Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمو اسم أصلح الموجود خلیفتہ المسیح الثانی 13
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة أسبح الثاني
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف (فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۳۲ء بر موقع جلسه انصار الله بمقام مسجد نور قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری طبیعت تو آج زیادہ خراب تھی چنانچہ نماز میں بھی میں نہیں آسکا سر درد، نزلہ اور گلے میں درد کی شدید تکلیف ہے لیکن انصار اللہ کا کام اس قسم کا ہے کہ میں نے خود اس جلسہ میں شامل ہونا ضروری سمجھا اور چونکہ اس کی بنیاد میری کئی خوابوں پر رکھی گئی ہے اس لئے میں نے اس میں شرکت ضروری خیال کی.پھر یہاں آکر جور پورٹ سُنی ہے اس سے اور بھی زیادہ احساس اِس بات کا ہوا ہے کہ مجھے جو کچھ کہنا ہے خود کہنا چاہئے ورنہ جمعہ کے متعلق تو میں نے یہی خیال کیا تھا کہ خطبہ کوئی اور پڑھ دے اور نماز میں پڑھا دوں گا کیونکہ گلے کے درد کی وجہ سے مجھے اتنی سخت تکلیف تھی کہ میں کوئی تقریر کرنا مناسب خیال نہیں کرتا تھا مگر یہاں شامل ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ خواہ مجھے تکلیف بھی ہے، تب بھی میں اپنے خیالات ظاہر کر دوں.میں چونکہ اونچی آواز سے نہیں بول سکتا اس لئے آگے آجاتا ہوں ( یہ کہہ کر حضور مسجد نور کے محراب سے برآمدہ کے درمیانی دروازہ میں تشریف لے آئے اور فرمایا ) آج با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے کام کے لحاظ سے اونچی آواز دی ہے اس قدر نزلہ، گلے اور سینے کے درد کی تکلیف ہے کہ میں باوجود کوشش کے اپنی آواز اونچی نہیں کرسکتا.میں نے ذکر کیا ہے کہ میں اپنی تکلیف کی وجہ سے آج صرف یہ ارادہ رکھتا تھا کہ اس جلسہ میں شامل ہو کر چلا آؤں گا مگر رپورٹ سننے کے بعد دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ باوجود تکلیف کے مجھے کچھ نہ کچھ ضرور کہنا چاہئے.شاہ صاحب نے جو کچھ رپورٹ سُنائی ہے اس سے معلوم ہوتا
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف ہے کہ گو کام اس قدر نہیں ہوا جس قدر ہونا چاہئے تھا مگر پھر بھی عام جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے انصار اللہ کا کام بہت زیادہ ہے.ہماری تمام جماعت لاکھوں افراد پر مشتمل ہے جن میں سے بتایا گیا ہے کہ اٹھارہ سو انصار اللہ ہیں.اس لاکھوں کی جماعت کی کوشش سے سارے سال میں پانچ چھ ہزار آدمی جماعت میں داخل ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں انصار اللہ کی کوشش سے اس سال چھ سو افراد جماعت میں شامل ہوئے جس کے معنی یہ ہیں کہ گو تعداد کے لحاظ سے انصار اللہ تمام جماعت کے مقابلہ میں سو میں سے ایک بھی نہیں لیکن تبلیغی لحاظ سے انہوں نے جماعت کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدی کام کیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ اٹھارہ سو میں سے صرف تین سو انصار اللہ نے حقیقی کام کیا جو تمام انصار اللہ کا ۶/۱ ہوتے ہیں گویا ساری جماعت میں سے ۱۸سو آدمی جن کی فیصدی کچھ نسبت ہی نہیں بنتی ان کا انصار اللہ میں داخل ہونا اور ان میں سے صرف ۱۶ فیصدی کا کام کرنا جس کے نتیجہ میں چھ سو افراد کا جماعت میں شامل ہونا درحقیقت اس بات کی علامت ہے کہ اس تنظیم سے کام میں تیزی پیدا ہوئی ہے.پھر رپورٹ میں ایک یہ بات بھی نہایت خوشکن تھی کہ جماعت ضلع گجرات جو کسی زمانہ میں تمام جماعتوں کے مقابلہ میں دوسرے نمبر پر ہوا کرتی تھی، جہاں بیسیوں افراد السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ کے موجود ہیں اور جہاں کے لوگوں نے اُس وقت سلسلہ احمدیہ کو قبول کیا جب کہ بڑی بڑی سختیاں اور ظلم ہوا کرتے تھے اور انہوں نے ظلموں کو برداشت کرتے ہوئے ایمان کو ہاتھ سے نہ جانے دیا مگر بعد میں وہاں سستی پیدا ہوگئی اور جماعت گرتے گرتے اب شاید پانچویں یا چھٹے نمبر پر رہ گئی.اس میں بھی اب بیداری پیدا ہو رہی ہے.مجھے اپنے بچپن کے زمانہ میں ضلع گجرات کے لوگوں کا یہاں آنا یاد ہے.اُس وقت سیالکوٹ اور گجرات سلسلہ کے مرکز سمجھے جاتے تھے گورداسپور بہت پیچھے تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ نبی کی اپنے وطن میں زیادہ قدر نہیں ہوتی ہے اس زمانہ میں سیالکوٹ اول نمبر پر تھا اور گجرات دوسرے نمبر پر.مجھے گجرات کے بہت سے آدمیوں کی شکلیں اب تک یاد ہیں.مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس اخلاص کی وجہ سے کہ تا وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے بنیں کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيق.سے نہ اس وجہ سے کہ انہیں مالی تنگی ہوتی پیدل چل کر قادیان آتے.ان میں بڑے بڑے مخلص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب رکھتے.یہ بھی ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حا فظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اِس کا ذکر کر
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالٰی کے راستہ میں تکالیف چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آ رہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے.حافظ صاحب کہتے.میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے ملے اور رونے لگ گئے.میں نے پوچھا.تم کیوں روتے ہو؟ وہ کہنے لگے ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا اور اس وجہ سے دوسرے حصہ کی طرف سے اسے اس قدر دُکھ دیا گیا اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے تھے خود احمد کی ہو گئے.ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف آ نکلے.جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبہ سے پُر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم اُن سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا آج خدا نے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا.اس واقعہ کی یاد سے ہم چشم پُر آب ہو گئے.کہا جاتا ہے کہ ضلع گجرات میں پھر سلسلہ کے خلاف شورش پیدا ہو رہی ہے اور پھر مخالفین مقابلہ کیلئے تیار ہو رہے ہیں.یاد رکھو مقابلہ اور شورش مومن کیلئے خوشی اور مسرت کا موجب ہے نہ کہ دُکھ اور مصیبت کا باعث.شاعر اپنے شعروں میں نہایت فخریہ انداز میں کہا کرتے ہیں.ہم اپنے معشوق کیلئے یہ یہ دُکھ اُٹھاتے ہیں ، وہ کسی انعام کے طالب نہیں ہوتے ، وہ کسی روپیہ کا لالچ نہیں رکھتے بلکہ وہ دُکھ میں لذت اور محبوب کیلئے تکلیف اُٹھانے میں راحت محسوس کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ اس عشق حقیقی کے نتیجہ میں جہاں ہمارا مولیٰ ہمارا معشوق ہوتا ہے جو سارے حُسنوں کی کان ہے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہمیں دولت ملنی چاہئے ، ہمیں تمام دُکھوں اور تکلیفوں سے نجات حاصل ہو جانی چاہئے ، حالانکہ وہ عشق ہی کیا جس میں درد نہ ہو اور وہ محبت ہی کیا جس میں سوز نہ ہو.جیسا کہ ابھی خان صاحب (منشی قاسم علی خاں قادیانی) نے اپنے اشعار میں بتایا ہے.دردِ دل کے بغیر عشق کا مزا نہیں.پس یہ رنج کی بات نہیں کہ تمہیں اللہ تعالٰی کے راستہ میں تکالیف پہنچتی ہیں بلکہ خوشی اور مسرت کی بات ہے.مجھے اس جلسہ سالانہ میں سب سے زیادہ خوشی ایک مجذوب سے دُبلے پتلے انسان کے کلام سے ہوئی.وہ ملاقات کیلئے آیا اور جب سب مل چکے تو آخر میں اُس نے مصافحہ کیا اور کہنے لگا.میں اپنے گاؤں میں اکیلا احمدی ہوں اور اکیلا ہی لوگوں کی گالیوں اور اُن کی مار پیٹ کا مزا لیتا ہوں.اُس نے پنجابی میں فقرہ کہا
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف جو نہایت ہی دلچسپ ہے کہنے لگا.( میں اکلا ہی لوکاں دی گالیاں تے ماردا مزا اٹھانداں ہاں ) اور اُس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ واقعی اُسے ان تکالیف میں مزا آتا ہے.تو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرنا اور پھر گالیوں اور لوگوں کی مار سے ڈرنا یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہو سکتیں.تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی صحابہ حسرت سے کہا کرتے تھے کہ وہ دن کیسے اچھے اور با برکت تھے جب ہم دشمنوں سے ماریں کھایا کرتے تھے.سے ہم میں سے ہر شخص اگر اس کی اولاد نہیں تو کبھی وہ بیٹا ضرور رہا ہے.ہم خوب سمجھ سکتے ہیں کہ ماں باپ کی محبت کا بڑا مظاہرہ اُس وقت ہوتا ہے جب اُن کے بچہ کو کوئی شخص پیٹے یا اُسے دُکھ اور تکلیف پہنچائے یا وہ بیمار ہو جائے.اس طرح جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو دوسرے بندے دکھ دیتے ہیں تو جس طرح ماں باپ اپنے بچوں سے لپٹ جاتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس بندے سے لپٹ جاتا ہے.اُس کے ہاتھ ہمیں نظر نہیں آتے مگر اُس کی محبت ہمیں نظر آتی ہے.بے شک وہ ليسَ كَمِثْلِهِ شَيْى ہے اور نہ اُس کے ہاتھ ہیں نہ پاؤں لیکن جس محبت کے ساتھ وہ اپنے بندے کی طرف جھکتا ہے اس سے زیادہ شاندار محبت کا مظاہرہ دنیا کا کوئی ماں باپ نہیں کر سکتا.بدر کی جنگ میں ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جنگ کے بعد وہ گھبرائی ہوئی پھرتی، کبھی ادھر جاتی اور کبھی اُدھر ، آخر تلاش کرتے کرتے اُسے اُس کا بچہ مل گیا، وہ اُسے اپنی چھاتی سے لگا کر ایک طرف بیٹھ گئی ، اُس کے چہرہ سے خوشی کے آنسو اور اطمینان کے آثار ظاہر ہوئے ، تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا.اس عورت کی طرف دیکھو یہ کس طرح گھبرائی ہوئی پھرتی تھی اور اب اسے بچہ ملنے کے بعد کیسا اطمینان ہو گیا.پھر آپ نے فرمایا.اس ماں کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب گنہگار بندہ اُس کے حضور تو بہ کرتا ہے.غرض یاد رکھو مذہب عشق کا نام ہے.اگر عشق نہیں تو فلسفیانہ خیالات ہمیں کبھی تسلی نہیں دلا سکتے.ہمیں چپ کرانے اور اطمینان دلانے والا دماغ نہیں بلکہ دل ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید دل کو دماغ پر مقدم کرتا ہے اور دل کو ہی انوارالہیہ کا مہبط قرار دیتا ہے.عشق کی وہ ٹیں جو دل میں پڑتی ہے اسے ہر شخص محسوس کرتا ہے خواہ وہ اللہ تعالیٰ کا عشق ہو اور خواہ دنیا میں سے اولاد کی محبت یا بیوی بچوں کی محبت یا دوستوں اور عزیزوں کی محبت.سائنسدان کہتے ہیں یہ
انوار العلوم جلد ۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف کیسی غلط بات ہے جو قرآن مجید نے کہی کہ دل میں محبت پیدا ہوتی ہے.محبت کا تعلق تو دماغ سے ہے مگر ہم ان کی سائنس کو کیا کریں ہمیں تو جب بھی ٹمیں اُٹھتی ہے دل میں ہی اُٹھتی ہے، سر میں نہیں اٹھتی.جب محبوب کیلئے انسان تکلیف اُٹھاتا ہے تو وہ سینے پر ہی ہاتھ رکھتا ہے سر پر نہیں رکھتا ہے.لوگ محبت میں دل پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے میرے دل کو کیا ہو گیا ہے.ہم مانتے ہیں کہ خیالات انسان کے دماغ میں بھی اُٹھتے ہونگے پر جو محبت انسان کو پاک کرتی ہے وہ دل میں اٹھتی ہے.وہیں کچھ ہوتا ہے گو ہم بیان نہیں کر سکتے کہ کیا ہوتا ہے.ہمیں ڈاکٹروں سے غرض نہیں ، ہمیں سائنس دانوں سے تعلق نہیں اور نہ ہم ڈاکٹری یا سائنس کے دعویدار ہیں مگر ہم اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دل میں کچھ ہوتا ضرور ہے.ہم بیان نہیں کر سکتے کہ کیا ہوتا ہے مگر ہوتا دل میں ہی ہے.پس اگر کسی جگہ ہماری جماعت کی مخالفت ہوتی ہے تو ڈرنے کی کوئی بات نہیں وہ سچے عاشقوں کے نزدیک ان تکالیف اُٹھانے والے احمدیوں کو قابلِ رحم نہیں بناتی بلکہ قابل ستائش ٹھہراتی ہے.نادان ہیں وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہائے ہمیں یہ یہ تکلیف ہو رہی ہے.عاشق صادق تو وہ ہوتا ہے جو کہتا ہے واہ واہ فلاں تکلیف اُٹھانے والا کس طرح منازل قرب طے کر رہا ہے ، خدا کا فضل اسے کیسے کھینچ رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی گود میں کیسے آرام سے بیٹھا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ مقرب انسان سب سے زیادہ تکالیف کا مورد بنتا ہے." پس تکلیفیں اُٹھا نا علامت ہے اس بات کی کہ وہ ایسے انسانوں کو بڑھانے اور ترقی دینے کا ارادہ رکھتا ہے بشرطیکہ وہ ان کی قدر کریں اور بشر طیکہ تکالیف آنے پر اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی اشاعت میں کوشاں ہوں.ایک بزرگ انسان کے متعلق آتا ہے کہ لوگوں نے ان کو سنگسار کرنے کیلئے پتھر مارنے شروع کئے.وہ پتھر اٹھاتے اور اسے بوسہ دیتے کہتے یہ میرے محبوب کی محبت کی علامت ہے.پس تکلیفیں کوئی چیز نہیں اگر دل میں عشق ہو تو تمام تکلیفیں انسان کیلئے راحت بن جاتی ہیں.اگر ہم خدا کے ہیں تو مصیبت میں ہمیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.خدا کا بندہ جو ہوتا ہے وہ ایک ہی بات جانتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں مجھے میرا محبوب رکھے گا میں وہیں خوش رہوں گا اگر وہ مجھے تکلیف میں رکھ کر خوش ہوتا ہے تو اسی میں میری خوشی ہے اور اگر آرام کی زندگی دے کر خوش ہوتا ہے تو اسی میں میری خوشی ہے.غرض مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مقام پر خوش رہے اس جگہ سے نہ آگے جائے نہ پیچھے ہٹے جہاں خدا نے اسے کھڑا کر دیا ہے.پس یاد رکھو کہ دنیا کے دُکھ ہر گز عذاب نہیں بلکہ اگر کوئی اس لئے دُکھ دیتا ہے کہ تم کیوں خدا کا سچا دین
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف اختیار کئے ہوئے ہو تو وہ دُکھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ایسی ہر تکلیف تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی اور اُس کے فضلوں کا وارث بناتی ہے اور اس سے زیادہ نعمت اور کوئی نہیں ہوسکتی.میں نے دیکھا ہے کہ آج کچھ لوگ جھنڈے پکڑے یہاں بیٹھے ہیں.مجھے یہ جھنڈے دیکھ کر ایک واقعہ یاد آ گیا.جھنڈا علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کو اونچا رکھیں گے.بظاہر یہ معمولی بات نظر آتی ہے مگر اسلام میں جھنڈے کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ معمولی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میں اُس کو جھنڈا دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا.چنانچہ ایک دفعہ ایک صحابی نے کہا میں اس کا حق ادا کروں گا آپ نے اُسے جھنڈا دے دیا.چونکہ جھنڈے والا شخص نشاندار قرار دیا جاتا تھا اور اس امر کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا کہ یہ اس کو اونچا ر کھے اس لئے دشمن اس پر خصوصیت سے حملہ کرتا.جب لڑائی ہوئی اور کفار مقابلہ کرتے ہوئے اس صحابی کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے تلوار سے اس کے ہاتھ کو کاٹ ڈالا جس میں وہ جھنڈا تھامے ہوئے تھے انہوں نے فوراً بائیں ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور جب دشمنوں نے تلوار سے اسے بھی کاٹ ڈالا تو پھر لاتوں کے درمیان اسے مضبوطی سے پکڑ لیا.آخر دشمنوں نے پاؤں بھی کاٹ ڈالے اور جب انہوں نے دیکھا کہ اب پاؤں بھی جاتے رہے تو انہوں نے منہ سے جھنڈا پکڑ لیا اور جب اس جگہ بھی دشمن نے تلوار میں مارنی شروع کیں اور وہ موت کے قریب پہنچ گئے تو آخری الفاظ ان کے یہ تھے کہ دیکھنا اسلام کا جھنڈا نیچا نہ ہو.دوسرے صحابہ بڑھے اور انہوں نے اس جھنڈے کو تھام لیا.کے تو جھنڈا علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ ہم دین کو اونچا رکھیں گے لیکن اگر لوگ جھنڈے تو بنا ئیں مگر دین کو اونچا نہ کرسکیں تو ان ظاہری جھنڈوں کو اونچا کرنے سے کیا فائدہ.اگر دین کا جھنڈا ہی بلند نہ رہا تو ان کپڑے یا لکڑی کے جھنڈوں کو اگر ہم نے اونچا بھی کیا تو اس سے کیا حاصل.بھلا کونسی ذلیل سے ذلیل قوم ہے جو لکڑی پر کپڑا نہیں باندھ سکتی.یہ تو علامت ہے اس بات کی کہ جب کوئی قوم جھنڈا اونچا کرتی ہے تو اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ دین کو بھی اونچا ر کھے گی.پس اگر آپ لوگوں نے یہ جھنڈے بنائے ہیں تو ان کا احترام کریں اور اس بات کا عہد کریں کہ دین کو اونچا رکھیں گے اور سلسلہ احمدیہ کو پھیلانے میں ہر قسم کی تکلیف اور مصیبت برداشت کرنے کیلئے تیار رہیں گے.میں نے تو دیکھا ہے کہ جب تک مجھے علم ہوتا ہے کہ فلاں شخص کو دین کی وجہ سے تکلیف پہنچ رہی ہے مجھے اُس کیلئے دعا کرنے کا جوش ہوتا ہے مگر جب وہ مجھے لکھتا ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ
انوار العلوم جلد ۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف مجھے اس تکلیف سے نجات دے تو میں دیکھتا ہوں کہ میرا تمام جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.میں اُس کے لئے دعا تو کرتا ہوں مگر میری خوشی مٹ جاتی ہے کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا کے راستے میں دُکھ اُٹھا نا کسی مومن کو دو بھر معلوم ہو.ہاں اگر گناہوں کی وجہ سے کوئی تکلیف آئے یا آسمانی بلاء اُترے یا کسی کا عزیز بیمار ہو جائے تو یہ اور بات ہے.اس کا حق ہے کہ وہ مجھے دعا کیلئے لکھے مگر یہ پسندیدہ امر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جو مشکلات پیش آئیں ، ان پر گھبراہٹ یا خوف کا اظہار کیا جائے.اگر کسی کے سامنے ایسی مصائب آتی ہیں تو وہ خوش قسمت انسان ہے اور مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے لیکن جب وہ مجھے دعا کیلئے لکھتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمزور دل کا انسان ہے اللہ تعالیٰ اسے ابتلاء سے محفوظ رکھے.یاد رکھو خدا تعالیٰ کیلئے جو تکالیف انسان برداشت کرتا ہے وہ بادشاہوں کے تخت سے بھی زیادہ اعزاز کا موجب ہوتی ہیں.بے شک خدا نے منع فرمایا ہے کہ انسان خود کسی مصیبت کا طالب ہو اور اس نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت اس قسم کی خواہش سے انسان کو روک دیا ہے لیکن اگر خدا اس قسم کی دعا سے نہ روکتا تو عاشق صادق تو یہی دعا کیا کرتے کہ الہی ! ہمیں تیرے راستہ میں مصائب پہنچیں اور سچے عاشق تو پھر بھی اپنے رنگ میں دعا کر ہی لیا کرتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے.الہی ! مجھے مدینہ میں موت آئے اور آئے بھی شہادت کی موت.2 آخر اللہ تعالیٰ نے مدینہ سے ہی ایک آدمی کو کھڑا کر دیا اور اس طرح انہیں شہادت نصیب ہو گئی.تو مومنِ صادق ان ابتلاؤں سے ہرگز نہیں گھبرا تا جو دین کی وجہ سے اُس پر وارد ہوں.ہاں جو دُنیوی امور کی وجہ سے تکالیف آئیں ان میں دعا کراتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کیلئے جو ابتلاء ہوں ان میں رنج کی کونسی بات ہوتی ہے جو انسان دعا کیلئے لکھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ جنگ میں انگلی پر زخم آیا آپ نے ایک شعر پڑھا حالانکہ آپ شعر نہیں کہا کرتے تھے.فرمایا هل أنتِ إِلَّا إِصْبَعَ دَمِيتِ تو اُنگلی ہی ہے جو خدا کی راہ میں زخمی ہوئی.پھر یہ زخمی ہونا کونسی بڑی بات ہے.پس اگر تم واقعی انصار اللہ بنا چاہتے ہو تو دین کا جھنڈا تمہیں بلند رکھنا چاہئے اور دین کی وجہ سے جو مشکلات پیش آئیں اُن سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ بجائے اس کے کہ تم ان تکالیف کو ذلت محسوس کرو، فخر کے ساتھ ان کا دوسروں کے پاس ذکر کرو کیونکہ وہ ذلت نہیں بلکہ عزت ہیں کوئی
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالٰی کے راستہ میں تکالیف دنیا کا کام شہادت کے کام سے بڑھ کر نہیں اور کوئی دنیا کی عزت اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مار اور گالیاں کھانے سے زیادہ اعزاز والی نہیں.اگر اللہ تعالیٰ کیلئے گالیاں کھا نا ذلت ہے تو نَعُوذُ بِاللهِ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ نبی بھی اس سے حصہ پاتے رہے کیونکہ انبیاء کو ہمیشہ گالیاں دی جاتی رہیں.پس گالیاں ذلت کا سامان نہیں بلکہ عزت کا باعث ہیں.کوئی شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر گالیاں کھانے والا نہیں ہو سکتا.آج تک رنگیلا رسول وغیرہ کتا ہیں جو شائع ہوئیں وہ انہی گالیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے.اگر گالیاں کھانا ذلت ہے تو کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے خدا نے ذلت کے سامان پیدا کئے؟ نہیں بلکہ خدا کیلئے گالیاں کھانا عزت ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس عزت کا سب سے بڑھ کر سامان ہوتارہا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا کیا بگاڑا تھا جو انہیں لوگوں کی طرف سے گالیاں ملتیں.آپ کا اگر کوئی جرم تھا تو یہی کہ آپ شیطان کے سب سے بڑے دشمن تھے.پس وہ گالیاں گالیاں نہیں تھیں بلکہ اس بات کا اقرار تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے ایک نور لائے ہیں جسے اندھی دنیا قبول کرنے کیلئے تیار نہیں.پس وہ اپنے عنا دکو گالیوں کی صورت میں ظاہر کرتی.یہ جذبہ اور یہ روح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت جماعت کے لوگوں میں موجود تھی مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ کم ہو رہی ہے.یعنی دین کیلئے جو تکالیف پیش آئیں انہیں لوگ ذلّت سمجھتے اور گھبرانے لگتے ہیں حالانکہ یہ ابتلاء تو وہ ہیں کہ آئندہ لوگ ترسیں گے مگر انہیں یہ دیکھنے نصیب نہیں ہونگے.جب اللہ تعالیٰ احمدیت کو غلبہ دے گا، جب بادشاہت اس جماعت کو مل جائے گی پھر کون ہو گا جو احمد یوں پر انگلی بھی اُٹھا سکے گا مگر کیا تم سمجھتے ہو اُس وقت کے لوگ آج کل کے لوگوں سے افضل ہوں گے.اُس وقت کا بادشاہ بھی آجکل کے فقیر سے ادنیٰ ہوگا.پچھلے ایام میں جب مستریوں کا فتنہ اُٹھا اگر چہ ہمارے لوگوں کو غصہ آتا تھا مگر میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا تھا کہ اس ذریعہ سے اُس نے میری روحانی ترقی کا سامان کر دیا.میں سوچا کرتا تھا کہ میں قادیان میں رہتا ہوں میرے بس میں یہ کہاں تھا کہ میں ایسے لوگ کھڑے کر دیتا جو مجھ پر بھی حملے کرتے.اصل بات یہ ہے کہ جو تکلیف ہمارے نفس کی طرف سے ہو اُس کا تو ازالہ کرنا چاہئے مگر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اُسے خوشی سے برداشت کرنا چاہئے.یہ روح ہے جو ہماری جماعت کو پیدا کرنی چاہئے اور یہ روح ہے جس سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں.کل ہی ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سنایا جس سے مجھے بہت لطف آیا.ایک جگہ ہماری نئی جماعت قائم ہوئی ہے
انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف صرف ایک نو جوان اس جگہ کے جماعت میں شامل ہیں.لوگوں نے انہیں دکھ دیا اور بہت سی تکالیف پہنچائیں ہیں وہ ایک اعلیٰ عہدے پر ہیں مگر انہوں نے اس بات کو بھی غیرت کے خلاف سمجھا کہ مجھ سے اس واقعہ کا ذکر کریں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ کئی ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں ہائے ہم مر گئے ڈپٹی کمشنر سے سفارش کرو کہ تکالیف دور ہوں.کیا ڈپٹی کمشنر خدا سے بھی تمہارا زیادہ خیر خواہ ہے.اگر تم ماریں کھاتے ہو اور خدا کو غیرت نہیں آتی تو کوئی ڈپٹی کمشنر تمہارے لئے کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ تو تمہارے لئے ذلت اور رسوائی ہے کہ ہمارے آقا اور مولیٰ نے تو ہمارے لئے حرکت نہ کی ، نہ ہمارے پیارے نے ہمارے لئے غیرت دکھائی اور ہم ڈپٹی کمشنر کی پناہ لینا چاہتے ہیں.پس دین کے لحاظ سے یعنی اس وجہ سے کہ تم کیوں اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کرتے ہو، اگر تمہیں تکالیف پہنچتی ہیں تو فخر کرنا چاہئے اور انہیں ان تکالیف سے علیحدہ سمجھنا چاہئے جو دنیاوی امور کی وجہ سے پیش آتی ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں جو اس فرق کو نہیں سمجھتے اور وہ دنیوی تکلیفوں کے متعلق یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ دین کی وجہ سے پہنچیں حالانکہ اگر وہ واقعی دین کیلئے تکالیف ہیں تو تمہیں خوش ہونا چاہئے اور اگر دنیاوی تکالیف ہیں تو ان کا نام دینی مصائب رکھنا غلطی ہے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل میں عشق پیدا کرو،سوز پیدا کرو اور اگر تمہیں خدا کیلئے کوئی تکلیف پہنچے تو اُسے ایسا ہی سمجھو جیسا عاشق اپنے محبوب کے متعلق خیال کرتا ہے اور سمجھ لو کہ خدا تم سے ان تکالیف کی وجہ سے ناز کر رہا ہے اس عشق کو لے کر نکلو اور اس یقین کو لے کر جاؤ کہ خدا کے عاشق دنیا پر غالب آیا کرتے ہیں.مایوسیاں چھوڑ دو کہ خدا کی جماعت کبھی مایوس نہیں ہوا کرتی.دنیا تمہارا شکار ہے اور یہ تکالیف محض اللہ تعالیٰ تمہاری مشق کرانے کیلئے ، تمہارے دل میں سوز اور درد پیدا کرنے کیلئے اور تمہارے عشق کو بڑھانے کیلئے لاتا ہے.اگر تم ان تکالیف کو ہٹانا چاہتے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے سوز اور عشق کو کم کرنا چاہتے ہو حالانکہ انہیں بڑھانے کی ضرورت ہے نہ کہ کم کرنے کی.پس تم سوز اور عشق کو لے کر نکلو.فلسفہ ہمیشہ غیر کیلئے ہوتا ہے مگر جب تم اپنے ہو گئے تو اب تمہارے لئے صرف سوز اور عشق رہ گیا.اگر ہم یہاں دلیلیں بیان کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ تمہارے سامنے پیش کریں بلکہ اس لئے کہ تم انہیں غیروں کے سامنے پیش کیا کر و.عاشق صادق دلیلوں کا محتاج نہیں ہوتا وہ تو سوز اور عشق کا طلبگار ہوتا ہے.جس کو محسوس ہو رہا ہے کہ محبوب کا ہاتھ اُس کی گردن میں ہے وہ کب کسی دلیل کے سننے کا خواہشمند
11 انوار العلوم جلد ۳.اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف ہوتا ہے.ایک بچہ جو اپنی ماں کی گود میں ہو، کیا کبھی اس سے کوئی پوچھا کرتا ہے کہ اس بات کی دلیل دو کہ یہ تمہاری ماں ہے.وہ ہر ایسے شخص کو پاگل سمجھے گا اور کہے گا میں تو اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوا ہوں اور یہ مجھ سے دلیل مانگ رہا ہے.پس اسی طرح ہمارے لئے بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں.تم دنیا کی ساری دلیلیں لے جاؤ اور لے جا کر انہیں سمندر میں غرق کر دو ہم خدا سے مل چکے ہیں اور ہم نے خدا کے مسیح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.پس ہمارے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.دلیلیں تو اندھوں کیلئے ہوا کرتی ہیں.دلیل کہتے ہیں راہ دکھانے کو.کبھی سو جا کھوں کو بھی راہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے.پس دلیلیں اندھوں کیلئے ہیں ان کے لئے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نورِ بصارت عطا نہیں فرما یا مگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے بینائی دی اور تم اس کے نور سے منور ہوئے پس تم دلیلوں کے محتاج نہیں.تمہارے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ تم اپنے دل میں عشق پیدا کر و.عشق وہ چیز ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے اور دلیل وہ ہے جو باہر سے آتی ہے.تمہاری راہنمائی کوئی دلیل نہیں ہونی چاہئے بلکہ تمہارا راہنما تمہارا دل ہو.قرآن مجید میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِكَ که قرآن کریم اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اُتارا.اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ غیروں کیلئے ہیں اور اس کا مفہوم ہمارے لئے ہے.قرآن کریم کے ظاہری الفاظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں تھے بلکہ ابو جہل کیلئے تھے.محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تو وہ محبت تھی جو ان الفاظ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی اور آپ کے دل پر محیط ہو گئی.لوگوں نے اس آیت سے غلطی کی وجہ سے یہ سمجھا ہے کہ قرآن مجید الفاظ میں نازل نہیں ہوا مگر یہ صیح نہیں.قرآن تو الفاظ میں ہی نازل ہوا ہے مگر وہ الفاظ غیر کیلئے ہیں ہمارے لئے اس کا مفہوم ہے.وہ کون سا قرآن ہے جو تبدیل نہیں ہوسکتا وہ وہی ہے جو ہمارے دل میں ہے.وہی ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہو سکتا.اس قرآن میں تو کئی جگہ کا پی نویس زبر کی جگہ زیر لکھ دیتے اور اس طرح الفاظ تبدیل کر دیتے ہیں مگر وہ قرآن جو خدا کے جلال کو لے کر اُترا ہے وہ مومن کے دل میں ہوتا ہے.الفاظ کی ظاہری حفاظت بھی اللہ تعالیٰ نے کی ہے مگر پھر بھی اس قرآن میں کتابت کی غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ قرآن جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں وہی ہے جو مومن بندے کے دل میں محفوظ ہوتا ہے.پس اس مغز کو لے کر اُٹھو اور اس سوز کو لے کر جاؤ جو مومن کا خاصہ ہے اور اس دیوانگی کے ساتھ نکلو جس پر تمام فرزانگیاں قربان کی جاسکتی ہیں.ہم ایک ٹوٹا پھوٹا شعر کہتے ہیں اور جب تک ہم دس ہیں کو سُنا نہیں لیتے اور اُن سے داد نہیں
