر وہ کیوں آپ کی شاخ نہ کہلا سکا؟ آپ کو یادر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اس تفسیر کا ذکر کیا ہے اس سے پہلے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه کی آیت میں اس زمانہ کی خبر دے رکھی تھی اور وہ شخص میں ہوں جو اس خبر کے مطابق ظاہر ہوا ہوں.اور پھر فرماتے ہیں ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.۱۲ پس جس تفسیر کا آپ نے ارادہ کیا تھا وہ تو وہ تھی جس میں ان تازہ نشانات کا بھی ذکر ہو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر کئے تھے.مگر آپ نے تو اپنی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیشگوئیوں کو جو آپ نے اپنے بارہ میں تحریر فرمائی ہیں کہیں درج نہیں کیا اور نہ ان تازہ نشانات کو پیش کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے ظاہر فرمائے ہیں.پھر آپ کی تغییر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر یا آپ کی شاخ کی تفسیر کس طرح کہلا سکتی ہے؟ ایسی بیسیوں آیات ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پر چسپاں فرمایا ہے لیکن آپ نے اپنی تفسیر میں انکا ذکر تک نہیں کیا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذوالقرنین کے ذکر کو ایک پیشگوئی قرار دیا ہے اور اپنے پر چسپاں فرمایا ہے کیا آپ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے؟ نیز مثلاً آیات إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَالَهَا يَوْمَئِذٍ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ اَوْحَى لَهَا " کو حضور علیہ السلام نے اپنے متعلق ظاہر فرمایا ہے اور اوحی لھا میں اپنی وحی کا ذکر بیان فرمایا ہے مگر کیا آپ نے بھی اس کا ذکر فرمایا ہے؟ پھر جب آپ نے اپنی تفسیر کو کثرت سے فروخت کرنے کی خواہش کے ماتحت اس قدر بحل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا ہے تو آپ کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کس طرح کہلا سکتی ہے؟ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ آپ نے کئی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پر جنسی اُڑائی ہے اور اس کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.چنانچہ ایک مثال ذیل میں درج کی جاتی ہے.آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ کے معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں کہ : نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفے کی خبر اُس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ * اسی طرح فرماتے ہیں.د لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے.جیسا کہ آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارتضے مِنْ رَّسُولٍ سے ظاہر ہے پس مصفے غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.مگر آپ اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں.اور آگے إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ مِیں إِلَّا استثنائے منقطع ہے یعنی رسولوں کو جس قدر علم چاہتا ہے دیتا ہے سارا انہیں بھی نہیں دیتا لكِنِ الرَّسُوْلَ ارْتَضَى يُظْهِرُهُ جَلَّ وَ عَلَا عَلَى بَعْضِ الْغُيُوبِ الْمُتَعَلَّقَةِ بِرِسَالَتِه بلحاظ سیاق سوائے اس معنے کے اور کوئی معنے درست نہیں.۱۰۴ دیکھا آپ نے کس صفائی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کو باطل کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں إِلَّا کے بعد کے حصہ کے یہ معنے ہیں کہ یہ فعل صرف رسولوں سے کرتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ معنے درست نہیں بلکہ الا منقطع ہے اور آیت کے پہلے ٹکڑے کے یہ معنے نہیں کہ رسولوں کو غیب پر غلبہ دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ کسی کو بھی اپنے غیب پر غلبہ نہیں بخشتا خواہ رسول ہو یا غیر رسول.اور الا کے بعد کے فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ ہاں رسولوں
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.کو کسی قدر غیب کی خبریں دیتا ہے گو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئے ہوئے معنوں سے گلی طور پر اختلاف کرتے ہیں اور اس پر بس نہیں بلکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کے خلاف معنے کرنے کے بعد بھی یہ تحریر فرماتے ہیں کہ سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے اور کوئی معنے آیت کے درست نہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ بعد میں آپ کے دل میں کچھ خشیت پیدا ہوئی اور احمد یہ جماعت کے اعتراض کا ڈر بھی پیدا ہوا اور آخر میں لکھ دیا کہ اگر اِظْهَارِ عَلَى الْغَيْبِ سے کثرت انکشاف مراد لے لیا جائے تو لفظ رسول میں رسول کے کامل متبعین بھی داخل ہو سکتے ہیں جن کو باتباع رسول اس نعمت سے کچھ حصہ ملتا ہے مگر نہ اس قدر جیسا کہ متبوع کو.اس صورت میں بھی یہ آیت تو صرف رسولوں کے متعلق ہوگی لیکن ضمنی طور پر اس میں رسولوں کے کامل متبعین بھی داخل ہو جائیں گے.،،۱۰۵ مگر آپ یہ بھول گئے کہ اول تو یہ تو جیہ باطل ہے کیونکہ جو معنے درست ہی نہیں وہ آیت میں سے نکل کیونکر آئیں گے.دوسرے یہ کہ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخصوص ذکر نہیں بلکہ سب رسولوں کا ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:- اور خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے.لیکن پھر بھی جولوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے.“ اسی طرح فرماتے ہیں:- اس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ منجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان 10766 معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں ،،۱۰۶ اب مولوی صاحب فرمائیں کہ ان حوالہ جات کی موجودگی میں ہم ان کے اس گریز کی کیا حقیقت سمجھیں جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کو قطعی طور پر غلط قرار دینے کے بعد کی ہے.کیا اس تفسیر کو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاخ کی تفسیر اور آپ کا کام کہہ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.آخر میں مولوی صاحب نے طعنہ دیا ہے کہ تحریک جدید مولوی محمد علی صاحب کی طعنہ زنی بھی ہوئی، لاکھوں روپیہ بھی آیا، جائدادیں بھی بن گئیں ، خلافت جوبلی کا تین لاکھ روپیہ بھی ہاتھ آیا ، مولوی شیر علی صاحب ترجمہ لے کر ولایت سے بھی ہو آئے مگر ترجمہ نہ چھپ سکا.مجھے اس منطق پر تعجب ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ترجمہ کی نسبت خواہش کا اظہار ازالہ اوہام میں کیا ہے.اس کے بعد آپ اُنیس سال زندہ رہے اور آپ کے قول کے مطابق اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے لاکھوں روپیہ بھی بھجوایا پھر بھی ترجمہ شائع نہ ہوا جو وہاں جواب ہے وہی یہاں سمجھ لیجئے.بات تو صاف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح میں بھی انگریزی نہیں جانتا.یوں کہو کہ نہ ہونے کے برابر جانتا ہوں.آخر کسی دوسرے نے یہ کام کرنا تھا.مولوی شیر علی صاحب کی صحت اچھی نہیں تھی وہ زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے آہستہ آہستہ انہوں نے کام کیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کام تیار ہے مگر بعد کا کام ہو یا پہلے کا دیکھا یہ جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ کس کے ترجمہ اور تفسیر میں ہیں.ایک بات تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اردو میں پہلے تفسیر ہو، پھر اس کا ترجمہ ہو یہ امر ان کے ترجمہ میں ہے آپ کے ترجمہ میں نہیں.کیونکہ انہوں نے میرے نوٹوں سے انتخاب کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضامین سے اخذ کیا ہے اور علی ان کے نام میں بھی ہے.اگر علی کی تفسیر کی خواب کو مروڑ کر آپ اپنے اوپر چسپاں کریں تو وہاں بھی وہ چسپاں ہوتی ہے.مگر یاد رہے کہ آپ کی تفسیر پر تو وہ رویا صادق آتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ کوئی چھین کر ہماری تفسیر لے گیا ہے کیونکہ آپ نے اس تفسیر کو جس کے لئے آپ کو تنخواہ ملی تھی چھین کر لے گئے تھے اور پھر اسے ذاتی ملکیت قرار دیکر اس پر کمیشن لیتے رہے اور لیتے ہیں.باقی رہا جائدادیں بننے کا سوال.سو اگر سلسلہ کی جائداد مراد ہے تو سب سے پہلے آپ نے جائداد بنائی.سکول بنایا، بورڈنگ بنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان خانہ بنایا.اگر آمد والی جائداد ہو تو آپ کی انجمن نے پہلے مربعہ جات حاصل کئے.اگر ذاتی جائداد کا طعنہ ہے تو پہلے آپ نے ڈلہوزی میں کوٹھی بنائی، پھر لاہور میں کوٹھی بنوائی.اب رہا یہ کہ جب آپ کی جائداد کے بعد میں نے بھی کچھ جائداد بنائی تو وہ آپ کی جائداد سے زیادہ ہے تو اس میں میرا قصور نہیں اگر خدا تعالیٰ میرے مال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کے مطابق کہ دے اس کو عمر و دولت“ برکت
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالی ، خاتم النبیین اور امام وقت.دینا چاہے تو اس پر کسی کو کیا اختیار ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ میری جائداد کسی ایسی کتاب کی آمد سے نہیں بنی جو سلسلہ کے روپیہ سے تیار ہوئی ہو.وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ - ہم خدا کے لئے جنگ کرتے ہیں آخر میں مولوی صاحب فرماتے ہیں :- اب آپ خدا کے ساتھ جنگ نہ کریں.۱۰۷ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم خدا کیسا تھ جنگ نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں.باقی رہا مولوی صاحب کا اپنی نسبت یہ شعر نقل کرنا کہ اے آنکہ سوئے من بدویدی صد تبر بیہ از باغباں بنترس که من شارخ مثمرم سو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار نقل کرتا ہوں کہ ے میری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہیں یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي سوجس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانے کے مطابق اشاعت اسلام کی بناء ہے وہی آپ کی شاخ مثمر ہے.خواہ آپ لاکھ زور ماریں.آپ وہ شاخ مثمر بن نہیں سکتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی شہادت دے رہا ہے.مولوی صاحب کی تمام باتوں کا جواب دینے کے بعد اب میں چند آسان طریق فیصلے کے پیش کرتا ہوں.اگر مولوی صاحب ان کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ جھگڑا بہت کچھ دور ہو جائے گا.پہلا طریق فیصلہ کا میرے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے متعلق حضرت فیصلہ کا پہلا طریق مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی غلطیوں کا ازالہ فرما دیا ہے.یعنی ایک غلطی کا ازالہ لکھ کر ان غلطیوں کو دور فرمایا ہے جو اس بارہ میں اپنوں بیگانوں کو لگ رہی تھیں.میں تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ دونوں فریق نبوت کے متعلق بحث مباحثہ کو بالکل بند کر دیں اور صرف یہ کیا جائے کہ میری طرف سے اور آپ کی طرف سے دو چار سطر میں یہ مضمون لکھ کر کہ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے متعلق ہمارا مذہب وہی ہے جو اس اشتہار میں درج ہے.تمام لوگ اسی کو ہمارا مذہب تصور فرمائیں اور اس کے خلاف اگر ہماری کوئی تحریر ہو تو اسے غلط سمجھیں.اور ہم دونوں کی اس تحریر کے بعد ایک غلطی کا ازالہ اشتہار بغیر کسی حاشیہ کے شائع کر دیا جائے اور ہر سال کم سے کم پچاس ہزار کا پی اس اشتہار کی ملک میں تقسیم کر دی جائے.۲/۳ خرچ اِس کا ہم دیں گے اور سہرا اِس کا خرچ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دیں.اس کے بعد دونوں فریق کے لئے جائز نہ ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی اور مضمون اپنے اخباروں یا رسالوں یا ٹریکٹوں میں لکھیں بلکہ جو اس امر کے متعلق سوال کرے اسے اس اشتہار کی ایک کاپی دیدی جائے کیونکہ اس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلطیوں کا ازالہ کر دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر پانچ سال تک بھی دونوں فریق اس کے کاربند رہیں تو نزاع بہت کچھ کم ہو جائے گا اور شاید اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ مزید صلح کے راستے کھول دے.دوسرا طریق فیصلہ کا میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فیصلہ کا دوسرا طریق نے صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں (چشمہ معرفت ) قرآن کریم کی اصطلاح میں (ایک غلطی کا ازالہ)، اسلام کی اصطلاح میں ( لیکچر سیالکوٹ ، نیز الحکم ۶ رفروری ۱۹۰۸ء) ، سابق انبیاء کی اصطلاح میں (الوصیت صفحہ ۱۲ ) اور خدا تعالیٰ کے حکم سے میرے نزدیک ( تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶۸) اور لغت کی اصطلاح میں ( مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء) نبی اسے کہتے ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں اور اس کو شرف مکالمہ ومخالبہ حاصل ہو.اور یہ کہ ان معنوں کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں اور کسی معنوں میں نہیں.پس ایک اشتہار ہم دونوں کے دستخط سے ملک میں شائع کر دیا جائے کہ ہم دونوں فریق اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف خدا تعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق ، قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق، اسلام کی اصطلاح کے مطابق ، سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اُس کے مطابق اور عربی اور عبرانی لغتوں کے مطابق نبی سمجھتے ہیں.اس کے سوا کسی اور تعریف کے مطابق نبی نہیں سمجھتے بلکہ دوسری اصطلاحوں کے مطابق ہم صرف استعارہ آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں حقیقی طور پر نہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.اگر الحکم کے حوالہ (۲۷ / اگست (۱۸۹۹ء کی وجہ سے باوجود فیصلہ کا تیسرا طریق لیکچر سیالکوٹ کے حوالہ کے اور الحکم کی ڈائری (۶ رمئی ۱۹۰۸ ء ) کے آپ کو ایسی تحریر پر دستخط کرنے پر اعتراض ہو تو میری تیسری تجویز یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ میں صرف خدا تعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق ، قران کریم کی اصطلاح کے مطابق ، سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق اور اس حکم کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتا ہوں باقی اسلام کی اصطلاح کے رو سے میں آپ کو حقیقی نبی نہیں سمجھتا.اس اصطلاح کے رو سے آپ کو صرف مجازی نبی یقین کرتا ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ ایسا اشتہار دیں گے تو اس سے بھی دنیا کو بہت کچھ اس مسئلہ کے سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی.فیصلہ کا چوتھا طریق یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ فیصلہ کا چوتھا طریق جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں قرآن کریم کی اصطلاح میں، اسلام کی اصطلاح میں، سابق انبیاء کی اصطلاح میں اور نبی کے لفظ کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ نبی کی یہ تعریف ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پاتا ہے وہ نبی ہے تو وہ غلطی خوردہ ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف کہتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ان طریقوں میں سے آپ کسی طریق کو بھی اختیار کر لیں.فیصلہ تک پہنچنا آسان ہوگا.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ - میں یہ مضمون قریباً ختم کر چکا تھا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب مولوی صاحب کا نیا جواب کا ایک نیا مضمون مجھے ملا.جو پیغام صلح ۸/اگست ۱۹۴۱ ء میں شائع ہوا ہے.اس میں مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے میری وہ تجویز جو ان کی اور میری اُن تحریرات کو جو نبوت کے متعلق زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں اکٹھا شائع کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کے متعلق تھی قبول کر لیا ہوا ہے اور فرماتے ہیں :- میں نے ان کی اس تجویز کو مان لیا تھا کہ میرے عقائد جو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں تھے اور ان کے عقائد پر جو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں تھے بحث ہو جائے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے عقائد پر اس کے ساتھ ہی اسی طرح بحث ہو جائے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.کہ جناب میاں صاحب اسے نہ ماننا کیوں کہتے ہیں.“ اس جگہ مولوی صاحب نے اسی مغالطہ سے کام لیا ہے جس سے وہ ہمیشہ کام لیتے ہیں وہ میرے وہ الفاظ پیش کریں جن میں یہ لکھا ہو کہ مولوی صاحب کے زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد دربارہ نبوت اور اسی زمانہ کے میرے عقائد پر بحث ہو جائے اگر وہ میری یہ تجویز پیش نہ کر سکیں اور ہرگز پیش نہ کر سکیں گے تو وہ خدا تعالیٰ سے ڈریں کہ وہ جان بوجھ کر ایک غلط بات میری طرف منسوب کرتے ہیں.ان کے الفاظ ” مگر اس شرط کے ساتھ بتاتے ہیں کہ سوائے اس حصہ کے جس سے پہلے شرط کا لفظ ہے میری تجویز انہوں نے بعینہ مان لی ہے.مگر یہ درست نہیں.میں نے تو صرف اس قدر کہا تھا کہ ان کے اس زمانہ کے عقائد اور میرے عقائد ا کٹھے شائع کر دیئے جائیں اور اس کے ساتھ دونوں کی طرف سے صرف یہ لکھ دیا جائے کہ ہم اب بھی ان عقائد پر قائم ہیں.بحث کا ذکر میری تجویز میں نہیں بحث لوگ خود کر لیں گے اور آپ ہی ان تحریرات سے نتیجہ نکال لیں گے بحث کا سلسلہ تو لامتناہی ہے پھر اس بحث کے مطالب پر دوسری اور پھر تیسری بحث کی ضرورت ہوگی.اگر مولوی صاحب کے وہ عقائد صحیح ہیں اور وہ ان پر اب بھی قائم ہیں تو ان کو شائع کر کے ان کی تصدیق سے وہ کیوں گھبراتے ہیں ؟ آخر دونوں پر یکساں ذمہ داری ہے.پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے عقائد پر بحث بے سود ہے کیونکہ میرے عقائد تو خود میری جماعت پر حجت نہیں.مولوی صاحب کو یہاں غلطی لگی ہے.ان کے عقائد بے شک غیر مبائعین پرخت نہیں مگر یہاں تو ان عقائد کے اظہار کا سوال ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شائع ہوئے اور ایسے رسالہ میں شائع ہوئے جس کا مطالعہ حضور علیہ السلام فرماتے تھے اور اس میں خود مضمون لکھتے تھے پس یہ سوال نہیں کہ وہ مولوی صاحب کے عقائد تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے اکابر صحابہ کی نظر سے گزرے اور انہوں نے ان کی تردید نہیں کی اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ عقائد مولوی صاحب نے بدلے ہیں یا ہم نے بدلے ہیں.پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ کیوں میں اور میری جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کو قبول کرنے کو تیار نہیں.یہ مولوی صاحب کی خوش فہمی ہے جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح سے مولوی صاحب کو انکار ہے ہمیں انکار نہیں.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ نبی کے لفظ کو کاٹا ہوا تصور فرمائیں اور اس کی جگہ محدث
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ کا لفظ لکھ دیں، اس بارہ میں بھی ایک حوالہ اوپر درج کر آیا ہوں وہاں لفظ نبی کو کاٹ کر محدث رکھ کر مولوی صاحب دکھا دیں باقی جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرما چکے ہیں کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا مگر خدا تعالیٰ کی وحی میں بار بار نبی کے لفظ کے استعمال نے مجھے اس پر قائم نہ رہنے دیا تو اب ہم مولوی صاحب کی تشریح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کیونکر کہہ سکتے ہیں اس صورت میں تو غیر احمدیوں کا یہ مطالبہ بھی درست ہوگا کہ براہین احمدیہ کے مطابق مسیح کو آسمان پر زندہ مانو.اس کے بعد مولوی صاحب نے میرے اس مطالبہ کو کہ میں ان کے مضمون کو الفضل میں شائع کر دیتا ہوں بشرطیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی حسب قاعدہ مروجہ اپنے اخبارات میں شائع کر دیں یوں تسلیم کیا ہے کہ تین کی جگہ سات پرچے ہوں اور میرا آخری جواب ان کے مضمون سے ایک تہائی سے زائد نہ ہو اور اس میں کوئی نئی بات نہ آئے.مجھے ان کی یہ شرط تو منظور ہے کہ ان کے آخری پرچہ میں جو بات بیان ہوئی ہو اُس کے جواب کے علاوہ میں کوئی بات نئی نہ لکھوں یہ معقول بات ہے لیکن یہ کہ میرا آخری جواب ان کے مضمون کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو معقول نہیں.میرا جواب ان کے جواب پر منحصر ہوگا اگر اس کا لمبا جواب ضروری ہوگا تو میں لمبا جواب دوں گا اگر مختصر جواب کافی ہوگا تو میں مختصر جواب دوں گا اس حد بندی کو میں قبول نہیں کر سکتا ہاں تین تین پرچوں کی شرط مجھے منظور ہے یعنی میرے خطبہ کے بعد تین تین پرچے ہوں تین پرچے ان کے اور تین پرچے میرے اور میرا آخری پرچہ ہو اور پھر یہ سب یعنی میرا خطبہ اور تین تین پرچے فریقین کے اکٹھے شائع ہو جائیں.میں نے جناب مولوی صاحب کے اس اعتراض پر کہ گویا میں جماعت کو ان کے خیالات سننے سے روکتا ہوں اپنے خطبہ میں یہ بھی کہا تھا کہ میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر مولوی صاحب قادیان آجائیں تو جماعت کے سامنے ان کے تین لیکچر کرا دوں.جناب مولوی صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ انہیں یہ منظور ہے مگر اس کے لئے بہترین موقع جلسہ سالانہ کا ہوگا یہ تو وہی مثل ہوئی کہ انگلی دیتے ہی پہنچا پکڑا.جلسہ سالانہ کے موقع پر ہماری جماعت لاکھ ڈیڑھ لاکھ کرایہ خرچ کر کے اس لئے جمع ہوتی ہے کہ وہ میرے اور دوسرے علمائے سلسلہ کے خیالات سُنے اور ہمارا اُس وقت ان کی مہمانی پر چھپیں تمہیں ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے کیا دوسرے کے خیالات کے سننے کی اجازت دینے میں یہ اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں کہ میں اپنے جلسہ کو اور لاکھوں کے
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت انوار العلوم جلد ۱۶ خرچ کومولوی صاحب کی خاطر برداشت کروں؟ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر جلسہ کے موقع پر ہی مولوی صاحب کو اپنے خیالات سنانے کا شوق ہو تو جلسہ کے دو دن اور بڑھا دوں مگر اس شرط پر کہ اُن دنوں کی مہمان نوازی کا خرچ مولوی صاحب برداشت کریں جو اُن دنوں کے لحاظ سے اوسطاً تین ہزار روپیہ روزانہ ہو گا.پس مولوی صاحب چھ ہزار روپیہ اس غرض سے ادا کر دیں تو میں جلسہ کے دنوں کے بعد دو دن ان کے لیکچروں کے لئے مقرر کر دوں گا.اور اعلان کر دوں گا کہ جو دوست جانے پر مجبور نہ ہوں دو دن اور ٹھہر جائیں اور مولوی صاحب کے خیالات سنتے جائیں.اگر یہ نہیں تو میں یہ ہزاروں کا خرچ ان کے لئے برداشت کرنے پر تیار نہیں اور نہ جماعت جو لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچ کر کے قادیان آتی ہے اسے اس کی خواہش سے محروم کر سکتا ہوں ہاں میری دعوت جو قادیان میں لیکچر کے متعلق ہے جس میں مجھے کوئی خاص خرچ کرنا نہیں پڑتا.وہ موجود ہے اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو بڑی خوشی سے تشریف لے آئیں.وَ آخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.خاکسار مرزا محمود احمد ( الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۴۱ء ) مولوی محمد علی صاحب کی تازہ چٹھی کا جواب اگر وہ جماعت احمد یہ قادیان کو قابل خطاب نہیں سمجھتے تو میں مولوی صاحب کو قابلِ خطاب نہیں سمجھتا مولوی محمد علی صاحب کی ایک دستخطی چٹھی میرے پاس پہنچی ہے.میں مولوی صاحب کے رفقاء کی تحریروں کے بعد جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معاویہ کہا گیا اور مجھے یزید قرار دیا گیا ہے اور مولوی صاحب نے توجہ دلانے پر اپنے ساتھیوں کو نصیحت نہیں کی بلکہ الٹی اُن کی طرفداری کی ہے، اسی طرح بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے قریب کے ایام میں ہی
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.قادیان کی جماعت کو منافق قرار دیا ہے چونکہ ان کو مخاطب کر کے جواب دینا پسند نہیں کرتا اس لئے اخبار میں اُن کی اس چٹھی کا جواب دیتا ہوں.مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ فرض کر کے اپنے خطبہ میں ان کی کھلی چٹھی کا جواب دینا شروع کر دیا کہ میں (مولوی محمد علی صاحب) کہہ رہا ہوں کہ آپ کے جلسہ پر دو ہزار آدمی اپنے ساتھ لاؤں گا اور آپ ان کی مہمانی کا انتظام کریں حالانکہ میں نے آج تک کبھی یہ نہیں لکھا کہ میرے ساتھ دو ہزار، یا دوسو، یا دو آدمیوں کی مہمانی کا آپ انتظام کریں.اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ مولوی صاحب نے دو ہزار آدمی ساتھ لانے کولکھا ہے.میں نے تو مثال دی تھی کہ مولوی صاحب کا یہ مطالبہ کہ جلسہ سالانہ پر جو ۲۰، ۲۵ ہزار آدمی آتے ہیں اُن کی اس غرض کو ضائع کر کے جس کے لئے وہ قادیان میں آتے ہیں مولوی صاحب کے لیکچروں کا انتظام کیا جائے اور اس طرح وہ خرچ جو جماعت اپنے کام کے لئے کرتی ہے مولوی صاحب کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کرے.یہ بات تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص خود ہی کارڈ چھپوا کر دو ہزار لوگوں کو بھیج دے کہ فلاں شخص کے ہاں میرا ایٹ ہوم (AT HOME) ہے تم بھی اس میں شریک ہو.یا کسی کے ہاں شادی ہو لوگ جمع ہوں اور مولوی صاحب بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائیں اور کہیں کہ میں نے اسلام کے متعلق تقریر سنانی ہے تم اپنی تقریب کو چھوڑ دو اور میری تقریر سنو.اوپر کے فقرات سے ظاہر ہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مولوی صاحب اپنے دو ہزار ساتھیوں کو لے آئیں گے.مثال بالکل واضح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی غرض کے لئے دوسرے سے خرچ کا مطالبہ کرنا درست نہیں اگر ہم اپنے سالانہ جلسہ کا وقت مولوی صاحب کی تقریروں کے لئے لگا دیں تو جتنا وقت ان کو دیں گے اتنا وقت جلسہ کے وقت میں بڑھانا پڑے گا اور اس سے ہم پر خرچ کا بار پڑے گا اور اس قسم کے خرچ کرنے کا مطالبہ میرے نزدیک اسلامی کے مخالف ہے مطابق نہیں ہے.اور جو کچھ میں نے کہا تھا اس کا موجب مولوی محمد علی صاحب کی چٹھی کا یہ فقرہ تھا کہ قادیان میں جا کر ہم آپ کے مہمان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہوگی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میز بان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی خلق کی بالکل ضدّ ہے.“ اگر باوجود اس فقرہ کے اور باوجود میری مثال کی وضاحت کے مولوی محمد علی صاحب کی
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.انوار العلوم جلد ۱۶ سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور وہ اب بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ ہمارے جلسہ سالانہ کو اپنی اغراض کے لئے استعمال کرنے کا ان کا مطالبہ بالکل جائز اور معقول ہے تو سوائے اس کے کہ میں إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ۱۰۹ کہوں اور کیا کہہ سکتا ہوں.مولوی صاحب نے اپنے خط میں اس بات پر بڑے غصہ کا اظہار کیا ہے کہ میں نے بے حیا، بے شرم اور ڈھیٹ کے الفاظ سے ان کو یاد کیا ہے لیکن ان کو یہ بھول گیا ہے کہ پہلے انہوں نے میرے جواب کو اسلامی تعلیم کی ضد کہا ہے اور اسلامی تعلیم کی ضد کفر ہوتا ہے.یقینا اس کلام کے جواب میں اگر مولوی صاحب کے اس مطالبہ کی نسبت کہ ان کی خاطر جماعت احمد یہ ہزاروں کا خرچ برداشت کرے یہ کہا جائے کہ مہمان اگر میزبان سے یہ مطالبہ کرے کہ اس کے آنے پر ہزاروں کا خرچ برداشت کیا جائے تو یہ بے شرمی ہے ہرگز بے جانہیں.کسی شخص سے بے شرمی کا ارتکاب اسلام کی ضد فعل کے ارتکاب سے تو اچھا ہی ہوتا ہے.اگر مولوی صاحب کا کچھ اور خیال ہے تو یہ اپنی اپنی سمجھ ہے.نیز جس شخص کے ساتھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ کہیں ، جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کو یزید کہیں اور وہ ان کی تائید کرے اور جو شخص قادیان کے آٹھ ہزار احمدیوں کو ایمان فروش قرار دے اُس کے منہ سے ان الفاظ کے استعمال پر اعتراض جو اس کے لئے براہ راست نہیں بلکہ مثالی طور پر کئے گئے ہیں ایک ایسی بات ہے جس کا سمجھنا میری عقل سے بالا ہے.میں مولوی صاحب کے مطالبہ کا جواب پہلے دے چکا ہوں.مجھے نہ ان کے جلسہ میں جانے کی خواہش ہے اور نہ اس کی کچھ ضرورت معلوم ہوتی ہے ہمیں جہاں تک خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے غیر مبائعین تک اپنے خیالات پہنچاتے رہتے ہیں اور جس وقت مزید ضرورت محسوس ہوگی خدا نے جو تو فیق دی ہے اس کے مطابق سامان جمع کریں گے.ہم سے خدا تعالیٰ ہرگز یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب سے ان کے جلسہ میں جا کر تقریر کرنے کی خواہش کی یا نہیں.پس جبکہ ہم حسب ضرورت غیر مبائعین کو اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے خیالات پہنچا رہے ہیں اور جو نہ شنے وہ خود گنہگار ہوتا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں مولوی صاحب کے جلسہ پر جاؤں.یہ خواہش تو ان کے دل میں پیدا ہو رہی ہے کہ وہ ہماری جماعت کو اپنے خیالات سنائیں.میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے حالانکہ اس کا پورا کرنا شریعت مجھ پر واجب نہیں کرتی ان کو دعوت دی تھی کہ جلسہ کے ایام کے سوا کسی اور موقع پر قادیان آ کر تقریر کرنے کا موقع دے سکتا ہوں.اگر انہیں یہ دعوت منظور ہو تو وہ بخوشی تشریف لائیں اگر نہیں تو ان کی مرضی.
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبین اور امام وقت...انوار العلوم جلد ۱۶ غرض یہ خواہش مولوی صاحب کی ہے بار بار مطالبہ وہ کر رہے ہیں مگر دعوت وہ اب مجھے دے رہے ہیں صرف دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ گویا وہ بڑے وسیع الحوصلہ ہیں.حالانکہ اس میں وُسعتِ حوصلہ کا کوئی سوال نہیں ان کے جلسہ پر ہوتے ہی کتنے لوگ ہیں.ان کے جلسہ کی تو میرے جانے سے رونق ہی بڑھے گی پس حقیقت کو دیکھنے والا کوئی شخص اس کا نام وُسعت حوصلہ نہیں رکھ سکتا.اپنی جماعت کے جتنے آدمیوں کو وہ میری تقریر سنوانے کا وعدہ کرتے ہیں.میں ذمہ لیتا ہوں کہ قادیان میں ان کی تقریر میں ان سے زیادہ آدمی ہوں گے وہ اپنے خیالات ان تک پہنچا کر اس بات کی تسلی کر سکتے ہیں کہ احمد یہ جماعت تک ان کے خیالات پہنچ گئے ہیں.لیکن اگر قادیان کی جماعت کو وہ اس لئے اپنے خیالات سنانا پسند نہیں کرتے کہ وہ ایسی ہے جیسی اپنے ایک حال کے خطبہ میں انہوں نے بیان کیا ہے تو میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پہل کر کے مؤمنوں کی جماعت پر حملہ کیا ہے.میں بھی انہیں ویسا ہی سمجھتا ہوں جیسا کہ انہوں نے قادیان کی جماعت کو کہا اور جس طرح وہ قادیان کی جماعت کو خطاب کے قابل نہیں سمجھتے اسی طرح میں بھی مولوی صاحب کو خطاب کے قابل نہیں سمجھتا.وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.( الفضل ۱۸ / دسمبر ۱۹۴۱ء) ا تذکرہ - صفحہ ۵۱۸.ایڈیشن چہارم ۳۲ پیغام صلح ۱۲ جولائی ۱۹۴۱ء صفحه ۵ ۴، ۵ پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحه ۵ الصف : ۴ کے پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ ء صفحہ ۵ پیغام صلح ۳۰ جولائی ۱۹۴۰ ء صفحہ ۷ پیغام صلح ۳۰ جولائی ۱۹۴۰ء صفحہ ۶ ۱۰ پیغام صلح ۱۷ / جنوری ۱۹۳۸ء ال خروار: ڈھیر ۱۲ پیغام صلح ۹ را گست ۱۹۳۷ء صفحه ۶ پیغام صلح ۳ اگست ۱۹۳۷ء صفحه ۳ ۱۴ مشكوة كتاب الفتن باب نزول عيسى
انوار العلوم جلد ۱۶ ۱۵ پیغام صلح ۲۶ / اگست ۱۹۳۷ء صفحه ۷ ۱ پیغام صلح ۵/ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحه ۳، ۴ کله سر الخلافه صفحه ۳۸ نظارت اشاعت ربوه ۱۸ پیغام صلح ۱۲ / جون ۱۹۴۰ء صفحه ۷ 19 پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.۲۰ انوار العلوم جلد ۴ صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۹.ایڈیشن اول ۲۱ ۲۲ ازالہ اوہام صفحہ ۱۲۰.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۰ ۲۳ ازالہ اوہام صفحہ ۱۱۶.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۱۶ ۲۴ انجام آتھم صفحہ ۲۸ حاشیہ.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۸ حاشیہ ۲۵ سراج منیر صفحه ۶،۵.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۶،۵ ۲۶ ازالہ اوہام صفحه ۲۱۶ نقل کرده مولوی محمد علی صاحب تحفہ گولڑ و یه صفحه ۸.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۶۶ ۲۸ ازالہ اوہام صفحہ ۲۱۶.روحانی خزائن جلد ۳ ۲۹ ابن ماجه ابواب الفتن باب شدة الزمان ۳۰ مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال ات الانبياء: ۹۷ ۳۲ انجام آتھم صفحہ ۱۲۹.روحانی خزائن جلد۱۱صفحہ ۱۲۹ ۳۳ے پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۶ ۳۴ ترمذى كتاب الفتن باب ماجاء في فِتْنَةِ الدَّجال ۳۵ مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال، ابن ماجه كتاب الفتن باب فتنة | الدجال و خروج عيسى ابن مريم (الخ) ۳۶ے سراج منیر صفحه سا نقل کردہ مولوی محمد علی صاحب ۳۷ے سراج منیر صفحه ۶۷۵.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۶،۵ ۳۸ انجام آتھم صفحہ ۲۷ حاشیہ.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۷ حاشیہ ۳۹ انجام آتھم حاشیہ صفحہ ۲۷، ۲۸.روحانی خزائن جلد۱ اصفحہ ۲۷، ۲۸ حاشیہ
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.۴۰ براھین احمدیہ جلد ۵ - روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۳۰۶،۳۰۵ ا براھین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶ ۲۲ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۱ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۸ ۴۴ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۳.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۵ ۲۵ ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۵۵۵ - جدید ایڈیشن الوصیت صفحہ ۱۳.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳ ۴۹ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۴۷.جدید ایڈیشن ۵۰ چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۸۹ ۵۱ تجلیات الہیہ صفحہ ۲۰.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ۵۲ براهین احمد یه جلد ۵.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶ ۵۳ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶ - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۰ ۵۴ چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفه ۳۳۲ ۵۵ نزول امسیح صفحه ۸۴ - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۰ ۵۶ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ ۵۷ تجلیات الہیہ صفحہ ۲۰.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ۵۸ ملفوظات جلد ۵ صفحه ۴۴۷ ۵۹ الحکم ۱۷ /اگست ۱۸۹۹ ء صفحه ۶ ضمیمہ براھین احمدیہ جلد ۵ صفحه ۳۰۶.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶ ا پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ ء صفحہ ۷.مفہوماً پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ ء صفحہ ۷ ۱۳ ازالہ اوہام صفحہ ۳۲.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۲ ۱۴ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۴.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۶
انوار العلوم جلد ۱۶ ۲۵ مریم : ۵۷ ۰۲۶ الصفت: ۱۱۳ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.۱۷ ازالہ اوہام صفحہ ۲۲۰.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۰ ۲۸ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰ ۶۹ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ ٤٠ حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶ الح مسلم کتاب فضائل الصحابة رضى الله عنهم باب من فضائل عُمر رضى الله عنه ۷۲ ایک غلطی کا ازالہ صفحه ۵.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ الجن: ۲۸،۲۷ ۷۴ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸ ۷۵ تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۱۳۳ ک المائده : ۱۱۸ ے کے سراج منیر صفحہ ۳.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۵ ٤٨ كنز العمال جلدا اصفحه ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء و حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳ ۱۰ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۷ حاشیہ ۸۱ تجلیات الہیہ صفحہ ۲۰.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ( مفهوماً ) ٥٢ حقيقة النبوة انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۷۷ ١٣ حقيقة النبوة انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۷۸ حقيقة النبوة انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۷۷ پیغام صلح ۱۲ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷ ٨۶ ایک علا AL غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ ، ۶.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ ،۲۱۰ ۸۸ توضیح مرام صفحه ۱۲.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰ ۱۸۹ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ ، صفحہ ۸ ۹۱۷۹۰ پیغام صلح ۴ را پریل ۱۹۴۱ ء صفحه ۶
انوار العلوم جلد ۱۶ اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیین اور امام وقت.۹۲ مواهب الرحمن صفحہ ۶۹.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸۵ ۹۳ حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ حاشیه ۹۴ حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۴ حاشیه ۹۵ پیغام صلح ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۴۱ ، صفحہ ۸ الذكر الحكيم نمبر ۴ صفحه 9 الذكر الحكيم نمبر ۴ صفحہ ۱۷ حقيقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲ ۱۵ تا ۱۵۴ ۹۹ شناخت مامورین از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۲۰ مطبوعہ لا ہور.۱۹۱۹ ء ۱۰۰ تجلیات الہیہ صفحہ ۲۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ال الصف :١٠ ۱۰۲ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۴۱۶.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۶ ۱۰۳ زلزال ۲ تا ۶ ۱۰۴ بیان القرآن جلد ۳ صفحه ۱۸۹۷ مطبوعہ لا ہو ر ۱۳۴۲ھ ۱۰۵ بیان القرآن جلد ۳ صفحه ۱۸۹۷ - از مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ لا ہور ۱۳۴۲ھ ۱۰۶ نزول امسیح صفحه ۸۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۰ ۱۰۷ پیغام صلح ۱۲ / جولائی ۱۹۴۱ ء صفحہ ۸ ۱۰۸ پیغام صلح ۸/ اگست ۱۹۴۱ ء صفحه ۵ ١٠٩ البقرة : ۱۵۷
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ء از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ء فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۴۱ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ہم آج یہاں ظاہر میں اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے جمع ہوئے ہیں.ہم سب کی ظاہری شکل یہی ہے میری بھی اور آپ کی بھی یعنی آپ میں سے ہر فرد کی مگر اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہر شخص کے دل کی کیا کیفیت ہے.شاید ہم اس کیفیت کو خود بھی نہ سمجھتے ہوں.یا شاید بعض ہم میں سے اپنے دل کی قوت اور کمزوری کو ایک حد تک جانتے ہوں.پس ہمارے لئے نہایت ہی خوف اور ڈر کا مقام ہے کہ اگر آج ہم لوگ اس جگہ لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کہ خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی خاطر جمع ہوئے ہیں اور ہمارے دل اس قسم کے جذبات سے خالی ہیں تو ہم خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا دینے والے ہیں اور اس کے بندوں کو بھی.اسی طرح اگر ہمارے واعظ اس لئے یہاں آئے ہیں کہ لوگوں پر اپنی لسانی کا رُعب ڈالیں اور ان پر اپنے علم کا اظہار کریں اور اگر سامعین اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ جماعت کے مخلص فرد ہیں یا اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اچھی تقریروں کے سنے کا انہیں چسکہ پڑا ہوا ہے تو واعظ بھی یہاں سے گھاٹے میں جائے گا اور سامع بھی گھاٹے میں رہے گا لیکن میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ سے اس قسم کی غلطی ہو گئی ہے تو اب بھی اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اچھا کام بسم اللہ سے شروع کرنا چاہئے.یعنی کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو درست کر کے صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہی کر لینی چاہئے.پھر فرماتے ہیں اگر کوئی بھول جائے مثلا کھانا کھانے لگا ہے اُس وقت بِسمِ اللہ کہنا بھول جائے مگر
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء کھانا کھاتے ہوئے یاد آ جائے تو اس وقت نیت کر کے کہے.بِسْمِ اللهِ فِى اَوَّلِهِ وَاخِرِه یعنی پہلے بھول گیا تھا.ایک بِسمِ اللهِ تو بھولنے کی کہتا ہوں اور دوسری اس کام کے متعلق جو کر رہا ہوں.تو آپ نے فرمایا کہ دُہری بسم اللہ کہے.پس ہمارے رب نے ہمارے لئے نیت کی درستی اور اصلاح کا موقع رکھ دیا ہے اور جب تک انسان مر نہیں جاتا ہر مقام سے پیچھے ہٹ سکتا ہے.حتی کہ اگر وہ شیطان کے دوش بدوش کھڑا ہو گیا ہو اور وہاں سے لوٹنا چاہے تو بھی لوٹ سکتا ہے.پس میں تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں خواہ وہ واعظ ہوں یا سامع ، نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی نیتوں کو درست کر کے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں اور نہایت ہی دردمند دل کے ساتھ عرض کریں کہ اے ہمارے رب! ہم اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اگر پہلے نہیں تو اب اپنی نیت کو درست کر کے اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ تا تیرا نام دنیا میں بلند ہو، تیری عظمت اور جلال دنیا میں ظاہر ہو، تیرا دین دنیا میں پھیلے، تیری حقانیت باطل پر غالب آئے ، تیرے بھیجے ہوئے سردار انبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا میں ظاہر ہو، آپ کی لائی ہوئی شریعت دنیا میں پھیلے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن اور احادیث کی جو تشریح و تفصیل بیان فرمائی ہے لوگ اسے سمجھیں ، اس پر ایمان لائیں اور اس پر عمل کریں.تا اے ہمارے رب ! تیرے بُھولے بھٹکے بندوں کو ہم تیرے آستانہ پر لاسکیں.سب سے پہلے اپنے نفس کو ، پھر اپنے اہل وعیال کو ، پھر دوستوں کو، پھر ساری دنیا کے لوگوں کو جو صرف نام کے بندے ہیں تیرے حقیقی بندے بنا سکیں.جن کے دل سیاہ ہیں ان کے دل سفید کر دے تا کہ قیامت کے روز ان کے چہرے کالے نہ ہوں بلکہ بے عیب اور روشن ہوں.تو ہم سے خوش ہو جائے کہ ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے آستانہ پر لائے اور ہم تجھ سے خوش ہوں کہ تو ہم سے راضی ہو گیا.پس اب بھی یہ نیت کی جاسکتی ہے.اب بھی اس نیت سے اپنے تمام کاموں کو زیادہ سے زیادہ مبارک اور مفید بنا سکتے ہیں.میں اس مختصر تمہید کے بعد دعا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آج جمعہ کا دن ہے جلسہ کا ضروری پروگرام بھی وقت پر ختم کرنا ہے اور جمعہ بھی وقت پر ادا کرنا ہے.میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اسی طرح جس طرح میں نے ابھی کہا ہے دعا کریں بے شک اپنے لئے
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء بھی دعا کریں مگر دین کی اشاعت اور غلبہ کے لئے ضرور دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تا یہ نیا اجتماع ہمارے لئے نئے علوم، نئی امنگیں، نئی کامیابیاں اور نئی خدا تعالیٰ کی رضائیں لانے کا موجب ہو.( الفضل یکم جنوری ۱۹۴۲ء) مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ترمذی ابواب الاطعِمَة باب مَاجَاءَ في التسمية عَلَى الطعام
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب (۱۹۴۱ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة أسبح الثاني
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مستورات سے خطاب تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۱ء برموقع جلسه سالانه قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی :- وَ أُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ | خلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَّمَه اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِى السَّمَاءِهِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْن بِإِذْنِ رَبِّهَا.وَيَضْرِبُ اللهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ اس کے بعد فرمایا:- پہلے تو میں اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں عورتوں کے جلسہ میں میری تقریر اب کچھ زائد سی چیز ہوگئی ہے اس لئے کہ پہلے عورتوں کا جلسہ الگ ہوتا تھا اور مردوں کا الگ مگر اب جو تقریریں میری مردوں میں ہوتی ہیں وہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سن لیتی ہیں اس لئے عورتوں میں علیحدہ تقریر کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی.بے شک بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف عورتوں کو متوجہ کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ہر سال علیحدہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں.اگر کبھی لجنہ اماءاللہ کو ایسی ضرورت محسوس ہو تو وہ مضمون پیش کر سکتی ہے اور کہ سکتی ہے کہ فلاں مضمون کے متعلق عورتوں کے سامنے تقریر کر دی جائے اس صورت میں میں اس موضوع کے متعلق عورتوں میں تقریر کر سکتا ہوں.لیکن موجودہ صورت میں چونکہ مردوں میں میری تقریریں ہوتی ہیں وہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ چار سال سے یہاں پہنچ جاتی ہیں اس لئے میرے نزدیک عورتوں کے لئے وہی کافی ہیں سوائے اس کے کہ تم یہ مطالبہ کرو کہ ان چار سالوں
مستورات سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ ے پہلے مرد دو تقریریں سنتے آرہے ہیں اور ہم ایک.اب ۲۱ سال تک ہم میں بھی ایک زائد تقریر ہو تا برابر ہو جائیں.مگر میں نے ابھی اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ اس پر غور کیا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے موقع دیا تو میں مزید غور کروں گا اور پھر جو فیصلہ ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا.اس کے بعد میں ان آیات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مؤمن عورتوں کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ ان سب کو جنت میں داخل کیا جائے گا ایسی جنت میں جس کے نیچے نہریں چلتی ہوں گی.یہاں سرگودھا، گجرات اور لائکپور کی مستورات آئی ہوئی ہوں گی.وہ نئی آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے جانتی ہیں کہ نہر کیا ہوتی ہے اور نہر کے کیا کام ہوتے ہیں لیکن وہ نہریں جو جنت میں چلیں گی سرگودھا اور گجرات کی نہروں سے مختلف ہوں گی.ان نہروں کی تو باریاں مقرر ہوتی ہیں اور خواہ کسی کا کھیت سُوکھے یا جلے پانی باری پر ہی ملتا ہے.پھر گورنمنٹ کے بعض ملازم شرارتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ نہریں کاٹ دیتے ہیں جس سے سارا علاقہ تباہ ہو جاتا ہے.اسی طرح زمیندار اگر نہر کاٹ کر پانی لیں تو سال دو سال کے لئے قید کر دیئے جاتے ہیں.یہ تو دنیا کی نہروں کا حال ہے لیکن اُن نہروں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ان باغوں کے ساتھ ہوں گی.یعنی وہ جنتیوں کے ہاتھ میں ہوں گی کوئی اور ان کا حاکم اور مالک نہیں ہوگا.وہ جس وقت چاہیں گے پانی ان کو مل جائے گا.خلِدِينَ فِيهَا اور پھر وہ اس میں بستے چلے جائیں گے.وہ لوگ جنہوں نے سرگودہا اور لائکپور بسایا وہ آج کہاں ہیں؟ وہ جنہوں نے درخت لگائے بڑی بڑی مصیبتوں کے بعد زمین کی کاشت کی ، ہل چلائے اور تکالیف کا مقابلہ کیا ان میں سے کوئی دو سال زندہ رہا، کوئی چار سال زندہ رہا اور آخر ایک ایک کر کے سب فوت ہو گئے.وہ اب یہ نہیں جانتے کہ ہماری زمینیں کہاں گئیں اور ہماری اولاد نے کیا پھل کھایا ؟ کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج شرابیں پی رہی ہیں کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج جوا کھیل رہی ہیں کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج سینما میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہیں گویا ان کی محنتیں اکارت گئیں.مگر فرما یا خلِدِينَ فِيهَا جنتیوں کی محنتیں ضائع نہیں ہوں گی بلکہ جس نے جو کچھ بویا وہی کچھ کاٹے گا اور پھر کاٹتا ہی چلا جائے گا.پھر ایک اور فرق دنیا کی نہروں، باغوں اور زمینوں اور اگلے جہان کی زمینوں، باغوں اور نہروں میں یہ ہے کہ یہاں تو کئی لوگوں کے پاس حرام مال ہوتے ہیں.چنانچہ مربعوں میں سے
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب اکثر جانگلیوں کے تھے جو گورنمنٹ نے زبر دستی چھین لئے اور دوسرے لوگوں کو دے دیئے.جن کی زمینیں تھیں وہ بھوکے مر گئے اور دوسرے لوگ عیش و آرام سے رہنے لگے.مگر فرمایا بِاِذْنِ رَبِّهَا وہ زمینیں لوگوں کی چھینی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ جائز مال ہوگا جو خدا کی طرف سے ملے گا.دنیا میں تو کتنے گھر اس لئے برباد ہو گئے کہ ماں باپ نے محنت سے مال جمع کیا مگر ان کی اولادوں نے لغو باتوں میں اسے ضائع کر دیا.مگر وہاں جو کچھ ملے گا خدا کی طرف سے ملے گا اور اس کی برکت قائم رہے گی.تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلَامٌ ہمارے ملک میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ جتنی لڑائیاں ہوتی ہیں وہ زمین، روپیہ یا عورت کی وجہ سے ہوتی ہیں.یہاں بھی چونکہ نہروں اور زمینوں کا ذکر تھا اس لئے قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا جنت میں بھی لڑائیاں ہوں گی ؟ اور کیا وہاں جا کر بھی یہی جھگڑا رہے گا کہ ایک جنتی کہے گا میری پہیلی ہے اور دوسرا کہے گا میری ؟ اس لئے فرمایا کہ نہیں ہر آدمی جو جنت میں دوسرے سے ملے گا کہے گا میری طرف سے تم اپنا دل صاف رکھو.میری طرف سے تم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور دعا کرے گا کہ تم پر خدا کی طرف سے سلامتی نازل ہو.پھر فرماتا ہے اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِه تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِاِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ان آیات کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ جنت میں ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے جائیں گے.اب کہنے کو تو سارے ہی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جس کو پوچھو وہ کہتا ہے میں خدا کے فضل سے مسلمان ہوں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے محض زبان سے اپنے آپ کو مؤمن کہہ لینے سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو جاتا.تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان باللہ اور اعمال صالحہ کی مثال اچھے درخت کی سی ہے جس طرح دنیا میں پھل دار درخت توجہ چاہتے ہیں اور کوئی شجرہ طیبہ نہیں پھلتا جب تک کہ اسے پانی نہ ملے اور جب تک اس کی نگرانی نہ کی جائے.سوائے جنگلی درختوں کے.اسی طرح صرف منہ سے ایمان اور اعمال صالحہ کا دعوی کرنا ٹھیک نہیں ہوتا.یہ کبھی نہیں ہوتا کہ جنگلی درختوں میں اعلیٰ قسم کے پھل لگے ہوں.اعلیٰ قسم کے پھل ہمیشہ اعلیٰ درختوں پر لگتے ہیں اور اعلیٰ درخت انسانی کوشش سے پھل لاتے ہیں.پس ایمان اور اعمال صالحہ کی مثال شجرہ طیبہ یعنی اعلیٰ قسم کے درختوں کی سے ہے جنگلی درختوں کی نہیں.اور یہ شجرہ طیبہ اعمال
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطا کے پانی کے بغیر پھل نہیں دیتا.جس طرح درخت بونے کے بعد اگر اسے پانی نہ دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے پانی ملتا رہے تو وہ عمدہ پھل دیتا ہے اور اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے.اسی طرح خالی ایمان پر خوش نہ ہو جاؤ بلکہ مجھ لو کہ شجرہ طیبہ پانی چاہتا ہے جب تک اسے اعمالِ صالحہ کا پانی نہ ملے گا وہ شجرۂ طیبہ نہ بن سکے گا.پس صرف کلمہ پڑھ کر تمہیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے.جب تک تم لَا إِلهَ إِلَّا الله کے درخت کو اعمالِ صالحہ کا پانی نہ دوگی تمہارا درخت پھل نہیں لائے گا بلکہ خشک ہو جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح لَا إِلهَ إِلَّا الله بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.کوئی اچھے ہوتے ہیں اور کوئی سڑے ہوئے ہوتے ہیں.قرآن شریف میں سڑے ہوئے کلمہ کی مثال اس طرح دی گئی ہے کہ اِذَا جَاءَكَ الْمُسْفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَ اللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرے پاس منافق آتے ہیں اور کہتے ہیں نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ کہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ خدا موجود ہے اور تو اس کا رسول ہے مگر اس پر بجائے اس کے کہ خدا خوش ہو کہ آخر انہوں نے صداقت کا اقرار کر لیا، فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے.وہ کہتے ہیں ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے.اب اگر اللہ تعالیٰ کہے اور وہ نہ کہیں تو جھوٹ ہو.مگر جب انہوں نے بھی کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی گواہی دیدی کہ تو ہمارا رسول ہے تو پھر کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ بڑے سچے ہیں کہ انہوں نے وہ بات کہی جو خدا نے کہی.مگر فرماتا ہے یہ منافق بڑے جھوٹے ہیں.باوجود اس کے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے کہا کہ تو اس کا رسول ہے پھر بھی وہ جھوٹے ہیں اور ان کا کلمہ، کلمہ طیبہ نہیں بلکہ کلمہ خبیثہ ہے.کیونکہ وہ دل سے نہیں کہہ رہے بلکہ منافقت سے کہہ رہے ہیں.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو گو سچے دل سے ایمان لاتے ہیں مگر ان کا ایمان ناقص ہوتا ہے.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آم تو بوئے مگر اُسے پانی نہ دے اور نہ اس کی نگرانی کرے نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہوگا تو آم ہی مگر پھل ناقص دے گا، کھٹا دے گا اور تھوڑا دے گا.ایسے درخت کے آموں کو گدھے بھی سُونگھ کر پھینک دیتے ہیں اور جب بازار میں جاتے ہیں تو ردی کی ٹوکری میں پڑے رہتے ہیں اور کوئی ان کو نہیں خریدتا.اس کے مقابلہ میں اعلیٰ قسم کے آموں کو کاغذ کا لباس پہنایا جاتا ہے اور اوپر لکھا جاتا ہے کہ فلاں قسم کا آم.اور رئیسوں کے آرڈر پر آرڈر آتے
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب ا ہیں اور بڑے بڑے امیر ان کو خریدتے ہیں.مگر ناقص آم میلی اور گندی ٹوکری میں پڑے ہوتے ہیں اور پیسے پیسے وٹی پیسے پیسے وٹی سے کہہ کر دکاندار آواز دے رہا ہوتا ہے اور پھر بھی انہیں کوئی نہیں خریدتا.پھر ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ پاس سے گزرنے پر سر سے لے کر پیر تک اس کی خوشبو برقی رو کی طرح اثر کر جاتی ہے.اور ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے تک کو جی نہیں چاہتا.یہی حال دوسرے پھلوں کا ہے.ایک وقت خربوزے روپے روپے وٹی تک سکتے ہیں اور دوسرے وقت ان میں کیڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں.تو فرمایا تم ہمیشہ کلمہ کلمہ پکارتے ہو تمہیں سوچنا چاہئے کہ کیا کلمہ پڑھتے ہو؟ کلمہ طیبہ تو ابو بکڑ بھی پڑھتا تھا، عمرہ بھی پڑھتا تھا، عثمان بھی پڑھتا تھا، علی بھی پڑھتا تھا.اگر تم کہو کہ تم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہو جو ابو بکر اور عمر پڑھتے تھے تو یہ درست نہیں کیونکہ ان کا کلمہ کلمہ طیبہ تھا.اور طیبہ کے معنے عربی زبان میں خوش شکل ، خوشبودار ، لذیذ اور شیریں کے ہیں.طبیہ کے اور بھی معنے ہیں لیکن یہ چاروں معنے خاص طور پر طنیب میں پائے جاتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ جو چیز خوش شکل ہو خوشبو دار بھی ہو.انسانوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل اچھی ہوتی ہے مگر انہیں بغل گند ہوتا ہے اور کئی لوگوں سے بدبو تو نہیں آتی مگر شکل دیکھ کر کرا بہت آتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر وہ جاہل اور اُجڑ ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو خو بصورت بھی ہوتے ہیں، خوشبو بھی اُن میں سے آتی ہے، عالم بھی ہوتے ہیں مگر شیریں نہیں ہوتے یعنی اُن کی باتوں میں مزہ نہیں آتا.پس طیب وہ ہے جس میں یہ چاروں باتیں پائی جائیں یعنی خوش شکل بھی ہو ، خوشبو دار بھی ہو، خوش ذائقہ بھی ہو، اور شیریں بھی ہو.پس کلمہ طیبہ پر ایمان لانے والے کو سوچنا چاہئے کہ کیا اس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں.طیبہ کے پہلے معنے خوش شکل کے ہیں.اب تم سوچو کہ کیا تمہارا ایمان خوش شکل ہے؟ تم منہ سے تو کہتی ہو کہ ہم احمدی ہیں مگر کیا ظاہر میں بھی تمہاری شکل احمد یوں والی ہے؟ کیا اگر آم کی شکل بیر جیسی ہو تو لوگ اسے پسند کریں گے؟ اسی طرح جب تک تمہاری نمازیں احمدیوں والی نہ ہوں، تمہارے روزے احمد یوں والے نہ ہوں ، تمہاری زکوۃ احمد یوں والی نہ ہو، تمہارا حج احمد یوں والا نہ ہو تم کس طرح کہہ سکتی ہو کہ ہم نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا.کتنا ہی اچھا آم ہو لیکن اگر وہ داغدار ہو یا پچکا ہوا ہو تو لوگ اسے نہیں خریدتے.اسی طرح اگر تم صرف اس بات پر خوش ہو جاؤ کہ ہم نے کلمہ طیبہ کہہ لیا تو ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری زکوۃ ، ہمارا حج اور ہمارے صدقے خود بخود اچھے ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں.جس طرح داغدار آم کو کوئی شخص نہیں خرید تا اسی طرح
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے بھی قبول نہیں ہو سکتے.صرف اسی صورت میں یہ عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں جب وہ انہیں شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں جن شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے.دوسری چیز کلمہ کا خوشبو دار ہوتا ہے.جو چیز انسان خریدتا ہے اس کے متعلق یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ آیا اس کی خوشبو ا چھی ہے یا نہیں.خربوزے ہوں تو ان کی خوشبو سونگھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خربوزوں سے اچھی خوشبو آئے.یہی حال باقی پھلوں کا ہے.آم جتنا اچھا ہوگا اتنی ہی اس کی خوشبو اچھی ہوگی.اسی طرح سیب، انار، انگور اور کیلا وغیرہ کی لوگ شکل بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی خوشبو بھی سونگھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایمان لائے ہو تو تمہارے ایمان کے اندر خوشبو بھی ہونی چاہئے.یعنی تمہارے ارد گرد کے ہمسائے تمہیں دیکھیں تو تمہاری نیکیوں کی خوشبو ان کو آ جائے اور وہ کہہ اُٹھیں کہ واقعی یہ مذہب اچھا ہے.پہلے تو لوگ شکل دیکھیں گے کہ تمہاری نمازیں مسلمانوں والی ہیں یا نہیں.فرض کرو ایک عورت احمدی کہلاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھتی تو اس کی ہمسایہ عورت کو یقین ہو جائے گا کہ ہمارا مولوی ٹھیک کہتا تھا کہ احمدی جماعت کی عورتیں نماز نہیں پڑھتیں یا احمدی نماز کو جائز نہیں سمجھتے.کیونکہ غیر احمدی مولویوں نے ان کو یہی بتایا ہوتا ہے کہ احمدیوں کا نماز روزہ الگ ہے.پس ایک غیر احمدی عورت نماز چھوڑ کر صرف اپنے لئے دوزخ مول لیتی ہے لیکن ایک احمدی عورت نماز نہ پڑھ کر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ان دوسری پچاس عورتوں کے لئے بھی دوزخ مول لیتی ہے جو اُس کو دیکھتی ہیں.تو فرمایا تم شجرہ طیبہ بنوں.تم وہ درخت بنو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبو دار بھی ہو.تم جس محلہ میں جاؤ وہاں نمازیں پڑھو، صدقات دو، خیرات کرو اور اس قدر نیکیوں میں حصہ لو کہ سب کہیں کہ معلوم نہیں کون آ گئی ہے جو اس قدر نمازیں پڑھتی اور خیرات کرتی ہے.پھر جب وہ تمہارے پاس آئیں گی تو تم دیکھو گی کہ وہ اپنے مولوی کو وہاں سے سینکڑوں گالیاں دیتی ہوئی اُٹھیں گی.کیونکہ تمہاری خوشبو اُن کو احمدیت کے چمن کی طرف کھینچ رہی ہوگی.پس چاہیئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں ، صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خود بخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں.جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جاؤ گی.طیبہ کے تیسرے معنے خوش ذائقہ کے ہیں یعنی ایسی چیز جس کا مزا اچھا ہو اور انسان کی
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطا زبان اس سے حلاوت محسوس کرے.یہ چیز بھی ایسی ہے جس کا مؤمن میں پایا جانا ضروری ہے.فرض کرو ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی صبح شام غیبت میں مشغول رہتی اور ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا تو اس سے اُس کی نیکی کا اثر زائل ہو جائے گا.یہ باتیں ایسی ہی گندی ہیں جیسے بعض عورتیں مٹی کھانے لگ جاتی ہیں بے شک یہ باتیں ہیں مگر ایسی جن کی کوئی قیمت نہیں.نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ سنانے والے کو.لیکن اگر وہ اس قسم کی باتیں کرے کہ اے بہن! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے.اے بہن! خدا کا یہ حکم ہے ، نماز کے متعلق یہ حکم ہے ، روزوں کے یہ احکام ہیں تو سننے والے اس کا اثر محسوس کریں گے اور انہیں اس کی باتوں میں لذت آئے گی.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ دین پر عمل کرو.دوسری بات یہ ہے کہ اتنا اچھا عمل کرو کہ لوگوں میں شہرت ہو جائے.تیسرا یہ کہ ایسی باتیں کرو جن سے لوگ فائدہ اٹھائیں.پھر طیبہ کے چوتھے معنے شیریں کے ہیں یعنی تمہاری باتیں ایسی ہوں جو نہ صرف لوگوں کو فائدہ بخشیں بلکہ علمی بھی ہوں اور صرف دماغ سے تعلق نہ رکھتی ہوں بلکہ ایسی شہر میں باتیں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں اور جن سے حلاوتِ ایمان نصیب ہو.عقلی باتوں سے لذت تو آتی ہے لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی.شاعر کتنے اچھے شعر کہتے ہیں لیکن وہ میٹھے نہیں ہوتے.پھر ایک شخص خدا کی باتیں سناتا ہے اور نہایت فصیح و بلیغ طریق پر الفاظ لاتا ہے اُس کی باتیں بھی لذیذ ہوتی ہیں لیکن شیریں نہیں ہوتیں.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جن میں گولفاظی نہیں ہوتی مگر ان باتوں سے دلوں پر اثر ہوتا اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اس کی باتیں شیریں کہلائیں گی کیونکہ وہ دلوں پر اثر کرنے والی ہوں گی.یہ چار باتیں ہیں جن کا مؤمن کے اندر پایا جانا ضروری ہے.اگر تم ایسی بن جاؤ تو تم جنت کی وارث بن سکتی ہو.جنت کیا ہے؟ جنت کے درخت مؤمن ہیں اور جنت کی نہریں مؤمنوں کے اعمال.جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے.اس دنیا اور اگلے جہاں میں یہ فرق ہے کہ یہاں مؤمن چھپے ہوئے ہیں مگر اگلے جہان میں ان سب کو اکٹھا کر دیا جائے گا تب دنیا حیران رہ جائے گی کہ واہ واہ کیسے شاندار لوگ ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب،
مستورات سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ حضرت خواجہ نظام الدین صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے ہزاروں بزرگ جو امت محمدیہ میں گزرے ہیں جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو لوگ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے.دنیا میں تو الگ الگ درخت تھے لیکن وہاں میٹھے پھلوں والے باغات کی صورت میں دکھائی دیں گے اور ان کے اعمال اور ایمان کو دیکھ کر لوگ کہہ اٹھیں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جنت نہیں.جس گاؤں میں جھوٹ بول کر لوگ فتنہ ڈلواتے ہوں ، لوگوں کا مال ظلماً چھین لیتے ہوں، بھو کے کا خیال نہ کرتے ہوں اور ڈاکے ڈالتے ہوں اُس کو کیسے جنت کہہ سکتے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں اگلے جہان کی سب سے بڑی جنت یہ ہے کہ اس میں تمام نیکوں کو اکٹھا کر دیا جائے گا اور بدوں کو الگ کر دیا جائے گا.نماز پڑھنے والی عورتیں اور نماز پڑھنے والے مرد، سچ بولنے والی عورتیں اور سچ بولنے والے مرد، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی عورتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مرد، قرآن کریم پر ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے مرد، پہلے نبیوں پر ایمان لانے والی عورتیں اور پہلے نبیوں پر ایمان لانے والے مرد ، لوگوں کی خدمت کرنے والی عورتیں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے مرد، جھوٹ ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والی عورتیں اور جھوٹ ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والے مرد جس جگہ جمع ہوں گے وہاں رہنے کو کس کا دل نہ چاہے گا.بے شک وہاں باغ بھی ہوں گے لیکن اصل مطلب یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں تمام نیک لوگ جمع ہوں گے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے.لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا.اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ کلمہ طیبہ سے ملتی ہے.جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مؤمن جنت کا درخت بن جاتا ہے.پس جب تک تم کلمہ طیبہ نہ بنو گی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی.قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے.وہ تم کو چاند یا سورج کی طرف نہیں لے گیا، اس نے سکندر یا ارسطو کی کوئی مثال پیش نہیں کی ، اُس نے الجبرے کا کوئی سوال نہیں ڈالا ، اس نے تم کو کسی عمارت کے گنبدوں کی طرف نہیں لے جانا چاہا بلکہ خدا نے وہ بات کہی ہے جو تم میں سے ہر ایک نے دیکھی اور جس کو بچہ بچہ جانتا ہے.خدا نے کہا ہے کہ ہم تم کو پہاڑ اور دریا کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی تم نے درخت کو دیکھا ہے یا نہیں؟ جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو عمل کا پانی دو.اپنے اندر اچھی
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب باتیں پیدا کرو.جب تم ایسا کرو گی تو تم جنت کا درخت بن جاؤ گی.پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بناؤ.جب تم ایسا درخت بن جاؤ گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی ہوگی وہاں سے اُٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہوسکتا.لوگ اپنے باغوں کے سجانے کے لئے دُور دُور سے درخت منگواتے ہیں تا کہ ان کا باغ خوبصورت معلوم ہو اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر جگہ کے نیک لوگوں کو جنت میں لائیں گے تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے باغ میں فلاں درخت نہیں.یہ کیا ہی اچھا سودا ہے جو مومن اپنے رب سے کرتا ہے مگر افسوس کہ لوگوں کو اس سودے کی طرف بہت کم توجہ ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ تم اپنے آپ کو جنت کا پودا بناؤ.اپنے کلمہ کو کلمہ طیبہ بناؤ اور اس کے فضل سے شجرہ طیبہ کی مانند بن جاؤ.وَاخِرُ دَعُوا نَا آن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(مصباح فروری ۱۹۴۲ء) ای ابراهیم: ۲۴ تا ۲۶ المنافقون : ٢ وتی: دو سیر کا بات دوسیر
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۱ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بعض اہم اور ضروری امور تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۱ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ا.اخبارات سلسلہ اپنے مضمون کو شروع کرنے سے قبل میں حسب سابق تمام دوستوں کو پھر ایک بار بلکہ شاید بیسیوں بار بلکہ اس سے بھی زیادہ بار توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ کے اخبارات اور رسائل کی اشاعت بڑھانا ان کا اہم فرض ہونا چاہئے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس درخت کو پانی نہ ملتا ہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اخبار پانی کا رنگ رکھتے ہیں اور اس لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے.یہ بات میں کئی بار کہہ چکا ہوں مگر افسوس ہے کہ دوست توجہ نہیں کرتے بلکہ بعض تو نادانی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اخباروں میں وہی باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں حالانکہ جو بات مفید ہوا سے دُہرانا ضروری ہوتا ہے.اگر دُہرانا ایسا ہی بُرا ہے تو ایسے لوگ روٹی کھانے اور پانی پینے کے فعل کو کیوں دُہراتے ہیں.جس طرح انسان کا جسم تحلیل ہوتا رہتا ہے اور اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان پھر روٹی کھائے اور پانی پیئے.اسی طرح دماغی تحلیل بھی ہوتی رہتی ہے اور اس لئے پھر ان باتوں کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے.اگر ان کو دُہرایا نہ جائے تو اثر قائم نہیں رہ سکتا.پس دُہرانا بُری بات نہیں بلکہ ضروری ہے.اذان دن میں پانچ بارڈ ہرائی جاتی ہے.یہ اخبار کا ذکر تو کوئی دُہراتا ہو تو مہینہ یا سال کے بعد دُہرائے گا مگر اذان تو دن میں پانچ بار دہرائی جانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے.پھر نماز دن میں پانچ بار دُہرانے کا حکم ہے.وہی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وہی اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے، وہی سورہ فاتحہ ہر رکعت میں دُہرائی جاتی ہے، وہی ہر نماز اور ہر رکعت
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور میں سینے پر ہاتھ رکھے جاتے ہیں، وہی سجدہ اور وہی رکوع دُہرایا جاتا ہے.نماز بالکل اسی طرح دن میں پانچ بارڈ ہرائی جاتی ہے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اب تک چلی آتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک ہمارے باپ دادا، ان کے باپ دادا اور پھر ان کے باپ دادا بالکل اسی طرح دُہراتے چلے آئے ہیں.اور اگر دُہرا نا عیب ہے تو اسے کیوں دُہرایا جاتا ہے.اور وہی نماز جو کل پڑھی تھی.آج دُہرائی جاتی ہے.وہی روٹی کھانے اور پانی پینے کا عمل ہر روز دُہرایا جاتا ہے.وہی دن جو کل چڑھا تھا آج پھر چڑھا ہے.اور وہی رات ہر روز آتی ہے.اور کبھی کوئی نہیں کہتا کہ دن دوبارہ نہ چڑھے اور رات دوبارہ نہ آئے.کیونکہ کل بھی دن تھا اور رات تھی.اس لئے آج دن ہو اور نہ رات.ذرا غور کرو کہ اگر انسان کی نیند اڑ جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے.میرا اپنا گزشتہ شب کا تجربہ ہے کہ مجھے نیند نہ آتی تھی اور صبح تقریر کرنی تھی.میں نے ڈرام یا نصف ڈرام برومائیڈ پی لی.مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ اتنی خوراک درست بھی ہے یا زہریلی ہو جاتی ہے.مگر چونکہ نیند نہ آ رہی تھی میں نے پی لی.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر رات کو نیند نہ آئی تو صبح نہ کوئی کام کر سکوں گا اور نہ تقریر کر سکوں گا.تو کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ میں کل بھی سویا رہا ہوں آج نہ سوؤں.بلکہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ وہی نیند جو کل آئی تھی اور جو روز آتی ہے ہر روز آتی رہے.پس کسی بات کا دُہرایا جانا قابلِ اعتراض بات نہیں بلکہ مفید چیزوں کا دُہرایا جانا ضروری اور مفید ہوتا ہے.قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق آتا ہے کہ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوْا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أَتُو بِهِ مُتَشَابِهَا ے جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں وہی رزق دُہرائے جائیں گے.پس محض دُہرانا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہر روز کئی باتیں دہرائی جاتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ وہ دُہرائی جائیں.ان کا نہ دُہرایا جانا اسے کبھی پسند نہیں ہوتا.پس یہ کہنا غلطی ہے کہ یہی بات ہمیشہ دُہرائی جاتی ہے.جماعت کے دوستوں کو اس طرف ضرور توجہ کرنی چاہئے کہ سلسلہ کے اخبارات کو خرید میں انہیں پڑھیں اور ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.میں تو جہاں تک ہو سکے پڑھتا ہوں اور بسا اوقات فائدہ بھی اُٹھاتا ہوں.میں نے تو کبھی کوئی ایسا مضمون نہیں پڑھا جو دوبارہ شائع ہوا ہو لیکن اگر کوئی مضمون دوبارہ بھی شائع ہوا ہو تو بہر حال اس کا اسلوب اور طرز بیان جُدا ہوتا ہے اور اس چیز سے بھی فائدہ ہوتا ہے بعض عام باتیں بھی بہت
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بڑے فائدہ کا موجب ہوتی ہیں.گل ہی میرا علمی مضمون ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو عام ہیں اور روزمرہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے میں انہیں بیان کر سکوں یا نہ.اور کس حد تک بیان کر سکوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ایسی ہی مثال ہوگی جیسے معمولی معمولی چیزوں سے ایک عجوبہ تیار کر لیا جائے جس رنگ میں یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا ہے وہ بالکل نرالا ہے اور اگر اسے سننے کے بعد کوئی کہے کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں تو گو اس کی یہ بات صحیح تو ہوگی لیکن اگر وہ ان کی ترتیب کو دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس رنگ کی ہے کہ یہ مضمون کسی کے ذہن میں پہلے نہیں آیا اور وہ محسوس کرے گا کہ یہ قرآن کریم کا بڑا کمال ہے کہ اس کے اندر سے نئے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں.میں قرآن کریم پر بہت غور کرنے والا آدمی ہوں اور اس مضمون کی ترتیب کو دیکھ کر میں خود حیران ہوں کہ جو آیات روزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ان میں سے بعض ایسے نئے مضامین پیدا ہوئے ہیں کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے اس لئے یہ غذر کہ وہی باتیں دُہرائی جاتی ہیں بالکل غلط - ط ہے.پس دوستوں کو اخبارات کی اشاعت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرنی چاہئے.ہماری جماعت اتنی ہی نہیں جتنی یہاں موجود ہے.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بہت زیادہ ہے.کسی زمانہ میں ساری جماعت عورتیں اور بچے ملا کر بھی اتنی ہی ہوگی جتنی اب یہاں موجود ہے مگر اُس وقت سلسلہ کے اخبارات کی اشاعت ڈیڑھ دو ہزار ہوتی تھی.مگر اب الفضل کے خریدار صرف بارہ سو ہیں حالانکہ اگر کچھ نہیں تو پانچ چھ ہزار اس وقت ہونے چاہئیں.لوگ غیر ضروری باتوں پر روپے خرچ کر دیتے ہیں.امراء کے گھروں میں بیسیوں چیزیں ایسی رکھی رہتی ہیں جو کسی کام نہیں آتیں.مگر لوگ ان پر اس لئے روپے خرچ کرتے ہیں کہ کبھی کسی مہمان کے آنے پر اس کے سامنے لائی جائے تو وہ دیکھ کر کہے کہ اچھا خان صاحب آپ کے پاس یہ چیز بھی موجود ہے.بس اتنی سے بات سن کر ان کا دل خوش ہو جاتا ہے اور وہ پچاس روپیہ کی رقم جو اُس پر خرچ کی ہوتی ہے گویا اس طرح وصول ہو جاتی ہے.تو ایسی غیر ضروری چیزوں پر تو لوگ روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی باتوں پر نہیں کرتے.ان کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ دُہرائی جاتی ہیں حالانکہ اخبارات نہ صرف ان کے
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ فائدہ کی چیز ہیں بلکہ ان کی اولادوں کے لئے بھی ضروری ہیں.میں تو یہاں تک کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے ایک کتاب کی کئی کئی جلدیں مہیا کر کے رکھوں.میرے دل پر یہ بوجھ رہتا ہے کہ میری اولا د خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ سب کے لئے کتب مہیا نہ ہوسکیں.میرے پاس بعض کتابوں کے تین تین چار چار نسخے ہیں.میں نے چند روز ہوئے ” مسلم جو حدیث کی کتاب ہے منگوانے کو کہا.مولوی نور الحق صاحب دو مختلف قسم کی کتابیں لائے کہ ان میں سے کونسی منگوائی جائے؟ میں نے کہا دونوں منگوا لیں بچوں کے کام آئیں گی.تو کتابوں کا رکھنا اولاد کے لئے بہت مفید ہوتا ہے.ایک دن آئے گا کہ وہ دنیا میں نہ ہوں گے اُس وقت ان کی اولادیں ان اخبارات کو پڑھیں گی اور اپنے ایمان کو تازہ کریں گی.بعد میں ان کے لئے ان کا حاصل کرنا مشکل ہوگا.دیکھو آج پرانے "الفضل اور ریویو وغیرہ کے پرچے کس قدر مشکل سے ملتے ہیں.کئی دوستوں نے مجھ سے بھی شکایت کی ہے کہ پرانے پر چے نہیں ملتے.پس آج دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان چیزوں کو خرید کر فائدہ اٹھانا چاہئے اور پھر اپنی اولادوں کے لئے ان کو محفوظ کر دینا چاہئے.سلسلہ کے اخبارات میں سے ”الفضل روزانہ ہے.جہاں کوئی فرد نہ خرید سکے وہاں کی جماعتیں مل کر اسے خریدیں.مجلس شوریٰ میں بھی اس سال یہ فیصلہ کیا گیا تھا.کہ جن جماعتوں کے افراد کی تعداد میں یا اس سے زیادہ ہے وہ لازمی طور پر روزانہ الفضل خریدیں اور جس جماعت کے افراد کی تعداد میں یا اس سے کم ہو.وہ الفضل‘ کا خطبہ نمبر یا فاروق خریدے.فاروق بھی پیغامیوں، آریوں اور عیسائیوں وغیرہ کے متعلق بہت مفید مضامین لکھتا رہتا ہے.”نور“ سکھوں اور ہندوؤں کے لئے ہے.ہماری تبلیغ میں ہندوؤں کا حصہ ہے مگر نور کو چاہئے کہ اپنے دائرہ کو وسیع کرے.اس سے محض غلط فہمیاں دُور کرنے کا ہی کام نہیں لینا چاہئے بلکہ اسے تبلیغی اخبار بنانا چاہئے.بے شک تلخی نہ ہو وہ تو اسلام میں جائز ہی نہیں لیکن محبت اور پیار سے ہندوؤں اور سکھوں کو اسلام کی خوبیوں کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اسلام میں ان کا داخلہ جہاں ایک طرف سچائی کو قبول کرنے کا موجب ہوگا وہاں دوسری طرف ان کے آباء اور بزرگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے مترادف ہوگا.اسی طرح ریویو" اردو اور انگریزی بھی اب بہتر ہیں میرا یہ مطلب نہیں کہ ابتدائی حالت سے بہتر ہیں.اُس وقت تو
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون اس میں ہوا کرتے تھے بلکہ درمیانی عرصہ میں جو نیند کا زمانہ ان پر آیا تھا اُس سے بہتر ہیں.سن رائز بھی بہت مفید کام کر رہا ہے.اور ان ممالک میں جہاں ہم اور کسی زبان میں اپنے خیالات نہیں پہنچا سکتے.مثلاً امریکہ ، انگلستان وغیرہ وہاں بڑا اچھا اثر پیدا کر رہا ہے.میرے خطبات اور سلسلہ کی دیگر تحریکات وغیرہ اسی کے ذریعہ ان ممالک کے احمدیوں تک پہنچتی ہیں اور ان سب کے خریدنے کی میں سفارش کرتا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ کثرت سے ان اخبارات اور رسائل کو خریدیں اور انہیں خریدنا اور پڑھنا ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا زندگی کے لئے سانس لینا ضروری ہے.یا جیسے وہ روٹی کھانا ضروری سمجھتے ہیں.دیکھو ایک زمانہ تھا جب آٹا دو روپیہ من بکتا تھا اُس وقت بھی لوگ روٹی کھاتے تھے، پھر سولہ سیر ہوا پھر بھی کھاتے رہے، پھر دس سیر ہوا اُس وقت بھی کھاتے رہے، پھر آٹھ سات بلکہ ۶۱۲ سیر تک پہنچ گیا تو اُس وقت بھی کھاتے رہے اور اب تو قیمتوں پر گورنمنٹ نے حد بندی لگا دی ہے ور نہ اگر تین چار سیر بھی بھاؤ ہو جاتا تو بھی ضرور کھاتے اس لئے کہ اسے زندگی کا مجز و سمجھا جاتا ہے.اسی طرح اخباروں اور رسائل کا خریدنا اور بھی ضروری سمجھا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ ضرور احباب توجہ کریں گے اور اخبارات و رسائل کی خریداری کو ضروری سمجھیں گے.و الفضل، فاروق ، نور سن رائز، ریویوار دو انگریزی ان سب کی خریداری کی میں سفارش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میری اس دفعہ کی سفارش کو دوست ضرور قبول کریں گے.ان کے علاوہ ایک رسالہ ”الفرقان نکلا ہے اس کی تمہید بھی میں نے لکھی ہے جو پیغامیوں کے زہر کے ازالہ کے لئے جاری کیا گیا ہے.اس کی خریداری کی طرف بھی میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں اور جن نوجوانوں نے یہ جاری کیا ہے ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے مستقل رسالہ کے طور پر اس کے اجراء کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ صرف ان اشتہارات کا قائم مقام سمجھنا چاہئے جو پہلے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اب گویا وہ مہینہ کے بعد ایک رسالہ کی صورت میں شائع ہوتے رہیں گے.مستقل رسالہ کے طور پر اسے جاری کرنے کی اجازت میں نے نہیں دی اور نہ اسے یہ حیثیت دینی چاہئے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں.اگر اسے مستقل حیثیت دی جائے تو پھر اسے خواہ مخواہ اور ضرورت کے بغیر بھی جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی میں نے دیکھا ہے جب لوگ کوئی رسالہ جاری کرتے ہیں تو پھر اس کی ضرورت رہے یا نہ رہے اسے جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ضرورت کے بعد بھی اسے گھسیٹتے چلے جائیں اور اس
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور طرح وہ ایک بوجھ بن جاتا ہے.پس یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے اشتہاروں کے طور پر ہی اس کی اجازت دی ہے.مستقل رسالہ کی حیثیت سے نہیں.ایک اور رسالہ ایک دوست نے بھیجا ہے.میں اس کے ۲.لفظ اعظم کا غلط استعمال متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.مگر کہتے ہوئے ڈرتا بھی ہوں.اور ڈرتا اس لئے ہوں کہ یہ ایک نوجوان کا کام ہے اور جیسا کہ کسی نے کہا تھا کہ یہ اس بچہ کا پہلا وار ہے خالی نہ جانا چاہئے.مجھے یہ ڈر ہے کہ اس کی دل شکنی نہ ہو اور اس کا ذکر نہ کرنا بھی دل پر گراں گزرتا ہے.یہ رسالہ ” ہمارے نغمے ہے.اس میں شعر اچھے ہیں اور سلسلہ کے متعلق اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے.میں خود بھی شعر کو پسند کرتا ہوں مگر جس حد تک وہ جذبات کو صحیح طور پر ابھارے، خوشامدانہ قصائد کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی اور اس سے میری طبیعت اس حد تک متنفر ہے کہ مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے اور فارسی کے علم کے لحاظ سے ہندوستان بھر کی اہم ترین شخصیتوں میں ان کا شمار ہوتا تھا وہ ایک بار میرے متعلق ایک طویل قصیدہ لکھ کر لے آئے اور یہاں سٹیج پر اُسے پڑھنے لگے.وہ پڑھتے جائیں اور میں اپنے دل میں کہوں کہ مجھ میں تو یہ بات نہیں میں تو ایسا نہیں ہوں.آخر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! آپ جیسے بزرگ آدمی کے لئے یہ بات موزوں نہیں کہ ایسی باتوں میں وقت ضائع کریں.ان کو یہ بات بری لگی کہ میں نے داد دینے کی بجائے جھاڑ ڈال دی اور انہوں نے اُسی دن سے شعر کہنا قریباً ترک کر دیا.اس وقت میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بھی اسی قسم کی ہے.یہ غلطی ہمارے ملک میں عام طور پر پھیلی ہوئی ہے ”الفضل میں بھی میں نے بعض اوقات دیکھی ہے.اس رسالہ میں حضرت خلیفہ اول کے متعلق بعض اشعار درج ہیں.ان میں حضرت خلیفہ اول کی تعریف کی گئی ہے اور وہ صحیح ہے بلکہ ہم آپ کی تعریف میں اس سے زیادہ کلمات بھی کہہ سکتے ہیں مگران اشعار پر ہیڈنگ ”نورالدین اعظم لکھا ہے.اعظم کے معنے ہیں سب سے بڑا.اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اعظم“ کا خطاب آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا.یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا یا کسی پہلی پیشگوئی میں آپ کیلئے یہ خطاب آیا ہے یا کیا آپ نے خود کبھی اپنے آپ کو عظم کہا ؟ اتنا تو سمجھنا چاہئے کہ خطاب وہی ہو سکتا ہے جو کسی بالا ہستی کی طرف سے دیا جائے.ہمارے لئے بڑی اور بالا ہستی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں، آپ سے اوپر
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان سے اوپر اللہ تعالیٰ مگر ان میں سے کسی نے بھی حضرت خلیفہ امسیح الاول کو یہ خطاب نہیں دیا.ان میں سے کسی کی طرف سے یہ خطاب اگر آپ کو دیا جاتا تو یہ آپ کی تعریف کہلا سکتی تھی مگر یہ تو اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے آپ کو دیا تھا جو پہلے مرتد ہو کر پیغامی ہوا اور پھر وہاں سے بھی مرتد ہو کر غیر احمدی بنا اس لئے اول تو یہی بہت شرم کی بات ہے کہ ہم آپ کے لئے وہ خطاب استعمال کریں جس کا بانی ایک ایسا شخص ہو جو احمدیت سے مرتد ہو کر مرا.پھر اگر تو اعظم کے معنے یہ ہیں کہ جو اپنے گھر میں بیوی بچوں میں سے سب سے بڑا ہو تو اس طرح تو دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو اعظم“ نہ کہلا سکے.لیکن عظم“ کا لفظ تو ایک اصطلاح ہے جس کے معنے ایسے شخص کے ہیں جس سے بڑا چند صدیوں میں اس سے پہلے اور پیچھے کوئی نہ ہو.مثلاً سکندر اعظم کے معنے ہیں کہ چند صدیوں تک اُس کے آباء واجداد اور اُس کی اولاد میں سے کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا.اسی طرح اکبر اعظم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ چند صدیوں تک اس کے آباء واجداد اور اولاد میں سے کوئی اس جیسا نہیں ہوا.اب ان معنوں کے لحاظ سے نور الدین اعظم کے معنے یہ بنتے ہیں کہ گویا آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی بڑے تھے اور آئندہ بھی چند صدیوں تک آپ جیسا بڑا کوئی نہ ہو گا.اب دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ میں تو جب حضرت خلیفہ اول کے متعلق یہ لفظ جو ایک مرتد کی طرف سے آپ کا خطاب ہے سنتا ہوں تو سخت تکلیف ہوتی ہے کہ کہنے والے کو اتنا بھی احساس نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے ایک شخص کو اعظم کہہ رہا ہے.یہ غلطی سب سے پہلے علامہ شبلی نے کی ہے جنہوں نے حضرت عمرؓ کے متعلق فاروق اعظم کا لفظ استعمال کیا جو بالکل غلط ہے.فاروق اعظم کہاں تھا وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیوں کا غلام تھا.ہمارے ملک میں یہ غلط رواج ہے کوئی شخص اگر طب کی ایک دو کتابیں پڑھ کر کسی گاؤں میں عطاری کی دُکان کھول لے تو پھر وہ ارسطوئے زمان سے اِدھر نہیں ٹھہرتا.وہ کسی گاؤں میں نیلوفر اور بنفشہ کی دُکان کرے گا مگر قلم اُٹھا کر اپنے آپ کو ارسطوئے زمان حکیم نتھوخان لکھے گا.اس سے نیچے اتر نا وہ جانتا ہی نہیں.ذرا کسی نے دو پہلوانوں کو گرا لیا تو پھر وہ رستم زمان سے کم کسی خطاب پر اکتفاء نہ کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ ہر اینٹ اُٹھانے سے رستم ، ارسطو اور اعظم ہمارے ملک میں نکل آتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بڑے آدمیوں کی تعریفوں کے لئے لوگ اس سے زیادہ مبالغہ کی ضرورت سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جب ذلیل لوگ ارسطو اور سکندر
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ بن گئے تو جو فی الواقع بڑے ہیں انہیں کچھ اور بڑھا کر دکھانا چاہئے لیکن یہ طریق غلط ہے.جاہل، پاگل ہوں تو ان کا یہی کام ہے عالم پاگل کیوں بنیں اور اپنے بزرگوں کو وہ خطاب دے کر جن کے وہ مستحق نہیں کیوں ان کی اور ان کے بزرگوں کی ہتک کریں.جن لوگوں میں حقیقی فضیلت پائی جاتی ہے انہیں جھوٹی فضیلت دینے کی ضرورت ہی کیا.چاندی اور پیتل کو ملمع کی ضرورت ہے، سونے کو ملمع کی ضرورت ہی کیا ہے؟ 66 غرض یہ اس اصطلاح کا غلط استعمال ہے اور حضرت خلیفہ اول کے لئے اس کا استعمال آپ کی ہتک ہے.کیا یہ آپ کی تعریف ہے یا وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آپ اس طرح میری اطاعت کرتے ہیں جس طرح نبض دل کی اطاعت کرتی ہے.ہے اور اس سے بہتر تعریف آپ کی کیا ہوسکتی ہے.پس اعظم کے لفظ کے استعمال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی ہتک ہوتی ہے اور حضرت خلیفہ اول کی بھی کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ اپنی تعریف کرانے کے لئے ایک مرتد کے خطاب کے محتاج تھے.دراصل آپ کی تعریف اعظم“ کہلانے میں نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم ہونے میں ہے.پس آپ کو اعظم کہنا آپ کی ہتک ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ جس چیز میں اپنی عزت سمجھتے تھے.اس سے آپ کو باہر کیا جائے اور جسے ذلّت سمجھتے تھے وہ آپ کی طرف منسوب کی جائے.۳.کتاب ”سیر روحانی، اس کے بعد میں دوستوں کو کتاب ”سیر روحانی“ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یہ وہ تقریر ہے جو میں نے ۱۹۳۸ء کے سالانہ جلسہ پر کی تھی.یہ کتاب جلسہ کے دنوں میں نہ چھپی تھی اس لئے دوستوں نے زیادہ توجہ نہ کی یہ کتاب صرف دو ہزار چھپوائی گئی تھی مگر ابھی سات سو پکی ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کافی ہے.آج ہی یہاں ۲۳ ہزار افراد کو کھانا تقسیم ہوا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر بچوں اور عورتوں کو نکال دیا جائے تو بھی کم سے کم بارہ تیرہ ہزار مرد ہوں گے مگر اس کتاب کے دو ہزار میں سے ابھی سات سو نسخے پکے ہیں حالانکہ یہ چھوٹی کتاب ہے.جو لیکچر سنا جائے اس سے پوری طرح فائدہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اسے دوبارہ پڑھا جائے.پھر یہ سلسلہ کا مال تھا اس واسطے بھی اسے خریدنا چاہئے تھا.یوں تو دوست شکایت کرتے ہیں کہ تقریریں چھپتی نہیں ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب پہلی چھپوائی ہوئی کتاب فروخت نہ ہو تو دوسری کیسے چھپوائی جاسکتی ہے.ان کی اشاعت پر سلسلہ کا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور روپیہ خرچ ہوتا ہے اور آمد بھی خزانہ میں جاتی ہے لیکن اگر روپیہ خرچ کر دیا جائے اور کتاب فروخت نہ ہو تو یہ نقصان سلسلہ کو پہنچتا ہے.جو کتاب چھپتی ہے اگر دوست اسے جلدی جلدی خرید لیں تو پھر اسی روپیہ سے اور بھی چھپ سکتی ہیں مگر جب پہلی ہی پڑی رہے تو اور کس طرح چھاپی جا سکتی ہے.یوں تو دوست شکایت کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بعض لیکچر کیوں نہیں چھپتے مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب ایک کتاب کی اشاعت پر روپیہ لگایا جائے وہی پھنس جائے اور واپس نہ آئے تو کسی کتب فروش کو اور چھپوانے کی خواہش کیونکر پیدا ہو سکتی ہے.پس جو لوگ ان کتب کو خرید تے نہیں وہ گویا علم کے پھیلنے میں روک بنتے ہیں.۴.۱۹۴۱ء میں بیعت کرنے والوں کی تعداد اب میں اس سال کی بیعت کو لیتا ہوں.بیعت کی رپورٹ یہ ہے کہ ۲۹۵۸ آدمی ہندوستان میں بیعت میں شامل ہوئے اور ۹۶۷ باہر کے ملکوں سے گویا.گل ۳۹۲۵ اشخاص بیعت کر کے اس سال داخلِ سلسلہ ہوئے.یہ تعداد پچھلے سال کی نسبت ۲۵ ،۳۰ فیصدی زیادہ ہے.ضلع گورداسپور میں ۱۴۷۷ اصحاب نے بیعت کی.پچھلے سال بارہ سونے کی تھی.اس ضلع کی بیعت کے متعلق جتنی امید تھی اتنی تو یہ نہیں مگر پچھلے سال سے بہر حال زیادہ ہے.ضلع سیالکوٹ اس سال بھی ضلع گورداسپور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بڑھا رہا ہے اس ضلع میں ۲۰۲ اصحاب نے بیعت کی.ضلع شاہ پور سرگودھا میں ۱۴۲ نے ضلع گجرات میں ۱۲۶ نے امرتسر ۱۰۹، لاہور ۸۱، گوجرانوالہ ۵۴ ، شیخو پوره ۴۸ ، لائل پور ۴۷، جالندہر ۴۶ ، ہوشیار پور ۳۹، جہلم ۳۲، ملتان مظفر گڑھ ۲۰ ، منٹگمری ،۱۹، فیروز پور ۱۷ ، کیمل پور راولپنڈی ۹، انبالہ ۷، جھنگ ۷، لدھیانہ ۵ ، کرنال رہتک ۴، میانوالی۲.باقی سب اضلاع بالکل خالی رہے ہیں مگر میرے خیال میں یہ رپورٹ صحیح نہیں.آج ہی ایک صاحب حصار کے مجھے ملے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ابھی ابھی احمدی ہوئے ہیں.صوبوں کے لحاظ سے تقسیم اس طرح ہے.بنگال ۱۱۳ ، یوپی ۱۰۱ ، بہار اڑیسہ ۲۱ ، سرحد ۴۶ ، سندھ ۲۰ ، بلوچستان ،۳، بمبئی گجرات ۲ ، برما ۱۵ ، سیلون ،۸ ریاست جنید ۸، کپورتھلہ ۶ مالیر کوٹله ۲ ، حیدر آباد ۲۸.بیرونی ممالک میں سے جاوا میں ۵۲۵، گولڈ کوسٹ سیرالیون میں ۳۷۱، امریکہ ۱۸، انگلستان ۲ ، سماٹرا ۲۴ ، ماریشس ۲ ، ملایا ۴ ، مصر ۹ اور فلسطین ۸.پیغا می شور مچاتے رہتے ہیں کہ تبلیغ
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ہم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے سالانہ جلسہ میں اتنے لوگ شریک بھی نہیں ہوتے جتنے خدا تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر سال ہماری جماعت میں نئے شامل ہو جاتے ہیں.جن جماعتوں میں کوئی نیا آدمی شامل نہیں ہوا یا جن کے بیعت کرنے والوں کی تعداد کم ہے انہیں توجہ کرنی چاہئے اور تبلیغ میں بہت کوشش کرنی چاہئے یہ کیا کم عزت ہے کہ اتنے مجمع میں ان جماعتوں کے نام پڑھے جاتے ہیں جو کوشش کر کے نئے افراد کو جماعت میں داخل کرتی ہیں اور اس طرح ہزاروں لوگوں کے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر برکتیں نازل کرے.پس جو جماعتیں اس سال ان دعاؤں سے محروم رہی ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے سال ان کا نام بھی آ جائے.اس کے بعد میں تفسیر کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ.تفسیر القرآن کا کام کام تمام سال میرے لئے شدت کی بیماری کا سال رہا ہے.اپریل میں مجھے پھوڑے کی تکلیف ہو گئی اور وہ اتنی زیادہ تھی کہ بعض دنوں میں تو میں رات کو سو بھی نہیں سکتا تھا.اور بعد میں جب وہ مزمن صورت اختیار کر گیا تو دن کے وقت بھی بیٹھ نہ سکتا تھا بلکہ لیٹنا پڑتا تھا اور وہ بھی پہلو پر.درد کی تکلیف مزید برآں تھی.یہ تکلیف برابر ستمبر کے آخر تک رہی.ستمبر کے آخر میں آپریشن کرایا اور اس طرح ایک ماہ پھر لیٹنا پڑا.اس کے بعد گودرد وغیرہ تو نہ رہا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے سخت ضعف ہو گیا حتی کہ جلسہ سے ۵، ۶ دن قبل تک یہ حالت تھی کہ میں اچھی طرح چل پھر نہ سکتا تھا.چلتا تو قدم لڑکھڑاتے تھے جیسے اتنی پچاسی سال کے بوڑھوں کے لڑکھڑاتے ہیں.مسجد اقصیٰ کی ۴، ۵ سیٹرھیاں ہیں اور میں سونٹے کے سہارے اور تکلیف کے بغیر وہ بھی نہ چڑھ سکتا تھا اس لئے نومبر تک تو کوئی کام نہ ہو سکا.نومبر کے بعد کام شروع کیا اور اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ اس سال تفسیر کے کام کو مکمل کیا جا سکے.مگر پھر بھی ۲۷۵ صفحات کا مضمون ہو گیا ہے.جس میں سے دوسو سے زائد صفحات چُھپ گئے ہیں.کچھ مضمون کا تب کے پاس ہے اور کچھ دفتر والوں کے پاس اور اب مزید کام جلسہ کے بعد ہو گا.یہ حصہ پہلی جلد کی نسبت زیادہ تفصیلی ہے.پہلی جلد کا آخری حصہ عین جلسہ کے ایام کے قریب مکمل کیا گیا تھا اس لئے بعض مضامین کو مختصر کرنا پڑا اور بعض مضامین کی طرف صرف اشارے کر دیئے گئے.کل ہی میں نے ایک آیت دیکھی اس کے متعلق جو مشکلات میرے ذہن میں تھیں مجھے خیال تھا کہ ان کا حل اس میں کر دیا گیا ہے مگر جب دیکھا تو وہاں ان کا ذکر تک نہ تھا.یہ مضمون جو آب لکھا گیا ہے اور لکھا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور جا رہا ہے یہ زیادہ تفصیلی ہے اور اس وجہ سے خیال ہے کہ ضخامت بہت بڑھ جائے گی.اور شاید پہلے دس پاروں کی دو کی بجائے تین جلدیں کرنی پڑیں اور دوسری جلد کو حصہ اول اور حصہ دوم میں تقسیم کرنا پڑے تا کہ تیسری جلد اپنی جگہ پر قائم رہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ مجلس شوری تک پہلی جلد مکمل ہو سکے.۶- تفسیر کبیر تفسیر کبیر جو چھپوائی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے بلکہ اب تو ہم بیرونی مشنوں کے لئے بعض جماعتوں سے اس کے نسخے خرید رہے ہیں کچھ حیدر آباد سے خریدے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے معتد بہ حصہ نے اس کی اشاعت میں حصہ نہیں لیا.اس کی اشاعت میں غیر احمدیوں کا بھی کافی حصہ ہے تین ہزار میں سے پانسو سے کچھ زائد غیر احمد یوں نے خریدی ہے اور باقی اڑھائی ہزار احباب جماعت نے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی اشاعت کی طرف پوری توجہ نہیں کی.ہمارے دوسو سے اوپر طلباء لا ہور کے کالجوں میں پڑھتے ہیں انہیں جس طرح کا خرچ ملتا ہے اور جس طرح وہ گزارہ کرتے ہیں وہ مجھے خوب معلوم ہے کیونکہ میرے لڑکے بھی کالج میں پڑھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک اس قابل تھا کہ ذرا قربانی کر کے تفسیر خرید سکتا.اگر لاہور کے کالجوں کے احمدی طلباء ہی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے تو دوسو نسخے خرید سکتے تھے اور اگر پنجاب کے سارے احمدی طلباء توجہ کرتے تو صرف کالج کے طالب علموں میں ہی تین چار سو نسخے فروخت ہونے چاہئیں تھے اور اگر سکولوں کے سینئر طلباء کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک ہزار نسخے طلباء میں فروخت ہونے چاہئیں تھے.مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی.جو نو جوان انگریزی علوم اور مغربی فلسفہ پڑھتے ہیں ان کے لئے تو قرآن کریم کا سیکھنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے.مغرب کے لغو فلسفے کی کتابیں تو عقل کو مار دینے والا زہر ہے اور اس کا تریاق قرآن کریم ہے اور جو لوگ اسے پڑھتے لیکن قرآن کریم سیکھنے سے غفلت کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص زہر تو کھائے مگر تریاق کی طرف توجہ نہ کرے اور جو والدین اپنے بچوں کے لئے تریاق کا انتظام نہیں کرتے وہ بھی سخت غفلت کرتے ہیں.کیا عجیب بات ہے کہ دُنیوی کتابوں کا سوال ہو تو وہ سو سو روپیہ بھی صرف کر دیتے ہیں لیکن دین کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ چھ روپیہ قیمت بہت زیادہ ہے.میرے لڑکے کالجوں میں پڑھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ کالجوں کے طلباء کی کتابوں پر بعض جماعتوں میں سو سو روپیہ صرف ہوتا ہے اور دنیوی کتابوں پر اتنے روپے خرچ کرنے کے بعد جو لوگ چھ روپیہ
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور قرآن کریم پر خرچ نہیں کرنا چاہتے تو میں کہوں گا کہ ان کا ایمان ناقص ہے.ہر احمدی باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد کے لئے تفسیر کبیر خریدتا.میں نے خود اپنی ہر لڑکی اور ہر لڑکے سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے تفسیر خریدی ہے یا نہیں اور جب تک ان سب نے نہیں خریدی مجھے اطمینان نہیں ہوا.میں نے تو خود سب سے پہلے اسے خریدا اور حق تصنیف کے طور پر اس کا ایک بھی نسخہ لینا پسند نہیں کیا کیونکہ میں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا.میں نے سوچا کہ مجھے علم خدا تعالیٰ نے دیا ہے وقت بھی اُسی نے دیا ہے اور اُسی کی توفیق سے میں یہ کام کرنے کے قابل ہوا پھر میرا اس پر کیا حق ہے اور میرے لئے یہی مناسب ہے کہ خود بھی اسے اسی طرح خریدوں جس طرح دوسرے لوگ خریدتے ہیں.پس ہر ماں باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد سے جو اسے پڑھنے کے قابل تھی دریافت کرتا کہ اُس نے اسے خریدا ہے یا نہیں؟ اور جس نے نہ خریدا ہوتا اس پر اظہار ناراضگی کرتا کہ تم زہر کھاتے ہو مگر اس کے تریاق سے غافل ہو.پھر مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ بعض بڑے بڑے شہروں کی جماعتوں نے بھی اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے.میں تمام جماعتوں کی خریداری کی فہرست سنا دیتا ہوں اس سے احباب اندازہ کر سکیں گے کہ کیس کیس نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی ہے.ضلع گورداسپور ۶۰۷.اس میں سے قادیان میں ۵۷۲ اور باقی ضلع میں ۳۵ فروخت ہوئیں اور یہ کوئی خوشی کا مقام نہیں.قادیان میں ایسے تعلیم یافتہ احمدی مردوں کی تعداد جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں قریباً ایک ہزار ہے اور تعلیم یافتہ عورت مرد ملا کر ۱۵۰۰ کے قریب ایسے لوگ ہیں جو اسے خرید سکتے تھے مگر انہوں نے خریدی نہیں.اور یہ جو تعداد ۲ ۵۷ ہے یہ بھی ساری قادیان کے دوستوں نے نہیں خریدی بلکہ اس میں اڑھائی تین سو وہ تعداد ہے جو کمیشن ایجنٹوں نے خرید کر جلسہ سالانہ کے ایام میں فروخت کی.اور اس حساب سے قادیان میں تین سو کے قریب ہی پکی ہے.ضلع گورداسپور میں ۳۵ جلدیں فروخت ہوئی ہیں اور اس ضلع میں تعلیم کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بعض دوسرے ضلعوں کی نسبت سے اچھی تعداد ہے.دہلی ۵۲ یہ بہت ہی کم ہے.اتنے تو وہاں احمدی ہی ایسے ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں گے جو خرید سکتے تھے.میرے خیال میں کم سے کم ساٹھ ستر وہاں کے احمدیوں کو لگنی چاہئیں تھیں.اور کم سے کم اتنی ہی غیر احمدیوں میں.پس میں جماعت دہلی کے کام کو اچھا نہیں سمجھتا.امرتسر ۴۶ یہ جماعت عام طور پر غرباء کی جماعت ہے اور گوشہر کے لحاظ سے زیادہ چاہیے لیکن جماعت کی
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور حالت کے لحاظ سے یہ تعداد ایسی بُری نہیں.لائل پورا ۵ دہلی لائل پور کی نسبت چار پانچ گنا بڑا ہے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جماعت دہلی نے غفلت کی ہے.ملتان ۴۹ شہر اور جماعت کی حالت کے لحاظ سے کام اچھا ہے، شیخو پورہ ۲۰ ، ڈیرہ غازی خان ۲۷ ، سرگودھا ۳۵، گجرات ۳۷، سیالکوٹ ۲۷ ، سیالکوٹ کی تعداد بہت ہی کم ہے وہاں کی جماعت میں قریباً چھ سو مرد چندہ دینے والے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ جماعت کے اندر فروخت کی کوشش کی گئی ہے اور نہ باہر.ہاں ایک اور آرڈر بھی سیالکوٹ کی طرف سے آیا تھا اور چونکہ وہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی معرفت آیا تھا اس لئے شاید سیالکوٹ کی طرف منسوب نہیں ہو سکا.اسے بھی اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کم نہیں رہتی.گوجرانوالہ ۱۹ ، یہ بھی بہت کم ہے.شہر میں وہاں اچھے تعلیم یافتہ احمدی ہیں اور ارد گرد بھی اچھے تعلیم یافتہ زمیندار ہیں ، جہلم ۸، انبالہ ۷، جالندھر ۳، جھنگ ۷، میانوالی ۴ ، فیروز پور ۲۰ ، گوڑ گانواں ۸، رہتک ،ا، حصار ۲ ، ریاست کپورتھلہ ۱، مالیر کوٹله ۲، شمله ۲ ، جے پور، جودھ پور۳، حیدر آبا دسکندر آباد ۲۴۱، مگر میرا خیال ہے یہ تعداد ۳۱۰ ہے.معلوم نہیں دفتر نے کس طرح غلط رپورٹ کی ہے.صوبہ سرحد ۷۶، مدراس ۲، بهار ۲۳، بمبئی ۴ ، یو.پی ۱۱ رام پور ۴ ، سی پی ۱۴، نواں نگر ۱۰۰ لنگر والا، بذریعہ چوہدری ظفر اللہ خانصاحب ۵۹۶ ، بر ما ۲۴ ، عراق ۲ ،فلسطین ،۸، جاوا سماٹرا ، ۴ یہ کل تعداد ۲۹۰۹ ہے.اسے دیکھ کر دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت نے زیادہ کوشش نہیں کی.چاہئے تھا کہ جماعت میں ہی یہ تمام پک کر کم سے کم ۴،۳ ہزار کا مطالبہ اور ہوتا مگر ہوا یہ کہ قریباً ۲۴۰۰ جماعت میں فروخت ہوئی اور باقی پانچ سو دوسروں نے لی.مجھے امید ہے کہ آئندہ جماعت ایسی غفلت نہ کرے گی جن جماعتوں نے اب بالکل کوشش نہیں کی وہ آئندہ کوشش کریں گی اور جنہوں نے کوشش کی ہے وہ آئندہ اور زیادہ کوشش کریں گی.جماعت لاہور، دہلی، سیالکوٹ، پشاور ، لکھنو ، بھاگلپور، بنارس، شاہ جہان پور، علی گڑھ ، مراد آباد، سہارن پور کی جماعتوں پر بڑی ذمہ داری ہے اور اگر یہ صیح طور پر کام کریں تو اشاعت بہت ہو سکتی ہے.جب اسے چھپوانے لگے تو بعض دوستوں نے کہا تھا کہ پانچ ہزار چھپوانی چاہئے مگر میں نے اس کی اجازت نہ دی اور کہا کہ پہلے تین ہزار چھپوائی جائے پھر دیکھا جائے گا.اب دوسری جلد بھی تین ہزار ہی چھپوائی جائے گی.طبع شدہ جلد ختم ہو چکی ہے بلکہ ہم نے خود باہر سے خریدی ہیں اور بعض دکاندار جن کے پاس موجود ہے وہ ۸ ۹ بلکہ دس دس روپیہ میں اسے فروخت کر رہے ہیں.اگر دوست توجہ کرتے اور یہ جلد زیادہ چھپوائی جاسکتی تو لوگوں کی
سکتا بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ضرورتیں آہستہ آہستہ پوری ہوتی رہتیں اور اگر اس کی اشاعت اچھی طرح کی جاتی تو علمی طبقہ کو سلسلہ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ ہو جاتی.یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے.ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دے سکتی ہے، باپ بیٹے کو دے نا ہے، بھائی بہن کو دے سکتا ہے، یہ بہترین جہیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جا سکتا ہے.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اتنی ہے کہ قریباً دو ہزار شادیاں سال میں ہوتی ہیں.اور ہر شادی پر لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دوسو ، چار سو ، پانسو، ہزار، دو ہزار روپیہ خرچ کرتے ہیں.کپڑے اور زیور بناتے ہیں لیکن اگر تفسیر کو بھی شادی کے موقع پر دیا جاتا تو یہ سب سے بہتر تحفہ، بہتر جہیز اور بہتر بری ہوتی.کپڑے پھٹ جاتے ہیں ، زیور گھس جاتے یا گم ہو جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تفسیر ایسا تحفہ، ایسا جہیز اور ایسی بری تھی جو ہمیشہ کام آنے والی ہے اور اس طرح قریباً تین چار ہزار جلدیں صرف اس طرح لگ سکتی تھیں مگر افسوس ہے کہ دوستوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور اس کی اشاعت کے لئے وہ کوشش نہیں کی جو چاہئے تھی اور مجھے امید ہے کہ آئندہ ایسی کوتا ہی نہ کی جائی گی.-۷- انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن اب میں انگریزی ترجمہ و تفسیر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا و ہوں.ترجمہ وتفسیر خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکے ے.ہیں اور اب ان کے چھپوانے کا سوال ہے.ہم غور کر رہے ہیں کہ اسے ابھی چھپوا ئیں یا نہیں.کاغذ بے حد گراں ہے بلکہ اس کا ملنا مشکل ہو رہا ہے قیمت اب قریباً چار گنا زیادہ ہوگئی ہے.جو کاغذ پہلے پانچ روپے رم ملتا تھا وہ اب ہمیں روپیہ میں ملتا ہے.اگر اب اسے چھاپا جائے اور اس کا حجم مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر سے دُگنا بھی ہو تو چونکہ ان کی تفسیر کی قیمت چھپیں روپے ہوا کرتی تھی.کاغذ کی گرانی کی وجہ سے اس کی قیمت پچاس ساٹھ روپیہ سے کم نہ رکھی جا سکے گی اور یہ اتنی زیادہ قیمت ہے کہ اس پر تفسیر خریدنا بہتوں کے لئے مشکل ہوگا.پھر اس وقت انگلستان میں چھپوانے کے لئے کسی کا وہاں جانا بھی مشکل ہے اور اگر ہندوستان میں چھپوایا جائے تو یہاں کا چھپا ہوا یورپ میں یک نہیں سکتا.تجربہ کار لوگ صرف کتاب کی شکل دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ ہندوستان کی چھپی ہوئی کتاب ہے اور اسے خریدنا پسند نہیں کرتے کیونکہ ہندوستان کی چھپوائی بہت ادنی ہوتی ہے.پس یہ کام تو مکمل ہو چکا ہے مگر اس کی طباعت کی راہ میں یہ دقتیں ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس سال مجلس شوری کے موقع پر اس سوال کو پیش کیا جائے کہ آیا اسے ان حالات میں
انوار العلوم جلد ۱۶ چھپوایا جائے یا جنگ کے اختتام تک انتظار کیا جائے.بعض اہم اور ضروری امور -۸- تفسیر کبیر کی مخالفت تفسیر کبیر کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا ہے اور بعض لوگ اس سے گہرے طور پر متاثر ہوئے ہیں اور سب سے بڑی چیز تو یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہو چکی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے.حضرت خلیفہ اول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ نے ایک کام بڑی نیک نیتی کے ساتھ کیا اور وہ اس پر بہت خوش تھے کہ اس کی توفیق ملی مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ آپ سے ملے اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے میری نیت میں ضرور کوئی خرابی تھی کیونکہ میرا یہ کام خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا.میں نے کہا کہ آپ کی تحریک تو کامیاب ہوئی ہے بہت سے لوگ ممبر بھی ہو گئے ہیں چندہ بھی آنے لگا ہے پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ مقبول نہیں ہوا.اس بزرگ نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ کے ہاں کسی نیک کام کی قبولیت کا ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس میں مدد کر نے لگیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول عمل وہ ہوتا ہے جس کی لوگ مخالفت کریں اور چونکہ میرے اس کام کی مخالفت کسی نے نہیں کی اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا اور اس پر وہ بہت افسردہ تھے مگر کچھ دنوں کے بعد ملے تو بہت خوش تھے چہرہ بشاش تھا.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا کہ دیکھو یہ گالیوں کا خط آیا ہے.اللہ تعالیٰ کے کاموں کا مقابلہ شیطان ضرور کرتا ہے اور اس کے کام کے لئے جو آدمی مقرر ہوتے ہیں وہ خواہ علماء سے ہوں یا رؤساء میں سے اور خواہ عام لوگوں میں سے وہ ضرور اپنا کام کرتے ہیں چنانچہ اس تفسیر پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی اعتراض کئے ہیں اور بہت غصہ کا اظہار کیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے تفسیر بالرائے لکھی ہے اور پھر اس کے جواب کی ضرورت اس قدر محسوس کی ہے کہ لکھا ہے کہ میں تفسیر کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے اُس وقت تک مر ہی جاؤں اس لئے ابھی سے اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہوں.چنانچہ ایک رسالہ چند اعتراضات پر مبنی شائع بھی کیا ہے.پیغامیوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت شروع ہے اور ایک پیغامی مبلغ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ میں اپنی عاقبت کی درستی کے لئے اس تفسیر کا جواب لکھنا ضروری سمجھتا ہوں.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ دشمن کو یہ تفسیر بہت چھی ہے خصوصاً پیغامی صاحبان کے لئے تو یہ بے حد تکلیف اور اذیت کا موجب ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے تفسیر کو خاص طور پر جلب زر کا ذریعہ بنا رکھا تھا.جب ضرورت ہوتی تحریک شروع کر دیتے کہ
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور فلاں جگہ اتنی جلدوں کی ضرورت ہے، فلاں ملک میں ایک ہزار جلد بھجوائی جانی چاہئے اور اس طرح فروخت کر کے اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر لیتے ہیں اس لئے ان کو خاص طور پر دکھ ہے یہ نبوت وغیرہ کے مسائل اور تقریریں کرنے کے جو سوال اُٹھائے جا رہے ہیں یہ دراصل تفسیر ہی کی جلن کا اظہار ہے.حال ہی میں مجھے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ان کے ایک مصنف نے اپنی انجمن کو لکھا ہے کہ اب کمیشن کی آمد بہت کم ہو گئی ہے اس لئے یا تو پراہم سو روپیہ ماہوار رقم کا انتظام کیا جائے اور یا پھر اتنی رقم مجھے قرض ہی دے دی جایا کرے گویا ان کی آمد پر اس کا اثر پڑا ہے اور اس وجہ سے وہ چیخ اُٹھے ہیں.یہ مقابلہ جو اب ان کی طرف سے شروع ہوا ہے یہ دراصل تفسیر کا ہے نبوت وغیرہ کا نہیں.بہر حال ان گالیوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ دراصل یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے قبول فرما لیا ہے.مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو شائع ہوئے بہت عرصہ ہو چکا اور ہماری جماعت کے دوست بھی حسبِ ضرورت اسے خریدتے رہے ہیں.کئی دفعہ بعض علاقوں کے احمدیوں نے مجھ سے پوچھا کہ کونسی انگریزی تفسیر خریدیں؟ تو میں نے ان کو کہا کہ سر دست مولوی صاحب کی تفسیر خرید لیں.لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ ابھی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے اور وہ مخالفت پر کھڑے ہو گئے ہیں.اسی جوش میں مولوی محمد علی صاحب.مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مخالفت نے لکھا کہ میں اپنی جماعت کو ان کے خیالات سننے سے روکتا ہوں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.میں ہیں سال پہلے یہ جواب دے چکا ہوں کہ میں کسی کو ان کے یا کسی اور کے خیالات سننے سے نہیں روکتا.جب شیخ مصری کا فتنہ شروع ہوا تو اُس وقت بھی میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ کسی کو ان کے اشتہارات وغیرہ پڑھنے سے روکنے کی ضرورت نہیں جو پڑھتا ہے اسے پڑھنے دو.ہماری جماعت کے لوگ کوئی بچے ہیں جو ہم اُنہیں اُنگلیوں سے لگائے پھریں؟ اور پھر ان کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ ہماری جماعت کے دوست ان کے خیالات سے ناواقف ہیں.میں نے بتایا تھا کہ لاہور کا ایک اٹھارہ سالہ نوجوان ان کے ایسے اچھے جواب لکھ رہا ہے وہ پڑھتا ہی ہے تو جواب لکھتا ہے ورنہ کیسے لکھ سکتا.اسی طرح اور دوست بھی پڑھتے ہیں ان کی طرف سے ایسی باتیں محض ہماری توجہ کو دوسری طرف پھیرنے کا بہانہ ہے وہ بار بار کہتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کی باتیں سننے سے روکتا ہوں کل کی رپورٹ کے مطابق یہاں ۲۳ ہزار مہمان آئے ہوئے ہیں اس وقت اس سے زیادہ ہوں
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور گے کیونکہ بہت سے دیہات سے بھی آجاتے ہیں، عورتیں ان سے علاوہ ہیں.گل عورت مرد ملا کر تیس ہزار کے قریب مجمع ہوگا.کیا ان میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے ظاہر میں یا باطن میں کھلے لفظوں یا اشارہ میں اسے پیغامیوں کا لٹریچر پڑھنے سے روکا ہو؟ ( ہر طرف سے آوازیں آئیں کہ ہر گز نہیں ) یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو مولوی محمد علی صاحب نے بولا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کے غلط ہونے کا ہر ایک شخص کو پتہ ہے.میری تقریریں اور خطبے سب شائع ہوتے ہیں کیا ان میں سے کوئی ایسا فقرہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں میں نے پیغامیوں کا لٹریچر نہ پڑھنے کی ہدایت کی ہو.میں تو اپنے بیوی بچوں تک کو بائیل وغیرہ دوسرے مذاہب کی کتب پڑھنے کے لئے دیتا ہوں پھر میں ان کا لٹریچر پڑھنے سے کیسے روک سکتا ہوں.مخالف کا لٹریچر پڑھنے سے جبکہ ایسا کرنے میں کوئی لغو یا فضول بات نہ ہو تو وہی روک سکتا ہے جو دوسرے کے دلائل سے خائف ہو.اور جو مذہب دوسرے کے دلائل سے ڈرتا ہو وہ کیسا مذ ہب ہے اور وہ کس طرح سچا ہو سکتا ہے؟ ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہیں اور کونے کا ایسا پتھر ہیں کہ جو ہم پر گرے وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا اور جس پر ہم گریں گے وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا.میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ طاقت دی ہے کہ جو ہمیں اپنی باتیں سنانے آئے گا وہ بھی ہمارا شکار ہو جائے گا اور جسے ہم اپنی سنائیں گے وہ بھی ہمارا شکار ہو گا.پس یہ الزام بالکل غلط ہے کہ پیغامیوں کا لٹریچر پڑھنے سے کسی کو روکا ہو میں نے کبھی کسی کو نہیں روکا اور اب پھر اس اعلان کو دُہراتا ہوں کہ ہر شخص آزاد ہے جو کوئی ان کا لٹریچر پڑھنا چاہے بے شک پڑھے بلکہ اگر اسے صداقت نظر آئے تو اسے قبول کرے اور اس صورت میں اس کا فرض ہے کہ قبول کرے.سچائی ہی ہے جو انسان کی نجات کا موجب ہوسکتی ہے.قیامت کے دن میں کسی کے کام نہ آسکوں گا.اگر دین کے معاملہ میں کوئی شخص میری خاطر صداقت کو چھوڑتا ہے تو سخت غلطی کرتا ہے.پس میں یہ کہہ کر بری ہوتا ہوں کہ جسے جہاں صداقت نظر آئے اسے قبول کرے اور اگر سب لوگ بھی مجھ سے الگ ہو جائیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں.اگر جو میں کہتا ہوں وہ سچ نہیں تو چاہے مجھ سے اختلاف کرنا پڑے سب کا فرض ہے کہ سچ کو قبول کریں اور یہ کہہ کر میں خدا تعالیٰ کے حضور بُری ہوتا ہوں.مجھے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے وفات پائی تو کسی نے کہا کہ پیشگوئی غلط نکلی.میرے کان میں یہ بات پڑی میری عمر اس
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ وقت صرف انیس برس تھی.میں سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے سرہانے پہنچا اور وہاں کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ سے اقرار کیا کہ اگر ساری جماعت بھی احمدیت کو چھوڑ جائے تو بھی میں اکیلا دنیا میں اس کی اشاعت کروں گا اور اس کام کو کبھی نہ چھوڑوں گا.پس مجھے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں جب میں خلیفہ ہوا اور یہ لوگ قادیان کو چھوڑ کر چلے گئے اُس وقت خزانہ میں صرف اٹھارہ روپے تھے اور یہ حالت تھی کہ اشتہار تک چھاپنے کے لئے پیسے نہ تھے.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی انہوں نے دار الضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا ہوا تھا ، جب انہیں معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہے اور اشتہارات چھاپنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں تو وہ پانسور و پیہ لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ بطور قرض لے لیں اور کام شروع کریں.جب خدا تعالیٰ بھیجے گا تو واپس کر دیں تو یہ حالت تھی جب یہ لوگ چھوڑ کر گئے ہیں مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شعر میں اپنی بیان کی ہے فرمایا: - الْمَوَائِدِ كَانَ لُفَاظَاتُ وَصِرْتُ أكُلِي الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِي ٣ یعنی ایک زمانہ تھا کہ میں دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر گزارہ کرتا تھا مگر آج خدا تعالیٰ خاندانوں کے خاندان میرے ذریعہ پال رہا ہے.یہی حالت آج خدا کے فضل سے ہماری ہے.ایک زمانہ تھا کہ ہمارے پاس اشتہار کے لئے بھی پیسے نہ تھے خزانہ میں صرف ۱۸ روپے تھے اور ہزاروں روپیہ کا قرض تھا.مگر آج سینکڑوں خاندانوں کی پرورش اللہ تعالیٰ کر رہا ہے.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ لوگ مجھے دیئے اور ایسے ایسے لوگ میری بیعت میں داخل کئے کہ اس زمانہ میں اس کی مثال اور کہیں پائی نہیں جاتی.پھر میں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ میری جماعت کے لوگوں کا مولوی محمد علی صاحب کی تقریر سننا میرے لئے خطرہ کا موجب ہوگا.مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی کے آباء اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہوں مگر میری والدہ ، نانا، بڑے بھائی، ماموں سب نے میری بیعت کی ہے.پھر اُستادوں نے کی ، میرے وہ اُستاد جن سے میں قرآن کریم ، حدیث ، انگریزی، عربی پڑھتا رہا ہوں وہ میری بیعت میں شامل ہوئے اور یہ کسی انسان کا کام نہیں مجھ میں یہ ہمت کہاں تھی کہ میں ان سب کو اپنا مرید کر سکتا اور میں یہ کب حجرات کر سکتا تھا کہ دنیا کے سامنے کھڑا ہوں جب کہ نہ میری کوئی تعلیم تھی اور نہ لیاقت.جب میں پڑھتا تھا تو استاد اور
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور طالب علم سب ہنسی اُڑاتے تھے کہ یہ پڑھائی میں نہایت کمزور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو میری بیعت میں شامل کر دیا.پھر جب میں خلیفہ ہوا تو سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میرے سارے ہی آباء زندہ تھے.یعنی والدہ ، نانا، نانی، ماموں، خسر، تائی، بڑے بھائی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے میری بیعت میں شامل کر دیا.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو بعض لوگ تبلیغ کرتے رہتے تھے.جب ان کی سمجھ میں بات آگئی تو انہوں نے کہا کہ اب اور تو کوئی روک نہیں صرف شرم آتی ہے کہ چھوٹے بھائی کی بیعت کروں اور چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں ہاتھ دوں.انہوں نے کہا کہ نہیں تو لاہور والوں کی جماعت میں ہی شامل ہو جائیں.تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہاں تو میں شامل نہیں ہوتا یہ کڑوا گھونٹ پی لوں گا.آخر وہ بیعت پر آمادہ ہوئے اب بتاؤ جس شخص پر اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل ہوں.وہ کسی انسان سے کب ڈرسکتا ہے.پیغامی کہتے ہیں کہ رعب میں آگئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کون رعب میں آ گیا اور کس کے رعب میں آ گیا.ماں، نانا، نانی، ماموں ،خسر استاد سب رُعب میں آگئے.کیا والدہ ڈرتی تھیں کہ میرا بیٹا ہے اگر میں نے بیعت نہ کی تو پتہ نہیں کیا کرے گا؟ کیا نانا نانی اپنے نواسے سے ڈرتے تھے؟ کیا استاد رعب میں آگئے کہ ہمارا شاگرد ہے معلوم نہیں کس کس رنگ میں ہمارے علم کی پردہ دری کرے؟ آخر سوچنا چاہئے کہ یہ سب کس طرح میرے رعب میں آسکتے تھے اور مجھ سے ڈرنے کی وجہ کیا ہو سکتی تھی.اگر ان حالات میں بھی میرا کوئی رُعب تھا تو پھر وہی بات تھی جیسے موسیٰ علیہ السلام نے آگ کی چنگاری دیکھی.وہ بظاہر تو آگ نظر آتی تھی مگر جس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھائی اس میں خدا کا جلوہ اُسے نظر آیا اور وہ وہیں گھائل ہو گیا.دیکھو میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی کوشش کی.انہوں نے لکھا کہ میں ان کا مضمون ”الفضل میں شائع کرا دوں اور وہ میرا مضمون پیغام صلح میں شائع کرا دیں گے اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ وہ میرا جواب کبھی اپنے اخبار میں شائع نہ کریں گے لیکن میں نے ان کا مضمون ” الفضل“ میں شائع کرا دیا.پھر میں نے ان کو یہ دعوت بھی دے دی کہ جلسہ سالانہ کے سوا عام دنوں میں وہ یہاں آ کر تقریریں کر لیں.میں مقامی دوستوں کو جمع کر دوں گا اور باہر بھی یہ اعلان کرادوں گا کہ جو دوست آسکیں آجائیں.مگر انہوں نے اصرار شروع کر دیا کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریریں کرنے دی جائیں.مضامین کے شائع ہونے کے متعلق اس خیال سے کہ لمبے مضامین کا اخبارات میں شائع کرنا شاید نا مناسب ہو میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ میرے اور ان کے مضامین اکٹھے شائع ہو جائیں اور لکھا کہ دو حصے
0 بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ خرچ کے میں دے دوں گا اور ایک حصہ وہ دے دیں اور پھر خرچ کے مطابق کتابیں بانٹ لیں لیکن اس کو بھی انہوں نے قبول نہ کیا اور عُذر یہ کیا کہ اخبارات میں اس قدر لمبے مضامین شائع نہیں ہو سکتے حالانکہ میری دوسری تجویز کتابی صورت میں شائع کرنے کی موجود تھی اگر سچ کا اظہار مقصود ہو تو پھر مضمون کے لمبا اور چھوٹا ہونے کا سوال ہی کیا ہے.جب میں نے خرچ دو حصے دینا ہے تو کیا میں پاگل ہوں کہ خواہ مخواہ طول دوں اور بلا ضرورت مضمون کو لمبا کروں اور اس طرح اپنا خرچ زیادہ کراؤں.وہ کہتے ہیں مضامین کے الفاظ کی تعداد معین ہونی چاہئے.لیکن اگر اتنے الفاظ کے استعمال سے صداقت پوری طرح ظاہر نہ ہو سکے تو پھر فائدہ کیا ؟ مقصد تو صداقت کا اظہار کرنا ہے.وہ بھی جتنے صفحات چاہیں لکھیں خواہ پچاس ہزار لکھیں اور میں بھی جتنے ضروری سمجھوں لکھوں ان کو کیا ڈر ہے اگر میرا مضمون زیادہ لمبا ہو گا تو وقت اور روپیہ کا خرچ بھی تو میرا ہی بڑھے گا کیونکہ میں نے دو حصے دینے ہیں اور انہوں نے ایک.میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ان کو دعوت دی تھی کہ قادیان میں آکر لیکچر دے لیں مگر ان کا اصرار ہے کہ جلسہ کے دنوں میں ان کو موقع دیا جائے حالانکہ جلسہ کے موقع پر جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ ان کی تقریریں سننے کے لئے اتنا خرچ نہیں کرتے.اس سال جلسہ پر آنے میں بہت سی مجبوریاں تھیں مگر پھر بھی سوائے آخری کونوں کی تھوڑی تھوڑی جگہ کے سب جلسہ گاہ بھری ہوئی ہے.حالانکہ اسے برا ہم فٹ بڑھایا گیا تھا.جو بلی کے موقع پر اسے بہت بڑھا دیا گیا تھا اور امید تھی کہ شاید یہ بہت دیر تک کافی ہوگی مگر اس سال پھر بڑھائی گئی اور آج آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ بھی سوائے کناروں پر چند فٹ جگہ کے سب بھری ہوئی ہے.پس اتنی کثیر تعداد میں اتنا خرچ کر کے اور تکلیف اُٹھا کر جو لوگ یہاں آئے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں مولوی محمد علی صاحب کو خوش کرنے کے لئے ان سب کو ان کے مقاصد سے محروم کر دیتا.تاہم میں نے کہہ دیا کہ اگر وہ جلسہ پر ہی تقریر کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی خاطر جلسے کے دو دن بڑھا دیں گے مگر یہ چونکہ ان کی خاطر بڑھائے جائیں گے.اس لئے ان دو دنوں کا خرچ وہ دے دیں مگر وہ یہ بھی نہیں مانتے.غرض جس رنگ میں بھی ان کے ساتھ انصاف سے سلوک کیا جا سکتا تھا میں نے کر دیا اور آج پھر اس بات کو واضح کرنے کے لئے میں اسے جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اگر آپ لوگ جلسہ کے موقع پر ان کی تقریریں سننا چاہتے ہیں تو بتا دیں میں گل کا دن انہیں دے سکتا ہوں اور ابھی تار دے کر ان کو بلا لیتا ہوں ( اس پر سب احباب نے متفقہ طور پر کہا کہ ہم ان کی کوئی بات
انوار العلوم جلد ۱۶ نہیں سننا چاہتے.) بعض اہم اور ضروری امور اور اگر جماعت سننا نہیں چاہتی تو ہم نے کونسا ان کا قرض دینا ہے کہ ان کو ضرور موقع دیں.اور اس طرح سال میں تین دن قادیان میں گزارنے اور میری اور سلسلہ کے علماء کی تقریریں سننے کا جو موقع دوستوں کو ملتا ہے وہ انکی نذر کر دیں.لکھا مولوی محمد علی صاحب ہم سے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ان کو تقریریں کرنے کا موقع دیں لیکن اپنی وسعت قلبی کا یہ حال ہے کہ جب ”الفضل میں میرا مضمون ان کے مضمون کے جواب میں شائع ہوا تو میں ڈلہوزی میں تھا.میں نے ”الفضل“ کا وہ پرچہ دے کر عزیزم خلیل احمد صاحب ناصر بی.اے اور ایک نوجوان کو بھیجا کہ جا کر مولوی صاحب کے لڑکے کو دے آئیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ نہیں لے گا.وہ لے کر گئے تو اس نے پرچہ لینے سے انکار کر دیا تو اپنے بیٹے کے اخلاق تو یہ ہیں کہ اخبار کا پرچہ تک لینے سے انکار کر دیا مگر خود شور مچا رہے ہیں کہ میں ان کے خیالات سننے سے اپنی جماعت کے لوگوں کو روکتا ہوں.ایک اور بداخلاقی مولوی صاحب نے یہ دکھائی ہے کہ قادیان کی جماعت کے متعلق لکھ ہے کہ میں اپنے خیالات ان کو تو سنا نا نہیں چاہتا بلکہ باہر کے لوگوں کو سنانا چاہتا ہوں اور لکھا ہے:.ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے.وہ تو ان کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں جن کی ضروریات ان سے وابستہ ہیں.جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے بیرونی لوگ جو جلسہ پر آتے ہیں اصلی جماعت وہ ہیں.“ یہ وہی چالا کی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مہاجرین اور انصار کو باہم لڑانے کے لئے منافقین کیا کرتے تھے.مولوی صاحب نے سمجھا کہ یہ جماعت بیوقوف ہے.جب میں کہوں گا کہ قادیان کی جماعت تو اصل جماعت نہیں تو باہر والے خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ مولوی صاحب نے ہماری تو تعریف کر دی ہے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دھو کے میں آنے والی نہیں اور ہمارے دوست انہیں خوب سمجھتے ہیں.جیسا کہ کسی نے کہا ہے.بہر من رنگے کہ خواہی جامه می پوش انداز قدت را می شناسم یعنی تم خواہ کسی قسم کا لباس پہن کر آؤ میں چال سے اور قد کے اندازے سے سمجھ جاتا ہوں
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ کہ کون ہو.جماعت کو دھوکا لگنے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر دیکھو کہ مولوی صاحب کے الفاظ کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے منافقین سے ملتے ہیں.عبد اللہ بن ابی بن سلول کے الفاظ قرآن کریم نے نقل کئے ہیں.اس نے کہا تھا کہ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتَّى يَنفَضُّوا یعنی اے انصار ! اصل جماعت تو تم ہو.تم ان مہاجرین پر روپیہ خرچ کرنا بند کر دو پھر دیکھو یہ کس طرح بھاگ جاتے ہیں.یہ تو اصل جماعت نہیں یہ تو صرف روٹیاں کھانے والے لوگ ہیں.تو مولوی محمد علی صاحب کے یہ الفاظ بعینہ اس آیت کا ترجمہ ہیں.مولوی صاحب کے یہ الفاظ جب شائع ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کے لئے جلسہ کرنا چاہا اور مجھ سے اس کے لئے اجازت طلب کی مگر میں نے کہا کہ ہرگز نہیں.یہ حملہ تم پر ہوا ہے پس یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ تم ہی اس کا جواب بھی دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مؤمن بھائی بھائی ہوتے ہیں جب ایک پر حملہ ہو تو دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے.اس وقت باہر کی جماعتوں کے اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو جواب دیں اور تم چپ رہو.ہاں جب ان پر حملہ ہو تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ جواب دو.مجھ پر مصری پارٹی نے اعتراض کئے تھے بعض لوگوں نے مجھے کہا بھی کہ آپ ان کا تفصیلی جواب دیں مگر میں نے کہا یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ میں خود ہر امر کا جواب دوں.بعض اعتراضات ایسے ہیں کہ ان کا جواب ان کے ذمہ ہے جو مجھ سے عقیدت رکھتے ہیں میرا کام نہیں.اسی طرح اس موقع پر میں نے یہاں کے دوستوں کو خود جواب دینے سے روکا اور کہا کہ یہ باہر کی جماعتوں کا کام ہے کہ اس اعتراض کا جواب دیں.چنانچہ باہر کی بعض جماعتوں نے اِس کا جواب دیا اور ریزولیوشن پاس کر کے قادیان کی جماعت کی فضیلت کا اقرار کیا.اس سلسلہ میں انبالہ کی جماعت اول نمبر پر آئی.اس نے سب سے پہلے اپنے فرض کو محسوس کیا اور تار دیا کہ وہ مولوی صاحب کے اس حملہ کو بُری نظر سے دیکھتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں مجھو کہ کے ایک دوست کا بھی جواب ”الفضل“ میں شائع ہوا ہے اور اس نے حقیقی مومنانہ جذ بہ دکھایا اور نہایت معقول رنگ میں جواب دیا ہے.اس نے لکھا کہ:- مولوی محمد علی صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ میں باہر کی جماعتوں کو اپنی تقریر سنانا چاہتا ہوں.ان کے دل میں یہ وہم ہے کہ باہر کے لوگ چونکہ عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہے قادیانی جماعت کا ساتھ چھوڑ دیں.مگر مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں موضع مجو کہ ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں اس علاقہ کی جماعتیں آپ کے عقیدہ سے خوب
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور واقف ہیں.میں ان جماعتوں کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہونے لگے تو بھی وہ ہرگز ہرگز حضرت امیر المؤمنین کا پاک دامن چھوڑ نے 66 والی نہیں.“ یہ جواب ہے تو بہت سادہ مگر ایمان کا نہایت عمدہ مظاہرہ ہے.۱۰.جنگ کے متعلق کچھ اس کے بعد میں جنگ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں یہ جنگ نہایت خطرناک ہے اور ہماری تبلیغ پر بھی اس کا خطرناک اثر پڑنے والا ہے.جنگ سے پہلے ہمارے مبلغ آزادانہ طور پر ہر جگہ آجا سکتے تھے.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ، انگلستان، جاپان، چین، جاوا، سماٹرا، مصر، گولڈ کوسٹ ، سیرالیون غرضیکہ ہر ملک میں جانے کی آزادی تھی اور وہ بلا روک ٹوک ہر ملک میں آ جا سکتے تھے.مگر جنگ کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ اب مبلغین کی آمد و رفت میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے.اول تو پاسپورٹ ہی نہیں ملتا، پھر جہاز نہیں ملتے ، بلکہ خطر ناک حالات کی وجہ سے ہمیں بعض جگہوں سے اپنے پہلے مبلغ بھی ہٹانے پڑے ہیں.چین کی حکومت نے تو ہمارے مبلغ کو نکال ہی دیا تھا، جاپان سے بھی واپس بلا نا پڑا، مولوی محمد دین صاحب کو بھی واپس آنا پڑا، اٹلی کے مبلغ کو گو ہم تو فارغ کر چکے تھے، مگر وہ ابھی واپس نہ آیا تھا کہ اٹلی جنگ میں شریک ہو گیا اور اب وہ وہاں قید ہے.مولوی عبد الغفور صاحب اور محمد اسحاق صاحب کو بھی واپس آنا پڑا.باقی جو ممالک ہیں ان میں اپنے مبلغین کو ہم کوئی مدد نہیں بھیج سکتے اور ایک تبلیغی جماعت کے لئے یہ صورت جس قدر خطرناک ہے وہ ظاہر ہے اس لئے ہر احمدی کو پورے جوش اور درد سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو جلد بند کرے تا ہمارے لئے تبلیغ کے رستے گھل جائیں.اس وقت جو مبلغ باہر موجود ہیں ان کی طرف سے خطوط بھی بہت دیر میں مل سکتے ہیں.چار چار ، پانچ پانچ ماہ بعد خط ملتا ہے اور ہوائی ڈاک کے خطوط بعض اوقات دو دو ماہ بعد ملتے ہیں.مولوی جلال الدین صاحب شمس نے ہوائی ڈاک میں خط بھیجا جود و ماہ بعد مجھے ملا.دوسری ڈاک کا تو ذکر ہی کیا ہے وہ تو بعض اوقات چھ چھ سات سات ماہ بعد ملتے ہیں.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر خدانخواستہ ان میں سے کسی پر کوئی مصیبت آئے تو نہ ہم کو ان کی خبر مل سکتی ہے اور نہ انہیں ہماری.پھر یہ بھی کوئی کم نقصان نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ جو مکمل ہو چکا ہے اس جنگ کی وجہ سے اب ہم اسے چھپوا نہیں سکتے.البتہ فائدہ کا ایک پہلو یہ مجھے نظر آتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ موقع دے اور رستہ مل جائے تو میرا ارادہ ہے کہ شمس صاحب کو اس کی ایک کاپی بھیج دوں.اس وقت مختلف ممالک سے بھاگے ہوئے ہزاروں لوگ لنڈن میں پناہ گزین ہیں اور ان میں بعض بڑے بڑے قابل لوگ بھی ہیں.شاعر ہیں ، ادیب ہیں ، ایڈیٹر ہیں، اور وہ تھوڑے تھوڑے گزارے لے کر بعض چھوٹے چھوٹے کام بھی بسر اوقات کے لئے کر رہے ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اگر ہو سکے تو ان ایام میں یورپ کی مختلف زبانوں مثلاً جرمنی، فرانسیسی ، اطالوی وغیرہ میں بھی ترجمہ کرا لیا جائے تو جنگ کے اختتام پر چھپ سکتا ہے.اس وقت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت میں روک پیدا ہو جانا کتنا بڑا نقصان ہے.جو شخص اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہے وہ بخوبی اس کا اندازہ کر سکتا ہے.خود مجھ پر یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور سخت گراں گزر رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک سکیم بنائی تھی اور سالہا سال کی محنت کے بعد یہ کام ختم ہوا اور اب اگر میں (خدانخواستہ ) مر جاؤں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس عمارت کی بنیاد میں نے رکھی اور اس کی دیوار میں کھڑی کیں اسے چھت تک نہ پہنچا سکا.دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ یہ جنگ اب ہندوستان کے کناروں تک آ گئی ہے.پہلے تو جرمن مشرق کی طرف بڑھ رہے تھے وہ تو روس میں رُک گئے مگر ادھر سے جاپان نے جنگ شروع کر دی ہے.رنگون پر بمباری ہو چکی ہے اور وہاں سے چند سو میل کے فاصلہ پر ہی ہندوستان ہے اور جاپانی اب بھی اگر چاہیں تو ہندوستان کے شہروں پر بمباری کر سکتے ہیں.اور آجکل کی بمباری بھی نہایت خطرناک ہے.ہمارے بعض دوستوں نے ملایا میں بمباری دیکھی ہے ان کا بیان ہے کہ بمباری کیا ہے گویا ایک جہنم کا دروازہ کھل گیا ہے.امریکہ کتنی بڑی طاقت تھی مگر جاپان نے یک دم حملہ کر کے اس کے بیڑے کو سخت نقصان پہنچا دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو طاقت امریکہ جیسی بڑی بڑی حکومتوں کو اس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے اُس کا مقابلہ ہندوستانی کیا کر سکتے ہیں.اب لڑائی اتنی قریب آگئی ہے کہ پانچ چھ دن میں موٹروں اور ٹینکوں کی لڑائی کلکتہ میں پہنچ سکتی ہے.ہندوستان کی آبادی بے شک بڑی ہے اور بعض کا نگرسی یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر تمام ہندوستانی پیشاب کریں تو انگریز اس میں بہہ جائیں مگر یہ سب باتیں ہیں مقابلہ صرف وہ قوم کر سکتی ہے جو ہتھیار رکھتی اور انہیں چلانا جانتی ہے اور دلیر اور بہادر بھی ہو.جس قوم اور ملک کی آبادی کا کثیر حصہ بُزدل، غیر مسلح اور بے ہنر ہو چکا ہو وہ کیا مقابلہ کر سکتی ہے.ہندوستان میں بہت تھوڑی تو میں ہیں جو لڑ سکتی ہیں.پنجاب، صوبہ سرحد اور یوپی کی بعض
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور قومیں ہیں جو لڑ سکتی ہیں.باقی بہار، بنگال اور یوپی کی باقی قومیں اور سی پی وغیرہ کے لوگ تو سب کشمیری ٹائپ کے ہیں اور لڑائی کے قابل نہیں ہیں.کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا اور قوموں میں بہادری صرف فوجی ملکہ کی وجہ سے ہی پیدا ہو سکتی ہے.آج کشمیری بُزدل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا لیکن کسی وقت یہی قوم اتنی بہادر تھی کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دونوں وہی تھے جو کشمیر پر کئے گئے.گویا کسی زمانہ میں اس قوم نے وہ کام کیا جو ہندوستان بھر میں کوئی اور قوم نہ کر سکی تھی لیکن آہستہ آہستہ جب اسے جنگی کاموں سے الگ کر دیا گیا اور اس میں فوجی ملکہ نہ رہا تو یہی بُزدل ہو گئی اور آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی پنجابی کوئی بُزدلی کا کام کرے تو کہتے ہیں چل کشمیری.تو قوموں میں جب فوجی ملکہ نہیں رہتا تو وہ بزدل ہو جاتی ہیں.عربوں نے ایک زمانہ میں کتنا کام کیا تھا مگر اب ان میں وہ بہادری نہیں.اب کہتے ہیں کہ عرب بڑا لڑنے والا ہے مگر جب تک خون نہ ہے اور وہ لڑائی کونسی ہے جس میں خون نہ ہے.پہلے یہی عرب کس طرح تلواروں سے کھیلتے تھے مگر اب خون کا بہنا بھی نہیں دیکھ سکتے.اسی طرح ہم ہندوستانی بھی بدقسمتی سے ایک ایسے نظام کے نیچے آگئے کہ ہمارے حاکموں نے اس بات کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ہندوستانیوں کو فوجی معاملات سے علیحدہ رکھا اور یہی چیز آج ان کے لئے وبال بن رہی ہے.پہلے تو ان کو خیال تھا کہ اگر ہندوستانیوں نے جنگی فنون سیکھ لئے تو بغاوت کر دیں گے مگر آج ان کے دل حسرت کے ساتھ اپنی غلطی کو محسوس کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو فوجی فنون سے واقفیت ہوتی تو ہمارے کام آ سکتے.چین کی آبادی زیادہ ہے اور وہ جنگی فنون سے واقف ہیں اس لئے اُس نے جاپان کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں.اس کی آبادی چالیس کروڑ ہے.دشمن ایک لاکھ مار دے گا ، دو لاکھ ، چار لاکھ، دس لاکھ مار دے گا آخر کتنے مارے گا اس کی آبادی چونکہ زیادہ ہے اس لئے وہ اور فوج میدان میں لے آتے ہیں.تو اگر انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بھی جنگ سے واقف کیا ہوتا تو جاپان حملہ کی کبھی جرات بھی نہ کر سکتا اور اب تو خطرہ ہے کہ جاپانی آگئے تو ہندوستان میں مقابلہ کی طاقت نہیں ہے.انگریزوں کی طرف سے یہ اعلان کئے جاتے ہیں کہ ہندوستان میں نو دس لاکھ فوج بھرتی کی گئی ہے مگر اتنی فوج کے لئے سامان کہاں سے آئے گا.اس فوج میں بعض سپاہیوں کے پاس چالیس چالیس سال کی پرانی بندوقیں ہیں اور بعض کے پاس تو صرف ڈنڈے ہیں بلکہ سب کے لئے وردیاں بھی نہیں اور
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ وہ تہہ بند باندھ کر ہی پریڈ کرتے ہیں اور ان میں بعض ایسے بہادر بھی ہیں کہ ایک دوست سامنے بیٹھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھے یاد آ گیا انہوں نے سنایا کہ ہماری ریاست سے فوج بھرتی ہو کر گئی ہے جس دن وہ روانہ ہوئی سٹیشن پر بڑا ہجوم تھا.ان کے بیوی بچے بھی آئے ہوئے تھے اور عجیب نظارہ تھا کہ ریل کی کھڑکیوں میں سے ایک طرف سپاہی سر نکال کر ڈھاڑیں مار کر رو رہے تھے تو دوسری طرف اُن کے بیوی بچوں نے چیخ و پکار شروع کر رکھی تھی.ایسے لوگ جنگ میں کیا کر سکتے ہیں وہ تو وہی کچھ کر سکتے ہیں جو کہتے ہیں کشمیریوں نے کیا تھا.کہتے ہیں کہ مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی ایک فوج تیار کی اور اسے دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لئے بھیجا.ان کے افسروا پس مہاراجہ صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لڑائی پر جانے کے لئے تیار ہیں مگر ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں.مہاراجہ نے سمجھا کہ شاید کہیں گے کہ تنخواہ میں اضافہ ہونا چاہئے یا کوئی اور حق طلب کریں گے.اُس نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پٹھانوں سے مقابلہ ہے سنا ہے وہ بڑے سخت لوگ ہوتے ہیں ہمارے ساتھ پہرے کا انتظام ہونا ضروری ہے.اُسی دن سے اس قوم کو فوج میں بھرتی کرنا بند کر دیا گیا.تو مقابلہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ لڑنے والوں کے دل ہوں ، ہاتھ ہوں ، دماغ ہوں اور سامان ہو پھر قو میں لڑ سکتی ہیں.صرف کسی ملک کی آبادی زیادہ ہونا کافی نہیں اور صرف آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی ملک نہیں لڑ سکتا تو حالات ایسے خطرناک ہو گئے ہیں کہ ہندوستان کو بالعموم اور ہماری جماعت کو بالخصوص اس طرف بہت توجہ کرنی چاہئے.اس جنگ کا تعلق ہماری جماعت سے خاص معلوم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے واقعات مجھے خوابوں میں بتاتا رہتا ہے.اگر کوئی تعلق نہ ہوتا تو پھر ان خبروں کی کیا ضرورت تھی.میں نے پچھلے سال بھی اپنا ایک سال کا پرانا خواب سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظاہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں کوئی کہتا ہے اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد حالات یکدم متغیر ہوں گے اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی.دیکھ لو جب جنگ یونان تک پہنچی تو دنیا میں کتنے تغیرات ہوئے.روس کا جنگ میں شامل ہونا، کریٹ کا فتح ہونا ، عراق میں بغاوت ، ایران میں انقلاب، امریکہ کا زیادہ سرگرمی کے ساتھ دخل دینا، یہ سب واقعات اس کے بعد ہوئے ہیں.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یکدم اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض انگریزی
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں رُکاوٹ نہیں کرتی.اس خواب کا ایک پہلو تو وہ تھا کہ بعض انگریزی جزیروں میں امریکنوں نے اپنے لئے فوجی اڈے حاصل کئے تھے مگر ایک پہلو اس کا اب ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکن حکومت بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر برسرِ جنگ ہے اور اب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ امریکن فوجوں کو ہندوستان میں بھی لانا پڑے اور سنگا پور جو پولیٹیکل لحاظ سے بہت اہم مقام ہے وہاں امریکن فوجوں کو لانے کا تو فیصلہ ہو چکا ہے.پھر مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ مارشل پیٹان کی حکومت بعض ایسی حرکات کر رہی ہے جن سے انگریزوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے کہ انگریز کس طرح مقابلہ کریں گے ان کی تو فرانس کے ساتھ صلح ہے اور ان کے راستہ میں یہ روک ہے کہ اگر اس سے لڑیں تو دنیا کہے گی کہ اپنے اتحادی سے لڑ رہے ہیں اتنے میں آواز آئی کہ یہ ایک سال کی بات ہے.اصل بات یہ تھی کہ پہلے چونکہ فرانس کے ساتھ انگریزوں کی دوستی تھی اس لئے وہ پرانی دوستی کی وجہ سے اس پر حملہ نہ کر سکتے تھے یہ بات نہ تھی کہ فرانس کی طاقت جرمنی سے بھی زیادہ تھی اور انگریز اس سے ڈرتے تھے بلکہ وہ اس وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا کہے گی کہ اپنے پرانے دوست پر حملہ کر دیا جب تک کہ ایسے حالات پیدا نہ ہو جاتے کہ ان کے لئے اس کا مقابلہ جائز کہلا سکتا وہ اس کے ساتھ تصادم نہ چاہتے تھے.آخر عین ایک سال گزرنے پر عراق کی بغاوت نے وہ حالات پیدا کر دیے.احباب کو یاد ہوگا ۱۹۳۷ء میں میں نے ایک رؤیا سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت بڑا طوفان آیا ہے اور توپوں کے گولے بھی گر رہے ہیں میرے ساتھ میری بیویاں اور بچے بھی ہیں.اس طوفان نے سب چیزوں کو ڈھانپ لیا ہے آخر اس کا زور کم ہوا اور میں نے ایک دروازہ میں سے نور کی شعاع دیکھی اور اپنی ایک بیوی سے کہا کہ دیکھونور نظر آ رہا ہے اور مجھے جو خدا تعالیٰ نے پہلے سے بتا چھوڑا تھا اسی طرح ہوا ہے اور طوفان دُور ہو گیا ہے.میں نے اس کی تعبیر کی تھی کہ دنیا میں کوئی عظیم الشان تباہی غالبا جنگ کی صورت میں آنے والی ہے اور اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد یہ جنگ شروع ہو گئی تھی.اس وقت مجھے اپنا ایک پرانا رؤیا یاد آ گیا.جو غالبا ۱۹۲۲ء میں میں نے دیکھا تھا.میں نے دیکھا تھا کہ مسجد مبارک کی چھت پر بہت شور ہے، لوگ چیختے اور روتے ہیں، میں دوڑا ہوا وہاں گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ قیامت
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور آ گئی.مغرب کا وقت ہے اور کوئی سورج کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ وہ دیکھو! سورج مشرق کی طرف سے واپس آ رہا ہے اور یہ علامت قیامت کی ہے کہ سورج مغرب میں جانے کے بعد واپس لوٹ آیا ہے میں بھی گھبرا تا تو ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت نہیں ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ بھائی عبدالرحیم صاحب ٹہل رہے ہیں اور وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قیامت آگئی مگر مجھے یکدم کچھ خیال آیا اور میں ان سے کہتا ہوں کہ سورج کا مغرب سے واپس لوٹنا بھی بے شک قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت تو ہے مگر اس کے ساتھ بعض اور شرطیں بھی ہیں اور وہ اس وقت ظاہر نہیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج کا مغرب سے اس وقت کا طلوع قیامت کی علامت نہیں ہے.میں نے جونہی یہ کہا سورج یکدم ٹھہرا اور پھر واپس ہونا شروع ہو گیا.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ فتنہ جو مغرب سے اُٹھا ہے اور جو قیامت کا ایک نمونہ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دُور کر دے گا.اسی طرح ایک اور خواب میں نے پچھلے سال دیکھا تھا جس کا دوسرا حصہ اب پورا ہوا ہے.میں شملہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک بڑا ہال ہے جس کی سیڑھیاں بھی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے مگر نظر ہال آتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں میں سے اٹلی کی فوج لڑتی آ رہی ہے اور انگریزی فوج دیتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ اطالوی فوج ہال کے کنارے تک پہنچ گئی جہاں سے میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی علاقہ شروع ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ قادیان نزدیک ہی ہے اور میں بھاگ کر یہاں آیا ہوں.مجھے میاں بشیر احمد صاحب ملے ہیں میں ان سے اور بعض اور دوستوں سے کہتا ہوں کہ اٹلی کی فوج انگریزی فوج کو دباتی چلی آ رہی ہے اگر چہ ہماری صحت اور بینائی وغیرہ ایسی تو نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں مگر بندوقیں ہمارے پاس ہیں آؤ ہم لے کر چلیں دُور کھڑے ہو کر ہی فائر کریں گے.چنانچہ ہم جاتے ہیں اور دُور کھڑے ہو کر فائر کرتے ہیں اتنے میں میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی ہے اور اس نے پھر انہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا ہے جن پر سے وہ اتری تھی.اُس وقت میں دل میں سمجھتا ہوں کہ دو تین بار اسی طرح ہوا ہے.چنانچہ یہ خواب لیبیا میں پورا ہو چکا ہے.جہاں پہلے دشمن مصر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا مگر انگریزوں نے پھر اُسے پیچھے ہٹا دیا، پھر دشمن نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا، اور اب پھر انگریزوں نے ان کو پیچھے ہٹا دیا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ کہیں تاریخ میں نہیں ملتی کہ چار دفعہ ایسا ہوا ہو کہ پہلے ایک قوم دوسری کو ایک سرے سے دباتی ہوئی دوسرے سرے تک جا پہنچی ہو اور پھر وہ اُسے دبا کر اُسی سرے تک لے گئی ہو اور ایک مرتبہ پھر وہ اُسے دبا کر وہیں پہنچا آئی ہوا اور چوتھی دفعہ پھر وہ اُسے دبا کر واپس لے گئی ہو.تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں ہیں جو اس جنگ کے متعلق مجھے وقتاً فوقتا دی جاتی ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کے ساتھ ہماری جماعت کا کوئی خاص تعلق ہے ورنہ ان کی ضرورت نہ تھی.اب میں جنگ کے وہ اثرات بیان کرتا ہوں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے.یہ تو ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے لیکن جن حالات میں ہم ہیں ان کی وجہ سے ضروری ہے کہ انگریزوں کی مدد کی جائے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس حکومت کے ماتحت رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی فتح کے لئے دعا فرمائی ہے اور اپنی جماعت کو بھی ان کے ساتھ تعاون کا ارشاد فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.”ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس گورنمنٹ کو ہر یک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے.“ نیز فرمایا: - ہر یک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہئے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں.“ کے پس روحانی اور جسمانی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور یہ مدد حسب ذیل طریقوں سے ہم کر سکتے ہیں :- ا.ریکروٹنگ میں خاص طور پر مدد دی جائے.۲.چندوں وغیرہ کے ذریعہ سے مدد دی جائے.- غلط افواہوں کا مقابلہ کیا جائے.۴.ملک میں امن قائم رکھنے کی کوشش کی جائے.۵.ہوائی حملوں سے بچاؤ وغیرہ کے لئے جو انتظامات حکومت کی طرف سے کئے جا رہے ہیں ان میں ان کی مدد کی جائے.اور.انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جائیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور اب میں ان میں سے ہر ایک امر کے متعلق تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں.ریکروٹنگ میں مدد صرف اس لئے ہی مفید نہیں کہ اس سے انگریزوں کی کامیابی میں مدد ملتی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ اس سے قوم میں جنگی سپرٹ پیدا ہوتی ہے اور جنگی فنون سے واقفیت ہوتی ہے.ہمارے ملک کے لئے دوسری بیرونی حکومتوں کے مقابل پر انگریزوں کی حکومت کئی لحاظ سے اچھی ہے اور اس لئے ہندوستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ انہیں فتح حاصل ہو.جو قوم کسی ملک پر دیر سے حکومت کر رہی ہو اُس کی طاقت بہت حد تک زائل ہو چکی ہوتی ہے اور اُس کا رُعب بھی مٹ چکا ہوتا ہے.ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سکولوں میں تعلیم پائی ہے.اور وہ جانتے ہیں کہ سکول میں جو ماسٹر نیا نیا آئے اُس کا رُعب زیادہ ہوتا ہے.پرانے ماسٹروں کا اتنا رعب نہیں ہوتا.اسی طرح پرانی حکومت کا رُعب کم ہو جاتا ہے اور جو حکومت نئی نئی ہو اُس کا رُعب زیادہ ہوتا ہے.نئی حکومت کا مقابلہ اتنی دلیری سے نہیں کیا جاسکتا جتنا پرانی کا.گاندھی جی جس طرح انگریزوں سے روٹھ جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میں کھانا پینا ترک کرتا ہوں تو انگریز انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح جرمنوں کے ماتحت یہ ممکن نہیں.انگریز گاندھی جی کو خوب سمجھتے ہیں اور گاندھی جی انگریزوں کو خوب سمجھتے ہیں.ایک بڑے افسر سے جو بعد میں گورنر بھی ہو گئے تھے میں نے ایک دفعہ کہا کہ گورنمنٹ کی فلاں بات کا کانگرس کو علم ہو چکا ہے یہ آپ لوگوں کا کیسا انتظام ہے کہ سرکاری را ز تک کا نگرسیوں کو معلوم ہو جاتے ہیں.انہوں نے کہا اسی طرح ہوتا ہے ان کے راز ہم کو مل جاتے ہیں اور ہمارے ان کو پتہ لگ جاتے ہیں.یہی گاندھی جی اور حکومت کا معاملہ ہے دونوں ایک دوسرے کے دل کو پڑھنا خوب جانتے ہیں.لیکن اگر انگریزوں کی بجائے یہاں کوئی اور حکومت ہو تو وہ نہ گاندھی جی کے دل کو پڑھ سکے اور نہ گاندھی جی اُس کے دل کو پڑھ سکیں.جس قوم نے تین سو سال تک دنیا سے روپیہ کمایا ہے اُس میں وہ بہادری اور جرات نہیں ہو سکتی جتنی اُس قوم میں ہوگی جو دنیا میں عیش وعشرت کرنے کی نئی نئی امیدیں لے کر میدان میں نکلی ہو.جب تک وہ بھی سو ، دو سو سال تک دنیا سے کمائی نہ کر لے اُس کی جُرات میں کمی نہیں آسکتی.انگریز تو اب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو لینا تھا لے لیا لیکن کوئی نئی قوم جب تک کم سے کم سو دو سو سال تک مزے نہ لُوٹ لے اُسے چین نہیں آ سکتا.قرآن کریم میں آتا ہے کہ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً اَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا اَذِلَّةٌ كَذلِكَ يَفْعَلُونَ
