Anwarul-Uloom Volume 15

Anwarul-Uloom Volume 15

انوارالعلوم (جلد 15)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

الأمر انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد مصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 15

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پُر سلسلہ تصانیف’انوار العلوم“ کی پندرہویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عظیم موعود فرزند کی پیش خبری عطا فرمائی.اس پر شوکت اور عظیم پیشگوئی کی باون علامتوں میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ :........وہ سخت ذہین و نیم ہوگا.اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.سید نا حضرت المصلح الموعود کی ذہانت و فطانت اور آپ کے تبحر علمی کا ایک روشن و بتین اظہار انوارالعلوم کی جلدات کی صورت میں بھی ہو رہا ہے.حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی خدا داد علمی صلاحیتوں سے نہ صرف احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی بلکہ دوسری قوموں نے بھی آپ کے فیض سے برکت حاصل کی.حضور نے اپنی تقریر وتحریر میں احباب جماعت کی علمی ، روحانی، اخلاقی ، معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے نیز جماعت کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے سعی کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی اور جماعت کے خلاف بر پا ہونے والی شورشوں اور جھوٹے پراپیگنڈے کو بھی دلائل قاطعہ کے ساتھ رد فرمایا.

Page 3

انوارالعلوم کی پندرہویں جلد سید نا حضرت مصلح موعود خلیفۃ السیح الثانی کی ذہانت و فطانت، بلند پایه علمی و روحانی مقام اور آپ کی اولوا العزم قیادت کی آئینہ دار ہے.یہ جلد حضور کی ۲۴ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے جو آپ نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء سے جولائی ۱۹۴۰ء تک ارشاد فرمائیں.اس جلد میں سب سے پہلی کتاب ”انقلاب حقیقی کے نام سے شاملِ اشاعت ہے.حضور نے یہ معرکۃ الآراء خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۳۷ء کے موقع پر ارشاد فرمایا.اس میں حضور نے دُنیاوی انقلابات اور روحانی دنیا میں برپا ہونے والے عظیم انقلابوں کا تاریخی حوالہ سے تذکرہ کیا اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.۱۹۳۸ء تا ۱۹۴۰ ء تک جماعت میں رونما ہونے والے مختلف واقعات کے بارہ میں بھی حضور نے اپنی تحریر و تقریر میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے.بعض مرحومین کے تذکرے بھی فرمائے خاص طور پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے اُن کے اوصاف حمیدہ اور خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے.۱۹۳۸ء میں حضرت مصلح موعود حیدر آباد دکن ، آگرہ اور دہلی تشریف لے گئے اور وہاں بعض تاریخی مقامات کی سیر فرمائی.جلسہ سالانہ ۱۹۳۸ء کے موقع پر آپ نے اپنی سیر کے دوران جن مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا تھا ان کے مماثل عالم روحانی کے مقامات کے حوالہ سے بھی آپ نے معرکۃ الآراء سلسلہ خطابات بعنوان ”سیر روحانی کا آغا ز فر مایا.اس سلسلہ کی پہلی تقریر بھی اس جلد میں شاملِ اشاعت ہے.حضرت مصلح موعود کی خلافت کے ۲۵ سال پورے ہونے پر ۱۹۳۹ء میں خلافت جو بلی کی تقریب منعقد ہوئی.اس موقع پر ہندوستان اور بیرون ممالک کی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے گئے ان ایڈریسز کے جواب میں آپ نے جو خطاب فرمایا وہ بھی اس جلد کی زینت ہے.اسی طرح ” خلافت را شدہ“ کے عنوان پر اسی سال جلسہ سالانہ پر حضور کی معرکۃ الآراء تقریر ہوئی جس میں نظام خلافت کی ضروت واہمیت اور دیگر پہلوؤں پر

Page 4

قرآن کریم ، احادیث اور سنتِ صحابہ کی رو سے روشنی ڈالی گئی ہے یہ تقریر بھی جلد ھذا میں شامل ہے.۱۹۴۰ء میں بمبئی ریڈیو پر حضور کی تقریر میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ نشر ہوئی تھی اِس تقریر میں اسلام کی خوبیاں اور اس کی صداقت انتہائی جامع انداز میں بیان کی گئی ہے یہ تقریر اور بعض دوسری تقاریر و تحریرات بھی اس جلد میں شامل ہیں.الغرض انوار العلوم کی جلد ۱۵ ہمیں تاریخ احمدیت میں رونما ہونے والے کئی اہم واقعات کی آگاہی بھی دیتی ہے اور مختلف مواقع پر حضرت مصلح موعود کے ولولہ انگیز خطابات کے ذریعہ ہماری علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتی ہے.انقلاب حقیقی ، سیر روحانی، خلافت راشدہ ، اور خلافت جوبلی جلسہ کے خطاب جیسے معرکۃ الآراء خطابات اس جلد کی زینت ہیں.حقیقت یہ ہے کہ پُر شوکت اور پر معارف تحریرات پر مشتمل یہ جلد ا حباب جماعت کے ازدیاد ایمان اور از دیادِ علم کا باعث بنے گی.انشَاءَ اللهُ.اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسبِ سابق بہت سے بزرگانِ سلسلہ اور مربیان کرام نے اس اہم کام میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے.نے پروف ریڈنگ ، مسودات کی ترتیب اور اصلاح کے سلسلہ میں بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں.مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش، نظر ثانی، اعراب کی درستگی اور Re-Checking کے سلسلہ میں دلی لگن اور بشاشت کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ صاحب بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں.اس جلد کی فائنل پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں اُن کی راہنمائی ہمارے لئے بہت سہولت کا موجب ہوئی.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ

Page 5

مکرم بشارت احمد صاحب صابر دفتر فضل عمر فا نڈ ویشن بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جن کی مخلصانہ کوششوں سے اس جلد کی تکمیل ممکن ہوسکی.تعارف کتب مکرم مبشر احمد صاحب خالد مربی سلسلہ کا تحریر کردہ ہے.خاکساران سب احباب کاممنونِ احسان اور شکر گزار ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم ومعرفت میں برکت عطاء فرمائے اور اپنی بے انتہاء رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 6

صفحہ ۱۲۱ ۱۲۹ ۱۴۱ ۱۴۹ ۱۵۷ R ۱۶۹ ۱۸۷ ۲۰۵ ۲۱۱ ۲۲۵ ۲۵۱ ۳۵۳ ۳۶۵ ترتیب عنوانات نمبر شمار انقلاب حقیقی ۶ فیصلہ ہائی کورٹ بمقد مہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کر لو گے احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد ۱۰ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو 11 بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے ۱۲ سیر روحانی (۱) ۱۳ روس اور موجودہ جنگ ۱۴ خدام سے خطاب

Page 7

نمبر شمار عنوانات صفح ۱۵ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی ۳۸۳ ۱۶ Σ مستورات سے خطاب کا اہم اور ضروری امور ۱۸ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمد یہ ۱۹ خلافت را شده ۲۰ کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء سے خطاب ۲۱ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک ۲۳ امتہ الودود میری بچی ۲۴ چاند میرا چاند ۳۸۹ ۴۰۱ ۴۲۵ ۴۴۱ ۵۹۹ ۶۱۳ ۶۲۳ ۶۳۷

Page 8

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب خليفة یہ انوارالعلوم کی پندرہویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر طلیقہ اسیح الثانی کی ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء سے جولائی ۱۹۴۰ ء تک کی ۲۴ مختلف تقاریر وتحریرات پر مشتمل ہے.(۱) انقلاب حقیقی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں یہ معرکتہ الآراء خطاب فرمایا جو بعد میں انقلاب حقیقی کے نام سے شائع ہوا.حضور نے اصل موضوع کی طرف آنے سے پیشتر تمہیداً قومی زندگی کے لئے دو بنیادی اصولوں کا ذکر فرمایا جن کے بغیر قومی زندگی خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی قائم نہیں رہ سکتی.ان میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ :.کوئی تحریک دنیا میں حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اُس میں کوئی نیا پیغام نہ ہو.دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ:.اصلاح کے ہمیشہ دو ذرائع ہوتے ہیں یا صلح یا جنگ یعنی یا تو صلح کے ساتھ وہ پیغام پھیلتا ہے یا جنگ اور لڑائی کے ساتھ پھیلتا ہے“.اس کے بعد حضور نے انقلاب حقیقی کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیاوی لحاظ سے انقلاب حقیقی کے معنی ہیں رائج الوقت نظام کو مکمل طور پر ختم کر کے اُس کی جگہ کوئی نیا نظام قائم کرنا.دینی اصطلاح میں انقلاب حقیقی کو مختلف الفاظ سے بیان کیا گیا ہے.جیسے اَلْقَيَامَةُ، اَلسَّاعَةُ.اور کبھی نئی زمین اور نئے آسمان کے پیدا کئے جانے کے الفاظ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے.اس کے بعد حضور نے تاریخ عالم میں کامیاب ہونے والی درج ذیل پانچ عالمگیر اور

Page 9

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کت مہتم بالشان مادی تحریکوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور ثابت کیا کہ ان کی کامیابی مذکورہ دو اصولوں کے تابع تھی.ا.آرین تحریک ۲.رومن تحریک.۳.ایرانی تحریک ۴ - بابلی تحریک.۵.مغربی تحریک مذکورہ بالا پانچ مادی تحریکات کی ضروری تفاصیل اور ان کی کامیابی کا راز بیان کرنے کے بعد مذہبی تحریکات کے سات بڑے بڑے ادوار کا تفصیل سے ذکر فرمایا جو درج ذیل ہیں.ا.دور آدم.۲.دور نوح.۳.دور ابراہیم.۴.دور موسی.۵.دور عیسی.۶.دور محمدی.ے.دور مسیح محمد.حضور نے دور مسیح محمدی کے انقلاب کو در حقیقت احیائے تعلیم مصطفوی کو ہی قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے تحریک جدید کے مقاصد کو بیان فرمایا اور عملی انقلاب کو تحریک جدید کے مطالبات کے ساتھ وابستہ قرار دیا.نیز جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا.اس تقریر میں حضور نے تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کرتے ہوئے درج ذیل امور کی طرف توجہ دلائی.ا.اخلاق حسنہ ۲.معاملات.۳.خدمت قومی.۴.رزق حلال.۵.چستی اور محنت.۶.بنی نوع انسان کی خیر خواہی.۷.صفائی.۸.صداقت.۹.کسب.۱۰.جائداد کی حفاظت کا آخر پر تمدن اسلام کے قیام کے ذرائع پر روشنی ڈالی نیز اس سلسلہ میں پیش آمدہ مشکلات کا بھی ذکر فر ما یا.حضور نے اپنے اس عظیم الشان اور پُر معارف خطاب کا اختتام احباب جماعت کو بعض نصائح کرتے ہوئے ان دعائیہ کلمات پر فرمایا.پس آؤ کہ ہم خدا سے ہی دعا کریں کہ اے خدا تو ہم کو سچا بنا تو ہمیں جھوٹ سے بچا.تو ہمیں بُرائی سے بچا.تو ہمیں غفلت سے بچا.تو ہمیں نافرمانی سے بچا.اے خدا! ہمیں اپنے فضل سے قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو، ہمارے بچوں کو اور ہمارے بوڑھوں کو سب کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرے کامل منتبع بنیں اور اُن تمام

Page 10

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب لغزشوں اور گناہوں سے محفوظ رہیں جو انسان کا قدم صراط مستقیم سے منحرف کر دیتے ہیں.اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرما.اے ہمارے رب ! اپنی تعلیم ، اپنی سیاست ، اپنے اقتصاد، اپنی معاشرت اور اپنے مذہب کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال ، ان کی عظمت ہمارے اندر پیدا کر یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں اُس تعلیم سے زیادہ اور کوئی پیاری تعلیم نہ ہو جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دی.اے خدا جو تیری طرف منسوب ہو اور تیرا پیارا ہو وہ ہمارا پیارا ہو اور جو تجھ سے دُور ہو اُس سے ہم دُور ہوں.لیکن سب دنیا کی ہمدردی اور اصلاح کا خیال ہمارے دلوں پر غالب ہو اور ہم اس انقلاب عظیم کے پیدا کرنے میں کامیاب ہوں جو تو اپنے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے! امِيْنَ اللَّهُمَّ امِينَ (۲) فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ میاں فخر الدین ملتانی نے جماعت احمدیہ سے انحراف اختیار کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود کے خلاف سخت بد زبانی کی اور آپ پر متعدد بے بنیاد الزامات لگائے جن کا حضرت مصلح موعود نے اپنی بعض تقاریر میں رڈ کرتے ہوئے اپنی بریت کا اظہار فرمایا.فخر الدین ملتانی کی بدزبانی اور الزام تراشی پر ایک احمدی دوست میاں عزیز احمد صاحب اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اس سے لڑائی کے نتیجہ میں وہ شخص ہلاک ہو گیا.اس مقدمہ قتل کا ہائیکورٹ نے جو فیصلہ لکھا اُس میں بعض کلمات یا فقرات ایسے تھے جن سے یہ تاثر لیا جاسکتا تھا کہ یہ قتل امام جماعت احمدیہ کی تقاریر سے اشتعال پیدا ہونے کے نتیجہ میں ہوا ہے لہذا علماء و عمائدین کو ایسی تقاریر نہیں کرنی چاہئیں جن کے نتیجہ میں اشتعال پیدا ہو.چنانچہ فیصلہ کے ایسے فقرات سے مخالف مولویوں اور مخالف اخبارات نے یہ نتیجہ نکالا کہ گویا یہ قتل مرزا محمود احمد صاحب کے ایماء پر ہوا ہے اور اس کا خوب پرو پیگنڈا کیا.اس صورتحال سے احباب جماعت کو بہت پریشانی ہوئی

Page 11

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب جس کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۳۸ء کے روز نامہ الفضل میں یہ مضمون تحریر فرمایا.جس میں احباب جماعت کو ایسے حالات میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی گئی نیز میاں عزیز احمد صاحب کی اس غلطی کے نتیجہ میں خلافت کا جو مقام اور جماعت کی جو ساکھ متاثر ہوئی اس کے کفارہ کے طور پر کثرت سے استغفار کرنے ، دعائیں کرنے ، روزے رکھنے اور تہجد وغیرہ ادا کرنے کی تحریک فرمائی.(۳) جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا یہ مضمون روز نامہ الفضل قادیان میں مؤرخہ ۲۱ مئی ۱۹۳۸ء کو شائع ہوا جس میں حضور نے احباب جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے.اس مطالبہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اُن دنوں گورداسپو کی انتظامیہ کا جماعت احمدیہ سے رویہ نہایت افسوسناک تھا اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر حفظ ما تقدم کے طور پر احباب جماعت کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا مقصود تھا.اس مضمون میں حضور نے قربانی کی حقیقت اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری پر روشنی ڈالی ہے اور قربانی کے فلسفہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو صرف جانی قربانی کی ضرورت نہیں بلکہ ہر میدان میں قربانیوں کی ضرورت ہے.نیز آپ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ احمدیت کے جانی قربانی کے مطالبہ سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ کسی محاذ پر جا کر جنگ کرتے ہوئے جان قربان کرنا ، بلکہ احمدیت کے لئے قربانی دینے کا مطلب امام کی آواز پر لبیک کہنا ہے.حضور نے اپنے اس مضمون میں جس قربانی کا مطالبہ کیا ہے وہ ہر حال میں سچائی اور راستی کو اختیار کرنا ہے جس کی خاطر خواہ جان کی قربانی دینی پڑے، خواہ جذبات کی قربانی دینی پڑے اور خواہ اپنے تمام حقوق سے محروم ہونا پڑے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.یا د رکھو کہ جن قربانیوں کا میں پہلی قسط کے طور پر مطالبہ کر رہا ہوں معمولی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے.اگر جماعت صداقت کے اس معیار کو قائم کر دے جسے سلسلہ احمدیہ پیش کرتا ہے تو یقیناً اُسے کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا.کمزوری ہماری ہی طرف

Page 12

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب سے ہوتی ہے ورنہ ہمارا خدا وفا دار ہے وہ خود ہمیں نہیں چھوڑاتا.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام جماعت کو اس وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جوش اور اظہار غضب کے بجائے سچی قربانی کے پیش کرنے اور اس پر مستقل رہنے کی توفیق دے.کیونکہ قربانی وہ نہیں جو ہم پیش کرتے ہیں ، قربانی وہ ہے جس کا زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہمارا رب ہم سے مطالبہ کرتا ہے.ہمارے دشمنوں کو ہم نے نہیں بلکہ ہمارے خدا نے شکست دینی ہے.سچی قربانی کرو اور دعائیں کرو اور کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو اور بڑے ہو کر منکسر المزاج بنو اور طاقت کے ہوتے ہوئے عفو کو اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہو.(۴) كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مضمون ۱۷ مئی ۱۹۳۸ کوتحریرفرمایا جو روزنامه الفضل قادیان میں مؤرخہ ۲۲ رمئی ۱۹۳۸ء کو شائع ہوا.اس مضمون کے ذریعہ چندا ہم وفات یافتگان کا ذکرِ خیر کرنا مقصود تھا جس میں سے سب سے اہم وفات حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ محترمہ کی تھی.در حقیقت یہی وفات اِس مضمون کو تحریر کرنے کا باعث بنی.دیگر وفات یافتگان میں مکرم حافظ بشیر احمد صاحب واقف زندگی ، مکرم چوہدری عبدالقادر صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم خان صاحب فقیر محمد خان صاحب شامل ہیں.اس مضمون میں حضور نے تمام وفات یافتگان کا ذکر خیر کیا ہے اور خاص طور پر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے اوصاف حمیدہ اور خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے اور آخر پر دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ:- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو ان کی دعاؤں کی برکات سے محروم نہ کرے اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی رہیں“.(امین)

Page 13

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب (۵) کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات وو حضرت مصلح موعود کے بارہ میں ” پیشگوئی مصلح موعود‘ میں آپ کی ایک یہ صفت بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا علاوہ دیگر بے شمار شہادتوں کے اس مضمون نے پیشگوئی کے ان الہامی الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.اس مضمون میں حضور نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک طبقہ کے درمیان جو غیر فطری اور نا عاقبت اندیشانہ اتحاد پر مبنی معاہدہ ہوا اُس پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جس میں اہل کشمیر اور حکومت کو دونوں کی فلاح و بہبود پر مبنی بے حد مفید اور ضروری مشورے دیئے.اِس معاہدہ کی بنیادی خامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے اور لاکھوں اہلِ کشمیر کے حقوق کو پامالی سے بچانے کی غرض سے فرمایا کہ:.” جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں ہوسکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بے کاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو...جو سمجھوتہ اس امر کو مد نظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے“.اسی طرح فرمایا کہ:.د پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن اُن کی قو میں تسلیم نہ کریں پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ؟ (۲) اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کرلو گے حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر ۳۱ / جولائی ۱۹۳۸ء کو قادیان میں تحریک جدید کے مطالبات کے سلسلہ میں ارشاد فرمائی جو بعد میں ۱۶ جون ۱۹۵۹ء کو پہلی دفعہ روز نامہ الفضل قادیان میں

Page 14

انوار العلوم جلد ۱۵ شائع ہوئی.تعارف کتب حضور نے اس تقریر میں نہایت لطیف پیرا یہ میں احباب جماعت کو اس عظیم تحریک میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ تحریک جدید وہی قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جاری کی گئی تھی اور اس کے وہی اغراض و مقاصد ہیں جن کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور قرآن کریم کا نزول ہوا اور پھر اس زمانہ میں تجدید دین کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور جماعت احمدیہ قائم ہوئی لہذا اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں احمدیت کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.اس خطاب کے آخر پر آپ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے دیانتداری سے احمدیت کو قبول کیا ہے، اگر تم یقین رکھتے ہو کہ سلسلہ احمد یہ سچا ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدا تعالیٰ کی پیروی ہے اور مسیح موعود کی پیروی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے تو اے مرد اور عور تو ! تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد میں میرے ساتھ تعاون کرو اور انصار اللہ بن جاؤ.مجھے تم سے کوئی غرض نہیں.اگر تم میرے ان مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر راضی کر لو گے اور اگر تم ان مطالبات پر عمل نہیں کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر ناراض کر لو گے“.(۷) احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب ۱۱/ نومبر ۱۹۳۸ء کو جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد، محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی ولایت سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں ایک دعوت چائے کا اہتمام کیا گیا جس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے اپنے خطاب میں مبلغین کی عظیم قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو مبلغین کی عزت واحترم کرنے کے حوالے سے ان کے فرائض کی طرف انہیں توجہ دلائی.اس

Page 15

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب کے بعد حضور نے اپنی اولاد اور خاندان مسیح موعود کے افراد کو بعض زریں نصائح فرمائیں اور اُن پر واضح کیا کہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعلق کوئی بڑائی یا بزرگی کی بات نہیں بلکہ اصل بزرگی تقوی میں ہے.آپ فرماتے ہیں کہ:.و پس عزت کا جو چوغہ تم پہنو وہ دوسروں سے مانگا ہوا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہوا چوغہ ہے.تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو.وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لِبَاسُ التَّقْوى ذَالِكَ خَيْرٌ تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے.غرض تم احمدیت کے خادم بنو پھر اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی تم معزز ہو گے اور دنیا بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے گی تم اپنے اندر ذاتی جو ہر پیدا کرو، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا خیال رکھو، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں ، امتیاز خدمت کرنے میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدمت کی اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا.تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.منه از بهر ما گرسی که ماموریم خدمت را دو یعنی میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہوں.اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو.خود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر اُن کو فائدہ پہنچاؤ اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ اُن کو بھی سیکھاؤ“.(۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امنِ عالم سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اار دسمبر ۱۹۳۸ء کو قادیان میں جلسہ سیرۃ النبی ﷺ کے مبارک موقع پر آنحضرت ﷺ اور امن عالم “ کے موضوع پر یہ لطیف تقریر ارشاد فرمائی جس

Page 16

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب میں آپ نے قرآن کریم کی رو سے نیز عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ امن عالم میں جو کردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا کیا اس کی مذہبی وڈ نیوی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.اس لئے توحید باری تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد اس ضابطہ حیات پر عمل کرنا ضروری ہے جو آنحضرت ﷺ کی وساطت سے قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے.اس ساری تقریر کا خلاصہ اور لب لباب یہ بنتا ہے کہ:.ا.توحید باری تعالیٰ پر کامل ایمان جس کے عملی اظہار کے لئے بیت اللہ جسے امنِ عالم کے لئے درسگاہ قرار دیا ہے کے ساتھ وابستگی..قرآنی تعلیمات جو امنِ عالم کے لئے کورس کی حیثیت رکھتی ہیں پر عمل درآمد.آنحضرت ﷺ جو امن عالم کے سب سے بڑے داعی اور مدرس ہیں کے اُسوہ حسنہ کی تقلید امنِ عالم کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے.اس تقریر میں حضور نے امنِ عالم کے تعلق میں درج ذیل دوسوالات کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے.ا.حقیقی امن سے مراد کیا ہے؟ -۲.حقیقی امن کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟ (۹) جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین میں بھی قائم ہو.یہ مختصر تقریر حضور نے مؤرخہ ۲۶ / دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت بیان فرمائی ہے اور احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:.”ہمارے سامنے ایک ہی بات ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ ہم اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کریں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اور ہم اپنی زندگی کے ہرلمحہ کو اپنی طاقتوں اور سامانوں کو کلی طور پر اس لئے صرف کریں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو.

Page 17

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب (۱۰) تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے یہ تربیتی تقر بر مؤرخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں احمدی خواتین کو تربیت اولاد کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے اپنی اس تقریر میں تربیت اولاد کی اصل ذمہ دار عورتوں کو ٹھہرایا ہے چنانچہ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:.اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں.اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے.اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارو مدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے.حضور نے اپنی اس تقریر میں مردوں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے.خاص طور پر عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے اور اُن کے رشتے داروں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے.اس سلسلہ میں آپ نے بڑی ہی پر حکمت بات فرمائی کہ عورتوں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے سے وہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتی ہیں اس لئے مرد کو اپنی بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے.اس تقریر کے آخر پر حضور نے تحریک جدید اور عورتوں کی ذمہ داریوں پر بھی مختصر روشنی ڈالی ہے اور تحریک جدید کے سادہ زندگی کے مطالبہ کا عورتوں کے ساتھ گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ:.د و پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے.تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کرو، سادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادت ڈالو، جو عورت زیور سے خوش ہو جاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کر سکتی.پس سادہ کھانا کھاؤ ، سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خدا تعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا“.(11) بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر یہ تقریر

Page 18

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب ارشاد فرمائی تھی جس میں روز نامہ الفضل اور سلسلہ کے دیگر اخبارات و رسائل کی خریداری بڑھانے کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی اور اس ضمن میں عملہ الفضل کو بھی حضور نے اپنی قیمتی ہدایات سے نوازا.نیز جماعت احمدیہ کی غرض وغایت اور جماعت کے بعض مخصوص عقائد پر نہایت دلچسپ اور عام فہم رنگ میں روشنی ڈالی اور عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیا کہ جماعت احمد یہ کا مسلک ہی صحیح اسلامی مسلک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کا مقصد صرف اسلام اور قرآن کی خدمت کرنا تھا.روز نامہ الفضل کی اشاعت کے متعلق آپ نے فرمایا کہ:.اتنی وسیع جماعت میں الفضل کی اشاعت کم از کم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے ایک علمی اور مذہبی جماعت میں ” الفضل" کی اس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے.میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خرید تے اُن کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اخبارات اور رسالے ضرور خرید میں بلکہ جو ان پڑھ ہیں وہ بھی لیں اور کسی پڑھے لکھے سے روزانہ تھوڑا تھوڑا سنتے رہا کریں تا کہ ان کی علمی ترقی ہو اور سلسلہ کے حالات سے وہ باخبر رہیں.(۱۲) سیر روحانی (۱) حضرت خلیفہ المسح الثانی نے جومعرکۃ الآراء اور روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی وہ بعد میں اپنے روح پر ورمضمون کے اعتبار سے سیر روحانی“ کے نام سے شائع ہوئی.پیشگوئی مصلح موعود میں آپ سے متعلق یہ جو صفات بیان کی گئی تھیں کہ وہ:.نیز یہ کہ:.علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے، یہ عظیم الشان تقریر ان دونوں صفات کا منہ بولتا ثبوت ہے.حضرت مصلح موعود نے

Page 19

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب اکتوبر ۱۹۳۸ ء کو حیدر آباد دکن کا دورہ کیا اور بعض تاریخی مقامات کی سیر کی.علاوہ ازیں آپ نے دہلی ، آگرہ اور بمبئی وغیرہ کے بہت سارے تاریخی مقامات کی سیر کی اور آثار قدیمہ دیکھے جن میں نمایاں طور پر جامع مسجد دہلی ، قطب صاحب کی لاٹ ، دیوانِ عام ، جنتر منتر ، مقبرے، حوض خاص ، آگرہ کا تاج محل، قلعے، دیوانِ عام اور دیوان خاص وغیرہ شامل ہیں.ان مقامات کی سیر کے دوران حضور پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی اور ایک عظیم انکشاف ہوا.اس کیفیت کا ذکر حضور نے اپنے اِن الفاظ میں بیان فرمایا:.وو سب عجائبات جو سفر میں میں نے دیکھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے....آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اس محویت کے عالم میں کھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا.اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ہے.یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی میں اُس آواز کو سن کر پھر واپس اس مادی دنیا میں آ گیا.مگر میرا دل اُس وقت رقت آمیز جذبات سے پُر تھا وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے.....میں نے افسوس سے اِس دنیا کو دیکھا اور کہا میں نے پالیا.میں نے پالیا.آپ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ان دنیوی اور مادی نظاروں اور مقامات کے مقابل پر روحانی نظارے، روحانی مقامات مثلاً روحانی ،مساجد، روحانی سمندر، روحانی جنتر منتر ، قلع، مقبرے، باغات اور روحانی بلند مینار، دیوان عام دیوان خاص اور روحانی نہریں موجود ہیں جو اپنی شان و شوکت، عظمت روحانی اور جلال و جمال، خوبصورتی اور پائیداری میں کہیں بڑھ کر ہیں مگر دنیا ان سے بے خبر ہے چنانچہ اس انکشاف کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.یہ امور تفصیلاً یا ا جمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر میرے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے؟ کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں؟ اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئی.میں اس نئی دنیا کے آثار قدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہوا تو میں نے ایسے عظیم الشان آثار قدیمہ دیکھے دو

Page 20

تعارف کتب انوار العلوم جلد ۱۵ جو ان آثار قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا.ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہوا.بڑی بڑی غیر معمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں، بے کنار سمندر، عالیشان قصر ، ان کے لنگر خانے ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، بازار لنگر خانے ، کتب خانے ، بے انتہا بلند مینار اور غیر محدود وسعت والی مسجد ، دلوں کو ہلا دینے والے مقبرے ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہوئیں اور میں نے کہا اُف ! میں کہاں آ گیا.یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں.تمام دنیا کے پاس موجود تھیں لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی.میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پر کہ میں یہ چیزیں دنیا کو دکھانے سے قاصر ہوں.میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے تو جہی پر مگر میرا دل مسرور بھی تھا اس خزانے کے پانے پر کہ ایک دن میں یا خدا کا کوئی اور بندہ بیخفی خزا نے دنیا کو دکھانے میں کامیاب ہو جائے گا.“ چنانچہ ان تاریخی مقامات اور عجائبات قدرت کو ایک ایک کر کے آپ نے اپنی جلسہ سالانہ کی تقریروں میں روحانی رنگ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے پُر اثر اور روح پرور نظاروں کی شکل میں پیش فرمایا ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے.( ۱۳ ) روس اور موجودہ جنگ جنگ عظیم دوئم کے دوران جب روس پولینڈ میں داخل ہوا تو اُس وقت حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون تحریر فرمایا جو ۲ رستمبر ۱۹۳۹ء کے روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا.حضور نے اس مضمون میں روس کے پولینڈ میں داخلہ کی وجوہات اور مقاصد کا تجزیہ کرتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ روس پولینڈ کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اس کی نیت ٹھیک نہیں لگتی.اس نے جرمنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اپنی فوجیں پولینڈ بھیجنے پر مُصر اس لئے ہے کہ جرمنی کے لئے پولینڈ پر قبضہ کے لئے سہولت پیدا کر دے اور بغیر خونریزی کے پولینڈ کی حکومت ختم ہو جائے.اگر اس طرح کامیابی نہ ہو تو اس معاہدہ کے ذریعہ جرمنی پولینڈ پر حملہ کر دے.اگر دوسری اقوام دخل نہ

Page 21

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کت دیں تو ٹھیک ورنہ جرمنی پولینڈ کو کچل دے اور دونوں ممالک اس کو تقسیم کر لیں.نیز اس مضمون میں حضور نے اس جنگ کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور اپنی بصیرت اور فراست سے اتحادیوں کو مفید مشورے دیتے ہیں.(۱۴) خدام سے خطاب حضرت مصلح موعود نے یہ خطاب مؤرخہ ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۹ء کو برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ارشاد فرمایا.اس خطاب کے آغاز میں حضور انور نے بعض انتظامی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی اور انتظامی امور سے متعلق بعض مفید مشورے عطا فرمائے.یہ اجتماع جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل منعقد کیا گیا جس سے جلسہ سالانہ کے انتظامات میں دقتیں پیش آئیں اس لئے فرمایا کہ آئندہ ایسے اجتماع جلسہ سالانہ کے ساتھ نہ رکھے جائیں.اس اجتماع پر پہلی دفعہ اول آنے والی مجلس کو علیم انعامی دینے کا فیصلہ ہوؤ امگر چونکہ جماعت کے جھنڈے کی ابھی قانونی طور پر منظوری نہیں ہوئی تھی اس لئے اس موقع پر حضور نے جماعت کے جھنڈے کی منظوری دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ یہ علم انعامی آج کی بجائے جلسہ کے آخری روز دیا جائے گا جب جماعت کا جھنڈا لہرایا جائے گا.اس موقع پر آپ نے خدام کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ:.پس آج میں یہ دو باتیں خاص طور پر خدام الاحمدیہ سے کہنا چاہتا ہوں اوّل یہ کہ واقعات کی دنیا میں قیاس سے کام نہ لو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اُس کے متعلق اُس وقت تک مطمئن نہ ہو جاؤ جب تک وہ ہو نہ جائے اور دوسرے یہ کہ کام اختیار کرتے وقت پوری احتیاط سے کام لو.وہ کام اپنے یا دوسروں کے ذمہ نہ لگاؤ جو تم جانتے ہو کہ نہیں کر سکتے اور جب اس امر کا اطمینان کرلو کہ اچھا کام ہے اور تم کر سکتے ہو تو پھر خود سے کرنے سے مت جھجھکو.پھر جب یہ دیکھو کہ کام ضروری ہے مگر تمہارا نفس کہتا ہے کہ تم اسے کر نہیں سکتے تو اپنے نفس سے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور غلط کہتا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ ضرور کر دے گا اور پھر اسے شروع کر دو.ان نصائح کے بعد حضور نے بطور نمونہ اپنی زندگی کے بعض ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.

Page 22

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب (۱۵) احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے یہ مختصر خطاب مؤرخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۹ کوجلسہ سالا نہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.اس روح پرور اور ایمان افروز خطاب کے آغاز میں حضور انور نے غیر مبائعین میں سے بعض کے اس قسم کے دعووں کا ذکر فرمایا جن میں احمدیت کے چند سال کے اندراندر نیست و نابود ہو جانے اور عیسائیت کا غلبہ ہو جانے کی پیشگوئیاں کی گئی تھیں اور فرمایا کہ یہ دعوے کرنے والے خود بھی گزر گئے اور اُن کے ساتھی بھی گزر گئے مگر احمدیت خدا کے فضل سے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہے.۲۶ سال قبل یہاں چند سو آدمی جمع ہوتے تھے مگر آج خدا کے فضل سے ہزاروں افراد جمع ہیں.آپ نے فرمایا کہ:.وو یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اُس کے ساتھی بھی مر گئے اُن کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا مگر احمدیت زندہ رہی ، زندہ ہے اور زندہ رہے گی.دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی.عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے ، عیسائیت تو ہمارا شکار ہے.اس کے بعد حضور انور نے پوری دنیا میں احمدیت کی غیر معمولی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ سیرالیون میں ہر قسم کی مخالفت کے باوجود وہاں کے ۲ رئیس پانچ صد افراد کے ہمراہ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اور اس طرح يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کے نظارے دیکھنے میں آ رہے ہیں.آخر پر حضور انور نے بعض دعاؤں کی تحریک فرمائی خاص طور پر یہ دُعا کی کہ:.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں یا سست اور عیش پرست ہو جا ئیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع ، پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرنے والے ہوں“.(اللَّهُمَّ امِيْنَ)

Page 23

انوار العلوم جلد ۱۵ (۱۶) مستورات سے خطاب تعارف کتب جلسه خلافت جوبلی کی مبارک تقریب کے موقع پر مورخہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۹ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے حضور انور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا.یہ ایڈریس حضرت سیدہ اُئِم طاہر صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ قادیان نے پیش کیا.اس ایڈریس کے جواب میں حضور نے لجنہ اماءاللہ کو بعض زریں نصائح ارشاد فرمائیں.اسی طرح اس موقع پر ایک انگریز نو مسلم خاتون نے بھی لجنہ اماءاللہ انگلستان کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں انگریزی زبان میں ایک ایڈریس پیش کیا جس کا حضور نے بھی انگریزی میں جواب دیا.اس خطاب میں حضور نے لجنہ کو جو نصائح فرمائیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کوئی عورت باپ، بھائی یا خاوند کی پابند نہیں ہے بلکہ قرآن کریم پر عمل میاں بیوی اور مرد و عورت دونوں پر فرض ہے آپ نے فرمایا کہ:.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اور مر دسب کے سب ایک ہی مقصد کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب مرد اور عورتیں مل کر اُس کے حضور پاک دل اور نیک ارادہ لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب میں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کریں.سارا قرآن اسی سے بھرا پڑا ہے.یہ بالکل غلط ہے کہ خاوند کو یا بھائی کو یا باپ کو مذہب کے معاملہ میں عورت پر کسی قسم کا تصرف حاصل ہے.ہر عورت کو حق ہے کہ جب دین کی کوئی بات سمجھ میں آ جائے تو اُس پر عمل کرے خواہ سب اُس کے مخالف ہوں“.(۱۷) اہم اور ضروری امور حضرت فضل عمر نے مؤرخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر بعض متفرق انتظامی اور تربیتی امور سے متعلق یہ اہم خطاب فرمایا جو ۳/ جنوری ۱۹۴۰ء کے روز نامہ الفضل قادیان اور ۳/اکتوبر ۱۹۵۹ء کے روز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوا اور اب پہلی دفعہ کتابی

Page 24

انوار العلوم جلد ۱۵ صورت میں شائع ہورہا ہے.تعارف کتب اس خطاب میں حضور نے سب سے پہلے شیخ عبد الرحمن مصری اور ان کے ساتھیوں کی ایک اشتعال انگیز حرکت کا ذکر فرمایا.جس کے بعد سلسلہ کے اخبارات کے بارہ میں بعض ہدایات فرمائیں.نیز تعلیم و تربیت، اچھوتوں میں تبلیغ اور مغربی کھیلوں کی بجائے دیسی کھیلوں کو رائج کرنے کے بارہ میں ارشادات فرمائے.اسی طرح تحریک جدید کے ماتحت ۵ هزار مبلغ تیار کرنے ، ہجری سمسی کیلنڈر کے بارہ میں ارشادات اور ہدایات نیز سال میں ہر احمدی کو ایک بیعت کروانے ، لڑکیوں کو ورثہ دینے جیسی تحریکات اس خطاب میں شامل ہیں.اس خطاب کے آخر پر حضور نے اصلاح اعمال کا ایک لطیف گر بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کی طرف توجہ دلائی جو آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمائی کہ ہر مسلمان کی جان، اُس کا مال اور اُس کی عزت خدا کے حضور وہی مقام رکھتی ہے جو حج کا دن رکھتا ہے، جو ذوالحجہ رکھتا ہے اور جو مکہ ومکرمہ رکھتا ہے اور اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے تحریک فرمائی کہ:.,, جو یہ حدیث سنے اُسے دوسروں تک پہنچا دے“.اس وصیت کے بارہ میں فرمایا کہ یہ وصیت قومی تربیت و اتحاد اور اعلیٰ اخلاق کے حصول کا ایک سنہری و نایاب گر ہے.وہ نصیحت یا وصیت یہ ہے کہ اے مسلمانو! خانہ کعبہ، ایام حج اور ماہِ حج کی جو عزت و حرمت تمہارے دلوں میں ہے وہی عزت تمہیں ادنیٰ سے ادنی مومن کے جان و مال اور عزت کی کرنی چاہئے.اپنے اس اہم خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا:.اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے رہتے تو ان کے دلوں میں ایسی نرمی ، محبت ، دیانت اور تقویٰ پیدا ہو جاتا کہ وہ اپنے کسی بھائی کو نہ ستاتے.نہ اس کی جان پر حملہ کرتے نہ اُس کے مال پر حملہ کرتے ، نہ اُس کی آبرو پر حملہ کرتے.اور اگر کوئی منہ پھٹ کبھی حملہ کر بیٹھتا تو دوسرا اُسے یاد دلا دیتا کہ میاں ! کیا کرنے لگے ہو.تم خانہ کعبہ پر حملہ کرتے ہو، تم ذوالحجہ پر حملہ کرتے ہو ، تم حج کے دن پر حملہ کرتے ہو.کیا اتنے مقدس مقامات پر حملہ کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اور یقیناً اس کے بعد وہ

Page 25

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب شرمندہ ہوتا اور اپنے اِس ناروا فعل پر ندامت کا اظہار کرتا پس اس سبق کو اچھی طرح یاد رکھو اور دوسروں تک پہنچاد واگر تم اِس تحریک پر عمل کرو گے تو جماعت میں آہستہ آہستہ صحیح تقویٰ پیدا ہو جائے گا اور سوائے ازلی شقیوں کے جن کا کوئی علاج خدا نے مقر ر نہیں کیا باقی سب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے.اور جماعتی اتحاد کو کسی طرح ضعف نہیں پہنچے گا کیونکہ گو یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے مگر اسی پر قومی زندگی کی بنیاد ہے.(۱۸) تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ حضرت مصلح موعود کی خلافت کے ۲۵ سال پورے ہونے پر ۱۹۳۹ء میں ” خلافت جو بلی کی تقریب منعقد کی گئی.اس موقع پر مورخہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء کو ہندوستان اور بیرونی ممالک کی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے گئے.یہ تقریر حضور نے ان تمام ایڈریسز کے جواب میں ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضور نے فرمایا کہ:.”جب سے یہ خلافت جو بلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی یہ دیگر تقاریب مناتے ہیں انہیں کس طرح روک سکیں گے.اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا جس میں لکھا تھا کہ اس وقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے.تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہئے.دوسرا انشراح مجھے اس وقت پیدا ہوا جب درنشین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے.اس کوسُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری چھپیں سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نا مناسب نہیں اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہو سکتا ہوں“.

Page 26

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب اس کے بعد حضور نے اپنی علمی قابلیت اور اپنی تحصیل علم کی روئید ادسنائی جو پیشگوئی مصلح موعود کے ان الفاظ کو پورا کرنے والی ہے کہ :.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.(۱۹) خلافت راشده حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی کی تقریب سعید کے موقع پر خلافت را شدہ“ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر ارشاد فرمائی جو ۲۸ ، ۲۹ / دسمبر دو دن جاری رہی یہ معرکۃ الآراء تقریر ۱۹۶۱ء میں کتابی صورت میں پہلی بار شائع ہوئی.یہ کتاب خدا کے فضل سے علمی دنیا میں ایک نہایت بلند پایہ تصنیف ہے جس میں نظام خلافت کی ضرورت واہمیت اور دیگر تمام پہلوؤں پر قرآن کریم ، احادیث اور سنت صحابہ کی رو سے روشنی ڈالی گئی ہے.نیز آنحضرت ا کے بعد خلافت راشدہ کی مختصر تاریخ اور حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں اس کے بعد خلافت احمدیہ کے قیام بالخصوص خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر پیدا ہونے والے حالات و واقعات اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال احباب کی طرف سے نظام خلافت کے خلاف سازشوں اور پروپیگینڈوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.اس تقریر میں حضور نے نظامِ خلافت اور خلیفہ وقت کے مقام اور اختیارات پر بھی تفصیل سے بحث فرمائی ہے نیز اس سلسلہ میں اُٹھنے والے بعض اعتراضات اور سوالات کے قرآن وحدیث کی روشنی میں بڑے مدلل اور مسکت عقلی و نقلی دلائل بیان فرمائے ہیں.نظام خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی بنیاد آیت استخلاف پر رکھتے ہوئے اس آیت کے مضامین پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور آیت استخلاف پر اُٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.اس تقریر کے آخر پر حضور نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.دو پس اے مومنوں کی جماعت اور اے عمل صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے

Page 27

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب گا.لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہوگئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اِس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے.....پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یا درکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے“.(۲۰) کارکنان جلسه خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۶ جنوری ۱۹۴۰ ء کو جلسہ خلافت جوبلی کے انتظامات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہونے پر مدرسہ احمدیہ قادیان کے صحن میں جلسہ کے کارکنان سے جو خطاب فرمایا اُس کا خلاصہ مورخہ ۹ جنوری ۱۹۴۰ ء کے روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا.حضور نے اس موقع پر قادیان کے جلسہ کو تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کا دوسرے نمبر کا جلسہ قرار دیا اور کھانے اور ہائش کے انتظامات کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر کا جلسہ قرار دیا.حضورانور نے اس موقع پر فرمایا کہ:.و ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہو جائیں تو پھر ہم اجازت دے دیں کہ ہر ملک میں الگ جلسے سالا نہ ہوا کریں.اس تقریر میں حضور نے موقع کی مناسبت سے انتظامی امور سے متعلق متعلقہ شعبوں کو ہدایات فرمائیں.نیز مہمان نوازی کی اہمیت اور برکات پر روشنی ڈالی اور اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ:.اب میں دُعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے.اور ہماری غلطیوں ، سُستیوں اور کمزوریوں سے درگزر کرے تا ایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھا جانے والی ہوں اور ہم آئندہ سال اس سے بھی بڑھ کر خدمت خلق کر کے اپنے خدا کو راضی کر سکیں“.

Page 28

انوار العلوم جلد ۱۵ (۲۱) میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ تعارف کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکة الآراء تقریر مؤرخہ ۱۹ / فروری ۱۹۴۰ء کو بوقت ساڑھے آٹھ بجے رات بمبئی ریڈیو پر ارشاد فرمائی جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئی.حضور نے اپنی اِس مختصر مگر جامع و مانع تقریر کے آغاز میں ہی اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:.اسی دلیل سے جس کی بناء پر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے....او کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے“.اس اجمال کی قدرے وضاحت کرتے ہوئے حضور نے اسلام کی درج ذیل پانچ بنیادی خوبیاں بیان فرمائی ہیں :.ا اسلام ہر وہ امر جس کو ماننا ضروری قرار دیتا ہے اُس پر ایمان لانے کیلئے دلیل بھی دیتا ہے.اسلام صرف قصوں پر اپنے دعوی کی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے.اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور کام میں اختلاف نہیں ہوتا.اسلام کسی کے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ اُن کی صحیح راہنمائی کرتا ہے.اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں سے بلکہ سب دنیا سے انصاف بلکہ محبت کرنے کی تعلیم دیتا ہے.(۲۲) موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک جنگ عظیم دوئم کے دوران حکومت برطانیہ کی طرف سے مؤرخہ ۲۶ رمئی بروزا تو ر ۱۹۴۰ء کے دن اس جنگ میں کامیابی کے لئے خصوصی دعا کرنے کی تحریک پر مبنی ایک اعلان کیا گیا.چنانچہ اولی الامر کے حکم کے تحت حکومت وقت کے ساتھ ہمدردی اور اظہار پجہتی کرتے ہوئے قادیان میں بھی اُس روز خصوصی دعا کرنے کا اعلان ہوا اور یہ تقریب بیت اقصیٰ میں منعقد ہوئی.اس دُعائیہ کی تقریب میں حضرت مصلح موعود بھی بنفس نفیس شامل ہوئے اور دعا سے قبل

Page 29

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب موقع کی مناسبت سے ایک تقریر بھی ارشاد فرمائی جس میں فرمایا کہ چونکہ عیسائیت میں اتوار کا دن مذہبی تہوار کی حیثیت رکھتے ہوئے مقدس سمجھا جاتا ہے اس لئے حکومت برطانیہ نے خصوصی دُعا کے لئے اتوار کے دن کو مقرر کیا ہے.ہم حکومت وقت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے آج یہاں اس مقصد کیلئے جمع ہوئے ہیں لیکن چونکہ ہمارے مذہب میں ”جمعہ کے دن کو قبولیت دعا کے ساتھ خاص مناسبت اور حیثیت حاصل ہے لہذا ہم دوبارہ جمعہ کے روز بھی حکومت برطانیہ کی فتح کے لئے دُعا کرنے کی غرض سے اکٹھے ہوں گے.اس تقریر میں حضور نے جنگ عظیم دوئم کی صورت حال پر تجزیاتی لحاظ سے روشنی ڈالی اور ماہرانہ تبصرہ فرمایا اور حکومت برطانیہ کو اپنی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلائی اور حکومت برطانیہ کی فتح کو احمدیت اور اُمتِ مسلمہ کے لئے مفید قرار دیتے ہوئے اس کی فتح کے لئے نیک خواہشات کا اظہار فرمایا اور خصوصی دُعا کروائی.حضور کا یہ خطاب ۴ جون ۱۹۴۰ء کو روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا جو پہلی بار کتابی صورت میں شائع ہورہا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ (۲۳) امتہ الودود میری بچی حضرت مصلح موعود کا یہ مضمون محترمہ امتہ الود و ر صاحبہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ذکر خیر پر مبنی ہے جو حضور نے ان کی وفات پر تحریر فرمایا اور مؤرخہ ۲۳ جون ۱۹۴۰ء کے روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا.اس مضمون میں حضور نے ان کی بیماری، وفات ، تعلیمی قابلیت کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں نیز ان کے اعلیٰ اخلاق اور اپنے ساتھ پیار و محبت کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے.حضور ان کی خوبیوں سے اس قدر متاثر تھے کہ اپنے صاحبزادے مرزا خلیل احمد صاحب کیلئے ان کے رشتہ کی خواہش رکھتے تھے مگر رشتہ کا پیغام بھجوانے سے پہلے ہی ان کی اچانک وفات سے حضور کی خواہش پوری نہ ہوسکی.حضور کو ان سے کس قدر پیار اور محبت کا تعلق تھا اس کا اندازہ حضور کے ان کلمات سے لگایا جاسکتا ہے فرمایا:.رودی میری بھیجی تو تھی مگر زمانہ کے قرب اور تعلق نے اُسے میرے دل کے

Page 30

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی....میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے“.مضمون کے آخر میں اپنے اضطراب اور درد کو دُعائیہ الفاظ میں ڈھالتے ہوئے اپنے رب سے یوں عرض کرتے ہیں کہ :.”اے اللہ تعالیٰ ! یہ نا تجربہ کار روح تیرے حضور میں آئی ہے تیرے فرشتے اس کے استقبال کو آئیں کہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو.اس کے دادا کی رُوح اسے اپنی گود میں اُٹھا لے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوں میں محسوس نہ کرے.محمد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اِس کے رُوحانی دادا ہیں اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں اور اس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں اسی دُعا کے ساتھ میں بھی اب تجھے رُخصت کرتا ہوں جا! میری بچی تیرا اللہ حافظ ہو.اللہ حافظ ہو (۲۴) چاند.میرا چاند حضرت مصلح موعود۱۹۴۰ ء میں اپنے بعض اہل خانہ کے ہمراہ کراچی تشریف لے گئے اور ایک رات سمند پر سیر کرنے گئے.اُس رات چاند خوب چمک رہا تھا اور زبردست چاندنی رات تھی.اس دلکش نظارہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد آ گیا اور پچاس سال پہلے کی ایک رات کا نظارہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا.چاند کو گل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمال یار کا پہلے تو حضور نے اس شعر کو گنگنانا شروع کیا.پھر حضور نے چاند کو مخاطب کر کے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر ارشاد فرمائے جن کا پہلا شعر کچھ اس طرح پر ہے.یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چپکا نہ کر حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر

Page 31

انوار العلوم جلد ۱۵ تعارف کتب حضور نے واپس آکر روزنامہ الفضل قادیان میں ایک مضمون تحریر فرمایا جو مؤرخہ 4 جولائی ۱۹۴۰ ء کو شائع ہوا.حضور نے اس مضمون میں اس نظم کا پس منظر اور ساتھ ساتھ تشریح بھی تحریر فرمائی.آخری دو اشعار کی تشریح میں اپنی بھتیجی محترمہ امتہ الود و د مرحومہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا ذکرِ خیر بھی فرمایا ہے.جس میں محترمہ کی غیر معمولی اطاعت اور فرمانبرداری پر روشنی پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ کی آپ پر ہزاروں رحمتیں ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتار ہے.امِينَ

Page 32

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة اصبح الثانی انقلاب حقیقی

Page 33

انوار العلوم جلد ۱۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ انقلاب حقیقی ( تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۷ء بر موقع جلسه سالانه) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انقلاب حقیقی آج میری آواز تو اتنی بیٹھی ہوئی ہے کہ شاید لاؤڈ سپیکر کے بغیر لاؤڈ سپیکر کی ایجاد دوستوں تک آواز پہنچنی مشکل ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جو اشاعت کا زمانہ ہے اور جہاں گلے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے یہ ایجاد کر دی ہے جس پر ہم جس قدر بھی اس کا شکر بجالائیں کم ہے.انگریزی میں گلے کی تکلیف کو کلرجی مینز تھروٹ (CLERGYMAN'S THROAT) کہتے ہیں یعنی پادریوں کے گلے کی تکلیف.اور پادری صرف اتوار کے دن نہایت مدھم سی آواز میں پندرہ بیس یا تمہیں منٹ ہی تقریر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس ہفتہ کی ایک تقریر کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے گلے کی خراش کا نام ہی پادریوں کے گلے کی خراش رکھ دیا جائے.پھر اُن لوگوں کا کیا حال ہے جنہیں ضرورت کے ماتحت چھ چھ گھنٹے بھی تقریریں کرنی پڑتی ہیں اور جن کے جمعہ کا ایک خطبہ بسا اوقات پادریوں کے مہینوں کی تقریروں سے بڑھ جاتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایجاد ہم لوگوں کیلئے ہی کی ہے جن کے گلوں پر ان تقریروں کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے.پیشتر اس کے کہ میں اپنا آج کا مضمون شروع کروں بعض دوستوں کی دوستوں کے تار تاروں کا مضمون پڑھ کر سنا دیتا ہوں جنہوں نے مجھ سے اور تمام دوستوں سے خواہش کی ہے کہ ان ایام کی دعاؤں میں انہیں شامل رکھا جائے (اس کے بعد حضور نے ہندوستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ہند کے ان اصحاب کے نام سنائے جنہوں نے بذریعہ

Page 34

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تار جلسہ میں شامل ہونے والے اصحاب کو السَّلامُ عَلَيْكُمُ کہا اور درخواست دعا کی تھی پھر فرمایا:-) میاں عزیز احمد صاحب کے میں اپنا مضمون شروع کرنے سے پہلے کچھ اور باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں ایک تو یہ ہے کہ کل ایک متعلق دو سوالات کے جواب دوست نے لیکچر کی حالت میں مجھے ایک رقعہ دیا.چونکہ لیکچر دیتے وقت میں زیادہ تر کوشش یہی کرتا ہوں کہ رفتے نہ پڑھوں کیونکہ اس طرح لیکچر بالکل خراب ہو جاتا ہے اس لئے میں نے اُسے اُس وقت نہ پڑھا بلکہ بعد میں پڑھا.اس میں میری اُس تقریر کے متعلق جو گل میں نے مصری صاحب کے متعلق کی ہے دو سوالات درج تھے.کوئی محمد عبد اللہ صاحب ہیں جنہوں نے وہ رقعہ لکھا.بہر حال ایک بات انہوں نے یہ کھی ہے کہ آپ کی طرف سے اعلان تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی خلاف قانون حرکت کی اور شرارت اور فساد پیدا کیا تو میں اُسے جماعت سے خارج کر دوں گا مگر باوجود اس اعلان کے عزیز احمد جس کے ہاتھوں فخر الدین ملتانی قتل ہوا اب تک جماعت میں موجود ہے اور اسے جماعت سے خارج نہیں کیا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ دوسرے اگر یہ اعلان صحیح تھا تو عزیز احمد کی طرف سے احمدی وکیل پیروی کیوں کرتے رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے یہ دوست اگر مبائعین میں سے ہیں تو نہ انہوں نے کبھی میرے خطبے پڑھے ہیں اور نہ انہیں قانون کی کوئی واقفیت ہے اور اگر ہماری جماعت کے یہ دوست نہیں تو خیر دوسرے لوگ ہم پر اعتراض کیا ہی کرتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہیں.اصل بات یہ ہے کہ وہ اعلان جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ جب اُس میں کہا گیا تھا کہ:.اگر کسی احمدی کی نسبت ثابت ہوا کہ وہ فساد کرتا یا اس میں شامل ہوتا ہے تو اُسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا لے وہ میاں عزیز احمد کے فعل کے ایک دن بعد کا ہے اور اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق ہے.چنانچہ میرے اعلان کے الفاظ یہ ہیں کہ :.آئندہ کیلئے دوستوں کو پھر ہدایت کر دینی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو یری طرح قابو میں پوری طرح قابو میں رکھیں اور انتہائی اشتعال کے وقت بھی اپنے جذبات کو دبائے رکھیں.

Page 35

انوار العلوم جلد ۱۵ پھر اسی اعلان کو میں نے ایک اور موقع پر اس طرح دُہرایا ہے کہ: جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور کسی ذاتی یا جماعتی مخالف پر ہاتھ انقلاب حقیقی اُٹھائے گا اُسے میں آئندہ فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا“.پس جب کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق تھی اور میاں عزیز احمد کے فعل سے پہلے ایسی کوئی ہدایت میری طرف سے نافذ نہیں ہوئی تھی تو میاں عزیز احمد کو جماعت سے کس طرح خارج کیا جاتا.اسی طرح جو دوسرا اعتراض کیا گیا ہے کہ احمدی وکیل میاں عزیز احمد کے مقدمہ کی پیروی کیوں کرتے ہیں یہ بھی قانونی نا واقفیت کی وجہ سے کیا گیا ہے.وکلاء کا فرض ہوتا ہے کہ خواہ انہیں کوئی اپنے مقدمہ کیلئے مقرر کرے وہ اس کے مقدمہ کی پیروی کریں اور یہاں تو ایک خاص بات بھی ہے اور وہ یہ کہ شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ کیس اپنی طرف سے نہیں لیا بلکہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کیلئے مقرر ہیں اور ہائی کورٹ نے انہیں اپنی طرف سے فیس دے کر کھڑا کیا ہے کیونکہ گورنمنٹ نے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر کوئی غریب شخص ملزم ہوا اور وہ اپنے وکیل کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو تو حکومت خود اُس کی طرف سے وکیل مقرر کرتی اور اُس کے اخراجات آپ برداشت کرتی ہے.پس اگر عیسائی گورنمنٹ انصاف کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر ملزم کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر دیتی ہے اور ملزم کو اپنی بر بیت ثابت کرنے کا موقع دیتی ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا ایک احمدی ملزم کی طرف سے وکیل کیوں کھڑا نہ ہو سکے.جو حق حکومت کی طرف سے ہر مذہب کے غریب ملزموں کو حاصل ہے وہ یقیناً ایک احمدی کو بھی ملنا چاہئے اور اسی وجہ سے شیخ بشیر احمد صاحب اس مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں.پس شیخ صاحب کو جماعت کی طرف سے نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ ہائی کورٹ نے انہیں فیس دے کر خود کھڑا کیا ہے.حضرت بابا نانک کو مسلمان دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں ہمارے ایک مقدمہ کے دوران میں ایک کہنا اور ایک مجسٹریٹ مجسٹریٹ نے ایک وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ادب کے الفاظ تو میں استعمال کر رہا ہوں انہوں نے تو یہ کہا تھا کہ اگر تمہارے محمد صاحب کو کوئی کافر اور غدار کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے؟ اور تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں دکھے گا ؟ اسی طرح باوانا تک صاحب کو مسلمان کہنے سے سکھوں کا دل دُکھتا ہے.یہ طریق کلام اتنا نا شائستہ ہے کہ میں حیران ہوں اگر حکومت اپنے مجسٹریٹوں کو اس

Page 36

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی قسم کی باتوں کا اختیار دیتی ہو اور پھر اس کا نام عدالت رکھتی ہو تو پھر دنیا میں کسی اور فسادی کی ضرورت ہی کیا ہے.اس طرح تو خود گورنمنٹ فساد کا موجب کہلائے گی.صلى الله رسول کریم ﷺ کی ہتک اور احرار کہا جاتا ہے بلکہ وہ احراری جو رسول کریم ﷺ کی محبت کے بلند بانگ دعاوی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اس نے اپنے فقرہ کو اگر سے مشروط کر دیا تھا یعنی اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ محمد صاحب ایسے ہیں بلکہ اس نے کہا تھا کہ اگر محمد صاحب کو کوئی ایسا کہہ دے تو آپ کا دل دُکھے گا یا نہیں؟ لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اگر کسی احراری لیڈر سے باتیں کرتے ہوئے کوئی شخص کہے کہ اگر تمہاری ماں کو کوئی بدکار اور کنجری کہے تو تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ میں سمجھتا ہوں یقیناً وہ اسے پسند نہیں کریں گے.پس اگر کا لفظ لگانے سے جرم کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی.مباحثہ میں دشمن کا جواب دیتے وقت بات کرنے کے اصول اور ہوتے ہیں اور عدالت کی حیثیت اور ہوتی ہے اور عدالت کو اپنے وقار کو قائم رکھنا چاہئے اور ایسے الفاظ سے کلی طور پر احتراز کرنا چاہئے.ہندوؤں کا ایک روزانہ اخبار " عام لاہور سے نکلا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے ہمیشہ منگوایا کرتے تھے اور آپ اس کے خریدار تھے.ایک دفعہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون لکھا جس میں اگر “ کا لفظ استعمال کر کے اس نے ایک گندی گالی دے دی، میں بھی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت میں اس اخبار کا خریدار تھا اس لئے میں نے پہلے اسے چٹھی لکھی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے اس کا اپنے اخبار میں ازالہ کرو.مگر اس چٹھی کا اُس نے جواب یہ دیا کہ میں نے کوئی ہتک نہیں کی میں نے تو صرف اگر کا لفظ استعمال کر کے ایک شرطی بات کہی تھی.اس پر میں نے اسے ایک مضمون بھیجا جس میں ویدوں اور وید کے رشیوں کے متعلق میں نے اگر اگر کا لفظ استعمال کر کے کئی سخت الفاظ کہے کہ اگر تمہارے رشی کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیا سمجھو گے ، اگر ویدوں کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ آپ اس مضمون کو شائع کر دیں.مضمون تو اُس نے کیا شائع کرنا تھا اُس کا دوصفحہ کا ایک خط آ گیا جو گالیوں سے بھرا ہوا تھا اور جس میں لکھا تھا کہ آپ مرزا صاحب کے لڑکے ہیں آپ کے متعلق میں یہ امید نہیں کرتا تھا کہ ایسے الفاظ ہمارے ویدوں اور رشیوں کے متعلق استعمال کریں گے.

Page 37

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی میں نے اسے لکھا کہ میں نے تو کوئی گالی نہیں دی میں نے تو اگر کا لفظ استعمال کر کے بعض سوالات دریافت کئے تھے.گورنمنٹ کو متوجہ کیا جائے میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائے اور پورے زور سے توجہ دلائے.کسی نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ صاحب یہ الفاظ واپس لینے کیلئے تیار ہیں.میرے پاس جب یہ پیغام پہنچا تو میں نے کہا ہمیں تو کسی سے دشمنی نہیں ہم تو ہر ایک کی عزت کرتے ہیں اگر گورنمنٹ کے آفیسر ز صیح طریق پر چلیں تو ہم انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھانے کیلئے تیار ہیں اور اگر وہ یہ الفاظ واپس لے لیں تو ہمیں اس سے بڑی خوشی ہوگی اور ہم سمجھیں گے کہ معاملہ ختم ہو گیا.مگر بعد میں میں نے سنا کہ انہوں نے الفاظ واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں صرف یہ کہنے کیلئے تیار ہوں کہ ان الفاظ سے میری نیت بہتک کی نہیں تھی اپنے الفاظ واپس لینے : کیلئے تیار نہیں.معلوم ہوا ہے پیرا کبر علی صاحب نے اس کے متعلق اسمبلی میں سوال بھیجا ہے.اتنے حصہ کے متعلق میں انہیں جَزَاكُمُ الله کہتا ہوں مگر اتنا ہی کافی نہیں حکومت کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اس بارے میں ضروری کارروائی کرے.اگر مسلمان ممبر یہ تہیہ کر لیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ہتک کا ازالہ نہیں کیا جائے گا اور ہتک کرنے والے مجسٹریٹ کو سزا نہیں دی جائے گی اُس وقت تک وہ کونسل کا کام چلنے نہیں دیں گے تو میں سمجھتا ہوں حکومت اس معاملہ کی طرف جلد متوجہ ہوسکتی ہے.شیخ عبدالرحمن مصری کے لیکچر تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ آج کے ایک اعلان کے متعلق ہے جو مصری صاحب کے میں شمولیت کی ممانعت لیکچر کے متعلق کسی نے کیا ہے اور جس میں ایک فقرہ یہ لکھا ہے کہ میری طرف سے جماعت کے دوستوں کو اجازت ہے کہ ان کے لیکچر میں شامل ہوں حالانکہ ان امور میں اجازت اور عدم اجازت کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ یہ امور انسان کے قلب سے تعلق رکھتے ہیں.ایک شخص اگر میرے پاس آئے اور کہے کہ مجھے آپ کے متعلق بعض جیہات ہیں اور میں نے آپ کو بینات و شواہد سے نہیں مانا تھا بلکہ سنی سنائی باتوں پر اعتبار کر کے مانا تھا اب میں چاہتا ہوں کہ دوسرے فریق کی بھی باتیں سنوں اور دیکھوں کہ وہ کیا کہتا ہے تو شرعاً

Page 38

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اور ا خلاقاً مجھے کوئی اختیار نہیں کہ میں اسے روکوں.اگر کسی کو میری خلافت کے متعلق شبہ ہے تو اس کو نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے متعلق یہ پسندیدہ امر ہے کہ وہ وہاں جائے اور باتوں کا موازنہ کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن لوگوں نے تحقیق کر لی ہے اور قرآن وحدیث کے ماتحت میری بیعت کی ہے اور میری صداقت میں انہیں کسی قسم کا بہ نہیں وہ بھی وہاں جائیں اور تماشہ کے طور پر ان کے لیکچر میں بیٹھیں.اگر ایسا جائز ہوتا تو ہمیں نظر آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر بحث کے موقع پر پہنچ جاتے اور فرماتے کہ آؤ ہم تحقیق کریں اسلام سچا ہے یا نہیں ؟ یہودی لیکچر دیتے تو ان میں چلے جاتے کہ شاید یہودی مذہب سچا ہو، عیسائی لیکچر دیتے تو وہ سننے چلے جاتے اور کہتے کہ تحقیق کرنی چاہئے.مگر کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی مجالس میں گئے ہوں بلکہ آپ اگر فرماتے ہیں تو یہ کہ ادْعُوا إلى اللهِ تَكَ عَلَى بَصِيرَة آنا و مَنِ اتَّبَعَنِي کے میں نے خدا کو دیکھ کر مانا ہے مجھے مزید تحقیق کی کیا ضرورت ہے.پس جس نے مجھے مانا اور تحقیق کر کے مانا ہے اسے تماشہ کے طور پر وہاں جا کر وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کا جانا بے فائدہ اور لغو ہے.ہاں جس نے ابھی تک تحقیق نہیں کی اسے یقیناً جانا چاہئے.دوسرے انہوں نے وہی بات کی ہے جو شیخ عبدالرحمن مصری کا لغومطالبہ حروری شے کیا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ایک اچھی بات کہتے مگر ارادہ فساد اور شرارت کا ہوتا.جیسے کل ہی میں نے بتایا تھا کہ وہ حضرت علی کی مجلس میں آجاتے اور نعرہ لگاتے کہ لَاحُكْمَ إِلَّا لِلهِ کہ حکم اللہ کا ہے اور مسلمانوں کو آپس میں مشورہ کر کے کام کرنا چاہئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سنتے تو فرماتے كَلِمَةُ الْحَقِّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ بات تو تم سچی کہتے ہو مگر تمہاری غرض فتنہ و فساد ہے.اسی طرح مصری صاحب نے مجھے انہی دنوں چٹھی لکھی کہ مجھے جلسہ سالانہ میں دو دن دو دو گھنٹے لیکچر کیلئے وقت دیا جائے اور اگر آپ نہ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نہیں چاہتے کہ سچ ظاہر ہو.میں نے انہیں لکھا کہ اگر ہم آپ کو اجازت دے دیں تو پھر ہر مذہب والا ہمیں کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی دود و گھنٹہ وقت دیا جائے اور اس طرح اگر ہم دو دو گھنٹے ہر مذہب والے کو دینے لگیں تو ہماری اپنی تقریروں کیلئے کونسا وقت باقی رہے اور اگر ہم نہ دیں تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم سچ چھپانا چاہتے ہو.آریہ کہیں گے تم نے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا اس لئے معلوم ہوا کہ تمہیں سچائی سے غرض نہیں ، عیسائی کہیں گے کہ

Page 39

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہمیں چونکہ وقت نہیں ملا اس لئے معلوم ہوا کہ تمہیں صداقت معلوم کرنے کی کوئی تڑپ نہیں ، سکھ کہیں گے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا گیا اس لئے معلوم ہوا کہ احمدی سچ چھپانا چاہتے ہیں.پس چونکہ اس طرح ہر ایک کو وقت دے کر ہمارے لئے کوئی وقت نہیں بچتا اور یوں بھی یہ مطالبہ بالکل لغو ہے اس لئے میں نے انہیں لکھا کہ یہ طریق درست نہیں آپ الگ بے شک تقریریں کریں میں آپ کو نہیں روکتا.باقی ہمارے جلسہ کے ایام میں میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی اور جلسہ کے کرنے کی اجازت آپ کو حکومت کی طرف سے ملے یا نہ ملے کیونکہ ۱۹۳۴ء میں احرار کے جلسہ کے وقت ہمیں یہ نوٹس دیا گیا تھا کہ ہم ان کے جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہیں کر سکتے حالانکہ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے اور ہم اس میں ہر وقت جلسہ کرنے کا حق رکھتے ہیں.میں نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں لکھا کہ محکمہ کی اس معاملہ میں گورنمنٹ سے بحث ہو رہی ہے مگر انہوں نے اس کے یہ معنی نکال لئے کہ گویا انہیں ہماری طرف سے ان دنوں تقریر کرنے کی اجازت ہے.حالانکہ گورنمنٹ سے ہماری یہ بحث ہو رہی ہے کہ تم نے احرار کے جلسہ کے ایام میں ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم اس جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہ کریں.پس اسی حکم کی بناء پر ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہی حق ہمارے متعلق تسلیم کیا جائے اور جب ہمارا جلسہ ہو تو اس سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ ہو.پس مصری صاحب کا ۲۹.دسمبر کو کوئی جلسہ منعقد کرنا اور اس میں اپنا لیکچر رکھنا درحقیقت اس حق کے خلاف ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق حکومت سے تھا مجھے مصری صاحب کو اس بارہ میں کچھ کہنے کی ضرورت نہ چونکہ کا سےتھا کو اس بارہ میں کی ضرورت نہ یہ صاف بات ہے کہ اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ دوسرے کی حق بات بھی نہ سنو تو یہ جبر ہوگا اور جبر اسلام میں جائز نہیں.پس جو شخص ابھی حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے یا تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہاں جائے مگر جو شخص تحقیق کر چکا ہے اور عَلى وَجْهِ الْبصیرت اُس نے میری بیعت کی ہے ہم اس کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ وہاں جائے.سوائے اس کے کہ وہ مباحث یا مناظر ہو یا مباحث و مناظر کا مددگار ہو.مؤمن کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور نہ وہ کوئی بے فائدہ اور لغو کام کرتا ہے اگر میں اس قسم کی دعوتیں قبول کرنا شروع کر دوں تو مجھے روزانہ چٹھیاں آنی شروع ہو جائیں کہ آج فلاں جگہ ہماری تقریر ہے آپ اس میں ضرور شریک ہوں.دوسری جگہ ہمارا جلسہ ہے آپ بھی آئیں اور سنیں اور اگر ایسی چٹھیاں آئیں تو میرا ایک ہی

Page 40

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی جواب ہو گا اور وہ یہ کہ میں نے علی وجہ البصیرت احمدیت کی صداقت کا مشاہدہ کر لیا ہے.پس دوسری بات میرے لئے پیدا ہی نہیں ہو سکتی.کیا دنیا میں تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص نے دوسرے سے کہا ہو کہ آؤ ہمارے ساتھ چلو فلاں جگہ بحث ہوگی کہ تمہاری جو بیوی ہے وہ تمہاری ہی بیوی ہے یا کسی اور کی.کون اُتو ہے؟ جو ایسے شخص کے ساتھ چلے گا وہ تو کہے گا کہ میرے لئے یہ بات اُسی وقت سے حل شدہ ہے جب سے وہ میرے گھر میں بس رہی ہے.(الفضل ۲۰ / دسمبر ۱۹۳۸ء) آج جس مضمون کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ عجیب نوعیت کا ہے یعنی ایسا ہے کہ اگر چاہوں تو ایک فقرہ کہہ کر بیٹھ جاؤں اور مضمون ختم ہو جائے اور اگر چاہوں اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کئی دن بارہ بارہ گھنٹے تقریریں ہوتی رہیں مگر یہ مضمون ختم نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں چار پانچ گھنٹے میں ایک حد تک اس مضمون کو بیان کر دوں.سو وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس آخری اور وسطی طریق کو ہی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وَ اللهُ الْمُوَفِّقُ سب سے پہلے میں جماعت کو اس امر کی ، قومی زندگی کے قیام کے اصول طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعت کو یہ امرا چھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دو اصول ایسے ہیں جو دنیا میں ہمیشہ سے کارفرما ہیں اور قومی زندگی کبھی ان دو اصول کے بغیر قائم نہیں رہتی.آدم سے لے کر اس وقت تک دینی کیا اور دنیوی کیا، عقلی کیا اور علمی و عملی کیا، کوئی تحریک ایسی نہیں جو حقیقی طور پر اُس وقت تک کامیاب ہوئی ہو جب تک کہ یہ دو باتیں اس کے ساتھ شامل نہ ہوں.اول اصول یہ ہے کہ کوئی ہر تحریک کے ساتھ ایک پیغام کی ضرورت تحریک دنیا میں حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں کوئی نیا پیغام نہ ہو یعنی وہ کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش نہ کر رہی ہو جو پہلے کسی کو معلوم نہ ہو.یا کم سے کم یہ کہ اُس وقت کے لوگ اُسے بُھول چکے ہوں.مثلاً ہمارے اس ملک میں ایسی انجمنیں کامیابی سے چلتی ہیں جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو تحریک کریں کہ لڑکوں کو سکول بھیجنا چاہئے ، کیونکہ ہمارے ملک میں لڑکے عام طور پر سکول نہیں جاتے لیکن لنڈن یا برلن میں اگر کوئی اس قسم کی انجمن بنے جس کی غرض لوگوں کو یہ تحریک کرنا ہو کہ تم بچے سکولوں میں پڑھنے کیلئے بھیجا کرو تو وہ بھی نہیں چلے گی کیونکہ لوگ کہیں گے جب ہم میں.

Page 41

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہر شخص اپنے لڑکے کو سکول بھیج رہا ہے تو اس انجمن کے معرضِ وجود میں لانے کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن اگر وہاں کوئی انجمن ایسی بنے جو یہ کہے کہ فلاں قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو نہ دلاؤ بلکہ فلاں قسم کی تعلیم دلاؤ تو چونکہ اس میں ایک نیا پیغام ہوگا اس لئے اگر وہ تحریک مفید ہوگی تو اُسے پیش کرنے والی انجمن مقبول اور کامیاب ہو سکے گی.غرض وہی تحریکات دنیا میں کامیاب ہوا کرتی ہیں جن میں کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہو جو اُس وقت دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہو یا بالکل نئی ہو.اس امر کو یورپ والے پیغام کا نام دیتے ہیں.میں جب یورپ گیا تو عام طور پر مجھ سے یہی سوال کیا جاتا تھا کہ احمدیت کا پیغام دنیا کے نام کیا ہے یعنی احمدیت کے وہ کون سے اصول ہیں یا احمدیت کی تعلیم میں وہ کونسی بات ہے جو دنیا کو معلوم نہ تھی اور احمدیت اُسے پیش کرتی ہے یا جس کی طرف دنیا کو پوری توجہ نہیں اور وہ اس کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہے؟ قرآن کریم بھی اس اصل کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے.فَامَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ، كَذلِكَ يَضْرِبُ الله الامثال کے کہ جھاگ اور میل چونکہ بے فائدہ چیزیں ہیں وہ اُٹھا کر پھینک دی جاتی ہیں.مگر جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہو جیسے پانی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے.كَذَلِكَ يَضْرِبُ الله الامثال اللہ تعالیٰ اسی طرح حقائق لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتا ہے.مأموریت کا مدعی جو اپنے دعوئی میں اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامیاب ہو جائے کبھی جھوٹا نہیں ہوتا نے یہ اول پیش کیا ہے کہ ہرمردی جس کا دعوی دنیا میں مانا جا کر مدتوں تک قو میں اس کی تعلیم پر عمل کرتی چلی گئی ہوں یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.بعض نا واقف اور جاہل مولوی کہا کرتے ہیں کہ آپ نے یہ اصل کہاں سے اخذ کیا ؟ ایسے لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے صرف اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا آیت اور اور کئی آیات سے یہ اصل مستنبط ہوتا اور قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہرایسا مذ ہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرے اور پھر سینکڑوں سال تک دنیا میں قائم رہے اور ہزاروں انسانوں کو

Page 42

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی روحانی زندگی بخشتار ہے جھوٹا نہیں ہو سکتا.اور اس کے متعلق یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا.اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندرا اور حضرت بُدھ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.پس مخالفین کا یہ اعتراض کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے صرف قرآنی علوم سے ان کی بے خبری کا ثبوت ہے ورنہ اسی آیت میں جو اس وقت میں نے پڑھی ہے اور اور کئی آیات میں یہ اصل موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَامَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء کہ جو بے فائدہ چیز ہوگی وہ ضائع ہو جائے گی.واما مَا يَنْفَعُ النّاس فَيَمْكُتُ في الأرضِ مگر جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہو وہ قائم رہے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنا نفع مند چیز ہے.افتراء یقیناً انسان کو ہلاک کرنے والا فعل ہے اور اس کا دنیا میں جڑھ پکڑ جانا تو الگ رہا اللہ تعالیٰ تو مفتری کو عذاب دیئے بغیر نہیں چھوڑتا.پس اگر کوئی تحریک دنیا میں کامیاب طور پر قائم رہتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یقیناً دنیا کیلئے کوئی ایسا پیغام لاتی ہے جو مفید ہے اور یہ خیال کہ ایک کذاب اور مفتری بھی ایسا پیغام لاسکتا ہے جو لوگوں کیلئے دینی رنگ میں مفید ہو اور دنیا میں قائم رہے کسی احمق کے ذہن میں ہی آئے تو آئے کوئی دانا ایسا خیال نہیں کر سکتا.دوسرا اصل جو دنیا میں رائج ہے اور جو اصلاح کا ذریعہ صلح یا جنگ ہے.رہی اور دنیوی دونوں قسم کی تحریکوں کی مذہبی کامیابی کیلئے ضروری ہوتا ہے یہ ہے کہ اصلاح کے ہمیشہ دوذ رائع ہوتے ہیں یا صلح یا جنگ.یعنی یا تو صلح کے ساتھ وہ پیغام پھیلتا ہے یا جنگ اور لڑائی کے ساتھ پھیلتا ہے.یا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ باتیں دنیا میں پھیلا دی جاتی ہیں لوگ اُن پر بخشیں کرتے ہیں اور آخر لوگ انہیں اپنا لیتے ہیں اور اپنے عقائد میں شامل کر لیتے ہیں.جیسے دنیا میں پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے بلکہ اب تک بھی بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو زمین کو گول نہیں سمجھتے بلکہ چپٹی سمجھتے ہیں.چنانچہ میں ایک دفعہ لا ہور گیا اور اسلامیہ کالج کے ہال میں میں نے لیکچر دینا شروع کیا تو ایک شخص میرے لیکچر میں ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.سوال جواب کا بھی موقع دیا جائے گا یا نہیں ؟ پریذیڈنٹ نے پوچھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے اور مجھ

Page 43

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی سے اس بات پر بحث کر لی جائے.انہوں نے کہا کہ اس لیکچر میں زمین کے گول یا چیپٹے ہونے کا ذکر نہیں.وہ کہنے لگا ہو یا نہ ہوا ایسی اہم بات کا ذکر کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے؟ غرض اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں مگر بہت کم لیکن پہلے زمانہ میں سوائے مسلمانوں کے قریباً سب لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے.مسلمانوں میں البتہ زمین کے گول ہونے کا خیال رائج تھا اور یورپ کے لوگ اس کے مخالف تھے.چنانچہ جس وقت زمین کے گول ہونے کا سوال اُٹھا یورپ کے لوگوں نے اس کا نہایت سختی سے انکار کیا اور اس کی مخالفت کی مگر مسلمانوں میں یہ خیال دیر سے قائم تھا اور انہی سے اس قسم کی باتیں سُن کر کولمبس 2 کو امریکہ کی دریافت کا خیال پیدا ہوا تھا کیونکہ کولمبس کسی مسلمان کا شاگرد تھا اور وہ مسلمان حضرت محی الدین ابن عربی کے مُرید تھے جنہوں نے اپنے بعض رؤیا و کشوف کی بناء پر اپنی کتابوں میں یہ لکھا تھا کہ سپین کے سمندر کے دوسری طرف ایک بہت بڑا ملک ہے اور چونکہ مسلمانوں میں زمین کے گول ہونے کا خیال جڑ پکڑ رہا تھا حضرت محی الدین ابن عربی کے مُرید خیال کرتے تھے کہ غالبا ہندوستان ہی کی طرف آپ کے کشف میں اشارہ ہے.کولمبس نے ان روایات کو سنا تو اُس کے دل میں جوش پیدا ہوا کہ وہ اس سمندر کی طرف سے ہندوستان پہنچے مگر چونکہ اس سفر کیلئے روپیہ کی ضرورت تھی اور روپیہ کولمبس کے پاس تھا نہیں اس لئے اُس نے بادشاہ کے سامنے یہ سوال پیش کیا اور ملکہ کے پاس بھی بعض بڑے آدمیوں کی سفارش پہنچائی تا ملکہ بادشاہ پر اپنا اثر ڈالے.ملکہ کو یہ تجویز پسند آئی ، اُس نے خیال کیا کہ اگر اس مہم میں کامیابی ہوئی تو ہمارے ملک کو بہت فائدہ پہنچے گا.پس اس نے بادشاہ کے پاس سفارش کرنے کا وعدہ کیا اور سفارش کی بھی لیکن جب بادشاہ نے امرائے دربار سے مشورہ کیا تو پوپ کے نمائندہ نے اس خیال کی سخت تضحیک کی اور اُس نے کہا کہ یہ خیال کہ زمین گول ہے سخت احمقانہ ہے بلکہ مذہب کے خلاف ہے اور ایسے احمق اور بیوقوف کو روپیہ دینا علم سے دشمنی ہے.اُس نے ایک پُر زور تقریر کے ذریعہ سے کولمبس کے خیال کی تغلیط کی اور بتایا که کولمبس یا خود پاگل ہے یا ہمیں پاگل بنانا چاہتا ہے.اگر زمین گول ہے اور ہندوستان ہماری دنیا کے دوسری طرف ہے تو اس کے تو یہ معنی ہونگے کہ کرہ ارض کے دوسری طرف کے لوگ ہوا میں لٹک رہے ہیں.پس کو لمبس یہ کہہ کر کہ زمین گول ہے ہم سے یہ منوانا چاہتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں بسنے والے لوگوں کی ٹانگیں اوپر ہیں اور سر نیچے ہیں.اُس حصہ میں جو درخت اُگتے ہیں اُن کی جڑیں اُوپر ہوتی ہیں اور درخت ہوا میں لٹک رہے ہوتے ہیں اور بجائے

Page 44

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اس کے کہ بارش اوپر سے نیچے گرے اُس علاقہ میں نیچے سے اوپر کی طرف بارش گرتی ہے اور سورج زمین کے اوپر نہیں ہے بلکہ اس علاقہ میں زمین کے نیچے نظر آتا ہے.غرض اُس پادری نے اپنے جاہلانہ خیالات کو ایسی رنگ آمیزی سے بیان کیا کہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ کولمبس دھو کا باز شخص ہے اور دربار نے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا کہ اس شخص کی ہرگز مددنہیں کرنی چاہئے اور کولمبس کا سفر ایک لمبے عرصہ تک کیلئے ملتوی ہو گیا.آخر ملکہ نے اپنی داتی آمد سے اُسے روپیہ دلوایا اور کولمبس نے امریکہ دریافت کیا جس سے سپین والوں کو بہت بڑا فائدہ پہنچا.غرض ایک وہ زمانہ تھا کہ بڑے بڑے عقلمند یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ زمین گول ہے اور اس پر ہنستے تھے لیکن آج بچوں سے بھی پوچھو تو وہ کہہ دیں گے کہ زمین گول ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب جہاز نظر آتا ہے تو پہلے اس کے اوپر کا حصہ نظر آتا ہے پھر نیچے کا اور اس طرح کی کئی اور دلیلیں دیتے جائیں گے.غرض اب دنیا نے اس عقیدہ کو اپنا لیا ہے اور یہ بات رائج ہوگئی ہے.تو بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ دنیا میں مقبول ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ تو اس طرح کہ پہلی بعض چیزوں کو منسوخ کر کے وہ قائم ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس طرح کہ پہلی بھی موجود رہتی ہیں اور نئی بھی اپنی جگہ پیدا کر لیتی ہیں جیسے موٹرمیں اور لاریاں آئیں تو گھوڑے بھی رہے مگر موٹروں اور لاریوں نے بھی اپنی جگہ بنالی.شروع شروع میں جب ریل جاری ہوئی ہے تو انگلستان میں لوگ ریل کے آگے لیٹ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم مر جائیں گے پر اسے چلنے نہیں دیں گے مگر آخر ریل دنیا میں رائج ہوگئی.ٹیلیفون جب مکہ میں لگا تو عربوں نے کہہ دیا کہ یہ شیطان ہے جو مکہ میں لایا گیا ہے اور ابن سعود کی اس قدر مخالفت ہوئی کہ اس کی فوجیں باغی ہونے لگیں.آخر اس نے پوچھا کہ یہ شیطان کس طرح ہو گیا ؟ وہ کہنے لگے شیطان نہیں تو اور کیا ہے جدہ میں ایک شخص بات کرتا ہے اور وہ مکہ میں پہنچ جاتی ہے یہ محض شیطان کی شعبدہ بازی ہے.وہ سخت گھبرایا کہ اب میں کیا کروں؟ آخر ایک شخص نے کہا کہ ان لوگوں کو میں سمجھا دیتا ہوں.چنانچہ ٹیلیفون پر ایک طرف اُس نے عربوں کے اس لیڈر کو کھڑا کیا جو کہا کرتا تھا کہ شیطان بولتا ہے اور دوسری طرف خود کھڑا ہو گیا اور اُس نے پوچھا کہ بتاؤ حدیث میں آتا ہے یا نہیں کہ لاحول سے شیطان بھاگ جاتا ہے؟ اُس نے کہا آتا ہے.پھر اس نے پوچھا کہ اگر کوئی حدیث کا منکر ہو تو وہ کیسا ہے؟ وہ کہنے لگا کافر.اُس نے کہا.اچھا سو! میں لاحول پڑھتا ہوں اور یہ کہ کر لا حول پڑھا اور اس معترض مولوی

Page 45

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی سے کہا کہ اب بتاؤ کہ کیا شیطان یہ لَا حَولَ دوسری طرف پہنچا رہا ہے؟ شیطان کو کہاں طاقت کہ وہ لاحول کو پہنچائے ، وہ تو لا حول سنتے ہی بھاگ جاتا ہے.یہ بات اُس معترض کی سمجھ میں بھی آگئی اور اُس نے لوگوں کو بھی سمجھا دیا کہ یہ شیطان نہیں ہے کوئی اور چیز ہے.غرض کئی تحریکات دنیا میں پیدا ہوتی ہیں.لوگ ان کی مخالفتیں کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور پہلے نظام میں اپنے لئے بھی جگہ نکال لیتی ہیں لیکن بعض ایسی تحریکات ہوتی ہیں جو پہلے نظام کو گلیہ بدل دیتی ہیں اور وہ صلح کر کے پہلے نظام کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ ایک نیا نظام قائم کرتی ہیں اور پہلے نظام یا نظاموں کو توڑ دیتی ہیں.ان کے لئے لڑائیاں لڑی جاتی ہیں جنگیں کی جاتی ہیں (خواہ جسمانی رنگ میں خواہ رُوحانی رنگ میں ) اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا کا امن جاتا رہا مگر آخر اس لڑائی اور جنگ کے بعد وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں پھر امن کا دور دورہ ہو جاتا ہے.مکہ مکرمہ کے ٹیلیفون کے واقعہ کی مناسبت میں مجھے نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے بھی بتایا ہے کہ حیدر آباد کی مسجد میں لاؤڈ سپیکر لگایا گیا تو لوگوں نے گفر کا فتویٰ دے دیا.ہمارے یہاں عورتوں کی جلسہ گاہ میں بھی گل لاؤڈ سپیکر پرفتو کی لگ گیا تھا.بعض عورتیں سٹیج کے قریب آنا چاہتی تھیں اس پر انہیں منظمات جلسہ نے بتایا کہ اب قریب آنے کی ضرورت نہیں یہ جو آلہ لگایا گیا ہے اس سے ہر جگہ آواز پہنچ جائے گی.اس پر وہ کہنے لگیں سانوں تُہاڈے فریب دا پتہ نہیں ؟ اسیں ایڈ یاں ای بیوقوف ہاں؟ بھلا ا یہ ڈھو تو بولے گا ؟ یعنی کیا ہمیں تمہارے فریب کا علم نہیں ہم اتنی بیوقوف نہیں کہ یہ خیال کر لیں کہ یہ ٹین کا پُرزہ بولے گا.گویا انہوں نے اپنی علمیت کی دلیل یہ دی کہ ہم خوب جانتی ہیں یہ ٹین سا جو لگا ہوا ہے یہ نہیں بول سکتا.یہ محض اپنی واقف عورتوں کو آگے بٹھانے کیلئے بہا نہ بنایا گیا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ گھروں میں جا کر اپنی بیویوں کو سمجھا دیں کہ یہ ٹین کا پُر زہ خوب بولا کرتا ہے.گل مستورات نے خوب گشتی کی اور بعض تو پہرہ دار عورتوں کو گرا کر آگے آگئیں اور کہا کہ ہم ایسے فریب میں نہیں آسکتیں.وہ اُن کو سمجھا دیں کہ یہ ہمارا فریب نہیں بلکہ یورپ والوں کا کارآمد فریب ہے جس سے واقعہ میں آواز دُور دُور تک پہنچ جاتی ہے.غرض اصلاح کے دو ذریعے ہیں صلح اور جنگ.یعنی یا تو نئی تحریک کو پرانی تحریک کے ساتھ سموکر اور ملا کر ایک نیا وجود بنا دیا جاتا ہے اور دونوں تحریکیں ایک تحریک ہو کر رہ جاتی ہیں اور

Page 46

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی یا پھر نئی اور پرانی تحریک میں جنگ ہو کر نئی تحریک پُرانی کو اُکھیڑ کر پھینک دیتی ہے اور اپنی حکومت قائم کر لیتی ہے.اوّل قسم کی اصلاح ارتقاء کہلاتی ہے یعنی سہولت سے تغیر ہو جاتا ہے اور لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا.مگر دوسری قسم کی تحریک جس میں لڑائی لڑنی پڑتی ہے اُسے عربی زبان میں انقلاب کہتے ہیں.جیسے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کی مجالس میں نعرے لگائے جاتے ہیں کہ انقلاب زندہ باد “ یہ بھی وہی انقلاب ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ سے کانگرس کو اتنا اختلاف ہے کہ وہ اسے تو ڑ کر نکلی طور پر ایک نئی گورنمنٹ بنائے گی اور وہ کوئی درمیانی راسته قبول کرنے کیلئے تیار نہیں.گو عملی طور پر کانگرس سب کچھ مان گئی ہے اور کئی صوبوں میں اس نے وزارتیں بھی سنبھال لی ہیں.اب صرف عادت کے طور پر انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں جیسے طوطے میاں کو میاں مٹھو کہنے کی عادت ہوتی ہے.ورنہ کانگرس کیلئے انقلاب کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.بہر حال انقلاب کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ موجودہ نظام کو کسی اصلاح یا تبدیلی کے ساتھ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس نظام کو کلی طور پر پھینک دیا جائے گا ، توڑ دیا جائے گا ، تباہ کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم کیا جائے گا.جب یہ انقلاب دینی انقلاب ہو تو اسلامی اصطلاح میں اسے قیامت بھی کہتے ہیں اور اس کا ایک نام خلق السموت و الارض " بھی ہے یعنی نئی زمین اور نیا آسمان بننا.اور ایک نام اس کا السَّاعَةُ بھی ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے روحانی انقلاب کو کبھی قیامت کہا ہے کبھی السَّاعَةُ " کے نام سے یاد کیا ہے اور کبھی نئی زمین اور نئے آسمان کے پیدا کئے جانے کے الفاظ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے.دنیا میں جس قدر تبدیلیاں ہوئی ہیں یا کامیاب تحریکیں ہوئی ہیں ساری اسی رنگ میں ہوئی ہیں اور کوئی عالمگیر تحریک اور دیر تک رہنے والی تحریک ایسی نہیں جس میں دنیا کے لئے پیغام جدید نہ ہوا اور جس میں انقلاب نہ ہو.ارتقائی تحریکات عظیم الشان تحریکوں میں سے نہیں ہوتیں.عظیم الشان تحریکیں جب بھی دنیا میں ہوئی ہیں انقلاب کے ذریعہ سے ہوئی ہیں اور اگر اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم کانگرس سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب زندہ باد.لیکن اس سے ہماری مراد اور ہوگی ان کی مُراد اس لفظ سے اور ہوتی ہے.

Page 47

انوار العلوم جلد ۱۵ پانچ عظیم الشان دُنیوی تحریکیں انقلاب حقیقی اگر دنیوی فتوحات کو دیکھیں تو فتوحات دنیوی کے لحاظ سے بھی وہی حکومتیں دنیا میں دیر تک رہی ہیں اور اُن کا اثر وسیع ہوا ہے جن میں کوئی نہ کوئی پیغام جدید اور انقلاب تھا.یعنی پہلے نظام سے جدا گانہ حیثیت رکھتی تھیں اور نئے اصول پر قائم ہوئی تھیں.اس قسم کی تحریکیں دنیا میں چند ہی گزری ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک تحریک جو ہندوستان میں اُٹھی آرین (ARIAN) کہلاتی ہے یعنی آریوں کی تحریک ، تحریک صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ یورپ پر بھی اس کا اثر تھا.دوسری تحریک جو مغرب میں اُٹھی رومن تحریک تھی.تیسری تحریک جو وسط ایشیا اور چین میں پیدا ہوئی اس کا نام میں ایرانی تحریک رکھتا ہوں.چوتھی تحریک جو مغربی ایشیا اور افریقہ میں پیدا ہوئی اس کا نام میں بابلی تحریک رکھتا ہوں.اور پانچویں تحریک جو موجودہ زمانہ میں نہایت ہی عالمگیر ہے وہ ہے جسے مغربی تحریک کہتے ہیں.دنیا کی معلومہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی پانچ تحریکیں مادیات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت مہتم بالشان اور عالمگیر تحریکیں گزری ہیں.یعنی آرین تحریک، رومن تحریک، ایرانی تحریک، بابلی تحریک اور مغربی تحریک.ان پانچوں تحریکوں کے پیچھے ایک نیا فلسفہ تھا اور ایک نئی تہذب تھی.صرف یہی نہیں تھا کہ بعض قوموں نے تلوار میں پکڑیں اور چند ملک فتح کر لئے بلکہ ان تحریکات کے بانیوں نے اپنے سے پہلے نظام کو تہہ و بالا کر دیا اور ان کی جگہ ایک جدید تہذیب کی بنیاد ڈالی یا نئے علوم کا دروازہ کھولا اور گو ان نئی تحریکوں کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر حکومت کھو بیٹھے اور ان کی جگہ دوسری قوموں نے لے لی مگر ان کو شکست دینے والے اور تباہ کرنے والے ان کے خیالات اور ان کے فلسفہ سے آزاد نہیں ہو سکے.سیاسی غلامی جاتی رہی مگر ذہنی اور علمی غلامی قائم رہی اور حقیقی حکومت انہی کی رہی اور اسی فتح اور کامیابی کو پیغام جدید یا انقلاب کے نام سے پکارا جاتا ہے.بظاہر آرین اور قدیم ایرانی اور رومن اور بابلی حکومتیں کچھ عرصہ کے بعد دُنیا سے مٹ گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بعض کسی نہ کسی رنگ میں اب تک بھی دنیا میں موجود ہیں اور بظاہر ان سے نفرت کرنے والے لوگ بھی حقیقتا ان کی غلامی کا جوا گردنوں پر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان کے بعد میں آنے والی حکومتیں در حقیقت عمال کی تبدیلی کا

Page 48

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ایک مظاہرہ تھیں ورنہ اصولِ حکومت وہی تھے جو ان مشہور تحریکات نے جاری کئے تھے.بغاوت اس تہذیب کے آخری زمانہ کے علمبرداروں کے خلاف تھی اس تہذیب کے خلاف نہ تھی.جو تبدیلی ہوئی وہ یہی تھی کہ اس تہذیب کا جھنڈا ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں آ گیا.بعض دفعہ جھنڈے کا رنگ تھوڑا سا تبدیل کر دیا گیا.بعض دفعہ جھنڈے کو زیادہ لمبا یا چھوٹا کر دیا گیا مگر حقیقت وہی رہی جو پہلے تھی.رومن امپائر (ROMAN EMPIRE) کے بعد کے تغیرات جو مغرب میں ہوئے اگر دیکھا جائے تو رومن تہذیب کی تبدیل شدہ صورت ہی تھے اور ایرانی تہذیب کے بانیوں کے بعد کی حکومتوں میں صاف ابتدائی ایرانی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے.آرین بانیانِ تہذیب کے بعد بدھ جین وغیرہ کئی قسم کے لوگوں نے حکومتیں کیں لیکن آرین ٹھپہ سب کے دامن پر موجود تھا.بابل کی حکومت کے بعد عرب، شام، مصر وغیرہ ممالک میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں ،کئی بغاوتیں ہوئیں لیکن باہلی اثر نہ مٹنا تھا نہ مٹا.اب مغربی تہذیب دُنیا پر غالب ہے.ایشیا اور افریقہ اس کے جوئے سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں.اس سے پہلے امریکہ کے دونوں بر اعظم کا میاب کوشش کر چکے ہیں.جاپان ایشیا کے ایک طرف اور ترکی دوسری طرف کامیاب کوشش کر چکے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہوا ہے؟ صرف حاکم بدلے ہیں حکومت نہیں بدلی بلکہ ترک اور جاپانی تو آزادی کے بعد مغربیت کے پہلے سے بھی زیادہ شکار ہو گئے ہیں.آج ہندوستان آزادی کیلئے تڑپ رہا ہے ، اس کے نوجوان اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے کھڑے ہیں تا اپنے ملک کو بیرونی حکومت سے آزاد کرا دیں.لیکن ان کی جد و جہد اسی حد تک محدود ہے کہ انگلستان کے مغربی کی جگہ ہندوستان کا مغربی لے لے اس سے زیادہ اس جد و جہد میں کوئی مقصد نہیں.مسٹر گاندھی نے کھڈ رکالباس پہن کر اس امر کا اظہار کرنا چاہا ہے کہ گویا وہ اس تہذیب کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن حقیقت سے واقف جانتے ہیں کہ ڈھانچہ وہی ہے صرف سکاٹ لینڈ کے ورسٹڈ (WORSTED) کی جگہ اسے کھڈ رکالباس پہنا دیا گیا ہے.یا بقول مسیح پرانی شراب نئے مٹکوں میں ڈال دی گئی ہے اس سے زیادہ کوئی تغیر نہیں ہوا.اب میں ان پانچوں تحریکوں کی کسی قدر تفصیل بیان کرتا ہوں تا کہ آپ لوگ سمجھ جائیں کہ یہ پانچ دور تہذیب کے دنیا کیلئے کیا پیغام لائے تھے اور کیا مفید چیز انہوں نے دنیا کو دی تھی جس

Page 49

انوار العلوم جلد ۱۵ سے وہ سینکڑوں ہزاروں سال کی جد وجہد کے بعد بھی آزاد نہیں ہو سکی.انقلاب حقیقی جدید نسلی امتیاز یادرکھنا چاہئے کہ آرین تہذیب کی بنیاد آرین تحریک کا پیغام جدید نسلی امتیاز يوجينکس (EUGENICS) پر تھی یعنی ان کی ساری بنیاد اس امر پر تھی کہ سب انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ انسانوں انسانوں میں فرق ہوتا ہے.کوئی اعلیٰ ہوتا ہے تو کوئی ادنی.جیسے کوئی امیر ہوتا ہے تو کوئی غریب، کوئی مضبوط ہوتا ہے تو کوئی کمزور ، کوئی اچھے دماغ کا کوئی بُرے دماغ کا اور یہ کہ اس فرق کو خاص حالات کے ماتحت پائیدار بنایا جا سکتا ہے.اور دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ انسانوں میں سے جو اعلیٰ ہوں انہیں آگے کیا جائے تاکہ نسلِ انسانی اعلی کمالات تک پہنچ سکے.وہ کہتے ہیں کہ ایک مضبوط باپ کا بیٹا ضرور مضبوط ہوگا اور کمزور باپ کا بیٹا کمزور ہو گا.اب اگر باپ کی وجہ سے جسم اعلیٰ بن سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دماغ اعلیٰ نہ بنے ؟ پس اگر اچھے دماغ والا باپ ہوگا اور اچھے دماغ والی ماں ہو گی تو ان کا بیٹا بھی یقیناً اچھے دماغ والا ہوگا.اس صورت میں اگر اس شخص سے جو نسل چلے وہ ہمیشہ اپنی قوم میں ہی شادیاں کرتی رہے تو ان کی قوم دوسری اقوام سے ضرور اعلیٰ ہوگی.یہ آرین تہذیب جہاں بھی گئی ہے اس نے اپنی حکومت کو اسی بنیاد پر رکھا ہے یعنی اس نسلی امتیاز پر جو عقلی اور دماغی اور مذہبی دائروں پر حاوی تھا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک برہمن کا لڑ کا علم کے لحاظ سے ہمیشہ دوسروں پر فوقیت رکھے گا ، ایک کھتری کا لڑ کا سپہ گری کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھے گا اور جب ایک قوم جسے نسلی امتیاز کی وجہ سے برتری حاصل ہوگی آپس ہی میں شادیاں کرے گی تو وہ دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکے گی اس لئے ان کا مذہب بھی اسی تحریک کے ماتحت چلتا ہے مثلاً وید آئے تو انہوں نے یہ حکم دے دیا کہ اگر شو در وید کوسن بھی لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے.یہ برہمن کا حق ہے کہ وہ وید سنے یا کھتری اور دیش کا حق ہے کہ وید سُنے.شودر کا کیا حق ہے کہ وید سُنے گویا ان کے مذہب میں بھی یہی تحریک شامل ہوگئی.پھر یہ جو وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان دنیا میں واپس آتا ہے اور مختلف جونوں میں ڈالا جاتا ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہ عقیدہ بھی اسی فلسفہ کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ نسل کے درجہ کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ رُوحیں اس میں شامل ہوتی رہیں اور اس کا طریق انہوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہر قوم میں جو اعلیٰ اور نیک روحیں ہیں وہ مرنے کے بعد برہمن

Page 50

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کے گھر جنم لیتی ہیں اور جو سپاہیانہ طاقت رکھتی ہیں وہ کھتریوں کے ہاں اور جو تاجرانہ لیاقت رکھتی ہیں وہ ولیش کے ہاں جنم لیتی ہیں اور جو خراب اور ناکارہ ہیں وہ شودروں کے ہاں جنم لیتی ہیں.اس عقیدہ سے انہوں نے ادنی اقوام کی بغاوت کے امکان کو ڈ ورکر دیا کیونکہ اگر شودروں کو یہ کہا جاتا کہ تم ہمیشہ کیلئے شودر ہی رہو گے تو ممکن تھا کہ وہ بغاوت کرتے.یا اگر کھتریوں کو کہا جاتا کہ تمہارا کام صرف جان دینا ہے تو وہ برہمن حکومت کے خلاف کھڑے ہو جاتے.پس انہیں اس عقیدہ کے ذریعہ سے خاموش کرا دیا گیا تا کہ وہ لوگ برہمن فوقیت کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیں کیونکہ انہیں یقین دلا دیا گیا کہ در حقیقت برہمن یا کھتری یا ولیش یا شود را یک نسل نہیں ہیں بلکہ یہ تو عہدے ہیں جو اچھی یا بری رُوحوں کو ملتے ہیں.اب جس طرح ایک جمعدار کو ایک رسالدار کے خلاف، ایک رسالدار کو ایک لفٹنٹ کے خلاف شکوہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے بوجہ لیاقت یہ عہدہ ملا ہے اور جب میں لیاقت دکھاؤں گا تو یہ عہدہ مجھے بھی مل جائے گا اسی طرح ایک شودر کو ولیش کے، ایک ولیش کو کھتری کے اور ایک کھتری کو ایک برہمن کے خلاف شکوہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جنم تو گزشتہ اعمال کے نتیجہ میں ملے ہیں.اگر ایک شود راچھے اعمال کرے گا تو اگلے جنم میں وہ برہمن کے گھر پیدا ہو جائے گا اور خراب برہمن شودر کے گھر پیدا ہوگا.اس طرح تفوّق کو قائم رکھتے ہوئے بھی آرین تہذیب کے بانیوں نے اس تفوق کے خلاف بغاوت کے امکانات کو مٹا دیا اور ایک خیالی امید دوسری قوموں کے دِلوں میں ایسی پیدا کر دی کہ وہ اس کھلونے کے ساتھ کھیلنے میں مشغول رہے اور اپنے حقیقی درد اور دُکھ کو بالکل پھول گئے.یہی وجہ ہے کہ باوجود انتہاء سے بڑھے ہوئے نسلی ظلم کے ہزاروں سال سے ادنی کہلانے والی اقوام اپنی حالت پر قانع ہیں کیونکہ تناسخ نے ہر شودر کی نگاہ میں اس کی نسلی تذلیل کا زمانہ صرف اس کی موجودہ جون کے زمانہ میں محدود کر دیا اور ہر شو در جس کے دل میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کے خیالات اُٹھتے ہیں یہ خیال کر کے خاموش ہو جاتا ہے کہ میں اس جون میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آیا ہوں ورنہ شاید میں بھی پہلے برہمن ہی تھا اور اب برہمنوں کو خوش کر کے شاید آئندہ زمانہ میں میں بھی برہمن بن جاؤں گا.پس جس رتبہ کے حصول کی امید مجھے لگی ہوئی ہے میں اپنے ہاتھوں اس رتبہ کی عزت کم کر کے کیوں اپنی آئندہ ترقی کے امکانات کو کم کروں.حقیقت یہ ہے کہ نسلی تفوق کی حفاظت کیلئے تناسخ کے مسئلہ کی ایجاد ایک اعلیٰ دماغ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے اور اگر اس کی وجہ سے کروڑوں بنی نوع انسان کو ہزاروں سال کی غلامی

Page 51

انوار العلوم جلد ۱۵ میں مبتلا نہ کر دیا گیا ہوتا تو یقیناً اس قابل تھا کہ اس کی داد دی جاتی.بنیاد انقلاب حقیقی رومن تہذیب کی (۲) رومن تہذیب کی بنیاد قانون پر اور انسانی حقوق پر تھی.چنانچہ اس تہذیب کے علمبرداروں قانون اور حقوق انسانی نے اول اول انسانی حقوق کو تسلیم کیا اور ایسی بنیاد رکھی کہ اگر کسی کو کوئی سزا دینی ہو تو قانون کے ماتحت دی جائے.اس طرح وہ سیاست کو قانون کے ماتحت لائے اور انہوں نے ایسے اصول بنائے جن سے ایک نظام کے ماتحت انسانوں پر حکومت کی جا سکے.یہی وجہ ہے کہ رومن لا ءاب تک مغرب میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کے اصول سے آج بھی قانون دان فائدہ اُٹھا ر ہے ہیں.(۳) ایرانی تہذیب کی بنیاد ایرانی تہذیت کا پیغام اخلاق و سیاست اخلاق اور سیاست پر ہے.اسی وجہ سے ان میں خدا تعالیٰ کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کیلئے ممکن نہیں کہ وہ گناہ جیسی گندی شے کو پیدا کرے اس لئے دراصل دو خدا ہیں ایک نیکی کا اور ایک بدی کا.گویا اخلاق کو انہوں نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے لئے یہ امر نا قابل تسلیم ہو گیا کہ ایک غیر اخلاقی امر کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائے لیکن چونکہ گناہ دُنیا میں موجود تھا انہوں نے یہ فلسفہ ایجاد کیا کہ گناہ کا پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہونا چاہئے جو قابل پرستش نہیں بلکہ قابل نفرت ہو.دوسرا فلسفہ جس پر ایرانی تہذیب کی بنیاد تھی تعاون با ہمی کا فلسفہ تھا.یہی وجہ ہے کہ ایرانی تہذیب نے پہلے پہلے اُس خیال کی بنیاد رکھی جسے امپائر یا شہنشاہیت کہتے ہیں.یعنی سے پہلے اسی نظام نے باہمی تعلق رکھنے والی آزادحکومتوں کے اصول کو ایجاد کیا اور اسے تکمیل تک پہنچایا.در حقیقت یہ خیال بھی ثانویت کے عقیدہ کے نتیجہ میں پیدا ہوا.جب انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ دو خدا ہیں جو آزاد بھی ہیں لیکن پھر ایک دوسرے سے بڑا بھی ہے تو اس کے ماتحت انہوں نے دنیا میں بھی ایسا نظام ایجاد کیا کہ ایک بڑا بادشاہ ہوا اور بعض اس سے چھوٹے بادشاہ ہوں جو آزاد بھی ہوں اور پھر ایک بالا طاقت کے ماتحت بھی ہوں ، اور اسی عقیدہ سے شہنشاہیت کے خیال کو نشو و نما حاصل ہوئی.ہندوستان یا دوسرے ممالک میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی کہ ایک زبر دست بادشاہ ایک

Page 52

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کمزور اور چھوٹے سے بادشاہ کی اس لئے اطاعت کرتا ہے کہ وہ کمزور بادشاہ اس کا شہنشاہ ہے.یہ صرف ایرانی فلسفہ کی ایجاد ہے اور اس سے در حقیقت امن کے قیام کے لئے ایک نیا راستہ کھولا گیا ہے.ایرانی تاریخ میں بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ اصل بادشاہ کمزور ہو گیا ہے اور ماتحت بادشاہ بہت طاقت پکڑ گئے ہیں لیکن شہنشاہ کی آواز پر سب امداد کیلئے موجود ہو گئے ہیں.آج کی برطانوی امپائر اور آخری زمانہ کی خلافت عباسیہ در حقیقت اسی فلسفہ کی نقلیں تھیں اور خلافت عباسیہ کے آخری دور کو اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس کے وجود کی بنیاد اس امر پر تھی کہ درحقیقت اس کے تابع حکومتیں یا ایرانی تھیں یا ایرانی تہذیب کی خوشہ چیں تھیں اور چونکہ ان کے رؤساء اس خیال کے نسلی طور پر قائل چلے آتے تھے اس لئے باوجود طاقتور ہونے کے وہ خلافت کے برائے نام جھوٹے کو اٹھائے ہوئے تھے.(۴) چوتھی تہذیب بابلی تہذیب بایلی تہذیب کی بنیاد علم ہندسہ اور ہیئت : ہے اس کی بنیاد علم ہندسہ اور ہیئت پر رکھی گئی تھی.اس کے بانیوں کا خیال تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے سورج، چاند اور پرا.تارے بنائے ہیں اور ایک نظام دنیا میں جاری کیا ہے انسانی ترقی اس نظام کی نقل کرنے سے ممکن ہے اس لئے ہمیں نظامِ شمسی پر غور کر کے اور اس کے راز معلوم کر کے اس کی اتباع کرنی چاہئے.(۵) پانچویں تہذیب یعنی مغربی تحریک کا پیغام مادیت اور قوم پرستی معرفی تحریک کی بنیاد مادربست اور قوم پرستی پر ہے.پانچوں تحریکوں کی مزید تشریح اختصاراً پانچوں مادی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد اب میں ان کے بنیادی اصولوں کے نتائج کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.آرین تہذیب چونکہ نسلی امتیاز اور تفوق پر مبنی تھی باوجود بہت وسعت پا جانے کے کبھی کوئی امپائر نہ بناسکی.نیز نسلی امتیاز کی وجہ سے ان میں وہ اتحاد بھی پیدا نہ ہو سکا جو ایرانیوں میں تھا.اس کے مقابلہ میں رومن امپائر نے ترقی کی کیونکہ اس کے سیاسی اصول ایسے تھے کہ قوموں کو مفتوح

Page 53

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کرنے کے باوجود وہ ان سے تعلق رکھ سکتی تھیں اس لئے رومن تحریک مستقل ارتقائی منازل طے کرتی چلی گئی اور ارتقائی فلسفہ کی بانی ہوئی.ایرانی تہدیب نے وسیع امپائر کی بنیاد رکھی جس کے ٹکڑے اپنے اپنے دائرے کے اندر آزاد تھے اور پھر ایک سردار کے ماتحت تھے.تمام ایرانی حکومتوں میں یہ بات پائی جاتی.ہے.یہ حکومت در حکومت کا احساس ان کے اندرا ہرمن اور یزدان کے خیال سے پیدا ہوا.بابلی تحریک کیمسٹری اور ہیئت پر مبنی تھی اور اس وجہ سے تعمیر اور تنظیم میں اسے خاص شغف تھا اور گو یہ تحریک سب سے پرانی ہے اور اس کے آثار کم ملتے ہیں لیکن جتنے آثار بھی اس کے ملتے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں.بابلی تحریک کے آثار قرآن کریم میں قرآن کریم میں بھی اس تحریک کی بعض شاخوں کا ذکر ہے.چنانچہ سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ - ادَمَ ذَاتِ الْحِمَادِ - الَّتِي لَمْ يُخْلَقَ مِثْلُهَا في البلاد - وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّحْرَ بالوَادٍ - وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ - الَّذِينَ طَغَوْا فِي البِلادِ - فَا كَذَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ - ال اس تہذیب کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی تھی انہیں عاد کہتے ہیں.عاد نام کی دو قو میں گذری ہیں.عاد اول تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے عاد بعد کے زمانہ میں اس تہذیب کے حاملوں میں سے ایک حامل تھے.اس آیت میں انہی پہلے عاد یعنی بانیانِ تہذیب بابلی کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاد سے کیا سلوک کیا ؟ وہ عاد جو عاد ارم کہلاتے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنانے والے تھے.اتنی بڑی اونچی عمارتیں بناتے تھے کہ الَّتِي لَمْ يُخْلَقُ مِثْلُهَا في البلاد ان کے بعد کی کوئی قوم بھی اس فن میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکی.یعنی گو عام طور پر دنیا ترقی کرتی ہے لیکن با وجود ترقی کے زمانہ قرآن کریم تک کوئی قوم فن عمارت میں عاد کے کمال تک نہیں پہنچ سکی.وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالوَاد پھر اسی عاد کی ایک دوسری شاخ شمود تھی جس نے سنگ تراشی میں کمال کیا تھا اور شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے حتی کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب وغریب محل بنائے ہیں.

Page 54

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی وَفِرْعَوْنَ ذِى الأوتاد اور فرعونِ مصر بھی اسی تہذیب کا حامل تھا.وہ بھی ذى الأوتاد تھا.بعض نے اوتاد کے معنی خیموں کی میخیں کئے ہیں لیکن اس جگہ یہ معنی درست نہیں.اس جگہ اؤتاد سے مراد وہ بلند عمارتیں ہیں جو بلند و بالا ہوں اور پہاڑ کی طرح اونچی نکل جائیں.عربی میں پہاڑوں کو بھی اَوتَادُ الارض کہتے ہیں.اور ناک کو بھی وَتَد کہتے ہیں کیونکہ وہ چہرہ کے باقی اعضاء سے اونچا نکلا ہوا ہوتا ہے.یہ مصری عمارتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ عمارتیں پہاڑوں کی طرح مثلث شکل کی بناتے ہیں اور رہائشی گنجائش کا خیال نہیں رکھتے بلکہ اونچائی کا خیال رکھتے ہیں.پس یذی الأوتاد سے مُراد نہایت بلند عمارتوں والے کے ہیں.جس کسی کو مصر جانے کا موقع ملا ہو وہ جانتا ہے کہ اہرام مصری کس قدر اونچے ہیں.دُور دُور سے لوگ انہیں دیکھنے آتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنی بلندی پر وہ لوگ پتھر کس طرح اُٹھا کر لے گئے.اہرام اتنے بلند ہیں کہ انسان کو ان پر چڑھتے ہوئے کافی دیر لگ جاتی ہے.میں با وجود ارادہ اور خواہش کے ان میں سے کسی پر نہیں چڑھ سکا.بلکہ ایک دوست ایک اہرام کے اوپر چڑھ گئے تو انہیں اوپر جاتے ہوئے اس قدر دیر ہو گئی کہ مجھے ڈر ہوا کہ ہم رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہو سکیں گے.قطب صاحب کی لاٹ کی بلندی کو ان کی بلندی سے کوئی نسبت ہی نہیں.یورپین لوگ بھی انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انسان کے برابر برابر پتھر وہ اتنی بلندی پر اُٹھا کر کس طرح لے گئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم فرعون کو دیکھو جو ایسی مثلث عمارتیں بنا تا تھا جو بڑی بلند اور مضبوط ہوتی تھیں.فرماتا ہے اس تہذیب کے حاملوں نے اپنی اپنی ترقی کے زمانہ میں دنیا میں بہت فساد پیدا کر دیا تھا اور اپنی طاقت کی وجہ سے سخت متکبر ہو گئے تھے لیکن دیکھو کہ ہم نے بھی ان سے کیسا سلوک کیا اور کس طرح انہیں برباد کر کے رکھ دیا.غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر پر اور رصد گاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا.عاد کے آثار میں ہر جگہ عظیم الشان عمارتیں نظر آتی ہیں.پہلے یورپ کے لوگ عاد قوم کے وجود سے انکار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ عاد نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر ہیں سال سے جب سے کہ عاد کے آثار ملے ہیں وہ بھی ماننے لگ گئے ہیں کہ عاد نام کی ایک قوم ہوئی ہے بلکہ میں نے حال ہی میں ایک عیسائی مؤرخ کی کتاب پڑھی ہے جس میں وہ عاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ عاد کے متعلق مورخوں کی سینکڑوں صفحوں کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی

Page 55

انوار العلوم جلد ۱۵ معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کر دی ہیں.انقلاب حقیقی بابل کی حکومت کا جو بیان تو رات میں بابلی تحریک کا ذکر کتب مقدسہ میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بائبل میں آتا ہے.اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر بناویں اور ایک بُرج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے اور یہاں اپنا نام کریں ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہو جائیں اور خداوند اس شہر اور بُرج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اترا.اور خدا وند نے کہا.دیکھو! لوگ ایک ہی اور ان سب کی ایک ہی بولی ہے اب وے یہ کرنے لگے.سوؤے جس کام کا ارادہ رکھیں گے اس سے نہ رک سکیں گے.آؤ ہم اُتریں اور ان کی بولی میں اختلاف ڈالیں تا کہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں،، ۱۳ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی بابلی لوگوں کا بڑا کمال بلند عمارات بنانے میں تھا کیونکہ توریت کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل کے لوگوں نے ایک بلند عمارت بنانی شروع کی تھی تا وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پرا گندگی سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ پراگندگی چاہتا تھا اس لئے اُس نے اُن کو اس ارادہ سے باز رکھنے کیلئے ان کی زبانوں میں فرق ڈال دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا اور اُن کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمارت کے بنانے میں ناکام رہے.جو وجہ اس حوالہ میں دی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی صداقت ضرور معلوم ہو جاتی ہے کہ اہل بابل اونچی عمارتیں بنانے میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں.قرآن کریم میں بھی فرعون کی نسبت اس حوالہ کے مشابہ ایک بات بیان کی گئی ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ بائبل میں تو خدا تعالیٰ کی طرف اس بیہودہ خیال کو منسوب کیا گیا ہے کہ کہیں انسان بلند عمارت بنا کر اُلوہیت کے مقام کو حاصل نہ کر لے اور قرآن کریم نے اس لغو خیال کو فرعون کی طرف منسوب کیا ہے جس کی صداقت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ فرعون کی نسبت

Page 56

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی فرماتا ہے کہ اس نے ہامان سے کہا کہ قاوَقِدَ لِي يَهَا مَنْ عَلَ الطَّيْنِ فَاجْعَلْ لَيْ صَرْحًا لَعَلَى اطَّلِعُ إلَى إِلَهِ مُوسَى وَاتِي لَاخْتُهُ مِنَ الكَذِبِينَ یعنی فرعون کے سامنے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا دعویٰ پیش کیا تو فرعون نے اسے سُن کر اپنے انجنیئر ہامان کو بلایا اور اُسے حکم دیا کہ متھیر وں کو لگا دو اور ایسا اُونچاٹل بناؤ اور ایسی ایسی دور بینیں اور رصد گاہیں تیار کرو کہ ہم آسمان کے راز کھول کر رکھ دیں اور موسیٰ کے خدا کا سُراغ نکال لیں.اسی طرح سورۃ مومن میں آتا ہے.وقال فِرْعَوْنُ لِهَا مَنْ ابْنِ لِي صَرْحًا لعلي ابلغ الأسْبَابَ - أَسْبَابَ السّموتِ فَاطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَالّي لاظنه كاذياء " کہ فرعون نے اپنے انجینیئر ہامان سے کہا کہ ہمارے لئے ایک قلعہ بناؤ مگر وہ اتنا اونچا ہو کہ اس پر چڑھ کر ہم آسمان کے راز معلوم کر سکیں اور موسیٰ کے خدا کا پتہ لگا لیں.یہ مطلب نہیں کہ آسمان پر پہنچ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اتنا بلند ہو کہ وہاں سے آسمان کا نظارہ آسانی سے ہو سکے.وہاں ہم بڑی بھاری ڈور بینیں لگائیں گے اور موسیٰ کے معبود کو دیکھیں گے اور آخر میں کہا کہ میں تو اسے بالکل جھوٹا سمجھتا ہوں.یعنی کوئی یہ نہ خیال کرے کہ مجھے قحبہ ہے که شاید جس خدا کا موسیٰ ذکر کرتا ہے وہ صحیح ہے تبھی تو میں ایک اونچا محل اس کی تلاش کیلئے بنانا چاہتا ہوں میرے اس حکم کی غرض شبہ نہیں بلکہ میری غرض موسییٰ کو جھوٹا ثابت کر کے دکھانا ہے.اسی طرح عاد کے متعلق ایک اور آیت میں بھی ذکر آتا ہے کہ وہ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنایا کرتے تھے اور وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آتَمْنُونَ بِكُلِّ رِبْعِ ايَةٌ تَعْمِنُونَ.وتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْدُدُونَ - وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ كل فرماتا ہے عاد قوم سے مخاطب ہو کر ہم نے کہا تھا کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمسٹری کے مرکز تیار کرتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہو گے جیسے یورپ کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی.مَصَائِعَ سے مُراد فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہیں ) پھر فرمایا جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اُس جگہ کی تہذیب کو بالکل تباہ کر دیتے ہو اور ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی جگہ اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کرتے ہو.(جبار کے معنی ہیں دوسرے کو نیچا کر کے اپنے آپ کو اونچا کرنے والا.اور ایک مطلب یہ ہے کہ دوسری اقوام کے تمدن اور تہذیب کو تباہ کر کے اپنے کا

Page 57

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تمدن اور تہذیب کو دُنیا میں قائم کرتے ہیں ) وَإِذا بَطَشْتُم بطشتم جبارین سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ آلات جنگ کی ایجاد کا کمال انہیں کے زمانہ میں ہوا.چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوں میں عمارتیں بنائیں ہیں ، ان سے بعض مؤرخین نے نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنامیٹ ایجاد کر لیا تھا.ان معنوں کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامان جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ سے باقی اقوام کو تباہ کر کے اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کرنا چاہتے ہو.موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد بھی ایک فلسفہ پر ہے اور وہ تہذیب مغربی کا فلسفہ فلسفہ مادیت کا فلسفہ ہے جس کی بنیا د مشاہدہ اور تجربہ پر ہے.اسی فلسفہ کی وجہ سے مغربی تہذیب نے قومیت کا شدید احساس پیدا کر لیا ہے.خالص قربانی انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب وہ سمجھتا ہو کہ اس دُنیا کے علاوہ بھی کوئی اور دُنیا ہے اور اگر میں نے دوسروں کیلئے قربانی کی تو گوئیں اس دنیا کا نفع حاصل نہ کروں مگر مجھے روحانی فائدہ پہنچے گا لیکن جس کو یقین ہو کہ جو کچھ ہے یہی دُنیا ہے وہ کہتا ہے کہ جو کچھ ملے مجھے ہی ملے کسی دوسرے کو نہ ملے.پس انتہائی نیشنلزم (NATIONALISM) مادیت کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ تعیش پیدا ہو جاتا ہے.ہر قسم کے آرام کے سامانوں ، کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں میں زیادتی کی خواہش بھی مادیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.کیونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں نے حاصل کرنا ہے اسی دُنیا میں حاصل کرنا ہے.پس جو مزہ اُڑایا جا سکتا ہے اُڑالو یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تعیش کو کمال تک پہنچا دیا ہے.رومن تہذیب اور مغربی تہذیب میں رومن اور مغربی تہذیب میں فرق فرق ہے کہ رومیوں میں قانون کی حکومت تھی اور اس وجہ سے ان کا فلسفہ گلیات سے جزئیات کی طرف رجوع کرتا تھا.چنانچہ رومی تہذیب اور فلسفہ میں میں یونانی تہذیب اور فلسفہ کو شامل سمجھتا ہوں.فلسفہ کی تمام شاخیں اسی اصول کے تابع ہیں.ان کی طب کو دیکھو اس کی بنیاد گلیات پر رکھی گئی ہے اور پھر اس سے جزئیات اخذ کی گئی ہیں.ان کے فلسفہ الہیات کا بھی یہی حال ہے.پہلے گلیات تجویز کر کے پھر جزئیات کو ان سے

Page 58

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اخذ کیا گیا ہے.سیاست کا بھی یہی حاصل ہے کہ کچھ گلیات تجویز کر کے ان سے جو ئیات کو اخذ کیا گیا ہے لیکن موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد چونکہ مادیت پر ہے یعنی مجزئیات کے تجربہ اور مشاہدہ پر اُن کے ہاں سب زور جزئیات پر ہے.گلیات کو یا تو یہ لوگ جزئیات سے اخذ کرتے ہیں یا پھر گلیات کے وجود ہی کو لغو اور فضول قرار دے دیتے ہیں.ایک یونانی طبیب ہر بیماری کو چاروں خلطوں میں محصور قرار دے کر گلیات طب سے مرض کی تشخیص اور علاج کرتا ہے.مگر ایک طبّ جدید کا ماہر ہر مرض کی مخصوص علامات کا پتہ لگا کر انہی مخصوص علامات کے مطابق اس کا علاج کرتا ہے.۱۸ اور قطعا اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تمام امراض کو کسی خاص سلسلہ کی کڑی قرار دے.جہاں تک معلومہ تاریخ کا تعلق ہے دنیوی تحریکوں میں سے یہی پانچ تحریکیں دُنیا میں نظر آتی ہیں اور تمام دنیا کی حکومتوں اور علوم اور تہذیبوں پر ان کا اثر معلوم ہوتا ہے.باقی سب حکومتیں اور فلسفے ان کے تابع نظر آتے ہیں.انہیں اگر ان سے اختلاف ہے تو بجزوی ہے.بعض فلسفے ان کے فلسفوں سے جدا ہو کر بظاہر ایک نئی صورت اختیار کر گئے ہیں اور بعض بہت تھوڑے تغیر سے انہی فلسفوں کے ترجمان بن گئے ہیں.ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی وجہ بڑی بڑی تحریکوں کی کامیابی کا سبب یہی تھی کہ ان کے ساتھ ایک پیغام تھا.وہ صرف تلوار سے ملک کو فتح نہیں کرتے تھے بلکہ اس ملک کے ذہنوں کو بھی اپنا غلام بناتے تھے اس لئے جب ان کی حکومت تباہ بھی ہو جاتی تو ان کا فلسفہ تباہ نہ ہوتا اور وہی غلام اس فلسفہ کو لے کر دُنیا میں حکومت کرنے لگ جاتے تھے اور اس طرح ایک ذہنی اور علمی تناسل کا سلسلہ جاری رہتا تھا.ان تحریکوں کے بانی سنتِ الہی کے ماتحت کچھ عرصہ تک حکومت کر کے مٹ گئے مگر ان کی تحریکیں دیر تک قائم رہیں اور آج تک بھی ان میں سے کئی کا وجود مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے.چنانچہ ہندوستان میں اب تک آرین تہذیب کا یہ اثر موجود ہے کہ برہمن اور کھتری ، شودر کو اپنے پاس تک پھٹکنے نہیں دیتے.کچھ عرصہ ہو امدر اس کا ایک واقعہ بعض اخبارات نے بیان کیا تھا جو یہ ہے کہ ایک برہمن کے بیٹے نے کسی چہارن سے شادی کر لی.ماں باپ نے اس کا گھر الگ کر دیا اور وہ علیحدہ اس چمارن کے ساتھ رہنے لگ گیا.ایک دن ماں باپ نے کہا کہ اپنے بیٹے کا ایمان دیکھنا چاہئے کہ کہیں چمارن سے شادی کر کے اس کا دھرم تو نہیں جاتا رہا.چنانچہ انہوں نے اسے ایک دن گھر

Page 59

انقلاب حقیقی انوار العلوم جلد ۱۵ میں بلا کر خوب اچار کھلایا اور پانی کے جس قدر گھڑے تھے وہ یا تو توڑ پھوڑ دیئے یا کہیں چُھپا کر رکھ دیئے.جب اس نے خوب اچار کھا لیا تو اُسے پیاس لگی مگر اس نے ادھر اُدھر دیکھا تو پانی موجود نہیں تھا اس لئے وہ پانی نہ پی سکا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا.اس کا گھر ماں باپ کے گھر سے کوئی میل بھر دُور تھا.وہاں دوڑا دوڑا پہنچا اور بیوی سے کہنے لگا مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے پانی ہے تو پلاؤ.وہ کہنے لگی پانی تو ہے مگر برتن میرا ہے اگر کہو تو اپنے برتن میں پانی پلا دوں؟ وہ کہنے لگا یہ تو دھرم کے خلاف ہے.آخر جب پیاس سے اس کا بہت ہی بُرا حال ہوا اور اُس نے سمجھا کہ اب میں مرا جاتا ہوں تو بیوی سے کہنے لگا اپنے منہ میں پانی ڈال کر میرے منہ میں ڈال دے.چنانچہ اس نے منہ میں پانی لیا اور اُس کے منہ میں گلی کر دی.ماں باپ جو کہیں چُھپ کر یہ تمام نظارہ دیکھ رہے تھے دوڑتے ہوئے آئے اور اپنے بچہ سے یہ کہتے ہوئے چمٹ گئے کہ شکر ہے پر میشور کی دیا 9 سے ہمارے بچہ کا دھرم بھرشٹ مے نہیں ہوا.یہ قصہ اسی گہرے نسلی تعصب کا ایک مضحکہ خیز ظہور ہے.جو آرین تہذیب کی خصوصیات سے ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج تک اس تہذیب کے گہرے اثرات کروڑوں آدمیوں کے پر نقش ہیں جس کی وجہ سے برہمن شودر کا جھگڑا اب تک ہندوستان میں چلا جاتا ہے.دلوں پر 19 یہ تہذیبی فلسفے بعض دفعہ مخلوط بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں اور نئی چیزیں آ ملتی ہیں مگر اصلی فلسفہ کا نشان موجود رہتا ہے متا نہیں.چنانچہ موجودہ زمانہ میں ہندوستان میں اسی قسم کا ایک تغیر رونما ہو رہا ہے.انگریزوں کی لمبی حکومت نے اور مغربی اقوام کی ترقی نے ہندوستان میں مغربیت کا پودا پیدا کر دیا ہے جو روز بروز جڑ پکڑتا جاتا ہے اور اس کی شاخیں چاروں طرف پھیلتی جاتی ہیں خصوصاً تعلیم یافتہ لوگوں میں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مغربیت ہے وہ مغربیت کے رنگ میں پورے طور پر رنگین ہیں اور اُسی کی عینک سے ہر شے کو دیکھتے ہیں.آزادی کی تہذیب نے اس تہذیب کو ایک دھکا لگایا ہے مگر اُسی طرح جس طرح قدیم زمانہ میں ہوا کرتا تھا یعنی سطحی تغیرات کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اپنا لیا گیا ہے.اگر آج انگریزی حکومت ہندوستان سے جاتی رہے تو بھی انگریزی حکومت کا طریق نہیں مٹ سکتا.وہی کونسلیں ہونگی ، وہی پارلیمنٹیں ہونگی ، وہی دستور ہوگا اور کونسلوں کے سپیکروں کے سامنے جب بھی کوئی مشکل سوال آئے گا وہ یہی کہیں گے کہ میں گل تک غور کر کے جواب دونگا اور غور سے مُراد ان کی یہ ہوگی کہ مغربی پارلیمنٹوں کے دستور کو دیکھ کر نتیجہ نکالوں گا کہ مجھے اس موقع پر کیا فیصلہ کرنا چاہئے.گویا یہ تغیر جو

Page 60

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہندوستان میں پیدا ہوگا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ انگلستان میں مسٹر بالڈون (BALDWIN) کی جگہ مسٹر چیمبر لین (CHAMBERLAIN) نے لے لی ہے یا آئندہ ان کی جگہ شاید میجر ایٹلمی (MAJOR ATTLEE) لے لیں.ورنہ اگر کوئی نئی تہذیب اس عرصہ میں رونما نہ ہوئی تو مغربیت ہی یہاں حکومت کر رہی ہوگی گو اس کی شکل کسی قدر بدل گئی ہو.گاندھی جی جو ایک فلسفہ کے موجد کہے جاتے ہیں وہ بھی باوجود زبانی مغربیت کے اثر کو ر ڈ کرنے کے اسی فلسفہ کے تابع چل رہے ہیں.جب بھی وہ کوئی نئی بات سوچتے ہیں وہ اسی مغربی تہذیب کے تابع ہوتی ہے اور چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے جس کا یہ اُصول ہے کہ مُنہ سے کچھ اور کہو اور عمل کچھ اور رکھو، اس لئے گاندھی جی کے پیرو بھی منہ سے تو امن امن کہتے ہیں مگر اندر سے لڑائی کی تیاریاں جاری رکھتے ہیں.اتباع منہ سے شور مچاتے ہیں کہ آہنسا ت قائم کرو ، آہنسا قائم کر دمگر عملاً ہر اختلاف کے موقع پر بیسیوں مسلمانوں کو ذبح کرا دیتے ہیں کیونکہ یہ اصول صرف کہنے کیلئے ہیں عمل کرنے کیلئے نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب مادیت کے اثر کے نیچے انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگلا جہان کو ئی نہیں تو پھر ا سے اس شخص کو تباہ کرنے سے کونسی چیز روک سکتی ہے جسے وہ اپنا دشمن سمجھ بیٹھتا ہے.وہ تو ہر رنگ میں اپنے مد مقابل کو زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.پس کانگرسی گومنہ سے یہ کہتے جائیں کہ ہم گاندھی فلسفہ کے پیرو ہیں مگر حقیقتا ان کا عمل مغربی فلسفہ پر ہی ہے اور جب تک مادیت کا اثر ان کے دلوں پر سے دُور نہ ہوگا وہ یورپ کے واقعات کو ہندوستان کی سٹیج پرتمثیلی رنگ میں دکھاتے رہیں گے.غرض ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے پیچھے ایک فلسفہ تھا.ان کے بانی ، لوگوں کے ملک پر ہی قبضہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دل ودماغ کو بھی غلام بنا لیتے تھے جو غلامی کہ جسمانی غلامی کے دُور ہو جانے کے بعد بھی بعض دفعہ سینکڑوں ہزاروں سال تک جاری رہتی تھی.انقلا مذہبی دنیا میں بھی حقیقی کامیابی مذہبی دنیا میں بھی بھی قانون جاری ہے.اس میں بھی حقیقی کامیابی انقلاب کے ذریعہ سے اور سے ہی ہوتی ہی ہوئی ہے انقلاب ہی کی وجہ سے ہوتی ہے.اگر انقلاب نہ ہو تو مذہب کبھی کامیاب نہ ہو کیونکہ یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور قانونِ قدرت خدا کا فعل ہے اس کو نظر انداز کر کے کامیابی نہیں ہوسکتی.

Page 61

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی انقلاب کے معنی ہیں کسی چیز کا گلیہ بدل جانا.اب اگر تم ایک پرانی عمارت کی جگہ پرنئی عمارت بنانا چا ہو جس کا نقشہ بالکل نیا ہو تو لازماً تمہیں پہلی عمارت کو گرا دینا پڑے گا اور کوئی بیوقوف ہی ہو گا جونئی عمارت تو بنانا چاہے مگر پرانی عمارت کو توڑنے کیلئے تیار نہ ہو.قرآن کریم نے بھی مذہبی ترقی کو اسی انقلابی طریق سے وابستہ قرار دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ه وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِايَتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ۲۲ کہ ہم دنیا میں جب بھی کوئی رسول بھیجتے ہیں وہ ہمیشہ دُنیا میں دو اعلان کرتا ہے.ایک تو یہ کہ اس کی آمد سے پہلے جو نظام جاری تھا وہ اس کی موت کا اعلان کر دیتا ہے.دوسرے یہ کہ وہ اپنے لائے ہوئے سسٹم کے متعلق غیر مہم الفاظ میں اعلان کر دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلی شکل میں دُنیا میں قائم کیا جائے گا اور کسی اثر یاد باؤ کی وجہ سے یا کسی قوم سے سمجھوتہ کرنے کی غرض سے اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی.ان اعلانات کے بعد جو لوگ تو اس جدید سسٹم کے تابع اپنے آپ کو کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں وہ تباہی سے بچ جاتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے وہ آہستہ آہستہ مٹ جاتے ہیں.اضلع کے معنی اپنے آپ کو کسی چیز کے مطابق بنا لینے کے ہیں.پس عمل صالح کے یہ معنی ہیں کہ وہ عمل جو اس نئی تحریک کے مطابق ہوں.عمل صالح کے معنی نیک عمل کے نہیں ہوتے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں.نیک کام اور عمل صالح میں فرق ہے.مثلاً نماز پڑھنا ایک نیک کام ہے.لیکن اگر کوئی شخص جہاد کے وقت نماز پڑھنا شروع کر دے تو ہم کہیں گے کہ اس نے عملِ صالح نہیں کیا.یا روزہ ایک نیک عمل ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جہاد کے موقع پر بعض روزہ رکھنے والوں کے متعلق فرمایا کہ آج وہ لوگ جو بے روزہ تھے ثواب میں روزہ داروں سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ اِن روزہ داروں نے ایسی حالت میں روزہ رکھا جب کہ روزہ نہ رکھنا حالات کے لحاظ سے زیادہ مناسب تھا.ا غرض عملِ صالح عربی زبان میں مناسب حال فعل کو کہتے ہیں.پس فَمَنْ آمَنَ وَاصْلَحَ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو لوگ رسولوں پر ایمان لائے اور انہوں نے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے وہ ہلاکت سے بچ گئے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء

Page 62

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کی تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا اور اس عمارت کی اینٹ بن گئے جس کی تعمیر وقت کے نبی کے ہاتھوں ہورہی ہوتی ہے ان کے لئے کوئی خوف اور کوئی خون نہیں لیکن اس کے برخلاف جو لوگ ا اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق نہیں بناتے اور نئی عمارت کا جو و بننے سے انکار کر دیتے ہیں.يَمَسُّهُمُ العبُ بِما كانُوا يَفْسُقُون ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اُترتا ہے اور بوسیدہ عمارت کی طرح انہیں تو ڑ کر رکھ دیتا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو نبی بھی دُنیا میں آتا ہے بعثت انبیاء کا مقصد وہ اسی لئے آتا ہے کہ اپنے سے پہلے نظام کو توڑ دے اور ایک نیا نظام قائم کرے اور اس کی آمد کے بعد وہی حیات کو پاتا ہے جو اس کے نظام کو قبول کرے.یہ بات ہر نبی کی بعثت کے بعد ضرور ظاہر ہوتی ہے خواہ وہ نبی چھوٹے ہوں یا بڑے لیکن جو اولوالعزم رسل ہوں اُن کے آنے پر تو گویا ایک قیامت آجاتی ہے جس طرح کہ ان جدید تحریکات کے ظہور پر ہوتا ہے جن کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں.ہاں جو شرعی رسول آتے ہیں وہ اپنے سے پہلے نبی کے نظام کو بھی تو ڑ دیتے ہیں لیکن جو شریعت نہیں لاتے گو وہ پہلے نبی کے نظام کو تو نہیں توڑتے لیکن اُس رائج الوقت نظام کو ضرور توڑ دیتے ہیں جو پہلے شریعت لانے والے نبی کی شریعت کو بگاڑ کر لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق قائم کر لیا ہوتا ہے.مذہب میں جو اس قسم کے انقلابات ہوتے ہیں ان مذہبی انقلابات کا طریق سے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ماننسخ مِنْ آيَةٍ او ننسها تأتِ بِخَيْرٍ منها أو مثلِهَا، أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - الم تعلم ان الله لَهُ مُلْكُ السّناتِ وَالْأَرْضِ ، وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ من ولي ولا نصیر ۳ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زمانوں میں جو پیغام آتے رہے ہیں یا آئندہ آئیں گے ان سب کے متعلق ایک قانون جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ بھی تو وہ اپنی ضرورت کو پورا کر چکتے ہیں اور اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں ملا دیا جائے اور اُن کی جگہ ایک نیا نظام آسمان سے اُتارا جائے اور کبھی لوگ انہیں بھلا دیتے ہیں اور صرف اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو نظام لوگوں کی غفلت کی وجہ سے الہی نظام کی جگہ قائم ہو گیا ہے اسے مٹا کر پھر نئے سرے سے وہی پہلا الہی نظام قائم کیا جائے.جب الہی نظام ہی اپنی ضرورت پوری کر کے مٹائے جانے کے قابل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر نظام دُنیا میں بھجوا دیتا ہے اور جب وہ

Page 63

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی نظام تو صحیح ہو ، صرف لوگوں نے اسے بھلا دیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسی پہلے نظام کو بجنسه پھر دنیا میں قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں قدرتیں حاصل ہیں.پھر فرماتا ہے الم تعلم ان الله له ملك السموت والارض کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم ایک انقلاب عظیم کے پیدا کرنے کیلئے اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے گفا ر کو اس امر کا تو غصہ نہ تھا کہ ان کے خیالات کے خلاف ایک خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں.انہیں جس بات کا خطرہ تھا اور جس کا تصور کر کے بھی انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں قرآن کی حکومت قائم نہ ہو جائے.پس فرمایا.الم تَعْلَمُ انَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اے انکار کرنے والو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے؟ پس جب اُس نے اس بادشاہت کو ایک نئے اصول پر قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے فیصلہ کے پورا ہونے کو کون روک سکتا ہے؟ مذہبی نظام کی مدت عمل غرض قرآن کریم نے مذاہب کے بارہ میں بھی یہ قاعدہ بتایا ہے کہ ہر مذہبی نظام جو قائم کیا جاتا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد یا تو نا قابل عمل ہو جاتا ہے یا لوگ اسے بھول جاتے ہیں.نا قابل عمل وہ دو طرح ہوتا ہے یا لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں یا زمانہ کے مطابق اس کی تعلیم نہیں رہتی.یعنی یا تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس تعلیم میں تصرف کر دیتے ہیں اور یا پھر تعلیم تو محفوظ ہوتی ہے مگر زمانہ چونکہ ترقی کر جاتا ہے اس لئے وہ قابل عمل نہیں رہتی.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا لباس پھٹ جائے اور اسے نیا لباس سلوانے کی ضرورت پیش آئے.یا بچہ ہو اور اس کا لباس ہو تو اچھا، لیکن قد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے قد پر پہلا لباس درست نہ آتا ہو اور نیا لباس تیار کروانا پڑے.اسی طرح تعلیم یا تو اس لئے بد لی جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتی ہے یا اس لئے بد لی جاتی ہے کہ انسانی حالت میں ایسا تغیر آجاتا ہے کہ پہلی تعلیم اس کے مطابق نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے کہ اب اس کیلئے دوسری تعلیم کی ضرورت ہے.یہ جو تعلیم کے خراب ہو جانے کی صورت ہے یہ بھی درحقیقت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب وہ تعلیم نا قابل عمل ہو جائے ورنہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے دین کا خود محافظ ہوتا ہے.ہاں اس

Page 64

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تعلیم کی ضرورت کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندوں سے کہتا ہے کہ اب بیشک اس میں تغیر و تبدل کر لو مجھے پرواہ نہیں.جیسے گھر میں بعض دفعہ کوئی خراب اور پھٹا پرانا کپڑا ہو اور بچہ اسے پھاڑے تو ہم پر واہ نہیں کرتے اسی طرح مذہب میں قطع و برید کی اجازت اللہ تعالیٰ اُسی وقت دیتا ہے جب زمانہ کو اس تعلیم کی ضرورت نہیں رہتی اور انسان کے حالات نئی تعلیم کا تقاضا کرتے ہیں.پس اُس وقت اللہ تعالیٰ اُس فرسودہ مذہب کی حفاظت چھوڑ دیتا ہے اور بندوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اس میں تصرف کریں اور اس سے کھیلیں.انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تعلیم سے کھیل رہا ہے حالانکہ خدا اس تعلیم کو زمانہ کے مطابق حال نہ پا کر اسے بندوں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کا ہاتھ اس سے اُٹھا چکا ہوتا ہے.پس فرمایا کہ پیغام الہی کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں: (۱) جب وہ نا قابلِ عمل ہو جاتا ہے تو ہم اس سے بہتر تعلیم لاتے ہیں.بہتر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پہلی تعلیم نا قابل عمل ہو چکی ہوتی ہے اور اب اس سے بہتر کی ضرورت ہوتی ہے.اگر بہتر کی ضرورت نہ ہوتی تو پہلی تعلیم ہی کافی ہوتی.اسی حقیقت کے اظہار کیلئے ناتِ بِخَيْرٍ منها کے الفاظ استعمال فرمائے.(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ جب تعلیم تو قابل عمل ہومگر لوگ اس پر عمل ترک کر دیں اور اپنے لئے خود ایسے قواعد تجویز کر لیں جو الہی تعلیم کے مخالف ہوں.اس حالت میں نئی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پرانی تعلیم کی حکومت کو از سر نو قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرمایا آخر مثلما یعنی جب تعلیم اصلی حالت میں موجود ہو صرف لوگوں نے اس پر عمل چھوڑ دیا ہو تو ہم پھر ویسی ہی تعلیم لے آتے ہیں یعنی اسی تعلیم کو دوبارہ قائم کر دیتے ہیں.مثل کا لفظ خدا تعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے تا یہ بتائے کہ پہلی تعلیم چونکہ مر چکی ہوتی ہے اس لئے ہم اس میں نئی زندگی پیدا کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پہلی تعلیم کا مثل ہوتی ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پیغام الہی بھی ایک عرصہ کے بعد : (۱) یا قابل عمل نہیں رہتا.(۲) یا لوگ اس پر عمل ترک کر دیتے ہیں.قابل عمل نہ رہنا د وطرح ہوتا ہے :- (۱) لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں.

Page 65

انوار العلوم جلد ۱۵ (۲) زمانہ کے مطابق تعلیم نہیں رہتی.انقلاب حقیقی ان دونوں حالتوں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی بھی دو سنتیں جاری ہیں.جب کلام نا قابل عمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے منسوخ کر دیتا ہے.اور اس سے بہتر تعلیم بھیج دیتا ہے کیونکہ زمانہ ترقی کی طرف جارہا ہوتا ہے.لیکن جب لوگ عمل ترک کردیں لیکن تعلیم محفوظ ہوتو اللہ تعالیٰ اسی کلام کوڈ ہرا دیتا ہے اور اُس کا مثل نازل کر دیتا ہے یعنی اس تعلیم میں ایک نئی زندگی ڈال دیتا ہے.اس آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں.ان الفاظ سے وہ معنی جو عام طور پر اس آیت کے کئے جاتے ہیں یعنی کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا ذکر ہے رڈ ہو جاتے ہیں کیونکہ قرآنی آیات کے منسوخ ہونے سے قدرت الہی کے اظہار کا کوئی بھی تعلق نہیں.قدرت کا مفہوم انہی معنوں میں پایا جاتا ہے جو میں نے کئے ہیں.پھر یہ جو فرمایا ہے کہ الم تعلم ان الله لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ہر کلام جب آئے یا جب اسے دوبارہ زندہ کیا جائے ، وہ ایک انقلاب چاہتا ہے اور یہی امرلوگوں کے خیال میں ناممکن ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسے انقلاب پر قادر ہے خواہ نئے کلام کے ذریعہ سے وہ انقلاب پیدا کر دے خواہ پرانے کلام ہی کو زندہ کر کے انقلاب پیدا کر دے.یہ معنی جو میں نے کئے ہیں گو جدید ہیں لیکن آیت کے تمام ٹکڑوں کا حل انہی معنوں کے ساتھ ہوتا ہے.پہلے مفسر اس کے معنی یہ کیا کرتے تھے کہ قرآن میں بعض آتیں اللہ تعالیٰ نازل کرتا اور پھر انہیں منسوخ کر دیتا ہے.مخالف ان معنوں پر تمسخر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ آیت نازل کر کے اسے منسوخ کیوں کرتا ہے؟ کیا اسے حکم نازل کرتے وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ حکم لوگوں کے مناسب حال نہیں.دوسرے نسخ سے تو اس کی کمزوری ثابت ہوتی ہے.پھر اس کے ذکر کے بعد اس فقرہ کے کیا معنی ہیں کہ ان اللہ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ مگر جو معنی میں نے کئے ہیں ان میں ایک زبر دست قدرت کا اظہار ہے یہ آسان کام نہیں کہ ایک ایسے قانون کو جولوگوں کے دلوں پر نقش فی الحجر کی طرح جما ہوا ہواور جسے چھوڑنے کیلئے وہ کسی صورت میں تیار نہ ہوں ، مٹا کر اس کی جگہ ایک نیا قانون قائم کر دیا جائے.یا جب کہ ایک قوم مرگئی ہوا اور الہی قانون کو پس پشت ڈال چکی ہو اور اس کی خوبیوں سے غافل ہو گئی ہو پھر اس مُردہ قوم میں

Page 66

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی سے ایک حصہ کو زندہ کر کے اُس بُھلائی ہوئی تعلیم کی محبت اُس کے دل میں ڈال دے اور اس کے ذریعہ سے پھر اسی تعلیم کی حکومت دُنیا میں قائم کر دے.یقینا یہ نہایت ہی مشکل کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت پر دلالت کرتا ہے اور اسی قدرت کے مزید اظہار کیلئے آیت کے آخر میں یہ مزید الفاظ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں کہ الم تعلم ان الله له ملك السموت والارض کیا تمہیں علم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ایسا انقلاب نہایت آسانی سے پیدا کر سکتا ہے.غرض اولوالعزم انبیاء ایک قیامت ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے پُرانی نسل مٹا دی جاتی اور ایک نئی نسل قائم کی جاتی ہے.اور چونکہ وہ نیا نظام قائم کرتے ہیں ان کے زمانہ کو مذہبی اصطلاح میں یوم قیامت بھی کہتے ہیں.ان کے زمانہ میں یوم قیامت کی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں.یعنی ایک دفعہ سب اہلِ زمانہ پر موت اور پھر دوسری دفعہ احیاء.انبیاء کی بعثت کے ساتھ ہی پہلے تو دنیا پر موت طاری ہو جاتی ہے اور قرب الہی کے وہ تمام دروازے جو پہلے اس کے لئے کھلے تھے بند کر دیے جاتے ہیں اور پھر اس کے زمانہ کے نبی کے ذریعہ سے نئے دروازے قُرب الہی کے کھولے جاتے ہیں.گویا پہلی عمارت کو وہ گرا دیتے ہیں اور اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کرتے ہیں.خواہ پہلی عمارت منسوخ هده شریعت کی ہو یا لوگوں کی خود ساختہ عمارت ہو جسے محفوظ شریعت کو متروک قرار دے کر الساعة کے معنی b لوگوں نے خود کھڑا کر لیا ہو.اس زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں الساعة بھی کہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الحيوةُ الدُّنْيَاوَ يَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا، وَ الَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ " یعنی جو لوگ کافر ہیں انہیں ورلی زندگی کے سامان بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں.اور وہ ان لوگوں سے جو مؤمن ہیں ٹھیٹھے کرتے ہیں.والذين اتقوا ويَومَ القِيمة ، حالانکہ قیامت کے دن مؤمن ان پر غالب ہوں گے.و فَوْقَهُم يوم القيمة کا نظارہ اس قیامت کے دن کو بھی ہوگا جو مرنے کے بعد b آنے والا ہے جبکہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مؤمن جنت میں مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت نہیں حاصل کر سکتے اور اس آیت میں اس امر کو صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا

Page 67

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہے.پس اس آیت میں یوم قیامت سے مراد وہ دن ہے جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی اور کفار کو شکست ، جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ جوا کیلا تھا اور قوم کے ظلموں کا ستایا ہوا وہ حاکم ہو گیا اور وہ جو ملک کے بادشاہ تھے محکوم بن گئے.اِقْتِرَابُ السَّاعَة کے معنی ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں رسول کریم کے زمانہ کو السَّاعَةُ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القمر ۲۵ قیامت آ گئی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے.چاند کس طرح پھٹا ؟ میں اس موقع پر اس بحث میں نہیں پڑتا بلکہ میں آیت کے پہلے حصہ کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اس چاند پھٹنے کے واقعہ پر تیرہ سو سال گزر چکے ہیں اور چودھویں صدی کا نصف سے بھی زیادہ وقت گذر چکا ہے مگر قیامت ابھی تک نہیں آئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ چونکہ چاند پھٹ گیا ہے اب قیامت کو آئی سمجھو.یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ چاند کے پھٹنے کا اس قیامت سے کیا تعلق ہے جو مابعد الموت آنے والی ہے؟ چاند کے پھٹنے سے قیامت موعودہ کی طرف اشارہ نکالنا تو وہی بات ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ.اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں قیامت سے مراد مـابـعـد الـمـوت قیامت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ مراد ہے اور اُس روحانی احیاء کی طرف اشارہ ہے جو آپ کے ذریعہ سے ہونے والا تھا اور چاند کے پھٹنے کا جو واقعہ تھا وہ جس رنگ میں بھی تھا وہ درحقیقت ایک پیشگوئی تھا عرب کی حکومت کے زوال کی نسبت.چنانچہ علم تعبیر الرؤیا میں چاند سے مراد حکومت عرب بیان کی گئی ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ چاند کے پھٹنے کا واقعہ عرب کے موجودہ نظام کے مٹ جانے پر دلالت کرتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ اور آپ کے نظام کا قیام ہو گا.پس ہم تم لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی اپنی اصلاح کرلو.انشقاق قمر کے معنی یہ امر کہ چاند کو کشف یا خواب میں دیکھنے سے مراد عرب حکومت یا عرب سردار ہوتا ہے عربوں میں ایسا تسلیم بھدہ تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ بھی اس سے یہی مراد لیتے تھے.چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ فتح خیبر کے بعد یہود کے ایک سردار کی لڑکی حضرت صفیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 68

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی دیکھا کہ ان کے ایک گال پر لمبے لمبے کچھ نشان تھے.آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ نشان کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ چاند ٹوٹ کر میری گود میں آ پڑا ہے.میں اس خواب سے گھبرائی اور میں نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنائی.اُس نے میرے والد سے جو یہود کے بڑے علماء سے تھے اس کا ذکر کیا.اُس نے جو نہی یہ خواب سنی طیش میں آ گیا اور زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تو عربوں کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ چاند سے مراد تو خواب میں عربوں کا بادشاہ ہوتا ہے اور اُس کے گود میں گرنے سے مراد اُس سے نکاح ہے.یہ تھپڑ اس زور سے رسید کیا گیا کہ اس کا نشان میرے گال پر پڑ گیا اور اب تک ہلکے سے نشان اس کے باقی ہیں.غرض شق القمر کا نظارہ جس رنگ میں بھی دکھایا گیا تھا در حقیقت ایک پیشگوئی پر مشتمل تھا جو عربوں کے نظام حکومت کی تباہی کی خبر دے رہی تھی.اس کی وضاحت قرآن کریم نے اس آیت میں کی ہے اور بتایا ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ عرب حکومت کا وقت آخر آ گیا اور اس کی جگہ جلد ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت جاری کر کے روحانی قیامت بر پا کر دی جائے گی.لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کے معنی کا الہام جو ایک سے زیادہ نبیوں کو ہوا ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ تو اپنے زمانے کے نظام کے لئے بطور ستون کے ہے.اگر تو نہ ہوتا تو ہم اس عالم کو جس کا مدار تجھ پر ہے پیدا ہی نہ کرتے.ورنہ یہ مراد نہیں کہ کئی انبیا ء ایسے گذرے ہیں کہ اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس عالم کو پیدا ہی نہ کرتا.ہر انقلاب روحانی اپنے زمانہ کے نبی کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی روحانی قابلیتوں کا ظل ہوتا ہے اور نبی گویا اس انقلاب کے لئے بمنزلہ والد کے ہوتا ہے اور جس طرح بغیر باپ کے اولاد نہیں ہوتی اسی طرح روحانی انقلاب بغیر نبی کے نہیں ہوسکتا.پس یہ کہنا درست اور ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ نبی نہ ہوتا تو وہ نئے روحانی آسمان وزمین جو اس کے ذریعہ سے پیدا کئے گئے نہ پیدا کئے جاتے.۲۶ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوا ہے اور آپ سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی الہام ہو چکا ہے.کلم ب اگر اس الہام میں زمین و آسمان سے مراد مادی نظام شمسی کو لیا جائے تو یہ عجیب بات ہوگی کہ پہلے خدا تعالیٰ

Page 69

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ایک نبی کو کہتا ہے کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ زمین و آسمان نہ بناتا.اور اس کے بعد ایک دوسرے نبی کو کہتا ہے کہ اگر تُو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو نہ بنا تا پس یہ امر واضح ہے کہ اس آسمان وزمین سے مرادر وحانی نظام ہے جو اس نبی کے ذریعہ سے دنیا میں قائم کیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نبی جس کے ذریعہ ایسا انقلاب کیا گیا ہے اسے ایسا ہی الہام ہوا ہوگا.ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے زمانوں اور سب انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اس لئے آپ کے لئے یہ الہام سب زمانہ کو مد نظر رکھ کر سمجھا جائے گا اور باقی نبیوں کے لئے مخصوص الزمان اور مخصوص المقام سمجھا جائے گا.زمین و آسمان کے یہ معنی جو میں نے کئے ہیں انجیل سے افلاک کے معنی اور اجیل میں لکھا ہے.بھی ان معنوں کا ثبوت ملتا ہے.متی باب ۵ آیت ۱۸ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ۲۸ ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا.جب تک سب کچھ پورا نہ ہو ،، اس آیت میں آسمان و زمین سے مراد موسوی نظام ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تک موسوی سلسلہ کا زمانہ ہے توریت کی تعلیم کو مٹایا نہیں جا سکتا.ہاں جب یہ سلسلہ مٹ جائے گا تب بیشک یہ تعلیم قابلِ عمل نہ رہے گی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن کریم نے آ کر توریت کی تعلیم کو منسوخ کر دیا اور توریت میں بھی لکھا ہے کہ موسیٰ کے بعد ایک اور شریعت آنے والی ہے.چنانچہ استثنا باب ۱۸ آیت ۱۹۱۸ میں لکھا ہے.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے مجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سُنے گا تو میں اُس کا حساب اُس سے لوں گا ،۲۹ ان آیات سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:.(۱) یہودیوں کے لئے ایک اور نبی مبعوث ہونے والا ہے کیونکہ لکھا ہے.”میں ان کے لئے ایک نبی مبعوث کروں گا.“

Page 70

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی (۲) وہ موسیٰ کی طرح صاحب شریعت ہوگا.کیونکہ لکھا ہے.” میں تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا.“ (۳) وہ نبی بنوا سماعیل میں سے ہوگا نہ کہ بنو اسرائیل میں سے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ نبی ان کے بھائیوں میں نہ کہ ان میں سے.(۴) یہود کے لئے اسکی اطاعت فرض ہوگی کیونکہ لکھا ہے کہ ان کے لئے وہ نبی مبعوث ہوگا.(۵) اگر یہود اس کی باتیں نہ مانیں گے تو تباہ کئے جائیں گے اور ان کی قیامت آ جائے گی کیونکہ لکھا ہے کہ جو اسکی باتیں نہ سنے گا.میں اس کا حساب اس سے لوں گا.“ 66 اس پیشگوئی کی موجودگی میں نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مادی نظامِ شمسی کے قیام تک موسوی شریعت قائم رہے گی.ظاہر ہے کہ اس کا منشاء یہی تھا کہ جب تک دوسرا نظامِ روحانی قائم نہیں ہوتا موسوی شریعت کا ہی دور دورہ رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسیح موعود کیلئے قرآن میں لفظ قیامت زمانہ کیلئے بھی قرآن کریم میں قیامت کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيمَةِ - ولا أقسم بالنَّفس اللوامة - أيَحْسَبُ الإِنْسَانُ الَّن نَّجْمَعَ عِظَامَة بلى قادرين على أن تُسَوِيّ بَنَانَهُ - بَلْ يُريدُ الانْسَانُ لِيَفْجُرُ أَمَامَهُ يَسْلُ آيَات يَوْمُ الْقِيمَةِ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ - وَجُهِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ ايْنَ الْمَفَرُ - ٣٠ فرماتا ہے کافر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت کوئی نہیں اور مُردے دوبارہ زندہ نہیں ہونگے یہ بالکل غلط ہے اور ہم اس کے لئے شہادت کے طور پر یوم قیامت اور نفس لوامہ کو پیش کرتے ہیں.اب یہاں یقینی طور پر یوم قیامت سے مراد دنیا کا کوئی واقعہ ہے کیونکہ یومِ قیامت اور نفس لوامہ دو چیزوں کو مُردے جی اُٹھنے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے.اگر یوم قیامت سے دنیا کی ہلاکت کے بعد کا یوم قیامت مراد ہو تو یہ گواہی بے فائدہ ہو جاتی ہے کیونکہ جو امر مر نے کے بعد ظاہر ہوگا اُس سے اس دنیا کے لوگ اپنے ایمان کی درستی میں کیا مدد لے سکتے ہیں ؟ بحث تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا کر دے پھر جی اُٹھیں گے؟ اور معترضین کو یہ کہہ کر تسلی دلائی جاتی ہے کہ مُردوں کے جی اُٹھنے میں تم کو کیا شک ہو سکتا ہے کیا قیامت کا دن اس پر شاہد نہیں ہے؟ اس دلیل سے کون سا انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ جب قیامت آئے گی اُس وقت تو سب انسان ختم ہو

Page 71

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی چکے ہوں گے.پھر یہ دلیل کس کے ایمان کو نفع دے گی؟ اعتراض تو زندہ لوگوں کو ہے ان کے لئے نفع مند دلیل تو وہی ہو سکتی ہے جو اسی دنیا میں ظاہر ہو.پس اس جگہ قیامت کے دن سے مراد کوئی ایسی ہی چیز ہونی چاہئے جو اسی دنیا میں ظاہر ہونے والی ہو تا کہ منکرین قیامت پر اس کے ذریعہ سے حُجت بھی ہو اور ان کے ایمان کے لئے بھی اس سے راستہ کھلے.عالمگیر قیامت کا دن تو اُسی وقت دلیل قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ بعض لوگ خود قیامت کے دن اس کے وجود سے انکار کریں.اُس وقت بیشک یہ دلیل معقول ہوسکتی ہے کہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہوئے پھر کس طرح قیامت کا انکار کر سکتے ہو؟ لیکن اس دنیا میں وہ کسی صورت میں بھی دلیل نہیں بن سکتی.پس جن لوگوں نے اس جگہ مراد قیامت کبری کے معنی لئے ہیں یا تو انہوں نے صرف ایک منفرد آیت کے معنی کر دیئے ہیں اور انکی یہ مراد نہیں کہ سیاق وسباق کو ملا کر بھی اس آیت کے یہ معنی ہیں اور یا پھر سیاق وسباق پر انہوں نے غور نہیں کیا.حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کا ہی ایک واقعہ ہے جو قیامت گبری کی دلیل ہے جسے نفس لوامہ کے ساتھ ملا کر جو قیامت بعد از ممات کا دوسرا ثبوت ہے بیان کیا گیا ہے.دو دلیلیں اس لئے دی گئی ہیں کہ معترضین مختلف زمانوں سے تعلق رکھ سکتے ہیں.پس ہر ایک زمانہ کے انسان کے لئے دلیل مہیا کر دی گئی تا ہر ایک فائدہ اُٹھا سکے.مثلاً مکہ والوں کے سامنے قیامت کی دلیل میں نفس لوامہ کو پیش کیا گیا ہے اور آخری زمانہ کے منکرین قیامت کے سامنے آخری زمانہ کے اس واقعہ کو جو قیامتِ گبرای سے مشابہت کی وجہ سے قیامت کہلانے کا مستحق ہے پیش کیا گیا ہے.چنانچہ اس کا مزید ثبوت اگلی آیات میں مہیا ہے اور وہ ثبوت مندرجہ ذیل آیات ہیں.فاذا برق البصر وَخَسَفَ القَمَرُ وجمع الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ ايْنَ الْمَفَرُّ جب انسانی نظر تیز ہو جائے گی یعنی مشاہدہ سے زیادہ کام لیا جانے لگے گا اور اسرار طبیعیت کا انکشاف کثرت سے ہو گا اور چاند کو گرہن لگے گا اور سورج کو بھی اس فعل میں اس کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا.یعنی چاند گرہن کے بعد اسی ماہ میں سورج کو بھی گرہن لگے گا اُس وقت انسان کہے گا کہ اب میں کہاں بھاگ کر جا سکتا ہوں؟ جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے ان آیات میں ایک ایسے زمانہ کی طرف اشارہ ہے جب انسان خدا سے بھاگ رہا ہو گا یعنی دہریت کی کثرت ہوگی اور قیامت کا انکار زوروں پر ہوگا اور علوم ظاہری ترقی کر رہے ہونگے اور انسانی نظر غوامض قدرت کے معلوم کرنے میں بہت تیز

Page 72

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہو جائے گی اور چاند اور سورج کو گرہن ایک ہی ماہ میں لگے گا.اس آخری علامت کے متعلق احادیث میں وضاحت موجود ہے جس سے اس زمانہ کی مزید تعیین ہو جاتی ہے اور وہ یہ حدیث ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی کے لئے ایک ایسا نشان ظاہر ہونے والا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، کسی مأمور من اللہ کے لئے ظاہر نہیں ہوا اور وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو گرہن کے ایام کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو گرہن کے ایام کی درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا.اس حدیث کے مضمون کی روشنی میں جب آیات مذکورہ بالا کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں مہدی مسعود کا ذکر ہے اور اسی کے زمانہ کو قیامت کا دن قرار دے کر قیامت گبری کے لئے یعنی جب مُردے جی اُٹھیں گے ایک دلیل اور نشان قرار دیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قیامت کبری کیلئے قیامت کبری کے دو نشان بیا کریں دونشان بتائے گئے ہیں.ایک وہ یوم القیامۃ جس میں نظر تیز ہو جائے گی اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا اور دوسرانفس لوامہ نفس لوامہ کی گواہی تو ہر زمانہ میں حاصل ہے اور ہر زمانہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن اس خاص یوم القیامۃ کی گواہی سے وہی لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو آخری زمانہ میں ہوں.اس واسطے دونوں زمانوں کے لوگوں کے ایمان کی زیادتی کے لئے دونوں قسم کی دلیلیں دی گئیں.بلکہ اگر گہرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہے ہی زیادہ تر موجودہ زمانہ کے متعلق.اور نفس لوامہ کی دلیل بھی زیادہ تر آخری زمانہ کے لوگوں ہی سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اسی زمانہ میں علم النفس نے خاص ترقی کی ہے اور خیر وشر کے مسائل پر نہایت تفصیلی بحثیں انسانی دماغ کی بناوٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئی ہیں اور یہی زمانہ ہے جس میں یہ دلیل زیادہ کارآمد ہوسکتی ہے کہ انسانی دماغ میں ایک حس ہے جو بعض امور کو بُرا اور بعض کو اچھا قرار دیتی ہے.قطع نظر اس کے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے اگر صرف اسی امر کو دیکھا جائے کہ اچھے یا بُرے کا احساس انسانی نفس میں پایا جاتا ہے اور بعض حد بندیوں یا قیود کو وہ ضروری قرار دیتا ہے تو بھی اس امر کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی رنگ میں جزاء و سزا کے ساتھ وابستہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا.اور یہ احساس اور اس کا طبعی باعث یوم القیامت اور بعث بعد الموت پر ایک زبر دست شاہد ہے.اگر کوئی آخری حساب و کتاب نہیں تو طبع انسانی میں انفعال اور کسی اچھی چیز کیلئے خواہ وہ کچھ ہی ہو

Page 73

انوار العلوم جلد ۱۵ کوشش کا احساس کیوں پایا جاتا ہے؟ انقلاب حقیقی نیز آیات مذکورہ بالا میں بعث بعد الموت کے ثبوت میں بعث دُنیوی کو پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام پر ایک زمانہ میں پھر موت آنے والی ہے جبکہ اسلام کی تعلیم تو زندہ ہو گی مگر مسلمان اسے چھوڑ بیٹھیں گے.اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک مامور اور خادم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پھر اسے زندہ کرے گا اور یہ قیامت کا ایک زبر دست ثبوت ہوگا کیونکہ سوائے خدا کے کون تیرہ سو سال پہلے اسلام کی نشاۃ اولی کی اور پھر اس پر جمود کی حالت طاری ہو جانے کی اور پھر دوسری دفعہ اس زمانہ میں احیاء کی خبر دے سکتا ہے جبکہ چاند اور سورج کو ایک خاص مہینہ میں ایک مدعی کے زمانہ میں گرہن لگے گا اور دنیا ظاہری علوم سے پُر ہوگی اور دہریت کا غلبہ ہو گا ؟ اور جب قرآن کریم کی بتائی ہوئی قیامت تیرہ سو سال بعد آ جائے گی تو ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کا خدا عالم الغیب بھی ہے اور قادر بھی.پھر اس عالم الغیب خدا کی اس خبر کو لوگ کس طرح جھٹلا سکتے ہیں جو مابعد الموت کے متعلق ہے اور اس قادر خدا کی قدرت کو دیکھ کر قیامت کے وجود کو کیونکر ناممکن قرار دے سکتے ہیں.چنانچہ جب پہلی قیامت کا ظہور ہوگا سمجھدار انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کی کونسی جگہ ہے یعنی اس حجت کو دیکھ کر کوئی عقلمند انسان ایک زبر دست ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا جس کے قبضہ میں سب کا رخانہ عالم ہے اور جسے طاقت ہے کہ جو چاہے کرے اور جو عالم الغیب ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں.ہر نئے بنی کے زمانہ میں نئے آسمان و حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۶ زمین کی تخلیق پر مسیح موعود کی شہادت پر لکھتے ہیں:.” وَأُلْقِيَ فِي قَلْبِي اَنَّ اللَّهَ إِذَا اَرَادَ أَنْ يَخْلُقُ ادَمَ فَيَخْلُقُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ يَخْلُقُ كُلَّ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِيْنَ ثُمَّ فِي اخِرِ الْيَوْمِ السَّادِسِ يَخْلُقُ ادَمَ وَ كَذلِكَ جَرَتْ عَادَتُهُ فِي الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ ، ۳۲ کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ بات نازل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی آدم کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو آسمان اور زمین کو چھ دن میں پیدا کرتا ہے اور ہر ضروری چیز کو آسمان وزمین میں بناتا ہے.پھر چھٹے دن کے آخر میں آدم کو پیدا کرتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سنت پہلے زمانوں میں تھی

Page 74

انوارالعلوم جلد ۱۵ اور آخری زمانہ میں بھی وہ ایسا ہی کرے گا.انقلاب حقیقی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر اولو العزم نبی کے زمانہ میں ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کی جاتی ہے.گویا روحانی طور پر دنیا بدل دی جاتی ہے اور پہلے نظام پر تبا ہی آکر ایک روحانی قیامت کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی دنیا کو بخشی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود کا ایک کشف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف بھی گیا ہوں اور : - ہے کہ میں نے دیکھا میں اللہ تعالیٰ میں محو ہو اس حالت میں میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی.پھر میں نے منشائے حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں.پھر میں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ.پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے.پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا.اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ اس کشف سے بھی ظاہر ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص مشن ہوتا ہے اور وہ ایک ایسے تغیر کے لئے آتا ہے جو سابق نظام کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ہاں جب نئی شریعت آئے تو وہ پہلی شریعت کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلاتی ہے کیونکہ خَيْرٌ مِنْهَا ہوتی ہے اور اگر پہلی شریعت کے قیام ہی کے لئے کوئی نبی آئے تو اس کی بعثت کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کے زمانہ میں دنیا میں جو تہذیب اور تمدن قائم ہوتا ہے اسے تباہ کر کے پھر نئے سرے سے مذہب کی حقیقی حکومت دنیا میں قائم کرے اور انہی معنوں میں وہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بناتا ہے.یعنی گودین جسے وہ قائم کرتا ہے پر انا ہوتا ہے مگر دنیا کی نگا ہوں میں وہ نیا ہوتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں وہ دنیا سے مٹ چکا ہوتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور تہذیب قائم ہو چکی ہوتی ہے.

Page 75

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی مذہبی تحریکات کے بڑے بڑے دور کون سے ہیں؟ اس تمہید کے بعد میں بتا تا ہوں کہ دُنیوی تمدن اور تہذیب کے ادوار کے مقابل پر الہی تہذیب کے جو دور گزرے ہیں وہ کیا تھے سو یا درکھنا چاہئے کہ:.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ نسلِ انسانی کیلئے سب سے دور آدم کا پیغام پہلا دور آدم کا تھا.قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت آتا ہے:.وَاذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَليكة إنّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ، قَالُوا اتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء ٣٢ اس سے ظاہر ہے کہ آدم وہ پہلے نبی تھے جنہوں نے تمدن کی بنیاد ڈالی اور نظام کو قائم کیا مگر اس جگہ آدم سے مراد وہ آدم نہیں جن سے انسانی نسل چلی بلکہ وہ آدم مراد ہیں جن سے تمدن کا دور چلا.یعنی اس سے پہلے انسان تمدن کے اُس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ شریعت کا حامل ہوتا بلکہ ابھی وہ متمدن بھی نہیں تھا اور نہ اس قابل تھا کہ انسان کہلاتا وہ زیادہ سے زیادہ ایک اعلیٰ حیوان کہلانے کا مستحق تھا.میں اس بات کا قائل نہیں کہ بندر سے انسان بنا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کو غلط ثابت کر سکتا ہوں.انسانی پیدائش ارتقائے مستقل سے ہوئی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی ترقی ارتقاء کے اصول کے مطابق ہوتی ہے.اس وقت انسان کی ایسی ہی حالت تھی جیسے بچہ کی.اب اگر کوئی چار سالہ بچہ کو کہے کہ تو روزہ رکھ تو اُسے ہر شخص پاگل سمجھے گا اسی طرح ابتداء میں انسان کی ایسی حالت تھی کہ وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ شریعت کا حامل ہوتا.دور اول کی حقیقت پس ایک زمانہ انسان پر ایسا آیا ہے کہ جب وہ گو انسان ہی کہلاتا تھا مگر ابھی وہ حیات دائگی پانے کا مستحق نہیں تھا.جب اس حالت سے اس نے ترقی کی اور اس کا دماغ اس قابل ہو گیا کہ وہ قانونِ شریعت کا حامل ہو سکے تو پہلا قانون جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُتر ا وہ یہ تھا کہ مل کر رہو اور ایک افسر کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو.گو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلا قانون لانے والا سادہ عبادت الہی کے علاوہ

Page 76

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی صرف یہی پیغام لے کر آیا تھا کہ تم عائلی اور تمدنی زندگی اختیار کرو.تمہارا ایک حاکم ہونا چاہئے تمہیں اُس کی اطاعت کرنی چاہئے ، تم اپنے مقدمات اُس کے پاس لے جاؤ اُس سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کراؤ اور ہر بات قانون کے ماتحت کرو اور وہ پہلا انسان جس نے یہ قانون قائم کیا اس کا نام آدم تھا.اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے آدم کو دیکھیں تو وہ تمام اعتراضات حل ہو جاتے ہیں جو اس سے پہلے آدم کے واقعہ پر ہو ا کرتے تھے.مثلاً یہ جو آتا ہے کہ فرشتوں نے کہا.آتَجْعَلُ فِيْهَا من يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدّماء کہ کیا تو اب زمین میں ایک ایسا شخص کھڑا کرنے والا ہے جو فساد کرے گا اور لوگوں کا خون بہائے گا ؟ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتوں کو کیونکر پتہ لگا کہ آدم کے ذریعہ سے خون بہیں گے جبکہ آدم ابھی پیدا بھی نہ ہو ا تھا؟ اس کے کئی جواب دیئے جاتے تھے مثلاً یہ کہ چونکہ حاکم فساد کو دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی فساد کرنے والے بھی ہونگے اس وجہ سے انہوں نے یہ سوال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیا کہ کیا فسادی لوگ بھی دنیا میں پیدا کئے جائیں گے کہ جن کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے آدم کی پیدائش کی ضرورت ہے؟ بیشک خلیفہ کے لفظ سے یہ استنباط ہوسکتا ہے کہ کوئی مخلوق فساد کرنے والی بھی ہوگی لیکن اگر یہ آدم نسلِ انسانی کا بھی پہلا فرد تھا تو پھر بھی یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ فساد تو کبھی آئندہ زمانہ میں آدم کی اولاد نے کرنا تھا پھر آدم کو خلیفہ کس غرض اور کس کام کے لئے بنایا گیا تھا ؟ اور اگر خلیفہ کا وجود بغیر فساد کے بھی ہو سکتا ہے تو پھر فرشتوں کے اعتراض کی بنیاد کیا تھی؟ غرض اس تشریح سے جو گو غیر معقول نہیں اس سوال کا جواب نہیں آتا کہ فرشتوں کو اس سوال کا خیال کیوں پیدا ہوا اور یہ معنی اس آیت کے معانی میں سے ایک معنی تو کہلا سکتے ہیں مگر مکمل معنی نہیں کہلا سکتے.بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ فرشتوں نے کہا جو قولی تو نے آدم میں رکھے ہیں ان کے ماتحت ہمیں مشبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ضرور فساد کرے گا اور لوگوں کے خون بہائے گا حالانکہ آدم اگر خدا تعالیٰ کا نبی تھا تو اس نے وہی کچھ کرنا تھا جو خدا تعالیٰ اسے حکم دیتا اس کے خلاف عمل وہ کر ہی نہیں سکتا تھا.اس آیت کے معنی کرتے ہوئے یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ بادی النظر میں اس سے یہ استنباط

Page 77

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ہوتا ہے کہ جس فعل کو فرشتے عجیب خیال کرتے ہیں وہ خود آدم کا فعل ہے نہ کسی دوسرے شخص کا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ کیا تو اس دنیا میں ایسے وجود کو پیدا کرنے لگا ہے جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور دوسرا امر الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فساد اور خونریزی خود خلافت کے مفہوم سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ جس فساد کی طرف فرشتے اشارہ کرتے ہیں وہ کوئی ایسا فعل ہے جو خلیفہ بنانے کی اغراض میں شامل ہے.گویا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہی سے یہ معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ آدم سے کوئی ایسا کام کروائے گا جو بظا ہر فساد اور سفک دم نظر آتا ہے جس پر وہ تعجب کرتے ہیں کہ خدا کا خلیفہ اور فساد اور سفکِ دم کا مرتکب ؟ یہ کیسی عجیب بات ہے؟ سوال کے ان پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دیکھو تو آدم کا جو مقام میں نے ظاہر کیا ہے اس کے ساتھ اس سوال کو پوری تطبیق حاصل ہے.میں نے بتایا ہے کہ آدم جس کا ذکر سورہ بقرہ میں ہے نسلِ انسانی کا پہلا باپ نہیں بلکہ شریعت کے ادوار کے پہلے دور کا مؤسس ہے اور جیسا کہ قرآن سے استنباط کر کے میں نے بتایا ہے وہ دور دور تمدن تھا یعنی اُس دور میں پہلی دفعہ تمدن کو دنیا سے روشناس کرایا گیا تھا.آدم سے پہلے انسان تمدن اور نظام کا جوا اپنی گردن پر اُٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا مگر اُس وقت چونکہ انسان میں یہ قابلیت پیدا ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے اصلح وجود کو نبوت کا مقام دے کر دور تمدن کا بانی بنایا اس کے اجراء کا حکم دیا، اسی دور میں عورت اور مرد میں زوجیت کے اصول پر رشتہ اتحاد کا رواج ڈالا گیا.ورنہ جیسا کہ ظاہر ہے چونکہ اس سے پہلے انسان میں تمدنی قواعد کی اطاعت کا مادہ نہ تھا اُس وقت تک ازدواج کے متعلق کوئی اصول مقرر نہ تھے.- اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے تخلیق آدم پر فرشتوں کے سوال کی وجہ بعد فرشتوں کے سوال کا مطلب واضح ہو جاتا ہے.جب تک تمدنی نظام نہ ہو ہرقسم کا قتل اور غارت ایک بُرائی کا رنگ رکھتا ہے اور گناہ کہلاتا ہے لیکن جو نبی نظام حکومت قائم ہو بعض قسم کی لڑائیاں اور قتل جائز اور درست ہو جاتے ہیں.مثلاً جو لوگ حکومت کی اطاعت نہ کرتے ہوں ان کے خلاف جنگ جائز سمجھی جاتی ہے جو فساد کرتے ہوں ان کا قتل جائز سمجھا جاتا ہے اور تمام حکومتیں ایسا کرتی ہیں بلکہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں.پس جب آدم کے خَلِیفَه فِی الْأَرْضِ بنانے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا تو ملائکہ نے

Page 78

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی حکومت کے تمام پہلوؤں پر نظر کی اور ان کو یہنئی بات معلوم ہوئی کہ قتل اور خون اور جنگ کی ایک جائز صورت بھی ہے اور آدم سے بعض دفعہ یہ افعال صادر ہونگے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں اس کا یہ فعل پسندیدہ سمجھا جائے گا نہ کہ بُرا اور چونکہ اس سے پہلے نظام حکومت کی مثال نہ تھی یہ امر فرشتوں کو عجیب معلوم ہوا.اُسی طرح جس طرح بعض لوگ جو حقیقت حال سے واقف نہیں رسول کریم ﷺ کی جنگوں پر اعتراض کرتے ہیں یا بعض قتل کی سزاؤں پر اعتراض کرتے ہیں.پس فرشتوں کا سوال آدم کے افعال ہی کے متعلق ہے جو وہ بحیثیت حاکم وقت کرنے والا تھا اور انہیں یہ امر عجیب معلوم ہوتا ہے کہ وہ افعال یعنی جنگ اور قتل جو پہلے گناہ سمجھے جاتے تھے اب ان کو بعض حالتوں میں جائز سمجھا جائے گا.اور وہ کہتے ہیں.الہی ! آپ ایک ایسا خلیفہ مقرر کرتے ہیں اور ایسے کام اس کے سپرد کرتے ہیں کہ جو پہلے نا جائز تھے.اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتا ہے کہ الي أعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ تم نہیں جانتے کہ اس نظام میں کیا خو بیاں ہیں.گو بظاہر حکومت کے قیام سے بعض قسم کے جبر کی اجازت دی جاتی ہے اور انفرادی آزادی میں فرق آتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ جبر اور قواعد فرد کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی مفید ہوتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ جو معنی میں نے کئے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے انِي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ کا فقرہ عبارت میں نہایت ہی عمدہ طور پر چسپاں ہو جاتا ہے اور دوسرے معنوں کے رو سے اس میں کسی قدر تکلف پایا جاتا ہے یا کم سے کم وہ معنی ایک دوسرے معنوں کے محتاج رہتے ہیں.تمدن کی حقیقت یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا میں تمدن کے معنی ہی یہ ہیں کہ خون اور فساد کی بعض جائز صورتیں پیدا کی جائیں.چنانچہ دیکھ لوزید قتل کرتا ہے اور وہ دنیا کے نزدیک قاتل قرار پاتا ہے مگر جب اسی زید کو گورنمنٹ پھانسی دیتی ہے تو وہ قاتل نہیں بنتی بلکہ اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جاتا ہے.اسی طرح لوگ اگر کسی کے مکان یا جائداد پر قبضہ کر لیں تو سب کہیں گے یہ فسادی ہیں مگر گورنمنٹ ملکی ضرورت کے ماتحت اگر جائدادوں پر قبضہ کر لے تو یہ فعل لوگوں کی نظر میں جائز سمجھا جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو حبس بے جا میں رکھے تو یہ ظلم قرار دیا جاتا ہے.لیکن گورنمنٹ اگر کسی کو نظر بند کر دے اور فردی آزادی میں دخل اندازی کرے تو یہ جائز بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے.

Page 79

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پس جب خدا نے کہا کہ ہم دنیا کو متمدن بنانے والے ہیں اور ہم ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والے ہیں جو قانون نافذ کرے گا، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کو قتل کی سزا دے گا، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کی جائدادوں پر زبر دستی قبضہ کرے گا ، جو قانون کے ماتحت فردی آزادی میں دخل انداز ہو گا، تو چونکہ یہ ایک بالکل نئی بات تھی اس لئے فرشتوں نے اس پر تعجب کیا اور وہ حیران ہوئے کہ اس سے پہلے تو قتل کرنا جائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک قسم جائز ہو جائے گی.پہلے فساد کونا جائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب فساد کی ایک قسم جائز ہو جائے گی.یہ نقطہ نگاہ ابتدائی زمانہ کے لحاظ سے لوگوں کے لئے نہایت ہی اہم تھا بلکہ یہ اعتراض آج بھی دنیا میں ہو رہا ہے.چنانچہ یورپ میں ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پھانسی کی سزا کے مخالف ہے اور وہ اس کی دلیل یہی دیتے ہیں کہ جب کسی کو قتل کرنا نا جائز ہے تو حکومت کسی آدمی کو کیوں قتل کرتی ہے؟ حالانکہ حکومت صرف پھانسی ہی نہیں دیتی اور کئی قسم کے افعال جو بعض گناہوں سے شکل میں مشارکت رکھتے ہیں، حکومت کرتی ہے مثلاً ٹیکس لیتی ہے.اور اگر پہلا خیال درست ہے تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ٹیکس کی وصولی چونکہ ڈا کہ اور چوری کے مشابہ ہے اسے بھی ترک کر دینا چاہئے لیکن یہ لوگ ٹیکسوں پر اعتراض نہیں کرتے.پس معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا پھانسی پر اعتراض محض ایک وہم ہے اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے.ابتدائی زمانہ میں چونکہ ابھی بادشاہت کا طریق جاری نہیں تھا دنیا تمدن سے کوسوں دور تھی اس لئے جب کوئی شخص کسی کو مارتا تو سمجھا جاتا کہ اس نے بہت بُرا کام کیا ہے.جب وہ کسی کو کو تھا تو ہر کوئی کہتا کہ یہ نہایت کمینہ حرکت کی گئی ہے.مگر جب خدا تعالیٰ نے بادشاہت قائم کی اور یہ قانون جاری ہوا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے اُسے قتل کیا جائے تو لوگوں کو سخت حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہوا کہ ایک کے لئے مارنا جائز ہے اور دوسرے کیلئے ناجائز ، ایک کے لئے لوٹ کھسوٹ جائز ہے اور دوسرے کے لئے لوٹ کھسوٹ نا جائز.گورنمنٹ ٹیکس لے لے تو یہ جائز ہومگر دوسرا کوئی شخص زبر دستی کسی کا روپیہ اُٹھالے تو اسے نا جائز کہا جائے.گویا وہ سارے افعال جن کو بُراسمجھا جاتا ہے انہیں جب حکومت کرتی ہے تو اس کا نام تہذیب رکھا جاتا ہے اور کوئی ان پر بُرا نہیں منا تا لیکن افراد وہی فعل کریں تو اُسے بُرا مجھا جاتا ہے.

Page 80

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی غرض جب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اب تمدن کے قیام پر اعتراضات دنیا میں نظام قائم ہونے والا ہے تو وہ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اس نئے قانون کے ماتحت اگر آدم خون کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا نیک ہے اگر آدم لوگوں سے زبردستی ٹیکس لے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا شریف ہے یہ عجیب فلسفہ ہے.آج ہم اس سوال کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن جب یہ قانون نیا نیا جاری ہوا ہو گا لوگ سخت حیرت میں پڑ گئے ہوں گے.اب بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس قانون پر معترض ہیں.چنانچہ وحشی قبائل اب تک کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کیوں قتل کرتی ہے؟ اگر کوئی شخص ہم میں سے کسی کو قتل کرے گا تو ہم خود اسے قتل کریں گے گورنمنٹ کو خواہ مخواہ درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور انہیں تسلی نہیں ہوتی جب تک خود انتقام نہ لے لیں.یہ انسانی دماغ کی ابتدائی حالت تھی اور بوجہ تعلیم کی کمی کے آج بھی بعض لوگوں کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرشتے اس پر اعتراض نہیں کرتے کہ نسلِ آدم کی پیدائش سے قتل اور خون ہوگا بلکہ اس پر کہ انسانوں پر ایک ایسا شخص مقرر کیا جائے گا جو یہ بُرے افعال کرے گا اور اس کے ان افعال کو جائز قرار دیا جائے گا.یہ ایک ایسا ذہنی انقلاب تھا کہ اُس وقت کے لحاظ سے اس کو دیکھ کر عقلیں چکرا گئی ہونگی اور لوگوں پر اس نظام کو تسلیم کرنا کہ ایک شخص ان کے مالوں پر ان کی مرضی کے خلاف قبضہ کرے اور ان میں سے بعض کو پھانسی تک دے سکے اور اس کا یہ فعل جائز قرار دیا جائے سخت ہی گراں گزرتا ہو گا.وہ کہتے ہوں گے کہ ہم نے ایک شخص کو مار دیا ہے تو یہ اس کے رشتہ داروں کا معاملہ ہے وہ جانیں اور ہم جانیں یہ شخص بیچ میں گودنے والا کون ہے.چنانچہ آج بھی ناقص الخلقت لوگ انہی وہموں میں پڑے رہتے ہیں اور حکومتوں میں خلل ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.چنانچہ بھیجیم نے تو غالباً پھانسی کی سزا اُڑا ہی دی ہے اور وہ محض اسی نقطہ نگاہ سے اُڑائی ہے جو میں نے بتا یا ہے.اگر وہ لوگ جن کے کہنے پر پھانسی کی سزا اُڑائی گئی میرے سامنے ہوتے تو میں انہیں کہتا کہ پھانسی کی سزا تم مٹاتے ہو تو ٹیکس کا طریق کیوں نہیں اُڑاتے وہ بھی تو دوسروں کے اموال پر

Page 81

انوار العلوم جلد ۱۵ نا جائز تصرف ہے.انقلاب حقیقی حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یورپ کے دماغوں میں تنزل پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے اور دراصل حکومتوں میں خلل ایسے ہی ناقص الخلقت لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اب چونکہ تمدن کا خیال راسخ ہو گیا ہے اب یہ خیال تو نہیں آتا کہ حکومت سرے سے اُڑا دی جائے ہاں یہ خیال آتا ہے کہ شاید اس کی جگہ دوسری حکومت ہو تو وہ ہمارے حقوق کا زیادہ خیال رکھے اور اس وجہ سے تغیر کی کوششیں کی جاتی ہیں.مگر وحشی قبائل کی اب بھی یہی حالت ہے کہ وہ حکومت اور تمدن کو ہر رنگ میں نا پسند کرتے ہیں اور اسے برداشت کرنا ان پر سخت گراں گزرتا ہے اور وہ دوسروں کی دخل اندازی پر سخت حیران ہوتے ہیں.مثلاً ان کے ننگا پھر نے پر اگر حکومت معترض ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ننگے پھرتے ہیں تو کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہمیں کپڑے پہنائے ؟ ہمیں ننگا رہنے سے ہوا لگتی ہے اور مزا آتا ہے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری آزادی میں کوئی اور مداخلت کرے.چنانچہ برطانوی تصرف کی ابتداء میں جب ننگے حبشی افریقہ کے شہروں میں داخل ہونے کے لئے آتے تو شہر کے دروازوں پر حکومت کی طرف سے افسر مقرر ہوتے تھے وہ انہیں تہہ بند دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تہہ بند پہن کر شہر جا سکتے ہو ننگے نہیں جاسکتے.اس پر وہ تہہ بند باندھ تو لیتے مگر ادھر اُدھر دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں کوئی حبشی ان کی اس بے حیائی کو تو نہیں دیکھ رہا اور جب وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تو آنکھیں بند کر لیتے کہ ایسی بے حیائی ہم سے دیکھی نہیں جاتی.پھر جب شہر سے نکلتے تو جلدی سے تہہ بند افسر کی طرف پھینک کر بھاگ جاتے.بلکہ اب تو یورپ میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ننگے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی نگا ر ہنے کی تلقین کرتے ہیں.بلکہ ایک دفعہ تو اس بات پر لڑائی ہوگئی کہ وہ لوگ زور دیتے تھے کہ ہم ننگ دھڑنگ شہر میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پولیس یہ کہتی کہ کپڑے پہن کر آؤ.وہ کہتے تم ہوتے کون ہو جو ہماری آزادی میں دخل دیتے ہو؟ تم آنکھیں بند کر لو اور ہماری طرف نہ دیکھو.مگر تم ہمیں مجبور کیوں کرتے ہو کہ ہم ضرور کپڑے پہنیں؟ آخر جب جھگڑا بڑھا تو پولیس کو گولی چلانی پڑی.یہ بھی یورپ کے تنزل کی ایک علامت ہے کہ اب وہاں کے ایک طبقہ کی دماغی طاقتیں بالکل کمزور ہوگئی ہیں.یورپ میں بعض کہیں ایسی ہیں کہ ایسا شخص کسی صورت میں بھی ان کا ممبر

Page 82

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی نہیں بن سکتا جو کپڑے پہن کر نہاتا ہو کیونکہ ان کے نزدیک ابھی وہ شخص پورا مہذب نہیں ہوا.میں نے اس کے متعلق ایک کتاب بھی پڑھی ہے جس میں ایک ڈاکٹر لکھتا ہے کہ میری بیٹی ننگے مذہب میں شامل ہو گئی.مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اس پر سختی کرنی شروع کر دی.آخر ایک دن بیٹی نے مجھے کہا.ابا ! ذرا چل کر دیکھو تو کہ جن کو آپ بد تہذیب کہتے ہیں وہ کتنے مہذب اور شائستہ لوگ ہیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ایک دن میری بیٹی مجھے زبر دستی اس سوسائٹی میں لے گئی.جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سب لوگ ننگے پھر رہے ہیں.میں یہ دیکھ کر پہلے تو شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا مگر پھر میں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر اتنی معصومیت برس رہی ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں.چنانچہ یہ دیکھتے ہی میرے خیالات بھی بدل گئے اور میں بھی کپڑے اُتار کر اُن میں شامل ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے پہلی دفعہ نسلِ انسانی میں تمدن قائم کیا اور فرمایا کہ تم میں سے بعض خواہ ننگے پھرنے کے قائل ہوں مگر ہم انہیں نگا نہیں پھرنے دینگے گویا انسانی حریت پر آدم نے بعض قیود لگا دیں اور اسے ایک قانون کا پابند کر دیا.تمدنی حکومت کے فوائد آج آپ لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے اور ان پر پہنتے ہیں مگر جب پہلے پہل آدم نے یہ باتیں لوگوں کے سامنے پیش کی ہوں گی تو میں سمجھتا ہوں اُس وقت خونریزیاں ہوگئی ہونگی اور قوموں کی قومیں آدم کے خلاف کھڑی ہوگئی ہونگی.جب آدم نے انہیں کہا ہوگا کہ کپڑے پہنو تو کئی قبائل کھڑے ہو گئے ہونگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہو گا کہ حریت ضمیر کی حفاظت میں کھڑے ہو جاؤ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کے ساتھیوں کو وہ دلائل بھی سکھائے کہ کیوں نظام کی پابندی تمہارے لئے مفید ہو گی.فرماتا ہے اے آدم! جب لوگ اعتراض کریں اور کہیں کہ اس تمدنی حکومت کا کیا فائدہ ہے؟ تو تم انہیں کہنا کہ اگر تم اس جنت نظام میں رہو گے تو بھو کے نہ رہو گے ، ننگے نہ رہو گے، پیاسے نہ رہو گے اور دھوپ کی تکلیف نہ اُٹھاؤ گے اور یہی مذہبی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملکی بہبودی کے سامان کرے.لوگوں نے غلطی سے قرآن کریم کی اس آیت کے یہ معنی لئے ہیں کہ آدم ایسے مقام پر رکھا گیا تھا جہاں نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اس میں دراصل بتایا یہ گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کے لئے کام مہیا کرے.اگر کوئی کام نہ کر سکتا ہو تو

Page 83

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اس کے لئے خوراک مہیا کرے، پانیوں اور تالابوں کا انتظام کرے اور مکانوں کا انتظام کرے.گویا کھانا، پانی، مکان اور کپڑا یہ چاروں چیزیں حکومت کے ذمہ ہیں اور یہ چاروں باتیں إن لك الا تجوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى وَانَّكَ لا تظموا فيها ولا تضحى ٣٦ میں بیان تَضْحَى کی گئی ہیں.کہ اے آدم! اگر لوگ اعتراض کریں تو تو انہیں کہدے کہ حکومت کا پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ تم بھو کے نہیں رہو گے.چنانچہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ خواہ کوئی جنگل میں پڑا ہو اس کے لئے کھانا مہیا کرے.ولا تغری اور پھر تم ننگے بھی نہیں رہو گے کیونکہ تمہارے کپڑوں کی بھی حکومت ذمہ وار ہو گی.اسی طرح لا تظموا میں بتایا کہ حکومت تمہارے پانی کی بھی ذمہ وار ہے.اور ولا تضحی میں بتایا کہ تمہارے لئے مکانات بھی مہیا کئے جائیں گے اور جس حکومت میں یہ چاروں باتیں ہوں وہ نہایت اعلیٰ درجہ کی مکمل امن والی حکومت ہوا کرتی ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بیشک انفرادی آزادی پر پابندی گراں ہے لیکن تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ نظام کے لئے کچھ پابندیاں قبول کرو کیونکہ اس کے بغیر نہ بھوک پیاس کا نہ لباس و مکان کا اور نہ دائی امن یعنی جنت کا انتظام ہو سکتا ہے، پس یہ قیود خود تمہارے فائدہ کے لئے ہیں.غرض آدم کے وقت تک انسان کا دماغ پورا نشو ونما نہیں پا چکا تھا اور گناہ بھی پورے ایجاد نہ ہوئے تھے سوائے چند ایک کے.پس ان کے لئے کچھ احکام دے دیئے گئے اور وہ اسی قدر تھے جس قدر کہ نظام حکومت کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس لئے آدم کے متعلق سارے قرآن کریم میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ وہ مسائل شرعیہ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا.جہاں ذکر آتا ہے انہی چار چیزوں کا آتا ہے.پس حضرت آدم نے صرف دنیا کو متمدن بنایا مگر یہ اُس وقت کے لئے ایک انقلاب تھا اور در حقیقت عظیم الشان انقلاب که دنیا کا موجودہ تمدن اسی کا نتیجہ ہے.دور ثانی.نوح کی تحریک اس کے بعد دوسرا دور آیا جب آہستہ آہستہ آدم کے متبع افراد نے ترقی کی اور انہوں نے دنیا میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے شروع کر دیئے اور انسانی تمدن ترقی کرنے لگا اور انسان کو تمدن سے جو وحشت ہوا کرتی تھی وہ جاتی رہی اور وہ اس بات کا عادی ہو گیا کہ انفرادی آزادی قربان کر کے مجموعی رنگ میں قوم کے فائدہ کے لئے قدم اُٹھائے.اس کے نتیجہ میں مسابقت کا

Page 84

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی مادہ پیدا ہوا اور بعض لوگ نہایت ذہین ثابت ہوئے اور بعض گند ذہن نکلے.کوئی اپنے کام میں نہایت ہی ہوشیار ثابت ہوا اور کوئی نکتا، کوئی اپنی لیاقت کی وجہ سے بہت آگے نکل گیا اور کوئی پیچھے رہ گیا کیونکہ مختلف انسانوں کے قومی میں تفاوت تو ہوتا ہی ہے مگر اس کا ظہور تمدن کی زندگی میں ہوتا ہے اور جس قدر تمدن پیچیدہ اور لطیف ہوتا جائے اسی قدر انسانی قابلیتوں کا تفاوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہونے لگتا ہے.اگر دو متفاوت القویٰ انسانوں کو ادنی تمدن کے دائرہ میں کام پر لگایا جائے تو گو تفاوت ظاہر ہو گا مگر اس قدر نمایاں نہیں ہو گا جس قدر کہ اس وقت جبکہ انہیں کسی اعلیٰ حمدن کے ماتحت کام کرنا پڑے.اعلیٰ تمدن میں تو بعض دفعہ اس قدر فرق ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ قابلیت کا آدمی کسی اور ہی جنس کا نظر آنے لگتا ہے.چنانچہ ایسا ہی آدم کے دور کے آخر میں ظاہر ہونے لگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو آدمی معمولی تھے انہوں نے بعض آدمیوں کو خاص قابلیتوں کا مالک متصور کر لیا اور چونکہ علم النفس کا فلسفہ ابھی ظاہر نہ ہوا تھا اور علم کی کمی کی وجہ سے اس زمانہ کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان میں سے اعلی طاقتوں کا مالک ہے تو ضرور اُسے کوئی اور طاقت جو انسانیت سے بالا ہے حاصل ہے.گناہ کی ترقی کس طرح ہوئی اس لئے ان لوگوں میں پہلا احساس شرک کا پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے میں سے بعض کو خدائی طاقتوں سے متصف خیال کر لیا اور یہ خیال کرنے لگ گئے کہ فلاں آدمی جو اتنا قابل ، اتنا مد تبر ، اتنا سمجھدار اور اتنا عالم تھا وہ آدمی نہیں بلکہ خدا تھا.اگر آدمی ہوتا تو اس کی قابلیتیں ہم سے زیادہ نہ ہوتیں اور اس طرح شرک کی ابتداء ہوئی.جب مادۂ فکر کے ترقی کر جانے کے سبب سے ایک طرف تو شرک کی بیماری لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگئی اور دوسری طرف انسان میں وہ گناہ پیدا ہونے لگے جو تمدن کا لازمی نتیجہ ہیں اُس وقت اللہ تعالیٰ نے نوح کو بھیجا.گویا یہ تہذیب الہی کا دوسرا دور تھا جو نواح دور ثانی کا پیغام.نزولِ شریعت سے شروع ہوا.نوح اُس وقت آئے جب صفات الہیہ کا لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا ہو گیا تھا اور صفاتِ الہیہ کے احساس کے بعد ہی شریعت کا احساس پیدا ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت نوح کے متعلق فرمایا کہ اَوَّلُ نَبِي شَرَعَتْ عَلَى لِسَانِهِ الشَّرَائِعُ کہ نوح وہ پہلا نبی تھا جس پر ے شریعت کا نزول ہوا اور تمدنی قواعد کو ایک با قاعدہ قانون کا رنگ چڑھایا گیا کیونکہ اس زمانہ میں

Page 85

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی انسانی دماغ ترقی کر کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا تھا کہ اس کے لئے اس قسم کی رہنمائی کی ضرورت تھی.چنانچہ حدیث میں جو آتا ہے کہ اول نبي شرعت على لسانه الشرائع اس کے مضمون کا قرآن شریف سے بھی پتہ چلتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا او حينا اليك كما أوحينا إلى نُوْمِ وَالنّبِينَ مِنْ بَعْده : ۳۸ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تیری طرف جو وحی نازل کی ہے یہ ویسی ہی وحی ہے جیسی وحی نوح اور اسکے بعد کے انبیاء کی طرف نازل کی گئی تھی.گویا پہلی وحی عقائد کی نسبت نوح کو ہوئی تھی اور سب سے پہلے تفصیلات صفات الہیہ کا دروازہ اس پر کھولا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک انسانی دماغ بہت ترقی کر گیا تھا اور اس نے صفاتِ الہیہ کا ادراک کرنا شروع کر دیا تھا.اور اس فکر میں ٹھوکر کھا کر اس نے شرک کا عقیدہ ایجاد کر لیا تھا.چنانچہ شرک کا ذکر قرآن کریم میں نوح کے ذکر کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے.پس نوح اول شارع نبی تھے.ان معنوں میں کہ ان کے زمانہ میں انسان روحانیت کی باریک راہوں پر قدم زن ہونے لگ گیا تھا اور اُس کا دماغ مافوق الطبعیات کو سمجھنے کی کوششوں میں لگ گیا تھا.اس کے بعد تیسرا دور ابراہیم کا ہے.گونوح کے متعلق تیسرا دور.ابراہیمی تحریک قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے زمانہ میں شرک ہو چکا تھا اور اس نے شرک کو سختی سے روکا.لیکن در حقیقت وہ دور صفات الہیہ کے احساس کا ابتدائی دور تھا اور شرک بھی صرف بسیط شکل میں تھا.بعض لوگ بزرگوں کے مجھسے پوجنے لگ گئے تھے.بعض اور نے کوئی اور سادہ قسم کا شرک اختیار کر لیا تھا مگر ابراہیم کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی مضمون بن گیا تھا اور اب عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ تو حید کی بار یک راہیں نکل آئی تھیں جن پر عمل کرنا صرف تو حید کے موٹے مسائل پر عمل کرنے سے بہت مشکل تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بُت پرستی دنیا میں آج بھی موجود ہے.مگر آج جب بُت پرستوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کیوں بُت پرستی کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں ہم تو کوئی بت پرستی نہیں کرتے.ہم تو صرف اپنی توجہ کے اجتماع کے لئے ایک بُت سامنے رکھ لیتے ہیں.گویا شرک تو وہی ہے جو پہلے تھا مگر آب شرک کو ایک نیا رنگ دے یا گیا ہے.اسی طرح ابراہیم کے زمانہ میں شرک کو نیا

Page 86

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی رنگ دے دیا گیا تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ وَمَا كَانَ مِنَ المُشرکین ۳۹ اور نوح کی نسبت یہ ایک دفعہ بھی نہیں آیا.کیونکہ زمانہ نوع ، کامل شرک کا نہ تھا.صرف سطحی شرک میں لوگ مبتلا تھے.جس سے بچنا زیادہ عقل نہیں چاہتا تھا اور بتوں کے آگے جھکنے یا نہ جھکنے کے مسئلہ کو ہر شخص سمجھ سکتا تھا.لیکن ابراہیم کے وقت میں شرک ظاہری رسوم سے نکل کر باطنی رسومات کی حد تک پہنچ گیا تھا اور با وجود بتوں کے آگے نہ جھکنے کے بوجہ فلسفہ کی ترقی کے اور فکر کی بلندی کے ذہنی شرک کی ایک اور قسم پیدا ہوگئی تھی جس کا قلع قمع ابرا ہیم نے کیا.پس ایسے زمانہ میں جو موحد کامل ہوا چونکہ وہی ماکان ابراہیمی تحریک کا پیغام میں المُشرکین کے خطاب کا مستحق ہو سکتا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے.حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق استعمال نہ کئے گئے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ نوح اعلیٰ موحد نہ تھا.چنا نچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پانچ دفعہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور پانچوں جگہ آپ کے متعلق وَمَا كَانَ مِنَ المُشرکین کے الفاظ آتے ہیں لیکن نوح کے متعلق یہ الفاظ نہیں آتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گواپنے زمانہ میں نوح نے شرک کا مقابلہ کیا مگر چونکہ کامل شرک اُس وقت رائج نہیں تھا اس لئے وما كان من المُشرکین کے نام سے آپ کو پکارنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ بوجہ عبادت اوثان سے اجتناب کرنے کے ہر شخص جانتا تھا کہ آپ مشرک نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سوئی سے ہر عورت کام کر سکتی ہے مگر ہر عورت درزی نہیں کہلا سکتی کیونکہ درزی کے لئے اپنے فن میں ماہر ہونا ضروری ہے.اسی طرح نوح کے متعلق گو ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے شرک کا مقابلہ کیا مگر ابراہیم کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ شرک کا مقابلہ آپ کا پیشہ اور فن بن گیا تھا اس لئے آپ کے متعلق کہا گیا کہ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِين غرض ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں علاوہ ظاہری شرک کے ایک اور شرک جو ذہنی اور فلسفی تھا پیدا ہو گیا تھا.اُس وقت صرف یہی شرک نہ رہا تھا کہ بعض لوگ بتوں کے آگے سر جھکاتے تھے بلکہ محبت اور بغض کی باریک راہوں پر غور کر کے انسانی احساسات بہت ترقی کر گئے تھے اور اب بغیر ظاہری شرک کرنے کے بھی انسان ذہنی طور پر مشرک ہو سکتا تھا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح کو یہ نہیں کہا کہ اسلم اور اُس نے جواب میں کہا ہو ا سلمتُ لِرَبِّ العلمين البلكه ابراهيم

Page 87

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کو اللہ تعالیٰ نے کہا اسلیم کہ میں تجھے صرف یہی نہیں کہتا کہ بُت کو سجدہ نہ کر بلکہ میں تجھے یہ بھی کہتا ہوں کہ تُو اپنے دل کے خیالات بھی گلی طور پر میری اطاعت میں لگا دے اور ابراہیم نے جواب میں کہا آسلمت لرب العلمین کہ اے خدا ! میرے جسم کا ذرہ ذرہ تیرے آگے قربان ہے میری عقل، میر اعلم ، میرا ذ ہن سب تیرے احکام کے تابع ہیں اور میری ساری طاقتیں اور ساری قوتیں تیری راہ میں لگی ہوئی ہیں اسی لئے اس کی نسبت کہا گیا دما حان مِن المُشرکین یہی وہ تو حید ہے جسے تو کل والی توحید کہتے ہیں.اور درحقیقت تو حید وہی ہوتی ہے جو تو کل والی ہو، جب انسان یہ کہنے لگے کہ میرے کام سب ختم ہیں.اب میرا کھانا، پینا، میرا اُٹھنا بیٹھنا، میرا سونا، میرا جا گنا، میرا مرنا، میرا جینا سب خدا کے لئے ہوگا.چنانچہ دیکھ لو اس کا فرق آگے کس طرح ظاہر ہوا.نوح کو جب طوفان کے موقع پر بچنے کی ضرورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا کہ تو ایک کشتی بنا جس پر بیٹھ کر تو اور تیرے ساتھی طوفان سے محفوظ رہیں اور خدا نے اسے کشتی بنا دی لیکن جب ابرا ہیم کو خدا نے کہا کہ جا اور اپنے بچے اسمعیل کو وادی غیر ذی زرع میں پھینک آ تو اس نے اسے کوئی ایسی ہدایت نہیں دی کہ ان کے کھانے اور پینے کے لئے اسے کیا انتظام کرنا چاہئے.اس نے اسے بس اتنا حکم دے دیا کہ جا اور اپنی بیوی اور اپنے بچہ کو فلاں وادی میں چھوڑ آ.چنانچہ وہ گیا اور ہاجرہ اور اسمعیل کو بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر چلا گیا اور اس نے یقین کیا کہ جو خدا انہیں گھر پر رزق دیتا تھا وہی انہیں اس جگہ بھی رزق بہم پہنچائے گا غرض ابراہیم نوح کی نسبت تو کل کے زیادہ اعلیٰ مقام پر تھے اور تو کل کامل کا مقام ہی توحید کامل کا مقام ہوتا ہے جو ابراہیم سے ظاہر ہوا.ابراہیم کے ذریعہ سے تعمیلِ انسانیت اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیم کے ذریعہ سے ہوئی اور دراصل تکمیلِ انسانیت اور تکمیل توحید لازم و ملزوم ہیں.جب تک تو حید کی تکمیل نہ ہوا انسانیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور جب تک انسانیت کی تکمیل نہ ہو تو حید کی تکمیل نہیں ہو سکتی اسی لئے صوفیا ء نے کہا کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ " جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچانا.پس جس طرح فہم انسانی کا ارتقاء ابراہیمی دور میں ہوا اور مذہب کا فلسفہ اپنی شان دکھانے لگا اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیم کے ذریعہ سے ہوئی یعنی انسان کو دوسری اشیاء سے ممتاز قرار دیا گیا اور انسانی قربانی کو منسوخ کیا گیا.آپ سے پہلے انسانی زندگی کو کوئی قیمت نہیں دی

Page 88

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی جاتی تھی.جو مر گیا مر گیا جو زندہ رہا زندہ رہا.مگر ابراہیم کے زمانہ میں آدم اور دوسری مخلوقات میں فرق کر دیا گیا.ابھی تک انسان اور جانور میں کوئی نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا.خیال کیا جاتا تھا کہ دونوں کھاتے پیتے ہیں، دونوں بچے پیدا کرتے ہیں ، دونوں چلتے پھرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ انسان کی دماغی ترقی نمایاں ہے اس وجہ سے اُس وقت تک قربانی کے لئے بعض دفعہ انسان بھی پیش کر دیا جا تا تھا کیونکہ جانوروں اور انسان میں کوئی اتنا نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا.صرف یہ احساس تھا کہ انسان زیادہ قیمتی ہے اور جانور کم قیمتی مگر ابراہیم کے زمانہ میں جب لوگوں نے تو حید کو سمجھ لیا تو خدا نے کہا اب اسکی قربانی نہیں ہو سکتی کیونکہ اب یہ حیوان نہیں بلکہ پورا انسان بن گیا ہے اور اسکی زندگی اپنی ذات میں ایک مقصود قرار پا گئی ہے.پس اس مقام پر انسان کو پہنچانے کی وجہ سے ابراہیم ابوالانبیاء کہلایا جس طرح آدم ابوالبشر کہلایا.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں یوم البعث کا صحیح مفہوم انسان کے اندر پیدا کر دیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ انسانی زندگی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے اس لئے سوائے ایسی مجبوری کے کہ اسکی قربانی کے بغیر چارہ نہ ہو اس کی فضول قربانی خود اس مقصد کو تباہ کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا.گویا اب قربانی فلسفی اور عقلی ہوگئی ظاہری اور رسمی نہ رہی.مثلاً لڑائیوں میں انسان قربان کر دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ جائیں اور مر جائیں اور اس موقع پر جب یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسان کی قربانی جائز نہیں تو معا یہ جواب بھی مل جائے گا کہ ادفی اعلیٰ کے لئے قربان کر دیا جاتا ہے ، اعلیٰ ادنیٰ کے لئے قربان نہیں کیا جاتا.گویا قربانی فلسفہ اور عقل کے ماتحت آ جائے گی.اور بعض موقعوں پر اس قربانی کا پیش کرنا جائز بلکہ ضروری ہوگا اور بعض موقعوں پر نہیں.پھر اس کے ساتھ ہی جب یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انسان تمام مخلوق سے اعلیٰ ہے تو اسی خیال سے تصوف کا دور شروع ہو گیا اور انسان یہ سمجھنے لگا کہ میں اس لئے پیدا کیا گیا ہوں کہ اپنے خدا کی رضا حاصل کروں اور اس کا محبوب بنوں گو یا ابراہیم سے تصوف کا دور شروع ہوا.گو اُس وقت صرف اس کی بنیاد پڑی اور ترقی بعد میں ہوئی.اور یہ توجہ اس لئے پیدا ہوئی کہ جب فیصلہ کیا گیا کہ انسان قتل نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیاد اس امر پر رکھی گئی کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کا محبوب بنے تو ہر عقلمند شخص اس فکر میں پڑ گیا کہ وہ محبوبیت الہی کے مقام کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح کوشش کرے اور اس طرح تصوف کی بنیاد پڑ گئی.