انوار العلوم جلد ۳ ۱۲ اللہ تعالٰی کے راستہ میں تکالیف لے لیتے ہمیں چین نہیں آتا.ایک زمیندار چھ مہینے یا سال کی معمولی محنت کے بعد شکر تیار کرتا ہے اور ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہر ایک سے یہ کہتا پھرتا ہے کہ کیسی اچھی ہے مگر آہ ! ہمیں سب سے زیادہ پیاری نعمت ہمارا خالق و مالک ملا مگر ہم اُسے دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے.اگر ہمارا عشق کا مل ہو تو ہم تو بیٹھ ہی نہ سکیں اور اُس وقت تک قرار نہ لیں جب تک تمام دنیا اُس کی عاشق نہ بن جائے.حضرت سلیمان کی وہ پیشگوئی جو میں نے جلسہ سالانہ پر بیان کی تھی کتنی عشق سے لبریز ہے.کہتے ہیں.”اے یروشلم کی بیٹیوا یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے“.یہی عاشق کی علامت ہوتی ہے وہ جاتا ہے اور دم نہیں لیتا جب تک سب کو اُس کا دیوانہ نہ بنادے.پس نکلو نہ اس نیت سے کہ تم نے لوگوں کے سامنے وفات مسیح یا صداقتِ مسیح موعود کا مسئلہ پیش کرنا ہے بلکہ اس لئے کہ اپنے محبوب کیلئے تم نے اور عاشق تلاش کرنے ہیں ورنہ جب تک فلسفیانہ خیالات کا تم پر غلبہ رہے گا تمہیں کامیابی نہیں ہوگی.فلسفیانہ دلائل صرف گفر تک کیلئے ہیں.ایمان کے اندر سوز اور عشق کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں بچے کیلئے چوسنی کی ضرورت ہوتی ہے مگر بڑے کیلئے نہیں.جن بچوں کی مائیں ولادت کے بعد مر جاتی ہیں یا بیمار ہو جاتی ہیں اُن کے لئے چوسنیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے یا پُرانے زمانہ میں لوٹیاں ہوا کرتی تھیں.لوٹی بے شک ضروری ہے اور ہم اسے دنیا سے مٹا نہیں سکتے مگر بچے کیلئے نہ کہ بڑے کیلئے بھی.جب تک کہ ہم بچے تھے ہمیں لوٹی کی ضرورت تھی، دلائل کی احتیاج تھی مگر اب ہم بڑے ہو گئے ہمارے دانت نکل آئے اور اب ہم براہِ راست روٹی کھانا چاہتے ہیں.پس اس طرز پر کام کرو گے تو تمہیں کامیابی ہوگی ورنہ اگر یہ حالت نہ ہو تو انسان کو جو تکالیف پہنچیں وہ بھی بُری لگتی ہیں اور کا میابی کا ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.ہم نے تو نہ کبھی دلیلیں سوچیں اور نہ کبھی غور کیا جب ضرورت ہوتی ہے خدا آپ ہی سمجھا دیتا ہے.ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ خدا کی محبت ہے.سوخدا کی محبت ہر وقت ہمارے پاس رہتی ہے اگر وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں.پس عشق کو بڑھاؤ ، دل میں سوز اور درد پیدا کرو یہی میری پہلی نصیحت ہے یہی میری درمیانی نصیحت ہے اور یہی میری آخری نصیحت ہے.جب تک یہ محبت رہے گی اُس وقت تک سوز قائم رہے گا اور جب تک سوز رہے گا اُس وقت تک زندگی قائم رہے گی جب یہ چیز نکل جائے گی تو پھر لوگوں کیلئے دلیلیں رہ جائیں گی اور تمہارے لئے یہ بھی نہ ہونگی.تمہیں جو چیز کا میاب کر سکتی ہے وہ
انوار العلوم جلد ۳ ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف محبت ہے، وہ عشق اور سوز ہے.ابھی ایک شعر میں خاں صاحب نے بیان کیا ہے کہ جب شہدائے افغانستان پر پتھر پڑتے تھے تو وہ گھبراتے نہیں تھے بلکہ استقامت اور دلیری کے ساتھ اُن کو قبول کرتے تھے اور جب بہت زیادہ اُن پر پتھر پڑے تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید، نعمت اللہ خان اور دوسرے شہداء نے یہی کہا کہ یا الہی ! اِن لوگوں پر رحم کر اور انہیں ہدایت دے.بات یہ ہے کہ جب عشق کا جذبہ انسان کے اندر ہو تو اس کا رنگ ہی بدل جاتا ہے، اُس کی بات میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کے چہرہ کی نورانی شعاعیں لوگوں کو بھینچ لیتی ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہاں ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تو یہی کہا کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا.انہوں نے ایک لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ سنا اور ایمان لے آئے.یہی جذ بہ آپ لوگوں میں بھی ہونا چاہئے.اگر لوگ آپ کو ماریں اور اس کے مقابلہ میں آپ بھی لوگوں کو ماریں، اگر لوگ آپ کو گالیاں دیں اور اس کے مقابلہ میں آپ بھی لوگوں کو گالیاں دیں تو دنیا فتح کرنے کیلئے شاید ہزاروں سال بھی نا کافی ہونگے لیکن اگر وہ آپ کو ماریں اور آپ بھاگ جائیں تب بھی آپ دنیا کو فتح کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ دنیا کبھی بُزدل کے قبضہ میں نہیں آ سکتی.عشق کا تو یہ مطلب ہے کہ تم ماریں کھاؤ اور کھڑے رہو اگر تم مارو گے تو کامیابی نہیں ہوگی اور اگر تم مارکھا کر ہٹ جاؤ گے تب بھی کامیابی نہیں ہوگی کامیابی اُسی وقت ہوگی کہ وہ تمہیں ماریں اور تم دلیلیں دیتے چلے جاؤ.تم ایک جگہ کھڑے ہو وہ تمہیں گالیاں دے رہے ہوں کہ تم خبیث ہو، غدار ہو، دشمن اسلام ہو مگر تم یوں ہو کہ گویا تمہارے کان ان آوازوں کو سنتے ہی نہیں.تمہارے آنسو رواں ہوں اور تم یہ کہتے نظر آ رہے ہو.اے بھائیو! حق اس طرف ہے تم قبول کر لو.تمہارے دل میں یہ نہ ہو کہ بندوں کے عذاب کو زیادہ دکھ دینے والی چیز سمجھ لو بلکہ وہ تمہیں جتنا زیادہ دُکھ دیں اُتنا ہی زیادہ تم ان کیلئے رحم دکھاؤ.کیونکہ وہ تمہیں جتنا زیادہ دکھ دیتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کی قابلِ رحم حالت ہوتی چلی جاتی ہے.تم جانتے ہو کہ ماں اپنے بچہ کیلئے بعض دفعہ ساری ساری رات جاگتے گزار دیتی ہے مگر کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی ماں نے شکوہ کیا ہو.اسی طرح اگر وہ تمہیں مارتے ہیں تو وہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں تم پر بندوں کا ہاتھ اُٹھ رہا ہے اور اُن پر خدا کا ہاتھ.غور کرو، دونوں میں سے کون قابل رحم ہے.کیا تم یا وہ جس پر خدا کا غضب مستولی ہونا چاہتا ہے.یاد رکھو بندہ کے ہاتھ میں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۴ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف کوئی طاقت نہیں تمام طاقتوں کا منبع اللہ تعالیٰ کا ہی ہاتھ ہے پس وہ تمہیں جتنا زیادہ دکھ دیں تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اتنی ہی زیادہ ہمدردی سے ان کے ساتھ پیش آؤ.یہ وہ رنگ ہے جس سے ہم دنیا کو فتح کر سکتے ہیں اور میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہم میں چند سو ہی ایسے لوگ پیدا ہو جائیں تو دنیا کا نقشہ بدل جائے.پس درد و سوز اور گداز کے ساتھ نکلو.تم ماریں کھاؤ مگر ہاتھ نہ اُٹھاؤ، تمہاری آنکھوں سے آنسو رواں ہوں ، دل میں درد اٹھ رہا ہو، سینے میں جلن پائی جاتی ہو اور تم محسوس کرتے ہو کہ یہ تمہارا بھائی ہے جو تباہ ہو رہا ہے.ایک دفعہ تجربہ کر کے دیکھو گاؤں کے گاؤں اس طریق سے احمدیت میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں.یہی گر ہے جو تمہیں کا میاب بنائے گا.افسوس میں نے دو تین سال سے کئی بار اس کی طرف توجہ بھی دلائی مگر ابھی ایک بھی ایسا نہیں نکلا جس نے اس بات پر عمل کیا ہو.کئی ہیں جو نرمی کے معنی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ تبلیغ کیلئے گئے مگر جب مخالفت ہوئی تو واپس آگئے.یہ نرمی نہیں بلکہ کم ہمتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دلیر دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا مگر کیا دنیا میں کوئی ایک شخص بھی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ آپ نے کبھی بُزدلی دکھائی.روحانی جرنیلوں کا ذکر جانے دو.۱۲ نپولین کو ایک دفعہ شکست ہو چکی تھی ، اُس کی فوج کے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا، انگریزی فوجوں نے اُس کی فوج پر متواتر گولے پھینکنے شروع کر دیئے مگر جب کہ گولے یکے بعد دیگرے گر رہے تھے نپولین کی فوج اسی حالت میں کھڑی رہی.ایک جرنیل کہتا ہے میں ایسے موقع پر نپولین کی فوج میں گیا اور کہا تم مقابلہ کیوں نہیں کرتے وہ کہنے لگے ہمارے پاس گولہ و بار و دختم ہو گیا ہے.جرنیل کہتا ہے میں نے کہا کہ پھر بھاگتے کیوں نہیں ؟ وہ کہنے لگے نپولین نے ہمیں بھا گنا سکھایا ہی نہیں.جولڑ نے والی چیز تھی وہ ہمارے پاس نہیں اور بھا گنا ہم نے سیکھا نہیں اس لئے اب ہم کریں تو کیا کریں.تو نپولین جو دنیا کا معمولی سردار تھا اُس کی فوج کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بھا گنا سیکھا نہیں مگر ہم میں سے بعض لوگ نہایت نادانی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن نے ہمیں بھا گنا سکھایا ہے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ.قرآن تو کہتا ہے جو دشمن کے مقابلہ سے بھاگتا ہے وہ اپنا دوزخ میں ٹھکانہ بناتا ہے.سا جو بھاگتا ہے وہ بُزدل ہے اور جو اُس پر ہاتھ اُٹھاتا ہے جس پر نہیں اُٹھانا چاہئے وہ ظالم ہے.جس چیز کو اسلام پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تم گالیاں سنتے جاؤ ، ماریں کھاؤ، مگر اپنا کام کئے جاؤ.یہ وہ چیز ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جب ایسا موقع پیش آئے تو یہاں بھی عشق سے کام لو دلیل
انوار العلوم جلد ۳ ۱۵ اللہ تعالٰی کے راستہ میں تکالیف سے نہیں.یہ نہیں کہ تمہارے دل میں خیال آرہا ہو کہ چونکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ سے نہ بھا گو اس لئے نہیں بھاگتے بلکہ تمہارا درد اور تمہاری اندرونی محبت تمہیں کہے کہ تم اُس وقت لوگوں کی ہمدردی کیلئے کھڑے رہو اور اُنہیں سمجھاؤ اگر ایسا درد نہ ہوگا تب بھی تمہارے سامنے دلیل ہو گی حالانکہ اُس وقت دلیل غائب ہونی چاہئے اور گو قر آن کریم کی تعلیم کے ماتحت ہی اُس وقت کھڑے رہو پھر بھی اُس وقت یہ دلیل تمہیں یاد نہ ہو تمہیں صرف یہی خیال ہو کہ ہم نے ان لوگوں کے سامنے ہدایت کا پیغام پیش کرنا ہے اگر وہ نہیں سنتے تو بھی ہم نے انہیں سنانا ہے.اگر ہم سوچیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حقیقی تو حید یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں انسان صرف اللہ تعالیٰ کو مد نظر رکھے.تمہیں یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ چونکہ قرآن کریم کہتا ہے اس لئے ہم ایسا کرتے اور ایسا نہیں کرتے بلکہ جو تمہارے اندر خدا بیٹھا ہے وہ بلا کسی واسطہ کے تمہیں کہے اور تم اس پر عمل کرو اسی کا نام عشق ہے اور اسی عشق کا متوالا دنیا میں کامیاب ہوا کرتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا شخص اگر کسی جگہ صرف ایک ہے تو وہ دو ہو جائیں گے اور دو ہوں تو چار ہو جائیں گے اور چار ہوں تو آٹھ بن جائیں گے.یہ چیز ہے جس کو لے کر جاؤ اور یہی چیز ہے جو تمہیں کامیاب بنا سکتی ہے.میں نے اپنی شدید تکلیف کی حالت میں آپ لوگوں کو یہ باتیں کہی ہیں اور اس امید پر کہی ہیں کہ یہ باتیں صحیح نتیجہ پیدا کر سکتی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک آدمی بھی ایسا پیدا ہو جائے تو بہت بڑی کامیابی ہو سکتی ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں صحیح عشق پر قائم کرے اور دلائل کی دلدل سے نکالے.ہمارے یہ دلائل کیا چیز ہیں جب ہمیں خدامل گیا تو ہمیں ان دلائل کی کیا ضرورت ہے.بھول جاؤ اس بات کو کہ لڑائی کیا ہوتی ہے، بھول جاؤ اس بات کو کہ بھا گنا کیا ہوتا ہے، تمہارے دل میں سب کیلئے جلن ہو ، تمہاری آنکھوں سے محبت کے آنسو رواں ہوں اور تم اپنے نفس پر دوسروں کیلئے موت وارد کرو.مجھے ساری اُردو شاعری میں سے سوز اور مصیبت کی گھڑیوں میں صرف ایک ہی شعر یاد آیا کرتا ہے جو یہ ہے.دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانیے کیا یاد آیا جب عشق پیدا ہوتا ہے تو انسان سب کچھ پھول جاتا ہے.اسے پتہ ہی نہیں رہتا کہ وہ کیا کر رہا ہے.وہی سوز جس کو انسان خود بھی نہیں سمجھ سکتا اور وہی درد جس کو وہ خود بھی نہیں بیان کر سکتا اور کہتا ہے خبر نہیں مجھے کیا ہو رہا ہے.یہ عشق جس میں انسان کہتا ہے کہ مجھے کچھ ہونے لگا الفاظ
۱۶ انوار العلوم جلد ۱۳ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف سے مستغنی ہوتا ہے بلکہ وہ الفاظ میں اظہار درد اپنی ہتک سمجھتا ہے.عشق غیر محدود ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ابدی زندگی کیلئے پیدا کیا تا کہ وہ غیر محدود عشق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا غیر محدود قرب حاصل کرے اور ابدیت کی زندگی پائے.خدا کرے یہ چیز آپ لوگوں میں پیدا ہو جائے.اگر یہ عشق آپ اپنے دل میں پیدا کر لیں گے تو دنیا کی کوئی چیز آپ کی کامیابی میں روک نہیں ہو سکے گی اور آخر ایک دن تمام دنیا آپ کے قدموں میں گر جائے گی.(الفضل ۸.جنوری ۱۹۳۳ء) تذکرہ صفحہ ۲۱.ایڈیشن چہارم امتی باب ۱۳ آیت ۵۷ الشورى: ۱۲ بخاری کتاب الادب باب رحمة الولدو تقبيله ومعانقته ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء في الصبر على البلاء سیرۃ ابن ہشام الجزء الثانی صفحه ۲۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ (مفہوم)) فتح البارى الجزء الرابع صفحہ ۷۰ مطبع خیر یہ ۳۱۹ھ بخارى كتاب الجهاد باب من ينكب اويطعن في سبيل البقرة: ٩٨ الله غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۶ صفحہ ۶۵۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ایڈیشن ۱۹۲۲ء نپولین : شہنشاہ فرانس ( ۱۷۶۹ء.۱۸۲ء) وینڈیمیئر (Vendemiaire) کی بغاوت (۱۷۹۵ء) میں اس کے زبردست اقدام نے اسے وقت کی اہم ترین شخصیت بنا دیا.اطالوی مہم کے قائد کی حیثیت سے اس نے پست ہمت، فاقہ زدہ سپاہیوں کو ایک نا قابل تسخیر فوج بنادیا.مسلسل، بروقت اقدامات سے نپولین نے افراطِ زر کا تدارک کیا.کلیسیا سے صلح کی.ایک نیا آئینی ضابطہ وضع کیا.۱۸۰۴ء میں اس نے شہنشاہ فرانس اور ۱۸۰۵ء میں شاہ اٹلی ہونے کا اعلان کیا.۱۲.اپریل ۱۸۱۴ء کو نپولین تخت سے دست بردار ہوا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۷۰۸ء مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
انوار العلوم جلد ۱۳ لا دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے دنیا میں سچا مذ ہب صرف اسلام ہی ہے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۳ ۱۸ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ دنیا میں سچا مذ ہب صرف اسلام ہی ہے تیرہ سو سال قبل عرب کی حالت کہا جاتا ہے کہ عرب آج سے تیرہ نو سال پہلے نہایت تاریک اور جہالت سے بھرا ہوا تھا.نہ اس کا کوئی تمدن تھا نہ اس کی کوئی تہذیب تھی ، نہ وہ علوم کے ترقی دینے میں دنیا کی کوئی مدد کر رہا تھا بلکہ دوسروں کے دریافت کردہ علوم کے سیکھنے کی طرف بھی وہ توجہ نہیں کرتا جب کہ دنیا کے مختلف حصوں کے لوگ انسانی فطرت پر غور کر کے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ انسان فطرتا شہری زندگی سے مناسبت رکھتا ہے اور آہستہ آہستہ شہروں اور گاؤں میں اپنا ٹھکانہ بنا رہے تھے وہ ابھی سوائے شاذ و نادر کے وحشت کی زندگی اور جنگل کی رہائش کو اپنے لئے پسند کرتا تھا اور ایک جگہ ٹک کر رہنا اسے مصیبت معلوم ہوتا تھا.سوائے سخاوت اور مہمان نوازی کے کوئی قانونِ اخلاق اس کے چال چلن کا نگران نہ تھا.اس وحشیانہ زندگی کی وجہ سے انسانی زندگی اس کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہ رکھتی تھی.انسان کی موت اس کی نگاہ میں ایک روز مرہ کی تبدیلی تھی جس کے پیدا کرنے کیلئے وہ بار ہا خود شوق سے سعی کرتا تھا اور اس کا تماشا دیکھتا تھا.انسانی زندگی وہ ایک حباب کی طرح سمجھتا تھا کہ جس کا ظاہر ہونا اور فنا ہونا ایک دلچسپ نظارہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور وہ کوئی وجہ نہیں دیکھتا تھا کہ قانونِ قدرت پر غور کر کے اور اس کی مخفی ڈائنامک (DYNAMIC) طاقتوں کو معلوم کر کے وہ اس نظارہ کو زیادہ دیر پا بنانے کی کوشش کرے بلکہ تعجب نہیں کہ وہ اپنے دل کے بار یک گوشوں میں ایسی ہر ایک سعی کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہو.موت اس کے خیالات کو صرف ان دو باتوں کی طرف پھیرتی تھی.مرنے والے کے لئے لمبا سوگ کیا جائے اور جو شخص مارا جائے اس کے قاتلوں سے عبرتناک بدلہ لیا جائے.مگر یہ سوگ یا انتقام اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ وہ انسانی زندگی کو قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا بلکہ صرف اس
۱۹ انوار العلوم جلد ۱۳ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے لئے کہ وہ اس میں بھی اپنے لئے دلچسپی اور فخر کے سامان پیدا کرنا چاہتا تھا.غرض عرب با وجود دنیا کی ترقی کے اور باوجود اُس وقت کی دوز بر دست تہذیبوں کے درمیان گھرے ہونے کے اپنی جگہ پر کھڑا تھا اور رومی اور ایرانی ترقی اس پر بالکل اثر نہ ڈال سکتی تھی.کہا جاتا ہے کہ اس ملک اور اس تہذیب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ ایک غلط استنباط علیہ وآلہ وسلم کا پیدا ہونا اور نشو و نما پانا دلالت کرتا ہے کہ وہ مذہب جو انہوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا ، اسی قسم کے لوگوں کی اصلاح کیلئے مفید ہوسکتا ہے.وہ یقیناً تہذیب اور شائستگی اور روحانی پاکیزگی کی طرف لانے والا تھا مگر ان ہی لوگوں کو جو انسانیت کے ابتدائی مدارج کو طے کر رہے ہوں.وہ ان لوگوں کے لئے جو ہزاروں سالوں کی کوششوں کے بعد تہذیب اور شائستگی اور اخلاق کے مفہوم کو نہایت وسیع کر چکے تھے ہر گز مفید نہیں ہوسکتا.ہاں اس مفہوم کو سمجھنے کی قابلیت پیدا کر دینے میں بے شک کارآمد ثابت ہوا ہے اور آئندہ ایسے ہی لوگوں کو جو عربوں کی طرح کے ہوں ، تہذیب واخلاق کی طرف کھینچ لانے میں ایک مفید آلہ کا کام دے سکتا ہے.اسلام اور تدریجی ترقی " کہتے ہیں کہ کیا علم ارتقاء سے نہیں ہیں بات معلوم نہیں وہ ہوئی کہ ہر ایک چیز جس جگہ پیدا ہوتی ہے وہ اپنی اردگرد کی چیزوں سے ہی مناسبت رکھتی ہے اور یہ کہ ارتقاء کے ساتھ مدارج کی پابندی لگی ہوئی ہے.ایک درجہ کے بعد اس کے آگے کا درجہ بھی طے کیا جاتا ہے نہ کہ بیچ کے درجے چھوڑ کر اوپر کے درجوں کو حاصل کیا جاتا ہے.پس اسلام ایک اچھا مذ ہب ہے مگر ابتدائی حالت کے لوگوں کیلئے نہ کہ ترقی یافتہ لوگوں کیلئے.اسلام اُس وقت کے حالات کا نتیجہ نہیں ہمارے نزدیک ان لوگوں کی یہ بات تو درست ہے کہ اسلام اُس وقت آیا ہے جب عرب کی حالت کیا بلحاظ اخلاق کے اور کیا بلحاظ علم کے بالکل گری ہوئی تھی اور ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ترقی اپنے دائرہ کے اندر اور گرد و پیش کے حالات کے مطابق ہونی چاہئے لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ اسلام صرف عربوں یا انہی کی طرح کے اور لوگوں کے لئے مفید تھا کیونکہ یہ نتیجہ تب نکالا جا سکتا ہے جب کہ اسلام کو اُس وقت کے حالات کا نتیجہ قرار دیا جائے مگر اسلام اُس وقت کے حالات کا نتیجہ نہیں بلکہ
انوار العلوم جلد ۱۳ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے اس کا دعوی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اور جس طرح یہ ضروری ہے کہ جو تعلیم اور خیالات گردو پیش کے حالات کے مطابق قدرتی طور پر پیدا ہوں وہ ان حالات کے مناسب اور مطابق ہوں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس تعلیم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عام قانونِ قدرت کے علاوہ خاص ضروریات انسانی کو مدنظر رکھ کر بھیجا جائے ، وہ نہایت تاریک حصہ دنیا میں نازل کی جائے کیونکہ بصورت دیگر یہ بات کیونکر معلوم ہو گی کہ وہ تعلیم حالات گرد و پیش کا ایک قدرتی نتیجہ ہے یا رب العلمین خدا کا ایک خاص عطیہ.اسلام کا یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ وہ اس کے لئے اپنے پاس روشن ثبوت رکھتا ہے.اسلام اور علمی تحقیقا تیں یہ ثبوت جو اسلام پیش کرتا ہے متفرق قسم کے ہیں جن میں سے ایک ثبوت جسے میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس کی تعلیم اُس وقت کے گرد و پیش کے حالات کے ماتحت مسئلہ ارتقاء کے مطابق ظاہر نہیں ہوتی بلکہ عرب تو علیحدہ رہا، اُس وقت کی دوسری علمی قوموں کے خیالات سے بھی بہت بالا ہے اور ایسے علوم پر حاوی ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کی نظروں سے بالکل مخفی تھے اور سینکڑوں سال کی تحقیق و تدقیق کے بعد جا کر دنیا انہیں دریافت کر سکی ہے اور ایسے امور بھی ہیں جن تک دنیا با وجود اپنے ارتقاء کے اب تک بھی نہیں پہنچ سکی.ان کی ہدایت صرف اسلام ہی کرتا ہے اور اسلام سے باہر ان کا نشان نہیں ملتا.یہ حکمتیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے سینکڑوں اور ہزاروں ہیں جن کا ایک مختصر مضمون میں گننا ایک محال امر ہے مگر پھر بھی مثال کے طور پر میں چند ایک امور کو اس مضمون کے ناظرین کی آگاہی کیلئے سلسلہ وار بیان کروں گا تا انہیں ایک مختصر سا علم ہو جائے اور اسلام کی خوبیوں کے متعلق مزید تجسس کی خواہش پیدا ہو.ایک حکیمانہ جملہ اس مضمون میں جو اس سلسلہ کا پہلا نمبر ہے.میں اس حکمت کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یعنی لِكُلّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْتِ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک مرض کا علاج بلا استثناء اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مگر باوجود اس کے انسان موت سے نہیں بچ سکتا.بیماریاں دور کی جاسکتی ہیں مگر موت کو ٹلایا نہیں جا سکتا.انسان آخر مرتا ہے اور ضرور مرتا ہے آئندہ مرے گا اور ضرور مرے گا.یہ کلام ہے جو بانی اسلام کے منہ پر آج سے تیرہ سو سال پہلے جاری ہوا اور ان لوگوں کے
۲۱ انوار العلوم جلد ۱۳ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے سامنے بیان کیا گیا جو اس کی پوری حقیقت کو سمجھنے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے تھے بلکہ اس زمانہ میں جاری ہوا جس کے ایک ہزار سال بعد سخت جد و جہد سے علوم دنیوی اس مقام پر پہنچے جہاں سے وہ اس حکمت کی صرف شبیہہ دیکھنے کے قابل ہو سکے.عرب موت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کی جنگی اور آزاد زندگی اسے بیماریوں سے بچائے رکھتی تھی.پس علم طب اس کی نظروں سے پوشیدہ تھا اور اس علم سے صرف چند نسخے جو عورتیں سینہ بسینہ یا درکھتی چلی آتی تھیں، اس کے حصہ میں آئے تھے اور اگر باوجود اس کی جنگی زندگی کے وہ بیمار ہوتا تو وہ اسے دیوتاؤں کا غضب سمجھ کر یا ستاروں کا اثر خیال کر کے شفا سے مایوس ہو جاتا تھا اور اسے پیغام اجل سمجھ کر اپنی قسمت پر قناعت کرتے ہوئے ہر قسم کی جد و جہد کو ترک کر دیتا تھا.اس کے دائیں طرف ہند وستان اور ایران اور اُس زمانہ کے حالات کے مطابق علم طب کے اچھے خاصے علم بردار تھے اور بائیں طرف یونانی مگر وہ ان کے بیچ میں رہ کر بھی اس علم سے بالکل کو را تھا.اس جماعت کا ایک فرد آج سے تیرہ سو سال پہلے کہتا ہے کہ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوت ہر ایک مرض خواہ کوئی ہو، اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پس انسان ہر مرض کے صدمہ سے بیچ سکتا ہے لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ اس طرح وہ مرضوں سے بچ کر موت سے بچ جائے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا.کیا اس تعلیم کی نسبت یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ عرب کے حالات سے متولد ہوئی تھی.عرب تو بیچارے طب سے بالکل ہی ناواقف تھے.خود یونانی جنہوں نے علم طب کو ترقی دیتے دیتے کمال تک پہنچا دیا تھا، سینکڑوں بیماروں کو لا علاج قرار دیتے تھے.پھر کیا اس تعلیم کو اُس زمانہ کے رسول کریم ﷺ کی راہنمائی کا اثر حالات سے متولد قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اس حقیقت کے اظہار کے بعد بھی سینکڑوں سال تک دنیا اس تعلیم کی حقیقت نہیں سمجھی اور اٹھارھویں صدی عیسوی تک تمام اقسام طب بیسیوں امراض کو لا علاج خیال کرتی رہیں.نہیں اور یقیناً نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اس حکمت کے جاری ہونے کے گیارہ سو سال بعد جا کر دنیا کو اپنی غلطی پر کسی قدرتنبیہہ ہوئی اور دوسو سال کی لمبی جدوجہد کے بعد وہ آج اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے اور جن امراض کا علاج اس وقت تک نہیں بھی معلوم ہو سکا ، ان کو بھی ہم معلوم کر لیں گے کیونکہ یکے بعد دیگرے ہمارے اس خیال کی کہ فلاں اور فلاں امراض لا علاج ہیں نیچر تر دید
انوار العلوم جلد ۱۳ کرتی چلی گئی ہے.دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے پچھلی دو سو سال کی علمی ترقی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کی صداقت پر مہر لگا دی ہے کہ ہر ایک مرض کی دوا موجود ہے اور آج ہم بہت سے ایسے امراض سے نجات پا سکتے ہیں جن کا علاج آج سے دو سو سال پہلے بالکل ناممکن خیال کیا جا تا تھا یا ایسا مشکل تھا کہ بہت کم مریض اس سے بگلی شفا پاتے تھے.کز از کامریض جس سختی اور شدت سے بعض شدیدا مراض اور ان کا علاج جان تو ڑا کرتا تھا، اُس کو دیکھ کر بہتوں کے دل پل جاتے تھے.موت کو چھوڑ کر اُس مریض کی تکلیف ہی ایسی ہوتی تھی کہ اس کے رشتہ دار اسے بھی غنیمت سمجھتے کہ مریض آرام کے ساتھ مر سکے لیکن تریاق کز از ٹیکا کی ایجاد سے اگر مرض شروع ہوتے ہی ٹیکا کر دیا جائے تو ایک معقول تعداد میں مریضوں کی جان بچ جاتی ہے اور اگر امکان زہر ہی کی حالت میں اثر کے ظاہر ہونے سے پہلے ٹیکا کر دیا جائے تو قریباً سب کے سب آدمی اس مرض کے حملہ سے بچ جاتے ہیں اور اس کے علاج میں اس ترقی کو دیکھ کر آئندہ کے لئے ہمارا کامل علاج کے نکلنے کی امید کرنا خلاف عقل نہیں ہے.خناق کا مرض بھی نہایت خطرناک مرض ہے اور نہایت ہی مہلک ثابت ہوتا رہا ہے اور چونکہ اس میں گلے کے اندر ایک زائد جھلی پیدا ہو جاتی ہے اور سانس رکنے لگ جاتا ہے اس مریض کی حالت بھی نہایت قابلِ رحم ہوتی ہے اور چند گھنٹوں کے اندر ہی مریض کی حالت یاس کی ہو جاتی ہے اور نہایت دکھ سے سانس رُک رُک کر مر جاتا ہے.یہ مرض بھی لا علا ج ہی سمجھا جاتا تھا اور اگر اس مرض کے بیمارا چھے ہوتے تھے تو اس قدر علاج کا اثر نہیں سمجھا جاتا تھا جس قدر کہ طبیعت کی طاقت مقابلہ کا.لیکن تریاق خناق ٹیکا کے نکلنے سے اس مرض کے علاج میں بھی بہت سہولت پیدا ہوگئی ہے اور ایک معقول تعداد میں مریضوں کی جان بچ جاتی ہے.ملکے گتے کے کاٹنے کے نتائج سے بالعموم لوگ واقف ہیں اس زہر کا علاج بھی دنیا کو اس سے پہلے معلوم نہ تھا اور جو کچھ علاج کیا جاتا تھا وہ یقینی نہ ہوتا تھا اور علاج کہلانے کا مستحق نہ تھا.مگر اب پسٹیور طریق علاج سے ہزاروں جانیں ہر سال اس خطر ناک آفت سے بچائی جاتی ہیں اور ان بھیانک مناظر کے دیکھنے سے سگ گزیدہ کے رشتہ دار بچ جاتے ہیں جو اس سے پہلے ان کو دیکھنے پڑتے تھے.