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور تو جب بھی کسی ملک میں کوئی نیا بادشاہ آئے گا تو وہ پرانے جیسا معاملہ اہلِ ملک کے ساتھ نہیں کرسکتا.نئے بادشاہ جب کسی ملک میں آتے ہیں تو بہت سے انقلابات ان کے ساتھ آتے ہیں.کئی امرا، غریب اور کئی غریب، امیر ہو جاتے ہیں.پس یہ حکمت انگریزوں کی مدد کی ہے اور یہ بہت اہم حکمت ہے اس لئے انگریزوں کی مدد کرنی ضروری ہے.جس کا پہلا ذریعہ جیسا کہ میں نے بتایا ریکروٹنگ ہے.ریکروٹنگ سے ہمارے اپنے اندر بھی فوجی سپرٹ قائم ہوتی ہے.جس قوم میں فوجی سپرٹ نہ ہو وہ بُزدل ہو جاتی ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی کشمیری قوم جو آج اتنی بزدل سمجھی جاتی ہے ایک وقت اس کی یہ حالت تھی کہ محمود نے جتنے حملے ہندوستان پر کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دو حملے وہی تھے جو اس نے کشمیر پر کئے.کسی وقت وہ اتنی بہادر قوم تھی لیکن آج یہ حالت ہے کہ مجھے یاد ہے بچپن میں میں ایک دفعہ کشمیر گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک پنڈت پچاس ساٹھ کشمیریوں کو گالیاں دے رہا اور ٹھنڈے مار رہا تھا اور وہ آگے سے ہاتھ جوڑ رہے اور منتیں کر رہے تھے.ایک زمانہ میں راولپنڈی تک اور صوبہ سرحد کے کئی اضلاع تک ان کی حکومت تھی، تبت میں بھی ان کی حکومت تھی مگر جب ان میں فوجی سپرٹ نہ رہی تو وہ بزدل ہو گئے.اللہ تعالیٰ حاکم قوموں پر اس لئے مصیبت لاتا ہے تا محکوم قوموں میں فوجی سپرٹ پیدا ہو وہ ضرورت کے وقت مجبور ہو کر ان کو بھرتی کرتی ہیں.پس یہ ایک ترقی کا راستہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کھولا ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور فوجی ٹرینینگ حاصل کرنی چاہئے.دوسری بات غلط افواہوں کا مقابلہ کرنا ہے یہ بہت اہم بات ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ غلط افواہیں بُزدل بنا دیتی ہیں.لوگ عام طور پر خطرہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا خطرے کی آواز سے ڈرتے ہیں.خود ہمارے ساتھ ایک دفعہ ایک واقعہ پیش آیا.ہم ڈلہوزی میں سیر کرنے جا رہے تھے شام کا وقت تھا دو دو کر کے ہم چلے جا رہے تھے کہ پچھلوں کی آواز آئی سانپ اور اس سے بچنے کے لئے ہم سے جو آگے تھے انہوں نے چھلانگ ماردی.انہیں میں سے ایک کی ٹانگوں کے درمیان سے سانپ گزر رہا تھا ان کے پیچھے ہم تھے ہم نے بھی اپنے دوستوں کو خطرہ میں دیکھ کر ان کے پیچھے دوڑنا شروع کیا.اگلے دوست جن کے پاؤں میں سے سانپ گزرا تھا اس طرح گود گود کر دوڑ رہے تھے کہ ہر قدم پر ایک نیا سانپ ان کے راستہ میں آجاتا تھا.پیچھے ہم ان کی مدد کو جا رہے تھے مگر چند گز کے بعد یکدم میں نے دیکھا تو میں اور سید ولی اللہ شاہ جو دوسری قطار
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور میں تھے ہم دونوں بھی اسی طرح گود گود کر دوڑ رہے تھے جس طرح کہ پہلے لوگ.حالانکہ ہمارے راستہ میں کوئی سانپ نہ تھا اور ہم صرف اگلوں کی امداد کو جارہے تھے.یہ خیال آتے ہی مجھے ہنسی آگئی اور میں نے اگلوں کی طرف دیکھا تو ان کے پاس بھی کہیں سانپ کا نشان نہ تھا.میں نے شاہ صاحب کو پکڑ کر کھڑا کیا اور کہا کہ شاہ صاحب! آخر ہمارے دوڑنے کی غرض کیا ہے؟ سانپ تو غالبا پیچھے رہ گیا ہے اور پھر آواز دے کر اگلوں کو کھڑا کیا پھر جو مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سانپ کو میاں شریف احمد صاحب اور صوفی عبد القدیر صاحب نے جو آخر میں تھے انہوں نے مار بھی لیا تھا.گویا سانپ تو مر چکا تھا مگر اُس کی آواز نے اچھے بھلے کچھ اور آدمیوں کو دوڑا رکھا تھا.غرض خطرہ کی آواز خطرہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور وہ بُزدلی پیدا کر دیتی ہے." ویسے آدمی کو خطرہ نظر آ جائے تو وہ اُس سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا خطرہ کی بات سے ڈرتا ہے.ایک دفعہ میں پاخانہ کے لئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ میری دونوں رانوں کے بیچ میں سے سانپ نے پچھن نکالی مگر میں بالکل نہ گھبرایا اور میں نے سوچا کہ اگر اب میں نے حرکت کی تو ممکن ہے یہ کاٹ لے اس لئے اسی طرح بیٹھا رہا.اور سانپ آرام سے پاٹ میں سے نکلا اور چکر کاٹ کر پاخانہ میں سے باہر چلا گیا.تو میں نے سانپ کو اس قدر قریب سے دیکھا اور وہ میرے ننگے جسم سے قریباً چھوتا ہوا گزرا مگر میرے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی.لیکن ڈلہوزی میں سانپ کی آواز آئی اور ہم سب اس سے مرعوب ہو گئے.پس خطرہ کی افواہیں بہت بُرا اثر ڈالتی ہیں بلکہ افواہیں خود جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں.کسی جگہ بموں کا پڑنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا یہ شور پڑ جانا کہ ہم پڑ رہے ہیں.غلط افواہیں قوموں میں بُزدلی پیدا کر دیتی ہیں پس انگریزوں کے لئے نہیں بلکہ اپنی بہادری اور جُرات کو قائم رکھنے کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے.مجھے ایک دوست جو فوج میں لیفٹیننٹ ہیں ملنے آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں.میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کے حوصلوں کو قائم رکھیں اور اگر کریٹ وغیرہ کو شکست کی وجہ سے سپاہیوں میں گھبراہٹ پیدا ہو تو بے شک ان کا دل بڑھانے کے لئے کہہ دیا کریں کہ یہ انگریز لڑنا کیا جانیں یہ تو ناز و نعم میں پلنے والے لوگ ہیں یہ دشمن کو کیا شکست دیں گے ہاں ہم اسے ضرور شکست دیں گے.ہم مضبوط اور جفاکش لوگ ہیں جب ہم سے مقابلہ کا وقت آیا تو ہم ضرور دشمن کو شکست دیں گے.تو جنگ میں غلط افواہیں بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں.اور ان کا مقابلہ
انوار العلوم جلد ۱۶ ضروری ہے.بعض اہم اور ضروری امور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ رستم کے گھر میں چور آ گیا.رستم بے شک بہت بہادر تھا مگر اس کی شہرت فنونِ جنگ میں تھی ضروری نہ تھا کہ کشتی کے فن میں بھی ہر ایک سے بڑھ کر ہو.چور کشتی لڑنا جانتا تھا اور اس نے رستم کو نیچے گرا دیا.جب رستم نے دیکھا کہ اب تو میں مارا جاؤں گا تو اُس نے کہا آ گیا رستم.چور نے جب یہ آواز سنی تو وہ فوراً اُسے چھوڑ کر بھا گا.غرض چور رستم کے ساتھ تو لڑتا رہا بلکہ اُسے نیچے گرا لیا مگر رستم کے نام سے ڈر کر بھاگا.کسی آدمی کے گھر کو آگ لگی ہو تو اُس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا یہ خبرسن کر کہ اُس کے گھر کو آگ لگی ہے.غلط افواہوں کا ایک خطرناک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ریکروٹنگ کا کام بند ہو جاتا ہے.اس وقت قریباً ہر شخص کے عزیز جنگ پر گئے ہوئے ہیں اور ہر شخص دعا کرتا ہے کہ وہ بیچ کر آجائیں.مگر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ وہ بیچ اسی صورت میں سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے بھی بندوق والے سپاہی جائیں جو انکی مدد کریں ورنہ وہ کیسے بیچ سکتے ہیں اور غلط افواہوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اور سپاہی پیچھے سے نہ جائیں گے.پس جو شخص غلط افواہوں کو پھیلنے دیتا ہے وہ گویا خود اپنے عزیزوں کو جو میدانِ جنگ میں ہیں مرواتا ہے.پس آپ لوگ غلط افواہوں کو روکیں تا ریکروٹنگ کا کام بند نہ ہوا اور آپ کے بھائی بندوں کے پیچھے اور بندوقوں والے سپاہی پہنچتے رہیں جو ان کو بچا سکیں.جنگ میں امداد کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ملک میں امن قائم رکھا جائے.یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے وقت میں شریروں کے حوصلے بہت بڑھ جاتے ہیں اور وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اب انگریز گئے اس جنگ میں اب تک کوئی بھی شکست انگریزوں کو ایسی نہیں ہوئی جس کے بعد ایسے لوگوں نے یہ نہ کہنا شروع کر دیا ہو کہ بس اب انگریز گئے اور بعض نادان غیر احمدیوں کے بارہ میں میں نے یہاں تک سنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ انگریز جائیں تو ہم سرحدی پٹھانوں کو لا کر احمد یوں کو سزا دلوائیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی باتوں سے فسادات ضرور ہو جاتے ہیں اور اس لئے یہ نہایت خطرناک ہوتی ہیں.ہر قوم کے شریروں میں اس قسم کے جذبات ہوتے ہیں.ہندوؤں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو نکال دیں گے اور مسلمانوں میں بھی ہیں.اور ایسے لوگ اپنی قوم کے ادنیٰ لوگ ہوتے ہیں شریف ہند و یا شریف مسلمان نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کو غلط افواہوں سے مدد ملتی ہے اور یہ ایسے موقع کی.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور تاڑ میں رہتے ہیں کہ ملک میں یا کسی شہر میں بدامنی ہو تو لوٹ مار کر یں.اور غلط افواہوں کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ بعض دفعہ بے موقع ہی حملہ کر دیتے ہیں اور اگر غلط افواہوں کو روکا نہ جائے تو ہو سکتا ہے کہ کسی حقیقی خطرہ کا موقع آنے پر پہلے ہی کوئی حملہ کر دیں.پس لوگوں کو تسلی دینے اور حوصلے قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے.اس میں انگریزوں کا نہیں بلکہ اپنا ہی فائدہ ہے.ملک میں اگر بدامنی ہو تو اس کا فائدہ بدمعاشوں کو ہی ہوتا ہے شرفاء کو نہیں ہو سکتا.بدمعاش ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اگر کبھی دو بیوقوف ہندو اور مسلمان آپس میں لڑیں تو لوٹ مار شروع کر دیں.پس ملک کے اندر ایسی روح پیدا کر دینی چاہئے کہ ان کے لئے ایسا موقع پیدا نہ ہو اور انہیں فساد کرنے کے لئے بہانہ ہاتھ نہ آ سکے.ایک اور بات میں نے یہ کہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.دعاؤں کا ہتھیار بڑا کارگر ہتھیار ہے.اسے ہم ہی خوب سمجھتے ہیں دوسری کوئی قوم نہیں سمجھ سکتی.ہم نے دعاؤں کے بڑے بڑے فائدے دیکھے ہیں اور یہ وہ ہتھیار ہے جو ہمارے سوا کوئی چلانا نہیں جانتا.بے شک ہم تھوڑے ہیں مگر ہماری مثال ایسی ہے جیسے فوج میں توپ خانہ ہوتا ہے.انفنٹری اور فوج کی دوسری رجمنٹ میں اگر شستی کریں تو اتنا حرج نہیں جتنا کہ توپ خانہ کی شستی سے ہو سکتا ہے.توپ خانہ اگر شستی کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ساری فوج ماری جائے.پس ہم توپ خانہ کے افسر ہیں اور اگر ہم کو تاہی کریں گے تو دنیا پر بڑی تباہی آئے گی.توپ کی طرح دعا بھی بہت دور تک گولہ پھینکتی ہے اور ہمارے سامنے تو قبولیت دعا کے ایسے ایسے نمونے ہیں کہ ہم اس کی طاقت کا انکار نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گورداسپور کے ایک ہندو مجسٹریٹ آتما رام نے سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کی موت کی خبر آپ کو دی.66 چنانچہ میں دن میں دولڑ کے اس کے مر گئے.‘، ۱۰ ایک لڑکا جو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا ڈوب کر مر گیا.ہمیں بائیس سال ہوئے میں گاڑی میں جارہا تھا کہ لدھیانہ کے سٹیشن پر وہ مجھے ملا اور کہا کہ لوگوں نے یونہی مرزا صاحب کو مجھ سے ناراض کر دیا اور مجھ سے کہا کہ آپ دعا کریں.اس کے دونو جوان لڑکے مر گئے اور اس کی بیوی ہمیشہ اُسے یہی کہتی کہ یہ لڑ کے تونے ہی مارے ہیں.تو یہ تو ہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے دوسری توپ تو ساٹھ ستر میل تک ہی مار کرتی ہے اور اس کے گولے خطا بھی جاتے ہیں مگر
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور خدا تعالیٰ کی توپ کا گولہ بہت دور تک مار کرتا ہے اور کبھی خطا نہیں جاتا.دیکھو! اللہ تعالیٰ کی توپ کا گولہ گورداسپور سے لاہور پہنچا جو قریباً اسی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں بھی اس نے گورنمنٹ کالج کی عمارت کو چنا اور اس میں جا کر عین اسی لڑکے پر گرا جس پر وہ پھینکا گیا تھا اور اسے ہلاک کر دیا.تو دعا کی توپ کا گولہ کبھی خطا نہیں جاتا اور اگر اس کے باوجود ہم شستی کریں تو یہ بہت افسوس کی بات ہوگی.دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں یقین بڑھتا ہے یہ ایک طبعی فائدہ ہے جو دعا سے حاصل ہوتا ہے.جب ایک انسان کہتا ہے کہ خدایا! میری مدد کر تو اُس کے دل میں ایک یقین پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میری مدد کر سکتا ہے اور اس طرح تو کل بڑھتا ہے اور وہ ایسے ایسے کام کر سکتا ہے جو دوسرا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ طبعی فائدہ دعا کا ہوتا ہے.جنگ کا ایک اور خطرناک اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک میں قحط پڑ جاتا ہے.کچھ تو غلہ فوجوں کے لئے چلا جاتا ہے مگر کچھ پیسے چھپا لیتے ہیں تا گراں کر کے فروخت کرسکیں.فرض کرو اس وقت ایک لاکھ ٹن باہر گیا ہے تو دس لاکھ ٹن بنیوں نے گھروں میں چھپا لیا ہے یہ کتنا خطرناک اثر جنگ کا ہے.اور قحط ایک ایسی مصیبت ہے کہ چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر سب کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے اس وقت غلہ بہت مہنگا ہو چکا ہے.گو حکومت نے قیمت پر کنٹرول کیا ہے مگر یہ کافی نہیں میرے خیال میں گندم کا بھاؤ تیرہ سیر فی روپیہ کے قریب ہونا چاہئے.یہ ایسا بھاؤ ہے کہ اس سے زمینداروں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی زیادہ تکلیف نہیں ہوتی.گندم تین روپے من ہونی چاہئے لیکن یہ اس وقت نہیں ہو سکتا یہ تو فصل نکلنے کے دنوں میں ہوسکتا ہے.مگر حالت یہ ہے کہ جب تو زمینداروں کے ہاں غلہ ہو اس وقت بھاؤ دو، سوا دو روپیہ من ہوتا ہے لیکن جب بنیوں کے پاس چلا جاتا ہے تو اس وقت بھاؤ چار پانچ روپیہ من ہو جاتا ہے.پس گندم کا بھاؤ تین روپیہ من مقرر ہونا چاہئے.تا ۱۲ ۱۳ سیر روپیہ کا آٹا لوگوں کو مل سکے.اب جو حکومت ہند نے گندم کی قیمت پر کنٹرول کیا تو پنجاب اسمبلی میں بعض زمیندار ممبروں نے سوال اُٹھایا کہ اس سے زمینداروں کو نقصان ہوگا.یہ بات صرف بھیڑ چال کے طور پر اُٹھائی گئی ورنہ کون نہیں جانتا کہ آج کل زمینداروں کے گھروں میں غلہ کہاں ہوتا ہے؟ آج کل تو وہ بیج بھی بازار سے خرید کر ڈالتے ہیں.تو یہ ایک خیالی بات تھی جو انہوں نے کہہ دی اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں.کوئی گیدڑ بھاگا جا رہا تھا کسی نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ سب اونٹ بیگار میں پکڑ لئے جائیں اس لئے بھاگا جا رہا ہوں.اُس نے کہا اونٹوں کے پکڑنے کا حکم ہے گیدڑوں کو پکڑنے کا تو نہیں اس لئے تم کیوں خواہ مخواہ بھاگے جاتے ہو.اُس نے کہا کہ بادشاہوں کا مزاج نرالا ہوتا ہے کیا پتہ کہ گیدڑوں کو بھی پکڑ والیں.ان شور مچانے والوں سے کوئی پوچھے کہ اگر آج کل گندم کا بھاؤ واقعی گر جائے تو یہ مصیبت تو ان کے لئے ہوگی جن کے پاس گندم کے ذخائر ہیں.زمینداروں کے گھروں میں تو دانہ بھی نہیں انہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے وہ تو فائدہ میں رہیں گے کہ سستے داموں غلہ لے کر کھا سکیں گے.پس ان کی یہ مخالفت بے جا ہے.حکومت نے جو قیمت مقرر کی ہے وہ تسلی بخش نہیں بھاؤ اس سے بھی کم چاہئے تھا اور غلہ نکلنے کے وقت تو تین روپے من مقرر ہونا چاہئے.قحط کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کوشش کرے کہ فصل زیادہ پیدا کی جائے اور پھر جو غلہ پیدا ہو اُس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ محفوظ رکھا جائے.سورہ یوسف میں یہ نسخہ بتایا گیا ہے.پس ہر شخص کوشش کرے کہ فصل زیادہ سے زیادہ اور عمدہ سے عمدہ ہو.بیج بھی اعلیٰ درجہ کا استعمال کیا جائے اور پھر جو فصل ہو اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور محفوظ کر لیا جائے تا اگر خطرہ کے دن آئیں تو ہم نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ہمسایوں کے لئے روٹی کا انتظام کر سکیں تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک احمدی عورت نے اپنا ایک خواب سنایا.اس نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ دو ہزار کا غلہ خرید لو.اس میں بھی اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کو کچھ نہ کچھ حصہ فصل کا محفوظ کرنا چاہئے.میں نے دیکھا ہے مسلمان زمیندار زیادہ محنت نہیں کرتے.شروع میں جب میں سیر کے لئے جایا کرتا تھا تو کھیتوں کو دیکھ کر بتا دیتا تھا کہ یہ کھیت مسلمان زمیندار کا ہے اور یہ سکھ کا.سکھ زمیندار زیادہ محنت کرتے ہیں اور ان کی فصل بھی اچھی ہوتی ہے مگر مسلمان اتنی محنت نہیں کرتے اور اس لئے ان کی فصل بھی اچھی نہیں ہوتی.فصل کوشش اور محنت سے اچھی ہو جاتی ہے اور ہمارے دوستوں کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اب فصل ہوئی تو جا چکی ہے مگر پھر بھی اسے بروقت پانی وغیرہ دے کر اچھا کیا جا سکتا ہے.پھر جو فصل تیار ہو اسے اچھی طرح سنبھالنا چاہئے.سستی قیمت پر یونہی فروخت نہیں کر دینا چاہئے اور کچھ نہ کچھ ذخیرہ بھی رکھنا چاہئے.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ملک میں کچھ نہ کچھ فسادات ہوں ایسے موقع کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.ایسے مواقع پر اقلیتوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس لئے ایسے موقع پر دوستوں کو
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.میں اس کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتا.اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ انسانی فطرت میں رکھا ہے کہ خطرہ کی حالت میں خود حفاظتی کا ذریعہ وہ خود سوچ سکتا ہے مگر اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ایسے موقع پر دوست مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کریں.جو قادیان میں آسکیں یہاں آجائیں اور جو نہ آسکیں وہ ضلع کے کسی مقام پر جہاں جماعت زیادہ ہو یا جہاں احمدی مالک ہوں جمع ہو جائیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اپنا گھر بار کس طرح چھوڑ ہیں.یہ پاگل پن کی بات ہے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر بھی جاتا ہے اور ساتھ جان بھی ، اکیلا اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا.اس جنگ کا ایک نیک اثر بھی ہے اور وہ یہ کہ جرمنی میں تبلیغ کا رستہ کھل جائے گا.مجھے یہ رویا میں بتایا گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے.ہم اس وقت وہاں مبلغ وغیرہ تو نہیں بھیج سکتے مگر اس کے لئے تیاری کر سکتے ہیں اور وہ کرنی چاہئے.جو لوگ کسی کام سے پہلے اس کے لئے تیاری نہیں کرتے وہ کامیاب بھی نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح ناصری نے اس کی مثال یوں دی ہے.آپ نے فرمایا:- اُس وقت آسمان کی بادشاہت اُن دس کنواریوں کی مانند ہوگی جو اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں.ان میں پانچ بیوقوف اور پانچ عقلمند تھیں.جو بیوقوف تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا.مگر عظمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی گپیوں میں تیل بھی لے لیا اور جب دولہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں.آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دولہا آ گیا اُس کے استقبال کو نکلو.اُس وقت وہ سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعلیں درست کرنے لگی اور بیوقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بھیجی جاتی ہیں.عقلمندوں نے جواب میں کہا کہ شاید ہمارے تمہارے دونوں کے لئے پورا نہ ہو.بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو.جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تو دولہا آپہنچا اور جو تیار تھیں وہ اُس کے ساتھ شادی میں چلی گئیں اور دروازہ بند کیا گیا.پیچھے وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں.اے خداوند !
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور اے خداوند ! ہمارے لئے دروازہ کھول دے.اُس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تمہیں نہیں جانتا.پس جاگتے رہو کیونکہ نہ تم اُس 66 دن کو جانتے ہو اور نہ اس گھڑی کو “ الے پس یاد رکھنا چاہئے کہ پہلے سے تیاری کرنے والا ہی وقت پر کام کر سکتا ہے دوسرا نہیں.تحریک جدید کو جاری ہوئے سات سال ہو چکے ہیں اسکے ماتحت میں نے مستقل مبلغین کی تیاری کا کام شروع کر دیا تھا.مولوی فاضل اور گریجوایٹ اس کام کے لئے ، لئے گئے تھے مگر چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور مبلغ ابھی تک تیار نہیں ہو سکے اور جنگ کے بعد جو نئے مبلغ درکار ہوں گے ان کی تیاری اگر اُس وقت شروع کی گئی تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چھ سال اور لگیں گے.پس اس کے لئے آج ہی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے تا جنگ کے اختتام پر پوری طرح فائدہ اُٹھایا جا سکے.اس تیاری کے لئے (یعنی جنگ کے ختم ہونے پر وسیع پیمانہ پر تبلیغ تحریک جدید کا چندہ کرنے کے لئے ) پہلی ضروری بات یہ ہے کہ دوست تحریک جدید چندہ دینے میں ہمت سے کام لیں.گزشتہ سال کی وصولی گزشتہ تین چار سالوں کی وصولی سے اچھی رہی ہے اور اس سال کے وعدے بھی زیادہ ہیں (افسوس کہ اس کے بعد وعدوں میں نمایاں کمی آگئی اور اس وقت وعدے گزشتہ سال سے بہت کم ہیں.اللہ تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے کہ بقیہ دنوں میں اس کی تلافی کر سکیں) گو یہ زیادتی کوئی نمایاں نہیں لیکن اگر دوست کوشش کر کے اس زیادتی کو وصولی میں بھی قائم رکھیں تو امید ہے کہ آمد میں پچھلے سال کی نسبت دس پندرہ فیصدی کی زیادتی ہوگی اور اس طرح اگر وصولی بھی اچھی ہو جائے تو تحریک جدید کا یہ آٹھواں سال بنیاد کے مضبوط کرنے کا موجب ہو سکے گا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے میں اس روپیہ مستقل جائداد پیدا کر رہا ہوں.نہری زمین آٹھ ہزا را یکٹر خریدی جا رہی ہے تا اس سے چالیس پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکے اور سلسلہ کے مستقل اخراجات کے لئے ہمیں جماعت سے چندہ مانگنا نہ پڑے.دراصل کاموں میں جو روک پیدا ہوتی ہے وہ مستقل اخراجات کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اتنی آمد پیدا کرنے والی جائداد خریدی جا سکے جس سے عملہ دفاتر وغیرہ کا خرچ چل سکے اور ایسے مستقل اخراجات کے لئے جماعت سے چندہ نہ لینا پڑے اور جو وقتی چندے لئے جائیں وہ تبلیغ پر خرچ ہوں اور یہ بڑا اہم کام ہے.میں چاہتا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور ہوں کہ دس بارہ ہزار ایکڑ زمین حاصل کی جاسکے اور جب تک جماعت عمدگی کے ساتھ اور پوری توجہ سے تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں کوشش نہ کرے یہ پورا نہیں ہوسکتا.جو زمین خریدی جا چکی ہے اس میں سے بعض رقبے تو تین چار سال کے بعد ہی آزاد ہو جائیں گے.یعنی ان کی قیمت ادا ہو جائے گی اور بعض کی اقساط اگر ہم چندہ کے ذریعہ زمین کو پہلے ہی آزاد نہ کروالیں تو چودہ پندرہ سال تک ادا ہوتی رہیں گی.پس یہاں سے جانے کے بعد ہر جماعت کے دوست کوشش کریں کہ ہر شخص چندہ تحریک جدید میں اپنا وعدہ لکھوائے اور پھر اسے پورا بھی کرے.تحریک ہر ایک احمدی کو کی جائے مگر جبر نہ کیا جائے جو شخص چاہے حصہ لے اور جو نہ چاہے نہ لے.دوسری صورت یہ ہے کہ امانت فنڈ کو مضبوط کیا جائے.اس کی طرف بہت کم توجہ امانت فنڈ کی گئی ہے.پہلے اس میں صرف دس بارہ ہزار روپیہ سالانہ آتا تھا پچھلے سال میں نے تحریک کی تو اٹھارہ میں ہزار آیا ہے مگر یہ بھی کم ہے اگر دوست توجہ کریں تو کم سے کم لاکھ دو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوسکتی ہے ہر شخص کو چاہئے کہ جنگ کے خطرات کے پیش نظر یا مکان بنانے کی نیت سے یا بچوں کی تعلیم اور ان کی شادیوں وغیرہ کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتا رہے اور پھر اسے امانت فنڈ میں جمع کراتا رہے تا مصیبت یا ضرورت کے وقت کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے.مجھے تو بیسیوں لوگوں نے کہا کہ آپ کی اس تحریک سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے ہمارے لئے کوئی صورت مکان بنانے کی نہ تھی اور اس طرح بنا لیا تو اس طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.سادہ زندگی تیسری چیز سادہ زندگی ہے.میں دیر سے اس کی طرف دوستوں کو توجہ دلا رہا ہوں اور اب تو خدا تعالیٰ دنیا کو کھینچ کر سادہ زندگی کی طرف لا رہا ہے.اب یہ عام شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ کپڑا نہیں ملتا ، جرا ہیں نہیں ملتیں ، بنیا نیں نہیں ملتیں اور جو چیز ملتی ہے وہ ایسی گراں ہے کہ اسے خریدنا مشکل ہے اور اگر جنگ لمبی ہوگئی تو شاید چند کروڑ پتی ہی ایسے ہوں گے جو ان چیزوں کو خرید سکیں ورنہ باقی سب کو مجبوراً اپنی زندگی میں سادگی اختیار کرنی پڑے گی.آج ہزاروں لوگ ہیں جو مجبور ہو کر اسے اختیار کر رہے ہیں اور جن احمدیوں نے میرے کہنے پر اسے اختیار کیا وہ کتنے فائدہ میں رہے کہ اس سے انہیں ثواب بھی حاصل ہو گیا.میری طرف سے اس تحریک کے بعد مختلف ممالک میں حکماً وہی باتیں جاری کی گئیں.مسولینی نے حکم دیا کہ گوشت کی صرف ایک ہی پلیٹ استعمال کی جائے ، جرمنی میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ اور ڈاکٹر گوئبلز نے کہا ہے کہ جب تک تمام لوگ اپنے اخراجات میں بچت نہ کریں گے کام نہ چل سکے گا.امریکہ میں مسٹر رینڈل ولکی نے جو انتخاب صدر کے موقع پر مسٹر روز ویلٹ کے مد مقابل تھے کہا ہے کہ ہمیں اپنے کھانے پینے اور پہنے میں پوری پوری سادگی سے کام لینا چاہئے.انگلستان میں بھی خود بخود اپنے کھانے اور پہننے پر قیود عائد کر لی گئی ہیں پس وہی تحریک جدید جو میں نے جاری کی تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سب ممالک کے لئے جبری قرار دیدیا ہے اور شاید ہندوستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ لوگ مجبور ہو کر اسے اختیار کریں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایسے دن آ رہے ہیں کہ روٹی روتے ہوئے گلے سے اتر سکے گی مگر احمد ی مطمئن ہوں گے کہ ہم نے اپنے خلیفہ کی بات مان لی اور اس طرح ثواب بھی حاصل کر لیا.جو چیز دوسرے لوگوں نے مجبور ہو کر کی وہ ہمارے لئے ثواب کا موجب ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی ہمیں خدمت خلق کے لئے دی ہے اور اگر کھانے پینے پہنے بیٹھنے اُٹھنے میں تکلیف ہو تو ایسے اثرات پیدا ہوں گے کہ یہ مقصد پورا نہ ہو سکے گا اور امیر وغریب اکٹھے نہ ہوسکیں گے.ہمارے ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ایک دیوار حائل ہے وہ ایک دوسرے سے میل جول اور کھانے پینے سے پر ہیز کرتے ہیں.پیروں نے بھی ان کو غلط راستہ پر لگا دیا ہے.میں نے دیکھا ہے ابھی تک بعض لوگ مجھے ملنے آتے ہیں تو وہ پیروں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو ہزا ر منع کرو وہ سمجھتے ہیں کہ بطور انکسار منع کرتے ہیں ورنہ ہمیں ضرور ایسا ہی کرنا چاہئے.اُن پیروں نے کس طرح انسانیت کو ذلیل کر دیا ہے میں تو کہتا ہوں اگر کوئی حکومت آئے تو سب سے پہلے ان کو پکڑے.ان سب کو کنسنٹریشن (CONCENTRATION) کیمپوں میں بھیج دینا چاہئے.احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم کیا ہے کہ انسانیت کو بلند کیا جائے لیکن ابھی تک احمدیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ان باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں.ہم منع کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ انکسار کرتے ہیں حالانکہ مجھے ان باتوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے میرے سامنے جب کوئی ہاتھ جوڑتا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے مار رہا ہے اور دراصل کسی کے ایسا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مار پڑ رہی ہے کہ احمدی جماعت ابھی تک قوم کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہوئی.پس امیر وغریب کا امتیاز نہایت خطرناک چیز ہے اور اسے جلد از جلد مٹانا ہمارا فرض ہے.میرا ایک عزیز تھا میرے منہ سے ” تھا نکلا ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہے مجھے اس سے محبت نہیں عشق تھا مگر ایک دفعہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ فلاں علاقہ کے احمدی بھی
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ عجیب ہیں نہ موقع دیکھتے ہیں اور نہ وقت اور ملنے آ جاتے ہیں.پس اُس دن کے بعد سے میں اپنے اور اسکے درمیان ایک دیوار حائل پاتا ہوں.یہ ذہنیت نہایت خطر ناک ہے اور جب تک ہم اس سانپ کا سر نہیں کچل دیتے اُس وقت تک اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کر سکتے.جب تک یہ ذہنیت موجود رہے گی کہ تم اور ہو اور میں اور ہوں اور اگر ہم میں تو نہیں مگر ہماری اولادوں میں یہ ذہنیت موجود رہے گی تو کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی.میں نے گل ہی سنایا تھا کہ مسلمان کی زندگی تکلفات سے پاک ہونی چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایک زمانہ میں حضرت ابو ہریرہ کو ایک جگہ کا گورنر بنا دیا گیا.اُنہی ایام میں ایران کی فوجوں کو شکست ہوئی اور جو اموال کسری کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان میں وہ رومال بھی تھا جو کسری اپنے تخت پر بیٹھنے کے وقت استعمال کیا کرتا تھا.اموال کی جب تقسیم ہوئی تو وہ رومال حضرت ابو ہریرۃ کے حصہ میں آیا.اب بھلا ایک سیدھے سادے مسلمان کی نگاہ میں یہ چیز کیا حقیقت رکھتی تھی اتفاقاً انہیں کھانسی ہوئی اور انہوں نے بلغم اُس رومال میں پھینک دی اور پھر کہنے لگے بی بیخ ابو ہریرہ یعنی واہ بھئی ابو ہریرہ.لوگوں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سننے کے شوق میں میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تھا اور اس وجہ سے کئی کئی فاقے آتے تھے اور میں شدت ضعف کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا.لوگ سمجھتے مرگی کا دورہ پڑا ہے اور چونکہ عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہو تو اُسے جوتیاں مارتے تھے اسلئے میرے سر پر جوتیاں مارتے تھے.کجا تو وہ حالت تھی اور کجا آج یہ حالت ہے کہ وہ رومال جو کسری تخت پر بیٹھنے کے وقت استعمال کرتا تھا وہ میرے قبضہ میں ہے اور میں اس میں بلغم پھینک رہا ہوں.اس طرح گویا حضرت ابو ہریرۃ نے یہ بتایا کہ مؤمن کو چاہئے کہ ظاہری تکلفات میں مبتلا نہ ہو.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی چاہئے کہ اپنی زندگی ایسی بنائیں کہ امیر وغریب کا کوئی فرق نظر نہ آئے.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے جب بھی میں کسی دعوت وغیرہ میں جاتا ہوں تو وہاں ایک جگہ نمایاں طور پر گاؤ تکیہ وغیرہ لگا ہوتا ہے.میں نے ہمیشہ منع کیا ہے مگر پھر بھی دوست ان باتوں کو چھوڑتے نہیں.وقف زندگی تبلیغ کے لئے تیاری کے ضمن میں ایک اور ضروری تحریک وقف زندگی کی ہے.پہلے پہل جب تحریک کی گئی تو بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے تھے
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ مگر اب اتنے نہیں کرتے اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.آج وہ دن ہیں کہ انسان چنوں کی طرح بھونے جا رہے ہیں.کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ خود ہی اپنی جانوں کو خدا تعالیٰ کے لئے دے دیں.آج جب ہر چیز پر وبال آ رہا ہے تو کیا اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کر دینا بہتر نہیں.پس گریجوایٹ یا انٹرنس پاس مولوی فاضل اپنی زندگیوں کو وقف کریں.جلد از جلد ضرورت ہے کہ نو جوان اپنے نام پیش کریں.جو نوجوان آج اپنے آپ کو پیش کریں وہ چھ سال میں تیار ہو سکیں گے.شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اس وقت جو اُستاد ہمیں ملے ہیں وہ بوڑھے ہیں.ممکن ہے جب موجودہ نوجوان تیار ہو جائیں تو یہی کورس چار سال میں ختم کرایا جا سکے.بہر حال آج زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے تا ابھی سے ان کی تیاری کا کام شروع کر دیا جائے.اس وقت گو ہندوستان سے باہر مبلغ نہیں بھیجے جا سکتے مگر جنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگی.فی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہئے اور باہر کا جو راستہ بند ہو چکا ہے اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے.پس کیوں نہ ہم یہاں اتنا زور لگائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے اور دو تین سال میں ہی جماعت دُگنی ہو جائے.جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو کا میابی نہیں ہوسکتی.ہمارے سامنے بہت بڑا کام کیا ہے؟ پونے دو ارب مخلوق ہے جسے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے کیونکہ ہم عالم نہیں ہیں.مجھے تو یہ کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک احمدی یہ خیال کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا.احمدی سے زیادہ عالم اور کون ہوسکتا ہے.دوسرے لوگ تو اگر جہالت کی بات بھی جانیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ عالم ہو گئے ہیں مگر بعض احمدی اس قدر دینی امور سے واقفیت رکھنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ علم نہیں رکھتے اور اس وجہ سے تبلیغ نہیں کر سکتے.میرے ایک دوست نے جو عزیز بھی ہیں سنایا کہ وہ ایک دفعہ شکار کے لئے گئے اور ایک ہرن شکار کیا.اُن کا نوکر ساتھ تھا وہ ان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ کیا آپ کو ہرن ذبح کرنے کی تکبیر آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بِسمِ اللهِ اللهُ اَكْبَر کہہ کر ہر جانور ذبح کیا جاتا ہے.وہ کہنے لگا بس معلوم ہو گیا آپ کو ہرن کی تکبیر نہیں آتی.انہوں نے کہا کہ وہ کیا تکبیر ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ ہرن کو لیٹا کر اُس کی گردن پکڑ کر کہنا چاہئے کہ تو لوگوں کے کھیت کھاتی اور مزے اُڑاتی تھی اب آئی تیری شامت الله اکبر.اب دیکھو وہ بے چارہ ایک جہالت کے
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ خیال میں مبتلاء تھا مگر اسے بھی علم سمجھ کر لوگوں میں پھیلانا چاہتا تھا.مگر تمہیں اتنے علوم سکھائے گئے ہیں پھر بھی تم سمجھتے ہو کہ تم عالم نہیں ہو.کو نسا علم ہے جو قرآن کریم میں نہیں ؟ تم علم النفس اور دوسرے علوم کے وہ مسائل جو تمہیں سکھائے گئے ہیں دوسروں کو سناؤ تو بڑے بڑے عالم حیران ہو جائیں.میں تو حیران ہوا کرتا ہوں کہ ایک احمدی کس طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسے کچھ نہیں آتا.کیا یہ ضروری ہے کہ ہر انسان پر فرشتے نازل ہوں؟ اور ہر انسان اسی صورت میں سمجھ سکتا ہے کہ اسے فرشتے سمجھانے کے لئے آئیں؟ جو علم نہیں رکھتے وہ دوسروں کے علوم سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھاتے ؟ سلسلہ کی کتب اور اخبار ورسائل کیوں نہیں پڑھتے ؟ اور اس طرح علم حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ ہندوؤں میں تبلیغ یاد رکھو کہ ہمارے ذمہ دنیا کی فتح کا کام ڈالا گیا ہے اور یہ کام بہت اہم ہے.اس کے لئے ایک بہت بڑی جماعت کی ضرورت ہے اور اس واسطے ہندوستان میں جماعت کا بڑھانا بہت ضروری ہے اور تبلیغ کرتے ہوئے غیر قوموں کی طرف خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے.اس ملک میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی نسبت تین گنا ہے.صرف برطانوی ہندوستان کی آبادی ۳۳،۳۲ کروڑ ہے اور اس میں سے صرف تین چار ہزار کا سال بھر میں احمدی ہونا کوئی کام نہیں اس لئے تبلیغ کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بالخصوص ہمسایہ اقوام کے سامنے محبت اور پیار سے اسلام کو پیش کرنا چاہئے.ان سے کہو کہ تم ہمیں تبلیغ کرو اپنی باتیں سناؤ اور ہماری سنو.بعض علماء کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بات چیت کرنی ہو تو اپنا کوئی پنڈت یا گیانی لاؤ یہ ٹھیک نہیں.ایسی باتوں کی وجہ سے ہی وہ گھبراتے ہیں اور بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.کھلے دل سے ان کی باتیں سنو اس میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ آخر کار وہ تمہارے ساتھ شامل ہونگے.پانی ہمیشہ نیچے کی طرف ہی بہتا ہے تم بہت اونچے ہو اس لئے پانی انہیں کی طرف جائے گا اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہندو قوم کو ترقی دینا چاہتا ہے.وہ تو چاہتا ہے کہ ان بنیوں کو دین کی حکومت عطا کرے مگر یہ لوگ سوراج کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اُس عزت سے بے پروا ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے اور جو اسلام کو قبول کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.احمدیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ تمام ہندوستانیوں کی عزت بڑھے گی.عربوں نے ایک زمانہ میں اسلام کی خدمت کی تھی اور اس وجہ سے آج گو وہ ہر لحاظ سے گر چکے ہیں پھر بھی مسلمان ان کی خدمت کرتے ہیں.جہاں کوئی عرب نظر آئے اُسے خوش آمدید کہتے ہیں اور کہتے ہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور آئیے عرب صاحب! آئیے عرب صاحب! تو جہاں جہاں احمدیت پھیلے گی وہاں جو ہندوستانی جائے گا وہاں کے احمدی اس کی عزت کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار ہیں.اُس ملک سے آئے ہیں جس میں قادیان واقع ہے.انہیں عزت سے بٹھا ئیں گے اور ان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کریں گے تو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے ساتھ ہندوستانیوں کی عزت بھی بڑھے گی اور ہر جگہ احمدی ان کی عزت کریں گے.یہاں سے چونکہ انہیں ہدایت حاصل ہوئی ہوگی اس لئے اس ملک کے ہر باشندہ کو خواہ وہ ہندو ہو یا سکھ ، عیسائی ہو یا کسی اور مذہب کا ، دیار محبوب کا باشندہ سمجھ کر اس کی عزت کریں گے.اب دیکھو! اس عزت کے مقابل میں سوراج کی حقیقت ہی کیا ہے مگر افسوس کہ ہندوؤں نے اس سوال کو اس نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا.پہلے جو نبی آتے تھے وہ مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے لئے ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت کے لئے مامور فرمایا ہے اور احمدیت نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے کناروں تک ہندوستانیوں کا روحانی ادب اور رُعب قائم کرے گا.میں نے سوراج کا ذکر کیا ہے پہلے جنگی خطرات کا ذکر میں کر چکا ہوں اس لئے ضمناً اس کے متعلق بھی کچھ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ سوال بہت اہم ہے اور موجودہ وقت میں حکومت اور رعایا میں لڑائی بہت نازک اور خطرناک ہے اور ملک کا ہر ایک بہی خواہ اسے دور کرنے کی کوشش میں ہے.اس وقت کانگرس مملکی حکومت کے لئے مطالبہ کر رہی ہے.مسلم لیگ اس کی اس وجہ سے مخالف ہے کہ جب تک مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ نہ ہو کوئی نیا نظام قائم نہیں کرنا چاہئے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ جب تک ہند و مسلمان متحد نہ ہوں ہم کچھ نہیں دے سکتے.اس میں شبہ نہیں کہ ان تینوں میں اس وقت اختلافات ہیں اور ہم جو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں.یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ موقع بہت اہم ہے.اس وقت ملکی فضاء کو درست کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرنی چاہئے تا ملک سے فساد دور ہو مگر افسوس ہے کہ جتنا یہ سوال اہم ہے اتنا ہی اس کی طرف وہ توجہ نہیں دی جا رہی جو دی جانی چاہئے.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ہی سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے.پہلے میں حکومت کی پوزیشن کو لیتا ہوں.انگریز کہتے ہیں کہ پہلے ہندو مسلمان متحد ہوں اور کوئی متفقہ مطالبہ پیش کریں پھر ہم مزید حقوق دینے کے سوال پر غور کریں گے اور بظاہر یہ بات معقول نظر آتی ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ انگریز بے چارے کیا کریں.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور جب یہ دونوں قومیں آپس میں پہلے ہی لڑ رہی ہیں تو اگر انگریز حقوق دے بھی دیں تو اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی مگر غور کیا جائے تو یہ جواب درست نہیں.سوال یہ ہے کہ اگر ہند و مسلمان آپس میں صلح کر لیں اور کامل آزادی کا مطالبہ کریں تو کیا انگریز یہ مطالبہ پورا کر دیں گے اور ہندوستان کو مکمل آزادی دے دیں گے؟ میں نے تو کبھی ان کی طرف سے کوئی ایسا اعلان نہیں پڑھا اور جب وہ اس کے لئے تیار ہی نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مزید حقوق کے لئے اس اختلاف کو غذر بنایا جائے اور کہا جائے کہ اگر ہندو مسلم صلح کر لیں تو ہندوستان کو مزید حقوق مل جائیں گے.اگر حکومت کی نیت واقعی یہ ہوتی کہ ہند و مسلمان آپس میں صلح کر لیں تو اُسے چاہئے تھا کہ بتا دیتی کہ اگر یہ صلح ہوئی تو وہ کیا حقوق دے گی اور یہ کہ اگر ہندو مسلمانوں نے صلح نہ کی تو وہ کیا قدم اُٹھائے گی.اگر ہندو مسلم اتفاق کے بعد بھی وہ آزادی کامل دینے کے لئے تیار نہیں تو پھر اس کا یہ جواب صریحاً غلط ہے جو وہ کانگرس کو دیتی ہے.گورنمنٹ کا یہ جواب اس لئے بھی غلط ہے کہ وہ پہلے ہندو مسلمانوں اور سکھوں میں اختلافات کے باوجود بعض حقوق دے چکی ہے.گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۳۵ء جو ہے اس کے متعلق بھی تو ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں اتفاق نہ تھا اور اس اتفاق کے نہ ہونے کے باوجود اس نے حقوق دے کر یہ بتا دیا ہے کہ ہندوستان کو حقوق دینے کے لئے وہ ان قوموں کے اتحاد کو ضروری نہیں سمجھتی.پھر جب وہ پہلے ایسا کر چکی ہے تو اب یہ شرط کیوں لگاتی ہے ؟ ہاں اگر انگریز ہندوستان کو بالکل اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہتے ہوں (جس طرح ڈومینیئنز (DOMINIONS) کو ان کے حال پر چھوڑا گیا ہے ورنہ میں اس قسم کی آزادی کا قائل نہیں کہ ہندوستان برطانوی امپائر سے الگ ہو جائے.یہ زمانہ ملکوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ہے نہ کہ نئی کلی آزاد حکومتوں کے بنانے کا ) اور اس ملک کو کامل آزادی دے دینے کا فیصلہ کر چکے ہوں تو پھر حکومت کا یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ جب تک ہند و مسلمانوں میں صلح اور اتفاق نہ ہو ہم آزادی کیسے دیدیں کیونکہ جب مختلف قوموں میں اس وقت بھی فساد ہو رہے ہیں تو آزادی حاصل ہونے کے بعد اور زیادہ ہو نگے.پس میرے نزدیک اگر گورنمنٹ واقعی ملک میں امن چاہتی ہے اور ہندو مسلمانوں میں صلح کی خواہش مند ہے تو اسے اعلان کر دینا چاہئے کہ اگر یہ قو میں متحد ہو کر اور متفقہ مطالبہ لے کر آئیں تو ہم ہندوستان کو کلی آزادی دے دیں گے.یا پھر دوسری بات دیانت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ وہ اعلان کرے کہ اگر یہ صلح نہ ہوئی تو پھر اس کا رویہ کیا ہو گا.مثلاً اسے اعلان کر دینا چاہئے کہ اس صورت میں وہ کچھ نہ دے گی اس سے بھی صلح
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور کی طرف توجہ ہو جائے گی.پس صحیح طریق یہ ہے کہ حکومت اعلان کر دے کہ صلح کر لو تو کامل آزادی دے دی جائے گی اور یہ کہ اگر صلح نہ کرو گے تو کچھ نہ دیا جائے گا.اس کا موجودہ طریق تو یہ ہے کہ وہ ہند و مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود مزید تبدیلی حکومت میں کر دیتی ہے اور پھر جب اگلا مطالبہ ہوتا ہے تو کہتی ہے کہ پہلے صلح کرو اور پھر آؤ اور یہ بالکل غلط طریق ہے.اگر وہ اس طریق کو اختیار کرے جو میں نے پیش کیا ہے تو اس سے ان لوگوں کو تقویت حاصل ہوگی جو چاہتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں حکومت اور رعایا میں صلح ہونی چاہئے.اگر حکومت نے سمجھوتہ کے بغیر بھی حقوق دے دینے ہیں یا سمجھوتہ کے بغیر بھی کامل آزادی نہیں دینی تو پھر سمجھوتہ کا سوال اُٹھا نا دیانتداری نہیں.اور حکومت کو چاہئے کہ اس رویہ کو فوراً بدل دے.یوں تو وائسرائے ہند اور سب گورنر بھی یہ کہتے ہیں کہ صلح کر لینی چاہئے مگر انہیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ صلح کے لئے کوئی ماحول بھی تو ہونا چاہئے.ہندوستانیوں کے مطالبہ کا جو جواب حکومت دیتی ہے وہ صلح کے لئے ماحول پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتا.جنگ سے ڈرا کر صلح کا مطالبہ تسلی دینے والا جواب نہیں اور ایسے جوابات سے دل صاف نہیں ہوتے.ایسے جوابات سے دلوں میں بغض بڑھ جاتا ہے کیونکہ دوسرا فریق خیال کرتا ہے کہ میری مشکل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے.دوسری طرف کانگرس اپنی بات پر مُصر ہے وہ حکومت سے کہتی ہے کہ ہم خود صلح کر لیں گے تم بہر حال ہمیں حقوق دے دو یہ بات بھی بالکل غلط ہے.اسے اصولی معین بات کرنی چاہئے یا تو وہ صاف لفظوں میں یہ کہہ دے کہ مسلمانوں کی رائے کا ملک کے آئندہ انتظام میں کوئی دخل نہ ہوگا.ہندوؤں کے مقابلہ میں ان کی آبادی کی نسبت تین اور ایک کی ہے اور ڈیموکریسی کا اصول یہ ہے کہ تین ایک پر حکومت کریں.اس سے مسلمان اپنی پوزیشن کو سمجھ لیں گے اور انہیں پتہ لگ جائے گا کہ آئندہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور وہ اپنے لئے جو راستہ موزوں سمجھیں گے اختیار کر لیں گے.پس ہندوؤں کو چاہئے کہ یا تو یہ اعلان کر دیں کہ آئندہ نظام میں اکثریت کی رائے ہی مانی جائے گی خواہ وہ خالصتہ ہندو ہی کیوں نہ ہو اور یا پھر یہ بتائیں کہ یہ اندرونی جھگڑے کس طرح طے ہوں گے؟ اور اگر وہ تسلیم کر لیں کہ مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا اور اقلیتوں کو بہر حال مطمئن کیا جائے گا اور ان کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا تو پھر وہ سوچیں کہ جب تک ہندوؤں اور مسلمانوں میں فیصلہ اور سمجھوتہ نہ ہو انگریز اگر حقوق دیں تو کیسے دیں اور اس طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کر کے گویا اس بات کی
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور تصدیق کرتے ہیں کہ انگریزوں کی طرف سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ صحیح ہے ہاں اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہتے تو بھی صاف کہہ دیں کہ مسلمانوں کی کوئی پروا نہ کی جائے گی.اکثریت کی حکومت ہوگی بہر حال انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہئے.ہم نے کانگرس سے دریافت کیا تھا کہ آیا کانگرسی حکومت میں تبلیغ اور تبدیلی مذہب کی اجازت ہوگی اس کا جواب یہ ملا کہ فلاں ریزولیوشن دیکھو.ہم نے لکھا کہ اس کے معنی ہم پر واضح نہیں ہیں وضاحت سے بتایا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ ہم کسی ریزولیوشن کے معنے کرنے کے مجاز نہیں ہیں تو یہ کتنی دھوکا بازی ہے کہ صفائی سے کوئی بات کی ہی نہیں جاتی.تیسرا فریق مسلم لیگ ہے.وہ کہتی ہے کہ جب تک اس کے ساتھ کانگرس کوئی فیصلہ نہ کرے کوئی حقوق ملک کو نہ دیئے جائیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو سارا ملک ہی حقوق سے محروم رہے؟ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر تو اقلیتیں سب کچھ ہی ٹوٹنے کی کوشش کریں گی کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ ہماری رضامندی کے بغیر تو کوئی قوم بھی کچھ نہیں لے سکتی اس لئے لازمی طور پر ہمیں راضی کیا جائے گا اور یہ کہاں کی دیانتداری ہے پھر میں نے دیکھا ہے کہ اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے ممبر زیادہ تر آزادی کے حق میں اور گورنمنٹ کے خلاف ہی رائے دیتے ہیں اور مسلم لیگ پارٹی کوشش کرتی ہے کہ ہر ایک معاملہ میں گورنمنٹ کو شکست دلوائے اور اس طرح وہ اعلانیہ کانگرس کے مطالبہ کی تائید کرتی ہے.پس مسلم لیگ کا یہ مطالبہ کہ جب تک وہ راضی نہ ہو ملک کو کوئی حقوق ہی نہ دیئے جائیں ایسا ہے کہ زیادہ دیر تک اصلاحات میں تعویق ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.یہ ایسی اُلجھن ہے کہ اسے دُور کرنا حکومت کا فرض ہے اور ہند و مسلمانوں کے سمجھوتہ کو جو وہ روک ظاہر کر رہی ہے وہ بالکل نا مناسب ہے.مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم جب نافذ کی گئی اُس وقت بھی ہند و مسلمان متحد و متفق نہ تھے.پھر جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے نتیجہ میں ہندوستان کو کچھ مزید حقوق دیئے گئے اُس وقت بھی ان میں سے کوئی راضی نہ تھا اور ان موقعوں پر حکومت نے ہندوستان کو حقوق دے کر عملاً بتا دیا کہ وہ ہند و مسلمانوں کے سمجھوتہ کے بغیر بھی حقوق دینے کو تیار ہے اس لئے جو جواب وہ اس وقت دے رہی ہے وہ معقول تصور نہیں کیا جاسکتا.اور موجودہ اُلجھن کا یہی حل ہے کہ حکومت جو کچھ دینا چاہتی ہے اس کا اعلان کر دے.اس سے قبل حکومت ثالث کی حیثیت اپنے لئے قبول کر چکی ہے اور اس نے اس حیثیت سے دو فیصلے کئے ہیں اور اسی طرح اب تیسرا بھی کر سکتی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور ہندو مسلمانوں کے اتفاق کا غذر درست نہیں.کیا جب انگریز یہاں آئے تھے تو ہندو مسلمانوں سے پوچھ کر اور ان کی رضامندی سے آئے تھے؟ ان کے یہاں آنے کی تصدیق کس نے کی تھی ؟ جب انہوں نے ہندوستان پر قبضہ ہند و مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر کر لیا تھا تو اب اسے چھوڑنے کے لئے وہ ان کی رضامندی کو اس قدر ضروری کیوں سمجھتی ہے؟ جب وہ ان دونوں کی رضامندی کے بغیر یہاں آگئی تھی تو گویا اس نے اس اصل کو تسلیم کر لیا تھا کہ وہ ان کی رضامندی کی پابند نہیں تو پھر اب اسی اصل کے مطابق جو دینا چاہتی ہے دے دے.اسے چاہئے کہ اعلان کر دے کہ اس کے نزدیک اِس اِس طرح سب قوموں کے حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن اگر یہاں کی مختلف قو میں آپس میں کوئی فیصلہ کر لیں تو وہ اسے منظور کر لے گی.میرے خیال میں حکومت کو چاہئے کہ اعلان کر دے کہ جنگ کے ختم ہونے کے ایک سال بعد ہندوستان کو درجہ نو آبادیات دے دیا جائے گا اور مختلف اقوام کے حقوق برطانوی حکومت ان قوموں کے ان نمائندوں سے مشوروں کے بعد جو اسے مشورہ دینے پر آمادہ ہوں خود مقرر کر دے گی.ہاں اس سے پہلے پہلے اگر ہند و مسلمان کوئی متفقہ مطالبہ ہمارے سامنے لے آئیں گے تو اُسے مان لیا جائے گا.یہ طریق دیانتدارانہ ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اسے اختیار کرے.اس اعلان کے نتیجہ میں یقیناً ہندو مسلمانوں کو مناسب سمجھوتہ کی طرف توجہ ہوگی ورنہ موجودہ وقت میں ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ آخر تنگ آ کر حکومت کچھ نہ کچھ دے دے گی اور وہ ڈیما کریسی کے اصول پر ہی ہوگا جس سے بہر حال ہندوؤں کو ہی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے گلے پر چھری کیوں پھیر ہیں.وہ کیوں نہ زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کرنے کے لئے لڑتے رہیں تو اس طرح باہمی اختلاف کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جاتا ہے.(الفضل ۹ ، ۱۹ ، ۱۷ جنوری.۱۱،۱۰،۸ فروری ۱۹۴۲ء ) اب میں احباب کو مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت کے احباب یا چالیس سال سے کم عمر کے ہیں یا چالیس سال سے زیادہ کے اور میں نے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لئے مجلس انصار اللہ قائم کی ہے یا پھر عورتیں ہیں ان کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم ہے.میری غرض ان تحریکات سے یہ ہے کہ جو قوم بھی اصلاح وارشاد کے کام میں پڑتی ہے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں اور یہ خواہش کہ اور لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں جہاں جماعت کو عزت اور طاقت بخشتی ہے وہاں بعض اوقات
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ جماعت میں ایسا رخنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہو جایا کرتی ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے.جماعت اگر کروڑ دو کروڑ بھی ہو جائے اور اس میں دس لاکھ منافق ہوں تو بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی جتنی کہ اگر دس ہزار مخلص ہوں تو ہو سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ چند صحابہ نے جو کام کئے وہ آج چالیس کروڑ مسلمان بھی نہیں کر سکتے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد سات سو تھی.صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا.یہ کیا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا مگر آج صرف ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جس سے بھی بات کرو اندر سے کھوکھلا معلوم ہوتا ہے اور سب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں کیا ہو جائے گا.گجا تو سات سو میں اتنی جرات تھی اور کجا آج سات کروڑ بلکہ دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان ہیں مگر سب ڈر رہے ہیں اور یہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہے وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا.ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے میں وہاں تو تھا مگر اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا.مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لا ہور گیا تھا آریوں نے اُس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دے دو خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو، یہ تمہاری قومی خدمت ہوگی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے یہ سنکر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اُس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اُس کا تنزّل ہو گیا یعنی وہ ای اے سی سے منصف بنا دیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آکر کیا تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہو
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں.اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اُس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اُس کا دودھ میں سیر ہو گیا ہے.خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہو سکتا ہے.جو قو میں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں اُن کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے اور ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصار اللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماءاللہ ہے.ان مجالس پر در اصل تربیتی ذمہ داری ہے.یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے ایک مصرع آپ نے لکھا کہ :- ہر اک نیکی کی جڑ اتقاء ہے اُسی وقت آپ کو دوسرا مصرع الہام ہوا جو یہ ہے کہ: اگر جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کر سکیں گی.اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہو جائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے الم ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - لَا رَيْبَ فِيهِ تو قرآن کریم کی ذاتی خوبی بتائی اور دوسروں سے تعلق رکھنے والی خوبی یہ بتائی کہ هُدًى لِلْمُتَّقِینَ یعنی یہ کلام متقی پر اثر کرتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص تو روٹی کھاتا اور اس سے طاقت حاصل کر کے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے کو دو آدمی پکڑ کر کھڑا کرتے ہیں.غیر متقی کو جو ہدایت ہوتی ہے وہ تو ایسی ہوتی ہے جیسے دو آدمی کسی کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیں مگر جو متقی ہے وہ اس سے غذا لیتا اور طاقت حاصل کرتا ہے.ہم اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم کی مدد سے ہی.اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی غذا متقی کے لئے ہی طاقت اور قوت کا موجب ہو سکتی ہے.اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی خرابی ہو تو اُسے گھی ، دودھ، مرغ، بادام، پھل اور کتنی اعلیٰ غذا ئیں کیوں نہ کھلائی جائیں اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا بلکہ الٹا اُسے ہیضہ ہو جائے گا.غذا اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب وہ ہضم ہوا اگر ہضم نہ
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ہو تو الٹا نقصان کرتی ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ غذا ایسی ہے جو مؤمن کے معدہ میں ہی ٹھہر سکتی ہے.پس اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے قرآن کریم سے فائدہ اُٹھانا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھائے بغیر ہم کوئی ترقی نہیں کر سکتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ.كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ها یعنی تمام برکت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے پس بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سکھایا اور بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سیکھا.اس میں محمدؐ سے مراد دراصل قرآن کریم ہی ہے کیونکہ آپ ہی قرآن کریم کے الفاظ لائے ہیں.پس جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے.اس زمانہ میں مؤمن اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم پر چل کر ہی.اور اگر یہ غذا ہضم نہ ہو سکے تو پھر کیا فائدہ.اور اگر اسے ہضم کرنے چاہتے ہو تو متقی بنو.ابتدائی تقویٰ جس سے قرآن کریم کی غذا ہضم ہوسکتی ہے وہ کیا ہے؟ وہ ایمان کی درستی ہے.تقوی کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان کی درستی ہی ہے.قرآن کریم نے مؤمن کی علامت یہ بتائی ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ! ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں متقی کیسے بنوں؟ پس اس کی پہلی علامت ایمان بالغیب ہے یعنی اللہ تعالی ، ملائکہ، قیامت اور رسولوں پر ایمان لانا پھر اس ایمان کے نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب ہی ہے.اللہ تعالیٰ ، ملائکہ، قیامت اور رسالت نظر نہیں آتی اس لئے اس کے دلائل قرآن کریم نے مہیا کئے ہیں اور وہ دلائل ایسے ہیں کہ انسان کے لئے ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا.مگر کئی لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے آجکل ایمان بالغیب پر لوگ تمسخر اڑاتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں بعض لوگ ان کا تمسخر اُڑاتے ہیں تو کہتے ہیں تم تعلیم یافتہ ہو کر خدا کو مانتے ہو.پھر قیامت اور مرنے کے بعد اعمال کی جزا و سزا پر بھی لوگ تمسخر اُڑاتے ہیں.ملائکہ بھی اللہ کا پیغام اور دین لانے والے ہیں اور یہ سب ابتدائی صداقتیں ہیں مگر لوگ ان سب باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں.یہ سارا ایک ہی سلسلہ ہے اور جس نے اس کی ایک کڑی کو بھی چھوڑ دیا وہ ایمان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے اور یہی تو کل کا مقام ہے.ایک شخص اگر دس سیر آنا کسی غریب کو دیتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر ملے گا تو وہ گویا غیب پر ایمان لاتا ہے.وہ کسی حاضر نتیجہ کے لئے یہ کام نہیں کرتا بلکہ غیب پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ایسا کرتا ہے.بلکہ جو شخص خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا وہ بھی اگر ایسی کوئی نیکی کرتا ہے تو غیب پر ایمان کی وجہ سے
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ہی کر سکتا ہے.فرض کرو کوئی شخص قومی نقطہ نگاہ سے کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو بھی یہی سمجھ کر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت مجھے پر یا میرے خاندان پر زوال آیا تو اسی طرح دوسرے لوگ میری یا میرے خاندان کی مدد کریں گے.تو تمام ترقیات غیب پر مبنی ہیں کیونکہ بڑے کاموں کے نتائج فوراً نہیں نکلتے اور ایسے کام جن کے نتائج نظر نہ آئیں حوصلہ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں.قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے.گویا قرآن کریم نے ابتداء میں ہی ایک بڑی بات اپنے ماننے والوں میں پیدا کر دی.چنانچہ وہ صحابہ جو بدر اور اُحد کی لڑائیوں میں لڑے کیا وہ کسی ایسے نتیجہ کے لئے لڑے تھے جو سامنے نظر آرہا تھا؟ نہیں بلکہ ان کے دلوں میں ایمان بالغیب تھا.بدر کی لڑائی کے موقع پر مکہ کے بعض امراء نے صلح کی کوشش کی مگر بعض ایسے لوگوں نے جنہیں نقصان پہنچا ہوا تھا شور مچا دیا کہ ہر گز صلح نہیں ہونی چاہئے.آخر ایک شخص نے کہا کہ کسی آدمی کو بھیجا جائے جو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ کر کے آئے.چنانچہ ایک آدمی بھیجا گیا اور اُس نے آ کر کہا کہ اے میری قوم! میرا مشورہ یہی ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا تم بتاؤ تو سہی کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور سامان وغیرہ کیسا ہے؟ اُس نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد ۳۱۰ اور ۳۳۰ کے درمیان ہے اور کوئی خاص سامان بھی نہیں.لوگوں نے پوچھا کہ پھر جب یہ حالت ہے تو تم یہ مشورہ کیوں دیتے ہو کہ ان سے لڑائی نہ کی جائے جب ان کی تعداد بھی ہم سے بہت کم ہے اور سامان بھی ان کے پاس بہت کم ہے.اُس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں میں نے جو چہرہ بھی دیکھا میں نے معلوم کیا کہ وہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ خود بھی مر جائے گا اور تم کو بھی مار دے گا.کلے چنانچہ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ ابو جہل میدان میں کھڑا تھا اور عکرمہ اور خالد بن ولید جیسے بہادر نوجوان اُس کے گرد پہرہ دے رہے تھے.حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دونوں طرف پندرہ پندرہ سال کے بچے کھڑے تھے میں نے خیال کیا کہ میں آج کیا جنگ کر سکوں گا جبکہ میرے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے آہستہ سے مجھے کہنی ماری اور پوچھا چا! وہ ابوجہل کون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا ہے میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ آج اُسے ماروں گا.ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح آہستہ سے کہنی ماری اور مجھ سے یہی سوال کیا.میں اس بات سے حیران تو ہوا مگر انگلی کے اشارہ سے بتایا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور کہ ابو جہل وہ ہے جو خود پہنے کھڑا ہے.اور ابھی میں نے اُنگلی کا اشارہ کر کے ہاتھ نیچے ہی کیا تھا کہ وہ دونوں بچے اس طرح اُس پر جا گرے جس طرح چیل اپنے شکار پر جھپٹتی ہے اور تلواریں سونت کر ایسی بے جگری سے اُس پر حملہ آور ہوئے کہ اُس کے محافظ سپاہی ابھی تلوار میں سنبھال بھی نہ ۱۸ سکے تھے کہ انہوں نے ابو جہل کو نیچے گرا دیا.ان میں سے ایک کا باز وکٹ گیا مگر قبل اس کے کہ با قاعدہ جنگ شروع ہوا بو جہل مہلک طور پر زخمی ہو چکا تھا.یہ کیا چیز تھی جس نے ان لوگوں میں اتنی جرات پیدا کر دی تھی ؟ یہ ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر وقت قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے تیار رہتے تھے، اور یہ ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو چکا تھا کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہی ہے اور خواہ کچھ ہو ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر کے رہیں گے.پس مجلس انصار الله ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے.انہیں اللہ تعالیٰ ، ملائکه، قیامت، رسولوں اور اُن شاندار اور عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں ایمان پیدا کرنا چاہئے.انسان کے اندر بُزدلی اور نفاق وغیرہ اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو.اس صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلا گیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتا ہے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کے ایک معنے امن دینا بھی ہے.یعنی جب قوم کا کوئی فرد باہر جاتا ہے تو اس کے دل میں یہ اطمینان ہونا ضروری ہے کہ اُس کے بھائی اُس کے بیوی بچوں کو امن دیں گے.کوئی قوم جہاد نہیں کر سکتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ اُس کے پیچھے رہنے والے بھائی دیانت دار ہیں.پس ان تینوں مجلسوں کا ایک یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے اندر ایسی امن کی روح پیدا کریں.ان تینوں مجالس کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایمان بالغیب ایک شیخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گڑ جائے کہ اُس کا ہر خیال، ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.جو لوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں سے متاثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں وہ ہرگز کوئی کام نہیں کر سکتے.پس مجالس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہر ممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے رہیں.لیکچروں
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ کے ذریعہ، اسباق کے ذریعہ اور بار بار امتحان لے کر ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے یہاں تک کہ ہر مرد وعورت اور ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ایمان بالغیب پیدا ہو جائے.۱۹ دوسرے ضروری چیز نماز پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے قرآن کریم نے يُؤَدُّونَ الصلوة کہیں نہیں فرمایا یا يُصَلُّونَ نہیں کہا بلکہ جب بھی نماز کا حکم دیا ہے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ فرمایا ہے اور اقامت کے معنے باجماعت نماز ادا کرنے کے ہیں اور پھر اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے.گویا صرف نماز کا ادا کرنا کافی نہیں بلکہ نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے اور اس طرح ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص نہ رہے.اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم ہے اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ نماز پڑھنے پر خوش نہ ہو بلکہ نماز قائم کرنے پر خوش ہو.پھر خود ہی نماز قائم کر لینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو اس پر قائم کرنا چاہئے.اپنے بیوی بچوں کو بھی اقامت نماز کا عادی بنانا چاہئے.بعض لوگ خود تو نماز کے پابند ہوتے ہیں مگر بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ اگر دل میں اخلاص ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی بچے کا یا بیوی کا یا بہن بھائی کا نماز چھوڑ نا انسان گوارا کر سکے.ہماری جماعت میں ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں.ان کے لڑکے نے مجھے لکھا کہ میرے والد میرے نام ”الفضل“ جاری نہیں کراتے.میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام ”الفضل“ جاری نہیں کراتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل ہو اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کر سکے.میں نے انہیں لکھا کہ ”الفضل“ پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہ رہے گی لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں ، کتابیں جو وہ پڑھتا ہے وہ اثر نہ ڈالیں، دوست اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیا جائے اور تریاق سے بچایا جائے.تو میں بتا رہا تھا که اقامت نماز ضروری ہے اور اس میں خود نماز پڑھنا، دوسروں کو پڑھوانا ، اخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا، باوضو ہو کر ٹھہر ٹھہر کر با جماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے اس کی طرف ہمارے دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ خود تو نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی اولاد نہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور پڑھتی.اولاد کو نماز کا پابند بنانا بھی اشد ضروری ہے اور نہ پڑھنے پر ان کو سزا دینی چاہئے.ایسی صورت میں بچوں کا خرچ بند کرنے کا تو حق نہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں خرچ تو دیتا رہوں گا مگر تم میرے سامنے نہ آؤ جب تک نماز کے پابند نہ ہو.ہاں اگر کوئی بچہ کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں تو پھر البتہ حق نہیں کہ اُس پر زور دیا جائے لیکن اگر وہ احمدی اور مسلمان ہے تو پھر اسے سزا دینی چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ آج سے تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے جب تک کہ نماز کے پابند نہ ہو جاؤ.تیسری چیز وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ " یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی پہلی چیز جذبات ہیں.بچہ جب ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو محبت اور پیار اور غصہ کو محسوس کرتا ہے، خوش ہوتا اور ناراض ہوتا ہے، پھر پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں دیئے ہیں.پھر بڑا ہونے پر علم ملتا ہے، طاقت ملتی ہے ان سب میں سے تھوڑا تھوڑا خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ ہے.علم ، روپیہ، عقل، جذبات اور اپنی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے یہ مطالبہ ایسا وسیع ہے کہ اس کی تفصیل کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں اور اس پر ہزار صفحہ کی کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.بہت سے ہیں جو تھوڑا بہت صدقہ دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر دیا.حالانکہ یہ بہت وسیع ہے.جہاد کا حکم بھی اسی کا ایک مجزو ہے.بعض امراء صدقہ دے دیتے ہیں، کچھ پیسے خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کر دی حالانکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بہت سی چیزوں میں سے ایک کو خرچ کر دیا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب کچھ جو تمہیں دیا گیا ہے ان سب میں سے کچھ کچھ خرچ کرو.ہماری تائی صاحبہ تھیں اتنی پچاسی سال کی عمر میں سارا سال روئی کو کٹوانا ، پھر اٹیاں بنانا ، پھر جلا ہوں کو دے کر اُس کا کپڑا بنوانا اور پھر رضائیاں اور تو مشکلیں بنوا کر غریبوں میں تقسیم کرنا اُن کا دستور تھا اور اس میں سے بہت سا کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتیں.جب کہا جاتا کہ دوسروں سے کرا لیا کریں تو کہتیں اس طرح مزا نہیں آتا.تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں؟ بعض لوگ چند پیسے کسی غریب کو دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر عمل ہو گیا حالانکہ یہ درست نہیں.جو شخص پیسے تو خرچ کرتا ہے مگر اصلاح وارشاد کے کام میں حصہ نہیں لیتا وہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اس حکم پر عمل کر لیا ہے یا جو یہ کام بھی کرتا ہے
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور مگر ہاتھ پاؤں اور اپنی طاقت کو خرچ نہیں کرتا ، بیواؤں اور یتیموں کی خدمت نہیں کرتا وہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اس پر عمل کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ساری قوتوں کو صرف کرنے کا حکم ہے.جذبات کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنا ضروری ہے مثلاً غصہ چڑھا تو معاف کر دیا.اسی کے ماتحت ہاتھ سے کام کرنا اور محنت کرنا بھی ہے.اور میں خدام الاحمدیہ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدمت خلق کی روح نوجوانوں میں پیدا کریں.شادیوں بیا ہوں اور دیگر تقریبات میں کام کرو، خواہ وہ کسی مذہب کے لوگوں کی ہو.اس کے بعد فرمایا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ اس میں ایمان بِالقرآن کا حکم ہے مگر اس کو صرف ماننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ہر حکم کو اپنے اوپر حاکم بنانا ضروری ہے.سلسلہ میں میں نے احباب کو یہ نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم نے عورتوں کو حصہ دینے کا جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں.اور چند سال ہوئے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے احباب سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر اس کا اقرار کریں اور اکثر نے کیا بھی تھا مگر میرے پاس شکائتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی نہ صرف یہ کہ خود حصہ نہیں دیتے بلکہ دوسروں سے لڑتے ہیں کہ تم بھی کیوں دیتے ہو.مسلمانوں نے جب عورتوں سے یہ سلوک شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے اُن کو عورتیں بنا دیا.انہیں ماتحت کر دیا اور دوسروں کو ان پر حاکم کر دیا انہوں نے عورتوں کو ان کے حق سے محروم کیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین کر انگریزوں کو دے دی.انہوں نے عورتوں کو نیچے گرایا اور خدا تعالیٰ نے ان کو گرا دیا.لیکن اگر تم آج عورتوں کو ان کے حقوق دینے لگ جاؤ اور مظلوموں کے حق قائم کرو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہیں اُٹھا کر اوپر لے جائیں گے.پس عورتوں کے حقوق ان کو ادا کرو اور ان کے حصے ان کو دو مگر اس طرح نہیں جس طرح کا ایک واقعہ میں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے ایک احمدی تھے ان کی دو بیویاں تھیں.قادیان سے ایک دوست ان کے پاس گئے تو ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں.انہوں نے نصیحت کی کہ یہ ٹھیک نہیں.اُس نے کہا کہ میں نے اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ جب ایک غلطی کرے تو اُسے تو اُس کی غلطی کی وجہ سے مارتا ہوں اور دوسری کو ساتھ اِس لئے مارتا ہوں کہ وہ اس پر ہنسے نہیں.جو دوست قادیان سے گئے تھے انہوں نے بہت سمجھایا کہ یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے سخت ناپسند فرماتے ہیں.اُس نے سن کر کہا کہ اچھا
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ پھر تو بہت بڑی غلطی ہوئی اب کیا کروں.کیا معافی مانگوں ؟ انہوں نے کہا ہاں معافی مانگ لو.وہ گھر پہنچے اور بیویوں کو بلا کر کہا کہ مجھ سے تو بڑی غلطی ہوتی رہی جو میں تم کو مارتا رہا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ تو گناہ ہے اور حضرت صاحب اس پر بہت ناراض ہوتے ہیں اس لئے مجھے معافی دے دو.وہ دل میں خوش ہوئیں کہ آج ہمارے حقوق قائم ہونے لگے ہیں.بگڑ کر کہنے لگیں کہ تم مارا ہی کیوں کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ بس غلطی ہو گئی اب معاف کر دو.وہ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو معاف نہیں کریں گی.اِس پر اُس نے کہا کہ سیدھی طرح معافی دیتی ہو یا ” لا ہواں چھل، یعنی کھال اُدھیڑوں.وہ سمجھ گئیں کہ بس اب یہ بگڑ گئے ہیں جھٹ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو یونہی کہہ رہی تھیں آپ کی مار تو ہمارے لئے پھولوں کی طرح ہے.ہندوستان میں عورتوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے.کتے کو اس طرح نہیں مارا جاتا، بیلوں اور جانوروں کو بھی اس طرح نہیں مارا جاتا جس طرح عورتوں کو مارا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ ان کے اس سلوک کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عورتوں کی پوزیشن دے دی ہے.جب عورت کی عزت نہ کی جائے تو اولاد کے دل میں بھی خساست پیدا ہوتی ہے.باپ خواہ سید ہو لیکن اگر اُس کی ماں کی عزت نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو انسان کا بچہ نہیں بلکہ ایک انسان اور حیوان کا بچہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ بُزدل بھی ہو جاتا ہے.پس عورتوں کی عزت قائم کرو اس کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ تمہارے بچے اگر گیدڑ ہیں تو وہ شیر ہو جائیں گے.يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے بعد ایمان وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ " کا حکم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ دوسروں کے بزرگوں کا جائز ادب اور احترام کرو.گویا اس میں صلح کی تعلیم دی گئی ہے پھر اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریق اختیار کرو.آخری چیز یقین بالآخرۃ ہے اس کے معنے دو ہیں ایک تو مرنے کے بعد زندگی کا یقین ہے.بعض دفعہ انسان کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں مگر ایمان بالغیب کی طرف اُس کا ذہن نہیں جاتا اُس وقت اس بات سے ہی اس کی ہمت بندھتی ہے کہ میری اس قربانی کا نتیجہ اگلے جہان میں نکلے گا.پھر اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ انسان ایمان رکھے کہ خدا تعالیٰ مجھ پر بھی اسی طرح کلام نازل کر سکتا ہے جس طرح اُس نے پہلوں پر کیا اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ سے محبت وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میری محبت کا صلہ مجھے ضرور دے سکتا ہے جس کے دل میں یہ ایمان نہ ہو وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور پس یہ چھ کام ہیں جو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہیں.ان کو چاہئے کہ پوری کوشش کر کے جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تا کہ ان کا ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لئے میں نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی ہے.(الفضل ۲۶ اکتو بر۱۹۶۰ء) البقرة : ٢٢ سے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۶ روحانی خزائن جلد ۵ سے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۹۶ روحانی خزائن جلد ۵ المنافقون : ۸ مسلم كتاب البرو الصّلة باب تراحم المؤمنين (الخ) شهادة القرآن صفحه ۸۴ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه۳۸۰ کے ازالہ اوہام صفحہ ۲۷۳ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۳ ۸ النمل : ۳۵ و کریٹ :(CRETE).مشرقی بحیرہ روم میں یونان کا سب سے بڑا جزیرہ.کریٹ کی قدیم منونی (MINOAN) تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے تھی.دوسری عالمی جنگ میں انگریزی فوجیں اپریل ۱۹۴۱ء میں پسپا ہو کر کریٹ میں جمع ہوئیں اور مئی میں جرمنوں کے زبردست ہوائی حملوں سے کچلی گئیں ۱۹۴۴ ء کے آخر میں برطانوی بحری طاقت نے جزیرے کو گھیرے میں لے لیا اور جرمنوں نے چھاپہ مارا اتحادی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۱۹۹.لاہور ۱۹۸۸ ء ) ۱۰ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۲۶.روحانی خزائن جلد ۲۲ الے متی باب ۲۵ آیت ۱ تا ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ۱۲ کنسنٹریشن کیمپ: سیاسی اور جنگی اسیروں کے کیمپ مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالايمان للخائف ١٢ البقرة :٣،٢ ۱۵ تذکرہ صفحہ ۴۵.ایڈیشن چہارم البقرة : ۴ کا سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ بخاری کتاب المغازى باب فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا ٢٠١٩ البقرة : ۴ ٢١ ٢٢ البقرة : ٦
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) سیر روحانی (۳) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمو د احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) بِسْمِ اللهِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ سیر روحانی (۳) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۷ء بر موقع جلسه سالا نہ قادیان) (9).تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- (۱).پہلے تو میں عید کے متعلق دوستوں کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست گل ٹھہریں گے اور ٹھہر سکیں گے اُن کو معلوم ہو کہ گل اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی نو بجے اِس جگہ عید کی نماز ہوگی.عید گاہ تو دوسری جگہ ہے مگر مجھے کہا گیا ہے کہ آج کی تقریر کے بعد لاؤڈ سپیکر کا انتظام وہاں فوراً کیا جانا مشکل ہے اور چونکہ دوست زیادہ ہونگے اور خطبہ کی آواز بغیر لاؤڈ سپیکر کے اُن تک نہیں پہنچ سکے گی اس لئے یہی تجویز کی گئی ہے کہ اسی مقام پر نماز عید ادا ہوا ور چونکہ یہ عید معاً جلسہ کے بعد آ گئی ہے اور وہ دوست جو ملاقاتیں کر کے واپس جانا چاہتے ہیں اُن کی سہولت بھی مد نظر ہے اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ کل عین نو بجے نماز عید شروع ہو جائے اور پھر مختصر سے خطبہ کے ساتھ عید کو ختم کر دیا جائے تا کہ جانے والے اصحاب جنہوں نے ابھی تک ملاقات نہیں کی مل لیں اور گاڑی پر پہنچنے والے گاڑی پر پہنچ سکیں.عام طور پر ہم عید میں آنے والوں کی شستی کو دیکھ کر مقررہ وقت سے گھنٹہ سوا گھنٹہ بڑھا دیا کرتے ہیں تا کہ جو سست ہیں وہ بھی آجائیں مگر گل غالباً مہمانوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں ہوگا اس لئے دوست نو بجے کے معنے نو بجے ہی سمجھیں.(۲).اس کے بعد پیشتر اس کے کہ میں اپنا مضمون شروع کروں گل کے لیکچر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے ایسا معلوم ہوا ہے کہ میری گل کی تقریر کی بعض باتوں سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے چنانچہ بعض دوستوں کی مجھے چٹھیاں آئی ہیں کہ ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق جو اعلان کیا گیا تھا اس سلسلہ میں ہم اپنا نام پیش کرتے ہیں.گویا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) میری گل کی تقریر سے بعض دوستوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کوئی کارروائی میرے مد نظر ہے حالانکہ میں نے وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ یہ معاملہ ابھی میرے زیر تحقیق ہے اور بالکل ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے کو بدلنا پڑے.گو ہمیں شبہات ہیں اور قوی شبہات ہیں مگر انسان صحیح حالات کے معلوم ہونے پر ہر وقت اپنی رائے کو بدل سکتا ہے پس ممکن ہے تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے بدلنی پڑے.یا یہ معاملہ محبت اور پیار سے سلجھ جائے اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ماتحت افسروں کی رپورٹیں تو درست نہ ہوں مگر حکومت پنجاب شریفانہ رویہ اختیار کرے.پھر کسی قوم کے خلاف رائے رکھنے کی محض اس لئے اجازت نہیں ہو سکتی کہ اس قوم کے بعض افراد مخالف ہیں.اگر بالفرض حکومت پنجاب ہمارے خلاف فیصلہ دے دے گی تو حکومت ہند کے پاس جانے کا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے.پس پیشتر اس کے کہ ہم کوئی بُری رائے قائم کریں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم حکومت ہند کو توجہ دلائیں اور اگر حکومت ہند بھی انصاف کی طرف توجہ نہ کرے تو ہمارا فرض ہو گا کہ انگلستان کی حکومت کے سامنے ہم اس معاملہ کو رکھیں.پس اگر میرے الفاظ سے کسی دوست کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ قریب ترین عرصہ میں میں اس کے متعلق کوئی قدم اُٹھانے والا ہوں تو اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اگر میرے کسی لفظ سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہو تو وہ لفظ غلط طور پر میری زبان سے نکلا ہوگا.میں نے جیسا کہ خطبہ میں بھی بیان کیا تھا ہم پوری طرح حکومت کو اصلاح کا موقع دیں گے کیونکہ اسلام کا یہ طریق نہیں کہ بغیر کسی پر مجبت تمام کرنے کے الزام عائد کر دیا جائے.درمیانی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی اصلاح کا انسان کو ہر وقت موقع ہوتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ اس وقت ہمیں حکومت کے بعض افسروں کی جو غلطیاں نظر آتی ہیں ان کی وہ اصلاح کر لیں اس لئے ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ابھی سے ان کے متعلق کوئی بُری رائے قائم کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ وہ ہم سے انصاف نہیں کریں گے اگر ہم ایسا خیال کریں تو یہ ہماری بے انصافی ہوگی.پس دوستوں کو صبر کے ساتھ اُس وقت کا انتظار کرنا چاہئے.جب میں یہ اعلان کروں کہ ہم نے حکومت کے ہر حصہ کو اصلاح کا پورا موقع دے دیا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنی اصلاح نہیں کی اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو تجویز اس ظلم کے ازالہ کے لئے میں کروں اس میں حصہ لینے کے کون کون دوست اہل ہیں.ممکن ہے وہ کوئی ایسی تجویز ہو جس میں سرکاری ملازمین حصہ نہ لے سکتے ہوں.اسی طرح اور کئی تجاویز ہو سکتی ہیں جو میرے ذہن میں تو ہیں مگر میں اُن کو ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر نہیں کرنا چاہتا.پس ابھی دوستوں کو نام پیش
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کرنے کی ضرورت نہیں نام پیش کرنے کا وہی وقت ہوگا جب میں یہ کہوں گا کہ ہم نے گورنمنٹ پر حجت پوری کر دی ہے.مگر ابھی تک تو پنجاب گورنمنٹ پر بھی مُجت پوری نہیں ہوئی کُجا یہ کہ حکومت ہند یا حکومت انگلستان پر حجت ہوئی ہو اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اصل کام وہ ہوتا ہے جو صبر اور شدائد کو برداشت کرنے کے بعد اپنے وقت پر کیا جائے.وہ کام حقیقی کام نہیں کہلا سکتا جو محض جوش کے ماتحت کیا جائے اور جس کے متعلق انسان خیال کرے کہ اگر میں نے اس وقت یہ کام نہ کیا تو میرا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں دو سال صبر کروں گا تو میری غیرت نکل جائے گی وہ کبھی باغیرت مؤمن نہیں کہلا سکتا.باغیرت مؤمن وہی ہے جسے ہیں سال بھی اگر صبر کرنا پڑے تو صبر کرتا چلا جاتا ہے.چنا نچہ دیکھ لوصحابہ کرام نے ا تیرہ سال مکہ میں کفار کے مظالم پر صبر کیا اور ایک دو سال مدینہ میں بھی دشمنوں کے مقابلہ میں صبر سے کام لیتے رہے.گویا چودہ پندرہ سال مسلسل انہوں نے صبر کیا اور اُن کی غیرتیں دبی رہیں.پھر جب خدا نے اُن سے کہا کہ اب تمہاری غیرت کا امتحان لیا جائے گا تو وہ آگے آگئے لیکن اس واقعہ پر تو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں چودہ پندرہ سال تک اپنی غیرت کو دبانے کا سبق سکھایا ہوا ہے.پس دوست اُس وقت تک صبر کریں جب تک گورنمنٹ پر حجت تمام نہ ہو جائے اور جب تک میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہ کروں اور یہ اعلان نہ کروں کہ کس قسم کے لوگوں کو بلاتا ہوں.ممکن ہے میں بغیر کسی شرط کے ہی دوستوں کو بلا لوں.(۳).ایک اور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گل میں نے حکومت انگریزی کی امداد کے متعلق جماعت کو تحریک کی تھی.اسی طرح میں نے موجودہ جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی تھی اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت ملک میں امن کے قیام کے متعلق جو تجاویز عمل میں لائے اُن تجاویز پر عمل کر کے ہماری جماعت کو قیام امن کی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے مگر ایک بات مجھ سے نظر انداز ہوگئی اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت کے علاوہ دو اور حکومتیں بھی ہم سے ایک حد تک حُسنِ سلوک کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے ملک میں ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے.انگریزوں کا بھی ہم سے یہی حسن سلوک ہے ورنہ وہ اور ہمیں کیا دیتے ہیں.آج تک ہم نے انگریزوں سے کوئی مادی فائدہ نہیں اُٹھایا.ہم ان کا یہی احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے.پس ہمارا اقرار احسان اسلامی تبلیغ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.مگر اخبار
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ”زمیندار“ ٹائپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اقرار احسان اُن کے اقرار احسان کی طرح ہوتا ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم انگریزوں کے ممنونِ احسان ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی کرم بخشی کی ہوگی حالانکہ ہم اسلام کے تابع ہیں اور اسلامی تعلیم کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ جب کوئی باپ یا اُستاد یا ملک کا والی اپنے فرائض کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے.پس جب ہم انگریزوں کو محسن کہتے ہیں تو اس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے اس سے زیادہ ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی اور نہ ہم نے ان سے کسی اور حسن سلوک کی کبھی تمنا کی ہے اور نہ انہوں نے ہی کبھی ہم پر کوئی اور احسان کیا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو اور حکومتیں بھی ہیں جن کا اس رنگ میں ہم پر احسان ہے ان میں سے ایک تو امریکہ کی حکومت ہے.وہاں ہزار ہا احمدی پائے جاتے ہیں.گو وہاں بعض روکیں بھی ہیں اور حکومت امریکہ نے اپنے ملک میں داخلہ پر بعض پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں مگر پھر بھی وہاں ہمارا مبلغ موجود ہے اور ہزار ہا احمدی مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں.دوسرا ملک ہالینڈ ہے جہاں سماٹرا اور جاوا میں ہزاروں احمدی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مشرقی ممالک میں ہندوستان کے بعد ہماری سب سے بڑی جماعت جاوا اور سماٹرا میں ہی ہے بیسیوں جماعتیں ہیں جو مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ساری جماعتوں میں تبلیغ ہو رہی ہے مگر گورنمنٹ کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستہ میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہیں ڈالی جاتی.پس جیسے کہ انگریزوں کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ میں آزادی دی ہوئی ہے اسی طرح یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ اور حکومت ہالینڈ کا بھی ہم پر احسان ہے اور یہ دونوں حکومتیں بھی آجکل جنگ میں شامل ہیں.ہم ہندوستان کے رہنے والے ان کی کسی اور طرح تو مدد نہیں کر سکتے ہاں ہم دعا سے مدد ضرور کر سکتے ہیں.پس ہماری جماعت کے تمام دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو ظلموں اور جنگ کی تلخیوں سے محفوظ رکھے.پھر جس وقت میرا یہ خطبہ باہر پہنچے گا ہماری جماعت کے وہ دوست جو جاوا اور سماٹرا اور بور نیو میں رہتے ہیں اسی طرح جو دوست یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں اُن کے کانوں تک بھی یہ آواز پہنچ جائے گی کہ جس حکومت نے انہیں تبلیغ اسلام کی اجازت دے رکھی ہے اس مصیبت کے وقت ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہر طرح تعاون کریں.جنگ کے کاموں میں اسے مدد دیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں تا کہ دنیا میں ہمیشہ ایسے مرکز
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) قائم رہیں جو صداقت کے پھیلنے میں روک نہ ہوں بلکہ اس کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ مدد دینے والے ہوں.پس اِن ملکوں کے جو باشندے ہیں اُن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کی قربانیاں کر کے اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں اور ہندوستان کے رہنے والے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کا خیال کر کے جو جاوا اور سماٹرا اور بورینیو میں رہتے ہیں اور اپنے اُن بھائیوں کا خیال کر کے جو یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب اُن پر حملہ ہو رہا ہے اور جاوا اور سماٹرا اور امریکہ میں تو ہمارے مبلغ بھی موجود ہیں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو، انہیں مشکلات سے بچائے اور اسلام کی تبلیغ کا دروازہ ہمارے لئے ہمیشہ کھلا رہے.(الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۲ء) اس کے بعد سیر روحانی کے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: - (۶) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے.چھٹی بات جو میں نے مذکورہ بالا سفر میں دیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جو بادشا ہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے ، امیروں کے بھی تھے اور فقیروں کے بھی تھے ، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتی کے کتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلوفن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتا تھا.یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیں اور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسند یدہ نظر آتا ہے ، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے ، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں ، سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میں فن کو مد نظر نہیں رکھا.جسمانی مقابر میں تاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فقدان چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیں ان بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کا نشان ان مقبروں میں
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میں کوئی باہمی تو ازن دکھائی دیتا ہے.مثلاً بعض ادنی درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنی مقبروں میں تھے.اسی طرح جو ڈ نیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنی سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظر آیا کہ ان ڈ نیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشاہوں کے، اور سردار تھے وزیروں کے، ان کے مقبرے نہایت ادنی ہیں.پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنی ہیں بلکہ جس صورت میں بھی ہیں وہ اس شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزت حاصل کی.چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پر فرش ہے اور بعض کے ارد گرد سنگ مرمر کے کٹہرے ہیں اور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں.پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنی لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنی.اور پھر روحانی لوگوں کے جو مقبرے ہیں اول تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنیٰ ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے.گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنی تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میں کوئی بھی جوڑا اور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی.پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں.ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ، ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میں کوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی.وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کو مضبوط کیا ، جس نے ہندوستان کو فتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہوا اُس کا مقبرہ تو بہت ادنی ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُس کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے.پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اور نگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں.پھر ان کے مقابلہ میں خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کا کی اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہ ، خواجہ میر درد ، شاہ ولی اللہ اور مرزا مظہر جان جاناں کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ میں نے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہوا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا.کتوں کے مقبرے پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیا میں نظر آتے ہیں کہ اول تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ و اعلیٰ میں کوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے.پھر جب میں نے بعض جگہ گتوں کے مقبرے بھی دیکھے تو میں اور زیادہ حیران ہوا کیونکہ گتوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبروں سے بھی بہت اعلیٰ تھے.میں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہوتا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے ، اس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی.مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیں ہوتی اور بجائے اس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میں مبتلاء کرتے ہیں.مقبروں کی عمارات سے صرف چار امور کا علم پس میں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں:.اوّل: اس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں.دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا.یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا بُرا ، عالم تھا یا جاہل ، البتہ یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا.سوم: مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیر مقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پس ماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کا مقبرہ بنانا جائز تھا یا نہیں.چہارم : ان مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے لُوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے.چنانچہ کئی مقبرے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ہے کہ سنگ مرمر بعد میں لوگ کوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں.پس چوتھی بات ان مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں.غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان سے ظاہر ہوتی ہیں.پس میں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا.ان سے تو شاہجہان، اکبر اور اور نگ زیب سے بڑا شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عمادالد ولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں.آثار قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ میں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثار قدیمہ سے تاریخ مرتب کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوں لکھیں گے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اتر کر اکبر بادشاہ تھا.اکبر بادشاہ سے اتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا) پھر ہمایوں بادشاہ ہوا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے.اس کے بعد بعض گتے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے ، ان کے علاوہ ہندوستان کے اندر بعض ادنی درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب.پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی باللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، مرزا مظہر جان جاناں صاحب اور خواجہ میر درد صاحب.اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا ھبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اول درجہ کی جھوٹی اور مفتریات سے پُر کتاب ہوگی.وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عظمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا ، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میں قائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کا گی ، حضرت خواجہ فرید الدین صاحب شکر گنج ” ، حضرت
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ شاہ محمد غوث صاحب ، حضرت سید علی ہجویری صاحب ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، حضر شاہ ولی اللہ صاحب ، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت مظہر جان جاناں صاحب ، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے اکبر، ہمایوں ، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں ، تغلقوں، لودھیوں ، مغلوں اور سُوریوں کے ہوتے اور کتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میں ہونے کے میلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں.ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر میں نے سُنا ہے کہ لکھنو میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں.کسی نواب کا بٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہنا شروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللهِ اس بٹیرے کا کیا کہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکر الہی میں مشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا ، آخر اس کا مقبرہ بنا دیا جاتا.اُن لوگوں کا تصور جن کی قبریں اکھیڑ دی گئیں پھر میں نے سوچا ہے تو مقبرہ والوں سے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں ! لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں اُن کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر اُن کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہونا چاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا.پھر جب میں نے دلی میں پرانی آبادیوں کو گھرتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں.ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھود کر وہاں سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں.پس میں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق.اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیں کھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا.پھر میں نے خیال کیا کہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سو سال تو انہیں قبروں میں سونے کا موقع مل گیا، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دیئے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں.پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیں یا گتوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں.میں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس ! انہیں تو قبر بھی
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ نصیب نہ ہوئی.پھر مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے.مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کر مر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں.چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی ، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں.پھر مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو کھڑ وں میں گر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں.دنیا میں عجیب اندھیر پھر میری توجہ ان لوگوں کی طرف پھری جن کو جنگلوں میں شیر اور بھیڑ یئے کھا جاتے ہیں اور میں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ :- اول: مقبرے بے انصافی سے بنے.دوم قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا.سوم بعض کو خود اُن کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیا یا پرندوں کو کھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں ، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میں پہنچا دیا.پس میں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کا نشان قائم رکھا جائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دارا میر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے اور باقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے.پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جو قبروں میں مدفون ہوئے تھے اُن کے مقبرے اور اُن کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریں محفوظ رہیں.پس میں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے اور مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اُسے واقعہ میں نہایت اچھا خیال سوجھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کر تسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کا موجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو.ایک اور مقبرہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں جو مقبرہ میں ہونی چاہئیں، چنانچہ اس میں لکھا تھا خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَہ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشو و نما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قو تیں پیدا کر دیں، اُسے دماغ دیا ، دماغ کے اندر سیلز (CELLS) بنائے اور ہر سیل (CELL) کے اندر بات کو محفوظ رکھنے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ کی طاقت پیدا کی.اسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے.کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے ، کچھ جرات اور دلیری کے لئے مخصوص کئے ، پھر ہاتھوں اور پیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں.معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے.ہڈیوں کو طاقت دی، قوالی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قوای کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اُس کے مناسب حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے.عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معین حلقہ میں کام کرتی ہے جس معتین حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایا جیسے پتھر وغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے.ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قو تیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے.آخر جب خدا نے ہر انسان میں سوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قرب حاصل ہو سکے.پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دے دی ہے تو اس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا.چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں.پھر کام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بڑے ہوتے ہیں.پھر آپس کے مقابلوں میں سے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیں اور انسان اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہرانسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری.اسلام کی مطابق فطرت تعلیم ہیں چونکہ ہرانسن کے اندراللہ تعالینے کی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابق فطرت تعلیم دی ہے.ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے.اب یہ تعلیم بظاہر بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا.مصر کا ایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریر میں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا.ایک پرانی طرز کا مسلمان وہاں سے جب بھی گزرتا ، دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اُس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا مگر وہ اِس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اُس کی علمی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا.ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میں جوش پیدا کر دیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ دے مارا.پادری نے سمجھا کہ اگر میں نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اور زیادہ دلیر ہو جائے گا چنانچہ اُس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھا یا.مصری کہنے لگا میں نے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھا دو.تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے.میں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابل عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو.پادری اُس وقت جوش کی حالت میں تھا اُس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اس وقت تو میں تمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے.تو ہماری شریعت میں کوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو.وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشر طیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اُس کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اُس کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اُس سے انتقام بھی لے سکتے ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ انسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے ، لیکن دوسری شریعتوں کا یہ حال نہیں.انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، فرانسیسی اس کے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.ثُمَّ أَمَانَهُ فَاقْبَرَہ.پھر ہماری غرض چونکہ اس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اس پر عمل کریں اور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہر میں اس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اُسے قبر میں ڈال دیتے ہیں.ہر انسان کو خدا تعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میں مادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے.اس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے ، گڑھا کھودنے ، میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میں ڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے.اس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہوا کہ اس میں سب انسانوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے.یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے.اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی ، اکبر کے بچہ کی کھلائی کا بھی ، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے چوہڑے کا بھی کیونکہ انہوں نے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی.پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کا مقبرہ موجود ہے.نیز میں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جلا دیتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جن کو شیر کھا جاتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جو سمندر میں ڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جو مکانوں میں جل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جن کی قبروں کو لوگوں نے اُکھیڑ کر پھینک دیا اُن کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اس مقبرہ کو تو چھو بھی نہیں سکے.غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا ا گیا ہو، چیلوں اور گتوں نے اُسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میں چلا گیا ہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے لقمہ بنالیا ہو، کھڈوں میں گر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ کھا گئے ہوں ، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا ، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا.میں نے جب اس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادث زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں.ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس آیت میں قبر کا لفظ جو آتا ہے اس سے مراد وہ مقام ہے جس میں بلکہ عالم برزخ کی قبر میں ملاتا ہے مرنے کے بعد ارواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی روح ہو یا کافر کی ، سب کی روحیں اس مقام پر رکھی جاتی ہیں اور در حقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے.وہ جو حد یثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میں اُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی گھلی ہے یا نہیں ؟ مگر جب انہوں نے قبر کو کھولا تو انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دیئے.در حقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میں ثواب و عذاب ہو تو وہ پارسی جو اپنے مُردے چیلوں کو کھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں اُن کو تو قبر کا عذاب یا ثواب ملے ہی نہ.کیونکہ اُن کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے مگر یہ بات غلط ہے.اور حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے ہیں ہیں مُردوں کو دفن کر دیا جاتا ہے اور ہر شہر میں یہ نظارہ نظر آتا ہے.ایک قبر بنائی جاتی ہے مگر پندرہ بیس سال کے بعد اُس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اُس جگہ اور قبر بن جاتی ہے.لاہور کا قبرستان پانچ سو سال سے چلا آ رہا ہے، اس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس ہیں آدمی دفن ہو ہو نگے.ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہوا اور کوئی اونی قسم کا دوزخی ہوگا، کوئی اعلیٰ جنتی ہو گا اور کوئی ادنی جنتی ہو گا.اگر دوزخ اور جنت کی کھڑ کی اسی قبر میں کھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اُس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اُس میں دفن ہو جائے.ایسی صورت میں لازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب وعذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیا ر کر لیں گے.پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) یا عذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبر ہی ہے.وہ قبر وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذَلِكَ بِاَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَانَّهُ يُحْيِ الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں وَانَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِى الْقُبُورِ.اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کر دیگا.اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے.ہند و جو اپنے مُردے جلا دیتے ہیں ، پارسی جو اپنے مُردے چیلوں کو کھلا دیتے ہیں اور عیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مردوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے.عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں.پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سوا اور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُورِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میں نہیں پائی جاتی.اس صورت میں مسلمان اور یہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چھوٹ جائیں گے.پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اُس کی بنائی ہوئی ہیں سب مردوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میں دفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیں اور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں.پس أَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے ، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے.اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں ،خواہ انہیں پرندے کھا جائیں، خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبر اصل میں وہ مقام ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے ، خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے.ایک اعتراض اور اُس کا جواب اس مقام پر کوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تو اسے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ کے الفاظ استعمال کر دیئے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقعی پر دلالت کرتا ہے.اس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میں ڈوبنے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کو جلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ؟ مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے.پھر اس کو بھی جانے دو کیا مکہ میں کبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا مکہ کے ارد گرد جو کچھ فاصلہ پر جنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑیئے مشہور نہیں تھے ؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے یا نہیں؟ اور آپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میں دفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑیئے کھا جائیں؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جو سمندر میں ڈوب مریں ؟ پھر اس کو بھی جانے دوعرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چیلوں یا گتوں کو کھلا دیا کرتے تھے.یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میں سے بعض مسلمان بھی ہوئے آپ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قو میں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں.پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع و مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے ، آپ نے ان کی اچھی باتیں اپنی کتاب میں درج کر لیں حتی کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپ نے فلاں فلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو یہ
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ علم تک نہیں تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے، جو بقول معترضین کے ژوند اوستا، تو راة ، انجیل اور ویدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اس امر سے ناواقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُر دے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو کھلا دیتے ہیں.الہی مغفرت کا ایک ایمان افروز واقعہ پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کا ذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلًا حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَلَمَّا يَئِسَ مِنَ الْحَيَوةِ أَوْصَى أَهْلَهُ إِذَا آنَامِتُ فَاجْمَعُوْا لِي حَطَبًا كَثِيرًا وَاَوْقِدُوْا فِيْهِ نَارًا حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِنُ وَخَلَصَتْ إِلَى عِظَامِي فَامْتَحَشَتْ فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا ثُمَّ انْظُرُوا يَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوهُ فِي الْيَمِّ فَفَعَلُوا فَجَمَعَهُ اللهُ فَقَالَ لَهُ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَغَفَرَ اللهُ لَهُ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جاؤں تو لکڑیاں جمع کر کے اُن کو آگ لگانا اور پھر اُس آگ میں مجھے ڈال دینا یہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں گل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں اُن کو خوب پینا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری ان پسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہا دینا.انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیا اور اُس سے پوچھا کہ تُو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اُس نے جواب دیا کہ خدایا! میں سخت گنہگار تھا اور میں ڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تو مجھے ضرور سزا دے گا.اللہ تعالیٰ نے کہا جب تو مجھ سے اس قدر ڈرتا تھا تو جا میں نے تجھے معاف کر دیا.اب دیکھو اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں، کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میں جلایا گیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیا اور اُسے زندہ کر کے اُس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا.پس در حقیقت وہ مَنُ فِى الْقُبُورِ میں ہی شامل تھا اور
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ گو وہ جلا کر ہوا میں اُڑا دیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میں اُسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے.غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیں ہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں.پس با وجودلوگوں کے ڈوبنے ، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مراد وہی مقام ہے جس میں سب ارواح رکھی جاتی ہیں نہ که مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں.غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں، وہ اُس کی ہڈیاں پیس دیں، وہ اُسے چیلوں اور کتوں کے آگے ڈال دیں اور اُس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اُس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اُسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے چیلوں اور گدھوں کو کھلا دیتے ہیں ، مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی ارواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے.ہر شخص کا روحانی مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو گا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہوگا ہے کہ کیا ہر ایک کا مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کا مقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو؟ دنیا میں بڑے بڑے فریبی اور دغا باز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دعا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پرہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہا اور کسی کو یہ احساس تک نہ ہوا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے.اسی طرح برشن ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا.اب فرض کرو وہ شخص اُسی جگہ مر جاتا تو لوگ اُس کا مقبرہ بنا دیتے اور اُس پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہو گئے حالانکہ وہ منافق تھا.اسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ ہیں جو دوسرے مذہب میں شامل ہو جاتے ہیں مگر در حقیقت وہ شامل نہیں ہوتے.قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے اوپر سے تو ظاہر کرے مگر دل میں اس کے کچھ اور ہو.اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کر رڈ کیا ہے کہ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ.وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کا نام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جا تا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں.حضرت حذیفہ ایک صحابی تھے انہیں اس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ہم میں منافق کون کون ہیں؟ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ يَارَسُولَ اللهِ ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دیئے.رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حدیفہ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہ نہیں جاتے تھے اُس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہوگا تبھی حذیفہ اُس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے.اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں.ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گا مگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہوگا.عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کا سردار تھا اسے تو خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اس پر شاہد ہے.ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میں ان کا نام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد ہوں.آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کون کون منافق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں.بڑے لوگوں میں سے نہیں بلکہ ادنی درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیں آتے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض منافق ہوں.اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ مقربانِ بارگاه صمدی ، مگر واقعہ یہ ہو کہ وہ راندہ درگاہ ہوں نہ کہ خدا کے مقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے.اس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوں مخلصوں ، اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ کو منافق کہنے پر اعتراض ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی جماعت کو مخلص اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۵ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ ابتدائی زمانہ اسلام میں تلے تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نا کام اور نامراد قرار دیتے ہیں.نَعُوذُ بِاللهِ من ذلك - حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوت قدسیہ کو کامیاب و بامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں.وَ الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ و کاموں کی اہمیت کا صحیح اندازہ لگانے میں مشکلات دوسری مشکل ہمیں یہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت کے، کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیا میں نہیں لگایا جا سکتا.بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں.بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں کئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں.پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق و عادات پر نہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس میں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا.بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہر شخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی.چھوٹے بڑے عمل کو محفوظ رکھا جاتا ہے روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر جب میں نے اس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے دکھائی دیا کہ قرآن کریم نے اس مشکل کا حل کیا ہوا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں ہر شخص کا چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْكِتَبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّافِيهِ وَيَقُولُونَ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) يوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًال یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ الكتب اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اور جب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آگئے ہیں تو تو مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیں گے او ہو! جو اعمال ہم نے چھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت ! تو کیسی میٹھی چیز ہے، تو کیسی اچھی چیز ہے، تو آتا کہ ہم مر جائیں اور اس ذلت اور رسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں.پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے ، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے ، خواہ دوستوں میں کیا جائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے ، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی.گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہوگی ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہوگی اور دوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے جو کیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی.اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حجت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنا مہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوں یا بڑے، اس مقبرہ میں محفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیں مگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کا مقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اس کا یہ جواب ملتا ہے وَاِنَّ كُلَّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ کسی شخص کو بھی اُس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اُس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے.بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پر ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامت اعمال کا نتیجہ ہے اور وپر اس طرح وہ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا انہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اُس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لگا ہر گز نہیں، ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے.اما کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہو ا.اس آیت میں لَمَّا کا فعل حذف ہے جو يُوَفَّوْا أَعْمَالَهُمْ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا.پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کو اگر تو بہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوں گے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا.اسی طرح سورۃ نبأ میں فرماتا ہے کہ جَزَاءً مِنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا قیامت کے دن جو بدلہ ملے گا وہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہو گا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہوگا اور جو شخص جس درجہ کا ہوگا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اول کو دوم اور دوم کو اول کر دیا جائے گا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) عَطَاءً حِسَاباً اور يُرْزَقُوْنَ فِيهَا اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں اس بارہ میں دو قسم کی آیات آتی ہیں بِغَيْرِ حِسَابٍ میں کوئی اختلاف نہیں ایک قسم کی تو وہ آیات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں مگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ مؤمنوں کو بغیر حساب رزق دیا جائے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا.اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَاءً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا.اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُوْرًات کافروں کو مؤفُور یعنی کثرت والا عذاب ملے گا.اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیں حساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میں یہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا.اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مد نظر رکھ کر سزا دے گا مگر اس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہوگا، مگر در حقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں.اصل بات یہ ہے کہ موفُور کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہوا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہوگا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کر لیتا ہے مگر اس کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا.دوسرے موفُور کے معنے پورے کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا.یہ تو مَوْفُور کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کو زائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں بغیر حساب زیادہ ملے گا اور ان کے محدود اعمال کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہوگا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اول سے نہ بڑھ جائے اور جب ہر ایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر ٢ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا.خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر.اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبر کے مقابل پر.یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اول والا دوم نہیں ہو گا اور دوم اول نہیں ہوگا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو، دوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہوا اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو.اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دید یا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقعہ نہیں ہوگا درجہ اول والا پھر بھی درجہ اول میں ہی شمار ہو گا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اور سوم درجوں میں ہی شمار ہوں گے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاں یہ فرمایا کہ بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزا ئیں بہت زیادہ ہونگی.پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا.یہ نہیں ہو گا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کا مقبرہ دوسرے درجہ پر ، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کو اور اونچا کرو تا کہ تفاوت مراتب قائم رہے.غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہو گی اور عَطَاءً حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر تو ڑ کر نچلے درجہ والے کو اوپر نہیں لے جایا جائے گا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) مرنیوالوں کا صیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے خلاصہ یہ کہ اس انتظام میں ہر ایک کا مقبرہ ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے اس میں صرف نام یا طہرتِ ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں.دنیا میں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلاؤ زردہ پکتا ہے.ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر گھنے نہیں دیتے اور دوسرے کے پاس اپنا سر چھپانے کے لئے جھونپڑی بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے.اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہواُس کی عمارت زیادہ شاندار ہو، جو اُس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعمال کیسے ہیں.مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ گھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آ جائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہوئی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کتے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہوتا.انگریزوں نے کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام آثار قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پرانے آثار کو کسی قدر محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گنتے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں.مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاں ہر شخص قابل عزت ہوتا ہے ، اُس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولئِكَ فِي جَنَّتِ مُكْرَمُونَ " جو نیک لوگ ہو نگے انہیں جنت میں جگہ دی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا، کوئی ان پر الزام نہیں لگا سکے گا، کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو رگرا نہیں سکے گا.نا پاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کرسکیں گے اس کے مقابلہ میں جو کافر ہیں ان کے متعلق فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوْالَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَا اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ " جو کا فر ہیں ان کے اموال خد تعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے.دنیا کے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے.ایک انسان گندہ ہوتا ہے ، فریبی اور مکار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا باپ خبیث تھا اُس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالوں کو لو ٹا مگر محض اس وجہ سے کہ رو پیدان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے پالکل غلط ہوتی ہے.چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں.ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دیئے ،لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں.دنیا میں تو غیر مستحق لوگوں کی اولاد یا مالی وسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْالَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میں اس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے.پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کا مقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آسکتی وَ أُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے.نوح کا مقبرہ پھر میں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) اندازہ لگا سکیں.یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے.جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ میں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْأَ خِرِينَ - سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَلَمِينَ - إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزت سے رکھا ہوا ہے.اور چونکہ جنت کے مقبرے میں سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرونوح عَلَيْهِ السَّلَامُ اور اس کے مقام کو یا درکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اُس کا نام لو اُس کے ساتھ عَلَيْهِ السَّلَامُ “ کا اضافہ کر لیا کرو.فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی تو ڑ نہیں سکے گا.لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص تو ڑ نہیں سکتا چنانچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود اِن کو بھول چکے ہیں ، عیسائی ان کو بُھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں عَلَيْهِ السَّلَامُ.الیاس کا مقبرہ اسی طرح حضرت الیاس کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَى إِلْيَاسِيْنَ - إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میں سے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اس جہان میں بھی ، تاکہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں.پھر فرماتا ہے سَلَامٌ عَلَى الْيَاسِینَ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہو ا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاس عَلَيْهِ السَّلَامُ.اس جگہ الْيَا سِینَ کے بارے میں لوگوں کو تر ڈر ہوا ہے، لیکن یہ تردد نہیں بلکہ ایک زبر دست پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ مقدر تھا.پہلا خود الیاس کے وجود میں دوسرا بیٹی کے ذریعہ سے اور تیسرا پھر ایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے.اس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میں ہوگا کیونکہ اگر پہلے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو بیٹی کے رنگ میں ظاہر ہو چکا تھا پھر آسمان پر سے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی.پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا صحیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اسی دنیا سے پیدا ہوگا تبھی اس کے لئے ایک اور الیاس پیدا کیا جائے گا تا کہ اس کے راستہ کو صاف کرے.اس تیسرے الیاس کا سلام گو ابھی دنیا میں قائم نہیں ہو ا مگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہو گا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے.غیر نبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت علی کے نام کے ساتھ عَلَيْهِ السَّلَامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَيْهِ السَّلَامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے کہ پہلے دوالیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَيْهِ السَّلَامُ کہا جائے گا.مریم اور مسیح کا مقبرہ پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایاؤ الَّتی أحْصَنَتْ فَرُجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُّوحِنَا وَجَعَلْنَهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَلَمِینَ ۱۵ اس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قومی کو خدا کے لئے وقف کر دیا ہم نے اس میں اپنی رُوح پھونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یادگار بنادیا.یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰ عَلَيْهِ السَّلَامُ اور حضرت مریم صدیقہ عَلَيْهَا السَّلَامُ ہی کہا جاتا ہے.حضرت ابراہیم کا مقبرہ اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَيْهِ السَّلَامُ کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَبَ وَآتَيْنَهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ ابراہیم بھی ہمارے مخصوص لوگوں میں سے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہوا.ایک اس طرح کہ جب بھی ابرا ہیم کا نام لیا جائے گا لوگ عَلَيْهِ السَّلَامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذریت جسمانی ہو خواہ روحانی.اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی ، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اللهُمَّ صَلِّ
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَاصَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَيْهِ السَّلَامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے.مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے پھر فرماتا ہے وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْسَهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ وَوَهَبْنَالَةَ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحاً هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَأَيُّوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَهَرُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَالْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّلِحِيْنَ وَإِسْمَعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوْطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِيْنَ ۖ وَ مِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَهَدَيْنَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ اَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ.أُولئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَاِنْ يَّكْفُرُبِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَّيْسُوا بِهَا بِكَفِرِينَ - أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهدَ هُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَلَمِينَ كل یہاں خدا تعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دیئے ہیں جن کی یاد کو اُس نے قائم کیا ہے فرماتا ہے یہ وہ حجت ہے جو ہم نے ابراہیم کو اُس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی.ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں یقیناً تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے.اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دیئے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوح کو بھی ہدایت دی.اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزاء دیا کرتے ہیں.اسی طرح زکریا اور بیٹی اور الیاس سب نیک لوگوں میں سے تھے.اور اسماعیل اور البیع اور یونس اور لوط سب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی.اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذریت اور ان کے بھائیوں میں سے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراط مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی.یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب دی، حکمت دی اور نبوت دی.اگر مشرک لوگ آجکل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیں تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تُو ان کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے.تو کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہوگی جو موسیٰ کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسی کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو ابراہیم کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو د اور اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور زکریا اور بیٹی اور الیاس اور اسماعیل اور الیسع اور دوسرے نبیوں کو لى (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ كُلِّهِمْ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا.سردار انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے اب سب سے آخر سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا مقبرہ کس طرح بنا.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ ✓ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْاعَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا فرماتا ہے لوگوں کے دو مقبرے ہوتے ہیں ایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ،مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیں ایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اس دنیا میں.چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - عرش پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اس پر ہماری رحمتیں نازل کرو، ہماری رحمتیں نازل کرو، اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تَسْلِيمًا.اے مومنو! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو.صلی اللہ علیہ وسلم.صلی اللہ علیہ وسلم.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) انبیائے سابقین کے متبعین اور رسول اللہ اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالی نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے اتباع میں سے بھی بعض بڑے ایک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کا ذکر کیا وہاں یہ بھی فرمایا وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذریت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ و فرما یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میں آئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے.پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاح حالات کے بھی ہوتے ہیں " اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بنا تا جا اور اسی طرح اُن لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے.گویا نہ صرف خدا تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میں زیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاح حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہوتا جاتا ہے.پھر فرماتا ہے یہ شیعوں کا صحابہ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے بھی دعا کیا کرو کی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ہمارے دل میں ان کے متعلق کوئی بغض پیدا نہ ہو، اس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لئے دعائیں کرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.اب تھوڑے دنوں تک محترم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرا کیا جاتا اور ابو بکر، عمر اور عثمان کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو اور نہ صرف بغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے.ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنی بزرگ گئے اور اُس سے امداد کے طالب ہوئے.وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ اُن کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیں خیال آیا کہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور اس سے کچھ مانگ لاؤں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ کتنی.جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہوا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے.یہ سنی بزرگ وہیں کھڑے رہے.آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہوگئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کر دو.وزیر نے کہا میں دے تو دوں مگر یہ شخص شکل سے سنی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہوا؟ وہ کہنے لگا بس شکل سے میں نے پہچان لیا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا تو اس کا امتحان کر لو.چنانچہ وزیر نے حضرت علی کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی، وہ سنی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور ! حضرت علی کی شان میں کیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی.آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا.بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے.وزیر کہنے لگا ابھی نہیں میں بعض اور باتیں بھی دریافت کرلوں.چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں ، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے.