Page 89

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تمدن کامل کی بنیا دا براہیم سے پڑی جب انسان کی قربانی را کی گئی کو اس رڈ تو نے انسانی دماغ کو اس طرف بھی مائل کر دیا کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اور جب یہ خیال پیدا ہوا تو ساتھ ہی قانونِ قدرت پر بار یک در بار یک غور بھی شروع ہوا اور تمدن کے کمال کی طرف انسانی توجہ مائل ہو گئی.پس حمدنِ انسانی کے کمال کا دور بھی حقیقی طور پر ابراہیم کے زمانہ میں شروع ہوا.حقیقت یہ ہے کہ اس دور سے پہلے انسان صرف ایک مُحِب کی شکل میں تھا اور اس کے ذہن میں محبوبیت کا خیال پیدا نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس کی نامکمل ترقی کو دیکھتے ہوئے خوف کیا جاتا تھا کہ وہ سست اور غافل نہ ہو جائے کیونکہ ابھی اس کا دماغ اس بار یک فلسفہ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا لیکن ابراہیم کے وقت میں وہ اس قابل ہو چکا تھا کہ اس پر یہ راز کھولا جائے چنانچہ ابراہیم نے انسان کے محبوب الہی ہونے کے فلسفہ کو پیش کیا اور چونکہ محب محبوب کی جان کا ضیاع پسند نہیں کرتا اس لئے اس کی قربانی رڈ کی گئی گویا یہ تصوف کا پہلا دور تھا.اسی طرح ابراہیم کا دور فلسفہ حیات انسانی کے سمجھنے کا دور تھا کیونکہ اُس وقت یہ نظریہ انسان کے سامنے رکھا گیا کہ یہ زندگی عبث اور فضول نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان نعمت ہے اور آئندہ ترقیات کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کا ذریعہ ہے.اس کے بعد دورِ موسوی شروع ہوا کہ یہ دور ایک موسوی دور اور اُس کا پیغام نی تبدیلی اور نیا انقلاب لے کر آیا یعنی اب دین اور دنیا کو ملا دیا گیا اور کفر اور اسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا.آدم کے زمانہ میں صرف تمدن تک بات تھی ، نوح کے زمانہ میں شرک اور توحید میں ابتدائی امتیاز قائم ہوا اور ایک محدو د شریعت کی بنیاد پڑی ، ابراہیم کے زمانہ میں توحید کامل کی گئی مگر موسوی زمانہ میں انسانی ذہن میں اس حد تک ترقی ہو چکی تھی کہ اب ضرورت تھی کہ دین و دنیا کے قواعد پر مشتمل ایک ہدایت نامہ نازل ہو.گویا ایک ہی وقت میں مذہب، دین اور دنیا دونوں کا چارج لے لے.پھر اس زمانہ میں گفر واسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا تھا.موسیٰ سے پہلے کفر و اسلام میں امتیاز نہیں تھا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کافروں کی بیٹی لے لیتے اور ان سے تعلقات رکھتے مگر موسوی دور میں دینِ حق نے علیحدہ اور ممتاز صورت اختیار کر لی تھی جیسے آدم اور نوح کے زمانہ میں انسان نے ممتاز درجہ اختیار کر لیا تھا.اب تفصیلی ہدایت کی ضرورت تھی جن کا تعلق تمدن، سیاست اور

Page 90

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی روحانیت ، تینوں سے ہو.اس میں تمدنی ہدایات بھی ہوں کہ گھروں کو اس طرح صاف رکھو، آپس کے تعلقات میں فلاں امور ملحوظ رکھو اور اس میں سیاسی ہدایات بھی ہوں کہ بادشاہ یہ یہ کام کریں اور رعایا کا بادشاہ سے یہ سلوک ہو اور پھر اس میں روحانی ہدایات بھی ہوں کہ عبادت کس طرح کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح حاصل کیا جائے.گویا اب ایک ایسے نبی کی ضرورت تھی جو ایک ہی وقت میں نبی بھی ہو، بادشاہ بھی ہو اور جرنیل بھی ہو، خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو اس کام کے لئے چنا اور چونکہ انسانی عقل بہت ترقی کر چکی تھی ، ایک کامل نظام رائج ہو چکا تھا، فلسفہ اپنے کمال کو پہنچ رہا تھا اس وقت ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو آدم بھی ہو نوح بھی ہوا اور ابراہیم بھی ہو.پس موسیٰ ان تینوں شانوں کے ساتھ آئے اور ان کے ذریعہ سے وہ تفصیلی ہدایت نامہ دنیا کو دیا گیا جس کا تعلق سیاست، روحانیت اور تمدن متینوں سے تھا اور جس میں سیاسی ہدایات بھی تھیں اور روحانی بھی اور تمدنی بھی.چنانچہ آپ کے ذریعہ سے جو انقلاب پیدا ہوا وہ مندرجہ ذیل امور پر مشتمل تھا.ایک شریعت کامل جو موسوی دور کا پہلا انقلاب.شریعت کامل عبادات، روحانیت، سیاست اور تمدن کی تفصیلات پر مشتمل تھی جس کی مثال اس سے پہلے کسی نبی میں نہیں پائی جاتی تھی اس کے ذریعہ سے جسم و روح کے گہرے تعلق کو ظاہر کیا گیا تھا اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کے حصول کے لئے راستہ کھول دیا گیا تھا.ابراہیم کے وقت میں صرف جسم کی خوبی اور برتری تسلیم کی گئی تھی مگر جسم اور روح کے گہرے تعلق کو صرف موسیٰ کے وقت میں ظاہر کیا گیا اور اس طرح مدارج روحانیت کے حصول کا دروازہ بنی نوع انسان کے لئے کھول دیا گیا.چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ثُم أتينا موسى الكتب تمامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَ تَفْصِيلًا لكل شَيء وَ هُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاء رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ ٢٣ یعنی پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اس شخص پر احسانِ عظیم کرنے کے لئے جس نے ہماری پوری فرمانبرداری کی تھی.وہ کتاب ہر قسم کی شرائع پر حاوی تھی اور اس میں ہدایت اور رحمت کی باتیں تھیں.تعلّهُمْ بِلِقَاء رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ تا کہ لوگ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا یقین کرلیں.پھر فرماتا ہے وكَتَبْنَا لَهُ في الالواح مِنْ كُلّ شَيْءٍ مَوْعِظَةٌ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ

Page 91

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی قي ٤٤ کہ ہم نے موسیٰ کے لئے الواح میں جو کچھ لکھا اس میں ہر قسم کی نصیحتیں تھیں اور ہر بات کے متعلق اس میں تفصیلی ہدایات درج تھیں.گویا تو رات وہ پہلی الہی کتاب تھی جس میں بنی نوع انسان کے لئے تفصیلی ہدایات دی گئیں اور انسان کو تمدن میں اتنا اعلیٰ سمجھ لیا گیا کہ اب اس سے یہ امید کی جانے لگی کہ وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی بار یک در بار یک آزادیاں قربان کرنے کے لئے بھی تیار رہے اور انسانی اعمال کے ہر شعبہ کے متعلق ہدایات دی گئیں.مثلاً عورت حائضہ ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے ، انسان جنبی ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے، بیمار ہو تو اس کیلئے یہ ہدایت ہے ، عبادت خانوں کے متعلق یہ ہدایت ہے غرض تفصیلا تعُيّ شیہ کے مطابق موسیٰ کے ذریعہ سے ہر بات کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئیں.دوسرا انقلاب صفات الہیہ کی تفصیلات دوسرا انقلاب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا یہ تھا کہ صفات الہیہ کی تفصیلات ظاہر کی گئیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں گو انسانی دماغ ترقی کر چکا تھا اور بعض صفات الہیہ کی باریکیاں ظاہر ہو چکی تھیں مگر صفات الہیہ کے بار یک با ہمی تعلقات اور صفات الہیہ کا وسیع دائرہ اس وقت تک دنیا نہ سمجھنے کی اہلیت رکھتی تھی اور نہ اُس کے سامنے وہ پیش کیا گیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں دنیا اس قابل ہوگئی تھی ، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام پر صفات الہیہ کا وسیع اظہار کیا گیا جس کی وجہ سے نظام عالم کے سمجھنے کی قابلیت لوگوں میں پیدا ہو گئی.گویا صفات کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں بدل کر بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات پیدا کرنے کی ایک بہتر صورت نکل آئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی احدیت تک دماغ نے ترقی کی تھی.اس حد تک ترقی نہیں کی تھی کہ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوتا کہ صفات الہیہ موجودہ حکومتوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹوں کی طرح الگ الگ ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم پہلے کہیں کہ ایک بادشاہ ہے جس کی اطاعت کرنی چاہئے اور دوسرے وقت ہم یہ کہیں کہ اس بادشاہ کے ماتحت کئی افسر ہیں اُن سب کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان کی اطاعت بادشاہ کی اطاعت ہے.پھر ہم یہ بتائیں کہ یہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا افسر ہے اور وہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا.یہ ڈیپارٹمنٹ تعلیم سے تعلق رکھتا ہے، وہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی بھی مختلف صفات ہیں اور ان صفات کے بھی مختلف ڈیپارٹمنٹ ہیں جن کو پورے طور پر سمجھنے کے بعد ہی انسان کو حقیقی دعا کرنی آتی ہے.

Page 92

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہ دروازہ لوگوں پر کھول دیا گیا اور صفات الہیہ کے متعلق آپ کو وسیع علم دیا گیا.چنانچہ جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس قدر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے صفات الہیہ بیان ہوئی ہیں قریباً اتنی ہی صفات قرآن کریم نے بیان کی ہیں.میں نے ایک دفعہ غور کیا تو مجھے کم از کم اس وقت کوئی ایسی نئی صفت نظر نہیں آئی تھی جو قرآن کریم نے بیان کی ہو مگر تو رات نے بیان نہ کی ہو.وہی رب، رحمن ، رحیم اور ملت يزيد الدين وغیرہ صفات جو اسلام نے بیان کی ہیں وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کی تھیں.غرض موسوی دور میں انسانی دماغ اس قابل ہو گیا تھا کہ وہ صفات الہیہ کے جو اعلی ڈیپارٹمنٹ ہیں اُن کو سمجھ سکے.گویا صفات الہیہ کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں تبدیل ہو گیا اور بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات کی بہترین صورت پیدا ہوگئی.یہی وجہ ہے کہ موسی وہ پہلے نبی ہیں جن کے بعد ایک لمبا سلسلہ نبیوں کا ایسا آیا جو گلی طور پر آپ کی شریعت کے تابع تھے ، گو نبوت اُن کو براہ راست ملی تھی.گویا جب انسان نے خدائی صفات کے ڈیپارٹمنٹ کو سمجھنے کی کوشش کی تو خدا تعالیٰ نے کہا.اب تم بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ بنا لو کہ اب تم سے آئندہ ایک ظاہری حکومت چلے گی اور خلفاء آئیں گے جو حکومت کریں گے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے نبی تھے جن کے بعد ماً مورخلفاء لائے گئے اور آپ سے نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ چلایا گیا جنہیں گو نبوت براہِ راست ملتی تھی مگر موسوی شریعت کے وہ تابع ہوتے تھے.اب اس وقت مذہب ایک با قاعدہ فلسفہ بن گیا جو انسانی زندگی کے سب شعبوں پر روشنی ڈالتا تھا.گویا شریعت کا محل بن کر چاروں طرف سے محفوظ ہو گیا.یہی فلسفہ کا کمال تھا کہ ابراہیم نے جب صفات الہیہ کا باب پڑھا تو کہا رت ادري كيف تُخيِ الموتى ندا یا ! احیائے موتی کی صفت کا جلوہ مجھے دکھا.مگر موسیٰ چونکہ ابراہیم سے بہت زیادہ صفات الہیہ کا علم رکھتا تھا اس لئے اس نے کہا ت اري انظر اليك ۶ کہ خدایا! تیری تمام صفات کا مجھے علم ہو چکا ہے اب یہی خواہش ہے کہ تو مجھے اپنا سارا وجود دکھا دے.گویا ایک نے صرف ایک صفت کا جلوہ مانگا مگر دوسرے نے خود خدا کا دیدار کرنا چاہا.حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کہتے ہیں رب آري كيف تُخيِ الموتى اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں ربّ ارني انظر اليك ، وہ کہتے ہیں مجھے صفتِ احیاء کا نمونہ دکھا اور یہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنا سب کچھ دکھا.دُنیا کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے تو لوگ اُسے تو جھوٹا سمجھتے ہیں مگر اس سے ط

Page 93

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پہلے نبی کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور جب بعد میں آنے والے نبی کی بڑائی بیان کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کیا پہلے جاہل تھے ؟ کیا انہیں ان باتوں کا علم نہیں تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے تو یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، انہیں غصہ آیا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارا دا دا کم علم والا تھا اور تم اس سے زیادہ عرفان رکھتے ہواس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.اگر تم سچے ہو تو ہمیں بھی خدا دکھاؤ.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا یموسی لَن تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نرى الله جهرة عمرہ اے موسیٰ ! ہم تیری اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں جب تک ہم خود بھی خدا کو نہ دیکھ لیں اس جگہ نُورمن کے معنی ایمان لانے کے نہیں وہ تو پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ظاہری ایمان رکھتے تھے.کن تُؤْمِن کے یہ معنی ہیں کہ یہ جو تو نے کہا ہے کہ میں نے خدا دیکھا اس میں تو جھوٹا ہے اور ہم تیری یہ بات ہرگز ماننے کیلئے تیار نہیں اور اگر ہمیں بھی دکھا دو تو خیر پھر مان لینگے.یہی وہ انقلاب روحانی تھا جو چاروں گوشوں اور چاروں دیواروں کے لحاظ سے کامل تھا اور موسیٰ کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے کہا گیا کہ اس انقلاب روحانی کی آخری تحریک بھی موسیٰ کے نقش قدم پر ہوگی.چنا نچہ فرمایا: خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا تم اس کی طرف کان دھر یو“.۲۸ اور پھر آخری کلام میں مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرما یا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمُ رسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً ۳۹ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کامل اور اکمل شریعت لائے ہیں یہ گو ہر لحاظ سے سابقہ الہامی کتب پر فضیلت رکھتی ہے مگر ظاہری تکمیل کے لحاظ سے اسے موسیٰ کی شریعت سے مشابہت ہے، دوسروں سے نہیں.دوسروں کی کتابوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے متفرق کمرے بنے ہوئے ہوں اور موسیٰ کی شریعت کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مکان ہو جس میں مختلف ضرورتوں کے لئے الگ الگ کمرے بنے ہوئے ہوں اور سب ضرورتوں کا اس میں مکمل انتظام موجود ہو.اور گو قرآن کریم تاج محل کی طرح دوسرے سب مکانوں سے ممتاز ہے مگر مشابہت کے لحاظ سے اُسے مکان سے ہی مشابہت دی جاسکتی ہے، الگ الگ بنے ہوئے کمروں سے نہیں.پس موسیٰ وہ پہلا نبی تھا جسے وہ کامل قانون ملا جو سب

Page 94

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی نظام پر حاوی تھا گو اعلیٰ تفصیلات کے لحاظ سے اس میں بھی نقص تھا.تیسرا انقلاب بالمشافہ وحی الہی تیسرا انقلاب جو موسی کے ذریعہ سے پیدا ہوا.وہ یہ ہے کہ موسیٰ کے زمانہ تک وحی الہی کا طریق بھی تبدیل ہوتا چلا گیا اور اب بالمشافہ وحی کا طریق جاری ہوا کیونکہ شریعت کی جزئیات پر بحث ہوئی تھی اور اس کیلئے لفظی وحی کی ضرورت تھی تا کلام محفوظ رہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا ھے کہ موسیٰ کے ساتھ اکثر بالمشافہ وحی ہوتی تھی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلوں سے بالمشافہ کلام نہ ہوتا تھا بلکہ یہ مطلب ہے کہ پہلے زیادہ تر رؤیا و کشوف پر مدار تھا اور اسی ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیب کی خبر میں اپنے نبیوں پر ظاہر کیا کرتا تھا.مگر موسیٰ کی شریعت کا اکثر کلام بالمشافہ ہوا اور رویا و کشوف کی کثرت کی جگہ لفظی کلام کی کثرت نے لے لی لیکن ابھی تک معنی محفوظ قرار دیئے جاتے تھے کلام محفوظ نہیں قرار دیا جاتا.جیسے ہم زید سے جب بات کرتے ہیں تو لفظوں میں کرتے ہیں اور اس طرح اُسے ہماری بات کے سمجھنے میں بہت کم محبہ ہو سکتا ہے مگر ہم اپنے الفاظ اُسے یاد نہیں کراتے بلکہ جو مطلب اس کے دماغ میں آتا ہے اس کے مطابق وہ کام کرتا ہے لیکن اگر ہم اپنے الفاظ کی زیادہ احتیاط کرانا چاہیں تو پھر ہم لکھوا دیتے ہیں یہی فرق قرآنی وحی اور موسیٰ کی وحی میں ہے.موسیٰ کے زمانہ میں ابھی یہ حکم نہیں تھا کہ جو الفاظ سُنو وہی لکھو.بلکہ جو الفاظ ہوتے اُن کے مطابق ایک مفہوم لے کر کتاب میں درج کر دیا جاتا.مگر قرآنی وحی کے نزول کے وقت اُس کی زبر، اُس کی زیر ، اُس کی پیش اور اُس کی جزم تک وحی الہی کی ہدایت کے ماتحت ڈالی گئی.موسوی دور کے بعد اب عیسوی دور کا پیغام احیائے شریعت موسوی عیسوی دور شروع ہوتا ہے اور عیسوی دور ہی وہ پہلا دور ہے جو تاریخی طور پر اس آیت کے دوسرے حصہ کے ماتحت آتا ہے که ماننسخ من أيّةٍ اَوْ تُنْسِهَا نَاتِ بِخَيْرٍ منها آذر مثلها کہ ہمارے احکام جب لوگوں کے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں تو ہم ویسے ہی احکام پھر اُتار دیتے ہیں یعنی دوبارہ اُن کو زندہ کر دیتے ہیں.اس زمانہ میں ایک ایسا نبی آیا جو نئی شریعت نہیں لایا بلکہ تو رات کے بعض مضامین کو اس نے نمایاں طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق

Page 95

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیدُ لَهُ بِرُوحِ الْقُدُس موسوی دور میں شریعت کی تکمیل ہوئی اور اُس کے معارف نے بڑھتے بڑھتے ایک زبر دست منتظم قانون کی شکل اختیار کر لی جس کی مثال پہلے کبھی نہ ملتی تھی لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کی نگاہ مغز سے ہٹ کر چھلکے کی طرف آ گئی اور دوسری طرف انسانی ذہن اب اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ اسے تصوف کا مزید سبق دیا جانا ضروری تھا.پس عیسی آئے تا کہ ایک طرف تو رات کے احکام کو پورا کریں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے.یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کر نے آیا ہوں، ۵۲ اور دوسری طرف وہ لوگوں کو تو رات کے احکام کی حکمت سمجھا ئیں اور ان کی توجہ کو چھلکے سے ہٹا کر مغز کی طرف پھرا ئیں اور انہیں بتائیں کہ ظاہری شریعت صرف اس دنیا کی زندگی کو درست کرنے کیلئے اور باطنی شریعت کے قیام میں مدد دینے کیلئے ہے.ورنہ اصل شئے صرف باطنی صفائی اور پاکیزگی اور تقدس ہے.سو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے یہ کام لیا.انہوں نے ایک طرف موسوی احکام کو دوبارہ اصل شکل میں قائم کیا اور دوسری طرف جو لوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن بھی ہے.اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ ظاہر لعنت بن جاتا ہے.نمازیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر تم صرف ظاہری نماز ہی پڑھو گے باطنی نماز نہیں پڑھو گے تو وہ نماز لعنت بن جائے گی ، روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر تم ظاہری روزہ کے ساتھ باطنی روزہ نہ رکھو گے تو یہ ظاہری روزہ لعنت بن جائے گا.یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ فويل للمصلين ۵۳ یعنی بعض نماز پڑھنے والے ایسے ہیں کہ نماز اُن کیلئے ویل اور لعنت بن جاتی ہے.مسلمانوں کو رسول کریم اللہ نے چونکہ پوری بات کھول کر بتا دی تھی اس وجہ سے اُنہیں دھوکا نہ لگا.یہ کھول کر بتانا بھی عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے ماتحت تھا کہ انہوں نے کہا تھا.دو لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی.۵۴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بات کو واضح کر دینے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ آپ نے بھی وہی بات کہی تھی جو مسیح علیہ السلام نے کہی تھی مسلمانوں کو دھوکا نہ لگا اور انہوں نے شریعت

Page 96

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کو لعنت نہ قرار دیا.بلکہ صرف اس عمل پر شریعت کو لعنت قرار دیا جس کے ساتھ دل کا تقدس اور اخلاص اور تقوی شامل نہ ہو.مگر مسیحیوں نے مسیح کے کلام سے دھوکا کھایا اور جب ان کی روحانیت کمزور ہوئی انہوں نے اپنی کمزوری کے اثر کے ماتحت غلط تاویلوں کا راستہ اختیار کر لیا اور شریعت کو لعنت قرار دینے لگے اور یہ نہ خیال کیا کہ اگر وہ لعنت ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام اور اُن کے حواری روزے کیوں رکھتے تھے ، عبادتیں کیوں کرتے تھے، جھوٹ سے کیوں بچتے تھے اور اسی طرح نیکی کے اور کام کیوں کرتے تھے.ان امور سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ ظاہری عبادت کو لعنت نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح نہ کی جائے تو وہ ظاہر لعنت بن جاتا ہے.غرض آید نه بروح القدس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر پاکیزگی قلب کے خاص راز ظاہر کئے گئے تھے اور قدوسیت اور باطنی تعلیم پر زور دینے کیلئے ان کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا اور ظاہری احکام کی باطنی حکمتیں انہیں سمجھائی گئی تھیں اور ان کے دور میں تصوف نے زمانہ بلوغت میں قدم رکھنا شروع کیا تھا.دور محمدی کا پیغام ، مذہب کی عمارت کی تکمیل حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مذہب کی کی عمارت تکمیل کے قریب پہنچ گئی تھی.مگر ابھی پوری تحمیل نہ ہوئی تھی.سو اس کام کیلئے سید ولد آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ دور محمدی ہے.جامع کمالات انبیاء محمد مصطفی عمل آپ آدم بھی تھے کہ اللہ تعالی نے الله آپ کو اپنا خلیفہ تجویز کیا اور صحیح تمدن کے قیام کا کام آپ کے سپر د کیا.آپ نوع بھی تھے کہ آپ کو فرمایا.اِنّا اوْحَيْنَا تِيكَ كَمَا أَوْحَيْنَا الى نوچ پس نوح والا پیغا م بھی آپ کی وحی میں شامل تھا.آپ ابراہیم بھی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيكَ آن اتبع مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكين ۵۵ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ابراہیم بھی بن جا.کوئی کہے بن جا کہنا تو ایک حکم ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ واقع میں ابراہیم بن بھی گئے تھے ؟ سو ہم کہتے ہیں اس کا ثبوت

Page 97

انقلاب حقیقی انوار العلوم جلد ۱۵ بھی قرآن سے ہی ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل هذِهِ سَبِيلَ ادْعُوا إلى اللون على بصيرة أنا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي، وَ سُبحن الله و ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٥٦ والا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی آ گیا اور اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ تُو دُنیا سے کہہ دے کہ توحید کامل کے علمبردار ہونے کا مقام مجھے بھی عطا ہوا ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے.قل إنّني هَديني رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ، دِينَا قِيمًا مَلَةَ ابْرُهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قُل إنّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لله رب العلمينَ لا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وانا اولُ المُسْلِمِينَ ٥٧ لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دی ہے اس راستہ کی طرف جو ابراہیمی طریق ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے.اس جگہ مشرک کے معنی عام مشرک کے نہیں ہیں بلکہ ایسے شخص کے ہیں جو اپنے دل و دماغ کی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگائے اور اسے پورا تو کل حاصل نہ ہو.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے طریق پر چلایا ہے تو سوال ہو سکتا تھا کہ ابراہیم نے تو اپنی تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے سپرد کر دی تھیں اور جب انہیں کہا گیا تھا کہ اسلیم تو انہوں نے کہہ دیا تھا أسلمتُ الرّب العAT ANNOTATO کیا آپ نے بھی یہی کچھ کہا ہے؟ تو فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ وہی کام میں نے بھی کیا ہے اور میری نماز اور میراذ بیجہ اور میری زندگی اور میری موت سب رب العلمین کے لئے ہو گئی ہیں اور میں اس طرح خدا تعالیٰ کا بن گیا ہوں کہ اب میرے ذہن کے کسی گوشہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی کا خیال باقی نہیں رہا.غرض یہاں لا شريك له سے مُراد کامل توحید کا اقرار ہے اور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تو کہہ دے کہ اس اعلی تعلیم پر چلنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے.یعنی میں ابراہیمی تعلیم پر نقل کے طور پر نہیں چل رہا بلکہ مجھے وہ تعلیم براہِ راست خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے.اور پھر فرمایا کہ تم لوگ اس محبہ میں ہو کہ میں ابراہیمی مقام پر ہوں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ابراہیم کے مقام سے بھی آگے نکل گیا ہوں اور میں کہتا ہوں آنا اولُ المُسلمین کہ پہلا مسلم میں ہوں یعنی ابراہیم بھی اسلمت لرب العلمین کہنے والا تھا اور میں بھی یہی کہتا ہوں اور زمانہ کے لحاظ سے ابراہیم کو تقدم حاصل ہے اور بظاہر اولُ المُسلمین وہ بنتا ہے لیکن تقدم زمانی اصل کے نہیں ، تقدم مقام اصل ھے ہے اور اس کے لحاظ سے میں ہی اول المسلمین ہوں اور ابراہیم میرے بعد ہے.

Page 98

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پھر موسوی کمالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موسوی کمالات بھی آپ سے اندر پائے جاتے تھے.جیسے سورہ مزمل میں فرمایا گیا ہے کہ اِنا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا: شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كما أرسلنا إلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ مشابہت مشابہت مماثلت نہیں ہے بلکہ اعلیٰ کی ادنیٰ سے مشابہت ہے.چنانچہ رسول کریم علی کو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جو امتیازات حاصل ہیں ان کو بھی قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے.مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور کو پیش کیا جاتا ہے.(۱) خدا تعالیٰ نے موسیٰ کی نسبت تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایک ایسی کتاب دی جو تفْصِيلًا لكل شيء تھی اور یہاں یہ فرمایا کہ ما كَانَ حَدِيثًا يُفتَرى وَلَكِن تصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلّ شَيْءٍ وَ هُدًى وَرَحْمَةٌ لقَوْمٍ يُؤْمِنُون - ۵۸ے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ موسیٰ کو جب ایک مفصل ہدایت نامہ مل گیا تو اس کے بعد اب جو تعلیم تم پیش کر رہے ہو یہ جھوٹی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹی نہیں بلکہ پہلی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور اس میں تمام احکام موجود ہیں اور یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا موجب ہے.پس جب کتاب کی خبر خود موسیٰ کی کتاب نے دی ہے وہ بے کا رکس طرح ہو سکتی ہے.یقیناً اس میں زائد خو بیاں ہیں تبھی تو موسیٰ کی کتاب نے اس کی امید دلائی اور نہ موسیٰ کی کتاب کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی.(۲) پھر موسیٰ نے تو یہ کہا تھا کہ رب آرنی انظر اليك ، اور خدا تعالیٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ اجمالی جواب ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھا دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں دکھایا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی خدا تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ خدا یا تو مجھے اپنا وجود دکھا بلکہ خدا تعالیٰ نے خود فر مایا کہ ہم نے اسے اپنا چہرہ دکھا دیا.پس موسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو صرف ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنا فتدلى صلى الله فكان قاب قوسین او ادنی ۵۹ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم اس طرح آمنے سامنے کھڑے ہو گئے جس طرح ایک کمان دوسری کمان کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے اور ان کا ہر سرا

Page 99

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی دوسرے سرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے.گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب ہوئے اور اتنے قریب ہوئے کہ جس طرح کمان کی دونو کیں آمنے سامنے ہوتی ہیں.اسی طرح میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آمنے سامنے ہو گئے اور ہم دونوں میں اتصال ہو گیا.گویا جس امر کا موسیٰ نے مطالبہ کیا تھا اس سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی دکھا دیا.(۳) تیسرا امتیاز اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ پر یہ بخشا ہے کہ صلى الله حضرت موسیٰ کی نسبت تو یہ آتا ہے کہ علم الله مُوسَى تكليما اور آنحضرت ع کی نسبت فرماتا ہے انا اذ حينا اليك كَمَا أَوْحَيْنَا إِلى نُوحِ والتَّبِينَ من بعده - وَاوْحَيْنَا إِلَى ابْرُهِيْمَ وَاسْمعِيلَ وَإِسْحَق وَيَعْقُوبٌ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَآتُوبَ وَيُونُسَ وَهُرُونَ وَسُلَيمن وأتَيْنَا دَاوَدَزَبُورًا وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وعلم الله موسى تكليما " یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیری طرف نوح جیسی وحی بھی نازل کی ہے اور ان تمام نبیوں جیسی وحی بھی جو اس کے بعد ہوئے.اور ہم نے تجھ کو ابراہیم کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسمعیل کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسحق کے کمالات بھی دیئے ہیں اور یعقوب کے کمالات بھی دیئے اور یعقوب کی اولاد کے کمالات بھی دیئے ہیں اور عیسی کے کمالات بھی دیئے ہیں اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے کمالات بھی دیئے ہیں اور داؤد کو جو ز بور ملی تھی وہ بھی ہم نے تجھے دی ہے.اور جو موسیٰ سے ہم نے خاص طور پر بالمشافہ کلام کیا تھا وہ انعام بھی ہم نے تجھے دیا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ محمدی وحی موسیٰ اور دوسرے نبیوں کی وحی کی جامع ہے.اس میں وہ خوبی بھی ہے جو نوح اور دوسرے انبیاء کی وحی میں تھی اور پھر موسٹی کی وحی کی طرح اس میں کلام لفظی بھی ہے بلکہ اس میں موسوی وحی سے بھی ایک زائد بات یہ ہے کہ موسیٰ پر جو کلام اُترتا تھا اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے.جیسے ہم کسی کو کہیں کہ تم جاؤ اور فلاں شخص سے کہو کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ جائے اور زید مثلاً اس کا بھائی یا باپ ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے یہ کہہ دے کہ میرے بھائی یا باپ کو بخار چڑھا ہوا ہے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں گولفظی کلام اترتا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چونکہ ترقی اپنے

Page 100

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کمال کو پہنچ چکی تھی اور اب ایک ایسی شریعت نازل ہوئی تھی جو آخری اور جامع شریعت تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس وحی کے الفاظ بھی محفوظ رکھے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرانَه فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبِہ تُرانه ات کہ موسیٰ کے زمانہ میں تو کلام ہم نازل کرتے تھے اور پھر وہ اپنے الفاظ میں اس کلام کا مفہوم لکھ لیتا تھا اور گومفہوم ہمارا ہی ہوتا تھا مگر الفاظ موسیٰ کے ہو جاتے تھے لیکن تیرے ساتھ ہمارا یہ طریق نہیں بلکہ اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارا کام ہے.جو ہم کہیں وہی لفظ پڑھتے جانا اور پھر ا سے لکھ لینا اپنے پاس سے اس کا ترجمہ نہیں کرنا.اسی طرح فرمایا انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ تحْفِظُونَ " ہم نے ہی یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے لفظوں اور اس کی روح دونوں کے محافظ ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د اس کی حفاظت کا کام نہیں.پھر آپ میں عیسوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسوی کمالات سیارات بھی کمالات پائے جاتے تھے.عیسوی کمالات کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے.وآید نه پروج القدمیں کہ ہم نے اس کی روح القدس سے تائید فرمائی.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا قُل لَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بالْحَقِّ لِيُتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ ٣ که اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ خدا نے یہ کلام روح القدس کے ذریعہ سے نازل کیا ہے سچائی اور حق کے ساتھ.تامؤمنوں کو یہ مضبوط کرے اور اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور بشارتیں ہیں.پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ جو کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے جس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ محض ظاہر کے پیچھے پڑ جانا اور باطنی اصلاح کو ترک کر دینا ایک لعنت ہے اس کے لحاظ سے قرآن کریم نے بھی فرمایا فَوَيْلَ لِلْمُصَلّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هم يراعون ۱۴ کہ لعنت ہے ان پر اور عذاب ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو نماز کی روح سے غافل ہیں اور نماز محض لوگوں کے دکھاوے کے لئے پڑھتے ہیں.یہ وہی ڈیل کا لفظ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں استعمال کرتے ہوئے کہا کہ محض ظاہر شریعت کی اتباع

Page 101

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی لعنت ہے.آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نماز لعنت ہے یا روزہ لعنت ہے یا صدقہ لعنت ہے یا غریبوں اور مساکین کی خبر گیری کرنا لعنت ہے بلکہ آپ کا یہ مطلب تھا کہ ظاہر میں نیکی کے اعمال کرنا اور باطن میں ان اعمال کا کوئی اثر نہ ہونا ایک لعنت ہے.مگر عیسائیوں نے غلطی سے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا کہ نماز لعنت ہے روزہ لعنت ہے.اسی طرح فرمایا.لن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا ولكن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُم ، ۶۵ کہ ظاہری قربانیاں جو تم کرتے ہو وہ خدا تعالیٰ کو نہیں پہنچتیں.بلکہ خدا تعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے اور وہ محبت الہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے یہی تعلیم ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی.جامع جمیع کمالات رُسل غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالاتِ رسل تھے.آپ میں آدم کے کمالات بھی تھے آپ میں نوٹ کے کمالات بھی تھے آپ میں ابراہیم کے کمالات بھی تھے، آپ میں موسیٰ کے کمالات بھی تھے اور آپ میں عیسی کے کمالات بھی تھے اور پھر ان سب کمالات کو جمع کرنے کے بعد آپ میں خالص محمدی کمالات بھی تھے.گویا سب نبیوں کے کمالات جمع تھے اور پھر اس سے زائد آپ کے ذاتی کمالات بھی تھے.پس جو دین آپ لائے وہ جامع جمیع ادیان ہوا اور اس کی موجودگی میں باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کی ضرورت نہ رہی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کے معنی قرآن کریم میں مسلمانوں کو بشارت دی اور فرمایا.اليومييس الذينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ اليَوْمَ الْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسلام دینا ، کفار مایوس ہو گئے ہیں کہ اب اس دین پر غالب آنا ناممکن ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں لا سکتے.پس یہ خیال اب نہیں ہو سکتا کہ کافر اپنے زور سے جیت جائیں.ہاں یہ خیال ہر وقت ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد واپس لے لے.پس اس سے ڈرو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ قرآن کی موجودگی میں تم پر کا فر کبھی فتح نہیں پاسکتا.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم قرآن چھوڑ دو اور گر جاؤ.پس فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو.اب سوال یہ ہے کہ کفار کیوں مایوس ہو گئے ؟ اس کا جواب یہ دیا کہ (۱) دین مکمل کر دیا گیا ہے.اکمال دین سے مراد شریعت کا نزول اور اس کا قیام ہے کیونکہ

Page 102

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی عمل میں آ جانے سے دین مکمل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے طبی مدارس کے سب طالب علم سرجری کی کتابیں تو پڑھتے ہی ہیں مگر کتابیں پڑھنے سے انہیں آپریشن کرنا نہیں آ تا بلکہ عمل کرنے سے آتا ہے.ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ جو گزشتہ صدی میں پنجاب کے بادشاہ تھے ان کے دربار میں ایک دفعہ دیتی کا کوئی حکیم آیا.جو گوعلم طب خوب پڑھا ہو ا تھا مگر اسے تجربہ ابھی حاصل نہیں تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک وزیر ایک مسلمان تھا جو طبیب بھی تھا اس لئے علاوہ وزارت کے طب کا کام بھی اس سے لیا جا تا تھا بلکہ اس پر آشوب زمانہ میں اسی فن کی وجہ سے وہ بچا ہوا تھا.نو وارد طبیب نے وزیر سے اپنی سفارش کے لئے استدعا کی اور وزیر نے بوجہ اپنی شرافت کے اس سے انکار نہ کیا بلکہ مہا راجہ کی خدمت میں اسے پیش کر دیا.مگر ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ حضور علم طب ان حکیم صاحب نے خوب حاصل کیا ہوا ہے اگر حضور نے پرورش فرمائی تو حضور کے طفیل انہیں تجربہ بھی حاصل ہو جائے گا.مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت ذہین آدمی تھا فوراً حقیقت کو تاڑ گیا اور کہا کہ وزیر صاحب یہ دہلی سے آئے ہیں جو شا ہی شہر ہے.ان کی قدر کرنا ہم پر فرض ہے مگر کیا تجربہ کے لئے انہیں غریب رنجیت سنگھ کی جان ہی نظر آئی ہے؟ انہیں دس ہزار روپیہ انعام دے دو اور رخصت کرو کہ کہیں اور جا کر تجربہ کریں.یہ ایک لطیفہ ہے مگر اس میں یہ سبق ہے کہ بغیر تجربہ میں آنے کے علم کسی کام کا نہیں ہوتا اور شریعت کا علم اس سے باہر نہیں ہے.تو شریعت بھی جب تک عمل میں نہ آئے اس کی تفصیلات کا پتہ نہیں چلتا اور وہ مکمل نہیں ہوتی.پس اتمام دین سے مراد یہ ہے کہ احکام دین نازل ہو جائیں اور پھر وہ عمل میں بھی آ جائیں.(۲) اسی طرح فرمایا کفار اس لئے مایوس ہو گئے ہیں کہ اتمام نعمت ہو گیا اور اتمام نعمت اس طرح ہوتا ہے کہ فیوض جسمانی و روحانی کا کامل افاضہ ہوا اور ہر دو انعامات حاصل ہو جائیں اور جب کسی شخص کو کسی کام کا نتیجہ مل جائے تو وہ اس کے سچا ہونے میں شک کر ہی نہیں سکتا.اگر ایک کالج کی تعلیم کے بعد ڈگری مل جائے یا ایک محکمہ کی سروس کے بعد سرکار سے انعام مل جائے.تو کون شک کر سکتا ہے کہ وہ کالج جھوٹا ہے یا وہ محکمہ فریب ہے.اسی طرح جب کسی دین پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جسمانی اور روحانی دونوں فیوض حاصل ہونے لگیں اور اس طرح اتمام نعمت انسان پر ہو جائے تو کون اس کی سچائی سے انکار کر سکتا ہے.اب ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں کہ نعمت کیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.نعمت کیا ہے وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَا وَجَعَلَكُمْ مُلُوعًا ، وأَتيكُمْ ما لَمْ يُؤْتِ احَدًا

Page 103

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی من العلمین.یاد کرو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! خدا تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم پر کی کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے اور پھر تمہیں بادشاہت بھی دی اور پھر تمہیں وہ تعلیم دی جو پہلے تمہیں معلوم نہ تھی اس سے معلوم ہوا کہ نعمت سے مراد اجرائے نبوت بادشاہت اور دوسرے مذاہب سے افضل تعلیم ہے کیونکہ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء سے اجرائے نبوت کا ثبوت ملتا ہے.جَعَلَكُمْ مُلُوا سے بادشاہت کا اور واشكم ما لم يُوتِ احدا من العلمین سے اس امر کا کہ ایسی تعلیم ملے جو دوسرے مذاہب سے افضل ہوا اور انسان اس پر فخر کر سکے.اب اگر کوئی کہے کہ سلطنت کا وجود بعض مذاہب کیلئے ضروری ہے اور شاہت کی کمر مذ ہیں بادشاہت کیونکر مذہبی لحاظ سے دینی نعمت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن مذاہب میں شریعت کا دائرہ سیاسیات اور حمد فی احکام تک وسیع ہوتا ہے ان کے لئے بادشاہت ضروری ہے.اگر بادشاہت نہ ہو تو ان احکام دین کا اجراء کس طرح ہو جو سیاسیات اور تمدن وغیرہ سے متعلق ہیں.پس یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت نہیں جو دین سے خالی ہو وہ تو ایک لعنت ہوتی ہے.یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت ہے جو احکام شرعیہ کو جاری کرے جیسے داؤد کو بادشاہت ملی یا سلیمان کو بادشاہت ملی اور انہوں نے اپنے عمل سے شریعت کے سیاسی اور تمدنی احکام کا اجراء کر کے دکھا دیا.پس جس شریعت کے دائرہ میں تمدنی اور سیاسی احکام ہوتے ہیں اسے لازماً ابتداء ہی میں بادشاہت بھی دی جاتی ہے کیونکہ اگر بادشاہت نہ دی جائے تو شریعت کے ایک حصہ کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو جائے.چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا نے بادشاہت عطا فرما دی تھی ہمیں جب کسی مسئلہ میں شبہ پڑتا ہے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کس طرح کیا تھا.اس طرح سنت ہماری مشکلات کو حل کر دیتی ہے لیکن اگر بادشاہت آپ کو حاصل نہ ہوتی تو سیاسی، قضائی اور بہت سے تمدنی معاملات میں صرف آپ کی تعلیم موجود ہوتی ، آپ کے عمل سے اس کی صحیح تشریح ہمیں نہ معلوم ہوسکتی.پس یہ بات ضروری ہے اور سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ایسی شریعت جو سیاست اور تمدن پر حاوی ہو اس کے ابتداء ہی میں بادشاہت حاصل ہو جائے.پس جعَلَكُمْ قُلُوعًا سے مراد وہی بادشاہت ہے جو احکام دین کے اجراء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے اور جس کا نفاذ

Page 104

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی بسا اوقات غیر ماً مور خلافت کے ذریعہ سے بھی کرایا جاتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ تم کو ماً مور خلافت غیر ماً مور خلافت اور افضل شریعت مل گئی اور یہ انعام ہے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ ا ممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ (۱) آپ کی اُمت میں اجرائے نبوت رہے گا.(۲) اجرائے خلافت حقہ ہو گا.(۳) اور آپ کو افضل تعلیم دی گئی ہے.پھر آپ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ إِنّا له لحفظون کہ جو تعلیم تجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں کسی کا دخل نہیں وہ لفظی الہام ہے اور ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے.پس جس تعلیم کی حفاظت کی جائے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آئندہ بھی افضل رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما ننسخ من أية او ننسها تأتِ بِخَيْرٍ منها آذر مثلها اگر کوئی کلام منسوخ ہو تو اس سے بہتر لایا جاتا ہے جس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جس کلام کو منسوخ نہ کیا جائے اس سے بہتر اور کوئی کلام نہیں.پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم نہ صرف گزشتہ تمام الہامی کتابوں سے افضل ہے بلکہ ہمیشہ افضل رہے گا اور اس کی تنسیخ کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.قرآن کریم اور باقی الہامی کتب کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے کابل میں بھی حکومت کے وہی شعبے ہیں جو حکومت برطانیہ کے شعبہ جات ہیں لیکن حکومت کابل کے مقابلہ میں حکومت برطانیہ زیادہ مضبوط اور زیادہ مفید کام کرنے والی ہے.اسی طرح گو باقی الہامی کتب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں مگر قرآن کریم کی تعلیم ان سب سے زیادہ اعلیٰ ہے اور ہمیشہ اعلیٰ رہے گی.اسلام کا انقلاب عظیم عظم پس ان دو آیتوں سے اس انقلاب عظیم کا پتہ لگ گیا جو اسلام کے ذریعہ سے ہوا.یعنی (۱) اجرائے نبوت (۲) اجرائے خلافت (۳) افضل تعلیم.اگر کہا جائے کہ یہی لفظ موسیٰ کی نسبت آئے ہیں.پھر موسیٰ کی تعلیم سے یہ بڑھ کر کیونکر ہوئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دلیل سے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ماننسخ من أيّة أو ننسها تأتِ بِخَيْرٍ منها أو مثلها جو تعلیم پہلی تعلیم کو منسوخ کر دے وہ اس سے بہتر ہوتی ہے.چونکہ محمدی تعلیم نے موسوی تعلیم کو منسوخ کر دیا ہے اس لئے اس گلیہ کے مطابق وہ اس سے افضل ہے.اب سوال ہو سکتا ہے کہ یہ تو ہوئی نعمت.مگر آیت میں تو ا تمام نعمت کا ذکر ہے.پس خدا تعالیٰ نے نعمت تو دی مگر تمام نعمت کیونکر ہوئی ؟ تو اس کا جواب اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَن يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ

Page 105

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ و حسن أوليك رفيقاً ۶۸ کہ وہ لوگ جو خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں شامل کرے گا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نزول شرائع کے بعد یہ نقص جو پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ شریعت کو بُھول جاتے ہیں اور تعلیم باوجود موجود ہونے کے بریکار ہو جاتی ہے اس سے گو کسی تعلیم کی افضلیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ خود بندوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن چونکہ اس قسم کی بیماری کا خطرہ ہر وقت ہو سکتا ہے اس لئے ہم بتا دیتے ہیں کہ ایسے خطرہ کے اوقات میں اسلام کو باہر سے کسی کی امداد کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ خود یہی تعلیم اپنے نقص کا علاج پیدا کر لے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا نقص خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی کے ذریعہ سے دُور ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم کے بھول جانے کا علاج موسیٰ کے وقت میں بھی ہوا.مگر اُس وقت باہر سے طبیب بھیجا جاتا تھا یعنی ایسا شخص کھڑا کیا جاتا تھا جو گو اُمت موسوی میں سے ہی ہوتا مگر مقام نبوت اسے براہِ راست حاصل ہوا کرتا تھا.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو آپ کا کوئی غلام ہی اس نقص کو دور کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا.گویا آئندہ جو مرض پیدا ہو گا اس کا علاج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہی نکل آئے گا.اسلامی تعلیم کے افضل ہونے کے اب میں اسلام کی تعلیم کے افضل ہونے کی بعض مثالیں دیتا دلائل کتاب کے ساتھ حکمت کا بیان ہوں.اسلام میں احکام مع دلیل بیان ہوئے ہیں جس سے تصوف کامل کی بنیاد خود اصل کتاب سے پڑی ہے.یہود کی طرح کسی اور نبی کے توجہ دلانے کی ضرورت پیدا نہیں ہوئی.قرآن مجید سے قبل جو الہامی کتب تھیں ان میں احکام تو دئیے جاتے تھے مگر بالعموم ان کی تائید میں دلائل نہیں دیئے جاتے تھے مثلاً یہ تو کہا جاتا تھا کہ نماز پڑھو مگر یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ کیوں نماز پڑھو؟ اس میں کیا فائدہ ہے اور اس کی کیا غرض ہے؟ مگر قرآن کریم نے جہاں احکام دیتے ہیں وہاں ان احکام کے دلائل بھی دیئے ہیں اور ان

Page 106

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کے فوائد بھی بیان کئے ہیں.اس طرح تصوف کی بنیاد خود قرآن کریم میں آگئی اور اس کے لئے کسی علیحدہ نبی کی ضرورت نہ رہی جیسے یہود کو حضرت مسیح کی ضرورت محسوس ہوئی تھی.وسطی تعلیم دوسرے قرآن وسطی تعلیم لے کر آیا ہے جو ہر حالت کے مطابق ہے اور جہاں ہوتا ہے.بھی انسانی طاقت میں فرق پڑتا ہے اس حالت کے لحاظ سے مسئلہ بھی موجود خدا اور بندہ کا براہِ راست تعلق تیسرے پریسٹ ہڈ (PRIESTHOOD) کو اس میں مٹا دیا گیا ہے.یعنی پادریوں اور پنڈتوں کا خدا اور بندہ کے درمیان عبادت الہی میں واسطہ ہونے کا خیال قرآن مجید نے بالکل اُڑا دیا ہے.موسوی اور عیسوی عہد میں اس پر بڑا زور تھا مگر اب ہر مومن آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھا سکتا ہے اور یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی خاص مولوی کو ہی بلا یا جائے.یہ انقلاب بھی درحقیقت ایک عظیم الشان انقلاب تھا کیونکہ دنیا ہزار ہا سال سے اس قید میں جکڑی ہوئی تھی لیکن قرآن مجید نے اسے ایک آن میں تو ڑ کر رکھ دیا اور بتا دیا کہ عبادت میں کو ئی شخص واسطہ نہیں ہوسکتا.اسلام کی یہ تعلیم عیسائیوں کے لئے تو اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کئی دفعہ یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جب آپ میں پادری نہیں ہوتا تو آپ عبادت کس طرح کرتے ہیں؟ چوتھے اسلام نے مقام عبادت کی قید کو مقام عبادت کو وسیع کر دیا گیا ہے اُڑا دیا ہے اور مقام عبادت صرف نظام کے لئے رہ گیا نہ کہ خود عبادت کیلئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہند ومندر میں اور عیسائی گر جا میں عبادت کرتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ نے فرمایا جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا 19 روئے زمین میرے لئے مسجد بنائی گئی ہے.اس سے قبل جو انبیاء گزرے ہیں ان کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ عبادت خاص مقامات پر کی جائے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے تمام زمین کو مسجد بنادیا اور دراصل پہلے انبیاء کا دین چونکہ محدود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے مقام عبادت کو بھی محدود کر دیا مگر جب خدا تعالیٰ نے زمین کے چپہ چپہ کو پاک کرنے کے لئے اپنا دین اسلام بھیج دیا تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دے دیا کہ تم بھی چپہ چپہ کو مسجد بنا کر پاک کر لو.

Page 107

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی لفظی وحی کا نزول پانچویں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی وہ سب کی سب معین الفاظ میں نازل ہوئی اور ان الفاظ کو محفوظ رکھنے کا نہ دیا گیا بلکہ اس کے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا اور ذمہ بھی اُٹھایا.اس کے نتیجہ میں بحث اور تحقیق کے اصول میں بہت بڑا فرق پڑ گیا.پہلے یہ سوال ہوا کرتا تھا کہ یہ موسی" کا فقرہ ہے یا خدا کا مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو تعلیم دی اس کا ہر لفظ خدا تعالیٰ نے خود اُتارا بلکہ اس کی زیر اور اس کی زبر بھی خدا تعالیٰ نے خود اُتاری.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں مختلف مسائل کا تکرار ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں اسے یہ جواب دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں کوئی تکرار نہیں.لفظ تو الگ رہے، قرآن مجید میں تو زیر اور زبر کی بھی تکرار نہیں.جو زیر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے اس کی غرض دوسری جگہ آنے والی زیر سے مختلف ہے اور جو ز بر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے دوسری جگہ آنے والی زبر سے اس کے معنی مختلف ہیں.یہ قرآن مجید کی وہ خوبی ہے جو کسی اور الہامی کتاب کو ہرگز حاصل نہیں.صفات الہیہ کی مفصل تشریح چھٹے اسلامی تعلیم میں صفات الہیہ کی بار یک در بار یک تشریح کی گئی ہے جس کے مقابل میں یہودی تعلیم بھی مات پڑ گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہودی کتب میں صفات الہیہ کا تفصیلی ذکر ہے مگران میں صفات الہیہ کا باہمی تعلق بہت کم بیان کیا گیا ہے.میں نے ایک دفعہ تجسس کیا تو مجھے قرآن کریم میں کوئی ایسی صفت الہی معلوم نہ ہوئی جو یہودی کتب میں بیان نہ ہوئی ہو لیکن ایک بات جوصفات الہیہ کے باب میں یہودی کتب میں بھی نہیں پائی جاتی مگر قرآن میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ قرآن نے اس بات پر بحث کی ہے کہ مثلاً رحمانیت کا میدان کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ رحیمیت کے دور کا کس جگہ سے آغاز ہوتا ہے اور ان تمام صفات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ مگر توریت نے اس پر بہت کم روشنی ڈالی ہے.گویا صفات الہیہ کے مختلف اداروں کا جو باہمی تعلق ہے قرآن کریم میں اس کی تشریح بیان کی گئی ہے لیکن تو رات نے ان اداروں کا ذکر تو کر دیا ہے مگر ان کے باہمی تعلق کا ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے سالک ان سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور یہ اُس ( قرآن ) کی فضیلت کا ایک بین ثبوت ہے.

Page 108

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی مسائل معاد پر کامل روشنی پھر ایک بہت بڑی فضیات جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ اس میں علم معاد پر علمی اور فلسفیانہ بحث کی گئی ہے جس سے یہودی لٹریچر بالکل خالی تھا.حتی کہ ان میں قیامت کے منکرین کا زور تھا اور بہت تھوڑے تھے جو قیامت کے قائل تھے.مگر قرآن کریم وہ پہلی کتاب ہے جس نے مسائل معاد کی ساری تفصیلات پر بحث کی ہے اور اتنی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ اب اگر کوئی جان بوجھ کر شرارت سے قیامت کا انکار کرے تو کرے ورنہ دلائل کے لحاظ سے وہ قیامت کا ہرگز انکار نہیں کر سکتا.آٹھویں افضلیت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس شرعی اصطلاحات کا قیام میں شرعی اصطلاحات کا نیا دروازہ کھولا گیا جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا.یعنی قرآن کریم سے پہلے جن باتوں کو مضامین میں ادا کیا جاتا تھا قرآن کریم نے ان کیلئے اصطلاحیں قائم کر دیں اور ایسی اصطلاحیں قائم کیں جو پہلے نہیں تھیں اور پھر ان اصطلاحوں کے ایسے معین معنی کئے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی.مثلاً قرآن کریم نے نبی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کی تعریف بھی بیان کی ہے اور پھر بتایا ہے کہ نبی کب آتے ہیں ان کے پہچاننے کیلئے کیا نشانات ہوتے ہیں، ان کا کام کیا ہوتا ہے، خدا تعالیٰ کا ان سے کیا معاملہ ہوتا ہے بندوں سے ان کا کیا تعلق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ اور اسی قسم کی اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو قرآن کریم کے علاوہ اور کسی مذہبی کتاب نے بیان نہیں کیں اور یہ ایک ایسی زبر دست خوبی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا.پیغامیوں سے جب ہمارا مقابلہ زوروں پر تھا ، اُن دنوں میں نے ایک دفعہ بڑے بڑے پشپوں ، سکھ گیا نیوں، ہندؤوں کے پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں سے خط لکھ کر دریافت کیا کہ آپ کے مذہب میں نبی کی کیا تعریف ہے؟ تو بعض نے تو اس کا جواب ہی نہ دیا، بعض نے یہ جواب دیا کہ اس بارہ میں ہمارے مذہب میں کوئی خاص تعلیم نہیں.چنانچہ ایک بڑے بشپ کا بھی یہ جواب آیا کہ اس مضمون پر ہماری کتب میں کوئی خاص روشنی نہیں ملتی.اسی طرح ملائکہ کیا ہوتے ہیں، وہ کیا کام کرتے ہیں، ان کے ذمہ کیا کیا فرائض ہیں ؟ ان میں سے کوئی بات تفصیل کے ساتھ سابقہ الہامی کتب نے بیان نہیں کی.مگر اسلام نے اگر ایک طرف بعض روحانی وجودوں کیلئے ملائکہ کا لفظ وضع کیا ہے تو پھر خود ہی ان کے وجود اور ان کے کام

Page 109

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پر کامل روشنی ڈالی ہے.اسی طرح ذات الہی ، صفات الہیہ، دعا، قضاء وقدر، حشر و نشر ، جنت و دوزخ ، حیات جنت وغیرہ ان سب امور کیلئے اس نے مصطلحات تجویز کی ہیں اور پھر ان کی مکمل تشریح فرما کر انسانی دماغ کو ایسی روشنی بخشی ہے کہ وہ ان مسائل کو اسی طرح اپنے ذہن میں مستحضر کر سکتا ہے جس طرح کہ مادی علوم و امور کو.اور اس طرح علم کو پراگندہ ہونے اور دماغ کو پریشان ہونے سے اس نے بچا لیا ہے.قرآنی تعلیم کی جامعیت نویں فضیلت جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ گواس.سے پہلے موسوی سلسلہ میں سیاست اور عبادت اور تمدن کو مذہب میں شامل کر لیا گیا تھا.یعنی موسیٰ نے لوگوں سے کہا تھا کہ تمہیں میری حکومت، مذہب میں بھی اور تمدن میں بھی اور اخلاق میں بھی اور سیاست میں بھی ماننی پڑے گی مگر رسول کریم ہے کے زمانہ میں اسلام کے ذریعہ سے اس کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا اور اسلام نے عبادت و روحانیت کی تعلیم کے علاوہ سیاست اور تمدن کی تعلیم بھی دی اور اخلاقیات اور اقتصادیات اور تعلیم اور معاشرت اور ثقافت کے مسائل کو بھی شریعت میں شامل کر کے انسانی زندگی کو ایسا کامل کر دیا کہ اس کے عمل کا کوئی شعبہ صحیح ہدایت اور کامل نگرانی سے باہر نہیں رہ گیا.مذہب کو مشاہدہ پر قائم کیا گیا ہویں نفسیات دسویں فضیلت قرآن کریم کی تعلیم کو یہ حاصل ہے " کہ اس نے خدا کے قول اور خدا کے فعل کو ایک دوسرے کے لئے مُمد اور متوازی قرار دے کر تجربہ اور مشاہدہ کے میدان میں مذہب کو لا کھڑا کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے اسے صرف مافوق الطبعیات قرار دیا جاتا تھا.چنانچہ قرآن نے کہا کہ دنیا خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کے قول اور اس کے فعل میں تضاد ہو.پس جب بھی تمہیں کوئی مشکل در پیش ہو خدا کے قول اور خدا کے فعل کو مطابق کرو.جہاں یہ مطابق ہو جائیں تم سمجھ لو کہ وہ بات صحیح ہے اور جہاں ان میں اختلاف رہے تم سمجھ لو کہ اب تک تم پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی.اس نکتہ سے مذہب اور سائنس میں جولڑائی تھی وہ جاتی رہی کیونکہ سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں تطابق نہ ہوا اور اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے یا اس کے قول کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے یا اس کے فعل پر غور کرنے میں ہمیں غلطی لگی ہے.ان میں سے جس چیز کا نقص بھی دُور کر دیا جائے گا دونوں میں تطابق پیدا ہو جائے گا.اس نکتہ عظیمہ کی وجہ سے مذہب فلسفہ کے

Page 110

انوار العلوم جلد ۱۵ میدان سے نکل کر مشاہدہ کے میدان میں آ گیا ہے.انقلاب حقیقی گیارہویں عظیم الشان فضیلت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس نے اتحاد امم کی بنیاد دعوی کیا ہے کہ اس کا لایا ہوا پیغام کسی ایک قوم یا دو قوموں کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافةً للنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِن اكثرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ وَيَقُولُونَ مَتَى هذا الوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ قُل لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عنْهُ سَاعَةٌ وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ کہ اے رسول ! ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اور تیرے ذریعہ سے ہم سب دنیا کو ایک نظام پر جمع کرنے والے ہیں.اب دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان انقلاب ہے اور انقلاب بھی ایسا جس کی مثال پہلے نہیں ملتی پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور جو تعلیم وہ لاتا اپنی قوم کے لئے لاتا تھا.چنانچہ ہندوستان میں اگر کرشن حکومت کر رہے تھے تو ایران میں زرتشت حکومت کر رہے تھے اور چین میں کنفیوشس حکومت کر رہے ہیں.اسی طرح کوئی موسی کی اُمت تھا تو کوئی عیسی کی مگر خدا نے کہا اب دنیا میں ایک ہی مذہبی حکومت ہوگی اور ظاہری اور باطنی طور پر تمام دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے لائی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اس خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.کہ كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة کے کہ پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جایا کرتا تھا مگر میں روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں.ی انقلاب چونکہ ایک نیا انقلاب تھا اور لوگوں نے یہ پہلی دفعہ سنا کہ تمام دنیا روحانی لحاظ سے ایک ہونے والی ہے اس لئے وہ دنگ رہ گئے.اور جس طرح آپ نے تو حید کی تعلیم پیش کی تھی اور کفار حیران ہو گئے تھے ویسا ہی اس دعوی کے وقت بھی ہوا.چنانچہ تو حید کی تعلیم کے بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ کفار ا سے سنکر کہہ اُٹھے اجعل الأيقةَ إلها واحدًا ٤٢ که دنیا میں پہلے جو اتنے خدا موجود ہیں کیا ان سب کو اکٹھا کر کے یہ ایک خدا بنا نا چاہتا ہے؟ یعنی کوئی ایرانیوں کا خدا ہے جسے وہ اہرمن یا یزدان کہتے ہیں، کوئی عیسائیوں کا خدا ہے جسے وہ گاڈ

Page 111

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی (GOD) یا خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں، کوئی ہندوستان کا خدا ہے جسے وہ پر میشور یا اوم کہتے ہیں ، کوئی یہودیوں کا خدا ہے جسے وہ یہوواہ کہتے ہیں.غرض یہ مختلف خدا ہیں جو دنیا میں موجود ہیں.اگر اب یہ آ کر کہہ رہا ہے کہ صرف ایک خدا کو مانو تو کیا یہ سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک بنادے گا؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے کہ اتنے خداؤں کو گوٹ کاٹ کر ایک خدا بنادیا جائے.غرض کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے اپنے اس تعجب کا اظہار کیا مگر اب دیکھو یز دان اور گاڈ اور اوم اور یہوواہ وغیرہ سب نام اللہ کے اندر آگئے اور اللہ کا نام ہی سب ناموں پر غالب آ گیا ہے اور آج ساری دنیا تو حید کے خیال کی صحت کو تسلیم کر رہی ہے.دشمنوں کو جو حیرت تو حید کے دعوی سے ہوتی تھی ویسی ہی آپ کے اس دعوئی سے ہوئی کہ وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافةً للنَّاسِ بَشِيرًا و نذیرا ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس کے بارہ میں آتا ہے ولعن اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ لیکن اکثر لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے.میں سمجھتا ہوں اس زمانہ میں لوگوں کے لئے یہ نکتہ سمجھنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے آدم کے زمانہ میں لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ایک غیر شخص جو ہمارے ہی جیسا ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے کا حق رکھتا ہے.کفار مکہ بھی اس دعویٰ پر سخت حیران ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ پیدا تو ہو اعرب میں اور کہتا ہے کہ میں ایران کا بھی نبی ہوں، اور چین کا بھی نبی ہوں ، اور مغرب کا بھی نبی ہوں ، اور مشرق کا بھی نبی ہوں.چنانچہ وہ اپنے اس استعجاب کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں.متى هذا الوعدُ اِنْ كُنْتُمْ صدقین کے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ ساری دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو یہ بات کب ہوگی؟ فرما یا قُل لَّكُمْ مِّيتعاد یود کے تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ بس اس زمانہ کے آنے میں اتنی ہی دیر ہے جتنی کہ سورہ سجدہ میں بتائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ.بُدَ بَرُ الأَمر مِنَ السَّمَاء إلى الأَرْضِ ثم يعْرُجُ إليهِ في يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ الفَ سَنَةٍ ممَّا تَعُدُّونَ ٤٥ یعنی اللہ تعالیٰ اُمر اسلامی کو پہلے تو زمین میں قائم کرے گا پھر وہ ایک ہزار سال کے عرصہ میں آسمان پر اُٹھ جائے گا.اس آیت میں اسلام کے پہلے ظہور کا زمانہ بتایا گیا ہے جس میں سے ایک ہزار سال کا عرصہ معین کر دیا ہے اور پہلا عرصہ غیر معین رکھا ہے.لیکن اسے حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 112

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی نے معین کر دیا ہے.کیونکہ آپ فرماتے ہیں خَیرُ الْقُرُونِ قَرْنِى ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُم ثُمَّ الْفَيْجُ الاعْوَجُ کے یعنی بہترین صدی میری ہے پھر اس کے بعد کی صدی پھر اس کے بعد کی صدی پھر تا ہی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ تدبیر امر کا زمانہ تین صدیاں ہیں اور اس کے تدبیر امر کا زمانہ بعد تباہی کا زمانہ ایک ہزار سال اور اس کے بعد پھر ترقی کا زمانہ.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال بعد اسلام کا دوبارہ احیاء مقدر بنایا گیا تھا.پس اس جگہ جو قُل لَّكُمْ يَتعَادُ يَوْمٍ کہا ہے تو اس سے اسی یوم کی طرف اشارہ ہے جس کا سورہ سجدہ میں ذکر ہے اور وہ ہزار سال تنزلِ اسلام کے ہیں جس کے بعد بتایا گیا ہے کہ پھر اسلام ترقی کرے گا اور ساری قوموں میں پھیل جائے گا کیونکہ وہ زمانہ تکمیل اشاعت اسلام کا زمانہ ہو گا آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَةً على الدين حلم کے بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے.پس اس جگہ میعاد یوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میعاد یوم سے مراد سے پہلے کے تنزلِ اسلام کے ہزار سالہ دور کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد اسلام کی دوبارہ ترقی مقدر کی گئی تھی.بعض عیسائی اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ یہ تعلیم تمہاری حضرت مسیح کا حلقہ بعثت نئی نہیں ہمارے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہے کہ تم اپنا پیغام تمام دنیا کو پہنچاؤ اور ہمارا مسیح بھی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث نہیں ہو ا تھا بلکہ تمام دنیا کی طرف تھا.میں اپنے ایک پرانے مضمون میں عیسائیوں کے اس دعویٰ کا جواب دے چکا ہوں اور انجیلوں کے متعدد حوالہ جات سے ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح ناصری تمام دنیا کی طرف نہیں آئے بلکہ محض بنی اسرائیل کی طرف آئے اور وہ خود انجیل میں کہتے ہیں کہ:.دو میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا، ۷۸ اور یہی طرز عمل ان کے حواریوں کا بھی تھا مگر آج میں ایک اور رنگ میں عیسائیوں کے اِس دعویٰ کو باطل ثابت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر خدا نے کہا تھا کہ مسیح تمام دنیا کی طرف ہے اور

Page 113

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی اس کے ذریعہ سے سب لوگ ایک جھنڈے کے نیچے آ جائیں گے تو بہر حال خدا جو بات کہئے اسے پورا ہونا چاہئے اور چونکہ یہ انقلابی تعلیم تھی اور اس لئے دی گئی تھی کہ سب دنیا کو ایک کر دیا جائے اور قومیتوں کو کمزور کر دیا جائے اس لئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا اس مقصد کو میسجیت نے پورا کر دیا ؟ عیسائی بیشک یورپ میں بھی پھیلے اور چین میں بھی پھیلے اور جاپان میں بھی پھیلے اور ہندوستان میں بھی پھیلے اور ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں شاید مسلمان بھی نہیں پہنچے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس تعلیم کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا؟ اس تعلیم کی غرض تو یہ تھی کہ جدائی کے خیالات مٹا دیئے جائیں.قومیتوں کو کمزور کر دیا جائے اور سب دنیا کو مساوات کے جھنڈے کے نیچے لایا جائے.اب اگر مسیح کو خدا نے کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوام عالم کا تفرقہ مٹ جائے گا اور سب دنیا ایک ہو جائے گی تو عیسائیت کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہو جانا چاہئے تھا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے یہ کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوامِ عالم کا تفرقہ مٹے گا اور سب دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آئے گی تو اسلام کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہونا چاہئے تھا.مگر حقیقت یہ ہے کہ حیت سے زیادہ نیشنلزم اور قوم پرستی کی تعلیم کسی اور نے نہیں دی اور دنیا میں ایک ملک بھی تم نہیں دکھا سکتے جہاں مسیحیت نے مساوات قائم کی ہولیکن دنیا میں تم ایک ملک بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جہاں اسلام گیا ہو اور مساوات قائم نہ ہوئی ہو.آج انگریز جرمن کا دشمن اور جرمن انگریز کا دشمن ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں.ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے ہوائی جہاز بناتے ، تو ہیں ایجاد کرتے اور نئے سے نئے اور دُور دُور تک گولہ باری کرنے والے بم بناتے ہیں لیکن باوجود اس کے ایک ہندوستانی عیسائی سے ایک انگریز وہ تعلقات کبھی پیدا نہیں کرے گا جو ایک جرمن دہریہ سے کر لے گا.اگر خدا نے اس کو سب دنیا کے لئے بھجوایا تھا تو اس کا نتیجہ وہ کیوں نہ نکلا جو نکلنا چاہئے تھا؟ اور تو اور یورپین عیسائی تو ان سے بھی مساوات نہیں برتتے جو ان کے خداوند کے بھائی ہیں.چنانچہ دیکھ لو جرمن اور دوسرے ممالک میں یہودیوں پر کتنے مظالم کئے جارہے ہیں آخر یہ کون ہیں؟ یہ ان کے خداوند کے بھائی ہی تو ہیں مگر یہ ان سے بھی مساوات برتنے کے لئے تیار نہیں.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر مساوات پیدا کر دی ہے کہ ایک جاہل عرب ایک منگتا عرب ایک کثیر ا عرب دنیا کے کسی کو نہ میں چلا جائے، مسلمانوں کی

Page 114

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی یوں باچھیں کھل جاتی ہیں گویا ان کا کوئی بزرگ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آ گیا ہے اور عرب صاحب ! عرب صاحب! کہتے ہوئے ان کا منہ خشک ہوتا ہے.پس عیسائیوں کے اس دعوی کو خود خدا کا فعل رڈ کر رہا ہے اور اس کے فعل نے بتا دیا ہے کہ ی انقلاب محمدی انقلاب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس تعلیم کے مخاطب تھے.اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ تعلیم نازل کی جاتی تو خدا تعالیٰ ان سے یہ کام بھی لیتا ہاں چونکہ بشارت کی ہوا ئیں اصل موعود کے آنے سے پہلے چلنی شروع ہو جاتی ہیں اس لئے جب عیسوی دور میں محمدیؒ انقلاب کی بشارت آئی اور حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک عظیم الشان نبی کے ذریعہ سے جو تمام نبیوں کا سردار ہوگا سب دنیا ایک ہونے والی ہے اور سب دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو عیسائیوں نے اس سے دھوکا کھایا اور انہوں نے سمجھا کہ ابھی سے اس کا وقت آ گیا ہے لیکن چرایا ہو الباس فٹ کہاں آ سکتا تھا.خدا کے فعل نے ثابت کر دیا کہ اس کے مخاطب عیسائی نہیں تھے بلکہ مسلمان اس کے مخاطب تھے.غرض ان تغیرات کے ماتحت اسلام نے دنیا کے علم اس کے فکر اس اسلامی انقلاب کے فلسفہ اس کے جذبات اس کے مذہب اس کی سیاست اس کے اخلاق اس کے تمدن ، اس کی معاشرت، اس کی اقتصادیات اور اس کی ثقافت کو بالکل بدل دیا اور دنیا اور سے اور ہوگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین محمد ﷺ نے پیدا کر دی.صلى الله آج جو مشابہت اسلام اور دوسرے مذاہب میں مشابہت کی اصل اسلام اور ان مذاہب میں نظر آ رہی ہے یہ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مشابہت والے اموران مذاہب میں پہلے سے موجود تھے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام کے ساتھ مل کر انہوں نے اس کی بعض تعلیموں کو اپنا لیا ہے.چنانچہ دین تو الگ رہا، یورپین لوگوں نے مسلمانوں کی کتابوں کی کتابیں نقل کی ہیں اور ان علوم کو اپنی طرف منسوب کر لیا ہے.چنانچہ آج کل یورپ میں کئی ایک ایسی کتب شائع ہورہی ہیں جن میں اس قسم کی چوریوں کو ظاہر کیا جا رہا ہے.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا میں نے ایک کتاب انگلستان سے منگوائی ہے اس میں علم موسیقی پر بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یورپین لوگوں نے اس علم کو سپین کے مسلمانوں کی کتابوں سے نقل کیا ہے بلکہ مصنف اس راز کا انکشاف کرتا ہے کہ میں ان کتابوں کے حوالے دے سکتا ہوں جن سے یورپ کے لوگوں نے یہ باتیں نقل کیں اور

Page 115

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پھر کہتا ہے کہ اس اندھیر کو دیکھو کہ برٹش میوزیم میں فلاں نمبر پر فلاں کتاب ہے.اس میں فلاں پادری کے نام کا ایک خط درج ہے جو کسی عیسائی نے انہیں لکھا تھا کہ صاحب من ! مسلمانوں کی موسیقی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہماری موسیقی اس کے مقابلہ میں بہت بھڑی معلوم ہوتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ ان کے علوم کا یورپین لوگوں کیلئے ترجمہ کر دوں مگر میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں کا علم نقل کرنے سے پادریوں کی طرف سے مجھ پر کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ اگر یہ علم نقل کر لیا جائے تو گر جوں کو اس سے بڑا فائدہ پہنچے گا.اس کا جواب بشپ صاحب نے یہ دیا کہ بیشک ان علوم کو اپنی کتابوں میں نقل کر لومگر ایک بات کا خیال رکھنا اور وہ یہ کہ اگر تم نے نیچے حوالہ دیدیا تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ علم عربوں سے لیا گیا ہے اور اس طرح اسلام کی عظمت ہمارے مذہب کے پیرؤوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے گی.پس تم نقل بیشک کر و مگر حوالہ نہ دو تا لوگ یہ سمجھیں کہ یہ علم تم اپنی طرف سے بیان کر رہے ہو.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ یہ خط آج تک برٹش میوزیم میں موجود ہے.اسی طرح پیرس میں ۱۹۴۰ ء تک ابن رشد کا فلسفہ پڑھایا جاتا تھا مگر نام میں ذرا سا تغیر کر دیا جا تا تھا تا لوگوں کو یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی مسلمان کا فلسفہ ہے.لطیفہ یہ ہے کہ روم کی یونیورسٹیوں میں ایک دفعہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ فلسفہ کی یہ کتاب نہ پڑھائی جائے بلکہ فلاں کتاب پڑھائی جائے کیونکہ اب فلسفہ ترقی کر چکا ہے تو پادریوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا اور کہا کہ یہ بے دینی ہے.گویا ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد انہیں اتنا خیال بھی نہ رہا کہ وہ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی کتاب ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ یہ کسی عیسائی کی کتاب ہے اور اگر اس کی جگہ اب کوئی اور فلسفہ پڑھایا گیا تو کفر ہو جائے گا.ہمارے لوگ نا واقعی کی وجہ سے بالعموم یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ بات بھی عیسائیوں سے لی گئی ہے اور وہ بات بھی، حالانکہ مسلمانوں نے بحیثیت قوم عیسائیوں سے کوئی بات نہیں لی مگر عیسائیوں نے مسلمانوں سے بحیثیت قوم علوم سیکھے ہیں لیکن مسلمان چونکہ اب ان تمام علوم کو بھلا بیٹھے ہیں اور عیسائیوں نے یاد کر لئے ہیں بلکہ ان میں زمانہ کی ترقی کے ساتھ ترقی ہوگئی ہے اور ان کی شکل بھی بدل گئی ہے، اس لئے مسلمان پہچانتے نہیں ہیں اور اب تو غفلت کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں میں نہ دین باقی ہے نہ اخلاق ، نہ تمدن باقی ہے نہ سیاست، نہ تہذیب باقی ہے نہ ثقافت ، بس مغربیت ہی مغربیت ہے جو ان کا اوڑھنا بچھونا بن رہی ہے حالانکہ وہ تمام باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں

Page 116

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی جن سے پہلے مسلمانوں نے ترقی کی اور جن سے موجودہ مسلمان بھی ترقی کر سکتے ہیں.مگر قرآن کو تو انہوں نے بند کر کے رکھ دیا ہے اور مغربیت کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں جس طرح چڑیا کا بچہ بیٹھا ماں کی راہ تک رہا ہوتا ہے.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ نے ایک دفعہ ہندوستان کے آم کی تعریف سنی اور اس کے دل میں شوق پیدا ہو ا کہ آم کھائے.بادشاہ نے ہندوستان میں اپنا سفیر بھیجا کہ جا کر آم لے آؤ.جب وہ یہاں پہنچا تو آم کا موسم نکل چکا تھا لیکن بادشاہ نے یہ خیال کر کے کہ یہ شاہ ایران کا سفیر ہے اور دُور سے آیا ہے، دہلی اور اس کے گردونواح میں آم کی بڑی تلاش کرائی.آخر اسی تلاش اور جد و جہد کے نتیجہ میں ایک بے موسم کا آم مل گیا مگر سخت کھنا اور ریشہ دار.بادشاہ نے اُس سفیر کو بلا کر کہا کہ آم کی شکل آپ دیکھ لیں ایسی ہی شکل ہوتی ہے مگر ذائقہ بہت میٹھا ہوتا ہے.یہ جو آم میلا ہے یہ کچھ اچھا نہیں لیکن چونکہ آپ نے اب واپس جانا ہے اس لئے ذرا اسے چکھ لیں تا آپ بادشاہ کے سامنے آم کی حقیقت بیان کر سکیں.اُس نے چکھا تو سخت کھٹا اور بدمزا تھا.جب وہ واپس گیا اور شاہ ایران نے اس سے آم کی کیفیت پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ہندوستانیوں کی عقل کے متعلق شبہ پیدا ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا کیوں؟ اُس نے کہا وہ آم کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور آپ نے بھی آم ہی کے لئے مجھے بھیجا تھا مگر میں جو آم چکھ کر آیا ہوں اُس کی کیفیت آپ اس چیز سے معلوم کر سکتے ہیں یہ کہہ کر اس نے ایک پیالہ پیش کیا جس میں املی کا ریشہ اور تھوڑا سا پانی پڑا ہوا تھا.بادشاہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور اس نے کہا کہ ہیں ! ہندوستانی ایسی لغوھے کی اس قدر تعریف کرتے ہیں؟ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے.وہ قرآن کریم کے علوم سے بنگالی بے بہرہ ہو گئے ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے ایک مُردہ کتاب بن گیا ہے اور اب جو کچھ ان کے سامنے ہے اس کو اور قرآن کریم کو آپس میں وہی نسبت حاصل ہے جو اعلیٰ اور لذیذ آم کو پانی میں بھگوئی ہوئی املی سے ہوتی ہے.حالانکہ تمام حُسن اسلام میں ہے، تمام خوبیاں اسلام میں ہیں اور یورپ نے اصول علم میں جو کچھ سیکھا ہے اسلام اور مسلمانوں کی خوشہ چینی کر کے سیکھا ہے مگر مسلمانوں کو چونکہ اس کا علم نہیں اس لئے وہ مغربیت کے دلدادہ ہو گئے ہیں.غرض اس زمانہ میں اسلام کی تعلیم بطور گل کے کہیں نہیں پائی مغربیت کے اُصول جاتی صرف ٹکڑے ٹکڑے پائی جاتی ہے اور اصل اسلامی تعلیم کو ،

Page 117

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی در حقیقت مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اور مغربیت ان پر غالب ہے جس کے بڑے اصول یہ ہیں:.(۱) مادیت (۲) اس کا لازمی نتیجہ نیشنلزم.(۳) اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنا.ان امور نے اخلاق مذہب اور حقیقی قربانی اور دنیا کے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے اور مذاہب کی شکل کو مسخ کر دیا ہے.اب اگر یورپ کے لوگ کسی چیز کا نام مذہب رکھتے ہیں تو اس نقطہ نگاہ سے کہ وہ مذہب ان کی حکومت کو کتنا مضبوط کرتا ہے.ایک ہندوستانی دماغ اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ جرمن میں بغاوت ہوتی ہے اور پادری جب دیکھتے ہیں کہ عیسائیت کی تعلیم انہیں اتنا مضبوط نہیں بناتی کہ وہ بغاوت کو کچل سکیں تو بڑے آرام سے انہیں مذہبی کتاب کے احکام میں تبدیلی کر کے ایک نیا فلسفہ پیش کر دیتے ہیں اور پھر چھوٹے بڑے سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مذہب ہے.ایک مسلمان اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کسی نے سو بیویاں کرنی ہوں اور وہ دیکھے کہ قرآن میں اس کی اجازت نہیں تو بڑے آرام سے مثنى وثلث کے والی آیت کی جگہ سو عورتوں سے نکاح کرنے والا فقرہ لکھ دے اور پھر کہے کہ میں نے اپنی کتاب کی تعلیم کے مطابق سو بیویاں کی ہیں.ہر شخص اسے کہے گا کہ تم نے اپنے ہاتھ سے ایک فقرہ لکھا ہے وہ تمہارا خیال تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اسے مذہبی اجازت کس طرح قرار دیتے ہو؟ مگر یورپ والوں کی یہی حالت ہے وہ جب دیکھتے ہیں کہ مذہب کی کسی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انہیں قومی لحاظ سے نقصان پہنچ سکتا ہے تو جھٹ اس تعلیم میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور ایک نیا فلسفہ ایجاد کر کے اس کا نام مذہب رکھ دیتے ہیں.گو یا مذہب سے اتنی دُوری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ مذہب قومیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز نیشنلزم کو تقویت دے وہی خدا کا منشاء ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اخلاق ہاتھ سے جاتے رہے ہیں اور مذہب بھی ضائع ہو گیا ہے اور نیشلزم پر مذہب کی بنیاد رکھ کر حقیقی قربانی کی روح کو برباد کر دیا گیا ہے.اب ایک جرمن اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس لئے قربانی کرے گا کہ جرمن قوم کو اس سے کیا فائدہ پہنچتا ہے.یا ایک انگریز اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ دنیا کو اس کی قربانی کی ضرورت ہے بلکہ اسی وقت قربانی کرے گا جب اس کی قوم کا مفاد اس کا تقاضا کرے گا.

Page 118

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ساتویں دور کا انقلاب احیائے تعلیم مصطفوی غرض مادیت اور نیشنلزم اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنے کی روح نے دنیا کے امن کو بالکل بر باد کر دیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موجودہ زمانہ میں جو تہذیب الہی کا ساتواں دور ہے بھیجا ہے اور آپ کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ آپ وہ دوسری قسم کا انقلاب پیدا کریں جسے آیت ما ننسخ من أيّةٍ اَوْ نُنسها تأتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا آخر مثلماء کے آخری حصہ میں بیان کیا گیا ہے.یعنی کبھی انقلاب اس طرح بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ کتاب وہی واجب العمل رہتی ہے جو پہلے سے موجود ہومگر خدا تعالیٰ دوبارہ اس کی مُردہ تعلیم کو زندہ کرنے کے لئے ایک انسان اپنی طرف سے کھڑا کر دیتا ہے جو لوگوں کو پھر اس تعلیم پر از سر کو قائم کرتا ہے اور جس کی طرف سورہ جمعہ میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : - هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمين رَسُولًا مِّنْهُمْ يثلوا عليهم أيتِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلّمُهُمُ الكتب والحكمة ، وان كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ت وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ٨٠ یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے امتیوں میں اپنا رسول بھیجا جو ان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتا ، ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلاء تھے اور وہ خدا ہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور پھر آپ کے ذریعہ سے ایک ایسی جماعت پیدا کرے گا جو صحابہ کے رنگ میں کتاب جاننے والی پاکیزہ نفس اور علم و حکمت سے واقف ہو گی.گویا وہی کام جو آنحضرت ﷺ نے کیا نئے سرے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کرنا ہے.سورۃ صف میں بھی اِس ساتویں دور کا کام بتایا گیا ہے اللہ تعالیٰ بعثت ثانیہ کے کام فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَة عَلَى الدِّينِ كُلِّلّهِ وَلَوْكَرِةَ الْمُشْرِكُونَ یعنی ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لائے ہوئے کلام کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا اور سب دوسرے ادیان پر غالب کر دے گا.

Page 119

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہی آیت الہاما نازل ہوئی ہے تا یہ بتایا جائے کہ وہ زمانہ جس میں اس کا ذکر تھا آپہنچا ہے.پرانے مفسرین بھی اسی امر پر متفق ہیں کہ یہ آیت آخری زمانہ کے متعلق ہے اور کہ یہ کام مسیح موعود کے زمانہ میں ہونے والا ہے.غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ بعثت اُولیٰ میں تو قیامِ دین کا کام مقدر تھا اور بعثت ثانیہ میں باقی مذاہب پر اسلام کو غالب کر دینے کا کام مقدر ہے یعنی (۱) دلائل و براہین سے ان کے متبعین کو اسلام میں داخل کرنا اور (۲) ان کی تہذیب و تمدن کو مٹا کر اسلامی تمدن اور تہذیب کو اس کی جگہ قائم کر دینا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے مسیح موعودؓ کو محض اسی مقصد کیلئے بھیجا ہے.لِيُظهِرة على الدين كله تا کہ تمام دینوں پر وہ اسلام کو غالب کر دے.غلبہ اسلام کے ذرائع اب دیکھنا چاہئے کہ تمام ادیان پر اسلام کا گھی غلبہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ اگر خالی تعلیم لی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ہر مذہب کے چند آدمیوں کو ہم اپنے اندر شامل کر لیں گے تو یہ ان کے ادیان پر غلبہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ ادیان باطلہ بہر حال موجود رہیں گے اور وہ اسلام سے الگ ہو نگے.اسلام کا ان پر کوئی غلبہ نہیں ہو گا.پس لاز مامانا پڑتا ہے کہ غلبہ کے یہ معنی نہیں بلکہ غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح آج با وجود مذاہب کے اختلاف کے مغربی تہذیب دنیا پر غالب آئی ہوئی ہے اسی طرح ہمارا کام ہے کہ ہم اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو اس قدر رائج کریں کہ لوگ خواہ عیسائی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو.لوگ خواہ یہودی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو ، لوگ خواہ مذ ہبا ہندو ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو، یہ چیز ہے جس کے پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا کہ تہذیب اسلامی کو اتنا رائج کیا جائے اتنا رائج کیا جائے کہ اگر کچھ حصہ دنیا کا اسلام سے باہر بھی رہ جائے پھر بھی اسلامی تہذیب ان کے گھروں میں داخل ہو جائے اور وہ وہی تمدن قبول کریں جو اسلامی تمدن ہو.گویا جس طرح آج کل لوگ کہتے ہیں کہ مغربی تمدن بہتر ہے اسی طرح دنیا میں ایک ایسی رو چل پڑے کہ ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ اسلامی تمدن ہی سب سے بہتر ہے.حضرت مسیح موعود انقلاب حقیقی کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات علیہ السلام کے الہامات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں اس دعوئی کا وجود پایا جاتا ہے چنانچہ (۱) حضرت مسیح موعود

Page 120

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی علیہ السلام کا ایک کشف ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں:.ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.Alec چشمہ مسیحی میں آپ اس کشف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.’اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں (۲) پھر الہام ہے يُحْيِ الدِّيْنَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ۵۳ مسیح موعود دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.(۳) اسی طرح الہام ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۵۴ که یا درکھو اسلامی لحاظ سے دنیا مرگئی اور اب اس نے مسیح موعود کو اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اسے دوبارہ زندہ کرے.(۴) چوتھا الہام مخالفین کی نسبت ہے کہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں "فَسَحَقَهُمْ تَسْحِيقًا ۱۵ اس الہام میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ لوگوں کو زمانہ کے فیشن کا خیال ہے لیکن وہ فیشن جو حقیقی حیات پیدا کرتا ہے، اس سے دور جا پڑے ہیں اس لئے وہ پیس دیئے جائیں گے اور دعا سکھائی گئی ہے کہ کہو اے خدا ! تو ان لوگوں کو مٹا دے اور نوح کے زمانہ کی طرح ان پر تباہی لا تا مغربی تمدن اور مغربی تہذیب کی جگہ دنیا میں اسلامی حمد ن اور اسلامی تہذیب قائم ہو.(۵) پانچواں الہام ہے.مَا أَنَا إِلَّا كَالْقُرْآنِ وَسَيَظْهَرُ عَلَى يَدَيَّ مَا ظَهَرَ مِنَ الْفُرْقَان ۵۶ کہ اے مسیح موعود ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تو قرآن کی طرح ہوں جس طرح قرآن نے پہلے زمانہ میں تبدیلی کی ہے ویسی ہے تبدیلی میرے زمانہ میں AL بھی ہوگی.(1) چھٹا الہام ہے.آسمانی بادشاہت، ۵۷ یعنی خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کیا جائے گا.ان آیات والہامات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب کے دور کو مٹا کر اسلام کے عقائد ، اس کی شریعت ، اس کے

Page 121

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تمدن اس کی تہذیب اس کے علوم اس کے اقتصاد اس کی سیاست اس کی معاشرت اور اس کے اخلاق کو قائم کیا جائے.اس تبدیلی کا کچھ حصہ شخصی ہے جیسے نمازیں پڑھنا یا روزے رکھنا اور کچھ قومی - شخصی حصہ تو وعظ اور شخصی کوشش کو چاہتا ہے یعنی لوگوں کو کہا جائے کہ وہ نمازیں پڑھیں، وہ روزے رکھیں ، وہ حج کریں، وہ صدقہ و خیرات دیں اور پھر جو لوگ اس وعظ ونصیحت سے متأثر ہوں وہ اپنے اپنے طور پر نیکی کے کاموں میں مشغول ہو جائیں لیکن قومی حصہ ایک زبر دست نظام چاہتا ہے مثلاً اگر ہم خود نمازیں پڑھنے والے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ باقی بھی نمازیں پڑھنے والے ہوں.اگر اور کوئی بھی شخص نماز نہیں پڑھتا تو ہماری اپنی نماز ہی ہمارے لئے کافی ہوگی.لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو ایک نظام چاہتے ہیں اور ہم انہیں اس وقت تک بجا نہیں لا سکتے جب تک دوسرے بھی وہی کام نہ کریں.جیسے نماز ہے یہا کیلے تو ہم پڑھ سکتے ہیں لیکن باجماعت نماز اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک دوسرا شخص ہمارے ساتھ نہ ہو.پس نماز با جماعت ایک نظام چاہتی ہے.یعنی ضروری ہے کہ ایک امام ہو اور اس کے پیچھے ایک یا ایک سے زائد مقتدی ہوں.بیسیوں اور احکام ایسے ہیں جو ایک زبر دست نظام چاہتے ہیں ایسا نظام کہ جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو.عقائد کے میدان میں جماعت احمدیہ کی فتح اس وقت ہماری جماعت جیسا کہ ظاہر و ثابت ہے عقائد کے میدان میں عظیم الشان فتح حاصل کر چکی ہے اور ہماری اس فتح کا دشمن کو بھی اقرار ہے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب کہا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو تمام غیر احمدی یک زباں ہو کر پکار اٹھے کہ یہ کفر ہے، یہ کفر ہے.چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے اور یہ کہا کہ آپ مسیح کی ہتک کرتے ہیں.مگر آج چلے جاؤ دنیا میں، تعلیم یافتہ لوگوں میں سے بہت سے ایسے نظر آئیں گے جو انہیں اب مُردہ ہی یقین کرتے ہیں اور اکثر ایسے نظر آئیں گے جو گومنہ سے اقرار نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ مسیح زندہ ہو یا مرگیا ہو، ہمیں اُس سے کیا تعلق ہے؟ یہ کونسی ایسی اہم بات ہے کہ ہم اس کے پیچھے پڑیں؟ یہ تبدیلی بتاتی ہے کہ دشمن بھی تسلیم کرتا ہے کہ اب اس حربہ سے وہ ہمارے مقابلہ میں نہیں لڑسکتا.پھر دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو کفر کا فتویٰ لگا اس میں کفر کی ایک وجہ یہ بھی قرار دی گئی تھی کہ آپ قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کے قائل نہیں.گزشتہ علماء سے بعض تو گیارہ سو

Page 122

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی آیتوں کو منسوخ قرار دیتے تھے، بعض چھ سو آیتوں کو منسوخ سمجھتے تھے اور بعض اس سے کم آیتیں منسوخ بتلاتے تھے.یہاں تک کہ تین آیتوں کے نسخ کے قائل تو وہ بھی تھے جو نسخ کے جواز کو خطرناک خیال کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ سب لغوا اور بیہودہ باتیں ہیں سارا قرآن ہی قابل عمل ہے.اور پھر جن آیتوں پر اعتراض کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ منسوخ ہیں ، ان کے آپ نے ایسے عجیب و غریب معارف بیان فرمائے کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ اصل آیتیں قرآن کی تو تھیں ہی یہی اور ایک ایسا مخفی خزانہ ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکال کر باہر رکھ دیا کہ دنیا حیران ہو گئی کہ اب تک یہ امور ہماری نظروں سے کیوں پوشیدہ تھے لیکن اُس وقت جب آپ نے یہ باتیں کہیں آپ پر کفر کے فتوے لگائے گئے آپ کو بُرا بھلا کہا گیا اور آپ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلایا گیا.حالانکہ یہ ایسا لطیف نکتہ تھا کہ اگر دنیا کی کسی عظمند قوم کے سامنے اسے پیش کیا جاتا تو اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی مگر آج جاؤ اور دیکھو کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہے.تمہیں نظر آئے گا کہ سو میں سے ننانوے مولوی کہہ رہا ہے کہ قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں اور وہ انہی آیتوں کو جن کو پہلے منسوخ کہا کرتے تھے، قابلِ عمل قرار دیتے اور ان کے وہی معنی کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے.غرض عقائد کے بارہ میں تو ہم نے مخالفین کو ہر غلبہ احمدیت اور عمل کا میدان میدان میں شکست دی ہے لیکن جہاں عقائد کے میدان میں ہم نے مخالفوں پر عظیم الشان فتح حاصل کی ہے وہاں عمل کے میدان میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی اور ہم کم سے کم دنیا کے سامنے یہ امر دعوی سے پیش نہیں کر سکتے کہ اس میدان میں بھی ہم نے اپنے مخالفوں کو شکست دے دی ہے اور بجائے کسی اور نظام کے اسلامی نظام قائم کر دیا ہے.کامل تنظیم اور عملی تکمیل اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے عملی تحمیل بغیر ایسی کامل تنظیم کے نہیں ہو سکتی جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو مگر اس وقت تک ہماری جماعت صرف عقائد کی درستی، شخصی جد و جہد اور چندہ جمع کرنے کا کام کر سکی ہے حالانکہ شخصی جد و جہد کبھی نظام کامل کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ :.(۱) اکثر لوگ شریعت کے غوامض سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کی جدو جہد ناقص ہوتی ہے اور وہ شریعت کو دنیا میں قائم نہیں کر سکتے کیونکہ کئی مسئلے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتے جس کا

Page 123

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سو میں سے دس مسائل تو وہ قائم کرتے ہیں مگر نوے چھوڑ جاتے ہیں.(۲) دوسرے جو لوگ واقف ہوتے ہیں ان میں سے ایک حصہ سست بھی ہوتا ہے اور ایک حد تک تحریک اور تحریص اور خارجی دباؤ کا محتاج ہوتا ہے اور قوم کو انہیں نوٹس دینا پڑتا ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ملنا چاہتے ہو تو عملی رنگ میں کام کرو نہیں تو ہم سے الگ ہو جاؤ.(۳) تیسرے جو لوگ نا واقعی سے یا سستی سے شریعت کے خلاف چلیں، ان کا بہت بُرا اثر دوسروں پر پڑتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر بعض دفعہ اسی کو اپنا دین سمجھ لیتے ہیں مثلاً اگر کوئی کامیاب تاجر ہوا اور اس نے دین کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے میں سستی کی ہو تو لوگ اس کی مثال دیکر کہنے لگ جاتے ہیں کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر بھلا یہ دین میں سستی کر سکتا ہے؟ اور اس طرح اس کے غلط عمل کو دین سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ بالکل ممکن ہے ایک شخص بڑا سا بڑا تاجر ہو یا بڑا دولتمند ہو لیکن دین کے معاملہ میں وہ بالکل جاہل ہوا اور ایک فقیر اور کنگال شخص زیادہ دیندار اور زیادہ مسائلِ شرعیہ سے واقف ہو.پس ایسے لوگوں کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بعض دفعہ وہ انہی کی غلط باتوں کو دین سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یا پھر بعض دفعہ یہ اثر قبول کرتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں حکم نہیں مانتا تو ہم کیوں مانیں ؟ اور بعض بظاہر بڑے آدمیوں کی نقل ان کے اتباع کی دینی حالت کو بھی خراب کر دیتی ہے.(۴) چوتھے جن کو واقفیت ہو اور وہ شریعت پر عمل بھی کرنا چاہیں ، وہ بھی ایک حصہ احکام پر عمل کر نہیں سکتے جب تک نظام مکمل نہ ہو کیونکہ بعض احکام دو فریق سے متعلق ہوتے ہیں ، ایک فریق عمل نہ کرے تو دوسرا بھی نہیں کر سکتا جیسے میں نے بتایا ہے کہ نماز با جماعت اسی وقت پڑھی جا سکتی ہے جب کم سے کم دو آدمی ہوں.اگر ایک آدمی ہو اور وہ نماز با جماعت پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو تو اس وقت تک جماعت سے نماز نہیں پڑھ سکتا جب تک دوسرا آدمی اس کے ساتھ نماز پڑھنے کو تیار نہ ہو.یا مثلاً ایک شخص کو روپیہ قرض لینے کی ضرورت پیش آ جائے اور وہ کسی سے مانگے تو اگر وہ دونوں مسلمان ہوں اور دونوں اس امر کے قائل ہوں کہ سُود لینا اور دینا منع ہے ، تب وہ سود سے بچے رہیں گے لیکن اگر ان میں سے ایک شخص اس کا قائل نہیں تو وہ مثلاً سو یا دو سو روپیہ قرض دے کر کہہ دے کہ اس پر چار آنہ سینکڑہ سُود لگے گا تو روپیہ لے کر یہ مجبور ہو جائے گا کہ سُود ادا کرے.یا مثلاً ورثہ کے احکام ہیں اگر پنجاب کا ایک باپ کہتا ہے کہ میں اپنی جائداد اپنی اولاد میں شریعت کے مطابق

Page 124

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی تقسیم کروں گا اس پر جھٹ بیٹا کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں یہ قسیم نہیں ہونے دوں گا یا بیوی اس کی مخالف ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں یہ قسیم نہیں ہونے دوں گی، جس طرح عام رواج ہے اسی طرح تقسیم کرو تو با وجود خواہش کے وہ اس حکم پر عمل نہیں کر سکے گا کیونکہ قانون اس کے مخالفوں کے حق میں ہے.اسی طرح کئی سیاسی احکام ہیں جو ایک کامل نظام کے مقتضی ہیں اور اگر نظام نہ ہو تو ان پر عمل نہیں ہوسکتا.مثلاً شریعت نے کہا ہے کہ بھاؤ مقرر کئے جائیں اور اس اس رنگ میں مقرر کئے جائیں.اب اگر کوئی نظام نہ ہو تو اکیلا انسان کہاں بھاؤ مقرر کر سکتا ہے.پس جب تک نظام نہ ہو جو دونوں فریق کو مجبور کرے صرف ایک فریق با وجود علم اور ارادہ کے اس پر عمل نہیں کر سکتا.(۵) پھر نئی جماعت کے لئے یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ ابتدائی صحابہ ہی اصل تعلیم کو جاری کر سکتے ہیں.اگر ان کے زمانہ میں عمل نہ ہو تو پھر کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب صحابہؓ نے جو اتنے بڑے بزرگ تھے یہ نظام جاری نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ (۶) چھٹی بات یہ ہے کہ جب تک اپنا نظام قائم نہ کیا جائے پرانا نظام مٹ ہی نہیں سکتا.آخر جب تک ہم اپنے نظام کا کوئی اعلیٰ نمونہ نہ دکھا ئیں پرانی چیز کو لوگ کیوں چھوڑیں ؟ وہ جب تک ہم اپنے نظام کا بہتر نمونہ ان کے سامنے پیش نہ کریں اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ پُرانے نظام کو ہی اختیار کئے رہیں پھر اس کے علاوہ ایک خطر ناک بات یہ ہے کہ خود اپنے آدمی اس کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اس لئے بغیر نظام کے وہ مقصود پورا ہی نہیں ہوسکتا اور وہ انقلاب جو مطلوب ہے کبھی رونما ہی نہیں ہوسکتا.پس جبکہ انقلاب پیدا کرنے کیلئے یعنی انقلاب حقیقی کے قیام میں ہمارا کام پرانے نظام کو مٹانے اور نئے نظام کو قائم کرنے کیلئے اور اس حد تک قائم کرنے کیلئے کہ نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم نے اس بارہ میں کیا کام کیا ہے؟ تم جانے دو معترضین کے سوالات کو ، آؤ ہم سب احمدی مل کر یہ بات سوچیں کہ کیا واقع میں اگر بیرونی دنیا سے کوئی شخص ہندوستان میں آ جائے اور اسے احمدی اور غیر احمدی کا کوئی فرق معلوم نہ ہوا ور فرض کرو کہ وہ بہرہ بھی ہے اور لوگوں سے سن کر بھی معلوم نہ کر سکتا ہو کہ فلاں احمدی ہیں اور فلاں غیر احمدی اور فرض کرو کہ وہ گونگا بھی ہو اور خود بھی دریافت نہ کر سکتا ہو لیکن اس کی

Page 125

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی آنکھیں ہوں جن سے وہ دیکھے اور اس کا دماغ ہو جس سے وہ سمجھے تو کیا وہ ہم کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کا آسمان اور ان لوگوں کی زمین اور ہے اور دوسرے لوگوں کا آسمان اور ، اور دوسرے لوگوں کی زمین اور ہے؟ یا وہ کچھ بھی نہیں سمجھے گا اور وہ کہے گا کہ غیر احمد یوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے اسی طرح احمدیوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے ان میں بھی بعض کمزور اور بداعمال ہیں اور ان میں بھی بعض کمزور اور بداعمال ہیں اور اگر وہ یہی نتیجہ نکالے تو بتلاؤ وہ کب اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا آسمان نیا ہے اور جماعت احمدیہ کی زمین نئی ہے ؟ پس سوچو اور غور کرو کہ ہم نے اس وقت تک کیا کیا ہے؟ ہم نے کچھ مسئلے سمجھ لئے ہیں، کچھ چندے دے دیتے ہیں اور کچھ ذاتی اصلاح کر لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ غیر احمدیوں میں اور ہم میں اگر کوئی فرق نکل سکتا ہے تو یہ کہ غیر احمد یوں میں زیادہ لوگ جھوٹ بولنے والے ہوتے ہیں مگر ہم میں کم لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ان میں سے اکثر تارک نماز ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر نمازیں پڑھنے والے ہوتے ہیں لیکن ایک حصہ ہم میں بھی تارک الصلوۃ لوگوں کا ہوتا ہے.پھر وہ تبلیغ نہیں کرتے اور ہم میں سے اکثر تبلیغ کرتے ہیں ، وہ قرآن بہت کم جانتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ نسبتا زیادہ قرآن جانتے ہیں لیکن شکل کل وہی ہے، طرز وہی ہے چیز وہی ہے، پس آسمان کس طرح بدل گیا اور زمین کس طرح بدل گئی؟ بلکہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم پرانے نظام سے نفرت بھی پیدا نہیں کر سکے.ابھی تک ہمارے بعض نوجوان مغربیت کے دلدادہ ہیں ، وہ مغربی فیشن کی تقلید میں اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو فراموش کئے ہوئے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہم دشمن کو مٹا دیتے، اس کی تہذیب کو پارہ پارہ کر دیتے اور اس کے تمدن کی بجائے اسلامی تمدن قائم کر دیتے ، اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارے فلاں آدمی کو جو دشمن چھین کر لے گیا ہے اسے ہم واپس لائیں لیکن ہم جو نہی اسے واپس لاتے ہیں دشمن ہمارے دس آدمی اور چھین کر لے جاتا ہے اور ہماری تمام کوشش اور ہماری تمام سعی پھر اسی کام میں صرف ہو جاتی ہے کہ انہیں دشمن سے واپس لائیں.پس بجائے دشمن کے تمدن کو مٹانے کے اپنے آدمیوں کو چھڑانے میں ہی ہم لگے رہتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ ہم اس نہایت ہی اہم امر کی طرف توجہ کریں اور دنیا کے تمدن اور دنیا کی تہذیب کو بدل کر اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب اس کی جگہ قائم کریں.

Page 126

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی انقلاب حقیقی کے قیام میں حضرت ممکن ہے کوئی کہے کہ آپ نے الہامات تو سنا دیئے اور قرآن کریم کی آیات سے بھی مسیح موعود علیہ السلام کا حصہ استدلال کر لیا مگر کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ الہامات سمجھتے ہیں یا ان سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیوں اس کی ابتداء نہ کی؟ سواس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واضح الہاموں میں اس کی ابتدا ء رکھ دی گئی ہے اور بار بار آپ نے اپنی تحریرات میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہونگے.اسی طرح کئی الہامات و مکاشفات کے ذریعہ سے آپ نے اپنے اس منصب کو بیان کیا ہے.پس جب اس کی ابتدا ہو چکی تو ابتدا کیلئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فورا تکمیل تک پہنچ جائے.مگر میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک حکم کے مطابق جو الہام میں بھی آپ پر نازل ہوا.آپ نے اس کام کو ترتیب کے ساتھ کرنا شروع کیا تھا مگر آپ کی وفات کے بعد وہ رشتہ ترتیب کا ہمارے ہاتھ سے کھویا گیا یا شاید اللہ تعالیٰ کا منشاء خود اس قدر وقفہ دینے کا تھا اور وہ حکم یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.گزرعٍ آخر شطآن فازره فاستغلظ فَاسْتَوَى عَلى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُرَاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرًا عظيما ٨ کہ مسیح موعود کے زمانہ میں انقلاب کے چار دور ہونگے.اوّل اخرج شطان یعنی اصول بیان کئے جائیں گے اور اس وقت ایسی ہی حالت ہوگی جیسے بیج زمین میں سے اپنا سر نکالتا ہے اور وہ حالت نہیں ہوگی جو اسلام کے پہلے دور میں تھی.اور جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آئی آمرُ اللهِ یا آتی الله بُنْيَا لَهُمْ 2 بلکہ وہاں ترتیب ہوگی اور تدریجی ترقی ہوگی.پہلے ایمان کا ایک بیج ہو گا جو قلوب کی زمین میں بویا جائے گا ، پھر وہ پیج آہستہ آہستہ اُگنا شروع ہوگا اور اُس کی بیج کی شکل نہیں رہے گی بلکہ روئیدگی کی شکل ہو جائے گی ، اس کے بعد ترقی کا دوسرا دور آئے گا جسے خدا تعالیٰ نے ازرَہ کے لفظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس وقت وہ پودا مضبوط ہو جائے گا اور اجرائے شریعت عملی طور پر کر دیا جائے گا، پھر تیسرا دور اس وقت آئے گا جب اشتغلظ کی پیشگوئی پوری ہوگی یعنی وہ کمزور پودا موٹا ہو جائے گا اور وہی تحریک جو

Page 127

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی پہلے معمولی نظر آتی تھی اور دُنیا کے تھوڑے حصہ پر حاوی تھی تمام دنیا پر حاوی ہو جائے گی اور لوگ جوں جوں احمدی بنتے چلے جائیں گے وہ تعلیم بھی سب عالم میں پھیلتی چلی جائے گی.گویا استغلظ میں انتشار في العالم کی پیشگوئی کی گئی ہے اور پھر چوتھا دور اس وقت آئے گا جب فَاسْتَوى على سوقہ کا نظارہ نظر آنے لگ جائے گا یعنی اسلامی بادشاہتیں قائم ہو جائیں گی اور وہ تھوڑے سے اسلامی مسائل جو خالص اسلامی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی عملی رنگ میں جاری ہو جائیں گے اور تمام دنیا کا ایک ہی تمدن ہوگا اور ایک ہی تہذیب.یہ فاستوى على سوقہ کے الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُس نے عرش پر استوی کیا.پھر فرماتا ہے کہ اسلامی تمدن جو احمدیت کے ذریعہ سے قائم کیا جائے گا اتنا شاندار اور اتنا اعلیٰ ہوگا کہ يُعجب الزراع دوسری قوموں اور تمدنوں کی آنکھیں کھول دے گا اور وہ حیران ہو ہو کر احمدیت کی کھیتی کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ یہ کھیتی تو بڑی اچھی ہے.یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ رُبما بود الّذينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِيْن او کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم کو عملی رنگ میں جب دنیا میں قائم کر دیا تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کفار نے بھی اپنی مجالس میں کہا کہ ہے تو یہ جھوٹا مگر اس کی تعلیم بڑی اعلیٰ ہے اور ان کے دلوں میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ کاش وہ مسلمان ہوتے.اسی طرح فرماتا ہے جب احمدیت کے ذریعہ سے اسلامی تمدن تمام دنیا میں قائم کر دیا گیا اور اسلامی حکومتیں اقطار عالم پر چھا گئیں تو يُعْجِبُ الذُراع دوسرے مذہبوں والے کہیں گے کہ اب اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا.لتغيظُ بِهِمُ الْكُفَّاره مگر جو عـنـيـد اور شدید دشمن ہونگے وہ تو اس انقلاب کو دیکھ کر مر ہی جائیں گے اور کہیں گے کہ اب ہم سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا.پہلے جن لوگوں کا ذکر تھا وہ ایسے ہیں جن کی فطرت صحیحہ زندہ ہوگی.وہ اس نظام کی برتری اور فوقیت کا اقرار کریں گے اور کہیں گے کہ کاش ہمیں بھی ایسے نظام میں شامل ہونے کا موقع ملتا.مگر جو شدید دشمن ہونگے وہ ہاتھ کاٹنے لگیں گے اور کہیں گے کہ اب ہماری فتح کی کوئی صورت نہیں.پس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں پہلا دور تھا کہ پنیری نکل رہی تھی مگر اب وقت آ گیا ہے کہ دوسرا دور شروع ہوتا کہ اُن لوگوں کی موجودگی میں جنہوں نے نور نبوت سے براہ راست حصہ لیا ہے یہ کام مکمل ہو جائے.اگر یہ کام آج نہ ہوا تو پھر کبھی بھی نہیں ہو سکے گا.

Page 128

انوار العلوم جلد ۱۵ تحریک جدید کا مقصد انقلاب حقیقی میں نے تحریک جدید کے پہلے دور میں اس کی طرف قدم اٹھایا تھا اور دوسرے دور کی بعض باتوں کو میں التواء میں ڈالتا گیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اپنے دلوں میں سوچو کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ عقائد کے میدان میں تو ہم نے دشمن کو شکست دی مگر عمل کے میدان میں ہم ابھی اسے شکست نہیں دے سکے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اپنے دلوں میں اس بات پر غور کیا ہو گا مگر میرے دل کی نیت اس وقت یہی تھی کہ میں تحریک جدید کے دوسرے دور کی بعض باتوں کو جلسہ سالانہ پر بیان کروں گا جب جماعت کا ایک حصہ میرے سامنے موجود ہوگا اور میں اُس سے دریافت کروں گا کہ آیا وہ ان باتوں پر عمل کرنے کیلئے تیار ہے یا نہیں؟ سو آج میں اس کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْإِيْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَةَ أَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ ۹۲ کہ اے مسلمانو! تم بعض دفعہ لَا اِلهَ إِلَّا اللَّہ پڑھ کر کہ دیتے ہو کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ہم مومن ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ہم مسلمان ہیں مگر فر ما یا یہ غلط بالکل غلط اور قطعاً غلط ہے.اوّل تو صرف لفظا لا اله الا اللہ کہنا کوئی چیز نہیں.اور اگر ہو بھی تو یا درکھو کہ الْإِيمَانُ بِضْعُ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَةٌ ـ ایمان کے ستر سے زیادہ حصے ہیں جن پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.یہاں بِضْعُ وَسَبْعُونَ سے مراد کثرت ہے اور یہ عربی کا محاورہ ہے اُردو میں بھی جب کسی کو یہ کہنا ہو کہ میں نے تجھے بار ہا یہ بات کہی ہے تو کہتے ہیں میں نے تجھے سو دفعہ یہ کہا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سو دفعہ کہا ہے بلکہ مطلب کثرت کا اظہار ہوتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کے ستر سے بھی زیادہ محکمے اور ڈیپارٹمنٹ ہیں.یعنی بہت سے اس کے شعبے ہیں.أَفْضَلُهَا قَولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.ان سب میں افضل بات لا اله الا اللہ کہنا ہے.مگر اس کے بعد اور پھر اور پھر اور اور پھر اور شعبہ ہائے ایمان چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک ادنیٰ بات شعبہ ہائے ایمان میں یہ بھی داخل ہے کہ اماطة الأذى عَنِ الطَّرِيقِ رستے میں کانٹے پڑے ہوں تو انہیں الگ کر دیا جائے ،کنکر پتھر ہوں تو انہیں ہٹا دیا جائے ، اسی طرح جو بھی تکلیف دینے والی چیز ہوا سے دور کر دیا جائے.گویا جس کو لوگ ایمان کہتے ہیں اور جس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ

Page 129

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ سینکڑوں اعمال ہیں جن کے مجموعہ کا نام ایمان ہے اور جب تک ان اعمال کی چاروں دیوار میں مکمل نہ کی جائیں ایمان کی عمارت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی.ان اعمال میں سے ادنیٰ سے ادنی اور معمولی سے معمولی عمل یہ ہے کہ اِماطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ یعنی راستہ کو صاف کیا جائے اور گندی اور تکلیف دہ اشیاء کو ہٹا دیا جائے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اسلام کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ تو حید پر ایمان لانا، قضاء وقد ر پر ایمان لانا ، انبیاء پر ایمان لانا ، بعث بعد الموت پر ایمان لانا ، جنت پر ایمان لانا، دوزخ پر ایمان لانا، قبولیت دعا پر ایمان لانا ، تمام صفات الہیہ پر ایمان لانا.پھر نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا ، حج کرنا، زکوۃ دینا، صدقہ و خیرات دینا، تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دینا ، والدین کی خدمت کرنا ، بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے جسمانی خدمات بجالانا، غیرت دکھانا ، شکر کرنا ، حُسنِ ظنی سے کام لینا، بہادر بننا ، بلند ہمت ہونا ، صبر کرنا ، رحم دل ہونا ، وقار کا خیال رکھنا ، جفاکش ہونا ، سادہ زندگی بسر کرنا، میانہ روی اختیار کرنا ، عدل کرنا ، احسان کرنا بھی بننا ، وفاداری دکھلانا ، ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا ، معاف کرنا، دوسروں کا ادب کرنا، لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا ، حکام کی اطاعت کرنا، تربیت کرنا، دشمنانِ قوم سے اجتناب کرنا ، محبت الہی پیدا کرنا، تو کل کرنا، تبلیغ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، چغلخوری نہ کرنا ، گالیاں نہ دینا، دھوکا بازی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا ظلم نہ کرنا ، فساد نہ کرنا، چوری نہ کرنا، بہتان نہ لگا نا تحقیر نہ کرنا، استہزاء نہ کرنا، بیکار نہ رہنا، سستی نہ کرنا ، محنت اور عقل سے کام کرنا ، یہ اور اسی قسم کی ہزاروں باتیں ایمان کا حصہ ہیں یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی پتھر دکھائی دے تو اسے راستہ سے اُٹھا کر الگ پھینک دو کوئی کنکر ہو تو اسے ہٹا دو.پس یہ مت خیال کرو کہ لَا اِلـه إِلَّا الله کہہ کر یا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہہ کريا امَنَّا بِالْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ کہہ کر یا نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر تم مومن ہو جاتے ہو اور تم کو ایمان مل جاتا ہے.ایمان نام ہے اسلام کے اعتقادات ، مسائل، عبادات، حمدن، اقتصاد، قضا، سیاست، اخلاق اور معاشرت کو اپنے نفس اور دنیا میں جاری کرنے کا جس کا اعلیٰ حصہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہے اور ادنی حصہ راستہ پر سے کانٹے ہٹانے کا ہے.جس نے اس کے لئے کوشش نہ کی نہ وہ مؤمن ہوا اور نہ اس نے اسلام کے دین کو قائم کرنے کے لئے کوشش کی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اَلْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِن وَّرَائِهِ ۹۳ که

Page 130

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی امام ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور تمہیں اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے لڑائی کرنی چاہئے.پس جب تک میں نے اعلان نہیں کیا تھا، لوگ بڑی حد تک آزاد سمجھے جا سکتے تھے لیکن اب وہی شخص جماعت کا فرد کہلا سکتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِهِ امام کے پیچھے ہو کر اسلام کے لئے جنگ کرنے کے واسطے تیار ہو جائے.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور احیائے سنت و شریعت کے لئے سرگرم عمل ہو جائے.جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا ، لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہیں تھا مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ اِحیائے سنت و شریعت کا وقت آ گیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہوگا اور اگر اب سستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہو گا.آج گو صحابہ کی تعداد ہم میں قلیل رہ گئی ہے مگر پھر بھی یہ کام صحابہ کی زندگی میں ہی ہو سکتا ہے اور اگر صحابہ نہ رہے تو پھر یا درکھو یہ کام بھی نہیں ہو گا.تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.(۱) الخُلُقُ (۱) اخلاق حسنہ وِعَاءُ الدِّينِ ۹۴ که خلق دین کا برتن ہے.اب تم خود ہی سمجھ لو کبھی برتن کے بغیر بھی دودھ رہا ہے؟ یہ تو ہو سکتا ہے کہ برتن ہومگر دودھ نہ ہولیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دودھ بغیر برتن کے باقی رہے.پس اخلاق حسنہ دین کا برتن ہیں.اگر کسی کے پاس یہ برتن نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرے پاس ایمان کا دودھ ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں (۲) إِنَّمَا بُعِثْتُ لِا تَمِّمَ مَكَارِمَ الْاخْلَاقِ.۹۵ کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا اخلاق فاضلہ کو کامل کر کے قائم کروں.پھر معاملات کے متعلق فرماتے ہیں.اَشْرِقُ الْإِيْمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ 191 (۲) معاملات و اشرف الإسْلامِ أَنْ يُسْلَمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ وَ کہ اعلیٰ درجہ کا ایمان یہ ہے کہ لوگ تیرے ہاتھ سے امن میں رہیں اور کسی کو تجھ سے دکھ نہ پہنچے اور اعلیٰ درجہ کا اسلام یہ ہے کہ لوگ تجھ سے محفوظ رہیں یعنی تو نہ زبان سے ان سے لڑے اور نہ ہاتھ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچائے.

Page 131

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی خدمت قومی کے متعلق فرماتے ہیں اِنَّ صَبرٍ أَحَدِ كُمْ سَاعَةً فِي ۳.خدمت قومی بَعْضِ مَوَاطِنِ الْإِسْلامِ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ يَعْبُدَ اللَّهَ أَرْبَعِيْنَ يَوْمًا ۷ کہ اگر اسلام کی خدمت میں کوئی شخص تم میں سے ایک گھنٹہ خرچ کرتا ہے جس کا اسے کوئی ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا تو وہ چالیس دن کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے.رزق حلال کے متعلق فرماتے ہیں اَلْعِبَادَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاء تِسْعَةٌ مِنْهَا ۴.رزق حلال فِي طَلَبِ الْحَلالِ ۹ کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے دس حصے ہیں.ایک حصہ عبادت کا تو نماز، روزہ، حج اور زکوۃ ہے مگر عبادت کے نو حصے رزق حلال کھانا ہے.گویا اگر تم نمازیں بھی پڑھتے ہو ، روزے بھی رکھتے ہو ، حج بھی کرتے ہو، زکوۃ بھی دیتے ہو لیکن اپنی تجارت میں دھوکا بازی کرتے ہو، تو تم ایک حصہ دودھ میں نو حصے ناپا کی ملا دیتے ہو اور اپنی تمام عبادت کو ضائع کر لیتے ہو.یا اگر تم کسی کو ایک پیسہ کی چیز دینے لگتے ہو اور تکڑی کا پلڑا ذرا سا جُھکا دیتے ہو تو تم اس ذراسی بے احتیاطی یا ذراسی چالا کی اور ہوشیاری سے اپنے حلال مال میں نو (۹) حصے گندگی کے ملا دیتے ہو اور اپنی ساری عمر کی عبادتوں کو ضائع کر لیتے ہو کیونکہ نماز ، روزہ کے احکام بجالا کر صرف دسواں حصہ حق کا ادا ہوتا ہے، باقی نو (۹) حصے اللہ تعالیٰ کے حق کے رزق حلال کما کر ادا ہوتے ہیں.۵.پستی اور محنت سستی اور محنت سے کام کرنے کے متعلق فرماتے ہیں اغل عَمَلَ امْرِيُّ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَمُوْتَ اَبَدًا وَاحْذَرُ 99 حَذَرَ امْرِيُّ يَخْشَى أَنْ يَمُوْتَ غَدًا 19 کہ جب تم دنیا کے کام کرو تو یا درکھو اسلامی تعلیم اُس وقت یہ ہے کہ ایسی محنت اور ایسی چُستی سے کرو گویا تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور کبھی مرنا ہی نہیں.یہ نہ ہو کہ تم کہو کیا کام کرنا ہے مر تو جانا ہی ہے یا کیوں خواہ مخواہ محنت کریں انجام تو فنا ہی ہے.فرماتا ہے دُنیا کے کام اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرو کہ گویا تمہیں موت کا خیال تک نہیں وَاحْذَرُ حَذَرَامُرَئُ يَخْشَى أَنْ يَمُوتَ غَدًا لیکن دین کے معاملہ میں اس طرح ڈرتے ڈرتے کام کرو گویا تم نے کل ہی مر جانا ہے.یہ دو مقام ہیں جو تمہیں حاصل ہونے چاہئیں.یعنی ایک طرف تم میں اتنی پستی اور اتنی پھر تی ہو کہ گویا تم نے کبھی مرنا ہی نہیں اور دوسری طرف اتنی خشیت ہو کہ گو یا تم نے جینا ہی نہیں.

Page 132

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی ۶.بنی نوع انسان کی خیر خواہی مانوع انسان کی خیر خواہی کے متعلق فرماتے ہیں عَلى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ فَإِنْ لَّمْ يَجِدُ فَلْيَعْمَلْ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَۀ کہ ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے اور اگر کوئی کہے کہ میں تو غریب ہوں میں کہاں سے چندہ دوں.جیسے بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا جاتا ہے تو و ہیں ہم سے کیا چندہ لینا ہے ہمیں تو تم چندہ دو کیونکہ ہم غریب ہیں.تو فرمایا فلیعمل بیدہ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ قومی کام اپنے ہاتھ سے کرے کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ بھی نہیں ہیں.وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس روپے نہیں تو فرمایا اچھا اگر روپے نہیں تو اپنے ہاتھ سے کام کرو.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ صرف مالداروں پر ہی فرض نہیں کیا بلکہ غرباء کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ صدقہ دینا ہر انسان کا کام ہے جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو مال نہیں دے سکتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے.اسی لئے تحریک جدید میں میں نے بتایا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرو اور اگر کوئی ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتا تو صرف دعا کرتا ر ہے کیونکہ اس صورت میں یہی اس کا کام سمجھا جائے گا.ے.صفائی صاف رہنے کے متعلق فرماتے ہیں النظافة من الایمان 'ے کہ صفائی رکھنا.صداقت ایمان کا جزو ہے.پھر فرماتے ہیں.آخرِجُوا مِنْدِيلَ الْغَمَرِ مِنْ بُيُوتِكُمْ فَإِنَّهُ مَبِيْتُ الخَبِيثِ وَ مَجْلِسُهُ ١٢ کہ وہ دستر خوان جس کو چکنائی لگ گئی ہو اسے اپنے گھروں سے نکال کر باہر پھینک دو کیونکہ وہ خبیث چیز ہے اور گندگی کا مقام ہے یعنی اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں ، کیڑے آتے ہیں اور بیماریاں ترقی پکڑتی ہیں.مگر تعجب ہے کہ آج کل لوگ نیکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کپڑے کو اس وقت تک نہ دھویا جائے جب تک کہ وہ پھٹ نہ جائے.صداقت کے متعلق فرماتے ہیں ایسا کم والكذب فان الكذب لَا يَصْلُحُ فِي الجِدِ وَلَا بِالْهَزْلِ وَلَا يَعِدِ الرَّجُلُ صَبِيَّةَ ثُمَّ لَا يَفِى لَهُ ١٣ کہ اے لوگو تم جھوٹ سے بچو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جھوٹ نہ ہنسی میں جائز ہے نہ سنجیدگی میں.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا محض ہنسی کی ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی جھوٹ قرار دیتے ہیں بلکہ آپ اس سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دیتے اور فرماتے ہیں.لا يَعِدِ الرَّجُلُ صَبِيَّةَ ثُمَّ لَا يَفِی لَۀ کہ تم اپنے بچوں سے بھی جھوٹا وعدہ نہ کرو.تم بعض دفعہ بچے سے جب وہ رورہا ہو کہتے ہو ہم تجھے ابھی مٹھائی منگا دیں گے پھر

Page 133

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی جب وہ چپ ہو جاتا ہے تو تم اُسے کوئی مٹھائی منگا کر نہیں دیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایسا بھی مت کرو کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں.پھر کما کرگزارہ کرنا بھی اسلام کا جزو ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی و.خدمت میں ایک دفعہ صحابہؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک شخص ۱۰۴ رات دن عبادت میں لگا ہوا ہے، فرمائیے وہ سب سے اچھا ہوا یا نہیں ؟ انبیاء کا بھی کیسا لطیف جواب ہوتا ہے.آپ نے فرمایا جب وہ رات دن عبادت میں لگا رہتا ہے تو کھاتا کہاں سے ہے.انہوں نے عرض کیا لوگ دیتے ہیں.آپ نے فرمایا تو پھر جتنے اُسے کھانے پینے کیلئے دیتے ہیں وہ سب اس سے بہتر ہیں.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک نوجوان گزرا جو نہایت لمبا مضبوط اور قوی الجثہ تھا اور بڑی تیزی سے اپنے کسی کام کیلئے دوڑتا ہوا جا رہا تھا.بعض صحابہ نے اسے دیکھ کر تحقیر کے طور پر کوئی ایسا لفظ کہا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جا تیرائر اہو اور کہا کہ اگر اس کی جوانی اللہ کے رستہ میں کام آتی تو کیسا اچھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا.یہ کہنے کا کیا مطلب ہوا کہ تیرا بُرا ہو جو شخص اس لئے تیزی سے کوئی کام کرتا ہے کہ اس سے اپنی بیوی کو فائدہ پہنچائے ، تو وہ خدا کی ہی راہ میں کام کر رہا ہے اور جو شخص اس لئے دوڑتا اور پھرتی سے کام کرتا ہے کہ اپنے بچوں کے کھلانے پلانے کا بندوبست کرے، تو وہ خدا ہی کی راہ میں کام کر رہا ہے.ہاں جو شخص اس لئے دوڑتا ہے کہ لوگ اُس کی تعریف کریں اور اُس کی طاقتوں کی داد دیں، تو وہ شیطان کی راہ میں کام کرتا ہے مگر حلال روزی کے لئے کوشش کرنا اور کما کر گزارہ کرنا تو سبیل اللہ میں شامل ہے.۱۰۵ حکم اسی طرح اسلام نے جائدادوں کی حفاظت کے ۱۰.جائداد کی حفاظت کا حکم متعلق خاص طور پر احکام دیئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی جائداد بیچ کر کھا جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں اور وہ اس قابل ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو برکت دے.۱۰۶ یہ میں نے اسلامی احکام میں سے صرف چند باتیں پیش کی ہیں.ورنہ اسلام کے احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان تمام امور کے جاری کرنے کو سیاست کہتے ہیں اور یہ سیاست اسلام کا ضروری جزو ہے.

Page 134

انوار العلوم جلد ۱۵ تمدن اسلامی کے قیام کے ذرائع انقلاب حقیقی مگر یہ فرض ادا نہیں ہو سکتا جب تک مندرجہ ذیل طریقے اختیار نہ کئے جائیں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ: اول جماعت کے خیالات کو بدلا جائے اور اُسے بتلایا ا.خیالات میں تبدیلی جائے کہ مؤمن ہونے اور احمدی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ تم نے لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہا اور چھٹی ہوئی.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور معاملہ ختم ہو گیا بلکہ ایمان کی تکمیل کیلئے سینکڑوں باتوں کی ضرورت ہے جو تمدن، معاشرت، اقتصاد اور سیاست وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں.جب تک وہ تمام کڑیاں مضبوط نہ ہوں کو ئی شخص حقیقی معنوں میں مومن نہیں کہلا سکتا اور یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو بدلیں اور ان کو بتائیں کہ ان کے سامنے کتنا اہم کام ہے.مگر ہمارے علماء کی یہ حالت ہے کہ وہ باہر جاتے ہیں تو صرف وفات مسیح اور ختم نبوت پر لیکچر دے کر آ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرض کو ادا کر دیا.گویا ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایک محل بنانے کیلئے نکلے مگر ایک اینٹ گھڑ کر واپس آ جائے اور سمجھ لے کہ اُس کا کام ختم ہو گیا.پس یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ انہیں احیائے سنت اور احیائے شریعت کیلئے ایک موت قبول کرنی پڑے گی اور اس کے لئے انہیں چاہئے کہ وہ تیار ہو جائیں.۲.کامل اطاعت دوسرے اس کام کیلئے جماعت کے دلوں میں یہ عزم پیدا کرنا ضروری ہے کہ ہم پوری اطاعت کریں گے خواہ ہمیں کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑے کیونکہ یہ چیزیں نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر ایک بھی اس نظام سے نکل جائے تو تمام کام درہم برہم ہو جاتا ہے.مثلاً ہماری شریعت ایک حکم یہ دیتی ہے کہ فلاں فلاں سٹینڈرڈ(STANDARD) کی اگر کوئی چیز ہو تو فروخت کی جائے ، ناقص اور ادنی مال فروخت نہ کیا جائے.اب اگر ہم اس حکم کی دُکانداروں سے تعمیل کرائیں اور جو اس حکم کو نہ مانے ، اس کے متعلق ہم یہ حکم دے دیں کہ جماعت اس سے سودا نہ خریدے تو ایسی حالت میں اگر بعض لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں جو کہیں کہ یہ لوگوں کا رزق مار رہے ہیں ، تو اسلام کا یہ حکم دنیا میں کس طرح قائم ہو سکتا ہے اور اگر ہم اس طرح ایک ایک کر کے لوگوں کو احکام کی اطاعت سے آزاد

Page 135

انوارالعلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کرتے جائیں تو ہماری مثال اسی شخص کی سی ہوگی جس کی نسبت کہتے ہیں کہ کسی سے شیر کی تصویر بدن پر گدوانے گیا تھا.جب وہ شیر گود نے لگا اور اس نے سوئی جسم میں داخل کی اور اسے درد ہوئی تو پوچھنے لگا کہ کیا گودنے لگے ہو؟ گودنے والے نے جواب دیا شیر کا دایاں کان.اس پر اس نے پوچھا کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو کیا شیر شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ گودنے والے نے کہا کہ رہتا تو ہے.تو اس نے کہا کہ اچھا پھر اسے چھوڑ و آگے چلو.پھر اس نے دوسرا کان گود نا چاہا تو اس پر بھی اسی طرح گفتگو کی اور اسی طرح ہر عضو پر کرتا گیا.آخر گودنے والا کام چھوڑ کر بیٹھ گیا اور اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ اپنا کام کیوں چھوڑ بیٹھے ہو؟ تو گودنے والے نے کہا اس لئے کہ اب شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا.اسی طرح اگر ہم بھی دیکھیں کہ لوگ اسلامی احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور انہیں چھوڑتے جائیں تو اسلام کا اور جماعت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس ہمارا فرض ہے کہ جو لوگ نصیحت سے اپنی اصلاح کرتے ہیں ان کی نصیحت سے اصلاح کریں اور جولوگ نصیحت سے اصلاح نہیں کرتے انہیں مجبور کریں کہ یا وہ اپنے وجود سے احمدیت کو بدنام نہ کریں یا پھر تو بہ کر کے باقی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اس کام میں جماعت کو کامل تعاون کرنا چاہئے اور چاہئے کہ جماعت اس بارہ میں پوری اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جائے.خواہ انہیں اپنا باپ چھوڑنا پڑے یا بیوی چھوڑنی پڑے یا بیٹا چھوڑ نا پڑے یا بھائی چھوڑنا ۴.جائز جبر تیسرے اس مقصد کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسی کتب لکھی جائیں جن میں اسلام کی اصولی تعلیم یا اصولی تعلیم کی روشنی میں احکام ہوں.چوتھے اس امر کی ضرورت ہے کہ شریعت کے اجراء میں جائز جبر جسے سیاست کہتے ہیں، اس سے کام لیا جائے اور اس امر کا کوئی خیال نہ کیا جائے کہ کسی کو ٹھو کر لگتی ہے یا کوئی ابتلاء میں آتا ہے.سیاست کے معنی درحقیقت یہی ہیں کہ اجرائے شریعت کے باب میں جہاں ضرورت ہو اور جس حد تک اجازت ہو جبر سے کام لیا جائے اور علمائے اسلام نے اس پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جبر سے ماننے والوں کو جبر سے اسلامی احکام پر چلانے کا نام ہی سیاست ہے اور ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس جبر سے کام لیں.جب ایک شخص ہمارے پاس آتا ہماری بیعت کرتا اور اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیتا ہے، تو لازماً ہمارا حق ہے کہ اگر وہ کسی حکم پر چلنے میں سستی اور غفلت سے کام

Page 136

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی لے تو اس پر جبر کریں اور اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اسلامی طریق عمل کو اختیار کرے کیونکہ وہ ہمارا ایک حصہ بنا ہوا ہے اور اس کی بدنامی سے ہماری بدنامی ہے اور اس کی کمزوری سے ہمارے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے.ایسا جبر ہرگز نا جائز نہیں کیونکہ اس شخص نے اپنی مرضی سے ہم میں شامل ہو کر ہمیں اس جبر کا حق دیا ہے.جس طرح کہ بورڈنگ میں داخل ہو کر ایک طالب علم اساتذہ کو خود اپنے پر جبر کا حق دیتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.ہاں جو اسے نا پسند کرتا ہو وہ پورا آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جماعت سے الگ کرلے.شریعت کے احیاء کے دو حصے اب میں یہ بتا تا ہوں کہ عملی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کے احیاء کے دو بڑے حصے ہیں.ایک وہ جس کا تعلق حکومت سے ہے اور ایک وہ جس کا تعلق نظام سے ہے.جوا مورحکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے اسلام کا یہ حکم ہے کہ چور کا ہاتھ کا ٹو سے یا اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ قاتل کو ضروری نہیں کہ قتل ہی کیا جائے بلکہ وارثوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قتل کی سزا دلائیں اور چاہیں تو معاف کر دیں ۱۰۸ مگر یہ اسلامی حکم چونکہ حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ہم انہیں ابھی جاری نہیں کر سکتے.پھر اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جو شخص قاتل ہوا سے مقتول کے وارثوں کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ حکام کی زیر نگرانی چاہیں تو خود اسے قتل کریں لیکن اب گورنمنٹ قاتلوں کو خود پھانسی دیتی ہے اور وارثوں کے سپرد نہیں کرتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وارثوں کے دل میں پھر بھی کینہ اور بغض رہتا ہے اور وہ کسی اور موقع پر قاتل کے رشتہ داروں سے انتقام لینے کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اگر اسلامی حکومت ہو تو گورنمنٹ کے افسروں کی موجودگی میں قاتل کو قتل کرنے کے لئے پہلا موقع مقتول کے رشتہ داروں ۱۰۹ کو دیا جائے گا.ہاں اس بات کا لحاظ ضروری رکھ لیا جائے گا کہ فَلا يُسْرِفْ فِي القَتْلِ و قتل تو بیشک کرے مگر ظالمانہ رنگ میں قتل نہ کرے بلکہ قتل کے لئے جو قانون مقرر ہے اور جو طریق حکومت کا مجوزہ ہے اس کے مطابق قتل کرے اور اگر وہ کمزور دل والا ہو اور اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی جرات نہ کر سکتا ہو تو گورنمنٹ کو کہہ سکتا ہے کہ میں قتل نہیں کرتا، تم خود اسے قتل کروا دو.اس طرح وہ بغض دور ہو جاتا ہے جو حکومت انگریزی کے فیصلوں کے باوجودلوگوں کے دلوں میں باقی رہ جاتا ہے اور آئندہ بہت سے فتنے پیدا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.پھر بعض دفعہ قاتل کو معاف کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے اور یہ صورت بھی مقتول کے رشتہ داروں کے اختیار میں ہوتی ہے

Page 137

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی لیکن بہر حال ان امور میں حکومت ہی دخل دے سکتی ہے عام لوگ دخل نہیں دے سکتے.مگر شریعت کے بعض حصے ایسے ہیں کہ باوجود ان کے سیاسی اور نظام کے ساتھ متعلق ہونے کے گورنمنٹ ان میں دخل نہیں دیتی.جیسے قادیان میں قضاء کا محکمہ ہے حکومت اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے خود اجازت دی ہوئی ہے کہ ایسے مقدمات کا جو قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں آپس میں تصفیہ کر لیا جائے.پس اسلامی شریعت کا وہ حصہ جس میں حکومت دخل نہیں دیتی اور جس کے متعلق حکومت نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اس میں جس رنگ میں چاہیں فیصلہ کریں، ہمارا فرض ہے کہ اس حصہ کو عملی رنگ میں اپنی جماعت میں قائم کریں اور اگر ہم شریعت کے کسی حصہ کو قائم کر سکتے ہوں مگر قائم نہ کریں تو یقیناً اس کے ایک ہی معنے ہوں گے اور وہ یہ کہ ہم شریعت کی بے حرمتی کرتے ہیں.پس اب اس نہایت ہی اہم اور ضروری مقصد کے لئے ہمیں عملی قدم اُٹھانا چاہئے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور جماعت کے کسی فرد کی کمزوری یا ٹھوکر کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاہئے.اصلاح اعمال کا پہلا قدم عورتوں کو ورثہ دینا اس سلسلہ میں پہلا قدم ان امور کی اصلاح ہے جو ظاہر و باہر ہیں.آج میں ان میں سے ایک امر آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اس کو اگر ہم اختیار کر لیں تو یقیناً ہمارے راستہ میں کوئی روک نہیں.صرف لوگوں کی بے دینی ، ناواقفی اور سستی اس راہ میں حائل ہے.یعنی کسی کے لئے سستی ، کسی کے لئے ناواقفی اور کسی کے لئے بے دینی اس مسئلہ پر عمل کرنے میں روک بنی ہوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آج ہی ہماری ساری جماعت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کل اس میں وہ بدی نہیں ہو گی.وہ ایک قومی گناہ ہے جس کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں زمینداروں میں بالعموم ورثہ کے مسئلہ پر عمل نہیں کیا جاتا.آج پچاس سال جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے گزر گئے ہیں مگر ابھی تک ہماری جماعت میں لڑکیوں کو اپنی جائدادوں میں سے وہ حصہ نہیں دیا جاتا جو خدا اور رسول نے ان کے لئے مقرر کیا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا خود ہم نے اپنی والدہ اور بہنوں کو ان کا حصہ دیا ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا.لیکن جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس حکم پر عمل نہیں کرتے اور اپنی لڑکیوں ، اپنی بہنوں، اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو ورثہ میں وہ حصہ نہیں دیتے جو شریعت نے ان کے لئے مقرر

Page 138

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کیا ہے.مگر میں پوچھتا ہوں اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کیا روک ہے؟ سوائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ ہمارے ہاں رواج نہیں.اس کا اور کوئی جواب تم نہیں دے سکتے مگر کیا پچھلے تمام مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے رہے اور کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ آج یو پی کا ہر غیر احمدی تو اس پر عمل کرتا ہے اسی طرح صوبہ سرحد میں مسلمانوں نے اپنی مرضی سے ایسا قانون بنوایا ہے جس پر چل کر ہر شخص شریعت کے مطابق اپنی جائداد تقسیم کرنے کے لئے مجبور ہے مگر وہ احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس زمین کو بدل کر ایک نئی زمین بنائے گا اور اس آسمان کو بدل کر ایک نیا آسمان بنائے گا وہ اپنی بیٹیوں ، اپنی بہنوں ، اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو وہ حصہ نہیں دیتا جو شرعاً انہیں ملنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں زمینداروں کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس طرح ہماری پیدا کردہ جائداد دوسرے لوگوں کے قبضہ میں چلی جائے گی لیکن جب ساری جماعت اس مسئلہ پر عمل کرے گی تو یہ مشکل بھی جاتی رہے گی کیونکہ اس کی جائداد دوسرے کے قبضہ میں جائے گی تو دوسرے کی جائداد اس کے قبضہ میں بھی تو آئے گی.پس اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کوئی حقیقی روک نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ ہر مخلص اقرار کرے کہ آئندہ وہ اس کی پابندی کرے گا اور اپنی بیٹی اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنی ماں کو وہ حصہ دے گا جو شریعت نے انہیں دیا ہے اور اگر وہ اس کی پابندی کرنے کے لئے تیار نہیں تو وہ ہم سے الگ ہو جائے.پس آئندہ پورے طور پر اپنی اپنی جماعتوں میں اس کی پابندی کرائی جائے اور جو لوگ اس مسئلہ پر عمل نہ کریں ان کے متعلق غور کیا جائے کہ ان کے لئے کیا تعزیر مقرر کی جاسکتی ہے اور اگر کوئی ہماری تعزیر کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو ایسے شخص کو جماعت سے نکال دیا جائے تا آئندہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارے ہاں شریعت کی ہتک ہوتی ہے.اب اس مسئلہ کی اہمیت سمجھانے کے بعد اور یہ ثابت جماعت احمدیہ سے مطالبہ کر دینے کے بعد کہ نئی زمین اور نیا آسمان اسی طرح بنایا جا سکتا ہے جب احیائے سنت اور احیائے شریعت کیا جائے.میں آج وہ بات کہتا ہوں جو پہلے کبھی نہیں کہی اور میں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ میں سے جو لوگ اس مسئلہ پر آئندہ عمل کرنے کے لئے تیار ہوں وہ کھڑے ہو جائیں (اس پر تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر لبیگ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَبَّيْكَ کہتے ہوئے اس کا اقرار کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا ) دیکھو آج تم میں سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا ہے کہ وہ دُکھوں اور تکالیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی

Page 139

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی مرضی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احیاء کے لئے طوعاً ، بغیر کسی جبر اور اکراہ کے اس امر کے لئے تیار ہے کہ وہ اپنی جائداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے.پس اس وقت چونکہ بحیثیت جماعت آپ لوگوں نے عمل کا اقرار کیا ہے، اس لئے یا درکھیں کہ آئندہ اگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کرے گا تو اس سے قطع تعلق کا حکم دیا جائے گا یا کوئی اور سزا دی جائے گی جو ہمارے امکان میں ہے اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوا تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ گو اتنی عام تو نہیں مگر ۲.عورتوں کے حقوق چونکہ شریعت کا حکم ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ عورتوں کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھو اور ان کے جذبات کو مسلنے کی بجائے ان کی قدر کر و خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ تمہاری ایک سے زائد بیویاں ہوں.یہ حکم ہے جو شریعت نے دیا ہے کہ اپنی تمام عورتوں سے یکساں سلوک رکھو.مگر میں نے دیکھا ہے یہ حکم اکثر تو ڑا جاتا ہے اور شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کے سینہ میں دل نہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا ہے اور بعض جگہ تو بلا کسی شرعی حکم کے عورت کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے نہ ملے اور خاوند سمجھتا ہے کہ بیوی کو میرے ماتحت کتوں کی طرح رہنا چاہئے.وہ نادان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی انسان بنایا ہے اور اس کے اندر بھی جذبات اور احساسات رکھے ہیں.کیا وہ خود اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ اسے اپنے ماں باپ سے ملنے اور ان کی خدمت کرنے سے روکا جائے اگر نہیں تو اس عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے.مگر مجھے افسوس ہے کہ جن کی ایک سے زیادہ عورتیں ہیں ، ان میں سے بعض یکساں سلوک نہیں کرتے اور بعض تو اس قدر ظلم کرتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو ان کے ماں باپ کی خدمت کرنے اور ان سے ملنے سے بھی روک دیتے ہیں.یہ ایک نہایت ہی قابل شرم حرکت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج ہماری جماعت کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اس کے افراد عورت کے احساسات کی عزت کریں گے.بیشک شریعت مردوں کو بھی بعض حقوق دیتی ہے کیونکہ شریعت نے مرد کو قیم بنایا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کے لئے ظلم اور نا انصافی روا ہو جائے.پس ہم میں سے ہر شخص کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ یا تو وہ آئندہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو یا دونوں بیویوں میں انصاف کرے گا اور اگر انصاف نہیں کر سکتا تو پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا.ورنہ جماعت

Page 140

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی مجبور ہوگی کہ اگر وہ اپنی بیویوں سے یکساں سلوک نہیں کرتا، تو اس سے مطالبہ کرے کہ وہ ان ہرسہ طریق میں سے کسی ایک طریق کو اختیار کرے اور اگر وہ کسی طریق کو بھی اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے.تیسر احکم جس کی طرف اس وقت لوگوں کو توجہ نہیں، امانت ہے.اس کے متعلق ۳.امانت بھی جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ آئندہ ہر احمدی پورا پورا امین ہوگا اور کسی کی امانت میں خیانت نہیں کرے گا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی شخص امانت رکھ جاتا ہے تو وہ اپنے حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس امانت میں سے کچھ روپیہ ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیتے ہیں اور جب امانت رکھنے والا اپنی امانت لینے کے لئے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ اسی وقت روپیہ دے دیں کہتے ہیں چند دن صبر کریں.آپ کا روپیہ میں نے خرچ کر لیا تھا مجھے فلاں جگہ سے روپیہ ملنے والا ہے وہ ملتے ہی میں آپ کو ادا کر دوں گا.اس طرح وہ گو بظاہر دیانتداری سے امانت کی رقم خرچ کرتے ہیں اور اس رقم کو واپس کرنے کا بھی پختہ ارادہ رکھتے ہیں مگر ہوتے دراصل خائن ہیں.امانت کا طریق یہی ہے کہ جیسی کسی نے امانت رکھی ہو ویسی ہی وہ پڑی رہے اور جب امانت مانگنے والا آئے اسے فوراً دے دی جائے.دہلی میں حکیم محمود خاں صاحب کا خاندان نہایت ہی امین خاندان مشہور تھا جب غدر ہوا ہے اس وقت لوگ ان کی ڈیوڑھی میں زیورات اور کپڑوں کی بندھی بندھائی گٹھڑیاں پھینکتے چلے جاتے تھے.کیونکہ وہ مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب شاہی تھے اور مہاراجہ پٹیالہ نے ان کے مکان کی حفاظت کے لئے خاص طور پر ایک گارد بھجوا دی تھی اور انگریزوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ چونکہ میرے شاہی طبیب ہیں اس لئے انہیں کچھ نہ کہا جائے.تو چونکہ اس وقت ان کا مکان محفوظ تھا اور دوسرے لوگوں کے مکان غیر محفوظ تھے اور پھر وہ نہایت ہی امین مشہور تھے ، اس لئے لوگ بھاگتے ہوئے آتے اور زیورات اور پار چات کی گھڑیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینکتے چلے جاتے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ ان زیوروں یا کپڑوں کا کیا بنے گا.آخر انہی لوگوں میں سے جنہوں نے اس وقت گٹھڑیاں پھینکی تھیں بعض دس دس سال کے بعد آئے اور انہوں نے بجنسہ اپنی چیزیں ان سے لے لیں.یہی نمونہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو دکھانا چاہئے اور ہر احمدی کو امانت میں اتنا مشہور ہونا چاہئے کہ لوگ لاکھوں روپے اس کے پاس رکھنے میں بھی دریغ نہ کریں اور ایک احمدی کا نام سنتے ہی لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ایسا شخص ہے کہ اس کے پاس روپیہ ر کھنے میں کوئی حرج نہیں.

Page 141

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی -۴ مخلوق خدا کی خدمت چوتھا امر جس کی طرف میں خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں مخلوق خدا کی خدمت ہے.تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور خود محنت کر کے اپنے گاؤں وغیرہ کی صفائی کرو.ہندوستانی شہروں کی سڑکیں اور گاؤں کی گلیاں بالعموم گندی رہتی ہیں، ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان کی صفائی کی طرف توجہ کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظافت کے متعلق اپنی امت کو جو احکام دیئے ہیں ، وہ اسی صورت میں عملی رنگ میں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جب ہم میں سے ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھے اور صفائی میں مشغول رہے بلکہ جس گاؤں میں احمدیوں کی اکثریت ہو اُسے دوسرے دیہات کے مقابلہ میں صفائی میں اس طرح ممتاز ہونا چاہئے کہ ایک اجنبی شخص بھی جب کسی ایسے گاؤں میں داخل ہو وہ اس کی صفائی اور نظافت کو دیکھتے ہی سمجھ لے کہ یہ احمدیوں کا گاؤں ہے.۵.احمدیوں کا دارالقضاء پانچویں بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سوائے ان مقدمات کے جن کو عدالت میں لے جانے کی مجبوری ہو اور جن کے متعلق قانون یہ کہتا ہو کہ انہیں عدالت میں لے جاؤ ، ہمارا کوئی جھگڑا عدالت میں نہیں جانا چاہئے اور ان جھگڑوں کا شریعت کے ماتحت فیصلہ کرانا چاہئے اور اگر کوئی شخص اس حکم کو نہ مانے تو جماعت کو چاہئے کہ اسے سزا دے تا کہ اس کی اصلاح ہو اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے لگ کر دیا جائے.اس وقت صرف قادیان میں اس بات پر عمل ہوتا ہے مگر میں اب چاہتا ہوں کہ ہر جماعت میں پنچائتی بورڈ بن جائیں جو معاملات کا تصفیہ کیا کریں.پس ہر احمدی کو اپنے دل میں ہی اقرار کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اسے انگریزی عدالت میں لے جایا جائے عدالت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائے گا اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے گا اور گواس حکم پر عمل کرانے سے جماعت کا ایک حصہ ضائع ہو جائے تو بھی اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے.دیکھو رسول کریم ﷺ پر جب یہ وحی نازل ہوئی کہ اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ و اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسلام دينا تو رسول کریم

Page 142

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله انقلاب حقیقی نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک سواری پر کھڑے ہو کر یہ وحی الہی سنائی اور فرمایا یہ خدا کی آخری امانت تھی جو میں نے تم تک پہنچا دی.پھر آپ نے فرمایا هَل بَلَّغْتُ ؟ کیا خدا کا یہ پیغام میں نے تمہیں پہنچادیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی بَلَّغْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.اے خدا کے رسول آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا.پھر آپ نے فرمایا میں اپنی امانت سے سبکدوش ہوتا ہوں.میں بھی آج اس امانت سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کی گئی تھی سبکدوش ہوتا ہوں.کیونکہ میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ خدا نے جو تمہیں شریعت دی ہے وہ صرف لَا إِلهُ إِلَّا اللہ کہنے تک محدود نہیں بلکہ وہ مذہب اور اقتصاد اور سیاست اور معاشرت اور اخلاق اور تمدن اور تہذیب اور دوسری تمام باتوں پر حاوی ہے.اب یہ علماء کا کام ہے کہ وہ قرآن اور احادیث سے ان مسائل کو نکالیں اور دنیا کے سامنے انہیں کھول کر رکھ دیں.پس ہر علم کے متعلق کتابیں لکھی جائیں اور بہت جلد لکھی جائیں تا لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں بلکہ بعض کتابیں سوال و جواب کے رنگ میں لکھی جائیں جیسے پرانے زمانہ میں پنجاب کے بعض علماء نے پکی روٹی اور مٹھی روٹی وغیرہ لکھیں تا جماعت کا ہر شخص ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے اور پھر اس کے بعد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے.بیشک آج ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں ان پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہئے اور پھر آئندہ قریب زمانہ میں جوں جوں شریعت کے احکام تفصیل سے لکھے جائیں ان تمام احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے اور جماعت ان کو یاد کرتی چلی جائے تا یہ نہ ہو کہ وہ صرف چندہ دے کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام ختم ہو گیا بلکہ اسلام کے تمام احکام پر عمل اس کی غذاء ہو اور سنت و شریعت کا احیاء اس کا شغل ہو.یہاں تک کہ دنیا تسلیم کرے کہ سوائے اس حصہ کے جو خدا تعالیٰ نے چھین کر انگریزوں کو دے دیا ہے باقی تمام امور میں جماعت احمدیہ نے فی الواقع ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی ہے اور ہم میں سے ہر شخص جہاں بھی پھر رہا ہو دنیا اسے دیکھ کر یہ نہ سمجھے کہ یہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے پیچھے پھرنے اور مغربیت کی تقلید کرنے والا ایک شخص ہے بلکہ یہ سمجھے کہ یہ آج سے تیرہ سو سال پہلے محمد ﷺ کے زمانہ میں مدینہ کی گلیوں میں پھر رہا ہے.اے دوستو ! میں نے خدا تعالیٰ کا حکم آپ لوگوں تک پہنچا دیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال کوئی معمولی سوال نہیں.آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ آپ ہر تکلیف اور ہر مصیبت اُٹھا کر

Page 143

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی بھی اسلام کے احکام پر عمل کریں گے اور اس تمدن کو قائم کریں گے جس تمدن کو قائم کرنے کا اسلام نے حکم دیا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ہر ایک اپنے عہد پر مضبوطی سے قائم رہے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں پر فورا عمل کرنا شروع کر دے گا جن پر عمل کرنا اس کے اختیار میں ہے.یہاں تک کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں، ان کا منہ تمہارا عملی نمونہ دیکھ کر بند ہو جائے اور تم یہ دعویٰ کر سکو کہ اگر ہم بہتک کرتے ہیں تو دیکھو کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کن میں زندہ ہیں اور ہر شخص اقرار کرے کہ آپ احمد یوں کے وجود میں زندہ ہیں.اس کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا تمدن اسلامی کے قیام میں مشکلات ہوں.بہت سے حصے اس تقریر کے ایسے ہیں جن کو میں نے بغیر تشریح کے چھوڑ دیا ہے.ان کی تشریح کسی اور کتاب میں اگر اللہ تعالیٰ چاہے بیان ہو جائے گی.اسی طرح میں علماء سے کتابیں لکھوانے کی بھی کوشش کروں گا.البتہ دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اقرار کرنا آسان ہوتا ہے مگر عمل کرنا مشکل.کئی لوگ ہیں جنہوں نے یہاں تو اقرار کیا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنی جائداد کا حصہ دیں گے مگر جب گھر پہنچ کر اس پر عمل کرنے لگیں گے تو بیٹے کہیں گے کہ ہمارے ابا اپنی جائداد بر باد کر رہے ہیں اور اس طرح تمہارے راستے میں کئی روکیں حائل ہوں گی پس تم اس وقت ایک پختہ عزم لے کر اُٹھو اور یا درکھو کہ باتیں کرنا آسان ہوتی ہیں مگر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے.اگر عمل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا تو اس مسئلہ پر آپ نے پہلے ہی عمل کر لیا ہوتا کیونکہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں جو آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا گیا بلکہ آپ اسے پہلے بھی جانتے تھے لیکن باوجود علم کے عمل نہیں کرتے.پس جذبات کی رو میں جب چاروں طرف سے نعرے لگ رہے ہوں عہد کر لینا آسان ہوتا ہے اور کئی کمزور بھی اس عہد میں شامل ہو جاتے ہیں مگر جب کام کا وقت آتا ہے تو وہ بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اور جماعت کے ان افسروں کو جو کام پر متعین ہوتے ہیں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں.پس میں جانتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں قسم قسم کے فساد پھیلیں گے اور لوگ افسروں کو بد نام کریں گئے انہیں شرارتی اور فسادی قرار دیں گے جیسے قادیان میں جب بعض لوگوں کو سزا دی جاتی ہے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے شریعت کی فلاں بے حرمتی کی تھی جس کی انہیں سزا ملی.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں افسر کی ہم سے کوئی ذاتی عداوت تھی جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سزا

Page 144

انوار العلوم جلد ۱۵ ملی.اسی قسم کے واقعات باہر کی جماعتوں میں بھی رونما ہونگے.انقلاب حقیقی دوستوں کو نصیحت پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ دعاؤں پر زیادہ زور دیں اور خدا تعالیٰ سے ہی کہیں کہ اے خدا! تو نے ہمارے کمزور کندھوں پر وہ بوجھ لا دا ہے جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر ڈالا تھا.اے خدا! ہمیں اپنی کمزوریوں کا اقرار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے ہم میں کوئی طاقت نہیں ہم تیری ہی مدد اور تیری ہی نصرت کے محتاج اور سخت محتاج ہیں.اے خدا! تمام طاقت تجھ ہی کو حاصل ہے تو اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو مضبوط بنا، ہماری زبانوں پر حق جاری کر، ہمارے دلوں میں ایمان پیدا کر، ہمارے ذہنوں میں روشنی پیدا کر ہمیں اپنے فضل سے ہمت بلند بخش، ہماری مستیوں اور ہماری غفلتوں کو ہم سے دور کر اور ہمارے اندر وہ قوت ایمانیہ پیدا کر کہ اگر ہماری جان بھی جاتی ہو تو چلی جائے مگر ہم تیرے احکام سے ایک ذرہ بھی انحراف نہ کریں.اے خدا! تو ہمیں اپنے فضل سے توفیق دے کہ ہم تیری شریعت کو دنیا میں قائم کر سکیں تا تیرے دین کی برکات لوگوں کو مسحور کر لیں اور انہیں بھی اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں.دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کر لیا کرتا ہے تو استادا سے دوسرا سبق دیتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کر لو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکام اسلام کو جاری کر دیا جن کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں تھی تو آؤ اب میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں تا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو اور اسلامی تمدن کی چاروں دیوار میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں.پس اگر تم میری ان باتوں پر عمل شروع کر دو تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپرد کر دے گا اور جو حکومتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے گا اور اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جاؤ اور ان کا تختہ اُلٹ کر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دو جو میرے اسلام کو دنیا میں رائج کر رہے ہیں.پس جو کچھ تم کر سکتے ہو کر وا اور سمجھ لو کہ باقی حصہ کو خدا تعالیٰ خود سرانجام دے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان طاقتوں کا مشاہدہ کرو گے جن طاقتوں کا محمد نے مشاہدہ کیا.لیکن یہ کام بڑا ہے اور ہم سخت کمزور اور نا تو ان ہیں.پس آؤ کہ ہم خدا سے ہی دعا کریں کہ اے خدا ! تو ہم کو سچا بنا، تو ہمیں جھوٹ سے بچا، تو ہمیں بزدلی سے بچا ، تو ہمیں غفلت سے بچا ، تو ہمیں نافرمانی سے بچا.اے خدا! ہمیں اپنے فضل سے قرآن پر عمل کرنے

Page 145

انوار العلوم جلد ۱۵ انقلاب حقیقی کی توفیق عطا فرما اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو ، ہمارے بچوں کو اور ہمارے بوڑھوں کو ، سب کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرے کامل متبع بہنیں اور ان تمام لغزشوں اور گناہوں سے محفوظ رہیں جو انسان کا قدم صراط مستقیم سے منحرف کر دیتے ہیں.اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرما.اے ہمارے رب! اپنی تعلیم اپنی سیاست ، اپنے اقتصاد، اپنی معاشرت اور اپنے مذہب کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال ، ان کی عظمت ہمارے اندر پیدا کر.یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں اس تعلیم سے زیادہ اور کوئی پیاری تعلیم نہ ہو جو تو نے محمد اللہ کے ذریعہ ہمیں دی.اے خدا! جو تیری طرف منسوب ہوا اور تیرا پیارا ہو وہ ہمارا پیارا ہوا اور جو تجھ سے دُور ہو اُس سے ہم دُور ہوں لیکن سب دنیا کی ہمدردی اور اصلاح کا خیال ہمارے دلوں پر غالب ہوا ور ہم اس انقلاب عظیم کے پیدا کرنے میں کامیاب ہوں جو تو اپنے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے.امِيْنَ اللَّهُمَّ (مِيْنَ ۲۱ الفضل ۱۰ اگست ۱۹۳۷ء ۳ الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۳۷ء يوسف : ۱۰۹ ۵ حروری: عراق میں کوفہ کے نزدیک ایک چھوٹا سا مقام حروراء ہے.جہاں خوارج نے سب سے پہلے حضرت علی کے خلاف خروج کیا تھا.اسی حروراء کی نسبت سے ابتدائی دور کے خوارج کو حروریہ بھی کہتے ہیں.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحه ۴۲ ۵ مطبوعہ لا ہور۱۹۸۷ء) ل الكامل في التاريخ لابن الاثير المجلد الثالث صفحه ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ك الرعد: ۱۸ COLUMBUS CHRISTOPHA (۱۴۵۱ء.۱۵۰۶ء) امریکہ کو دریافت کرنے والا.بڑی منت سماجت کے بعد شاہی امداد حاصل کی اور اٹھاسی آدمیوں کے ساتھ تین جہازوں سانتا ماریا، پینتا اور نینا میں ہسپانیہ سے ۱۲ اکتو بر ۱۴۹۲ ء کو روا نہ ہوا اور جزیرہ سان سالویڈور امریکہ جا اُترا.دوسری مہم میں اس کی دریافتیں پورٹو ریکو، جزائر ورجن جیمی کا پر مشتمل تھیں.تیسرے سفر (۱۴۹۸ء) میں اس نے وینز یو یلا میں اور نو کو کا دھانہ دریافت کیا.بیٹی کی ایک نو آبادی میں اس کے نظم ونسق کا نتیجہ یہ ہوا کہ پابہ زنجیر ہسپانیہ واپس آیا.چوتھی مہم (۱۵۰۲ء) میں جو وقار کی بازیافت کیلئے تھی.ہانڈ ور اس کے ساحل تک پہنچا مگر اتنی مشکلات پیش آئیں کہ مجبوراً واپس جانا پڑا.کسمپرسی کی حالت میں

Page 146

انوار العلوم جلد ۱۵ مرا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۲۳۶.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) 2 :البقرة: ۱۶۵ ۱۰ القمر : ۲ الفجر: ۷ تا ۱۳ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۴۲۳ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء تاريخ العرب قبل الاسلام مصنفه جرجی زیدان ۱۴ پیدائش باب ۱۱ آیت ۴ تاے نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۰ ۱۸۷ء ۱۵ القصص: ۳۹ المؤمن: ۳۸،۳۷ ک الشعراء: ۱۲۹ تا ۱۳۱ ۱۸ خلطوں: خلط : آمیزش.ملاوٹ.جسم کی چار خلطیں ، خون ،بلغم ،صفراء،سوداء 19 دیا: مہربانی، رحم ،شفقت ۲۰ پھر فسٹ: ناپاک، بد، بُرا نجس، گنده آہنسا ۲۲ الانعام: ۵۰،۴۹ البقره : ۱۰۸،۱۰۷ ٢۴ البقرة: ۲۱۳ ۲۵ القمر : ۲ ۲۶ تذکرہ صفحه ۶۱۲.ایڈیشن چہارم موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۵۹ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ ۲۸ متی باب ۵ آیت ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ، ۱۸۷ء ۲۹ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹،۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ، ۱۸۷ء ٣٠ القيمة: ۲ تا ۱۱ اس غوامض: غامض کی جمع.چھپی ہوئی باتیں.باریکیاں.بھید ۳۲ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۶،۵۶۵ ۳۳ کتاب البرية صفحه ۸۶،۸۵.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۴، ۱۰۵ ۳۴، ۳۵ البقرة : ۳۱ ۳۷ ۳۶ طه: ۱۲۰،۱۱۹ ۳۸ النساء: ۱۶۴ ۳۹ الانعام: ۱۶۲ ۴۲ موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۲ سے مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ ٢١،٤٠ البقرة: ۱۳۲ الانعام: ۱۵۵ ۴۴ الاعراف: ۱۴۶ ٢۵ البقرة: ٢٦١ انقلاب حقیقی

Page 147

انوار العلوم جلد ۱۵ الاعراف: ۱۴۴ البقرة : ۵۶ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہورمطبوع ۱۹۲۲ء ٤٩ المزمل: ١٦ ۵۰ النساء: ۱۶۵ ا البقرة : ۲۵۴ ۵۲ متی باب ۵ آیت ۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۵۳ الماعون : ۵ ۵۴، یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ، ۱۸۷ء ۵۵ النحل: ۱۲۴ ۵۶ یوسف : ۱۰۹ ۵۸ یوسف : ۱۱۲ ۵۹ النجم: ١٠٩ الانعام: ۱۶۲ تا ۱۶۴ النساء: ۱۶۵،۱۶۴ ال القيمة: ١٩،١٨ الحجر: ١٠ النحل: ١٠٣ الماعون : ۵ تا ۷ ۲۵ الحج: ۳۸ المائدة: ۴ المائدة : ۲۱ ۲۸ النساء: ۷۰ انقلاب حقیقی 19 بخارى كتاب الصلوة باب قول النبي جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ک سبا : ۲۹ تا ۳۱ اے بخارى كتاب التيمم وقول الله تعالى فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً (الخ) ٢ ص : ٦ السجدة: ۶ سبا: ۳۰ ک سبا : ۳۱ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي الله باب فضائل اصحاب النبي الله وَمَنْ صَحِب النَّبِي علا الله (الخ) الصف : ١٠ ۷۸ متی باب ۱۵ آیت ۲۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۰ ۱۸۷ء وك النساء: ۴ ۸۰ الجمعة: ۴،۳ ا تذکرہ صفحہ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم ۸۲ تذکرہ صفحہ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم ۸۳ تذکرہ صفحہ ۷.ایڈیشن چہارم ۸۴ تذکرہ صفحہ ۷۸.ایڈیشن چہارم

Page 148

انوار العلوم جلد ۱۵ ۸۵ تذکره صفحه ۵۰۹.ایڈیشن چہارم ۸۶ تذکره صفحه ۶۷۴.ایڈیشن چہارم ۸۷ تذکرہ صفحہ ۶۷۹.ایڈیشن چہارم ٨٨ الفتح: ٣٠ النحل: ٢ 20 النحل: ۲۷ الحجر: ٣ ۹۲ مسلم کتاب الایمان باب بيان عدد شعب الايمان (الخ) بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل مِن وَّرَاءِ الْإِمَام و يتقى به ۹۴ کنز العمال جلد ۳ صفحه ۵ مطبوعه حلب۱۹۷۰ء ۹۵ کنز العمال جلد ۳ صفحه ۱۸ مطبوعه حلب ۱۹۷۰ء 94 ۹۸ الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاول صفحہ ۳۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ 9 الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاول صفحه ۴۱ مطبوعه مصر۱۳۲۱ھ ١٠٠ الجامع الصغير للسيوطی جلد ۲ صفحه ۵۲ مطبوعه مصر ۱۳۲۱ھ انا ١٠٢ الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاول صفحها المطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ ۱۰۳ مقدمه ابن ماجه باب اجتناب الْبَدْعِ وَالجدل ۱۰۴ 1.4 انقلاب حقیقی عاة السّارِقُ والسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاء بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّن الله واللهُ عَزِيزُ حَكِيمُ (المائدة: (۳۹) ۱۰۸ يايُّهَا الَّذِينَ مَنُوا عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ في القتلى ، الحُرُّ بِالْحُرّة العبد بالعبد و الأنثى بالأنثى، فَمَنْ عُنِي لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْ فَاتِّبَاعُ بالمعروف واداء اليه بإحسان ، ذلك تَخْفِيفُ مَن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةً ،

Page 149

انوار العلوم جلد ۱۵ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذلِكَ فَلَهُ عَذَاب اليم (البقرة: (۷۹) ۱۰۹ بنی اسرائیل: ۳۴ مسلم کتاب الحج باب حجة النبي الله ( مفهوماً) انقلاب حقیقی

Page 150

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة اسیح الثانی

Page 151

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ فیصلہ ہائی کورٹ بمقد مہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ ( تحریر فرموده جنوری ۱۹۳۸ء) پانچ تاریخ کو میاں عزیر احمد کی اپیل کا فیصلہ جو ہائی کورٹ کے دو فاضل جوں نے سنایا ہے اس میں بعض ایسے فقرات بھی ہیں جن سے بعض مخالف اخبارات نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا عدالت عالیہ کے نزدیک میاں فخر الدین کے قتل کی تحریک خلیفہ جماعت احمدیہ کی تقریروں سے ہوئی ہے چنانچہ اس مخالف پرو پیگنڈا کی وجہ سے جماعت کے دوستوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے اور باوجود اس کے کہ ”الفضل نے اس فیصلہ کے بارہ میں کوئی مضمون نہیں لکھا اور اس کی وجہ سے اکثر احباب جماعت جو سوائے ” الفضل“ کے اور کوئی اخبار نہیں پڑھتے اس فیصلہ سے بے خبر ہیں.جن جن دوستوں کی نگاہ سے دوسرے اخبارات گزرے ہیں وہ رنج و غم سے بے تاب ہو رہے ہیں اور ان کے خطوط جو مجھے آ رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض تو مارے غم کے دیوانے ہو رہے ہیں.جن لوگوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر کے پڑھنے کے بعد وہ کھانا نہیں کھا سکے اور رات کو نیند بھی ان کو نہیں آئی اور بعض نے تو نہایت درد سے لکھا ہے کہ خدایا یہ کیا غضب ہے کہ جس شخص نے ہمیں نرمی اور محبت اور رافت کی تعلیم دی اور جس نے ہمیں سختی اور ظلم اور فساد سے روکا اور جس نے ہماری طبیعتوں کی وحشت کو دور کر کے پیار اور محبت کا ہمیں سبق دیا اور دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کی ہمیں ہدایت کی اور ہمارے شدید ترین غصہ کی حالت میں ہمارے جذبات کو سختی سے قابو میں رکھا ، اُسی کی

Page 152

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ مد نسبت آج کہا جا رہا ہے کہ اس نے لوگوں کو قتل و غارت کی تعلیم دی اور فساد پر آمادہ کیا.بعض کے خطوط تو ایسے درد ناک ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ان کے دل خون ہو گئے ہیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے.پس باوجود اس کے کہ عدالت عالیہ کے فیصلہ کے متعلق کچھ لکھنا ایک نازک سوال ہے اور قانون کا کوئی ماہر ہی اس مشکل راستہ کو بخیریت طے کر سکتا ہے میں مجبور ہو گیا ہوں کہ اس بارہ میں اپنے خیالات کو ظاہر کروں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ سب سے پہلے تو میں یہ کہتا ہوں کہ اے بھائیو! میں تمہاری ہمدردی کا شکر گزار ہوں کہ تم نے میرے زخمی دل پر پھایار رکھنے کی کوشش کی اور میرے غم میں شریک ہوئے اور میرے بوجھ کے اٹھانے کیلئے اپنے کندھے پیش کر دئیے.خدا کی تم پر رحمتیں ہوں وہ تمہارے دل کے زخموں کو مندمل کرے اور تمہارے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرے کہ تم نے اس کے ایک کمزور بندے پر رحم کیا اور اس کے غم نے تمہارے دلوں کو پریشان کر دیا.بے شک آج پشاور سے لے کر ر اُس کماری تک ہزاروں گھر رنج والم کا شکار ہو رہے ہیں، ہزاروں ہزار عورتیں ، مرد، بچے کرب و بلا میں مبتلاء ہیں اور خون کے آنسو اُن کی آنکھوں سے رواں ہیں لیکن ان کے احساسات اُن احساسات کی گہرائی کو کہاں پہنچ سکتے ہیں جو ان ایام میں میرے دل میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہور ہے ہیں.شاید تم میں سے بعض اپنا غصہ اس طرح نکال لیتے ہونگے کہ وہ اس فیصلہ کی ذمہ داری جوں پر ڈال دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ جوں نے غلطی کی انہوں نے ہمارے امام کو سمجھا نہیں اور بعض اس طرح غصہ نکال لیتے ہونگے کہ جوں نے تو محض اس امر کا اظہار کیا ہے کہ مذہبی لیڈروں کو اپنے خیالات کو احتیاط سے ادا کرنا چاہئے تا کہ دوسرے لوگ غلط فہمی میں مبتلاء ہو کر کوئی خلاف قانون حرکت نہ کر بیٹھیں لیکن اخبار والوں اور دشمن مولویوں نے شرارت کی ہے کہ ان کے فقروں کو اور معنی دے دیئے ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے قتل وغارت کی تلقین کا ارتکاب کیا ہے.مگر اے دوستو ! میں اپنے دل کی آگ کو اس قسم کے خیالات کے پانی سے بھی سرد نہیں کر سکتا کیونکہ کیا اس امر کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ جوں نے جو کچھ سمجھا اس کا موجب آپ ہی لوگوں میں سے ایک شخص کی غلطی تھی.اگر میاں عزیز احمد بے قابو نہ ہو جاتے اور اگران سے اس فعل کا ارتکاب نہ ہوتا جو ہو ا تو جوں کو میرے متعلق اچھے یا بُرے خیالات کے اظہار کا موقع ہی کب مل سکتا تھا.ان کو ان ریمارکس کے لکھنے کا موقع تو خود آپ لوگوں میں سے ہی ایک فرد نے دیا اور اگر اخباروں نے جوں کے فیصلہ کے غلط معنی لئے تو اس کی ذمہ داری بھی تو آپ

Page 153

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ ہی میں سے ایک شخص پر ہے اور جب میں اس نقطہ نگاہ سے اس معاملہ کو دیکھتا ہوں تو میرے دل سے بے اختیار یہ آواز آتی ہے کہ محمود جس قوم کی خدمت تو نے بچپن میں اپنے ذمہ لی ، جس کی خدمت جوانی میں تو نے کی جب تیرے بال سفید ہو گئے جب تیری رگوں کا خون ٹھنڈا ہونے کو آیا تو ان میں سے بعض کی وجہ سے تجھ پر اس فعل کا الزام لگایا گیا جس فعل کو دنیا سے مٹانے کیلئے تیرا بچپن اور تیری جوانی خرچ ہوئے تھے.جب ہم میں سے بعض نے اپنے خدا پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ وہ جائز راستوں سے ہماری مدد نہیں کر سکتا اور اس کا بتایا ہو ا طریق ہمیں کامیاب نہیں بنا سکتا تو بتا کہ اگر دنیا کے لوگ تجھ پر اور تیرے دوستوں پر بدظنی کریں تو اس میں ان کا کیا قصور اور اگر حج یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ملک کا امن قائم کرنے کیلئے ایک مستحسن قدم اُٹھاتے ہیں کوئی ریمارک کریں تو اس میں ان پر کیا الزام کیونکہ وہ شخص زیادہ مجرم ہے جو اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے بہ نسبت اس کے جو کسی بندہ پر بدظنی کرتا ہے.یہ ایک قانون قدرت ہے کہ اگر غم کی حالت میں انسان دوسرے پر اس غم کی ذمہ داری تھوپ سکے تو یہ اس کے غم کو ہلکا کر دیتا ہے لیکن جب میں سوچتا ہوں اور اس غم کا موجب خود اپنی ہی جماعت کو پاتا ہوں اور غلط فہمیوں کا پیدا کرنے والا خود انہیں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل بالکل پکھل جاتا ہے اور میری آنکھیں ندامت سے جھک جاتی ہیں.اے بھائیو! اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان چونکہ دل کے خیالات کو نہیں پڑھ سکتا ، وہ غلط نہی میں مبتلاء ہوسکتا ہے اور رائے وہی ہے جو عالم الغیب خدا کی ہوا اور ہم تو دوسروں سے دکھ دیئے جانے اور گالیاں سننے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اس موجودہ ابتلاء اور پہلے ابتلاؤں میں یہ فرق ہے کہ پہلے مخالف اخبار اور مخالف واعظ جو کہتے تھے وہ اپنی طرف سے کہتے تھے اور انسانوں میں سے شریف طبقہ ان کی باتیں پڑھ کر یا سن کر کہتا تھا کہ یہ لوگ احمدیوں کے دشمن ہیں ان کی باتوں پر بلا سوچے اور بغیر تحقیق کے اعتبار نہ کر ولیکن اب جو کچھ ہمارے دشمن اخبارات اور دشمن لیکچرار کہتے ہیں وہ انہیں صوبہ کی اعلیٰ عدالت کے ججوں کی طرف غلط طور پر یا صحیح طور پر منسوب کر کے کہتے ہیں اور اس کا نہایت بُرا اثر ہماری تبلیغ پر پڑسکتا ہے.پس اس وجہ سے طبعا اس حادثہ کا اثر میری طبیعت پر شدید پڑا ہے نہ اپنی ذات کے لئے بلکہ خدا کے دین کیلئے اور اس کے سلسلہ کی اشاعت میں روک پیدا ہونے کے خیال سے کیونکہ گو ہم ذلیل اور حقیر وجود ہیں اور آخر ایک غیر حکومت کے تابع ہیں اور ایک کمزور جماعت کا فرد ہونے کے لحاظ سے اور ایک چھوٹی سی اقلیت کا

Page 154

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ ممبر ہونے کے سبب سے ہمیں نہ کوئی دنیوی وجاہت حاصل ہے جس کی کوئی قیمت سمجھی جائے اور نہ کوئی سیاسی رتبہ حاصل ہے جس کا کوئی لحاظ کیا جائے.پس اگر صرف ہماری ذات کا سوال ہو تو پھر تکلیف جو ہمیں پہنچے وہ ایک ادنی سی قربانی ہے جو ہم اپنے رب کے حضور میں پیش کرتے ہیں اور کوئی بیش قیمت تحفہ نہیں جو اس بادشاہ کے پاؤں میں رکھتے ہیں لیکن جب قربانی ہماری ذات کی نہ ہو بلکہ سلسلہ کی ہوا اور نقصان ہمارا نہ ہو بلکہ ہماری جان سے پیارے دین کا ہوا اور ہمارے اخلاق کا دھبہ ہمارے چہرہ پر نہیں بلکہ ہماری پاک تعلیم کے ماتھے پر سیاہ نشان بنا کر لگایا جارہا ہو جیسا کہ ہمارے مخالف لوگ کر رہے ہیں تو پھر ایک ایسا غم اور دکھ پہنچتا ہے جس کا اندازہ انسان نہیں لگا سکتے اور اسی وجہ سے آج میرا دل غم سے بھرا ہوا ہے اور میری پیٹھ فکروں کے بوجھ سے خم ہو رہی ہے.اگر اسلام کا جھنڈا آج میرے ہاتھ میں نہ ہوتا ، اگر اسے کامیابی کے ساتھ اقبال کی پہاڑی پر گاڑنے کا کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد نہ کیا ہوتا تو میں خدا تعالیٰ سے کہتا اے میرے خدا! اے میرے خدا! میں اپنے ہی لوگوں کی اصلاح میں ناکام رہا ہوں ، میں اپنے ہی لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے بدنام ہو ا ہوں ، اے خدا ! تو جانتا ہے کہ میں نے وہ نہیں کہا جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں نے کہا اور تیرے وہ بندے بھی جانتے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا اور سمجھا لیکن اے میرے رب ! میرے ہی بعض ساتھیوں کے ذریعہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ہاتھ جسے تو نے سورج کی طرح روشن بنایا تھا داغدار نظر آ رہا ہے.پس اگر میرا وجود تیرے دین کی اشاعت میں روک بنتا ہے تو مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر اور اپنے پاس جہاں بدظنیاں نہیں ، جہاں حقیقت پر شک کا پردہ نہیں ڈالا جا سکتا ، اپنی بخشش کی چادر کے کسی کو نہ میں جگہ دے دے لیکن میں اپنے لئے موت بھی تو نہیں مانگ سکتا کیونکہ گو ایک بے جان جسم کسی کام کا نہیں لیکن جب تک سانس چلتا ہے ایمان کی ذمہ داریاں اس پر عائد ہیں اور مذہب اور اخلاق کی جنگ کے میدان سے بھا گنا کسی طرح جائز نہیں کیونکہ روحانی جنگ جو مذاہب کے درمیان دلائل و براہین اور نشانات الہیہ سے ہو رہی ہے وہ دنیا کی جنگوں سے کہیں اہم ہے.جب دنیا کی حکومتیں جسمانی جنگوں سے تھک جانے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں تو جو شخص اخلاق اور دین کی جنگ سے جو روحانی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے سبکدوشی کا خیال کرے ، وہ کس قدر حقیر نہ سمجھا جائے گا.پس میرے لئے سب راہیں بند ہیں سوائے آگے بڑھنے کے اور میں اپنے رب سے شکوہ نہیں کرتا کیونکہ اس نے جس مقام پر مجھے رکھا

Page 155

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمد به احمدیہ ہے یقیناً اس میں میرا بھلا ہے اور اسی میں دنیا کا بھلا ہے.پس اگر میرے دل کا خون ہو کر بہنا تمہارے دلوں کو پاک کر سکے، اگر تم آئندہ کے لئے شریعت اور قانون کی پابندی کو اپنے نفس پر واجب کر لو اور قربانی اور ایثار کے معنی یہ سمجھو کہ جس رنگ میں خدا تم سے قربانی اور ایثار چاہتا ہے نہ وہ ناجائز رنگ جو تم اپنے لئے تجویز کرو تو یقیناً میری قربانی مہنگی نہ ہوگی.میرے دکھ کوئی قیمت نہ رکھیں گے کیونکہ وہی جان قیمتی ہے جو خدا کے بندوں کے کام آئے.اگر میری بے عزتی تمہیں عزت دلانے کا موجب ہو، اگر میری ذلّت تم کو ہمیشہ کے لئے ذلت سے بچالے، اگر میرے جذبات کی موت تمہیں اخلاقی زندگی بخش دے تو بخدا میں اس سودے کو نہایت ستاسو دا سمجھوں گا که حکومت در حقیقت خدمت ہی کا نام ہے اور سیادت غلامی ہی کا ہم معنی لفظ ہے.پس اے بھائیو! اگر تم في الواقع اس غم میں میرے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہو تو بجائے دوسروں پر غصہ ہونے کے اپنے نفسوں پر غصے ہو اور اپنے دلوں کو پاک کرو اور چاہئے کہ تم میں سے جو روزوں کی طاقت رکھتے ہیں وہ کچھ روزے رکھ کر دعائیں کریں اور جو نوافل کی طاقت رکھتے ہیں وہ کچھ نوافل پڑھ کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کی عزت کو قائم کرے اور لوگوں کے دل سے بدظنیاں دُور کرے اور آئندہ کے لئے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ بے شک بے غیرت کو ایمان نصیب نہیں ہوتا لیکن ظالم کو بھی ایمان نصیب نہیں ہوتا.تم خدا کے لئے بھی اسی طرح با غیرت بنو جس طرح اپنے نفس کے لئے بلکہ اس سے زیادہ لیکن ساتھ ہی تم خدا کے لئے منصف بھی بنو عادل بھی بنو ظلم سے بچنے والے بھی بنوا اور خدا پر توکل کرو کہ جس کام سے وہ تم کو روکتا ہے اسی لئے روکتا ہے کہ اس کا کرنا تمہارے دین اور دنیا کے لئے مضر ہوتا ہے اور یہ کبھی خیال نہ کرو کہ جہاں خدا تعالیٰ تم کو ہاتھ اٹھانے سے روکتا ہے اس لئے روکتا ہے کہ تم کو بند کرے بلکہ یاد رکھو کہ وہ جب تم کو ہاتھ اٹھانے سے روکتا ہے تو اسی وقت روکتا ہے جب تمہارا ہاتھ اُٹھانا دین اور اخلاق کے لئے مضر ہو اور اس وقت وہ تمہاری عزت کی آپ حفاظت کرتا ہے اور آسمانی تدبیروں سے تمہاری مشکلات کو دور کرتا ہے اور ایسے وقت میں اگر تم اپنی عزت کو اپنے ہاتھ سے قائم کرنا چاہو تو تم اپنی عزت کو بڑھاتے نہیں بلکہ کم کرنے کا موجب ہو جاتے ہو.کاش! کہ اس موقع پر تم کو یہ سبق یاد ہو جائے.اگر ایسا ہو تو پھر میرا غم ہلکا ہو جائے گا اور میرا فکر کم ہو جائے گا اور میں اپنے رب کو کہہ سکوں گا کہ اے میرے رب ! دیکھ کہ تیرا بندہ مر کر بھی لوگوں کو زندہ کرنے کا موجب ہو گیا.کیا تو حی و قیوم ہو کر اسے زندہ نہ کرے گا اور میں یقین رکھتا

Page 156

انوار العلوم جلد ۱۵ فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور جماعت احمدیہ ہوں کہ اس پر وہ ایسا ہی کرے گا اور ضرور کرے گا.بے شک آج ہمارا دشمن خوش ہے کہ میرا بھی ایک وار نکلا لیکن اگر تم دعاؤں اور عاجزی میں لگ جاؤ گے تو اس کی خوشی عارضی ثابت ہو گی.اللہ تعالیٰ یا تو عار کی باتوں کی اصلاح کے سامان غیب سے پیدا کر دے گا اور اگر یہ اس کی مصلحت کے خلاف ہوگا تو وہ تمہارے ذکر خیر کو اتنا بلند کر دے گا کہ تمہارے خلاف الزام لگانے والوں کی آواز میں تمہاری تعریف کے نعروں میں غائب ہو جائیں گی.پس بنی نوع انسان کی حقیقی خیر خواہی کے کاموں میں لگ جاؤ کہ دنیا میں وہی چیز قائم رہتی ہے جو دنیا کے لئے نفع مند ہو نہ الزام کہ جو کسی کو بھی نفع نہیں دیتے.خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۱۱ ؍ جنوری ۱۹۳۸ ء )

Page 157

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 158

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ ( تحریر فرموده مئی ۱۹۳۸ء) میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ضلع گورداسپور کے بعض حکام کا رویہ جماعت کے بارہ میں نہایت افسوسناک ہے اور وہ متواتر دشمنانِ احمدیت کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں اور افسوس ہے کہ ماتحت حکام کے وقار کو قائم رکھنے کے خیال سے ان کے بالا افسر بھی ان کی ان حرکات پر انہیں تنبیہہ نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہے کہ بعض حکام نہایت نا مناسب طور پر سلسلہ کے خلاف اظہار رائے کرتے ہیں جسے مخالفین سلسلہ ایسے لوگوں میں پھیلا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غیر جانبدار لوگوں کی رائے ہے اور تبلیغ کا دائرہ محدود ہوتا جاتا ہے.آخر میں میں نے جماعت سے خواہش کی تھی کہ انہیں اس صورتِ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے.اس بارہ میں مجھے مختلف افراد جماعت اور انجمنوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں.جن جن جماعتوں یا افراد کی طرف سے ایسی اطلاع اب تک نہیں ملی ان سے بھی اسی جواب کی امید کی جاتی ہے اور یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ کوئی مخلص بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے سے گریز کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آیا جماعت قربانیوں کی حقیقت کو سمجھتی بھی ہے یا نہیں.قربانی کی حقیقت کو سمجھے بغیر ہر شخص جس میں جوش پایا جاتا ہے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے یا مل کا وقت آتا ہے تو اکثر لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں.کئی تو کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے زیادہ ہے اور کئی کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے کم ہے اور اسی قسم کے بہانوں سے وہ اپنا پیچھا چھڑا لیتے ہیں.