۲۳ انوار العلوم جلد ۱۳ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے آتشک کی مرض بھی قریب لا علاج تھی لیکن گو مختلف علاجوں سے بعض دفعہ ظاہری علامات مٹ جاتی تھیں مگر اس موذی مرض کا اثر جسم میں باقی رہتا تھا اور صحت ہمیشہ کے لئے برباد ہو جاتی تھی.مگر سالورسن اور نیو سالورسن کی ایجاد سے اس عظیم الشان خطرہ سے بھی بنی نوع انسان نے نجات پالی ہے اور اب ہزاروں آدمی اس کے زندگی کے تباہ کرنے والے زہر سے بگلی پاک ہو جاتے ہیں اور کارآمد زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.پتھری کی مرض کیسی خطر ناک تھی اور جب تک اس کا آپریشن کرنے کا طریق معلوم نہیں ہوا، اس کا مریض کس طرح اپنے سامنے یقینی موت دیکھتا تھا.اس سے قریباً ہر ملک کے لوگ واقف ہیں.گھیگے کی مرض کو مہلک نہ ہو مگر کیسی بدنما ہوتی ہے.درحقیقت اس مرض سے زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور شکل نہایت بُری اور ڈراؤنی معلوم ہوتی ہے اور شاید بہت ہوں جو اس مرض کی وجہ سے موت کو زندگی پر ترجیح دیں مگر اس کا کوئی علاج نہ تھا یہاں تک کہ آپریشن نکلا اور آپریشن کے بعد بھی یہ مرض بار بار عود کر آتی تھی.یہاں تک کہ ہو میو پیتھک علاج سے اس مرض کا ازالہ کر دینا پوری طرح ممکن ہو گیا اور آٹو ہیمک علاج نے تو اس کا ایک ایسا یقینی علاج بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دے دیا کہ اب یہ مرض بالکل معمولی رہ گئی ہے اور بعض ڈاکٹروں کا تجربہ ہے کہ قریباً ننانوے فی صدی مریض بلا خطرہ کے پوری طرح شفا پا جاتے ہیں اور اس مرض کے عود کرنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں رہتا اور نہ صرف گھیگا ہی دور ہو جاتا ہے بلکہ تھائرائڈ گلینڈ ز کے ورم کی وجہ سے عام صحت پر جو اثر پڑتا رہتا ہے وہ بھی دور ہو جاتا ہے.اسی طرح رسولیاں اور بعض خاص قسم کے سیلان خون جو پہلے لا علاج اور مہلک سمجھے جاتے تھے ، اب ان کا آپریشنوں اور دواؤں سے علاج آسان ہو گیا ہے.اور بیسیوں بیماریاں ہیں جیسے ذیا بیس، سل ، جگر کے پھوڑے، ہیضہ، کوڑھ، تپ محرقہ ، بیماری ہائے قلب، سرطان، ہڈی کا شکستہ ہو کر باہر آ جانا، فتق ، کبورت دم، بول الدم ، ٹیرا پن ، اپنڈی سائٹس ، آنکھ کے اعصاب کے فالج سے بینائی کا جاتے رہنا، نوا سپر انتڑیوں میں بل پڑ جانا، بچہ کا رحم میں پھنس جانا وغیرھا.جن کے علاج یا تو بالکل نہ تھے یا اگر تھے تو محض خیالی کیونکہ ان علاجوں کا یقینی نتیجہ نہیں نکلتا تھا اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ صحت دواؤں کے اثر سے ہوتی ہے یا خود بخو دطبیعت اچھی ہو گئی ہے لیکن ان کے ایسے علاج نکل آئے کہ علمی طور پر ان کو یقینی علاج کہا
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے جاسکتا ہے.اس ترقی کو دیکھ کر اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن بیماریوں کا علاج اب تک نہیں ملایا ناقص علاج ملا ہے ، ان کا علاج بھی مل جائے گا اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک بیماری کا علاج موجود ہے، بالکل سچ تھا اور ایک ایسا نکتہ حکمت تھا جسے اس زمانہ کے حالات کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ اس زبر دست ہستی کی طرف سے القا کیا گیا تھا جو نیچر کی پیدا کرنے والی اور اس کی طاقتوں سے واقف ہو.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی کہ ہر مرض کا علاج موجود ہے،صرف اسی رنگ میں تائید نہیں ہوئی کہ بعض امراض جو پہلے 10 علاج یا بمشکل علاج پذیر مجھی جاتی تھیں، ان کیلئے اب مفید اور سہل علاج دریافت ہو گئے ہیں بلکہ اس طرح بھی کہ کئی طریق علاج نئے دریافت ہوئے ہیں جن سے علاوہ لا علاج امراض کے علاج معلوم ہونے کے دوسری امراض کے علاج میں بھی سہولت پیدا ہوگئی ہے اور یا تو صحت کا حاصل ہونا پہلے سے آسان ہو گیا ہے یا دواؤں کی قیمت اور خرچ میں کفایت ہوگئی ہے.علم طب میں ترقی جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمہ حکمت بیان فرمایا، اُس وقت علم طب کی صرف دو شاخیں تھیں یعنی یونانی اور ویدک.باقی سب علاج انہی کی شاخیں تھیں یا ایسے طریق علاج تھے جو سائنس یا علم کہلانے کے مستحق نہ تھے لیکن اس کے بعد یورپ کی توجہ علم کی طرف پھرنے سے یونانی طریق علاج میں سے نشو و نما پا کر ایلو پیتھک طریق علاج نکل آیا.اس کے بعد ہومیو پیتھک طریق علاج یعنی علاج بالمثل کی دریافت نے طبی دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا اور یہ معلوم کر کے انسان کو سخت حیرت ہوئی کہ اس کی شفایابی کیلئے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکمت سے ان ہی ادویہ میں قوت شفا بھی رکھی ہوئی ہے، جن سے اس قسم کی مرض پیدا ہوتی ہے.گو یا بیماری کے ساتھ ہی اس کا علاج بھی رکھا ہے جو چیز جس قسم کی بیماری بڑی مقدار میں پیدا کرتی ہے اس کی تھوڑی مقدار جو ز ہر یا بداثر ڈالنے کی حد سے نکل جائے ، اسی قسم کی بیماری کے رفع کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے.اس طریق علاج سے بہت سے امراض جو پہلے لا علاج سمجھے جاتے تھے ، قابل علاج ثابت ہو گئے اور طبعی علوم میں بہت ترقی ہوئی.اسی طرح علاج بالماء یعنی ہیڈ رو پیتھی کے معلوم ہونے سے صرف غنسل اور گیلے کپڑوں کی
۲۵ انوار العلوم جلد ۱۳ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے مالش سے بہت سی امراض کا علاج ہونے لگا اور بہت سے گہنہ امراض کے دفعہ کرنے میں اس علاج سے مدد ملی.ٹولوٹشور میڈ یر یعنی بارہ نمکوں کے علاج کی ایجاد نے علاج کو ایسا آسان کر دیا کہ اب ہر ایک شخص کی مقدرت میں ہو گیا کہ وہ طبیب کے نہ ملنے کی صورت میں آسانی سے بغیر کسی خاص علم کے محض کتاب دیکھ کر معمولی اور روزمرہ کی شکایات کا علاج کر سکے اور صرف ان باره معدنی اجزاء کے ذریعہ جن سے انسانی جسم بنا ہے، تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہو گیا.الیکٹروہومیو پیتھی کے طریق علاج نے طب کے دائرہ عمل کو اور بھی وسیع کر دیا ہے اور بنی نوع انسان کیلئے شفایابی کے دروازے کھول دیئے.سائکو اپنی لیس کے طریق علاج نے بہت ایسی امراض کے علاج کا دروازہ کھول دیا ہے جو فکر و خیال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور جن کا علاج صرف دواؤں سے ہونا ناممکن تھا.علاج بالتوجہ اور توجہ ذاتی نے شفا کو انسان کے ایسا قریب کر دیا کہ گویاشفا حاصل کرنے کیلئے ارادہ کی دیر ہوتی ہے.ارادہ کیا اور بہت سی شفا ہوئی.ویکسین اور سیرم کی ایجاد نے علم طب میں ایک ایسا مفید اضافہ کیا ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے.در حقیقت اس طریق علاج سے ہزاروں لاکھوں مریضوں کو ہر سال ایسے رنگ میں آرام ہوتا ہے کہ اس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور سگ گزیدہ اور خناق اور کز از وغیر ہا کے علاج اور انفلوئنزا اور محرقہ وغیر ہا کے حفظ ما تقدم میں اس سے اس قدر مد دلی ہے کہ اس پر جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کیا جائے کم ہے.بلحاظ زمانہ کے سب سے آخر میں لیکن بلحاظ اثر کے اعلیٰ درجہ کے طریقہ ہائے علاج میں سے آٹو ہیمک طریق علاج کی ایجاد ہے.جسے امریکہ میں ۱۹۱۰ ء میں ڈاکٹر راجرز نے ایجاد کیا ہے.اس طریق علاج کے ذریعہ خود بیمار کا خون چند قطرہ لے کر اور خاص طور پر تیار کر کے مریض کے جسم میں پچکاری کے ذریعہ داخل کر کے تمام مزمن امراض کا علاج کیا جاتا ہے اور ان چند سال کے عرصہ میں ہی اس میں اس قدر کامیابی ہوئی ہے کہ بیان سے باہر ہے.ان مختلف طریقہ ہائے علاج کی دریافت کے علاوہ اور بہت سی ایسی دریافتیں ہوئی ہیں جن سے علاج یا تشخیص کہ جو علاج صحیح کے لئے ضروری ہے، بہت سہل ہو گئی ہے.مثلاً خوردبین کی ایجاد ہے، اس کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوا ہے کہ بہت سی بیماریاں نہایت باریک کیڑوں سے پیدا ہوتی ہیں اور جس وقت بیماری کی تشخیص مشکل ہو اس کے ذریعہ سے معلوم کر لیا جاتا ہے کہ کس مرض کے کیڑے انسان کے جسم میں پائے جاتے ہیں.یا مثلاً خون کا امتحان ہے اس کے ذریعہ
انوار العلوم جلد ۱۳ } ۲۶ دنیا میں سچاند ہب صرف اسلام ہی ہے سے بھی تشخیص میں بہت سی مدد ملتی ہے یا پیشاب کے پر لکھنے کے بہت سے طریق ہیں کہ جن کے ذریعہ بہت سی امراض کا پتہ لگایا جاتا ہے.ان کے علاوہ امریکہ کا ایک ڈاکٹر سان فرانسسکو میں ایک ایسا آلہ ایجاد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیابی بھی ہوگئی ہے کہ جس سے مختلف مخفی امراض صرف اس آلہ کو مریض کے جسم سے لگانے سے معلوم ہو جایا کریں گی اور ان کے درجے بھی پتہ لگ جایا کریں گے.غرض بہت سے طریق تشخیص ایسے ایجاد ہوئے ہیں کہ ان سے بیماریوں کا یقینی طور پر معلوم کرنا آسان ہو گیا ہے اور اس وجہ سے امراض کا علاج بھی بہت سہل ہو گیا ہے.اسلام کی صداقت کی زبردست دلیل یہ سب ترقیاں جو اس صدی اور اس سے پہلی صدی میں ہوئی ہیں کس امر پر دلالت کرتی ہیں؟ کیا اس پر نہیں کہ اسلام تیرہ سو سال پہلے کے عربوں کے حالات کا ایک طبعی نتیجہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا مذہب ہے ورنہ اس میں یہ خیالات کہاں سے آئے جو اس زمانہ کے خیالات سے نہ صرف یہ کہ مختلف ہیں بلکہ ایسے بعید ہیں کہ اس زمانہ میں ان کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن کر بھی ان پر یقین کرنا مشکل تھا اور کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مذہب صرف عربوں یا ان ہی کی قسم کے اور لوگوں کیلئے مفید نہیں بلکہ ہر درجہ کی تہذیب یافتہ قوموں کیلئے مفید ہے اور ان کو ترقی کے زینہ پر چڑھا کر بہت اوپر لے جاسکتا ہے.وَاخِرُدَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۳ء) ا مسلم كتاب السلام باب ِ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاء میں اِلَّا الْمَوت کے الفاظ نہیں ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۷ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش،، کے اعتراضات کی حقیقت سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۲۸ انوار العلوم جلد ۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش،، کے اعتراضات کی حقیقت پنڈت دیا نند صاحب بانی آریہ سماج نے اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں مسیحیت اور اسلام پر بہت سے اعتراض کئے ہیں.ہمارا ارادہ ہے کہ جو اعتراضات سوامی صاحب نے اپنی لاعلمی سے اسلام پر کئے ہیں، اس مضمون میں ان کا جواب دیا جائے اور اسلامی تعلیم کو اصل رنگ میں پیش کر کے دکھایا جائے کہ کیا اس پر کسی قسم کے اعتراض پڑتے ہیں یا پنڈت صاحب نے محض تعصب سے اپنے دماغ سے اس قسم کے اعتراض پیدا کئے ہیں.اعتراض اول پنڈت صاحب کا سب سے پہلا اعتراض بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پر ہے.اپنے آپ کو محقق قرار دے کر اس پر یوں اعتراض کئے ہیں.محقق.مسلمان لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے لیکن اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی دوسرا شخص ہے کیونکہ اگر خدا کا بنایا ہوا ہوتا تو شروع ساتھ نام اللہ کے“ ایسا نہ کہتا بلکہ ” شروع واسطے ہدایت انسانوں کے ایسا کہتا.یہ اعتراض کرنے سے پنڈت صاحب کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اس میں مخاطب خدا ہے، اس لئے یہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتا بلکہ انسان کا ہے کیونکہ اگر خدا نازل کرنے والا ہوتا تو قرآن شریف ایسی طرز سے شروع ہوتا جس میں یوں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ بول رہا ہے لیکن اس آیت سے الٹا یوں معلوم ہوتا ہے کہ بندہ بول رہا ہے اور خدا مخاطب ہے.پس معلوم ہوا کہ یہ کلام انسانی ہے.
۲۹ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت جواب اوّل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے اورسورۃ فاتحہ ایک دعا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہے تا وہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پڑھ کر اپنا حال عرض کرے.چنانچہ عربی کے قاعدہ کے لحاظ سے بسم اللہ میں جو بات آتی ہے اس کا ایک متعلق مقد رضرور ماننا پڑے گا کیونکہ جملہ میں ”با‘ کا متعلق ضرور آتا ہے جو کہ یا فعل ہوتا ہے یا معنی فعل یا شبہ فعل.پس اس قاعدہ کے ماتحت بسم الله کا مقدر متعلق جب ہم لگاتے ہیں تو فقرہ یوں بن جاتا ہے.اِقْرَأْ بِسْمِ اللہ یعنی میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر یہ دعا یا قرآن شریف پڑھتا ہوں.دوسرے ایک حدیث میں ہے.کہ كُلُّ أَمْرٍ ذِى بَالِ لَمْ يُبْدَأْ بِسْمِ اللهِ فَهُوَ أَقْطَعُ وَ اَبْتَرُ جو کام اللہ کا نام لے کر شروع نہیں کیا جاتا وہ کبھی کامیاب اور سرسبز نہیں ہوتا.پس اس قرینہ سے اقرا کے ابتداء کی تقدیر نکلے گی اور اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے استعانت طلب کرتا ہوں اور اس کلام کو پڑھنا شروع کرتا ہوں یا اس کام کو کرتا ہوں.پس سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے جو انسان کو سکھائی گئی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دعا خدا کی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ بندہ کی طرف سے ہوتی ہے.اگر پنڈت صاحب کا یہ مطلب ہے کہ اس دعا میں اللہ تعالیٰ سائل ہوتا اور بندہ مسئول تب قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ثابت ہوتا تو آریہ سماج کو بہت جلد یہ اعتراض ستیارتھ پرکاش سے مٹا کر اہل عقل و دانش کی بنسی سے بچنا چاہئے.کیونکہ ہمیشہ دعا بندہ کی طرف سے ہوتی ہے خدا کی طرف سے نہیں کیونکہ جوشخص سوال کرتا ہے، وہ محتاج ہوتا ہے اور جس سے سوال کیا جاتا ہے وہ محتاج الیہ.یعنی اس کے حضور میں دوسرے لوگ محتاج ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کے حضور میں کوئی کمی نہیں اور زمین و آسمان اور ذرہ ذرہ کا مالک ہے کسی کا محتاج نہیں ہو سکتا بلکہ اگر وہ محتاج ہو تو اس لفظ اللہ کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ کے معنی ہیں ہر ایک خوبی سے متصف اور ہر ایک عیب سے مبرا.اور کسی کا محتاج ہونا تو بڑا عیب ہے جو اللہ تعالیٰ میں نہیں پایا جا سکتا.پس میں نہیں سمجھتا کہ پنڈت صاحب کو اس اعتراض کرنے کا خیال ہی کیوں پیدا ہوا کیونکہ جب سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھائی ہے تو ضرور تھا کہ وہ ایسے الفاظ میں ہوتی جس سے ظاہر ہوتا کہ بندہ عرض کرتا ہے اور مالک سن رہا ہے اس کی مثالیں دنیوی گورنمنٹ کے قواعد میں بھی کثرت سے مل سکتی ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی نے بھی مختلف عرائض کے لئے خود الفاظ بنا کر دئیے ہیں اور لازمی ہوتا ہے کہ ہر ایک سائل جب کوئی درخواست کسی خاص محکمہ میں دے تو وہی الفاظ
انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت استعمال کرے جو کہ گورنمنٹ نے اس عرضی کیلئے خود مقرر کئے ہیں.چنانچہ وہ لوگ جو دفاتر کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا جنہیں کبھی کسی مقدمہ میں حاضر ہونا پڑا ہو، اس بات کو خوب جانتے ہیں.وکلاء کیلئے بھی ہائی کورٹوں نے خاص الفاظ مقرر کئے ہوئے ہیں کہ جو انہیں عدالت کے سامنے تقریر کرنے سے پہلے کہنے پڑتے ہیں.اسی طرح مختلف سوسائٹیوں میں داخلہ کیلئے خاص فارم پر کرنے پڑتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ ہر ایک انسان سمجھ نہیں سکتا کہ کن الفاظ میں اپنا مَا فِي الضَّمِيرِ ادا کرے اور نہ وہ یہ جان سکتا ہے کہ کونسے الفاظ ضر ر اور نقص سے پاک ہیں اس لئے دنیوی گورنمنٹیں بھی احتیاطاً خود درخواست کے الفاظ مقرر کر دیتی ہیں اور سائل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ان الفاظ کو استعمال کرے تا کہ بہت حد تک نقصوں سے محفوظ رہے.اسی فائدہ کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت بھی ابتدائے قرآن میں سورۃ فاتحہ نہایت ہی پاک اور بے عیب الفاظ میں انسان کو سکھائی ہے تا کہ وہ اس کے ذریعہ سے اپنے ہر قسم کے مطالب کو اللہ تعالیٰ سے طلب کرے پس اس پر اعتراض کرنا تعصب نہیں تو اور کیا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دعا کی وجہ سے مسلمان ہر ایک مذہب پر غالب ہیں اور کوئی مذہب نہیں جو اپنے پیراؤں کو ایسی پاک اور جامع دعا سکھاتا ہو جس میں مختصر الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی گل صفات کا بیان بھی ہو ، خالق اور انسان کے تعلقات بھی بیان کئے گئے ہوں، پھر انسانوں کے آپس کے تعلقات بھی مذکور ہوں اور پھر ایک جامع و معنی دعا بھی ہو.یہ ایک اسلام اور صرف اسلام ہی ہے جس میں اپنے پیروؤں کو اس کامل دعا کا ہتھیار دیا گیا ہے اور چونکہ دعا کے ماتحت ہی نتائج نکلتے ہیں ، اس لئے مسلمانوں کی طرح کوئی قوم خدا تعالیٰ سے نیک ثمرات کی امید وار نہیں ہو سکتی.وید پر اعتراض یہاں تک یہ ثابت کرنے کے بعد کہ چونکہ انسان دعا میں اپنے الفاظ میں پوری طرح محتاط نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ ایک کامل دعا سکھائی ہے اور یہ کہ اس کی مثال دنیوی گورنمنٹوں کے انتظام میں بھی ملتی ہے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پنڈت صاحب نے جو اعتراض قرآن پر کیا ہے وہی وید پر الٹ کر پڑتا ہے اور قرآن شریف میں تو صرف ایک قلیل حصہ ہے جو بطور حکایت از انسان بیان کیا گیا ہے لیکن وید سارے کا سارا اس الزام کے نیچے ہے اور چونکہ پنڈت صاحب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ جس کلام کا کوئی حصہ انسان سے حکایتا بیان ہو وہ کلام الہی نہیں ہوسکتا بلکہ انسانی کلام
انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت ہوتا ہے،اس لئے ان کے پیروؤں کو لازماً اقرار کرنا پڑے گا کہ وید خدا کا کلام نہیں ہے.چنانچہ رگوید جوسب ویدوں میں معتبر مانا گیا ہے، اس کا اکثر حصہ دیکھنے پر میں نے ایک بھی منتر ایسا نہیں پایا جس میں خدا متکلم ہو اور بندہ مخاطب ہو بلکہ ہر جگہ بندہ بولتا ہے اور اللہ تعالیٰ مخاطب ہوتا ہے.پس بقول پنڈت دیانند صاحب وید خدا کا کلام نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر خدا کا کلام ہوتا تو اللہ تعالیٰ بولنے والا ہوتا.مثال کے طور پر ہم رگوید کے چند منتر ذیل میں درج کرتے ہیں جس سے ناظرین پر گھل جائے گا کہ پنڈت صاحب قرآن شریف پر اعتراض کرتے وقت کس قدر حق گوئی پر مائل تھے.چنانچه ر گوید اسٹک اول پہلا ادھیائے سکت اوّل کا منتر اس طرح شروع ہوتا ہے.(۱) ” میں اگنی دیوتا کی جو ہوم کا بڑا گر و کارکن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا ہے اور بڑا ثروت والا ہے مہما کرتا ہوں“.اب ہر عقلمند غور کر سکتا ہے کہ جیسے قرآن شریف کے شروع میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ ہے اسی طرح وید کا شروع بھی اس رنگ میں کیا گیا ہے کہ بندہ بول رہا ہے اور خدا مخاطب ہے.پس جو انسان اس وید کے شروع میں اس منتر کو پڑھ کر پھر بھی اسے خدا کا کلام مانتا رہا ہے اور ہمیشہ ویدوں کی بڑائی کے گن گاتا رہا ہے، کیسے شرم کی بات ہے کہ جب قرآن شریف کی طرف آتا ہے تو یہ بات اسے تعجب میں ڈال دیتی ہے اور بے اختیار چلا اٹھتا ہے کہ ایسا کلام خدا کا کلام نہیں ہو سکتا.کاش! وہ غور کرتا اگر قرآن شریف ایسی چند آیتوں کی وجہ سے جو حکایتاً انسان سے بیان کی گئی ہیں خدا کا کلام نہیں ہو سکتا تو وید جو سارے کا سارا اسی رنگ میں بیان کیا گیا ہے، خدا کا کلام کیونکر ہو سکتا ہے.ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ وید کے گل منتروں کو خدا کا کلام تو مانا جائے لیکن یہ بھی یقین کیا جائے کہ ویدک عقیدہ کی رو سے دو خدا ہیں اور وید میں ایک خدا دوسرے خدا سے جو اس سے بڑا درجہ رکھتا ہے ہم کلام ہے.لیکن آریہ صاحبان امید نہیں کہ اس تجویز سے بھی متفق ہو سکیں.یہ تو ابتدا کا حال ہے لیکن رگوید کو کہیں سے کھول کر دیکھ لو ہر جگہ بندہ خدا و یدک دعائیں سے دعا کرتا ہوا نظر آتا ہے.جس سے یقین ہوتا ہے کہ وید ہرگز خدا کا کلام نہیں بلکہ وقتا فوقتا ہندوؤں کے بزرگوں نے جو دعائیں کی ہیں ، ان کا مجموعہ ہے.ہم مختلف جگہوں سے چند اور مثالیں درج کر کے دکھاتے ہیں کہ رگوید میں ایک بھی منتر نہیں جس میں خدا
۳۲ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت متکلم ہو اور بندہ مخاطب.چنانچہ انو کا ۲ سکت ۲ کا پہلا منتر یوں ہے.میں اندر کے وہ بہادرانہ کام جو اُس نے یعنی میگراج نے پہلے زمانہ میں کئے ہیں بیان کرتا ہوں.اُس نے بادل کو چیرا، اُس نے مہینہ برسایا، اُس نے ان ندیوں کے واسطے جو پہاڑ سے آتی ہیں راستہ بنایا.پھر ا نو کا ۱۲ سکت ا میں یوں لکھا ہے.استمر اور بھولے دیوتا.اے اگنی ! تیرے قدموں کے کھوج لگاتے ہوئے تیرے پیچھے ہو لئے جب کہ تو نے اپنے دھن کو پانی ہی کے نشیب میں اس طرح چھپا دیا جیسے مویشی کا چور اپنے تھن چھپاتا ہے.اُن کو تیری اس لئے تلاش تھی کہ تجھ سے وہ بھوگ کا دعویٰ کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ تو دیوتاؤں تک اس بھوگ کو پہنچائے.تمام دیوتا جو پوجا کے مستحق ہیں تیرے پاس بیٹھ گئے“.انو کا ۱۳ سکت ا میں یوں لکھا ہے.سے سنتا ہے.یگ میں جلدی جا کر آؤ.ہم اگنی کی مہما میں منتر پڑھیں جو ہماری دُور اسی طرح ساتواں ادھیائے انو کا ۱۵ سکت ۲ میں ہے.تیری جو بڑا ہلوان ہے بڑی اور تمند روشنی آسمان میں پھیل جاتی ہے.اے اگنی ! ہم نے تجھے دوشن کیا ہے ہمیں اپنی بے عیب اور رکشا کر نیوالی کلاؤں سے بچا“.میں نے یہ چند منتر مختلف جگہوں سے اس لئے نقل کر دیئے ہیں کہ تاحق کے متلاشیوں کو معلوم ہو جائے کہ رگوید سارے کا سارا اسی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے اور کہ پنڈت دیا نند جی کو بقول مسیح علیہ السلام اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آیا اور دوسرے کی آنکھ کے خواہ مخواہ تنکے نکالنے کی فکر میں پڑ گئے.قرآن کی ابتدا پس قرآن شریف ضرور تھا کہ بسم اللہ سے شروع ہوتا.اس کے بعد ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ ضرور تھا کہ قرآن شریف اسی آیت سے شروع ہوتا اور اس آیت سے شروع ہونا قرآن شریف کیلئے کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ اس کی سچائی کا ثبوت ہے.جب کوئی کام بھی انسان شروع کرتا ہے تو دو قسم کے اغراض اس کے مد نظر ہوتے ہیں ، نیک یا بد.بعض لوگ بد نیتی سے کام شروع کرتے ہیں اور بعض نیک نیتی سے.اسی طرح بعض اپنی ذاتی اغراض کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نفس پر یا دوسرے اسباب پر بھروسہ رکھتے
۳۳ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت ہیں اور خدا کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن غور کر کے دیکھا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ اس کام میں برکت ہو سکتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہے.کیسے شرم کی بات ہے کہ ایک آدمی خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہاتھوں سے کام کرے، اُس کے دیئے پیروں سے چلے، اُس کی عطا کردہ آنکھوں سے دیکھے، دماغ سے غور کرے اور پھر اپنے نفس پر بھروسہ کرے.بعض دفعہ یوں بھی ہو جاتا ہے کہ انسان اوّل تو نیک نیتی سے کام شروع کرتا ہے، بعد میں نیت بدل جاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو سکھایا کہ قرآن شریف پڑھنے سے پہلے بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پڑھنی چاہئے اور ہر ایک سورۃ کے شروع میں یہ آیت نازل فرما کر انسان پر یہ لازم کر دیا کہ ابتدا اسی آیت سے ہو.پھر حدیث کے ذریعہ ہر ایک بڑے کام سے پہلے اس کا پڑھنا سنت ہوا.بسم اللہ کے معنی اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ میں یہ کام اپنے نفس کے لئے نہیں کرتا اور کوئی گندی اور ناپاک ناجائز خواہشات کو دل میں چھپائے ہوئے شروع نہیں کرتا بلکہ میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اسی پر بھروسہ کر کے اور اسی سے اس بات کی مدد مانگتے ہوئے کہ وہ مجھے ہر ایک قسم کی بدنیتوں اور شرارتوں سے بچائے ، شروع کرتا ہوں.اب بتاؤ کہ کیا یہ پاک الفاظ اس قسم کے ہیں جن پر اعتراض ہو سکے.ان مختصر سے الفاظ میں کیسے معارف بھر دیئے گئے ہیں کہ کوئی کتاب ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.وید کی ابتدا ابھی میں اُوپر درج کر چکا ہوں کہ آگ کی تعریف سے شروع ہوتا ہے، تو رات اور انجیل کی ابتدا بھی نظروں سے پوشیدہ نہیں ، پھر قرآن شریف کی ابتدا کو بھی دیکھو کہ کس طرح ہوئی ہے اور پھر غور کرو کہ کیا یہ خدا کا کلام ہے یا وہ.ان تین چار الفاظ میں کس طرح انسان کو نیت صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر خالص خدا پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے، پھر یہ ہدایت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہر ایک کام کے شروع میں مدد اور استعانت طلب کرنی چاہئے تا کہ انسان راہ سے گمراہ نہ ہو جائے اور جادہ اعتدال سے اُس کا پاؤں دوسری طرف نہ پھر جائے.کیا اس کلام کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں تو پھر اور کون سا کلام خدا کا ہو سکتا ہے؟ پھر اسی آیت میں پنڈت صاحب دوسرا اعتراض یوں کرتے ہیں کہ دوسرا اعتراض اگر اس آیت کے یہ معنی مان لئے جائیں کہ انسان کو حکم ہے کہ تو ہر ایک کام کی ابتدا میں یہ آیت پڑھا کر تو پھر گناہوں کی ابتدا بھی اسی آیت سے لازم آئے گی.