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ بادشاہ نے کہا بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنی نہیں بلکہ شیعہ ہے.وزیر کہنے لگا ابھی نہیں تبرا دیگر دیکھیں.اگر یہ تبرے میں شامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہو ا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنی ہے.چنانچہ بادشاہ نے کہا بر ہر سہ لعنت.یعنی نَعُوذُ بِاللهِ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر لعنت.وزیر نے بھی کہا ہر ہر سہ لعنت.وہ بزرگ سنی بھی بول اُٹھے کہ بر ہر سہ لعنت.بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے.وزیر نے کہا حضور! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے.وہ کہنے لگا اچھا من تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو؟ وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں ؟ وہ کہنے لگا نہیں میں تو سنی ہوں.وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آ گئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ بر ہر سہ لعنت تو آپ نے بھی بر ہر سہ لعنت کہا ، اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی.وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا ہر ہرسہ لعنت ، تو آپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابو بکر، عمر اور عثمان پر لعنت ہو مگر جب میں نے ہر ہر سہ لعنت کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی لعنت اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں.غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں نا پسندیدہ اور مذکورہ بالا آیت قرآنی کے خلاف ہے حضرت علی کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمُ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے جو پاک بندے گزر چکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دُعاؤں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میں ان کے متعلق بغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بغض پیدا ہوا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا مقبرہ بنا دیا.روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھار کھنے کا انتظام پھر میں نے سوچا کہ دنیوی مقابر والوں نے تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میں دفن ہوں.کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے؟ تو میں نے دیکھا کہ دنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کو دفن کیا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اُس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہوا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ با ہمی بغض وعداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جاسکتے ہیں.جیسے شاہجہان کو نور جہاں سے بغض تھا اس وجہ سے اُس نے جہانگیر کے پاس اُسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا.اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے نے ادنی مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اس وجہ سے بھی بڑا اُس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابر ، ہمایوں ، اکبر اور جہانگیر کو لا کر دفن نہیں کیا گیا.یہ نہیں ہوا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا.پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اورنگ زیب حیدرآباد میں فوت ہوا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا.حیدرآباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میں دقت تھی اس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی.اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا.بعض دفعہ بغض و عناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی ، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں.پس میں نے سوچا کہ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار ا کٹھے رہیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو.چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جَنَّتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلَّ بَابٍ.سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ فرمایا وہ جو اگلے جہان کا مقبرہ ہے اُس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا انعام پائے گا، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہوا یسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں.اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تو وہ اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا.ایک دن وہ امراء ورؤساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا، گر سیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُس کا باپ ملنے کے لئے آ گیا.اُس نے ایک میلی کچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی ، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کرسی پر بیٹھ ت گیا.اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جوائی، اے سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دے گا ، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے پہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں.اس پر باپ کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا میں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں.اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں.تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سَلَامٌ عَلَيْكَ نہ کہنا بلکہ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَلَامٌ عَلَيْكُمْ کہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا.جماعت کو نصیحت یہ وہ مقبرے ہیں جو میں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے ، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھا.میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمود و نمائش پر اپنا روپیہ بر باد نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ السَّلَامُ کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کی قبروں میں سادگی مد نظر رکھنی چاہئے اور بلا ضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد ان قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے کہ بعد میں آنے والے ان قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کا کسی کو نشان تک بھی نہ ملے.لیکن خدا تعالیٰ کے ہاں جو مقبرہ بنتا ہے اُسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا.پس اپنی قبریں اُسی جگہ بناؤ جہاں خدا تعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بناؤ.اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دیئے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کر ہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہوسکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خدا تمہیں ضائع کر دے گا.جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو گا کہ کب اس کی روح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لوں.اسی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہو گا کہ وہ جل کر فنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہوگا اور خدا کے فرشتے اس کی عزت کر رہے ہو نگے.پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بناؤ.اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میں بناؤ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح" بھی ہیں، جہاں ابراہیم بھی ہیں، جہاں موسی" بھی ہیں ، جہاں عیسی" بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں.اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں.پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُس کے رسولوں کا قرب حاصل ہو.(۷).مینا بازار ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متاثر ہوا وہ مینا بازار تھے.چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں.یہ بازار شاہانہ کرو فر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود اِن بازاروں میں آکر چیزیں خریدا کرتے تھے.آجکل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لاہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دُکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے.لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلے کی نمائش ہوئی تھی.اسی موقع پر ایک مذہبی کا نفرنس بھی ہوئی جس میں میں نے مضمون پڑھا تھا.اُس وقت میں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھند الانقش میرے دماغ پر رہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متاثر نہ ہوا تھا.پرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگا یا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہوا کرتی تھیں.میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزرا ء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں پکتی ہوں گی.مینا بازار میں فروخت ہو نیوالی اشیاء پھر میں نے اپنے ذہن میں سوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی ؟ اور اس سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ :- اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہونگے.دوم: وہاں عمدہ سے عمدہ سواریاں پکتی ہوں گی.سوم: میں نے اپنے دل میں سوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی.کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بید مشک کا شربت فروخت کرتا ہوگا ، کوئی تازہ دودھ فروخت کرتا ہوگا ، کوئی شہد فروخت کرتا ہو گا ، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہوگا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہو گا.چہارم: پھر کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور، کیلے، انار اور رنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے.کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے.ششم: کہیں زینت کے سامان آئینے کنگھیاں ، ربن اور پاؤڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے.ہفتم: کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہوگا.ہشتم: بعض ایسی دکانیں ہوں گی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) نهم : کسی دُکان پر نہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے.دھم کسی دکان پر جنگ کے سامان یعنی تلواریں اور طپنچے وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے.یازدهم: کسی دُکان پر گھروں کا سامان قالین ، سیکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے.ایک اور روحانی بازار میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی.مگر جب میں اس قلعہ پر تھا تو میں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں ؟ تو میں نے دیکھا ایک اور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں.مگر میں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دُکاندار ہوتے ہیں.کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور سیکیے وغیرہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پر لباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خرید لیتا ہے.مگر اس بازار کا میں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ ان دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دے دیتا تھا.میں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دُکانیں ہوں تو سو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں پکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گا ہک تھا کہ فروخت کر نیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو، چنانچہ اس بازار کا یہ نقشہ میں نے قرآن کریم میں دیکھا.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقَّافِى التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآن وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۲۳ فرماتا ہے مینا بازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ و پیراستہ ہو گیا تم سب آ جاؤ مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آ جاؤ ، بادشاہ خود خریدار بن کر آیا ہے اور اُس
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) نے تمہارے مال یعنی اموال مادی اور جانیں دونوں تم سے خرید لیں.وہ مال ادنی تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر ،تھوڑا تھا یا بہت ، سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوں کے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی.گویا سارا مینا بازار اُن کو بخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالا مال کر دیا.اتنی بڑی قیمت ہم اس لئے ادا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں.پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے نکل نہیں برتے ، ہم بڑے مالدار ہو کر کیوں نخل سے کام لیں.پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پرانا ہے.یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہو سکتا ہے.پس اے لوگو! آج جو سودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جاؤ اور یقیناً ایسا ہی سودا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروں میں ہو ا کرتی تھیں اور اس طرح ایک ہی سو دے میں سب سو دے ہو جاتے ہیں.دنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق پھر میں نے پھر میں نے جب اس بازار کو دیکھا تو میں نے کہا ایک اور فرق بھی اِس مینا بازار اور دنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں ، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے.اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ ایک سو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خریدنے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی.یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت میں ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزار روپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سو روپیہ میں دے دی، بدر دین آ گیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی شمس الدین پہنچا تو اسے ایک پیسے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ میں دے دی اور علاؤ الدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی.یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں میں نظر نہیں آتا ، مگر اس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے.ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے.اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ.اُسے کہا جاتا ہے اچھا لاؤ اپنی جان اور ایک کروڑ رو پیدا اور لے لو جنت.پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے.اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ.اُسے کہا جاتا ہے اچھا لا ؤ اپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت.اُسی وقت ایک تیسرا شخص آ جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سو روپیہ لاؤ اور جنت لے لو یہ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے صرف مٹھی جو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے.اسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سودا منظور لاؤ جان اور سکھی بھر دانے اور لے لو جنت.۲۴ بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشم حیرت کھلی کی کھلی رہ گئی.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے ، آپ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں.آپ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کر دو.وہ کہنے لگا يَارَسُولَ اللہ ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دو.کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہوا ، غریبوں کو کہاں سے کھلاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ لاؤ دوٹو کرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جاؤ اور غریبوں کو کھلا دو.وہ کہنے لگا يَارَسُوْلَ اللهِ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جاؤ اور تم ہی یہ کھجور میں کھا لو ، ۲۵ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو.جس کے پاس کروڑ روپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہوتا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اس مال سے تم سودا
انوار العلوم جلد ۱۶ کر لو تم کو جنت مل جائے گی.سیر روحانی (۳) روحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالاسلوک پھر میں نے ایک اور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ گاہک آئے ، انہوں نے چیزیں خریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دُکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے.مگر اس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جا تا گویا وہی یوسف والا معاملہ ہے کہ غلہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دیئے.اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور ادھر چپ کر کے کھسک جاتا ہے، دُکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ بُھول گیا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں ، مگر وہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتا رکھو اور مناسب طور پر اس میں سے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا.گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہوگا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے.وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ " وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں ، مگر میں ساری جان اور سارا مال اُن سے عملاً نہیں لیتا بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ اس میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی اپنے پاس رکھو اور اپنے کام میں لاؤ اور اس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُس میں کمی ہوگی وہ تم کو پوری ملے گی.جان اور مال کا مطالبہ اب میں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سودا ہے ، لیکن آخر اس میں عجیب سو دے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے یعنی اپنے آپ کو غلام بنا دینے کا.بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں ملتی ہیں ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے؟ دنیا میں کون شخص ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہوپس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس میں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں.ا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) غلامی کیوں بُری کبھی جاتی ہے؟ جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اس غلامی کو قبول کرنا اس بازار کے سامان کے مقابلہ میں گِراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ :- اول: اس میں انسان کی آزادی چھن جاتی ہے.دوم: انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے.سوم: اس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں.چہارم: اس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے.بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے.میں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو نا پسند کیا جاتا ہے.پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جاؤں اور کس طرح اس دھوکا اور فریب میں آ جاؤں.میں انہی خیالات میں تھا کہ یکدم میں نے دیکھا کہ قید و بند میں مبتلا انسان اپنی حماقت میں ( اور میں سے مراد اس وقت انسان ہے نہ کہ سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، در حقیقت قید و بند میں پڑا ہوا تھا.میں نے دیکھا کہ میری گردن میں طوق تھا، میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں ، مگر میں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا ، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پاؤں کی بیڑیاں مجھے چلنے دیتی تھیں ، نہ گردن کا طوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا.یہ طوق اُن گنا ہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بد عادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں.بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیڑیاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں نے میرے پاؤں میں ڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں.تب میں حیران ہوا کہ انسان اپنے آپ کو کیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہوا ہے.نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیں نہ
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ پاؤں کی بیڑیاں اُسے ملنے دیتی ہیں اور نہ گردن کا طوق اُسے سر اٹھانے دیتا ہے.یہ طوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اُس کی گردن میں ہوتا ہے.مختلف گناہ ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاں وہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اُس کے ارد گر دگھوم رہے ہوتے ہیں.وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہوا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی.اسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بد عادات کی ہوتی ہیں.درحقیقت بد عادت اور بدعمل میں فرق ہے.بد عمل ایک انفرادی شے ہے کبھی ہوا کبھی نہ ہو ا،مگر بد عادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطرنج یا جوک یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو آب با وجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطر نج یا تاش کھیلنے چلا جائیگا.اسی طرح بیڑیاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا.تب میں حیران ہوا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہے.اس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں طوق ہیں.پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اُ سے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے.پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اسے کچھ نہیں دیتا تو اس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے.تب میں نے اُس داروغہ کی طرف داروغہ جنت نے تمام بیڑیاں کاٹ دیں! دیکھا جس کے سپر د مجھے کیا گیا تھا اور میں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیٹیاں اور زنجیریں اور طوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بنے کو تیار ہوں ، مگر میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ، بیٹیاں اور طوق ہوں اُس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بنے کو تیار ہوں ، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں اور پاؤں میں نئی جہتھکڑیاں ، نئی بیڑیاں اور نئے طوق ڈالتا اُس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیڑیاں اور سب طوق
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کاٹ دیئے اور میں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی میں اس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ،بیڑیاں اور طوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیڑیاں اور نئے طوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِي الْامِي الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمُ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَئِكَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةً أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور امی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیں اجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مضر ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں اُن کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے.پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ، آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے ، اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں کبھی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں نہیں رہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں.میں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ، پاؤں میں بیڑیاں اور گردن میں طوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت کا علم ہوا تو میں اِس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میں پہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اُس نے بجائے طوق اور بیڑیاں پہنانے کے پہلے طوق اور بیٹریوں کو بھی کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا.میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور میں یہ داروند، غلاماں کا مسرت افزا پیغام سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہ غلاماں کے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیڑیاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں لیکن آخر انسان غلام تو ہوا.غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا.چنانچہ میں اب اس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لاؤ اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لاؤ اپنی سب چیزیں میرے حوالے کر واُس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میرے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو ! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَهُوَيَتَوَلَّى الصَّلِحِيْنَ " اگر اچھی طرح غلامی کرو گے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پورا کرے گا ، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے.دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کا کا م کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں مگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ کوئی کام نہیں کرتے تھے اور توکل پر گزارہ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے.ایک دفعہ انہیں ایک اور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام بھی کرنا چاہئے اس طرح لوگوں پر برا اثر پڑتا ہے.وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے ، اس لئے میں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں ۲۹ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں.انہوں نے کہا حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ يَوْماً عِندَرَتِكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برا بر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں ، جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں
انوار العلوم جلد ۱۶ اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں.سیر روحانی (۳) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ متکفل ہو جاتا ہے.تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہوگی کہ مجھے اپنی خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے.اس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ٣١ اے میرے بندے! چونکہ اب تو ہمارا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہوگا وہیں غلام رہے گا تو جا اور ہماری جنت میں رہ.مگر اس جنت میں آکر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کا مال میں کس طرح استعمال کروں گا.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُونَ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیدا ہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی ادھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی ، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہوگی اور جو مانگو گے ملے گا.اعزہ واقرباء کی دائمی رفاقت پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیز واقرباء چھوڑنے پڑیں گے.کیونکہ جب غلام ہوا تو اُن کے ساتھ رہنے پر میرا کیا اختیار.لیکن اس بارہ میں بھی داروغہ غلامان نے مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمُ مِنْ كُلِّ بَابٍ یعنی بجائے اس کے رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھا جائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنی عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جُدا جُدا نہیں رکھے گا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) روحانی مینا بازار میں ملنے والی نعماء تب میں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اس غلامی کو قبول کر کے قید و بند سے نجات ہوئی ، ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی ، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میں وہ وسعت پیدا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے.تب میں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجتماعی انعام ہوا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی.میں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور میں گو ایک بے عیب غلام لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہر حال غلام ہوں اس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے.یہ کمی تو ضرور رہے گی ، مگر میں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًاً ٣٣ اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوں گے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے.میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تو یہی کیا جاتا ہے کہ قیمت ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان باوجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھا کہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا ، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مر جاتا ، اگر وہ نہ مرتا تو خرید نے والا مر سکتا تھا.غرض کوئی نہ کوئی نقص کا پہلو اس میں ضرور تھا ، مگر میں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جو نہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُونَ ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے.پھر ڈ نیوی مینا بازاروں میں تو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَا رَاَيْتَهُم حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْفُورًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے.پھر دُنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ہیں، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنْشُورًا کی طرح ہونگے ، دیکھو کیا لطیف تشبیہ بیان کی گئی ہے.دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں.پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا کا مفہوم یہ ہوا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ ، فریب ، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا، مگر موتی میں ایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چُرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چھپا چھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فر مایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں کھلے طور پر پھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا.دنیا میں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہوا ہوگا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تردد نہیں ہوگا.اعلیٰ درجہ کی سواریاں پھر میں نے سوچا کہ اس مینا بازار میں بڑی عمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاں بھی کوئی سواری ملے گی؟ تو میں نے دیکھا کہ اس جگہ بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا أُولَئِكَ عَلى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۳۴ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے، میں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو لگنے ، موتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں مجھے ہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی.میں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑا ملتا تو وہ لید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اُس کا لانا میرے ذمہ ہوتا ، پھر شاید کبھی منہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے گرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ لگتا ہے نہ موتا ہے ، نہ منہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے.پھر اُس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس سو پچاس روپے ہوں ، گھوڑا خرید سکتا ہے ، مگر یہ گھوڑ ا خلعت کا گھوڑا ہوگا جو زمین و آسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا.پس معمولی ٹشو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ٹھنڈے شربت (۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے میں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟ تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ تو بعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہوگا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے.مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میں ملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ۳ اس جنت کے مینا بازار میں مؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیں گے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی ، وہ کا فوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی.یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اور سکون پیدا ہو جائے گا.چنانچہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کا فوری پیالے اُن کو اس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خدا تعالیٰ کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کا فوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے.چنانچہ فرماتا ہے فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوْرًا ۳۶ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دور کرنے کے لئے ان کو کا فوری پیالے پلائے.گرم چائے پھر میں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے.ایسے وقت میں تو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے.پس اگر یہ کا فوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت وہ کفایت نہ کریں گے، ایسے وقت میں تو گرم چائے کی ضرورت ہوگی.جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینا بازار میں چائے کا بھی انتظام تھا.چنانچہ لکھا.وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنُجَبِيلًا ہے چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندرسونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہوگی.
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا ، گرمی دور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جو کا فوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے.پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کا فوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کا فوری پیالوں کی تو اس لئے ضرورت ہوگی کہ مؤمن خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتے تھے اور اُن کے دل و دماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں ، اس لئے اگلے جہاں میں انہیں تسکین کے لئے کا فوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے ، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہوگی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دیئے جائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکتا بنا کر نہیں بٹھا دیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تا کہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو.پس یہ خیال غلط ہے جو بعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا ، اگر ایسا ہی ہو تو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا ٣٨ چونکہ تم نے دنیا میں بڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کا موں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی، تقویٰ اور قوت عمل اور بھی بڑھے اور تا تم پہلے سے بھی زیادہ ذکر الہی کرو پس جنت مکلموں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے.شیریں چشمے پھر میں نے ایک اور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پیا اور ختم.بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے، بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے.اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کا پانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے.لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَّعِينٍ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) پلائے جائیں گے جو ان چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا.دُودھ کی نہریں پھر میں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میں دودھ بھی بکتا ہے کیا وہاں دودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے.تو میں نے دیکھا کہ ان بازاروں میں تو دودھ بوتلوں اور پاؤنڈوں اور سیروں کے حساب سے بکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے.مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَرٌ مِّنْ مَّاءٍ غَيْرِ اسِنِ وَاَنْهَارٌ مِنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ ٢٠ مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا.دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دودھ نہیں دیا جو لَمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ کا مصداق ہومگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا.پھر یہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہوگی اور نہر بھی ایسی ہوگی کہ لَمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُۂ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں.ہی استعمال کر لیا جائے دو پہر تک خراب ہو جائے گا، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہوگا.اس آیت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پر کوئی روک تو نہیں ہو گی ؟ اس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تجرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ تو مومنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہر میں ان باغوں کے متعلق | ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں.یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اُس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) مصفی شہد پھر میں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اس مینا بازار میں بھی شہر ملتا ہے یا نہیں؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معا میں نے یہ لکھا ہوا دیکھا کہ اَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُّصَفَّى " وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی.دنیا میں عام طور پر اول تو خالص شہد ملتا ہی نہیں.لوگ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑا سا اس میں شہد ملا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بنا کر پیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ جنسے کا شہر ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہد ہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہونگی اور تمہارا اختیار ہو گا کہ جتنا شہد چا ہو لے لو.پر لذت شراب پھر میں نے سوچا کہ دنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی پکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں، مگر قرآن کریم یہ تو مانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ ٢٣ لوگ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں.پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہر حال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جو شراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میں ملوث ہو جاتا تھا ، مگر بہر حال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے ، اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں تو کیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا ؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَ اَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لذَّةٍ لِلشَّر بين "" وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذت کا موجب ہوں گی.۴۴ ایک اعلیٰ درجہ کی سر بمہر شراب میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروں کی صورت میں ہوگی
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میں بند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میں زیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، میں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں بھی دوستم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گو یا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میں بند ہوگی چنانچہ فرماتا ہے يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّحْتُوْمٍ خِسْمُهُ مِسْت ۲۵ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اور شراب بھی وہاں ہوگی جو بوتلوں میں بند ہو گی جس پر مہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہوگی کہ اُس کی تلچھٹ سے بھی مشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہوگی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میں فرق ہو گا، ایک تو عام شراب ہو گی جیسے بیئر (BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہوگی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہو گی اور اس کی دُرد کے مشک کی ہوگی.روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیت جب میں نے سوچا کہ دنیوی شراب تو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، صحت بر باد کر دیتی ہے، انسان کو خمار ہو جاتا ہے ، وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات نا پاک اور پریشان ہو جاتے ہیں.بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا ؟ اور کیا ایسا تو نہیں ہو گا کہ اس شراب کو پی کر میں اپنی عبودیت کو بُھول جاؤں؟ اس پر میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے لَا فِيهَا غَوَلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ " غول کے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں.29 پس لَا فِيهَا غَول کے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی ، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہو گا.یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا.یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو اُس وقت بھی انہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میں درد ہوتا ہے، لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں ان نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا.اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَهَبَ عَقْلُهُ اَوْ سُكِّرَ ۵۰ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا.یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آ سکتی ہے.خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا، اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اُس زمانہ میں میں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا،مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت پھیر تھی میں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہوا تھا کہ بظاہر اُس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی.چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے.بہر حال جب میں اُس کمرہ میں گھسا تو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بناؤ تا کہ یہ بیٹھیں.میں نے سمجھا کہ گو میں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوں گے.چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی.جب میں بیٹھ گیا تو وہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لا ہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوں گا.کہنے لگے نہیں پھر بھی کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں.اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھا فرمائیے کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھاؤں گا.کہنے لگے اچھا تو پھر فرمائیے نا کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آگئی ہے.اس سے پہلے میں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں.اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اس پر وہ پھر کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اُس کے لئے بھی جگہ نکال دی.جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دومنٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب! کچھ کھائیں گے؟ میں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) شخص کمرہ میں داخل ہو گیا.اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر میں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاں سے کھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی.تو شراب انسانی عقل پر بالکل پردہ ڈال دیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاهُمُ عَنْهَا يُنْزَفُونَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے.پاکیزہ مذاق اس طرح فرماتا ہے يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْ سَالَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ.مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیار سے رہیں گے اور جس ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز چھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے چھین چھین کر کھائیں گے.یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوگا جس کی وجہ سے انہیں چھینا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی ، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیارے کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے چھین چھین کر پیئیں گے.مگر دنیا میں تو اس چھیننے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہوا اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہومگر فرما یا لَا لَغُوفِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کے بھائی نے اس سے پیالہ چھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کرے گی اور وہ اور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے.اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف وہ شراب پاک ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پیئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیوی شراب کی بُرائیاں اُس میں نہیں ہوں گی.تزکیہ نفس پیدا کرنے والی شراب مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی.تو اس کا و جواب میں نے یہ پایا کہ وَ سَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُورًا طَهُور کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طاہر کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ ہو پس سَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُورًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی.معلوم ہوا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے.پھر طھور کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی هے اور پاک شے کے ہوتے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سٹڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حُسن کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوگی.اسی طرح ایک اور لطیف اشارہ اِس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو وہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فر مایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہوگی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کرے گی ، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہوگی.وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہوگی اور نہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کرے گی.تسنیم واٹر، پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِهُم ۵۳ اس شراب میں ایک پانی ملا یا جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں.اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اُس کا نام ہو گا تسنیم واٹر.اور تسنیم کے معنے بلندی ،شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہوں گی کیونکہ یہ معمولی پانی نہیں ہو گا بلکہ بلندی ، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہوگا اور عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ " یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے.گویا دو گرو ہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیں اُس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دے دیا جائے گا، مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہوگا جنہیں معمولی مقدار میں تسنیم کا پانی نہیں دیا جائے گا بلکہ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی ،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد روحانی چیزیں ہیں اور نہ دُنیا میں کیا کبھی شرف ، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہوا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہوا کرتی ہے جو سٹرے نہیں ؟ اور پھر وہ شراب ہی کیا ہے جس میں نشہ نہ ہو، بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اسی قدر ہمارے شاعر اس کی
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) تعریف کرتے ہیں.ذوق کہتا ہے وہ نشہ نہیں جسے ترشی اُتار دے مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اُس میں نہ نشہ ہوگا نہ وہ سڑی ہوئی ہوگی اور نہ ئے گی اس یہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی.اسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کا پانی ملایا جائے گا جس کا نام سَلْسَبِیلا ۵۵ ہو گا سبیل کے معنے راستہ کے ہیں اور سال * کے معنے اگر اس کو سالَ يَسِيلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر.یا دوڑ پڑ.یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہوگئی چل اپنے راستہ پر.یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ یہ شراب مادی نہیں ، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دوڑ نہیں سکتا.مادی شراب کے نشہ کی کیفیت مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میں جہاں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن میں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہوا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی.اُن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا.جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سند رسنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیں ہورہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھاؤ گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سند رسنگھا پکوڑے کھائیں گا ؟ اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑ پر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سند رسنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ سند رسنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ آخر گھوڑے کے قدموں کی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گزر گیا مگر میں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہوا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سَالَ يَسِيلُ سے قاعدہ کے ماتحت توسل آنا چاہئے لیکن الفاظ میں دوسرے لفظ کی حرکت کے مناسب پہلے لفظ پر بھی حرکت فتحہ دیدی جاتی ہے.لِكَوْنِهِ أَخَقُ عَلَى النِّسَانِ وَ اَسْهَلُ عَلَى القَارِی.کیونکہ اس سے لفظ کا ثقل دُور ہو جاتا اور بولنے میں آسانی ہوتی ہے.
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ سند رسنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ سند رسنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ حالانکہ سند رسنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہوا پچھلکے کھا رہا ہو گا.دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اُس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کے نشہ کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ سند رسنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا.تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے ،عقل زائل ہو جاتی ہے ، قوی کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیں گے.سَلْ سَبِيلًا.اب تمہاری سب کمزوری رفع ہو گئی ہے تم اپنے راستہ پر دوڑ پڑو.دوسرے معنے اس کے سَأَلَ يَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں ، یعنی سوال کر ، پوچھ ، دریافت کر.اس کا امر بھی مسل ہی بنتا ہے.یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہوگی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے تو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ.گویا اُس شراب سے ایک طرف قوت عملیہ بڑھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا! مجھے اور روحانی علوم دیئے جائیں اور اس کے بدن میں ایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا.پھل اور گوشت (۴) چوتھی بات جو دنیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں، میں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان موجود تھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَا كِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ - وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ٥ کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جو بھی وہ پسند کریں گے.یہاں ہم بعض دفعہ بعض پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں.ہمارا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کوملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے.رنگترے کو جی چاہے تو دکاندر کہ دیگا ، آجکل تو رنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلا موجود ہے یہ لے لیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یا کیلے کا موسم نہیں یا سر دے کا موسم نہیں ، وہاں جو بھی پھل انسان چاہے گا اُسے فوراً مل جائے گا.اسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیں دیا جائے گا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) پھر فرماتا ہے وَآمُدَدْنَهُمْ بِفَا كِهَةٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ٥ کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیں گے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے.یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا.جنتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات اسی طرح فرماتا ہے.وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَا لُهَا وَذُلِلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيْلًا ٥٠ که ۵۸ جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جُھکے ہوئے ہوں گے اور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑلیں گے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا وہاں پھل اس قدر جھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا.اسی طرح فرماتا ہے.وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَّلَا مَمْنُوعَةٍ ۵۹ کہ انہیں وہاں کھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوں گے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے، صرف شہتوت ملیں گے.وَلَا مَمْنُوعَہ اور نہ وہ ممنوع ہوں گے.یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ وہ انسان کو بیمار کر دیں.دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کا پانی پی سکتے ہو اور کوئی پھل نہیں کھا سکتے ، مگر جنت میں جو پھل ملیں گے انہیں کوئی بُرا کہنے والا نہیں ہوگا کیونکہ وہ بیماریاں پیدا کرنے والے نہیں ہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوعَةٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بد ہضمی ہو خواہ وہ کس قدر کھا لئے جائیں انسان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.دنیا میں انسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا نہیں ہو گا.لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنانچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میں سے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیں کیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں ، مگر اس تمام عرصہ میں تمہیں چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ساری پیالیاں پی جاتا ہوں.ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے ، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا.وہ پہلے سال جلسہ میں شریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں.خلیفہ اسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیں چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں اتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی.تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی استعمال کیا جائے تو اُس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میں ختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میں انسان اُن کو کھا سکے گا.دنیا کی غذاؤں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر روحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم اور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلا جائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی.یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں.اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جبکہ وہ رزق مادی ہو گا ہی نہیں بلکہ روحانی ہوگا.نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دور جب میں یہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اف! کھانے اور پینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوں گی، وہاں تو دن اور رات میں کھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے.پس میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں میں ان کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تو مول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایا تھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو ؟ جب میرے دل میں یہ ڈر پیدا ہوا تو میں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے اور میں نے وہاں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِلشَّرِبِيْنَ وَانْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفَّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمُ.اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بدبودار ہو جاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہوگا جو بالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہوگی اور جب کھیتوں کو پانی دیا جائے گا تب بھی بدبو پیدا نہیں ہوگی.اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا.اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق تو کھاؤ پیو بن گیا.چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اسے کہہ رہا ہے کہ میرے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا.میرے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا.میرے اس بندے کو معاف کرو کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا اور میرے اس بندے کو معاف کرو کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا.گویا ہر کھانے اور ہر پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہوگی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی.تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ روحانی غذا ئیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے ہیں.دوسری طرف میں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود کھلاتا اور پلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میں شامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھاؤ اور پیو کہا گیا.سید عبدالقادر صاحب جیلانی کے ایک ارشاد کی حقیقت! اسی طرح اس آیت سے میرے لئے سید عبدالقادر صاحب جیلانی کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیا کہ میں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور کھا اور میں نہیں پیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور پی.اور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور پہن.یہاں بھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مومن سے کہے گا کہ کھاؤ میں تمہارے گناہ بخشوں گا ، میری شراب پیو کہ میں تم سے حُسنِ سلوک کروں گا اور میرے پھل کھاؤ کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کروں گا.یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اُس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مومن بندے کے ساتھ خدا تعالیٰ کرے گا.اعلیٰ درجہ کے لباس (۵) پھر میں نے سوچا کہ دُنیوی بازاروں میں تو لباس فروخت ہوا کرتے ہیں آیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں ؟ میں نے غور کیا تو اس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ - وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ ال یعنی اس کے اندر مومنوں کو ایسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ.اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیں اور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاں ایسا نہیں ہو گا.ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اُس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اُس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے.اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مڑتی بلکہ اُسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اُس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہوگا کہ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ اِدھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اُس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکٹر اکڑ کر مال روڈ پر چلتے ہیں ، عورتیں اُن کو دیکھتی ہیں اور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہوگا کہ اسے پہن کر مومن اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی.پھرا س لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ۱۲ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میں ملتا ہے یا نہیں ؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَانهُمْ تَقُوهُم.کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقومی عطا کر دیتا ہے.مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میں ترقی کی ہوگی اُسی قدر اُس کا لباس زیادہ اعلیٰ ہوگا.ہے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) زیب وزینت کے سامان (۶) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں زینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور ربن اور پاؤڈر وغیرہ فروخت ہوتے تھے.میں نے سوچا کہ یہ تو پرانے زمانے کے مینا بازاروں کی بات ہے، آجکل تو انار کلی اور ڈبی بازار میں پوڈروں اور لپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پرانے مینا بازار ان کے آگے ماند پڑ جاتے ہیں اور عورتوں کو ان کے بغیر چین ہی نہیں آتا ، گو آجکل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور یو ڈی کلون اور پوڈر وغیرہ چھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیں تو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں ، پھر اس پر پوڈر چھڑکیں، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چکنائیاں ملتی رہتی ہیں.چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی ، کچھ چکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے.پس میں نے کہا آؤ میں دیکھوں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیں وہاں نہ ہوئیں تو اول تو آجکل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اکڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتاؤ جنت میں سُرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی ، پوڈر اور کریمیں وغیر ہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں.زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر مل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ سے زیادہ پوڈر ملنے کو وہ حسن کی ضمانت سمجھتی ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر ملا ہوا ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے.انگریزوں کا رنگ چونکہ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بدزیب معلوم نہیں ہوتا ،مگر ہمارے ملک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اس لئے اندھا دھند انگریزوں کی اتباع میں پوڈر کے ڈبے صرف کر دیئے جاتے ہیں.اور کئی تو بے چارے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب کل مل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے.سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ ایک دفعہ ایک اینگلو انڈین استانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ میں اُس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں.میں نے کہا غور کروں گا.اس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہر نا پڑا.وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقعہ یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے.میں اُن دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ( مرحوم جو میرے سالے تھے ) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمم طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جارہی تھیں.اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہو گی اسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اسے بھی ساتھ لے لیا.وہاں پہنچ کر ہم نے دوکشتیاں لیں.ایک میں میں ، اُم طاہر اور میری سالی تھی اور دوسری میں وہ اُستانی، میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں.اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گورا کرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتائیں جس سے میرا رنگ سفید ہو جائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اِسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں.مجھے ان کی باتوں سے بڑا لطف آ رہا تھا.وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا.سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے بہت دوست ہو ا کرتے تھے اور بعد میں بھی میرے اُن سے گہرے تعلقات رہے.انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسب عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے.میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں.آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے اس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میں تمہیں بتا تا ہوں قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا.پس اس دنیا میں تو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ، تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا.زینت کے یہ سامان بھی جو میں بتانے لگا ہوں اسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا.سفید رنگ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ " دُنیا میں اگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا ، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہوسکتا ، اندھا ہے تو سو جا کھا نہیں ہوسکتا ، نکھا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا.کوئی شخص ہزار کوشش کرے، صابن کی ٹکیوں سے اپنے منہ کو صبح و شام مل مل کر دھوئے اگر اُس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہو گا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی.کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں ملتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئرز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خرید تے ہو.کہیں پام آئل (PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہومگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا.آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے منہ سفید براق ہو جائیں گے.پھر دنیا میں تو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں.بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمایا وَأَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ٢٥ ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منہ سفید ہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہوگا.بعض لوگ اس موقع پر کہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوں میں نہیں لینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میں ہی آتا ہے.وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْأنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا کہ جب کسی کولر کی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کا منہ کالا ہو جاتا ہے.اب اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقعہ میں کالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے.اسی طرح اُن کے نزدیک يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزت کی وجہ سے اُن کے چہروں پر نور برستا معلوم ہو گا اور خدا تعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور ان کا انکار نہیں ہوسکتا.کریمیں، پوڈر اور سُرخی اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو : -
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) اول:- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے ، مسام کھل جائیں، مساموں سے زہر اور میل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے.دوم - وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر پست ہو جائیں، اُن کے مسام سکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پر رونق پیدا ہو جائے.گویا پہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام کھل جائیں اور میل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا استرخاء جاتا رہے.اسی طرح پوڈر لگاتے ہیں تا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُرخیاں لگاتے ہیں تا کہ دوسروں کو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں.اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے.وُجُوهٌ يَوْمَئِذِنَّا ضِرَةٌ لا یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے.نَاضِرَہ کے معنے عربی میں حسن اور رونق کے ہیں ، اور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں.حسن کے معنے تناسب اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جو چہرے اور قومی سے ظاہر ہوتے ہیں.اگر ایک شخص کا ناک پر پکا ہوا ہو، مگر اُس کے کلے اور ہونٹ سُرخ ہوں اور اُس کا رنگ سفید ہو تو اُس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی.اسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیں یا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یا ما تھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں.یا کلے اتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا.میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کو دیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض گتے کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض سور کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں.بعض یکی اور بعض چوہے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں.کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی ان جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرا یہ مضمون نہیں اس لئے میں اس نقص کو دور کرنے کے طریق نہیں بتا سکتا صرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہہ ہوتے ہیں.وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کر لیں یا رُوج لگا لیں ، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کرتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کریموں اور غازوں اور لپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈر کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش و نگار درست کر کے انہیں وہاں لے جایا جائے گا.اگر کوئی شخص کا نا ہو گا تو اُس کا کا نا پن جاتا رہے گا لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا ، آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کر دیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دیئے جائیں گے.آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقیناً اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دور کر کے انہیں جنت میں داخل کریگا.حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما ایک لطیفہ رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی يَا رَسُولَ اللَّهِ ! یہ باتیں چھوڑیں اور مجھے یہ بتائیں کہ میں جنت میں جاؤں گی یا نہیں ؟ اب اُس کا یہ سوال بے وقوفی کا تھا مگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دق کیا کرتی تھی اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مذاق سُوجھا اور آپ نے فرمایا، مائی ! جہاں تک میر اعلم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی.وہ یہ سنتے ہی رونے پیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جاؤں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جاؤ گی.اُس نے کہا کہ آپ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی.آپ نے فرمایا روڈ نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا، بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا.اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میں چونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں ہوتی.جیسے خواب میں تمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے اسی طرح بظاہر جنت میں جو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میں شراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہوگی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میں ترقی کرے گا ، بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ جو چیز دنیا میں تم
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیں یعنی رنگ نکھرا ہوا ہو، صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو.دنیا میں تو کئی لوگ چہروں پر کریم ملے ہوئے ہوتے ہیں ، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہوا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش و نگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں ہے گی بلکہ پیدائش جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہو گی.اسی طرح فرماتا ہے.وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ- ضَاحِكَةٌ چمکتے ہوئے چہرے مُّسْتَبْشِرَةٌ 19 اُس دن جنت میں جانے والوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے.دنیا میں لوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے.کہتے ہیں فلاں فلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح چمک ہوتی ہے.فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جھلک پیدا ہو گی جیسے موتیوں کی جھلک ہوتی ہے.پھر فرماتا ہے.ضَاحِكَة دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں، تا ایسا نہ ہو کہ شکن پڑ کر پوڈر گر جائے ، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا.میں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہوا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُترے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہوا ہوگا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہوگا.شگفتہ پیکر اسی طرح فرماتا ہے مُستَبْشِرَة ان کی بڑی خوشیاں ہوں گی.یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈر لگاتی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اِس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور ہر شخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہوگا.نرم و نازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے اسی طرح فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ ے دنیا میں کریمیں اس لئے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں مگرفرمایا وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ ہمارے ہاں اس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی گھردرا پن نہیں ہوگا بلکہ وہ نرم اور ملائم ہوں گے.نَاعِمَة کے معنے عربی زبان میں لَيِّنُ الْمَلمَسِ اے کے ہیں ، یعنی ان کے جسم نرم ہوں گے یہ نہیں ہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میں گھردرا پن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے تو ڈھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا نرم، سفید حسین ، پر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر، لپ سٹک اور رُوج کسی کی ضرورت نہیں ہوگی.یہ چیز میں آپ ہی آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی.اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں (۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیں آیا اس مینا بازار میں بھی خوشبوئیں ہوں گی یا نہیں ؟ جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيم ٤٢ فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سودا کرنے والا ہمارا مقرب ہوگا، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی، یہاں بھی خدا تعالیٰ نے دنیوی اور اُخروی نعماء میں ایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے.جس طرح یہاں صرف کریمیں ملتی ہیں، پوڈر ملتے ہیں ، لپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یا ہونٹ یا دانت یا منہ مل جائے تو نہیں مل سکتا.اسی طرح دنیا میں استنی رو پے تولہ کا عطر مل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی حس ہی نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیں دے سکتی.اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بد بو میں اپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے.حضرت خلیفہ اول نے جب ہمیں طب پڑھائی تو آپ نے فرمایا ایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی جس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بدبو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا.چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایا آنکھیں بند کر کے اگر اُس کے سامنے پاخانے کا ٹھیکرا اور اعلیٰ درجے کا کیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا ؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی ، ایک دن انہوں نے اُسے کہا کہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا.وہ کہنے لگی بی بی! مجھے سمجھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے.جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہوا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی جس ہی نہیں.تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر سے "
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میں بھی لے جاؤ تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے.لیکن ہم کیا دیتے ہیں فَرُوح ہم سب سے پہلے خوشبو سونگھنے اور اُس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میں پیدا کرتے ہیں.روح کے معنے ہیں وِجَدَانُ الرَّائِحَةِ اور بھی معنے ہیں ، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوؤں کو محسوس کرے (روح) میرے اپنے ناک کی جس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے.اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بد بودار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے، میں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگا یا کرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اول کو اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی.میں آپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا ، ایک دن میں آپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ میں نے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں.فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیا بخاری میں کوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میں ہی مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طرف چل پڑتے.آپ تھے تو میرے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اس لئے میں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا.آپ ہنس پڑے اور فرمایا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے ، ہم تو اور کاموں میں بھول ہی جاتے ہیں.میں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا ، اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی جس بھی تیز تھی اور اس امر میں بھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے.تو ناک کی جس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ حس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیں گے اور پھر عطر (رَيْحَانُ ) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ مثل مشہور ہے کہ ' ناک نہ ہوا تو نتھ کیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی جس تیز کر دیں گے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں.اور اس کے بعد ریحان دیں گے ریحان کے معنے ہیں كُلُّ نَبَاتٍ طَيِّبِ الرِّيحِ کے یعنی ہر خوشبودار چیز اُن کو ملے گی.وَ جَنَّتُ نَعِیم اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی.یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھری ہوئی ہوگی.جسمانی طاقت کی دوائیں (۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں.کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دواؤں کو کھاؤ پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھاؤ.پس میں نے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں ؟ اس خیال کے آنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ایک رنگ میں اس بات کا بھی انتظام ہو گا ، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمُ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَلِدِينَ ٤٢ فرمایا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاں نہیں دیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کی دوائیں وہاں دی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہو وہاں طاقت کی دواؤں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اس لئے اسے طاقت کی دواؤں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریں گے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرما یا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی.طبتُم اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیں گی گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے.یا تو بیماری جر مز (GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میں نقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے.غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہوتا اور اسے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً معدہ میں تیزا بیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہو جائے ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کر دیں گے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ہیضہ کا کوئی کیٹر تم پر حملہ نہیں کر سکے گا ، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جرم (GERM) تمہارے جسم میں داخل نہیں ہو گا.پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میں نقص واقع ہو جاتا اس لئے فرمایا طبتم تمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے.پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے اس لئے فرمایا خَلِدِينَ فِيهَا حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیں ہوگی.نفیس برتن (۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے میں نے سوچا کہ کیا اس بازار میں بھی اس قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر میری نظر فوراً اس آیت پر پڑی کہ وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِانِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَّاكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا ٤٥ کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سودا کریں گے وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِانِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خادم چیزیں لائیں گے وَالْوَابِ كَانَتْ قَوَارِيرَ ا اور گوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے.قَوَارِيرَا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میں شراب ڈالی جائے.پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہوگی جو شیشہ کے برتنوں میں ہوتی ہے گویا ان برتنوں میں ایک طرف تو اتنی صفائی ہوگی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میں پڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی.درحقیقت مؤمن کا جنت میں ایک دوسرے سے اس قسم کا معاملہ ہو گا.وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میں سے شربت نظر آ جاتا ہے.یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اُس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیں ہوگی.اور ایسی چیزیں جو
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) بظاہر شفاف نہیں ہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی.فِضَّة کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا.ہر شخص جانتا ہو گا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے قحبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.چار پائیاں اور گاؤ تکیے (۱۰) پھر میں نے مینا بازار میں گھر کے اسباب فروخت ہوتے دیکھے تھے.پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دوڑائی تو وہاں لکھا تھا علی سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَبِلِينَ ٤٦ مَوْضُونَةٍ کے معنے بنی ہوئی چار پائی کے ہوتے ہیں.پس عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بنی ہوئی ہونگی.عربوں میں دو طرح کا رواج تھا.اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چار پائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اُس میں کوئی چار پائی نہیں تھی ، بلکہ اُس میں سونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے ، لوگ وہاں گڑے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ اُن پر سونے کی عادت نہیں تھی اس لئے میں نے اپنے لئے ایک ہوٹل سے چار پائی منگوائی تب جا کر سویا لیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ وہاں جنت میں بنی ہوئی چار پائیاں ہوں گی ( جو لچکدار ہوتی ہیں ) مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَبِلِینَ.لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چار پائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میں سونے کا کہیں ذکر نہیں آتا.کہیں قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی.در حقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہوگی اس لئے وہاں سونے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی.اس سے بھی اُن لوگوں کا رڈ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوذُ بِاللہ عیاشی کا مقام کہتے ہیں.عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے.ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو.اسی.
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ طرح عیاشی میں لوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میں کہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا ، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چار پائیوں پر سور ہے ہوں گے بلکہ فرمایا علی سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقبِلِينَ وہ اُس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پر نہیں.ہم کتابیں پڑھتے ہیں، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیں تو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی.مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اس سے طبہ پڑ سکتا تھا کہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقبِلِينَ وہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا.ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چار پائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہو نگے مگر سونے کے لئے نہیں، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خدا تعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اُس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے.شاہانہ اعزاز و اکرام اینی پیر اسی طرح فرماتا ہے فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ وَّاكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَةٌ وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَةٌ “ پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ ہونگے.سَرِير کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کے معنے تخت بادشاہی کے ہوتے ہیں.چار پائی کے معنے تب ہوتے ہیں جب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چار پائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو.جیسے سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کے الفاظ تھے، لیکن اگر خالی سُود کا لفظ آئے تو اس کے معنے تخت شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُود کے ساتھ تشریح کے لئے ضرور کوئی لفظ ہوگا.یہاں چونکہ خالی سُود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تخت شاہی ہی ہے اور پھر تخت شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوعَةٌ کہہ دیا، کیونکہ تخت شاہی اونچار کھا جاتا ہے ، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے.دنیا میں تو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کر لی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو!
انوار العلوم جلد ۱۶ چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا.سیر روحانی (۳) خدا تعالیٰ کی بچی غلامی اختیار کرنے دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خدا تعالیٰ کی غلامی اختیار کر لی تو والے دنیا میں بھی بادشاہ بنادیئے گئے خدا نے اسے بادشاہ بنا دیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال کے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اس اختلاف کی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی تو وہ فوراً اس مجلس میں گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابو بکر خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریر کی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آ گئیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے ، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابو بکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ابو بکر مکہ کے رؤساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی حبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میں سے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کرلے بالکل اور بات ہے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابو بکر خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابو قحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابو بکر ؟ وہ کہنے لگا وہی ابو بکر جو تمہارا بیٹا ہے.کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں.ابو قحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سنی تو بے اختیار کہہ اٹھے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - محمد رسول اللہ ضرور بچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابو بکر بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کر لیا.تو دنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) شاہ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے ایران میں جب مسلمان گئے تو کسرٹی کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی مسلمانوں نے پائے استحقار سے ٹھکرادیا سےٹھکرادیا طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھا جائیں ، ان کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے.کسرای نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لاؤ، میں اُن سے خود باتیں کروں گا.جب مسلمان اُس کے دربار میں پہنچے تو کسری اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گو ہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو.تمہیں یہ کیا خیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہو گئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ اس سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہماری کا یا پلٹ دی ، اب ہر قسم کی عزت خدا تعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے.کسرای کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا میں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جاؤ.چنانچہ اُس نے تجویز کیا کہ فی افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے.گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو میں تمہیں روپے دیکر خریدا جا سکتا ہے.مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اور حقارت کے ساتھ اُسے ٹھکرا دیا.تب کسری کو غصہ آ گیا اور اُس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لاؤ.تھوڑی دیر میں مٹی کا بورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے.نوکر نے ایسا ہی کیا.جب بورا اُس صحابی کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی اس لئے جاؤ اس مٹی کے بورے کے سوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا.اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے ، وہ صحابی فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے.انہوں نے اس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اُسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسری نے اپنا ملک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایسا فضل کیا تھا کہ اُن میں سے ہر شخص بادشاہ بن گیا تھا.
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) ایک مسلمان غلام کا کفار سے معاہدہ یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی.رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا.ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ کھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے ادھر ادھر پھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے.مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اس صلح کا کوئی علم نہیں.انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو ، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اس صلح نامہ پر موجود ہیں.کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھسلا کر دستخط کر وا لئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے.غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی ؟ اُس نے کہا، میں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں.انہوں نے کہا تو پھر لگاؤ انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میں دستخط کا طریق تھا) اور اس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا میں حضرت عمرؓ سے اس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات رڈ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اُس کے مقرر کردہ نمائندہ کا مصدقہ تسلیم ہو گا.اب گودہ ایک غلام تھا مگر اُس وقت اُس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے.سامان جنگ گیارہویں بات میں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامان جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں، ڈھالیں ہوتی ہیں اسی طرح کا اور سامان جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا آؤ میں دیکھوں آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میں ملتی ہیں یا نہیں؟ روحانی ڈھال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس مینا بازار میں ڈھالیں بھی ملتی ہیں.چنانچہ لکھا ہے لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَرَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمُ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ ٤٨
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پر کوئی حملہ نہیں ہو سکے گا.جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کو جنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا.اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مومنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا ئیں اب تم کسی مصیبت میں نہیں ڈالے جاؤ گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیں آئے گی.دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دہ ہے.خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ دنیا میں بھی اس بات کی مثالیں ملتی ہی کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہیں اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام و نامرادر ہتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دو پہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے.باقی لشکر بھی ادھر اُدھر متفرق ہو گیا.اتنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میں مارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگا وہ وہاں آ پہنچا.درخت سے آپ کی تلوار لٹک رہی تھی اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگا کر کہا بولو ! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہؓ اُس وقت اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا ، مگر ایسی حالت میں بھی آپ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی.بلکہ آپ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتاؤ! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہوا.آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا.یہ سُننا تھا کہ اُس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتاؤ! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپ بڑے
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا کم بخت ! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا.تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.ایک رؤیا مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی.رات کو رویا میں دیکھا کہ میں سکول سے آ رہا ہوں اور اُس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں.وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے.جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا.ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اترتی تھیں.بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے.جب میں گھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہوا ہے.صرف آپ کی گردن مجھے نظر آ رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی.اتنے ، دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا.کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور میں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں.اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ : - ” جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُن کو کون جلا سکتا ہے“ تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گونہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دیئے.امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیت ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے.اُس کا جرم یہ تھا کہ اُس سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا.جب مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمد یوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں.عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندو مذہب کے وہ دشمن ہیں، سکھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور میں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا.میں اس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ پھیرو چیچی گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میں وہاں چلا گیا.پستول میں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کر دوں گا ، چنانچہ پھیر و چیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا ( یہ دراصل بیٹی خاں صاحب مرحوم تھے ) اور میں نے سمجھا کہ اس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا.پھر میں دوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہو آؤں.جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سُن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کر دیا.پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اور کو قتل کرنے کا تھا.اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خدا تعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بناتا رہا.پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر میں قادیان میں نہیں بلکہ پھیر و چیچی ہوں ، وہ پھیرو چیچی پہنچتا ہے تو وہاں بھی میں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں اتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس وقت حملہ کرنا درست نہیں.پھر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے اور ادھر اُدھر پھر کر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے.فتنہ احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادہ قتل سے قادیان آنا اس طرح احرار کے فتنہ کے ایام میں ایک دفعہ ایک پٹھان لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے.میاں عبدالاحد خاں صاحب افغان اُس سے باتیں کرنے لگے.باتیں کرتے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ پلائی اور پٹھان اس طرز پر اُسی وقت اپنی ٹانگ ہلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے چھرا چھپایا ہوا ہو.میاں عبدالاحد خاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے جو نہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چھری پکڑ لی.بعد میں اُس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا.اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اُس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اُس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا اور نہ اگر کوئی غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے.زہر آلود بالائی کھلانے کی کوشش اسی طرح میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کر دیا.رستہ میں کسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو ، چنانچہ اس نے چکھنے کے لئے ذراسی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آ رہی تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی.تو اس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا پتہ چلتا ہے ، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اِن سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہر حال اس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیر محدود اور ہمیشہ کے لئے ہے.مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ پھر میں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں میں حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میسر آ سکتے ہیں کیا اس مینا بازار سے بھی ہمیں کوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں؟ سو اس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میں لکھا تھا اِنَّ اللهَ يُدفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانِ كَفُورٍ أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ بِالَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسَاجِدُ | يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ كَ فرماتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھیں گے.اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہوگی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھا لا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگوا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اٹھائی ہے.پھر فرماتا
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو.یاد رکھو! اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کا مقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر نا واجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پر یقیناً قادر ہے.وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے، جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میں عبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں ، عیسائیوں کے گر جے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں.فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ بچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اس لئے اس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کرتا ہے اور خدا بڑا ہی قومی اور عزیز ہے.جس طرف خدا ہو جائے گا اُس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا.تو دفاعی جنگ دشمنوں پر غالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار ہے.میں نے سوچا کہ اِس سامانِ جنگ سے تو میں دشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں.پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہوا اِس میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آؤں گا ؟ کیا اس مینا بازار میں کوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوار کی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَاَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا - وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلّ قَرْيَةٍ نَّذِيرًا - فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَ جَاهِدُهُمُ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - وَهُوَ الَّذِى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذَبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُورًا ۵۰ ان آیات میں پہلے پانی کا ذکر ہے جو کلام الہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیا ہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتارتا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے.