Page 159

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ میں نے بار بار جماعت کو بتایا ہے کہ قربانی کے بارہ میں ہمارا معاملہ دوسری تمام اقوام سے جُدا گانہ ہے دوسری اقوام قانون شکنی کو جائز سمجھتی ہیں لیکن ہمارا مذہب ہمیں قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے اور اس بارہ میں نہ کسی احمدی کو منفردا کسی تبدیلی کا اختیار ہے نہ جماعت احمدیہ کو متفقہ طور پر اور نہ کسی خلیفہ کو کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے.پس یہ راستہ قربانیوں کا تو ہمارے لئے گلی طور پر مسدود ہے.ہم نے اس معاملہ میں کانگرس سے شدید مخالفت کی ہے اور اب بھی جو قوم قانون شکنی پر آمادہ ہو ہم اس کی مخالفت کریں گے کیونکہ احمدیت کی یہ تعلیم امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب اس کے سب پہلوؤں پر اچھی طرح غور کیا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی سے یہ اطاعت قانون اور عدم تشدد کی مشتر کہ تعلیم بہت زیادہ مؤثر ہے لیکن اس کی اہمیت ابھی تک بعض احمدی بھی نہیں سمجھے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ قانون شکنی بھی نہ ہو اور عدم تشدد کی پالیسی پر بھی عمل کیا جائے تو پھر حکومت کو راہ راست پر لانے کا کون سا ذریعہ ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر فرض کرو یہ ذریعہ کامیابی کا ہے بھی تو پھر اس کے ساتھ جو قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کا کونسا موقع ہے.جب ہم نے قانون شکنی بھی نہ کی اور عدم تشدد پر بھی عمل کیا تو کوئی ہم سے لڑے گا ہی کیوں؟ اور ہمارے لئے قربانی کا موقع کونسا پیدا ہو گا.پہلے شبہ کے متعلق تو میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہت سے مسائل بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے بہت بڑی طبعی اور اخلاقی قوتیں کام کر رہی ہوتی ہیں.پس ہمیں چاہئے کہ اس مسئلہ کی کلیات پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ اس کی جزئیات اور تفصیلات پر بھی غور کریں تا ہمیں معلوم ہو سکے کہ اس کے پیچھے کس قدرا خلاقی اور نفسیاتی طاقتیں جمع ہیں.جب گاندھی جی نے عدم تشدد کی تعلیم دینی شروع کی تھی تو خود ان کے ساتھی اس پر ہنستے تھے اور دل میں کہتے تھے کہ صرف ان کی شخصیت سے فائدہ اٹھا لو باقی ان کی تعلیم تو صرف سادھوؤں والی تعلیم ہے لیکن آج بہت سے کانگرسی ایسے ہیں جو حقیقتاً اس تعلیم کو اچھا سمجھتے ہیں.حتی کہ جن لوگوں نے ان سے اختلاف کر کے تشدد کی پالیسی پر عمل کیا تھا اور جرائم کر کے جیل خانوں میں چلے گئے تھے وہ بھی اپنی غلطی کا اقرار کر کے جیلوں سے واپس آ رہے ہیں.اس وقت ہماری ہی ایک جماعت تھی جس نے گاندھی جی سے اس لئے اختلاف کیا تھا کہ ان کی عدم تشدد کی پالیسی اتنی مکمل نہیں جس قدر ہونی چاہئے تھی ورنہ باقی سب لوگ اس پالیسی کو اس لئے فضول کہتے تھے کہ اس سے ملک کو ایک

Page 160

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ طاقتور ہتھیار سے محروم کر دیا گیا ہے.جس طرح آج بہت سے لوگ عدم تشد د کی خوبیوں کے معترف ہورہے ہیں ایک دن آئے گا کہ دنیا اس امر کو بھی تسلیم کرے گی کہ صرف عدم تشد دکافی نہیں بلکہ اخلاقی حفاظت کیلئے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے قانون کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ ایک حکومت کا قانون توڑنے کے بعد کسی اور حکومت کے قانون کا احترام باقی نہیں رہ سکتا ، اور اس حربہ کی قیمت بہت ہی گراں دینی پڑتی ہے.دوسرے شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ دھو کے کا خیال اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ جو قانون نہ توڑے اس کیلئے قربانی کا سوال نہیں پیدا ہوتا.سب کے سب انبیاء ہمارے عقیدہ کے مطابق قانون کا احترام کرنے والے تھے اور لڑائی اور فساد سے اجتناب کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دشمنوں نے خواہ وہ قوموں کی حیثیت میں ہوں خواہ حکومتوں کی حیثیت میں ، انہیں دکھ دیئے اور ان کے اچھے ارادوں کو بدی کی طرف منسوب کیا اور ان کی امن کی کوششوں کو فساد کی انگیخت قرار دیا.علاوہ اس کے جو حصہ جد وجہد کا جماعت کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی خواہ کس قدر ہی پُر امن ذرائع پر مشتمل کیوں نہ ہو ہر قسم کی قربانی چاہتا ہے.جانی قربانی بھی کرنی پڑتی ہے اور مالی بھی اور وطنی بھی.جانی قربانی صرف اسی کا تو نام نہیں کہ انسان لڑائی میں جان دے دے.اگر جانی قربانی اسی کا نام ہو تو انبیاء کو اس قربانی سے محروم قرار دینا پڑے گا کیونکہ لڑائی میں مارا جانے والا تو شاید ایک نبی بھی نہیں گزرا اور جن کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں ان کے دشمنوں نے مروا دیا وہ نبی بھی ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.پس جانی قربانی کے معنی لڑائی کے ہرگز نہیں.بلکہ میرا یہ یقین ہے اور میں اس یقین پر پختگی سے قائم ہوں کہ جو قو میں جانی قربانی کو لڑائی کے ساتھ مخصوص کر لیتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ جب کبھی جانی قربانی کے وہ مواقع بہم نہیں پہنچتے جو ان کے ذہن میں ہوتے ہیں وہ قوم سست ہو جاتی ہے اور آخر اپنے مقام کو کھو بیٹھتی ہے.مسلمانوں میں جہاد کے عقیدہ نے یہی خطرناک نتیجہ پیدا کیا ہے چونکہ جانی قربانی کا مفہوم گزشتہ چند صدیوں سے ان کے نزدیک صرف تلوار کی جنگ کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گیا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جانی قربانیاں جو تبلیغ کے ذریعہ سے کرنی پڑتی ہیں یا تو انہیں حقیر نظر آنے لگیں یا بالکل ہی ان کی نظر سے پوشیدہ ہوگئیں اور وہ اپنے مقام کو محفوظ نہ رکھ سکے اور تنزل کا شکار ہو گئے اگر وہ یہ سمجھتے کہ تبلیغ بغیر علم کے نہیں ہو سکتی اور وہ جسم کی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.تبلیغ بغیر دور دراز

Page 161

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ سفروں کے اختیار کرنے اور دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنے کے مکمل نہیں ہوسکتی اور وہ بھی جسم کی قربانی چاہتے ہیں.پھر تبلیغ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وحشی قبائل تک اسلام کا پیغام نہ پہنچا دیا جائے اور ان لوگوں میں رہ کر مبلغ کی جان ایک دن بھی محفوظ نہیں قرار دی جاسکتی اور یہ بھی جان کی قربانی ہے.وغیرہ وغیرہ تو ہرگز ان کا قدم سُست نہ ہوتا اور وہ اس ذلت کو نہ دیکھتے جو آج انہیں دیکھنی نصیب ہوئی ہے.بے شک تبلیغ کے اگر یہ معنی لئے جائیں کہ مہینہ میں اگر کسی دن فرصت ہوئی تو کسی دوست کو ملنے چلے گئے اور اسے تبلیغ بھی کر دی تو اس میں جانی قربانی کا بہت کم نشان ملتا ہے لیکن جس تبلیغ کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ تو ایک زبردست قربانی ہے اور اس کے زبر دست قربانی ہونے کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بڑے جوش سے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہم قربانیاں کریں گے لیکن اس قربانی کے پیش کرنے کا بہت کم دوستوں کو موقع ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قربانی ویسی آسان نہیں جیسی کہ اسے بیان کیا جاتا ہے.حق یہ ہے کہ انسانی نفس ضمیر کی ملامت سے سخت تکلیف اُٹھاتا ہے اور اس سے بچنے کا اس نے یہ ذریعہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نیکی کی تعریفیں بدلتا رہتا ہے اور جس قربانی کا اس کے لئے موقع ہوتا ہے وہ اسے ادنیٰ قرار دے کر اس سے اس طرح پیچھا چھڑا لیتا ہے کہ یہ تو ادنی قربانی ہے اسے کیا پیش کرنا ہے اور بزعم خود ایک اعلیٰ قربانی کے پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے جس کے پیش کرنے کا اس وقت موقع نہیں ہوتا اور اس طرح وہ اپنی نظروں میں اور اپنے ہم چشموں کی نظروں میں اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ سودا اُسے بہت مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام خود انسان کے فائدہ کے لئے ہیں.پس ایسے موقع پر جھوٹی عزت حاصل کرنا خود کشی سے کم نہیں ہوتا کیونکہ لفظی تعریف حقیقی نقصان کا قائم مقام نہیں ہو سکتی.اس تمہید کے بعد میں دوستوں سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا انہوں نے غور بھی کیا ہے کہ احمدیت کس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ کرتی ہے.کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جب احمدیت ان سے جان کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جاؤ اور جا کر کسی سے جنگ کرو اور نہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی کو مار کر پھانسی چڑھ جاؤ کیونکہ یہ دونوں باتیں احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہیں.امر اول اس لئے جائز نہیں کہ یہ امرحکومت سے تعلق رکھتا ہے اور حکومت اس وقت احمد یوں کے ہاتھ میں نہیں اور امر دوم اس لئے جائز نہیں کہ اسلام ہمیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا.پس جب یہ دونوں صورتیں نا جائز ہیں تو یقیناً احمدیت کا جانی قربانی کا مطالبہ

Page 162

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ کسی دوسری صورت ہی میں ہو سکتا ہے اور اسی صورت میں جان کو پیش کرنا سچے طور پر امام کی آواز پر لبیک کہنا کہلا سکتا ہے..پس جو دوست میری آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں یا لبیک کہنے کا دل میں ارادہ کر رہے ہیں ، انہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت کی جانی قربانیاں گزشتہ زمانے کی جانی قربانیوں سے مختلف ہیں اور اگر میں اس وقت کی مشکلات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کی نفسی کیفیات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قربانیاں اگر پہلی قربانیوں سے زیادہ مشکل نہیں تو کم بھی نہیں ہیں.ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جس میں جھوٹ اور فریب کو حمد نی اور سیاسی تقدس حاصل ہے.یعنی تمدن اور سیاست نے اس زمانہ میں جھوٹ کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے.پہلے زمانہ میں لوگ جھوٹ تو بولتے تھے مگر کہتے یہی تھے کہ جھوٹ بڑی ھے ہے لیکن آج اسے سیاست اور تمدن کا ایک جز و قرار دیا گیا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جھوٹ وہی گناہ ہے جو پکڑا جائے اور ناکام رہے.جو جھوٹ پکڑ انہیں جاتا اور نا کام نہیں رہتا وہ گناہ نہیں.یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ شاید بہت سے لوگ دنیا کی ذہنیت میں اس تبدیلی کے وقوع کو محسوس بھی نہیں کرتے بلکہ یہ جھوٹ اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہوئے خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں.تمدنی تعلقات ، سیاسی معاملات، مذہبی مباحثات ، معاشرتی امور سب کے سب جھوٹ پر مبنی کر دیئے گئے ہیں.کیا یہ عجیب متناقض دعوے نہیں ہیں؟ کہ آجکل سچا دوست اسے سمجھا جاتا ہے جو دوست کی خاطر جھوٹ بولے، ملک کا سچا خیر خواہ وہ ہے جو مخالف حکومت کو سب سے زیادہ جُل دے سکے ، سچ اور جھوٹ کی یہ آمیزش پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی.اس پر آشوب زمانہ میں رہتے ہوئے ہم لوگ بحیثیت جماعت کب اس گندگی سے بچ سکتے ہیں ؟ میں ذاتی طور پر اپنے قضاء کے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ کئی عام حالتوں میں سچ بولنے والے احمدی جب ایک دوست کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو اس کے بچانے کے لئے اپنے بیان میں ایسی تبدیلی کر دیتے ہیں جو ان کے دوست کے فائدہ کیلئے ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کا سچائی کا معیار دوسروں سے بہت بالا ہے مگر ایک دودھ کے پیالے میں پیشاب کا ایک قطرہ بھی تو اسے گندہ کر دیتا ہے اور جسم انسانی کے ایک حصہ میں جو مرض پیدا ہو بقیہ حصہ بھی تو اس کے اثرات سے محفوظ نہیں کہلا سکتا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ اس مرض کو دور کرنے کے بغیر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یا اپنے دشمنوں کو زیر کر سکتے

Page 163

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ ہیں ؟ دشمن ہم پر جھوٹ باندھتا ہے اور بعض حکام کو بھی وہ اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ایسے ظالموں کو تم گئی طور پر کس طرح دُور کر سکتے ہو.اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس پر ظلم ہوئے اور بہت ہوئے مگر اس کی ترقی کا زمانہ بھی تو ایسی مثالوں سے خالی نہیں.ایک جابر بادشاہ پر بھی تو بعض دفعہ لوگ ظلم کر سکتے ہیں ایک فاتح جرنیل بھی تو کبھی کبھار مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے پس ہمیں اس امر کے خلاف شکوہ نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا ہمیں تو اس ماحول کے خلاف شکوہ ہے جو ہماری تبلیغ کے راستہ میں روک بن گیا ہے.اس ٹہرت کے خلاف شکوہ ہے جو غلط پراپیگنڈا ( PROPAGANDA) کے ذریعہ سے جماعت کے خلاف لوگوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس شہرت کو دُور کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کے لوگ احمدیت کے اردگرد ایک ایسی مضبوط دیوار بنادیں کہ دشمن کا پراپیگنڈا اس کو تو ڑ کر آگے نہ جاسکے اور یہ دیوار سچائی اور دیانت کی دیوار کے سوا اور کونسی ہو سکتی ہے؟ جو شخص اپنے تجربہ سے احمدیت کے اخلاق کا قائل ہو جائے وہ دوسرے کی بات کو کب تسلیم کرے گا ؟ مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ان سے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میرے ساتھ جس قدر احمدیوں نے کام کیا ہے ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نہایت دیانت دار ہوتے ہیں.وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر پر آپ کے متعلق بُرا اثر ڈالا گیا تھا اس لئے میں نے جواب دیا کہ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں دیانت اور سچائی سکھائی ہے وہ خود بددیانت ہوگا ؟ اور اس کا اس افسر پر گہرا اثر پڑا.یہ مثال ہر شہر، ہر ضلع ، ہر گاؤں اور ہر قصبہ بلکہ ہر محلہ میں دُہرائی جاسکتی ہے بشرطیکہ احمدی اپنے اندر سچائی اور دیانت پیدا کریں.بے شک دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں دیکھی خوبی کو کھوٹے پیسے کی طرح پھینک دیتے ہیں لیکن کا نوں سُنے عیب کو سچے موتی کی طرح دامن میں باندھ لیتے ہیں مگر یہ لوگ کم ہیں.زیادہ تر دنیا تجربہ سے فائدہ اٹھاتی ہے.کم سے کم اس تجربہ سے جو اُن کے ذاتی فائدہ کے خلاف نہ پڑتا ہو.ان لوگوں کو متا ثر کرنا ہر احمدی کے قبضہ میں ہے بشرطیکہ وہ اپنی جان ، اپنے جذبات اور مال کی قربانی کرے.آخر لوگ سچ کو کیوں چھوڑتے ہیں؟ اپنے جسم کو تکلیف سے بچانے کیلئے یا اپنے مال کو بچانے یا بڑھانے کیلئے.اگر احمدی یہ ارادہ کر لیں کہ خواہ ہمارے جسم کو کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو، ہم سچ بولیں گے اور ہمارے جذبات کو کس قدر ہی ٹھیں کیوں نہ لگے، ہم راستی کو نہ چھوڑیں گے اور ہمارے مال کو کتنا

Page 164

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ ہی نقصان کیوں نہ پہنچے ، ہم حق بات ہی کہیں گے.تو یہ جانی قربانی بھی ہوگی اور جذبات کی قربانی بھی ہوگی اور مال کی قربانی بھی ہوگی.مگر باوجود اس کے نہ اس میں لڑائی کرنی پڑے گی نہ حکومت سے جھگڑا ہوگا نہ کسی اور قوم سے بکھیڑا.جو لوگ اسے بڑی قربانی سمجھتے ہوں میں انہیں کہتا ہوں اس بڑی قربانی کو خدا کیلئے پیش کرو اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کونسی جانی قربانی ہے یا مالی قربانی ہے میں انہیں کہتا ہوں تم سر دست اس چھوٹی قربانی کو خدا کیلئے پیش کرو پھر دیکھو اس سے کیسے شاندار نتائج نکلتے ہیں اور کس طرح احمدیت کے دشمن خواہ عام افراد ہوں خواہ حکومت کے بعض افسر، جماعت احمدیہ کو بد نام کرنے والی کوششوں میں ناکام رہتے ہیں.یقیناً اس طرح تم احمدیت کے گردا خلاقی نیکنامی کی ایک ایسی فصیل تیار کر دو گے جس کو تو ڑ نا کسی دشمن کی طاقت میں نہ ہو گا.کیونکہ اخلاقی قلعے وہ قلعے ہیں جنہیں حکومت کی تو ہیں بھی توڑنے سے قاصر رہا کرتی ہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ ان مصائب کے زمانہ میں کیا یہ قربانی نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اخراجات کو کم کر کے سلسلہ کی امداد کرے تاکہ سلسلہ کے بار کو بھی کم کیا جائے اور مخالفوں کے پرو پیگنڈا کو بھی بے اثر بنایا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نذیر اِن نَفَعَتِ الذكرى وعظ ونصیحت کرتا رہ کیونکہ وعظ و نصیحت پہلے بھی فائدہ دے چکی ہیں.بظاہر یہ قربانی چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ قربانی چھوٹی نہیں کیونکہ جماعت کا ایک معتد بہ حصہ مالی قربانیوں میں یا پیچھے ہے یا مستقل مزاج نہیں اور ان کی کمزوریوں کے لمحات سلسلہ کے بار کو اس قدر زیادہ کر دیتے ہیں کہ باقی روپیہ کے خرچ کا بھی وہ فائدہ نہیں پہنچتا جو پہنچنا چاہئے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ قربان کرنا چاہتے ہیں میں انہیں کہتا ہوں آؤ سلسلہ کے لئے مستقل اور کبھی نہ رکنے والی مالی قربانی کرو اس سے بھی دشمن کے حملے کمزور پڑ جائیں گے کیونکہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں بہت سی تبلیغی جد وجہد کو روک دیتی ہیں.یہ مالی قربانی بھی در حقیقت جانی قربانی ہی ہے کیونکہ جس حد تک سلسلہ اب ان کا مطالبہ کر رہا ہے وہ احمدیوں کے کھانے پینے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اس لئے یہ مالی قربانی بھی اب جسمانی قربانی بن گئی ہے.مگر صرف اس حد تک جانی قربانی کافی نہیں ہو سکتی.سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات بعض لوگوں سے اس قربانی کا بھی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ پورا وقت دین کی خدمت کیلئے لگائیں تا کہ جو کام پوری توجہ چاہتے ہیں وہ ادھورے نہ رہ جائیں.ہمارا سلسلہ الہی سلسلہ ہے اسے ہر قسم کی لیاقت رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے اور سلسلہ کے کام اس قدر وسیع ہو چکے ہیں کہ ان کے سنبھالنے کے لئے ایک بڑی جماعت ہمیں درکار ہے.میں

Page 165

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ نے اس بارہ میں وقف زندگی کا دودفعہ اعلان کیا ہے اور نو جوانوں نے بڑھ بڑھ کر اس آواز کا جواب بھی دیا ہے لیکن ابھی مجھے اس سلسلہ میں اور آدمیوں کی ضرورت ہے.یہ لوگ گریجوایٹ ہونے چاہئیں کچھ انگریزی کے اور کچھ عربی کے یعنی اپنے آپ کو پیش کرنے والے نو جوان یا بی اے ہوں یا مولوی فاضل ہوں تا کہ ان کی ابتدائی تعلیم پر روپیہ اور وقت خرچ نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ سلسلہ کے نوجوان اس معاملہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور اپنی قربانی سے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک اچھا نمونہ قائم کریں گے.دینی کاموں کے لئے عربی کی تعلیم نہایت ضروری ہے لیکن میں نے انگریزی کے گریجوایٹ بھی طلب کئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ بغیر انگریزی کے نہیں ہو سکتی.اس طرح بہت سے کام ہندوستان میں بھی انگریزی دان طبقہ ہی کر سکتا ہے.اگر بعض فنون کے ماہر بھی اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ مفید ہو سکتے ہیں جیسے ڈاکٹر یا وکیل.یہ وقف کرنے والے لوگ وہی ہوں جن کو یا گھر سے امداد کی امید ہو سکے یا پھر قلیل گزاروں پر کام کرنے کیلئے تیار ہوں.میں متواتر کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید کے کام کی بنیاد روپیہ پر نہیں رکھی گئی.اس میں شامل ہونے والے دوست ایک مجاہد کی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کچھ مل گیا تو انہیں دے دیا جائے گا نہ ملا تو نہ دیا جائے گا.اس کی تفصیلات اختصاراً اس سال کی شوری کے ایجنڈے میں شائع ہو چکی ہیں.جو دوست دیکھنا چاہیں اپنی جماعت کے سیکرٹری کے پاس دیکھ سکتے ہیں یا دفتر تحریک جدید سے منگوا سکتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان جو ہمیشہ ایسے مواقع پر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے چلے آئے ہیں ، آج بھی پیچھے نہیں رہیں گے.اس وقت پانچ انگریزی کے اور دس بارہ عربی کے گریجوایٹ اس صیغے میں کام کر رہے ہیں اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ قربانی نوجوانوں کیلئے ناممکن نہیں.میرا منشاء یہ ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے والے نو جوانوں کو دینی ودنیوی علوم میں پوری مہارت پیدا کرائی جائے تا کہ وہ حسب ضرورت سلسلہ کے ہر کام کو سنبھالنے کے قابل ہوں اور اگر مالی طور پر انہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں تو عملی طور پر انہیں بدلہ بھی دوسروں سے زیادہ مل جائے.یہ پہلی قسط ہے جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی جو میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اور پھر خلاصہ اسے دُہرا دیتا ہوں.سچائی اور دیانت کا اقرار اور اپنے تمام کاموں میں عملاً اس کا اظہار حتی کہ غیر لوگ بھی

Page 166

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ اقرار کریں کہ احمدی راستباز اور دیانت دار ہوتے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پراپیگنڈا کو قبول کرنے سے انکار کر دیں.تبلیغ اس طرح نہیں کہ فرصت کا وقت نکال کر کی جائے بلکہ کام کا حرج کر کے بھی (سوائے اس کے کہ انسان دوسرے کا ملازم ہو.اس صورت میں اپنے آقا کے مفاد کا خیال رکھنا اس کیلئے ضروری ہے) تبلیغ کی جائے.مگر یادر ہے کہ یہ تبلیغ صرف زبانی نہیں ہونی چاہئے.احمدیت کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دوست خدمت خلق کے کام بھی کیا کریں کیونکہ عملی تبلیغ زبانی تبلیغ سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے اسی لئے میں نے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا ہے جو بعض جگہ اس بارہ میں نہایت اچھے کام کر رہے ہیں..چندوں میں باقاعدگی اور باقاعدگی کے بعد مسابقت کی روح کا پیدا کرنا.میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے حتی کہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں دور ہو جائیں اور اس کی اشاعت کا دامن وسیع ہو جائے.ا.بی.اے، ایم.اے، مولوی فاضل، ڈاکٹر ، وکیل نوجوان اپنی زندگیاں دین کی خدمت کیلئے وقف کریں تا انہیں سلسلہ کے کاموں اور تبلیغ کے لئے تیار کیا جائے اور وہ سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا کام کریں اور اس کے علاوہ سلسلہ کے جن اور کاموں میں ان کی خدمات کی ضرورت ہو ان کے لئے وہ اپنے آپ کو پیش کریں.اگر کوئی نو جوان ان اغراض کیلئے طالب علمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور وہ ایک دو سال میں فارغ ہونے والے ہوں تو وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.۵.ہر حکومت اور ہر نظام کے قانون کی پابندی کرتے ہوئے دین کی ترقی کیلئے کوشش کرنا کہ اس پر عمل کرنے کے بغیر ہم احمدیت کی تعلیم کی برتری ثابت نہیں کر سکتے.چھٹی بات جو در حقیقت تبلیغ کا ہی ایک حصہ ہے میں اس جگہ اس کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ چونکہ مخالف ہر جگہ حکام اور دیگر با اثر لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے بارسوخ لوگ اور افسر متواتر غلط باتیں سن کر احمدیوں کے خلاف متأثر ہو جاتے ہیں اس لئے ہر ضلع میں پراپیگنڈا کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنی اپنی جگہ مختلف اقوام کے چیدہ لوگوں سے اور حکام سے ملتی رہیں اور احمدیت کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کی حقیقت سے انہیں آگاہ کرتی رہیں.وہ افراد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے کوئی پوزیشن دی ہے اپنے تعلقات کو بڑھائیں اور ہر قسم کے حکام کو یا ہر شعبہ زندگی میں

Page 167

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ اثر رکھنے والے دوسرے افراد کو اس شرارت سے آگاہ کرتے رہیں جو سلسلہ کے دشمن اس کے خلاف کر رہے ہیں اور ان حکام کے رویہ سے بھی واقف کریں جو محض تعصب یا دشمنوں کی جھوٹی باتوں سے متاثر ہو کر جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.ان افراد اور کمیٹیوں کو چاہئے کہ اپنے کام سے مرکز کو اطلاع دیتے رہا کریں اور جو مشکلات پیش آئیں ان کے متعلق مرکز سے مشورہ لیتے رہا کریں.اس کے لئے ہر جماعت کو ایک سیکرٹری امور عامہ مقرر کرنا چاہئے جس کی غرض زیادہ تر اس کام کو منظم صورت میں کرنا اور کرانا ہو.میں سمجھتا ہوں اگر دوست میری اس تجویز پر علاوہ دوسری تجاویز کے عمل کرنا شروع کریں تو بہت جلد اس فتنہ کی سختی کم ہو جائے گی.اگر ایک طرف سچائی اور قربانی خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچے گی تو دوسری طرف تبلیغ اور پراپیگنڈا لوگوں کو حقیقت حال سے واقف کر کے دشمن کے ضرر کو محدود کر دیں گے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام جماعت کو اس وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جوش اور اظہارِ غضب کے بجائے بچی قربانی کے پیش کرنے اور اس پر مستقل رہنے کی توفیق دے کیونکہ قربانی وہ نہیں جو ہم پیش کرتے ہیں قربانی وہی ہے جس کا زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہمارا رب ہم سے مطالبہ کرتا ہے.ہمارے دشمنوں کو ہم نے نہیں بلکہ ہمارے خدا نے شکست دینی ہے.سچی قربانیاں کرو اور دعائیں کرو اور کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو اور بڑے ہو کر منکسر مزاج بنو اور طاقت کے ہوتے ہوئے عفو کو اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہو.یا د رکھو کہ جن قربانیوں کا میں پہلی قسط کے طور پر مطالبہ کر رہا ہوں معمولی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے.اگر جماعت صداقت کے اس معیار کو قائم کر دے جسے سلسلہ احمدیہ پیش کرتا ہے تو یقیناً اسے کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا.کمزوری ہماری ہی طرف سے ہوتی ہے ورنہ ہمارا خدا وفادار ہے.وہ خود ہمیں نہیں چھوڑتا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ والسلام.خاکسار مرزا محمود احمد ( الفضل ۱۲ رمئی ۱۹۳۸ء) الاعلى: ١٠

Page 168

انوار العلوم جلد ۱۵ كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَان كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَان از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 169

انوار العلوم جلد ۱۵ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ( تحریر فرموده ۱۷ رمئی ۱۹۳۸ء) یوں تو مئی کا مہینہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایک بڑے رنج و غم کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے لیکن اس سال کے مئی میں یہ خصوصیت ہے کہ اس میں غم پر مشتمل تازہ واقعات کا بھی ایک اجتماع ہو گیا ہے.پہلے حافظ بشیر احمد ہمارے نوجوان اور ہونہار مبلغ کی خدام الاحمدیہ کے سلسلہ میں کام کرتے ہوئے اچانک موت ہوئی، پھر خان صاحب فقیر محمد خان صاحب سپرنٹنڈنٹ انجنیئر کی ناگہاں موت واقع ہوئی ، اس کے بعد "الفضل میں پڑھا کہ چوہدری عبد القادر صاحب پلیڈ ر فوت ہو گئے اور اب چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ یعنی عزیزم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليورْجِعُونَ " دنیا میں جو آیا اس نے مرنا ہے اور اس راستہ پر ہر ایک کو گزرنا ضروری ہے لیکن ایک ایسی قوم جو دنیا میں اس طرح بسر کر رہی ہے جس طرح بتیس دانتوں میں زبان ، اس کے لئے اس کا ہر فرد قیمتی ہے اور اس کا نقصان رنج دہ.لیکن جب ایک قلیل عرصہ میں کئی کام کرنے والے نوجوان اور دعائیں کرنے والے عمر رسیدہ فوت ہو جائیں تو دل کا رنج و غم اور بھی بڑھ جاتا ہے.جن مرحومین کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ہر ایک حافظ بشیر احمد صاحب مرحوم خاص رنگ رکھتا تھا.حافظ بشیر احمد صاحب حافظ قرآن، جامعہ کے فارغ التحصیل ، وقف کنندہ خدام الاحمدیہ کے مخلص کارکن اور اُن نوجوانوں میں سے تھے جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو آ رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور تھی اس نے انہیں خدام احمدیہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ بنانا تھا.جس جماعت کے بنتے ہی اس کے کارکنوں کو شہادت کا موقع مل جائے اس کے مستقبل کے شاندار ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا اور

Page 170

انوار العلوم جلد ۱۵ كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ اس کے غیرت مند افراد اپنی روایات قائم رکھنے کیلئے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہتے ہیں.پس یہ موت تکلیف دہ تو ہے لیکن اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کام کرتی نظر آ رہی ہے.چوہدری عبد القادر صاحب پلیڈر ایک چوہدری عبد القادر صاحب مرحوم ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے بڑے افراد سلسلہ کے سخت مخالف تھے اور ہیں.نوجوانی میں احمدی ہوئے اور سب مخالفتوں کا خاموش مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پختہ ایمان کا ثبوت دیا.باوجود ایک مکر وہ پیشہ سے تعلق رکھنے کے ایک نیک اور سعید نوجوان تھے اللہ تعالیٰ ان کی رُوح کو بخشش سے ڈھانپ لے.خانصاحب فقیر محمد خانصاحب وہی خان صاحب فقیر محمد خانصاحب مرحوم ہیں جنہوں نے آج سے چند سال پہلے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ ہماری دو والدہ تھیں اور ہر ایک سے دو دو بیٹے ہیں.ہم نے انصاف سے کام لیا ہے اور ہر ایک والدہ کا ایک ایک بیٹا احمدیوں کو دے دیا ہے اور ایک ایک بیٹا سنیوں کو.گویا روپیہ میں سے آٹھ آٹھ آنے ہم نے دونوں میں تقسیم کر دیئے ہیں اور میں نے اس پر انہیں جواب دیا تھا کہ خدائی سلسلے اس تقسیم پر خوش نہیں ہوتے بلکہ وہ تو سارا ہی لیا کرتے ہیں.وہ اس وقت اپنے اہل وعیال سمیت ولایت جا رہے تھے ان کو خدا نے انگلستان میں ہی ہدایت دی اور وہیں سے بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا آپ کی بات کس قدر جلد پوری ہو گئی.میں تیسری چونی آپ کے پاس بیعت کیلئے آتا ہوں دعا کریں چوتھی چونی یعنی بقیہ بھائی بھی احمدی ہو جائے.انہوں نے پہلا چندہ اسی دن بھجوایا اور پھر نہایت استقلال سے دینی خدمات میں حصہ لیتے رہے.گزشتہ سال ان کے اکلوتے لڑ کے عزیز کیپٹین ڈاکٹر نثار احمد کا لڑائی میں گولی لگنے سے انتقال ہو گیا.اب ایک سال کے بعد وہ چھت کے گر جانے کی وجہ سے وفات پاگئے.انا للہ وانا الیهِ رُجِعُونَ ہمارا لاؤڈ سپیکر عرصہ تک ان کی رُوح کے لئے ثواب کا ذریعہ بنا رہے گا اور اس کی گونج میں ان کی آواز ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی.چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب آخر میں عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کی وفات کی خبر آئی ہے اور کی والدہ صاحبہ کی وفات افسوس کہ اس وقت کہ میں مرکز سے بہت دور ہوں اور آسانی سے میرا وہاں پہنچنا اور جنازہ میں شامل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے جس کا مجھے

Page 171

انوار العلوم جلد ۱۵ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان سخت افسوس ہے.میں نے ابھی خبر سنتے ہی موٹر میں ایک آدمی کو میر پور خاص بھجوا دیا ہے کہ فون کر کے دریافت کرے کہ کیا میرا وقت پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں اگر ایسا ہو سکا تو میری یہ خواہش کہ میں ان کا جنازہ پڑھا کر انہیں دفن کر سکوں پوری ہو جائے گی ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابلِ قدر احمدی تھے اور انہوں نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہی اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان آ کر میرا ہاتھ بٹانے لگے اس لئے ان کے تعلق کی بناء پر ان کی اہلیہ کا مجھ پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا.پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رُشد وسعادت کے جو ہر دکھائے ہیں اور شروع ایامِ خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں ، مرحومہ ان کی والدہ تھیں اور اس تعلق کی بناء پر بھی ان کا مجھ پر حق تھا لیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق طفیلی ہوتا ہے.یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے مرحومه ان منتقی عورتوں میں سے تھیں جن کا تعلق براہ راست اور بلا کسی واسطہ کے ہوتا ہے.وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں، ان سے پہلے انہوں نے بیعت خلافت کی اور ہمیشہ غیرت وحمیت کا ثبوت دیا، چندوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا، غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا ، دعاؤں کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں سچی خوابوں کی کثرت سے خدا تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی.انہوں نے خوابوں سے ہی احمدیت قبول کی اور خوابوں سے ہی خلافت ثانیہ کی بیعت کی.مجھے ان کا یہ واقعہ نہیں بھول سکتا جو بہت سے مردوں کیلئے بھی نصیحت کا موجب بن سکتا ہے.گزشتہ ایام میں جب احراری فتنہ قادیان میں زوروں پر تھا اور ایک احراری ایجنٹ نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب پر راستہ میں لاٹھی سے حملہ کیا تھا جب انہیں ان حالات کا علم ہو ا تو انہیں سخت تکلیف ہوئی.بار بار چوہدری ظفر اللہ خان سے کہتی تھیں.ظفر اللہ خاں ! میرے دل کو کچھ ہوتا ہے.حضرت اماں جان کا دل تو بہت کمزور ہے ان کا کیا حال ہوگا.کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب گھر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا جیسے مرحومہ اپنے آپ سے کچھ باتیں کر رہی ہے.انہوں نے پوچھا کہ بے بے جی کیا بات ہے تو مرحومہ نے جواب دیا کہ میں وائسرائے سے باتیں کر رہی

Page 172

انوار العلوم جلد ۱۵ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان تھی.چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ سچ سچ ہی کیوں باتیں نہیں کر لیتیں انہوں نے کہا کیا اس کا انتظام ہوسکتا ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے.اس پر انہوں نے کہا بہت اچھا پھر انتظام کر دو.قرآنی تعلیم کے مطابق ان کی عمر میں وہ پردہ تو تھا ہی نہیں جو جو ان عورتوں کیلئے ہوتا ہے.وہ وائسرائے سے ملیں اور چوہدری صاحب ترجمان بنے.لیڈی ولنگڈن بھی پاس تھیں.چوہدری صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں کچھ نہیں کہوں گا جو کہنا ہو خو د کہنا.چنا نچہ مرحومہ نے لارڈ ولنگڈن سے نہایت جوش سے کہا کہ میں ایک گاؤں کی رہنے والی عورت ہوں، میں نہ انگریزوں کو جانوں اور نہ ہی ان کی حکومت کے اسرار کو.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا تھا کہ انگریزی قوم اچھی قوم ہے اور ہمیشہ تمہاری قوم کے متعلق دل سے دعائیں نکلتی تھیں.جب کوئی تمہاری قوم کے لئے مصیبت کا وقت آتا تھا رو رو کر دعائیں کیا کرتی تھی کہ اے اللہ ! تُو ان کا حافظ و ناصر ہو تو ان کو تکلیف سے بچائیو لیکن اب جو کچھ جماعت سے خصوصاً قادیان میں سلوک ہو رہا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ارادہ سے نہیں بلکہ آپ ہی آپ بددعا نکلتی ہے.آخر ہم لوگوں نے کیا کیا ہے کہ اس رنگ میں ہمیں تکلیف دی جاتی ہے چوہدری صاحب نے لارڈ ولنکڈن سے کہا کہ میں صرف ترجمان ہوں میں وہی بات کہہ دوں گا جو میری والدہ کہتی ہیں.آگے آپ انہیں خود جواب دے دیں اور ان کی بات لارڈ ولنگڈن کو پہنچا دی.اس سیدھے سادھے اور باعزت کلام کا اثر لیڈی ولنگڈن پر تو اس قدر ہوا کہ اُٹھ کر مرحومہ کے پاس آ بیٹھیں اور تسلی دینی شروع کی اور اپنے خاوند سے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے جس کی طرف تم کو خاص توجہ دینی چاہئے.کتنے مرد ہیں جو اس دلیری سے سلسلہ کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو قبولیت کے ہاتھوں سے لے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے.آمین عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے وہ اپنے سب بیٹوں سے زیادہ محبت کرتی تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے زیادہ عزت بھی دی ہے اور سب سے زیادہ میرا ادب بھی کرتے ہیں.ابھی شوری کے موقع پر چوہدری صاحب کے ساتھ آئی ہوئی تھیں.دو تین دفعہ مجھے ملنے آئیں.خوش بہت نظر آتی تھیں مگر کہتی تھیں مجھے اپنا اندر خالی خالی نظر آتا ہے.ان کا ایک خواب تھا کہ اپریل میں وہ فوت ہونگی مگر خوابوں کی بعض دفعہ مخفی تعبیر ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اپریل میں اس بیماری نے لگنا تھا جس سے وہ فوت ہوئیں.اپریل کے اس قدر قریب عرصہ میں ان کا فوت ہونا اس خواب کے بچے ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے.

Page 173

انوار العلوم جلد ۱۵ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ایک دو سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور ۱۱ ۱۲ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں.گہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہوا ہے اور اس پر سر رکھا ہوا ہے.ان کے دائیں بائیں عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیٹھے ہیں ان کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اسی طرح میں ان سے باتیں کرتا ہوں.شاید اس کی تعبیر بھی مرحومہ کی وفات ہی تھی کہ الہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوت یا مامتا جگہ خالی کرتی ہے تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لے لیتی ہے.مرحومہ کے والد بھی احمدی تھے اور ان کے بھائی چوہدری عبداللہ خان صاحب دا تا زید کا والے ایک نہایت پُر جوش احمدی ہیں اور اپنے علاقہ کے امیر جماعت ہیں.حضرت خلیفہ اول کے وقت سے مجھ سے اخلاص رکھتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ اظہا را خلاص میں پیش پیش رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو انکی دعاؤں کی برکات سے محروم نہ کرے اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی رہیں.یہ سب موتیں ہمارے لئے ایک سبق ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو توجہ دلاتی ہیں کہ اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کر یں.حتی کہ ان میں سے کوئی فوت نہ ہو جس کی جگہ لینے والا دوسرا موجود نہ ہو بلکہ جس ایک کی جگہ لینے والے کئی موجود نہ ہوں.آخر ہم سب نے مرنا ہے پھر اس قلیل زندگی کو خدا کے دین کیلئے قربان اور اس کی پیاری یاد میں کیوں صرف نہ کریں.اللہ ہی ہمارا متکفل ہو.آمین والسلام خاکسار ل الرحمن: ۲۷ البقرة: ۱۵۷ مرزا محمود احمد ۱۷ رمئی ۱۹۳۸ ء کیمپ ناصر آباد.سندھ ( الفضل ۲۲ رمئی ۱۹۳۸ء)

Page 174

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 175

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات اصلاحات کشمیر سے جو میراتعلق رہا ہے اس کے بعد یاد کرانے کی مجھے ضرورت نہیں.اس جد و جہد میں جو خدمت کرنے کی مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اس کے بیان کرنے کی بھی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک وہ بنیاد جو صرف ماضی پر رکھی جاتی ہے اس قدر مضبوط نہیں ہوتی جس قدر وہ جو حال میں اپنی صداقت کا ثبوت رکھتی ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے فلاں وقت کوئی کام کیا تھا، اس لئے میری بات سنو بلکہ اہل کشمیر سے صرف یہ کہتا ہوں کہ میں اب جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر غور کریں اور اگر اس میں سے کوئی بات آپ کو مفید نظر آئے تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.جب میں نے کام شروع کیا تھا اس وقت کشمیر ایجی ٹیشن گو بظاہر فرقہ وارانہ تھا مگر جو مطالبات پیش کئے جاتے تھے وہ فرقہ وارانہ نہ تھے.زمینوں کی واگذاری کا فائدہ صرف مسلمانوں کو نہ پہنچتا تھا، نہ پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا نہ حکومت کے مشوروں میں شراکت میں مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ تھا.ملازمتوں کا سوال ایک ایسا سوال تھا جس میں مسلمانوں کے لئے کچھ زائد حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن ۹۰،۸۰ فی صدی آبادی کے لئے اس کے گم گشتہ حقوق میں سے صرف مشورے سے حق کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا.اس تحریک کا نتیجہ کم نکلا یا زیادہ مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نکلا ضرور اور کشمیر کے لوگ جو سب ریاستوں کے باشندوں میں سے کمزور سمجھے جاتے تھے اس ادنیٰ مقام سے ترقی کر کے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے کہ اب وہ دوسری ریاستوں کے باشندوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے.میں نے جو کچھ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ہر ایک سمجھوتہ سچائی پر مبنی ہونا چاہئے.

Page 176

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات یہ نہیں کہ ہم ظاہر میں کچھ کہیں اور باطن میں کچھ ارادہ کریں.ایسے ارادوں میں جن میں سچائی پر بنا نہیں ہوتی کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی اور کم سے کم یہ نقص ضرور ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں خود اپنے باپ دادوں کو گالیاں دیتی ہیں اور وہ تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد نہیں کئے جاتے.پس میرے نزدیک کسی سمجھوتے سے پہلے ایسے سب امور کا جو اختلافی ہوں مناسب تصفیہ ہو جانا چاہئے تا بعد میں غلط فہمی اور غلط فہمی سے اختلاف اور جھگڑا پیدا نہ ہو.اس اصل کے ماتحت جب میں نے اس تحریک کا مطالعہ کیا تو مجھے اخباری بیانات سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا مسلم و غیر مسلم کے سیاسی سمجھوتے کی مشکلات کو پوری طرح سمجھ لیا گیا ہے یا نہیں اور مسلم و غیر مسلم کے حقوق کے متعلق جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر کر لی گئی ہے یا نہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی جدو جہد دو غرضوں میں سے ایک کیلئے ہوتی ہے یا تو اس لئے کہ اس قوم نے کوئی پیغام دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے.اس صورت میں وہ عواقب و نتائج کو نہیں دیکھا کرتی ، نقصان ہو یا فائدہ وہ اپنا کام کئے جاتی ہے.جیسے اسلام کے نزول کے وقت غریب اور امیر سب نے قربانی کی اور اس کی پروانہیں کی کہ کسے نقصان ہوتا ہے یا کیا ہوتا ہے کیونکہ مادی نتیجہ مدنظر نہ تھا بلکہ پیغام الہی کو دنیا تک پہنچا نا مد نظر تھا.اس پیغام کے پہنچ جانے سے ان کا مقصد حاصل ہو جاتا تھا، خواہ دنیا میں انہیں کچھ بھی نہ ملتا اور اس پیغام کے پہنچانے میں نا کامی کی صورت میں ان کو کوئی خوشی نہ تھی خواہ ساری دنیا کی حکومت ان کو مل جاتی.یا پھر قومی جد و جہد اس لئے ہوتی ہے کہ کوئی قوم بعض دنیوی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتی ہے.وہ ہر قدم پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جن تکالیف کو دور کرنے کیلئے میں کھڑی ہوئی ہوں وہ اس جد وجہد سے دور ہو سکتی ہیں یا نہیں.اس کی ہر ایک قربانی ایک مادی فائدہ کے لئے ہوتی ہے اور وہ اس مادی فائدہ کے حصول کے لئے جد و جہد کرتی ہے.تمام سیاسی تحریکیں اس دوسری قسم کی جد وجہد سے تعلق رکھتی ہیں اور مادی فوائد کو ان میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جب یہ امر ظاہر ہو گیا تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی تحریک کوئی مذہبی تحریک ہے یا سیاسی.اگر سیاسی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے فوائد ہیں جن کیلئے اہل کشمیر کوشاں ہیں اور خصوصاً مسلمان؟ اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں ہر کشمیری یہ دے گا کہ اس کی جد وجہد صرف اس لئے ہے کہ اس کی بآرام اور خوش زندگی کا سامان کشمیر میں نہیں ہے.نہ اس کی تعلیم کا اچھا انتظام ہے نہ

Page 177

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات اس کی زمینوں کی ترقی کے لئے کوشش کی جاتی ہے نہ اسے حریت ضمیر حاصل ہے نہ اس کی اس آبادی کے اچھے گزارہ کیلئے کوئی صورت ہے جس کا گزارہ زمین پر نہیں بلکہ مزدوری اور صنعت و حرفت پر ہے اور نہ اس کی تجارتوں اور کارخانوں کی ترقی کے لئے ضرورت کے مطابق جد و جہد ہو رہی ہے.نہ اسے اپنے حق کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جارہا ہے اور ان لوگوں میں سے جن کے ذریعہ سے حکومت تاجروں، ٹھیکہ داروں وَغَيْرَ هُمَا کو نفع پہنچایا کرتی ہے اور نہ مجالس قانون ساز میں ان کی آواز کو سنا جاتا ہے.یہ مطالبات مسلمانانِ ریاست کشمیر و جموں کے ہیں اور یہی مطالبات قریباً ہرا فتادہ قوم کے ہوتے ہیں.یہ امر ظاہر ہے کہ وہی سکیم مسلمانان کشمیر کے لئے مفید ہوسکتی ہے جو اوپر کی اغراض کو پورا کرے اور دوسری کوئی سکیم انہیں نفع نہیں دے سکتی.پس میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا اتحاد جو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا بعض دوسری اقوام سے ہوا ہے، کیا اس غرض کو پورا کرتا ہے؟ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں اور مجالسِ آئینی میں تناسب کے لحاظ سے حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملازمتوں پر سوائے چند ایک بڑے افسروں کے ریاست ہی کے باشندے قابض ہیں جو غیر مسلم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی حال ٹھیکوں کا ہے.وہ بھی اکثر مقام میں غیر مسلم اصحاب کے ہاتھوں میں ہے.اسی طرح مجالسِ آئینی میں بھی مسلمانوں کا حق زیادہ تر ریاست کشمیر کے غیر مسلم باشندوں کے ہاتھ میں ہی ہے.ان حالات میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقوام نے اپنے حاصل کردہ منافع مسلمانوں کے حق میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کر دیا ہے.اگر نہیں تو یہ سمجھوتہ کس کام آئے گا.اگر اس تمام جد وجہد کا نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کے ہاتھ سے اختیار نکل کر رعایا کے پاس اس صورت میں آجاتے ہیں کہ نہایت قلیل اقلیت نے نصف یا نصف کے قریب نمائندگی پر قابض رہنا ہے اور اسی طرح ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں بھی اسے یہی حصہ ملنا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پندرہ فیصدی باشندے پچاس فی صدی آمد پر قابض رہیں اور پچاسی فی صدی باشندے بھی پچاس فیصدی آمد پر قابض رہیں.گویا ایک جماعت کے ہر فرد پر سو فی صدی آمد خرچ ہو اور دوسری قوم کے ہر فرد پر نے فی صدی آمد خرچ ہو یا دوسرے لفظوں میں ہمیشہ کیلئے چھ مسلمان اتنا حصہ لیں جتنا کہ ایک غیر مسلم حصہ لے.یہ قسیم تو با لبداہت باطل ہے.

Page 178

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات اگر سمجھوتہ اس اصول پر نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ ہر قوم اپنے افراد اور لیاقت کے مطابق حصہ لے خواہ مجالسِ آئین میں ہو، خواہ ملازمتوں میں ، خواہ ٹھیکہ وغیرہ میں گوا قلیت کو اس کے حق سے استمالت قلب کے لئے کچھ زیادہ دے دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ شرطیں ہوں کہ اقلیت کے مذہب ، اس کی تہذیب اور تمدن کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی تو یہ ایک جائز اور درست اور منصفانہ معاہدہ ہوگا.مگر جہاں تک میں نے اخبارات سے پڑھا ہے ایسا کوئی معاہدہ مسلمانانِ کشمیر اور دیگر اقوام میں نہیں ہوا اور نہ میں سمجھ سکا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ اقوام جو ملازمتوں اور ٹھیکوں اور دوسرے حقوق پر قابض ہیں وہ اس آسانی سے اپنے حاصل کردہ فوائد مسلمانوں کو واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں گی اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لازماً یہ اتحاد بعد میں جا کر فسادات کے بڑھ جانے کا موجب ہوگا.اگر کوئی کامیابی ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو غیر مسلم اقوام کہیں گی کہ جد و جہد تو صرف اختیارات پبلک کے ہاتھ میں لانے کے لئے تھی سو وہ آگئے ہیں کسی قوم کو خاص حق دینے کے متعلق تو تھی ہی نہیں.ہم بھی کشمیری تم بھی کشمیری ملازمت ہمارے پاس رہی تو کیا تمہارے پاس رہی تو کیا.جو لوگ عہد وں پر ہیں وہ زیادہ لائق ہیں اس لئے قوم کا کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہئے کہ اس میں ملک کا نقصان ہے اور اگر مسلمانوں کا زور چل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کو ملازمتوں، ٹھیکوں وغیرہ میں زیادہ حصہ دینا شروع کیا تو دوسری اقوام کو رنج ہوگا اور وہ کہیں گی کہ پہلے ہم سے قربانی کروائی اب ہمیں نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور ایک دوسرے پر بدظنی اور بدگمانی شروع ہو جائے گی اور فتنہ بڑھے گا گھٹے گا نہیں اور اب تو صرف چند وزراء سے مقابلہ ہے پھر چند وزراء سے نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں پر مشتمل اقوام سے مقابلہ ہو گا کیونکہ حقوق مل جانے کی صورت میں اس قوم کا زور ہو گا جو اس وقت ملازمتوں وغیرہ پر قائم ہے خواہ وہ تھوڑی ہو اور وہ قوم دست نگر ہوگی جو ملازمتوں میں کم حصہ رکھتی ہے خواہ وہ زیادہ ہو اور یہ ظاہر ہے کہ چند وزراء کو قائل کر لینا آسان ہے مگر ایسی جماعت کو قائل کرنا مشکل ہے جس کی پشت پر لاکھوں اور آدمی موجود ہوں کیونکہ گو وہ قلیل التعداد ہو حکومت اور جتھامل کر اسے کثیر التعداد لوگوں پر غلبہ دے دیتا ہے اور سیاسی ماہروں کا قول ہے کہ نہ مقید بادشاہ کی حکومت ایسی خطرناک ہوتی ہے نہ غیر ملکی قوم کی جس قدر خطر ناک کہ وہ حکومت ہوتی ہے جس میں قلیل التعدا د لیکن متحد قوم اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہو کیونکہ اس کا نقصان ملک کے اکثر حصہ کو پہنچتا ہے لیکن اس کا ازالہ کوئی نہیں ہو سکتا.دنیا کی تاریخ کو دیکھ لو کہ ایسی حکومتیں ہمیشہ دیر پا رہی ہیں اور انہوں نے

Page 179

انوار العلوم جلد ۱۵ کشمیرا ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات اکثریت کو بالکل تباہ کر دیا ہے.ہندوستان میں ہی اچھوت اقوام کو دیکھ لو کہ ایک زبر دست اکثریت سے اب وہ اقلیت میں بدل گئی ہیں اور ان کے حالات جس قدر خراب ہیں وہ بھی ظاہر ہیں.پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ان کی قومیں تسلیم نہ کریں.پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ.یا مسلمان لیڈر بعض حق چھوڑنے کا اقرار کر لیں لیکن مسلمان پبلک اس کیلئے تیار نہ ہو اور ملک کی قربانیاں رائیگاں جائیں اور فساد اور بھی بڑھ جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کیلئے مفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بیکاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو یعنی ان کی تعداد کے قریب قریب انہیں ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں حق نہ دلاتا ہو.جو سمجھو تہ اس امر کو مد نظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے.عوام لیڈروں کے لئے قربانی کرنے میں بے شک دلیر ہوتے ہیں لیکن جب ساری جنگ پیٹ کیلئے ہو اور پیٹ پھر بھی خالی کا خالی رہے تو عوام الناس زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتے اور ان کے دلوں میں لیڈروں کے خلاف جذبہ نفرت پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے فتنہ کا سدِ باب کر دینا شروع میں ہی مفید ہوتا ہے.یہ میرا مختصر مشورہ مسلمانان کشمیر کو ہے وہ اپنے مصالح کو خوب سمجھتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں.میں تو اب کشمیر کمیٹی کا پریذیڈنٹ نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا کشمیر کمیٹی کی رائے اس معاملہ میں کیا ہو گی لیکن سابق تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دینا مناسب سمجھا.عقلمند وہی ہے جو پہلے سے انجام دیکھ لے.میرے سامنے سمجھوتہ نہیں نہ صحیح معلوم ہے کہ کن حالات میں اور کن سے وہ سمجھوتہ کیا گیا ہے.میں تو اخبارات میں شائع شدہ حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس کا سمجھوتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہوا ہے اور اس کے مطابق اب دونوں قو میں مشترکہ قربانی پر تیار ہو رہی ہیں.پس میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی ایک مقدس ھے ہے اور بہت بڑی ذمہ واریاں اپنے ساتھ رکھتی ہے.مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ وہ کس امر کے لئے قربانی کرنے لگے ہیں اور یہ کہ وہ اس امر کو نباہنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سمجھوتہ بجائے پریشانیوں کے کم کرنے کے

Page 180

انوارالعلوم جلد ۱۵ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق چند خیالات نئی پریشانیاں پیدا کر دے.انگریزی کی ایک مثل ہے کہ کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرا.سو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جد وجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ سب کڑاہی سے نکل آئیں گے یا یہ کہ بعض کڑاہی سے نکل کر باہر آ جائیں گے اور بعض آگ میں گر کر ٹھو نے جائیں گے.میں اس موقع پر حکومت کو بھی یہ نصیحت کروں گا کہ پبلک کے مفاد کا خیال رکھنا حکومت کا اصل فرض ہے.اسے چاہئے کہ اپنے زور اور طاقت کو نہ دیکھے بلکہ اس کو دیکھے کہ خدا نے اسے یہ طاقت کیوں دی ہے؟ حاکم اور محکوم سب ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں.پس اگر وہ اپنی ہی رعایا کا سر کچلنے لگے تو یہ امر حکومت کی طاقت کے بڑھانے کا موجب نہیں ہوسکتا.جو ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی جڑ پر تبر رکھتا ہے.یہ اہالیانِ کشمیر ہی ہیں جو ہز ہائی نس مہا راجہ کی عزت کا موجب ہیں.ان کو اپنے ہمعصروں میں عزت اسی سبب سے ہے کہ ان کی رعایا میں ۳۶ لاکھ افراد ہیں اور اگر وہ افراد ذلیل ہیں تو یقیناً ان کی عزت اتنی بلند نہیں ہو سکتی جتنی بلند اس صورت میں کہ وہ افراد معزز ہوں.پس ادنی ترین کشمیری ریاست کشمیر کی شوکت کو بڑھانے والا ہے اور وہ حکام جو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی عزت پر نہیں بلکہ ریاست کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں.اس نازک موقع پر انہیں صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے اور رعایا کے صحیح جذبات سے ہز ہائی نس کو آگاہ رکھنا چاہئے کہ وفاداری کا یہی تقاضا ہے اور خیر خواہی کا یہی مطالبہ ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر ہائی نس کو اپنی رعایا سے رحم اور انصاف کی اور حکام کو دیانتداری اور ہمدردی کی اور پبلک کو سمجھ اور عقل کی توفیق دے تا کہ کشمیر جو جنت نظیر کہلاتا ہے جنت نہیں تو اپنے ان باغوں جیسا تو دلکش ہو جائے جن کی سیر کرنے کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں.وَاخِرُدَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ.قادیان ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۴۷ تا ۵۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۵ء)

Page 181

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کرلو گے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 182

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کر لو گے ( تقریر فرمود ۳۱۵.جولائی ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ توبہ کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللوانا قلتُم إلى الأرض، ارضِيتُم بالحيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الأخِرَةِ فَمَا مَتَاءُ الحَيوةِ الدُّنْيَا في الاخرة الا قليل - إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّ بكُمْ عَذَابًا اليماهُ وَيَسْتَبدِل قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا، وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اس کے بعد فر مایا:.میں جماعت کے دوستوں کو ایک لمبے عرصہ سے بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ تحریک جدید کوئی نئی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ وہ قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ جاری کی گئی تھی.انجیل کے محاورہ کے مطابق یہ ایک پرانی شراب ہے جو نئے برتنوں میں پیش کی جارہی ہے مگر وہ شراب نہیں جو بد مست کر دے اور انسانی عقل پر پردہ ڈال دے بلکہ یہ وہ شراب ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ لا فيما غول وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ ل یعنی اس شراب کے پینے سے نہ تو سر ڈکھے گا اور نہ بکو اس ہو گی کیونکہ اس کا سرچشمہ وہ الہی نور ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں لائے ایسا نور جو اس سے قبل دنیا کو کبھی نہیں ملا تھا.کیسی نابینا ہیں وہ آنکھیں، کیسے کو ر ہیں وہ دل جو قرآن کریم ، تو رات اور دوسری مذہبی کتابیں دیکھتے ہیں اور پھر انہیں قرآن کریم کی خوبی اور اس کی برتری نظر نہیں آتی.وہ حسن کا مجموعہ ہے، وہ جلوہ الہی کا

Page 183

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..آئینہ ہے.اس کے لفظ لفظ سے خدا تعالیٰ کی شان ٹپکتی اور اس کے حرف حرف سے اللہ تعالیٰ کے وصال کی خوشبو آتی ہے.کونسی کتاب ہے جو اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکتی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو اس کی آیات پر سے گزر جاتے ہیں اور ان کو اس کے معارف اور دقائق کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی.وہ قرآن کریم سنتے ہیں اور بعض دفعہ سُبْحَانَ اللَّهِ اور اَلْحَمْدُ لِله بھی کہہ دیتے ہیں مگر جب وہ اپنی مجلسوں میں جاتے ہیں تو ٹھٹھا اور ہنسی اور تمسخر ان کا شیوہ ہوتا ہے اور ان کی زندگیاں بالکل ضائع چلی جاتی ہیں وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ خدا تعالیٰ نے ان کو کیوں پیدا کیا ہے وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ان کے دنیا میں آنے کا کیا مقصد ہے.بہر حال اسلام خدا تعالیٰ کا ایک نور ہے جو دنیا میں ظاہر ہوا مگر پھر ایک وقت آیا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایمان ثریا پر اُٹھ گیا اور اسلام کی تعلیم لوگوں نے پس پشت ڈال دی اس وقت خدا تعالیٰ نے ایک اور انسان کو دنیا میں بھیجا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی جا پہنچے گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ دنیا کی بہتری اور فائدہ کے لئے اسے پھر واپس لوٹائیں گے اور قرآن کریم نے بھی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا و اخرينَ مِنْهُم لَمّا يلحقوا بهم گے کہ اسلام کی خدمت کے لئے آخرین میں سے ایک جماعت کھڑی کی جائے گی جس کے اندر بروزی رنگ میں پھر رسول کریم ہے اسی طرح کام کریں گے جس طرح آپ نے اولین میں کام کیا.ان پیشگوئیوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے اپنے مامور کو دنیا میں بھیجا اور اسے کہا کہ جاؤ اور قرآن کریم کے نور کو دنیا میں پھیلا ؤ جاؤ اور ہماری صداقت سے ساری دنیا کو روشناس کراؤ.وہ آیا اور اس نے خدا تعالیٰ کے نور کو دنیا میں قائم کیا اور ایک ایسی جماعت اپنے انفاس قدسیہ سے اس لئے تیار کر دی جو اس کی ہر آواز پر لبیک کہنا اپنی انتہائی سعادت سمجھتی ہے.اس جماعت پر پھر وہی ذمہ داریاں عائد ہو گئیں جو صحابہ پر عائد تھیں اور اس سے بھی انہی کاموں کی توقع کی جانے لگی جو صحابہ نے سرانجام دیے تھے.چنانچہ پھر وہی قرآنی محسن دنیا میں ظاہر ہونے لگا، پھر وہی قرآن جو مذہبی کتابوں میں سب سے چھوٹی کتاب ہے اور جسے بعض لوگوں نے ایسی چھوٹی تقطیع پر چھاپا ہے کہ ایک مٹھی کے اندر دو قرآن شریف آ جاتے ہیں ساری دنیا کے علوم اور معارف کا خزینہ نظر آنے لگا.میں ساری دنیا میں نہیں پھرا مگر میرے نائب ساری دنیا میں پھرے ہیں اور میں خود بھی قریباً نصف کرہ ارض میں پھرا ہوں مگر قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں میں نے دنیا کی کسی کتاب میں کوئی

Page 184

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..ایسی بات نہیں دیکھی جو انسان کی روحانیت کے لئے ضروری ہوا اور قرآن کریم نے بیان نہ کی ہو.یہ نئی زندگی جو قرآن کریم کو بخشی گئی محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے حاصل ہوئی اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب دشمن پر انسان کا غلبہ ہونے لگے تو وہ دوسروں کو تباہ کرنے کے لئے اپنی انتہائی طاقت صرف کرنے لگ جاتا ہے.جب تک قرآن کریم دشمن کو ہارا ہوا نظر آتا تھا شیطان خوش تھا اور وہ کہتا تھا کہ اس کتاب کا میں نے کیا مقابلہ کرنا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کا نور دنیا میں پھیلنا شروع ہوا تو اس نے مختلف رنگوں میں حملے کرنے شروع کر دیئے بیرونی بھی اور اندرونی بھی ، کفار کے ذریعہ بھی اور منافقوں کے ذریعہ بھی یہ حملے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کفر کی فوجیں گلی طور پر میدان مقابلہ میں شکست کھا جائیں گی.لیکن جب تک کفر میں جان ہے اور اس کے جسم کے اندر سانس چلتی ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اطمینان اور چین سے بیٹھ سکے.پس یہ خیال کر لینا کہ ہماری جماعت کا کام آج یا کل یا پرسوں ختم ہو جائے گا اور ہم اطمینان سے بیٹھ رہیں گے بالکل غلط ہے.یہ خیال کر لینا کہ فلاں قسم کے حملے اب بالکل نہیں ہوں گے اگر ہوں گے تو اور قسم کے ، بالکل غلط ہے.وہ ہر رنگ میں حملے کرے گا اور ہر ہتھیار سے اسلام کی فوجوں کو شکست دینے کے لئے میدان میں اترے گا اور ہماری جماعت میں وہی رہ سکے گا جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے اور کسی ایک لمحہ کے لئے بھی اطمینان کا سانس نہ لے.جو شخص اس اصل پر قائم نہیں وہ اگر آج احمدی ہے تو بالکل ممکن ہے کل مرتد ہو جائے کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی شرط سے احمدیت میں داخل ہوا ہے تو وہ آخر دم تک احمدی رہ سکے.یہ الہی سلسلہ ہے اور الہی سلسلوں میں ایسے لوگوں کا قیام بالکل ناممکن ہوا کرتا ہے.پس وہی لوگ احمدیت پر ثابت قدم رہیں گے جن کے ایمان بغیر کسی شرط کے ہوں.میں نے جو ابھی ابھی رکوع پڑھا ہے اس میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ الله انا قَلْتُمْ إلى الأرض اے مومنو! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اور خدا تعالیٰ کے راستہ میں باہر نکلو تو تم زمین کی طرف بوجھل ہو کر گر جاتے ہو.اور تمہارے لئے چلنا مشکل ہو جاتا ہے.ارضِيتُم بالحيوة الدُّنْيَا من الأخرة کیا تم اس ورلی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے

Page 185

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..ہو.فَمَا مَتَاءُ الحيوة الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلُ یاد رکھو اس ورلی زندگی کا جو فائدہ ہے یہ آخرت کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جب بھی دین کے لئے آواز اٹھائی جائے مؤمن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آگے آئے اور خدمت دین میں اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی اولاد ، اپنی عزت، اپنی آبرو، اپنا آرام ، اپنی آسائش، اپنی جائداد، اپنا وطن اور اپنی ہر چیز قربان کر دے لیکن منافق یہ چاہتا ہے کہ مؤمن قربانی نہ کریں اور جو کر رہے ہیں وہ بھی قربانی کے مقام سے پیچھے ہٹ آئیں.فرماتا ہے إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّ بكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ، وَيَسْتَبْدِل قَوْمًا غيرَكُمْ وَلا تَضُرُوهُ شَيْئًا وَاللهُ عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدیر اگر تم خدا تعالی کی آواز یا اس کے نمائندوں کی آواز پر کان نہیں دھرو گے اور تمہاری یہ حالت ہوگی کہ تمہیں کہا تو یہ جائے گا کہ آؤ اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو مگر تم آگے نہیں آؤ گے تو یاد رکھو خدا تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا ء کرے گا.ويستبدل قَوْمًا غَيْرَكُمْ اور خدا تعالیٰ تمہارے بدلے کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا.ولا تضُرُّوهُ شَيْئًا اور تم خدا تعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکو گے.بعض لوگ اسی بات پر حیرت میں آ جایا کرتے ہیں کہ جماعت میں دو چار یا دس بیس منافق کیوں ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس جگہ یہ فرماتا ہے کہ ہزا ر نہیں ، دس ہزا ر نہیں ، دس کروڑ بھی اگر مرتد ہو جائیں تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہو سکتی.وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.یہ مت خیال کرو کہ اگر کسی جماعت میں سے کچھ لوگ نکل جائیں گے تو اس جماعت کو نقصان پہنچ جائے گا.فرماتا ہے ہمیں کام سے غرض ہے تعداد سے نہیں.اگر نکتے اور ناکارہ وجود جماعت میں شامل ہیں تو وہ بیشک جماعت سے نکل جائیں اور یاد رکھیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.پھر فرماتا ہے.اِلّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبه لا تحزن إن اللهَ مَعَنَا فَانزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَآيَدَهُ بِجُنُودٍ 7.لم تر و هَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السفلى، وَكَلِمَةُ اللوهِيَ الْعُلْيا والله عَزِيزُ حَكِيم " اگر تم محمد رسول اللہ ﷺ کی مدد نہیں کرنا چاہتے تو تمہاری خدا تعالیٰ کو کیا پروا ہو سکتی ہے.فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ اذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا تاني اثنين إذ هُمَا فِي الغَارِ خدا تعالیٰ نے اس کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ وہ صرف اپنے

Page 186

انوار العلوم جلد ۱۵ ط اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے نکلا اور دشمن کے حملے سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ گزین ہو گیا.إذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَن إن الله معنا جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم مت کر اللہ ہمارے ساتھ ہے.اس وقت تمہاری کونسی فو جیں تھیں جو اس کی مدد کر رہی تھیں.فانزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ اس وقت خدا تعالیٰ نے خود اس پر اپنی سکینت اُتارى وآيد کا بجنود مرزا اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جس کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے.وَجَعَلَ كَلِمَةَ الّذينَ كَفَرُوا الشغل، وَكَلِمَةُ اللو حي العليا، اور اس نے ان روحانی لشکروں کے ذریعہ کفار کو اپنی تدبیروں میں نیچا دکھایا اور خدا اور اس کے رسول کا غلبہ ہوا.واللهُ عَزِيزُ حَكِيم اور اللہ ہی ہمیشہ غالب رہا کرتا ہے اور وہ بڑی حکمتوں والا ہے.پھر فرماتا ہے اِنْفِرُوا خِفَافاً وفقا لا وجَاهِدُوا با موالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّو ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٥ اے مومنو! اگر تم اپنے ایمان میں پختہ ہو تو تم کمزور ہو تب بھی نکلو، طاقتور ہوتب بھی نکلو، مالدار ہو تب بھی نکلو، غریب ہوتب بھی نکلو، بوڑھے ہو تب بھی نکلو، جوان ہو تب بھی نکلو، تمہارے اوپر ذمہ داریاں ہوں تب بھی نکلو، تمہارے اوپر ذمہ داریاں نہ ہوں تب بھی نکلو، گھوڑوں پر سوار ہو تب بھی نکلو، پیدل ہو تب بھی نکلو.اِنْفِرُوا خِفَافاً وشقاً تم چاہے ہلکے ہو چاہے بھاری تمہارا فرض ہے کہ دونوں صورتوں میں نکلو.وجَاهِدُ ذاباً مُوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللہ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ جو عظیم الشان کام تیرے سامنے ہے وہ معمولی قربانیوں سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا.جب تک تم میں سے ہر شخص اپنی جان اور اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک یہ کام نہیں ہوسکتا.ديكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُون تمہیں کیا پتہ کہ گل کیا ہونے والا ہے.فرض کرو آج سے پچاس ساٹھ یا سو سال کے بعد تمہاری نسلوں نے اپنی قربانیوں کے بدلہ میں بادشاہت حاصل کرنی ہو تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دن رات قربانیاں کرتے چلے جاؤ اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے قدم اس میدان میں سُست نہ ہونے دو.حضرت ابو ہریرہ نے ایک دفعہ کسرای شاه ایران کا رومال اپنی جیب میں سے نکالا اور اس سے اپنی ٹھوک پو نچھ لی.پھر کہنے لگے بخ بخ ابو ھریرہ واہ واہ ابو ہریرہ کبھی تجھے جوتیاں پڑا

Page 187

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..کرتی تھیں اور آج تو کسری کے رومال میں تھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا.آپ نے یہ کیا الله بات کہی ہے.انہوں نے کہا مجھے رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا اس قدر اشتیاق تھا کہ میں مسجد سے اُٹھ کر کبھی باہر نہ جاتا کہ ممکن ہے رسول کریم ﷺ تشریف لے آئیں اور آپ میرے بعد کوئی ایسی بات کہہ جائیں جسے میں نہ سن سکوں اور چونکہ میں اسی شوق میں ہر وقت مسجد میں پڑا رہتا تھا اس لئے کئی کئی دن کے فاقے ہو جاتے اور شدت ضعف کی وجہ سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی پڑی ہوئی ہے اور چونکہ عرب میں یہ دستور تھا کہ وہ مرگی والے کو جو تیاں مارا کرتے تھے اس لئے جب میں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جو تیاں مارنی شروع کر دیتے حالانکہ اس وقت بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے غشی ہوتی تھی اور کمزوری کے مارے میری آواز بھی نہیں نکل سکتی تھی.پھر انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ میں بھوک سے اتنا تنگ ہوا کہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں اُٹھ کر مسجد کے دروازہ پر آ کر کھڑا ہو گیا کہ شاید میری شکل دیکھ کر ہی کوئی شخص سمجھ جائے کہ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اور وہ مجھے کھانے کے لئے کچھ دیدے.اتنے میں حضرت ابو بکر وہاں سے گزرے اور میں نے ان کے سامنے ایک آیت پڑھی جس میں غریبوں کی خبر گیری کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے اور عرض کیا کہ اس کے ذرا معنی کر دیں انہوں نے اس آیت کے معنی کئے اور آگے چل دیئے.اس واقعہ کا ان کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ باوجود یکہ جس زمانہ صلى الله میں انہوں نے یہ بات سنائی اس وقت رسول کریم عے بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت ابو بکر بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت عمر کا زمانہ تھا پھر بھی وہ اس وقت غصہ سے کہنے لگے ہوں ! گویا مجھے اس آیت کے معنے نہیں آتے تھے اور حضرت ابو بکر کو زیادہ آتے تھے.میں نے تو یہ آیت ان کے سامنے اس لئے پیش کی تھی کہ میری شکل دیکھ کر انہیں میری طرف توجہ پیدا ہومگر انہوں نے معنی کئے اور آگے چل دیئے.پھر حضرت عمرؓ گزرے اور ان کے سامنے بھی میں نے یہی آیت پیش کی انہوں نے بھی اس کے معنی کئے اور آگے چل پڑے.حضرت ابو ہریرہا پھر بڑے غصہ سے کہتے ہیں.ہوں ! گویا مجھے اس آیت کے معنی نہیں آتے تھے اور حضرت عمر زیادہ جانتے تھے.میں نے تو اس لئے آیت ان کے سامنے پیش کی تھی کہ وہ سمجھ جاتے کہ میں بھوکا ہوں مگر وہ معنی کر کے آگے چل پڑے.اسی حالت میں میں حیران کھڑا تھا کہ پیچھے سے ایک نہایت محبت بھری آواز آئی کہ ابو ہریرہ.میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم لیے

Page 188

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..کھڑے تھے.آپ نے مجھے فرمایا معلوم ہوتا ہے تمہیں بھوک لگی ہے.گویا رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ کی پیٹھ میں سے وہ چیز دیکھ لی جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓا بو ہریرہ کے منہ سے نہیں دیکھ سکے تھے.پھر آپ نے فرمایا ادھر آؤ.حضرت ابو ہریرہ گئے تو رسول کریم ﷺے دودھ کا ایک پیالہ لے کر باہر نکلے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں دودھ دیکھ کر میں بڑا خوش ہوا اور سمجھا کہ اب اکیلا اسے خوب سیر ہو کر پیوں گا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا.ابو ہریرہ مسجد میں جاؤ اور اگر کوئی اور بھی بھوکا ہو تو اسے بلا لاؤ.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا کہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ مجھ اکیلے کو یہ تمام دودھ مل جائے گا مگر اب تو اوروں کو بھی بلا لیا گیا ہے.نہ معلوم میرے لئے دودھ بچے یا نہ بچے.خیر میں مسجد میں گیا تو وہاں چھ آدمی اور مل گئے.میں نے کہا اب مصیبت آئی آگے تو یہ خیال تھا کہ اگر ایک آدمی ملا تو خیر آ دھا دودھ وہ پی لے گا.آدھا میں پی لوں گا مگر یہاں تو اکٹھے چھ مل گئے ہیں.یہ اگر پینے لگے تو میرے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا مگر چونکہ رسول کریم ﷺ کا حکم تھا اس لئے میں ان کو ساتھ لے کر گیا اور کہا يَا رَسُولَ اللهِ !یہ چھ بھی میری طرح بھوکے بیٹھے ہیں.اس موقع پر رسول کریم ﷺ نے انہیں کیا عجیب سبق دیا.آپ نے فرمایا ابو ہریرہ یہ دودھ کا پیالہ لو اور پہلے ان میں سے ایک کو پلاؤ.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں.میں نے دل میں کہا بس اب میں مارا گیا میرے لئے بھلا کیا بچے گا.چنانچہ پہلے ایک نے پینا شروع کیا اور پیتا چلا گیا.میں نے سمجھا شاید یہ شرافت کر کے کچھ دودھ چھوڑ دے تو میرے پینے کے کام آ جائے مگر جب وہ پی چکا تو رسول کریم ﷺ نے وہ پیالہ دوسرے کو دے دیا، پھر تیسرے کو، پھر چوتھے پانچویں اور چھٹے کو اور میں کانپتا چلا جاؤں کہ نہ معلوم میرے لئے بھی کچھ بچتا ہے یا نہیں آخر جب وہ سب پی چکے تو رسول کریم ﷺ نے مجھے پیالہ دیا اور میں نے دیکھا کہ وہ اسی طرح کبا کب بھرا ہوا ہے جس طرح پہلے تھا.آخر میں نے دودھ پینا شروع کر دیا اور پیتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بھر گیا اور میں نے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! اب میں سیر ہو گیا.آپ نے فرمایا نہیں اور پیو چنانچہ میں نے پھر پینا شروع کر دیا اور جب بہت پی چکا تو میں نے پھر کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! اب تو پیٹ بھر گیا ہے.آپ نے فرمایا نہیں اور پیو.چنانچہ میں نے پھر پیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری انگلیوں کی پوروں میں سے بھی دودھ پھوٹ کر نکل رہا ہے.آخر میں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! اب تو میرے پیٹ میں کوئی گنجائش نہیں رہی.رسول کریم علی صلى الله نے ہنس کر پیالہ مجھ سے لے لیا اور خود بقیہ دودھ پی گئے.کے اس طرح رسول کریم ﷺ نے

Page 189

é' انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو.انہیں یہ سبق دیا کہ گوتم نے زبان سے سوال نہیں کیا مگر چونکہ اپنی شکل سے تم نے دوسروں سے مانگا ہے اس لئے تمہیں سب کے بعد حصہ دیا جائے گا.یہ واقعہ سنا کر حضرت ابو ہریر کا فرمانے لگے.یہ میری حالت تھی مگر آج میری حالت کیا ہے.آج یہ حالت ہے کہ جس رو مال میں میں نے تھوکا ہے.یہ کسر کی شاہ ایران کا رومال ہے اور رومال بھی ایسا قیمتی ہے کہ کسری اسے ہر وقت اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنے سالانہ جشن کے موقع پر یہ رومال لیتا تھا مگر آج وہ اس قدر قیمتی رومال میرے ہاتھ میں ہے اور میں رکس بیدردی سے اس میں تھوک رہا ہوں.یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اس میں تھوکا تو مجھے اپنی گزشتہ حالت یاد آ گئی اور میں نے کہا بی بیخ ابو ہریرہ آج تو تیری بڑی شان ہے.اب اگر ابو ہریرہ کوان قربانیوں کے وقت جو انہوں نے اسلام کے لئے ابتداء زمانہ میں کیں یہ معلوم ہوتا کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک دن کسریٰ کے رومال میں تھوکیں گے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ان قربانیوں سے بھی بڑھ کر اسلام کیلئے قربانیاں کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو جاتے.اگر ابوسفیان کو پتہ ہوتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کے نتیجہ میں اس کا لڑکا معاویہ ایک دن عرب کا بادشاہ بننے والا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بجائے مخالفت کرنے کے وہ تلوار لے کر محمد رسول اللہ ﷺ کے لشکر کے آگے آگے چلتا.مگر وہ کیوں لڑ رہا تھا ؟ صرف اسی لئے کہ اسے مستقبل کا علم نہیں تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تعْلَمُون اگر تم اپنے مستقبل سے آگاہ ہو جاؤ.اگر ہم وہ پردہ اٹھا دیں جو اس وقت تمہاری آنکھوں پر پڑا ہوا ہے اگر تمہیں نظر آنے لگے کہ تمہارے کالے کلوٹے بچے جن کی آنکھوں میں گید بھری ہوئی ہے اور ناک ان کے بہہ رہے ہیں کسی دن دنیا کے بادشاہ بننے والے ہیں تو تم قربانیاں کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر لو مگر ہم تمہیں وہ بتاتے نہیں صرف اتنا بتا دیتے ہیں کہ ان قربانیوں کا نتیجہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا اور اگر تمہیں اپنا مستقبل نظر آ جائے تو تم ان قربانیوں کو بالکل حقیر اور ذلیل سمجھو.پھر فرماتا ہے تو كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ ولكن بعدَتْ عَلَيْهِمُ التَّقَةُ، وَ سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ انْفُسَهُمْ : وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لكَذِبُونَ فرماتا ہے آئے تھے تم سب مؤمن بن کر مگر چونکہ کام ذرا لمبا ہو گیا اس لئے تمہارے قدم ڈگمگانے

Page 190

انوار العلوم جلد ۱۵ اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو..لگ گئے ہیں تم سمجھتے تھے کہ ادھر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور ادھر دس دن کے اندر ہی اندر ساری دنیا کے بادشاہ بن گئے.یہاں عرضًا کا لفظ منافع کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی اگر ان کے منافع اور مطلب سهل الحصول ہوتے وَ سَفَرًا قاصد اور دین کی خدمت کا سفر چھوٹا ہوتا لا تبعُوك تو وہ تیرے ساتھ چل پڑتے.یہاں آتيَعُوت کا لفظ ظاہری معنوں پر بھی مشتمل ہے اور باطنی معنوں پر بھی.یعنی اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹا سفر ہوتا تو وہ تیرے ساتھ چل پڑتے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اگر تیرے راستہ میں مشکلات نہ ہوتیں اور انہیں کئی قسم کی قربانیاں نہ کرنی پڑتیں تو وہ آسانی سے تیرے ساتھ شامل ہوتے.مگر چونکہ تیرا راستہ کٹھن اور سخت دشوار ہے اس لئے وہ تیرے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ نہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ:.د مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں ،، میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں.جو جدا ہونے والے ہیں وہ جُدا ہو جائیں اور مجھے میرے خدا پر چھوڑ دیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے دیانت داری سے احمدیت کو قبول کیا ہے، اگر تم یقین رکھتے ہو کہ سلسلہ احمد یہ سچا ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدا تعالیٰ کی پیروی ہے اور مسیح موعود کی پیروی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے.تو اے مردو اور عورتو! تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد میں میرے ساتھ تعاون کرو اور انصار اللہ بن جاؤ.مجھے تم سے کوئی غرض نہیں.اگر تم میرے ان مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر راضی کر لو گے اور اگر تم ان مطالبات پر عمل نہیں کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر ناراض کر لو گے.(الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۹ء) التوبة : ٣٩،٣٨ التوبة : ٤٠ الصفت : ۴۸ التوبة ٤١ بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النبي الله (الخ) کے بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي عل الله (الخ) التوبة:٤٢ و انوار الاسلام صفحه ۲۳ ۲۴ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳ ۲۴ الجمعة : ۴

Page 191

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب از سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 192

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب تحریر فرموده ۱۱ نومبر ۱۹۳۸ء بمقام قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سب سے پہلے میں بھی مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمُ يَشْكُرِ اللہ کے مطابق تینوں اداروں کے اساتذہ وطلباء کا اس تقریب کے پیدا کرنے اور ان جذبات کی وجہ سے جو اس تقریب کے پیدا کرنے کے محرک تھے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو وہی تحفہ اسلامی جو ایسے مواقع پر پیش کیا جاتا ہے اور جو بہترین اور مبارک تحفہ ہے پیش کرتا ہوں یعنی جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ تینوں ایڈریس جو اس وقت پیش کئے گئے ہیں وہ گو تین مختلف اداروں کی طرف سے ہیں لیکن تینوں نے اپنے اپنے رنگ میں اتحاد کی صورت پیدا کر لی ہے اور وہ راہ نکال لی ہے جو تعلقات کو ان لوگوں سے وابستہ کرتی ہے جن کی آمد پر یہ ایڈریس پیش ہوئے ہیں.تینوں ایڈریس سنتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ان ایڈریسوں میں ان کی وہی حیثیت بیان کی گئی ہے جو حضرت بابا نانک کی ہے یعنی ہندو انہیں ہندو کہتے ہیں اور مسلمان مسلمان.مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ نے ان کو جوڑ تو ڑ کر اپنے اندر شامل کر لیا ہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب خوش ہو گئے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس حقیقی روح کو سمجھیں جو احمدیت نے ہم میں پیدا کی ہے تو پھر کسی

Page 193

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب الله قسم کی علیحدگی ہم میں نہیں رہتی اور یہ سارے ادارے اور کارخانے ایک ہو جاتے ہیں.جب کسی شخص کے ہاتھ کو اندھیرے میں کوئی دوسرا شخص چھوٹے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ کہے گا میں ہوں.یا اس شخص کی ٹانگ کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو تو وہ یہی کہے گا کہ میں ہوں.یا اس شخص کے سر کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ میں کسے ہاتھ لگا رہا ہوں تو وہ کہے گا کہ مجھے.یا اس کی پیٹھ پر ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ پھر بھی یہی کہے گا کہ میں ہوں.گویا ان سب سوالات کے پیچھے ایک ہی جواب ہو گا.اسی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو جسم کے باقی اعضاء کو بھی تکلیف ہوتی ہے.بے شک رقابت اچھی چیز ہے قرآن مجید نے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الخيرات سے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر ہر امر میں رقابت کا حکم نہیں صرف خیرات.یعنی نیکیوں میں رقابت کا سبق دیا گیا ہے.گو یا خیرات کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مسابقت کی ایک نرالی شکل بنادی ہے.ہر وہ مسابقت جو اپنی ذات میں بُرائی رکھتی ہے اس حکم سے نکل جاتی ہے.ہر وہ مقابلہ یا مسابقت جس میں حسد ہو یا عداوت ہو وه فاستبقوا الخيرات میں داخل نہیں کیونکہ فاستبقوا الخيرات میں صرف نیکیوں میں مسابقت اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے.پس تمام وہ مسابقتیں اور وہ مقابلے جن کے نتائج میں حسد، عناد اور بغض پیدا ہوتا ہے اس حکم کے دائرے سے خارج ہیں.صرف وہی مسابقتیں اور مقابلے جائز اور درست اور مفید ہیں جن کے نتیجے خیر اور نیکی پیدا کرتے ہیں پس گو یہ ادارے مختلف ہیں مگر حقیقت میں ایک ہی ہیں.یہ جماعت کی ضرورتیں ہیں جن کو مختلف شکلیں دی گئی ہیں.ایک ادارہ اگر جماعت کا سینہ ہے تو دوسرا پاؤں ہے.اسی طرح یہ سب ادارے جماعت کے لئے اعضاء ہیں کوئی کان ہے، کوئی ناک، کوئی سر ہے تو کوئی آنکھیں.غرض یہ ساری چیزیں در حقیقت ایک جسم ہیں جن کے پیچھے ایک میں ہے جو بول رہی ہے اور وہ میں احمدیت ہے جوسب اداروں پر چھائی ہوئی ہے.ان میں کسی ادارہ کا نقص احمدیت میں نقص پیدا کرتا ہے اور ان میں سے کسی کا کمال احمدیت کا کمال ہوتا ہے پس گو نام جُدا جُدا ہیں لیکن حقیقت ان کی ایک ہی ہے.مولوی شیر علی صاحب دواڑھائی سال کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں.مولوی صاحب ایسے کام کیلئے باہر بھیجے گئے تھے جو اس وقت جماعت کے لئے بہت ضروری ہے.اس کام کا مشکل حصہ یعنی ترجمہ کا کام پورا ہو چکا ہے اب دوسرا کام نوٹوں کا ہے جو لکھے جا رہے ہیں.گزشتہ دنوں

Page 194

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب یورپ میں جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو واپس بلا لیا جائے تا کہ وہ یہاں آکر کام کریں ایسا نہ ہو کہ جنگ کی صورت میں رستے بند ہو جائیں.پس دوستوں کی بہترین دعوت تو یہ ہے کہ مولوی صاحب جلد سے جلد اس کام کو ختم کریں تا کہ یہ ایک ہی اعتراض جو مخالفین کی طرف سے جماعت پر کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک ایک بھی قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا دور ہو جائے اور ہماری انگریزی تفسیر شائع ہو جائے.درد صاحب ایک لمبے عرصے کے بعد واپس آئے ہیں ۱۹۳۳ء کے شروع میں وہ گئے تھے اور اب ۱۹۳۸ء کے آخر میں واپس آئے ہیں ان دونوں سالوں کا درمیانی فاصلہ پونے چھ سال کا بنتا ہے اور پونے چھ سال کا عرصہ انسانی زندگی میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے.بعض دفعہ باپ کی عدم موجودگی میں اولاد کی تربیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اخلاق پر بُرا اثر پڑ جاتا ہے.بعض دفعہ گھر سے ایسی تشویشناک خبریں موصول ہوتی ہیں جو انسان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں.عام لوگ ان مشکلات کو نہیں سمجھتے جو ایک مبلغ کو ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو عام لوگ نہیں کر سکتے بلکہ اکثر اوقات اسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو دوسروں کے لئے ناممکن ہوتی ہیں.جماعت کے کئی آدمی ان قربانیوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اعتراض کر دیتے ہیں اگر وہ ان قربانیوں کی حقیقت کا اندازہ لگائیں تو وہ مبلغوں کے ممنون ہوں.کئی دفعہ ان کو اپنے گھروں سے پریشان کرنے والی خبریں ملتی ہیں اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق ہدایات بھی دیتے ہیں مگر چونکہ خطوط کے پہنچنے میں ایک ایک دودو مہینے لگ جاتے ہیں ان کو فکر ہوتا ہے کہ ان کی ہدایات کے پہنچنے سے پہلے ان پر کیا گزرتی ہوگی انہیں اپنے بھائیوں کا فکر ہوتا ہے، اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا فکر ہوتا ہے.اس قدر لمبے فاصلہ کو جانے دو تم اتنے فاصلہ کا ہی اندازہ لگا لو جو محلہ دار الفضل اور مدرسہ احمدیہ کے درمیان ہے اگر اتنے معمولی فاصلہ سے ہی تم میں سے کسی کو اپنے عزیز کے متعلق کوئی تشویشناک اطلاع ملے تو تم اس قد رگھبرا جاتے ہو کہ کسی سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے اور اگر راستے میں کوئی شخص تم سے بات کرنا چاہے تو تم جھٹ اس کو روک دو گے اور کہو گے کہ مجھے ایک ضروری کام ہے میں اس وقت بات نہیں کر سکتا.اگر تمہاری یہ حالت اس تھوڑے سے سے فاصلہ پر ہو جاتی ہے تو پھر ان کا اندازہ کرو جو ہزاروں میل اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں.ان کے خاندان میں بھی وہی مشکلات پیش آئی ہیں جو تمہیں پیش آتی ہیں.ایسی

Page 195

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب پریشان کن خبریں ان کو بھی اپنے عزیزوں کی طرف سے ملتی ہیں جیسے تمہیں ملتی ہیں مگر تم چند منٹ کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی راستہ میں تم سے بات کرنا چاہے تو تم اس کو روک دیتے ہو تو پھر ان کی کیفیت کا اندازہ لگا ؤ جو ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہوتے ہیں اور جو اپنی خانگی پریشانیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے.غرض ہمارے مبلغ جو خدمت دین کے لئے باہر جاتے ہیں ان کا جماعت پر بہت بڑا حق ہے نادان ہے جماعت کا وہ حصہ جو ان کے حقوق کو نہیں سمجھتا.یورپ کے لوگ ایسے لوگوں کو بیش بہا تنخواہیں دیتے اور ان کیلئے ہر قسم کے آرام و ر ہائش کے سامان مہیا کرتے ہیں.جب ان کے ڈپلومیٹ یعنی سیاسی حکام اپنے ملکوں میں واپس آتے ہیں تو ملک ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے.فرانس کے ایمبیسیڈر (AMBASSADOR) کی تنخواہ وزیر اعظم کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے مگر جب وہ اپنے ملک میں آتا ہے تو اہل ملک اس کی قربانیوں کی اس قدر تعریف کرتے ہیں اور اس کے اس قدر ممنون ہوتے ہیں کہ گویا وہ فاقے کرتا رہا ہے اور بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد واپس آیا ہے.اور دُور جانے کی کیا ضرورت ہے ہندوستان کے وائسرائے کو دیکھو کہ اس کے کھانے اور آرام و آسائش کے اخراجات خود گورنمنٹ برداشت کرتی ہے اور میں ہزار روپیہ ماہوار جیب خرچ کے طور پر اسے ملتے ہیں وہ پانچ سال کا عرصہ ہندوستان میں گزارتا ہے اور اس عرصہ میں بارہ لاکھ روپیہ لے کر چلا جاتا ہے صرف لباس پر اس کو اپنا خرچ کرنا پڑتا ہے یا اگر کسی جگہ کوئی چندہ وغیرہ دینا ہو تو دے دیتا ہے ورنہ باقی تمام اخراجات گورنمنٹ برداشت کرتی ہے لیکن باوجود اس کے جب وہ اپنے ملک کو واپس جاتا ہے تو اس کی قربانیوں کی تعریف میں ملک گونج اُٹھتا ہے اور ہر دل جذ بہ تشکر و امتنان سے معمور ہوتا ہے اور یہ جذبہ ان میں اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ان کے جذبات کا پیالہ چھلکا کہ چھلکا.یہی گر ہے قومی ترقی کا جب کسی قوم میں سے کوئی فرد ایک عزم لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری قوم میری قدر کرے گی.بیشک دینی خدمت گزاروں کو اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی قوم اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں کرتی تو یہ اس قوم کی غلطی ہے.بیشک ایک مؤمن کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے اور پھر ایک ایسی قوم کا نمائندہ جو اپنے آپ کو نیک کہتی ہے، وہ تو ان خیالات سے بالکل الگ ہوتا ہے.اس کو صرف اپنی ہی ذمہ واریوں کا احساس ہوتا ہے مگر اسلام نے جہاں

Page 196

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب فرد پر ذمہ داریاں رکھی ہیں وہاں قوم پر بھی ذمہ واریاں رکھی ہیں.جس طرح کسی فرد کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ واریوں کی پرواہ نہ کرے اسی طرح قوم کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ واریوں کی پرواہ نہ کرے.قوم کے فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم نے میری قربانیوں کی پرواہ نہیں کی اور اگر وہ یہ خیال اپنے دل میں لایا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے یہ کام کیا ہے خدا تعالیٰ کے لئے نہیں کیا پس فرد کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے اور نہ فکر کے کسی حصہ میں کہ قوم نے میری قربانیوں کی پر واہ نہیں کی یا جیسا کہ میری خدمت کرنے کا حق تھا وہ اس نے ادا نہیں کیا ایسا آدمی اپنے کئے کرائے پر خود پانی پھیر دیتا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرد پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اسی طرح قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں اور وہ یہ کہ قوم اس فرد کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرے کیونکہ قوم بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے جیسے فرد.اسلام نے دونوں کی شخصیتیں تسلیم کی ہیں وہ قوم کی بھی ایک قانونی شخصیت تسلیم کرتا ہے اور فرد کی بھی.اس زمانہ میں یورپ والے اس قسم کی شخصیتوں کے ثابت کرنے پر بہت نازاں ہیں چنانچہ حال ہی میں مسجد شہید گنج کو ایک قانونی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ امر آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے اسلام نے پیش کیا تھا یہ وہی امر ہے جسے ہمارے فقہی فرض کفایہ کہتے ہیں.فرض کفایہ میں قوم کو ایک شخصی حیثیت دی جاتی ہے اگر کسی قوم کے بعض افراد میں خوبی ہو تو وہ خوبی اس قوم کی طرف منسوب ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کے افراد میں کوئی عیب ہوتا ہے تو وہ عیب اس قوم کی طرف منسوب ہو جاتا ہے.یہ اس لئے کہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے.مثلاً زید صرف زید کے ہاتھوں یا پاؤں کا نام نہیں بلکہ اس کے اعضاء سر، آنکھیں ، ناک، کان ، منہ، سینہ، پیٹھ اور ٹانگوں کے مجموعہ کا نام ہے.غرض اسلام نے فرضِ کفایہ میں شخصیت قومی کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اس کی رو سے اسلام نے فرد پر بھی بعض حقوق رکھتے ہیں.اور قوم پر بھی بعض حقوق رکھے ہیں دوسرے جس طرح فرد ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے ویسے ہی قوم بھی ایک قانونی حیثیت رکھتی ہے.فرد بے شک حقیقی وجود بھی ہے اور قانونی وجود بھی اور اس کے مقابل پر قوم صرف قانونی وجود ہے حقیقی وجود

Page 197

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب نہیں مگر اس پر قانونی وجود کے لحاظ سے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے قوم کے ایک فرد پر.اسلام نے بعض امور کے کرنے کا قوم کو حکم دیا ہے اگر قوم کے افراد میں سے بعض نے وہ امور سرانجام دے دیئے تو اس صورت میں ساری قوم بری الذمہ ہو جائے گی اور اگر کوئی فرد بھی وہ کام نہ کرے تو اس صورت میں ساری قوم پکڑی جائے گی.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے اور قرآن مجید کی آیات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ جھوٹی قسم کھانے سے ملک برباد ہو جاتا ہے کے حالانکہ جھوٹی قسم کھانے والا صرف ایک فرد ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہاں ملک کو قانونی وجود کے لحاظ سے تسلیم کیا گیا ہے قوم کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی نگرانی کرے اور اگر وہ نگرانی نہیں کرتی تو اس صورت میں گویا وہ اپنے ملک کو آپ تباہی کی طرف لے جاتی ہے.ہماری شریعت نے بعض مقامات پر قتل یا اسی قسم کے بعض اور جرائم کی سزا جرمانہ کی صورت میں رکھی ہے.اگر کوئی ان جرائم میں سے کسی کا مرتکب ہو اور وہ جرمانہ ادا نہ کر سکے تو اس صورت میں وہ حجر مانہ سب قوم سے وصول کیا جائے گا عملی طور پر بھی رسول کریم ﷺ نے ایسا کیا ہے کیونکہ فرد کا نقصان قوم کا نقصان ہے اور اسکی تلافی بہر حال کسی طرح ہونی چاہئے.اگر وہ فرد یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے جرم کا بدلہ مُجرمانہ کی صورت میں ادا کرے تو پھر قوم کو اس کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا کیونکہ قوم پر ہر فرد کے ایسے افعال کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر قوم اس سے نقصان دلوا سکتی ہے تو دلوادے ورنہ قوم کو اس نقصان کی تلافی کرنی ہوگی.اگر کوئی شخص جرم کرے اور اس مجرم کے عوض میں اس پر دس ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا جائے اور اس کی حیثیت صرف دو ہزار روپے کی ہو تو وہ باقی رقم کہاں سے ادا کرے گا.اس صورت میں شریعت اس فعل کی ذمہ داری اس کی قوم پر ڈالتی ہے جس کا وہ فرد ہے اس کی قوم باقی روپیہ جمع کر کے اس کے نقصان کی تلافی میں ادا کرے گی.تو اسلام نے قانونی وجود کو بڑی وضاحت سے تسلیم کیا ہے نادان لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر کیا ذمہ داری ہے حالانکہ اسلام نے شخصی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے اور قانونی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے.پس جب تک ہماری جماعت کے افراد میں اس کا احساس نہیں ہوتا وہ ان مبلغین کی قربانیوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے یہ کام سب افراد جماعت پر فرض ہے مبلغین اس کام کو بطور فرض کفایہ کرتے ہیں وہ جہاں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں وہاں قوم کی ذمہ داری کو بھی ادا کرتے ہیں.ہمارے سب مبلغین جو انگلستان ، امریکہ، افریقہ ، عرب اور دیگر ممالک میں تبلیغ کرتے ہیں وہ فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں اور ہماری طرف سے اس ذمہ داری کو جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے

Page 198

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہمارا کام کرتے ہیں تو ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم ان کا حق ادا کریں.پس میں اپنی جماعت کے نو جوانوں کو خصوصاً اور دوسرے احباب کو عموماً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ملک اور قوم کے قانونی وجود کو سمجھیں.آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں اور مبلغین کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتے ان کے نزدیک گویا یہ لوگ ان کے باپ دادوں کا قرضہ اتار رہے ہیں وہ اپنی نادانی سے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں.ایسے لوگوں کی مثال اُس عورت کی سی ہے جو ایک اور عورت کے گھر آٹا پینے کے لئے گئی اُس نے اُس سے چکی مانگی گھر کی مالکہ نے اُسے چکی دے دی.تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ رات آٹا پیتے پیتے تھک گئی ہوگی اور اس کی مدد کروں.چنانچہ اُس نے اُسے کہا کہ بہن تم تھک گئی ہوگی تم ذرا آرام کر لومیں تمہاری جگہ چکی پیستی ہوں.وہ عورت چکی پر سے اُٹھ بیٹھی اور ادھر ادھر پھر تی رہی اچانک اُس کی نظر ایک رومال پر جا پڑی جس میں روٹیاں تھیں اُس نے وہ رومال کھولا اور گھر کی مالکہ کو کہا بہن! تو میرا کام کرتی ہے تو میں تیرا کام کرتی ہوں اور یہ کہہ کر اُس نے روٹی کھانی شروع کر دی.تو بعض لوگ اس قسم کی روح ظاہر کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ مبلغ کا شکریہ ادا کریں اور اس کی قربانیوں کی قدر کریں وہ ان پر اعتراض کر نے لگ جاتے ہیں گویا وہ مبلغ اُن کے باپ داداے کا قرض دار تھا اور اب وہ قرضہ ادا کر رہا ہے اور اگر اُس نے قرضہ کی ادائیگی میں ذرا بھی سستی دکھائی تو اُس کے گلے میں پڑکا ڈال کر وصول کر لیا جائے گا.اس قسم کے اعتراضات کرنے والے بڑے بے شرم ہیں وہ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ یہ ہمارا حق ادا کر رہا ہے اور جس کام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اسے یہ سرانجام دے رہا ہے.وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں اور اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ قومی شخصیت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے صرف فردی شخصیت کو سمجھتے ہیں پس ہماری جماعت کے ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کی اصل حقیقت سے واقف ہونا چاہئے.ان ایڈریسوں میں ہمارے بچوں کے آنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جسمانی طور پر بچوں کا آنا بے شک خوشی کا موجب ہوتا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.میں غلط بیانی کروں گا اگر کہوں کہ مجھے ان بچوں کے آنے کی خوشی نہیں ہوئی.دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ایسے موقع پر خوش نہ ہو باپ یا بھائی یا بیٹے کے آنے کے علاوہ کسی کا کوئی دوست بھی آئے تو میں

Page 199

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہ ہوں لیکن جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے اُس نے ہم میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ صرف جسمانی قرب ہمارے دلوں میں حقیقی راحت پیدا نہیں کر سکتا.بے شک ایسے مواقع پر انسان کو خوشی ہوتی ہے اور بہت سا اطمینان بھی انسان حاصل کر لیتا ہے لیکن پھر بھی درمیان میں ایک پردہ حائل ہوتا ہے جو بعض دفعہ ہمارے قُرب کو بعد میں تبدیل کر دیتا ہے پس حقیقی خوشی ہمیں اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس پردہ کو بھی دور نہ کیا جائے.اس ایڈریس میں مظفر احمد سَلَّمَهُ رَبُّۂ کی آمد اور اس کی کامیابی کا بھی ذکر کیا گیا ہے.میں اس موقع پر انہیں ان کے ہی ایک قول کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا پہلے وہ زبانی تھا اور اب اس پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے.مظفر احمد جب آئی سی.ایس میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ نوکری انہیں پسند نہیں تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہیں مگر انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم یہ نہیں کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر بزدلی سے ایک طرف ہو جائیں ہم دنیا میں جس غرض کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس کے لئے بحیثیت جماعت ہم پر فرض ہے کہ ہم دنیوی طور پر بھی سلسلہ کے اصولوں کی خوبیاں ثابت کریں اور اگر ہم دنیا کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں تو پھر ہم اپنے اصولوں کی خوبیاں ثابت نہیں کر سکتے.پس ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس رنگ میں بھی دنیا میں اپنے اصول کی خوبیاں ثابت کریں.ملازمت کرنا کوئی معیوب امر نہیں بلکہ اگر کوئی شخص بلا وجہ ملا زمت کو ترک کر دیتا ہے تو ایسے آدمی کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں کہلا سکتی.البتہ وہ شخص جسے سچ بولنے کی عادت ہوا اور اُس کا طریق کار انصاف پر مبنی ہو ، اگر اُس سے ظلم کروانے اور جھوٹ بلوانے کی کوشش کی جائے اور ایسا شخص نوکری چھوڑ دے تو اس کی قربانی حقیقی قربانی ہوگی کیونکہ اُس نے تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمت کو ترک کیا ہے.ایک اور بات یہ بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جب کسی کو کوئی اعلیٰ ملازمت ملتی ہے تو اُس میں ایک قسم کا کبر پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.ترقی ملنے سے بعض لوگوں میں کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غریبوں سے ملنا عار سمجھنے لگ جاتے ہیں ایسے لوگ در حقیقت انسانیت سے بھی جاتے رہتے ہیں.پس پہلی ذمہ داری جو اِن پر عائد ہوتی ہے وہ احمدیت کی ہے.احمدیت کا کام ساری دنیا

Page 200

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب میں انصاف قائم کرنا ہے اور پھر ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار ہے اس لئے ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے.تم جب ایک احمدی سے ملو تو تمہیں ایسی ہی خوشی حاصل ہو جیسے اپنے بھائی سے ملتے وقت ہوتی ہے لیکن چونکہ بعض ادنی درجہ کے لوگ اخلاق فاضلہ کو چھوڑ کرنا جائز فائدہ کے حصول کی بھی کوشش کیا کرتے ہیں اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو ملحوظ رکھو اور انصاف سے کام لو اور ایسی سفارشوں سے اپنے کانوں کو بہرہ رکھو.ایک اور بات ان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہر قوم اپنے ماحول میں ترقی کرتی ہے دوسروں کے ماحول میں ترقی نہیں کر سکتی جو شخص دوسروں کے ماحول کو لے کر ترقی کرتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے.حال ہی میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا آدمی چل بسا ہے.یعنی کمال اتاترک اس شخص نے اپنے وطن اور قوم کے لئے بڑی خدمات کی تھیں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو اس کی قربانیوں کو عظمت اور احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہومگر ایک خطرناک غلطی اس سے یہ ہوئی کہ اس نے اپنی قوم میں مغربیت کا اثر قائم کر دیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس نے ترکوں کو جسمانی آزادی دلا دی مگر ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے ترکوں کو ذہنی غلام بھی بنا دیا ہمیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے.ہم جن مقاصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مقصد مغربی تمدن کو کچلنا بھی ہے.مغربی تمدن اس وقت دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ہمیں اس سے کسی صورت میں بھی متاثر نہیں ہونا چاہئے.پھر مغربی تمدن بھی ایک نہیں.فرانس کا تمدن جدا ہے، جرمنی کا تمدن الگ ہے ، انگریزوں کا تمدن اور ہے.فرانس والے چُپ رہنا پسند نہیں کرتے اور انگریز بات کرنا پسند نہیں کرتے.میرے اپنے سفر کا ہی واقعہ ہے کہ جب میں روم سے سوار ہوا تو میرے ساتھ ایک یونانی تاجر بھی سوار تھا وہ کپڑوں کا تاجر تھا اور مدت سے انگلستان میں رہتا تھا اس لئے اس کا تمدن اور بود و باش بالکل انگریزوں کی طرح تھی.ایک اور شخص فرانس کا رہنے والا تھا وہ ہمارے ساتھ ہی سوار ہوا.اُن دنوں جب میں واپس آ رہا تھا تو انگریزی اخباروں میں میری تصویریں بپ جایا کرتی تھیں اور میرے گزرنے کے پروگرام شائع ہو جاتے تھے.جب ہم ایک اسٹیشن پر پہنچے تو چند مستورات ہمارے کمرے میں داخل ہوئیں.وہاں بڑے آدمی کو پرنس یعنی شہزادہ کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں تھا.ان مستورات نے مجھ سے پوچھا کہ پرنس جو ہندوستان سے آیا ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے انہیں کہا مجھے تو علم نہیں.وہ عورتیں چلی گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئیں اور کہنے لگیں آپ نے ہم سے دھوکا کیا ہے آپ ہی تو پرنس ہیں.میں نے انہیں کہا

Page 201

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب کہ مجھے تو اس کا علم نہیں تھا.انہوں نے اخباروں میں مجھے میری تصاویر دکھائیں جن کے نیچے پرنس لکھا ہوا تھا.ان مستورات نے میرا لباس دیکھ کر ہنسنا شروع کیا تو وہ انگریز جو اصل میں تو یونانی تھا اور لمبے عرصہ سے انگلستان میں رہنے کی وجہ سے انگریزی تمدن اختیار کر چکا تھا اُس کے منہ سے غصہ کی وجہ سے جھاگ نکلنے لگ گئی اور کہنے لگا کہ یہ لوگ کس قدر نالائق ہیں ان کو بات کرنی نہیں آتی.وہ غصہ میں اس قدر بڑھ گیا کہ قریب تھا کہ وہ اُن سے لڑ پڑتا.میں نے فرانسیسی کو جو میرے پاس ہی بیٹھا تھا کہا کہ اس کو سمجھائیں کہ یہ مجھے دیکھنے آئی ہیں نہ کہ تمہیں تمہیں کیوں اس قدر غصہ آتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد اس فرانسیسی نے دو لفافے جن میں میوہ تھا نکالے اور کہا کہ کھائیے.اُس نے بہت اصرار کیا کہ ضرور کھاؤ.وہ انگریز پھر لال سُرخ ہو گیا کہ یہ کس قدر بد تہذیب ہے ایک تو واقف نہیں دوسرے بے وقت چیز کھاتا ہے.اسی طرح امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا تمدن علیحدہ علیحدہ ہے.ہمارا تمدن اسلامی تمدن ہے اور وہی حقیقی تمدن ہے جسے رائج کرنا چاہئے.پھر میں ناصر احمد اور مبارک احمد کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے لئے ملازمت کرنے کے بغیر ہی دین کی خدمت کرنے کے مواقع موجود ہیں.انہیں ان مواقع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور سب سے پہلی بات جو ان کو یا درکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا رتبہ احمدی ہونے کا ہے.وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لوٹ لی ہے اور وہ لوگ بھی جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نواب زادے ہیں یہ دونوں قسم کے لوگ جھوٹے ہیں ہم نے کبھی کسی کا روپیہ نہیں کھایا اور نہ ہی ہم نواب زادے ہیں.پس تم احمدی ہونے کے سوا کسی اور وجہ سے کسی قسم کی فضیلت دوسروں پر نہیں رکھتے.جو دوسروں کا مارا ہوا شکار کھاتا ہے وہ معزز نہیں ہوتا.میرے کسی فعل کی وجہ سے یا جو عزت اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے اس کی وجہ سے صرف تمدنی طور پر تمہیں فائدہ ہوسکتا ہے ورنہ حقیقی طور پر اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں.یہ چیزیں حقیقی طور پر صرف میری ذات سے وابستہ ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے حقیقی طور پر عزت حاصل نہیں.وہ عزت تو تب ہوتی اگر میں اُن کی ماموریت میں شریک ہوتا اور میں اُن کی ماموریت میں شریک نہیں اور نہ کوئی شریک ہو سکتا ہے البتہ تمدنی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں.

Page 202

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب پس لوگوں کے اندر اپنے متعلق جذبہ محبت پیدا کرنے کیلئے تم اپنے اندر کمال پیدا کرو.میرے اندر کوئی کمال ہے تو اس سے حقیقی طور پر تم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے وہ چیز تو طفیلی ہے.ایک شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کرتا ہے ہماری بھی عزت کرے گا یا میری خلافت کی وجہ سے جن لوگوں میں جذبہ محبت پایا جاتا ہے وہ تم سے میری اولاد ہونے کی وجہ سے محبت کریں گے مگر یہ محبت اور یہ عزت طفیلی چیز ہے.یہ محبت اور عزت تو ایسی ہی ہے جیسے کسی بڑے افسر کے چپڑاسی کی عزت کی جاتی ہے.اس کا علم ان لوگوں کو ہوتا ہے جو افسروں سے ملتے ہیں.بڑے بڑے نواب افسروں کو ملنے جاتے ہیں تو چپڑ اسی بہت بُری طرح ان سے پیش آتے ہیں حالانکہ ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہوتی اور خصوصاً چھوٹے افسروں کو تو وہ بہت ذلیل کرتے ہیں.جب کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ماتحت افسر ملنے آتے ہیں تو چپڑاسی انہیں تنگ کرتے ہیں اور بعض دفعہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں صاحب کام کر رہے ہیں یا سور ہے ہیں اُس وقت ایک چپڑاسی بھی حکومت جتارہا ہوتا ہے مگر تم جانتے ہو کہ وہ کس قدر حقیر بات کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کو کس قدر ذلیل سمجھ رہے ہوتے ہیں.پس ایسی عزت بھی جو دماغ پر بُرا اثر ڈالے کوئی عزت نہیں بلکہ لوگ ایسے شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.پس جیسے کسی بڑے افسر کے چپڑاسی کے خلاف جذبہ تنفر پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر تم نے بھی اپنے اندر کوئی کمال داخل نہ کیا تو تم بھی اسی جذبہ کے قابل ہو گے.ہم دنیوی لحاظ سے ایک معمولی زمیندار ہیں ہماری اس سے زیادہ حیثیت نہیں.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لوٹ لی ہے وہ جھوٹے اور فریبی ہیں جس چیز نے ہمیں روپیہ دیا ہے وہ احمدیت ہے.احمدیت سے قبل ہماری زمینوں کی موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے کوئی قیمت نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تو آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق یہاں کی آبادی بڑھی اور زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہوگئیں.باہر جن زمینوں کی سو دو سو روپیہ قیمت ہے یہاں اُس کی قیمت ہزار دو ہزار ہے اور اگر یہ زمینیں مہنگی نہ ہو تیں تو تم تینوں اس قدر تعلیم بھی حاصل نہ کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت قادیان کی آبادی بڑھی، زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہوئیں تو تم اس قابل ہو گئے کہ اس قدر اعلیٰ تعلیم حاصل کرو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب میں ہمارا خاندان بہت معزز تھا اس کا اقرار غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کو بھی ہے.پرنس آف ویلز جب ہندوستان آئے تو میں بھی انہیں ملنے

Page 203

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب گیا تھا.جب ملاقات کا وقت آیا تو میں نے اپنی سوئی نیچے رکھنی چاہی اس پر ایک سکھ نے جسے راجہ کا خطاب ملا ہوا تھا مجھے کہا کہ آپ بڑے آدمی ہیں اور پنجاب کے معزز خاندان سے ہیں آپ سوئی نہ رکھیں کیا ہوا اگر وہ شہزادہ ویلز ہے.تو پنجاب میں کوئی بھی پرانا اور معزز خاندان ہمارے خاندان کی طرح نہیں مگر روپیہ ہمارے پاس نہیں.پہلے ہمیں سکھوں نے گوٹا ، پھر انگریزوں نے لوٹا ، ان دونوٹوں کی وجہ سے ہماری دنیوی حیثیت کم ہو گئی اور ایک معمولی زمیندار کی حیثیت پر آگئے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف نہ لاتے تو ہماری ایک زمیندار سے زیادہ عزت نہ ہوتی.پھر زمیندار بھی ایسا جس کی زمینیں نہری نہیں ہیں.پس ان زمینوں کی قیمتیں صرف احمدیت کی وجہ سے بڑھیں اس کے بعد تم اس قابل ہوئے کہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکو اس لئے تم کسی احمدی کے ممنونِ احسان نہیں مگر احمدیت کے ضرور ممنونِ احسان ہو.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ تمہاری گردنیں کسی انسان کے سامنے نہیں جھک سکتیں مگر تمہیں یہ بات ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ یہ سب کچھ تمہیں احمدیت کی وجہ سے ملا ہے.ایک اور بات جو یا درکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ غرباء سے ملتے رہنا چاہئے.ہماری جماعت کا بڑا حصہ چونکہ غرباء پرمشتمل ہے اس لئے ان سے ملنا ضروری ہے اگر تم ان میں مل کر رہو اور ان کی تربیت کا کام کرو تو تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو.ایاز ایک مشہور جرنیل محمود غزنوی کا تھا لوگوں نے محمود کے پاس اُس کی شکایتیں کیں.ایاز ایک غلام تھا مگر اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے جرنیل ہو گیا حتی کہ وہ فنانس منسٹر (وزیر خزانہ ) ہو گیا.لوگوں کو کچھ حسد تھا اس لئے انہوں نے محمود کے پاس شکایتیں کیں کہ وہ رات کو ہمیشہ اکیلا خزانے میں جاتا ہے اور قیمتی اشیاء وہاں سے چرا لیتا ہے.یہ شکایتیں محمود کے پاس اس کثرت سے پہنچیں کہ اُسے ایاز پر بدظنی ہوگئی.ایک دن بادشاہ رات کے وقت خزانہ میں داخل ہو گیا اور باہر سے تالا لگوادیا اور ایک پوشیدہ جگہ پر چھپ کر بیٹھ گیا.اس کے بعد ایاز آیا اور اندر داخل ہو گیا.بادشاہ کی بدظنی اور بھی بڑھ گئی اور سمجھا کہ لوگوں کی شکایتیں صحیح ہیں مگر اس نے اپنے دل میں کہا کہ ابھی دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا کرتا ہے.ایاز نے ایک کنجی لی اور اس سے ایک ٹرنک کھولا ، پھر اس میں سے ایک اور صند و نچی نکالی اور اسے کھولا اور اس میں سے ایک بغچہ نکالا جس کے اندر ایک پھٹی ہوئی گدڑی تھی ، ایاز نے اپنا شاہی لباس اُتارا اور وہ گدڑی پہن لی.اس کے بعد اس نے مصلی بچھایا اور نماز پڑھنی شروع کر دی اور اس نے نماز میں روروکر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ

Page 204

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب اے خدا! میں اس گدڑی میں اس شہر میں داخل ہوا تھا اور آج تو نے اپنے فضل سے مجھے وزارت کا عہدہ عطا فرمایا ہے اور اتنی عزت دی ہے کہ اس جگہ پر آنے سے مجھے محمود غزنوی کے سوا اور کوئی نہیں روک سکتا.میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے فضل سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور اے خدا ! تو مجھے اس بات کی بھی توفیق عطا فرما کہ جس بادشاہ نے مجھ پر اتنا رحم کیا ہے اُس کی دیانتداری سے خدمت کروں.محمود نے جب ایاز کی یہ دعاسنی تو اس کے پاؤں سوسو من کے ہو گئے اور اُس نے دل میں کہا کہ میں نے کتنے قیمتی جو ہر پر بدظنی کی ہے.ایاز نماز پڑھ کر اور گدڑی کو پھر اسی جگہ رکھ کر اور اپنا لباس پہن کر چلا گیا بعدازاں محمود وہاں سے اُٹھا اور واپس آیا اور اس نے پہرہ داروں کو کہا کہ خبردار میرے آنے کا ایاز کو علم نہ ہو مگر اس تمام تر خدمت کے باوجود ایاز غلام ہی کہلاتا ہے.اس کے مقابلہ میں تم اپنے آپ کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی بندے کا غلام ہونے سے بچا کر صرف اپنی غلامی بخشی.یہ کتنا بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کا.اس کے بعد بھی اگر تم اپنے رب کو کوئی الگ وجود سمجھو تو تم سے زیادہ احمق اور جاہل کوئی نہیں ہو گا ہماری سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ سے ہیں اور کوئی امتیاز ہم میں نہیں بعض کاموں کی مجبوریوں کے لحاظ سے ایک افسر بنادیا جاتا ہے اور دوسرا ماتحت ور نہ حقیقی امتیاز ہم میں کوئی نہیں.حقیقی بڑائی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے خاندان کی وجہ سے نہیں.ہمارا خاندان دہلی کے شاہی خاندان سے بڑا نہیں گو ہم انہی میں سے ہی ہیں مگر وہ بہر حال بادشاہ تھے اور بادشاہ رُتبہ میں بڑے ہوتے ہیں مگر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دہلی کے شہزادے بازاروں میں لوگوں کو حقہ پلاتے پھرتے ہیں اور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ مرجانے کی صورت میں ان کے لئے کفن بھی مہیا نہیں ہوتا.ان کے ہمسائے گورنمنٹ کو لکھ دیتے ہیں کہ یہ فلاں بادشاہ کا پوتا بغیر کفن کے مرا پڑا ہے اس کیلئے کفن دیا جائے اور گورنمنٹ اس کیلئے کفن مہیا کر دیتی ہے.یہ بڑائیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور جب وہ چاہتا ہے چھین بھی لیتا ہے.پس عزت کا جو چوغہ تم پہنو وہ دوسروں سے مانگا ہوا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہوا چوغہ ہے تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو.وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لِبَاسُ التَّقْوى ذلك خير تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے.غرض تم احمدیت کے خادم بنو پھر اللہ تعالی کی نظروں میں بھی تم معزز ہو گے اور دنیا بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے گی.کہتے ہیں

Page 205

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب ایک احمق اپنے باپ سے لڑ پڑا باپ نے اس کو زجر کیا.بیٹے نے آگے سے کہا تم ایک غریب کے بیٹے ہو اور میں ایک نواب کا بیٹا ہوں حالانکہ اس کو وہ عزت اپنے باپ کی وجہ سے ہی ملی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو رتبہ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے اگر ہم صرف اسی کو اپنی عزت سمجھ لیں تو یہ عزت ہماری مانگی ہوئی ہوگی.حقیقی عزت تبھی ہوگی جب ہم اس میں اپنا کمال بھی ملا لیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کیلئے خالص چاندی کی انگوٹھی پہنا جائز نہیں کے لیکن اگر اس میں کوئی اور چیز ملالی جائے تو پھر اس کا پہننا جائز ہو جاتا ہے.اس طرح باپ دادے کی عزت حقیقی عزت نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں اپنا پیتل بھی شامل نہ کر لیا جائے.اسی طرح خالص ریشم پہننا بھی جائز نہیں مگر وہ ریشمی کپڑا جس میں ایک تارسُوت کا بھی ہو اس کا پہننا جائز ہو جاتا ہے تو باپ دادے کی عزت کو اپنی طرف منسوب کرنا حقیقی عزت نہیں جب تک اس میں انسان اپنا کمال بھی داخل نہ کرے.اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر سے وہ آواز اٹھائی جس کے سننے کیلئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کے کان ترس رہے تھے اور وہ فرشتے نازل ہوئے جن کے نزول کیلئے جیلانی ،غزالی اور ابن العربی کے دل للچاتے رہے مگر ان پر نازل نہ ہوئے گو بے شک یہ بہت بڑی عزت ہے مگر اس کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ایک طفیلی چیز ہے.دنیا کے بادشاہوں کی اولا داپنے باپ دادوں کی عزتوں کو اپنی عزت کہتے ہیں حالانکہ دراصل وہ ان کیلئے عزت نہیں ہوتی بلکہ لعنت ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون لوگ زیادہ اشرف ہیں؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو تمہارے اندرا شرف ہیں بشرطیکہ ان میں تقویٰ ہوتے تو رسول کریم ﷺ نے بھی پہلی قسم کی عزت کو تسلیم فرمایا ہے مگر حقیقی عزت وہی تسلیم فرمائی ہے جس میں ذاتی جو ہر بھی مل جائے.پس تم اپنے اندر ذاتی جو ہر پیدا کرو.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا خیال رکھو ، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں ، امتیاز خدمت کرنے میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدمت کی اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا.تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کرے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں منه از بهر ماکرسی که ماموریم خدمت را

Page 206

انوار العلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب یعنی میرے لئے گرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کیلئے پیدا کیا گیا ہوں اسی طرح تم بھی گرسیوں پر بیٹھنے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کا نٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو.خود تقوی حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر ان کو فائدہ پہنچاؤ اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ ان کو بھی سکھاؤ.مل کر میں نے اس لئے کہا ہے کہ انگریز بھی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانیوں کو پڑھاتے ہیں.مجھے کئی دفعہ ان سے ملنے کا موقع ملا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ تم لوگ ہم میں مل کر نہیں پڑھاتے بلکہ اپنے آپ کو کوئی باہر کی چیز خیال کر کے ہماری تربیت کرتے ہو اس لئے اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا.پس میں تم کو مل کر تربیت کرنے کیلئے کہتا ہوں.جماعت میں بعض کمزور دوست بھی ہوتے ہیں ان میں اسلام کی حقیقی روح کا پیدا کرنا بہت ہی ضروری کام ہے.جماعت کو علوم دینیہ سے واقف کرنا ،عرفانِ الہی کی منازل آگاہ کرنا ، خدمت خلق، محبت الہی اور اسلام کی حکمتوں کا بیان کرنا بہت بڑا کام ہے.اسی طرح جماعت میں ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا بھی ایک ضروری کام ہے.یہ ایسے کام ہیں جن سے تم لوگوں کی نظروں میں معتزز ہو جاؤ گے.جماعت میں کئی آدمی اخلاق کے لحاظ سے کمزور ہیں ان کو اخلاق کی درستی کی تعلیم دو، اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جو تحریک جماعت میں ہوتی ہے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو، بعض لوگ رسم و رواج میں مبتلاء ہوتے ہیں ان کو ان رسوم سے چھڑانے کی کوشش کرو بے شک اس کام کو سرانجام دینے میں بڑی مشکلات ہیں جیسے نئے بچھیرے پر زین باندھا جاتا ہے تو وہ بھاگتا ہے گو دتا ہے اس لئے کہ اس کو عادت نہیں ہوتی حالانکہ اس پر زین باندھنا اس کی خوبصورتی اور قیمت کو زیادہ کرنے کیلئے ہوتا ہے مگر چونکہ وہ اس کو سمجھتا نہیں اس لئے بھاگتا ہے لیکن جب وہ عادی ہو جاتا ہے تو وہی گھوڑا جو سو دوسو کا ہوتا ہے بعد میں پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ دو لاکھ تک اس کی قیمت پہنچ جاتی ہے.ہماری جماعت کے جولوگ رسم ورواج کے مرض میں گرفتار ہیں ان کو اس سے آزاد کرنا بالکل ایسا ہی ہے.پس تم پر بڑی ذمہ واریاں ہیں جن کو پورا کرنے سے تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو مگر یہ عزت حاصل کرنا اس وجہ سے نہیں کہ تم میری اولاد ہو اور نہ اس وجہ سے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جسمانی تعلق کے علاوہ رسول کریم ﷺ جو آپ کے آقا ہیں ان سے بھی جسمانی تعلق کسی کی حقیقی عزت نہیں

Page 207

انوارالعلوم جلد ۱۵ احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب کہلا سکتا.میں بچہ تھا کہ ہمارے گھر ایک عورت آئی اس نے پانی مانگا.اس کو حضرت (اماں جان ) نے پانی دیا.اس نے کہا کہ تم جانتی نہیں میں سیدانی ہوں اور آل رسول ہوں مجھے تم امتیوں کے گلاس میں پانی پلاتی ہو.میں نے جب اس کے منہ سے یہ بات سنی تو میرے دل میں اس کے متعلق عزت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا بلکہ مجھے اس سے شدید نفرت پیدا ہوئی.پس تم رسول کریم کے ساتھ بھی جسمانی تعلق کی وجہ سے حقیقی عزت حاصل نہیں کر سکتے ہاں یہ طفیلی عزت ضرور ہے.حقیقی عزت اس وقت ہوتی ہے جب اس میں اپنا کمال بھی داخل کیا جائے.پس تم حقیقی عزت حاصل کرنے کی کوشش کر و جماعت کی خدمت کرو اگر تم اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم دوہرے اجر کے مستحق ہو گے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دین کو قبول کر لوتو تم کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر اعراض کرو گے اور اس دین کو رڈ کر دو گے تو پھر عذاب بھی دوہرا ہے.پس تمہارا تعلیم کے بعد واپس آنا تم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے تم لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سچائی کی تلقین کرو اور جماعت سے جہالت دور کرو اور اپنے فرائض کی طرف جلد سے جلد توجہ کرو.میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا صرف خدا کا رحم ہی ہے جو میرے کام بھی آ سکتا ہے اور تمہارے کام بھی آ سکتا ہے.( الفضل ۷ تا ۹ را پریل ۱۹۶۱ ء ) ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى الشكر لِمَنُ احسن الیک بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم البقرة : ۱۴۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء بغچه : چھوٹی گھڑی الاعراف: ۲۷ ترمذی ابواب اللباس باب ماجاء في الحرير (الخ) بخاری کتاب المناقب باب قول الله تعالى يايها النّاس انا خلقنكم.

Page 208

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عائم ورامنِ از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 209

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عائم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم ( تقریر فرموده ۱۱ / دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع جلسه سیرۃ النبی بمقام قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ایک ایسا وجود ہے جو دنیا کی نظروں کو آپ ہی آپ اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے.دنیا میں لوگوں کی توجہ کو کھینچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.لوگ اس کام کے لئے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں مگر پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں.بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید دولت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے گی اور وہ دولتوں کے انبار لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی دنیا کی توجہ اُن کی طرف نہیں کھنچتی.زیادہ سے زیادہ چند چوروں، ڈاکوؤں ، حریصوں اور لالچیوں کی نگاہیں اُن کی طرف اُٹھ جاتی ہیں، چند خوشامدی ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر وہ جن کی رائے کوئی وقعت رکھتی ہے ان کی طرف سے بالکل غافل اور لاپر واہ رہتے ہیں.پھر بعض لوگ عجیب قسم کے دعوے کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید اس وجہ سے لوگ ان کی طرف توجہ کریں مگر اول تو لوگ ان کی بات سنتے ہی نہیں اور اگر سُنیں تو پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی خاص توجہ ان کی طرف نہیں کرتے.پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے دعووں سے شاید لوگوں کی توجہ وہ اپنی طرف کھینچ سکیں گے چنانچہ وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.رسول تو دنیا میں بہت گزرے ہیں مگر چونکہ اپنے زمانہ میں رسول بھی ایک بہت بڑی ہستی ہوتا ہے اس لئے وہ رسالت کا دعوی کر دیتے ہیں اور جب اس طرح بھی کام نہیں چلتا تو خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں مگر پھر بھی دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی.مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے جو آجکل کے مدعیان میں سے ہے خط لکھا جس میں اُس نے مجھے بہت کچھ کو سا اور کہا کہ میں یہ نہیں کہتا آپ میرے دعوے کی تصدیق کریں ، میں یہ بھی نہیں

Page 210

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم چاہتا کہ آپ میری تعریف کریں مگر یہ کیا ہے کہ میں متواتر اشتہار شائع کر رہا ہوں اور آپ اس کی تردید بھی نہیں کرتے.میں نے اُسے جواب دیا کہ لوگوں میں تردید کرنے کی رُوح کا پیدا ہو جانا بھی خدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے جو آپ کو میتر نہیں.مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ دنیا خواہ مخالفت کرے خواہ موافقت ، بہر حال وہ آپ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور رہی ہے اور مجبور ہے.جو مخالفت کرنے والے ہیں وہ تو مخالفانہ جذبات سے پر ہی ہیں مگر جن کے دلوں میں محبت ہے وہ اس رنگ کی محبت ہے کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُن کے کانوں میں پڑتا ہے اُن کے دلوں میں عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر کوئی تلاطم پیدا ہو گیا ہے اس تلاطم کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے.صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور آپ کو پہچانا مگر دیکھنے سے میری مراد صرف جسمانی طور پر دیکھنا نہیں بلکہ میری مُراد ان لوگوں سے ہے جنہوں نے عقل کی آنکھوں سے آپ کو دیکھا اور عرفان کی آنکھ سے آپ کو پہچانا جب کبھی وہ رسول کریم ﷺ کا نام سنیں یا جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کے پاس سے گزریں اُس وقت ان کی کیفیت بالکل اور ہو جاتی ہے ނ اور وہ یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ مادی دنیا سے جُدا ہوکر ایک اور عالم میں آگئے ہیں.دو سال کے قریب کی بات ہے میں کراچی گیا تو وہاں ایک دن کچھ ایسی ہوا چلی جو عرب کی طرف سے آ رہی تھی معاً اس ہوا نے میرے دل میں ایک حرکت پیدا کر دی اور میں نے کہا یہ ہوا اُدھر سے آ رہی ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے.پھر میں انہی خیالات میں محو ہو گیا اور اُس وقت آپ ہی آپ ایک دو شعر میری زبان پر جاری ہو گئے جن کو اُسی وقت میں نے لکھ لیا.ان اشعار میں سادہ الفاظ میں اپنے جذبات کا میں نے اظہار کیا ہے، شاعرانہ تعلیاں نہیں.بعد میں چونکہ میں اور کاموں میں مصروف ہو گیا اس لئے میں نے جس قد راشعار کہے تھے اسی قدر ر ہے اور اُن میں اضافہ نہ ہو سکا.بہر حال جب وہ ہوا آئی تو میں نے کہا.سمندر ہوائیں آ رہی ہیں مرے دل کو بہت عرب جو گرما رہی ہیں ہے مرے دلبر کا مسکن ہوئے خوش اُس کی لے کر آ رہی ہیں

Page 211

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم بشارت دینے سب خورد و کلاں کو اُچھلتی کودتی وہ جا رہی ہیں حقیقت یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کے قلوب میں محبت نے ایک ایسا پلٹا کھایا ہے کہ وہ پہلی محبتیں جو دلوں میں پائی جاتی تھیں، اُن کا نقشہ ہی بدل گیا ہے.محبت کا مادہ ایک فطرتی مادہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب میں اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ بندے کو اپنے رب کی طرف توجہ دلائے.جب تک اصل چیز نہیں ملتی انسان درمیانی چیزوں سے اس جذ بہ کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں دیکھا کہ ایک عورت بہت ہی اضطراب اور اضطرار کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہی ہے وہ جہاں کوئی بچہ دیکھتی اُسے اُٹھاتی ، سینہ سے لگاتی اور پھر دیوانہ وار تلاش میں مصروف ہو جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نگاہ اُٹھائی اور آپ اُسے دیکھتے رہے جہاں اسے کوئی بچہ نظر آتا وہ اسے اٹھاتی ، سینہ سے لگاتی اور پھر آگے کی طرف چل دیتی یہاں تک کہ اُسے ایک بچہ نظر آیا جسے اُس نے سینہ سے لگایا اور پھر وہ اسے سینہ سے چمٹائے اس میدانِ جنگ میں ایسے اطمینان سے بیٹھ گئی کہ اُسے خیال ہی نہ رہا کہ یہاں جنگ ہورہی ہے.وہ دنیا وَ مَا فِیھا سے بے خبر اپنے بچہ کو گود میں لئے میدانِ جنگ میں بیٹھی رہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا جب تک اسے اپنا بچہ نہیں ملا تھا یہ اس کی یاد میں ہر بچہ کو اٹھاتی ، اسے پیار کرتی اور اپنے سینہ سے چمٹاتی مگر اسے تسکین نہیں ہوتی تھی لیکن جب اسے اپنا بچہل گیا تو اس نے اسے اپنے سینہ سے لگا لیا اور یوں بیٹھ گئی کہ دنیا وَ مَافِیهَا کی اسے کوئی خبر نہ رہی پھر آپ نے فرمایا جس طرح اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے خوشی ہوئی ہے ایسی ہی خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا کوئی گنہگار بندہ تو بہ کر کے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے اے اس مثال سے جہاں اور کئی قسم کے سبق ملتے ہیں وہاں ایک سبق اس سے یہ بھی ملتا ہے کہ جب تک حقیقی محبوب نہیں ملتا انسان عارضی طور پر دوسرے محبوبوں سے دل لگا کر اپنے دل کی جلن دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح اللہ اور اُس کے رسول کی محبت کا جذ بہ جو حقیقی ہے جب تک پیدا نہیں ہوتا انسان دوسری محبتوں سے اپنے دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اسے حقیقی محبوب جو خدا ہے مل جاتا ہے تو اُس وقت وہ سمجھتا ہے کہ جس چیز کا نام لوگوں نے عشق مجاز رکھا ہوا ہے وہ بالکل بے حقیقت ہے.ایک دفعہ اس خیال کے ماتحت میں نے ایک شعر اس کے

Page 212

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عائم متعلق بھی کہا جو یہ ہے کہ:.نظر آ رہی ہے چمک وہ حسنِ ازل کی شمع مجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشق مجاز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے اندر خدائی نورد یکھنے کے بعد دنیا کی محبتیں ایسی سرد ہوگئی ہیں کہ ان میں کوئی لطف نہیں رہا جب تک محبوب حقیقی کا جلوہ نظر نہیں آیا تھا دنیا عشق مجازی سے تسلی پاتی تھی مگر جب محبوب حقیقی کا چہرہ اُس نے دیکھ لیا تو مجازی محبوب اس کی نگاہ میں حقیر ہو گئے.یہی وہ نکتہ ہے جس کو ایک بزرگ صحابی نے نہایت ہی لطیف پیرا یہ میں بیان کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شعروں کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ انہوں نے تمام گورنروں کے نام پٹھی لکھی کہ عرب کے جس قدر مشہور شعراء ہیں اُن سے کہو کہ وہ اپنا تازہ کلام مجھے بھجوائیں.ایک گورنر کو جب یہ چٹھی پہنچی تو اُس نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ یہاں کون کون سے بڑے شاعر ہیں.ان لوگوں نے دو شاعروں کے نام بتائے جن میں ایک سبعہ معلقات کے شعراء میں سے تھے.اس گورنر نے ان دونوں شاعروں کو لکھا کہ حضرت عمرؓ نے آپ لوگوں کا تازہ کلام منگوایا ہے کچھ اشعار کہ کر بھیج دو.اس پر دوسرے شاعر نے تو ایک تازہ نظم بنا کر بھیج دی، مگر یہ شاعر جن کا نام لبید تھا اور جو عرب کے بہترین شاعروں میں سے تھے ، اُن شاعروں میں سے کہ جب وہ مکہ میں آتے تو علماء و ادباء کا ہجوم اُن کے گرد ہو جاتا اور سب انہیں باپ کی سی حیثیت دیتے انہوں نے جواب میں لکھا کہ میرا قصیدہ تو یہ ہے.الم ذلِكَ الْكِتَبُ لا ريب فيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوة وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ! گورنر کو اُن کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لکھا کہ میں نے حضرت عمرؓ کا آپ کو پیغام بھجوایا ہے یہ میرا پیغام نہیں ، آپ ضرور اپنا تازہ کلام مجھے بھیجیں تا میں حضرت عمرؓ کو بھجوا دوں.انہوں نے پھر لکھا کہ تازہ کلام یہی ہے.الم ذلك الْكِتَبُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى للمتقين الذين يُؤْمِنُونَ بِالغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوة وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنفقون اس پر گورنر نے اُن کو سزا دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ ایک شاعر نے تو چند شعر بھجوائے ہیں جو میں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں مگر لبید نے آپ کے پیغام کے جواب

Page 213

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عائم میں قرآن کریم کی چند ابتدائی آیات لکھ کر بھجوا دی تھیں جس پر میں نے انہیں مجرمانہ کیا ہے اور ان کا وظیفہ بند کر دیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گورنر پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا لبید نے تو ہم کو سبق دیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد شعر و شاعری سب ختم ہوگئی اور اب جو کچھ ہے قرآن ہی ہے مگر تم نے بجائے انہیں کوئی انعام دینے کے الٹا ان کا وظیفہ بند کر دیا ہم حکم دیتے ہیں کہ ان کا وظیفہ دُگنا کر دیا جائے.کے حقیقت یہی ہے کہ جو کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کے آنے کے بعد دنیا کی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیمی لحاظ سے وہ کلام ہو گیا جو آپ لائے اور نمونہ کے لحاظ سے آپ کی ذات ہوگئی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ دنیا کے لئے اُسوہ تھے اور آپ کے وجود ہی کو دنیا اپنے آگے رکھ کر چل سکتی تھی.اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہ تھا.یہ مضمون جو اس وقت میرے سامنے ہے اتنے پہلوؤں پر مشتمل ہے کہ کسی ایک تقریر یا مضمون میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا.یہ ایک سمندر ہے اور اتنا وسیع مضمون ہے کہ کئی سالوں تک اس کے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کی جاسکتی ہیں پس یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی ایسا مضمون بیان کیا جائے جس میں پالاستیعاب تمام باتیں آجائیں ہاں اصولی طور پر چند باتیں بیان کی جاسکتی ہیں اس لئے میں بھی اصولی رنگ میں چند باتیں اس عنوان کے متعلق بیان کر دیتا ہوں.امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ کوشش کرتی چلی آئی ہے.یا تو دنیا بیرونی امن کے لئے جد وجہد کرتی ہے یا جب بیرونی امن کے لئے جد و جہد نہیں کر رہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہو چکی ہوتی ہے تو اندرونی امن کیلئے جد و جہد کرتی ہے چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اور عالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتا ہے کہ اور تو ہمیں سب کچھ میٹر ہے مگر دل کا امن نصیب نہیں.پس امن صرف بیرونی ہی نہیں ہوتا بلکہ دل کا بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اُس وقت تک ظاہری امن کوئی حقیقت نہیں رکھتا.مثلاً اس عورت کی مثال لے لو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر اسے ہر قسم کی دُنیوی نعمتیں میٹر ہوتیں، عالیشان محل میں وہ رہتی ، ہزاروں خادم اُس کے پاس موجود ہوتے ، ہر قسم کے کھانے اس کے اردگرد ہوتے ، عمدہ لباس اُس کے زیب تن ہوتا، دولت کی فراوانی ہوتی ، آرائش کا سامان اُس کے پاس بکثرت ہوتا لیکن فرض کرو اس کا بچہ گمشدہ ہوتا تو وہ کھویا ہوا بچہ اس کے امن کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتا اور دولت کے انبار، آرائش کے سامان ، کھانے پینے کی

Page 214

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم اشیاء کی کثرت ، خدمت گاروں کی موجودگی اور عالیشان محل میں قیام اس کے دل کو ذرا بھی چین نہ دے سکتے.سو ظاہری امن اپنی ذات میں اُس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک باطنی امن اس کے ساتھ نہ ہو.ہمیشہ وہی امن ، امن کہلا سکتا ہے جو ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے امن دینے والا ہو.اس وقت دنیا میں ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ امن کے خواہشمند ہیں لیکن امن ان کو میتر نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مختلف الانواع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو ، اُس وقت تک سب لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں ، ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں ان متضاد خواہشوں اور متضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایسے متضاد اور مخالف خیالات کی موجودگی میں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو جو امن دینے کا ارادہ رکھتی ہو اگر یہ بات نہ ہو تو کبھی امن میتر نہیں آ سکتا.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذرا ادھر اُدھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہو و لہان ہو جاتے ہیں.کسی کے کلے پر زخم ہوتا ہے، کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کی آنکھ سوجی ہوئی ہوتی ہے مگر جب ماں باپ آتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی پو پلی شکلیں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں گویا وہ لڑائی جھگڑے کو جانتے ہی نہیں اس لئے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں.پس در حقیقت امن اُس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جو امن کی متمنی ہو اور جو دوسروں کو امن دینا چاہتی ہو اور ایسے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہو جو امن دینے والے ہوں اور وہی شخص حقیقی امن دینے والا قرار پاسکتا ہے جو اس ہستی کی طرف لوگوں کو بلائے.یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والا بھی ہے.چنانچہ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جو نام گنائے گئے ہیں ان میں سے ایک نام یہ بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الملكُ القُدُّوسُ السّلم سے اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تو لوگوں کو توجہ دلا اُس خدا کی

Page 215

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم طرف جو بادشاہ ہے، پاک ہے اور السلم یعنی دنیا کو امن دینے والا اور تمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے.یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یا فساد کریں، بلکہ وہ امن شکن کو سزا دیتے اور امن قائم رکھنے والے بچے سے پیار کرتے ہیں.اس طرح تمہارے اوپر بھی ایک خدا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں، تمہارے ارادے مختلف ہیں، تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں ، تمہاری خواہشیں مختلف ہیں اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہو کر امن شکن حرکات پر تیار ہو جاتے ہو، مگر یاد رکھو خدا ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتا وہ سلام ہے جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اُس وقت تک وہ اس کا محبوب نہیں ہو سکتا..ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدا نہیں کر دیا کرتی کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کیلئے نہیں ہوتی.چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں دولت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے اچھی چیز ہے اور جب وہ کہتے ہیں صحت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہوتے کہ میرے دشمن کی صحت اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق تو انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ نادار اور کمزور ہو.اسی طرح جب لوگ عزت ورتبہ کے متمنی ہوتے ہیں تو ہر شخص کیلئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے.پس جب دنیا کا یہ حال ہے تو خالی امن کی خواہش بھی فساد کا موجب ہو سکتی ہے کیونکہ جو لوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اور ان کی قوم کو امن حاصل رہے اور نہ دشمن کیلئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹادیں.اب اگر اس اصل کو رائج کر دیا جائے تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہو گا وہ چند لوگوں کا امن ہو گا.ساری دنیا کا نہیں ہوگا اور جو ساری دنیا کا امن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا.حقیقی امن تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ ساری دنیا کیلئے امن چاہتی ہے اور جو میرے ملک کے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے ملکوں کیلئے امن چاہتی ہے اور اگر میں صرف اپنے لئے یا صرف اپنی قوم کیلئے یا صرف اپنے ملک کیلئے امن کا متمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی.جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہو جائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.پس الملكُ الْقُدُّوسُ السّلم کہہ کر رسول كريم

Page 216

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی ارادوں کو پاک وصاف کر دیا اور یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اُس وقت تک کام بھی درست نہیں ہوسکتا.دنیا میں اس وقت جتنے فساد اور لڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں.وہ منہ سے جو باتیں کرتے ہیں ان کے مطابق اُن کی خواہشات نہیں اور ان کی خواہشات کے مطابق اُن کے اقوال و افعال نہیں.آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تو یہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف سے جنگ کی ابتداء ہو تو یہ کوئی بُری بات نہیں سمجھی جاتی اور یہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے.وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارا فائدہ ہے ہم ان باتوں پر عمل کریں گے مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تو اسے رڈ کر دیں گے.پس یہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کو لا سکتا ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن سے رہیں.جب ہمارا یہ عقیدہ ہوگا تو اُس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہونگی بلکہ دنیا کو عام نفع پہنچانے والی ہونگی ، اس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان ، بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ساری دنیا پر اس کا کیا اثر ہے.یوں تو دنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو بر باد کرتی رہتی ہے لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایسا کرنے کی جرات اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر میں نے ایسا کیا تو ایک بالا ہستی مجھے کچل کر رکھ دے گی.جیسے ایک بچہ جب دوسرے کا کھلونا چھین لیتا ہے تو وہ اپنے لئے امن حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کا امن چھینا جاتا ہے اور ایک تو خوش ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا رو رہا ہوتا ہے.ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیں گے؟ وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ جس بچہ نے کھلونا چھینا ہوگا اس سے کھلونا واپس لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جو دوسرے کے امن کو برباد کر کے حاصل کیا جاتا ہے وہ بھی قائم رہنے والا نہیں اور حقیقی امن وہی ہے جو ایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیا ہو.غرض حقیقی امن اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی تسلیم نہ کی جائے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالی امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور اسی نے کہا ہے الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السّلم -

Page 217

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتا ہے کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کا پتہ مل گیا تو انسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان بھی کیا ہے یا نہیں.کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اِس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ بجائے امن کے فساد پیدا کر دیں.پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں رکھ سکتی جب تک ایک بالا ہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جو امن قائم کرنے میں مُمد اور معاون ہوں کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو تو انسان باوجود اس آرزو کے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا.پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تو معلوم ہو لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کا طریق معلوم نہ ہو تب بھی ہمارا امن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اور طریق اختیار کریں اور اس کا منشاء کوئی اور طریق اختیار کرنا ہو.پس ہمارے امن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بالا ہستی ہمیں کوئی ایسا ذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والا ہو سو اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایسا ذریعہ بتایا ہے یا نہیں، تو سورہ بقرہ میں ہمیں اس کا جواب نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وراث جَعَلْنَا البَيْتَ مَتَابَةً لِلنَّاسِ وَآهنا يعنی یہ جو آسمان پر السلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کیلئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جو دنیا کو امن دینے والا ہوتا سو ہم نے بیت اللہ کو مدرسہ بنایا ہے یہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہو نگے اور امن کا سبق سیکھیں گے.پس ہمارے خدا نے صرف خواہش ہی نہیں کی ، صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کرو ور نہ میں تم کو سزا دوں گا بلکہ اس دنیا میں اُس نے امن کا ایک مرکز بھی قائم کر دیا اور وہ خانہ کعبہ ہے.فرماتا ہے.یہاں لوگ آئیں گے اور اس مدرسہ سے امن کا سبق سیکھیں گے.پھر یہ کہ اس مدرسہ کی تعلیم کیا ہوگی ؟ اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان فرما دیا کہ جاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورُو كِتَبٌ مُّبِين يَهْدِي بد الله مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السّلم نے یعنی اے لوگو! تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے تم کو یہ پتہ نہیں تھا کہ تم اپنے خدا کی مرضی کو کس طرح پورا کر سکتے ہو اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنا دیا ہے مگر خالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتا ہیں نہ ہوں.پس

Page 218

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم فرمايا قد جاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُورُةٌ كتب مُّبِين خدا کی طرف سے تمہاری طرف ایک نور آیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور اس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے، ایسی کتاب جو ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے.پس خدا تعالیٰ نے اسلام کیلئے امن کا مدرسہ بھی قائم کر دیا، امن کا کورس بھی مقرر کر دیا اور مدرس امن بھی بھیج دیا.مدرس امن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور امن کا کورس وہ کتاب ہے جو يهدي بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبل السلیم کی مصداق ہے.جو شخص خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس کتاب کو پڑھے اس میں جس قدر سبق ہیں وہ سُبل السلم یعنی سلامتی کے راستے ہیں اور کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں جس پر عمل کر کے انسانی امن بر باد ہو سکے.ایک بالا ہستی کا وجود ہمارے ارادوں کو درست کرتا ہے، مدرسہ کا قیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اس کتاب کی عملی تفسیر ہے ، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہو سکتا ہے.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کس کیلئے ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے قُلِ الْحَمْدُ لله وسلم عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى = یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو کہہ الحمد لله سب تعریف اُس اللہ کیلئے ہے جس نے دنیا میں امن قائم کر دیا اور انسان کی تڑپ اور فکر کو دور کر دیا اور کہو وَسلم عَلى عِبَادِةِ الّذينَ اصْطَفى ، وہ بندے جو خدا تعالیٰ کے پسندیدہ ہو جائیں اور اپنے آپ کو اس کی راہ میں فدا کر دیں اُن کے لئے بھی امن پیدا ہو جائے گا اور وہ بھی با امن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے.یہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ تمام لوگ جو آپ کی اتباع کرنے والے اور آپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہیں ان کیلئے کامل امن ہے اور وہ اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے.پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب خدا سلام ہے تو اس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آنا چاہئے نہ کہ بعض کیلئے کیونکہ اگر خالی اپنوں کیلئے امن ہو تو یہ کوئی کامل امن نہیں کہلا سکتا.اس کا بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتا ہے فرما یا د قلم يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلاء قَوْم لَا يُؤْمِنُونَ فَاصْفَحُ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلْمُ ، فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ 2 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 219

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم ایک ایسی تعلیم لے کر آئے ہیں جو ساروں کیلئے ہی امن کا موجب ہے اور ہر شخص کیلئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے مگر افسوس کہ لوگ اس کو نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اور فساد کرتے ہیں جو ان کیلئے نوید اور خوشخبری ہے.یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ خدایا ! میں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کر آیا تھا مگر ان هَؤُلاء قَوْم لَا يُؤْمِنُون یہ قوم جس کے لئے میں امن کا پیغام لایا تھا یہ تو مجھے بھی امن نہیں دے رہی.امن کے معنی ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور امن کے معنی امن دینے کے بھی ہوتے ہیں.فیلم يُرَبِّ اِنَّ هَؤُلاء قَوْمُ لاَ يُؤْمِنُون میں اسی امر کا ذکر ہے کہ ہمارا نبی ہم سے پکار پکار کر کہتا ہے کہ خدایا! باوجود یکہ میں اپنی قوم کیلئے امن کا پیغام لایا تھا وہ اس کی قدر کرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمر بستہ ہوگئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے.مگر فرمایا قاضف عَنْهُمْ ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابھی ان لوگوں کو تیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لئے وہ غصہ میں آ جاتے اور تیری مخالفت پر کمر بستہ ط رہتے ہیں تو ان سے درگزر کر کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کیلئے ہی بھیجا ہے وقد سلم اور جب تجھ پر یہ حملہ کریں اور تجھے ماریں تو تو یہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں فَسَوْفَ يَعْلَمُون عنقریب دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دنیا کیلئے امن لایا تھا لڑائی نہیں لائے تھے.گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے وہ صرف مؤمنوں کیلئے ہی امن نہ رہا بلکہ سب کیلئے امن ہو گیا.پھر صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی نہیں بلکہ عام مؤمنوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذا خَاطَبَهُمُ الجَهِلُونَ قَالُوا سلمان وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں تو مومن کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہما را بُرا ہی کیوں نہ چا ہو.جب دشمن کہتا ہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کر رہے ہو تو وہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اور بیہودہ باتیں نہیں بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے ہی نہیں بلکہ مؤمنوں کیلئے بھی ہے اور صرف مؤمنوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ہے.پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ سلامتی عارضی ہے یا مستقل؟ کیونکہ یہ تو ہم نے مانا کہ ایک

Page 220

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم السلم خدا سے امن لا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو دیا مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کا مریض جب ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اُسے بڑا آرام محسوس ہوتا ہے مگر دومنٹ کے بعد یکدم اُس کا بخار تیز ہو جاتا ہے اور کہتا ہے آگ لگ گئی ہے.پھر برف پیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آرام آ گیا مگر یکدم پھر اُسے بے چینی شروع ہو جاتی ہے.پس سوال ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو امن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے.واللهُ يَدْعُوا الى دار السلم ، لے کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ کیلئے ہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا امن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتا چلا جاتا ہے اور جو اس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتا ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویا یہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے.اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے ، اس کے حال میں امن ہے کیونکہ ایک مدرسہ امن جاری ہو گیا ہے ایک مدرس امن خدا تعالیٰ نے بھیج کر امن کا کورس بھی مقرر کر دیا اور عملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کر دی جو اِذا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سلما کی مصداق ہے.پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اور اس کے حاضر میں بھی امن ہے، پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے کیونکہ واللهُ يَدْعُوا إلى دار السلم، مرنے کے بعد وہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی پس یہ ساری زنجیر مکمل ہوگئی اور کوئی پہلو تشنہ تکمیل نہیں رہا.اس کے بعد امن حقیقی کے قیام کے ذرائع کا سوال آتا ہے.سو اس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے فرماتا ہے وَكَيْفَ أَخَافُ مَا اشْرَكْتُمْ ولا تخافون انكم اشركتُ باللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَا، فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ احق بالآمن : إن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ الے کہ میرے دل کا امن کس طرح برباد ہو جائے ان بتوں کو دیکھ کر جن کو تم خدائے واحد کا شریک قرار دے رہے ہو ولا تخافون انكم اشرككْتُمْ بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّل به عَلَيْكُمْ سُلْطنا، حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طور پر مطمئن ہو اور خطرہ تمہارے ارد گرد ہے.پس اگر تم عدم علم اور جہالت کے با وجود مطمئن ہوا اور تمہارا عدم علم تم کو امن دے سکتا ہے تو تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا.فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالآمن ؟ تم بتاؤ کہ ان دونوں میں سے b

Page 221

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم کس کو امن حاصل ہوگا.ان كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اور عقل و خرد سے کام الله لو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کون مامون ہے اور کون غیر مامون.اس جگہ امن کے قیام کیلئے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان گر بیان کئے ہیں.اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک تو حید قائم نہ ہوگی اُس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی.شرک کا صرف اتنا ہی مفہوم نہیں ہوگا کہ کوئی ایک کی بجائے تین خداؤں کا قائل ہو بلکہ جب بار یک در بار یک رنگ میں شرک شروع ہوتا ہے تو کئی کئی قسم کا شرک نظر آنے لگ جاتا ہے اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ، ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس حالت میں امن اُس وقت تک قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مؤاخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مؤاخات ایک خدا کے بغیر نہیں ہو سکتی.دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہو جاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرا دادا فلاں عظمت کا مالک تھا اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا دادا ایسا تھا مگر کبھی تم نے بھائیوں کو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اور تم نہیں.اسی طرح جب دنیا میں توحید کامل ہوگی تبھی اس قسم کی لڑائیاں بند ہونگی.پس اخوت و مساوات کا جو سبق تو حید سے حاصل ہوتا ہے اور کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتا.چنانچہ رسول کریم ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق دشمن بھی یہ اقرار کرتا ہے کہ اخوت کا جو سبق آپ نے دیا وہ کسی اور نے نہیں دیا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کا سبق الگ کر کے نہیں دیا بلکہ آپ نے اصل میں تو حید کا سبق دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں اخوت پیدا ہوگئی.مثلاً جب میں نماز میں کہوں الحمد لله رب العلمين " سب تعریف اُس اللہ کی ہے جو عیسائیوں کا بھی رب ہے، ہندوؤں کا بھی رب ہے اور یہودیوں کا بھی رب ہے تو میرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ میں رب العلمین کے لفظ کے نیچے تمام قوموں ، تمام نسلوں اور تمام مذہبوں کو لے آتا ہوں.میں جب نماز میں الحمد لله رب العلمین کہتا ہوں تو دوسرے الفاظ میں میں یہ کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْمَذَاهِبِ كُتِهَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام مذاہب کا رب ہے.اسی طرح جب میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہتا ہوں تو اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْأَقْوَامِ كُلَّهَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام اقوام کا رب ہے.اسی طرح جب میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہتا ہوں تو اس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ KNOWNLOAD لِلهِ رَبِّ الْبِلَادِ كُلِّهَا یعنی میں اُس خدا

Page 222

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم کی تعریف کرتا ہوں جو تمام ملکوں کا رب ہے اور جب کہ میں تمام اقوام ، تمام ملکوں اور تمام لوگوں میں حُسن تسلیم کروں گا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں ان سے عداوت رکھ سکوں.پس الْحَمْدُ لله رب العلمین میں بتادیا گیا ہے کہ اگر حقیقی تو حید قائم ہو اور رب العلمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اور ایک طرف تو وہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اور دوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف بھی کرے.دوسرا نکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایا ہے کہ مالم ينزل به عَلَيْكُمْ سُلطنا، یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتا ہے جب انسان فطرتی مذہب کو چھوڑ کر رسم ورواج کے پیچھے چل پڑتا ہے اگر انسان طبعی اور فطرتی باتوں پر قائم رہے تو کبھی لڑائیاں اور جھگڑے نہ ہوں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسلام دین فطرت ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ جو دینِ فطرت ہوگا وہی دنیا میں امن قائم کر سکے گا اور وہی مذہب امن پھیلا سکے گا جس کا ایک ایک ٹکڑہ انسان کے دماغ میں ہو.آخر یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اُس تعلیم کی طرف بلائے جس کا جواب ہماری فطرت میں نہیں اور جس کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدا نے ہمارے دماغ اور ہمارے ذہن میں نہیں رکھا.پس فرمایا مالم ينزل به عَلَيْكُمْ سُلْطنا، تم کہہ دو کہ تم ان تعلیموں کے پیچھے چل رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور میں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتا ہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں اب جوں جوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گا اُس کا دل پکار اٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتاب ہے وہ بالکل سچی ہے کیونکہ اس کا دوسرا نسخہ میرے ذہن میں بھی ہے.اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آ جائے گی اور ایک ہی خیال پر متحد ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں امن قائم ہو جائے گا.اب ایک اور سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدرس امن ہیں ، بے شک آپ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کر دیا ، بے شک امن کا کورس خدا نے مقرر کر دیا، بے شک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جسے دیکھ کر انسانی فطرت پکا راٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے مگر کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کا بھی جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی

Page 223

انوار العلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم بھی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ فرمایا ولولا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ تفَسَدَتِ الْأَرْضُ ۳ کہ بے شک امن ایک قیمتی چیز ہے، بے شک اس کی تعلیم خدا نے انسانی دماغ میں رکھی ہے مگر کبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہو جاتا ہے اور انسانی عقیدے مرکز سے اتنے پرے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ امن سے بالکل دور جا پڑتے ہیں اور نہ صرف امن سے دور جا پڑتے ہیں بلکہ حریت ضمیر کو بھی باطل کرنا چاہتے ہیں.فرماتا ہے ایسی حالت میں امن کے قیام اور اس کو وسعت دینے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ جو شرارتی ہیں ان کا مقابلہ کیا جائے.پس وہ جنگ امن مٹانے کیلئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کیلئے ہوگی.جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سٹ ، گل جائے تو فیس خرچ کر کے بھی انسان ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ اس عضو کو کاٹ دو.اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جو سرطان اور کینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ ان کا آپریشن کیا جائے تا وہ باقی حصہ قوم کو بھی گندہ اور ناپاک نہ کر دیں.پس فرمایا کو لا دَمُ اللهِ النَّاسَ بَعْضُهُمْ بَعْض اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوں کو دُور نہ کرتا تو تفسدت بجائے امن قائم ہونے کے فساد بڑھ جاتا.جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حکم دیا جاتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوں کو اجازت دیتے اور انہیں کہتے ہیں جاؤ اور لاٹھی چارج کرو اس لئے کہ تفسدت اگر لاٹھی چارج نہ کیا جاتا تو ساری دنیا کا امن برباد ہو جاتا.ولعن الله ذُو فَضْلٍ عَلَى العلمين ١٢ یعنی اللہ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو با امن دیکھنے کا خواہشمند ہے اور چونکہ ان لوگوں سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے تا ساری دنیا میں امن قائم ہو.بے شک اس کے نتیجہ میں خود ان لوگوں کا امن مٹ جائے گا مگر دنیا میں ہمیشہ موازنہ کیا جاتا ہے جب ایک بڑا فائدہ چھوٹے فائدے سے ٹکرا جائے تو اُس وقت بڑے فائدہ کو لے لیا جاتا ہے اور چھوٹے فائدہ کو قربان کر دیا جاتا ہے.اسی طرح کثیر حصہ دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اور اس وقت تک اُسے نہیں چھوڑا جا تاجب تک وہ خلاف امن حرکات سے باز نہ آ جائے.یہ ایک مختصر ساڈھانچہ اُس تعلیم کا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام امن کے سلسلہ میں دی.میں نے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح دنیا میں امن قائم کیا اور کس طرح بدامنی کے اسباب کا آپ نے قلع قمع کیا.پس آپ کا وجود دنیا کا سب سے بڑا محسن.

Page 224

انوارالعلوم جلد ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امن عالم ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۱۵ آپ پر درود بھیجیں اور کہیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى ال مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى ال ِإبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَاركَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.ریویو آف ریلیجنز قادیان.جون ۱۹۳۹ ء صفحہ ۳ تا ۱۹ ) بخاری كتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته البقرة: ۲ تا ۴ اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۲۶۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ الحشر: ۲۴ البقرة : ١٢٦ المائدة: ۱۶، ۱۷ ك النمل: ٢٠ الزخرف : ۹۰۸۹ الفرقان: ۶۴ یونس : ٢٦ الانعام: ۸۲ الفاتحة: ٢ البقرة: ۲۵۲ البقرة: ۲۵۲ ۱۵ الاحزاب: ۵۷

Page 225

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد جماعتِ احمدیہ کی زندگی کا مقصد از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اصبح الثانی

Page 226

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین میں بھی قائم ہو تقریر فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع افتتاح جلسه سالانه ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پہلے تو میں سب آنے والے دوستوں کو کہ ان میں سے بہت کو ابھی تک مجھ سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے اس سال پھر ہمیں اس امر کا موقع دیا کہ ہم اس کے نام کو بلند کرنے کیلئے اور اس کے دین کی شوکت کے اظہار کرنے کیلئے اس قصبہ میں جمع ہوئے ہیں جس کو اس نے اس وقت دنیا میں اشاعت اسلام کا مرکز بنایا ہے اور میں اسی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارا یہ اجتماع ہر قسم کی ریاء سے اور ہر قسم کی نمائش سے اور ہر قسم کی منافقت سے اور ہر قسم کی بزدلی سے اور ہر قسم کی کمزوری سے اور ہر قسم کی خود پسندی سے اور ہر قسم کے کبر کے جذبات سے خالی ہو.ہمارے دلوں میں اور ہمارے ذہنوں میں وہی خیالات اور وہی ارادے اور وہی سکیمیں اور وہی پروگرام آ ئیں جو ہمارے رب کی مرضی کے مطابق ہوں اور جو ہمارے لئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائیں.اس سال جلسہ گاہ گزشتہ سال کی نسبت ۴۰ فٹ بڑھائی گئی ہے.اس حساب سے کئی ہزارفٹ جگہ گزشتہ سال سے زیادہ ہے مگر باوجود اس کے پہلے وقت میں جس قدر حاضری ہوتی ہے اس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جلسہ گاہ میں زیادتی کوئی زیادہ زیادتی ثابت نہ ہو گی بلکہ عین ضرورت کے مطابق ہی ہو گی.دنیا اپنی مخالفت میں طرح طرح سے جماعت کو تباہ کرنے کی

Page 227

انوارالعلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد کوششیں کر رہی ہے، قسم قسم کے حیلوں اور تدبیروں سے ہمیں کمزور اور بے کس بنا دینے میں مصروف ہے مگر ہمارا خدا قادر و توانا خدا روز بروز بڑھا تا اور ترقی دیتا جا رہا ہے اور دشمن کے منصوبے بدگوئیاں اور اعتراضات هباء منثور الے ہو کر رہ جاتے ہیں.پھر اگر دشمن گالیاں دیں، بدزبانیاں کریں ، نا پاک الزام لگائیں ، تو سمجھنا چاہئے کہ ناکام و نامراد دشمن گالیاں ہی دیا کرتا ہے مگر فتح مند فوج مسکراتی ہوئی گزر جاتی ہے.پس ہماری جماعت کو ان امور کی پروا نہیں کرنی چاہئے بلکہ صبر و استقلال سے کام کرتے جانا چاہئے.ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے.اتنا بڑا کام کہ جو ہمیں اور ہماری حالت کو دیکھتے ہوئے بالکل ناممکن نظر آتا ہے.ہم نے دنیا کی موجودہ سلطنتوں کو ، دنیا کے موجودہ مذاہب اور دنیا کے موجودہ تمدن کو ، دنیا کی اقتصادی انجمنوں کے نظام کو اور ان سب کو بدل کر رسول کریم اللہ کے لائے ہوئے نظام کو قائم کرنا ہے.ایسی حالت میں دنیا کی حکومتیں اور مذاہب کے ادارے ہماری مخالفت کریں تو طبعی تقاضا کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ حق بجانب ہیں کیونکہ انہیں نظر آ رہا ہے کہ ان کے لئے خدا کی طرف سے موت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور وہ پروانہ ہمارے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور اسے ہم لائے ہیں جن کو دنیا میں حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے.اگر مخالفین ہمیں گالیاں دیں، ہماری باتوں سے چڑیں اور ہمیں دُکھ اور تکلیف پہنچانے میں لگ جائیں تو کوئی بعید بات نہیں مگر ہمارے سامنے ایک ہی بات ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ ہم اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کریں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اور ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو، اپنی طاقتوں اور سامانوں کو کلی طور پر اس لئے صرف کریں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو.پہلے مسیح نے بھی یہ کہا تھا مگر افسوس کہ اس کی امت نے خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے کی بجائے اپنی ہوا و ہوس کی بادشاہت قائم کر لی.اب ہمارا کام ہے کہ وہ بات جو پھر اس زمانہ میں دُہرائی گئی ہے اس کے متعلق ثابت کر دیں کہ ہم نے اسے پہلے مسیح کے پیروؤں کی نسبت زیادہ دیانتداری کے ساتھ پورا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر کہہ سکیں کہ اے خدا! ہمارے کمزور اور ناتواں کندھوں پر تو نے جو بوجھ رکھا ، اسے ہم نے تیرے ہی فضل سے اُٹھا کر منزل مقصود تک پہنچا دیا.دنیا نے ہماری مخالفتیں کیں ، ہمیں انتہائی تکلیفیں دیں مگر ہم نے ان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے کام کو پورا کیا.ہمارے دل زخمی ہیں اور ہم اس لئے تیرے پاس آئے ہیں کہ تو ان پر اپنی محبت کی مرہم لگا

Page 228

انوار العلوم جلد ۱۵ جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد اور ہمیں اپنے وصل کا جام پلا.اگر ہم اس بات میں پورے اتریں تو تمام مخالفتیں حقیر ہو جائیں گی ، تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور جب ہم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ مسکرا تا ہوا آگے بڑھے گا اور کہے گا آؤ میرے بندو آؤ.دنیا نے تمہیں حقیر و ذلیل سمجھا، تمہیں دُکھ دیئے، تمہارا نام و نشان مٹادینا چاہا، اب تم آؤ اور میرے پاس بیٹھو اور وہ جنہوں نے تمہیں دکھ دیے اور تمہیں حقیر سمجھا ، وہ میرے دربار سے نکال دیئے جائیں گے اور انہیں ذلیل و حقیر قرار دیا.جائے گا.پس تم گھبراؤ نہیں ، بد دل نہ ہو بلکہ پورے جوش سے خدا کے کام میں لگے رہو.آؤ ہم مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ارادوں اور کوششوں میں برکت دے، اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.پھر ان لوگوں کو جن کے دل میں نیکی ہے مگر ابھی تک انہیں احمدیت قبول کرنے کا موقع نہیں ملا ان کے عقدوں کو کھول دے، پھر دور دراز کے ملکوں میں جو روحیں حق کی پیاسی ہیں اور ابھی تک خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا پانی ان تک نہیں پہنچا خدا تعالیٰ ان تک پہنچانے کی توفیق بخشے تا کہ وہ بھی اپنی روحانی پیاس بجھا سکیں.پھر خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ دنیا کے کناروں تک اسلام لے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم پھیلا دیں اور اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ علیہ کی عظمت قائم کر دیں.اے خدا! ایسا ہی کر.اے خدا! ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے ہماری نیتوں اور ارادوں کو دیکھ اور ہمیں برکت دے.اس کے بعد ایک مختصر سی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ظہر و عصر کی نماز مسجد نور میں جمع کر کے پڑھانے کے بعد میں دو نکاحوں کا اعلان کرنے والا ہوں.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ جلسہ کے موقع پر نکاحوں کا اعلان نہیں کیا کروں گا مگر قرآن کریم سے ایک استثناء معلوم ہوتا ہے.زکوۃ کے اموال کے متعلق آتا ہے کہ امراء کیلئے ان کا استعمال جائز نہیں البتہ ان کیلئے جائز ہے جو اس کام پر لگے ہوئے ہوں چونکہ ہمارا سارے کا سارا خاندان جلسہ کے کاموں میں لگا ہوا ہے اس ل عَامِلِينَ عَلَيْهَا کے ماتحت تھوڑا سا وقت لے لینا جائز سمجھتا ہوں اور اس میں دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.ایک نکاح میرے لڑکے مبارک احمد کا میری ہمشیرہ اور نواب عبداللہ خان صاحب کی لڑکی سے قرار پایا ہے.دوسرا نکاح میری لڑکی امتہ القیوم کا جوامۃ الحی صاحبہ مرحومہ کی لڑکی ہیں مرزا مظفر احمد سے جو میاں بشیر احمد صاحب کے لڑکے ہیں ہوگا.یہ نکاح میں ظہر کے بعد

Page 229

انوار العلوم جلد ۱۵ مختصر طور پر پڑھا دوں گا.جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کی ہر قسم کی برکات سے متمتع کرے.جو لوگ جلسہ میں شریک ہوئے ہیں انہیں خیریت سے رکھے.جلسہ میں شامل ہونے والوں اور انتظامات جلسہ میں کام کرنے والوں کو خیریت سے رکھے.جو دوست یہاں آئے ہیں ان کے گھروں میں خیریت رکھے اور ہم یہاں سے ایسا ذخیرہ لے کر اٹھیں کہ جو عاقبت کیلئے زادِ راہ ہو اور دنیا میں کامیابی کا ذریعہ.الفضل ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۸ء) الفرقان: ۲۴ التوبة: ٦٠

Page 230

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ وار یوں کو سمجھو تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 231

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو مستورات سے خطاب تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع جلسه سالانه) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے بلکہ اس کے متعلق ایک ضرب المثل بنی ہوئی ہے کہ کوا ہنس کی چال چلا اور اپنی بھی بھول گیا.کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی کوے نے ہنسوں کی چال جو دیکھی تو وہ اسے پسند آئی.اس نے سمجھا کہ میری چال اچھی نہیں.آخر اس نے کچھ ہنسوں کے پر اُٹھائے اور اپنے پروں میں اُڑس لئے اور لگا اُن کی سی چال چلنے مگر وہ اُن کی چال کب چل سکتا تھا.ہنسوں نے اُسے اجنبی پرندہ سمجھ کر مارنا شروع کیا یہ وہاں سے نکل کر اپنے کتوں میں آشامل ہوا مگر چونکہ یہ کچھ مدت ہنسوں کی چال چل کر اپنی بھی بھول گیا تھا اس لئے کووں نے بھی اسے چونچیں مار مار کر اپنے میں سے باہر کیا.اب یہ اکیلا رہ گیا نہ ادھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا.نہ ہنسوں نے اسے ساتھ ملایا نہ کوّوں نے اسے شامل کیا.اس مثال یا اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس کام کیلئے پیدا کیا وہی اس کام کو بخوبی سمجھ سکتی اور احسن طور پر سر انجام دے سکتی ہے.اردو میں ایک اور ضرب المثل ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے.“ جب ایک کا کام دوسرا کرنے لگے گا تو لازماً خرابی پیدا ہوگی اور وہ ایک عجوبہ بن جائے گی اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے.ایک مرد دوسری عورت.ان میں اللہ تعالیٰ نے بعض اشتراک رکھے ہیں اور بعض اختلاف بھی رکھے ہیں.مثلاً کھانے پینے میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے ہیں یہ بھی نہیں ہوا کہ مرد کھاتے ہیں اور عورتیں نہ کھاتی ہوں گو غذاؤں

Page 232

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ وار یوں کو سمجھو میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے مثلاً بعض حصے عورتوں کے اور قسم کی غذا چاہتے ہیں اور مردوں کے اور قسم کی.مثلاً عورتوں کے جسم پر چربی زیادہ آ جاتی ہے اس لئے عورتیں سردی زیادہ برداشت کر سکتی ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ عورت اپنے بچوں کو دودھ پلا سکے تو اس طرح خدا تعالیٰ نے بچے کی حفاظت فرما دی.تو یہ صرف خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت فرق ہے.اسی طرح مرد اور عورت میں اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر ترقی کرنے یعنی عقل کا مادہ رکھا ہے.نہ مرد کہہ سکتا ہے کہ عقل اور دماغ مجھے ہی دیا اور نہ عورت ایسا دعویٰ کر سکتی ہے.اسی طرح زبان مرد و عورت کو ایک سی دی ہے.اگر مرد بڑے بڑے مقرر ہوتے ہیں تو عورتیں بھی.ہاتھ پاؤں وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر دیئے ہیں مگر قوتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے.بعض قوتیں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زیادہ دی ہیں اور عورتیں میں کم ہیں.مثلاً اعصاب کی طاقت مرد میں عورت کی نسبت بہت زیادہ ہے.مرد عورت کی نسبت بہت زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے.مگر اس کے مقابل میں عورت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت بہت زیادہ رکھی ہے.صبر سے مراد ایک مشکل کو لمبے عرصے تک برداشت کرنا ہے.یہ طاقت مرد میں یا تو ہے ہی نہیں یا بالکل کم ہے.اس کی موٹی مثال بچے کی ہے.بچہ روتا ہے چلاتا ہے مگر عورت کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑتا ، سو میں سے ایک مرد ہو گا جو عورت کا یہ کام کرے گا.اس معاملہ میں عورت کا دل خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنایا ہے.دنیا کے بڑے سے بڑے فلاسفر کو ایک دن کیلئے ایک بچہ دے دو شام تک وہ نیم پاگل ہو جائے گا.اس کے مقابلہ میں سفر میں ، جنگ میں مرد ہی کام آتے ہیں.یہاں پر عورت کتنی ہی ہوشیار کیوں نہ ہوگھبرا جائے گی حالانکہ بچوں کی پرورش کے معاملہ میں جاہل سے جاہل عورت عظمند سے عقلمند مرد سے زیادہ معاملہ فہم اور عقلمند ثابت ہوگی.یہ طاقت عورتوں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ مردوں میں مقابلہ اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں.مردوں میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو بچے پالنا جانتے ہیں.میں نے اپنے تجربہ میں کئی ایسے آدمی دیکھتے ہیں جنہوں نے بچوں کی پرورش اچھی طرح کی.مثلاً ایک مرد کی بیوی مرگئی تھی اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اس نے دوسری شادی نہیں کی اور خود اپنے بچوں کی پرورش کی.اسی طرح ہمارے ایک دوست قادیان کے ہیں پیر افتخار احمد صاحب، یہ حضرت خلیفہ اول کے سالے اور منشی احمد جان صاحب کے بیٹے ہیں، منشی احمد جان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایسی بصیرت عطا کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی مسیحیت بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے حضور کو لکھا

Page 233

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو ہم مریضوں کی ہے شمی تم مسیحا بنو خدا کے لئے تو وہ بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ تھے.ان کے بیٹے پیر افتخار احمد صاحب بچوں کے پالنے میں بڑے ماہر ہیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سلسلہ کے بہت بڑے رکن تھے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک قرب حاصل تھا اور سلسلہ کے معاملات میں بہت غیرت رکھتے تھے.اس زمانہ میں تکلف اور آسائش وغیرہ کا خیال تو ہوتا ہی نہیں تھا.پیر صاحب کے رہنے کیلئے ایک کوٹھڑی حضرت صاحب کے گھر میں تھی اور اس کے اوپر کی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب رہا کرتے تھے.پیر صاحب کے بچوں کے رونے چلانے کی آواز آنے پر ان کو غصہ آیا کرتا تھا اور اکثر پیر صاحب سے فرمایا کرتے تھے ” پیر صاحب آپ بھی کیسے ہیں بچوں کو چپ کیوں نہیں کراتے مجھے تو ان کے رونے کی آواز سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے“.جب ۱۹۰۵ء میں زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع اپنے دوستوں کے باغ میں رہنے لگے تو ان دونوں کے جھونپڑے بھی پاس پاس تھے.وہاں ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب سے کہا.” پیر صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے بچے روتے ہیں اور آپ نے ان میں سے ایک کو نہایت اطمینان سے کندھے سے لگایا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے کو نرمی سے پچکارتے رہتے ہیں.اگر میرے پاس ہوں تو ایسا نہ ہو سکے بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کر ہی گھبراہٹ ہوتی ہے.پیر صاحب مسکرا دیئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بچوں کو تو میں نے اٹھایا ہوتا ہے اور آپ کو یونہی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے.تو بعض مرد ایسے ہوتے ہیں.مگر بالعموم مردوں کو اگر بچے سنبھالنے پڑیں تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا جائیں.مجھے تو پانچ منٹ بھی اگر بچہ رکھنا پڑے تو گھبرا جاتا ہوں لیکن عورتیں کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا سب کام کرتی ہیں اور بچوں کی نگہداشت سے اور ان کے رونے چلانے سے ذرا نہیں گھبرا تیں.اگر گھبرا بھی جائیں تو ذراسی چیپت رسید کی اور ایک منٹ کے بعد پھر گلے لگا لیا.غرض فطرتیں اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھی ہیں.اگر کوئی چاہے کہ دونوں کے فرائض بدل دیئے جائیں تو دونوں اپنے کاموں میں ناقص رہ جائیں گے.ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ کا کام پیر سے لینا چاہے یا پیر کا کام ہاتھ سے لینا چاہے تو یہ ناممکن ہے.بیسیوں کام ہاتھ کے ایسے ہیں جو پیر یا تو بالکل کر ہی نہیں سکے گا یا اگر کرنے کی کوشش کرے گا تو خراب کر دے گا.دونوں کے کام مختلف ہیں اور علیحدہ علیحدہ کاموں 66

Page 234

انوارالعلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو کیلئے خدا تعالیٰ نے ہاتھ اور پاؤں بنائے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جہاں بعض باتوں میں مرد اور عورت میں اتفاق رکھا ہے وہاں دونوں کے مختلف کاموں کے مدنظر اختلافات بھی رکھے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے مرد اور عورتیں اس فرق کو نہیں سمجھتے.مرد تو اختلافات پر زور دیتے ہیں مگر عورتیں اتحاد واتفاق پر زور دیتی ہیں حالانکہ دونوں غلطی پر ہیں.مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام پہلے تعلقات کو بھول جائے اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے ہی رشتہ داروں میں مل جائے.اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اس عورت کے خاندان کیلئے ذلت کا باعث ہوتی ہے.وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اس کے اپنے اندر.ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ بیچاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں سل اور دق کا شکار ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیر یا وغیرہ کی جو بیماریاں ہیں ان کا یہی سبب ہے.پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں جس ہی نہیں حالانکہ اس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دل ہے جیسا کہ اس کے اپنے پہلو میں.اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اس کو دیکھتا تو ہرگز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا ، اسے وہ چھوڑ دے؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو ، وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو اُن کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے ان سے کیا تھا.اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوں کا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کر دیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے.دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بدخیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں.لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے.بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زبردست ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف انہی میں محو ہو جائیں مگر بہت کم.رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال

Page 235

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ وار یوں کو سمجھو رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ آپ کی بیوی اُم حبیبہ ( جو ابوسفیان کی بیٹی تھی ) کی ران پر اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ ان کے بالوں سے کھیل رہی ہیں.آنحضرت مے تعليم نے فرمایا.اُمّ حبیبہ کیا آپ کو معاویہ بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں.آپ نے فرمایا مجھے بھی بہت پیارا ہے.آجکل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں.اگر مرد گشتی کرتے ہیں تو عورتوں نے بھی کشتی لڑنی شروع کر دی ہے حالانکہ گجا عورتوں کی شرم و حیا اور گجا گشتی.اس طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولادیں تباہ ہو جائیں گی وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی.یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دیئے ہیں.ولایت میں عورتوں کے اس قسم کے طریق اختیار کرنے پر ایک شور برپا ہے چنانچہ جن ملکوں کے لوگوں میں اولاد میں پیدا کرنے کی خواہش ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ عورتوں کیلئے تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے جائیں اور جس کام کیلئے عورتیں پیدا کی گئی ہیں وہی کام کریں حالانکہ گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے اور بچہ کی تعلیم و تربیت ماں کا اولین فرض ہے.اگر عورتیں نوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت ناممکن ہے.میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے عورت کو فکر اور دل و دماغ بخشا ہے تا کہ وہ عرفان حاصل کرے وہاں مردوں اور عورتوں میں اختلاف داشتراک بھی رکھا ہے اور مردوں کو اپنے اختلاف دیکھتے ہوئے اپنے کام کرنے چاہئیں اور عورتوں کو اپنے.ہاں جن باتوں میں اشتراک ہے وہ مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں.مثلاً جہاں مرد کیلئے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ فرض ہیں وہاں عورتوں پر بھی یہ فرض ہیں تا دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزاء وسزا حاصل کریں.اور یہ قانون بھی خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہے لیکن جہاد کے متعلق رسول کریم نے فرمایا کہ جہاد عورتوں پر فرض نہیں مجھے صرف مردوں کیلئے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے.ہاں جنگ میں عورتیں مرہم پٹی کر سکتی ہیں لے اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ واری جہاد کی ذمہ واری سے کچھ کم نہیں.اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے.پس کسی قوم کی ترقی اور

Page 236

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو تباہی کا دار و مدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے.اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کرتیں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جاں نثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں.اگر آج بھی خدانخواستہ جماعت احمد یہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ وار ہوں گی.الغرض ماؤں کی یہ ذمہ واری اس قدرا ہم ہے کہ اگر مخلص مرد چاہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت کریں تو ان میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہوگی کیونکہ بچوں کی تربیت کرنے کی طاقت اور ملکہ عورت میں ہی ہے اس لئے تمہیں چاہئے کہ تم اپنی اس اہم ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کر دو بلکہ پوری توجہ سے اس فریضہ کو ادا کرو.تم میں سے کتنی ہیں جو یہ چاہتیں ہیں کہ تمہارا بچہ خوبصورت ہو، تندرست ہو.اگر وہ بدصورت ہوتا ہے یا کالا ہوتا ہے تو تم سارے جہان کے پوڈر لگا لگا کر اس کو خوبصورت بنا کر دیکھنے کی کوشش کرتی ہو لیکن اگر تم اس کو انسانوں والی شکل دے بھی دو مگر اس کی روح انسانوں والی نہ ہو تو کیا تم اس کو دیکھ کر خوش ہو گی ؟ اگر تم اپنے بچوں کی روح کی خوبصورتی کی پرواہ نہ کرو گی تو تم اس کی سخت ترین دشمن ثابت ہوگی کیونکہ تم نے ظاہری شکل تو انسان کی دی مگر اصل میں سانپ اور بچھو سے بدتر بنادیا.تم نے بے شک اس کی ظاہری زیبائش اور آرائش میں کوئی کمی نہ کی مگر اس کے اندر شیطان پیدا ہو گیا.پس اگر آج کی عورتیں اپنے بچوں کی تربیت کا خیال چھوڑ دیں گی تو آئندہ نسل انسان نہیں بلکہ سانپ اور بچھو پیدا ہوں گے.تو پھر کیا تم اس وقت جب سانپ اور بچھو انسانوں کی شکل میں آجائیں ان کو دیکھ کر خوش ہو گی ؟ اگر تمہارے ہی بچے تمہاری تربیت کے نتیجہ میں کسی دن نیک ہوں گے تو وہ تمہارے لئے اور تمہاری روحوں کیلئے دعائیں کریں گے ورنہ وہ تم پر لعنت کے سوا اور کیا بھیجیں گے.ایسی کئی مثالیں ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو چوری اور ڈا کے اور جھوٹ کی عادتیں ڈالتی ہیں.مثلاً ایک بچہ کو چوری کی عادت تھی وہ باہر سے یا سکول سے چیزیں چھر اچرا کر گھر لاتا اور ماں اس سے وہ چیزیں لے لیتی.ایسی ہی باتوں کے نتیجہ میں وہ پکا چور اور قاتل بن گیا.اسے پھانسی کی سزا ملی جیسا کہ قاعدہ ہے اس لڑکے سے بھی پھانسی دیے جانے سے قبل پوچھا گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے میری ماں سے ملا دو.جب اس کی ماں آئی تو اس نے اس کے کان میں بات کہنے کے بہانے پر اس کے کان کو دانتوں سے کاٹ ڈالا.لڑکے نے اس فعل کی وجہ دریافت کئے جانے پر بتلایا کہ اگر یہ میری ماں نہ ہوتی تو آج میں پھانسی نہ چڑھتا.اس نے ہی مجھے انسان سے شیطان بنایا ہے.

Page 237

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ہی بدیاں اور بری باتیں مائیں اپنے بچوں کو سکھائیں بلکہ بے پروائی اور بے تو جہی سے جو بدیاں بچے میں پیدا ہو جائیں یا جو بُری عادتیں وہ سیکھ لیتا ہے اس کی ذمہ داری بھی عورتوں پر ہی آتی ہے.تم میں سے بہت ہیں جو یہ کہیں گی کہ میرا بچہ بے شک کلمہ نہ پڑھے لیکن زندہ رہے لیکن تم میں سے کتنی ہیں جو یہ کہیں کہ میرا بچہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مر جائے.ایک عورت اپنے بیمار بچہ کولیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئی اور کہنے لگی میرا بچہ عیسائی ہو گیا ہے آپ اس کا علاج کریں لیکن جو بات وہ اصرار کے ساتھ کہتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اس سے ایک دفعہ کلمہ پڑھوا دیں پھر بے شک یہ مرجائے مجھے کوئی پرواہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے کو چونکہ وہ بیمار تھا حضرت خلیفہ اول کے پاس بھیجا تا آپ اس کی بیماری کا علاج بھی کریں اور کچھ تبلیغ بھی کریں لیکن وہ لڑکا بھی بڑا پختہ تھا، وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر ایک رات بھاگ کر چلا گیا.رات کو ہی اس کی ماں کو بھی پتہ چل گیا وہ بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑی اور بٹالہ کے نزدیک سے اسے پکڑ کر پھر واپس لائی.آخر خدا نے اس کی سنی اس کا بیٹا ایمان لے آیا.بعد میں گو وہ فوت بھی جلد ہو گیا مگر اس عورت نے کہا آب میرے دل کو ٹھنڈک پڑ گئی ہے موت سے پہلے اس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے.یہ ہوتی ہے صحیح تربیت اور یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے.اس قسم کی تربیت کرنے والی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا پسند کرتی ہیں، وہ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ساری قوم کیلئے فائدہ مند ہوتی ہیں.وہ ساری قوم کو زندہ کرنے والی ہوتی ہیں.امام بخاری بہت بڑے آدمی تھے ، ان کے بڑے آدمی ہونے میں ان کی ماں کا بہت بڑا حصہ تھا.تو کیا تم سمجھتی ہو کہ ایسی ماں سے فائدہ اُٹھانے والے کا ثواب اُن کی ماں کو نہ ملتا تھا ؟ نہیں امام بخاری کی نیکیوں کے ثواب میں ان کی ماں بہت حد تک حصہ دار تھیں.اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہ کی والدہ تم نہیں کہہ سکتیں کہ معمولی عورت تھیں.وہ ہرگز معمولی عورت نہ تھیں.کیا ابو حنیفہ کو بنانے والی معمولی عورت ہو سکتی ہے؟ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی بڑے درجے کو پہنچے گا تو اس کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کو اس کے ساتھ رکھا جائے گا اور وہ بھی اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے.مؤمن کے بنانے میں اس کے ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے.ایک ہندو ماں کا یا ایک عیسائی ماں کا بچہ اگر مسلمان ہو جائے گا تو یہ مت خیال کرو کہ اس کی ماں کو ثواب نہ ملا ہو گا.اگر چہ اس کی ماں پوری طرح نہ بخشی جائے لیکن پھر بھی اس کے گناہوں میں کمی ہو گی.تم میں سے اکثر

Page 238

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو جہاد کی خواہش مند ہیں لیکن آؤ میں تمہیں بتلا دوں کہ یہ جہاد ہی ہے اگر تم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کروگی اور ان کو نیک بناؤ گی.تم اور حکومتوں میں تو کہہ سکتی ہو کہ اگر ہم بچوں کی خدمت میں لگی رہیں گی تو ہم تاجر کیسے بنیں گی ، اگر ان کی تربیت میں ہی لگی رہیں تو وزیر وکیل اور جرنیل وغیرہ کیسے بنیں گی اور دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتیں لیکن تم اسلام میں رہ کر یہ نہیں کہ سکتیں.بے شک تم کو عیسائی قوم اس کا جواب نہیں دے سکتی لیکن اسلام نے تو تمہارا یہ اعتراض دور کر دیا.اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جرنیل بنے گا اور وزارت کے کام کر کے دنیا میں امن قائم کرے گا تو اس کا ثواب بھی تم کو ملے گا کیونکہ یہ تم ہی تھیں جس نے ایسا بیٹا بنایا جس نے دنیا میں کار ہائے نمایاں کئے.غرض جس جنت کا تمہارا بیٹا وارث ہو گا اسی جنت کی اسلام نے تم کو حقدار ٹھہرایا ہے.پس تمہاری تمام تر کامیابی کا انحصار تمہاری اولاد کی تربیت پر ہی ہے.تم نماز و روزہ اور صدقہ و خیرات کی پابندر ہوا گر تم ان باتوں پر کار بند نہ ہوگی تو تمہاری اولادیں کس طرح احکام شریعت کی پابند ہوں گی.تم اپنے نیک نمونہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولاد کی تربیت کر سکتی ہو کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ انسان جونمونہ دکھاتا ہے اردگرد کے لوگ اس کا نمونہ قبول کرتے ہیں اور بچہ میں تو نقل کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے.اگر مائیں اپنی اولادوں کیلئے نیک نمونہ نہیں بنتیں تو یقیناً ان کی اولادوں کی تربیت اچھی طرح ہونا ناممکن ہے.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کیلئے برابر رکھی ہے.وہ تعلیم جو دنیا کی اغراض کیلئے حاصل کی جاتی ہے اس کا ثواب نہیں ملتا.خدا تعالیٰ ان نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا.مرد بے شک اکثر دنیا کے اغراض کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ایسی تعلیم کا ان کو کوئی ثواب نہیں ملتا.ہاں عورتوں کیلئے تعلیم مکمل کر کے ثواب حاصل کرنے کا زریں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیا وی غرض کوئی نہیں بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے اس لئے عورتیں تعلیم حاصل کر کے ثواب حاصل کر سکتی ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم روزے رکھتے ہو، تم نمازیں پڑھتے ہو لیکن اس دنیا میں تمہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لئے میں آخرت میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا.تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو، وہ پڑھ کر نوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں، پہناتے ہیں تو تم نے ان کو تعلیم دلوانے کا بدلہ پا لیا لیکن جولڑ کی کی تعلیم پر تم خرچ کرتی ہو اس کا ثواب تمہیں اس دنیا میں نہیں ملتا اس کیلئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ

Page 239

انوارالعلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو جس شخص کی دولڑ کیاں ہوں اور وہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے اور ان کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا تو لڑکیوں کی تعلیم کیلئے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کیلئے نہیں.یہ تربیت کا کام معمولی نہیں.تمہیں خود علم ہوگا تو دوسروں کو علم سکھاؤ گی اس لئے تم پہلے خود تعلیم حاصل کرو تا اپنی اولادوں کی صحیح معنوں میں تربیت کر سکو تم لوگوں کا فرض ہے کہ جس قد ر جلدی ہو سکے اپنی تعلیم و تربیت کا خیال کرو.اگر اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہ کروگی تو قوم درست نہیں ہوگی.اور یقیناً سلسلہ کی جو خدمت تمہارے ذریعہ ہو سکتی ہے اور جو معمولی خدمت نہیں وہ تم سے بالکل نہیں ہو سکے گی.یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام اور سلسلہ کی جو خدمت تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر کے کر سکتی ہو وہ اور کوئی نہیں کر سکتا.تم کوشش کر کے ان کی بچپن سے ہی اس رنگ میں تربیت کرو تا ان کی جانیں سلسلہ کی خدمت کیلئے تیار ہوں.تم ان کو بچپن ہی سے یہ تعلیم دو کہ وہ سچائی پر عامل ہوں ، وہ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر تمہارا بچہ جھوٹ بولتا ہے تو وہ تم کو بھی بدنام کرتا ہے اور خدا کو بھی ناراض کرتا ہے.تم ان کو یہ تعلیم دو کہ تمہاری جانیں سلسلہ کیلئے ہیں کیونکہ جانی قربانی کرتے وقت سب سے پہلے جو ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پیچھے ہماری ماؤں کا اور ہماری بیویوں کا کیا حال ہوگا.اگر تم ہی ان کو یہ کہہ دو کہ ہم تب ہی خوش ہوں گی جب تم یا تو فتح پا کر آؤیا وہاں ہی مارے جاؤ تو پھر ان کے بوجھ ہلکے ہو جائیں گے اور قربانیاں کرنے کے میدان میں وہ دلیر اور پست گام ہو جائیں گے.وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے میں ذرہ بھی لرزہ نہ کھائیں گے.صحابہ نے فتوحات پر فتوحات حاصل کریں لیکن کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری ماؤں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی ، وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری بیویوں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی بلکہ ان کیلئے فرحت و خوشی کا موجب ہوگی.اس لئے وہ نڈر ہو کر نکلتے تھے اور فتح حاصل کر کے آتے تھے.جنگ اُحد کے موقع پر ایک عورت نے اپنی قوتِ ایمان کا وہ مظاہرہ کیا کہ دنیا اس کی مثال صلى الله پیش کرنے سے قاصر ہے.اس جنگ کے موقع پر مشہور ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں.عورتیں بیتاب ہو کر میدانِ جنگ کی طرف بھاگ نکلیں.ایک عورت نے آگے بڑھ کر پوچھا تو ایک سپاہی نے جواب دیا اے عورت! تیرا خاوند شہید ہو گیا لیکن اس عورت نے کہا میں تو رسول اللہ ﷺ کے متعلق پوچھتی ہوں تم مجھے ان کا حال بتا ؤ لیکن پھر اس آدمی نے کہا کہ تمہارا

Page 240

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو باپ مارا گیا.اس عورت نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور پوچھا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر دو لیکن اس سپاہی نے اس کے کرب و بیقراری کا صحیح علم نہ رکھتے ہوئے اس کے بھائی کے متعلق کہا کہ وہ بھی مارا گیا ہے لیکن پھر اس عورت نے غصہ کے ساتھ بڑے زور سے پوچھا کہ میں تو رسول کریم ﷺ کا حال تم سے پوچھ رہی ہوں اپنے باپ یا بھائی یا خاوند کا نہیں پوچھ رہی.تو پھر سپاہی نے جواب دیا کہ رسول اللہ تو خیریت سے ہیں.یہ خبر پا کر اس عورت کے دل میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور بے اختیار کہنے لگی الْحَمْدُ لِلَّهِ اللہ تعالیٰ کا رسول خیریت سے ہے.دوسرے مارے گئے تو کوئی پرواہ نہیں.سے پس سوچو کہ اس عورت کے بھائی، باپ اور خاوند کیوں میدانِ جنگ میں گئے اس لئے کہ اس کا خاوند جانتا تھا کہ اگر میں مارا گیا تو میری بیوی کو میری وفات کا کوئی صدمہ نہ ہوگا.اس کے بھائی یہ سمجھتے تھے کہ ہماری بہن ہماری شکست پر زندہ درگور ہو گی.مگر تمہارے بچوں کے دل کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں جاتے وقت روتی ہے.اس طرح وہ بُزدل ہو جاتے ہیں.پس تم اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت کر سکتی ہوا گر تم اپنے بیٹوں کو ابو بکر یا عمر بنا دوگی.اور یقیناً جو مقام تمہارے بیٹے کو ملے گا وہی تمہیں ملے گا.اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف عورتوں کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں.اس میں جو بات عورتوں کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہے وہ سادہ زندگی ہے.یعنی لباس ، زیور اور کھانے پینے میں سادگی.اس وقت ہندوستانیوں کی حالت نہایت گری ہوئی ہے.سارے ملکوں کی دولت یورپ میں جا رہی ہے.مسلمان بھی نہایت ذلت کی حالت میں ہیں.ایک ہندوستانی کی ایک ادنیٰ سے ادنی انگریز کے سامنے کوئی ہستی ہی نہیں.ایک انگریز چو ہڑا ہی اگر ہندوستان میں آ جائے تو وہ عزت والا ہوتا ہے مگر ہندوستانی کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.یہ اس لئے کہ انگریر حاکم ہے اور ہندوستانی محکوم.اسی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز کمزور ہو رہا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی اپنی حالت کو آپ خراب کر رہے ہیں.وہ اپنے زیور اور مال و دولت سے ہی اپنے ملک کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں.زمیندارلوگوں میں بے شک سادگی ہے مگر وہ اپنے بیا ہوں شادیوں پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ساری عمر اس کے سُود سے نجات نہیں پاسکتے.ہمارے سامنے اس قسم کی زندہ مثال فیروز پور کے ایک شخص کی ہے جس نے شروع

Page 241

انوار العلوم جلد ۱۵ تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو میں پچاس روپے قرض لئے مگر اس قرضہ کے سُود در سود کے نتیجہ میں وہ لاکھوں کا مقروض ہو گیا.اسی طرح شہری لوگ بھی حد سے زیادہ اسراف کرتے ہیں.میں نے کئی مرتبہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور آج پھر تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرتا ہوں کہ بجائے قرضہ اٹھانے کے تم کیوں نہیں یہ کرتیں کہ پہلے بچالیا کرو تا تمہیں قرضہ لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے تم کہہ سکتی ہو کہ ہمارے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں لیکن کیا جب تمہارے پاس کھانا کھانے کو چند پیسے نہیں ہوتے تو تم فاقہ کرتی ہو.نہیں بلکہ قرضہ لیتی ہو اور کھانے کا سامان کرتی ہو.میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم فاقے کرو تا آئندہ تمہاری اولادیں تمہارے لئے دعا کریں.ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور جمع کر سکتا ہے.اگر تم بھی کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی جاؤ گی تو تمہارا خاوند بنیے کے پاس نہیں جائے گا.آخر خود ہی سوچو کہ تم کس لئے اپنی اولادوں کو مقروض بناتی ہو چار پانچ روپے کیلئے ؟ اور اس معمولی سی رقم کی وجہ سے تمہاری اولاد میں اپنی ساری عمر غلامی میں بسر کرتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ خدارحم کرے ہمارے دادا پر کہ اس نے دس ہزار روپیہ ہمارے سر چڑھا دیا اور ساری عمر کیلئے بنے کا غلام بنا دیا.اگر ان کی مائیں تھوڑا تھوڑا بھی جمع کرتی رہتیں اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتیں اور قرضہ نہ لیتیں تو غلامی سے نجات ہو جاتی.کفایت شعاری کسی قوم کے افراد کا پہلا اور اہم فرض ہے.اور کفایت شعاری ہی وہ اصل ہے جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے.تم اپنے خاوندوں کو اسراف سے روکو اور اپنے بچوں کو غلامی سے بچاؤ.پس کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہنا چاہئے اور کھانے اور پینے میں سادگی اختیار کرنی چاہئے.ایک کھانا کھانے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ امیر اور غریب آپس میں مل بیٹھیں گے اور امارت و غربت کا امتیاز مٹ جائے گا.دوسرا اس کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کھانا کھانے سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے.زیادہ کھانا کھانے سے ایک یہ نقصان ہوتا ہے کہ معدے کمزور ہو جاتے ہیں.پیچش اور کسان کی شکایت رہتی ہے.ایسے لوگ نہ تو نماز پڑھ سکتے ہیں نہ روزہ رکھ سکتے ہیں.کھانوں کے شوقین نمازوں میں بھی مرغن کباب اور متنجن کے خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں.مگر اس کے مقابلہ میں سادہ زندگی میں ایسی لذت ہے کہ عبادتوں میں بھی ایک لذت محسوس ہوتی ہے.ایک صوفی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کم کھانے ، کم سونے اور کم بولنے سے.یہ تین چیزیں خدا سے ملاتی ہیں.پس تحریک جدید جو

Page 242

انوار العلوم جلد ۱۵ -( تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ وار یوں کو سمجھو ہے وہ کم خوردن پر زور دیتی ہے.سادہ زندگی اختیار کرنے سے تم شور بہ پکاؤ گی تو تم آسانی سے دو اور غریبوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلا سکو گی.اس طرح تمہارا دل بھی خوش ہو جائے گا اور غریب کا دل خوش کرنے سے تو خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا ہے.اسی طرح اگر تم کھانوں میں کمی کرو گی تو تمہاری دعوتیں وسیع ہو جائیں گی اور روپیہ بھی کم خرچ ہو گا.جو روپیہ بچے گا تم اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر سکو گی اور تم چندے بھی دے سکوگی اور دوسرے دینی مشاغل میں بھی وہ بچایا ہوا روپیہ صرف کر سکو گی.اگر امیر عورتیں ایسی عادت ڈالیں تو وہ اپنے خاوندوں کو بھی سُدھار سکتی ہیں.اور میں نے کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں عورتوں نے مردوں کو سدھارا.اور انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی مخلص بنا دیا.وہ چونکہ خود سادہ زندگی بسر کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی ایسا بنا دیا.پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے.تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کروسادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادت ڈالو.جو عورت زیور سے خوش ہو جاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کر سکتی.پس سادہ کھانا کھاؤ ، سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خدا تعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا.آج کل خدا تعالیٰ ایک نئی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے.نئی بادشاہت میں امیر غریب ہو جائیں گے اور غریب امیر.جو مصیبت امیر اپنے اوپر عائد کریں گے اس کا کوئی دوسرا ذمہ وار نہ ہوگا بلکہ وہی خو ذمہ دار ہوں گے.اگر تم دنیا میں سکھ حاصل کرنا چاہتی ہو اور خدا کو بھی خوش کرنا چاہتی ہو تو اپنے مالوں میں سے غریبوں کو بھی حصہ دو.اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو وہ دن نزدیک ہیں کہ خدا خود اس کا انتظام کرے.تم ان دنوں کا انتظار مت کرو بلکہ خود ہی ثواب اٹھاؤ.میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کروگی اور دنیا کیلئے اپنے آپ کو ایک نمونہ بناؤ گی.( مصباح اخبار ۱، ۱۵ جنوری ۱۹۳۹ ء جلد نمبر ۱۳ نمبر ۲،۱) ابن ماجه کتاب المناسک باب الحج جهاد النساء بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۹۲ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ

Page 243

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیاد دین نہیں لائے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 244

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج سب سے پہلے میں دوستوں کو سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض اخبارات اور رسائل کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے اخبارات میں سے سب سے مقدم الفضل ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت اخبارات اور لٹریچر کی اشاعت کی طرف اتنی متوجہ نہیں جتنا متوجہ ہونے کی ضرورت ہے.اتنی وسیع جماعت میں جو سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کی سینکڑوں انجمنیں ہیں صرف دو ہزار کے قریب الفضل کی خریداری ہے حالانکہ اتنی وسیع جماعت میں الفضل کی اشاعت کم از کم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے.ایک علمی اور مذہبی جماعت میں ”الفضل“ کی اس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے یورپ میں لوگوں کو اخبارات پڑھنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ ایک آدمی دو دو تین تین اخبارات ضرور خریدتا ہے حتی کہ غریب مزدور کے ہاتھ میں بھی ایک دو اخبار تو ضرور ہونگے مگر ہمارے آدمی اس وقت تک اخبار خریدنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جب تک اس کا ہر مضمون ان کی دلچسپی کا موجب نہ ہو اور اگر کوئی خرید تا بھی ہے تو وہ پڑھ کر کہہ دیتا ہے کہ ایک دو مضمون ہی اچھے ہیں باقی اخبار میں تو کوئی کام کی بات ہی نہیں گویا ان کے نزدیک اخبار شروع سے لیکر آخر تک ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے.حالانکہ ولایت میں میں نے دیکھا ہے ، لوگ اخبار خریدیں گے اور اس میں سے کوئی ایک خبر اپنے مذاق کی پڑھ لیں گے ، مثلا فلاں جگہ گھوڑ دوڑ ہے، لوگوں کو اتنے بجے پہنچ جانا چاہئے اور پھر یہ خبر پڑھتے ہی اخبار پھینک دیں گے.اسی طرح جاتے جاتے ریل میں یا ٹرام میں ہر شخص اخبار خریدے گا اور پھر گھوڑ دوڑ یا کرکٹ کے میچ کی خبر

Page 245

انوارالعلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے پڑھ کر یا گھوڑ دوڑ اور کرکٹ کے میچ کے نتیجہ پر نظر ڈال کر اخبار چھوڑ دیں گے.یہی عورتوں کا حال ہے وہ بھی اخبار خریدتی ہیں اور سوسائٹی میں گپ شپ کیلئے کسی پارٹی کی خبر ہوئی تو وہ پڑھ لیتی ہیں یا کوئی شادی کی خبر ہوئی تو وہ دیکھ لیتی ہیں اسی طرح موت کی خبر پڑھ لیتی ہیں اور باقی اخبار کو دیکھتی بھی نہیں.اس کے مقابلہ میں جو سیاسی آدمی ہیں وہ صرف سیاسی خبریں پڑھتے ہیں اور باقی اخبار چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے اور کوئی ضروری کام نہ ہو تو وہ مضمون پڑھنے لگ جاتا ہے لیکن ہمارے لوگ اس بات کے عادی ہیں کہ ایک آنہ میں سے جب تک وہ پانچ پیسے کی خبریں نہ نکال لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ایک جاہل شخص ہوا کرتا تھا.حضرت خلیفہ اوّل اس کے بہت پیچھے پڑے رہتے تھے کہ تو نمازیں پڑھا کر اور آپ چاہتے تھے کہ اسے کچھ نہ کچھ دین کی واقفیت ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت پرانا خادم تھا اس کا وہ بھتیجا تھا.ایک دفعہ وہ بازار سے آٹھ آنے کا کبھی لایا جو بلا کھا گیا اسے پتہ لگا تو اس پر جنون سوار ہو گیا اور وہ لٹھ لیکر پلے کے پیچھے پیچھے بھا گا یہاں تک کہ اس لٹھ سے اس نے پلے کو مارا اور چھری پیٹ چاک کر کے اس کی انتڑیوں سے گھی نچوڑ کر رکھ لیا.کسی نے پوچھا کہ سنا ؤ گھی مل گیا وہ کہنے لگا.آدھ سیر کی بجائے دس چھٹانک گھی نکلا ہے.ہمارے یہ دوست بھی اخبارات سے دس چھٹانک گھی ہی نکالنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ایک آنہ خرچ کر کے انہیں پانچ پیسے کی خبریں مل جایا کریں.حالانکہ اگر کسی کو علم کی ایک بات بھی اخبار سے مل جاتی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی قیمت اسے وصول ہوگئی بلکہ ایک بات کیا اگر کام کی اسے ایک سطر بھی مل جاتی ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ ایک آنہ کی اس کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے.پھر ریویو آف ریلیجنز وہ رسالہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اس کے دس ہزار خریدار ہوں.یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک دفعہ بھی اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکے.ہمارے جلسہ سالانہ پر ہی ہیں ہزار آدمی آ جاتے ہیں اور اگر سب دوست اس کی خریداری کی طرف توجہ کریں تو دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی.میں سمجھتا ہوں اگر غیر احمد یوں میں اس رسالہ کی کثرت سے اشاعت کی جائے تو دس ہزار خریدار یقیناً میسر آ سکتا

Page 246

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے ہے کیونکہ اس رسالہ میں ایسے علمی مضامین شائع ہوتے ہیں جو عام طور پر دوسرے رسالوں کو میسر نہیں آتے.انگریزی دان طبقہ کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس رسالہ کو کثرت سے خریدے لیکن وہ دوست جو انگریزی نہیں جانتے وہ بھی اگر شادی بیاہ کے موقع پر ریویو آف ریلیجنز کی امداد کے لئے کچھ دے دیا کریں تو ان پر کچھ زیادہ بار نہیں ہوسکتا.لوگ شادیوں کے موقع پر صدقہ و خیرات کیا کرتے ہیں اور جو لوگ صدقہ و خیرات نہیں کرتے وہ بھی میرا شیوں اور ڈوموں میں جب وہ مبارکباد دینے کیلئے آتے ہیں تو کئی روپے تقسیم کر دیتے ہیں.ایسے موقعوں پر اگر بجائے میراثیوں اور ڈوموں کو روپیہ دینے کے تین چار انگریزوں یا علم دوست غیر احمدیوں کے نام سال یا چھ چھ ماہ کیلئے رسالہ جاری کرا دیا جائے تو جتنے عرصہ تک رسالہ جاری رہے گا اتنا عرصہ تک وہ ثواب حاصل کرتے رہیں گے.اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہو تو وہ تین ماہ کیلئے ہی رسالہ جاری کرا دے.اگر اس کے تین چار روپوں سے تین چار مہینے مسلسل اسلام کی تعلیم لوگوں کے کانوں تک پہنچتی رہے تو وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ روپیہ خرچ کرنا اس کیلئے کیسا مفید اور بابرکت ہوگا.ڈوموں اور میراثیوں کی مدد کرنا تو اخلاقاً اور شرعاً کوئی پسندیدہ بات نہیں کیونکہ ایسا شخص اپنے روپے سے گانے اور ناچنے کو قائم رکھتا ہے لیکن ایسے رسالہ کی مدد کرنا جو ممالک غیر میں تبلیغ اسلام کا کام دے رہا ہو بہت بڑے ثواب کی بات ہے کیونکہ اس طرح خدا تعالیٰ کے دین کو مددملتی ہے.اسی طرح ” البشری ایک نہایت ہی اہم رسالہ ہے اور وہ اس علاقہ سے نکلتا ہے جس کے ہم پر اس قدر عظیم الشان احسانات ہیں کہ اگر ہماری کھال اُدھیر کر بھی اس کے کپڑے بنا دیے جائیں تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ ہم نہیں اتار سکتے.یہ عربوں کی قربانی ہی تھی کہ جس نے ہمیں اسلام سے روشناس کرایا.پس اگر ہم عرب کے لوگوں تک احمدیت پہنچا دیں تو یہ ہمارا اُن پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنی تمام جائدادیں عربوں کیلئے وقف کر دیں اور اپنے اموال ان کی خاطر قربان کر دیں تب بھی ان کا احسان نہیں اتر سکتا کیونکہ انہوں نے روحانی انعام سے ہمیں مالا مال کیا اور ہم جو کچھ دیں گے وہ جسمانی ہوگا لیکن اب خدا نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان کو اسی طرح روحانی انعامات سے بہرہ یاب کریں جس طرح انہوں نے ہمیں روحانی انعامات دیئے.ان کے باپ دادوں نے ہم کو اسلام دیا تھا اب ہمارا فرض ہے کہ

Page 247

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے ہم انہیں احمدیت سکھائیں اور اس طرح اس احسان کا بدلہ دیں جو انہوں نے اسلام کی اشاعت کی صورت میں ہم پر کیا.پس خدا نے ہمیں احمدیت دیگر وہ ذریعہ عطا فرمایا ہے جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں اشاعت احمدیت پر زور دیں اور کم از کم اس رسالہ کی اشاعت کو بکثرت بڑھائیں جو عرب ممالک میں احمدیت کی آواز پہنچانے کیلئے ہماری جماعت کی طرف سے شائع کیا جاتا ہے.اب میں تفصیلی طور پر اخبارات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اخبار’الفضل کو چلانے میں عملہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور چونکہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت ہے اس لئے صدرانجمن احمد یہ پر بھی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آج کل تجارتی زمانہ ہے اور اخبار کو تجارتی لائنوں پر چلانا چاہئے.مگر باوجود اس کے کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے اخبار چلانے کیلئے تجارتی رنگ اختیار نہیں کیا جاتا اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ جب تک تجارتی لائن اختیار نہیں کی جائے گی اس وقت تک اخبار والوں کو کامیابی نہیں ہوگی.میں نے یورپ کے اخبار نویسوں کو دیکھا ہے.ان کو خبر میں جمع کرنے کی اتنی حرص ہوتی ہے کہ بسا اوقات جن کا معاملہ ہوتا ہے انہیں اتنی خبر نہیں ہوتی جتنی اخبار والوں کو ہوتی ہے.وہ بے شک بعض دفعہ جب ان کی قوم کا فائدہ ہو تو جھوٹ بھی بول لیتے ہیں مگر بالعموم سچائی سے کام لیتے ہیں اور خبریں جمع کرنے کیلئے انتہائی جد و جہد کرتے ہیں.میں جب ولایت گیا تو باوجود یکہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے پھر بھی ہر اخبار کا نمائندہ ہمارے پاس آتا اور گرید گرید کر ہم سے حالات پوچھتا ہم برائٹن گئے تو اس اخبار کے نمائندے ہمارے ساتھ تھے.پیرس گئے تو وہاں موجود تھے.غرض دن رات ان اخبارات کے ایڈیٹر ہمارے حالات معلوم کرنے کیلئے پھرتے رہتے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمارے اخبار کے ایڈیٹروں سے دس دس بیس بیس گنا زیادہ تنخواہ لینے والے ہوتے ہیں.اسی طرح الفضل کا بھی کام ہے کہ وہ سلسلہ کی خبریں مہیا کرنے میں زیادہ مستعدی سے کام لے.پھر میں جو خطبے پڑھتا ہوں اگر ان خطبوں کو ذہانت سے پڑھا جاتا ہو تو ہر شخص جانتا ہوگا کہ ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا ہوتا ہے.جس طرح باری کا بخار ا یک روز زیادہ زور سے چڑھتا ہے اور ایک روز کم ہو جاتا ہے اسی طرح ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا.