۳۴ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت چنانچہ اسی وجہ سے مسلمان گائے وغیرہ کے ذبح کے وقت یہ الفاظ کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ قطعاً یہ بیان نہیں فرمایا کہ ہر ایک کام کی ابتدا کے جواب اوّل فرمائی ہے.وقت یہ آیت استعمال کی جائے بلکہ یہاں تو سورۃ فاتحہ کی ابتدا میں جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں یہ آیت تو ابتدائے قرآن میں اس لئے رکھی گئی جواب دوم ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الہی ! تو مجھے ہر ایک بدی سے محفوظ رکھ اور گناہ سے بچا اور میں سب قسم کی بدکاریوں میں پڑنے سے بچنے کے لئے تیرے نام سے برکت طلب کرنا اور تیری استعانت کا خواہاں ہونا مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں پھر یہ آیت گناہ کی ابتدا میں کس طرح پڑھی جاسکتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے اسلام میں بدیوں کو اور گناہوں کو جائز قرار دیا ہوتا تب تو جواب سوم یہ اعتراض پڑتا لیکن جب اسلام کا خدا ہر ایک مسلمان کو قطعی حکم دیتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائُ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْي یعنی اے انسان! اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور قریبیوں سے سلوک کرنے کا حکم کرتا ہے اور ایسی باتوں سے جو نخش ہوں جو لوگوں کیلئے ایذاء رساں ہوں، جن سے حکام یا ماتحتوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں منع کرتا ہے تو با وجود ایسے صریح حکم کے جو شخص بدیوں میں مبتلا ہے وہ مسلمان کب رہ سکتا ہے اور اسلام پر کیا الزام؟ تیسرا اعتراض ایک اور اعتراض پنڈت جی نے یہ کیا ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو.داخل ہو بیچ اسلام کے.(بقرہ آیت ۲۴ ) محقق : اگر مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں ہی کا طرفدار ہے سب دنیا کا خدا نہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ قرآن خدا کا بنایا ہوا ہے، نہ اس میں کہا ہوا خدا ہوسکتا ہے.اول تو پنڈت صاحب نے آیت کا ترجمہ ہی غلط کیا ہے.آیت تو یہ ہے یأیها جواب الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِى السّلْمِ كَافَّةً" اے وہ لوگو! جو ایمان لائے تمام کے تمام کامل فرمانبرداری اور سلامت روی کے طریقوں کو اختیار کرو.ورنہ جب کہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے تو اس کے کیا معنی ہوئے کہ اسلام میں داخل ہو جاؤ.یہ ظاہری ایمان کے بعد
۳۵ انوار العلوم جلد ۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت حقیقی اخلاص اور نیکی کی تعلیم دی گئی ہے.دوسرے اگر بفرض محال پنڈت صاحب کے اعتراض کو پر کھنے کیلئے اس ترجمہ کو صحیح بھی قرار دے دیا جائے ، تب بھی اعتراض فضول اور خلاف عقل ہے کیونکہ جب خود پنڈت دیانند صاحب کا بھی یہی اعتقاد تھا کہ آریہ مذہب میں داخل ہو کر ہی نجات مل سکتی ہے اور بغیر ویدوں کے ماننے کے انسان سر خرو نہیں ہو سکتا ہے کیا ان کے اعتقاد پر یہ اعتراض نہ وارد ہو گا کہ کیا خدا صرف ویدوں کے ماننے سے خوش ہوتا ہے.کیا وہ آریوں کا طرفدار ہے؟ اور پھر ہر ایک سچائی پر اعتراض ہو گا کہ کیا خدا اس سچائی کا طرفدار ہے.جب اسلام کا دعوی ہے کہ گل سچائیاں اس کے اندر پائی جاتی ہیں تو کیا یہ کہا جائے کہ اسلام کے باہر جس قدر گند ہیں، ان پر بھی اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ان میں ملوث انسان کو نجات عطا کرتا ہے.جب آریوں کا ویدوں کی نسبت یہی عقیدہ ہے تو پنڈت صاحب کو اسلام پر اعتراض کرنے کی کیاسو جبھی.سچ ہے نیش عقرب نه از پے کین است مقتضائے طبیعتش این است چوتھا اعتراض جو کچھ آسمان اور زمین پر ہے سب اسی کیلئے ہے.(سورہ بقرہ : ۲۵۶) محقق.جو آسمان اور زمین پر چیزیں ہیں وے سب انسانوں کے واسطے خدا نے پیدا کی ہیں اپنے واسطے نہیں.کیونکہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں.(صفحہ ۷۸) جس آیت پر پنڈت صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے لَهُ مَا فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کے یعنی جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت جوار اب میں ہے اور یہی اعتقاد زبانی طور سے آریوں کا بھی ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی انسان جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان رکھتا ہو یہ کہے کہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں نہیں ہیں بلکہ کسی اور کے قبضہ میں ہیں.پس جب اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک سچائی کا بیان کیا ہے تو اس پر پنڈت صاحب کو کیا اعتراض ہے.یہ زیادتی انہوں نے کہاں سے نکالی کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسے خدا خود استعمال کرتا ہے اور بندوں کی طرح ان اشیاء کا محتاج ہے.یہاں اس بات کا ذکر تو نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اشیاء کس لئے پیدا کی ہیں بلکہ یہ لکھا گیا ہے کہ یہ سب اشیاء کس کی ملکیت میں ہیں.اور ان اشیاء پر خدا تعالیٰ کی ملکیت کا انکار خود آریہ صاحبان بھی نہیں کرتے پھر یہ اعتراض نہ معلوم کیا سوچ کر کیا گیا ہے.شاید کہ دیا جائے کہ یہ پریس کی غلطی تھی ، پنڈت صاحب نے یہ اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ بعض حاسدوں نے اپنی طرف سے ملاد یا لیکن
۳۶ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پرکاش کے اعتراضات کی حقیقت بات تب درست ہوگی کہ جب آریہ پر تی ندھی سبھا اس اعتراض اور اس طرح دیگر گل اس قسم کے اعتراضات کے اخراج کا ریزولیوشن پاس کرے اور آئندہ ایڈیشن میں ستیارتھ پر کاش میں وہ درج نہ کئے جائیں.اور نہیں ہے اللہ کہ خبر دار کرے تم کو او پر غیب کے لیکن اللہ پسند کرتا پانچواں اعتراض ہے پیغمبروں اپنے میں سے جس کو چاہے پس ایمان لاؤ اوپر اللہ کے اور اس کے رسولوں کے (سورہ آل عمران: ۱۷) محقق.جب مسلمان لوگ سوائے خدا کے کسی پر ایمان نہیں لاتے اور نہ کسی کوخدا کا شریک مانتے ہیں تو پیغمبر صاحب کو کیوں خدا کے ساتھ ایمان میں شریک کیا ہے؟ اللہ نے پیغمبروں پر ایمان لانا لکھا ہے اسی لئے پیغمبر بھی شریک ہو گیا.پھر لَا شَرِینگ کہنا ٹھیک نہ ہوا.اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ محمد صاحب کے پیغمبر ہونے پر ایمان لانا چاہئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صاحب کی کیا ضرورت ہے.اگر خدا بہلا پیغمبر کے اپنی خواہش کے مطابق کام نہیں کر سکتا تو ضرور خالی از قدرت ہوا.(صفحہ ۶۸۲) جوا اس اعتراض میں پنڈت صاحب نے دو ایجادیں کی ہیں اور دونوں عجیب ہیں اول تو یہ کہ خدا کے سوائے کسی اور پر ایمان لانا بڑا گناہ ہے اور شرک ہے لیکن آپ کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایمان کہتے ہیں ماننے کو.کیا پنڈت دیانند صاحب کے پیرو بتا سکتے ہیں کہ وہ خدا کے سوائے کسی اور چیز کو نہیں مانتے؟ اگر ایسا ہے تو خود آریہ سماج ہی کا ماننا اور یہ کہنا کہ آریہ سماج کوئی چیز ہے، شرک ہو جائے گا.کیونکہ وجود میں خدا اور آریہ سماج برا بر ہو جائیں گے اور اگر خدا کے سوا کسی اور کی فرمانبرداری شرک ہے یا کسی کی بات ماننی شرک ہے تو والدین کی فرمانبرداری اور گورنمنٹ کی اطاعت اور خود پنڈت دیانند کی اتباع اور ویدوں کا اقرار سب شرک ہوگا اور کوئی کام نہ رہے گا جس میں شرک نہ ہو.کھاتے پکاتے ہوئے شرک کرنا پڑے گا کہ ایک چیز آگ ہے پھر وہ جل کر دوسری اشیاء کو پکا دیتی ہے.پھر ایک چیز آٹا ہے جو کھانے سے پیٹ کو بھر دیتا ہے اور ان تمام اشیاء کا وجود ماننا اور ان کے خواص پر بھی یقین لا نا شرک ہوگا.خود شرک کا ماننا یعنی شرک پر ایمان لانا شرک ہو جائے گا.پانی پیتے ہوئے پانی کے وجود کا ایمان اور اس کے خواص پر یقین بھی شرک ہوگا اور ایک عجیب دور تسلسل ہو جائے گا.شرک کی یہ تعریف تو نہیں کہ خدا کے سوائے کسی اور چیز کو نہ مانا جائے بلکہ شرک کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اُن صفات
۳۷ انوار العلوم جلد ۱۳ قرآن کریم پر ستیارتھ پر کاش“ کے اعتراضات کی حقیقت میں کسی کو خدا کا شریک کرنا جو اُس کے لئے خاص ہیں اور جس میں کسی کا دخل نہیں ہے.یا اُس حد سے زیادہ کسی کو صفات الہیہ میں شریک کرنا جو اُس نے مخلوقات اور مصنوعات میں ودیعت کی ہیں.شرک اول کی مثال خلق ہے کہ اِس میں اُس نے کسی کو شریک نہیں کیا اور شرک دوم کی مثال سمع ہے کہ اُس نے انسانوں اور حیوانوں میں سمع کی طاقت رکھی ہے لیکن ایسی طاقت کسی کو نہیں دی کہ انہی کانوں کے ساتھ گل دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی آوازوں کوسن لے.پس کسی کو خالق ماننا یا اس قسم کا سمیع ماننا کہ گل باریک اور موٹی، خفی اور جلی ، آہستہ اور اونچی سب آوازوں کو یکدم سن لیتا ہے ، شرک ہوگا نہ کہ کسی کا محض وجود ما نا یا کسی کا عام فرمانبرداری شرک ہوگی.دوسری بات جو پنڈت صاحب نے اس آیت سے نکالی ہے یہ ہے کہ اگر ایمان کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ماننا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے تو اس پر دوسرا اعتراض یہ پڑتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت کیا تھی اور جب کہ آپ کی خدا کوکوئی ضرورت تھی اور آپ کے بغیر خدا کوئی کام نہ کر سکتا تھا تو ضر ورخدا قدرت سے خالی ہوا.لیکن اس اعتراض کے کرتے وقت اپنے گھر کا خیال پنڈت جی کو نہیں رہا.ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی ایک کی جگہ چار رشیوں کو قبول کرتے ہیں.پس یہی اعتراض ان پر بھی پڑے گا کہ ان چار رشیوں کی ضرورت کیا تھی.کیا پر میشور ان کے بغیر کام نہیں کر سکتا تھا اور وید ان کے سوائے نہیں بھیج سکتا تھا اور اگر نہیں بھیج سکتا تھا تو پر میشور بے قدرت ہوا.بلکہ خود یہی کیوں نہ کہیں کہ کیا ویدوں کا خدا محتاج تھا اور کیا ان کے بغیر دنیا کو ہدایت نہیں دے سکتا تھا ؟ اگر نہیں تو ویدوں کا محتاج ہوا.لیکن کیا آریہ صاحبان اس قسم کے بیہودہ اعتراض کو اپنے رشیوں یا اپنی کتب کی نسبت برادشت کریں گے؟ اگر نہیں برداشت کر سکتے تو پھر قرآن شریف پر ان کے اعتراض کرنے کے کیا معنی؟ یہ اعتراض تو ” مشتے نمونہ از خروارے ہیں.اگر آدمی جواب لکھنے لگے تو چودہ مود اس نے سارے کا سا را غلط اور بے بنیاد اعتراضات سے بھرا ہوا ہے.الفضل ۲۳ فروری ۱۹۳۳ء) 3) کنز العمال جلد ۱ صفحه ۵۵۵ مكتبة التراث الاسلامی حلب میں یہ الفاظ آئے ہیں "كُلُّ أَمْرٍ ذِى بَالِ لَا يُبْدَءُ فِيهِ بِسْمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيمِ أَقْطَعُ.النحل: ٩١ ال عمران: ۱۸۰ البقرة: ٢٠٩ h البقرة: ۲۵۶ چودھواں سملاس (ستیارتھ پرکاش کا چودھواں باب )
انوار العلوم جلد ۱۳ ۳۸ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات یر از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی
۳۹ انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.اس اجتماع کی اصل غرض تو یہ ہے کہ دعا کر کے دوستوں کو رخصت کیا جائے تا وہ جس جس علاقہ میں جانے والے ہیں وہاں جا کر اپنا کام شروع کر دیں لیکن میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس موقع کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا سے پہلے کچھ ہدایات دوں تا انہیں تبلیغ کرنے میں مدد مل سکے.عام طور پر ہماری جماعت کے مباحثات چونکہ دوسرے مسلمانوں سے ہی ہوتے رہتے ہیں اور زیادہ تر انہی لوگوں سے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے اور چونکہ انسان قدرتی طور پر اپنے سے زیادہ قریب اور زیادہ میل جول رکھنے والے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لئے اس قدرتی میلان کی وجہ سے ہماری جماعت کے احباب کو جس قدر ان مسائل سے واقفیت ہے جن میں ہم میں اور غیر احمدیوں میں اختلاف ہے، اس قدر ان سے نہیں جن میں ہم میں اور غیر مسلموں میں اختلاف ہے.اس کے علاوہ ایک قدرتی بات یہ ہے کہ جب کوئی انسان دورانِ گفتگو میں عاجز آنے لگتا ہے تو وہ مشکل اور پیچیدہ عبارات میں اپنے مدمقابل کو اُلجھانے کی سعی کرتا ہے.انسان نے اپنی ذلت اور شکست کو چھپانے کے جو ذرائع ایجاد کئے ہیں ، ان میں سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ مشکل اصطلاحات اور پیچیدہ عبارات کے چکر میں خود بھی پھنس جائے اور دوسروں کو بھی پھنسا دے اور بدترین طریق گالیاں دینا اور مار پیٹ پر اتر آنا ہے.ایسے لوگ جب دلائل سے عاجز آ جاتے ہیں تو یا تو گالیاں دینے اور مارنے پیٹنے پر اتر آتے ہیں اور یا پھر پیچیدہ اصطلاحات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جن کے معنی وہ نہ خود سمجھتے ہیں اور نہ دوسرے کی سمجھ میں آتے ہیں اور یہ حال ہندو، مسلمان ، سکھ سب کا ہے.جب وہ دیکھتے ہیں کہ دلیل سے
? انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات نہیں چل سکے تو اصطلاحات کے چکر میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں مسلمان کو جب دلیل نہ آئے گی تو جھٹ کہہ دے گا اچھا بتاؤ نماز کے واجبات کتنے ہیں.حالانکہ ہر شخص روز نماز پڑھتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کس طرح پڑھنی چاہئے.اسے اس کی کیا ضرورت ہے کہ واجبات معلوم کرتا پھرے اور اگر وہ بتا بھی دے تو کیا ضروری ہے کہ وہ اسے صحیح بھی مان لیں.انہوں نے تو اپنے ڈھکوسلوں کی ایک فرضی لسٹ بنا رکھی ہوتی ہے مگر دوسرا ان بیہودگیوں میں نہیں پڑتا.اس نے گن کر نہیں رکھے ہوئے یا یاد بھی ہیں مگر بیان کرتے وقت کوئی رہ گیا تو جھٹ کہہ دیں گے کہ دیکھو اسے اتنا بھی معلوم نہیں.یہ تو ظاہری علوم والوں کا حال ہے.جو لوگ علماء کہلاتے ہیں ، وہ زیر ز بر کا جھگڑا چھیڑ دیں گے حالانکہ ہزار ہا لوگ قرآن کریم کو خوب سمجھتے ہیں مگر وہ زیر زبر کے صحیح استعمال کو نہیں جانتے.بس اس پر وہ کہہ دیں گے کہ یہ جاہل ہے.پھر صوفیاء ہیں وہ جب دلیل سے عاجز آ جائیں گے تو کہیں گے بتا ؤ لقاء کیا ہے؟ آپ مذہبی باتیں تو خوب کرتے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ لاہوت اور ناسوت کیا ہیں اور پھر قہقہہ لگائیں گے کہ دیکھو یہ ابتدائی باتوں سے بھی واقف نہیں حالانکہ ان باتوں کا روحانیات سے کوئی تعلق نہیں.یہ خود ساختہ باتیں ہیں.جیسے ایک تماشہ گر ، ٹکٹ نے بعض باتیں یاد رکھی ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ دوسروں سے پیسے وصول کرتا ہے.اس کے ہاتھ میں دیکھنے والے پیسہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ خالی ہوتا ہے.یا لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ خالی ہے، مگر پیسہ موجود ہوتا ہے.حقیقت میں اس کی باتیں اور حرکات ہی پیسہ کو لانے اور لے جانے کا بہانہ ہوتی ہیں اور انہی سے وہ دوسروں کو دھوکا میں ڈال کر اپنا کام کرتا ہے.بعینہ اسی طرح لاہوت ناسوت اور فرائض و واجبات وغیرہ اصطلاحات بھی دوسروں کو دھوکا میں ڈالنے کیلئے وضع کر لی گئی ہیں اور یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کے پاس دین موجود ہے.جن کے پاس حقیقت تھی جب ان کے اندر کچھ بھی آگئی تو اس قسم کی حرکات جب ان سے صادر ہونے لگیں تو جن کے پاس دین ہے ہی نہیں وہ کیا کچھ نہ کرتے ہونگے اسی لئے ایسے مواقع پر ہندو کہہ دیتے ہیں کہ اچھا یہ بتایا جائے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیسے کیا.مسلمان کے پاس چونکہ قرآن پاک موجود ہے اس لئے اسے دور جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی مگر وہاں چونکہ یہ خانہ خالی ہی ہے اس لئے وہ یہیں سے شروع کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیسے کیا کیونکہ جتنی کم صداقت کسی کے پاس ہوگی، وہ اتنا ہی دور سے شروع کرے گا.وید چونکہ بہت پرانے ہیں اور ان میں بہت تغیرات ہو چکے ہیں اس لئے وہ پیدائش سے پہلے شروع کریں گے.عیسائیوں اور یہودیوں
۴۱ انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات کے پاس چونکہ ان کی نسبت زیادہ صداقت ہے، وہ دنیا کی پیدائش سے تو نہیں مگر آدم کے گناہ سے شروع کریں گے.ان لوگوں کی مثال بعینہ اس راجہ کی ہے جو بہت بخیل تھا.اس کے پاس ایک برہمن آیا اور کہا کہ مجھے مدد کی سخت ضرورت ہے.ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ سورگ میں جانے کے خاص ذرائع میں سے ایک یہ ہے کہ برہمن کی بیٹی کی شادی کر دی جائے.برہمن نے راجہ سے کہا میری بیٹی جوان ہے اس کی شادی کیلئے مجھے امداد دو.وہ بخیل ہونیکی وجہ سے کچھ دینا بھی نہ چاہتا تھا اور ساتھ ہی برہمن کو بھی صاف جواب دینا اسے پسند نہ تھا اس لئے کچھ سوچ کر کہا کہ پر ارسال میری جو گائے گم ہو گئی تھی ، وہ لے لو.اس کا بیٹا اس سے بھی زیادہ بخیل تھا اس نے کہا کہ اس سے بھی پہلے سال جو گائے مرگئی تھی ، وہ کیوں نہ اسے دے دی جائے.یہی حال ان مذاہب کا ہے.مسلمان تو زیر زبر کا جھگڑا ہی پیش کرے گا لیکن عیسائی آدم کے گناہ سے ادھر نہیں ٹھہرے گا مگر آر یہ پوچھے گا کہ خدا کو مادہ کہاں سے ملا.غرضیکہ یہ سب پیچد ار گفتگو میں اُلجھتے اور دوسروں کو بھی اُلجھانا چاہتے ہیں اور نادان اس میں پھنس جاتے ہیں.مولوی عمرالدین شملوی جو اب مرتد ہو چکے ہیں ، میں ہمیشہ انہیں کہا کرتا تھا کہ جن بحثوں میں آپ پڑے رہتے ہیں یہ آپ کو انجام کا رگمراہ کر دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات کیسی عمدہ ہے کہ ایک باپ کو اس سے کیا غرض کہ اس کے بیٹے کا جگر کہاں ہے، تلی کیسی ہے ، دل کہاں ہے وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا ہے یا نہیں اور پھر اس سے پیار کرنے لگ جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے ہیں.وبس.اس نے آدمی کو کہاں سے بنایا کیسے بنایا یہ فضول سوالات ہیں.پس غیر مسلموں سے بحث کرتے وقت ان کی طرف سے تمہارے سامنے ضرور ایسے عقدہ ہائے لَا يَنْحَلْ پیش کئے جائیں گے.یہ مت خیال کرو کہ زمیندار ان باتوں سے واقف نہیں ہوتے انہیں بھی مسلمانوں کی طرح چند اصطلاحات یاد ہوتی ہیں.وہ تناسخ کی تفصیل بیان نہیں کر سکتے مگر وہ یہ ضرور کہہ دیں گے کہ اپنے اپنے عمل کا نتیجہ ہے.آخر یہ جو دنیا میں فرق ہے یہ کیا ہے؟ یا وہ کہہ دے گا کہ اسلام جانوروں کو ذبح کر کے کھانے کا حکم دیتا ہے.تو اپنے رنگ میں اور اپنے اصول پر ان کے اعتراضات ضرور ہوتے ہیں.جس طرح کوئی مسلمان خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی طاقتوں سے واقف ہو یا نہ ہو، دورانِ گفتگو میں عادتاً إِنْشَاءَ الله کہہ دے گا.حالانکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اس کے منشاء کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا.سارے سامان اس کے پیدا کردہ
۴۲ انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات ہیں اور اس کے تصرف کے نیچے ہیں میری کوششوں کے باوجود اللہ کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو یہ کام ہوا اور اگر نہ چاہے تو نہ ہو.مگر جاہل مسلمان ان باتوں کو نہیں جانتا لیکن إِنشَاءَ اللَّهُ کہے گا ضرور.تو جس طرح مسلمان کو بعض مذہبی اصطلاحات اور جملے یاد ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں کو بھی یاد ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کے اعتراضات بھی ہوتے ہیں.ایک دفعہ ریل میں میرے ساتھ ایک سکھ آنریری مجسٹریٹ سفر کر رہے تھے وہ مجھے کہنے لگے کہ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو میں ایک مذہبی سوال کرنا چاہتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ مذہبی سوال میں بُرا منانے کی کیا ضرورت ہے.پھر اس نے دو چار منٹ اپنے غیر متعصب ہونے کے متعلق تقریر کی اور کہا میں اسلام کا مطالعہ کرتارہتا ہوں مگر بعض باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں.مثلاً آپ کے ہاں جو ختنہ کا حکم ہے ، مرد تو اس پر عمل کر سکتے ہیں عورت کیا کرے.میں نے کہا یہ کیا مشکل بات ہے آپ کے ہاں داڑھی رکھنے کا حکم ہے جو مرد تو رکھ سکتے ہیں مگر عورت کیا کرے.جو علاج آپ اس کے لئے تجویز کریں گے، وہ ہماری طرف سے سمجھ لیں.کہنے لگے ان کے تو ہوتی ہی نہیں.میں نے کہا اسی طرح ختنہ کا حال ہے.تو ایسے ایسے اعتراض ان لوگوں نے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جن سے اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں.قرآن کریم نے اس بارہ میں بھی راہنمائی کی ہے.اس نے ظاہری الفاظ میں پیچیدہ مسائل کو پیش کیا ہے.اس کا فلسفہ اس کے لفظوں کے نیچے چھپا ہوا ہے جو اسے نکالنا چاہے گرید کر نکال لے گا وگرنہ ایک عامی لے کے لئے اس کے اندر سیدھی سادھی باتیں ہیں.مثلاً آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے، تم کو ذلیل پانی سے پیدا کیا ہے، پھر تمہارے لئے سامان معیشت پیدا کئے ، تم مصیبتوں میں گھبراتے ہو، آفتوں پر روتے ہو، ہم نے زمین و آسمان کو تمہاری خدمت پر لگا دیا ہے.کیا موٹی موٹی باتیں ہیں جنہیں ایک زمیندار بھی سمجھ سکتا ہے.پھر ان کے اور ورشنز (VERSIONS) ہوتے ہیں اور اُن کے اور لیکن ایک عامی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ قرآن کریم میں فلسفہ کی باتیں ہیں ہاں ایک فلسفی اس کے اندر فلسفہ کا بحر بیکراں دیکھتا ہے.تو چونکہ آپ کو ہندوؤں اور سکھوں سے گفتگو کی زیادہ عادت نہیں ، اس لئے ان سے گفتگو کرتے وقت ضروری ہے کہ قرآن کریم کے طرز کی اتباع کریں اس کے الفاظ سہل اور دلائل میں سادگی ہے.قرآن کریم کے پیش کردہ دلائل پر غور کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ سب کے سب دو چیزوں پر مرکوز ہیں.ایک تو یہ کہ تمام عالم میں ایک طاقتور ہستی ہے.سورج ، چاند، خشکی ، تری ، نور، ظلمت کو دیکھو تمہیں
۴۳ انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات معلوم ہوگا کہ ایک طاقتور ہستی ہے جو ان کے پیچھے کام کر رہی ہے اور دوسرے یہ کہ تم اسے نظر سے اٹھا دو تو ہر چیز میں فنا نظر آئے گی.ایک طرف کائنات کا ایک ایک ذرہ بتا رہا ہے کہ کوئی طاقت موجود ہے جو اس پر حکومت کر رہی ہے اور جو کبھی ملتی نہیں ، جس کی قوتوں کی کوئی حد بندی نہیں اور دوسری طرف ہر ذرہ یہ بتا رہا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے.یہ دونوں متوازی سلسلے ہر جگہ دنیا میں نظر آتے ہیں.ایک طرف ہم آنکھ کو دیکھتے ہیں کہ اس کی حفاظت کیلئے قدرت نے کیا کیا سامان رکھے ہیں.ابروہی جو چوٹ وغیرہ سے حفاظت کرتے ہیں پلکیں ہیں تا بار یک گردوغبار کو اندر جانے سے روک دیں.پھر اسے گیلا رکھنے کے لئے قدرت نے ایسی غدود میں رکھی ہیں تا آنکھ خشک نہ ہو.ایک زمینداران تفاصیل کو نہیں جانتا لیکن جب آنکھ خشک ہوتی ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس میں خرابی پیدا ہوگئی ہے.یہ تو عام باتیں ہیں لیکن ڈاکٹروں سے پوچھو تو وہ کیا کیا پر دے اور بار یک باتیں آنکھ کے متعلق بتائیں گے گویا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوت ہی قوت ہے.دوسری طرف یہ حال ہے کہ ایک شخص جنگل میں جا رہا ہے کوئی سرکنڈ لگا اور آنکھ نکل گئی.پاکھیل میں چوٹ لگی تو آنکھ بیٹھ گئی ، کوئی چیز پڑگئی تو روشنی جاتی رہی، پھولا بن گیا.اب غور کرو کہ ایک طرف تو سینکڑوں فلسفی لگے ہیں مگر آنکھ کے معارف ختم نہیں ہوتے.دوسری طرف انگوٹھا لگا اور آنکھ باہر.گویا کمزوری اتنی کہ کوئی طاقت اس میں ہے ہی نہیں اور یہی حال ہر ذرہ کا ہے.ایک طرف طاقت ہی طاقت اور دوسری طرف کمزوری ہی کمزوری.اور یہ سب باتیں کیا ظاہر کرتی ہیں یہی کہ تم کچھ نہیں خدا سب کچھ ہے.پس جن کے پاس تبلیغ کے لئے جاؤ ، انہیں یہ آسان باتیں بتا کر ان کے دل میں خشیت پیدا کر و اور بتاؤ کہ انسان خدا کی مدد کے بغیر کچھ نہیں اور پھر انہیں بتاؤ کہ اسلام کے ذریعہ ہی تم خدا کو پاسکتے ہو.اگر کوئی کہے کہ ہمارے مذہب میں سچائی ہے تو اسے بتاؤ کہ بے شک ہے مگر اسلام میں زیادہ ہے.بجائے اس کے کہ اسے کہو تیرا مذ ہب جھوٹا ہے، اس کی تائید کر کے اسلام کی فضیلت اس کے ذہن نشین کر و.اگر جھوٹا کہو گے تو وہ کہہ دے گا کہ سارے ہی ڈھکوسلے ہیں اور اگر کہو کہ سچائی ضرور ہے تو رستہ آسان ہو جائے گا.قرآن کریم نے یہی طریق اختیار کیا ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ سب نبی چور اور بٹما ر ہیں.لیکن قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں نبی بھیجے ہیں جو سب خدا کے پیارے ہیں.پس چاہئے کہ اس طرح ان کے دل میں خشیت پیدا کرو اور انہیں یہ بھی بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء مبعوث کرتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ ہی دنیا کو ترقی دیتا رہا ہے اور دنیا کی ترقی ایک ہی دین پر قائم ہونے سے ہوسکتی
۴۴ انوار العلوم جلد ۱۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات ہے.لڑائیاں جھگڑے سب لوگوں نے خود پیدا کئے اور یہ اپنی وجہ سے ہیں ، خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہی باتیں ہیں جو قرآن شریف پیش کرتا ہے اور جو مفید ہوسکتی ہیں.باقی رہا یہ کہ دنیا کو خدا نے کس طرح پیدا کیا اور کس چیز سے پیدا کیا.یہ فضول باتیں ہیں.بیٹے سے محبت کرنے کے لئے کوئی شخص اس کا جگر تلی نہیں دیکھا کرتا.جو چیز دیکھنی چاہیئے وہ یہی ہے کہ خدا کا ہاتھ نظر آتا ہے، اسے پکڑ لو.دلیل کے وقت ان کے سامنے تازہ نشانات اور سادہ عام فہم باتیں پیش کرو.اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی عقل کے مطابق اس کے لئے نشان رکھے ہیں ایک فلسفی نے کسی بزرگ سے دریافت کیا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا فلسفہ اتنا باریک ہے کہ فلسفی بھی اسے نہیں سمجھ سکتے ، پھر زمیندارلوگ اسے کس طرح مان لیتے ہیں.بزرگ نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہر شخص کو اپنے فہم کے مطابق مل جاتے ہیں.کوئی بدوی پاس سے گزر رہا تھا اس سے اس نے دریافت کیا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو.اس نے کہا کہ جنگل میں اگر کوئی لیڈ نا پڑا ہو تو اسے دیکھ کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی اونٹ اِدھر سے گزرا ہے تو اس قدر عظیم الشان کا رخا نہ بغیر کسی خالق کے کیونکر ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سادہ دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے.پس تم بھی تفصیلات اور فلسفیانہ باتوں کے بیچ میں نہ پڑو کیونکہ ان سے نکلنے کا نہ تمہیں رستہ ملے گا اور نہ انہیں.اصل چیز یہ ہے کہ ہمارے پاس زندہ خدا ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ، زندہ رکھنے والا ، خالق مالک ہے اس کے تازہ نشانات ہم روز دیکھ رہے ہیں اور ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہمیں اس بیچ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ خدا کس طرح ہے.اس کی کیا صورت ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمیندار لوگ چیچک کا ٹیکا کراتے ہیں، حالانکہ وہ اس بات کو قطعا نہیں سمجھ سکتے کہ نشتر مارنے سے کس طرح رُک جاتی ہے.وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ ٹیکا کرایا وہ اس سے رہے اور ان کے لئے اس کے مفید ہونے کی یہ کافی دلیل ہے.اب تک بعض ڈاکٹر اس کے مخالف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سب کمزوریاں اور بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں مگر یہ جو تذبذب کی حالت ہے یہ ایک زمیندار میں نہیں ہوتی.مضرت اس کی آنکھوں سے مخفی ہے وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ کرانے والوں کو فائدہ ہوا ہے یا لوگ کو نین کھاتے ہیں مگر ہر ایک یہ کہاں جانتا ہے کہ یہ بخار کو کس طرح جا کر روکتی ہے.عام آدمیوں کو ان باتوں سے تعلق نہیں ہوتا وہ اتنا جانتے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے اور اصل دلیل یہی ہے اس لئے اسے پیش کرو اور بتاؤ کہ اسلام زندہ مذہب ہے.تمہارے ہی علاقہ میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتا ہے محفوظ ر
۴۵ 3 انوار العلوم جلد ۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات لوگوں نے مل کر اس کی مخالفتیں کیں.وہ سمجھتے تھے کہ اسے تباہ کر دیں گے مگر آخر وہ خود هَبَاءً 1 ہو گئے لیکن اسے اللہ تعالیٰ نے ترقی دی.وہ بڑھا ، پھولا اور پھلا دنیا کے کناروں سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس کے پاس لایا، بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی ، عالموں کو بھی اور جاہلوں کو منثورا بھی غور کرو یہ کیا چیز ہے.تمہارے بھی آخر بزرگ ہوئے ہیں.پنڈت دیا نند صاحب کو ہی لے لو اور دیکھو کہ مذہبی لحاظ سے ان کے ماننے والے کم ہورہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں، حالانکہ شروع میں ہی راجے اور مہاراجے ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کی تعداد کئی سال تک چند سو سے نہ بڑھ سکی مگر پھر بھی دیکھو، اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح ترقی دے رہا ہے.پھر انہیں یہ بتاؤ کہ یہ مت خیال کرو ہم پڑھے لکھے نہیں ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا رستہ کھلا ہے.غرضیکہ ایک طرف انہیں امید کا پیغام د واور دوسری طرف خوف کا.انہیں سمجھاؤ کہ جب تک کوئی نبی مبعوث نہ ہو، اُس وقت تک اور بات ہوتی ہے لیکن جب نقارہ بج جائے تو گھر میں بیٹھنے والا مستوجب سزا ہوتا ہے.باقی تناسخ وغیرہ مسائل پر بخشیں کرنا یہ سب ڈھکوسلے ہیں.خواہ ہمارا مولوی کرے یا ان کا.ہم بھی بے شک ایسا کرتے ہیں مگر اسی طرح جس طرح پتھر مارنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے.پتھر مارنا شرفاء کا شیوہ نہیں مگر جوابی رنگ میں بعض اوقات مارنا بھی ضروری ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے شریف سے شریف انسان کو بھی مجبوراً دس پندرہ منٹ پاخانہ میں بیٹھنا پڑتا ہے لیکن کون ایسا احمق ہے جو شوقیہ طور پر وہاں جا کر بیٹھے.پس ان باتوں میں نہ پڑو ہاں اگر دشمن ایسے رنگ میں اعتراض کرے اور کسی طرح پیچھا نہ چھوڑے تو اور بات ہے.وگرنہ سادہ باتیں اور عام فہم دلائل پیش کرو.یہی گر ہے جس سے نبی کامیاب ہوئے.فلسفہ نے دنیا میں کوئی جماعت پیدا نہیں کی.ارسطو کی دنیا میں کوئی جماعت نہیں مگر موسیٰ و ابراہیم کی ہیں جماعت ہمیشہ وہی بنا سکتے ہیں جو خدا کی قدرت پر بنیادیں رکھتے ہیں.اردگرد کے دیہات میں عام طور پر یہ بھی احساس ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں.ان کی اس غلط نہی کو دور کرو اور بتاؤ کہ ہمارے دل میں تو ماں باپ سے بھی زیادہ محبت ہے.یہ ذریعہ ہے جس سے تم کامیاب ہو سکتے ہو.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں.سب اس میں شریک ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے
۴۶ انوار العلوم جلد ۳ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات ہے.فرائض ادا کرنے کی توفیق دے اور تبلیغ کے نیک نتائج پیدا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کرشن بھی ہے اور آپ کا ایک الہام ہے کہ ہے کرشن رو در گو پال تیری مہما گیتا میں لکھی.سے حضرت کرشن نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئی کی ہے، باوا نانک علیہ الرحمہ نے بھی کی ہے.آپ کو گئو پال کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی جماعت گائے کی طرح ہوگی جس طرح گائے اپنے مالک کے تھان پر کھڑی رہتی ہے، تھوڑے چارہ پر قناعت کرتی اور دودھ دیتی ہے، عمدہ نسل کے بچے پیدا کرتی ہے، ایسے ہی آپ کی جماعت بھی ہوگی.پس ممکن ہے بعض لوگ مذبح کا ذکر کریں لیکن انہیں بتاؤ کہ ہم تو گو پال ہیں اور ان تمام انسانوں کو جو گوؤں کی طرح کے ہوں اپنے اندر لیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی ہمارا سلوک گئوؤں کی طرح کا ہی ہے.ہاں اگر کوئی شیر کی طرح حملہ کرے تو اس کا جواب تو دینا ہی پڑتا ہے.پس جاؤ اور اس الہام کو پورا کرنے کے لئے ہندوؤں اور عیسائیوں کو تبلیغ اسلام کرو.عامی : ادنی.جاہل الفرقان: ۲۴ تذکرہ صفحہ ۳۸۰.ایڈیشن چہارم الفضل ۱۲.مارچ ۱۹۳۳ء )
انوار العلوم جلد ۱۳ ۴۷ है صداقت معلوم کرنے کا طریق از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی صداقت معلوم کرنے کا طریق
۴۸ انوار العلوم جلد ۱۳ صداقت معلوم کرنے کا طریق بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ صداقت معلوم کرنے کا طریق باوجود اس کے کہ اس وقت قادیان کے بہت سے غیر مسلم اصحاب یہاں تشریف رکھتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایک حصہ ایسے اصحاب کا ہے جو یہاں تشریف نہیں رکھتے لیکن چونکہ یہاں سب غیر مسلم اصحاب سے ہمارے خاندان کے تعلقات کئی پشتوں اور نسلوں سے چلے آ رہے ہیں اور کبھی ایسے خوشگوار تعلقات تھے جو نہ صرف ایک جگہ کے رہنے والوں میں ہو سکتے ہیں بلکہ جو عزیزوں کے آپس میں ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے گزشتہ چند سالوں سے میں چونکہ دیکھتا ہوں کہ بعض ایسے امور پیدا ہو گئے جن کی تفصیل میں اس وقت میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس کے لئے یہ موقع نہیں ان امور کی وجہ سے تعلقات نے ایسی صورت اختیار کر لی ہے کہ پہلے کی طرح آپس میں میل جول نہیں رہا اس لئے میں اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے تعلقات جو خدا کے بندوں کے آپس میں ہونے چاہئیں، ان کو مذہبی اختلاف مٹا نہیں سکتا.جس طرح خدا تعالیٰ کا طریق ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگوں حتی کہ ان سے بھی جو خدا کے منکر ہوتے اور اسے گالیاں دیتے ہیں ، وہ اپنے فیوض پیچھے نہیں رکھتا.قطع نظر اس سے کہ کونسا مذ ہب سچا ہے، سب مذاہب والوں کے لئے خدا تعالیٰ کی نعمتیں موجود ہیں اور سب کے سب ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.اس کی زمین اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں کیلئے کشادہ ہے جس طرح مسلمانوں کیلئے ، اس کا سورج چاند اور ستارے اسی طرح ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں جس طرح مسلمانوں کو ، اسی طرح بندوں کو آپس میں تعلقات رکھنے چاہئیں.در اصل خدا تعالیٰ کے دو طرح کے تعلقات ہوتے ہیں.ایک خاص لوگوں سے اور ایک بندہ ہونے کے لحاظ سے ہر بندہ سے.بندہ خواہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار نہ کرے اور اس سے ہنسی کرے، پھر بھی خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ میرا بندہ ہی ہے اور اس سے بندہ ہونے کے حصہ کی محبت کا
انوار العلوم جلد ۱۳ ۴۹ صداقت معلوم کرنے کا طریق سلوک جاری رکھتا ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم خدا کے بندے ہوتے ہوئے آپس میں محبت اور دوستی اور نفع رسانی کے تعلقات نہ رکھیں.اس میں شک نہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ مرنے کے بعد کے متعلق مختلف خیالات رکھتے ہیں.مثلاً مسلمان یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان اپنے اعمال کی وجہ سے بہشت یا دوزخ میں جائے گا.ہندو کہتے ہیں کہ اعمال کے بدلے انسان کو مختلف جونوں کے چکر میں ڈالا جاتا ہے.اسی طرح بیسیوں قسم کے خیالات ہیں مگر باوجود اس کے ایک بات میں سب کا اتحاد ہے اور وہ بات یہ ہے کہ انسان کی مرنے کے بعد خواہ کوئی حالت ہو اس کے جسم کو آگ میں ڈالا جائے یا اس کی روح کو، اسے آواگون کے چکر میں ڈالا جائے یا کوئی اور سزا دی جائے اس قسم کی ہر حالت میں خدا اپنے بندے کی پرورش کرتا رہے گا کیونکہ اگر سزا کی حالت میں پرورش نہ کرے تو پھر سزا پانے والے کا چھٹکا را ہو جائے گا اور اس پر سزا کا کوئی اثر نہ ہوگا.آواگون کے قائل خواہ یہ کہیں کہ انسان کو مرنے کے بعد اس کے اعمال کی سزا میں گتا بنادیا جائے گا تو بھی اسے کھانے کو خدا تعالیٰ دیتا ہے اور اگر سور بنا دے تو بھی اسے خوراک مہیا کرتا ہے.جولوگ دوزخ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں ، اس میں خدا تعالیٰ انسان کو علاج کے طور پر رکھے گا اور جب دیکھے گا کہ علاج ہو گیا تو پھر اس میں سے نکال دے گا.غرض کسی مذہب کا کوئی پیرو یہ نہیں کہتا کہ خدا کا رحم کسی وقت اور کسی حالت میں بھی بندہ سے منقطع ہو جائے گا.جب خدا تعالیٰ کا بندوں سے یہ سلوک ہے تو ہمارا آپس کا سلوک بھی اس کے ماتحت ہونا چاہئے.جس طرح خدا تعالیٰ اپنے منکر دہر یہ سے بلکہ گالیاں دینے والے سے بھی اپنی رحمت ہٹا نہیں لیتا اسی طرح ہمیں بھی آپس میں سلوک کرنا چاہئے.اس کے متعلق افسوس کے اظہار کے طور پر اور ایسی خواہش کے پورا کرنے کیلئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اتحاد اور آپس کے بہترین تعلقات کی کوئی صورت نکل سکے اور آپ میں سے کوئی صاحب یا اور جو اس وقت یہاں موجود نہ ہوں کوئی بات پیش کرنا چاہیں تو میں بڑی خوشی سے اس کے متعلق غور کروں گا.تا کہ ہمارے تعلقات دوسروں کے لئے نمونہ کے طور پر ہوں.گو جس غرض کے لئے اس وقت آپ صاحبان کو یہاں تشریف لانے کی تکلیف دی گئی ہے اس سے یہ امر تعلق نہیں رکھتا مگر چونکہ مجھے آپ صاحبان سے ملنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے میں نے اس وقت یہ امر بیان کر دیا ہے.اس کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کو شروع ہوئے پچاس سال کے قریب : ہو
انوار العلوم جلد ۱۳ صداقت معلوم کرنے کا طریق ہیں اور باقاعدہ جماعت بھی ۴۴ سال سے قائم ہے اس عرصہ میں ہماری طرف سے مختلف کتا ہیں، ٹریکٹ ، اشتہار اور تقریریں شائع ہوتی رہی ہیں.آپ لوگ چونکہ ہمارے ہمسائے اور پڑوسی ہیں اس لئے آپ لوگوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ ہمارے حالات واضح ہیں.اگر ہم میں کوئی کوتاہیاں ہیں تو وہ بھی آپ لوگوں پر ظاہر ہیں اور اگر نیکیاں ہیں تو وہ بھی ظاہر ہیں.ہمارے اعتقادات بھی آپ کو معلوم ہیں اور ہمارے دلائل بھی آپ کے سامنے ہیں میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میں نے تمام مذاہب کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے.نہ صرف ہندوستان کے مذاہب کی کتابوں کا بلکہ ہندوستان سے باہر کے مذاہب کی کتب کا بھی اور میں نے کبھی کسی مذہب کی کتاب کو اس لئے نہیں پڑھا کہ اس کی غلطیاں نکالوں کیونکہ جو اس نیت سے پڑھتا ہے وہ گویا پہلے ہی اس کو غلطیوں کا مجموعہ قرار دے لیتا ہے اور اس طرح وہ کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.میں سنسکرت نہیں جانتا میں نے ویدوں کے انگریزی تراجم پڑھے ہیں اور نہ صرف ایک بار پڑھے ہیں بلکہ بعض منتروں کو مزے لے لے کر تکرار سے پڑھا ہے.اسی طرح توریت اور انجیل کو پڑھا ہے، بابا نانک کے اقوال بھی پڑھے ہیں اس لئے میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ دوسرے مذاہب کی کتب کے مطالعہ سے انسان کو فائدہ ہی پہنچتا ہے اور اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں میں بھی خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں کی بھی قدر کرنی چاہئے.لیکن جو لوگ کسی مذہب کی کتاب کا اس نیت سے مطالعہ کرتے ہیں کہ اس مذہب کے نقائص اور برائیاں معلوم کریں ، وہ ان بُرائیوں کا صفایا کرتے کرتے اصل چیز کا بھی صفایا کر دیتے ہیں.ایک نقص کو محبت سے بھی مٹایا جا سکتا ہے، جیسے ماں بچہ کی کسی غلطی اور کو تا ہی کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے.مگر جن کی نظر صرف نقائص پر ہوتی ہے وہ اصل چیز کو بھی مٹا دیتے ہیں.میں نے کبھی کسی مذہب کا تعصب کی نظر سے مطالعہ نہیں کیا.آج میں آپ صاحبان کو یہی بتانا چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس طریق سے ہمارے سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی پر ۴۴ سال گزرچکے ہیں.اس دعویٰ کو ہم نے دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچایا ہے.اس صورت میں ہمارا حق ہے کہ آپ صاحبان سے بھی درخواست کریں کہ ٹھنڈے دل سے آپ اس پر غور کریں، اس میں کسی کی سبکی نہیں.اگر حق معلوم ہو تو قبول کریں اور نہ معلوم ہو تو نہ قبول کریں.مجھے اس وقت دلائل میں جانے کی ضرورت نہیں.میں سکھ اور ہند واصحاب سے ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جو ہندو اور سکھ مجھ سے بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ سلسلہ احمدیہ کے بانی کا دعویٰ ہے.وہ
۵۱ انوار العلوم جلد ۱۳ صداقت معلوم کرنے کا طریق دعوی یہ نہ تھا کہ آپ نے سوچ سوچ کر کوئی نیا قانون نیا فلسفہ یا کوئی نئی چیز نکالی ہے.اگر یہ دعویٰ ہوتا تو آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آؤ ہم بھی سوچ کر کوئی نئی بات نکالیں بلکہ ان کا دعوی یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنے اور راستی پر قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ راستی اسلام ہے.اب یہ موٹی بات ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں نے مجھ سے یہ بات کہی ہے تو اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے اسی سے پوچھتے ہیں کہ اس نے یہ بات کہی ہے یا نہیں.اگر وہ کہدے کہ میں نے کہی ہے تو اسے درست مان لیا جاتا ہے.جب حضرت مرزا صاحب کا یہ دعوی ہے کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ جا اور جا کر دنیا کو ایک مرکز پر جمع کر اور وہ مرکز اسلام ہے تو یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ بہت بڑا دعوئی ہے.ایک ایسے گاؤں میں جہاں اس وقت نہ ڈاک خانہ تھا نہ تار گھر، نہ پریس تھا اور نہ کوئی اور چیز ، آپ نے اتنا بڑا دعویٰ کیا جو بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی نہیں کر سکتے بلکہ بڑی بڑی حکومتوں والے بھی نہیں کر سکتے.انگلستان کی حکومت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا مگر اس کے بادشاہ کی بھی مجال نہیں کہ ایسا دعوی کر سکے.یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کو اپنی شان و شوکت اور طاقت و عظمت کا بڑا دعوئی ہے.حتی کہ ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ انگریز بھی اس سے دبتے نظر آتے ہیں.مگر ان کا پریذیڈنٹ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا جو حضرت مرزا صاحب نے کیا ہے.تو یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ اتنا بڑا دعوئی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی حکومت ہی نہیں بلکہ دنیا کی ساری حکومتیں مل کر بھی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتیں کیونکہ دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا کوئی معمولی بات نہیں.ہندوستان میں ہی دیکھ لو، سیاسی لحاظ سے کتنے مختلف خیالات کے لوگ ہیں.انگریز ان کو ایک سیاسی مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں مگر باوجود طاقت اور ساز وسامان کے کچھ نہیں کر سکتے.اب غور کرو، حضرت مرزا صاحب کا اتنا بڑا جو دعویٰ ہے اور ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ جب ان کی زندگی یہاں ہی گزری ہے.آپ باہر مجلس میں بیٹھتے اور لوگوں سے ملتے تھے.اب تو دفتری کاموں کی ایسی نوعیت ہو گئی ہے کہ مجھے اپنا بہت سا وقت ان میں صرف کرنا پڑتا ہے.ابھی ایک دوست نے کہا کہ آپ تو ملتے ہی نہیں مگر حضرت مرزا صاحب بکثرت لوگوں سے ملتے تھے.یہ اور بات ہے کہ کوئی آپ کے دعوی کو سچا نہ سمجھے مگر آپ میں سے جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کو دیکھا ہے کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی زندگی ایسی تھی کہ آپ نے یونہی بڑ مار دی.یہاں کے جو ہندو سکھ اور مسلمان آپ کی زندگی سے واقف
۵۲ انوار العلوم جلد ۱۳ صداقت معلوم کرنے کا طریق ہیں، ان میں سے کوئی یہ نہ کہے گا، خواہ وہ یہ کہے کہ آپ کو غلطی لگی.اس لحاظ سے آپ کے دعوی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.جب ان کی بات بڑ نہ تھی تو سوال یہ ہے کہ جب انہوں نے کہا ، مجھے خدا نے یہ بات کہی ہے تو کیوں نہ خدا سے اس کے متعلق پوچھنے کی کوشش کی جائے اس کے لئے خود حضرت مرزا صاحب نے بار بار کہا ہے اور اس کا جو طریق آپ نے پیش فرمایا ہے وہ اس وقت میں آپ صاحبان کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خواہ کوئی آریہ ہو یا سنا تنی ، سکھ ہو یا عیسائی ، خدا کو تو سب مانتے ہیں.خدا سے دعا کرے کہ میں تجھے جس رنگ میں سمجھتا ہوں، تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ مرز اصاحب جو یہ کہتے ہیں کہ خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں لوگوں کوحق وصداقت کے مرکز پر جمع کر دوں اور وہ مرکز اسلام ہے تو مجھ پر کھول دے کہ یہ صیح کہتے ہیں یا غلط.اگر صحیح کہتے ہیں تو مجھے اس سے محروم نہ رکھ اور اگر غلط کہتے ہیں تو مجھے اس سے بچا.یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی دھوکا نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی بات ہے جس کے اختیار کرنے میں کسی کو کوئی اعتراض ہونا چاہئے.حضرت مرزا صاحب نے خود اسے پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں خدا سے دعا کرو اور میں اپنے لئے بھی کرتا ہوں.چنانچہ خدا تعالیٰ سے عرض کیا:.اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مہربان و راہنما اے کہ میداری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزے منتر ے بینی بینی مرا پیر فق تو دید استی که هستم بد کن و گر تو پاره پاره من بدکار را شاد کن ایں زمرہ اغیار را تش فشاں پر درو دیوار من دشنم باش تباہ کن کار من و یہ اپنے لئے اپنی اولاد کیلئے اور سلسلہ کے لئے کہا ہے، ایک بار نہیں کئی بار.مگر دوسروں سے کہا ہے میں یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے بددعا کرو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ دعائیں کرو کہ الہی ! ہم اس
انوار العلوم جلد ۱۳ ۵۳ صداقت معلوم کرنے کا طریق بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے تو ہماری التجا سن اور ہمیں بتا کہ حق کیا ہے.اس زمانہ میں اکثر لوگ الہام ، وحی اور کشف کے قائل نہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تمام باتیں دماغی عارضہ کا نتیجہ ہوتی ہیں.مگر دوسرے کے متعلق تو یہ کہنا آسان ہے اپنے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا جب خدا اسے دکھا دے گا تو اسے پتہ لگ جائے گا کہ جو کچھ اسے بتایا گیا ہے، وہ خدا ہی کی طرف سے ہے.میں اس وقت اتنی بات ہی کہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ساری باتیں اس میں آ جاتی ہیں.سال بھر کوئی شخص مباحثات کرتا رہے پھر بھی ممکن ہے کہ غلطی لگ جائے لیکن اگر کوئی سچی خواہش اور صاف دل کے ساتھ دس دن بھی خدا تعالیٰ سے پڑ اڑ تھنا کرے کہ میں بھی تیرا بندہ ہوں تو مجھ پر حق کھول دے تو اسے حق مل جائے گا.میں گیارہ سال کا تھا جب میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی کیا میں اس لئے احمدی ہوں کہ میرے باپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اگر مجھ پر تیری طرف سے یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ سلسلہ سچا نہیں تو (اس وقت میں صحن میں کھڑا تھا ) میں اندر نہیں جاؤں گا بلکہ اس گھر سے باہر نکل جاؤں گا.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلہ میں ماں باپ کا تعلق کیا حقیقت رکھتا ہے.پھر اس سے بڑھ کر خدا کی بے قدری اور کیا ہوسکتی ہے کہ کسی بات کو اس لئے مانیں کہ ہمارے ماں باپ اسے مانتے ہیں اور ماں باپ کے مقابلہ میں خدا کو چھوڑ دیں.انسان کا اصلی تعلق خدا سے ہی ہونا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے ہی کہنا چاہئے کہ جو تیرے نزدیک حق ہے اسے ہم اختیار کریں گے اور جو تیرے نزدیک باطل ہے اسے ہم چھوڑ دیں گے.جب بندہ اس نیت اور ارادہ سے خدا تعالیٰ کے آگے گرتا ہے تو اس پر ضرور حق کھولا جاتا ہے.ایک دہریہ کی بات مجھے بہت پسند آئی.وہ لکھتا ہے ہم لوگ خدا کے منکر نہیں مگر ہمارے سامنے خدا کو ماننے کے لئے کوئی دلیل نہیں.پھر لکھتا ہے.میں زیادہ نہیں صرف ایک دلیل مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ میں کنوئیں میں گرنے لگوں تو میرے ماں باپ دیکھ کر مجھے بچانے کی کوشش کریں گے، میں بیمار ہو جاؤں تو ماں باپ میرا علاج کریں گے اور جبراً بھی مجھے دوائی پلائیں گے مگر یہ عجیب خدا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سب کچھ اس نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز پر اس کا قبضہ ہے مگر میں بچے مذہب کی شناخت سے محروم ہو کر گمراہی کے گڑھے میں پڑا ہوں اور وہ میرے بچانے کیلئے کچھ نہیں کرتا.اگر کوئی خدا ہے تو اسے اپنے بندوں سے ماں باپ سے زیادہ محبت ہونی چاہئے تو پھر وہ کیوں اپنی محبت ظاہر نہیں کرتا.پھر کہتا ہے مجھے پادری یہ جواب دیں گے کہ تو گندہ اور نا پاک ہے، اس وجہ سے خدا تیری طرف توجہ نہیں کرتا.بے شک میں ایسا ہی ہوں اور اسی وجہ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۵۴ صداقت معلوم کرنے کا طریق سے میں خدا کی توجہ سے محروم سہی.مگر کوئی پادری ہی کہہ دے کہ خدا نے مجھے یہ حق بتایا ہے اگر کسی پادری سے بھی خدا یہ نہیں کہتا تو میں کس طرح مان لوں کہ خدا کے ہونے کی کوئی دلیل ہے.غرض خدا جو ماں باپ سے بڑھ کر اپنے بندوں پر مہربان ہے، کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس کی طرف جھکے اور وہ اس کی ہدایت کا سامان نہ کرے اسی لئے میں کہتا ہوں یہ ناممکن ہے کہ کوئی سچے دل سے خدا سے التجا کرے اور اس کی سنی نہ جائے.خدا ضرور سنے گا.اس طریق پر ہر مذہب کا انسان عمل کر سکتا ہے.میں خود اس کیلئے تیار ہوں.باوجود اس کے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا کلام سنا، رؤیا دیکھے اور سورج سے بڑھ کر اسلام کی صداقت پر یقین ہے.پھر بھی میں اس کیلئے تیار ہوں.کوئی یہ دعوی پیش کرے کہ جس مذہب کو وہ سچا سمجھتا ہے، اس کے متعلق خدا نے اسے بتایا ہے کہ وہ سچا ہے اور اس پر ساری دنیا کو جمع ہونا چاہئے.کوئی ہندو، کوئی سکھ ، کوئی عیسائی اس دعوی کے ساتھ کھڑا ہوا اور مجھے دعا کرنے کیلئے کہے تو میں تیار ہوں.بندہ کا کام تو بندگی کرنا ہے.پس میں آپ صاحبان سے یہ عرض کرتا ہوں کہ جن کو خدا توفیق دے، وہ بچے دل سے.کریں اور سارے خیالات دل سے نکال کر خدا کے آگے جھکیں اور کہیں ہم ہر طرف سے منقطع ہو کر تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت عطا کر.اگر اب بھی ہماری دعا نہ سنی گئی تو ذمہ داری ہم پر نہ ہوگی.اس کے بعد اس طرح دعا کرنے والا کہہ سکتا ہے میں نے دس ہیں دن دعائیں کیں اور سچے دل سے کیں مگر خدا نے میری کوئی راہ نمائی نہ کی ، اس لئے میں معذور ہوں اور جب تک اس کی ہدایت کے کوئی نئے سامان نہ پیدا ہو جائیں ، وہ معذور ہوگا اور اس وجہ سے سزا کا مستحق نہ ہوگا.یہ ایسی چیز ہے کہ اسے پیش کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں ساری باتیں اس میں آ جاتی ہیں اور مجھے یقین کامل ہے کہ اگر کوئی اس طریق پر عمل کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے ضرور ہدایت دے گا.ایک دفعہ میں پھر آپ صاحبان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہاں آنے کی تکلیف اُٹھائی اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان کر دے گا کہ ہمارے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ خوشگوار ہو جائیں گے.(الفصل ۱۴.مارچ ۱۹۳۳ء ) ا در نمین فارسی صفحه ۸ ۷ شائع کردہ نظارت اشاعت و تصنیف ربوه ے پرارتھنا : عرض، درخواست
انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالی کے تو کل پر ہونی چاہئے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
۵۶ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے فرمودہ یکم مئی ۱۹۳۴ء بر موقع دعوت چائے مولوی فرزند علی خاں صاحب مبلغ انگلستان ) میں قریباً دس دن کی بیماری کے بعد چونکہ آج گھر سے نکلا ہوں اس لئے کرسی پر بیٹھنا بھی میرے لئے ایک حد تک تکلیف کا موجب ہوا ہے لیکن جس تقریب کیلئے آج ہم بلائے گئے ہیں وہ اس قسم کی ہے کہ اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں خاموش بھی نہیں رہ سکتا.سب سے پہلے تو میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کن وجوہ سے بہر حال واقعات یہ ہیں کہ خان صاحب کے آنے پر جیسا کہ عام دستور چلا آتا ہے، ٹی پارٹیاں ہونی چاہئے تھیں مگر نہیں ہوئیں.اس وجہ سے میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ شاید درد صاحب کے جانے پر جو خطبات میں نے پڑھئے ان کی وجہ سے بعض لوگوں میں ایک قسم کا خوف پیدا ہو گیا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم اس میں حصہ لیں تو شاید پرانے سلسلہ میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جائے جو ان کیلئے مضر ہو.گو میں سمجھتا ہوں، میرا یہ خیال درست نہیں تھا کیونکہ آج ہی مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ بعض اور دوست بھی خاں صاحب کو دعوت دینا چاہتے ہیں مگر چونکہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو چکا تھا، اس لئے جب مجھے اس ٹی پارٹی کی خبر پہنچی تو خاص طور پر خوشی ہوئی لیکن ساتھ ہی ایک چیز تھی جس نے میرے دل پر بُرا اثر پیدا کیا اور وہ یہ کہ یہ دعوت جن لوگوں کی طرف سے تھی کیوں انہوں نے اس کا حلقہ اس حد تک محدود رکھا جس حد تک یہ محدود رکھا گیا ہے.میں اس بات کے سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں نہ صرف عقلاً بلکہ فطرتا بھی کہ اسلام کی موجودگی
انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے میں اور اسلامی طریق عمل کے ہوتے ہوئے ہمارے سوشل اور تمدنی تعلقات میں افسر اور ماتحت کا کوئی امتیاز ہے.میری طبیعت نظام کے بارے میں جتنی سخت ہے اسے سب لوگ جانتے ہیں.اطاعت ایک امیر کی یا اطاعت ایسے مامور کی جس کے لئے اطاعت کا مقام مقرر کیا گیا ہؤا یسی چیز ہے جسے میں اسلام کی ترقی اور سلسلہ کی بہبودی کیلئے نہایت ضروری خیال کرتا ہوں مگر با وجود اس کے کہ اطاعت کے معاملہ میں میں ایسا شدید ہوں کہ بعض لوگوں کو مجھ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہوگی اور ہونی چاہئے اور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ اس معاملہ میں میں نہایت ہی سخت گیر واقع ہوا ہوں اب تک بھی میں اس امر پر قائم ہوں کہ اگر پھر کبھی مجھے نظام سلسلہ کے متعلق کسی امر کا فیصلہ کرنا پڑے تو میں اپنے پچھلے طریق عمل کو بدلنے کے لئے تیار نہیں.میں اسلام کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے آج بھی نظام سلسلہ کی پابندی اسی طرح ضروری سمجھتا ہوں جس طرح آج سے پہلے ضروری خیال کرتا تھا اور اگر آج یا کل یا پرسوں یا آج سے دس سال کے بعد بھی مجھے ضرورت پیش آئے تو اطاعت کے معاملہ میں نہ صرف یہ کہ آگے سے کم سختی نہ کروں بلکہ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ تربیت پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک مکمل اصلاح ہو جانی چاہئے تھی، شاید پہلے سے بھی زیادہ بختی کروں لیکن باوجود اس کے میں خیال نہیں کرتا کہ تمدنی معاملات میں ہمارے درمیان کوئی امتیاز ہے.جب تک کوئی کام ایک نظام کے ماتحت ہوتا ہے، ایک آمر اور ایک مامور ہوتا ہے اس وقت تک امتیاز قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر جو نہی سوشل تعلقات کا وقت آ جاتا ہے یہ تمام امتیازات ختم ہو جاتے ہیں اور اس وقت یہ اصل ہمارے درمیان قائم ہو جاتا ہے کہ اسلام کسی امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا سوائے اس امتیاز کے جوادب کا امتیاز ہے.یا سوائے اس امتیاز کے جو محبت کا امتیاز ہے.یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جو کسی قانون کے ماتحت نہیں آتیں.کوئی قانون دنیا میں ادب کے امتیاز کی حد بندی نہیں کر سکتا اور کوئی قانون دنیا میں محبت کے امتیاز کی حد بندی نہیں کر سکتا اس لئے کہ قانون محدود الفاظ میں ہوتا ہے لیکن ادب اور محبت نہایت وسیع حلقہ رکھتے ہیں.بچپن میں ہم ایک کہانی پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو نہایت سخت گیر تھا اور ہمیشہ اپنے نوکروں سے ایسے کاموں کا تقاضا کرتا جو ان کے فرائض میں شامل نہ ہوتے اور جب وہ انہیں سرانجام نہ دے سکتے تو نکال دیتا.آخر اپنے جیسا ہی اسے ایک نو کر مل گیا.اس نے آتے ہی کہا حضور میں آپ کی ہر خدمت کرنے کیلئے تیار ہوں مگر پہلے مجھے کاغذ پر لکھ دیں کہ میرے کیا کیا فرائض ہیں.آقا کے ذہن میں جس قدر باتیں آ سکتی د
۵۸ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے تھیں وہ تمام اس نے کاغذ پر لکھ دیں اور سمجھ لیا کہ اب میں نے خوب اسے جکڑ لیا ہے اور اسے میرا ہر کام کرنا پڑے گا.اتفاق ایسا ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جار ہا تھا نوکر ساتھ تھا کہ گھوڑا پدک کر بھاگا آقا گر پڑا اور اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا.اس نے شور مچایا اور نوکر سے کہا کہ مجھے بچاؤ مگر نوکر نے کاغذ نکال کر کہا سر کار دیکھ لیجئے اس میں یہ کام نہیں لکھا.تو ادب اور بنی نوع انسان کی محبت نہایت وسیع مضامین ہیں اتنے وسیع کہ خدا کی کتاب نے بھی انہیں تفصیل سے بیان نہیں کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کو ان باتوں کا علم نہیں.علم ہے لیکن اگر وہ بیان کرتا تو اتنی ضخیم کتاب ہو جاتی کہ قیامت تک پڑھنے کے باوجود انسان اسے مکمل طور پر نہ پڑھ سکتا.پس میں اس بات کے سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ وہ سوشل تعلقات جو افراد میں پائے جاتے ہیں اور جن کو اسلام نے قائم کیا ہے ان کے بارے میں ہم میں کسی قسم کا امتیاز ہو اور اگر ہے تو یقیناً اس امتیاز کو قائم نہیں رہنا چاہئے.میں نہیں جانتا یہ دعوت جو تھی کیوں اور کن حالات کے ماتحت کلرکوں تک ہی محدود رہی اگر کلرکوں کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس موقع پر خان صاحب کوئی پارٹی دینی چاہئے تو کیا وجہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے افسروں کو اس میں شامل نہ کیا.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں انہیں قصور وار سمجھتا ہوں میں ان پر الزام نہیں رکھتا صرف اپنی حیرت کا اظہار کرتا ہوں کہ کیا اس کا موجب یہ خیال ہوا کہ انہوں نے سمجھا اگر ہم یہ سوال اٹھائیں گے تو ممکن ہے جو افسر سمجھے جاتے ہیں کہیں کہ ہم اس میں کیوں حصہ لیں.یا یہ کہ انہیں اس امر کا خیال ہی نہیں آیا کہ افسروں کو بھی شریک کیا جائے.اگر انہیں خیال نہیں آیا تب بھی قابلِ افسوس بات ہے کیونکہ اس کی بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے اور اگر امتیاز سمجھا گیا، تب تو قابل افسوس بات ہے ہی.ذاتی طور پر میں ہمیشہ حیران رہا ہوں کہ خلافت کو چھوڑ کر دو محکمے ایسے ہیں جنہیں ایسے موقع پر جب کوئی مبلغ باہر سے آئے اور وہ ایسا مبلغ ہو جس کی خدمات اسلام کی ترقی کیلئے ہوں اور اس کا اعزاز جماعت پر واجب ہو، اس کی دعوت میں حصہ لینا چاہئے مگر دونوں محکموں نے آج تک اس میں حصہ نہیں لیا اور مجھے ہمیشہ حیرت رہی ہے کہ جن دو محکموں کا یہ فرض ہے کہ وہ باہر سے آنے والے مبلغین کا اعزاز کریں، وہی دو محلے ہمیشہ لا پرواہ رہتے ہیں اور انہوں نے کبھی بحیثیت محکمہ اس میں حصہ نہیں لیا.جب کوئی مبلغ باہر جاتا یا تبلیغ کے بعد قادیان واپس آتا ہے تو میں دیکھتا ہوں، تعلیم الاسلام ہائی سکول، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اس کے اعزاز میں حصہ لیتے ہیں.بعض ذاتی دوست