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میں پھیلا دیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے ، مگر اکثر لوگ کُفرانِ نعمت کرتے ہیں.وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں مگر کلام الہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے رڈ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پر جان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے.میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا.جو اس طرح ہوا کہ کسی جوہری کے ساتھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گر گئے ، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی ، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہو گئے.جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے ؟ تو اُس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چندلر کے ان ہیروں سے گولیاں کھیل رہے تھے ، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے.بعد میں معلوم ہوا کہ اس جو ہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پیڑ یہ میں تھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں ، حالانکہ وہ پچاس ہزار روپے کا مال تھا.یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جوسٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے اور جو نہ صرف اِس زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کا یا پلٹ دیتا ہے اُس کو ر ڈ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے ، تو فرماتا ہے اکثر لوگ کُفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجے.یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حجت تمام کرنا چاہتے تو بجائے اس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اُس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی ، ہر بستی میں ایک ایک نذیر بھیج دیتے ، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم گھر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیں ہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمام حجت ہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے.پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمام حجت کے بعد عذاب آجاتا ہے.اگر ہر بستی اور ہر گاؤں میں اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گاؤں پر وہ عذاب نازل ہوتا جواب براہ راست ایک حصہ زمین کے مخالفوں پر نازل ہوتا ہے.پس تو اُن کا فروں کی باتیں مت مان، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ جہاد.جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے (وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے.مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو! بڑھو اور لڑو.اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ اے علماء ! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہوا اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں ) پس دنیا کے مینا بازار میں تو لوہے کی تلوار میں ملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ کیلئے لڑائی میں کام نہیں آسکتی تھیں ، بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ٹوٹ جاتی تھیں مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی.تیرہ سو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی.یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور جہاد بالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اور جہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے.یہ وہ تلوار ہے کہ جو شخص اس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہوگا.اگر تیرہ سو سال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا.آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں.اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہو سکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے ؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں ، ہوش سنبھالنے سے لیکر بڑھے ہونے تک وہ نحو اور صرف پڑھتے رہتے ہیں اور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں.انہوں نے ساری عمر بھی قرآن
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے.اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیا میں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اس کتاب میں موجود نہ ہو.اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پاسکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میں نہ پائی جاتی ہو.پھر فرماتا ہے وَهُوَ الَّذِى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذَا عَذَبٌ فُرَاتٌ وَهذَا مِلْحٌ أُجَاج وہ خدا ہی ہے جس نے دوسمندر دُنیا میں ملا دیئے ہیں.مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَهُوَ الَّذِی مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دوسمندر دنیا میں ملا دیئے ہیں هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے.وَهذَا مِلْحٌ أُجَاج مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے اور آگ کی طرح گرم.وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرُ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُورًا مگر باوجود اس کے کہ دونوں سمندر ملا دیئے گئے ہیں اس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے.دنیا میں قاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے.جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، میں ایسی چائے کو ” منافق چائے“ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بلا یا، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفاق ایسا ہوا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا.میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کو کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اِس وقت پئے ہی جائیں.وہ دوست کچھ دیر سے واقعہ ہوئے ہیں، ہمیں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو، مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہر جب دو چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہوگا کہ حِجْرًا مَّحْجُورًا.اے ملنے والو! تمہارے ملنے
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میں جذب ہو جاؤ بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو.دیکھ لو یہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمن میں بھی ان الفاظ میں ذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِينِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ ) کہ خدا نے دو سمندر اُس زمانہ میں بنائے ہونگے ، ایک میٹھے پانی کا ہوگا اور ایک کڑوے پانی کا ، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ وہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہو گی کہ میٹھا پانی کڑوے میں جذب نہیں ہوگا اور کڑوا پانی میٹھے میں جذب نہیں ہو گا.مغربیت کی کبھی نقل نہ کرو یہ پیشگوئی در حقیقت مغربیت اور دجالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے هذَا مِلح أجَاج - اور اُجاج سے یا جوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذَبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُورًا میں بتا دیا کہ تمہیں ان قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا.ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اور ہو اور ہم اور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے میں تحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے.اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں ، انہیں مغربیت کی نقل نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے ، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ در حقیقت مِلْحٌ أُجَاج ہیں ، عَدُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے.جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک بہت بڑی حکمت ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں؟ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہوا ہو اور اُس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دیئے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے.تو لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے.آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے.اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مل جل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہو جائیں گے اور ہم بھی جہاد قرآنی سے غافل ہو جائیں گے.پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغ اسلام کا ہے بُھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بُھول گئے ہیں.خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے.اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میٹر آئیں وہ بھی سست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے.پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ اِن دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا، کاش ! دوسرے مسلمانوں میں بھی یہ حس پیدا ہو.طبیعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان جب میں نے یہ سب کچھ دیکھنا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اس وقت علم نہیں ، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پیدا ہو جائے.پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے.جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں.(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں.(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں.پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں بُھوک کو پیش کیا جاسکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے.انسانی دماغ
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے.اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں.مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور و فکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو.اسی طرح بعض چیزیں انکار سے تعلق رکھتی ہیں.انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا زالہ ہو.یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے.گویا تقاضے دو قسم کے ہیں، ایک طبعی اور ایک عقلی.طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی، لیکن نیو یارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیو یارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیو یارک دیکھوں.تو نیو یارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے اور روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی.نیو یارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے تو ان دونوں تقاضوں میں فرق ہے.میں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پورے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کر مر جاؤں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اس صورت میں بھی میرا دماغ کمزور ہو جائے گا.پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہو اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو.قرآنی بشارت میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ معا میرے کان میں آواز آئی وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الَا نُفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَاَنْتُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ۵۲ کہ جو جو چیزیں ہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں جیسے اشتہاء کہ وہ اندر سے پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ جس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے.گویا قرآن کریم نے اُن خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے.یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریں تو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک
انوار العلوم جلد ۱۶ حصہ کی خواہش انسانی قلب میں پائی جاتی ہے.سیر روحانی (۳) حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی جس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو.جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایام حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے.درحقیقت انسان کو خدا تعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے اس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہوا ہو، یا چکنی مٹی ہو اور سو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں.وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں بھوک لگتی ہے اس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہ خواہش اتنی سخت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل گر جاتا ہے.اب دنیا کی کوئی طب ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے یا مٹی میں کون سے ایسے اجزاء ہیں جن کا حاملہ عورتوں کو دیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل گر جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سر درد کا دورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سر درد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دورہ ہو جاتا ہے.تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ دنیا میں تو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا.عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے ، مگر فرمایا وہاں جو بھی طبعی خواہش پیدا ہو گی اُس کو پورا کر دیا جائے گا.دماغی خواہشات کی تکمیل پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ بھی سامان ہو.پس میں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہو گی ، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہوگی یا نہیں؟ اس پر میں نے دیکھا تو اس کا بھی انتظام تھا.چنانچہ لکھا تھا لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاءُ وَنَ ۵۳ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا.اور یہ امر ظاہر ہے کہ مشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ، مگر اشتہاء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہوگی اور انسان کی مشیت بھی پوری ہو گی.گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی اُن کی اِس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا.ریب مینا بازار میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا ہمارے خدا کا عجیب و غریب مینا بازار سُبْحَانَ اللهِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی ہیں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیت کو پورا کرنے والی ہوں.اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اُٹھا سکوں.مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میں بیمار ہو جاتا ہوں تو اس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہوسکتا ہے.اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جاؤں گا.مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے.جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لاؤ اپنا مال اور لا ؤ اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کر دوں تو بندہ ادھر ادھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لاؤں.اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو میں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو.غالب تھا تو شرابی مگر اُس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ :- جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو کہ حق ادا ہے نه ہوا
انوار العلوم جلد ۱۶ سیر روحانی (۳) اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اُس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اُس کا ہے باوجود اس کے کہ نہ مال اُس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اُس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سودا کرنے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سودا کرلو.مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو.پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو.اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تو یکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے طوق ، ساری زنجیریں، ساری بیڑیاں اور ساری ہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا بلکہ سا را مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہو گی تو وہ بھی پوری کی جائے گی.اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے.اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلی رکھنا ، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا.جب میں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الہی اسرار کا علم ہوا تو میں اپنے اس ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا ، سخت شرمندہ ہوا.اور میں حیران ہو گیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا.جس چیز کو میں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطرناک غلامی تھی اور جس چیز کو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حریت تھی.میں شرمندہ ہوا اپنے علم پر، میں حیران ہوا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کر پاؤں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بے اختیار میں نے کہا کہ اے میرے آقا! یہ غلامی جو تو پیش کر رہا ہے ، اس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں.اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ عزیزوں اور دوستوں کو بھی.بلکہ اے خدا! تُو ساری دنیا کو ہی اپنا غلام بنالے تا کہ ہم سب اِس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں.پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ اَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ - فِى إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً - فَادْ خُلِى فِي عِبَادِي - وَادْخُلِي جَنَّتِی.اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان ! آ آ اپنے رب کی طرف آ.تو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے.آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور آ میری جنت میں داخل ہو جا.اپنی جانیں اور اپنے اموال خدا تعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو! یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جو تمہارا خدا تمہیں دینے کے لئے تیار ہے.اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.وہ اس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو.وہ تم سے سودا کرنا چاہتا ہے مگر سودا کرنے کے لئے اُس نے خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے.پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا.مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کا مطالبہ کر رہا ہے.تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور کہو کہ اے ہمارے آقا ! آپ ہم سے اپنی ہی ز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر شار کرنے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لگانے کے لئے حاضر ہیں.جب تم اس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چھینا نہیں جاتا.مگر اس ارادہ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس ابدی جنت میں داخل کرے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیں اور جس کے مقابلہ میں دُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے.وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا، وہ چیزه
سیر روحانی (۳) انوار العلوم جلد ۱۶ تمہارے سلاسل اور آہنی طوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا.تم پھر دنیا میں سر بلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے، پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے.لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اُس کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا، پس آؤ ہم اُس کے حضور جھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمارے آقا! تو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے، تو اپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میں سلگا ، تو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حریت وہی ہے جو تیری غلامی میں حاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس آؤ اس چھوٹی حریت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کا موجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی میسر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے.ا عبس: ۲۰ تا ۲۲ الحج : ۸،۷ بخاری کتاب احاديث الانبياء باب ماذكر عن بني اسراءيل البقرة : ۹ ک هود : ۱۱۲ ه التوبة : ١٠٠ النباء : ٣٧ ا بنی اسراءیل : ۶۴ - المعارج: ۳۶ ۱۳ الكهف : ۵۰ المؤمن : ۴۱ ١٢ آل عمران : ١١ الصفت : ۷۹ تا ۸۱ ۱۴ الصفت :۱۳۰ تا ۱۳۲ ها الانبياء : ۹۲ العنكبوت: ۲۸ كا الانعام : ۸۴ تا ۹۱ 19 الحشر : اا اقرب الموارد الجزء الثانى صفحہ ۷۹ ۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ال الرعد : ۲۴ ۲۵۰ ۲۲ طپنچے : طنچہ کی جمع.پستول.چھوٹی بندوق التوبة : ااا ۲۴ بخارى كتاب الزكوة باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوُ بِشِقِّ تَمْرَةٍ الاحزاب : ۵۷
انوار العلوم جلد ۱۶ ۲۵ بخاری کتاب الصوم باب المجامع في رمضان ٢٦ البقرة: ۴ سیر روحانی (۳) الاعراف: ۱۵۸ ۲۸ الاعراف: ۱۹۷ ۲۹ بخاری کتاب الادب باب اِكْرَام الضيف (الخ) ا الفجر : ۲۸ تا ۳۱ ۳۲ حم السجدة : ٣٢ ٣٠ الحج : ۴۸ ٣٣ الدهر : ۲۰ ٣٤ البقرة : ٦ ۳۵ الدهر ۶: ٣٦ الدهر : ۱۲ الدهر : ۱۸ ٣٨ الدهر : ٢٣ ٣٩ الصفت : ۴۶ محمد: ۱۶ ١ البقرة : ٢٦ ۲۲ محمد: ۱۶ ١٣ البقرة : ٢٢٠ ۲۴ محمد : ۱۶ المطففين : ۲۶ ،۲۷ تلچھٹ : وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے.درد: تلچھٹ الصفت : ۴۸ ٤٩ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۲۹۱ - مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۵۰ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۸۹۳.مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء اه الطور : ۲۴ ۵۲ الدهر : ۲۲ ۵۳ المطفّفين : ۲۸ ۵۴ المطفّفين : ٢٩ ۵۵ الدهر : ۱۹ الواقعة : ۲۱، ۲۲ ۵۷ الطور : ۲۳ ۵۸ الدهر : ۱۵ ۵۹ الواقعة : ۳۳ ، ۳۴ ۲۰ محمد : ۱۲ ال الحج : ۲۴، ۲۵ الاعراف : ۲۷ ۱۳ محمد : ۱۸ ۱۴ ال عمران : ۱۰۷ ۱۵ ال عمران : ۱۰۸ ۱۶ النحل : ۵۹ القيامة : ٢٣ لسان العرب المجلد الرابع صفحه ۷۸ ۱ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء ۱۹ عبس : ۴۰،۳۹ ٠ ك الغاشية : ٩ الى اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۳۲۱ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء الواقعة : ۹۰،۸۹ ٤٣ لسان العرب المجلد الخامس صفحه ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
انوار العلوم جلد ۱۶ الزمر : ۷۴ ٤٥ الدهر : ١٢ الغاشية : ۱۴ تا ۱۷ ٤٨ الانعام: ۱۲۸ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۵۱ الرحمن : ۲۱،۲۰ ٨٣ النحل :٣٢ سیر روحانی (۳) الواقعة : ۱۶، ۱۷ ٤٩ الحج : ۳۹ تا ۴۱ الزخرف : ۷۲
انوار العلوم جلد ۱۶ جلسه سالانه ۱۹۴۱ ء کے کارکنوں سے خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ ء کے کارکنوں سے خطاب از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ ء کے کارکنوں سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ جلسه سالانه ۱۹۴ء کے کارکنوں سے خطاب ( خطاب فرموده ۴ / جنوری ۱۹۴۲ء بمقام مدرسہ احمدیہ قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - مستورات کے جلسہ گاہ کے پہرہ کا انتظام اور زیادہ بہتر ہونا چاہئے.یہ درست ہے کہ اس کام کے لئے مُعمر اصحاب مقرر کئے جائیں مگر نہ ایسے جو چلنے پھرنے اور خبر گیری سے معذور ہوں.خوراک کی پرچیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.اس دفعہ یہ انتظام بہتر صورت میں کیا گیا ہے مگر ابھی اور زیادہ بہتر بنانا چاہئے.اندازہ یہ ہے کہ اس دفعہ کھانا کھانے والے مہمانوں کی تعداد ۲۳ ۲۴ ہزار تھی اتنی ہی تعداد پر چیوں کے لحاظ سے بھی ہونی چاہئے تھی اور لنگر سے کھانا نہ کھانے والوں کی تعداد ملا کر کل تعداد ۳۰ ہزار کے قریب بنتی ہے.زنانہ جلسہ گاہ اس دفعہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ بڑھایا گیا تھا پھر بھی عورتیں بمشکل سا سکیں ، مردانہ جلسہ گاہ بھی پر تھا.خوراک کی پرچیوں کے متعلق احتیاط کرنے کے علاوہ مقامی جماعت نے اس بارے میں جو تعاون کیا ہے وہ بھی بہت مفید ثابت ہوا ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ مرکزی جماعت میں کتنا اخلاص ہے.جب اسے نصیحت کی گئی کہ جس قدر ممکن ہو سکے کھانے میں احتیاط کی جائے اور کم سے کم خرچ ہو تو اس پر عمل کیا گیا اور ۲ اور ۳ ہزار کے درمیان مہمانوں کا کھانا بچ گیا.امید ہے اگلے سال إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی ان اخراجات میں اور بھی کمی ہوگی.ہم یہ نہیں مان سکتے کہ اس سال مہمانوں کے کم آنے کی وجہ سے خرچ کم ہؤا اور اگلے سال اس سے بھی کم آئیں گے اس لئے اخراجات میں اور کمی ہو جائے گی.ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ اگلے سال بھی پہلے سے زیادہ مہمان آئیں گے اور اس سال بھی باوجود کئی ایک مشکلات کے کم نہیں آئے.ہاں جس نسبت سے اس دفعہ اخراجات کم ہوئے
جلسه سالانه ۱۹۴۱ ء کے کارکنوں سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ ہیں اگلے سال اسی نسبت سے اور بھی کم ہوں گے.میں دوستوں کے اس تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جو انہوں نے جلسہ کے اموال کی حفاظت میں کیا ہے اور انہیں عمدگی سے خرچ کرنے کی کوشش کی.میں اجرائے پرچی کے محکمہ کے متعلق اظہارِ خوشنودی کرتا ہوا دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس محکمہ میں کام کرنے والوں یا جو اور کام کرنے والے آئیں اُن کو اس سے بھی بہتر کام کرنے کی توفیق دے.سٹور کے متعلق میں ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف عزیز منصور احمد کے منہ سے نکلی ہوئی ایک بات کی وجہ سے توجہ ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جلسہ کے بعد ہر ایک نظامت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ کس کس نظامت نے کتنے برتن لئے اور ان میں سے کتنے واپس کئے.اس طرح آئندہ اس مفید امر کے لئے راستہ کھل جائے گا کہ نظامتیں جلد سے جلد برتن واپس کریں گے اور ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کیا جائے گا.اس دفعہ مردوں اور عورتوں کے جلسہ گاہ کو دیکھ کر اول تو میرا خیال ہے کہ حاضرین کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت کمی نہیں تھی اور اگر تھی تو بہت کم ( اس موقع پر عرض کیا گیا کہ ریل کے ٹکٹوں کے لحاظ سے جو شمار کئے گئے اس دفعہ کمی نہیں بلکہ کچھ زیادتی ہی تھی حضور نے فرمایا ) یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ کئی وجوہ کے باوجود خدا تعالیٰ نے آنے والوں کی تعداد میں کمی نہ ہونے دی.اس دفعہ قحط، جنگ، رعائتی ٹکٹ نہ ہونے اور بیماریوں کی وجہ سے خیال تھا کہ شاید مہمان کم آئیں گے لیکن خدا تعالیٰ کا یہ نمایاں احسان ہے کہ کمی نہیں ہوئی.دعا ہے کہ خدا جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو آئندہ اور بھی بڑھائے ، جماعت کی قربانیوں اور خدمات میں بھی زیادتی کرے اور زیادہ اپنے قرب میں جگہ دے تا کہ ہم وہ مقام حاصل کر لیں جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ الله تعالی ہم ورد سے راضی ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جائیں.(الفضل ۶ جنوری ۱۹۴۲ء)
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطار خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطابہ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ( تقریر فرموده ۲۱ جون ۱۹۴۲ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میری غرض اس جلسہ میں شامل ہونے سے یہ تھی کہ میں دیکھوں خدام الاحمدیہ کو کس طرح تنظیم کا کام سکھایا گیا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تنظیم کے کام کی طرف سے عہدہ داران خدام الاحمدیہ کو کلی طور پر غفلت ہے.حالانکہ کوئی خدمت صحیح طور پر نہیں ہوسکتی اور کامیاب طور پر نہیں ہو سکتی جب تک لوگ تنظیم کے ماتحت کام کرنے کے عادی نہ ہوں.خدام الاحمدیہ کی غرض یہ ہے کہ علمی طور پر بھی جماعت کے تمام افراد کو سلسلہ اور اسلام کے مسائل سے واقف کریں اور عملی طور پر بھی جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ضرورت کے موقع پر بلا دریغ اور بلا وقفہ خدمت کیلئے حاضر ہو جائے.تنظیم کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک وقت کے اندر کئی آدمیوں سے اس رنگ میں کام لیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کر سکیں ور نہ ہو سکتا ہے کہ عدم تنظیم کی وجہ سے طاقت بٹ جائے اور بجائے فائدہ کے نقصان پہنچ جائے مثلاً فرض کرو کہ کسی گاؤں میں اچانک دو تین جگہ آگ لگ جاتی ہے اب اگر تنظیم نہ ہو تو بالکل ممکن ہے جہاں تھوڑی آگ ہو وہاں تو سو آدمی پہنچ جائیں اور جہاں زیادہ آگ ہو وہاں دو چار آدمی ہی پہنچیں.نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تھوڑی آگ جسے گھر والے بھی بجھا سکتے تھے وہاں زیادہ آدمی پہنچ جائیں گے اور جہاں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوگی وہاں کم آدمی پہنچیں گے اور آگ کو بجھا نہیں سکیں گے اس لئے آگ ارد گرد پھیل کر کئی گھروں بلکہ ممکن ہے کہ سارے محلہ یا سارے گاؤں کو ہی بھسم کر ڈالے.تو تنظیم
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جتنی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہو اتنی طاقت استعمال کی جائے یعنی نہ تو ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ کی جائے اور نہ ضرورت سے کم.دوسری غرض تنظیم کی یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ امداد کی فوری ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کے موقع پر بغیر تنظیم کے آدمی جمع کرنے مشکل ہوتے ہیں جب کسی کو یہ علم ہی نہ ہو کہ میں کیس کے پاس جاؤں اور کسے بلاؤں اور پھر اسے یہ بھی خیال ہو کہ میں اگر کسی کو کہوں تو نہ معلوم وہ میری بات مانے یا نہ مانے تو وہ کیسے لوگوں کو جمع کر سکتا ہے، لیکن خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے ماتحت ایک گروپ لیڈر فوراً اپنے گروپ کے دس آدمیوں کو بلا سکے گا اور اُسے یقین ہوگا کہ وہ میری آواز پر اپنے تمام کام چھوڑ کر چلے آئیں گے.اور جس جگہ جانے کے لئے انہیں کہا جائے گا وہاں پہنچ جائیں گے.اسی طرح اگر کسی کام کے لئے پچاس آدمیوں کی ضرورت ہوگی تو بجائے اس کے کہ پچاس آدمیوں کے پاس ایک شخص پہنچے صرف پانچ آدمیوں کو جو گروپ لیڈر ہوں گے کہہ دیا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے گروپ لے کر فلاں مقام پر پہنچ جائیں اس طرح جس کام کے لئے ان کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ فوری طور پر سرانجام دیا جا سکے گا مگر یہ فائدہ ہم سبھی حاصل کر سکتے ہیں جب اس طرز پر کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالی جائے مگر آج مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ گروپوں کی تنظیم تک مکمل نہیں ہے اور گروپ کے ممبر بجائے ایک جگہ اکٹھے بیٹھنے کے ادھر اُدھر پھیل کر بیٹھے ہوئے تھے یہ بات تنظیم کے بالکل خلاف ہے اور اگر دشمن کسی مقام پر اچانک حملہ کر دے تو ایسی تنظیم کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.فرض کرو کہیں رات کو حملہ ہو جاتا ہے یا کسی جگہ آگ لگ جاتی ہے اور گروپ لیڈر کو کہا جاتا ہے کہ اپنے گروپ کو وہاں لے جاؤ تو اگر تنظیم درست ہو تو وہ فوراً انہیں ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائے گا لیکن اگر وہ منظم نہ ہو بلکہ کوئی کہیں اور کوئی کہیں تو وہ اسی تلاش میں رہے گا کہ میرا فلاں ممبر کہاں ہے اور فلاں کہاں ؟ اور جتنی دیر میں وہ اپنے گروپ کو اکٹھا کر یگا اتنی دیر میں ممکن ہے آگ اپنا کام کر جائے یا دشمن اپنے حملہ میں کامیاب ہو جائے.میں نے اسی نقص کو دیکھ کر کہ لوگ متفرق طور پر بیٹھے ہوئے ہیں اپنے اپنے گروپ میں نہیں ، تین منٹ کا وقت دیا تھا کہ اس عرصہ میں وہ اپنے گروپوں میں چلے جائیں حالانکہ یہ بہت زیادہ وقت تھا دراصل ایک منٹ کے اندر اندر ہر شخص کو اپنے گروپ میں چلے جانا چاہئے تھا مگر باوجود اس کے کہ میں نے تین منٹ کا وقت دیا پھر بھی بعض لوگ اپنے گروپ میں نہیں گئے حالانکہ موجودہ زمانہ کے سامانوں کے لحاظ سے تین منٹ کے اندر اندر قادیان جیسا قصبہ آدھا یا پورا جلایا جا سکتا ہے.پس
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب اگر ایسی ہی تنظیم ہو تو جتنی دیر گروپ لیڈر اپنے گروپ کو اکٹھا کرتے رہے ہیں اتنی دیر میں سارا گاؤں جل کر راکھ ہوسکتا ہے اور جتنی دیر میں آج گروپ اکٹھے ہوئے ہیں اتنی دیر میں ہوشیار دشمن سارے آدمیوں کو قتل کر سکتا ہے.مثلاً لڑائی کا وقت ہو، دشمن حملہ کے لئے سر پر آپہنچا ہو تو جتنی دیر میں آج وہ اکٹھے ہوئے ہیں اتنی دیر میں ہوشیار دشمن ساروں کو تہہ تیغ کر سکتا ہے پس ایسی تنظیم کا کیا فائدہ یہ تو محض وقت کو ضائع کرنے والی بات ہے آئندہ جب بھی کوئی جلسہ یا اجتماع ہولا زماً یہ بات ہونی چاہئے کہ ہر ممبر اپنے اپنے گروپ میں بیٹھے اور گروپ لیڈر جو بات کہے اُس کی اطاعت کی جائے.پھر جو لوگ ڈیوٹیوں پر مقرر ہیں اُن کے متعلق بھی یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی تنظیم کے ماتحت ڈیوٹیوں پر مقرر نہیں کیے گئے اور یہ غلطی زعماء سے ہوئی ہے کہ انہوں نے بعض آدمیوں کو ڈیوٹیوں پر تو مقرر کر دیا ہے مگر گروپ لیڈروں کو نہیں بتایا اس وجہ سے گروپ لیڈروں کو پتہ ہی نہیں کہ بعض ممبر ڈیوٹیوں پر ہیں.وہ کہتے ہیں غیر حاضر ہیں اور زعیم کہہ دیتا ہے کہ وہ غیر حاضر نہیں بلکہ ڈیوٹیوں پر مقرر ہیں حالانکہ تنظیم کے معانی یہ ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو گروپ لیڈر کی وساطت سے آدمی لئے جائیں.اگر کسی موقع پر زعیم کو کہا جائے کہ وہ اتنے آدمی فلاں جگہ بھجوا دے تو ایسی حالت میں اگر وہ کہتا ہے کہ آدمیوں کی تعیین کرنا میرے لئے ضروری ہے تو وہ گروپ لیڈروں کو کہہ سکتا ہے کہ فلاں فلاں آدمی کو بھجوا دیا جائے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ گروپ لیڈر خود ہی ہوشیار ہیں اور وہ موزوں اشخاص کو فوراً بھجوادیں گے تو وہ صرف اتنا کہے کہ اس قسم کے آدمیوں کو اتنی تعداد میں بھجوا دیا جائے.مثلاً اگر پہرے کا کام ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو مضبوط ہوں یا فرض کرو پیغام رسانی کا کام ہے تو اس کے لئے خاص مضبوط آدمی کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہوگی جس کی زبان بنک کے تالے کی طرح ہو وہ مرجائے ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے مگر کسی شخص کو راز بتانے کے لئے تیار نہ ہو پس وہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ پیغام رسانی کا کام ہے اس لئے ایسا شخص بھیجو جو اس کام کا اہل ہو.اس رنگ میں اگر کام کیا جائے تو اس کا نہ صرف یہ فائدہ ہوگا کہ تنظیم ترقی کریگی بلکہ گروپ لیڈر کو ہر شخص کے کریکٹر کے پڑھنے کا موقع ملتا رہے گا.اور جب گروپ لیڈر کو کوئی کام بتایا جائے گا تو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ کون آدمی کس کام کا اہل ہے اور جو آدمی جس کام سے مناسبت رکھے گا اُس کے سپرد وہ کام کر دے گا اور جب ان میں سے کسی کی کوئی کمزوری ظاہر ہوگی تو وہ نگرانی کر کے اُس کی کمزوری کو دور کر سکے گا.مثلاً اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ راز کی حفاظت نہیں کر سکتا
خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ تو آئندہ وہ اس کی ایسی نگرانی کرے گا کہ اُسے بھی راز کو محفوظ رکھنے کی عادت پیدا ہو جائے گی یا جب کسی کا پہرہ مقرر کر یگا تو دیکھ لے گا کہ آیا وہ سُست تو نہیں یا پہرہ کی اہمیت سے تو غافل نہیں کہ اسے پہرہ پر مقرر کیا جائے اور وہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے.مثلاً ہوسکتا ہے کوئی آدمی ہو تو مضبوط مگر وہ سست ہو یا اسے اپنے مقام سے چلے جانے کی عادت ہو اور جب اُس سے پوچھا جائے تو وہ کہدے کہ میں پانی پینے چلا گیا تھا یا پیشاب کرنے چلا گیا تھا حالانکہ پہرہ کے معافی یہ ہیں کہ اگر کسی کا پیشاب نکلتا ہے تو نکل جائے ، پیاس لگتی ہے تو لگتی رہے مگر وہ اپنے مقام سے ہلے نہیں جب تک اُس کا کوئی قائمقام نہ آ جائے بلکہ پیشاب، پاخانہ تو الگ رہا اگر نماز کا وقت آ جائے تب بھی پہرہ دار کو ملنے کی اجازت نہیں ہے.ہم جو خدام الاحمدیہ کو ٹر ینگ دے رہے ہیں یہ کسی دنیوی بادشاہت کی حفاظت کے لئے تو نہیں ہم تو خدام الاحمدیہ کو اس لئے ٹرینینگ دے رہے ہیں کہ اگر اسلام اور احمدیت کو کبھی خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے میدان میں نکل آئیں پس خدام الاحمدیہ کا کام دنیا کا نہیں بلکہ دین کا ہے اور یہ بھی جہاد کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے آج چونکہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں اس لئے خدام الاحمدیہ کا کام اس جہاد کے قائم مقام ہے پس جس طرح جہاد کے موقع پر ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح خدام الاحمدیہ کی ٹریننگ میں اگر کسی شخص کی کوئی نماز فوت ہو جاتی ہے اور وہ اُس وقت ڈیوٹی پر ہے تو اگر وہ اُس نماز کو دوسری نماز کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتا ہے تو وہ ہرگز گنہگار نہیں کہلا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے موقع پر ایسا ہی کیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ تو آپ نے چار نمازیں چھوڑ دی تھیں اور پھر ان سب کو ملا کر پڑھ لیا تھا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے اتنے پابند تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ اُسے نماز کی پابندی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر احساس ہے مگر باوجود اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز نہیں، دونمازیں نہیں ، تین نمازیں نہیں چار نمازیں چھوڑ دیں اور بعد میں ان کو جمع کر کے پڑھ لیا.پس اگر ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہوئے کسی شخص کی کوئی نماز رہ جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا بلکہ صرف اتنے معنی ہیں کہ وہ اُس وقت نماز نہیں پڑھے گا بعد میں پڑھ لے گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ سے فارغ ہوئے تو آپ نے چاروں نمازیں جمع کر لیں بلکہ بعض حالات میں آپ نے دو ایسی نمازیں بھی جمع کی ہیں جو عام حالات میں جمع نہیں ہو سکتیں مثلاً عصر کی نماز مغرب کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی مگر
خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنو قریظہ پر حملہ کیا تو آپ نے فرمایا اب ہم عصر کی نماز ان کے علاقہ میں جا کر پڑھیں گے.مطلب یہ تھا کہ لوگوں کو جلدی کرنی چاہئے اس پر بعض لوگ جو سامانِ جنگ جمع کر رہے تھے انہیں وہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی اور راستے میں ہی عصر کا وقت آگیا جب عصر کی نماز کا وقت تنگ ہونے لگا تو بعض نے کہا ہمیں یہیں نماز پڑھ لینی چاہئے اور بعض نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عصر کی نماز ان کے علاقہ میں پڑھی جائے گی تو ہم وہیں جا کر نماز پڑھیں گے چنانچہ بعض نے عصر کی نماز پڑھ لی اور بعض نے نہ پڑھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا جنہوں نے راستہ میں نماز نہیں پڑھی انہوں نے اچھا کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جنہوں نے راستہ میں نماز پڑھ لی انہوں نے بُرا کام کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں نے یہاں آ کر نماز پڑھی ہے وہ گنہگار نہیں ہیں حالانکہ عصر کی نماز مغرب کے وقت میں نہیں پڑھی جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ جب سورج زرد ہو جائے تو اس وقت نماز نہیں پڑھنی چاہئے کے مگر باوجود اس کے جہاد کے موقع پر آپ نے ان کو اجازت دی اور نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کے فعل کی تحسین کی اور اسے اچھا قرار دیا.تو بعض کاموں کے وقت ایسے ہوتے ہیں جب عبادت کو پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور جس کام میں انسان مشغول ہوتا ہے اُسے عبادت میں ہی شامل سمجھا جاتا ہے مثلاً پیچھے بعض خطرات کے موقع پر جب احرار کے اس قسم کے منصوبے سُننے میں آئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیت مبارک کو جلا دیں یا اس میں بم پھینک دیں تو وہاں پہرہ کا انتظام کیا.اب پہرہ دینے والا بیشک نماز میں شامل نہیں ہوتا لیکن وہ خدا کے حضور جماعت میں ہی شامل ہوتا ہے اور اگر اُسے دُکھ ہوتا ہے کہ نماز جارہی ہے مگر باوجود اس دُکھ کے وہ پھر بھی اپنے فرض کو ادا کرتا ہے تو اُسے دُہرا ثواب حاصل ہوتا ہے گویا اگر تو اُسے یہ دُکھ نہیں کہ کیوں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے انسان بعض دفعہ نماز باجماعت ادا نہیں کر سکتا تو اسے ایک ثواب حاصل ہوتا ہے مگر جن کے دلوں میں یہ درد بھی ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب ہم میں سے بعض کو نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھنی ہوتی بلکہ انہیں پہرہ کیلئے کھڑا رہنا پڑتا ہے تو انہیں دو ثواب ملیں گے ایک نماز باجماعت کا ثواب اور ایک اس دُکھ اور درد کا ثواب.....میری غرض آج کام کے دیکھنے سے یہی تھی کہ میں معلوم کروں خدام الاحمدیہ
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب کوکس رنگ میں ٹرینگ دی گئی ہے مگر کام دیکھنے کے بعد میں افسوس کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ کا کام بالکل صفر ہے.در حقیقت تنظیم ایسی ہونی چاہئے کہ ہر شخص حکم ملنے پر فوراً اُس کی تعمیل کے لئے کھڑا ہو جائے.اسی طرح جب بیٹھیں تو سب کو قطاروں کی صورت میں بیٹھنا چاہئے اور ر ایک قطار میں دو دو آدمی ہونے چاہیئں.آج اس صورت میں لوگ نہیں بیٹھے مگر میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ اس ہدایت کو محوظ رکھا جائے گا.اسی طرح مرکزی عہدے داروں کو بار بار ماتحت مجالس میں جا کر ان کا کام دیکھنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں چونکہ صد را ور سیکرٹری بار بار محلوں میں جا کر مجالس کے کام کو نہیں دیکھتے اس لئے یہ نقائص واقع ہوئے ہیں پھر بعض گروپ لیڈر ایسے ہیں جو چھوٹے ہونے کی وجہ سے دوسروں کو حکم نہیں دے سکتے اور وہ ان سے ڈرتے ہیں.بعض آداب مجلس کا خیال نہیں رکھتے چنانچہ میرے سامنے ایک گروپ لیڈر نے اپنے ممبروں سے کہا اچھا یا روکھڑے ہو جاؤ حالانکہ یہ ہمارے ملک میں شرفاء کی زبان نہیں سمجھی جاتی اگر صدر اور سیکرٹری متواتر ماتحت مجالس کے کاموں کو دیکھتے تو بہت سی غلطیوں کی اصلاح ہو جاتی.دفتری کام سے کبھی تنظیم نہیں ہوسکتی.تنظیم تبھی ہوتی ہے جب افسر شامل ہوں اور ان کے سامنے کام کیا جائے یا انہیں پتہ لگے کہ کام میں کیا کیا نقائص ہیں اور وہ کس طرح دُور کیسے جاسکتے ہیں.اسی طرح مثلاً خاموش رہنا ہے.لوگوں کو ایسی ٹرینینگ دینی چاہئے کہ جب خاموش ہونے کا وقت ہو تو اُس وقت بالکل نہ بولیں.میں نے دیکھا ہے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اچھے پڑھے لکھے آدمی جمعہ کے دن خطبہ کے وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح طور پر حکم ہے کہ کوئی شخص نہ بولے اور سب خاموشی سے خطبہ سنیں اس وقت بھی بول پڑتے ہیں.میں نے اسی جمعہ میں دیکھا کہ ایک گریجوایٹ جو قادیان میں ۱۴ ، ۱۵ سال سے بستا ہے خطبہ کے دوران میں ایک دوسرے شخص سے زبان سے یا اشارہ سے باتیں کر رہا تھا اور میں دُور سے دیکھ رہا تھا اسی طرح جمعہ کے دن میں نے ایک ناظر کو دیکھا وہ بار بار سر اور ہاتھ مار مار کر بعض اور لوگوں کو بلا رہے تھے کہ آگے آجاؤ حالانکہ یہ بالکل نا جائز ہے اشارے سے صرف منع کرنے کی اجازت کا حدیثوں میں ذکر آتا ہے." یہ کہیں نہیں آتا کہ اشارے سے دوسروں کو بلا یا بھی جاسکتا ہے.یعنی اگر کوئی شخص خطبہ کے وقت بول رہا ہو تو اسے منع کرنے کے لئے بھی دوسرں کو بولنے کی اجازت نہیں اُس وقت صرف خطیب کا کام ہے کہ وہ بولے یا پھر وہ شخص بولے جسے خطیب نے اجازت دی ہو دوسرے لوگ بول کر منع بھی نہیں کر سکتے.ہاں اتنی اجازت ہے کہ
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ہاتھ کے اشارہ سے دوسرے کو روک دیں مگر ہاتھ کے اشارے سے احکام دینے کی اجازت نہیں لیکن لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب اشارے سے منع کرنے کی اجازت ہے تو احکام دینے کے لئے بھی ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز ہے حالانکہ اشارے کی نفی کا حکم ہے مثبت کا حکم اشارے سے بھی نہیں سوائے اس کے کہ خطیب خود کہے یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن میں احکام کا تعطل ہو جاتا ہے.مثلاً خطبہ کے دوران میں اگر کوئی شخص بیہوش ہو جائے تو وہاں شریعت کا حکم فورا معطل ہو جائے گا.اُس وقت اگر کوئی شخص اس کی مدد کے لئے دوسروں کو آوازیں بھی دے گا تو یہ جائز ہوگا کیونکہ شریعت نے بعض مواقع کے متعلق کہہ دیا ہے کہ وہاں میرا حکم بند ہے تم جو مناسب سمجھو کرو.پس اُس وقت چاہے کوئی بولے یا شور مچائے سب جائز ہوگا.غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی بڑی غرض نوجوانوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنا اور انہیں اس بات کی عادت ڈالنا ہے کہ وہ اپنی تمام حرکات ایک ضبط کے ماتحت رکھیں.دُنیا میں کئی تاریخی مثالیں اس قسم کی ملتی ہیں کہ بادشاہ یا جرنیل گھوڑے سے گر گیا اور اُس کی اپنی فوج اُسے کچلتی ہوئی گزر گئی ، اُس کی وجہ یہی تھی کہ اُن میں تنظیم نہیں تھی اور انہیں اس بات کی عادت نہیں ڈالی گئی تھی کہ جب کہا جائے چلو تو سب چل پڑیں.عدم تنظیم کی وجہ سے کوئی کہتا رُکو، ڑکو اور کوئی کہتا آگے چلو، آگے چلو.اور ان میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچتا کہ اپنا جرنیل گرا پڑا ہے اُسے تو اُٹھا لیا جائے تو گروپ لیڈر کا حکم ماننے کی ہر شخص کے اندر روح پیدا کرنی چاہئے.یہ گروپ لیڈر کو چاہئے کہ وہ حکم دے، روڑو! اور جب دوڑ رہے ہوں تو یکدم حکم دے ٹھہرو اور کبھی دوڑاتے دوڑاتے کہہ دے دائیں طرف مردو کبھی کہہ دے بائیں طرف مڑو اور وہ سب کے سب حکم ملتے ہی اس کی اطاعت کریں.وہ کھڑا ہونے کے لئے کہے تو سب یکدم کھڑے ہو جا ئیں اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا ئیں.دوڑنے کو کہے تو سب دوڑنے لگ جائیں.اگر اس رنگ میں نو جوانوں کو ٹرینینگ دی جائے تو اُن کو ایسی عادت پیدا ہو جائے گی کہ اگر دو دن کا دُودھ پیتا بچہ بھی گر جائے گا اور انہیں حکم ملے گا کہ ٹھہر جاؤ تو یکدم سب کے قدم رُک جائیں گے لیکن اگر یہ عادت نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا اپنا گروپ لیڈر یا تمہارا زعیم ہا تمہارا سیکرٹری یا خدام الاحمدیہ کا اس سے بھی کوئی بڑا افسر گر جائے اور تم اپنے پیروں سے اُسے کچلتے ہوئے گزر جاؤ تو اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے مگر یہ عادت بغیر تنظیم کے پیدا نہیں ہوسکتی.ہر گروپ لیڈر جہاں کہتا ہے کھڑے ہو جاؤ ، وہاں تمہارا فرض ہے کہ کھڑے ہو جاؤ.جب تمہیں دوڑنے کے لئے کہے تو دوڑ پڑو.اور جب
خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب نه انوار العلوم جلد ۱۶ دوڑتے دوڑتے ٹھہرنے کا حکم دے تو تم اُسی وقت ٹھہر جاؤ چلتے ہوئے دائیں یا بائیں مڑنے کو کہے تو دائیں یا بائیں مڑ جاؤ.یہ فوجی پریڈ نہیں ہے کہ اس کے متعلق تمہیں یہ خدشہ ہو کہ گورنمنٹ نے اس سے روکا ہوا ہے گورنمنٹ نے صرف فوجی قواعد سے منع کیا ہوا ہے.چلنے پھرنے سے نہیں روکا اور یوں اگر دس آدمیوں کا اس طرح چلنا پھرنا منع ہو تو پانچ پانچ آدمی اس رنگ میں مشق کر سکتے ہیں.اگر پبلک طور پر اس قسم کی مشق کی ممانعت ہو تو گھروں میں یہ مشق کی جاسکتی ہے.بہر حال گورنمنٹ کا کوئی قانون ایسا نہیں ہو سکتا جو لوگوں کو باندھ کر رکھ دے.اگر تم عقل سے کام لوتو گورنمنٹ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتی جس کے ہوتے ہوئے اپنی تنظیم کو مکمل نہ کیا جا سکتا ہو اور میں چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی مجھے گورنمنٹ کا ایسا قانون بتائے جس کے ہوتے ہوئے جماعت کی تنظیم نہ ہو سکتی ہو.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کے تمام قواعد کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ہم جماعت کی تنظیم ہر رنگ میں کر سکتے ہیں صرف عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے.اب تو بعض جگہ یورپ میں بھی اس طریق کو استعمال کیا جا رہا ہے مگر میں نے سب سے پہلے اس گر کو کشمیر میں برتا تھا جب حکومت کشمیر نے بڑی سختی سے ریاست میں تقریریں وغیرہ روک دیں تو میں اُس وقت اُس تنظیم کے کا صدر تھا میں نے اشتہار دیا کہ گھر کے تمام لوگ رات کو ایک جگہ اکٹھے ہو جایا کریں اور بیوی بچے سب مل کر دعا کیا کریں یا اللہ ! فلاں فلاں ظالمانہ احکام کے متعلق تو حکومت کو توفیق دے کہ وہ اُن کو بدل دے اور تیرے بندے امن اور چین سے زندگی بسر کر سکیں.میں نے اِس دُعا میں اُن تمام احکام کو یکجا کر کے لکھ دیا جن کو ہم روکنا چاہتے تھے اور میں نے کشمیر والوں سے کہا کہ وہ روزانہ یہ دعا کیا کریں.اس طرح حکومت نے تقریروں سے منع کیا ہوا تھا تا لوگوں میں جوش پیدا نہ ہو مگر جب وہ سب مل کر روزانہ یہ دُعا کرتے تھے تو اس رنگ میں اُن کی پریڈ ہو جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر حکام ظالم ہوں تو تم دُعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اصلاح کر دے اس میں حکمت یہی ہے کہ اس طرح غصہ نکلتا رہتا ہے اور اگر کوئی حاکم واقعی ظالم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی اصلاح کر دیتا ہے یا اُس کے شر سے اپنے بندوں کو بچا لیتا ہے اور اگر ظالم نہ ہو مگر اُس کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہو تو دعا کے ذریعہ اس کا غصہ نکل جاتا اور اس طرح اس کے دل کو ایک رنگ میں سکون حاصل ہو جاتا ہے پس ہماری شریعت نے یہ بھی ایک علاج رکھا ہے کہ جب تمہیں کسی پر زیادہ غصہ آئے تو تم سجدے میں گر جاؤ اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں کرو.اس
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطابہ طرح غصہ بھی نکل جائے گا اور اصلاح بھی ہو جائے گی.تو اصل غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی یہی وجہ تھی مگر اس میں بہت کچھ نا کامی ہوئی ہے آئندہ کے لئے جو میں نے ہدایتیں دی ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے اور فرمانبرداری اور اطاعت کا ادہ ہر شخص کے اندر پیدا کرنا چاہئے.......اس نظام کی پابندی کی عادت نو جوانوں میں پیدا کرو اور اس غرض کو باقی تمام اغراض پر مقدم رکھو.یہی وجہ ہے کہ متواتر ایک سال سے میں مرکز والوں کو لکھ رہا تھا کہ تم خدام الاحمدیہ کا کوئی اجتماع کرو جس میں مجھے بھی بلاؤ تا میں دیکھ سکوں کہ انہیں کس رنگ میں منظم کیا گیا ہے.مگر مجھے یہاں آکر کئی قسم کی کوتاہیاں معلوم ہوئیں اگر صد را ور سیکرٹری بار بار دورہ کرتے اور اپنے سامنے خدام کو کام کرواتے تو اس قسم کی غلطیوں کو وہ خود بھی محسوس کر لیتے اور ان کو دُور کرنے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دفتری رنگ میں حکم بھیج کر عمدگی سے کام سرانجام دیا جا سکتا ہے حالانکہ اس طرح کبھی کامیابی نہیں ہوتی.میں نے اس معائنہ میں ایک اور بات بھی محسوس کی جو شریعت کے تمام اصول کے خلاف ہے.یوں تو جائز ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا ہے مگر استثنائی حالات میں، قاعدہ کلیہ کے رنگ میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ بالعموم جو گروپ لیڈر ہیں وہ لڑکے ہیں اور جو ان کے ماتحت ہیں وہ زیادہ تر تعلیم یافتہ یا زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے ہیں میں اس حکمت کو نہیں سمجھ سکا.ایک محلہ کے زعیم صاحب نے بتایا کہ گروپ لیڈر اُن کو بنایا گیا ہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں.یہ بات میرے لئے اس لحاظ سے خوشی کا باعث ہے کہ ہماری آئندہ نسل نماز کی زیادہ پابند ہے مگر اس کے ساتھ ہی اگر یہ درست ہو تو یہ بات میری آنکھیں کھولنے والی ہوگی کہ پرانے آدمی نمازی نہیں ہیں.اگر ان کی یہ بات درست ہے کہ گروپ لیڈر ان ہی کو بنایا گیا ہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں تو ماننا پڑے گا کہ جو ان گروپ لیڈروں کے ماتحت ہیں وہ نماز میں نسبتا سست ہیں اور یہ سخت افسوس کا مقام ہو گا.بہر حال شریعت نے اوّل تقویٰ والے کو فضیلت دی ہے پھر علم والے کوا اور پھر عمر والے کو اور یہی انہیں اپنے انتخابات میں مد نظر رکھنا چاہئے.مگر گروپ لیڈر بالعموم چھوٹی عمر کے ہیں اور بڑی عمر کے نوجوان ان کے ماتحت ہیں چنانچہ آج بھی ستر فیصد گروپ لیڈر ایسے ہی نظر آئے ہیں اور تمیں فیصد کچھ بڑی عمر کے گروپ لیڈر تھے حالانکہ خدام الاحمدیہ میں بڑھے تو ہوتے ہی نہیں سب نوجوان ہوتے ہیں.پس یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بڑی عمر والے بوجہ ضعف یا کمزوری کے گروپ لیڈر نہ بن سکتے ہوں کیونکہ وہ سب نوجوان ہیں.ہاں اگر کوئی بیمار
لشکر کا انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ہو تو الگ بات ہے مگر میں نے دیکھا ہے بالعموم گروپ لیڈر چھوٹی عمر کے ہیں اور یہ ایک نقص ہے جس کو دور کرنا چاہئے.اگر تو یہ انتخاب کی غلطی کا نتیجہ ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اگر یہ طریق عمل بڑوں کی کسی غلطی کے نتیجہ میں اختیار کیا گیا ہے تو انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے آج تو سب گھتم گتھا بیٹھے ہوئے ہیں اور گروپ لیڈر اپنے اپنے گروپ کے ساتھ نظر نہیں آتے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آئندہ ایسا اجتماع ایک وسیع میدان میں ہوگا اور ہر گروپ الگ الگ دکھائی دے گا پس اگر اُس وقت بھی گروپ لیڈر لڑکے ہی ہوئے تو اُن کے لئے جو جماعت میں زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے سمجھے جاتے ہیں کتنی شرم کی بات ہوگی.انہوں نے دنیا کو تو اپنے ظاہر کی وجہ سے دھوکا دیا مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ جماعت میں اچھے کارکن نہیں تھے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ قاعدہ کلیہ ہونا چاہئے کہ ہمیشہ بڑی عمر کے نوجوان گروپ لیڈر بنیں.میں نے اپنے خطبہ میں ہی مثال دی تھی کہ اسامہ بن زید کو جن کی عمر ۱۶ سال تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکی سردار مقرر فرما دیا تھا جس میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے حالانکہ اسامہ نہ تقویٰ میں اُن سے زیادہ تھے اور نہ جنگی فنون میں اُن سے زیادہ ماہر تھے.حقیقت یہ ہے کہ جس علاقہ میں یہ لشکر جا رہا تھا اُس علاقہ میں حضرت اسامہ کے والد مارے گئے تھے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو دوباتیں بتانے کیلئے اسامہ کو اس لشکر کا سردار مقرر فرمایا.اول یہ کہ ہمارے آدمی اگر مارے جائیں تو ہم اُن کے پسماندگان کی عزت کرتے ہیں.تم نے زید کو مارا تھا ہم نے اُس کے بیٹے اسامہ کو لشکر کا سردار بنا دیا.دوسرے یہ کہ ہم تمہاری ان تکالیف سے ڈرتے نہیں.تم نے زید کو مارا تھا اب اُسی کا لڑکا اسامہ پھر تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے آ رہا ہے.پس اس انتخاب کے ذریعہ ایک طرف تو آپ نے یہ بتایا کہ ہمارے آدمی موت سے نہیں ڈرتے باپ مرا ہے تو بیٹا اس کی جگہ آ گیا ہے اور دوسری طرف آپ نے یہ بتایا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے والوں کی عزت کرتے اور ان کے پسماندگان کا احترام کیا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ تک اس لشکر میں شامل تھے حالانکہ اسامہ تقویٰ یا علم میں ان سے بڑھے ہوئے نہیں تھے تو استثناء بھی ہو سکتے ہیں مگر قاعدہ کلیہ میں ہے کہ جس میں تقویٰ زیادہ ہوا سے مقدم رکھا جائے.تقویٰ سے فیصلہ نہ ہو سکے تو پھر علم کو مقدم رکھا جائے گا اور جسے زیادہ علم ہو گا اُسے عہدہ دیا جائے گا مگر علم سے مراد کتابی علم نہیں بلکہ کام کرنے کی اہلیت اور اس کے لئے جس علم کی ضرورت ہو اس کی موجودگی مراد ہے.اگر اس طرح بھی فیصلہ نہ ہو سکے تو جس کی عمر زیادہ ہوا سے
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب عہدہ دیا جانا چاہئے.چنانچہ نماز میں شریعت نے یہی حکم دیا ہے کہ جو شخص زیادہ متقی ہو یا زیادہ علم والا ہو یا زیادہ عمر والا اسے امام بنانا چاہئے.یہی لیڈروں کے انتخاب کے متعلق اسلام کے اصول ہیں گواستثنائی حالات میں ان کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جو ظاہری طور پر کسی فن میں ماہر ہے یا لوگوں میں بڑا مقبول ہے تو خواہ وہ چھوٹی عمر والا ہی ہو اگر اُس کو مقرر کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہو سکتی مگر قاعدہ کلیہ یہی ہونا چاہئے کہ گروپ لیڈروں کے انتخابات میں اسلام کے بیان کردہ اصول کو مد نظر رکھا جائے.میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ انتظام زیادہ بہتر رنگ میں کیا جائے گا اور بیرونی جماعتوں میں بھی انہی اصول کو رائج کیا جائے گا.میں نے یہ بھی دیکھا کہ بعض گروپوں میں زیادہ نوجوان شامل ہیں اور جو تعداد مقرر ہے اُس کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.اس طرح بعض جگہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے میں فلاں گروپ میں شامل ہوں اور گروپ لیڈر کہتا ہے کہ یہ میرے گروپ میں نہیں اس قسم کی غلطیاں بھی نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس طرح انسان غلط نہی میں رہتا ہے اور اُس کا ذہن صحیح طور پر کام نہیں کرتا.پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم مکمل ہونی چاہئے اس کے بعد اگلا قدم کام لینے کا ہے اگر آئندہ کوئی موقع پیدا ہوا تو میں اس اگلے قدم کے متعلق مناسب ہدایات دونگا اور بتاؤ نگا کہ کام لینے کے مواقع کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں اور جب کام لینے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو کس طرح کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ صرف تنظیم فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کام لینے کے مواقع نہ پیدا کئے جائیں اور نو جوانوں سے صحیح رنگ میں کام لے کر ان کی قوتوں کو بیدار نہ کیا جائے.في الحال میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور دُعا کر کے واپس جاتا ہوں اگر جلسے کا کوئی اور حصہ ہو تو وہ اس کے بعد کیا جاسکتا ہے.ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۳۴۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء بخاری کتاب المغازی باب رجع النبی صلی الله عليه وسَلَّمَ من الاحزاب (الخ) ترمذی ابواب الصلوة باب ما جاء في مواقيت الصلوة - ه بخارى كتاب الجمعة باب الانصاتُ يَومَ الجُمعة - کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی: ۲۵ / جولائی ۱۹۳۱ ء کو نواب سر ذوالفقار علی خان آف مالیر کوٹلہ کی
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب کوٹھی پر شملہ میں ایک اجلاس ہوا.جس میں ہندوستان کے بہت سے مسلمان لیڈر اور حضرت مصلح موعود شامل ہوئے.اجلاس میں طے پایا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے.علامہ اقبال، خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمان لیڈروں نے حضرت مصلح موعود کو اس کمیٹی کا صدر بنایا.(تلخیص از تاریخ احمدیت جلد ۵ جدید ایڈیشن صفحه ۴۱۵ تا ۴۲۱)
انوار العلوم جلد ۱۶ ہما را آکنده رویه ہمارا آئندہ رویہ از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ہما را آکنده رویه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ ہمارا آئندہ رویہ ( تحریر فرموده اگست ۱۹۴۲ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اپنے تازہ خطبہ کے بعد دُعاؤں اور غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کانگرس کی طرف سے جو ملک میں تعطل اور فساد پیدا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اس بارہ میں ہمارے لئے دو راستے کھلے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا اختیار کرنا حکومت کے رویہ پر منحصر ہے.وہ دو راستے یہ ہیں.اوّل.کانگرس کی فساد انگیز جد و جہد کا مقابلہ کرنا.دوم.جماعتی طور پر اندرونی فساد کا مقابلہ کرنے میں حصہ نہ لینا اور صرف جنگ کے متعلق کوششوں میں حکومت کی مدد پر اکتفا کرنا.در حقیقت امراؤل ہی ایک مکمل راستہ ہے لیکن اس بارہ میں ہمارا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ: اول حکومت پہلے کانگرس سے جنگ شروع کرتی ہے اور وفادار جماعتوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتی ہے.پھر جب اپنے ہمسائیوں اور بسا اوقات اپنے عزیزوں سے لڑائی شروع ہو جاتی ہے گاندھی جی روزہ رکھ لیتے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور حرکت ہو جاتی ہے جو دل کی تبدیلی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک دھمکی ہوتی ہے.حکومت اس سے ڈر کر کانگرس سے صلح کر لیتی ہے اور : (الف) وہ تعاون کرنے والی جماعتیں جو ایک غیر ملکی حکومت کی خاطر اپنے عزیزوں اور دوستوں سے لڑنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں نہایت شرمندہ ہو جاتی ہیں اور مہینوں اور سالوں اُن کو دوسرے لوگوں کی طرف سے طعنے ملتے ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ ہمارا آئندہ رویه (ب) کانگرس کی منظم جماعت ان کے خلاف ریشہ دوانی شروع کر دیتی ہے اور وہی حکومت جس کی تائید کی وجہ سے وہ جماعتیں بدنام ہوتی ہیں ان وفادار جماعتوں کے خلاف کانگرسی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کارروائیاں شروع کر دیتی ہے.جماعت احمدیہ کو اس کا تلخ تجربہ حاصل ہے.جماعت احمدیہ نے متواتر کانگرس کے خلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ دیا.کانگرس کا وہ حصہ جو مسلمانوں میں کام کر رہا ہے احراری جماعت ہے یہ جماعت پہلے جماعت احمدیہ سے اچھے تعلقات رکھتی تھی.۱۹۲۷ء کی تحریک میں میرے اشتہارات پر انہوں نے لبیک کہتے ہوئے مسلمانوں کی اقتصادی تحریک کی درستی کے لئے کام کرنا شروع کیا.اسی سال میں چوہدری افضل حق صاحب نہایت تپاک سے مجھے شملہ میں ملتے رہے اور انہوں نے بعض سفارشیں کرنے کی بھی مجھ سے خواہش کی جس کے مطابق میں نے کام کر بھی دیا.اس کے بعد پھر کانگرس سے ہمارا مقابلہ ہوا.یہ جماعت کانگرس سے مل گئی اور ۱۹۳۴ ء میں اس نے ہمارا مقابلہ شروع کیا.گورنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک اس کی امداد کرتے رہے اور عدالتوں میں اور عدالتوں کے باہر جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی.ہم مسٹر بٹلر سابق نائب وزیر ہند کے ممنون ہیں جنہوں نے حکومت ہند کی معرفت پنجاب کی حکومت کو اس طرف توجہ دلائی اور اُس وقت کی حکومت پنجاب نے غلط بیانی کر کے اپنی جان چھڑوائی اور حکومت برطانیہ کو جواب دیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو وفا دار سمجھتے ہیں حالانکہ حکومت پنجاب حکومت ہند کو جو رپورٹیں بھجواتی رہی تھی ان میں بالوضاحت جماعت احمدیہ کی وفاداری پر شکوک کا اظہار کرتی رہی تھی.گزشتہ سے گزشتہ سال کے جلسہ پر جب سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نامہ نگار نے ایک معاندانہ اور جھوٹا نوٹ میری تقریر کی نسبت شائع کیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ گویا میں نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ہم کانگرس کی طرح عدم تشدد کے قائل نہیں اور ہم حکومت کا تشدد سے مقابلہ کریں گے جو ایک صریح جھوٹ تھا اور ہمارے عقائد کے خلاف تھا تو اس پر اُس وقت کے گورنر صاحب نے حکومت ہند کو اس جھوٹے نوٹ کی طرف توجہ دلائی اور جو تردید میری طرف سے ہوئی تھی اُسے اس رنگ میں پیش کیا کہ گویا میں نے بعد میں جھوٹ بول کر اپنی تقریر کی تردید کی ہے اور یہ گورنر صاحب اپنی خط و کتابت میں اپنے آپ کو میرا Very sincere friend لکھا کرتے تھے.تازہ واقعہ ڈلہوزی کا واقعہ ہے اس میں ہمیں باغی بتانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کوشش کے پیچھے بعض مخالفین حکومت کا ہاتھ تھا جنہوں نے بعض پولیس افسروں سے مل کر یہ شرارت ہم سے وفاداری کا بدلہ لینے کے
انوار العلوم جلد ۱۶ لئے کی تھی.ہما را آکنده رویه ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون سب سے بڑا جرم ہے.گورنمنٹ کے مخالف ان باتوں کو نہیں بھولتے وہ بعد میں بدلہ لینے کی ہر تد بیر اختیار کرتے ہیں اور حکومت کے بعض افسران کی پیٹھ ٹھونکتے اور وفاداروں کو باغی بتانے کی کوشش کرتے ہیں.ان حالات کی موجودگی میں اگر کانگرس اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائے اور ایک عام شورش ملک میں پیدا کر دے تو چونکہ یہ اس کی آخری جنگ ہوگی وہ ان جماعتوں کے خلاف یقیناً نفرت کے جذبات سے بھر جائے گی جو اس وقت اس کا مقابلہ کریں.حکومت کے استحکام کے لئے یہ قربانی کی جاسکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومت خود ہی چند دنوں کے بعد گاندھی جی کے روزہ سے ڈر کر کانگرس کے آگے ہتھیار ڈال دے تو ان تعاون کرنے والی جماعتوں کے لئے ہندوستان میں کونسی جگہ رہ جائے گی ؟ وہ ایک لمبے عرصہ کے لئے ذلیل ہو جائیں گی اور ملک میں اپنا وقار کھو بیٹھیں گی.پس ان حالات میں میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم حکومت کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور اپنے تمام ذرائع اس کے سپرد کرنے کے لئے آمادہ ہیں بشرطیکہ وہ اس امر کا واضح الفاظ میں اعلان کر دے کہ وہ مسٹر گاندھی کے روزہ سے ڈر کر یا کسی اور ایسی ہی تدبیر سے خائف ہو کر اس وقت ملک میں فساد کرنے والوں کے آگے ہتھیار نہ ڈال دے گی اور ندامت کے اظہار یا اپنی غلطی کا اقرار لئے بغیر انہیں آزاد نہ کرے گی.اگر وہ یہ اعلان کر دے تو باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم اس کی جماعتی طور پر مدد کرنے کے لئے تیار ہونگے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہی صورت ہمارے لئے باقی رہ جائے گی کہ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے ہم حکومت کی مدد کرتے رہیں گے لیکن اندرونی فسادات کے متعلق ہم غیر جانبدار کی حیثیت میں رہیں گے گورنمنٹ اور کانگرس آپس میں نپٹتے پھریں ہم جماعتی طور پر اس جھگڑے میں کوئی حصہ نہ لیں گے.ہاں اگر منفردانہ طور پر جماعت احمدیہ کا کوئی آدمی گورنمنٹ کی مدد کرنا چاہے تو ہم اس سے اُسے روکیں گے نہیں مگر کانگرس کی مدد کسی احمدی کو انفرادی طور پر بھی نہ کرنے دیں گے کیونکہ حکومت کا مقابلہ کرنا ہمارے مذہبی اصول کے خلاف ہے.میرے مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچنے کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا آئندہ طریق عمل حکومت کے فیصلہ پر منحصر ہے اگر حکومت اس امر کا اعلان کر دے گی کہ تو بہ کا اعلان کئے بغیر وہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی اور کانگرس سے ڈر کر اُس سے صلح نہ کرے گی تو ہم پورے طور پر اس کا
انوار العلوم جلد ۱۶ ہما را آکنده رویه ساتھ دیں گے لیکن اگر وہ ایسا اعلان نہ کرے گی تو ہم اپنے قومی تعاون کو جنگی کوششوں تک محدود رکھیں گے.اب میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ چونکہ وقت تھوڑا ہے ہر جگہ کی جماعتوں کو اپنے آپ کو فوراً زیادہ سے زیادہ منظم کرنا شروع کر دینا چاہیئے تا اگر ملک میں فساد ہو اور ہم حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو فوراً عملی کام شروع کیا جا سکے.اگر اس دفعہ ہندوستان میں فساد ہؤا تو وہ پہلے فسادوں کی طرح نہ ہوگا بلکہ غالباً بہت وسیع ہوگا اور باوجود کانگرس کے عدم تشدد کے دعوی کے وہ خون ریزی اور قتل و غارت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا سو اس کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہمارے دوستوں کو اپنی جانوں اور مالوں کی قربانیوں کا جہیہ کرنا پڑے گا.وہ لوگ ہر گز اس کام کے لئے تیار نہ ہوں جو دوسرے دن مجھے خط لکھنے لگیں کہ کانگرسی ہمیں یوں ستاتے ہیں اور یوں دُکھ دیتے ہیں مرکز ہماری مدد کرے.ان بز دل سپاہیوں کی اس جنگ میں ضرورت نہ ہوگی جولڑائی پر جاتے ہوئے پہرہ کا مطالبہ کریں اُن کا مقام احمدیت میں نہیں ہے ان کو اپنی جانیں بچانے کے لئے ارتداد اختیار کر لینا چاہیئے کہ احمدیت کی بھٹی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.ہمیں اگر اس جنگ میں شریک ہونا پڑا تو اس کی امید بھی نہ رکھنی ہوگی کہ حکومت ہماری مدد کرے گی یا مرکز ہماری مدد کرے گا بہادر اِن اُمور کی طرف نگاہ نہیں رکھتے وہ صرف ایک بات جانتے ہیں قربانی اور پھر قربانی.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.خاکسار مرزا محمود احمد ( الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۴۲ء)
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب خدام الاحمدیہ سے خطاب از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اصبح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدام الاحمدیہ سے خطاب فرموده ۱۸ / اکتو بر۱۹۴۲ء بر موقع چوتھا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - مجھے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال بیرونی خدام کی حاضری دوسو پچاس کے قریب تھی اور اس سال بیرونی خدام کی حاضری ۳۸۶ ہے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قادیان کے ارد گرد بہت سی نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو روز بروز زیادہ مکمل ہوتے چلے جانا چاہئے میرے نزدیک یہ حاضری تسلی بخش نہیں.کہا جاتا ہے کہ ملازم پیشہ لوگوں کو اس دفعہ رخصتیں نہیں مل سکیں مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں گزشتہ سال بھی ملازم پیشہ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اس لئے یہ اثر در حقیقت زمینداروں کی کمی کی وجہ سے پڑا ہے.ابھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگ با وجود رخصت نہ ملنے کے زیادہ تعداد میں شریک ہوئے ہیں اس لئے حاضری میں کمی زمینداروں کی طرف سے ہی ہوئی ہے.میرے نزدیک اس قسم کی ریلی میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سارے خدام آئیں بلکہ ان کے نمائندے ہی اس موقع پر آنے چاہئیں ہاں اگر کوئی شخص شوق سے آنا چاہے تو اُسے آنے کی اجازت ہونی چاہئے یہ پابندی نہیں ہونی چاہئے کہ نمائندوں کے سوا اور کوئی نہ آئے.پھر اُن نمائندوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہاں کی کارروائیوں کو نوٹ کریں اور اپنی اپنی مجالس میں اسی لائن پر خدام الاحمدیہ کا اجتماع کریں مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے جو شخص اپنی مرضی اور خواہش سے آنا چاہے اُسے روکنا نہیں چاہتے بلکہ اُسے بھی شامل ہونے کی اجازت دینی چاہئے.(سوائے مجلس کے کہ جس میں صرف نمائندے ہونے چاہئیں ورنہ رائے شماری غلط ہو جائے گی ) پھر یہ امر مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ صدر کے انتخاب کے موقع پر ہر جماعت کا ووٹ اُس جماعت کے افراد کے لحاظ
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب.سے شمار ہونا چاہئے در حقیقت اصول یہی ہوتا ہے کہ چونکہ جماعت کے تمام افراد جمع نہیں ہو سکتے اس لئے اُن کا نمائندہ جب کسی رائے کا اظہار کرتا ہے تو وہ رائے تمام جماعت کی سمجھی جاتی ہے اس وجہ سے اُس کا ووٹ ایک نہیں ہوگا بلکہ جس قدر اُس جماعت کے افراد ہوں اُسی قدر اُس کے ووٹ سمجھے جانے چاہئیں.مثلاً فرض کر و لا ہور کی جماعت والے کسی ایک شخص کو بھیج دیتے ہیں اور لاہور کی جماعت کے ممبر ڈیڑھ سو ہیں تو جب ووٹ لیا جائے گا اس ایک شخص کا ووٹ ڈیڑھ سو ووٹ کا قائم مقام سمجھا جائے گا.ایسے موقع پر پہلے سے آئندہ سال کے لئے عہدہ داروں کے نام منگوا لینے چاہئیں اور اُن ناموں کی بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے دینی چاہئے کہ فلاں فلاں نام صدارت کے لئے تجویز کئے گئے ہیں ان کے متعلق اپنی جماعت کی رائے دریافت کر کے اپنے نمائندہ کو اطلاع دے دی جائے مگر اس بات کا نہایت سختی سے انتظام کرنا چاہئے کہ انتخاب کے موقع پر کسی قسم کا پراپیگنڈا نہ ہو یہ اسلامی ہدایت ہے اور جو شخص اس ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے.ہر شخص کی جو ذاتی رائے ہو وہی اُسے پیش کرنی چاہئے.جو شخص دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ میرے حق میں ووٹ دو یا کسی دوسرے کی رائے کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے وہ قوم کا مجرم ہے اور ایسے شخص کو سخت سزا دینی چاہئے تا کہ آئندہ جماعت کے قلوب میں یہ امر راسخ ہو جائے کہ ہم نے ایسے انتخابات میں کبھی بھی دوسرے کی رائے کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ جو ذاتی رائے ہو اُسی کو پیش کرنا ہے.ہاں جیسا کہ صحابہ کے طریق سے معلوم ہوتا ہے عین مجلس میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا حق حاصل ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جب خلافت کے لئے انتخاب ہوا تو اس پہلی خلافت کے موقع پر انصار اور مہاجرین دونوں گروہوں نے اپنے اپنے دلائل دیئے.مہاجرین نے اس بات کے دلائل دیئے کہ کیوں مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے اور انصار نے اس بات کے دلائل دیئے کہ کیوں کم سے کم انصار میں سے بھی ایک خلیفہ ہونا چاہئے.انصار کہتے تھے کہ ہم اس بات کے مخالف نہیں کہ مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ ہو ہم صرف یہ کہتے تھے کہ ہم میں سے بھی ایک خلیفہ ہو اور مہاجرین میں سے بھی ایک خلیفہ ہولے غرض مجلس میں دلائل دیئے جا سکتے ہیں مگر یہ جائز نہیں کہ الگ اور مخفی طور پر دوسروں کو تحریک کی جائے کہ فلاں کے حق میں رائے دی جائے اِس قسم کا پراپیگنڈا اسلام کے بالکل خلاف ہے.ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجلس میں آکر اپنے اپنے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں مثلاً فرض کرو صدر کے انتخاب کے موقع پر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ نئے آدمیوں کو کام
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ میں پرانے صدر کے خلاف نہیں مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ نئے آدمیوں کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے تا کہ انہیں بھی تجربہ حاصل ہوا اور وہ بھی اس قسم کی ذمہ واری کا کام کرنے کے قابل ہوسکیں.اس کے مقابلہ میں جو شخص پرانے صدر کا حامی ہو وہ یہ کہ سکتا ہے کہ جب ایک شخص کو تجربہ حاصل ہو چکا ہے تو اگر اسے ہٹا دیا جائے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے تجربہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.غرض اپنے اپنے رنگ میں دونوں فریق دلائل دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ اس طرح علمی ترقی ہوتی ہے ہاں اُس وقت وقتی طور پر ایسا صدر ہونا چاہئے جوز بر دست اور بارعب ہوا اور کسی کو مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے بلکہ جیسے پارلیمنٹ کے جلسوں میں ایسے موقع پر صدر کو سپاہیوں کی ایک جمعیت دے دی جاتی ہے تا کہ اگر کوئی نافرمانی کرے تو پولیس کے ذریعہ اس کا تدارک کیا جائے اسی طرح انتخابات کے موقع پر جو وقتی طور پر صدر مقرر ہو اُس کے ساتھ بھی نو جوانوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے تا کہ اگر کوئی شخص نافرمانی کرے تو اسے مجلس سے نکالا جا سکے یا اُسے مناسب سزا دی جائے.اسی طرح دوسرے لوگ بھی صدر اُس وقت جو بھی حکم دے اُس کو دلیری سے اور بغیر کسی کے لحاظ کے پورا کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں اس رنگ میں اگر کوئی کام کیا جائے اور باہر سے آنے والوں کی رائے اِن کی جماعت کی تعداد کوملحوظ رکھ کر شمار کی جائے تو اس طرح نہ صرف جماعتوں کو اُن کا ایک حق دیا جا سکے گا بلکہ مرکز کو بھی آئندہ یہ خیال رہے گا کہ وہ ہر جماعت کی تعداد کو محفوظ رکھے.فرض کرو ایک شخص کہتا ہے ہماری جماعت کی تعداد دو سو ہے ایسے موقع پر اگر مرکز کے پاس اس جماعت کی تعداد محفوظ ہوگی تو وہ بتا سکے گا کہ یہ تعداد درست ہے یا نہیں یا اس تعداد میں کتنی کمی بیشی ہے.پس اس کے نتیجہ میں ایک طرف تو مرکز کو توجہ رہے گی کہ وہ تمام جماعتوں کو ایک نظام کے ماتحت لانے کی کوشش کرے اور دوسری طرف جماعتوں کو یہ احساس پیدا ہوگا کہ ہماری جماعت کی تعداد زیادہ ہو اور ہم وقت سے پہلے پہلے اپنی تعداد کو درج رجسٹر کرالیں.پس ایک تو آئندہ سال سے اس بات کا انتظام کرنا چاہئے دوسرے قادیان کے محلوں میں سے بھی ایسے موقع پر ان کے صرف نمائندے ہی آنے چاہئیں تا کہ جب انتخاب ہو تو اُس وقت ہجوم نہ ہو.ہر محلے والے اپنے اپنے آدمی بھیج دیں اور اُن کا فرض ہو کہ جب انتخاب کا وقت آئے تو وہ اکثریت کی رائے کو پیش کردیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ کچھ لوگوں کی رائے ایک طرف ہو سکتی ہے اور کچھ لوگوں کی رائے دوسری طرف ہو سکتی ہے اور اس طرح ان
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب لوگوں کو جن کی رائے عام انتخاب کے موقع پر نہ پیش کی جائے گلہ اور شکوہ پیدا ہوسکتا ہے مگر بہر حال چونکہ عام طریق یہی ہے کہ اکثریت کی رائے کو پیش کیا جاتا ہے اس لئے جماعت کی رائے وہی سمجھی جائے گی جو اکثریت کی رائے ہوگی.بے شک اکثریت کی رائے میں بھی نقص ہو سکتا ہے مگر بہر حال اس ناقص دنیا میں ناقص قوانین میں سے جو زیادہ بہتر ہو اسی کو اختیار کیا جائے گا.پس قادیان سے بھی انتخاب کے موقع پر محدود آدمی شامل ہونے چاہئیں.مثلاً دارالرحمت والے ایک نمائندہ بھیج دیں، دارالانوار والے ایک نمائندہ بھیج دیں اسی طرح باقی محلوں والے ایک ایک نمائندہ بھیج دیں مگر عام ریلی کے سلسلہ میں قادیان والوں کو لازما حاضر ہونا چاہئے اور جو باہر کی مجالس ہیں ان کے متعلق کوئی قانون مقرر کر لیا جائے مثلاً پچاس ممبروں پر وہ ایک نمائندہ بھیج دیں یا تھیں ممبروں پر ایک نمائندہ بھیج دیں بلکہ ہو سکتا ہے آئندہ بڑھتے بڑھتے ہمیں فی ہزار ایک یا فی دس ہزار ایک نمائندہ لینا پڑے.مثلاً لا ہور کسی وقت سارے کا سارا احمدی ہو جاتا ہے اور لاہور کی آبادی پانچ لاکھ ہے تو اس میں سے اگر تین لاکھ، پندرہ سے چالیس سال عمر والے سمجھ لئے جائیں اور نصف تعداد عورتوں کی نکال دی جائے تو ڈیڑھ لاکھ آدمی رہ جائیں گے اب اگر ہم سوسو پر ایک نمائندہ لیں تو ڈیڑھ ہزار نمائندے بن جائیں گے اور اگر دس دس ہزار پر ایک نمائندہ لیں تو پندرہ نمائندے آئیں گے اسی طرح اگر کسی وقت لاہور میں خدام کی اتنی کثرت ہو جائے کہ ان کا کوئی ایک اجتماع نہ ہو سکے تو وہ ایسے موقع پر محلہ وار نمائندے بھیج سکتے ہیں مگر بہر حال ان کے ووٹ اُسی قدر سمجھے جانے چاہئیں جس قدر ان کے حلقہ کی جماعت کی تعداد ہو.پس ایک تو میں یہ ہدایت دیتا ہوں.دوسرے ریلی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اس میں قادیان کے سب لوگوں کو حاضر ہونا چاہئے مگر باہر سے صرف نمائند ے بلائے جائیں ہاں اگر کوئی شخص اپنے شوق سے آنا چاہے تو اُس کے لئے شامل ہونے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہئے.اب میں خدام الاحمدیہ کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں میں نے گل خدام الاحمدیہ کو کام کرتے دیکھا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس دفعہ اصول کو مدنظر رکھ کر کام کیا گیا ہے چنانچہ جب مشاہدہ و معائنہ کا مقابلہ ہو رہا تھا تو میں نے دریافت کیا کہ تم کس طرح اس کے متعلق فیصلہ کرو گے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے خود مشاہدہ و معائنہ کر کے اس کے بعض پوائنٹ مقرر کئے ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر ہم اس بارہ میں آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہیں.اسی طرح آواز کی بلندی کے مقابلہ میں ایک ترتیب سے نشان لگائے گئے تھے اور اس میں تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا تھا.
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ آواز کی صفائی کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا اور آواز کے دُور تک پہنچنے کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا.گویا جو پہلو ضروری ہیں اُن کو انہوں نے ملحوظ رکھا تھا ایک کمی ہے جو دُور کی جانی چاہئے.آئندہ ہر بڑی جماعت کو ہر عملی مقابلہ میں اپنے نمائندے بھیجنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے تا کہ تربیت کی طرف مجالس کو زیادہ توجہ ہو میرے نزدیک تمام مشقوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مشق جس سے دشمن کے مقابلے میں فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور جس کی طرف ہماری جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے حواس خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش ہے یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری چیز ہے میں نے افسوس سے یہ امرسُنا ہے کہ اس دفعہ وقت کی کمی کی وجہ سے اس قسم کے مقابلے کم رکھے گئے ہیں در حقیقت یہ توازن کی غلطی تھی ورنہ ان مقابلوں کے لئے زیادہ وقت مقرر کرنا چاہئے تھا مثلاً ناک کی جس ہے یہ ایک اعلیٰ درجہ کی جس ہے اور اس سے بڑے بڑے کام لئے جا سکتے ہیں ناک کی جس اگر تیز ہو تو اس سے صرف خوشبو اور بد بو کا ہی احساس ترقی نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے.کہ کس کس قوم میں کس کس قسم کی بُو پائی جاتی ہے.وحشی اقوام میں یہ جس اتنی تیز ہوتی ہے کہ سونگھ کر بتا دیتی ہیں کہ یہاں سے فلاں قوم کا آدمی گزرا ہے.مختلف قوموں میں خاص خاص قسم کی بُو پائی جاتی ہے مثلاً مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں جتنے انگریزوں سے ملا ہوں مجھے اُن سے ایک قسم کی مچھلی کی بو آئی ہے.اب اگر میرا یہ اثر صحیح ہو اور ہماری ناک کی جس تیز ہو تو خواہ ہماری آنکھیں بند ہوں ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریز کھڑا ہے یا اگر ہمارے قریب سے کوئی انگریز گزرے گا ہم فوراً پہچان جائیں گے کہ کوئی انگریز گزر رہا ہے.اسی طرح افغانستان کے باشندوں میں میں نے محسوس کیا ہے کہ اُن سے اُس کھال کی سی جس پر برسات گزری ہو بومحسوس ہوتی ہے.اب اگر میرا یہ خیال صحیح ہو یا پچاس فیصدی ہی درست ہو تو کسی علاقہ میں سے گزرتے ہوئے اگر وہاں پٹھان ہوں گے ہم فوراً اپنی ناک کی جس سے پہچان لیں گے کہ یہاں پٹھان رہتے ہیں.فرض کرو پٹھان ہمارے دوست ہیں اور جنگ کے موقع پر ہمیں ان کی امداد کی ضرورت ہے تو ہم اپنی اس ناک کی جس سے کام لے کر فوراً اپنے دوستوں کو شناخت کرلیں گے اور اُن کی مدد حاصل کر لیں گے اس قسم کی بُو کا احساس خصوصاً بند کمروں میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں بو زیادہ دیر تک رہتی ہے بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد بھی کسی کمرہ میں آؤ اور تمہاری ناک کی جس تیز ہو تو تمہیں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اس کمرہ میں کس قسم کے لوگ ٹھہرے ہیں.میں نے دیکھا ہے میرے کمرہ میں عطر پڑا ہوا ہوتا ہے اور بعض دفعہ میری بیویاں وہاں آ کر عطر
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ لگاتی ہیں تو بعض دفعہ گھنٹوں بعد جب میں اُس کمرہ میں آتا ہوں تو فوراً پہچان لیتا ہوں کہ کسی نے یہاں فلاں عطر لگایا ہے حالانکہ وہ عطر گھنٹوں پہلے لگایا گیا ہوتا ہے.اسی طرح ہندوستانیوں اور انگریزوں کے عطر کی خوشبو میں فرق ہوتا ہے ہندوستانی عام طور پر دیسی عطر لگاتے ہیں مگر انگریز ہمیشہ الکوہل سینٹس لگاتے ہیں بعض ہندوستانی بھی اگر چہ اب سینٹس لگانے لگ گئے ہیں مگر انگریز کبھی دیسی عطر نہیں لگاتے اب اگر کہیں سے ہمیں دیسی چنبیلی کے عطر کی خوشبو آئے یا دیسی گلاب کے عطر کی خوشبو آئے تو ہم فوراً فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہاں سے کوئی ہندوستانی گزرا ہے اسی طرح اور بہت سی معلومات خوشبو کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیں اور بعض لوگ تو اس جس کو ایسا تیز کر لیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ولایت میں جو خوشبو کے کارخانے ہیں اُن کا دارو مدار ہی ایسے لوگوں پر ہوتا ہے چنانچہ بعض کارخانوں والے ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ دے کر ایسے لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں جو خوشبو سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کسی ایک کارخانے کی خوشبو مشہور ہو جاتی ہے اب دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کی نقل کریں اور ویسی ہی خوشبو خود بھی تیار کریں اس غرض کے لئے وہ ماہرین کو ملازم رکھتے ہیں.وہ لوگ ان خوشبوؤں کو سونگھ کر جن کی نقل تیار کرنی ہو بتا دیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں مگر بہر حال انہیں خوشبو کی بنیادی اشیاء معلوم ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اسی بنیاد پر خود بھی ویسی ہی خوشبو تیار کر لیتے ہیں.اسی طرح بعض لوگوں کی مزے کی جس اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے اور یہ حس بھی بہت حد تک بڑھائی جا سکتی ہے.کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو دوائیاں چکھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہیں.قصہ مشہور ہے کہ ایک طبیب کی کسی دوائی کا بہت شہرہ ہو گیا مگر وہ اس دوائی کا نسخہ کسی کو نہیں بتا تا تھا اُسی زمانہ میں ایک اور مشہور طبیب تھا جس کی مزے کی جس بہت تیز تھی اور وہ چکھ کر بتا سکتا تھا کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہوئی ہیں مگر اُس طبیب کو وہ دوائی ملتی نہیں تھی.جو مریض طبیب کے پاس آتا اُسے وہ اپنے سامنے دوائی کھلا دیتا تھا ساتھ دوائی نہیں دیتا تھا اس خوف سے کہ کہیں یہ دوائی دوسرے طبیب کے پاس نہ پہنچ جائے اور وہ اس کا نسخہ نہ معلوم کر لے.اس طبیب نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے دوائی مل جائے مگر نہ ملی آخر وہ مریض اور اندھا بن کر اُس طبیب کے پاس گیا اور اپنی شکل میں بھی تبدیلی کر لی سر پر ایک بڑا سا کپڑا لپیٹ لیا اور اندھا اور مریض بن کر اُس کے پاس پہنچا اور اپنے مرض کی علامتیں وہی بتا ئیں جن پر
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ وہ دوائی استعمال کی جاتی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں آگیا اور اُس نے ایک گولی اُسے دے دی اُس نے وہیں گولی اپنے منہ میں ڈال لی اور منہ میں ڈالتے ہی دواؤں کے نام گنے شروع کر دئیے یہاں تک کہ وہ نانوے نام گن کر گیا جب ننانوے نام گن چکا تو اس کا سانس ٹوٹ گیا.طبیب کہنے لگا الْحَمدُ لِلهِ کہ انہیں سویں دوا کا پتہ نہیں لگا اس نسخہ میں سو دوائیں پڑتی تھیں نانوے تم نے گن لیں سویں کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکا اس لئے اب تم یہ نسخہ مکمل نہیں کر سکو گے.تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کے چکھنے کی جس بہت تیز ہوتی ہے.ولایت میں شراب کے جو کارخانے ہیں اُن میں بعض دفعہ پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شراب کو چکھ کر یہ بتادیتے ہیں کہ یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے اور فلاں شراب کا ذائقہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے ہمارے ملک کی شراب تولسی ، دودھ اور شربت ہے اور ہمارے ملک نے اس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی.چاہے سو سال کے پرانے برتن میں ہی لسی کیوں نہ ہو وہ اسے پی جاتے ہیں اور انہیں ذائقہ میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا مگر ولایت میں پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شرابوں کو چکھتے رہتے ہیں اور چکھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے اور اس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے بلکہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تنخواہ کا بھی میں نے کم حساب لگایا ہے میں نے پانچ پانچ ہزار پونڈ سالانہ انکی تنخواہ پڑھی ہے اور اس لحاظ سے انہیں پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ماہوار ملتا ہے.ان کا کام یہی ہوتا ہے کہ سارا دن بیٹھے ہوئے شرا میں چکھتے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کا انگور فلاں سن کے انگور سے مشابہہ ہے اور یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شراب تو پانچ روپے بوتل کے حساب سے فرورخت ہوتی ہے اور ایک ویسی ہی شراب صرف ذائقہ کے تغیر کی وجہ سے دوسو روپے بوتل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے غرض چکھنے کی جس کو ترقی دے کر ایسے ایسے کام لئے جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.اسی طرح کانوں کی جس ہے اس کو بڑھا کر بھی حیرت انگیز کام لئے جاسکتے ہیں امریکہ کے ریڈ انڈینز نے اس میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ زمین پر کان لگا کر یہ بتا دیتے ہیں کہ اتنے سوار مثلاً دو چار میل کے فاصلے پر سے آرہے ہیں.اس کا راز یہ ہے کہ گھوڑوں کے چلنے کی وجہ سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے وہ حرکت دوسرے کو معلوم بھی نہیں ہوتی مگر انہوں نے کانوں کی جس بڑھا کر اتنی مشق کی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ فورا زمین پر کان لگا کر
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ اس حرکت کو معلوم کر لیتے ہیں اور میلوں میل سے سواروں کے آنے کی آواز سُن لیتے ہیں زیادہ سوار ہوں تو پانچ پانچ میں سے آواز سُن لیتے ہیں ایک دو ہوں تو نسبتا کم فاصلہ سے اور اگر کوئی پیدل آ رہا ہو تو بھی پچاس سو گز کے فاصلے سے ہی اُس کے آنے کی آہٹ معلوم کر لیتے ہیں.اس کے بعد میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں تو تمہاری کھیلوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا فائدہ تمہارے جسم کو پہنچ سکتا ہے لیکن تمہارا کام صرف ان کھیلوں کی طرف متوجہ ہونا اور اپنے جسموں کو درست کرنا ہی نہیں بلکہ تمہارا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرنا ہے.میں نے اپنے خطبات میں بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس وقت بھی میں ایک ٹریکٹ میں جو دفتر خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے یہی پڑھ رہا تھا کہ خدام الاحمدیہ کو مذہبی ، اخلاقی اور عملی رنگ میں کام کرنے کے لئے منظم کیا گیا ہے پس انہیں اپنے اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے انہیں چاہئے تھا کہ اِس موقع پر ان کاموں کے بھی مقابلے رکھتے جب خدام الاحمدیہ کا اصل کام یہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی اور اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے ایسے اجتماع میں نہ رکھے جائیں میرے نزدیک آئندہ ایسے موقع پر بعض لیکچر ایسے رکھنے چاہئیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو بیان کر دیا جائے.اسی طرح بعض امتحان مقرر کرنے چاہئیں اور دیکھنا چاہئے کہ خدام الاحمدیہ کو احمدیت اور اسلام سے تعلق رکھنے والے مسائل سے کس حد تک واقفیت ہے.جس طرح آئی.سی.ایس میں ایک جنرل نالج کا پرچہ ہوتا ہے اسی طرح احمدیت کے متعلق ایک جنرل نالج کا پرچہ رکھنا چاہئے اور مختلف سوالات نوجوانوں سے دریافت کرنے چاہئیں مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتنی عمر تھی ؟ یا آپ کے کسی الہام کو پیش کر کے پوچھ لیا جائے کہ اس کا کیا مفہوم ہے؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کے متعلق دریافت کیا جائے کہ وہ کس موضوع پر ہے ؟ یا یہ دریافت کیا جائے کہ تمہارے نزدیک وفات مسیح کی سب سے بڑی دلیل کیا ہے؟ یا نبوت کی کیا تعریف ہے؟ یا ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کس قسم کی نبوت کو جائز سمجھتے ہیں اور کسی قسم کی نبوت کو جائز نہیں سمجھتے ؟ یہ اور اسی قسم کے اور سوالات نوجوانوں سے دریافت کئے جائیں اور اس طرح پتہ لگایا جائے کہ انہیں مذہبی مسائل سے کہاں تک واقفیت ہے.اس طرح علمی مذاق بھی ترقی کرے گا اور جو لوگ شست ہو نگے وہ بھی چست ہو جائیں گے.اسی طرح اخلاق کے متعلق مختلف قسم کے سوالات دریافت کرنے چاہئیں.مثلاً یہ اگر تم کو کوئی شخص گالی دے تو تم کیا کرو گے؟ یا اگر تم کو کوئی شخص مارنے لگ جائے تو تم کس
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ حد تک مار کھاؤ گے اور کس حد تک اس کا مقابلہ کرو گے؟ اسی طرح یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم دشمن کا مقابلہ کرو تو کس حد تک اُس کا مقابلہ کرنا شریعت کے مطابق ہوگا اور کیسا مقابلہ کرنا شریعت کے خلاف ہوگا ؟ یا اگر کوئی شخص گالی دے تو کس حد تک صبر کرو گے اور کس حد تک خاموش رہنا بے غیرتی بن جائے گا؟ پھر یہ کہ اگر تم گالی کا جواب دو تو کس حد تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی ؟ ہمارے ملک میں عام طور پر چوہڑوں اور چماروں کی گالیاں ماں بہن کی ہوتی ہیں.اب فرض کرو تمہارا ذہن کسی کی گالیاں سُن کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ چُپ رہنا بے غیرتی ہے مجھے ان گالیوں کا جواب دینا چاہئے تو ایسے موقع پر بے شک شریعت یہ کہے گی کہ اگر تم جواب دینا چاہتے ہو تو دو مگر شریعت اس بات کو جائز قرار نہیں دیگی کہ تم بھی اُس کے جواب میں ماں بہن کی گالیاں دینے لگ جاؤ.یہ تو تم دوسرے کو کہہ سکتے ہو کہ تم بڑے کمینے اور بداخلاق ہو تم نے بہت بڑا ظلم کیا جو ایسی گندی گالیاں دیں مگر شریعت تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دیگی کہ جس طرح اُس نے ماں بہن کی گالیاں دیں ہیں اسی طرح تم بھی ماں بہن کی گالیاں دینی شروع کر دو.پس نوجوانوں سے دریافت کرنا چاہئے کہ جب کوئی شخص تمہیں گالیاں دے تو کس حد تک شریعت تمہیں اس کے جواب کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی ؟ ان سوالات کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح جماعت کے نو جوانوں کے متعلق ہمیں یہ علم حاصل ہوتا رہے گا کہ وہ اسلامی مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور خود ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ انہیں ہر کام کے کرتے وقت اسلامی شریعت پر عمل کرنا چاہئے اور اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.پس یہ حصے بھی ریلی میں شامل ہونے چاہئیں اور میرے نزدیک اگر ان پر زور دیا جائے تو یہ حصے بھی ایسے ہی دلچسپ بن جائیں گے جیسے کھیلیں دلچسپ ہوتی ہیں.ایسا امتحان اگر توجہ کی جائے انسانی زندگی میں حرکت ، دلچسپی اور سرور پیدا کر دیتا ہے.امریکہ میں ایک دفعہ حکومت نے جُوئے کے خلاف قانون جاری کر دیا.پولیس چلتی گاڑیوں میں گھس جاتی اور جب لوگوں کو جوا کھیلتے دیکھتی تو انہیں فوراً گرفتار کر لیتی جب لوگوں نے دیکھا کہ اُن کی دلچسپی کا یہ سامان جاتا رہا ہے تو انہوں نے اپنی دلچسپی کے لئے ایک اور راہ نکال لی.چنانچہ ایک اخبار نے لکھا کہ آخر لوگوں نے اس قانون کا توڑ سوچ ہی لیا اور وہ اس طرح کہ جب انہوں نے دیکھا کہ پولیس جوا وغیرہ نہیں کھیلنے دیتی تو ایک شخص نے ایک دن مصری کی ایک ڈلی نکال کر سامنے رکھ دی اور کی
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب دوسرے کو کہا کہ وہ بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر رکھ دے اور پھر فیصلہ یہ کیا کہ جس کی ڈلی پر سب سے پہلے مکھی بیٹھے گی وہ جیت جائے گا اور اسے دوسرا شخص اتنے ڈالر انعام دے گا.غرض اس طرح انہوں نے کھیل کھیلنا شروع کر دیا کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ جوا کھیلا جارہا ہے وہ یہی دیکھتا کہ مصری کی دو ڈلیاں پڑی ہوئی ہیں مگر در حقیقت ان مصری کی ڈلیوں سے ہی جُوا کھیلا جارہا ہوتا تھا مگرکسی کو پتہ نہیں لگتا تھا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر کبھی شور پیدا ہوا تو ہم آرام سے مصری کی ڈلی اُٹھائیں گے اور منہ میں ڈال لیں گے جُوئے کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا لیکن اس معمولی سی بات نے ان میں غیر معمولی دلچسپی پیدا کر دی کیونکہ اب خالی مصری کی ڈلی کا سوال نہیں رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ جُوئے کو لگا دیا گیا تھا اور چانس اور عقل یہی دو مقابلے انسانی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں.اب دیکھ لو وہی لکھی جو پہلے گزرتی تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اس مقابلے کے بعد کیسی دلچسپ چیز بن گئی اور کس طرح ہر شخص بے تابی اور اضطراب کے ساتھ مکھی کا انتظار کرتا ہوگا کبھی کہتا ہوگا لوکھی قریب آگئی لو اب تو بیٹھنے ہی لگی اور کبھی افسوس کے ساتھ کہتا ہوگا مکھی آئی تو سہی مگر چلی گئی گویا یہ بھی ویسا ہی دلچسپ مقابلہ ہو گیا جیسے کشتیوں کا مقابلہ ہوتا ہے کیونکہ دلچسپی خون کے جوش سے پیدا ہوتی ہے اور جس مقابلہ میں انسانی خون کے اندر جوش پیدا ہو جائے اُسی مقابلہ میں انسان کو لذت آنی شروع ہو جاتی ہے.پس بے شک یہ سوالات علمی مذاق کے ہیں مگر اس علمی مذاق کو بھی دلچسپ بنایا جا سکتا ہے صرف عقل اور سمجھ سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے.جو لوگ عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہیں وہ ہر کام میں دلچسپی پیدا کر لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے انہیں بڑے بڑے دلچسپ کاموں میں بھی کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نماز کی ادائیگی بہت ہی گراں گزرتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے نماز ادا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں نماز میں ایسی لذت آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر انہیں اور کسی کام میں لذت نہیں آتی.وہ نماز کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے کوئی تیرانداز نشانہ پر تیر لگانے کی کوشش کر رہا ہو جس طرح تیرانداز کا جب کوئی تیر نشانہ پر جا لگتا ہے تو وہ خوشی سے چلا اٹھتا ہے کہ لو وہ تیر نشانہ پر جالگا.اسی طرح نمازی اپنی ہر نماز پر خوش ہوتا اور فرط مسرت سے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے میرا تیرا اپنے نشانہ پر جالگا اسی طرح سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمُ جو اُس کی زبان سے نکلتا ہے اسے وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے دل اور دماغ میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ یہ وہ خط ہے جو میں اپنے خدا کے پاس بھیج
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ رہا ہوں پس ہر سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمُ اُسے مزیدار لگتا ہے، ہر رکوع میں اسے مزہ آتا ہے، ہر سجدہ میں اسے لذت آتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے خدا کو بلا وا بھیج رہا ہوں.اُس کا سُبْحَانَ رَبِّيَ الأغلى کہنا کیا ہوتا ہے؟ ایک خط ہوتا ہے ایک چٹھی ہوتی ہے جو وہ اپنے خدا کے پاس بھیجتا ہے اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کے لئے آئے جیسے مچھلیاں پکڑنے والے دریا میں گنڈیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر ذرا بھی رہی ملتی ہے تو اُن کا دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے کہ آگئی مچھلی.اسی طرح جب ایک مؤمن تسبیح کرتا ہے تو اُس کا دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں میرا رب مجھ سے ملنے کے لئے آجائے گا.غرض انسان اگر چاہے تو اپنے ہر کام کو دلچسپ بنا سکتا ہے اور در حقیقت یہ صرف خیالات بدلنے کی بات ہوتی ہے.اگر ہم ضرورت اور اہمیت کو سمجھ لیں تو ہر چیز کو دلچسپ بنا سکتے ہیں پس علمی اور اخلاقی مقابلے بھی دلچسپ بنائے جاسکتے ہیں اور میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ ایسے اجتماع کے موقع پر اس قسم کے مقابلے ضرور رکھا کریں.اسی طرح ہر سال اس قسم کے سوالات بھی کرنے چاہئیں کہ بتاؤ اس سال قرآن کریم کی سورتیں کس کس نے حفظ کی ہیں اور کتنی حفظ کی ہیں؟ پھر جو شخص سب سے زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے والا ثابت ہو اُسے انعام دیا جائے.اسی طرح احادیث کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس سال کتنی احادیث حفظ کی گئی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے متعلق سوال کیا جائے کہ وہ کتنی پڑھی گئی ہیں؟ اس طرح نو جوانوں میں علمی مذاق ترقی کرے گا اور ہر سال ان کو یہ تحریک ہوتی چلی جائے گی کہ وہ مذہبی اور اخلاقی امور کی طرف توجہ کریں نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا دین بھی ترقی کرے گا تبلیغ بھی ترقی کرے گی اور اسلامی مسائل کی حقیقت بھی ان پر زیادہ واضح ہو جائے گی.اسی طرح قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق ہر سال سوال کرنا چاہئے کہ خدام میں سے کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے؟ فرض کرو اس وقت مقامی اور بیرونی خدام آٹھ نو سو کے قریب ہیں تو ان سب سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ ان میں کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے بلکہ یہ سوال میں اسی وقت کر لیتا ہوں تا کہ معلوم ہو کہ کتنے نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں (اس کے بعد حضور نے تمام خدام سے فرمایا کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے جو نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں اس پر ۱۵۲ نو جوان کھڑے ہوئے.پھر حضور نے فرمایا بیرونی خدام میں سے جن کو سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو وہ کھڑے ہو جائیں
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب اس پر صرف ۳۲ نوجوان کھڑے ہوئے.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا.) قادیان کے خدام میں سے ۱۵۲ نوجوان ایسے ہیں جنہیں سارا قرآن شریف با ترجمہ آتا ہے اور بیرونی خدام میں سے صرف ۳۲.ایسے ہیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہوا ہے دیکھو یہ ہمارے لئے کیسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے اور کس طرح یہ افسوسناک حقیقت ہم پر روشن ہوئی ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قرآن شریف اچھی طرح نہیں پڑھا.اب وہ نو جوان جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہوا ہے کھڑے ہو جائیں وہ لوگ بھی دوبارہ کھڑے ہونے چاہئیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہوا ہے.(اس پر قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ اور بیرونی خدام میں سے چالیس کھڑے ہوئے حضور نے فرمایا.) قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے گویا سارا قرآن کریم پڑھنے والوں کے مقابلہ میں قریباً ایک سو سے زیادہ ہیں اور بیرونی جماعتوں میں سے چالیس ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے گویا سارا قرآن شریف پڑھے ہوئے نوجوانوں کے مقابلہ میں صرف آٹھ زیادہ ہیں.میں قادیان کے ان ۹۷ اور بیرونی مجالس کے آٹھ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود ہی غور کریں کس طرح دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اندر داخل ہونے سے محروم بیٹھے ہیں جب پندرہ سیپاروں سے زیادہ وہ قرآن شریف پڑھ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ باقی قرآن شریف پڑھنے کی طرف بھی وہ توجہ نہ کریں.اب میرے پاس وقت نہیں ورنہ میں دریافت کرتا کہ دس سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کتنے نو جوانوں کو آتا ہے؟ اور پھر دریافت کرتا کہ پانچ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کن کن کو آتا ہے؟ تاکہ اگلی دفعہ اندازہ کیا جاتا کہ پانچ سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے ہیں اور میں سے تمیں پارے کس نے پڑھ لئے ہیں بہر حال ہمیں قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم نہ آتا ہو.اگر ہم کبڈی کے مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر ہم دوڑ کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہم قرآن شریف کی تعلیم اور اس کے مطالب کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے 0
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض چیزوں میں رشک جائز ہوتا ہے.اور انہی جائز باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دینی معاملات میں، نیکی اور تقویٰ کے امور میں اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے.سے میں امید کرتا ہوں آئندہ سال نو جوان زیادہ سے زیادہ اس قسم کے مقابلوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور جماعتیں اس امر کو مدنظر رکھیں گی کہ اُن میں سارا قرآن شریف با تر جمہ جاننے والے زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں.ہم لوگوں کی سہولت کے لئے یہ تجویز کر سکتے ہیں کہ قادیان کے جو محلے ہیں اُن میں بعض معلم مقرر کر دئیے جائیں جو دو مہینے کے اندر اندر لوگوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں.میں سمجھتا ہوں اگر ترجمہ والا قرآن شریف سامنے رکھ لیا جائے تو تعلیم یافتہ انسان آسانی سے نصف پارہ کے ترجمہ کو روزانہ سمجھ سکتا ہے.ابتداء میں یہ خیال کرنا کہ قرآن شریف کا ایک ایک لفظ آ جائے صحیح نہیں ہوتا اور جو لوگ اس رنگ میں کوشش کرتے ہیں وہ ابتدائی پاروں میں ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں ان پر ساری آیات پوری طرح حل ہو جائیں اور چونکہ ساری آیات اُن پر حل نہیں ہوتیں اس لئے وہ آگے نہیں پڑھ سکتے.میں نے بتایا ہے کہ میں اس غرض کے لئے بعض علماء مقرر کر سکتا ہوں جو مختلف محلوں میں دو ماہ کے اندر اندر قرآن شریف کا ترجمہ لوگوں کو پڑھا دیں.اسی طرح بیرونی جماعتیں اگر چاہیں تو اُن کی تعلیم کے لئے بھی بعض آدمی بھجوائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی رہائش اور کھانے کا وہ انتظام کر دیں.مگر اس قسم کے معلم زیادہ نہیں مل سکتے دو چار ہی مل سکتے ہیں ان کے متعلق ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں دو ماہ کی تنخواہ تحریک جدید سے دلا دی جائے اِس عرصہ میں وہ بیرونی جماعتوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں گے اور پھر ہر سال اس تحریک کو جاری رکھا جائے گا تا کہ ہماری جماعت کے تمام افراد قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہو جائیں.اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کی عمر ہی ایسی ہے جس میں مؤمن شکل اور مؤمن دل کا سوال پیدا ہوتا ہے.دنیا میں کئی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی مؤمن ہوتی ہے اور دل بھی مؤمن ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو مومنوں والی ہوتی ہے مگر دل کا فر ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو کافروں والی ہوتی ہے مگر دل مؤمن ہوتا ہے اور بعضوں کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے.گویا مؤمن دل اور کا فرشکل، مؤمن شکل اور کا فردل
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ اور مؤمن دل اور مؤمن شکل اور کا فردل اور کافر شکل یہ چار قسم کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.جس کا دل بھی مؤمن ہے اور شکل بھی مؤمن ہے وہ بڑا مبارک انسان ہے کیونکہ اس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور اس کا باطن بھی اچھا ہے ایسا شخص جب خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اسے پہچان لیتا ہے اور کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے اور جب وہ بندوں کی طرف منہ کرتا ہے تو بندے بھی کہتے ہیں یہ شخص خدا تعالیٰ کے دین کا سپاہی ہے.اور جس کی شکل مؤمنوں والی ہے مگر دل کا فر ہے وہ جب دنیا کی طرف منہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ بھی اسلام کی شوکت کو بڑھانے کا موجب ہے مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو فرشتے اُس پر لعنت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلام کاغذ ا ر ہے اور جس کی شکل کا فروں والی ہے مگر دل مؤمن ہے اُسے جب مؤمن بندے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ اسلام کی شوکت کو کم کرنے کا موجب ہے مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اس بندے کا میرے ساتھ تعلق ہے مگر وہ اس بات پر افسوس کرتا ہے کہ یہ شخص اتنی دُور سے میرے ملنے کے لئے آیا لیکن دروازے پر آکر بیٹھ گیا ہے ایک دو قدم اور اُٹھائے تو مجھ تک پہنچ سکتا ہے مگر وہ دو قدم نہیں اُٹھاتا اور دروازے پر آکر بیٹھ جاتا ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص ۱۷ سو گز چل کر تو اپنے محبوب کے ملنے کے لئے چلا جائے مگر جب ساٹھ گز باقی رہ جائیں تو وہیں بیٹھ جائے ایسا شخص قریب پہنچ کر بھی خدا تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کی حالت پر افسوس کرتا ہے کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے تو آیا مگر چند قدم نہ اُٹھانے کی وجہ سے پیچھے بیٹھ رہنے پر مجبور ہو گیا.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے ایسے لوگوں سے کسی کو بھی دھوکا نہیں لگتا کیونکہ ان کا بھی ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے.یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسائیت نے اگر دلوں کو کا فرنہیں بنایا تو اس نے انسانی چہروں کو ضرور کا فر بنا دیا ہے اور بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلاء ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دلدادہ ہو رہے ہیں.وہ اپنے سروں کے بال اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی شکل کافروں شه والی بن جاتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ جو شخص اپنی ظاہری شکل کسی اور قوم کی طرح رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں یعنی جب ہم کسی کو دیکھیں گے کہ اُس کی شکل ہندؤوں سے ملتی ہے یا عیسائیوں سے ملتی ہے تو ہمیں اُس پر اعتبار نہیں آئے گا اور ہم سمجھیں گے کہ یہ بھی انہی سے ملا ہوا ہے اور جب ہمیں اُس پر اعتبار نہیں آئے گا تو یہ لازمی
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب بات ہے کہ کوئی ذمہ واری کا کام اُس کے سپرد نہیں کیا جائے گا اور اس طرح وہ نیکی کے بہت سے کاموں سے محروم ہو جائے گا.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ مؤمن دل اور مؤمن شکل بنائیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں.میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کر دو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم ، اسلام کے اخلاق ، اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو.بے شک تم اسلامی تمدن تبلیغ کے ذریعہ قائم کرو گے تلوار کے ذریعہ نہیں مگر تبلیغ کے لئے بھی تو یہ بات ضروری ہے کہ مبلغ کی شکل مؤمنا نہ ہو.پس میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اُن کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہننے سے نہیں روکتا بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہر صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جاؤ مگر لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے.اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اُس پر گرد تو نہیں پڑ گئی یہ ایک لغو بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میں یہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گرد نہ پڑ جائے برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس قسم کی باتوں پر صرف کر دینا پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا.میں نے خود کبھی کوٹ پر برش نہیں کروایا نہ میرے پاس اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ مجھے اس بات کی کبھی پروا ہوئی ہے ممکن ہے میں نے چارکوٹ پھاڑے ہوں تو ان میں سے ایک کو کبھی ایک یا دو دفعہ برش کیا ہو.بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں مگر میں یہی کہا کرتا ہوں کہ میرے پاس ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں آپ کو اگر بُرا لگتا ہے تو بے شک لگے.اسی طرح کوٹ کے گریبان پر گردن کے قریب بعض دفعہ میں جم جاتی ہے مگر میرے نزدیک وہ میل اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا میرا وقت قیمتی ہوتا ہے ہاں اگر کوئی شخص اُس میل کو دور کر دے یا کوٹ پر برش کر لیا کرے تو یہ منع نہیں ہم جس چیز سے منع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان ظاہری باتوں کی طرف اتنی توجہ کی جائے کہ یہ خیال کر لیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ہتک ہو جائے گی.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں، فلاں قسم کی پگڑی نہیں اس کے بغیر ہم دعوت میں کس طرح شامل ہوں.حالانکہ انسان کے پاس جس قسم کا لباس ہو اسی قسم کے لباس میں اُسے دوسروں سے
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب ملنے کے لئے چلے جانا چاہئے.اصل چیز تو ننگ ڈھانکنا ہے جب ننگ ڈھانکنے کے لئے لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اس لئے محروم ہو جاتا ہے کہ کہتا ہے میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلاں قسم ا گر یہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے.اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی ہو تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لے لیکن اگر ٹوپی اُس کے پاس موجود نہیں تو وہ ننگے سر ہی دوسرے کے ملنے کے لئے جاسکتا ہے اگر اس وقت وہ محض اس لئے کسی کو ملنے سے ہچکچاتا ہے کہ ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی تکلف سے کام لینے والا سمجھا جائے گا.مجھ سے ایک دفعہ احمد یہ ہوٹل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا کہ بعض لڑکے ننگے سر ادھر ادھر چلے جاتے ہیں اور ٹوپی سر پر نہیں رکھتے اس بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا ٹوپی کے بغیر کہیں جانا اسلام کے خلاف نہیں لیکن یہ اسلامی تہذیب کے خلاف ضرور ہے انہیں چاہئے کہ وہ بلا وجہ ایسا نہ کیا کریں.اگر ان کے پاس ٹوپی ہو تو سر پر ٹوپی رکھ لیا کریں ہاں اگر ٹوپی نہ ہو تو ننگے سر بھی جا سکتے ہیں بہر حال مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے.مغربی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ ٹوپی کے اُتارنے میں عظمت ہے چنانچہ عیسائیوں میں جب بادشاہ کے سامنے لوگ جاتے ہیں تو ٹوپی سر سے اُتار لیتے ہیں اسی طرح عورت کے سامنے جائیں گے تو ٹوپی اتارلیں گے لیکن اسلامی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی پہنی چاہئے.یورپین تہذیب یہ کہتی ہے کہ عورت اپنے سر کوننگا رکھے لیکن اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھے چنانچہ فقہاء نے اس بات پر بحشیں کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ نماز میں عورت کے سر کے بال ننگے ہوں تو اُس کی نماز نہیں ہوتی پس میں نے انہیں کہا کہ آپ لڑکوں کو یہ بتائیں کہ اسلامی شعار ٹوپی پہننے میں ہے ٹوپی اتارنے میں نہیں.ہاں اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو تو وہ ننگے سر بھی مسجد میں نماز کے لئے جا سکتا ہے.جس طرح یہ مغربیت ہوگی کہ کسی کے پاس ٹوپی ہو اور وہ پھر بھی اُسے نہ پہنے اور ہر وقت بالوں کی مانگ نکالنے، تیل ملنے اور کنگھی کرنے میں ہی مصروف رہے اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو اور پھر بھی وہ مسجد میں نہ جائے یا کوئی اور کام کرنے سے ہچکچائے تو یہ بھی اسلام کے خلاف حرکت ہوگی.جس طرح یہ اسلام کے خلاف ہے کہ کوئی شخص خاص قسم کی دھاری دار قمیص پہنا ہی ضروری سمجھے اور اگر اس رنگ کی قمیص نہ ملے تو کوئی اور قمیص پہنا اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھے اسی طرح یہ بھی اسلام کے خلاف ہو گا کہ کسی کے پاس قمیص تو ہو مگر وہ ننگے بدن پھرنے لگ جائے.اسلام جسمانی حسن کی
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کئی قسم کی بدیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی ننگے بدن پھرنے لگ جائے کیونکہ ننگے بدن پھرنا بھی کئی قسم کی بدیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.جس طرح اسلام یہ نہیں کہ خاص قسم کی پتلون ہو اس میں کسی سلوٹ کا نشان نہ ہو اور اُس پر خاص قسم کا کوٹ ہو اسی طرح اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اگر تمہارے پاس پاجامہ نہ ہو تو تم یہ کہو کہ ہم تہ بند باندھ کر کہیں نہیں جاسکتے.اگر تمہارے پاس پاجامہ ہو اور تم پاجامہ کی بجائے لنگوٹی باندھ کر کہو کہ یہ سادگی ہے تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا اور اگر تم خاص قسم کی پتلون اور کوٹ پر زور دو تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا کیونکہ پاجامہ کے ہوتے ہوئے لنگوٹی باندھنا بھی تکلف ہے اور خاص قسم کے کوٹ اور پتلون پر زور دینا بھی تکلف ہے جس طرح تکلف ہے کہ انسان شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے اپنی آرائش میں مشغول رہے اور اُسترے اور صابن سے اپنی داڑھی کے بالوں کو اس طرح صاف کرے جس طرح ماں کے پیٹ سے اس کے کلے نکلے تھے اسی طرح یہ بھی تکلف ہے کہ انسان ننگے بدن پر بھبوت مل کر بیٹھ جائے وہ بھی تکلف کرنے والا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اور داڑھی منڈا کر اور بالوں میں مانگ نکال کر اور نکٹائی پہن کر باہر نکلتا ہے اور وہ بھی تکلف سے کام لیتا ہے جو باوجود مقدرت کے ننگے بدن لنگوٹی یا تہہ بند باندھ کر نکل کھڑا ہوتا ہے.پھر جس طرح وہ تکلف کرتا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اس طرح چلتا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کوئی آدمی چل رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کوئی مشین چل رہی ہے میں نے ہاؤس آف لارڈز کے جلسوں میں انگریز نوابوں کو اس طرح چلتے دیکھا ہے مجھے تو اُن کو دیکھ کر ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی آدمی بیہوش ہو اور اس کے ساتھ ڈنڈے باندھ کر کوئی کل لگا دی گئی ہو بالکل معلوم ہی نہیں ہوتا تھا آدمی چل رہے ہیں ایسی آہستگی سے اور سوچ سوچ کر قدم اُٹھاتے ہیں کہ ان کا چلنا بھی تکلف معلوم ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں جو شخص بلا وجہ دوڑ پڑتا ہے وہ بھی تکلف سے کام لیتا ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوڑ کر نماز با جماعت میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ انسانی وقار کے خلاف ہے اور اس میں تکلف پایا جاتا ہے.اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی بات میں غلو نہ کریں اور ہر بات میں نیچر اور فطرت کو ملحوظ رکھیں ہاں جس حد تک نیچر ہماری ترقی میں روک بنتا ہو اس حد تک اس کو اختیار کرنا ضروری نہیں مثلاً جسم کو نگا رکھنا ہے.ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ جب ہر بات میں نیچر کو لوظ رکھنا ضروری ہے تو جسم کو کپڑوں سے کیوں ڈھانکا جاتا ہے ننگے بدن کیوں.
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ نہیں پھرا جاتا سو یہ بھی درست نہیں کیونکہ اس حد تک نیچر کے پیچھے چلنا انسانی ترقی میں روک پیدا کرتا ہے.یہ نیچر کا فیصلہ بڑی عمر والوں کے متعلق نہیں بلکہ بچوں کے متعلق ہے.اسی طرح ناخن بڑھا لینا یہ بھی نیچر کا تتبع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وحشی ثابت کرنا ہے گو آج کل مغربیت کے اثر کے ماتحت فیشن ایبل عورتوں نے بھی ناخن بڑھانے شروع کر دیئے ہیں.یورپین عورتیں تو اس میں اس قدر غلو سے کام لیتی ہیں کہ وہ آدھ آدھ انچ تک اپنے ناخن بڑھا لیتی ہیں اور پھر سارا دن ان ناخنوں سے میل نکالنے ، انہیں صاف کرنے اور ان پر رنگ اور روغن کرنے میں صرف کر دیتی ہیں مگر وہ اتنا بڑا گڑھا ہوتا ہے کہ آسانی سے تمام میل نہیں نکل سکتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ تو وہ میل نکالتی ہیں اور کچھ اس میل کو چھپانے کے لئے اُس پر روغن کرتی ہیں اور چونکہ ناخنوں کی میل کی وجہ سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بد بو آتی ہے اس لئے پھر یو ڈی کلون کا استعمال کرتی ہیں گویا وہ اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصہ صرف ناخنوں کی صفائی پر ہی خرچ کر دیتی ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو برباد کر دیتی ہیں اس قسم کی باتوں میں دوسروں کی تقلید اختیار کرنا محض مغربیت ہے.اور جب ہم کہتے ہیں مغربیت کے اثر سے متاثر مت ہو تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ اپنے اوقات کو ظاہری جسم کی صفائی اور اس کے بناؤ سنگھار کے لئے اس قدر خرچ نہ کرو کہ اور کاموں میں حرج واقعہ ہونے لگ جائے اور تم دینی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جاؤ.مرد کا حسن اس کے بناؤ سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام میں ہے چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں عورتیں اُن سے شادی کرنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں ان کے ساتھ شادی کرنے میں ان کی عزت ہے وہ ایسے مرد سے وابستہ ہونا کبھی پسند نہیں کرتیں جو محض ظاہری بناؤ سنگھار کی طرف توجہ رکھتا ہو اور کام کوئی نہ کرتا ہو.حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بسا اوقات پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے مگر پھر انہی حدیثوں میں ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتا ہے کہ مجلس لگی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ فرما رہے ہیں کہ اتنے میں ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہے کہ يَا رَسُولَ اللہ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں کے غور کرو یہ کتنی بڑی قربانی ہے میرے نزدیک اپنی زبان سے ایسی بات کہنا ایک عورت کے لئے ذبح ہو جانے کے مترادف ہے وہ آتی ہے اور اپنا نفس رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کر دیتی ہے حالانکہ اُسی مجلس میں اُس کا باپ موجود ہوتا ہے اور اُس کا بھائی موجود ہوتا ہے اور اُس کے اور رشتہ دار موجود ہوتے ہیں آخر اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہی وجہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ
خدام الاحمدیہ سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ سنتیں ، آپ کی تقریریں سنتیں ، آپ کی خدمت اسلام کو دیکھتیں ، آپ کے اُس سلوک کو دیکھتیں جو آپ بنی نوع انسان سے کیا کرتے تھے تو ان کی محبت جنون کی حد تک پہنچ جاتی اور وہ ہر چیز کو بھول کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہہ دیتیں يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک سے کس طرح شادی کر سکتے تھے آپ ان سے فرماتے کہ تم مجھے اپنے متعلق اختیار دے دو اور جب وہ اختیار دے دیتیں تو آپ ان کا کسی اور مناسب شخص سے نکاح کر دیتے اس قسم کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہوا بلکہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ مجلس لگی ہوئی ہوتی اور عورت آکر کہہ دیتی کہ يَا رَسُولَ اللهِ! میں آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں قرآن نے بھی ان کی اس محبت کو بُرا نہیں سمجھا بلکہ فرمایا ہم تمہارے اس فعل کو بُر انہیں سمجھتے مگر ایسا صرف ہمارے رسول کو کہنا جائز ہے اور کسی کو تم ایسا نہیں کہ سکتیں اور گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر ایسی عورتوں میں سے کسی ایک سے بھی شادی نہیں کی تا کہ لوگ اس سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکال لیں مگر قرآن نے اُن عورتوں کو بُرا نہیں کہا بلکہ اسے اُن کے روحانی عشق کا مظاہرہ قرار دیا ہے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جو سارا دن بناؤ سنگھار کرتے رہتے ہیں اُن کو ایسی فدائی عورتیں کہاں ملتی ہیں.پس در حقیقت مرد کا حسن اُس کے کام میں ہے ظاہری بناؤ سنگھار میں نہیں.مشہور ہے کہ عبدالرحیم خان خاناں جو ایک بہت بڑے جرنیل اور بڑے بہادر اور سخی گزرے ہیں انہیں ایک عورت نے لکھا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں.عبدالرحیم خان خاناں نے لکھا کہ مجھے آپ اس بات میں معذور سمجھیں.وہ عورت کسی اچھے خاندان میں سے تھی اس نے پھر لکھا کہ میں تو مر رہی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ سے ضرور شادی کروں انہوں نے پوچھا کہ آخر مجھ سے شادی کرنے سے تمہاری غرض کیا ہے؟ وہ کہنے لگی میں نے آپ کے اخلاق ، آپ کی شجاعت اور آپ کی سخاوت کو دیکھا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایسی ہی اولاد ہو.عبدالرحیم خان خاناں لطیفہ سنج تھے انہوں نے اُسے لکھا بیگم ! یہ تو ضروری نہیں کہ اگر تم مجھ سے شادی کرو تو میری اولا د ضرور میرے جیسی ہی پیدا ہو ہاں چونکہ تم کو میرے جیسی اولاد کی خواہش ہے اسلئے میں آج سے آپ کا بیٹا ہوں اور آپ میری ماں ہیں جو خدمت میں اپنی ماں کی کیا کرتا ہوں آئندہ وہی خدمت میں آپ کی کیا کرونگا.تو دیکھو یہ اخلاق کا ہی نتیجہ تھا وہ چونکہ اچھے اخلاق والا انسان تھا اس لئے اُس نے قلوب پر اثر ڈال لیا تو ظاہری بناؤ سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو پھر بھی جو
انوار العلوم جلد ۱۶ خدام الاحمدیہ سے خطاب لوگ مضبوط جسم رکھنے والے اور اچھے کام کرنے والے ہوں اُن ہی کی زیادہ محبت قلوب میں پیدا ہوتی ہے اور محبت بڑی پاکیزہ اور ہر قسم کی گندگی سے منزہ ہوتی ہے مگر جو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ضائع کر دیتا ہے وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتا ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کونصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے کاموں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور اپنے اعمال اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں.چونکہ اب تین بجے کی گاڑی پر خدام نے واپس جانا ہے اسلئے میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اگلے سال خدام الاحمدیہ کو وہ اس سے بھی اچھا اور بہتر کام کرنے کی توفیق عطا کرے اللهُمَّ آمِینَ.ا بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله صلی ( الفضل ۸ نومبر ۱۹۴۲ء) عليه وسلم باب قول النبى | الله عليه وسلم لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا بخاری کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب الْقُرآن وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة: ۱۴۷) ابو داؤد كتاب اللباس باب فى لُبس الشُّهَرَةِ بھبوت: وہ راکھ جو سادھو سنیاسی اپنے بدن پر ملتے ہیں.1 بخاری کتاب الاذان باب لَا يَسْعَى إِلَى الصَّلوةِ (الخ) ك بخاری کتاب النکاح باب تَزُويج الْمُعْسِرِ
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء تقریر فرموده ۲۵ دسمبر ۱۹۴۲ء بر موقع جلسه سالانه ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا اِس امر پر کہ اُس نے باوجود ہماری کوششوں کی کوتا ہی اور ہماری تدابیر کی خامیوں کے جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا سلسلہ اس سال بھی اپنے فضل وکرم سے جاری رکھا اور زندہ جماعتوں کی طرح آج جبکہ ہم پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق ہماری جماعت کی تعداد اُس سے زیادہ ہے جتنی کہ پچھلے سال تھی.کئی نئی بستیاں اور نئے علاقے خدا تعالیٰ نے احمدیت کے لئے فتح کئے ہیں اور جہاں پہلے احمدیت کا کوئی نام لیوا نہ تھا اب وہاں احمدیت پر ایمان رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل رہے گا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جماعت کی روز افزوں ترقی ہوتی چلی جائے گی.ہماری کوششیں تو محض رسمی طور پر اپنی عقیدت کا اظہار ہوتی ہیں ورنہ نتائج تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ظاہر ہورہے ہیں ہمیں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ان وعدوں پر یقین کر لیں جو خدا تعالیٰ نے احمدیت کے متعلق فرمائے ہیں.ان وعدوں پر یقین کر لینے سے ہمارے کام اور ہمارے عزم میں آپ ہی آپ ایک نمایاں فرق پیدا ہوتا چلا جائے گا.چین کا مصلح جسے ہم قرآن کریم کی اجمالی تعلیم کی روشنی میں نبی سمجھتے ہیں مجھے اُس کا ایک فقرہ بتغیر الفاظ احمدی جماعت کے لئے ایک مشعل راہ معلوم ہوتا ہے کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ اہم مقصد اپنے سامنے کیا رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا ناموں کی طرف توجہ دلانا.پوچھنے والے نے کہا اس میں
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء اہمیت کی کونسی بات ہے؟ انہوں نے کہا ساری اہمیت اسی میں ہے اگر دنیا میں بادشاہ اپنے نام ”بادشاہ کو یاد رکھیں اور رعایا اپنے نام رعایا کو یادر کھے، باپ اس بات کو یادر کھے کہ وہ باپ کہلاتا ہے اور بیٹا اس بات کو یادر کھے کہ اُس کا نام بیٹا ہے، اُستاد اس بات کو یادر کھے کہ میرا نام اُستاد ہے اور شاگرد اس بات کو یاد رکھے کہ اُس کا نام شاگرد ہے تو یقیناً دنیا کی اصلاح ہو جائے گی.ساری خرابی اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ بادشاہ اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتا بلکہ ڈا کو خیال کرتا ہے اور رعایا اپنے آپ کو رعایا نہیں سمجھتی بلکہ باغی خیال کرتی ہے، باپ اپنے آپ کو باپ نہیں سمجھتا بلکہ مستغنی سمجھتا ہے اور اولاد اپنے آپ کو اولاد نہیں بجھتی بلکہ آزاد جماعت خیال کرتی ہے.میرا بھی یہ خیال ہے کہ ہماری جماعت کی ساری ترقی کی جڑ اس بات سے تعلق رکھتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو یاد رکھیں ، ہمیں کسی نئے مقصد کو معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ، ہمیں کسی نئے مقصد کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں.وہ سارے مقاصد جو ہمیں مدنظر رکھنے چاہئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بیان ہو چکے ہیں اور خدا تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے کہ ہمارا کیا مقصد ہے.اب اگر ہم مثلاً کوئی جلسہ کریں جس میں تبلیغ کے مسئلہ پر غور کریں اور اس غرض کے لئے کوئی ایک میدان تجویز کرلیں تو یہ بالکل فضول بات ہوگی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس مقصد کو ہمارے سامنے پہلے ہی رکھا ہوا ہے اور پہلے سے اُس نے کہہ دیا ہے کہ: ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ لے پس مقصد ہمارے سامنے موجود ہے کوئی خاص علاقہ یا کوئی خاص ملک تبلیغ کے لئے تجویز کرنے کا سوال نہیں خدا تعالیٰ نے ہمارا یہ مقصد قرار دیا ہے کہ ہم دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچائیں.اسی طرح اور تمام مقاصد جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں وہ سارے کے سارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں اُن اعلیٰ مقامات تک بیان کر دیئے گئے ہیں جن تک کسی زمانہ میں جماعت احمدیہ پہنچے گی.مثلاً تبلیغ کا ایک پہلو تو یہ بیان فرمایا کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور دوسری طرف یہ بیان فرمایا کہ ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.گویا پہلے الہام میں تو تبلیغ کے علاقہ کی وسعت کا ذکر کیا اور دوسرے الہام میں ارتفاع مدارج کا ذکر کر دیا یعنی احمدیت کی تبلیغ گر دو پیش تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ ساری دنیا میں ہونی چاہیئے نیز صرف غرباء اور عوام میں ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ نڈر ہو کر بادشاہوں کو تبلیغ کرنی 66 ،،
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء انوار العلوم جلد ۱۶ چاہئے کیونکہ اگر انہیں تبلیغ نہیں ہوگی تو وہ احمدی کس طرح ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت کس طرح ڈھونڈیں گے تو یہ سارے مقاصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہامات میں بیان کر دیئے گے ہیں.اگر ان مقاصد پر ہمیں یقین ہو تو ہمارے اندر ایسی گرمی اور ایسا جوش پیدا ہو جائے جو اُن ساری غفلتوں اور سُستیوں کو دور کر دے جو جماعت کے ایک حصہ میں پائی جاتی ہیں.دنیا میں ہمیں یہ ایک عام قاعدہ دکھائی دیتا ہے کہ جتنا بڑا کام ہو اُتنی ہی انسان اُس کے لئے جد وجہد اور محنت کرتا ہے اور اگر کوئی بڑا مقصد سامنے نہ ہو تو چُست تو کام کرتے رہتے ہیں مست نہیں کرتے.پس یہ یقینی بات ہے کہ اگر بڑا مقصد سامنے ہوگا تو اس کے لحاظ سے ہر شخص کے اندر خواہ وہ کس قدر شست کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ گرمی پیدا ہو جائے گی.ایک سُست الوجود بعض دفعہ گھنٹوں چار پائی پر لیٹا رہتا ہے سو کر اُٹھتا ہے تو پاخانہ پیشاب کے لئے بھی لیت ولعل کرتا رہتا ہے اُس کے عزیز اور رشتہ دار بار بار کہتے ہیں اُٹھو دیر ہو رہی ہے ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کر لومگر وہ جلدی اُٹھنے کا نام نہیں لیتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگا دیتا ہے لیکن جب ریل کے سٹیشن پر وہی شست انسان کھڑا ہو تو اس وقت وہ ایسی سستی نہیں دکھاتا.بے شک یہ تو ہو جائے گا که چست آدمی سٹیشن پر پہلے پہنچ جائیں اور یہ بعد میں پہنچے مگر یہاں وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر نہیں لگائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہاں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر مہلک ہے منٹ دومنٹ کی سستی تو وہ ضرور کرے گا مگر زیادہ نہیں کیونکہ اُس کے مقصد میں فرق پیدا ہو گیا ہے.تو اگر مقاصد عالیہ ہماری جماعت کے سامنے ہوں تو جو لوگ سُست ہیں اُن میں بھی نسبتی طور پر چُستی پیدا ہو جائے گی اور جو چُست ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ چست ہو جائیں گے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جب بھی کسی اجتماع میں شامل ہوں ہماری توجہ کا مرکز خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ہوں اور وہ مقاصد ہوں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کئے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو ہماری جماعت اپنے سامنے رکھے تو ہم میں سے ہر شخص کے دل میں اندھا دھند نہیں جیسے جاہلوں کا ایمان ہوتا ہے بلکہ علَى وَجْهِ الْبَصِيرَتْ یہ ایمان پیدا ہو جائے کہ یورپ میں اس وقت جو جنگ ہورہی ہے وہ دنیا کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ دنیا کا آئندہ فیصلہ اس اجتماع پر ہوگا جو اس میدان میں ہو رہا ہے.ہمارے نزدیک تو وہ ایک کھیل کھیل رہے ہیں وہ جتنی تلوار میں چلائیں، جتنی بندوقیں اور تو ہیں چلائیں ، جتنے طیارے بنا ئیں اور جس قدر بم پھینکیں سب ایک
انوار العلوم جلد ۱۶ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء کھیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی مثال اس سے زیادہ نہیں جیسے کوئی عظیم الشان عمارت یا بہت بڑا محل بننے والا ہو تو اُس کے ایک کو نہ میں پاخانے کا کوئی حصہ بنایا جارہا ہو اس سے زیادہ موجودہ جنگ کی کوئی حقیقت نہیں ان کی سب کوششیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور یہ انقلابات اُس انقلاب کے مقابلہ میں رہیں گے ہی نہیں جو خدا تعالیٰ کے مد نظر ہے.اگر یہ چیز ہماری جماعت کے دوستوں کے مدنظر رہے تو یقیناً ان میں ایسی حس پیدا ہو جائے کہ ان کے شست بھی چست ہو جائیں پس ان مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمارے مقرروں کو چاہئے کہ وہ تقریر میں کریں اور ان ہی مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے سامعین کو چاہئے کہ ان تقریروں کو سنیں اور یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے کہ ہمارے سامنے وہ مقاصد نہیں جو ہم نے تجویز کرنے ہیں بلکہ ہمارے سامنے وہ مقاصد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں خدا تعالیٰ نے پہلے سے بتائے ہوئے ہیں ان مقاصد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور اگر کوئی شخص ان مقاصد کے حصول کے لئے جد و جہد نہیں کرے گا تو خدا اُسے ابتلاؤں اور امتحانات کے ذریعہ مجبور کرے گا کہ وہ ان مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد کرے.جب آقا اپنے کسی خادم کو چھت پر چڑھانا چاہتا ہو اور خادم کسی ایک سیڑھی پر جا کر بیٹھ رہے تو اُس کا آقا اُسے مار کر کہتا ہے کہ اُٹھ اور اوپر چڑھ پھر اگر وہ کسی اور سیڑھی پر بیٹھ جائے تو پھر اُس کا آقا اُسے مارتا ہے اور کہتا ہے اُٹھ اور اوپر چڑھ اِسی طرح خدا تعالیٰ ہمیں چھت پر لے جانا چاہتا ہے اگر کوئی شخص راستہ میں ہی بیٹھ رہے گا تو خدا تعالیٰ اُسے ٹھوکر مار کر کہے گا کہ اُٹھ اور آگے چل.وہ چاہے اس کا نام ابتلاء ر کھے چاہے امتحان رکھے ، چاہے مصیبت اور تکلیف رکھے بہر حال یہ ابتلاء آتے چلے جائیں گے جب تک کہ وہ اوپر نہ چڑھ جائے.اس نصیحت کے بعد اب میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ ہماری خواہش اور نصیحتیں سب بے کار ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت شاملِ حال نہ ہو پس آؤ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم چھوٹے چھوٹے ذہنی مقاصد کو بھول جائیں اور ان عظیم الشان مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں اور جن کا آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دنیا میں اعلان ہو چکا ہے.مقرر تو وہ روزِ ازل سے ہی تھے ابھی آدم بھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ایک زمانہ میں جماعت احمدیہ پیدا ہوگی اور اُس کے ذمہ یہ یہ کام ہوں گے مگر اس کا اعلان آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہوا پس
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء انوار العلوم جلد ۱۶ آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان مقاصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور پھر ان مقاصد کے مطابق عمل کرتے چلے جائیں.اسی طرح دعاؤں میں اُن دوستوں کو بھی مد نظر رکھیں جن کے دل جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے تڑپ رہے ہیں مگر وہ جنگ کی وجہ سے کسی دُور دراز ملک میں ہیں اور اس وجہ سے وہ جلسہ میں شریک نہیں ہو سکے یا جنگی قیدی ہیں یا بیمار اور کمزور اور بوڑھے ہیں یا اُن کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ جلسہ میں آسکتے.یا مالی حالت اچھی تھی مگر انہیں چھٹیاں نہیں ملیں.ان تمام لوگوں کے لئے جن کے دل میں تڑپ تھی ، آرزو تھی اور خواہش تھی کہ وہ قادیان پہنچیں مگر مجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنی خواہش کو پورا نہیں کر سکے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس صدمہ کے بدلہ میں انہیں بہتر سے بہتر انعام دے اور اپنی نعمتوں سے اُن کے گھروں کو بھر دے تا کہ ان کے دلوں کو جو زخم پہنچا ہے اُس کے لئے تسکین کا سامان ہو جائے.پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کو یہاں آنے کی توفیق تو تھی مگر وہ نہیں آئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی سُستی اور غفلت کو دور کرے اور اُنہیں تو فیق عطا فرمائے کہ وہ آئندہ کسی نیکی کے کام سے پیچھے نہ رہیں.اسی طرح اُن لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کے دلوں میں یہاں آنے کی خواہش ہی نہیں وہ علم رکھتے ہوئے ہم سے بغض رکھتے اور ہماری عداوت اور دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو جائیں اور اس حقانیت کے پھیلانے میں حصہ لیں جس حقانیت کے پھیلانے کی خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے رہا ہے اور ہمارے ہم دوش ہوکر وہ بھی شیطان کا مقابلہ کریں.پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جو قادیان میں رہنے والے ہیں اور جن پر مہمانوں کی خدمت کا بہت بڑا بوجھ ہے آجکل سردیوں اور بیماریوں کے دن ہیں مگر باوجود اس کے بعض لوگ بیماری کی حالت میں بھی کام کر رہے ہیں اور جس طرح باہر کے لوگ تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد قادیان کے رہنے والوں میں سے بہت سے بیمار ہو جاتے ہیں پس دوست اِن کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے اور ہر قسم کے بداثرات سے جو ان بیماریوں اور سردیوں کے دنوں میں ان کی صحت پر پڑ سکتے ہیں محفوظ رکھے.اسی طرح دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے تغیرات رونما فرمائے کہ جن کے نتیجہ میں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار ہو اور پھر خدا اسلام کی بادشاہت کو
افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء انوار العلوم جلد ۱۶ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان وشوکت کے ساتھ قائم کر دے جس طرح وہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے قائم تھی اور وہ علوم جو پہلے زمانہ کے مناسب حال نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کریم میں مخفی کر دیئے گئے تھے خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ ہم اُن کو ظاہر کریں اور قرآنی علوم کا وہ حصہ جو اس زمانہ کے لئے ہے اُسے پھیلانے اور علوم کے اس خزانے سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی طاقت دے.تاکہ وہ حصے جن کو پہلے لوگ روشن اور اُجاگر نہیں کر سکے تھے احمدیت کے ذریعہ پھر اُجاگر اور روشن ہو جائیں اور دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ اس مالک و خالق خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور اس ذات بابرکات کے سوا جو عرب میں ظاہر ہوئے اور جس کا نام محمد تھا صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی رسول نہیں اور اُس کے خادم اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا اُس کے پیغام کو پہنچانے والا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے لوگوں کو خدا سے ملانے والا اور کوئی نہیں.پس آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ سب کام اپنے فضل سے کر دے اور ہماری حقیر اور ذلیل کوششوں کو وہ (الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۳ء) معزز اور برکت والا بنادے.اللَّهُمَّ آمِينَ لا تذکرہ صفحہ ۳۱۲.ایڈیشن چہارم سے تذکرہ صفحہ ۱۰.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب (۱۹۴۲ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ مستورات سے خطاب ( تقریر فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - میں نے ابھی موٹر پر آتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمام سڑکیں اور بازار مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جلسہ گاہ قریباً خالی پڑا ہوا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ اِس وقت تمہاری بھی یہی حالت ہے.قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے یہ دین سیکھنے کی جگہ ہے کھیل کود کی جگہ نہیں میلہ نہیں کہ جس کی روٹیاں تم کھانے آتی ہو.۳۶۵ دنوں میں سے ۳۶۲ دن تم اپنے کاموں کے لئے خرچ کر دیتی ہو صرف ۳ دن کے لئے تم قادیان میں آتی ہو وہ بھی ادھر ادھر پھر کر خرچ کر دیتی ہو اور بجھتی ہو کہ تم نے خدا تعالیٰ کا حق پورا کردیا در حقیقت میرے قلب کی حالت اس وقت ایسی ہے کہ میرا دل اس وقت کوئی تقریر کرنے کو نہیں چاہتا اور جو کچھ میں اس وقت کہوں گا اپنے نفس پر جبر کر کے کہوں گا.دیکھو! منہ سے باتیں کرنا کسی کام نہیں آتا دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی خواہ وہ دینی ہو یا ڈ نیوی جب تک اُس کا عمل اُس کے قول کے مطابق نہ ہو صحابہ کام زیادہ کرتے تھے اور باتیں کم قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ باتیں کیا کرتے تھے، منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہا کرتے کہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے ، مؤمن تو بغیر قسمیں کھائے کہتے تھے مؤمنوں کے متعلق کہیں ذکر نہیں آتا کہ انہوں نے قسمیں کھائی ہوں لیکن منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ تو اللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ جھوٹے ہوتے تھے لے عورتوں کے لئے ایک بہت بڑے تغیر کی ضرورت ہے تمہاری حالت تو بالکل مُردوں کی
مستورات سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۶ سی ہے نہ تمہارے دماغوں میں اتنی روشنی ہے کہ مفہوم کو عمدگی کے ساتھ سمجھ سکو، نہ تمہاری زبانوں میں اتنی طاقت ہے کہ مَا فِی الضمیر کو ادا کر سکوں.کئی عورتیں آتی ہیں کہ جی ہم مصیبت زدہ ہیں ہماری بات سن لیجئے.وہ مجھے کئی ضروری کاموں سے روک لیتی ہیں.مرد ایسے دوسو میں سے دس ہوتے ہیں مگر عورتیں سو میں سے نوے ہوتی ہیں.میں سو کام چھوڑ کر اُس کی بات سنتا ہوں کہ احمدی جماعت میں سے ہے، مصیبت زدہ ہے.ہمدردی کروں لیکن وہ میرا وقت ضائع کر دیتی ہے.عورتیں بہت لمبی چوڑی باتیں شروع کر دیتی ہیں.مثلاً میں فلاں کے گھر اُس کے جنوبی دروازہ سے اُس کے صحن میں داخل ہوئی، اُس کا صحن بس یہی کوئی تین چار چار پائیوں کا ہو گا صحن سے گزر کر میں برآمدہ میں داخل ہوئی پھر میں اندر گئی یہ طریق گفتگو بتا تا ہے کہ کام ہے ہی نہیں.سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے لئے کام تجویز کرو.زمیندار عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں انہیں محنت کی عادت ہوتی ہے لیکن شہری عورتوں کو سوائے باتوں کے اور کچھ آتا ہی نہیں.امراء کی عورتیں نوکروں کو گالیاں دیتی رہتی ہیں سارا دن جھک جھک کرنے میں گزر جاتا ہے وہ پانچ منٹ نوکر کو صرف اس لئے جھاڑتی ہے کہ تو نے پیالی کیوں صاف نہیں کی حالانکہ اگر وہ خود کرے تو ایک منٹ میں پیالی صاف ہو سکتی ہے.بعض لوگ قطب مینار پر صرف دو منٹ کے لئے چڑھتے ہیں لیکن اُس پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں اس جگہ فلاں دن آیا تھا وہ گوارا نہیں کرتے کہ صرف دو منٹ کے لئے بھی آکر یونہی واپس چلے جائیں بلکہ اپنی نشانی چھوڑ کر جاتے ہیں.مینارة امسیح ایک مقدس جگہ ہے بعض نادان اس پر چڑھ کر اپنا نام لکھ جاتے ہیں.تم خدا کی اس دنیا میں پچاس ساٹھ سال رہ کر جاتی ہو لیکن اتنا بھی نشان چھوڑ کر نہیں جاتی ہو کیا تم کہہ سکتی ہو کہ تمہاری ماں، تمہاری دادی ، تمہاری نانی وغیرہ تمہارے لئے کوئی نشان چھوڑ کر گئی ہیں؟ بائیل میں آتا ہے کہ آدم تیرے گناہ کی یہ سزا ہے کہ تیری بیٹی تجھے نہیں بلکہ اپنے خاوند کو چاہے گی اور تیرا بیٹا تجھے نہیں بلکہ اپنی بیوی کو چاہے گا.ایک شخص آتا ہے کہتا ہے ابا جان خط آیا ہے بچہ بیمار ہے میں جاؤں؟ تو باپ اُس کے احساسات کو مد نظر رکھ کر اجازت دیدیتا ہے کہ جاؤ حالانکہ اگر وہ احسان شناس ہوتا احساس رکھتا تو ماں کو نہ چھوڑتا ، باپ کو نہ چھوڑتا بلکہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیتا وہ کہتا کہ سارے مر جائیں میں اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑوں گا.تو دنیا میں جن چیزوں کو تم نشان سمجھتی ہو وہ نشان نہیں بلکہ نشان مٹانے والے ہیں ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ.وہ کام جو خدا کے لئے کروگی باقی رہے گا.آج
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب ابو ہریرہ کی اولاد کہاں ہے ، مکان کہاں ہیں؟ لیکن ہم جنہوں نے نہ ان کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائداد دیکھی ہم جب اُن کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ.چند دن ہوئے ایک عرب آیا اُس نے کہا کہ میں بلال کی اولاد میں سے ہوں اُس نے معلوم نہیں سچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اُس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جاؤں کہ یہ اُس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی.آج بلال کی اولاد کہاں ہے، اسکے مکان کہاں ہیں، اس کی جائداد کہاں ہے؟ مگر وہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی.پس سب چیزیں فتا ہو جاتی ہیں لیکن انسان کا عمل فنا نہیں ہوتا اور تم اس طرف توجہ نہیں دیتی ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا پرندہ ہم نے اُس کی گردن پر باندھ رکھا ہے ہے اور وہ پرندہ کیا ہے؟ اس کا عمل.اگر وہ نیک ہوگا تو اُس کا پرندہ بھی نیک ہوگا ، اگر وہ بد ہوگا تو وہ بھی بد.پس عملی زندگی میں اصلاح کی کوشش کر و سینکڑوں ایسی ہوں گی جو دس سال سے آتی ہوں گی مگر انہوں نے ہر سال جلسہ پر آ کر کیا فائدہ اُٹھایا ؟ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) انفرادی اور (۲) اجتماعی.جب تک یہ دونوں قسم کے عمل مکمل نہ ہوں تمہاری زندگی سُدھر نہیں سکتی نہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے.انفرادی اعمال نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، چندے دینا اور سچ بولنا اس میں کوئی ضرورت نہیں کہ بیں چھپیں اور عورتیں ہوں جو تمہارے ساتھ مل کر یہ کام کریں یہ انفرادی اعمال ہیں جو ایک آدمی سے تعلق رکھتے ہیں کسی جتھے کی ضرورت نہیں.یہ کام ایسے ہیں کہ ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ ہمارے ساتھ اور عورتیں شامل نہ تھیں اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی یا اس لئے روزہ نہیں رکھا کہ اور روزہ رکھنے والے نہ تھے.خدا تعالیٰ قیامت کے دن اُس آدمی کو نہیں چھوڑے گا جو کہے گا کہ نماز اس لئے نہیں پڑھی کہ جماعت نہ تھی یا روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ اور جماعت نہ تھی ، زکوۃ اس لئے نہیں دی کہ جماعت نہ تھی قیامت کے دن تم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ جماعت ساتھ نہ تھی اس لئے ہم یہ کام نہ کر سکیں اس لئے نماز چھٹ گئی ، حج چُھٹ گیا.یہ انفرادی کام ہیں ان کو ایک آدمی اپنے طور پر کر سکتا ہے خواہ اُس کے ساتھ اور کوئی لوگ ہوں یا نہ ہوں.دوسرے اعمال اجتماعی اعمال ہیں.وہ ایسے کام ہیں جو مل کر کئے جاتے ہیں جب تک جماعت ساتھ نہ ہو وہ کام مکمل نہیں ہو سکتے مثلاً با جماعت نماز مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں گو پسندیدہ ہے لیکن مرد اگر باجماعت نماز نہیں پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ نمازیں
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب پڑھتا ہوگا وہ قیامت کے دن مُجرم ہوگا.اگر تم باجماعت نماز نہیں پڑھوگی تو اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ تم مجرم ہو اگر تم نماز باجماعت پڑھو گی تو مردوں سے اچھی ہوگی وہ دوسروں سے تمہیں زیادہ ثواب دے گا لیکن مرد اگر باجماعت نماز نہ پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ وقت خرچ کرے گا دعا کرے گا خدا کے حضور اُسے کہا جائے گا تمہاری نماز ناقص رہ گئی.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جہنم میں جائے گا ہو سکتا ہے کہ اُس کی دوسری نیکیاں اس قدر ہوں کہ وہ اس گناہ کو ڈھانپ لیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تول ہوتا ہے نیکیوں کا مقابلہ ہوتا ہے بعض بدیاں ایسی ہیں کہ وہ اکیلی جہنم میں لے جاتی ہیں مثلاً شرک ، اللہ کا انکار، اس کے فرشتوں کا انکار، حشر نشر کا انکار، قیامت کا انکار ، رسول پر ایمان نہ لانا، خدا کی کتاب کا انکار یہ ایسی بدیاں ہیں جو اکیلی جہنم میں لے جاتی ہیں یہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں ان کے مقابلہ میں تمہاری نیکیاں چھٹانک چھٹانک کی رہ جاتی ہیں.ان کے علاوہ کچھ اور بدیاں ہیں جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیا جائے گا ، وزن کیا جائے گا ہستی سے نماز پڑھنا، چغلی، غیبت وغیرہ ، یہ ایسی بدیاں ہیں جن کا مقابلہ کیا جائے گا کسی نیکی کے زیادہ ہو جانے سے انسان جنت میں جا سکتا ہے لیکن اگر رسول کا انکار کرے تو پھر جنت میں نہیں جا سکتا خدا تعالیٰ رحیم ہے اگر وہ چاہے تو سب گناہگاروں کو معاف کر دے باقی قانون یہی ہے.تو ایک گناہ وہ ہیں جن کا پلڑا بھاری رہے گا دوسرے وہ جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیا جائے گا اگر نیکیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ جنت میں لے جائے گا اگر بدیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ جہنم میں لے جائے گا.باجماعت نماز مردوں کے لئے فرض ہے اگر مرد نہیں پڑھے گا تو اُس کا گناہ لکھا جائے گا اور اُس کا نمبر کٹ جائے گا لیکن اگر تم جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتیں تو گناہ نہیں ہو گا لیکن باجماعت نماز پڑھوگی تو ثواب ہوگا.اگر تم کہو کہ باجماعت نماز پڑھنے کو دل تو بہت چاہتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی جماعت نہیں اس لئے ہم باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں اگر تم اُن کی نیت کر لو گی تو تمہیں اُتنا ہی ثواب ملے گا کیونکہ تمہارا دل تو چاہتا ہوگا تمہاری خطا تو نہ ہوگی سامانوں کی خطا ہوگی.خدا کہے گا کہ اس کی نیت نیک تھی قصور مال میسر نہ ہونے کا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ کسی بندے کے ساتھ جیسا سلوک کرتا ہے گویا وہ میرے ساتھ کرتا ہے ، اگر اُس نے میرے بندوں کو روٹی کھلائی تو گویا اُس نے مجھے کھلائی ، اگر اُس کے
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب لئے مکان بنایا ہے تو خدا کہے گا اُس نے میرے لئے مکان بنایا ہے اس لئے اس کا اس سے بہتر مکان جنت میں بناؤ کے اسی طرح اولاد کی تربیت ہے یہ اجتماعی کام ہے.تمہیں بڑا شوق ہے کہ تمہارا بچہ سچ بولے.تم رات دن اسے کہتی ہو کہ بچہ سچ بول بچہ سچ بول لیکن تم اکیلے اُسے رکس طرح سکھا سکتی ہو تمہارا بچہ باہر کھیلنے جاتا ہے تو دوسرے کو کہتا ہے کہ بھائی ! ابا کو نہ بتانا کہ میں سکول نہیں گیا.تم گھر میں کہتی ہو کہ بچہ سچ بول تو اس کشمکش کے بعد کبھی تو تمہاری تعلیم اثر کرتی ہے، کبھی بھائی کی.اگر اُس بھائی کی ماں اُسے کہنے والی ہوتی کہ تو سچ بولا کر تو وہ فوراً تمہارے بچہ کو کہہ دیتا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا میری ماں نے منع کیا ہوا ہے تو تربیت اولا د کبھی اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتی.عورتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ ہمارے بچوں میں کیا کیا خرابیاں ہیں، عورتیں تدابیر کریں اور عہد کریں کہ وہ ان کمزوریوں کو دور کریں گی اس میں تعاون کی ضرورت ہے.اگر ساری عورتیں اپنے بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب دیں گی تو کوئی بچہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہو گا.اگر پندرہ بچے کھیلنے والے ہوں گے اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا ہوگا تو پندرہ دوسرے کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ہماری اماں نے منع کیا ہوا ہے تو تمہارا بچہ بھی سچ بولنے لگ جائے گا غرض یہ اجتماعی نیکیاں ہیں جو مل کر کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتیں.اسی طرح بہادری ہے اگر ہمارے بچے کمزور ہوں گے تو انہوں نے اپنی کیا اصلاح کرنی ہے اور جماعت کی کیا کرنی ہے، انہوں نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے اور قوم کی کیا کرنی ہے.بہا در آدمی کو لوگ گیند کی طرح اُچھال اُچھال کر پھینکتے ہیں لیکن وہ اپنے کاموں سے باز نہیں آتا.حضرت ابوذرغفاری نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص نے دعوی نبوت کیا ہے انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیقات کے لئے بھیجا لیکن اُس نے واپس جا کر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا پھر وہ خود مکہ گئے لوگوں سے دریافت کیا.کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا یہی کہا کہ ایک شخص ہے جو اپنی سحر بیانی سے بھائی کو بھائی سے، بیوی کو خاوند سے جدا کرتا چلا جاتا ہے لیکن یہ چُپ چاپ گلیوں میں چکر لگایا کرتے.حضرت علی نے انہیں ایک دن دیکھا، دوسرے دن دیکھا، تیسرے دن دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے آپ چکر لگایا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا شاید تم بھی مجھے ٹھیک ٹھیک نہ بتلا سکو میں ایک کام کے لئے آیا ہوں حالانکہ حضرت علی تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے تھے.حضرت علی نے پوچھا اور اصرار کیا تو انہوں نے بتلا دیا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے وہ مسلمان ہو گئے.دشمن اسلام بڑے
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطار دھڑلے سے خانہ کعبہ میں گالیاں دیا کرتے تھے وہ ایک دن گالیاں دے رہے تھے تو یہ وہاں گئے انہوں نے کہا تم گالیاں دے رہے ہو سنو ! اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ كُفَّار نے پکڑ کر خوب پیٹا.پیٹنے کے بعد پھر پوچھا تو چونکہ دل بہادر تھا پھر کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - تو یہ ان کی جرات اور بہادری تھی.اتنے میں حضرت عباس آپہنچے یہ اس وقت مسلمان تھے اُن سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بڑے ہیں؟ حضرت عباس نے جواب دیا کہ درجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں پیدا پہلے میں ہوا تھا.تو جب یہ وہاں آئے تب حضرت ابوذر کو ان کے ہاتھوں سے چھڑایا ہے تو جب دل میں ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو جو ص بہادر ہوتا ہے وہ ہر جگہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.دین کے لئے بہادری کی ضرورت ہے اور دنیوی کاموں کے لئے بھی بہادری کی ضرورت ہے بُزدلی ہر صورت میں بُری ہے اور بہادری ہر لحاظ سے اچھی ہے.اگر جاپانی گھس آئیں تو کیا تمہارا دل یہ چاہتا ہے کہ تمہارا بیٹا کھیت میں گھس جائے اور وہ گھروں کو لوٹ لے جائیں؟ یا تمہارا دل یہ چاہتا ہے کہ تمہارا بیٹا دروازے میں کھڑا ہو کر بہادری سے مقابلہ کرے اور لوگ کہیں واہ بھئی نو جوان مرتو گیا لیکن اپنی عورتوں کی جان بچالی یا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ اس وقت تمہارا بیٹا گھر میں گھس جائے اور دشمن عورتوں کی چوٹیاں پکڑ کر گھسیٹتے پھریں؟ تم کو تو وہی بچہ اچھا لگے گا جو گھر کی حفاظت میں اپنی جان تک دیدے گا.ایک کا ڈر دوسرے کو بھی ڈرا دیتا ہے.ڈرایسی چیز ہے جو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اگر تم نے اپنے بچے کے دل میں ڈر پیدا کیا ہے تو وہ بہادری کس طرح دکھائے گا اور اگر تم صرف اُس کو بہادری کی تعلیم دیتی ہو اور وہ دوسرے بچوں کو ڈرتے دیکھتا ہو تو خود بھی ڈرنے لگتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ حنین میں گئے غزوہ حنین میں نئے نئے مسلمان شامل تھے ذرا تیر پڑے تو وہ بھاگے جب وہ بھاگے تو سارا لشکر اسلام بھی بھاگ پڑا یہاں تک کہ صرف باره آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے.دوسری طرف چار ہزار آدمی تیر برسانے والے تھے.وہ اپنی ذات میں ڈرپوک نہیں تھے ، بُزدل نہیں تھے بلکہ بُزدلوں کو دیکھ کر بُزدل بن گئے تھے کوئی عورت اپنے بچے کا دل مضبوط نہیں کر سکتی جب تک کہ سارے گاؤں کی عورتیں اپنے بچوں کے دل مضبوط نہ کریں.اسی طرح تعلیم کو دیکھ لو امیر سے امیر آدمی بھی اکیلا سکول کو نہیں چلا سکتا لیکن مل کر غریب
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطاب سے غریب آدمی بھی شاندار کالج تیار کر سکتے ہیں.یہاں سکول کا ۲۶،۲۵ ہزار خرچ ہے یہ کوئی اکیلا امیر آدمی خرچ نہیں کر رہا بلکہ تم میں سے ہی وہ مرد ہیں جن کی چار روپے آمد ہے اور وہ پیسہ پیسہ دے رہے ہیں.اکٹھے کاموں کے لئے ضرورت ہوا کرتی ہے جماعت کی ، اس کے لئے یہ قانون ہم نے بنایا ہے کہ جہاں کہیں بھی احمدی عورتیں ہیں وہاں لجنہ اماء اللہ بنالیں.لجنہ اماءاللہ کے معنے ہیں اللہ کی نیک بندیوں کی انجمن “ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہر جگہ انجمنیں قائم نہیں ہوئیں.جہاں لجنہ قائم ہو وہاں کی ہر عورت ممبر ہوگی اور ہر عورت یہ اقرار کرے کہ خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے میں مرجاؤں گی ، سر دے دوں گی لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گی.ہفتہ میں ایک یا دو دن وقف کر دے بجائے اس کے ہمسایہ کی غیبت کرو دین کی باتیں کرو.آپس میں نیک مشورے کرو.میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے قومی کام کیسے کر سکتی ہو جب تمہارے پاس ہتھیار نہیں لجنہ اماء اللہ تمہارے لئے ہتھیار ہے اجتماعی کام تم کس طرح کر سکتی ہو جب تک تم مل کر کام نہیں کرتیں.کوشش تو یہ کرنی چاہئے کہ پانچوں نمازوں میں سے ایک نماز باجماعت ادا کرو.اگر تم با جماعت نماز پڑھو گی تو بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہی ثواب تمہیں جنت میں لے جانے کا موجب ہو جائے.اسی طرح تم اقرار کرو کہ ہم اپنے بچوں کو کہیں گی کہ تم دلیر بنو، انہیں سچ بولنا سکھائیں گی ، نماز سکھائیں گی یا اسی طرح مثلاً یہ نیکیاں کہ اُن کے متعلق فیصلہ کرو.تعلیم کے لئے کوئی اُستاد رکھو کہ وہ دین سکھائے یہ سارے کام ایسے ہیں جو تم مل کر کر سکتی ہو.اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ ہے اکٹھی ہوئیں ایک رکوع با ترجمہ سنا دیا عورتوں کے فائدے کیلئے اخبار مصباح جاری ہے چندہ اکٹھا کر کے منگواؤ اور جلسوں میں پڑھ کر سُنا دیا کرو اسی طرح چندہ اکٹھا کر کے کبھی بخاری منگوالی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی کتاب منگوالی تا تمہاری تبلیغ وسیع ہو جائے ، تمہاری تعلیم وسیع ہو جائے اور اچھی اچھی باتیں دوسروں کو سنانے کا موقع مل جائے.اسی طرح اخبار الفضل منگوا لیا تا قادیان کے حالات تمہیں معلوم ہوتے رہیں خدا تعالیٰ نے تمہیں جماعت دی ہے جماعت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے پس اگلے سال تک کوئی جماعت ایسی نہ رہ جائے جہاں لجنہ کا قیام نہ ہو.لجنہ کے لئے کام یہ ہے.اوّل: - تھوڑا تھوڑا ہر ایک اپنی توفیق کے مطابق چندہ دے اور چندہ جمع کر کے مصباح منگوا ئیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ مستورات سے خطار دوم: - کم از کم نماز باجماعت ادا کریں.اس کے بعد دو چار آیتوں کا ترجمہ سنا دیا.سوم: - لجنہ رجسٹرڈ کرالو اور مرکز سے قواعد منگوالو.اس سال خصوصیت کے ساتھ یہ عملی تجاویز پیش کرتا ہوں.الازهار لذوات الخمار صفحه ۳۶۲ تا ۳۶.ایڈیشن دوم) ل إِذَا جَاءَ كَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنفِقِينَ لَكَذِبُونَ (المنافقون: ۲) ل وَكُلَّ إِنْسَانِ الْزَمْنَهُ طَئِرَهُ فِي عُنُقِهِ (بنی اسرائیل : ۱۴) سے مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض بخاری كتاب المناقب باب قِصَّة اسلام ابی ذر الغفاری رضی الله عنه
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بعض اہم اور ضروری امور (۱۹۴۲ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ بعض اہم اور ضروری امور ( تقریر فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج نماز میں ، جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں سہو ہو گیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہو کرادیا گیا تھا میں دو رکعت پڑھنے کے بعد تشہد کے لئے بیٹھا کہ کسی نے کے انتظام میں اصلاح کی جائے کہا سُبْحَانَ اللهِ جس کے معنے یہ تھے کہ یہ تشہد کا موقع نہیں آپ بھول گئے ہیں اور کھڑا ہونے لگا کہ پھر آواز آئی سُبْحَانَ اللہ اس پر میں بیٹھا ہی رہا تھا کہ پھر کسی نے سُبْحَانَ اللہ کہا اس پر میں کھڑا ہو گیا مگر ابھی سورہ فاتحہ کی دو تین ہی آیات پڑھی تھیں کہ پھر سُبْحَانَ اللہ کی آواز آئی اِس پر میں نے سمجھ لیا کہ دراصل میں نہیں بھولا بلکہ خضر ہی بُھولے ہوئے تھے.بہر حال غلطی شروع ہو چکی تھی اس لئے بعد میں سجدہ سہو کیا گیا تھا اور مجھے خطرہ تھا کہ لوگوں نے پانچویں رکعت نہ شروع کر دی ہو وہ دراصل سجدہ سہو تھا.ایک صاحب نے کہا ہے کہ یہاں تو روز ہی نماز خراب کی جاتی ہے یہ منتظمین کا نقص ہے اتنے سالوں سے یہ نقص چلا آتا ہے اور وہ اس کی اصلاح نہیں کرا سکے اس کے لئے کوئی پختہ انتظام ہونا چاہئے.منتظم ہمیشہ بڑے اصرار سے کہتے ہیں کہ اب کے ٹھیک انتظام کر دیا گیا ہے مگر جب پھر غلطی ہوتی ہے تو اس قسم کا جواب دے دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا تھا کہ انتظام کرے اور اُس نے فلاں سے کہہ دیا تھا ان کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کہتے ہیں کہ کسی امیر آدمی کے پاس کوئی فقیر آ گیا اور سوال کیا اُس نے کہا اس وقت جاؤ اس وقت پیسے نہیں ہیں مگر فقیر اصرار کرنے لگا کہ اس کے کام میں حرج
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور واقع ہورہا تھا اس نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس کے بڑے ملازم ہیں ایک نوکر سے کہا کہ جمال الدین! جاؤ کمال دین سے کہو وہ صدر دین کو کہے کہ فخر دین کو حکم دے کہ اس شخص کو باہر نکال دے.یہ سن کر فقیر بولا کہ جبرئیل! تو اسرافیل سے کہہ کہ وہ میکائیل کو کہے کہ عزرائیل کو حکم دے کہ اس شخص کی جان نکال ہے.تو اسی قسم کا انتظام ہمارے منتظمین کرتے ہیں.انتظام یہ نہیں کہ کسی سے کہہ دیا جائے کہ فلاں شخص سے کہہ دو کہ کام کرے بلکہ انتظام کرنے کے معنے یہ ہیں کہ خود کیا جائے.اور پھر جب دریافت کیا جائے کہ کیا انتظام ہو گیا ؟ تو کہتے ہیں کہ جی ہاں خوب اچھی طرح انتظام کر دیا گیا ہے.گویا انتظام کرنے کا کریڈٹ وہ خود لینا چاہتے ہیں مگر جب خرابی ہو تو پھر کہیں گے کہ جی ہم نے تو فلاں سے کہہ دیا تھا کہ وہ فلاں کو اس کام کے لئے تاکید کر دے.مثلا کسی سے کہا جائے کہ فلاں شخص کو ایک میل پر پہنچانا ہے اور جب پوچھا جائے کہ پہنچا دیا ؟ تو کہیں گے کہ جی ہاں پہنچا دیا گویا وہ خود ایک میل پر گئے اور اُسے وہاں پہنچایا مگر جب غلطی معلوم ہو اور پھر پوچھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود تو کہیں بھی نہیں گئے بلکہ کمرہ میں ہی بیٹھے بیٹھے کسی سے کہہ دیا تھا کہ اسے پہنچا دیا جائے.تو یہ انتظام کا طریق نہیں.انتظام کرنے کے یہ معنے ہیں کہ خود کیا جائے.یاد رکھنا چاہئے کہ نماز عبادت کا ایک اہم رکن ہے اس کے متعلق ضرور ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ اس میں غلطی کا امکان نہ ہو جلسہ کے دنوں میں یہ انتظام افسر سٹیج کے سپرد ہونا چاہئے اور افسر جلسہ گاہ کے ماتحت ہونا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ خود ایسے آدمی مقرر کریں کہ جن کے سوا کوئی نہ بولے اب دیکھا گیا ہے کہ بچے یونہی بیچ میں بول پڑتے ہیں لوگوں سے کہا جائے کہ اپنے بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ یونہی بیچ میں نہ بولا کریں.جلسہ سالانہ کے موقع اس کے بعد میں ایک واقعہ کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اگر ؟ پرائیویٹ ہے مگر اس لئے بیان کرتا ہوں کہ دوسروں کو بھی فائدہ ہو سکے.آج ملاقات کے بعد مجھے پرائیویٹ سیکرٹری نے بتایا کہ ایک پر احباب کی ملاقات عزیز مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے دروازہ میں داخل ہونا چاہا مگر پہرہ دار نے روکا انہوں نے کہا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں مگر پہرہ دار نے کہا کہ میں نہیں جانتا آپ کون ہیں.اُس عزیز نے کہا میں اسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جس کی ملاقات ہورہی ہے اس پر پہرہ دار نے کہا کہ آپ وقت پر کیوں نہیں آئے بعد از وقت میں اجازت نہیں دے سکتا اس پر بھی اس عزیز نے ملاقات پر اصرار کیا پہرہ دار نے اجازت نہ
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ دی تو اُس نے اسے مکا مارا جس سے پہرہ دار کے جسم سے خون بہہ نکلا.اس واقعہ میں دونوں کی غلطی ہے اُس نوجوان کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص ہے اور اُس نے ایسے وقت میں اپنے اخلاص کو قائم رکھا جبکہ اُس کے بزرگ اس سے محروم ہو گئے تھے وہ ملاقات کرنا چاہتے تھے تو اس طرح اُن کو روکنا مناسب نہ تھا.چاہئے یہ تھا کہ پہرہ دار انہیں کہتے کہ تشریف لائیے آپ کا کس جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور پھر اُس جماعت کے سیکرٹری صاحب کے پاس لے جاتے کہ یہ آپ کی جماعت کے فرد ہیں اور اس طرح ان کے لئے میرے ساتھ ملاقات کا انتظام کرتے.پہرہ والوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ان کے روکنے کے بعد میرے ساتھ ملاقات کا ان کے پاس کیا ذریعہ تھا.اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ خلافت ہے خلافت کو بادشاہت کا رنگ ہر گز نہیں دینا چاہئے.روکنے والے کو خود غور کرنا چاہئے تھا کہ اگر وہ خود باہر کا رہنے والا ہوتا سال کے بعد یہاں آتا اور پھر اُسے خلیفہ کے ساتھ ملاقات سے روکا جاتا تو اُسے کتنا دُکھ ہوتا اور اِس دُکھ کا احساس کرتے ہوئے اسے اس طرح روکنا نہ چاہئے تھا.ملاقات کا موجودہ انتظام تو اس لئے ہے کہ جماعتیں اکٹھی ملیں تا واقفیت ہو سکے مگر بعض دفعہ ایک جماعت کے ساتھ دوسری جماعت کا کوئی دوست بھی آجاتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر اسے آنے بھی دیا جاتا تو کیا اُس نے آتے ہی گولی چلا دینی تھی؟ یہ انتظام تو صرف سہولت کے لئے ہے ورنہ لوگوں نے بہر حال ملنا ہے.پس جہاں تک ملاقات سے روکنے کا تعلق ہے روکنے والے کی غلطی ہے باقی رہائگا مارنے کا معاملہ سو مارنے والا سپاہی ہے اور فوجی افسر ہے.مجھے خوشی ہے کہ ان کو مگا بازی آگئی مگر اتنا کہتا ہوں یہ شرعاً ناجائز ہے.اگر ان پر ظلم ہوا تو چاہئے تھا کہ وہ اسے برداشت کرتے تاہم جسے مارا گیا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ وہ معاف کر دے کیونکہ اس نے اس جذبہ کے زیر اثر مارا ہے کہ اسے خلیفہ سے ملنے سے روکا گیا.جب پہلے سال زنانہ جلسہ گاہ میں لاؤڈ سپیکر لگایا گیا تو بعض لڑکیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ آنے والی عورتوں کو گھل کر بیٹھنے کو کہیں ان میں میری لڑکی کی بھی ڈیوٹی تھی بعض زمیندار عورتیں آئیں تو میری لڑکی نے ان سے کہا کہ یہیں بیٹھ جائیں آگے جانے کی ضرورت نہیں لاؤڈ سپیکر میں سے آواز پہنچتی رہے گی.اُن عورتوں نے اس بات کو بہت بُرا منایا اور میری لڑکی کو نیچے گرا کر مارنے لگیں کہ تم ہمیں سننے سے روکتی ہو کیا یہاں اس بہو نپو میں سے آواز آسکتی ہے.میری لڑکی نے میرے پاس آکر یہ بات بیان کی تو میں نے ہنس کر کہا کہ تمہیں بہت ثواب ہؤا کہ تم نے خدا کے لئے مار کھائی پس میں نے یہ واقعہ
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور عَلَى الْإِعْلَانِ اس لئے بیان کر دیا ہے کہ دوستوں پر واضح ہو جائے کہ دفتر والوں کا یہ کام نہیں کہ ملاقات سے کسی کو روکیں.انہیں چاہئے کہ جماعت کے عہدیداروں سے پوچھیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کا ہے یا نہیں اور پھر اس کے لئے ملاقات کا موقع بہم پہنچا ئیں اور اگر کوئی کارکن کسی کو اُس وقت رو کے جبکہ اُس کی جماعت مل رہی ہو تو اسے چاہئے کہ اصرار کرے کہ وہ ضرور ملے گا اور کہ اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں.اخبار نور کا ایک مضمون اور اسکی حقیقت اب میں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اخبار نور کا ۳ ستمبر کا ایک مضمون میرے سامنے ہے یہ واقعہ جس کا اِس میں ذکر کیا گیا ہے اُن دنوں کا ہے جب میں قادیان سے باہر تھا جب یہ واقعہ ہوا شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور نے مجھے اس کے متعلق خط لکھا کہ ایسا ایسا واقعہ ہوا ہے میں واپس آنے والا تھا اُن دنوں بارشیں بہت ہوئی تھیں اور اخباروں میں بھی چھپا تھا کہ بارش کی وجہ سے راستے خراب ہو چکے ہیں اس لئے دس بارہ روز تک نہ پہنچ سکا حتی کہ ڈاک بھی ۴۳ دن نہ مل سکی تھی.شیخ صاحب کا یہ خط میں اکیس اگست کو مجھے ملا اور ۲۴ کو ہم قادیان روانہ ہو گئے.اس اخبار پر ۲ ستمبر کی تاریخ ہے اور یہ امرتسر میں چھپتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ اگست کے آخر میں چھپ چکا تھا گویا اس کا مضمون و ه۲۴، ۲۵ کو دے چکے ہوئے تھے اور اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ خط انہوں نے رسماً لکھ دیا اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ سلسلہ کی طرف سے تحقیقات کی جائے اگر یہ نیت ہوتی تو اخبار میں اس مضمون کی اشاعت کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اگر انہیں اس بات کا خیال ہوتا کہ انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے تو مجھے خط لکھنے کے بعد اگر دو ماہ تک بھی انتظار کرنا پڑتا تو کرتے.میں نے اخبار ” الفضل میں اس مضمون کے بارہ میں یہ اعلان کرایا تھا کہ اس کے متعلق بعد میں اعلان کرایا جائے گا اس پر شیخ محمد یوسف صاحب نے مجھے لکھا کہ جب اس معاملہ کی تحقیقات کرائی جائے تو مجھے بھی موقع دیا جائے.میں نے اس کا جواب یہ دیا کہ جب آپ نے اخبار میں مضمون چھاپا تھا تو کیا مجھے یا سلسلہ کے کارکنوں کو اپنا پہلو پیش کرنے کا موقع دیا تھا اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کا بھی حق ہوتا کہ آپ کو موقع دیا جائے.آپ نے اخبار میں اپنی مظلومیت بیان کر دی اور سلسلہ کا ظالم ہونا بیان کر دیا آپ کو چاہئے تھا کہ مجھ سے پوچھ لیتے یا امور عامہ سے پوچھ لیتے کہ میں نے اس طرح چٹھی لکھی تھی اس کا کیا بنا ہے؟ یا اگر خود ہی مضمون شائع کرنا چاہتے تھے تو مجھے لکھ دیتے کہ اب آپ دخل نہ دیں میں خود ہی انتظام کرلونگا.یہ بھی
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ تو ان کو سوچنا چاہئے تھا کہ جب انہوں نے ایک بات سن کر مجھے لکھ دی تو دوسرے کا بھی حق تھا کہ میں فیصلہ سے پہلے اس کا بیان سُنتا اور اس کے لئے انہیں انتظار کرنا چاہئے تھا.اب میں بتاتا ہوں کہ اس مضمون میں ایسی باتیں موجود ہیں جو خود اس کی دوسری باتوں کی تردید کرتی ہیں مثلاً اس میں لوکل پریذیڈنٹ اور ناظر امور عامہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ظالمانہ طور پر پولیس کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور اصرار کیا کہ ان لڑکوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں ان کے الفاظ یہ ہیں :- ہندو یہ معاملہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ جنرل پریذیڈنٹ کے ذریعہ اور ناظر صاحب امور عامہ کے ایماء پر پولیس کے حوالہ کیا گیا اور زور دیا گیا کہ فوراً ہی ایڈیٹرٹور کے چاروں لڑکوں کے برخلاف پرچہ چاک کر کے ہتھکڑیاں لگائی جائیں.دو دور اندیش شخصوں نے جس میں ایک جنٹلمین اور ایک مسلمان صاحب تھے جن کا میں بیحد مشکور ہوں نے کہا کہ لڑکوں کا والد یہاں نہیں ہے کوئی لڑکا بی.اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی گریجوایٹ آپ ان کی زندگی کیوں خراب کرتے ہیں کم سے کم ان کے والد کا تو انتظار کر لیجئے مگر مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے کہا کہ انتظار کی کوئی ضرورت نہیں ہم دنیا میں مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں کچھ پرواہ نہیں خواہ یہ ایڈیٹر نور کے لڑکے ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے جب مولوی عبدالرحمن صاحب یہ کہہ رہے تھے تو مارے خوشی اور جوش کے ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا.“ اس معاملہ میں سب بڑے اور اہم گواہ وہ ہند و جنٹلمین اور وہ مسلمان صاحب ہو سکتے ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے اور میں نے دونوں سے دریافت کیا ہے اور دونوں کی گواہی لی ہے.ہند و جنٹلمین نے تو کہا ہے کہ مجھ سے کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ہم چونکہ مساوات چاہتے ہیں اس لئے ان لڑکوں کو ضرور ہتھکڑیاں لگائی جائیں بلکہ لوکل پریذیڈنٹ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ یہ شکایت پولیس میں درج کرانے سے پہلے ناظر صاحب امور عامہ سے پوچھ لیا جائے اور انہوں نے میرے سامنے ناظر صاحب کو فون کیا اور ناظر صاحب امور عامہ نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ دونوں میں صلح کرا دی جائے.یہ تو ہے ہندو جنٹلمین کی گواہی.مسلمان محسن نے یہ تحریری شہادت دی ہے کہ ناظر صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر صلح ہو جائے تو بہت اچھا ہے.شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ لوکل پریذیڈنٹ کا چہرہ مارے جوش کے سُرخ ہور ہا تھا میں نے اُس ہند جنٹلمین.اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے.اس واقعہ کے متعلق میں.