Page 248

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے اگر پہلے کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی تو وہ اب جا کر ” الفضل‘ کا فائل کھول کر دیکھ لے.ہمیشہ اسے یہی دکھائی دے گا کہ میرا ایک خطبہ لمبا ہے اور ایک چھوٹا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک زودنویس تو میرا خطبہ صحیح طور پر لکھتا ہے اور ایک زود نو لیں ایسا ہے جو میرے الفاظ چھوڑتا چلا جاتا ہے اور کبھی مکمل خطبہ نہیں لکھتا.دوست اگر چاہیں تو اب واپسی پر اپنے گھروں میں جا کر مقابلہ کر لیں ہمیشہ دو خطبوں میں انہیں نمایاں فرق نظر آئے گا اور باقاعدہ ایک خطبہ لمبا ہو گا اور ایک چھوٹا بلکہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے جس خطبہ پر میں نے دس منٹ کم خرچ کئے ہوتے ہیں وہ لمبا ہوتا ہے اور جس خطبہ پر میں نے زیادہ وقت صرف کیا ہوتا ہے وہ چھوٹا ہوتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک خطبہ نویس ایسا ہے جسے لکھنے کی قابلیت نہیں.ہر شخص زودنویس نہیں ہوسکتا ممکن ہے وہ ایڈیٹر ہومگر ز ودنو لیس نہ ہو.مگر باوجود یکہ میں سالہا سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور ہر پانچویں چھٹے خطبہ پر مجھے اس قسم کے نوٹ لکھنے پڑتے ہیں کہ خطبہ یہاں سے حذف ہو گیا ہے، یا یہ بات اپنے پاس سے لکھ دی گئی ہے.یہ باتیں ایسی ہیں کہ لازمی طور پر ان کا خریداری پر اثر پڑتا ہے.میں نے اپنا تجربہ اس وقت دوستوں کو بتا دیا ہے ممکن ہے باہر کی جماعتوں کو اس کا علم نہ ہو لیکن اگر وہ چاہیں تو اب گزشتہ خطبے نکال کر دیکھ سکتے ہیں.بغیر کسی فرق کے برابر ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا.ممکن ہے کوئی ایک خطبہ ایسا بھی نکل آئے جو اس مختصر نویسی کے زمانہ میں میں نے خاص طور پر بہت زیادہ لمباد یا ہوا اور وہ چھوٹا دکھائی نہ دے لیکن عام طور پر با قاعدہ میرا ایک خطبہ بڑا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا.یہی بے تو جہی باقی کاموں میں بھی ہے حالانکہ روزانہ اخبار تبھی چل سکتے ہیں جب وہ روزانہ ضرورتوں کو مہیا کریں.اسی طرح مضامین کے متعلق میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ان میں تنوع ہونا چاہئے اور سارا اخبار ہی دینی مضامین سے نہیں بھرنا چاہئے مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں کی جاتی.اگر ہم سارا دن نمازیں نہیں پڑھتے رہتے بلکہ اور بھی بیبیوں کام کرتے ہیں تو سارے اخبار میں دینی مضامین ہی اگر ہوں تو وہ کب لوگوں کیلئے دلچسپی کا موجب بن سکتے ہیں.قرآن کریم کو بھی دیکھ لو اس میں صرف خدا اور اس کے رسولوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ کہیں پانیوں کا ذکر ہے، کہیں بادلوں کا ذکر ہے، کہیں ہواؤں کا ذکر ہے، کہیں زمین کی حرکتوں کا ذکر ہے، کہیں حیوانات کا ذکر ہے، کہیں لڑائیوں کا ذکر ہے، کہیں سیاسیات کا ذکر ہے غرض مختلف قسم کے اذکار اس میں پائے جاتے ہیں مگر کیا الفضل قرآن سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے کہ اگر وہ علمی اور تاریخی اور اقتصادی اور صنعتی مضامین لکھے تو اس کی زبان صاف

Page 249

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے نہیں رہے گی.میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ مضامین میں تنوع پیدا کر و علمی اور تاریخی مضامین لکھو،مختلف عنوانات پر مختصر نوٹ لکھو اس طرح تعلیمی، صنعتی ، مذہبی اور اقتصادی مضامین لکھو، مختلف اقوام میں جو رسوم پائی جاتی ہیں ان پر وقتا فوقتا روشنی ڈالو، غیر مذاہب کے حالات لکھو، دلچسپ خبریں شائع کرو اور ان کے دوران میں مذہبی مضامین بھی لکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری کو نین شکر میں لپٹی ہوئی ہوگی اور ہر کوئی شوق سے اسے کھانے کیلئے تیار رہے گا.مگر باوجود اس کے کہ میں نے ایک دودفعہ نہیں بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے اور متواتر توجہ دلائی ہے کبھی میرے توجہ دلانے کے مطابق عمل نہیں ہوتا.میں نے یہ توجہ براہ راست عملہ کو بھی دلائی ہے اور بڑوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا ہے مگر ہمیشہ ” مرغ کی ایک ٹانگ والا معاملہ رہتا ہے.کوئی بہشت ہی نہیں کرتا کہ اس مرغ کی دوسری ٹانگ نکلے.میں تو سمجھا ہی سکتا تھا سو میں نے چھوٹوں کو بھی سمجھا دیا اور بڑوں کو بھی سمجھا دیا.میں نے افسروں کو بھی کہا کہ اگر ان تجاویز پر عمل نہیں ہوگا تو ہشت ہی کر دو.مگر افسر ہیں کہ انہیں ہشت کرنا بھی نہیں آتا حالانکہ یہ اخبار یقیناً ایسا دلچسپ بنایا جا سکتا ہے کہ باوجود روزانہ ہونے کے اور باوجود دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ہماری دنیوی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتا ہے بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اگر الفضل والے ہمت کریں تو روزانہ خبریں بھی مہیا کر سکتے ہیں مگر اس کے لئے پوری محنت کی ضرورت ہے." در حقیقت روزانہ اخبار کا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اور اسے وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جو زندگی کی تمام لذتوں کو چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائے.یورپ کے اخبار والوں کو تو کام کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ انہیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ پاگل ہیں.میں جب ولایت گیا تو میں نے چاہا کہ ایک مشہور اخبار نویس سے ملوں.میں نے اپنے اس ارادہ کا ایک دوست سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مسٹر میکڈانلڈ وزیر اعظم برطانیہ کے ساتھ آپ آسانی سے ملاقات کر سکتے ہیں لیکن اس اخبار نویس سے آپ کا ملاقات کرنا مشکل ہے کیونکہ بعض دفعہ کئی کئی مہینے لوگ اس کی شکل نہیں دیکھتے.وہ جسے ہماری پنجابی میں بچ مارنا کہتے ہیں وہ اخبار نویس کی حالت ہوتی ہے اور اس کے لئے بہت بڑی محنت اور بہت بڑی عقل کی ضرورت ہوتی ہے.اُسے کسی خبر کے سنتے ہی منٹوں میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی نظر کو ایک ایک خبر پر یوں تیرتے چلے جانا چاہئے جیسے بحری جانو رسمندر کی لہروں پر اپنا سر اٹھاتے چلے جاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے دو تین سال سے الفضل کے مضامین میں کچھ تنوع پایا جاتا ہے مگر اس میں

Page 250

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے زیادہ تر کچھ مجلس انصار سلطان القلم کا دخل ہے جو میاں بشیر احمد صاحب نے بنائی تھی اور کچھ اس میں میر محمد اسماعیل صاحب کے مضامین کا حصہ ہے.چنانچہ چند دن ہوئے مجھے ایک شدید متکبر عالم کا خط آیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اب ایک دو سال سے یہ اخبار دلچسپ ہو گیا ہے اور اس کے مضامین میں کسی حد تک تنوع پیدا ہو گیا ہے.مگر پھر بھی جس حد تک اسے بڑھایا جا سکتا اور اس کے ذریعہ اپنی جماعت کو دوسرے اخبارات سے مستغنی کیا جا سکتا ہے وہ بات ابھی اس میں پیدا نہیں ہوئی.اشتہارات کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ پوری توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ اس سے بھی اخبار کو بہت کچھ مددملتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ صحیح ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا.دنیا کی ہرا اخبار کو اچھے اشتہار مل جاتے ہیں مگر ہمارے الفضل میں سوائے مخصوص امراض کی دوائیوں کے اور کوئی اشتہا ر ہی نہیں ہوتا گویا تمام لوگ دنیا میں اب انہی بیماریوں کے ہی مریض ہیں.میں تو اس سے اتنا تنگ آ گیا ہوں کہ اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا کوئی اشتہار اخبار میں چھپنے نہیں دوں گا.چنانچہ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ کیلئے ہمارے اخبار میں اس قسم کا کوئی اشتہار نہیں نکلنا چاہئے.دنیا میں بیماریوں کی کمی نہیں، کئی ایسی بیماریاں ہیں جو نہایت خطرناک ہوتی ہیں اگر ان بیماریوں کے متعلق اپنی مجرب دوائی لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس قسم کی مخصوص بیماریوں کے متعلق ہی کوئی اشتہار دینا ہو تو یہ لکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی دوائیں تیار ہیں ضرورت مند فہرست منگوا کر دیکھ لیں.یورپین اخبارات میں بھی یہی طریق ہوتا ہے.وہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض چیزیں دایہ گری وغیرہ کے متعلق ہیں جو لوگ تفصیل معلوم کرنا چاہیں وہ خط لکھ کر ہم سے فہرست منگوا لیں.پھر جب انہیں کوئی خط لکھتا ہے تو وہ فہرست بھیج دیتے ہیں.اسی رنگ میں ہمارے اخبار میں بھی اس قسم کے اشتہارات شائع ہونے چاہئیں اور انہیں صرف یہ لکھ دینا چاہئے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی ادویات موجود ہیں دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہم سے فہرست منگوا لیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی دوائیاں ہمیشہ ہسٹیر یا والے منگوایا کرتے ہیں اور ان کے لئے کسی لمبے چوڑے اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی.صرف اتنا لکھنا ہی ان کیلئے کافی ہوتا ہے کہ ایک مسیحا پیدا ہو گیا ہے اس سے دوائی منگوا کر تجربہ کرو.ایسے لوگوں کو بچے مسیح کا ماننا تو مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر انہیں کہہ دیا جائے کہ فلاں مسیحائے وقت ہے جس کی دوائیں بڑی زود اثر ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف خط لکھ دیں گے.پس اس قسم کا مزاج رکھنے والوں کیلئے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ایک اشارہ ہی کافی

Page 251

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے ہے وہ فوراً فہرست منگوالیں گے اور مشتہرین کی ادویات پک جائیں گی لیکن میں نہیں سمجھتا دنیا میں یہی ایک مرض رہ گیا ہے جس کے علاج کی لوگوں کو ضرورت ہے.بہتیرے ایسے امراض ہیں جن میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں اور جن کے صحیح علاج کے وہ واقعی محتاج ہوتے ہیں مگر صحیح علاج انہیں میسر نہیں آتا.ہمارے ملک میں کھانسی کی عام شکایت پائی جاتی ہے، اسی طرح سل دق ایک عام مرض ہے جو ہندوستان میں پایا جاتا ہے، اسی طرح انتریوں کے کئی امراض ہیں جن میں لوگ مبتلا رہتے ہیں، بواسیر ایک ایسا مرض ہے جس کے کثرت سے مریض ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں بلکہ میں نے ڈاکٹروں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں ہندوستان میں ساٹھ فیصدی بواسیر کے مریض ہیں.اسی طرح کثرت سے مرض پیچش کے مریض ہمارے ہاں نظر آتے ہیں.چونکہ گھی لوگوں کو کم ملتا ہے اس لئے ان کی انتڑیوں میں چکنائی نہیں رہتی جس کی وجہ سے انتڑیوں میں مستقل طور پر خراش پیدا ہو جاتی ہے اور پیچش کا مرض مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ کام کی کثرت کی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ سُستی اور غفلت کی وجہ سے یعنی یا تو ایسا ہوتا ہے کہ بیماری محسوس بھی ہوتی ہے مگر چونکہ کام کی کثرت ہوتی ہے اس لئے انسان بیماری کی طرف توجہ نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری جڑ پکڑ جاتی ہے اور یا پھر سستی کی وجہ سے انسان مرض کو بڑھا لیتا ہے.تیمار دار سر ہانے بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے دوائی پی لو مگر مریض ہے کہ دوائی پینے کا نام ہی نہیں لیتا بہر حال کسی نہ کسی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں.اگر ایسی امراض کے مجرب علاج دنیا کو بتلائے جائیں تو یقیناً اس میں لوگوں کا فائدہ ہے.اسی طرح دانتوں کی کئی بیماریاں ہیں ، جگر کی کئی بیماریاں ہیں ، طحال کی کئی بیماریاں ہیں ان امراض کے اگر مجرب نسخے شائع کئے جائیں اور کسی مفید دوائی کا اشتہار بھی دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا.اسی طرح صنعت و حرفت کی کئی چیزیں ہیں جن کے اشتہارات الفضل میں شائع ہو سکتے ہیں مگر وہ چیزیں جن کا اشتہار لوگوں کیلئے مفید ہوسکتا ہے اس طرف تو توجہ نہیں کی جاتی اور مخصوص امراض کی دوائیوں کے اشتہارات دھڑا دھڑ شائع ہوتے رہتے ہیں.اسی طرح عدالتوں کے اشتہارات بھی مل سکتے ہیں بشرطیکہ یہ لوگ وہ طریق اختیار کریں جو اخبار نویس اختیار کیا کرتے ہیں.ہمارا مقابلہ اس وقت کسی ایک قوم یا ایک ملک سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں ہمیشہ یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ عیسائی کیا کر رہے ہیں، یہودی کیا کر رہے ہیں اور کس رنگ میں وہ

Page 252

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ کی تیاری کر رہے ہیں تا جماعت ان مفاسد کی اصلاح کرتی رہے جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.مگر اس کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ روزانہ اخبارات کا مطالعہ کیا جائے اور ان میں سے ایسی خبریں نکال کر جلد سے جلد جماعت کے سامنے رکھی جائیں تا جماعت کو اپنے فرائض کا احساس رہے.اگر الفضل والے ان ہدایات کے مطابق کام کریں اور محنت اور توجہ سے کام لیں تو نہ صرف اخبار دلچسپ ہو جائے گا بلکہ جماعت کے دوستوں میں بھی مسابقت کی روح پیدا ہو جائے اور وہ کوشش کرتے رہیں کہ دوسری قوموں سے بڑھ کر ر ہیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے.میں نے دیکھا ہے جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خریدتے ان کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف رہتے ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اخبارات اور رسالے ضرور خرید میں بلکہ جو ان پڑھ ہیں وہ بھی لیں اور کسی پڑھے لکھے سے روزانہ تھوڑا تھوڑ ا سنتے رہا کریں تا کہ ان کی علمی ترقی ہو اور سلسلہ کے حالات سے وہ باخبر رہیں.(الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۶۰ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دنیا میں آئے اور آپ نے دعویٰ کیا کہ میں مسیح موعود ہوں تو در حقیقت آپ کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے.یعنی جماعت احمدیہ کے جو بانی ہیں ان کا یہ دعویٰ نہیں کہ وہ کوئی نیا مذہب لائے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ قرآن کو بھول چکے تھے اور قرآن بھولنے کی وجہ سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں میں سرد ہو چکی تھی ، اسلام کی خدمت کا ان کے دلوں میں کوئی جوش باقی نہیں رہا تھا اور ان کی حالتیں اتنی بدل گئی تھیں کہ وہ دین پر عمل کرنے سے گریز کرتے تھے.تب اللہ تعالیٰ نے ان کے ان روحانی امراض کا علاج کرنے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں اور فرمانبرداروں میں سے ایک شخص کو چنا اور اسے کہا کہ ہم تمہیں اسلام کی خدمت کیلئے کھڑا کرتے ہیں تم جاؤ اور لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کرو.یہ دعوی تھا جو آپ نے کیا اور یہ کام تھا جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے.جب آپ نے لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے اور میرا نام خدا تعالیٰ نے مسیح موعود رکھا ہے تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ مسیح تو آسمان پر بیٹھا ہے اور وہی دوبارہ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ مسلمانوں میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تعلم عدل ہو گا اور اس ابن مریم سے وہی ابن مریم مراد ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت

Page 253

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے سے چھ سو سال پہلے دنیا میں آیا ہے.پس جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح ابن مریم نے ہی آسمان سے نازل ہونا اور اسی نے اصلاح خلق کا کام کرنا ہے تو تم جو پنجاب میں رہتے ہو اور پنجاب کی ایک بستی قادیان میں پیدا ہوئے ہو کس طرح مسیح موعود ہو سکتے ہوا اور جب تم کہتے ہو کہ تم مسیح موعود ہو تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے.یا تو تم پاگل ہو اور یا لوگوں کو جان بوجھ کر دھوکا اور فریب دیتے ہو.یہ اعتراض تھا جو لوگوں نے آپ کے دعوئی پر کیا.آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہوتا تو بے شک تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ اُٹھ سکتا تھا کہ جب اس نے دنیا میں ابھی آنا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور شخص کس طرح کھڑا ہو گیا ہے یا اگر مسیح ابن مریم کے آنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہوتی اور مسیح کی بھی عزت ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا نے اور رسولوں کی عزت دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے مسیح ابن مریم کو ہی دوبارہ بھیج دیا.مگر حق بات یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے بتایا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں اور ان کی وفات قرآن کریم سے ثابت ہے.پس ان کے وفات پا جانے کی وجہ سے اب ان کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ دوبارہ اس دنیا میں آ سکتے ہیں.چنانچہ آپ نے اس کی ایک موٹی دلیل یہ دی کہ سورہ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں مسیح ابن مریم سے دریافت کروں گا کہ تجھ کو اور تیری ماں کو جو دنیا میں خدا بنایا گیا ہے تو کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا مانو اور ہماری پرستش کر و.آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض ایسے فرقے بھی تھے جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کے قائل تھے اور عملاً تو رومن کیتھولک والے اب بھی حضرت مریم کی تصویر کے آگے سجدہ کرتے اور ان سے دعائیں کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم قیامت کے دن پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بناؤ.اس کا حضرت مسیح علیہ السلام یہ جواب دیں گے کہ الہی یہ بات بالکل غلط ہے.جب تک میں ان لوگوں کے درمیان زندہ رہا اس وقت تک تو وہ تو حید کے ہی قائل رہے تھے اور انہوں نے ہرگز شرک کا عقیدہ اختیار نہیں کیا تھا مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر میرا لوگوں سے کیا واسطہ رہا پھر تو ہی ان کا نگران تھا مجھے تو کچھ علم نہیں کہ انہوں نے میرے بعد کیا کیا.یہ جواب ہے جو قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کو دیں گے اور قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے حضرت مرزا صاحب نے اس سے

Page 254

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو قیامت کے دن حضرت مسیح جو یہ جواب دیں گے تو یہ سچا جواب ہوگا یا جھوٹا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا نبی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن تمہارے عقیدہ کے مطابق اگر وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو لازماً وہ اپنی قوم کے حالات سے بھی واقف ہو جائیں گے کیونکہ تمہارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح آ کر صلیبوں کو توڑیں گے ، خنزیروں کو قتل کریں گے اور عیسائیوں کو مجبور کر کے مسلمان بنا ئیں گے جس سے ظاہر ہے کہ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ عیسائی ان کی خدائی کے قائل ہیں اب کس طرح ممکن ہے کہ دنیا میں تو آ کر وہ تمام حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں اور ان کی اصلاح بھی کریں مگر خدا کو یہ جواب دیدیں کہ خدایا مجھے تو کچھ معلوم نہیں کہ لوگ کیا کرتے رہے ہیں.کیا خدا انہیں نہیں کہے گا کہ بندہ خدا تو تو چالیس سال دوبارہ دنیا میں رہا.تو نے خنر یرقتل کئے ، تو نے صلیبیں تو ڑیں، تو نے زبر دستی ان لوگوں کو مسلمان بنایا مگر آج کہہ رہا ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ لوگ میرے بعد کیا کرتے رہے.اور اگر وہ دوبارہ دنیا میں آکر ر ہیں اور خدا ان سے وہی سوال کرے جو قرآن میں مذکور ہے تو بجائے وہ جواب دینے کے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدایا! یہ سوال عجیب ہے آپ نے تو خود مجھے دنیا میں بھیجا.میں نے وہاں جا کر سور مارے صلیبیں توڑیں، شرک اور کفر کا استیصال کیا مگر آج بجائے اس کے کہ آپ مجھے انعام دیتے الٹا ناراض ہورہے ہیں.گویا وہی مثال ہوتی کہ نیکی بر باد گناہ لازم میں نے تو دنیا میں اتنی مصیبت اُٹھائی کہ دن رات ایک کر کے سو ر مارتا رہا، صلیبیں تو ڑتا رہا عیسائیوں کو مسلمان بنا تا رہا اور آج بجائے کوئی انعام دینے کے مجھے ڈانٹا جا رہا ہے کہ کیا تو نے یہ شرک کی تعلیم دی تھی ؟ مگر وہ ان جوابوں میں سے کوئی جواب بھی نہیں دیتے.وہ اگر کہتے ہیں تو یہ کہ مجھے ان کے گمراہ ہونے کا کوئی پتہ نہیں.وہ اگر گمراہ ہوئے ہیں تو میرے بعد ہوئے ہیں، میری موجودگی میں نہیں ہوئے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف الفاظ آتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد جو کچھ ہوا ہے ہوا ہے میری زندگی میں نہیں ہوا.اب سوال یہ ہے کہ کیا عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں یا نہیں ؟ یہ ایک ایسی موٹی بات ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا.ہر عیسائی سے پوچھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے وہ یہی کہے گا کہ حضرت مسیح خدا تھے.اب اگر قرآن شریف خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ، اگر سورۃ مائدہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی رسول کریم پر نازل ہوئی تھی تو وہ تو یہ کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن حضرت مسیح یہ کہیں گے کہ جو کچھ ہوا

Page 255

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے میری موت کے بعد ہوا زندگی میں نہیں ہوا.اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے.یا تو حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک نہیں مرے اور نہ عیسائی بگڑے ہیں اور یا حضرت عیسی علیہ السلام واقعہ میں فوت ہو چکے ہیں اور عیسائیوں کے عقائد میں بگاڑ ان کی وفات کے بعد ہوا ہے.حضرت مرزا صاحب نے اس بات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ ان دو باتوں میں سے ایک بات کا فیصلہ کرو.تم یہ بتاؤ کہ عیسائی بگڑے ہیں یا نہیں اگر عیسائی نہیں بگڑے اور وہ حق پر ہیں تو تمہارا بھی فرض ہے کہ تم عیسائی ہو جاؤ کیونکہ وہ تو بقول تمہارے راہ راست پر قائم ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام اسی صورت میں زندہ ہو سکتے ہیں جب عیسائی بگڑے نہ ہوں.پس مسلمان اب فیصلہ کر لیں کہ عیسائی بگڑے ہوئے ہیں یا نہیں اگر وہ بگڑے ہوئے نہیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خود بھی عیسائی ہو جائیں اور اگر وہ بگڑے ہوئے ہیں اور اگر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں کیونکہ قرآن یہی کہتا ہے کہ عیسائیوں میں یہ خیال کہ حضرت مسیح اور مریم صدیقہ خدا ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد پیدا ہوا ان کی زندگی میں پیدا نہیں ہوا.گویا وہ لوگ جو حضرت عیسی کو زندہ سمجھتے ہیں، انہیں ماننا پڑے گا کہ عیسائی حق پر ہیں اور انہیں اسلام سے مرتد ہونا پڑے گا پس ایک مسلمان کیلئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات شدہ مانے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے اور عیسائی ہو جائے کیونکہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو عیسائی بگڑ ہی نہیں سکتے ان کا بگڑنا حضرت مسیح کی موت کے بعد مقدر ہے.یہ ایسی موٹی بات ہے کہ اس میں کسی لمبے چوڑے جھگڑے کی ضرورت ہی نہیں.سیدھی سادی بات ہے کہ حضرت مسیح کہتے ہیں اے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی تو اس کے بعد عیسائی بگڑے ہیں پہلے نہیں.اب اگر عیسائی بگڑ چکے ہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بے شک کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں مگر اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بندے مسلمان نہیں بلکہ عیسائی ہیں.پھر یہ جو بات تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے واپس آنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہے یا ذلّت.اس نقطہ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہے بلکہ رسول کریم ﷺ کی عزت کا سوال ہی نہیں اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے خدا تعالیٰ کی عزت ہو تب بھی ہم ان کے دوبارہ آنے کو تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خدا

Page 256

انوارالعلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے کی عزت دنیا میں قائم ہو لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ تسلیم کرنے میں نہ صرف رسول کریم ﷺ کی اہانت ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ذلت ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عقیدہ سے بڑھ کر خطر ناک اور کوئی عقیدہ نہیں ہو سکتا.اگر خدا تعالیٰ کی عزت کا سوال لو تو سیدھی بات ہے کہ اس عقیدہ کی رُو سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ۱۹ سو سال سے خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہو جائے اور اصلاح خلق کا کام رُک نہ جائے گویا جس طرح غریب آدمی اپنی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے اسی طرح خدا نے بھی اپنی اس چیز کو خوب حفاظت سے رکھا ہوا ہے.آخر امیر اور غریب میں کیا فرق ہوتا ہے یہی فرق ہوتا ہے کہ غریب آدمی اگر صبح کی دال بچ جائے تو بیوی سے کہتا ہے اسے سنبھال کر رکھ دینا رات کو کام آئے گی.یا سردیوں میں اگر اسے کوئی گرم کپڑا ملتا ہے تو سردیاں ختم ہونے پر نہایت حفاظت سے گٹھڑی باندھ کر رکھ دیتا ہے یا صندوقوں میں حفاظت سے اسے بند کرتا ہے کہ اگلی سردیوں میں وہ کپڑے کام آئیں.روٹیاں بچ جاتی ہیں تو وہ رکھ لیتا ہے.اس کے مقابلہ میں امیر آدمی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چند دن کپڑا پہنتا ہے اور پھر یہ خیال کر کے کہ خدا نے چند دن نیا کپڑا پہنے کی توفیق دے دی ہے اب غریبوں کا بھی کچھ حق ہے وہ اس کپڑے کو اٹھاتا اور کسی غریب کو دیدیتا ہے.کھانا پکتا ہے تو جتنا کھانا آسانی سے کھایا جا سکے وہ کھا لیتا ہے اور باقی نوکروں کو دیدیتا ہے.یا ان کی بیگمات ار در گرد کے غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہیں.وہ ان کپڑوں یا اس کھانے کو سنبھال کر نہیں رکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جب ضرورت ہو گی ہم نئی چیز تیار کر لیں گے مگر اللہ تعالیٰ جو قادر ہے اور جس کی قدرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب بھی دین کیلئے کسی نئی چیز کی ضرورت ہو وہ اپنی قدرت سے اس نئی چیز کو مہیا کر دے.اس کے متعلق مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس نے انیس سو سال سے حضرت عیسی علیہ السلام کو سنبھال کر آسمان پر زندہ رکھا ہوا ہے محض اس لئے کہ امت محمدیہ کو جب آخری زمانہ میں دینی لحاظ سے نقصان پہنچا تو میں اس کے ازالہ کیلئے اسے آسمان سے نازل کروں گا.گویا وہی کنگالوں والی بات ہوئی جو صبح کی دال بیچا کر شام کے لئے رکھ لیتے ہیں.آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کون سے کارنامے سرانجام دیئے تھے کہ آخری زمانہ میں بھی انہی کا بھیجا جانا خدا کو پسند آیا.انہوں نے دنیا میں یہی کام کیا کہ چند روز لوگوں کو تبلیغ کی اور جب یہود نے صلیب پر لٹکانا چاہا تو آسمان پر چلے گئے.اس میں انہوں نے کونسی ایسی کامیابی حاصل کی تھی کہ آخری زمانہ میں بھی ان کا نزول ضروری تھا.جو شخص آسمان پر چلا گیا اس نے

Page 257

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے بالفاظ دیگر دنیا کو پیٹھ دکھا دی.اب وہ شخص جو دنیا کو پیٹھ دکھا چکا ہے اور جس نے اپنے زمانہ کا کام بھی پورا نہیں کیا وہ رسول کریم ﷺ کی امت کا کیا کام کرے گا اور کس کامیابی کی اس سے توقع رکھی جا سکتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کی شدید تک ہے اور اس عقیدہ کو تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر بہت بڑا حرف آتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا قادر نہیں اور ضرورت پر وہ امت محمدیہ میں سے کسی نئے آدمی کو تیار نہیں کر سکتا.پھر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اس سے حرف آتا ہے بلکہ اس کے علم پر بھی حرف آتا ہے کہ وہ شخص جو میدان مقابلہ میں بالکل کام ہی نہ کر سکا اسی کے سپر د امت محمدیہ کی اصلاح کا کام اس نے کر دیا.مگر تعجب ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے تو اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہوا اور ادھر رسول کریم ﷺ سے یہ سلوک ہو کہ آپ پر خطر ناک سے خطر ناک مواقع آئے مگر ایک دفعہ بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر نہ اُٹھایا.حنین کی جنگ میں جبکہ چار ہزار مشاق تیر انداز آپ پر تیروں کی بارش برسا رہا تھا اور رسول کریم لے کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے اس وقت صحابہ آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہ ! یہاں کھڑے رہنے کا موقع نہیں ، آپ کی زندگی کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے ، آپ کسی محفوظ مقام میں چلیں جب دشمن کے حملہ کا زور ٹوٹ جائے گا تو ہم پھر اسلامی لشکر کو جمع کر کے اس پر حملہ کر دیں گے.چنانچہ بعض صحابہ اسی جوش میں آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو اَنَا النَّبِيُّ لَا الله گذب سے میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں.خدا اس نبی کو تو موت دے دے اور اسے وفات دے کر مٹی میں دفن ہونے دے مگر حضرت عیسی علیہ السلام ابھی صلیب پر بھی نہ چڑھے ہوں کہ خدا آپ کو بچانے کیلئے آسمان پر اٹھا لے.اس عقیدہ کو کوئی با غیرت مسلمان برداشت نہیں کر سکتا.اگر کوئی نبی زندہ رکھنے کے قابل تھا تو وہ حضرت رسول کریم ع یہ ہی تھے مگر ان کو تو خدا تعالیٰ بچاتا نہیں اور وہ جان دینے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کو جھٹ بچالیتا اور آسمان پر اٹھا لیتا ہے.پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ابتلاء کیا آیا اور اگر آیا تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ اسے برداشت کرتے مگر بجائے اس کے کہ وہ خوشی کے ساتھ اس ابتلاء کو برداشت کرتے جھٹ دعا کرنے لگ گئے.حتی کہ بائیل میں لکھا ہے انہوں نے ساری رات دعا کرنے میں گزار دی اور وہ بار بار اپنے حواریوں کو جگاتے اور کہتے کہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ یہ

Page 258

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے پیالہ مجھ سے ٹل جائے.پس وہ جس نے کہا تھا کہ یہ موت کا پیالہ مجھ سے مل جائے اسے تو خدا آسمان پر اُٹھا لیتا ہے مگر وہ جس نے کہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اسے خدا نے وفات دے دی.گویا جس نے مردانہ وار کام کیا تھا اسے تو پنشن دیدی.اور جو میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑ کر گھر آ گیا تھا اسے ایکس ٹینشن (EXTENSION) دے دی.اب دیکھ لو کہ اس عقیدہ کو تسلیم کرنے میں نہ خدا کی عزت ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کی عزت.پھر یہ عقیدہ رکھنے میں حضرت مسیح کی بھی تو کوئی عزت نہیں.ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے بچ گئے تھے مگر دوسرے مسلمانوں کے نزدیک آسمان پر بھاگ گئے تھے.اور یہی ایک نبی کی سب سے بڑی توہین ہے کہ جو کام اس کے سپر د تھا وہ تو اُس نے نہ کیا اور آسمان پر جا بیٹھا.پھر خدا نے تو حضرت مسیح کو نبی قرار دیا ہے مگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ آخری زمانہ میں جب وہ نازل ہوں گے تو نبی نہیں ہوں گے بلکہ امتی ہوں گے گویا جسے خدا نے مستقل نبی قرار دیا تھا اسے وہ تابع نبی بنادیتے ہیں اور اس طرح اس کی ہتک کے مرتکب ہوتے ہیں.اگر تو یہ کہا جا تا کہ چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے اس لئے اس کی سزا میں انہیں امتی بنادیا جائے گا تو گو پھر بھی ایک نبی کی تذلیل ہوتی مگر یہ بات کسی حد تک معقول قرار دی جا سکتی تھی.لیکن بغیر کوئی قصور بتائے مولویوں کی طرف سے یہ مسئلہ پیش کیا جاتا ہے کہ خدا انہیں مستقل نبی کی بجائے تابع بنی بنادے گا اور اس طرح وہ اپنے عمل سے حضرت عیسی علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں.پھر یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ جو شخص بنی اسرائیل میں ایک چھوٹے سے فتنہ کا مقابلہ نہ کر سکا وہ امت محمدیہ میں آکر اس دجالی فتنے کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے جس فتنہ سے بڑا فتنہ آج تک دنیا میں کوئی ہوا ہی نہیں.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمان پر سمجھا جائے تو اس میں خدا کی بھی ہتک ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کی بھی بہتک ہے اور رسول کریم ہ کی بھی ہتک ہے.میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کا دیا بجھ جائے تو وہ کسی اور کے گھر سے دیا سلائی مانگنے جاتا ہے تا کہ اپنے لیمپ کو روشن کرے.وہ امیر لوگ جن کے گھروں میں بجلی کے لیمپ ہوتے ہیں وہ شاید اس امر کو نہ سمجھ سکیں لیکن غرباء اس کو خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جب ان کے گھر کا لیمپ بجھ جاتا ہے اور دیا سلائی ان کے پاس نہیں ہوتی تو وہ اپنے کسی ہمسائے یا قریبی کے ہاں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا د یا سلائی دینا میں اپنا لیمپ جلا لوں.یا ان کے گھر میں لیمپ جل رہا ہو تو اس کی بتی سے اپنے لیمپ کی بتی کو روشن کر لیتے

Page 259

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے ہیں.اس مثال کو اپنے سامنے رکھو اور پھر دیکھو کہ مسلمانوں کے اس عقیدہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اسلام کا چراغ بجھ جائے گا اور اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اس کو روشن کیا جائے.محمد رسول اللہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے مگر مسلمانوں میں انہیں کہیں روشنی نظر نہیں آئے گی صرف یہودیوں کے گھر میں ایک لیمپ چل رہا ہوگا جسے دیکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ ان یہودیوں کے گھر جائیں گے اور اس لیمپ سے اسلام کے بجھے ہوئے چراغ کو روشن کریں گے.بتاؤ کیا اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے یا آپ کی عزت؟ غرض حیات مسیح کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ خدا کی اس میں عزت نہیں ، رسول کریم کی اس میں عزت نہیں ، حضرت عیسی علیہ السلام کی اس میں عزت نہیں صرف مولویوں کی عزت ہے مگر خدا اور اس کے رسولوں کے مقابلہ میں ان مولویوں کی عزت کی کیا حقیقت ہے کہ کوئی با غیرت مسلمان اس کا خیال رکھ سکے.مگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی اصلاح کر لی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی اور اب اُمتِ محمدیہ کی اصلاح کیلئے انہیں ہی امتی بنا کر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متبعین میں سے ایک شخص کو اصلاح خلق کیلئے کھڑا کر دے گا ، وہ آپ کے نور میں سے نورلے گا اور آپ کی معرفت میں سے معرفت اور اس طرح وہ آپ کا غلام اور خادم بن کر لوگوں کو پھر اسلام پر قائم کرے گا اور آپ کسی موسوی نبی کے شرمندہ احسان نہیں ہوں گا.یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن سے یہ مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے.باقی رہا نبوت کا مسئلہ سو اس کے متعلق بھی مخالف علماء لوگوں کو سخت مغالطہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوۃ ہے.ان کا مفہوم اس اصطلاح سے یہ ہوتا ہے کہ گویا ہم نے حضرت مرزا صاحب کو نبوت میں رسول کریم ﷺ کا شریک بنالیا ہے حالانکہ یہ بھی درست نہیں کیونکہ نبوت کو جس رنگ میں وہ پیش کرتے ہیں اس رنگ میں ہم اسے مانتے ہی نہیں.وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسی نبوت کے مدعی ہیں جس سے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اس لئے وہ آپ کی نبوت کو شرک فی النبوۃ قرار دیتے ہیں اور چونکہ شرک کا لفظ ایک مسلمان کیلئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بیل کیلئے سُرخ چیتھڑا ، اس لئے شرک فی النبوۃ کے الفاظ سنتے ہی مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو کتنا بڑا اندھیرا ہے کہ احمدی شرک فی النبوۃ کرتے ہیں.حالانکہ جو لوگ اسے شرک قرار دیتے ہیں وہ شرک کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں.شرک ایک تو ظاہری رنگ میں ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی انسان کو یا کسی اور چیز کو

Page 260

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے سجدہ کر دینا یہ تو ہر صورت میں منع ہے لیکن باطنی شرک ہمیشہ نسبتی ہوتا ہے.اگر جتنی محبت تم خدا سے کرتے ہو اتنی ہی محبت تم کسی نبی سے کرتے ہو تو تم مشرک ہو.لیکن اگر محبتوں کے نمبر ہوں.کوئی روپیہ جتنی محبت ہو، کوئی اٹھنی جتنی محبت ہو، کوئی چوٹی جتنی محبت ہو، کوئی دوئی جتنی محبت ہوا اور کوئی کوڑی جتنی محبت ہو تو اس صورت میں شرک کی تعریف بالکل بدل جائے گی.اگر خدا کی محبت تمہارے دل میں دو آنے کے برابر ہے اور تم دو یا اڑھائی آنہ محبت حضرت عیسی علیہ السلام سے یا کسی اور نبی سے کرتے ہو تو یہ شرک ہوگا لیکن اگر یہ محبت ڈیڑھ آنہ کے برابر ہے تو یہ شرک نہیں ہو گا.اس کے مقابلہ میں اگر کسی کو حضرت عیسی علیہ السلام سے اڑھائی آنے کے برابر محبت ہے اور خدا سے اسے ایک روپیہ کے برابر محبت ہے تو باوجود اس کے کہ یہ محبت پہلے شخص کی محبت سے زیادہ ہوگی پھر بھی یہ شرک نہیں کہلائے گی.کیونکہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی محبت اس کے دل میں پہلے شخص سے زیادہ ہے تو خدا کی محبت اس سے بھی زیادہ ہے.شرک تب ہوتا جب دونوں محبتیں ایک مقام پر ہوتیں.مگر جب دونوں ایک مقام پر نہیں تو شرک کس طرح ہو گیا.اب یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان رسول کریم ﷺ سے جو محبت رکھتے ہیں اس کی کسی اور نبی کے ماننے والوں میں نظیر نہیں مل سکتی.اور جو بچے مؤمن ہوں ان کا دل تو اللہ تعالیٰ اتنا وسیع بنادیتا ہے کہ ان کی محبت زمین و آسمان پر حاوی ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک موٹی بات دیکھ لو.حضرت عیسی علیہ السلام پر جب ایک ابتلاء کا وقت آیا تو ان کے تمام حواری بھاگ گئے بلکہ ایک نے تو آپ پر لعنت ڈالی اور کہا کہ میں نہیں جانتا مسیح کون ہے.مگر رسول کریم ﷺ پر کوئی تکلیف کا وقت نہیں آیا جب کہ صحابہ نے اپنے خون نہ بہا دیئے ہوں.بدر کی جنگ کا جب وقت آیا تو رسول کریم ﷺ نے تمام مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.اس کی ضرورت یہ پیش آئی کہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر مدینہ میں آ کر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر باہر جا کر کسی دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ آپ کی ضرور مدد کریں.اس موقع پر چونکہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ ہونا تھا اس لئے آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے انصار کا اس موقع پر اس معاہدہ کی طرف خیال چلا جائے.پس آپ نے ان کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دواس پر مہاجرین ایک ایک کر کے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ مشورہ کیا ؟ آپ چلیں اور جنگ

Page 261

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں.مگر جب بھی کوئی مہاجر بیٹھ جاتا رسول کریم ﷺ پھر فرماتے.اے لوگو! مجھے مشورہ دو.انصار اس وقت تک خاموش تھے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ ضرور لڑنا چاہئے تو مہاجرین کہیں یہ خیال نہ کریں کہ یہ لوگ ہمارے بھائیوں اور رشتے داروں کو مروانا چاہتے ہیں.پس وہ اس وقت تک خاموش رہے مگر جب رسول کریم ﷺ نے بار بار فرمایا کہ لوگو مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہایا رَسُولَ اللَّهِ! شاید آپ کی مراد ہم سے ہے آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ شاید آپ کی مراد معاہدہ سے ہے جو ہم نے آپ کی مدینہ کی تشریف آوری کے متعلق کیا تھا آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہایا رَسُولَ اللهِ! جس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت ہم نے آپ کی شان کو پورے طور پر پہچانا نہیں تھا اور غلطی سے یہ معاہدہ کر لیا مگر اس کے بعد جب آپ ہم میں رہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کی کیا شان ہے.پس اب اس معاہدے کا کوئی سوال ہی نہیں ، سامنے سمندر تھا انہوں نے اس سمندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! اگر آپ حکم دیں کہ اس سمندر میں گود جاؤ تو ہم اپنے گھوڑے اس سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور يَا رَسُولَ اللَّهِ! آپ جنگ کا کیا پوچھتے ہیں.خدا کی قسم ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے سے پھر ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بدر کے میدان میں پہنچے تو صحابہ نے ایک اونچی جگہ بنا کر رسول کریم ﷺ کو وہاں بٹھا دیا اور پھر انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ تیز رفتار اوٹنی کس کے پاس ہے.چنانچہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی لیکر انہوں نے رسول کریم ہے کے قریب باندھ دی.رسول کریم ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم تمام کے تمام اس جگہ شہید نہ ہو جائیں ہمیں اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں يَا رَسُولَ اللَّهِ! ہمیں آپ کا خیال ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو.ہم اگر مر گئے تو اسلام کو کچھ نقصان نہیں ہوگا لیکن آپ کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے پس ضروری ہے کہ ہم آپ کی حفاظت کا سامان کر دیں.يَا رَسُولَ اللهِ ! حضرت ابو بکر کو ہم نے آپ کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا ہے اور یہ

Page 262

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے ایک نہایت تیز رفتار اونٹنی آپ کے قریب باندھ دی ہے.اگر خدانخواستہ ایسا وقت آئے کہ ہم ایک ایک کر کے یہاں ڈھیر ہو جائیں تو یا رَسُولَ اللہ ! یہ اونٹنی موجود ہے اس پر سوار ہو جائیے اور مدینہ پہنچ جائیے.وہاں ہمارے کچھ اور بھائی موجود ہیں انہیں معلوم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے اگر معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوتے.آپ ان کے پاس پہنچ جائیے وہ آپ کی حفاظت کریں گے اور دشمن کے شر سے آپ محفوظ رہیں گے.یہ کتنی شاندار قربانی ہے جو صحابہ نے پیش کی.اس کے مقابلہ میں کیا نمونہ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے پیش کیا اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی محبت کی گرد کو بھی پہنچے تھے.پس یقیناً صحابہ رسول کریم مے سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے مگر وہ مشرک نہیں ہو گئے تھے کیونکہ خدا کی وہ محبت جو رسول کریم ﷺ نے ان کے دلوں میں قائم کی تھی وہ اس سے بھی بہت اونچی اور بہت بلند تھی.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی محبت خدا سے کی جاتی تھی اتنی ہی محبت رسول کریم ﷺ سے کی جائے تو بھی یہ شرک نہیں ہو سکتا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کی محبت کا معیار اور زیادہ بلند کر دیا اور اس کو اتنا اونچا کر دیا کہ آپ کی محبت بھی اس کے مقابلہ میں بیچ ہو جاتی ہے.پس آج رسول کریم ہے سے اتنی محبت کرنا جتنی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں خدا سے کی جاتی تھی شرک نہیں.کیونکہ خدا کی محبت آج اور زیادہ بلند ہو چکی ہے لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی حضرت عیسی علیہ السلام سے اتنی محبت کرتا جتنی وہ خدا سے کرتا تھا تو یہ شرک ہوتا.جیسے آج کوئی رسول کریم ﷺ سے اتنی محبت کرے جتنی وہ خدا سے کرتا ہے تو یہ شرک ہے، یہی حال نبوت کا ہے.ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا درجہ ہر روز بڑھتا ہے اور کوئی دن آپ پر ایسا نہیں آتا جب آپ پہلے مقام سے اور زیادہ آگے نہیں نکل جاتے.چنانچہ میں نے جس وقت یہ تقریر شروع کی تھی اس وقت رسول کریم عملہ جس مقام قرب پر فائز تھے میں یقین رکھتا ہوں کہ اس وقت وہ اس مقام سے بہت زیادہ آگے نکل چکے ہیں.کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں رسول کریم ہے کے درجہ میں ترقی نہیں ہوتی اور کوئی وقت ایسا نہیں جب آپ کے مدارج بلند نہیں ہوتے مگر ہمارے مخالف کنویں کے مینڈک کی طرح یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تیرہ سو سال سے ایک مقام پر بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ آپ روز بروز درجہ میں بڑھ رہے ہیں اور جب ہر لمحہ آپ کے درجات میں ترقی ہو رہی ہے تو لازماً آپ کا پیرو بھی درجات میں ترقی کرتا جائے گا.صلى الله

Page 263

انوار العلوم جلد ۱۵.بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے اور آپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا ان مقامات سے گزرتا جائے گا جن مقامات سے آپ گزر چکے ہیں لیکن آپ کا پیرو اور نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہوئے وہ کبھی آپ کے برابر نہیں ہوسکتا اور نہ آپ سے آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ آپ کے درجات میں ہر لمحہ ترقی ہو رہی ہے اور آپ کا متبع اور پیر و جتنا بھی آگے بڑھے گا وہ بہر حال آپ کے پیچھے ہی رہے گا اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام باوجود نبوت کے مقام پر فائز ہونے کے کبھی آپ کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ نے یہ مقام آپ کی کامل پیروی سے حاصل کیا ہے.یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں بیان فرمایا : - ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یعنی اے محمد رسول اللہ علیہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو نبی کس طرح ہو گیا میں تو نبی اس لئے ہوا کہ تو خیر رسل ہے تو جتنا جتنا آگے بڑھتا ہے اتنا اتنا میں بھی بڑھتا چلا جاتا ہوں.پس تو آگے ہے اور میں پیچھے.مگر مولوی کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوۃ ہو گیا.حالانکہ یہ شرک کس طرح ہو گیا.جب کہ تیرے مقام کو میں حاصل ہی نہیں کر سکتا اور جبکہ میری ترقی تیری ترقی پر منحصر ہے.پس رسول کریم ﷺ تو ہر روز بلکہ ہر لمحہ اپنے درجہ میں بڑھ رہے ہیں مگر یہ مخالف و ہیں ہاتھ مار رہے ہیں.ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی اندھا کسی دعوت میں شریک ہوا ، اس کے ساتھ ایک سو جا کھا بیٹھ گیا اندھے نے خیال کیا کہ یہ تو سو جا کھا ہے اور میں اندھا یہ ضرور زیادہ کھا جائے گا.چنانچہ اس نے بھی جلدی جلدی لقمے لینے شروع کر لئے تھوڑی دیر کے بعد اس نے خیال کیا کہ میری یہ حرکت تو اس نے دیکھ لی ہوگی اور ضرور اس نے بھی اس کا کوئی علاج تجویز کر لیا ہوگا چنانچہ یہ خیال آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اُٹھا اُٹھا کر اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دیئے اب دوسرا شخص اس اندھے کی یہ حرکت دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہا تھا اور بجائے کچھ کھانے کے وہ اس اندھے کی حرکات کو دیکھ رہا تھا.مگر اس اندھے نے سمجھا کہ اس نے ضرور اب کوئی اور تجویز زیادہ کھانے کی سوچ لی ہو گی.یہ خیال آتے ہی اس نے تھالی پر ہاتھ مار کر اسے اٹھا لیا اور کہنے لگا بس اب میرا ہی حصہ ہے.یہی ان لوگوں کی حالت ہے نہ حقیقت کو سوچتے ہیں نہ اصلیت کو مدنظر رکھتے ہیں.رسول کریم تو کہیں پہنچ گئے اور یہ بیٹھے کہہ رہے ہیں کہ شرک فی النبوۃ ہو گیا ،شرک فی النبوۃ ہو گیا حالانکہ

Page 264

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بادشاہ چلتا ہے تو ساتھ ہی پہریدار بھی چلنے لگ جاتا ہے جب بادشاہ ٹھہرتا ہے تو پہرہ دار بھی رُک جاتا ہے اب اگر کوئی کہے کہ یہ پہرہ دار کیسا گستاخ ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی جہاں بادشاہ کھڑا تھا وہاں اب یہ بھی کھڑا ہے تو وہ جاہل اور احمق ہی کہلائے گا.اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ تو ہر گھڑی آگے بڑھ رہے ہیں اور آپ کے آگے بڑھنے کی وجہ سے ہی آپ کے امتیوں کو ترقی ہوتی ہے مگر یہ شور مچاتے چلے جاتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے شرک فی النبوۃ ہو گیا.تو ختم نبوت کا مسئلہ کوئی ایسا مشکل نہیں مگر لوگوں نے خواہ مخواہ اس میں اُلجھن ڈال رکھی ہے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اتنا بلند ہے کہ کوئی انسان وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہاں آپ کی فرمانبرداری ، آپ کی غلامی اور آپ کی کامل اتباع میں اگر کوئی شخص نبوت کا مقام حاصل کر لے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں کیونکہ وہ بہر حال رسول کریم ﷺ کا غلام ہوگا.پس یہ مسائل ایسے نہیں کہ جن میں کوئی پیچیدگی ہو.سیدھی سادی باتیں ہیں لیکن اگر یہ باتیں بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئیں تو وہ ایک موٹی بات دیکھ لے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کو عزت اور شان و شوکت حاصل ہے یا وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے.اگر اسلام اس وقت اسی شان اور اسی شوکت کے ساتھ قائم ہے جس شان اور شوکت کے ساتھ وہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قائم تھا تو بیشک علاج کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ دکھائی دے رہا ہو کہ مسلمان قرآن سے بے بہرہ ہیں، اس کی تعلیم سے غافل ہیں ، بادشاہتیں مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتی رہیں ، حکومتیں ضائع ہو گئیں تو ہر شخص اپنے دل میں خود ہی سوچے اور غور کرے کہ خدا نے اس وقت رسول کریم ﷺ کی عزت کو بلند کرنے کا کیا سامان کیا ہے.وہ اسلام جو رسول کریم ﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اس پر حملے پر حملے ہور ہے ہیں مگر مسلمان کہتے ہیں کہ اس کے علاج کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خدا اگر کہے کہ میں کسی کو اصلاح کیلئے بھیجتا ہوں تو یہ مولوی کہنے لگ جاتے ہیں کہ نہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں.پس اگر اسلام اچھی حالت میں ہے تو بے شک کہہ دو کہ حضرت مرزا صاحب نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹے تھے لیکن اگر قرآن کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ چکی ہے.اسلام سے وہ غافل ہو گئے ہیں اور عملی حالتوں میں وہ بالکل سُست ہو گئے.تو پھر ماننا پڑے گا کہ آپ سچے تھے اور آپ نے عین وقت پر آ کر اسلام کو دشمنوں کے نرغہ سے بچایا.ورنہ اگر اس زمانہ میں بھی اسلام کی مدد کیلئے خدا تعالیٰ نے توجہ نہیں کی تو وہ کب کرے گا.آج خود مسلمان کہلانے والے اسلامی تعلیموں پر عمل چھوڑ چکے ہیں اور وہ خدا کا محبوب

Page 265

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیادین نہیں لائے جو اولین و آخرین کا سردار ہے اس پر عیسائی ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں ، ہندو ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں.سکھ ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں، وہ خدا کا رسول جو سارے انسانوں میں سے مقدس ترین انسان ہے جو سید ولد آدم ہے اور جس کی بلندشان تک نہ کوئی پہنچا اور نہ کوئی آئندہ پہنچ سکتا ہے اس کی عزت کو اس طرح پارہ پارہ کیا جا رہا ہے کہ گویا اس کی کوئی قیمت ہی نہیں یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہر اس ہاتھ کو تو ڑ دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُٹھا، ہر اس زبان کو کاٹ دیا جس نے محمد رسول اللہ علہ کے خلاف بدزبانی اور بد گوئی کا ارادہ کیا اور آئندہ بھی ہر وہ ہاتھ توڑ دیا جائے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُٹھے گا اور ہم جانتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رسول کریم کی ایک ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہمارے پاس آئے گا ہم سپاہی ہیں جو محمد رسول اللہ علیہ کے سامنے آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں جس طرح انصار نے کہا تھا ك يَارَسُوْلَ اللهِ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روند تا ہؤا نہ گزرے اسی طرح ہم آپ کے آگے بھی لڑ رہے ہیں اور آپ کے پیچھے بھی لڑ رہے ہیں ، آپ کے دائیں بھی لڑ رہے ہیں اور آپ کے بائیں بھی لڑ رہے ہیں.ہمارے آدمی دنیا کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس لئے پھیلے ہوئے ہیں کہ تا محمد رسول اللہ علیہ کی عزت دنیا میں قائم ﷺ کریں.پس وہ لوگ جو ہم پر تیر چلاتے ہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ بے شک تیر چلاتے چلے جائیں ہم ان کے تیروں سے ڈرنے والے نہیں.بیشک وہ اس وقت زیادہ ہیں اور ہم تھوڑے مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہم سے ضرور آ ملے گا اور جو ہم سے نہیں ملتا وہ رسول کریم ﷺ کا سچا عاشق نہیں کہلا سکتا.اس کا دل مُردہ ہے اور مُردہ کولیکر ہم نے کیا کرنا ہے.( الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۵۸ء ) ا میکڈانلڈ جیمز ریمزی MACDONALD JAMES RAMSI (۱۸۶۶ ء تا ۱۹۳۷ء) برطانیہ کی لیبر پارٹی کا سیاستدان.۱۹۰۰ ء میں لیبر پارٹی کا پہلا سیکرٹری بنا.۱۹۰۶ء میں پارلیمنٹ کا رکن بنا.۲۲ جنوری ۱۹۲۴ء کو وزیراعظم بنا.وہ برطانیہ

Page 266

انوار العلوم جلد ۱۵ بانی عسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے کا پہلا سوشلسٹ وزیر اعظم تھا.9 ماہ تک وزیراعظم رہا.۱۹۲۹ء میں دوبارہ وزیر اعظم بنا.وہ برطانیہ کا پہلا وزیر اعظم تھا جس نے سرکاری فرائض کی انجام دہی کیلئے ہوائی جہاز استعمال کیا.اس کے عہد میں برصغیر پاک و ہند کا سیاسی مسئلہ حل کرنے کے سلسلہ میں لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں.ایک سمندری سفر کے دوران اس کا انتقال ہوا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۷۳ مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء) مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲، ۱۳ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ہے سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۵.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ

Page 267

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) سیر روحانی (۱) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 268

انوار العلوم جلد ۱۵ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ سیر روحانی تقریر (۱) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ سیر روحانی (۱) تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع جلسه سالا نه قادیان ) میں نے پالیا.میں نے پالیا تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- ایک اہم تاریخی سفر میرا آج کا مضمون میرے اس سفر سے تعلق رکھتا ہے جو اس سال اکتوبر کے مہینہ میں مجھے پیش آیا.میں پہلے کام کے لئے قادیان سے سندھ کی طرف گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کر سمندر کی ہوا کھانے کے لئے کراچی چلا گیا کیونکہ میرے گلے میں مزمن خراش کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مجھے سالہا سال تک کا سٹک لگوانا پڑتا رہا ہے.کچھ عرصہ ہوا مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ اب آپ کا سٹک لگا نا چھوڑ دیں ورنہ گلے کا گوشت بالکل جل جائے گا.چنانچہ میں نے اُس وقت سے کا مسٹک لگوانا تو ترک کر دیا ہے مگر اور علاج ہمیشہ جاری رکھنے پڑتے ہیں ورنہ گلے اور سر میں درد ہو جاتی ہے.چونکہ ڈاکٹروں کی رائے میں اس مرض کیلئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہے اس لئے گزشتہ دو سال میں میں نے کراچی سے بمبئی کا سفر جہاز میں کیا.پہلے سفر میں اول تو تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میں نمایاں فائدہ ہوا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اُس میں بہت کمی آ گئی اس لئے اس سال میں نے پھر موقع نکالا.اس سفر میں مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حیدر آباد دکن کے دوست مجھے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ میں کبھی وہاں بھی آؤں سو اس دفعہ حیدر آباد کے دوستوں کی اگر یہ خواہش پوری ہو سکے تو میں اسے بھی پورا کر دوں.چنانچہ میں سندھ سے کراچی گیا ، کراچی سے بمبئی ، بمبئی

Page 269

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) سے حیدر آباد، حیدر آباد سے آگرہ ، آگرہ سے دہلی اور دہلی سے قادیان آگیا.حیدر آباد کا تاریخی گولکنڈہ کا قلعہ حیدرآباد میں میں نے بعض نہایت اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کا قلعہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہوا ہے اور اس کے گرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابل دید اشیاء ہیں.یہاں کسی زمانہ میں قطب شاہی حکومت ہو ا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا.یہ قلعہ حیدر آباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہوا ہے یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقع ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حیدر آباد کے وہ دوست جو ہمیں قلعہ دکھانے کیلئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہو گی.چنانچہ خود انہوں نے شریفے لئے اور وہیں کھانے بیٹھ گئے مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے ، جب میں واپس آیا تو میں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں.خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آگئیں ،ہمیں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں ؟ وہ کہنے لگیں انہوں نے ہمیں روکا تو تھا اور کہا تھا کہ او پر مت جاؤ اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی ، مگر ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی شاید حیدر آبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو.تو خیر ہم وہاں سے پھر پھرا کر واپس آ گئے.یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پر ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان و شوکت کا ایک پُر شوکت نشان ہے.اس قلعہ کی چوٹی پر میں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک مسجد اس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصہ کے برابر تھی، پہلے تو میں سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب میں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اُس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کیلئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا اس وجہ سے اُس نے نمازیوں کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ہزاروں مسجد میں بنا دیں، مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میرا دل بہت ہی متاثر ہوا اور میں نے سوچا کہ اُس وقت کے مسلمان کس قدر با جماعت نماز ادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کیلئے آتے

Page 270

انوارالعلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تاکہ نماز با جماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو.اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے.وہاں کا تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے ، وہاں کا قلعہ فتح پور سیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میں سے تھے ان کا مقبرہ عالم ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں.میں نے ان میں سے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت اور عظمت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج اور افسوس بھی ہوا کہ آج مسلمان ذلیل ہورہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں، فتح پور سیکری کا قلعہ در حقیقت مغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے.چند سال کے اندراندرا کبر کا اس قدر ز بر دست قلعہ اور شہر تیار کر دینا جس کے آثار کو اب تک امتدادِ زمانہ نہیں مٹا سکا بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے.یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دُور بین سے ہی اس کی حدوں کو دیکھا جا سکتا ہے خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کو بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندراندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بنا سکتا.مغلیہ خاندان کے جو قلعے میں نے دیکھے ہیں ان میں سے درحقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دہلی کا قلعہ صرف محل ہیں قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پر دیا گیا ہے.قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میں جنگی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے.دہلی میں میں نے جامع مسجد دیکھی ، دہلی کا قلعہ دیکھا ، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کا مقام دیکھا، منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے ، قطب صاحب کی لاٹ دیکھی ، حوض خاص دیکھا، پرانا قلعہ دیکھا ، جنتر منتر دیکھا، تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا.ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی ، اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا.مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا.جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کیلئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثار قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا، پرانے سکوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیں محفوظ کر دیا ان کے کاموں کی ہم

Page 271

انوارالعلوم جلد ۱۵ تعریف کرتے تھے.سیر روحانی تقریر (۱) ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لطف اُٹھایا.میں نے اپنے ظرف کے مطابق، میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق.عبرتناک نظارہ ہوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گم ہو جاتی تھی.میں مسلمانوں کے ماضی کو دیکھتا اور حیران رہ جاتا تھا کہ انہوں نے کتنے بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے.مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا، لیکن تغلق آباد کے قلعہ کو دیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے.یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہوا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے، خاصہ اوپر چڑھ کر اس میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے میں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اونچی ہو جاتی ہے جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ ” نواب مبارکہ بیگملے ، اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امتہ الحی مرحومہ کے بطن سے جو میری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں ، مگر میں ، میری ہمرا ہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپر چڑھے اور آخر ایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی.یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی ، اس کا قطب اس کا پُرانا قلعہ ، نئی اور پرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گھور رہا تھا.میں اس جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دہلی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے ، وہ کس قد را ولو العزم ، کس قدر با ہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں، وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے ، مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے، کوئی ان میں سے بڑھتی ہے، کوئی لوہار ہے ، کوئی معمار ہے،

Page 272

انوار العلوم جلد ۱۵ کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے.سیر روحانی تقریر (۱) میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا کہیں جا پہنچا، سب عجائبات جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے ، دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے ، آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اس محویت کے عالم میں کھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان ! دیر ہو گئی ہے میں اس آواز کوسن کر پھر واپس اسی مادی دنیا میں آ گیا ،مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پر تھا نہیں وہ خون ہور ہا تھا اور خون کے قطرے اُس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہوا تھا.میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ”میں نے پالیا.میں نے پا لیا.جب میں نے کہا ”میں نے پالیا.میں نے پالیا تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے کیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جب کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا، مگر محویت کی وجہ سے اُس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا، یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا.اصل بات یہ ہے کہ بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا.تب گوتم بدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ”میں نے پالیا.میں نے پالیا.میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی.جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس کو ٹا تو بے اختیار میں نے کہا میں نے پالیا.میں نے پالیا.اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم چلی آ رہی تھی اُس نے کہا ، ابا جان ! آپ نے کیا پا لیا؟ میں نے کہا، میں نے بہت کچھ پالیا مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا ، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا؟ اُس وقت تم بھی سُن لینا ، سو آج میں آپ لوگوں کو بتا تا ہوں کہ میں نے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے اُس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان کرونگا

Page 273

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پر کھولا گیا گو وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میں بھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فکر میں انسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے اس لئے اُس وقت تو اِس پر چند منٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے پس جو انکشاف اُس وقت ہوا وہ بطور پیج کے تھا اور جو کچھ میں بیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میں اُس کی ترجمانی ہوگی اور اُس کی شاخیں اور اُس کے پتے اور اُس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پر پیش کئے جائیں گے.اس سفر میں میں نے کیا کچھ دیکھا اب میں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اُس وقت کے خیالات کے ساتھ ساتھ لے جانے کی کوشش کرتا ہوں اور آپ کو بھی اپنی اس سیر میں شامل کرتا ہوں.جب میں اُس وسیع نظارہ کو دیکھ رہا تھا اور سلف کے کارنامے میرے سامنے تھے، میرے دل نے کہا میں کیا دیکھتا ہوں اور رکن گزشتہ دیکھی ہوئی چیزوں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے کہ نہ صرف وہ نظارے بلکہ ابتدائی حصہ سفر کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے ، اُس وقت مجھ پر ایک ربودگی کی حالت طاری تھی ، مجھے کراچی کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے ، مجھے حیدرآباد کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے ، مجھے آگرہ کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے اور دہلی کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے تھے یہ تمام نظارے ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئے اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا میں کہر میں کھڑا ہوں اور ہر چیز دھندلی ہو کر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے.غرض میرے دل نے کہا کہ میں کیا دیکھتا ہوں اور کن گزشتہ نظاروں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے جب یہ سوال میرے دل میں پیدا ہوا تو میرے دل نے جواب دیا کہ : - ا.میں نے قلعے دیکھے ہیں جن کے دو اثر میرے دل پر پڑے ہیں.ایک یہ کہ ان قلعوں کے ذریعہ کیسے کیسے حفاظت کے سامان مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پیدا کئے گئے تھے دوسرے یہ کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے اور ان کو دوبارہ بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا اب کوئی نہیں.۲.پھر میں نے کہا دوسری چیز جو میں نے دیکھی ہے مُردہ بادشاہوں کے مقابر ہیں ، اُن بادشاہوں کے جو فوت ہو چکے ہیں مگر اُن کے مقبرے اُن کی یاد دلا رہے ہیں اور اُن کی شوکت کو ہماری آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں.

Page 274

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱).تیسرے میں نے مساجد دیکھی ہیں ، نہایت خوبصورت مساجد ، چھوٹی بھی اور بڑی بھی جو ہزاروں آدمیوں کو خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع کرنے کے لئے کہیں سُرخ اور کہیں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں.۴.چوتھے میں نے ایک وسیع اور بلند مینار دیکھا ہے، آسمان سے باتیں کرتا ہو ا جس کی بلندی کو دیکھ کر انسانی نظر مرعوب ہو جاتی ہے.پانچویں میں نے نوبت خانے دیکھے ہیں جہاں موسیقی سے لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا، جہاں طبل اور نفیریاں بجتیں اور سپاہیوں کے دل اچھلنے لگتے اور وہ جنگ کو جنگ نہیں بلکہ بچوں کا کھیل سمجھتے ، اُن کے گھوڑے ہنہنانے لگتے اور اُن کا خون گرم ہو کر جسم میں دوڑ نے لگتا اور جہاں سے بادشاہ کے اعلان کو گر جتے ہوئے بادلوں کی طرح نو بتوں کے ذریعہ دنیا کو سُنایا جاتا تھا.چھٹے میں نے باغات دیکھے ہیں جو کسی وقت اپنی سرسبزی وشادابی کی وجہ سے جنت نگاہ تھے اور آنکھوں کو سرور اور دلوں کو لذت بخشا کرتے تھے.ے.ساتویں میں نے کہا.میں نے دیوانِ عام دیکھے ہیں جہاں بادشاہ اپنے انصاف اور عدل سے اپنی رعایا کی تکلیفوں کو دُور کیا کرتے تھے اور آتے ہی اعلان کر دیا کرتے تھے کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہو ا ہو وہ ہمارے پاس فورا شکایت کرے جس پر امیر وغریب حتی کہ بھنگی اور چمار بھی آتا اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتا..آٹھویں میں نے دیوان خاص دیکھتے ہیں جہاں بادشاہ اپنے خاص در باریوں سے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے..نویں میں نے نہریں دیکھی ہیں جو ادھر سے اُدھر پانی پہنچایا کرتی تھیں اور پیاسے درختوں کو نئی زندگی بخشتی تھیں اور جن سے سیراب ہو کر درخت لہرا لہرا کر اپنی بہار دکھایا کرتے تھے.دسویں میں نے لنگر خانے دیکھے ہیں جن سے بادشاہوں کے ہم مذہبوں اور اُس کے مذہبی مخالفوں کو بھی الگ الگ کھانے تقسیم ہوا کرتے تھے.مسلمانوں کے الگ لنگر خانے ہوا کرتے تھے اور غیر مذاہب والوں کے الگ.مسلمانوں کے لنگر خانوں میں مسلمان تقسیم کرنے والے ہوتے اور غیر مذاہب کے لنگر خانوں میں غیر مسلم تقسیم کرنے پر مقرر ہوتے.

Page 275

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ا.گیارہویں میں نے دفتر دیکھے ہیں جہاں تمام ریکارڈ رکھے جاتے تھے اور ہر ضروری امر کو محفوظ رکھا جاتا تھا.۱۲.بارھویں میں نے کتب خانے دیکھے ہیں جہاں پرانی کتب کے تراجم ہوتے تھے اور پُرانے علوم کو محفوظ کیا جا تا تھا.۱۳.تیرھویں میں نے بازار دیکھے ہیں جہاں ہر چیز جس کی انسان کو ضرورت ہو فروخت ہوتی تی نے بازار میں ہر ۱۴.چودھویں میں نے جنتر منتر دیکھا ہے جو ستاروں کی گردشیں معلوم کرتا تھا اور حساب سنین کو بتا تا تھا یا آئندہ کے تغیر پر روشنی ڈالتا تھا.۱۵.پندرھویں میں نے ایک وسیع سمندر بھی دیکھا ہے جس کا کنارہ تو ہے مگر اُس کا اندازہ لگانا انسانی فطرت کی طاقت سے بالا ہے اور جہاز میں بیٹھنے والا اُسے بے کنا رہی سمجھتا ہے جس کے راز دریافت کرنے اور اُس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہزاروں بڑے بڑے جہاز جو بعض دفعہ ایک ایک گاؤں کے برابر ہوتے ہیں اور دو دو ہزار آدمی اس میں بیک وقت بیٹھ جاتے ہیں ہر وقت اُس میں چلتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وسیع شہر میں ایک چیونٹی پھر رہی ہے.۱۶.سولہویں میں نے آثار قدیمہ کے محکموں کے وہ کمرے دیکھے ہیں جہاں قدیم چیزیں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں، کہیں زمین کھود کر انہوں نے سکتے نکالے، کہیں زمین کھود کر انہوں نے پرانے کاغذات دستیاب کئے اور کہیں زمین کھود کر انہوں نے پرانے برتن نکالے اور اس طرح پرانے زمانہ کے تمدن اور تہذیب کا نقشہ انہوں نے ان چیزوں کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا ، یہ تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھی تھیں.پس میں نے آثار قدیمہ کی ان محنتوں کو بھی دیکھا اور پرانے آثار کو نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر میرے دل نے ان کے کام پر آفرین کہی.ایک نئی دنیا جو میری آنکھوں کے سامنے آئی یہ امور تفصیلا یا اجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر میرے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے، کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں ، کیا ان سے بڑھ کر مفید کام تو نے نہیں دیکھے اور کیا ان سے بڑھ کر

Page 276

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) عبرت کے نظارے تو نے نہیں دیکھے ؟ اور اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ گزرنے لگ گئی.میں اس نئی دنیا کے آثار قدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہوا تو میں نے ایسے ایسے عظیم الشان آثار قدیمہ دیکھے جو اُن آثار قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا بلکہ ایک فوق العادت کا رنامہ آثار قدیمہ کی دریافت کا میرے سامنے آ گیا، ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے بالا ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہوا، بڑے بڑے غیر معمولی خوبصورتیوں والے باغات ، عدیم المثال نہریں، بے کنا رسمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگر خانے ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، بازار لنگر خانے ، کتب خانے ، دفتر ، بے انتہاء بلند مینار اور غیر محدود وسعت والی مسجد ، دلوں کو دہلا دینے والے مقبرے اور مسمار همدہ یادگاریں ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہوئیں اور میں نے کہا اُف میں کہاں آ گیا.یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں، تمام دنیا کے پاس موجود ہیں، لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اور بچوں کی طرح کھلونوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے.میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پر کہ میں یہ چیزیں دنیا کو دکھانے سے قاصر ہوں ، میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے تو تجھی پر ، مگر میرا دل مسرور بھی تھا اُس خزانے کے پانے پر ، اُن امکانات پر کہ ایک دن میں یا خدا کا کوئی اور بندہ یہ مخفی خزانے دنیا کو دکھانے میں کامیاب ہو جائے گا اور میں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو بے اختیار یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ میں نے پا لیا.میں نے پالیا.ہاں ہاں یہ یقینی بات ہے کہ تغلق کے قلعہ میں میں نے ایک اور دنیا کو پا لیا، ایک بالا دنیا، ایک بالا طاقت کے نشانات اور میں پہلے اس دنیا میں کھویا گیا، پھر میں نے ایک اور دنیا کو جو اس سے کہیں زیادہ شاندار، کہیں زیادہ وسیع ، کہیں زیادہ پائیدار اور پھر ایک لحاظ سے بوسیدہ کھنڈر اور تباہ حال تھی ، اُسے دیکھا اُسے پایا.اس خستہ حالی پر میرا دل رویا اس کی شان اور پائیداری سے میرا دل مسرور ہوا.اب آؤ میں اس کے کچھ حصہ کی آپ کو سیر کرا تا ہوں.ا.آثار قدیمہ پہلے میں آثار قدیمہ کو لیتا ہوں مگر چونکہ ہماری جماعت کے بہت سے زمیندار اصحاب

Page 277

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) آثار قدیمہ کا مفہوم نہیں سمجھتے ہوں گے اس لئے اُن کی واقفیت کے لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے.اثر کے معنے نشان کے ہوتے ہیں ، اُردو میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، آثار اس کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں بہت سے نشانات ، قدیمہ کے معنی پُرانے کے ہیں.پس آثار قدیمہ کے معنی ہوئے پُرانی چیزوں کے نشانات ، وہ عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں یا پرانے سکوں ، پرانے کپڑوں، پرانے برتنوں اور پرانے کاغذوں کو مہیا کرنے کے لئے یہ محکمہ گورنمنٹ نے بنایا ہوا ہے اور اس کا کام ہے کہ خواہ اسے زمین میں دبی ہوئی عمارتیں مل جائیں یا کاغذات مل جائیں یا سکتے مل جائیں انہیں محفوظ کر دے.پس یہ محکمہ پرانی یادگاروں کو تلاش کر کے ان سے پرانے تمدن ، پُرانے حالات اور پرانی ترقیات پر روشنی ڈالتا ہے اور ان کو دنیا میں قائم اور زندہ رکھتا ہے.ایسے آثار قدیمہ کے کمروں میں بعض بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں زمانہ کے ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگ کس قسم کے کپڑے بنا کرتے تھے ، صناعی کیسی تھی ، یا کچھ پرانے سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پرانے ہتھیار رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پرانے کاغذات رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، کچھ پرانے ٹوٹے ہوئے گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ ٹوٹی ہوئی چپلیاں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کپڑا دو ہزار سال پہلے کا ہے، یہ سکہ آج سے تین ہزار سال پہلے استعمال ہوتا تھا.غرض ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے ایک عجائب خانہ بنا دیتے ہیں.امریکہ تک سے لوگ آتے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور جس کسی نے کوئی پرانا چیتھڑا یا کوئی دونی اٹھتی تلاش کر کے دی ہوتی ہے اُس کی بڑی تعریف ہوتی ہے.کہتے ہیں فلاں تو علامہ ہیں ان کا کیا کہنا ہے، انہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے کی استعمال ہونے والی اٹھتی بڑی تلاش سے دستیاب کی ہے اور فلاں عجائب خانہ میں پڑی ہے.غرض چند ٹوٹی ہوئی عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہوگئی تھیں ، چند ٹوٹے ہوئے کتنے ، کچھ بوسیدہ کپڑے، کچھ گھسے ہوئے سکتے ،مٹی اور پتھر کے برتن ، پھٹے ہوئے بوسیدہ کا غذات اور دستاویزات محکمہ آثار قدیمہ کی کل کائنات ہوتے ہیں ، جن کو جوڑ جاڑ کر زمانہ سلف کے حالات کو یہ محکمہ اخذ کرتا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور عالم و جاہل اس کی محنت کی داد دیتے اور اس کے کارناموں کو عزت سے بیان کرتے ہیں.میں بھی ان سے متاثر ہوا، مگر تغلق کے قلعہ میں جو آثار قدیمہ میں نے دیکھے انہوں نے ان آثار قدیمہ کو میری نگاہ

Page 278

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) میں بالکل بے حقیقت بنا دیا کیونکہ وہ ان سے بہت پرانے ، بہت وسیع ، بہت متنوع اور بہت ہی مفید تھے.اب میں اس آثار قدیمہ کے دفتر میں آپ کو بھی لے جاتا ہوں اور اس کی ایک دریافت اور تحقیق کو کسی قدربسط سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور بعض کو اختصار سے پیش کرتا ہوں.یہ امر ظاہر ہے کہ انسانی آثار میں سے سب سے پرانے آثار وہی ہیں جو انسان کی ابتدائی پیدائش اور اس کے ابتدائی کاموں سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی آثار ہوں خواہ وہ ہزاروں سال کے ہوں بہر حال بعد ہی کے ہوں گے اور آثار قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے گھٹیا قسم کے.پس میں اس محکمہ کی ایسی ہی تحقیقات کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اس محکمہ آثار قدیمہ کا نام ہے قرآن اور اس کے انچارج کا نام ہے محمد صلی الله علیه وسلم.اس محکمہ میں جو آثار قدیمہ میں نے سب سے پہلے زمانے کے دیکھے اور جن کی گرد کو بھی موجودہ آثارقدیمہ نہیں پہنچتے ، ان کی ایک مثال ذیل میں میں پیش کرتا ہوں.نیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ لوگ حیران ہیں کہ دُنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کون تھا ؟ وہ کس تمدن پر عمل پیرا تھا ؟ وہ کس طرح اس دنیا.میں پیدا ہوا؟ اور اُس نے کس طرح اس دنیا کو چلایا ؟ میں نے قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہمیشہ دیکھا ہے ، مشکل سے مشکل آیت کا میں مفہوم بیان کر رہا ہوتا ہوں تو لوگ بڑے مزے سے اُسے سنتے رہتے ہیں ، مگر جہاں آدم اور شیطان کا قصہ آیا سوالات کی مجھ پر یوں بھر مار شروع ہو جاتی ہے کہ میں خیال کرتا ہوں آدم کے بچے مجھے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد انہیں ان کے ابا جان کی گود میں بٹھا آؤں تو لوگوں کے دلوں میں آدم والے واقعہ کے متعلق بے انتہاء جستجو پائی جاتی ہے.وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کیا کھاتے تھے، کیا پہنتے تھے ، کہاں رہتے تھے ؟ اور یہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں میں جستجو پائی جاتی ہے.ہندوؤں کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق ہندوؤں کی تو ساری میتھالوجی اور ان کی ساری بحثیں ہی دنیا کی پیدائش پر ہیں کہیں لکھا ہے کہ برہما جی نہانے گئے تو اُن کی جٹا میں سے جو قطرے گرے اُس سے گنگا بہہ نکلی ، کہیں دنیا کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو اس رنگ میں کہ فلاں دیوتا کی فلاں سے لڑائی ہوئی ، دوسرا

Page 279

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) دیو تاجب مارا گیا تو اُس کی ٹانگوں سے زمین اور اُس کے ہاتھوں سے چاند وغیرہ بن گئے ، گویا ہر نص کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ معلوم کرے یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کون تھا ؟ وہ کس طرح اس دنیا میں پیدا ہوا؟ اور کس طرح اُس نے اس دنیا کو چلایا ؟ تورات کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق تورات نے اس بارے میں جو نظر یہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، میں سب سے پہلے وہی آپ لوگوں کو سناتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ تو رات دنیا کی پیدائش کس طرح بتاتی ہے.تو رات میں لکھا ہے:- زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اُجالا ہو اور اُجالا ہو گیا اور خدا نے اُجالے کو دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کیا اور خدا نے اُجالے کو دن کہا اور اندھیرے کو رات کہا ، سوشام اور صبح پہلا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہو وے اور پانیوں کو پانیوں سے جُدا کرے.تب خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانیوں کو فضا کے اوپر کے پانیوں سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے فضا کو آسمان کہا سوشام اور صبح دوسرا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہو دیں کہ خشکی نظر آوے اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جمع ہوئے پانیوں کو سمندر کہا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور نباتات کو جو بیچ رکھتیں اور میوہ دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلتے جو زمین پر آپ میں بیج رکھتے ہیں اُگا وے اور ایسا ہی ہو گیا.تب زمین نے گھاس اور نباتات کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پیج رکھتیں اور درختوں کو جو پھل لاتے ہیں جن کے بیج اُن کی جنس کے موافق اُن میں ہیں اُگایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح تیسرا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ آسمان کی فضا میں نیر ہوں کہ دن اور رات میں فرق کریں اور وے نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے باعث ہوں اور وے آسمان کی فضا میں انوار کیلئے ہو دیں کہ زمین پر روشنی بخشیں اور ایسا ہی ہو گیا، سوخدا نے دو بڑے نور بنائے ، ایک نیر اعظم جو دن پر حکومت کرے اور ایک نیر اصغر جورات پر حکومت کرے اور ستاروں کو بھی بنایا اور خدا نے ان کو آسمان کی

Page 280

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) فضا میں رکھا کہ زمین پر روشنی بخشیں اور دن پر اور رات پر حکومت کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جدا کریں اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح چوتھا دن ہو ا ہے گویا تو رات کے بیان کے مطابق رات دن پہلے بنے ہیں مگر سورج چاند بعد میں بنے ہیں، اسی طرح گھاس، نباتات اور درخت پہلے اُگے ہیں مگر سورج وغیرہ جن کی عاعوں کی مدد سے یہ چیزیں اُگتی ہیں بعد میں بنائے گئے ہیں، کیونکہ لکھا ہے کہ جب گھاس اُگ چکا ، میوہ دار درخت تیار ہو چکے، نباتات ظاہر ہو گئی رات دن بن گئے تو اس کے بعد خدا نے دو بڑے نور بنائے.ایک نیر اعظم جو دن پر حکومت کرے اور ایک نیر اصغر جورات پر حکومت کرے) تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں کہ وے سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سرداری کریں اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا.خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا ،نرو ناری ان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو برکت دی اور خدا نے انہیں کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں سرداری کروس اور خداوند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا اور خدا وند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بناؤں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا.پر آدم کو اس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے

Page 281

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اُس کی پسلیوں میں سے ایک پہلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اُس پہلی سے جو اُس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلا وے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی“.۵ یہ تو رات کا نظریہ ہے جو اس نے پیدائش عالم کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا.ڈارون کی تھیوری انسانی پیدائش کے متعلق انیسویں صدی عیسوی میں جب اس مسئلہ پر زیادہ غور کیا گیا اور علوم جدیدہ کے ذریعہ نی نی تحقیقا تیں ہوئیں تو سب سے پہلے ایک انگریز نے جس کا نام ڈارون تھا انسانی پیدائش کے متعلق ایک نئی تھیوری پیش کی ، اُس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ :- (۱) انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میں ایک شخص کو بنا کر کھڑا کر دیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میں انسان تیار ہوا ہے.(۲) دوسرے اُس نے یہ مسئلہ نکالا کہ انسان نے جو ترقی کی ہے یہ جانوروں سے کی ہے پہلے دنیا میں چھوٹے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے اور پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا، مگر جس جانور سے ترقی کر کے انسان بنا ہے وہ آب نہیں ملتا کیونکہ یہ کڑی غائب ہے ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اسی جانور کی ایک اعلیٰ قسم بندر ہے.گویا ڈارون نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ انسان گو ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے مگر اس کا یہ ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہوا ہے جس کی آخری کڑی اب مفقود ہے جس میں سے بعض خاص قسم کے بندر اور انسان نکلے.پہلے امر کی دلیل کہ انسان یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں میں تیار ہوا ہے وہ یہ دیتا ہے کہ مختلف زمانوں کے انسانوں کی جو کھوپڑیاں اور جسم وغیرہ ملے ہیں ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کھوپڑیوں اور جسموں کا آپس میں بہت بڑا فرق ہے پس یہ خیال کرنا کہ آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان اسی طرح تھا جس طرح آج ہے غلط ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو جسموں ، ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ میں کوئی فرق نہ ہوتا، مگر انسانی جسم کی جو بہت پرانی ہڈیاں نکلی ہیں ان ہڈیوں کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اور

Page 282

انوارالعلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) موجودہ انسانی جسم کی ہڈیوں میں بہت بڑا فرق ہے.اسی طرح موجودہ انسانی دماغ اور پرانے انسانی دماغ میں بھی بہت بڑا فرق نظر آتا ہے پس مختلف زمانوں کے انسانوں کی کھوپڑیوں اور جسم کی ہڈیوں کا اختلاف اس امر کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے ماتحت بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا.دوسری دلیل اس فلسفہ کے معتقد اس ارتقاء کی یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں جب جنین کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس جنین کو اپنی ابتدائی حالتوں میں مختلف قسم کے جانوروں سے مشابہت ہوتی ہے.کبھی وہ جنین خرگوش سے مشابہہ ہوتا ہے.کبھی مچھلی سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور جانور سے.یہ رحم مادر میں بچے کی پیدائش کی مختلف کیفیات دراصل ابتدائے خلق کی ہی کیفیات ہیں.یعنی پچھلے زمانہ میں جن جن جانوروں کی شکل میں سے انسان گزرا ہے، ان ساری شکلوں میں سے ایک بچے کو رحم مادر میں سے گزرنا پڑتا ہے.تیسری دلیل اس ارتقاء کی یہ دی جاتی ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میں ایسی کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں جو اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور انسان کو جسم اپنی منفردانہ حیثیت میں نہیں ملا بلکہ جانوروں کے جسم سے ترقی کر کے اُسے ایک اور جسم حاصل ہوا ہے.کہا جاتا ہے کہ اس امر کے ثبوت کے لئے گوریلا وغیرہ قسم کے بندروں کو دیکھ لیا جائے اُن کی انسان سے اتنی شدید مشابہت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ الگ بنے ہیں اور یہ الگ، گویا ارتقاء کی تیسری دلیل وہ مشابہتیں دیتے ہیں جو انسان کو بعض دوسرے جانوروں سے اور دوسرے جانوروں کو آپس میں یا اپنے سے نیچے کے جانوروں سے ہیں.دوسرا دعوی ڈارون نے یہ کیا تھا کہ انسان اور بندر کا ارتقاء ایک جانور سے ہوا ہے جواب مفقود ہے.اس کے ثبوت میں وہ یہ امر پیش کرتا ہے کہ بندروں کی بعض اقسام کو انسان سے انتہائی مشابہت ہے مگر وہ کہتا ہے کہ درمیان میں ایک کڑی غائب ہو گئی ہے اور اس مفقودکڑی کا ثبوت وہ فاصلہ ہے جوطبعی طور پر بندروں کی موجودہ قسم اور انسان میں ، اور بندروں اور ان سے ادنیٰ قسم کے جانوروں میں نہ پایا جانا چاہئے تھا مگر چونکہ ہمیں ایک طرف بندروں اور انسان میں انتہائی مشابہت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بندروں اور ان سے نچلے درجہ کے جانوروں میں ایک فاصلہ نظر آتا ہے جو طبعی طور پر نہیں پایا جانا چاہئے تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو گئی ہے جس سے انسان اور بندر نے ترقی کر کے اپنی موجودہ شکل کو اختیار کیا تبھی یہ زنجیر مکمل نہیں بنتی.

Page 283

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ہیکل کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق ہیکل کے ایک اور مفکر ہے وہ ڈارون کے اس فلسفہ پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ وہ جانور جو ہمیں نہیں ملتا اُس کا نام لیپوٹائیلو (LIPOTYLU) ہے.یہ جانور درمیان میں سے غائب ہو گیا ہے اگر بیل جائے تو وہ کڑی جو درمیان سے ٹوٹتی ہے مکمل ہو جائے اور انسانی ارتقاء کے مسئلہ میں کوئی بات مہم نہ رہے.اس قسم کے اکثر مفکر گوریلا اور چمپنزی (CHIMPANZEE) قسم کے بندروں کے آباء کو انسانی نسل کے آباء قرار دیتے ہیں.جب ڈارون نے انسانی پیدائش کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا تو انگریزوں میں سے ہی بعض نے اس فلسفہ پر اعتراض کیا اور کہا کہ انسان اور گوریلا میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گوریلا وغیرہ اقسام کے بندروں کے آباء ہی انسانی نسل کے آباء تھے اس پر ہکسلے نے انہی اختلافات کو جو انسان اور گوریلا میں ہیں اور جو پہلے ارتقاء کے خلاف پیش کئے جاتے تھے ارتقاء کے ثبوت میں پیش کر دیا اس طرح کہ اُس نے کہا کہ جو اختلاف انسان اور گوریلا میں ہے اس سے بہت زیادہ اختلاف گوریلا اور بعض دوسری قسم کے بندروں میں ہے، اب بتاؤ کہ اس اختلاف کے باوجود تم ان سب کو بندر مانتے ہو یا نہیں؟ جب مانتے ہو تو اگر ارتقاء میں بعض بندر بعض دوسرے بندروں سے اس قدر دُور جا سکتے ہیں تو کیوں انسان گوریلا سے دُور نہیں جاسکتا.پس یہ اختلاف ارتقاء کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک ثبوت ہے.스 موجودہ زمانہ کی تحقیق موجودہ تحقیق جو قریب زمانہ میں ہوئی ہے اور جس کے مؤید ایک تو پروفیسر جونز ہیں اور ایک ڈاکٹر آسبرن ، وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جدا ہو چکا تھا اور اُس وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا تھا.گویا انسان کی جانوروں سے جُدائی اُس بندر سے نہیں ہوئی جس بندر سے جُدائی ڈارون پیش کرتا ہے بلکہ اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی مگر بہر حال انسانی ترقی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی.انسانی تہذیب کے تین بڑے دور اس کے ساتھ ہی آثار قدیمہ والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسانی تہذیب پر تین دور آئے ہیں.

Page 284

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) (۱) ایک دور تو پتھروں کے استعمال کرنے کا تھا یعنی ابتداء میں جب انسان نے تہذیب و تمدن کے دور میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے تو اُس وقت چونکہ یہ جانوروں سے ہی ترقی کر کے انسان بنا تھا اور اس کے پنجے نہیں تھے جن سے دوسرے جانور کام لے لیا کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس کے تیز دانت تھے اس لئے اس نے اپنی حفاظت کیلئے پتھروں کا استعمال شروع کر دیا.پس پہلا دور انسانی تہذیب پر پتھروں کے استعمال کا آیا ہے.(۲) پھر پیتل کے استعمال کا دور آیا.یعنی جب انسان نے اور زیادہ ترقی کی تو اس نے اپنی حفاظت کے لئے ڈھالیں وغیرہ بنالیں.(۳) اور تیسرا دور لوہے کے استعمال کرنے کا تھا جب کہ انسان نے اپنی حفاظت کے لئے نیزے اور تلوار میں وغیر ہ ایجاد کیں.آثار قدیمہ والوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پُرانی عمارتوں کے کھودنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدیم زمانہ سے کسی نہ کسی تہذیب کا حامل ضرور رہا ہے.پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ اب میں آن آثار قدیمہ کو پیش کرتا ہوں جنہیں قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اور اس کی تہذیب کے بارہ میں پیش کیا.پہلا حوالہ اس بارہ میں سورۃ نوح کا ہے جہاں آثار قدیمہ کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ما لَكُمْ لا ترجون لله وقارا - وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَوَات طِبَاقًا وَجَعَلَ القَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا والله البتكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَانًا - ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا - ش موجودہ زمانہ میں جو تحقیق انسانی پیدائش کے متعلق کی گئی ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی جو تحقیق ہے اس کا کچھ ذکر ان آیات میں ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ اے انسا نو ! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بے حکمت کام نہیں کیا کرتا اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے تم اپنے متعلق تو یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص تمہیں یہ کہے کہ تم نے فلاں کام بیوقوفی کا کیا اور اگر کوئی کہے تو اس پر بُرا مناتے ہو مگر تم خدا کے متعلق یہ کہتے رہتے ہو کہ اُس نے انسان کو بغیر

Page 285

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کسی غرض کے پیدا کر دیا.تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ وقد خَلَقَكُمْ اطوارا اُس نے تمہیں یکدم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے بنایا ہے.الم تروا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَوتِ طِبَاقًا - وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا و جَعَل الشَّمْسَ سِرَاجًا - کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کی مطابقت میں رہنے والا بنایا ہے اسی طرح اُس نے چاند بنایا اُس نے سورج بنایا.والله البتكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَانًا - ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا - اور ان ہی دوروں میں سے جن میں خدا تعالیٰ نے تمہیں گزارا، ایک دور یہ بھی تھا کہ خدا نے تمہیں زمین میں سے نکالا اور آہستہ آہستہ تمہیں اپنے موجودہ کمال تک پہنچایا.پیدائش انسانی کے مختلف دور یہ ابتدائی پیدائش کا نقشہ ہے جو قرآن کریم نے کھینچا.اس سے ظاہر ہے کہ ارتقاء کا وہ مسئلہ جسے یورپ والے آج پیش کر رہے ہیں قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ظاہر کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ یہ صحیح نہیں کہ انسان یکدم پیدا ہو گیا یا خُدا نے یوں کیا ہو کہ مٹی گوندھی اور اُس سے ایک انسانی بُت بنا کر اُس میں پھونک ماردی اور وہ چلتا پھرتا انسان بن گیا بلکہ خَلَقَكُمْ اطوارا اُس نے کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے.واللهُ اثْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نياتا.اور یہ جو درجہ بدرجہ ترقی ہوئی ہے اس میں انسان کی پیدائش در اصل زمین سے شروع ہوتی ہے.پھر ہم اسے بڑھاتے بڑھاتے کہیں کا کہیں لے گئے ہیں.گو یا اسلام نے صاف طور پر آج سے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ انسان یکدم نہیں بنا بلکہ وہ خَلَقَكُمْ اطوارا کے مطابق کئی دوروں میں تیار ہوا ہے اور والله البتكُم مِّن الْأَرْضِ نباتا کے مطابق سب سے پہلے وہ زمین سے تیار ہوا ہے مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ دو باتیں پیش کی تھیں کہ انسان آہستہ آہستہ تیار ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ زمین میں سے پیدا ہوا ہے مگر مسلمانوں نے اِن دونوں باتوں کو رڈ کر دیا اور ایک طرف تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یکدم بنا دیا تھا اور دوسری طرف اس امر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے انسان کو زمین میں سے تیار کیا ہے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے جنت سماوی میں پیدا کیا پھر زمین پر پھینک دیا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک روحوں کی

Page 286

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) تھیلی ہے وہ جس شخص کو زمین پر بھیجنا چاہتا ہے اُس کی روح چھوڑ دیتا ہے گویا جس طرح بٹیرے پکڑنے والے اپنی تھیلیوں میں سے ایک ایک بٹیرہ نکالتے جاتے ہیں، اسی طرح خدا پہلے ایک رُوح چھوڑتا ہے پھر دوسری پھر تیسری گویا اس زمانہ کے علماء نے یہ ٹھیکہ لے لیا ہے کہ قرآن کریم میں جو بات لکھی ہوگی اس کے وہ ضرور خلاف کریں گے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تسلیم کیا ہے کہ انسانی پیدائش آہستگی سے ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں حکمت تھی.اگر پیدائش اس رنگ میں نہ ہوتی تو بہت سے نقائص رہ جاتے مگر آجکل کے علماء اس بارہ میں جو کچھ عقیدہ رکھتے ہیں اس کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ مولوی سید سرورشاہ صاحب سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے ایک اُستاد نے لڑکوں کو بتایا کہ دنیا میں جو ہمیں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت اور کوئی درمیانی صورت رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ آؤ میں انسان بنانے کا کسی کو ٹھیکہ دے دوں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو ٹھیکہ دے دیا اور اُن سے کہا کہ میں شام تک تم سے اتنے آدمی لے لوں گا.خیر پہلے تو وہ شوق اور محنت سے کام کرتے رہے اور انہوں نے بڑی محنت سے مٹی گوندھی پھر نہایت احتیاط سے لوگوں کے ناک، کان ، آنکھ ، منہ اور دوسرے اعضاء بنائے اور اس طرح دو پہر تک بڑی سرگرمی سے مشغول رہے، اِس دوران میں جو آدمی ان کے ذریعہ تیار ہو گئے وہ نہایت حسین اور خوبصورت بنے مگر جب دو پہر ہوگئی اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی کام بہت رہتا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو انہوں نے جلدی جلدی کام شروع کر دیا اور کچھ زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام نہ لیا اور اس طرح عصر تک کام کرتے رہے اِس دوران میں جولوگ تیار ہوئے وہ درمیانی شکلوں کے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ عصر ہوگئی ہے اور اب سورج غروب ہی ہونے والا ہے اور ٹھیکہ کے مطابق تعداد تیار نہیں ہوئی تو انہوں نے یوں کرنا شروع کر دیا کہ مٹی کا گولہ اُٹھا ئیں اور اُسے دو تھپکیاں دے کر بُت بنا کر مُنہ کی جگہ ایک انگلی ماردیں اور آنکھوں کی جگہ دو انگلیاں اور اس طرح جلدی جلدی آدمی بناتے جائیں یہ آدمی بدصورت بنے جو بدصورت قوموں کے آباء ہو گئے.اب یہ ہے تو دین سے تمسخر اور استہزاء مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں میں پیدائش انسانی کے متعلق ایسے ہی خیالات رائج ہو چکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی طرح بنایا ہے کہ مٹی کو گوندھا اور انسانی بت بنا کر اس کے سوراخ بنادیئے اور پھر ایک

Page 287

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) پھونک ماری اور وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا ، مگر اسلام یہ نہیں کہتا.وہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو کئی دوروں سے گزارا ہے اور خاص حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بنایا ہے یہ نہیں کہ تمہیں یکدم بنادیا ہو.دور دوسری بات قرآن کریم ہے یہ انسانی پیدائش کا دور راؤل عدم سے شروع ہوا معلوم ہوتی ہے کہ نسانی پیدائش کا دور اول عدم تھا.یہ اختلاف دنیا میں ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ دنیا کی ابتداء کس طرح ہوئی ؟ آریہ کہتے ہیں کہ مادہ جس سے تمام دنیا کی تخلیق ہوئی یہ ازلی ہے.خدا نے صرف اتنا کیا ہے کہ مادہ اور روح کو جوڑ جاڑ دیا اور اس طرح انسان بن گیا ، مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے مادہ از لی نہیں بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور یہ کہ پہلے کچھ نہ تھا پھر خدا نے انسان کو پیدا کیا.چنانچہ فرماتا ہے.اولا یہ گر الانسان اَنَّا خَلَقْنَهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا کہ کیا انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم نے جب اُسے پیدا کیا تو وہ اُس وقت کوئی ھے بھی نہیں تھی.آجکل کی پیدائش اور قسم کی ہے آجکل نطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس آیت میں جس خلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ دور سے بہت پہلے کی ہے.گویا ابتدائی حالت انسان کی عدم تھی.پھر خدا اسے عالم وجود میں لایا مگر یہ یا درکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے وجود پیدا ہوا بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر وجود ہوا.یہ دھوکا زیادہ تر سے“ کے لفظ سے لگتا ہے کیونکہ ” سے“ کا لفظ اُردو زبان میں مادہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے.کہتے ہیں لکڑی سے کھلونا بنایا یا لوہے سے زنجیر بنائی.جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے لکڑی اور لو با موجود تھا جس سے اور چیزیں بنائی گئیں.اس لئے جب مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو عدم سے بنایا تو غیر مذاہب والے اعتراض کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس سے خدا نے انسان کو بنایا کس طرح؟ پس یا درکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے انسان بنا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر اس کا وجود ہو ا.پس خدا نے عدم سے انسان کو نہیں بنایا بلکہ اپنے حکم کے ماتحت بنایا ہے مگر یہ کہ اُسے کس طرح بنایا ہے اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے سمجھنے کی انسان میں قابلیت نہیں.اگر انسان اس کو سمجھ سکتا تو وہ بھی انسان بنانے پر قادر ہوتا.

Page 288

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) وجود انسانی کے دورِثانی کی کیفیت انسان کا دور ثانی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں انسانی وجود تو تھا مگر بلا دماغ کے.گویا انسانی وجود تو تھا مگر انسان نہ تھا اور نہ اس کی حالت کو سوچنے والا کوئی دماغ تھا، گویا دماغی ارتقاء سے پہلے کی حالت میں تھا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں تھا یا نباتی رنگ میں.مگر بہر حال خواہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں ہو خواہ نباتی رنگ میں ، حیوانی رنگ میں نہیں تھا اور اس کا پتہ بھی قرآن کریم سے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ھل آتی على الانسان حين مِن الدّهرِ لم يكن شَيْئًا تَذ محورا " کہ کیا انسان کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ انسان پر یقیناً ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جب کہ وجود انسانی تو موجود تھا مگر مذکور نہیں تھا وہ یاد نہیں کیا جاتا تھا.گویا حس شناخت جو انسان میں موجود ہے وہ اُس وقت نہیں تھی.ایک وجود موجود تھا مگر بغیر عقل اور بغیر شعور کے، ایک دوسرے کے متعلق اسے کوئی واقفیت نہ تھی.اسے کوئی علم نہ تھا کیونکہ یہ باتیں دماغ سے تعلق رکھتی ہیں اور دماغ دورثانی میں نہیں تھا.انسانی پیدائش کا تیسرا دور تیسرا دور قرآن کریم سے انسانی پیدائش کے متعلق وہ معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ ایسی شکل میں آیا کہ اس کی پیدائش نطفہ سے ہونے لگی یعنی مرد و عورت کے تعلق سے اور اُس وقت سے اس کے مزاج میں تنوع پیدا ہوا.حیوانوں میں سے بھی بعض حیوان نرومادہ نہیں ہوتے ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر انسان پر وہ دور آیا جب کہ اُسے نرومادہ میں تقسیم کر دیا گیا یعنی حیوان بنا اور حیوان سے ترقی کر کے اُس حالت کو پہنچا کہ جب تناسل نطفہ سے شروع ہو جاتی ہے جو بات کہ اعلیٰ درجہ کے حیوانوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے وہ ایسا حیوان بنا جو نطفہ امشاج سے بنتا ہے یعنی اس کے اندر مختلف قومی پیدا کئے گئے.اللہ تعالیٰ اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.إنا خلقنا الإِنْسَانَ مِن نُّطْفَةٍ انشا سے تتلیو " کہ ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا جو مرکب تھا اور جس کے اندر بہت سے اجزاء ملائے گئے تھے کیونکہ ہم نے اس سے مرتب قسم کا کام لینا تھا.پس چونکہ ہم نے اس سے مرتب کا م لینا تھا اس لئے ہم نے نطفہ میں بھی مرتب طاقتیں رکھ دیں یہ تیسرا دور ہے جو انسانی پیدائش پر آیا.انسانی پیدائش کا چوتھا دور چوتھا ؤ اور انسانی پیدائش پر وہ آیا جب کہ انسانی دماغ کامل ہو گیا اور اس میں سمجھ اور ترقی کا مادہ پیدا ہو گیا گویا اب

Page 289

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) دماغی ارتقاء اور دماغی قوتوں کے ظہور کا زمانہ آ گیا اور وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع اور بصیر وجود بنا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا " اس دور میں جب که انسانی پیدائش نطفہ سے ہونے لگ گئی تھی اور وہ ڈگــــر وانــــــی بن گئے تھے ابھی ان میں انسانیت نہیں آئی تھی بلکہ حیوانیت ہی تھی کیونکہ گو نر و مادہ کی تمیز پیدا ہوگئی تھی مگر یہ تمیز حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے اس طرح گو اُس دور میں انسان باصر اور سامع تھا جیسا کہ حیوان بھی باصر اور سامع ہوتا ہے حیوان بھی دوسروں کو دیکھتا اور حیوان بھی آہٹ کوسُن لیتا ہے پس اس دور میں وہ ایک حیوان تھا مگر اس کے بعد دورِ رابع اس پر وہ آیا جب کہ دماغی اور ذہنی ارتقاء کی وجہ سے تحقیق اور تجسس کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ بصیر اور سمیع بن گیا.دیکھتا تو ایک جانور بھی ہے مگر وہ باصر ہوتا ہے بصیر نہیں ہوتا.بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے اور گرید، تحقیق اور ایجاد کا مادہ اس میں موجود ہو اور یہ انسانی صفات ہی ہیں حیوانی نہیں.پس چوتھا دور انسان پر وہ آیا جب کہ وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع و بصیر بنا یعنی گرید ، تحقیق، ایجاد اور ترقی کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ حیوانی حالت سے ترقی کر کے حیوانِ ناطق بن گیا.پرسب دوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں، درمیانی زمانوں کا ذکر خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں وہ ضروری باتوں کا ذکر کر دیتا اور باقی امور کی دریافت کو انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے پس ان چار دوروں کا یہ مطلب نہیں کہ انسان پر یہی چار دور آئے بلکہ یہ چار دوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں ان کے درمیان اور بھی بہت سی کڑیاں ہیں چنانچہ بعض درمیانی کڑیوں کا حال بھی قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے مثلاً فرما تا ہے.واللهُ خَلَقَكُمْ مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا لا پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ والله ابكُم من الأرض نباتا کہ خدا نے تمہیں زمین میں سے نکالا ہے اور یہاں یہ فرمایا ہے کہ خدا نے تمہیں خشک مٹی میں سے پیدا کیا ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ پھر نطفہ سے پیدا کیا یہاں پھر درمیانی دوروں اور درمیانی دوروں کی مختلف کڑیوں کا ذکر چھوڑ دیا ہے.چنانچہ میں آگے چل کر ثابت کرونگا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واقعہ میں بعض دور چھوڑ دیئے ہیں.غرض فرماتا ہے پھر ہم نے نطفہ بنایا اور تم نر و مادہ سے پیدا ہونے لگ گئے.ثُمّ جَعَلَكُم ازواجا پھر ہم نے تم کو انسانِ کامل بنایا ، ایک ایسا انسان جو تمدنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ نظام میں منسلک ہو گیا.

Page 290

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) لفظ ازواج کی تشریح یہاں ازواج کے معنے مرد عورت کے نہیں کیونکہ پہلے نطفے کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا اس نے تم کو ازواج بنایا اگر ازواج کے معنے مرد عورت کے ہی ہوں تو ان الفاظ کے الگ لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی.نطفہ کے ذکر میں ہی یہ بات آ سکتی تھی کیونکہ نطفہ سے اسی وقت پیدائش ہوتی ہے جب مردعورت دونوں موجود ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے نطفہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ ثُمَّ جَعَلَكُم ازواجا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ازواج سے مراد مرد وعورت نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہاں آزرا جا سے مراد اقسام ہیں نہ کہ مرد و عورت ، ورنہ نطفہ تو ہوتا ہی زوج کے وقت سے ہے اور اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ زوج کے معنے عربی زبان میں صنف کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ مراد ہیں ، پس آزرا جا سے مراد أَصْنَافًا ہیں نہ کہ مرد و عورت اور مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری دماغی ترقی ہوئی تو تم میں مختلف قسم کے گروہ پیدا ہو گئے اور پارٹیاں بنی شروع ہو گئیں غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان ترابی حالت میں تھا یعنی جمادی حالت میں پھر اس پر ایک زمانہ آیا ( درمیانی زمانہ کا ذکر اس جگہ چھوڑ دیا ہے ) کہ وہ حیوانی صورت اختیار کر گیا اور مرد وعورت سے اس کی پیدائش ہونے لگی ( پھر درمیانی زمانہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے ) پھر وہ زمانہ آیا کہ وہ ترقی کر کے تمدنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ ایک نظام میں منسلک ہو گیا.اسی طرح درمیانی کڑیوں میں سے ایک کڑی طینی حالت بھی ہے جب کہ شراب سے پانی ملا ، چنانچہ حیات انسانی کا مادہ پانی ہونے کے متعلق فرماتا ہے و جَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْء ، افلا يُؤْمِنُون ۱۵ا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے اگر پانی نہ ہوتا تو حیاتِ انسانی کا مادہ بھی پیدا نہ ہوتا ، پھر یہ کڑی کہ پانی مٹی سے ملا اور اس سے پیدائش ہوئی اس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خلقه وبدا خلق الانسان من طين " کہ خدا نے انسان کو طین سے پیدا کیا.گویا پانی اور مٹی باہم ملائے گئے اور ان دونوں کے ملانے سے جو حالت پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں زندگی کا ذرہ پیدا ہوا اور ترقی کرتے کرتے انسان اپنے معراج کمال کو پہنچ گیا.اس بات کا ثبوت کہ کڑیاں درمیان سے حذف بھی کر دی جاتی ہیں اس بات سے ملتا ہے کہ

Page 291

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اوپر کی آیت میں بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش اول طین سے ہوئی اس کے بعد فرماتا ہے.ثُمَّ جَعَل نشلة من سُللَةٍ مِّن قَاءٍ مِّهِينٍ کا کہ پیدائش ثانی طین سے نہیں بلکہ ماء ممنن یعنی نطفہ سے ہوئی ہے اور ہم نے بجائے مٹی اور پانی کے نسلِ انسانی کے لئے نطفہ کا سلسلہ جاری کر دیا.جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آلَمْ نَخْلُقُكُم مِّن مَّاء لمين - فَجَعَلْنَهُ في قَرَارٍ مَّكين - إلى قَدَرٍ مَّعْلُوم 1 یعنی کیا ہم نے تم کو ایک کمزور اور حقیر پانی کی بوند سے پیدا نہیں کیا اور پھر اس کمزور اور حقیر بوند کو ایک قرار وثبات کی جگہ میں ایک زمانہ تک رکھ کر پیدا نہیں کیا ؟ پس صاف معلوم ہو گیا کہ مٹی کی حالت ایک وقت کی تھی پھر وہ وقت آیا جب کہ مٹی اور پانی ملایا گیا ، مگر نسل انسانی جو پیدا ہوئی ہے یہ مٹی سے نہیں بلکہ نطفہ سے ہوئی ہے پس مٹی والا زمانہ اور ہے پانی والا زمانہ اور ہے اور نطفے والا زمانہ اور ہے.پیدائش انسانی کے متعلق عام قرآنی اصول پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ وان إلى رَبِّكَ الْمُنتَهى.وانه هو اضحك وابكى وأنّه هُوَ امَات وَاحْيَا وَانَّه خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذكر والأنثى مِن نُّطْفَةٍ إِذا تُمْنَى ، وَان عَلَيْهِ النَّشَاةُ الأخْرى 19 کہ دیکھو تمہاری ابتدا ء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان و تر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دید یا جائے تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں.اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جاؤ اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اس تمام خلق کے پیچھے نظر آئے گا.اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہاء بھی خدا تعالیٰ پر ہے اور باریک در باریک ہوتے ہوئے آخر خدا تعالیٰ پر سبب اولی ختم ہو جاتا ہے.یہ اوپر کی آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ : - (۱) انسان مادہ ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں سے پیدا کیا گیا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہوا کہ وہ یکدم پیدا ہو گیا.(۳) تیسرے یہ کہ انسان ، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے.یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے.

Page 292

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) (۴) چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی.(۵) پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میں آیا جب کہ اس میں زندگی پیدا ہو گئی تھی ، لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی.وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا.(1) اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوانِ ناطق ہو گیا مگر ابھی چونکہ اس میں کچھ کسر باقی تھی اس لئے پھر (۷) اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدن انسان ہو گیا جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ جَعَلَكُمْ آزَواجات میں کیا ہے یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائے اس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سؤر اور گتے وغیرہ کرتے ہیں.انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور نظام اور قانون کی ترقی شروع ہوئی.یہ چار بڑے بڑے دور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی :- (۱) جمادی دور (۲) حیوانی دور (۳) عقل کا دور اور (۴) متمدن انسان کا دور.ان کے درمیان اور بھی کڑیاں ہیں لیکن وہ حذف کر دی گئی ہیں.اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کی.جب تک اسے عقل حاصل نہیں تھی وہ ایک حیوان تھا گو خدا کے مد نظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدن انسان بنائے مگر بہر حال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیں کہلا سکتا تھا اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے.اب ماں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہ ہی ہوتا ہے گتا نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا.اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسانیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کئے تھے اور نہ ابھی تک ان میں عقل پیدا ہوئی تھی.انسان کہلانے کا وہ اُسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی لیکن اس دور کو بھی حقیقی معنوں میں دور انسانیت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انسان کی کامل خصوصیت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میں اصطلاحاً عقل والے دور کو بشری دور اول کہوں گا اور نظام والے دور کو انسانی دور کہوں گا.یعنی پہلے دور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دور میں بشر و انسان دونوں اُس کے نام تھے.

Page 293

انوار العلوم جلد ۱۵ آدم سب سے پہلا کامل انسان تھا سیر روحانی تقریر (۱) اس وقت تک جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عقلی دور دوحصوں میں منقسم تھا ایک حصہ تو وہ تھا کہ اس میں عقل تو تھی مگر انفرادی حیثیت رکھتی تھی حمد نی جس نے ترقی نہ کی تھی اور وہ اکیلے اکیلے یا جوڑوں کی صورت میں زندگی بسر کرتا تھا.دوسرا دور وہ آیا جبکہ حمد نی جس ترقی کر گئی تھی اور وہ ایک قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا یعنی وہ اس بات کیلئے تیار ہو گیا کہ ایک قانون کے ماتحت رہے جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ کسی پر حملہ نہیں کرنا تو ہر ایک کا فرض ہو کہ کسی پر حملہ نہ کرے، جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں کو یہ سزا ملنی چاہئے تو اس کا فرض ہو کہ وہ اس سزا کو بخوشی برداشت کرے، جب یہ حس اس میں ترقی کر گئی اور وہ قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا تو اُس وقت انسانِ کامل بنا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب انسانوں کے اندر یہ مادہ پیدا ہو گیا کہ وہ نظام اور قانون کی پابندی کریں اور انسانی دماغ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو اُس وقت سب سے پہلا شخص جس کا دماغ نہایت اعلیٰ طور پر مکمل ہوا اس کا نام آدم تھا.گویا آدم جو خلیفہ اللہ بنا وہ نہیں جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اسے مٹی سے گوندھا اور پھر اُس میں پھونک مار کر اُسے یکدم چلتا پھرتا انسان بناد یا بلکہ جب انسانوں میں تمدنی روح پیدا ہوگئی تو اُس وقت جو شخص سب سے پہلے اس مقام کو پہنچا اور جس کے دماغی قوی کی تکمیل سب سے اعلیٰ اور ارفع طور پر ہوئی اُس کا نام خدا تعالیٰ نے آدم رکھا، مگر جب دیر سے ایک طریق چلا آرہا ہو اُس میں تبدیلی لوگ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے اسی لئے جب کامل انسانیت کی ابتداء ہوئی ناقص انسانوں کا بقیہ اس کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر تھا کیونکہ گو اُن میں عقل تھی مگر مادہ تعاون و تمدن ان میں مکمل نہ تھا.پس یقیناً اُس وقت بہت بڑا فساد ہوا ہوگا جیسے اگر ایک سیدھا ہو اگھوڑا بے سدھے گھوڑے کے ساتھ جوت دیا جائے تو دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے.بے سدھا گھوڑا لاتیں مارے گا ، اُچھلے گا ، گو دے گا اور وہ کوشش کرے گا کہ نکل کر بھاگ جائے اسی طرح اُس وقت بعض لوگ متمدن ہو چکے تھے اور بعض کہتے تھے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم اکٹھے رہیں اور قانون کی پابندی کریں.لفظ آدم میں حکمت قرآن کریم نے جو پہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے، ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیں اور دوسرا مادہ اُدمہ ہے اور اُذمہ کے

Page 294

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) معنی گندمی رنگ کے ہیں.پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہوا اور زمین پر رہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا.حقیقت یہ ہے کہ جب آدم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تمدن کی بنیاد رکھی تو اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے زمین کی غاروں میں رہنے کے ہمیں سطح زمین کے اوپر رہنا چاہئے اور پندرہ پندرہ بیس ہیں گھروں کا ایک گاؤں بنا کر اس میں آباد ہو جانا چاہئے اس سے پہلے تمام انسان غاروں میں رہتے تھے اور چونکہ سطح زمین پرا کیلے اکیلے رہنے میں خطرہ ہوسکتا تھا کہ کوئی شیر یا چیتا حملہ کرے اور انسانوں کو پھاڑ دے اس لئے وہ آسانی کے ساتھ سطح زمین پر رہنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تبھی سطح زمین پر رہنا برداشت کر سکتے تھے جب کہ بہت سے آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں اور وہ متحدہ طاقت سے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر یہ صورت اُسی وقت ہوسکتی تھی جب انسانوں میں اکٹھا رہنے کی عادت ہو اور وہ ایک قانون اور نظام کے پابند ہوں.جب تک وہ ایک نظام کے عادی نہ ہوں ، اُس وقت تک اکٹھے کس طرح رہ سکتے تھے.پس اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ غاروں میں نہیں رہیں گے بلکہ کھلے مکانوں میں رہیں گے اور چونکہ انہوں نے باہر سطح زمین پر رہنے کا فیصلہ کیا اس لئے ان کا نام آدم ہو ا یعنے سطح زمین پر رہنے والے.اور کھلی ہوا میں رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہوا کہ ان کا رنگ گندمی ہو گیا.پس آدم اس کا نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ کھلی زمین میں مکان بنا کر ر ہنے لگا اورکھلی زمین پر رہنے کے سبب سے اس کا جسم گندمی رنگ کا ہو گیا جیسا کہ سورج کی دُعائیں پڑنے سے ہو جاتا ہے اور ادیم اور اُڈ مہ جو لفظ آدم کے مادے ہیں ان دونوں کا مفہوم بھی ایک ہی ہے یعنی گھلی ہوا اور زمین پر رہنے کی وجہ سے اس کے رنگ پر اثر پڑا.زمانہ آدم کی تمدنی حالت اس آدم کے زمانہ میں از ما بشری د وراؤول کے زمانہ کے بھی کچھ لوگ تھے جو تمدنی قوانین کی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور لازماً وہ سطح زمین پر سہولت سے نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ جو طاقت مجموعی طاقت سے مل سکتی ہے اور جو انسان کو کھلے میدانوں میں رہنے میں مدد دیتی ہے وہ انہیں حاصل نہ تھی پس وہ غاروں میں رہتے تھے جیسا کہ جانور وغیرہ رہتے ہیں اور چونکہ ان میں تمدن نہ تھا ان کے لئے کوئی

Page 295

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) قانون بھی نہ تھا ، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگ سطح زمین پر رہیں اور غاروں میں رہنا چھوڑ دیں ، تو وہ لوگ جو سطح زمین پر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے آپ کی مخالفت کی جیسے افریقہ کے حبشی پہلے ننگے رہا کرتے تھے.شروع شروع میں جب انگریز آئے ہیں تو انہوں نے کوشش کی کہ حبشیوں کو کپڑے پہنائے جائیں.چنانچہ انہوں نے شہر کے دروازوں پر آدمی مقرر کر دیئے اور انہیں کپڑے دے کر حکم دیدیا کہ جب کوئی حبشی شہر کے اندر داخل ہونا چاہے تو اُسے کہا جائے کہ وہ نگا شہر میں داخل نہ ہو بلکہ تہ بند باندھ کر اندر جائے ، چونکہ وہ ہمیشہ نگے رہتے چلے آئے تھے اور کپڑے پہننے کی انہیں عادت نہ تھی اس لئے وہ بڑے لڑتے اور کہتے کہ ہم سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی کہ ہم کپڑے پہن کر شہر میں داخل ہوں ، ہمارے بھائی بند اور دوست ہمیں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے.مگر انہیں کہا جاتا کہ ننگے جانے کی اجازت نہیں ، کپڑے پہن لو اور چلے جاؤ، چنانچہ مجبوراً وہ کپڑے پہنتے مگر جب شہر میں سے گزرتے تو ادھر اُدھر کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں ان کا کوئی دوست انہیں اس بے حیائی کی حالت میں دیکھ تو نہیں رہا، چنانچہ بڑی مشکل سے وہ شہر میں کچھ وقت گزارتے اور جب شہر سے باہر نکلنے لگتے تو ابھی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہی ہوتے تو تہہ بندا تار کر زور سے پھینک دیتے اور ننگے بھاگتے ہوئے چلے جاتے.تو جس چیز کی انسان کو عادت نہیں ہوتی اُس سے وہ گھبراتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے سطح زمین پر رہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستور غاروں میں رہتے رہے.جنس ایک ہی تھی، لیکن اس کا ایک حصہ تو سطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح انسانِ کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسان ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے جن نام پانے کا مستحق ہوا کیونکہ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے کے ہیں.پس اُس وقت نسلِ انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جو آ دم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جن کہلاتے تھے.آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جولوگ تھے انہوں نے میدان میں جھونپڑیاں بنائیں، مکانات بنائے اور مل جل کر رہنے لگ گئے.پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کھلی ہوا میں رہنے سے گندم گوں ہو جانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے ، اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے اور متمدن اور مہذب انسانوں کی طرح زمین پر مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے.اس کے

Page 296

انوار العلوم جلد ۱۵ ا سیر روحانی تقریر (۱) مقابلہ میں دوسرے لوگ جو گو اسی جنس میں سے تھے مگر چونکہ وہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور غاروں میں چُھپ کر رہے اس لئے وہ جن کہلاتے تھے.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں بعد میں بھی بڑے آدمی جو اندر چھپ کر رہتے ہیں انہیں جن کہا جانے لگا کیونکہ ان کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اندر نہیں جا سکتا.اسی طرح غیر اقوام کے افراد کو بھی جن کہا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں صاف الفاظ میں غیر قوموں کے افراد کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ تفصیل کا وقت نہیں ہے اس لئے میں وہ آیات بیان نہیں کر سکتا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے قرآن کریم سے ایسے قطعی اور یقینی ثبوت نکال لئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جن کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے.میں نے اُن آدمیوں کا بھی پتہ لے لیا ہے جنہیں قرآن کریم میں "جن“ کہا گیا.اُن شہروں کا بھی پتہ لے لیا ہے جن میں وہ جن رہتے تھے اور تاریخی گواہیاں بھی اس امر کے ثبوت کے لئے مہیا کر لی ہیں کہ وہ جن انسان ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق نہ تھی.اب میں آیات قرآنیہ سے اُن مسائل کے دلائل بیان کرتا ہوں جن کا اس وقت میں نے ذکر کیا ہے.آدم پہلا بشر نہیں میرا پہلا کوئی یہ تھا کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کر دیا ہو اور پھر اس سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے ، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا.انّي جَاعِلُ في الأَرْضِ خَلِيفَةٌ " میں زمین میں ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اگر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہنا چاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اورلوگ پہلے سے زمین میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا.پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے اور یہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں.دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ولَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَورُ نَكُمْ

Page 297

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ثم قلنا للمَلَكَةِ اسْجُدُوا لأدم " يعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا ، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو.یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں.بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے نسلِ انسانی ! میں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ صورتكم میں نے تمہیں ترقی دی ، تمہارے دماغی قوالی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہوگئی تو میں نے ایک آدمی کھڑا کر دیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے کیونکہ خُلَقْنَكُمْ اور صور نكم پہلے ہوا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہوا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حکم دیا.پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا.مگر خدا تعالیٰ یہ نہیں فرما تا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میں سے آدم کے متعلق ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں.پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے.آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے تھے میرا دوسرا دعوئی یہ تھا کہ آدم اور ابلیس در حقیقت نسل انسانی میں سے ہی تھے اس بات کا ثبوت بھی قرآن کریم سے ملتا ہے.(1) اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں جہاں اس نے آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے.فَازَ لَهُمَا الشَّيْطن عنهَا فَاخْرَجَهُمَا مِمَّا عَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لبعض عدو وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرَةٌ مَتَاءً إلى جنین ۲۳ کہ آدم اور اُس کی بیوی دونوں کو شیطان نے ورغلا دیا اور دھوکا دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری ناراضگی ہوئی اور ہم نے کہا کہ اهبطوا تم اے شیطان کے لوگو اور اے آدم کے ساتھیو! سارے کے سارے یہاں سے چلے جاؤ.جمع کا صیغہ ہے جو خدا تعالیٰ نے استعمال کیا.اگر اس سے مراد صرف آدم اور حوا ہوتے تو وہ تو دوہی تھے ان کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا.انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا کہ تم دونوں چلے جاؤ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے ساری کی ساری جماعت یہاں سے چلی جائے.آدم ، وا اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے اور ابلیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے اور سب سے کہتا ہے کہ اس علاقہ سے چلے جاؤ کیونکہ اب تمہاری آپس میں

Page 298

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) عداوت ہو چکی ہے.یہ آیت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے ہی تھے.ایک شبہ کا ازالہ اس میں کوئی طلبہ نہیں کہ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر راخبطوا کی بجائے اھبطا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں بھی قرآن کریم نے اس ۲۴ مشکل کو آپ ہی حل کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے.قال اهبطا مِنْهَا جَمِيعًا بعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ " کہ ہم نے کہا دونوں یہاں سے چلے جاؤ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے.اب اگر دونوں سے مراد آدم اور حوا لئے جائیں تو اس آیت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیں گے حالانکہ یہ معنے بالبداہت غلط ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ دونوں سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا.اور اللہ تعالیٰ نے اخبطا منها جميعًا کہ کر یہ حکم دیا ہے کہ اے آدم کے گروہ اور اے شیطان کے گر وہ ! تم دونوں اس جگہ سے چلے جاؤ.اب تم دونوں گروہ آپس میں ہمیشہ دشمن رہو گے ، پھر اس بات کا ایک اور ثبوت کہ اِن دو سے مراد دو گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا یہ بھی ہے کہ اشیطا کے ساتھ جميعا کا لفظ بھی آتا ہے ، حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میں جمیعا کبھی نہیں آ سکتا.پس چونکہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئی ساتھی تھے اس لئے دونوں کے لئے اهبطا منها جميعا کے الفاظ استعمال کئے گئے.اسی طرح جہاں دشمنی کا ذکر ہے وہاں بعْضُكُم لبغض کے الفاظ ہیں اور کسم کے لفظ نے بھی جو تین یا تین سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے بتادیا ہے کہ جن کو نکلنے کا حکم دیا ہے وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دو شخص.پھر اس آیت سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آدم کی نسل اور شیطان کی نسل دونوں نے ایک جگہ A اکٹھا رہنا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و لكم في الأرضِ مُسْتَقَرَّةٌ مَتَاعَ إلَى حِينٍ که اے شیطان کے ساتھیو اور اے آدم کے ساتھیو! تم دونوں نے دنیا میں اکٹھا رہنا ہے پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کی دشمنی سے بچتے رہنا اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا.پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ان آیات سے نکلتی ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ جنس نہیں تھے بلکہ ایک ہی جنس میں سے تھے چنانچہ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ شیطان کے ساتھیوں اور آدم کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاهُمْ

Page 299

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) يحزنون ۳ کہ اے آدم کے ساتھیو اور اے ابلیس کے ساتھیو! تم سب یہاں سے چلے جاؤ، مگر یاد رکھو کہ کبھی کبھی تمہارے پاس میرے نبی بھی آیا کریں گے جو لوگ ان انبیاء کو مان لیں گے وہ ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ رہیں گے مگر وہ لوگ جو اُن کو نہیں مانیں گے وہ میری ناراضگی کے مورد ہونگے.اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد کبھی شیطان کی ساتھی بن جایا کریگی اور کبھی شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جایا کریگی کیونکہ اس آیت سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور جب کہ نسل ابلیس کے لئے بھی ایمان لا نا ممکن تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ کبھی آدم کی اولا د کسی نبی کا انکار کر دے تو صاف معلوم ہوا کہ یہ دونوں نسلیں آپس میں تبادلہ کرتی رہیں گی.کبھی شیطان کی نسل آدم کی نسل ہو جائے گی اور کبھی آدم کی نسل شیطان کی نسل ہو جائے گی کیونکہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے اس آیت سے ایمان لا ناممکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا ایمان لانا ممکن ہی نہ ہوتا تو ان کی طرف ہدایت کے آنے کے کوئی معنے نہ تھے.پھر سورہ اعراف میں اس مضمون کے بعد یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ اے آدم کی نسل اور اے ابلیس کی نسل ! قَالَ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ " تم دونوں اسی زمین کے اندر زندہ رہو گے ، یہیں مرو گے اور اسی زمین سے تمہارا حشر ہوگا یعنی بنو آدم کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھی نہ صرف رہیں گے بلکہ بنو آدم کی طرح زمین پر زندگی بسر کریں گے ، انہی کی طرح مریں گے اور زمین میں دفن ہونگے اور پھر انہی کی طرح ان کا قبور سے حشر ہوگا پس معلوم ہوا کہ یہ جن کسی اور جنس کے لوگ نہیں بلکہ نسلاً یہ لوگ وہی ہیں جو بنو آدم ہیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ صاف بتا دیا ہے کہ جس طرح آدم کی نسل زمین میں زندہ رہے گی اسی طرح ابلیس اور اس کی نسل زمین میں زندہ رہے گی ، جس طرح آدم کی نسل کھائے بیٹے گی اسی طرح ابلیس کی نسل کھائے پئے گی.جس طرح آدم کی نسل مرے گی اور زمین میں دفن ہوگی اسی طرح ابلیس کی نسل مرے گی اور زمین میں دفن ہو گی.اور پھر یہ بھی بتادیا کہ جب ہمارے انبیاء آئیں گے تو وہ اِن دونوں کو مخاطب کرینگے ، پھر جو لوگ انہیں مان لیں گے وہ آدم کی حقیقی اولاد کہلائیں گے اور جو لوگ نہیں مانیں گے وہ ابلیس بن جائیں گے پس معلوم ہوا کہ آدم کے مقابلہ میں جو لوگ تھے خواہ انہیں ابلیس اور نسل ابلیس کہہ لو اور خواہ جن کہہ لو بہر حال جنس کے لحاظ سے وہ بشر ہی تھے.فرق صرف اخلاق ، تمدن، اور شریعت کا تھا جس کی وجہ سے ان

Page 300

انوار العلوم جلد ۱۵ دونوں میں آپس میں امتیاز کر دیا گیا.سیر روحانی تقریر (۱) آدم اور جن کی بجائے انہیں مؤمن اور کافر کیوں نہ کہا گیا اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ناموں سے انہیں یاد کیوں کیا ؟ کیوں سیدھے سادھے الفاظ میں انہیں کا فر اور مؤمن نہیں کہہ دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ کا فر اور مؤمن ہے اور ان کے لئے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا انس اور جن تھا.آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک در بار یک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدن اور رہائش انسانی کے ساتھ تھا اور اُس وقت کے لوگوں کے لئے باریک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے.پس کافر و مؤمن کی جگہ جن اور انس دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیا جائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے.آج چونکہ انسانی دماغ بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے جب کسی کو مؤمن یا کا فر کہا جاتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے مگر اُس زمانہ میں اگر انہیں کا فر کہا جا تا اور بتایا جا تا کہ تم اس لئے کا فر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کا فرکس طرح ہو گئے.پس اُس وقت اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کو مانا اور تمدن کی زندگی کو قبول کر لیا انس رکھا گیا اور اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کی بات کو نہ مانا اور غاروں میں ہی چھپے رہنے کا فیصلہ کر لیا جن رکھا گیا اور یہ ایسی بات تھی جسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ واقع میں ان میں سے کچھ لوگ زمین پر رہتے ہیں اور کچھ زمین کے اندر غاروں میں رہتے ہیں.پس جب انہیں جن کہا جاتا تو وہ کہتے ٹھیک ہے ہم واقع میں غاروں سے نہیں نکلنا چاہتے اور جب دوسروں کو جو سطح زمین پر رہتے ہیں انس کہا جاتا تو یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آجاتی اور وہ کہتے کہ واقع میں وہ سطح زمین پر رہتے ہیں اور اس وجہ سے جن نہیں کہلا سکتے.پس جس طرح موجودہ زمانہ میں کافر اور مؤمن دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا ہے اسی طرح اُس زمانہ میں جن اور انس دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانہ میں اختلاف کی بنیاد تمدن تھی.پس مؤمن و کافر کی جگہ انس وجن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیا جائے اور بتایا جائے کہ انس وہ

Page 301

انوارالعلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) تھے جنہوں نے الہی حکم کے مطابق با ہمی اُنس اختیار کر کے متمدن زندگی کی بنیاد رکھی اور جن وہ تھے جنہوں نے اس سے انکار کر کے اطاعت سے باہر رہنے اور حمد نی زندگی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا.پس وہ جنہوں نے تمدنی زندگی اختیار کر لی اور سطح زمین پر رہنے لگ گئے وہ انس کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پر رہنے اور تمدنی زندگی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ غاروں میں ہی رہیں گے وہ جن کہلائے.آج یورپ کے ماہرین آثار قدیمہ اس بات سے پھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں ہزار تحقیق و تجسس کے بعد یہ راز دریافت کر لیا ہے کہ ابتداء میں انسان غاروں میں رہا کرتے تھے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ایسے لوگوں کا نام جن رکھ کر بتا دیا کہ وہ غاروں میں رہا کرتے تھے.آثار قدیمہ سے قرآنی نظریہ کی تصدیق آج پرانے سے پرانے آثار قدیمہ کو زمینوں میں سے کھود کھود کر اس بات کا اعلان کیا جارہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا.پھر بعد میں وہ سطح زمین پر رہنے لگا، مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسان پہلے جن بنا اور بعد میں انسان بنا.پہلے وہ غاروں میں رہا مگر بعد میں سطح زمین پر آ کر بسا.جب تک وہ غاروں میں رہا وہ جن " نام کا مستحق تھا مگر جب وہ سطح زمین پر آ کر بسا تو وہ آدم اور انسان کہلانے لگ گیا.لوگ سر دُھنتے ہیں اُن کتابوں کو پڑھ کر جو آج سے صرف سو سال پہلے لکھی گئی ہیں اور وہ نہیں دیکھتے اُس کتاب کو جو آج سے تیرہ سو سال پہلے سے یہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سو سال پہلے سے اس کیو مین (Caveman) کی خبر دیتا ہے جسے یورپ نے بارہ سو سال بعد دریافت کیا ہے.ہمارے قرآن نے اس کیو مین“ کا ذکر جن کے نام سے جس کے قریباً لفظی معنے ”کیو مین کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کر دیا تھا.پس وہ جس کا نام لوگوں نے کیومین رکھا ہے اُس کا نام قرآن نے ”جن“ رکھا ہے یعنی غاروں کے اندر چُھپ کر رہنے والا.جب اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا تو اس کا نام آدم ہوا اور آدم کے لفظی معنے یہی ہیں کہ سطح زمین پر رہنے والا.اگر کہا جائے کہ ابلیس تو کہتا ہے کہ آنا خير منْهُ، خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍةٌ خَلَقْتَهُ من طین کے میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی

Page 302

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) سے ، تو جب ان کی پیدائش مختلف اشیاء سے ہے تو وہ ایک کس طرح ہو گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک جگہ رہیں گے ، ایک ہی جگہ مریں گے ، ایک ہی زمین میں دفن ہونگے اور دونوں کی طرف خدا تعالیٰ کے انبیاء آئیں گے جن کو قبول کر کے بعض دفعہ شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جائے گی اور انکار کر کے آدم کی اولا د شیطان کی اولاد بن جائے گی تو پھر وہی معنے اس آیت کے درست ہونگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ ان معنوں کو ترک کرتے ہوئے جو عام لوگ اس آیت کے سمجھتے ہیں ایک اور معنے بھی بن سکتے ہیں جن سے یہ آیت باقی تمام آیات کے مطابق ہو جاتی ہے اور قرآن کریم کی کسی آیت میں اختلاف نہیں رہتا.عربی زبان کا ایک محاورہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے کہ خلق منه اِس سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ فلاں شخص فلاں مادہ سے بنا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ امر اس کی طبیعت میں داخل ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ محاورہ سورۃ انبیاء میں استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خلق الإنسَانُ مِن عَجَلٍ سأور يكُمُ التي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ ٨ کہ انسان جلدی سے پیدا کیا گیا.اب جلدی کوئی مادہ نہیں ہے جسے گوٹ کوٹ کر اللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا ہو، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جو استعمال ہوا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بہت جلد باز ہے اور اس کی فطرت میں جلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے.جب پیشگوئیاں ہوتی ہیں تو کئی لوگ اس گھبراہٹ میں کہ نہ معلوم یہ پیشگوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں ، مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یہ جھوٹا ہے.اللہ تعالیٰ اسی امر کا اس جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ساوريكم التي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ تم ہمارے انبیاء کی پیشگوئیاں سنتے ہی اُسے جھوٹا جھوٹا کیوں کہنے لگ جاتے ہو؟ تم جلدی مت کرو ہماری پیشگوئیاں بہر حال پوری ہو کر رہیں گی.اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الله الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضُعْفِ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَشَيْبَةٌ ٢٩ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا.اب بتاؤ کہ کیا ضعف کوئی مادہ ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے فطری طور پر سخت کمزور ہوتا ہے.پھر ہم بچے کو جوان

Page 303

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) بنا کر اس کے قومی کو مضبوط کرتے ہیں ، پھر اور بڑھا کر اُسے بڑھا کر دیتے ہیں پس یہاں خَلَقَكُم مِّن ضعیف سے مراد بچے کے قومی کی کمزوری اور اُس کی دماغی طاقتوں کا ضعف ہے اور اُس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے نہ یہ کہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے.اِن دونوں آیتوں سے خُلق منہ کے معنے بالکل واضح ہو جاتے ہیں اور انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ انا خَيْرُ مِنْهُ : خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طين - اے اللہ ! تو نے میری طبیعت میں تو آگ کا مادہ رکھا ہے اور اُس میں طین کا.یعنی تو نے میری طبیعت تو ناری بنائی ہے اور آدم کی طینی ، یہ تو غلام فطرت ہے اور یہ تو ممکن ہے دوسرے کی بات مان لے لیکن میں جو ناری طبیعت رکھتا ہوں دوسرے کی غلامی کس طرح کر سکتا ہوں.آنا خير منہ کا مطلب یہ ہے میں تو حُر ہوں دوسرے کی غلامی نہیں کر سکتا یہی آنا خير منہ کا دعوی ہے جو آجکل انارکسٹ وغیرہ کرتے رہتے اور کہتے ہیں ہم سے دوسرے کی غلامی برداشت نہیں ہو سکتی ہم تو بغاوت کریں گے اور دوسرے کی غلامی کو بھی برداشت نہیں کریں گے.دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لو آج بھی تمام دنیا میں آنا خير منہ کے نعرے لگ رہے ہیں.انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے ناری طبیعت بنایا ہے اور آدم کی طبیعت طینی ہے.مجھے تو کوئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے میں تو آدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی مان نہیں سکتا.اُردو میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے.اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی دیا جل رہا ہوتا ہے یا آگ کے شعلے اُس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں؟ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان نہیں سکتا.اُسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے.انگریزی میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ”فائر برینڈ (FIREBRAND) ہے مطلب یہ کہ وہ شرارتی آدمی ہے حالانکہ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ جو چیز جل رہی ہو.مگر مفہوم یہ ہے کہ فلاں شخص ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتا ہے.یہی معنے اس آیت کے بھی ہیں اور ابلیس کہتا ہے کہ خدایا! میری طبیعت اطاعت کو برداشت نہیں کر سکتی.دنیا میں بھی روزانہ ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں.ایک شخص کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو بعض لوگ چاہتے ہیں ان کی آپس میں صلح ہو جائے.اب ایک شخص تو صلح کے لئے تیار ہوتا ہے مگر دوسرے کو

Page 304

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) جب صلح کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس سے صلح کرنا کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا.میں تو ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا.وہ ناری طبیعت ہوتا ہے اور اسی طبیعت کے اقتضاء کے ما تحت اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پر لاتا ہے لیکن دوسرا جس کی طینی طبیعت ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ میں تو ہر وقت صلح کے لئے تیار ہوں.گویا جس طرح گیلی مٹی کو جس سانچے میں چاہو ڈھال لواسی طرح اس سے جو کام چاہو لے سکتے ہو تو خلقتني من نار کے یہ معنے ہیں کہ میں کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی نسل ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچی کہ اس میں مادہ تعاون و تمدن پیدا ہو گیا اور اس میں یہ طاقت پیدا ہوگئی کہ وہ دوسرے کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر اُٹھائے تو خدا تعالیٰ نے ان میں سے ایک بہترین آدمی کا انتخاب کر کے اُس پر اپنا الہام نازل کیا اور اُسے کہا کہ اب نظام اور تمدن کی ترقی ہونی چاہئے اور انسانوں کو غاروں میں سے نکل کر سطح زمین پر مل جل کر رہنا چاہئے.آدم کی مخالفت جس وقت آدم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہو گا کہ غاروں کو چھوڑ و اور باہر نکلو تو ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُس وقت کس قدر عظیم الشان شور برپا ہوا ہو گا.لوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے ،سٹھیا گیا ہے، اس کی عقل جاتی رہی ہے یہ ہمیں غاروں سے نکال کر سطح زمین پر بسانا چاہتا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں شیر کھا جائیں ، چیتے پھاڑ جائیں اور ہم اپنی زندگی کو تباہ کر لیں اور اپنے جیسے دوسرے آدمیوں کے غلام بن کر رہیں.مگر بہر حال کچھ لوگ آدم کے ساتھ ہو گئے اور کچھ مخالف رہے.جو آدم کے ساتھ ہو گئے وہ طینی طبیعت کے تھے اور جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے.طین کے معنے ہیں جو دوسری شے کے نقش کو قبول کر لے.پس آدم کی طبیعت طین والی ہوگئی تھی یعنی وہ نظام کے ماتحت دوسرے کی بات مان سکتا تھا جو فریق اس اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیار نہ تھا اس نے اس کی فرمانبرداری سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اعلیٰ ہیں ہم ایسی غلطی نہیں کر سکتے ، یہ تو غلامی کی ایک راہ نکالتا ہے.یہ وہی جھگڑا ہے جو آج تک چلا آ رہا ہے.موجودہ زمانہ کے ناری طبیعت انسان آج دنیا متمدن ہے، آج دنیا مہذب ہے، آج دنیا مل جل کر رہتی ہے مگر آج بھی ناری طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دوسرے کی کیوں اطاعت کریں.یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جو حضرت خلیفہ اول کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے اور یہی ناری طبیعت

Page 305

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) والے پیغامی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم ایک بچہ کی بیعت نہیں کر سکتے.گل کا بچہ ہو اور ہم پر حکومت کرے یہ ہم سے کبھی برداشت نہیں ہو سکتا.وہ جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے مگر آپ لوگ طینی طبیعت کے تھے.آپ نے کہا ہم آدم کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دوسروں کی اطاعت کرتے چلے آئے ہیں اب خلیفہ وقت کی اطاعت سے کیوں منہ موڑیں.مصری صاحب نے بھی اسی ناری طبیعت کی وجہ سے میری مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ میں موجودہ خلیفہ کی اطاعت نہیں کر سکتا اسے معزول کر دینا چاہئے تو آج تک یہ دونوں فطرتیں چل رہی ہیں.ناری مزاج والے ہمیشہ نظام سے بغاوت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو حُر کہتے ہیں مگر طینی مزاج والے نظام کے ماتحت چلتے اور اپنے آپ کو کامل انسان کہتے ہیں دونوں اصولوں کا جھگڑا آج تک چلا جا رہا ہے، حالانکہ دونوں اِسی زمین میں رہتے ، اسی میں مرتے اور اسی میں دفن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی طرف نبی آتے اور ان سے خطاب کرتے ہیں مگر قاعدہ ہے کہ پہلے تو انبیاء کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ تعلیم دنیا کی اور تعلیموں پر غالب آ جاتی ہے تو منکر بھی اسے قبول کر لیتے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک خدا کی تعلیم دینی شروع کی تو عیسائی اس تعلیم پر بڑا پہنتے اور کہتے کہ ایک خدا کس طرح ہو گیا ؟ زرتشتی بھی بنتے ،مشرکین مکہ بھی بنتے ،مگر آہستہ آہستہ جب اس تعلیم نے دلوں پر قبضہ جمانا شروع کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی قوم بھی نہیں جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی قائل نہ ہو.حتی کہ عیسائی بھی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس بات کے قائل ہیں کہ خدا ایک ہی ہے تو طینی اور ناری مزاج والوں کا جھگڑا آج تک چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی تعلیم آتی ہے تو کچھ لوگ فرمانبرداری کرتے ہیں اور کچھ غصہ سے آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور وہ مخالفت کرنی شروع کر دیتے ہیں.قرآن کریم میں یہ آگ کا محاورہ بھی استعمال ہوا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک چچا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبت يدا أبي لَهَبٍ و تب اسے کہ آگ کے فعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا.اب خدا نے اُس کا نام ہی آگ کے شعلوں کا باپ رکھ دیا مگر اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس سے آگ نکلتی تھی، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ شیطانی قسم کے لوگوں کا سردار تھا ( بعض مفسر اس نام کو کنیت بھی قرار دیتے ہیں اور بعض سفید رنگ کی طرف اشارہ مراد لیتے ہیں) پس خَلَقْتَني مِنْ نارٍ یا مارج من تار سے وغیرہ الفاظ سے اشارہ انسان کی اس حالت کی طرف ہے جب کہ وہ ابھی

Page 306

انوار العلوم جلد ۱۵ متمدن نہیں ہو ا تھا اور شریعت کا حامل نہیں ہو سکتا تھا.سیر روحانی تقریر (۱) حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف ایک اور زبردست انکشاف قرآن کریم آدمِ انسانیت کی نسبت یہ کرتا ہے کہ جنت میں لائے جانے سے پہلے ہی اُس کے پاس اُس کی بیوی تھی ، چنانچہ قرآن کریم میں آدم کی بیوی کی پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں ، بلکہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی عام طریق پر اس کے ساتھ تھی جیسے مرد و عورت ہوتے ہیں.چنانچہ :- (1) سورۃ بقرہ میں جہاں آدم اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں آدم کی بیوی پیدا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں.محض یہ حکم ہے یا در اسکن آلت وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ٣٣ اے آدم ! جا تو اور تیری بیوی تم دونوں جنت میں رہو.یہ نہیں کہا کہ آدم اکیلا تھا اور اُس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا بلکہ آیت کا جو اسلوب بیان ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی پہلے سے موجود تھے.انہیں صرف یہ حکم دیدیا گیا کہ تم فلاں جگہ رہو.(۲) سورۃ اعراف میں بھی صرف یہ ذکر ہے کہ یا دما شکن آلت وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ٣٤ (۳) تیسری جگہ جہاں آدم کی بیوی کا ذکر ہے وہ سورۃ طہ ہے مگر اس میں بھی صرف یہ ذکر ہے که ياده إنّ هذا عدو لك ولزوجات ۳۵ یہ ذکر نہیں کہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کی بیوی کو بھی پیدا کیا ہو.ان تینوں جگہوں میں جہاں آدم کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے اس کی بیوی کا ذکر محض ایک عام بات کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ اگر آدم اکیلا ہوتا اور حوا کو اُس کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہوتا تو اس کی بیوی کا ذکر خاص اہمیت رکھتا تھا اور یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ آدم کی ایک پسلی نکال کر اسے عورت بنادیا گیا بیشک ایک حدیث میں ایسا ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر اس کا مطلب میرے کسی مضمون میں آگے چل کر بیان ہو گا.ہاں سورۃ نساء رکوع ، سورۃ اعراف رکوع ۲۴ سورة الزمر رکوع میں ایک بیوی کی پیدائش کا ذکر ہے ایک جگہ لکھا ہے وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور دو جگہ لکھا ہے وجعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور ان الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر ان تینوں جگہ خلقكم من نفس واحدی کے الفاظ آتے ہیں آدم کا نام نہیں ہے کہ یہ شبہ کیا جا سکے کہ ان آیات میں آدم اور حوا کی پیدائش کا ذکر ہے چنانچہ ان میں سے ایک حوالہ سورہ نساء کا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا

Page 307

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ربَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ٣ کہ اے انسانو! اپنے اُس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو بنایا.ان الفاظ میں آدم اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر ہی نہیں صرف خَلَقَكُم مِّن نَّفْسِ واحدة کے الفاظ آتے ہیں مگر ان کا مفہوم بھی جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اور ہے ، بہر حال آدم اور حوا کا یہاں کوئی ذکر نہیں.یہی حال سورہ اعراف اور سورہ زمر کی آیات کا ہے ان میں بھی خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْس واحدۃ کے الفاظ ہیں.آدم کے الفاظ نہیں ، مگر ان تینوں آیات میں سے جو ہم معنی ہیں سورۃ اعراف کا حوالہ اس بات کو وضاحت سے ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نہ کہ آدم ، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الذي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إلَيْهَا فَلمَّا تَخَشُهَا حَمَلَتْ حَمْاً خفيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا انْقَلَتْ دعوا الله ربِّهُمَا لَئِنْ أتَيْتَنَا صَالِحًا تَتَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ فَلَمَّا الهما صَالِحًا جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا الهُمَا فَتَعَلَ الله عَمَّا يُشركون ۳ فرماتا ہے.وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا تا کہ اُس سے تعلق رکھ کر وہ اطمینان اور سکون حاصل کرے، جب اُس نفس واحد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اُسے ہلکا سا حمل ہو گیا مگر جب اس کا پیٹ بھاری ہو گیا اور دونوں کو معلوم ہو گیا کہ حمل قرار پکڑ گیا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کی الہی ! اگر تو نے ہمیں تندرست اور خوبصورت بچہ عطا کیا تو ہم تیرے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا اور تندرست بچہ دیدیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بعض اور لوگوں کو شریک بنالیا اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُور تر چلے گئے.اب بتاؤ کیا ان الفاظ میں آدم اور حوا کا ذکر ہے یا عام انسانوں کا.کیا آدم اور حوا نے پہلے یہ دعا کی تھی کہ ہمیں ایک صالح لڑکا عطا فرمانا اور جب وہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے مشرکانہ خیالات کا اظہار کیا اور وہ بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے لگ گئے؟ انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا اور آدم جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے.پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں آدم کا ذکر نہیں بلکہ آدمی کا ذکر ہے اور انسانوں کے متعلق ایک قاعدہ کا ذکر ہے کسی خاص آدمی کا بھی ذکر نہیں اور چونکہ سب آیات کے الفاظ ایک سے ہیں اس لئے معلوم ہوا کہ سب جگہ ایک ہی معنے ہیں.

Page 308

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) نفسِ واحدہ سے پیدائش کی حقیقت حقیقت یہ ہے کہ خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍر واحدة سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک ایک انسان سے قبائل و خاندان چلتے ہیں اور بیوی اسی میں سے ہونے کے معنے اسی کی جنس میں سے ہونے کے ہیں اور بتایا ہے کہ ایک ایک آدمی سے بعض دفعہ خاندان کے خاندان چلتے ہیں اگر ماں باپ مشرک ہوں تو قبیلے کے قبیلے گندے ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نیک ہوں تو نسلاً بعد نسل ان کے خاندان میں نیکی چلتی جاتی ہے.پس هُوَ الذي خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وجعل منها زوجها اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد و! جب تم شادی کرو تو احتیاط سے کام کیا کرو، اور جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اُس وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیا کریں، اگر وہ خود مشرک اور بدکار ہونگے تو نسلوں کی نسلیں شرک اور بدکاری میں گرفتار ہو جائیں گی اور اگر وہ خود موحد اور نیکی و تقویٰ میں زندگی بسر کرنے والے ہو نگے تو نسلوں کی نسلیں نیک اور پارسا بن جائیں گی.ان معنوں کے بعد اگر آدم پر بھی ان آیات کو چسپاں کیا جائے تو بھی یہی معنے ہونگے کہ آدم کی بیوی اسی کی جنس میں سے تھی.یعنی طینی طبیعت کی تھی ناری طبیعت کی نہ تھی اور ممکن ہے اس صورت میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ آدم کو حکم تھا کہ صرف مؤمنوں سے شادی کریں غیروں سے نہیں.جب یہ ثابت ہو گیا کہ آدم کے وقت میں اور مرد و عورت بھی تھے اور آدم کی بیوی انہی میں سے تھی یعنی وہ آدم کی ہم مذہب تھی تو وہ سوال کہ آدم کی اولا د شادیاں کس طرح کرتی ہو گی ؟ آپ ہی آپ دُور ہو گیا.جب مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں تو شادیوں کی دقت نہیں ہو سکتی تھی ، ہاں اگر اس سے پہلے کا سوال ہو تو آدم سے پہلے بشر تو شریعت کے تابع ہی نہ تھے، نہ وہ شادی کے پابند تھے نہ کسی اور امر کے.کیونکہ وہ تو نظام سے آزاد تھے اور جب وہ نظام سے آزاد تھے تو ان کے متعلق کوئی بحث کرنی فضول ہے.بحث تو صرف اس شخص کے متعلق ہوسکتی ہے جو شریعت کا حامل ہوا اور عقل مدنی اُس میں پیدا ہو چکی ہو ، اور ایسا پہلا وجودا بوالبشر آدم کا تھا اور ان کے بعد ان کے اتباع کا وجود تھا ان کے لئے اخلاق وشریعت کی پابندی لازمی تھی.ان سے پہلے انسان نیم حیوان تھا اور ہر اعتراض سے بالا اور ہر شریعت سے آزاد.عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم اب میں اس حدیث کو لیتا ہوں جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا

Page 309

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کی گئی ہے.حدیث کے اصل الفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں یہ ہیں کہ خُلِقَنَ مِنْ ضِلع ۳۸ یہ الفاظ نہیں ہیں کہ خُلِقَتْ حَوَّاء مِنْ ضِلع جس طرح قرآن کریم کی ان آیات میں جن میں خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا کے الفاظ آتے ہیں ہر عورت کا ذکر ہے حوا کا ذکر نہیں اسی طرح حدیث میں بھی حوا کا کہیں نام نہیں بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ خُلِقَنَ مِنْ ضِلع اگر یہ الفاظ ہوتے کہ خُلِقَتْ زَوْجَةُ آدَمَ مِنْ ضِلع تب تو یہ کہا جا سکتا کہ حوا جو آدم کی بیوی تھیں وہ پہلی سے پیدا ہوئیں مگر جب کسی حدیث میں بھی اس قسم کے الفاظ نہیں آتے بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ پہلی سے پیدا ہوئیں تو محض حوا کو پسلی سے پیدا شدہ قرار دینا اور باقی عورتوں کے متعلق تاویل سے کام لینا کس طرح درست ہوسکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ النِّسَاءُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ ۳۹ کہ ساری عورتیں پہلی سے پیدا ہوئی ہیں.پس جس طرح قرآنی آیات میں تمام عورتوں کا ذکر ہے اسی طرح احادیث میں بھی تمام عورتوں کا ذکر ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ پہلی سے پیدا ہوئی.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پہلی سے پیدا ہونے کے کیا معنے ہیں؟ کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی عورت پسلی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں پیدا ہوتی ہیں پس جب کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں سو یا د رکھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی محاورہ کے مطابق ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور اس محاورہ سے صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے پس خُلِقَنَ مِنْ ضلع سے صرف یہ مراد ہے کہ عورت کو کسی قدر مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعا خواہشمند ہوتی ہے، چنانچہ علمائے احادیث نے بھی یہ معنے کئے ہیں اور مجمع البجا رجلد دوم میں جو لغت حدیث کی نہایت مشہور کتاب ہے ضلع کے نیچے لکھا ہے.خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ اسْتِعَارَةٌ لِلْمُعَوَّجِ اَى خُلِقْنَ خَلْقاً فِيهَا الْاِعْوِجَاجُ....خُلِقْنَ من ضلع " ایک محاورہ ہے جو بجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میں ایک قسم کی کبھی ہوتی ہے یہ مطلب نہیں کہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر ضر ور رقابت ہوتی ہے.مرد کہے یوں کرنا چاہئے تو وہ کہے گی یوں نہیں اسی طرح ہونا چاہئے اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کر کے اور یہ اس کی ایک ناز کی حالت ہوتی ہے اور اس

Page 310

انوار العلوم جلد ۱۵ میں وہ اپنی حکومت کا راز مستور پاتی ہے.سیر روحانی تقریر (۱) تمدنی ترقی کا ایک عظیم الشان گر غرض خُلقن من ضلع کے یہی معنے ہیں کہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی ، ان میں محبت بھی ہو گی ، پیار بھی ہوگا ، تعاون بھی ہوگا ، قربانی کی روح بھی ہوگی ، مگر روزمرہ کی زندگی میں ان میں آپس میں نوک جھوک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ، یعنی اگر تم چا ہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائیگا ، اسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میں سے نکل جائے گا.یہ تمدن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا.آپ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا، چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے اور آپ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی.حضرت عمر کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی.حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے ، انہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہوا تھا اور آپس میں انہوں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سُن کر حضرت عمرؓ کو جا کر سُنا دیتا اور کبھی حضرت عمرؓ مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیں بتا دیتے ، غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتاتا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ الہام ہوا ہے.آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی.ایک دن وہ انصاری مدینہ میں آیا ہوا تھا اور حضرت عمر پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں، میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے.اُن دنوں یہ افواہ زوروں پر تھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے، حضرت عمرؓ کہتے

Page 311

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ہیں میں نے سمجھا اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہوا باہر نکلا اور میں نے اُس سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں گھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے عرض کیا یا رَسُولَ اللَّهِ! آپ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! لوگ کہتے ہیں آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے.آپ نے فرمایا نہیں میں نے کسی کو طلاق نہیں دی.میں نے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ - پھر میں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! آپ کو میں ایک بات سناؤں ؟ آپ نے فرمایا ہاں سناؤ ، میں نے کہا ، يَارَسُولَ اللَّهِ ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو بات نہیں کرنے دیتے تھے ، لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میں آئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر بھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں تجھے سیدھا کر دونگا تو وہ مجھے کہنے لگی، تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے میں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ کو مشورہ دے لیتی ہیں، پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیتا اور ڈانٹتا ہے.میں نے کہا ہیں ! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقعہ میں ایسا ہوتا ہے.میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں.یہ بات سُن کر میں اپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی.اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن مجھے طلاق دیدیں گے.حضرت عائشہ پاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے معاملات میں دخل دینے والا ، چلو یہاں سے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات سُن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا ہے اور حضرت عمرؓ کی بھی اس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے.تو بعض قوموں میں یہ رواج ہے کہ وہ مجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیں کہ وہ مرد کے مقابلہ میں بولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی.اسے کوئی بات کہو وہ اس میں اپنا مشورہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے ، پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچا ہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے.

Page 312

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) عورتوں کے حقوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کچلنے کی کوشش نہ کیا کرو.اس کے اندر یہ ایک فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہو ا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چُپ کرا دو گے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی.کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے.پہلے دور انسانی کا نظام قانون قرآنی آثار قدیمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام والی ابتدائی حکومت کا قانون کیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ پہلا دور انسانی صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا.اس طرح کہ : - (۱) لوگوں میں خدا تعالیٰ کا اجمالی ایمان پیدا ہو گیا تھا اور انسان کو الہام ہونا شروع ہو گیا تھا جیسا کہ قلنا ياد ھ وغیرہ الفاظ سے ظاہر ہے.(۲) انسانوں میں عائلی زندگی پیدا کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ زندگی جو قبیلوں والی زندگی ہوتی ہے اور انہیں کہا گیا تھا کہ ایک مقام پر رہو اور اکٹھے رہو چنانچہ یہ امر اسکن آنت وزوجك الجنة کے الفاظ سے ظاہر ہے.(۳) آدم پر اور لوگ بھی ایمان لائے اور ایک جماعت تیار ہوگئی تھی جو نظام کے مطابق رہنے کیلئے تیار تھی.اس کا ثبوت سورۃ طہ کی آیت قال اهبطا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لبَعْضٍ عَدُوٌّ ہے جمِيْعًا کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور اُس کی بیوی اور بغضم کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ ایک جماعت تھی.(۴) الجنَّةُ اور كُلا منها رغدا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک سبزیوں ، ترکاریوں کے اُگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا.اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جھنڈ پیدا کر دیئے اور انہیں حکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہو.شاید بعض لوگ کہیں کہ اتنے بڑے جھنڈ کہاں ہو سکتے ہیں جس پر سینکڑوں لوگ گزارہ کر سکیں ؟ سو ایسے لوگ اگر جنوبی ہند کے بعض علاقے دیکھیں تو ان بر الجنة کے لفظ کی حقیقت واضح ہو جائے.وہاں بعض ہیں ہیں میل تک شریفے کے

Page 313

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) درخت چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ جن دنوں شریفہ پکتا ہے روٹی کھانی بالکل چھوڑ دیتے ہیں اور صبح شام شریفے ہی کھاتے رہتے ہیں.اب تو گورنمنٹ انہیں نیلام کر دیتی ہے پہلے حکومت بھی ان کو نیلام نہ کیا کرتی تھی اور لوگ مفت پھل کھاتے تھے.اسی طرح افریقہ میں آموں کے جنگل کے جنگل پائے جاتے ہیں، کیلے بھی بڑی کثرت سے ہوتے ہیں ، اسی طرح ناریل وغیرہ بھی بہت پایا جاتا ہے، اسی طرح بعض علاقوں میں سیب، خوبانی وغیرہ خود رو کثرت سے پائے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے ہی مقام کو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں حکم دے دیا کہ وہاں جا کر ڈیرے لگا دو اور خوب کھاؤ پیو.خلاصہ یہ کہ الجنة وغیرہ الفاظ سے جو قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عام طور پر لوگوں کی غذا پھل تھے.(۵) پانچویں بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس وقت ابھی کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اس پر آیت طفقا يخصفنِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ " شاہد ہے وہ چٹائیوں کی طرح بھوج پتر وغیرہ لپیٹ لیتے تھے اور رہائش کے لئے انہی کے خیمے بنالیتے تھے.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی شکار کرنے کے طریق بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور کھالوں کا استعمال بھی شروع نہ ہو ا تھا بلکہ چٹائیاں بطور لباس اور شاید بطور مکان کے استعمال ہوتی تھیں، اگر شکار کرنے کے طریق ایجاد ہو چکے ہوتے تو وہ کھالوں کا لباس پہنتے.(1) اُن میں تمدنی حکومت قائم کی گئی تھی اور تمدنی حکومت کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ایک دوسرے کی (۱) کھانے کے معاملہ میں مدد کریں (۲) پینے کے معاملہ میں مدد کریں (۳) عُریانی کو دور کرنے کے معاملہ میں مدد کریں اور (۴) رہائش کے معاملہ میں مدد کریں.چنانچہ فرمایا.اِن لَكَ الا تجوع فيها ولا تغرى وانك لا تظموا فيها ولا تضحی ٢٣ کہ تمہارے لئے اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم جنت میں رہنے کی وجہ سے بھو کے نہیں رہو گے، پیاسے نہیں رہو گے ، ننگے نہیں رہو گے اور دُھوپ میں نہیں پھرو گے گویا کھانا ، پانی ، کپڑا اور مکان یہ چار چیزیں تمہیں اس تعاونی حکومت میں حاصل ہونگی ان الفاظ سے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں یہ مراد نہیں کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی تھی کیونکہ اگر انہیں بھوک نہیں لگتی تھی تو وَعُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْتُ

Page 314

انوار العلوم جلد ۱۵ ۴۵ سیر روحانی تقریر (۱) شقتما ت کے کیا معنے ہوئے ، جب خدا نے اُن کی بھوک ہی بند کر لی تھی تو اس کے بعد انہیں یہ کہنا کہ اب خوب کھاؤ پیو بالکل بے معنی تھا.پس محلا کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھوک لگتی تھی مگر ساتھ ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا.انہیں کہا گیا تھا کہ باغ ساری کمیونٹی کی ملکیت ہے مگر دیکھو! قاعدہ کے مطابق کھاؤ پیو.اگر کسی کو زیادہ ضرورت ہے تو وہ زیادہ لے لے اور اگر کسی کو کم ضرورت ہے تو وہ کم لے لے.پس اِنَّ لكَ الَّا تَجُوعَ فيها ولا تغرى اس نئے نظام کی تفصیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ اگر اس نئے نظام کے ماتحت رہو گے تو تمہیں یہ یہ سہولتیں حاصل ہونگی.(۷) قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دیئے گئے تھے چنانچہ آیت وعلم ادم الاسماء كلها ٢٥ اس پر دال ہے مگر یہاں گل کے معنے ضرورت کے مطابق ہیں، جیسا بد بد ملکہ سبا کے متعلق کہتا ہے أُوتِيتُ مِن كُل شَيء " کہ ملکہ سبا کے پاس سب کچھ موجود ہے حالانکہ جب اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا کہ میرے پاس تو اس سے بھی بڑھ کر چیزیں ہیں میں ان تحفوں سے کیونکر متاثر ہو سکتا ہوں.پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے پاس ملکہ سبا سے بڑھ کر مال و دولت اور سامان موجود ہے اور اس کے با وجود ہد ہد کہتا ہے کہ أُوتِيَتْ مِن كُلّ شَيْء ملکہ سبا کو ہر چیز میسر تھی تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اوتيت من محل شي ء سے یہ مراد نہیں تھی کہ ملکہ سبا کو ہر نعمت میسر تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ اس کی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہو سکتی تھی وہ تمام چیز میں اُسے حاصل تھیں اس طرح عَلمَ ادَمَ الأَسْمَاء كُتهَا ہے مراد ہے کہ اُس وقت جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ تمام آدم کو سکھا دیئے گئے مثلاً یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے، یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے کھالے تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اسی طرح طاقت کی بعض دوائیں الہامی طور پر بتا دی گئی ہوں.اسی طرح بعض اخلاقی احکام بھی حضرت آدم علیہ السلام کو الہا ما بتائے گئے ہوں.سے یہ

Page 315

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) (۸) آٹھویں انہیں ایک واجب الاطاعت امیر ماننے کا بھی حکم تھا، جیسا کہ اِنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَة " کے الفاظ سے ظاہر ہے.(۹) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں بعض ایسے احکام بھی نازل ہوئے تھے جن میں یہ ذکر تھا کہ تمہیں بعض جرائم کی سزا بھی دینی چاہئے جیسے قتل وغیرہ ہیں.اس امر کا استنباط آ تجعل فيْهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدّماء " کے الفاظ سے ہوتا ہے.یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اب دنیا میں ایک عجیب سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ بعض آدمیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کو مار ڈالیں ، جیسے ہر گورنمنٹ آجکل قاتلوں کو پھانسی دیتی ہے مگر گورنمنٹ کے پھانسی دینے کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی اور قتل کر دیتا ہے تو اُسے سخت مُجرم سمجھا جاتا ہے.فرشتوں کے لئے یہی بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے کہا، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ پہلے تو قتل کو نا جائز سمجھا جاتا تھا مگر اب آدم جب کسی کو قتل کی سزا میں قتل کر دے گا تو اس کا یہ فعل اچھا سمجھا جائے گا.کوئی اور گھر سے نکال دے تو وہ مجرم سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر آدم کسی کو جلا وطنی کی سزا دے گا تو یہ جائز سمجھا جائے گا.اس زمانہ میں روزانہ ایسا ہی ہوتا ہے گورنمنٹ مجرموں کو پھانسی پر لٹکاتی.مگر کوئی اُسے ظالم نہیں کہتا ، وہ لوگوں کو جلا وطنی کی سزا دیتی ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ گورنمنٹ نے بُرا کیا لیکن اُس زمانہ میں یہ ایک نیا قانون تھا اور فرشتوں کیلئے قابلِ حیرت.پس فرشتے بطور سوال اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پہلے تو قتل کو نا جائز سمجھا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک جائز صورت بھی پیدا کر لی گئی ہے یا پہلے تو دوسروں کو اپنے گھروں سے نکالنا جرم سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کی ایک جائز صورت بھی نکل آئی ہے اور آدم جب یہی فعل کرے گا تو اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جائے گا.اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں اُن کے اسی سوال کا جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ، دنیا میں نظام کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سزائیں دی جائیں اگر ان کو سزائیں نہ دی جائیں تو کارخانہ عالم بالکل درہم برہم ہو جائے تو آ تجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدّماء کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جرائم کی سزا بھی مقرر ہو چکی تھی.ہے

Page 316

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) (۱۰) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت شادی کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے کیونکہ آدم کی بیوی کا ذکر کیا گیا ہے، گویا مرد و عورت کے تعلقات کو ایک قانون کے ماتحت کر دیا گیا تھا.پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی آثار قدیمہ کا خلاصہ خلاصه ی که قرآنی آثار قدیمہ نے ابتدائے خلق کا ذکر یوں کیا ہے کہ مخلوق خالق کے حکم سے بنی ہے.پہلے باریک ذرات تیار ہوئے ، پھر پانی نے الگ شکل اختیار کی پھر وہ خشک ذرات سے مرکب ہوا، اور ایک قوتِ نامیہ پیدا ہوئی.اس سے مختلف تغیرات کے بعد حیوان پیدا ہو ا ، حیوان آخر نطفہ سے پیدا ہونے والا وجود بنا یعنی نر، مادہ کا امتیاز پیدا ہوا، اس کے بعد ایک خاص حیوان نے ترقی کی اور عقلی حیوان بنا.مگر عقل تھی مگر تھا ناری، حمدن کے قبول کرنے کی طاقت اس میں نہ تھی ، غاروں میں رہتا تھا.اس کے بعد ایسا انسان بنا جو تمدن کا اہل تھا اسے الہام ہونا شروع ہوا اور وہ پہلا تمدن صرف اتنا تھا کہ (۱) نکاح کرو (۲) قتل نہ کرو (۳) فساد نہ کرو (۴) ننگے نہ رہو (۵) ایک دوسرے کی کھانے پینے ، پہننے اور رہائش کے معاملہ میں مدد کرو (۶) اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو (۷) ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کرلو اور اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اگر تم اس کے کسی حکم کوتو ڑو تو تم سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہو.یہ اُس وقت کی گورنمنٹ تھی اور یہی اس گورنمنٹ کا قانون تھا اور یہ علم جو میں نے قرآن کریم سے اخذ کر کے بیان کیا ہے ایسا واضح ہے کہ موجودہ تحقیق اس سے بڑھ کر کوئی بات بیان نہیں کر سکتی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کے متعلق کوئی تاریخ ایسا علم مہیا نہیں کرتی جیسا علم کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے.ڈارون تھیوری پر اہل یورپ کو بہت کچھ ناز ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈارون تھیوری بھی اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.وہ نہایت ہی بیوقوفی کی تھیوری ہے جو اہلِ مغرب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، میں ہمیشہ اس تھیوری کے پیش کرنے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ اچھا جس چیز سے انسان پہلے بنا تھا اُس چیز سے اب کیوں نہیں بن سکتا ؟ میں نے دیکھا ہے جب بھی میں یہ سوال کروں وہ عجیب انداز میں سر ہلا کر گویا کہ میں اس تھیوری سے بالکل ناواقف ہوں کہہ دیتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ تسغیر لاکھوں بلکہ کروڑوں سال میں ہوا ہے.میں انہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو جانور موجود ہیں ان پر بھی لاکھوں کروڑوں سال گزر چکے ہیں پھر وہ تغیر کیوں بند ہو گیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ آدم سے لے

Page 317

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کر اس وقت تک لاکھوں کروڑوں نہیں ہزاروں سال گزرے ہیں، لیکن حیوانات آدم کے زمانہ سے تو شروع نہیں ہوئے وہ تو لاکھوں کروڑوں سال ہی سے موجود ہیں اور آدم کے بعد کے زمانہ نے اس میں کسی قدر زیادتی ہی کی ہے، پس لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جو تغیر ہونا ضروری تھا وہ آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ ہزاروں سال پہلے ہو ا تھا، کیونکہ زمانہ اس کے بعد ممتد ہو رہا ہے سکڑ نہیں رہا.بلکہ حق یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کے بعد جو تغیر حیوانات میں ہو ا تھا وہ پہلی دفعہ کے بعد جاری ہی رہنا چاہئے تھا کیونکہ لاکھوں کروڑوں سالوں بعد جن تغیرات سے بشر کا مورث اعلیٰ جانور پیدا ہو ا تھا اگلی صدی میں اور اس سے اگلی صدی میں اور بعد کی بیسیوں اور صدیوں میں بقیہ جانوروں پر اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس قدر کہ پہلے تغیر کے وقت گزرا تھا.پس اگر اس قسم کا تغیر ہوا تھا جس کا ذکر ڈارون کے فلسفہ کے قائل کرتے ہیں تو بعد میں وہ تغیر بند نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ جاری رہنا چاہئے تھا سوائے اس صورت کے کہ سابق کے تغیرات ایک بالارادہ ہستی نے ایک خاص غرض اور مقصد کے ماتحت پیدا کئے ہوں اور ان اغراض و مقاصد کے پورا ہونے پر اسی سلسلہ کو بند کر دیا ہو اور یہی ہمارا عقیدہ ہے.شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ وہ شجرہ کیا چیز تھی جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا ، مگر میں کہتا ہوں اس بارے میں سب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے چُھپا یا ہے اُس کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے.حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی غلطی ہوئی مگر خدا نے نہ چاہا کہ اپنے ایک پیارے بندے کی غلطی دنیا پر ظاہر کرے اور اُس نے اُس غلطی کو چھپا دیا.اب جبکہ خدا نے خود اُسے چُھپا دیا ہے تو اور کون ہے جو اس راز کو معلوم کر سکے، جسے خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سورہ تحریم میں فرماتا ہے.وراة اسر النَّبِيُّ إِلى بَعْضٍ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَاتُ بِهِ وَاظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَ أَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَتَاهَا بِهِ قَالتْ من البات هذا قال نتاني العَلِيمُ الخَبِيرُ 19 یعنی اُس وقت کو یا دکر و جب ہمارے نبی نے مخفی طور پر ایک بات اپنی ایک بیوی سے کہی جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور سے کہہ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خبر دیدی کہ تمہاری بیوی نے وہ بات فلاں شخص سے کہہ

Page 318

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) دی ہے اس پر ہمارے نبی نے اپنی بیوی کو کچھ بات بتا دی اور کچھ نہ بتائی جب ہمارے نبی نے وہ بات اپنی بیوی سے کہی تو اُس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے کہہ دی؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اُسی نے بتائی ہے جو زمین و آسمان کا خدا ہے اور جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور تمام باتوں کو جاننے والا ہے.اب یہاں اس بات کا ذکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہی تھی محض ضمیروں میں کیا گیا ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ایک بات تھی جو ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی کو بتائی ، وہ بات اُس بیوی نے کسی اور کو بتا دی.اس پر خدا نے الہام نازل کیا اور اپنے رسول کو بتایا کہ وہ بات جو تو نے اپنی بیوی سے کہی تھی وہ اُس نے کسی اور سے کہہ دی ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کر دیا بیوی کہنے لگی یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم اور خبیر خدا نے یہ بات بتائی ہے.یہ ساری ضمیریں ہیں جن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر بات کا کہیں ذکر نہیں ، لیکن ہمارے مفسرین ہیں کہ وہ اپنی تفسیروں میں یہ بحث لے بیٹھے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی سے کیا بات کہی تھی.پھر کوئی مفسر کوئی بات پیش کرتا ہے اور کوئی مفتر کوئی بات پیش کرتا ہے حالانکہ اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، جب خدا نے ایک بات کو چھپایا ہے اور یہ پسند نہیں کیا کہ اُسے ظاہر کرے تو کسی مفسر کا کیا حق ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر وہ کوئی بات بیان بھی کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات درست ہوگی ، یقیناً جس بات کو خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر نہیں کر سکتا اور اگر کوئی قیاس دوڑائے گا بھی تو وہ کوئی پختہ اور یقینی بات نہیں ہوگی محض ایک ظن ہو گا یہی حال شجرہ آدم کا ہے جب خدا نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ شجرہ کیا تھا تو ہم کون ہیں جو اُس شجرہ کو معلوم کر سکیں.تم کسی چیز کا نام شجرہ رکھ لو مختصر طور پر اتنا سمجھ لو کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اس کے قریب نہ جانا مگر حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور وہ اُس کے قریب چلے گئے جس پر انہیں بعد میں بہت کچھ تکلیف اُٹھانی پڑی.بہر حال بہتر یہی ہے کہ جس بات کو خدا نے چھپایا ہے اُس کی جستجو نہ کی جائے اور بلا وجہ یہ نہ کہا جائے کہ شجرہ سے فلاں چیز مراد ہے، لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہیں ہوتی تو پھر وہ یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ دیکھنا شیطان کے پاس نہ جانا وہ تمہارا سخت دشمن ہے اگر اس کی باتوں میں آگئے تو وہ ضرور کسی وقت تمہیں دھوکا دے دیگا.حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا مگر شیطان نے جب دیکھا کہ یہ میرے داؤ

Page 319

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) میں نہیں آتے تو اُس نے کہا کہ صلح سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوسکتی ہے.بہتر یہی ہے کہ ہم اور تم آپس میں صلح کر لیں اور ان روز روز کے جھگڑوں کو نپٹا دیں جیسا کہ یورپ والے بھی آجکل بظاہر پیس پیس (PEACE PEACE) کا شور مچارہے ہوتے ہیں اور اندر بڑے زور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں.اٹلی کی جب لڑکی سے لڑائی ہوئی تو اس لڑائی سے تین دن پہلے اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ترکوں سے ہماری اتنی صلح ہے اور اس قدر اس سے مضبوط اور اچھے تعلقات ہیں کہ پچھلی صدی میں اس کی کہیں نظیر نہیں مل سکتی ، مگر اس اعلان پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اٹلی نے لڑکی پر حملہ کر دیا.یہی حال باقی یوروپین اقوام کا ہے وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ صلح بڑی اچھی چیز ہے، امن سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی ھے نہیں ، مگر اندر ہی اندر سامانِ جنگ تیار کر رہے ہوتے ہیں.گویا وہ صلح صلح اور امن امن کے نعرے اس لئے نہیں لگاتے کہ انہیں صلح اور امن سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے نعرے لگاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی پوری طرح جنگ کی تیاری نہیں کی ہوتی اور وہ چاہتے ہیں کہ صلح اور امن کا شور مچا کر دوسروں کو جس حد تک غافل رکھا جا سکے اُس حد تک غافل رکھا جائے اور پھر یکدم حملہ کر دیا جائے.یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا.خدا تعالیٰ نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ شیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا کیونکہ شیطان کے ساتھ جب بھی صلح ہوگی اس میں مؤمنوں کی شکست اور شیطان کی فتح ہوگی اور اس صلح کے نتیجہ میں تمہارے لئے بہت زیادہ مشکلات بڑھ جائیں گی.حضرت آدم علیہ السلام نے اس حکم کے نتیجہ میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی.جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنے گا تو اس نے صلح صلح کا شور مچادیا اور کہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے امن تو صلح سے ہو سکتا ہے پس بہتر ہے کہ ہم آپس میں صلح کر لیں.حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کر لی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میں فتنہ و فساد پیدا کر دیا اور وہ مقصد جس کو باہر رہ کر وہ حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اُس نے اندر آ کر حاصل کر لیا اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا.تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جاؤ اور زمین میں پھیل جاؤ.پس اگر اس کے کوئی معنے ہو سکتے ہیں تو یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ خاندانِ ابلیس سے دُور رہو ، ابلیس نے صلح کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے بڑی ترقی ہو گی ، حضرت آدم اس

Page 320

سیر روحانی تقریر (۱) انوار العلوم جلد ۱۵ دھو کا میں آگئے اور شیطان سے صلح کر کے انہوں نے بہت کچھ تکلیف اُٹھائی نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور زمین میں پھیل جاؤ اور یاد رکھو کہ تم دونوں گروہوں میں ہمیشہ جنگ رہے گی یہ معنے بھی ہیں جو ان آیات کے ہو سکتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ جسے خدا نے چھپایا ہے اُس کی جستجو میں ہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس سبق کے سکھانے کے لئے اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے وہ سبق حاصل کر لیں.رائشِ انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت پیدائش انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں بھی ارتقاء رکھا ہے.کامل اور مکمل شریعت پہلے ہی روز نہیں آ گئی بلکہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ الہام میں ترقی ہوئی ہے.چنانچہ جب بھی غیر مذاہب والوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر قرآن میں کامل شریعت تھی تو ابتدائے عالم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں نازل نہ کر دیا ؟ تو اس کا جواب ہماری طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ اگر اُس وقت قرآن نازل کر دیا جاتا تو کسی انسان کی سمجھ میں نہ آ سکتا کیونکہ ابھی عقلی ترقی اس حد تک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قرآنی شریعت کے اسرار اور غوامض سمجھ سکے تو الہام الہی کا فلسفہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس سے صریح طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی ترقی بھی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے.دیکھ لو پہلے حضرت آدم آئے ، پھر حضرت نوح آئے، پھر حضرت ابرا ہیم آئے ، پھر حضرت موسیٰ آئے ، پھر حضرت عیسی آئے ، مگر باوجود یکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ تک ہزاروں برس گزرچکے تھے آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:- د مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا“ ۵۰ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ابھی لوگوں کی حالت ایسی نہیں ہوئی تھی کہ وہ کامل شریعت کو سمجھ سکتے اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اُن کے لئے نسبتا نامکمل انکشاف ہو.یہ ارتقاء جو الہام اور شریعت میں ہوا ہے اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی ارتقائی تھی اگر یکدم ترقی کر کے انسان کامل بن گیا ہوتا تو پہلے ہی دن اس کے لئے کامل شریعت کا نزول ہو جاتا.یہ عجیب بات ہے کہ آجکل آرین خیالات کے لوگ اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ

Page 321

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اسلام ارتقاء کا قائل نہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے مسئلہ ارتقاء کا رڈ کیا ہے حالانکہ اسلام ہی ہے جو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے ارتقاء کا قائل ہے اس کے مقابلہ میں آرین خیالات الہام کے متعلق قطعا غیر ارتقائی ہیں.چنانچہ آریہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے عالم میں ہی ایک مکمل الہامی کتاب بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل فرما دی.یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ آریہ مذہب نہ صرف روحانی ارتقاء کا قائل نہیں بلکہ جسمانی ارتقاء کا بھی قائل نہیں کیونکہ اگر ابتداء میں انسان عقلی لحاظ سے کمزور تھا تو کامل الہامی کتاب کا نزول اس کے لئے بے فائدہ تھا اور اگر پہلے روز وہ اُسی طرح کامل انسان تھا جس طرح آج ہے تو معلوم ہوا کہ آرین عقائد کے رُو سے انسان کی پیدائش جسمانی ارتقاء کے ماتحت نہیں ہوئی.غرض آرین خیالات اس بارہ میں قطعاً ا غیر ارتقائی ہیں اور وہ اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.اس کے مقابلہ میں سمیٹک (SEMITIC) یعنی سامی نسلیں روحانی ارتقاء کی قائل ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ پہلے حضرت آدم آئے ، پھر حضرت نوح آئے جنہوں نے کئی روحانی انکشافات کئے پھر حضرت ابرا ہیم آئے ، پھر حضرت موسی آئے اور ان سب نے کئی روحانی انکشاف کئے.پس سامی نسلیں ہی ہیں جو ارتقاء کو تسلیم کرتی چلی آئی ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامی نسلوں پر ہی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کی قائل نہیں اور جو اعتراض کر نیوالے ہیں ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ارتقاء کا انکار کرتے چلے آئے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فرانسیسی درسی کتب میں قصہ لکھتے ہیں کہ ایک فرانسیسی لڑکا اپنے کسی دوست سے ملنے گیا.اس کے پاس ایک لقو تھا اُس نے شوق سے اپنے دوست کو وہ لقو د یکھنے کو دیا جس نے لقو دیکھ کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور سلام کہہ کر چل پڑا.جب لھو والے لڑکے نے لھو واپس مانگا تو اُس نے کہا کہ لقو تو میرا ہے.یہی ان کا حال ہے ہماری چیز لے کر اس پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور پھر بڑے زور سے قہقہہ لگا کر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کچھ پتہ ہی نہیں.اِس جگہ اس امر کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گوسمیٹک نسلیں ارتقائی ترقی کی قائل ہیں لیکن قرآن کریم کے سوا دوسری سمیٹک تعلیم بھی اس بارہ میں ایک دھوکا کھا گئی ہے اور وہ یہ کہ اس نے جسمانی ارتقاء کا انکار کر دیا ہے حالانکہ روحانی ارتقاء بذات خود اس بات پر دال ہے کہ جسمانی ارتقاء بھی ہوا.بہر حال صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور یہ اس کی برتری اور فوقیت کا ایک بڑا

Page 322

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ثبوت ہے.اگر کوئی کہے کہ جب آخر میں ایک جگہ آ کر شریعت کو تم نے بھی بند تسلیم کر لیا ہے تو پھر شروع میں ہی ایسا کیوں نہ کیا گیا اور کیوں شروع میں تو ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ ارتقائی سلسلہ بند ہو گیا.شریعت میں ارتقاء ختم ہو جانے کی وجہ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی روحانی عالم ظاہری عالم کے مشابہہ ہے اور شریعت میں ارتقاء.آج اُسی طرح ختم ہو چکا ہے جس طرح انسانی جسم میں ارتقاء ختم ہو چکا ہے.آخر انسانی جسم کے جس قدر حصے ہیں اب ان میں کونسا بنیادی فرق ہوتا ہے جس طرح آج ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس طرح آج اس کے ہاتھ ، پاؤں، ناک، کان اور منہ ہوتے ہیں اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے اس کے اعضاء ہوتے تھے پس جس طرح جسم انسانی میں بنیادی ارتقاء ختم ہو چکا ہے اسی طرح شریعت میں بھی پہلے جو ارتقاء کا سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہو گیا ہے.ہاں ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ اب گوجسمانی ترقی بند ہو چکی ہے مگر دماغی ترقی بدستور جاری ہے اور اب وہ ارتقاء جو پہلے جسم میں ہوا کرتا تھا دماغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور انسان کی دماغی قابلیتوں میں ہر روز نیا سے نیا اضافہ ہوتا ہے.اسی طرح گواب شریعت کا نزول بند ہو چکا ہے مگر اب وہی ارتقاء اس شریعت کے معارف کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور نئے سے نئے قرآنی اسرار دنیا پر منکشف ہوتے جارہے ہیں.پس اس ارتقاء میں بھی روحانی عالم ظاہری عالم کے مشابہہ ہے.وہاں بھی پہلے جسمانی بناوٹ میں ارتقاء ہوا پھر خالص دماغی ارتقاء رہ گیا.اسی طرح شریعت میں بھی پہلے ظاہری و باطنی احکام میں ارتقاء ہو الیکن آخر میں ظاہری شریعت حد کمال کو پہنچ گئی اور اب صرف باطنی ارتقاء باقی ہے جس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے.پس ہم دونوں طرف سے ارتقاء کے قائل ہیں جسمانی طرف سے بھی اور روحانی طرف سے بھی.اور ہم گو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی مگر ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر غیر محدود معارف و حقائق کے خزانے ہیں اور قرآن کریم کے معارف کا یہ باطنی ارتقاء بند نہیں ہوا بلکہ قیامت تک جاری ہے چنانچہ ہم اس کا نمونہ اپنی ذات میں دیکھ رہے ہیں کہ جو معارف قرآنیہ ہم پر کھلے ہیں وہ پہلے مفسروں پر نہیں کھلے.خلاصہ یہ کہ اسلام نے آدم کے آثار قدیمہ اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ ان کی مثال کسی

Page 323

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اور جگہ نہیں پائی جاتی.اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارہ میں زبردست انکشاف اس نے کئے ہیں، مگر سر دست میں اس مضمون کو چھوڑ کر بعض دیگر انکشافات کو لیتا ہوں جو مختلف انبیاء کے بارہ میں قرآن کریم نے کئے ہیں.حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق قرآنی انکشاف میں قرآنی آثار قدیمہ کے اُس کمرہ کو دیکھنے کے بعد عالم تخیل میں الہی آثار قدیمہ کے ایک اور کمرہ میں چلا گیا اور وہاں میں نے ایک اور عجیب نشان دیکھا.مجھے دکھائی دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہے اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کہ وہ خود بھی نبی تھے اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہ رہے ہیں.يقوم انما فتنتُمْ به وان ربِّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاطِيْعُوا امْرِي ا اے میری قوم! تم ایک ابتلاء میں ڈالے گئے ہو تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میں کہتا ہوں اُس کی اطاعت کرو.میں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ ہے جو اُس زمانہ میں پیدا ہوا.پھر میں نے اپنے دل میں کہا آؤ میں معلوم تو کروں اُس وقت کیا فتنہ اُٹھا تھا.مگر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں اُس کتاب کو دیکھوں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور اسے پڑھ کر معلوم کروں کہ اُس میں کیا لکھا ہے.چنانچہ میں نے تو رات اُٹھائی اور اسے پڑھنا شروع کیا تو اس میں لکھا تھا: - اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اترنے میں دیری کرتا ہے تو وے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اُسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا کہ ہمارے آگے چلیں.کیونکہ یہ مرد موسیٰ' جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اُسے کیا ہوا ، ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جو روؤں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں تو ڑتوڑ کے مجھے پاس لاؤ ، چنانچہ سب لوگ سونے کے زیور جو اُن کے کانوں میں تھے تو ڑتوڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اُس نے اُن کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اُس کی صورت حکا کی کے ہتھیار سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل ! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا‘۵۲ گویا تو رات یہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد جب فتنہ پیدا

Page 324

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ہو ا تو لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام پر زور دینا شروع کیا کہ ہمیں ایک بُت بنادو جس کی ہم پرستش کریں.حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا اپنے اپنے گھر سے زیور لے آؤ.چنانچہ وہ زیور لائے اور انہوں نے اُن زیورات کو ڈھال کر ایک بُت بنا دیا اور کہا کہ یہی وہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کی زمین سے نکال لایا.یہودی کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا الہام ہے مگر محققین کہتے ہیں کہ یہ الہام نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو تین سو سال کے بعد اُس وقت کے حالات ہیں جو مؤرخین نے لکھے.بہر حال کم سے کم یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے قریب زمانہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے لیکن حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے انیس سو سال کا فاصلہ ہے اور یہ کتاب جس میں حضرت ہارون علیہ السلام پر بُت گرمی کا الزام لگایا گیا قریباً سترہ اٹھارہ سو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے پس وہ کتاب جو قرآن مجید سے سترہ اٹھارہ سو سال پہلے لکھی گئی ، اُس میں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے زیورات کو ڈھال کر خود ایک بچھڑا بنایا اور لوگوں سے کہا کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا، مگر جب ہم قرآنی آثار قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ ولقد قَالَ لَهُمْ هُرُوتُ مِنْ قَبْلُ يقوم إِنَّمَا فُيَنْتُمْ بِه وان ربِّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاطِيْعُوا امْرِي ۵۳ کہ موسیٰ کے جانے کے بعد جب لوگوں نے ایک بچھڑا ڈھال کر اُسے اپنا معبود بنا لیا تو ہارون نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! بد معاشوں نے تمہیں دھوکا میں ڈال دیا ہے اِن ربِّكُمُ الرَّحْمنُ تمہارا رب تو وہ ہے جو رحمن ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے فاتبعوني پس تم میری اتباع کرو اُن بدمعاشوں کی اتباع نہ کرو جنہوں نے تم کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے.یہ وہ چیز ہے جو مجھے قرآنی آثار قدیمہ میں سے ملی.اس کے بعد میں نے بائبل کو بھی دیکھا کہ اس کی چوری کہیں سے پکڑی بھی جاتی ہے یا نہیں.ظاہر ہے کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ مشرکانہ فعل سرزد ہو ا ہوتا تو نبوت تو کیا انہیں ایمان سے بھی چھٹی مل جاتی اور کوئی شخص انہیں مؤمن سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا کجا یہ کہ انہیں نبی مانتا.مگر جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے واپس آ کر جب دیکھا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ہے تو انہوں نے لوگوں کو سخت ڈانٹا.بچھڑے کو آگ سے جلا دیا اور قریباً تین ہزار آدمیوں کو قتل کی سزا دی.۵۴ اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پر گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو

Page 325

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ حکم لائے کہ : - ہارون کو مقدس لباس پہنا اور اُس کو چُپڑ.اور اُسے مقدس کرتا کہ کا ہن کا کام میری خدمت میں کرے اور اُس کے بیٹوں کو نز دیک لا اور اُن کو گرتے پہنا اور اُن کو چُپڑ.جیسے اُن کے باپ کو چپڑا ہے تا کہ وہ کا ہن کا کام میری خدمت میں کریں اور یہ مساحت اُن کے لئے اور اُن کے قرنوں کیلئے ہمیشہ کی کہانت کا باعث ہو گی اور موسیٰ نے ایسا کیا سب جو خداوند نے اس کو حکم کیا تھا عمل میں لایا‘.۵۵ گویا اس مشرکانہ فعل کے بعد جو بروئے بائبل حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہو ا تھا خدا تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے فیصلہ یہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایا جائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کرنا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے اور عبادت گاہوں اور مساجد کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے.کیا ایک مشر کا نہ فعل کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے؟ اور کیا اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ فعل سرزد ہوا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیا جاتا ؟ بائبل کی یہ اندرونی گواہی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کی تائید نہیں کی تھی بلکہ شرک کی مخالفت کی تھی اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کی تائید کی اس لئے خدا بھی اُن پر خوش ہوا اور اُس نے کہا کہ چونکہ ہارون نے میری عبادت دنیا میں قائم کی ہے اس لئے آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کی اولاد کے سپرد کیا جائے.پس بائبل کی یہ اندرونی گواہی اس الزام کی تردید کر رہی ہے جو اُس نے اسی کتاب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگایا ہے اور قرآن کریم کے بیان کی جو اس کے نزول کے ساڑھے اُنیس سو سال بعد یا اس کی تحریر کے سترہ اٹھارہ سو برس بعد نازل ہوا ہے تصدیق کرتی ہے.پھر میں نے آثارِ قدیمہ کا ہر قوم کی طرف خدا تعالیٰ نے رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے تیسرا کمرہ دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ تمام قوموں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اُن کے سوا صداقت سے کوئی آشنا نہیں.ہر قوم دوسری قوم کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ اُس میں جھوٹ ، فریب اور دغا بازی کے سوا اور کچھ نہیں.میں نے ہندوؤں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے سب معرفت اور ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیا کو دیدی ہے، اب اس کے بعد کسی اور الہام کی

Page 326

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی اور قوم میں کوئی ریشی آتا.میں نے زرتشتیوں کی طرف دیکھا تو انہیں بھی یہ کہتے سنا کہ زرتشتیوں کے ہوا اور کوئی مذہب سچا نہیں.میں نے یہودیوں کو دیکھا تو انہیں بھی یہ کہتے پایا کہ قریباً تمام انبیاء خدا نے بنی اسرائیل میں ہی بھیجے ہیں ، دوسری اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے محروم ہی رکھا ہے اور میں نے مسیحیوں کی طرف نگاہ کی تو اُن کا عقیدہ بھی مجھے ایسا ہی نظر آیا.غرض ہر قوم کو میں نے یہ کہتے سنا کہ روحانی تہذیب کا نشان اس کے سوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا ، مگر جب میں نے قرآنی آثار قدیمہ کے محکمہ کو دیکھا تو میں نے اس کے ایک کمرہ میں یہ لکھا ہوا پایا کہ ان ممن أقمة الاخلافِيهَا نَذِيرُ ۵۶ که دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں ، نہ ہند و بغیر نبی کے رہے نہ ایرانی بغیر نبی کے رہے، نہ یہود بغیر نبی کے رہے اور نہ یورپین لوگ بغیر نبی کے رہے، غرض قرآن کے آثار قدیمہ کے محکمہ نے بتایا کہ خدا نے ہر جگہ روشنی کے مینار کھڑے کئے تھے.یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیا مگر بہر حال خدا کی طرف سے انہیں ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا.ان میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ بعد میں ہوئی ہیں جن کی ذمہ داری خود اُن پر ہے ورنہ خدا نے سب سے یکساں سلوک کیا ہے اور ہر ایک کی طرف اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے.میں نے جب یہ دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، مگر میں نے کہا آؤ اب میں ان عظیم الشان ہستیوں کے کچھ نشانات بھی دیکھ لوں.بیشک اُنہوں نے عظیم الشان کام کیا اور دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا مگر میں دیکھوں تو سہی کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے.میں اس جستجو اور تلاش میں سابقہ کتب کے محکمہ آثار قدیمہ میں داخل ہو گیا مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان عظیم الشان ہسیوں کے کپڑوں پر جو اُن کے اتباع کے پاس موجود تھے نہایت گندے اور گھناؤنے داغ تھے کسی کے جبہ پر چورلکھا تھا اور کسی کے جُبہ پر بٹھار اور کسی کے جبہ پر ظالم اور دوسروں کا مال کھانے والا اور کسی کے بجبہ پر فاسق و فاجر کسی کے جبہ پر جھوٹا اور کسی کے جبہ پر غاصب ، یہاں تک کہ بعض کے جبوں پر مشرک کے الفاظ تحریر تھے اور یہ سب اُن کے اتباع کے ہاتھوں میں تھے غیروں کے دست بُرد کا اس میں دخل نہ تھا.میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اتنے گندے لباس ان عظیم الشان ہستیوں کے ہوں جن کے احسانات کے بارگراں کے نیچے دنیا دبی ہوئی ہے.میں نے اُن کے اِس لباس کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور میں نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ

Page 327

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) اُن کے لباس نہیں ہو سکتے.اسی حیرت اور استعجاب کے عالم میں قرآنی آثار قدیمہ کے ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور وہاں جو میں نے اُن کا لباس دیکھا ، اُس کی چمک اور خوبصورتی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں ، چنانچہ میں نے انعام رکوع ۱۰ میں قرآنی آثار قدیمہ کا ایک کمرہ b ط ط دیکھا جس میں لکھا تھا.وتلك حُجَّتُنَا اتِّينَهَا ابْرهِيْمَ عَلى قَوْمِهِ.ترفع درجتٍ مِّن نَشَاءُ إِنَّ رَبِّكَ حَكِيمُ عَلِيمُ - وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَق وَ يَعْقُوبَ كُلاً هَدينَا وَنُوحًا هَدينَا مِن قَبْلُ وَ مِن ذُرِّيَّتِهِ دَاود وسليمن و ايوب و يُوسُفَ وَمُوسَى وَهَرُونَ، وَكَذَلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ - وَ زَكَرِيَّا وَيَحْيى و عِيسَى وَالْيَاسَ ، كُلٌّ مِّنَ الصَّلِحِينَ - واسمعيل واليَسعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلَّا فَضّلنا على العلمين.ومن أبائهمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاخْوَانِهِمْ ، وَاجْتَبَيْهُمْ وَهَدينَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مستقيم - ذلِكَ هُدى الله يَهْدِي بِه مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِه ولو اشركوا لحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ - أوليك الذين اتينهم الكتب والحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ، فَإِن يَكْفُرُبِهَا هَؤُلاء فَقَدْ وَكَلْنا بهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَفِرِينَ أولئكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَيَهُدهُمُ اقتدة ، قُلْ اسْلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا، إن هُوَ الا ذكرى للعلمین ۵ که یه کہ ہمارے دلائل اور نشانات تھے جو ہم نے ابراہیم کو اُس کی قوم کے خلاف بخشے اور ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں.تیرا رب بڑی حکمت سے کام کرنے والا اور تمام باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے.ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب دیئے اور اُن کو ہدایت دی اسی طرح اس سے قبل نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی.پھر ابراہیم کی ذریت میں سے داؤد ، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون ہوئے اور ہم اسی طرح نیک لوگوں کو جزاء دیا کرتے ہیں، اسی طرح زکریا ، بیجی، عیسی اور الیاس یہ سارے نیک لوگ تھے اور اسمعیل ، الیسع ، یونس اور لوط ان سب کو ہم نے دنیا پر عزت اور بزرگی بخشی اور اُن کے باپ دادوں میں سے اُن کی ذریت اور اُن کے بھائیوں میں سے بھی ہم نے کئی لوگوں کو چنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا.یہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.اگر یہ لوگ مشرک ہوتے یا خراب ہوتے تو یقیناً یہ اپنے مقصد میں ناکام رہتے.یہ وہ.