۵۹ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے توکل پر ہونی چاہئے ہوتے ہیں وہ اپنے طور پر دعوت کر دیتے ہیں حالانکہ جو مبلغ باہر جاتا یا با ہر سے قادیان آتا ہے اس کا خلافت کے بعد پہلا تعلق ناظر دعوت و تبلیغ سے ہوتا ہے اور اس کا دوسرا تعلق قادیان کی مقامی جماعت سے ہوتا ہے لیکن اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جب سے کہ یہ سلسلہ تبلیغ شروع ہوا ہے میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ کبھی ناظر دعوت و تبلیغ یا لوکل انجمن کی طرف سے آنے والے مبلغین کو دعوت نہ سہی، اعزازی پارٹی ہی دی گئی ہو.مجھے جب بھی یہ خیال آیا کرتا ہے میں سمجھتا ہوں ان کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کسی شخص کے گھر مہمان آئے اور وہ باہر نکل کر اعلان کرنا شروع کر دے کہ بھائیو! میرے ہاں مہمان آیا ہے اپنے اپنے گھر کھانا تیار رکھنا اور اتنا کہہ کر وہ سمجھ لے کہ اس کا فرض ادا ہو گیا.ذاتی طور پر میں ہمیشہ آنے والے مبلغین کے اعزاز میں حصہ لیتا ہوں.اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ اگر بعض دفعہ نہ ہو سکا ہو تو یہ اور بات ہے.ورنہ جب بھی کوئی مبلغ آتا ہے میں ہمیشہ اس کی دعوت کرتا ہوں تا کہ جماعت میں یہ احساس رہے کہ ہم ان لوگوں کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.غرض میرا نمونہ ان لوگوں کیلئے موجود تھا اور نچلے لوگوں کا نمونہ بھی موجود تھا یعنی طالب علموں کا کیونکہ وہ نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.ان کی نگاہیں راہ نمائی حاصل کرنے کیلئے ہماری طرف اٹھا کرتی ہیں مگر باوجود اس کے کہ اوپر سے انہوں نے مجھے اعزاز کرتے دیکھا اور نیچے سے طالب علموں کو قادیان کی لوکل انجمن احمد یہ اور نظارت دعوت و تبلیغ نے کبھی مبلغین کی آمد پر اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا.وہ اپنا فرض صرف یہی خیال کرتے ہیں کہ دوسروں کی پارٹی میں حصہ لیا اور چلے گئے حالانکہ میں سمجھتا ہوں سب سے پہلا حق ناظر دعوت و تبلیغ کا ہے کہ وہ ذاتی طور پر نہیں بلکہ نظارت کا نمائندہ ہوکر مبلغ کا خیر مقدم کرے.دنیا کی حکومتوں میں بھی جب کوئی شخص نمایاں کام کر کے آتا ہے تو فارن سیکر ٹری اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت اس کی خدمات کو تسلیم کرتی اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے.اگر اسی دعوت میں تحریک کر دی جاتی اور کسی کو خیال آ جاتا کہ ناظروں کو بھی کہہ دینا چاہئے کہ وہ اس میں شریک ہو جا ئیں تو میں سمجھتا ہوں اس پُرانی کوتا ہی کے ازالہ کی صورت نکل آتی.مگر کسی وجہ سے نہ محرروں کو یہ خیال آیا اور نہ ہی ناظر وں کو.میں اس بات کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ سوشل تعلقات میں امتیاز نہیں ہوتا.محرر یا ناظر ہونا ، چھوٹا یا بڑا ہو نا محض انتظامی امور کیلئے ہے ورنہ اسلام تو آیا ہی اسی لئے ہے کہ تا وہ تمام بنی نوع انسان میں محبت اور اخوت کے تعلقات قائم کرے.وہ جہاں اس قدر شدید اطاعت قائم
انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاداللہ تعالی کے توکل پر ہونی چاہئے کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا مہربان بھی فرماتا ہے مَنُ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَ مَنْ عَصَى اَمِيُرِى فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے طریق میں سوشل معاملات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا اور اگر ہم اپنی زندگیوں میں ان امتیازات کو مٹا نہ سکیں سوائے ادب اور محبت کے امتیازات کے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم اس ملوکیت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے مٹانے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی.میں سمجھتا ہوں اگر محرروں کے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ناظروں کو اس میں شامل کرتے تو خود ناظروں کو یہ احساس ہونا چاہئے تھا کہ وہ رشک سے محرروں سے کہتے کہ ہمیں کیوں اس میں شامل نہیں کیا گیا ہمیں بھی حصہ دار بناؤ اور شامل کرو اور اگر محرروں کے دل میں یہ شبہ تھا کہ وہ ناظر ہیں اور ہم محرر ممکن ہے وہ اس میں شریک ہونا پسند نہ کریں تو ناظروں کا فرض تھا کہ وہ خود اس شبہ کو دور کرتے اور اس طرح ایک وقت میں دونوں اعزاز میں حصہ لیتے.اس کے بعد میں کچھ اس کام کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جس کیلئے خان صاحب ولایت گئے تھے.جس وقت درد صاحب کی انگلستان سے واپسی کا وقت آیا اور میں نے دوستوں سے اس بارہ میں مشورہ لیا کہ ان کی جگہ خاں صاحب کو ولایت بھیجا جائے تو کئی دوستوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ چونکہ خاں صاحب نے یہ کام اس رنگ میں پہلے نہیں کیا اگر چہ وہ پنجاب میں بعض جماعتوں کے امیر رہے ہیں مگر چونکہ یہ جدید نوعیت کا کام ہے اس لئے ممکن ہے وہ اسے بخوبی سرانجام نہ دے سکیں لیکن اس وقت میرے دل میں جو چیز تھی، وہ یہ تھی کہ جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ظاہری قابلیت کے ساتھ دل میں اخلاص اور خشیت ہوا اور میں سمجھتا تھا اگر ایسا ہوگا تو کوظاہری حالات کیسے ہی ہوں اللہ تعالیٰ اخلاص کو قبول کر کے اس کمی کو پورا کر دے گا.اس میں بہ نہیں کام کی نوعیت کے لحاظ سے جس قسم کے تجربہ کی ضرورت تھی ، وہ خاں صاحب کو حاصل نہیں تھا اور ظاہری حالات کے لحاظ سے دوستوں کا مشورہ وزنی تھا مگر یہ اسی صورت میں قابل قبول ہوسکتا تھا جب ہم یہ خیال کریں کہ ہمارا سلسلہ بھی دوسری قسم کی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ہے لیکن جب کہ یہ صحیح نہیں اور جب کہ ہمارا سلسلہ خدائی سلسلہ ہے اور خدائی تائید ونصرت ہمارے شامل حال ہے تو اس قسم کا خیال بھی صحیح نہیں ہوسکتا تھا.میں سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں
۶۱ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے توکل پر ہونی چاہئے کہ جب کوئی مومن خدا تعالیٰ کے دروازہ پر گر جائے تو خواہ وہ نہایت ہی کمزور ہو اس کا تجربہ محدود اور اس کا علم معمولی ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کامل طور پر گر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسی راہ نمائی حاصل ہوتی ہے کہ وہ کام میں کامیاب ہو کر نکلتا ہے اور مشکلات اس کے راستہ سے دور ہو جاتی ہیں.مجھے یاد ہے جس وقت میری خلافت کا زمانہ شروع ہوا تو ابھی پانچ سات ہی دن ہوئے تھے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب یہیں تھے جب وہ لاہور جانے لگے تو ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم کی روایت تھی کہ انہوں نے آہ بھرتے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر اور مدرسہ ہائی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہم تو جاتے ہیں لیکن یہ عمارتیں جو سلسلہ احمدیہ کیلئے قائم کی گئیں، ایسے نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہیں کہ اب یہ سکول ٹوٹ جائے گا اور عیسائیوں کے قبضہ میں چلا جائے گا.اس میں شبہ نہیں ظاہری حالات کے ماتحت یہ خیال صحیح سمجھا جا سکتا تھا.میری تعلیمی حالت نہایت معمولی تھی، شستی کہو یا صحت کی کمزوری خیال کر لو، میں سکول میں کبھی اچھے نمبروں پر کامیاب نہیں ہوا تھا، دینی تعلیم ایسی تھی کہ میرے گلے اور آنکھوں کی تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الاول کتاب خود پڑھا کرتے تھے آپ خود کمزور اور بوڑھے تھے مگر میری صحت کو اس قدر کمزور خیال فرمایا کرتے تھے کہ بخاری اور مثنوی رومی خود پڑھتے اور میں سنتا جاتا ، عربی ادب کی کتابیں بھی خود ہی پڑھتے اور جب میں پڑھنا چاہتا تو فرمایا کرتے میاں تمہارے گلے کو تکلیف ہوگی.مجھے یاد ہے بخاری کے ابتدائی چار پانچ سپارے تو ترجمہ سے پڑھائے مگر بعد میں آدھ آدھ پارہ روزانہ بغیر ترجمہ کے پڑھ جاتے.صرف کہیں کہیں ترجمہ کر دیتے اور اگر میں پوچھتا تو فرماتے جانے دو.خدا خود ہی سمجھا دے گا.میری تعلیمی حالت اور صحت کی کیفیت تو سی تھی.پھر سلسلہ کے انتظام کے لحاظ سے ہمارا نظام میں کوئی دخل نہ تھا.شروع سے آخر تک پورے طور پر وہی لوگ حاوی سمجھے جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ سارے کارکن چلے جائیں گے تو کام خود بخود بند ہو جائے گا.مالی حالت ایسی تھی کہ جس دن وہ گئے ہیں اس دن خزانہ میں غالباً دس آنہ کی رقم تھی اور پھر انجمن پر قرض بھی تھا.ایسے حالات میں انہیں یقین تھا کہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا اور عیسائی ہماری درسگاہوں پر قبضہ کر لیں گے.پس میں سمجھتا ہوں وہ کہنے والا ایک حد تک معذور تھا لیکن ان ظاہری سامانوں کے علاوہ ایک اور چیز بھی تھی اور وہ ایک بالا ہستی تھی.وہ ایک ایسی ہستی تھی جو اندر بھی ہے اور باہر بھی
۶۲ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے توکل پر ہونی چاہئے اول بھی ہے اور آخر بھی هُوَ الْاَوَّلُ وَالاخِرُ وَالظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ جس وقت ظاهری حالات یہ کہہ رہے تھے کہ یہ سلسلہ چند دنوں تک ٹوٹ جائے گا اس وقت اس ہستی نے مجھے کہا ”.خدائی کا موں کو کون روک سکتا ہے اور اُس وقت جب تفرقہ کی ابتدا تھی اور خود ان کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہماری طرف ہے پہلے ہفتہ کے اندراندر ہی خدا تعالیٰ نے مجھے الہا نا بتایا کہ لَيُمَزِ قَنَّهُمُ ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے ابھی چند دن ہوئے غیر مبائعین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا مجھے اشتہار ملا.وہ لکھتا ہے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ ہمارے عقائد درست ہیں لیکن میرا نام لکھ کر کہتا ہے.ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کا الہام لَيُمَزِ قَنَّهُمْ ہمارے متعلق پورا ہو چکا.غرض میرا یہ تجربہ ہے کہ جب خدا کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ کام ہو کر رہتا ہے اور انسانی عقل نا کام ہو کر رہ جاتی ہے اسی تجربہ کے ماتحت میں نے خان صاحب کو انگلستان روانہ کیا.خاں صاحب سے میری پہلی ملاقات ان کے احمدیت میں داخل ہونے سے بھی پہلے ہوئی تھی.اس وقت میں فیروز پور کسی لیکچر کیلئے گیا اور ان سے واقفیت ہوئی.پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں انہوں نے قرآن مجید کا کچھ حصہ مجھ سے سبقاً بھی پڑھا.تو چونکہ میرے تعلقات ان سے قدیم سے تھے اس لئے میں ان پر حسن ظنی رکھتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ظاہری تجربہ میں کوئی کمی بھی ہوئی تو یہ دعائیں کر کے اس کمی کو پورا کر لیں گے.اس کے بعد جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ولا بیت گئے تو ان کی رپورٹ جو لنڈن مشن کے متعلق تھی، وہ نہایت ہی خوشکن تھی.انہوں نے لکھا کہ اب کچھ اس قسم کی ترقی خدا کے فضل سے ہو چکی ہے کہ یوں کہنا چاہئے گویا پہلا نظام ہی بدل گیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے ماتحت کہ جو بھی اس کے سامنے گر جائے وہ خاص طور پر اس کی نصرت فرماتا ہے خدا تعالیٰ نے خاں صاحب کو کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور میں سمجھتا ہوں اگر یہی روح ان میں قائم رہی تو خدا تعالیٰ انہیں اور بھی خدمت دین کے مواقع عطا فرمائے گا.میری غرض اس تمام بیان سے یہ ہے کہ اصل چیز جس پر ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ہونی چاہئے وہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہے.علم کے لحاظ سے ہمارے بڑے سے بڑے عالم بھی دنیا کے رے عالموں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور درحقیقت اگر ہم یہ نہ کہیں تو ایک
۶۳ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالی کے تو کل پر ہونی چاہئے حقیقت کا انکار ہوگا کہ اگر ہماری جماعت کے سائنسدانوں کو لیا جائے تو وہ باقی دنیا کے سائنسدانوں کے مقابلہ میں بچوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں، اگر دنیا وی علوم کو لیا جائے تو اس لحاظ سے بھی ہمارے علماء کی کوئی حیثیت نہیں، دنیا میں ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں محض چند مسائل کی تحقیق میں صرف کر دیں اور ان کا مقابلہ ہماری جماعت کے علماء ہی کیا ساری دنیا بھی نہیں کر سکتی، پھر اسی زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے ایسے عالم ہیں جنہوں نے فقہ تاریخ اور حدیث کے متعلق ایسی کتابیں لکھی ہیں جو پچھلی کئی مستند کتابوں سے فوقیت لے گئی ہیں.پس اگر ظاہری علوم کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارا سائنسدان دوسرے سائنسدان کے مقابلہ میں ہمارا ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کے مقابلہ میں، ہمارا انجینئر دوسرے انجینئر کے مقابلہ میں، ہمارا مشنری دوسرے مشنری کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اگر عیسائی مشنریوں کو دیکھا جائے تو ہمیں ان میں ایسے عالم نظر آتے ہیں کہ وہ ظاہری علوم میں اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ ہمارے مبلغوں کی ان کے مقابلہ میں کوئی ہستی نہیں مگر باوجود اس کے ایک موقع بھی آج تک ایسا نہیں آیا کہ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے عالم سے ہمیں شکست اُٹھانی پڑی ہو.جب وہ ہمارے مقابل پر آتے ہیں تو اس قدرمرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی زبانیں خشک ہو جاتی ہیں اور ان کی ڈیکلیں اور بڑیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.میں جب ولایت گیا تو پر و فیسر مارگولیتھ کے متعلق مجھ سے بعض انگریز اور ہند وستانی طالب علموں نے بیان کیا کہ وہ کہتا ہے میں جب قادیان گیا اور عربی میں گفتگو کرنی چاہی تو کوئی مجھ سے عربی زبان میں گفتگو نہ کر سکا.پروفیسر مارگولیتھ اس سے پہلے قادیان آچکا تھا میں نے جب یہ باتیں سنیں تو انہیں کوئی وقعت نہ دی مگر وہ ہندوستانی طالب علم اصرار کرنے لگے کہ اب آپ ولایت آئے ہوئے ہیں یہ ایک نیکی کا کام ہے اور اسلام کی فتح ہوگی اگر اس کے دعوی کو باطل کیا جائے اس کے ساتھ عربی میں گفتگو کریں.بعض انگریز تماش بین تھے وہ بھی اصرار کرنے لگے آخر میں نے ایک مجلس منعقد کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے کہا کہ چائے کی پارٹی پر پروفیسر مارگولیتھ کو بھی بلانے کا ارادہ ہے اس سے آج عربی میں گفتگو کریں گے.آخر وہ آیا اور اس سے گفتگو شروع کی گئی مگر ابھی دو چا رہی باتیں ہوئی تھیں کہ اس طرح اس کے حواس اُڑے کہ تمام لوگ حیران رہ گئے.اس کا منہ خشک ہو گیا اور کہنے لگا آپ لوگ عالم ہیں میں آپ سے عربی میں گفتگو نہیں کر سکتا.ارد گرد جو لوگ کھڑے تھے وہ اس کی باتوں پر ہنسنے لگے اور انہوں نے تمسخر
۶۴ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے کرنا بھی شروع کیا مگر وہ بولا تک نہیں اس کا رنگ بالکل فق ہو گیا زبان خشک ہوگئی اور اصرار کے باوجود باتیں کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ مستشرقین میں چوٹی کا آدمی سمجھا جاتا ہے.اسی طرح ایک اور مجلس میں دو بڑے بڑے آدمی جو ز بر دست مصنف اور عربی علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور انگریزوں کے زبر دست اور نٹیلسٹ ہیں موجود تھے.ہمارے سامنے ان سے کسی شخص نے ایک سوال کیا مگر ان دونوں نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا ان کی موجودگی میں ہم کیا جواب دے سکتے ہیں حالانکہ وہ اتنا معمولی سوال تھا کہ ہمارا ایک طالبعلم بھی اس کا جواب بآسانی دے سکتا ہے مگر حق کا رعب ایسا پڑا کہ وہ ہمارے سامنے بول نہ سکے.اسی طرح اور مقامات پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ الہی نصرت ایسے طریق پر مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ظاہری علوم میں پیچھے ہوتا ہے لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر.نصرت خشیت الہی کے نتیجہ میں آیا کرتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے.ہر اگر اک نیکی کی جڑ ہے سب کچھ رہا ہے جڑ رہی سب اصل بات یہ ہے کہ خشیت اللہ اگر انسان کو حاصل ہو جائے تو نصرت الہی بھی اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور پھر کوئی میدان ایسا نہیں ہوتا جس میں وہ دشمن سے گھبرا سکے بلکہ ہر میدان میں فتح حاصل ہوتی ہے اور کیوں فتح نہ ہو جب کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي - ٣ یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فرض قرار دے دیا ہے کہ میں اور میرے رسول دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے اس جگہ رُسل سے صرف رسول ہی مراد نہیں بلکہ رسولوں کے متبع بھی اس میں شامل ہیں.پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے غلبہ مقدر ہو وہ بجائے غالب ہونے کے مغلوب ہو جائے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.ظاہری لحاظ سے دوسرے لوگ ہم سے بہت آگے ہیں اور قوم کی خاطر قربانی کرنے والے بہت پائے جاتے ہیں.ہمارے دفاتر اور مدارس میں جو کام ہوتا ہے اگر ہم دیکھیں تو باہر کے لوگ زیادہ وقت دفتروں میں دیتے اور زیادہ محنت اور دلچسپی کے ساتھ تعلیم وغیرہ میں حصہ لیتے ہیں.پس ہمارے اخلاص اور تعلق باللہ کا نشان اگر ظاہری کام ہو تو یقیناً ہم دنیا کے سامنے اپنے کاموں میں شرمندہ ہو جائیں.جو چیز ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ قوم ، ذات یا ملک کیلئے یا مقرر کردہ آئیڈلز اور مقاصد کیلئے کام کرتے ہیں مگر ہم محض اللہ تعالیٰ کی
انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے رضا کیلئے کرتے ہیں یہ وہ امتیاز ہے جو ہم میں اور دوسروں میں ہے اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے ہمارا تھوڑا کام بھی دوسروں سے زیادہ بہتر نتیجہ پیدا کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے کفار سے جنگ کر رہا تھا.صحابہ کہتے ہیں وہ اس قدر سرگرمی سے جنگ میں مصروف تھا کہ ہمیں رشک آتا تھا اتنے میں ایک صحابی نے دوسرے سے کہا دیکھو یہ کیسا جنتی آدمی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ گئی آپ نے فرمایا اگر کسی نے دنیا کے پردے پر دوزخی چلتا پھرتا دیکھنا ہوتو وہ اس لڑنے والے کو دیکھ لے.چونکہ مسلمانوں کی ظاہری طور پر وہ بہت حمایت کر رہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے صحابہ کے دلوں میں تزلزل پیدا ہوا اور انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام کے لئے اتنی قربانی کرے اور پھر بھی وہ درزخ میں جائے.ایک صحابی کہتے ہیں جب لوگوں کے دلوں میں میں نے یہ وسوسہ پیدا ہوتے دیکھا تو میں نے کہا خدا کی قسم! میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.وہ صحابی کہتے ہیں میں اس کے پیچھے پیچھے رہا یہاں تک کہ وہ اس جنگ میں شدید زخمی ہوا.آخری وقت سمجھ کر لوگ اس کے پاس آتے اور کہتے.تمہیں جنت کی بشارت ہو مگر وہ کہتا مجھے جنت کی کیوں خبر دیتے ہو دوزخ کی خبر دو کیونکہ میں نے آج اسلام کیلئے جنگ نہیں کی بلکہ ان کفار سے مجھے کوئی پرانا بغض تھا اس کا بدلہ لینے کیلئے میں ان سے لڑا.پھر اس کی حالت جب زیادہ خراب ہو گئی تو اس نے برچھی زمین پر گاڑی اور اس پر گر کر خود کشی کر لی.وہ صحابی کہتے ہیں میں آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے رسول ہیں.آپ نے فرمایا کیوں کیا ہوا ؟ اس صحابی نے تمام داستان سنائی تب آپ نے بھی فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں.تو ظاہری قربانیاں اگر دیکھی جائیں تو دنیا میں ہم سے زیادہ قربانیاں کرنے والے موجود ہیں گو بحیثیت قوم ہمیں امتیاز حاصل ہے مگر افراد کے لحاظ سے زیادہ قربانیاں کرنے والے مل سکتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان کی تمام قربانیاں قوم یا ملک کے لئے ہوتی ہیں یا اس مذہب کے لئے ہوتی ہیں جسے وہ قوم کی طرح سمجھتے ہیں مگر ہم میں سے ہر شخص کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اس کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال انسانی نیت پر موقوف ہوتے ہیں.چونکہ ہمارے کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا
۶۶ انوار العلوم جلد ۱۳ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے اور اس کی تائید حاصل ہو جاتی ہے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تمام کاموں میں للہیت پائی جانی چاہئے.قربانی چھوٹی ہو یا بڑی اگر للہیت ہوگی تو چھوٹی قربانی بھی بڑی ہو جائے گی اور اگر للہیت نہ ہوگی تو بڑی قربانی بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکے گی.پس اصل چیز جو برکت کا موجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری تمام قربانیاں محض خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوں.اگر ہم یہ مقصد لے کر کھڑے ہو جائیں تو دنیا سے تمام لڑائیاں اور جھگڑے فتنے اور فساد دور ہو جائیں اور بہت سی خلشیں جو امن سے محروم کر دیتی ہیں ناپید ہو جائیں کیونکہ جب کو ئی شخص خدا کیلئے کام کرتا ہے اسی وقت اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے.وہ بندوں کی تعریف کا مشتاق نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی کرے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ جس کی خاطر میں نے کام کیا تھا، اگر وہ خاموش ہے تو ان لوگوں کی تعریف سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے تمام کارکنوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ افسر اور ماتحت ناظر اور محرر کے امتیاز کو تمدنی معاملات میں نہ لے جائیں اور سمجھ لیں کہ ہم سب کا اصل مقصد یہ ہے کہ متحدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.اس کے بعد میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کی خدمت کو قبول فرمائے جنہوں نے یہ دعوت کی اور انہیں نیک اجر دے کیونکہ انہوں نے اپنے ایک بھائی کی آمد پر خوشی منائی.اس طرح میں خاں صاحب کیلئے دعا کرتا ہوں کہ جو خدمات وہ بجا لائے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بدلہ میں انکے دل میں اور زیادہ نیکی اور تقویٰ پیدا کرے کہ مومن کا یہی اجر ہے.مومن کا وہ اجر نہیں جو ا سے دنیا سے ملے بلکہ اصل اجر وہ ہے جو اسے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے.اس طرح دوسرے مبلغ جو میدان میں ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے اور ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرتے ہوئے سلسلہ اور اسلام کی خدمات کی پہلے سے زیادہ تو فیق عطا فرمائے.الفضل و مئی ۱۹۳۳ء ) لبخارى كتاب الاحكام باب قول الله تعالى أَطِيعُوا الله واَطِيْعُوا الرسول الحديد : ۴ المجادلة٢٣
انوار العلوم جلد ۱۳ ۶۷ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دو مکتوب برادران کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دومكتوب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
۶۸ انوار العلوم جلد ۱۳ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دو مکتوب أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ برادر ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا مکتوب اوّل برادران! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.مجھے افسوس ہے کہ میرے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد اس قدر جلد آپ لوگوں پر پھر ایک درد ناک مصیبت نازل ہوگئی ہے اور جب کہ آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے تھے مشکلات کا دروازہ از سر نو کھل گیا ہے.میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک آپ لوگ مجھے اپنی مدد کیلئے بلائیں گے میں اپنی طاقت بھر آپ کی مدد کروں گا اور یہ وعدہ مجھے خوب یاد ہے.اسی وعدہ کو یاد کرتے ہوئے میں نے میر واعظ صاحب ہمدانی کو تار دیا تھا کہ میں اہل کشمیر کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گا اور کرنی شروع کر دی ہے.جو کچھ مختصراً میں نے اس تار میں لکھا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے ولایت بھی ہدایات بھیجوا دی ہیں کہ وہاں کے ذمہ دار لوگوں کو صحیح حالات سے آگاہ کر کے کشمیر کے حالات کی طرف متوجہ کیا جائے اور خود ریاست کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے.مجھے یقین ہے کہ جب مسٹر کالون کو صحیح حالات سے واقف کیا جائے گا تو وہ اس ظلم کو جو اُن کے نام پر کیا گیا ہے ضرور دور کرنے کی کوشش کریں گے.اے بھائیو! آپ کو معلوم ہے کہ میں اب کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہو چکا ہوں اور اس وجہ سے میں گل مسلمانوں کی طرف سے حکومت کو مخاطب نہیں کر سکتا.صرف میرا ذاتی اثر کام کر سکتا ہے اور جب کہ آپ لوگوں کی طرف سے بھی مجھے کوئی اختیار حاصل نہیں کہ میں حکومت کو مخاطب کروں ، اس لئے میری آواز نہ ہندوستان کی آواز ہوگی نہ کشمیر کی آواز.پس اگر اس کا نتیجہ اس قدر جلد یا پُر شوکت نہ نکلے جس کی آپ کو امید ہے، تو اس کا الزام آپ اپنے نفسوں کو دیں کیونکہ آپ ہی میں سے کچھ لوگ پنجاب آ کر مسلمانوں کے سامنے یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ
۶۹ انوار العلوم جلد ۱۳ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دو مکتوب کشمیر کا خون مرزا صاحب نے چوس لیا ہے اور لوگوں سے بڑی رقوم جمع کر کے اپنے وکلاء کو دلوائی ہیں اور یہ کہ احمدی وکلا ء خود غرضی سے سب کام کرتے تھے اور پھر یہ کہ کشمیر کمیٹی کے پردہ کے نیچے احمدیت کی اشاعت ان کے کارکن کرتے رہے ہیں.آپ لوگ جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں جھوٹ افتراء اور بہتان ہیں.نہ کشمیر کمیٹی کے کارکنوں نے احمدیت کی تبلیغ کی نہ ہم نے کشمیر سے رقوم فراہم کر کے کشمیر کے لوگوں کا خون چوسا اور نہ احمدی وکلاء کو مالا مال کیا.وہ غریب آپ لوگوں کی خاطر چلتی ہوئی پریکٹسوں کو چھوڑ کر وہاں گئے اور مہینوں اپنے بیوی بچوں سے جدا رہ کر ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے انہوں نے آپ کی خدمت کی.پھر یہ صلہ جو انہیں دیا گیا، کیا اس کے بعد آپ لوگوں کی خدمت کرنے کا کسی کو خیال آ سکتا ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم میں سے بعض غداروں نے ایسا کیا.مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے جماعتی رنگ میں ان غداروں کا فریب ظاہر کیا ؟ نہیں آپ نے ایسا بھی نہیں کیا.بلکہ تازہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے ان میں سے بعض غداروں کو اپنا لیڈر بنایا ہے.پس جب کہ آپ لوگوں کا یہ رویہ ہے، آپ کب امید کر سکتے ہیں کہ کوئی شریف آدمی آپ کی مدد کرے گا.آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ریاست کے افسروں نے بعض مسلمانوں کو خریدا ہوا ہے اور وہ ان کے ذریعہ سے آپ کی حاصل کی ہوئی طاقت کو ضائع کرانا چاہتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ اب آپ ناک رگڑ کر حکومت سے معافی مانگیں اور بے قصور ہوتے ہوئے اپنے قصوروں کا اعتراف کریں.اس طرح کی آزادی کیلئے کسی لیڈر کی ضرورت نہیں ایسی معافی تو آپ میں سے ہر ایک حاصل کر سکتا ہے.ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لو، پھر سب کچھ درست ہو جائے گا.لیکن اگر آپ لوگ دیانتداری سے کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا آپ کے لیڈروں نے کوئی قصور کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو انہیں مجبور کرو کہ تو بہ کریں اور حکومت سے معافی مانگیں اور اگر قصور نہیں کیا تو پھر ایک ہی راستہ آپ کے لیڈروں کیلئے اور آپ کیلئے کھلا ہے کہ امن اور نرمی کے ساتھ اپنے دعوئی پر مصر رہیں اور خدا پر توکل کرتے ہوئے ذلت اور رسوائی کو قبول کرنے کی جگہ موت کو ترجیح دیں، کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت اچھی ہوتی ہے.حکومت کے ظالم افسر آپ کی جان لے سکتے ہیں لیکن عزت نہیں چھین سکتے.عزت آپ لوگ اپنے ہی ہاتھوں برباد کر سکتے ہیں اور ہر ایک شریف آدمی کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.غرض اگر آپ لوگ مجھ سے مشورہ پوچھیں تو میں کہوں گا کہ اگر آپ کی غلطی ہے تو اپنی غلطی کا
انوار العلوم جلد ۱۳ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دو مکتوب دلیرانہ اقرار کریں اور اگر آپ کی غلطی نہیں تو جرات سے اپنی بات پر قائم رہیں.کچھ دن آپ کو تکلیف ہوگی پھر آپ ہی کی فتح ہوگی.دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جیسا کہ آپ میں سے غداروں نے کہا ہے کہ میں نے کشمیر کمیٹی کا صدر بن کر احمدیت کی اشاعت کا فائدہ اُٹھایا ہے، یہ درست ہے اور اگر در دصاحب، شیخ بشیر احمد صاحب، مولوی محمد احمد صاحب، چوہدری عزیز احمد صاحب، چوہدری یوسف خاں صاحب، چوہدری عصمت اللہ صاحب، قاضی عبدالحمید صاحب پلیڈران اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر احمدیت ہی کی تبلیغ کیا کرتے تھے تو پھر آپ کو چاہئے کہ اپنے مذہب کو بچائیں اور ایسے لوگوں کی صحبت سے احتراز کریں اور اگر فی الواقعہ یہ وکلا ء آپ سے رقمیں وصول کیا کرتے تھے تو پھر بھی آپ کا فرض ہے کہ ہمارے اس جھوٹے دعوی کو کہ یہ لوگ مفت کام کرتے تھے ، دنیا پر ظاہر کریں لیکن اگر اس کے برخلاف کشمیر کمیٹی کے کارکن کی حیثیت میں یہ لوگ صرف آپ کا کام کرتے رہے ہیں اور وکلاء نے سوائے اس کے کہ نفلوں وغیرہ کیلئے یا آپ کے کام پر جانے کی غرض سے آپ میں سے بعض سے کرایہ وصول کیا ہو اپنی ذات کیلئے آپ لوگوں سے کوئی رقم وصول نہیں کی، تو پھر شرافت اور دیانت اس امر کا مطالبہ کرتی ہے کہ آپ لوگ اس امر کا اعلان تمام اسلامی پریس میں کرائیں کہ ان وکلاء پر خطرناک جھوٹ بولا گیا ہے اور ساتھ ہی ان غداروں کو اپنی لیڈری سے علیحدہ کریں.غرض اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ دو کشتیوں میں پیر نہیں رکھ سکتے.آپ کو دلیری سے ایک بات اختیار کرنی پڑے گئی اور نہ غدار لوگ آپ میں رہ کر آپ کی جڑھیں کھوکھلی کر دیں گے.جو لوگ اپنی گرفتاری کے ایام میں ہاتھ جوڑ جوڑ کر ہمارے وکلا ء کو کہتے تھے کہ ایک دفعہ ہمیں پچھڑ وادیں، پھر دیکھیں کہ ہم کس طرح کشمیر کمیٹی کی تائید کرتے ہیں اور باہر آ کر انہوں نے ایسے جھوٹ ان وکلاء پر بولے ہیں ، ان سے آپ کو کیا امید ہو سکتی ہے؟ غرضیکہ میں اِنشَاءَ اللہ آپ لوگوں کی امداد کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گا اور میں نے کام شروع بھی کر دیا ہے لیکن آپ لوگوں کو بھی دیانت داری سے ایک فیصلہ کر لینا چاہئے تا کہ آپ کے کام میں برکت ہو اور میری کوششیں بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا کریں.یہ مت خیال کریں کہ اب آپ کا وارث رہ گئے ہیں.اب بھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں اور اِنشَاءَ اللہ اگر آپ صحیح رویہ اختیار کریں تو کامیاب ہونگے.لیکن اگر آپ یہ چاہیں کہ بغیر صحیح رویہ اختیار کرنے کے آپ
انوار العلوم جلد ۱۳ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کے دو مکتوب کامیاب ہوں تو یہ ناممکن ہے.آخر میں میں آپ کو پُر امن رہنے کی نصیحت کرتا ہوں.ہر فساد سے پر ہیز کریں اور مجھے کچھ دن کوشش کر لینے دیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ میری نصیحت پر کار بند ہو نگے تو جلد آپ کے لیڈر عزت سے باہر آ جائیں گے اور آپ آزادی کے اور قریب ہو جائیں گے اور یہی آزادی قیمتی آزادی ہے ورنہ ذلت کے ساتھ قید سے رہائی کوئی آزادی نہیں اس سے تو مر جانا بہتر ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ ۱۸.جون ۱۹۳۳ء ( مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان با ہتمام چوہدری اللہ بخش صاحب)