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور نے ناظر صاحب امور عامہ کا بیان بھی لیا ہے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور شکایت کی کہ مجھے بعض نوجوانوں نے مارا ہے مجھے اجازت دی جائے کہ میں پولیس میں جاؤں اور میں نے اسے اجازت دے دی.یہ بات بالکل غلط ہے کہ میں نے کہا کہ ان لڑکوں کو ضرور پکڑ واؤ اور قید کراؤ.( یہاں میں اس امر کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر کیس قابل دست اندازی پولیس نہیں ہوتا اور اس لئے یہ بُزدلی ہے کہ یہ خیال کر کے کہ گورنمنٹ کے افسر کیا کہیں گے ہر ایسے معاملہ کو پولیس میں بھیج دیا جائے.میرے نزدیک اس کے لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسا معاملہ جس میں معمولی ضربات آئی تھیں پولیس کے حوالہ کر دیا جاتا یہ الگ بات ہے کہ اس معاملہ میں کسی نہ کسی وجہ سے پولیس بھی کوئی قدم نہ اٹھانا چاہتی تھی پھر بھی ناظر امور عامہ کو یادرکھنا چاہئے کہ جتنا حق قانون نے ہمیں دیا ہے اُسے نہیں چھوڑ نا چاہئے.پہلے ہی حکومت نے بہت حد تک آزادیاں ہم سے چھین رکھی ہیں اور جو کچھ اُس نے حق ہمیں دیا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسے ہم خود چھوڑ دیں ).پھر شیخ صاحب نے لکھا ہے.شیرا کے ۲۷ سالہ لڑکے نے میرے لڑکے عزیز محمد ادریس پر بے تحاشا لاٹھیاں برسانی شروع کر دیں ایک لاٹھی سر پر بھی پڑی اور باقی پیٹھ پر مگر میرے لڑکے نے بہت صبر سے کام لیا اور ہاتھ نہ اُٹھایا مگر اس کے بعد اُس ظالم شخص نے میرے چھوٹے لڑکے عزیز بشیر احمد جس کی عمر ۱۴، ۱۵ سال کی ہوگی کے سر پر زور سے لاٹھی ماری جس سے یہ چھوٹا بچہ چکر کھا کر اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا اگر اُس پر ایک اور لاٹھی پڑ جاتی تو وہ یقینا چت تھا یہ نقشہ دیکھ کر بڑے بھائی سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ اُس ظالم سے گھتم گتھا ہو گیا میرے دونوں لڑکے نہتے تھے اگر ان کی نیت فساد کی ہوتی تو پھر وہ نہتے نہ ہوتے.جب اور لیس اور شیرے کا لڑ کا مختھم گتھا ہورہے تھے تو ایک اور لڑ کا مدد کے لئے آیا اُس لڑکے کو اتفاقِ حسنہ سے شیرا اور اس کے لڑکے نے میرا لڑکا ہی سمجھا.گویا ظلم دوسرے فریق کا تھا لیکن جس لڑکے کے متعلق اس میں لکھا ہے کہ وہ بچانے آیا میں نے اس واقعہ کے متعلق اُس کا بیان لیا ہے.اُس نے کہا ہے کہ شیخ صاحب کے لڑکوں نے پہلے اُس شخص کو مارا وہ مار کھا کر اندر گھسا.ان لڑکوں نے اس کا تعاقب کیا اندر سے عورتوں نے شور مچایا مضروب کا باپ آ گیا اس نے چھڑایا اور دونوں کو نصیحت کی.پھر بے شک اس شخص نے بھی مارا مگر پہلے خواہ بُزدلی کی وجہ سے اور خواہ نیکی کی وجہ سے اُس نے نہیں مارا بلکہ ما رکھا کر بھاگا اور اندر داخل ہو گیا اتنے میں اُس کا باپ آ گیا اور پھر اُس نے بے شک لاٹھیاں ماریں.شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ میرے لڑکے پر بے تحاشالاٹھیاں برسائی گئیں اور وہ بے ہوش
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ہوکر گر گیا مگر اس تیسرے لڑکے کا بیان ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوا.شیخ صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ لڑائی ہورہی تھی کہ ایک اور لڑکا آ گیا مارنے والوں نے اسے بھی میرا ہی لڑکا سمجھا.شیخ صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ لڑکا اتفاقاً وہاں آ گیا تھا مگر میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں بازار میں بیٹھا تھا کہ شیخ صاحب کے لڑکے میرے پاس آئے اور چونکہ میں ان کا دوست تھا اس لئے مجھے ساتھ لے کر گئے.یہ تیسرا لڑکا بھی ملزم تھا اس لئے اُسے مدعی سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی.پھر اس نے بعض ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں جو خود اسکے خلاف ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بیان درست ہے اور اس کا یہ بیان ہے کہ پہلے مدعی کو مارا گیا وہ بھاگا، بھاگتے ہوئے دہلیز سے ٹھوکر کھا کر گرا.یہ لڑکے اُس کے پیچھے اندر جا گھسے اور اُسے مارنے لگے عورتوں نے شور مچایا اُس کا باپ آ گیا اس نے چھڑا یا اور پھر مدعی نے ان لڑکوں کو کچھ مارا مگر شیخ صاحب کے لڑکوں میں سے بے ہوش کوئی نہیں ہوا.شیخ صاحب نے خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملہ میں دلچسپی لی میں نے اس کی بھی تحقیقات کی ہے.بات صرف اتنی ہے کہ وہ لوگ جو مدعی ہیں وہ خانصاحب کے مزارع ہیں وہ ان کے پاس گئے اور اُن سے شکایت کی انہوں نے ان سے کہہ دیا کہ میں تو بیمار ہوں تم امور عامہ میں جاؤ انہوں نے کہا کہ ہمیں رقعہ لکھ دو چنانچہ خانصاحب نے رقعہ لکھ دیا بس اس سے زیادہ خانصاحب پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا.شیخ صاحب نے پھر لکھا ہے کہ نظارت اور لوکل پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ پہلے لڑکوں سے پوچھتے پھر کوئی قدم اُٹھاتے.اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی فرض تھا کہ اخبار میں لکھنے سے پہلے متعلقہ افراد سے پوچھ لیتے کہ واقعہ کیا ہے؟ اس مضمون کو پڑھ کر بعض دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ اس کا کوئی انتظام ہونا چاہئے مگر میں اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ تقریر میں اصل حالات کا ذکر کر دوں شیخ صاحب کی عادت ہے کہ وہ گھر کے جھگڑوں کو اخبار میں لے آتے ہیں حالانکہ انہیں بار بار سمجھایا گیا ہے کہ یہ عادت اچھی نہیں میں متواتر ہیں سال سے سمجھا رہا ہوں کہ وہ اپنی اس عادت کی اصلاح کریں مگر انہوں نے ابھی نہیں کی.حقیقت یہ ہے کہ ان کے نو مسلم ہونے کی وجہ سے میں ان کا لحاظ بھی کرتا ہوں بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے میر قاسم علی صاحب مرحوم ( اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے) کا اخبار بند کر دیا گیا تھا ان کی طرف سے ہونے کے باوجود میں نے کوئی نوٹس نہیں لیا مگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے ان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اسلام کی قیمت نہ ڈالیں بلکہ اپنے
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور اسلام کو مزید قربانی سے خوبصورت بنائیں.اب چونکہ انہوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے اور دوسروں کے حقوق کا بھی سوال ہے میں نے مجبوراً اس کا ذکر کر دیا ورنہ یہ معمولی بات تھی بچوں کی لڑائی تھی.میں سمجھتا ہوں جماعتی لحاظ سے یہ غلطی ہوئی کہ ان کے بچوں کو پولیس کے پاس جانے دیا گیا یہ معاملہ گھر پر طے ہونا چاہئے تھا اور آئندہ ایسا ہی ہونا چاہئے مگر جو تکلیف انہیں بچوں کے پولیس میں جانے سے ہوئی اگر وہ اس پر صبر کرتے اور معاملہ سلسلہ کے پاس ہی رہنے دیتے تو اچھا ہوتا اب جو انہوں نے مضمون لکھا تو چونکہ ان کے دیکھے واقعات نہ تھے.اس میں کئی غلطیاں کر گئے اور خلاف واقعات سنے سنائے لکھ دیئے.میری اس تقریر کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ لوکل پریذیڈنٹ یا ناظر امور عامہ کی بھی تسلی ہو جانی چاہئے خصوصاً جب کہ ان کی بھی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے ایک معمولی لڑائی کی رپورٹ پولیس میں کرنے کی اجازت دی اور ماں باپ کے لئے تشویش کی صورت پیدا کی اور ایک تو مسلم جو اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر ہم میں آیا تھا اُس کی دلداری کو مد نظر نہیں رکھا حالانکہ یہ ان کا فرض تھا.ایک اہم علمی مضمون اس کے بعد میں کل کے مضمون کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بیان کرنے کی توفیق دی تو وہ ایسا مضمون ہوگا کہ جو دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ سے سننا چاہئے جو لوگ اسے سمجھ سکیں گے وہ تسلیم کریں گے کہ یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اور جو نہ بھی سمجھیں گے اُن کو میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ بہت اہم ہے اور جو کچھ سمجھیں گے اور کچھ نہ سمجھیں گے اُن کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ جو حصہ وہ آج نہ سمجھیں گے اُسے گل سمجھ سکیں گے اور جسے وہ نہ سمجھیں گے ممکن ہے اگر نوٹ کر کے لے جائیں تو ان کا دوسرا بھائی جو جلسہ پر نہیں آسکا شاید اسے سمجھ لے پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو اسے لکھ سکیں وہ ضرور لکھیں اور اسے بار بار پڑھیں اس کا کچھ حصہ تو تمہیدی ہو گا لیکن اصل مضمون کو جذب کرنا ہراحمدی کے لئے بہت ضروری ہے اور جولوگ جلسہ پر نہیں آسکے جو آئے ہیں ان کے لئے انہیں بتا نا ضروری ہے.آج کی تقریر شروع کرنے سے قبل میں خدام الاحمدیہ کا خدام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا انعامی جھنڈا جو دورانِ سال میں سب سے اچھا کام کرنے والی مجلس کو دیا جاتا ہے مجلس دار الرحمت قادیان کے زعیم بابو غلام حسین صاحب کو دیتا ہوں میں اس محلہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کام میں اول رہی ہے اور میں امید
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور کرتا ہوں کہ اس مجلس کے ممبر اس جھنڈے کے احترام کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی زندگیوں کو احمدیت کے مطابق بنا کر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ واقعی اس انعامی جھنڈے کے مستحق تھے اور انتخاب غلط نہ تھا.خلہ کے بارہ میں گورنمنٹ کی غلط پالیسی گزشتہ سال کا قحط ہیں سال کے بعد نیا اور تلخ تجربہ تھا پہلے اس کے آثار فروری میں شروع ہوئے تھے لیکن میں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں غلہ وغیرہ کا انتظام کرنا چاہئے اور میں نے اعلان کر دیا تھا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خرید لیں بعض نے خرید امگر بعض نے ہنس کر ٹال دیا اور دل میں سمجھ لیا کہ ہمارے پاس پیسے ہیں جب چاہیں گے لے لیں گے مگر جب آٹا وغیرہ ملنا بند ہوا تو اُن کو معلوم ہوا کہ وہ غلطی پر تھے.دراصل ایسے موقع پر زیادہ تکلیف پیسہ والوں کو ہی ہوتی ہے غریب تو فاقہ بھی کر سکتا ہے مگر امیر کے لئے ٹھوکا رہنا مشکل ہوتا ہے.میں اُس وقت سندھ میں تھا مجھے وہاں گندم کے ان دانوں کا نمونہ بھیجا گیا جو لوگوں کو کھانے کو مل رہے تھے وہ بالکل سیاہ تھے اور اُن کی روٹیاں بالکل ایسی تھیں جیسے باجرہ کی ہوتی ہیں.اس کے بعد جب فصل نکلی تو میں نے پھر اعلان کیا کہ دوست غلہ جمع کر لیں اور بعض نے کیا بھی، نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری جماعت کے لوگوں کی حالت دوسروں کی نسبت بہت بہتر ہے.میں نے زمیندار دوستوں کو بھی یہ تحریک کی تھی کہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے حتی الوسع جمع رکھیں اور بہت سے دوستوں نے ایسا کیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی فائدہ میں رہے اور ان کے ذریعہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے.قادیان میں بھی بہت سے لوگوں نے غلہ خرید لیا تھا مگر جنہوں نے نہ خریدا اور غفلت کی اُن کے لئے پھر غلہ مہیا کرنے کی کوشش کی گئی تو سرگودھا کی جماعت نے مہیا کر دیا گو قیمتاً ہی دیا مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ مل گیا ان کے پاس ذخائر تھے اور کئی سو من غلہ ہمیں مل گیا مگر میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود بعض لوگوں نے احتیاط نہ کی قادیان میں بھی بعض لوگوں نے نہ کی اور انہیں تکلیف ہوئی.میں سمجھتا ہوں اس کی ایک وجہ پچھلے سال کا گورنمنٹ کا یہ اعلان تھا کہ لوگوں کو غلہ جمع نہ کرنا چاہیئے کافی غلہ ہر وقت مل سکے گا.ہماری جماعت نے عام طور پر جمع کیا اور دوسرے لوگوں میں سے اُس طبقہ نے جو ہماری بات کی قدر کرتا ہے اس پر عمل کیا مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ غلہ جمع نہ کیا جائے ورنہ چھین لیا جائے گا.مجھ سے بعض لوگوں نے اس بارہ میں دریافت کیا تو میں نے جواب دیا کہ کھانے کے لئے اپنے پاس
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور رکھو.یہ گورنمنٹ کی سخت غلطی تھی جب گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا تو گندم کا بھاؤ چار روپے چھ آنے تھا اُس وقت بھاؤ مقررنہ کیا گیا اور وہ چڑھتے چڑھتے پانچ روپے پانچ آنے تک جا پہنچا.پھر گورنمنٹ نے کنٹرول قائم کر دیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ تاجر دلیر ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم غلہ کو روک لیں تو اور زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے پانچ روپے پانچ آنے بھاؤ مقررکرنے کے معنے یہ تھے کہ گورنمنٹ معنے نے جو قانون پاس کیا تھا وہ اُس کی تعمیل نہیں کر اسکی یہ گویا شکست کا اقرار تھا کہ ہم اپنے قانون کو نافذ نہیں کرا سکے.میں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ دوست گندم خرید لیں مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ اُس نے پندرہ لاکھ من غلہ خریدا ہے اور کہ غلہ سستا ہو جائے گا اس وجہ سے کئی لوگوں نے نہ بھی خریدا اور اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس قدر تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے.پچھلے سال تو بورے والا آٹا ملتا تھا مگر اب کے وہ بھی نہیں مل رہا اور معلوم نہیں گورنمنٹ کی خریدی ہوئی پندرہ لاکھ من گندم کہاں ہے.اب گورنمنٹ چھاپے مار رہی ہے اگر اس کے اپنے پاس پندرہ لاکھ من ہے تو لوگوں کے مکانوں پر گندم کی تلاش کے چھاپے کیوں مارے جارہے ہیں.بات صرف یہ ہے کہ اس نے جو گندم خریدی تھی وہ ملٹری کی ضرورت کے لئے تھی اس صورت میں چاہئے تھا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیتی کہ اپنی ضرورت کے لئے گندم خرید لو.اسلام نے غلہ کو مہنگا کرنے کے لئے روکنے سے منع کیا ہے مگر گھر کے لئے جمع کرنے سے نہیں روکا بلکہ یہ ضروری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متوکل کون ہو سکتا ہے مگر آپ بھی اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا غلہ مہیا کر دیتے تھے.گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ لوگوں سے کہتی کہ اپنی ضرورت کے لئے غلہ جمع کرو اور تاجروں سے کہتی کہ فروخت کرو مگر اس نے جو پالیسی اختیار کی وہ غلط تھی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کو سخت تکلیف پہنچی ہے مجھے بعض جگہ سے خطوط آئے ہیں کہ ہم پہلے چاول کھاتے تھے وہ ملنے بند ہوئے تو گیہوں کا آٹا شروع کیا اب آٹا بھی نہیں ملتا باجرہ کا آٹا دو تین سیر روپیہ کامل رہا ہے.ڈھاکہ سے آج ہی مجھے ایک خط ملا ہے کہ نہایت ادنیٰ قسم کا چاول ہیں روپیہ مکن مل رہا ہے حالانکہ پہلے موٹے چاول روپیہ کے دس بارہ سیر ملا کرتے تھے اور کشمیر میں تو ان کا بھاؤ اٹھارہ سیر فی روپیہ ہوتا تھا اب غریب لوگ کیا کھائیں.اسی سلسلہ میں میں نے تحریک کی تھی کہ غرباء کے لئے بھی دوست غرباء کے لئے غلہ کی تحریک بطور امداد غلہ جمع کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے غرباء کو پندرہ سوئمن گندم جو ان کی پانچ ماہ کی خوراک ہے اور نظام سلسلہ کی خوبی تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور کے لئے محفوظ رکھیں اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اسی وقت شروع ہوا.میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میں کھانا شروع کریں اور قحط بھی دسمبر میں ہی شروع ہوا ہے یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوئی ہے کہ ساری دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا غلہ جمع کر دیا گیا.میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ دسمبر سے پہلے اس کا استعمال شروع نہ کیا جائے میرا ارادہ ہے کہ جنوری کے بعد ایسے لوگوں کے گھروں میں آدمی بھجوا کر یہ معلوم کراؤ نگا کہ انہوں نے وہ پہلے ہی تو نہیں کھا لیا اور جنہوں نے اس ہدایت کی تعمیل میں بے احتیاطی کی ہوگی اُن کو اگر پھر دوبارہ خدا تعالیٰ نے اس کی توفیق دی تو امداد دیتے وقت اُن لوگوں سے مؤخر رکھا جائے گا جنہوں نے اس ہدایت کی پابندی کی ہے یہ تو میں نہیں کہتا کہ صرف انہی کو دوبارہ امداد دی جائے گی جنہوں نے غلہ کو مقررہ وقت سے پہلے نہیں چھیڑا لیکن دوبارہ امداد کے وقت ہدایت کی پابندی کرنے والوں کو مقدم ضرور کیا جائے گا.موجودہ حالت یہ ہے کہ غلہ ملک میں کافی موجود ہے مگر ملتا نہیں.مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ گورداسپور میں ہی کئی لاکھ من غلہ موجود ہے مگر جب لوگ افسروں کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کا گلا گھونٹ دیں جن کے پاس غلہ ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ اگر افسروں نے گلا گھونٹنے سے ڈرنا تھا تو پہلے ہی کیوں نہ اعلان کر دیا کہ لوگ اپنی اپنی ضروریات کے مطابق غلہ جمع کر لیں اس صورت میں تو حکومت کو چاہئے تھا کہ غلہ زمیندار کے پاس ہی رہنے دیتی.زمیندار کی مثال تو چھلنی کی ہے وہ زیادہ دیر تک غلہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اگر اس کے پاس ہوتا تو وقت پر ضرور مل سکتا.مگر پیسے تو دفن کر لیتے ہیں کہ جب قحط ہوگا نکال لیں گے.اس وقت اگر زمیندار کے پاس غلہ ہوتا تو وہ ضرور فروخت کر دیتا مگر اس کے قبضہ میں اس وقت ہے نہیں.گورنمنٹ کی غلط پالیسی کی وجہ سے غلہ بنوں کے قبضہ میں جاچکا ہے اور وہ اب اسے نکالتے نہیں ہیں گورنمنٹ نے ان لوگوں کے قبضہ سے تو نکلوا دیا جن سے لوگوں کو مل سکتا تھا زمیندار تو غلہ فروخت کرنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں انہوں نے سرکاری لگان ادا کرنا ہوتا ہے اس کے لئے بھی غلہ ہی فروخت کرتے ہیں اور ضروریات کی دوسری چیزیں خریدنے کے لئے بھی مگر جب ان کے پاس سے نکل کر بنیوں کے پاس جا پہنچا تو پھر ملنا مشکل ہے گورنمنٹ کا یہ اعلان عقل کے خلاف تھا.اس نے ۵٫۴/۰ فی من نرخ مقرر کر دیا اور ساتھ کہہ دیا کہ اب ہم اس سے زیادہ نہ بڑھائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کیا کہ یہ تو منڈی کی قیمت تھی اور یہی قیمت مقرر کر دینا تاجر کی حق تلفی تھی اس وجہ سے
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ وہ مجبور ہو گئے کہ غلہ کو روک لیں یا چوری چوری گراں قیمت پر فروخت کریں اور اب یہ حالت ہے کہ گندم سات آٹھ روپے تک فی من فروخت ہو رہی ہے.اگر گورنمنٹ خود ہی کچھ نرخ بڑھا دیتی تو لوگ اسے بخوشی برداشت کر لیتے اور اس تکلیف سے محفوظ رہ سکتے جو اس وقت اُٹھانی پڑ رہی ہے اور ابھی خطرہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک صورت نہ پیدا ہو جائے.زمینداروں کو نصیحت میں نے زمینداروں کو نصیحت کی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ کاشت کریں اب تو جو ہونا تھا بویا جا چکا اب میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وقت آنے پر کٹائی وغیرہ احتیاط سے کریں اندازہ ہے کہ اس سال دس پندرہ فی صدی غلہ زیادہ پیدا ہو سکے گا.پھر میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ سوائے اشد مجبوری کے غلہ فروخت نہ کیا جائے اور اپنے پاس محفوظ رکھا جائے نفع کمانے کے لئے نہیں بلکہ تکلیف سے بچنے کے لئے سوائے اس کے کہ حکومت جبراً چھین لے لیکن جب تک وہ مجبور نہ کرے محض اعلانوں سے نہ ڈریں.بظاہرا گلا سال اس سے بھی بہت سخت ہوگا اگر حکومت عقلمندی سے کام لے تو بیس لاکھ من کے قریب گندم فصل نکلنے پر خرید لے.اس پر اگر ایک دو کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑے تو لوگوں کے فائدے کے پیش نظر معمولی بات ہے اگر روپیہ نہ ہو تو بنک سے سود پر قرض لے سکتی ہے ( وہ اسلامی احکام کے تابع نہیں کہ شود کا غذر کرے) اور پھر خرید شده گندم پر منافع لگا کر پورا بھی کر سکتی ہے اس سے بنیوں کا زور ٹوٹ جائے گا مگر یہ سٹاک ملٹری ضروریات کے لئے نہ ہو بلکہ ملٹری کے لئے اس سے الگ خریدا جائے.اب تو خریف کا وقت گزر چکا ہے آئندہ خریف پر زیادہ سے زیادہ اشیاء خوردنی کی کاشت کرنی چاہئے.بعض زمیندار خیال کرتے ہیں کہ جوار اور باجرہ وغیرہ کی کاشت کی کیا ضرورت ہے مگر اب تو ان لوگوں نے جن کے پاس جوار اور باجرہ وغیرہ تھا اتنا ہی نفع کمایا ہے جتنا گندم والوں نے.اگر مارکیٹ میں جوار اور باجرہ کافی مقدار میں ہو تو گندم اتنی گراں رہ ہی نہیں سکتی.پس میں زمینداروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خریف کی فصل زیادہ بوئیں اور کھانے پینے کی اشیاء زیادہ کاشت کریں.ملازمت اور تجارت پیشہ احباب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کریں اور کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتے رہیں اور جہاں تک ہو سکے اکٹھی گندم خرید لیں ورنہ بعد میں تکلیف اُٹھا ئیں گے.آج ہی ایک احمدی کا خط مجھے ملا کہ افسوس میں نے آپ کی نصیحت پر عمل نہ کیا اور اس کے نتیجہ میں آج سخت تکلیف اُٹھا رہا ہوں.پہلے چاول کھانے کے عادی تھے اسے چھوڑ کر گندم استعمال کرنے لگے وہ نہ ملی تو جوار شروع کی، پھر باجرہ کیا ، اب
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور وہ بھی نہیں ملتا.پس ان باتوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور جب خدا تعالیٰ نے عقل اور سمجھ دے رکھی ہے تو کیوں اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو تکلیف میں ڈالا جائے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ جنگ کے موقع پر بھی قحط پڑا تھا مگر وہ جلد ہی دُور ہو گیا تھا مگر یہ خیال صحیح نہیں یہ جنگ اس سے بہت مختلف ہے اور میرا خیال ہے اب کے قحط بہت لمبا ہو گا.دوسری بڑی تکلیف آج کل کپڑے کی ہے میرے سامنے کچھ عرصہ کپڑا حاصل کرنے میں ہوا ایک عزیز نے یہ تکلیف بیان کی کہ کپڑا بہت گراں ہو گیا ہے.دقت اور اس کا علاج تو میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ کھدر پہنیں کپڑے پر تاجر بہت زیادہ نفع لگاتے ہیں.فرض کرو ایک من روٹی کی قیمت پچاس روپیہ ہو تو ایک من کپڑے کی قیمت قریباً پانسور و پیہ ہوتی ہے لیکن اگر زمیندار پھر گھروں میں چرخوں کو رواج دیں.سوت کا تیں اور جو لا ہوں سے کپڑا بنوا کر استعمال کریں تو کوئی تکلیف نہ ہوگی.ململ، لٹھا اور دوسرے ایسے کپڑوں کا استعمال ترک کر دیں.میں نے تو تجویز کی ہے کہ جب میری موجودہ قمیصیں پھٹ جائیں تو کھنڈر کی بنواؤ نگا اور اپنے گھروں میں بھی کہا ہے کہ ایک ایک چرخہ منگوا ؤ، روٹی خرید و اور سوت کات کر کھڈر بنواؤ.شہر کے لوگ عام طور پر یہ نہیں کر سکتے مگر دیہات کے بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اور اس طرح اپنا بہت سا روپیہ بچاسکتے ہیں.میں یہاں اس امر کی وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کانگرس کے اصول کی اتباع نہیں بلکہ اپنی تکلیف دور کرنے کی وجہ سے یہ تحریک کر رہا ہوں.کھانڈ کی بجائے گڑ اسی طرح اب گر کر نکلنے والا ہے دوستوں کو چاہئے کہ تی الوسع وہ بھی اب جمع کر لیں اور کھانڈ مصری کی بجائے اسے استعمال کریں.آخر ہمارے باپ دادا پہلے انہی چیزوں کا ہی استعمال کیا کرتے تھے.پرانے زمانہ میں تو ہمارے ملک میں گڑ ایک نعمت سمجھی جاتی تھی.کہتے ہیں کچھ لڑ کے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ملکہ انگلستان کیا کھاتی ہوگی کسی نے کہا پلا ؤ کھاتی ہوگی کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ.بڑھا باپ یہ باتیں سن رہا تھا غصہ سے بولا کہ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے جو ایسی باتیں کرتے ہو ملکہ تو گڑ کھاتی ہوگی ایک طرف بھی گُڑ رکھا رہتا ہوگا دوسری طرف بھی گُڑ اُدھر گئی تو گُڑ کھا لیا اور ادھر آئی تو پھر گڑ کھا لیا.تو ہمارے ملک کا گُڑ اتنا شاندار ہوتا تھا مگر اب وہ بھی تنزل میں آچکا ہے.زمینداروں نے بھی کھانڈ اور مصری کا استعمال شروع کر دیا ہے مگر اب میں شکر استعمال کریں
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان چیزوں کا خیال جانے دیں اور گر شکر استعمال کریں بنگال سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں چینی ایک روپیہ سیر ہوگئی ہے یہ کتنا ظلم ہے میں نے تو اب نمکین چائے کا استعمال شروع کر دیا ہے جو لوگ دودھ استعمال کرتے ہیں وہ بھی اگر نمک ڈال کر پئیں تو دیکھیں گے کہ نمک سے بھی دودھ بہت لذیذ ہو جاتا ہے بے شک نمک بھی مہنگا ہو چکا ہے مگر وہ تھوڑا سا استعمال کرنا پڑتا ہے.چند سالوں ہی کی بات ہے اتنے عرصہ کے لئے کھانڈ اور مصری وغیرہ کا استعمال ترک کردو.زمینداروں کو چاہئے کہ لگان وغیرہ ادا کرنے کے لئے بھی گڑ شکر فروخت نہ کریں بلکہ میں کہوں گا جن کے پاس ہوں وہ زیور بیچ کر لگان ادا کریں اور گر شکر جمع کریں یہ صرف سال دوسال کی بات ہے گزر جائے گی اس وقت پھر مصری اور کھانڈ وغیرہ استعمال کر لینا في انحال چھوڑ دو.آجکل برتنوں وغیرہ کی بہت تکلیف ہے برتن بہت مٹی کے برتنوں کے استعمال کی ہدایت مہنگے ہو چکے ہیں جو برتن پہلے ۴ یا۵ آنہ میں قلعی ہو جاتا تھا اب روپیہ ڈیڑھ روپیہ میں ہوتا ہے اس لئے چاہئے کہ لوگ مٹی کے برتنوں کا استعمال شروع کردیں.ہمارے باپ دادا قریباً سات ہزار سال تک مٹی کے برتن ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور اگر ہم کریں تو کیا حرج ہوگا اور ہم کیوں مٹی کے برتنوں میں کھا پی نہیں سکتے.عورتیں بعض اوقات اعتراض کیا کرتی ہیں کہ فلاں کھانامٹی کے برتن میں نہیں پکتا مگر میں کہتا ہوں ایسا کھانا نہ پکاؤ.مٹی کے برتن بھی بہت اچھے اچھے بنتے ہیں ملتان کے علاقہ میں مٹی کی ہنڈیاں نہایت اعلیٰ تیار ہوتی ہیں چائے پینے کا چینی کا سیٹ اب ۱۲ ۱۳ روپیہ میں ملتا ہے.اس کی بجائے بھی مٹی کا سیٹ استعمال کرنا چاہئے.میرے پاس ایک مٹی کا سیٹ ہے اس پر بہت خوبصورت روغن کیا ہوا ہے اور پالم پور کے سفر میں میں وہی استعمال کرتا رہا ہوں تو دوستوں کو چاہئے کہ مٹی کے برتن استعمال کریں.چینی کے برتن تو بہت گراں ہو چکے ہیں معمولی قسم کا سیٹ جو پہلے ڈیڑھ دو روپیہ میں آجاتا تھا اب ۱۲ ۱۳ روپیہ میں ملتا ہے.گویا کو گنا قیمت بڑھ چکی ہے اور پھر یہ چینی کے برتن ٹوٹ بڑی جلدی جاتے ہیں اور اس طرح نقصان بہت ہوتا ہے.مٹی کا برتن اگر ٹوٹ بھی جائے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا غالب نے کہا ہے کہ.اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور غالب کا یہ نظریہ اس زمانہ میں خاص طور پر درست معلوم ہوتا ہے مٹی کے برتن بہت اچھے ہیں پیسے کم خرچ آتے ہیں اور اگر ٹوٹ جائے تو آسانی سے اور لیا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ میں زمینداروں کو ایک اور نصیحت بھی زمینیں اور مکانات ابھی نہ خریدیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آجکل انہیں پیسے خوب مل رہے ہیں ہر چیز گراں فروخت ہو رہی ہے اور ابھی خدا تعالیٰ نے چاہا تو اور بھی پیسے انہیں آئیں گے اور حالت کے بہتر ہونے پر انہیں مغرور نہ ہونا چاہئے.قرآن کریم نے اکثر اکثر کر چلنے سے منع فرمایا اور فرمایا ہے کہ اس طرح انسان نہ آسمان پر پہنچ سکتا ہے اور نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے لے پہلے ان کی حالت بہت خراب تھی حتی کہ زیور گروی کر کے لگان ادا کرنا پڑتا تھا مگر یہ دن ان کی کمائی کے ہیں ایسے دن ہمیں پچیس سال کے بعد آتے ہیں ہمیشہ ایسے حالات نہیں رہتے اس لئے انہیں چاہئے کہ روپیہ کو محفوظ رکھیں.بعض زمیندار زمینیں خریدنے پر زور دیتے ہیں مگر یہ زمین خریدنے کا وقت نہیں اِن حالات میں جو زمین خریدے گا وہ سخت نقصان اُٹھائے گا اس وقت روپیہ کو محفوظ کر لینا چاہئے خواہ یہاں امانت کے طور پر جمع کرا دیا جائے اور خواہ اپنے اپنے ہاں کسی محفوظ مقام میں جمع کرا دیا جائے.جنگ کے بعد جب یورپ کے لوگ غلہ خرید چکیں گے اُس وقت قیمتیں رگریں گی اور وہ وقت زمینیں وغیرہ خریدنے کا ہوگا یہ نہیں ہے.پچھلی جنگ میں زمینوں کی قیمتیں اتنی چڑھ گئی تھیں کہ ۲۵ ،۳۰ ہزار روپیہ مربع کی قیمت ہوگئی تھی مگر پھر ایسی گری کہ گزشتہ سالوں میں چند سو روپیہ سالانہ پر ایک مربع ٹھیکہ پر کوئی نہیں لیتا تھا اور قیمت چھ سات ہزار ہوگئی تھی پس یہ وقت زمینیں اور مکانات وغیرہ خریدنے کا نہیں اگر کسی کے پہلو میں کسی ایسے شخص کا مکان ہو جس سے ہمیشہ جھگڑا وغیرہ رہتا ہو تو ایسا مکان وغیرہ لے لینے میں تو کوئی حرج نہیں مگر تجارت کے طور پر اس وقت زمین یا مکان مناسب نہیں.اسی طرح اِس وقت زیور وغیرہ بنانا بھی فضول.سونا ستر روپیہ تولہ سے بھی بڑھ چکا ہے بلکہ اگر کسی کے پاس سونا ہو تو اس وقت بیچ دینا چاہئے جنگ کے بعد پھر جب سستا ہوگا تو لے لیں.یہ سونا خریدنے کا نہیں بلکہ فروخت کرنے کا وقت ہے اس طرح جہاں تک ممکن ہو شادی بیاہ ملتوی کر دو اور اگر کرنا ہی پڑے تو لڑکے لڑکیوں سے کہا جائے کہ نقد روپیہ لے لو.میری ایک عزیزہ تھی میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی شادی پر اسے تحفہ دوں گا اب اس کی شادی کا موقع آیا تو میں نے کہا کہ زیور وغیرہ بنوا کر میں روپیہ ضائع نہیں کرنا چاہتا میں تمہارے خاندان کے کسی بزرگ کے سپر د روپیہ کر دیتا ہوں جنگ کے بعد جو ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ زیور چاہو بنوا لینا.بعض اہم اور ضروری امور ایک اور بات یاد رکھو آج تجارت میں خاص نفع ہے ہوشیار زمیندار یا غیر زمیندار گاؤں میں ڈ کا نیں نکال لیں آجکل تجارت میں گھاٹے کا احتمال بہت کم ہے آجکل نفع ہی نفع ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے گھٹتی نہیں آج ایک چیز پانچ روپیہ میں ملتی ہے تو کل اس کی قیمت چھ روپیہ ہو جاتی ہے.اگر کوئی اپنی بیوقوفی سے نقصان اُٹھا لے تو اور بات ہے ورنہ آجکل تجارت میں خسارہ کا احتمال بہت ہی کم ہے یہ فائدہ اُٹھانے کا وقت ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے فائدہ اُٹھانا چاہئے.اب میں جنگ کی طرف آتا ہوں بظاہر جنگ کے حالات میں کچھ جنگ کی صورت حالات تبدیلی ہوگئی ہے اور بعض لوگ خیال کرنے لگے ہیں کہ فتح ہونے لگی ہے مگر جنگ میں ابھی ایسی تبدیلی کوئی نہیں ہوئی کہ ظاہری سامانوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکے کہ آخری فتح ضرور اتحادیوں کی ہی ہوگی.ابھی تاریک دن باقی ہیں اس لئے مطمئن ہو کر بیٹھ جانا صحیح نہیں اگر لوگ اطمینان محسوس کر لیں تو پھر کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لوگ بھی اس جنگ میں مدد دے رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ انگریزوں کی فتح ہو اور ہماری جماعت بھی کوشش کر رہی ہے.دوسرے لوگ تو ذاتی لالچ اور نفع کے لئے کوشش کرتے ہیں کسی کو یہ لالچ ہے کہ میرالڑکا یا فلاں عزیز تحصیلدار ہو جائے گا، تھانیدار ہو جائے گا یا اسے کوئی بڑا عہدہ مل جائے گا ، بڑے سے بڑا آدمی بھی ذاتی نفع کے خیال سے کوشش کر رہا ہے مگر ہماری جماعت جو خدمت کرتی ہے وہ اپنے اصول کے لحاظ سے کرتی ہے کسی طمع اور لالچ کی وجہ سے نہیں.ممکن ہے بعض اور تعلیم یافتہ افراد بھی اصول کے لحاظ سے کرتے ہوں مگر جماعتی لحاظ سے ہمارے سوا اور کوئی ایسا نہیں کرتا.اور ایسے لوگ جو اصول کے لئے کوشش کرتے ہوں اور سوچ سمجھ کر کرتے ہوں وہ اگر مطمئن ہو جائیں کہ اب فتح ہونے لگی ہے تو اُن میں ضرور شستی آجاتی ہے کیونکہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے کو ہے.اس لئے ہمارے دوستوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ابھی اس جنگ کے تاریک پہلو موجود ہیں.روس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ جرمنوں کو اب شکست دے رہا اور بڑھتا جا رہا ہے.بے شک وہ بڑھا بھی ہے مگر واقف کا رلوگ جانتے ہیں کہ اب تک وہ صرف اُنہی علاقوں میں بڑھ سکا ہے جن میں جرمنی کہتا ہے کہ وہ بڑھ لے.لیکن جہاں جرمنی نے اب قبضہ رکھنا چاہا وہاں سے روس اُسے پیچھے نہیں ہٹا سکا اور کسی ایسی جگہ کو نہیں لے سکا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی روس کا پہلو اتنا زبردست نہیں جتنا عام طور پر خیال کیا جانے لگا ہے اور جرمنی کا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور پہلوا بھی اتنا کمزور نہیں ہوا.اور اب اگر اس سال یعنی ۱۹۴۳ ء میں جرمنی کی طاقت نہ ٹوٹی تو اگلا سال روس کے لئے سخت مشکلات کا ہوگا.پچھلے سال روسی جہاں تک جرمنوں کو دھکیل کر لے گئے تھے اگر وہاں تک لے گئے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ جرمنی کا زور ٹوٹ گیا ورنہ نہیں.اور اگر روس کی طاقت ٹوٹ گئی تو سب سے زیادہ خطرہ ہندوستان کے لئے ہوگا کیونکہ پھر ہندوستان اور دشمن کے درمیان کوئی بھی روک نہ ہوگی.پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ روس کی آبادی زیادہ ہے اور گو ہندوستان کی آبادی اُس سے بہت زیادہ ہے مگر اس میں کئی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غیر جنگی ہیں اس کے علاوہ یہاں کا ایک معتدل طبقہ ایسا ہے جو جاپان سے ہمدردی رکھتا ہے یہ حصہ بھی جرمنی سے لڑنے والا نہیں اِن دونوں کو اگر علیحدہ کر دیا جائے تو ہندوستان کی ایسی آبادی جو جرمنی سے مقابلہ کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دے سکتی ہے ۹۸ کروڑ رہ جاتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ ہے ، اٹلی کی چار کروڑ سے زیادہ ہے، رومانیہ کی تین کروڑ ، ہنگری کی تمیں لاکھ اور پولینڈ کی چالیس لاکھ ہے اور یہ سب مل کر سترہ اٹھارہ کروڑ آبادی بن جاتی ہے اور اس طرح جرمنی کی طاقت آبادی کی تعداد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے.پھر جاپان کی طاقت اس سے علاوہ ہے.بے شک بعض حالات انگریزوں کی تائید میں ظاہر ہوئے ہیں مثلاً شمالی افریقہ میں انہیں فتح ہوئی ہے.یہ پہلی لڑائی ہے جس میں جرمن میدان سے بھاگے ہیں اور لیبیا کی لڑائی بالکل اُسی طرح ہوئی ہے جس طرح مجھے رویا میں دکھایا گیا تھا اور جرمنوں کے اس طرح بھاگنے سے ان کی برتری کا رُعب بھی کم ہو گیا ہے ادھر روس نے ثابت کر دیا ہے کہ جرمنی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے.پہلے جو جر من سپاہی کو ہوا سمجھا جاتا تھا یہ رُعب اب مٹ چکا ہے جرمنی کا ایک اور رُعب سامان کا تھا.ہٹلر نے کئی بار کہا تھا کہ بعض مخفی ایجادیں ان کے پاس ہیں مگر یہ رُعب بھی جاتا رہا ہے اور ظاہر ہو گیا ہے کہ مخفی ایجادوں کا پروپیگنڈا بالکل غلط تھا.اگر کوئی ایسی ایجاد ہوتی تو ان خطر ناک حالات میں ضرور باہر آ جاتی یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ جرمنوں کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کے مقابلہ کی کوئی چیز اتحادیوں کے پاس نہ ہو.اگر اس نے کوئی ایجاد کی ہے تو برطانیہ نے بھی اس کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی ایجاد کر لی ہے.اور امریکہ نے بھی کر لی ہے کسی نے اچھی قسم کا کوئی ٹینک بنالیا، کسی نے اچھا طیارہ بنالیا اور کسی نے ڈسٹرائر تیار کر لیا بہر حال اب یہ اطمینان ہو چکا ہے کہ جرمنی کے پاس کوئی ایسی ایجاد نہیں کہ جس سے یکدم جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہو.پھر اس کے علاوہ فرانس میں بھی جرمنی کی مخالفت کا جذبہ روز بروز زیادہ ہو رہا ہے.اتحادیوں کو
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور سامان تیار کرنے کا کافی موقع مل چکا ہے پہلے ان کے پاس اتنا سامان نہیں تھا جتنا اب بن چکا ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے.پہلے ہندوستانی فوج صرف ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی مگر اب دس لاکھ سے بھی بڑھ چکی ہے.ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے پہلے یہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اگر بر ما انگریزوں کے ہاتھ سے جاتا رہا تو چینی ضرور جاپانیوں سے دب جائیں گے ان کے پاس سامان جنگ بالکل نہیں ہے اندر ہی اندر یہ خیال بہت پایا جاتا تھا مگر چینیوں نے بھی وہ موقع گزار لیا ہے اور اب ان کے لئے ویسا خطرہ نہیں رہا کہ وہ یکدم ہتھیار ڈال دیں گے چین برا بر اپنے کام میں لگا ہوا ہے.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ جنگ میں مدد کس جنگ میں اتحادیوں کی امداد کے طریق طرح کی جاسکتی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے بھرتی میں مدد دی جائے.پھر جو لوگ مالی امداد دے سکتے ہیں وہ مالی امداد دے دیں.تیسری بات یہ ہے کہ غلط افواہوں کو روکنا چاہئے میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنا بہت بڑی خدمت ہے دراصل دشمن کی فوج اور سامان اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا افواہیں پہنچاتی ہیں غلط افواہیں بہت پھیلتی رہتی ہیں.اب کلکتہ پر بمباری ہوتی ہے اور کچھ بم رگرے ہیں لیکن اس کے متعلق ہی کئی قسم کی افواہیں پھیل رہی ہیں کسی گاؤں میں جاؤ تو طرح طرح کی باتیں سننے میں آئیں گی اور اس بمباری کی تفاصیل تک وہاں سنو گے اتنے مکانات اُڑ گئے ، اتنے آدمی مارے گئے ، یہ نقصان ہوا ، وہ نقصان ہوا وغیرہ وغیرہ یہ ایسی باتیں ہیں جن سے کمزوری پیدا ہوتی ہے خصوصاً دیہات میں ایسی افواہیں بہت پھیلتی ہیں جنہیں روکنا بہت ضروری ہے زمیندار ناول تو نہیں پڑھتا مگر وہ ناول بنانے میں ماہر ہوتا ہے اور ایسی باتیں اپنے دماغ سے ہی گھڑتا رہتا ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کی روحانی بقاء کے لئے خدام الاحمدیہ، انصار الله میں نے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں نہایت ضروری ہیں عورتوں میں اور لجنہ اماءاللہ کی تحریکات گل جو تقریر میں نے کی اُس میں ان کو نصیحت کی ہے کہ وہ لجنات کی ممبر بنانے میں مستعدی سے کام لیں اور آج آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ ان تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہیں، پرانے زمانہ میں اور
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور بات تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں اُستاد پیدا ہو گئے تھے جو خود بخود وسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے مگر اب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دو دو، تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہوسکتا.ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے.اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کر سکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی.احمدیت کو دنیا میں پھیلا دینا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بنا سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگر ان کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہو جائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے.مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصار اللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا ابھی کوئی دفتر وغیرہ بھی نہیں مگر دفتر قائم کرنا کس کا کام تھا.بیشک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا.شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا؟ ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے.اب بھی انہیں چاہئے کہ دفتر بنائیں ،کلرک وغیرہ رکھیں، خط وکتابت کریں، ساری جماعتوں میں تحریک کر کے انصار اللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں.ملاقات کے وقت عہدیدار آگے بیٹھا کریں میں ہمیشہ سے یہ کہتارہاہوں کہ ملاقات کے وقت پریذیڈنٹ اور سیکرٹری آگے بیٹھا کریں اور بتائیں کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور یہ فلاں تا مجھے جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہو اور یہ بھی معلوم ہو سکے کہ سیکرٹری اور دوسرے عہدیدار ٹھیک طور پر کام کر رہے ہیں یا نہیں.پہلے اس پر عمل ہوتا رہا ہے اور یہ بھی میں دیکھتا رہا ہوں کہ عہدیداروں کا کام تسلی بخش رہا ہے مگر اب کچھ عرصہ سے اس میں نقص واقع ہونے لگا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی پود کو کام کے لئے تیار نہیں کیا جاسکا.پریذیڈنٹ کا پوچھو تو کہا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے، گھر پر ہے.سیکرٹری کہاں ہے؟ وہ بھی نہیں آیا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور حالانکہ چاہئے تھا کہ اگر پریذیڈنٹ بیمار ہے اور اُسے علیحدہ بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو بیشک علیحدہ نہ کرو مگر ایک نائب بنا دو.سیکرٹری کو بے شک نہ ہٹاؤ مگر ایک نائب سیکرٹری بناد و تا اُس کی وفات تک دوسرا آدمی تیار ہو سکے اور پرانوں کی جگہ لینے والے نئے آدمی تیار ہوتے رہیں ورنہ کام کو سخت نقصان پہنچے گا.پرانے آدمیوں کے فوت ہو جانے پر اگر کوئی کام سنبھالنے والے نہ ہوں تو سخت نقصان کی بات ہے.ایک جماعت کے دوست مجھ سے ملنے آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد چینیں مار کر رونے لگے کہ ہمارے ہاں پہلے جماعت کے تیس چالیس افراد تھے مگراب صرف تین چار رہ گئے ہیں.ان تحریکوں سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر جماعت میں ذمہ داری کو سنبھالنے والے تین تین، چار چار کا رکن موجود رہیں.خدام الاحمدیہ کے سیکرٹری کو کام کی ٹرینینگ علیحدہ ملتی رہے اور انصار اللہ کے سیکرٹری کو علیحدہ اور جہاں کہیں کوئی پُرانا کا رکن فوت ہو جائے اُس کی جگہ لینے والا موجود ہو.رقابت بھی بعض اوقات بڑا کام کراتی ہے پچھلے دنوں یہاں خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ انصار نے کہا کہ ہمیں بھی اپنا جلسہ کرنا چاہئے بے شک اگر وہ بھی کرنے لگیں تو یہ بہت فائدہ کی بات ہے ہم نے جو مدد خدام کی کی ہے ان کی بھی کر سکتے ہیں.پھر وہ خود بھی چندہ لے سکتے ہیں.بہر حال انہیں بھی تنظیم کے ساتھ کام کرنا چاہئے میرا مقصد یہ ہے کہ جماعت کے اطفال، خدام اور انصار سب کی تربیت کا انتظام ہو سکے.۱۴ سال سے کم عمر کے بچے اطفال کی مجالس میں شامل ہوں.۱۴ سال سے چالیس سال تک کے خدام میں اور اس سے اوپر عمر کے انصار اللہ میں تاکہ سب کی صحیح تربیت ہو سکے.میں اس جگہ افسوس کے ساتھ اس امر کا بھی ذکر کر دینا چاہتا خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض ہوں کہ بعض مقامی حکام خدام الاحمدیہ کے خلاف بدگمانی پھیلا رہے ہیں.یہ افسر ایسے ہی ہیں کہ جو بجائے بغاوت کو سرکاری افسروں کی بیجا بدگمانی دبانے کے وفاداروں کو باغی بنانے کی کوشش کرتے ہیں.خدام الاحمدیہ کی تحریک کوئی خُفیہ تحریک نہیں.میں نے اسے عَلَی الْإِعْلان قائم کیا اور جمعہ کے خطبوں میں اس کی وضاحت کی اور اس کی اہمیت بیان کی ، اس کا آئین میں نے بنایا، اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو صرف جماعت کے نوجوانوں کی اصلاح کے لئے ہے اس کے متعلق ایسی جستجو کرنا محض روپیہ ضائع کرنے والی بات ہے.اگر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور اقدام کیا گیا تو اسے یقیناً ندامت اُٹھانی پڑے گی جیسی پہلے اٹھانی پڑی ہے.اس کے متعلق شبہ کرنے کی جو وجوہات میں نے سُنی ہیں وہ بہت عجیب ہیں مثلاً یہ کہ اس کے سالانہ جلسے کے موقع پر بعض نو جوانوں نے گت کا کھیلا اس لئے یہ مجلس بہت خطرناک ہے اور اس معاملہ کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ میں نے سنا ہے مرکز سے بھی سی.آئی.ڈی کے افسر تحقیقات کے لئے آئے ہیں وہ اگر آتے ہیں تو شوق سے آئیں مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ محرم وغیرہ کے جلوس پر اعلیٰ افسروں کی موجودگی میں گٹکا وغیرہ کھیلا جاتا ہے اور جو چیز محرم کے موقع پر جائز ہے وہ خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے موقع پر کیونکر نا جائز ہو گئی ؟ اور اگر حکومت اسے منع کرے تو اس کو ترک کیا جاسکتا ہے.یہ اس کے پروگرام کا کوئی حصہ نہیں لیکن میں حیران ہوں کہ وہ حکومت ہی کیا ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اگر چند نو جوان گت کا سیکھ گئے تو اس کا قائم رہنا محال ہو گا جہاں اس زمانہ میں اینٹی ایر کرافٹ اور اینٹی ٹینک گنز بن چکی ہیں وہاں ایک گت کا جاننے والا کیا کرسکتا ہے یہ بالکل بچوں والی بات ہے اور بالکل غلط طریق ہے.دوسری حکومتیں تو خود لوگوں کو بہادر بناتی ہیں مگر ہماری حکومت گت کا سے ڈرتی ہے.اور لوگوں کا عام طریق یہ ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے.پہلے لوگ کہتے تھے کہ تلوار رکھنے کی آزادی ہونی چاہئے مگر جب میں سال کے جھگڑے کے بعد حکومت نے آزادی دے دی تو اب لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑ و تلوار پر پانچ روپے کون خرچ کرے تو جتنا روکو اتنا ہی زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے.حکومت نے اسلحہ پر لائسنس کی پابندی لگا رکھی ہے مگر جو لوگ جرائم کرتے ہیں وہ لائسنس لیتے ہی کہاں ہیں وہ تو بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھتے ہیں.اعداد و شمار جمع کر کے اس امر کی تصدیق ہو سکتی ہے کہ مثلاً بندوق سے جولوگ مارے گئے اُن میں سے اکثر انہی لوگوں نے مارے جن کے پاس بندوق کا کوئی لائسنس نہیں لائسنس رکھنے والے دوسروں کو کہاں مارتے ہیں.پس حکومت کی یہ پالیسی بالکل غلط ہے اس سے تو بہتر ہے کہ وہ حکم دے دے کہ چوڑیاں پہن لو اور گھروں میں بیٹھو بلکہ چاہئے کہ لوگوں کی انگلیاں بھی کٹوادے کہ ان سے مکا مارا جا سکتا ہے بعض لوگوں کے دانتوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ کسی کو کاٹیں تو مر جاتا ہے اس لئے بتیس کے بتیس دانت بھی نکلوا دینے چاہئیں.یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس حکومت کے پاس تو ہیں، بندوقیں، ہوائی جہاز ، ٹینک وغیرہ سب کچھ ہیں اُسے اس بات پر اعتراض ہے کہ بعض نوجوان گت کا کیوں سیکھتے ہیں اسے تو چاہئے کہ خود ایسی باتوں کا انتظام کرے تالوگوں میں جرات اور بہادری پیدا ہو اور جنگ میں زیادہ امداد مل سکے.ادھر یہ بھی
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور شکایت کی جاتی ہے کہ فوج کے لئے رنگروٹ کم ملتے ہیں تم نے تو مردوں کو عورتیں بنادیا نگروٹ کیسے ملیں.ہندوستان کی اتنی آبادی ہے کہ کئی کروڑ سپاہی یہاں سے مل سکتے ہیں مگر یہ تو اس صورت میں ہو کہ مرد ہوں حکومت نے تو مردوں کو عورتیں بنادیا ہے.خدا نہ کرے کہ جاپانی کبھی اس ملک میں آسکیں لیکن اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ دیکھیں گے کہ بنگال سے پشاور تک کشمیری ہی کشمیری بھرے پڑے ہیں.ہندوستان کے اکثر لوگ بزدل ہوچکے ہیں.جرات باقی نہیں، ہتھیار کے تو نام سے ڈرتے ہیں اور اس بارہ میں حکومت کی پالیسی ایسی خطرناک ہے کہ خود اپنے ساتھ دشمنی کرنے والی بات ہے.وہ ڈرتی ہے کہ لوگوں کے پاس ہتھیار ہونگے تو وہ فساد کریں گے مگر یہ بات صحیح نہیں.اگر لوگوں کو بندوقیں دے دی جائیں تو ہرگز فساد نہ ہوگا.مجھے سمجھ نہیں آتی کہ گت کا چلانے سے حکومت کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے اگر لوگوں نے گت کا سیکھ لیا تو اس سے ہٹلر کو کیا مددمل جائے گی ؟ کیا وہ گنتکا سے مسلح ہو کر ہندوستان پر حملہ آور ہوگا کہ یہ لوگ اس سے مل جائیں گے.زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ گنگا سیکھ کر ایک شخص کی بزدلی میں کچھ کمی آجائے گی باقی رہا یہ امر کہ وہ اس سے کوئی تہیں مارخان بن جائے گا یہ بالکل غلط بات ہے.ایک گت کا جاننے والا بندوق والے کے سامنے کیا کر سکتا ہے.اگر حکومت ایسی باتوں سے ڈرتی ہے تو اسے چاہئے کہ حسینوں کو بھی اندھا کر دے کیونکہ شاعر کہا کرتے ہیں کہ حسین نگاہ سے مار دیتے ہیں پس حکومت کی یہ پالیسی غلط ہے میں خاکساروں کا سخت مخالف ہوں مگر یہ حکم کہ کوئی بیلچہ یا پھاوڑہ نہ رکھے اس کا بھی میں مخالف ہوں.ہماری جماعت کے انہی خدام نے جنگ کے خدام الاحمدیہ کی جنگ میں قابلِ قد را مداد لئے جو شاندار قربانی کی ہے وہ یہ ہے کہ اب تک سات ہزار سے زیادہ رنگروٹ دیئے جاچکے ہیں.اب تک ٹیکنیکل بھرتی میں شمالی ہند نے ایک لاکھ آدمی دیا ہے جن میں سے ڈیڑھ ہزار ہم نے دیا ہے گویا 1 فیصدی.پھر اب تک کنگ کمیشن والے ہندوستانیوں کی تعداد ۵ ، ۶ ہزار ہوگی اور ان میں سے قریباً ایک سو احمدی ہوں گے مگر اس کے باوجود بعض افسروں کو خدام الاحمدیہ کی تحریک مشتیہ نظر آتی ہے.میں نے سنا ہے کہ ایک افسر نے کہا ہے کہ یہ ہیں تو بڑے وفا دار لوگ مگر ہیں بڑے مشکوک.یہ طریق اگر حکومت کی طرف سے جاری رہا تو نو جوانوں میں اس سے سخت بددلی پیدا ہوگی.میں نے ہمیشہ حکومت کو از راه خیر خواہی یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ سرکاری افسر باغیوں کو پکڑیں
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور وفا داروں کو باغی نہ بنایا کریں.ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق حکومت واقعہ ڈلہوزی کے متعلق حکومت کا اظہار افسوس نے اظہار افسوس کر دیا ہے اور لکھا ہے کہ جن افسروں نے یہ غلطی کی انہیں سزادی جائے گی اس لئے اس معاملہ کو بھی اب ختم سمجھنا چاہئے.تفسیر القرآن انگریزی انگریزی تفسیر القرآن چھپنے کے متعلق مجلس شوریٰ میں فیصلہ ہوا تھا جو لوگ اس بات کے حق میں تھے کہ جنگ کے دوران میں ہی تفسیر چھپ جانی چاہئے وہ یہ کہتے تھے کہ اس وقت جنگ کی وجہ سے لوگوں کے قلوب نرم ہیں اس لئے اس موقع پر تفسیر چھپ جانے سے تبلیغ کا راستہ کھل جائے گا.لیکن اکثر دوستوں کی رائے یہ تھی کہ جنگ کے بعد چھپوائی جائے کیونکہ اچھی چھپ سکے گی اور خرچ بھی کم ہوگا مگر میں نے ان دوستوں کے حق میں فیصلہ کیا تھا جن کی تعداد تھوڑی تھی.یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو دوست خریدنا چاہیں وہ دس روپیہ فی جلد کے حساب سے بطور پیشگی جمع کرا دیں باقی قیمت بعد میں لے لی جائے گی.آجکل کا غذ کا جو نرخ ہے اس کے لحاظ سے قیمت چالیس سے پچاس روپیہ تک ہوگی مگر ہم نے کاغذ پہلے خرید لیا تھا اور اس لئے اگر ضخامت ۲۵۰۰ صفحات ہو تو قیمت ۳۶ سے ۴۰ تک ہوگی پنجاب کے سب سے بڑے مطبع کے ساتھ چھپائی کے لئے انتظام کیا جارہا ہے.درد صاحب نے بتایا کہ مطبع والوں کا جواب آ گیا ہے مگر ابھی مجھے نہیں ملا مگر اس تأخیر کا ایک فائدہ بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ سارا مواد بغیر ایڈیٹنگ کے یونہی پڑا تھا اب میں نے چھ آدمی اس کام پر لگائے ہیں اور بڑے زور سے کام ہو رہا ہے اور اب وہ سورۃ مائدہ میں ہیں مجلس شوری تک ایک جلد کی طباعت ہو سکتی تھی مگر مشکل یہ ہے کہ پریس والے کہتے ہیں کہ عربی کا ٹائپ آجکل نہیں ملتا.اردو تفسیر القرآن اردو تفسیر کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ وہ شائع نہیں ہو سکی پانچ سو صفحات سے زیادہ کا مضمون میں دے چکا ہوں اور اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ کام ہوا ہے.میری صحت بہت خراب رہی ہے ورنہ اس سے بھی زیادہ کام ہوسکتا تھا.میری صحت کی خرابی میں دانتوں کا دخل ہے بعض اوقات دانت کا ٹکڑا آپ ہی آپ ٹوٹ کر گر جاتا ہے اور اس وجہ سے میں کھانا وغیرہ چبا کر نہیں کھا سکتا روٹی بہت کم کھا سکتا ہوں بسا اوقات چھٹانک سے بھی کم وزن کا چھلکا ہوتا ہے جو کھاتا ہوں مگر اس کے باوجود پیٹ میں خرابی رہتی ہے.خون کم پیدا ہوتا ہے اور پیچش بھی ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ہاتھ کی انگلیاں بھی پوری طرح کام نہیں
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ کر سکتیں.آخر سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون کا تب کو لکھوا دیا کروں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور بڑی جلدی کام ہونے لگا ہے.جنہوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح لکھے ہوئے اور میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے میں فرق نہیں.اس طرح بعض اوقات میں نے ساٹھ ساٹھ کالم مضمون لکھوادیا ہے اور امید ہے کامیابی ہوگی مشکل یہ ہے کہ مضامین اس طرح اُلجھتے ہیں کہ جیسے ایک خزانہ کے اندر دوسرا خزانہ منفی ہو اور آٹھ رکوع میں ہی پانچ سو صفحات ختم ہو گئے ہیں اور اتنا بھی مضامین کا گلا گھونٹ گھونٹ کر کیا گیا ہے.پہلے تجویز تھی کہ تین سورتیں پہلی جلد میں ختم ہو جائیں، پھر یہ خیال کیا کہ دوسورتیں پہلی جلد میں ختم کی جائیں ، بعد میں خیال آیا کہ صرف سورہ بقرہ ہی پہلی جلد میں ختم کی جائے مگر اب یہ بھی مشکل نظر آتا ہے میں بہت سی باتیں چھوڑتا بھی ہوں چونکہ ابتدائی مضمون ہے اس لئے یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے تفصیل آگے فائدہ دے اس لئے ہر بات بیان کرنی پڑتی ہے اور اس لئے پانچ سو صفحات میں صرف آٹھ رکوع ختم ہوئے ہیں.جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کاغذ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور اس وقت گیارہ بارہ گُنا زیادہ ہو چکی ہے مجھے خدا تعالیٰ نے سمجھ دے دی اور میں نے انور صاحب کو کہا کہ کاغذ ا کٹھا خرید لیں انہوں نے خرید لیا اور اس سے بہت فائدہ رہے گا.کاغذ چونکہ سلسلہ کے روپیہ سے خریدا گیا ہے اس لئے سلسلہ کو بھی فائدہ ہوگا اور مجھے بھی ثواب ملے گا.اگلی جلد اگر جنگ کے دوران میں چھپوائی گئی تو ممکن ہے اس کی قیمت پندرہ روپیہ تک ہو.میں نے تحریک جدید والوں کو ہدایت کی تھی کہ جتنے فرمے چھپ چکے ہیں ان کی چار پانچ جلدیں سی کر دفتر میں رکھ دیں.تاکہ کوئی دوست پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے اور جن کو زیادہ شوق ہے انہیں کچھ تسلی ہو جائے.تبلیغ خاص کی تحریک اس کے بعد میں جلیبی خاصکے متعلق کچھ کہا چاہتا ہوں اس میں جماعت نے بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا ہے جب اس کا اعلان کیا گیا تھا اُس وقت و الفضل کے خطبہ نمبر کی قیمت اڑھائی روپیہ سالانہ تھی مگر اب الفضل والے کہتے ہیں کہ ساڑھے سات روپیہ سالانہ قیمت ہوگی اور انہوں نے اس کا حساب بھی پیش کر دیا ہے.اس وقت مختلف جگہوں کے دوست بیٹھے ہیں اگر وہ سمجھیں کہ اس سے کم قیمت میں اخبار مہیا ہونے کی کوئی صورت ہے تو وہ بتادیں.میں نے سنا ہے بعض شہروں میں کاغذ کا سٹاک ہے اگر ستا کاغذ ملنے میں وہ کوئی مدد کر سکیں تو بتادیں بہر حال یہ پرچے جلدی جاری کرا دیئے جائیں گے.اس کے
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور علاوہ میں نے ایک ٹریکٹ بھی لکھ لیا ہے.خط و کتابت کے لئے بھی دوستوں نے اپنے نام دیئے ہیں اور امید ہے جلدی کام شروع کیا جا سکے گا.اس کے بعد میں تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف دوستوں تحریک جدید کا امانت فنڈ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں پہلے اس فنڈ میں جمع شدہ روپیہ کی واپسی پر جو پابندیاں تھیں وہ دُور کر دی گئی ہیں اور اب جس وقت کوئی دوست چاہے اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے آج جمع کرا کے اگر کوئی چاہے تو گل بھی واپس لے سکتا ہے.اگر دوست اس فنڈ میں امانتیں جمع کراتے رہیں تو بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جس طرح وہ اور بنکوں میں روپیہ جمع کراتے ہیں اس میں بھی کر سکتے ہیں جب چاہیں روپیہ واپس بھی مل سکتا ہے اس سے ان کو ثواب بھی حاصل ہو گا، اس سے جو فوائد سلسلہ کو پہنچ سکتے ہیں وہ میں پہلے کئی بار بیان کر چکا ہوں.تحریک جدید کے چندہ میں مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ اس وقت تک تحریک جدید کا چندہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں پچھلے سال جو تحریک جدید کے لحاظ سے کامیاب ترین سال سمجھا جاتا ہے ۳۱/ جنوری تک اتنے وعدے آئے تھے گویا اس سال بہت سے دوستوں نے پہلے وقت میں وعدے کئے ہیں اور بعض دوستوں نے اپنے وعدوں میں معقول زیادتی بھی کی ہے.مجھے امید ہے کہ جس طرح گزشتہ سال اکثر دوستوں نے بروقت ادائیگی کی ہے اس سال بھی کریں گے وعدہ کرنے والے دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے وعدوں کو جلد ادا کردیں پنجاب کی جماعتوں کے وعدوں کے لئے ۳۱ / جنوری آخری تاریخ ہے اس وقت تک ساڑھے تین سو جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ابھی وعدے نہیں بھجوائے اُن کو چاہئے کہ ۳۱ / جنوری تک وعدے بھجواد میں جیسا کہ میں کئی بار بتا چکا ہوں.تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ مہیا کیا جارہا تحریک جدید کے چندہ سے ہے اور اس سے سندھ میں قریباً ساڑھے تین سو مربع اراضی خریدی گئی ہے اس رقبہ میں سے بعض کی جُزوی قیمت ادا ہو چکی تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ ہے اور ۸۵ مربع کی پوری قیمت ادا ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اس سال اور بھی رقبہ آزاد ہو سکے گا دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے سال تک ساری کی ساری زمین آزاد ہو سکے یہ اگر ہو گیا تو گویا ۱۸ لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ قائم ہو جائے گا بہت عرصہ ہوا میں نے ۲۵ لاکھ کے ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۰،۱۸ لاکھ کا فنڈ قائم
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ ہو جائے گا.جب میں نے تحریک کی تھی اُس وقت کئی لوگ خیال کرتے تھے کہ اتنا بڑا فنڈ کس طرح قائم ہو سکے گا اور میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح صورت پیدا کر دے گا اور ابھی میرے ذہن میں ایسی سکیم ہے کہ خدا تعالیٰ چاہے تو چند سال میں ۲۵ لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ کا فنڈ قائم ہو جائے گا.اور پھر اس سے آگے میرے ذہن میں یہ ہے کہ اسے پچاس لاکھ کا بنانا ہے.یہ سکیم بڑی ہے ممکن ہے آج اسے کوئی شیخ چلی کی سی بات سمجھے مگر پہلے بعض اس کو بھی تو ایسا ہی سمجھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پانچ ہزاری فوج والے رؤیا کو پورا کرنے والے یہی لوگ ہیں جو تحریک جدید میں باقاعدہ اور قواعد کے مطابق حصہ لیتے ہیں.ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے اگر پانچ ہزار مبلغ بھی رکھے جائیں تو اس کے لئے ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ سالانہ آمد کی ضرورت ہے اور اتنی آمد پچیس کروڑ روپیہ کے ریز رو فنڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور اس طرح جب ہم ۲۵ لاکھ کا فنڈ قائم کرسکیں گے تو گویا ایک فیصدی کام پورا کرسکیں گے اسے بڑھانے کی ابھی اور سکیمیں بھی میرے ذہن میں ہیں عیسائیوں نے ۱۹ سو سال کے عرصہ کے بعد پانچ ہزار چند سو مبلغ پیدا کئے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اتنے مبلغ مقرر کر نے میں کامیاب کر دے تو یہ گویا مسیح محمدی کی مسیح موسوی پر بہت بڑی فضیلت ہوگی.بہر حال ۲۵ لاکھ ریز رو فنڈ کی سکیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پوری ہوتی نظر آتی ہے اس کے متعلق آئندہ جو میری تجاویز ہیں میں انہیں فی الحال بیان کرنا پسند نہیں کرتا ہاں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اس کے متعلق سوچتے رہیں اور اگر کوئی تجاویز ان کے ذہن میں آئیں تو مجھے بتا ئیں میں خود بھی سوچتا ہوں اور وقت آنے پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں بیان کر دوں گا.نماز باجماعت ادا کرنے کی تاکید اب میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قادیان میں ہم نے خدام الاحمدیہ کے ذریعہ نمازوں کے متعلق جو نظام قائم کیا ہے اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے دوسری جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ہاں اسے رائج کرنا چاہئے یاد رکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنے اور باجماعت پڑھنے میں بڑا فرق ہے اسلام اجتماعی مذہب ہے اور اس لئے اس نے باجماعت نماز پر بہت زور دیا ہے.قرآن کریم میں نماز کا جہاں بھی حکم ہے باجماعت نماز کا حکم ہے ایک جگہ بھی صرف نماز پڑھنے کا نہیں سوائے ایک جگہ کے کہ جہاں خبر کے طور پر نماز نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے ورنہ ہر جگہ اقِیمُو الصَّلوةَ ہی آیا ہے اور اقامت صلوۃ کے معنے باجماعت نماز کے ہیں.اقامت کے معنی
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ یہی ہیں کہ پوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز کے لئے مسجد میں نہیں آتے میں چاہتا ہوں کہ اپنی جگہ کسی کو امام مقرر کروں اور ایسے لوگوں کے مکانوں کو مکینوں سمیت نذر آتش کر دوں کہ یہی دو وقت زیادہ سردی اور نیند کے ہوتے ہیں اس لئے جب ان نمازوں میں نہ آنے والوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا رحیم وکریم اور محبت کرنے والا شخص اس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتا ہے تو ظاہر ہے کہ باقی نمازوں میں نہ آنے والے کس قدر مُجرم ہیں نماز با جماعت سے محرومی ہلاکت ہے.یہ ایک مستقل مضمون ہے اور میں وقتاً فوقتاً اسے بیان کرتا بھی رہتا ہوں مگر افسوس ہے کہ باوجود باجماعت نماز کے مواقع کے بہم پہنچنے کے ابھی ہماری جماعت میں اس کا رواج اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے.پہلے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دوست ایک دوسرے سے دُور دُور رہتے تھے اور دوسروں کے ساتھ وہ پڑھ نہ سکتے تھے اس لئے یہ عادت پڑ گئی کہ گھروں میں نماز پڑھ لی جائے اگر چہ اس صورت میں بھی نماز باجماعت کی یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالی جائے تو عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی اس عادت کو ترک کر کے نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب نماز کے لئے مسجد میں نہ جاسکتے تھے گھر میں ہی جماعت کرالیا کرتے تھے اور شاذ ہی کسی مجبوری کے ماتحت الگ نماز پڑھتے تھے.اکثر ہماری والدہ کو ساتھ ملا کر جماعت کرا لیتے تھے والدہ کے ساتھ دوسری مستورات بھی شامل ہو جاتی تھیں پس اول تو ہر جگہ دوستوں کو جماعت کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنی چاہئے اور جس کو یہ موقع نہ ہو اسے چاہئے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی مل کر نماز باجماعت کرالیا کرے ہر جگہ دوستوں کو نماز باجماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں شہر بڑا ہو اور دوست دور دور رہتے ہوں وہاں محلہ وار جماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں مساجد نہیں ہیں وہاں مساجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے دیکھا ہے بعض جگہ کے دوستوں میں یہ نقص ہے کہ وہ یہ ارادہ کر لیتے ہیں کہ فلاں جگہ ملے گی تو مسجد بنائیں گے ایسے دوستوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا خدا تعالیٰ سے ملاقات کو بیوی کی ملاقات جتنی بھی اہمیت نہیں کیا کوئی شخص یہ بھی کبھی کہتا ہے کہ جب مجھے فلاں محلہ میں زمین ملے گی تو وہاں مکان بنا کر شادی کروں گا ؟ پھر خدا تعالیٰ کی ملاقات کے لئے گھر کی تعمیر کو کسی خاص جگہ ملنے پر ملتوی رکھنا کیونکر درست ہوسکتا ہے.جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنا لینی چاہئے پھر اگر اپنی پسند کی جگہ حاصل ہو جائے تو اس کے سامان کو وہاں لے جا
انوار العلوم جلد ۱۶ بعض اہم اور ضروری امور کر استعمال کیا جا سکتا ہے.مسجد کے سامان سے بہتر مسجد بنانے میں کیا حرج ہے.آخر ہر مسجد خانہ کعبہ کی حیثیت تو نہیں رکھتی کہ اسے اپنی جگہ سے ہلا یا نہیں جاسکتا.پس جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنا لو اور جب وہ جگہ ملے جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنالی جائے گی جہاں تم بنانا چاہتے ہو تو اسی کے سامان سے وہاں بنالینا.امرتسر کی جماعت نے ۸، ۹ ہزار روپیہ مسجد کے لئے جمع کیا ہوا ہے مگر پندرہ سولہ سال سے کسی خاص جگہ کے انتظار میں مسجد نہیں بنوائی اور یہی سوچ رہے ہیں کہ اسلامیہ سکول کے سامنے اتنی جگہ ملے تو بنوائیں گے.کئی نئے محلے امرتسر میں بن چکے ہیں مگر انہوں نے کہیں بھی مسجد نہیں بنوائی.چار پانچ سال ہوئے میں نے ان سے کہا کہ فلاں جگہ بنوا لینی چاہئے تو انہوں نے کہا کہ جی وہ بہت دُور ہے وہاں کون جائے گا.خدا تعالیٰ کے گھر کے لئے یہ خیال کرنا کہ جگہ ایسی ہو اور عمارت ، ایسی فضول بات ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کا گھر سادہ ہو.تم اپنے مکانوں پر بیل بوٹے بنواتے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے لئے اس کی ممانعت کی ہے وہ چاہتا ہے کہ صرف دیوار میں ہوں اور چھت ہو خواہ کھجور کی شاخوں کی ہی ہو اس میں کسی ظاہری خوبصورتی کی ضرورت نہیں خدا کے ذکر کا حسن ہونا چاہئے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں ہو سکے اور جس جگہ بھی ممکن ہو مساجد بنالیں پھر جب اچھی جگہ مل جائے گی اسی سامان سے وہاں بنالیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ میرا گھر ایسا ہو ، عمارت اس طرح کی ہو بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرے نام پر کوئی جگہ بنا لو خواہ وہ کتنی سادہ کیوں نہ ہو.چند سال پہلے میں دہلی گیا تو وہاں ایک جگہ کی قیمت ایک روپیہ گڑ تھی میں نے وہاں کے دوستوں سے کہا کہ یہاں مسجد بنالومگر انہوں نے کہا کہ یہاں کون آتا ہے.اب میں وہاں گیا تو اُسی کی قیمت پچاس روپیہ گز تھی میں نے دوستوں سے کہا کہ میں نے اُس وقت کہا تھا اگر لے لیتے تو کتنے فائدہ میں رہتے پس اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ جہاں بھی ہو فوراً مساجد تعمیر کر لینی چاہئیں.ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھے دوسری چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں نے خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں اعلان کیا تھا کہ ان میں سے ہر ایک کو قرآن کریم کے ترجمہ کو پڑھنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری جماعت قرآن کریم کے ترجمہ سے واقف ہو جائے تو کایا پلٹ جائے گی اس کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیئے.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس تحریک کو چلائیں اور
بعض اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد ۱۶ مجالس سے اس کے متعلق رپورٹیں لیتے رہیں.بعض جماعتوں نے لکھا ہے وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں بعض جگہ پڑھانے والے نہیں ملتے یا پڑھانے والا ایک آدھ ہے تو پڑھنے والے زیادہ ہیں اور وہاں ایک انارصد بیمار کی مثال صادق آتی ہے.دیہات میں بھی استادوں کی ضرورت ہے.ہر جگہ کے لئے ایسے استاد مہیا کرنا جو ایک ایک آیت کر کے سالہا سال میں قرآن کریم کا ترجمہ ختم کرا سکیں تو مشکل ہے البتہ میری تجویز ہے کہ بعض ایسے استاد مقرر کئے جائیں جو مختلف مقامات پر دود وماہ ٹھہر کر ان لوگوں کو ترجمہ پڑھا دیں جو اس عرصہ میں پڑھ سکتے ہوں اور پھر وہ آگے اپنے اپنے ہاں کے دوسرے لوگوں کو آہستہ آہستہ پڑھاتے رہیں.الفضل ۲۸ رفروری ، یکم مارچ ۱۹۴۵ء) لَا تَمُشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا بخاری کتاب الاذان باب فَضُل صَلوةِ العِشَاء في الجَمَاعَةِ (بنی اسرائیل: ۳۸)
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نظامِ تو از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ نظام نو کی تعمیر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۲ء بر موقع جلسه سالانه ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے ابھی اس اعلان کے کرتے ہوئے (جو ایک زنانہ جلسہ گاہ کے متعلق ہدایت عمدا وار کے سے تعلق تھا) یہ خیل پیدا ہوا کہ گو اس گمشدہ ) دفعہ ڈبل مائکروفون لگا دیا گیا ہے مگر پھر بھی بچوں کے متعلق اعلان کرتے ہوئے یہ شبہ رہتا ہے کہ اعلان کی آواز زنانہ جلسہ گاہ میں پہنچی ہے یا نہیں.میں اس بارہ میں ایک ترکیب بتا دیتا ہوں جس سے یہ مشکل حل ہو سکتی ہے.منتظمین کو چاہئے کہ آئندہ عورتوں کے جلسہ گاہ میں ایک ہلکا سا جھنڈا لگا دیا کریں تا کہ جب اس قسم کا کوئی اعلان کیا جائے اور یہ معلوم کرنا ہو کہ اس کی آواز انہیں پہنچی ہے یا نہیں تو وہ سوال کرنے پر اپنے جھنڈے کو اونچا کر دیں اس طرح ہمیں علم ہو جائے گا کہ آواز اُن تک پہنچ گئی ہے.اسی طرح بعض دفعہ لاؤڈ سپیکر میں کوئی نقص واقع ہو جاتا ہے اور آواز عورتوں تک نہیں پہنچتی اس بارہ میں بھی منتظمین کو اُن سے بار بار پوچھتے رہنا چاہئے کہ آلہ خراب تو نہیں ہو گیا؟ اور اگر بعض دفعہ منتظمین نہ پوچھ سکیں تو ایسی صورت میں بھی وہ اپنے جھنڈے کے ذریعہ اطلاع دے سکتی ہیں.ایک افسوس ناک واقعہ اس کے بعد میں ایک افسوس ناک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی گل ہی مجھے اطلاع ملی اور جس واقعہ کا ذکر دو دنوں ے مختلف گروہوں میں ہو رہا تھا وہ واقعہ یہ ہے کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ دارالبرکات کے ناظم صاحب نے کسی مہمان کو مارا ہے.رات کو مجھے اس واقعہ کی اطلاع ملی اور میں نے اُسی
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو وقت میاں بشیر احمد صاحب کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس امر کی تحقیق کر کے مجھے رپورٹ کریں.ابھی جلسہ گاہ کو آتے وقت مجھے ان کی رپورٹ ملی ہے.عام طور پر یہ واقعہ اسی رنگ میں مشہور ہورہا تھا بلکہ مجھے وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مہمان کر تو ضلع شیخو پورہ کے ہیں مگر رپورٹ سے معلوم ہوا کہ یہ بات بالکل غلط ہے وہ جسے مارا گیا ہے قادیان کا ہی ایک لڑکا ہے.ابھی میں اس واقعہ کی تفصیل بھی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ اس لڑکے کا بیان ابھی تک نہیں لیا گیا بہر حال قادیان کا ایک لڑکا تھا جو کسی مہمان کے لئے کھانا لینے آیا یا اپنے گھر والوں کے لئے کھانا لینے آیا کیونکہ بعض کمز ور لوگ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس رنگ میں کچھ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُس نے دوسرے لوگوں کی صفوں کو چیر کر اپنے آپ کو آگے کرنا چاہا جب بعض نے اُسے روکا اور صبر کی تلقین کی کہ اپنی باری پر کھا نا مل جائے گا تو اُس نے گالیاں دیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ گندی گالیاں تھیں.اس پر ناظم صاحب نے اسے چند تھپڑ لگا دیئے تو وہ کہتے ہیں مجھے بحیثیت ناظم ہونے کے اور بحیثیت خدام الاحمدیہ کا زعیم ہونے کے اُس کو تھپڑ مارنے کا حق تھا اور میرے لئے ضروری تھا کہ اُس کے اخلاقی جُرم کی اسے سزا دیتا ان کے نزدیک اس وجہ سے یہ امر نظر انداز کرنے کے قابل ہے.اس امر کے متعلق تو بعد میں غور کیا جائے گا کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد اس قسم کی فوری سزا کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں لیکن اس میں کوئی قبہ نہیں کہ ناظم اس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ باہر کے لوگوں کے سامنے قادیان کے لوگوں کا اچھا نمونہ پیش کرے اگر واقعہ میں اس لڑکے نے کوئی مخش گالی دی تھی تو ناظم کی حیثیت سے اُن کا قادیان کے کسی لڑکے کو معمولی سزا دینا جرم نہیں ہوسکتا پس وہ بات جو لوگوں میں پھیل گئی تھی بالکل غلط ہے.بہر حال اصل واقعہ کی تحقیقات تو بعد میں ہو گی اور جو مناسب کارروائی ہوگی کی جائے گی میں اس وقت اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایسے معاملات میں باہر کے دوستوں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قادیان میں ہمارا نظام خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ پختہ ہے.یہاں خدام الاحمدیہ جہاں تک حکومت ان کو اجازت دیتی ہے نوجوانوں کی آزادی پر تصرف کرتے ہیں، مُجرم سرزد ہونے پر انہیں سزائیں دیتے ہیں ، انہیں معمولی سزا بھی دے لیتے ہیں، پہرے پر مقرر کرتے ہیں ، بوجھ اُٹھواتے ہیں اور اسی طرح کی کئی اور اصلاحی تدابیر اختیار کرتے ہیں.باہر سے آنے والوں کو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اور جب قادیان کے کسی لڑکے کو کسی مجرم پر
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو افسر کی طرف سے سزا دی جاتی ہے تو وہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید یہ سلوک کسی مہمان سے کیا جا رہا ہے.جب بیرونی جماعتوں میں بھی خدام الاحمدیہ منظم ہو جائیں گے تو باہر بھی ہر حلقہ کے قائد خدام کو اخلاقی مجرم سرزد ہونے پر سزا دے لیں گے اور اُس وقت انہیں قادیان میں اس قسم کی سزاؤں کا ملنا کوئی عجیب بات نظر نہیں آئے گی.اس وقت انہیں واقعہ میں یہ باتیں عجیب معلوم ہوتی ہیں شروع شروع میں تو لوگ زیادہ شور مچاتے تھے مگر میں دیکھتا ہوں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ سمجھ گئے ہیں چنانچہ بچے اگر غلطی کریں تو بچوں کا نظام خود ہی اس غلطی کی اصلاح کر دیتا ہے اور ان کے ماں باپ شکایت نہیں کرتے.کتاب ” مرکز احمدیت میں تقریر شروع کرنے سے پہلے بعض کتب کے متعلق بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں.ایک کتاب ”مرکز احمدیت“ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے لکھی ہے میں ابھی اسے پڑھ نہیں سکا.صرف ایک سرسری نظر میں نے اس کے مضامین پر ڈالی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت سی مفید معلومات قادیان اور سلسلہ کے متعلق جمع کر دی گئی ہیں قیمت بھی میں نے اس کی نہیں دیکھی مگر اس تنگی کے زمانہ میں انہوں نے اچھے موٹے کاغذ پر خوشخط کتاب چھپوائی ہے جو دوست باہر کی دنیا کو قادیان اور سلسلہ کے حالات سے روشناس کرانا چاہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہو کہ لمبے مضامین نہ ہوں بلکہ ایک مختصر کتاب میں جماعت کے کام اور مرکز کی خصوصیات کا ذکر ہو، تا کہ اسے خرید کر لوگوں کو اس کے مطالعہ کی تحریک کی جائے تو ایسے دوستوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے.تحریک جدید کی شائع کردہ کتب سلسلہ کی کتب جوتحریک جدید کی طرف سے شائع کی گئی ہیں (سوائے تفسیر کبیر کے کہ وہ ختم ہو چکی ہے گو بعض لوگ اپنی طرف سے فروخت کر رہے ہیں) وہ بھی جن دوستوں کو تو فیق ہو خریدنی چاہئیں کیونکہ اس رنگ میں بھی وہ سلسلہ اور اسلام کی مدد کر سکتے ہیں.تفسیر کبیر جلد سوم کو میں نے مستثنیٰ کیا ہے کیونکہ اب وہ تحریک کے پاس نہیں.تفسیر کبیر کی کم یابی ہاں مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہی تفسیر کبیر جس کی پانچ اور چھ روپے قیمت رکھنے پر دوست جھگڑا کیا کرتے تھے اب دس دس چودہ چودہ، پندرہ پندرہ روپے میں بک رہی ہے بلکہ بعض لوگ جن کے پاس اس کتاب کے اب صرف دو چار نسخے باقی رہ گئے ہیں کہتے ہیں کہ اب ہم آئندہ یہ کتاب پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سوسو روپیہ سوم
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو پر فروخت کریں گے اور لینے والے اس قیمت پر بھی لے لیں گے.ابھی میرے پاس بعض دوست آئے تھے انہوں نے تفسیر کبیر کا ذکر کیا میں نے کہا میرے پاس تو نہیں لیکن فلاں شخص کے پاس ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ دس روپے میں ایک جلد دیتا ہے کہنے لگے دس روپوں کا کیا ہے ہم دے دیں گے.اگر دوست وقت پر کتاب خرید لیتے تو اس پریشانی سے بچ جاتے مگر اب روپے خرچ کرنے کے باوجو دسب کو یہ کتاب نہیں مل سکتی پس آئندہ جلد کے بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے.خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع کردہ لٹریچر خدام الاحمدیہ نے بھی اس دفعہ کچھ لڑیچر خدام کے لئے چھپوایا ہے اور گو وہ خدام کے لئے ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے بھی کام آ سکتا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس لٹریچر کو بھی پڑھیں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.رسالہ "فرقان" رسالہ ”فرقان پیغامیوں کے لئے جاری کیا گیا ہے اور اس وقت تک اس کے جتنے پر چے شائع ہوئے ہیں سوائے ایک کے جو اپنے معیار سے کم تھا اچھے اور مفید مضامین پر مشتمل رہے ہیں اس کی خریداری کی طرف بھی میں دوستوں کو توجہ دلا تا ہوں مگر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اس رنگ میں کہ رسالہ پڑھا اور پھر کسی پیغامی کو دے دیا میری تجویز یہ ہے کہ دو تین سال تک مسلسل پیغامیوں کے مقابلہ میں یہ رسالہ شائع ہوتا رہے.اس کی قیمت پہلے ایک روپیہ تھی مگر اب ڈیڑھ روپیہ کر دی گئی ہے اور یہ قیمت بھی بہت کم ہے آجکل گرانی کا زمانہ ہے جس میں اتنی قلیل قیمت پر کوئی رسالہ نہیں چل سکتا مگر چونکہ اس کا سب کام آنریری ہوتا ہے ایڈیٹر اور منیجر وغیرہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں اس لئے جس قدر آمد ہوتی ہے وہ رسالہ پر ہی خرچ کر دی جاتی ہے اگر صاحب توفیق دوست اس بارہ میں رسالہ کی مدد کریں تو یقیناً یہ امر ثواب کا موجب ہے اس ذریعہ سے اگر غیر مبائع دوستوں کا کچھ طبقہ جس میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں سلسلہ کی خدمت کی ہے واپس آ جائے اور پھر بیعت میں شامل ہو جائے تو یہ امر ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہو گا.تقریر سننے کے متعلق ہدایت آج جو مضمون میں شروع کرنے لگا ہوں اس کے متعلق میرا ارادہ تو یہی ہے کہ جلدی ختم کر دوں مگر میری آواز کسی قدر بیٹھی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ رات کو مجھے شدید زکام ہو کر نزلہ سینہ پر گرتا رہا
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اور آواز بیٹھ گئی اس لئے ممکن ہے میری آواز دوستوں تک صحیح طور پر نہ پہنچ سکے گزشتہ تجر بہ تو یہی بتا تا ہے کہ تقریر شروع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آواز صاف ہونی شروع ہو جاتی ہے اور تمام دوستوں کو پوری طرح پہنچ جاتی ہے لیکن پھر بھی چونکہ مجھے رات سے یہ تکلیف ہے اس لئے گو اللہ تعالیٰ سے میں یہی امید کرتا ہوں کہ اس کے فضل سے میں اپنے فرض کو پوری طرح ادا کر سکوں گا تاہم اگر دوستوں کو آواز نہ پہنچے تو ممکن ہے اس میں آلہ نشر الصوت کا قصور نہ ہو بلکہ میری آواز کا ہی قصور ہو اس لئے دوستوں کو چاہئے جب انہیں آواز نہ پہنچے تو مجھے بتادیں میں کوشش کروں گا کہ آواز اپنی پوری طاقت سے دوستوں تک پہنچاتا رہوں.(الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۳ء) اس کے بعد حضور نے اصل مضمون ” نظام کو “ پر تقریر فرمائی.فرمایا: - مضمون کی اہمیت میرا آج کا مضمون وہ ہے جس کے متعلق میں ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں (جو الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۲ ء میں شائع ہو چکا ہے ) وعدہ کر چکا ہوں.میں نے کہا تھا کہ میں تحریک جدید کا ایک نیا اور اہم پہلو جماعت کے سامنے اگلے جمعہ کو رکھوں گا مگر جب اگلا جمعہ آیا تو میرا ارادہ بدل گیا اور میں نے اس مضمون کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے یہی مناسب سمجھا کہ اسے بجائے کسی خطبہ میں بیان کرنے کے جلسہ سالانہ کے موقع پر پر جبکہ تمام دوست جمع ہوں گے بیان کر دوں.چنانچہ میں نے اُس وقت اس مضمون کا بیان کرنا ملتوی کردیا اور اپنے اگلے خطبہ میں (جو الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے ) اعلان کر دیا کہ میں سر دست اس مضمون کو ملتوی کرتا ہوں اور اس کی بجائے بعض اور امور کی طرف جماعت کو توجہ دلا دیتا ہوں.بعد میں میری رائے اس طرف سے بھی بدلی اور میں نے چاہا کہ اس مضمون کو ابھی اور ملتوی کر دوں اور اس کی بجائے ”سیر روحانی“ کے کچھ اور حصے بیان کر دوں مگر منشائے الہی چونکہ یہی تھا کہ اس مضمون کا جس قدر جلد ہو سکے دُنیا میں اعلان کر دیا جائے اس لئے ایسا اتفاق ہو گیا کہ میں متواتر بیمار ہوتا چلا گیا اور سیر روحانی والے مضمون کے واسطے حوالے نکالنے کے لئے جو وقت چاہئے تھا وہ مجھے نہ ملا.آخر میں نے سمجھا کہ ۲۰ / تاریخ سے اس غرض کے لئے وقت نکالنا شروع کر دوں گا مگر ان دنوں بہت سا تفسیر کا کام کرنا پڑا.یہ امر میں بتا چکا ہوں کہ آجکل میں تفسیر لکھایا کرتا ہوں.پس ان دنوں ایک دفعہ میں تفسیر لکھا تا اور دوسری دفعہ صاف شدہ مضمون کو دیکھتا اور اس طرح کافی وقت اس
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام کو پر خرچ ہو جاتا.پھر آجکل ڈاک بھی میں نے خود ہی پڑھنی شروع کر دی ہے اور یہ کام بھی بہت زیادہ ہوتا ہے (ضمنی طور پر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پہلے ڈاک میں خود نہیں پڑھا کرتا تھا بلکہ تفسیر کے کام کی وجہ سے دفتر والے خطوط کا خلاصہ میرے سامنے پیش کر دیا کرتے تھے مگر پچھلے چار پانچ ماہ سے میں خود تمام ڈاک پڑھتا ہوں جن کے جواب ضروری ہوں اُن کے جواب خطوط کے حاشیہ میں نوٹ کر دیا کرتا ہوں اور جن خطوط کے جوابات دفتر والوں کو پہلے سے بتائے جا چکے ہیں اُن خطوط کے وہ خود ہی جواب دے دیا کرتے ہیں.بہر حال آب ڈاک کا کام بھی جاری ہے اور یہ کام بھی بہت بڑا ہوتا ہے ) اس وجہ سے مجھے جلسہ سالانہ کی تقریر کے لئے نوٹ لکھنے اور حوالہ جات نکالنے کی بالکل فرصت نہ ملی.جب ۲۰ / تاریخ آئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب گل صبح سے کام شروع کروں گا.کچھ ڈاک بھی باقی تھی ، ادھر تحریک جدید والوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ دوستوں کے وعدے نہیں پہنچے ڈاک بھجوائی جائے تا کہ ان کے وعدے نوٹ کر لئے جائیں چنانچہ میں وہ ڈاک دیکھنے لگ گیا.اسی دوران میں یکدم مجھے ایسی سردی لگی کہ شدت سردی کی وجہ سے مجھے کپکپی شروع ہوگئی اور دانت بجنے لگ گئے.اُس وقت مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوٹا رکھ دومگر میری طبیعت اُس وقت ایسی خراب ہوگئی کہ میں کوئی منٹ بھر یہ الفاظ تک اپنی زبان سے نہ نکال سکا.اس کے بعد بستر میں میں لیٹ گیا اور لحاف کے اندر ربڑ کی دو گرم بوتلیں رکھیں مگر کسی طرح سردی کم ہونے میں نہ آئی.جب صبح ہوئی اور میں نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو درجہ حرارت ساڑھے ننانوے تھا.دن بھر آرام رہا مگر جب عصر کا وقت آیا تو مجھے اپنی طبیعت خراب معلوم ہوئی اُس وقت میں نے پھر تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ تبخیر سی ہے اور 100 یا 100.5 تک حرارت ہے.رات کو درجہ حرارت 103 تک بڑھ گیا.اس وجہ سے میں اُن نوٹوں کو تیار نہ کر سکا جن کا تیار کرنا سیر روحانی والے مضمون کے لئے ضروری تھا.آخر میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ میں اس مضمون کو جو تحریک جدید کے متعلق ہے ابھی بیان کر دوں چنانچہ میں اس مضمون کے نوٹ لکھنے کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچا کہ وقت آ گیا تھا کہ دُنیا کے سامنے اس عظیم الشان پیغام کو ظاہر کر دیا جاتا.تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی لحاظ سے وہ مضمون جسے میں بیان کرنا چاہتا تھا وہ تھا کہ تحریک جدید کی خصوصیات
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ضمنی طور پر اور منفردانہ طور پر آب تک لوگوں کے سامنے بار بالائی گئی ہیں مگر تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی طور پر جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی.یا یوں کہ لو کہ اس کی حقیقت کو میں خود بھی آہستہ آہستہ سمجھا.جب میں نے اس کے متعلق پہلا خطبہ پڑھا تو اُس میں تحریک جدید کے متعلق جس قدر باتیں میں نے بیان کیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء میرے دل میں ڈالی گئی تھیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا چلا گیا میں ان باتوں کو بیان کرتا چلا گیا.پس حق یہ ہے کہ تحریک جدید کی کئی اغراض کو پہلے خود میں بھی نہیں سمجھا اور اس کے کئی فوائد اور حکمتیں میری نظر سے اوجھل رہیں.اسی وجہ سے تحریک جدید کی اجتماعی لحاظ سے اہمیت اب تک جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی یا ممکن ہے خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ جب اس مضمون کی ضرورت ہو تب اس پر سے پردہ ہٹایا جائے.بہر حال اس تحریک کا ایک عالمگیر اثر بھی ہے اور ضروری ہے کہ اس کو تفصیل سے بیان کیا جائے کیونکہ اب تک اس مضمون کو بیان نہیں کیا گیا.خلاصہ مضمون میں جس مضمون کو اب بیان کرنے لگا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک جدید جس کا اجرا میری طرف سے ہوا یا صحیح لفظوں میں یوں کہہ لو کہ تحریک جدید جس کا اجرا منشائے الہی کے ماتحت ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان اسلامی مقصد کو پورا کرنے اور انسانیت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا بیج رکھا گیا ہے.اب میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس فقرہ کے بعد جو مضمون آئے گا وہ بظاہر اس سے بے تعلق ہوگا اور بظاہر یہ جملہ کہہ کر میں تحریک جدید کی طرف آتا ہوا نظر نہیں آؤں گا لیکن میں دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ صبر سے کام لیں گے اور توجہ سے تمام مضمون کو سنیں گے تو تحریک جدید کا جو ذکر میں نے کیا ہے اس پر انہیں یہ تمام مضمون چسپاں ہوتا دکھائی دے گا.تحریک جدید کا ماحول دنیا میں جس قدر اشیاء نظر آتی ہیں وہ سب اپنے اپنے ماحول میں اچھی لگتی ہیں.ماحول سے اگر کسی چیز کو نکال لیا جائے تو اُس کا سارا حسن اور اُس کی ساری خوبصورتی ضائع ہو جاتی ہے پس جب تک میں اس تحریک کا ماحول نہ بیان کرلوں اُس وقت تک اصل حقیقت سے دوست آگاہ نہیں ہو سکتے.اس ماحول کا بیان کرنا خصوصاً اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں سے اکثر زمیندار ہیں اور وہ عموماً علمی باتوں سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ میں پہلے دنیا کی وہ حالت بیان کروں جس نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور کیا اور بتاؤں کہ دُنیا میں اس وقت کیا کیا Λ
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام کو تغیرات ہو رہے ہیں.ان تغیرات کا مستقبل پر کیا اثر پڑنے والا ہے اور ہماری جماعت اور دوسری مسلمان جماعتوں پر اُن کا کیا اثر ہے اور یہ کہ اگر وہ اثرات بُرے ہیں تو ہمیں اُن سے کس طرح بچنا چاہئے اور اگر اچھے ہیں تو کس حد تک ان کو قبول کرنا مناسب ہے.موجودہ زمانہ کے امراء اور غرباء کے سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دُنیا میں ادنیٰ و اعلیٰ ، محروم و با نصیب اور حاجتمند آپس کے امتیازات اور ان کا نتیجہ اور غنی میں جو امتیاز نظر آ رہا ہے اس کی وجہ سے دو تغیر پیدا ہورہے ہیں.ایک تغیر تو یہ پیدا ہو رہا ہے کہ یہ امتیاز زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا تغیر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس تغیر کا احساس دُنیا میں بڑھتا جا رہا ہے.پہلے بھی امیر ہوتے تھے مگر پہلے امیروں اور آجکل کے امیروں میں بہت بڑا فرق ہے.پہلے زمانہ کے جو امراء ہوتے تھے اور جن کی اولاد کا اب بھی کچھ بقیہ پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے اُن کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاس کثرت سے روپیہ اور غلہ اور دوسری جنسیں آتی تھیں اور وہ بھی کثرت کے ساتھ ان اشیاء کو لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.پنجاب کے ایک رئیس ایک دفعہ لاہور میں بیمار ہوئے میں بھی اتفاق سے کسی کام کے لئے لاہور جا نکلا وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ایک ایک وقت میں بعض دفعہ ان کے علاقہ سے تین تین چار چار سو آدمی اُن کی تیمار داری کے لئے آتے ہیں اور آنے والوں میں سے کسی کے پاس دُنبہ ہوتا ہے، کسی کے پاس چاول ہوتے ہیں، کسی کے پاس گڑھ ہوتا ہے، کسی کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے محض اس لئے کہ سردار صاحب بیمار ہیں خالی ہاتھ کس طرح جائیں.انہوں نے بھی دس پندرہ باورچی رکھے ہوتے تھے جب جانور وغیرہ آتے تو وہ ان کو ذبح کروا دیتے اور دیگیں پکوا کر لوگوں کو کھلا دیتے.اس طرح ان کی بیماری کی وجہ سے اچھا خاصا مجمع دو تین مہینے تک لگا رہا اور برابر وہ ان سینکڑوں لوگوں کو کھا نا کھلاتے رہے.گزشتہ زمانہ کے مقابلہ میں پس بے شک پہلے زمانہ میں بھی مالدار ہوتے تھے مگر اُن کا مال اس رنگ میں تقسیم ہوتا تھا کہ لوگوں کو بُرا نہیں لگتا تھا.موجودہ زمانہ کے اُمراء اور پھر اُس زمانہ میں نوکر کا مفہوم بالکل اور تھا مگر آج کچھ اُن کے ملازمین کی حالت اور ہے.اُس زمانہ میں نوکر خاندان کا جز و سمجھے جاتے تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کے امتیازات اُس وقت بھی پائے جاتے تھے مثلاً نوکر سے
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو شادی کرنا یا اُسے لڑکی دینا پسند نہیں کیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اس رنگ میں پاس رہتے تھے کہ مثلاً مالک بھی فرش پر بیٹھا ہوا ہے اور اُس کا نو کر بھی ساتھ ہی بیٹھا ہوا ہے یا مالکہ میٹھی ہے تو اُس کے ساتھ اُس کی لونڈی بھی بیٹھی ہے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ مالک تو کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور نوکر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ چاہے تھک جائے اُس کی مجال نہیں ہوتی کہ آقا کے سامنے بیٹھ جائے.اسی طرح سواریوں کو لے لو پہلے ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا.یہ تو ہو جاتا تھا کہ ایک کا گھوڑا زیادہ قیمت کا ہو گیا اور دوسرے کا کم قیمت کا مگر آجکل تھرڈ کے مقابلہ میں فسٹ اور سیکنڈ کلاس کا جو فرق ہے وہ بہت زیادہ نمایاں ہے.اسی طرح مکانوں کی ساخت میں اتنا فرق پیدا ہو گیا ہے کہ غرباء کے مکانوں اور اُمراء کے مکانوں میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.فرنیچر کی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ کوئی غریب ان کو خرید ہی نہیں سکتا.جب تک اُمراء | قالین بچھاتے رہے غرباء اس کے مقابلہ میں کوئی سستا سا قالین یا کپڑا ہی بچھا لیتے مگر اب فرنیچر کی اتنی قسمیں ہوگئی ہیں کہ ادنیٰ سے ادنی فرنیچر بھی غریب آدمی خرید نہیں سکتا.پہلے تو امیرلوگوں نے اگر قالین بنائے تو کشمیریوں نے گبھا بنالیا.مگر اب گوچ اور کرسیوں اور میزوں وغیرہ میں اُمراء کی نقل کرنا غرباء کی طاقت برداشت سے بالکل باہر ہے.غرض بڑوں اور چھوٹوں میں یہ امتیاز اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ اب یہ امتیاز آنکھوں میں چبھنے لگ گیا ہے.غربت و امارت کے متعلق پرانے نظریہ پھر ایک یہ بھی فرق ہے کہ اب احساسات بھی تیز ہو گئے ہیں.پہلے زمانہ میں عام کے مقابلہ پر نیا نقطہ ء نگاہ اور اس کا نتیجہ طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سب دولت اللہ میاں کی ہے.اگر کوئی بھوکا ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسے بھوکا رکھا اور اگر کسی کو روٹی ملتی ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالٰی اس کو روٹی دیتا ہے.مگر اب تعلیم اور فلسفہ کے عام ہو جانے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر غریب بھو کے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ نے انہیں بھوکا رکھا ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ امراء نے ان کی دولت لوٹ لی ہے اور اگر امیر آرام میں ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو آرام میں رکھا ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے غریبوں کو لوٹ لیا ہے.پس آج نقطہ ء نگاہ بدل گیا ہے اور اس نقطہ ء نگاہ کے بدلنے کی وجہ سے طبائع میں احساس اور اس کے نتیجہ میں اشتعال بہت بڑھ گیا ہے.پہلا صبر سے کام لیتا تھا اور اگر اللہ تعالیٰ سے اُسے محبت ہوتی تھی تو جب اُسے فاقہ آتا تب بھی
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو سُبْحَانَ اللهِ کہتا اور جب پلاؤ کھاتا تب بھی سُبْحَانَ اللہ کہتا کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی شخص بے ایمان ہوتا تب بھی خیال کرتا تھا کہ میں خدا تک تو نہیں پہنچ سکتا خاموش ہی رہوں مگر اب وہ سارا الزام جو پہلے خدا کو دیا جاتا تھا بندوں کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امیر اور طاقتور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ غریبوں کو ماریں پیٹیں اور اُن کا گلا گھونٹیں.پس نقطہ ء نگاہ کے بدلنے سے احساس بہت زیادہ تیز ہو گئے ہیں.مشینری کی ایجاد سے امارت یوں تو یہ امتیاز ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور شاید اگر اس کا سلسلہ چلایا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے قریب و غربت کے امتیاز میں زیادتی زمانہ تک پہنچ جائے مگر بظاہر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جوں جوں تمدن ترقی کرے گا یہ امتیاز مٹتا چلا جائے گا چنانچہ اوّل اوّل جب مشینیں نکلی تھیں تو لوگوں نے بڑی بڑی بغاوتیں کی تھیں.امراء کہتے تھے اس طرح غرباء کی حالت سدھر جائے گی اور زیادہ لوگوں کو کام ملنے لگ جائے گا اور غرباء کہتے تھے ایک مشین دس مزدوروں کا کام کرے گی تو مزدور بیکار ہو جائیں گے.اب واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خواہ زیادہ لوگوں کو کام ملا ہو یا نہ ملا ہومگر مشینری کی ایجاد نے غریب اور امیر میں امتیاز کو بہت بڑھا دیا ہے.غرباء کی حالت کو سدھارنے کی اس میں کوئی طبہ نہیں کہ بعض اصلاحیں بھی ہوئیں کوئی نیک دل فلسفی اُٹھا اور اُس نے غرباء کوششیں اور اُن میں ناکامی کی وجہ کی بہتری کے لئے کوئی تدبیر پیدا کردی ، کوئی نیک بادشاہ اُٹھا ، یا کوئی نیک دل تاجر کھڑا ہوا اور اُس نے حکومت کے کسی شعبہ میں یا کارخانوں میں اصلاح کر دی مگر دنیا کی اصلاح جس پر تمام لوگوں کے امن کا دار ومدار تھا بہ حیثیت مجموعی نہ ہوئی اور عوام کی تکلیفیں بدستور قائم رہیں.چنانچہ اب بھی اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کے سامنے سے کیکوں کے ٹکڑے اُٹھا کرکتوں کے آگے ڈالے جاتے ہیں اور دوسرے شخص کے بچے سوکھی روٹی کے لئے بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں.یہ مبالغہ نہیں ہر روز دنیا میں کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ ماں باپ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو بُھو کا سلاتے ہیں اُمراء اگر چاہیں بھی تو پھر بھی وہ اُن کی مدد نہیں کر سکتے.آخر ایک امیر کو کیا پتہ کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں فلاں جھونپڑی کے اندر ایک غریب عورت کا بچہ بھوک سے تڑپ
۱۳ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو تڑپ کر مر رہا ہے.دتی یا لاہور کے امراء کو کیا علم کہ دُنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں میں غرباء پر کیا گذر رہی ہے اور وہ کیسے کیسے مشکلات سے دو چار ہورہے ہیں.اول تو اُن کے دلوں میں غرباء کی مدد کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی اور اگر خواہش پیدا ہو تو اُن کے پاس ایسے سامان نہیں ہیں جن سے کام لے کر وہ تمام دُنیا کے غرباء کی تکالیف کو دُور کر سکیں.انہیں کیا پتہ کہ غرباء کہاں کہاں ہیں اور ان کی کیا کیا ضرورتیں ہیں.امراء کے مقابلہ پر غرباء امیر لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ڈاکٹر انہیں پچاس پچاس روپیہ کی پیٹینٹ دوا ئیں بتا کر چلا جاتا ہے مگر اُن کی ناقابل برداشت حالت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بازار سے چھ سات شیشیاں منگا کر اُن میں سے کسی ایک کو کھولتے ہیں اور ذرا سا چکھ کر کہتے ہیں یہ دوائیں ٹھیک نہیں کوئی اور ڈاکٹر بلاؤ.چنانچہ ایک اور ڈاکٹر آتا اور وہ بھی تھیں چالیس روپیہ کی کوئی اور پیٹینٹ دوائیں لکھ کر چلا جاتا ہے.غرض معمولی معمولی زکاموں اور نزلوں پر وہ دودو، چار چار سو روپیہ کی دوائیں خرچ کر دیتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایک غریب عورت کے بچے کو نمونیا ہو جاتا ہے اور طبیب اسے مکو کا عرق یا لسوڑیوں کا جو شاندہ بتاتا ہے اور وہ لسوڑیوں کا جوشاندہ تیار کرنے کے لئے سارے محلہ میں دھیلا مانگنے کے لئے پھرتی ہے اور کوئی شخص اسے دھیلا تک نہیں دیتا.آخر ماں کی مامتا تو ایک غریب عورت کے دل میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسے امیر عورت کے دل میں مگر وہاں یہ حالت ہوتی ہے کہ بچہ اگر چھینک بھی لے تو ڈاکٹر پر ڈاکٹر آنا شروع ہو جاتا ہے ، دوائیاں شروع ہو جاتی ہیں ، کھلائیوں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ تم نے بچے کو ہوا لگا دی مگر ایک ویسی ہی ماں دَر دَر دھکے کھاتی ہے اور اسے ایک دھیلا تک میسر نہیں آتا اور اُس کا بچہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے.تم اپنے اردگرد کے گھروں پر نگاہ دوڑاؤ، تم اپنے محلوں میں پوچھو تمہیں ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی.یہ غربت بعض دفعہ اس حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے کہ بالکل نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.غرباء کی درد ناک حالت میرے پاس ایک دفعہ ایک غریب عورت آئی اور اس نے اپنا مدعا بیان کرنے سے قبل بڑی لمبی تمہید بیان کی اور بڑی اور اس کا بھیانک منظر لجاجت کی اور بار بار کہا کہ میں آپکے پاس بڑی آس اور امید لے کر آئی ہوں.میں اُسے جتنا کہوں کہ مائی کام بیان
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کر و ہوسکا تو میں کر دوں گا اُتنی ہی وہ لجاجت اور خوشامد کرتی چلی جاتی تھی.میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوگی اور اس کے لئے اُسے تمہیں چالیس روپوؤں کی ضرورت ہوگی مگر جب میں نے بہت ہی اصرار کیا اور کہا کہ آخر بتاؤ تو سہی تمہیں ضرورت کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی مجھے فلاں ضرورت کے لئے آٹھ آنے چاہیں.میں آج تک اس کا اثر نہیں بُھولا کہ کس قدر اُس نے لمبی تمہید بیان کی تھی ، کس قدر لجاجت اور خوشامد کی تھی اور پھر سوال کتنا حقیر تھا کہ مجھے آٹھ آنے دے دیئے جائیں.یہ بات بتاتی ہے کہ اس کے نزدیک دو باتوں میں سے ایک بات بالکل یقینی تھی.یا تو وہ یہ بجھتی تھی کہ کوئی شخص جس کی جیب میں پیسے ہوں وہ کسی غریب کے لئے آٹھ آنے دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتا اور یا پھر کنگال ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتی تھی کہ دُنیا میں ایسا خوش قسمت انسان کوئی شاذ و نادر ہی مل سکتا ہے جس کے پاس آٹھ آنے کے پیسے ہوں.ان دونوں میں سے کوئی سا نظریہ لے لو کیسا خطرناک اور بھیانک ہے.اگر اُس کے دل میں یہ احساس تھا اور یہی احساس اور غرباء کے دل میں بھی ہو کہ ہمیں خواہ کیسی شدید ضرورتیں پیش آئیں کوئی شخص ہمارے لئے آٹھ آنے تک خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا تو اُن کے دلوں میں اُمراء کا جتنا بھی کینہ اور بغض پیدا ہو کم ہے.اور اگر غرباء کی حالت اس قدر گر چکی ہو کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہوئے پھر یہ خیال کریں کہ اب کسی کے پاس آٹھ آنے بھی نہیں ہیں اور اگر کسی کے پاس آٹھ آنے ہیں تو وہ بہت بڑا خوش قسمت انسان ہے تو یہ دنیا کے تنزل کے متعلق کیسا خطر ناک نظریہ ہے.غریبوں کی بہبودی کیلئے مختلف تحریکات کا آغاز ڈیما کریسی یہ حالت بہت دیر سے چلی آرہی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے لوگوں نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے مگر اب تک کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا.اٹھارھویں صدی کے آخر سے اس کے متعلق علمی طور پر زیادہ چر چا شروع ہو گیا اور اس احساس بیداری نے جو شکل پہلے اختیار کی دُنیا نے اس کا نام ڈیما کریسی (DEMOCRACY) رکھا.یعنی فیصلہ کیا کہ یہ غربت افراد نہیں مٹا سکتے بلکہ حکومت ہی مٹا سکتی ہے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ لاہور یا دہلی میں بیٹھے ہوئے ایک فرد کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ ۱۳
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں کسی غریب عورت کا بچہ بھوک سے مر رہا ہے، یا شہروں میں رہنے والوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ گاؤں میں غرباء پر کیا مشکلات آ رہی ہیں لیکن حکومت ان تمام باتوں کا بآسانی علم رکھ سکتی ہے.پس انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام حکومت کو اپنے ذمہ لینا اہئے لیکن حکومت میں بادشاہ اور وزراء کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی دخل ہونا ضروری ہے تا کہ سب کی آواز مرکز میں پہنچ سکے اور مرکز کو ان کے ذریعہ تمام حالات کا علم حاصل ہوتا رہے اس کے مطابق پہلے چھوٹے چھوٹے تغیرات کئے گئے.مثلاً کہا گیا کہ بادشاہ کو گھر بیٹھے کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ شاہ پور کے زمینداروں کی کیا ضروریات ہیں ہاں شاہ پور کے زمیندار اپنی ضرورتوں کو خوب جانتے ہیں.یا بادشاہ کو گھر بیٹھے جھنگ کے لوگوں کی مشکلات کا علم نہیں ہوسکتا مگر جھنگ کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہیں کیا کیا مشکلات درپیش ہیں پس حکومت کے مرکز تک لوگوں کی آواز پہنچانے کا کوئی انتظام ہونا چاہئے.ڈیما کریسی کے ماتحت پہلا تغیر پس پہلا غیر ڈیماکریسی کے ماتحت اس رنگ میں ہوا کہ جمہور نے مطالبہ کیا کہ حکومت میں ہمارا بھی حق ہے تا کہ ہم اپنے اپنے علاقوں کی ضروریات بتا سکیں اور ان کے متعلق حکومت کو مفید مشورہ دے سکیں.کچھ عرصہ تک یہ طریق رائج رہا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طریق عمل سے فائدہ ہوا.آخر بادشاہ سب کے حالات معلوم نہیں کرسکتا تھا اس طریق کے مطابق لوگوں کے نمائندے آتے ، حالات بتاتے ، حکومت کو مشورہ دیتے اور مطمئن ہوکر واپس چلے جاتے.ڈیما کریسی کے ذریعہ حقوق کا تحفظ اور اس ابتدا میں یہ نمائندے زیادہ تر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اس کیلئے تاجروں اور پیشہ وروں کی جد وجہد لئے وہ زمینداروں کے حقوق کے متعلق ہی باتیں کیا کرتے تھے.بڑے بڑے زمیندار آتے اور بڑے بڑے لوگوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی قوم کو زیادہ فائدہ پہنچاتے.اس پر ایک نئی تحریک شروع ہوئی جو تاجروں اور پیشہ وروں کی تھی اور اس تحریک کے بانیوں نے اپنا کام تاجروں اور حرفہ والوں کے حقوق کی نگہداشت قرار دیا.چنانچہ اس تحریک کے نتیجہ میں جو لبرل ازم (LIBERALISM) کہلاتی ہے تاجروں ۱۴
۱۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اور پیشہ وروں کو بھی زمینداروں کی طرح حُریت حاصل ہوگئی اور حکومت میں ایسے تغیرات پیدا کئے گئے جن کے نتیجہ میں تاجروں کی تکالیف دور ہوگئیں اور پیشہ وروں کو ملک میں اور زیادہ آسانیاں حاصل ہو گئیں.سوشلزم یہ صورتِ حالات کچھ دیر تک قائم رہنے کے بعد ایک اور طبقہ کی نگاہیں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اُٹھیں اور اُس نے بھی اس غرض کے لئے جد وجہد شروع کر دی.یہ طبقہ مزدوروں اور ملازم پیشہ لوگوں کا تھا جو کارخانوں اور دفتروں میں کا م کرتے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ زمینداروں کو بھی ان کے حق مل گئے ، صناعوں کو بھی ان کے حق مل گئے اور تاجروں کو بھی انکے حق مل گئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے دُکھ کو تم محسوس نہیں کرتے اس لئے اب ہم بھی اپنے نمائندے حکومت میں بھیجیں گے چنانچہ کسی جگہ با قاعدہ انتخاب کے ذریعہ اور کسی جگہ لڑ جھگڑ کر مزدوروں کے نمائندے بھی کھڑے ہونے شروع ہو گئے.آجکل سوشلزم کا بڑا زور ہے اور یہ دراصل اسی تحریک کا نام ہے جس میں مزدوروں کو مالداروں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دلائے جاتے ہیں.ایسے لوگ عام پبلک کے حقوق کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح مزدوروں کی حق رسی ہو جائے گی.انٹر نیشنل سوشلزم پھر اس سے بھی ترقی کر کے لوگوں نے کہا کہ بے شک یہ سب تحریکیں فائدہ مند ہیں مگر آخر ان کا اثر بعض خاص مما لک تک محدود ہے اور یہ کوئی کامل خوشی کی بات نہیں ہو سکتی.اگر انگلستان کے لوگوں کی ہم نے اصلاح کر لی مگر فرانس کے لوگ پھر بھی بُھو کے مرتے رہے تو ہمارے لئے کیا خوشی ہو سکتی ہے اس لئے مختلف ملکوں کے غرباء اور مزدوروں کو باہمی تعاون کا اقرار کرنا چاہئے.بظاہر تو یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اصلاح کے دائرہ کو وسیع کرتے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ جب اس تحریک کے نتیجہ میں ایک ملک کے اُمراء کو نقصان پہنچا تو دوسرے ملک کے اُمراء اس وجہ سے کہ یہ تحریک ہمارے ملک میں نہ آجائے روپیہ سے اس تحریک کے مخالفوں کی مدد کیا کرتے تھے.چنانچہ اس کے مقابل پر مزدوروں نے بھی فیصلہ کیا کہ مختلف ملکوں کے غرباء کو آپس میں تعاون کا اقرار کرنا چاہئے جب تک ایسا نہیں ہوگا کامیابی مشکل ہے.اس طرح سوشلزم کے بعد انٹر نیشنل سوشلزم کا آغاز ہوا.یعنی مزدور اپنی اپنی جگہ کی ہی خبر نہ رکھیں بلکہ دوسری جگہوں کی بھی خبر رکھیں.