Page 328

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی اور حکم بخشا اور نبوت عطا فرمائی.اگر ان لوگوں کے بعض منکر ہیں تو یقیناً ہم نے ایسے لوگ بھی بنادیئے ہیں جو ان کی قدر و عظمت کو سمجھتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی.پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں تو بیشک وہی کام کر.کیونکہ انہوں نے کوئی کام ہدایت کے خلاف نہیں کیا اور لوگوں سے کہدے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو دنیا کے لئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ ہے.اگر لوگ ان باتوں کو مان لیں گے تو اس میں اُن کا اپنا فائدہ ہے اور اگر انکار کریں گے تو اس کا نقصان بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑیگا.اب قرآن تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب لوگ نیک اور راستباز تھے، مگر جب میں نے غیر مذاہب کی تعلیموں کو دیکھا تو مجھے ان میں نظر آیا کہ کوئی کہہ رہا ہے ابراہیم نے جھوٹ بولامیں نے ایک نظر اس الزام پر ڈال کر جب قرآن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن اس کی تردید کر رہا ہے، اسی طرح پرانے آثار میں اسحاق اور یعقوب کے متعلق عجیب عجیب قصے پائے جاتے ہیں ، اسحاق کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا اور یعقوب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے فریب سے نبوت حاصل کی ،مگر یہاں آکر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اسحاق اور یعقوب میں کوئی نقص نہ تھا.اسی طرح نوح کے متعلق جب میں نے بائبل کے مطابق اس کے آثار کو دیکھا تو وہاں مجھے یہ نظر آیا کہ نوح شراب پیا کرتا تھا ، داؤد کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ قاتل اور خونریز تھا ، مگر قرآنی آثار قدیمہ میں مجھے ان میں سے کوئی بات دکھائی نہ دی، بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا ہوا پایا کہ یہ لوگ معصوم تھے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا.اسی طرح سلیمان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کفر کیا ، ایوب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے صبری دکھائی، یوسف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چور تھا.اسی طرح موسیٰ کے متعلق کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور ہارون کے متعلق تو کھلے طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے بچھڑا بنا کر رکھ دیا اور انہیں کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے یہی حال زکریا ، بینی، عیسی ، الیاس ، اسمعیل ، الیسع ، یونس اور لوط وغیرہ کا ہے اور کرشن ، رامچندر اور زرتشت کے اپنے قومی آثار قدیمہ بھی اُن کے متعلق ایسی ہی روشنی ڈالتے ہیں جو اُن کو اچھی شکل میں پیش نہیں کرتے اور میں نے دیکھا کہ ان کے لباس جو لوگ بتاتے ہیں وہ نہایت چھٹے پرانے اور میل کچیل سے بھرے ہوئے تھے مگر جب قرآن کریم کے آثار قدیمہ کے کمروں کو میں نے دیکھا تو ان میں ہر نبی کا لباس نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ

Page 329

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) دکھائی دیا.پھر میں نے اپنی نظر او پر اُٹھائی تو اس کمرہ کے دروازہ پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا.اوليكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَيَهُدُهُمُ اقْتَدِهُ یہ لوگ بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے.اُنہوں نے کوئی بات ہمارے حکم کے خلاف نہیں کی.پس جس بات کے متعلق بھی تمہیں یقینی طور پر پتہ لگ جائے کہ وہ ان انبیاء میں سے کسی نے کی ہے اُس پر بغیر کسی خدشہ کے فوراً عمل کر لیا کرو کیونکہ وہ ضرور اچھی ہوگی.(۲) جنتر منتر دوسری سیر میں نے جنتر منتر کی کی.جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے جہاں اجرام فلکی کے نقشے بنے ہوئے ہیں.اسی طرح بعض بلند جگہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ستاروں اور اُن کی گردشوں کا اچھی طرح معائنہ کیا جاسکتا ہے.یہ رصد گا ہیں تین کام دیتی تھیں.اول علم ہیئت اور حساب اوقات کی صحیح معلومات حاصل کرنا.دوم اپنے خیال کے مطابق علم غیب دریافت کرنا.سوم ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کوشش کرنا.یہ نہایت خوشنما جگہ ہے اور لوگ اسے ایک پُرانے زمانہ کی یادگا رسمجھ کر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے وقت میں مہا راجہ جے پور نے اسے تعمیر کرایا تھا.میں نے کہا اس چھوٹے سے نقشہ کی تو لوگ قدر کرتے ہیں اور اس کے بنانے والے کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن کبھی بھی وہ اُس حقیقی جنتر منتر کی طرف نگاہ نہیں اُٹھاتے جس کا یہ نقشہ ہے اور نہ اس کے بنانے والے کی صنعت کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں.مٹی اور پتھر کی اگر کوئی دوا مینٹیں لگا دے تو کہ اٹھتے ہیں واہ واہ ! اُس نے کسقدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کتنی عظیم الشان طاقتوں کا مالک خدا ہے جس نے اس جنتر منتر سے کروڑوں درجے بڑا ایک اور جنتر منتر بنایا اور نہ صرف اس نے اتنا بڑا نقشہ بنایا بلکہ اس نقشہ کا دیکھنا بھی ممکن کر دیا کیونکہ قرآن کریم میں اصل نقشہ کی سیر کا بھی امکان پیدا کیا گیا ہے میں نے اس غرض کے لئے سورہ انعام کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہوا پایا.وكذلك تري ابراهيم ملكوت السموت والأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوْقِنتن ۵۸ کہ اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کے اسرار کھول کر دکھائے تا کہ وہ علم میں ترقی کرے اور ہماری قدرتوں

Page 330

سیر روحانی تقریر (۱) انوار العلوم جلد ۱۵ پر یقین لائے.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ امر کھول کر بیان کر دیا ہے کہ میں نے ابراہیم کو اصل جنتر منتر کی سیر کرا دی اور زمین و آسمان کا نقشہ اسے دکھا دیا.پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ قرآن کریم کی امداد کے ذریعہ ان جنتروں منتروں پر انسان کلیۂ حاوی ہو جاتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطہ اقتدار سے باہر نہیں رہتی چنانچہ فرماتا ہے دنا فتدلی.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی ۵۹ که محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھایا اور سورج ، چاند، ستاروں سب کی سیر کرا تا ہؤا آپ کو اتنا قریب لے گیا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں رہا ہی نہ.پس میں نے دیکھا کہ وہ باتیں جن کی تلاش میں لوگ سالوں سر گردان رہتے ہیں اور پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں ایسی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں کہ نہ صرف اپنی خواہشات کو انسان پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے بلکہ اور بھی ہزاروں قسم کے علوم اُسے حاصل ہو جاتے ہیں مگر آہ ! لوگ معمولی اینٹوں کے بنائے ہوئے جنتر منتر کی تو قدر کرتے ہیں مگر وہ اس جنتر منتر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جو ان کو ہزاروں فوائد سے متمتع کر سکتا ہے.پھر میں نے قرآنی رصد گاہ میں ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا علاج تھا لوس کہا رصد گا ہیں اس لئے بناتے ہیں کہ وہ ستاروں کے بداثرات کا علم حاصل کر کے ان سے بچ سکیں مگر قرآنی رصد گاہ میں بھی ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا کوئی علاج ہے یا نہیں.میں نے جب دیکھا تو قرآن میں مجھے اس کا بھی علاج نظر آ گیا ، آخر لوگ ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں؟ اسی لئے کہ کہیں ان پر کوئی تباہی نہ آ جائے.اب آؤ ہم دیکھیں کہ کیا تباہیوں سے بچنے کا قرآن کریم نے بھی کوئی علاج بتایا ہے یا نہیں ؟ اس مقصد کیلئے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ گر بھی قرآن کریم میں بیان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آلآان اولياء اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ امَنُوا كَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرى في الحيوةِ الدُّنْيَا وَ في الأخرة لا تبديل الله، ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ " میں نے دہلی میں دیکھا کہ بالکل لغو اور فضول جنتر منتر ہیں جن کا مصائب کے دور کرنے پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ دُکھوں اور تکلیفوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے دوست بن جاؤ پھر جس ستارے کا بھی بدا ثر تم پر ہوسکتا ہو اس کو خدا خود دُور کر دیگا، تمہیں

Page 331

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) گھبرانے اور فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تمام جنتر منتر اُس کے قبضہ میں ہے اگر وہ دیکھے گا کہ سورج کے کسی اثر کی وجہ سے تمہیں نقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اس کے بداثر سے تمہیں بچالے گا، اگر دیکھے گا کہ چاند کی کسی گردش سے تم پر تباہی آنیوالی ہے تو وہ خود اس تباہی سے تمہیں محفوظ رکھے گا، تم ماش اور جو پر پڑھ پڑھ کر کیا پھونکتے ہو؟ تم اللہ تعالیٰ سے دوستی لگا ؤ جب تمہاری اس سے دوستی ہو جائے گی تو مجال ہے کہ اُس کے گئے تمہیں کچھ کہہ سکیں.پس میں نے جب قرآنی رصد گاہ میں سے اس علاج کو دیکھا تو میرے دل نے کہا واقعہ میں وہ بالکل فضول طریق ہیں جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں کیوں نہ اس رصد گاہ کا جو اصل مالک ہے اور جو زندہ اور طاقتور خدا ہے اس سے دوستی لگائی جائے.اگر مریخ کی کسی چال کا ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہوگا تو خدا خود اس کا علاج کرے گا.ہم میں ذاتی طور پر یہ کہاں طاقت ہے کہ ہم تمام ستاروں کے بداثرات سے بیچ سکیں.اگر بالفرض ایک ستارے کے بداثر سے ہم نکل بھی گئے تو ہمیں کیا پتہ کہ کوئی اور ستارہ ہمیں اپنی گردش میں لے آئے.پس یہ بالکل غلط طریق ہے کہ انسان ایک ایک ستارہ کے بداثر سے بچنے کی کوشش کرے اصل طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایا کہ انسان ان ستاروں کے مالک اور خالق سے دوستی لگالے پھر کسی ستارے کی مجال نہیں کہ وہ انسان پر بداثر ڈال سکے.ایک بزرگ کا قصہ قصہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالبعلم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا، کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے میاں! ایک بات بتاتے جاؤ.وہ کہنے لگا دریافت کیجئے میں بتانے کے لئے تیار ہوں.وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے ہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور ! شیطان کہاں نہیں ہوتا شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا اچھا جب تم نے خدا تعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلاد یا تو تم کیا کرو گے؟ اُس نے کہا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.کہنے لگے فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا ،لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جدو جہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں پھر مقابلہ کرونگا.وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اُسے بھگا دیا لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں.وہ کہنے لگے اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی

Page 332

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے.وہ لا جواب ہو کر خاموش ہو گیا.اس پر اُس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ تو بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اُس نے ایک کتا بطور پہرہ دار رکھا ہوا ہو، اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا گتے کو مارونگا اور کیا کرونگا.وہ کہنے لگے فرض کرو تم نے اُسے مارا اور وہ ہٹ گیا، لیکن اگر دوبارہ تم نے اُس دوست سے ملنے کیلئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اُس نے تمہیں آ پکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں پھر ڈنڈا اُٹھاؤ نگا اور اُسے ماروں گا انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو میں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ ذرا باہر نکلنا یہ تمہارا گتا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھال لو.وہ کہنے لگے بس یہی گر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بیچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے گتے کو روکے اور تمہیں اپنے قرب میں بڑھنے دے یہی نسخہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ فرماتا ہے.الا ان اولیاء اللولا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - اے بڑی بڑی رصد گا ہیں اور جنتر منتر بنانے والو ! تم ستاروں کی گردش سے ڈر کر جنتر منتر کی پناہ کیوں ڈھونڈتے ہو ، تم اُس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیتے جس کے قبضہ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں.اگر تم اُس سے دوستی لگا لو تو تمہیں اِن چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو.یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے.رصد گا ہوں اور جنتر منتر کا علاج تو بالکل ظنی ہے مگر یہ وہ علاج ہے جو قطعی اور یقینی ہے.قرآنی رصد گاہ سے علم غیب کی دریافت دوسری بات جس کی وجہ سے لوگ ستاروں کی طرف توجہ کرتے ہیں علم غیب کی دریافت ہے سو یہ بات بھی حقیقی طور پر قرآنی رصد گاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے باقی سب ڈھکو سلے ہیں ، چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس رصد گاہ کے قوانین میں لکھا ہوا تھا.قُل لا يعلم من في السموتِ وَالْأَرْضِ الغيب إلّا اللهُ وَمَا يَشْعُرُونَ آيَان يُبْعَثُونَ - بَل ار له في الآخرة تدبَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمون الا فرماتا ہے زمین و آسمان میں سوائے خدا کے اور کوئی غیب نہیں جانتا.یعنی مصفی علم غیب صرف خدا تعالیٰ کو ہے اور یہ لوگ جوستاروں کے پرستار ہیں اور انہیں دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کے دعویدار ہیں یہ تو اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے اور اتنی

Page 333

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) بات بھی نہیں جانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کریگی.یہ برابر تباہ ہوتے جارہے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان کی تباہی کب دُور ہوگی.اس کے مقابلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پہلے اکیلا تھا آج بہتوں کا سردار بنا ہوا ہے اگر انہیں ستاروں سے علم غیب حاصل ہو سکتا ہے تو کیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتا سکتے اور کیوں محمد ﷺ کی ترقی کو جو ستاروں سے علم غیب حاصل کرنے کا قائل نہیں ؟ روک نہیں دیتے ؟ جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے تو انہوں نے اور کونسی غیب کی خبر بتانی ہے.پھر فرمایا یہ تو دنیا کی بات ہے بیل الر عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ - بَعْدَ الْمَوْتِ کی حالت کے متعلق یہ علم سے بالکل خالی ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جو کبھی غلطی کرتا اور کبھی ٹھیک راستہ پر چلتا ہے.جس طرح اندھے کے ہاتھ کبھی لکڑی آ جاتی نہ ہے اور کبھی سانپ ، اسی طرح ان کو بھی کبھی کوئی ایک آدھ بات درست معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی حق سے دُور باتوں کو سچ سمجھ کر یہ پکڑ لیتے ہیں.جب مجھے یہ آیت معلوم ہوئی تو میں نے کہا کہ اگر مصفی علم غیب صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہی ہے تو ہمیں اس کا کیا فائدہ ہوا؟ انکل پیچو والے ک تو پھر بھی کبھی لکڑی مل جاتی ہے مگر ہم تو اس طرح انکل پچھ والے فائدہ سے بھی محروم ہو گئے.اس پر میں نے دیکھا کہ قرآن نے میرے اس طبہ کا بھی جواب دے دیا اور اس نے فرمایا.علمُ الْغَيْبِ فَلا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِمَ أَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى من رسول ۱۲ کہ ہم نے یہ علم غیب صرف اپنے پاس ہی نہیں رکھا بلکہ ہم کبھی اپنے بندوں کو اس غیب سے مطلع بھی کر دیا کرتے ہیں مگر انہی کو جن کو ہم چُن لیتے ہیں، ہر کس و ناکس کو غیب کی خبریں نہیں بتاتے.پھر میں نے کہا کہ غلبہ غیب کا بیشک نبیوں کو ہی حاصل ہو مگر عام انسانوں کو بھی تو کبھی علم غیب کی ضرورت ہوتی ہے کیا ان کیلئے بھی کوئی راہ ہے؟ اس پر مجھے جواب ملا کہ ہاں.ان الذين قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيعَةُ الا تَخَافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اوْلِيَؤُكُم في الحلوة الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي انْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُونَ - نُزُلًا مِّن غَفُورٍ رَّحِيمٍ - ٣ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوں نے لوگوں کی مخالفت کی پروا نہ کی بلکہ استقامت سے سچے مذہب پر قائم رہے اُن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں

Page 334

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کہ کہ ڈرو نہیں اور نہ غم کرو.ہم فرشتے تمہاری حفاظت کیا کریں گے ،تمہاری پچھلی خطائیں معاف ہو چکیں اور آئندہ کے لئے تمہارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں جنت میں داخل کریگا، ہم تمہارے دوست ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.وہاں جس چیز کے متعلق بھی تمہارا جی چاہے گا وہ تمہیں مل جائیگی اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں دیا جائے گا ، یہ تمہاری مہمان نوازی ہے جو بخشنے والے مہربان رب کی طرف سے ہے.اس نے تمہارا ماضی بھی درست کر دیا اور اس نے تمہارے مستقبل کو بھی ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر دیا.منجموں کی خبروں اور الہام الہی میں فرق اس میں یہ جواب بھی آ گیا کہ ستاروں کی خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں اور یہ تقدیر ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو ستاروں کی گردشیں دیکھ کر دوسروں کو خبر میں بتایا کرتے ہیں وہ صرف خبر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص مر جائے گا.اب یہ صرف ایک خبر ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ کسی طریق پر عمل کر کے موت سے بیچ بھی سکتا ہے لیکن الہام الہی میں جہاں انذار ہوتا ہے وہاں تبشیر بھی ہوتی ہے.اگر ایک طرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ تمہیں ترقی ملے گی تو دوسری طرف یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن ہلاک کئے جائیں گے اور پھر اُن دشمنوں کو بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر ہمارے نبی پر ایمان لے آؤ تو تم ان آنے والی مصیبتوں سے بچ جاؤ گے لیکن اگر مخالفت اور دشمنی پر مُصر رہے تو پھر تمہاری ہلاکت یقینی ہے.گویا ایک تقدیر اور قدرت ہے جو الہام الہی میں پائی جاتی ہے مگر کسی رصد گاہ سے جو لوگ کوئی خبر معلوم کرتے ہیں اس میں کوئی قدرت اور جلال کا پہلو نہیں ہوتا.بسا اوقات رصد گاہ والا خود اپنے متعلق جب کوئی بات معلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ تیرا بیٹا مر جائے گا اب وہ ہزار کوشش کرے کہ کسی طرح مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ میں کس طرح اس مصیبت سے بچ سکتا ہوں تو اسے کسی طرح یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی ، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جب توجہ کی جائے تو اس قسم کے تمام عقدے حل ہو جاتے ہیں پس وہ خبر میں صرف خبریں ہوتی ہیں ، لیکن الہام الہی میں قدرت اور جلال کا پہلو پایا جاتا ہے.ستاروں سے حاصل کر دہ خبروں کی حقیقت پھر میں نے پوچھا کہ ستاروں سے جو خبریں ملتی ہیں اُن کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں مجھے ایک نہایت ہی لطیف بات سورة الصفت سے معلوم

Page 335

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) -- ہوئی.اللہ تعالیٰ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وان من شيعته لا برهيم - إذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبِ سَلِيمٍ - إذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَ قَوْمه مَاذَا تَعْبُدُونَ - أَيْفكًا الِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ - فَمَا ظَنُّكُمُ بِرَبِّ الْعَلَمِينَ فنظر نظرةً فِي النُّجُومِ - فَقَالَ إِنِّي سَقِيمُ - فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ - فَرَاء إِلَى الهَتِهِمْ فَقَالَ أَلا تَأْكُلُونَ - مَالَكُمْ لا تَنْطِقُونَ - فَرَاء عَلَيْهِمْ ضَرْبا باليَمِينِ - فَاقْبَلُوا اِلَيْهِ يَرْقُونَ - قَالَ اتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ - والله خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ - قَالُوا ابْنُوا لا بُنْيَانًا فَالْقُوهُ في الجحيم - فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَهُمُ الْأَسْفَلِينَ - وَقَالَ إني ذاهب إلى ربي سيهدين ١٢ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم سے تعلق رکھتے تھے جوستارہ پرست تھی چنانچہ قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر ذکر آتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مخالفوں کو چڑانے اور انہیں سمجھانے کے لئے طنزاً کہا کہ فلاں ستارہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ یہ خدا کیسا ہے جو ڈوب گیا.میں تو ایسے خدا کا قائل نہیں ہو سکتا.اس کے بعد اُ نہوں نے طنزاً چاند کے متعلق کہا کہ وہ میرا رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے میں تو سخت غلطی میں مبتلاء ہو جاتا اگر میرا خدا میری راہبری نہ کرتا ، بھلا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے جو ڈوب جائے.پھر سورج کے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ میرا رب ہے مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو وہ کہنے لگے کہ میں اِن سب مشرکانہ باتوں سے بیزار ہوں.میرا خدا تو ایک ہی خدا ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں سے تھے وہ ستارہ پرست تھی اور چونکہ ستاروں کی پرستش نہیں ہو سکتی اس لئے اُنہوں نے مختلف ستاروں کے قائمقام کے طور پر بہت سے بُت بنائے ہوئے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر ان بتوں کی عبادت کی جائے تو جس ستارہ کے یہ قائم مقام ہیں اس کی مدد ہمیں حاصل ہو جائے گی.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میں سے تھے وہ بھی پروہتوں کا خاندان تھا چنانچہ ان کے باپ نے ایک بتوں کی دکان کھولی ہوئی تھی جس پر وہ کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بٹھا دیتا اور بھی ان کے دوسرے بھائیوں کو.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر بچپن سے ہی سعادت کا مادہ رکھا ہوا تھا، چنانچہ یہودی روایات ( طالمود) میں آتا ہے کہ ایک دن ان کا بھائی انہیں دُکان پر بٹھا گیا اور بتوں کی قیمت وغیرہ بتا کر کہہ گیا کہ اگر کوئی گاہک آئے تو اُسے بُت دیدینا.تھوڑی دیر ہی

Page 336

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) گزری تھی کہ ایک بڑھا شخص اس دُکان پر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بُت اُٹھایا اور گاہک کے ہاتھ میں دیدیا.وہ اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اچھا ہے اس کی قیمت بتاؤ.انہوں نے کہا کہ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم اس بُت کو کیا کرو گے.اُس نے کہا اسے گھر میں لے جاؤں گا اور اپنے سامنے رکھ کر اس کے آگے سجدہ کیا کرونگا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سن کر بڑے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور کہا تجھے اس کے آگے جھکتے ہوئے شرم نہیں آئے گی ؟ تو ستر اسی سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور یہ بُت وہ ہے جو کل ہی میرے چچا نے بنوایا ہے بھلا اس بت نے جسے گل سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے؟ اور کیا تجھے شرم نہیں آئے گی کہ تو اتنا بڑا آدمی ہو کر اس کے آگے جھک جائے.اب وہ گو بت پرست ہی تھا مگر یہ فقرہ سُن کر اس کے اندر بُت کو گھر لے جانے کی ہمت نہ رہی اور وہ وہیں اسے چھوڑ کر چلا گیا.ان کے بھائیوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کر دی کہ ابراہیم کو دُکان پر نہ بٹھایا جائے ورنہ یہ تمام گاہکوں کو خراب کر دیگا.تو ان لوگوں میں ستاروں کا علم خاص طور پر پایا جاتا تھا اور علم رمل اور علم نجوم آئندہ نسلوں کو سکھایا جاتا تھا.جس طرح ہندوؤں میں پنڈت اس کام میں مشاق ہوتے ہیں اور وہ زائچہ نکالتے اور جنم پتری دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو بھی زائچہ نکالنا اور جنم پتری دیکھنا سکھایا جاتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ ایسے ہی خاندان میں سے تھے اس لئے لازماً انہوں نے بھی یہ علم سیکھا، مگر جب بڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دینی شروع کر دی تو قوم سے ان کی بحثیں شروع ہوگئیں.حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درس توحید ایک دن وہ اپنے رشتہ داروں اور قوم کے دوسرے لوگوں سے کہنے لگے کہ تم یہ تو سوچو کہ آخر تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو.تم جھوٹ اور فریب کے ساتھ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اور معبود بناتے ہو اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے ان بتوں کو بنایا ہے ان کے پیچھے چل پڑتے ہو اور انہیں خدا کا شریک قرار دیتے ہو؟ تم جوستاروں کے پیچھے چل رہے ہو ہمیشہ تم کہتے ہو کہ مریخ نے یہ کر دیا، زحل نے وہ کر دیا.مشتری نے یہ کیا اور عطارد نے وہ کیا.تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ رب العلمین کیا کر رہا ہے کس قدر ایک وسیع نظام ہے جو ہر چیز میں نظر آتا ہے.کیا یہ تمام نظام ایک بالا قانون کے بغیر ہی ہے؟ ساری چیزیں اس کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور ان ستاروں میں بھی جس قدر طاقتیں ہیں وہ

Page 337

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) خدا تعالیٰ کی ہی عطا کردہ ہیں.پس عبادت کا اصل مستحق خدا ہے نہ کہ کوئی اور چیز.یہ تقریر آپ کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لطیف نکتہ سمجھا دیا فنظر نظرةٌ في النُّجُومِ آپ نے ستاروں میں دیکھا فقال إني سقیم اور کہا کہ میں بیمار ہوں آپ کا یہ کہنا تھا کہ لوگ چلے گئے اور مجلس منتشر ہو گئی.یہاں مفسرین کو بڑی مشکل پیش آئی ہے اور وہ حیران ہیں کہ فنظر نظرة في النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِیم کے کیا معنی کریں.بعض کہتے ہیں کہ اُس روز آپ واقعہ میں بیمار تھے جب بحث زیادہ ہو گئی تو انہوں نے کہا اب مجھے آرام کرنے دو میں بحث کر کے تھک گیا ہوں.مگر بعض کہتے ہیں کہ آپ اُس روز بیمار تھے ہی نہیں.آپ نے اني سقيم جو کہا تو محض اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا ، چونکہ وہ بحث کرتے ہی چلے جاتے تھے اور بس کرنے میں نہیں آتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بول کر کہدیا کہ میں بیمار ہوں چنانچہ وہ چلے گئے.بعض کہتے ہیں کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولا تھوڑے بہت آپ ضرور بیمار تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اس دن نزلہ کی شکایت تھی.آپ نے انہیں کہہ دیا کہ بھائی اب معاف کرو میں بیمار ہوں.غرض مفتر بین اس موقع پر عجیب طرح گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن سے کوئی تاویل بن نہیں پڑتی، کبھی کوئی بات کہتے ہیں اور کبھی کوئی ،مگر سوال یہ ہے کہ اتي سقیم سے پہلے یہ الفاظ ہیں کہ فنظر نظرةً فِي النُّجُومِ.انہوں نے ستاروں کو دیکھا.اب سوال یہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی خبر کا ستاروں سے کیا تعلق ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ستاروں کو دیکھ کر یہ معلوم کیا تھا کہ اب بحث کرتے کرتے بہت دیر ہوگئی ہے حالانکہ دیر ہو جانے کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا آپ ہی انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب فلاں کام کرتے کرتے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے.ستاروں کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہا کرتا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے.پھر سوال یہ ہے کہ اگر ستاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ دیر ہوگئی ہے تو انہیں کہ دینا چاہئے تھا اب بہت دیر ہوگئی ہے تم چلے جاؤ مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ دیر ہو گئی ہے تم چلے جاؤ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوں.اس پر بعض مفسرین لغت کی پناہ ڈھونڈ نے لگے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مستقیم کے ایک معنے بیزار کے بھی ہیں انہوں نے بحث کرتے کرتے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں ان ستاروں سے سخت بیزار ہوں.اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ قول بھی صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان مشرکین سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں تم سے بیزار ہوں.ستاروں کے متعلق یہ کہنے کا کیا فائدہ تھا کہ میں

Page 338

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ان سے بیزار ہوں.حقیقت یہ ہے کہ ان معنوں میں سے کوئی معنے بھی صحیح نہیں.اصل معنے فنظر نظرة في النجوم کے یہ ہیں کہ جب آپ ان لوگوں سے بحث کر رہے تھے تو بحث کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان زبانی باتوں سے تو ان کا اطمینان نہیں ہو گا تم یوں کرو کہ اسی وقت اپنا زائچہ نکالو چنانچہ جب وہ تقریر کر رہے تھے کہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچائیں ، سب طاقتیں اور قدرتیں خدا تعالیٰ کو ہی ہیں.تو معا آپ نے اپنی تقریر کا رُخ بدلا اور کہا دیکھو ! تم جو ستاروں کی گردشوں اور اُن کی چالوں کے بہت قائل ہو، میں تم پر اتمام حجت کرنے کے لئے تمہارے سامنے اپنا زائچہ نکالتا ہوں چنانچہ انہوں نے جو زائچہ دیکھا تو اس سے مہورت ۲۵ یہ نکلی کہ ابراہیم کی خیر نہیں وہ ابھی بیمار ہو جائے گا.اس امر کو معلوم کرنے کے لئے چاہے انہوں نے اوپر دیکھا ہوا اور ممکن ہے کہ اوپر ہی دیکھا ہو کیونکہ رفی کا لفظ آیت میں استعمال ہوا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے نقشہ دیکھا ہو، بہر حال جب انہوں نے ستاروں کی چال کو دیکھا اور مقررہ نقشہ سے اپنا زائچہ نکالا ، تو اُس میں لکھا تھا کہ فلاں ستارہ کی گردش سے ابراہیم اسی گھڑی بیمار ہو جائے گا ( گویا انی سقیم کے یہ معنی نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ یہ ہیں کہ میں بیمار ہونے والا ہوں ) جب یہ زائچہ نکل آیا تو حضرت ابراہیم السلام نے اُن سے کہا کہ اب میری اور تمہاری بحث ختم.اگر میں بیمار ہو گیا تو میں مان لونگا کہ تم سچ کہتے ہو اور اگر میں بیمار نہ ہو ا تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ستاروں کی گردشوں اور چالوں پر یقین رکھنا اور یہ خیال کرنا کہ ستاروں کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے بیہودہ بات ہے.چنانچہ اسی پر بات ختم ہوگئی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے فارغ ہوتے ہی بت خانہ میں گئے اور انہوں نے بت توڑنے شروع کر دیئے.جب ان کے بُت ٹوٹے اور لوگوں کو یہ خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا دکھائی نہیں دیتا کیا کر رہا ہوں، تمہارے بتوں کو توڑ رہا ہوں تا کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ میں بیمار نہیں ہوں اور تمہارے زائچہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ غلط ہے انہوں نے جب دیکھا کہ ہمیں دُہری ذلت پہنچی ہے یعنی ایک تو یہ ذلت کہ ستارے کا اثر جو زائچہ سے نکلا تھا وہ غلط ثابت ہوا اور دوسری یہ ذلت کہ ہمارے بُت اُسی گھڑی توڑے گئے ہیں جس گھڑی ابراہیم نے بیمار ہونا تھا تو وہ سخت طیش میں آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اُسی وقت آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے تاکہ ہم لوگوں سے یہ کہہ سکیں کہ زائچہ میں جو یہ لکھا تھا کہ ابراہیم پر ایک

Page 339

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) آفت آئے گی وہ یہی آفت تھی کہ ابراہیم آگ میں جل کر مر گیا.مگر جب انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابرا ہیم کو اُس میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بارش ہو گئی اور آگ بجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس میں سے سلامت نکل آئے اور اس طرح جو تدبیر انہوں نے زائچہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اختیار کی تھی وہ بھی ناکام گئی.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد دوسرے یا تیسرے دن انہوں نے دوبارہ آگ میں نہیں ڈالا کیونکہ اگر دوسرے تیسرے دن پھر آگ میں ڈالتے تو ان کی سچائی ثابت نہ ہوسکتی.ان کے زائچہ کی سچائی اُسی وقت ثابت ہو سکتی تھی جب کہ اُسی گھڑی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں جل جاتے جس گھڑی آپ پر کسی آفت کا اُترنا زائچہ بتلاتا تھا مگر جب وہ وقت گزر گیا تو چونکہ اس کے بعد اگر آپ کو وہ دوبارہ بھی آگ میں ڈالتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تکذیب نہیں ہو سکتی تھی اس لئے پھر انہوں نے آپ کو آگ میں نہ ڈالا حالانکہ اگر انہوں نے آپ کو تو حید کی وجہ سے ہی آگ میں ڈالا تھا تو چاہئے تھا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تھے تو دوسری دفعہ پھر آپ کو جلانے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے آپ کو آگ میں اسی لئے ڈالا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وہ خبر درست نکلے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق زائچہ سے نکلی تھی.اب دیکھو یہ کس طرح ایک مکمل دلیل ستارہ پرستوں کے خلاف بن گئی.زائچہ دیکھا گیا اور اس سے سب کے سامنے یہ نتیجہ نکلا کہ ابراہیم پر اسی وقت کوئی شدید آفت آنیوالی ہے جو اسے تباہ کر دیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بس اسی پر میری اور تمہاری بحث ختم.اگر میں تباہ ہو گیا تو تم سچے اور اگر نہ ہوا تو میں سچا.جب وہ چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تکذیب واضح کرنے کے لئے بتوں کو توڑنا شروع کر دیا.اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو اُس دن بتوں کو خاص طور پر توڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہو سکتا.آپ نے اُس دن خاص طور پر اسی لئے بت تو ڑے کہ جس وقت آپ بُت تو ڑ رہے تھے وہی وقت زائچہ کے مطابق آپ کی بیماری کا تھا.پس آپ نے اپنے عمل سے انہیں زبر دست شکست دی اور بتایا کہ تم تو کہتے تھے میں فلاں وقت بیمار ہو جاؤں گا مگر میں نے اسی وقت تمہارے بتوں کے ناک کاٹ ڈالے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ جب ان کی قوم کو یہ خطرناک زک پہنچی تو اس کے بعد آپ

Page 340

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) نے سمجھا کہ اب اس عملی زک کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں ایسا بغض بیٹھ گیا ہے کہ میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں چنانچہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے.پھر میں نے کہا کہ اچھا جو حصہ حساب و تاریخ کا رہ گیا ہے اُس کے متعلق مجھے اس رصد گاہ سے کیا اطلاع ملتی ہے جب میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو اتو مجھے اس کے متعلق یہ اطلاعات ملیں.سورج، چاند اور ستارے سب انسان اوّل: سورج اور چاند اور ستارے سب اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ سب ایک اعلیٰ ہستی کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں کے کام اور فائدہ کیلئے بنائے گئے ہیں اور وہ اعلیٰ ہستی انسان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ محل میں فرماتا وسخر لليل والنهار والشمس والقمر، والنُّجُومُ مُسَخَّرت b بأمره ، إن في ذلك لايت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ " کہ اے بیوقوف انسان! تو خواہ مخواہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرف دوڑ رہا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ رات ، دن ، سورج، چاند اور ستارے سب تیری خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جسے ہم نے خادم قرار دیا تھا اُس کو تم اپنا مخدوم قرار دے رہے ہو اور جسے ہم نے مخدوم بنا کر بھیجا تھا وہ خادم بن رہا ہے تم ان سے ڈرتے اور گھبراتے کیوں ہو.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اُس کے آگے ہاتھ جوڑتا پھرتا ہو، یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے.پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ وسخر لكم ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بنا کر دنیا میں پیدا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں.بیشک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے.اُس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم الٹا انہیں کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو.قرآن کریم نے جو شرک کی اس بیہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے.مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے.وہ قصہ یہ ہے کہ فرانس میں دو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں.انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک عورت نکلی ، انہوں نے.

Page 341

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کہا ہم مسافر ہیں ، صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ، ہم صبح چلے جائیں گے.اُس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں ، ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاں بیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیں بھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکا لیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا ، دوسری طرف ہم رات گزار لیں گے.چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آگئے.اتفاق یہ ہے اُن کے پاس کچھ روپے بھی تھے ، اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیں یہ گھر والے ہماری نقدی نہ پچرالیں.اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ ہم ٹوٹے جائیں.ادھر میاں جو پیشہ میں قصاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا.ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں کوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے.اُن دونوں میاں بیوی نے دوسو ر پال رکھے تھے جو سور خانے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں.اتفاق کی بات ہے کہ ایک سور موٹا تھا اور ایک دُبلا تھا.اسی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دبلا.جب پادریوں نے کان لگا کر سننا شروع کیا تو اُس وقت میاں بیوی آپس میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے ، خاوند کہنے لگا کہ میری بھی یہی صلاح ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے.پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیں یہ ضرور چھرا لے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سُن لیں.پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوں نے سُنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کو ذبح کریں؟ میاں نے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اُسے چند دن کھلا پلا کر پھر ذبح کر دینگے.یہ بات انہوں نے جو نہی سنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں.دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا.وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جو ماری تو دیکھا کہ ایک کھڑ کی کھلی ہے بس انہوں نے جلدی سے اُٹھ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گرا اور جود بلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپر آپڑا.دبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی، مگر موٹا جو پہلے گرا تھا اُس کے پاؤں میں سخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے

Page 342

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) نا قابل ہو گیا.یہ دیکھ کر دُبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہوا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ میں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مدد کے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور ادھر اُدھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچاؤ.اُدھر موٹے پادری کو یہ فکر ہوا کہ کہیں گھر والے چھری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں.چنانچہ اُس نے آہستہ آہستہ گھٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اُس سؤرخانہ کے پاس جا پہنچا جس میں میزبان کے سور بند تھے مگر اُسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندرسو ر ہیں یا کیا ہے، اُس نے خیال کیا کہ میں یہاں چُھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں.جب اُس نے سور خانہ کا دروازہ کھولا تو سور ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قصاب چُھری لے کے موٹے سور کو ذبح کرنے کے لئے وہاں پہنچ گیا.پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مار ڈالے گا.چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میں چھپ گیا.قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہا نکل نکل ، مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہوا کہ سور نکالتا کیوں نہیں مگر خیر اس نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیرا اور آواز دے کر سو ر کو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا.پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کا نہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا.خدا کے لئے معاف کرو.ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سور کی بجائے اندر سے ایک آدمی نکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہوا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو.اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑے جارہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اور دوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو.تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اُس کی مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اُس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں یہ دیکھ کر اُن کی عقل کچھ ٹھکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے

Page 343

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاں بیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دینگے اور ڈ بلے کو کچھ دن کھلا پلا کر.اس لئے ہم کھڑکی سے گود کر بھاگے اور میرا چونکہ پاؤں چوٹ کھا گیا تھا میں اِس سؤرخانہ میں چُھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے.اس پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیا اور بتایا کہ ان کے دوسو ر ہیں ایک موٹا اور ایک ڈبلا.وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو.اتنے میں سرکاری سوار بھی آگئے اور اس حقیقت کو معلوم کر کے سب ہنستے ہنستے لوٹ گئے.یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے.اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ اُن کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو.گویا ستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ اُن کا غلام بن رہا ہے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں بیان کی ہے کہ ان في ذلك لايت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ یہ سب انسانوں کے خدمت گزار تو ہیں مگر انہی کے لئے جو ان امور کو دیکھیں اور عقل اور سمجھ سے کام لیں ایسے لوگ کبھی بھی ان کو خدائی صفات والا قرار نہیں دے سکتے.ہاں اگر کوئی اس فرانسسکن (FRANCISCAN) پادری کی طرح بلا وجہ ڈر کر ہاتھ جوڑنے لگ جائے تو اور بات ہے.(۲) دوسری بات مجھے یہ سب اجرام فلکی ایک عالمگیر قانون کے تابع ہیں! معلوم ہوئی کہ سورج چاند اور ستارے سب ایک عالمگیر قانون کے ماتحت چل رہے ہیں اور اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایک زبر دست ہستی ان سب پر حاکم ہے، چنانچہ میں نے قرآن کریم کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہو ا تھا کہ الم تر انّ الله يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ والقمر والنجوم والجبال والشَّجَرُ وَالدَّوَاتُ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاس و كَثِيرُ حَقٌّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ، وَ مَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِم ، إن الله يفعل مايشاء 1 یعنی اے بیوقوفو! کیا تمہیں معلوم نہیں آسمان اور زمین میں be جو کچھ ہے اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور انسانوں میں سے بھی بہت سے لوگ سب خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے لئے

Page 344

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جسے خدا ذلیل کرے اُسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے.غرض بتایا کہ دنیا میں جس قدر چیزیں ہیں وہ سب ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہیں ، سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا سب ایک خاص نظام کے ما تحت حرکت کرتے ہیں اور ہر ایک کے منہ میں لگام پڑی ہوئی ہے پھر تم ان چیزوں کو جن کو خود لگا میں پڑی ہوئی ہیں خدا کس طرح قرار دیتے ہو.یہ چیزیں تو خود تمہارے آگے آگے بطور خدمت گار چل رہی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ تم انہی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو اور یہ اس امر کی سزا ہے کہ تم نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ دیا.پس اُس نے تم کو تمہارے ہی غلاموں کا غلام بنا دیا وَ مَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ من تكرم اور جسے خدا ذلیل کر دے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا.سورج کوضیاء اور چاند کوٹو ر بنایا گیا ہے (۳) تیسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج اپنی ذات میں روشن ہے اور چاند دوسرے سے روشنی اخذ کرتا ہے چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے.هُو الذي جَعَل الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عدد السنين والْحِسَابَ ، مَا خَلَقَ اللهُ ذلكَ الَّا بِالْحَقِّ : يُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُون ۱۸ کہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا اور چاند کونور.ضیاء کے معنے ہیں اپنی ذات میں جلنے والی اور روشن چیز.اور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے کے اثر کے ماتحت روشن ہو.پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتا دیا کہ سورج تو اپنی ذات میں روشن ہے مگر چاند سورج سے اکتساب نور کرتا ہے.پھر اسی مضمون کو میں نے ایک اور لطیف طرز میں بھی قرآن کریم میں موجود پایا چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے.الم تروا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا وجَعَل القَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمس سراجا 19 کہ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو کس طرح تہہ بہ تہہ بنایا ہے اور چاند کو اُس نے نور اور سورج کو اس نے سراج بنایا ہے، سراج اُس دیے کو کہتے ہیں جس میں بتی روشن ہو.پس سراج کا لفظ استعمال کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سورج کے اندر خود ایک آگ ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی تمام جہان پر پھیلتی ہے.موجودہ تحقیق نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ سورج میں ریڈیم کے اجزاء کی وجہ

Page 345

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) سے ایک جلتی ہوئی آگ ہے اور اسی وجہ سے وہ روشن ہے.اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف سراج کے لفظ میں ہی آج سے تیرہ سو سال پہلے وہ نکتہ بتا دیا تھا جسے تیرھویں صدی ہجری میں یورپین محققین نے دریافت کیا اور بتا دیا تھا کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے اور چاند کی طفیلی جس طرح دیے کی بتی جلتی ہے اسی طرح سورج میں ایک ایسی آگ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روشن رہتا ہے مگر چاند میں ایسی کوئی روشنی نہیں وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے سورج سے حاصل کرتا ہے اسی لئے سورج کو تو سراج کہا مگر چاند کونور قرار دیا.(۴) چوتھی بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند کی بناوٹ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آخر یہ بھی فنا ہو جائیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الله الذي رفع السموتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ و القمر كُلَّ يَجْرِي لاَجَلٍ مُسَمًّى ٤٠ که خدا ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا.پھر وہ عرش پر جاگزیں ہو گیا اور اُس نے سورج اور چاند کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کر دیا، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں حرکت کر رہا ہے مگر یہ تمام حرکات لاجل تُسمَّی ایک وقت مقررہ تک ہیں ، جب مقررہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے بعد ان پر تباہی آ جائے گی ، آجکل اہل یورپ کی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن تباہ ہو جائیں گی، پہلے یورپین لوگ قیامت کے منکر ہوا کرتے تھے اور وہ اسلام کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کسی دن تمام کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے گا اور سورج ، چاند اور ستارے سب فنا ہو جائیں گے مگر موجودہ تحقیق سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ستاروں، چاند اور سورج کی گردش ایک دن یقیناً ٹوٹ جائے گی اور دنیا پر قیامت آ جائے گی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہی فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے مستخر تو کیا ہے مگر ان تمام کی رفتار میں ایک دن ختم ہونے والی ہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی دائمی چیز ہیں.سورج اور چاند کا حساب اور تاریخ سے تعلق (۵) پھر میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ ان رصد گاہوں سے جو حساب وغیرہ نکالتے ہیں کیا یہ صیح ہے اور کیا قرآنی رصد گاہ میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے ؟ میں نے جب غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن اِس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ سورج اور چاند یہ دونوں حساب اور تاریخ بتانے کے لئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي

Page 346

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) جَعَل الشَّمْسَ ضِيّاءِ وَالْقَمَرَ نُوراً و قدره مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عدد السنين والحساب - کہ ہم نے سورج کو ضیاء اور قمر کو نور بنایا ہے اسی طرح سورج اور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو ا کرے گویا سورج اور چاند دونوں سالوں کی گنتی اور حساب کا ایک ذریعہ ہیں، اسی طرح فرمایا.فالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اليل سكنا و الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَا نَّا، ذلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيم - ا کہ خدا صبح کو نکالنے والا ہے.اسی نے رات کو سکون کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے پھر فرمایا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ۷۲ سورج اور چاند دونوں ہم نے حساب کے کام پر لگائے ہوئے ہیں.میں نے جب قرآن کریم میں ان آیات کو دیکھا اور ان پر غور وتدبر کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقع میں تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا بہت بڑا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا.حقیقت یہ ہے کہ حساب کی وسعت ستاروں کی رفتار سے ہوئی ہے اور جس قدر باریک حساب ہیں وہ علم ہیئت کی وجہ سے ہی ہیں.اگر علم ہیئت نہ ہوتا اور ستاروں کی گردشیں اور ان کی رفتار میں مقرر نہ ہوتیں تو اربوں کھربوں کے جس قدر حسابات ہیں وہ کبھی صحیح طور پر نہ ہو سکتے.اسی طرح سورج اور چاند اگر نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ نہ ہو سکتا اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے پٹواری جب حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں زمین فلاں کنویں سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے پس کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلے کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے سالوں اور دنوں کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا اگر سورج اور چاند نہ ہوتے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے اور یونہی روشنی ہو جاتی یا تاریکی ہو جاتی تو اس طرح بھی دن رات ہو سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اگر یونہی روشنی ہو جاتی تو اس کا مستقل کنارہ کونسا ہوتا اور کیونکر معلوم ہوتا کہ فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال شروع ہو ا ہے اور فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال.تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت بہر حال چاند اور سورج دونوں کا سالوں، مہینوں اور دنوں کے حساب سے تعلق

Page 347

انوارالعلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ہے، لیکن مجھے خیال آیا کہ چاند سے تو ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہجری قمری ہم میں جاری ہے جس سے لوگ بہت کچھ فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر سورج سے تو ہم بالکل فائدہ نہیں اُٹھا رہے حالانکہ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں اور دوسری طرف عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میں فوائد نظر آتے ہیں.چنانچہ وقت اور زمانہ کی تعیین کے لحاظ سے سورج مفید ہے اور عبادتوں کو شرعی طریق پر چلانے کیلئے چاند مفید ہے اس لئے کہ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے.مثلاً رمضان ہے اب اس کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہی رمضان کے ایام آ جاتے ہیں، کبھی جنوری میں آجاتا ہے، کبھی فروری میں آ جاتا ہے، کبھی مارچ میں آجاتا ہے، کبھی اپریل میں آجاتا ہے غرض وہ کبھی کسی مہینہ میں آجاتا ہے اور کبھی کسی مہینہ میں اور اس طرح سال کے تین سو ساٹھ دنوں میں ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پھر ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی.پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق یہ کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارا ہے، عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے ، لیکن وقت کی تعیین صحیح کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے.بہر حال مجھے خیال آیا کہ ہم مسلمانوں نے قمری تاریخوں سے تو فائدہ اُٹھایا ہے لیکن شمسی تاریخوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا ، حالانکہ قمری شمسی دونوں میں فوائد ہیں اور چونکہ ہر انسان همسی حساب پر مجبور ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی مجبوراً عیسوی سن استعمال کرنا شروع کر دیا حالانکہ اگر ہم ہجری قمری کے ساتھ ہجری شمسی بھی بناتے اور ہجری قمری تاریخوں کے بالمقابل ہجری شمسی تاریخیں بھی ہوتیں تو قطعاً کوئی جھگڑا نہ ہوتا.اب اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ ۶۲۲ ہجری کب تھا اور اُس وقت شمسی کے لحاظ سے کونسا سال تھا تو وہ فوراً معلوم نہیں کر سکتا اور محض ۶۲۲ ہجری کہنے سے اس کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ سال کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج ہی سے تسلی پاتا ہے ، اسی وجہ سے لوگ ہجری قمری سالوں.

Page 348

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کے عیسوی سن معلوم کرتے ہیں اور اس طرح خواہ مخواہ مسلمان بھی عیسوی سن کو اپنے اندر رائج کئے ہوئے ہیں.میرے نزدیک ضروری تھا کہ جس طرح ہجری قمری بنائی گئی تھی اسی طرح ہجری شمسی بھی بنائی جاتی اور ان دونوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا ، مگر مجھے یہ بات جنتر منتر کو دیکھ کر سو جھی اور میں نے اُسی وقت سے تہیہ کر لیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے گا.جب میں واپس آیا تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اس بارہ میں اپنی لائبریری سے ایک کتاب بھی مل گئی.میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی شدید ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ میرے سامنے آجاتی ہے بعض دفعہ مجھے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت کوئی حافظ پاس ہوتا نہیں تو میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے وقت میں بسا اوقات جب قرآن کھولتا ہوں تو وہی آیت سامنے آ جاتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے.گزشتہ سال میں نے جلسہ سالانہ پر جو تقریر کی ، اُس کے نوٹ لکھنے کی مجھے فرصت نہیں مالتی تھی.ایک دن میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ میں نے تو دیکھا ہے جب بھی آپ کو فرصت نہ ملے اُس وقت خدا تعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے چنانچہ واقعہ میں ایسا ہی ہو ا جب میں نوٹ لکھنے کے لئے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے حتی کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالہ جات کی مجھے ضرورت پیش آئی مگر میرا ذہن اُس طرف نہ جاتا تھا کہ وہ حوالہ جات کس کتاب میں سے ملیں گے.ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بلا کر اُن کے سپر د حوالہ جات نکالنے کا کام کر دوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے میں نے کتابوں کی الماری جو کھولی تو میں نے دیکھا کہ اس میں چند کتابیں بے ترتیب طور پر گری ہوئی ہیں میں نے انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے مجھے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میں ہونے کا مجھے علم نہیں تھا ، میں نے اُسے کھولا تو اس میں اکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے اُس وقت ضرورت تھی.اسی طرح میں بعض اور کتابوں کی تلاش کر رہا تھا کہ اتفاقاً ایک کتاب نکل آئی جس کا نام تَقْوِيمُنَا الشَّمُسِسی “ اس میں مصنف نے بحث کرتے ہوئے تاریخی طور پر اس بات کو

Page 349

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں میں دیر سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے وہ کہتا ہے کہ خلفائے عباسیہ نے بھی ہجری شمسی تقویم بنانے کی کوشش کی مگر اس میں فلاں فلاں روک پیدا ہوگئی اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ بعد میں دولت عثمانیہ نے بھی ہجری شمسی بنائی مگر رائج نہ ہوسکی ، غرض اُس نے تاریخی طور پر اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ خیال کب پیدا ہوا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا کوششیں ہوئیں اور کیا کیا نقائص ہوتے رہے.بہر حال یہ خیال مسلمانوں میں دیر سے پایا جاتا ہے بلکہ اس حد تک یہ خیال مضبوطی سے گڑا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف کتاب کا نام محض تقویم شمسی نہیں رکھتا بلکہ تَقْوِيْمُنَا الشَّمْسِيُّ “ رکھتا ہے یعنی ہماری اپنی شمسی ہجری تقویم.میرا رادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کیا جائے اور عیسوی سن کے استعمال کو ترک کر دیا جائے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینہ تک اس بارہ میں پوری تحقیق کر کے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے ، خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے ی تحقیق میری مقرر کردہ ایک کمیٹی نے مکمل کر کے تقویم شمسی ہجری تیار کر دی ہے اور دو سال سے اس کا کیلنڈ رشائع ہورہا ہے ) نظام شمسی کا تمدنی ترقی سے تعلق (۲) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ نظام کشی ایک خاص قانون کے ماتحت ہے اور اس کا قانون انسانی کاموں کیلئے بطور ایک نمونہ کے مقرر کیا گیا ہے اور اس سے انسان کی تمدنی ترقی کیلئے ایک ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے فرماتا ہے.الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ والنّجمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَنِ وَالسَّمَاء رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ - الَّا تَطْغَوا في الميزان - وأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزان کے سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں ہیں بلکہ ایک معتین اور مقررہ قانون کے مطابق ہیں اور اسی مقررہ قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کی روئیدگی اور سبزہ اس قانون کے ماتحت چلتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے.سجدہ کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہوتے ہیں اور یسجدن کے اس جگہ یہی معنے ہیں اور تجھہ کے معنے جڑی بوٹی کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے اس جگہ مراد ہیں کیونکہ شجر کے ساتھ جس کے معنے

Page 350

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) درخت کے ہیں اس کا عطف ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ بغیر تنے والی سبزیاں ہوں یا تنے والے درخت ہوں سب اپنے اُگنے نشو ونما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو دنیا کے حصہ شمالی اور حصہ جنوبی میں موسم کا فرق ہوتا ہے جب شمال میں سردی ہوتی ہے جنوب میں گرمی ہوتی ہے اور جب شمالی حصہ میں گرمی ہوتی ہے جنوبی حصہ میں سردی ہوتی ہے اور اس تغیر کی وجہ سے دونوں حصوں کی فصلوں کے موسموں میں بھی فرق پڑ جاتا ہے اور اسی کی طرف والتَّجمُ والشَّجَرُ يَسْجُدُنِ میں اشارہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند جس قانون کے تابع ہیں اسی کے تابع سبزیاں، ترکاریاں، جڑی بوٹیاں اور بڑے درخت ہیں اور وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں.پس اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کے اندر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ نظام شمسی کا ایک حصہ ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں آزاد نہیں ہیں.پھر فرماتا ہے وَالسَّمَاء رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزان یعنی اس سورج چاند کے نظام کے اوپر ایک اور نظام ہے یعنی نظام شمسی نظام عالم کے ماتحت ہے جس طرح کہ نظام ارضی نظام شمسی کے ماتحت ہے اور نظام عالم بھی ایک معین اور مقررہ قانون کے تابع ہے اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں.اس آیت میں کیسی زبر دست سچائی بیان کی گئی ہے جو قرآن کریم کے وقت میں کسی کو معلوم نہ تھی، بلکہ صرف حال ہی کے زمانہ میں اس کا علم لوگوں کو ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ نظام شمسی ہی ایک نظام نہیں بلکہ وہ نظام ایک اور بالا اور وسیع تر نظام کا حصہ ہے جو سماء یعنی عالم محتوی کہلاتا ہے اور رفقھا کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ نظام ماقبل کے بیان کردہ نظاموں سے یعنی نظام ارضی اور نظامِ شمسی سے بلند مرتبہ اور وسیع تر ہے اور ووضع الميزان کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ بالا اور بلند نظام بھی میزان کے تابع رکھا گیا ہے اور ایک قانون کا پابند کر دیا گیا ہے آزاد نہیں ہے.اس مضمون میں مندرجہ ذیل علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:- (۱) نظام ارضی نظام شمسی کے تابع ہے نہ کہ اس پر حاکم یہ وہ نکتہ ہے جسے مشہور مہندس گلیلیو (GALILEO) نے جب دریافت کیا اور اس امر کا اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، جیسا کہ اُس وقت عام خیال تھا تو اُس پر عیسائی دنیا نے گفر کا فتویٰ لگا دیا اور کہا کہ اگر اس امر کو تسلیم کر لیا جائے کہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے تو پھر سورج کو زمین سے افضل ماننا پڑیگا اور اس کے نتیجہ میں انسان کی افضلیت مشتبہ ہو جائے گی اور مذہب باطل ہو

Page 351

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) جائے گا اور اس دلیل کی بناء پر گلیلیو پر سخت ظلم کئے گئے اُسے قید کیا گیا ، پیٹا گیا یہاں تک کہ سالہا سال کے ظلموں کو برداشت نہ کر کے اس غریب کو یہ کہہ کر تو بہ کرنی پڑی کہ جو عیسائیت کہتی ہے وہ ٹھیک ہے شیطان نے مجھے دھوکا دیکر یہ دکھا دیا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تب جا کر اُس کی تکلیف کسی قدر دور ہوئی لیکن قرآن کریم کو دیکھو وہ کس طرح شروع سے ہی فرما رہا ہے کہ والنجم والشَّجَرُ يَسْجُدُنِ ہم نے سورج اور چاند کو خاص قانون کے ماتحت بنایا ہے اور وہ اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور زمین کی روئید گیاں آگے ان کے قانون کے تابع چل رہی ہیں.اگر کوئی کہے کہ سورج کے گرد تو زمین چل رہی ہے، لیکن چاند تو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک گرہ جس کے تابع زمین ہے اس کو لے لیا گیا ہے اور ایک وہ جو زمین کے تابع ہے اُسے لے لیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین دونوں سے متاثر ہو رہی ہے.اس سے بھی جس کے گرد وہ گھومتی ہے اور اُس سے بھی جو اس کے رگر دگھومتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادنی بھی اعلیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ماتحت بھی حاکم پر اپنا اثر چھوڑتا ہے اس لئے طاقتور کو غرور سے کام نہیں لینا چاہئے اور کمزور سے آنکھیں نہیں بند کر لینی چاہئیں کیونکہ یہ اس سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ اس کے اثر کو بھی قبول کرے پس اگر اس کی اصلاح نہ کرے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اگر اسے نہ اُٹھائے گا تو خود بھی گرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے کہ ہر ھے اپنے سے اعلیٰ اور اپنے سے ادنیٰ دونوں سے اثر قبول کرتی ہے اور حاکم اور محکوم دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں.نظام ارضی نظام شمسی کا ایک حصہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ اوپر کی آیات میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ نظام ارضی ایک وسیع نظام یعنی نظام شمسی کا ایک حصہ ہے اور یہ نہیں کہ سورج اس زمین کے گرد چکر کھاتا ہے اور اس کے تابع ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کا عام خیال تھا.دوسری بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے.یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کے زمانہ تک دنیا کے کسی فلسفی یا مذ ہبی شخص نے بیان نہیں کیا تھا بلکہ وہ سب کے سب نظام شمسی ہی کو اہم ترین اور آخری نظام سمجھتے تھے مگر قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ نظامِ شمسی ایک نے اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے.

Page 352

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) فلک کی تشریح اگر کہا جائے کہ پہلے فلاسفروں نے بھی افلاک کے وجود کو تسلیم کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی فلک کا وجود تسلیم کیا ہے مگر وہ شے سَمَاء نظام سے جدا ہے.فلک در حقیقت نظام شمسی کے پھیلاؤ کا نام ہے اور اُن وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں مِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں.چنانچہ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.دھو الذي خَلَقَ اليل وامس والقمر ، كُلُّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ٤٢ یہی مضمون سوره یس رکوع ۳ میں بھی آیا ہے.پس فلک یا افلاک کو تسلیم کر کے یونانی فلاسفر اس نظام سماوی کے قائل نہیں کہلا سکتے جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.وہ افلاک کے علاوہ اور ھے ہے اور نظام شمسی کے اوپر کے نظاموں پر دلالت کرتا ہے اور صرف ایک محیط پر دلالت نہیں کرتا جس میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں.تیسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نظام ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ الا تطعوا في الميزان - وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ - تم میزان میں تعدی سے کام نہ لو اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور وزن میں کوئی کمی نہ کرو.یا یہ کہ ہم نے تم کو بیان العلوم اس لئے سکھایا ہے کہ تا میزان میں تعدی سے کام نہ لو وغیرہ وغیرہ.اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ انسان اُسی وقت ظلم اور زیادتی سے کام لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو قانونِ عالم سے آزاد سجھتا ہولیکن اگر وہ اپنے آپ کو عالم کی مشین کا ایک پُر زہ سمجھتا ہو تو کبھی اپنے مقام کو نہیں بھول سکتا.کیونکہ مشین کا جو پُر زہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو وہ ٹوٹنے اور کمزور ہو جانے کے خطرہ میں پڑ جاتا ہے یا خود اُس مشین کو توڑ ڈالتا ہے جس کا وہ پرزہ ہوتا ہے.پس فرماتا ہے کہ نظام شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے اور اس کی تأثیرات کو دیکھ کر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں آزاد نہیں بلکہ ایک نظام کا فرد یا ایک مشین کا پُرزہ ہوں.پس اگر میں نے دوسرے گل پرزوں کے کام میں دخل دیا اور اُن کے حق کو چھینا چاہایا اپنے کام میں سستی کی یا دوسروں کے حق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو اس کا نقصان مجھے ہی پہنچے گا اور جب میں بظاہر دوسرے پر ظلم کر رہا ہوں گا تو در حقیقت میں اپنی ہی جان پر ظلم کر رہا ہو نگا اور جب میں کسی کا حق کسی اور کو دے رہا ہوں گا تو درحقیقت اپنے ہی حق کو ضائع کر رہا ہونگا.چوتھی بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ عالم انسان کے تمدن میں ترقی کے لئے ایک بہت بڑی ہدایت ہے اگر انسان نظام عالم کو اپنا را ہنما بنا کر اس کے مطابق نظام انسانی کو ڈھال لے تو وہ ہر

Page 353

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے اور نقصانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.اس نظام میں ہر فرد اپنے مفوضہ کام کو بجالا رہا ہے اور دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتا نہ ظلم کے ساتھ نہ تخسیر کے ساتھ یعنی نہ اس سے زیادہ کام لیتا ہے نہ اس کا حق کم کرتا ہے اور نہ دوسرے کے کام میں دخل دیتا ہے.یہی اطاعت ، ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور دوسرے کے امور میں دخل اندازی سے اجتناب ہی ایسے قوانین ہیں جن کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان اپنے تمدن کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں.نظام عالم کی کامیابی کے تین اصل اس جگہ نظام عالم کے کامل ہونے کے تین اصل بیان فرمائے ہیں.(۱) کوئی فرد اپنے مفوضہ کام سے زیادہ نہیں کر رہا.(۲) ہر فرد اپنے مفوضہ کام کو پوری طرح ادا کر رہا ہے.(۳) کوئی فرد دوسرے فرد کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روک نہیں رہا، یا اس کے ادا کرنے کی قابلیت سے اسے محروم نہیں کر رہا.غور کر کے دیکھ لو نظام عالم کی کامیابی کا انحصار انہی تین باتوں پر ہے اور انسانی نظام کی خرابی یا بے ثباتی کا سبب بھی ان تینوں یا ان میں سے کسی کا فقدان ہوتا ہے اور انہیں سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن کریم نے نظام عالم کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کے لئے اس جگہ اشارہ فرمایا ہے.یہ آیات سورۃ الرحمن کے شروع میں ہیں جہاں کہ قرآن کریم کی آمد کی غرض بیان کی گئی ہے.ظاہر ہے کہ خالی ترازو کے تول اور بنوں کے درست رکھنے کا مضمون نہ تو قرآن کریم کے نزول کے اغراض سے خاص تعلق رکھتا ہے اور نہ نظام عالم سے.پس ظاہر ہے کہ اس جگہ گیہوں اور چاولوں کے ماپ اور تول کا ذکر نہیں بلکہ انسانی اعمال کے ماپ اور تول کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سوسائٹی کے بنیادی اصول نظام عالم کے مطابق رکھنے چاہئیں اور جو قیو دا ورحد بندیاں اس پر الہی قانون نے لگائی ہیں ان کو تو ڑ نا نہیں چاہئے اور نہ تو یہ کرنا چاہیئے کہ کام کا اس قدر جوش ہو کہ دوسروں کے مفوضہ کاموں میں دخل دینے لگ جائے اور نہ یہ غفلت کرے کہ اپنے فرض کو بھی ادا نہ کرے اور نہ یہ ظلم کرے کہ دوسروں کو بھی ان کے کام سے روکے خواه با لواسطہ یا بلا واسطہ.

Page 354

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) قومی تباہی کے اسباب اب دیکھ لو کہ نظام انسانی کی جاہی ان تین امور سے ہی وابستہ ہے جب کوئی قوم ہلاک یا تباہ ہوتی ہے تو اس کا یا تو یہ سبب ہوتا ہے کہ بعض ذہین اور طباع لوگ اپنے جوش عمل سے گمراہ ہو کر دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی شروع کر دیتے ہیں یا تو غیر قوموں کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا پر احسان کر رہے ہیں یا خود اپنے ملکی یا قومی نظام میں اس قدر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا ان سے ناممکن ہوتا ہے اور اس طرح ملکی یا ملی کام تباہ ہو جاتے ہیں اور قوم یا ملک بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف چلا جاتا ہے.بڑے بڑے فاتحین جو شہاب کی طرح چمکے شہاب کی طرح ہی غائب ہو گئے ایسے ہی لوگوں میں سے تھے.اُنہوں نے خود تو کچھ شہرت اور عزت حاصل کر لی لیکن قومی نظام کو ایک دھکا لگا گئے اور نظامِ ارضی کی مشین میں ان کی قوم کے پرزہ کی جو جگہ تھی اس سے ہلا کر دوسری جگہ کر گئے جس سے قوم کو بھی صدمہ پہنچا اور دنیا کو بھی.اسی طرح وہ جو شیلے قومی کا رکن جو ہر مجلس پر چھا جانا چاہتے ہیں اور جوش عمل کی وجہ سے سب عہدے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں قوم کی تباہی کا موجب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک تو وہ سب کام اچھی طرح کر ہی نہیں سکتے اور دوسرے اس وجہ سے قوم میں اچھے دماغ پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ باقی دماغ نکتے رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں.حال ہی میں ایک وسیع ہندوستانی ادارہ کے بارہ میں ایک معزز ہندوستانی نے مجھ سے کہا کہ میں بارہا اس ادارہ کے کرتا دھرتا کو کہہ چکا ہوں کہ تم اِس ادارہ کو منظم کرو، سیکرٹریٹ بناؤ ، انسپکٹر مقرر کرو، تا کہ کام وسیع ہو اور کام کرنے والوں کی جماعت تیار ہو مگر وہ سنتا ہی نہیں.یہ شکایت ان کی بجا تھی اور میں نے دیکھا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس ادارہ میں کام کرنے والی کوئی نئی پود تیار نہیں ہو رہی.ڈکٹیٹروں پر ڈیما کریسیز کو اسی وجہ سے فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اس میں کام کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ کھلا رہتا ہے پس جو قوم یا ملک اچھا نظام اور پائیدار نظام قائم کرنا چاہے اسے نظامِ عالم سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ ہر فرد اپنا کام ہی کرے دوسروں کے کام سمیٹنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ وہ سب کام نہ کر سکے گا اور دوسروں کے دماغ معطل ہو جا ئینگے.قومی زندگی پائیدار بنانے کے لئے متواتر لائق افراد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور لائق افراد بغیر تجربہ اور عملی کام کے پیدا نہیں ہو سکتے.پس زیادہ ذہین اور قابل اشخاص کا فرض ہے کہ وہ کام کو اچھا بنانے کے شوق میں دوسروں کے لئے راستہ بند نہ

Page 355

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کریں بلکہ دوسروں کو جو خواہ ان سے کم لائق ہوں کام کرنے کا موقع دیں ، تاکہ وہ بھی تجربہ حاصل کر کے اس خلاء کو پُر کرنے کے قابل ہوں جو بڑوں کے مرنے کے بعد ضرور ہو کر رہیگا.دوسری خرابی جو نظام ملکی یا سیاسی کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہے یہ ہے کہ ہر فردا اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا ہوتا جس طرح زیادہ کام اپنے ہاتھ میں لے لینا نقصان کا موجب ہوتا ہے اسی طرح اپنے مفوضہ کام کو پورا نہ کرنا بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے.پس سوسائٹی یا ملک یا قوم اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کے تمام افراد میں ذمہ داری کا علم اور اُس کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اول تمام قوم کے اندر علم پیدا کیا جائے اور پھر اس علم کو عمل کی صورت میں بدلنے کی کوشش کی جائے تا کہ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو ادا کرے جس طرح کہ نظام عالم کا ہر فرد اپنے فرض کو ادا کر رہا ہے.سے وہ تیسری خرابی قومی نظام کو تباہ کرنے والی یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کام سے روکنے لگتے ہیں یعنی یا تو ظلماً ایک فرقہ قوم کو کام سے الگ کر دیتے ہیں اور صرف ایک حصہ قوم کو کام کے قابل قرار دیتے ہیں جیسے آرین نسلیں ہیں کہ قومی برتری کے خیال صرف اپنی ہی نسل کے لوگوں کو ملک وقوم کا بوجھ اُٹھانے والا قرار دیکر دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو کام سے بے دخل کر دیتی ہیں اور اس طرح قومی تنزل کے سامان پیدا کر دیتی ہیں.اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ادنی اقوام کی خرابی بھی اُلٹ کر اعلیٰ قوم پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور اسے خراب کر دیتی ہے.اور یہ عقیدہ کہ صرف اعلیٰ ادنیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے غلط ہے، چنانچہ نظام عالم میں سورج جو بڑا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے اور چاند جو چھوٹا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے.پس چھوٹوں کو نظر انداز کرنا بالکل خلاف عقل ہے اور جو افراد یا اقوام بعض افراد یا اقوام کو چھوٹا اور ادنیٰ قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں اور قومی مشین کے پرزوں سے ان کو خارج کر دیتی ہیں وہ آخر تباہ ہو جاتی ہیں اور ادنی افراد یا اقوام ان کو بھی قعر مذلت میں گرا دیتے ہیں.اسی طرح پا لواسطہ طور پر کسی کے حق میں کمی کرنا بھی قوم کے حق میں نقصان دہ ہوتا ہے یعنی کمزور اور غریب اور مزدور اقوام کی تعلیم یا تربیت سے غفلت یا اولاد کی تربیت سے اعراض یہ سب با لواسطه اِحْسَارِ فِی الْمِيزَانِ ہے.یعنی گو عقیدہ انہیں ادنی انہیں سمجھا جاتا، لیکن عملاً ان سے سلوک وہی ہوتا ہے جو غیر ضروری حصہ سے ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ وہ افراد بھی قانونِ قدرت کے مطابق قوم کا ضروری حصہ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری مشین خراب ہو جاتی ہے اور نظام ملکی یا

Page 356

انوار العلوم جلد ۱۵ قومی درہم برہم ہو جاتا ہے.سیر روحانی تقریر (۱) دیکھو! کس خوبی سے اول نظام عالم کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر نظام انسانی کو اس پر چسپاں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے بابلیوں نے اور ان کے بعد یونانیوں نے نظام شمسی پر نظام تمدن کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر جس خوبی ، جس اختصار اور جس ہمہ گیری کے ساتھ قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں ان دونوں نظاموں کی حقیقت اور مماثلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ان اقوام عالم کے فلاسفروں کے کلام میں نہیں پائی جاتی.اور مسائل بھی عالم ہیئت کے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں مگرا جمالاً انہیں امور پر کفایت کی جاتی ہے.(۳) ایک وسیع اور عظیم الشان سمندر تیسری چیز جو میں نے دیکھی تھی سمندر تھا، میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ ایک اور سمندر قرآن نے پیش کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے بھول گئے ہیں وہ اس کی طرف سے ہنس کر گزر جاتے بلکہ اُسے حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمندر خود ہماری کتاب قرآن کریم ہے.سمندر کیا ہوتا ہے؟ سمندر کے معنے ایک ایسی وسیع چیز کے ہیں جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور جس میں موتی ، مونگا اور اسی قسم کی اور بیسیوں قیمتی چیزیں ہوتی ہیں.میں نے دیکھا کہ اسی قسم کی ایک چیز ہمارے پاس بھی ہے مگر افسوس کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے.ہم موتی نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم مونگا نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم مچھلیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم مچھلیوں کا تیل نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم سیپیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم کو ڑیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، مگر ہم نہیں قدر کرتے تو اُس شخص کی جو قرآن کریم کے سمندر میں سے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے پیش کرے، حالانکہ یہ وہ سمندر ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ونزلنا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلّ شَيْء وهُدًى وَرَحْمَةٌ وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ - ٤٥ یعنی اے رسول! ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو تبيانا لكُل شَيْءٍ ہے جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے اور جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں.اس میں موتی بھی ہیں ، اس میں مونگے بھی ہیں ، اس میں ہیرے بھی ہیں ، اس میں جواہرات بھی ہیں، غرض خشکی اور ترکی کی تمام نعمتیں اس میں جمع ہیں جب بھی تمہیں کسی چیز

Page 357

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کی ضرورت ہو تم اس سمندر میں غوطہ لگاؤ وہ چیز تمہارے ہاتھ میں آجائے گی.پھر سمندر میں تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان غرق ہو جائے بعض دفعہ سمندروں میں طوفان آتے اور بڑے بڑے جہاز تباہ ہو جاتے ہیں مگر فرمایا یہ وہ سمندر ہے کہ هُدًى وَرَحْمَةٌ اس سمندر میں جو غوطہ لگائے وہ کبھی تباہ نہیں ہوسکتا اور سمندروں میں بڑے بڑے کپتان بھی بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیں مگر یہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی انسان رستہ بھولنے لگتا ہے وہ کہتا ہے کہ غلط راستے پر نہ جاؤ.صحیح راستہ یہ ہے ادھر آؤ.پھر یہ صرف هُدی نہیں بلکہ رَحْمَةٌ بھی ہے.ان سمندروں میں تو لوگ ڈوبتے اور عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے جو انسان کو زندگی بخشتا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رکھتا ہے.پھر اسی حد تک بس نہیں بلکہ بشرى لِلْمُسْلِمِينَ.اس سمندر میں تیرنے والا ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے اور کبھی کسی خطرہ سے اسے دو چار ہونا نہیں پڑتا.اس کے آگے بھی رحمتیں ہوتی ہیں اس کے پیچھے بھی رحمتیں ہوتی ہیں.جب ایک نعمت اسے مل جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ اسی نعمت پر بس نہیں آؤ تمہیں دوسری نعمت بھی دیں.اور جب دوسری نعمت مل جاتی ہے تو تیسری نعمت اس کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے.وہ ایک مقام پر اپنا قدم روکتا ہے تو اُسے آواز آتی ہے کہ صاحب ! ٹھہرتے کیوں ہیں، اگلی منزل پر اس سے بھی زیادہ اچھی نعمتیں ہیں اور جب وہ دوسری منزل پر پہنچتا ہے تو آواز آتی ہے کہ صاحب ! آگے بڑھیئے ہماری نعمتیں تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں سمندر میں تو جب انسان دو چار سو میل آگے جاتا ہے تو جہا ز خطرے میں گھر جاتا ہے مگر یہاں ہر قدم پر یہ آواز آتی ہے کہ گھبرائے نہیں ، آپ تو امن اور سلامتی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں.قرآنی سمندر کی وسعت پھر سورۃ لقمان رکوع ۳ میں اس سمندر کی وسعت بتائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَوَاتٌ مَا فِي الْأَرْضِ مِن شجرة أقلام وَالْبَحْرُ يَمُدُّه مِنْ بَحْرِه سَبْعَةُ ابْرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللهِ اِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَکیم کے یعنی زمین میں جس قدر درخت ہیں اگر اُن تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنادی جائیں اور جنگلوں اور باغات کا ایک درخت بھی نہ رہنے دیا جائے سب کی قلمیں تیار کر لی جائیں والتخريمده اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر اور سات سمندروں کا پانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور اس سیاہی سے کلام اللہ کے معنے لکھے جائیں تو ما نفدت حلمت اللہ قلمیں ٹوٹ جائینگی ، سات سمندروں کی سیاہی خشک ہو جائے گی ،

Page 358

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) مگر قرآن کا سمندر پھر بھی بھرا ہوا ہو گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں نہیں آئیں گے.اِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَکیم کیونکہ اللہ غالب حکمت والا ہے.غالب ہونے کی وجہ سے اس نے وہ وسعت قرآنی معارف کو بخشی ہے کہ اگر تمام درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے اس کے معارف لکھے جائیں ، پھر بھی وہ ختم ہونے میں نہ آئیں.مگر وسعت بعض دفعہ لغو بھی ہو جاتی ہے، بڑے بڑے شاعر جس قدرگزرے ہیں ان کے اشعار میں کسی نہ کسی حد تک لغویت ضرور آ گئی ہے.اسی طرح جتنے بڑے نثار گزرے ہیں ان تمام کی نثر کے بعض حصوں میں فضولیات پائی جاتی ہیں.مگر فرمایا یہاں ایسا نہیں ، با وجود قرآنی مطالب اس قدر وسیع ہونے کے اس میں کوئی بات لغو اور بے فائدہ نہیں کیونکہ ایک حکیم ہستی کا یہ نازل کردہ کلام ہے اور جو حکیم خدا کی طرف سے نازل شدہ کلام ہو اس میں لغو بات کس طرح ہو سکتی ہے.پس ایک طرف تو قرآنی معارف میں اس قدر وسعت ہے کہ سات سمندروں کی سیاہی ختم ہو جائے مگر اس کے معارف ختم نہ ہوں اور دوسری طرف اس میں ایک بات بھی خلاف حکمت نہیں بلکہ ایک ایک بات کو دیکھ کر انسان قربان ہو جاتا ہے.پھر سورہ دخان رکوع ایک میں فرماتا ہے.خط وَ الْكِتَبِ الْمُبِينِ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ في ليلةٍ مُّبَرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ - أَمْرًا مِّن عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ - ے کہ حمید مجید خدا کی طرف سے ایک کتاب آئی ہے جو کھول کھول کر تمام سچائیوں کو بیان کرنے والی ہے اور میں اسی کتاب کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ تمہارا خدا بڑا بزرگی والا خدا ہے ہم نے یہ قرآن ایک ایسے تاریک زمانہ میں اُتارا ہے جو رات سے مشابہت رکھتا تھا اور جس میں قسم قسم کی تباہیاں اور قسم قسم کے گند اور فساد تھے مگر باوجود ان فسادوں کے وہ زمانہ ایک لحاظ سے مبارک بھی تھا کیونکہ إِنَّا كُنَّا مُنذرین.اس میں خدا کی طرف سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ہوشیار ہو جاؤ.گو تمہارے گھر ڈاکوؤں کا شکار ہورہے ہیں مگر اب خدا خود تمہاری حفاظت کیلئے آ رہا ہے.پس ہم نے خود اس کتاب کے ذریعہ اپنے بندوں کو ہوشیار اور بیدار کیا.منذر کے عام طور پر نہایت غلط معنے کئے جاتے ہیں، یعنی اُردو میں اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ڈرانے والے ہیں ، حالانکہ عربی زبان میں انذار کے معنے ڈرانا نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار کرنا ہیں.تو فرمایا گو یہ رات تھی اور تاریک رات تھی، چاروں طرف ڈا کے پڑ رہے تھے اور

Page 359

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) دین وایمان کہیں نظر نہیں آتا تھا مگر پھر بھی یہ مبارک رات تھی کیونکہ اس میں خدا خود چوکیدار بن کر آیا اور اُس نے خود پہرہ دیا اور آوازیں دیں کہ میرے بندو! ہوشیار ہو جاؤ ، بھلا اس سے زیادہ مبارک رات اور کونسی ہو سکتی ہے.فيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ - یہ مبارک رات کیوں نہ ہو، راتوں کے وقت چوروں کی طرف سے مال اُٹھایا جاتا ہے مگر اس رات میں لوگوں کو خود ہماری طرف سے مالا مال کیا جا رہا ہے اور انہیں بلا بلا کر کہا جارہا ہے کہ آؤ اور اپنے گھروں کو برکتوں سے بھر لو.آمرا من عِندِنَا یہ سب کچھ ہمارے حکم کے ماتحت ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو نعماء سے مالا مال کر دیں.پس اس سے زیادہ مبارک رات اور کون سی ہوسکتی ہے کہ بغیر مانگے اور سوال کئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں.آمر حکیم سے مراد وہی معارف اور علوم ہیں جو بغیر کسی انسانی کوششوں کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھولتا ہے.اگر کوئی شخص روٹی کھا رہا ہو اور کوئی دوسرا آ کر اُسے کہے کہ تو روٹی کھا رہا ہے تو وہ حکیم نہیں کہلا سکتا ، حکیم وہی کہلائے گا جو ایسی بات بتائے جس کا دوسرے کو علم نہ ہو.پس قرآن صرف کلام ہی نہیں بلکہ آمر حکیم ایسے حقائق اور معارف کا حامل ہے کہ بندے لاکھ سر پٹکتے رہتے وہ ان علوم اور معارف کو اپنی ذاتی جد و جہد سے کبھی حاصل نہ کر سکتے.اسی طرح سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے.ما كان حديثا يفترى ولكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى و رَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ٤٨ کہ یہ بات جھوٹی نہیں.یہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر رہی ہے اور ہر چیز اس میں بیان کر دی گئی ہے اور یہ مؤمنوں کی ہدایت اور رحمت کا موجب ہے.(۵) سوره عنکبوت میں فرماتا ہے.اولم يكفهم انا انزلنا عليك الكتب يُثلي عَلَيْهِمْ، إن في ذلِكَ لَرَحْمَةَ و ذكرى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ٤٩ ارے! اب بھی ان کو کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے جب کہ ہم نے انہیں اتنی بڑی چیز دیدی ہے جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی.یعنی ہم نے ایک کتاب اُتار دی ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ يثنى عليهم سمندر کے پاس تو لوگ جاتے ہیں مگر یہ سمند ر ایسا ہے کہ آپ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے.پھر دنیا میں تو لوگ اُستادوں کے پاس جاتے اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے فلاں بات کس طرح ہے مگر یہاں وہ استاد بھیجا گیا کہ

Page 360

انوار العلوم جلد ۱۵ 스 سیر روحانی تقریر (۱) جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بلّغ ما أنزل إليك من ربك ٥٠ تم خود لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں یہ تمام باتیں پہنچاؤ اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان میں سے ایک بات بھی نہ پہنچائی تو ہم کہیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیں پہنچایا گویا ہمارا اُستاد اور ہمارا آقا خود ہمارے گھروں پر چل کر آ گیا ہے.اِنَّ في ذلك لرحمة اگر تم سوچو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے اپنے رسول کو جو یہ حکم دیا ہے یہ تم پر ہمارا اتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حد نہیں گویا پنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آ رہی ہے کہ چوپڑیاں تے دو دو یعنی روٹیاں چپڑی ہوئی بھی ہوں اور پھر ملیں بھی دود و تو اور کیا چاہئے.اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک تو چپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اور پھر دودو دے رہے ہیں ایک تو ہم نے وہ کتاب دی جو ہر طرح کامل و مکمل ہے اور جس کی نظیر کسی اور الہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھر اپنے رسول کو یہ حکم دیدیا ہے کہ جاؤ اور ہماری یہ کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کر انہیں سناؤ اور اس کی تعلیموں سے انہیں آگاہ کرو.و ذکری.ایک نعمت تو یہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی اور دوسری نعمت یہ ہے کہ جو اس کتاب کو مان لیں گے، دنیا میں ان کی عزت قائم کر دی جائے گی ، بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں.یہ معنے بھی درست ہیں مگر اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ جو لوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے، ان کا ذکر نیک دنیا میں جاری رہے گا اور کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ خدمت کی اور فلاں نے وہ خدمت کی گویا یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جولوگ اس پر صدق دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے.پھر فرمایا - وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ في هذا الْقُرْآنِ مِنْ كُلَّ مَثَلٍ فَانّي اكثرُ النَّاسِ إِلا كُفُورًا کہ ہم نے قرآن میں ہر قسم کی باتیں بیان کر دی ہیں ، مگر افسوس انسان پر کہ وہ ہر بات کو سنگر کہتا ہے کہ ابھی اور چاہئے اور جو بات اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اس کا انکار کر دیتا ہے، اگر اس کے اندر ایک ذرہ بھی شرافت کا مادہ ہوتا تو یہ ان باتوں کو قبول کرتا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور اگر دل میں اُن کے بعد بھی پیاس رہتی تو کسی اور چیز کی طلب کرتا مگر یہ عمل تو کرتا نہیں اور اور چیزیں مانگے جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہدایت سے کوئی غرض نہیں محض ایک پاگل اور احمق انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے کہے جاتا ہے کہ اور دو، اور دو.اور یہ

Page 361

سیر روحانی تقریر (۱) انوار العلوم جلد ۱۵ نہیں دیکھتا کہ جو اسے دیا گیا ہے اسے اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے اسی طرح فرمایا.وَلَقَدْ صَرفنا في هذا القُرآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلّ مَندِ ، وَكَانَ الإِنْسَانُ اكثر شي جدا ۲ ہم نے قرآن میں انسان کے نفع کے لئے ہر چیز رکھدی ہے مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اس پاک کتاب کا انکار کئے جاتا ہے.یہی مضمون سورہ روم ع۶ اور سورہ زمرع ۳ میں بھی بیان ہوا ہے.قرآنی سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں ہے وہ سمندر ہے جو میں نے دیکھا اور یہ وہ بحر ذخار ہے جس کا میں نے مشاہدہ کیا، اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ، اس سمندر کی کوئی انتہا نہیں.اس سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں اور اس کی وسعتِ بے پایاں کو کوئی انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا.مجھے حیرت ہوتی ہے، مجھے تعجب آتا ہے، مجھے رونا آتا ہے کہ معمولی معمولی خلیجوں کے کنارے ہمارا ایک سیاح یا شاعر کھڑا ہوتا اور فرط مسرت میں جھومتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں یہ بے کنار خلیج یا بے کنار دریا ہے حالانکہ ایک دن کی منزل یا دو دن کی منزل پر اس کا کنارہ موجود ہوتا ہے.بڑے بڑے سمندروں کا بھی دس پندرہ دن کے سفر کے بعد کنارہ آ جاتا ہے، مگر وہ اس کنارے والے سمندر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ بے کنار ہے پس مجھے حیرت ہوئی اور میرا دل اس غم سے خون ہو گیا کہ وہ عظیم الشان سمندر جسے خدا نے بے کنار کہا ، جس کی وسعت کو اس نے خود غیر محدود قرار دیا اور جس کے کنارہ کو کوئی انسانی عقل تلاش نہیں کر سکتی اس کے متعلق مولویوں کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی کہ اس کی آیات کی طبری اور بیضاوی نے جو تفسیر لکھ دی ہے اب اس کے بعد کچھ اور کہنا تفسیر بالرائے ہے.یقیناً وہ جھوٹے ہیں ، کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اگر ساری دُنیا کے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کی سیاہی بنالی جائے اور ان قلموں اور سیاہیوں سے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے معارف لکھے جائیں تب بھی قلمیں ٹوٹ جائیں گی ، سیاہیاں خشک ہو جائیگی مگر اس کتاب کے معارف ختم نہیں ہوں گے لیکن یہ دو چار سو صفحوں کی چند جلد میں لکھنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ اب ان باتوں سے زیادہ کوئی اور بات بیان کرنی حرام ہے.میں کہتا ہوں اور میں کیا خدا کا کلام کہہ رہا ہے کہ جس دن تم سارے درختوں کی قلمیں بنا کر اور سارے سمندروں کی سیاہی بنا کر ان سے قرآن کے معارف لکھ لو گے تو اس کے بعد تم بیشک میرے پاس آ جانا اور کہنا کہ اب قرآن کی اور

Page 362

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) تفسیر مت کرو لیکن دنیا نے ابھی تو قرآن کی تفسیر لکھنے میں ایک جنگل کی لکڑی بھی ختم نہیں کی اور سمندر چھوڑ ایک کنویں کے پانی جتنی سیاہی بھی اس پر خرچ نہیں کی.پس ابھی ہمیں اس حق سے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ حق ہمارا اُس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک سمندروں میں پانی کا ایک قطرہ بھی موجود ہے.یا درخت کی ایک شاخ بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ہاں تمہا را بے شک یہ حق ہے کہ تم ثابت کرو کہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسلام کے خلاف ہے، اس بات سے تمہیں کوئی نہیں روکتا مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم قرآن کے نئے معانی کیوں کرتے ہو میں ان سے کہتا ہوں کہ اسے نالائقو ! اور اے احمقو! تم تو خشکی میں تڑپ رہے ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے ایک وسیع سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں.تم ریت کے تودوں پر کو ٹتے ہو اور طعنے ان لوگوں کو دے رہے ہو جو سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے والے ہیں.پس خدا سے ڈرو اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے بحر ذخار کو پتوں کی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش نہ کرو اور کو دکر اس کو پھلانگ جانے کے دعووں سے اپنی نادانی ظاہر نہ کرو.میں نے جب ان باتوں کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور میں نے کہا، افسوس خزانے موجود ہیں ، قلعے موجود ہیں ، رصد گاہیں موجود ہیں ، سمندر موجود ہے مگر ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں ، آثار قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے کنجیاں دی تھیں انہوں نے اُن آثار قدیمہ کو خراب کر دیا، تباہ کر دیا اور اس قدر ان کی حالت کو مشتہ کر دیا کہ ان پر کوئی شخص اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا.یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا.اس قرآن کے آثار قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور ہارون اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل کچیل سے مبرا، داغوں اور دھبوں سے صاف، چھینٹوں اور غلاظت سے پاک ہر چیز اصل اور حقیقی رنگ میں ہمارے پاس ہے.پرانے سے پرانے آثار اس میں پائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تو قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ، چند ٹوٹی ہوئی چھریاں ، چند پرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اُس کی تعریف کے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں واہ واہ! اس نے کس قدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا.وہ خزانہ جو خدا نے اُن کو دیا تھا اس کو وہ بھول گئے ، وہ سمندر جو خدا نے ان

Page 363

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا، وہ تمام رصد گا ہیں جو قرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لا پرواہ ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اس عظیم الشان را ز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا میں نے پالیا، میں نے پالیا اور جب میں نے کہا.میں نے پالیا، میں نے پالیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں.میں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھونگا اور اُسے مجبور کروں گا کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے.پس اے دوستو ! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان قرآن کریم کا بلند ترین مقام خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں.دنیا کے علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں.دنیا کی تمام تحقیقا تیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے، یہ ابو بکر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عمر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عثمان کے لئے بھی کھلا تھا، یہ علی کے لئے بھی کھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی کھلا تھا اور آج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دُنیوی علوم میں آجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے، مگر جب مقابلہ آپڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے.اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میں ترقی کر جانے کے گھمنڈ میں قرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی ، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں ! ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا.اُسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہو کر رہ جائیں گے.پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا اور پھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو اس کے مقابل پر زک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا.یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو ادا بھی کر رہے ہیں.دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی

Page 364

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) خوبیاں لوگوں کے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ، اسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑ کی اور جب اُس نے دیکھا کہ تم اُس کی کتاب کو صندوقوں اور غلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ جاؤ اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو.یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں.دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پر واہ نہیں ، وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا.دوستوں کو نصیحت آخر میں میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے سپر د ایک عظیم الشان کام ہے ہم نے اسلام کی عظمت اور اس کی برتری دنیا کے تمام مذاہب پر ثابت کرنی ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ اسلام کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.دشمن کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے وہ تو عداوت اور دشمنی کے جوش میں بیہودہ اعتراضات کرتا ہی رہے گا ، ہاں اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے ، اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم اس کے دین کے حقیقی خدمت گزار ہوں تو بشریت کی وجہ سے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہونگی اللہ تعالیٰ انہیں یقیناً معاف کر دیگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی نگاہ میں کبھی ذلیل نہیں کر سکتا.بشری کمیاں انبیاء میں بھی ہوتی ہیں.پس اگر ایسی غلطیاں خدمت دین کے ساتھ ہوں تو خدا ان پر گرفت نہیں کرتا ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک حبشی کو اپنا وہ بچہ کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ہوتے ہیں، آنکھوں میں غلاظت بھری ہوتی ہے اور شکل نہایت بھیانک اور ڈراؤنی ہوتی ہے.پھر اگر ایک حبشی اپنے میلے کچیلے اور بدصورت بچہ کی تحقیر نہیں کر سکتا، بلکہ اسے اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتا ہے تو کس قدر نادان ہے وہ شخص جو خیال کرتا ہے کہ گو ہم خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے روحانی فرزند بن جائیں وہ پھر بھی ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ہمیں دھتکار دیگا.وہ ہمیں دھتکارے گا نہیں بلکہ اپنے سینہ سے لگائے گا اور ہماری کمزوریوں اور

Page 365

انوار العلوم جلد ۱۵ سیر روحانی تقریر (۱) خطاؤں سے چشم پوشی کریگا، ہاں اپنے طور پر ہر انسان کو یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کمزوریوں اور خطاؤں پر غالب آئے اگر وہ اپنی طرف سے ان خطاؤں اور کمزوریوں پر غالب آنے کے لئے پوری جد و جہد اور سعی کرتا ہے تو وہ اُس بچے کی طرح ہے جو زمین پر گرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے.جس طرح ایسے بچہ کو باپ نہایت پیار کے ساتھ اپنے گلے لگا لیتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنے اس بندے کو اپنے قرب میں جگہ دیتا اور خود اُسے اُٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتا ہے پس کمزوریوں اور خطاؤں پر غالب آنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارے دلوں میں قرآن کی محبت پیدا کرے، اپنے دین کی محبت پیدا کرے، اپنے رسول کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آئیں اور اپنی خطاؤں کو دور کر سکیں لیکن اگر باوجود ہماری کوشش کے پھر بھی ہم میں کوئی عیب یا گناہ رہ جائے تو وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے اور ہمارے دشمن کو ہم پر غالب آنے کا موقع نہ دے وہ اپنے فضل کی چادر میں ہم سب کو لپیٹ لے اور اپنے محبو بین اور مقربین میں ہمیں شامل فرمائے تا ہم کہہ سکیں کہ ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء کے لئے ہے اور ہمارا خالق اور.ما لک خدا بھی ہم سے محبت کرتا ہے.ا تذکرہ صفحہ ۴۱۳.ایڈیشن چہارم.۲.پیدائش باب ۱ آیت ۲ تا ۱۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۰ ۱۸۷ء.پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ تا ۲۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ، ۱۸۷ء.66 ۴ پیدائش باب ۲ آیت ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء.پیدائش باب ۲ آیت ۱۶ تا ۲۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء.1 ڈارون (ERASMUS DARWIN)1731ء تا 1802ء.انگریز سائنسدان.اگر چہ طبیب مگر اس نے ایک لمبی نظم ”نباتیاتی باغ (THE BOTANIC GARDEN) بھی لکھی.ایک نظم "زونومیا (ZOONOMIA) میں ارتقائی نظریات کی پیشگوئی ملاتی ہے.جہاز بیگل پر ماہر موجودات کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اس نے طب اور مذہب کا مطالعہ کیا.اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت

Page 366

انوار العلوم جلد ۱۵ ☑ سیر روحانی تقریر (۱) (DARWINISM) بھی کہلاتا ہے.اِس نظریہ پر اس نے اپنی کتاب ”آغاز انواع “ (ORIGION OF SPECIES) میں بحث کی ہے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) ہیکل (HAECKEL ERNST HEINRICH)1834 ء تا 1919ء.جرمن حیاتیات دان اور فلسفی پائسڈم (POTSDAM) برلن اور ویانا میں طب اور حیوانیات کا مطالعہ کیا اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں.۱۸۶۵ ء میں JENA یو نیورسٹی میں حیوانیات کا پروفیسر ہو گیا اور ۵۰ سال تک نظریہ ارتقاء کی اشاعت کرتا رہا.وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے حیوانی زندگی کا شجرہ نسب مرتب کیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد۲ صفحہ ۱۸۸۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ،(HUXLEY THOMAS) H(ENRY) انگریز حیاتیات دان.جب وہ جہاز رئیل سینک پر نائب سرجن تھا تو اس نے بحر الکاہل کے رقبوں میں سمندری زندگی کے نمونے اکٹھے کئے.ڈارون کا حامی تھا اور اس نے ارتقاء ، تشریح، عضویات اور سائنس کے دوسرے موضوعات پر لکھا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) 2 نوح : ۱۴ تا ۱۹ ۱۰ مریم ۲۸ ١٣،١٢ الدهر : ٣ ۱۴ فاطر : ۱۲ السجدة : ٨ 19 النجم : ۴۳ تا ۴۸ ۲۲ الاعراف :١٢ ٢۵ البقرة : ٣٩ ۲۸ الانبياء : ۳۸ كل السجدة :9 ۲۰ فاطر : ۱۲ البقرة : ٣٧ الاعراف : ٢٦ الدهر : ٢ ها الانبياء: ۳۱ ۱۸ المرسلت : ۲۱ تا ۲۳ ال البقرة : ٣١ ۲۴ طه : ۱۲۴ ۲۹ الروم : ۵۵ ص: ۷۷ ٣٠ الاعراف: ۱۳ ٣١ اللهب : ٣٢ الرحمن : ١٦ ٣٣ البقرة : ٣٦ ٣٤ الاعراف :٢٠ ۳۵ طه : ۱۱۸ ٣٦ النساء :٢ الاعراف : ۱۹۰ ۱۹۱ ۳۸ بخارى كتاب النكاح باب الوصاة بالنساء ۳۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۷ المكتب الاسلامي بيروت ۱۹۷۸ء مجمع البحار جلد ۲ صفحه ۲۹۴ مطبع نولکشور ۱۳۱۴ھ

Page 367

انوار العلوم جلد ۱۵ ام بخارى كتاب التفسير باب يايها النبي لم تحرم ما احل الله لک سیر روحانی تقریر (۱) ۲۲ طه : ۱۲۲ ۲۳ طه : ۱۲۰،۱۱۹ ٢٤ البقرة : ٣٦ ٢٥ البقرة :٣٢ ٤٦ النمل : ٢٤ ۴۷، ۲۸ البقرة : ٣١ ٤٩ التحريم : ۵۰ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۵۱ طه : ۹۱ ۵۲ خروج باب ۳۲.آیت ا تا۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ، ۱۸۷ء ۵۳ طه : ۹۱ ۵۴ خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ( مفهوماً) ۵۵ خروج باب ۳۲ آیت ۱۹ تا ۲۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ( مفہوماً) ۵۶ فاطر : ۲۵ ۵۷ الانعام : ۸۴ تا ۹۱ ۵۸ الانعام : ۷۶ ٥٩ النجم : ١٠٩ ۱۲ الجن : ۲۸،۲۷ ۲۰ یونس : ۶۳ تا ۶۵ الى النمل : ٦٧،٦٦ حم السجدة: ٣١ تا ۳۳ ۱۴ الصفت : ۸۴ تا ۱۰۰ ۲۵ مهورت: کسی کام کیلئے ستاروں کی چال کے مطابق مبارک وقت معلوم کرنا ١٦ النحل : ١٣ الحج :١٩ ۹ نوح : ۱۶، ۱۷ ك الرعد :٣ ۲۸ یونس : ٦ اك الانعام : ۹۷ الرحمن : ٦ ۷۵ النحل :٩٠ کے لقمان : ۲۸ ٤٨ يوسف :١١٢ الرحمن : ٦ تا ١٠ ۴ ک الانبياء :٣٤ الدخان : ۲ تا ۶ ٤٩ العنكبوت : ۵۲ ٨٠ المائدة : ٢٨ ا بنی اسرائیل: ۹۰ الكهف : ۵۵

Page 368

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ روس اور موجودہ جنگ از محموداحمد سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة اسیح الثانی

Page 369

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ روس اور موجودہ جنگ ( رقم فرموده ستمبر ۱۹۳۹ء) روس کا پولینڈ میں اپنی فوجیں بھیج دینا دُنیا کیلئے حیرت روس کا پولینڈ میں داخلہ کا موجب ہو رہا ہے اور لوگوں میں اس کے متعلق مختلف قسم کے خیالات ہیں.اب تک کئی انگریز مد تبر اور اخبارات مثلاً ڈیلی ٹیلیگراف جو موجودہ برسر اقتدار پارٹی کے خیالات کا نمائندہ اخبار ہے، یہ لکھ رہے ہیں کہ غالبا روس پولینڈ میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ کہیں جرمنی پولینڈ میں بہت زیادہ اقتدار پیدا کر کے روسی فوائد کیلئے نقصان دہ ثابت نہ ہو.میرے نزدیک یہ رائے درست نہیں اور جس قدر جلد مد ترین انگلستان اس رائے کو ترک کر دیں اتنا ہی ان کیلئے سیاسی طور پر یہ امر مفید ہو گا اور وہ امن کے ایک غلط احساس سے نکل کر اپنے ملک کی بہتر خدمت کرنے کے قابل ہوسکیں گے.ب ڈینزگ کا سوال پیدا ہوا ہے اور برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کا جائے وقوع اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ہے میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ پولینڈ کا جائے وقوع ایسا ہے کہ فرانس اور انگلستان اس کی کسی صورت میں مدد نہیں کر سکتے.نہ تو اس کی سرحد میں کسی طرف سے ان کے ممالک سے ملتی ہیں اور نہ بحری راستہ ایسا ہے کہ اس طرف سے انگلستان اس کی مدد کر سکے.پس چاہئے کہ یہ طاقتیں روس کو ساتھ شامل کریں تا کہ خشکی کی راہ سے اس کی مدد کر سکیں.چنانچہ جب انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس غرض سے روس سے گفتگو شروع کی تو بشریت کے تقاضا کے ماتحت مجھے خوشی ہوئی کہ میری رائے درست ثابت ہو رہی ہے.اور انگلستان اور فرانس کے مدبرین نے بھی اس کی ضرورت کو محسوس کیا ہے.

Page 370

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ لیکن گفتگو جب لمبی ہوگئی اور آخر یہ اعلان ہوا روس کی نیت میں فتور کا احساس کہ چونکہ اصل معاہدہ میں دیر ہو گی.کیونکہ بعض اہم سوالات پر اتفاق نہیں ہو سکا اس لئے روس کا زور ہے کہ ساتھ کے ساتھ سب ممالک کے جنگی افسر بھی تبادلہ خیالات کرتے رہیں.تو اس اعلان کے ساتھ ہی میرے دل پر یہ امر روشن ہو گیا کہ روس کی نیت اچھی نہیں.اور میرے دل پر اس امر کا اس قدر گہرا اثر تھا کہ میرا میلان شدت سے اس طرف ہورہا تھا کہ میں انگلستان کی وزارت خارجہ کو جس کے اتفاق سے اس وقت ہمارے ایک سابق وائسرائے جو مجھے جانتے ہیں انچارج ہیں ، مشورہ دوں کہ وہ ہوشیار ہو جائیں کہ روس کی نیت درست نہیں معلوم ہوتی لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ ان لوگوں پر ہمارے مشورے اس قد را ثر نہیں کرتے کیونکہ وہ جائز طور پر خیال کرتے ہیں کہ ہمیں تو سب حالات معلوم ہیں اور یہ پردہ میں ہیں اس لئے یہ صحیح نتیجہ نہیں نکال سکتے اور ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بعض بندوں کو اللہ تعالیٰ نور فر است بخشتا ہے اور وہ بسا اوقات تھوڑے علم سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں.جو خیال اس وقت میرے دل میں روس اور جرمنی در پردہ ملے ہوئے تھے آیا یہ تھا کہ جب معاہدہ کی تکمیل میں اہم روکیں موجود ہیں تو پھر روس کو فوجی تبادلہ خیالات پر زور دینے کی اس قدر ضرورت کیوں پیش آئی ہے.فوجی تبادلہ خیالات کی تو سیاسی معاہدہ کے بعد ضرورت پیش آ سکتی ہے.اس پر روس کے مطالبہ کی مختلف وجوہات میرے ذہن میں آئیں اور آخر میرا دل اس خیال پر قائم ہو گیا کہ درحقیقت روس اور جرمنی اندر سے ملے ہوئے ہیں اور روس معاہدہ کی گفتگو کو جان کر لمبا کر رہا ہے تا کہ جب چاہے گفتگو کو بغیر اخلاقی الزام تلے آنے کے ختم کر دے اور فوجی گفتگو سے ان کا منشاء یہ ہے کہ اسے معلوم ہو جائے کہ پولینڈ کی حفاظت کیلئے انگلستان اور فرانس نے کیا تجویز سوچ رکھی ہے.اس امر کا سمجھنا بہت سے پولینڈ کو امداد دینے میں انگلستان کو مشکلات ہندوستانیوں کیلئے مشکل ہوگا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے گریجوایٹ تک بھی پولینڈ کے صحیح مقام سے ناواقف ہیں اور بڑی بے تکلفی سے آج کل جرح کرتے رہتے ہیں کہ انگلستان نے پولینڈ کی مدد کیوں نہیں کی اور کیوں ایک بڑی فوج وہاں نہیں بھجوا دی حالانکہ پولینڈ کے جائے وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے انگلستان اور فرانس کیلئے یہ ناممکن ہے.اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کیلئے میں ایک ناقص سا

Page 371

انوار العلوم جلد ۱۵ نقشہ دیتا ہوں جس سے معلوم ہو سکے کہ حقیقت حال کیا ہے.بر منجد شمالی روس اور موجودہ جنگ که تو باشید باغاريه به گیر ها شمان جدني اس نقشہ کو دیکھ کر معلوم ہو سکتا ہے کہ انگلستان اور پولینڈ کے راستہ میں بحیرہ شمالی اور بالٹک سی (SEA) واقع ہیں.اور بحیرہ شمالی سے بحیرہ بالٹک تک جانے کے لئے راستہ ایک تنگ آبنائے سے گزرتا ہے جو جزائر ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان واقع ہے.جس کی اسی طرح

Page 372

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ جرمنی نگرانی کر سکتا ہے جس طرح انگلستان فرانسیسی برطانوی آبنائے کی نگرانی کر سکتا ہے.بحیرہ بالٹک پر جرمنی کا قبضہ خصوصا جب سے کہ جرمنی نے ڈنمارک کے نیچے سے کیلے کی نہر نکال کر بحیرہ شمالی اور بالٹک کو ملا دیا ہے اس کے لئے یہ کام بہت زیادہ آسان ہو گیا ہے کیونکہ پہلے جرمنی کو دونوں سمندروں میں جہازی بیڑے رکھنے ضروری تھے اور ضرورت کے وقت ایک سمندر کا بیڑا دوسرے سمندر کے بیڑے کی مدد کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن سابق جرمن امراء نے اس دقت کو دور کرنے کیلئے کیل کے مقام پر ایک نہر بنوا دی.جس کے راستہ سے جرمنی کا بیڑا چند گھنٹوں میں بحیرہ شمالی سے بالٹک اور بالٹک سے بحیرہ شمالی کی طرف جا سکتا ہے.اور اس طرح بالٹک پر جرمنی کا قبضہ بہت زیادہ مضبوط ہو گیا ہے پس سمندری سرنگوں اور اپنے بیٹڑے کی مدد سے انگلستان کے زبردست بیڑہ کے باوجود جرمنی اس قابل ہے کہ انگلستان کو بالٹک میں کسی مؤثر کارروائی کرنے سے روک دے.پس پولینڈ جو بالٹک میں واقع ہے اس کی مدد انگلستان عام حالات میں ہرگز نہیں کر سکتا تھا.خصوصاً ان حالات میں کہ پولینڈ کا اپنا کوئی محفوظ بندر گاہ نہ تھا اور ڈننگ جرمنی کے اثر کے ماتحت تھا.اس کی امداد کی اور وہ بھی ناقص امداد کی یہی صورت ہوسکتی تھی کہ انگلستان ترکی اور رومانیہ کے تعاون سے بحیرہ اسود کے ذریعہ سے اسلحہ کی امداد پولینڈ تک پہنچائے.پولینڈ کے جنوب میں رومانیہ ہے اور اس کے مشرق میں بحیرہ اسود ہے اور اس کے جنوب اور جنوب مغرب میں ترکی کا علاقہ اور درہ دانیال ہے.انگلستان نے رومانیہ اور ترکی سے معاہدات بھی کر لئے تھے اس لئے جرمنی کے لئے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ انگلستان اور فرانس کی پولینڈ کی امداد کے بارہ میں کیا تجاویز ہیں تا کہ ان کا پہلے سے تو ڑ سوچ لیا جائے.روس کی غرض برطانوی سکیم کو معلوم کرنا تھی غرض جس وقت روس کی طرف سے فوجی تبادلۂ خیال پر زور دیا جانے لگا.اس مطالبہ کے نامناسب وقت پر پیش ہونے کی وجہ سے میرے دل میں بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ در حقیقت پولینڈ کے بارہ میں روس اور جرمنی میں خفیہ بات ہو چکی ہے اور یہ فوجی افسران سے تبادلۂ خیالات کا اصرار محض برطانوی سکیم کے معلوم کرنے کی غرض سے ہے کیونکہ جب باہمی فوجی تعاون کے بارہ میں گفتگو ہوتی ہے تو سب پہلوؤں پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے اور بہت سی مخفی با تیں ظاہر کرنی پڑتی ہیں.

Page 373

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ میرا یہ خیال یقین سے بدل گیا روس کا پولینڈ میں فوجیں لانے پر اصرار جب یہ اعلان ہوا کہ روس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا ہے کہ اس کی فوجیں پولینڈ میں جا کر جرمنوں سے ضرور لڑیں گی.انگلستان فرانس اور روس کسی اپنی غرض سے سمجھوتہ نہیں کر رہے تھے.ان کا سمجھوتہ ایک کمزور ملک کو زبردست ہمسائے سے بچانے کے لئے تھا.اگر وہ کمزور ملک ایک خاص حد تک امدا د کو اپنے تحفظ کیلئے کافی سمجھتا تھا تو مددگار کا اس امر پر اصرار کرنا کیا معنی رکھتا تھا کہ میں تمہارے ملک میں فوجیں بھی ضرور لاؤں گا.ظاہر تھا کہ روس کا یہ اصرار صرف اس غرض سے تھا کہ روسی فوجیں پولینڈ میں داخل ہو کر جرمنی کے پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بارہ میں ایسی سہولت پیدا کر دیں کہ بغیر خون ریزی کے پولینڈ کی حکومت ختم ہو جائے.پس یہ اصرار پولینڈ کی امداد کے لئے نہ تھا بلکہ بغیر جنگ کے اس پر قبضہ کرنے کے لئے تھا جس کے بعد وہی کچھ ہونا تھا جواب ہو رہا ہے یعنی پولینڈ کی تقسیم.میں سمجھتا ہوں اس گفتگو میں پولینڈ کے انکار میں انگریز مدیرین نے جو اس کی تائید کی وہ بہت معقول کام تھا اور جب جرمنی اور روس کے معاہدہ کے امکانات پیدا ہونے پر بظاہر ( ورنہ مخفی طور پر میرے نزد یک تصفیہ پہلے سے ہو چکا تھا) انگلستان نے روس کو یہ دعوت دی کہ اب پولینڈ روسی فوجوں کے پولینڈ میں داخلہ پر راضی ہو جائے گا تو میرے نزدیک یہ وقتی جوش کا نتیجہ تھا.جس نے دماغ کے انفعال پذیر حصہ کو وقتی طور پر معطل کر دیا تھا.ورنہ یہ پیش کش گویا دشمن کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف تھی جسے وہ صرف اس لئے قبول نہ کر سکا کہ وہ دوسرا قدم اٹھا چکا تھا.روس اور جرمنی کا خفیہ سمجھوتہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرے نزدیک روس اور جرمنی میں خفیہ سمجھوتہ دیر سے ہو چکا تھا اور اس کا ماحصل یہ تھا کہ پہلے تو روس اتحادیوں سے مل کر پولینڈ میں اپنی فوجیں بھیجنے کی صورت پیدا کرے اور اس طرح پولینڈ کی حکومت کو بغیر خون ریزی کے تباہ کر دیا جائے.اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو پھر جرمنی اور روس اپنے خفیہ سمجھوتہ کو ظاہری معاہدہ کی صورت میں بدل دیں اور جرمنی پولینڈ پر حملہ کر دے.اگر مغربی طاقتیں دخل نہ دیں تو فبھا.اگر وہ دخل دے دیں تو جب جرمنی پولینڈ کو کچل ڈالے تو بغیر دوسری اقوام سے اعلانِ جنگ کرنے کے روس اپنی فوجیں پولینڈ میں داخل کر دے اور ملک کو حسب معاہدہ تقسیم کر دیا جائے.

Page 374

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ روس نے جرمنی کے حملہ کے کہا جا سکتا ہے کہ اس تجویز کی کیا ضرورت تھی کیوں نہ شروع سے ہی روس اور جرمنی نے مل کر پولینڈ پر ساتھ ہی کیوں حملہ نہ کیا ؟ حملہ کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہٹلر نے اپنی کتاب MEINE KAMPF میں لکھا ہے کہ سیاست میں بہترین حربہ طاقت نہیں بلکہ رُعب ہے.انگلستان اور فرانس پولینڈ کی تائید میں اس قدر بڑھ چکے تھے کہ اگر جرمنی اور روس شروع میں ہی مل کر پولینڈ پر حملہ کر دیتے تو اس امر کا ہرگز احتمال نہ تھا کہ انگلستان اور فرانس ان کے اجتماع سے مرعوب ہو کر پولینڈ کی مدد نہ کرتے.نفسیاتی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وقت انگلستان یا فرانس کے مرعوب ہونے کا ہر گز نہ تھا اور ہٹلر جو ماہر نفسیات ہے اس امر کو خوب سمجھتا تھا.دوسرے پولینڈ کی تباہی سے پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ پولینڈ اس قدر جلد تباہ ہو جائے گا اس لئے اس نے روس سے یہ سمجھوتہ کیا کہ وہ پہلے جنگ میں شامل نہ ہو بلکہ جب جرمنی پولینڈ کو تباہ کر دے تو وہ اپنا حصہ لینے کے لئے اپنی فوجیں داخل کر دے.جو شخص بھی انسانی دماغ کا صحیح مطالعہ کرنے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ سب سے عمدہ موقع اپنے دشمن کو مرعوب کرنے کا وہ ہوتا ہے جب دشمن پر یہ امر روشن ہو جائے کہ جس کام کو میں کرنا چاہتا تھا اس کا وقت تو گزر چکا ہے اب کسی بڑی قربانی کو پیش کرنا صرف قوم کی جانوں اور ملک کی طاقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا.پس جب ہٹلر پولینڈ کو فتح کرلے اس وقت اگر ایک اور بڑی طاقت جو بہ ظاہر انگلستان اور فرانس کی دشمن نہیں پولینڈ کی تقسیم میں حصہ دار ہو جاتی ہے طبعا انگلستان اور فرانس کے مدبرین کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ:.(۱) پولینڈ پر حملہ جرمنی نے کیا تھا.(۲) اس کے اصول ایسے جارحانہ ہیں کہ ان کے خلاف ہمارے ملک میں سخت منافرت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے.(۳) اگر وہ پولینڈ پر قبضہ کر لیتا تو ہم جنگ کے بعد پولینڈ کو اس سے آزاد کرا دیتے.مگر اب صورت حالات مختلف ہے.پولینڈ کا ایک حصہ روس میں مل چکا ہے.اگر ہم جرمنی کو شکست بھی دے دیں تو ہم پولینڈ کو آزاد نہیں کرا سکتے.کیا ان حالات میں لڑائی جاری رکھنی ضروری ہے؟ کیا بے تعلق دنیا اور اس کی حکومتیں اب ہمارے لڑائی کو جاری رکھنے کو پسندیدہ

Page 375

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ نگاہوں سے دیکھیں گی ؟ پہلے ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ اس لئے تھی کہ ہم ایک کمزور ملک کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن اب جبکہ جرمنی سے جنگ کر کے ہم پولینڈ کو آزاد نہیں کرا سکتے وہ یہ خیال کریں گی کہ ہماری جنگ پولینڈ کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ بعض اپنی اغراض کے لئے تھی.پولینڈ اب اسی صورت میں آزاد ہو سکتا ہے کہ روس سے بھی جنگ کی جائے مگر کیا روس سے جنگ کے لئے فرانس کے باشندے جس کا بہت سا حصہ روسیوں سے محبت رکھتا ہے، ہندوستان کے باشندے جن کی ایک مقتدر سیاسی پارٹی ان سے ہمدردی رکھتی ہے اسی جوش سے جنگ کے لئے تیار ہوں گے جس طرح کہ وہ جرمنی کے خلاف جنگ کیلئے تیار تھے ؟ کیا ان حالات میں یہی بہتر نہیں کہ ہم یہ کہہ کر کہ چونکہ پولینڈ تباہ ہو چکا ہے اور چونکہ اس کا ایک حصہ روس نے اپنے اندر شامل کر لیا ہے اور چونکہ باوجود اس کے کہ ہم روس کے اس فعل کو نا پسند کرتے ہیں.ہماری اس سے کوئی اصولی طور پر لڑائی نہیں اور چونکہ یہ بہترین موقع ہے کہ پولینڈ کی تقسیم کے وقت ہم اپنے رسوخ کو استعمال کر کے اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ملک اور زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کر سکیں ہم جنگ کو ختم کرتے ہیں.ہٹلر کے زرخیز دماغ نے ان سب امور کو پہلے سے سوچا اور روس سے سمجھوتہ کرتے وقت یہی فیصلہ کیا کہ وہ شروع میں جنگ میں شامل نہ ہو بلکہ اس وقت آ کر اپنے حصہ پر قبضہ کر لے جب ہٹلر پولینڈ کو تباہ کر لے.لے.کیا جرمنی سے صلح کر لی جائیگی کیا جا سکتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اس صورتِ حالات سے انگلستان اور فرانس کی حکومتیں متاثر ہوں.میں کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ خدا نہ کرے کہ وہ متائثر ہوں کیونکہ اس وقت ان کا جرمنی سے صلح کر لینا اپنی قوم سے بھی غداری ہوگا اور دنیا سے بھی غداری ہو گا.مگر جب مدبرین آئندہ کے متعلق تجاویز سوچا کرتے ہیں تو چونکہ آئندہ کا یقینی علم کسی انسان کو نہیں، وہ صرف یہ دیکھا کرتے ہیں کہ امکان کسی امر کا زیادہ ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ انگلستان اور فرانس کو مشکلات میں ڈالنے کا امکان اس میں کم تھا کہ روس شروع ہی میں جنگ میں شامل ہو جا تا اور اس میں بہت زیادہ تھا کہ پولینڈ کی فتح کے بعد وہ بغیر جنگ میں شامل ہونے کے پولینڈ پر قبضہ کر لیتا.پس ہٹلر نے اس صورت کو پسند کر لیا جو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید تھی اور جس کے اختیار کرنے میں اگر یقینی نہیں تو غالب طور پر اسے یقین تھا کہ بغیر بڑی لڑائی لڑنے کے وہ

Page 376

انوار العلوم جلد ۱۵ پولینڈ کے ضروری حصہ کو ہضم کر سکے گا.روس اور موجودہ جنگ پس میرے نزدیک انگلستان کے مدبرین کو اس مدترین برطانیہ سے خطاب صورت حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی چاہئے اور اس دھو کے میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ روسی حملہ جرمنی کے خطرہ کی وجہ سے ہے.یہ جرمنی کے خطرہ کی وجہ سے نہیں بلکہ سابق سمجھوتہ کے ماتحت ہے اور اب روس اور جرمنی انگریزوں کی طاقت کو توڑنے کے لئے متحد ہو چکے ہیں.بے شک ان میں شدید اختلاف ہیں ، بے شک وہ ایک وقت میں ظاہر ہوں گے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ اختلافات ابھی ظاہر ہو جائیں گے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ فضل کر کے گل ہی جرمنی اور روس میں لڑائی چھڑ واوے ممکن ہے با وجود معاہدہ کے روس دل میں یہ ارادہ رکھتا ہو کہ پہلے صلح سے پولینڈ میں داخل ہو جاؤں پھر جرمنی سے نپٹ لوں گا اور چند ہی دنوں میں کسی بہانہ سے جرمنی سے لڑ پڑے.سیاسی میدانوں میں ایسے دھو کے پہلے ہو چکے ہیں.ترکی سے جب بلقانی طاقتوں نے جنگ کی ہے تو انہوں نے یہی کیا تھا.رومانیہ، سرویا اور یونان نے بلغاریہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا تھا لیکن اندرونی طور پر آپس میں ایک اور معاہدہ بھی کر چھوڑا تھا کہ اگر ترکی پر ہمیں فتح حاصل ہوگئی تو ہم بلغاریہ کو وہ کچھ نہیں دیں گے جس کا ہم نے معاہدہ کیا ہے.چنانچہ ترکی پر فتح پاتے ہی انہوں نے بلغاریہ پر حملہ کر کے اس کے بعض حصے چھین لئے.پس اب بھی ایسا ہو سکتا ہے مگر یہ سب امکانات ہیں اگر پورے ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اگر نہ ہوں تو ان حالات کے لئے برطانیہ کو پہلے سے تیار ہو جانا چاہئے اور صرف امیدوں پر اپنی تیاری کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں روس انگلستان اور ترکی کے اتحاد میں دنیا کا امن ہے کی وجہ سے ترکی سے جو انگریزی اتحاد ہو چکا ہے وہ بھی خطرہ میں ہے اور انگلستان کو اسے اور بھی پکا کرنے کی سر توڑ کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگر روس جنگ میں شامل ہوا تو اتحادی طاقتوں کی کامیابی کا انحصار صرف اور صرف عالم اسلامی سے تعاون پر ہوگا اور یہ تعاون مکمل طور پر حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ترکی حکومت اتحادیوں کے ساتھ نہ ہو.باقی رہی موجودہ جنگ.اگر اتحادی میری بات مانیں اتحادیوں کو کیا کرنا چاہئے تو ان کیلئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ روس کے

Page 377

انوار العلوم جلد ۱۵ روس اور موجودہ جنگ پولینڈ پر حملہ کو نظر انداز کر دیں.روس نے جو کچھ کیا جرمنی کے حملہ کے نتیجہ میں کیا.پس وہ جرمنی سے کہہ دیں کہ یہ تقسیم تمہارے فعل کا نتیجہ ہے ہم جنگ کے بعد اس کا بدلہ پولینڈ کو تم سے دلوائیں گے اور میرے نزدیک پولینڈ کے قضیہ کا بہترین حل بھی یہی ہے.یوکرین کا روس کے ساتھ شامل ہونا پولینڈ کو مضبوط کرتا ہے کمزور نہیں.پھر کیا حرج ہے کہ اسے روس کے پاس ہی رہنے دیا جاۓ.جب جنگ میں اللہ تعالیٰ فتح دے اور پولینڈ کی حکومت پھر سے قائم کی جائے تو جو پولز اس علاقہ میں بستے ہیں ان کا تبادلہ ان علاقوں کے جرمنوں سے کر دیا جائے جو کوننگز برگ (KONIGSBERG) سے لیکر پولش کاریڈور (POLISH CORRIDOR) تک رہتے ہیں.ان علاقوں کے جرمنوں کو اپنے حلیف کے ملک میں رہنے کے لئے بھجوا دیا جائے.اس طرح جرمنوں اور یوکرین کی آبادی پولینڈ میں فساد بھی پیدا نہ کرتی رہے گی اور پولینڈ کو سمندر تک کا اچھا راستہ بھی مل جائے گا.غرض میرے نزدیک اس نئی مشکل کا سہل حل یہی ہے کہ جرمنی کے فعل کی قیمت اسی سے وصول کی جائے اور روس سے جھگڑے کی صورت کو نظر انداز کر کے جرمن کی تدبیر کو نا کام کر دیا جائے.اسی سلسلہ میں میرا ارادہ بعض اور مضامین لکھنے کا بھی ہے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ (الفضل ۲۱ رستمبر ۱۹۳۹ء) کیل فیلسوگ ہولسٹائین KIEL SCHLESWIG HOLSTEIN شمالی جرمنی کا دار الحکومت.بحیرہ بالٹک پر بڑی بندرگاہ.۱۹۴۵ ء تک جرمنی کا اہم بحری اڈہ تھا.بحیرہ شمالی سے نہر کیل کے ذریعہ ملحق ہے یہ لمبی مصنوعی آبی شاہراہ ۱۸۹۵ء میں نکلی.میرا ۶ فٹ لمبی اور ۱۴۴ فٹ چوڑی اور ۳۸ فٹ گہری ہے.اسے چار لاک لگے ہوئے ہیں.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۲۵۵.مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء)

Page 378

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب خدام سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة اسبیع الثانی

Page 379

انوار العلوم جلد ۱۵ بِسْمِ خدام سے خطاب اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدام سے خطاب ( تقریر فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع اجتماع خدام الاحمد یہ بمقام قادیان ) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا اجلاس خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہے اور گو اس کے پروگرام کے بعض حصے مجھے دکھا کر مقرر کئے گئے تھے مجھے افسوس ہے کہ ان سے بھی اس بارہ میں ایک غلطی ہوئی اور مجھ سے بھی.دراصل یہ پروگرام اصلاح کے قابل ہے.مثلاً اس کا ایک جزو یہ ہے کہ اس مجلس کو جو کام کے لحاظ سے سال بھر اوّل رہی جھنڈا دیا جائے.جس وقت میں نے یہ تجویز منظور کی اُس وقت میرے ذہن میں یہ امر نہ تھا کہ جماعت کا جھنڈا ابھی قانونی طور پر منظور نہیں ہوا اور اسے جماعت کے سامنے پیش کر کے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ تمہارا جھنڈا ہے اور اسے پیش کئے بغیر ہی اس کی نقل کسی ما تحت مجلس کو دے دینا نا موزوں بات ہے.پہلے تو میں نے اس کی منظوری دے دی مگر گل مجھے خیال آیا کہ پروگرام کا یہ حصہ اصلاح طلب ہے اس لئے میں نے کارپردازان سے کہہ دیا کہ جب ۲۸ دسمبر کو جماعت کا جھنڈا لہرایا جائے گا یا دینی اصطلاح کے مطابق نصب کیا جائے گا اُسی وقت یہ انعامی جھنڈا بھی دے دیا جائے گا.دوسری غلطی اس پروگرام میں یہ ہوئی ہے اور اس کے لئے میں بھی ذمہ دار ہوں کہ یہ جلسہ سالانہ جلسہ کے ایام میں رکھا گیا ہے.ایسا جلسہ جس کا پروگرام کئی گھنٹے کا ہو ان دنوں میں رکھنا منتظمین کو پریشانی میں ڈالنے والی بات ہے.چنانچہ جب میں اس جلسہ میں آنے لگا تو ناظر صاحب ضیافت کا ایک رقعہ مجھے ملا کہ کام کرنے والے ، خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں چلے گئے ہیں کچھ نیشنل لیگ کے کام میں ہیں.ادھر ٹرینیں مہمانوں سے بھری ہوئی آ رہی ہیں اور ان حالات میں میں ان کو کس طرح سنبھال سکتا ہوں جب میرے پاس کام کرنے والے ہی نہ ہوں اور ان کی یہ بات معقول ہے.جن دنوں میں قادیان کے لوگ کام میں

Page 380

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب مشغول ہوں اور آزاد نہ ہوں ایسے جلسے کرنا جن میں قادیان کے لوگوں کی حاضری ضروری ہو ٹھیک نہیں اور ہمیں ایسے جلسے کر کے منتظمین کو پریشانی میں مبتلا کرنا نہیں چاہئے اس لئے آئندہ خدام الاحمدیہ کا جلسہ کسی دوسرے دنوں میں ہونا چاہئے.مثلا شوری کے موقع پر کیا جا سکتا ہے یا اس کیلئے الگ وقت مقرر کئے جائیں تو یہ زیادہ موزوں ہوگا.الگ دن مقرر کرنے سے شروع میں کچھ دقت ضرور پیش آئے گی اور بعض ممبر شریک نہیں ہوں گے مگر اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جن لوگوں کے نزدیک ممبری کی اتنی اہمیت بھی نہ ہو کہ وہ اپنے جلسہ کے لئے سال میں ایک بار جمع ہو جائیں وہ دراصل ممبری کے قابل ہی نہیں ہیں.خاکساروں کو دیکھو اس نام نہاد جہاد میں جو انہوں نے لکھنؤ میں شروع کر رکھا تھا وہ اپنے پاس سے کرایہ خرچ کر کے پہنچتے رہے ہیں اور اس طرح قید ہو کر اپنا کاروبار علیحدہ تباہ کرتے رہے ہیں اور دیگر نقصان علیحدہ کرتے رہے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر دوسرے ایام میں اپنے جلسہ میں شرکت کے لئے نہ آئیں اور پھر جو نہ آئیں ان کے متعلق کسی تشویش میں پڑنا اور خیال کرنا کہ کیا ہو گا باطل بات ہے ہمیں ایسے حکموں کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.پس میرے نزدیک شورای کے موقع پر جلسہ منعقد کرنے کی نسبت بھی یہ بہت بہتر ہے کہ الگ ایام مقرر کئے جائیں اس سے نو جوانوں کو اس تحریک میں شمولیت کی بھی ترغیب ہوگی اور یہ طریق گویا اس تحریک کی مضبوطی کا موجب ہوگا.جب میں نے مجلس شوری کا قیام کیا تو شروع میں زیادہ لوگ نہیں آتے تھے مگر اب سینکڑوں ایسے آ جاتے ہیں جو مبر بھی نہیں ہوتے اور صرف کا رروائی سننے کیلئے آ جاتے ہیں.اس طرح اگر خدام الاحمدیہ اپنے جلسہ کے لئے الگ دن مقرر کرے تو سینکڑوں نوجوان ان دنوں میں بھی فائدہ اُٹھانے کی غرض سے قادیان آجائیں گے اور سینکڑوں کو تحریک ہوگی کہ وہ ممبر بنیں.میرا بچپن سے یہ تجربہ ہے کہ کوئی اچھا کام جب شروع کر دیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو جاتا ہے.میری طبیعت میں بچپن سے ہی انتہائی احتیاط کی عادت ہے.بعض لوگ تو اسے وہم کہتے ہیں مگر میں تو اسے توجہ ہی کہوں گا.جب تک کوئی کام پوری طرح نہ ہو جائے مجھے اطمینان نہیں ہوتا.یہ بالکل ایسی ہی کیفیت ہے کہ جب تک بچہ ماں کے پاس نہ ہوا سے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ خیال کرتی ہے کہ شاید ٹھوکر لگ کر گر ہی نہ گیا ہو، ریل کے کسی حادثہ کا شکار نہ ہو گیا ہو، موٹر کے نیچے آ کر کچلا نہ گیا ہو ، وہ جو اب تک آیا نہیں تو ایسا نہ ہو کہ کسی مشکل میں پھنسا ہوا ہو.اسی طرح مجھے بھی اطمینان نہیں ہوتا کہ کام ہو گیا ہوگا اور اس عادت کو میں چونکہ مفید سمجھتا ہوں اس لئے اسے دور کرنے کی کوشش

Page 381

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب میں نے کبھی نہیں کی.ہمارے ملک میں یہ عام مرض ہے کہ جسے کوئی کام سپرد کیا جائے وہ گھر بیٹھے بیٹھے ہی فرض کر لیتا ہے کہ ہو گیا ہو گا یہ درست نہیں.میں نے اپنی اس عادت سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے اور بسا اوقات نہایت خطرناک نتائج سے جماعت محض اس عادت کی وجہ سے بچ گئی.کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ناظر یا کسی اور شخص کو کوئی کام بتایا گیا اس نے آگے دوسرے کے سپر د کر دیا اور خود فرض کر لیا کہ ہو گیا ہوگا لیکن مجھے گھر میں بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا اور میں نے پتہ کرایا تو معلوم ہوا نہیں ہوا تھا اور اس طرح وہ بر وقت کر لیا گیا اور اس وجہ سے کئی حوادث سے جماعت بچ گئی.میرے توجہ دلانے سے وہ کام ہو گیا اور نقصان نہ ہوا اور خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ بھی اس عادت کی نقل کریں.ہندوستان میں نکما پین کی زیادہ وجہ یہی ہے کہ لوگ قیاس بہت کرتے ہیں.ہمارے ہاں بھی روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں.کئی بار میں کوئی کام بتا تا ہوں اور جب پرائیوٹ سیکرٹری سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہو گیا ہے مگر جب بعد میں غلطی کا علم ہوتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے فلاں شخص کو کہ دیا تھا اور خیال تھا کہ اس نے کر دیا ہو گا.حالانکہ کام جس شخص کے سپر د کیا جائے اسے یقین ہونا چاہئے کہ ہو چکا ہے محض قیاس کر کے مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے.یہ نکھا پن کی علامت ہے.ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کوئی شخص سفر پر گیا اور کسی لڑکے کو بطور خادم ساتھ لے گیا ایک رات وہ کسی سرائے میں ٹھہرے.رات کو بارش شروع ہو گئی اسے چونکہ خیال تھا کہ بارش ختم ہوتو سفر شروع کر کے آگے چلیں تا یہ جلد طے ہو اس لئے رات کو کئی بار اُس کی آنکھ کھلی.اُس نے نوکر کو آواز دی اور کہا کہ باہر جا کر دیکھو بارش ہو رہی ہے یا نہیں ؟ مگر نوکر نے بجائے اس کے کہ باہر جا کر دیکھتا وہیں پڑے پڑے جواب دیا کہ ابھی باہر سے بلی آئی تھی میں نے دیکھا وہ بھیگی ہوئی تھی اس لئے بارش ضرور ہو رہی ہے.حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں.ممکن تھا بلی کسی نالی میں سے گزر کر آئی ہو اور اس وجہ سے بھیگ گئی ہو یا کسی اور وجہ سے ہو.تھوڑی دیر کے بعد اس نے نوکر سے کہا کہ لیمپ گل کر دو.اُس نے جواب دیا کہ آپ کو اندھیرے میں نیند آتی ہے مگر میں روشنی میں سونے کا عادی ہوں اگر لیمپ گل کر دیا گیا تو مجھے نیند نہیں آئے گی اس لئے آپ منہ پر لحاف ڈال لیں آپ کے لئے گویا لیمپ بجھ گیا.تھوڑی دیر بعد اس نے پھر کہا کہ ہوا تیز آ رہی ہے اُٹھ کر دروازہ بند کر دو تو اس نے جواب دیا کہ دو کام میں نے کر دیئے ہیں ایک آپ خود اُٹھ کر کر لیں.تو اس قسم کی ستیاں ہمیشہ قیاس آرائیوں سے پیدا ہوتی ہیں.ایسے ہی قیاس کی ایک اور مثال بھی ہے.ایسا

Page 382

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب قیاس کر لینا کہ یوں ہو گا محض سستی کا نتیجہ ہوتا ہے اور ایسے لوگ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات اتنے دلیر ہو جاتے ہیں کہ کہہ دیتے ہیں فلاں کام یوں ہو گیا.وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ میرا خیال ہے ہو گیا ہوگا بلکہ خیال کا لفظ بھی بیچ میں سے اُڑا دیتے ہیں اور بڑی دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ ہو گیا ہے اور اکثر کاموں میں خرابی ایسے خیالات کے نتیجہ میں ہوتی ہے.ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ اس عادت کو بالکل چھوڑ دیں اور قیاس سے کام نہ لیا کریں جب تک ذاتی طور پر یہ اطمینان نہ کر لیں کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا وہ ہو چکا ہے.ان کو وہم رہے کہ شاید خراب ہو گیا ہو.واقعات کی دنیا میں واقعات کو دیکھا کریں واقعات کی دنیا میں قیاس کا کوئی کام نہیں.میں ہمیشہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے یہ مرض دور نہیں ہوتا اور قیاس سے بہت کام لیا جاتا ہے.اہلِ حدیث کا عقیدہ ہے کہ جس نے پہلے قیاس کیا وہ شیطان تھا.پہلے مجھے اس قول کی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے.قیاس یوں تو اچھی چیز ہے لیکن واقعات میں اس کو داخل کر ناسخت خطر ناک ہے.ایک فلسفی اگر فلسفہ کے مسائل میں قیاس سے کام لیتا ہے تو یہ بات تو سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن واقعات کی دنیا میں اس کا کوئی تعلق نہیں.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کہتے ہیں کوئی شخص کسی کے پاس مہمان گیا میزبان خود نہایت با قاعدہ اور وقت کا پابند آدمی تھا اور اپنے ملازموں کو بھی اس نے وقت کا پابند بنایا ہوا تھا.اس نے اندازہ کیا ہوا تھا کہ اگر نوکر کو فلاں دُکان پر بھیجا جائے تو وہ کتنے منٹ میں واپس آتا ہے وہ اپنے مہان کو اپنے نوکروں کی ہنر مندی بھی دکھانا چاہتا تھا اس لئے اس نے مہمان کے آگے کھانا رکھوا دیا اور نوکر سے کہا کہ فلاں دُکان سے جا کر فوراً دہی لے آؤ تھوڑی دیر بعد اس نے مہمان سے کہا کہ اب وہ دکان پر پہنچ چکا ہوگا.اب رہی لے چکا ہوگا اور واپس آ رہا ہو گا.اب فلاں مقام پر پہنچ گیا ہو گا.بس آپ کھانا شروع کریں وہ آیا ہی چاہتا ہے اور ساتھ آواز دی کہ ارے فلاں آ گیا.اِدھر اُس نے یہ کہا اور اُدھر اس نے جواب دیا کہ ہاں حضور آ گیا.مہمان یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس نے کہا کہ نوکروں کا ایساسد ھا ہوا ہونا تو بہت عزت افزائی کا موجب ہے.ایسے آقا کی بھی ہر دیکھنے والا تعریف کرنے پر مجبور ہے.اس لئے مجھے بھی اپنے نوکروں کو اسی طرح سیدھانا چاہئے چنانچہ گھر واپس پہنچا تو اس نے بھی نوکروں کو ڈانٹنا ڈ پٹنا شروع کیا کہ کام جلدی جلدی اور وقت کی پابندی کے ساتھ کیا کرو.مگر جو شخص خود پابند نہ ہو اور جس کے نوکر روز دیکھیں کہ وہ خود وقت کا پابند نہیں اور سُست آدمی ہے تو

Page 383

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب خالی ڈانٹ ڈپٹ ان پر کیا اثر کر سکتی ہے.کچھ عرصہ بعد وہی شخص اس کے ہاں مہمان ہوا اس نے بھی اپنے نوکروں کی مستعدی اور سلیقہ شعاری دکھانے کے لئے اسی طرح کیا.یعنی کھانا اس کے سامنے رکھ کر نوکر کو دہی کے لئے بھیجا اور کہنا شروع کیا کہ اب وہاں پہنچا ہو گا.اب کوٹ رہا ہوگا اب فلاں جگہ ہو گا.اب بس پہنچا ہی چاہتا ہے آپ کھانا شروع کریں اور پھر نام لے کر آواز دی کہ کیوں بھئی آگئے.اُدھر سے نوکر نے کہا کہ جی آپ تو عقل ہی مار دیتے ہیں میں تو ابھی جوتا ہی تلاش کر رہا ہوں.یہ لطیفہ دراصل ہندوستانیوں کی ذہنیت کا نقشہ ہے.وہ اس طرح قیاس کر لیتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اچھے اچھے تعلیم یافتہ بی اے اور ایم اے پاس اسی مرض کا شکار ہیں.وہ کہلاتے تو بی اے اور ایم اے ہیں مگر عقل کے لحاظ سے وہ پرائمری پاس بھی نہیں ہوتے.اس کی بڑی وجہ تو سستی ہے اور جب سستی کے باعث کوئی کام نہ کیا تو پھر قیاس کرتے ہیں بہانہ سازی سے کام لیتے ہیں اور بسا اوقات تو میں نے دیکھا ہے کہ کسی بات کے لئے جو ہدایات دی جاتی ہیں خود اپنے پاس سے ہی ان کا جواب بھی دے دیتے ہیں نہ پیغام آگے پہنچاتے ہیں اور نہ اس کی بات سنتے ہیں بلکہ خود بخود ہی جواب دینا شروع کر دیتے ہیں.پس میں خدام الاحمدیہ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے دنیا میں کوئی کام کرنا ہے تو قیاس کرنا چھوڑ دو.جب کوئی کام تمہارے سپرد کیا جائے تو اسے پورے وقت پر ادا کرو اور جب تک خود نہ دیکھ لو کہ وہ ہو گیا ہے مطمئن نہ ہو.گھر بیٹھے بیٹھے ہی یہ قیاس کر لینا کہ کام ہو گیا ہو گا اول درجہ کی نالائقی اور حماقت ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کام نہ کرنے کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دماغ بھی ٹھیک طور پر کام نہیں کرتے اور یہ حالت ہے کہ کسی کو پیغام کچھ دو اور وہ آگے پہنچائیں گے کچھ اور، دماغ بات سنتے اور سمجھتے ہی نہیں.اس لئے خدام الاحمدیہ یہ بھی مشق کریں کہ جو پیغام دیا جائے اسے صحیح طور پر پہنچاسکیں.فوجوں میں یہ دستور ہے کہ اس کی مشق کرائی جاتی ہے جب کسی کو کوئی افسر پیغام دے تو دینے کے بعد پوچھتا ہے میں نے کیا کہا اور پھر وہ شخص اسے دُہراتا ہے.پچھلی جنگ میں ایک تجربہ کیا گیا کہ کس طرح بات دُور تک پہنچتے پہنچتے کیا بن جاتی ہے.فرانس کے جنگی محاذ پر شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم کے نام سے تخت نشین ہو کر ریٹائر ہو چکے ہیں گئے تو ایک بڑی بھاری پریڈ ہوئی جس میں یہ تجربہ دکھایا گیا کہ پیغام پہنچانے میں لوگ کیسی کیسی غلطیاں کرتے ہیں.جرنیل نے پہلے سپاہی کو پیغام دیا کہ آگے پہنچا دو کہ شہزادہ ویلز آئے ہیں اور آخری افسر کو جو اطلاع اس طرح ملی وہ یہ تھی کہ دو پیسے مل گئے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوئی کہ ایک سے دوسرے اور تیسرے تک بات

Page 384

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب کے پہنچنے میں کچھ تو لب ولہجہ کی تبدیلی سے فرق پڑا اور کچھ یہ کہ سننے والے نے قیاس کر لیا.یہ تو تجربہ کرنے کے لئے پیغام بھیجا گیا تھا لیکن اگر واقعی یہ پیغام پہنچانا مقصود ہوتا تو کس قدر نقصان ہوتا.پس کام میں قیاس کرنا چھوڑ دو.دیکھو جب کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہو جا تا ہے تو کس طرح اس کے دل میں مختلف وساوس اُٹھتے ہیں.وہ یہی قیاس نہیں کر لیتی کہ وہ آرام سے بیٹھا ہو گا بلکہ سوچتی ہے کہ کہیں بھینس کا پاؤں اس پر نہ آ گیا ہو، گھوڑے نے اسے دوستی نہ مار دی ہو، گدھے نے لات نہ ماردی ہو، سیڑھی سے گر کر اس کا سر نہ پھٹ گیا ہو ، کوئی اسے اُٹھا کر نہ لے گیا ہو اور یہ ایک طبعی بات ہے.جب تک یہ وساوس اس کے دل میں پیدا نہ ہوں وہ اپنے بچہ کی پوری پوری نگرانی کر ہی نہیں سکتی.پس تم بھی کام کی اسی طرح نگرانی کرو.کام سے محبت کا علم ہی اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وساوس پیدا ہونے لگیں.بڑی سے بڑی تعلیم یافتہ ماں کو دیکھ لو بچہ کا سوال آتے ہی فوراً اس کے دل میں وساوس پیدا ہونے لگیں گے.یہ دراصل کامل محبت کا نتیجہ ہے وہ دنیا بھر کے معاملات کے متعلق قیاسات کرلے گی لیکن بچہ کا سوال سامنے آتے ہی اس کے دل میں وساوس پیدا ہونے لگیں گے اور یہ کامل محبت کا نتیجہ ہے پس اس قسم کی احتیاط بہت اچھی بات ہے.حضرت خلیفہ اول بعض اوقات کوئی بات کہہ دیتے مگر پھر خیال ہوتا کہ وہ شاید مجھے بُری لگی ہے مجھ سے پوچھتے تو میں انکار کرتا.مگر آپ فرماتے میاں! مجھے خیال تھا کہ شاید بُری لگی ہو.عشق است و ہزار بدگمانی.مجھے چونکہ آپ سے بہت محبت ہے اس لئے مجھے شبہ رہتا ہے کہ کہیں ناراض تو نہیں ہو گئے.پس یا درکھو کہ اگر دل میں وسوسہ پیدا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ عشق نہیں ہے.یہ ناممکن ہے کہ کام کا عشق ہو اور دل میں وسوسے پیدا نہ ہوں اور رہ رہ کر یہ خیال نہ آئے کہ شاید کام نہ ہوا ہو.میری عمر میں بیسیوں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ میں نے اپنی اس طبیعت کی وجہ سے گھر بیٹھے بیٹھے بیسیوں کاموں کی اصلاح کرا دی.میں نے کسی کام کے لئے کہا اور ناظر متعلقہ نے اس کا آرڈر دے کر سمجھ لیا کہ ہو گیا اور جب میں نے دریافت کرایا تو کہہ دیا کہ ہو گیا ہے لیکن جب تحقیقات کرائی گئی تو معلوم ہوا نہیں ہوا اور میں نے اسے پھر کرایا.پس ایک بات تو یہ یادرکھو کہ جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اس کے متعلق کبھی مطمئن نہ ہو جب تک خود تسلی نہ کر لو کہ وہ ہو گیا ہے.آنکھ سے نہ دیکھ لو یا اسے آنکھوں سے دیکھنے والا خود تمہارے سامنے بیان نہ کرے کہ وہ ہو گیا ہے اور دوسرے یہ بات یاد رکھو کہ یہ خیال کبھی نہ کرو کہ

Page 385

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب فلاں بات ہو نہیں سکتی.آج کل نوجوانوں سے ایسی باتیں بکثرت سننے میں آتی ہیں کہ کوئی مانتا نہیں ، کوئی سنتا نہیں، یہ بھی بزدلی اور کمزوری کی علامت ہے.جب کوئی اچھا کام سامنے آئے اس کے متعلق پہلے احتیاط کے ساتھ اچھی طرح غور کر لو اور دیکھ لو کہ جہاں تک انسانی کوشش کا سوال ہے یہ ایسا تو نہیں جو ناممکن ہو اور کارکنوں پر اس سے ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ تو نہیں پڑتا اور جب فیصلہ کر لو کہ یہ طاقت کے اندر ہے تو پھر یہ کوئی قابلِ غور سوال نہیں کہ کوئی کرے گا یا نہیں.تم خود سے شروع کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ کوئی تمہارے ساتھ ہوتا ہے یا نہیں.میرے بچپن کے کئی کام ایسے ہیں جنہیں آج اتنی تنظیم کے باوجود بھی ہم بآسانی نہیں کر سکتے.جب ولایت میں مشن قائم ہوا تو خواجہ صاحب ( خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم) نے وہاں سے لکھنا شروع کیا کہ ایک اور آدمی یہاں بھیجا جائے.حضرت خلیفہ اول نے صدرانجمن احمدیہ کو جو خزانہ کی مالک تھی حکم دیا کہ خواجہ صاحب کی مدد کے لئے کوئی آدمی بھیجنے کا انتظام کیا جائے.اس کے لئے کئی کمیٹیاں قائم ہوئیں.سب نشیب و فراز پر غور کیا گیا، کئی دقتیں سامنے آئیں ، خرچ کا سوال بہت مشکل تھا.ایک دن حضرت خلیفہ اول نے مجھے فرمایا کہ خواجہ بہت تنگ کر رہا ہے.میں نے مولوی محمد علی صاحب سے بھی کہا کہ کوئی انتظام کیا جائے وہ بھی کوئی تجویز نہیں کرتے.انجمن بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی اور میں اس وجہ سے بہت پریشان ہوں.اُدھر کام خراب ہو رہا ہے اور ادھر یہ لوگ کوئی توجہ ہی نہیں کرتے.میں وہاں سے اٹھا اور انصار اللہ کی مجلس میں اس بات کو پیش کیا اور کہا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں کوئی شخص اپنے آپ کو پیش کرے.چودھری فتح محمد صاحب نے کہا کہ میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں.اب سوال کرایہ کا رہ گیا.چودھری صاحب نے کہا کہ تھرڈ کلاس کا جو کرا یہ لگتا ہے وہ مجھے دے دیا جائے معلوم ہوا کرا یہ دوسو کے قریب ہو گا.سو روپیہ خرچ خوراک وغیرہ کے لئے رکھ لیا گیا اور چند دوستوں نے اُسی وقت یہ روپیہ پورا کر دیا اور میں نے جا کر حضرت خلیفہ اول سے کہہ دیا کہ آدمی بھی تیار ہو گیا ہے اور روپیہ کا انتظام بھی ہو چکا ہے تو اس طرح میں نے انگلستان میں مشن قائم کیا.چودھری فتح محمد صاحب نے وہاں بعد میں الگ مشن قائم کیا.تو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں مجھے کامیاب کیا کہ جس کام کیلئے صدر انجمن احمد یہ کئی مہینے مشورے اور تجویزیں کرتی رہی میں نے وہ چند منٹ میں کر دیا.آدمی بھی تیار کر لیا اور روپیہ بھی فراہم ہو گیا.اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے.قادیان میں علمی ترقی کے لئے میں نے انجمن سے یہ کہا کہ کوئی انتظام کیا جائے.جب تک یہاں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جو عربی ممالک میں تعلیم

Page 386

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب حاصل کر کے آئے یہاں علمی ترقی نہ ہو سکے گی مگر انجمن نے ہمیشہ مالی مشکلات کا عذر پیش کیا.میں نے چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ کچھ بوجھ آپ اُٹھائیں اور کچھ میں اُٹھاتا ہوں اور ایک آدمی مصر بھیجا جائے.وہ آمادہ ہو گئے اور میں نے شیخ عبد الرحمن مصری کو جواب مرتد ہو چکے ہیں مصر بھیج دیا کہ وہاں سے عربی کی تعلیم حاصل کر کے آؤ تا سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچے.ہم دو چار آدمیوں نے ہی مل کر ان کے لئے کرایہ وغیرہ کا انتظام کر دیا.وہ اُس وقت ملا زم تھے اس لئے تنخواہ یہاں بال بچوں کو ملتی رہی اور وہاں کے اخراجات میں بھجوا تا رہا.اس کام کے لئے انجمن مدتوں سوچتی رہی مگر میں نے خیال کیا کہ اگر یہ بات اچھی ہے تو میں اسے شروع کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ خود تکمیل تک پہنچا دے گا اور یہ میرے کام اس وقت کے ہیں جب میں ابھی بچہ تھا.خدام الاحمدیہ کے بہت سے ممبروں کے لحاظ سے میں بچہ تھا.اس کی ممبری کے لئے چالیس سال تک عمر کی شرط ہے مگر میری عمر اُس زمانہ میں ۲۲ ،۲۳ سال ہو گی اور کئی کام تو اس سے بھی پہلے زمانہ کے ہیں.اس زمانہ میں چودھری فتح محمد صاحب اور بعض دوسرے نو جوان سکولوں اور کالجوں میں پڑھا کرتے تھے.میری آنکھوں میں لکرے ہو گئے تھے اس لئے میں نے سکول میں پڑھنا چھوڑ دیا تھا اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل سے طب اور بخاری پڑھا کرتا تھا.ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب بڑے تبلیغ کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں اور اس کے لئے کیا ذریعہ اختیار کریں.آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ جس طرح رسالہ ریویو نکلتا ہے ہم بھی ایک رسالہ جاری کریں.سب نے مجھ سے کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت حاصل کریں اور نام بھی رکھوائیں.آپ نے اجازت دے دی اور تفخیذ الا ذبان نام رکھا.اب اس کے اخراجات کا سوال تھا.ہم نے فیصلہ کیا جو جیب خرچ ملتا ہے اس میں سے ایک ایک روپیہ چندہ دیں گے.پہلے سات ممبر تھے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ سہ ماہی رسالہ نکالا جائے.مضمون تو ہم خود لکھ لیں گے پیکٹ وغیرہ بھی خود بنالیں گے.اندازہ کیا گیا تو ۲۵ ،۳۰ روپیہ خرچہ کتابت اور طباعت وغیرہ کا تھا.ہم نے سوچا کہ کوئی نہ کوئی خریدار بھی تو مل ہی جائے گا.پہلے دو تین پر چے ہم نے خود اپنے ہاتھ سے پیک وغیرہ کئے ٹکٹ لگائے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اسے جلد ہی ترقی حاصل ہوگئی.تو رسالہ کا نکالنا کوئی معمولی بات نہیں مگر میں نے اسے شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ چل نکلا گو بعد میں میں نے ہی اسے رسالہ ریویو میں مدغم کر دیا کیونکہ ریویو کی حالت اچھی نہ تھی اور میں چاہتا تھا کہ ساری توجہ اسی کی طرف ہو.کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 387

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب کا جاری کردہ ہے.اسی طرح میری خلافت کے ایام میں بھی بیسیوں امور ایسے پیش آئے کہ جب میں نے ان کو شروع کیا تو لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ایسا بوجھ ہے جسے قوم اُٹھا نہیں سکتی مگر آخر وہ کام خدا تعالیٰ نے کر دیئے.میرا تو یہ ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ جب پوری سوچ بچار اور احتیاطوں کے باوجود میں نے دیکھا کہ کام ضروری ہے تو پھر میں نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ کیا نتیجہ ہو گا اور تو كُلاً عَلَى الله اسے شروع کر دیا اور یہی سمجھا کہ اگر یہ کام اچھا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے خود تکمیل تک پہنچا دے گا.پس یاد رکھو کہ کسی کام کو شروع کرتے وقت یہ خیال کرنا کہ لوگ مانتے نہیں اول درجہ کی بزدلی ہے.تمہیں لوگوں سے کیا اگر وہ کام اچھا ہے تو تم خودا سے کرو خواہ بالکل اکیلے ہوا سے شروع کر دو دوسروں کی ذمہ داری تم پر نہیں تم اپنا فرض ادا کرنا شروع کر دو.رسول کریم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ تم پر اپنے نفس کی ذمہ داری ہے لوگوں کی نہیں لے.پس خدام الاحمدیہ اپنے آپ کو اُس وقت تک مفید وجود نہیں بنا سکتے جب تک کہ وہ اس یقین اور تو کل پر اپنے کاموں کی بنیاد نہ رکھیں گے کہ جو کام اچھا ہے اس میں ہم نے دوسروں کو نہیں دیکھنا کہ وہ شامل ہوتے ہیں یا نہیں تم کو اس سے کیا کہ کوئی ساتھ ہو گا یا نہیں تم اپنا فرض ادا کرو.بہ خیال بھی بالکل غلط ہے کہ اگر کوئی اور ساتھ نہ ملا تو سبکی ہوگی.دیکھو اس وقت تک جتنے انبیاء گزرے ہیں وہ بھی اگر اسی سبکی کے خیال سے کام کرنے سے محترز رہتے تو دنیا کا نقشہ کیا ہوتا.ان میں سے کسی نے بھی اس سبکی کا خیال نہیں کیا.حضرت آدم کو جب اللہ تعالیٰ نے پیغام دیا تو انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا.حضرت نوح کو دیا تو انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ نتیجہ کیا ہو گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ پیغام دیا تو وہ کب سوچنے بیٹھے کہ انجام کیا ہوگا.ان میں سے کسی نے بھی انجام کی پرواہ نہیں کی بلکہ جسے بھی حکم ملا وہ کام کرنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگتا رہا.اگر یہ کام انسانی ہوتا تو حالات کو مد نظر رکھ کر بتاؤ کہ ان کی ناکامی میں شبہ ہی کیا تھا.یہ سب انبیاء بڑے بڑے دعوے لیکر مبعوث ہوئے تھے.حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی ، رسول کریم ہے ان میں سے کس کا دعویٰ چھوٹا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کتنا بڑا تھا.مگر ان میں سے کب کسی نے یہ خیال کیا کہ اسے کون مانے گا.ان کے سامنے صرف یہی بات تھی کہ خدا تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل ہو یہ خیال بالکل نہ تھا کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ نبی کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ جیت جائے گا اس لئے وہ پر واہ نہیں کرتا.مگر میں کہتا ہوں کہ مومن کو بھی اس کا پتہ ہوتا ہے.قرآن کریم میں مومن کے لئے بھی کامیابی کا وعدہ موجود ہے

Page 388

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب فرق صرف تفاصیل کا ہے.قرآن کریم سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ مومن بھی دنیا میں ہارا کرتے ہیں نبی اور مومن دونوں کے لئے جیتنا مقدر ہے فرق صرف تفاصیل کا ہے.پس جب تک اپنے اندر یہ یقین اور تو کل پیدا نہ کیا جائے کہ اگر کام اچھا ہے تو اسے کرنا ہے خواہ کوئی ساتھ شامل ہو یا نہ ہو اُس وقت تک کامیابی محال ہے.جب یہ فیصلہ کر لو کہ کوئی کام اچھا ہے اور طاقت سے باہر نہیں ہے تو لوگ خواہ تمسخر کر میں خواہ کچھ کہیں اسے شروع کر دو اور اگر تم ایسا کرو تو وہ کام ضرور ہو جائے گا.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول جب درس دے کر واپس آتے تو اُن دنوں جلانے کے لئے گڈوں پر اُپلے آیا کرتے تھے.مجھے دو تین مواقع ایسے یاد ہیں کہ چھوٹی بیت کی سیڑھیوں کے پاس چوک میں وہ اُپلے پڑے ہوتے.بارش کے آثار ہوتے تو خادم ان سے کہتا کہ دو چار آدمی دے دیں تا ان کو اندر رکھ لیں.آپ فرماتے کہ چلو ہم آدمی بن جاتے ہیں اور قرآن شریف کسی کے ہاتھ میں دے کر اُپلے اُٹھانے لگ جاتے اور پھر دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے.پس کام کرنے سے دل پرانا بھی ایک مخفی رکبر کا نتیجہ ہوتا ہے اور جب تک یہ خیال دل سے نہ نکالو گے کہ ہم اکیلے کس طرح کام کر سکتے ہیں کامیابی کی توقع فضول ہے.پہلے اچھی طرح کام کے متعلق سوچ لو اور پوری احتیاط کے ساتھ غور کر لو اور ایسی اچھی طرح سوچ لو کہ جیسے کہتے ہیں پہلے تو لو پھر منہ سے بولو لیکن جب یہ سمجھ لو کہ یہ کام خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے تو پھر دائیں بائیں نظرمت ڈالوتم خودا سے شروع کر دو.اگر کوئی تمہارے ساتھ شامل ہوتا ہے تو سمجھو اس نے تم پر احسان کیا اور اگر نہیں تو اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور جب تم خود ایسی ذہنیت اپنے اندر پیدا کر لو گے تو اللہ تعالیٰ خود دوسروں کو تمہاری امداد کے لئے الہام کرے گا.یاد رکھو کہ دین کے کام انسانی تدبیروں سے نہیں ہوا کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے ہوتے ہیں.نادان خیال کرتے ہیں کہ الہام ہمیشہ لفظوں میں ہی ہوتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں.شرعی احکام کی تفاصیل اور عبادات سے تعلق رکھنے والا الہام ضرور کلام میں ہوتا ہے مگر نیک کام میں مدد کا الہام ضروری نہیں کہ لفظوں میں ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم وحی کریں گے.تو دینی کاموں میں امداد کے لئے اللہ تعالیٰ عام لوگوں کے دلوں میں الہام کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ ان کو توجہ ہو جاتی ہے کہ ہم بھی اس کام میں مدد کریں.پس جو ضروری کام ہو اُسے انسان کی مدد کے خیال کے بغیر شروع کر دو پھر اللہ تعالیٰ نصرت کرتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ

Page 389

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب کا بندہ بن جاتا ہے تو اس کی نگاہ دوسرے انسان کی طرف اُٹھتی ہی نہیں اور اس کے اندر ایسا تو کل اور عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بڑے سے بڑے کام میں ہاتھ ڈالنے سے نہیں ڈرتا.میں نے دیکھا ہے کہ ہر بڑی تحریک جو میں نے شروع کی بعض دفعہ ابتداء میں لوگوں نے ڈرایا بھی کہ یہ کامیاب نہیں ہوگی مگر میں کبھی جھجھکا نہیں اور نا کامی کے خوف سے کبھی نہیں ڈرا.اس کام کے ہو جانے کے متعلق دعائیں کرتا رہا ہوں مگر یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ ہوگا نہیں یا یہ کہ اگر نہ ہوا تو کیا ہوگا اور پھر یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ہوا نہ ہو.تعویق بعض دفعہ بے شک ہوتی ہے اور بعض اوقات رکاوٹیں بھی پیدا ہوتی ہیں مگر آخر کا ر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہو گیا.پس آج میں یہ دو باتیں خاص طور پر خدام الاحمدیہ سے کہنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ واقعات کی دنیا میں قیاس سے کام نہ لو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اس کے متعلق اُس وقت تک مطمئن نہ ہو جا ؤ جب تک کہ وہ ہو نہ جائے اور دوسرے یہ کہ کام اختیار کرتے وقت پوری احتیاط سے کام لو.وہ کام اپنے یا دوسروں کے ذمہ نہ لگا ؤ جو تم جانتے ہو کہ نہیں کر سکتے اور جب اس امر کا اطمینان کر لو کہ اچھا کام ہے اور تم کر سکتے ہو تو پھر خود ا سے کرنے سے مت جھجھکو پھر جب یہ دیکھو کہ کام ضروری ہے مگر تمہارا نفس کہتا ہے کہ تم اسے کر نہیں سکتے تو اپنے نفس سے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور غلط کہتا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ ضرور کر دے گا اور پھر اسے شروع کر دو.جب ماں اپنے بچہ کی ضرورتیں پوری کرتی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کی ضرورت کو پورا نہ کرے.پس یہ دونوں پہلو اپنی زندگی میں مد نظر رکھو تو پھر تکلیف میں نہیں پڑو گے اور کامیابی حاصل کر سکو گے.میں نے ایک واقعہ اپنی زندگی کا کئی بار سنایا ہے.اُس وقت میری عمر صرف انیس سال تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے.آپ کی بعض پیشگوئیوں کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ابھی آپ فوت نہیں ہوں گے.جس وقت آپ کی وفات ہوئی ہے میں نے اپنے کانوں سے ایک شخص کو جو بعد میں مُرتد بھی ہو گیا تھا یہ کہتے سنا کہ آپ پیشگوئیوں کے ماتحت فوت نہیں ہوئے.اُس روز میری بڑی بیوی لاہور میں ہی اپنے میکے گئی ہوئی تھیں اور آپ کی ایسی حالت دیکھ کر میں ان کو لینے چلا گیا.جب میں واپس آیا تو آپ کے آخری سانس تھے اور اُس وقت میں نے اپنے کانوں سے یہ الفاظ ایک شخص کے منہ سے سنے.وہ کسی اور سے بات کر رہا تھا.اُس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے

Page 390

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ اگر ساری جماعت بھی پھر جائے تو اے خدا! میں وہ تعلیم جو تو نے دے کر آپ کو مبعوث کیا تھا تنِ تنہا ساری دنیا میں پھیلاؤں گا اور میں ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے منہ سے کہلوا دیئے.اُس عمر میں اور ایسے حالات میں ایسی بات بالکل غیر معمولی ہے.جب قرآن وحدیث پڑھا جا رہا ہو اور ایسی باتیں ہو رہی ہوں اُس وقت ایسی بات کہہ دینا کوئی غیر معمولی نہیں لیکن مصیبت کے وقت تو بڑی بڑی ہمت والے لوگ بھی ایک دوسرے سے گلے مل مل کر روتے ہیں.یہ وہ وقت نہیں تھا کہ جب کوئی خوشی کے واقعات سنا رہا ہو.ایسے واقعات سن کر تو ایک نو جوان کے دل میں جوش پیدا ہوسکتا ہے اور وہ ایسی بات کہہ سکتا ہے لیکن وہ وقت ایسا تھا جب بظاہر ہمارے لئے دینی ودنیوی دونوں ٹھکانے کوٹ رہے تھے اور امید کی بجائے مایوسی کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اُس وقت میری زبان سے ایسا اقرار یقینا اللہ تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت تھا.پس خدام الاحمدیہ اس بات کو ہمیشہ یا درکھیں کہ جب تک ہر ایک یہ نہ سمجھے کہ اس کام کا ذمہ دار میں ہی ہوں اور کوئی نہیں اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پس اپنے اندر یہ روح پیدا کرو اور پھر خدا تعالیٰ پر توکل رکھو کہ وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.میرا یہ ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ جب یہ تو گل پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب کر دیتا ہے اس کے ساتھ کامیابی کے لئے دعائیں کرنا بھی ضروری ہے اور جب دُعا کرنے کے ساتھ یہ یقین ہو جائے کہ یہ قبول ہو گئی ہے تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب تھا تو میں کو ٹھے کی چھت پر دُعا کے لئے گیا.اُس وقت مجھے شدید فکر اور غم بھی تھا مگر دُعا کیلئے میرے اندر وہ جوش پیدا نہ ہوا جس کے نتیجہ میں یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ دُعا قبول ہو گئی ہے.میں بہت دیر تک کوشش کرتا رہا مگر وہ حالت پیدا نہ ہوئی.اس پر مجھے خیال پیدا ہوا کہ شاید میرے دل میں منافقت ہے کہ جس کی وجہ سے جوش دُعا کیلئے پیدا نہیں ہوتا.اس پر میں نے اپنے لئے دُعا شروع کی تو اس میں بہت جوش پیدا ہوا اور اُس وقت میرے دل میں یہ القاء ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں میری دُعا قبول ہو اس لئے وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.تو دُعا کے ساتھ ایسی کیفیت اگر پیدا ہو جائے کہ انسان سمجھے یہ دُعا ضرور قبول ہو جائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے انسان کو جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور وہ سمجھے کہ میری دُعا وہ ضرور قبول کرے گا تو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک قسم کا وائر لیس کا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کامل تو شکل کی

Page 391

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب وجہ سے دل اس سے ایسا پیوست ہو جاتا ہے کہ انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کی دُعا ضرور سنی جائے گی اور جب انسان اس مقام پر پہنچ جائے تو پھر سامانوں کی کمی وغیرہ سے گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس کے لئے ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے سامان خود بخود پیدا کر دیتا ہے.یہی مصری کا فتنہ جب شروع ہوا تو میرے دل میں ایک کرب تھا اور جماعت کے لوگوں میں بھی ایک ہیجان تھا کیونکہ وہ مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر تھا.رات کو جب میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ کوئی فرشتہ ہے یا انسان ہے وہ دوڑا ہوا میرے پاس آیا اور کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں تب میں نے سمجھا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے اور اس وجہ سے مجھے تکلیف میں دیکھ کر آپ برداشت نہیں کر سکے کہ میں اکیلا رہوں تب میں سمجھا کہ گو یہ بڑا آدمی ہے مگر مجھے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا کون ہو سکتا ہے.پس یا درکھو کہ کامیابی کیلئے یہ چیز بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ پر تو کل ہو.پھر اس یقین کی ضرورت ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا اور جو شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے اسے گھبرانے کی کیا ضرورت اور اسے کسی انسان کی طرف سے ہمت اور حوصلہ دلانے کی کیا ضرورت ہے.میں نے دیکھا ہے بعض نادان اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ایسے مواقع پر مجھے حوصلہ دلاتے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچہ فوت ہوا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اس پر ایک نادان نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ! صبر کریں حالانکہ وہ بے صبری کی بات نہ تھی بلکہ ایک ترقم کی کیفیت تھی جو بالکل اور چیز ہے.اسی طرح مجھے یاد ہے جب میری بیوی امتہ الحی فوت ہوئیں تو بہت عرصہ تک یہ حالت تھی کہ میں جب ان کا ذکر کرتا تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے.اس پر ایک شخص نے جواب تو مولوی ہے مگر اُس وقت طالب علم تھا مجھے لکھا کہ آپ صبر سے کام لیں.مجھے خیال آیا کہ اس بے چارہ کو کیا علم ہے کہ صبر کیا چیز ہے.اللہ تعالیٰ کے بندے اس ترحم کی کیفیت کے علاوہ ایسے دلیر ہوتے ہیں کہ ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اُن کو یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.غار ثور میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے اور دشمن نے آ کر اس کا احاطہ کر لیا تو حضرت ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا تحزن إن الله معنا کے اس واقعہ میں دونوں کے عشق کا کیا عجیب نظارہ ہے.

Page 392

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب حضرت ابو بکر اس لئے روئے کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا.آپ جانتے تھے کہ اگر پکڑے گئے تو میرا کیا ہے میں تو ایک عام آدمی ہوں لیکن اگر آنحضرت ﷺ کو کوئی گزند پہنچا تو کیا ہوگا آپ کی ذات پر تو دین کا انحصار ہے اس لئے آپ کا تمام مخزن اس وجہ سے تھا کہ د نیادین سے محروم رہ جائے گی چنانچہ آپ نے اس وقت جو الفاظ کہے وہ یہی تھے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! اگر میں مارا گیا تو کیا ہے میں تو ایک عام آدمی ہوں میرے جیسے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کی ذات پر تو دین کا انحصار ہے.یہ خون بالکل بے مثال ہے اور اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب بھی بے مثال ہے.اُس وقت کفار کو دشمنی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی اس لئے اصل مصیبت آپ کے لئے تھی.حضرت ابو بکر سے گفتار کو کوئی ذاتی دشمنی بہ تھی ان کو تو شاید وہ چھوڑ بھی دیتے اس لئے اگر ذاتی غم ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتا مگر حضرت ابو بکر کی شان یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں يَا رَسُولَ اللَّهِ! مجھے اپنی ذات کا کوئی غم نہیں بلکہ آپ کا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ گواصل مصیبت آپ پر ہے مگر تسلی حضرت ابو بکر کو دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تحزن إن الله معنا جس پر تکالیف کا وقت ہے وہ دوسرے کو تسلی دے رہا ہے اور اسے تسلی دے رہا ہے جس پر مصیبت نہیں.گویا آپ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے نجات دے گا اور یہ یقین جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہو جائے تو پھر اس کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا.نو جوانوں کو جو نا کا میاں ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین اور تو کل نہیں ہوتا اس لئے وہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں لوگ مدد نہیں کرتے ، لوگ چندہ نہیں دیتے.ان کو جتنی اُمید لوگوں سے ہوتی ہے اس کا اگر ہزارواں حصہ بھی خدا تعالیٰ پر ہو تو وہ یقیناً کامیاب ہو جائیں.پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہ یقین اور یہ تو شکل اپنے اندر پیدا کریں.اس کے بعد میں دُعا کر دیتا ہوں دوست بھی دُعا کریں.پھر خدام الاحمدیہ والے شاید اپنی رپورٹ سنائیں گے میں تو چلا جاؤں گا کیونکہ مجھے کام ہے مگر دوست بیٹھے رہیں.میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیاب کرے.لیکن یا درکھیں کہ اصل بات وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے کہ کامیابی کے لئے اتقاء بہت ضروری چیز ہے.اتقاء کے معنے بھی یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لینا اور یہی چیز ہمیں کامیاب کر سکتی ہے ورنہ اگر ہماری

Page 393

انوار العلوم جلد ۱۵ خدام سے خطاب کامیابی کا انحصار د نیوی سامانوں اور تدبیروں پر ہو تو پھر تو جب یہ سامان پورے ہوں گے اُسی وقت کامیابی نصیب ہوگی اور ان سامانوں کے لئے تو صدیاں درکار ہونگی لیکن اگر خدا تعالیٰ پر تو کل ہو تو وہ آج بھی ویسا ہی طاقتور ہے جیسا صدیوں بعد ہوگا اور وہ آج بھی ہمیں کامیاب کر سکتا ہے.اس لئے دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر صحیح تو تکل پیدا کرے.ہمارے دماغوں میں صحیح روشنی پیدا کرے اور عمل کی توفیق دے اور پھر ہمارے عمل کی نسبت سے بہت زیادہ اچھے اور زیادہ شاندار نتائج پیدا کرے.( تاریخ خدام الاحمدیہ جلد اوّل صفحه ۱۰۵ تا ۱۱۵ مطبوعہ ایڈیشن اوّل ) لا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ (النساء: ۸۵) تذکرہ صفحه ۵.ایڈیشن چہارم التوبة ۴۰

Page 394

انوار العلوم جلد ۱۵ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی.حمدیت زندہ ہے زندور ہے گی اور دنیا کی رہے کوئی طاقت اسے مٹانہیں سکے گی از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 395

انوار العلوم جلد ۱۵ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی ( تقریر فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۳۹ ء بر موقع جلسہ سالانہ [ خلافت جو بلی] قادیان ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت میں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی اور مجھے وہ نظارہ یاد آ گیا جو آج سے ۲۵ سال پہلے اُس وقت رونما ہوا تھا جب جماعت میں اختلاف پیدا ہوا تھا اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم ونسق تھا، انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لئے اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو ، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جواب فوت ہو چکے ہیں اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ اس جگہ پر دس سال کے اندراندر احمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اس کے بعد وہ دس سال گزرے، پھر ان کے اوپر دس سال اور گزر گئے ، پھر ان پر چھ سال اور گزر گئے لیکن اگر اُس وقت چند سو آدمی احمدیت کا نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے اور اس لئے جمع ہیں تا کہ خدائے واحد کی تسبیح و تمجید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں (اللہ اکبر کے نعرے) یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مر گئے ، ان کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا مگر احمدیت زندہ رہی زندہ ہے اور زندہ رہے گی دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ

Page 396

انوار العلوم جلد ۱۵ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی.مٹا سکے گی.عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے.عیسائیت تو ہمارا شکار ہے اور عیسائیت کے ممالک ہمارے شکار ہیں.عیسائیت ہمارے مقابلہ میں گرے گی اور ہم اِنشَاءَ اللهُ فتح پائیں گے (نعرہ ہائے تکبیر ) وہ دن گئے جب مریم کا بیٹا خدا کہلاتا تھا.مریم کے جسمانی بیٹے کو انیس سو سال تک دنیا میں خدا کی توحید کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا اور بہتوں کو خدا تعالیٰ کی توحید سے پھرا دیا گیا مگر اب جو مریم کا روحانی بیٹا خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین میں اسی طرح قائم کرے گا جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر قائم ہے.آج ہم اس جگہ پھر جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ اپنی عقیدت اور اپنا اخلاص اپنے رب سے ظاہر کریں اور دنیا کو بتادیں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر متفقہ جد و جہد کرنے کیلئے کھڑی ہے اور خدا تعالیٰ کے دین کیلئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہے.احمدی کہلانے والے پھر ایک دفعہ یہاں جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ ان کا ایک دوسرے کے گھر جا کر ایک دوسرے کے متعلق یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ان کا کیا حال ہے.لاہور کے کسی بازار میں اتفاقاً ایک احمدی دوسرے احمدی کو دو سال بعد دیکھتا تو اسے خیال پیدا ہوتا کہ وہ مرتد تو نہیں ہو گیا.اسی طرح چند سال کے بعد ایک احمدی دوسرے احمدی کو امرتسر کے بازار میں دیکھتا تو خیال کرتا نہ معلوم احمدیت سے اس کا تعلق ہے یا نہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ احمدی ہر سال مرکز میں جمع ہوں، زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں اور مخالفین سے یہ کہتے ہوئے جمع ہوں کہ دیکھ لو خدا تعالی زیادہ سے زیادہ احمدیت کو ترقی دے رہا ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے فاتح ہیں ، ہم قادیان کو مٹادیں گے مگر وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کے مٹانے سے کس طرح احمدیت بڑھ رہی ہے.بچپن میں ہم ایک قصہ سنا کرتے تھے اور اسے لغو سمجھتے تھے مگر روحانی دنیا میں وہ درست ثابت ہوتا ہے.کہا جاتا ہے کوئی دیو تھا.اسے جب قتل کیا جاتا تو اس کے خون کے جتنے قطرے گرتے اتنے ہی اور د یو پیدا ہو جاتے.معلوم ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کا ہی یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کیونکہ انہیں جتنا کچلا جائے ، جتنا دبایا جائے اتنی ہی بڑھتی ہیں اور جتنا گرایا جائے اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر میدان میں احمدیت کی ترقی کے

Page 397

انوار العلوم جلد ۱۵ احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی..سامان کر دیئے ہیں اور احمدیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور نئے نئے ممالک میں احمدی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.سیرالیون سے جو مغربی افریقہ میں ہے حال ہی میں اطلاع موصول ہوئی ہے، اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات تو اگلے لیکچر میں بیان کروں گا اتنا بیان کر دینا اِس وقت مناسب ہے کہ اس جگہ سال بھر سے ایک مبلغ بھیج دیا گیا تھا.وہاں شروع میں حکومت نے بھی مخالفت کی اور غیر مبائعین کا اثر بھی ہمارے خلاف کام کر رہا تھا مگر پرسوں وہاں کے مبلغ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں کے دور میں پانچ سو آدمیوں کے ساتھ احمدی ہو گئے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے يَدْخُلُونَ فِي دِینِ اللہ افواجالے کے نظارے دکھا رہا ہے اور ابھی یہ کیا ہے.پنجابی میں جسے ونگی سے کہا جاتا ہے.وہ یہ ہے یعنی ایک دُکاندار کے پاس جاؤ تو وہ نمونہ کے طور پر تھوڑی سی چیز دکھاتا ہے کہ دیکھو کیسی اچھی ہے.پس یہ تو ؤنگی ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے ورنہ جماعت کیلئے بہت بڑی بڑی فتوحات مقدر ہیں جو ضرور حاصل ہوں گی.پس آؤ! دین کی خدمت کرنے کا مخلصانہ وعدہ کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے خزانے تمہارے لئے کھولے جاتے ہیں.میں اس وقت جلسہ کا افتتاح کرنے کیلئے آیا ہوں.میں پروگرام میں مقرر کردہ وقت پر آنے کے لئے تیار تھا مگر افسوس ہے کہ سٹیج تیار نہ ہونے کی وجہ سے دیر سے افتتاح کرنا پڑا.ذمہ وار افسروں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اس قسم کی غلطیوں سے بچیں.بہر حال اس وقت میں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوا اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی رحمتیں اور افضال جو اس وقت تک کئے آئندہ ان سے بڑھ کر فرمائے تا کہ ہماری حقیر کوششیں بار آور ہوں.اور ہم اس کے فضلوں کے پہلے سے زیادہ مور د ہوں وہ ہماری کوششوں میں برکت دے تا کہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت پھیل جائے اور احمدیت کو ہر جگہ غلبہ اور شوکت عطا فرمائے.پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں یا سست اور عیش پرست ہو جائیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع ، پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کیلئے خرچ کرنے والے ہوں.مسیح کا یہ کہنا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزر جانا آسان ہے لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے غلط ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ عزت اور شوکت اور غلبہ اور طاقت چاہو اور خدا تعالیٰ جو دنیوی انعامات دے ان کو قبول کرو لیکن اس عزت ، اس دولت اور اس طاقت کو خدا کے لئے اور

Page 398

احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی.انوار العلوم جلد ۱۵ اس کی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کیلئے استعمال کرو.پس میں یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ ہمیں عزتیں ، طاقتیں اور شوکتیں نہ دے جو اس نے پہلے نبیوں کی جماعتوں کو دیں کیونکہ یہ ناشکری ہے مگر یہ دعا کرو کہ جب وہ اپنے فضل و کرم سے ترقیاں عطا کرے اور انعامات نازل کرے تو احمدی ان احسانوں کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کی مخلوق کی بھلائی کیلئے خرچ کریں.پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ہمیشہ فتنوں سے محفوظ رکھے اور جب کوئی فتنہ پیدا ہو تو اس پر غلبہ عطا کرے دشمنوں کی تدبیروں کو نا کام اور خائب و خاسر رکھے.پھر یہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارے اعمال میں اصلاح اور برکت پیدا کرے کیونکہ جب تک نیک ارادہ کے ساتھ اعمال کی اصلاح نہیں ہوتی ، کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.پھر ان مبلغین کیلئے دعا کرو جن کے دل چاہتے تھے کہ آج ہمارے ساتھ ہوتے اور خدا تعالیٰ کے اس نشان کو دیکھتے جو احمدیت کی ترقی کا اس نے ظاہر کیا ہے مگر خدا تعالیٰ کے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں آسکے.وہ گوجسمانی طور پر ہم سے دور ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں.کئی ہیں جو ہمارے قریب بیٹھے ہیں اور ان کے دل دور ہیں.مگر وہ جو دور بیٹھے ہیں، وہ ہمارے دل میں ہیں ، ہمارے دماغ میں ہیں، ہماری محبت ان کیلئے ہے اور ہم ان کیلئے دعا گو ہیں.پھر اپنی اولادوں کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین کا خادم بنائے ان میں نَسُلًا بَعْدَ نَسلِ احمدیت کو اس طرح قائم رکھے کہ وہ دین کے مخلص خدمتگار ہوں.خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے خوش ہوں اور اس کی برکتوں کے ابدی وارث بنیں.آمین ( الفضل ۳/ جنوری ۱۹۴۰ء ) ا النصر : ٣ ونگی: نمونه مثل

Page 399

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 400

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مستورات سے خطاب ( تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع [ خلافت جو بلی] جلسہ سالا نہ قادیان) لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے جو ایڈریس اس وقت پڑھا گیا ہے میں پہلے تو اس کے متعلق انہیں جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتا ہوں پھر انہیں یقین دلاتا ہوں کہ طبقہ نسواں کی اصلاح کا کام ہرگز کسی شخص کا احسان نہیں بلکہ یہ ایک فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں اور ان کے جانشینوں کے کندھوں پر عائد کیا جاتا ہے.پس جو فرض میں خدا تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ادا کرتا ہوں وہ کوئی احسان نہیں بلکہ اپنی عاقبت کے لئے میں ایک ذخیرہ جمع کرتا ہوں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اور مرد سب کے سب ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب مرد اور عورتیں مل کر اس کے حضور پاک دل اور نیک ارادہ لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب میں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کریں.سارا قرآن اسی سے بھرا پڑا ہے.چنانچہ جہاں جنت کا ذکر ہے وہاں مردوں اور عورتوں کو اکٹھا شامل کیا ہے.گو احکام میں مردوں اور عورتوں کا اکٹھا ذکر نہیں بلکہ مردوں کے ذکر میں ہی عورتوں کو شامل کر لیا گیا ہے اور در حقیقت قرآن حکیم ہی وہ واحد اور کامل کتاب ہے جس نے عورتوں کے حقوق قائم کئے.اس سے پہلے نہ موسیٰ کی کتاب میں ان تمام حقوق کا ذکر تھا، نہ عیسی کی تعلیمات میں یہ تمام باتیں پائی جاتی تھیں، نہ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور دیگر انبیاء نے ان امور کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا.صرف قرآن کریم ہی ہے جس نے دنیا کو بتلایا کہ عورت بھی ویسی ہی ترقی کی تڑپ اپنے اندر رکھتی ہے جس طرح مرد، اور ویسی ہی اُمنگیں، ویسے ہی جذبات اور ویسی ہی قربانی کی روح اور ارادے رکھتی ہے جس طرح

Page 401

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب مرد ر کھتے ہیں.وہ قرآن کریم ہی ہے جس کے ذریعہ پہلی دفعہ دنیا میں یہ آواز بلند ہوئی کہ ولَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عليمن اے مرد و ! جو عورتوں کے حقوق تلف کرتے آئے ہو اب ہم اعلان کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے بعض حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے بعض حقوق تم پر ہیں.اگر عورتیں دوسری قوموں کو قرآن کریم کا یہ اعلان سنا دیتیں اور اپنے بچوں کو بھی بتا تیں کہ عورتوں کو بھی ایسے ہی اختیارات حاصل ہیں جس طرح مردوں کو ، تو آج دنیا اس تعلیم سے بے بہرہ نہ رہتی اور نہ ذلت میں پھنستی.اس کی ذمہ داری تم پر ہے.اگر تم نے اپنے بیٹوں کو یہ تعلیم دی ہوتی کہ عورتوں کے حقوق شریعت اسلامیہ نے قائم کئے ہوئے ہیں جنہیں تو ڑ نا شدید ترین گناہ ہے تو تم کبھی غلامی کی زنجیروں میں نہ جکڑی جاتیں.پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں سے کرانا ہر مؤمن کا فرض ہے، کسی کا احسان نہیں.اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے کوئی کوتا ہی نہیں ہو سکتی.اور جب تک کوئی خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہے عورتوں کی ترقی و تنظیم کیلئے اس کی طرف سے ضرور کوششیں جاری رہیں گی کیونکہ اگر وہ کوتاہی کرے تو وہ تمہارا گنہ گار نہیں بلکہ خدا کا گنہگار ہو گا لیکن اس وقت عورتوں کا ایک حصہ بعض ایسے حقوق طلب کرنے لگ گیا ہے جو قرآن کے خلاف ہیں.مثلاً یہ کہ عورتیں پارلیمنٹ کی ممبر بنیں ، گھوڑے کی سواری کریں، ظاہر ہے کہ ایسی عورت بچوں کی تربیت نہیں کرسکتی.یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ماں کی گودتربیت کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے نرسنگ ہوم مقرر ہیں جہاں بیچے بھیج دیئے جاتے ہیں.دائیاں دودھ پلاتی اور کھلاتی رہتی ہیں.جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو بورڈنگ میں داخل کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ مائیں ناچ گانے میں لگی رہتی ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.جس طرح ڈاکٹر اور وکیل دونوں اپنی اپنی جگہ مفید کام کرتے ہیں اسی طرح عورتیں اپنی جگہ کام کر رہی ہیں اور مرد اپنی جگہ اور مرد اور عورت دونوں کے کاموں کے دائرے الگ الگ ہیں لیکن اگر یہ اصول رائج کیا جائے کہ سب لوگوں کو وکیل بننا چاہئے یا ساری دنیا ڈاکٹر ہونی چاہئے یا سارے ہی لوہار یا ترکھان ہونے چاہئیں تو دنیا کا کارخانہ تباہ ہو جائے.برابری کے یہ معنی نہیں کہ عورت اور مرد دونوں ایک کام کریں بلکہ یہ ہیں کہ قومی طور پر دونوں پر یکساں طور پر ذمہ داریاں عائد ہیں.چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورت پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے کہ ایک طرف وہ لڑکے کی تربیت کرتی ہے اور دوسری طرف لڑکی کی.گویا ایک طرح سارے زمانہ کو اس کی غلامی میں دیدیا جاتا ہے.اسی حقیقت کو

Page 402

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ عورت کے قدموں کے نیچے جنت ہے.ہے اسی طرح مرد کو کہا گیا ہے کہ فلاں بات تم عورت سے منوا سکتے ہو اور فلاں نہیں.مثلاً اپنے مال میں وہ بالکل آزاد ہے.عجیب بات ہے کہ یورپ جو آج شور مچارہا ہے کہ اس نے عورت کی عزت اور آزادی قائم کی وہاں بھی عورت کے حقوق صرف ہیں سال سے رائج ہوئے لیکن اسلام نے ساڑھے تیرہ سو سال سے عورت کے حقوق کو قائم کیا ہوا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتیں نہ تو یورپ کی آزادی اختیار کریں اور نہ جہالت میں گرفتار رہیں.مثلاً بعض عورتیں یہ کہہ دیا کرتی ہیں کہ مذہب خدا کی مرضی کا نام ہے اور جب خدا کی مرضی سمجھ میں آ جائے تو خاوند کی مرضی اس کے متعلق ضروری ہوتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ خاوند کو یا بھائی کو یا باپ کو مذہب کے معاملہ میں عورت پر کسی قسم کا تصرف حاصل ہے.ہر عورت کو حق ہے کہ جب دین کی کوئی بات سمجھ میں آ جائے تو اس پر عمل کرے خواہ سب اس کے مخالف ہوں.وہ یہ عذر نہیں کر سکتی کہ میرے باپ یا بھائی یا خاوند نے اجازت نہیں دی.خدا کہے گا کہ صداقت کے معاملہ میں میں نے تجھے کسی کے ماتحت نہیں رکھا تھا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا تعلق دماغ سے رکھا ہے اور دماغ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا.اب تم اتنی عورتیں یہاں بیٹھی ہو ممکن ہے کسی عورت کا بچہ شور مچا رہا ہو اور تم اپنے دل میں یہ کہہ رہی ہو کہ کیسی نالائق ہے اس نے لیکچر خراب کر دیا مگر وہ تمہارے ان خیالات سے بالکل نا واقف ہو گی.تو دماغ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخفی خزانہ کی صورت میں بنایا ہے جس کے اوپر نہ بادشاہ کو حکومت حاصل ہے نہ باپ یا بیٹے یا استاد کو.گویا خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ ایک ایسا صندوق دیا ہے جس میں تم اپنے ضروری را ز رکھ سکتی ہو.اگر تم کسی کو دس سال بھی اپنے پاس رکھو تو اس کو پتہ نہیں لگے لگا کہ تمہارے اس صندوق میں کیا ہے جب تک تم خود نہ بتلاؤ کہ میرے دل اور دماغ میں کیا ہے.وہ تمہارا ذاتی ٹرنک ہے اگر تم کوئی راز کسی کو بتلا نا چاہتی ہوتو کنجی لگا کر کھول لیتی ہوا اور جو نہیں بتلا نا چاہتی کجی نہیں لگا تھیں.پس خدا تعالیٰ نے ہرا ایک کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس خزانہ کو محفوظ رکھے.یہ ہر ایک کا ذاتی ٹرنک ہے جس میں کسی کو اگر کوئی شریک کرنا چاہتا ہے تو اس کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اگر شریک نہیں کرنا چاہتا تو اس کو نہیں کھولتا.پس اللہ تعالیٰ نے دماغ کی کنجی تمہارے ہاتھ میں دی ہے اور سچائی کے معاملہ میں نہ تو مرد کو اس پر حق حاصل ہے نہ بھائی کو.ہزار ہا عورتیں ایسی ہیں جو سچائی کے کھلنے پر بھی نہیں مانتیں اور ایمان کو محض باپ یا ماں یا خاوند وغیرہ کے ڈر کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتیں.آنحضرت علی

Page 403

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب کے پاس ایک دفعہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا یا رَسُولَ اللَّهِ! میرا خاوند صدقہ دینے سے منع کرتا ہے کیا میں پوشیدہ طور پر صدقہ دے دیا کروں؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہے.گویا ان معاملات میں عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ خاوند کے مال سے بغیر دریافت کئے خرچ کر سکتی ہے.پس ان حقوق کو جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیئے ہیں یاد رکھو اور اس کے احسانات کی قدر کرو تا کہ تمہاری ترقی ہو.اب میں ایڈریس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس میں ایک غلطی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ صرف قادیان کی لجنہ کا حق نہیں تھا کہ وہ انفرادی رنگ میں اپنی طرف سے ایڈریس پیش کر دیتی بلکہ باہر کی لجنات کا بھی حق تھا اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان کو شامل نہ کیا جاتا.قادیان کی لجنہ کو اس لئے خصوصیت حاصل نہیں کہ وہ ایک ممتاز لجنہ ہے بلکہ اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ وہ مرکزی لجنہ ہے.اگر وہ اپنے نام کے ساتھ صرف قادیان کا نام نہ لکھتیں تو دوسروں کے حوصلے وسیع ہو جاتے اور تمام لجنات کی طرف سے مشترکہ ایڈریس ہو جاتا.اس کے بعد میں جماعت کی مستورات کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنے اپنے مقام پر لجنات قائم کرنی چاہئیں اور کام کرنے والی عورتیں اس میں داخل کرنی چاہئیں.جس طرح دماغ بات نہیں کر سکتا اسی طرح جب تک ہاتھ نہ ہوں انسان کوئی کام نہیں کر سکتا.اگر کسی جگہ آگ لگ جائے اور ایک لنگڑا آدمی وہاں ہو تو اس کا دماغ فوراً یہ فیصلہ کر دے گا کہ بھاگ جا لیکن اس کے پاؤں جواب دے رہے ہوں گے اور باوجود دماغ کے فیصلہ کے وہ بھاگ نہیں سکے گا اسی طرح اگر ایک عورت کا بچہ گڑھے میں گر جائے تو باوجود اس کے کہ عورت کا دماغ کہے گا کہ اسے نکال اگر اس کے ہاتھ نہیں تو وہ نکال نہیں سکے گی.لجنات بھی نظام سلسلہ میں بازو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ضروری ہے کہ تمام مقامات پر ان کا قیام کیا جائے.پس اپنی اپنی جگہ بجنات قائم کرو اور اپنی اخلاقی تعلیمی اور دینی تربیت کا سامان کر و.اس وقت تک صرف بچھپیں لجنات قائم ہیں حالانکہ مردوں کی ساڑھے سات سو انجمنیں ہیں.تمہیں چاہئے کہ اس سستی کو دور کرو اور ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم کرنے کی کوشش کرو.حضور کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ایک انگریز نومسلم خاتون کا تہنیت نامہ انگلستان کی احمدی خواتین کی نمائندہ انگریز نومسلم خاتون محترمہ سلیمہ صاحبہ تشریف لائیں.حضور نے از راہ کرم اپنی تقریر کو بند

Page 404

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنا ایڈریس پیش کرنے کا موقع دیا.چنانچہ خاتون موصوفہ نے اپنا ایڈریس انگریزی زبان میں حضور کی خدمت میں پیش کیا اور حضور نے انگریزی میں ہی اس کا موزوں جواب دیا.بعد ازاں فرمایا:.یہ ہماری نومسلمہ بہن ہے جس کا نام سلیمہ ہے.یہ انگلستان کی رہنے والی ہیں.ان کی تار مجھے صبح ملی تھی کہ وہ آ رہی ہیں اور انہیں اپنا ایڈریس سنانا ہے.دس بجے آنے کا خیال تھا لیکن وقت پر نہ پہنچ سکیں.تم نے دیکھا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے بسم اللہ پڑھی ہے.تم میں سے بہت کم ہوں گی جو اس رنگ میں صحیح بسم اللہ پڑھ سکتی ہوں.انگریز لوگ عربی نہیں پڑھ سکتے پھر یہ کیسے افسوس کی بات ہے کہ عیسائی عورت تو اس خوبصورتی سے پڑھے اور تم اس ملک کی ہوکر بسم اللہ صحیح نہ پڑھ سکو.یہ چند باتیں بطور نصیحت میں نے مختصر بیان کر دی ہیں کیونکہ آج اس قسم کی مصروفیت ہے کہ میرے لئے لمبی تقریر کرنا مشکل ہے.دوسرے مردوں میں جو میری تقریر ہوتی ہے وہ بھی چونکہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں سن سکتی ہیں اس لئے بظاہر کسی علیحدہ تقریر کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ رسول کریم ﷺ کبھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے اس لئے باوجود لاؤڈ سپیکر کے میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا.اسی سنت کے ماتحت میں آج بھی ایک مختصری تقریر کر دینا چاہتا ہوں.اس کے بعد حضور نے مستقل تقریر فرمائی جو درج ذیل کی جاتی ہے.تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی :.وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ ، وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا والَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّاةٌ عُمْيَانًا ) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِما ما ه أوليْكَ يُجْزَوْنَ الغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلْقَوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وسلما ه خَلِدِينَ فِيهَا ، حَسُنَتْ مُسْتَقَرا و مقامات قُلْ ما.يكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ - فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَا مَّا - اس کے بعد فر مایا:.بعض مرضیں بعض قوموں میں زیادہ ہوتی ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں سینکڑوں خون ہر سال

Page 405

انوار العلوم جلد ۱۵ صل الله مستورات سے خطاب ہو جاتے ہیں ذرا غصہ آیا مرد نے گنڈا سا اُٹھایا اور دوسرے کا سرکاٹ دیا.کسی جگہ زمین کا جھگڑا ہو گیا یا شادی بیاہ یا لین دین کے معاملہ میں اختلاف ہو گیا تو قتل کر دیا.یہ بات عورتوں میں بہت کم ہے.اگر سارے سال میں سینکڑوں مرد پھانسی پاتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں عورت صرف ایک ہو گی.مگر بعض ایسی باتیں ہیں جو عورتوں میں زیادہ ہوتی ہیں.جس طرح مردوں میں قتل و خونریزی زیادہ ہے اسی طرح عورتوں میں جھوٹ زیادہ ہے اور جہاں مرد گنڈ ا سالئے پھرتا ہے وہاں عورت زبان سے قتل عام کرتی پھرتی ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ بیعت لیتے وقت عورتوں سے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ ہم جھوٹے اتہام نہیں باندھیں گی معلوم ہوتا ہے عرب عورتوں میں اتہام لگانے کی عام عادت تھی.پھر جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو بھی اس کی عادت پڑ جاتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہماری ماں جھوٹ بولتی ہے تو ہم اس سے زیادہ کیوں نہ بولیں.ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں دو دوستوں نے آپس میں کہا کہ اپنے اپنے خاندان کی کوئی بات سناؤ.اس پر ایک کہنے لگا کہ اب تو وہ بات نہیں رہی ہم تو بڑے رئیس ہوا کرتے تھے.چنانچہ ہمارے نانا کا اتنا بڑا طویلہ تھا کہ جب قحط پڑا کرتا تو سارے شہر کے جانور اس کے ایک کونے میں سما جاتے.دوسرا کہنے لگا ہمارے نانا جان کے پاس ایک ایسا بانس تھا کہ جب کبھی بارش نہ ہوتی تو وہ بانس سے بادلوں کو چھید کر بارش برسا لیتے.دوسرے کو غصہ آ گیا کہنے لگا تمہارے نانا جان یہ بانس رکھا کہاں کرتے تھے.وہ کہنے لگا تمہارے نانا جان کے طویلہ میں.اب دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو اُن دونوں نے بولا.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک اور قصہ پڑھا ہے کہ ایک رنگریز کی لڑکی سکول میں داخل ہوئی.ادھر سے ایک حلوائی کی لڑکی بھی داخل ہوئی.اُس نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو تو حلوائی کی لڑکی کہنے لگی کہ میرے ابا ڈ پٹی ہیں.دوسری کہنے لگی کہ میرے ابا بڑے بینکر ہیں ، ساہوکارہ کا کام ہے اور بیسیوں ہمارے مکان ہیں.ایک دفعہ اس نے اپنی سہیلی کی دعوت کر دی.اب بینکر کی لڑکی کے ہاں نو کر تو تھے نہیں اس نے اپنے بھائی بہنوں کو نوکر بنایا.پیسٹری رکھی جلیبیاں منگوائیں ، بازار سے چائے کے برتن منگوائے اور جب ڈپٹی کی لڑکی آئی تو دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں.ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک ہمسائی آئی.جب اس کی نظر دوسری لڑکی پر پڑی تو کہنے لگی یہ تو ہمارے رنگریز بھائی کی لڑکی ہے.حلوائی کی لڑکی کہنے لگی یہ تو بینکر کی لڑکی ہے وہ کہنے لگی بینکر کی بیٹی ہے، یہ تو ہمارے محلہ کے فلاں رنگریز کی لڑکی ہے.تو یہ پاکھنڈ محض اس لئے بنایا کہ وہ اس کو امیر سمجھے اور یہ اُس کو.تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم

Page 406

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب میں فرماتا ہے والّذينَ لا يَشْهَدُونَ الرُّوره مؤمن جھوٹ سے الگ رہتا ہے.اگر اسے پتہ لگے کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے تو اس کی دوستی چھوڑ دیتا ہے اور وہ کسی جھوٹے سے تعلق نہیں رکھتا.اور گو اس تعلیم کے مرد بھی مخاطب ہیں مگر عورتیں اس کی زیادہ مخاطب ہیں.اسی وجہ سے بیعت کی شرطوں میں اب جھوٹ سے بچنے کے عہد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.پہلے بیعت کے الفاظ یہ تھے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی مگر اب اس کے ساتھ یہ زیادہ کر دیا گیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گی.پس تم اپنے دلوں میں یہ اقرار کرو کہ جھوٹ نہیں بولوں گی.جھوٹ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر ایک کو اپنی بات بتلاؤ.مثلاً اگر کسی چور کی بیوی تمہارے پاس راز لینے آتی ہے تو تم اس سے کہہ سکتی ہو کہ میں نہیں بتاتی جاؤ نکل جاؤ.یہ جھوٹ نہیں ہو گا لیکن یہ ضرور جھوٹ ہوگا کہ تم اسے اصل جگہ چھپا کر دوسری جگہ بتاؤ.پس آج تمام احمدی عورتیں کان کھول کر سن لیں کہ عورت کی بیعت میں یہ عہد شامل ہے اور جو جھوٹ بولے گی وہ خود اپنی بیعت کی شرط کو توڑنے والی قرار پائے گی.واِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا پھر مؤمن کی یہ علامت بتلائی کہ جب وہ کوئی لغو بات دیکھتا ہے تو اس کے پاس سے گزر جاتا ہے لیکن یہ بات نہایت ہی افسوسناک ہے کہ عورت ہمیشہ لغویات کی طرف متوجہ ہوتی ہے.مثلاً بلا وجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہے کہ یہ کپڑا کتنے کالیا، یہ زیور کہاں سے بنوایا اور جب تک اس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کر لے اسے چین نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اس نے تنگ آ کر اپنے گھر کو آگ لگا دی.لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی ؟ اس نے کہا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے پوچھا بہن تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے.وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم پہلے پوچھ لیتیں تو میرا گھر کیوں جاتا.یہ عادت عورتوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ مردوں میں بھی ہے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کے بعد پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جاؤ گے؟ کیا کام ہے؟ آمدنی کیا ہے؟ بھلا دوسرے کو اس معاملہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ تو کہاں ملازم ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ تنخواہ کیا ملتی ہے؟ وہ کبھی کریدنے کا خیال نہیں کرتے.غرض عورتوں میں یہ لغویت انتہاء درجہ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن لغو کام نہیں کرتا

Page 407

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب جن لوگوں کو بڑی بڑی باتوں کا خیال ہوتا ہے ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی کھلا فرصت ہی کب ہو سکتی ہے.اگر تمہیں دین کا فکر ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ اسلام ایک خطرناک مصیبت میں گھرا ہوا ہے تو تم کو دوسری طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی.تمہارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو تم کس طرح چین لے سکتی ہو.اسی طرح آج جبکہ مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے تم کس طرح یہ برداشت کر سکتی ہو کہ گوٹہ کناری میں مشغول رہو.کیوں نہیں تم وہ وقت خدا تعالیٰ کے دین کیلئے وقف کر دیتیں اور کیوں تم وہی وقت دینی تعلیم کیلئے وقف نہیں کر دیتیں؟ تمہارے دل مردہ ہیں جبھی تو خدا کے دین کی مصیبت تمہیں نہیں رُلاتی اور تم لغو باتوں کی طرف متوجہ رہتی ہو.والذين إذا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّارٌ عُمْيَانًا پھر مومن مرد اور مؤمن عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گزر جاتے.یعنی جب ان کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جائیں تو یہ نہیں کہ عمل نہ کریں بلکہ فورا عمل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہیں.میں نے مردوں میں دیکھا ہے کہ مرد گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور آواز تک نہیں نکالتے مگر عورتیں برداشت نہیں کر سکتیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باتیں کرنے لگ جاتی ہیں.گویا ان کی توجہ دین کی باتوں کی طرف ہوتی ہی نہیں.ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے گئے.امام کے خیالات پریشان تھے اسے نماز میں پندرہ روپوں کا خیال آ گیا.ادھر مقتدیوں کا خیال تھا کہ امام صاحب سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہیں.مگر اسے خیال تھا کہ پندرہ روپوں سے دلی سے فلاں فلاں چیزیں خریدوں گا.اس طرح ہوتے ہوتے پانچ ہزار ہو گئے.رکوع میں خیال آیا کہ جب پانچ ہزار ہو جائیں گے تو بخارا جاؤں گا.وہاں سے گھوڑے خریدوں گا اور اسی طرح ہیں ہزار ہو جائیں گے پھر واپس دتی آ کر بیس ہزار کے چالیس ہزار بنا لوں گا.اُدھر اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو کشف میں یہ تمام باتیں بتا دیں اور وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے.سلام پھیر کر امام نے کہا کہ تم کافر ہو ، مسلمان ہوتے تو ہمارے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھتے.وہ کہنے لگے میں کمزور ہوں زیادہ چل پھر نہیں سکتا.آپ تو دتی گئے پھر بخارا گئے وہاں سے گھوڑے لیکر پھر دتی آئے مجھ سے یہ سفر نہ ہو سکا اور میں آپ سے علیحدہ ہو گیا.وہ شرمندہ ہو کر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا آپ تو بزرگ معلوم ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذکر الہی کے

Page 408

انوارالعلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب موقع پر مؤمن پوری طرح متوجہ رہتے ہیں مگر تم میں سے بعضوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ادھر نماز میں مصروف ہوئیں اور اُدھر تمہارا دماغ شامی کباب کا نسخہ تیار کرنے لگا یا کسی اور دنیاوی کام کو سوچنے میں مصروف ہو گیا.غرض بہت سی عورتوں میں یہ مرض ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں روزانہ لیکچر دینے شروع کئے.ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضور پوچھئے تو سہی یہ مجھی کیا ہیں.آپ نے ایک عورت کو بلا کر پوچھا وہ برا بر پندرہ روز سے لیکچر سن رہی تھی مگر کہنے لگی یہی نماز روزہ کی باتیں ہوئی ہوں گی.یہ سن کر آپ نے لیکچر ہی بند کر دئیے.تو عورتیں بہت کم توجہ سے سنتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایمان کی علامت یہ ہے کہ تم توجہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنو.پھر فرمایا.مؤمن کی علامت یہ ہے کہ والّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِن ازْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِما ما ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے کہ وہ بڑائی چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہاری اس فطرت سے آگاہ ہیں اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ تمہیں بڑائی مل جائے مگر اس کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ تم اپنے لئے امام بننے کی دعا کرتے رہا کرو.اس میں بتایا کہ مؤمن کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں رہنا چاہئے بلکہ لیڈر اور امام بننے کی خواہش کرنی چاہئے.مگر کس کا امام ؟ متقیوں کا امام غیر متقیوں کا نہیں.ممکن ہے تمہیں خیال پیدا ہو کہ ہر شخص کس طرح لیڈر اور امام بن سکتا ہے.سو میں بتا تا ہوں کہ اس سے مرد اور عورتیں دونوں حصہ لے سکتے ہیں.مرد اگر کوشش کرے کہ میری بیوی سمجھدار ہو، اس کو اعلیٰ ترقیات حاصل ہو جائیں ، تو جب وہ تمہارے تابع چلے گی تو تم امام ہو گے اور بیوی ما موم.اسی طرح اگر بیوی اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہو گی اور اولاد ما موم اور اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف ہی منسوب کئے جائیں گے.تم قبر میں سو رہی ہوگی مگر جب تمہارے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی تم قبر میں سو رہی ہوگی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے ظہر کی نماز پڑھی تم قبر میں سو رہی ہوگی اور فرشتے لکھے رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے عصر کی نماز پڑھی.چاروں طرف خاموشی ہو گی ، تارے جگمگا رہے ہوں گے، لوگ سو رہے ہوں گے، لیکن اگر تم نے اپنی اولا د کو تہجد کی عادت ڈالی ہو گی تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس نے تہجد کی نماز پڑھی.کتنی عظیم الشان ترقی ہے جو تم حاصل کر سکتی ہو.