انوار العلوم جلد ۱۳ ۷۲ میری ساره سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی میری ساره
انوار العلوم جلد ۱۳ ۷۳ میری ساره اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ میری ساره بر آستان آنکه ز خود رفت بیر یار چوں خاک باش و مرضی یارے دراں بجو وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْانْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۱۹۲۴ء میں جب میں انگلستان کے تبلیغی دورہ سے واپس آیا تو ابھی - امته الحی مرحومه میں جہاز میں تھا کہ عزیزم خلیل احمد پیدا ہوا اور میری پیاری بیوی امتہ الحی سخت بیمار ہو گئیں.اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو سنا اور میرے قادیان پہنچنے تک انہیں زندہ رکھا.پھر وہ میرے دل کی راحت اور میری جان کا سکھ ، میرے آقا، میرے مولی ، میرے محبوب کی مشیت کے ماتحت مجھ سے جدا کر دی گئی.بلانے والا ہے ނ پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر امتہ الھی اپنی ذات میں بھی نہایت اچھی بیوی تھیں مگر ان میں ایک خاص بات بھی تھی.ان کی شکل اپنے والد ، میرے محسن، میرے پیارے استاد حضرت مولوی نورالدین صاحب سے بہت ملتی تھی.نسوانی نقش جس حد تک مراد نہ خوبصورتی کو ظاہر کر سکتے ہیں اس حد تک وہ اپنے والد کی یاد دلاتی تھیں.سوائے عبدالحی مرحوم کے ان کے بھائیوں میں سے کوئی بھی اس شباہت کو ظاہر نہیں کرتا جو ان کے نقوش سے ظاہر ہوتی تھی.میرے لئے وہ یاد نہایت پیاری اور وہ شباہت نہایت محبوب تھی ، پھر ان کا علمی مشغلہ، وہ بیماری اور کمزوری میں عورتوں کو پڑھانا، وہ علمی ترقی کا شوق
انوار العلوم جلد ۱۳ ۷۴ میری ساره نہایت درجہ تک جاذب قلب تھا.اللہ کے اس قدر فضل ہوں اس کے والد پر اور اس مرحومہ پر، ہاں اس قدر کہ وہ دونوں حیران ہو کر اپنے رب سے پوچھیں کہ آج کیا ہے کہ تیری رحمت کا دروازہ اس رنگ میں ہم پر کھل رہا ہے اور ان کا رب اُنہیں بتائے کہ میرے بندے محمود نے اپنا ٹو ٹا ہوا دل اور اشک بار آنکھیں میرے قدموں پر رکھ کر مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں تم پر خاص درود بھیجوں اور یہ اسی درود کی ضیا باریاں ہیں جو تم پر نازل ہو رہی ہیں.مرحومہ فوت ہو گئیں اور میرے دل کا ایک کو نہ خالی ہو گیا.میری وہ سکیم جو مستورات کی تعلیم کے متعلق تھی ، یوں معلوم ہوا کہ ہمیشہ کیلئے تہ کر کے رکھ دی گئی.مگر نہیں.اللہ تعالیٰ مجھے کچھ اور سبق دینا چاہتا تھا.غالباً ۱۹۲۴ ء کا شروع تھا یا ساره بیگم مرحومہ کے متعلق تحریک نکاح ۱۹۲۳ء تھا جب برادرم پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم.اے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے.وہ کچھ بیمار ہوئے اور اُن کیلئے ہومیو پیتھک دوا لینے کیلئے اُن کی چھوٹی ہمشیرہ میرے پاس آئیں انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے اسباب کے متعلق کچھ اس فلسفیانہ رنگ میں مجھ سے گفتگو کی کہ میرے دل پر اس کا ایک گہرا نقش پڑا.جب وہ دوا لے کر چلی گئیں میں اوپر دوسرے گھر کی طرف گیا جس میں میری مرحومہ بیوی رہا کرتی تھیں.وہاں کچھ مذہبی تذکرہ ہوا اور ایک بُرقعہ میں سے ایک سنجیدہ آواز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ڈائری کا حوالہ دیا کہ آپ اس موقع پر اس اس طرح فرماتے ہیں.یہ آواز پروفیسر صاحب کی ہمشیرہ ہی کی تھی اور حوالہ الیسا بر جستہ تھا کہ میں دنگ رہ گیا.میری حیرت کو دیکھ کر امتہ الحی مرحومہ نے کہا انہیں حضرت صاحب کی ڈائریوں اور کتب کے حوالے بہت یاد ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی شعر بھی.یہ کہتی ہیں کہ میں نے الحکم اور بدر میں سے اکثر ڈائریاں پڑھی ہیں اور مجھے یاد ہیں.میرے دل نے کہا یہ بچی ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کیلئے مفید وجود بنے گی.میں وہاں سے چلا گیا اور وہ بات بھول گئی.جب امہ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا.اتفاق سے اس کے والد مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے میں نے ان سے اس کا ذکر کیا اور انہوں نے مہربانی فرما کر میری درخواست کو قبول کیا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو میں نے لڑکی کی صحت کے متعلق رپورٹ کرنے کو بھیجا اور
انوار العلوم جلد ۱۳ ۷۵ میری ساره انہوں نے رپورٹ کی کہ صحت اچھی ہے کچھ فکر کی بات نہیں.ان کی اس رپورٹ پر میں نے جو خط مولوی صاحب کو لکھا.اس کا ایک حصہ حسب ذیل ہے:.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آج واپس تشریف لے آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارہ سلمہا اللہ تعالیٰ کی صحت ایسی نہیں جس سے کچھ خدشہ ہو.چونکہ فیصلہ کی بنا ءطبی مشورہ پر رکھی گئی تھی اور طبی مشورہ موافق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رائے اثبات میں ہو اور سارہ سلمہا اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی رائے رکھتی ہوں تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیا جائے“.اس خط کی نقل میں نے رکھی ہوئی تھی.اتفاقاً آج سارہ بیگم مرحومہ کا پہلا خط تلاش کرنے لگا تو ساتھ ہی اس خط کی نقل بھی مل گئی.غرض یہ خط میں نے لکھا اور مولوی صاحب موصوف نے جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے بخوشی قبول کیا اور ہمارا نکاح ہو گیا.سارہ جو بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں، ۱۹۲۵ ء میں اس سال کی مجلس شوری کے موقع پر میرے نکاح میں آ گئیں، ان کا خطبہ نکاح خود میں نے پڑھا اور اس طرح ایک مُردہ سنت پھر قائم ہوئی.اللہ تعالیٰ کی لاکھوں برکتیں ہوں مولوی عبدالماجد صاحب پر جنہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ایک بے نظیر اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے ارادوں کو پورا کرنے کیلئے مجھے ایک ہتھیار مہیا کر دیا.مرحومہ امتہ الحی کی وفات سارہ بیگم کے نام پہلا خط اور اس کا جواب سے جو ایک قومی نقصان مجھے نظر آتا تھا اس کی ذہنی اذیت نے مجھے اس بات کیلئے بیتاب کر دیا کہ سارہ بیگم کے قادیان آنے سے پہلے ہی انہیں انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں چنانچہ میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں پالا جمال آنے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور امید ظاہر کی کہ وہ میرے لئے مشکلات کا نہیں بلکہ راحت کا موجب بنیں گی.خط کے جواب میں کچھ دیر ہوگئی تو میں نے ایک اور خط لکھا اس کا جو جواب آیا وہ میں نے محفوظ رکھا ہوا تھا.آج کہ مرحومہ اس دنیا سے اُٹھ گئی ہیں، آج کہ ہمارے تعلقات سفلی زندگی کے اثرات سے پاک ہو کر بالکل اور نوعیت کے ہو گئے ہیں، آج کہ نہ ان کیلئے اس خط کے ظاہر ہونے میں کوئی شرم ہے نہ میرے لئے ، میں اس خط کو مرنے
انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره والی کی نیک یاد کو تازہ رکھنے کیلئے درج کرتا ہوں.جب یہ خط مجھے ملا اس وقت بھی میری آنکھیں پر نم تھیں اور آج بھی کہ وہ خط میری آنکھوں کے سامنے اس نہ واپس لوٹ سکنے والے زمانہ کو سامنے لا رہا ہے، میری آنکھیں اشکوں سے پر ہیں.اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور مرحومہ پر بھی رحم فرمائے کہ اگر ہم گندے ہیں تو بھی اس کے ہیں اور نیک ہیں تو بھی اس کے ہیں.وہ خط یہ ہے.د ۲۴.اپریل ۱۹۲۵ء.از احمد یہ ہاؤس بھاگلپور بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میرے واجب الاطاعت خاوند السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عید کی نماز کے معاً بعد آپ کا نامہ ملا.دریافت حالات سے خوشی ہوئی.امید کہ میرا دوسرا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا ہوگا.حیران ہوں کہ کیا جواب تحریر کروں.اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مجھ کو ہر طرح سے آپ کی منشاء اور مرضی کے مطابق بنا کر عملاً اس کا بہترین جواب بنے کی توفیق بخشے ورنہ من آنم کہ من دانم.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے بہ حیثیت آپ کی بیوی ہونے کے اپنے عظیم الشان فرائض کی ادائیگی کی ہمت و طاقت عطا فرمائے اور ہر ایک تنگی و رشی کو اس راہ میں برداشت کرنے کی توفیق دے.میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری ہمت و طاقت وعلم و ایمان و ایقان وصحت میں بیش از پیش برکت عطا فرما کر مجھے اس مقصدِ عالی کے حصول میں کامیاب فرمائے.میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں.اللہ تعالیٰ میرا معین و مددگار ہو.بر آستان آنکه ز خود رفت بیر یار چوں خاک باش و مرضی یاری در آن بجو دعا کرتی ہوں اور کرونگی.آپ کے لئے خصوصاً اللہ پاک میری زبان میں اثر وقوت عطا فرمائے.آپ کے خط میں اپنے نام کو مشدد دیکھ کر پہلے متعجب ہوئی.لفافہ کے اوپر کی عبارت نے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی.اُردو فارسی لغتوں میں دیکھا.لیکن کہیں پتہ نہ چلا آ خرمنتہی الادب میں دیکھا اس میں
انوار العلوم جلد ۱۳ LL میری ساره اس کے معنی لکھے تھے ” زن شادمان کن“ اس انکشاف حقیقت سے مجھے بے حد خوشی ہوئی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقعہ اسم باکسٹی بنائے.میری طبیعت نسبتا اچھی ہے کامل صحت کیلئے دعا کی ضرورت ہے.را قیمہ.آپ کی سارہ ان دوستوں کیلئے جو میری طرح فارسی کا علم کم رکھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں رکھتے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا ترجمہ کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گر جا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر.آہ ! مرحومہ نے اُس وقت جب وہ اپنے نئے گھر میں آئی بھی جو کہا اُسے پورا کر دیا نہ تھی جو کچھ کہا تھا اسے لفظاً لفظاً پورا کر دکھایا.اس کی زندگی رو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا شعر کی مصداق ہو کر رہ گئی.وہ اس عقیدت سے آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر جس نے اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے نفس کو کھو دیا تھا گر جائے اور پھر اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی تلاش میں اس دروازہ کی مٹی ہو کر رہ جائے ، ہمیشہ کیلئے اپنے وجود کو کھو دے.ایک مشتِ خاک ہو جس میں کوئی جان نہ ہو.خواہ اُسے اُٹھا کر پھینک و خواہ اُسے مقدس سمجھ کر تبرک کی طرح رکھ لو.بخدا ! اُس نے جو کہا تھا وہ پورا کر دیا.زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی.وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے.وہ ہمیشہ کیلئے اس آستان پر گر چکی ہے تا خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو.اے رحیم خدا! تو اس گری ہوئی کو اُٹھا لے تو اس پر پوری طرح راضی ہو جا.آمین آخر سارہ اپنے گھر میں آئیں اور ابھی ایک ہفتہ آئی کو نہ ہوا تھا میں مشغولیت کہ تعلیم میں مشغول ہو گئیں.پہلے میں نے انہیں انگریزی شروع کرائی کہ وہ اس زبان سے بالکل نا آشنا تھیں اور پھر اس خاص کلاس میں داخل کرا دیا کہ جو کسی قد رتعلیم یافتہ مستورات کی اعلی تعلیم کیلئے میں نے کھولی تھی.
ZA انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره وہ فارسی اور عربی میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں فارسی شعر انہیں بہت یاد علمی قابلیت تھے ، عربی میں صرف ونحو انہیں خوب آتی تھی ، حتی کہ وہ بعض وقت اپنے نئے اُستادوں کو دق کر دیتی تھیں.عربی ادب میں کمی تھی ، اسے انہوں نے نئی کلاس میں پورا کرنا شروع کیا.انگریزی بالکل نہ جانتی تھیں، اس وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی اور باقی مضامین پر اس کا اثر پڑتا.بہر حال انہوں نے ۱۹۲۹ ء میں پنجاب یونیورسٹی کے مولوی کا امتحان دیا اور پنجاب میں تیسرے نمبر پر پاس ہوئیں.انگریزی کی تعلیم اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے وہ کچھ انگریزی کی تعلیم حاصل کر لیں اور بعد مشورہ یہ تجویز قرار پائی کہ وہ بجائے خالی انگریزی کا امتحان دینے کے میٹرک کا پورا امتحان دے دیں چنانچہ انہوں نے اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلّمہا اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ۱۹۳۱ ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور دو سال میں ہی گویا پانچ سال کی پڑھائی ختم کر کے اچھے نمبروں پر انٹرنس میں پاس ہوئیں.اس کے بعد عربی تعلیم کے شروع کرنے سے پہلے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ انگریزی تعلیم ختم کر لیں اور انہیں ایف.اے کی تیاری پر لگا دیا.ایف.اے کی تیاری میں بہت سی مشکلات ایف.اے کی تعلیم میں مشکلات پیش آئیں.استاد ملنے مشکل ہوئے اور فلاسفی اور تاریخ کے پرچوں کی تیاری بالکل ادھوری رہی.تاریخ کیلئے تو برا بر دو سال تک کوئی اُستاد نہ ملا.فلاسفی کیلئے بھی صرف ایک دو ماہ انتظام ہو سکا اور اس طرح محنت ، فکر اور گھبراہٹ نے سارہ بیگم کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا.ان ایام میں اُن کی آواز سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی خالی چیز بجتی ہے مگر پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری.بیچ میں کئی دفعہ بیمار پڑیں اور بعض حصے کتابوں کے بالکل رہ گئے جس کے لئے آخری ایام میں انہیں دُہری محنت اُٹھانی پڑی لیکن باوجود اس محنت کے بوجہ نا مناسب حالات کے اپنی صحت بھی خراب کی اور امتحان میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر انہیں جو ہمیشہ کامیاب رہتی تھیں اس ناکامی کے صدمہ سے محفوظ رکھا کیونکہ اس کی رحمت نے نتیجہ سے پہلے ہی انہیں اُٹھا لیا.سارہ بیگم کا خط بہت اچھا تھا بہت سے مردوں سے بھی زیادہ عمدہ خط اور زود نویسی اچھا تھا اور میرے خط سے تو بہت ہی بہتر تھا.خوب
انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره تیز لکھ سکتی تھیں اور کئی مضامین میں نے ان سے لکھوائے ہیں.ان کی زود نویسی کی وجہ سے خیالات میں پریشانی نہ ہوتی اور میں آسانی سے انہیں مضمون لکھوا سکتا تھا.سارہ بیگم کی اولاد اس عرصہ میں ان کے پانچ بچے ہوئے دو ایام حمل میں ہی ضائع ہو گئے اور تین خدا کے فضل سے زندہ ہیں.بڑے کا نام رفیع احمد ہے، درمیانی لڑکی ہے اور اس کا نام امتہ النصیر ہے، چھوٹے بچے کا نام حنیف احمد ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اسم بامسمی بنائے اور اس قسم کے نیک اعمال کی توفیق دے کہ اپنی ماں کیلئے نیک یادگار چھوڑیں اور ان کے نیک کاموں کی وجہ سے ان کی ماں کا درجہ بلند ہوتا رہے.یہ بچے اپنی ماں کی طرح نہایت صابر ہیں.حنیف احمد سلمہ اللہ تعالیٰ تو ابھی چھوٹا ہے.وہ چونکہ صرف ڈیڑھ ماہ کا تھا کہ ان کی پڑھائی کی وجہ سے ماں سے جدا کر دیا گیا اور ننھیال بھجوا دیا گیا وہاں سے ماں کی وفات سے صرف تین دن پہلے آیا وہ گویا اپنی ماں سے بالکل نا واقف ہے اور ابھی اس کی عمر بھی ایک سال سے دو تین ماہ او پر ہے اس لئے اسے تو ماں کی موت یا زندگی کی کوئی جس ہی نہیں.چھ سالہ بچہ کا غیر معمولی عمل لیکن رفیع احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کہ وہ بھی اپنے ننھیال گیا ہوا تھا اور والدہ کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آیا.اس کی عمر چھ سال سے کچھ اوپر ہے.اس کی نسبت را ولپنڈی سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ جوں ہی ان کی والدہ فوت ہوئی ، وہ اپنی بہن امتہ النصیر کو جو والدہ کے پاس رہنے کے سبب سے سب سے زیادہ والدہ سے مانوس تھی ، ایک طرف لے گیا اور ایک دروازہ کے پیچھے کھڑے ہو کر دیر تک اسے کچھ سمجھا تا رہا.اس کے بعد جب مرحومہ کو نسل دے کر چار پائی پر لٹا دیا گیا تو ایک پھولوں کا ہار لے کر آیا اور پہلے والدہ کے ماتھے پر بوسہ دیا پھر ہار گلے میں ڈال کر اپنے آنسؤوں کو بزور روکتا ہوا اپنے منہ کو ایک طرف کر کے تا کہ اس کے جذبات کو کوئی دیکھ نہ لے، دوسرے کمرہ میں چلا گیا.اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ ایک چھ برس کا بچہ ہے، یہ عمل ایک غیر معمولی عمل ہے، ایک حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے.جب میں واپس آیا اور میں نے رفیع احمد کو بلوایا تو میں نے دیکھا کہ وہ میری آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملاتا تھا اور اپنے جذبات کو پورے طور پر دبانے کی کوشش کر رہا تھا.وہ ڈرتا تھا کہ اگر میری آنکھوں سے اُس کی آنکھیں ملیں تو اپنے آنسو نہیں روک سکے گا شاید وہ کہیں چُھپ کر رویا ہو تو رویا ہو میں نے اُسے روتے ہوئے نہیں دیکھا.
۸۰ انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره رفیع احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کیلئے دعا رحیم و کریم بادشاہ ٹو نے اس بچہ کے صبر کو تو دیکھا ہے اس کے صبر کو دیکھ کر میرا نفس شرمندہ ہے، تو اسے سنگدلی سے محفوظ رکھ ، تُو اِس کے اِن دبائے ہوئے جذبات کو مرنے سے محفوظ رکھ ، اگر اس جذبات کو دبانے کی کوشش میں اس کے جذبات مر جائیں ، اگر اس کا دل پتھر کی طرح ٹھنڈا اور سخت ہو جائے تو اے میرے رب ! یہ اس کی اس شاندار کوشش کا ایک بُر ابدلہ ہوگا.پس اے رحیم خدا! گوجذبات کی زندگی ایک موت ہے، ایک سوزش ہے جو ہر وقت انسان کو جلاتی رہتی ہے لیکن اے میرے رب! اِسی موت میں روح کی زندگی ہے اور جذبات کی موت گو بظاہر آرام اور سکون کا موجب ہے لیکن اس آرام اور سکون میں روح کی موت ہے.پس اے میرے رب! میں تجھ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اس بچہ کے اس نیک فعل کو قبول کر اور اس کے جذبات کو مرنے نہ دے بلکہ ایک رحم کرنے والا دل اسے دے، ایک محبت کرنے والا دل اسے دے، ایک سوز سے پُر دل اسے دے، ہاں بظاہر دوزخ نظر آنے والی یہ تینوں چیزیں اسے دے تا کہ وہ تیری جنت کو حاصل کر سکے.آمین.يَا رَبَّ الْعَلَمِينَ.یہ تو رفیع احمد کا حال تھا.امتہ النصیر جو تین ساڑھے تین سالہ بچی کا صبر و استقلال تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب سے بہت زیادہ ان سے مانوس تھی اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئی جیسے کوئی حیران ہوتا ہے.وہ موت سے ناواقف تھی وہ موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھی.نہ معلوم اس کے بھائی نے اسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی، نہ چینی ، نہ چلا ئی وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی نعش کو چار پائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں، رونے لگیں تو کہنے لگی میری امّی تو سو رہی ہیں، یہ کیوں روتی ہیں؟ میری امی جب جاگیں گی تو میں ان سے کہوں گی کہ آپ سوئی تھیں اور عور تیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں.جب میں سفر سے واپس آیا اور امتہ النصیر کو پیار کیا تو اُس کی آنکھیں پر نم تھیں لیکن وہ روئی نہیں.اُس دن تک میں نے کبھی اُسے گلے نہیں لگایا تھا اُس دن پہلی دفعہ میں نے اُسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی حتی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے مگر نہیں یہ میری غلطی تھی یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی.سارہ بیگم دارالا نوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں جب ہم اپنے اصلی گھر دار مسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اس کے پاؤں میں بوٹ
انوار العلوم جلد ۱۳ ΔΙ میری ساره نہیں.ایک شخص کو بوٹ لانے کیلئے کہا گیا وہ بوٹ لے کر دکھانے کیلئے لایا تو میں نے امتہ النصیر سے کہا تم پسند کر لو جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو.وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرہ سے ایک دفعہ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جو بوٹ پسند ہو لے لو مگر میری ماں تو فوت ہو چکی ہے، مجھے بوٹ لے کر کون دے گا.میں اس امر کے بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ وفور جذبات سے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ اگر میں نے بات کی یا وہاں ٹھہرا رہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے اس لئے میں نے فوراً منہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی امی جان کے پاس لے جاؤ.ہمارے گھر میں سب بچے اپنی ماؤں کو خالی امی اور میری بڑی بیوی کو امی جان کہتے ہیں.میں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امتہ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھی وہ نہایت استقلال سے بوٹ اُٹھائے اپنی امی جان کی طرف جارہی تھی.بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے حادثہ کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے.چنانچہ اس کے ایک بھائی نے اُسے دق کیا اور پھر اپنے ظلم کو اور زیادہ سنگین بنانے اور اُس کے دل کو دکھانے کی نیت سے اُسے کہا کہ کیا تم میرے اس چھیڑنے کی شکایت اپنی امی سے کرو گی ؟ اُس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ نہیں بھائی میں اپنی امّی سے شکایت نہیں کر سکتی.” خدا کی کچھم ( خدا کی قسم میری امی تو اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں وہ تو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی“.یہ گفتگو مجھے گھر کے ایک اور بچے نے سنائی اور مجھے یقین ہو گیا کہ امتہ النصیر موت کی حقیقت کو جانتی ہے اُس کا فعل صابرا نہ فعل ہے اور وہ اپنی ماں کی کچی یادگا ر ہے.وہ حقیقت کو جانتے ہوئے اپنے دل پر قابو پائے ہوئے ہے.امۃ النصیر کیلئے دعا اللہ تعالیٰ اس نھی سی گلی کو مُرجھا جانے سے محفوظ رکھے، وہ اس چھوٹے سے دل کو اپنی رحمت کے پانی سے سیراب کرے اور اچھے خیالات اور اچھے افکار اور اچھے جذبات کی کھیتی بنائے جس کے پھل ایک عالم کو زندگی بخش، ایک دنیا کیلئے موجب برکت ثابت ہوں.اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ خدا ! تو جو دلوں کو دیکھتا ہے جانتا ہے کہ یہ بچی کس طرح صبر سے اپنے جذبات کو دبا رہی ہے تیری صفات کا علم تو نہ معلوم اسے ہے یا نہیں مگر تیرے حکم پر تو وہ ہم سے بھی زیادہ بہادری سے عامل ہے.اے مُغیث ! میں تیرے سامنے
انوار العلوم جلد ۳ ۸۲ میری ساره فریادی ہوں کہ اس کے دل کو حوادث کی آندھیوں کے اثر سے محفوظ رکھ.جس طرح اس نے ظاہری صبر کیا ہے، اسے باطن میں بھی صبر دے.جس طرح اس نے ایک زبر دست طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے حقیقی طاقت بھی بخش.میرے رب ! تیری حکمت نے اسے اس کی ماں کی محبت سے اس وقت محروم کر دیا ہے جب کہ وہ ابھی محبت کا سبق سیکھ رہی تھی.عشق و محبت کے سرچشمے ! تو اسے اپنی محبت کی گود میں اٹھا لے اور اپنی محبت کا بیج اس کے دل میں بودے.ہاں ہاں تو اسے اپنے لئے وقف کر لے، اپنی خدمت کیلئے چن لے، وہ تیری ہاں صرف تیری محبت کی متوالی ، تیرے در کی بھکارن اور تیرے دروازے پر ڈھونی رمانے والی ہو، تو اسے دنیا کی نعمتیں بھی دے تا وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو ، تا اس کی محبت ” عصمت بی بی از بے چارگی“ کی مصداق نہ سمجھی جائے لیکن باوجود ہر قسم کی عزت کے اس کا دنیا سے ایسا ہی تعلق ہو جیسا کہ کوئی شخص بارش کے وقت ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ کی طرف جاتے وقت دوڑتا ہوا گزر جاتا ہے.تمام بچوں کیلئے دعا اے میرے رب! میں ان تینوں کو اور اپنے باقی بچوں کو بھی تیرے سپرد کرتا ہوں.یہ دنیا کے گنتے نہ ہوں، یہ تیری جنت کے پرند ہوں، یہ دین کے ستون ہوں اور بیت اللہ کے محافظ ، آسمان کے ستارے جو تاریکی میں گمراہوں کے راہ نما ہوتے ہیں، چمکنے والا سورج جو تاریکی کو پھاڑ کر محنت ، ترقی اور کسب کے لئے راستہ کھول دیتا ہے ، سوتوں کو جگاتا اور بچھڑوں کو ملاتا ہے، یہ محبت کے درخت ہوں جن کے پھل بغض وحسد کی کڑواہٹ سے گلی طور پر پاک ہوتے ہیں، یہ راستہ کا کنواں ہوں جو سایہ دار درختوں سے گھرا ہوا ہو جس پر ہر تھکا ہوا مسافر ہر واقف اور نا واقف آرام کیلئے ٹھہرتا ہو جس کا ٹھنڈا پانی ہر پیاسے کی پیاس بجھاتا اور جس کا لمبا سایہ ہر بے کس کو اپنی پناہ میں لیتا ہو، یہ ظالموں کو ظلم سے روکنے والے مظلوموں کے دوست ، خودموت قبول کر کے دنیا کو زندہ کرنے والے،خود تکلیف اُٹھا کر لوگوں کو آرام دینے والے ہوں ، وہ وسیع الحوصلہ، کریم الاخلاق اور طویل الا یادی ہوں جن کا دستر خوان کسی کیلئے ممنوع نہ ہو، وہ سابق بالخیرات ہوں، ان کا ہاتھ نہ گردن سے بندھا ہوا ہو نہ اس قدر گھلا کہ ندامت وشرمندگی اس کے نتیجہ میں پیدا ہو.اے میرے ہادی ! وہ دین کے مبلغ ہوں ، اسلام کی اشاعت کرنے والے، مُردہ اخلاق کو زندہ کرنے والے، تقویٰ کے مٹے ہوئے راستوں کو پھر روشن کرنے والے، محمد رسول اللہ کے پہلوان، لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم لے کے مصداق ، ابنائے فارس کی سنت کو قائم رکھنے والے، تیرے س
انوار العلوم جلد ۱۳ ۸۳ میری ساره لئے غیرت مند ، تیرے دین کیلئے سینہ سپر ، تیرے رسولوں کے فدائی، پاک محمد مصطفی ﷺ نبیوں کے سردار کے حقیقی فرزند ، عاشق صادق جن کے عشق کی آگ کبھی دھیمی نہ ہوتی ہو.اے میرے مالک ! وہ تیرے غلام ہوں ہاں صرف تیرے غلام، دنیا کے بادشاہوں کے سامنے ان کی گردنیں نیچی نہ ہوں لیکن تیرے دربار میں وہ سب سے زیادہ منکسر المزاج ہوں، پاک نسلوں کے چھوڑنے والے ، دنیا کو معرفت کی راہوں پر چلانے والے، ایک نہ مٹنے والی نیکی کا بیج بونے والے، نیکیوں کو اور اونچالے جانے والے بدوں کی اصلاح کرنے والے ، مُردہ دلی سے متنفر اور روحانی زندگی کے زندہ نمونے.اے میرے حستی و قیوم خدا! وہ اور ان کی اولادیں اور ان کی اولادیں ابد تک دنیا میں تیری امانت ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے، وہ تیرا مال ہوں جسے کوئی چرا نہ سکے، وہ تیرے دین کی عمارت کیلئے کونے کا پتھر ہوں جسے کوئی معمار رڈ نہ کر سکے، وہ تیری کھنچی ہوئی تلواروں میں سے ایک تلوار ہوں جو ہر شر کو جڑ سے کاٹنے والی ہو، وہ تیرے عفو کا ہاتھ ہوں جو گناہگاروں کو معاف کرنے کیلئے بڑھایا جائے ، وہ زیتون کی شاخ ہوں جو طوفان کے ختم ہونے کی بشارت دیتی ہے، ہاں اے حتی و قیوم خدا! وہ تیرا گل ہوں جو تو اپنے بندوں کو جمع کرنے کیلئے بجاتا ہے ، غرضیکہ وہ تیرے ہوں اور تو ان کا ہو یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک اس وحدت کو دیکھ کر کہہ اُٹھے کہ :.من تو هدم تو من شدی من تن هدم تو جاں شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری امِيْنَ ثُمَّ آمِينَ وَ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْثُ يَارَبَّ الْعَلَمِينَ سارہ بیگم کی زندگی سارہ بیگ کی زندگی کار خلاصہ کیا جائے تو وہ ان تینوں لفظوں میں آ جاتا ہے.پیدائش، پڑھائی اور موت.انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی پڑھنا شروع کیا اور شادی سے پہلی پڑھائی تو غالباً علم کی خاطر ہوگی لیکن شادی کے بعد ان کی پڑھائی فقط دین کی خدمت کی خاطر تھی.دنیا میں لاکھوں عورتیں پڑھ رہی ہیں ہزاروں ایم.اے.بی.اے موجود ہیں لیکن سارہ بیگم کی پڑھائی اور ان کی پڑھائی میں ایک فرق تھا.عام طور پر عورتیں شادی سے پہلے پڑھتی ہیں جب ۱۸ سالہ کورس ۸ سال میں انہیں کوئی فکر نہیں ہوتا.سارہ بیگم نے اُس وقت
۸۴ انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره بھی پڑھائی جاری رکھی جب کہ ان کی شادی ہو چکی تھی.ایک طرف بچوں کی پیدائش جو نہایت ضعیف کر دینے والا فعل ہے دوسری طرف ایک جماعت کے امام کی بیوی ہونے کے فرائض کی ادائیگی.تیسری طرف کم و بیش گھر کے کاموں کا انصرام.چوتھے خاوند کی خدمت.اس پر مستزاد ایک ایسی تعلیم جو بالکل فارغ رہنے والے طالب علموں کو بھی گھبرا دیتی ہے.آٹھ سال وہ شادی کے بعد زندہ رہیں اس آٹھ سال کے عرصہ میں انہوں نے چار امتحان دیئے جن میں سے تین میں وہ کامیاب ہوئیں اور آخری امتحان میں بوجہ تعلیم کا پورا سامان نہ ہونے کے وہ فیل ہوئیں.اس عرصہ میں پانچ بچے انہوں نے بنے ، دو کو دودھ پلایا ، گھر کے کام کاج اور سلسلہ کے کام کاج میں بھی ایک حد تک حصہ لیا، بچوں کی تربیت بھی کی، اس آٹھ سال میں جو پڑھائی انہوں نے کی وہ سرکاری نصاب میں اٹھارہ سال کی قرار دی گئی ہے گویا اٹھارہ سالہ کورس آٹھ سال میں ختم کیا اور اس کے علاوہ وہ سب ذمہ داریاں ادا کیں جو عام طور پر عورت کی توجہ کو پوری طرح کھینچنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہیں.میں نے انہیں دیکھا ہے رات کے دردو بجے تک بستر پر لیٹے ہوئے کتاب پڑھتی رہتی تھیں ، نیند بالکل اُڑ گئی تھی، بعض دفعہ کئی کئی دن تک نیند نہیں آتی تھی ، مگر صبر اس قد ر تھا کہ ہفتوں کی تکلیف کے بعد کبھی ایک دفعہ شکایت کرتی تھیں اور وہ بھی اس زور سے نہیں کہ طبیعت میں ملال پیدا ہو.محض خدا کیلئے حصول تعلیم اس سے بھی زیادہ فرق ان کی تعلیم اور دوسروں کی تعلیم میں یہ تھا کہ دوسری عورتیں اپنے نفس یا اپنی قوم کیلئے تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے اپنے آخری سالوں میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ، اسلام کی خدمت کیلئے تعلیم حاصل کی.اس لئے اس بوجھ کو اٹھایا کہ جماعت کی مستورات کی دینی اور دنیوی ترقی کیلئے مفید ہوسکیں.غرض پیدائش اور موت کے علاوہ ان کا سب وقت دوسروں کے فائدہ کیلئے خرچ ہوا.انہوں نے اپنی زندگی سے ایک ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں اُٹھایا.اس عرصہ میں اپنے بچوں سے عام طور پر جدار ہیں.حتی کہ عمر کے آخری سال میں بھی ان کے دو بچے ان سے جدا تھے وہ ان کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آئے.ان کی طبیعت میں بچوں کی محبت عام عورتوں سے بھی زیادہ تھی ، بچوں کے دُکھ کو دیکھ کر بہت بے تاب ہو جاتی تھیں یکن با وجود ایسے جذبات کے انہوں نے محض تعلیم کیلئے بچوں کی جُدائی کو برداشت کیا.ان کے سے احساسات رکھنے والی عورت کیلئے یہ ایک عظیم الشان قربانی تھی ، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے.