۱۶ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو غرباء کی حالت سدھارنے کے اس کے بعد ایک شخص کارل مارکس سے پیدا ہوا.یہ جرمن یہودی النسل تھا مگر مذہباً عیسائی تھا متعلق کارل مارکس کے تین نظریے اس نے اس مسئلہ پر غور کیا اور غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ جو سوشلزم کہہ رہی ہے کہ آہستہ آہستہ اصلاح کی جائے اور امیروں پر دباؤ ڈال کر ان سے مزدوروں اور غرباء کے حق حاصل کئے جائیں اس طرح تو پچاس سو بلکہ ہزار سال میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اصل خرابی یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے پس اس کی اصلاح کا آسان طریق یہ ہے کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے.چنانچہ وہ کہتا ہے یہ کیا طریق ہے کہ اگر حکومت کسی جگہ نہر نہیں نکالتی تو نہر کے لئے اس سے سو سال تک جنگ جاری رکھی جائے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو اور نہر نکال لو.یا یہ کیا کہ فلاں کارخانہ میں چونکہ اصلاح نہیں اس لئے حکومت پر اس کے متعلق زور دیا جائے اور برسوں اس پر ضائع کئے جائیں سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت ہاتھ میں لو اور تمام مفاسد کا علاج کر لو.پس مارکس نے یہ اصول رکھا کہ سیاسیات میں پڑے بغیر ہم تمدنی اصلاح نہیں کر سکتے.جب تک سیاست ہاتھ میں نہ آجائے اور جب تک حکومت کے اختیارات قبضہ میں نہ آجائیں اس وقت تک کوئی سیاسی یا تمدنی اصلاح نہیں ہوسکتی.مارکسزم اور اس کا پہلا اُصول پس مارکسزم جو انٹر نیشنل سوشلزم کی ایک شاخ ہے جبر کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی مؤید ہے اور اقتصادی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے سیاسی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی حامی ہے.پھر اسی نظریہ کے ساتھ مارکسزم یہ بات بھی پیش کرتی ہے کہ سوشلزم والے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے کہ انہوں نے امیروں سے مل کر کام کرنا شروع کر دیا حالانکہ امیروں کا قبضہ اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے غرباء کو کوئی حق حاصل ہی نہیں ہوسکتا.مارکس کے نزدیک ڈیما کریسی کا اصول بالکل غلط ہے اور امیروں اور غریبوں کا میل جول بھی غلط ہے.اس کے نزدیک امیروں کو ایسا ہی سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ انسان نہیں اور جو اختیار غرباء کوملیں وہ انہیں اپنے قبضہ میں لے لیں.مارکسزم کا دوسرا اُصول دوسرا نظریہ اس نے یہ پیش کیا کہ ہمیں اس غرض کے لئے جبر کرنا چاہئے.جتھا بناؤ ، حملہ کرو اور حکومت پر قبضہ کر لو.یہی کارل مارکس
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام نو کا نظریہ تھا جس سے بالشوزم پیدا ہوا.مارکسزم کا تیسرا اُصول مارکس نے ایک یہ رائے بھی دی کہ مالدار زمیندار اور صناع اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں اور مزدور اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کے توڑنے پر بھی وہ زیادہ دیر تک اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے.لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کا کوئی سائیں سکے تھا جسے آٹھ دس روپے ماہوار ملا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی شخص نے اسے سمجھایا کہ آجکل ہر شخص کو چالیس پچاس روپے ملتے ہیں اور تو آٹھ دس روپوؤں پر گزارہ کر رہا ہے اپنے آقا سے کہتا کیوں نہیں کہ میری تنخواہ زیادہ کرو.وہ کہنے لگا میں رکس طرح کہوں؟ اُس نے کہا تو کوئی غلام ہے اگر وہ تیری تنخواہ بڑھائے تو بہتر نہیں تو کسی اور جگہ ملازمت کر لینا.آخر بہت کچھ سمجھانے پر وہ تیار ہو گیا اور اس نے دل میں عہد کر لیا کہ آج جب آقا آیا تو اُسے صاف صاف کہہ دوں کہ یا تو میری تنخواہ بڑھائی جائے ورنہ میں نوکری چھوڑتا ہوں.اُس کا آقا اُس وقت سواری پر کہیں باہر گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو سائیں اُس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا صاحب! ایک بات سُن لیجئے.اُس نے کہا کیا ہے؟ کہنے لگا سب کو تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں اور میری تنخواہ بہت کم ہے پس یا تو میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ.جب اُس نے کہا یا تو میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ.تو اُسکے آقا نے کوڑا اٹھا کر اسے مارا اور کہا.ورنہ کیا ؟ کہنے لگا.ورنہ آٹھ پر ہی صبر کریں گے اور کیا کریں گے.گویا یکدم اُس کو ساری باتیں بُھول گئیں.یعنی یا تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ”ورنہ میں نوکری چھوڑ دوں گا.اور یا ایک کوڑا ا پڑتے ہی یہ کہنے لگا ورنہ پھر آٹھ پر ہی صبر کریں گے اور کیا کریں گے.لمبے عرصہ کی غلامی کا نتیجہ تو ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد انسان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے چو ہڑوں اور چماروں کو کتنا ہی اُٹھانے کی کوشش کرو اور کتنی ہی دیر اُن سے باتیں کرتے رہو آخر میں وہ یوں مسکرا کر کہ جیسے ہمارا دماغ پھر گیا ہے کہیں گے کہ رب نے جس طرح بنایا ہے اس میں اب کیا تغیر ہو سکتا ہے.گویا اُن کے نزدیک جس قدر مصلح اور ریفارمر ہیں سب کے دماغ خراب ہوسکتا ہیں.یہی کارل مارکس نے کہا کہ ان لوگوں کی حالت بدلنے والی نہیں.اگر عوام کو اختیار دے دیئے گئے تو وہ پھر ڈر کر ہتھیار رکھ دیں گے اس لئے شروع میں مزدوروں کے زبردست ہمدردوں میں سے کسی کو ڈکٹیٹر شپ دینا ضروری ہے.وہ جب عوام کو منظم کرلے ، مزدوروں ۱۷
۱۸ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کے اندر بیداری پیدا کر دے، اُن کے مختلف طبقات کے امتیازات کو مٹادے اور اگلی نسل میں ایسی طاقت پیدا کر دے کہ وہ امیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر سکیں تو اُس وقت حکومت گلی طور پر جمہور کے سپرد کر دینی چاہئے مگر اس سے پہلے نہیں ورنہ حکومت جاتی رہے گی.غرباء کی بہبودی کے لئے لیکن مارکس تو خیر مرگیا.اس کے بعد جب مظالم انتہاء کو پہنچے تو ایک پارٹی ایسی کھڑی ہو گئی جس نے اور اُس کے ساتھیوں کی کوشش مارکس کی تعلیم کے مطابق لوگوں کو منظم کرنا شروع کر دیا.انہی مختلف لوگوں میں سے جو مارکس کی تعلیم کے مطابق منظم ہوئے ایک لیفن کے ہے جو روس کا پہلا عامی ڈکٹیٹر تھا.لینن اور اُس کے ساتھیوں نے مارکس کے خیالات کو زیادہ معین جامہ پہنایا.کچھ عرصہ تک تو یہ سب مل کر کام کرتے رہے اور غریبوں کو اُبھا رتے رہے کہ تم ننگے پھرتے ہو، بُھو کے رہتے ہو مگر اسی ملک کے امیر ہیں جو عیش و آرام میں اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں.کبھی کہتے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ہی کا رخانہ میں ایک مزدور صبح سے شام تک کام کرتا ہے اور شام کو اسے اتنی قلیل مزدوری ملتی ہے کہ جس سے بمشکل وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر دوسری طرف اسی کارخانہ کے مالک کے بچے قیمتی سے قیمتی کوٹ پہنے پھرتے ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھاتے ہیں.اس طرح انہوں نے تمام ملک میں جوش پیدا کر دیا اور اُمراء کے خلاف کئی پارٹیاں بن گئیں.بالشویک و منشویک پارٹیوں کا آغاز جب ان کا اقتدار بڑھ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جلد ہی ہم کو حکومت مل جائے گی تو انہوں نے ایک میٹنگ کی اور اس کی غرض یہ قرار دی کہ ہم اپنے لئے ایک معتین راستہ قائم کر لیں کہ ہم نے حکومت ملنے پر کس طرح کام کرنا ہے.اس میٹنگ کے دوران میں آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا اور مارٹو و جو لیفن کی طرح پارٹی میں مقتدر تھا اس کا لینن سے اختلاف ہو گیا.چنانچہ دو پارٹیاں بن گئیں جن میں سے ایک بالشویک کہلائی اور دوسری منشویک.بالشویک نام اس لئے رکھا گیا کہ بالشویک کے معنے کثرت کے ہیں چونکہ لینن کے ساتھ آدمیوں کی کثرت تھی اس لئے اس کی پارٹی بالشویک کہلائی اور منشویک کے معنے کم کے ہیں چونکہ اس کے مخالف کم تھے اس لئے مارٹو و کی پارٹی منشویک کہلائی.
19 انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نظام حکومت کے متعلق لینن اور مارٹو و کے نظریوں میں اختلاف پہلا اختلاف لین زیادہ تر مارکس کا منبع تھا اس نے یہ اصول مقر کیا ہوا تھا کہ ہمیں ہر دوسری پارٹی سے علیحدہ رہنا چاہئے اس کے بغیر ہم اپنے مقاصد کو صحیح طور پر نہیں پاسکیں گے لیکن مارٹو و کا یہ خیال تھا کہ طاقت حاصل کرنے سے پہلے ہمیں دوسرے مقتدر عناصر سے جو کہ فعال ہیں تعاون رکھنا چاہئے غرض لینن کی تھیوری یہ تھی کہ ہم دوسروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہم جو کچھ لائیں گے اپنے زور سے لائیں گے کسی کے زیر احسان ہو کر نہیں لائیں گے دوسرے الفاظ میں لینن کی پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسروں سے نہیں ملیں گے ہمارے پاس سچائی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم بالآ خر جیت جائیں گے.دوسرا اختلاف پھر ین کا یہ خیال تھا کہ شروع میں ڈکٹیٹر شپ کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا لیکن مارٹو و کا یہ خیال تھا کہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم ہونی چاہئے.مارٹو و سمجھتا تھا کہ اگر لیڈر بنا تو لینن ہی بنے گا میں نے نہیں بننا اس لئے وہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتا تھا.مارٹو و کا خیال کہ سزائے موت بالکل ہٹا دی جائے پھر مارٹو ونی گورنمنٹ میں سوشلسٹ اصول کے ماتحت چاہتا تھا کہ سزائے موت کو بالکل ہٹا دیا جائے لیکن لینن نے اس بات پر زور دیا کہ میں مانتا ہوں کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن اس وقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکا یا نہیں جا سکے گا اور لینن کا خیال تھا کہ زارا اگر معطل ہو کر بھی زندہ رہے تو حکومت نہیں چل سکتی اس لئے لینن نے کہا کہ خواہ صرف زار کی جان لینے کے لئے موت کی سزا کی ضرورت ہو تب بھی یہ قائم رہنی چاہئے.گو یا زار کی دشمنی اُس کے دل میں اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُس نے کہا اگر خالی زار کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے کے لئے اس قانون کی ضرورت ہو تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے.ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ لینن کو زیادہ ووٹ ملے اور اس کے ساتھیوں کو پارٹی کی راہنمائی کا حق دیا گیا اور اپنی کثرت کی وجہ سے وہ بالشویک کہلائے اور ان کے مخالف اپنی قلت کی وجہ سے منشویک کہلائے.زار کے
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہنے پر پہلے منشویک حکومت پر قابض ہوئے کیونکہ ملک کی دوسری پارٹیاں ان کی حکومت کو اپنے لئے زیادہ آرام دہ بجھتی تھیں پھر بالشویک نے ان کو دبا کر اپنی حکومت قائم کر لی.بالشوزم کے چھ اقتصادی اصول اور اُن کے نتائج اب میں بتاتا ہوں کہ بالشویک کے اقتصادی اصول کیا ہیں؟ یا د رکھنا چاہئے کہ ان اقتصادی اصول کو وضع کرنے کا سب سے بڑا محرک یہی تھا کہ کسی طرح غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے.جس طرح بیمار ہونے پر ایک امیر کو دوا ملتی ہے اسی طرح غریب کو دوا ملے ، جس طرح امیر کو کپڑا میسر آتا ہے اسی طرح غریب کو پہننے کے لئے کپڑا میسر آئے ، جس طرح امیر پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے اسی طرح ہر غریب پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہے.اسی طرح ظلم کم ہوں اور اقتصادی لحاظ سے غرباء کو جو دقتیں پیش آتی رہتی ہیں ان سب کا سد باب ہو اس غرض کے لئے بالشوزم نے جو اقتصادی اصول مقرر کئے وہ مارکس کے اصول کے مطابق یوں ہیں :- پہلا اصول اول جتنی کسی کی طاقت ہو اُس سے اُتنا ہی وصول کیا جائے.فرض کرو ایک شخص کے پاس دس ایکڑ زمین ہے اور دوسرے کے پاس سو ایکڑ زمین ہے تو وہ یہ نہیں کریں گے کہ دس ایکڑ والے سے چند روپے لے لیں اور سو ایکڑ والے سے بھی چند روپے لے لیں بلکہ وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر ہیں اور سو ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر اور پھر جس قدر زائد روپیہ ہو گا اُس پر حکومت قبضہ کر لے گی مثلاً وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والا اپنی بیوی کو بھی کھلاتا ہے ، بچوں کو بھی کھلاتا ہے ، آپ بھی کھاتا ہے، بیلوں کو بھی کھلاتا ہے اور پھر اتنا روپیہ اس کے پاس بیچ رہتا ہے تو حکومت کہے گی کہ یہ روپیہ تمہارا نہیں بلکہ ہمارا ہے اسی طرح سو یا ہزار ایکڑ والے کی ضروریات دیکھی جائیں گی اور جس قدر زائد روپیہ ہو گا حکومت اسے اپنے قبضہ میں لے لے گی کیونکہ وہ کہتے ہیں ہمارا اصول یہی ہے کہ جتنا کسی کے پاس زائد ہو اس سے لے لو.دوسرا اصول دوسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اس کو دیا جائے گویا پہلے اصول کے مطابق سو یا ہزار ایکڑ والے سے اُس کی زائد ۲۰
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو آمد وصول کر لی اور اس اصول کے مطابق جتنی کسی کو ضرورت ہوئی اتنا اُسے دے دیا.فرض کروسو ایکڑ والے سے حکومت نے پانچ ہزار روپیہ وصول کیا تھا مگر اس کے گھر کے افراد دو تین ہیں تو اسے زیادہ روپیہ نہیں دیا جائے گا بلکہ افراد کی نسبت سے دیا جائے گا کیونکہ روپیہ لیا اس اصول کے ماتحت گیا تھا کہ جتنا کسی کے پاس ہو لے لو اور دیا اس اصول کے ماتحت جائے کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اتنا اُس کو دیا جائے.اُسے کہا جائے گا کہ تیرے پاس چونکہ زیادہ تھا اس لئے ہم نے زیادہ لیا اور تجھے چونکہ ضرورت کم ہے اس لئے ہم تجھے کم روپیہ دیتے ہیں.تیسرا اصول تیسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ انسانی ضرورت سے زائد پیداوار پر حکومت کا حق ہے جو ملک کی عام بہتری پر خرچ ہونی چاہئے.فرض کرو دو زمیندار ہیں اور دونوں کے پاس دس دس ایکڑ زمین ہے ان میں سے ایک نے زیادہ محنت سے کام کیا اور اُس کی پیداوار میں من فی ایکڑ کے حساب سے ہو گئی مگر دوسرے کی پیداوار صرف تین من فی ایکڑ ہوئی گویا ایک کی پیداور ۳۰۰ من ہوگئی اور دوسرے کی صرف ۳۰ من.اب فرض کرو جس کی ۳۰۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے صرف چالیس من پیداوار کی ضرورت ہے تو حکومت اسے کہے گی چونکہ تمہاری پیدا وار زیادہ ہوئی ہے اس لئے تم چالیس من رکھ لو اور ۲۶۰ من ہمارے قبضہ میں دے دو اسی طرح دوسرا شخص جس کی صرف ۳۰ من پیدا وار ہوئی ہے اُسے اگر اپنے لئے صرف دس من غلہ کافی ہو گا تو حکومت کہے گی دس من غلہ رکھ لو اور ہیں من ہمیں دے دو پس تیسرا اصول ان کا یہ ہے کہ جو پیدا وار ضرورت سے زیادہ ہو جائے چاہے محنت سے ہو اور چاہے اتفاقیہ طور پر وہ لے لی جائے کیونکہ وہ حکومت کا حق ہے.چوتھا اصول چوتھا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ حکومت انسانوں پر نہیں بلکہ چیزوں پر ہونی چاہئے وہ کہتے ہیں خالی یہ قانون کافی نہیں کہ زائد پیداوار لے لی جائے گی کیونکہ اس طرح حکومت صرف انسانوں پر رہتی ہے حالانکہ حکومت اشیاء پر ہونی چاہئے.مثلاً کسی علاقہ میں کرنا اچھا ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں حکومت کا حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو حکم دے کہ اس علاقہ میں صرف گنا بوئیں یا کسی علاقہ میں گندم بہت اچھی ہوتی ہو تو حکومت کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ اُس علاقہ میں صرف گندم بونے کا حکم دے اور کوئی شخص گندم کے سوا اور کوئی چیز اس زمین میں نہ بو سکے.یا اگر حکومت حکم دینا چاہے کہ فلاں علاقہ میں کپاس بوئی جائے، فلاں علاقہ میں جوار بوئی جائے تو سب لوگ اس کی تعمیل پر مجبور ہوں اور کوئی شخص خلاف ورزی نہ کر سکے.پس ۲۱
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو چوتھے اصول کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ پیداوار کی تقسیم ہم کریں گے اور ہم فیصلہ کریں گے کہ فلاں فلاں علاقہ میں فلاں فلاں چیز ہوئی جائے اور لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہی چیز بوئیں.پانچواں اُصول پانچواں اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ خالص دماغی قابلیتیں بغیر ہاتھ کے کام کے کوئی قیمت نہیں رکھتیں.وہ کہتے ہیں یہ کہنا کہ فلاں شخص کوئی علمی بات سوچ رہا ہے بالکل لغو ہے اصل چیز ہاتھ سے کام کرنا ہے دماغی کام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہاتھ سے کام کریں اور اگر وہ ہاتھ سے کام نہ کریں تو بیشک بھو کے مریں ہم اُن کی مدد نہیں کریں گے.چھٹا اُصول چھٹا اُصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بچاؤ کیا جائے بلکہ اپنے اصول کے لئے دوسروں پر حملہ کرنا چاہئے.پہلے اصول کا نتیجہ یعنی تمام پہلے اصول کے نتیجہ میں بالشوزم نے تمام مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیا کیونکہ انہوں نے فیصلہ کر دیا کہ جو کچھ ملتا ہے لے مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ لو، زمینیں لے لو، جائدادیں لے لو، اموال لے لو اور اس طرح جتنا کسی کے پاس ہو جبرا اپنے قبضہ میں کرلو.دوسرے اصول کا نتیجہ یعنی ہاتھ سے کام کرنے دوسرے اصول کے مطابق بالشوزم نے ہر ہاتھ سے کام والے کو ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنا کرنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنے کا ذمہ لیا.مثلاً ایک گھر کے پانچ افراد ہیں وہ فوراً فیصلہ کر دیں گے کہ ان پانچ افراد کو اتنا کپڑا دے دیا جائے ، اتنا غلہ دے دیا جائے ، اتنا ایندھن دے دیا جائے ، اسی طرح ڈاکٹر مقرر کر دئیے جائیں گے جو بیماری پر اُن کا مفت علاج کریں گے.گویا اس طریق کے مطابق ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا ، کھانے کے لئے غلہ اور علاج کے لئے دوا مل جائے گی.حکومت کا کام ہوگا کہ وہ لسٹیں بنائے اور افراد کی جس قدر ضرورتیں ہوں پوری کر دے.اور واقع میں اگر غور کیا جائے تو بالشوزم نے اس مشکل کو دور کر دیا ہے اور اگر اس طریق سے کام لیا جائے تو کوئی شخص بھو کا یا ننگا نظر نہیں آسکتا سوائے اِس کے کہ کوئی مذہبی آدمی ہو جیسے پادری وغیرہ کیونکہ ان کے
۲۳ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نزدیک ہاتھ سے کام کے بغیر خالص دماغی قابلیتیں کسی کام کی نہیں ہوتیں.پس وہ پادریوں اور اسی قسم کے اور مذہبی آدمیوں یا علماء اور فلاسفروں وغیرہ کو نکتا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں انہیں اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا چاہئے ورنہ ان کے بھوکا رہنے کی حکومت پر ذمہ داری نہیں ہوگی.تیسرے اُصول کا نتیجہ یعنی حکومت کے مقرر کردہ تیسرے اصول کے مطابق انہوں نے زمینداروں اور معیار سے زائد اشیاء پر قبضہ کر لینے کا فیصلہ تاجروں وغیرہ سے ہر وہ چیز جو حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زائد ہولے لینے کا فیصلہ کیا.یعنی اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پچاس من غلہ پیدا کرتا ہے اور اس کی ضروریات کے لئے ہیں من غلہ کافی ہے تو تمیں من غلہ حکومت لے جائے گی اور کہے گی کہ یہ چیز چونکہ تمہاری ضرورت سے زائد ہے اس لئے اس پر حکومت کا حق ہے.یا ایک شخص کے پاس بہت بڑی زمین ہے اور اُس کا گزارہ تھوڑی سی زمین پر بھی ہوسکتا ہے تو جتنی زمین پر اُس کا گزارہ ہوسکتا ہے وہ اُس کے پاس رہنے دی جائے گی اور باقی زمین پر حکومت قبضہ کرلے گی.چوتھے اصول کا نتیجہ یعنی عملی آزادی کا فقدان چوتھے اصول کے مطابق زمیندار ، تاجر اور صنعت پیشہ لوگوں کی عملی آزادی کو اُس نے چھین لیا اور حکومت کے منشاء کے مطابق زراعت کرنا ، تجارت کرنا اور صنعت و حرفت اختیار کرنا لازمی قرار دیا.مثلاً کہہ دیا کہ فلاں سومیل کا جو علاقہ ہے اس میں صرف گندم بوئی جائے ، فلاں علاقہ میں صرف گنا بویا جائے اور فلاں علاقہ میں صرف کپاس بوئی جائے.ہمارے ملک میں تو زمیندار عام طور پر دو مرلہ میں جوار بو لیتے ہیں، دومرلہ میں کپاس بو لیتے ہیں اور دو مرلہ میں گنا بو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے ہیں گنے چوسیں گے اور اگر چھوٹے زمیندار ایسا نہیں کرتے تو جس کے پاس دس بارہ گھماؤں زمین ہو وہ تو ضرور ایسا کرتا ہے مگر بالشویک حکومت والوں نے علاقوں کے علاقوں کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ یہاں گندم نہیں بونی بلکہ گنا ہونا ہے.کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گندم بوئی جاتی ہے، کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گنا بویا جاتا ہے اور کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف کپاس ہوئی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں یہ علاقے اسی فصل کے لئے موزوں ہیں اس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ اسکے علاوہ اور کوئی فصل اس موسم کی وہاں نہ ہوئی جائے.اگر کوئی کہے کہ پھر میں کھاؤں گا
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کہاں سے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں روٹی کپڑا ہم دیں گے تمہیں اس کا کیا فکر ہے تمہیں فصل وہی بونی پڑے گی جس کا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں.اس طرح زمیندار کی حیثیت وہاں ایک مزدور کی سی ہوگئی ہے.پانچویں اُصول کا نتیجہ یعنی مذہبی نظام میں دخل پانچویں اصول کے مطابق انہوں نے مذہبی نظام میں دخل دیا اور پادریوں وغیرہ کو بغیر ہاتھ کی مزدوری کے روزی کا مستحق قرار نہ دیا.انہوں نے کہا کہ جب پادری کوئی ہاتھ کا کام نہیں کرتے تو یہ نکتے ہوئے اور سکتے لوگوں کو روزی نہیں دی جاسکتی پس وہ انہیں مجبور کر کے یا تو اور کاموں پر لگاتے ہیں اور یا پادری وغیرہ تھوڑا سا وقت عبادات میں گزار لیتے ہیں اور باقی وقت کسی کام میں بسر کر دیتے ہیں.دہریت پیدا کرنے کی تدبیر اسی مذہبی دشمنی کے سلسلہ میں انہوں نے ایک اور نئی تجویز نکالی اور مذہب کے متعلق انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب انفرادی آزادی کا نتیجہ ہونا چاہئے.ماں باپ اور بزرگوں کو بچپن میں مذہبی تعلیم دینے کا کوئی حق نہیں تعلیم گئی طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے.وہ کہتے ہیں دیکھو! بچوں پر یہ کیسا ظلم کیا جاتا ہے کہ بچپن میں ہی ان کے دلوں پر مذہب کا اثر ڈالا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو مسلمان ہوتے ہیں اُن کے بچے مسلمان بن جاتے ہیں، جو ہندو ہوتے ہیں ان کے بچے ہندو بن جاتے ہیں اور جو پارسی ہوتے ہیں اُن کے بچے پارسی بن جاتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے بلکہ بچوں کو ہر قسم کے مذہبی اثرات سے آزاد رکھنا چاہئے.جب بچہ جوان ہو جائے تو وہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے جوانی سے پہلے ہی زبر دستی اس کے دل پر اپنے مذہب کا اثر ڈالنا صریح ظلم ہے چنانچہ اس اصل کا نتیجہ مذہب کے حق میں زہر نکلا.وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اُن کے ماں باپ سے جدا کر لیتے ہیں اور اپنے سکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں جہاں مذہب کا نام تک بچہ کے کانوں میں نہیں پڑتا.جب وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور پکا دہر یہ بن جاتا ہے تو کہتے ہیں اب یہ جوان ہو گیا ہے اور اب اس کے سمجھنے کا زمانہ آ گیا ہے اب یہ جو چاہے مذہب اختیار کر لے حالانکہ اُس وقت اُس نے کیا سمجھنا ہے اُس وقت تو دہریت اُس کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہوتی ہے.غرض وہ کہتے ہیں ہم بچوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان کی سختی صاف رکھتے ہیں تاکہ بعد میں اس پر جو نقش چاہیں مثبت
۲۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کر لیں حالانکہ اس رنگ میں دل کی سختی صاف رکھنے کے معنے سوائے دہریت کے اور کچھ نہیں.جب وہ اٹھارہ بیس سال تک اپنے مطلب کی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں تو جوان ہونے پر اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے ان کے دل کی سختی بالکل صاف رکھی تھی صریح جھوٹ ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس طرح دل کی سختی صاف نہیں رکھتے بلکہ انہیں دہریت کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں پس اس اصل نے آئندہ نسلوں کو بالکل دہر یہ بنا دیا ہے.چھٹے اُصول کا نتیجہ یعنی غیر ممالک چھٹے اصول کے مطابق انہوں نے اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں جا کر اپنے میں اپنے خیالات کا پروپیگنڈا خیالات پھیلانے اور ریشہ دوانیاں کرنی شروع کر دیں.چونکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں اس لئے انہوں نے اپنے ایجنٹ جرمنی اور جاپان اور اٹلی وغیرہ میں بھجوانے شروع کر دیئے اور بیرونی ممالک میں ان کا نام کمیونسٹ پڑا.پنجاب میں بھی کمیونسٹ پائے جاتے ہیں، ہندوستان کے باقی صوبہ جات مثلاً بہار وغیرہ میں بھی ہیں.اس طرح مارکس (بنی اسرائیلی النسل المانوی المَوْلدُ) کے اصول کی حکومت روس پر ہوگئی اور یہ تحریک اس رنگ میں جاری ہوگئی کہ اس کے نتیجہ میں ہر شخص کو روٹی کپڑا ملے گا، غربت دُور ہوگی اور امراء اور غرباء میں مساوات قائم ہو جائے گی چونکہ اس تحریک کا اثر آہستہ آہستہ ساری دنیا پر پڑنے لگا اس لئے اس تحریک کا ایک اور نتیجہ بھی برآمد ہوا.یورپ میں بالشوزم کا رد عمل تین تحریکات کی صورت وہ یہ کہ جب بالشوزم کے میں یعنی فیسزم، ناٹسزم ایجنٹ سارے ملکوں میں پھیل گئے اور وہ دوسرے ممالک کو اورفیلنگس کا آغاز بھی اس تحریک کے زیر اثر لانے لگے تو یورپ کے بعض دوسرے ممالک جیسے جرمنی اور اٹلی جو اس بات کی خوا ہیں دیکھ رہے تھے کہ موجودہ طاقتور حکومتوں کے زوال پر دُنیا کی سیاست اور اقتصاد پر قابض ہوں گے انہوں نے اس میں اپنے خواب کی تخریب دیکھی.یہ ممالک سوچ رہے تھے کہ فرانس، انگلستان اور امریکہ بہت دیر تک دُنیا پر حکومت کر چکے ہیں اور اب ایک لمبے عرصہ کی حکومت کے بعد ان میں تعیش پیدا ہو چکا ہے اور یہ حکومتیں کمزور ہو رہی ہیں اب دنیا پر حکومت کرنا ہمارا حق ہے.پس جرمن، اٹلی اور
۲۶ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو سپین والے جو یہ خواہیں دیکھ رہے تھے کہ انگلستان ، فرانس اور امریکہ کی حکومتیں اب بوڑھی ہوچکی ہیں اُن کی جگہ اب ہمیں موقع ملنا چاہئے تا کہ ہم بھی حکومت کا مزا اُٹھائیں وہاں جب یہ تحریک پہنچی تو ان کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی.اُن کی حالت ایسی ہی تھی جیسے چیلیں اور گد ھیں جب کسی بیل کو دم تو ڑتا ہوا دیکھتی ہیں تو بڑے مزے سے اس انتظار میں بیٹھ رہتی ہیں کہ کب یہ بیل مرے کہ ہم اسے نوچ نوچ کر کھا جائیں اسی طرح جرمن اور اٹلی والے دیکھ رہے تھے کہ کب انگلستان، فرانس اور امریکہ کا زور ٹوٹے کہ ہم اُن کی حکومتوں پر قابض ہو جائیں اور جس طرح ایک لمبے عرصہ تک انہوں نے دُنیا کی دولت سے فائدہ اُٹھایا ہے اسی طرح ہم بھی اُٹھا ئیں.ان لوگوں کو اس تحریک سے سخت تشویش پیدا ہوئی کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئندہ حکومت ملے اور یہ تحریک سب حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک کا رد عمل ان ممالک میں پیدا ہوا.چنانچہ اٹلی میں مسولینی کے ذریعہ فیسزم پیدا ہوا، جرمنی میں اس کا توڑ ہٹلر نے ناٹسزم کے ذریعہ نکالا اور سپین میں فرینکو اور فیلنگس تحریک نے سر اُٹھایا.بالشوزم کے مقابلہ میں نئی تحریکات کا مقصد ان تینوں تحریکات کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا بالشوزم کا مقابلہ کرنا.انہوں نے سمجھا کہ اگر یہ خیالات لوگوں میں پھیل گئے تو ہماری ترقی بالکل رُک جائے گی.چونکہ عوام الناس پر بالشویک تحریک کا اثر لازمی تھا اس لئے غرباء اس تحریک کے حامی تھے کیونکہ وہ کہتے تھے اس ذریعہ سے ہمیں کپڑے ملیں گے ، کھانا ملے گا، دوا ملے گی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا.دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں.ہندوستان میں بھی کئی لوگ بالشویک تحریک کے حامی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت میں سرکار کے آدمی ہر شخص کے پاس آتے اور اُسے سلا سلا یا پاجامہ اور سلی سلائی قمیص دے دیتے ہیں، اسی طرح کھانے کے لئے جس قدر غلہ ضروری ہو وہ دے دیتے ہیں یا اور جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے حکومت فوراً مہیا کر دیتی ہے.وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر یہ تحریک جاری ہو جائے تو دُنیا کا تمام موجودہ نظام تو ڑ کر بے شک ہر شخص کو روٹی کپڑا ملے گا لیکن جو بچے گا وہ سر کا ر لے جائے گی مگر عام لوگ ان باتوں کو نہیں دیکھتے وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں ہمیں روٹی کپڑا ملے گا اور کوئی شخص نگا یا بھوکا نہیں رہے گا.
۲۷ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو غرض جرمنی اور اٹلی اٹلی اور جرمنی کی طرف سے بالشوزم کے خلاف اور ناتسزم میں بھی عوام الناس فیسزم کی حمایت میں پروپیگنڈا کے مختلف ذرائع پر اس تحریک کا اثر ہونے لگا اور لوگ یہ کہنے لگ گئے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے.اس سے ہر شخص کو آرام حاصل | ہو جائے گا اور دُکھ درد جاتا رہے گا.آخر ہٹلر اور مسولینی نے اس کا توڑ نکالا اور لوگوں جرمنی اور اٹلی کی طرف سے بالشوزم سے کہا کہ تم فکر نہ کرو ناٹسزم اور فیسزم کے خلاف پروپیگنڈا کا پہلا ذریعہ بھی امیروں کے مالوں پر قبضہ کرے گی اور ملک کی تمام تجارتوں اور صنعت و حرفت پر قبضہ کر کے غریبوں کو اُن کا حق دلوائے گی.پس آئندہ براہ راست مزدور اور سرمایہ دار کا تعلق نہیں ہوگا بلکہ حکومت کے توسط سے ہوگا اور اس طرح انہیں وہ تکلیف نہیں ہوگی جو تاجروں سے پہنچتی ہے یا کارخانہ داروں سے پہنچتی ہے کیونکہ ہماری حکومتیں تجارتوں اور صنعت و حرفت پر خود قبضہ رکھیں گی اور اس طرح غریبوں کا حق انہیں دلوائیں گی.ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو مالدار بنانے کے لئے بڑے بڑے کارخانوں کی ضرورت ہے، بڑی بڑی تجارتوں کی ضرورت ہے تا کہ مالداروں سے مال لے کر تمہاری بہتری پر خرچ کیا جا سکے اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ بیرونی ممالک سے تجارت جاری رکھی جائے اور اس طرح اُن کے مال کو ٹوٹ کر اپنے ملک کے غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے مثلاً انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم چین کو نہیں ٹوٹ سکتے.تم امریکہ، انگلستان یا فرانس کو نہیں ٹوٹ سکتے ، ٹوٹنے کا طریق یہی ہے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے جہاز ہوں ، بڑے بڑے کارخانے ہوں ، بڑی بڑی تجارتیں ہوں اور ہمارے تاجر باہر جائیں اور ان ممالک کے اموال کوٹ کر لے آئیں.پس انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو سبق دیا کہ تم ان بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو پھر ان سے مال چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے.اگر ایسا نہ ہوا تو وہی مثال ہو جائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی اُسکے دل میں حرص پیدا ہوئی کہ اگر میں اسے زیادہ کھلاؤں گا تو یہ دو انڈے روزانہ دیا کرے گی چنانچہ ایک دن اُس نے اسے خوب کھلا یا مگر
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مرگئی اور آئندہ سونے کا انڈہ ملنا بند ہو گیا.یہی بات جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں نے اپنی رعایا کے کانوں میں ڈالی کہ اگر اُمراء کو ایک دفعہ لُوٹ لیا اور پھر انہیں کمانے کا موقع نہ دیا تو وہ غریب ہو جائیں گے اور اُن کی ٹوٹ میں تم ایک دفعہ ہی حصہ لے سکو گے لیکن اگر تم ایک دفعہ لوٹ لو اور پھر انہیں کمانے کی اجازت دے دو اور جب کچھ عرصہ کما چکیں تو پھر ٹوٹ لو تو اس طرح بار بار اُن کے مال تمہارے قبضہ میں آتے چلے جائیں گے.پس انہوں نے کہا کہ ان بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو جب یہ مال کما کر لائیں گے تو وہ تمہیں دے دیئے جائیں گے.دوسرے انہوں نے اپنے ملک بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا دوسرا ذریعہ کے لوگوں کو یہ بتایا کہ بالشوزم امپیریلزم کی مخالف ہے اور چاہتی ہے کہ غیر ملکیوں کی حکومت نہ ہو مگر حالت یہ ہے کہ انگریزوں نے ایک مدت تک ملکوں پر حکومت کر کے دُنیا کے اموال خوب جمع کر لئے ہیں یہی حال امریکہ اور فرانس کا ہے کہ وہ دُنیا کی سیاست اور اقتصاد پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں مگر جب ہماری باری آئی ہے تو اب یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ اس کا یہ نقصان ہے وہ نقصان ہے ہم ان دلیلوں کو نہیں مانتے.ہم بھی انکی طرح غیر ملکوں پر قبضہ کریں گے اور ان کے اموال لا کر اپنے ملک کے غرباء میں تقسیم کریں گے.غریبوں کو یہ بات طبعاً بہت اچھی لگی اور انہوں نے بھی آخر اس تحریک کی تائید کرنی شروع کر دی.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا تیسرا ذریعہ پھرانہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو بتایا کہ بالشویک تحریک خود بخود زور نہیں پکڑ رہی بلکہ دراصل امریکہ، فرانس اور انگلستان والے اس کی مدد کر رہے ہیں تا کہ جرمنی اور اٹلی والے ان کی دولت میں حصہ دار نہ بن سکیں.اس سے ملک میں بالشوزم کے خلاف اور بھی جوش پیدا ہو گیا.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چوتھا ذریعہ پھر انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک اور بات بتائی اور کہا دیکھو! اگر آج ہم اپنے ملک کے امیروں کو لوٹ لیں گے تب بھی ہمارا اقتصادی معیار زیادہ بلند نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی غریب ہے اور اس کے پاس دولت بہت کم ہے اور ۲۸
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو تھوڑی دولت کی تقسیم ملک کے افراد کو آسودہ حال نہیں بنا سکتی.فرض کر و ۱۰۰ غرباء ہوں اور پچاس روپے ہوں تو ہر غریب کو آٹھ آٹھ آنے ملیں گے مگر آٹھ آنے سے اس کی مالی حالت سُدھر نہیں سکتی پس انہوں نے غرباء سے کہا کہ ہمارے ملک پہلے سے غریب ہیں اگر ان میں بالشویک تحریک آ بھی جائے تب بھی سارے ملک کا اقتصادی معیار اتنا بلند نہیں ہوگا جتنا کہ بغیر بالشوزم کے انگلستان، فرانس اور امریکہ میں ہے پس بالشوزم ان ممالک کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی ہاں اگر فیسزم اور ناٹسزم کی جارحانہ پالیسی کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک طرف تو ان کا طاقت پکڑنے والا نظام امریکہ ، انگلستان اور فرانس کو شکست دے کر ان کی دولت کو کھینچ لائے گا اور دوسری طرف دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے اُن کی دولت سے ان ممالک کو مالا مال کیا جا سکے گا.نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت کی فراوانی کے بعد نیشنل سوشلسٹ حکومت کے نظام کے ماتحت غرباء کی حالت اس سے کہیں بہتر ہوگی جتنی کہ بالشویک رواج کے ماتحت ہوسکتی ہے کیونکہ تھوڑی دولت کی تقسیم آخر ملک کے ہر فرد کو آسودہ نہیں بنا سکتی مگر زیادہ دولت کی تقسیم نیشنلسٹ انتظام کے ماتحت ملک کے تمام افراد کو زیادہ سکھیا بنادے گی.اٹلی اور جرمنی میں ناٹسزم اور فیسزم کی قبولیت یہ سارے نظریے ایسے تھے کہ باوجود اس کے کہ اٹلی ، جرمنی اور سپین میں بالشوزم کے ایجنٹ موجود تھے ، لوگوں نے ناٹسزم اور فیسزم کی طرف توجہ کرنی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے کہا ہمارا پیٹ فیسزم اور ناٹسزم سے زیادہ بھرتا ہے بالشوزم سے زیادہ نہیں بھرتا.پس انہوں نے اپنے ملک کے لیڈروں کو طاقت دینے کا تہیہ کر لیا تا کہ وہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کو شکست دے کر ان ملکوں کی دولت کو کھینچ لائیں اور جرمنی، اٹلی اور سپین میں تقسیم کر دیں.بالشوزم کے خلاف پروپیگینڈے کا پانچواں ذریعہ یعنی یہ جو پیشل سوشلزم والے لوگ تھے انہوں نے بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب کو مٹانے کی کوشش ایک اور بات بھی پھیلائی اور وہ یہ کہ جس طرح بالشویک تحریک کے ذریعہ امریکہ ، انگلستان اور فرانس والے ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں اسی طرح یہ مالدار اقوام اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا کئے رکھتی ہیں اس لئے کوئی ۲۹
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ایسا مذہب ملک میں مقتدر نہیں ہونا چاہئے جو بیرونی اقتدار کے اثر کے نیچے ہو.چنانچہ اسی بناء پر ہٹلر نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا بلکہ اس ڈر سے کہ آئندہ اسرائیلی نسل کے لوگ بالشوزم کا اثر نہ پھیلائیں کیونکہ روس میں اسرائیلیوں کو اقتدار حاصل ہے اس نے عیسائی اسرائیلیوں کو بھی تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا.ہٹلر یہودیوں کا اسی لئے مخالف ہے کہ اس کا اصل یہ ہے کہ ایسے تمام مذاہب جن کے مرکز جرمنی سے باہر ہیں انہیں ملک میں طاقت پکڑنے نہیں دینا چاہئے یہی بنا ء اس کی رومن کیتھولک سے مخالفت کی ہے.باقی لوگوں کا چونکہ باہر کوئی مذہبی مرکز نہیں اس لئے وہ سمجھتا ہے ان کی نگاہ جرمنی سے باہر کسی اور طرف نہیں اُٹھے گی.گویا اُن کا جو مذہب ہوگا اس میں وہ منفرد ہوں گے خواہ اس میں کس قدر وحشیانہ احکام کیوں نہ پائے جاتے ہوں.بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب اس اثر کے ماتحت جرمنی میں ایسی مذہبی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں جو پرانے اصنام پرستی کے کو مٹانے کی کوششوں کا نتیجہ عقائد کی طرف لوگوں کولے جاتی ہیں چنانچہ ایک تحریک جس میں جنرل لوڈن ڈروف ۵ اور اُن کی بیوی نے بہت سرگرمی دکھائی، یہ ہے کہ پُرانے زمانہ میں جرمن گنے کی پوجا کیا کرتے تھے اب پھر جرمنوں کو اسی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ ہٹلر کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ایسا طریق اختیار کرو کہ کوئی قوم اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا نہ کر سکے اور چاہئے کہ کوئی ایسا مذ ہب ملک میں نہ ہو جس کا مرکز جرمن سے باہر ہو اسی بناء پر جرمنی نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا ہے.اٹلی والوں نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روم ہی رومن کیتھولک مذہب کا مرکز تھا اور اس وجہ سے فاشسٹ پارٹی نے اس مذہب کی اتنی مخالفت نہیں کی مگر اس کے اقتدار کو کم کرنے کی ضرور کوشش کی تاکہ ملک کی مذہبی جماعت سیاسی جماعت کے کام میں رخنہ پیدا نہ کرے.بعد میں ہٹلر کے اثر کے ماتحت اسرائیلیوں کی مخالفت بھی انہوں نے شروع کر دی کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ ایک طرف یہ قوم بالشویک اثر کو پھیلاتی ہے اور دوسری طرف برسر اقتدار حکومتوں میں خاص نفوذ رکھنے کی وجہ سے اُن کے اثر کو مضبوط رکھتی ہے.سپین نے بالشویک اور موجودہ برسر اقتدار اقوام کی مخالفت تو کرنی شروع کی لیکن یہودیوں کی ابھی اتنی مخالفت شروع نہیں کی جتنی جرمنی اور اٹلی میں ہوتی ہے ہے.
۳۱ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہٹلر بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چھٹا ذریعہ یعنی پھر ایک اور نظریہ انظر اور مسولینی نے پبلک کو جوش آرین نسل کے لئے استحقاق حکومت کے خیال کی اشاعت دلانے اور ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ پھیلایا کہ دُنیا میں ارتقاء کے مسئلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں سب سے بہتر چیز ہی آگے بڑھتی ہے اور اس کے بڑھنے سے ہی دُنیا کا ہرا گلا قدم ترقی کی طرف جاتا ہے.اسی نظریہ کے ماتحت اس نے کہا کہ چونکہ آرین نسل سب قوموں سے زیادہ قابل ہے اس لئے جرمن نسل کو خصوصاً اور باقی آرین نسلوں کو عموماً آگے لانا چاہئے.اس موقع پر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہٹلر اس بات میں پنڈت دیا نند کا شاگرد ہے کیونکہ سب سے پہلے پنڈت دیانند صاحب نے ہی یہ خیال پھیلایا کہ آرین نسل سب نسلوں سے اعلیٰ ہے بہر حال جرمن چونکہ آرین نسل میں سے ہیں اور آرین نسل ہٹلر کے اصول کے مطابق سب سے اچھی ہے اس لئے ہٹلر نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ جو اعلیٰ نسل ہوا سے ہی حکومت ملنی چاہئے.وہ کہتا ہے دیکھو ! لوگ اچھا گھوڑا پیدا کرتے ہیں ، اچھی گائے پیدا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ناقص گھوڑوں اور ناقص گائیوں کی بجائے اعلیٰ عمدہ نسل کے گھوڑے اور گائیں رکھیں پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت میں اس امر کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اور اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ دنیا میں زیادہ قابل لوگ ہی حکومت کے اہل ہوتے ہیں.چونکہ اس وقت ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم دوسروں کو غلام بنا کر رکھیں جیسے انسان گدھے کو غلام بنا کر رکھتا ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ گدھے کے تابع ہو کر چلے جس طرح گدھے کو اپنے ماتحت رکھنا ظلم نہیں کہلا سکتا اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے ماتحت کریں اور اُن پر حکومت کریں.یہ نظریہ بھی لوگوں کو بڑا پسند آیا اور اس طرح ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ اُن کا تمام ملک ہو گیا.خلاصہ یہ کہ غربت کے دُکھ درد کو دور کرنے کے لئے اس وقت تین تحریکیں دُنیا میں زور پر ہیں.موشلزم کے ذریعہ انگلستان، فرانس اول برسر اقتدار ممالک کی سوشلزم جو آہستہ اور امریکہ کے مزدوروں کو فائدہ آہستہ اپنے ملکوں میں غرباء کو زیادہ حقوق دلانے اور حکومت کو ملک کی دولت پر زیادہ تصرف دلانے کی تائید میں ہے یہ تحریک انگلستان، فرانس
نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ اور امریکہ میں جاری ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مزدور پیشہ لوگوں کو حکومت میں زیادہ تصرف دلایا جائے ، غرباء کو زیادہ حقوق دلائے جائیں اور ملک کی تجارت کو اتنا بڑھایا جائے کہ غرباء کی غربت دُور ہو جائے.ان ممالک میں چونکہ یہ تحریک ایک عرصہ سے جاری ہے اس لئے اس کا ان ممالک کے غرباء کو اس حد تک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے ملک کا امیر اور انگلستان کا غریب دونوں برا بر ہوتے ہیں.یہاں کسی کی تنخواہ تین سو روپے ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو رئیس سمجھنے لگتا ہے.ہمارے ملک میں بڑا عہدہ ڈپٹی کا ہے یا حج کا ہے اور سب حج اور ڈپٹی کو اڑھائی سو روپے تنخواہ ملا کرتی ہے مگر یہ انگلستان میں ایک مزدور کی تنخواہ ہے.امریکہ میں تو اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیں وہاں بعض جگہ معمولی مزدور کی ماہوار تنخواہ ڈیڑھ ڈیڑھ سو دو دو سو ڈالر ہوتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ سو یا سات سو روپیہ ماہوار مگر وہ کہلا تا مزدور ہے.غرض انہوں نے ایک تو معیارِ زندگی کو بڑھا لیا ہے دوسرے انہوں نے یہ اصول مقرر کیا ہوا ہے کہ ملک کی تجارت اور اقتصادی حالت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اِس طرح ملک کی دولت بڑھے گی اور جب ملک کی دولت بڑھے گی تو غرباء کو بھی ترقی حاصل ہوگی.یہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی تحریک سوشلزم کے نتائج ہیں لیکن اس تحریک کی ہمدردی زیادہ تر اپنے ملک کے غرباء کے ساتھ ہے.وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی بھی کچھ اشک شوئی کریں مگر یہ نہیں چاہتے کہ دوسرے ممالک میں جو اُن کی اقوام کو نفوذ اور اقتدار حاصل ہے وہ مٹ جائے.ہندوستان کا سوال آجائے تو وہ ضرور اشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے مگر جب بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو کچھ دے دیا جائے اُس وقت وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے اقتدار میں کوئی فرق آئے.گویا ان کا ہندوستانیوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے ایک پالتو جانور کو اچھی غذا دی جاتی ہے.پالتو جانور کو اچھی غذا دینے والا اچھی غذا تو دیتا ہے مگر اپنی غذا کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا اسی طرح یہ لوگ ہندوستان کو جب بھی کوئی حق دینا چاہتے ہیں ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی امپیریلزم کو کوئی نقصان نہ پہنچے.آج ہمارا مزدور چارسو روپیہ ماہوار لیتا ہے اگر گل وہ دو سو روپیہ تک پہنچ گیا تو ہماری حالت بھی وہی ہو جائے گی جو ہندوستان اور افغانستان کے غرباء کی ہے.اس تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو سوشلزم تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات یعنی غیر ملکوں اول اس تحریک کو ساری دنیا سے ہمدردی نہیں سے ہمدردی کا فقدان اور مذہب سے بے توجہی بلکہ اپنے اپنے ملک سے ہمدردی ہے.گویا یہ تحریک مخفی امپیریلزم کی شریک حال ہے اور انٹر نیشنلزم کا ساتھ صرف اس لئے دیتی ہے کہ دوسری اقوام آگے نہ بڑھیں.دوسرا نقص اس تحریک میں یہ ہے کہ اس میں صرف دنیوی پہلو کو مدّ نظر رکھا گیا ہے مذہبی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے.گویا اگر پہلے نقص کو یہ تحریک ڈور بھی کر دے اور اس نظام کے اصول میں ساری دنیا سے ہمدردی کرنا شامل کر لیا جائے تب بھی مذہب کا خانہ خالی ہے حالانکہ جسمانی ضرورتوں سے مذہبی اور دینی ضرورتیں زیادہ اہم ہوا کرتی ہیں.یہ لوگ مذہب کے دشمن نہیں مگر انہیں مذہب سے ہمدردی بھی نہیں اور جب ہمدردی نہیں تو انہوں نے مذہب کے لئے خرچ کیا کرنا ہے؟ دوسری تحریک اس مرض کا علاج کرنے کے لئے وہ جاری کی گئی ہے جو روس میں پائی جاتی ہے اور جس کا نقطہ مرکزی یہ ہے کہ انفرادی جد وجہد کو بالکل مٹادیا جائے اور جس قدر دولت ہو وہ حکومت کے ہاتھ میں آجائے جو لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں ان کے لئے تو مناسب گذارے مقرر کر دیئے جائیں مگر خالص علمی اور مذہبی کام کرنے والوں کو عضو بیکار قرار دے کر حکومت کی مدد سے محروم کر دیا جائے اور عام گذارہ سے زیادہ بچی ہوئی تمام دولت حکومت کے ہاتھ میں ہو اور کام اور مقام کا فیصلہ بھی حکومت کرے اور ماں باپ کو مذہب کی تعلیم دینے کا اختیار نہ دیا جائے اور اس تحریک کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے یہاں تک کہ دنیا کی سب اقوام اس تحریک میں شامل ہو جائیں.گو یہ لوگ اقتدار عوام کے حامی ہیں مگر شروع میں ایک لمبے عرصے تک یہ اقتدار عوام کو سونپنے کے لئے تیار نہیں.یہ تحریک روس میں بالشوزم اور کمیونزم (COMMUNISM) اور دوسرے ممالک میں کمیونزم کہلاتی ہے.اس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں:- کمیونزم کے سات اصولی نقائص.پہلا نقص اول- انفرادی جد و جہد کا راستہ بالکل.بین بند کر دیا گیا ہے یہ اس تحریک میں ایک یعنی انفرادی جد وجہد کے رستہ کی بندش خطرناک نقص ہے جو گو اس وقت محسوس نہیں کیا جاتا مگر بعد میں کسی سمسم
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو وقت ضرور محسوس کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ جس کام سے اُس کا ذاتی فائدہ ہو یا جس کام کے نتیجہ میں اُس کے ذریعہ سے دوسروں کا فائدہ ہو اس میں تو وہ دلچسپی لیتا ہے مگر جس کام کا فائدہ اُسے یا دوسروں کو کسی دوسرے کے ہاتھ سے پہنچے اُس میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتا.جب تم کسی کے دماغ سے اس رنگ میں کام لو گے کہ خواہ اس کام کا نتیجہ اسے نظر آئے یا نہ آئے وہ کرتا چلا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اس کام میں دلچسپی نہیں لے گا کیونکہ دلچسپی نتیجہ نظر آنے سے ہوتی ہے.اب تو جو شخص تعلیم حاصل کرتا ہے وہ سمجھتا ہے اگر میں ایم.اے ہو گیا یا یونیورسٹی امتحان میں فرسٹ (FIRST) نکل آیا تو مجھے کوئی اعلیٰ ملازمت مل جائے گی یا کوئی خیال کرتا ہے کہ میں فوج میں لیفٹینٹ ہو جاؤں گا، کوئی خیال کرتا ہے میں ای.اے.سی ہو جاؤں گا، کوئی خیال کرتا ہے میں بڑا تاجر ہو جاؤں گا اور اس طرح خود بھی روپیہ کماؤں گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کی بھی خدمت کروں گا.اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم میں بڑی دلچسپی لیتا ہے لیکن فرض کرو یہ محرک جاتا رہے اور حکومت فیصلہ کر دے کہ جس قدر طالب علم پڑھ رہے ہیں سب کو پندرہ پندرہ روپے ملیں گے جو پرائمری پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو پرائمری فیل ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو ایم.اے پاس ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے اور جو انٹرنس پاس ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوگا کہ دماغ کی کاوش، محنت اور جوش سب ختم ہو جائے گا اور ایک عام انسان کہے گا مجھے محنت کی کیا ضرورت ہے.میرا دوست روز سینما دیکھتا ہے میں بھی کیوں سینمانہ دیکھا کروں اور کیوں ایم.اے بنے کی کوشش کروں.ایف اے تک ہی تعلیم حاصل کر کے کیوں نہ ختم کر دوں.جب مجھے آخر میں پندرہ روپے ہی ملنے ہیں تو زیادہ تعلیم حاصل کرنے اور زیادہ جد وجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے.بہت تھوڑی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جنہیں علم سے ذاتی شغف ہو اور جنہیں اگر مار پیٹ کر بھی تعلیم سے ہٹانا چاہیں تو وہ نہ ہیں.زیادہ تر ایسے لوگ ہی نکلیں گے جو ان حالات میں تعلیم سے دلچسپی لینا ترک کر دیں گے اسی طرح ہر فن کے لوگ اپنے اپنے فن میں دلچسپی لینا ترک کر دیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ انسانی دماغ کرنا شروع ہو جائے گا اور وہ خواص جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں مٹ جائیں گے.یہ مت سمجھو کہ باپ کے خواص بیٹے میں منتقل نہیں ہو سکتے کیونکہ تجر بہ بتا تا ہے کہ جولوگ بوم سم
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اچھے حساب دان ہوں اُن کی اولاد میں عام طور پر اچھے حساب دان پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح جو شخص جس فن کا ماہر ہو وہ فن بالعموم ورثہ کے طور پر اُس کی اولاد میں منتقل ہو جاتا ہے.اسی وجہ سے بعض خاندان اور بعض اقوام خاص خاص علوم اور خاص خاص فنون میں ماہر سمجھی جاتی ہیں.مثلاً اٹلی میں اچھے مصوّر اور اچھا با جا بجانے والے پائے جاتے ہیں، کشمیری کھانا پکانے کا فن اور خوشخطی کا فن خوب جانتے ہیں ، یہی حال بعض اور قوموں کا ہے.یہ چیز نسلی طور پر بھی ترقی کرتی ہے.چنانچہ جو شخص بہادر ہو اُس کا بیٹا بالعموم بہادر ہی ہوتا ہے پنچابی میں اسے تخم تأثیر کہتے ہیں.اور سائنس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اخلاق کے ذرات خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے، نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں.جس قسم کے اخلاق کسی انسان میں پائے جاتے ہیں اُسی قسم کے ذرے اُس کی نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں.شجاعت، صداقت، عفت علم سے شغف یا اس قسم کے اور اخلاق نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں.ایسے ذرات کبھی دوسری پشت میں کبھی چوتھی پشت میں اور کبھی آٹھویں یا دسویں پشت میں ظاہر ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ ذرات اُس کے کسی پڑدادا بلکہ نکڑ دادا میں پائے جاتے تھے.پنچابیوں نے اسی سے تخم تأثیر کا اصل نکالا ہے.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحبت کا اثر بھی بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی مجبہ نہیں کہ نسلاً بعد نسل بعض اخلاق وصفات منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں مگر یہ چیز قدرتی طور پر اُن قوموں میں بہت کم ہو جائے گی جن پر بالشویک تحریک کا اثر ہو کیونکہ ترقی کے لئے وسعتِ خیال کے مادہ کا ہونا اور کسی محرک کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس تحریک میں اس محترک کو بہت کمزور کر دیا گیا ہے.کمیونزم کا دوسرا نقص یعنی جبر و اکراہ اور اس کا نتیجہ دوسراقص اس تحریک میں یہ ہے کہ جبر کا دروازہ کھول کر فساد کو جاری کر دیا گیا ہے.اگر اس تحریک کے بانی یہ کرتے کہ آہستگی سے اُمراء کو عادی بنا کر اُن سے دولت لے لیتے تو اس میں کوئی حرج نہ تھا مگر انہوں نے یکدم اُن کی دولت کو لوٹ لیا اور وہ جو ہر وقت نوکروں کے جمگھٹے میں رہتے تھے انہیں اس سے محروم کر دیا.گویا دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ انہیں محلات سے اُٹھا کر چوہڑوں کے مکانوں میں بھیج دیا.اس قسم کے تغیرات کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فساد شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ہر تغیر سے پہلے اُس کے مناسب حال ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اچھا باغبان جب کسی ۳۵
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو درخت کو اُکھیڑ تا ہے تو مناسب ماحول میں اُکھیڑتا اور مناسب ماحول میں ہی دوسری جگہ لگاتا ہے اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ درخت کبھی پھل نہیں لا سکتا.اس تحریک میں چونکہ اس اصل کو مد نظر نہیں رکھا گیا اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ پرانے اُمراء بھاگ بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور وہاں کے رہنے والوں کو روس کے خلاف اکسانے لگ گئے.کبھی امریکہ کو کبھی انگلستان کو اور کبھی فرانس کو تاکہ وہ اِن ملکوں کو اُکسا کر روس کے خلاف کھڑا کر دیں اور اس طرح اگر وہ خود تباہ ہوئے ہیں تو روس بھی تباہ ہو جائے.کمیونزم کا تیسرا نقص یعنی مذہب کی مخالفت اور اس کا نتیجہ میرے انہوں نے مذہب کی مخالفت کر کے سب مذہبی دُنیا کو اپنا مخالف بنا لیا ہے.یہ لازمی بات ہے کہ جو لوگ مذہب سے محبت رکھنے والے ہونگے وہ اس تحریک کے کبھی حامی اور مؤید نہیں ہوں گے.کمیونزم کا چوتھا نقص یعنی ملک میں ڈکٹیٹری کی ترویج چوتھے انہوں نے ڈکٹیٹری کے لئے رستہ کھولا ہے..بے شک یہ لوگ اصولاً اقتدار عوام کے حامی ہیں مگر جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں وہ شروع میں ہی یہ اقتدار عوام الناس کو سونپنے کے لئے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں ابتداء میں ڈکٹیٹر شپ ضروری چیز ہے مگر اس کی کوئی حد مقرر نہیں.لینن کے بعد سٹالن ڈکٹیٹر بن گیا ، سٹالن کے بعد مولوٹوف بن جائے گا پھر کسی اور ٹوف کی باری آ جائے گی.اس طرح یہ تحریک عملی رنگ میں ڈکٹیٹری کے لئے راستہ کھولنے والی ہے.کمیونزم کا پانچواں نقص یعنی علم کے راستہ میں رکاوٹ پانچواں اس تحریک کا ایک لازمی نتیجہ علم کے راستہ میں رُکاوٹ کا پیدا ہونا ہے.اس رنگ میں بھی کہ جب ہر شخص کو پندرہ پندرہ یا بہیں ہیں رو پے ملیں تو علمی ترقی کی تڑپ اُس کے دل میں نہیں رہ سکتی اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ خواہ میں تھوڑا علم حاصل کروں یا بہت جب مجھے معاوضہ میرے گزارہ کے مطابق مل جائے گا تو میں زیادہ علم کیوں حاصل کروں.اور اس رنگ میں بھی کہ دماغی اور علمی ترقی کے لئے دوسرے ملکوں میں جانا اور ان کے حالات کا دیکھنا ضروری ہوتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہی قو میں دُنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں جن کے افراد کثرت سے غیر ملکوں میں جاتے اور وہاں سے مفید معلومات سم
۳۷ انوار العلوم جلد ۱۶.نظام تو وہ حاصل کرتے ہیں.اگر چند مخصوص آدمی غیر ممالک کی سیر کے لئے جائیں تو وہ کبھی بھی معلومات حاصل نہیں کر سکتے جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام کے لوگ غیر ممالک میں جا کر حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دماغ میں مختلف قسم کی قابلیتیں رکھی ہیں.کسی بات میں چینی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں جاپانی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں ایرانی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں فرانسیسی دماغ اچھا کام کرتا ہے اور کسی بات میں ہندوستانی دماغ اچھا کام کرتا ہے.ڈھاکہ کی ململ بڑی مشہور تھی جو یہاں کے جولا ہے تیار کیا کرتے تھے.انگریزوں نے بڑی بڑی مشینیں نکالیں اور اچھے سے اچھے کپڑے تیار کئے مگر ڈھاکہ کی ململ وہ اب تک نہیں بنا سکے.اسی طرح مصری لوگ ممی بنانے میں بڑے مشہور تھے.اب بظاہر انگریز اور فرانسیسی علم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں مگر سارا زور لگانے کے باوجود وہ اب تک ویسا مصالحہ تیار نہیں کر سکے جو مصری تیار کیا کرتے تھے.میں نے خود ممی کی ہوئی لاشیں دیکھی ہیں ایسی تازہ معلوم ہوتی ہیں گویا ابھی انہوں نے دم تو ڑا ہے حالانکہ انہیں فوت ہوئے کئی کئی ہزار سال گزر چکے ہیں یہاں تک کہ اُن کے جسم کی چکنائی تک صاف نظر آتی ہے اس کے مقابلہ میں اب جو لاشوں کی حفاظت کے لئے مصالحہ لگایا جاتا ہے وہ تھوڑے عرصہ میں ہی خراب ہو جاتا ہے.اب دیکھو یہ مصریوں کے دماغ کی ایک ایجاد تھی جس کا اب تک لوگ پتہ نہیں لگا سکے.اسی طرح دہلی میں ایک حمام تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس کے نیچے ایک دیا جلا کرتا تھا اور اُس دِیے کی وجہ سے وہ حمام ہمیشہ گرم رہتا.کہتے ہیں جب دہلی میں انگریزوں کا تصرف بڑھا تو انہوں نے کہا ہم اسے تو ڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ حمام کس طرح ایک دیے سے گرم ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اُسے تو ڑ دیا مگر پھر دوبارہ اُن سے ویسا نہیں بن سکا.تو مختلف دماغ مختلف کاموں سے شغف رکھتے ہیں جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو ایک کے دماغ کو دوسرے سے روشنی ملتی ہے اور اس طرح ذہنی اور علمی ترقی ہوتی رہتی ہے.جب ہم کسی زمیندار کے پاس بیٹھتے اور اس سے باتیں کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، بڑھئی کے پاس بیٹھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس بڑھئی کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور اُن سے مل کر اور باتیں کر کے ہمیں کئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہماری رُوح میں بھی زندگی پیدا ہوتی ہے.اسی طرح جب ہم کشمیر یا یو.پی میں چلے جاتے ہیں تو ہمیں نیا علم حاصل ہوتا ہے اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سِيرُوا
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو في الأرضِ یعنی اگر تمہیں توفیق ملے تو تم دُنیا کی سیر کیا کرو تا کہ تمہاری معلومات میں اضافہ ہو اور تمہاری دماغی اور علمی ترقی ہو.جب کوئی شخص عرب جائے گا تو ایک طرف وہ سمندر کی سیر کا لطف اُٹھائے گا، دوسری طرف وہ اِس سفر میں ایران اور عراق اور دوسرے کئی ملکوں کو دیکھ لے گا اور اس طرح بہت سی مفید معلومات حاصل کرلے گا لیکن اگر سارے ملک کے لوگوں کو ایک جیسے پیسے ملیں ، ایک جیسا نمک اور ایک جیسا مرچ مصالحہ ملے تو وہ غیر ملکوں کی سیر کے لئے کس طرح جا سکتے ہیں.پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کوئی مالدار ہوتا تھا اور کوئی غریب.مالدار سیر کے لئے غیر ممالک میں چلے جاتے تھے لیکن اس تحریک کے بعد جب سب کو ایک معیار پر کھڑا کر دیا جائے گا اور ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ سب کو صرف گزارہ کے مطابق اخراجات ملیں گے تو وہ غیر ملکوں کی سیاحت کس طرح کریں گے اور جب سیاحت نہیں کریں گے تو علمی ترقی کا یہ دروازہ اُن پر بند ہو جائے گا حالانکہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ جماعتیں ایسی ہوں جو اپنا فارغ وقت اس کام میں صرف کریں کہ غیر ملکوں میں جائیں ، ہئیر میں کریں اور وہاں کے اچھے خیالات اپنے ملک میں پھیلائیں.وہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے کارندے ایسے سفر کر سکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ حکومت کے افراد جو سیاست میں اچھے ہوں وہ سیاحت میں بھی اچھے ہوں.اگر عام لوگ غیر ملکوں کی سیر کے لئے جائیں تو وکیل اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئے گا، ڈاکٹر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئیگا ، انجینئر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئے گا، مصوّر اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئے گا ، شاعر اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئے گا ، اسی طرح کوئی مذہبی لیڈر جائے گا تو وہ اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئے گا لیکن قونصل خانہ کے سیاسی دماغ کیا لائیں گے؟ وہ تو اپنے ماحول میں محدود ہوں گے اور اِس وجہ سے اُن کی نظر بھی نہایت محدود ہوگی وہ تو اگر لائیں گے تو چند چیزیں ہی لائیں گے اور اس طرح ان کی وجہ سے ملک کو وہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا جو عام لوگوں کی سیاحت سے پہنچ سکتا ہے.اگر وہ کہیں کہ حکومت خود اپنے خرچ پر عام لوگوں کو اس غرض کے لئے بھیج سکتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس طرح پھر تفرقہ پیدا ہو جائے گا اور عدم مساوات کا وہ اصول قائم ہو جائے گا جس کو توڑنے کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی تھی اور یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا زید کا دل امریکہ جانے کو چاہتا ہے اور بکر کا دل ۳۸
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نہیں چاہتا.انصاف تو پھر بھی رہ جائے گا اور اِس طرح جو کچھ کیا جائیگا اس تحریک کی اصل روح کے خلاف کیا جائے گا.کمیونزم کا چھٹا نقص یعنی قومی افتراق پہلے اس تحریک کے نتیجہ میں قوم کے کئی شروع ہو جائے گا.ٹکڑے ہوجائیں گے اور امیروں کا قتل کمیونزم کا ساتواں نقص ساتویں بالشویک اصول میں ایک اور بڑی غلطی یہ ہے کہ اس کا زوال نہایت خطرناک ہوگا.دوسری تحریکات میں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتا ہے تو اُس کی جگہ دوسرا بادشاہ تخت حکومت پر بیٹھ جاتا ہے ، ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو دوسری پارلیمنٹ بن جاتی ہے لیکن بالشویک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یہ یکدم تباہ ہوگی اور اس کی جگہ زار ہی آئے گا کوئی دوسری حکومت نہیں آئے گی کیونکہ اس میں نیابت کی کوئی صورت نہیں جیسے دوسری تحریکات میں ہوتی ہے.وجہ یہ کہ قابلیت کو مٹا دیا گیا ہے اور جب قابلیت کو مٹا کر دماغ کو نیچا کر دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب تنزل ہوگا تو اُس وقت کوئی ایسا دماغ والا نہیں ہوگا جو اس تنزل کو دُور کر سکے.پس جب یہ تحریک کرے گی گلی طور پر گرے گی جیسا کہ فرانس میں ہوا کہ جب فرانس کے باغیوں میں تنزل پیدا ہوا تو اُن کی جگہ نپولین جیسے کامل انا قتدار آدمی نے لی خود جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دلدادہ یہ جگہ نہ لے سکا.نیشنلسٹ سوشلزم اور اس کے نقائص تیسری تحریک میشٹ سوشلزم کی ہے.اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ غرباء کو کچھ حقوق تو ضرور دیئے جائیں لیکن فردی جو ہر کو بھی گچلا نہ جائے اور چونکہ اس تحریک کے حامی فردی جو ہر کو اپنی اقوام سے مخصوص سمجھتے ہیں اس لئے ان کی پالیسی یہ ہے کہ جرمن اور رومی اور ہسپانوی غریبوں کو تو اُبھارا جائے لیکن باقی اقوام کو دبا کر اُن کی دولت سے جرمن ، رومی اور ہسپانوی باشندوں کو مالا مال کیا جائے.اب اس آخری تحریک میں جاپان بھی آکر شامل ہو گیا ہے.اس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں.پہلا نقص اول یہ تحریک چند اقوام کی بہتری کے حق میں ہے ساری دُنیا کی بہتری کے حق میں نہیں ہے.۳۹
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو دوسرا نقص دوم اس تحریک میں بھی روحانی سکھ یعنی مذہب کے لئے کوئی راستہ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ بھی مذہب پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے حالانکہ وہ مذہب ہی کیا ہے جس پر انسانوں کی طرف سے پابندیاں عائد کی جاسکیں.مذہب تو خدا کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے اور وہی اس کی حدود مقرر کرتا ہے.تیسرا نقص تیسرے اس تحریک میں انفرادیت کو اتنا اُبھارا گیا ہے کہ ملک کی اجتماعی آواز کو اس کے مقابلہ میں بالکل دبا دیا گیا ہے حالانکہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کا دماغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو جو بات اس کے دماغ میں آئے اس سے دوسروں کی رائے خواہ اُن کے دماغ اعلیٰ نہ ہوں بہتر ہو اِسی لئے ہماری شریعت نے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو جو اہم امور میں مسلمانوں سے مشورہ لے اور جہاں تک ہو سکے اُن کے مشورہ کو قبول کرے ہاں اگر کوئی اختلاف ایسا اہم ہوجس میں وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں نے اس وقت عام لوگوں کی رائے کی تقلید کی تو ملک اور قوم کو نقصان پہنچے گا تو اُس وقت وہ ان کے مشورہ کے خلاف بھی فیصلہ کر سکتا ہے.بہر حال اسلام کے طریق کے مطابق دونوں اُمور کو بیک وقت ملحوظ رکھ لیا جاتا ہے.ایک طرف عوام کی رائے لی جاتی ہے اور دوسری طرف جو دماغ اعلیٰ ہو اُسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ موازنہ کرلے اور جو مشورہ قوم اور ملک کے لئے مُہلک ہو اُسے قبول نہ کرے باقی مشوروں کو قبول کرلے.مگر نیشنلسٹ سوشلزم کی تحریک میں انفرادیت پر حد سے زیادہ زور دیا گیا ہے حالانکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سارا گاؤں غلطی پر ہوتا ہے اور ایک بڑھا زمیندار صحیح بات کہتا ہے اور کبھی بڑھا غلطی پر ہوتا ہے اور نوجوان صحیح بات کہہ رہے ہوتے ہیں.بہر حال یہ سب افراط اور تفریط کی طرف نکل گئے ہیں.موجودہ جنگ اور اس کا نتیجہ موجود و جا موجودہ جنگ اسی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہے.روس والے چاہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ قائم ہو جائے اور وہ حالات جو روس میں پیدا ہیں وہی باقی تمام ممالک میں پیدا ہو جائیں اور انگلستان ، فرانس اور امریکہ والے سوشلسٹ کہتے ہیں کہ جو دولتیں ہم کھینچ چکے ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں ہی رہیں جرمن، روم ، جاپان اور ہسپانیہ والوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں.پہلی لڑائی سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کے درمیان ہوئی.سوشلزم والوں نے اِس لئے جنگ کی کہ ان کے موجودہ اقتدار میں فرق نہ آئے اور نیشنل سوشلزم والوں نے اس لئے حملہ کیا کہ صاحب اقتدار لوگوں کی دولت کھینچ کر
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اپنے ملک میں لے آئیں.تیسری تحریک بالشوزم کی تھی.جرمن والوں نے ہوشیاری کر کے اس موقع پر روس سے سمجھوتہ کر لیا اور اُسے یہ دھوکا دیا کہ اگر برسر اقتدار طاقتوں کو زوال آیا تو بالشویک بھی اس ٹوٹ میں حصہ دار ہوں گے.بالشویکس اِس دھوکا میں آگئے اور انہوں نے نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے سمجھوتہ کر لیا لیکن جب فرانس کا زور ٹوٹ گیا اور ادھر مشرقی ممالک کوشکستیں ہونی شروع ہوئیں تو ہٹلر نے کچھ ضروریاتِ جنگ کی وجہ سے اور کچھ اس خیال سے کہ انگلستان پر فوری حملہ تو کیا نہیں جا سکتا اگر سپاہی بیٹھے رہے تو گھبرا جائیں گے اور کچھ اِس خیال سے کہ اب مقابلہ کرنے والا تو کوئی ہے نہیں، لگے ہاتھوں بالشوزم کا بھی خاتمہ کر دیں اُس نے روس پر حملہ کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ بالشوزم برسر اقتدار (اتحادی) حکومتوں سے مل گئی اور اب دو تحریکیں ایک طرف ہیں اور ایک تحریک ایک طرف.اگر نیشنلسٹ سوشلزم والے جیتے تو جرمن، اٹلی ، ہسپانیہ اور جاپان کے غرباء کو تو ضرور فائدہ پہنچے گا مگر باقی اقوام کے غرباء کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائے گی.گویا چار ملکوں سے غُربت مٹے گی اور سینکڑوں ملکوں میں پہلے سے بھی زیادہ قائم ہو جائے گی.اور اگر دوسرا فریق جیتا تو دُنیا کا کچھ حصہ سوشلزم کے اثر کے ماتحت نسبتی سیاسی آزادی حاصل کر لے گا، کچھ حقوق ہندوستان کو بھی مل جائیں گے لیکن جہاں تک تجارتی اور اقتصادی آزادی کا سوال ہے اس کے لئے ان ممالک کو لمبی جد و جہد کرنی پڑے گی کیونکہ اس آزادی میں روک نہ صرف قدامت پسند اور لبرل جماعتیں ہوں گی بلکہ معاشرتی معیار کے گر جانے کے ڈر سے سوشلسٹ جماعتوں سے بھی دوسرے ممالک کا مقابلہ ہوتا رہے گا مگر جہاں تک نسبت کا سوال ہے ان لوگوں کے جیتنے سے دوسرے ممالک کی حالت یقیناً اس سے زیادہ اچھی ہو گی جو نیشنل سوشلسٹ کے غلبہ کی صورت میں ہوسکتی ہے.موجودہ جنگ میں انگریزوں کی فتح سے ہندوستان کا فائدہ اس بارہ میں میری جو کچھ رائے ہے اور جسے میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر جرمنی جیتا تو ہمارے ملک کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو جائے گی اور اگر انگریز جیتیں تو ہمارے ملک کی حالت پہلے سے یقیناً اچھی ہو جائے گی.عام طور پر ہمارے ملک میں خیال کیا جاتا ہے کہ جب غلام ہی بننا ہے تو خواہ ان کے غلام بنے یا اُن کے اس میں فرق ہی کیا ہے مگر یہ بات درست نہیں.اور اس کی تائید میں ایک بہت بڑی دلیل جس کو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہ ہے کہ یہ ام
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو (اتحادی) طاقتیں بہت مدت تک اقتصادی اقتدار حاصل کرنے کی وجہ سے اب اس قوتِ اقدام کو کھو بیٹھی ہیں جو لا زمانٹی بڑھنے والی قوموں میں پائی جاسکتی ہے.پس نئی اُبھرنے والی اقوام کا سلوک دوسرے ممالک کے لوگوں سے بُھو کے جاٹ والا ہوگا اور برسر اقتدار حکومتوں کا ایک بوڑھے تاجر جیسا.جو تاجر بہت سا روپیہ کما لیتا ہے کنجوس تو وہ بھی ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے مال میں اور زیادتی کا طالب رہتا ہے لیکن وہ اس پر بھی خوش ہوتا ہے کہ موجودہ حالت ہی قائم رہے اور کبھی کبھی اُس کے دل میں یہ خیال بھی آجاتا ہے کہ اب میں نے بہت کما لیا ہے اب میں اپنے کام سے پنشن لے لوں.پس یہ جو برسر اقتدار حکومتیں ہیں ان میں اب اتنا جوش نہیں جتنا نئی حکومتوں میں جوش ہو سکتا ہے چنانچہ دیکھ لو کہاں انگلستان ہے اور کہاں انگریز لوگ چین کے کناروں تک حکومت کر رہے ہیں.اسی طرح امریکہ کا اقتصادی اقتدار تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے اور اب ان کا پیٹ اِتنا بھرا ہوا ہے کہ چلنا پھرنا بھی ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے اور جو شخص اس قدر سیر ہو وہ ظلم نہیں کرتا یا کم کرتا ہے.اس کی مثال تم ایسی ہی سمجھ لو کہ جس شخص کا پیٹ بھرا ہوا ہو اُس کے سامنے اگر تم پلاؤ بھی رکھو تو وہ دوچار تھے لے کر بس کر دے گا لیکن اگر وہی پلاؤ کی تھالی کسی بھوکے کے سامنے رکھو تو وہ نہ صرف یہ پلاؤ ہی کھا جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ تمہارا کھانا بھی کھا جائے.جرمن اور رومی اور ہسپانوی اس وقت بھوکے ہیں اس لئے اگر ان کا اقتدار آیا تو وہ کچھ مدت تک خوب بڑھ بڑھ کر ہاتھ ماریں گے اور مال ودولت کو ٹوٹتے چلے جائیں گے جیسے ہندوستان جب انگریزوں کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے بھی ہندوستان کی اقتصادی حالت پر خوب قبضہ جمایا تھا.یہی خواہش جرمن اور رومی لوگوں کی ہوگی وہ بھی کہیں گے کہ اب ہم نے ان کانوں پر قبضہ کیا ہے اب ہم بھی یہاں کے تیل اور سونے اور دوسری چیزوں سے فائدہ اُٹھائیں اور سو ڈیڑھ سو سال تک وہ ایسا کرتے چلے جائیں گے مگر انگریزوں کی مثال بُوڑھے تاجر کی سی ہے جو بڑھا ہو جاتا ہے، مال بڑھانے کی خواہش تو بے شک اس کی طبیعت میں موجود ہوتی ہے مگر کبھی کبھی اسے یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ دولت بہت کمالی ہے اب پنشن لے لینی چاہئے.اسی طرح ان قوموں کے دلوں میں بھی کبھی زیادہ طلبی کا خیال آ جاتا ہے مگر کبھی یہ خیال بھی آجاتا ہے کہ ہم نے بہت کمالیا اب قناعت کرنی چاہئے.اسی طرح اگر انہیں کبھی ظلم کا خیال پیدا ہوتا ہے تو کبھی رحم کا خیال بھی آ جاتا ہے اور جن لوگوں کی دماغی حالت اس قسم کی ہو ان سے یقینا زیادہ آرام حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ
۴۳ انوار العلوم جلد ۱۶ حکومت کر کے تھک چکے ہوتے ہیں.نظام کو دوسرے یہ اقوام مذہب میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتیں اور سوائے کسی اشر سیاسی یا اقتصادی ضرورت کے مذہب کے بارہ میں مخفی دباؤ کو بھی پسند نہیں کرتیں.اور اگر کوئی خدا ہے اور اُس کی طرف سے رسول دنیا میں آتے رہے ہیں اور اگر اُن کی تعلیمات پر عمل ہماری اُخروی زندگی کوسنوارنے کے لئے ضروری ہے تو پھر باوجود اس کے کہ ان اقوام کا طریق عمل بھی پورا منصفانہ نہیں بلکہ ایک حد تک خود غرضانہ ہے، ہر مذہب کا دلدادہ شخص ان اقوام کی فتح کو نیشنلسٹ سوشلزم والوں کی فتح پر بہت زیادہ ترجیح دے گا.انگریزوں کی فتح کے نتیجہ میں بالشوزم کی فتح اور اس کا نتیجہ لیکن یہ بھی یادر ہے کہ موجودہ حالات میں ان اقوام کی فتح کے ساتھ بالشوزم کی فتح بھی ضروری ہے اور بالشوزم مذہب کی نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے بھی زیادہ دشمنی ہے.پس یقیناً ان کی فتح سے گود نیا کو نیشنلسٹ سوشلزم کے خطرہ سے نجات ہوگی مگر ایک نئی رسہ کشی مذہب اور لامذہبیت میں شروع ہو جائے گی.غرباء کی حالت سدھارنے کیلئے مختلف مذاہب کی تدابیر میں نے اس وقت تک دنیوی تحریکات کا ذکر کیا ہے اب میں اُن تدبیروں کا ذکر کرتا ہوں جو مختلف مذاہب کے پیرو دُنیا کے ایک نئے نظام کی تکمیل کے لئے پیش کر رہے ہیں.ان مذاہب میں سے سب سے بڑے مذہب یہ ہیں.ہندو، مسیحی ، یہودی ، اور اسلام.اِس وقت اگر ان تمام مذاہب کے پیروؤں کا جائزہ لیا جائے تو ہر مذہب کا پیرو یہ دعویٰ کرتا سُنائی دے گا کہ وہی مذہب سب سے اعلیٰ ہے جس کا وہ پیرو ہے اور اسی کی تعلیم دُنیا کے دُکھ اور درد کو دور کر سکتی ہے.ہندو کہتے ہیں ہم ایک دن میں اوم کا جھنڈا ( نَعُوذُ باللهِ ) مکہ معظمہ پر گاڑیں گے ، یہودی کہتے ہیں یہودیت کی تعلیم ہی سب سے اعلیٰ ہے، عیسائی کہتے ہیں ہمارے یسوع مسیح نے جو کچھ کہا وہی قابل عمل ہے، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بھی جوش ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے اور بجاطور پر کرتے ہیں کہ اسلام ہی تمام دُکھوں اور دردوں کا کامیاب علاج پیش کرتا ہے.بہر حال بڑے مذاہب یہی ہیں.ہندو، مسیحی ، یہودی اور اسلام.میں اس وقت نماز روزہ کی طرف نہیں جار ہا بلکہ میں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ دُنیا فاقے سے مر رہی ہے.دُنیا نے اسکے علاج کے لئے بعض تحریکات جاری کی
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہیں ان دنیوی تحریکات کے مقابلہ میں مذاہب اسکے متعلق کیا نظریہ پیش کرتے ہیں اور وہ کونسا نیا نظام ہے جو یہ مذاہب دُنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.اس غرض کے لئے میں سب سے پہلے یہودیت کو لے لیتا ہوں.یہودیت میں نئے نظام کی شکل اور اس کا نتیجہ یہودیت دُنیا کے لئے جو نظام پیش کرتی ہے وہ محض قومی ہے اُس میں کوئی بات عالمگیر نہیں.مثلاً یہودیت کہتی ہے کہ یعقوب کی اولاد ہی خدا کو پیاری ہے باقی سب اس کی غلامی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اگر اس مذہب کی کسی وقت دُنیا پر حکومت ہو جائے تو یقیناً اس تعلیم کے ماتحت ظلم بڑھے گا گھٹے گا نہیں.یا مثلاً یہودیت کہتی ہے تو اپنے بھائی سے سُود نہ لے اور اسے چھوڑ کر جس سے چاہے سو د لے لے.اب اگر سود لینا بُرا ہے تو وجہ کیا ہے کہ ایک یہودی سے نہ لیا جائے اور غیر یہودی سے لے لیا جائے.اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ یہودیت ایک قومی مذہب ہے.وہ کہتی ہے کہ اوروں سے بے شک لے لو مگر اپنوں سے نہ لو.پس اس مذہب کو اگر دنیا پر غلبہ حاصل ہو جائے تو اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ اور سب سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہودیوں میں اس کو تقسیم کر دے گی.اسی طرح یہودیت صدقہ و خیرات کا تو حکم دیتی ہے مگر کہتی ہے صدقہ وخیرات صرف اپنے ہی ہم قوموں کے لئے ہو.اب اگر کوئی یہودی بادشاہ ہو تو اس تعلیم کے ماتحت جتنے ٹیکس ہوں گے سب یہودیوں کو ملیں گے.اسی طرح یہودیت یہ نہیں کہتی کہ تو کسی کو غلام نہ بنا بلکہ وہ کہتی ہے اپنے بھائی کو ہمیشہ کے لئے غلام نہ بناؤ گو یا اول تو اپنے بھائی کو غلام بناؤ ہی نہیں اور اگر بناؤ تو ہمیشہ کے لئے نہ بناؤ.اس کے متعلق یہودی مذہب میں یہ حکم ہے کہ ہر غلام ساتویں سال آزاد کر دیا جائے.اگر کوئی شخص ساتویں سال کے معا بعد کوئی غلام خریدے تو اس تعلیم کے ماتحت وہ چھ سال کے بعد آزاد ہو جائے گا.اگر ایک سال گزر چکا ہو تو وہ پانچ سال کے بعد آزاد ہو جائے گا ، دو سال گزر چکے ہوں تو چار سال کے بعد آزاد ہو جائے گا، تین سال گزر چکے ہوں تو تین سال کے بعد اور اگر چار سال گزر چکے ہوں تو دو سال کے بعد آزاد ہو جائے گا اور اگر کوئی چھٹے سال کسی غلام کو خریدے تو وہ اگلے سال خود بخود آزاد ہو جائے گا.گویا زیادہ سے زیادہ سات سال تک ایک یہودی کو غلام بنایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عرصہ کسی کو غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا.باقی دُنیا کے لوگ خواہ ساری عمر غلام رہیں اس کی یہودیت کوئی پروا بوم بوم
۴۵ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ نہیں کرتی.پھر یہودیت کی تعلیم میں ایک اور بات یہ پائی جاتی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ بہت سخت سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے.چنانچہ توریت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ :- ” جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کرتب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کرے گی.اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اُس کا محاصرہ کر.اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دیوے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے.اور تو اپنے دشمنوں کی اس ٹوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھا ئیو.اسی طرح سے تو ان سب شہروں سے 66 جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، کیجیو.یہ تو غیر ملکوں کے متعلق حکم ہے کنعان کی سر زمین جو موعود سر زمین تھی اس کے متعلق یہ حکم نہیں بلکہ وہاں کے متعلق یہ حکم ہے کہ :- اُن قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا 66 ہے.کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑ یو بلکہ تُو اُن کو حرام کیجیو.“ یہ نظام ہے جو یہودیت پیش کرتی ہے.اگر یہودیت برسراقتدار آ جائے تو ہر مرد مارا جائے گا، ہر عورت اور بچے کو غلام بنایا جائے گا اور کنعان میں بسنے والے عیسائی مرد اور عورتیں اور بچے تو کیا وہاں کے گھوڑے اور گدھے اور کتے اور پلیاں اور سانپ اور چھپکلی سب مارے جائیں گے کیونکہ حکم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو سانس لیتی ہو اس کو جان سے مار دیا جائے.اس نظام کے ماتحت یہودیوں کو تھوڑا بہت آرام میسر ہو تو ہو اور قو میں تو بالکل تباہ ہو جائیں گی.عیسائیت کا دنیا کے لئے پیغام عیسائیت کا پیغام دنیا کے لئے صرف یہی ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے عجب شریعت لعنت ہے تو پھر اس کا جو بھی پیغام ہے وہ لعنت ہے ، عیسائیت صرف محبت کی تعلیم دیتی ہے جس پر خود عمل نہیں کرتی.اگر اس کی محبت کی تعلیم پر کوئی عمل کرنے والا ہوتا تو آج یورپ میں لڑائیاں کیوں ہوتیں.شریعت کو لعنت قرار دے کر دنیا کے لئے کوئی معتین پروگرام پیش کرنا میسحیت کے لئے
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ناممکن ہے کیونکہ جو بھی پروگرام ہوگا وہ لعنت ہوگا اور اس پر عمل لوگوں کی مشکلات کو بڑھائے گا کم نہیں کرے گا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی شریعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو لعنت ہے لیکن بندوں کی تعزیرات خواہ کتنی بڑی ہوں رحمت ہیں.اس کا نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں جو مسیحی قوم بھی غالب ہو اُس کے مقاصد کو مسیحی مقاصد کہا جاتا ہے.جو فلسفہ غالب آجائے وہ مسیحی فلسفہ ہوتا ہے اور جو تمدن غالب آ جائے وہ مسیحی تمدن ہوتا ہے.اگر جرمن غالب ہوا تو وہ کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب آ گیا.اگر انگلستان غالب ہوا تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہوا ، اگر یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ والے جیتے تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہوا، گویا وہ ہمیشہ کے لئے غالب کے یار بن گئے ہیں اور جو چیز بھی دنیا میں ترقی کرتی ہے اسے کر سچن سولزیشن (CIVILISATION) کا غلبہ قرار دے دیا جاتا ہے.ایک وقت تھا کہ طلاق نہ دینا مسیحیت کا خاصہ تھا اور اب یہ حالت ہے کہ طلاق دینا مسیحیوں کا خاصہ ہے.گویا ان کا مذہب کیا ہے موم کی ناک ہے جس طرح چاہو موڑ لو اس نے ٹوٹنا تو ہے ہی نہیں.پس میسحیت بطور مذہب کے دنیا کے سامنے نہ کوئی پروگرام رکھ سکی نہ رکھ سکتی ہے اور نہ رکھ سکے گی.ہندو مذہب کے نظریہ کے ماتحت نئے نظام کا قیام ناممکن ہے ہندومت نے دنیا کے سامنے تناسخ اور ورنوں کی تعلیم پیش کر کے اپنے لئے اور دوسری اقوام کے لئے امن کا راستہ بالکل بند کر دیا ہے کیونکہ تناسخ کے ماتحت یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایسا نیا نظام قائم ہو جس میں غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے.جب تناسخ کو ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو غریب پیدا کیا ہے تو یہ اس کے پچھلے جنم کے اعمال کی سزا ہے تو اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے امیر اور غریب کے امتیاز کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے.اس عقیدہ کے ماتحت تو اگر خدا نے کسی کو زار بنایا ہے تو پچھلے جنم کے اعمال کا انعام دینے کے لئے اور اگر کسی کو غریب بنایا ہے تو اسے اس کے اعمال کی سزا دینے کے لئے اب کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے.پس تناسخ کے ہوتے ہوئے ہندومت دنیا کی ترقی کے لئے کوئی نیا پروگرام پیش نہیں کرسکتا کیونکہ نیا پروگرام وہی ہوسکتا ہے جو موجودہ حالت کو بدل کر ایک نئی حالت پیدا کر دے اور جب دنیا کی موجودہ حالت پُرانے جنم کے اعمال کا اہل نتیجہ ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ یہی حالت دنیا کے لئے و سوم
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو مقدر ہے اور جب یہی حالت دنیا کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے تو کس کی طاقت ہے کہ اس حالت کو بدل سکے.دوسرے اس مذہب میں ورنوں کا اصول ہے جس کے ماتحت برہمن کے کام شودر نہیں کر سکتا اور شودر کے کام ویش نہیں کر سکتا.اسی طرح ویش کے کام کشتری نہیں کر سکتا گویا ہر ایک کا الگ الگ دائرہ عمل ہے اور ایک شخص دوسرے کے دائرہ عمل میں دخل نہیں دے سکتا.یہ اصول بھی ایسا ہے جس کے ماتحت امیر اور غریب کا امتیاز کبھی مٹ نہیں سکتا کیونکہ نیا نظام جو اس امتیاز کو دور کرے وہ وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک غریب اور کنگال کا بھی خیال رکھا جائے.اگر کوئی چوہڑہ یا سائنسی ہو تو اس کے حقوق کو بھی محفوظ کیا جائے اور ہر شخص کے لئے گورنمنٹ کھانے اور کپڑے کا انتظام کرے.اسی طرح غرباء کے لئے مال کا انتظام کرے تاکہ وہ اپنی اور ضروریات پوری کر سکیں.مگر منو کہتے ہیں کہ:- اگر شودر دھن جمع کرے تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے چھین لے کیونکہ شودر مالدار ہو کر برہمنوں کو دکھ دیتا ہے.۱۴ اس قانون کے ماتحت اگر برہمن یا ولیش کے پاس دس لاکھ روپیہ ہو اور شودر کو خیال آئے کہ پانچ روپیہ ماہوار میں بھی جمع کر لوں اگلے سال بچی کی شادی ہے اُس وقت یہ روپیہ کام آئے گا تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے تمام روپیہ چھین لے کیونکہ وہ شودر ہے اور شودر کا حق نہیں کہ اس کے پاس روپیہ جمع ہو.اب بتاؤ اس اصول کے ماتحت نیا نظام کس طرح قائم ہو سکتا ہے.اور اگر یہ نظام قائم ہو تو اس کے ماتحت غرباء کی حالت کس طرح سُدھر سکتی ہے.اسی طرح لکھا ہے کہ : - اگر برہمن نے ایک پیچ سے قرض لیا لیکن وہ ادا نہیں کر سکتا تو شودر کا فرض ہے کہ وہ برہمن سے کوئی روپیہ نہ لے لیکن اگر شودر نے برہمن کا روپیہ دینا ہو اور شو در غریب ہو تو اونچی ذات والوں کی مزدوری کر کے برہمن کے قرض کو ادا کرے ،، ۱۵ گویا اگر برہمن قرض لینے والا ہو اور جس سے قرض لیا گیا ہو وہ پہنچ قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو بیچ قوم والے کا فرض ہے کہ برہمن سے اپنے روپیہ کا تقاضا نہ کرے.ایسی صورت میں وہ یہ نہیں کر سکتا کہ عدالت میں برہمن کے خلاف دعوی دائر کر دے اور اس سے اپنا روپیہ وصول کرے بلکہ اس صورت میں معاملہ کو ختم سمجھنا چاہئے اور شودر کو روپیہ کی وصولی کا خیال اپنے دل ۴۷
۴۸ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو سے نکال دینا چاہئے.لیکن اگر شودر کسی برہمن سے قرض لے بیٹھتا ہے اور پھر ادا ئیگی کی طاقت نہیں رکھتا تو منو کے احکام کے مطابق اس کا فرض ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کی نوکری کرے اور اس طرح قرض کو ادا کرے.پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ اس تعلیم کا اثر اور آگے چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخصر جائے اور اس کی کئی بیویاں ہوں تو ایسی حالت میں :- ایک کی اولاد جو برہمنی سے ہے وہ اس کی جائداد کے تین حصہ لے اور جو کشترانی سے ہے اُس کی اولاد دو حصے لے اور جو ویشیا ہے اس کی اولا د ڈیڑھ حصہ لے اور شودرانی کی اولا د ایک حصہ لے ، اس تعلیم کے ماتحت مرنے والے کی جائداد میں سے برہمنی کی اولاد کو تین حصے، کھترانی کی اولاد کو دو حصے، ولیش کی اولاد کو ڈیڑھ حصہ اور شود رانی کی اولاد کو ایک حصہ ملے گا.اب بتاؤ اس نظام کے ماتحت وہ ادنیٰ حالت سے اونچے کس طرح ہو سکتے ہیں.پھر لکھا ہے کہ : - برہمن شودر سے دولت لے لے.اس میں کوئی وچار نہ کرے کیونکہ و دولت جو اس نے جمع کی ہے وہ اس کی نہیں بلکہ برہمن کی ہے.‘ کلا وہ اس تعلیم کے ماتحت برہمنوں کو اور زیادہ آسانی حاصل ہو گئی کیونکہ انہیں اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ شودروں کے پاس جب بھی تمہیں دولت نظر آئے فورا گوٹ لو اور کوئی و چار یعنی فکر نہ کرو کہ اس کوٹ سے گناہ ہوگا کیونکہ شودر کا مال اس کا نہیں بلکہ تمہارا ہے جب بھی تم کسی شودر کے پاس مال و دولت دیکھو فورا گوٹ لو اور اپنے قبضہ میں کر لو.یہ وہ تعلیم ہے جو ہندو مذہب پیش کرتا ہے اور چونکہ ہندو مذہب میں سوائے برہمنوں ، کھتریوں اور ویشوں کے سب کو شو در سمجھا جاتا ہے اس لئے جس قدر سید مغل اور پٹھان وغیرہ ہیں سب ہندوؤں کے نزدیک شودر ہیں اور ان سب کے متعلق برہمنوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ان کی دولت کو ٹوٹ لیں.اگر کوئی شخص روپیہ کمائے اور برہمن اس سے وہ روپیہ لوٹ لے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر وہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے گا تو منو کی اس تعلیم کے ماتحت اسے کہا جائے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا تو وہ مال تھا ہی نہیں وہ تو برہمن کا مال تھا.گویا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک
۴۹ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو شخص کو چار پائی پر اٹھا کر اسے دفن کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں اور چار پائی پر جو شخص ہے وہ شور مچا رہا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے بچاؤ ، خدا کے واسطے مجھے بچاؤ.لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا اور کہنے لگا بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا حج صاحب نے حکم دیا ہے کہ اس شخص کو دفن کر دیا جائے کیونکہ یہ مر چکا ہے.وہ کہنے لگا یہ تو زندہ ہے اور شور مچا رہا ہے کہ مجھے بچایا جائے.وہ کہنے لگے خواہ کچھ ہو جج صاحب کا یہی حکم ہے کہ یہ شخص مر چکا ہے اور اسے دفن کر دینا چاہئے.سیاح نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی.جنازہ اُٹھانے والوں نے جواب دیا کہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے جو کچھ حج صاحب نے کہا وہی ٹھیک ہے یہ شخص یونہی جھوٹ بول رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں مرا نہیں.آخر وہ سیاح جج صاحب کے پاس گیا اور اسے جا کر کہا کہ میں نے آج ایک نظارہ دیکھا ہے اور میں اس پر حیران ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک زندہ شخص کو آپ نے مرا ہو ا کس طرح قرار دے دیا؟ حج نے جواب دیا تم تو بیوقوف ہو تمہیں حالات کا علم نہیں اگر علم سے کام لیتے تو اسے مرا ہو ا ہی سمجھتے.اصل بات یہ ہے کہ ایک سال ہوا میرے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند باہر گیا ہوا تھا اب میں نے سنا ہے کہ وہ مر گیا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں کسی اور شخص سے شادی کرلوں.میں نے کہا کہ گواہیاں لاؤ.وہ دو معتبر گواہ میرے پاس لائی جنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے فلاں سرائے میں اس کے خاوند کو مرتے ہوئے دیکھا تھا اور انہوں نے خود ہی اسے دفن کیا تھا.چنانچہ اُس عورت کو شادی کی اجازت دے دی گئی.اب کچھ عرصہ کے بعد یہ شخص آیا اور کہا کہ میں اس عورت کا خاوند ہوں اور زندہ ہوں وہ عورت مجھے دلوائی جائے.میں نے اسے بہتیر اسمجھایا کہ تو اس عورت کا خاوند نہیں ہو سکتا وہ تو مر چکا ہے اور دو گواہیاں ہمارے پاس موجود ہیں مگر وہ یہی کہتا چلا گیا کہ نہیں میں تو زندہ ہوں.آخر میں نے کہا میں اسے مان نہیں سکتا دو معتبر گواہ موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اس عورت کا خاوندان کے سامنے مرا اور چونکہ ان گواہوں کے بیانات کے رو سے خاوند کا مرنا یقینی ہے اس لئے میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کر سکتا کہ اگر تیرا یہ دعوی سچا ہے کہ تو اس عورت کا خاوند ہے تو سرکاری خرچ پر تجھے دفن کر ا دوں.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے اپنے آدمیوں کو بھجوایا ہے تا کہ وہ اسے دفن کر دیں.یہی حال ہندومت کا ہے کسی شخص کے پاس روپیہ جمع ہو برہمن اُس سے کوٹ لے اور وہ بیچارہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے تو مجسٹریٹ کہے گا یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے اس کے پاس روپیہ تھا کہاں وہ تو فلاں ادھیائے اور فلاں شلوک کے
۵۰ انوار العلوم جلد ۱۶ ما تحت برہمن کا روپیہ تھا جو اس نے لے لیا.نظامِ تو مگر یاد رکھو کہ میں یہ نہیں کہتا کہ جب ان مذاہب کی بنیاد پڑی تھی تو اُس وقت وہی تعلیم ان کے نبیوں نے دی تھی جو آج پیش کی جاتی ہے بلکہ کچھ تعلیم تو ایسی ہے جو وقتی اور قومی ہونے کی وجہ سے اُس زمانہ میں ٹھیک تھی اور اب غلط ہے اور کچھ تعلیم ایسی ہے جو ان نبیوں نے دی ہی نہیں وہ یونہی ان کے ذمہ لگا دی گئی ہے.بہر حال ایسی تعلیم سے موجودہ زمانہ میں کوئی امن اور چین نصیب نہیں ہو سکتا.دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی بے نظیر تعلیم اب نہیں اسلام کو لیتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ اسلام اس ہے؟ اسلام دنیا کی اس مصیبت مصیبت کا کیا علاج تجویز کرتا اور اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق نئے نظام کا نقشہ اور دُکھ کا علاج جسے میں نے تمہید میں بیان کیا ہے یوں فرماتا ہے.دنیا سے غلامی کی بیخ کنی اول غلامی جو ہزاروں سال سے چلی آرہی تھی اسے اسلام نے دور کیا اور غلامی کو حلية مٹا کر رکھ دیا.میرے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے دنیا کے پردہ پر سے غلامی کو مٹایا ورنہ پہلے مذاہب میں غلامی کا رواج تھا اور اسے کسی مذہب نے منسوخ قرار نہیں دیا.یہودی اور ہندو مذہب کے اصول کے ماتحت تو غلامی ایک مذہبی انسٹی ٹیوشن ہے اور اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتا.عیسائیت یہودیت کی شاخ ہے اس میں بھی غلامی رہی اور اگر عیسائیوں میں غلامی مٹی تو اس کے مٹانے کا موجب عیسائیت نہیں بلکہ فلسفہ اخلاق کی ترقی تھی.تاریخ کلیسیا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے مٹانے کے لئے عیسائی ممالک میں کئی بار کوششیں ہوئیں مگر اس کے سب سے بڑے مخالف پادری ہی تھے اسی طرح ہندو مذہب نے ورنوں کے ذریعہ غلامیت کو اتنا وسیع کر دیا کہ اس کے مقابلہ میں محدود غلامی بھی مات ہو گئی.بھلا زرخرید غلام کو ورن کے غلام سے کیا نسبت ؟ مگر اسلام نے اس غلامی کو سرے سے مٹا دیا.اسلام میں جنگی قیدی بنانے کے متعلق پابندیاں ہاں ایک چیز اسلام میں موجود ہے جسے لوگ غلامی قرار دیتے ہیں اور وہ چیز جنگی قیدیوں کا پکڑنا ہے مگر کیا دنیا میں کہیں بھی ایسا دستور ہے کہ جب دو قوموں میں
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو لڑائی ہو اور دن کے دوران میں ایک دوسرے کے قیدی پکڑے جائیں اور شام کو ان سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ کل پھر ہم سے لڑائی کرنے کے لئے آجانا.ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کبڈی کھیلتے ہیں تو اُس وقت بھی جن کھلا ڑیوں کو پکڑتے ہیں چھوڑتے نہیں بلکہ پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جنگ ہو اور جنگ کے بعد سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے.اگر کبڈی تک نہیں کھیلی جا سکتی بغیر اس کے کہ جب کوئی شکست کھا جائے تو اسے پکڑ کر بٹھا دیا جائے تو جنگیں اس کے بغیر کس طرح ختم کی جاسکتی ہیں.پس اسلام میں کوئی غلام نہیں مگر جنگی قیدی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَه أَسْرَى حَتَّى يُفْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَ اللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ١٨ یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا جائے.ان الفاظ کے ذریعہ نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ کسی انسان کو غلام بنانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز نہیں بلکہ یہودیت ، عیسائیت اور ہندومت کی وجہ سے جو اعتراضات ان کے نبیوں پر عائد ہوتے تھے خدا تعالیٰ نے ان تمام اعتراضات کا بھی ازالہ کر دیا کیونکہ فرما یا مَا كَانَ لِنَسِي أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى یعنی کسی نبی کے لئے بھی یہ جائز نہیں تھا کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بنا تا پھرتا.پس نہ کرشن نے ایسا کیا نہ رام چندر نے ایسا کیا ، نہ موسیٰ اور عیسی نے ایسا کیا، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ ان کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں.ہاں فرماتا ہے کہ ایک چیز ہے جو جائز ہے وہ یہ کہ حَتَّى يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ اِنْحَان في الارض ہو تو اُس وقت قیدی بنانے جائز ہوتے ہیں یعنی جنگ ہو اور ایسی شدید ہو کہ اس میں خون کی ندیاں بہہ جائیں ، قوم قوم پر اور ملک ملک پر حملہ آور ہوا اور شدید خونریزی ہو ایسی حالت میں بے شک قیدی بنانے جائز ہیں مگر معمولی لڑائیوں میں بھی قیدی بنانے جائز نہیں جو مثلاً خاندانوں یا افراد میں ہوتی ہیں.تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا اے ہر وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر لڑائی کے لوگوں کو قیدی بنائے یا ان کو غلام بنائے.دوسرے الفاظ میں تو یہ چاہتا ہے کہ تجھے دنیا مل جائے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے طلبگار سمجھے جاؤ گے خدا تعالیٰ کے طلبگار نہیں رہوگے وَاللهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ حالانکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم آخرت کے طلبگار بنو.وَ اللهُ عَزِيزٌ حکیم اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے.اس کے تمام احکام بڑی بڑی حکمتوں پر مشتمل ہوا کرتے ہیں.اگر غلام بناتے رہو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی غلام بن کر رہ جاؤ گے چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن ۵۱
۵۲ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام کو قوموں میں غلاموں کی کثرت ہوئی وہی قومیں آخر غلام کہلائیں.بنو عباس کے عہد میں غلاموں کی کثرت تھی نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بادشاہ لونڈی زادے ہوا کرتے تھے اور چونکہ غلام میں غلامی کے خیالات ہی ہوتے ہیں اس لئے گو وہ لفظاً آزاد تھے مگر معنا غلام ہی تھے.انخان کے معنے عربی میں ایسی جنگ کے ہوتے ہیں جس میں خطرناک خونریزی ہو.گویا معمولی جنگ میں غلام بنانا جائز نہیں بلکہ غلام ایسی حالت میں ہی بنائے جاسکتے ہیں کہ جب شدید جنگ ہو.معمولی لڑائیاں تو انگریزوں اور پٹھانوں کے درمیان سرحد پر ہوتی ہی رہتی ہیں مگر ان جنگوں میں قیدی نہیں بنائے جاتے.پر زنر آف وار (Prisoner of War) اُسی وقت جائز ہوتے ہیں جب باقاعدہ ڈیکلیئرڈ وار (Declared War) ہو معمولی شبخونوں میں ایسے قیدی بنانے جائز نہیں ہوتے.اگر کوئی قوم اپنے لوگوں کو غلام بنانا نہیں چاہے گی تو وہ حملہ ہی کیوں کرے گی.اور اگر حملہ کرے اور لڑائی اِثْخَانِ فِي الْأَرْضِ کی صورت اختیار کر لے تو پھر قیدی بنانا کسی صورت میں بھی قابلِ اعتراص نہیں سمجھا جاسکتا.اسلام کی تعلیم کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی پھر جنگ کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی.یعنی یہ جائز نہیں کہ خود ہی دوسروں پر حملہ کر دیا جائے اور لوگوں کو غلام بنا لیا لا جائے.چنانچہ فرماتا ہے اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ.الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتُ وَ مَسجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ اَلَّذِينَ إِنْ مَّكَّتَهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ولِلهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ فرماتا ہے جنگ کی اجازت صرف انہی کو دی گئی ہے جن پر پہلے دوسروں نے حملہ کیا اور اس وجہ سے دی گئی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے وَاِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِیر اور اس لئے دی گئی ہے کہ مسلمانوں پر ایسا حملہ ہوا ہے کہ اب خدا چاہتا ہے اس کی تقدیر دنیا میں جاری ہو اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے اور مظلوم کی مدد کرے.ایسا ہو سکتا ہے کہ ظالم طاقتور ہو اور مظلوم کمزور ہو، ایسی صورت میں اگر کمزور آدمی لڑے گا تو بجائے غالب آنے کے وہ تباہ ہی ہوگا.قصہ مشہور ہے کہ کوئی پہلوان ایک جگہ سے گزر رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک دبلا پتلا شخص جارہا تھا.پہلوان
۵۳ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ نے اپنے سر کو منڈوا کر اُس پر چکنائی لگائی ہوئی تھی.اُس کمزور آدمی نے جب پہلوان کو اس حالت میں دیکھا تو اُس کی طبیعت میں مذاق کے لئے ایسا جوش پیدا ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے انگلی سے اُس کے سر پر ایک ٹھینگا مارا.پہلوان کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اور وہ اسے زمین پر گرا کر ٹھڈے مارنے لگا.وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا تھا کہ جتنا جی چاہے مار لو مگر جو مزا مجھے ٹھینگا مارنے میں آیا ہے وہ تم کو ساری عمر مار کر بھی نہیں آئے گا.اب دیکھو وہ چونکہ کمزور تھا اس لئے اُس نے اسی بات کو بڑے فخر کا موجب سمجھا کہ اس نے ایک طاقتور کے جسم کو چھو لیا.پس ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ظالم ہو مگر طاقتور ہو اور مظلوم اس پر غلبہ نہ پاسکتا ہو مگر فرماتا ہے ہم نے جو اجازت دی ہے وہ اس لئے دی ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کمزوروں کو طاقتوروں پر غالب کر دیں.پس ہم نے انہیں خالی لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمارا ان کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے جب تک تم ظالم کو مغلوب نہیں کر لیتے.پھر فرماتا ہے الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ وہ گھروں سے نکالے گئے بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو.اِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا الله ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو سچا مان لیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے.وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ َو صَلَواتٌ وَّ مَسجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ الله | كَثِيرًا فرماتا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں جو محبت اور انسانیت کے نام پر اپیلیں کریں گے اور کہیں گے کہ لڑائی بہر حال بُری چیز ہے اور وہ کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایسے لوگوں سے کہو کہ اگر اللہ کا یہ قانون نہ ہوتا کہ بعض کے مظالم بعض کے ذریعہ مٹا دیئے جائیں تو عبادت خانے اور علماء کے رہنے کی جگہیں اور بدھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجد میں سب برباد ہو جاتیں اور ان میں اللہ کا نام لیا جانا بند ہو جاتا کیونکہ تمہارے جنگ نہ کرنے سے ان لوگوں کے ارادے کس طرح بدل سکتے ہیں جو حکومت کا دائرہ وسیع کر کے مذہب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنے منشاء کے مطابق مذہب رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں.یہ لوگ جنگ کی قطعی ممانعت کے اعلان کو سن کر دلیر ہو جائیں گے اور نہ صرف دنیوی امور میں دست اندازی شروع کر دیں گے بلکہ لوگوں کے دین کو مٹا دیں گے اور عبادت کی جگہوں کو گرا دیں گے وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو لَقَوِيٌّ عَزِيزٌہ فرماتا ہے جو بھی اس لئے اُٹھے گا کہ خدا کے دین کو آزاد کرے خدا اس کی مدد کرے گا اور وہ قومی اور عزیز ہے.جس قوم کے ساتھ اُس کی مدد ہو وہ کبھی مغلوب نہیں ہو ا کرتی.پھر فرماتا ہے ایسے لوگ جو مذہبی آزادی کے قیام کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ الَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّتَهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكَوةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ اگر وہ دنیا پر قابض ہو جائیں تو طاقتور ہو کر دوسروں کوٹوٹیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، غریبوں کو مال دیں گے، خود بُرے کاموں سے بچیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرے کاموں سے روکیں گے.اب بتاؤ کیا اس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب ان کا جی چاہے لڑائی شروع کر دیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں.اس قسم کے جنگی قیدی تو دشمن ہی بنوا سکتا ہے اور جب اس سے بچنا اس کے اختیار میں ہے تو پھر اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا پھر قید رہنے کے قابل کیونکہ اسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا، وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا ، وہ دین کے لئے جنگ نہ کرتا اور اپنے آپ کو غلامی سے بچا لیتا.اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی لیکن فرض کرو ایسا حملہ ہو جائے اور بعض لوگ قیدی بن جائیں تو پھر جو لوگ قیدی بن کر آئیں ان کے لئے صاف اور واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے کہ فَاِذَا الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا اثْخَمْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَ إِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرُبُ أَوْزَارَهَا ٢٠ یعنی اگر ایسا حملہ ہو جائے اور تمہیں لڑائی کرنی پڑے تو خدا تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن میں سے کچھ قیدی پکڑ لو مگر پھر ان سے کیا سلوک کرو اس بارہ میں ہمارے دو قانون ہیں اور تمہیں ان دونوں میں سے کسی ایک قانون کو ضرور ماننا پڑے گا اور وہ قانون یہ ہیں کہ اوّل فَا مَّا مَنَّا بَعْدَ یا تو احسان کر کے چھوڑ دو اور کہو کہ جاؤ ہم نے تمہیں بخش دیا وَ اِمَّا فِدَآء اور یا جنگ کا خرچ بحصہ رسدی قیدیوں سے لیکر انہیں رہا کر دو.گویا دو صورتوں میں سے ایک صورت تمہیں ضرور اختیار کرنی پڑے گی.یا تو تمہیں احسان کر کے انہیں آزاد کرنا پڑے گا اور یا پھر بحصہ رسدی ہر قیدی سے جنگ کا تاوان وصول کر کے انہیں آزاد کرنا پڑے گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کی جائے.ہاں اگر کوئی شخص بطور احسان انہیں رہا کرنا نہیں چاہتا تو اُس وقت ۵۴
۵۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو تک کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کریں اُن سے خدمت لے سکتا ہے.آجکل کی یورپین قوموں کو ہی دیکھ لوفرانس کے قیدی جو ہٹلر کے قبضہ میں ہیں ان سے وہ تاوانِ جنگ الگ وصول کرے گا اور خدمت الگ لے رہا ہے.چنانچہ ہر جگہ کہیں جنگی قیدیوں سے سڑکیں بنواتے ہیں، کہیں مٹی گھر واتے ہیں اور کہیں اور کام لیتے ہیں.بے شک وہ ان سے اُن کے عہدوں کے مطابق کام لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ انہیں فارغ رہنے دیں.پس جنگی قیدیوں سے اب بھی مختلف کام لئے جاتے ہیں اور یہی اسلام کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے ہاں تاوانِ جنگ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اسلام یہ کہتا ہے کہ ہمارا پہلا حکم یہ ہے کہ تم انہیں احسان کر کے چھوڑ دو ہاں اگر احسان نہیں کر سکتے تو پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ ان سے تاوانِ جنگ لے کر انہیں رہا کر دو.اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدی سے آئندہ جنگوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسل کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے میں شامل نہ ہونے کا معاہدہ لے کر اُسے رہا کر دینا کہ احسان کر کے چھوڑتے وقت یہ معاہدہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نہیں نکلیں گے کیونکہ ہوسکتا ہے ایک شخص ایک دفعہ رہا ہو تو دوسری دفعہ پھر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل ہو جائے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کی شرط کر لینے کی اجازت دی ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ ایسا ہے جو بتا تا ہے کہ اس قسم کے خطرات قیدیوں کو رہا کرتے وقت ہو سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک قیدی ابو عزہ نامی کو رہا کیا یہ شخص جنگِ بدر میں پکڑا گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہ عہد لے کر چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہو گا مگر وہ جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پھر لڑنے کے لئے نکلا اور آخر حمراء الاسد کی جنگ میں گرفتار ہو کر مارا گیا.پس جنگی قیدیوں کے لئے اسلام دو ہی صورتیں تجویز فرماتا ہے (1) احسان کر کے چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو (2) تاوان جنگ بحصہ رسدی وصول کر کے انہیں چھوڑ دیا جائے.جنگی قیدی سے خدمت لینا ہاں جب تک وہ فدیہ ادا نہ کرے اس سے خدمت لینی جائز ہے کیونکہ قیدی بنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دشمن کی طاقت کو کمزور کیا جائے اگر قیدیوں کو اکٹھا کر کے انہیں کھلانا پلانا شروع کر دیا جائے اور
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس سے دشمن کے مقابلہ میں فائدہ اُٹھایا جا سکے تو اس طرح دشمن کی طاقت بڑھ جائے گی کم نہیں ہوگی لیکن اس میں بھی اسلام اور موجودہ حکومتوں کے طریق عمل میں بہت بڑا فرق ہے.جنگی قیدیوں سے کام لیتے وقت اُن کی طاقت کا خیال رکھنے آجکل جنگی قیدیوں میں سے بڑے بڑے اور اُن کی خوراک و پوشاک کے متعلق اسلامی ہدایات افسروں کو تو کچھ نہیں کہا جاتا لیکن عام قیدیوں سے سختی سے کام لیا جاتا ہے مگر اسلام کہتا ہے (1) تم کسی قیدی سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو(2) دوسرے جو کچھ خود کھاؤ وہی اُس کو کھلاؤ اور جو کچھ خود پہنو وہی اُس کو پہناؤ.اب ذرا یورپین حکومتیں بتا ئیں تو سہی کہ کیا وہ بھی ایسا ہی کرتی ہیں ؟ کیا انگریز ، جرمن اور جاپانی قیدیوں کو وہی کچھ کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں یا جرمن انگریز قیدیوں کو وہی کچھ کھانے کے لئے دیتے ہیں جو خود کھایا کرتے ہیں وہ ایسا ہر گز نہیں کرتے.مگر اسلام کہتا ہے جو کھانا خود کھاؤ وہی ان کو کھلا ؤ اور جو کپڑا خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ.اس بارہ میں صحابہ اس قدر تعہد سے کام لیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ صحابہ ایک سفر پر جا رہے تھے اور ان کے ساتھ بعض غلام بھی تھے وہ غلام خود روایت کرتے ہیں کہ راستہ میں جب کھجور میں ختم ہونے کو آئیں تو صحابہ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تو گٹھلیوں پر گزارہ کریں گے اور ہمیں کھجور میں کھلائیں گے.چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے رہے اور گٹھلیاں بھی انہیں کافی نہ ملتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکتا.تو یہ حکم جو اسلام نے دیا ہے کہ جو کچھ خود کھاؤ وہی اپنے قیدیوں کو کھلاؤ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی صرف صحابہ کرام ہی ہیں جنہوں نے یہ نمونہ دکھایا.اسلامی تعلیم میں جنگی قیدیوں پر سختی پھر فرماتا ہے انہیں مار پیٹ نہیں اور اگر کوئی شخص انہیں غلطی سے مار بیٹھے تو وہ کرنے اور اُن کو مارنے پیٹنے کی ممانعت غلام جسے مارا گیا ہو اسی وقت آزاد ہو جائے گا.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ ایک صحابی کسی غلام کو مار رہے ہیں یہ صحابی خود بیان کرتے ہیں کہ میں اسی حالت میں تھا کہ میں نے DY
۵۷ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اپنے پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ آواز سنی کہ تم کیا کرتے ہو یہ جاہلیت کا فعل ہے.آج کل تو لوگ اپنے نوکروں کو بھی مار لیتے ہیں اور اسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غلام کے مارے جانے پر اس صحابی کو ڈانٹا اور فرمایا تم کیا کرتے ہو جس قدر تمہیں اس غلام پر مقدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کو تم پر مقتدرت حاصل ہے.وہ صحابی کہتے ہیں میں یہ آواز سن کر کانپ گیا اور میں نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! میں اسے آزاد کرتا ہوں.آپ نے فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے.اسے اسی طرح ایک اور صحابی کہتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک لونڈی تھی ایک دفعہ ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے کسی قصور پر اُسے تھپڑ مار دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا اسے تھپڑ مارنے کا جرمانہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اسے آزاد کر دو.چنانچہ انہوں نے اسے آزاد کر دیا.گویا کوئی سخت مار پیٹ نہیں ایک تھپڑ بھی کسی غلام یا لونڈی کو مارنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نا پسند تھا اور آپ اس کا کفارہ صرف ایک ہی چیز بتاتے تھے کہ اسے آزاد کر دیا جائے.آج کل تو مار مار کر جسم پر نشان ڈال دیتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سونا نہیں اگر تم تھپڑ بھی مار بیٹھتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم غلام رکھنے کے قابل نہیں اور تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم اس بات کے اہل نہیں کہ تمہارے ماتحت کسی کو رکھا جا سکے تم اسے فوراً آزاد کر دو.۲۲ شادی کے قابل جنگی قیدیوں کی شادی پھر فرماتا ہے اگر وہ شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم ان کی شادی کر دینے کے متعلق اسلامی ہدایت کرد و کیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاَنْكِحُوا الْآيَامى مِنْكُمْ وَ الصَّلِحِيْنَ مِن عِبَادِكُمْ وَ اِمَائِكُم ۲۳ تمہاری لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ان کے متعلق ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم ان کی شادی کر دیا کرو.اب بتاؤ کیا آجکل کا انٹر نیشنل قانون اس سے زیادہ حسن سلوک سکھاتا ہے.آجکل تو
۵۸ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ ان کی پہلی بیویوں کو بھی ان کے پاس آنے نہیں دیتے کجا یہ کہ خود ان کی شادی کر دیں.مگر اسلام کہتا ہے جو کچھ خود کھاؤ وہی ان کو کھلا ؤ ، جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہناؤ ، ان میں سے جو شادی کے قابل ہوں ان کی شادی کر دو، ان پر کبھی سختی نہ کرو اور اگر تم کسی وقت انہیں مار بیٹھو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم انہیں فوراً آزاد کر دو.پھر کیا آج قیدیوں کو کوئی بھی حکومت یہ اقرار لے کر کہ وہ آئندہ ان کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوں گے چھوڑنے کو تیار ہے؟ یا کیا بغیر تاوانِ جنگ کے کوئی کسی جنگ کرنے والی حکومت کو چھوڑتا ہے؟ اسلام میں فدیہ یعنی تاوانِ جنگ مگر اسلام نے تاوان جنگ کو بھی اتنا نرم کر دیا ہے کہ فرمایا یا تو احسان کر کے چھوڑ دو اور احسان کو مقدم کے ذریعہ جنگی قیدیوں کی رہائی رکھا اور اس کی برداشت نہ ہو تو تاوان جنگ لے کر چھوڑ دو اور فدیہ تاوانِ جنگ کے سوا اور کچھ نہیں ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ پہلے جنگ انفرادی ہوتی تھی اس لئے افراد سے تاوانِ جنگ وصول کیا جاتا تھا مگر اب قومی جنگ ہوتی ہے اس لئے اب طریق یہ ہوگا کہ قوم تا وانِ جنگ ادا کرے.پہلے چونکہ با قاعدہ فوجیں نہ ہوا کرتی تھیں اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فرداً فرداً پڑتی تھی اس لئے اُس وقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تا کہ وہ ان سے اپنے اپنے اخراجات جنگ وصول کر لیں.مگر جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہوا اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فردا فردا نہ پڑتا ہو تو اُس وقت جنگی قیدی تقسیم نہ ہوں گے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوان جنگ ادا کر دے گی تو پھر ان سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائے گا.اب بتاؤ جب قیدی کو فدیہ دے کر رہا ہونے کا اختیار ہے تو وہ کیوں فدیہ ادا کر کے اپنے آپ کو رہا نہیں کرا لیتا.اگر وہ خود فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے رشتہ دار فدیہ دے سکتے ہیں.اگر وہ بھی فدیہ نہیں دے سکتے تو حکومت فدیہ دے کر اسے رہا کرا سکتی ہے.بہر حال کوئی صورت ایسی نہیں جس میں اس کی رہائی کا دروازہ کھلا نہ رکھا گیا ہو.فدیہ نہ دے سکنے والے کی رہائی کی صورت ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ ہو سکتا ہے ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، گورنمنٹ ظالم ہو اور اسے رہا کرانے کا کوئی احساس نہ ہو، رشتہ دار
۵۹ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ لا پرواہ یا بدمعاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہے تا کہ وہ اس کی جائداد پر قبضہ کر لیں ، دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے جو رقم اس نے جنگ میں خرچ کی تھی اس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو تو ایسی صورت میں وہ اپنی رہائی کے لئے کیا صورت اختیار کر سکتا ہے.اس سوال کا جواب بھی قرآن کریم نے دیا ہے.فرماتا ہے.وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَبَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْ هُمُ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَّاتُوهُم مِّنْ مَّالِ اللَّهِ الَّذِى انكُمْ ۲۴ یعنی وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں ان پر قبضہ اور تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں چھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہوسکیں ہم غریب اور نادار ہیں ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آپ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سال میں ادا کر دیں گے اور اس قدر ماہوار قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں تو فَكَاتِبُو هُمُ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا.تم اس بات پر مجبور ہو کہ ان کو آزاد کر دو اور ان کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو بشرطیکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے ان کی مدد کرو.یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تا کہ اس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کرسکیں.گویا جس وقت قسطیں مقرر ہو جائیں اُسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہو گا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا.اگر ان تمام صورتوں کے باوجود کوئی شخص پھر بھی غلام رہتا ہے اور آزاد ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود غلام رہنا چاہتا ہے اور اسے غلامی میں مزا آتا ہے.غرض اسلامی تعلیم کے ماتحت غلام دُنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہی جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اول تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دو.اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لے کر رہا کر دو.یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں، حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لا پرواہ ہو، رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ غریب ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ طے کر لو کہ مجھ پر کیا تاوانِ جنگ عائد ہوتا ہے اور مجھے اس تاوان کی ادائیگی کے لئے اتنی مہلت دے دو میں اس عرصہ میں اس قدر ماہوار رو پیدا دا کر کے تاوانِ جنگ دے دوں گا.اس معاہدہ کے معاً بعد وہ آزاد ہو جائے گا اور
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ مکاتبت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے.مکاتبت کا روکنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جبکہ اس میں خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل یا کم عقل ہو اور خود کما نہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدے کے نقصان اُٹھائے گا.مکاتبت کی صورت میں اسلام اسے سرمایہ مہیا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت.قیدیوں کی رہائی کے متعلق اسلام کی انتہائی کوشش پھر مکن ہے کوئی شخص کہہ دے اگر پاگل یا کم عقل والے کی مکاتبت کو روکنا جائز ہے تو پھر لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے آزاد تو وہ پھر بھی نہ ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحب عقل ہوں ، کما سکتا ہوں مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے ایسی صورت میں قاضی فیصلہ کر کے اسے آزادی کا حق دے دیگا.غرض کوئی صورت ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کو مد نظر نہ رکھا گیا ہو.اول مالک کو کہا کہ وہ احسان کر کے چھوڑ دے.دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کر کے آزادی حاصل کر لے اور اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو مکاتبت کر لے اور کہہ دے کہ میں اتنی قسطوں میں روپیہ دے دوں گا مجھے دو یا تین سال کی مہلت دے دو.ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ عملاً آزاد سمجھا جائے گا اور اگر ان ساری شرطوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میں آزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرام کے پاس جو غلام تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے ماتحت وہ اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں اپنی آزادی سے صحابہ کی غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی.صحابہ کرام کا غلاموں سے حسن سلوک صحابہ جو کچھ کھاتے وہی انہیں کھلاتے جو کچھ پہنتے وہی ان کو پہناتے ، انہیں بدنی سزا نہ دیتے ، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو وہ کر نہ سکتے ، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جس کے کرنے سے وہ خود کراہت کرتے اور اگر لیتے تو کام میں ان کے ساتھ شریک ہوتے اور اگر وہ آزادی کا مطالبہ کرتے تو انہیں فوراً آزادی دے دیتے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر دیں.ان حالات کو دیکھ کر غلاموں کا جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ آزاد ہوں.وہ جانتے تھے کہ یہاں ۶۰
บ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہمیں اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے بلکہ آقا پہلے ہمیں کھلاتا ہے پھر خود کھاتا ہے گھر گئے تو معمولی روٹی ہی ملے گی اس لئے وہ آزادی کا مطالبہ ہی نہیں کرتے تھے.پس گووہ غلام تھے مگر در حقیقت ان کے دل فتح ہو چکے تھے اور ایسے ہی تھے جیسے حضرت خدیجہ کے غلام زید بن حارثہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو آزادی پر ترجیح دی.غلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو کے حُسنِ سلوک کا نمونہ اور اس کا نتیجہ انہوں نے اپنی تمام دولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دی اور زید کو بھی جو ان کے غلام تھے آپ کے سپرد کر دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو آزاد کر دیا.حضرت زیڈ دراصل غلام نہیں تھے بلکہ ایک آزاد خاندان کے لڑکے تھے کسی ٹوٹ مار میں وہ قید ہو گئے اور ہوتے ہوتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے.ان کے باپ اور چچا دونوں ان کو تلاش کرتے کرتے مکہ میں آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ زیڈ کو ہمارے ساتھ بھیجا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زید کو آزاد کر چکے تھے آپ نے فرمایا میری طرف سے کوئی روک نہیں اگر یہ جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جائے.انہوں نے زیڈ سے کہا کہ بیٹا! گھر چل تیری ماں روتی ہے اور اسے تیری جدائی کا سخت صدمہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی تجھے آزاد کر دیا ہے اور اجازت دے دی ہے کہ تو ہمارے ساتھ واپس چلا جا.زیڈ نے کہا انہوں نے بے شک مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں دل سے ان کا غلام ہی ہوں اور اس غلامی سے الگ ہونا نہیں چاہتا.باپ نے بہت منت سماجت کی اور کہا کہ دیکھ اپنی بوڑھی ماں کا خیال کر چچا نے بھی بہت کوشش کی اور کہا کہ ماں باپ سے بڑھ کر اور کون حُسنِ سلوک کر سکتا ہے ہمارے ساتھ چل ہم تجھے بڑی محبت سے رکھیں گے مگر حضرت زید نے کہا میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ یہ سلوک کرتے ہیں اس سے بہتر سلوک دنیا کی کوئی ماں اور دنیا کا کوئی باپ نہیں کر سکتا.اب بتاؤ کیا اس غلامی پر اعتراض ہو سکتا ہے؟ یا انسان کا دل تشکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتا ہے کہ کیا دنیا میں دو
۶۲ انوار العلوم جلد ۱۶ انسانوں کے درمیان ایسے شریفانہ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں.نظام تو ابتدائے اسلام میں بعض لوگوں کے غلام رہنے کی وجہ ہیں اگر ابتدائے اسلام میں بعض غلام غلام ہی رہے تو اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مسلمان غلاموں سے ایسا حُسنِ سلوک کرتے تھے کہ وہ غلام خود چاہتے تھے ہم پر یہ حکومت کرتے چلے جائیں اور ہم ان کی غلامی میں ہی رہیں کیونکہ ان کی غلامی آزادی سے بدرجہا بہتر ہے مگر یورپ کے پادری دور بیٹھے اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو دور نہیں کیا.بڑے بڑے جلسوں میں لیکچرار اپنے وقت سے پانچ منٹ بھی زیادہ تقریر کریں تو لوگ شور مچانے لگ جاتے ہیں مگر یہ دل کی غلامی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہی ہے کہ یہاں ہمارے جلسہ میں خواہ سردی لگے ، بھوک لگے ، ہاتھ پاؤں مشکل ہو جائیں پھر بھی لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ تقریر جاری رہے.یہ غلامی آیا اس قابل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جائے یا یہ غلامی ایمانوں کو بڑھانے والی ہوتی ہے.یہ غلامی بندوں کی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے.غرض کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اب تو دنیا آگے نکل گئی ہے اس نے غلامی کو مٹا دیا ہے کیونکہ اسلام نے شروع سے ہی غلامی کو کلی طور پر مٹا دیا ہے.ہاں جنگی قیدی بنانے کی اس نے اجازت دی ہے مگر ان کے بارہ میں بھی وہ قواعد بنائے کہ اب تک بھی دنیا ان سے پیچھے ہے.اس وقت نہ اتحادی ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں نہ محوری " ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں.لوگوں پر ظلم روا رکھنے کے متعلق بعض فلسفیانہ نظریے خلاصہ یہ کہ اسلام نے غلامی کو یکسر مٹا دیا ہے.اب رہا وہ دُکھ جو باطنی غلامی سے پیدا ہوتا ہے یعنی غربت یا ماتحتی کی وجہ سے، اس کا علاج بھی اسلام نے کیا ہے مگر اس علاج کو سمجھنے سے پہلے یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے امتیازی فرق بعض فلسفی نظریوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ نظریے یہ ہیں.پہلا نظریہ اول بعض کہتے ہیں کہ دنیا میں جس کا زور چلتا ہو وہی لے جاتا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے.انگریزوں کا زور چلا تو انہوں نے کئی ملکوں پر قبضہ کر لیا، اسی طرح جب اٹلی نے ایسے سینیا پر حملہ کیا تو مسولینی نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ ہم نے یہ حملہ محض ایسے سینیا والوں کی خدمت کرنے کے لئے کیا ہے اور اس اقدام سے
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہماری وہی غرض ہے جو انگریزوں کی ہندوستان میں تھی.وہ کہتے ہیں ہندوستان پر ہم اس لئے حکومت کر رہے ہیں کہ وہاں کے جاہلوں کو پڑھائیں اور اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں.پھر کیا ہم میں انسانیت نہیں پائی جاتی کہ ہم دوسروں کی خدمت نہ کریں اور ان کے ملک پر قبضہ کر کے ان کی جہالت کو دور نہ کریں.پس یہ بھی ایک دلیل ہے جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے.دوسرا نظریہ دوسرے بعض کہتے ہیں کہ جو فائق ہوا سے فائق ہی رہنا چاہئے یعنی مالی طور پر جس کا غلبہ ہو اور جو اپنے زور بازو سے کما تا ہو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے.تیسرا نظریہ اسی طرح ایک اور نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نسلی فوقیت بھی ایک حقیقی فوقیت ہے اس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.یہ عقیدہ ویسا ہی ہے جو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے کہ شودر شو د ر ہی رہے گا ویش ولیش ہی رہے گا کھتری کھتری ہی رہے گا اور برہمن برہمن ہی رہے گا.بقول ان کے یہ امتیاز جو نسلی طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے مٹ نہیں سکتا.چوتھا نظریہ ایک اور قانون یہ بیان کیا جا تا ہے کہ دنیا میں صرف جمہور کوحکومت کرنے کا حق ہے اس لئے اقلیتوں پر جو چاہو ظلم کرو.اس نظریہ کے ماتحت یہ لوگ اقلیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور تھوڑے آدمیوں کی آواز کو سنتے ہی نہیں.پانچواں نظریہ اسی طرح ان کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ جو گری پڑی چیز ملے لے لو.ہم بچپن میں جب آپس میں کھیلا کرتے اور ہمیں کوئی گری پڑی چیز مل جاتی تو ہم یہ کہتے ہوئے اُسے اُٹھا لیتے کہ دیکھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پادی اور سمجھتے کہ یہ کوئی ایسا منتر ہے جس کو پڑھ کر گری پڑی چیز کو اُٹھا لینا بالکل جائز ہو جاتا ہے مگر وہ چیز جو بچوں کو کھیلتے ہوئے مل جاتی ہے کوئی قابل ذکر نہیں ہوتی.کبھی انہیں مکئی یا چنے کا دانہ زمین پر پڑا ہوا مل جاتا ہے، کبھی بٹن یا ایسی ہی کوئی چیز مل جاتی ہے اور وہ اُسے اُٹھا لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ایک دفعہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رَسُولَ اللهِ! گری پڑی چیز کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا مثلاً؟ اُس نے کہا مثلاً جنگل میں مجھے کوئی بکری مل جائے تو آیا میں اسے لے لوں یا نہ لوں ؟ آپ نے فرمایا جنگل میں اگر تجھے کوئی بکری مل جائے تو تو ادھر ادھر آواز دے کہ یہ کس کی بکری ہے اور اگر آواز دینے کے باوجود تجھے اس کا مالک نہ ۶۳
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ملے تو تو اُسے لے لے اور کھا جا کیونکہ اگر تو نہیں کھائے گا تو تیرا بھائی بھیڑیا اُسے کھا جائے گا.اُس نے کہايَا رَسُولَ اللهِ ! اگر جنگل میں اُونٹ مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا تعلق ہے؟ اونٹ کا کھانا درختوں پر اور اُس کا پانی اُس کے پیٹ میں ہے تو اس اونٹ کا کیا لگتا ہے تو اُسے پھرنے دے.اُس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! اگر کہیں گری پڑی کوئی تھیلی مجھے مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ نے فرما یا تھیلی ملے تو اُسے اُٹھا لو اور لوگوں میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرتے رہو جب اُس کا مالک مل جائے تو اُسے دیدو.پس ہر گری پڑی چیز کے لئے الگ الگ قانون ہے.بکری اور مرغی چونکہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانو رکھا جاتے ہیں اس لئے اگر ان کا مالک نہ ملے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ انہیں پانے والا اپنے استعمال میں لے آئے.لیکن جو باقی چیزیں ہیں ان میں سے جو حفاظت سے رہ سکتی ہیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں ہاتھ مت لگاؤ اور جو حفاظت سے نہیں رہ سکتیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اُٹھا تو لو مگر متواتر لوگوں میں اعلان کرتے رہو اور پھر ان کے اصل مالک تک انہیں پہنچا دو.تو اسلام نے رگری پڑی چیزوں کے متعلق نہایت پر حکمت احکام دیئے ہیں مگر اب یورپین اقوام کا اصول یہ ہے کہ جو لا وارث ، کمزور قوم ہو اس پر قبضہ کر لو.اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں گرا پڑا مال مل گیا ہے.آسٹریلیا کتنا بڑا ملک ہے اس کے متعلق یورپین لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لا وارث مال مل گیا ہے، ہندوستان کی حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لاوارث مل گیا ہے، شمالی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لا وارث مل گیا ہے، جنوبی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں یہ ہمیں لاوارث مل گیا ہے.غرض پانچواں نظر یہ یورپین اقوام کا یہ ہے کہ نیا دریافت کردہ ملک جو بھی دریافت کر لے یا کمزور حکومت جہاں بھی ہو وہ پہلے پہنچنے والے کی ہے.ان اصول کے علاوہ جن کی وجہ سے دنیا میں ظلم ہو رہا ہے کچھ عملی خامیاں بھی اس ظلم کی ذمہ دار ہیں.لوگوں پر ظلم روا رکھنے والی عملی خامیاں پیلی علی خام تو یہ ہے کہ معذور و مجور کا ذمہ دار کسی محکمہ کو قرار نہیں دیا جاتا رہا گو اب اس کی بعض ممالک میں تدریجاً اصلاح ہو رہی ہے اور بعض محکمے ایسے بنے ہیں جن کے ذریعہ اس کوتاہی کا ازالہ کیا جاتا ہے مگر اب بھی انہوں نے جونٹی سکیم بنائی ہے وہ اسلامی تعلیم کو نہیں پہنچتی.دوسرے ایسے راستے کھلے رکھے گئے تھے جن سے بعض افراد کے ہاتھ میں تمام دولت آ جائے.