Page 409

انوار العلوم جلد ۱۵ مستورات سے خطاب أولييْكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا جو لوگ خدا تعالیٰ کیلئے اس قسم کے نیک کام کریں گے ، کوشش کریں گے کہ ان کے بچے نیک ہو جا ئیں ، فرمایا قیامت کے دن ہم ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ جگہ دیں گے.جس طرح دنیا میں انہوں نے بچوں کو چوری سے ، جھوٹ سے ، فریب سے اور اسی طرح اور بدیوں سے بچایا اور جس طرح انہوں نے دنیا میں سلامتی پھیلائی اسی طرح جب وہ جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ وہ بندے ہیں جن سے میرے بندے امن میں رہے.جاؤ آج ان کو سلامتی دو اور انہیں دارالسلام میں داخل کر دو.خلدين فيها، اس کے بدلہ میں وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے.قل ما يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلا دُعَاؤُكُمْ : فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ يزا ما فرماتا ہے.یادرکھو! تم اسی وقت تک مجھے پسندیدہ ہو جب تک تم ہماری باتیں مانو گی اگر تم ہماری باتیں نہ سنو گی تو تمہارا خدا تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کا وبال تمہارے سر پر پڑے گا.تم اس دنیا میں بھی ذلیل ہوگی اور تمہاری اولا دبھی برکتوں سے محروم رہے گی.کتنا خطر ناک وعید اور انذار ہے، کاش تم سمجھو.کاش تم اپنی اصلاح کرو.کاش ! تم خدا کی باتوں کی طرف توجہ دو اور کاش! خدا تمہارے دلوں کو پاک کر دے.اگر تمہاری اولادیں دین کی خدمت کریں گی تو تم بھی ان کی نیکیوں میں حصہ دار ہوگی.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو نیک عمل کرنے کی توفیق دے اور اپنی برکتیں تمہارے گھروں پر نازل فرمائے.البقرة: ۲۲۹ (مصباح مارچ ۱۹۴۰ء ) الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحه ۱۲۵ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ ابوداؤد كتاب الزكوة باب الْمَرْأةُ تصدق من بيت زوجها (مفهوماً) الفرقان : ۷۳ تا ۷۸

Page 410

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور اہم اور ضروری امور از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 411

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اہم اور ضروری امور ( خلاصه تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع جلسہ سالانہ [ خلافت جو بلی] قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے مجھے رات امور عامہ کی طرف سے رپورٹ ملی کہ ہماری جماعت کی ساتھیوں کی ایک اشتعال انگیز حرکت طرف سے جو اشتہارات لگائے گئے تھے ان پر شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے ساتھیوں کی طرف سے ایک نہایت ہی گالیوں سے پر اشتہار کے فقرات کاٹ کر سب جگہ چسپاں کر دیئے گئے تھے تا جماعت کے جو دوست اپنے اشتہاروں کو پڑھیں ان کی نگاہ ان گالیوں پر بھی پڑ جائے.ان فقرات کے اندر کوئی دلیل نہ تھی ، کوئی برہان نہ تھا، کوئی دین کے متعلق دعوئی نہ تھا، محض گالیاں ہی گالیاں تھیں جو ان فقرات میں لکھی تھیں اور مجھے امور عامہ نے رپورٹ کی کہ ہم نے وہ اشتہارات اتروا دیئے ہیں.میرے نزدیک یہ ان کی غلطی تھی.کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اشتہارات کواتر واتے کیونکہ میری طرف سے کہا گیا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے مجھے گالیاں دی ہیں مگر ان کی طرف سے متواتر کہا گیا کہ انہوں نے گالیاں نہیں دیں.اس وقت قادیان میں کھانے کی پرچیوں کے لحاظ سے ۳۸ ہزار آدمی جمع ہیں.گزشتہ سال پچیس ہزار تھا.ان ۳۸ ہزار آدمیوں میں علاوہ جماعت کے دوستوں کے غیر احمدی، ہندو اور سکھ شرفاء بھی موجود ہیں.اگر یہ سب ان فقرات کو پڑھ لیتے تو یہ ثبوت ہوتا اس بات کا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ درست تھا اور جو کچھ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کہا کرتے تھے وہ غلط تھا.مگر امور عامہ والوں نے غلطی سے اس خدا ئی نشان کو جو میری صداقت میں خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا، باطل کر دیا.ممکن ہے ابھی بیسیوں یا سینکٹروں نے ان گالیوں کو پڑھا ہو.لیکن اگر وہ اشتہارات نہ اُتروائے جاتے تو ہر شخص کو معلوم ہو جاتا کہ مصری صاحب کا یہ کہنا کہ

Page 412

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور انہوں نے ہمیں گالیاں نہیں دیں، درست نہیں تھا.میں ان الفاظ کو نہیں دُہراتا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کمزور طبائع مشتعل نہ ہو جائیں لیکن جن دوستوں نے ان گالیوں کو پڑھا ہے ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ان باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ آج تک اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے کیلئے کوئی جماعت ایسی کھڑی نہیں ہوئی جسے مخالفین کی طرف سے گالیاں نہ ملی ہوں.صحت کی حالت اپنی صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گزشتہ سال میری طبیعت بہت خراب رہی ہے.بار بار نقرس کے دورے ہوئے اسہال کی تکلیف مدتوں سے کم ہو گئی تھی مگر دس بارہ سال کے بعد اس قدر شدید دورے ہوئے کہ مہینوں اس کا سلسلہ جاری رہا.اپنڈکس اور گردے کے مقام پر بھی شدید دردیں ہوئیں اس وجہ سے جو امید مجھے کام کرنے کے متعلق تھی وہ پوری نہیں ہوئی.اگر صحت اچھی رہتی تو گذشتہ سال جن کا موں کا ذکر کیا گیا تھا وہ سارے ہو جاتے مگر بعض ہوئے ہیں اور بعض ادھورے رہ گئے.اخبارات سلسلہ کا ذکر اخبارات سلسلہ کے ضمن میں حضور نے سب سے پہلے الفضل کا ذکر کرتے ہوئے عملہ کو ضروری ہدایات دیں اور تاریخی ، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، اقتصادی اور مذہبی مضامین لکھنے کی تلقین فرمائی.اسی طرح غیر مذاہب کی تبلیغی جد و جہد کا ذکر اور علمی کتب پر ریویو کرنے کا بھی ارشاد فرمایا.سن رائز“ کی خریداری کے متعلق حضور نے انگریزی خوان طبقہ کو توجہ دلائی اخبار فاروق کی خریداری کی بھی تحریک فرمائی.اُردو ریویو آف ریلیجنز کی ترقی پر اظہار خوشنودی فرمایا.انگریزی ریویو کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی.جماعتہائے بیرونِ ہند کا ذکر حضور نے مغربی افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں بعض لوگوں نے نظام سلسلہ کے خلاف بغاوت کی تھی جنہیں جماعت سے خارج کر دیا گیا ہے.مصر کی جماعت کے متعلق فرمایا کہ اس میں بہت بیداری نظر آتی ہے اور اس امید کا اظہار فرمایا کہ اگر یہ جماعت مضبوط ہوگئی تو عالم اسلامی پر اس کا نہایت گہرا اثر پڑے گا.دمشق اور فلسطین کا کام بھی اچھا چل رہا ہے.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے جنگ کی وجہ سے بعض ممالک سے اپنے مبلغ واپس بلا لئے ہیں.چنانچہ ہنگری سے مبلغ واپس بلا لیا گیا، پولینڈ سے پہلے ہی واپس آچکا تھا اب اٹلی والے مبلغ کو بھی واپس بلا لیا

Page 413

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور جائے گا مگر جب جنگ ختم ہوگی تو نئے مبلغ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو چکے ہوں گے اور ہم انہیں مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیج دیں گے.انقلاب حقیقی اس کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ کتاب انقلاب حقیقی ، دوبارہ چھپ گئی ہے.حیدر آباد کے ایک دوست نے دو ہزار جلدیں خریدنے کا وعدہ کیا ہے باقی دو ہزار ہے.جماعت کے دوست اس کی اشاعت میں حصہ لیں.جب میں نے اسے دوبارہ اصلاح کیلئے پڑھا تو بعض باتوں کا میں نے اس میں اضافہ کر دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی طور پر تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ کتاب اچھا اثر پیدا کر سکتی ہے.اس کتاب کے بعض حصے ایسے ہیں جو اپنے اندر الہامی رنگ رکھتے ہیں.اچھوتوں میں تبلیغ اچھوتوں میں تبلیغ کے متعلق فرمایا.افسوس ہے کہ اس سال بہت کم ہوئی ہے.جماعتوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی حالانکہ یہ جودہ وقت کا ایک اہم سوال ہے جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے.حضور نے فرمایا جماعت کی تعلیم و تربیت کیلئے میں نے گزشتہ سال بعض نو جوانوں کا مطالبہ کیا تھا جن کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں ایسی تربیت دی جائے گی جس کے نتیجہ میں وہ دیہات میں رہ کر لوگوں کو فائدہ پہنچاسکیں.اس کے مطابق جونو جوان میسر آئے ان کو کمپونڈری کی تعلیم دلائی گئی ، وٹرنری کی تعلیم دلائی گئی ، یونانی طب سکھائی گئی ، دوا سازی سکھائی گئی ، زمیندارہ کام سکھایا گیا اور ضروری دینی تعلیم بھی دی گئی.ان کی بیویوں کو بھی نوار بننا، کاڑھنا اور سینا پر ونا سکھایا گیا ہے.افسوس ہے کہ بار بار اعلان کرنے کے باوجود جماعت میں سے صرف پانچ نوجوان ایسے نکلے جنہوں نے یہ کام سیکھا مگر یہ سکیم ان پانچ پر ہی ختم نہیں ہو جائے گی.میرا دل چاہتا ہے ہر احمدی گاؤں میں ایسا ایک مدرس موجود ہو.اور چونکہ اگلے سال پھر یہی ٹرینینگ نو جوانوں کو دی جائے گی اس لئے جو نو جوان مڈل پاس ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں اور جو جماعتیں فارغ التحصیل نو جوانوں کو اپنے ہاں شرائط کے مطابق رکھنا چاہتی ہوں وہ اطلاع دیں.مغربی کھیلوں کی بجائے دیسی کھیلوں کی ترویج اس بارے میں حضور نے فرمایا.گزشتہ سال میں نے مغربی کھیلوں کی بجائے دوڑنا، تیرنا، نشانہ بازی ، بوجھ اُٹھانا، گشتی لڑنا ، تیکا، گھوڑے کی

Page 414

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور سواری اور اسی طرح اور کھیلوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور میں نے یہ کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا تھا.انہوں نے قادیان میں اس کو جاری کیا اور دو مقابلے ہوئے.باہر کی جماعتوں میں بھی تحریک کی گئی جس کے نتیجہ میں بعض نے تیرنے کی مشق کی بعض نے ذہانت کے مقابلے کئے اور بعض نے دوسری کھیلوں میں حصہ لیا.اس کے بعد حضور نے ان جماعتوں کے نام سنائے جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اس سلسلہ میں دوگر بیجوایٹ نو جوانوں چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے اور چوہدری غلام بین صاحب بی.اے کو ورزشی کالج لاہور میں کام سیکھنے کے لئے بھجوایا ہوا ہے.اس کے علاوہ ایک نو جوان خلیل احمد صاحب ناصر بی.اے حیدر آباد سے گت کا وغیرہ سیکھ کر آئے ہیں.ان کے ذریعہ جماعت کے دوسرے نو جوانوں کو بھی یہ فنون سکھائے جائیں گے.مجالس خدام الاحمدیہ کی ترقی مجالس خدام الاحمدیہ کی ترقی کے متعلق حضور نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا اب ان کی ۱۵۱ شاخیں قائم ہیں.دسمبر ۱۹۳۸ء میں ان کے ممبروں کی تعداد نو سو تھی جو اب دو ہزار ہے لیکن انہیں ابھی اور زیادہ ترقی کرنی چاہئے اور ان کی شاخیں کم سے کم شاخہائے صدرانجمن احمدیہ کے برابر ہونی چاہئیں.اسی ضمن میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو وقت کی پابندی اور قربانی کی روح اپنے اندر پیدا کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ جو ممبر ان شرائط کے مطابق کام نہ کریں انہیں ممبری سے الگ کر دینا چاہئے.تحریک جدید کے ماتحت پانچ ہزار واقفین زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.میری یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبلغ کھڑا کرنے کا ارادہ کی یہ رڈیا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ایک تو تحریک جدید میں چندہ دینے والوں کے ذریعہ پورا ہو.دوسرا اس رنگ میں پورا ہو کہ ہم پانچ ہزار تحریک جدید کے ماتحت مبلغ تیار کر دیں جو اپنی تمام زندگی اعلائے کلمہ اسلام کیلئے وقف کئے ہوں.پس میں با ہمت نو جوانوں کو جو یا تو بی.اے ہوں یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہوں کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو وقف کریں.باپوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کو تحریک کریں بیٹوں کو

Page 415

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور کہتا ہوں کہ وہ باپوں سے کہیں کہ ہمیں خدمت اسلام کیلئے وقف کر دو.بھائیوں سے کہتا ہوں کہ وہ بھائیوں کو تحریک کریں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ دوستوں کو تحریک کریں.چندہ تحریک جدید کی طرف حضور نے چندہ تحریک جدید اور امانت جائداد جماعت کو توجہ دلائی بالخصوص زمینداروں کو.اسی طرح امانت جائیداد میں حصہ لینے کی بھی احباب کو تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا میں نے گزشتہ سال عیسوی شمسی سنہ کی بجائے ہجری شمسی سنہ ہجری شمسی سنہ کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی تھی.اور اس کے لئے میں نے ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنا کام ختم کر لیا ہے اور گو کمیٹی کے سب ممبران نے ہی کام کیا ہے مگر اصل میں تمام کام مولوی محمد اسمعیل صاحب ( سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ) نے کیا ہے.اور انہی کی کوششوں سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے.حضور نے فرمایا کہ گزشتہ جلسہ پر میں نے کہا تھا کہ اب ۱۳۱۶ ہجری شمسی کا جلسہ ختم ہوا ہے.مگر یہ درست نہیں تھا.تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال ۱۳۱۷ ہجری شمسی تھا اور اس سال ۱۳۱۸ هجری شمسی ہے اور جنوری سے ۱۳۱۹ ہجری شمسی کا آغاز ہوگا.مہینوں کے نام بھی ہم نے تجویز کئے ہیں.دسمبر مہینہ کا نام صلح، تجویز کیا گیا ہے.کیونکہ اسی سال صلح حدیبیہ ہوئی تھی.یہ کیلنڈر انشَاءَ اللہ جلدی چھپ جائے گا.قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق فرمایا کہ باوجود بیماری کے قرآن کریم کا ترجمہ اس کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے بلکہ کچھ حصہ کی کتابت بھی شروع ہو چکی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس کا ایک حصہ جو چھ سات صفحات پر مشتمل ہوگا پہلے تین چار ماہ کے اندر اندر شائع ہو جائے گا.دوسرے حصہ کے متعلق کوشش کروں گا کہ سال کے وسرے حصہ میں مکمل ہو جائے انگریزی ترجمہ کے متعلق مولوی شیر علی صاحب نے اطلاع دی ہے کہ وہ ۱۸ سیپاروں کے نوٹ لکھ چکے ہیں.بقیہ سیپاروں کے نوٹ إِنشَاءَ اللَّهُ شورای تک مکمل ہو جائیں گے.ترجمہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے سال میں کم سے کم ایک اس کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک نیا احمدی بنائے.جن نیا احمدی بنانے کا مطالبہ دوستوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا ہو وہ کھڑے ہو

Page 416

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور جائیں.( بہت تھوڑے کھڑے ہوئے ) حضور نے فرمایا.یہ دس بلکہ پانچ فی صدی بھی نہیں بنتے.دوستوں کو اس طرف مزید توجہ کرنی چاہئے.جماعت کی ترقی کے متعلق اعداد و شمار اس کے بعد حضور نے اندرون اور بیرونِ ہند میں احمدیت کی ترقی کا ذکر کیا.اس میں جو جماعتیں سبقت لے گئی ہیں ان کے نام سنائے اسی طرح جن ضلعوں میں سے کم احمدی ہوئے ہیں یا سال بھر میں کوئی احمدی بھی نہیں ہوا ان کے نام لئے.اندرونِ ہند میں سے تبلیغی لحاظ سے پہلا درجہ ضلع گورداسپور کو دوسرا درجہ بنگال کو اور تیسرا درجہ ضلع گجرات کو حاصل ہوا ہے.لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک کے متعلق حضور لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک نے فرمایا.بعض زمینداروں نے شاندار نمونہ دکھایا ہے مگر لاکھوں کی جماعت میں یہ مثالیں بہت کم ہیں.میں چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کو میری اس نصیحت پر عمل کرنے کا موقع ملا ہو وہ اطلاع بھجوا دیں کہ ہم نے اس پر عمل کیا ہے اور جنہوں جنگ کا ذکر نے اس پر عمل نہ کیا ہو ان کے متعلق بھی اطلاع دی جائے.جنگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.یہ معمولی جنگ نہیں ہے اس کا اثر ہماری جماعت پر بھی پڑنے والا ہے ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس میں حکومت کو ہر ممکن امداد دے.حضور نے فرمایا.ہر احمدی جماعت میں ایک سیکرٹری جنگ بنایا جائے تاکہ جنگ کے متعلق جس قسم کے احکام مرکز سے بھیجے جائیں ان کو عمل میں لائے.اور احمدی ہر طرح مدد دیں.یہ مدد اسلام اور احمدیت کیلئے ضروری ہے.(الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء) اصلاح اعمال کا ایک لطیف گر ایک ضروری امر جس کی طرف میں آج جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت کی تربیت میں مجھے بعض دفعہ بڑی بڑی دقتیں پیش آئی ہیں اور ان دقتوں کو دور کرنے کیلئے میں ایک لمبے عرصہ تک غور کرتا رہا ہوں اور سوچتا رہا ہوں کہ ان کا کیا علاج کیا جائے.میں نے ۱۹۳۶ ء میں اس کے متعلق بعض خطبات بھی پڑھے تھے اور میں نے بتایا تھا کہ عقائد کے لحاظ سے تو ہم دوسروں پر فتح حاصل کر چکے ہیں مگر اعمال کے لحاظ سے ابھی ہم میں بہت کچھ کمزوریاں باقی ہیں اور اس لحاظ سے دوسروں پر ابھی ہمارا پوری طرح رُعب نہیں چھایا.

Page 417

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور اس نقص کے ازالہ کیلئے میں برابر غور کرتا رہا ہوں.بلکہ بعض دفعہ گھنٹوں میں نے غور اور فکر سے کام لیا ہے.آخر سوچتے سوچتے خدا تعالیٰ نے ایک بات میرے دل میں ڈالی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس بارہ میں میرے ساتھ تعاون کرے تو گو وہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن شاید ہزاروں آدمیوں کی اخلاقی حالت میں اس سے ایک حیرت انگیز تغیر پیدا ہو جائے مگر میں یہ بتا دیتا ہوں کہ اس پر عمل کرتے وقت اپنی پہلی عادت کو کچھ نہ کچھ چھوڑ نا پڑے گا.اگر تم یہ عہد کر لو کہ تم اپنی پہلی عادت کو ترک کر کے اس امر کی طرف توجہ کرو گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ تم اپنے اعمال کی اصلاح میں بہت کچھ کامیاب ہو سکتے ہو.لیکن اصل بات بتانے سے پہلے میں کچھ تمہیدی الفاظ بھی کہنا چاہتا ہوں تا کہ نفوس اس کو ماننے کیلئے تیار ہو جائیں.یہ امر ظاہر ہے کہ اگر خاص حالات میں کوئی بات کہی گئی ہو تو اس کا اثر بھی خاص طور پر ہوتا ہے.یوں تو ماں باپ اپنے بیٹوں کو ہمیشہ ہی کہتے رہتے ہیں کہ آپس میں صلح صفائی سے رہو لیکن جب باپ مر رہا ہوتا ہے اس کا سانس اکھڑ رہا ہوتا ہے اور اس پر نزع کی حالت طاری ہوتی ہے تو اس وقت جب وہ کہتا ہے کہ بچو! میں تو اب مرنے لگا ہوں تم آپس میں صلح کر لو تو تمام بھائی روتے ہوئے آپس میں چھٹ جاتے ہیں اور سالوں کے کینے اور بغض آنا فانا دُور ہو جاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا ایک ماحول ہوتا ہے وہ ماحول اگر تیار کر لیا جائے تو انسان عمدگی کے ساتھ بات کو مان لیتا ہے لیکن اگر ما حول تیار نہ ہو تو انسان بات کو قبول کرنے سے ہچکچاتا ہے.اس وجہ سے میں بھی پہلے ما حول تیار کرنا چاہتا ہوں اور سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ بات کن حالات میں کہی گئی ہے لیکن اس سے بھی پہلے بعض متفرق باتیں بیان کرنا ضروری ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض باتیں مقصود ہوتی ہیں اور بعض مقصود کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں.جیسے ایک دوست اپنے دوست کے ہاں جانا چاہتا ہے تو دوست کی ملاقات اس کا مقصود ہوتا ہے لیکن ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے پاس گھوڑے پر سوار ہو کر جائے یا ریل پر سوار ہو کر جائے یا موٹر پر سوار ہو کر جائے ان ذرائع کی موجودگی مقصود کے حصول کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے لیکن یہ ذرائع موقع اور محل کے لحاظ سے کبھی تو بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی کم اہمیت رکھتے ہیں.مثلاً ہم نے کہیں جانا ہو تو ہم بھوتی ضرور پہنتے ہیں اور اس کا پہننا ہمارے مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہوتا ہے لیکن اگر دوسرا مکان دروازہ پر ہی ہو تو بعض دفعہ ننگے پاؤں بھی چلے جاتے ہیں اور جوتی کی کچھ پروا نہیں کرتے.تو مقصود کے حصول کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی اہمیت

Page 418

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور اور عدمِ اہمیت مختلف حالات کی وجہ سے ہوتی ہے.اگر ان کے بغیر کسی صورت میں بھی مقصود پورا نہ ہو سکے تو وہ ویسی ہی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں جیسے مقصود اہم ہوتا ہے اور اگر وہ ذرائع محض کام میں آسانی پیدا کرنے کیلئے ہوں تو گو پھر بھی ہم ان کو اہمیت دیں گے مگر اتنی نہیں جتنی اس صورت میں ان کو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے بغیر مقصود پورا ہی نہ ہو سکے.مثلاً ہم کہیں گھوڑے پر سوار ہوکر جانا چاہیں اور دس گھوڑے ہمارے پاس موجود ہوں تو گوگھوڑا ہمارے لئے ضروری ہو گا مگر ہر گھوڑا مقصود نہیں ہو گا بلکہ ان دس میں سے جو گھوڑا بھی مل جائے وہ ہماری ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی ہوگا.مگر بعض دفعہ ذریعہ اتنی اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ اسے مقصود سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور دونوں لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں.مثلاً اگر مقصود کے حصول کے کئی ذرائع ہوں تو گو کوئی نہ کوئی ذریعہ ضروری ہوگا لیکن اپنی ذات میں کوئی ذریعہ خاص اہم نہ ہوگا کیونکہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے سے کام لیا جا سکتا ہے.لیکن اگر فرض کرو کہ کسی مقصود کا ایک ہی ذریعہ ہو تو پھر وہ ذریعہ بھی خاص اہمیت حاصل کر لے گا اور اس کی حیثیت ان ذرائع سے مختلف ہو گی جو متعدد ہوتے ہیں جیسے ایک مکان کے اگر کئی دروازے ہوں تو کسی خاص دروازہ کو ہم اہمیت نہیں دیں گے مگر ایک ہی دروازہ ہو تو اسے خاص اہمیت حاصل ہو جائے گی.یا انسانوں کی مثال ہو تو بقائے نسل کیلئے اولاد کی ضرورت ہوتی ہے.اگر ایک شخص کے کئی بیٹے ہوں تو وہ سب سے ہی محبت کرے گا لیکن اس کی بقائے نسل کی خواہش کسی ایک کے ذریعہ بھی پوری ہوسکتی ہے.فرض کرو اس کے دس بیٹے ہیں اور 9 سے اس کی نسل نہیں چلی تو وہ یہ کہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہے کہ ایک بیٹا تو موجود ہے اس سے میری نسل قائم رہ جائے گی لیکن اگر کسی شخص کا ایک ہی بیٹا ہو تو اس کی محبت اپنے بیٹے سے بالکل اور رنگ کی ہو گی کیونکہ اس کیلئے مقصد کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے.اسی طرح اس بیٹے کی اہمیت بھی اس کے نزدیک بالکل اور رنگ کی ہو گی.جس شخص کے دس بیٹے ہوں ان میں سے ایک اگر کسی شدید مرض میں مبتلاء ہوتا ہے تو اس کی نظر اپنے باقی بیٹوں کی طرف اُٹھنے لگتی ہے لیکن جس شخص کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ مرض الموت میں مبتلاء ہو تو اس کے دل کی جو کیفیت ہوگی وہ بالکل نرالی ہوگی اور اس کا مقابلہ کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکے گا.اس بات کو سمجھانے کے بعد میں یہ بتا تا ہوں کہ رسول کریم " کی بھی ایسی ہی مثال ہے.آپ سے ہمارا جو روحانی تعلق ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ہمارے لئے خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں مگر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا آپ بندوں اور خدا کے درمیان تعلق قائم کرنے کا

Page 419

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور واحد ذریعہ ہیں یا آپ اور ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں اور آپ کے علاوہ بھی کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ تک پہنچائے.اگر آپ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گو آپ خدا تو نہیں مگر چونکہ خدا آپ کے بغیر نہیں مل سکتا اس لئے آپ کیلئے بھی وہی قربانی کرنی پڑے گی جو انسان خدا کیلئے کرتا ہے کیونکہ آپ کے بغیر اور کوئی شخص ہمیں خدا تک نہیں پہنچا سکتا.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت تم غور کر کے دیکھ لو صلى الله رسول کریم ﷺ کو تمام انبیاء میں ایک امتیازی شان حاصل ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو کلمہ میں بھی شامل کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ جس طرح اللہ ایک ہے اسی طرح اب صلى الله خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا رسول بھی ایک ہی ہے.پس رسول کریم ﷺ اور دوسرے رسولوں میں یہ فرق ہے کہ ان کے زمانوں میں بھی وہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ تو ضرور تھے مگر وہ واحد ذریعہ نہ تھے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اگر کسی یہودی نے نہ مانا ہوتا اور وہ ہندوستان میں آ کر حضرت کرشن علیہ السلام کو مان لیتا تو اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا یا ایران میں جا کر وہاں کے کسی نبی پر ایمان لے آتا تو یہ امر اس کی نجات کیلئے کافی تھا مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد خدا تعالیٰ نے اس طریق کو اُڑا دیا اور دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب والے کیلئے آپ کا ماننا ضروری قرار دیدیا.اب کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی بجائے فلاں نبی کو قبول کر لیتا ہوں، اگر آپ کو نہ مانا تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ گو آپ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں مگر واحد ذریعہ ہیں اور خواہ کوئی امریکہ میں رہتا ہو یا افریقہ میں اسی دروازہ میں سے اسے گزرنا پڑے گا اور آپ پر ایمان لانا اس کیلئے ضروری ہو گا مگر پہلے انبیاء واحد ذریعہ نہیں تھے.بے شک اُن انبیاء میں سے بعض پہلو ٹھے کہلاتے لیکن محمد رسول اللہ اللہ اکلوتے بیٹے تھے اور اکلوتے اور پہلوٹھے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.پہلوٹھے کے معنی بڑے بیٹے کے ہوتے ہیں مگر اکلوتے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بیٹا نہیں.پس وہ پہلو ٹھے بے شک ہوں مگر اپنے اپنے زمانہ میں وہ اکلوتے نہ تھے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ اپنے زمانہ میں اکلوتے روحانی بیٹے تھے اور آپ کے آنے پر پہلے تمام انبیاء کی نبوتیں ختم ہو گئیں، اب نہ مصر کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ چین کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ شام کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ ایران اور ہندوستان کے کسی نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، اب ہر ایک شخص کیلئے خواہ وہ مصر میں رہتا ہو یا چین، جاپان ، ایران اور ہندوستان میں رہتا ہوضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہ اللہ

Page 420

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور کو قبول کرے کیونکہ آپ کے بغیر اب کوئی خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں.اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ کو ایک خصوصیت بھی حاصل تھی جو دراصل پہلی خصوصیت کا نتیجہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح رسول کریم اے بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تھے اسی طرح آپ خدا تعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اور آپ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی روحانی نسل اب میرے ذریعہ ہی دنیا میں قائم رہ سکتی ہے.اس کے نتیجہ میں لازماً ایک اور بات بھی پیدا ہوگئی اور وہ یہ کہ اگر کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں تو گو سب اس کی خدمت کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی محبت بیٹی ہوئی ہوتی ہے اور ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے باپ کی خدمت کرنے والے اور بھی وجود ہیں لیکن اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہوتو وہ سمجھتا ہے کہ میرے سوا باپ کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں اگر میں نے بھی اس کی خدمت نہ کی تو اور کون کرے گا.غرض جس طرح اس باپ کی محبت کا رنگ بالکل جداگا نہ ہوتا ہے جس کا ایک ہی بیٹا ہو ، اسی طرح اُس بیٹے کی محبت کا رنگ بھی جداگانہ ہوتا ہے جو اکلوتا ہو.یہی وجہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت رسول کریم ﷺ سے نرالے رنگ کی تھی اسی طرح محمد رسول ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے خدمت بھی نرالے رنگ کی تھی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اب خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا میرے سوا اور کوئی نہیں اور ساری ذمہ واری مجھ پر ہی ہے.اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے دین کی جو خدمت کی وہ دوسرے انبیاء سے ہرگز نہیں ہوئی.بے شک حضرت موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں کیں، بے شک حضرت عیسی نے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں، بے شک حضرت کرشن نے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں ، حضرت رام چندر نے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں.اسی طرح حضرت زرتشت کے حالات کو پورے تو نہیں ملتے مگر جس قدر ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے قربانیاں کیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ علیہ نے جو قر بانیاں کیں ان کی نظیر ہمیں کسی اور نبی میں نظر نہیں آتی اس لئے کہ ہر نبی جانتا تھا کہ اگر میرے ہاں کوئی نقص ہوا تو دوسرا نبی اس کو دور کر دے گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ اب مجھ پر ہی تمام ذمہ واری ہے اس لئے آپ نے جس رنگ میں دین کی خدمت کی وہ بالکل بے نظیر ہے.یہی وہ احساس تھا جس کے ماتحت محمد رسول اللہ ﷺ نے بدر کے موقع پر فرمایا کہ اے خدا ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو لَنْ تُعْبَدَ فِي الْاَرْضِ اَبَداً لے تیری اس کے بعد زمین پر کہیں پرستش نہیں ہو گی.گویا جس طرح محمد رسول اللہ الا اللہ خدا تعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اسی طرح صحابہ

Page 421

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور اس اکلوتے روحانی بیٹے کی روحانی نسل تھے اور اگر وہ ہلاک ہو جاتے تو آپ کی روحانی نسل ماری جاتی اور چونکہ آپ خدا تعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اس لئے آپ کی نسل کے مارے جانے کے یہ معنی تھے کہ دنیا میں خدا کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہتا یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب بدر کے موقع پر دیکھا کہ مسلمان تھوڑے ہیں اور کفار زیادہ.پھر وہ ساز وسامان سے مسلح ہیں اور ان کے پاس بہت کم سامان ہے اور بظاہر ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور جُھکے اور انہوں نے کہا اے میرے روحانی باپ! آج دنیا میں صرف میرے ذریعہ سے تیری روحانی نسل قائم ہے اگر آج میری نسل ماری گئی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نہ میری نسل رہے گی اور نہ تیری نسل رہے گی.اس اصل کو مد نظر رکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی جس محنت سے تربیت کی اور کسی نبی نے نہیں کی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ صرف میری روحانی اولا دہی نہیں بلکہ چونکہ میں اکلوتا ہوں یہ میرے روحانی باپ کے فیض کے جاری رکھنے والی ایک ہی نسل ہے اس لئے میں نے ان کی تربیت اپنی اولاد سمجھ کر ہی نہیں کرنی بلکہ اس خیال سے بھی کرنی ہے کہ میرے روحانی باپ کا فیضان بھی ان کے بغیر بند ہو جاتا ہے.باقی ہر نبی کو اپنی امت کے متعلق صرف یہ خیال رہتا تھا کہ وہ اس کی اُمت ہے.حضرت عیسی اپنی امت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی امت ہے، حضرت موسی اپنی اُمت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی اُمت ہے حضرت نوح اپنی امت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی اُمت ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺ یہ جانتے صلى الله تھے کہ یہ میری ہی اُمت نہیں بلکہ میرے اللہ کی بھی امت ہے.پس ان کی محبت اپنی امت سے دو ہری تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے مرنے سے صرف میری نسل کا ہی انقطاع نہیں بلکہ میرے خدا کی روحانی نسل کا بھی انقطاع ہے اس لئے آپ کی تربیت قومی میں اس احساس کا بہت بڑا دخل تھا اور آپ نے جس محنت اور محبت سے تربیت کی اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی.میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں جس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکیں گے کہ جذبات محبت کیسا شاندار نظارہ پیدا کر دیا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول جب گھوڑے سے گر کر سخت بیمار ہو گئے اور آپ کی حالت ایسی نازک ہوگئی کہ خیال کیا جاتا تھا شاید آپ جانبر نہ ہوسکیں.تو ایک دن جبکہ آپ کی حالت سخت نازک تھی میں آیا اور سارا دن آپ کے پاس بیٹھا رہا.انہی دنوں میرا بیٹا ناصر احمد بھی سخت بیمار تھا.شدید قسم کی اسے پچپش تھی بار بارخون آتا اور ساتھ آؤں بھی اور اس کی یہ تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ اس کی والدہ نے یہ خیال کیا کہ اب وہ شاید مرنے والا ہے.چنانچہ عصر

Page 422

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور کے قریب ایک آدمی میرے پاس گھبرایا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ ناصر احمد کی حالت سخت نازک ہے آپ جلدی گھر چلیں.میں نے اسے اشارہ کیا کہ واپس چلے جاؤ چنانچہ وہ واپس چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا اور کہنے لگا کہ جلدی چلیں ناصر احمد کی حالت سخت خراب ہوگئی ہے.میں پھر بھی نہ اُٹھا اور اسے اشارہ کر کے واپس کر دیا.تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر آیا اس وقت حضرت خلیفہ اول ہوش میں آچکے تھے.اس نے کہا کہ ناصر احمد کی حالت خطر ناک ہے جلد آئیں مگر میں پھر بھی نہ اُٹھا اور وہیں بیٹھا رہا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت خلیفہ اول نے میری طرف منہ پھیرا اور فرمایا میاں تم گئے نہیں اور پھر کہا تم جانتے ہو وہ کس کی بیماری کی اطلاع دے کر گیا ہے.وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں وہ حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے.معلوم ہوتا ہے تم نے اس نکتہ نگاہ سے پیغام پر غور نہیں کیا.چنانچہ میں آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اُٹھا اور گھر چلا آیا تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں بعض دفعہ ایک بڑی نسبت کو انسان مد نظر رکھ لیتا ہے.اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ میرے روحانی فرزند ہیں بلکہ اس نگاہ سے دیکھا کہ وہ میرے خدا کی روحانی نسل ہیں اور انہی کے ذریعہ دنیا میں دین کا قیام ہے اگر ان کی اچھی تربیت نہیں ہوگی تو تمام دنیا تباہ ہو جائے گی.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے جس محبت سے اپنے صحابہ کو پالا وہ ایسی بے نظیر ہے کہ واقعات پڑھ کر جذبات قابو میں نہیں رہتے.حضرت ابو ہریرہ کا واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے.وہ کہتے ہیں چونکہ میں نے کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کیا تھا اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے قسم کھا لی کہ اب میں ہر وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا اور آپ کی باتیں سنتا رہوں گا ، مگر وہ تھے غریب.ماں غالباً عیسائی تھی ، بھائی مسلمان ہو گیا تھا مگر اس میں اتنا جوش نہیں تھا جتنا ان میں بلکہ وہ رسول کریم عیے سے شکایتیں کیا کرتا تھا کہ ابو ہریرہ نکما رہتا ہے کچھ کام نہیں کرتا اور آپ فرماتے کہ تمہیں کیا معلوم خدا تمہیں اس کی وجہ سے رزق دے رہا ہو.بہر حال وہ کہتے ہیں میں نے عہد کر لیا کہ میں اب مسجد سے نہیں ہلوں گا بلکہ یہیں بیٹھا رہوں گا اور جب بھی رسول کریم یہ کوئی بات فرمائیں گے اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لونگا مگر چونکہ ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے بعض دفعہ انہیں سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا اور بھوک کی شدت سے بے ہوش ہو جاتے.وہ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے اتنی بھوک لگی کہ بے تاب ہو گیا اور مسجد کے دروازہ کے سامنے اس خیال سے جا کر الله

Page 423

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور کھڑا ہو گیا کہ ممکن ہے کسی کو میری شکل دیکھ کر خیال آ جائے اور وہ مجھے کچھ کھانے کیلئے دے دے.اتنے میں کیا دیکھا کہ حضرت ابو بکر آرہے ہیں میں نے ان کے سامنے ایک قرآنی آیت پڑھی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور پوچھا کہ اس کے معنی کیا ہیں؟ وہ اس آیت کی ایک تفسیر کر کے آگے چل دیئے.حضرت ابو ہریرہا اس موقع پر کہتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا یہ آ گئے تھے بڑا قرآن جاننے والے.کیا مجھے اس آیت کے معنی نہیں آتے تھے.میں نے تو اس لئے پوچھا تھا کہ وہ سمجھ کر مجھے کچھ کھلا دیں مگر انہوں نے مطلب بتا دیا اور چلے گئے.پھر حضرت عمر کو آتے دیکھا تو میں نے ان کے سامنے بھی وہی آیت پڑھ دی وہ بھی اس کا مطلب بتا کر چل دیئے.حضرت ابو ہریرہ پھر کہتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا عمر سمجھتے ہیں انہیں بڑا قرآن آتا ہے بھلا مجھے ان سے کم قرآن آتا ہے میں نے تو اس لئے پوچھا تھا کہ وہ سمجھ جاتے اور مجھے کچھ کھلا پلا دیتے مگر انہوں نے بھی ایک معنی بتائے اور چلے گئے.وہ کہتے ہیں اب میں حیران کھڑا تھا کہ کیا کروں کہ اتنے میں مجھے پیچھے سے ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی.ابو ہریرہ صلى الله بھو کے ہو؟ میں نے مُڑ کر دیکھا تو رسول کریم ﷺ کھڑے تھے اور جس بات کو ابو بکر اور عمر میرے منہ سے نہ پہچان سکے اسے رسول کریم ﷺ نے اپنے گھر بیٹھے میری آواز سے پہچان لیا.میں آپ کے پاس گیا تو آپ نے کھڑ کی کھولی اور فرمایا ادھر آؤ.پھر فرمانے لگے.ہمارے گھر میں بھی کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا ایک دوست نے ابھی ابھی کچھ دودھ بھیجا ہے میں چاہتا ہوں کہ مسجد میں اور بھی جس قدر لوگ ایسے موجود ہوں جنہوں نے کچھ کھایا نہ ہو تو ان سب کو بلا لاؤ.وہ کہنے لگے میں نے دل میں کہا کہ پیالہ ایک ہے اور اگر کچھ اور بھی پینے والے آگئے تو میرے لئے کیا بچے گا مگر رسول کریم ﷺ کا چونکہ حکم تھا اس لئے چلا گیا.دیکھا تو ایک نہ دو بلکہ سات آدمی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے بھی کچھ نہیں کھایا.میں ان سب کو اکٹھا کر کے رسول کریم علی کے پاس لایا.آپ نے دودھ کا پیالہ لیکر ان میں سے ایک شخص کو دے دیا اور اس نے پینا شروع کر دیا.میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میرے لئے تو کچھ نہیں بچے گا مگر خیر اس نے پیا اور کچھ صلى الله چھوڑ دیا.میں نے کہا کہ اسے کچھ تو شرم آئی ہے سارا دودھ تو نہیں پی گیا مگر رسول کریم علیہ نے اسے فرمایا اور پیڈ.اب میں بڑا پریشان ہوا کہ آگے تو کچھ بیچ بھی گیا تھا مگر اب کیا بچے گا.اس نے بھی پیالے کو منہ سے لگا لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا جب بس کر چکا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ.پھر اس نے اور دودھ پیا.جب سیر ہو گیا تو میں نے سمجھا کہ اب میری باری آئے

Page 424

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور گی مگر رسول کریم ﷺ نے پھر دوسرے کو پیالہ دے دیا.پھر تیسرے کو، پھر چوتھے کو، پھر پانچویں کو ، پھر چھٹے کو ، پھر ساتویں کو اور جب سب سیر ہو چکے تو آپ نے مجھے پیالہ دیا.میں نے دیکھا کہ وہ دودھ سے اسی طرح کبا کب بھرا ہوا ہے جس طرح پہلے بھرا تھا، اور خدا نے اس میں کچھ ایسی برکت رکھ دی کہ ایک قطرہ بھی کم نہ ہوا.خیر میں نے پینا شروع کر دیا اور اتنا پیا اتنا پیا کہ بالکل سیر ہو گیا اور پیالہ رسول کریم ﷺ کو دینا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ.میں نے پھر پینا شروع کر دیا اور جب بہت ہی سیر ہو گیا تو ختم کر دیا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ.آخر کہتے ہیں میں نے اس قدر دودھ پیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا اب دودھ میرے ناخنوں میں سے بہنے لگ جائے گا.چنانچہ میں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! اب مجھ سے پیا نہیں جاتا.اس پر آپ نے پیالہ لیا اور اس دودھ کو خود پی کر ختم کر دیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اس دودھ میں ایسی برکت رکھ دی کہ سب سیر ہو گئے اور دودھ بھی بیچ رہا.نادان ان باتوں پر ہنستا ہے مگر جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں ان کے نزدیک یہ ناممکن بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی بعض ایسے ہی معجزات ہیں اور جب آپ کے خادم کے ہاتھ پر ایسے نشانات ظاہر ہو چکے ہوں تو آقا کے ہاتھ پر ان کا ظاہر ہونا کوئی تعجب انگیز نہیں ہو سکتا.میں نے خود ایک دفعہ ایسا ہی نشان دیکھا.سخت گرمی کے ایام تھے اور میں نے روزہ رکھا ہوا تھا.اس دن مجھے روزہ سے اتنی سخت تکلیف ہوئی کہ میں بے تاب ہو گیا.اس بے تابی کی حالت میں مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے میرے منہ میں پان ڈال دیا ہے جس میں کچھ مشک بھی ہے.جب یہ حالت جاتی رہی اور آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مشک کی میرے منہ سے خوشبو آ رہی تھی اور اس کی طراوت میرے رگ وریشہ میں ایسی اثر کر گئی تھی کہ پیاس کا نام و نشان تک نہ تھا.اسی طرح ایک دفعہ رویا میں کسی بزرگ نے میرے منہ میں مشک ڈال دیا.میری بیوی پاس ہی سو رہی تھیں جب میں خواب سے بیدار ہوا تو میں نے ان کو جگایا اور کہا کہ ذرا میرے منہ کو تو سونگھنا.انہوں نے کہا سونے کے بعد انسان کے منہ سے ضرور کچھ نہ کچھ بُو آتی ہے مگر آپ کے منہ سے تو تیز مشک کی خوشبو آ رہی ہے.تو ایسے کئی نشانات ہم نے دیکھے ہیں، اس لئے ان معجزات کے بارہ میں ہمیں کسی تاویل کی ضرورت نہیں مگر میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایسے معجزات ہمیشہ مؤمنوں

Page 425

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور کے سامنے دکھائے جاتے ہیں کافروں کے سامنے نہیں دکھائے جاتے.پھر مرض الموت کا ایک واقعہ بتاتا ہے کہ آپ صحابہ سے کس قدر شفقت رکھتے تھے.احادیث میں آتا ہے جب آپ کی وفات قریب آئی تو آپ سخت کرب اور اضطراب کی حالت میں کبھی دایاں پہلو بدلتے اور کبھی بایاں اور پھر فرماتے خدا یہود اور نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ہے.سے یہ کتنی شفقت ہے جو اپنی امت کے لئے رسول کریم اللہ نے ظاہر فرمائی کہ وفات کے وقت بھی آپ انہیں بار بار بتاتے تھے کہ دیکھنا شرک کے قریب نہ جانا.اگر باقی انبیاء بھی اسی رنگ میں اپنی امت کی نگرانی کرتے تو وہ کہاں گمراہ ہوتیں.پھر ایک دفعہ مدینہ میں دشمن کا کچھ خطرہ محسوس ہوا اور خیال ہونے لگا کہ کہیں وہ مدینہ پر حملہ نہ کر دے.ان دنوں یہ عام افواہ تھی کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے.ایک رات اچانک مدینہ میں شور مچ گیا اور سمجھا جانے لگا کہ عیسائی لشکر حملہ آور ہو گیا ہے.صحابہ ادھر اُدھر دوڑ پڑے اور کچھ مسجد میں جمع ہو گئے.حضرت عمرو بن العاص بھی انہی میں سے تھے جو مسجد میں جمع ہوئے اور جن کی رسول کریم اللہ نے بعد میں بڑی تعریف کی کہ انہوں نے خوب ہوشیاری سے کام لیا.غرض صحابہ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر باہر ایک چکر لگایا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا حالت ہے.اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ع ہے اکیلے باہر سے تشریف لا رہے ہیں.آپ نے صحابہ کو دیکھ کر فر ما یا کہ میں شور سن کر اکیلا یہ دیکھنے کیلئے چلا گیا تھا کہ کیا ہوا مگر معلوم ہوا ہے کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے گویا صحابہ صلى الله تو محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے آپ کے دروازے پر جمع ہوئے اور محمد رسول اللہ علیہ صحابہؓ کی حفاظت کیلئے ان سے بھی پہلے اکیلے اپنے گھر سے باہر تشریف لے گئے.غرض بہت سے واقعات ہیں جن سے تم یہ معلوم کر سکتے ہو کہ ہمارا محبوب ہم سے کیسی محبت کرنے والا تھا اور پھر تم یہ بھی نتیجہ نکال سکتے ہو کہ جو باپ اپنی اولاد سے اتنی محبت کرنے والا ہو اس سے اس کی روحانی اولاد نے کتنی شاندار محبت کی ہوگی.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا جیسے امرتسر میں ملکہ کا سٹیچو ہوا کرتا تھا ایسا ہی ایک سنگ مرمر کا چبوترہ ہے اور اس کے قریب ایک نہایت خوبصورت بچہ ایسی حالت میں کھڑا ہے کہ ایک گھٹنا اس نے ٹیکا ہوا ہے اور دوسرا اس نے جھکایا ہوا ہے.اس کا رنگ سفید اور اس کے نقوش بہت خوبصورت ہیں.میں نے دیکھا کہ اس بچہ نے آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھائی ہوئی ہیں.

Page 426

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور گویا وہ اس امر کی التجا کر رہا ہے کہ اس پر اوپر کی طرف سے محبت نازل ہو.رویا میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ بچہ حضرت مسیح علیہ السلام ہیں.یکدم میں نے دیکھا کہ آسمان پھٹ گیا اور اس میں سے عورت کی شکل میں ایک وجود اترا جس نے نہایت خوبصورت رنگوں والا لباس پہنا ہوا تھا.ویسے رنگ میں نے آج تک دنیا میں نہیں دیکھے.میں نے رویا میں اس کے پر بھی دیکھے اور میں نے دیکھا کہ پر پھیلائے ہوئے وہ آہستہ آہستہ آسمان سے اتر رہی ہے یہاں تک کہ وہ اس بچہ کے پاس پہنچی اور دونوں آپس میں چمٹ گئے.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ یہ عورت حضرت مریم علیہا السلام ہیں تب میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا Love Creats Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے.حقیقت یہی ہے کہ محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوا کرتی ہے.محمد رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے صحابہ سے بے نظیر محبت کی تو صحابہ نے بھی اس کے مقابلہ میں وہ عشق دکھایا جس کی کوئی حد نہیں.چنانچہ حسان کا وہ شعر کتنا دردناک ہے جو آپ کی وفات پر انہوں نے کہا کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِى فَعَمِيُّ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ کہ اے محمد ! تو تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا اب تیرے مرنے سے میں تو اندھا ہو گیا مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.میں تو تجھ کو ہی موت سے بچانے کی کوشش کیا کرتا تھا.اب جبکہ تو ہی زندہ نہیں رہا تو مجھے کسی اور کی موت کی کیا پروا ہو سکتی ہے.پھر رسول کریم ﷺ کی شفقت اور آپ کی محبت صرف اپنے صحابہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ جیسی محبت آپ نے اپنے صحابہ سے کی ویسی ہی ہم سے بھی کی.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے آپ نے اپنے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا ایک دفعہ بڑی ہی محبت اور پیار سے ذکر کیا اور صحابہ سے فرمایا تم تو میرے صحابی ہو مگر وہ میرے بھائی ہوں گے.صحابیت میں صرف دوستی کا تعلق ہوتا ہے مگر بھائی بھائی میں ایک خونی رشتہ ہوتا ہے.پس آنے والوں کا ذکر آپ نے اس رنگ میں کیا گویا ان کو اپنا رشتہ دار اور بھائی قرار دے دیا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے سمجھا بعد میں آنے والے جب آئیں گے تو ان کو رشک پیدا ہوگا کہ ہمیں کچھ نہ ملا.تمام درجات صحابہ نہی لے گئے اس لئے آپ نے بعد میں آنے والوں کے قلوب کی تسلی کے لئے فرمایا کہ تم تو صحابی ہو

Page 427

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور مگر وہ میرے بھائی ہوں گے.پس جس آنکھ سے آپ نے صحابہ کو دیکھا نا ممکن ہے کہ آج بھی تیرہ سو سال گزرنے پر ہم اسی آنکھ سے آپ کی تعلیم کو نہ دیکھیں.کیا کیا رسوم تھیں جن سے صلى الله رسول کریم ﷺ نے ہمیں بچایا ، کیا کیا اعمال بد تھے جن سے آپ نے بنی نوع انسان کو نجات دلائی ، میں تو بعض دفعہ جب یہ سوچتا ہوں کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ نہ آتے تو کیا ہوتا تو مجھے جنون ہونے لگتا ہے.ایسے مہربان باپ کی وفات کے قریب کی نصیحت تم سمجھ سکتے ہو کہ کتنی اہم ہوگی باپ بیٹے سے محبت کرتا ہے بیٹا باپ سے محبت کرتا ہے اگر دوسرے وقتوں میں یہ محبت بالکل اور قسم کی ہوتی ہے تو وفات کے وقت بالکل اور قسم کی.رسول کریم ﷺ کو بھی جب بتایا گیا کہ آپ کی وفات اب قریب ہے تو حجتہ الوداع کے موقع پر جس کے بعد آپ نے کوئی حج نہیں کیا اور جس کے صرف اتنی دن بعد آپ وفات پاگئے آپ نے فرمایا اعلان کرد و الصَّلوةُ جَامِعَةٌ یہ لوگوں کو جمع کرنے کا ایک طریق تھا کہ سب لوگوں کو کہا جاتا اے لوگو عبادت کیلئے جمع ہو جاؤ.جب سب صحابہ اکٹھے ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے ایک تقریر کی جو ایسی درد ناک تھی کہ کوئی شخص نہیں تھا جس کی آنکھیں اس وقت چشمہ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر نہ بہہ رہی ہوں.ایک صحابی اس وقت کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! کیا یہ نصیحت الوداعی ہے اور کیا ہم سمجھ لیں کہ اب آپ کی وفات آ گئی ؟ سکے اس وقت رسول کریم ﷺ نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک آپ کی وہ وصیت ہے جس کا میں آج ذکر کرنا چاہتا ہوں اور تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ شفیق باپ جس نے اپنی روحانی اولاد کی بہبودی کیلئے تمام عمر صرف کر دی اس نے عین اس وقت جبکہ اسے اپنی وفات کا الہام ہو چکا تھا تمہیں ایک وصیت کی ہے اور اس نے وصیت کرتے ہوئے تمہیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ تم اس وصیت کو اپنے دوسرے بھائیوں تک پہنچاؤ.پس ایسے شفیق باپ کی آخری وصیت کی جو اہمیت ہو سکتی ہے ہر شریف بیٹا اس کا احساس کر سکتا ہے اور چونکہ ہم سب آپ کی روحانی اولاد میں سے ہیں اس لئے جس نظر سے صحابہ نے آپ کو دیکھا اسی نظر سے دیکھنا ہمارا کام ہے اور ہم میں سے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اس وصیت کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے.وہ وصیت یہ ہے.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ إِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَاَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ

Page 428

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هذَا فِي بَلَدِكُمْ هذَا ث جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میدان میں آئے اور آپ نے ایک تقریر کی جس میں فرمایا.اے دوستو ! سن لو تمہاری ایک دوسرے کی جانیں، تمہارے ایک دوسرے کے اموال اور تمہاری ایک دوسرے کی عزتیں خدا نے تم پر حرام کر دی ہیں اور تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم اپنے کسی بھائی کی جان کو تکلیف دو، یا اس کے مال پر حملہ کرو ، یا اس کی عزت پر حملہ کرو.جس طرح حج کا دن خدا نے عزت والا بنایا ہے ویسے ہی ادنیٰ سے ادنی مسلمان کے خون ، اس کے مال اور اس کی عزت کی تو قیر اس نے تم پر واجب کی ہے اور جس طرح ذوالحجہ کو عزت حاصل ہے اسی طرح خدا نے ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے خون ، اس کے مال اور اس کی عزت کو مقام بخشا ہے اور جو عزت خدا نے مکہ کو دی ہے وہی عزت اس نے ایک ادنیٰ سے ادنی مسلمان کے خون، مال اور عزت کو دی ہے.پس جو شخص اپنے کسی بھائی کی جان پر حملہ کرتا ہے وہ مکہ پر حملہ کرتا ہے، وہ ذوالحجہ پر حملہ کرتا ہے، وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے، اسی طرح جو شخص اپنے بھائی کے مال پر حملہ کرتا ہے وہ مکہ پر حملہ کرتا ہے ، وہ ذوالحجہ پر حملہ کرتا ہے اور وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے.اسی طرح جو شخص اپنے کسی بھائی کی عزت پر حملہ کرتا ہے وہ بھی مکہ پر حملہ کرتا ہے وہ ذوالحجہ پرحملہ کرتا ہے وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے.اے عزیز و! کبھی تم نے غور کیا کہ جب کسی کے مال میں تم خیانت کرتے ہو یا کسی کا قرضہ ادا نہیں کرتے یا غیظ و غضب سے مشتعل ہو کر دوسرے کو مارتے یا اسے گالیاں دیتے ہو.یا جوش میں اسے ذلیل کرنے اور لوگوں میں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہو تو تم خدا کے حضور کتنے بڑے جُرم کے مرتکب بنتے ہو.کیا تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو اپنے ہاتھ سے کعبہ کی اینٹیں گرانے کی جرات کر سکے.اگر ایک منافق اور ذلیل ترین انسان بھی ایسی جرات نہیں کر سکتا تو تم ایک مسلمان کی عزت ایک مسلمان کے مال اور ایک مسلمان کی جان پر کس طرح حملہ کرتے ہو جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر مسلمان کی جان ، اس کا مال اور اس کی عزت خدا کے حضور وہی مقام رکھتی ہے جو جج کا دن رکھتا ہے جو ذ والحجب رکھتا ہے اور جو مکہ مکرمہ رکھتا ہے.پھر ایک دوسری روایت میں جوابی بکرہ سے مروی ہے آتا ہے کہ رسول کریم ہے جب یہ بات بیان فرما چکے تو آپ نے فرمایا اَلا فَلْيُبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ث کہ اے دوستو تم تو میرے سامنے موجود ہو.مگر تمہارے سوا کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اس وقت اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے

Page 429

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں جو بعد میں آئیں گے.پس جس شخص کے کان میں میری یہ بات پڑے اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بات اپنے دوسرے بھائی کے کان میں بھی ڈالے.پھر آپ نے اس پر اور زیادہ زورد ور دینے کیلئے اس فقرہ کو ہرایا اور فرمایا الافليُبَلِّعَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ اب دیکھو یہ کتنی لطیف نصیحت ہے جو رسول کریم ﷺ نے کی اور آپ نے اس میں اصلاح اعمال کا کیا لطیف گر بیان فرمایا ہے.اگر مسلمان اس گر کو سمجھ لیتے تو وہ ہزاروں فتنوں سے بچ جاتے.آج کل لوگ فاتحہ کے کارڈ تقسیم کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو اس پر یہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ جو اسے دوسرے تک نہیں پہنچائے گا وہ عذاب میں گرفتار ہو جائے گا اور اس طرح لوگ ڈر کے مارے دوسروں تک پہنچاتے جاتے ہیں.مگر دیکھو رسول کریم ﷺ نے اس طریق کو کس عمدگی اور خوبی کے ساتھ جاری کیا.وہ تحریر کا زمانہ نہیں تھا کہ آپ کارڈوں پر لکھوا کر فرماتے کہ ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاؤ.وہ ایسا زمانہ تھا کہ لوگ باتیں سنتے اور پھر اپنے دلوں اور دماغوں میں محفوظ رکھتے.اب آپ لوگوں نے مجھ سے یہ حدیث سنی ہے اور چونکہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جو بھی اسے سنے وہ دوسروں تک پہنچا دے اس لئے آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو بتائے کہ دیکھو رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جس طرح خانہ کعبہ کی تمہارے دل میں عزت ہے، جس طرح حج کے دن کی تمہارے دل میں عزت ہے، جس طرح ذوالحجہ کی تمہارے دل میں عزت ہے وہی عزت تمہیں ایک ادنیٰ سے ادنی مؤمن کی جان ، اس کے مال اور اس کی آبرو کی کرنی چاہئے اور ساتھ ہی کہہ دو کہ رسول کریم ﷺ کا یہ بھی حکم ہے کہ جو شخص یہ حدیث سنے اسے دوسروں تک پہنچا دے.اسی طرح یہ بات لوگوں میں پھیلتی چلی جائے گی اور چونکہ آدمی محدود ہیں اس لئے چکر کھا کر لازماً یہ بات ہمارے پاس بھی پہنچے گی اور پھر ہمارا فرض ہو جائے گا کہ ہم اوروں کو سنائیں اور یہ امر ان کے ذہن نشین کر دیں کہ ایک مسلمان کے خون مال اور آبرو کی کیا قیمت ہے.اگر مسلمان اس حدیث کو انہی معنوں میں لیتے جو میں نے بیان کئے ہیں تو سال میں دو چار دفعہ وہ ضرور یہ حدیث سن لیتے کہ رسول کریم ﷺ نے وفات کے قریب یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کا خون، ان کا مال اور ان کی آبرود وسرے مسلمانوں پر ویسی ہی حرام ہے جیسے مکہ مکرمہ، جیسے ذوالحجہ اور جیسے حج کا دن.میں جانتا ہوں کہ جو چیز بار بار دہرائی جائے اُس کا لوگوں پر اثر ہوتا چلا جاتا ہے.عیسائیوں نے جب بار بار کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو لوگ انہیں خدا کا بیٹا

Page 430

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور ماننے لگ گئے.کیا مسلمان اگر یہ دُہراتے چلے جائیں گے کہ ہر مؤمن کی جان، مال اور آبرو کی عزت کرنا دوسرے مسلمان پر فرض ہے اور جو اس کی ہتک کرتا ہے وہ ویسا ہی مجرم ہے جیسے خانہ کعبہ یا ذوالحجہ یا حج کے ایام کی ہتک کرنے والا تو کیوں دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا اور کیوں فتنہ و فساد مٹ نہیں جائے گا.اب پیچھے جو کچھ غفلت ہو چکی وہ تو ہو چکی آئندہ کیلئے میں یہ حدیث آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور رسول کریم ﷺ کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا تا ہوں وہ شفیق باپ جس نے ساری عمر تمہارے لئے قربانیاں کیں اور جس کی تعلیم آج تک مردوں اور عورتوں پر احسانات کرتی چلی آئی ہے اس نے اپنی وفات کی خبر سن کر تم سب کو کہا کہ یاد رکھوان دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هذَا اور پھر فرمایا جو شخص یہ حدیث سنے اس کا فرض ہے کہ وہ اُسے دوسروں تک پہنچا دے پس باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو یہ بات بتائے ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو یہ بات بتائے.دادا کا فرض ہے کہ وہ اپنے پوتے کو بتائے اور پوتوں اور پڑ پوتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو بتا ئیں.اگر مسلمان اسی طرح رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاتے تو ہر مسلمان اس بات پر فخر کا اظہار کر سکتا کہ اس نے رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث کسی کتاب میں پڑھنے کی بجائے رادیوں کی زبان سے براہ راست سنی ہے اور یہ فخر کچھ کم فخر نہ ہوتا حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے رسول کریم ﷺ کی چالیس حدیثیں ایسی پہنچی ہیں جن کا سلسلہ اسناد بغیر کسی وقفہ کے رسول کریم ﷺ تک پہنچتا ہے.اسی طرح اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاتے تو ہر مسلمان یہ کہتا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث براہ راست آپ سے سنی ہے.پس میں آج آپ لوگوں کے سامنے یہ چھوٹی سی بات پیش کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنے دل میں یہ عہد کرے کہ وہ کسی دوسرے کو رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث سنا دے گا اور جب سنا چکے تو کہے ا کہ رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس مجلس میں یہ حدیث بیان ہو اس کا حاضر غائب کو سنا دے اس طرح یہ حدیث چکر کھا کر پھر پانچ سات ماہ کے بعد تمہارے پاس پہنچے گی اور تمہیں پھر وہ نظارہ یاد آ جائے گا جب رسول کریم علی اللہ کو اپنی وفات کا الہام ہوا اور آپ کو یہ خطرہ محسوس ہو ا کہ وہ لوگ جنہیں زندگی میں سنبھالتا رہا میری وفات کے بعد نہ معلوم کن فتنوں میں مبتلاء ہو جائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اب جاتا ہوں مگر دیکھو ان دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمُ

Page 431

انوار العلوم جلد ۱۵ اہم اور ضروری امور حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِى بَلَدِكُمْ هذَا اور آپ نے فرمایا فَلْيُبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِب اور پھر اس کو دو دفعہ دُہرایا تا کہ مسلمان اس کے پہنچانے میں غفلت سے کام نہ لیں.اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے رہتے تو ان کے دلوں میں ایسی نرمی ،محبت ، دیانت اور تقویٰ پیدا ہو جاتا کہ وہ اپنے کسی بھائی کو نہ ستاتے ، نہ اس کی جان پر حملہ کرتے نہ اس کے مال پر حملہ کرتے ، نہ اس کی آبرو پر حملہ کرتے اور اگر کوئی منہ پھٹ کبھی حملہ کر بیٹھتا تو دوسرا اسے یاد دلا دیتا کہ میاں کیا کرنے لگے ہو.تم خانہ کعبہ پر حملہ کرتے ہو، تم ذوالحجہ پر حملہ کرتے ہو، تم حج کے دن پر حملہ کرتے ہو، کیا اتنے مقدس مقامات پر حملہ کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی اور یقیناً اس کے بعد وہ شرمندہ ہوتا اور اپنے اس نار وافعل پر ندامت کا اظہار کرتا.پس اس سبق کو اچھی طرح یاد رکھو اور دوسروں تک پہنچا دو.اگر تم اس تحریک پر عمل کرو گے تو جماعت میں آہستہ آہستہ صحیح تقویٰ پیدا ہو جائے گا اور سوائے ازلی شقیوں کے جن کا کوئی علاج خدا نے مقرر نہیں کیا ، باقی سب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے اور جماعتی اتحاد کو کسی طرح ضعف نہیں پہنچے گا کیونکہ گو یہ ایک چھوٹا سا لگتہ ہے مگر اسی پر قومی زندگی کی بنیاد ہے.V مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة (الخ) ( الفضل ۳ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) بخاری کتاب الرقاق باب كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النّبي صلى الله عليه وسلم و اصحابه (الخ) بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب مَا ذُكِرَعَنُ بَنِي إِسْرائيل بخارى كتاب الجهاد والسير باب السرعة والركض في الفزع شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ آرام باغ کراچی کنز العمال جلد ۱۲ ، صفحہ ۱۸۳ - مطبوعه حلب ۱۹۷۴ء مسلم كتاب الحج باب حجة النَّبي صلى الله عليه وسلم بخاری کتاب الفتن باب قول النَّبِي عَل له لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا صلى الله

Page 432

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 433

انوار العلوم جلد ۱۵ بسم تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ ( تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع جلسه خلافت جوبلی ) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں جب سے تقریر کے میدان میں آیا ہوں اور جب سے مجھے تقریر کرنے یا بولنے کا موقع ملا ہے میں نے شروع دن سے یہ بات محسوس کی ہے کہ ذاتی بناوٹ کے لحاظ سے تقریر کرنا میرے لئے بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جسے اُردو میں گھبرا جانا کہتے ہیں اور انگریزی میں NERVAUS ہو جانا کہتے ہیں.میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اپنی دماغی کیفیت کے لحاظ سے میں ہمیشہ نروس ہو جاتا ہوں یا گھبرا جاتا ہوں.مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی تقریر کی اور اس کے لئے کھڑا ہوا تو آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اور کچھ دیر تک تو حاضرین مجھے نظر نہ آتے تھے اور یہ کیفیت تو پھر کبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاص وقت میں جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا میرے دل میں ایک اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ حالت اُس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ بجلی کا وہ کنکشن قائم نہیں ہوتا جو شروع دن سے کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا ہو جایا کرتا ہے اور جب یہ دور آ جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مقرر اور لستان جو اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہیں میرے سامنے بالکل بیچ ہیں اور میرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں.جب میں پہلے پہل تقریر کے لئے کھڑا ہوا اور قرآن کریم سے آیات پڑھنے لگا تو مجھے الفاظ نظر نہ آتے تھے اور چونکہ وہ آیات مجھے یاد تھیں میں نے پڑھ دیں لیکن قرآن گو میرے سامنے تھا مگر اس کے الفاظ مجھے نظر نہ آتے تھے اور جب میں نے آہستہ آہستہ تقریر شروع کی تو لوگ میری نظروں کے سامنے سے بالکل غائب تھے.اس کے بعد یکدم یوں معلوم ہوا کہ کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا

Page 434

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح اتصال ہو گیا ہے.یہاں تک کہ جب میں نے تقریر ختم کی تو حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ تقریر سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے قرآن کریم کے جو معارف بیان کئے ہیں باوجود اس کے کہ میں نے بڑی بڑی تفاسیر پڑھی ہیں اور میری لائبریری میں بعض نایاب تفاسیر موجود ہیں مگر یہ معارف نہ مجھے پہلے معلوم تھے اور نہ میں نے کہیں پڑھے ہیں.سو جب دوران تقریر میں وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ گل دبائی گئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ میرے دماغ میں ایسے معارف نازل کرے گا کہ جو میرے علم میں نہیں ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے بھی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.آج بھی وہ کیفیت شروع ہوئی تھی مگر اس وقت جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں ان کوسن کر وہ دُور ہوگئی.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو دو شخص آپس میں لڑ رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کونسی رات ہے مگر ان کی لڑائی کو دیکھ کر وہ مجھے بھول گئی ہے اسی طرح مجھ پر بھی وہ کیفیت طاری ہوئی تھی مگر ا سکے بعد ایڈریس شروع ہوئے.ان میں سے بعض ایسی زبانوں میں تھے کہ نہ میں کچھ سمجھ سکا اور نہ آپ لوگ اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بناوٹ ہے اور منتظمین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم میں ایسی ایسی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیں اور اس ظاہر داری کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایسا بُرا اثر ہوا کہ وہ کیفیت جاتی رہی.ہم لوگ تو اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہیں اور جن لوگوں نے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں ان کو یہ مشق کرنی پڑتی ہے.سرکاری افسروں کو دیکھ لو مثلاً تحصیلدار اور تھانیدار وغیرہ ہیں سب قسم کے لوگ ان کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہیں اور وہ سب کی باتیں سنتے جاتے ہیں لیکن اس مجلس میں ایسے لوگ بھی تھے جو جذبات کو دبانے کے عادی نہیں.اس لئے ان میں ایک بے چینی سی تھی اور وہ بھاگ رہے تھے اور یہ نظارہ میرے لئے تکلیف دہ تھا اور اس وجہ سے وہ کیفیت دُور ہو گئی.گو اب میں اگر اسی مضمون کو بیان کرنا شروع کر دوں تو وہ بٹن پھر دب جائے گا مگر پہلے جو کچھ میرے ذہن میں تھا وہ اب یاد نہیں آ سکتا.بہر حال مجھے کچھ کہنا چاہئے اور اس کا رروائی کے متعلق جہاں تک دُنیوی عقل کا تعلق ہے میں آب بھی بیان کر سکتا ہوں.مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندر اندر اپنا ایڈریس ختم کر دے گا لیکن سوائے اس ایڈریس کے جو ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے اس میں

Page 435

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح حقیقی اسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے اور اس لئے میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں.محض چھاپ لینے کو میں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا.باقی جو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں ان میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے اور اس کی قدردانی کے طور پر میں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان کا سارا ایڈریس پڑھوں گا.جب سے یہ خلافت جو بلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی یہ دیگر تقاریب مناتے ہیں انہیں کس طرح روک سکیں گے.اب تک اس کے لئے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آسکی اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کو مٹانے کے لئے احمدیت آئی ہے.ہماری کامیابی اور فتح یہی ہے کہ ہم دین کو اسی طرح دوبارہ قائم کر دیں جس طرح رسول کریم ہے اسے لائے تھے اور ایسے رنگ میں قائم کر دیں کہ شیطان اس پر حملہ نہ کر سکے اور کوئی کھڑکی ، کوئی روشن دان اور کوئی ڈر اس کے لئے گھلا نہ رہنے دیں اور جب سے یہ تقریب منانے کی تحریک شروع ہوئی ہے میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشن دان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقع مل سکے اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ میں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا جس میں لکھا تھا کہ اسوقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے.تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہئے.دوسرا انشراح مجھے اس وقت پیدا ہوا جب ڈر مشین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے.اس کو سُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری پچیس سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نا مناسب نہیں اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہو سکتا ہوں اور میں نے سمجھا کہ گواپنی ذات کے لئے اس کے منائے جانے کے متعلق مجھے انشراح نہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہو گیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک

Page 436

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر جواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اس صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے اس کے ہاتھوں میں کسری کے کڑے ہیں.چنانچہ جب ایران فتح ہوا اور وہ کڑے جو کسری دربار کے موقع پر پہنا کرتا تھا غنیمت میں آئے تو حضرت عمر نے اس صحابی کو بلایا اور باوجود یکہ اسلام میں مردوں کے لئے سونا پہننا ممنوع ہے آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو.حالانکہ خلفاء کا کام قیام شریعت ہوتا ہے نہ کہ اسے مٹانا مگر جب اس صحابی نے یہ کہا کہ سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہنو.ور نہ میں کوڑے لگاؤں گا ہے اسی طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گو یہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں مگر چونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں اور اس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا وہ دُور ہو گیا اور میری نظریں اس مجلس سے اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی طرف چلی گئیں اور میں نے کہا ہمارا خدا بھی کیسا سچا خدا ہے.مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس وقت میری ہستی ہی کیا تھی پھر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں یہ لڑکا کیسا نالائق ہے پڑھتا لکھتا کچھ نہیں اس کا خط کیسا خراب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلایا.میں ڈرتا اور کانپتا ہوا گیا کہ پتہ نہیں یہ کیا فرما ئیں گے.آپ نے مجھے ایک خط دیا کہ اسے نقل کرو.میں نے وہ نقل کر کے دیا تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کو جج کے طور پر بلایا اور فر مایا.میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھتا نہیں اور کہ اس کا خط بہت خراب ہے.میں نے اس کا امتحان لیا ہے آپ بتائیں کیا رائے ہے؟ لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھا.حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ حضور ! میرے خیال میں تو اچھا لکھا ہے.حضور نے فرمایا.کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے ملتا جلتا ہی ہے اور بس ہم پاس ہو گئے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو اب پیغامیوں میں شامل ہیں ہمارے اُستاد تھے اور حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی.میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا اور نہ اب تو اچھا آتا ہے.ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ بھی دیا.میں بھی چُپ کر کے کمرہ میں کھڑا رہا.حضور نے ماسٹر صاحب کی شکایت سُن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہی کرنا ہے اس نے کونسی کسی دفتر میں نوکری کرنی ہے.مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جاننا ہی کافی ہے.وہ اسے آتا ہے یا نہیں ؟ ماسٹر صاحب

Page 437

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ نے کہا وہ تو آتا ہے.اس سے پہلے تو میں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کے بعد میں نے وہ بھی چھوڑ دیا اور خیال کر لیا کہ حساب جتنا آنا چاہئے تھا مجھے آ گیا تو یہ میری حالت تھی جب یہ آمین لکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر.دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی.اے اور ایم.اے لائق نہیں ہوتے.لیکن جو لوگ لائق ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سارے وکیل لائق نہیں ہوتے مگر جو ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سب ڈاکٹر خدا تعالیٰ کی صفت شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر بہترین ڈاکٹر ا نہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کئے ہوں.ہر زمیندار مٹی سے سونا نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں اور انہی میں سے ہی ہوتے ہیں تر کھانوں میں سے نہیں.ہر ترکھان اچھی عمارت نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں وہ تر کھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں لوہاروں میں سے نہیں.پھر ہر انجینئر ماہر فن نہیں مگر جو ہوتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے.ہر معمار دہلی اور لاہور کی شاہی مساجد اور تاج محل نہیں بنا سکتا مگر ان کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہی ہوتے ہیں کپڑا بننے والوں میں سے نہیں ہوتے.پس ہرفن کا جاننے والا ماہر نہیں ہوتا مگر جو ماہر نکلتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا کی اُس وقت میں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہلیت نہ رکھتا تھا لیکن اس وقت اس آمین کو سُن کر میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعائیں سُن لیں.جب یہ دعائیں کی گئیں میں معمولی ریڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر اب خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ میں کسی علم کی کیوں نہ ہو انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں اور گومیں انگریزی لکھ نہیں سکتا مگر بی.اے اور ایم.اے پاس محمد ہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال لیتا ہوں.دینی علوم میں میں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ اول سے پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے کہ اور کوئی اس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے.پہلے تو ایک ماہ میں آپ نے مجھے دو تین سیپارے آہستہ آہستہ پڑھائے اور پھر فرمایا میاں ! آپ بیمار رہتے ہیں میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں.آؤ کیوں نہ ختم کر دیں اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے ختم کرا دیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا پھر کچھ اُن کی نیت اور کچھ میری نیت ایسی مبارک گھڑی میں ملیں کہ وہ تعلیم ایک ایسا بیج ثابت ہوا جو برابر بڑھتا جا رہا ہے.اس طرح بخاری آپ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا.

Page 438

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اس میں اگر کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے پڑھتے جاؤ اللہ تعالیٰ خود سب کچھ سمجھا دے گا.حافظ روشن علی مرحوم کو گریدنے کی بہت عادت تھی اور اُن کا دماغ بھی منطقی تھا.وہ درس میں شامل تو نہیں تھے مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو آ کر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے.اُن کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے اسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دئیے.ایک دو دن تو آپ نے جواب دیا اور پھر فرمایا تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بتا دوں گا بخل نہیں کروں گا اور باقی اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا اور میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ فائدہ مجھے اسی نصیحت نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا.یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ میں کوئی کتاب یا کوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ مجھے ملا ہے ان کو نہیں ملا.میں میں جلدوں کی تفسیریں ہیں مگر میں نے کبھی ان کو بالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب سکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں میں ان کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں اور کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے کبھی ان کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس مقام سے بہت دُور کھڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ سب اس کا فضل ہے ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا حتی کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی.یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اس نے مجھے ایک ایسا گر بتادیا کہ جس سے مجھے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے.میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں اور میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہئے اور اُس نے مجھے نہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ اس سے ہر اندھیرا دُور ہو.دشمنوں کی طرف سے مجھ پر کئی حملے کئے گئے ، اعتراضات کئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹا دیں گے اور یہی وہ اندھیرا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے دُور کر دیا اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ اس وقت یہ نظم سُن کر دُور ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہو رہا ہے.دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو پھر الیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو لائیں گے اور جب

Page 439

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح ہم روشن کرنا چاہیں تو کوئی اندھیرا رہ نہیں سکتا اور اس طرح اس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ یہ نظارہ دیکھ کر دُور ہو گیا ور نہ مجھے تو شرم آتی ہے کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو مگر ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے ذریعہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی ہیں اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں اگر وہ نہ کرتا تو نہ مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں، نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اور نہ آپ کی قربانی نے.جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نشان دکھایا.دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دیں مگر خدا تعالیٰ نے نہ مٹایا اور یہ نظارہ دیکھ کر میرے دل میں جو انقباض تھا وہ سب ڈور ہو گیا.اس لئے جن دوستوں نے اس تقریب پر اپنی انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پڑھے ہیں.مثلاً چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب، پروفیسر عطاء الرحمن صاحب، حکیم خلیل احمد صاحب، چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ، حاجی جنود اللہ صاحب اسی طرح دمشق ، جاوا، سماٹرا اور علی گڑھ اور بعض دوسری جگہوں کے دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے پھر بعض ہندو صاحبان نے بھی اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا ہے میں ان سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور ان سب كوجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.کہتا ہوں اور یہ ایسی دُعا ہے کہ جس میں سارے ہی شکریے آ جاتے ہیں.پس میں ان دوستوں کا اور اِن کے ذریعہ ان کی تمام جماعتوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور جَزَاكُمُ الله اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ میرے زندگی کے اور جو دن باقی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دین کی خدمت ، اسلام کی تائید اور اس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا جب اس کے حضور پیش ہونے کا موقع ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد کی تھی تیری ہی توفیق سے میں نے اسے ادا کر دیا.پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہوا سے دُور کرے، اخلاص میں مضبوط کرے اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کر دے.ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے اور ہماری موتوں کو بھی تاجب جنتی سنہیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ روحیں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے آ رہی ہیں.اس کے بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا کہ پروگرام میں اس وقت میری کوئی تقریر نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم آمین کے جو ابھی پڑھی گئی ہے

Page 440

انوار العلوم جلد ۱۵ " تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح ایک شعر کے متعلق میں مختصراً کچھ غرض کرنا چاہتا ہوں.اس وقت جماعت کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک حقیر سی رقم پیش کی جانے والی ہے جس سے حضور کی وہ دُعا کہ دے اس کو عمر و دولت کی قبولیت بھی ظاہر ہو گی.آج ہم حضور کی خلافت پر چھپیں سال گزرنے پر حضور کی خدمت میں حقیر سی رقم پیش کرتے ہیں اور میں آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ تشریف لا کر یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کریں.اس کے بعد جناب چوہدری صاحب نے چیک کی صورت میں یہ رقم پیش کی اور کہا حضور اسے قبول فرمائیں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں اسے استعمال کریں اور حضور مجھے اجازت دیں کہ میں دوستوں کے نام پڑھ کر سُنا دوں جنہوں نے اس فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے تا حضور خصوصیت سے ان کے لئے دُعا فرمائیں اور حضور کی اجازت سے جناب چوہدری صاحب نے وہ نام پڑھ کر سنائے.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.میں نے جو کہا تھا کہ جس وقت آمین پڑھی جا رہی تھی میرے دل میں ایک تحریک ہوئی تھی وہ دراصل یہ مصرع تھا جس کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے مگر چونکہ ابھی تک وہ رقم مجھے نہ دی گئی تھی اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ پہلے ہی اِس کا ذکر کروں.اس کے لئے میں سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حقیقی دولت تو دین ہی ہے دین کے بغیر دولت کو ئی چیز نہیں اور اگر دین ہو اور دولت نہ ہو تو بھی ہم خوش نصیب ہیں.مجھے یہ علم پہلے سے تھا کہ یہ رقم مجھے اس موقع پر پیش کی جائے گی اور اس دوران میں میں یہ غور بھی کرتا رہا ہوں کہ اسے خرچ کس طرح کیا جائے لیکن بعض دوست بہت جلد باز ہوتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں مجھے کئی مشورے دیتے رہے کہ اسے یوں خرچ کیا جائے اور فلاں کام پر صرف کیا جائے یہ بات مجھے بہت بُری لگتی تھی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ ایک طرف تو اس کا نام تحفہ رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف اس کے خرچ کرنے کے متعلق مجھے مشورے دیئے جا رہے ہیں اگر یہ تحفہ ہے تو اس سے مجھے اتنی تو خوشی حاصل ہونی چاہئے کہ میں نے اسے اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے.بہر حال میں اس امر پر غور کرتا رہا ہوں کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس سے برکاتِ خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے.یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 441

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح کے خلفاء اس کام کے کرنے والے تھے جو آپ کے اپنے کام تھے یعنی يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتِهِ ويُزَكِّيهِمْ وَهُمُ والحكمة " قرآن کریم میں رسول کریم کے چار کام بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان بیان کرتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ، ان کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے.کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنی سائنس کے بھی اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائل فقہ کے بھی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکام جماعت بھی ہے اس لئے اس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہئے.بے شک بعض کام جماعت کر بھی رہی ہے مگر یہ چونکہ نئی چیز ہے اس سے نئے کام ہونے چاہئیں اور اس پر غور کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ ابھی کچھ کام اس سلسلہ میں ایسے ہیں کہ جو نہیں ہو رہے.مثلاً یہ نہیں ہو رہا کہ غیر مسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اِس طرف متوجہ ہوں چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونِ ممالک میں شروع کیا جائے اور اس غرض سے ایک، چار یا آٹھ صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جائے جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے.اس وقت تک ان زبانوں میں ہمارا تبلیغی لٹریچر کافی تعداد میں شائع نہیں ہوا.اُردو کے بعد میرا خیال ہے سب سے زیادہ اس ٹریکٹ کی اشاعت ہندی میں ہونی چاہئے.ابھی تک یہ سکیم میں نے مکمل نہیں کی.فوری طور پر اس کا خا کہ ہی میرے ذہن میں آیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم ایک لاکھ اشتہار یا ہینڈ بل وغیرہ اذان اور نماز کی حقیقت اور فضیلت پر شائع کئے جائیں تا ہندوؤں کو سمجھایا جا سکے کہ جس وقت آپ لوگ مساجد کے سامنے سے باجہ بجاتے ہوئے گزرتے ہیں تو مسلمان یہ کر رہے ہوتے ہیں.یہ بات معقول رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے کہ مسلمان تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ اُس وقت ڈھول کے ساتھ ڈم ڈم کا شور کرتے ہیں.آپ سوچیں کہ کیا یہ وقت اس طرح شور کرنے کیلئے مناسب ہوتا ہے جب یہ آواز بلند ہو رہی ہو کہ خدا تعالیٰ سب سے بڑا ہے تو اُس وقت چُپ ہو جانا چاہئے یا ڈھول اور باجہ کے ساتھ شور مچانا چاہئے تو ان کو ضرور سمجھ آ جائے گی کہ ان کی ضد بے جا ہے اور اس طرح اس سے ہند و مسلمانوں میں صلح واتحاد کا دروازہ بھی کھل جائے گا.تعلیم یافتہ غیر مسلم اب بھی ان باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.اسی طرح میں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوئی ہے اسے بھی وسعت دینی چاہئے یہ بھی بہت مفید تحریک ہے اور سیاسی لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.بابو بین چندر پال

Page 442

تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح انوار العلوم جلد ۱۵ کانگرس کے بہت بڑے لیڈروں میں سے ہیں.انہوں نے ان جلسوں کے متعلق کہا تھا کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہترین تجویز ہے اور میں ان جلسوں کو سیاسی جلسے کہتا ہوں اس لئے کہ ان کے نتیجہ میں ہندو مسلم ایک ہو جائیں گے اور اس طرح دونوں قوموں میں اتحاد کا دروازہ کھل جائے گا.میرا ارادہ ہے کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ ہندی میں، ایک لاکھ گورمکھی میں ، پچاس ہزار تامل میں اور اسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کے موٹے موٹے مسائل غیر مسلموں تک پہنچا دیئے جائیں.اشتہار ایک صفحہ دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو اور کوشش کی جائے کہ ہر شخص تک اسے پہنچا دیا جائے اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳ کروڑ باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک اشتہار پہنچ جائے یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کے لئے لکھ کر ایک لاکھ شائع کیا جائے جس میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آپ نے آ کر کیا پیش کیا ہے تا لوگ غور کر سکیں.پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ ان کو وسیع کیا جائے.میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس کی آمد میں سے خرچ ہوتا رہے اور سرمایہ محفوظ رہے.جیسے تحریک جدید کے فنڈ کے متعلق میں کوشش کر رہا ہوں تا کسی سے پھر چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئے.اس میں دینی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے وہ بھی آجائے گی پھر آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غرباء کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے.ہماری جماعت کے غرباء کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گند ذہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھ جاتے ہیں مگر ذہین بوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں.اس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس رقم سے اس کا بھی انتظام کیا جائے اور میں نے تجویز کی ہے کہ اس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے.پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے.مقابلہ کا امتحان ہو اور جو لڑ کا اول رہے اور کم سے کم ستر فی صدی نمبر حاصل کرے اسے انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے اور پھر ا نٹرنس میں اوّل ، دوم اور سوم رہنے والوں کو تمیں روپیہ ماہوار، جو ایف.اے میں یہ امتیاز حاصل کریں انہیں ۴۵ روپے ماہوار اور پھر جو بی.اے میں اول آئے اِسے ۶۰ روپے ماہوار دیا جائے اور تین سال کے بعد جب

Page 443

تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اح انوار العلوم جلد ۱۵ اس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے تو احمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو اور پھر جولڑ کا اول آئے اسے انگلستان یا امریکہ میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے.اس طرح غرباء کی تعلیم کا انتظام ہو جائے گا اور جوں جوں آمد بڑھتی جائے گی ان وظائف کو ہم بڑھاتے رہیں گے کئی غرباء اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے خواہ مخواہ کیوں مشقت اُٹھا ئیں لیکن اس طرح جب ان کے لئے ترقی کا امکان ہوگا تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے مڈل میں اول رہنے والوں کیلئے جو وظیفہ مقرر ہے وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کے لئے ہی مخصوص ہوگا کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کر سکتے.یونیورسٹی کے امتحان میں امتیاز حاصل کرنے والا خواہ کسی یونیورسٹی کا ہو وظیفہ حاصل کر سکے گا ہم صرف زیادہ نمبر دیکھیں گے کسی یو نیورسٹی کا فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اسے حاصل کر سکے گا اور اگر کسی بھی یو نیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کر سکے تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں اسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا.انگلستان یا امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کر کے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں ان کا امتحان لیں گے اور جو بھی فرسٹ رہے گا اسے یہ وظیفہ دیا جائے گا.یزیمم کے ایک معنی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیں اور اس طرح اس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے اس کی فی الحال کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں مگر میرا ارادہ ہے کہ انڈسٹریل تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہو سکے.اسی طرح ایگریکلچرل تعلیم کا بھی ہو تا زمینداروں کی حالت بھی درست ہو سکے.خلفاء کا ایک کام میں سمجھتا ہوں اس عہدہ کا استحکام بھی ہے.میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا حملہ چلا آتا ہے مگر ہم نے اس کے مقابلہ کے لئے کماحقہ توجہ نہیں کی.شروع میں اس کے متعلق کچھ لٹر پچر پیدا کیا تھا مگر اب وہ ختم ہو چکا ہے.پس اس فنڈ سے اس قوم کی ہدایت کے لئے بھی جدوجہد کی جانی چاہئے اور اس کے لئے بھی کوئی سکیم میں تجویز کروں گا.ہماری جماعت میں بعض لوگ اچھا لکھتے ہیں میں نے الفضل میں ان کے مضامین پڑھے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی صورت کی جائے گی.پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.پہلے اسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے

Page 444

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے اس ایک تو ایسا اُصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو، سکھ اسلامی اصول سے آگاہی حاصل کر سکیں.اب تک ہم نے ان کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ اِن لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے.مثلاً آپ کا ایک وو 66 وو الہام ہے کہ آریوں کا بادشاہ ایک ہے جے سنگھ بہادر ہے کرشن روڈ رگو پال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے مگر ہم نے ابھی تک ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.پس آب ان کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہئے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں.پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے.ایک آرٹ ، سائنس، انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظام سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لئے.آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں.اس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں.اس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے سامان لے آئیں.جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے لیکن اس طرح تو بہت سی رسمیں کانگرس کی نقل قرار دینی پڑیں گی.کانگرسی جلسے بھی کرتے ہیں اس لئے یہ جلسہ بھی کانگرس کی نقل ہوگی.گاندھی جی دودھ پیتے ہیں دودھ پینا بھی ان کی نقل ہوگی اور اس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلانا پڑے گا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں سے محروم رہ جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگرس کی نقل نہیں.رسول کریم ﷺ نے خود جھنڈا باندھا اور فرمایا کہ یہ میں اُسے دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا.پس یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے.جھنڈا لہرانا نا جائز نہیں ہاں البتہ اس ساری تقریب میں میں ایک بات کو برداشت نہیں کر سکا اور وہ ایڈریسوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہو میں حکم دیتا ہوں کہ ان سب کو بیچ کر قیمت جو بلی فنڈ میں دے دی جائے.پس جھنڈا رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اس کی ضرورت ہوتی ہے.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تو جہاد سے ہی منع کر دیا ہے پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر میں کہوں گا کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈا ضروری ہے تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں.اگر اب ہم لوگ کوئی جھنڈا معین نہ کریں گے تو بعد میں آنے والے ناراض ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر

Page 445

انوار العلوم جلد ۱۵ تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہی جھنڈا بنا جاتے تو کیا اچھا ہوتا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس میں یہ سُنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہئے.جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”لواے ماپنہ ہر سعید خواہد بود “ “ یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہوگی اور اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں تاسعید روحیں اس کے نیچے آ کر پناہ لیں.یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں.جنگ جمل میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں دشمن نے فیصلہ کیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو آپ نیچے گر جائیں اور آپ کے ساتھی لڑائی بند کر دیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہ نے دیکھا کہ اس طرح آپ گر جائیں گی تو گو آپ دین کا ستون نہ تھیں مگر بہر حال رسول کریم علے کی محبت کی مظہر تھیں اس لئے صحابہ نے اپنی جانوں سے ان کے اونٹ کی حفاظت کی اور تین گھنٹہ کے اندراندرستر جلیل القدر صحابی کٹ کر گر گئے.کے قربانی کی ایسی مثالیں دلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں.پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے اس کے کہ بعد میں آکر کوئی بادشاہ اسے بنائے یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے.اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈ ا کسی کیلئے سند نہیں ہوسکتا.چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی.آج یہاں عرب ، سماٹری ، انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں ایک انگریز نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ایڈریس بھی پیش کیا ہے.جاوا، سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں ، افریقہ کے بھی ہیں انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں.افریقہ کا نمائندہ بھی ہے امریکہ والوں کی طرف سے بھی تار آ گیا ہے اور اس لئے جو جھنڈا آج نصب ہوگا اس میں سب تو میں شامل سمجھی جائیں گی اور وہ جماعت کی شوکت کا نشان ہوگا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا بھی بن جاتا تا بعد میں اس کے متعلق کوئی اختلافات پیدا نہ ہوں.پھر یہ رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے.حضرت مسیح موعود کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر اُترے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے وہ مینارہ بنوایا تا رسول کریم ﷺ کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا

Page 446

انوار العلوم جلد ۱۵ -J تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اِس وجہ سے کہ ہم لوگوں کو باطن کا بھی خیال رہے اور یہ محض ظاہری رسم ہی نہ رہے میں نے ایک اقرار نامہ تجویز کیا ہے پہلے میں اسے پڑھ کر سُنا دیتا ہوں اس کے بعد میں کہتا جاؤں گا اور دوست اسے دُہراتے جائیں.اقرار نامہ یہ ہے:.میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام ، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کیلئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سر نگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے.اللھم امِيْنَ اللَّهُمَّ مِيْنَ اللَّهُمَّ مِيْنَ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ روئیداد خلافت جو بلی ۱۹۳۹ ء صفحه ۹ تا ۲۴ ) بخاری كتاب فضل ليلة القدر باب رفع معرفة ليلة القدر اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۶۵ ۲۶۶ الجمعة ٣ کے تذکرہ صفحه ۳۸۱.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۳۸.ایڈیشن چہارم مسند احمد بن حنبل صفحه ۳۵۳- المكتب الاسلامي بيروت ۳۵۳.المكتب تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۵۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال

Page 447

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده از یدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی خلافت راشده

Page 448

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خلافت راشده تقریر فرموده ۲۸، ۲۹ دسمبر ۱۹۳۹ء بر موقع ( خلافت جوبلی ) جلسہ سالانہ قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میرا طریق ہے کہ ہر خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ضرورت جلسہ سالانہ پر میں ایک علمی تقریر کیا کرتا ہوں اسی کے مطابق میں آج ایک اہم موضوع کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ یہ جلسہ اس بات میں خصوصیت رکھتا ہے کہ اس کا تعلق ” خلافت جوبلی کے ساتھ ہے اور اس کے مضامین کا تعلق بھی مسئلہ خلافت سے ہی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں میری تقریر میں بھی زیادہ تر خلافت کے مختلف پہلوؤں پر ہی بحث ہونی چاہئے.ممکن ہے بعض لوگوں کیلئے یہ امر ملال طبع کا موجب ہو کہ جو شخص بھی تقریر کیلئے اٹھتا ہے وہ خلافت کے موضوع پر تقریر کرنا شروع کر دیتا ہے مگر اس موضوع کی اہمیت اور موجودہ جلسہ سالانہ کا اقتضاء یہی ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق عمدگی کے ساتھ تمام قسم کی تفصیلات بیان کر دی جائیں کیونکہ جس طرح انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ اگر اسے کھانے کیلئے مختلف قسم کی چیز میں دی جائیں تو اُسے فائدہ ہوتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ایک ہی چیز بار بار بھی کھانی پڑتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں اور عیدالاضحیہ کے ایام میں تو خصوصیت کے ساتھ گوشت کے سوا اور کوئی غذا ہی نہیں ہوتی.چنانچہ حج کے دنوں میں بڑی کثرت سے بکرے وغیرہ ذبح ہوتے ہیں اور اُن کا گوشت جتنا کھایا جا سکتا ہے کھا لیا جاتا ہے اور باقی پھینک دیا جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ایک ہی عنوان پر مختلف رنگوں میں روشنی ڈالنا بھی ضروری ہوتا ہے.

Page 449

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مخالفین سلسلہ کی طرف سے اس وقت ہمارے سلسلہ کے خلاف دشمنوں کی طرف سے جو منصوبے کئے جا رہے ہیں اور جن جن تدابیر خلافت کی تنقیص کی کوشش سے وہ احمدیت کے وقار کو ضعف پہنچانا چاہتے ہیں اُن میں سے ایک منصوبہ اور تدبیر یہ ہے کہ ان کی طرف سے متواتر خلافت کی تنقیص کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے دل میں شیطان کو زندہ کیا جا سکے تو اس کے دل میں شیطان کو زندہ کر دیں.اسی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کی دفعہ میں خلافت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں تا کہ جو لوگ فائدہ اُٹھانا چاہیں اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور دین سے محبت رکھنے والوں کیلئے یہ تعلیم برکت اور راہنمائی کا موجب ہو جائے.خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین خلافت کا مسئلہ اسلام کے اہم مسائل میں سے ہے بلکہ میں سمجھتاہوں اگر کمہ شریفہ ترین مسائل میں سے ہے کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند درجہ پر ہو گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے اُن میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے.پس میں نے چاہا کہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات جماعت کے سامنے واضح طور پر پیش کر دوں تا کہ مخالفین پر حجت تمام ہو اور لْيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ ويخيى من حي عن بتنة کا نظارہ نظر آ جائے.یعنی جو شخص دلیل سے گھائل ہونے والا ہو اس کے سامنے دلیل کو کھول کر بیان کر دیا جائے اور جس کا ایمان بصیرت پر مبنی ہو اس کے ہاتھ میں ایسی بین دلیل آ جائے جس سے اس کا ایمان تازہ ہو جائے.اُمّتِ مسلمہ کا نظام کسی مذہبی مسئلہ سب سے پہلے میں اس سوال کو لیتا ہوں جو مغربی تعلیم کے اثر کے نیچے اُٹھایا جاتا ہے کے ساتھ وابستہ کرنیکی ضرورت اور وہی ایک اصولی سوال ہے جس پر اس مسئلہ کا انحصار ہے اور وہ یہ ہے کہ نظام بہر حال ایک دُنیوی چیز ہے اور جب کہ نظام ایک دُنیوی چیز ہے دینی چیز نہیں تو امت مسلمہ کے نظام کو کسی مذہبی مسئلہ کے ساتھ وابستہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں پھر اس پر مذہبی نقطہ نگاہ سے غور

Page 450

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کرنے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنا دین اُتارا اور ہم نے اسے مان لیا اب اسے اس امر میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے لئے کونسا نظام تجویز کرتے ہیں یہ ہر زمانہ میں مسلمانوں کی مرضی پر منحصر ہے وہ جس طرح چاہیں اس کا فیصلہ کر لیں.اگر مناسب سمجھیں تو ایک خود مختار بادشاہ پر متفق ہو جائیں، چاہیں تو جمہوریت کو پسند کر لیں ، چاہیں تو بولشو یک اصول کو قبول کر لیں اور چاہیں تو آئینی بادشاہت کے طریق کو اختیار کر لیں کسی ایک اصل کو مذہب کے نام پر رائج کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ مفید ہو سکتا ہے اصل غرض تو دین کو پھیلانا ہے.بھلا اس میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے کہ وہ نظام کیسا ہو جس کے ماتحت کام کیا جائے.موجودہ زمانہ میں ئو تعلیم یافتہ مغرب زدہ نو جوانوں نے اس بحث کو اُٹھایا ہے اور درحقیقت اس کے پیچھے وہ غلط حریت کی روح کام کر رہی ہے جو مختلف خیالات فلاسفہ سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں پیدا ہوئی ہے.وہ اس سوال کو بار بار اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس رنگ میں مذہب بد نام ہوتا اور کو تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے بدظن ہوتا ہے.بہتر یہی ہے کہ مذہب کو اپنی جگہ پر رہنے دو اور سیاست کو اپنی جگہ.مغربی اثر کے ماتحت خیالات کی یہ رومدت سے چل رہی تھی مگر مسلمانوں میں سے کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ علی الاعلان اس کا اظہار کرے.جب تحر کی خلافت تباہ ہوئی اور کمال اتاترک نے خلافت کو منسوخ کر دیا تو عالم اسلامی میں ایک بہیجان پیدا ہو گیا اور پرانے خیالات کے جو لوگ تھے انہوں نے خلافت کمیٹیاں بنائیں.ہندوستان میں بھی کئی خلافت کمیٹیاں بنیں اور لوگوں نے کہا کہ ہم اس رو کا مقابلہ کریں گے مگر وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات پیدا ہو چکے تھے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک فاتح بادشاہ جس کی لوگوں کے دلوں میں بہت بڑی عزت ہے اُس نے اپنے عمل سے اُن کے خیالات کی تائید کر دی ہے تو وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے اور اُن میں سے بعض نے اس کے متعلق رسائل لکھے.اس قسم کے رسائل مسلمانوں نے بھی لکھے ہیں، یورپین لوگوں نے بھی لکھے ہیں اور بعض روسیوں نے بھی لکھے ہیں مگر اس خیال کو ایک مدلل صورت میں ایک مصری عالم علی بن عبد الرزاق نے جو جامعہ ازہر کے علماء میں سے ہیں اور محاکم شریعہ کے قاضی ہیں اپنی کتاب "الإسلامُ وَ أَصُول الحكم“ میں پیش کیا ہے اور اس کا محرک جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ شدید اضطراب ہوا جو تر کی خلافت کی منسوخی سے عالم اسلامی میں عموماً اور عربی ممالک میں خصوصاً پیدا ہوا تھا.

Page 451

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده شاید کہا جائے کہ اس بحث کا اس خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ہے ایک سوال کا جواب جو اصل بحث میرے مضمون کا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ خلافت جو اس کتاب میں زیر بحث ہے خلافت سلطنت ہے اور احمد یہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے ترک بادشاہ ہیں اور احمدی بادشاہ نہیں.پس ترکوں کی خلافت کی تائید میں جو دلائل ہو نگے وہ اور رنگ کے ہونگے اور ان کی خلافت کی تردید میں جو دلائل ہو نگے وہ بھی اور رنگ کے ہو نگے.بھلا اس خلافت کا خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ہے جسے کسی قسم کی بادشاہت حاصل نہیں اور جس کی خلافت محض مذہبی رنگ رکھتی ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے ضروری نہیں ہوتا کہ اُس کے صرف اُس پہلو پر روشنی ڈالی جائے جس کے متعلق کوئی سوال کرے بلکہ بسا اوقات اس کے تمام پہلوؤں پر بحث کی جاتی ہے اور یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں ہوتا.مثلاً ہم سے کوئی پوچھے کہ وضو میں ہاتھ کس طرح دھوئے جاتے ہیں تو اس کے جواب میں اگر ہم وضو کی تمام تفصیل اس کو بتا دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے مفید ہوگا کیونکہ وہ باقی باتیں بھی سمجھ جائے گا.اسی طرح گواحمد یہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے لیکن اگر خلافت سلطنت کے متعلق بھی بحث کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس مضمون کی تکمیل کیلئے ایسا کرنا ضروری ہوگا.سیاست صرف حکومت کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی دوسرا جواب یہ ہے که در حقیقت سیاست نظام کا دوسرا نام ہے اور یہ سیاست حکومت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے اور حکومت کے بغیر بھی سیاست ہوتی ہے.یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف حکومت کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہے حالانکہ بغیر حکومت کے بھی سیاست ہوتی ہے اور بغیر حکومت کے بھی نظام کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تین شخص اکٹھے کہیں سفر پر جانے لگیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنالیں سے تا کہ نماز کے وقت اسے امام بنایا جا سکے اور سفر میں جو جو ضرورتیں پیش آئیں اُن کے بارہ میں اس سے مشورہ لیا جا سکے.اب یہ ایک نظام ہے مگر اس کا تعلق حکومت سے نہیں.نظام در حقیقت ایک مستقل چیز ہے اگر حکومت شامل ہو تو اس پر بھی حاوی ہوتا ہے اور اگر نہ ہو تو باقی لوگوں کے لئے اُس کی پابندی

Page 452

انوار العلوم جلد ۱۵ ضروری ہوتی ہے.پس مسئلہ خلافت ایک اسلامی نظام سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ سلطنت ہو یا نہ ہو.خلافت راشده مشتمل مذہبی خلافت پر اعتراض تیرا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی ثابت کر دے کہ اسلام نے کوئی خاص نظام پیش نہیں کیا تو اس کی زد خلافت سلطنت پر ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس خلافت پر بھی پڑے گی جو ہم پیش کرتے ہیں گویا خلافت سلطنت اور خالص مذہبی نظام دونوں یکساں اس کی زد میں آئیں گے.پس گو وہ دلائل ترکی خلافت کے خلاف پیش کئے گئے ہیں لیکن چونکہ وہ احمد یہ خلافت پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح خلافت سلطنت پر ، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان دلائل کا جائزہ لیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر اسلام نے کوئی معین نظام پیش نہیں کیا تو جس طرح نظام سلطنت میں مسلمان آزاد ہو نگے اسی طرح خالص نظام مذہبی میں بھی وہ آزاد سمجھے جائیں گے اور انہیں اختیار ہوگا کہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں وہ جس طرح چاہیں اور جس شکل میں چاہیں ایک نظام اپنے لئے تجویز کر لیں.ابتدائے اسلام میں نظام مملکت اس سوال کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں اور نظام دینی کا اجتماع نظام مملکت اور نظام دینی اکٹھے تھے.یعنی مذہب کا نظام تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ ہی وہ فوجیں بھی رکھتے تھے، اُن میں قاضی بھی موجود تھے ، وہ حدود بھی جاری کرتے تھے ، وہ قصاص بھی لیتے تھے ، وہ لوگوں کو عہدوں پر بھی مقرر کرتے تھے، وہ وظائف بھی تقسیم کرتے تھے ، اسی طرح نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کی ادائیگی بھی ان میں جاری تھی گویا ابتدائے اسلام میں دونوں قسم کے نظام جمع ہو گئے تھے.پس اگر کوئی نظام اسلام سے ثابت نہیں تو خلافتِ مذہبی کی ابتداء بھی صرف اس وقت کے مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ قرار دیا جائے گا اور اس سے آئندہ کیلئے کوئی استدلال کرنا اور سند پکڑ نا درست نہ ہوگا.اور جب خلافت کا وجود ابتدائے اسلام میں ہی ثابت نہ ہوگا تو بعد میں کسی وقت اس کے وجود کو قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں کہلا سکتا.پس اگر خلافت کے مسئلہ پر کوئی زد آئے گی تو یہ تو نہیں ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ صرف ترکوں کی خلافت نا جائز ہے بلکہ وہ سرے سے خلافت کا ہی انکار کر دیں گے اور اس طرح ہم پر بھی جو مسئلہ خلافت کے قائل ہیں اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.جیسے اگر ہندوؤں اور عیسائیوں پر کوئی ایسا اعتراض کیا جائے جو اسلام پر بھی وارد ہوتا ہوتو یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس سے

Page 453

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہندوؤں اور عیسائیوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے اسلام کو اس سے کیا ڈر ہے کیونکہ اگر وہی بات اسلام میں بھی پائی جاتی ہے تو ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس اعتراض کا ازالہ کریں کیونکہ اگر لوگ اس کی وجہ سے مذہب سے بدظن ہونگے تو صرف ہندوؤں اور عیسائیوں سے ہی نہیں ہونگے بلکہ مسلمانوں سے بھی ہونگے.چوتھا جواب یہ ہے کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے ثبوت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کی مثال لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی خلافت کا وجود ضروری ہے.اگر وہی خلافت اُڑ جائے تو لازماً خلافتِ احمد یہ بھی باطل ہو جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام کے قیام سے تعلق اس کے ساتھ ایک اور بات کھنے والا حصہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی ؟ بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس عقیدہ کو درست تسلیم کر لیا جائے جو علی بن عبد الرزاق نے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور جسے غیر مبائعین بھی پیش کرتے ہیں تو اس سے ایک اور اہم سوال بھی پیدا ہو جا تا ہے.اور وہ یہ کہ آیا رسول کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی.کیونکہ جب ہم یہ فیصلہ کر دیں کہ اسلام کوئی معتین نظام پیش نہیں کرتا بلکہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ، اور حضرت علی کی خلافت مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ تھا اور وہ نظام مملکت کے استحکام کیلئے جو کام کرتے تھے وہ محض رسول کریم ﷺ کی نیابت میں کرتے تھے تو طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے قیام سے تعلق رکھتے تھے وہ محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ سے صادر ہوتے تھے یا اسے کوئی مذہبی تائید بھی حاصل تھی.اگر وہ وقتی ضرورت کے ماتحت تھے تو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی نے آپ کے تتبع میں جو کچھ بھی کیا ہوگا وقتی ضرورت کے ماتحت کیا ہوگا اور وہ ہمارے لئے مجبت شرعی نہیں ہوگا اور اگر رسول کریم ﷺ کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مذہبی حیثیت رکھتے تھے تو لازماً ہمیں ان سے سند لینی پڑے گی.پس یہ سوال صرف خلفا ء تک محدود نہیں رہتا بلکہ رسول کریم ﷺ تک بھی جا پہنچتا ہے

Page 454

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله خلافت راشده کہ اگر نظام خلافت کا اصول مذہبی نہیں تو چونکہ یہ نقل ہے رسول کریم ﷺ کے اعمال کی اس لئے ان کے وہ اعمال بھی مذہبی نہیں ہوں گے جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لئے ان کی اتباع ضروری نہیں ہوگی جیسے کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ﷺ نے فلاں قسم کے کپڑے پہنے یا فلاں کھانا کھایا اس لئے لازماً وہی کپڑا پہنا اور وہی کھانا کھانا چاہئے.مثلاً کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ﷺ چونکہ تہہ بند باندھا کرتے تھے اس لئے تم بھی تہہ بند باندھو یا رسول کریم ﷺے چونکہ کھجور میں کھایا کرتے تھے اس لئے تم بھی کھجوریں کھاؤ بلکہ اس سے اصولی رنگ میں ایک نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے.اسی طرح اگر رسول کریم ﷺ کے ان اعمال کو جو نظام کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شرعی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ ضرورتِ زمانہ کے ماتحت قرار دیا جائے گا تو وہ ہمارے لئے محنت نہیں ہوں گے اور ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکیں گے کہ عرب میں دشمنوں کی حکومت چونکہ ٹوٹ گئی تھی اور وہ سب آپ کے تابع ہو گئے تھے اس لئے آپ مجبور تھے کہ کوئی نہ کوئی نظام قائم کریں اور چونکہ نظام کے قیام کیلئے کچھ قوانین کی بھی ضرورت تھی اس لئے آپ نے بعض قوانین بھی بنا دئیے اور اس سے آپ کی غرض محض ان لوگوں کی اصلاح تھی.یہ غرض نہیں تھی کہ کوئی ایسا نظام قائم کریں جسے ہمیشہ کیلئے مذہبی تائید حاصل ہو جائے.غرض اس عقیدہ کو تسلیم کرنے سے یہ امرلا ز ما تسلیم کرنا پڑے گا کہ خود رسول کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے کوئی مذہبی تائید حاصل نہ تھی اگر مذہبی تائید حاصل ہوتی تو وہ بعد کے لوگوں کیلئے بھی سنت اور قابلِ عمل قرار پاتے.یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جو اس عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے مگر منکرین خلافت اس طبعی نتیجہ کو ہمیشہ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کا وہ حصہ جو سلطنت کے امور کے انصراح کے متعلق تھا محض ایک دُنیوی کا م تھا اور وقتی ضرورتوں کے ماتحت تھا تو مسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے اور وہ کہیں گے کہ تم رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتے ہو اسی لئے خلافت کے منکر اس بارہ میں ہمیشہ غیر منطقی طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں مگر علی بن عبد الرزاق جو جامعہ ازہر کے شیوخ میں سے ہے اس نے آزادی اور دلیری سے اس موضوع پر بحث کی ہے اور اس وجہ سے قدرتی طور پر وہ اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.چنانچہ یہ عجیب تو ارد ہوا کہ ادھر جب اس مضمون

Page 455

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده پر میں نے نوٹ لکھنے شروع کئے تو لکھتے لکھتے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر اس دلیل کو اسی طرح اوپر کی طرف چلایا جائے تو اس کی زد رسول کریم ﷺ پر بھی پڑتی ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی زندگی کا یہ حصہ محض ایک دُنیوی کام تھا جسے آپ نے وقتی ضروریات کے ماتحت اختیار کیا.غرض پہلے میں اس نتیجہ پر پہنچا بعد میں جب میں نے اس کی کتاب کو پڑھا تو میں نے دیکھا کہ بعینہ اس نے یہی استنباط کیا ہوا ہے اور گو مسلمانوں کے خوف سے اس نے اس کو کھول کر بیان نہیں کیا بلکہ شکر کی گولی میں زہر دینے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی اس کا مطلب خوب واضح ہے کہ قضاء وغیرہ کا انتظام اس وقت ثابت نہیں اور نہ دوسری ضروریات کا جو حکومت کیلئے ضروری ہیں مثلاً میزانیہ وغیرہ.پس معلوم ہوا کہ اُس وقت جو کچھ کیا جاتا تھا صرف وقتی مصالح کے ماتحت کیا جاتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے انکار خلافت کے انکار کا ایک خطرناک نتیجہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت مذہبی نہیں تھی اور خواہ اس خیال کو مسلمانوں کی مخالفت کے ڈر سے کیسے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے صرف خلفاء کے نظام سلطنت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرا نا پڑتا بلکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اس حصہ کے متعلق بھی جو امور سلطنت کے انصرام کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہنا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک دُنیوی کام تھا جسے وقتی ضرورتوں کے ماتحت آپ نے اختیار کیا ور نہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کومستی کرتے ہوئے نظامی حصہ آپ نے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اور آپ کی طرف سے اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ اپنی سہولت کے لئے جیسا نظام کوئی چاہے پسند کرے.علی بن عبد الرزاق نے اس بات پر بھی بحث کی ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اگر رسول کریم محلے کو صیح معنوں میں حکومت حاصل ہوتی تو آپ ہر جگہ جج مقرر کرتے مگر آپ نے ہر جگہ حج مقرر نہیں کئے اسی طرح با قاعدہ میزانیہ وغیرہ بنائے جاتے مگر یہ چیزیں بھی آپ کے عہد میں ثابت نہیں.اسی طرح اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اگر امور سلطنت کے انصرام میں کوئی حصہ لیا ہے تو وہ وقتی ضرورتوں کے ماتحت لیا ہے جیسے گھر میں کرسی نہیں ہوتی تو انسان فرش پر ہی بیٹھ جاتا ہے.اسی طرح اس وقت چونکہ کوئی حکومت نہیں تھی آپ نے عارضی انتظام قائم کرنے کیلئے بعض قوانین صادر کر دیئے.پس آپ کا یہ کام ایک ڈ نیوی کام تھا اس سے مذہبی رنگ میں کوئی سند نہیں لی جاسکتی.غرض اس اصل کو تسلیم کر کے خلفاء کے نظام حکومت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرانا پڑتا

Page 456

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بلکہ رسول کریم ہے کے ان کاموں کو بھی جو نظام سلطنت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں دُنیوی کام قرار دینا پڑتا ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ بعد کے لوگوں کیلئے سنت اور قابل عمل نہیں ہے.اس تمہید کے بعد اب میں اصولی طور پر خلافت و نظام اسلامی کے مسئلہ کو لیتا ہوں.مذہب کی دو قسمیں میرے نزدیک اس مسئلہ کو مجھے سے پہلے یہ ام سمجھ لینا ضر وری ہے کہ دنیا کے مذاہب دو قسم کے ہیں (۱) اوّل وہ مذاہب جو مذہب کا دائرہ عمل چند عبادات اور اذ کار تک محدود رکھتے ہیں اور امور اعمال دُنیوی کو ایک علیحدہ امر قرار دیتے ہیں اور ان میں کوئی دخل نہیں دیتے.وہ کہیں گے نمازیوں پڑھو، روزے یوں رکھو، صدقہ و خیرات یوں کرو، لوگوں کے حقوق یوں بجا لاؤ ، غرض عبادات اور اذکار کے متعلق وہ احکام بیان کریں گے مگر کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے جس کا نظام کے ساتھ تعلق ہو یا اقتصادیات کے ساتھ تعلق ہو یا ئبین الاقوامی حالات کے ساتھ تعلق ہو یا لین دین کے معاملات کے ساتھ تعلق ہو یا ورثہ کے ساتھ تعلق ہو.وہ ان امور کے متعلق قطعا کوئی تعلیم نہیں دیں گے.مسیحی مذہب میں شریعت کو اس قسم کے مذاہب میں سے ایک مسیحی مذہب ہے اور اس مذہب میں جو شریعت کو لعنت قرار لعنت قرار دینے کا اصل باعث دینے پر زور دیا گیا ہے اس کی وجہ بھی زیادہ تر یہی ہے کہ وہ افراد کے اعمال کو مذہب کی پابندیوں سے الگ رکھنا چاہتے ہیں.وہ کہتے ہیں مذہب کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کہے تم نمازیں پڑھو تم روزے رکھو تم حج کرو، تم زکوۃ دو تم عیسیٰ کو خدا سمجھو.اسے اس بات سے کیا واسطہ ہے کہ قتل ، فساد، چوریوں اور ڈاکوں کے متعلق کیا احکام ہیں یا یہ کہ تو میں آپس میں کس طرح معاہدات کریں، یا اقتصاد کو کس طرح کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے.وہ کہتے ہیں شریعت کا اِن امور سے کوئی واسطہ نہیں.اگر لڑکوں اور لڑکیوں کو ورثہ میں سے حصہ دینے کا سوال ہو تو وہ کہہ دیں گے کہ اس میں شریعت کا کیا دخل ہے یہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ جس امر میں قوم کا فائدہ دیکھے اسے بطور قانون نافد کر دے.اسی طرح وہ کہتے ہیں اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم سود لیں گے چاہے روپیہ کی صورت میں لیں اور چاہے جنس کی صورت میں.تو مذہب کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ روپیہ کے بدلہ میں سودی روپیہ لینا ناجائز ہے.غرض وہ مذہب کے اُن احکام سے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شدید نفرت کرتے ہیں اسی لئے انہوں نے شریعت کو لعنت قرار دے لیا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ روزہ رکھنا لعنت

Page 457

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہے.اگر روزہ رکھنا لعنت کا موجب ہوتا تو انجیل کے پرانے ایڈیشنوں میں یہ کس طرح لکھا ہوتا کہ :- اس طرح کے دیو بغیر دعا اور روزہ کے نہیں نکالے جاتے، کے اور کیا ممکن ہے کہ ایک طرف تو انجیلوں میں اس قسم کے الفاظ آتے اور دوسری طرف یہ کہا جا تا کہ شریعت لعنت ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب عیسائیوں نے یہ کہا کہ شریعت لعنت ہے تو اس کے معنی یہی تھے کہ شریعت کا نظام قومی کو معین کر دینا لعنت ہے اور مذہب کوا مورد نیوی کے متعلق کوئی حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ ان امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم خود اپنے لئے قوانین تجویز کر سکتی ہے.اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جو امور سلطنت میں اس نے لگائی تھیں.بیشک حضرت مسیح علیہ السلام نے جب یہ فقرہ کہا (بشرطیکہ ان کی طرف اسے منسوب کیا جا سکے ) تو ان کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہود نے جو شریعت کے ظاہری احکام کو اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ باطن اور روحانیت کو انہوں نے بالکل بھلا دیا ہے یہ امران کے لئے ایک لعنت بن گیا ہے اور اس نے انہیں حقیقت سے کوسوں دور پھینک دیا ہے.لیکن جب مسیحیت روما میں پھیلی تو چونکہ وہ لوگ اپنے قومی دستور کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور سمجھتے تھے کہ رومن لا ء سے بہتر اور کوئی لا نہیں بلکہ آج تک رومن لا ء سے ہی یورپین حکومتیں فائدہ اُٹھاتی چلی آئی ہیں اس لئے وہاں کے لوگ جو بڑے متمدن اور قانون دان تھے انہوں نے خیال کیا کہ دُنیا میں ہم سے بہتر کوئی قانون نہیں بنا سکتا ادھر انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب کی تعلیم بڑی اچھی ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے متعلق ، معجزات اور نشانات کے متعلق ، دعاؤں کے متعلق مسیح کی قربانیوں کے متعلق.جب انہوں نے عیسائیت کی تعلیمات کو دیکھا تو ان کے دل عیسائی مذہب کی طرف مائل ہو گئے اور انہوں نے اقرار کیا کہ یہ مذہب واقع میں اس قابل ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے.مگر دوسری طرف وہ یہ امر بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ یہودی شریعت کو جس کو وہ رومن لاء کے مقابلہ میں بہت ادنیٰ سمجھتے تھے اپنے اندر جاری کریں.پس وہ ایک عجیب مخمصے میں مبتلاء ہو گئے.ایک طرف عیسائیت کی دلکش تعلیم انہیں اپنی طرف کھینچتی تھی اور دوسری طرف رومن لاء کی برتری اور فوقیت کا احساس انہیں یہودی شریعت کے آگے اپنا سر جُھکانے نہیں دیتا تھا.وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نگاہ عہدِ جدید کے ان فقرات پر پڑی کہ :-

Page 458

انوار العلوم جلد ۱۵ وو اور یہ کہ :- 66 خلافت راشده جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں.‘، ۵.و مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا.یہ حضرت مسیح کے الفاظ نہیں بلکہ پولوس کے الفاظ ہیں.مگر انہیں ایک بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے ان فقرات کے معنی وسیع کر کے یہ فیصلہ کر لیا کہ مذہب کو امورِ دُنیوی کے متعلق کچھ حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ ان امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم اپنے لئے خود قوانین تجویز کر سکتی ہے.حضرت مسیح کا (اگر بالفرض انہوں نے کبھی یہ فقرہ کہا ہو ) یا آپ کے حواریوں کا تو صرف یہ مطلب تھا کہ یہود صرف ظاہری احکام پر زور دیتے ہیں روحانیت کو انہوں نے بالکل بھلا رکھا ہے اور یہ امراُن کے لئے لعنت کا موجب ہے.وہ بے شک ظاہری طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے دل میں کوئی خشیت ، کوئی محبت اور خدا تعالیٰ کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی اور یہ نماز ان کیلئے لعنت ہے.وہ ظاہری طور پر صدقہ و خیرات کرتے وقت بکرے بھی ذبح کرتے ہیں مگر کبھی انہوں نے اپنے نفس کے بکرے کو ذبح نہیں کیا اور اس طرح صدقہ و خیرات بھی ان کے لئے لعنت ہے، وہ عبادت میں خدا تعالیٰ کے سامنے ظاہری رنگ میں اپنا سر تو بے شک جھکاتے ہیں مگر ان کے دل کبھی خدا کے آگے نہیں جھکتے اس وجہ سے ان کی عبادت بھی ان کے لئے لعنت ہے، وہ بیشک زکوۃ دیتے ہیں اور اس طرح اپنے مال کی خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں مگر کبھی اپنے باطل افکار کی قربانی اپنے لئے گوارا نہیں کرتے اور اس وجہ سے زکوۃ بھی ان کے لئے لعنت کا موجب ہے.غرض یہود نے چونکہ ظاہر پر زور دے رکھا تھا اور باطنی اصلاح کو انہوں نے بالکل فراموش کر دیا تھا اس لئے حضرت مسیح یا ان کے حواریوں کو یہ کہنا پڑا کہ صرف ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطن کی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک لعنت ہے.اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ شریعت لعنت ہے بلکہ یہ معنی تھے کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطنی اصلاح کی طرف تمہارا توجہ نہ کرنا تمہارے لئے لعنت کا باعث ہے.مگر رومیوں کو ایک بہانہ مل گیا اور انہوں نے کہا اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں تو مذہب کی اطاعت کی جائے مگر امور دنیوی میں اس کی اطاعت نہ کی جائے اور نہ اسے اِن امور کے متعلق احکام دینے کا کوئی اختیار ہے.یہ ہماری اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لئے جو قانون چاہیں تجویز کر لیں اسی لئے جو رومی عیسائی مذہب

Page 459

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اور شریعت کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ لعنت ہے وہ خود ایک قانون بنا کر لوگوں کو اس کے ماتحت چلنے پر مجبور کرتے ہیں اگر محض کسی قانون کا ہونا لعنت ہوتا تو وہ خود بھی کوئی قانون نافذ نہ کرتے.مگر ان کا ایک طرف مذہب کو لعنت کہنا اور دوسری طرف خود اپنے لئے مختلف قسم کے قوانین تجویز کرنا بتاتا ہے کہ وہ اس فقرہ کے یہی معنی سمجھتے تھے کہ صرف لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہیں بنالیں مذہب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دُنیوی امور کے متعلق لوگوں کے سامنے کوئی احکام پیش کرے.اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جوا مور سلطنت میں اس نے لوگوں پر عائد کی ہوئی تھیں.یہودی مذہب کا نظام حکومت میں دخل اس کے بالمقابل بعض دوسرے مذاہب ہیں.جنہوں نے مذہب کے دائرہ کو وسیع کیا ہے اور انسانی اعمال اور باہمی تعلقات اور نظام حکومت وغیرہ کے متعلق بھی قواعد بنائے ہیں اور جو لوگ ایسے مذاہب کو مانتے ہیں لازماً انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ حکومت کے معاملات میں بھی مذہب کو دخل اندازی کا حق حاصل ہے اور نیز یہ کہ ان احکام کی پابندی افراد اور جماعتوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح عقائد اور انفرادی احکام مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ میں واجب ہے.اس کی مثال میں یہودی مذہب کو پیش کیا جا سکتا ہے.اگر کوئی شخص موسوی شریعت کو پڑھے تو اسے جا بجا یہ لکھا ہوا نظر آئے گا کہ اگر کوئی قتل کرے تو اسے یہ سزا دی جائے ، چوری کرے تو یہ سزا دی جائے، جنگ ہو تو ان قواعد کو ملحوظ رکھا جائے ، قربانی کرنی ہو تو ان اصول کے ماتحت کی جائے ، اسی طرح لین دین اور تجارت وغیرہ معاملات کے متعلق وہ ہدایات دیتا ہے.غرض وہ معاملات جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یہودی مذہب ان میں بھی دخل دیتا ہے.چنانچہ جب بھی کوئی شخص موسوی شریعت پر غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مذہب کو جس طرح افراد کے معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہے اسی طرح اسے قومی اور ملکی معاملات میں بھی دخل دینے کا حق حاصل ہے.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام رکن مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے اسلام کوئی قسم کے مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے.آیا اول الذکر قسم سے یا دوسری قسم کے مذاہب سے اور آیا اسلام نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے یا نہیں ؟ اگر محمد اللہ نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے چاہے اپنی

Page 460

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مرضی سے اور چاہے اس وجہ سے کہ ملک کو اس کی بے حد ضرورت تھی تو ماننا پڑے گا کہ جیسے جنگل میں اگر کسی کو کوئی آوارہ بچہ مل جائے تو وہ رحم کر کے اسے اپنے گھر میں لے جاتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اسے اس کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ علیہ نے رحم کر کے عرب کے قتیموں کو اپنی گود میں لے لیا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کو ان کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا تھا بلکہ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے تو انہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہتے تجویز کر لیتے لیکن اگر شریعت اسلام میں ایسے احکام صلى الله موجود ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے طور پر ان امور میں دخل نہیں دیا بلکہ آپ نے اُسی وقت ان امور کو اپنے ہاتھ میں لیا جب خدا نے آپ کو اس کا حکم دیا اور جب خدا کا حکم دینا ثابت ہو جائے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ آپ کی زندگی کا وہ حصہ جو امور سلطنت کے انصرام میں گزرا وہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے اور مسلمان جس طرح خالص مذہبی نظام میں اسلامی ہدایات کے پابند ہیں اسی طرح نظام سلطنت میں بھی وہ آزاد نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے قائم کردہ نظام سلطنت کے پابند ہیں.اس غرض کے لئے جب قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو دیکھا جاتا ہے تو ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام پہلی قسم کے مذاہب میں شامل نہیں بلکہ دوسری قسم کے مذاہب میں شامل ہے.اس نے صرف بعض عقائد اور انفرادی اعمال کے بتانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے ان احکام کو بھی لیا ہے جو حکومت اور قانون سے تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ وہ صرف یہی نہیں کہتا کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوۃ دو بلکہ وہ ایسے احکام بھی بتاتا ہے جن کا حکومت اور قانون سے تعلق ہوتا ہے.مثلاً وہ میاں بیوی کے تعلقات پر بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان اگر جھگڑا ہو جائے تو کیا کیا جائے اور ان کی باہمی مصالحت کیلئے کیا کیا تدابیر عمل میں لائی جائیں اور اگر کبھی مرد کو اس بات کی ضرورت پیش آئے کہ وہ عورت کو بدنی سزا دے تو وہ سزا کتنی اور کیسی ہو، اسی طرح وہ لین دین کے قواعد پر بھی بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ قرض کے متعلق کتنے گواہ تسلیم کئے جاسکتے ہیں، قرضہ کی کونسی صورتیں جائز ہیں اور کونسی نا جائز ، وہ تجارت اور فنانس کے اصول بھی بیان کرتا ہے، وہ شہادت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے جن پر قضاء کی بنیاد ہے.چنانچہ وہ بتا تا ہے کہ کیسے گواہ ہونے چاہئیں، کتنے ہونے چاہئیں، ان کی گواہی میں رکن رکن امور کو ملحوظ رکھنا چاہئے ، اسی طرح وہ قضاء کے متعلق کئی قسم کے احکام دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ قاضیوں کو کس طرح

Page 461

انوار العلوم جلد ۱۵ الله خلافت راشده فیصلہ کرنا چاہئے ، پھر ان مختلف انسانی افعال کی وہ جسمانی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے جو عام طور پر قوم کے سپرد ہوتی ہیں.مثلا قتل کی کیا سزا ہے یا چوری کی کیا سزا ہے؟ اسی طرح وہ وراثت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے اور حکومت کو ٹیکس کا جو حق حاصل ہے اس پر بھی پابندیاں لگاتا ہے اور ٹیکسوں کی تفصیل بیان کرتا ہے.حکومت کو اِن ٹیکسوں کے خرچ کرنے کے متعلق جو اختیارات حاصل ہیں ان کو بھی بیان کرتا ہے، فوجوں کے متعلق قواعد بھی بیان کرتا ہے.معاہدات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، وہ بتاتا ہے کہ دو قو میں جب آپس میں کوئی معاہدہ کرنا چاہئیں تو رکن اصول پر کریں؟ اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، مزدور اور ملازم رکھنے والوں کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، سڑکوں وغیرہ کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.غرض وہ تمام امور جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اسلام بیان کرتا ہے.پس اسلام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے حکومت کو آزاد چھوڑ دیا ہے بلکہ جیسا کہ ثابت ہے اس نے حکومت کے ہر شعبے پر سیر کن بحث کی ہے.پس جو شخص اسلام کو مانتا ہے اور اس میں حکومت کے متعلق تمام احکام کو تفصیل سے بیان کیا ہوا دیکھتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ بلکہ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کے وہ افعال جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قابلِ تقلید ہیں جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کے متعلق احکام کیونکہ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ نماز پڑھو ، جس خدا نے یہ کہا ہے کہ روزے رکھو.جس خدا نے یہ کہا ہے کہ حج کرو.جس خدا نے یہ کہا ہے کہ زکوۃ دواسی خدا نے امور سیاست اور تنظیم ملکی کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر قوم اور ہر ملک آزاد ہے کہ اپنے لئے ایک مناسب طریق ایجاد کر لے اور جس طرح چاہے رہے بلکہ اسے اپنی زندگی کے سب شعبوں میں اسلامی احکام کی پابندی کرنی صلى الله پڑے گی کیونکہ اگر رسول کریم ﷺ نے یہ اپنی طرف سے کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ لوگ اس بارہ میں آزاد ہیں.مگر جب ہم کہتے ہیں کہ یہ احکام قرآن مجید میں آئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رسول کریم ﷺ نے ان کو بیان کیا تو معلوم ہوا کہ یہ رسول کریم ﷺ کا ذاتی فعل نہیں تھا اور جبکہ قرآن نے ان تمام امور کو بیان کر دیا ہے جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے حکومت سے تعلق رکھنے والی تو ساری باتیں بیان کر دی ہوں مگر یہ نہ بتایا ہو کہ حکومت کو چلایا کس طرح جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص مکان بنانے کیلئے لکڑیاں جمع کرے، کھڑکیاں اور دروازے بنوائے، اینٹوں اور چونے وغیرہ کا ڈھیر لگا دے مگر

Page 462

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده جب کوئی پوچھے کہ عمارت کب بنے گی اور اس کا کیا نقشہ ہو گا ؟ تو وہ کہے کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں.صاف بات ہے کہ جب اس نے اینٹیں اکٹھی کیں ، جب اس نے دروازے کھڑکیاں اور روشندان بنوائے ، جب اس نے چونے اور گارے کا انتظام کیا تو آخر اسی لئے کیا کہ وہ مکان بنائے اس لئے تو نہیں کیا کہ وہ چیز میں بے فائدہ پڑی رہیں اور ضائع ہو جا ئیں.اسی طرح جب قرآن نے وہ تمام باتیں بیان کر دی ہیں جن کا حکومت کے ساتھ تعلق ہوا کرتا ہے تو عقل انسانی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے نظام حکومت چلانے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ یہ بتایا ہو کہ اس نظام کوکس رنگ میں چلایا جائے اور اگر وہ یہ نہیں بتا تا تو تم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن نَعُوذُ بِاللهِ ناقص ہے.حکومت کے تمام شعبوں کے غرض جبکہ اسلام نے حکومت کے تمام شعبوں کے متعلق تفصیلی ہدایات دے دی ہیں تو کوئی 3- متعلق اسلام کی جامع ہدایات شخص نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ.ہر قوم اور ہر ملک اپنے لئے کوئی مناسب طریق تجویز کرنے میں آزاد ہے.ہاں وہ یہ بحث ضرور کر سکتا ہے کہ کسی خاص امر میں شریعت اسلامیہ نے اسے آزاد چھوڑ دیا ہے مگر یہ بات بالکل خلاف عقل ہو گی کہ اسلام نے چھوٹے چھوٹے حقوق تو بیان کئے لیکن سب سے بڑا حق کہ فرد کو حکومت کے مقابل پر کیا حقوق حاصل ہیں اور حکومت کو کس شکل اور کس صورت سے افراد میں احکام الہیہ کو جاری کرنا چاہیئے اس اہم ترین سوال کو اس نے بالکل نظرانداز کر دیا.اگر ہم یہ کہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب ناقص ہے.جو مذہب شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے وہ تو کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں میرے دائرہ سے باہر ہیں اور اس مذہب کو ناقص بھی ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق روشن ہدایات نہیں دیں.مثلاً ایسا مذ ہب اگر خدا اور بندے کے تعلق پر بحث نہیں کرتا یا یہ نہیں بتاتا کہ بندوں کا بندوں سے کیسا تعلق ہونا چاہئے یا امور مملکت اور سیاست کے متعلق کوئی ہدایت نہیں دیتا تو وہ آسانی سے چھٹکارا پا جاتا ہے کیونکہ وہ شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے لیکن جو مذہب ان امور میں دخل دیتا ہے اور اس امر کو مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان امور میں دخل دے اس کا ایسے اہم مسئلہ کو چھوڑ دینا اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈال دینا یقیناً ایک بھول اور نقص کہلائے گا.

Page 463

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نفاذ قانون کے متعلق تفصیلی ہدایات اس تمہید کے بعد میں اب اصل سوال کی طرف آتا ہوں.رسول کریم ہے عرب میں مبعوث ہوئے اور عرب کا کوئی تحریر شدہ قانون نہ تھا.قبائلی رواج ہی ان میں قانون کا مرتبہ رکھتا تھا.چنانچہ کسی قبیلہ میں کوئی قانون تھا اور کسی قبیلہ میں کوئی.وہ انہی قبائلی رواج کے مطابق آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ کر لیتے.یا جب انہوں نے کوئی معاہدہ کرنا ہوتا تو معاہدہ کر لیتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے ان کے سامنے آسمانی شریعت پیش کی اور کہا کہ میرے خدا نے تمہارے لئے یہ تعلیم مقرر کی ہے تم اس پر عمل کرو اور پھر اس پر ان سے عمل کرایا بھی.اگر تو قرآن جو آسمانی صحیفہ ہے صرف نماز روزہ کے احکام پر اور بعض عقائد کے بیان پر اکتفاء کرتا اور احکام سیاست و تدبیر ملکی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے تو خواہ وہ زور سے ان کی پابندی کراتے کوئی کہہ سکتا تھا کہ عربوں نے مسلمانوں پر ظالمانہ حملہ کر کے اپنی حکومت تباہ کر لی اور ملک بغیر نظام اور قانون کے رہ گیا.اس مشکل کی وجہ سے وقت کی ضرورت سے مجبور ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک کو ابتری سے بچانے کیلئے کچھ قانون تجویز کر دئیے اور ان پر لوگوں سے عمل کرایا اور یہ حصہ آپ کے عمل کا مذہب نہ تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان امور کے متعلق بھی تفصیلی احکام قرآن کریم میں موجود ہیں اور نہ صرف احکام موجود ہیں بلکہ ان کے نفاذ کے متعلق بھی احکام ہیں.مثلاً (1) اللہ تعالیٰ سورہ حشر میں فرماتا ہے.ما السكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُودة و ما نهىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا - یعنی اے مسلمانو! محمد رسول اللہ ﷺ جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس بات سے وہ تمہیں روکیں اُس سے رُک جاؤ.گویا رسول کریم ﷺ کا حکم مسلمانوں کیلئے ہر حالت میں ماننا ضروری ہے.(۲) دوسری جگہ فرماتا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ تم لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلّمُوا تَسْلِيمًا یعنی تیرے رب کی قسم ! جب تک وہ ہر اُس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنا ئیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے وہ اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار نہ ہو جائیں اُس وقت تک وہ ہرگز ایماندار نہیں ہو سکتے.بعض لوگ رسول کریم ﷺ پر یہ اعتراض کیا کرتے تھے بلکہ اس زمانہ میں بھی ایسے معترض موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ

Page 464

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ونَعُوذُ الله رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ باہمی جھگڑوں کے نپٹانے اور نظام کو قائم رکھنے کے متعلق کوئی ہدایات دے سکیں.مگر فرمایا.ہم ان کی اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں اور على الإغلان کہتے ہیں کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ یہ کبھی مومن نہیں کہلا سکتے جب تک وہ اپنے جھگڑوں میں اے محمد رسول اللہ ﷺ ! تجھے حکم تسلیم نہ کریں اور پھر تیری قضاء پر وہ دل و جان سے راضی نہ ہوں.اس آیت کریمہ میں دو نہایت اہم باتیں بیان کی گئی ہیں.اول یہ کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو آخری قاضی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کا جو فیصلہ بھی ہو گا وہ آخری ہوگا اور اس پر کسی اور کے پاس کسی کو اپیل کا حق حاصل نہیں ہوگا اور آخری فیصلہ کا حق رسول کریم ﷺ کو دینا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکومت کے اختیارات حاصل تھے.دوسری بات جو اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان فیصلوں کے تسلیم کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ تیرے رب کی قسم ! وہ کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک وہ تیرے فیصلوں کو تسلیم نہ کریں.گویا یہ بھی دین کا ایک حصہ ہے اور ویسا ہی حصہ ہے جیسے نماز دین کا حصہ ہے، جیسے روزہ دین کا حصہ ہے، جیسے حج اور زکوۃ دین کا حصہ ہے.فرض کرو زید اور بکر کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے ایک کہتا ہے میں نے ے سے دس روپے لینے ہیں اور دوسرا کہتا ہے میں نے کوئی روپیہ نہیں دینا.دونوں رسول کریم کے پاس پہنچتے ہیں اور اپنے جھگڑے کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور رسول کریم ایک کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں تو دوسرا اس فیصلے کو اگر نہیں مانتا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ مؤمن نہیں رہا.پس باوجود یکہ وہ نماز پڑھتا ہوگا ، وہ روزے رکھتا ہوگا ، وہ حج کرتا ہوگا ، اگر وہ اس حصہ میں آکر رسول کریم اللہ کے کسی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فتویٰ اس کے متعلق یہی ہے کہ اس انکار کے بعد وہ مؤمن نہیں رہا.پس لا يؤمنون کے صلى الله الفاظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے اس حصہ کو بھی دین کا ایک جزو قرار دیا ہے علیحدہ نہیں رکھا.(۳) تیسری جگہ فرماتا ہے انما كان قول الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعوا إلى الله ورسوله ليحكم بينهم أن يقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یعنی مؤمنوں کو جب خدا اور اُس کا رسول بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہارے جھگڑے کا

Page 465

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده فیصلہ کر دیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ سمعنا واطعنا - حضور کا حکم ہم نے سن لیا اور ہم ہمیشہ حضور کی اطاعت کریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے او نفت هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوں گے اور ہمیشہ مظفر و منصور رہیں گے.اب ایک طرف رسول کریم ہے کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایمان کو وابستہ قرار دینا اور دوسری طرف انہی لوگوں کو کامیاب قرار دینا جو سمعنا واطعنا کہیں اور آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف نہ چلیں ، بتا تا ہے کہ ان احکام کے ساتھ خدائی تصرف شامل ہے.اگر کوئی شخص ان احکام کو نہ مانے تو خدائی عذاب اس پر اترتا اور اُسے ناکام و نامراد کر دیتا ہے لیکن دنیوی امور میں ایسا نہیں ہوتا.وہاں صرف طبعی نتائج پیدا ہوا کرتے ہیں.(۴) پھر فرماتا ہے الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّواةِ وَالانْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ المُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيْتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عنْهُمْ اصْرَهُمْ وَالأَعْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ، فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ و عزرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّور الذي أنزِلَ مَعَةَ ، أو ليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یعنی وہ لوگ جو اس کی اتباع کرتے ہیں جو خدا کا رسول ہے اور جو نبی اور اُمّی ہے اور جس کے متعلق تو رات اور انجیل میں وہ کئی پیشگوئیاں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول انہیں ہمیشہ نیک کاموں کا حکم دیتا اور بڑی باتوں سے روکتا ہے.گویا وہ لوگوں میں ایک قانون نافذ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو.اسی طرح وہ ان کے لئے طیبات کو حلال ٹھہرا تا اور نا پاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے.گویا وہ انسانی اعمال اور اقوال اور کھانے پینے کے متعلق بھی مناسب ہدایات دیتا ہے.وہ کہتا ہے فلاں چیز کھاؤ اور فلاں نہ کھاؤ.فلاں بات کرو اور فلاں نہ کرو.اسی طرح وہ ان کے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہورہے ہیں اور ان کے اُن طوقوں کو دُور کرتا ہے جنہوں نے ان کو ترقی کی طرف بڑھنے سے روکا ہوا تھا.فالذين امَنوابه وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أَنْزِلَ مَعَة أوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ پس وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لاتے اور اس کے احکام کی عزت کرتے اور اس کی نصرت اور تائید کرتے اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے وہی لوگ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے.اب دیکھ لو گورنمنٹمیں بھی ہمیشہ اسی قسم کے

Page 466

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده قوانین بناتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ اختیار جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کو دے دیا ہے جو لوگ اس کی اتباع کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو اطاعت سے انحراف کریں گے وہ نا کام ہوں گے.(۵) اسی طرح فرماتا ہے.وَاعْلَمُوا آنَّ فِيكُمْ رَسُول الله ، ويُطِيعُكُمْ في كثير من الأمر لي ولكن الله حب إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَه في قُلُوبِكُمْ و حرّة اليْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوق والعضيان ، أوليك هم الراشدون ال اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ محمد ﷺ کی حکومت ہو گی کس طرح ؟ آیا دنیوی بادشاہوں کی طرح یا کسی اور رنگ میں ؟ فرماتا ہے خدا کا رسول تم میں موجود ہے اگر وہ تمہارے اکثر مشوروں کو قبول کرے تو تم یقیناً مصیبت میں پڑ جاؤ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا ہے اور تم اُس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہو اور جانتے ہو کہ ایمان کا تمہارے پاس رہنا تمہارے لئے کس قدر مفید اور بابرکت ہے اور ایمان کا ضیاع تمہارے لئے کس قدر مہلک ہے وَزَيَّنَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ اور پھر اس ایمان کو اس نے تمہارے دلوں میں نہایت خوبصورت شکل میں قائم کر دیا ہے اور گفر، فسق ، عصیان اور خروج عن الاطاعت کو اس نے تمہاری آنکھوں میں مکر وہ بنا دیا ہے اس لئے تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمارے رسول کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو تمہارے مشوروں کو قبول کرے اور اگر چاہے تو رڈ کر دے.اوليْكَ هُمُ الرّاشِدُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایات پانے والے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ رسول کریم ﷺ کا طریق حکومت ع ے کے طریق حکومت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کا طریق حکومت یہ نہیں تھا کہ آپ ہر بات میں لوگوں کا مشورہ قبول کرتے اور اس کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ کوئی کہہ سکتا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت وہی فیصلہ کیا کرتے تھے جو قوم کا فیصلہ ہوا کرتا تھا جیسے پاریمنٹیں ملک کے نمائندوں کی آواز کے مطابق فیصلے کرتی ہیں اسی طرح کوئی کہہ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کا فیصلہ ہی لوگوں سے منواتے تھے اپنا قانون ان میں نافذ نہیں کرتے تھے.سو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کر دیا

Page 467

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده عام الله اور خود ملک والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر ہمارا رسول تمہاری کثرتِ رائے کے ماتحت دیئے ہوئے اکثر مشوروں کو قبول کر لے تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ.گویا رسول کریم ہے کی حکومت کا یہ طریق نہیں تھا کہ آپ کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کرتے بلکہ جب کثرت رائے کو مفید سمجھتے تو کثرتِ رائے کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیتے اور جب کثرتِ رائے کو مھر سمجھتے تو اس کے خلاف فیصلہ کرتے.كَثِیرٍ مِّنَ الأمْرِ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ رسول کریم ﷺ ہر بات قبول کر لیتے بلکہ آپ کو اختیار تھا کہ جب آپ لوگوں کی رائے میں کسی الله قسم کا نقص دیکھیں تو اسے رد کر دیں اور خود اپنی طرف سے کوئی فیصلہ فرما دیں.(۶) پھر فرماتا ہے.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلّ عَلَيْهِمْ ہے کہ اے محمد ﷺ ان کے اموال سے صدقہ لو اور اس کے ذریعہ ان کے دلوں کو پاک کرو.ان کی اقتصادی حالت کو درست کرو.وَصَلّ عَلَيْهِمْ اور پھر ہمیشہ ان سے نرمی کا معاملہ کرتے رہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں.اول یہ کہ لوگوں سے زکوۃ لو کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے دلوں میں غریبوں سے پیار اور حسنِ سلوک کا مادہ پیدا ہو گا.دوسرا حکم یہ دیا کہ زکوۃ کے روپیہ کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس سے غرباء کی حالت درست ہوا اور وہ بھی دنیا میں ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکیں.تیسرا حکم صَلِّ عَلَيْهِمْ کے الفاظ میں یہ دیا کہ زکوۃ کے لینے میں سختی نہ کی جائے بلکہ ہمیشہ حکم کا نرم پہلو اختیار کیا جائے.اسی صلى الله وجہ سے رسول کریم ہے جب محصلین کو زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجتے تو آپ ہمیشہ یہ تاکید فرمایا کرتے کہ موٹا دُنبہ اور اونٹ چن کر نہ لینا بلکہ اپنی خوشی سے وہ جن جانوروں کو بطور زکوۃ دے دیں انہی کو لے لینا اور یہ خواہش نہ کرنا کہ وہ زیادہ اعلیٰ اور عمدہ جانور پیش کریں.گویا شرعاً اور قانونا جس قدر نرمی جائز ہوسکتی ہے اسی قدر نرمی کرنے کا آپ لوگوں کو حکم دیتے.(۷) ساتویں آیت جس میں حکومت سے تعلق رکھنے والے امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلْفَ رَسُولِ اللهِ وَكَرِهُوا ان يُجَاهِدُوا يا مُوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ قَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الحَ قُل نَارُ جَهَنَّمَ اشَدُّ حَرَا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ١٣ یعنی وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت اس امر کی توفیق نہ پا سکے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ جہاد کے لئے نکلیں اور جنگ میں شامل ہوں ، وہ اپنے پیچھے

Page 468

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده صلى الله رہنے پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے اس بات کو بُراسمجھا کہ وہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں.اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ سخت گرمی کا موسم ہے ایسے موسم میں جہاد کیلئے نکلنا تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اشد حرا تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ اب گرمی کا بہانہ بنا کر تو تم پیچھے رہ گئے ہو مگر یا درکھو جہنم کی آگ کی تپش بہت زیادہ ہوگی.کاش وہ اس امر کو جانتے اور سمجھتے.یہاں اللہ تعالیٰ نے صریح لفظوں میں رسول کریم ﷺ کو جہاد کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سپاہی بنو اور دشمنوں سے لڑواور یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو لوگ تیرے حکم کے ماتحت لڑنے کے لئے نہیں نکلیں گے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم قرار پائیں گے.(۸) پھر فرماتا ہے.اِمَاجَرُوا الّذينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ويسعون في الأَرْضِ فَسَادًا أن يُقَتَلُوا اَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وارْجُلُهُمْ مِّن خِلافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ، ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمُ ١٢ کہ وہ لوگ جو اللہ اور رسول سے لڑتے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی جزاء یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا انہیں صلیب دیا جائے یا ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو مقابل پر کاٹ دیا جائے یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے.ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاو لهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظیم اور یہ امران کے لئے دنیا میں رسوائی کا موجب ہوگا اور آخرت میں عذاب عظیم کا موجب.(۹) اسی طرح سورہ توبہ کی پہلی عرب سے کفار کے نکالے جانے کا حکم آیات میں عرب سے کفار کے نکالے جانے کا حکم دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.براءَ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِةٍ إِلَى الَّذِينَ عاهدتُم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ ارْبَعَةٌ أَشْهُرٍو اعْلَمُوا انَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزى اللهِ، وَانَّ اللهَ مُخْزى الْكَفِرِينَ وَاذَانَ مِّنَ اللَّهِ ورَسُولِة إلى النَّاسِ يَا اللَّهَ يُرِيءُ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ : وَرَسُوله ، فإن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرُ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ b

Page 469

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مُعْجِزى اللهِ ، وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابِ اليْهِ إِلَّا الَّذِينَ مَا هَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَ لَمْ يُظَاهِرُوا عليْكُمُ احَدًا فَأَتِمُّوا اليهم عَهْدَهُم إلى مدتهم ، انَّ اللهَ يُحِبُّ المُتَّقِينَ فَإِذَا ا الشهر الحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وجد تُمُوهُمْ وَ خُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مرصد: فَإِن تَابُوا وَاقَامُوا الصلوة واتَوُا الزَّكُوةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ، إِنَّ اللَّهَ غَفُورُزَ حِيمُ ۱۵ یعنی اے محمد رسول اللہ ﷺ ان لوگوں میں اعلان کردو کہ خدا اور رسول نے تمہاری ذلت کے متعلق جو پیشگوئیاں کی تھیں وہ پوری ہو گئیں.اب خدا اور رسول پر تمہارا کوئی الزام نہیں لگ سکتا.پس ان کو کہو کہ اب جاؤ اور سارے عرب میں چار ماہ پھر کر دیکھ لو کہ کہیں بھی تمہاری حکومت رہ گئی ہے.یقینا تمہیں معلوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کو شکست نہیں دے سکے.اور خدا ہی ہے جس نے تمہیں رُسوا کیا.اسی طرح حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کر دو کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں کے تمام اعتراضات سے بڑی ہو چکا ہے اور تمہارے جس قدر اعتراضات تھے وہ دُور ہو گئے.اگر وہ تو بہ کر لیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہو گا اور اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو جان لو کہ اب بقیہ عرب میں ان کی تھوڑی بہت اگر کچھ حکومت باقی ہے تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی.سوائے ان کے جوان مشرکوں میں سے تمہارے ساتھ معاہدہ کر لیں.مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہوں نے معاہدہ کو کسی صورت میں نہ تو ڑا ہوا اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف دشمنوں کی کسی قسم کی مدد کی ہو.ایسے لوگوں کے ساتھ تم معاہدہ کو نبھاؤ.کیونکہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے.لیکن ان کے علاوہ اور جس قد رمشرک ہیں ان میں ایک اعلان کر دوا ور وہ یہ کہ آج سے چار ماہ کے بعد وہ عرب میں سے نکل جائیں اگر وہ نہ نکلیں اور عرب میں ہی ٹھہرے رہیں تو چونکہ انہوں نے گورنمنٹ کا آرڈر نہیں مانا ہوگا اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اس کے بعد تم مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کر دو اور جہاں پاؤ ان کو پکڑ لو اور پکڑ کر قید میں ڈال دو اور ان کی گھات میں تم ہر جگہ بیٹھو.ہاں اگر وہ مسلمان ہو جائیں اور نمازیں پڑھیں اور زکو تیں دیں تو بے شک انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا غفور اور رحیم ہے.آب دیکھو حکومت کس چیز کا نام ہوتا ہے.حکومت اس بات کا نام نہیں کہ میاں ، بیوی سے اپنی باتیں منوائے اور بیوی ، میاں سے ، بلکہ حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے یہ نہیں کہ جو بھی

Page 470

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده کسی کو حکم دے اسے بادشاہ کہہ دیا جائے.انگریزی میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بچے نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابا جان بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟ باپ کہنے لگا بادشاہ وہ ہوتا ہے جس کی بات کو کوئی رد نہ کر سکے.بچہ یہ سن کر کہنے لگا کہ ابا جان پھر تو ہماری اماں جان بادشاہ ہیں.معلوم ہوتا ہے وہ باپ 'زن مرید ہوگا.تبھی اس کے بچہ نے کہا کہ اگر بادشاہ کی یہی تعریف ہے تو یہ تعریف تو میری والدہ پر صادق آتی ہے.حکومت کیلئے ضروری شرائط غرض حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور جب ہم تسلیم کریں گے کہ فلاں حکومت ہے تو اس میں چند شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہوگا جن میں سے بعض یہ ہیں:.(۱) حکومت کیلئے ملکی حدود کا ہونا ضروری ہے.یعنی جو نظام بھی رائج ہو اس کی ایک حد بندی ہو گی اور کہا جاسکے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک اس کا اثر ہے.گویا ملکی حدود حکومت کا ایک جُزوِ لَا يَنفَک ہے.(۲) حکومت کو افراد کی مالی جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے.مثلاً حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قید کر دے، کسی کو اپنے ملک سے باہر نکال دے یا کسی سے جبر اروپیہ وصول کر لے.اسی طرح جانی آزادی پر بھی وہ پابندی عائد کر سکتی ہے.مثلاً وہ حکم دے سکتی ہے کہ ہر نوجوان فوج میں بھرتی ہو جائے.یا اگر کہیں والنٹیئروں کی ضرورت ہو تو وہ ہر ایک کو بلا سکتی ہے.(۳) تیسرے لوگوں پر ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کے وصول کرنے کا بھی اسے اختیار ہوتا ہے.اسی طرح ایسے ہی اختیارات رکھنے والے ممالک سے اسے معاہدات کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اسے باہر سے آنے والوں اور باہر جانے والوں پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے تجارت اور لین دین کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے قضا کا اختیار ہوتا ہے ،غرض یہ تمام کام حکومت کے سپرد ہوتے ہیں اور اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان امور کو سرانجام دے.بالخصوص ملکی حدود کا ہونا حکومت کے لئے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اسی کے ماتحت وہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک رہنے والوں پر ہمارے احکام حاوی ہوں گے اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ ان کی اطاعت کریں اس ملکی حد میں چاہے کسی وقت غیر آجائیں ان کے لئے بھی حکومت کے احکام کی اطاعت ضروری ہوگی اور جو اس حد میں سے نکل جائے وہ ایک

Page 471

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده حد تک ان قوانین کی اطاعت سے بھی باہر ہو جاتا ہے.غرض حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا بعض باتوں سے روکنا ، افراد کی مالی جانی اور رہائشی آزادی پر ضرورت کے وقت پابندیاں عائد کرنا، ٹیکس وصول کرنا، لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنا، معاہدات کرنا اور قضاء کے کام کو سر انجام دینا ہوتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ سب اختیارات دیئے گئے ہیں یا نہیں.پہلا امر ملکی حد بندی تھی.سو اس اختیار کا رسول کریم ﷺ کو ملنا ایک واضح امر ہے کیونکہ آپ نے اعلان کر دیا کہ اتنے حصہ میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی آیا تو اسے نکال دیا جائے گا.دوسری طرف فرما دیا کہ جو لوگ اس حد کے اندر رہتے ہیں ان کے لئے یہ یہ شرائط ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسروں سے معاہدات کرنے کا بھی اختیار دیا اور پھر شرائط کے ماتحت اس بات کا بھی اختیار دیا کہ آپ اگر مناسب سمجھیں تو معاہدہ کو منسوخ کر دیں اسی طرح آپ کو ٹیکس وصول کرنے کا بھی اختیار دیا گیا.آپ کو ضرورت پر لوگوں کی مالی، جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اختیار دیا گیا.غرض حکومت کے جس قدر اختیارات ہوتے ہیں وہ تمام رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دے دیئے.حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا ہوتا ہے رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ یہ حق دیتا ہے.حکومت کا کام بعض باتوں سے روکنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو یہ حق بھی دیتا ہے.پھر افراد کی مالی ، جانی اور رہائشی آزادی کو حکومت ہی خاص حالات میں سلب کر سکتی ہے.چنانچہ اس کا حق بھی اللہ تعالیٰ آپ کو دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان کے مال لے سکتے ہو ، ٹیکس وصول کر سکتے ہو، جانئیں ان سے طلب کر سکتے ہو اور جنگ پر لے جا سکتے ہو.اسی طرح ملک سے لوگوں کو نکالنے کا اختیار بھی آپ کو دیا گیا.پھر قضاء حکومت کا کام ہوتا ہے سو یہ حق بھی اسلام آپ کو دیتا ہے اور آپ کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قرار دیتا ہے.پھر حکومت کی قسم بھی بتا دی کہ رسول کریم ﷺ اس بات کے پابند نہیں کہ تمہاری سب باتیں مانیں بلکہ تم اس بات کے پابند ہو کہ ان کی سب باتیں مانو کیونکہ اگر یہ تمہاری سب باتیں مانے تو اس کے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.صلى الله.پس ان آیات سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا تعلق امور حکومت کے انصرام سے وقتی ضرورت کے ماتحت نہ تھا بلکہ شریعت کا حصہ تھا اور جس طرح نماز روزہ وغیرہ احکام مذہب کا بز و ہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ کا نظام ملکی کا کام اور طریق بھی مذہب اور دین کا حصہ ہے اور دُنیوی یا وقتی ہرگز نہیں کہلا سکتا.

Page 472

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده کیا نظام سے تعلق رکھنے والے احکام صرف منکرین خلافت کی اس دلیل پر کہ اسلام نے رسول کریم ﷺ کی ذات سے مخصوص تھے ؟ کوئی معنی نظام پیش نہیں کیا جو یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس طرح رسول کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے علی بن عبد الرزاق نے بھی محسوس کیا ہے اور چونکہ وہ آدمی ذہین ہے اس لئے اس نے اس مشکل کو بھانپا ہے اور یہ سمجھ کر کہ لوگ اس پر یہ اعتراض کریں گے کہ جب قرآن کریم میں ایسے احکام موجود ہیں جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے تو تم کس طرح کہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ نے ان کا موں کو وقتی ضرورت کے ماتحت کیا اور اسلام نے کوئی مخصوص نظام حکومت پیش نہیں کیا اسے اس رنگ میں حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی حکومت حکومت رسالت و محبت تھی نہ کہ حکومت ملوکیت.وہ کہتا ہے بیشک رسول کریم ﷺ نے کئی قسم کے احکام دیئے مگر وہ احکام بحیثیت رسول ہونے کے تھے بحیثیت نظام کے سردار ہونے کے نہیں تھے.اور اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ چونکہ وہ احکام نظام کا سردار ہونے کے لحاظ سے نہیں دیئے گئے اس لئے وہ دوسروں کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے اور چونکہ وہ تمام احکام بحیثیت رسول تھے اس لئے آپ کی وفات کے ساتھ ہی وہ احکام بھی ختم ہو گئے.پھر وہ ان تمام اختیارات کو رسول کریم علیہ کے ساتھ مخصوص ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ رسول کے ساتھ لوگوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے اور اس محبت کی وجہ سے ہر شخص اُن کی بات کو تسلیم کر لیتا ہے یہی کیفیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھی.صحابہ کو آپ کے ساتھ عشق تھا اور وہ آپ کے ہر حکم پر اپنی جانیں فدا کرنے کیلئے تیار رہتے تھے.پس آپ نے جو حکم بھی دیا وہ انہوں نے مان لیا اور وہ ماننے پر مجبور تھے کیونکہ وہ اگر عاشق تھے تو آپ معشوق ، اور عاشق اپنے معشوق کی باتوں کو مانا ہی کرتا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ احکام ہمیشہ کیلئے واجب العمل بن گئے بلکہ وہ صرف آپ کے ساتھ مخصوص تھے اور جب آپ وفات پا گئے تو اُن احکام کا دائرہ عمل بھی ختم ہو گیا.

Page 473

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده علی بن عبد الرزاق کی یہ نبی کے ساتھ اس کے متبعین کی غیر معمولی محبت دلیل اس لحاظ سے تو درست ہے کہ واقع میں نبی کے ساتھ اُس کے ماننے والوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہماری جماعت کے ہزاروں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو کچھ کرتے دیکھتے تھے وہی خود بھی کرنے لگ جاتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے بطور اعتراض کہا کہ آپ کی جماعت کے بعض لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہیں اور یہ کوئی پسندیدہ طریق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب ان کے دلوں میں محبت کامل پیدا ہو جائے گی اور وہ دیکھیں گے کہ میں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے تو وہ خود بھی ڈاڑھی رکھنے لگ جائیں گے اور کسی وعظ ونصیحت کی انہیں ضرورت نہیں رہے گی.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی اور اس کے ماننے والوں کے درمیان محبت کا ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جس کی نظیر اور کسی دُنیوی رشتہ میں نظر نہیں آسکتی بلکہ بعض دفعہ محبت کے جوش میں انسان بظاہر معقولیت کو بھی چھوڑ دیتا ہے.حضرت عبداللہ بن عمر کی عادت تھی کہ جب وہ حج کیلئے جاتے تو ایک مقام پر پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ جاتے اور چونکہ وہ بار بار اُسی مقام پر بیٹھتے اس لئے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کو اسی مقام پر پیشاب آتا ہے ادھر اُدھر کسی اور جگہ نہیں آتا ؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھے تھے اس وجہ سے جب بھی میں یہاں سے گزرتا ہوں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ جاتے ہیں اور میں اُس جگہ تھوڑی دیر کیلئے ضرور بیٹھ جاتا ہوں." تو محبت کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایسی نقلیں بھی کر لیتا ہے جو بظاہر غیر معقول نظر آتی ہیں.پس یہ جو اُس نے کہا کہ چونکہ صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اس لئے وہ آپ کی اطاعت کرتے تھے اسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مگر یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ لوگ آپ کی محبت سے اطاعت کرتے تھے یا دباؤ سے بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اقتدار ملک اور جان پر دیا تھا یا نہیں.اسی طرح نہ ماننے والوں پر آپ کو کوئی اختیار دیا تھا یا نہیں.اگر قرآن میں صرف احکام بیان ہوتے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کسی قسم کی سزا کا ذکر نہ ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دیئے اور صحابہ نے اُس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا ان احکام کو قبول کر لیا.مگر ہم تو دیکھتے

Page 474

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده ہیں کہ قرآن میں سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر فلاں جُرم کرو گے تو تمہیں یہ سزا ملے گی اور فلاں مجرم کرو گے تو یہ سزا ملے گی اور جب کہ قرآن نے سزائیں بھی مقرر کی ہیں تو معلوم ہوا کہ محبت کا اصول گلیہ درست نہیں کیونکہ جہاں احکام کی اطاعت محض محبت سے وابستہ ہو وہاں سزائیں مقرر نہیں کی جاتیں.پھر اسلام نے صرف چند احکام نہیں دیئے بلکہ نظام حکومت کی تفصیل بھی بیان کی ہے.گو بعض جگہ اس نے تفصیلات کو بیان نہیں بھی کیا اور اس میں لوگوں کیلئے اُس نے اجتہاد کے دروازہ کو گھلا رکھا ہے تا کہ اُن کی عقلی اور فکری استعدادوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.چنانچہ بعض امور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے اصل اسلامی مسئلہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بعض امور میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے حالات پیش آمدہ کے مطابق لوگوں کی رہبری کی بلکہ بعض امور ایسے ہیں جن کے متعلق آج تک غور وفکر سے کام لیا جا رہا ہے.خیار بلوغ کا مسئلہ مثلا باپ اگر بیٹی کا بوقت سے پہلے نکاح کر دے تو بالغ ہونے پر اسے فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہے جو عام طور پر پیدا ہوتا رہتا ہے.فقہ کی پرانی کتابوں میں یہی ذکر ہے کہ باپ اگر بیٹی کا نکاح کر دے تو اُسے خیار بلوغ حاصل نہیں ہوتا مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لڑکی کو خیار بلوغ حاصل ہے اور اسے اس بات کا حق ہے کہ اگر وہ بالغ ہونے پر اس رشتہ کو پسند نہ کرے تو اسے رڈ کر دے.اسی طرح اور بہت سے فقہی مسائل ہیں جو اسلامی تعلیم کے ماتحت آہستہ آہستہ نکلتے آتے ہیں اور بہت سے آئندہ زمانوں میں نکلیں گے.پس ہمیں تفصیلات سے غرض نہیں اور نہ اس وقت یہ سوال پیش ہے کہ اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی خاص رنگ کی حکومت دی تھی یا نہیں کیونکہ نظام حکومت علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں.انگلستان کا امریکہ سے امریکہ کا روس سے اور روس کا جرمنی سے نظام حکومت مختلف ہے مگر اس اختلاف کی وجہ سے یہ تو نہیں کہ ایک کو ہم حکومت کہیں اور دوسرے کو ہم حکومت نہ کہیں.حکومت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی خاص نظام مقرر کیا جائے اور لوگوں کی باگ ڈور ایک آدمی یا ایک جماعت کے سپرد کر کے ملکی حدود کے اندر اس کو قائم کیا جائے.پس دیکھنا یہ ہے کہ کسی نظام کا خواہ وہ دوسرے نظاموں سے کیسا ہی مخالف کیوں نہ ہو ا سلام حکم دیتا ہے یا نہیں اور اُس نظام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلاتے تھے یا نہیں.

Page 475

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ملوکیت کا اسلام ملکی اور قانونی نظام کا قائل ہے مائل نہیں کیونکہ ملوکیت ایک خاص معنی رکھتی ہے اور ان معنوں کی حکومت کا اسلام مخالف ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق بھی فرمایا کہ میں بادشاہ نہیں اور خلفاء کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملوک کا لفظ استعمال نہیں فرمایا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام مذہبی طور پر کسی بھی ملکی نظام کا قائل نہیں.اگر کوئی نظام قرآن اور اسلام سے ثابت ہو تو ہم کہیں گے کہ اسلام ملوکیت کا بے شک مخالف ہے مگر ایک خاص قسم کے نظام کو اس کی جگہ قائم کرتا ہے اور وہ اسلام کا مذہبی حصہ ہے اور چونکہ وہ مذہبی حصہ ہے اُس کا قیام مسلمانوں کیلئے ضروری ہے جہاں تک اُن کی طاقت ہو.حکومت در حقیقت نام ہے ملکی حدود اور اس میں خاص اختیارات کے اجراء کا.کسی خاص طرز کا نام نہیں اور ملکی حدود اور خاص اختیارات کا نفاذ قرآن کریم سے ثابت ہے.جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جن کو میں ابھی پیش کر چکا ہوں.پس جب کہ ایک ملکی حد اور اس حد میں ایک خاص قانون اور ایک اصلی باشندے ملک کے اور ایک معاہد اور ایک غیر ملکی کا وجود پایا جاتا ہے تو ایک خاص نظام حکومت بھی ثابت ہے اس کا نام ہم بھی ملوکیت نہیں رکھتے کیونکہ ملوکیت ایسے معنوں کی حامل ہے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن بہر حال ایک ملکی اور قانونی نظام ثابت ہے اور اسی کے وجود کو ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اسی نظام کے قیام کیلئے ہم خلافت کو ضروری قرار دیتے ہیں.پس خلافت ایک اسلامی نظام ہے نہ کہ وقتی مصلحت کا نتیجہ.میں اس امر کو مانتا ہوں کہ خلافت کے انکار سے منطقی نظر یہ وہی قائم ہوتا ہے جو علی بن عبدالرزاق نے قائم کیا ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں رڈ کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ اس نظریہ کو تسلیم کئے بغیر خلافت کا انکار کرتے ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنا چاہتے ہیں.اب جب کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہو گیا کہ اسلام امور ملکی اور نظام قومی کو مذہب کا حصہ قرار دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان امور میں حصہ لینا اسے مذہب کا جز و قرار دیتا ہے تو ان امور میں آپ کی ہدایت اور راہنمائی اُسی طرح سنت اور قابل نمونہ ہوئی جس طرح کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں اور اِن امور میں کسی آزادی کا مطالبہ اُسی وقت تسلیم ہو سکتا ہے جب کہ انسان اسلام سے بھی آزادی کا مطالبہ کرے اور جب یہ ثابت ہو گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم

Page 476

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح نظام قومی یا نظام ملکی کے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے کیونکہ جس طرح فرد کی باطنی ترقی کیلئے نماز روزہ کی ضرورت باقی ہے اسی طرح قوم کی ترقی کیلئے ان دوسری قسم کے احکام کے نفاذ اور انتظام کی بھی ضرورت ہے.اور جس طرح نماز باجماعت جو ایک اجتماعی عبادت ہے آپ کے بعد آپ کے نواب کے ذریعے ادا ہوتی رہنی چاہئے اسی طرح وہ دوسرے احکام بھی آپ کے نواب کے ذریعے سے پورے ہوتے رہنے چاہئیں.اور جس طرح نماز روزہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو احکام دیئے اُن کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں تو تم بے شک نہ نمازیں پڑھو اور نہ روزے رکھو اسی طرح نظام کے متعلق اسلام نے جو احکام دیئے اُن سے یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ بعد میں قابل عمل نہیں رہیں گے.بلکہ جس طرح نماز میں ایک کے بعد دوسرا امام مقرر ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح نظام سے تعلق رکھنے والے احکام پر بھی آپ کے نائین کے ذریعہ ہمیشہ عمل ہوتے رہنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں اسی دھوکا کی وجہ سے کہ نظام سے قبائل عرب کی بغاوت کی وجہ تعلق رکھنے والے احکام سول کریم نے کی صلى الله ﷺ ذات سے مختص تھے آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے بغاوت کر دی اور انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.وہ بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے سوا کسی اور کو زکوۃ لینے کا اختیار ہی نہیں دیا.چنانچہ وہ فرماتا ہے.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے اموال کا کچھ حصہ بطور زکوۃ لے.یہ کہیں ذکر نہیں کہ کسی اور کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوۃ لینے کا اختیار ہے.مگر مسلمانوں نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہ کیا حالانکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مخاطب کیا گیا ہے.بہر حال جو لوگ اس وقت مرتد ہوئے ان کی بڑی دلیل یہی تھی کہ زکوۃ لینے کا صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار حاصل تھا کسی اور کو نہیں.اور اس کی وجہ یہی دھوکا تھا کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہمیشہ کے لئے قابل عمل نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ احکام مخصوص تھے.مگر جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں یہ خیال بالکل غلط ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور

Page 477

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نماز باجماعت کی طرح جو ایک اجتماعی عبادت ہے ان احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپ کے نائبین کے ذریعہ ان پر عمل ہوتا رہے.اس اصولی بحث کے بعد میں خلافت کے مسئلہ کی مسئلہ خلافت کی تفصیلات تفصیلات کی طرف آتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کو خدا تعالیٰ سے شدید اتصال ہوتا ہے ایسا شدید اتصال کہ بعض لوگ اسی وجہ سے دھوکا کھا کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید وہ خدا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو اسی قسم کی ٹھوکر لگی لیکن جنہیں یہ ٹھو کر نہیں لگتی اور وہ نبی کو بشر ہی سمجھتے ہیں وہ بھی اس شدیدا اتصال کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے کہ اُس کے وجود میں اس کے اتباع خدائی نشانات دیکھتے رہتے ہیں اس کے زمانہ میں یہ خیال تک نہیں کرتے کہ وہ فوت ہو جائے گا.یہ نہیں کہ وہ نبی کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ شدت محبت کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور نبی کو اللہ تعالیٰ ابھی بہت زیادہ عمر دے گا.چنانچہ آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے متعلق اس کی زندگی میں اس کے متبعین نے یہ سمجھا ہو کہ وہ فوت ہو جائے گا اور ہم زندہ رہیں گے بلکہ ہر شخص (سوائے حدیث العہد اور قلیل الایمان لوگوں کے ) یہ خیال کرتا ہے کہ نبی تو زندہ رہے گا اور وہ فوت ہو جائیں گے اور اس وجہ سے وہ ان اُمور پر کبھی بحث ہی نہیں کرتے جو اس کے بعد اُمت کو پیش آنے والے ہوتے ہیں اور زمانوں میں تو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اگر فلاں فوت ہو گیا تو کیا بنے گا.مگر نبی کے زمانہ میں انہیں اس قسم کا خیال تک نہیں آتا اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں شدت محبت ہوتی ہے.چنانچہ اس کا ہمیں ذاتی تجربہ بھی ہے.ہم میں سے کوئی احمدی سوائے اس کے کہ جس کے دل میں خرابی پیدا ایک ذاتی تجربہ ہو بھی ہو یا جس کے ایمان میں کو ئی نقص واقع ہو چکا ہو ایسا نہں تھا جس کے دل میں کبھی بھی یہ خیال آیا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو جائیں گے اور ہم آپ کے پیچھے زندہ رہ جائیں گے.چھوٹے کیا اور بڑے کیا، بچے کیا اور بوڑھے کیا ، مرد کیا اور عورتیں کیا سب یہی سمجھتے تھے کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور حضرت صاحب زندہ رہیں گے.غرض کچھ شدت محبت کی وجہ سے اور کچھ اس تعلق کی عظمت کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کتنی لمبی عمر دے گا.چاہے کوئی شخص یہ خیال نہ کرتا ہو کہ یہ نبی ہمیشہ زندہ رہے گا مگر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور خدا تعالیٰ کا نبی دنیا میں

Page 478

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده زندہ رہے گا.چنانچہ بسا اوقات اٹھارہ اٹھارہ ہیں ہیں سال کے نو جوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نہایت لجاجت سے عرض کرتے کہ حضور ہمارا جنازہ خود پڑھائیں اور ہمیں تعجب آتا کہ یہ تو ابھی نوجوان ہیں اور حضرت صاحب ستر برس سے اوپر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس کے علاوہ آپ بیمار بھی رہتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جنازہ آپ پڑھا ئیں.گویا انہیں یقین ہے کہ حضرت صاحب زندہ رہیں گے اور وہ آپ کے سامنے فوت ہونگے.اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پاگئے تو دس پندرہ دن تک سینکڑوں آدمیوں کے دلوں میں کئی دفعہ یہ خیال آتا کہ آپ ابھی فوت نہیں ہوئے.میرا اپنا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے تیسرے دن میں ایک دوست کے ساتھ باہر سیر کیلئے گیا اور دار الانوار کی طرف نکل گیا.ان دنوں ایک اعتراض کے متعلق بڑا چرچا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ بہت ہی اہم ہے.راستہ میں میں نے اس اعتراض پر غور کرنا شروع کر دیا اور خاموشی سے سوچتا چلا گیا.مجھے یکدم اس اعتراض کا ایک نہایت ہی لطیف جواب سوجھ گیا اور میں نے زور سے کہا کہ مجھے اس اعتراض کا جواب مل گیا ہے.اب میں گھر چل کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کروں گا اور آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر جو فلاں اعتراض دشمنوں نے کیا ہے اس کا یہ جواب ہے حالانکہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وفات پائے تین دن گزر چکے تھے.تو وہ لوگ جنہوں نے اس عشق کا مزا چکھا ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہ کیا خیال کرتے تھے اور آپ کی وفات پر اُن کی کیا قلبی کیفیات تھیں.یہی حال صحابہ کا تھا.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اُس کی مثال تاریخ کے صفحات میں اور کہیں نظر نہیں آتی.اس عشق کی وجہ سے صحابہ کیلئے یہ تسلیم کرنا سخت مشکل تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے.یہ نہیں کہ وہ آپ کو خدا سمجھتے تھے ، وہ سمجھتے تو آپ کو انسان ہی تھے مگر شدت محبت کی وجہ سے خیال کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا.چنانچہ آپ کی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ اس حقیقت کی ایک نہایت واضح دلیل ہے.صلى الله حدیثوں اور تاریخوں رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کی کیفیت میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جب لوگوں میں مشہور ہوئی تو حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے

Page 479

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ افواہ محض منافقوں کی شرارت ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور وہ فوت نہیں ہوئے.آپ آسمان پر خدا سے کوئی حکم لینے کیلئے گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں واپس آجائیں گے اور منافقوں کو سزا دیں گے.چنانچہ انہوں نے اس بات پر اتنا اصرار کیا کہ انہوں نے کہا اگر کسی نے میرے سامنے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا اور یہ کہہ کر ایک جوش اور غضب کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لٹکائے مسجد میں ٹہلنے لگ گئے.کلے لوگوں کو ان کو یہ بات اتنی بھلی معلوم ہوئی کہ ان میں سے کسی نے اس بات کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی حالانکہ قرآن میں رسول کریم ﷺ کی نسبت یہ صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ آفَائِن مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ اگر محمد رسول اللہ علہ فوت ہو جائیں یا خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ مگر باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی نص صریح موجود تھی جس سے رسول کریم ﷺ کا وفات پانا ثابت ہو سکتا تھا پھر بھی انہیں ایسی ٹھوکر لگی کہ ان میں سے بعض نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر یہ خیال کر لیا کہ آپ فوت نہیں ہوئے یہ منافقوں نے جھوٹی افواہ اُڑا دی ہے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ محبت کی شدت سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کبھی ایسا ممکن ہے کہ رسول کریم اللہ فوت ہو جائیں اور وہ زندہ رہیں.بعض صحابہ جو طبیعت کے ٹھنڈے تھے انہوں نے جب یہ حال دیکھا تو انہیں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو لوگوں کو کوئی ابتلاء آ جائے چنانچہ وہ جلدی جلدی سے گئے اور حضرت ابو بکر کو بلا لائے.جب وہ مسجد میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر شخص جوش اور خوشی کی حالت میں نعرے لگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے منافق جھوٹ بولتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں.گویا ایک قسم کے جنون کی حالت تھی جو ان پر طاری تھی.جیسے میں نے کہہ دیا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے جو فلاں اعتراض کیا ہے اس کا یہ جواب ہے.حضرت ابو بکڑ نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں رسول کریم ﷺ کا جسد مبارک پڑا ہوا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہے.انہوں نے بتایا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.حضرت ابو بکر نے یہ سنتے ہی کپڑا اٹھایا اور آپ کی پیشانی پر انہوں نے بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک تو آپ وفات پا جائیں اور دوسری طرف قوم پر

Page 480

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده موت وارد ہو جائے اور وہ صحیح اعتقادات سے منحرف ہو جائے.پھر آپ باہر تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر آپ نے ایک وعظ کیا جس میں بتایا کہ محمد رسول اللہ علہ فوت ہو چکے ہیں.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ : قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، آفائِن مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اعقابكم و اس کے بعد آپ نے بڑے زور سے کہا کہ اے لوگو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک اللہ کے رسول تھے مگر اب وہ فوت ہو چکے ہیں.اگر تم میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ آپ وفات پاچکے ہیں لیکن اگر تم خدا کی عبادت کیا کرتے تھے تو تم سمجھ لو کہ تمہارا خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی.حضرت عمرؓ جو اس وقت تلوار کی ٹیک کے ساتھ کھڑے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ ابھی یہ منبر سے اُتریں تو میں تلوار سے ان کی گردن اڑا دوں.انہوں نے جس وقت یہ آیت سُنی معًا ان کی آنکھوں کے سامنے سے ایک پردہ اُٹھ گیا.ان کے گھٹنے کا پنپنے لگ گئے.ان کے ہاتھ لرزنے لگ گئے اور ان کے جسم پر ایک کپکپی طاری ہوگئی اور وہ ضعف سے نڈھال ہو کر زمین پر گر گئے.باقی صحابہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر پہلے پردے پڑے ہوئے تھے مگر جب ہم نے حضرت ابو بکر سے یہ آیت سنی تو وہ تمام پردے اُٹھ گئے.دنیا ان کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی اور مدینہ کی تمام گلیوں میں صحابہ ڑو تے پھرتے تھے اور ہر ایک کی زبان پر یہ آیت تھی کہ وَ مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ ، قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ.آنائِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ٣٠ حضرت حسان کا یہ شعر بھی اسی کیفیت پر دلالت کرتا ہے کہ كُنتَ السَّوادَ لِنَا ظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ ال کہ اے خدا کے رسول ! تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا.اب تیرے وفات پا جانے کی وجہ سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے.صرف تو ہی ایک ایسا وجود تھا جس کے متعلق مجھے موت کا خوف تھا.اب تیری وفات کے بعد خواہ کوئی مرے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی.نبی کی زندگی میں اسکی جانشینی کے پس جب نبی کی زندگی میں قوم کے دل اور.دماغ کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو سمجھا جا سکتا مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں ہو سکتی ہے کہ خدا بھی اور نبی بھی ان کو اس ایذاء

Page 481

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده سے بچاتے ہیں اور اس نازک مضمون کو کہ نبی کی وفات کے بعد کیا ہو گا لطیف پیرا یہ میں بیان کرتے ہیں اور قوم بھی اس مضمون کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتی اور نہ ان امور میں زیادہ دخل دیتی ہے کہ نبی کے بعد کیا ہو گا.چنانچہ یہ کہیں سے ثابت نہیں کہ کسی نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا ہو کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہوگا ؟ آیا آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوگا یا کوئی پارلیمنٹ اور مجلس بنے گی جو مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے امور کا فیصلہ کرے گی کیونکہ ایسے امور پر وہی بحث کر سکتا ہے جو سنگدل ہو اور جو نبی کی محبت اور اس کی عظمت سے بالکل بریگا نہ ہو.باقی کئی مسائل کے متعلق تو ہمیں احادیث میں نظر آتا ہے کہ صحابہ ان کے بارہ میں آپ سے دریافت کرتے رہتے تھے اور گرید گرید کر وہ آپ سے معلومات حاصل کرتے تھے مگر جانشینی کا مسئلہ ایسا تھا جو صحابہ آپ سے دریافت نہیں کر سکتے تھے اور نہ اس کو دریافت کرنے کا خیال تک ان کے دل میں آ سکتا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ زندہ رہیں گے اور ہم وفات پا جائیں گے.پس یہ مسئلہ ایک رنگ میں اور ایک حد تک پردہ اخفاء میں رہتا ہے اور اس کے گھلنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جبکہ نبی فوت ہو جاتا ہے.یہی حالات تھے جبکہ نبی کریم ﷺ فوت ہوئے آپ کی وفات صحابہ کے لئے ایک زلزلہ عظیمہ تھی.چنانچہ آپ کی وفات پر پہلی دفعہ انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ نبی بھی ہم سے جدا ہو سکتا ہے اور پہلی دفعہ یہ بات ان کے دماغ پر اپنی حقیقی اہمیت کے ساتھ نازل ہوئی کہ اس کے بعد انہیں کسی نظام کی ضرورت ہے جو نبی کی سنت اور خواہشات کے مطابق ہو اور اس کی جزئیات پر انہوں نے غور کرنا شروع کیا.بیشک اس نظام کی تفصیلات قرآن کریم میں موجود تھیں مگر چونکہ وہ پہلے چھپی ہوئی تھیں اور ان کو کبھی گرید انہیں گیا تھا اس لئے لوگ ان آیات کو پڑھتے اور ان کے کوئی اور معنے کر لیتے.وہ خاص معنے نہیں کرتے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اس کے متبعین کو کیا کرنا چاہئے.ہر نبی کی دو زندگیاں ہوتی در حقیقت اس جذبہ محبت کی تہہ میں بھی ایک الہی حکمت کام کر رہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نبی کی دوزندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی ہیں.ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالی ان دونوں زندگیوں کو الہام سے شروع کرتا ہے.نبی کی شخصی زندگی تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ تہیں یا چالیس سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے الہامات اس پر نازل ہونے شروع ہو

Page 482

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده جاتے ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ تو مامور ہے اور تجھے لوگوں کی اصلاح اور ان کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے.ان الہامات کے نتیجہ میں وہ اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل نازل ہوتے دیکھتا ہے اور وہ اپنے اندر نئی قوت نئی زندگی اور نئی بزرگی محسوس کرتا ہے.اور نبی کی قومی زندگی الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پاتا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالی کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے.قدرت اولی نبی کی شخصی زندگی ہوتی غرض جس طرح نہیں کی شخصی زندگی کو اللہ تعالیٰ الہام سے شروع کرتا ہے اسی ہے اور قدرت ثانیہ قومی زندگی طرح وہ اس کی قومی زندگی کو جو اس کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے الہام سے شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ دونوں میں مشابہت قائم رہے اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے.گویا قدرت اولی تو نبی کی شخصی زندگی ہے اور قدرت ثانیہ نبی کی قومی زندگی ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ اس قومی زندگی کو ایک الہام سے اور اپنی قدرت سے شروع کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کی جزئیات کو نبی کے زمانہ میں قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھتا ہے.پھر جب نبی فوت ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا ہے.انجیل میں بھی اسی قسم کی مثال پائی جاتی ہے جہاں ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کی وفات کے بعد حواری ایک جگہ جمع ہوئے تو ان پر روح القدس نازل ہوا اور وہ کئی قسم کی بولیاں بولنے لگ گئے اور گو انجیل نویسوں نے اس واقعہ کو نہایت مضحکہ خیز صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے مگر اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد حواریوں میں یکدم کوئی ایسا تغیر پیدا ہوا جس کی طرف پہلے ان کی توجہ نہیں تھی اور وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اس تغیر کو روح القدس کی طرف منسوب کریں.غرض اللہ تعالیٰ نبی کی اس نئی زندگی کو بھی اس کی شخصی زندگی کی طرح اپنے الہام اور قدرت نمائی سے شروع کرتا ہے اور اسی وجہ سے نبی کے زمانہ میں اس کی جزئیات قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھی جاتی ہیں.یہاں میں ایک بات بطور لطیفہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ یہ قرطاس پر ایک نظر سیر شیعوں اور سنیوں میں بہت مدت سے ایک نزاع چالا

Page 483

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله خلافت را شده آتا ہے جسے قضیۂ قرطاس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.اس قضیہ قرطاس کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کو مرض الموت میں جب تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تا کہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بات لکھوا دوں جس کے نتیجہ میں تم کبھی گمراہ نہ ہو.اس پر شیعہ کہتے ہیں کہ دراصل رسول کریم ﷺ دیکھوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد علی خلیفہ ہوں اور انہیں کو امام تسلیم کیا جائے لیکن حضرت عمر نے آپ کو کچھ لکھوانے صلى الله نہ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ جانے دو، رسول کریم ﷺ کو اس وقت تکلیف زیادہ ہے اور یہ مناسب نہیں کہ آپ کی تکلیف کو اور زیادہ بڑھایا جائے ہمارے لئے ہدایت کے لئے قرآن کافی ہے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت نہیں.شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چالا کی عمر کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کوئی وصیت کر جائیں تا کہ بعد میں حضرت علی کو محروم کر کے وہ خود حکومت کو سنبھال لیں.اگر وہ رسول کریم اللہ کو وصیت لکھوانے دیتے تو آپ ضرور حضرت علی کے حق میں وصیت کر جاتے.اس اعتراض کے کئی جواب ہیں مگر میں اس وقت صرف د و جواب دینا چاہتا ہوں.اول یہ کہ رسول کریم ﷺ اگر حضرت علی کے حق میں ہی خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمر کے انکار پر آپ نے دوبارہ یہ کیوں نہ فرمایا کہ قلم دوات ضرور لاؤ.میں تمہیں ایک اہم وصیت لکھوانا چاہتا ہوں.آخر آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ عمر ( نَعُوذُ بِاللهِ ) علی کا دشمن ہے اور اس وجہ سے عمر کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح علی کو کوئی فائدہ نہ پہنچ جائے.ایسی صورت میں یقیناً رسول کریم اللہ حضرت عمرؓ سے فرماتے کہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے بے شک تکلیف ہے مگر میں اس تکلیف کی کوئی پروا نہیں کرتا.تم جلدی قلم دوات لا ؤ تا کہ میں تمہیں کچھ لکھوا دوں.مگر رسول کریم ﷺ نے دوبارہ قلم دوات لانے کی ہدایت نہیں دی بلکہ حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ ہماری ہدایت کے لئے خدا کی کتاب کافی ہے تو رسول کریم اللہ خاموش ہو گئے.۲۲ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺہ درحقیقت وہی کچھ لکھوانا چاہتے تھے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا تھا اور چونکہ رسول کریم اللہ کے سامنے انہوں نے ایک رنگ میں خدا کی کتاب پر ہمیشہ عمل کرنے کا عہد کر لیا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اس بات کی ضرورت نہ مجھی کہ آپ کوئی علیحدہ وصیت لکھوانے پر اصرار کریں.پس اس واقعہ سے حضرت عمر صلى الله صلى الله پر نہ صرف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ آپ کے خیال اور رسول کریم ﷺ کے خیال کا تو ارد

Page 484

انوار العلوم جلد ۱۵ ظاہر ہوتا ہے.خلافت راشده دوسرا جواب جو درحقیت شیعوں کے اس قسم کے بے بنیاد خیالات کو رڈ کرنے کے لئے ایک زبر دست تاریخی ثبوت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر وصیت وہی شخص لکھوا سکتا ہے جسے یہ یقین ہو کہ اب موت سر پر کھڑی ہے اور اگر اس وقت وصیت نہ لکھوائی گئی تو پھر وصیت لکھوانے کا کوئی موقع نہیں رہے گا لیکن جسے یہ خیال ہو کہ مریض کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کر دے گا اور جس مرض میں وہ مبتلاء ہے وہ مرض الموت نہیں بلکہ ایک معمولی مرض ہے تو وہ وصیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس غرض کے لئے اسے تکلیف دینا بالکل بے فائدہ ہے.اب اس اصل کے ماتحت جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کو پیش آئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حکومت سنبھالنے کا خیال تو الگ رہا یہ بھی خیال نہیں تھا کہ آنحضرت فوت ہونے والے ہیں.چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے وفات پائی تو اس اچانک صدمہ نے جوان کی توقع اور امید کے بالکل خلاف تھا حضرت عمرؓ کو دیوانہ سا بنادیا اور انہیں کسی طرح یہ یقین بھی نہیں آتا تھا کہ رسول کریم ﷺ وفات پاگئے ہیں.وہ جنہیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ یقین نہیں آتا تھا کہ آپ وفات پاگئے ہیں اور جن کے دل میں آپ کی محبت کا احساس اس قدر شدت سے تھا کہ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا ان کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ رسول کریم آب فوت ہونے والے ہیں آپ حضرت علیؓ کے حق میں کوئی بات نہ لکھوا دیں آپ کو کچھ لکھنے سے روک دیا ہو.بلکہ اگر ہم غور کریں تو شیعوں کی ان روایات سے حضرت علی پر اعتراض آتا ہے کہ آپ آنحضرت ﷺ کی وفات کی توقع کر رہے تھے جبکہ حضرت عمرؓ شدت محبت کی وجہ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ معمولی بیماری کی تکلیف ہے آپ اچھے ہو جائیں گے اور ابھی وفات نہیں پاسکتے.پس اس سے حضرت علی پر تو اعتراض وارد ہوتا ہے مگر حضرت عمر پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ امران کی نیکی ، تقوی اور فضیلت کو ثابت کرتا ہے.صلى الله اللہ تعالیٰ نبی کی قومی زندگی کی غرض میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ نبی بھی الہام سے ابتداء کرتا ہے کی قومی زندگی کی ابتداء کرتا ہے اسی لئے

Page 485

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده صلى الله نبی کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت اور اس کی تفصیلات کو اللہ تعالیٰ نبی کی زندگی میں پردہ اخفاء میں رکھتا ہے ایسے ہی حالات میں رسول کریم علیہ فوت ہوئے.جب آپ وفات پا گئے تو پہلے تو بعض صحابہ نے سمجھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے مگر جب انہیں پتہ لگا کہ آپ واقعہ میں فوت ہو چکے ہیں تو وہ حیران ہوئے کہ اب وہ کیا کریں اور وہ کون سا طریق عمل میں لائیں جو رسول کریم کے لائے ہوئے مشن کی تکمیل کے لئے ضروری ہو.اسی پریشانی اور اضطراب کی حالت میں وہ اِدھر اُدھر پھرنے لگے.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی دیر کے اندر اُن میں دوگروہ ہو گئے جو بعد میں تین گروہوں کی صورت میں منتقل ہو گئے.رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ ایک گروہ نے یہ خیال کیا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جو نظام اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے منشاء کو اس کے اہل وعیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لئے نبی کریم ﷺ کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہئے کسی اور خاندان میں سے کوئی شخص نہیں ہونا چاہئے.اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا لیکن اگر آپ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لئے وہ خوشی سے اس کی اطاعت کو قبول کر لیں گے.جیسے ایک بادشاہ جس کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب وفات پا جاتا ہے اور اُس کا بیٹا اُس کا جانشین بنتا ہے تو وہ اُس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں.مگر دوسرے فریق نے سوچا کہ اس کے لئے رسول کریم ﷺ کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ایک جانشین ہو پس جو بھی سب سے زیادہ اس کا اہل ہو اس کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے.اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات میں متحد تھے کہ رسول کریم ﷺ کا کوئی جانشین ہونا چاہئے مگر ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ جانشین کن لوگوں میں سے ہو.ایک گروہ کا خیال تھا کہ جو لوگ سب سے زیادہ عرصہ تک آپ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کیلئے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم صلى الله

Page 486

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کی وفات مدینہ میں ہوئی ہے اور مدینہ میں انصار کا زور ہے اس لئے وہی اس کام کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں.غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو و گیا.انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گزاری ہے اور مکہ میں کوئی نظام نہیں تھا اس لئے نظام حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں.دوسری دلیل وہ یہ بھی دیتے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعا ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے، مہاجرین کا اثر نہیں ہو سکتا پس رسول کریم ﷺ کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہیئے مہاجرین میں سے نہیں.اس کے مقابلہ میں مہاجرین یہ کہتے کہ رسول کریم کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اُٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اُٹھائی اس لئے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں.اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عبادہ جو خزرج کے سردار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارہ میں طبائع کا اس طرف رُجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے.چنانچہ انصار نے آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے کہ ملک ہمارا ہے ، زمینیں ہماری ہیں ، جائداد میں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو فیصلہ کیا کہ اس منصب کے لئے سعد بن عبادہ سے بہتر اور کوئی شخص نہیں.یہ گفتگو ہورہی تھی کہ بعض نے کہا اگر مہاجرین اس کا انکار کریں گے تو کیا ہو گا ؟ اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے مِنا اَمِيْرٌ وَمِنْكُمْ اَمِيرٌ یعنی ایک امیر تم میں سے ہو جائے اور ایک ہم میں سے.سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے.یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہئے یا ان میں ے.مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمُ اَمِیر کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا اور اسلام میں رخنہ ڈالنا ہے.اس مشورہ کی جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی جلدی سے وہیں آگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ ہوا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے.مدینہ میں بیشک انصار کا زور تھا مگر باقی تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا.پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لئے سخت مشکل پیش به

Page 487

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلاء میں پورے نہ اُتریں چنانچہ سب مہاجرین و ہیں آگئے.ان میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بھی شامل تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکر تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے؟ مگر خدا کی قسم ! جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کر دیں بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے.تب میں سمجھا کہ میں ابو بکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.۲۴ غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ اَلْأَئِمَّةُ مِنَ الْقُرَيشِ ۲۵ اور ان کی سبقت دین اور ان قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کیلئے کرتے چلے آئے تھے.اس پر حباب بن المنذر خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت ہی اصرار ہے تو پھر مِنَّا أَمِيرٌ وَ مِنْكُمْ أَمِيرٌ پر عمل کیا جائے یعنی ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے.حضرت عمر نے فرمایا کہ میاں سوچ سمجھ کر بات کرو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں سے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم ﷺ نے نظام خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپ کی زندگی میں صحابہ کا ذہن اِ دھر منتقل نہیں ہوا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ) پس تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے ، عقلاً اور شرعا کسی طرح جائز نہیں.حضرت ابوبکر کا انتخاب آخر کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابوعبیدہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی قوم ہو جو مکہ کے باہر ایمان لائی اب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشاء کو بدل دیا.اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوا کہ بشیر بن سعد خزرجی کھڑے ہوئے اور

Page 488

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں ہم نے محمد رسول اللہ لہ کی جو خدمت کی اور آپ کی نصرت و تائید کی وہ دُنیوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لئے کی تھی کہ ہمیں آپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا کیلئے کی تھی پس حق کا سوال نہیں بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی لمبی صحبت پائی ہے.اس پر کچھ دیر تک اور بحث ہوتی رہی مگر آخر آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرح ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہئے چنانچہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ کو اس منصب کے لئے پیش کیا اور کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لومگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم ﷺ نے نماز کا امام بنایا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے.مطلب یہ تھا کہ اس منصب کیلئے حضرت ابو بکڑ سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں.چنانچہ اس پر حضرت ابو بکر کی بیعت شروع ہوگئی.پہلے حضرت عمر نے بیعت کی ، پھر حضرت ابو عبیدہ نے بیعت کی ، پھر بشیر بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس نے اور پھر خزرج کے دوسرے لوگوں نے اور اسقدر جوش پیدا ہوا کہ سعد جو بیمار تھے اور اُٹھ نہ سکتے تھے ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی.چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعد اور حضرت علیؓ کے سوا سب نے بیعت کر لی.حتی کہ سعد کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی.حضرت علی نے کچھ دنوں بعد بیعت کی.چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے چھ ماہ بعد بیعت کی.چھے ماہ والی روایات میں یہ غذر بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ کی تیمارداری میں مصروفیت کی وجہ سے آپ حضرت ابو بکر کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپ بیعت کرنے کے لئے آئے تو آپ نے یہ معذرت کی کہ چونکہ فاطمہ بیمار تھیں اس لئے بیعت میں دیر ہوگئی.۲۷ حضرت عمرؓ کا انتخاب حضرت ابوبکر کی وفات جب قریب آئی تو آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں.اکثر صحابہؓ نے اپنی رائے حضرت عمرؓ کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمر کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشد د کر یں.آپ نے فرمایا یہ تختی اسی وقت تھی جب تک ان پر کوئی ذمہ واری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ واری ان پر پڑ جائے گی ان کی تختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آ جائے گا.چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے.

Page 489

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده آپ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی اس لئے آپ نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور ہاتھ کانپ رہے تھے آپ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو.آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دوں.سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے.۲۸ سب صحابہ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمر کی بیعت ہو گئی.حضرت عثمان کا انتخاب حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ ب اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمانؓ ، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن الوقاص، حضرت زبیر، حضرت طلحہ.۳۹ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمر کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کیلئے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کیلئے صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن الاسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں.اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو.سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمران میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا ( کیونکہ طلحہ اس وقت مدینہ میں نہ تھے ) مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام وا پس لینا چاہتا ہے وہ بولے جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا پھر باقی دونے.حضرت علیؓ خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپر د ہو گیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف تین

Page 490

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کسی شخص کی خلافت کے حق میں ہے.سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا.اور وہ خلیفہ وہ گئے.ย اس کے بعد حضرت عثمان کا واقعہ شہادت ہوا اور وہ صحابہ جو حضرت علیؓ کا انتخاب مدینہ میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں فتنہ بڑھتا جا رہا ہے حضرت علی پر زور دیا کہ آپ لوگوں کی بیعت لیں.دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپ لوگوں سے بیعت لیں تا کہ ان کا خوف دور ہوا اور امن و امان قائم ہو.غرض جب آپ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپ نے اس ذمہ واری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی بعض اکابر صحابہؓ اس وقت مدینہ سے باہر تھے اور بعض سے تو جبراً بیعت لی گئی.چنانچہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق آتا ہے کہ ان کی طرف حکیم بن جبلہ اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور انہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا.یعنی وہ تلوار میں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ حضرت علیؓ کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ہم ابھی تم کو مار ڈالیں گے حتی کہ بعض روایات میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ ان کو نہایت سختی کے ساتھ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لائے.ظاہر ہے کہ ایسی بیعت کوئی بیعت نہیں کہلا سکتی.پھر جب انہوں نے بیعت کی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے آپ قصاص لیں گے مگر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت علی قاتلوں سے قصاص لینے میں جلدی نہیں کر رہے تو وہ بیعت سے الگ ہو گئے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے.انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمان حضرت عائشہ کا اعلان جہاد سے قتل میں شریک تھی حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کیلئے بلایا.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیر،

Page 491

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده حضرت علی کی زبان سے رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی ہے.دوسری طرف حضرت طلحہ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کر لیا.کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو.اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے.اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے.اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علیؓ کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں سے غرض باقی صحابہ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صفین ہوئی.اس جنگ میں حضرت معاویہؓ کے ساتھیوں نے یہ جنگ صفین کے واقعات ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اٹھا دیئے اور کہا کہ جو کچھ قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کیلئے حکم مقرر ہونے چاہئیں.اس پر وہی مفسد جو حضرت عثمان کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معا بعد اپنے بچاؤ کیلئے حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے انہوں نے حضرت علی پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں.آپ فیصلہ کیلئے حکم مقرر کر دیں.حضرت علی نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے اور کچھ ان کمز ور طبع لوگوں نے جو ان کے اس دھوکا میں آگئے تھے حضرت علی کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حکم مقرر کریں.چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری حکم مقرر کئے گئے.یہ تحکیم دراصل قتل عثمان کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہوگا.مگر عمر و بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو ان کی امارت سے معزول کر دیں کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلاء ہو رہے ہیں اور پھر آزادانہ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں حالانکہ وہ اس کام کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے مگر بہر حال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کیلئے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمرو بن العاص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں بعد میں میں اعلان کر دوں گا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ نے.

Page 492

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتے ہیں اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابو موسیٰ نے حضرت علیؓ کو معزول کر دیا ہے اور میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہؓ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ ان کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں (حضرت عمر و بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا ) اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو لوگ حکم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علی کی بجائے معاویہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے.مگر حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حکم اس غرض کیلئے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے.اس پر حضرت علی کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حکم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حکم مقرر ہی کیوں کئے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حکم ہو ہی نہیں سکتا.حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اول تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی.دوسرے حگم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حکم کیوں مقرر کیا.انہوں نے کہا ہم نے جھک مارا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ ہماری غلطی تھی.مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں مانی.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہ گار ہو گئے اور آپ بھی.ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی.اب ہم نے تو اپنی غلطی سے توبہ کر لی ہے مناسب یہ ہے کہ آپ بھی تو یہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علی نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلاف اسلام فعل کیا ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں تو بہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جو شخص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.حضرت علیؓ نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی.جس امر کے متعلق میں نے حکم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حکم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رُو سے جائز ہے باقی میں نے حکم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تب میں اسے منظور کروں گا ور نہ میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا.انہوں نے چونکہ اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا

Page 493

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده اور نہ جس غرض کیلئے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لئے میرے لئے ان کا فیصلہ کوئی حجت نہیں.مگر انہوں نے حضرت علیؓ کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجب الاطاعت خلیفہ کوئی نہیں.کثرت مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہوا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیر واجب الاطاعت ماننا لَا حُكْمَ إِلَّا لِلهِ اس کے خلاف ہے.حضرت علی کی خلافت بلا فصل کا نظر یہ خلافت کے بارہ میں پہلا اختلاف تھا جو واقع ہوا.اس موقعہ پر جو لوگ حضرت علی کی تائید میں تھے انہوں نے ان امور کا جواب دینا شروع کیا اور جواب میں یہ امر بھی زیر بحث آیا کہ رسول کریم ﷺ کی بعض پیشگوئیاں حضرت علی کے متعلق ہیں.یہ پیشگوئیاں جب تفصیل کے ساتھ بیان ہونی شروع ہوئیں تو ان پر غور کرتے ہوئے بعض غالیوں نے یہ سوچا کہ خلافت پر کیا بحث کرنی ہے.ہم کہتے ہیں حضرت علی کی خلافت کسی انتخاب پر مبنی نہیں بلکہ صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو رسول کریم ﷺ نے ان کے متعلق کی تھیں اس لئے آپ رسول کریم ﷺ کے مقرر کردہ خلیفہ بلا فصل ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میرے متعلق جب مصلح موعود کے موضوع پر بحث کی جائے تو کوئی شخص کہہ دے کہ ان کو تو ہم اس لئے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہیں نہ اس لئے کہ ان کی خلافت جماعت کی اکثریت کے انتخاب سے عمل میں آئی.جس دن کو ئی شخص ایسا خیال کرے گا اسی دن اس کا قدم ہلاکت کی طرف اُٹھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ صرف ایک شخص کی امامت کا خیال دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور نظام خلافت کی اہمیت کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے.غرض حضرت علیؓ کے متعلق بعض غالیوں نے رسول کریم ع الله کی پیشگوئیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کی خلافت صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو آپ نے ان کے متعلق کیس کسی انتخاب پر مبنی نہیں ہے.پھر رفتہ رفتہ وہ اس طرف مائل ہو گئے کہ حضرت علیؓ در حقیقت امام بمعنی مامور تھے اور یہ کہ خلافت ان معنوں میں کوئی ٹھے نہیں جو مسلمان اس وقت تک سمجھتے رہے ہیں بلکہ ضرورت پر خدا تعالیٰ کے خاص حکم سے امام مقرر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کا موجب ہوتا ہے.

Page 494

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ ان مختلف قسم کے خیالات کے نتیجہ میں مسلمانوں میں خلافت کے بارہ میں تین گروہ ہو گئے.(1) خلافت بمعنی نیابت ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کا کوئی نائب ہونا چاہئے.مگر اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یا خلیفہ کے تقرر کے مطابق جسے اُمت تسلیم کرے وہ شخص خلیفہ مقرر ہوتا ہے اور وہ واجب الاطاعت ہوتا ہے.یہ سنی کہلاتے ہیں.(۲) حکم خدا کا ہے.کسی شخص کو واجب الاطاعت ماننا شرک ہے.کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور مسلمان آزاد ہیں وہ جو کچھ چاہیں اپنے لئے مقرر کریں.یہ خوارج کہلاتے ہیں.(۳) انسان امیر مقرر نہیں کرتے بلکہ امیر مقرر کرنا خدا کا کام ہے اسی نے حضرت علی کو امام مقرر کیا اور آپ کے بعد گیارہ اور امام مقرر کئے.آخری امام اب تک زندہ موجود ہے مگر مخفی.یہ شیعہ کہلاتے ہیں.ان میں سے ایک فریق ایسا نکلا کہ اس نے کہا.دنیا میں ہر وقت زندہ امام کا ہونا ضروری ہے جو ظا ہر بھی ہوا اور یہ اسماعیلیہ شیعہ کہلاتے ہیں.یہ تو اس خلافت کی تاریخ ہے جو رسول کریم ﷺ کے معا بعد خلافت احمدیہ کا ذکر ہوئی.اب میں اس خلافت کا ذکر کرتا ہوں جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں صحابہ کی تھی.چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پاسکتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کیلئے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہوگا.میں اس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا تھا، میں مضامین لکھا کرتا تھا، میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا، مگر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کیلئے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کی خبر ہوتی تھی اور آخری ایام میں تو ان کی کثرت اور بھی بڑھ گئی مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 495

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده کو ایسے الہامات ہوتے رہے اور باوجود اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعین تھی اور باوجود اس کے کہ ہم ” الوصیت پڑھتے تھے ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دوصدیاں بعد پوری ہوں گی اس لئے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہوگا.اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے اس لئے جب واقعہ میں آپ کی وفات ہوگئی تو ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.چنانچہ مجھے خوب یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ کو غسل دیگر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقع پر بعض دفعہ ہوا کے جھونکے سے کپڑا ہل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہل جاتی ہیں اس لئے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں.ہم نے آپ کا کپڑا ہلتے دیکھا ہے یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ملتے دیکھا ہے.اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو ا سے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا.کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہوگا کہ خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں ! کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا.میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہئے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہ سکتا.وہ کہنے لگے میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب کی بیعت کر لینی چاہئے.اس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ کم تھا میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم آپ کے بعد کسی اور کی بیعت کر لیں اس لئے حضرت مولوی صاحب کی ہم کیوں بیعت کریں.( گو "الوصية، میں اس کا ذکر تھا مگر اُس وقت میرا ذہن اس طرف گیا نہیں ) انہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث شروع کر دی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ قوم نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی اس لئے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور اس منصب کیلئے حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر ہماری جماعت میں اور کوئی شخص نہیں.مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہئے.آخر جماعت نے متفقہ طور پر حضرت

Page 496

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں.اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوا اور اس میں حضرت خلیفہ اول نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت کی کوئی خواہش نہیں میں چاہتا ہوں کہ کسی اور کی بیعت کر لی جائے.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں پہلے میرا نام لیا پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کا نام لیا.پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کا نام لیا اسی طرح بعض اور دوستوں کے نام لئے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہی عرض کیا کہ اس منصب خلافت کے اہل آپ ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی.ابھی آپ کی بیعت پر پندرہ بیس دن ہی گزرے تھے خلیفہ وقت کے اختیارات کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب! کبھی آپ نے اس بات پر غور بھی کیا ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نظام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا اس پر اب اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم نے حضرت مولوی صاحب کی بیعت جو کر لی ہے.وہ کہنے لگے وہ تو ہوئی پیری مریدی.سوال یہ ہے کہ سلسلہ کا نظام کس طرح چلے گا ؟ میں نے کہا میرے نزدیک تو اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک شخص کی بیعت کر لی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سلسلہ کا نظام قائم کرنا چاہئے ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے! اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر کہنے لگے یہ بات غور کے قابل ہے.حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں کچھ دنوں بعد جب جماعت کے دوستوں میں اس قسم کے سوالات میر محمد اسحاق صاحب کے چند سوالات کا چرچا ہونے لگا کہ خلیفہ کے کیا اختیارات ہیں اور آیا وہ حاکم ہے یا صدرانجمن احمد یہ حاکم ہے تو میر محمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں اس مسئلہ کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے وہ سوالات باہر جماعتوں میں بھجوا دیئے اور ایک خاص تاریخ مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے نمائندے جمع ہو جائیں تا کہ سب سے مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جا سکے مگر مجھے ابھی تک ان باتوں کا کوئی علم نہیں تھا.یہاں تک کہ مجھے ایک رؤیا ہوا.میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے جس کا ایک حصہ ایک رویا مکمل ہے اور دوسرا نامکمل.نامکمل حصے پر اگر چہ بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی

Page 497

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده اینٹیں وغیرہ رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے.اس حصہ عمارت پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں جن میں سے ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں.اچانک وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھوسہ دکھائی دیا.میر محمد اسحاق صاحب نے جلدی سے ایک دیا سلائی کی ڈبیہ میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا جی چاہتا ہے کہ اس بُھو سے کو آگ لگا دوں.میں انہیں منع کرتا ہوں مگر وہ نہیں رکھتے.آخر میں انہیں سختی سے کہتا ہوں کہ اس بھوسے کو ایک دن آگ تو لگائی ہی جائے گی مگر ابھی وقت نہیں آیا اور یہ کہہ کر میں دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے کچھ شور سا سنائی دیا.میں نے منہ پھیرا تو دیکھا.میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جلتی نہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری دیا سلائی نکال کر وہ اس طرح رگڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بُھو سے کو آگ لگا دیں.میں یہ دیکھتے ہی ان کی طرف دوڑ پڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے ایک دیا سلائی جل گئی جس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی.میں یہ دیکھ کر آگ میں کود پڑا اور اسے جلدی سے بجھا دیا مگر اس دوران میں چند کڑیوں کے سرے جل گئے.میں نے یہ خواب لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کی تو آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ خواب تو پوری ہوگئی.میں نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا.میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دئیے ہیں.وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوا دیئے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس سے بہت بڑا فتنہ پیدا ہوگا.مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہوا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے کیا سوالات کئے ہیں لیکن بعد میں میں نے بعض دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق ہیں.میر صاحب کے ان سوالات کی وجہ سے جماعت میں ایک شور برپا ہو گیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے.اس وقت ان لوگوں نے جس طرح جماعت کو دھوکا میں مبتلاء کرنا چاہا وہ اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے متواتر جماعت کو یہ کہا کہ جن خیالات کا وہ اظہار کر رہے ہیں وہی خیالات حضرت خلیفہ اول کے ہیں.چنانچہ وہ کہتے خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں یہ سوال اُٹھا اگر بعد میں اُٹھتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا.بعض کہتے کہ بہت اچھا ہوا آج جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر صحابہ زندہ ہیں اس امر کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے.غرض جماعت پر یہ پوری طرح اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ نَعُوذُ بِالله ) حضرت خلیفہ اول ان کے خیالات سے متفق ہیں.مگر بہر حال اس وقت

Page 498

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده جماعت میں ایک غیر معمولی جوش پایا جاتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ وقت کے خلاف خطر ناک بغاوت ہو جائے گی.بیرونی جماعتوں کے نمائندوں آخر وہ دن آ گیا جو حضرت خلیفہ اول نے اس غرض کیلئے مقرر کیا تھا اور جس میں بیرونی کا قادیان میں اجتماع جماعتوں کے نمائندگان کو قادیان میں جمع ہونے کیلئے کہا گیا تھا.میں اس روز صبح کی نماز کے انتظار میں اپنے دالان میں ٹہل رہا تھا اور حضرت خلیفہ اول کی آمد کا انتظار کیا جارہا تھا کہ میرے کانوں میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی.وہ بڑے جوش سے مسجد میں کہہ رہے تھے کہ غضب خدا کا ایک لڑکے کی خاطر جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے.پہلے تو میں سمجھا کہ اس سے مراد شاید میر محمد اسحاق صاحب ہیں مگر پھر شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ جماعت ایک لڑکے کی غلامی کس طرح کر سکتی ہے.اس پر میں اور زیادہ حیران ہوا اور میں سوچنے لگا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے تو صرف چند سوالات دریافت کئے ہیں ان کے ساتھ جماعت کی غلامی یا عدم غلامی کا کیا تعلق ہے مگر باوجو د سو چنے اور غور کرنے کے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس بچے سے کون مراد ہے.آخر صبح کی نماز کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اول سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور میں نے کہا کہ نہ معلوم آج مسجد میں کیا جھگڑا تھا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ ہم ایک بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں اسی کی خاطر یہ تمام فساد ڈلوایا جا رہا ہے.میں تو نہیں سمجھ سکا کہ یہ بچہ کون ہے.حضرت خلیفہ اول میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا.تمہیں نہیں پتہ.اس سے مراد تم ہی تو ہو.غالبا شیخ صاحب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ تمام سوالات میں نے ہی لکھوائے ہیں اور میری وجہ سے ہی جماعت میں یہ شور اٹھا ہے.مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اول کی تقریر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول تقریر کرنے کیلئے تشریف لائے.اس تقریر کے متعلق بھی پہلے سے میں نے ایک رؤیا د یکھا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ کوئی جلسہ ہے جس میں حضرت خلیفہ اول کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی لشکر ہے جو آپ پر حملہ آور ہوا ہے.اس وقت میں بھی جلسہ میں آیا اور آپ کے دائیں طرف کھڑے ہو کر میں نے کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم آپ کے خادم ہیں اور آپ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں تک دینے کیلئے تیار ہیں.ہم مارے

Page 499

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده جائیں گے تو پھر کوئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا.ہماری موجودگی میں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا.خواب میں نے حضرت خلیفہ اول کو سنائی ہوئی تھی.چنانچہ اس جلسہ میں شامل ہونے کیلئے جب میں آیا تو مجھے اُس وقت وہ خواب یاد نہ رہی اور میں حضرت خلیفہ اول کے بائیں طرف بیٹھ گیا اس پر آپ نے فرمایا.میاں! یہاں سے اُٹھ کر دائیں طرف آ جاؤ اور پھر خود ہی فرمایا.تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے تو معلوم نہیں.اس پر آپ نے میری اُسی خواب کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس خواب کی وجہ سے میں نے تمہیں اپنے دائیں طرف بٹھایا ہے.جب آپ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو بجائے اس کے کہ اُس جگہ کھڑے ہوتے جو آپ کیلئے تجویز کی گئی تھی آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنوایا تھا اور لوگوں پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ اپنے پیر کی بنائی ہوئی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں.اس کے بعد آپ نے مسئلہ خلافت پر قرآن و حدیث سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں خلیفہ کا کام صرف نمازیں پڑھا دینا، جنازے پڑھا دینا اور لوگوں کے نکاح پڑھا دینا ہے اُسے نظام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یہ کہنے والوں کی سخت گستاخانہ حرکت ہے.یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے اس کیلئے کسی خلیفہ کی کیا ضرورت ہے.وہ لوگ جنہوں نے یہ تقریر سنی ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ تقریر اتنی درد انگیز اور اس قدر جوش سے لبریز تھی کہ لوگوں کی روتے روتے بھکھی بندھ گئی.خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی تقریر کے بعد آپ نے خواہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ محمد علی صاحب سے دوبارہ بیعت یعقوب علی صاحب سے کہا کہ دوبارہ بیعت کرو چنا نچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی.میرا ذہن اس وقت ادھر منتقل نہیں ہوا کہ ان سے بیعت ان کے جرم کی وجہ سے لی جا رہی ہے.چنانچہ میں نے بھی بیعت کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفہ اول نے میرے ہاتھ کو پیچھے ہٹادیا اور فرمایا تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.انہوں نے تو ایک جرم کیا ہے جس کی وجہ سے دوبارہ ان سے بیعت لی جا رہی ہے مگر تم نے کونسا مجرم کیا ہے.

Page 500

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده شیخ یعقوب علی صاحب سے اس موقع پر جو بیعت لی گئی وہ اس لئے لی گئی تھی کہ شیخ صاحب نے ایک جلسہ کیا تھا جس میں اُن لوگوں کے خلاف تقریریں کی گئی تھیں جنہوں نے نظام خلافت کی تحقیر کی تھی اور گو یہ اچھا کام تھا مگر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا جب ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ خود بخو دا لگ جلسہ کرتے.غرض ان تینوں سے دوبارہ بیعت لی گئی اور انہوں نے سب کے سامنے توبہ کی مگر جب جلسہ ختم ہو گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کے خلاف اور زیادہ منصوبے کرنے شروع کر دیئے اور مولوی محمد علی صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میری اس قد رہتک کی گئی ہے کہ اب میں قادیان میں نہیں رہ سکتا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ان دنوں مولوی محمد علی صاحب سے بہت تعلق رکھا کرتے تھے.ایک دن وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقاً وہیں موجود تھا اور آتے ہی کہا کہ حضور ! غضب ہو گیا آپ جلدی کوئی انتظام کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور میں اب قادیان میں کسی صورت میں نہیں رہ سکتا.آپ جلدی کریں اور کسی طرح مولوی محمد علی صاحب کو منانے کی کوشش کریں ، ایسا نہ ہو کہ وہ چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب ! مولوی صاحب سے جا کر کہہ دیجئے کہ کل کے آنے میں تو ابھی دیر ہے ، آپ جانا چاہتے ہیں تو آج ہی قادیان سے چلے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو یہ خیال کر رہے تھے کہ اگر مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے تو نہ معلوم کیا زلزلہ آ جائے گا اُن کے تو یہ جواب سن کر ہوش اُڑ گئے اور انہوں نے کہا حضور ! پھر تو بڑا فساد ہوگا.حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا.مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.میں خدا کا قائم کردہ خلیفہ ہوں میں ان دھمکیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں.اس جواب کو سن کر مولوی محمد علی صاحب بھی خاموش ہو گئے اور پھر انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں قادیان سے جانے کے ارادے کا اظہار نہیں کیا.البتہ اندر ہی اندر کھچڑی پکتی رہی اور کئی طرح کے منصوبوں سے انہوں نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی.یہ بہت لمبے واقعات ہیں جن کو تفصیلاً بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.حضرت خلیفہ اول کی بیماری میں حضرت خلیفہ اول جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو طبعاً ہم سب کے قلوب میں ایک ایک اشتہار شائع کرنے کی تجویز ہے چینی تھی اور ہم نہایت ہی افسوس کے ساتھ

Page 501

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده آنے والی گھڑی کو دیکھ رہے تھے اور چونکہ آپ کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کی عام نگرانی نہیں رہی تھی اور اختلافی مسائل پر گفتگو بڑھتی چلی جا رہی تھی، اس لئے میں نے ایک اشتہار لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اب جب کہ حضرت خلیفتہ المسیح سخت بیمار ہیں یہ مناسب نہیں کہ ہم اختلافی مسائل پر آپس میں اس طرح بخشیں کریں مناسب یہی ہے کہ ہم ان بحثوں کو بند کر دیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت دے دے اور آپ خود ان بحثوں کی نگرانی فرما سکیں.میں نے یہ اشتہار لکھ کر مرزا خدا بخش صاحب کو دیا اور میں نے کہا کہ آپ اسے مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے جائیں تا کہ وہ بھی اس پر دستخط کر دیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میرے ہم خیال اور ان کے ہم خیال دونوں اس قسم کی بحثوں سے اجتناب کریں گے اور جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو گا.یہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے صرف دو یا ایک دن پہلے کی بات ہے مگر بجائے اس کے کہ مولوی محمد علی صاحب اس اشتہار پر دستخط کر دیتے انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے دوستوں میں جو کچھ اختلاف ہے چونکہ اس سے عام لوگ واقف نہیں اس لئے ایسا اشتہار شائع کرنا مناسب نہیں اس طرح دشمنوں کو خواہ مخواہ جنسی کا موقع ملے گا.میرے خیال میں اشتہار شائع کرنے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ایک جلسہ کا انتظام کیا جائے جس میں آپ بھی تقریر کریں اور میں بھی تقریر کروں اور ہم دونوں لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح گفتگو نہ کیا کریں.چنانچہ مسجد نور میں ایک جلسے کا انتظام کیا گیا.مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ پہلے میں تقریر کروں.چنانچہ میں نے جو کچھ اشتہار میں لکھا تھا وہی تقریر میں بیان کر دیا اور اتفاق پر زور دیا.میری تقریر کے بعد مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے مگر بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو کوئی نصیحت کرتے الٹا انہوں نے لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تم بڑے نالائق ہو مجھ پر اور خواجہ صاحب پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہو تمہاری یہ حرکت پسندیدہ نہیں اس سے باز آ جاؤ.غرض انہوں نے خوب زجر و تو یخ سے کام لیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اتفاق پیدا ہونے کے افتراق اور بھی زیادہ ترقی کر گیا اور لوگوں کے دلوں میں اُن کے متعلق نفرت پیدا ہوگئی.جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنے کی کوشش جنکہ حضرت خلیہ اسی 1 اول کی طبیعت اب زیادہ کمزور ہوتی جا رہی تھی اس لئے ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ کے بعد کیا ہوگا.میرے

Page 502

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده سامنے صرف جماعت کے اتحاد کا سوال تھا.یہ سوال نہیں تھا کہ ہم میں سے خلیفہ ہو یا اُن میں سے.چنانچہ گو عام طور پر وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اُن کا یہی خیال تھا کہ ہم کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے جس کے عقائد اُن کے عقائد سے مختلف ہوں کیونکہ اس طرح احمدیت کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے مگر میں نے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ اگر حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات پر ہمیں کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں انہیں لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنا چاہئے.چنانچہ میں نے اکثر دوستوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ اگر جھگڑا محض اس بات پر ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو ہم میں سے یا اُن میں سے تو ہمیں اُن میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے./ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت خلیفہ اول کی وفات وفات پاگئے.میں جمعہ پڑھا کر نواب محمد علی خان صاحب کی گاڑی میں آ رہا تھا کہ راستہ میں مجھے آپ کی وفات کی اطلاع ملی اور اس طرح میرا ایک اور خواب پورا ہو گیا جو میں نے اس طرح دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جارہی ہے کہ راستہ میں مجھے کسی نے حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات کی خبر دی.میں اس رؤیا کے مطابق سمجھتا تھا کہ غالباً میں اس وقت سفر پر ہونگا جب حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات ہوگی مگر خدا تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں پورا کر دیا کہ جب جمعہ پڑھا کر میں گھر واپس آیا تو نواب محمد علی خان صاحب کا ملازم ان کا یہ پیغام لے کر میرے پاس آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں اُن کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا اور راستہ میں مجھے حضرت خلیفتہ ایسے الا قول کی وفات کی اطلاع مل گئی.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات پر تمام جماعتوں کو تاریں بھجوادی دعاؤں کی تحریک لگائیں اور میں نے دوستوں کو تحریک کی کہ ہر شخص اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے دعاؤں میں لگ جائے.راتوں کو تہجد پڑھے اور جسے توفیق ہو وہ کل روزہ بھی رکھے تا کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کے وقت جماعت کی صحیح راہنمائی کرے اور ہمارا قدم کسی غلط راستہ پر نہ جا

Page 503

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اُسی دن میں نے اپنے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متفقہ فیصلہ رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ خلیفہ ایسا شخص ہی مقرر ہونا چاہئے جس کے عقائد ہمارے عقائد کے ساتھ متفق ہوں مگر میں نے ان کو سمجھایا کہ اصل چیز جس کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے اتفاق ہے.خلیفہ کا ہونا بے شک ہمارے نزد یک مذهباً ضروری ہے لیکن چونکہ جماعت میں اختلاف پیدا ہونا بھی مناسب نہیں ، اس لئے اگر وہ بھی کسی کو خلیفہ بنانے میں ہمارے ساتھ متحد ہوں تو مناسب یہ ہے کہ عام رائے لے لی جائے اور اگر انہیں اس سے اختلاف ہو تو کسی ایسے آدمی کی خلافت پر اتفاق کیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر انہیں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہی کیوں نہ ہوں.یہ بات منوانی اگر چہ سخت مشکل تھی مگر میرے اصرار پر ہمارے تمام خاندان نے اس بات کو تسلیم کر لیا.اس کے بعد میں مولوی محمد علی صاحب سے ملا مولوی محمد علی صاحب سے ملاقات اور میں نے اُن سے کہا کہ میں آپ سے کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں.چنانچہ ہم دونوں جنگل کی طرف نکل گئے.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ حضرت خلیفہ اسی کی وفات کے بعد جلد ہی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس وجہ سے کہ جماعت میں اختلاف ہے اور فتنے کا ڈر ہے پورے طور پر بحث کر کے ایک بات پر متفق ہو کر کام کرنا چاہئے.میں نے کہا گل تک امید ہے کافی لوگ جمع ہو جائیں گے.اس لئے میرے نزدیک کل جب تمام لوگ جمع ہو جائیں تو مشورہ کر لیا جائے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے.چار پانچ ماہ جماعت غور کر لے پھر اس کے بعد جو فیصلہ ہو اس پر عمل کر لیا جائے.میں نے کہا کہ اس عرصہ میں اگر جماعت کے اندر کوئی فساد ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا.جماعت بغیر لیڈر اور راہنما کے ہوگی اور جب جماعت کا کوئی امام نہیں ہوگا تو کون اس کے جھگڑوں کو حل کرے گا اور جماعت کے لوگ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں گے.فساد کا کوئی وقت مقرر نہیں، ممکن ہے آج شام کو ہی ہو جائے پس یہ سوال رہنے دیں کہ آج اس امر کا فیصلہ نہ ہو کہ کون خلیفہ بنے بلکہ آج سے پانچ ماہ کے بعد فیصلہ ہو.ہاں اس امر پر ہمیں ضرور بحث کرنی چاہئے کہ کون خلیفہ ہو اور میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا

Page 504

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہوں کہ میں اور میرے ہم خیال اس بات پر تیار ہیں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.مولوی صاحب نے کہا یہ بڑی مشکل بات ہے آپ سوچ لیں اور کل اس پر پھر گفتگو ہو جائے چنانچہ ہم دونوں الگ ہو گئے.رات کو جب میں تہجد کیلئے اٹھا تو بھائی مولوی محمد علی صاحب کا ایک ٹریکٹ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مجھے ایک ٹریکٹ دیا اور کہا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں بیر ونجات سے آنے والے احمدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے.میں نے اسے دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا تھا اور اس میں جماعت پر زور دیا.گیا تھا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ نہیں چلنا چاہئے اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی انہوں نے بطور ایک پیر کے کی تھی نہ کہ بطور خلیفہ کے.ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ جماعت کا ایک امیر ہو سکتا ہے مگر وہ بھی ایسا ہونا چاہئے جو واجب الاطاعت نہ ہو، جو غیر احمد یوں کو کافر نہ کہتا ہو اور جس کی چالیس سال سے زیادہ عمر ہو.مقصد یہ تھا کہ اگر خلیفہ بنایا جائے تو مولوی محمد علی صاحب کو کیونکہ اُن کی عمر اس وقت چالیس سال سے زائد تھی اور وہ غیر احمدیوں کو کا فر بھی نہیں کہتے تھے.انتخاب خلافت پر جماعت کے میں نے جب یہ ٹریکٹ پڑھا تو آنے والے فتنہ کا تصور کر کے خود بھی دعا میں لگ گیا اور نوے فیصد دوستوں کا اتفاق دوسرے لوگ جو اس کمرہ میں تھے اُن کو بھی میں نے جگایا اور اس ٹریکٹ سے باخبر کرتے ہوئے انہیں دعاؤں کی تاکید کی.چنانچہ ہم سب نے دعائیں کیں.روزے رکھے اور قادیان کے اکثر احمدیوں نے بھی دعاؤں اور روزہ میں حصہ لیا.صبح کے وقت بعض دوستوں نے یہ محسوس کر کے کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف ہم سے دھوکا کیا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح اول کی وصیتوں کی بھی تحقیر کی ہے ایک تحریر لکھ کر تمام آنے والے احباب میں اس غرض سے پھرائی تا معلوم ہو کہ جماعت کا رحجان کدھر ہے.اس میں جماعت کے دوستوں سے دریافت کیا گیا تھا کہ آپ بتائیں حضرت خلیفہ اول کے بعد کیا ویسا ہی کوئی خلیفہ ہونا چاہئے یا نہیں جیسا کہ حضرت خلیفہ اول تھے اور یہ کہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت آپ کو خلیفہ سمجھ کر کی تھی یا ایک پیر اور صوفی سمجھ کر.اس ذریعہ سے جماعت کے دوستوں کے خیالات معلوم کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہمیں لوگوں کے دستخطوں.یہ معلوم ہو گیا کہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس امر پر متفق ہے کہ خلیفہ ہونا چاہئے

Page 505

انوار العلوم جلد ۱۵ اور اسی رنگ میں ہونا چاہئے جس رنگ میں حضرت خلیفہ اول تھے.خلافت راشده مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ گفتگو دس بجے کے قریب مجھے مولوی محمد علی صاحب کا پیغام آیا کہ کل والی بات کے متعلق میں پھر کچھ گفتگو کر نا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے اُن کو بلوالیا اور با تیں شروع ہوگئیں.میں نے اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں کیونکہ آپ ایک خلیفہ کی بیعت کر کے اس اصول کو تسلیم کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت میں خلفاء کا سلسلہ جاری رہے گا صرف اس امر پر بحث کریں کہ خلیفہ کون ہو.وہ بار بار کہتے تھے کہ اس بارہ میں جلدی کی ضرورت نہیں جماعت کو چار پانچ ماہ غور کر لینے دیا جائے.اور میرا جواب وہی تھا جو میں ان کو پہلے دے چکا تھا بلکہ میں نے اُن کو یہ بھی کہا کہ اگر چار پانچ ماہ کے بعد بھی اختلاف ہی رہا تو کیا ہوگا.اگر آپ کثرتِ رائے پر فیصلہ کریں گے تو کیوں نہ ابھی جماعت کی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ کون خلیفہ ہو.جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ باہر جو لوگ موجود ہیں اُن سے مشورہ لے لیا جائے.اس پر مولوی صاحب کے منہ سے بے اختیار یہ فقرہ نکل گیا کہ میاں صاحب ! آپ کو پتہ ہے کہ وہ لوگ کس کو خلیفہ بنائیں گے.میں نے کہا لوگوں کا سوال نہیں میں خود یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں اور میرے ساتھی بھی اس غرض کیلئے تیار ہیں مگر انہوں نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں وہ کس کو منتخب کریں گے.اس پر میں مایوس ہو کر اُٹھ بیٹھا کیونکہ باہر جماعت کے دوست اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے دروازے توڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے.جماعت اس وقت تک بغیر کسی رئیس کے ہے اور آپ کی طرف سے کوئی امر طے ہونے میں ہی نہیں آتا.آخر میں نے مولوی صاحب سے کہا چونکہ ہمارے نزدیک خلیفہ ہونا ضروری ہے اس لئے آپ کی جو مرضی ہو وہ کریں.ہم اپنے طور پر لوگوں سے مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں.چنانچہ یہ کہتے ہوئے میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور مجلس برخواست ہوگئی.عصر کی نماز کے بعد جب نواب محمد علی خان صاحب نے خلافت ثانیہ کا قیام حضرت خلیفہ اول کی وصیت سنانے کے بعد لوگوں سے درخواست کی کہ وہ کسی کو آپ کا جانشین تجویز کریں تو سب نے پالا تفاق میرا نام لیا اور اس طرح

Page 506

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خلافت ثانیہ کا قیام عمل میں آیا.میں نے سنا ہے کہ اُس وقت مولوی محمد علی صاحب بھی کچھ کہنے کیلئے کھڑے ہوئے تھے مگر کسی نے اُن کے کوٹ کو جھٹک کر کہا کہ آپ بیٹھ جائیں.بہر حال جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ما تحت ہوا اور وہ جس کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا اس کو اس نے خلیفہ بنا دیا.حضرت خلیفہ اول کے بعض یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کو اپنے متعلق ہمیشہ غلط فہمی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ارشادات کی اصل حقیقت اس لئے حضرت خلیفہ اول کے لیکچروں میں بعض جگہ اس قسم کے الفاظ نظر آ جاتے ہیں کہ لاہوری دوستوں پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے.یہ خیال کرنا کہ وہ خلافت کے مخالف ہیں جھوٹ ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ خود حضرت خلیفہ اول سے بار بار کہتے کہ ہمارے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے جھوٹ ہے ، ہم تو خلافت کے صدق دل سے موید ہیں.مگر اب دیکھ لو ان کا جھوٹ کس طرح ظاہر ہو گیا اور جن باتوں کا وہ قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کرتے تھے اب کس طرح شدت سے اُن کا انکار کرتے رہتے ہیں.غرض حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو تسلیم کر لینے کے بعد ان لوگوں نے بھی خوارج کی طرح الْحُكْمُ لِلَّهِ وَالامْرُشُورى بَيْنَنَا ۳۲ے کا راگ الاپنا شروع کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں نا کام رکھا اور جماعت میرے ہاتھ پر جمع ہوئی.اُن کے بعد بھی بعض لوگ بعض اغراض کے ماتحت بیعت سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے بھی ہمیشہ وہی شور مچایا جو خوارج مچایا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے آج تک اُن کو ناکام و نامراد رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی جماعت کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے.خلافت کے بارہ میں قرآنی احکام یہ تو تاریخ خلافت ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن واحادیث میں اس بارہ میں کیا روشنی ملتی ہے اور کیا کوئی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام نے تجویز کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے.اس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں پہلا اصولی حکم قرآن کریم میں یہ ملتا ہے کہ:.ألَمْ تَرَ الى الذين أوتُوا نَصِيبًا من الكتب يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ

Page 507

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ اهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا أُولَيكَ الَّذِينَ لعنهُمُ الله وَمَن يَلْعَنِ الله فَلَن تَجِدَلَّهُ نَصِيرًا - أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ منَ الْمُلْكِ فَإِذَا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى ما اسهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ أتَيْنَا ال ابرهيم الكتب والحكمة و اتينهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا - فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَ مِنْهُمْ مِّن صَدَّ عَنْهُ ، وَكَفَى يجمتُم سَعِيرًا - إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايَتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا، كُلَّمَا نّضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدِّلَتْهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ الله كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا - وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ، لَهُمْ فِيهَا ازْوَاجُ مُطَهَرَةً وَنُدْخِلُهُمْ ظِلَّا ظَلِيلًا انّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الآمنت إلى أهْلِهَا ، وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالعَدْلِ إن الله نعما يعظكم به إنّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اطِيعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الأمْرِ مِنْكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْء فَرُدُّوهُ إلى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذلِكَ خَيْرُ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيلاً ٣٣ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اہل کتاب جھوٹ اور فریب اور شرک کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے سچائی کو چھوڑ رہے ہیں اور جب بھی مؤمنوں اور غیر مؤمنوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو مؤمنوں کے متعلق تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی بُرے ہیں اور کافروں کے متعلق اُن کی یہ رائے ہوتی ہے کہ وہ مؤمنوں سے بہتر ہیں.جیسے غیر مبائعین ہماری دشمنی کی وجہ سے عام مسلمانوں کو ہم سے بہتر سمجھتے اور اُن کے پیچھے نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں.چنانچہ جب بھی کوئی بات ہو وہ کہتے ہیں هَؤلاء أهدى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلاً یہ مسلمان احمدیوں سے زیادہ اچھے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اول الذینَ لَعَنَهُمُ اللهُ تم چونکہ مومنوں کو دور کرتے ہوا اور غیر مؤمنوں کو اپنے قریب کرتے ہو اس لئے آج ہم تم سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم ہمارے قرب سے دور ہو جاؤ.وَ مَن يَلْعَنِ اللهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا اور لوگ تو لعنت صرف زبان سے کرتے ہیں اور جب کسی پر لعنت ڈالنی ہو تو کہتے ہیں جا تجھ پر لعنت مگر جس

Page 508

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده پر ہماری لعنت پڑتی ہے اس کا کوئی مددگار نہیں رہتا.یہود کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اُن پر لعنت ڈالی تو اُن کا کیسا بُرا حال ہوا.باوجود اس کے کہ مال و دولت اُن کے پاس بہت ہے مختلف قومیں مختلف وقتوں میں اُٹھتی اور انہیں ذلیل ورسوا کرتی رہتی ہیں.یہی حال غیر مبائعین کا ہے.جب میری بیعت ہوئی تو اُس وقت قادیان میں دو ہزار کے قریب آدمی جمع تھے اور سوائے پچاس ساٹھ کے باقی سب نے میری بیعت کر لی.مگر ”پیغام صلح نے لکھا کہ : - حاضر الوقت جماعت میں سے نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہ کی اور افسوس کرتے ہوئے مسجد سے چلے آئے“.۳۴ پھر اُسی پیغام صلح میں انہوں نے میرے متعلق اعلان کیا کہ:.بھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے ۳۵ گو یا پانچ فیصدی آدمی ہمارے ساتھ تھے اور پچانوے فیصدی اُن کے ساتھ.مگر اب کیا حال ہے.اب وہ بار بار لکھتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے وابستہ ہے.بلکہ اب تو ان کے دلائل کا رُخ ہی بدل گیا ہے.پہلے وہ اپنی سچائی کی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ جماعت کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے مگر جب اکثریت خدا تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کر دی تو وہ یہ کہنے لگ گئے کہ جماعت کی اکثریت کا کسی بات کا قائل ہونا اُس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوتا.قرآن میں صاف آتا ہے کہ اكْثَرُهُمْ فَسِقُونَ ٣٦ گویا جب تک وہ زیادہ رہے اُن کی یہ دلیل رہی کہ نبی کو ماننے والوں کی اکثریت گمراہ نہیں ہو سکتی اور جب ہم زیادہ ہو گئے تو اكثرُهُمْ فَسِقُون کا مصداق ہمیں قرار دے دیا گیا.بہر حال انہوں نے اتنا تو ضر ورا قرار کر لیا کہ اُن کے نصیر جاتے رہے ہیں.اور یہی اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے.پھر فرماتا ہے.آمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذَا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا - ان لوگوں کو تو یہ حسد کھائے چلا جاتا ہے کہ انہیں حکومت اور طاقت کیوں نہ مل گئی.حالانکہ اگر دنیا کی حکومت ان کے قبضہ میں ہوتی تو یہ بال برابر بھی لوگوں کو کوئی چیز نہ دیتے.نقیر کھجور کی گٹھلی کے نشان کو کہتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سخت بخل ہے.جیسے پیغامیوں کو یہی بخل کھا گیا کہ ایک لڑکے کو خلافت کیوں مل گئی.فرماتا ہے.فقد أتينا آل ابرهيم الكتب والحكمة وأتيتهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا - تم جو کل کرتے ہو اور کہتے ہو کہ انہیں حکومت اور خلافت کیوں مل گئی تو اتنا تو سوچو کہ یہ حکومت اور سلطنت کس کو ملی ہے؟ کیا جسے حکومت ملی ہے

Page 509

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده وہ آل ابراہیم میں شامل نہیں.اگر ہے تو پھر تمہارے حسد سے کیا بنتا ہے.خدا نے پہلے بھی آل ابرا ہیم کو حکومت اور سلطنت دی اور اب بھی وہ آل ابراہیم کو حکومت اور سلطنت دے گا.فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَ مِنْهُمْ مِّن صَدَّ عَنْهُ وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا - ہم اس سے پہلے بھی آل ابرا ہیم کو حکومت دے چکے ہیں.جن لوگوں نے اُن کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا وہ عزت پاگئے اور جنہوں نے انکار کیا اُن کو سزا مل گئی.فرماتا ہے یہ حکومت جو آل ابراہیم کو دی جائے گی یہ لوگوں کیلئے بڑی رحمت اور برکت کا موجب ہوگی.جب تک وہ اس رحمت کے نیچے رہیں گے اور اس حکومت سے بھاگنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بڑے آرام اور سکھ میں رہیں گے مگر جب انہوں نے انکار کر دیا تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں ایسے عذاب میں مبتلا ء کرے گا جس سے رہائی کی کوئی صورت ہی نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ دُکھوں میں مبتلاء رہیں گے.كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلَتْهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَاب اِنَّ اللهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا - انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ ایک عذاب کا عادی ہو جاتا ہے تو اُس کی تکلیف اسے پہلے جیسی محسوس نہیں ہوتی.ایک بادشاہ خواہ کتنا ہی ظالم ہو جب اُس کی حکومت پر کچھ عرصہ گزر جاتا ہے تو اُس کا ظلم لوگوں کو پہلے جیسا محسوس نہیں ہوتا اور وہ خود بھی نرمی کا پہلو اختیار کرنے لگ جاتا ہے لیکن اگر وہ بدل جائے اور اُس کی جگہ کوئی اور ظالم بادشاہ آ جائے تو اُس کا ظلم بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.پس فرماتا ہے اگر تم نے اس انعام کو رد کر دیا تو پھر ظالم بادشاہ تم پر حکومتیں کریں گے اور وہ حکومتیں جلد جلد بدلیں گی تاکہ تمہیں اپنے کئے کی سزا ملے.والَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِن تحْتِهَا الأَنْهرُ خُلدِينَ فِيهَا اَبَدًا ، لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجُ مُطَهَّرَةُ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلّا ظليلا - مگر جو لوگ ایمان لانے والے ہونگے اور اعمالِ صالحہ بجا لائیں گے ، اُن کو ہم اعلیٰ درجہ کی حکومتیں بخشیں گے اور ان جنات میں اُن کے ساتھ اُن کی بیویاں بھی ہونگی اور اُن سب کو آرام اور سکھ کا بہت لمبا زمانہ بخشا جائے گا.ان آیات میں دراصل اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہود جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ سخت نقصان اٹھا ئیں گے اور ہمیشہ عذاب میں مبتلاء رہیں گے لیکن مؤمن جو اس فضل کو تسلیم کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں جنتی زندگی دے گا اور اُن کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ہونگی.

Page 510

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ کے الفاظ پر دشمنان ازام مظفر کے الفاظ پر کی نادان دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے رہتے ہیں اسلام کا ایک ناواجب اعتراض کہ اسلام جنت کو ایک پلہ بناتا ہے کیونکہ عورتوں کا بھی ساتھ ہی ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے جنت میں جہاں مرد ہو نگے وہاں عورتیں بھی ہونگی حالانکہ وہ نادان نہیں جانتے کہ پچکلہ تو وہ خود اپنے محبث نفس کی وجہ سے بناتے ہیں.ورنہ اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ جس طرح مرد جنت کے حقدار ہیں عورتیں بھی حقدار ہیں اور یہ کہ جنت مرد اور عورت کے تعاون سے بنتی ہے، اکیلا مرد جنت نہیں بنا سکتا.چنانچہ دیکھ لو اس رکوع میں دنیوی حکومتوں کا ذکر ہے اور ان حکومتوں کا ذکر کرتے کرتے اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس جنت میں عورتوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے اور اگر وہ شریک نہ ہوں تو یہ جنت مکمل نہیں کہلا سکتی.پس جنت مرد اور عورت دونوں مل کر بناتے ہیں اور اگر وہ دونوں متحدہ طور پر کوشش نہ کریں تو کبھی یہ جنت نہیں بن سکتی نہ دنیا کی جنت اور نہ اُخروی جنت.بلکہ دنیا کی جنت کی تعمیر میں بھی مرد اور عورت کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے اور اُخروی جنت کی تعمیر میں بھی مرد کے ساتھ عورت کی شراکت ضروری ہے.اگر وہ دونوں مل کر اس جنت کی تعمیر نہیں کریں گے تو کبھی خلدين فيما والی نعمت کو وہ حاصل نہیں کر سکیں گے.عورت اور مرد کے تعاون کے بغیر نہ دُنیوی اگر لوگ اس نکتہ کو سمجھتے اور قومی زندگی میں عورت کو شریک رکھتے جنت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اُخروی اور اس کی اہمیت اور قدرو قیمت کو پہچانتے تو آج اسلام کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے اور نہ دنیا کی وہ حالت ہوتی جو دکھائی دے رہی ہے بلکہ یہ دنیا انسانوں کیلئے جنت ہو جاتی اور وہ یہیں جنت کو پالیتے.مگر جو لوگ عورت کے بغیر جنت حاصل کرتے ہیں اُن کی جنت حقیقی جنت نہیں ہوتی کیونکہ جنت کی خصوصیت یہ ہے کہ جنت عدن ہو.اور عورت کے بغیر جنت عدن نصیب نہیں ہوتی بلکہ ادھر مرد جنت تیار کرتا ہے اور اُدھر عورت اُس کی اولاد کو جنت سے باہر نکال دیتی ہے کیونکہ اولاد کی صحیح تربیت کے بغیر قوم کو دائی جنت حاصل نہیں ہو سکتی اور اولاد کی تربیت کا اکثر حصہ چونکہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لئے اس جنت کی تکمیل کیلئے عورت کے تعاون اور اس کو اپنے ساتھ شریک

Page 511

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده کرنے کی انسان کو ہمیشہ ضرورت رہے گی.جب عورت کو تعلیم حاصل ہوگی ، جب عورت کے اندر تقویٰ ہوگا، جب عورت کے اندر دین کی محبت ہوگی ، جب عورت کے دل میں خدا اور اُس کے رسول کے احکام پر چلنے کی ایک والہانہ تڑپ ہوگی تو ناممکن ہے کہ وہ یہی جذبات اپنی اولاد کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے.پس مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ آج کی جنت تیار کریں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ گل کی جنت تیار کریں.مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ جنت بنائیں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ اس جنت کیلئے نئے مالی پیدا کریں.اگر ایک طرف مرد اُس جنت کی تعمیر میں لگا ہوا ہوا ور دوسری طرف عورت اس کی تعمیر میں لگی ہوتی ہے.اگر ایک طرف مرد اس کی حفاظت کرتا ہوا ور دوسری طرف عورت اس کی حفاظت کیلئے نئے سے نئے مالی پیدا کرتی چلی جاتی ہو تو پھر کون ہے جو اُس جنت کو برباد کر سکے.کون ہے جو قومی وحدت ، قومی عظمت اور قومی شان کو نقصان پہنچا سکے.مگر جس دن عورت کو اس جنت کی تعمیر میں شریک ہونے سے روک دیا جائے گا اُسی دن اگلے مالی پیدا ہونے بند ہو جائیں گے اُسی دن پہلوں کی ٹریننگ ختم ہو جائے گی اور جب پہلوں کی ٹرینینگ ختم ہوگئی اور اگلوں کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تو وہ جنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی بلکہ ضرور ہے کہ شیطان اُسے اُجاڑ کر رکھ دے.پس یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ ایک عظیم الشان نکتہ میں جاری حیات ملی کے قیام کیلئے مردوں اور عورتوں دونوں کو مل کر کوشش کرنی چاہئے.جب تک عورتوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرو گے اُس وقت تک تم یقین رکھو کہ تم جنت نہیں بنا سکو گے.اگر تم اپنی کوشش سے ساری دنیا کو بھی ایک دفعہ نمازی بنا لو تو اس کا کیا فائدہ جب کہ اُن نمازیوں کی اولادوں کو انہی کی مائیں بے نماز بنانے میں مصروف ہوں.اس طرح تو یہی ہوگا کہ تم جنت بناؤ گے اور عور تیں اُس جنت کو برباد کرتی چلی جائیں گی.ہمارا ایک رشتہ دار ہوا کرتا تھا جو دین کا سخت مخالف اور خدا اور رسول کے احکام پر ہمیشہ ہنسی اور تمسخر اُڑایا کرتا تھا.ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور علاج کیلئے حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا.حضرت خلیفہ اول نے باتوں باتوں میں اس سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ کے پہلو میں پانچ وقت لوگ مسجد میں آ کر نمازیں پڑھتے ہیں کیا آپ کو کبھی اس پر رشک نہیں آیا ؟ اور کیا آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ آپ کو بھی نمازیں پڑھنی چاہئیں ؟ اس نے یہ سن کر بڑے زور سے قہقہ لگایا اور کہا مولوی صاحب میں تو بچپن سے ہی سلیم الفطرت واقع ہوا ہوں.چنانچہ ان دنوں میں

Page 512

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بھی جب میں لوگوں کو دیکھتا کہ انہوں نے سر نیچے اور سرین اونچے کئے ہوئے ہیں تو میں ہنسا کرتا تھا کہ یہ کیسے احمق لوگ ہیں.اب بتاؤ جب مائیں ایسے سلیم الفطرت بچے پیدا کرنے شروع کر دیں تو واعظوں کے وعظ سے جو جنت تیار ہو آیا وہ ایک دن بھی قائم رہ سکتی ہے.اسی طرح کوئی مسئلہ لے لوعلمی ہو یا مذہبی ،سیاسی ہو یا اقتصادی، اگر عورت کو اپنے ساتھ شریک نہیں کیا جائے گا تو ان مسائل کے بارہ میں وہ تمہاری اولاد کو بالکل ناواقف رکھے گی اور تمہارا علم تمہارے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دائی جنت مرد کو عورت کے بغیر نہیں مل سکتی اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے.پس وہ جنہوں نے اسلامی جنت کو چکلہ قرار دیا ہے انہوں نے اپنے محبت نفس کا اظہار کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا.اسی جنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ولمن خاف مقام ربه جنتن ۳۷ کہ وہ لوگ جو اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے ہیں اُن کیلئے دو جنتیں ہیں.دوسری جگہ فرماتا ومِن دُونِهِما جنتن ۳۸ کہ دو جنتیں دنیا میں ہونگی اور دو ہی اگلے جہاں میں.کیونکہ ایک ہے.باغ مرد نے لگایا ہوگا اور ایک عورت نے.اسی کو جنتین کہا گیا ہے اور اسی کو جنت قرار دیا گیا ہے.گویا اس باغ کی دو حیثیتیں بھی ہیں اور ایک بھی.دو اس لحاظ سے کہ ایک مرد کی کوششوں کا نتیجہ ہوگا اور دوسرا عورت کی کوششوں کا نتیجہ اور ایک اس لحاظ سے کہ مرد و عورت دونوں کی یہ مشتر کہ جنت ہوگی.پھر فرماتا ہے کہ صرف اگلے جہان میں ہی یہ دو جنت نہیں ہونگے بلکہ ومِن دُونِهِمَا جَنَّتَنِ اس دنیا میں بھی دو جنت ہیں جن میں سے ایک کی تعمیر مرد کے سپرد ہے اور ایک کی تعمیر عورت کے سپرد.پس مؤمنوں کو دو جنتیں تو اس دنیا میں ملتی ہیں اور دو اگلے جہان میں یعنی اسے جسمانی اور روحانی دونوں رنگ کی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں.جو اپنا دائمی اثر چھوڑ جاتی ہیں.چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.المَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا والبقيتُ الصيحتُ خَيْرُ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيرا ملا ۳۹ یعنی جو لوگ مال واسباب سے دُنیوی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن جو لوگ ایسے اعمال کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوں اُن کے عمل ابدیت کا مقام پالیتے ہیں اور نہ صرف انہیں حاضر ثواب ملتا ہے بلکہ اُن کی وجہ سے ثواب کا ایک دائمی سلسلہ جاری ہوتا ہے.

Page 513

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اس حدیث کی تشریح کہ جنت یہ حدیث کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر ماں ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اچھی تربیت کرے تو اچھی نسل پیدا ہوگی او اور جو انعامات باپ حاصل کرے گا وہ دائمی ہو جائیں گے لیکن اگر ماں اچھی تربیت نہیں کرے گی تو باپ کے کمالات باپ تک ختم ہو جائیں گے اور دنیا کو جنات عدن حاصل نہیں ہونگی.یہی مفہوم اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو معاویہ بن جاہمہ سے مروی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں فلاں جہاد میں شامل ہو جاؤں.آپ نے فرمایا.کیا تیری ماں زندہ ہے.اس نے کہا ہاں حضور زندہ ہے.آپ نے فرمایا.فَالْزِمُهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا - ٢٠ جا اور اسی کے پاس رہ کیونکہ اُس کے قدموں میں جنت ہے.معلوم ہوتا ہے اس میں بعض ایسے نقائص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ اگر وہ ماں کی صحبت میں رہا تو اس کی عمدہ تربیت سے وہ دُور ہو جائیں گے.ممکن ہے اس میں تیزی اور جوش کا مادہ زیادہ ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا ہو کہ اگر یہ جہاد پر چلا گیا تو اس کی طبیعت میں جو جوش کا مادہ ہے وہ اور بھی بڑھ جائے گا لیکن اگر اپنی والدہ کے پاس رہا اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے اپنے جوشوں کو دبانا پڑا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی.بہر حال کوئی ایسی ہی کمزوری تھی جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے ماں کی تربیت جہاد کے میدان سے زیادہ بہتر تھی اور اُسے اپنی والدہ کی خدمت میں رہنے کا ارشاد فرمایا.یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ جنت عورت کے تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.غرض عورت کا جنت میں ہونا ضروری ہے نہ صرف اگلی جنت میں بلکہ دنیوی جنت میں بھی کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم کا میاب نہیں ہوسکتی.پھر فرماتا ہے کہ یہ فضل اور رحمت جو تم امانات کو اُن کے اہل کے سپر د کر نے کا حکم کو حاصل ہوگی اُس کے قیام کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے ، خود سری اور پراگندگی سے قوم اس انعام کو حاصل نہیں کر سکتی.پس اس جنت کے قیام کیلئے جو طریق تم کو اختیار کرنا چاہئے وہ ہم تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ إن الله يأمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا دُنیوی حکومتیں اور مال و املاک پر قبضے یہ سب تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں.پس ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ (۱) تم امانتوں

Page 514

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کو اُن کے اہل کے سپرد کرو.یعنی اپنے لئے ایسے سردار چنو جو اس امانت کو اٹھانے کے اہل ہوں.(۲) وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالعَدْلِ پھر ہم ان کو جن کے سپرد یہ امانت کی جائے حکم دیتے ہیں کہ وہ انصاف اور عدل سے کام کریں گویا دونوں کو حکم دے دیا.ایک طرف لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم حکومت کے اختیارات ہمیشہ ایسے لوگوں کے سپرد کیا کرو جو ان اختیارات کو سنبھالنے اور حکومت کے کام کو چلانے کےسب سے زیادہ اہل ہوں اور پھر اے اہل حکومت ! ہم تم کو بھی حکم دیتے ہیں کہ تم رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ رکھو اور کبھی بے انصافی کو اپنے قریب نہ آنے دو.إن الله نعما يَعِظُكُمْ بِه اِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا - اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بہت بڑی حکمتوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیشہ تم کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے.اس طرح جب ایک نظام قائم ہو جائے تو فرماتا ہے کہ اب جو غرض نظام کی تھی یعنی دین کی تمکین تم اس کی طرف توجہ کرو اور قومی عبادات اور قومی کاموں کے متعلق جو احکام ہیں ان کی بجا آوری کی طرف توجہ کرو.عبادات اور فرائض شخصی بھی ہوتے ہیں اور قومی بھی.جو شخصی عبادات اور فرائض ہیں اُن کیلئے کسی نظام کی ضرورت نہیں اور انہیں انتخاب امراء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پس انتخاب امراء کے بعد جو اطیعوا اللهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُول بیان فرما یا اس کے یہی معنی ہیں کہ نظام کی غرض یہ تھی کہ قومی عبادات اور فرائض صحیح طور پر ادا ہوسکیں.پس تم کو چاہئے کہ جب نظام قائم ہو جائے تو اس کی غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرو.یہ نہیں کہ نظام بنا کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاؤ اور سارا کام امراء پر ڈال دو.امراء کا قیام کام کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ کام لینے کیلئے ہوتا ہے.پس چاہئے کہ جب امراء قائم ہو جائیں تو تم قو می ذمہ واریوں کو ادا کرنے میں لگ جاؤ.چنانچہ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول و أولى الأمرِ مِنكُمْ.یعنی جب تم نے امراء کا انتخاب کر لیا تو آب سن لو کہ تم پر تین حکومتیں ہوں گی.اوّل اللہ کی حکومت.دوم رسول کی حکومت.سوم اولی الامر کی حکومت ہاں قران تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ والرَّسُولِ إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ و اليوم الأخير.چونکہ امراء ان ذمہ واریوں کی ادائیگی کے متعلق مختلف سکیمیں تجویز کریں گے تمہیں چاہئے کہ تم ان سکیموں میں ان کی اطاعت کرو لیکن اگر کبھی تمہارا ان سے اختلاف ہو جائے تو ان اختلافات کو اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ.یعنی ان اصول کے مطابق طے کرو جو

Page 515

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کئے ہیں اور اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی نہ کرو ذلِكَ خَيْرُ و أَحْسَنُ تَأْوِيلاً.یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت بابرکت ہوگا.یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر یہ امر بیان کر دیا ہے کہ جب حکومت کے اختیارات تم قابل ترین لوگوں کے سپرد کر دو تو پھر اللہ اور رسول کے احکام کے ساتھ ان حکام کے احکام کی بھی تمہیں اطاعت کرنی ہوگی اور یہ اس لئے فرمایا کہ پہلے اس نے حکومت کا مقام بتا دیا ہے کہ وہ کیسا ہونا چاہئے.وہ کہتا ہے کہ تمہاری ترقی کیلئے یہ امر ضروری ہے کہ تم اپنی باگ ڈور ایک ہاتھ میں دے دو مگر یاد رکھو انتخاب کرتے وقت اہلیت کو مد نظر رکھو ایسا نہ ہو کہ تم یہ سمجھ کر کہ کسی نے تم پر احسان کیا ہوا ہے یا کوئی تمہارا قریبی عزیز اور رشتہ دار ہے یا کسی سے تمہارے دوستانہ تعلقات ہیں اسے ووٹ دے دو.دنیا میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے اور ووٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمیں کس سے زیادہ تعلق ہے یا کون ہمارا عزیز اور دوست ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون اس کام کے زیادہ اہل ہے مگر فرمایا اسلامی انتخاب میں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ تم کسی کو محض اس لئے منتخب کر دو کہ وہ تمہارا باپ ہے یا تمہارا بیٹا ہے یا تمہارا بھائی ہے بلکہ اس کام کا جو شخص بھی اہل ہو اُس کے سپر د کر دو خواہ اس کے ساتھ تمہارے تعلقات ہوں یا نہ ہوں.اس کے بعد فرماتا ہے کہ جب تم امراء کا انتخاب کر لو گے تو لازما وہ اسلام کی ترقی کیلئے بعض سکیمیں تجویز کریں گے اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جو ا حکام بھی ان کی طرف سے نافذ ہوں وہ خواہ تمہاری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ان کی اطاعت کرو.ہاں اگر کسی مقام پر تمہارا اُن سے اختلاف ہو جائے تو فَرُدُّوهُ إلى الله و الرَّسُول اسے خدا اور رسول کے احکام کی طرف پھر ا دو.یہاں آ کر خلافت کے منکرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں بس بات حل ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ خلفاء کی باتیں ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں.اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو انہیں مان لینا چاہئے اور اگر شریعت کے مطابق نہ ہوں تو انہیں رڈ کر دینا چاہئے.اس اعتراض کو میں انشاء اللہ بعد میں حل کروں گا.نظام اسلامی کے متعلق قرآنی اصول پر دست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ نظام اسلامی کے متعلق قرآن کریم نے عام احکام بیان کئے ہیں اور ان میں مندرجہ ذیل اصول بیان ہوئے ہیں :.(۱) قومی نظام ایک امانت ہوتا ہے کیونکہ اس کا اثر صرف ایک شخص پر نہیں پڑتا بلکہ ساری قوم پر

Page 516

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده پڑتا ہے.پس اس کے بارہ میں فیصلہ کرتے وقت اپنی اغراض کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ قوم کی ضرورتوں اور فوائد کو دیکھنا چاہئے.(۲) اس امانت کی ادائیگی کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ امانت ادا نہیں ہو سکتی.یعنی افراد فرداً فرداً اس امانت کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ ضرور ہے کہ اس کی ادائیگی کیلئے کوئی منصرم ہوں.(۳) ان منصرموں کو قو م منتخب کرے.(۴) انتخاب میں یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ جنہیں منتخب کیا جائے وہ ان امانتوں کو پورا کرنے کے اہل ہوں.اس کے سوا اور کوئی امر انتخاب میں مدنظر نہیں ہونا چاہئے.(۵) جن کے سپرد یہ کام کیا جائے گا وہ امر قومی کے مالک نہ ہوں گے بلکہ صرف منصرم ہوں گے.کیونکہ فرمایا رانی آھیما یعنی ان کے سپر د اس لئے یہ کام نہ ہوگا کہ وہ باپ دادا سے اس کے وارث اور مالک ہوں گے بلکہ اس لئے کہ وہ اس خدمت کے اہل ہوں گے.یہ احکام کسی خاص مذہبی نظام کے متعلق نہیں بلکہ جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے عام ہیں خواہ مذہبی نظام ہوا ور خواہ دُنیوی ہو اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ملوکیت کو اپنے نظام کا حصہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسلام صرف انتخابی نظام کو تسلیم کرتا ہے اور پھر اس نظام کے بارہ میں فرماتا ہے کہ جن کے سپرد یہ کام ہوا فراد کو چاہئے کہ ان کی اطاعت کریں.اگر کہا جائے کیا اسلام کسی خالص دنیوی حکومت کو تسلیم کرتا ہے کہ کیا اسلام کسی خالص دُنیوی حکومت کو بھی تسلیم کرتا ہے یا نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام سب صحیح سامانوں کی موجودگی میں جبکہ سارے سامان اسلام کی تائید میں ہوں اور جبکہ اسلام آزاد ہو خالص دنیوی نظام کو تسلیم نہیں کرتا.مگر وہ حالات کے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت وہ اعلیٰ نظام جو اسلام کے مدنظر ہو نافذ نہ کیا جا سکے اس صورت میں ڈنیوی نظاموں کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے.مثلاً کسی وقت اگر مسلمانوں کا معتد بہ حصہ گفا رحکومتوں کے ماتحت ہو جائے ، ان کی خریت سلب ہو جائے ، ان کی آزادی جاتی رہے اور ان کی اجتماعی قوت قائم نہ رہے تو جن ملکوں میں اسلام کا زور ہو وہ مذہبی اور دُنیوی نظام اکٹھا قائم نہیں کر سکتے.کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کی اتباع نہیں کر سکتی.پس اس مجبوری کی وجہ سے ان ملکوں میں

Page 517

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خالص دُنیوی نظام کی اجازت ہوگی جو انہی اصول پر قائم ہو گا جو اسلام نے تجویز کئے ہیں اور جن کا قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے.خالص دنیوی نظام کا مفہوم خالص زیوی نظام سے یہ مراد ہیںکہ وہ کام اسلامی احکام کو جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں نافذ نہیں کرے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ مذہبی طور پر اس کے احکام سب عالم اسلامی پر واجب نہ ہوں گے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت سیاسی حالات کی وجہ سے ان کی پابندی نہ کر سکے گی اور نہ اس نظام کے قیام میں مسلمانوں کی اکثریت کا ہاتھ ہوگا.پس ایسے وقت میں جائز ہوگا کہ ایک خالص مذہبی نظام الگ قائم کیا جائے بلکہ جائز ہی نہیں ضروری ہوگا کہ ایک خالص مذہبی نظام علیحدہ قائم کر لیا جائے جس کا تعلق اس اسلامی نظام سے ہو جس کا تعلق کسی حکومت سے نہ ہو بلکہ اسلام کی روحانی تنظیم سے ہو تا کہ غیر حکومتیں دخل اندازی نہ کریں اور چونکہ وہ صرف روحانی نظام ہوگا اور حکومت کے کاروبار میں وہ دخل نہ دے گا اس لئے ایسا نظام غیر حکومتوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے گا اور اسلام پر ا گندگی سے بچ جائے گا.اگر مسلمان اس آیت کے مفہوم پر عمل کرتے تو یقیناً جو تــنــزل مسلمانوں کو آخری زمانہ میں دیکھنا نصیب ہوا اس کا دیکھنا انہیں نصیب نہ ہوتا.غلطی مسلمانوں کی ایک افسوسناک غل مسلمانوں سے تنزل کے وقت میں یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ اگر وہ ساری دنیا میں ایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دنیوی امور پر مشتمل ہو تو اُن کیلئے خالص دینی نظام کی بھی کوئی صورت نہیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ دونوں نظام کسی صورت میں بھی الگ نہیں ہو سکتے اور جب ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا تو انہوں نے دوسرے نظام کو بھی ترک کر دیا حالانکہ مسلمانوں کا فرض تھا کہ جب ان میں سے خلافت جاتی رہی تھی تو وہ کہتے کہ آؤ جو قومی مسائل ہیں ان کیلئے ہم ایک مرکز بنالیں اور اس کے ماتحت ساری دنیا میں اسلام کو پھیلائیں.چنانچہ وہ اس مرکز کے ماتحت دنیا بھر میں تبلیغی مشن قائم کرتے ، لوگوں کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرتے ، لوگوں کو قرآن پڑھاتے ، غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرتے اور جو مشتر کہ قومی مسائل ہیں ان میں مشترکہ جد و جہد اور کوشش سے کام لیتے مگر انہوں نے سمجھا کہ اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہ گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ روز بروز تنزل میں

Page 518

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده گرتے چلے گئے.اگر وہ دینی اور دنیوی امور پر مشتمل نظام کے قیام میں ناکام رہنے کے بعد خالص دینی نظام قائم کر لیتے تو وہ بہت بڑی تباہی سے بچ جاتے اور اس کی وجہ سے آج شاید تمام دنیا میں اسلام اتنا غالب ہوتا کہ عیسائیوں کا نام و نشان تک نہ ہوتا مگر چونکہ انہیں یہ غلطی لگ گئی کہ اگر وہ ساری دنیا میں ایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دنیوی دونوں امور پر مشتمل ہو تو اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی نہیں اس لئے جب ایک نظام ان کے ہاتھ سے جاتا رہا تو دوسرے نظام کو بھی انہوں نے ترک کر دیا.سری غلطی دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ سبھا انتخاب صرف اس نظام کیلئے ہے جو سب مسلمانوں کے دینی اور دنیوی امور پر حاوی ہو حالانکہ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا تھا کہ انتخاب خالص دنیوی نظام میں بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح دینی و دنیوی مشتر کہ نظام میں.اگر اور نہیں تو وہ اتنا ہی کر لیتے کہ جب بھی کسی کو بادشاہ بناتے تو انتخاب کے بعد بناتے.تب بھی وہ بہت سی تباہی سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے انتخاب کے طریق کو بھی ترک کر دیا حالانکہ اگر وہ اس نکتہ کو سمجھتے تو وہ ملوکیت کا غلبہ جو اسلام میں ہوا اور جس نے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیا کبھی نہ ہوتا اور مسلمانوں کی کوششیں اسلامی طریق حکومت کے قیام کیلئے جاری رہتیں.اور مسلمان ڈیما کریسی (DEMOCRACY) کی صحیح ترقی کے پہلے اور سب سے بہتر علم بردار ہوتے.اختلاف کی صورت میں ایک خالص یہ جو میں نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں کہ اختلاف پیدا ہو چکا ہے ایک مذہبی نظام قائم کرنے کا ثبوت خالص مذہبی نظام قائم کرنے کا اس آیت سے ثبوت ملتا ہے.وہ اس طرح ہے کہ اس آیت میں سب مسلمان مخاطب ہیں اور انہیں ہر وقت أولى الأمر منكم کی اطاعت کا حکم ہے اس میں کسی زمانہ کی تخصیص نہیں کہ فلاں زمانہ میں اولی الامر کی اطاعت کرو اور فلاں زمانہ میں نہ کرو بلکہ ہر حالت اور ہر زمانہ میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.اگر کوئی کہ کہے اُولی الامر کی اطاعت کا حکم محض وقتی ہے تو ساتھ ہی اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم بھی محض وقتی ہے کیونکہ خدا نے اس سے پہلے اطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول کا حکم دیا ہے.لیکن اگر خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت ہر وقت اور ہر زمانہ میں ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت

Page 519

انوار العلوم جلد ۱۵.خلافت راشده کا حکم بھی ہر حالت اور ہر زمانہ کیلئے ہے اور دراصل اس آیت کے ذریعہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ کسی نہ کسی نظام کی پابندی ان کیلئے ہر وقت لازمی ہوگی.پس جس طرح دوسرے احکام میں اگر ایک حصہ پر عمل نہ ہو سکے تو دوسرے حصے معاف نہیں ہو سکتے.جو جہاد نہ کر سکے اس کیلئے نماز معاف نہیں ہو سکتی ، جو وضو نہ کر سکے اس کیلئے رکوع اور سجدہ معاف نہیں ہوسکتا ، جو کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے اس کیلئے بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشاروں سے نماز پڑھنا معاف نہیں ہو سکتا، اسی طرح اگر سارے عالم اسلامی کا ایک سیاسی نظام نہ ہو سکے تو مسلمان أولي الامر کی اطاعت کے ان حصوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جن پر وہ عمل کر سکتے تھے.جیسے اگر کوئی حج کیلئے جائے اور صفا اور مردہ کے درمیان سعی نہ کر سکے تو سعی اس کیلئے معاف نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کیلئے ضروری ہوگا کہ کسی دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اس فرض کو ادا کرے.پس مسلمانوں سے یہ ایک شدید غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ چونکہ ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا ہے اس لئے دوسرا نظام انہیں معاف ہو گیا ہے.حالانکہ خالص مذہبی نظام مختلف حکومتوں میں بٹ جانے کی صورت میں بھی ناممکن نہیں ہو جاتا جیسا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے اگر لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ تم چور کا ہاتھ کیوں نہیں کاٹتے.تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں لیکن جن امور میں ہمیں آزادی حاصل ہے ان امور میں ہم اپنی جماعت کے اندر اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کرنا اپنا پہلا اور اہم فرض سمجھتے ہیں.پس اگر مسلمان بھی سمجھتے کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں اولی الامْرِ مِنكُمْ کی اطاعت ان پر واجب ہے اور جن حصوں میں اولی الامر کی اطاعت ان کیلئے ناممکن تھی ان کو چھوڑ کر دوسرے حصوں کیلئے وہ نظام قائم رکھتے تو وہ اس حکم کو پورا کرنے والے بھی رہتے اور اسلام کبھی اس حالت کو نہ پہنچتا جس کو وہ اب پہنچا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا شاید یہ منشاء تھا کہ اسلامی حکم کا یہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ذریعہ سے عمل میں آئے اور یہ فضیلت اس اخرين منهم ان کی جماعت کو حاصل ہو کیونکہ آخر ہمارے لئے بھی کوئی نہ کوئی فضیلت کی بات رہنی چاہئے.صحابہ نے تو یہ فضیلت حاصل کر لی کہ انہوں نے ایک دینی ودنیوی مشتر که نظام اسلامی اصول پر قائم کیا مگر جو خالص مذہبی نظام تھا اس کے قیام کی طرف اس نے ہمیں توجہ دلا دی.گویا اس آیت کے ایک حصے پر صحابہ نے عمل کیا اور دوسرے حصے پر ہم نے عمل کر لیا.پس ہم بھی صحابہ میں جاملے.خلاصہ یہ کہ اس آیت میں اسلامی نظام کے قیام کے اصول

Page 520

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بیان کئے گئے ہیں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ (۱) اسلامی نظام انتخاب پر ہو.(۲) یہ کہ مسلمان ہر زمانہ میں اولي الامر منکم کے تابع رہیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اپنے تنزل کے زمانہ میں دونوں اصولوں کو کھلا دیا.جہاں ان کا بس تھا انہوں نے انتخاب کو قائم نہ رکھا اور جو اموران کے اختیار سے نکل گئے تھے ان کو چھوڑ کر جو امور ان کے اختیار میں تھے ان میں بھی انہوں نے أولى الامر منکم کا نظام قائم کر کے ان کی اطاعت سے وحدت اسلامی کو قائم نہ رکھا اور ان لغو بحثوں میں پڑ گئے کہ انہیں صرف اُولی الامر منکم کی اطاعت کرنی چاہئے.اور اس طرح جو اصل غرض اس حکم کی تھی وہ نظر انداز ہوگئی حالانکہ جو امران کے اختیار میں نہ تھا اس میں ان پر کوئی گرفت نہ تھی اگر وہ اس حصہ کو پورا کرتے جو ان کے اختیار میں تھا.اس جگہ شاید أولى الأمْرِ مِنْكُمُ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب کوئی اعتراض کرے کہ احمد یہ جماعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ میں غیر مذاہب کے أولى الأمر بھی شامل ہیں اور اس آیت کے ماتحت غیر مسلم حکام کی اطاعت بھی فرض ہے.مگر اب جو معنی کئے گئے ہیں اس کے ماتحت غیر مسلم آ ہی نہیں سکے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے لیکن یہ معنی صرف اولی الامر منکم کے ٹکڑے سے نکلتے ہیں.یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ غير مسلم أولي الأمر بھی اس میں شامل ہیں تو اس وقت ہم سارے رکوع کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ آیت کے صرف ایک ٹکڑہ سے اپنے دعوے کا استنباط کرتے ہیں لیکن یہ ٹکڑہ ساری آیتوں سے مل کر جو معنی دیتا ہے انہیں باطل نہیں کیا جا سکتا.بیشک دُنیوی امور میں ہر اولی الامر کی اطاعت واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر زمانہ میں أولى الأمر منكم کی اطاعت جو مسلمانوں میں سے ان کیلئے منتخب ہوں ان پر واجب ہے.اولی الامر سے اختلاف کی صورت میں اب میں اس مضمون کو لیتا ہوں جس کے بیان رُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُول کے کیا معنی ہیں؟ کرنے کا میں پیچھے " وعدہ کر آیا ہوں کہ بعض لوگ اس مقام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اولوالامر سے اختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے رُدُّوهُ إِلَى اللهِ و الرسول فرمایا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اطاعت واجب نہیں بلکہ اختلاف کی صورت میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ خدا اور رسول کا

Page 521

انوار العلوم جلد ۱۵ کیا حکم ہے؟ خلافت راشده اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے.کیونکہ ہر ں اپنے خیال کو درست سمجھا کرتا ہے.پس اگر اس آیت کا یہی مفہوم لیا جائے تو اطاعت کبھی ہو ہی نہیں سکتی.آخر وہ کونسا امرایسا نکلے گا جسے تمام لوگ متفقہ طور پر خدا اور رسول کا حکم سمجھیں گے.یقیناً کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہوا کرتا ہے.پس ایسی صورت میں اگر ہر شخص کو یہ اختیار ہو کہ وہ حکم سنتے ہی کہہ دے کہ یہ خدا اور رسول کی تعلیم کے خلاف ہے تو اس صورت میں خلیفہ صرف اپنے آپ پر ہی حکومت کرنے کیلئے رہ جائے، کسی اور پر اس نے کیا حکومت کرنی ہے.بالخصوص موجودہ زمانہ میں تو ایسا ہے کہ آج گل ماننے والے کم ہیں اور مجتہد زیادہ.ہر شخص اپنے آپ کو اہل الرائے خیال کرتا ہے.اس صورت میں خلیفہ تو اپنا بوریا بچھا کر الگ شور مچاتا رہے گا کہ یوں کر وا اور لوگ یہ شور مچاتے رہیں گے کہ پہلے ان حکموں کو قرآن اور حدیث کے مطابق ثابت کرو، تب مانیں گے ورنہ نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی دینی امرایسا نہیں جسے ساری دنیا یکساں طور پر مانتی ہو بلکہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ اختلاف پایا جاتا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک جاہل شخص تھا جسے مولویوں کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق تھا مگر چونکہ اسے دین سے کوئی واقفیت نہ تھی اس لئے جہاں جاتا لوگ دھکے دے کر نکال دیتے.ایک دفعہ اس نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے علماء کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق ہے مگر لوگ مجھے بیٹھنے نہیں دیتے میں کیا کروں.اس نے کہا ایک بڑا ساختہ اور پگڑی پہن لو.لوگ تمہاری صورت کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ کوئی بہت بڑا عالم ہے اور تمہیں علماء کی مجلس میں بیٹھنے سے نہیں روکیں گے.جب اندر جا کر بیٹھ جاؤ اور تم سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہہ دینا کہ اختلافی مسئلہ ہے بعض نے یوں لکھا ہے اور بعض نے اس کے خلاف لکھا ہے اور چونکہ مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے تمہاری اس بات سے کسی کا ذہن ادھر منتقل نہیں ہو گا کہ تم کچھ جانتے نہیں.چنانچہ اس نے ایک بڑا سائبہ پہنا، پورے تھان کی پگڑی سر پر رکھی اور ہاتھ میں عصا لے کر اس نے علماء کی مجالس میں آنا جانا شروع کر دیا جب کسی مجلس میں بیٹھتا تو سر جھکا کر بیٹھا رہتا.لوگ کہتے کہ جناب آپ بھی تو کچھ فرما ئیں.اس پر وہ گردن ہلا کر کہہ دیتا اس بارہ میں بحث کرنا لغو ہے.علماء اسلام کا اس کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے کچھ علماء نے تو اس طرح لکھا ہے جس طرح یہ مولا نا فرماتے ہیں اور کچھ علماء نے اُس طرح لکھا ہے جس طرح وہ مولا نا فرماتے ہیں.لوگ سمجھتے کہ اس شخص کا مطالعہ بڑا وسیع ہے.

Page 522

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده چنانچہ کہتے بات تو ٹھیک ہے جھگڑا چھوڑو اور کوئی اور بات کرو کچھ مدت تو اسی طرح ہوتا رہا اور علماء کی مجالس میں اس کی بڑی عزت و تکریم رہی.مگر ایک دن مجلس میں یہ ذکر چل پڑا کہ زمانہ ایسا خراب آ گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ خدا کا انکار کرتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کوئی دلیل دو.اس پر لوگوں نے حسب دستور ان سے بھی کہا کہ سنائیے مولا نا آپ کا کیا خیال ہے.وہ کہنے لگا بحث فضول ہے کہ کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا ہے اور کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا نہیں.یہ سنتے ہی لوگوں میں اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور انہوں نے دھکے دے کر اسے مجلس سے باہر نکال دیا.تو دنیا میں اس کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْء فردوه إلى الله والرسول کے یہ معنی کئے جائیں کہ جب بھی خلیفہ کے کسی حکم سے کسی کو اختلاف ہواس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو دھگا دے کر کہے کہ تیرا حکم خدا اور رسول کے احکام کے خلاف ہے تو اس کو اتنے دھکے ملیں کہ ایک دن بھی خلافت کرنی اس کیلئے مشکل ہو جائے.پس یہ معنی عقل کے بالکل خلاف ہیں.ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگوں کو اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر لگی ہے اگر وہ صحیح معنی سمجھ لیتے تو ان کو کبھی ٹھو کر ننگتی.اُولِى الأمْرِ مِنْكُمُ والی آیت دُنیوی حکام وہ صحیح معنی کیا ہیں ؟ ان کو معلوم کرنے کیلئے پہلے اور خلفائے راشدین دونوں پر حاوی ہے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ آیت عام ہے اس میں خالص دُنیوی حکام بھی شامل ہیں اور خلفاء راشدین بھی شامل ہیں پس یہ آیت خالص اسلامی خلفاء کے متعلق نہیں بلکہ دنیوی حکام کے متعلق بھی ہے.اب اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ آیت اپنے مطالب کے لحاظ سے عام ہے اور اس میں خالص دنیوی حکام اور خلفاء راشدین دونوں شامل ہیں یہ سمجھ لو کہ اِن دونوں کے بارہ میں قرآن کریم اور رسول کریم عمل اللہ کے احکام الگ الگ ہیں.جو خالص دُنیوی حکام ہیں ان کیلئے شریعتِ اسلامی کے الگ احکام ہیں.اور جو خلفاء راشدین ہیں ان کیلئے الگ احکام ہیں.پس جب خدا نے یہ کہا کہ فَإِن تَنَازَعْتُمْ في شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ والرَّسُولِ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جب تمہارا اولی الامر سے جھگڑا ہو تو تم یہ دیکھنے لگ جاؤ کہ خدا اور رسول کا حکم تم کیا سمجھتے ہو بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ چونکہ اس عام حکم میں خلفاء راشدین بھی شامل ہیں اور دنیوی حکام بھی اس لئے جب اختلاف ہو تو دیکھو کہ وہ حکام کس قسم کے ہیں.اگر تو وہ

Page 523

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده خلفائے راشدین ہیں تو تم ان کے متعلق وہ عمل اختیار کرو جو اللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کے بارہ میں بیان فرمایا ہے اور اگر وہ حکام دُنیوی ہیں تو ان کے بارہ میں تم ان احکام پر عمل کرو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کے متعلق بیان کئے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ان دونوں قسم دونوں کے متعلق الگ الگ احکام کے اولی الامر کے متعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے الگ الگ قسم کے احکام بیان کئے ہیں یا نہیں.اگر کئے ہیں تو وہ کیا ہیں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قسم کے اولی الامر کی نسبت دو مختلف احکام بیان کئے ہیں جو یہ ہیں:.صلى الله (۱) عبادہ بن صامت سے روایت ہے بَايَعْنا رَسُوْلَ اللهِ لا عَلَى السَّمْعَ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَ الْمَكْرَهِ وَ عَلَى آثَرَةٍ عَلَيْنَا وَ عَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَ عَلَى أَنْ نَّقُولَ بِالْحَقِّ فَأَيْنَمَا كُنَّا لَا تَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ وَ فِي رِوَايَةٍ أَنْ لَّا تُنَازِعَ الأمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيْهِ بُرْهَانٌ مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ - ۲۲ یعنی ہم نے رسول کریم ﷺ کی ان شرائط پر بیعت کی کہ جو ہمارے حاکم مقرر ہوں گے ان کے احکام کی ہم ہمیشہ اطاعت کریں گے خواہ ہمیں آسانی ہو یا تنگی اور چاہے ہمارا دل ان احکام کے ماننے کو چاہے یا نہ چاہے بلکہ خواہ ہمارے حق وہ کسی اور کو دلا دیں.پھر بھی ہم ان کی اطاعت کریں گے.اسی طرح ہماری بیعت میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب ہم کسی کو اہل سمجھ کر اس کے سپر د حکومت کا کام کر دیں گے تو اس سے جھگڑا نہیں کریں گے اور نہ اس سے بحث شروع کر دیں گے کہ تم نے یہ حکم کیوں دیا وہ دینا چاہئے تھا.ہاں چونکہ ممکن ہے کہ وہ حکام کبھی کوئی بات دین کے خلاف بھی کہہ دیں اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو ہمیں ہدایت تھی کہ ہم سچائی سے کام لیتے ہوئے انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں اور خدا کے دین کے متعلق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں.ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ حکومت کے اہل ہوں اور ان کے سپرد یہ کام تمہاری طرف سے ہو چکا ہو ان سے تم کسی قسم کا جھگڑا نہ کرو.مگر یہ کہ تم ان سے گھلا گھلا کفر صادر ہوتے ہوئے دیکھ لو.ایسی حالت میں جبکہ وہ کسی گھلے کفر کا ارتکاب کریں اور قرآن کریم کی نص صریح تمہاری تائید کر رہی ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس خلاف مذہب بات میں ان کی

Page 524

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اطاعت کرنے سے انکار کر دو اور وہی کرو جس کے کرنے کا تمہیں خدا نے حکم دیا ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكِ الْأَشْجَعِي عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِيَارُ اَئِمَّتِكُمُ الَّذِيْنَ تُحِبُّوْنَهُمْ وَيُحِبُّوْنَكُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِكُمُ الَّذِيْنَ تَبْغَضُوْنَهُمْ وَيَبْغَضُوْنَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قَالَ قَالُوا يَارَسُوْلَ اللهِ أَفَلا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ قَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيْكُمُ الصَّلوةَ قَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلوةَ إِلَّا مَنْ وُلِيَ عَلَيْهِ وَالِ فَرَاهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَّعْصِيَةِ اللهِ فَلْيَكْرَهُ مَا يَأْتِي مِن مَّعْصِيَةِ اللهِ وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَتِهِ ٢٣ حضرت عوف بن مالک اتجھی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں.تم ان پر درود بھیجو اور ان کی ترقیات کیلئے دعائیں کرو اور وہ تم پر درود بھیجیں اور تمہاری ترقیات کیلئے دعائیں کریں اور بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں.تم ان پر لعنت ڈالو اور وہ تم پر لعنت ڈالیں.راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا.يَارَسُولَ اللهِ ! جب ایسے حکمران ہمارے سروں پر مسلط ہو جائیں تو کیوں نہ ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں حکومت سے الگ کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یالَا مَا أَقَامُوا الصَّلوةَ فِيكُمْ لَا مَا أَقَامُوا الصَّلوة فِيْكُمْ.ہرگز نہیں.ہرگز نہیں جب تک وہ نماز اور روزہ کے متعلق تم پر کوئی پابندی عائد نہ کریں اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہ روکیں تم ان کی اطاعت سے ہرگز منہ نہ موڑ و الا من ولى عليه وال فراه يأتى شيئًا من معصية الله فليكره ما يأتى من معصية الله ولا ينزعنّ يدًا من طاعته.سنو! جب تم پر کسی کو حاکم بنایا جائے اور تم دیکھو کہ وہ بعض امور میں اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب کر رہا ہے تو تم اپنے دل میں اس کے ان افعال سے سخت نفرت رکھو مگر بغاوت نہ کرو.دوسری حدیث میں اس سے یہ زائد حکم ملتا ہے کہ اگر کفر بواح اس سے ظاہر ہو تو اس حالت میں اس کے خلاف بغاوت بھی کی جاسکتی ہے.اس کے مقابلہ خلفائے راشدین کی سنت پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم میں احاد سینے میں عرباض بن ساریہ سے ہمیں ایک اور روایت بھی ملتی ہے.وہ کہتے ہیں صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا

Page 525

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده العُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَّ هَذِهِ مَوْعِظَةً مُوَدِعٍ فَمَا ذَا تُعَهْدُ إِلَيْنَا.فَقَالَ أَوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْداً حَبْشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَّعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدُيْنَ الْمَهْدِيِّينَ فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِدِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ؟ الله عرباض بن ساریہ کہتے ہیں.ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور جب نماز سے فارغ ہو چکے تو آپ نے ہمیں ایک وعظ کیا.وہ وعظ ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اس سے ہمارے آنسو بہنے لگ گئے اور دل کانپنے لگے.اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! معلوم ہوتا ہے یہ الوداعی وعظ ہے.آپ ہمیں کوئی وصیت کر دیں.آپ نے فرمایا.اُوصِيكُمُ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْداً حَبَشِيًّا.میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اطاعت اور فرماں برداری کو اپنا شیوہ بنا ؤ خواہ کوئی حبشی غلام ہی تم پر حکمران کیوں نہ ہو.جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ لوگوں میں بہت بڑا اختلاف دیکھیں گے پس ایسے وقت میں میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدُيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تم میری سنت اور میرے بعد میں آنے والے خلفاء الراشدین کی سنت کو اختیار کرنا.تَمَسَّكُوا بِهَا تم اس سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا وَعَضُوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ اور جس طرح کسی چیز کو دانتوں سے پکڑ لیا جاتا ہے اسی طرح اس سنت سے چھٹے رہنا اور کبھی اس راستے کو نہ چھوڑ نا جو میرا ہے یا میرے خلفائے راشدین کا ہوگا.وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ اور تم نی نی باتوں سے بچتے رہنا فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ کیونکہ ہر وہ نئی بات جو میری اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف ہوگی وہ بدعت ہوگی اور بدعت ضلالت ہوا کرتی ہے.ان دونوں قسم کے حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اولى الأمر دو قسم کے تسلیم کئے ہیں.ایک دُنیوی اور ایک دینی اور اسلامی.دُنیوی امراء کے متعلق اطاعت کا حکم ہے مگر ساتھ ہی کفر بواح کا جواز بھی رکھا ہے اور اس صورت میں بشرطیکہ برہان ہو قیاس نہ ہوان گفر یہ امور میں ان کی اطاعت سے باہر جانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے.گو بعض اسلامی علماء نے جیسے حضرت محی الدین ابن عربی ہیں اس بارہ میں بھی اتنی احتیاط کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسی صورت میں بھی صرف علیحدگی کا اعلان کرنا جائز ہے بغاوت کرنا پھر بھی جائز

Page 526

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده نہیں.مگر ایک دینی اور اسلامی اولی الامر بتائے ہیں جن کے بارہ میں ہمیں حکم نہیں بنایا بلکہ انہیں امت پر حکم بنایا ہے اور فرمایا ہے جو کچھ وہ کریں وہ تم پر حجت ہے اور ان کے طریق کی اتباع اسی طرح ضروری ہے جس طرح میرے حکم کی.پس حاکم دو قسم کے ہیں.ایک وہ جوڈ نیوی ہیں اور جن کے متعلق اس بات کا امکان ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کر سکتے ہیں.ان کے متعلق تو یہ حکم دیا کہ تم ان کی اطاعت کرتے چلے جاؤ ، ہاں جب ان سے گفر بواح صادر ہو تو الگ ہو جاؤ.مگر دوسرے حکام وہ ہیں جو غلطی کر ہی نہیں سکتے ان کے متعلق یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہمیشہ ان کی سنت اور طریق کو اختیار کرنا چاہئے اور کبھی ان کے راستہ سے علیحدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر کبھی تمہیں یہ شبہ پڑ جائے کہ تمہارے عقائد درست ہیں یا نہیں تو تم اپنے عقائد کو خلفائے راشدین کے عقائد کے ساتھ ملا ؤ.اگر مل جائیں تو سمجھ لو کہ تمہارا قدم صحیح راستہ پر ہے اور اگر نہ ملے تو سمجھ لو کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو..گویا خلفائے راشدین ایک خلفائے راشدین اُمت کیلئے ایک میزان ہیں میزان ہیں جن سے دوسرے لوگ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا قدم صیح راستہ پر ہے یا اس سے منحرف ہو چکا ہے.جیسے دوسیر کا بٹہ ایک طرف ہوا اور مولیاں گاجریں دوسری طرف تو ہر شخص ان مولیوں گا جروں کو ہی دوسیر کے بٹہ کے مطابق وزن کرے گا یہ نہیں ہو گا کہ اگر پانچ سات مولیاں کم ہوں تو بٹے کو اُٹھا کر پھینک دے اور کہہ دے کہ وہ صحیح نہیں.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم خلفائے راشدین کے اعمال کا جائزہ لو اور دیکھو کہ وہ تمہاری عقل کے اندر آتے ہیں یا نہیں اور وہ تمہاری سمجھ کے مطابق خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہیں یا نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اپنے متعلق کبھی یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ تمہارے اعمال خدا اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں تو تم دیکھو کہ ان اعمال کے بارہ میں خلفائے راشدین نے کیا کہا ہے.اگر وہ خلفائے راشدین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوں گے تو درست ہوں گے اور اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ ہوں گے تو غلط ہوں گے.پس خدا اور رسول کا وہ حکم جس کی طرف بات کو لوٹانے کا ارشاد ہے یہی احکام ہیں جن کو میں نے بیان کیا ہے.یعنی تم یہ دیکھو کہ جن حکام سے تمہیں اختلاف ہے وہ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں.آیا وہ دنیوی حکام میں سے ہیں یا خلفائے راشدین میں سے.اگر وہ دنیوی حکام ہیں

Page 527

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده تو حتی الوسع ان کی اطاعت کرو.ہاں اگر وہ کسی نص صریح کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیں تو تمہارا حق ہے کہ ان کی غلطی پر انہیں متنبہ کرو، انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرو اور انہیں بتاؤ کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو اور اگر نہ مانیں اور کفر بواح کا ارتکاب کریں مثلاً نماز پڑھنے سے روک دیں یا روزے نہ رکھنے دیں تو تمہیں اس بات کا اختیار ہے کہ ان کے اس قسم کے احکام ماننے سے انکار کر دو اور کہو کہ ہم نمازیں پڑھیں گے ، ہم روزے رکھیں گے، ہم جو جی میں آئے کر لو لیکن اگر وه أولي الأمر خلفائے راشدین ہوں تو پھر سمجھ لو کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے.وہ جو کچھ کریں گے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوگا اور اللہ تعالیٰ انہیں اسی راہ پر چلائے گا جو اس کے نزدیک درست ہو گا.پس ان پر حکم بننے کی بجائے اُن کو اپنے اوپر حکم بناؤ اور ان سے اختلاف کر کے اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرنے والے مت بنو.اس عام حکم کے بعد اب میں ان احکام کو لیتا ہوں جو خالص آیت استخلاف پر بحث دینی اسلامی نظام کے متعلق ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے قُل أطِيعُوا اللَّهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ : فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ ما حُمّل وعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُواء وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا البَلغُ الْمُبِي وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِيمُ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لَهُمْ وَلَيُبَةٍ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا، وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ - وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وأتُوا الزَّعُوةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۲۵ ان آیات میں پہلے اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور پھر مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ اطاعت میں کامل ہوئے تو اللہ تعالیٰ انہیں مطاع بنا دے گا اور پہلی قوموں کی طرح ان کو بھی زمین میں خلیفہ بنائے گا اور اس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ نمازیں قائم کریں اور ز کو تیں دیں اور اس طرح اللہ کے رسول کی اطاعت کریں.یعنی خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعت رسول کرنے والے ہی ہوں گے گویا مَن يُطعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَا عَنِى وَمَنْ يعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِی کا نکتہ بیان کیا کہ اس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین میں خلفاء کی اطاعت کی جائے.

Page 528

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اقامت صلوۃ صحیح معنوں میں پس ان آیات میں اللہ تعالی نے مسلمانوں سے پہلے خلافت کا وعدہ کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ ان کا خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی فرض ہوگا کہ وہ نماز میں قائم کریں اور زکوۃ دیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اقامتِ صلوۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور زکوۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی.چنانچہ دیکھ لو، رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زکوۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا.پھر جب آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو اہلِ عرب کے کثیر حصہ نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم اللہ کیلئے مخصوص تھا بعد کے خلفاء کیلئے نہیں مگر حضرت ابو بکڑ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا اور فرمایا کہ اگر یہ اونٹ کے گھٹے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوۃ میں دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک ان سے اسی رنگ میں زکوۃ وصول نہ کر لوں جس رنگ میں وہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے.چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوۃ کا نظام پھر جاری ہو گیا جو بعد کے خلفاء کے زمانہ میں بھی جاری رہا.مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوۃ کی وصولی کا بھی کوئی نظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشاء ہے امراء سے لی جاتی اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے.اب ایسا وہیں ہو سکتا ہے جہاں ایک باقاعدہ نظام ہو.اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اس کے وہ شاندار نتائج کہاں نکل سکتے جو اس صورت میں نکل سکتے ہیں جب زکوۃ کے تمام روپیہ کو جماعتی رنگ میں غرباء کی بہبودی اور ان کی ترقی کے کاموں پر خرچ کیا جائے.پس زکوۃ کا نظام بالطبع خلافت کا مقتضی ہے.اسی طرح اقامتِ صلواۃ بھی بغیر اس کے نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے.اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو بھلا چھوٹے چھوٹے دیہات کی جماعتوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ چین اور جاپان میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام ان سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے.اگر ایک مرکز ہو گا اور ایک خلیفہ ہو گا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہوگا تو اسے تمام اکناف عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں

Page 529

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم ہورہا کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں اور اس کی تہہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے.اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں.رسول کریم ﷺ کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے.مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہوسکتا ہے اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلا ور ہے اور دوسروں کو بھی دھوکا میں مبتلا ءر کھے.میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے چالیس پچاس سال پیشتر ایک شخص بریکا نیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کیلئے نکل گیا ، جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے گیا تو اس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آؤ اب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیرالمؤمنین جہانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے اب اس بیچارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں.غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہو سکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجود ہو.چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض غیر احمدی بھی ان سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ہمیں تو آپ کے خطبات الہامی معلوم ہوتے ہیں.مسلمانوں کا ایک مشہور لیڈر با قاعدہ میرے خطبات پڑھا کرتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ اس نے کہا کہ ان خطبات سے مسلمانوں کی صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی راہنمائی بھی ہوتی ہے.در حقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ را ہنمائی وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس دنیا کے اکثر حصوں سے خبریں آتی ہوں اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت اختیار کر رہے ہیں.صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہوسکتا کیونکہ اخبارات میں جھوٹی خبریں بھی درج ہوتی ہیں.اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنے کا التزام بھی نہیں ہوتا لیکن ہمارے مبلغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں ، اس کے علاوہ جماعت -

Page 530

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبریں ملتی رہتی ہیں اور میں ان سے فائدہ اٹھا کر جماعت کی صحیح راہنمائی کر سکتا ہوں.اطاعت رسول بھی صحیح معنوں پس در حقیقت اقامت صلوۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہوسکتی اسی طرح اطاعت رسول بھی جس میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی کا اطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول کے الفاظ میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی.کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرویا جائے.یوں تو صحابہ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں، صحابہؓ بھی روزے رکھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں ، صحابہ بھی حج کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں پھر صحابہ اور آج کل کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ یہی فرق ہے کہ وہ اس وقت نمازیں پڑھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب نماز کا وقت آ گیا ہے، وہ اس وقت روزے رکھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب روزوں کا وقت آ گیا ہے اور وہ اس وقت حج کرتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب حج کا وقت آ گیا ہے اور گو وہ نماز اور روزہ اور حج وغیرہ عبادات میں حصہ لیکر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے مگر ان کے ہر عمل میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت کی روح بھی جھلکتی تھی جس کا یہ فائدہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے ، صحابہ اُسی وقت اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں.مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے ، مسلمان روزے بھی رکھیں گے، مسلمان حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام خلافت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.پس جب بھی خلافت ہو گی اطاعت رسول بھی ہو گی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے حکم کی اطاعت ہے.اطاعتِ رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں.غرض یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اگر خلافت نہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ

Page 531

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی، تمہاری زکوتیں بھی جاتی رہیں گی ، اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا.ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے ماتحت رہنے کی عادت ہے اور اس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اُٹھا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں جس طرح صحابہ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیر احمدی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جاؤ تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھا تا دکھائی دے گا اور وہ کہے گا کہ ذرا ٹھہر جائیں مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہہ دیا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائے گا.لیکن اگر ایک احمدی کو لے جاؤ تو اس کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آ گیا ہے بلکہ جس طرح مشین کا پُرزہ فوراً اپنی جگہ پر فٹ آ جاتا ہے، اسی طرح وہ وہاں پر فٹ آ جائے گا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کا صحابی بن جائے گا.غرض یہ آیت جو آیت استخلاف آیت استخلاف کے مضامین کا خلاصہ کہلاتی ہے اس کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ : - (1) جس بات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ایک وعدہ ہے.(۲) وعدہ اُمت سے ہے جب تک وہ ایمان و عمل صالح پر کار بندر ہے.غیر مبائع ہمیشہ اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ ان آیات میں خلافت کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد سے نہیں بلکہ امت سے ہے اور میں نے ان کی یہ بات مان لی ہے.میں بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ وعدہ اُمت سے ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کار بند رہے گی اس کا یہ وعدہ پورا ہوتا رہے گا.(۳) اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی قوموں نے پائے کیونکہ فرماتا ہے كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم (ب) اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے.(ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے.( د ) اس کی چوتھی غرض شرک کا دور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے.

Page 532

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اس آیت کے آخر میں وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُون ليه کر اس کے وعدہ ہونے پر پھر زور دیا اور وکئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ ٢٦ کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم ان کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے.خلافت بھی چونکہ ہمارا ایک انعام ہے اس لئے یا درکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.یہ آیت ایک زبردست شہادت خلافتِ راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا طریق قائم کیا جائے گا جو مُؤَيَّد مِنَ اللہ ہوگا.( جیسا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ في الْأَرْضِ اور وليمكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ سے ظاہر ہے ) اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہوگا.اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے سچے بچے خلفاء کی علامات اس آیت میں اور جھوٹے میں فرق کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہیں :- (۱) خلیفہ خدا بناتا ہے.یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا ، نہ وہ خود خواہش کرتا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں ہوتا ہے جب کہ اُس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے.چنانچہ یہ الفاظ کہ وقدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصلحت خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ کہتے ہیں کہ اس وعدے کا یہ مطلب ہے کہ لوگ جس کو چاہیں خلیفہ بنالیں ، خدا اُس کو اپنا انتخاب قرار دے دے گا.مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے ایک استاد کا یہ طریق ہوا کرتا تھا کہ جب وہ مدرسہ میں آتا اور کسی لڑکے سے خوش ہوتا تو کہتا کہ اچھا تمہاری جیب میں جو پیسہ ہے وہ میں نے تمہیں انعام میں دے دیا.یہ بھی ویسا ہی وعدہ بن جاتا ہے کہ اچھا تم کسی کو خود ہی خلیفہ بنا لو اور پھر یہ سمجھ لو کہ اُسے میں نے بنایا ہے.اور اگر یہی بات ہو تو پھر انعام کیا ہوا اور ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے والی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا امتیازی سلوک کونسا ہوا ؟ وعدہ تو جو کرتا ہے وہی اسے پورا بھی کیا کرتا ہے نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اسے پورا کوئی اور کرے.پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ خلفاء کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی.ظاہری لحاظ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ کوئی شخص خلافت کی

Page 533

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اسی طرح کسی منصوبہ کے ماتحت بھی کو ئی خلیفہ نہیں بن سکتا.خلیفہ وہی ہو گا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہو گا جب کہ دنیا اس کے خلیفہ ہونے کو نا ممکن خیال کرتی ہوگی.مشابهه (۲) دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی مدد انبیاء کے ہہ کرتا ہے.کیونکہ فرمایا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبراهیم کہ یہ خلفاء ہماری نصرت کے ویسے ہی مستحق ہونگے جیسے پہلے خلفاء.اور جب پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ دو قسم کی نظر آتی ہیں.اول خلافت نبوت.جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی جس کے بارہ میں فرمایا کہ إنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ " میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ دُنیوی بادشاہ تھے.اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک ۴۸ وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا اور جنہوں نے انکار کیا انہیں سزا دی.جیسے داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ داؤد اِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَينَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّبِعِ الهَوى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ان الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدَ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الحساب اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ( حضرت داؤد علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہوا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافتِ نبوت ہی ہے ) پس تو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کر.اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر.ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستہ سے منحرف کر دیں.یقیناً وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہوگا اس لئے ایسے لوگوں کے مشوروں کو قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف خدا تیری راہنمائی کرے.ان آیات میں دراصل وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسری جگہ فإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله ۴۹ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.بعض لوگوں نے غلطی سے لا تَتَّبِمِ الهَوى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ کے معنی کئے ہیں کہ اے داؤد ! لوگوں کی ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چلنا حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہی نہیں بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یوں کرنا چاہئے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں.اگر مفید ہو تو

Page 534

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مان لو اور اگر مفید نہ ہو تو اُسے رڈ کر دو.چاہے اُسے پیش کرنے والی اکثریت ہی کیوں نہ ہو بالخصوص ایسی حالت میں جب کہ وہ گناہ والی بات ہو.پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت پس پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم اور حضرت داؤد عَلَيْهِمَا السَّلامُ تھیں یا خلافت ملوکیت کی خلافت تھی اور یا پھر خلافت حکومت تھیں جیسا کہ فرمایا.وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ قَوْمٍ نُوحٍ وَ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْطَةً : فَاذْكُرُوا الاء اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۵۰ یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اُس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولا د دی پس تم اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.اس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دُنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمت حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل وانصاف کو مد نظر رکھ کر تمام کام کرو ورنہ ہم تمہیں تباہ کر دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اس انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْما ذَكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ مُلُوعًا ، وَاتْكُمْ ما لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّن العلمين الله یعنی اس قوم کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا راةً جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء کے ماتحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ مُلُوعًا کے ماتحت انہیں خلافت ملوکیت دی.غرض پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں.یا تو وہ خلافت نبوت تھیں اور یا پھر خلافت ملوکیت.پس جب خدا نے یہ فرمایا ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس سے یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات اِن کو بھی ملیں گی اور انبیاء سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ اُمتِ محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.ہے.خلافت ملوکیت کو چھوڑ کر صرف خلافتِ نبوت اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافت ملوکیت کا کے ساتھ مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے بھی ذکر ہے.پھر خلافت ملوکیت کا ذکر چھوڑ کر صرف خلافت نبوت کے ساتھ اُس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ گو مسلمانوں سے دوسری آیات میں

Page 535

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وليُمَكّنَتَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ لَه خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہتا ہے.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ اُن کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافتِ نبوت ہی ہے نہ کہ خلافت ملوکیت اسی طرح فرماتا ہے- وليبة لتهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا - که خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دنیوی بادشا ہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہو سکتی.کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہو نگے.مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ اُن سے بھی کفر بواح صادر ہو جائے.پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد د نیوی بادشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفيسقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.اب بتاؤ کہ جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہو سکتا ہو آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہو سکتا ہے؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فستق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرما یا ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهِمْ کہ ہم ان خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء

Page 536

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد ہوگی.پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافت ملوکیت سے.خلافت کا وعدہ ایمان اور (۳) تیسری بات اس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ یہ وعدہ اُمت سے اُس وقت تک کیلئے ہے جب عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے تک کہ امت مؤمن اور عمل صالح کرنے والی ۵۲ ہو.جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کو واپس لے لے گا.گویا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتایا کہ نبوت تو اُس وقت آتی ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے.جیسے فرمایا.ظَهَرَ الْفَسَادُ في البر و البَحْرِ ٥٢ کہ جب بر اور بحر میں فساد واقعہ ہو جاتا ہے، لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ، الہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں ، ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریکی زمین کے چپہ چپہ کا احاطہ کر لیتی ہے، تو اُس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نو رایمان کو واپس لاتا اور اُن کو بچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے.گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے اور خلافت اُس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تمام لوگ ایمان اور عملِ صالح پر قائم ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خلافت اُسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہوتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عمل صالح قائم ہو چکا ہوتا ہے اور چونکہ اکثریت ابھی ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں خلافت کی نعمت دے دیتا ہے.اور درمیانی زمانہ جب کہ نہ تو دنیا نیکوکاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کامل ہوتی ہے کہ اُن سے کام لینے والا خلیفہ آئے.خلافت کا فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے پس اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے اور خلافت کا منا خلیفہ کے گنہگار

Page 537

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اُمت کے گنہگار ہونے کی دلیل ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ صریح وعدہ ہے کہ وہ اُس وقت تک خلیفہ بناتا چلا جائے گا جب تک جماعت میں کثرت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی رہے گی.جب اس میں فرق پڑ جائے گا اور کثرت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب چونکہ تم بد عمل ہو گئے ہو اس لئے میں بھی اپنی نعمت تم سے واپس لیتا ہوں.( گو خدا چاہے تو بطور احسان ایک عرصہ تک پھر بھی جماعت میں خلفاء بھجواتا رہے ) پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ خراب ہو گیا ہے وہ بالفاظ دیگر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک اُمت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی اُس میں خلفا ء آتے رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہو جائے گی تو خلفاء کا آنا بھی بند ہو جائے گا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی امکان نہیں ہاں اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم نہ ہو جائے.اور چونکہ خلیفہ نہیں بگڑ سکتا بلکہ جماعت ہی بگڑ سکتی ہے اس لئے جب کوئی شخص دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ بگڑ گیا تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ابھی جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثیر صحابہ نہم میں موجود ہیں ، جب کہ زمانہ ابھی دجالی فتن سے پر ہے، جب کہ اس درخت کی ابھی کو نیل ہی نکلی ہے جس نے تمام دنیا میں پھیلنا ہے تو شیطان اس جماعت پر حملہ آور ہوا.اُس نے اُس کے ایمان کی دولت کولوٹ لیا ، اعمالِ صالحہ کی قوت کو سلب کر لیا اور اس درخت کی کونپل کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل ڈالا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک بار آور درخت کی صورت میں تمام دنیا کو اپنے سایہ سے فائدہ پہنچائیگا کیونکہ بقول اُس کے خلیفہ خراب ہو گیا اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ بچے خلفا ء اُس وقت تک آتے رہیں گے جب تک جماعت کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے.پس خلافت کا انکار محض خلافت کا انکار نہیں بلکہ اس امر کا اظہار ہے کہ جماعت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہو چکی ہے.چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اُن کے دینی تمکین دین کا نشان احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا.چنانچہ فرماتا ہے وليمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى انتفى لَهُمْ که الله تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دے گا اور با وجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کر دے گا.یہ ایک زبر دست ثبوت خلافت حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفائے راشدین کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک

Page 538

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده بہت بڑا نشان نظر آتا ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں کوئی جتھا نہیں رکھتے تھے.لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں جتھے رکھتے تھے.چنانچہ بنو امیہ حضرت عثمان کے حق میں تھے اور بنو عباس حضرت علیؓ کے حق میں اور ان دونوں کو عرب میں بڑی قوت حاصل تھی.جب خلافت میں تنزل واقع ہوا اور مسلمانوں کی اکثریت میں سے ایمان اور عمل صالح جاتا رہا تو حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد بنو امیہ نے مسلمانوں پر تسلط جمالیا اور یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں حضرت علی کی تو مذمت کی جاتی رہی مگر حضرت عثمان کی خوبیاں بیان ہوتی رہیں.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے مداح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرنے والے اس دور میں بہت ہی کم تھے.اس کے بعد حالات میں پھر تغیر پیدا ہوا اور بنو امیہ کی جگہ بنو عباس نے قبضہ کر لیا اور یہ وہ لوگ تھے جو اہل بیت سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کا تمام زور حضرت علیؓ کی تعریف اور آپ کی خوبیاں بیان کرنے پر صرف ہونے لگ گیا اور کہا جانے لگا کہ عثمان بہت بُرا تھا.غرض بنو امیہ تو یہ کہتے رہے کہ علی بہت بُرا تھا اور بنو عباس یہ کہتے رہے کہ عثمان بہت بُرا تھا اور اس طرح کئی سو سال تک مسلمانوں کا ایک حصہ حضرت عثمان کے اوصاف شمار کرتا رہا اور ایک حصہ حضرت علیؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا مگر باوجود اس کے کہ خلفائے اربعہ کے بعد اسلامی حکومتوں کے یہ دو دور آئے اور دونوں ایسے تھے کہ ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے تعلق رکھنے والے لوگ کوئی نہ تھے پھر بھی دنیا میں جو عزت اور جو رتبہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے فتووں اور ارشادات کو حاصل ہے وہ ان دونوں کو حاصل نہیں.گو اِن سے اُتر کر انہیں بھی حاصل ہے اور یہ ثبوت ہے ويمكنن لهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارتضى لَهُمْ کا کہ خدا نے ان کے دین کو قائم کیا اور اُن کی عزت کولوگوں کے قلوب میں جاگزیں کیا.چنانچہ آج کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ اس کے دل میں خلفاء میں سے سب سے زیادہ کس کی عزت ہے تو وہ پہلے حضرت ابو بکر کا نام لے گا پھر حضرت عمر کا نام لے گا پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علیؓ کا نام لے گا حالانکہ کئی صدیاں ایسی گذری ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اور اتنے لمبے وقفہ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام دنیا سے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن خدا نے اُن کے نام کو قائم رکھا اور اُن کے فتووں اور ارشادات کو وہ مقام دیا جو حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فتووں اور ارشادات کو بھی حاصل

Page 539

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نہیں.پھر بنو امیہ کے زمانہ میں حضرت علی کو بدنام کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور بنو عباس کے زمانہ میں حضرت عثمان پر بڑا لعن طعن کیا گیا مگر باوجود اس کے کہ یہ کوششیں حکومتوں کی طرف سے صادر ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اُن کو بد نام کرنے اور اُن کے ناموں کو مٹانے کی بڑی کوشش کی پھر بھی یہ دونوں خلفاء دُھلے ڈھلائے نکل آئے اور خدا نے تمام عالم اسلامی میں ان کی عزت و توقیر کو قائم کر دیا.خوف کو امن سے بدلنے کی پیشگوئی (۵) پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وليبة لنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کہ وہ اُن کے خوف کے بعد اُن کے خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے.بعض لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ وہ ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کو چونکہ خلافت کے بعد خوف پیش آیا اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے حضرت ابو بکر کے سوا اور کسی کو خلیفہ راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی اس بات پر بڑا زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ اصل خلیفہ صرف حضرت ابو بکر تھے.حضرت عمر حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کی خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتی.سو یا د رکھنا چاہئے کہ یہ غلطی لوگوں کو صرف اس لئے لگی ہے کہ وہ قرآنی الفاظ پر غور نہیں کرتے.بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وليبدلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدَ الخَوْفِ آمَنَّا کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائے گا بلکہ فرمایا وَلَيُبَةٍ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خوفهم آمنا کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دُور کر دے گا اور اُس کی جگہ امن پیدا کر دے گا.پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی.اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کیلئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلت کی بات ہوتی ہے تو کیا اُس کے اس خیال کی وجہ

Page 540

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده سے ہم یہ مان لیں گے کہ نَعُوذُ بِاللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ذلت ہوئی.جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے، جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور جو شخص دنیوی مال و متاع کو نجاست کی مانند حقیر سمجھتا ہے اُس کے لئے فقر کا خوف بالکل بے معنی ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ولیبد لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدَ الْخَوْفِ أَمْنًا بلکہ فرمایا ہے وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہونگے.اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے امن سے بدل دیا.حضرت عمر کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے.مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر.پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے، وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ امن سے نہ بدلا گیا.بیشک اگر حضرت عمر شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے.اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے قبول کر لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہونگے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا.مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اُسے اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے.میں نے تو جب حضرت عمر کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس

Page 541

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اسے بھی شہید کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایسے سامان کر دیئے کہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اُٹھا اور اس نے خنجر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا.پھر حضرت عثمان کے ساتھ حضرت عثمان نے بھی کوئی خوف محسوس نہیں کیا جو واقعات پیش آئے اُن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جد اجدار کھتے تا کہ وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمان نماز پڑھانے کیلئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اُس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا.جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ کا اپنے مکان کے ارد گرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ.پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہ حج کیلئے آئے جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں وہاں آپ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے.آپ نے فرمایا کہ معاویہ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہوں.حضرت عثمان نے فرمایا میں اپنی حفاظت کیلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین ! لوگ آپ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ برسر جنگ ہو جائیں.حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس کی پروا

Page 542

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے.آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے.چنانچہ وہ اُن کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں اس سے شریروں کے ارادے پیست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جب کہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں.مگر حضرت عثمان نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں انہیں جلا وطن کر دوں.حضرت معاویہ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.آپ نے فرمایا معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرات کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا.اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کیلئے بھجوا دو.انہیں تنخواہیں میں دلا دوں گا اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہ لے گا.مگر آپ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے.پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر کا ایک بیٹا ( اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے) آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے اُس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا.میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا.یہ سنتے ہی اس کا سر سے لیکر پیر تک جسم کانپ گیا اور وہ شرمندہ ہوکر واپس لوٹ گیا.اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن پڑا ہوا تھا اُسے اپنے پاؤں کی ٹھو کر سے الگ پھینک دیا.وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آ گیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا.ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے اور

Page 543

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده جب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے تو من بعدِ خوفهم آمنا کے خلاف یہ واقعات کیونکر ہو گئے.یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے.سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا.یہی حال حضرت علیؓ کا ہے.اُن کے دل کا خوف بھی صرف حضرت علی کی شہادت صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا.سو اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا.یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہ کا لشکر بعض دفعہ حضرت علیؓ کے لشکر سے کئی کئی گنے زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے تھے اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا.اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء نَعُوذُ بِاللهِ ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے کیونکہ جتنی مخالفت لوگ ان کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے.بہر حال دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وليد لنَّهُمْ مِنْ بَعْدَ الخَوفِ آمَنَّا بلكه وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا فرمایا ہے یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور ان کے خوف کوامن سے بدل دے گا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ امت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے.سو امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا.اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو عام میں نے اس آیت کے جو معنی کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف خوف سے بھی محفوظ رکھتا ہے ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عام خوف ضرور ہوتا ہے بلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ اُن سے دور ہی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو.جیسے حضرت علیؓ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزد یک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام

Page 544

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں.اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ امت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے.سوخدا کے فضل سے امت محمد یہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے.اور اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد بھی اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں.زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تدبیروں سے کام لے لیا تھا مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کسی ظاہری تدبیر سے کام لے لیا ہوگا بلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اس سے گہرا تعلق تھا.رسول کریم ﷺ کا ایک کشف اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صل نے کشفی حالت میں ایک شخص کے علوم جو آپ کی وفات کے بعد پورا ہوا ہاتھوں میں شہنشاہ ایران کے سونے کے کڑے دیکھے.اب رسول کریم ﷺ کا معجزہ یہ نہیں کہ آپ نے اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مال غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہنے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس کشف کو پورا کرنے کیلئے اسے سونے کے کڑے پہنا ئیں چنانچہ الله آپ نے اسے پہنا دیئے.پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجود یکہ رسول کریم مالی سال نو و تم ہو چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کا جذ بہ پیدا کر دیا.پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی یہ بات حضرت عمر نے سن لی اور آپ کو اسے پورا کرنے کا موقع مل گیا.آخر حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بھول جاتا مگر اس معجزے کا ایک یہ بھی حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف پہنچ چکا تھا.پھر اسی معجزہ کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابی کو سونے کے کڑے پہنا ئیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے

Page 545

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مردوں کیلئے سونا پہننا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بے شک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کسی کو تھوڑی دیر کیلئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بُری بات نہیں ہو سکتی.چنانچہ انہوں نے اس صحابی کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے.۵۳ خلفائے راشدین کی وفات کے بعد اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین فوت ہو گئے تو اُن کی وفات کے سالہا بھی اُن کا خوف امن سے بدلتا رہا سال بعد خدا تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدلا.کبھی سو سال کے بعد بھی دوسو سال کے بعد، کبھی تین سو سال کے بعد، کبھی چارسو سال کے بعد اور کبھی پانچ سو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اُن کے ارادے رائیگاں جائیں.اگر اس ساری آیت کو قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنی لئے جائیں گے جن کو میں نے بیان کیا ہے.یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کفار کے اسلام پر غلبہ کا ہوسکتا تھا.فردی طور پر تو کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے یا کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ پہنچ جائے مگر قوم کا خوف تو قومی ہی ہوسکتا ہے اور وہ خوف بھی پھر یہی بن جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کفار غالب آجائیں سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلام کو ایساز بر دست غلبہ حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلفائے راشدین کا غیر مسلم بادشاہوں پر رعب ہر سنت یار کا پرڑ زمانہ میں جب مسلمانوں کے اندرونی جھگڑے اور مناقشات بہت بڑھ گئے تو ایک دفعہ روم کے بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے بہت اچھا ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور اُن کی طاقت اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے اس لئے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ بہت جلد شکست کھا جائیں گے.جب یہ افواہ اڑتے اڑتے حضرت معاویہ تک پہنچی تو انہوں نے اس بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ یاد رکھو اگر تم نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو علی کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے خلاف لڑنے کیلئے نکلے گا وہ میں ہونگا.جب یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے لڑائی کا ارادہ

Page 546

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده فوراً ترک کر دیا.یہ واقعہ بھی بتاتا ہے کہ خلفاء کا بہت بڑا رُعب تھا کیونکہ جب اسے معلوم ہوا کہ معاویہ بھی علی کے ماتحت ہو کر مجھ سے لڑنے کیلئے آ جائے گا تو وہ دم بخودرہ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ لڑائی کرنا میرے لئے مفید نہیں ہوگا.(۶) خلفاء کی چھٹی علامت بچے خلفاء توحید حقیقی کے علمبردار ہوتے ہیں اللہ تعالی نے یہ بتائی ہے کہ يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا وه خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.یعنی اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ غیر معمولی جرات اور دلیری پیدا کر دے گا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی اور کا خوف اُن کے دل میں پیدا نہیں ہوگا.وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں گے اور اُسی کی خوشنودی اور رضاء کیلئے تمام کام کریں گے.یہ معنی نہیں کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.بُت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے گجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.پس یہاں بت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خدا کے منشاء اور اُس کی رضاء کو پورا کرنے کیلئے کریں گے اور اس امر کی ذرا بھی پروا نہیں کریں گے کہ اس راہ میں اُنہیں کن بلاؤں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.دنیا میں بڑے سے بڑا دلیر آدمی بھی بعض دفعہ لوگوں کے ڈر سے ایسا پہلو اختیار کر لیتا ہے جس سے گو یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ سچائی کو چھوڑ دے مگر دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ میں ایسے رنگ میں کام کروں کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو.مولوی غلام علی صاحب ایک کثر وہابی ہوا کرتے تھے.وہابیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے لیکن حنفیوں کے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو.جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اور جہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر ہو.ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا نہ قاضی اس لئے وہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے.اِدھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوا دیکھتے تھے کہ جب تمہیں جمعہ کیلئے بلایا جائے تو فوراً تمام کام چھوڑتے ہوئے جمعہ کی نماز کیلئے چل پڑو اس لئے اُن کے دلوں کو اطمینان نہ تھا.ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی حنفی مولوی

Page 547

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده ہمارے خلاف فتویٰ نہ دے دے.اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گاؤں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور یہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والا مسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے اور اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی بچ گئے اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے احتیاطی رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر خدا نے ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اُس نے ظہر کو رڈ کر دیا تو ہم جمعہ اُس کے سامنے پیش کر دیں گے.اگر کوئی احتیاطی“ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا مولوی غلام علی صاحب کا ایک واقعہ کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا ہم نماز پڑھنے کیلئے ایک مسجد میں چلے گئے.آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا جلتا تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ہر انسان کی نجات کیلئے ضروری ہے.غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی.جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے تھے کہ میں نے اُن سے کہا مولوی صاحب یہ جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعتیں کیسی ہیں.وہ کہنے لگے یہ احتیاطی“ ہے.میں نے کہا مولوی صاحب آپ تو وہابی ہیں اور عقیدۃ اس کے مخالف ہیں پھر احتیاطی کے کیا معنی ہوئے.وہ کہنے لگے یہ احتیاطی ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہمارا جمعہ قبول ہوتا ہے یا ظہر بلکہ ان معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں.تو کئی لوگ اس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میں تو وہ اس بات پر خوش رہے کہ انہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور ادھر لوگوں کو خوش کرنے کیلئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی.ایک سنتی بزرگ کا لطفہ اسی طرح ایک لطیفہ مشہور اسی طرح ایک لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی سنی بزرگ تھے جو شیعوں کے علاقہ میں رہتے تھے.ایک دفعہ غربت کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر مدد کی درخواست کرنی چاہئے.چنانچہ وہ اُس کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی.وزیر نے اُن کی شکل کو دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص سنی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم

Page 548

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده ہوا.وہ کہنے لگا بس شکل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ کہنے لگا یہ کوئی دلیل نہیں ، تم میرے سامنے اس کا امتحان لو.چنانچہ وزیر نے اُن کے سامنے حضرت علیؓ کی بڑے زور سے تعریف شروع کر دی وہ بزرگ بھی حضرت علیؓ کی تعریف کرنے لگ گئے.بادشاہ نے دیکھ کر کہا کہ دیکھا تم جو کچھ کہتے تھے وہ غلط ثابت ہوا یا نہیں.اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو کیا حضرت علی کی ایسی ہی تعریف کرتا.وزیر کہنے لگا.بادشاہ سلامت آپ خواہ کچھ کہیں مجھے یہ سنی ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا امتحان کیلئے پھر کوئی اور بات کرو.چنانچہ وزیر کہنے لگا کہو " بر ہر سہ لعنت ، یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان پر ( نَعُوذُ بِالله ( لعنت.وہ بھی کہنے لگ گیا.'بر ہر سہ لعنت بادشاہ نے کہا اب تو یہ یقینی طور پر شیعہ ثابت ہو گیا ہے.وہ کہنے لگے بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے مگر میرا دل مطمئن نہیں.آخر وزیرا نہیں الگ لے گیا اور کہا سچ سچ بتاؤ تمہارا مذہب کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں ہوں تو سنی ہی.وہ کہنے لگا پھر تم نے ”بر ہر سہ لعنت کیوں کہا؟ وہ بزرگ کہنے لگے تمہاری اِن الفاظ سے تو یہ مراد تھی کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر لعنت ہو مگر میری مراد یہ تھی کہ آپ دونوں اور مجھ پر لعنت ہو.آپ لوگوں پر اس لئے کہ آپ بزرگوں پر لعنت کرتے ہیں اور مجھ پر اس لئے کہ مجھے اپنی بدبختی کی وجہ سے تم جیسے لوگوں کے پاس آنا پڑا.غرض انسان کئی طریق سے وقت گزار لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اُس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا.مگر فرمایا يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا خلفاء انتہائی طور پر دلیر ہونگے اور خوف و ہراس اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا.وہ جو کچھ کریں گے خدا کی رضا کیلئے کریں گے، کسی انسان سے ڈر کر اُن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوگا." فتنہ ارتداد کے مقابلہ میں یہ علامت بھی خلفاء راشدین میں تمام وکمال پائی جاتی ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ حضرت ابوبکر کی استقامت وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا.صرف دو جگہ نماز با جماعت ہوتی تھی باقی تمام مقامات میں فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سوائے مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُو ان کے مالوں سے صدقہ لے کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوۃ وصول کرے.غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کیلئے چل پڑا.رسول کریم صلی اللہ

Page 549

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر قبائل عرب متفرق طور پر حملہ کرتے تھے.کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے.جب غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اُس وقت تک اسلام بہت کچھ طاقت پکڑ چکا تھا گوا بھی اتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کیلئے کسی حملے کا ڈر ہی نہ رہتا.اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کیلئے گئے تو اُس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کیلئے کھڑے ہو گئے تھے.اس طرح خدا نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا زور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں.لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا صرف مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے.بعض جگہ تو اُن کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا.مگر ادھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جارہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا افسر مقر ر کیا تھا باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ یا تو کمزور اور بڑھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے.یہ حالات دیکھ کر صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا.چنانچہ اکا بر صحابہ کا ایک وفد جس میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی بھی شامل تھے اور جو اپنی شجاعت اور دلیری کے لحاظ سے مشہور تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کو روک لیا جائے.جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اُسے بھیج دیا جائے مگر اب اس کا بھیجنا خطرہ سے خالی نہیں ، مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں اور دشمن کا لشکر ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے.میں اس لشکر کو کسی صورت میں روک نہیں سکتا، اگر تمام عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے اور اگر مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تو بے شک نہ رہے، خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.۵۴ اگر تم دشمن

Page 550

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کرونگا.یہ يعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی صداقت کا کتنا بڑا ثبوت ہے.دوسرا سوال زکوۃ کا تھا.صحابہ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجئے کہ ان لوگوں سے عارضی صلح کر لیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوۃ نہیں لیں گے.اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائیگی.موجودہ صورت میں جب کہ وہ جوش سے بھرے ہوئے ہیں اور لڑنے مرنے کیلئے تیار ہیں ان سے زکوۃ وصول کرنا مناسب نہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.ایسا ہر گز نہیں ہوگا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے اور اب نہیں دیں گے تو میں اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک وہ رسی بھی اُن سے وصول نہ کرلوں.اس پر صحابہ نے کہا کہ اگر جیش اسامہ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا.مدینہ میں تو یہ بڈھے اور کمزور لوگ ہیں اور یا صرف چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.اے دوستو! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابو بکڑا کیلا ان کا مقابلہ کرنے کیلئے نکل کھڑا ہوگا.۵۵ یہ دعویٰ اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے.پھر یہ جرات یہ دلیری یہ یقین اور یہ وثوق اُس میں کہاں سے پیدا ہوا.اسی بات سے یہ یقین پیدا ہوا کہ حضرت ابو بکڑ نے سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کام کی ذمہ داری ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کیلئے نکل کھڑا ہوں کا میابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے.اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمرؓ کے بہادرانہ کارنامے خلیفہ ہوئے تو وہی عمر جو ابو بکر کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے حکیش اسامہ کو روک لیا جائے تاکہ وہ ہماری مدد کر سکے ، اُن میں بھی وہی تو کل آ جاتا ہے اور وہ ایک وقت میں ساری دنیا سے جنگ کرتے ہیں اور ذرا نہیں گھبراتے چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومی حکومت

Page 551

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده سے لڑائی ہوئی وہ حکومت بڑی زبر دست تھی اور اُس سے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے افغانستان انگریزی حکومت سے لڑائی شروع کر دے مگر با وجود اتنی زبر دست حکومت کے ساتھ جنگ جاری ہونے کے جب حضرت عمرؓ کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ کسری کی فوجوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے اور اُن کے بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھے اُن میں بغاوت اور سرکشی کے آثار ظا ہر ہورہے ہیں تو وہی عمر جوا بو بکر کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اگر ہم ایک ہی وقت میں ایک طرف جیش اسامہ کو رومیوں کے مقابلہ میں بھیج دیں گے اور دوسری طرف اندرونی باغیوں کا مقابلہ کریں گے تو یہ سخت غلطی ہو گی حکم دیتے ہیں کہ فوراً ایران پر حملہ کر دو.صحابہؓ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں دوز بر دست حکومتوں سے کس طرح مقابلہ ہوگا مگر آپ فرماتے ہیں کچھ پروا نہیں جاؤ اور مقابلہ کرو.مسلمان چونکہ اُس وقت رومی حکومت سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس لئے ایران پر مسلمانوں کا حملہ اس قدر دُور از قیاس تھا کہ ایران کے بادشاہ کو جب یہ خبریں پہنچیں کہ مسلمان فوجیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں تو اُس نے ان خبروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ لوگ خواہ مخواہ جھوٹی افواہیں اڑا رہے ہیں مسلمان بھلا ایسی حالت میں جب کہ وہ پہلے ہی ایک خطر ناک جنگ میں مبتلاء ہیں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی کر سکتے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ایرانیوں کی شکست کی بڑی وجہ یہی رہی کہ دارالخلافہ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فوج نہیں آتی تھی اور بادشاہ خیال کرتا تھا کہ لوگ جھوٹی خبریں اُڑا رہے ہیں مگر جب کثرت اور تواتر کے ساتھ اُسے اس قسم کی خبریں پہنچیں تو اُس نے اپنا ایک جرنیل بھیجا اور اُسے حکم دیا کہ میرے پاس صحیح حالات کی رپورٹ کرو.چنانچہ اس نے جب رپورٹ کی کہ مسلمان واقع میں حملہ کر رہے ہیں اور وہ بہت سے حصوں پر قابض بھی ہو چکے ہیں تب اس نے اُن کے مقابلہ کیلئے فوج بھیجی.اس سے تم اندازہ لگا لو کہ مسلمانوں کا اس لڑائی میں گود نا بظاہر کتنا خطر ناک تھا جب کہ اس کے ساتھ ہی وہ رومی لشکروں کا بھی مقابلہ کر رہے تھے مگر حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے مقام خلافت پر کھڑا کرنے کے بعد جو قوت بخشی اُس کے آگے اِن چیزوں کی کوئی حقیقت نہ تھی.ย حضرت ابو ہریرہ کا کسری کے رومال میں تھوکنا ہی وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو جب فتح حاصل ہوئی تو مال غنیمت میں کسری کا ایک رومال بھی آیا جو حضرت ابو ہریرہ کو ملا.ایک دن

Page 552

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده انہیں کھانسی اٹھی تو انہوں نے کسری شاہ ایران کا رومال نکال کر اس میں تھوک دیا اور پھر کہا بخ بخ ابوھریرہ.کہ واہ ، واہ ابو ہریرہ تیری بھی کیا شان ہے کہ تو آج کسری شاہ ایران کے رومال میں تھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض دفعہ مجھے اتنے فاقے ہوتے تھے کہ میں بھوک سے بیتاب ہوکر بیہوش ہو جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے میرے سر پر جوتیاں مارنی شروع کر دیتے تھے مگر آج یہ حالت ہے کہ میں شاہی رومال میں تھوک رہا ہوں.۵۶ تو يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی علامت خدا تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے ذریعہ نہایت واضح رنگ میں پوری فرمائی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے سوا کبھی کسی کا خوف اپنے دل میں نہیں آنے دیا.اسی طرح حضرت حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کا دلیرانہ مقابلہ عثمان جیسے باحیا اور رقیق القلب انسان نے اندرونی مخالفت کا مقابلہ جس یقین سے کیا وہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتا ہے.حالانکہ وہ عام طور پر کمزور سمجھے جاتے ہیں مگر جب ان کا اپنا زمانہ آیا تو انہوں نے ایسی بہادری اور جرات سے کام لیا کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے.یہی حال حضرت علی کا ہے کسی مخالفت یا خطرے کی انہوں نے پروانہیں کی حالانکہ اندرونی خطرے بھی تھے اور بیرونی بھی.مگر ان کے مد نظر صرف یہی امر رہا کہ خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہو اور ذرا بھی کسی سے خوف کھا کر اس منشاء الہی میں جو انہوں نے سمجھا تھا فرق نہیں آنے دیا.غرض تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں خود مقام خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ ان کی تائید اور نصرت کا ذمہ وار رہا.اب میں ان اعتراضات کو لیتا ہوں جو عام طور آیت استخلاف پر اعتراضات پر اس آیت پر کئے جاتے ہیں.پہلا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں اُمتِ مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اور اُمت کو خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد کو.پس اس سے مراد مسلمانوں کو غلبہ اور حکومت کا مل جانا ہے.دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں گكُمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ

Page 553

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کہا ہے اور پہلی قوموں کو خلافت نبوت یا ملوکیت کے ذریعہ سے ملی تھی.پس اسی حد تک تشبیہ تسلیم کی جاسکتی ہے.ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نبی ہوں گے اور پھر یہ کہ ملوک ہوں گے.مگر جس قسم کی خلافت تم کہتے ہو وہ نہ تو نبوت کے تحت آتی ہے اور نہ ملوکیت کے تحت آتی ہے.پھر اس کا وجود کہاں سے ثابت ہوا.تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس خلافت کو تسلیم بھی کر لیا جائے جو آنحضرت ﷺ کے بعد ہوئی تو چونکہ اس خلافت کے ساتھ حکومت بھی شامل تھی اس لئے وَجَعَلَكُمْ مُلُوعًا کے ماتحت وہ آ سکتی تھی لیکن اس خلافت کا ثبوت کہاں سے ملا جو جماعت احمدیہ میں قائم ہے.یہ خلافت نہ تو خلافت نبوت ہے اور نہ خلافت ملوکیت.چو تھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت سے اگر افراد مراد لئے جائیں جماعت نہ لی جائے تو پھر خلافت نبوت اور خلافت ملوکیت کا پتہ چلتا ہے اور معنی یہ بنتے ہیں کہ اس اُمت میں سے بعض افراد نبی ہوں گے اور بعض افراد ملوک ہوں گے.مگر جو خلافتِ نبوت پہلے جاری تھی اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے اب اس قسم کے نبی نہیں آسکتے اور ملوکیت کے متعلق بھی تم خود قائل ہو کہ خلفاء ملوک میں شامل نہ تھے.جیسا کہ احادیث میں آتا ہے عَن النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله الا الله تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَا جِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكَاً عَاضًا فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُوْنَ.۵ یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا.تم میں نبوت رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر خدا اس نعمت کو اٹھا لے گا اور تمہیں خلافت علی منہاج النبوت کی نعمت دے گا اور یہ خلافت تم میں اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا.پھر خدا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا اور جب تک چاہے گا تم میں ملوکیت کو قائم رکھے گا.پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء کے بادشاہ ہونے سے بھی انکار کیا ہے جیسا کہ فرمایا کہ پہلے خلافت ہوگی اور پھر ملوکیت تو معلوم ہوا کہ خلافت نبوت اور خلافت ملوکیت دونوں اُمت محمدیہ کے افراد کو نہیں مل سکتیں اور جب صورت یہ ہے تو اس آیت سے کسی فردی خلافت کا ثبوت نہ ملا بلکہ صرف قومی خلافت ہی مراد لی جاسکتی ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں.

Page 554

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اس سوال کا جواب کہ اس آیت میں اب میں ان تمام سوالات کے جواب دیتا ہوں.اُمتِ مسلمہ سے وعدہ ہے، نہ کہ بعض افراد سے پہلا سوال کہ اس آیت میں مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اس کے یہ جوابات ہیں.(۱) بے شک وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں کہ افراد کے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا نہ ہو.بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ سے پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا.اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں.مثلاً ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں.اب کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے.ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ بادشاہ بن سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپر د حکومت کا نظم و نسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولتمند ہے.انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دولتمند ہیں حالانکہ ان میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں.ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک دفعہ سنایا کہ جب وہ لنڈن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑکا دوڑ کر آیا اور اس نے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھا لیا.اسی طرح برنڈزی ۵۸ میں میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے سروں پر برتن رکھ کر پانی لینے جاتی تھیں اور ان کے بچوں نے جو پتلونیں پہنی ہوئی ہوتی تھیں ان کا کچھ حصہ کسی کپڑے کا ہوتا تھا اور کچھ حصہ کسی کپڑے کا مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بڑے دولتمند ہیں.غرض قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افرد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ لِقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ قُلُوعًا یعنی موسی نے اپنی قوم -

Page 555

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے وَجَعَلَكُمْ مُلوکا اور اس نے تم کو بادشادہ بنایا.اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے.یقیناً بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر موسی ان سے یہی فرماتے ہیں کہ وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا.مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہوگئی (غرض جب جَعَلَكُمْ قُلُوعًا کی موجودگی کے باوجود اس آیت کے یہ معنی نہیں کئے جاتے کہ ہر یہودی بادشاہ بنا تو وعد الله الّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم سے یہ کیونکر نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ یہ وعدہ بعض افراد کے ذریعہ پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امت کے ہر فرد کو خلافت کا انعام ملنا چاہئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہود کے متعلق جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جَعَلَكُمْ مُلُوعًا تو مفسرین نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ گو بادشاہت چندا فراد کو ہی ملی مگر چونکہ اُن کے ذریعہ قوم کا عام معیار بلند ہو گیا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کو بادشاہت ملی.مگر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وقدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعَمِلُوا الشلخت ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ في الأَرْضِ تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وعدہ سب قوم سے ہے ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ بعض افراد کے ذریعہ یہ وعدہ پورا ہوا حالانکہ اگر اس سے قومی غلبہ ہی مراد لے لیا جائے تو بھی ہر مومن کو یہ غلبہ کہاں حاصل ہوتا ہے.پھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض کو غلبہ ملتا ہے اور بعض کو نہیں ملتا.صحابہ میں سے بھی کئی ایسے تھے جو قومی غلبہ کے زمانہ میں بھی غریب ہی رہے اور ان کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ ہوئی ) حضرت ابو ہریرہ کا ہی لطیفہ ہے.جب حضرت علیؓ اور معاویہؓ کی آپس میں جنگ ہوئی اور صفین کے مقام پر دونوں لشکروں نے ڈیرے ڈال دیئے تو باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے کیمپوں میں ایک ایک میل کا فاصلہ تھا جب نماز کا وقت آتا تو حضرت ابو ہریرہ حضرت علی کے کیمپ میں آ جاتے اور جب کھانے کا وقت آتا تو حضرت معاویہ کے کیمپ میں چلے جاتے.کسی نے اُن سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُدھر حضرت علی کی مجلس میں چلے جاتے ہیں اور ادھر معاویہؓ کی مجلس میں شریک ہو جاتے ہیں.یہ کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے.نماز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے اور

Page 556

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کھانا معاویہؓ کے ہاں اچھا ملتا ہے.اس لئے جب نماز کا وقت ہوتا ہے میں اُدھر چلا جاتا ہوں اور جب روٹی کا وقت آتا ہے تو ادھر آ جاتا ہوں.معاویہ کے ہاں سے انہیں چونکہ کھانے کیلئے پلاؤ اور متنجن وغیرہ ملتا تھا اس لئے وہ اُس وقت اُدھر چلے جاتے مگر نماز چونکہ حضرت علی کی رقت اور سوز والی ہوتی تھی اس لئے نماز کے وقت وہ آپ کے ساتھ شریک ہو جاتے.ہمارے بعض غیر مبائع دوستوں کا بھی ایسا ہی ایک غیر مبائع دوست کا لطیفہ حال ہے بلکہ اُن کا لطیفہ تو ابو ہریرہ کے لطیفے سے بھی بڑھ کر ہے.میں ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتایا کہ وہ کہتے ہیں عقائد تو ہمارے ہی درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں.گویا جیسے ابو ہریرہ نے کہا تھا کہ روٹی معاویہ کے ہاں سے اچھی ملتی ہے اور نماز علی کے ہاں اچھی ہوتی ہے.اسی طرح اُس نے کہا عقا ئد تو ہمارے ٹھیک ہیں مگر دعائیں اِن کی قبول ہوتی ہیں.غرض قوم میں بادشاہت کے آجانے کے باوجود پھر بھی کئی لوگ غریب ہی رہتے ہیں مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ قوم بادشاہ ہے حالانکہ بادشاہ ایک ہی ہوتا ہے باقی سب بادشاہ نہیں ہوتے.اسی طرح یہود کے متعلق یہ کہا گیا کہ جَعَلَكُمْ تُلُوعًا.اگر یہی ضروری ہے کہ جب خدا یہ کہے کہ میں نے تم کو بادشاہ بنایا تو قوم کا ہر فرد بادشاہ بنے تو ثابت کرنا چاہئے کہ ہر یہودی کو خدا نے بادشاہ بنایا.مگر ایسا کوئی ثابت نہیں کر سکتا بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ تمام قوم بادشاہت کے فوائد سے حصہ پاتی ہے اس لئے ہم دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ قوم بادشاہ ہوگئی.اسی طرح جب کسی قوم میں سے بعض افراد کو خلافت مل جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اُس قوم کو وہ انعام ملا.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر فرد کو یہ انعام ملے.دوسری مثال اس کی یہ آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بما انزل اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُونَ بِمَاوراءة ٥٩ کہ جب یہود سے یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں نُؤْمِنُ بِما ان اہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے.اب یہ امرصاف ظاہر ہے کہ وحی اُن پر نہیں اتری تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی.مگر وہ کہتے ہیں ہم پر اتری گویا وہ حضرت موسیٰ یا دیگر انبیاء علیہم السلام کے کلام کے متعلق

Page 557

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اُنْزِلَ عَلَيْنَا کہتے ہیں حالانکہ وہ کلام اُن پر نہیں بلکہ اُن کے انبیاء پر اترا تھا.پس بعض افراد پر جو ایسا انعام نازل ہو جس سے ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ساری قوم کو ملا.مثلاً زید کے پاس روپیہ ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارا شہر دولتمند ہے لیکن اگر شہر میں ایک عالم بھی ایسا ہو جو درس و تدریس کے ذریعہ لوگوں کی علمی خدمت کر رہا ہو تو اس شہر کو عالموں کا شہر کہہ دیا جاتا ہے.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ قادیان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں.عالم بھی ہیں جاہل بھی ہیں ، دُکاندار بھی ہیں، مزدور بھی ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی ہیں، مگر ار در گرد کے دیہات میں قادیان کے جب بھی دو چار آدمی چلے جائیں.تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ قادیان کے مولوی‘ آ گئے چاہے وہ اینٹیں ڈھونے والے مزدور ہی کیوں نہ ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ قادیان میں ہر وقت علم کا چرچا رہتا ہے اور اس علمی چر چے کی وجہ سے قادیان کے ہر آدمی کو مولوی کہہ دیا جاتا ہے.جیسے باپ حکیم ہوتا ہے تو بیٹا خواہ طب کا ایک حرف بھی نہ جانتا ہوا سے لوگ حکیم کہنے لگ جاتے ہیں.تو جہاں شدید نسبت ہوتی ہے وہاں اس نسبت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اُس کی وجہ سے افراد بھی اس میں شریک سمجھے جاتے ہیں.جب کسی نبی پر خدا کا کلام نازل ہو تو وہ نبی جس قوم میں سے ہو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوا حالانکہ کلام نبی پر نازل ہوتا ہے.اسی طرح قوم میں سے کوئی بادشاہ ہو تو ساری قوم کو بادشاہ سمجھا جانے لگتا ہے.انگلستان میں کئی ایسے غریب لوگ ہیں جو دوسروں سے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہندوستان میں اگر وہاں کا ایک چوہڑا بھی آجائے تو اسے لوگ دور سے سلام کرنے لگ جاتے ہیں.پولیس والے بھی خیال رکھتے ہیں کہ ”صاحب بہادر“ کی کوئی ہتک نہ کر دے حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی اعزاز حاصل نہیں ہوتا مگر چونکہ قوم کے بعض افراد کو بادشاہت مل گئی اس لئے قوم کا ہر فرد معزز سمجھا جانے لگا.کچھ عرصہ ہوا ہندوستان کے ایک راجہ صاحب ولایت گئے.جب وہاں سے واپس آئے اور بمبئی میں پہنچے تو انہیں کوئی ضروری کام تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ بندرگاہ سے جلدی نکلنے کی اجازت مل جائے.پاسپورٹ دیکھنے پر ایک انگریز مقرر تھا.وہ جلدی سے پاسپورٹ لے کر آگے بڑھے اور کہا کہ میرا پاسپورٹ دیکھ لیجئے مجھے ایک ضروری کام ہے اور میں نے جلدی جانا ہے مگر اس نے کہا ٹھہرو میں باری باری دیکھوں گا.چنانچہ اس نے راجہ کی کوئی پرواہ نہ کی اور سب کے بعد اسے گزرنے کی اجازت دی.اس پر اخبارات میں بڑا شور اٹھا کہ راجہ صاحب کی ہتک

Page 558

انوار العلوم جلد ۱۵ ہوئی ہے مگر کسی نے اس انگریز کو پوچھا تک نہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا.خلافت راشده تو جس قوم کو غلبہ حاصل ہو اس کے غرباء کو بھی ایک رنگ کی عزت حاصل ہو جاتی ہے.امریکہ میں جب شراب کی بندش ہوئی تو اس وقت بعض غیر ممالک کے جہاز چوری چوری وہاں شراب پہنچاتے تھے.ایک دفعہ ایک انگریزی جہاز وہاں شراب لے گیا.اتفاقاً امریکہ والوں کو علم ہو گیا اور اُن کے جہازوں نے اس جہاز کا تعاقب کیا مگر اس دوران میں وہ ساحلِ امریکہ سے تین میل دور نکل آیا اگر اُس حد کے اندر جہاز گرفتار ہو جاتا تو اور بات تھی مگر اب چونکہ یہ جہاز امریکہ کی مقررہ حد سے باہر نکل آیا اس لئے بے فکر ہو کر چلنے لگ گیا.اس پر امریکہ کے جہازوں نے سگنل کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ٹھہر جاؤ اور اگر نہ ٹھہرے تو تم پر بمباری کی جائے گی اس پر انگریزی جہاز نے اپنا جھنڈا اونچا کر کے اس پر بجلی کی روشنی ڈال دی.مطلب یہ تھا کہ پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ جہاز کس قوم کا ہے اگر اس کے بعد بھی تم میں بمباری کی ہمت ہوئی تو بیشک کر لینا.امریکہ والوں نے جب دیکھا کہ اس جہاز پر انگریزی جھنڈا لہرا رہا ہے تو وہ اُسی وقت واپس چلے گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے اس کا مقابلہ کیا تو امریکہ اور انگلستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی.تو کوئی قوم جب غلبہ پالیتی ہے تو بعض باتوں میں اس کے ادنی افراد کو بھی عزت مل جاتی ہے.یہاں کے کئی ہندو دوستوں نے مجھے سنایا کہ جب وہ باہر جاتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ وہ قادیان سے آئے ہیں تو لوگ اُن کی بڑی خاطر تواضع کرتے ہیں محض اس لئے کہ اُن کا قادیان سے تعلق ہوتا ہے.عرب سے جب کوئی آدمی ہندوستان میں آئے تو ہمارے ہندوستانیوں کی عرب صاحب ، عرب صاحب کہتے زبانیں خشک ہو جاتی ہیں حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو.ہماری جماعت میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت رکھی ہوئی ہے، اس لئے بہت سے فوائد قوم کو پہنچ رہے ہیں.کہیں کسی احمدی کو ذرا بھی تکلیف ہو تو ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے.اسی طرح اگر لوگوں کو کسی امداد کی ضرورت ہو تو وہ قادیان میں پہنچ جاتے ہیں اور یہاں سے اُن کی اکثر ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.اگر خدانخواستہ ہمارے اندر بھی ویسا ہی تفرقہ ہوتا جیسا مسلمانوں کے اندر ہے تو نہ ہماری آواز میں کوئی طاقت ہوتی اور نہ مجموعی رنگ میں افراد جماعت کو وہ فوائد پہنچتے جواب پہنچ رہے ہیں.

Page 559

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده افغانستان میں جب افغانستان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنیکا اثر ہماری جماعت کے بعض آدمی شہید ہوئے تو ہم نے صدائے احتجاج بلند کی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی مؤثر ہوئی کہ چھ مہینے تک لنڈن کے گلی کوچوں میں اس کا چرچا رہا اور افغانی سفیر کیلئے شرم کے مارے باہر نکلنا مشکل ہو گیا.جب بھی وہ نکلتا لوگ اُسے طعنے دیتے اور کہتے کہ کیا تمہارے ملک میں یہ آزادی ہے حالانکہ افغانستان میں روزانہ کئی پٹھان مارے جاتے ہیں اور کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا.تو جماعتی نظام کی وجہ سے چونکہ افرادِ جماعت کو بہت کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں اس لئے جب قوم کے بعض افراد کو کوئی ایسا انعام ملتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ انعام اس قوم کو ملا کیونکہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو خلافت یا بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں.غرض چونکہ ملوکیت کے ذریعہ سے ساری قوم کی عزت ہوتی ہے اس وجہ سے جَعَلَكُمْ قُلُوكًا فرمایا.اور چونکہ خلافت سے سب قوم نے نفع اٹھا نا تھا اور اُٹھایا اس لئے خلافت کے بارہ میں بھی یہی کہا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا.خلافت ایک انتخابی چیز ہے جس دوسرا جواب یہ ہے کہ خلافت چونکہ انتخابی امر ہے اور انتخابی امر میں سب قوم کا دخل میں سب قوم کا دخل ہوتا ہے ہوتا ہے اس لئے انتخاب پر زور دینے کیلئے وحد الله الذینَ آمَنُوا مِنْكُمُ کہا گیا کہ چونکہ یہ وعدہ قوم سے ہے اس لئے ورثہ کے طور پر یہ عہدہ نہیں مل سکتا بلکہ وہی خلیفہ ہو گا جس پر قوم جمع ہو.اس طرح انتخاب کے مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہی شخص خلیفہ ہو سکتا ہے جس کی خلافت میں مؤمنوں کا ہاتھ ہو.بیشک یہ ایک الہی انعام ہے مگر یہ انعام ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ پہلے اپنے مؤمن بندوں کو دیتا ہے اور پھر ان کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنے میں سے قابل ترین انسان کو منتخب کر کے اسے دے دو.پس وہ مومنوں کے ذریعہ سے خلافت کا انتخاب کراتا ہے تا کہ خلافت ورثہ کے طور پر نہ چل پڑے.اور ہمیشہ اس غرض کے لئے قوم بہترین لوگوں کو منتخب کیا کرے.پس اللہ تعالیٰ نے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ میں اُمت مسلمہ سے اس لئے وعدہ کیا ہے تا یہ امر ان کے ذہن نشین ہو جائے کہ خلافت کا وعدہ قومی ہے اور قوم کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا خلیفہ بنا دے گا.

Page 560

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا؟ اگر کہا جائے کہ جب قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو نامزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے.فرق ہے تو صرف اتنا کہ اور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکر کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا.پھر آپ نے اسی پر بس نہیں کیا کہ چند صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد آپ نے حضرت عمر کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ با وجود سخت نقاہت اور کمزوری کے آپ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لئے عمر کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا.پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا.کیا حضرت معاویہؓ کا یزید کو خلیفہ اگر کہا جائے کہ پھر معاویہ گیا یزید کو مقر کرنا بھی انتخاب کہلائے گا کیونکہ انہوں مقرر کرنا بھی انتخاب کہلا سکتا ہے؟ نے بھی لوگوں کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا تھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ خود معاویہ کا انتخاب نہیں ہوا اور جب ان کی اپنی خلافت ہی ثابت نہیں تو ان کے بیٹے کی خلافت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے.ہم یزید کو معاویہ کا جانشین ماننے کیلئے تیار ہیں مگر ہم اسے خلیفہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلافت خود معاویہ کی بھی ثابت نہیں پھر ان کے بیٹے کی کس طرح ثابت ہو جائے.معاویہ ایک دُنیوی بادشاہ تھے اس لئے یزید کو بھی ہم ایک ڈ نیوی بادشاہ مان سکتے ہیں مگر خلیفہ تو نہ معاویہ تھے اور نہ یزید.پھر معاویہؓ نے جب یزید کے متعلق لوگوں سے مشورہ لیا تو اس وقت وہ لوگوں کے حاکم تھے.ایسی صورت میں جو انہوں نے مشورہ لیا وہ کوئی مشورہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ مشورہ میں آزادی ضروری ہے لیکن جہاں آزادی نہ ہو اور جہاں بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ رہا ہو کہ میرے بیٹے کی بیعت کر لو وہاں رعایا مشورہ دینے میں کہاں آزاد ہو سکتی ہے اور کب وہ اس کی بات کا انکار کر سکتی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے افغانستان کا بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ دے کہ اے لوگو! مجھے خلیفہ مان لو اور جب وہ مان لیں تو کہہ دے لوگوں نے مجھے حکومت کے لئے منتخب کیا ہے.یہ ہرگز

Page 561

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده انتخاب نہیں کہلا سکتا اور نہ اس قسم کا مشورہ مشورہ کہلا سکتا ہے.مشورہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب لوگ آزاد ہوں اور ہر ایک کو اجازت ہو کہ وہ بختی بالطبع ہو کر جس کا نام چاہے پیش کرے.پس اول تو معاویہ خود خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے.دوسرے انہوں نے بادشاہ ہونے کی حالت میں اپنے بیٹے کی خلافت کا لوگوں کے سامنے معاملہ پیش کیا اور یہ ہرگز کوئی مشورہ یا انتخاب نہیں کہلا سکتا.باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے تجویز پھر باپ کا بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حقیقی کرنا سنتِ صحابہ کے خلاف ہے انتخاب نہیں تھا کیونکہ باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا سنت صحابہ کے خلاف ہے.حضرت عمرؓ کی وفات کے قریب آپ کے پاس لوگوں کے کئی وفود گئے اور سب نے متفقہ طور پر کہا کہ آپ کے بعد خلافت کا سب سے زیادہ اہل آپ کا بیٹا عبداللہ ہے آپ اسے خلیفہ مقرر کر جائیں.مگر آپ نے فرما یا مسلمانوں کی گردنیں ایک لمبے عرصہ تک ہمارے خاندان کے آگے جھکی رہی ہیں.اب میں چاہتا ہوں کہ یہ نعمت کسی اور کو ملے." اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد لوگ آپ کے بیٹے عبداللہ کو خلافت کیلئے منتخب کرتے تو یہ اور بات ہوتی مگر یہ جائز نہیں تھا کہ حضرت عمر اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے خود نامزد کر جاتے.اسی طرح اگر معاویہ اپنی موجودگی میں یزید کا معاملہ لوگوں کے سامنے پیش نہ کرتے اور بعد میں قوم اسے منتخب کرتی تو ہم اسے انتخابی بادشاہ کہہ سکتے تھے مگر اب تو نہ ہم اسے خلیفہ کہہ سکتے ہیں اور نہ انتخابی بادشاہ.ہم معاویہ کو گنہ گار نہیں کہتے انہوں نے اس وقت کے حالات سے مجبور ہوکر ایسا کیا مگر یزید کو بھی بلکہ خود معاویہ کو بھی خلیفہ نہیں کہہ سکتے ، ایک بادشاہ کہہ سکتے ہیں.یزید کا معاملہ تو جب معاویہ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اس وقت تمام صحابہ اسے ایک تمسخر سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہ تھی.چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ معاویہ نے جب لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اے مسلمانو! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤساء میں سے ہے.پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا.اور میرے بعد میرے بیٹے سے زیادہ کون مستحق ہے تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی ایک کو نہ میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں جب میں نے معاویہ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پاؤں کے گرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بند کھولے اور میں نے ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر معاویہ سے یہ کہوں کہ اے معاویہ؟! اس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم لے کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر لڑتا رہا اور جو خود اسلامی ہے

Page 562

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده لشکروں میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں جنگوں میں شامل رہا ہے.مگر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ دنیا کی چیزیں میں نے کیا کرنی ہیں اس سے فتنہ اٹھے گا اور مسلمانوں کی طاقت اور زیادہ کمزور ہو جائے گی.چنانچہ میں پھر بیٹھ گیا اور میں نے معاویہ کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی.تو صحابہ معاویہؓ کی اس حرکت کو بالکل لغو سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں تھی.پھر یزید کی خلافت یزید کے ایک بیٹے کی تخت حکومت سے دستبرداری پر سے لوگوں پر دوسرے کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا متفق نہ تھا بلکہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی بادشاہت سے انکار کر کے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی.یہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے مگر میں نہیں جانتا مسلمان مؤرخین نے کیوں اس واقعہ کو زیادہ استعمال نہیں کیا.حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ اس واقعہ کو بار بار دُہراتے کیونکہ یہ یزید کے مظالم کا ایک عبرتناک ثبوت ہے.تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھوں پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہوا اور اس وقت سے لیکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے.میرا باپ حسین سے درجہ میں بہت کم تھا اور اس کا باپ حسن حسین کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا.علی اپنے وقت میں خلافت کا حقدار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں." اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کر لو.اس کی ماں اُس وقت پردہ کے پیچھے اس کی تقریرین رہی تھی جب اس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصہ سے کہنے لگی کہ کمبخت تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے وہ کہنے لگا جو سچی بات.

Page 563

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده تھی وہ میں نے کہہ دی ہے اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھوڑے ہی دن گزرنے کے بعد وفات پا گیا.یہ کتنی زبردست شہادت اس بات کی ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا.یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو.یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو بلکہ اس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علی کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسن حسین کا.اور میں اس بوجھ کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہوں.پس معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی انتخاب نہیں کہلا سکتا.آیت استخلاف کے متعلق حضرت مسیح تیسرا جواب احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح والسلام نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے ستر الخلافہ میں تحریر فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ قَدْ وَعَدَ فِي هَذِهِ الآيَاتِ لِلْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَتِ أَنَّهُ سَيَسْتَخْلِفَنَّ بَعْضَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُمْ فَضْلًا وَرَحْمَةً ١٢ اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے بعض کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ خلیفہ بنائے گا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں ساری قوم مراد نہیں بلکہ بعض افرادِ امت مراد ہیں تو کم از کم کوئی احمدی یہ معنی نہیں کر سکتا کہ یہاں ساری قوم مراد ہے.چوتھا جواب بھی احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح خلافتِ محمدیہ کا استنباط موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اس آیت سے اپنی خلافت محمدیہ کا استنباط کیا ہے اور اس وعدہ میں خلافتِ نبوت بھی شامل کی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت نبوت سے ساری قوم مراد نہیں ہو سکتی بلکہ بعض افراد ہی ہو سکتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں بادشاہت کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ فرمایا ہے کہ جَعَلَكُمْ مُّلُوعًا اس نے تم کو بادشاہ بنایا مگر جب نبوت کا ذکر کیا تو جَعَلَ فِيكُمُ انْبِيَاءَ فرمایا.یعنی اس نے تم میں انبیاء مبعوث فرمائے اور اس فرق کی وجہ یہی ہے کہ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے فلاں قوم کو بادشاہ بنایا مگر یہ

Page 564

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قوم کو نبی بنایا.پس اگر نبوت کا وعدہ ساری قوم کو مخاطب کرنے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے تو خلافت کا وعدہ بھی ساری قوم کو مخاطب کرنے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے.اور جس طرح وعدے کے ایک حصے کا ایفاء ہوا اسی طرح وعدہ کے دوسرے حصے کا ایفاء ممکن ہے.خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت پانچواں جواب اس کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل نے اس پر شہادت دے دی ہے کہ اس کی اس آیت سے کیا مراد ہے.خدا نے یہ کہا تھا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبلهم کہ وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے والوں کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا.پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس سے یہ مرا تھی کہ ہم جمہوریت قائم کر دیں گے تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا رسول کریم ﷺ کے بعد جمہوریت قائم ہوئی یا نہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ بعض افرادِ امت کو خلافت ملے گی اور ان کی وجہ سے تمام قوم برکات خلافت کی مستحق قرار پا جائے گی تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا اس رنگ میں مسلمانوں میں خلافت قائم ہوئی یا نہیں.بہر حال رسول کریم کے بعد جس طرح اس نے یہ وعدہ پورا کیا وہی اس آیت سے مراد ہوسکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عمدگی کے ساتھ اور کوئی پورا نہیں کر سکتا.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد امت کو ہی خلافت ملی سب کو خلافت نہیں ملی.پس یا تو یہ مانو کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد لوگ الّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا اللحت کے مصداق نہیں رہے تھے اور جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ اُمت میں صرف اڑہائی مؤمن تھے اسی طرح یہ تسلیم کر لو کہ نَعُوذُ بالله سب منافق ہی منافق رہ گئے تھے ، اس لئے خلافت قومی کا وعدہ ان سے پورا نہ ہوا اور اگر وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم تھے تو پھر اگر ان سے ہی صحیح رنگ میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو اور کس سے ہوسکتا ہے.بہر حال رسول کریم ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں جس رنگ میں خلافت قائم کی وہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اور خدا تعالیٰ کی یفعلی شہادت بتا رہی ہے کہ قوم سے اس وعدہ کو بعض افراد کے ذریعہ سے ہی پورا کیا جائے گا.

Page 565

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده خلفائے اربعہ کی پہلے خلفاء سے دوسرا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ بہت اچھا ہم نے مان لیا کہ اس آیت میں ہر رنگ میں مشابہت ضروری نہیں افراد کی خلافت کا ذکر ہے مگر تم خود تسلیم کرتے ہو کہ پہلوں میں خلافت یا نبوت کے ذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ.مگر خلفائے اربعہ کو تم نہ نبی مانتے ہو نہ ملوک.پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا اور وہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پہلوں کو خلافت یا تو نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں.مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے.مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے سے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح درست ہوئی جبکہ ان میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائے گی.ہر بات اور ہر حالت میں مشابہت نہیں دیکھی جائے گی.اس کی مثال قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً : شَاهِدًا عَلَيْكُمْ لَمَّا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رسول ۶۳ کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے.اسی طرح موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے مگر رسول کریم یه ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے.پھر موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف چند سو سال تک ممتد تھا اور آخر وہ ختم ہو گیا مگر رسول کریم ﷺ کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کیلئے ہے.یہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں اہم فرق ہیں مگر با وجودان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں حالانکہ نہ تو رسول کریم ﷺے فرعون کی طرح کے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے ، نہ آپ کسی ایک قوم کی طرف تھے بلکہ سب دنیا کی طرف تھے اور نہ آپ کی رسالت کسی زمانہ میں موسیٰ کی رسالت کی طرح ختم ہونے والی تھی.پس با وجود ان اہم

Page 566

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اختلافات کے اگر آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تو اگر پہلوں کی خلافت سے جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں کیا حرج ہے.درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رسول کریم ﷺ کی مشابہت صرف ان معنوں میں ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو اپنے زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے تمام مضامین پر حاوی اور کامل تھی اسی طرح رسول کریم اللہ کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو قیامت تک کی ضروریات کیلئے تمام مضامین پر حاوی اور کامل ہے گو تو رات سے وہ بہر حال کئی درجے افضل اور اعلیٰ ہے.پھر جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ ان کی وفات کے بعد اپنے انبیاء کے ذریعہ چلاتا رہا اسی طرح امت محمدیہ میں جب بھی کوئی خرابی پیدا ہوگی اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑا کرتار ہے گا جو ان خرابیوں کی اصلاح کریں گے.اسی طرح اس مشابہت کے ذریعے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد ایک مسیح آیا اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال بعد مسیح موعود آئے گا.یہ مقصد نہیں تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک خاص زمانہ اور ایک خاص قوم کیلئے تھے اسی طرح رسول کریم ﷺ کی رسالت بھی کسی خاص زمانہ یا خاص قوم کیلئے مخصوص ہوگی.پس اگر پہلوں کی خلافت سے خلفائے راشدین کی بعض باتوں میں مشابہت ہو تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی مشابہت ثابت ہو گئی.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر بات میں پہلوں سے ان کی مشابہت دیکھی جائے.اصل امر تو یہ ہے کہ جس طرح ان کی قوم کو ان کی وفات کے بعد سنبھالنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے بعض وجود کھڑے کئے اسی طرح بتایا گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ایسے وجود کھڑے کرے گا جو آپ کی اُمت کو سنبھال لیں گے اور یہ مقصد بہ نسبت پہلے خلفاء کے رسول کریم ﷺ کے خلفاء نے زیادہ پورا کیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے، اسی طرح اور انبیاء جب وفات پا جاتے تو ان کے کام کو جاری رکھنے کیلئے انبیاء ہی ان کے جانشین مقرر کئے جاتے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے انبیاء کے ذریعہ جو تمکین دین ہوئی وہ رسول کریم ﷺ کے خلفاء کے ذریعہ نہیں ہوئی.اگر بصیرت اور شعور کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اقرار کرنا پڑے گا کہ تمکین دین کے سلسلہ میں یوشع اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب وہ کام نہیں کر سکے جو ابو بکڑا اور عمر اور عثمان اور علی نے کیا.نادان انسان کہے گا کہ تم نے نبیوں کی ہتک کی مگر اس میں بہتک کی کوئی

Page 567

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده بات نہیں.جب نبوت کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ ابو بکر نبی نہیں ، عمر نبی نہیں ، عثمان نبی نہیں ، علی نبی نہیں مگر جب تمکین دین کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ اس حصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع خلفاء یقیناً پہلے انبیاء سے بڑھ کر ہیں.اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء چونکہ کامل شریعت لے کر نہ آئے تھے اس لئے اُن کے بعد یا نبی مبعوث ہوئے یا ملوک پیدا ہوئے.چنانچہ جب اصلاح خلق کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی تو نبی کھڑا کر دیا جاتا مگر اُسے نبوت کا مقام براہِ راست حاصل ہوتا اور جب نظام میں خلل واقع ہوتا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا اور چونکہ لوگوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ جد و جہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیا ء کو اللہ تعالٰی براہِ راست مقام نبوت عطا فرما تا بلکہ ملوک بھی خدا کی طرف سے ہی مقرر کئے جاتے تھے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ ان الله قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتٌ مَلِكًا ۲۴ طالوت کو تمہارے لئے خدا نے بادشاہ بنا کر بھیجا ہے.گویا ابھی لوگ اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ خود اپنے بادشاہ کا بھی انتخاب کر سکیں اور نہ شریعت اتنی کامل تھی کہ اُس کے فیضان کی وجہ سے کسی کو مقام نبوت حاصل ہوسکتا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک کامل تعلیم لے کر آئے تھے اس لئے دونوں قسم کے خلفاء میں فرق ہو گیا.پہلے انبیاء کے خلیفے تو نبی ہی ہوتے تھے گو انہیں نبوت مستقل اور براہ راست حاصل ہوتی تھی اور اگر انتظامی امور چلانے کیلئے ملوک مقرر ہوتے تو وہ انتخابی نہ ہوتے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر ملوکیت کو حاصل کرتے یا نبی انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ما تحت بطور بادشاہ مقرر کر دیتے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم چونکہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی تھی اس لئے آپ کے بعد خلفاء انبیاء کی ضرورت نہ رہی اس کے ساتھ ہی ملوکیت کی ادنی صورت کو اُڑا دیا گیا اور اُس کی ایک کامل صورت آپ کو دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ اسلامی خلافت کے ذریعہ سے جس طرح قوم کے ساتھ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ اُس میں انتخاب کا عنصر رکھا گیا ہے اور قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے وہ پہلے بادشاہوں کی صورت میں نہ تھا اور زیادہ کامل صورت کا پیدا ہو جانا وعدہ کے خلاف نہیں ہوتا.جیسے اگر کسی کے ساتھ پانچ روپے کا وعدہ کیا جائے اور اُسے دس روپے دے دیئے جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہوئی.پس اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلوں سے افضل تھے آپ کی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی.

Page 568

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانْبِيَاءِ بنى اِسْرَائِيلَ دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مُراد روحانی خلفاء ہی ہیں عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاء بني إِسْرَائِيلَ ۶۵ یعنی میری اُمت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ امت محمدیہ کا جو بھی عالم ہے وہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہے کیونکہ علماء کہلانے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دینی اور اخلاقی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے.میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ نانا جان مرحوم کے ساتھ بعض چیزیں خریدنے کیلئے میں امرتسر گیا.رام باغ میں میں نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب ہاتھ میں عصا اور تسبیح لئے اور ایک لمبا سا جبہ پہنے جا رہے ہیں اور اُن کے پیچھے پیچھے ایک غریب شخص اُن کی منتیں کرتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں، مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں.مولوی صاحب تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس کی طرف مڑ کر دیکھتے اور کہتے جا خبیث دُور ہو.آخر وہ بیچارہ تھک کر الگ ہو گیا.میں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا بات تھی.وہ کہنے لگا میں نے اپنی شادی کیلئے بڑی مشکلوں سے سو دو سو روپیہ جمع کیا تھا اور اس شخص کو مولوی اور دیندار سمجھ کر اس کے پاس امانتاً رکھ دیا تھا مگر اب میں روپیہ مانگتا ہوں تو یہ دیتا نہیں اور کہتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہی نہیں کہ تو کون ہے اور تو نے کب میرے پاس روپیہ رکھا تھا.اب بتاؤ ایسے علما ء كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ان جنگ اسلام علماء کے متعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان علماء سے مراد دراصل خلفاء ہیں جو علماء رُوحانی ہوتے ہیں اور اس ارشاد نبوی سے اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیا گیا تھا وہی کام میری اُمت میں اللہ تعالیٰ بعض علما ءور بانی یعنی خلفائے راشدین سے لے گا.چنانچہ موسیٰ کے بعد جو کام یوشع سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ ابو بکر سے لے گا اور جو کام داؤد سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عمر سے لے گا اور جو کام بعض اور انبیاء مثلاً سلیمان وغیرہ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عثمان اور علی سے لے گا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ مقام بخشا ہے کہ میری اُمت کے خلفاء وہی کام کریں گے جو انبیاء سابقین نے کیا.پس اس جگہ علماء سے مرا درشوتیں کھانے والے علماء نہیں بلکہ ابو بکر عالم ، عمر عالم ، عثمان عالم اور علی عالم مراد ہیں.چنانچہ جب ادنی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ

Page 569

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نے ان لوگوں کو پیدا کر دیا اور پھر زیادہ روشن صورت میں جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے پورا کر دیا.گوفرق یہ ہے کہ پہلے انبیاء براہ راست مقام نبوت حاصل کرتے تھے مگر آپ کو نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی.خلافت احمدیہ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں كما استَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْرِهِمْ آیا ہے.چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت تھے کیونکہ اُن کے پاس نظام ملکی تھا لیکن اس آیت سے وہ خلافت جو احمد یہ جماعت میں ہے کیونکر ثابت ہوگئی کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نظام ملکی نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ یہ کیا ہے کہ وہ امنوا اور وعملوا الصلحت کی مصداق جماعت کو خلیفہ بنائے گا اور خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے.پس وعدہ کی ادنی حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اُس کے نائب ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہوا گر اسی رنگ میں اس کا نائب بھی ہو جائے تو وعدہ کی ادنی حد پوری ہو جاتی ہے اور نکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ملکی نظام نہ تھا اس لئے آپ کی امر نبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کر دیتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کوملکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہوسکتا تھا کہ آپ کے بعد کے خلفاء نے نیابت کس طرح کی مگر نظام ملکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہو اُسے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہوگی اور جو اُس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اُس کے خلیفہ کوکس طرح مل جائے گی.حضرت خلیفہ اول کے متعلق یہ بات بہت مشہور تھی اور آپ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی روپیہ کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے روپیہ بھجوا دیتا ہے.ایک دفعہ کسی نے آپ کے پاس بیس روپے بطور امانت رکھے جو کسی ضرورت پر آپ نے خرچ کر لئے چند دنوں کے بعد وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ میری امانت مجھے دے دیجئے.اُس وقت آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا مگر آپ نے اُسے فرمایا ذرا ٹھہر جائیں ابھی دیتا ہوں.دس پندرہ منٹ ہی گزرے

Page 570

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہو نگے کہ باہر سے ایک مریض آیا اور اس نے فیس کے طور پر آپ کے سامنے کچھ روپے رکھ دیئے.حافظ روشن علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے انہیں حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ یہ روپے گن کر اس شخص کو دے دیں.انہوں نے روپے گن کر دے دیئے اور رسید لے کر پھاڑ دی.بعد میں ہم نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا کہ کتنے روپے تھے انہوں نے بتایا کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا بس اتنے ہی روپے تھے.تو اللہ تعالی عجیب در عجیب رنگ میں آپ کی مدد فرمایا کرتا تھا اور بسا اوقات نشان کے طور پر آپ پر مال و دولت کے عطا یا ہو جایا کرتے تھے.ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ سب دُعا کی برکات ہیں مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کو کیمیا کا نسخہ آتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول جب وفات پاگئے تو دہلی کے ایک حکیم صاحب میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ میں آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں موقع دے دیا.وہ پہلے تو مذہبی رنگ میں باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے آپ کے والد صاحب کو خدا تعالیٰ نے بڑا درجہ بخشا ہے وہ خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور جسے خدا تعالیٰ نے مامور بنا دیا ہو اس کا بیٹا بھلا کہاں بخیل ہوسکتا ہے مجھے آپ سے ایک کام ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں میری مدد کریں اور بخل سے کام نہ لیں.میں نے کہا فرمائیے کیا کام ہے.وہ کہنے لگے مجھے کیمیا گری کا بڑا شوق ہے اور میں نے اپنی تمام عمر اس میں برباد کر دی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا اب چونکہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے ہیں اس لئے وہ آپ کو ضرور کیمیا کا نسخہ بتا گئے ہونگے.پس مہربانی کر کے وہ نسخہ مجھے بتا دیجیئے.میں نے کہا مجھے تو کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں بتا گئے.وہ کہنے لگے یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ ہوں اور وہ آپ کو کیمیا کا نسخہ بھی نہ بتا گئے ہوں.غرض میں انہیں جتنا یقین دلاؤں کہ مجھے کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں ملا اتنا ہی ان کے دل میں میرے بخل کے متعلق یقین بڑھتا چلا جائے میں انہیں بار بار کہوں کہ مجھے ایسے کسی نسخہ کا علم نہیں اور وہ پھر میری خوشامد کرنے لگ جائیں اور نہایت لجاجت سے کہیں کہ میری ساری عمر اس نسخہ کی تلاش میں گزرگئی ہے آپ تو بخل سے کام نہ لیں اور یہ نسخہ مجھے بتا دیں.آخر جب میں اُن کے اصرار سے بہت ہی تنگ آ گیا تو میرے دل میں خدا تعالیٰ نے ایک نکتہ ڈال دیا اور میں نے اُن سے کہا کہ گومیں مولوی صاحب کی جگہ خلیفہ بنا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے مکان مجھے نہیں ملے.وہ کہنے لگے مکان کس کو ملے ہیں.میں نے کہا اُن کے بیٹوں کو.پھر میں نے کہا اُن کا ایک بڑا بھاری کتب خانہ تھا مگر وہ بھی مجھے نہیں ملا.

Page 571

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده پس جب کہ مجھے نہ اُن کے مکان ملے اور نہ اُن کا کتب خانہ ملا ہے تو وہ مجھے کیمیا کا نسخہ کس طرح بتا سکتے تھے.اگر انہوں نے یہ نسخہ کسی کو بتایا ہوگا تو اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا.آپ اُن کے پاس جائیں اور کہیں کہ وہ نسخہ آپ کو بتا دیں.چنانچہ وہ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے.عبدالحی مرحوم ان دنوں زندہ تھے وہ جاتے ہی اُن سے کہنے لگے کہ لائیے نسخہ.انہوں نے کہا نسخہ کیسا.کہنے لگے وہی کیمیا کا نسخہ جو آپ کے والد صاحب جانتے تھے.اب وہ حیران کہ میں اسے کیا کہوں.آخر انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کسی نسخے کا علم نہیں.اس پر وہ ناکام ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے باپ والا جل بیٹے میں بھی موجود ہے.میں نے کہا.یہ آپ جانیں کہ وہ بخیل ہیں یا نہیں مگر میں اُن کے جس حصے کا خلیفہ ہوں وہی مجھے ملا ہے اور کچھ نہیں ملا.غرض جس رنگ کا کوئی شخص ہو اُسی رنگ کا اُس کا جانشین ہوتا ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ملکی نظام نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کے خلفاء کے پاس کوئی نظام ملکی کیوں نہیں؟ آیت استخلاف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خلافت نظامی کی نبوت اور خلافت دونوں شامل ہیں ہی کے بارہ میں یہ نہیں آیا کہ كما استخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ بلکہ اس آیت میں جس قدر وعدے ہیں سب کے ساتھ ہی یہ الفاظ لگتے ہیں.مگر غیر مبائعین میں سے بھی جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں جیسے شیخ مصری وغیرہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت کلی طور پر پہلے نبیوں کی قسم کی نبوت نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ اُمتی نبی ہیں.پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں کی نبوت سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ من قبراهيم اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آ سکتا.اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو ماننا پڑیگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی کیونکہ اگر ہماری خلافت ابوبکر اور عمر کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو

Page 572

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے.پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نبوت کو باوجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلی نبوتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے اسی طرح یہ خلافت با وجود پہلی خلافتوں سے ایک اختلاف رکھنے کے اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.حضرت مسیح ناصری کے خلفاء بھی تیرا جواب یہ ہے کہ مسیح ناصری کے بعد کے خلفاء بھی نظام ملکی سے کوئی تعلق نہ نظام مملکی سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے رکھتے تھے.اگر کوئی کہے کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہوا ہی نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نُبُوَّةً قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ " کہ دنیا میں کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے پیچھے اسی قسم کی خلافت قائم نہ ہوئی ہو.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت ملی تھی تو آپ کے بعد ویسی ہی خلافت کے قیام کو مانا ہمارے لئے ضروری ہے بصورت دیگر معترضین کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی نہیں تھے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کو نبوت کے بعد لازمی قرار دیا ہے.دوسرے مسیحی لوگ پطرس کو خلیفہ مانتے چلے آئے ہیں.پس جب کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ کے بعد ضرور خلافت ہوئی اور مسیحی خود اقرار کرتے ہیں کہ پطرس حضرت مسیح ناصرٹی کا خلیفہ تھا تو پھر یہ تیسرا گروہ کہاں سے پیدا ہو گیا جو کہتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہی نہیں ہوا جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا تھا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب انہوں نے بھی فرما دیا کہ ہر نبی کے بعد خلافت قائم ہوئی ہے اور جب عیسائی جن کے گھر کا یہ معاملہ ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کے بعد خلافت قائم ہوئی اور جب کہ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے تو پھر اس سے انکار کرنا محض ضد ہے.اگر کہا جائے کہ بعض مسیحی انہیں خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مسلمان بھی خلفاء اربعہ کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے ، بعض کے رڈ کر دینے سے مسئلہ تو رد نہیں ہو جاتا.

Page 573

انوار العلوم جلد ۱۵ 66 خلافت راشده تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیۃ میں مسیحیوں کے بارہ میں ایسا انتظام تسلیم کیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.وو ’ جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا...ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.1 گویا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد خلافت قائم نہیں ہوئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس صریح ارشاد کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور ایک ایسی بات پیش کرتا ہے جس کی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے تائید ہوتی ہے نہ تاریخ سے تائید ہوتی ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تائید کرتے ہیں.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس مخالفین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب آیت سے افراد مراد لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وعدہ دو قسم کے وجودوں کے متعلق ہے.ایک نبیوں کے متعلق اور ایک بادشاہوں کے متعلق.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس قسم کے نبی آیا کرتے تھے اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور بادشاہت کو آپ نے پسند نہیں فرمایا بلکہ صاف فرما دیا کہ میرے بعد کے خلفاء بادشاہ نہ ہونگے تو پھر کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس آیت میں وعدہ

Page 574

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده قوم سے ہی ہے افراد سے نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی قسم کی نبوت بھی ختم ہوگئی اور پہلی قسم کی ملوکیت بھی ختم ہوگئی لیکن کسی خاص قسم کے ختم ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کا قائم مقام جو اس سے اعلیٰ ہو وہ نہیں آسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سب انبیاء سے نرالے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد کا نظام بھی سب نظاموں سے نرالا ہو.اس کا نرالا ہونا اُسے مشابہت سے نکال نہیں دیتا بلکہ اس کے حسن اور خوبصورتی کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے.چنانچہ آپ چونکہ کامل نبی تھے اور دنیا میں کامل شریعت لائے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے نبی ہوتے جو آپ سے فیضان حاصل کر کے مقامِ نبوت حاصل کرتے اسی طرح آپ کا نظام چونکہ تمام نظاموں سے زیادہ کامل تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے خلفاء ہوتے جو پبلک طور پر منتخب ہوتے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی اور ملوکیت بھی ایک نئے رنگ میں ڈھال دی اور پہلی قسم کی نبوت اور پہلی قسم کی ملوکیت کو ختم کر دیا.پہلے انبیاء کی خلافت خواہ خلافت نبوت یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت نبوت پہلے نبی کی تائید کیلئے آتی ہے ہو یا خلافت ملوکیت.ناقص تھی اور خلافت ملوکیت مؤمنین کے حقوق کی حفاظت اور اُن کی قوتوں کے نشو ونما کیلئے آتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کو جو خلفاء انبیاء ملے تو اُن کی خلافت ناقص تھی کیونکہ گو وہ ان کے کام کو چلاتے تھے مگر نبوت براہِ راست پاتے تھے.پس اُن کی خلافت کامل خلافت نہ ہوتی تھی اور اگر ان کی اقوام کو خلفاء ملوکی ملے تو اُن کی خلافت بھی ناقص خلافت ہوتی تھی کیونکہ وہ اختیارات براہِ راست ورثہ سے پاتے تھے.اور اس کے نتیجہ میں اُن کی قوم کے قومی پورے طور پر نشو و نما نہ پاتے تھے کیونکہ اُن کے مقرر کرنے میں اُمت کا دخل نہ ہوتا تھا اُسی طرح جس طرح نبیوں کا اپنے تابع نبیوں کی نبوت میں دخل نہ ہوتا تھا.چنانچہ جہاں بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا ورثہ کے طور پر تخت حکومت سنبھالتے چلے جاتے ہیں وہاں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پبلک کے علمی معیار کو بلند کیا جائے اور اُس کے ذہنی قومی کو ایسا نشو ونماد یا جائے کہ وہ صحیح رنگ میں حکام کا انتخاب کر سکے لیکن جہاں حکام کا انتخاب پبلک کے ہاتھ میں ہو وہاں حکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ ہر فرد کو عالم بنائے ، ہر فرد کو سیاست دان بنائے اور ہر فرد کو ملکی حالات سے باخبر

Page 575

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده رکھے تا کہ انتخاب کے وقت اُن سے کوئی بیوقوفی سرزد نہ ہو جائے.پس اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے لوگوں کے علمی نشو ونما کو مد نظر رکھتے ہوئے حکام کے انتخاب کا حکم دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کی خلافت خواہ وہ خلافت نبوت ہو یا خلافت ملوکیت ناقص تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ صحیح معنوں میں کامل نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آیا یا آئیں گے وہ آپ کے تابع ہی نہ ہونگے بلکہ آپ کے فیض سے نبوت پانے والے ہونگے.اسی طرح چونکہ آپ کی قوم صحیح معنوں میں کامل اُمت تھی جیسا کہ فرمایا.كُنْتُمْ خَيْرٌ أُمَّةٍ أخرجت للناس ٨ اس لئے ضروری تھا کہ اُن کے کام کو چلانے والے بھی اُسی رنگ میں آئیں جس طرح اس اُمت میں نبی آنے تھے یعنی اُن کے انتخاب میں قوم کو دخل ہو.پس اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ ملو کی خلیفہ نہ ہوں جن کے انتخاب میں قوم کو دخل نہ ہوتا تھا بلکہ انتخابی خلیفہ ہوں تا کہ اُمتِ محمدیہ کی پوری ترجمانی کرنے والے ہوں اور اُمت کی قوت کا صحیح نشو ونما ہو.چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ہر خلیفہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ علم اور سمجھ کا مادہ پیدا کرے تاکہ وہ اگلے انتخاب میں کوئی غلطی نہ کر جائیں.پس یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء ہیں اور آپ کی اُمت خیر الامم ہے.جس طرح سید الانبیاء کے تابع نبی آپ کے فیضان سے نبوت پاتے ہیں اسی طرح خَيْرُ الْاُمَم کے خلفاء قوم کی آواز سے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں.پس یہ نظام اسلام کی برتری اور نبی اسلام اور امت اسلامیہ کے علو مرتبت کی وجہ سے ہے اور اس سے خلافتِ فردی کو مٹایا نہیں گیا بلکہ خلافت شخصی کو زیادہ بہتر اور مکمل صورت میں پیش کیا گیا ہے.ان اصولی سوالوں کے بعد میں ایک دو ضمنی اعتراضوں کو لے لیتا ہوں.کیا خلافت موعودہ محض اُس خلیفہ کے (۱) ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت موعودہ جس کا اس آیت میں متعلق ہے جو نبی کے معاً بعد آتا ہے؟ ذکر ہے محض اُس خلیفہ کے متعلق ہے الله ہے جو نبی کے معابعد آتا ہے نہ کہ خلفاء کے ایک لمبے سلسلہ کے متعلق.اس کا جواب یہ ہے.(۱) رسول کریم ﷺ نے خود چاروں خلافتوں کو خلافتِ راشدہ قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں.عَنْ سَفِيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْخِلَافَةُ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلكا - 19 یعنی حضرت سفینہ کہتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ کو

Page 576

انوار العلوم جلد ۱۵ صلى الله خلافت راشده یہ فرماتے سنا کہ میرے بعد خلافت صرف تمہیں سال ہو گی اس کے بعد ملوکیت قائم ہو جائے گی.اور چاروں خلفاء کی مدت صرف تمھیں سال ہی بنتی ہے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کو چاروں خلفاء تک لمبا کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ اسے پہلے خلیفہ تک محدود کر دے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کو ”سر الخلافہ“ میں بیان فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں.آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے رڈ میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم علیہ کے اصل جانشین حضرت علی تھے آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آیت وحد الله الذینَ آمَنُوا مِنْكُمْ میں ہے اور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بدرجہ کمال حضرت ابو بکر میں پائی جاتی ہیں.پس آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابو بکر کی خلافت حضرت علی کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علی خلیفہ نہ تھے.آپ نے اپنی کتب میں چار خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اسے اور حضرت علی کی خلافت کا بھی ذکر فرمایا ہے کے اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے شیعوں کے رڈ میں ایک لیکچر دیا تھا جس میں انہوں نے اسی آیت سے حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کو خلیفہ ثابت کیا ہے اور حضرت علیؓ کی خلافت کو بھی مختلف مقامات میں تسلیم کیا ہے.آپ نے بعد میں اس لیکچر کو بعض زوائد کے ساتھ کتابی صورت میں خلافتِ راشدہ کے نام سے چھپوا دیا تھا.اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنا اور بار بار پڑھوایا اور اس کے کچھ حصہ کا ترجمہ اپنی کتاب حجتہ اللہ میں بھی کر دیا اور مختلف مقامات پر میرا یہ مضمون دوستوں کو اپنی طرف سے بطور تحفہ بھجوایا.پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس عقیدہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے متفق تھے جس کا انہوں نے ” خلافتِ راشدہ میں اظہار کیا ہے.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ پہلے خلیفہ کی خلافت ثابت ہو جائے تو دوسروں کی خود بخود ثابت ہو جاتی ہے.جیسے حضرت ابو بکر پہلے خلیفہ ہوئے اور پھر حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کا انتخاب کیا اور مسلمانوں سے مشورہ کر کے انھیں خلیفہ مقرر کیا.اسی طرح اس زمانہ میں حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ تو میرا نام لے کر وصیت کی اور دوسری دفعہ بغیر نام کے وصیت کی

Page 577

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده مگر بہر حال خلافت کے وجود کو آپ نے قائم کیا.آپ کی وصیت کے الفاظ یہ ہیں:.خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے لا اله إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله میرا جانشین متقی ہو، ہر دلعزیز عالم باعمل.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی و درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام نورالدین ۴ / مارچ ۷۴ اسی طرح آپ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور میرے بعد جو ہو گا اسے بھی خدا ہی خلیفہ مقرر کرے گا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.خلافت کیسری کی دُکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.‘۵۰ کے پس اگر پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت خلیفہ تھے تو ان کے فیصلے اسی کی تائید میں ہیں کہ ان کے بعد بھی خلافت رہے گی اور اسی رنگ میں ہوگی جس رنگ میں ان کی اپنی خلافت تھی اور ان کے فیصلے اس بارہ میں حجت ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لَهُمْ - تیسرا جواب یہ ہے کہ جب موجبات موجود ہوں تو پھر ان کا طبعی نتیجہ کیوں نہ ہوگا یا تو یہ مانا جائے گا کہ ضرورت خلافت بعد میں نہ رہی اور اُمت بھی مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی نہ رہی اور یا پھر خلافت کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا.کیا خلیفہ کا عزل جائز ہے؟ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب خلیفہ انتخاب سے ہوتا ہے تو پھر امت کیلئے اس کا عزل بھی جائز ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقر راصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے

Page 578

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا.پس گو خلفاء کا انتخاب مؤمنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتا تا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الہی ہوتے ہیں.پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا اُمت کو حق نہیں کہ وہ اس شخص کو جو کامل موحد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کر دے.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امتِ اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی.ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے.پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے امت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو رڈ کر دے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے.جو انعام منہ مانگے ملے اس کا رڈ کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور اس پر شدید حجت قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرمائے گا کہ اے لوگو ! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو؟ تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں وے ں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کر دئیے.جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں.اب اس نعمت کے اوپر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ اسی کی طرف اشارہ کرنے کیلئے فرمایا کہ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأوليكَ هُمُ الْفَسِقُونَ - یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے اُمت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم اُمت کی راہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس کے بعد امت کا اختیار نہیں ہوتا اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یا د ر کھے وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتا ہے.پس مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفسقُونَ اگر انتخاب کے وقت وه أمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت میں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام دو عملوا الصلحت کی فہرست سے کاٹ کر فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا.

Page 579

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ایک لطیف نکتہ اب ایک لطیف نکتہ بھی سن لو.دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا عجیب بات بیان کی ہے.خلافت کے انعام کا وارث اس قوم کو بتایا ہے جو (۱) ایمان رکھتی ہو یعنی اس کے ارادے نیک ہوں.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عمله ے کہ مؤمن کے عمل محدود ہوتے ہیں مگر اس کے ارادے بہت وسیع ہوتے ہیں.اور وہ کہتا ہے کہ میں یوں کروں گا اور ووں کروں گا.گویا مومن کے ارادے بہت نیک ہوتے ہیں.(۲) دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عملوا الشلحت کے مصداق ہوتے ہیں.یعنی صالح ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے جب وہ خلافت کا انکار کرتے ہیں تو فاسق ہو جاتے ہیں.فاسق کے معنی ہیں جو حلقہ اطاعت سے نکل جائے اور نبی کی معیت سے محروم ہو جائے.پس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ نیک ارادے رکھنے والوں اور صالح لوگوں میں خلافت آتی ہے.مگر جو اس سے منکر ہو جائیں تو باوجود نیک ارادے رکھنے اور صالح ہونے کے وہ اس فعل کی وجہ سے نبی اس سے مفکر کی معیت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں.اب آیت کے ان الفاظ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رویا کے مقابل پر رکھو جو آپ نے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق دیکھا اور جس میں آپ ان سے فرماتے ہیں:.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ کے تو معلوم ہوا کہ یہ بعینہ وہی بات ہے جو الّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اور مَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفسقون کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ایمان رکھنے اور عمل صالح کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان میں خلافت قائم کرے گا.مگر جو شخص اس نعمت کا انکار کر دے گا وہ نبی کی معیت سے محروم کر دیا جائے گا.اس رؤیا میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بیٹھا یا نہیں بیٹھا.مگر قرآنی الفاظ بتاتے ہیں کہ ایسے شخص کو پاس بیٹھنے کی توفیق نہیں ملی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيُورُجِعُوْنَ ٤٨.دوسری آیت جو خلافت کے خلافت راشدہ کی تائید میں دوسری آیت ثبوت میں قرآن کریم میں.بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اذ ابْتَلَى ابْرُهم رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ

Page 580

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده فاتمهن ، قال إنّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي، قَالَ لا يَنَالُ عهدي الظلمين ٤٩ یعنی اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض باتوں کے ذریعہ سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر کے دکھا دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم ! میں تجھے لوگوں کا امام مقرر کرنے والا ہوں.حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ اے خدا! میری اولاد میں سے بھی امام بنا ئیو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.بہت اچھا مگر ان میں سے جو لوگ ظالم ہو جائیں گے ان کو امام نہیں بنایا جائے گا.اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انہیں امام بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً اور جائز طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو کام میرے سپر د ہونے والا ہے وہ ایک نسل میں پورا نہیں ہو سکتا اور ضرورت ہے کہ میرے بعد بھی کچھ اور وجود ہوں جو اس کام کو چلائیں.اور اللہ تعالیٰ سے اپنی ذریت کے امامت بنانے کی درخواست کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں اِن سے بھی میں وعدہ کرتا ہوں مگر ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا.اس آیت میں بھی وعدہ اولاد سے ہے گو ظالم اولاد سے نہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں یا تو امام تھے یا ظالم تھے ان دونوں کے سوا بھی اور اولاد تھی.پھر ان سے امامت کا وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ اسی طرح کہ بعض کو امامت ملی اور بعض کو ان کے ذریعہ سے امامت سے فائدہ پہنچا.یہ بھی آیت استخلاف کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ وعدہ تو سب سے تھا پھر خلافت شخصی کس طرح ہو سکتی ہے.مگر میں اس وقت آیت کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے متعلق امامت کا وعدہ تھا وہ وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے چار نبی ہوئے (۱) حضرت اسماعیل (۲) حضرت اسحاق (۳) حضرت یعقوب (۴) حضرت یوسف.ان چاروں انبیاء خلفاء نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشن کو تکمیل تک پہنچایا.قرآن کریم میں دوسری جگہ ان چاروں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے.فرماتا ہے.واذ قال إبرهمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُ ، قَالَ آوَ لَمْ تُؤْمِنُ ، قَالَ بلى ولكن لِيَطْمَئِنَّ قَلبِي قَالَ فَخُذُ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ

Page 581

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعَيَّاء واعْلَمُ انَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ ٥٠ یعنی اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے رب ! مجھے بتا کہ تو مر دے کس طرح زندہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو ایمان نہیں لا چکا.حضرت ابراہیم نے کہا.کیوں نہیں ایمان تو مجھے حاصل ہو چکا ہے لیکن صرف اطمینانِ قلب کی خاطر میں نے یہ سوال کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سیدھالے پھر ہر ایک پہاڑ پر اُن میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے، پھر انہیں بلا.وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور حکمت والا ہے.یہ واقعہ اگر ظاہری ہوتا تو اس پر بہت سے اعتراض پڑتے ہیں.اول یہ کہ احیائے موتی کے ساتھ پرندوں کے سدھانے کا کیا تعلق (۲) چار پرندے لینے کے کیا معنی؟ کیا ایک سے یہ غرض پوری نہ ہوتی تھی؟ (۳) پہاڑوں پر رکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا کسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا.پس حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ باطن رکھنے والا کلام ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ الہی ! جو احیائے موتی کا کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اسے پورا کر کے دکھا اور مجھے بتا کہ یہ قومی زندگی کس طرح پیدا ہوگی جبکہ میں بڑھا ہوں اور کام بہت اہم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ ہو کر رہے گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہو کر تو ضرور ر ہے گا مگر میں اپنے اطمینان کیلئے پوچھتا ہوں کہ یہ مخالف حالات کیونکر بدلیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چار پرندے لے کر سیدھا اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھ دے.پھر بلا ؤ اور دیکھو کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑتے آتے ہیں.یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کرو.وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس احیاء کے کام کی تکمیل کریں گے.یہ چار جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ہیں.ان میں سے دو کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ.پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی ہیں کہ ان کی اعلیٰ تربیت کر کیونکہ وہ بہت بڑے درجہ کے ہوں گے گویا پہاڑ پر رکھنے کے معنی ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوں تک جا پہنچیں گے.غرض اس طرح احیاء قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریب زمانہ میں ظاہر

Page 582

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہونا تھا انہیں بتا دیا گیا.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھی مثیل ہیں جیسا کہ درود پڑھنے والے مسلمان جانتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے کہ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ َو عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدُ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں تو یقیناً کسی خاص خصوصیت کی طرف ہی اس درود میں اشارہ ہو سکتا ہے اور وہ خصوصیت ان کی اولاد میں امامت و نبوت کی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالكِتب واتيله أجرة في الدُّنْيَاء وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِين ال يعنى ہم نے اس کی ذریت کے ساتھ نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا اور ہم نے اس کو اس دنیا میں بھی اجر بخشا اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں میں شامل کیا جائے گا.پس وہ فضیلت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملی وہ نبوت ہی تھی جس کے بعد متواتر ان کی اولا د کو نبوت خلافت حاصل ہوئی جس نے ان کے گھر کو شرف سے بھر دیا.چنانچہ ایک دفعہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رَسُوْلَ اللهِ ! سب سے زیادہ معزز کون ہے تو آپ نے فرمایا جو شخص سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے.اس نے کہايَا رَسُولَ اللهِ ! میرا یہ سوال نہیں.آپ نے فرمایا تو پھر یوسٹ بڑا معزز ہے جو خود بھی نبی تھا اور نبی کا بیٹا بھی تھا.پھر اُس کا دادا بھی نبی تھا اور اُس کا پڑدادا ابراہیم بھی نبی تھا.پس جب ہم كَمَا صَلَّيْتَ يا كَمَا بَارَكْتَ کہتے ہیں تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی فضیلت دے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھی.ذاتی طور پر بھی اور اولاد کی طرف سے بھی.یعنی آپ ابوالانبیاء ہو جائیں اور آپ کی اولا دروحانی میں بھی نبوت مخصوص ہو جائے.سو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو سنا اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معا بعد چار رسول ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معا بعد چار خلیفے ہوئے جنہوں نے آپ کے دین کی تمکین کی اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دُور زمانہ میں پھر نبی پیدا ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعید زمانہ بعد بھی انبیاء کی بعثت کی خبر دی گئی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر میں بھی فضیلت دی گئی ہے.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو دو خلفاء کی تربیت بلا واسطہ کی تھی اور دو کی بالواسطہ.مگر.

Page 583

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں اماموں کی تربیت خود فرمائی اگر یہ مشابہت نہ ہوتی تو پھر كَمَا صَلَّيْتَ اور كَمَا بَارَکتَ کے معنی ہی کیا ہوتے.پھر تو یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ شاید حضرت ابراہیم علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا درجہ رکھتے ہیں.پس ابراہیمی وعدہ اور در ودمل کر صاف بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی ہونے والا تھا اور آپ کے بعد بھی آپ کے دین کی تمکین کیلئے خلفاء آنے والے تھے.اگر کہو کہ وہ خلفاء تو نبی تھے یہ تو نبی نہ تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے امام ہونے کے درحقیقت دو وعدے تھے ایک تو قریب عہد میں اور ایک بعید عہد میں جس میں موسیٰ اور عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود شامل تھے.اللہ تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ قریب عہد کے امام خلیفہ امام ہوں اور بعید کا خلیفہ نبی خلیفہ ہو.چنانچہ خلفائے راشدین عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ کے ماتحت انبیاء سے شدید مشابہت رکھتے تھے مگر نبی نہ تھے اور آخری خلیفہ ایک پہلو سے اُمتی اور ایک پہلو سے نبی ہوا تا کہ مشابہت میں نقص نہ رہ جائے.اب دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں ان خلفاء نے ان چار انبیاء سے زیادہ تمکین دین کی ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا ایک زبر دست ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر بھی اس الجھن کو دور کر دیتی ہے.آپ الوصیۃ میں تحریر فرماتے ہیں:.وو ' تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق " کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خوفهم آمنا....ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.۱۳ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت میں حضرت موسیٰ کے نبی جانشین سے حضرت ابو بکر کی مشابہت کو تسلیم کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے.آپ فرماتے ہیں.لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ ٥٣ یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو -

Page 584

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده عمر بن الخطاب ہوتا.اس کے یہی معنی ہیں کہ عمر میرے بعد امام ہونے والے ہیں.اگر میرے معاً بعد نبوت کا اجراء اللہ تعالیٰ نے کرنا ہوتا تو عمر بھی نبی ہوتے مگر اب وہ امام تو ہونگے مگر نبی نہ ہونگے.ایک دوسری حدیث بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جنگ پر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے قائم مقام بنا گئے.پیچھے صرف منافق ہی منافق رہ گئے تھے.اس وجہ سے وہ گھبرا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے بھی لے چلیں.آپ نے تسلی دی اور فرمایا.اَلا ترضى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُؤسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِی ۵۵ یعنی (۱) اے علی تمہیں مجھ سے ہارون اور موسیٰ کی نسبت حاصل ہے.ایک دن ہارون کی طرح تم بھی میرے خلیفہ ہو گے (۲) لیکن باوجود اس نسبت کے تم نبی نہ ہو گے.اس میں ایک ہی وقت میں نبی سے مشابہت بھی دے دی اور نبوت سے خالی بھی بتا دیا.پس جس طرح علی ہارون کے مشابہ ہو سکتے ہیں چاروں خلفاء چار دوسرے نبیوں کے بھی مشابہ ہو سکتے ہیں.اس حدیث سے علاوہ اس کے کہ یہ ثبوت ملتا ہے کہ خلفاء نبیوں کے مشابہ قرار دیئے جاسکتے ہیں حضرت علیؓ کے زمانہ کے فتنہ پر بھی روشنی پڑتی ہے اور اس میں یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ جس طرح حضرت ہارون کے زمانہ میں فساد ہو ۱۴ حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی فساد ہوگا اور لوگ حضرت علی پر الزام لگائیں گے لیکن وہ الزام اُسی طرح غلط ہونگے جس طرح ہارون پر یہ اعتراض غلط ہے کہ انہوں نے شرک کیا.بہر حال حضرت علی کا طریق حضرت ہارون کے مشابہ ہوگا کہ تفرقہ کے ڈر سے کسی قدر نرمی کریں گے (جیسا کہ صفین کے موقع پر تحکیم کو تسلیم کر کے انہوں نے کیا ) صلى الله اس کے بعد میں خلافت کے بارہ میں رسول کریم میلے کا ایک ارشاد حدیثوں میں سے صرف ایک حدیث بطور مثال خلافت کے بارہ میں پیش کر دیتا ہوں کیونکہ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَا مِنْ نَّبِيِّ إِلَّا تَبِعَتُهُ خِلافَةٌ ٥٦ یعنی کوئی نبی نہیں کہ اس کے بعد خلافت نہ ہوئی ہو.اس عام فیصلہ کے بعد خلافت کا انکار در حقیقت

Page 585

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار ہے کیونکہ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا.خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ایک بہت بڑا اعتراض اب میں ایک اعتراض جو بہت مشہور اور جو خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ہے اس کا جواب دیتا ہوں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جیسا کہ آیت استخلاف سے ثابت ہے اور جیسا کہ آیت وَ أُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمُ سے ثابت ہے اور جیسا کہ آیت و شاورهم في الأمْرِ : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّل على الله سے ثابت ہے خلفا ء پر گو اہم امور میں مشورہ لینے کی پابندی ہے لیکن اُس پر عمل کرنے کی پابندی نہیں.اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر خود فرماتے ہیں کہ ان زعْتُ فَقَوَمُونِي اگر میں کبھی دکھاؤں تو مجھے سیدھا کر دینا.معلوم ہوا کہ وہ پبلک کو خلیفہ کو روکنے کا اختیار دیتے ہیں.غیر مبائعین ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکڑ نے یہ کہ دیا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کر دینا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اور پبلک کو حق ہے کہ جب بھی وہ اسے سید ھے راستہ سے منحرف ہوتا دیکھے اُسے پکڑ کر سیدھا کر دے.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابو بکر کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے اپنے اس قول کے کبھی بھی وہ معنے نہیں سمجھے جو معترضین لیتے ہیں.اور نہ مسلمان آپ کے اس قول کا کبھی یہ مفہوم لیتے تھے کہ جب وہ حضرت ابو بکر کی رائے کو اپنی رائے کے خلاف دیکھیں تو سختی سے آپ کو سیدھا کر دیں.جیشِ اسامہ کو رکوانے کے متعلق جب بڑے بڑے صحابہ حضرت ابو بکڑ کے پاس آئے تو انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ ہماری یہ بات ماننی ہے تو مانو ور نہ ہم تمہیں ابھی سیدھا کر دیں گے بلکہ آپ نے جب ان تمام لوگوں کے مشورہ کو ر ڈ کر دیا اور فرمایا کہ میں جیش اسامہ کو نہیں روک سکتا تو انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی.اسی طرح جب باغیوں سے جنگ کے بارہ میں صحابہ نے کسی قدر نرمی کی درخواست کی تو آپ نے ان کی اس درخواست کو بھی رڈ کر دیا اور فرمایا کہ میں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو مُرتدین کے ساتھ کیا جاتا ہے.اس موقع پر بھی صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں مانتے تو ہم آپ کو سیدھا کر کے چھوڑیں گے بلکہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور حضرت ابو بکر کے فیصلہ کے سامنے انہوں نے اپنی گردنیں جھکا دیں.اسی طرح جہاں بھی آپ کا لوگوں سے مقابلہ ہوا

Page 586

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده آپ نے یہی کہا کہ میری بات صحیح ہے اور تمہاری غلط.یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ کبھی لوگوں نے آپ کوسیدھا کیا ہو.یا آپ نے ہی لوگوں سے کہا ہو کہ اے مسلمانو ! میں کچھ ٹیڑھا سا ہو گیا ہوں مجھے سیدھا کر دینا.پس آپ کے قول کے وہی معنی لئے جا سکتے ہیں جو خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہوں اور خود آپ کے فعل کے مطابق ہوں نہ کہ مخالف.سو یا د رکھنا چاہئے کہ آپ کی ٹیڑھا ہونے سے کجی سے مراد صرف کفر بواح ہے مراد وہی کفر بواح ہے جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسلام پر چلتا ہوں تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر میں اسلام کو ترک کر دوں یا مجھ سے کفر بواح صادر ہو تو پھر تم پر یہ فرض ہے کہ میرا مقابلہ کرو ورنہ یہ مراد نہیں کہ میرے روز مرہ کے فیصلوں پر تنقید کر کے جو تمہاری مرضی کے مطابق ہوں ان پر عمل کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو.ย کیا حضرت ابوبکر کفر بواح کر سکتے تھے؟ اگر کوئی کہے کہ کیا حضرت ابوبکر کفر بواح کر سکتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا حضرت ابو بکر اس قدر ٹیڑھا ہو سکتے تھے کہ انہیں سیدھا کرنے کی مسلمانوں کو ضرورت پیش آئے! ایسی صورت تو اُسی وقت پیش آ سکتی تھی جب صحابہ کہیں کہ قرآن اور حدیث سے فلاں امر ثابت ہے اور حضرت ابو بکڑ کہیں کہ میں قرآن اور حدیث کی بات نہیں مانتا.پس کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابو بکر کبھی قرآن اور حدیث کے خلاف ایسا قدم اٹھا سکیں ؟ اور مسلمانوں کو انہیں لٹھ لیکر سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے.اگر اس قد رکبھی بھی آپ سے ممکن نہ تھی مگر آپ نے یہ فقرہ کہا تو کفر بواح بھی گو آپ سے ممکن نہ تھا مگر آپ نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ صداقت از لی سب چیزوں سے بڑی ہے یہ فقرہ کہہ دیا اس سے آپ کا یہ منشاء نہیں تھا کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ سے کفر بواح صادر ہو سکتا ہے بلکہ یہ منشاء تھا کہ میری حیثیت محض ایک خلیفہ کی ہے اور میرا کام اپنے رسول اور مطاع کی تعلیم کو صیح رنگ میں دنیا میں قائم کرنا ہے.پس تم اس صداقت از لی کو ہر چیز پر مقدم رکھو اور خواہ میں بھی اُس کے خلاف کہوں تم اصل تعلیم کو کبھی ترک نہ کرو.قرآن کریم سے بعض مثالیں اب میں بتاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی موجود ہیں.حضرت شعیب فرماتے ہیں.

Page 587

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ما يَكُونُ لَنَّا أَن تَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّنَا - ۱۸ کفار نے حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ آؤ اور ہم میں مل جاؤ تو حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ جواب دیا کہ ہمارے لئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ تمہارے مذہب میں شامل ہوں ہاں اگر خدا چاہے تو ہو سکتا ہے.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت شعیب کو کا فر کر دینا اللہ تعالیٰ کیلئے ممکن تھایا شعیب کا کافر ہو جانا ممکن تھا.یقیناً اُن کا کافر ہونا ناممکن تھا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.مگر انہوں نے یہ کہا اور اس لئے کہا تا اللہ تعالیٰ کا مقام اور اُس کی عظمت لوگوں پر ظاہر ہو کہ گو میرا کا فر ہونا ناممکن ہے مگر اس میں میرے نفس کی کوئی بڑائی نہیں بلکہ یہ مقام محض اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوا ہے اگر وہ نہ ہو تو پھر یہ عصمت بھی نہ رہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی کلمات نکلوائے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ اِن كَانَ لِلرِّحْمَنِ وَلَد فَأَنَا أَوَّلُ الْمُبِدِينَ ١٩ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہو تو میں سب سے پہلے اُس کی پرستش اور عبادت کرنے کیلئے تیار ہوں.اب اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹے کا امکان موجود ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ خدا کا بیٹا تو یقینا کوئی نہیں لیکن اگر ہوتا تو میرے جیسا مطیع و فرمانبردار بندہ اُس کی ضرور عبادت کرتا.اسی طرح حضرت ابو بکڑ سے گو کفر بواح کا صدور بالکل ناممکن تھا مگر آپ نے صداقت از لی کی اہمیت لوگوں کو ذہن نشین کرانے کیلئے فرما دیا کہ اگر میں بھی اس کے مقابلہ میں آ جاؤں تو میری پروا نہ کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ ایهای حضرت می موعود علیہ السلام ہی مسیح ا کا بھی ایک واقعہ ہے.آپ کے زمانہ میں ایک شخص میاں نظام الدین نامی تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو تمام ہندوستان میں ایک شور مچ گیا ، اُن دنوں حضرت خلیفہ اول جموں سے چند دنوں کی رخصت لیکر لاہور آئے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی وہیں جا پہنچے اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ صرف حدیثوں سے اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہئے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ حدیث حاکم نہیں بلکہ قرآن حاکم ہے.پس ہمیں اس معاملہ کا قرآن کریم کی آیات سے فیصلہ کرنا چاہئے.اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور ایک

Page 588

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده دوسرے کی طرف سے اشتہارات بھی نکلتے رہے.میاں نظام الدین چونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی گہرا تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس جھگڑے کو نپٹا نا چاہئے.انہوں نے اپنے دل میں سمجھا کہ مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کریم کے خلاف تو کوئی بات نہیں کہہ سکتے.ضرور انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی سمجھے نہیں اور جوش میں آ کر مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ قرآن سے حیات مسیح ثابت ہو اور مرزا صاحب جیسا نیک اور متقی آدمی قرآن کے خلاف یہ دعوی کر دے کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں.چنانچہ وہ بڑے جوش سے قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی دعویٰ ہے.وہ کہنے لگے کہ اگر قرآن سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ اپنا یہ عقیدہ ترک کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں.اگر قرآن سے حیات مسیح ثابت ہو جائے تو میں انہیں زندہ ماننے لگ جاؤں گا.اس پر وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف عمداً کوئی بات نہیں کہہ سکتے.انہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور اگر اُسے رفع کر دیا جائے تو اُن سے حیات مسیح کا منوا لینا کوئی بڑی بات نہیں.چنانچہ کہنے لگے اچھا اگر میں ایسی سو آیتیں نکال کر لے آؤں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے سو چھوڑ آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں تو میرے لئے وہی کافی ہے.کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس تو ضرور لے آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ میرے لئے ایک آیت بھی کافی ہے سو یا پچاس کا سوال ہی نہیں.وہ کہنے لگے اچھا یہ بات ہے تو دس آیتیں تو میں ایسی ضرور نکال کر لے آؤں گا جن سے مسیح کی حیات ثابت ہوتی ہو.چنانچہ وہ سید ھے لاہور پہنچے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے جا کر ملے.اس دوران میں چونکہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بحث نے بہت طول پکڑ لیا تھا اس لئے تنگ آکر حضرت خلیفہ اول نے اتنا مان لیا کہ قرآن کے علاوہ بخاری سے بھی تائیدی رنگ میں حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی اس فتح پر بڑے خوش تھے اور وہ مسجد میں بیٹھے بڑے زور شور سے لافیں مار رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسا رگیدا اور ایسی.