۶۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو تیسرے ایسے راستے گھلے تھے کہ جن کے ہاتھ میں دولت آ جائے وہ پھر نکلے نہیں.چوتھے بے مصرف فنون پر روپیہ خرچ کیا جاتا اور اس کا نام آرٹ رکھا جاتا ہے ان میں سے بعض کسی جگہ اور بعض کسی جگہ رائج ہیں اور بعض سب جگہ رائج ہیں.اسلام نے ان سب خرابیوں کے دروازے بند کر کے ترقی کے نئے رستے کھولے ہیں.چنانچہ اسلام نے ان سب امور کا ان طریقوں پر علاج کیا ہے:.باطنی غلامی یعنی ماتحتی کی وجہ سے پیدا اول اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ ساری دنیا کے لئے ہے.کسی ایک کے لئے پیدا نہیں کیا.یہ ایسی ہونے والے دُکھ کا علاج اسلام میں ہی بات ہے جیسے ماں باپ بعض دفعہ مٹھائی کی تھالی اپنے کسی بچے کو پکڑاتے ہیں تو وہ اکیلا ہی اسے کھا جانا چاہتا ہے اس پر اس کے ماں باپ اسے کہتے ہیں کہ یہ حصہ صرف تمہارا نہیں بلکہ تمہارے سب بھائیوں کا اس میں حق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کی مجموعی ملک ہے جیسے ماں اپنے کسی بچہ کو مٹھائی کی تھالی دے کر کہتی ہے کہ یہ تم سب بھائیوں کا حصہ ہے.اس اصل کے ماتحت اسلام نے امپیریلزم ، نیشنل سوشلزم اور موجودہ انٹرنیشنل سوشلزم سب کو رڈ کر دیا ہے کیونکہ یہ فلسفے طاقتور اور عالم اور منظم قوموں کو دوسری اقوام پر تصرف کا حق دیتے ہیں.آج کل بھی یہی بحث ہو رہی ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے تو کل افریقہ والے اپنی آزادی کا مطالبہ کریں گے حالانکہ وہ ننگے پھر تے تھے اور ہم نے انہیں تہذیب سکھائی.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ننگے پھر تے تھے تو تم ان کا ننگ نہ دیکھتے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے.تم کہتے ہو وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے مگر ہم نے انہیں یہ آدمیت سکھائی اب کیا ہما را حق نہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں.ہم کہتے ہیں اگر وہ درختوں کے پتے یا پھل ہی کھایا کرتے تھے تو تمہارا کیا حق تھا کہ تم ان کے ملک پر قبضہ کرتے انہیں کیک کھلاتے.پس هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے یہ نہیں جیسے آج کل ساؤتھ افریقہ میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غیر شخص داخل نہ ہو ، اسی طرح
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو امریکہ والوں نے قانون بنا دیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی اور شخص داخل نہ ہو حالانکہ ساؤتھ افریقہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے اسی طرح امریکہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ صرف ساؤتھ افریقہ اور امریکہ والے ہی ان سے فائدہ اُٹھائیں باقی دنیا محروم رہ جائے.کانوں کی دریافت کے متعلق اسلام کا حکم اسی طرح اسلام نے ان مالدار لوگوں کے ظلم کو بھی رڈ کر دیا ہے جو طبعی وسائل سے کام لے کر دولت جمع کرتے ہیں اور ان میں باقی دنیا کا حصہ قرار دیا ہے اگر وہ طبعی وسائل سے کام نہ لیں تو کبھی اس قدر مالدار نہیں ہو سکتے مگر اب وہ دولت کے زور سے کانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس طرح دوسروں کے حقوق کو تلف کرنے کا موجب بنتے ہیں.اسلام نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ کانوں میں سے پانچواں حصہ گورنمنٹ کا مقرر کیا ہے اور پھر جو مال کانوں کے مالک جمع کریں اور اس پر سال گزر جائے اس پر زکوۃ الگ ہے.گویا اس طرح حکومت کانوں میں حصہ دار ہو جاتی ہے اور غرباء کیلئے ایک کافی رقم جمع ہو جاتی ہے جس سے ان کے حقوق ادا کئے جا سکتے ہیں اور وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو کانوں کی دریافت کی وجہ.سے نظام تمدن میں واقع ہوتا ہے.دوسروں کے اموال کو اُن کی خبر گیری کرنے کے دوسرا علاج اسلام نے یہ کیا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دیا کہ بہانہ سے اپنے قبضہ میں کر لینے کا علاج اسلام میں لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِه أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ كل فرماتا ہے تم دوسروں کے اموال اس بہانہ سے نہ لو کہ ہم ان کی خبر گیری کریں گے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا ية أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ جو کچھ ہم نے لوگوں کو مال دیا ہے اس کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر نہ دیکھو وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمُ اور یہ نہ کہو کہ ہمیں ان کی حالت کو دیکھ کر بڑا غم ہوتا ہے فرماتا ہے یہ غم تم اپنے لئے ہی رہنے دو.وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ تمہاری اپنی رعایا موجود ہے تم اس کی تمدنی ترقی کے لئے جتنی کوششیں چاہو کرو تمہیں اس سے کوئی منع نہیں کرتا.ہاں اگر تم یہ کہو کہ ہمیں دوسروں کا غم بے چین کئے ہوئے ہے اور ان کی ترقی کے لئے ہم ان پر قبضہ کرنا ۶۶
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو چاہتے ہیں تو ہم اس سے متفق نہیں.تم اپنے گھر بیٹھو اور انہیں اپنے گھر میں رہنے دو.آجکل تمام کا لو نیز یشن کی بنیاد اسی غلط دعویٰ پر ہے کہ ہم ان کی بھلائی کے لئے ان کے ملک پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور یہی بہانہ ہر ملک پر قبضہ جماتے وقت کیا جاتا ہے مگر اس دعویٰ کی حقیقت تھوڑے عرصہ کے بعد ہی کھل جاتی ہے جب اس ملک کی تمام دولت اپنے قبضہ میں لے لی جاتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.ایسٹ افریقہ میں چلے جاؤ وہاں یورپین گورنمنٹ ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہاں انگریز تو بڑے بڑے مالدار ہیں مگر خود وہاں کے باشندے غربت کی حالت میں ہیں اور ان کے خادم بن کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں.پس فرماتا ہے کہ اپنے آدمیوں کی بھلائی کی فکر کرو دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ غریب جس طرح ہوگا اپنی خبر گیری کر لیں گے.اگر کہا جائے کہ کیا ان کی مدد نہ کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کی خدمت مت کرو وہ جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کیلئے خبر گیری مت کرو.اب خدمت تو ایک مدرس بھی کرتا ہے مگر اس کی خدمت اتنی ہی ہوتی ہے کہ علم پڑھاتا ہے اور تنخواہ وصول کر لیتا ہے مگر یہ لوگ تو جب کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کی زمینیں اپنے آدمیوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ خانماں برباد ہو جاتے ہیں.پس فرماتا ہے یہ طریق درست نہیں.اول تو دوسروں کے ملک میں سیاسی طور پر نہ جاؤ اور اگر جاؤ تو خادموں کی حیثیت سے جاؤ.پس دوسروں کے فائدہ کے لئے بغیر ملک پر قبضہ کرنے کے مدد دینا منع نہیں.منع یہی ہے کہ انسان خادم کی حیثیت سے نہ جائے بلکہ ملک پر قبضہ کرنے کے لئے جائے.اب دیکھو بالشویک نے بھی کچھ کمی نہیں کی وہ فن لینڈ پر چڑھ دوڑے اور اس پر قبضہ کر لیا اور شور یہ مچا رہے تھے کہ ہم وہاں امن قائم کرنا چاہتے ہیں.پس اسلام کہتا ہے یہ طریق درست نہیں تمہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے حقیقت یہ ہے کہ تمام کالونیز کا سوال صرف اور صرف اس طرح حل ہو سکتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے ورنہ موجودہ طریقے سب غلط اور نادرست ہیں.اسلامی لیگ آف نیشنز اور اس کے چار بنیادی اصول تیرا اصل اسلام یہ بتاتا ہے کہ جب تک دنیا ایک محور پر نہیں آجاتی امن کے قیام کے لئے سب کو ان کی حدود کے اندر رکھو.اسلام کا اصول یہ ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کر کے ایک محور پر لایا جائے مگر جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک ۶۷
۶۸ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے وہ یہ ہدایت دیتا ہے.وَاِنْ طَائِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأخْرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى ۲۸ أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ یعنی اگر دو حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو اور اگر وہ صلح اور پیار سے آپس کے جھگڑے کو نہ پیپٹائیں اور ایک حکومت دوسرے پر چڑھائی کر دے تو پھر ساری حکومتیں مل کر چڑھائی کرنے والے کا مقابلہ کریں.جب وہ اپنی ہار مان لے اور کہے بہت اچھا میں لڑائی بند کرتی ہوں تو پھر دوبارہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور تفصیلات طے کرو.مگر یاد رکھو جب شرائط صلح طے کرنے لگو تو اس غصہ کی وجہ سے کہ اس نے کیوں جنگ کی.عدل و انصاف کو ترک نہ کرو اور ایسا نہ کرو کہ پھر اپنا حصہ بھی مانگنے لگو بلکہ جو جھگڑا تھا اُسی تک اپنے آپ کو محدود رکھو.دیکھو یہ کیسی زبر دست پیشگوئی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت کوئی مسلمان گروہ ایسے نہ تھے جن میں لڑائی کا خطرہ ہوتا.پس در حقیقت یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی.بغی اور قَاتِلُوا کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ اس کا تعلق حکومت سے ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میں جھگڑ پڑیں تو تمہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ان حکومتوں کو مجبور کرو کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں.اگر وہ منظور کر لیں تو بہتر اور اگر منظور نہ کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کر دے تو باقی سب کا فرض ہے کہ اس کے مقابلہ میں یکجا ہو جائیں اور اس پر حملہ کر کے اسے مغلوب کریں اور آخر میں جب مغلوب ہو کر وہ صلح پر آمادہ ہو جائے تو انصاف اور دیانت کے ساتھ شرائط طے کرو.انتقام کے جوش میں اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو.اس آیت میں جو اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں.( 1 ).اگر حکومتوں میں اختلاف ہو تو دوسری حکومتیں زور دے کر انہیں تبادلۂ خیالات کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں.(2).اگر ان میں سے کوئی فریق نہ مانے اور جنگ کرے تو سب مل کر لڑنے والے سے جنگ کریں.(3).جب حملہ آور مغلوب ہو جائے اور باہمی سمجھوتہ کے فیصلہ پر راضی ہو جائے تو پھر سب ساتھ مل کر صلح کا فیصلہ کرائیں (آیت میں پہلی صلح صلح سے کام کرنے اور آپس میں مصالحت سے رہنے کے معنوں میں ہے اور دوسری صلح شرائط صلح سے طے کرانے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ دوبارہ شرائط کے کوئی معنے نہیں.عدل کا اضافہ بھی اس پر دال ہے ).
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام نو (4).لیکن جنگ کی وجہ سے غصہ سے کام نہ لیں جس کا حق ہوا سے دیں.بعض دفعہ حق والا بھی غصہ سے لڑ پڑتا ہے مگر حق بہر حال اُسی کا ہوتا ہے.(5).وَاقْسِطُوا کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مغلوب یا غالب فریق سے دوسری دخل دینے والی اقوام کوئی فائدہ نہ اٹھائیں.یہ لیگ آف نیشنز اسلام نے اُس وقت پیش کی جب اس قسم کا کسی کو خیال تک نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس نکتہ کو مجھ پر کھولا جو ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو صرف نبیوں یا خلفاء کا ہی ہو سکتا ہے.کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ اس قسم کا اہم انکشاف سوائے انبیاء اور خلفاء کے کسی نے آج تک کتب سماویہ میں سے کیا ہو جس کا تعلق سب دنیا سے ہو اور صدیوں کے لئے ہو.یورپ کی لیگ اس کی مخالفت سے فیل ہوئی اور میں نے اپنے لیکچر احمدیت میں پہلے سے اس کا اشارہ کر دیا تھا کہ اگر لیگ آف نیشنز بناؤ تو ان قرآنی اصول پر بناؤ مگر چونکہ لیگ کے قیام میں ان شرائط کو مدنظر نہ رکھا گیا اس لئے وہ ناکام ہوگئی.موجودہ لیگ آف نیشنز کی نا کامی کی وجوہات ۱۹۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو اُس وقت نئی نئی لیگ آف نیشنز بنی تھی اور روس وغیرہ درخواستیں دے رہے تھے کہ ہمیں بھی اس لیگ کا ممبر بنایا جائے.میں نے اُسی وقت لکھ دیا تھا کہ یہ لیگ ناکام رہے گی اور جن امور کا میں نے اس وقت ذکر کیا ہے ان تمام امور کو تفصیلاً اپنے لیکچر میں بیان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ان پانچوں اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا لیگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق قائم ہو نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مدد کی محتاج ہے اور آپ آگے آگے بھاگی پھرتی ہے چنانچہ میں نے لکھا تھا: - ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے اسی طرح میں نے لکھا تھا: - وو " جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے ہیں اور یہ کہ ترقی تنزل سب قوموں سے لگا ہو ا ہے کوئی قوم شروع سے ۶۹
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئندہ چلے گی کبھی فساد دُور نہ ہو گا.لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قوموں کو زیر وزبر کرنے والے آتش فشاں مادے دنیا سے ختم نہیں ہو گئے نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آئی ہے اب بھی کر رہی ہے پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر لاتی ہے، ۳۰ اُس وقت لوگ لیگ آف نیشنز کے قیام پر اتنے خوش تھے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں مگر میں نے زور دیا کہ جب تک تم یہ شرط نہ رکھو گے کہ جو حکومت غلطی کرے گی اُس سے سب حکومتیں مل کر لڑیں گی اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا مگر اس وقت یہی کہا گیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا یہ تو صلح کی بجائے لڑائی کی بنیا د رکھنا ہے اور نہ صرف اس کی بلکہ ان سب اصول کی جو اسلام نے پیش کئے ہیں تمام موجودہ تحریکات جو نئے نظام کی مدعی ہیں مخالف رہی ہیں مگر اب بائیس سال دھکے کھا کر اسی طرف رجوع ہوا ہے جس کی خبر اسلام نے پہلے سے دے دی تھی اور مضامین لکھے جا رہے ہیں کہ نئی لیگ کے قیام کے وقت یہ شرط رکھی جائے گی کہ اگر کوئی حکومت تصفیہ کی طرف مائل نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے مگر اب بھی تم دیکھو گے کہ اگر وہ اسلامی نظام کی پوری پابندی نہ کریں گے تو نا کام ہی رہیں گے.غرباء کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے اسلام میں چارا حکام یہ اصول تو اہم قومی امن کے لئے ہیں اور بغیر بین الاقوامی صلح کے اندرونی صلح چنداں نفع بھی نہیں دیتی مگر چونکہ بین الاقوامی صلح کے ساتھ ہی اندرونی یعنی انفرادی اصلاح بھی ضروری ہے اس لئے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اندرونی اصلاح کے لئے کیا ذرائع تجویز کئے ہیں.پہلا حکم یعنی ورثہ کی تقسیم اس غرض کے لئے اسلام نے چار نظریے قائم کئے ہیں اور ان چاروں کی غرض یہ ہے کہ غرباء کی تکلیف دور ہو جائے اگر غور کیا جائے تو تمدن میں خرابی واقع ہونے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ جائداد میں تقسیم نہیں ہوتیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چند لوگوں کے قبضہ میں رہتی ہیں اور غرباء کو جائدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا.اسلام نے اِس نقص کو دُور کرنے کے لئے ورثہ کے تقسیم کئے جانے
21 انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کا علم دیا ہے چنانچہ اسلامی احکام کے مطابق ہر مرنے والے کی جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہو جاتی ہے اور ماں کو ، باپ کو ، بیٹوں کو ، شو ہر کو، بیوی کو غرض ہر ایک حقدار کو اس کا مقررہ حق مل جاتا ہے اور کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو اپنی مرضی سے بدل دے بلکہ قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر تم اس رنگ میں جائداد کو تقسیم نہیں کرو گے تو گنہگار ٹھہرو گے.اس کے مقابلہ میں جو دوسرے مذاہب ہیں ان میں سے کسی میں تو صرف پہلے بیٹے کو وارث قرار دیا گیا ہے اور کسی میں کسی اور کو منو میں لکھا ہے کہ صرف بیٹوں کو ورثہ دیا جائے بیٹیوں کو نہ دیا جائے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص یا چند اشخاص کے ہاتھ میں تمام دولت جمع ہو جاتی تھی اور غرباء ترقی سے محروم رہتے تھے.اسلام کہتا ہے کہ جب تک تم اپنی دولت کو لوگوں میں پھیلاؤ گے نہیں اُس وقت تک قوم کو ترقی حاصل نہیں ہو سکے گی چنانچہ دیکھ لو اگر کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور اُس کے دس بیٹے ہوں تو ہر ایک کو دس دس ہزار روپیہ مل جائے گا آگے اگر ان کے تین تین، چار چار بیٹے ہوں تو یہ دس ہزار کی رقم اڑھائی اڑھائی ، تین تین ہزار روپیہ تک آ جائے گی اور اس طرح سب کو دولت کے حصول کے لئے نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی یہ نہیں ہو گا کہ وہ محض اپنے باپ دادا کی جائداد کے سہارے بیٹھے رہیں اور نہ صرف خود لکھے ہو جائیں بلکہ اپنی دولت کو بند کر لیں.انگریزوں نے تو پنجاب کی نو آبادیوں میں زمین کی تقسیم کے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف بڑا بیٹا ان کا وارث ہوسکتا ہے مگر اب انہوں نے یہ شرط اُڑا دی ہے.دوسرا حکم یعنی روپیہ جمع کرنے کی ممانعت دوسرے اسلام نے روپیہ جمع کرنے سے روکا ہے یعنی وہ یہ نہیں چاہتا کہ روپیہ کو بند رکھا جائے بلکہ وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ یا تو روپیہ کو خرچ کریں یا اسے کسی کام پر لگائیں کیونکہ دونوں صورتوں میں روپیہ چکر کھانے لگے گا اور لوگوں کو فائدہ ہوگا لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے متعلق اسلام یہ وعید سناتا ہے کہ اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سونا اور چاندی وہ دنیا میں جمع کرے گا اسی کو آگ میں گرم کر کے قیامت کے دن اسے داغ دیا جائے گا.اس حکم میں حکمت یہی ہے کہ اگر لوگ سونا چاندی جمع کریں گے تو غریبوں کو کام نہیں ملے گا لیکن اگر وہ اس روپیہ کو کام پر گے تو وہ لوگ جن سے لین دین ہوگا فائدہ اُٹھا ئیں گے.اسی طرح کچھ لوگ بطور لگا دیں
25 انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ملازمت یا مزدوری کے فائدہ اٹھا سکیں گے مثلاً وہ کوئی عمارت بنانی شروع کر دے تو گودہ عمارت اپنے لئے بنائے گا مگر روپیہ خرچ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی روزی کا سامان مہیا ہو جائے گا.یوں تو فضول عمارتوں پر روپیہ برباد کرنے سے اسلام منع کرتا ہے مگر بہر حال اگر وہ لغوطور پر عمارتیں نہ بنائے بلکہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے بنائے تو بھی لوہاروں اور مستریوں اور مزدوروں اور کئی اور لوگوں کو کام میسر آ جائے گا لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے بلکہ سونے چاندی کے زیور بنا کر گھر میں جمع کرنا شروع کر دے تو اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا پس اسلام روپیہ کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے اسی طرح عورتوں کے لئے کثرت سے زیورات تیار کرنا بھی پسند نہیں کرتا یوں تھوڑا سا زیور انہیں بنوا کر دینا جائز ہے.تیسرا حکم یعنی سود کی ممانعت تیسرے اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے.سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو روپیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس کے ذریعہ سے وہ تاجر جو پہلے سے اپنی ساکھ بٹھا چکے ہوتے ہیں اور جن کے پاس ایک وقت میں کوئی سرمایہ نہیں ہوتا جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے لیتے ہیں یا ایک شخص معمولی سرمایہ والا ہوتا ہے مگر اُس کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سے دوستی پیدا کر کے اُس سے لاکھ دو لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور تھوڑے عرصہ میں ہی دو لاکھ سے دس لاکھ بنالیتا ہے اور پھر چند سالوں کے اندر اندر وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے.اس سے بھی دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے ہمارے ملک کے زمیندار خوب جانتے ہیں کہ ان کا کس قدر روپیہ بنوں کے پاس جاتا ہے اگر سُود کے بغیر ان کے گزارہ کی کوئی صورت ہو جاتی تو ہر زمیندار خاندان کی مالی حالت آج سے بدرجہا بہتر ہوتی مگر سُود کی بدولت اگر ایک زمیندار دو ہزار روپیہ کسی بیٹے سے قرض لیتا ہے تو چند سالوں میں وہ بعض دفعہ دس دس ہزار روپیہ سود کا دے دیتا ہے مگر ابھی دو ہزار روپیہ جو اس نے قرض لیا تھا وہ بدستور موجود ہوتا ہے.پس سود ایک بہت بڑی لعنت ہے جو بنی نوع انسان کے سروں پر مسلط ہے یہ ایک جونک ہے جو غریبوں کا خون چوستی ہے اگر دنیا امن کا سانس لینا چاہتی ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ دنیا سے سود کو مٹا دیا جائے اور اس طرح دولت کو محدود ہاتھوں میں جمع نہ ہونے دیا جائے.چوتھا حکم یعنی زکوۃ اور صدقات کا دینا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بے شک اسلام ایک طرف تو روپیہ کسی کے ہاتھ میں نہیں
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو رہنے دیتا بلکہ اسے تقسیم کر دیتا ہے اور دوسری طرف روپیہ جمع کرنے سے منع کر رہا ہے مگر اس سے غربت کا علاج تو نہیں ہو جاتا.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایک چوتھا حکم غرباء کے حقوق کی ادائیگی کے لئے زکوۃ اور صدقہ کا دیا ہے یعنی جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے اور چاندی کے سکوں یا اموال تجارت کی قسم سے ہوا اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو تو ضروری ہے کہ حکومت اُس سے اڑھائی فیصدی سالا نہ ٹیکس وصول کر کے خزانہ شاہی میں داخل کرے اور اسے ملک کے غرباء پر خرچ کیا جائے.یہ ٹیکس جسے زکوۃ کہا جاتا ہے صرف آمد پر نہیں بلکہ سرمایہ اور نفع سب کو ملا کر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصدی بعض دفعہ نفع کا پچاس فیصدی بن جاتا ہے اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ.اس حکم کے مطابق جس شخص کے گھر میں سو روپیہ جمع ہو گا اسے سال گزرنے کے بعد اڑھائی روپیہ زکوۃ دینی پڑے گی جس پر لازماً اُسے فکر پیدا ہو گا کہ اگر یہ روپیہ اسی طرح جمع رہا تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام روپیہ ٹیکس کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے گا چنانچہ وہ فور روپیہ کو تجارت پر لگا دے گا تا کہ یہ کمی پوری ہو جائے اور جب وہ روپیہ کو تجارت پر لگائے گا تو روپیہ چکر کھانے لگے گا اور اس طرح علاوہ اس کے کہ اس کے روپیہ میں سے اڑھائی فیصدی غرباء کو ملے گا روپیہ کے بند ر کھنے سے جو نقصان ہو سکتا تھا وہ بھی ملک اور قوم کو نہیں پہنچے گا.آجکل خصوصیت سے لوگوں میں یہ مرض پیدا ہو رہا ہے کہ وہ سونا اور چاندی کو جمع کر کے رکھ رہے ہیں.غرباء کو کئی قسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سونا آج کل گراں ہے وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا یہی طریق سوچتے ہیں کہ زیور فروخت کر دیا جائے چنانچہ کوئی انگوٹھی فروخت کر دیتا ہے کوئی کان کی بالیاں فروخت کر دیتا ہے، کوئی گلو بند فروخت کر دیتا ہے ، کوئی پازیب فروخت کر دیتا ہے ، مگر جانتے ہو یہ سب سونا اور چاندی کہاں جمع ہو رہا ہے یہ سب بنیوں کے گھر میں جا رہا ہے.اور بعض لوگ تو اس ڈر کے مارے سونا چاندی جمع کر رہے ہیں کہ اگر جاپان آ گیا تو نوٹ ناکارہ ہو جائیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ جاپان آیا تو سب سے پہلے وہ سونے اور چاندی کو ہی ٹوٹے گا مگر وہ سمجھتے ہیں سونا تو ان کے گھروں میں ہی رہے گا اور جن کے پاس نوٹ ہوں گے ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا.اسی وجہ سے سونا روز بروز مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے.چالیس روپیہ سے اس نے بڑھنا شروع کیا تھا اور ستر روپیہ تک پہنچ گیا ہے اور میں نے بنیوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سونے کی قیمت سو روپیہ تک لے جانی ہے.مگر اسلام کہتا ہے تم اول تو روپیہ جمع ۷۳
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نہ کرو اور اگر جمع کرو تو اس پر اڑھائی فیصدی ہمارا ٹیکس دو.اس طرح اسلام جمع ھدہ روپیہ پھر قوم کے غرباء کی طرف واپس لاتا ہے تا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ اپنے روپیہ کو پھیلا ئیں اور پھیلاتے چلے جائیں.اگر اسلام کے احکام پر عمل ہونے لگے تو بخیل سے بخیل شخص کے روپیہ سے بھی دنیا فائدہ اُٹھانے لگ جائے اور غریبوں کو مزدوری وغیرہ مل جائے اور اڑھائی فیصدی روپیہ الگ آ جائے.اسلام میں شخصی ملکیت کے حق کا تحفظ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے باوجود مال کو سب کا حق قرار دینے کے شخصی ملکیت کے حق کو ر ڈ نہیں کیا بلکہ اسے قائم رکھا ہے البتہ شخصی ما لک بطور ایجنٹ کے رہے گا اور علاوہ اس کے اس طاقت کو جو اسے ملکیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اسلام نے مناسب تدبیروں سے کمزور کیا ہے جیسا کہ اوپر کے احکام سے ظاہر ہے.بالشویک نظام پر اسلامی نظام کو اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس نظام پر بالشویک نظام کو ترجیح نہ دی جائے.ترجیح دیئے جانے کی وجوہات اس کا جواب یہ ہے کہ نظام کی اصل غرض امن اور انصاف اور روح ترقی کا قائم رکھنا ہوتی ہے مگر بالشویک نظام حالات میں ایسا فوری تغیر پیدا کرتا ہے جو ملک کے ایک طاقتور حصہ کو نا قابلِ برداشت نقصان پہنچا دیتا ہے اور وہ مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً یہ کہنا کہ ہر ایک مالدار کا مکان لے لو، اُس کی جائداد اُس سے چھین لو ، اس کے مال کو ضبط کر لو یہ انسان کو ایسا صدمہ پہنچاتا ہے جو اس کے لئے ایک نا قابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے.چنانچہ روس کی سب سے زیادہ مخالفت خود روسی کر رہے ہیں اور ہر ملک میں ایسے روسی موجود ہیں جو اس نظام کے شدید ترین مخالف ہیں.میں نے خود سفر یورپ کے دوران میں ایسے روسیوں کو دیکھا جو روسی حکومت کے جان کے دشمن ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ آرام سے اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھے تھے کہ یکدم حکومت کے نمائندے آئے اور انہوں نے ان کے بستروں اور پلنگوں اور سامانوں پر قبضہ کر لیا، انہیں مکانات سے نکال دیا، ان کا مال واسباب ضبط کر لیا اور انہیں ان کی جائداد سے بے دخل کر دیا.یہ مان لیا کہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل تھے مگر نسلاً بعد نسل وہ یہ خیال رکھنے کے عادی ہو چکے تھے کہ یہ سب کچھ
۷۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہمارا ہے اس لئے طبعاً جب جبری طور پر ان کی جائدادوں اور اموال واسباب پر قبضہ کیا گیا تو وہ انہیں شدید ناگوار ہوا اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو ملکیتیں پرانی ہو چکی ہیں ان کو ہم نہیں توڑیں گے یعنی اس قسم کا سلوک ان سے نہیں کریں گے کہ انہیں یہ محسوس ہو کہ ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے.بالشوزم کا اس امر کو نظر انداز کر دوسرے بالشویک نظام اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ جس طرح مال سرمایہ ہے دماغ بھی سرمایہ دینا کہ دماغ بھی سرمایہ ہے ہے اور اس سرمایہ کو وہ کس طرح تقسیم کر سکتا ہے یہ نظام دماغی قابلیت کو بالکل بر باد کر دیتا ہے کیونکہ وہ دماغی قابلیت کی اتنی قیمت نہیں سمجھتا جتنی ہاتھ سے کام کرنے کی قیمت قرار دیتا ہے اور یہ ایک طبعی اصول ہے کہ ملک میں جس چیز کی قیمت نہ رہے گی وہ رکرنی شروع ہو جائے گی.جن لوگوں کے نزدیک روپیہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ان کا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے اور جن لوگوں کے نزدیک جائداد کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ان کی جائداد ضائع ہو جاتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے نزدیک دماغ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اُن کا دماغ رگر نا شروع ہو جاتا ہے.پس بالشویک نظام میں یہ ایک بہت بڑا نقص ہے کہ وہ مال کو تو سرمایہ قرار دیتا ہے مگر دماغ کو سرمایہ قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ مال تقسیم کر سکتا ہے مگر اسے تقسیم نہیں کر سکتا اس طرح اس کے اصول کے مطابق دماغ بے قیمت رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک دن اس کی نشو ونما میں بھی فرق آ جائے گا مگر اسلام ہر قدم تدریجاً اُٹھاتا ہے وہ یکدم تغیر نہیں کرتا بلکہ محبت اور پیار سے ہر قسم کا سرمایہ لوگوں پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس طرح دماغ اور مال دونوں کو تقسیم کرا دیتا ہے.نیچر کی گواہی بھی بالشویک اصول کے خلاف ہے کیونکہ نیچر دماغی طاقتیں بعض کو زیادہ دیتی ہے اور بعض کو کم مگر اس کے بعد انصاف کو اس طرح قائم رکھا جاتا ہے کہ جن کو دماغ ملا ہے انہیں مذہب حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو بھی بنی نوع انسان کی خدمت میں خرچ کریں چنا نچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَمِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ اسے یعنی مومن اور سچے متقی وہی ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی ان کو ملا ہے خواہ دماغ ہو، خواہ جسمانی طاقت ہو ، خواہ مال ہو، خواہ عقل ہوا سے دوسری مخلوقات کی خدمت میں خرچ کریں.اسی طرح مال کی نسبت اسلام کہتا ہے کہ وہ اسے تقسیم کرا دیتا ہے مگر بالشویک نظام کی طرح جبر اور ظلم سے نہیں بلکہ انہیں کے او
۷۶ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ہاتھوں سے جن کے پاس مال ہوتا ہے جس طرح دماغ سے انہی کے ہاتھوں فائدہ پہنچا تا ہے جن کے پاس دماغی قابلیتیں ہوتی ہیں.اس طرح فائدہ بھی ہو جاتا ہے اور دشمنی کا بیج بھی قلوب میں بو یا نہیں جاتا.بالشوزم کے تحت غیر منصفانہ سلوک پھر میں کہتا ہوں کہ بالشوزم اب بھی پورا انصاف نہیں کر سکی.اب بھی اس کے چھوٹوں اور بڑوں میں فرق ہوتا ہے ، اب بھی ان کے امیروں اور غریبوں میں فرق ہوتا ہے اور اب بھی ان کے کھانوں میں فرق ہوتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سٹالن کی خوراک اور وہاں کے گاؤں والوں کی خوراک بالکل ایک جیسی ہوتی ہے.اسی طرح شاہی دعوتوں میں بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے ابھی گذشتہ دنوں مسٹر وینڈل ولکی وہاں گئے تھے تو ایک شاہی دعوت کی تفصیلات شائع ہوئی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ ایک ڈنر میں ساٹھ کھانے تیار کئے گئے تھے اور وہ سٹالن اور دوسرے لوگوں نے جو اس دعوت میں شریک تھے کھائے.اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے اور بڑوں اور چھوٹوں میں کوئی فرق نہیں تو بالشویک اصول کے مطابق ماسکو کا ہر شہری کہہ سکتا ہے کہ مجھے ساتھ کھانے ملنے چاہئیں اور صرف ماسکو کا ہر شہری نہیں ملک کے سترہ کروڑ باشندے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ سب کچھ ملنا چاہئے مگر کیا ایسا ہوسکتا ہے اگر کہو کہ یہ ناممکن ہے تو یہی جواب دوسری تقسیم کا سمجھنا چاہئے.اگر امتیازات نے رہنا ہی ہے تو امتیازات کو دور کرنے کے لئے فسادات کیوں کئے جائیں کیوں نہ کسی اچھی طرز پر اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.بالشوزم کا دماغی قابلیتوں کو بیکار قرار دینا اور اس کا نتیجہ پھر بالشوزم کے موجودہ نظام کا ایک اور نتیجہ یہ پیدا ہو گا کہ چونکہ وہ دماغی قابلیتوں کو بغیر ہاتھ کے کام کے بیکار قرار دیتا ہے اس لئے گو اس کا اثر اس وقت محسوس نہ ہو گا مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد روسی موجد جب یہ دیکھیں گے کہ ان کی دماغی قابلیتوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی وہ سیر کے بہانے سے جرمنی یا امریکہ یا انگلستان یا اور ممالک میں چلے جائیں گے اور وہاں جا کر اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا دیں گے روس میں نہیں رہیں گے کیونکہ اس نظام کے ماتحت وہ روس میں ان ایجادات سے نفع نہیں اُٹھا سکتے.پس نتیجہ یہ ہو گا کہ جس قدر اعلیٰ دماغ والے انسان ہوں گے ان کی دماغی قابلیتوں
نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ دوسرے ممالک تو فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس کو فائدہ نہیں ہو گا اور وہ سب آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں چلے جائیں گے.اس وقت بالشویک نظام کی مقبولیت ایسی ہی ہے جیسے انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو جب تک یہ تعلیم محض باتوں تک رہے اُس وقت تک کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اُس وقت کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ قاہرہ کے ایک بازار میں ایک دفعہ ایک مسیحی پادری نے روزانہ لیکچر دینے شروع کر دیئے کہ مسیح کی تعلیم محبت سے لبریز ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگر تم ایک گال پر تھپڑ کھاؤ تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو مگر باقی مذاہب میں یہ ظلم ہے اور وہ ظلم ہے.غرض اس طرح وہ تقریر کرتا کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ایک مسلمان روزانہ اس کے لیکچر کوسنتا اور دل ہی دل میں اس بات پر کڑھتا کہ کوئی مولوی اس پادری کو جواب نہیں دیتا آخر کچھ عرصہ کے بعد جب اس نے دیکھا کہ لوگوں پر بُرا اثر ہو رہا ہے تو ایک دن جب وہ پادری وعظ کر رہا تھا وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ پادری صاحب! میں نے آپ سے ایک بات کہنی ہے اس نے بات سننے کے لئے اس کی طرف سر جُھکا دیا کہ کہو کیا کہتے ہو.اُس نے بجائے کوئی بات کہنے کے ہاتھ اُٹھایا اور زور سے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا.پہلے تو پادری رُکا مگر پھر اُس نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ ایک اور تھپڑ لگا دے اِس پر اُس نے بھی اُسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھا لیا.وہ کہنے لگا صاحب ! آپ یہ کیا کرتے ہیں آپ کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دینا چاہئے میں تو اس انتظار میں تھا کہ آپ اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دیں گے مگر آپ تو مقابلہ پر اتر آئے ہیں.وہ کہنے لگا آج میں انجیل پر نہیں بلکہ تمہارے نبی کی تعلیم پر ہی عمل کروں گا.تعلیمیں تو بعض بالشوزم کے نتیجہ میں ملک میں بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ کہنے کو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر عملی رنگ میں وہ نہایت ہی ناقص ہوتی ہیں.اسی طرح بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہئے وہ اس وقت زار کے ظلموں کو یا د رکھے ہوئے ہے جس دن یہ خیال ان کے دل سے بُھولا پھر یہ طبعی احساس کہ ہماری خدمات کا ہم کو صلہ ملنا چاہیئے ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گا نئی پود بغاوت کرے گی اور اس تعلیم کی ایسی شناعت ظاہر ہوگی کہ ساری دنیا حیران LL
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو رہ جائے گی لیکن اسلامی طریق میں بغاوت کا کوئی امکان نہیں ، سُستی ہو تو ہو کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے.ملک کے اموال پر حکومت کو اقتدار حاصل ہونے کی ضرورت اب میں اس اہم سوال کی طرف آتا ہوں جو درحقیقت میرے مضمون کی بنیاد ہے مگر اس سے پہلے ایک سوال ابھی باقی ہے جس کا حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہم اُوپر کی تمام نئی تحریکات سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تمام تحریکات با وجود اختلاف کے اس امر میں متفق ہیں کہ حکومت کو ملک کے مال پر ایک بہت بڑا اقتدار حاصل ہونا چاہئے.پرانے ٹیکس اس سکیم کو پورا نہیں کر سکے جو ان مختلف نظام والوں کے ذہن میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب نئے ٹیکس لگائے جائیں ، نئے نئے طریق ایجاد کئے جائیں جن سے اُمراء کی دولت اُن کے ہاتھ سے نکالی جاسکے اور غرباء میں تقسیم کی جاسکے پس وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں تو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے موجودہ ٹیکسوں سے یہ مشکل حل نہیں ہو سکتی اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے اس بارہ میں کیا رویہ اختیار کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ تم نے زکوۃ کی تعلیم نکالی ہے مگر کیا تمہارے نزدیک زکوۃ اس غرض کو پورا کر سکتی ہے کہ ہر غریب کو کپڑا ملے ، ہر غریب کو کھا نا ملے ، ہر غریب کو مکان ملے اور ہر غریب کو دوا ملے؟ میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ نہیں.یعنی میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ اس زمانہ کے لحاظ سے یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا روپیہ پہلے اس کے ہاتھ میں زکوۃ وغیرہ کی صورت میں ہوا کرتا تھا.پہلے گورنمنٹ پر صرف یہ ذمہ داریاں تھیں کہ وہ ٹیکس وصول کر کے سڑکیں بنائے ، ہسپتال بنائے، مدرسے بنائے ، فوجیں رکھے اور اسی طرح رعایا کی بہبودی کے لئے اور تدابیر عمل میں لائے مگر اب یہ ایک نئی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ دنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کھا نا کھلا کر دیکھ لیا کہ وہ اسے نہیں کھلا سکی ، دنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کپڑے پہنا کر دیکھ لیا کہ وہ ان کی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکی ، دُنیا نے اپنے طور پر ان کے لئے دو مہیا کرنے کی کوشش کر لی مگر اس میں وہ 2^
29 انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کامیاب نہیں ہو سکی سو اب یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ان تمام ضروریات کو بھی گورنمنٹ پورا کرے.وہ ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا ، کھانے کے لئے غذا، رہنے کے لئے مکان اور علاج کے لئے دوا مہیا کرے اور اسلام بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہیں.پس جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ کام حکومت کو کرنے چاہئیں اور جب اسلام بھی اسے تسلیم کرتا ہے تو یہ درست ہے کہ یا تو اسلام ہمیں یہ بتائے کہ زکوۃ کا روپیہ یہ تمام ضرورتیں پوری کر سکتا ہے اور یا ز کوۃ کے علاوہ کوئی اور علاج جو اسلام نے اس مصیبت کا کیا ہو پیش کیا جائے.غرباء کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے زکوۃ یہ ایک اہم سوال ہے جو اس موقع پر پیدا ہوتا ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا کے علاوہ دوسرے چندوں کی ضرورت ہمارے لئے نہایت ضروری ہے.اگر ہمارا یہ دعوی نہ ہوتا کہ اسلام ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا مگر جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے یہ تعلیم دی کہ غریب اور امیر میں حقیقی مساوات قائم کرنی چاہئے اور ان دونوں کو اس حد تک ایک دوسرے کے قریب کر دینا چاہئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئی اور مخلوق ہے اور یہ کوئی اور مخلوق ہے بلکہ جس طرح اُمراء اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اسی طرح غرباء بھی اپنی ضرورتوں کو پورا کریں وہ علاج کے بغیر نہ رہیں ، وہ بھو کے نہ رہیں ، وہ ننگے نہ رہیں ، وہ جاہل نہ رہیں ، وہ بغیر مکان کے نہ رہیں تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مشکل کا حل اسلامی تعلیم سے ہی کیا جائے.زکوۃ کا اسلام نے حکم دیا تھا مگر میں تسلیم کر چکا ہوں کہ زکوۃ اِس مشکل کا پورا علاج نہیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اس کمی کا کیا علاج تجویز کرتا ہے.سوشلزم کے نظریہ کی رو سے غرباء کی ضروریات کو پورا سوشلزم اس کا ذریعہ یہ بتاتی ہے کہ مزدوروں کا کرنے کا پہلا ذریعہ اور اس کے غلط ہونے کا ثبوت حصہ منافع میں مقرر کیا جائے یہ نہ ہو کہ انہیں ماہوار تنخواہ دی جائے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ بلکہ منافع پر ان کا انحصار ہونا چاہئے یعنی جب منافع حاصل ہو تو فیصلہ کیا جائے کہ اس دفعہ ہمیں اتنی آمد ہوئی ہے اس میں سے مالک کو اتنا
۸۰ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو حصہ دیا جائے اور مزدوروں کو اتنا حصہ دیا جائے مگر ظاہر ہے کہ یہ طریق بے اصولا ہے اس لئے کہ کسی تجارت میں نفع کم ہو گا اور کسی میں زیادہ.ہمیں دُنیا میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ دوغلہ کے تاجر ہوتے ہیں ایک تو سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا ہے اور دوسرا ہر روز اپنی تجوری بھر کر گھر میں لے آتا ہے، ایک شخص کپڑا بیچتا ہے تو روزانہ اس کے دو دوسو تھان نکل جاتے ہیں اور دوسرا وہی کام کرتا ہے تو سارے دن میں اس کا ایک تھان بھی نہیں نکلتا.پس اس فرق کی وجہ سے نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی تاجر کے ملازموں کو ایک جیسی محنت پر زیادہ آمد ہو گی اور کسی کے ملازموں کو کم ہو گی یعنی ہوشیار مالک کے ملازموں کو زیادہ آمد ہو رہی ہو گی اور دوسرے کے ملازموں کو کم ، پس یہ تقسیم عقل کے بالکل خلاف ہو گی.اس کے یہ معنے ہوں گے کہ پہلے تو لیاقت پر آمد کا انحصار ہوتا تھا پھر صرف جوئے بازی اور اتفاق پر ہو گا اور پھر لوگ اس بات پر لڑیں گے کہ ہم فلاں مالک کے کارخانہ میں کام کریں گے فلاں کے کارخانہ میں کام نہیں کریں گے مگر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مزدور کہاں کام کرے.اگر کہیں سوشلزم یہ انتظام کرے گی کہ سب کارخانوں کے ملازموں کے لئے ایک اعلیٰ شرح تنخواہ مقرر کر دے گی تو پھر بھی زیادہ ہوشیار تاجر سوشلزم کے مجوزہ منافع سے زیادہ ہی لے لے گا اور دوسرا تاجر نقصان میں رہے گا اور اس طرح سوشلزم پھر بھی اپنی سکیم میں ناکام رہے گی اور جن کی تجارت اچھی نہ چلتی ہو گی اُن کے ملازم نفع کی جگہ اصل سرمایہ تک کھا جائیں گے اصل بات یہ ہے کہ گزارہ کے دو ہی معقول طریق ہیں.(۱).لیاقت اور (۲).اقل ضرورت گزارہ کی.مگر یہ دونوں صورتیں اوپر کے بتائے ہوئے سوشلسٹ طریق میں نہیں پائی جاتیں.غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کا دوسرا ذریعہ دوسری صورت سوشلزم یہ پیش کرتی ہے کہ تمام اہم صنعتیں حکومت کے قبضہ میں ہوں.مثلا ریل کا نیں اور بجلی وغیرہ.اسی طرح اہم تجارتوں کی مناپلی اور ان پر قبضہ و تصرف حکومت کے اختیار میں ہو.مگر اس پر بھی کئی اعتراض پڑتے ہیں مثلاً (۱) یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہو سکتی بلکہ ہر ملک میں الگ الگ ہو گی حالانکہ سوال یہ تھا کہ ساری دنیا کے بھوکوں ، ساری دُنیا کے نگوں، ساری دُنیا کے بیماروں، ساری دُنیا کے جاہلوں اور ساری دُنیا کے بے سروسامان لوگوں کا انتظام کیا جائے مگر اس طرح ساری دُنیا کے حاجتمندوں کا علاج تو پھر بھی نہ ہو گا ہر حکومت صرف اپنے ملک کے غرباء کا ہی خیال رکھے گی پس یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہے.دوسرے
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو مثلاً اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اس میں بھی انفرادی جو ہر کے اظہار کے مواقع میں کمی آجاتی ہے اور اس طرح جسم کا خیال تو کیا جاتا ہے مگر دماغ جو زیادہ قیمتی ہے اسے نقصان پہنچ جاتا ہے.غرباء کی ضرورتوں کے لئے چندے حاصل نیشنلسٹ سوشلزم کی اس بارہ میں.مفصل سکیم مجھے معلوم نہیں لیکن ہٹلر ۳۲ کرنے کے متعلق ہٹلر اور گوئرنگ کی سکیم اور گوئر نگ تا کی اس سکیم کا مجھے علم ہے کہ سرمایہ دار جو زیادہ حصہ قومی خدمت میں لیں انہیں حکومت کی امداد کے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں.وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ حکومت کو زیادہ چندے دیں گے اور قومی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ان کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گا اور انہیں ٹھیکے وغیرہ دیئے جائیں گے لیکن یہ سکیم بھی مکمل نہیں کیونکہ اس طرح بھی پورا سرمایہ جو کافی ہو جمع نہیں ہو سکتا اور نیز اس میں یہ پہلو مذکور نہیں کہ ملک کی ضرورت کی ذمہ داری حکومت پر کس حد تک ہو گی.بالشوزم کے نظریہ کی رُو سے غرباء بالشوزم کی تدبیر یہ ہے کہ سب اہم تجارتیں اور صنعتیں حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور کی تکالیف دور کرنے کی تدابیر زراعت پیشہ کی سب زائد آمد حکومت جبراً لے لے.سب دولتمندوں کی دولت جبراً چھین لے.اس پر جو اعتراض پڑتے ہیں پہلے بتا آیا ہوں خلاصہ یہ کہ اس سے انفرادیت بالکل تباہ ہو جاتی ہے اور اس قسم کی حکومت میں جب ضعف آئے گا اس میں معمولی تبدیلی پیدا نہ ہو گی بلکہ پھر زارجیسی حکومت قائم ہو جائے گی.فرانس کا تجربہ گواہ ہے بور بون خاندان نے فرانس میں فوزویت ( عوام کی حکومت جو جمہوریت سے مختلف ہے ) پیدا کی اور فوز ویت نے بونا پارٹ ۳۴ جیسا جبار پیدا کیا.اسی طرح زار نے بالشوزم پیدا کی اور اسے کامیاب بنایا اور بالشوزم تھوڑے ہی عرصہ میں کمزور ہو کر پھر ایک نیا جبار پیدا کر دے گی.اسی طرح بالشوزم میں یہ نقص ہے کہ ملک کے ایک حصہ کو خواہ مخواہ دشمن بنا لیا گیا ہے اور اس سے دشمنوں کا سا سلوک شروع کر دیا گیا ہے یعنی سب پرانے خاندانوں اور علمی خدمت کرنے والے لوگوں کو دشمن بنا لیا گیا ہے.اسلام کی سکیم ان سب سے مختلف ہے اسلام نے اول تو ان تینوں تحریکوں کے خلاف.نظریہ پیش کیا ہے کہ آرام کے وہ معنی نہیں جو تم کہتے ہو یعنی تم تو آرام کی زندگی کے یہ معنے لیتے Al
۸۲ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ ہو کہ سب کے لئے یکساں تعیش کے سامان پیدا کئے جائیں، سب کے لئے سینما میں جانے کے راستے کھلے ہوں ، سب کے لئے کھیلیں اور تماشے دیکھنے ممکن ہوں مگر اسلام نے آرام کی زندگی کا مفہوم یہ لیا ہے کہ امیروں کو بھی ان تعقیش کے سامانوں میں نہ پڑنے دیا جائے اور اس طرح بنی نوع انسان کو مساوات کی طرف لایا جائے.اصل غرض تو آرام ہے مگر اسلام آرام کے ساتھ ہی اخلاق اور معیارِ شرافت کو بھی بلند کرنا چاہتا ہے.پھر آرام کے متعلق اسلام اور ان تحریکات کے نظریوں میں یہ بھی فرق ہے کہ انہوں نے تعیش کے سامان بڑھا کر آرام حاصل کرنا چاہا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہیں صرف ضروریات زندگی دیں گے تعیش کی چیزیں نہیں دیں گے گویا وہ تعیش کے سامانوں کی بجائے سب کے لئے یکساں سادہ زندگی پیش کرتا ہے اسی لئے اسلام نے ناچ گانے اور شراب وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے.انگلستان میں جب غرباء شور مچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی تکلیف ہے تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم غریبوں کو شراب کے صرف دو گلاس پینے کو ملتے ہیں اور امیر آدمی دس دس گلاس شراب پی جاتا ہے اور گورنمنٹ کہتی ہے کہ تمہارا مطالبہ بالکل بجا اور درست ہے ہم تمہیں بھی دس دس گلاس شراب مہیا کر کے دیں گے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہاری اس شکایت کا اس رنگ میں ازالہ کریں گے کہ تمہارے دو گلاس بھی چھین لیں گے اور امیروں کے دس گلاس بھی چھین لیں گے کیونکہ یہ چیزیں جسم اور روح کے لئے مضر ہیں.اسی طرح وہاں اگر غرباء شور مچائیں تو کہتے ہیں کہ یہ امیر تو روز ناچتے ہیں مگر ہم غریبوں کے ناچنے کا کوئی سامان نہیں اور حکومت کہتی ہے بہت اچھا آئندہ گورنمنٹ خود تمہارے لئے ڈانس روم بنائے گی چنانچہ وہ امیروں سے کہتی ہے امیر و! لاؤ روپیہ کہ ہم تمہارے غریب بھائیوں کے لئے بھی ناچ گھر بنوا دیں مگر اسلام کہتا ہے ہرگز نہیں ڈانس روم بنانے سے انسانیت تباہ ہوتی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری انسانیت میں نقص واقع ہو اس لئے بجائے اس کے کہ ہم تمہارے لئے ڈانس روم بنا ئیں ہم تمہارے امیر بھائیوں کے ڈانس روم بھی گرا دیں گے تا کہ وہ بھی انسانیت کے حلقہ میں داخل ہوں اور تہذیب و شائستگی کے خلاف کسی حرکت کے مرتکب نہ ہوں.اسلام کا تعیش کے سامانوں کو مٹا کر تو جو چیز میں ضروریات زندگی میں سے نہیں بلکہ تعیش کے سامانوں میں سے ہیں اسلام نے امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنا اُن کو مٹا کر غرباء اور امراء میں مساوات قائم کی ہے اور ظاہر ہے کہ یکساں تعیش کے سامان
۸۳ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو پیدا کرنے والی حکومتیں ہمسائیوں کو لُوٹنے سے باز نہیں رہ سکتیں لیکن یکساں سادگی پیدا کرنے والی حکومتیں دوسروں کو لوٹنے کی جگہ اپنے اُمراء کو سادہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کریں گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سادہ زندگی کو محدود کرنا آسان ہے لیکن تعیش کو محدود کرنا بہت مشکل ہے.پس اسلامی تعلیم یقینا عقلی طور پر کامیابی کے زیادہ قریب ہے اور اس طرح اسلام تھوڑے سے روپیہ سے کام لے کر غرباء کی بے چینی دور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.غرض آجکل کی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ آرام کے معنے یہ ہیں کہ تعیش کے سامان غریبوں کو دینا اور اسلام کہتا ہے کہ آرام کے معنی یہ ہیں کہ ضرورت کے سامان غریبوں کو دینا اور تعیش کے سامان امیروں غریبوں سب سے چھیننا، پس جتنے روپیہ سے عیسائیت دنیا کو آرام پہنچا سکے گی اس سے بہت کم روپیہ سے اسلام دنیا کو آرام پہنچا سکے گا.چنانچہ اسلام میں مردوں کے لئے ریشم پہننا منع ہے، اسی طرح گھروں میں استعمال کے لئے چاندی سونے کے برتن رکھنا ناجائز ہے، بڑی بڑی عمارتیں بلا وجہ اور بلا ضرورت بنانا منع ہے اسی طرح عورتوں کے لئے زیادہ زیور بنانے اسلام نے منع کر دیئے ہیں ، شراب سے روک دیا ہے ، جوئے کو حرام قرار دیا ہے تاکہ غریبوں کے دلوں میں ان چیزوں کے حصول کی کوئی خواہش ہی پیدا نہ ہو اور اس طرح جو روپیہ بچے وہ غریبوں کو دے دیا جائے.اسلام میں جبری ٹیکسوں کے علاوہ طوعی دوسری تجویز اسلام نے یہ کی ہے کہ بجائے انفرادی جد وجہد کو مٹانے کے اسے قائم طور پر زائد مال وصول کرنے کی صورت رکھ کر اور جبر کی جگہ تحریک و تحریص سے کام لے کر علاوہ جبری ٹیکسوں کے اُمراء سے ان کے زائد مال لینے کی صورت پیدا کی ہے اور ظاہر ہے کہ انفرادیت کو مٹا دینا بھی مضر ہے کیونکہ اس سے عائلیت کے اعلیٰ جذبات اور علمی ترقی مٹ جاتی ہے اور جبری حصول بھی مضر ہے اگر کوئی ایسی سکیم ہو کہ انفرادیت بھی قائم رہے اور زائد مال تحریک و تحریص سے لے لیا جائے تو وہی سکیم دنیا میں امن کے قیام کا دور لانے کا ، سب کے لئے آرام پیدا کرنے کا اور با ہمی الفت و محبت بڑھانے کا ذریعہ ہو گی چنانچہ اسلام ایسا ہی کرتا ہے.غیر اسلامی تحریکات میں تو یہ قانون ہے کہ ہر شخص کے پاس جس قدر زائد مال ہو وہ جبر وتشد د سے لے لو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر جبر نہ کرو جو جبری ٹیکس ہیں وہ تو جبر سے وصول کر و مگر اُمراء سے ان کے
۸۴ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو زائد مال لینے کے لئے جبر سے ہرگز کام نہ لو بلکہ ترغیب و تحریص سے کام لو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اُمراء کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی.اگر ایک شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تو نہ اس کے دل میں دوسروں کی محبت پیدا ہو گی اور نہ دوسروں کے دل میں اُس کی محبت پیدا ہو گی لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنا مال لوگوں کی بھلائی کے لئے دے دے تو اس کے دل میں بھی دوسروں کی محبت پیدا ہوگی اور دوسروں کے دلوں میں بھی اس کی محبت پیدا ہو گی اس طرح انسانیت آپس میں زیادہ سے زیادہ مرتبط ہوتی چلی جائے گی.انفرادی جد وجہد کو قائم رکھنے کا فائدہ پھر اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جب انفرادی جد و جہد قائم رہے گی تو ہر شخص پوری محنت سے کام لے کر روپیہ کمانے کی کوشش کرے گا.ڈاکٹر اپنے مطب کو چلائے گا، انجینئر اپنے فن میں کمال دکھلائے گا ، تاجر کا رخانوں کو چلائیں گے اور اس طرح دماغ ترقی کرتا چلا جائے گا اور جب وہ اپنے پاس روپیہ جمع کرلیں گے تو پھر ترغیب و تحریص کے ذریعہ ان کا مال ان سے لے لیا جائے گا.گویا بیک وقت دونوں فائدے حاصل ہو جائیں گے دماغ کی بھی ترقی ہو جائے گی اور روپیہ بھی مل جائے گا.بالشویک تحریک میں یہ نقص ہے کہ اس کے نتیجہ میں دماغی قابلیتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں اور جو کچھ روپیہ حاصل ہوتا ہے اس کے دیتے وقت بھی امراء کے دلوں میں غرباء کی کوئی محبت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم پر جبر اور ظلم کر کے یہ روپیہ لیا جا رہا ہے لیکن اگر ڈاکٹر کو کہا جائے کہ جاؤ اور خوب کماؤ ، وکیل کو کہا جائے کہ مقدمات لڑو اور خوب فیس وصول کرو، انجینئر کو کہا جائے کہ جاؤ اور انجینئر نگ کے فن میں کمال پیدا کر کے ہزاروں روپیہ کماؤ اور پھر جب وہ روپیہ کما چکیں تو انہیں اس بات کی تحریص دلائی جائے کہ وہ اپنا رو پیدا اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں پر بھی خرچ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خوشی سے ہزاروں روپیہ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے ان کی اُمنگیں بھی قائم رہیں گی اور انہیں ظلم کا احساس بھی نہ ہوگا بلکہ وہ دیتے وقت خوش ہوں گے کہ ان کا روپید ان کے غریب بھائیوں کے کام آنے لگا ہے پس ان کا زائد مال اگر ترغیب و تحریص سے لیا جائے تو عدل وانصاف بھی قائم ہوگا اور باہمی محبت بڑھانے کا بھی یہ ایک یقینی ذریعہ ہو جائے گا.
۸۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام کو جبری طور پر دوسروں کے اموال اس کے مقابلہ میں جس شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تم سمجھ سکتے ہو اس کے دل میں غریبوں کی پر جبراً قبضہ کرنے کے نقصانات محبت کہاں پیدا ہوگی.حکومت کے کارندے تو اس سے جبر أمال وصول کر لیں گے مگر اس کے دماغ میں غریبوں کی دشمنی گھر کر جائے گی اور وہ ہر وقت یہی کہے گا کہ خدا اس حکومت کا بیڑا غرق کرے جو ہم پر ظلم کر رہی ہے اور خدا ان غریبوں کا بھی بیڑا غرق کرے جن کی وجہ سے ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے.دوسری طرف غریبوں کے دلوں میں بھی کوئی محبت پیدا نہیں ہوگی وہ کہیں گے امیر واقعہ میں بڑے ظالم تھے اچھا ہوا کہ حکومت نے ان کا مال واسباب لوٹ لیا لیکن اگر تحریص و ترغیب کے نتیجہ میں غرباء کی محبت کا احساس کرتے ہوئے کوئی شخص چند پیسے بھی دے تو اس کے دل میں غریبوں کی محبت پیدا ہوگی اور غریب بھی کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اللہ اس کے مال میں برکت دے وہ ہم غریبوں کا خیال رکھتا ہے.تو چیز وہی ہو گی مگر ادھر امیروں کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور ادھر غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی اور دماغ کی نشو و نما بھی ہوتی رہے گی چنانچہ اسلام نے یہی طریق اختیار کیا ہے.اسلام کا اُمراء سے جبری ٹیکسوں اس لئے اسلام نے زکوۃ اور عشر وغیرہ جبری ٹیکس بھی لگا دیئے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کے علاوہ طوعی ٹیکسوں کا مطالبہ فرما دیا ہے کہ أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۳۵ تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوا یعنی تم مقررہ ٹیکس بھی دو مگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ تم ان دونوں میں حصہ لو.چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوا فِي سَبِیلِ اللہ ہمیشہ غرباء کی امداد کے لئے روپیہ دیتے رہو.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو.یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچے گا لیکن اگر ایسا نہ کرو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے.یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے رُوس کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو زار روس اور روسی امراء یا
۸۶ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ فرانس کے امراء کا حال ہو ا وہی تمہارا ہو گا آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اتر آئیں گے اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دعائے خیر پڑھ دیں گے.حضرت خلیفہ اول اس محاورہ کی تشریح یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے علاقہ میں کچھ مدت پہلے زمیندار پینے سے قرض لیتے چلے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا چلا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جب سب علاقہ اس پیسے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضے میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقہ کا کوئی بڑا زمیندار تمام چوہدریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتاؤ اس پیسے کا قرض کتنا ہے وہ بتاتے کہ اتنا اتنا قرض ہے.اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرض کے اترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا.اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر دعائے خیر پڑھ دوچنانچہ وہ سب دعائے خیر پڑھ دیتے اور اس کے بعد سب ہتھیار لے کر پینے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کی بھی اور کھاتے سب جلا دیتے.جبری ٹیکسوں کے علاوہ زائد اموال خدا تعالیٰ کی اللہ تعالی اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف راہ میں خرچ نہ کرنے کی وجہ سے قوموں کی ہلاکت اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو یعنی بے شک کماؤ تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں نہ جمع رکھا کرو ور نہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور تم ہلاک ہو جاؤ گے.پھر فرماتا ہے وَأَحْسِنُوا بلکہ اس سے بڑھ کر نیکی کرو اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کر و.اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خدا خوش نہیں ہو گا لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہوں گے ، تم بھی ہلاکت سے بچ جاؤ گے اور اللہ بھی تم پر خوش ہوگا.پھر فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے.تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری آخرت بھی درست ہو جائے گی اور تم دونوں جہانوں میں آرام اور سکھ سے زندگی بسر کرو
۸۷ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو گے.دیکھو اس تعلیم کے ساتھ باوجود انفرادیت اور عائلیت جیسی ضروری چیزوں کی حفاظت کا وہ مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے جسے بالشوزم پورا کرنا چاہتی ہے.ہر زمانہ میں غرباء کی ضروریات اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ہوئی لفظی تعلیم تم کہتے تھے کہ اسلام غرباء کے کھانے کا بھی پورا کرنے والی اسلامی تعلیم انتظام کرتا ہے، ان کے کپڑے کا بھی انتظام کرتا ہے، ان کے مکان کا بھی انتظام کرتا ہے ور ان کے علاج اور تعلیم کا بھی انتظام کرتا ہے مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام اس میں کامیاب بھی ہوا ہے یا نہیں ؟ اگر کامیاب ہو چکا ہے تو ہمیں اس کا کوئی نمونہ دکھاؤ.اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم وہی کامیاب اور اعلیٰ ہوتی ہے جو ہر زمانہ کے مطابق سامان پیدا کرے یعنی وہ لچکدار ہوا اور اپنے مقصد کو زمانہ کی ضرورت کے مطابق پورا کرے.جو تعلیم لچکدار نہیں ہوگی وہ کسی جگہ کام دیگی اور کسی جگہ کام نہیں دے گی.جیسے اگر کوئی لکڑی کا تختہ ہو تو وہ ہر جگہ کا م نہیں آ سکے گا اگر جگہ چھوٹی ہو گی تو لازماً وہاں لکڑی کا تختہ کام نہیں دے سکے گا کیونکہ وہ اس میں سمائے گا نہیں لیکن اگر کسی کے پاس چادر ہو تو چھوٹی جگہ پر وہ سمیٹی جا سکے گی اور بڑی جگہ پر پھیلائی جا سکے گی.پس تعلیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق لچک پیدا ہو سکے.اس قسم کی لچک نہ ہو جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ مراد لیتے ہیں کہ انہوں نے اس لچک میں سارا قرآن ہی ختم کر دیا ہو.ابتدائے اسلام میں غرباء کی اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی ضرورت کے مطابق یہ تعلیم کلی طور پر کامیاب رہی ہے چنانچہ ضرورتیں پوری کرنے کا طریقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ صرف سادگی پر عمل کرایا گیا بلکہ جب حکومت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوئی تو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ علاوہ زکوۃ کے غرباء کی سب ضرورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چندوں سے پوری فرمایا کرتے تھے اور اس ضمن میں بعض دفعہ صحابہ بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک وقت اپنا سارا مال دے دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک وقت قریباً سارا مال دے دیا اور یہ زکوۃ نہ تھی.پس جس قدر ضرورت تھی اس کے مطابق اس تعلیم نے کام دے دیا اور
ΑΛ انوار العلوم جلد ۱۶ یہ طریق اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے بالکل کافی تھا.نظام نو خلفائے اسلام کے زمانہ میں منظم طور پر غرباء جب حکومت زیادہ پھیلی اور خلفاء کا زمانہ آیا تو اس وقت منظم رنگ میں غرباء کی کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدو جہد ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کی.جاتی تھی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایسے رجسٹر بنائے گئے جن میں سب لوگوں کے نام ہوتے تھے اور ہر فرد کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کیا جاتا تھا اور فیصلہ کیا جاتا تھا کہ فی مرد اتنا غلہ، اتنا گھی ، اتنا کپڑا اور اتنی فلاں فلاں چیز دی جائے.اسی طرح ہر شخص کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی ضروریات زندگی مہیا ہو جاتی تھیں اور یہ طریق اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل کافی تھا.آج دنیا یہ خیال کرتی ہے کہ بالشوزم نے یہ اصول ایجاد کیا ہے کہ ہر فرد کو اس کی ضروریات زندگی مہیا کی جانی چاہئیں حالانکہ یہ طریق اسلام کا پیش کردہ ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس پر منتظم رنگ میں عمل بھی کیا جا چکا ہے بلکہ یہاں تک تاریخوں میں آتا ہے کہ شروع میں حضرت عمرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں ان چھوٹے بچوں کا جو شیر خوار ہوں خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اسلامی بیت المال سے اُس وقت بچے کو مددمانی شروع ہوتی تھی جب ماں بچے کا دودھ چھڑا دیتی تھی.یہ دیکھ کر ایک عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تا کہ بیت المال سے اس کا بھی وظیفہ مل سکے.ایک رات حضرت عمرؓ گشت لگا رہے تھے کہ آپ نے ایک جھونپڑی میں سے ایک بچے کے رونے کی آواز سُنی حضرت عمر اندر گئے اور پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے.اس عورت نے کہا عمر نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پینا نہ چھوڑے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا اس لئے میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ وظیفہ لگ جائے اور اسی وجہ سے یہ رورہا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا واہ عمر معلوم نہیں تُو نے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے حکم دے دیا کہ پیدائش سے ہی ہر بچے کو وظیفہ ملا کرے.پس اُس وقت یہ انتظام تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انتظام اس وقت کی ضروریات اور اس زمانہ کے لحاظ سے کافی تھا.ہاں یہ درست ہے کہ اس زمانہ میں غربت اور امارت میں وہ بعد نہ تھا جو اب ہے.اس وقت مقررہ ٹیکس اور حکومت اور افراد کو صاحب دولت لوگوں کی بر وقت امداد ان اغراض کو پورا کر دیتی تھی.تجارتی
۸۹ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام کو مقابلہ اس وقت اس قدر نہ تھا جو اب ہے.مقابل کی حکومتیں اس طرح ہمسایہ ملکوں کی دولت کو با قاعدہ نہ ٹوٹتی تھیں جیسا کہ اب ٹوٹتی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں کہ وہ انتظام آج کا رگر نہیں ہو سکتا لیکن اصولی لحاظ سے وہ تعلیم آج بھی کارگر ہے.اس وقت بغیر اس کے کہ کوئی نیا طریق ایجاد کیا جا تا اسی آمدن سے جو مقررہ ٹیکسوں یا طوعی چندوں سے حاصل ہوتی تھی گزارہ چلایا جا سکتا تھا پس اس وقت اسے کافی سمجھا گیا مگر وہ انتظام آج کافی نہیں ہوسکتا.آجکل کا زمانہ منظم زمانہ ہے اس وقت دنیا کی بے چینی کو دیکھ کر حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی بیشتر دولت ان کے ہاتھ میں ہوا اور اگر مذکورہ بالاتحریکیں کامیاب ہوئیں یعنی ان میں سے کوئی ایک کامیاب ہوئی تو لازماً افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور حکومتوں کے ہاتھ میں زیادہ چلا جائے گا.بالشوزم کامیاب ہو تب بھی اور شوشلزم کا میاب ہو تب بھی نتیجہ یہی ہو گا کہ افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور ملک کی بیشتر دولت پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا لیکن علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے جو اوپر بیان ہو چکے ہیں یہ نقصان بھی ہو گا کہ گو بعض ممالک زیادہ امن میں آ جائیں گے مگر بعض دوسرے ممالک زیادہ دُکھ میں پڑ جائیں گے.موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے پیش نظر غرباء کو اس نظام کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کو معین صورت دینے آرام بہم پہنچانے کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت کے لئے جو جامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا وہ آج یقیناً کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ اب حالات مختلف ہیں.اسی طرح بعد میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ان احکام کو جو صورت دی تھی وہ آج کامیاب نہیں ہو سکتی پس ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو ان دُنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آ جائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے.خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی جیسے میں نے بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں با قاعدہ مردم شماری ہوتی تھی ہر شخص کا نام رجسٹروں میں درج ہوتا تھا اور اسلامی بیت المال اس امر کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ ہر شخص کی جائز ضروریات
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو کو پورا کرے.پہلے جس قدر روپیہ آتا تھا وہ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک اسلامی خزانہ ہو اور دوسرے لوگوں کے بھی حقوق ہیں اس لئے اب تمام روپیہ سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ایک بہت بڑے حصہ کو محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ اس روپیہ سے ملک کے غرباء کو گذارہ دیا جاتا تھا.غرض خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کے لئے ایسا نظام پیش کرے جو زمینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہو اور ایسا ڈھانچہ پیش کر ہے جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دنیا کی بے چینی کو دور کر دے.اب ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی موعود کی بعثت کی خبر دی ہے، ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسیح اور مہدی کے آنے کی خوشخبری دی ہے لازماً اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زمانہ میں جو فتنہ وفساد اور دکھ نظر آ رہا ہے اس کے دور کرنے کا کام بھی اسی مامور کے سپر د ہونا چاہئے تا کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو بالشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.وہ نتائج بھی پیدا نہ ہوں جو سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو نیشنل سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا کو کھانا بھی مل جائے ، دنیا کو کپڑا بھی مل جائے، دنیا کو مکان بھی مل جائے ، دنیا کو دوا بھی مل جائے اور دنیا کو تعلیم بھی میسر آ جائے پھر دماغ بھی کمزور نہ ہو، انفرادیت اور عائکیت کے اعلیٰ جذبات بھی تباہ نہ ہوں ، ظلم بھی نہ ہو، لوگوں کو ٹوٹا بھی نہ جائے ، امن اور محبت بھی قائم رہے لیکن روپیہ بھی مل جائے.موجود زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق دنیا پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاتم الخلفاء کا فرض سے دُکھ کو دور کرنے کی خاتم الخلفاء کی سکیم تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دنیا سے اس مصیبت کا خاتمہ کر دیتا.چنانچہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اس نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچا دیئے ہیں.۹۰
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو غرباء کی تکلیف دور کرنے کے لئے میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں :- اسلامی سکیم اور اس کے اہم اصول اول : سب انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے.دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے.تیسرے: یہ کام مالداروں سے طوعی طور پر لیا جائے اور جبر سے کام نہ لیا جائے.چوتھے : یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ بین الاقوامی ہو.آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے.اسلامی تعلیم کی ساری خوبی ان چاروں اصول میں مرکوز ہے.اگر یہ چاروں اصول کسی تحریک میں پائے جاتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحریک سب سے بہتر اور سب تحریکات سے زیادہ مکمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ۱۹۰۵ ء اب میں بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں میں دنیا سے دُکھ کو دور کرنے والے نئے نظام کی بنیاد مقاصد کو اس زمانہ کے ما مور، نائب رسول اللہ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی.یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں.ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے ، مسولینی ۶ سے جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے.غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں.۱۹۱۹ ء اور ۱۹۲۱ کے گرد چکر لگا رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مامور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ ” الوصیت کے ذریعہ رکھی تھی.قرآن مجید میں مختلف ضرورتوں کے وقت قرآن کریم نے اصولی طور پر فرمایا تھا أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا طوعی قربانیاں کرنے کی طرف اشاره بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۹۱
۹۴ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو مگر اس تعلیم میں خدا تعالیٰ نے طوعی قربانیوں کے کوئی معتین اصول مقرر نہ فرمائے تھے صرف یہ کہا تھا کہ اے مسلمانو ! تمہیں علاوہ جبری ٹیکسوں کے بعض اور ٹیکس بھی دینے پڑیں گے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ٹیکس کتنے ہوں گے اور ان کی معین صورت کیا ہو گی.اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سو میں سے ایک روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے ایک روپیہ دے دو اور اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کوسو میں سے دور و پیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے دور و پے دے دو اسی وجہ سے ہر زمانہ میں اس کی الگ الگ تعبیر کی گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ وقتا فوقتا زائد چندے مانگ لئے اور خلفاء نے اپنے زمانہ کے مطابق اس کی اس طرح تعبیر کی کہ جو اموال فوجوں میں تقسیم کرنے کے لئے آیا کرتے تھے ان کے ایک بڑے حصہ کو محفوظ کر لیا اور سپاہیوں سے کہا کہ تم اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دو اور حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ کے مطابق تعبیر کر لی.اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا کھلانا ہے، ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہوگی وہ ترقی اسلام اور اشاعتِ علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے“ خرچ ہو گی.( شرط نمبر۲ ) اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور ان اموال سے انجام پذیر ہوں گے.(شرط نمبر۲) یعنی اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کرنا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور شخص ان امور کو کھولے گا ان تمام امور کی سرانجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.
۹۳ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو الوصیت کے نئے نظام کا ذکر یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امرجو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جن کو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں.روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، ہندوستان کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ، امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ ” الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے.وصیت کے اموال میں تیامی ، مساکین اور کافی پھر آپ فرماتے ہیں ” ان اموال میں سے اُن تیموں اور مسکینوں وجوہ معاش نہ رکھنے والے نو مسلموں کا حق کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے ( شرط نمبر ۲) پھر فرماتے ہیں ”جائز ہو گا کہ انجمن باتفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ سے ترقی دے“.(ضمیمہ شرط نمبر ۹) یعنی ان اموال کے ذریعہ تجارت کرنی بھی جائز ہوگی اور تمہیں اس بات کی اجازت ہو گی کہ لوگوں سے ان کے اموال کا دسواں یا آٹھواں یا پانچواں یا تیسرا حصہ لو اور پھر تجارت کر کے اس مال کو بڑھالو.نئے نظام سے باہر رہنے والے کے لئے ایمان کا خطرہ پھر فرماتے ہیں ہر مؤمن کے ایمان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہو اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے.صرف منافق ہی اس نظام سے باہر رہے گا.گویا کسی پر جب نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو، ہاں اگر جنت کی قدر و قیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو
۹۴ انوار العلوم جلد ۱۶ ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں.نظام کو بالشوزم اور الوصیة کے ذریعہ پھر دیکھو بالشوزم لوگوں سے ان کے اموال جبراً چھینتی ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو لئے ہوئے اموال میں ایک فرق اس کا مال اسے واپس کرد و کیونکہ خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں اور خدا کے نزدیک ایسا مال مکروہ اور رو کرنے کے لائق ہے (ضمیمہ شرط نمبر ۱۲) یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے کہ دنیا جس نظام نو کو پیش کرتی ہے اس میں وہ جبر لوگوں سے ان کے اموال چھیتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس نظام کو کو پیش فرماتے ہیں اس میں طوعی قربانیوں پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کر دو کیونکہ ایسا مال مردود ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھا جائے.بالشوزم کے مقابل الوصیۃ کے ذریعہ ان اصول کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ کس طرح وہی مقصد جسے بالشوزم نے نہایت پُر امن طریقہ سے مقصد کا حصول خون میں ہاتھ رنگ کر ادھورے طور پر پورا کرنے کی کوشش کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محبت اور پیار سے اس مقصد کو زیادہ مکمل طور پر پورا کر دیا ہے.بالشوزم آخر کیا کہتی ہے؟ یہی کہ امیروں سے ان کی جائداد میں چھین لو تا غریبوں پر خرچ کی جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی جائدادیں اسلامی منشاء کے مطابق اور اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق محبت و پیار سے لے لیں اور فرمایا کہ تم سب اپنی اپنی جائدادوں کا کم سے کم دسواں حصہ دو جو تیامی اور مساکین پر خرچ کیا جائے گا اور اشاعت اسلام کا کام اس سے لیا جائے گا.اس وصیت کے قانون کے مطابق ہر وصیت کرنے والا احمدی اپنی جائداد کا ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ اپنی مرضی سے اپنے اخروی فائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام اور بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے.تمام دنیا کے احمدی ہو جانے کی اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہوگا صورت میں عظیم الشان انقلاب کہ خدا تعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم جنت کے
۹۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو طلبگار ہو ، اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائدادوں کا 10 سے ۱/۳ حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لئے دے دو اس طرح ساری دنیا کی جائداد میں قومی فنڈ میں آ جائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائدادوں کے الا سے ۱/۳ حصہ کا مالک بن جائے گا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری کی جا سکے گی.چند رنسلوں میں ہی تمام احمد یوں کی پھر یہ یاد رکھو کہ وصیت صرف پہلی نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ دوسری نسل کے لئے بھی جائدادیں نظامِ احمدیت کے قبضہ میں ہے اور اس سے بھی انہی قربانیوں کا مطالبہ ہے اور چونکہ وصیت سے دنیا کے سامنے جنت پیش کی جارہی ہے اگلی نسل اس کو لینے سے کس طرح انکار کرے گی پس دوسری نسل پھر اپنی خوشی سے بقیہ جائداد کا ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دے گی اور پھر تیسری اور پھر چوتھی نسل بھی ایسا ہی کرے گی اور اس طرح چند نسلوں میں ہی احمدیوں کی جائدادیں نظام احمدیت کے قبضہ میں آ جائیں گی.فرض کر وسب دنیا احمدی ہو جائے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا نکلے گا یہی کہ چند نسلوں میں اپنی خوشی سے ساری دنیا اپنی جائداد میں قومی کاموں کے لئے دے دے گی اور اس کی انفرادیت بھی تباہ نہ ہوگی ، عائلی نظام بھی تباہ نہ ہو گا اور پھر لوگ اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے اور دولت پیدا کریں گے اور پھر اپنی خوشی سے اس کام سے ۱/۳ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دیں گے پھر یہ سارا مال چند نسلوں میں قومی فنڈ میں منتقل ہو جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کے پاس سو روپے ہوں اور وہ پانچویں حصہ کی وصیت کرے تو ہمیں روپے قومی فنڈ میں آجائیں گے اور اسی روپے اس کے پاس رہیں گے جو اس کے لڑکے کو ملیں گے.پھر مثلاً اس کا لڑکا اگر اسی روپے کے ۱۵ حصہ کی وصیت کر دے گا تو سولہ روپے اور قومی فنڈ میں آ جائیں گے.گویا ۳۶ فیصدی قومی فنڈ میں آ جائے گا اور ۶۴ فیصدی اس کے پاس رہ جائے گا.پھر مثلاً اس کا لڑکا اس ۶۴ فیصدی کے پانچویں حصہ کی وصیت کرے گا تو انداز آبارہ روپے اور قومی فنڈ میں آجائیں گے گویا اڑتالیس فیصدی کی مالک حکومت ہو جائے گی اور باون فیصدی اس خاندان کے پاس رہ جائے گا اس کے بعد اس کا لڑکا مثلاً باون روپوں کے
۹۶ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو پانچویں حصہ کی وصیت کر دے گا تو دس روپے ان کے ہاتھ سے اور نکل جائیں گے اس طرح قومی فنڈ میں اٹھاون فیصدی آ جائے گا اور اس خاندان کے پاس صرف بیالیس فیصدی رہ جائے گا.غرض وہی مقصد جو بالشوزم کے ماتحت تلوار اور خونریزی سے حاصل کیا جاتا ہے اگر وصیت کا نظام وسیع طور پر جاری ہو جائے تو مقصد بھی حل ہو جائے فساد اور خونریزی بھی نظر نہ آئے ، آپس میں محبت اور پیار بھی رہے، دنیا میں کوئی بھوکا اور ننگا بھی دکھائی نہ دے اور چند نسلوں میں انفرادیت کی روح کو تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میں دنیا کی تمام جائدادیں منتقل ہو جائیں.وصیت کا نظام ملکی نہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی ہوگا پھر نظام کی نہ ہوگا جبکہ بوجہ مذہبی یہ ملکی ہونے کے بین الا قوامی ہوگا.انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہو مگر احمدیت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بلاتی ہے، وہ جرمنی کو بھی بلاتی ہے ، وہ انگلستان کو بھی بلاتی ہے ، وہ امریکہ کو بھی بلاتی ہے ، وہ ہالینڈ کو بھی بلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بلاتی ہے پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو گا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائے گا ، وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ انگلستان ، امریکہ، اٹلی ، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش غرض وہ نظام جو دنیوی ہیں وہ قومیت کے جذبہ کو بڑھاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود کردہ عالمگیر اخوت بڑھانے والا نظام علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ نظام پیش کیا ہے عالمگیر اخوت کو بڑھانے والا ہے.پھر روس میں تو روس کا باشندہ روس کے لئے جبراً اپنی جائداد دیتا ہے لیکن وصیت کے نظام کے ماتحت ہندوستان کا باشندہ اپنی مرضی سے سب دنیا کے لئے دیتا ہے ، مصر کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد سب دنیا کے لئے دیتا ہے ، شام کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد ساری دنیا کے لئے دیتا ہے یہ کتنا نمایاں فرق ہے اسلامی نظام کو اور دُنیوی نظام کو میں ؟
۹۷ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اسلامی نظامِ نو کے ماتحت غرباء کے لئے جائدادیں پھر روی نظام چونکہ جبر سے کام لیتا ہے اس کا دینے والوں کے دلوں میں انتہائی بشاشت اور سرور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مالدار روس سے نکل کر اس کے خلاف جد و جہد شروع کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کو جائدادیں دے کر کوئی خوشی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی.ایک روسی سے جس وقت اس کی جائداد چھین لی جاتی ہے وہ ہنستا نہیں بلکہ روتا ہوا اپنے گھر جاتا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے کم بخت حکومت نے میری جائداد مجھ سے چھین لی لیکن اس نظام نو میں ایک زمیندار جس کے پاس دس ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ ایک یا دو یا تین ایکڑ زمین دے کر روتا نہیں بلکہ دوسرے ہی دن اپنے بھائی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے اے بھائی ! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کی توفیق پائی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ غریبوں کے لئے دو یا تین ایکڑ زمین مجھ سے چھین لی گئی ہے.مگر وہ روتا نہیں ، وہ غم نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے بھائی جان! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کر دی اور کہتا ہے اللہ اب مجھے وہ دن بھی دکھائے کہ آپ بھی وصیت کر دیں اور میں آپ کو مبارکباد دینے کے قابل ہو جاؤں.جس وقت بیوی کو وہ یہ خبر سناتا ہے بیوی یہ نہیں کہتی کہ خدا تباہ کرے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری جائداد لوٹ لی بلکہ اس کے ہونٹ کا پینے لگ جاتے ہیں اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے ان نگاہوں سے جن سے وہ اپنے خاوند کے دل کو چھینا کرتی ہے اس کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو جی! اللہ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے وصیت کر دی میرے پاس اپنی جائداد نہیں میں کس طرح وصیت کروں آپ اپنی جائداد میں سے کچھ مجھے دے دیں تو میں بھی اس نعمت میں شامل ہو جاؤں اور وہ اپنے نسوانی داؤ پیچ اور ان تیروں سے کام لے کر جو کہ خاوند بہت کم برداشت کر سکتے ہیں آخر اسے راضی کر ہی لیتی ہے اور وہ اسے اپنی جائداد میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے اس پر بیوی پھر اسی جائداد کی وصیت کرتی ہے اور کہتی ہے میں اس کے ۱۰ یا ۱/۸ یا 1/4 حصہ کی وصیت کرتی ہوں گویا اس بچی ہوئی جائداد پر پھر ایمان ڈا کہ مارتا اور اس کا ایک اور حصہ قومی فنڈ میں منتقل ہو جاتا ہے اتنے میں بچہ گھر میں آتا ہے اور جب وہ سنتا ہے کہ اس کے باپ اور اس کی ماں نے وصیت کر دی ہے تو وہ دلگیر ہو کر بیٹھ
۹۸ انوار العلوم جلد ۱۶ نظامِ تو جاتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے ابا جی! اللہ آپ کو دیر تک ہمارے سروں پر سلامت رکھے.میرے پاس تو کچھ نہیں میں کس طرح اللہ سے یہ ارزاں سو دا کروں اگر مجھے کچھ دے دو تو میں بھی اللہ میاں سے اپنے لئے جنت کا سودا کر لوں.اگر اس کے باپ کو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے کہ آخر میری جائداد نے اسی کے پاس جانا ہے اسی وقت اپنی جائداد کا ایک حصہ اسے دے دیتا ہے اور وہ وصیت کر کے اپنے رب سے جنت کا سودا کر لیتا ہے.اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ایک اور حصہ قومی فنڈ میں آ جمع ہوتا ہے اور اگر اس کا باپ نسبتاً سخت ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا کہ اپنی زندگی میں لڑکے کو جائداد دے دے تو نیک بخت لڑکا اس جائداد کا جو ابھی اسے نہیں ملی سودا کر دیتا ہے اور وصیت کر دیتا ہے کہ گوا بھی میرے پاس کوئی جائداد نہیں مگر میں وصیت کرتا ہوں کہ اس وقت جو میری آمدن ہے اس کا دسواں حصہ وصیت میں ادا کرتا رہوں گا اور اگر آئندہ میری کوئی جائداد ہوئی تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا کروں گا جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ جب ابا جان فوت ہو جائیں گے اور ان کی جائداد میرے قبضہ میں آ جائے گی تو جو حصہ مجھے باپ کی وصیت کے بعد بچی ہوئی جائداد میں سے ملے گا اس کے دسویں حصہ کا ابھی سے وعدہ کرتا ہوں.اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ارا قومی فنڈ میں آ جاتا ہے.پھر دیکھوڈ نیوی نظام کے ماتحت تو جن لوگوں پر ٹیکس لگتا ہے وہ ناخوش ہوتے ہیں اور جن پر نہیں لگتا وہ خوش ہوتے ہیں.امیر ناراض ہوتے ہیں کہ ہم پر کیوں ٹیکس لگایا گیا اور غرباء خوش ہوتے ہیں کہ امراء کا مال ہمیں ملا لیکن وصیت کے قاعدہ کے ماتحت کیا ہوتا ہے؟ وصیت کو غور سے پڑھ کر دیکھ لو وصیت کی ابتداء جائداد پر رکھی گئی تھی مگر چونکہ مال جبر نہیں چھینا جاتا بلکہ اس کے بدلہ میں جنت کی سی نعمت پیش کی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ جن کے لئے مال لیا گیا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ امراء جن کی جائدادیں لی گئی ہیں خوب لوٹے گئے بلکہ وہ رنجیدہ ہوئے کہ اس نیک سودے سے ہمیں کیوں محروم کیا گیا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ ہمارے لئے بھی راستہ نکالا جائے اور خدا تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے انہیں اپنی آمدنیوں کی وصیت کرنے کی اجازت دے دی.گویا وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری کیا ہے اس کی ابتداء جائدادوں سے ہوئی مگر پھر ان لوگوں کے اصرار پر جن کی جائدادیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے
۹۹ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو آمدنیوں کی وصیت کی بھی اجازت دے دی اور اس طرح جائداد اور آمد دونوں کے مقررہ حصے قومی فنڈ میں جمع ہونے شروع ہو گئے.نظام ٹو کی بنیاد۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی گئی غرض نظام نو کی بنیاد ۱۹۱۰ ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام کو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دنیا کو کسی نظام نو کی ضرورت نہیں ہے اب نظام نو کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں.گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مدبر صرف لکیریں پیٹ رہے ہیں.اسلام اور احمدیت کا نظام کو وہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے.اس میں انسانی حریت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفرادیت اور عاملیت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے.وصیتی اموال کے خرچ کرنے کے مختلف مواقع میں بتا چکا ہوں کہ وصیت کے متعلق یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس کا روپیہ صرف تبلیغ اسلام پر خرچ کیا جا سکتا ہے ” الوصیۃ“ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس روپیہ سے اور کئی مقاصد کو بھی پورا کیا جائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور ان اموال سے انجام پذیر ہونگے یعنی آئندہ زمانہ میں اشاعت اسلام کی ایسی مصلحتیں ظاہر ہوں گی یعنی اسلام کو عملی جامہ پہنا کر اس کی خوبیوں کے اظہار کے مواقع نکلیں گے کہ ان پر وصیت کے روپیہ کو خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہو گا.پھر یتیموں اور مسکینوں کے الفاظ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ اس روپیہ پر محتاجوں کا حق ہے.پس در حقیقت ان الفاظ میں اسی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ہر فرد بشر کے لئے کھانا مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے کپڑا مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے مکان مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے تعلیم اور
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو علاج کا سامان مہیا کیا جائے اور یہ کام ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جائدادیں لی جائیں اور اس ضرورت پر خرچ کی جائیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور با تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم ایسے دعوے کرو اور اس قسم کی موہوم امیدوں کو جامعہ عمل پہنا سکو گر یہ طیبہ بھی درست نہیں اس لئے کہ جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں تو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کا دنیا کے تمام ممالک میں پھیل جانا مقدر ہے.پس جبکہ ہم خدا تعالیٰ کے الہامات اور اس کے وعدوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ یا سو سال کے بعد بہر حال دنیا پر احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا تو ہمیں اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ یہ نظام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے ایک دن قائم ہو کر رہے گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.یقینی طور پر وصیت کے ذریعہ پیش کردہ نظام کا قیام بعض لوگ یہ بھی کہ دیتے یہ ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب قائم ہو گا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گر جاتی ہے یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گر جائیں گے نظام وہی قائم ہو گا جو ہر کس و ناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا.گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑا رہتا ہے.پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائے گی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلا جائے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب الوصية میں تحریر فرمایا ہے کہ :- یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری کے جوش سے.مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام نو نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہوگا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو ان کو بطور مد دخرچ اس میں سے دیا جائے.وصیت کے ذریعہ جمع ہونے والے یعنی مجھے اس بات کا خیال نہیں کہ وصیت کے نتیجہ میں اتنے روپے کہاں سے آئیں گے روپیہ کی حیرت انگیز بہتات بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ نہیں لوگ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھا جائیں.گویا تم تو یہ کہتے ہو - کہ ساری دنیا کے غریبوں کا انتظام کس طرح کرو گے اور وہ مال کہاں سے آئے گا جس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی مگر مجھے اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ یہ مال کہاں سے آئے گا یہ مال آئے گا اور ضرور آئے گا مجھے تو فکر یہ ہے کہ کہیں کثرت مال کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں اور وہ لوگ جن کے سپرد یہ اموال ہوں وہ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں اور لالچ کی وجہ سے ان مذات میں روپیہ خرچ نہ کریں جن مذات کے لئے یہ روپیہ اکٹھا کیا جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سوال خود ہی اٹھایا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اتنے خزانے کہاں سے آئیں گے.آئیں گے اور ضرور آئیں گے مجھے اگر ڈر ہے تو یہ کہ کہیں کثرتِ مال کو دیکھ کر لوگ دنیا سے پیار نہ کر نے لگ جائیں کیونکہ روپیہ اکٹھا ہو گا اور اتنا اربوں ارب اور اربوں ارب اکٹھا ہو گا کہ اتنا مال نہ امریکہ نے کبھی دیکھا ہو گا نہ روس نے کبھی دیکھا ہوگا ، نہ انگلستان نے کبھی دیکھا ہوگا نہ جرمنی، اٹلی اور جاپان نے کبھی دیکھا ہوگا بلکہ ساری حکومتوں نے مل کر بھی اتنا روپیہ کبھی جمع نہیں کیا ہو گا جتنا روپیہ اس ذریعہ سے اکٹھا ہو گا، پس چونکہ اس ذریعہ سے اس قدر دولت اکٹھی ہوگی کہ اس قدر دولت دُنیا کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی اِس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں بد دیانتی پیدا نہ ہو جائے.پس تم اس بات کا فکر نہ کرو کہ یہ نظام کس طرح قائم ہو گا تم یہ فکر کرو کہ اس کو صحیح استعمال کرنے کا اپنے آپ کو اہل بناؤ.دُنیا کی جائداد میں تمہارے ہاتھ میں ضرور آئیں گی مگر تم کو اپنے نفوس کی ایسی اصلاح کرنی چاہئے کہ وہ جائداد میں تمہارے ہاتھ سے دنیا کے فائدہ کے لئے صحیح طور پر خرچ کی جائیں.
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو میں اس موقع پر ایک دشمن کی تعریف کئے خواجہ کمال الدین صاحب پر الوصيّة بغیر نہیں رہ سکتا.جس دن حضرت مسیح موعود میں بیان کردہ نئے نظام کا اثر علیہ الصلواۃ والسلام نے وصیت لکھی اور اُس کا مسودہ باہر بھیجا تو خواجہ کمال الدین صاحب اس کو پڑھنے لگ گئے جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے.ان کی نگاہ نے اس کے حُسن کو ایک حد تک سمجھا وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ ”واہ اوے مرز یا احمدیت دیاں جڑاں لگا دتیاں ہیں یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے.خواجہ صاحب کی نظر نے بے شک اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا در حقیقت اگر وصیت کو غور سے پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ او مرزا تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں، واہ او مرزا تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكْ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.نظام نو کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کی صورت میں کمر جیسا کہ میں بتا آیا ہوں یہ کام وقت چاہتا ہے اور اس دن کا محتاج ہے جب سب دُنیا میں احمدیت کی کثرت ہو جائے ابھی موجودہ آمد مرکز کو بھی صحیح طور پر چلانے کے قابل نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک جدید کا القاء فر ما یا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے.پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائداد پیدا ہو اس سے تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے.نظام نو کے قریب تر لانے کا ذریعہ پس جوں جوں تبلیغ ہوگی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے.قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے اسی طرح اگر خود دوڑ نے لگو تو شروع کی رفتار اور بعد کی رفتار میں بڑا فرق ہوتا ہے.پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہو رہے ہیں ان کی رفتار بے شک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائدادوں کا ایک جتھا دوسری جائدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہو گی نظامِ نو کا دن اِنْشَاءَ اللہ قریب سے قریب تر آ جائے گا.تحریک جدید نظام نو کے لئے بطور ا رہاص کے ہے غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ا رہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر کا شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظام کو کی تعمیر میں مدددیتا ہے.خلاصہ یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشاعت اسلام کے لئے ہے مگر یہ بات درست نہیں وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے.جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاء اللہ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی ، عورتوں کا سہاگ ہوگی ، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا.
۱۰۴ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو پس اے دوستو ! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل کے بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ سے بنا سکتے ہیں.یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص ، کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے ، جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی ، وہ خدا تعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیۃ کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میں رکھ دی گئی ہے.جماعت کے تمام دوستوں کو ایک نصیحت پس تمام دوستوں کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور ان دلائل کو اچھی طرح یاد رکھ لینا چاہئے جو میں نے پیش کئے ہیں کیونکہ قریباً ہر جگہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو بالشوزم کے مداح ہوتے ہیں اسی لئے میں نے بالشوزم کی تحریک کی خوبیاں بھی بتا دی ہیں اور اس کی خامیاں بھی بتا دی ہیں اسی طرح دوسری تحریکات کی خوبیاں اور ان کی خامیاں بھی بتا دی ہیں پس ان پر غور کرو اور تعلیم یافتہ طبقہ سے ان کو محوظ رکھ کر گفتگو کر و.میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ان تحریکات کے مؤیدین کے پاس نہیں دنیا میں اگر امن قائم ہو سکتا ہے تو اسی ذریعہ سے جس کو آج میں نے بیان کیا ہے.اسی طرح آج سے اٹھارہ سال پہلے ۱۹۲۴ء میں امنِ عامہ کے قیام کے متعلق خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کتاب ”احمدیت میں ایک ایسا عظیم الشان انکشاف کیا کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ایسا عظیم الشان اظہار گزشتہ تیرہ سو سال میں پہلے مفسرین میں سے کسی نے نہیں کیا اور یقیناً وہ ایسی تعلیم ہے کہ گو اس قسم کا دعوی کرنا میری عادت کے خلاف ہے مگر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کا انکشاف سوائے نبیوں اور ان کے خلیفوں کے آج تک کبھی کسی نے نہیں کیا اگر کیا ہو تو لاؤ مجھے اس کی نظیر دکھاؤ.،،، وصیت کرنے والا نظام نو کی بنیادرکھنے میں حصہ دار پس اے دوستو ! جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے اس نے نظام نو کی بنیاد رکھ دی ہے اُس نظام نو کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس
۱۰۵ انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو نے تحریک جدید میں حصہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہے اس نے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے.پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام دین کومٹا کر بنایا جا رہا ہے تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرو مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے.جلد سے جلد وصیتیں کرنے کی ضرورت پس تم جلد سے جلد وصیت نہیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آ جائے جب کہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے تو فیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کر دینی وڈ نیوی برکات سے مالا مال ہوسکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اُٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دُور کر دیا، جس نے ساری دنیا کے دُکھوں اور دردوں کو دُور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور اُلفت با ہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی.(مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) لا گتھا : ایک قسم کا روئی دارا ور ملائم بچھونا کارل مارکس: جرمن مفکر اور کمیونزم کا بانی.۱۸۱۸ء کو پیدا ہوا.۱۸۸۳ء کو وفات پائی.پ ٹریوز (TREVES) یہودی قانون دان کا بیٹا تھا.بون اور برلن میں تعلیم حاصل کی.۱۸۴۴ء میں اس نے اینجلس کے ساتھ طویل اشتراک کا سلسلہ شروع کیا.اس کے ساتھ مل کر اس نے مارکسی فلسفہ کو ۱۸۴۴ء میں ایک مشتر کہ کتاب بنام مقدس خاندان The) (Holy Family لکھ کر ترقی دی.پھر کمیونسٹ منشور مرتب کیا.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۷۷ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لا ہور ) سے سائیں: ملازم جو گھوڑے کی خدمت کے لئے رکھا جائے.
۱۰۶ نظام تو انوار العلوم جلد ۱۶ لینن ولیڈ مرالیچ:Lenin-Vladimir Ilyich (۲۲ اپریل ۱۸۷۰ ء تا ۲۱ / جنوری ۱۹۲۴ ء ).روسی سیاستدان - ۱۸۸۷ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کازان یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیا لیکن جلد ہی طلباء کی انقلابی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا.۱۸۸۸ء میں رہائی ملی.۱۸۹۷ء میں اسے جلا وطن کیا گیا.جلاوطنی کے دوران ” روس میں سرمایہ داری کی نشو ونما کتاب مکمل کی.۱۹۱۴ ء میں سوئٹزر لینڈ چلا گیا.۱۹۱۷ ء میں روس میں مطلق العنان حکومت کو شکست ہوئی اور ۷ نومبر ۱۹۱۷ ء کو لینن کی صدارت میں روسی حکومت کے قیام کا اعلان ہوا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۶۲ ، ۱۳۶۳ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لا ہور ) لوڈن ڈروف امیریش dendroff Erich (۱۸۶۵ ء.۱۹۳۷ ء ).جرمن جرنیل.پہلی عالمی جنگ میں ہنڈن برگ (Hindenburg) کے ماتحت کماندار اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اُن فتوحات کا بڑی حد تک ذمہ دار تھا جو اس کے بالا دست سے منسوب ہوئیں.میونخ میں ہٹلر کے بلوہ بیئر ہال ( ۱۹۲۳ء) میں اپنی دوسری بیوی کے اشتراک سے اس نے آریائی مسلک کی بنیاد رکھی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۳۳۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لا ہور ) سٹالن : روسی کمیونسٹ آمر.اس کا اصل نام زد گشو بلی تھا.انقلابی تحریک میں شامل ہونے کے بعد اس نے سٹالن ( مردِ آہن ) کا لقب اختیار کیا.پادری بننے کے لئے تعلیم حاصل کی مگر مارکسی ہو گیا اس لئے درس گاہ سے خارج کیا گیا.۱۹۴۵ ء میں مالوٹوف کو معزول کر کے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی.روس پر ہٹلر کے حملہ کے بعد اس نے فوجی قیادت بھی سنبھال لی.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ، جلد ا صفحہ ۷۳۹، مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) مولوٹوف میخانو وچ Moloto Mikhailovich (۱۹۰ - ۱۹۸۶ء) روی سیاستدان.۱۹۰۶ ء میں بالشویک پارٹی میں شمولیت کی.۱۹۳۰ ء تا ۱۹۴۱ء روسی پارلیمنٹ کے رکن رہے.۱۹۴۶ء تا ۱۹۴۹ ء روسی وزیر خارجه، ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۷ ء روس کے وزیر اعظم رہے، ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۷ء کچھ مدت کے لئے وزیر مملکت بھی رہے.الانعام : ۱۲ 1 (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۹۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) استثناء باب ۲۳ آیت ۱۹ ، احبار باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۳۷.ا،۱۱ استثناء باب ۱۵ آیت ۱۲ ۱۲ استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ ، ۱۸۷۰ مرزا پور.گلیوں باب ۳ آیت ۱۰ تا ۱۳
انوار العلوم جلد ۱۶ ر لا ري ري ريا الانفال: ۱۹۶۸ الحج: ۴۰ تا ۴۲ ا مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک ٢٣ النور : ٣٣ ۲۴ النور: ۳۴ محمد : ۵ ۲۵ محوری: دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی اور فسطائی.اٹلی کے اتحاد کا نام (Axis Powers) ٢٢ البقرة : ٣٠ ۲۷ الحجر : ۸۹ ٢٨ الحجرات: ١٠ ۲۹ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحه ۲۳۱ مطبوعہ ۱۹۷۷ء ۳۰ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۲۳۲ ،۲۳۳ مطبوعہ ۱۹۷۷ء ١ البقرة : ٤ ۴ ۳۲ ہٹلر : Hitler Adolf ( ۱۸۸۹ - ۱۹۳۵ء) جرمنی کا آمر مطلق.نازی پارٹی کا بانی ، پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں سے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی.۱۹۳۳ ء میں اسے آمریت کے اختیارات سونپ دیئے گئے.ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا.نازی پارٹی کے مخالفین کو کچل دیا گیا.اس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئیں.۱۹۴۱ ء میں روس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی.۳۳ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لا ہور ) گوئرنگ : Goering ( ۱۸۹۳ء.۱۹۴۶ ء ) جرمنی کا نازی لیڈر، پہلی عالمی جنگ میں فضائی فوج کا ہیرو، شروع میں ہی نازیوں کے ساتھ مل گیا.۱۹۳۳ ء میں جرمنی کا وزیر محکمہ پرواز اور پروشیا (Prussia) کا وزیر اعظم.خفیہ پولیس کی بنیاد اسی نے رکھی جس کا ۱۹۳۶ء تک سربراہ رہا.جرمنی کا معاشی نظام آمرانہ اختیارات سے چلایا.ہٹلر نے اسے اپنا جانشین نامزد کیا.دوسری عالمی جنگ میں ہمہ گیر فضائی جنگ کا ذمہ دار تھا.۱۹۴۵ء میں امریکی فوج کے آگے ہتھیار ڈالے.جنگی جرائم میں سب سے بڑا ملزم ثابت ہونے پر سزائے موت پائی مگر پھانسی سے قبل خود کشی کر لی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۲۹۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لا ہور ) ۱۰۷ نظام کو
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو ۳۴ے بونا پارٹ : نپولین اول کا خاندانی نام.نپولین کے خاندان کے متعدد معروف افراد کے ناموں کے ساتھ بونا پارٹ کا لفظ لکھا ہے گویا یہ نپولین کے خاندان کا ٹائٹل ہے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈ یا جلد ا صفحه ۲ ۲۷ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) ۳۵ البقرة : ١٩٦ سے مسولینی بینی ٹو : (Mussaini-Benito) (۱۸۸۳ء.۱۹۴۵ء ) اطالوی آمر.یہ ایک لوہار کا بیٹا تھا.ابتدائی دنوں میں اُستاد اور صحافی کا کام کیا.سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا.پہلی جنگِ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی.وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ ء | میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا.۱۹۱۹ ء میں اپنی جماعت بنائی.اکتو بر ۱۹۲۲ء میں شاہ اٹلی اور فوج نے اسے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا.۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے.۱۹۲۶ ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے دیا.۱۹۳۵ء میں اینتھو پیا پر قبضہ کیا.۱۹۳۹ ء میں البانیہ پر قبضہ کیا.اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا.جون ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم دوم میں شامل ہوا.اتحادیوں نے سسلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اس کی ساکھ ختم ہوگئی.جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اسے استعفیٰ پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیا گیا.۱۵ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز ا سے رہا کرا کر جرمنی لے گئے.لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہوریہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنالی.اپریل ۱۹۴۵ ء میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا.دونوں کو گولی مار دی گئی.اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اسے سڑکوں پر گیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۵۶۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) ۳۷ الوصیت صفحه ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۹.ر گھسیٹا ۳۸ مسٹر چرچل : Sir Winston-Leonard-Spencer،Churchill (۳۰) نومبر ۱۸۷۴ء) - ۲۴ جنوری (۱۹۶۵ ء برطانوی سیاستدان.سپاہی، مصنف.ہندوستان ، سوڈان ، جنوبی افریقہ کے معرکوں میں شریک رہا.۱۹۰۰ ء میں پارلیمنٹ کا رکن بنا.۱۹۴۰ ء سے ۱۹۴۵ ء تک وزیر اعظم رہا.۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء دوبارہ وزیرا تھم رہا.متعدد کتابیں لکھیں.۱۹۵۳ ء میں ادبی نوبل پرائز حاصل کیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحه ۵۱۴ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) ۳۹ روز ویلٹ Theodorer Roosevelt (۱۸۵۸ء.۱۹۱۹ء) نیویارک کا گورنر ۱۹۰۱ء ۱۰۸
انوار العلوم جلد ۱۶ نظام تو میں امریکہ کا نائب صدر ، ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۹ ء تک صدر میکنلی کی موت پر امریکہ کا صدر بنا.تاریخ ، شکار، جنگلی جانوروں اور سیاسیات کے متعلق کتب لکھیں.۱۹۰۶ ء میں امن کا نوبل پرائز حاصل کیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۶۷۹ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) احمدیت : اس سے مراد حضرت مصلح موعود کی کتاب.احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے.مصلح موعود نے یہ کتاب ویمبلے کا نفرنس کے لئے تحریر فرمائی.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت مصلح موعود کی موجودگی میں اس کتاب کا خلاصہ کا نفرنس میں پیش کیا.حضرت 1+9
انوار العلوم جلد ۱۶ ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۶ ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - برادران! سرسکندر کے خیالات اور پالیسی سے پنجاب میں امن قائم رکھنے کی اہمیت ہم میں سے بعض کو خواہ کس قدر ہی اختلاف ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی وفات سے پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک زبر دست طوفان پیدا ہو گیا ہے اور صوبہ کا امن خطرہ میں پڑ گیا ہے.ان خطرہ کے ایام میں سب سے زیادہ ضرورت ایک مضبوط حکومت کی ہے جو ایک طرف جنگ کے کام میں پوری طرح مدد کر سکے اور دوسری طرف ملک میں امن قائم رکھ سکے.اس قسم کی حکومت تبھی قائم کی جاسکتی ہے جب کہ ہر ممبر اسمبلی اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو.اگر یہ نہ ہوا تو پنجاب ان فسادات اور خرابیوں سے دوچار ہوگا جن سے ہندوستان کا کوئی اور صوبہ دوچار نہیں ہوا.کیونکہ پنجاب ہندوستان کا میگزین ہے اور مختلف زبر دست اقوام کا مسکن ہے جن میں سے بعض نہایت منظم ہیں جن میں ایک دفعہ خود سری پیدا ہوئی تو پھر انہیں اکٹھا کرنا مشکل ہوگا.آپ لوگوں میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ میرے تعلقات پنجاب کی حکومت سے گزشتہ سالوں میں اچھے نہیں رہے نہ بالا حکومت کے نمائندوں سے اور نہ منتخب نمائندگان سے.اور اگر ملکی مفاد کا خیال نہ ہوتا تو میں اس وقت بالکل خاموش رہتا لیکن ملکی مفاد کا سوال اس وقت اس قدر اہمیت پکڑ گیا ہے کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا.میری ذاتی رائے یہ تھی کہ موجودہ مشکلات کے اختلاف و انشقاق کے خطرناک نتائج مد نظر سر فیروز خان صاحب نون کو پنجاب ملوایا
ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ انوار العلوم جلد ۱۶ جاتا اور حکومت کی تشکیل کا کام اُن کے سپرد کیا جاتا لیکن ملک معظم کے نمائندہ نے مناسب سمجھا کہ میجر ملک خضر حیات خاں کے سپرد یہ کام کریں مسلمان ممبروں کو اس موقع پر پورا حق حاصل تھا کہ وہ بہ اتفاق رائے یا کثرتِ رائے سے حکومت سے کہہ دیتے کہ انہیں میجر خضر حیات خاں کی سرداری پر اعتماد نہیں اگر وہ ایسا کرتے تو باوجود ہمارے خاندان اور ان کے خاندان کے کئی پشتوں کے تعلقات کے میں مسلمانوں کی عام رائے کے ساتھ ہوتا کیونکہ گو وزیر اعظم کے تقر رکا اختیار گورنر صاحب کو حاصل ہے لیکن اس پر اعتماد یا عدم اعتماد کے اظہار کا اختیار اسمبلی کے نمائندگان کو حاصل ہے.مگر میں نے سُنا ہے کہ یونینسٹ پارٹی جو اکثریت رکھتی ہے اُس نے میجر خضر حیات خاں صاحب پر اعتماد کا اظہار کر دیا ہے.اس کے بعد اسمبلی کا ایک ہی کام باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی عزت کرے لیکن میں نے سُنا ہے کہ بعض وزارتوں اور سیکرٹری کے عہدوں کے بارہ میں اندر ہی اندر زبر دست پرو پیگنڈا ہورہا ہے اور بعض لوگ اس بات پر بھی تیار ہیں کہ اگر ان کو عہدہ نہ ملا تو وہ پارٹی میں تفرقہ پیدا کرنے سے بھی نہ رکیں گے.اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا.فرانس کی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ان گنت پارٹیاں بن جائیں گی جن کی بنیاد کسی سیاسی اختلاف پر نہ ہوگی بلکہ ذاتی اغراض پر ہوگی اور پنجاب کی حکومت اس استقلال سے محروم ہو جائے گی جو اسے اب حاصل ہے کوئی حکومت چند ماہ سے زیادہ نہ چل سکے گی.ممبروں کا وقت اس میں خرچ نہ ہو گا کہ ملک کے فائدے کے امور پر غور کریں بلکہ اپنے لئے عہدے طلب کرنے یا دوسروں کو عہدے پیش کرنے کے جوڑ توڑ میں سب وقت خرچ ہوگا اور پنجاب کا بھی وہی حال ہو گا جو فرانس کا ہوا ہے مگر فرانس نے کئی سو سال جوانی کی بہاریں دیکھی ہیں پنجاب اُن غنچوں میں ہوگا جو بن کھلے ہی مُرجھا جاتے ہیں.کیا کوئی عقلمند یہ خیال کر سکتا ہے کہ دنیا کا کوئی وزیر اعظم وزراء یا نائب وزراء کا تقرر مجلس آئین ساز کے ہر ممبر کو وزارت یا نائب وزارت دے سکتا ہے بلکہ نصف یا چوتھے یا دسویں یا بیسویں حصہ کو بھی وزارتیں دے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.پھر پنجاب جو باوجود ملکی وسعت کے ابھی اس قدر سرمایہ کا مالک بھی نہیں جس کے بیلجیئم یا ناروکے جیسے چھوٹے ملک مالک ہیں وہ اس تعیش کو کب برداشت کر سکتا ہے؟ ان حالات میں بلکہ ہر قسم کے حالات میں ایک ہی صورت ممکن ہے کہ پارٹی وزیر اعظم کے انتخاب میں تو بے شک دخل دے لیکن جب کوئی وزیر اعظم چنا جائے تو باقی عہدوں کے انتخاب کو کلی طور پر اُس پر چھوڑ دے.اگر اُس کا انتخاب کامیاب ہو تو فبھا.اگر بعض عُہدہ دار
انوار العلوم جلد ۱۶ ، ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ کامیاب ثابت نہ ہوں تو چند ماہ کے تجربہ کے بعد پارٹی میں اُس ممبر کے خلاف ریزولیوشن پیش کیا جا سکتا ہے.اگر اکثریت کی رائے اُس کے خلاف ہوگی تو وہ خود استعفاء دے دے گا یا وزیراعظم اسے استعفاء دینے پر مجبور کر دے گا.لیکن نیا انتخاب پھر بھی وزیر اعظم کے ہی ہاتھ میں چھوڑ نا پڑے گا کیونکہ جس پر کام کی ذمہ داری ہوا سے اپنے مذاق کے آدمی چنے کا اختیار دینے ہی میں کامیابی کی کلید ہوتی ہے.اور جمہوری حکومتوں کے تجربہ نے اس امر کی ضرورت اور اہمیت کو اس حد تک ثابت کر دیا ہے کہ اس کا انکار کسی صورت میں درست نہیں.آپ لوگوں کی طرف اس وقت سارے ملک کی نظریں دیانت داری کے امتحان کا وقت ہیں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کس حد تک ملک کی خیر خواہی اپنے دل میں رکھتے ہیں.ذاتی دوستیوں یا لحاظ کا یہ وقت نہیں اگر کوئی شخص آپ سے استدعا کرتا ہے کہ ذاتی دوستی یا اپنے فائدہ کے مد نظر آپ وزیر اعظم پر زور دیں کہ وہ اسے وزیر یا نائب وزیر منتخب کریں تو سمجھ لیں کہ آپ کی دیانتداری کے امتحان کا وقت آ گیا ہے.اس دوست سے صاف کہہ دیں کہ میری ذاتی جائداد آپ کی ہے میں اپنے مال کو آپ کے لئے قربان کر سکتا ہوں مگر قوم کی امانت آپ کے سپرد نہیں کر سکتا.اگر آپ ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ آپ پر راضی ہو گا اور آئندہ نسلیں آپ کے نام کو عزت سے دیکھیں گی.وہ دوست ممکن ہے آپ کا دشمن ہو جائے مگر خدا تعالیٰ آپ کا دوست ہو جائے گا اور یہ سودا آپ کو ہرگز مہنگا نہ پڑے گا.میں نے خود اس پر عمل کیا ہے اور بعض دوست جنہوں نے اس بارہ میں مجھ صحیح طریق عمل سے مدد طلب کی ہے انہیں صاف کہہ دیا ہے کہ میں کسی پرو پیگنڈا میں اُن کا یا کسی کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں.ہاں میں اس کے لئے بالکل تیار ہوں کہ اگر وزیر اعظم صاحب کو مسلمانوں کی اکثریت قابلِ اعتماد نہیں سمجھتی اور یونینسٹ پارٹی کے اجلاس میں یا خالص مسلمانوں کے اجتماع میں ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کر دیا جائے تو مسلمانوں کی اکثریت کا ساتھ دوں.مگر ان کی جگہ جو بھی دوسرا شخص ہو میری رائے یہی ہوگی کہ اسے اپنے ساتھی چننے کا پورا اختیار ہونا چاہئے ورنہ فساد کا دروازہ بند نہ ہوگا اور حرص اور لالچ اور رشوت اور سفارش کی گرم بازاری رہے گی.مضحکہ انگیز حرکات کی مثال اس قسم کی حرکات کا سخت بُرا اثر پڑتا ہے اور قوم بدنام ہو جاتی ہے میں ایک گزشتہ تجربہ آپ کو بتا تا ہوں ایک موقع
ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ انوار العلوم جلد ۱۶ پر پنجاب میں وزارت کا سوال تھا سر جیفرے ڈی مانٹ مورسی لے گورنر تھے میں شملہ سے آرہا تھا کہ امرتسر میں مجھے ایک وفد ملا اور اُس نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ گورنر صاحب کو فلاں شخص کے بارہ میں مشورہ دوں کہ اُسے ممبر مقرر نہ کیا جائے.ان صاحب نے مجھ سے الگ خواہش کی تھی کہ میں اُن کے حق میں گورنر صاحب سے کہوں ( سر جیفرے کے مجھ سے بہت اچھے تعلقات تھے ) میں پہلے اُن صاحب کی خواہش رڈ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور یہ لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ مجھے ان معاملات سے کیا تعلق ہے لیکن اس وفد کی ملاقات کے بعد جس میں ملک کے سر بر آوردہ لوگ شامل تھے میں نے گورنر صاحب کو خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا اور انہیں لکھا کہ زید یا بکر جو لائق ہوا سے ممبر بنانا چاہئے لیکن کسی شخص کو محض دوسروں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے جبکہ اُسے ایک دفعہ اس کام مقرر کیا جا چکا ہوا لگ کرنا ہر گز دانائی اور انصاف نہیں.انہوں نے اس خط کے جواب میں جو خط لکھا اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کا پرو پیگنڈا دوسروں کے دلوں پر کیا اثر ڈالتا ہے.انہوں نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے مشورہ کا خیال رکھونگا.پھر لکھا کہ اس وقت جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے سخت مضحکہ انگیز ہے.مختلف پارٹیاں بنی ہوئی ہیں اور ان کے نمائندے سٹیشن پر ہجوم کئے رکھتے ہیں جو ممبر باہر سے آتا ہے اُسے دبوچنے اور دوسروں سے ملنے سے پہلے اپنے امیدوار سے ملنے کے لئے شہر کے باہر ہی باہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ خط ظریفانہ انداز میں تھا مگر اسے پڑھ کر مسلمانوں کی حالت پر شرم کے مارے میں پسینہ پسینہ ہو گیا.پس اے دوستو ! آپ جو کچھ کریں گے وہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہے مخلصانہ مشوره گا اگر پارٹی بازی اور جنبہ داری کا نمونہ آپ دکھائیں گے تو غیر اقوام کے دوست اور دشمن آپ کے کام کو حیرت اور تحقیر کی نگاہوں سے دیکھیں گے.مسلمانوں کے دشمن خوش ہوں گے کہ آج کا مسلمان بھی اسی طرح ہمارا شکار ہے جس طرح گل کا تھا.آپ اپنی طاقت کو کھو بیٹھیں گے.آپ اپنی اولادوں کی قبریں اپنے ہاتھوں سے کھودنے والے ہوں گے الْعَيَاذُ باللہ.پس میں اخلاص سے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس وقت ذاتی دوستوں کے خیال کو بالائے طاق رکھ دیں اور اس اصل کو پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے متعلق دیانتداری سے رائے دی جائے.اس کے بعد دوسرے وزراء اور سیکرٹریوں کے انتخاب اُس پر چھوڑ دیں اور جو اپنے آپ کو خود پیش کرے اُس کا ساتھ ہرگز نہ دیں کیونکہ اس کی دوستی ملک اور ملت کی دشمنی ہے.
انوار العلوم جلد ۱۶ ممبران پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ میں اس جگہ یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ گو جماعت احمد یہ نہایت قلیل ممبران اسمبلی کو انتباہ جماعت ہے پھر بھی پنجاب میں تھیں کے قریب نشستیں ایسی ہیں کہ اگر جماعت وہاں کسی امیدوار کا مقابلہ کرے تو اس کی کامیابی نہایت مشکوک ہو جائے گی اور کم سے کم اسے ہزاروں روپیہ زائد خرچ کرنا پڑے گا.مسلمانوں اور پنجاب کے فائدہ کے لئے میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جس ممبر نے بھی اس موقع پر ذاتی دوستی کا لحاظ کیا اور اختلاف پیدا کرنے میں مدد کی ہماری جماعت اگلے انتخاب میں اس کی مخالفت کرے گی اور خواہ یونینسٹ پارٹی اُسے معاف کر دے ہم اُسے معاف نہیں کریں گے کیونکہ مسلمانوں میں محض قومی فائدہ کے لئے خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کا ہم نے تہیہ کر لیا ہے.جو لوگ ذاتیات کو قومی فوائد پر ترجیح دیں گے ہم یقیناً اُن کا پوری طرح مقابلہ کریں گے خواہ حکومتِ وقت اُن کی تائید میں ہی کیوں نہ ہو اور خواہ بعد میں وہ پہلو بدل کر پھر اکثریت کیساتھ کیوں نہ مل گئے ہوں.مجھے یقین ہے کہ آپ موقع کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس وقت اتحاد کو ہر دوسرے امر پر مقدم کریں گے.اس وقت کوئی اصولی مسئلہ زیر بحث نہیں بلکہ صرف ذاتیات کا سوال ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو سچائی کے لئے کھول دے اللہ تعالیٰ آپ کو مسلمانوں اور پنجاب کی خدمت کرنے کی توفیق دے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان الفضل ۱۴ /جنوری ۱۹۴۴ء) مورنسی سر جیفرے ڈی مانٹ: پیدائش ۱۸۷۶ ء.پیمبر وک کالج کیمرج میں تعلیم مکمل کی.۱۸۹۹ء میں آئی سی ایس سے منسلک ہوئے.۱۹۰۷ ء تا ۱۹۲۰ ء ڈپٹی کمشنر لائل پور رہے.۱۹۲۰ء میں ڈپٹی سیکرٹری ھند.۱۹۲۲ ء تا ۱۹۲۶ ء وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری ، ۱۹۲۶ ء تا ۱۹۲۸ء پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر.۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۳ء پنجاب کے گورنر رہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۴۲)
لا کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء } } } { مقامات کتابیات
کلید مضامین سے اچھے تھے ۴۲۲ اسمبلی کے ممبران کو اختیاہ اخبار اسلام ۶۱۳ آثار قدیمہ اخبار کا مطالعہ ضروری ہے اسلام کا حکم قیام مساوات آثار قدیمہ سے مرتب کردہ ۳۱۲ اخبار ”نور“ کا ایک مضمون مضحکہ خیز تاریخ اتحاد کے لئے اور اس کی حقیقت ۴۷۰ تا ۴ ۴۷ اسلام میں زکوۃ کا حکم اخبارات ۴۰ ۴۴ اسلام میں بدظنی کی ممانعت ۶۶۶۵ یہ زمانہ ملکوں میں اتحاد پیدا اخبارات اور رسائلِ سلسلہ کی اسلام میں ظلم کی ممانعت ۶۷، ۶۸ ۲۴۵ اسلام ہی نے تو حید کو قائم کیا اخبارات سلسلہ کو خریدیں اور اسلام میں مہمان نوازی کی پڑھیں ۲۴۶ اہمیت اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے اختلاف و انشقاق کے خطرناک اسلام کی مطابق فطرت تعلیم کرنے کا ہے احمدی ۲۸۹ اشاعت کی تلقین ساری دنیا کے احمدی ہونے کی صورت میں ایک انقلاب ۵۹۱ اختلاف احمدیت احمدیت قبول کرنا اوکھلی میں نتائج سر دینے والی بات ہے ۱۱۷ اخلاق احمدیت کا مقصد.انسانیت کو بلند کرنا ۲۸۴ اخلاق کے ذرات نسل میں احرار ۶۱۰،۶۰۹ اسلام جسمانی حسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا قومی اخلاق بگاڑنے کی ممانعت ۹ اسلام نے غلامی کو دور کیا اسلام میں نئے نظام کا نقشہ منتقل ہوتے ہیں ۵۳۲ اسلام میں جنگی قیدی بنانے احرار کا منصوبہ.بیت مبارک ارض حرم قادیان کو جلا نا.بم پھینکنا ۴۱۱ ارض حرم کے ساکنین کے فرائض اسمبلی احرار کے تعلقات پہلے جماعت ۱۰۲ کے متعلق پابندیاں اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے ۷۳ ۸۰ ۲۹۴ ۳۱۵ ۴۴۳،۴۴۲ ۵۴۷ ۵۴۷ ۵۴۷ ۵۴۹
اسلام میں تاوانِ جنگ کے قائم کی ۵۷۹ لفظ اعظم کے غلط استعمال ذریعہ جنگی قیدیوں کی رہائی ۵۵۵ | اسلام نے جبری ٹیکسوں کے سے اجتناب کی تلقین ۲۵۰ تا۲۵۲ اسلام نے یہ اعلان کیا کہ جو علاوہ طوعی طور پر زائد مال کچھ خدا نے پیدا کیا وہ ساری لینے کی تلقین کی اعمال ۵۸۰ | اعمال کا بدلہ ہر شخص کو پورا دیا دنیا کے لئے ہے ۵۶۲ اسلام میں مردوں کو ریشم جائے گا اسلام کا حکم.کانوں کی پہننا منع ہے دریافت کے متعلق ۵۶۳ اسلامی تعلیم دنیا کو ایک محور پر لانا ۵۶۴ قیدیوں کی رہائی ۵۸۰ افواہیں افواہیں بُزدل بناتی ہیں ۲۷۶،۲۷۵ اسلام کا ایک اصول.ساری اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی افواہیں جنگ سے بھی اسلام سُود کی ممانعت کرتا ہے ۵۶۹ اسلامی تعلیم کامیابی کے زیادہ افواہوں سے ریکروٹنگ کا اسلام روپیہ جمع کرنے سے قریب ہے منع کرتا ہے.۵۷۹،۵۶۸ اسلامی شریعت ۵۵۱ خطرناک ہیں ۵۸۰ کام بند ہو جاتا ہے اقامت نماز اسلام نے غرباء کے حقوق کے اسلامی شریعت پر ہر شخص ہر اقامت صلواۃ کی تفسیر لئے زکوۃ اور صدقہ کا حکم دیا ۵۷۰ حالت میں عمل کر سکتا ہے ۳۱۲ اکثریت اسلام جمع شده رو پیه غرباء کی اسلامی نظام جماعت کی رائے وہی ہوگی طرف واپس لاتا ہے ۵۷۱ اسلامی نظام کو بالشویک نظام جوا کثریت کی رائے ہے اسلام میں شخصی ملکیت کا تحفظ ۵۷۱ پر ترجیح دینے کی وجوہات اسلام نے ناچ گانے کوحرام اطاعت قرار دیا ہے ا اللہ تعالی جب کوئی شخص اللہ کا غلام بن ۵۷۹ اطاعت کا مادہ ہر شخص میں جائے وہ اس کی ضروریات کا اسلام اخلاق اور معیار شرافت پیدا کرنا چاہئے بلند کرنا چاہتا ہے ۵۷۹ اعتراض ۴۱۵ متکفل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے ۲۷۷ ۲۹۸ ۴۳۰ ۳۵۰ اسلام نے تعیش کے سامان مٹا ایک اعتراض کا جواب ۳۱۹ تا ۳۲۱ ان کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے ۳۸۰ کر امراء، غرباء میں مساوات اللہ کے پاک بندے اس کی
۴۸۵ ۲۷۳ 3 حفاظت میں رہتے ہیں ۳۸۲ ہوتا ہے ۶۵،۶۴ انصار اللہ کی مجالس ساری اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دماغ میں امن چار چیزوں سے قائم جماعت میں قائم کریں مختلف قسم کی قابلیتیں رکھی ہیں ۵۳۴ ہوتا ہے الہامات انگریز قیام امن کے ذرائع ۷۵ تا ۷۸ انگریزی حکومت کی مدد کے ہماری توجہ کا مرکز مسیح موعود قیام امن کا ذریعہ.مغفرت ۷۵ چھ طریق ہونے چاہئیں علیہ السلام کے الہامات قیام امن کا ذریعہ.خیر خواہی ۷۵ انگریزوں کی مدد کی وجہ ۴۵۱ قیام امن کا ذریعہ.احسان ۷ انگریزوں کی کامیابی کے امام ے انگریز اس لئے محسن ہیں کہ انہوں قیام امن کا ذریعہ.دین کو لئے دعا کرنی چاہئے امام، نبوت کی یاد کو تازہ رکھتا ہے ۷۸ دنیا پر مقدم رکھنا ۲۷۵ ۲۷۸ امامت ، امام الصلوۃ کی شرائط ۴۱۷ امن.حقیقی قربانی کے بغیر نے تبلیغ کی اجازت دی ۳۰۷، ۳۰۸ امانت فنڈ نہیں ہوسکتا امانت فنڈ کو مضبوط کیا جائے ۲۸۳ انتخابات ۷۷ انگریزوں کی فتح سے ہندوستان کا فائدہ امانت فنڈ میں رقم جمع کرانے انتخابات کا طریق ۴۱۵، ۴۲۷، ۴۲۸ | ایمان کے فوائد ۴۹۱ صدر کے انتخاب کے لئے مجلس ایمان کی طاقت بہت بڑی ۵۳۸ ۲۹۳ ۲۹۳ ۲۹۵ امتیاز میں دلائل دیئے جا سکتے ہیں ۴۲۹،۴۲۸ طاقت ہے امیر وغریب کے امتیاز کومٹانا انصار ایمان جس میں ہو وہ کسی سے ہمارا فرض ہے امراء ۲۸۴ انصار اور مہاجرین کی نہیں ڈرتا مواخات ۵۷،۵۶ نیک نتائج پر ایمان لانا بھی امراء اور ان کے ملازمین کی حالت ۵۰۷،۵۰۶ | محبت بھرا سلوک امن انصار مدینہ کا مہاجرین سے ایمان بالغیب میں شامل ہے انصار مدینہ کا وسعت حوصله ۵۷ تا ۵۹ | بادشاہ ۵۷ امن کے متعلق اسلامی تعلیم ۶۴ امن چار چیزوں سے برباد انصار الله ایک انصاری کی تقریر ۵۹،۵۸ خدا کی کچی غلامی کرنے والے بادشاہ بنائے گئے ۳۷۹
بالشوزم بہشتی مقبرہ پہرے دار بالشوزم کے چھ اقتصادی اصول ۵۷ تا ۵۲۲ بہشتی مقبرہ میں اپنی قبر میں بناؤ ۳۴۰ پہرے دار کو اپنی جگہ سے بالشوزم کی دہریت پیدا کرنے بیت اللہ کی تدبیر ہرگز نہیں ہلنا چاہئے ۵۲۱ ۵۲۲ بیت اللہ کی اہم اغراض ۲۷ تا ۸۹٬۲۹ پیر بالشوزم کا رد عمل تین تحریکات بیعت کی صورت میں ۵۲۳،۵۲۲ | بیعت کرنے والوں کی تفصیل ۲۵۳ پیروں نے انسانیت کو ذلیل کر دیا ہے ۴۱۰ ۲۸۴ بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈہ بیماریاں ۵۲۴ تا ۵۲۸ بیماریاں دو ہی طرح پیدا کے ذرائع کرتا ہے بالشوزم دماغی قابلیت کو بر باد ہوتی ہیں ۵۷۲ بیہوش تجارت ۳۷۵ آجکل تجارت میں خاص نفع ہے بالشوزم کے تحت غیر منصفانہ اگر خطبہ کے دوران کوئی تحریک جدید سلوک بالشوزم کے نتیجہ میں ملک میں بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ بالشوزم کے ذریعہ غرباء کی تکالیف دور کرنے کی تدبیر بدیاں ۵۷۳ بیہوش ہو تو بولنا یا دوسروں کو تحریک جدید کے چندہ میں ۵۷۴ ۵۷۸ یکھا نا جائز ہے پادری ۴۱۳ ہمت سے کام لیں تحریک جدید کے عالمگیر اثرات ۴۸۲ ۲۸۳،۲۸۲ ۵۰۵،۲۸۴۲۸۳ تحریک جدید سے تبلیغ کے لئے ایک پادری کا واقعہ ۵۷۴ مستقل فنڈ مہیا کیا جا رہا ہے جہنم میں لے جانے والی بدیاں پنجاب اسمبلی بہادر ۴۶۰ تحریک جدید کے پانچ پنجاب اسمبلی کے ممبران کو ہزاری مجاہدین اور حضرت سچا بہا در جھوٹ سے کام نہیں لیتا ۱۱۹ مخلصانہ مشوره ۶۰۹ تا ۶۳ مسیح موعود کا رویا بہادری پاره دین کے لئے بہادری کی زنانہ جلسہ گاہ میں پہرہ کا بہتر ضرورت ہے ۴۶۲ انتظام ہونا چاہئے تحریک جدید کی اہمیت اجتمائی لحاظ سے ۴۰۳ | تحریک جدید کا ماحول ۴۹۱ ۴۹۲ ۵۰۵،۵۰۴
۲۸۷ ۲۸۷ ۲۹۵ ۳۳۹ تحریک جدید کیا ہے ۵۹۹ توگ تو گل کی عزت بڑھے گی تحریک جدید.نظام نو کا ایک بزرگ کے توکل کا واقعہ ۳۴۹ جماعت کا ہندوستان میں ارہا ہے تحریک جدید اور وصیت کے ۶۰۰ بڑھنا بہت ضروری ہے جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا ذریعہ نیا نظام بناؤ تربیت ۶۰۲ بے حد ضروری ہے ثواب عالم برزخ کی قبر میں جماعت احمدیہ کو سادہ قبریں ملتا ہے ۳۱۸ جو قو میں تبلیغ میں زیادہ کوشش بنانے کی تلقین کرتی ہیں اُن کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے ۲۹۴ جبر تقاضے جبرا مال لینے کے نقصان ۵۸۲ | جماعت احمدیہ نے کانگرس تقاضے دو قسم کے ہوتے ہیں ۳۹۲ جد و جہد کے خلاف جنگ میں حکومت جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک حکمت ۳۹۱،۳۹۰ ۴۲۲ ۴۵۰ ۴۸۵ ۶۰۱ ۲۳۴ ۲۳۵ تقویٰ کے لئے پہلی چیز جلسہ گاہ زنانہ کے متعلق ہدایت ۴۹۹ جماعت کے سب طبقات کی تقویٰ انفرادی جد و جہد قائم رکھنے کا کا ساتھ دیا تقویٰ پر اگر جماعت قائم ہو فائده ۵۸۱ جماعت کی ترقی کی جڑ.اللہ تو خدا اس کی حفاظت کرے گا ۲۹۴ جلسه گاه کے وعدوں کو یا درکھنا ایمان کی درستی ہے تناسخ ۲۹۵ جلسه سالانه تنظیم نہایت ضروری ہے تناسخ کے تحت کوئی نیا نظام خطاب ۴۰۳ ۴۰۴ ایک نصیحت ممکن نہیں جلسہ سالانہ کے کارکنوں سے جماعت کے تمام دوستوں کو ۵۴۳ قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے تنظیم کی اغراض ۴۰۷ ، ۴۰۸ | جماعت احمدیہ ۴۵۷ جنت کا وعدہ.مومن مردوں اور عورتوں سے ہے تنظیم ایسی ہونی چاہئے کہ ہر قیام جماعت کی اغراض ۱۰۴ جنت میں اعمال صالحہ والے شخص حکم ملنے پر فورا تعمیل کرے ۴۱۲ جماعت کی ترقی سے ہندوستانیوں ۴۱۲ جماعت کو جائیں گے
جنت میں نیکوں کو اکٹھا کیا جائے گا جنت میں لوگوں کو نکتا نہیں بٹھایا جائے گا ۲۴۰،۲۳۹ ۳۵۴ جنت میں پاکیزہ مذاق بھی ہوگا ۳۵۹ جنت کے پھلوں کی دلچسپ ۳۶۴،۳۶۳ ۳۷۸ حسد حسد کی ممانعت حُسن て مردوں کا حُسن بناؤ سنگھار میں نہیں بلکہ اُن کی طاقت اور کام میں ہے حواس خمسہ حواسِ خمسہ کو ترقی دینے کی خصوصیات جنتی شاہانہ اعزاز و اکرام سے رہیں گے جنت میں کسی پر کوئی حملہ نہ ہوگا ۳۸۲ طرف توجہ کرنی چاہئے جنگ جنگ کی وجہ سے تبلیغ میں خ مشکلات ۲۶۸،۲۶۷ خادم ۷۴ ۴۴۴ ۴۳۱ بہادر بنتا ہے خدام الاحمدیہ کے نظام کی بڑی غرض نو جوانوں کی تربیت خدام الاحمدیہ کا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرنا ہے خدام الاحمدیہ کے کاموں ۱۲۶،۱۱۹ ۴۱۳ ۴۳۴ کے لئے ضروری نصائح ۱۲۷ تا ۱۳۳ خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں خدمت خلق کی روح پیدا کریں خدام الاحمدیہ کا کام جہاد کا چھوٹا شعبہ ہے خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں ۳۰۰ ۴۱۰ ۴۱۳ ۴۱۷ ۴۲۷ ۴۲۷ ۴۳۴ جنگ میں اتحادیوں کی امداد قریب رہے کے طریق ۴۸۴ خاموشی جنگی قیدی جنگ کا ایک خطرناک اثر.قحط ۲۷۹ خادم و ہی ہوتا ہے جو آقا کے عادت ڈالیں کہ وہ تمام خاموشی کی بھی ٹرینگ دینی چاہیئے ۴۱۲ ہونی چاہئے ۱۱۴ حرکات ضبط کے تحت رکھیں خدام الاحمدیہ کی تنظیم مکمل جنگی قیدیوں سے متعلق خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہر مجلس اسلامی تعلیم ۵۵۱ تا ۵۵۷ | ایک خبر پر تبصرہ ۲۱ تا ۲۵ میں ہونا چاہئے خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر جنگی قید یوں کی شادی کا حکم ۵۵۴ خدام الاحمدیہ جہاد جہاد بالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے خدام الاحمدیہ کے قیام کی اغراض نمائندے آنے چاہئیں ۱۱۴، ۱۲۷، ۴۰۷ خدام الاحمدیہ کو امتحان کے ۳۸۸ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض پرچے بنانے چاہئیں
۴۳۷ ۶۱۱ خدام کے پرچے میں اخلاقیات خلیفہ وقت انسان اگر چاہے تو ہر کام کے متعلق بھی سوال ہو ۴۳۵ خلیفہ وقت کے ایک حکم کو دلچسپ بنا سکتا ہے علمی مقابلوں کے بارہ میں ہدایات ۴۳۷ ٹالنے کا نتیجہ خدام کی ظاہری شکل اسلامی خواہش شعار کے مطابق ہو ۴۴۱ خواہش جائز وہی ہوتی ہے ۴۷۵ | دیانت داری دیانت داری کے امتحان کا وقت خدام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا جو طبیعی طور پر پیدا ہو ۳۹۲ زعیم دار الرحمت قادیان کو دیا گیا ۴۷۴ خوشبو ڈیماکریسی خدام کا آئین میں نے بنایا ۲۸۶ خوشبو کے ذریعہ بہت سی خدام الاحمدیہ نے جنگ کے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۴۳۲ لئے سات ہزار رنگروٹ دیئے ۲۸۸ خدام کا ہرممبر اپنے گروپ میں ۴۰۹ خدمت خلق ڈیما کریسی کے ذریعہ حقوق کا تحفظ ۵۱۲،۵۱۱ ڈیوٹی ڈیوٹی والا اگر نماز تأخیر سے پڑھے تو گنہگار نہیں ۴۱۰ دعا اشاعت دین کے لئے ضرور ز ۲۲۹،۲۲۸ ذیلی تنظیمیں ۲۹۴ ۲۹۷ ۲۹۷ ۴۸۴ ۲۹۸ ،۲۹۷ اللہ نے یہ زندگی ہمیں دعا کریں ۲۸۴ دعاؤں کا ہتھیار بڑا کارگر ذیلی تنظیموں کا قیام تربیت خدمت خلق کے لئے دی خدمت خلق کی تلقین ۳۰۰،۲۹۹ ہتھیار ہے ۲۷۸ کے لئے ہے خدمت خلق میں حضرت مصلح موعود ہم نے دعاؤں کے بڑے تنظیموں کا ایک کام جماعت بڑے فائدے دیکھے ہیں ۲۷ میں امن کی روح پیدا کرنا دعاسے توکل اور یقین بڑھتا ہے ۲۷۹ ان کی غرض جماعت میں کی تائی کا کردار خلافت ۲۹۹ خلافت محمد رسول اللہ اللہ کی دعاؤں کی تلقین یاد کو قائم رکھتی ہے ZA تقویٰ پیدا کرنا گزشتہ بزرگوں کے لئے یت تنظیمیں سلسلہ کی روحانی بقاء ۳۳۵ تا ۳۳۷ کے لئے ہیں خلافت کو بادشاہت کا رنگ دعاؤں کی تلقین ذیلی تنظیموں کی پالیسی دلچسپ نہیں دینا چاہئے
1.موجب ہے رشته دار ستنی جنت میں سب نیک رشتہ دار اکٹھے ہوں گے ۳۳۸،۳۳۷ ز زمیندار سچائی انسان کی نجات کا کر کام کی نگرانی کر اکرام ہیں ۲۶۱ شراب ایک سنی برزگ کا واقعہ ۳۳۶، ۳۳۷ شراب روحانی کی ایک خصوصیت سواری گھوڑے اور گدھے کی شراب کے نقصانات سواری بھی مفید چیزیں ہیں ۳۲ ۱۳۳ ۳۵۹،۳۵۸،۳۵۷ ۱۲۸ ۳۶۲ زمینداروں کو نصائح ۴۷۸ سور شرک کی ممانعت ۷۳ زمیندار کٹائی احتیاط سے کریں ۴۷۸ زمیندار خریف کی فصل زیادہ سودر و پیر کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۵۲۹ شیعہ سوشلزم شیعوں کا صحابہ کو بُرا بھلا کہنا بوئیں اور کھانے پینے کی اشیاء اس کا آغاز کیسے ہوا ؟ ۵۱۲ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ۳۳۵ تا ۳۳۷ زیادہ کاشت کریں زمیندار غلہ فروخت نہ کریں سوشلزم کے ذریعہ انگلستان، ص ۴۷۸ فرانس ،امریکہ کے مزدوروں کو فائده ۵۲۹،۵۲۸ صحابہ کرام کا جذ به مسابقت الخیر کاجذ ۲۵ زمیندار زیادہ غلہ کاشت کریں ایک زمیندار کا واقعہ سکھ زمیندار زیادہ محنت کرتے ہیں سادہ زندگی ۴۷ ، ۴۶ ۲۸۰ سوشلزم کے دو نقصانات ۵۳۰ | صحابہ کے متعلق ایک اصولی نکتہ سوشلزم کے ذریعہ غرباء کی صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان ضروریات کو پورا کرنے کا طریق ۵۷ کے حقوق کی حفاظت سادہ زندگی کی تحریک پر دنیا حکومت کے قبضہ میں ہونی چاہئیں ۵۷۷ کی توجہ سپاہی سپاہی وہی کہلا سکتا ہے جو بہادر ہو سچائی ۳۲ ۳۴ ۴۹ ۵۰،۴۹ سوشلزم کے تحت تمام اہم صنعتیں صحابہ کی ذکر الہی سے محبت صحابہ کی پاکیزگی پر الہی شہادت ۲۸۴،۲۸۳ سونا 1K سونا غفلت کی علامت ہے سیکٹریان صحابہ کی سیرت کے واقعات ۳۷۷ ۳۴۴،۸۱،۸۰،۵۱،۵۰ صحابہ کی ظاہری برکات سیکٹر یان بار بار محلوں میں پھر صحابہ تمام دنیا کے لئے ۵۳۵۲
۳۰۰ ۳۰۱,۳۰۰ ۳۹۳ ۳۹۳ ۴۶۱ ۴۶۱ موجب ہدایت تھے صحابہ نے ساری عمر دین سکھانے میں لگادی صحابہ کا ردعمل شراب کی حرمت پر صحابہ کی دیانت ۵۳ ۶۲۶۱ ۶۷ عورتوں کو اُن کا حصہ دینے کی ظ تتلقین ظلم اپنے نفس پر ظلم کی ممانعت ظلم روا رکھنے والے فلسفیانہ اے ۵۵۹ تا۵۶۱ عورتوں کی عزت قائم کرو حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید خواہش حاملہ عورتوں کو مٹی کھانے کی صحابہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے ۸۶ ع عالم روحانی شدید خواہش عورتیں کمزوریاں دور کرنے عورتیں سوچیں کہ ان کے صحابہ کی لڑائیاں ایمان بالغیب عالم روحانی کی شاندار مساجد ۲۶ کا عہد کریں کا نتیجہ تھیں ۲۹۶ عمل صحابہ کی ایمانی طاقت کا نقشہ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں.بچوں میں کیا خرابیاں ہیں صحابہ نے تیرہ سال مکہ میں انفرادی ، اجتماعی مظالم پر صبر کیا ۳۰۷ عورتیں صحابہ کام زیادہ کرتے تھے حضور پر سب سے پہلے ایمان باتیں کم صحابہ کا غلاموں سے سلوک ۴۵۹ عہد یدار عبد یداروں کو زیادہ کام کرنا چاہئے ۴۵۷ لانے والی ایک عورت تھی ۱۲ | مرکزی عہدیداروں کو کاموں عورت اور مرد میں عقائد اور میں خود حصہ لینا چاہئے ۵۵۸،۵۵۷،۵۵۳ | کاموں کے لحاظ سے کوئی عہد یداروں کو محلوں میں جا b فرق نہیں ۱۲۸ ۱۲۸ کر خدام کا کام دیکھنا چاہیئے ۱۲۸ ۴۱۲۰ اللہ نے عورتوں کو انعامات عہد یداروں کا فرض ہے کہ میں یکساں شریک قرار دیا ۶۳ وہ خدام سے ذاتی واقفیت ایک طبیب کا قصہ ۴۳۳۰۴۳۲ عورتوں کو اسلام نے وسیع پیدا کریں طيبه حقوق دیے ۶۴۶۳ عیسائی ۱۳۹ | ایک عیسائی نے نام بدل کر طیبہ کے چار معانی ۱۳۷ عورتوں کو چار باتوں کی تلقین ۲۳۹ ۱۲۹
۴۷۵ ۱۲ حج کیا عیسائیت ۳۲۲ لئے اسلام میں چارا حکام ۵۶۷ تا ۵۷۱ غلہ غرباء کے لئے چندے عیسائیت کا دنیا کیلئے پیغام ۵۴۲ غرباء کے لئے ہٹلر اور گوئرنگ غ غرباء کی سکیم غرباء کی ضروریات پوری ۵۷۶ غلہ کے بارہ میں گورنمنٹ کی ۵۷۸ غلط پالیسی ف فسادات غرباء کے لئے غلہ کی تحریک ۴۷۶ ، ۴۷۷ کرنے کا طریق ابتدائے فسادات چار وجوہ سے پیدا غرباء اور امراء کے آپس کے امتیازات اسلام میں ۵۸۴ ہوتے ہیں ۵۰۶ غرباء کی ضروریات پوری فسادات میں دوستوں کو مرکز غرباء کی حالت سدھارنے کرنے کا طریق خلفاء کے کی کوششیں غرباء کی ناقابل برداشت حالت ۵۰۹٬۵۰۸ زمانہ میں ۵۸۵ میں جمع ہونا چاہئے فصل ۵۰۹ غرباء کی تکالیف دور کرنے کے فصل کوشش اور محنت سے غرباء کی درد ناک حالت اور لئے اسلامی تعلیم کے اہم اصول ۵۸۶ اچھی ہوتی ہے اُس کا پس منظر ۶۴ ۲۸۱،۲۸۰ M.۵۱۰۷۵۰۹ ایک غریب عورت کی درد ناک فصل کو اچھی طرح سنبھالنا چاہئے ۲۸۰ غرباء کی بہبودی کے لئے حالت مختلف تحریکات کا آغاز ۵۱۱۵۱۰ | غربت ۵۱۰،۵۰۹ فصل کچھ نہ کچھ ذخیرہ رکھنی چاہئے ق غرباء کی حالت سدھارنے غربت و امارت کے متعلق نیا قبر کے لئے کارل مارکس کے نقطه نگاه تین نظریے ۵۱۴۵۱۳ غلام قتل ۵۰۸،۵۰۷ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے غرباء کی بہتری کے لئے لینن ایک مسلمان غلام کا کفار سے معاہدہ ۳۸۱ قتل اولاد کی ممانعت ۵۱۵ ابتدائے اسلام میں بعض قحط لوگوں کے غلام رہنے کی وجہ ۵۵۹ | قحط کا علاج (۱) جماعت فصل کی کوشش غرباء کی حالت سدھارنے کے لئے مختلف مذاہب کی تدابیر ۵۴۰ غلامی زیادہ پیدا کرے (۱۱) غلہ غرباء کی تکالیف دور کرنے کے غلامی کے چار نقائص ۳۴۶ محفوظ کیا جائے ۲۸۰ ۳۱۷ ۶۲ ۲۸۰
قرآن کریم جو لوگ دنیا میں کام کرنے گروپ لیڈر کا حکم ماننے کی ہر قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی والے ہیں عورتیں ان سے شادی شخص کے اندر روح ہونی چاہئے ۴۳،۴۰۹ طرف توجہ کرنی چاہئے ۴۳۸ ۴۹۴۰ کے لئے بیتاب رہتی ہیں ۴۴۴ گروپ لیڈر چھوٹے لڑکوں قرآن کریم نے اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا قرآن مجید میں طوعی قربانیوں کا اشارہ قربانی کانگرس ۲۸ کانگرس کی دھمکی کے جواب ۵۸۸ میں تجاویز کپڑا کپڑا حاصل کرنے میں دقت قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے ۱۲۱ اور اس کا علاج قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب سے پیدا ہوتا ہے قلع قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں؟ کتابیں کو نہیں بنانا چاہئے ل ۴۲۱ | لباس لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے ۴۷۹ الجنه جہاں کہیں بھی عورتیں ہیں ۲۴۸ | لجنہ کے لئے تین کام لطیفہ ۲۹۶ کتابوں کا رکھنا اولاد کے لئے لجنہ بنائیں ۸۸ بہت مفید ہوتا ہے کشمیری ۴۱۷ ،۴۱۵ ۴۴۲ ۴۴۱ ۴۶۳۷ ،۱۶ ۴۶۴۴۶۳ قلعوں کی گیارہ خصوصیات ۹۷۹۰ کشمیریوں پر پنڈت کی زیادتی ۲۷۵ عیسائیت کی تعلیم کا ایک لطیفہ قیدی کمیونزم لیگ آف نیشنز قیدیوں کی رہائی کے متعلق کمیونزم کے سات اصولی اسلامی لیگ آف نیشنز اور اسلام کی انتہائی کوشش ۵۵۷ نقائص کام ک کھیلیں ۳۱۶ ۵۳۰ تا ۵۳۶ | اس کے چار اصول ۵۶۴ تا ۵۶۶ انگریزی کھیلیں ہندوستانیوں جو شخص ہاتھ سے کام نہیں کرتا کے لئے موزوں نہیں وہ حرام خور ہے ۱۲۷ ہر شخص کو اپنے ہاتھ سے کام گروپ لیڈر کرنا چاہئے ۱۲۸ گ ۱۳۲ موجودہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجوہات مٹی ۵۶۷،۵۶۶ خدا تعالیٰ نے انسان کو مٹی گروپ لیڈر کو ہدایات ۴۳ سے ترقی دے کر بنایا ۳۹۳
مجوسی مجوسی اپنے مُردے گتوں اور چیلوں کو کھلاتے ہیں مجلس انتخاب جہاں جگہ ملے مسجد بنالو ۴۹۴ عورتوں نے ناخن بڑھائے مساوات مغربی تہذیب ۳۲۰ مساوات کے لئے غلامی کو مٹانا مغربی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی مساوات کے قیام کے لئے کے اُتارنے میں عظمت ہے مجلس انتخاب کا صدر بارعب اسلام کا دوسرا حکم ۴۲۹ مساوات کی اہمیت اور زبردست ہونا چاہئے محبت ۴۰ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر ۴۱ ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے قیام مساوات کے لئے زکوۃ کا حکم ۴۴ مغفرت ۴۷ مقبرے مقبروں کی غرض ۴۴۴ ۴۴۲ ۴۴۲ محبت اور پیار سے غیر مسلموں قیام مساوات کے لئے ایک مغفرت الہی کا ایک ایمان افروز واقعہ ۳۲۱ کو دعوت الی اللہ کی تلقین ۲۴۸ پر حکمت اصول مخالفت مسلمان مخالفت ختم کرنے کی تدابیر ۱۱۵ ۱۱۶ مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ روحانی مقبرہ اعمال کے مطابق ہو گا ۳۱۱ ۳۲۲ ۳۲۹ ۳۲۹ ۳۳۰ ۴۶۹ ۲۳۹ مذہب مذہبی جنگوں میں مذہب خدا کی طرف سے مصائب نازل ہوتا ہے مزدور ۵۳۷ کامیابیوں کے لئے مصائب پاک لوگوں کے مقبروں کی ایک مزدور کا لطیفہ ۵۱۴ مشینری مساجد مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں ۲۶ تا ۳۰ و غربت کے امتیاز میں زیادتی ۵۰۸ ملاقات ۳۸۵ روحانی مقبرہ سے مرنے والوں کا صحیح مقام ظاہر ہوتا ہے کی بھٹی سے گزرنا ضروری ہے حفاظت ناپاک لوگ مقبرہ میں بہتر مشینری کی ایجاد سے امارت مقام حاصل نہ کریں گے مساجد پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں ۲۸ مغربی خلیفہ وقت کی ملاقات سے مساجد لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہیں ۲۹ مغربیت کی کبھی نقل نہ کرو مساجدا اور واقفین ۳۱ مغربیت کی تقلید چھوڑنے کی ۳۹۰ نہ روکا جائے مومن مساجد.مسافر اور مقیم کے تلقین ۴۴۰ تا ۴۴۴ مومنوں میں چار باتوں کا لئے مفید ہیں ۳۱ مغربیت کے اثر کے نیچے ہونا ضروری ہے
مهمان نوازی نبوت کے معنی اظہار غیب ۱۸۹ مٹی کے برتن استعمال کریں ۴۸۰ مہمان نوازی کی اہمیت ۸۰ تا ۸۲ نبی مینا بازار نظام نبی کے معنی ۱۷۸ ۱۸۱ | نظام کی پابندی کی عادت مینا بازار میں فروخت ہونے نبی کی تعریف عبرانی اور عربی نوجوانوں میں پیدا کرو ۳۴۲٬۳۴۱ زبانوں کے مطابق ۱۸۱ نظام کی خوبی.پانچ ماہ کا غلہ والی اشیاء روحانی مینا بازار ۳۴۲ نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور جمع کیا گیا دنیوی اور روحانی مینا بازار عبرانی میں مشترک ہے ۱۸۹ | نظام کی اصل غرض امن ،انصاف ۳۴۴۳۴۳ نبی کی تعریف اسلام کی اور روح ترقی کا قائم رکھنا میں فرق روحانی مینا بازار میں گاہک کا اصطلاح میں تاجروں سے سلوک روحانی مینا بازار کی نعماء ۳۵۱ تا ۳۶۴ کے نزدیک ۳۴۵ نبی کی تعریف حضرت مسیح موعود نظام حکومت کے متعلق لینن نبی کی تعریف غیر احمدیوں نظام کو ۴۱۵ ۵۷۱ ۱۸۰ نظام حکومت ۱۸۷۱۸۰ اور مارٹوو کے نظریے ۵۷،۵۱۶ کے نزدیک ۷۷ نظام نو سے باہر رہنے والوں نائبین نبی کے لئے شریعت لانا کو خطرہ ۵۹۰ عہد یداران کے نائبین تیار ضروری نہیں ۱۸۹،۱۸۲ | اسلامی نظام نو کے تحت کریں نبوت نبوت حقیقی سے مراد شریعتِ نصائح ۴۸۶ نبی کا رسول ہونا شرط ہے ۱۹۳ | جائدادیں دینے والوں کی ہر نبی محدث ہوتا ہے ۱۹۸ ،۲۰۰ | کیفیت نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں جدیدہ کی حامل نبوت ہے ۷۵ ملازم کچھ نہ کچھ پس انداز کریں ۴۷۸ قادیان میں رکھی گئی کثرت مکالمہ و مخاطبہ کا نام اکٹھی گندم خریدیں ۴۷۸ نظام نو کا نقشہ تحریک جدید کی نبوت ہے ۸۰ اپنے اخراجات میں کمی کریں ۴۷۸ صورت میں ۵۹۴ ۵۹۶،۵۹۰ ۵۹۹ نبوت کی تعریف گزشتہ انبیاء کھانڈ کی بجائے شکر استعمال نظام نو کے قریب تر لانے کا ذریعہ ۶۰۰ کے نزدیک کریں ۴۷۹ نماز با جماعت
۶۰۱ ۶۰۲ ۴۴۶ نماز باجماعت ہراحمدی کیلئے ۲۹۸ وصیت وصیت کرنے والا نظام نو کی نماز با جماعت کا عادی بیوی وصیت کے اموال میں بتائی بنیاد میں حصہ دار بچوں کو بھی بنایا جائے ۲۹۸ مساکین کا حق ۵۹۰ | جلد سے جلد وصیتیں کرو اولا د کو نماز کا پابند بنانا اشدّ ضروری ہے وقت ۲۹۹ وصیت اور بالشوزم کے مال جو شخص چھوٹی باتوں میں نماز با جماعت اگر مرد نہ پڑھے میں فرق تو وہ مجرم ہوگا ۴۶۰۴۵۹ ۵۹۱ | وقت ضائع کرتا ہے بڑے کاموں سے محروم رہتا ہے قرآن میں ہر جگہ باجماعت وصیت کے ذریعہ پر امن وقف زندگی نماز کا ذکر ہے نماز باجماعت سے محرومی ہلاکت ہے نوجوان ۴۹۲ طریق سے مقصد کا حل ۵۹۱ وقف زندگی کی تلقین ۴۹۳ وصیت کا نظام بَيْنَ الْأَقْوَامِي ہوگا ۵۹۳ ہندو مذہب DO وصیت کا نظام عالمگیر اخوت ہندو مذہب نے تناسخ اور نوجوانوں کے فرائض ۱۰۳ بڑھانے والا نظام ہے ۵۹۳ ورنوں کی تعلیم سے امن کا نوجوانوں کو قادیان آنے کی وصیت کی ابتداء جائداد پر رستہ بند کیا ۱۱۲ تا ۱۱۴ رکھی گئی ہے ۵۹۵ ہندو مذہب کے ذریعہ نئے ۲۸۶،۲۸۵ ۵۴۳ نیت وصیتی اموال کے خرچ نظام کا قیام ناممکن ہے ۵۴۳ تا ۵۴۷ نیتوں کو درست کرنے کی تلقین ۲۲۷ ۲۲۸ کرنے کے مواقع وصیت کے ذریعہ جمع ہونے ۵۹۶ ی یہودیت والے روپیہ کی حیرت انگیز یہودیت ایک قومی مذہب ہے واقفیت واقفیت بڑھانے کی تلقین ۱۳۹ بهتات ورزش ورزش کے حکم کی حکمت ۱۳۳ اشاعت دونوں کے لئے ہے ۵۴۱ ۵۹۸ یہودیت میں نئے نظام کی شکل ۵۴۱ وصیت لفظی اشاعت اور عملی یہودیت میں غیر قوموں سے ۶۰۰ سخت سلوک کا حکم ۵۴۲
البقره الم ذَلِكَ الْكِتَابُ (۳۰۲) آیات قرآنیہ ترتیب بلحاظ آیات) وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ...(۱۸۹) ۷۳ (۱۳۵) النساء أنْفِقُوا فِي سَبيل الله يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ (۱۹۶) ۲۹۴ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ...(۴) ۲۹۵ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْر | (۲۲۰) ۵۷۲ ،۳۴۵ ،۲۹۹ ،۲۹۸ ۵۸۲ | الَّذِي....(۲) لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمُ...(۳۰) ۲۷ ۳۵۶ وَلَا تَتَمَنَّوُا مَا فَضَّلَ ۶۳ الله..(۳۳) وَاعْبُدُوا اللَّ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي ( ۲۲۹) أُنْزِلَ (۵) ۳۰۰ | آل عمران أُولَئِكَ عَلَى هُدًى (۶) ۳۵۲ | إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا (۱۱) ٣٣٠ وَلَا تُشْرِكُوا....(۳۷) ۷۴ ۷۳ ۷۴ ۶۹ ۳۵ ۶۰ ۸۹ وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِينَ (۹) ۳۲۳ | إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ...وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا...۲۴۶،......(۹۷) (۵۵) ۹۵ ،۲۷ (۲۶) ۳۵۵ وَلَتَكُنْ مِنكُمْ أُمَّةٌ لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ (۱۰۵) | بالسُّوءِ...(۱۴۹) (۳۰) ۵۶۲ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ لَنْ نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ (102) واحِدٍ (۶۲) 1.إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ او و و و و و ،۲۹ المائدة ٣۶۹ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ وجوههم....(۱۰۸) ٣٦٩ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ..اِمَامًا (۱۲۶،۱۲۵) ۸۹،۷۹ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ....(۹۲) ۳۴ جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ.وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتُ بِقَوْمٍ....(۵۵) (۹۸) وَالْكَظِمِينَ الْغَيْظَ.(۱۴۴)
۵۶۳ ۳۹۴ ۳۶۹ ۷۶ ۶۸ ۳۲۷ ۱۸ يْأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا...مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَةٌ ما....(۸۹) (۱۰۶) وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ ۷۲ اسراى.....(۶۸) التوبة شَهِيدًا...(۱۱۸) ۱۹۴ | رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا ۵۴۸ النحل لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُ وَنَ (۳۲) ۳۲۴،۵۰ وَاِذَبُشِّرَ اَحَدُهُم.الانعام سِيرُوا فِي الْأَرْضِ (۱۲) وَتِلْكَ حُجَّتُنَا ۵۳۵،۵۳۴ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ.عَنْهُ (۱۰۰) إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ (۵۹) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ...(111) (۹۱) ۳۴۲ بنی اسرائیل وَمَا مِن دَآبَّةٍ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ اتينها....( ۸۴ تا ۹۱) ۳۳۳ | هود لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ....(۱۲۸) ۳۸۱ فِي الْأَرْضِ...(۷) ۴۵ مَرَحًا...(۳۸) فَانَّ جَهَنَّ جَزَاؤُكُمْ....(۶۴) الكهف ۳۲۶ الاعراف وَإِنَّ كُلَّا لَمَّا.وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ (۱۱۲) ٣٦٦ | الرعد الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ جَثْتُ عَدْنٍ الرَّسُولَ....(۱۵۸) ۳۴۸ | يَّدْ خُلُونَهَا...(۲۵،۲۴) وَمِمَّنْ خَلَقْنَا امَّةٌ (۱۸۲) ابراهيم ۵۳ وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا..۶۳۸۵، وَوُضِعَ الْكِتَبُ.(۵۰) ۳۳۸ ۳۲۵،۳۲۴ مریم صِدِّيقًا نَّبِيًّا (۵۷) 19+ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ...(۲۴ تا ۲۶) ۲۳۳ | الانبياء (۱۹۷) ۳۴۹ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ خُذِ الْعَفْوَ ذُرِّيَّتِي.....(۳۸) ۹۲ ۹۶ | فَرْجَهَا....(۹۲) وَأُمُرُ بِالْعُرُفِ...(۲۰۰) ۷۵ | الحجر الانفال لا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يُنسِلُونَ (۹۷) ۳۳۲ ۱۶۹
19 الحج تُرفَعَ.....(۳۸،۳۷) ۴۸ (۷۹ تا ۸۱) ٣٣١ ذلِكَ بِانَّ اللَّهَ هُوَ الفرقان نَبِيًّا مِنَ الصَّلِحِينَ الْحَقُّ.....(۸،۷) ۳۱۹ وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ.(115) 19+ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ...(۵۱ تا ۵۴) ۳۸۶ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ (۲۵،۲۴) ۳۶۶ النمل فِي الْآخِرِينَ...(۱۳۲،۱۳۰) ۳۳۱ الزمر يَأْتِينَ....(۲۸) وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ لَ لَهُمُ خَزَنَتُهَا سَلَّم....(۷۴) ۳۷۵ (۳۰) فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ عَلَى كُلّ ضَامِرٍ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا ۹۳ قَرْيَةً.....(۳۵) العنكبوت ۹۴ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِه (۲۸) ۳۳۲ المؤمن إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَن امَنُوا....( ۳۹ تا ۴۱) ۳۸۵ الْفَحْشَاءِ.....(۴۶) ۵۹ | الْجَنَّةَ....(۴۱) أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ.الاحزاب (۴۰ تا ۴۲) ۵۲۹،۴۷ فَمِنْهُم مَّن قَضَى إِنَّ يَوْمًا عِنْدَرَتِكَ.(۴۸) نَحْبَهُ....(۲۴) ۳۴۹ | إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ....(۹۸) ۵۰ حم السجدة وَلَكُمْ فِيْهَا مَاتَشْتَهِي يُصَلُّونَ....(۵۷) ۳۳۴ | أَنْفُسُكُمْ...(۳۲) ۳۲۷ ۱۵ ۳۵۰ النور وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا.....الصفت يُطَاقُ عَلَيْهِ (۲۳) وَانْكِحُوا الْأَيَامَى الزخرف وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ بكاس....(۴۶) ۳۵۴ الانفسُ....(۲) ۵۵۴ | لَا فِيهَا غَولٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا مِنكُم.....(۳۳) وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ يُنْزَقُونَ (۴۸) الكتب....(۳۴) ۵۵۶ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ فِي الْآخِرِينَ....محمد ۳۵۷ فَإِذَ القِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا....(۵) مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي ۳۹۲ ۵۵۱،۳۶
وُعِدَ الْمُتَّقُونَ (۱۶) ۳۶۴،۳۵۶،۳۵۵ (۲۲،۲۱) وَالَّذِينَ اهْتَدَوُا زَادَهُمُ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ عِندَ رَسُولِ اللهِ....(۸) (۳۴،۳۳) المعارج هُدًى.....(۱۸) الحجرات فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ أُوْلَئِكَ فِي جَنَّتِ.وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْمُقَرَّبِينَ (۹۰،۸۹) (۳۶) الْإِيْمَانَ....(۸) الحشر وَإِنْ طَائِفَتْن مِنَ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى القيامة وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّا ضِرَةٌ..الْمُؤْمِنِينَ.....( ١٠ ) رَسُولِهِ....(۸) (۲۳) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ....الدهر اجْتَنِبُوا....(۱۳) (۱۰) يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ...(۲) الطور وَالَّذِينَ جَاءُ وُا مِنْ فَوَقَهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ وَامْدَدْنَهُمْ بِفَاكِهَةٍ.....(11).....polé الْيَوْم....(۱۲) (۲۳) الصف وَدَانِيَةٌ عَلَيْهِمْ.يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا...كَبُرَ مَقْتًا عِندَ الله.....(10) (۲۴) (۴) وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ.الرحمن هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ (14) (۲۱،۲۰) مَرَجَ الْبَحْرِينِ.....رَسُولَهُ.....(۱۰) الجمعة وَيُسْقُوْنَ فِيْهَا كَأْسًا (۱۸) الواقعة يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته.(M) سَلْسَبِيلًا (۱۹) وَيَطُوقُ عَلَيْهِمُ...(۲۰) عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ..(12014) المنافقون وَسَفَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا....وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يتَخَيَّرُونَ.....إِذَا جَاءَكَ الْمُنفِقُونَ..(۲۲) (۲) إنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ
۲۱ جَزَاء....(۲۳) وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ.الغاشية النبأ ( ۲ تا ۴) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ (۹) جَزَاء مِّنْ رَّبِّكَ..يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيقٍ.فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ.(۳۷) (۲۷،۲۶) (۴ اتا۱۷ ) عبس وَمِزَاجُـــــــهُ مِــنْ الفجر خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ...تسنیم (۲۸) يايَّتُهَا النَّفْسُ (۲۰ تا ۲۲) عَيْنا يَشْرَبُ بِهَا.الْمُطْمَئِنَّة....(۲۸ تا ۳۱) وُجُوهٌ يَوْمَـــيـــد (۲۹) الزلزال مُسْفِرَةٌ....(۴۰،۳۹) التكوير الاعلى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ..(۲ تا ۶) إِذَا الْمَوْءُ دَةُ سُئِلَتْ.الدُّنْيَا.....(۱۸۰۱۷) الفيل إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ المطفّفين الأولى....(۲۰،۱۹ ) رَبُّكَ....(۲ تا آخر)
۳۴۹ ، ۱۰۱ ۱۲۷ ۱۹۳ ۲۲۷ ۲۲۸،۲۲۷ ۲۶۶ ۲۲ 1 احادیث کعبہ گرایا جائے گا مسْجِدِى آخِرُ الْمَسَاجِدِ ۳۲ جو عورت اپنے مرد کے اتى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى ۱۵۹ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ | اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ و ۴۴۰ تعلقات کا ذکر.........اگر اس اُمت میں محدث ہوئے أَصْحَابِي كَالنُّجُوم ۵۳ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآن ۱۹۵ ہراچھا کام بسم اللہ سے الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ۶۴ ۱۸۸ يَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَهُ ۱۵۱ اگر کوئی بسم اللہ کہنا بھول حدیث بالمعنى جائے ( ترتیب بلحاظ صفحات) مؤمن بھائی بھائی ہوتے ہیں اَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الخ) ۱۳۲ تمہارا کام مرہم پٹی کرنا ہے ۱۴ کوئی بُڑھیا جنت میں نہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جائے گی أَنَّ رَجُلًا حَضَرَهُ الْمَوْتُ ۳۲۱ جنازہ کے ساتھ جائے ۲۵ | جب سورج زرد ہو جائے مساجد کو صاف ستھرارکھو ۲۸ خطبہ جمعہ کے وقت کوئی نہ بولے تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَاءِ هِمُ ۴۴ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری اگر حکام ظالم ہوں تو تم دعا ع کرے ۴۰ کیا کرو ۴۱۱ ۴۱۲ ۴۱۴ عِندَ الْمَنَارَةَ الْبَيْضَاءِ ۱۹۹ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا ۴۵ بعض چیزوں پر رشک جائز ہے ۴۳۹ ل کھلایا حضور نے دوڑ کر نماز میں شامل ہونے سے منع فرمایا لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ ا جب کسی کو غصہ آئے لَا مَهْدِى إِلَّا عِيسَى ۱۲۸ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے ۷ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى ۷۵ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت میں نہیں آتے ۴۴۳ ۴۹۳ ۵۷۲ جو ملکیتیں پرانی ہو چکی ہیں ۸۲ فرض ہے ۷۴ لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرُعَةِ
۸۶،۸۵ ۲۸۵ ۲۸۵ ۱۳۷ ۱۵۴ ۱۵۱ ۲۵۱،۲۴۰ ۲۳ آتما رام آتھم آزاد کئے آیا اسماء ۸۳ آپ کو حضور نے دودھ کا آپ کی زبردست تقریر ۳۷۹ پیالہ دیا ۲۷۸ آپ کا راہ خدا میں سارا مال دینا ۵۸۴ | آپ کا کسرای کے رومال ۱۵۱ ابو جہل ۱۲۴ ۱۵۱ میں تھوکنا آدم علیہ السلام.حضرت اس کا دو بچوں کے ہاتھوں قتل ۲۹۶، ۲۹۷ آپ کا شوق تحصیل علم آصف زمان ڈپٹی آمنہ حضرت ابرہہ ۴۵۲،۳۲،۱۰، ۵۰۸ ابوحنیفہ - حضرت امام ۳۶۴ ابو خشمه ۱۳۷ احمد بن حنبل.حضرت امام ۱۷۰ احمد یار مولوی ۱۲۴ ابوذر غفاری - حضرت ۸۳ اختر حسین سید ۱۰۳ ان کی حُسنِ ظنی ۶۶ ارسطو اس کا بیت اللہ پر حملہ ۹۸ تا ۱۰۱ ان کا قبولِ اسلام اور اسامہ بن زید.حضرت ۴۱۹،۴۰،۳۹ ۴۶۲،۴۶۱ ان کو کمانڈر بنایا گیا ابراهیم علیہ السلام حضرت ۷۹،۳۲ مصائب جھیلنا ۹۴، ۳۳۴،۳۳۳،۹۷ ۳۴۰ ابوسفیان.حضرت ۱۴ اسحاق علیہ السلام.حضرت ۳۳۳ آپ کا حضرت ہاجرہ کو مکہ ابو عبیدہ.حضرت میں چھوڑنا ۹۶۰۹۵ ابوعزه ۵۸ | اسماعیل علیہ السلام.حضرت ۵۵۲ آپ کی اولا د میں نبوت کا وعدہ ۳۳۲ ابوقحافہ.حضرت.ان کی افضل حق چوہدری ۳۱۷ حضرت ابوبکر کے خلیفہ بننے اکبر.بادشاہ ابوالفضل ابوبکر حضرت ۱۴ ،۴۰ ۴۱ ، ۵۸، پر حیرت ، ۱۶۰ ، ۱۵۲ ، ۱۱۹ ،۸۴ ،۷۸ ابولهب ۱۵۱ ۳۳۴،۳۳۳٬۹۵ ۴۲۲ ،۳۱۰،۲۵۱ ۳۳۸،۳۲۸،۳۷ ،۳۱۳،۳۱۲ ۲۵۱ اکبر شاہ نجیب آبادی ۳۳۶، ۴۱۶،۳۳۷، ۵۸۶،۴۲۸ | ابو ہریرہ.حضرت ۸۳، ۴۵۹ الیاس علیہ السلام حضرت ۳۳۱ تا ۳۳۴ ۸۴ آپ نے بہت سے خدام آپ کی دین کے لئے فاقہ کشی السبیع علیہ السلام - حضرت ۳۳۳ ۳۳۴
۲۴ ایم طاہر.حضرت ۳۶۸ انس بن مالک - حضرت ۸۳۵۰ ج جابر.حضرت اور نگ زیب عالمگیر ایلیا ۳۳۸،۳۱۲،۳۱۰،۸۸ ۶۰۰ جبلة.اس کا مرتد ہونا جري ۱۵۹ ۴۳۴۲ جلال الدین شمس - حضرت مولانا یوب علیہ السلام - حضرت ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۸ ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰،۲۳۹ ۴۲۲ بابر باقی باللہ بٹلر برٹن (ایک عیسائی جس نے نام بدل کر حج کیا ) بشیر احمد.حضرت مرزا بشیر احمد بلال.حضرت بونا پارٹ ۳۲۲ ۵۰۰،۲۷۲ ۴۷۲ ۴۵۹،۱۴ ۵۷۸ جنید بغدادی.حضرت ۱۳۷ حسین.حضرت امام ܩܙ ،ܝܺܝܺܙ حشمت اللہ - حضرت ڈاکٹر ۳۶۸ حمزہ.حضرت آپ کے قبول اسلام کا ایک واقعہ حوا.حضرت خ ۷ خالد بن ولید.حضرت ۲۶۸،۲۶۷ ۱۲۵، ۱۲۴ 1.۲۹۶ خدیجہ - حضرت ام المؤمنین ۵۵۸،۳۸ ۳۳۰،۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰،۳۰۹، ۳۳۸ آپ کا حضور کو تسلی دینا جہانگیر جیفرے سر.ڈی مانٹ مورنسی چ چاند بی بی چرچل て حبیب اللہ شاہ میجر.انہیں ۶۱۲ ۱۴ ۶۰۱ خضر حیات ملک.میجر خلیل احمد ناصر ۱۲ ۶۱۰ ۲۶۵ داؤد علیہ السلام حضرت ۳۳۴،۳۳۳۶۴۶۳،۳۲ دیانند پنڈت قرآن پڑھنے کا بہت شوق تھا ۳۶۸ دیال سنگھ سردار ۵۲۸ ۷۲ پٹیان (مارشل) حذیفہ - حضرت.ان کو منافقین کے بارہ میں معلومات تھیں ۳۲۳ ز ذوالفقار علی خان حضرت مولوی ۳۶۴ ۲۷۱ حسن.حضرت امام.ان کا ذوق.شاعر ایک غلام سے حسنِ سلوک 22.24 حسن بن صباح ثناء اللہ.مولوی امرتسری ۳۸۴٬۲۵۹ | حسن نظامی خواجه •ܙ ۷۶ رام چندر.حضرت ۳۶۱ ۵۴۸
۲۵۱، ۲۷۷ | سلمان فارسی - حضرت آپ کا قول.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ ۳۲ رشید علی جیلانی شیخ روز ویلٹ ۶۰۱۲۸۴ روم.حضرت مولانا رینڈل.ویکی ۲۸۴ عباس.حضرت ۱۳۹،۱۳۸ سلیمان علیہ السلام.حضرت ۳۳۴،۳۳۳،۶۳،۳۲ عبد الاحد خان افغان ۵۲ سید احمد بریلوی.حضرت ۳۱۳،۲۴۰ عبدالحکیم مرتد سیف الرحمن.صاحبزادہ ۱۴۸ | عبد الحئی ابن حضرت خلیفہ اول ۱۵۳ عبد الرحمن بن عوف حضرت ۲۹۶ ۴۶۲ ۳۸۴ ۲۰۸ ز زار ۵۳۶،۵۱۶ ۵۷۴، ۵۸۲،۵۷۸ زبیدہ.ملکہ زبیر - حضرت ۹۲ ١١٩ ش شاہجہان ۳۳۸ ،۳۳۰،۳۲۸ ،۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰ شیلی ۲۵۱،۱۳۷ زکریا علیہ السلام - حضرت ۳۳۴٬۳۳۳ شریف احمد.حضرت مرزا زید بن حارثہ.حضرت ۵۵۸،۴۱۶ شمس الدین تغلق آپ کا والدین کے پاس شیبه جانے سے انکار ۳۹،۳۸ شیرا شیر شاہ سوری سٹالن ۵۸۸،۵۷۳،۵۳۳ شیر علی.حضرت مولوی ض سرور شاہ.حضرت مولانا.ضرار.حضرت ان کی ایک روایت سکندر اعظم ۳۲۲ ۲۵۱۲۴۰،۹۷ سکندر سر.ان کی وفات سے پنجاب کی سیاسی فضا میں طوفان ۶۰۹ ۲۷۶ ۳۱۲ عبدالرحمن بن قیم ۱۳۷ عبدالرحمن بن یزید KIK• عبدالرحمن جٹ.حضرت مولادی ۴۷۱.عبدالرحیم.حضرت بھائی عبدالرحیم خان خاناں ۲۷۲ ۴۴۵ ۱۵۱ ۴۷۲ ۳۱۲ ۲۱۱ عبد العزیز حکیم عبدالغفور.مولوی ۱۵۰،۱۴۹ ۲۶۷ عبد القادر جیلانی.حضرت سید ۳۷ ان کا ایک ارشاد عبدالقدیر.صوفی عبدالکریم.حضرت مولانا.۱۴ عبدالله عبد اللہ بن ابی بن سلول ۳۶۵ ۲۷۶ ۲۰۴ K• 119 ۳۲۴،۳۲۳،۲۶۶ عبداللہ بن عمرؓ حضرت عبداللہ بن عمرو سلطان احمد حضرت مرزا ۲۶۳ ۳۸۳ عائشہ حضرت اُم المؤمنین عبداللہ چکڑالوی ۸۳ ۸۳ 17.
۲۶ عبدالمطلب.حضرت آپ کے ناک کی جس تیز تھی ۳۷۴ غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا ان کی ابرہہ سے ملاقات 99 حضرت ابو بکر کے مقابلہ میں ہار ۳۷۹ مسیح موعود علیه السلام ۷۶،۲۴، ۱۰۳،۷۸ آپ کی عاجزانہ دعا ۹۹ ۱۰۰ آپ کا ایک غلام کے عبید اللہ بسمل.حضرت مولوی معاہدے کی توثیق کرنا ان کا شعر ترک کرنا عقبه عثمان.حضرت خلیفہ ثالث ۲۵۰ آپ کا غریبوں کی مددکرنا ۳۸۱ ۵۸۵ ۱۱۲ ، ۱۱۵ ، ۱۳۲ ،۱۴۳ ، تا ۱۴۷ ، ۱۴۹ ، ۱۵۱ ۱۵۳ تا ۱۶۰،۱۵۵، ۱۶۴،۱۶۱ تا ۱۷۴،۱۷۲ تا ۱۸۰ ، ۱۸۶،۱۸۳ تا ۱۹۲،۱۹۰ ، ۲۷ تا ۲۱۹، ۲۲۸، ۲۵۰ تا ۲۵۲ ۱۵۱ | آپ کے زمانہ میں غرباء کے لئے رجسٹر ۵۸۵ علی حضرت خلیفہ چہارم ۸۳٬۷۸ ۲۶۱ تا ۲۸۰،۲۷۳،۲۶۳، ۲۸۷، ،۳۹۰،۳۸۹،۳۸۳۳۴۰،۳۰۰ ،۴۴۹ ،۴۳۴ ،۳۹۷ ،۳۹۶ ،۳۳۲،۲۳۷ ،۱۵۳،۱۵۲،۱۱۹ ۵۸۶،۴۶۱،۳۳۷ ،۳۳۶ ، ۲۳۷ ، ۱۵۲،۱۱۹ ،۸۳،۷۸ ۱۵۸۶،۳۳۷ ،۳۳۶ ۵۸۴ آپ کی مالی قربانی عثمان بن مظعونہ - حضرت آپ کے تحمل کا واقعہ ان کا ایمان افروز واقعہ ۵۴ ۵۵ علی بن حجر عکرمہ حضرت عمادالدوله ۲۹۶ علی ہجویری.حضرت ہجویری.حضرت ۳۱۲،۳۰۹ عیسی علیہ السلام.حضرت ،۵۰۲،۴۶۳،۴۵۳،۴۵۲۰ ۴۵۱ ۱۲۱،۷۴ ۵۹۵،۵۹۱،۵۹۰،۵۵۹ تا ۶۰ ۳۳ آپ کی صداقت کی ایک دلیل ۵۰۴ ۹۶،۳۲ آپ کی روایات جمع کرنے عمر حضرت خلیفہ دوم ۵۱،۴۰،۳۹ ، ۱۶۶، ۱۶۸، ۱۶۹، ۷۳ ، کی ضرورت ،۸۵،۸۴،۷۸،۶۵،۵۸ ، ۱۹۳، ۱۶۰ ۱۵۹ ، ۱۵۲۰ ۱۱۹ ،۳۳۷ ،۳۳۶۰ ۲۵ ۱۰۲۳۷ ۱۷۹، ۱۹۴، ۲۰۵ تا ۲۰۷ ، آپ کی بعثت کی غرض.خانہ کعبہ ۳۴۰،۳۳۴،۳۳۲،۳۳۱، کی حفاظت ۳۶۵، ۵۴۸، ۶۰۰ آپ کی بعثت کی غرض دنیا کی ۵۸۶،۴۱۶ ، ۵۸۷ | آپ کی تمثیل ۲۸۲،۲۸۱ کایا پلٹنا ۵۶ ۱۰۴ ۱۱۴ آپ کے عہد خلافت کے زریں واقعات ۶۰۵۹،۴۳،۴۲ آپ کی بعثت ساری دنیا کے لئے ۲۸۸ غ آپ نے اپنے آپ کو نبی کہا ۱۸۵،۱۸۴ آپ کی ٹوپی کے استعمال غالب.اس کے اشعار ۳۷۷، آپ کا مقام ۱۹۲ ۱۹۰ سے قیصر روم کو شفا ۵۳،۵۲ ۴۸۱۴۸۰۳۹۴ آپ کی بددعا سے آتما رام
کے دو بیٹے مر گئے آپ کی جُراتِ ایمانی آپ کی قبر سادہ ہے ۲۷۸ اتوار کو قادیان جاتے ۱۱۲ ۱۱۳ گوئبلز.ڈاکٹر ۲۹۳ ۱۵۱ گوئرنگ ۳۳۹ فرزند علی خان مولوی ۴۷۳ ۲۸۴ ۵۷۸ آپ کثرت سے عطر لگاتے ۳۷۴ فرزوق ۱۳۷ آپ کا حضرت خلیفہ اول کو فرید الدین گنج شکر حضرت خواجہ ۳۱۲ لبید.اس کا مشہور شعر جمعہ کے دن صفائی کی تلقین کرنا ۳۷۴ فنڈر.پادری آپ اچھے کپڑے پہنتے مگر فیروز خان نون تکلف سے پاک آپ کا گھر میں نماز با جماعت ادا کرنا ۴۴۱ ۱۵۱ لوڈن ڈروف جنرل ۶۰۹ لوط علیہ السلام.حضرت لیکھرام ق لفن ۵۵ ۵۲۷ ۳۳۳ ۱۵۱ ۵۳۳،۵۱۶،۵۱۵ ۴۷۳ ۴۹۳ قاسم علی.حضرت میر آپ کے ذریعہ نظام نو کی بنیاد ۵۸۸ | قطب الدین.حضرت خواجہ آپ کی تحریک الوصیت ۵۸۹ بختیار کا کی ۳۱۲،۳۱۰،۲۳۹ آپ کا بیان فرمودہ واقعہ آپ کا بیان کردہ لطیفہ ۲۷۷ ۳۳۹ آپ کو بکثرت امور غیبیہ پر کارل مارکس ۱۸۲ ،۲۰۳،۱۴۴،۳ ک مارٹن کلارک مارٹوو مامون ۱۳ ۵ تا ۵۲۲،۵۱۶ | مبرد سیبویه یہ جرمن یہودی النسل تھا ۵۳ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرشن ۴۵۰،۲۹۵،۲۹۴،۲۰۵ کمال الدین خواجہ اطلاع دی گئی آپ کے الہامات غلام حسن مولوی غلام حسین بابو ۱۴۹ ، ۱۴۸ ۴۷۴ ان پر الوصیت کا اثر کنفیوشس.حضرت گ ۵۴۸ حضرت خاتم الانبیاء ۲۹۳ ۵۱۵ ۱۳۷ ۱۳۷ ،۱۶ ،۱۴،۱۲ ۲۴، ۲۸ ، ۳۰ تا ۳۴، ۳۶ ،۵۳،۵۲،۴۹،۴۷ ، ۴۵ ، ۴۴ ۵۹۹ ،۶۴،۶۳،۶۱،۵۹ ،۵۸ ،۵۶ ۴۴۹ ،۸۰ ،۷۸ ،۷۶ ،۷۴ ،۱ ف فتح محمد چوہدری.وہ ہر گاندھی مہاتما ۴۲۳،۴۲۱۲۷۴ ۸۳، ۹۵، ۱۱۴ ، تا ۱۱۶ ، ۱۱۹ ، ۱۲۵ ، ۱۳۲،۱۲۷ ، ۱۴۳ تا ۱۴۵ ،
۱۵۱ تا ۱۵۳، ۱۵۹ تا ۱۶۱، آپ کی مہمان نوازی ۸۲۸۱ | آپ کی تربیت سے ہزاروں ۱۶۳ ۱۶۴، ۱۶۷ ۰ ۷ تا ۶ ۷ ، آپ کی حضرت ابو ہریرہ سے اُستاد بن گئے ۱۷۸، ۱۷۹، ۱۸۸ تا ۱۹۱، شفقت ۱۹۳ تا ۱۹۵، ۲۰۱، ۲۰۲ ، آپ کی ایک عورت سے شفت ،۲۳۶ ،۲۲۸ ۲۲۷ ،۲۱۰ ۸۴ تا ۸۶ آپ کا غلاموں سے حُسنِ ۸۶ سلوک ۴۸۵ ۵۵۸،۵۵۴۵۵۳ آپ کی بہادری ۱۲۳ آپ کا گمشدہ چیزوں کے ۲۳۹، ۲۴۰، ۲۴۶، ۲۵۱، آپ کا مکہ میں بے نظیر صبر ۱۲۳ بارہ میں حکم ۵۶۱۵۶۰ ۵۸۴ ۲۶۱، ۲۶۵، ۲۶۶، ۲۸۵، آپ کو ابو جہل کا مارنا ۱۲۴ | آپ غرباء کی ضرورتیں ۲۹۵ ، ۲۹۶، ۳۲۰ تا ۳۲۲، آپ نے صحابہ کی مردم شماری چندوں سے پوری فرماتے ۲۹۳ آپ نے ایک موعود کی خبر دی ۵۸۷ ۳۴۰،۳۳۶،۳۳۵،۳۲۴، کرائی ۳۴۴، ۳۷۴،۳۴۹، ۳۷۹، آپ کو منافقوں کا علم دیا گیا ۳۲۳ محمد ادریس ۳۹۰، ۴۱۲، ۴۱۵، ۳۴۳، آپ کے تین مقبرے ۳۳۴ محمد اسحاق مبلغ ،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۴۳ ،۴۳۹ آپ کی جامع صفات ۳۴۸ محمد بن مهران ۴۵۹، ۴۶۱، ۴۶۲، ۴۹۳، آپ کا بُڑھیا سے مذاق ۳۷۱ محمد دین.حضرت مولوی ۵۵۲،۵۴۸، ۵۷۲،۵۵۷، آپ کے قتل کی کوشش ۳۸۳٬۳۸۲ محمد ظفر اللہ خان سر حضرت | ۵۸۴، ۵۸۶ ۵۸۹، آپ کا چار نمازیں اکٹھی کرنا ۴۱۰ چوہدری ۴۷۲ ۲۶۷ نا ۲۶۷ ۲۷۲۲۵۷ آپ نے مال غنیمت میں مرد آپ کا عصر کی نماز مغرب محمد علی مولوی.امیر اہل پیغام ۱۴۳ د عورت کو برا بر حصہ دیا ۱۴ سے ملانا آپ نے حضرت خدیجہ سے آپ کے پاس بعض اوقات شادی کے وقت تمام غلام کپڑے بھی نہ تھے آزاد کر دیئے ۳۸ آپ کے کردار سے متاثر ہوکر ۴۱۱۴۱۰ تا ۱۵۱۰۱۴۹۰۱۴۵ ۱۵۴ تا ۱۵۶ ۱۷۴ ، ۱۷۲ ،۱۱ ،۷۰ ، ۱۶۵ ، ۲۰۳ ، ۱۹۸ ، ۱۹۶ ، ۱۹۳ ، ۱۸۸ ۴۴۴ آپ کا حضرت زیڈ کو بیٹا بنانا ۳۹ عورتوں کا شادی کی درخواست کرنا ۴۴۴ ، ۴۴۵ ۲۱۷ ۲۱۸ ، ۲۱۹، ۲۶۰،۲۵۸ تا آپ کا انصاف ۴۰ تا ۴۲ آپ ازواج کو سال بھر کا غلہ ان کی تفسیر نویسی ۲۶۴،۲۶۲ تا ۲۶۶ ۲۰۸ جنگ احد میں بے ہوش ہونا ۵۷۵۰ دیتے ۴۷۶ ان کی طعنہ زنی ۲۱۱ ==
۲۹ محمد غوث شاہ محمد یا مین دا توی محمد یوسف شیخ ایڈیٹر نور‘ اخبار ۱۵۲ وقت آپ کا ایک تاریخی عہد ۲۶۲۲۶۱ تحریکات متعدد ممالک کے لئے دعا کی ۴۷۰ تحریک ،۴۳۶ ،۴۳۵ ،۳۸۹ ،۳۸۷ ،۵۰۹ ،۵۰۶ ،۴۷۹ ،۴۴۲ ۵۷۴،۵۴۶،۵۴۵،۵۱۰ ۳۰۸،۳۰۷ لیکچر کے وقت چائے لینا ۳۶۳ محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین غرباء کے لئے غلہ کی تحریک ۴۷۶، ۴۷۷ آپ کا غالب کے شعر کو پسند کرنا ۳۹۴ مصلح موعود تبلیغ خاص کی تحریک ۴۹۰ سیرت پر از روئے قرآن ۳۳ ۱۱۲، ۱۷۹ ، ۲۱۷، ۶۱۳،۴۲۴ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کتاب لکھنے کی خواہش بچپن میں مجھے بغداد اور بصرہ والوں کو نصائح ۲۴۷۶،۵، ۲۵ آپ کیلئے خدائی تائید و نصرت ۲۶۳۲۶۲ ایک فوجی افسر کو نصیحت ۲۷۶ بہادری اور توکل کا واقعہ ۳۷ ( نیز دیکھئے زیر عنوان.نصائح) آپ کی ایک عزیز سے ناراضگی لندن اور پیرس سے زیادہ دلکش نظر آتے تھے میں قرآن کریم پر بہت غور آپ کی کشمیریوں کو اجتماعی ۴۱۴ | ویمبلے کانفرنس میں آپ کا مضمون پڑھا جانا کرنے والا آدمی ہوں ۲۴۷ دعاؤں کی تلقین میرے سامنے کوئی ہاتھ جوڑتا احباب کو دعاؤں کی تلقین ہے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ مجھے ۴۵۲ تا ۴ ۴۵ آپ کی حضرت عمر سے ایک مار رہا ہے کلارک کے مقدمہ میں آپ مشابہت میں دودھ پی لوں تو مجھے کی دعا اور رؤیا ۳۸۳ آپ کا صحابہ سے عشق ۲۸۵،۲۸۴ ۳۴۱ ۳۷۴ ۴۵۹ سر درد کا دورہ ہو جاتا ہے ۳۹۳ آپ کی رؤیا ۲۷۰ تا ۲ ۲۷ آپ کے قتل کی کوشش اور میں نے کبھی کوٹ پر بُرش آپ کی دعائیں نہیں کر وایا آپ کے بچپن کا واقعہ حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھنا حضرت مسیح موعود کی وفات کے خدائی حفاظت ۳۸۳تا۳۸۵ ۴۴۱ آپ کا قبولیت دعا کا واقعہ ۵۳ آپ پر خدا نے اسلامی لیگ آپ کے بیان کردہ واقعات ۶۸ آف نیشنز کے اصول کھولے ۶۰۱،۵۶۶ ۷۳، ۷۸ ۱۷۷، ۲۷۵، محمود احمد عرفانی شیخ ۳۶۱ ،۳۵۸ ،۲۹۸ ،۲۷۶ ۳۷۴ محمود احمد غزنوی ۳۶۲، ۳۶۷، ۳۶۸، ۳۷۷، مریم.حضرت ۵۰۱ ۲۷۵،۲۶۹ ۳۳۲
مسولینی ۵۲۳ ۵۲۴ ، ۵۲۸ | نظام الدین طوسی ۱۳۷ مسولینی کا تحریک جدید کی نقل کرنا ۲۸۳ نواس بن سمعان ۱۲۵ تا ۱۶۷، ۱۸۸ ۱۷ نوح علیہ السلام.حضرت مسیلمہ کذاب مظہر جان جاناں ۳۱۳،۳۱۲۳۱۰ معاویہؓ.حضرت ولکی رینڈل ہاجرہ.حضرت ۳۳۳،۳۳۱۱۵۰،۳۲ ۴۰ ۳۳ ۳۴۰ ان کا تو کل علی اللہ نور الحق.مولوی ۲۰۱۴ ۱۵ ۱۵۴ ، ۲۱۷ ، ۲۱۹ | نورالدین.حضرت مولانا DO ۲۴۸ ہارون علیہ السلام - حضرت.ہارون الرشید ۵۷۳ ۳۳۳ ۱۳۷ معین الدین چشتی حضرت خواجہ ۳۱۲ خلیفہ اول ۱۱۱۰۷۸ ۱۵۲۰ ،۱۵۳، ہٹلر ۴۸۳، ۵۲۷،۵۲۴،۴۸۸، ۵۲۸ ملک شاه منصور ۱۳۷ ۲۰۴ ،۲۵۰ تا ۳۷۴۲۵۲ ۳۱۲۳۰۹ آپ کا حضرت میاں محمود احمد ہلاکو خان ۵۸۸،۵۷۸،۵۵۲،۵۳۸ 1+1 منصور احمد مرزا.حضرت کو گھوڑے کی سواری سکھانا ۱۳۳،۱۳۲ ہمایوں ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰،۳۰۹، ۳۳۸ صاحبزاده ۴۰۴ آپ کا ایک الہام موسی علیہ السلام - حضرت ۱۶،۱۰، آپ کا مقام اطاعت.۹۶،۶۴،۶۳،۳۴،۳۲، ۹۷، آپ کے بیان کردہ واقعات ۳۳۳ ،۲۶۳ ،۲۰۴ ، ۱۵۱ ۳۳۴، ۳۴۰، ۵۴۸ نور جہاں ۱۶۱ ۲۵۲ ۱۴ ۹۶ ہندہ ہیروڈوٹس ی ۵۸۳،۳۷۳،۲۵۹ یحیی علیہ السلام - حضرت ۳۳۱،۳۲ تا ۳۳۴ ۳۳۸ بیحی خان ( ایک احمدی) یزید ۳۸۴ ۱۵۱ تا ۱۵۵، ۲۱۹،۲۷ ۱۵۱ یعقوب علیہ السلام حضرت ۵۴۱٬۳۳۳ یوسف علیہ السلام حضرت ۷۰ یوسف - امام ۳۴۵،۳۳۴،۳۳۳ ۱۳۷ ۳۳۳ یونس علیہ السلام.حضرت وارث ولی اللہ شاہ.حضرت سید ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰،۲۷۵،۲۳۹ ۹۶ ۵۳۳ ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰ ۲۶۲ ۵۳۶ مولوٹوف میر درد ن ناصر نواب.حضرت میر نپولین نظام الدین اولیاء.حضرت خواجہ ولید بن مسلم ولیم میورسر.ان کی شہادت ۳۱۳،۳۱۲،۳۱۰، ۲۴۰
لا ۴۸۴،۲۵۷ ،۲۵۳ ۱۳۷ ۹۷ ۲۵۳۹۷ ۳۸۷ ،۲۵۷ ،۲۵۳۶۸ ۴۸۸،۴۸۰،۲۶۹۰۲۵۳ ۳۰۸ ۵۲۲،۲۶۹،۲۵۷ ،۲۵۳ ۶۱۰ ۴۸۰ ۴۸۸،۲۵۷ Σ مقامات امریکہ کا اقتصادی نظام تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے ۲۶۶،۲۵۷ ،۲۵۳ بخارا ۵۳۹ برما بصره ۱۰۴ ،۲۴۹ ، بغداد ،۲۷۰،۲۶۷ ،۲۵۸ ،۲۵۳ بلخ ۵۶۱ انبالہ ۳۰۹٬۸۸ | انگلستان و برطانیه ،۴۸۳،۲۷۲،۲۶۷ ، ۱۳۸،۷۰ آسٹریلیا آگرہ اٹلی ۵۲۲ تا ۵۳۲،۵۲۷، ۵۳۸ ، ۲۸۴، ۳۰۶، ۳۰۷، ۴۸۳ ، بلوچستان ،۵۲۴ ،۵۲۳ ،۵۲۲ ،۵۱۲ ۵۹۸ ،۵۹۳ ،۵۹۰ ،۵۵۹ ۲۵۳ ،۴۸۳،۱۳۸،۱۰۴ بمبئی ۵۲۶، ۵۲۸، ۵۳۳،۵۲۹، بنارس ۵۳۷، ۵۴۳،۵۳۹،۵۳۸، | بنگال ۵۷۳، ۵۷۹، ۵۹۳، ۵۹۸ | بورنیو اورنگ آباد اوکرین ۳۳۸ بہار ۹۷ بھاگلپور اسے سینیا ۵۵۹٬۹۸،۷۰ پیپر ایران ۱۳۸ تا ۲۸۵،۲۷۰،۱۴۰ ، ۵۳۵ ،۳۸۰ پالم پور ، ۱۴۶ ،۱۱۷ ،۹۷ ،۲۳،۱۶،۳ ۳۰۷ ،۳۰۶ ،۲۶۸ ،۲۵۵ ،۵۰۶ ،۴۹۱ ،۴۸۹ ،۴۲۲ ۶۱۳،۶۱۲،۶۱۰،۵۶۸ ،۵۲۲ ۲۰۸ پشاور ۹۷ پنجاب ۵۶۲ تا ۵۹۳،۵۶۴ ۵۲۹،۴۳۱۱۳۸ ،۹۷ ،۴۷۰۲۵۶،۲۵۳، ۱۱۳ ۶۱۲ ،۴۹۴ ، ۲۴۹ ، ۱۱۸ ، ۱۰۴۶۱۶۰ اڑیسہ افریقہ افغانستان امرتسر امریکہ ،۲۸۴،۲۷۰،۲۶۸ ،۲۶۷ ،۲۵۳ ۳۰۸، ۳۰۹، ۴۳۳، ۴۳۵، ایشیا ایشیا کوچک ۴۸۳، ۵۲۲ تا ۵۲۶، ۵۲۹ ۵۴۳ ،۵۳۷ ،۵۳۵ ،۵۳۳ ،۵۹۰ ،۵۷۳ ،۵۶۳ ،۵۶۱ ۵۹۳، ۵۹۸ بٹالہ
۵۳۴۴۷۶ ۲۵۷ ۲۷۵،۲۵۳ ۲۶۸ ۲۵۳،۱۲۲، ۲۵۷ | ڈھاکہ ۲۵۳، ۲۵۷ ۵۱۱۰ | ڈیرہ غازی خان رام پور راولپنڈی رنگون ۲۵۷ ۲۵۷ ۳۲ پنجاب ہندوستان کا میگزین ہے ۶۰۹ پنجاب میں امن قائم رکھنے جہلم جھنگ ۲۰۹ | جودھ پور ۴۸۳،۱۴۰ جے پور ۳۸۴،۱۳۱،۱۳۰ چ ۱۳۷ ،۴۴۹،۲۶۹،۲۶۷ ،۱۰۴ ،۴۸۳،۴۸۲،۲۷ ۲۶ ،۵۳۳،۵۳۰،۵۲۷ ، ۵۲۲ ،۵۷۱،۵۶۶ ، ۵۳۸ ،۵۳۷ ،۵۹۰،۵۸۲،۵۷۴،۵۷۳ ۴۸۴، ۵۲۴، ۵۹۳ روس ۱۴۰۹۹ て ۲۵۷ ،۲۵۳ ۵۹۸ ،۵۹۶ ،۵۹۴ ،۵۹۳ ۵۳۷ ۴۸۳۹۷ ۲۵۷ ،۲۵۳ ۱۴۰ روم رومانیہ رہتک ز زیکوسلواکیہ ۵۳۸ ،۵۲۷،۵۲۶،۵۲۳ ۲۷۵،۲۶۸ ،۲۵۷ ،۲۵۳ ۲۶۶،۲۵۷ ،۲۳۴ ۲۵۷ سپین سرحد سرگودها سکندر آباد حجاز حصار ۲۷۵ ۱۳۹،۱۳۸ ۱۰۴، ۲۶۷ تا ۲۶۹، حیدر آباد ۲۵۵،۲۵۳،۱۷۶، ۲۵۷ ۳۳۸ ۱۵۲ تا ۱۵۴ ۰۷۶،۱۰۵،۹۰،۸۸ ،۸۷ ،۴۹۴ ،۳۱۳ ،۲۵۷ ،۲۵۶ ۵۱۰ ،۵۰۹ دمشق وہلی دہلی کا ایک عجیب و غریب حمام ۵۳۴ ،۲۷۶۰۲۷۵،۲۶۵،۲۱۱ ۴۸۹،۴۲۲ ،۳۰۵ کی اہمیت پولینڈ پھیرو چیچی پیرس ،۵۳۷ ،۵۳۶،۵۲۲،۴۸۳ ۵۹۸ ،۵۹۳ ،۵۷۰،۵۳۸ ۲۵۷ ،۲۵۳ ۰۲۵۳ ۳۰۹ ،۳۰۸ ،۲۶۷ ،۲۵۷ ۹۲ ،۲۷۱،۱۳۹، ۱۳۸ ،۷۰ ،۴۸۳ ،۴۸۲ ،۲۸۳ ،۲۸۱ ۵۲۲ تا ۵۲۷ ، ۵۳۷، ۵۳۸ ، ۵۹۳،۵۹۰،۵۷۳، ۵۹۸ | ڈلہوزی ۲۵۳ ثبت ترکی جاپان جالندھر جاوا جده جرمنی جنید (ریاست)
۳۳ سمرقند سندھ سنگاپور سہارن پور سیالکوٹ سی.پی سماٹرا ۲۵۳، ۲۵۷، ۲۶۷، ۳۰۹،۳۰۸ ۹۷ | عراق ۴۹۱،۴۷۵،۲۵۳ ۲۷۱ ۳۸۰ ،۲۷۱ ،۲۷۰ ، ۲۵۷ عراق کے حالات پر ۲۵۷ ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر ۲۵۷ ،۲۵۳ ۲۶۹،۲۵۷ عراق اسلامی دنیا کے قلب ،۹۸ ،۹۷ سیرالیون ۲۵۳، ۲۶۷ میں ہے سیلون ۲۵۳ عراق سنی ، شیعہ بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے فیروز پور ق قادیان ۲۵۷ ،۲۵۳ ،۵۳ ،۲۴،۲۱،۹ ،۴،۳ ۱۰۲ تا ۱۰۴، ۱۱۱ تا ۱۱۶۰۱۱۴، ۱۱۷، ۱۲۲ ، ۱۴۵ ۱۵۲۰ تا ۱۵۵ ۱۳۷ تا ۱۴۰ ۲۰۴، ۲۱۶تا۲۲۰ ۲۲۷ ،۲۶۲ ،۲۵۶ ،۲۴۵ ،۲۳۳ ۲۶۴ تا ۲۷۲،۲۷۰،۲۶۶، شام شاہ پور شاہجہانپور شمله شیخو پوره صنعاء ،۹۸،۹۷ ،۵۹،۴۳ ۱۳۸ تا ۵۹۳،۱۴۰ ۵۱۱۲۵۳ ۲۵۷ ۶۱۲۴۲۲۲۷ ۲۲۵۷ ۵۰۰،۲۵۷ ،۲۵۳ b ۹۸ علی گڑھ ۳۰۵ ،۳۰۰ ،۲۸۸ ،۲۸۱ ۱۳۸ ،۳۸۵ ،۳۸۴،۳۶۸ ،۳۶۱ ،۸۴،۵۸،۵۴ ،۴۲۹ ،۴۲۷ ،۴۱۲ ،۴۰۸ ۹۶ تا ۹۸، ۱۳۸ ،۳۲۰،۱۴۰، ،۴۵۳ ،۴۳۸ ،۴۳۷ ،۴۳۰ ۵۹۳،۵۳۵،۳۷۹ ، ۴۷۵ ، ۴۷۰ ، ۴۶۳ ،۴۵۷ ،۵۹۰ ۵۰۱ ،۴۹۲ فتح پور سیکری فرانس ۱۰۵،۹۰،۸۷ ،۵۱۲۴۸۳ ،۲۷۱ ۵۲۲ تا۵۲۶، ۵۲۸، ۵۲۹، ،۵۳۸ ،۵۳۷ ،۵۳۶،۵۳۳ ۶۱۰ ، ۵۸۳ ،۵۷۸ ،۵۵۲ فلسطین ۱۳۹،۱۰۱٬۹۸،۹۷ ،۱۴۰ ، ۶۱۳ ،۶۰۲ ،۵۹۶ قادیان کے محلوں میں معلم مقرر کرنے کا ارادہ قادیان میں ہمارا نظام بہت پختہ ہے قاہرہ ۴۳۹ ۵۰۰ ۵۷۴ طائف طرابلس ۹۸ ،۹۳ ۹۸ فن لینڈ ۲۵۷ ،۲۵۳ ۵۶۴ کپورتھلہ ۲۵۷ ،۲۵۳
کرتو کرنال کریٹ ۵۰۰ ۲۵۳ ۳۴ ۲۷۹، ۲۹۳، ۳۰۹، ۳۱۸، مرادآباد ۳۴۱، ۳۵۸، ۴۳۰، ۵۰۶، مصر ،۲۷۲،۲۶۷ ،۲۵۳۹۸ ،۹۷ ۶۱۲،۵۱۰ ،۵۰۹ ۵۹۳،۳۱۶ مظفر گڑھ ۲۵۳ ۲۵۵ مکه ،۵۸،۵۵،۵۴،۳۸،۲۷ ۲۷۸،۲۵۳ ۷۹، ۹۵، ۹۶، ۹۸ تا ۱۰۰ ، ۱۷، ۲۶۹ دوسو سے زائد احمدی طلبا ءلاہور ۲۷۵، ۴۱۴، ۴۷۶، ۵۳۴ کے کالجوں میں پڑھتے ہیں ۴۸۴،۲۶۸ ۵۴۲ لدھیانہ کلکتہ کنعان کیمبل پور ۲۵۳ لکھنو لکھنو میں بٹیروں کے بھی ،۲۹۶ ، ۱۳۹ ، ۱۲۴ ،۱۲۳ ۲۵۷ ،۳۷۹ ،۳۷۷ ،۳۲۲،۳۰۷ ۵۵۸ ،۵۴۰ ، ۴۶۱ مقبرے ہیں لنڈن ۱۳۷ ، ۳۴۱،۲۶۸ مکہ سے سمندر چالیس میل ۳۲۰ لنگروال کے فاصلہ پر ہے ۲۶۸،۲۵۳ ليبيا ۴۸۳،۲۷۲ | ملایا ملتان ۴۸۰۲۵۷ ،۲۵۳ نٹگمری ۲۵۳ ۱۳۷ ۲۵۳ موصل گجرات گوجرانوالہ ۲۵۷ ،۲۵۳،۲۳۴،۷۸ ۲۵۷ ،۲۵۳ گورداسپور ۱۱۲ ۱۱۴ ،۳۰ ،۲۵۶،۲۵۳، گوڑگانواں ۴۷۷ ،۲۹۳،۲۷۹،۲۷۸ ۲۵۷ گولڈ کوسٹ گولکنڈہ لائل پور (فیصل آباد) لاہور ۲۶۷ ،۲۵۳ ۱۰۵،۸۸،۸۷ ماریشس ماسکو مالیر کوٹلہ ۵۷۳ | میانوالی ۲۵۷ ،۲۵۳ مجوکہ، مجوکہ کے ایک دوست کا ۲۶۶ ناروے منافقین سے بیزاری کا اظہار ۲۳۴ ، ۲۵۳، ۲۵۷ مدراس ۲۵۷ نجد ،۱۳۱۱۳۰،۱۱۳ ۱۱۲۷۲۵۳ ،۲۵۳،۲۱۱،۱۵۵ ، ۱۵۴ ، ۱۴۵ ،۲۷۸ ،۲۶۳ ،۲۶۰ ، ۲۵۷ مدینہ ،۵۰،۴۰،۳۰ ، ۱۲۳ ،۶۱ ،۵۸ ،۵۷ ،۵۲ ۳۴۴ ،۳۰۷ ،۱۳۹ نواں نگر نینوا نیویارک ن ۲۵۷ ،۲۵۳ ۶۱۰ ۱۴۰ ۲۵۷ لا ۳۹۲
۰۲۵۳،۱۴۷ ، ۱۴۶ ۵۳۴ ،۲۶۹ ،۲۶۸ ،۲۵۷ ،۲۵۸ ،۲۰۸ ، ۱۳۱،۱۳۰،۶۰ ۵۹۳،۵۹۰، ۲۰۹ | کین یوپی یورپ ۲۸۶ ۴۸۸ ،۴۵۱ ،۴۱۴ ،۳۹۱ ،۲۶۸ ۲۵۳ ،۵۵۹ ،۵۴۲ ،۵۲۲ ،۴۸۱ ۵۹۶ ،۵۷۱ ،۵۶۶ ۲۷۰،۹۷ ۳۵ ہندوستان میں تبلیغ کی تحریک DO ہالینڈ ہندوستان ۵۹۳،۳۰۸ ،۲۵۰، ۱۵ ۱۱۴۰،۹۸ ۲۵۳ ۲۵۸، ۲۶۸ تا ۲۷۱، ۲۷۳ تا ۲۷۵، ۲۸۴، ۲۸۹، ہندوستان کے اکثر لوگ بُزدل ہوچکے ہیں ہنگری ہوشیار پور ۲۹۱ تا ۲۹۳، ۳۰۸ تا ۴۲۳،۳۱۲، ،۵۲۹،۵۲۳،۵۲۲،۴۸۳ ،۴۲۴ ۵۳۸، ۵۳۹ ، ۵۶۰ تا ۵۶۲، رو یروشلم یونان
۲۱۳ ۲۰۱ ۱۹۷ ، ۱۷۴ ۲۱۶،۲۱۳،۲۰۲ ۱۵۱ چشمه معرفت چ て حقیقت الامر حقيقة النبوة حقيقة الوحي رنگیلا رسول ۳۶ { کتابیات بائیل بخاری ۴۵۸ ،۲۶۱،۱۵۹ ۴۶۳،۳۷۴،۷۷ ،۱۹۸ بدر (اخبار) ۱۹۳ براهین احمدیہ ۲۰۶،۷۷، ۲۱۶،۲۰۷ ، ۱۴۹ ،۱۴۷ ، ۱۴۶ پیغام صلح (اخبار) ۲۶۳،۲۱۴۱۵۶ ۱۵۵ ۱۵۰ تاريخ الخلفاء ۳۷۴ ریویو آف ریلیجنز ۲۴۹،۲۴۸ ،۲۰۵ ، ۱۴۴ ۳۲۱،۱۵۷ ۵۴ ۲۴۲۲ ز زمیندار (اخبار) ژند اوستا ۱۶۸ ترندی ۶۰۱۵۶۶،۷۰ ۲۱۳،۱۹۴ ابن ماجه احمدیت ( حقیقی اسلام ) ۲۱۱۱۹۳ ۱۹۸ ،۱۶۹،۱۶۵ ۲۱۴،۲۱۳،۱۸۸،۱۸۶ اخبار عام ازالہ اوہام الفرقان الفضل ۵۰۲ ،۲۴۹ ،۱۵۵ ،۱۴۷ ، ۱۴۶ ،۱۴۳ ،۲۵۰ ،۲۴۹ ،۲۱۶ ،۱۵۶ ،۲۹۸ ،۲۶۶،۲۶۵ ،۲۶۳ ۴۹۰ ۴۷۰ ،۴۶۳ تریاق القلوب ۲۰۵، ۱۹۷ الفضل کی اشاعت بڑھانے تفسیر القرآن (انگریزی) ۴۸۹،۲۵۸ کی تلقین ۲۴۷ الوصیت ۶۰۱،۵۹۹،۵۹۷،۵۹۶،۲۱۳ تفسیر کبیر ۵۰۲،۵۰۱،۴۸۹ اس کی خریداری کی تلقین ۲۵۶،۲۵۵ ۲۵۸ ی تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے اس کا اثر لعلیم یافتہ طبقہ پر سبعہ معلقہ بہت اچھا ہے ۲۵۹ تورات ۳۴۳،۳۲۱،۱۶۰۹۶، ۳۴۸ ستیارتھ پرکاش سٹیٹسمین (اخبار) انجام آتھم انجیل ۵۷۴،۳۴۸ ،۳۲۱،۳۱۶۰۱۵۷ ۲۱۳ ۲۱۲ ایک غلطی کا ازالہ
۳۷ سراج منیر ۱۹۴۷۲ سن رائز ۲۴۹ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۱ تا ۴۲۲،۲۴ سیر روحانی ۵۰۴،۵۰۳ لائف آف محمد ۹۶ مصباح مواہب الرحمن لیکچر سیالکوٹ ۱۸۶، ۱۸۸ ،۲۱۴۲۳ نور (اخبار) اس کی خریداری کی تلقین ۲۵۲ ۲۵۳ مرکز احمدیت.اس میں بہت سی معلومات ہیں ۵۰۱ وید ن ۴۶۳۷ ۲۰۲،۲۰۰ ۴۷۱۰۴۷۰، ۲۴۹ ،۲۴۸ , 701 ۲۵۰ DO ہمارے نغمے (رسالہ ) WW' 7' 17' 77' ۲۴۸ ،۱۹۹ ،۱۸۹ ،۱۸۲ مسلم ۲۴۹،۲۴۸ ف فاروق