Page 589

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده پٹنیاں دیں کہ آخر اسے ماننا پڑا کہ قرآن کے علاوہ حدیثیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ادھر وہ ڈینگیں مار رہے تھے اور اُدھر میاں نظام الدین صاحب اُن کے سر پر جا پہنچے اور کہنے لگے بس اس بحث مباحثہ کو ایک طرف رکھیں میں قادیان گیا تھا اور میں حضرت مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں کہ اگر میں قرآن سے دس آیتیں ایسی نکال کر لے آؤں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے عقیدہ کو ترک کر دیں گے اس لئے آپ جلدی کریں اور مجھے قرآن سے ایسی دس آیات نکال کر دے دیں.میں ابھی اس جھگڑے کا فیصلہ کئے دیتا ہوں اور خود مرزا صاحب کی زبان سے یہ اقرار کر والیتا ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسا رگیدا کہ وہ میرے مقابلہ میں شکست کھانے پر مجبور ہو گیا انہوں نے جب میاں نظام الدین صاحب کی یہ بات سنی تو اُن کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ بڑے غصہ سے کہنے لگے تجھے کس جاہل نے کہا تھا کہ تو مرزا صاحب کے پاس جائے.میں دو مہینے جھگڑ جھگڑ کر نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا.وہ آدمی تھے نیک ، انہوں نے جب یہ سنا تو وہ حیرت و استعجاب سے تھوڑی دیر تو بالکل خاموش کھڑے رہے اور پھر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب اگر قرآن میں حیات مسیح کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں اور یہ کہ کر وہاں سے چلے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو گئے.اب دیکھ لو با وجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس حقیقت کو کھولا تھا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ نے قرآن واحادیث سے اس مسئلے کو مدلل طور پر ثابت کر دیا تھا آپ نے فرمایا کہ اگر ایک آیت بھی اس کے خلاف لے آؤ تو میں اپنا عقیدہ ترک کرنے کیلئے تیار ہوں.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نَعُوذُ بِاللهِ اس کے متعلق کامل یقین حاصل نہیں تھا اور آپ کا خیال تھا کہ شاید اس کے خلاف بھی کوئی آیت ہو.اگر کوئی ایسا کہے تو وہ اول درجے کا جاہل ہوگا کیونکہ آپ نے جب یہ کہا کہ اگر ایک آیت بھی میرے پاس ایسی نکال کر لے آئیں جس سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو میں اپنے عقیدہ کو ترک کر دوں گا تو یہ قرآن مجید کی عظمت اور اُس کی بزرگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ قرآن

Page 590

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده کے ایک لفظ کے خلاف بھی اگر میرا عقیدہ ہو تو میں ترک کرنے کیلئے تیار ہوں.یہ مقصد نہیں تھا کہ واقع میں آپ کا کوئی عقیدہ خلاف قرآن ہے.اسی طرح حضرت ابو بکڑ کے اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ سے گفر بواح صادر ہو سکتا تھا بلکہ یہ معنی ہیں کہ صداقت ہر حالت میں قابلِ اتباع ہوتی ہے اور اُس کیلئے زید یا بکر کا کوئی سوال نہیں ہوتا اگر میں بھی کسی ایسے امر کا ارتکاب کروں تو تم میری اطاعت سے انکار کر دو.یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کبھی خدا اور رسول کے حکم کے خلاف بھی کسی فعل کا ارتکاب کر سکتے تھے اور نہ اطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الآمْرِ مِنْكُم اور آیت استخلاف کی موجودگی میں یہ معنی ہو سکتے ہیں.آیت استخلاف اور خلافت ثانیہ آب میں مختصراً آیت استخلاف کے ماتحت احمد یہ خلافت کے ذکر کو چھوڑ کر صرف اپنی خلافت کو لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ ليَسْتَخْلِفَتَهُمْ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْراهیم میں یہ بتایا ہے کہ جب تک قوم کی اکثریت میں ایمان اور عملِ صالح رہتا ہے اُن میں خلافت کا نظام بھی موجود رہتا ہے.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ (۱) کیا جماعت اب تک ایمان اور عملِ صالح رکھتی ہے یعنی کیا ہماری جماعت کی شہرت نیک ہے اور کیا ہماری جماعت کے افراد کی اکثریت عملِ صالح رکھتی ہے؟ اس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ جماعت کی شہرت نیک ہے اور جماعت کی اکثریت عمل صالح پر قائم ہے.پس جب ایمان اور عملِ صالح کی یہ حالت ہے تو خلافت کا وعدہ ضرور پورا ہونا چاہئے کیونکہ وقدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وعملوا الصلحت کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ ضرور پورا ہوا کرتا ہے.(۲) دوسری بات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَباهِمْ یعنی جس طرح پہلے خلفاء ہوئے اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں خلفاء ہونگے.مطلب یہ کہ جس طرح پہلے خلفاء الہی طاقت سے بنے اور کوئی اُن کی خلافت کا مقابلہ نہ کر سکا اسی طرح اب ہوگا.سو میری خلافت کے ذریعہ یہ علامت بھی پوری ہوئی.حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے وقت صرف بیرونی اعداء کا خوف تھا.مگر میری خلافت کے وقت

Page 591

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اندرونی اعداء کا خوف بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا.پھر حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی حکیم الامت اور اور بہت سے القاب سے ملقب کیا جاتا تھا مگر میرے متعلق سالہا سال سے جماعت میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ اگر اس بچہ کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور آ گئی تو جماعت تباہ ہو جائے گی.پھر میں نہ عربی کا عالم تھا، نہ انگریزی کا عالم تھا، نہ ایسا فن جانتا تھا جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھر ا سکے، نہ جماعت میں مجھے کوئی عہدہ اور رسوخ حاصل تھا تمام اختیارات مولوی محمد علی صاحب کو حاصل تھے اور وہ جس طرح چاہتے تھے کرتے تھے.ایسے حالات میں ایک ایسا شخص جس کو عمر کے لحاظ سے بچہ کہا جاتا تھا ، جس کو علم کے لحاظ سے جاہل کہا جاتا تھا، جسے انجمن میں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا ، جس کے ہاتھ میں کوئی روپیہ نہیں تھا، اُس کی مخالفت میں وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تھیں، وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے ہاتھوں میں قوم کا تمام روپیہ تھا، وہ لوگ کھڑے ہوئے جو ایک عرصہ دراز سے بہت بڑی عزتوں کے مالک سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے دعوی کیا کہ ہم اس بچہ کو خلیفہ نہیں بننے دیں گے مگر خدا نے اُن کو ناکام و نامراد کیا اور وہی جسے جاہل کہا جاتا تھا، جسے کو دن قرار دیا جاتا تھا اور جس کے متعلق یہ عَلَی الْإغلان کہا جاتا تھا کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا ، خدا تعالیٰ نے اُسی کو خلافت کے مقام کیلئے منتخب کیا.یہ لوگ اپنی امیدوں پر پانی پھرتا دیکھ کر یہاں سے الگ ہو گئے اور انہوں نے کہا جماعت نے بے وقوفی کی جو اُس نے ایک نادان اور احمق بچہ کو خلیفہ بنا لیا تھوڑے دنوں میں ہی اُسے اپنی حماقت کا خمیازہ نظر آ جائے گا.جماعت تباہ ہو جائے گی ، روپیہ آنا بند ہو جائے گا ، تمام عزت اور نیک نامی خاک میں مل جائے گی اور وہ عروج جو سلسلہ کو اب تک حاصل ہوا ہے اس نادان بچے کی وجہ سے ضائع ہو جائیگا مگر ہوتا کیا ہے؟ وہی بچہ جب خدا کی طرف سے خلافت کے تخت پر بیٹھتا ہے تو جس طرح شیر بکریوں پر حملہ کرتا ہے اُسی طرح خدا کا یہ شیر دنیا پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے، ایک مشرق سے اور ایک مغرب سے ، ایک شمال سے اور ایک جنوب سے بھیڑیں اور بکریاں پکڑ پکڑ کر خدا کے مسیح کی قربان گاہ پر چڑھا دیں یہاں تک کہ آج اس سٹیج پر اس وقت سے زیادہ لوگ موجود ہیں جتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال جلسہ سالانہ پر آئے تھے.جس کی آنکھیں دیکھتی ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان سنتے ہوں وہ سنے کہ کیا خدا کے فضل نے ان تمام اعتراضات کو باطل نہیں کر دیا جو مجھ پر کئے جاتے تھے.اور کیا اُس نے اُسی چھپیں سالہ

Page 592

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده نو جوان کو جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا خلیفہ بنا کر اور اُس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی دے کر یہ ظاہر نہیں کر دیا کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا خلیفہ نہیں بلکہ میرا بنایا ہوا خلیفہ ہے اور کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.(۳) تیسری علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَلْيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي از تضى لَهُمْ یعنی جو علوم دینیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن پر ظاہر ہونگے انہیں خدا د نیا میں قائم کرے گا اور کوئی اُن کو مٹانے پر قادر نہ ہو سکے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے صحابہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اس میں بھی کوئی قبہ نہیں کہ صحابہ نے جو حدیثیں جمع کیں وہ بجائے خود اتنا بڑا کارنامہ ہے جو اُن کے درجہ کو عام لوگوں کے وہم و گمان سے بھی بلند تر کر دیتا ہے.پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول قرآن کریم کے کامل ماہر اور اُس کے عاشق تھے اور آپ کے احسانات جماعت احمدیہ پر بہت بڑے ہیں لیکن یہ سب وہ تھے جن میں سے کسی ایک پر بھی جاہل ہونے کا اعتراض نہیں کیا گیا اس لئے خدا تعالیٰ کی صفت علیم جس شان اور جس جاہ و جلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اُس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی.میں وہ تھا جسے گل کا بچہ کہا جاتا تھا، میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا مگر عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک اُمتِ مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور اُن سے فائدہ اٹھائے.وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئلہ نبوت ، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت ، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ بُرا بھلا کہے جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اُسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری.ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور اُن سے فائدہ اٹھا ئیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا

Page 593

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده ہے.پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ اے نادانو ! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو.(۴) چوتھی علامت یہ بتائی تھی کہ وَلیبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا - خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.یہ علامت میرے زمانہ میں خدا نے نہایت صفائی کے ساتھ پوری کی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول جب خلیفہ ہوئے ہیں تو اس وقت صرف یہ خوف تھا کہ باہر کے دشمن ہنسی مذاق اُڑائیں گے اور وہ جماعت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.مگر میری خلافت کے آغاز میں نہ صرف بیرونی دشمنوں کا خوف تھا بلکہ جماعت کے اندر بھی بگاڑ پیدا ہو چکا تھا اور خطرہ تھا کہ اور لوگ بھی اس بگاڑ سے متاثر نہ ہو جائیں ایسے حالات میں خدا نے میرے ذریعہ ہی اس خوف کو امن سے بدلا اور یہ خطرہ کہ جماعت کہیں صحیح عقائد سے منحرف نہ ہو جائے بالکل دُور کر دیا.چنانچہ دیکھ لو آج مصری صاحب بھی باوجود میری مخالفت کے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائل ہیں اور اگر وہ دیانتداری اور سچائی سے کام لیں تو اس بات کا اعتراف کر سکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر جماعت کو ثبات میری وجہ سے ہی حاصل ہوا اور میں نے ہی اس مسئلہ کو حل کیا.پھر کیا یہ مسئلہ خدا نے اسی سے حل کرانا تھا جو بقول مصری صاحب معزول ہونے کے قابل تھا ؟ اسی طرح جماعت پر بڑے بڑے خطرات کے اوقات آئے مگر خدا تعالیٰ نے ہر خطرہ کی حالت میں میری مدد کی اور میری وجہ سے اس خوف کو امن سے بدل دیا گیا.احرار کا جن دنوں زور تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب جماعت تباہ ہو جائے گی مگر میں نے کہا میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں اور اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی احرار کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور وہ دنیا میں ذلیل اور رُسوا ہو گئے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک سکھ نے ایک رسالہ لکھا او جس میں وہ میرا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ تم انہیں خواہ کتنا ہی جھوٹا کہو، ایک بات ایسی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جن دنوں احرار اپنے زور پر تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کو مٹا کر رکھ دیں گے ان دنوں امام جماعت احمد یہ نے کہا کہ میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی یہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی.پہلے احرار جس تحریک کو بھی اپنے ہاتھ میں لیتے تھے کامیاب ہوتے تھے مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ جس تحریک کو بھی اٹھاتے ہیں اس میں ناکام ہوتے

Page 594

خلافت راشده انوار العلوم جلد ۱۵ ہیں.اسی طرح ارتداد ملکانا کا فتنہ لے لو، رنگیلا رسول کے وقت کی ایجی ٹیشن کو لے لو.یا ان بہت سی سیاسی اُلجھنوں کو لے لو جو اس دوران میں پیدا ہوئیں تمہیں نظر آئے گا کہ ہر مصیبت کے وقت خدا نے میری مدد کی، ہر مشکل کے وقت اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر خوف کو اس نے میرے لئے امن سے بدل دیا.میں کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا عظیم الشان کام لے گا مگر میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ خدا نے میرے وہم اور گمان سے بڑھ کر مجھ پر احسانات کئے.جب میری خلافت کا آغاز ہوا تو اس وقت میں نہیں سمجھتا تھا کہ میں کوئی دین کی خدمت کرسکوں گا.ظاہری حالات میرے خلاف تھے ، کام کی قابلیت میرے اندر نہیں تھی ، پھر میں نہ عالم تھا نہ فاضل ، نه دولت میرے پاس تھی نہ جتھا ، چنانچہ خدا گواہ ہے جب خلافت میرے سپرد ہوئی تو اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ خدا کے عرفان کی نہر کا ایک بند چونکہ ٹوٹ گیا ہے اور خطرہ ہے کہ پانی ادھر اُدھر بہہ کر ضائع نہ ہو جائے ، اس لئے مجھے کھڑا کیا گیا ہے تا کہ میں اپنا مردہ دھڑ اس جگہ ڈال دوں جہاں سے پانی نکل کر بہہ رہا ہے اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائے چنانچہ میں نے دین کی حفاظت کیلئے اپنا دھڑ وہاں ڈال دیا اور میں نے سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا مگر میری خلافت پر ابھی تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح برسنے شروع ہو گئے.چنا نچہ علی گڑھ کا ایک نوجوان جس کی حالت یہ تھی اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نشان کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے عہد میں ہی میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں جمع کرنے لگ گیا تھا اور اس کا دعوی تھا کہ یہ پیشگوئیاں اتنی زبردست ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے قادیان آیا اور یہ دیکھ کر کہ آپ کی حالت نازک ہے مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں.میں نے کہا تم کیسی گناہ والی بات کر رہے ہو ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا شرعاً بالکل ناجائز اور حرام ہے تم ایسی بات مجھ سے مت کرو.چنانچہ وہ علی گڑھ واپس چلا گیا اور بارہ تیرہ دن کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی.وہ چونکہ حضرت خلیفہ اول سے اچھے تعلقات رکھتا تھا اس لئے جب آپ کی وفات پر اختلاف ہوا تو بعض پیغامیوں نے اسے لکھا کہ تم اس فتنہ کو کسی طرح دور کرو.اس پر اس نے علی گڑھ سے مجھے تار دیا کہ فوراً ان لوگوں سے صلح کر لو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا.میں نے اسے جواب لکھا کہ تمہارا خط پہنچا تم تو مجھے یہ نصیحت کرتے ہو کہ میں ان لوگوں سے صلح کرلوں مگر میرے خدا نے مجھ پر

Page 595

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده یہ الہام نازل کیا ہے کہ :- کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے پس میں ان سے صلح نہیں کر سکتا.رہا تمہارا مجھے یہ تحریک کرنا سو یا د رکھو تم خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی حجت کے نیچے ہو.تم نے حضرت خلیفہ اول کی زبان سے میرے متعلق بار ہا ایسا ذکر سنا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے بعد خدا تعالیٰ مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کرے گا پھر تم خود میرے متعلق ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے متعلق کیس پس تم پر حجت تمام ہو چکی ہے اور تم میرا انکار کر کے اب دہریت سے ورے نہیں رہو گے.یہ خط میں نے اسے لکھا اور ابھی اس پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دہر یہ ہو گیا.چنانچہ وہ آج تک دہر یہ ہے اور على الإغلانُ خدا تعالیٰ کی ہستی کا منکر ہے حالانکہ وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے میری بیعت کیلئے تیار تھا اور پھر میرے متعلق ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا جس میں اس کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تمام پیشگوئیوں کو جمع کر دے جو میرے متعلق ہیں مگر چونکہ اس نے ایک کھلی سچائی کا انکار کیا اس لئے میں نے اسے لکھا کہ اب میرا انکار تمہیں دہریت کی حد تک پہنچا کر رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ ایک مہینہ کے اندر اندر د ہر یہ ہو گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر بحث کرنے لگا.میں نے اسے کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو جانے دو تم یہ بتاؤ کہ میں نے تمہارے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا.غیر مبائعین کے متعلق البام لَهُمَزَ فَنَّهُمْ پورا ہو گیا غیر مباھین کے پاس دوسری بڑی چیز جتھا تھی.انہیں اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ان کے ساتھ ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں مجھ پر الہام نازل کیا کہ لَيُمَزِ قَنَّهُمُ “ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا چنانچہ خدا کی قدرت وہی خواجہ کمال الدین صاحب جن کے مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ایسے گہرے تعلقات تھے کہ خواجہ صاحب اگر رات کو دن کہتے تو وہ بھی دن کہنے لگ جاتے اور وہ

Page 596

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده اگر دن کو رات کہتے تو یہ بھی رات کہنے لگ جاتے ان کی خواجہ صاحب کی وفات سے دو سال پہلے آپس میں وہ لڑائی ہوئی اور ایک دوسرے پر ایسے ایسے اتہامات لگائے گئے کہ حد ہوگئی.پھر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اور ان کی انجمن کے دوسرے ممبروں میں احمد یہ بلڈنگس میں عَلَى الْإِعْلَانُ لڑائی ہوئی.یہاں تک کہ بعضوں نے کہہ دیا ہم عورتوں کو پکڑ کر یہاں سے نکال دیں گے.کل بھی انہی میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا ہوا تھا اور کہتا تھا کہ میری جائداد فلاں شخص لوٹ کر کھا گیا ہے آپ میری کہیں سفارش کر دیں.غرض جس طرح الہام میں بتایا گیا تھا اسی طرح واقعہ ہوا اور ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی.اس کے مقابلہ میں وہ پچیس سالہ نوجوان جسے یہ تحقیر سے بچہ کہا کرتے تھے اسے خدا تعالیٰ نے ایسی طاقت دی کہ جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے اس وقت وہ اسے اس طرح کچل کر رکھ دیتا ہے جس طرح لکھی اور مچھر کو مسل دیا جاتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ مقابلہ میں دیر تک ٹھہر سکے.اللہ تعالیٰ پر کامل یقین پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے بچے خلفاء کی یہ بتائی ہے کہ:.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.اس علامت کے مطابق بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کسی سے نہیں ڈرا.احتیاط میرے اندر حد درجہ کی ہے اور میں اسے عیب نہیں بلکہ خوبی سمجھتا ہوں لیکن جب مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ فلاں بات یوں ہے تو پھر میں نے مشکلات کی کبھی پروانہیں کی.یہی وجہ ہے کہ باوجو د شدید ترین خطرات کے خدا تعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مداہنت سے بچایا ہے اور کبھی بھی میں جھوٹی صالح کی طرف مائل نہیں ہوا.میں نے ایک دفعہ رویا میں مستریوں کے فتنہ کے بارہ میں ایک رؤیا دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ کی طرف سے آ رہا ہوں اور میرے ساتھ میر محمد اسحاق صاحب ہیں راستہ میں ایک بڑا سمندر ہے جس میں ایک کشتی بھی موجود ہے.میں اور میر محمد اسحاق صاحب دونوں اس کشتی میں بیٹھ گئے اور چل پڑے.جب وہ کشتی اس مقام پر پہنچی جہاں مستریوں کا مکان ہوا کرتا تھا تو وہ پھنور میں پھنس گئی اور چکر کھانے لگی.اتنے میں اس سمندر میں سے ایک سرنمودار ہوا اور اس نے کہا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے تم ان کے نام ایک رقعہ لکھ کر ڈال دو تا کہ یہ کشتی بھنور سے نکل جائے اور تم سلامتی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاؤ.میں نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا یہ سخت مشرکانہ فعل ہے.اس کے

Page 597

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده بعد چکر اور بھی بڑھ گئے اور یہ خطرہ محسوس کیا جانے لگا کہ کہیں کشتی ڈوب ہی نہ جائے اس پر میر محمد اسحاق صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ اس میں حرج ہی کیا ہے.بہتر یہ ہے کہ اس وقت ہم رقعہ لکھ کر ڈال دیں جب بچ جائیں گے تو پھر تو بہ کر لیں گے.میں نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.اس پر انہوں نے مجھ سے چُھپ کر رقعہ لکھا اور اس کی مروڑی سی بنا کر چاہا کہ وہ رقعہ سمندر میں ڈال دیں.اتفاقا میں نے دیکھ لیا اور میں نے کہا میر صاحب ! چاہے ہم ڈوب جائیں ایسی مشرکانہ بات کا ارتکاب میں نہیں ہونے دوں گا.چنانچہ میں نے وہ رقعہ ان سے چھین کر پھاڑ ڈالا اور اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کشتی خود بخود بھنور میں سے نکل گئی.اس رؤیا کے سالہا سال بعد اسی مقام پر جہاں خواب میں ہماری کشتی بھنور میں پھنسی تھی مستریوں کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے کئی قسم کے الزامات لگائے.پھر اس خواب کے عین مطابق ایک دن میر محمد اسحاق صاحب سخت گھبرا کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان لوگوں کو کچھ روپیہ دے دیں اور اس طرح ان کو خاموش کرا دیں ؟ میں نے کہا میر صاحب! اگر وہ باتیں ٹھیک ہیں جن کو یہ پیش کرتے ہیں تو پھر ان کو خاموش کرانے کے کوئی معنی نہیں اور اگر وہ باتیں غلط ہیں تو خدا ان کو خود تباہ کرے گا.ہمیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ان کو روپیہ دیں.پس جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں، ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے.ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے.پس میرے لئے اس بحث کی کوئی حقیقت نہیں کہ کوئی آیت میری خلافت پر چسپاں ہوتی ہے یا نہیں.میرے لئے خدا کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہو تو وہ اب میرے مقابلہ میں اٹھ کر دیکھ لے.خدا اس کو ذلیل اور رسوا کرے گا بلکہ اسے ہی نہیں اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دے گا اور ہر ایک جو میرے مقابلہ میں اٹھے گا گرایا جائے گا ، جو میرے خلاف بولے گا وہ خاموش کرایا جائے گا اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ذلیل اور رسوا ہوگا.

Page 598

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت را شده پس اے مؤمنوں کی جماعت! اور اے عملِ صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو گئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہو تا قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے.تم ان نا کاموں اور نا مرادوں اور بے علموں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو رڈ کر دیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تا کہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو جائے.قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہو دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرو کہ تمہیں پہلی خلافت نصیب ہو اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الہی اس کے بعد ہمیں دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامت اعمال سے اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہو جائے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو.اور اس امر کو اچھی طرح یا د رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آ سکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے ان الفاظ میں کیا کہ:.وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ

Page 599

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده في الأرض مگر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ ومَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ خدا تمہارے ساتھ ہو اور ابد الآباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو.الناشر شرکتر الاسلامیہ لمیٹڈ ر بوہ مطبع ضیاء الاسلام پریس ) اختتامی الفاظ : -۲۹ / دسمبر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے دو بجے جب تقریر ختم فرمائی تو جلسہ پر تشریف لانے والے اصحاب کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :- اب جلسہ ختم ہوتا ہے اور احباب اپنے گھروں کو جائیں گے.انہیں احمدیت کی ترقی کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہئے.اولاد پیدا ہونے کے ذریعہ بھی ترقی ہوتی ہے مگر وہ ایسی نہیں جو تبلیغ کے ذریعہ صلى الله ہوتی ہے.یہ ترقی اولاد کے ذریعہ ہونے والی ترقی سے بڑھ کر با برکت ہوتی ہے.رسول کریم ہے نے فرمایا ہے.ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ کسی کے پاس اس قدر سرخ اونٹ ہوں کہ ان سے دو وادیاں بھر جائیں.پس تبلیغ کرو اور احمدیت کی اشاعت میں منہمک رہو تا کہ تمہاری زندگی میں اسلام اور احمدیت کی شوکت کا زمانہ آ جائے جبکہ سب لوگ احمدی ہو جائیں گے تو پھر رعایا بھی احمدی ہوگی اور بادشاہ بھی احمدی.میں نے بچپن میں ایک رؤیا دیکھا تھا بارہ تیرہ سال کی عمر تھی کہ کبڈی ہو رہی ہے.ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھی جو شخص کبڈی کہتا ہوا مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے آتا ہے اسے ہم مار لیتے ہیں.اور اس میں قاعدہ یہ ہے کہ جو مر جائے وہ دوسری پارٹی کا ہو جائے.اس قاعدہ کی رُو سے مولوی صاحب کا جو ساتھی مارا جاتا وہ ہمارا ہو جاتا.مولوی صاحب کے سب ساتھی اس طرح ہماری طرف آگئے تو وہ اکیلے رہ گئے اس پر انہوں نے پاس کی دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ لکیر کی طرف بڑھنا شروع کیا اور لکیر کے پاس پہنچ کر کہا میں بھی اس طرف آ جاتا ہوں اور وہ بھی آگئے.مولوی محمد حسین صاحب سے مراد ائمۂ کفر ہیں اور اس طرح بتایا گیا کہ جب عام لوگ احمدی ہو جائیں گے تو وہ بھی ہو جائیں گے اور جب رعا یا احمدی ہو جائے گی تو بادشاہ بھی ہو جائیں گے پس تبلیغ کرو، احمدیت کو پھیلا ؤ اور دعاؤں میں لگے رہو.دل میں درد پیدا کرو، عاجزی ، فروتنی اور دیانت داری اختیار کرو اور ہر طرح خدا کے مخلص بندے بننے کی کوشش کرو.اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اصرار مت کرو کیونکہ جو اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اس کے اندر

Page 600

انوار العلوم جلد ۱۵ خلافت راشده سے نورجا تا رہتا ہے.نہ اس کی نمازوں میں لذت رہتی ہے اور نہ دعاؤں میں برکت.اپنی غلطی پر نادم ہونا اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کر نا ترقی کا بڑا بھاری گر ہے.پس اگر غلطی کرو تو بھی اور نہ کرو تو بھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے عفو طلب کر و.اس طرح مستقل ایمان حاصل ہو جاتا ہے اور اسے تو بہ ٹوٹنے نہیں دیتی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۹۳ ہے جب کوئی مؤمن چوری کرتا ہے یا زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے سر پر معلق ہو جاتا ہے اور جب وہ ایسا فعل کر چکتا ہے تو پھر اس میں داخل ہو جاتا ہے.اس سے بتایا کہ تو بہ کرنے والے کا ایمان گلی طور پر اسے نہیں چھوڑتا، اس کی غلطی کی وجہ سے نکل جاتا ہے مگر پھر تو بہ کرنے سے لوٹ آتا ہے.پس دعائیں کرتے رہو میرے لئے بھی، تمام مبلغین کے لئے بھی اور سب احمدیوں کیلئے بھی بے شک خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ وعدے ہیں لیکن میری طاقت تمہارے ذریعہ ہے.پس اپنے لئے دعائیں کرو اور میرے لئے بھی.اب کے تو خلافت جو بلی کی وجہ سے اتنے لوگ جمع ہوئے ہیں کوشش کرو کہ جماعت اتنی بڑھ جائے کہ اگلے سال یوں بھی اتنے لوگ جمع ہوسکیں.پھر غیروں کیلئے بھی دعائیں کرو.ان کے متعلق اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو.خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو.انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں.میں نے کہا.ہم بددعا نہیں کرتے.یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں.پس کسی کیلئے بددعا نہ کرو.کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو.بلکہ دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان وشوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے.اس موقع پر میں ان لوگوں کیلئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے تاروں کے ذریعہ دعاؤں کیلئے لکھا.ان کے نام نہیں پڑھ سکتا کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے.آپ لوگ ان کیلئے اور دوسروں کیلئے اور اسلام واحمدیت کیلئے دعا کریں.الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ء) بخاری کتاب الاضاحي باب ما يؤكل من لحوم الاضاحي.....الخ (مفهواً) الانفال: ۴۳ ابوداؤد كتاب الجهاد باب في النوم يسامرون.....الخ

Page 601

انوار العلوم جلد ۱۵ متی باب ۱۷ آیت ۲۱ ، نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۵ گلتیوں باب ۳ آیت ۱۰.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہو ر۱۹۲۲ء 1 گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ك الحشر: ۸ النساء: ۶۶ ا الاعراف: ۱۵۸ ال الحجرات : ٨ التوبة: ٨١ النور: ۵۲ التوبة: ١٠٣ المائدة: ۳۴ ها التوبة: اتاه بخاری کتاب المناسك باب النزول بين عرفة و جمع كل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۱۹۱۸ ال عمران : ۱۴۵ ۲۰ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۹۹ ۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ال شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ آرام باغ کراچی ۲۲ مسلم كتاب الوصية باب ترث الوصية لمن ليس له شيء.۲۳ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۴ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۵ ۲۶، تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۸، ۳۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۷ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۸ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۲۹ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۳۰ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ا تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴، ۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۳۲ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴٬۳۲۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ( مفہوماً) النساء : ۵۲تا۶۰ ۳۴ پیغام صلح ۲۲ / مارچ ۱۹۱۴ء ۳۵ پیغام صلح ۵ مئی ۱۹۱۴ء ٣٦ التوبة: ٨ الرحمن: ۴۷ ٣٨ الرحمن: ۶۳ خلافت راشده

Page 602

انوار العلوم جلد ۱۵ ٣٩ الكهف: ۴۷ ۲۰ نسائی کتاب الجهاد باب الرخصة فى التخلف لمن له والدة ات الجمعة : ۴ مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية مسلم كتاب الامارة باب خيار الأئمة و شرارهم ۲۴ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۷.المكتب الاسلامی بیروت ۲۵ النور : ۵۵ تا ۵۷ ابراهيم: ۸ البقرة: ٣١ ص: ۲۷ خلافت راشده ۱۹ ال عمران: ۱۶۰ ۵۰ الاعراف: ۷۰ ۵ المائدة: ۲۱ ۵۲ الروم: ۴۲ ۵۳ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۶۶ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۵۴ تاريخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۵۱ مطبوعہ لا ہور۱۸۹۲ء ۵۵ تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۲۸۳ھ صلى الله ۵۶ بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب ما ذكر النبي علي ۵۷ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۷۳.المكتب الاسلامي بيروت ۵۸ برینڈی (BRINDISI) جنوبی اٹلی کا شہر.رومی دور کا اہم بحری اڈہ ۵۹ البقرة: ۹۲ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) ۲۰ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ال تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۱۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء سرا الخلافة صفحه ۲۰ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۴ المزمل: ١٦ ١٤ البقرة: ۲۴۸ ۲۵ موضوعات ملا علی قاری صفحه ۴۸ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ ٦٦ کنز العمال جلدا اصفحه ۲۵۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۴ء الوصیت صفحہ ۶ ، ۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵

Page 603

انوار العلوم جلد ۱۵ ۲۸ ال عمران : ااا ۱۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۲۰ ۲۲۱ مطبوعہ بیروت ك سرا الخلافۃ صفحہ ۱۹ ،۲۰ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۴،۳۳۳ اح سرا الخلافة صفحه ۱۲ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۲۶ ۲ کے سر الخلافة صفحه ۴۴ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۹،۳۵۸ خلافت راشده خلافت راشدہ حصہ اوّل صفحه ۱۱۰ مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مطبوعہ امرتسر ۱۹۲۲ء الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۱۴ ء صفحه ا ۷۵ بدراار جولائی ۱۹۱۲ ء صفحه ۴ ك المعجم الكبير جلد ۲ للطبرانی صفحه ۲۲۸ مطبوعه عراق ۱۹۷۹ ء کے مطابق یہ حدیث ہے.ے کے تذکرہ صفحہ ۵۱۸.ایڈیشن چہارم البقرة: ۱۵۷ ٩ البقرة: ۱۲۵ ١٠ البقرة: ۲۶۱ العنكبوت: ۲۸ ۲ بخاری کتاب الانبياء باب قول الله تعالى لقد كان في يوسف و اخوته....۱۳، الوصیت صفحہ ۶ ، ۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵ ۸۴ ترمذی ابواب المناقب باب لو كان نبى بعدى........۸۵ بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوک الخصائص الكبرى للسيوطى الجزء الثانی صفحہ ۱۱۵ مطبوعہ فیصل آباد تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء میں ” تحت“ کی بجائے ”اسات ہے.۸۸ الاعراف: ۹۰ ۸۹ الزخرف: ۸۲ ۹۰ کودن: نادان، گند ذهن ۹۱ اس رسالہ کا نام ” خلیفہ قادیان" ہے اور اس کے مصنف سردار ارجن سنگھ صاحب امرتسری ہیں.مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل على ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ.۹۳ ترمذی ابواب الایمان باب ماجاء لايزني الزاني وهو مؤمن.

Page 604

انوار العلوم جلد ۱۵ کارکنان جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے خطاب کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ ء سے جو خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 605

انوار العلوم جلد ۱۵ کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ ء سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء سے خطاب ( فرموده ۶ /جنوری ۱۹۴۰ ء ) له تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے باوجود ہر قسم کے موانع اور ہر قسم کی کمیوں کے گزشتہ سالوں سے زیادہ اس بات کی توفیق بخشی کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ اور دین کیلئے جمع ہونے والے مہمانوں کی خدمت کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حوصلہ اپنے اخلاص اور اپنی طاقت و ہمت کے مطابق موقع ملا.ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی ایسا اجتماع کہیں نہیں ہوتا.جس میں اتنی مقدار میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہو.انگلستان ، امریکہ ، جرمنی ، فرانس اور روس یہ اس وقت ترقی یافتہ اور بڑے بڑے ممالک خیال کئے جاتے ہیں مگر ان میں تمہیں چالیس ہزار آدمیوں کے اجتماع ایسے نہیں ہوتے جن کو کھا نا کھلایا جا تا ہو.ہندوستان میں کانگرس کے اجتماع بے شک بڑے ہوتے ہیں.گزشتہ سال میں نے نمائندے تحریک جدید سے وہاں بھجوائے تو انہوں نے بتایا کہ ان کو کھانا مفت ملنا تو الگ مول لینے میں بھی دھنیں پیش آئیں.غرض یہ ہمارے جلسہ کی خاص خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جن کو دوسرے اجتماع دیکھنے کا موقع ملا ہے.جب وہ یہاں آتے ہیں تو ہمارے انتظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.اسی سال یو.پی کے ایک اخبار کے نمائندے جو بعض انگریزی اخبارات کے بھی نمائندے رہ چکے ہیں.اور کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں یہاں آئے تو انہوں نے ملاقات کے وقت کہا کہ کانگرس کے اجلاس سے اُتر کر ہندوستان میں اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں نہیں دیکھا.میں نے کہا سنا ہے کانگرس کے اجلاس میں لاکھ لاکھ دو دو لاکھ آدمی شریک ہوتے ہیں کہنے لگے لاکھ دو لاکھ تو ہر گز نہیں چالیس پچاس ہزار کے قریب ہوتے ہیں.اور مرد عورتیں اکٹھے ہوتے

Page 606

انوار العلوم جلد ۱۵ کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ ء سے خطاب ہیں.میں نے کہا ہمارے ہاں مستورات کے لئے الگ جلسہ گاہ ہے تو وہ کہنے لگے پھر آپ کے جلسہ کے مردوں کی اس تعداد کے ساتھ مستورات کی تعداد بھی شامل کر لی جائے تو کانگرس کے اجتماع میں بھی شاید اتنے ہی مرد عور تیں ہوتی ہوں.غرض قادیان کا جلسہ سالانہ اب کم از کم ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے.اور اپنے انتظام کے لحاظ سے تو دنیا بھر کے اجتماعوں سے اول نمبر پر ہے.کیونکہ ایسا انتظام کھانا کھلانے کا قادیان کے سوا اور کسی اتنے بڑے اجتماع میں نہیں ہوتا.ہاں میلے بے شک ہوتے ہیں.جن میں بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں مگر ان میں نہ تو رہائش کا انتظام ہوتا ہے نہ کھانے کا اور نہ روشنی کا.پس قادیان کا یہ جلسہ ایک لحاظ سے اول نمبر پر اور تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر.اور جس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ترقی ہو رہی ہے اس کے لحاظ سے ہمارا جلسہ سالانہ انشاء اللہ کسی وقت کا نگرس سے بھی ہر لحاظ سے اول نمبر پر ہوگا.اس کے بعد حضور نے انتظامی امور کے متعلق متعلقہ صیغوں کو ہدایات دیں اور آخر میں فرمایا.میں ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت دین میں حصہ لیا.اور محنت و مشقت سے جی نہ چرایا.دیکھو خدا تعالیٰ نے اس خدمت میں تم لوگوں کو منفر د کیا ہے.اور منفرد ہونا کوئی معمولی بات نہیں.بعض لوگ تو منفرد ہونے کے لئے بعض پاجی کے کام بھی کر لیتے ہیں جیسا کہ چاہ زمزم میں پیشاب کرنے والے کے متعلق مشہور ہے.اس وقت خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو قومی طور پر یہ فخر حاصل ہے کہ آپ لوگوں کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کا کام سپر د کیا گیا ہے یہ میز بانی اور اتنی بڑی جماعت کی اس رنگ میں میزبانی کسی اور کے سپرد نہیں کی گئی آپ لوگوں کے ہی مکان ایسے ہیں جو خدا کے دین کیلئے آنے والے مہمانوں کیلئے وقف ہوتے ہیں.مکہ میں بھی بے شک مہمانوں کیلئے مکانات دیے جاتے ہیں.مگر وہ کرایہ لیتے ہیں.یہ صرف قادیان ہی کے مکانات ہیں.جن کی نسبت ممّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ سے کے مطابق خرچ کرنے کا آپ لوگوں کو موقع ملتا ہے.پھر آپ لوگ ہی ایک ایسی جماعت ہیں جسے وہ شرف حاصل ہے جس کا حضرت خدیجہ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے یوں ذکر کیا تھا کہ خدا کی قسم خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں کے پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں.بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات سے ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.قیامت کے دن پانچ شخص ایسے ہوں گے جن پر خدا تعالیٰ اپنا سایہ کرے گا.ان میں سے آپ نے ایک

Page 607

انوار العلوم جلد ۱۵ مہمان نواز قرار دیا ہے.کارکنان جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ ء سے خطاب بے شک ایک دوست دوست کی میزبانی کرتا ہے.مگر وہ ایک رنگ کا سودا ہوتا ہے.ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار کی میزبانی کرتا ہے.اور وہ بھی ایک سودا ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے تعلق کی وجہ سے مہمان نوازی کرتا ہے.مگر آپ لوگ جن لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں.ان سے کوئی دنیوی تعلق نہیں ہوتا اور یہی دراصل مہمانی ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے آپ لوگوں کو لے جانے والی ہے اور یہی وہ مہمانی ہے جو شاذ و نادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ نے قادیان والوں کو عطا کر رکھی ہے.یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر اخلاص سے آپ لوگ کام لیتے ہوں تو نہ معلوم کتنے اُحد پہاڑوں کے برابر آپ کو ثواب حاصل ہوتا ہوگا.ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہو جائیں تو پھر ہم اجازت دیں دیں.کہ ہر ملک میں الگ سالانہ جلسے ہوا کریں اس وقت ان ممالک میں کام کرنے والے بھی ثواب کے مستحق ہوا کریں گے.مگر وہ وقت تو آئے گا جب آئے گا.اس وقت تو آپ لوگوں کے سوا ایسی خوش قسمت جماعت اور کوئی نہیں.اب میں دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور ہماری غلطیوں، مُستیوں اور کمزوریوں سے درگزر کرے تا ایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھا جانے والی ہوں.اور ہم آئندہ سال اس سے بھی بڑھ کر خدمتِ خلق کر کے اپنے خدا کو راضی کر سکیں.(الفضل ۹ جنوری ۱۹۴۰ء ) قادیان ۶ جنوری جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء کے انتظامات بخیر وخوبی ختم ہونے پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں صبح سوا نو بجے کے قریب کارکنان جلسہ کا اجتماع ہوا.جہاں سٹیج پر لاؤڈ سپیکر کا بھی انتظام کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے تشریف لانے پر جلسہ سالانہ کے انتظامات کرنے والی پانچ نظامتوں کی طرف سے رپورٹیں سنائی گئیں.پھر حضرت صاحب نے سوا دس بجے سے سوا بارہ بجے تک تقریر فرمائی جس میں حضور نے اہم امور کی اصلاح کے متعلق ہدایات دیں.پاجی: ذلیل، کمینه البقرة : ۴ بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي (الخ)

Page 608

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفہ اسیح الثانی

Page 609

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ( تقریر فرمودہ حضرت خلیفہ اسی الثانی بنش کرده ریڈ یو بی منو رح ۱۹ فر وری ۱۹۴۰ ، بوقت ساڑھے آٹھ بجے شام ) مجھ سے بمبئی ریڈیو والوں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں انہیں بتاؤں کہ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ؟ جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناء پر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے.جو مذ ہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کرسکتا ہے وہ سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے.اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے.وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں.اس دعوی کو دو طرح ہی پر کھا جا سکتا ہے، یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعوی کی سچائی کو معلوم کر لیں.چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجر بہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا، اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں.اول: میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا

Page 610

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ہے مجھ سے زبردستی نہیں منوا تا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے.خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے ، دعا، اس کا اثر ، قضاء وقدر اور اس کا دائرہ ، عبادت اور اس کی ضرورت ، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت، بعث ما بعد الموت، جنت دوزخ ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی اور جسے عقلِ انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا.پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے.دوم : میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعووں کی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پر کھی جاسکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے.سوم : میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے.وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانین قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہوسکتا.پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کیلئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کیلئے اس کے قول کو دیکھ اور اس طرح اسلام میری قوت فکر یہ کوتسکین بخشتا ہے.چہارم : میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے.وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے بلکہ جس طرح ایک ماہر انجنیئر آزاد پانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے.وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر

Page 611

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں پاک محبت اور جائز محبت ، جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کیلئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا مگر حد کے اندر رہ کرتا ایسا نہ ہو تو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا ر ہے.غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے.جم : پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے.اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے.اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولادکوان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے ، انہیں تعلیم دلانے ، اعلیٰ تربیت کرنے ، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے.اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے.وہ کیا ہی زیریں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے.اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے.تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو گے پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا.انہیں تعلیم دلانے پر خاص زوردیا ہے اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ہے.اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے.پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی.وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں، بلکہ ایک امانت ہے پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے اپنے حاکم انہیں چنو ، جو حکومت کرنے کے

Page 612

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں اہل ہوں گے اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کر کے ان سے پورا تعاون کرو اور بغاوت نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو.اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے.وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرے اور جو تیرا دست نگر ہو اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے.پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ تو ڑ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اُجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے.اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے.اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو، تا وہ اسے غرباء کی ترقی کیلئے خرچ کرے اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اسے سُود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھاؤ نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثواب دارین کماؤ مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے بلکہ تم خدا تعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قو تیں پیدا کر و جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہوا اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباء کی اس جدو جہد میں ان کی مدد کرے اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے.اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہو گئی کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خدا نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے اور یا درکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی ، سو دوسروں پر بڑائی جتا کر فخر نہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کرو کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے

Page 613

انوار العلوم جلد ۱۵ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں گرے ہوئے بھائی کو اُٹھاتا ہے.اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کریں اور ایسا نہ ہو کہ بعض قو میں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریں گے.غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں کیا ہوں اور کچھ بھی ہوں اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے.میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کیلئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں اور عورتوں کے لئے اور مردوں کیلئے اور بزرگوں کیلئے اور خوردوں کیلئے اور غریبوں کیلئے اور امیروں کیلئے اور بڑی قوموں کیلئے اور ادنی قوموں کیلئے اور ان کے لئے بھی جو اتحادِ اُم چاہتے ہیں اور حُبُّ الوطنی میں سرشاروں کیلئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے اور میرے لئے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے.پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں.ریویو آف ریلیجنز مارچ ۱۹۴۰ء صفحه ۲۶ تا ۳۱) ابن ماجه كتاب النكاح باب حسن معاشرة النساء بخاری کتاب الادب باب المَعَاريضُ مندوحة عن الكذب ترمذی کتاب البر والصلة باب ماجاء في النفقة على البنات اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا، وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ ان تحكموا بالعدل، اِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ( النساء: ٥٩) ه ابن ماجه كتاب الرهون باب اجر الاجراء

Page 614

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 615

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک بِسْمِ اللهِ الرَّحْ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک ( تقریر فرموده ۲۶ رمئی ۱۹۴۰ء بعد نما زعصر بمقام بیت اقصی قادیان ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہمارے بادشاہ کی طرف سے جو دعا کا اعلان ہوا ہے اس کے مطابق ہمارے عہدہ داروں نے بھی آج دعا کا اعلان کیا ہوا تھا اور اسی غرض کیلئے اس وقت احباب جمع ہیں.دنیا میں ہر ایک مذہب والا اپنے اپنے عقیدہ کے رُو سے کسی نہ کسی دن کو بابرکت سمجھتا ہے چونکہ انگلستان کی حکومت عیسائی ہے اس لئے اس کے نزدیک اتوار کا دن مبارک ہے اور اسی وجہ سے اس نے دعا کیلئے اس دن کا انتخاب کیا اور اعلان کر دیا کہ اس دن اُن کی کامیابی کیلئے دعا کی جائے اور ہم نے بھی تمام ایمپائر کے لوگوں کے ساتھ شمولیت اختیار کرنے کیلئے آج دعا کا اعلان کر دیا لیکن ہمارے مذہب میں دعا کی قبولیت کا دن جمعہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جب کوئی بندہ دعا کرتا ہے تو وہ ضرور قبول کر لی جاتی ہے.پس میر امنشاء ہے کہ ہم اس دعا کے حقیقی پہلو کو اس طرح پورا کریں کہ علاوہ آج کے دن دعا کرنے کے کسی جمعہ کو بھی حکومت برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کر دیں شاید اس طرح وہ ساعت جو قبولیت دعا کیلئے مقرر ہے ہماری دعاؤں کے ساتھ مل جائے اور اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج پیدا کرے.پس گو ہم آج بھی جمع ہو گئے ہیں اور ہم دعا بھی کریں گے لیکن ہمارے مذہب نے جس دن کو مبارک اور تمام دنوں سے زیادہ پسندیدہ اور مقبول قرار دیا ہے ہماری حقیقی خدمت اور ہماری حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی وہی ہوگی جب ہم اُس دن بھی ان کی کامیابی کیلئے دعا کریں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج برطانوی ایمپائر پر بلکہ برطانوی ایمپائر ہی کیا تمام دنیا پر اور اُس

Page 616

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک تمام مہذب نقطہ نگاہ پر جو گزشتہ صدیوں کے اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے نہایت خطرناک حملہ ہوا ہے اور اس میں بھی کوئی قحبہ نہیں کہ یہ جنگ اگر اتحادیوں کے خلاف پڑے تو دنیا میں ایسے خطرناک تغییرات رونما ہو جائیں گے کہ نہ مذاہب کے لئے امن باقی رہے گا اور نہ قوموں کیلئے امن باقی رہے گا اور سینکڑوں سال کے لئے لوگ ویسی ہی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جیسے چوہڑے اور چمار ایک عرصۂ دراز تک آریوں کے غلام رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی حبہ نہیں کہ جہاں تک ظاہری حالات کا تعلق ہے اتحادیوں نے اپنی غفلت اور سستی اور کبر اور خود پسندی کی وجہ سے اُن سامانوں کے جمع کرنے میں بہت ہی سستی دکھائی ہے جن سامانوں کا جنگ کے لئے جمع کرنا ضروری تھا اور ان کی اس سستی ، غفلت اور میں کہوں گا کہ تکبر کا یہ ثبوت ہے کہ گزشتہ چھ ماہ ہمارے سیاستدان اس دعوی کے اعلان میں لگے رہے کہ ہمارے پاس سامان بہت ہے اور ہم جرمن کو بھوکا مار سکتے ہیں مگر آج حالات ایسا رنگ اختیار کر گئے ہیں کہ خود انگلستان بھوکا مرنے کے خطرہ میں گرفتار ہے مگر جرمن کیلئے بھو کا مرنے کا کوئی خطرہ نہیں.انہوں نے اپنے سامانوں پر گھمنڈ کیا اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے فائدہ اُٹھاتے غفلت اور سستی میں پڑے رہے بلکہ ہندوستان میں تو اب تک غفلت اور سستی سے کام لیا جا رہا ہے.اچھا سپا ہی دو سال میں تیار ہوا کرتا ہے لیکن ابھی تک ہندوستان میں یہی سوچا جارہا ہے کہ ہمیں اس جنگ کے مقابلہ کیلئے کیا کرنا چاہئے.حالانکہ وہ جس دن اپنی کوششوں کا آغاز کریں گے اس سے سال دو سال بعد انہیں اپنے ملک کی حفاظت کیلئے اچھے سپاہی مل سکیں گے اس سے پہلے نہیں.پس نہ معلوم وہ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں.آیا اس دن کا جب دشمن ان پر حملہ کر دے گا اور کیا جس دن دشمن حملے کرے گا اس دن انہیں وہ تیاری کیلئے مہلت بھی دے دے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں پر کچھ ایسی غفلت طاری ہوگئی کہ یہ سامانِ جنگ تیار نہ کر سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا کہ محض دنیوی سامانوں پر بھروسہ انسان کے کام نہیں آ سکتا چنانچہ آج بڑے کیا اور چھوٹے کیا ، بادشاہ کیا اور وزراء کیا سب کہہ رہے ہیں کہ دعائیں کرو کیونکہ دعاؤں کے بغیر کامیابی مشکل ہے.فرانس کے وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرانس کو اب معجزہ کے سوا کوئی چیز نہیں بچاسکتی.پھر انہوں نے کہا اگر یہی بات ہے تو میں معجزوں پر بھی ایمان رکھتا ہوں یعنی اگر یہی صورت ہو تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ فرانس کا میاب ہوگا.ہم کہتے ہیں بہت اچھا وہ یقین رکھیں اور معجزات پر ہر شخص کو یقین رکھنا

Page 617

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک بھی چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ معجزے دیکھنے کیلئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف کسی قسم کی توجہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اگر وہ توجہ پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ بے شک معجزے دکھا دیتا ہے لیکن اگر اس کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو معجزات بھی ظاہر نہیں ہوتے.مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک کمزور اور عاجز انسان کو خدائی کے تخت پر بٹھائے ہوئے ہیں اور واحد اور قادر و مقتدر خدا کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.اگر وہ اس شرک کو مٹا دیں اور خدائے واحد کی طرف صدق دل کے ساتھ توجہ کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آسمان سے فرشتے اُتر کر ان کی مدد کریں لیکن جب دعا کرتے وقت بھی ایک انسان کی طرف ہی بار بار نظر اُٹھ رہی ہو تو خدا کی برکتیں کس طرح نازل ہوں.خدا تعالیٰ سے تو ان کا یہ سلوک ہے کہ وہ اس کی جائز حکومت سے اسے محروم کر رہے ہیں اور اپنے متعلق یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی حکومت ان کے پاس ہی رہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے یہ خدا کی حکومت خدا کو دیں پھر دیکھ لیں کہ جرمن کے ٹینک اور اس کے ہوائی جہاز آپ ہی آپ اُڑ جاتے ہیں یا نہیں اور خدا تعالیٰ کا قہر ا سے کس طرح جلا کر راکھ کر دیتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اب تک ان سے اچھا سلوک کیا ہے یہ پہلے بھی مشرک تھے ، یہ پہلے بھی ایک انسان کو خدا تسلیم کرتے تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے ان کو حکومت دی اور باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کے تخت سے اُتار کر ایک عاجز انسان کو اس کی جگہ بٹھا یا خدا تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی دیتا رہا اور ابھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور احمدیت اور دنیا کے فوائد اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کو اور مہلت مل جائے کیونکہ بہر حال جہاں تک ہماری نظر جاتی ہے ( ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ حالات کو بہتر جانتا ہے ممکن ہے خدا تعالیٰ کسی وقت جرمن والوں کے قلوب کو ہی درست کر کے انہیں نیک بادشاہ بنادے لیکن اس وقت تک کا جو تجربہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ جرمنی کی حکومت کے ماتحت اس کی غیر ملکی رعایا سکھی نہیں ) انگریز ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی رعایا سے بہتر سلوک کرتے ہیں.ابھی گزشتہ دنوں ایک کانگریسی اخبار نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ اب وقت نہیں رہا کہ کانگریس برطانیہ کی مخالفت کرے کیونکہ اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی طاقت انگریزی ہیونٹس کی حفاظت تلے ہے.یہ ایک ایسا اعتراف ہے جو خود دشمن نے کیا اور کہتے ہیں الْفَضْلُ مَاشَهِدَتْ بِهِ الأعْدَاءُ ایک کانگریسی اخبار کا یہ کہنا کہ کانگرس کی طاقت انگریزوں کے بیونٹس کی حفاظت کے سبب سے ہے بتاتا ہے کہ انگریزوں کا سلوک اپنی رعایا سے دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت بہتر ہے.

Page 618

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دنوں برطانیہ پر جو ابتلاء آ یا ہوا ہے اس کے متعلق چاہے ہنسیں ، چاہے ٹھٹھا اور مذاق کریں، چاہے ہمیں پاگل اور مجنون سمجھیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اُن آہوں کا یہ ہے جو ۱۹۳۴ ء، ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۳۶ء میں ہمارے دلوں سے بلند ہوئیں.میرے اُس وقت کے خطبات چھپے ہوئے موجود ہیں ان کو نکال کر پڑھ لیا جائے میں نے متواتر ان خطبات میں کہا ہے کہ انگریز یہ مت خیال کریں کہ اُن کے پاس تو ہیں، فو جیں ، ہوائی جہاز اور بم ہیں کیونکہ جس خدا پر ہمارا انحصار ہے اس کے مقابلہ میں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں.انہوں نے اس وقت میری اس آواز پر کان نہ دھرا اور کہا اس کی کیا حیثیت ہے.یہ ایک چھوٹی سی جماعت کا فرد ہے جسے جب چاہیں ہم تباہ کر سکتے ہیں اور جب چاہیں مار سکتے ہیں اور یہ نہ سمجھا کہ خدائی مذہب انسانوں کے قید ہونے یا انسانوں کے مارے جانے کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے.انسان مارے جاتے ہیں حتی کہ بعض انبیاء بھی شہید ہوئے ، انسان قید ہوتے ہیں حتی کہ بعض انبیاء بھی قید ہوئے ، انسان اپنے گھروں سے نکالے جاتے ہیں، حتی کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے گھر سے نکالے گئے مگر خدا تعالیٰ کی باتیں دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکتیں.حکومتیں مٹا دی جاتی ہیں، سلطنتیں تباہ کر دی جاتی ہیں، مگر خدا تعالیٰ کا قول دنیا سے کبھی محو نہیں ہوتا.مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ بات بہت ہی پیاری معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے لارڈ ولنگڈن سے ۱۹۳۵ء کی گرمیوں میں کہی جب کہ وہ ہندوستان کے وائسرائے تھے.انہوں نے کہا کہ سرایمرسن اپنے آپ کو بہت دُوراندیش خیال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ احمد یہ جماعت بوجہ اپنی تنظیم کے اور ایک امام کے تابع ہونے کے برطانوی حکومت کیلئے ایک ممکن خطرہ ہے اور اس خیال سے وہ احمد یہ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ تاریخ سے قطعاً نا واقف معلوم ہوتے ہیں یا کم سے کم انہوں نے تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ جب کبھی کسی شاہنشاہیت نے کسی مذہب سے ٹکر لگائی ہے ہمیشہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ امپائر تباہ ہوگئی ہے مگر مذہب تباہ نہیں ہوا اور سچی بات یہی ہے کہ ایمپائر ز جب مذاہب سے ٹکراتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا قائم کیا ہوا کوئی مذہب آج تک دنیا سے نہیں مٹا اور نہ مٹ سکتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی قحبہ نہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ کیا وہ بعض مقامی افسروں نے کیا تھا.حکومتِ برطانیہ اس کی بے شک بالواسطہ ذمہ دار تھی مگر بلا واسطہ ذمہ دار نہیں تھی اور اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہم حالات کو صحیح طور پر سمجھیں.

Page 619

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک جب جرمنی کے مقابلہ میں اتحادی فوجوں کو فلنڈرز (FLANDERS) میں پہلی شکست ہوئی تو اس وقت میں کراچی میں تھا مجھ پر اس خبر کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ رات کو میری نیند اُڑ گئی اور بے چینی اور اضطراب کی حالت میں میں نے اتحادیوں کی کامیابی کیلئے دعا کرنی شروع کر دی اور گھنٹوں دعا کرتا رہا.جب صبح ہونے کے قریب ہوئی تو اس وقت مجھے الہام ہوا.ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا“ میں نے بعد میں سوچا کہ اس کا کیا مفہوم ہے.تو اس کا مطلب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ابھی دو چار سال پہلے تو بہت سے احمدیوں کے دلوں سے حکومت کے خلاف آہیں نکل رہی تھیں اور اب ان کی کامیابی کیلئے دعائیں کر رہے ہوگو یا اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ ہماری جماعت کی طرف سے اس موقع پر جو بددعائیں کی گئی تھیں وہ ضرورت سے زیادہ تھیں اور اس میں توازن کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا.یعنی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ظلم کتنا ہے اور آہیں کتنی بلند ہو رہی ہیں اور نہ یہ سوچا گیا کہ اگر یہ حکومت تہ و بالا ہوگئی تو اس کے بعد جو آئے گا وہ کیسا ہوگا.اچھا ہوگا یا بُرا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا." ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا کہ الزام تو اُن پر دیا جاتا تھا مگر اب قصور خود جماعت کا نقل آیا کیونکہ گوانگریز حکام الزام کے نیچے تھے مگر اُن کا جرم اتنا نہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں اس قدرآ ہیں تمہارے دلوں سے نکلتیں جس قدر نکلیں اور اس قدر بد دعائیں کی جاتیں جس قدر بد دعائیں کی گئیں.تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس الہام کے ذریعہ یہ سبق دیا ہے کہ ہر بات میں توازن کو محوظ رکھنا چاہئے.میں تو اُس وقت بھی جماعت کو روکتا تھا اور بار بار کہتا تھا کہ یہ جھگڑا چند مقامی افسروں سے ہے حکومت برطانیہ سے اس جھگڑے کا کوئی تعلق نہیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بارہ میں میں مجرم نہیں.مگر ذاتی طور پر مجھے معلوم ہے کہ جماعت کے بعض دوستوں نے انگریزوں کے خلاف بڑی بڑی بددعائیں کی ہیں.پس اب اللہ تعالیٰ نے یہ حالات پیدا کر کے ہمیں ہی مجبور کیا کہ ہم ان کی کامیابی کیلئے دُعائیں کریں کیونکہ وہ خطرہ جو آنے والا ہے بہت زیادہ سخت ہے.انگریزوں کی مثال در حقیقت ایسی ہی ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ دو یتیم بچوں کا خزانہ ایک دیوار کے نیچے دبا ہوا تھا.ایک مدت کے بعد وہ دیوار بوسیدہ ہو کر گرنے کے قریب ہوگئی.اب بظاہر دیوار کا گر جانا مفید تھا کیونکہ اس کے گر جانے سے خزا نہ نکل سکتا تھا مگر

Page 620

انوارالعلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی نے جب اس دیوار کو گرتے دیکھا تو پھر بنا دیا.اب دیوار کو دوبارہ کھڑا کر دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ خزانہ پھر دب جائے اور ظاہر نہ ہونے پائے پس حضرت موسی اور ان کے ساتھی نے دیوار بنادی اور خزانہ کو پوشیدہ کر دیا کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے اس دیوار کے بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا وہ خزانہ قبل از وقت ننگا نہ ہو جائے بلکہ اس وقت تک دبا ر ہے جب تک لڑکے اپنی جوانی کو نہیں پہنچتے تا کہ جب وہ جوان ہو جائیں تو وہی اس خزانہ پر قابض ہوں کوئی دوسرا اس پر قبضہ نہ جمالے.اسی طرح بظاہر حالات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز اور فرانسیسی وہ دیوار ہیں جس کے نیچے احمدیت کی حکومت کا خزانہ مدفون ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اُس وقت تک قائم رہے جب تک خزانہ کے اصل حقدار جوان نہیں ہو جاتے.ابھی احمدیت چونکہ بالغ نہیں ہوئی اور بالغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس خزانہ پر قبضہ نہیں کر سکتی اس لئے اگر اس وقت یہ دیوار گر جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ اس پر قبضہ جما لیں گے.پس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم پھر ایسی دیوار کو بنا دیں تاجب احمدیت اپنی بلوغت کا ملہ کو پہنچ جائے تو اس وقت وہ اس خزانہ کو سنبھال لے.دنیا داروں کی نگاہ میں بے شک یہ عجیب بات ہے مگر جو بات خدا تعالیٰ کے حضور مقدر ہے وہ عجیب نہیں اور وہی طبعی اور حقیقی فیصلہ ہے.پس اس وقت اتحادیوں کا ضعف احمدیت اور اسلام کے لئے بظاہر خطرناک ہے.یوں اللہ تعالیٰ چاہے تو دلوں کو بدل بھی سکتا ہے.ہلاکو خان نے بغداد کو فتح کیا تھا مگر اسی کی اولاد بعد میں مسلمان ہوگئی.اسی طرح کیا تعجب ہے کہ ہٹلر پہلے دنیا کو فتح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ اُسے مسلمان بنادے.لیکن مؤمن کا انحصار خیالی باتوں پر نہیں ہوتا بلکہ ظاہری حالات پر ہوتا ہے.باقی اگر خدا تعالیٰ ہمیں بتا دے کہ تمہارا اسی میں فائدہ ہے تو ہم انگریزوں اور فرانسیسیوں کی ذرہ بھی پروانہ کریں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا علم نہیں دیا گیا اور ظاہری حالات کی رُو سے اس وقت اسلام اور احمدیت کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ میں انگریزوں کو فتح دے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت کی اتباع میں اور اس وجہ سے کہ جہاں تک ہماری عقل کام کرتی ہے ہمیں انگریزوں کی فتح میں ہی فائدہ دکھائی دیتا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم انگریزوں کی کامیابی کیلئے دعا کریں.مجھے خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق بہت سی باتیں بتائی ہیں اور تو اتر اور تسلسل کے ساتھ

Page 621

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک پچھلے چھ ماہ میں اس جنگ کے حالات مجھ پر ظاہر کئے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اب وہ باتیں پوری ہو رہی ہیں بعض باتیں چونکہ ایسی ہوتی ہیں جن کا قبل از وقت شائع کرنا مناسب نہیں ہوتا اس لئے میں نے چند دوستوں کو وہ خواہیں سنا دی ہیں تا کہ وقت پر وہ ان خوابوں کے پورا ہونے کے گواہ رہیں.اب بھی میں سفر سے واپسی پر ریل میں آرہا تھا کہ میں نے پھر دعا کرنی شروع کر دی.دعا کرتے کرتے چند سیکنڈ کیلئے غنودگی کا ایک جھٹکا آیا جیسا کہ الہام کے وقت غنودگی آتی ہے.کشفی حالت میں ایک بادشاہ میرے سامنے سے گزارا گیا پھر الہام ہوا ' ایب ڈی کیٹیڈ (ABDICATED) میں اس کی تعبیر یہ سمجھتا ہوں کہ یا تو کوئی بادشاہ ہے جو اس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول بادشاہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دوبارہ دنیا میں کوئی تغیر پیدا کرے گا.اسی طرح انگلستان پر جرمن حملہ کی اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی تھی.یہ عجیب بات ہے کہ آج حکومت برطانیہ کے وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس سے پہلے انگلستان پر حملہ بالکل ناممکن سمجھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کئی ماہ پہلے مجھے یہ خبر دے دی تھی.چنانچہ ابھی انگلستان پر حملے کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا انگلستان ایسے خطرہ میں گھر گیا ہے کہ قریب ہے وہ جرمن کا غلام ملک ہو جائے اور اس نے اس خطرہ کی حالت میں بعض دوسرے ملکوں سے امداد کی درخواست کی ہے.ان دنوں میں دھرم سالہ میں تھا اور ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی.عزیزم مظفر احمد بھی ان دنوں وہیں تھے اور میں نے انہیں اور بعض دوسرے دوستوں کو یہ خواب سنادی تھی.غالباً جو لائی یا اگست کے مہینہ کی یہ بات ہے اور ستمبر میں لڑائی شروع ہوئی.تو اللہ تعالیٰ نے ان امور کے متعلق مجھ پر بہت سے انکشافات کئے ہیں لیکن ان کی تشریحات میں مناسب نہیں سمجھتا مگر باوجود ان تمام باتوں کے میرا قلب محسوس کرتا ہے کہ انگلستان کی بھلائی میں ہماری بھلائی ہے کیونکہ رویا میں میں نے جب بھی انگلستان کو مشکلات میں مبتلا ء دیکھا ہے میں نے یہی کوشش کی ہے کہ انگریزوں کے علاقہ میں چلا جاؤں.پس میں سمجھتا ہوں اس قوم سے ابھی ہماری قوم کے فوائد وابستہ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی فتح ہی ہمارے لئے مفید ہے اور مجھے تو یقین کامل ہے کہ اگر یہ بچے طور پر توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا لیکن ابھی انہیں اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ ہے اور ان کے لئے یہ ماننا سخت مشکل ہے کہ قادیان میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی دعا سے ہٹلر کی فوجیں بھاگ سکتی

Page 622

انوار العلوم جلد ۱۵ موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک ہیں.تاہم ان کی کامیابی کیلئے ہم دعا ہی کرتے ہیں گو یہ دعا ویسی نہیں ہو سکتی جیسی وہ دعا جس کے لئے وہ خود درخواست کریں کیونکہ موجودہ صورت تو ایسی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا انہیں ہماری دعاؤں کی احتیاج نہیں لیکن اگر وہ توحید کا اقرار کر کے ہم سے دعا کی درخواست کریں تو پھر وہ دعا ایسی ہی ہوگی جیسے دعائے مباہلہ ہوتی ہے اور جو سیدھی اپنے نشانہ پر پہنچتی ہے.اگر وہ ایسا کریں تو یقیناً ان کی تکلیف کے دن دور ہو سکتے ہیں.ان مختصر نصائح کے بعد میں دعا کرتا ہوں دوستوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس دعا میں شامل ہوں اور وہ یاد رکھیں کہ اس وقت انگریزوں یا فرانسیسیوں کا سوال نہیں بلکہ جہاں تک ہمارا علم ہے اور جہاں تک ہماری عقل کا م کرتی ہے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی آزادی حریت ضمیر اور حریت عمل کا سوال ہے.پس نہایت ہی درد اور کرب کے ساتھ دعا کرو اس شخص سے بھی زیادہ درد اور کرب کے ساتھ جس کا بیٹا یا باپ یا بھائی یا کوئی اور عزیز رشتہ دار مر رہا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا ہو جو درد ایسے شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ درد اس وقت تمہارے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور اسی درد اور کرب کے ساتھ تمہیں دعا کرنی چاہئے کیونکہ معاملہ معمولی نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک ہے.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.( الفضل ۴ جون ۱۹۴۰ء) بخاری کتاب الجمعة باب السَّاعة التي في يوم الجمعة بیونٹ (BAYONET) رائفل کے سامنے کا خنجر فلینڈرز FLANDERS نشیبستان (ہالینڈ بیلجیئم کمبرگ) کا سابق ضلع.اب بیلجیئم اور فرانس میں بٹا ہو ا ہے.بیـلـجـمـی فلینڈرز کے باشندوں کی اکثریت فلیمی زبان بولتی ہے.۱۷۹۷ء میں فرانس سے الحاق ہو ا.۱۸۱۵ء میں اسے ہالینڈ کے حوالے کیا گیا.۱۸۳۰ء میں ں بیلجیئم کا حصہ بنا اور دوصوبوں میں بٹا.دوسری عالمی جنگ میں فلینڈرز کی لڑائی ہالینڈ و حجیم پر جرمن فوجوں کے حملے سے شروع ہوئی.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۱۰۲.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ABDICATE : تخت سے دستبردار ہونا

Page 623

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی امتہ الودود میری بچی از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 624

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ امته الودود میری بچی كُل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَ يَنقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُوالْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ ( تحریر فرموده جون ۱۹۴۰ء) سب ہی مرتے امتہ الودود حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے گوشتہ دل میں چلے آئے ہیں، کچھ مر رہے ہیں، کچھ مر جائیں گے اور پیدا ہوں گے پھر وہ بھی مریں گے، اگلی نسلیں نئے جذبات لے کر آئیں گی ، ہمارے فانی جذبات ہمارے ساتھ ختم ہو جائیں گے.جو موتیں آج ہمارا دل زخمی کرتی ہیں وہ ان کا ذکر ہنس ہنس کر کریں گے، جن موتوں سے وہ ڈر رہے ہوں گے ان کا خیال کر کے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ باوجود ہماری نسلوں میں سے ہونے کے زمانے کے بعد کی وجہ سے ہم انہیں نہیں جانتے اور وہ ہم میں سے کئی کو نہ جانیں گے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ نے میری نسل کو قائم رکھا تو چھٹی ساتویں پشت کے کتنے بچے ہوں گے جو اپنی بڑی پھوپھی امۃ الودود کے نام سے بھی واقف ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ چھٹی ساتویں نسل کے بچے میری اپنی نسل سے ہوں گے ان کے غموں اور دکھوں کا احساس مجھے آج کس طرح ہوسکتا ہے اور ان کی خوشیوں میں میں کس طرح حصہ لے سکتا ہوں مگر امۃ الودود جسے ہم پیار سے دُودی کہا کرتے تھے جو گل ہم سے جُدا ہوئی گو میری بھیجی تھی مگر ان میری آئندہ نسلوں کے غم اس کے غم کو کہاں پہنچ سکتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ زمانہ، رشتہ اور تعلق یہ تین چیزیں مل کر دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کیا کرتی ہیں.پھر اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زور پکڑ جائے تو

Page 625

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی وہ دوسری چیزوں کو دبا دیتی ہے اور جب تینوں جمع ہو جائیں تو جذبات بھی شدید ہو جاتے ہیں.دودی میری بھیجی تو تھی مگر زمانہ کے قرب اور تعلق نے اسے میرے دل کے خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی.بعد کی نسلیں تو الگ رہیں میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے.امتہ الودود کی سہیلی یہ میری بھولی بھالی بچی مجھے بچپن سے ہی بہت پیاری تھی.اس کی اور ایک میری بھانجی ہے زکیہ ان دونوں کی شکلیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں.جب عید وغیرہ کے موقع پر سب بچے اماں جان کے گھر میں جمع ہوتے تھے تو میں ان دونوں کو خاص طور پر پیار کیا کرتا تھا اور یہ دونوں دوسروں پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں.ایک کہتی ماموں جان مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دوسری کہتی ، چا ابا مجھے زیادہ چاہتے ہیں.پھر جب یہ بچیاں بڑی ہوئیں تو امتہ الودود کی علمی لیاقت نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا.اسی دوران میں اس کی دوسری سہیلی ” چھوٹی آپا یعنی مریم صدیقہ کی میرے ساتھ شادی ہو گئی.یہ دونوں ایک ہی سال اور ایک ہی مہینہ میں پیدا ہو ئیں تھیں، اکٹھی پڑھتی رہیں.ایف.اے اکٹھا پاس کیا اور نمبر بھی ایک ہی جتنے تھے.پھر بی.اے کا امتحان دیا اور دونوں فیل ہوئیں.پھر دوبارہ بی.اے کا امتحان دیا اور پھر دونوں فیل ہوئیں.اس سال پھر دونوں نے بی.اے کا امتحان دیا اور دونوں پاس ہو گئیں.اس شادی کے بعد چونکہ دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا، امۃ الودود کی بھی مجھ سے بے تکلفی بڑھ گئی اور مجھے اس کے اخلاق کے دیکھنے کا زیادہ موقع ملا.امتہ الودود کے متعلق خواہش اُس وقت میرے دل میں یہ خواہش زور سے پیدا ہوئی کہ امتہ الودود کی شادی میرے بچوں میں سے کسی کے ساتھ ہو جائے مگر جوان بچوں کے ارادے پہلے سے دُوسری جگہ ہو چکے تھے اس لئے میں کامیاب نہ ہو سکا اور جب لڑکے راضی نہ تھے تو درخواست دینا بے معنی امر تھا.اس عرصہ میں اُس کے بعض رشتے آئے جنہیں پسند نہ کیا گیا.سب سے آخر میں جس رشتہ کو رڈ کیا گیا وہ گھر کا ہی تھا.کوئی پانچ ماہ کا عرصہ ہوا اس کے ذکر کے سلسلہ میں میری ہمشیرہ نے ذکر کیا کہ دودی کے نانا کہتے تھے کہ میں گھر کے رشتہ کو پسند کرتا ہوں.اگر بڑے لڑکوں کی شادیاں ہو چکی ہیں تو عمر میں چھوٹے ہی سے سہی.یہ فقرہ سنتے ہی میری دیرینہ خواہش پھر عود کر آئی اور میں نے ہمشیرہ سے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میری بھی خواہش ہے.عزیزم خلیل احمد کو چھ سال عمر میں چھوٹا ہے مگر

Page 626

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الود و د میری بچی رشتہ داروں میں ایسے رشتے بہت ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ فرق پر بھی ہو جاتے ہیں.میری ایک بچی نے یہ سنا تو مجھ سے کہنے لگی کہ عمر کے اتنے فرق پر یہ رشتہ کس طرح ہو سکتا ہے.میں نے جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو وہ آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں.بچی ہی تو تھیں اس نے آگے سے جواب دیا کجا خلیل اور گجا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.میں نے بھی جواب میں کہا کہ گجا امتہ الود و داور گجا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مگر یہ بات اپنے ہی گھر تک رہی.میں نے چاہا کہ میں لڑکی کے اخلاق کا مطالعہ گہرے امۃ الودود کے اخلاق کا مطالعہ طور پر کروں.ماں کی طرف سے اس کا رشتہ کوٹلہ کے نوابوں سے پڑتا ہے ایسا نہ ہو اس میں کوئی رگ امارت کی ہو جو بعد میں باعث تکلیف ہو.چنانچہ اسی غرض سے میں زور دے کر اسے اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کو جو اس کے بھائی اور میرے بھتیجے اور داماد ہیں اپنے ساتھ کراچی لے گیا، وہاں میں نے اسے ہر رنگ میں آزمایا، ایک دوسرے کے جو ٹھے پانی پلائے ، زمین پر بٹھا کر کھانا کھلایا ، گھر کی صفائی کے کام میں شامل کیا ، غرض کئی مواقع پر ایسے کام کرائے جو عام طور پر امیر خاندانوں میں بُرے سمجھے جاتے ہیں اور اس نے نہایت سادگی سے سب ہی کاموں کو خوشی سے کیا اور میں نے محسوس کیا کہ اس کا دل غریب ہے اور عادات فقیرانہ ہیں.یہ اس کا پہلا ہی سفر میرے ساتھ تھا بلکہ ساری عمر میں اسے سیر کا یہ پہلا ہی موقع ملا تھا مگر اس نے اس بے تکلفی سے وہ دن گزارے کہ وہ کبھی میرے لئے بوجھ محسوس نہ ہوئی اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اس کے والدین مانیں یا نہ مانیں میں عزیزم خلیل احمد سلمہ اللہ کی طرف سے ضرور درخواست دے دونگا.اس عرصہ میں میں نے خود بھی استخارہ کیا اور بعض دوسروں سے بھی کرایا.چونکہ اسے تھوڑے امت الودود کے متعلق خواہش کی تکمیل کیلئے کوشش بھی اس تھی.دنوں کی اجازت وہ تو چند دن پہلے اپنے بھائی کے ساتھ کراچی سے آ گئی اور ہم چند دن بعد وہاں سے واپس آگئے.واپسی پر میں نے حضرت ام المؤمنین سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا.انہوں نے جو روکیں ہوسکتی ہیں ان کا ذکر کیا اور خطرہ ظاہر کیا کہ کہیں انکار کی صورت میں آپس میں بدمزگی پیدا نہ ہو.میں نے انہیں تسلی دلائی کہ ایسا ہر گز نہ ہوگا اگر بچی کے ماں باپ کو رشتہ نا پسند ہوا تو میں ہرگز بُرا نہ

Page 627

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی مناؤں گا اصل غرض تو لڑکی کا آرام ہے اگر اس کی راحت کسی اور رشتہ میں ہو تو مجھے بھی وہی منظور ہوگا.اس پر انہوں نے اجازت دے دی مگر اس عرصہ میں بعض اور رشتے زیر غور تھے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ ان کی موجودگی میں اپنے لڑکے کی طرف سے درخواست دوں مگر میں نے سنا کہ لڑکی نے ان رشتوں کو پسند نہ کیا اور آخر مناسب انتظار کے بعد پرسوں بدھ کی شام کو عصر کے بعد میں نے ایک لمبا خط عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام لکھا کہ گو میرے لڑکے میں نقص ہیں ، عمر اس کی کم ہے تعلیم اس کی کم ہے، مگر پھر بھی میں اس کی طرف سے درخواست پیش کرتا ہوں.ہاں اگر آپ کو نا پسند ہو تو مجھے کوئی گلہ نہ ہوگا کیونکہ اپنے لڑکے کے نقائص خود مجھے معلوم ہیں.میں نے چاہا کہ خط کی نقل رکھ لوں اور چونکہ معاملہ پرائیویٹ تھا میں نے تجویز کیا کہ اپنی چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سے اس کی نقل کراؤں تا کہ کسی غیر کو اس کے مضمون پر اطلاع نہ ہو وہ اس دن اپنے ابا کے ہاں گئی ہوئی تھیں.شام کو واپس آئیں اور میں دس بجے ریڈیو سے خبر میں سن کر اندر گیا اور ان کو جگا کر کہا کہ صبح ہی یہ خط نفل کر دو تا کہ میں بھجوادوں اور ان سے کہہ کر اُم وسیم کے ہاں آیا جہاں میری باری تھی اور کھانا کھایا اور تھوڑی دیر مطالعہ کر کے لیٹ گیا.کوئی ساڑھے گیارہ بارہ کا وقت ہو گا کہ جب میں لیٹا تھا ، کوئی دوبجے کا وقت تھا کہ میری بیوی نے مجھے جگایا اور یہ فقرہ میرے کان میں پڑا کہ ” میاں شریف احمد صاحب کی طرف سے اماں جان کے پاس آدمی آیا ہے کہ امتہ الود ود کو درد کا دورہ ہوا ہے اور وہ بے ہوش ہوگئی ہے.ڈاکٹر جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس کا آخری وقت ہے منہ دیکھنا ہے تو آ کر دیکھ لیں“.حضرت اماں جان لا ہور تھیں میں گھبرا کر اُٹھا اور گو بوجہ بیماری چلنا پھرنا منع تھا مگر ایسے وقت میں بیماری کا خیال کیسے رہ سکتا ہے میں اِنَّا لِلہ پڑھتا ہوا اُٹھا اور چونکہ موٹر کوئی موجود نہ تھا ٹا نگہ کیلئے آدمی دوڑ ا یا.مریم صدیقہ کو جگایا، مریم اُمّم طاہر کو اطلاع دی ، عزیزہ ناصرہ بیگم اپنی بیٹی کو جو امۃ الودود کی بھاوج ہے اور دو دن کیلئے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی جگایا اور ٹانگہ میں بیٹھ کر میں ناصرہ سلمہا اللہ تعالیٰ، اُمّم وسیم اور مریم صدیقہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے.میں اب تک کی رپورٹ سے یہی سمجھ رہا تھا کہ اپنڈی سائیٹس کا دورہ ہوا ہوگا یا کبھی خیال آتا تھا کہ جو ان لڑکیوں کو بعض دفعہ ایام میں ٹھنڈے پانی کے استعمال سے کچھ روک پیدا ہو کر شدید درد ہو جاتی ہے شاید ایسی ہی کوئی تکلیف ہو میں نے احتیاطاً اپنی ہومیو پیتھک

Page 628

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی دواؤں کا بکس بھی ساتھ لے لیا.بیماری کی کیفیت لیکن جب وہاں پہنچے تو کمرے میں متہ الود و لیٹی ہوئی تھی اور لمبے سانس جن میں بلغم کی خرخراہٹ شامل تھی لے رہی تھی.وہ بالکل بے ہوش تھی اور آج اس کے چھا ابا کی آمد اس کے لئے بالکل کوئی معنی نہ رکھتی تھی.باہر ڈاکٹر تھے میں نے ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ درد کی رپورٹ غلط تھی.اس کے دماغ کی رگ سوتے سوتے پھٹ گئی ہے اور طبی معلومات کی رُو سے اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں.جب حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ رات کو بارہ بجے کے قریب لیٹیں اور تھوڑی دیر بعد کراہنے کی آواز آئی اس کے ابا میاں شریف احمد صاحب نے اس کی آواز سنی اور اس کے پاس آئے اور دیکھا کہ بے ہوش ہے اور تشنج کے دورے پڑرہے ہیں.وہ اس کی چار پائی برآمدے میں لائے اس وقت اس نے کئے کی اور قے کے بعد اس قد ر لفظ کہے کہ میرا سر پھٹا جاتا ہے، سر پکڑوا اور خود ہاتھ اٹھا کر سر پکڑ لیا.بس یہی اس کی ہوش تھی اور یہی اس کے آخری الفاظ.فوراً ڈاکٹروں کو بلوایا گیا اور انہوں نے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا.مگر ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ موت کا وقت ہے اس بیماری کا کوئی علاج نہیں میرے سامنے لمبر پنچر کیا گیا تا کہ تشخیص مکمل ہو جائے.چنانچہ لمبر پنچر سے بجائے پانی کے خون نکلا جس سے یہ امر یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ سر کی رگ پھٹ کر دماغ کو خون نے ڈھانک لیا ہے.چند منٹ کے بعد سانس رکنے لگا اور میرے آنے کے نصف گھنٹہ بعد یہ بچی ہم سے وفات ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليورْجِعُونَ ہے میرا رشتہ کی تحریک کا خط لکھا ہوا میرے سرہانے پڑا رہا اور امتہ الود و داپنے رب کی طرف سدھار گئی.ثُمَّ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليوجِعُوْنَ - ایسی لائق اور نیک اور شریف بچی کی جُدائی کا صدمہ اس کے ماں باپ کو تو دہرا صدمہ ہونا لازمی ہے جس حد تک شریعت اجازت دیتی ہے اور جس حد تک انسانی فطرت کی بناوٹ غم کو لے جانے میں مدد دیتی ہے اس حد تک انہیں صدمہ ہوا ہی ہوگا لیکن گومیں نے شادی کی درخواست دی نہ تھی اور نہ معلوم بچی کے ماں باپ ماننے یا نہ مانتے جن سے میں نے مشورہ لیا ان کا خیال تھا کہ نوے فیصدی انکار ہی سمجھنا چاہئے مگر انسان کی خواہش اسے ناممکنات بھی ممکنات کی شکل میں دکھاتی ہے.میں تو اپنے ارادہ کے ساتھ ہی مرحومہ کو اپنی بہو

Page 629

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی سمجھنے لگ گیا تھا اور خیال کرتا تھا کہ امتہ الحی کی نسل کو اب اللہ تعالیٰ چاہے تو امتہ الودود چلائے گی اس لئے جہاں اس بچی کے ماں باپ اپنے دل کو یہ کہہ کر صبر دلاتے ہوں گے کہ ایک دن تو اس لڑکی نے ہمارے گھر سے جانا ہی تھا وہاں میرے دل کی تکلیف اور ہی رنگ رکھتی ہے.بہوئیں اگر نیک ہوں بیٹیوں سے کم پیاری نہیں ہوتیں اور اگر وہ اپنی ہی عزیز ہوں اور طبیعت کی نیک تو چونکہ انسان کو بڑھاپے میں لڑکیوں سے زیادہ بہوؤں سے واسطہ پڑتا ہے اور وہی اس کی راحت کا موجب ہوتی ہیں ان کا وجود اور بھی زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے.میں کئی دفعہ سوچا کرتا ہوں کہ انسان جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کی لڑکیاں دوسروں کے لڑکوں کے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور اس کے لڑکے دوسروں کی لڑکیوں کو لے کر الگ ہو جاتے ہیں اور وہ اُس وقت جب کہ وہ سب سے زیادہ خدمت اور دلجمعی کا محتاج ہوتا ہے اکیلا رہ جاتا ہے.پھر جب کہ لڑکے اپنی شادیوں میں آزاد ہیں ضروری نہیں کہ ان کی بیویاں اُن کے ماں باپ کے لئے راحت کا موجب ہوں.خلیل چونکہ بے ماں کا بچہ ہے میری خواہش تھی کہ اس کے لئے میں ایسی بیوی تلاش کروں جسے بالکل الگ رہنے کی خواہش نہ ہوا اور ہو بھی میری عزیز تا کہ اس کی خوشی کا خیال رکھنے پر میں اور دوسرے اہلِ خانہ دونوں طرح مجبور ہوں اس کے بہو ہونے کے لحاظ سے بھی اور اس کے رشتہ دار ہونے کے لحاظ سے بھی.یہ بات تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مرحومہ کا رشتہ ہوتا یا نہ ہوتا یا اس کا عمل کیسا ہوتا لیکن میں نے اس کی طبیعت کا مطالعہ کر کے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ ہمارے گھر میں آئی تو اپنی طبیعت کے لحاظ سے ایسے امور میں وہی راہ اختیار کرے گی جو میری خوشی کا موجب ہو.تعجب ہے اس بچی کو ہمارے گھر کی سب لڑکیاں متکبر کہا کرتی تھیں تکبر نہیں حیاء و انکسار اور غالباً اسی اثر کے ماتحت اس کا رشتہ میرے بڑے لڑکوں میں سے کسی سے نہ ہو سکا مگر جب میں نے اس کے اخلاق کا گہرا مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ اس کا تکبر اس کی حیا تھی ، ورنہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ اس کی طبیعت کا انکسار ہمارے خاندان کی اکثر لڑکیوں سے بڑھا ہوا تھا اور میں نے اس کا دل کینہ اور بغض سے بالکل صاف پایا.لڑکیوں میں آپس میں رقابت ہوتی ہے میری بچیوں میں بھی ہے لیکن اس کا میں نے جہاں تک مطالعہ کیا اس میں رقابت نام کو نہ تھی اور اسے سب ہی بہنوں سے محبت تھی.اس بارہ میں مجھے اس کا ایک خاص تجربہ ہوا.اسے اپنی ایک بہن سے تکلیف پہنچی تھی.میں

Page 630

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الود و د میری بچی نے ایک دفعہ اس امر کا ذکر اس سے کیا.مجھے معلوم ہوا کہ اُسے پہلے سے اس واقعہ کا علم تھا مگر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اس کے دل میں اس بہن کی نسبت کوئی کدورت نہ تھی.خدا تعالیٰ اس کی رُوح پر رحم کرے.پیدائشی صحت کی کمزوری امتہ الودود کی پیدائش انفوئنزا کے دنوں میں ہوئی.ہمارے خاندان کی تین لڑکیاں انفلوئنزا کی یادگار ہیں امتہ الود ودمرحومہ، مریم صدیقہ بیگم اور امتہ الرشید میری لڑکی.تینوں ہی کی پیدائش کچھ کچھ دن وقت سے پہلے ہوئی.امۃ الود و دمرحومہ کی بہت پہلے اس نے صرف آٹھ ماہ اپنی والدہ کے پیٹ میں گزارے.کچھ اس وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ بوجہ انفلوئنزا کی وباء کے دیر تک گھر کے لوگ بیمار رہے اس کی صحت بہت خراب رہا کرتی تھی اور کئی سال کی عمر تک تشنج کے دورے ہوتے رہتے تھے.ذراسی بات پر رونے لگتی اور رورو کر دورہ ہو جاتا اور اکثر دفعہ موت کے قریب پہنچ جاتی.ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم گوڑ گانوی معالج ہوا کرتے تھے.وہ اس کے اس طرح موت کے قریب پہنچ کر اچھا وو ہو جانے کی وجہ سے اسے ” مر مرجیونی“ کے نام سے پکارا کرتے تھے.میں نے اس کا نام امتہ الودود رکھا تھا اس کی امتہ الودود نام کس طرح قرار پایا اماں کو کوئی اور چھوٹا سا نام پسند تھا.انہی دنوں کا لطیفہ ہے کہ وہ اسے اپنے پسندیدہ نام سے بلایا کرتی تھیں کہ اسے دورہ ہوا اور موت کے قریب پہنچ گئی.اس پر انہوں نے کہا چلو امتہ الودود ہی نام سہی یہ کسی طرح بچ جائے.وہ اچھی ہو گئی تو کچھ دنوں کے بعد انہیں اپنی بات بھول گئی اور پھر انہوں نے وہی اپنے والا نام پکارنا شروع کیا.پھر اتفاق سے دورہ ہوا اور پھر امتہ الودود ہی نام قرار پایا.مجھے بعضوں نے کہا کہ جب ماں کی خواہش ہے تو تم نام بدل ڈالو.میں نے کہا میں نام تو بدل دیتا مگر بچی کے نام میں اللہ کا نام آتا ہے میں یہ نام نہیں بدل سکتا.آخر کئی دفعہ اسی طرح ہوا اور امتہ الودود نام کی فتح ہوئی اور بچی کے دورے بھی جاتے رہے.رے اپنے گھر کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے.میرے ہاں ایک لڑکی ہوئی اور میں نے اس کا نام امتہ العزیز رکھا وہ بیمار ہوئی اور مرگئی ، پھر ایک اور لڑکی ہوئی اور میں نے اس کا نام امتہ العزیز رکھا.میری بیوی نے کہا کہ پہلی کا نام امتہ العزیز تھا اس کا کچھ اور رکھو.میں نے کہا نہیں میں یہی نام رکھوں گا تا کہ عورتوں میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ اس لئے اب یہ نام نہیں رکھا کہ

Page 631

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی اس نام کی بچی مر گئی تھی.خدا کا کرنا یوں ہوا کہ وہ بھی مر گئی اس کے بعد منور احمد پیدا ہوا اور پھر لڑکی پیدا ہوئی اور میں نے اس کا نام پھر امتہ العزیز رکھا.اس کی والدہ نے بڑا ہی زور لگایا کہ یہ نام نہ رکھو لیکن میں نے نہ مانا اور کہا کہ اگر لڑکی کے بعد لڑ کی مرتی جائے گی تب بھی میں امتہ العزیز ہی نام رکھتا جاؤں گا تا کہ خدا تعالیٰ کے نام پر کوئی حرف گیری نہ کر سکے.آخر وہ لڑکی زندہ رہی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اس کا نکاح عزیزم مرزا حمید احمد سلمہ اللہ تعالیٰ سے ہوا ہے.غرض اس بچی کی صحت بچپن میں بہت خراب رہتی بچپن کے بعد صحت اچھی ہوگئی تھی اور شیخ کے دورے ہوتے تھے.پر صحت اچھی ہوگئی اور ابھی دو ماہ کی بات ہے میری چھوٹی بیوی اس کی چھوٹی آپا بیار تھیں.وہ خبر پوچھنے آئی.اس سے پہلے دن عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تھا وہیں صدیقہ بیگم کو بخار ہوا اور ایک سو پانچ تک ہو گیا.امتہ الودود کہنے لگی کہ میں نے سمجھا تھا غلطی لگی ہے ایک سو پانچ درجہ کے بخار میں یہ وہاں چلتی پھرتی کس طرح تھیں.میں نے کہا دُودی تم کو کیوں تعجب ہوا تمہارے گھر گھر میں تو بخار کا اوسط درجہ ایک سو سات اور ایک سونو کے درمیان ہوتا ہے.(مرحومہ کے بھائیوں کو بخار ایک سو سات یا اس سے زیادہ بھی ہو جاتا ہے ) اس پر اس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم مجھے تو نہ کبھی سر درد ہوتا ہے اور نہ بخار.مجھے یہ سنتے ہی خیال آیا کہ بعض اطباء نے لکھا ہے کہ ایسی صحت بھی اچھی نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کو بعض دفعہ یکدم بیماری کا حملہ ہوتا ہے اور اس کے سامنے بھی میں نے اس خیال کا اظہار کیا.کسے معلوم تھا کہ اطباء کا یہ خیال درست ہو یا غلط مگر اس بچی کے حق میں دوماہ کے اندر پورا ہو جائے گا.تعلیم کا شوق صحبت کی درستی کے بعد سے اسے تعلیم کا شوق پیدا ہوا اور وہ برابر تعلیم میں کا.بڑھتی گئی.انٹرنس تک تو مجھے خیال رہا کہ یوں ہی مدرسہ میں جاتی ہے لیکن جب وہ انٹرنس میں اچھے نمبروں پر پاس ہوئی تو مجھے زیادہ توجہ ہوئی اور جب وہ ملتی میں اس سے اس کی تعلیم کے متعلق بات کرتا.پھر ایف.اے میں وہ پاس ہوئی اور میں نے زور دیا کہ صدیقہ بیگم اور امۃ الودود بی.اے کا امتحان دیں اور دونوں نے تیاری شروع کر دی.مگر پہلی دفعہ کا میاب نہ ہوئیں ، پھر دوسری دفعہ پڑھائی کی، پھر بھی کامیاب نہ ہوئیں ، میں نے اصرار کیا کہ امتحان دیتے جاؤ چنانچہ اس دفعہ پھر تیاری کی.جب امتحان کے دن قریب آئے عزیزہ کے منجھلے بھائی عزیزم مرزا ظفر احمد بیرسٹر ایٹ لاء اپنی شادی کے لئے قادیان آئے.امتحان کے دنوں میں

Page 632

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی شادی کی تاریخ تھی انہوں نے کہا کہ امتحان نہ دو تم نے پاس تو ہونا نہیں گھر کے اور آدمیوں نے بھی کہا اور اس نے امتحان دینے کا ارادہ ترک کر دیا.مجھے معلوم ہوا تو میں نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ یہ ٹھیک نہیں مجھے اس دفعہ ان کے پاس ہونے کی امید ہے.اگر صدیقہ پاس ہو گئیں تو امتہ الودود کے لئے اکیلا امتحان دینا مشکل ہوگا.چنانچہ انہوں نے جا کر اسے امتحان کیلئے پھر تیار کر دیا.امتحان کے بعد کراچی سے واپس آ کر ایک دن صدیقہ بیگم کو رقعہ لکھا کہ چچا ابا سے کہہ دیں کہ اگر آپ دعا کریں تو میں پاس کیوں نہ ہو جاؤں.اب کے انہوں نے خود امتحان دلایا ہے اگر میں پاس نہ ہوئی تو میں نہیں مانوں گی کہ انہوں نے دعا کی ہے.میں نے کہلا بھیجا کہ میں دُعا کر رہا ہوں اور اب کے مجھے یقین ہے کہ تم دونوں پاس ہو جاؤ گی اور خدا تعالیٰ نے دونوں کو پاس کر ہی دیا.پاس ہونے کے بعد دونوں سہیلیوں نے مبارک باد کا تبادلہ کیا.ہفتہ کی شام کو امتہ الودود صدیقہ کو مبارکباد دینے آئی اور اتوار کی صبح کو صدیقہ اُسے مبارکباد دینے گئیں میں اس دن بہت بیمار تھا وہ میرے پاس بیٹھ گئی.صدیقہ بیگم صاحبہ تھیں ، بعد میں اس کی چھوٹی بہن اور میری بڑی لڑکی اس کی بھاوج بھی آگئیں میں نے کہا دُودی! تم پاس نہیں ہوئیں میں پاس ہوا ہوں کیونکہ تم تو امتحان کا ارادہ چھوڑ بیٹھی تھیں.پھر میں نے کہا کہ پڑھائی کے دن تو اب ختم ہوئے اب مرحومہ کی ایک خاص خوبی کام کا وقت آ گیا.اب میں تم کو اور صدیقہ کو مضامین کے نوٹ لکھوایا کروں گا اور تم انگریزی میں مضمون تیار کر کے ریویو وغیرہ میں دیا کرو.کہنے لگی کہ میں نے تو کبھی مضمون لکھا نہیں چھوٹی آپا کولکھوایا کریں.میں نے کہا تم دونوں ہی نے پہلے مضمون نہیں لکھے اب تم کو کام کرنا چاہئے.کہنے لگی اچھا.یہ واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ مرحومہ میں یہ خوبی تھی کہ با وجود شرمیلی طبیعت کے جب کوئی مفید کام اسے کہا جاتا وہ اس پر کار بند ہونے کیلئے تیار ہو جاتی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی لڑکیوں سے کہتا تو ان میں سے اکثر شرم کی وجہ سے انکار پر اصرار کرتیں مگر اسے جب میں نے دُہرا کر کہا کہ اب تم کو اپنے علم سے دنیا کو فائدہ پہنچانا چاہئے تو با وجود نا تجربہ کاری اور حیاء کے اس نے میری بات کو منظور کر لیا.تھوڑی دیر کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چھوٹی بچی آخری بار کی ملاقات کو کیلیے رورہی ہوگی.میں نے جاتا ہےاور ساتھی امتہ الودود ودھ بھی اُٹھی.میری عادت رہی ہے کہ امتہ القیوم اور امتہ الودود جب پاس سے اٹھا کر تیں تو میں کہا

Page 633

انوار العلوم جلد ۱۵ امته الودود میری بچی کرتا تھا کہ میری بچی اللہ تمہارا حافظ ہو اور پھر پیار کر کے رخصت کیا کرتا تھا.اس دن میں نے یہ الفاظ تو کہے مگر اُٹھ کر اُسے پیار دے کر رخصت نہیں کیا.میں نے اس کے چہرہ پر کچھ ملال کے آثار دیکھے اور کہا میں آج بیمار ہوں اُٹھ نہیں سکتا چوتھے دن اسی بیماری کی حالت میں مجھے اس کی بیماری کی وجہ سے جانا پڑا اور میں نے جاتے ہی اس کے ماتھے کو چوما مگر اب وہ بے ہوش تھی اب اس کے چا ابا کا پیار اس کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا تھا اور اسی بے ہوشی کی حالت میں وہ فوت ہوگئی.ہاں وہ بچی جس نے اپنی ساری عمر علم سیکھنے میں خرچ کر دی اور باوجو د شرمیلی طبیعت کے میرے کہنے پر اس پر آمادہ ہو گئی کہ اپنی جنس کی بہتری کیلئے وہ مضمون لکھا کرے گی.جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی کیونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور تھا.وہ اسے وہاں لے گیا جہاں باتیں نہیں کی جاتیں، جہاں کام کیا جاتا ہے، جہاں کوئی کسی انسان کی نصیحت کا محتاج نہیں ، جہاں صرف اللہ ہی ہراک کا ہادی ہوتا ہے.امتہ الودود جب تم اس دنیا میں تھیں میں تمہاری عارضی رخصت پر امة الودود کو الوداع نہایت محبت سے کہا کرتا تھا.جاؤ میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو.اب تو تم دیر کیلئے ہم سے جُدا ہو رہی ہو اب تو اس سے بھی زیادہ درد کے ساتھ میرے دل سے یہ نکل رہا ہے کہ جاؤ میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو.نادان کہیں گے دیکھو یہ ایک مُردہ سے باتیں کرتا ہے.مگر مردہ تم نہیں وہ ہے.نمازیں پڑھنے والے، اپنے رب سے رو رو کر دعائیں کرنے والے بھی کبھی مرا کرتے ہیں اور تم تو بڑی دعائیں کرنی والی اور دعاؤں پر یقین رکھنے والی بچی تھیں.اپنی موت سے دو تین گھنٹے پہلے جو بات تو نے اپنی چچیری بہن سے کہی وہ اس پر شاہد ہے.اس نے مجھے کہا کہ میں شام کو امتہ الودود کو ملنے آئی تو اس نے مجھے باتوں باتوں میں کہا کہ میرے دل پر جنگ کا بہت اثر ہے اور میں اس کے متعلق بہت دعائیں کرتی ہوں.امتہ الحمید ( بہن کا نام) تم بھی آج کل دعائیں کیا کرو.تو اے بچی ! تو جو دنیا کی تکلیف کے احساس سے اپنے رب کے آگے رویا کرتی تھی تجھے اللہ تعالیٰ کب موت دے سکتا ہے یقینا اللہ تعالیٰ ہماری آوازیں تیرے تک پہنچاتا رہے گا اور تیری آواز ہمارے تک پہنچاتا رہے گا.ہماری جُدائی عارضی ہے اور تیری نئی جگہ یقیناً پہلی سے اچھی ہے دنیوی خیالات کے ماتحت تیری اس بے وقت موت کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا تھا کہ:.

Page 634

انوار العلوم جلد ۱۵ پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مُرجھا گئے امته الودود میری بچی اور میرے دل میں بھی ایک دفعہ یہ شعر آیا مگر جب میں نے غور کیا تو یہ شعر تیرے حالات کے بالکل خلاف تھا.تو تو اس باغ میں گئی ہے جس پر کبھی خزاں ہی نہیں آتی.جی وقیوم خدا کی جنات عدن میں مُرجھانے کا کیا ذکر.اے ہمارے باغ کے غنچے ! تو کل سے اللہ تعالیٰ کے باغ کا پھول بن چکا ہے ہمارے دل مرجھا بھی سکتے ہیں، غمگین بھی ہو سکتے ہیں مگر تیرے لئے اب کوئی مُرجھانا نہیں اب تیرا کام یہی ہے کہ ہر روز پہلے سے زیادہ سرسبز ہو پہلے سے زیادہ پر رونق ہو.جب تیری جان نکلی تو میں ایک کونے میں جا کر سجدہ میں گر گیا تھا اور بعد میں بھی آخری دُعا وقتا فوقتا دعا کرتا رہا یہاں تک کہ تجھے دفن کر کے واپس آئے اور وہ دُعا یہ تھی.کہ اے اللہ تعالیٰ ! یہ نا تجربہ کا رروح تیرے حضور میں آئی ہے تیرے فرشتے اس کے استقبال کو آئیں کہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو.اس کے دادا کی روح اسے اپنی گود میں اٹھالے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوں میں محسوس نہ کرے.محمد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اس کے روحانی دادا ہیں اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے.یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں اور اس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں.اسی دعا کے ساتھ میں اب بھی تجھے رخصت کرتا ہوں.جامیری بچی تیرا اللہ حافظ ہو.اللہ حافظ ہو! مرزا محمود احمد ( الفضل ۲۳ جون ۱۹۴۰ء ) ل الرحمن: ۲۸،۲۷ البقرة: ۱۵۷

Page 635

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند میرا چاند از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی چاند میرا چاند

Page 636

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند میرا چاند بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ چاند میرا چاند ( تحریر فرمودہ جولائی ۱۹۴۰ ء ) سمندر کے کنارے چاند کی سیر نہایت پُر لطف ہوتی ہے.اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کیلئے گئے میری چھوٹی بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، میری تینوں لڑکیاں ناصرہ بیگم سلمها اللہ تعالی ، امتہ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، امتہ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ ، امتہ الودود مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے.رات کے گیارہ بجے چاند سمندر کی لہروں میں ہلتا ہوا بہت ہی بھلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور بھی اچھا معلوم دیتا تھا.جوں جوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پھرتے تھے لُطف بڑھتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی تھی.تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے.ان کے ساتھ عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ بھی جا کھڑے ہوئے اور پھر عزیزہ امتہ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ بھی وہاں چلی گئی.اب صرف میں ، عزیزہ امتہ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ اور عزیزہ امتہ الودود مرحومہ پانی کے کنارے پر کھڑے رہ گئے.میری نظر ایک بار پھر آسمان کی طرف اُٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں عجیب انداز سے اپنی چمک دکھا رہا تھا اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات میری آنکھوں میں پھر گئی جب ایک عارف اللہ محبوب ربانی نے چاند کو دیکھ کر ایک سرد آہ کھینچی تھی اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا.چاند کو گل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا پہلے تو تھوڑی دیر میں یہ شعر پڑھتا رہا پھر میں نے چاند کو مخاطب کر کے اسی جمالِ یار والے

Page 637

انوار العلوم جلد ۱۵ محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود کہے.جو یہ ہیں :.یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چپکا نہ نہ کر حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر کیا لپ دریا مری بے تابیاں کافی نہیں تو جگر کو چاک کر کے اپنے یوں تڑپا نہ کر چاند میرا چاند اس کے بعد میری توجہ براہِ راست اس محبوب حقیقی کی طرف پھر گئی جس کے حسن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر میں اشارہ کیا گیا ہے اور میں نے اسے مخاطب کر کے چند شعر کہے.جو یہ ہیں :.دُور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب آسمان پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا نہ کر بے شک چاند میں سے کسی وقت اللہ تعالیٰ کا حُسن نظر آتا ہے مگر ایک عاشق کیلئے وہ کافی نہیں.وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند میں سے اسے نہ جھانکے بلکہ اس کے دل میں آئے اس کے عرفان کی آنکھوں کے سامنے قریب سے جلوہ دکھائے ، اس کے زخمی دل پر مرہم لگائے اور اس کے دُکھ کی دوا خود ہی بن جائے کہ اس دوا کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں مگر کبھی تو ایسا ہوتا.نا ہے کہ اس محبوب حقیقی کا عاشق چاند میں بھی اس کا جلوہ نہیں دیکھتا.چاند میں ایک پھیکی ٹکیہ سے زیادہ کچھ بھی تو نظر نہیں آتا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس محبوب نے اپنا چہرہ اس سے بھی چھپا رکھا ہے کہ کہیں اس میں سے اس کا عاشق اس کا چہرہ نہ دیکھ لے اور وہ کہتا ہے کہ کاش چاند کے پردہ پر ہی اس کا عکس نظر آ جائے اور میں نے کہا.عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا عیب ہے اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر پھر میری نظر سمندر کی لہروں پر پڑی جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوا اور چاند کا عکس اور پرلے ہو گیا.میں اور بڑھا اور عکس اور دُور ہو گیا اور میرے دل میں ایک درد اُٹھا اور میں نے کہا.بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کیلئے کوشش کرتا ہے مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں، اس کی عبادتیں ، اس کی قربانیاں ، اس کا ذکر ، اس کی آہیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے استقلال کا

Page 638

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند میرا چاند امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے.کئی تھوڑے دل والے مایوس ہو جاتے ہیں اور کئی ہمت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی مراد پوری ہو جاتی ہے مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مُرجھایا رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے.چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے چلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی جاتی ہے مگر چاند کا عکس آگے ہی آگے بھاگا چلا جاتا ہے.اس لئے میں نے کہا.بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں کو سمجھانے کیلئے ان سے کہا کہ آؤ ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں چلو اور میں انہیں لے کر کوئی پچاس ساٹھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا دیکھو چاند کا عکس کس طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے بیکار جاتی ہیں اور وہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالی پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست کرے اور اسی کے کرم کو چاہے تا کہ وہ اس ابتلاء کے سلسلہ کو بند کر دے اور اپنی ملاقات کا شرف اسے عطا کرے.اس کے بعد میری نظر چاند کی روشنی پر پڑی، کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیر کیلئے سمندر پر آگئے ، ہوا تیز چل رہی تھی لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اُڑی جارہی تھیں اور وہ زور سے ان کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں.وہ لوگ گو ہم سے دُور تھے مگر میں لڑکیوں کو لے کر اور دور ہو گیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے وہاں پردہ بھی اٹھا دیتی ہے اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں اور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا.اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر اس کے بعد میری نظر بندوں کی طرف اُٹھ گئی اور میں نے سوچا کہ محبت جو ایک نہایت

Page 639

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند.میرا چاند پاکیزہ جذبہ ہے اسے کس طرح بعض لوگ ضائع کر دیتے ہیں اور اس کی بے پناہ طاقت کو محبوب حقیقی کی ملاقات کیلئے خرچ کرنے کی جگہ اپنے لئے وبالِ جان بنا لیتے ہیں اور میں نے اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر پھر میری نگاہ سمندر کی لہروں کی طرف اُٹھی جو چاند کی روشنی میں پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی نظر آتی تھیں اور میری نظر سمندر کے اس پار ان لوگوں کی طرف اٹھی جو فرانس کے میدان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز اپنی جانیں دے رہے تھے اور میں نے خیال کیا کہ ایک وہ بہادر ہیں جو اپنے ملکوں کی عزت کیلئے یہ قربانیاں کر رہے ہیں، ایک ہندوستانی ہیں جن کو اپنی تن آسانیوں سے ہی فرصت نہیں اور مجھے اپنی مستورات کا خیال آیا کہ وہ کس طرح قوم کا بے کار عضو بن رہی ہیں اور حقیقی کوشش اور سعی سے محروم ہو چکی ہیں.کاش کہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں بھی جوشِ عمل پیدا ہو اور انہیں یہ احساس ہو کہ آخر وہ بھی تو انسان ہیں جو سمندر کی لہروں پر کودتے پھرتے ہیں اور اپنی قوم کی ترقی کیلئے جانیں دے رہے ہیں، جو میدانوں کو اپنے خون سے رنگ رہے ہیں اور ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے مرجانے سے ہمارے پسماندگان کا کیا حال ہو گا.اور میں نے کہا.ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی.کچھ پروا نہ کر جب میں نے یہ شعر پڑھا.میری لڑکی امتہ الرشید نے کہا ابا جان دیکھیں آپا دودی کو کیا ہو گیا ہے.میں نے کہا کیا ہوا ہے.اس نے کہا اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگ گیا ہے.میں نے پوچھا دودی تم کو کیا ہوا ہے.اس نے جیسے بچیاں کہا کرتی ہیں کہا کچھ نہیں اور ہم سمندر کے پانی کے پاس سے ہٹ کر باقی ساتھیوں کے پاس آگئے اور وہاں سے گھر کو واپس چل پڑے.امتہ الودود کی وفات کے بعد میں یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ امتہ الودود نے مجھ سے ذکر کیا کہ شاید چا ابا نے یہ شعر میرے متعلق کہا تھا تب میں نے مرحومہ کے کانپنے کی وجہ کو سمجھ لیا.وہ امتحان دے چکی تھی اور تعلیم کا زمانہ ختم ہونے کے بعد اس کے عمل کا زمانہ شروع

Page 640

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند.میرا چاند ہوتا تھا اس کی نیک فطرت نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ میں اسے کہہ رہا ہوں کہ اب تم کو عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہئے اور ہر طرح کے خطرات برداشت کر کے اسلام کیلئے کچھ کر کے دکھانا چاہئے.خدا کی قدرت عمل میں کامیابی کا منہ دیکھنا اس کے مقدر میں نہ تھا.موت میں زندگی اللہ تعالیٰ نے اسے دے دی وہ قادر ہے جس طرح چاہے اسے زندگی بخش دیتا ہے.ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُذْكُرُوا امَوْتَا كُمْ بِالْخَيْرِ مُردوں کا نیک ذکر قائم رکھو اسی لئے میں نے اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے کہ اس سے مرحومہ کی سعید طبیعت کا اظہار ہوتا ہے کس طرح اس نے اس شعر کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھا حالانکہ بہت ہیں جو نصیحت کو سنتے ہیں اور اندھوں کی طرح اس پر سے گزر جاتے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے.اس موقع پر ایک اور واقعہ مرحومہ کا مجھے یاد آ گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس طرح نصیحت پر فورا عمل کرنے کا احساس تھا اور میرے لفظوں پر وہ کس طرح کان رکھتی تھی.میں نے سفر میں دیکھا کہ عزیز منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ جرمن ریڈیو کی خبریں شوق سے سنا کرتے تھے مجھے پر یہ اثر ہوا کہ شاید وہ ان خبروں کو زیادہ درست اور زیادہ سچا سمجھتے ہیں.مجھے یہ بات کچھ بُری معلوم ہوئی.میری بیوی اور لڑکیاں ایک کمرہ میں بیٹھی ہوئی تھیں میں وہاں آیا اور میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم مگر اس وقت تک جو ہمارا علم ہے وہ یہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی میں دنیا کی بھلائی ہے.پس جب تک ہمارا علم یہ کہتا ہے ہمیں ان سے ہمدردی ہونی چاہئے اور ان کی تکلیف سے تکلیف اور ان کی کامیابی سے خوشی ہونی چاہئے.پھر نہ معلوم ہمارے بچے کیوں خوشی سے جرمن خبروں کی طرف دوڑتے ہیں.میں بات کر رہا تھا کہ امتہ الودود مرحومہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئیں مجھے حیرت ہوئی کہ بات کے درمیان میں یہ کیوں اٹھ گئیں اور مجھے خیال ہوا کہ شاید اپنے بھائی کے متعلق بات سن کر وہ برداشت نہیں کر سکیں.تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ واپس آئیں اور کہا کہ میں نے بھائی سے کہا ہے کہ جب چا اتبا اس امر کو پسند نہیں کرتے تو آپ کیوں اس طرح خبر میں سنتے ہیں.بھائی نے جواب دیا کہ اگر وہ منع کریں تو میں کبھی یہ بات نہ کروں.میں نے کہا بی بی منع کرنے کی کیا ضرورت ہے میرے خیال کا اظہار کیا کافی نہیں.اس پر اس نے کہا کہ میں نے بھائی سے یہی کہا

Page 641

انوار العلوم جلد ۱۵ چاند میرا چاند ہے کہ منع کرنے کا کیوں انتظار کرتے ہو ان کی مرضی معلوم ہونے پر وہی کرو جس طرح وہ کہتے ہیں ( اس کے یہ معنی نہیں کہ عزیزم منصور احمد اطاعت میں کمزور ہے ایسے امور میں لڑکیاں لڑکوں سے طبعا زیادہ زکی ہوتی ہیں ورنہ عزیز کا معاملہ میری لڑکی سے ایسا عمدہ ہے کہ میرا دل اس سے نہایت خوش ہے اور کبھی بھی وہ میری لڑکی کے ذریعہ میرے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ میرا دل ان دونوں کے معاملہ پر مطمئن رہا ہے اور یہ کوئی معمولی نیکی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق سے ہی ایسے عمل کی توفیق ملاتی ہے ) میرے دل میں یہ سن کر اپنی اس بچی کی قدرکئی گھنے بڑھ گئی کہ کس طرح اس نے میری بات سن کر فوراً میرے منشاء کو پورا کرنیکی کوشش کی اور بات ختم ہونے سے بھی پہلے اس پر عمل کروانے کیلئے دوڑ گئی.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اس پر ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتا رہے.میرزا محمود احمد ( الفضل ۶ جولائی ۱۹۴۰ء ) ابوداؤد كتاب الادب باب في النهى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى میں یہ الفاظ آئے ہیں اُذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُوْاعَنْ مَسَاوِيْهِمْ

Page 642

انڈیکس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث 7 ܬܙ ۲۲ ۳۲ ۳۵ 1 اسماء مقامات کتابیات

Page 643

کلید مضامین آ-ا انسان کے فائدہ کیلئے ہیں ۱۳۴ چکا ہے ۳۰۷ احمدی آریہ مذہب ایک احمدی دوسرے احمدی کا ان کا عقیدہ ہے کہ خدا نے ابتداء میں ہی مکمل الہامی کتاب نازل کی اتحادی اس وقت اتحادیوں کا ضعف احمدیت کیلئے خطرناک ہے اجرام فلکی اجرام فلکی عالمگیر قانون کے تابع ہیں احرار احرا را اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک روحانی رشتہ دار ہے احمدیت ۱۷۹ احمدیت کو دنیا کی کوئی طاقت ۶۲۰ مٹا نہیں سکتی اختلاف انصار اور مہاجرین میں اختلاف شریعت میں ارتقاء کے ختم ہونے کی وجہ أزواج ازواج کی تشریح ۳۸۵ تا ۳۸۸ اللہ تعالی سالک کے استقلال ۴۸۱ کا امتحان لیتا ہے اسلام اسلام اور دوسرے مذاہب میں ۳۰۷ ۲۷۵ استقلال ۶۴۱۶۴۰ ادارے ۳۲۸ جماعت کے سب افراد ۶ احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۵۸۸ جماعت کے اعضاء ہیں ارتقاء اسلام جسمانی اور روحانی ارتقاء کا قائل ہے مشابہت کی اصل وجہ اسلام کے غلبہ کے ذرائع اسلام خدا تعالیٰ کا ایک نور ہے اسلام نے حکومت کے ہر شعبے پر بحث کی ہے اسلام ملوکیت کا قائل نہیں سامی نسلیں روحانی ارتقاء کی اسلام ملکی اور قانونی نظام احرار جس تحریک کو بھی اُٹھاتے قائل ہیں ۵۸۸ ۳۰۶ کا قائل ہے آریہ مذہب جسمانی اور روحانی اسلام امور ملکی اور نظام قومی ہیں نا کام ہوتے ہیں احکام ارتقاء کا قائل نہیں احکام الہی سب کے سب انسانی جسم میں ارتقاء ختم ہو ۳۰۶ کو مذہب کا حصہ قرار دیتا ہے ۴۷۰ اسلام نے حکام کے انتخاب ۸۴ ۸۹ ۱۷۲ 17.۴۵۶ ۳۰۶ ۴۷۰ ۴۷۰

Page 644

۵۷۰ رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے کا حکم دیا اسلام کی خوبیاں ۶۰۷ تا ۶۱۱ اسلامی بادشاہ الهام الہام میں بھی ارتقاء ہے اسلامی بادشاہ شوکت اور عظمت الہام الہی اور منجموں کی خبروں سے دنیا پر حکومت کرتے ہیں ۲۵۵ میں فرق اسلامی تعلیم امام اسلامی تعلیم کے افضل ہونے ایک جاہل امام کا واقعہ کے دلائل ۷۵ تا ۸۰ امانتیں اسلامی نظام امانتیں اُن کے اہل کو سپرد اسلامی نظام کے قیام کے ۵۱۵،۵۱۴ | أمراء امراء کا کام ، کام لینا ہوتا ہے امن اصول اصلاح اصلاح کے دو ذرائع اصلاح اعمال کا ایک لطیف گر اطاعت رسول ۱۲ ۳۱۰ ۳۰۵ ۳۱۹ ۵۲۴ امن کے قیام کیلئے دوگر امن رسوم و رواج کی پیروی سے برباد ہوتا ہے امن کے قیام کیلئے بعض دفعہ جنگ کی جاتی ہے امور عامه امور عامہ کے سیکرٹری کا ایک کام انتخاب کرنے کا حکم ۵۰۸ تا ۵۱۰ انتخاب کے وقت اہلیت کو مد نظر امن اُس وقت حاصل ہوتا ۲۰۸ تا ۴۲۳ ہے جب دنیا پر امن کی متمنی اطاعت رسول بھی بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے فطرتیں مختلف رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف ۵۲۵ ۲۱۵ بالا ہستی موجود ہو امن کا مرکز.بیت اللہ امن خدا کے پسندیدہ بندوں کیلئے ہے امن کا کورس - قرآن رکھو انس آدم کو ماننے والے انس کہلائے انقلاب ۱۹۴ تا ۱۹۶ انقلاب کے معنی کسی چیز کا کلی ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۸ ۱۹۸ بدل جانا مذہبی دنیا میں حقیقی کامیابی انقلاب سے ہوتی ہے ۲۰۱ ۱۴۰ ۵۱۰ ۲۸۵ ۳۱ روحانی انقلاب بغیر نبی کے امن کے مدرس.حضور علی حضور ﷺ کی تعلیم سب کیلئے امن کا موجب ہے ۱۹۹، ۱۹۸ نہیں ہوسکتا اسلام کا انقلاب عظیم ۳۸

Page 645

مذہبی انقلابات کا طریق ۳۲ اہرام انقلاب حقیقی انقلاب حقیقی کے بارہ میں اہرام مصر بہت زیادہ بلند ہیں ایمان حضرت مسیح موعود کے الہامات ۸۹ ایمان سینکڑوں اعمال کے انقلاب حقیقی کے قیام میں ہمارا مجموعہ کا نام ہے ۹۴ بزرگ ۲۴ پیدائش انسانی اور قرآنی نظریہ ۲۶۹ تا ۲۷۶،۲۷۴ پیدائش انسانی کے مختلف دور ۳۰۲،۳۰۱۲۷۷ ۲۷۷ ،۲۷۱ ۲۷۰ ۹۹ پیدائش انسانی کا دور اول عدم سے شروع ہوا پیدائش انسانی کے دور ثانی کی کیفیت ایک بزرگ کا قصہ ۳۱۶، ۳۷ پیدائش انسانی کا تیسرا دور کام انقلاب حقیقی کے قیام میں حضرت مسیح موعود کا حصہ ۹۶ انگریز انگریز بات کرنا پسند نہیں کرتے ۱۷۹ انگریزوں کی غربت کے واقعات ۵۴۹ بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے انگریز اپنی رعایا سے اچھا بغاوت ۲۷۴ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۳ پیدائش انسانی کا چوتھا دور ۲۷۳ تا ۲۷۶ پیدائش کی حقیقت نفس واحدہ سے ۲۹۳ پیدائش انسانی میں ارتقاء کا ۳۰۵ سلوک کرتے ہیں انگریزی انگریزی کے بغیر بیرونی ملکوں میں تبلیغ نہیں ہو سکتی اولاد ۶۱۷ ۱۳۸ ایک ثبوت قبائل عرب کی بغاوت کی وجہ ۴۷۱ پیغامی پیغامی ناری طبیعت والے تھے پیدائش انسانی پیدائش انسانی اور ہندوؤں کا نظریہ ۲۶۴،۲۶۳ اولاد کی تربیت میں باپ کی پیدائش انسانی اور تورات ۲۶۴ تا ۲۶۶ | تجربہ سے زیادہ تر دنیا فائدہ پیدائش انسانی اور ڈارون عدم موجودگی میں نقص پیدا ہو جاتا ہے ۷۳ کی تھیوری اولاد کی تربیت کا اکثر حصہ پیدائش انسانی کے متعلق ہیکل عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۵۰۵ کا نظریہ ۲۶۷،۲۶۶ ۲۶۸ اُٹھاتی ہے تحریک پانچ عظیم الشان دُنیوی تحریکیں ۲۹۰،۲۸۹

Page 646

۲۱ ۲۲ ۲۲ ۲۷ ۲۷ اہمیت تمدن ۳۳۱ تا ۳۳۴ کامیاب کرتا ہے تہذیب ۲۰، ۱۹ آرین تحریک کا پیغام تحریک جدید یہ قدیم تحریک ہے جو حضور علیہ تمدن کی حقیقت ۴۸ ۴۹ ایرانی تہذیب کی بنیا د اخلاق کے ذریعہ کی گئی ۱۵۹ تمدن کے قیام پر اعتراضات ۵۰ تا۵۲ اور سیاست پر ہے تحریک جدید کے مطالبات پر تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم ۱۰۰ تا ۱۰۴ بابلی تہذیب کی بنیاد علم ہندسہ عمل کرنے سے اللہ راضی ہوگا ۱۶۷ تمدن اسلامی کے قیام کے تحریک جدید کم خوردن پر زور ذرائع ۲۲۳ ۲۲۴ | تمدن اسلامی کے قیام میں ۲۲۴ مشکلات دیتی ہے تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے تمدنی ترقی تربیت تمدنی ترقی کا ایک عظیم الشان تربیت اولاد ماں کا اولین فرض ہے ترقی اور ہیئت پر رکھی گئی ۱۰۴ تا ۱۰۶ مغربی تہذیب کی بنیاد مادیت اور قوم پرستی پر ہے ۱۱۳ مغربی تہذیب کی بنیاد ایک فلسفہ پر ہے مغربی تہذیب نے نعیش کو کمال تک پہنچایا ۲۱۷ تمدنی حکومت کے فرائض توزان ترقی ملنے سے بعض لوگوں میں ہر بات میں توازن کو ملحوظ کبر پیدا ہوتا ہے ہر قوم اپنے ماحول میں ترقی کرتی ہے تقوی تقویٰ کا لباس سه بہتر ہے تقویم شمسی ۷۸ رکھنا چاہئے ۱۷۹ ง ۱۸۳ توحید جب تک تو حید کی تکمیل نہ ہو انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی تو گل ۲۹۵ ۵۲ ۶۱۹ لا انسانی تہذیب کے تین دور ۲۶۹،۲۶۸ ج جد و جہد قومی جدوجہد کی دواغراض ۱۵۲ جماعت احمدیہ جماعت احمد یہ عقائد کے میدان ۵۷ میں فتح حاصل کر چکی ہے جماعت احمدیہ کی حضرت مصلح موعود تو حید وہی ہوتی ہے جو تو گل سے ہمدردی اور محبت والی ہو تقویم نشسی کی ضرورت اور جب تو گل پیدا ہو تو اللہ ضرور ۵۷ جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ ۹۱ ۱۲۳ ۱۳۱ تا ۱۴۰

Page 647

جماعت احمدیہ کو ہر قسم کی لیاقت کے لوگوں کی ضرورت ہے جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد جن ۱۳۷ جنگ جنگ صفین کے واقعات ۴۸۶ تا ۴۸۸ جھنڈا ۲۰۷ تا ۲۱۰ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے ۲۸۰ انسان ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے جن نام کا مستحق ہوا ۲۸۰ جھنڈ ا لوگوں کے جمع ہونے کی علامت ہے جھوٹ جھوٹ کو آجکل سیاست اور تمدن کا جزو قرار دیا گیا ہے 乙 حکومت کیلئے ملکی حدود کا ہونا ضروری ہے حکومت کو افراد کی مالی جانی رہائشی آزادی پر پابندیوں کا اختیار ہے ۴۶۵ ۴۳۹ حکومت اہل لوگوں کو ملنی چاہئے ۵۰۹ ۱۳۵ حکومت کا فرض رعایا سے عدل وانصاف حیات ملی حیات ملی کیلئے مردوں اور ۵۱۰ ۳۶۸ ۳۷۱ ۳۷۵ ۱۸۳ جن کا لفظ قرآن میں انسانوں کیلئے استعمال ہوا جنہوں نے آدم کی بات نہ مانی اور غاروں میں رہے جن کہلائے ۲۸۱ حاکم حاکموں کی دواقسام حکومت عورتوں کو مل کر کوشش ۵۲۱ کرنی چاہئے خ ۲۸۵ حکومت اسلامی کے چار فرائض ۵۳٬۳۲ خدام الاحمدیہ جنازه حکومت کا اصل فرض پبلک خدام الاحمدیہ کے اجتماع کیلئے نوجوانوں کی تمنائیں کہ الگ دن مقرر کئے جائیں کے مفاد کا خیال رکھنا ہے خدام الاحمدیہ نے اگر دنیا میں حضرت مسیح موعود اُن کی حکومت کے تمام شعبوں کے کام کرنا ہے تو قیاس کی عادت چھوڑ دیں خدام الاحمدیہ کو یقین اور تو گل کی تلقین حقیقی بڑائی خدمت سے حاصل ہوتی ہے ۴۵۷ ۴۶۵ ۴۶۵ ۴۶۵ نماز جنازہ پڑھائیں ۴۷۳ | متعلق جامع اسلامی ہدایات جنت جنت مرد اور عورت کے تعاون سے بنتی ہے ۵۰۵ تا ۵۰۸ جنتر منتر حکومت کیلئے ضروری شرائط حکومت کولوگوں پر ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کا اختیار ہے حکومت کو دیگر ممالک سے جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے ۳۱۴ معاہدات کا اختیار ہے

Page 648

۵۳۲ تا ۵۳۴ خلافت خلافت اسلام کے اہم ترین خلافت احمدیہ خلافت احمدیہ کے ابتدائی حالات ۴۸۹ تا ۴۹۱ مسائل میں سے ہے خلافت کے انکار کا ایک ۴۴۴ خلافت ثانیه خلفاء اور تمکین دین کا نشان خلفاء کے ذریعہ خوف کوامن سے بدلنے کی پیشگوئی خلفاء کو خدا تعالیٰ عام خوف خطرناک نتیجه ۴۵۰ خلافت ثانیہ کا قیام ۵۰۷۵۰۰ سے بھی محفوظ رکھتا ہے خلفاء کا رُعب غیر مسلم ۴۹۹ بادشاہوں پر ۵۳۵،۵۳۴ ۵۳۸ خلافت ایک اسلامی نظام ہے ۴۷۰ انتخاب خلافت ثانیہ پر خلافت نبی کی قومی زندگی ہے ۴۷۷ نوے فیصد لوگوں کا اتفاق خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ ۴۸۹ خلیفہ خلافت اقامت صلوۃ اور زکوة خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ۵۲۳ وہ اپنے سے پہلے کا نائب کے بغیر نہیں ہو سکتی پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں آیت استخلاف کے مضامین کا خلاصه خلافت کا وعدہ ایمان اور عمل صالح سے مشروط ہے خلافت کا فقدان جماعت کے ۵۲۹ ہوتا ہے ۵۶۴ خلفاء توحید کے علمبردار ہوتے ہیں ۵۴۰ ۵۴۱ خلفاء انتہائی طور پر دلیر ہونگے ۵۴۳ خوش خلقی خلیفہ خدا بناتا ہے ۵۲۷، ۵۲۸ ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی ہر ۵۲۶ خلیفہ کا کام استحکام جماعت ۵۳۱ بھی ہے خلیفہ وہی ہوگا جس پر قوم جمع ہو ۴۳۵ ۵۵۴ کیا عزل خلیفہ جائز ہے؟ ۵۷۳،۵۷۲ نقص کی وجہ سے ہوتا ہے ۵۳۲۵۳۱ خلافت ایک انتخابی چیز ہے ۵۵۴ | خلفاء سے پیش آنا چاہئے خیار بلوغ لڑکی کو خیار بلوغ حاصل ہے دعا خلافت کیلئے اپنے بیٹے کو تجویز خلفائے راشدین اُمت کیلئے دعا کی درخواست ، دعا کی قبولیت کرنا سنت صحابہ کے خلاف ہے ۵۵۶ | ایک میزان ہیں ۵۲۱ خلافت کی قدر کی تلقین ۵۹۳ بچے خلفاء کی علامات ۵۲۷ تا ۵۴۷ خلافت کے دوام کیلئے دعاؤں خلفاء کی مددخدا تعالیٰ انبیاء میں لگے رہو ۵۹۳ کے مشابہ کرتا ہے ۵۲۸ کا بہتر طریق ہے دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کی تلقین ۱۷۹ ۴۶۹ ۶۲۲ ۵۹۴

Page 649

دنیا انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے اسلامی تعلیم یہ نہیں کہ ہم دنیا سادہ زندگی چھوڑ کر بزدلی سے ایک طرف سادہ زندگی والے کو عبادتوں ہو جائیں دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ دین KA ۲۳۶ میں لذت محسوس ہوتی ہے سادہ زندگی کے فوائد ستارے دین کے کام انسانی تدبیروں سے ستاروں سے حاصل کردہ نہیں خدا کی تائید و نصرت سے ہوتے ہیں خبروں کی حقیقت مسجده سجدہ کے معنی فرمانبرداری سچائی ۴۲۹ ۲۲۳ ۲۲۴ ۳۱۹ ۳۳۴ سیاست سیاست کے معنی یہ ہیں کہ اجرائے شریعت میں بوقت ضرورت جبر سے کام لیا جائے سیاست بغیر حکومت کے بھی ہوتی ہے ♡+1 ۴۴۶ سیاست نظام کا دوسرام نام ہے ۴۴۶ شریعت ش شریعت کے احیاء کے دوحصے شریعت کو سیحی مذہب نے رسول شرعی رسول اپنے سے پہلے نبی کے نظام کو توڑ دیتے ہیں رقابت رقابت اچھی چیز ہے زودنویس زودنویسوں کے بارہ میں ۳۲ ۱۷۲ حضرت مصلح موعود کا ایک تبصره ۲۳۱ ۲۲۱ لعنت قرار دیا بچوں کو بچپن سے سچائی کی شق القمر تعلیم دو سراج شق القمر کے معنی شق القمر کے نظارہ میں عرب سراج اُس دیئے کو کہتے ہیں حکومت کی تباہی کی خبر تھی جس میں بتی روشن ہو سلطنت ۳۲۹ صحاب سلطنت کا وجود بعض مذاہب صحابہ کی حضور ﷺ سے بے نظیر س سادگی کیلئے ضروری ہے سوالات ۷۳ ۵،۴ دو سوالات کے جوابات حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے 1.4 ۴۵۱ ۳۷ ۳۸ محبت اور قربانیاں ۲۴۳ تا ۲۴۵، ۴۱۸ صحابہ کا رد عمل حضور ﷺ کی وفات پر ۴۷۴۴۷۳ ۴۷۳ تا ۴۷۶

Page 650

۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۷ ۲۱۷ ۲۱۸،۲۱۷ صحابہ کے تین گروہ حضور ﷺ کی وفات پر ض ضياء ضیاء کے معنی اپنی ذات میں ۴۸۰ علم کی شرط مرد و عورت کیلئے برابر ہے علماء ۲۲۰ عورت کی نسبت مرد میں اعصاب کی طاقت زیادہ ہے عورت کی نسبت مرد زیادہ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں بچوں کی پرورش کے معاملہ میں یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں جاہل عورت معظمند مرد سے جلنے والی اور روشن چیز ۳۲۹ کے خیالات کو بدلیس علماء کا کام ہے کہ وہ قرآن ظ ۱۰۴ زیادہ فہیم ہوگی عورتوں پر اصل ذمہ داری وحدیث سے مسائل دنیا کے بچوں کی تعلیم وتربیت کی ہے ظالم سامنے کھول کر بیان کریں ۱۱۲ عورتیں اگر نوکریاں کریں گی ظالم کو ایمان نصیب نہیں ہوتا ۱۲۷ ع عمل صالح عمل صالح مناسب حال فعل تو ان کی اولا دیں تباہ ہو جائیں گی کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا عاد کو کہتے ہیں ۳۱ دارو مدار عورتوں پر ہے عاد کے آثار میں ہر جگہ عظیم الشان عمارتیں نظر آتی ہیں عربی عربی کی تعلیم دینی کاموں کیلئے ضروری ہے عشق مجازی ۲۴ ۱۳۸ عشق مجازی بالکل بے حقیقت ہے ۱۹۱ ففمند عورت بچوں کی تربیت کرنے کی عورتوں کو ورثہ میں حصہ دینے طاقت اور ملکہ عورت میں ہی ہے ۲۱۸ ۱۰۷ ، ۱۹۸ | ایک مخلص عورت کا واقعہ ۲۱۹ عورتوں میں انصاف کی تلقین کی تلقین عورتوں کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھو ۱۰۹ ایک عورت کا اخلاص جنگ اُحد کے موقع پر عورت کے پسلی سے پیدا 1+9 191 ہونے کا مفہوم ایک عورت کا سبق آموز واقعہ عورتوں کے حقوق عورت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت زیادہ رکھی ہے عورت مرد سے فطرةُ رقابت ۲۱۴ رکھتی ہے عظمند وہی ہے جو پہلے سے عورت اور مرد میں یکساں ترقی ایک عورت کو حضور ﷺ نے انجام دیکھ لے ۱۵۵ کا مادہ رکھا گیا ہے ۲۱۴ پوشیدہ صدقہ کی اجازت دی ۲۲۲۲۲۱ ۲۹۶۲۹۳ ۲۹۷ ،۲۹۳ ۲۹۷ ،۲۹۴ ۳۹۴

Page 651

قرآن ۴۵۸ عورتوں میں جھوٹ زیادہ ہے ۳۹۶ پہلے دور انسانی کا نظام قانون ۲۹۷ قرآن کریم کے اندر غیر محدود دورانسانی عورتیں اور مرد سب ایک مقصد قانون کے نفاذ کے متعلق کیلئے پیدا کئے گئے ہیں ۳۹۱ اسلامی ہدایات عورت ہمیشہ لغو بات کی طرف متوجہ ہوتی ہے ۳۹۷ عورت کی انگوٹھی کا قصہ ۳۹۷ بنیاد پڑی معارف و حقائق کے خزانے ہیں ۳۰۷ قرآنی سمندر کی وسعت ۳۴۲ تا ۳۴۶ قرآنی سمندر کی گہرائی کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا ۳۴۶ قرآن ایک زندہ خدا کا عورتوں کو دین کے فکر کی تلقین ۳۹۸ عورت کے بغیر مرد کو دائمی جنت نہیں مل سکتی فلک ف ۵۰۷ قرآن کے ذریعہ تصوف کی ۷۶،۷۵ 24 کام نہیں قرآن وسطی تعلیم لیکر آیا ہے قرآن میں صفات الہیہ کی بار یک در بار یک تشریح کی گئی ۷۷ زندہ کلام ہے قرآنی وحی سب معین الفاظ میں ہے قرآن میں علم معاد پر بحث فلک نظام شمسی کے پھیلاؤ کا کی گئی ۳۳۷ قرآن میں شرعی اصطلاحات LL ۷۸ قرآن کریم کا بلند ترین مقام قربانی ۳۴۸ ۳۴۹،۳۴۸ نام ہے ق قانون کا نیا دروازہ کھولا گیا قربانی وہی ہے جس کی زمانہ قرآنی تعلیم کی جامعیت ZA ۷۹ کو ضرورت ہو ۱۴۰ قرآن نے مذہب کو مشاہدہ پر قرض ۷۹ قرض سے اجتناب کی تلقین قرآن کا پیغام ساری دنیا کیلئے ۲۲۳ ۸۰ قضیہ قرطاس ہمارا مذہب قانون کی پابندی قائم کر دیا کا حکم دیتا ہے قانون کی اطاعت امن قائم ۱۳۲ ہے کرنے کیلئے ضروری ہے ۱۳۳ قرآن حسن کا مجموعہ اور قانون کا احترام سب انبیاء کرتے تھے جلوہ الہی کا آئنہ ہے ۱۵۹ ۱۶۰ قضیه قرطاس پر ایک نظر ۴۷۷ تا ۴۷۹ ۱۳۳ قرآن کے لفظ لفظ سے خدا اسلام ہمیں قانون اپنے ہاتھ کی شان نیکتی اور حرف حرف سے قوم.میں لینے کی اجازت نہیں دیتا ۱۳۴ اللہ کے وصال کی خوشبو آتی ہے 17.قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۱۷۵

Page 652

قومی تباہی کفایت شعاری بھی وہ اصل لطائف قومی تباہی کے اسباب ۳۳۹ تا ۳۴۱ ہے جس پر عمل کر کے قوم ترقی کر سکتی ہے ۲۲۳ ایک بناوٹی عالم کے متعلق لطیفہ سنی بزرگ کا لطیفہ ۵۱۷،۵۱۶ ۵۴۳،۵۴۲ ایک غیر مبائع دوست کا لطیفہ ۵۵۱ ۳۷۱،۳۷۰ 11 ۱۷۴ KY KZ ۱۷۷ ۴۱۸ متفرق لطائف قومی زندگی قومی زندگی کے قیام کے اصول قیمتی جان قیمتی جان وہی ہے جو خدا کے بندوں کے کام آئے ا.۱۲۷ گلا گلے کی تکلیف کا علاج سمندر کاسفر ۲۵۳ گناہ کی ترقی کس طرح ہوئی ؟ ۵۴ کامیابی کامیابی کا تمام تر راز اولاد کی تربیت پر ہے کامیابی کیلئے یقین اور تو گل ضروری ہے کامیابی کیلئے انقاء بہت ضروری ہے ہر علم کے متعلق کتب لکھی جائیں کفایت شعاری ۲۲۰ کی تلقین ماموریت ل ماموریت کی سچائی کی دلیل لاؤڈ سپیکر مبلغين لاڈ و سپیکر کی ایجاد پر شکر مبلغین کی قربانیوں کا ذکر مبلغین کا جماعت پر بڑا مبلغین کی قربانیاں فرضِ کفایہ ہیں ۴۳۶،۴۳۵ مبلغین پر اعتراضات کرنے والے بڑے بے شرم ہیں لٹریچر ۳۷۶ غیر مسلموں کیلئے لٹریچر کی اشاعت کا پروگرام ۳۸۰ حق ہے ہر جگہ لجنہ قائم کرنے کی تلقین ۳۹۴ نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں لجنات نظام سلسلہ میں اور مبلغین کی قربانیوں کی قدر ۱۱۲ بازوؤں کی حیثیت رکھتی ہیں ۳۹۴ نہیں کرتے لیڈر محبت کفایت شعاری کسی قوم کے افراد لیڈرکا کام لوگوں کی راہنمائی محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا کا پہلا اور اہم فرض ہے ۲۲۳ کرنا ہے ۵۲۴ ہوا کرتی ہے

Page 653

مذہب مذہب کی دو قسمیں ۴۵۱ مسلمان غالب ہے مغربی تہذیب کومٹانا حضرت مسیح موعود کی بعثت کی ایک غرض ہے ۱۸ نبی اور اُس کے ماننے والوں میں محبت کا بے نظیر رشتہ ہوتا ہے ۴۶۸ نبی کو خدا سے شدیدا تصال ۹۰ ۹۱ | ہوتا ہے ۴۷۲ آج کے مسلمان ذلیل ہو نبی کی دوزندگیاں مومن رہے ہیں مومن کا کوئی کام حکمت سے مسلمان نظام سلطنت میں بھی خالی نہیں ہوتا ۹ شریعت اسلامیہ کے نظام کے مجسم کے معنی جڑی بوٹی ۳۳۴ مومن کے بنانے میں اس کے پابند ہیں ۴۵۵ ۲۱۹ ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے مسلمانوں کی ایک افسوسناک غلطی ملازمت ملازمت کرنا کوئی معیوب امر نہیں ۵۱۳،۵۱۲ KA مومن اور نبی دونوں کیلئے جیتنا مقدر ہے مومن کو چھوٹی باتوں پر راضی نہیں رہنا چاہئے ۳۹۹ نظام ہر نبی پہلے نظام کو تو ڑ کر نیا نظام قائم کرتا ہے نظام ارضی مومن کے عمل محدود اور ارادے نظام ارضی نظام شمسی کے مغربیت وسیع ہوتے ہیں انگریزوں کی لمبی حکومت نے ہندوستان میں مغربیت کا پودا پیدا کر دیا ہے ۲۹ نبوت مغربیت کے اصول ۸۷ نبوت اُس وقت آتی ہے جب دنیا فساد سے بھر جاتی ہے مغربی تمدن مغربی تمدن اس وقت دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے ۷۹ نبی کی بعثت کا مقصد ۵۷۴ ۵۳۱ ۳۲ تابع ہے نظام اسلامی نظام اسلامی کے متعلق قرآنی اصول نظام کشی نظام سنسی کا تمدنی ترقی سے تعلق اولوالعزم انبیا ء ا یک قیامت نظام کسی انسانی ہدایت کا مغربی تہذیب مغربی تہذیب اب دنیا پر ہوتے ہیں ۳۶ ۳۲ ۳۳۶،۳۳۵ ۵۱۱،۵۱۰ ۳۳۴ تا ۳۳۶ ۳۳۷

Page 654

انتظام عالم نیشنلزم ۲۷ نیشنلزم مادیت کا نتیجہ ہے نظام عالم انسان کے تمدن میں ترقی کیلئے بڑی ہدایت ہے نظام عالم کی کامیابی کے تین اصل نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے زیادہ مشکل ہے نور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے ۳۳۷ ۳۳۸ ۱۴۰ واقعہ واقفین کو دینی و دنیوی علوم میں پوری مہارت پیدا کرائی جائے ۳۸ ی یورپین ایک جاہل شخص کا واقعہ ۲۲۸ یورپین لوگوں نے مسلمانوں کی وظائف ذہین طلبہ کو وظائف دینے کی ابتدائی سکیم وقف زندگی کے اثر کے ماتحت روشن ہو واقفین زندگی کی ضرورت ۳۲۹ ۴۳۶ ۱۳۸ کتابوں کی کتابیں نقل کی ہیں ۸۵،۸۴ یہودی یہودی مذہب کا نظام حکومت میں دخل ۴۵۴

Page 655

الفاتحة آیات قرآنیہ اسلم....(۳۲) ۲۰۱ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (۱۴۹) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (٢) خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ البقرة الم ذَلِكَ الْكِتَابُ (۲تا۴) مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (۴) (۳۱) ۱۹۲ (۱۶۵) زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيْوَةُ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (۲۲۹) ۵۲۸ ،۲۸ ۱۴۵ ٦٠٢ الدُّنْيَا....(٢٣) وَإِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلِئِكَةِ وَعَلَّمَ آدَمَ الَا سُمَاءَ كُلَّهَا يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ (۳۲) (۳۶) ۲۹۹ ۲۹۹،۲۹۸ ،۲۹۱ فَازَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا (۳۷) ۲۸۲ ۱۷۲ ۱۶ ۳۶ ۳۹۲ النساء يأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الذي (٢) مَثْنَى وَثُلث (۴) أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا (۵۲تا۶۰) فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ (۶۶) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ ۲۹۲،۲۹۱ ۸۷ ۵۰۲۵۰۱ ۴۵۸ إِنَّ اللَّهَ قَدْبَعَتْ لَكُمُ طَالُوتَ مَلِكًا (۲۴۸) ۵۶۲ (۷۰) ۷۵،۷۴ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ (۲۵۲) ۲۰۳ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا ايدنهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (۲۵۴) ۶۵ إلى نُوح (۱۶۴) ۶۹،۵۵ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْهُمْ عَلَيْكَ ۵۷۶۰۵۷۵ (۱۶۵) المائدة (۲۶۱) ۲۸۳ ال عمران ۶۳ ۵۵۱ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا (۳۹) لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّی (۵۶) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا (۹۲) ۳۲ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس (1) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ.(۱۴۵) ۵۷۵،۵۷۴ ۵۷۰ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا (M) جَاءَ كُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ (۱۶، ۱۹۷ ۴۷۵،۴۷۴ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقُوْمِهِ (۲۱)۵۲۹،۷۲ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ إِنَّمَا جَزَوا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ ۴۶۳ (۳۴) | ۵۲۸ (170) 192 مَانَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُفْسِهَا (۱۰۸،۱۰۷) وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بگلمت (۱۳۵) وَإِذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةٌ لِلنَّاس (١٢٦)

Page 656

۲۰۹ ۴۶۲ ۴۶۲ ۳۲۹ ۲۰۰ ۳۱۵ 72.A بَلِّغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ ربِّكَ (۶۸) وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ عَامِلِينَ عَلَيْهَا (۷۰) ۳۴۵ (۹۰) الانعام مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُود......وَمَانُرُسِلُ الْمُرْسَلِينَ.(۵۰،۴۹) ۳۱ (۱۴۴) كَذَلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ.رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرُ إِلَيْكَ (۲۰) ۵۲۹ ۵۸۲ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ..(۸۱) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ.(۱۰۳) ۶۲ (۷۶) ۳۱۴ وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ يونس كُلِّ شَيْءٍ....(۱۴۶) وكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمُ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءَ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ......(1) (۸۲) ۲۰۰ (۱۵۸) وتِلْكَ حُجَّتُنَا اتَيْنهَا..( ۸۴ تا ۹۱) فَالِقُ الْإِصْبَاحَ.....(۹۷) ۴۶۰ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلَامِ ۳۱۲ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ (۲۶) ۲۹۲ ۳۳۱ ۳۴۴۶۸ ۳۳۰ 11 ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ تَمَامًا (100) قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي (۱۶۲ تا ۱۶۴) الاعراف وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوَّرُنَكُمْ (۱۲) آنَا خَيْرٌ مِنْهُ (۱۳) وَّاحِدَةٍ (۱۹۰ ۱۹۱ ) الانفال لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ..۶۰ (۴۳) ۶۷،۵۶ التوبة ۲۸۲،۲۸۱ يَادَمُ اسْكُنْ أَنتَ.....(۲۰) ۲۸۸ ۲۹۱ بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۴۴۴ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ( ۶۳ تا ۶۵ ) ا يوسف قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي ادْعُوا إِلَى اللهِ (۱۰۹) مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى (۱تا۵) (۱۱۲) ۴۶۴۴۶۳ أكْثَرُهُمْ فَسِقُونَ (۸) ۵۰۳ | الرعد يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمُ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَوتِ إِذَا قِيلَ لَكُمُ (۳۹،۳۸) (۳) ۱۵۹ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً (+) ۲۸۴ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَّسَفَرًا (۱۸) ۱۶۲ ابراهيم وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي ۱۶۶ قَاصِدًا (۴۲) ۱۸۳ قَالَ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ (٢٦) لِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ (۲۷)

Page 657

١٩٩ ۳۹۵ لَشَدِيدٌ (۸) ۵۲۷ طه الحجر وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَرُونُ الفرقان هَبَاءً مَّنثُورًا (۲۴) رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا (۳) ۹۷ مِنْ قَبْلُ (۹۱) ۳۰۹،۳۰۸ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ (۱۰) ۷۰ يَادَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لكَ النحل آتی آمُرُ اللَّهِ (۲) وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ (۱۳) آتَى اللَّهُ بُنْيَا نَهُمْ (۲۷) (۱۱۸) قَالُوا سَلمًا (۶۴) ۲۹۱ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ ٩٦ إِنَّ لَكَ اَلا تَجُوعَ (۱۱۹ ۱۲۰) ۲۹۸ (۷۳ تا ۷۸ ) طَفِقَا يَخْصِفَن (۱۲۲) ٢٩٨ | الشعراء ۳۲۵ ۹۶ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا (۱۲۴) ۲۸۳ آتَبُنُونَ بِكُلِّ رَيع الانبياء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ لِكُلِّ شَيْءٍ (۹۰) قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ (۱۰۳) (۳۱) ۳۴۱ (۱۲۹ تا ۱۳۲) النمل ۲۶ } ۲۷۵ أُوتِيَتُ مِنْ كُلِّ شَيْ ءٍ (۲۴) ۲۹۹ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَمٌ عَلَى (۳۴) ۷۰ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ (۱۲۴) ٢٦ خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (۳۸) ۳۳۷ | عِبَادِهِ (۶۰) قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَواتِ ۲۸۷ وَالْأَرْضِ (۶۶، ۶۷) القصص ۱۹۸ ۳۱۷ ۲۶ ۵۷۷ فَاوْقِدْلِي يَهَا مِنْ عَلَى الطَّيْنِ (۳۹) ۳۲۸ العنكبوت اے جَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ (۲۸) بنی اسرائیل فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ (۳۴) ۱۰۶ الحج ۳۴۵ اَلَمْ تَرَاَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُلَهُ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ (۹۰) الكهف الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا (۴۷) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَالْقُرْآنِ ۵۰۷ (19) لَنْ يَّنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا (۳۸) النور إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا (۵۲) ۴۵۹ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا (۵۲) ۳۴۴ الروم ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۵۳۱ (۴۲) | ۵۲۲ ۳۴۶ (۵۵) مریم اَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا (۶۸) ۲۷۲ (۵۵ تا ۵۷)

Page 658

وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ.۲۸۷ | ( ۸۴ تا ۱۰۰ ) النجم ۳۲۰ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ (149) ۳۱۵،۶۸ ۳۴۲ اَجَعَلَ الْأَلِهَةَ الهَا وَاحِدًا (۱) ۸۰ أَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ (۲۷) ۵۳۸ ۳۷ ۳۳۱ ۲۹۰ ( ۴۳ تا ۴۸) القمر اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (۲) ۲۸۶ ٢٦ | الرحمن الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان (۶) مَارِجٍ مِّن نَّارٍ (١٦) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ (۴۷) وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتن (۶۳) ۵۰۷ الحشر مَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ (۸) الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ ۴۵۸ ۱۹۴ ۸۲ ۳۱۸ ۵۸۲ ۱۹۸ ۳۴۳ (۲۴) ۹۶ الصف اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ ضُعُف.(۵۵) وَلَوْ أَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شجَرَةٍ (۲۸) السجدة يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ......أنَا خَيْرٌ مِّنْهُ (۷۷) (1) المؤمن الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاهَامَانُ ابْنِ (۸) ۲۷۵ | لِی (۳۸،۳۷) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ.....(۹) ٢٧٦ | حم السجدة الاحزاب إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ (۳۱ تا ۳۳) الزخرف قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ (۸۲) وَقِيلِهِ يُرَبِّ (۹۰۸۹) الدخان حم وَالْكِتب المُبين (۲تا۶) الفتح كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ (۳۰) الحجرات وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيْكُمْ رَسُولَ اللَّهِ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى (۱۰) ۴۶۱ ۲۰۴ ۸۰ ۲۷۴ ٣١١ (A)109 يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا (۵۷) سبا وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا..(۲۹ تا ۳۱) فاطر وَاللهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ.(الله) إِنْ مِّنْ أُمَّةِ الأخَلافِيهَا نَذِيرٌ (۲۵) الصفت لَا فِيهَا غَوُلٌ وَّلَاهُمْ.يُنزَقُونَ (٨)

Page 659

۱۳۷ ۲۳ ۷۰،۶۵ ۳۸۷ ۲۹۰ الاعلى فَذَكِّرُ إِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرَى المزمل إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا الجمعة هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا (۳) (17) ۴۳۴،۸۸ (10) 7μ القيمة وَاخَرِينَ مِنْهُمْ (۴) ۵۱۴۱۶۰۸۸ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيمَةِ التحريم (۲ تا ۱۱) ۴۰ الفجر أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ (۷ تا ۱۳) وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضٍ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرُانَهُ الماعون ازواجه (۴) (19.1Ʌ) ٧٠ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (۵) نوح الدهر مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ ( ۱۴ تا ۱۹ ) أَلَمْ تَرَوُا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ (۱۶، ۷ ) الجن عَلِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ ۲۶۹ مِّنَ الدَّهْرِ (۲) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ (2.4) ٢٧٣ | النصر انَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (۳) ۳۲۹ المرسلات (۳) ۲۷ اللهب اَلَمْ نَخْلُقُكُمْ مِّنْ مَّاءٍ مَّهِينٍ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّتَبَّ (۲) ۲۷۶ (۲۱ تا ۲۳) ۳۱۸ (۲۸ ،۲۷)

Page 660

۵۰۸ ۴۱۲ ۵۷۸ ف فَالْزِمُهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجُلَيْهَا كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا ۵۲۰ ۵۴ ۱۰۲ ۵۱۸ احادیث أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ أَوَّلُ نَبِيِّ شَرَعَتْ عَلَى لِسَانِهِ الشَّرَائِعُ إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ ۱۰۲ ۶۴۳ أَخْرِجُوا مِنْدِيلَ الْغَمْرِ اذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ أَشْرَفَ الْإِيْمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ ١٠١ بَايَعَنَا رَسُولُ الله لا اعْمَلُ عَمَلَ امْرِيءٍ يُظَنُّ الْائِمَّةُ مِنَ الْقُرَيْشِ أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي 1+1 ۴۸۲ ۵۷۹ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ أَلَا فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدَ الْغَائِبَ ۴۲۰ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللَّهُ ۵۴۸ لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ الإمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ٩٩ ج عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْإِيْمَانُ بِضْعُ وَسَبْعُونَ شُعْبَةٌ ۹۸ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا ٦ الْخِلَافَةَ ثَلاثُونَ سَنَةً ۵۷۰ الْخَلْقُ وِعَاءُ الدِّينِ 10+ خ مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلافَةٌ الصَّلوةُ جَامِعَةٌ ۴۱۹ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ ۲۹۴ مَا مِنْ نَبِيِّ الَّا تَبِعَتُهُ خِلافَةٌ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ ۵۷۹ مَنْ يُطِع الْاَمِيْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي ۵۲۲ DO هَلْ بَلَّغْتُ ۱۱۲ حدیث بالمعنی ( ترتیب بلحاظ صفحات) ۵۱۹ ۸۲ ۵۶۳ ۱۰۲ الْعِبَادَةُ عَشْرَةُ أَجْزَاءِ ١٠١ خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ ورود تحبونهم خَيْرُ الْقُرُون قَرْنِي ع عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ ۲۹۴ ۱۰۲ ۲۴۰ 1+1 1++ النِّسَاءُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلع النِّظَافَةُ مِنَ الْإِيمَانِ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ إِنَّ صَبْرَاحَدِ كُمْ سَاعَة إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق

Page 661

آج جو لوگ بے روزہ تھے ۳۱ اللہ کو بندے کی توبہ سے خوشی میں بادشاہ نہیں حدیث لولاک کے معنی ۳۸ ہوتی ہے ۱۹۱ ایک وقت میں دوا میر جائز نہیں ۴۸۲ مہدی کیلئے ایک ایسا نشان ظاہر جہا د عورتوں پر فرض نہیں ۲۱۷ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ان کی تربیت کرے......۲۲۱ | ایک شخص کا ہدایت پا جانا....ہوگا ۴۲ جس کی دولڑ کیاں ہوں وہ عابد کی خدمت کرنے والے عابد سے بہتر ہیں ۱۰۳ عورت پسلی سے پیدا کی گئی حلال روزی کیلئے کوشش کرنا عورت کے قدموں کے نیچے ۲۹۱ جب کوئی مومن چوری دعا کرتا ہے ۵۹۴ ۵۹۵ سبیل اللہ میں شامل ہے ۱۰۳ جنت ہے اگر کوئی جاندا د بیچ کر کھاتا ہے ۱۰۳ خدا یہود اور نصاری پر لعنت کرے ۳۹۳ قیامت کے دن پانچ افراد پر اللہ کا سایہ عالم عورت شیشہ کی طرح نازک اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو اہلِ فارس اسے واپس لائیں گے ۱۲۰ مجھے اللہ تعالیٰ نے لَيْلَةُ الْقَدْرِ مزاج ہے مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ۷۲ کے متعلق بتایا تھا Kr......۶۰۲ ۶۰۹ ۴۲۸ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی میں اُسے جھنڈا دوں گا ۴۳۸ کے لئے اچھا ہے مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر جو اپنی لڑکی کو تعلیم دے اُترے گا ۴۳۹ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو جھوٹی قسم کھانے سے ملک برباد ہو جاتا ہے KY مردوں کیلئے خالص چاندی کی انگوٹھی جائز نہیں جس طرح اس عورت کو اپنے بچہ کے دن ہیں ۱۸۴ عیدین ہمارے لئے کھانے پینے ۴۴۳ ۶۰۹ ۶۰۹ ۶۱۰ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی جب تین شخص اکٹھے سفر کر ہیں کے ملنے سے خوشی ہوئی اسی طرح ۴۴۶

Page 662

اسماء آپ کے زمانہ میں شرک کو آدم علیہ السلام حضرت ۴۵،۱۰ نیا رنگ ملا ۴۶، ۴۸ ۵۲۰ ۵۳، ۵۸ تا ۶۶۰۶۰ ابراہیمی تحریک کا پیغام ۲۸۳،۲۶۶۰۲۶۵،۲۶۳۰۸۱۷۱ تا ۲۸۸ ۲۹۳،۲۹۲، ۲۹۷ تا ۳۰۶،۳۰۲ ۵۶،۵۵ ۵۶ آپ کے ذریعہ تکمیل انسانیت ۵۷ ابوبکر حضرت صدیق ۲۲۲ ۴۱۵،۳۸۰،۳۷۹ ،۳۴۸ ،۲۴۴ ۵۳۴،۵۳۳،۴۹۰،۴۸۳،۴۶۹ ،۴۴۸ ۵۶۱۵۴۳،۵۳۷ تا ۵۶۶۰۵۶۳ ۵۸۵،۵۸۲٬۵۸۰۵۷۸،۵۷ ۱۵۶۸ ۳۰۷، ۳۷۵،۳۴۷، ۵۲۹،۵۲۸ آپ کے ذریعہ انسانی قربانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۵۷ پر ان کا رد عمل آپ کا دور دور تمدن تھا ۴۷ منسوخ ہوئی آپ پہلے کامل انسان تھے ۲۷۸ آپ حضرت نوح کی نسبت انتخاب خلافت سے قبل تقریر آدم کے لفظ میں حکمت ۲۷۹،۲۷۸ توکل کے زیادہ اعلیٰ مقام پر تھے ۵۷ آپ کا خلیفہ بننا زمانہ آدم کی تمدنی حالت ۲۷۹ تا ۲۸ آپ ابوالانبیاء تھے ۵۸ آپ کا زکوۃ کی وصولی کیلئے آدم کے معنی سطح زمین پر رہنے آپ سے تصوف کا دور شروع ہوا ۵۸ | عزم والے.گندمی رنگ والے ۲۷۹ آپ سے تمدن کامل کی بنیاد آپ کی خدمت میں صحابہ حضرت آدم پہلے بشر نہیں ۲۸۱ پڑی ۵۹ کا وفد آپ کی مخالفت ۲۹۰،۲۸۹ آپ میں بچپن میں سعادت کا آپ کے زمانہ میں تمام عرب آپ کے بارہ میں ایک زبر دست مادہ تھا انکشاف ۲۹۱ ۳۲۰ یکدم مرتد ہو گیا ۴۷۵ ، ۴۷ ۴ آپ کا تعلق ستارہ پرست قوم آپ کے عزم صمیم اور توکل کے شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ ۳۰۲ تا ۳۰۵ سے تھا ۳۲۰ واقعات آسبرن.ڈاکٹر ۲۶۸ ستاره پرستوں کو درس توحید ۳۲۱ تا ۳۲۳ آپ نے حضرت عمرؓ کو کیوں ابن رشد ابن سعود ابراہیم علیہ السلام.حضرت ۸۵ آپ کی بتوں سے بیزاری ۱۴ خلیفہ نامزد کیا؟ ۴۸۲ ۴۸۲ ۵۲۳ ۵۴۴ ۵۴۴ ۵۴۵،۵۴۴ کے واقعات ۱۳۲۱ تا ۳۲۳ کیا آپ کفر بواح کر سکتے تھے؟ ۵۸۱ ۶۰ آپ کے لئے آگ ٹھنڈی ابو حنیفہ.حضرت امام ۳۰۶،۳۰۵،۷۱۰۶۹۰۶۷ ،۶۳۶۱ ۳۱۲،۳۰۸ تا ۳۱۵، ۳۷۵،۳۴۷ ۵۶۱،۵۰۴،۳۹۱ ۵۰ ۵۷ تا ۵۷۸ ہوگئی ۲۲۴ | ابوسفیان.حضرت ابوالہاشم خان چوہدری ۴۳۳ ابوعبیدہ.حضرت ۲۱۹ ۲۷ ،۱۶۶ ۴۸۳،۴۸۲

Page 663

۶۴۴۶۴۳ ۲۱۷ ۶۲۸ ۶۲۸ ۲۵۴ ۱۸۲ i ۶۱۸ ۶۹ ابوقحافہ حضرت ۵۴۴ اکبر یار جنگ ۱۵ واقعہ ابوموسی اشعری حضرت ۲۸۶، ۴۸۷ الیاس علیہ السلام - حضرت ۳۱۳،۳۱۲ ام حبیبہ - حضرت ام المومنین ย.۳۱۳،۳۱۲ ابوہریرہ.حضرت.ان کا المسیح علیہ السلام حضرت ۳۱۲ ۳۳ ام طاہر.حضرت سیدہ امتہ الحمید صاحبزادی.( بنت شاہ ایران کے رومال میں تھوکنا ۱۶۳ ان کا شوق تحصیل علم ۱۲۴ ۱۲۶ ۵۴۶ ، ۵۴۷ حضرت مرزا شریف احمد صاحب) ۶۳۴ ۱۶۴ امۃ الحی.حضرت ام وسیم.حضرت سیدہ اور نگ زیب عالمگیر ایاز بھوک کی حالت میں ان کو دودھ ( حرم حضرت مصلح موعود ) ۲۰۹ ایٹلی (ATTLEE) میجر کا پیالہ دیا جانا ۱۶۴ تا ۱۶۶ ، ۴۱۴ تا ۴۱۶ ۳۱۳،۳۱۲ ۴۳۵ ۳۰ ۲۱۹ ۱۲ ۲۰۹ ۲۳۳ ۱۴۳ ۶۳۰،۳۷۹،۲۵۶ ۶۴۲ | ایمرسن - سر ان کا ایک لطیفہ ۵۵۱۵۵۰ امتۃ الرشید - صاحبزادی ایوب علیہ السلام.حضرت ابی بکرۃ.حضرت ۴۲۰ ( بنت حضرت مصلح موعود ) ۶۳۱، ۶۴۲۶۳۹ احمد جان.حضرت منشی امۃ العزیز.صاحبزادی لدھیانوی ۲۱۴، ۲۱۵ ( بنت حضرت مصلح موعود ) ۶۳۳ اسامہ بن زید.حضرت ۵۸۰ امتہ القیوم بیگم.صاحبزادی با بوبین چندر پال بالڈون ان کی سرکردگی میں لشکر کی روانگی ۵۴۴ ۶۳۳،۲۵۷ بدھ علیہ السلام - حضرت ( بنت حضرت مصلح موعود ) ۲۰۹ | بخاری.حضرت امام اسحق علیہ السلام.حضرت امة الودود.صاحبزادی (بنت بشیر احمد حضرت مرزا ۵۷۶،۵۷۵،۵۶۱٬۳۱۳،۳۱۲ | حضرت مرزا شریف احمد صاحب) آپ نے مجلس انصار سلطان القلم اسد اللہ خان چوہدری.( برادر ۶۲۵ تا ۶۴۲،۶۳۹،۶۳۵ | بنائی حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان ) ۱۴۷ یہ بھولی بھالی بچی مجھے بچپن سے بشیر احمد.حافظ اسماء.حضرت ۴۸۴ بہت پیاری تھی اسماعیل علیہ السلام.حضرت ۵۷ امتہ الودود کے اخلاق ۶۲۶ یہ اُن نوجوانوں میں سے تھے ۶۲۷ جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو آ رہی تھی ۱۴۳ بشیر احمد.حضرت شیخ بشیر بن سعد خزرجی ۴۸۳،۴۸۲ ۶۳۰ ۵۷۶،۵۷۵،۵۶۱۳۱۳۳۱۲۷۶۹ مرحومہ میں حیا تھی ، انکسار تھا حیا ، افتخار احمد.حضرت پیر سب بہنوں سے پیار تھا یہ بچے پالنے میں ماہر ہیں ۲۱۴ ۲۱۵ امتہ الودود کیلئے دعائیں ۶۳۵،۶۳۴ ایڈووکیٹ اکبر بادشاہ ۲۵۵ ان کی اطاعت خلافت کا

Page 664

پطرس で جابر بن عبد اللہ.حضرت جنود اللہ.حاجی جونز.پروفیسر جواہر لال نہرو جہانگیر چ چیمبرلین ۵۶۷ ۴۲۰ ۴۳۳ ۲۶۸ رض خدیجہ.حضرت ۶۰۲، ۶۲۷ سعد بن الوقاص.حضرت ۴۸۴ خلیل احمد مرزا صاحبزاده ۶۲۶ سعد بن عبادہ.حضرت ۴۸۳٬۴۸۱ ۶۲۷ ۶۳۰ سفینہ - حضرت ۵۷۰ خلیل احمد ناصر ۴۰۶ سلطان احمد مرزا.حضرت ۵۴۹ خلیل احمد حکیم ۶۹ ۴۳۳ سلیمان علیہ السلام حضرت ۳۱۳،۳۱۲،۲۹۹،۷۳ داؤد علیہ السلام.حضرت ۶۹ سلیم چشتی ۲۵۵ ۱۶ ۵۲۴ ۳۰ ۵۶۳،۵۲۹،۵۲۸،۳۱۳،۳۱۲،۷۳ | سلیمہ.انگریز نومسلم خاتون ڈارون ۲۶۶ تا ۳۰۲،۳۰۱،۲۶۸ رام چندر ۴۱۲،۳۱۳،۱۲ ش ۳۹۵،۳۹۴ ریف احمد مرزا.حضرت ۱۴۵ حباب بن المنذر خزرجی ۴۸۲ رحمت اللہ شیخ حسان بن ثابت حضرت ۴۱۸ رشیدالدین.حضرت ڈاکٹر حضور ﷺ کی وفات پران کا شعر خلیفہ ۴۷۵ رنجیت سنگھ مہاراجہ ۴۹۳ ۴۹۵ ۷۲ حسن - حضرت امام ۵۵۸،۵۵۷ روشن علی.حضرت حافظ ۵۶۵،۴۳۲ ۴۸۵ حسین.حضرت امام ۵۵۸،۵۵۷ ز رض حکیم بن جبلہ زبیر حضرت حمید احمد مرزا حوا.حضرت ۶۳۲ ۴۸۵،۴۸۴ زرتشت علیہ السلام - حضرت ۸۰ ۴۱۲،۳۱۳ ۲۸۲ زکریا علیہ السلام حضرت ۳۱۳٬۳۱۲ ۶۳۳،۶۲۹،۶۲۸ ام حضرت ۵۸۲،۵۸۱ شیر علی.حضرت مولوی صدیقہ بیگم.۴۰۷ ، ۱۷۲ ( حرم حضرت مصلح موعود) ۶۳۲ ۶۳۳۰ ۶۴۲،۶۳۹ صفیہ - حضرت اُم المومنین ۳۷، ۳۸ حضرت ۴۸۴ ۲۹۴۲۹۲،۲۹۱،۲۸۳ خ خدا بخش.مرزا ۴۹۶ سرور شاہ.حضرت سید ۶۲۶ ۲۷۱ b طلحہ حضرت ۴۸۴ تا ۴۸۶

Page 665

ظ پیچر ۵۷۱ ظفر احمد مرزا صاحبزاده (ابن عبداللہ بن عمرؓ حضرت ۵۵۶٬۴۸۴ حضرت مرزا شریف احمد صاحب) ۶۳۲ ان کے عشق رسول کا واقعہ عبداللہ خان.حضرت نواب ۲۰۹ ع ۴۸۶،۴۸۴،۴۸۳ تا ۵۳۳۴۸۹ ۵۵۸،۵۵۷،۵۵۰،۵۴۳،۵۳۴ ۵۶۱ تا ۱۵۶۳ ۵۷۹،۵۷ ۴۶۸ آپ کا خلیفہ منتخب ہونا آپ کی خلافت بلا فصل کا نظریہ عائشہؓ حضرت اُم المومنین ۴۷۴۲۹۶ عبداللہ خان.چوہدری انہوں نے کسی خطرے کی ( حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان پرواہ نہ کی جنگ جمل میں آپ سے صحابہ کی محبت ۴۳۹ صاحب کے بھائی) ۱۴۷ آپ کی شہادت آپ کا اعلان جہاد ۴۸۵ عبداللہ خان.(حضرت چوہدری علی بن عبد الرزاق عبادہ بن صامت ۵۱۸ محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ایک عبدالحی ماموں) ابن حضرت خلیفة المسح الاول) ۱ عثمان.حضرت ۵۶۸ ۱۴۷ ۳۴۸ ۵۳۳،۴۸۶،۴۸۵ ، ۴۶۹ ، ۴۴۸ ۴۸۵ ۴۸۸ ۵۴۷ ۵۳۸ ۴۴۵ ۴۴۸ تا ۴۵۰ ، ۴۶۷ ، ۴۶۸ ۴۷۰ عمر حضرت ۱۶۴ ۴۶۹،۴۴۸ ، ۴۱۵،۳۴۸ ،۲۲۲،۱۶۵ ۵۴۳،۵۳۴،۵۳۳،۴۸ ۴،۴۸۳،۴۷۸ عبدالرحمن بن عوف.حضرت ۴۸۴ عبدالرحمن.حضرت بھائی قادیانی ۴۹۹ ۵۶۱۵۴۳،۵۳۴ تا ۱۵۶۳ ۵۷ ۵۶۱۰۵۵۵ تا ۵۷۱،۵۶۶۰۵۶۳ عبدالرحمن مصری شیخ ۵۳۴۰۳۷۴ ان کا انتخاب بطور خلیفہ ۴۸۵،۴۸۴ آپ کو شعروں کا بہت شوق تھا ۱۹۲ اس کے لیکچر میں شمولیت کی ممانعت اس کا لغو مطالبہ عبدالرحمن مصری شیخ کے ساتھیوں Λ انہوں نے حضرت معاویہ کی تمام آپ کا گورنروں کو ایک خط تجاویز کو مستر د کر دیا ۵۳۶، ۵۳۷ آپ نے لبید کا وظیفہ دگنا ان کی جرات و بہادری ۵۳۶ تا ۵۳۸ کر دیا ۵۴۷ آپ تجارت کرتے تھے کی اشتعال انگیز حرکت ۴۰۴،۴۰۳ عرباض بن ساریہ ۵۱۹ آپ.نے حضور ﷺ کا غصہ دور ۱۷۳ | عزیز احمد میاں ۴، ۵ کر دیا ۱۹۲ ١٩٣ ۲۹۵ ۲۹۶ عبدالرحیم درد.حضرت مولانا عبد القادر - چوہدری پلیڈر ۱۴۳ ۱۴۴ ان کے بارے میں ہائی کورٹ آپ کا اپنی بیوی پر ناراض ہونا ۲۹۶ عبد القادر جیلانی.حضرت سید ۱۸۴ کا فیصلہ ۱۲۳ تا ۱۲۸ آپ نے سراقہ کو سونے کے عبدالکریم.سیالکوئی حضرت مولانا عطاء الرحمن پروفیسر ۴۳۳ کڑے پہنائے ان کے متعلق.ریمارکس شیعوں کے رڈ میں آپ کا ایک ۲۱۵ ۵۴۰،۵۳۹،۴۳۰ حضور ﷺ کی وفات پر ان کا ۳۴۸، ۴۶۹،۴۴۸، ۴۷۹،۴۷۸ | رد عمل ۴۷۳ تا ۴۷۵

Page 666

حضرت ابوبکر کی تقریر کے مقابلہ میں ان کا ہار ماننا آپ کا خلیفہ منتخب ہونا ۹۴٬۹۲،۹۱،۸۹٬۸۲،۴۳، ۹۷ آپ کا ایک واقعہ ۵۸۳،۵۸۲ ۱۰۴ ۱۴۶ ۱۷ ۱۶، ۱۶۷ ۰ ۱۸ تا ۱۸۵ الہامات ( بلحاظ صفحات ) ۴۸۲ ۲۳۸،۲۳۶،۲۳۵،۲۲۸ ،۲۱۹ ،۲۰۹ ۴۸۳ ان کا شہادت کیلئے دعا کرنا ۵۳۶٬۵۳۵ رومی اور اسیرانی حکومتوں سے آپ کی ٹکر ۳۴۹،۳۴۸ ،۲۵۶۰۲۴۶۰۲۴۲ ۳۷۴ تا ۴۱۴۴۰۶،۳۸۰،۳۷۸ ۴۳۶،۴۳۳،۴۳۰،۴۲۹،۴۱۶ ۵۴۶،۵۴۵ ۴۷۳،۴۷ ۲۴۶۸ ،۴۴۸ ،۴۳۸ آپ کا اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانے سے انکار ان کا قول نِيَةُ الْمُؤْمِن اوود خَيْرٌ مِّنْ عَمَلِهِ ۵۷۴ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ۳۸ يُحى الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ٩٠ آسمانی بادشاہت فَسَحِقُهُمْ تَسُحِيقًا ۴۷۷ ، ۴۸۸ تا ۴۹۴۴۹۰ ، ۴۹۷ ۵۵۸،۵۳۲،۵۱۴،۵۰۰،۴۹۹ زندگی کے فیشن سے دُور ۹۰ ۹۰ ۵۷ ۱۵۶۸،۵۶۷ ،۵۶۶۰۵۶۴ ۵۸۶،۵۸۰۵۷۸،۵۷۴ ۵۸۸ تا ۶۴۰،۶۲۰،۵۹۳۰۵۹۰ عمر و بن العاص.حضرت ۴۷ آپ کیلئے قرآن میں لفظ قیامت ۴۰ عوف بن مالک ۴۸۷، ۴۸۶ ۵۱۹ آپ کا دور تہذیب الہی کا جا پڑے وَاعْلَمُوا اَنَّ الله.يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي الَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آریوں کا بادشاہ ۹۰ ۹۰ ۴۳۸ ۴۳۸ ۴۳۸ ۵۷۴ ۹۰،۴۴ ۵۴۲،۵۴۱ ۴۰۶ ۲۵۶ ۴۸۳ عیسی علیہ السلام - حضرت ۶۴ تا ۶۶ ساتواں دور ہے ۰۷۶۷۱،۶۹ ۸ تا ۸۴، ۲۰۸ آپ کے زمانہ میں انقلاب کے زمانہ ۲۳۵ تا ۲۳۸ ،۲۴۳ ،۳۱۲٬۳۰۵،۲۴۵ چار دور ہونگے ۳۷۵،۳۱۳، ۴۱۱،۳۹۱،۳۸۷ تا ۴۱۳ آپ کا دورانِ زلزلہ باغ ۱،۴۲۱،۴۱۸ ۴۵ تا ۴۵۳ ، ۴۷۷ ، ۵۶۷ | میں رہنا ٨٨ ۹۶ ۲۱۵ ہے کرشن رو در گو پال جے سنگھ بہادر آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آپ کے کشوف ۵۶۸، ۵۷۸ ۵۸۲ تا ۵۸۴ آپ کی سچائی کی ایک دلیل ۲۴۷ ۲۴۸ غلام علی (وہابی مولوی) آپ کے بیان کردہ قصے ۳۶۹، ۳۹۷ ان کا ایک واقعہ عقیدہ حیات مسیح کے نقصان غزائی.حضرت امام ۲۴۰ تا ۲۴۲ آپ کا عورتوں میں روزانہ لیکچر ۳۹۹ غلام بیبین چوہدری t ۱۸۴ آپ کی شفقتیں حضرت میاں محمود پر ۴۳۱ غیاث الدین تغلق ف فاطمہ حضرت ۴۳۹ غلام احمد.قادیانی حضرت مرزا آپ کی خواہش کہ جماعت کا جھنڈا ہو مسیح موعود علیہ السلام

Page 667

فتح محمد سیال.حضرت چوہدری فخر الدین ملتانی فرعون ۳۷۴،۳۷۳ ۱۲۳،۴ ۵۶۰،۲۶ فریدالدین گنج شکر حضرت ۲۵۵ گوتم بدھ.حضرت ل ۲۷۵ لبید.ان کے عشق قرآن کا واقعہ ۱۹۲ ۵۴۳،۵۴۰۵۳۵،۵۳۴ تا ۵۴۵ ۵۴۷، ۵۵۹،۵۵۶۰۵۴۸ تا ۵۶۴ ۵۶۷ تا ۱۵۶۹ ۵۷ ، ۵۷۸،۵۷۷ ۵۹۵،۵۹۴،۵۸۷ ، ۵۸۲،۵۸۰ ۶۴۳،۶۳۵،۶۲۷ ،۶۱۸ ،۶۱۵،۶۰۲ فقیر اللہ.حضرت ماسٹر فقیر محمد خان.سپرنٹنڈنٹ انجنیئر کرشن.علیہ السلام حضرت ۴۳۰ ۱۴۴ ۱۴۳ ۱۲ لوط علیہ السلام - حضرت ۳۳۳۱۲ آپ جامع کمالات انبیاء تھے ۷۱،۶۶ آپ میں موسوی کمالات تھے ۶۸ مالک اشتر ۴۸۵ آپ کی حضرت موسی پر برتری احمد مبارک احمد.صاحبزادہ ۲۰۹٬۱۸۰ کے دلائل ( پسر حضرت مصلح موعود ) ۶۸ تا ۷۰ آپ میں عیسوی کمالات مبارکہ بیگم.حضرت نواب ۲۵۶ بھی تھے 212• ( بنت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ) ۴۱۲۰۴۱۱،۳۱۳۰۸۰ کمال اتاترک اس نے اپنی قوم میں مغربیت کا اثر قائم کیا کمال الدین خواجہ ۴۴۵ 19 ۵۹۱،۵۹۰ انہوں نے خلافت کی تجویز دی ۴۹۰ کنفیوشس.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حضرت خاتم الانبیاء ۵تا۳۳،۳۱،۸ ۳۶ تا ۴۲،۳۹ ۴۳ ، ۵۵۰۵۴،۴۸ ۶۵،۶۳، ۷۵،۷۳۶۷ تا ۷۷ آپ کا حضرت ابو ہریرۃ کو دودھ کا پیالہ دینا ۴۱۴۰۱۶۶۰۱۶۵ تا ۴۱۶ آپ کا وجود دنیا کو اپنی طرف کھنچتا ہے ۷۹ تا ۴ ۸، ۸۸، ۹۷ تا ۱۰۰ ۱۰۳ | محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۰۴ ۱۰۹ ۱۱۱۰ تا ۱۱۳ ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۶۴ اور امن عالم ۱۶، ۲۰۱۷ ۱۸۴۰۷۶۰۱۷ تا ۱۸۶ ۲۰۹، ۲۷ ۲۲۰ ۲۳۵،۲۲۱ تا ۲۴۴ رشتہ داروں سے سلوک ۱۸۹ ۱۸۹ تا ۲۰۴ ۲۱۷ ،۲۱۶ ۲۴۸ ،۲۹۵،۲۹۴۲۹۰،۲۶۳، ۲۹۷ آپ کی کامل اتباع میں مقام نبوت کولمبس.اس کا امریکہ دریافت کرنا ۳۱۸،۳۱۵،۳۱۳،۳۰۹،۳۰۷ ،۳۰۳ ۳۹۵،۳۹۳،۳۷۵،۳۴۹،۳۴۷ ۴۳۸ ،۴۳۴۴۲۹،۴۲۲،۴۲۱،۳۹۶ ۸۰ ۱۴۱۳ گاندھی لميلو ۴۳۸،۱۳۲،۳۰،۱۸ اس کی دریافت کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۳۳۶،۳۳۵ ملنے سے آپ کی ہتک نہیں ۲۴۷ آپ ازواج مطہرات سے ۴۴۳،۴۳۹، ۴۴۶، ۴۴۸ تا ۴۵۱ ناراض ہو کر باہر چلے گئے ۴۵۴ تا ۶ ۴۵ ، ۴۵۸ ۴۶۰ ۴۶۳ آپ کا حضرت ابو بکر کو تسلی ۴۶۴، ۴۶۷ تا ۴۷۴،۴۷۳،۴۷ ۴۷ ، ۴۷۹،۴۷۸ تا ۴۸۶،۴۸۳ ولانا ۲۹۵ ۳۸۰،۳۷۹ ۵۰۰،۴۸۹،۴۸۸، ۵۰۸ ، ۵۷ آپ بندوں اور خدا کے درمیان ۵۱۸ ،۵۲۶،۵۲۵،۵۲۳،۵۲۱،۵۲۰ تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہیں ۴۱۱،۴۱۰

Page 668

آپ کو تمام انبیاء میں امتیازی آپ کو حکومت کے تمام شان حاصل ہے ۴۶۶،۴۵۹ حضرت چوہدری ۱۴۴ ۱۴۳ ۵۵۱۴۳۴۴۳۳،۳۳۳،۱۴۷ آپ خدا کے اکلوتے روحانی آپ کا طریق حکومت ۴۶۱ تا ۴۶۳ انہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی بیٹے تھے ۴۱۱ اختیارات حاصل تھے ۴۱۲ آپ محصلین زکوۃ کو نرمی حصہ سے رُشد وسعادت کے ۴۶۲ جو ہر دکھائے میدان بدر میں آپ کی دعا ۴۱۲ کی تاکید فرماتے آپ کی قربانیوں کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں ملتی ۱۴۵ حضور کا ایک دردناک وعظ ۵۲۰ ان کے متعلق تاریخی ریمارکس ۶۱۸ ۴۱۲ آپ قومی ضرورتوں کے وقت ان کی والدہ کا اخلاص آپ خدمت دین میں دوسرے خطبات دیتے انبیاء سے افضل تھے ۴۱۲ آپ کا ایک کشف ۵۲۴ ان کی والدہ کا حضرت ۵۳۹ مرزا شریف احمد صاحب پر آپ نے جس محنت سے اپنی آپ سید الانبیاء ہیں ۵۷۰ قاتلانہ حمله پر شدید آپ کا حضرت علی کو قائمقام بنانا ۵۷۹ غیرت مندانہ رد عمل ۴۳۳ | محمد عبد الله ۱۴۵ ۱۴۶،۱۴۵ ۵۹۲۵۹۱،۴۹۳ محمد علی خان.حضرت نواب ۴۹۱ امت کی تربیت کی اور کسی نبی نے نہ کی ۴۴۳ محمد اسحق.حضرت میر آپ نے بے نظیر محبت سے صحابہ کو پالا ۴۱۴ ، ۴۱۷ ان کے حضرت خلیفہ اول سے وفات کے وقت شرک سے سوالات بچنے کی تلقین ۴۱۷ محمد اسماعیل حضرت میر ۶۲۹،۲۳۳ آپ نے اپنے بعد آنے والوں محمد اسماعیل.مولوی ۵۹۰۵۸۶،۵۷۴ ان کا خلافت احمدیہ کے بارہ میں ۴۹۱ محمد علی مولوی ۵۰۰،۴۹۷ ۴۹۰،۳۷۳ ۴۹۴ تا ۴۹۶، ۵۰۱،۵۰۰،۴۹۸ سے محبت کی آپ کی متفرق شفقتیں ۴۱۸ (پروفیسر جامعه ) ۴۱۹ محمد اسماعیل.خان ڈاکٹر ۴۰۷ وسوسه ۶۳۱ خلافت کے خلاف ان کا ۵۹۱ ٹریکٹ ۴۹۱ آپ کی ایک دردناک تقریر ۴۱۹ محمد حسین.سید ڈاکٹر آپ کا خطبہ حجۃ الوداع ۴۲۰،۴۱۹ | محمد حسین بٹالوی مولوی.ان کا محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین لڑائی دیکھ کر آپ کا لیلۃ القدر حضرت خلیفہ اول کو چیلنج ۵۸۲ تا ۵۸۴ مصلح موعود بھولنا ۴۲۸ محمد شاه با دشاہ ۴۹۹ ۱۲۸ ، ۱۲۵ ۶۴۴ ۴۳۴،۳۶۳،۱۵۶،۱۴۷ ، ۱۴۰ ۳۱۴ آپ کا درجہ ہر روز بڑھتا ہے ۲۴۵ تا ۲۴۷ محمد شریف.چوہدری ۴۰۶ مقام محمود بزبان محمود آپ کے چار کام ۴۳۵ محمد ظفر اللہ خان - سر میں قریبا نصف کرہ ارض پر

Page 669

پھرا ہوں میری طبیعت میں بچپن سے 17.١٢٠ نصائح تائید و نصرت ۵۸۹،۳۳۳ اولا د کوا ہم نصائح ۸۰ تا ۶ ۱۸ آپ کا ہجری شمسی کیلنڈر بنانے انتہائی احتیاط کی عادت ہے ۳۶۸ تم فاقے کرو تا آئندہ اولادیں کا ارادہ میں انگریزی کی مشکل سے مشکل تمہارے لئے دعا کریں کتاب پڑھ سکتا ہوں ۴۳۱ جامع نصائح اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کے مطالب سکھاتا ہے ۴۳۲ تحریکات ۲۲۳ نظام کو بہتر بنانے کیلئے ۱۱۴ ۱۱۵ | ہدایات ۵۹۵،۵۹۴٬۳۴۹ انگلستان میں قیام مشن کیلئے مسلمانوں کا ایک مشہور لیڈر ا.برطانیہ کی کامیابی کیلئے با قاعدہ میرے خطبات پڑھتا ہے ۵۲۴ دعا کی تحریک ۶۱۵ تا ۶۲۲ آپ کی کوششیں میری خلافت پر ابھی تین دن نہیں ۲.دعاؤں کی متفرق گزرے تھے کہ خدا کے نشانات تحریکات ۳۳۴ ۳۳۹ تا ۳۴۱ آپ کا نمایاں حصہ عربی اُستاد تیار کرنے میں ۳۷۴ آپ کا تفخیذ الا ذہان جاری ۳۸۸، ۴۹۷ کرنا ۳۷۴ ۱۱۲ قرب وفات مسیح موعود کے ۱۳۹ آپ کے بیان کردہ قصے ۳۹۸،۳۹۶ بچپن میں آپ کی تعلیمی حالت کی آپ کا ایک احتجاجی مضمون ۶ آپ کے عشق خلافت کا ایک بارش کی طرح برسنے شروع ہو گئے ۵۸۹ ۳.علماء کو کتب لکھنے کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴.پراپیگنڈا کمیٹیاں بنانے وقت آپ کی دعا کی دعائیں آپ کے لئے ۴۳۱ ۴۳۲ کی تحریک ۴۱۴۴۱۳ ۴۲۸ ،۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۷۳ کمزوری اور نا نا جان کی شکایت ۴۳۰ آپ کو ایک مدعی نبوت کا خط ۱۹۰،۱۸۹ واقعہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی آپ کے آپ کا عشق رسول خلاف شکایت ۴۳۰ آپ کی روز نامہ الفضل کو حضرت خلیفہ اول سے آپ کا ہدایات قرآن پڑھنا ۴۳۱ مسلمانوں کی حالت پر آپ کے دماغ پر خدا کا خاص تصرف ۲۳۰ تا ۲۳۵ آپ کی تقریر پر خلیفہ اول کے ریمارکس حضرت خلیفہ اول سے طب اور رنج و غم کا اظہار ۲۵۶،۲۵۵ خلافت جوبلی منانے پر انقباض بخاری پڑھنا ۴۳۱۳۷۴ تغلق کے قلعہ کو دیکھ کر آپ اور پھر شرح صدر آپ کی پہلی تقریر ۴۲۷، ۴۲۸ پر محویت طاری ہوئی ۲۶۱،۲۵۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی دعائیں ۱۱۴ ، ۱۱۵ ۱۲۴ آپ کے ۱۶ مشاہدات ۲۵۸ تا ۲۶۰ سے عشق کا ایک واقعہ ۲۰۹،۲۰۷، ۳۸۷، ۶۱۹،۴۳۳،۱۳۸۸ آپ کے ساتھ خدا کی مولوی محمد علی صاحب سے ایک

Page 670

ملاقات ۴۹۸ ایک رؤیا کو پورا کرنے کی کوشش ۴۰۶ معاویہ بن جاہمہ آپ کا اپنے خاندان کو سمجھانا ۴۹۸ ایک کشفی حالت میں آپ کی آپ سے ایک شخص کا کیمیا پیاس جاتی رہی منصور ۴۱۶ منصور احمد مرزا.۲۵۵ کے نسخہ کے بارہ میں اصرار ۵۶۶،۵۶۵ آپ کی پیشگوئی کے مطابق ایک حضرت صاحبزاده ۶۴۳۶۳۹،۶۲۷ نا موافق حالات میں آپ کا شخص کا دہر یہ ہو جانا ۵۹۰ ان کے متعلق تعریفی ریمارکس ۶۴۴ خلیفہ بننا ۵۸۶ آپ کے الہام کے مطابق منور احمد.ڈاکٹر آپ کے ذریعہ ہر قسم کے علوم پیغامیوں کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ۵۹۱۵۹۰ حضرت صاحبزادہ کا ملنا ۵۸۸،۵۸۷ | آپ کے اشعار ۶۴۰ تا ۶۴۳ موسیٰ علیہ السلام - حضرت آپ کے دور میں خوف کوامن محمود خان حکیم سے بدلا گیا ۵۸۸ ان کی دیانت داری کا واقعہ آپ کا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین محمود غزنوی ۶۳۲،۵۹۲،۵۹۱ محی الدین.حضرت ابن عربی اور توکل آپ کا حضرت میر محمد اسحق صاحب کے مشورہ کو رڈ کرنا کارکنان جلسہ سے خوشنودی کا اظہار خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے اپنے وجود کو متعدد بار خارق عادت ۵۹۲ مریم علیہا السلام حضرت 11+ ۱۸۳،۱۸۲ ۶۳۲ ۲۶ ۶۳،۳۹ ۶۹۰۶۴ تا ۷۵، ۷۹،۷۷ ۳۰۶،۳۰۵،۸۰، ۳۰۸تا۳۱۲۳۱۰ ۴۱۲،۳۹۱،۳۷۵،۳۴۷ ،۳۱۳ ۵۶۱۵۶۰۵۵۱۵۵۰،۵۴۹،۴۱۳ ۶۲۰۵۷۹،۵۷۸۰۵۶۸ ،۵۶۳ ۱۳ ۵۲۰۰۱۸۴ آپ کا دور ایک نیا انقلاب ۲۳۶ لے کر آیا ۳۸۶،۲۳۸، ۴۱۸ | موسوی دور کا پہلا انقلاب شریعت کامل ۲۰۲ مریم صدیقہ - حضرت سیدہ ( حرم حضرت مصلح موعود ) ۶۲۶ آپ کے ذریعہ صفات الہیہ ۶۳۱۶۲۸ تا ۶۴۲،۶۳۹،۶۳۳ کی تفصیلات ظاہر کی گئیں طور پر ظاہر کیا آپ کے الہامات، رؤیا و کشوف ۷۷ ایم.ایم احمد ۱۷۸ ، ۶۲۱،۲۰۹ کا طریق جاری ہوا ۳۷۹،۱۴۷، ۴۱۶ تا ۴۱۸ ۴۹۱ تا ۴۹۴ | مقداد بن الاسود.حضرت ۴۸۴ میکڈانلڈ ۲۰۷ مظفر احمد مرزا.حضرت صاحبزادہ آپ کے زمانہ میں بالمشافہ وحی ۵۹۰،۴۹۷ تا۶۲۱،۶۱۹،۵۹۴،۵۹۲ | معاویہ - حضرت متفرقات تاریخی عهد ۳۷۸،۳۷۷ ۱۶۶ ن ۴۸۶ ، ۷ ۵۳۶۰۴۸ تا ۵۳۸ ۵۵۰۰ | ناصر احمد.مرزا حضرت ۵۵۱، ۵۵۵ تا ۵۵۸ خلیفة المست خليفة المسح الثالث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان کی غیرت ایمانی کا واقعہ ۵۴۱۵۴۰ آپ کی بچپن کی بیماری ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۴ ۲۳۲ ۶۳۲،۱۸۰ ۴۱۴۴۱۳

Page 671

ناصر نواب.حضرت میر ۴۹۱ آپ کی حضرت مصلح موعود سے ناصرہ بیگم.صاحبزادی محبت ( بنت حضرت مصلح موعود ) ۶۲۸ ۱۳۳۰ ، ۶۳۹ آپ کا اپنے ہاتھ سے کام کرنے نا تک.حضرت باوا ۱۷۱،۵ کا واقعہ شار احمد.ڈاکٹر کیپٹن ۱۴۴ آپ کا گھوڑے سے گرنا نصر اللہ خان.۵۷۹،۳۴۷ ،۳۱۳،۳۱۲ ۳۷۲ آپ کے متعلق قرآن میں انکشاف ۳۷۶ پامان ۴۱۳ هکله آپ کا لطیف انداز میں حضرت ہلاکو خان حضرت چوہدری ۱۴۳ ۳۷۴ میاں محمود احمد کو بیٹے کی بیمار پرسی آپ بہت مخلص اور قابل قدر کی طرف توجہ دلانا احمدی تھے نصرت جہاں بیگم.حضرت ۱۴۵ آپ تک چالیس حدیثیں حضرت ۶۲۷ براہِ راست پہنچنا ( حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) مسئلہ خلافت کے متعلق آپ نظام الدین اولیاء حضرت خواجہ کی تقریر ۲۵۵ آپ کی وفات نظام الدین میاں.ان کے آپ کی ایک بے نماز سے قبول احمدیت کا واقعہ ۵۸۲ تا ۵۸۴ نوح علیہ السلام.حضرت ۵۶ ۹۰۷ ۱۶۹۰۶۶۰۶۰۵۹ ،۵۷ ۳۱۲،۳۰۸ ،۳۰۶،۳۰۵،۲۶۹ گفتگو ہمایوں ۴۱۴،۴۱۳ ہٹلر ہٹلر ماہر نفسیات تھا ۴۲۲ ہیکل یجی علیہ السلام.حضرت یزید ۴۹۴۴۹۳ ۴۹۷ ۵۰۷،۵۰۶ آپ کے توکل اور نصرت الہی کا ایک واقعہ ۵۲۹،۴۱۳،۳۹۱،۳۷۵،۳۱۳ آپ کی ایک وصیت آپ کا دور تہذیب الہی کا دوسرا دور تھا ۵۴ ۵۶۵،۵۶۴ ۵۷۲۵۷۱ ۳۰۸تا۳۱۰ ۲۶ ۲۶۸ ۶۲۰ ۲۵۵ ۶۲۱۶۲۰ ۳۶۰ ۲۶۸ ۳۱۳،۳۱۲ اس کے بیٹے کی تخت حکومت سے دستبرداری یعقوب علیہ السلام.حضرت ۶۹ ۵۷۶،۵۷۵،۵۶۱۳۱۳،۳۱۲ یعقوب بیگ.مرزا ڈاکٹر ۳۸۵ یعقوب علی.حضرت آپ پہلے شارع نبی تھے نورالدین.حضرت خليفة المسح الاول ۲۱۴،۱۴۷ ۴۳۱،۴۳۰،۳۷۳ ،۲۸۹،۲۲۸ ،۲۱۹ ولنگڈن لارڈ ۱۴۶، ۶۱۸ | شیخ عرفانی ۴۹۵،۴۹۴ ویلز شہزادہ ۳۷۱ یوسف علیہ السلام - حضرت.۳۱۲ ۵۷۶،۵۷۵،۳۱۳ DO ۵۷ یوشع علیہ السلام.حضرت ہاجرہ علیہا السلام حضرت ۴۹۱ تا ۴۹۳ ۵۰۰،۴۹۹،۴۹۶۰۴۹۵۰ ۵۶۳،۵۶۱ یونس علیہ السلام - حضرت ۳۱۳۳۱۲۰۶۹ ۵۸۶،۵۸۲، ۵۹۰۵۸۹،۵۸۸ ہارون علیہ السلام - حضرت ۶۹

Page 672

آگرہ آنا ۲۵۶۰۲۵۴ تا ۲۵۸ آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے ۲۵۵ ۴۰۴،۳۰۴ ایران ایشا برائٹن ۱۷ ۱۸۰ ۲۸۰،۵۱ | بٹالہ مقامات ۱۶۶۰۸۶،۸۱۸۰ | پیرس ۵۴۷،۵۴۶،۵۳۹،۴۳۰،۴۱۱ ۴۳۹،۴۱۱،۴۰۴،۳۸۷ بخارا اٹلی افریقہ افریقہ کے پھل افغانستان افغانستان کے خلاف ۲۹۸ برلن ۵۵۵ | برنڈزی بغداد صدائے احتجاج بلند کرنے کا اثر ۵۵۴ بلغاریہ ۲۳۰،۸۵ ۴۳۹،۱۸ | ترکی تغلق آباد ۳۶۲،۳۵۸،۳۰۴۱۸ ج ۲۳۰ ۲۱۹ ۳۹۸ ا.جاپان جاوا جده ۵۴۹ | جرمنی ۲۵۶،۲۵۵ ۵۲۳،۴۱۱،۸۳،۱۸ ۴۳۹،۴۳۳ ۱۴ ۳۵۵۰۷۹ ۶۲۰ ۳۵۸ تا ۶۱۹،۶۰۱،۴۶۹،۳۶۳ ۳۶۲ جموں ۵۸۲ ۳۱۴ ۸۳٬۸۱،۸۰۱۷ ۵۲۳،۴۱۱ ۲۵۴،۲۵۳، ۱۵ ۴۰۵،۲۵۸ ،۲۵۷ ۱۴۷ سمتی ۲۰۷،۵۵۲۲۵۳ | جے پور ۴۰۸ چ ۵۲۴ چین ۴۳۹،۴۳۳،۴۰۴ امرتسر امریکہ ۵۶۳،۴۷ ،۳۸۶ ۶۰۱۸ ۱۷ ۱۸۰۰ | بنگال ۴۱۱، ۶۰۱٬۵۵۳،۴۶۹،۴۳۹،۴۳۷ بیکانیر انگلستان (برطانیہ) ۳۰،۱۸،۱۴ بیلجیئم ۲۳۲،۱۸۰ ۱۷۹ ۱۷۶،۱۴۴،۸۴ ۳۵۶،۳۵۵ تا ۱۳۹۴،۳۷۳،۳۶۲ پاکسیٹن ۲۵۵ حیدر آباد ۶۰۱۵۵۳،۴۶۹،۴۳۷ ،۳۹۵ ۶۲۱۶۱۸،۶۱۶۰۶۱۵ پٹیالیہ 11+ پشاور ۱۲۴ انگلستان میں کئی غریب بھیک پنجاب ۲۳۶،۱۸۲۰۱۸ ۱۰۹۳۷۲ مانگتے ہیں اوکھلا بند ۵۵۲ پولینڈ ۳۵۵ تا ۴۰۴،۳۶۳ دا تا زید کا مشق ۲۵۵

Page 673

۱۴۵، ۱۱۳ ۱۱۱۰ ۱۰۷ ق قادیان ۲۲۷ ،۲۱۴،۱۸۹ ،۱۸ ۱۰ ۱۷ ۱۰ ۱۴۶ ۳۶۸،۳۶۷ ،۲۵۴۲۵۳،۲۳۶ ۲۶۵ عدن ۱۸۳،۱۴۴ ، ۱۱۰،۸۶،۷۲ دہلی ۲۵۴ تا ۲۵۸، ۳۱۵، ۵۶۵،۴۳۱،۳۹۸ ۳۵۸ ۴۴۹،۳۹۶،۲۳۰،۲۲۹، ۱۹۲،۱۹۰ ۳۹۴،۳۹۱،۳۸۶،۳۸۵،۳۷۳ ۵۳۳،۴۷۱۰۴۶۴ ۴۵۸ ، ۴۵۵ ۴۹۳،۴۹۰،۴۴۳ ،۴۳۷ ، ۴۰۶ ،۴۰۳ ۱۲۴ ۵۵۶،۵۵۳،۵۴۴۵۴۳ ۵۸۳،۵۵۳،۵۰۳،۴۹۹،۴۹۵ ۶۰۳،۴۷۰ ۶۳۲۶۲۱،۶۱۵،۵۸۹،۵۸۴ ۹ ۵۵۲ ۶۰۲۶۰۱ ۶۰۳ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے قادیان میں ہر وقت علم کا چرچا رہتا ہے قادیان کا جلسہ تعداد کے ۴۳۳ ۵۹۱،۵۹۰ علی گڑھ علی گڑھ کے ایک جوان کی دورخی پالیسی ف فتح پور سیکری ڈنمارک راس کماری روس روس اور موجوده جنگ ۳۵۵ تا ۳۶۳ ۵۴۰۷۹٬۸۵ ۳۶۲،۳۵۸ ۸۴ ۱۴ ۱۳ ۳۶۲ یہ قلعہ مغلیہ خاندان کے عروج لحاظ سے ہندوستان میں فرانس کی حیرت انگیز مثال ہے ۲۵۵ دوسرے نمبر پر ہے ۱۷۴ ،۷۹ ۳۵۵۰ | اہلِ قادیان کی تعریف ۶۰۱،۳۷۱،۳۶۱،۳۶۰،۳۵۶ ۶۴۲۶۱۶ کراچی ۱۸ ۴۳۹،۴۳۳ ۲۵۳،۱۴۷ روم رومانیہ چین سردیا سکاٹ لینڈ سماٹرا سندھ سویڈن سیرالیون سیرالیون میں ۵۰۰ نواحمد یوں کی خبر شام صفین ۳۵۷ فرانس والے چپ رہنا پسند نہیں کرتے ۳۸۷ فرانس کے دو پادریوں کا ۵۴۴۵۳۶،۴۱۱۰ ۱۸ قصہ فلسطین فلنڈرز فیروز پور ۱۷۹ ۶۱۹،۲۵۸ ،۲۵۳، ۱۹۰ ۶۳۹،۶۳۳،۶۲۷ کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ ء کے متعلق ۳۲۵ تا ۳۲۸ چند خیالات ۴۰۴ کوٹلہ ۶۲۱ ۲۲۲ گجرات ۱۵۱ تا ۱۵۶ ۶۲۷ ۴۰۸

Page 674

۴۱۱،۳۶۹،۳۶۱۰۲۵۶،۲۳۴۲۲۷ ۳۰۹،۳۰۸ ،۲۴،۱۸ ۵۴۱۰۴۴۵،۴۳۶۰۴۳۵،۴۲۸ ۴۱۱،۳۷۴ ۶۱۸،۶۱۶،۶۰۲،۶۰۱،۵۸۲،۵۵۲ ۴۰۴ ۶۰۱ ۷ ،۱۵، ۱۳،۱۱ ۸۷،۸۴،۸۳،۴۹،۳۰،۲۶،۲۴ ہنگری یوپی ۱۷۳ تا ۷۵ ۲۲۲۱۸۰، ۲۳۲،۲۲۷ ۳۹۲،۳۳۰،۳۰۴،۳۰۱۲۸۶،۲۷۰ ۴۳۹،۳۹۳ یورپ کے تنزل کے واقعات ۵۲۵۱ یورپ کے اخبار نویسوں کی ۲۳۰ ۳۶۲ تعریف ۴۰۴ اگر مصر کی جماعت مضبوط ہوگئی ۵۴۲،۴۰۸ ، ۱۳۱ گورداسپور گولکنڈہ گولکنڈہ کا قلعہ اسلامی شان و شوکت کا نشان ہے ۲۵۴ تو اس کا عالم اسلامی پر گہرا ۲۵۷ اثر پڑے گا ۱۶۳۸۱،۴۱ ۱۵ ۱۴ ۴۸۱۴۲۱،۴۲۰،۲۹۶۲۹۰، ۱۹۲ ۶۰۲۵۴۴،۵۴۳،۴۸۵ ۱۴۵ ۳۸۶،۳۷۷ ، ۱۲،۶ ۶۲۸ ،۵۸۳،۵۸۲۰۴۳۱۴۰۶ ۱۴۷ ۱۸،۷ ،۱۳،۳ DO میر پور خاص ناصر آباد ہندوستان ۲۱، ۲۸ تا ۹۴،۸۶،۸۳٬۸۱۰۸۰۳۰ ۱۳۸ ،۱۵۵ ۱۷۴ ۱۷۹ ۱۰ ۲۲۲۰۱۸ | یونان ۳۶۸ ۵۵۴،۵۴۹، ۱۰ ۲۸ ۲۹۵، ۲۴۴ ،۲۴۳ لاہور لکھو لنڈن مدراس مد بینہ ۵۳۵،۴۸۵،۴۸۴،۴۸ ۱۴۱۷ ، ۲۹۶ ۵۴۴،۵۴۳،۵۳۷ ، ۵۳۶

Page 675

۵۷۱ ۳۵۵ ۲۲۹،۲۲۸ بائیل کتابیات بخاری خلافت راشده ۳۱۳،۳۱۰:۳۰۹،۲۴۰۲۵ (از مولانا عبدالکریم سیالکوٹی) ۵۸۳،۳۷۴ ڈ ۶۳۳،۴۰۴،۳۷۴ ۵۷۱ ۵۵۸ ۴۰۴ ۳۴۶ ۴۰۴ ۵۲۶ ۴۳ ۶ آئینہ کمالات اسلام اخبار عام الاسلام و اصول الحكم ۴۴۴ البشرى بیضاوی ۳۴۶ ڈیلی ٹیلی گراف ۲۲۹ الفضل ۲۲۷ ،۱۴۳،۱۲۳،۱۰ پیغام صلح پیغامیوں کا رسالہ ۵۰۳ ریویو آف ریلیجنز ۲۳۱ تا ۲۳۵،۲۳۳، ۴۰۴ ، ۴۳۷ الفضل چلانے میں عملہ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۲۳۰ تشخیز الا ذہان س ۳۷۴ الفضل کا کام ہے کہ سلسلہ کی خبریں سر الخلافه تقويمنا الشمسي ۳۳۴۳۳۳ معلوم کرنے میں مستعدی سے توریت ۲۳۰ ۶۴،۶۲،۳۹،۲۵ سن رائز ۶۵، ۲۶۴،۱۵۹،۷۷تا۲۶۶ طبری فاروق (اخبار) قدوری ۵۶۱۴۶۰،۳۰۸ ۶۱ ۵۷۱ تو ریت وہ پہلی کتاب ہے جس میں بنی نوع انسان کیلئے تفصیلی ہدایات دی گئیں حجۃ اللہ کام لے الفضل کے مضامین میں تنوع ہونا چاہئے ۲۳۱ الوصیت ۵۷۸،۵۶۸ ،۴۹۰ انجیل انقلاب حقیقی ۴۵۲۱۵۹٬۸۲،۳۹ اس کے بعض حصے اپنے اندر ۴۷۷ ، ۴۶۰ ۴۰۵ الہامی رنگ رکھتے ہیں

Page 675