۸۵ انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره میری امتہ الحی کو بھی پڑھنے امتہ الحی اور سارہ بیگم کی خاص خصوصیات اور پڑھانے کا شوق تھا.لیکن وہ زیادہ محنت نہیں کر سکتی تھیں.ان کا حافظہ بھی کمزور تھا اس وجہ سے وہ تعلیم کی زبر دست خواہش کے باوجود ایک حد سے او پر علمی ترقی نہیں کر سکیں.ہاں ان میں علم پڑھانے کا ملکہ اور شوق ساره بیگم سے زیادہ تھا اور وہ سارہ بیگم سے زیادہ ذہین تھیں لیکن سارہ بیگم حافظہ اور استقلال کے لحاظ سے امتہ الحی مرحومہ سے بہت زیادہ تھیں.امتہ الحی کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی پھولوں سے ان کی خوشبو جمع کرتا ہوا چلا جائے.سارہ بیگم کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی صبر سے انتظار کرے اور جب پھولوں میں بیج آجائیں تو وہ ان بیجوں کو جمع کرے تا کہ انہیں دوسرے باغیچوں میں بو کر نئے پھول پیدا کرے.ایک بجلی کی ایک چمک تھی جود نیا کو روشن کرتی ہوئی چلی جاتی ہے ایک بارش کی باریک پھوار تھی جو زمین کے اندر دھنس کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے.اول الذکر ان خوش قسمتوں میں سے تھیں جو اپنی چمک سے لوگوں کی توجہ کو کھینچ لیتے ہیں.ثانی الذکر اُن لوگوں میں سے تھیں جو خاموشی سے اپنا خون درخت کی جڑ میں ڈال دیتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے فراموش کر دیئے جاتے ہیں.اوّل الذکر ایک بڑے باپ کی بیٹی اس کے شاگردوں کے حلقہ میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والی تھی.ثانی الذکر اپنے وطن سے دُور اپنے جان پہچان لوگوں سے علیحدہ اجنبیوں میں زندگی بسر کرنے کیلئے آئی اور خاکساری سے اُس نے اپنے دن پورے کر دیئے.ایک کو ناز پر غرور تھا تو دوسری کو نیاز کا سہارا.ایک سمجھتی تھی میں اس گھر کے لوگوں میں سے ایک ہوں اور ہر جگہ میرے لئے گھلی ہے دوسری خیال کرتی تھی ان لوگوں نے رحم کر کے اپنے گھر کا دروازہ میرے لئے کھولا ہے مجھے یہ جہاں بھی بٹھا ئیں ان کا مجھ پر احسان ہے.بعض دفعہ گھر کے بعض آدمیوں کی طرف سے اُن کے ساتھ سختی کا برتاؤ ہو جاتا تو میں نے دیکھا ہے وہ نسبتا تحمل کی طرف مائل ہوئیں اور اکثر اس حربہ کو بھی استعمال نہ کرتیں جو قدرت نے عورت کو بخشا ہے یعنی گریہ وزاری سے بھی اپنی طرف توجہ پھر انے کی کوشش نہ کرتیں بلکہ چہرہ سے صبر وتحمل کے آثار ظاہر ہوتے.میں طبعاً اِس روح کو نہایت محبوب رکھتا ہوں یہ روح میرے نزدیک عارضی تکلیف کا بے شک موجب ہوتی ہے لیکن اس سے اعلیٰ اخلاق کے پیدا ہونے ، ہمت کے بلند ہونے اور مصائب کی برداشت کرنے کی عادت میں بہت مدد ملتی ہے.ان وجوہ سے میں جان بوجھ کر بھی ایسے موقع پر خاموش رہتا.اگر کبھی میں تسلی دینا ہی ضروری سمجھتا تو اُس وقت میرا ایک لفظ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۸۶ میری ساره اُن کے لئے مرہم کا فور ہو جاتا اور میرا ایک دلا سا جام حیات بخش.میں ایک معیار ان کے لئے تیار کر رہا تھا مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا.میں انہیں اس آگ میں سے گزارنا چاہتا تھا جس میں سے گزرے بغیر بڑے کام کرنے کی قابلیت پیدا نہیں ہو سکتی.دنیا شاید مجھے خو دفراموش خاوند تصور کرتی تھی مگر میں ایک معمار تھا جو اپنا قیمتی سامان مینار کی بنیاد میں غرق کرتا چلا جاتا ہے مگر ہم سے بالا ایک ہستی تھی وہ ہم دونوں پر ہنستی تھی وہ کہتی تھی.اے لوگو! یہ نہ تمہاری ہمدردی کے لئے باقی رہے گی نہ اے خاوند ! تیری بلندیوں کیلئے.اسے میں نے اپنے لئے چن لیا ہے.کون ہے جو انکسار کی داد دے، کون ہے جو عاجزوں کو سینے سے لگائے ، میں اور صرف میں.پس اپنے ہاتھ اس کے کندھوں پر سے ہٹا لو، اس کا راستہ چھوڑ دو، اسے میرے پاس آنے دو وہ میری ہے اور میرے ہی پاس آئے گی.اے مخلص باپ کی مسکین بیٹی ! خدا کی مجھ پر رحمتیں ہوں تو نے اس دنیا میں لوگوں کیلئے زندگی بسر کی.خدا تعالیٰ اگلے جہان کو تیرے لئے خوشی کی جگہ بنادے، تیرے گناہ مٹائے جائیں اور تیری نیکیاں بڑھیں.سارہ بیگم کی ایک پاک خواہش پر قومہ نے جب ایف اے کا امتحان دیا تو میں نے اُن سے کہا کہ اب تم سرے کے قریب پہنچ چکی ہو اللہ تعالیٰ پاس کر دے تو بی.اے کی تیاری کرو.شاید اس طرح تم کو زنا نہ سکول میں کام کرنے کا موقع ملے اور سلسلہ کو بغیر مالی بوجھ برداشت کرنے کے ایک ہیڈ مسٹرس مل جائے انہوں نے اس کا ارادہ تو کر لیا لیکن اُن کے ایک استاد ماسٹر محمد حسین صاحب کی روایت ہے کہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ میں نے آگے تب پڑھنا ہے جب میں حضرت صاحب سے وعدہ لے لوں گی کہ وہ خود مجھے قرآن کریم کی تفسیر پڑھا ئیں.اے اپنی قربانیوں کا بدلہ قرآن پڑھنے کی صورت میں چاہنے والی ! تیری ایسی پاک خواہش کا صلہ اس قدر حقیر نہ تھا کہ مجھ سا کم علم تجھے قرآن پڑھائے.جا! تیری اس پاک و بلند خواہش کا صلہ تیرا رب دینا چاہتا ہے، جا اور اُس سے قرآن پڑھ جس نے قرآن اُتارا ہے.اُس سے زیادہ اس پاک کلام کے معارف کون سکھا سکتا ہے؟ مگر میں بھی تیری اس پاک خواہش کی عزت کرتے ہوئے إِنْشَاءَ اللہ تیرے نام پر قرآن کی کوئی خدمت کروں گا تا تیری خواہش لفظاً بھی پوری ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت مجھے ابھی کچھ عرصہ کیلئے اور اس دنیا میں رکھنا چاہتی ہے تو انشاء اللہ تیری
۸۷ انوار العلوم جلد ۱۳ اولاد کو خود قرآن پڑھاؤں گا تا ان کی معرفت تجھے صدقہ جاریہ پہنچتا رہے.میری ساره مرحومہ ادب کے مقام پر کھڑی تھیں بیوی میاں کے تعلقات ایسے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ان میں بعض امور کے متعلق رنجش بھی ہو جاتی ہے.ممکن ہے کبھی کوئی چھوٹی موٹی رنجش مرحومہ کو بھی مجھ سے ہوئی ہو، ممکن ہے کبھی کسی امر میں انہوں نے کامل فرمانبرداری نہ کی ہو لیکن عام طور پر اُن کا طریق نہایت فرمانبرداری کا تھا.وہ مجھے تکلیف سے بچانے کیلئے دوسری بیویوں کے مقابل میں خود تکلیف برداشت کر لیتی تھیں اور کبھی اونچی آواز سے یا بے ادبانہ لہجہ میں وہ مجھ سے ہمکلام نہیں ہوئیں.ادب کا یہ مقام ایسا اعلیٰ تھا کہ اُن کے رشتہ داروں کی طرف سے بھی ہمیشہ مجھ سے ادب کا ہی معاملہ رہا.میری کوئی بیوی ایسی نہیں جسے میں اس امر میں اُن کے مقابل پر رکھ سکوں.بعض نے خود اس نظریہ کو نظر انداز کر دیا کہ اُن کا خاوند صرف ان کا خاوند نہیں بلکہ خلیفہ وقت بھی ہے اور یہ کہ ان کی بے ادبی دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی بے ادبی کے احساسات پیدا کر سکتی ہے، بعض کے رشتہ داروں کی حرکات میرے لئے تکلیف کا موجب ہوئی ہیں اور بعض دفعہ تو ایسی سخت کہ دشمن سے دشمن کا فعل ان کے افعال کے مقابل میں حقیر ہو گیا ہے لیکن سارہ بیگم کا اپنا رویہ یا ان کے رشتہ داروں کا رویہ نہایت اعلیٰ اور ہمیشہ مقامِ ادب پر قائم رہنے والا رویہ تھا.ان کی طرف سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس میں گستاخانہ یا بے ادبانہ رنگ ہو اور ان کے رشتہ دار کبھی مجھے اپنا عزیر سمجھ کر گستاخ نہیں ہوئے.وہ مجھے خلیفہ ہی سمجھتے رہے اور اسی رنگ میں انہوں نے مجھ سے ہمیشہ سلوک کیا.اس خاندان کا یہ فعل ایسا قابلِ قدر ہے کہ میں سمجھتا ہوں انہیں ضرور اس دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مدارج پر فائز کرے گا اور ان کی نسلیں اس عمل کا نیک بدلہ پائیں گی.میر اعلم یہی ہے آگے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.سارہ بیگم کے استاد ماسٹر محمد حسین صاحب کی گواہی بھی اس کے عین مطابق ہے.وہ لکھتے ہیں.ایک بات جس نے میرے دل پر گہرا اثر کیا، وہ یہ تھی کہ آپ کی عظمت اور جبروت کے گہرے نقوش وہ اپنے دل پر لئے ہوئے تھیں اور کبھی پڑھنا نہیں شروع کیا جب کہ کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کا اثر مجھ پر نہ پڑا ہو کہ ان کو خدا نے وہ نظر تعمق بخشی ہے جس سے انہوں نے حضور کی شخصیت کے عمق کو ناپا ہے اور آپ کی وسعت کا نظارہ کیا ہے اور جب بھی بیماری کی حالت میں انہوں نے پڑھنا تو میں نے کہنا کہ آپ
انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره کیوں نہیں پڑھنا چھوڑ دیتے تو ہمیشہ یہ جواب ملتا کہ میں حکم کی بندی ہوں، میری کوئی چیز بھی اپنی نہیں “.حضور! میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میری عقیدت جو آپ کی ذات سے ہے، اگر اس میں شعور بخشا تو مرحومہ کے اُس علم نے جو اُس کو خدا نے آپ کے متعلق عطا فرمایا تھا.“ پھر لکھتے ہیں کہ جب امتحان کے سنٹر کا سوال تھا تو میں نے اُن سے جب تاکید سے کہا کہ وہ حضور سے کہیں تو کہنے لگیں.ماسٹر صاحب ! آپ کو کیا علم ہے کہ میری طبیعت پر حضرت صاحب کا رعب کتنا غالب ہے.میں تو اُن کی موجودگی میں مرعوب رہتی ہوں جب میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں اور پھر اُن پر نظر ڈالتی ہوں تو شرمندہ ہو جاتی ہوں“.پھر لکھتے ہیں کہ:.وہ فیل ہونے سے بڑی گھبراتی تھیں.میرے پوچھنے پر کہ وہ آخر اتنا کیوں گھبراتی ہیں؟ تو اس کا جواب بھی یہی دیتیں کہ میرے فیل ہونے سے حضرت صاحب کی تجاویز فیل ہوتی ہیں“.مرحومہ کو علم کے حصول کیلئے جو شغف تھا مرحومہ کا علم سیکھنے کا شغف اور اخلاق اس سے مطلق انہی ماسٹر صاحب کا ایک اور فقرہ درج کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں.د میں نے ہمیشہ دیکھا کہ مطالعہ میں خود فرا موشی کی سی حالت رہتی تھی اور ایسا احساس ہوتا تھا کہ واقعی وہ ایک مشین ہیں اور کوئی چلانے والا ہے جس کے اشارہ پر وہ چل رہی ہیں“.ان کے ایک اور استاد چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے چھوٹے بھائی چوہدری عبداللہ خاں صاحب بی.اے لکھتے ہیں.آج چوہدری فضل داد صاحب کلرک قبلہ برادرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ محترمہ سیدہ آپا جان سارہ بیگم صاحبہ اپنے خالق و مالک حقیقی سے جاملی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - حضور ! جس قد رصدمہ حضور کے گنہ گار خادم اور آمنہ ( ان
انوار العلوم جلد ۱۳ ۸۹ میری ساره کی اہلیہ کو ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.آمنہ نے جس وقت سے سنا ہے وہ پڑی ہوئی ہے اور رورہی ہے.حضور کا خادم فوراً حاضر ہوتا اور محترمہ سیدہ موصوفہ مرحومہ خلد د الله مكانها کے مزار مبارک پر پہنچتا مگر یہ گناہگار شومی قسمت سے اس وقت فم معدہ کے دورہ میں مبتلاء بستر پر پڑا ہے اور اسی حالت میں یہ عریضہ لکھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ دے.آمین.جنازہ غائب اِنشَاءَ اللہ پڑھا جائے گا.حضور ! حضور کی ازواج مطہرات تمام کی تمام ہم گنہ گاروں کیلئے بے حد قابل عزت و تکریم ہیں اور مجھ گنہ گار کے دل میں مرنے تک یہ عزت قائم رہے گی مگر آپا محترمہ سیدہ حضرت امتہ الحی مرحومہ خلد اللهُ مَكَانَهَا کے بعد آپا جان امتہ محترمه سیده ساره بیگم صاحبہ مرحومه خلد الله مَكَانَهَا ایک لعلِ بے بہا اور درخشندہ گو ہر تھیں، وہ ایک انمول موتی تھیں ، وہ سلسلہ عالیہ میں ایک بہت بڑار کن تھیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ کہ مجھے اُن کی خدمت کا شرف تھوڑا سا عرصہ حاصل ہوا ہے.( چوہدری صاحب انہیں فلاسفی پڑھاتے رہے ہیں.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ) اور اس قلیل عرصہ میں میں نے اُن میں ایسی خوبیاں دیکھیں کہ تمام عمر فراموش نہیں ہو سکیں گی اور تمام عورتوں کیلئے اُن کی زندگی مشعل راہ ہے.امورِ خانہ داری، بچوں کی دیکھ بھال، لجنہ کا کام پھر تعلیم حاصل کرنے کا اس قدر شوق یہ سب کچھ اُن کی ذات ہی سے ہو سکتا تھا“.یہ تو دو استادوں کے خطوط ہیں.ایک غیر مذہب کی معزز خاتون جو ایف.اے کے امتحان کی نگران ہو کر آئی تھیں، یعنی مسز سنگھا جو مسٹر سنگھا کنٹرولر آف اگر یمینیشن پنجاب یونیورسٹی کی اہلیہ صاحبہ ہیں تحریر فرماتی ہیں:.ساره بیگم ایک نہایت ہی با اخلاق عورت تھیں.مجھے انہیں صرف چند دن دیکھنے کا موقع ملا.(یعنی جب وہ امتحان کی نگرانی کیلئے تشریف لائی تھیں ) لیکن انہوں نے میرے دل میں اس حد تک اپنا گھر بنا لیا کہ میرے لئے یہ خیال کرنا بھی ناممکن ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں“.وہ خاموش منکسر المزاج اور ہمدردانہ رنگ رکھنے والی تھیں، سیارہ بیگم کی عادات لیکن ہنسی اور مزاح کی عادی نہ تھیں، وہ مزاح کو سمجھنے کی بھی اہلیت نہ رکھتی تھیں اور مولویانہ سا رنگ اُن پر غالب تھا.چونکہ ہمارا خاندان مزاح کا زبردست میلان رکھتا ہے اور باوجود سنجیدگی کے خوش مزاج ہے کئی دفعہ اس وجہ سے غلط فہمی ہو جاتی میں کبھی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۰ میری ساره ان سے ہنسی مذاق کی بات کرتا تو وہ اسے سنجیدگی پر محمول کرتیں اور کئی دفعہ انہیں یہ یقین دلانے میں کہ یہ بنی تھی ، اچھی خاصی دقت ہوتی.جب وہ شروع میں آئیں تو چندہ دینے پر اس قدر دلیر نہ تھیں یعنی ماہوار چندہ کے علاوہ دوسرے چندوں میں زیادہ دلیری سے حصہ نہیں لیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ یہ نقص دور ہو گیا تھا.ہاں تکلف ان کی طبیعت میں نہ تھا ، نمائش نہ تھی ، وہ جو کچھ دیتیں ، خدا کیلئے دیتی تھیں.اُن کی وفات پر درد صاحب کی ہمشیرہ نے مجھے پیغام بھجوایا کہ بیماری کی حالت میں کہتی تھیں کہ میں نے توسیع مسجد اقصیٰ کے لئے ایک سو روپیہ چندہ دینے کی نیت کی ہوئی ہے اور اپنا گلو بند بیچ کر اس میں سے اس رقم کو ادا کرنا ہے اگر میں مرگئی تو حضرت صاحب سے کہنا کہ میری طرف سے میرا گلو بند فروخت کر کے سو روپیہ چندہ توسیع مسجد اقصیٰ میں دے دیں.چونکہ اُن کے پاس دو تین سو کی مالیت کے دو تین زیور تھے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق عمل یاد آ گیا.ایک دفعہ آپ کے ایک داماد ایک جنگ میں قید ہو کر آئے آپ نے دوسرے قیدیوں کی طرح اُن سے بھی فدیہ طلب کیا انہوں نے اپنی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِدَاهُ جِسْمِی وَ قَلْبِی کی صاحبزادی کو کہلا بھیجا کہ روپیہ کا انتظام کرو.ان کے پاس اور تو کچھ نہ تھا والدہ کا دیا ہوا ایک ہار تھا، وہی بھجوا دیا.جس وقت وہ ہار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آپ نے صحابہ کو بلا کر کہا کہ یہ ہار خدیجہ مرحومہ نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اگر چاہو تو پن ماں کی بچی کو اُس کی ماں کی یادگار واپس کر دو.صحابہ جو اپنی جان و مال آپ پر فدا رکھتے تھے ، اس نظارہ کو دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے مال و جان آپ پر فدا ہوں زینب کو اُن کا ہار وا پس فرمائیے اور اُن کے خاوند کو آزاد.ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ان سے کوئی فدیہ لیا جائے.مجھے بھی یہ واقعہ یاد آیا اور میں نے کہا.ماں کی کوئی یاد گار تو اس چھوٹی سی بچی کے پاس رہنی چاہئے جو بڑی ہو کر اپنی ماں کی صورت بھی یاد نہ کر سکے گی اور روپیہ اپنے پاس سے ادا کر کے گلو بند عزیزہ امت النصیر سلمہا اللہ تعالیٰ کیلئے رکھ لیا.اللہ تعالیٰ اس بار کو اس کے لئے دنیا کی محبت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ اسے یہ سبق دیتا رہے کہ جس طرح اس کی ماں نے یہ ہار خدا کی راہ میں قربان کرنا چاہا تھا اسی طرح اسے بھی چاہئے کہ جو کچھ بھی خدا اسے دے، وہ اسے نیکی کی راہ میں خرچ کرتی جائے.اللھم امِینَ.مرحومہ نہایت کم گو تھیں لیکن تقریر کر سکتی تھیں ، مضمون اچھا لکھ سکتی تھیں، آیات قرآنیہ سے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۱ میری ساره استدلال کر سکتی تھیں ، بحث مباحثہ بھی کر لیتی تھیں ، طبیعت میں ضد نہ تھی ، اگر معقول بات کی جائے تو اسے تسلیم کر لیتی تھیں، فضول خرچ نہ تھیں، ہمیشہ اپنی آمد کے مطابق خرچ کرتیں ، بعض ہم عصر کنجوسی وغیرہ کا الزام لگا تیں لیکن اس کی پرواہ نہ کرتیں ، ہمیشہ اپنی آمد کے اندر خرچ رکھتیں.امتہ الحی اس کے مقابل پر آمد سے زیادہ خرچ کر بیٹھتی تھیں.اُن کی وفات پر سینکڑوں روپیہ قرض نکلا جو میں نے فوراً ادا کر دیا لیکن سارہ بیگم کی وفات پر ایک پیسہ کا قرض بھی جوان کے حساب میں ہواب تک میرے سامنے نہیں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب انتہا درجہ کا تھا اور اس سبب سے حضرت اماں جان ) اور میری ہمشیرگان کا بھی بے حد ادب کرتی تھیں.وفات سے آدھ گھنٹہ پہلے ان کی کمزوری کو دیکھ کر حضرت اماں جان ) پر رقت طاری ہو گئی تو با وجود اس کے کہ جان کنی کا وقت شروع ہونے والا تھا بے تاب ہو کر آپ کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور رو کر کہا کہ اماں جان! آپ روئیں نہیں ، میں تو اب اچھی ہوں.طبیعت میں جو ایک قسم کی خشکی تھی اس کی وجہ سے بیویوں کی طرح سے بے تکلفانہ بات نہیں کر سکتی تھیں.وفات سے چند دن پہلے میں لاہور سے آیا اور بچوں کیلئے کچھ مٹھائی لایا اس میں سے دو چار ڈلیاں میرے ہاتھ میں تھیں دو بیویاں سامنے تھیں انہیں میں نے ایک ایک ڈلی دی پھر خود ایک ڈلی کھالی اور اس کی تعریف کی کہ یہ بہت اچھی ہے.میری ایک بیوی نے ایک اور ڈلی میرے ہاتھ سے لے لی کہ یہ میں کھاؤں گی.ایک ڈلی رہ گئی تھی وہ میں نے پاس میز پر یہ دیکھنے کیلئے رکھ دی کہ کیا سارہ بیگم وہ ڈلی لیتی ہیں.وہ آگے بڑھیں کہ یہ میں کھاؤں گی اور میری طرف دیکھا.چونکہ میں تو ان کا امتحان ہی کر رہا تھا میں خاموش ہو رہا.پاس جا کر یہ کہتی ہوئی لوٹ آئیں کہ اچھا میں نہیں لیتی.ان کے چہرہ سے صدمہ معلوم ہوتا تھا کہ میں نے کیوں نہیں کہا کہ تم شوق سے کھا لو اور میرا دل غمگین تھا کہ انہوں نے کیوں خود اُٹھا کر نہیں کھائی.ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا.ہم دونوں دل شکستہ تھے.آہ! محبت بھی عجیب ہے ہے.وہ ایک کے دل میں کچھ خیال پیدا کرتی ہے اور دوسرے کے دل میں کچھ.وہ دو دھاری تلوار ہے جو د وطرف وار کرتی ہے.مگر وہ دن گئے اب تو ان پر حقیقت گھل چکی ہوگی.اب امتحانوں کا زمانہ گیا نتیجے نکل چکے.اب وہاں انہیں معلوم ہو چکا ہو گا کہ مجھے اُن سے کس قدر محبت تھی.غم تو میرے دل کیلئے ہے جس پر اس رنگ میں حقیقت اب تک نہیں کھلی.امتہ الحی مرحومہ اس میں ان سے مختلف تھیں وہ ایسے موقع پر ناز سے لیکن ادب کے ساتھ اپنا حق لئے بغیر نہ رہتیں.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۲ میری ساره سلسلہ کیلئے ان کے دل میں بڑی غیرت تھی.وہ کبھی پیغامیت کی روح کو سمجھ ہی نہیں سکیں.سلسلہ کی کامیابیوں پر جو انھیں خوشی ہوتی وہ دیکھنے کے قابل ہوتی تھی.ہمارے تعلقات شادی کے وقت سے چونکہ میں ان کے متعلق یہ وعدہ کر چکا تھا کہ سلسلہ کی خدمت کیلئے انہیں تیار کروں گا اس لئے عام طور پر ایسا رویہ اُن سے رکھا کہ دل دُنیوی خواہشات کی طرف مائل نہ ہو.وہ بھی اس امر کو سمجھتیں اور کئی دفعہ پڑھائی کے دنوں میں اپنی باری کو چھوڑ دیتیں چنانچہ وفات سے پہلے بھی امتحان کی تیاری اور پھر امتحان کی وجہ سے باری چھٹی ہوئی تھی.کمزور تھیں زیادہ خدمت نہ کر سکتی تھیں لیکن بوجہ سمجھدار ہونے کے جو کام کرتیں اچھا کرتیں.ہم دونوں اپنے دل میں یہ خیال رکھتے تھے کہ ہمیں اپنی محبت کو اُس وقت تک دبائے رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں.وہ بوجہ کمزور ہونے کے بعض دفعہ اس سے زیادہ تکلیف محسوس کرتیں مگر پھر سمجھانے سے سمجھ جاتیں.درحقیقت چند راتوں کے سوا انہوں نے حقیقی معنوں میں شادی کی زندگی کا لطف نہیں دیکھا اور ان کی زندگی معنوی رنگ میں کنوارپنے کی زندگی کہلانی چاہئے.مجھ میں اور ان میں ایک اختلاف رہتا تھا.مجھے اس امر سے نفرت ہے کہ میری بیوی اپنی ضرورت کو لکھ کر پیش کرے ان کو بوجہ ادب کے زبانی بات کرنے سے حجاب تھا اس وجہ سے کئی دفعہ بدمزگی ہو جاتی.میں مُصر تھا کہ جو کچھ کہنا ہو زبانی کہو اور وہ بوجہ حجاب پھر تحریر کی طرف متوجہ ہو جاتیں.اس کے سوا مجھے نہیں یاد کہ کوئی اہم اختلاف طبائع میں ہو.باقی چھوٹے موٹے اختلاف تو ہوتے ہی رہتے ہیں.مٹھائی کے متعلق جو اوپر واقعہ لکھ آیا ہوں وہ بھی جو ہر کے لحاظ سے اسی قسم کے واقعات میں سے ہے.سارہ بیگم کی وفات تعلیم اور فکروں نے کمزور کر دیا تھا ، جسم نحیف اب اس دنیا کے بوجھ اُٹھانے کی زیادہ طاقت نہیں رکھتا تھا میرا ارادہ تھا کہ جلد انہیں لے کر کسی پہاڑ پر جاؤں کہ کشمیر کمیٹی کے کام کی وجہ سے ایک ہفتہ سفر ملتوی کرنا پڑا ، اتنے میں عزیزم کیپٹین تقی الدین احمد صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ میری ہمشیرہ کو لے کر چند دن کیلئے آئیں انہیں ان کی ملاقات کیلئے راولپنڈی لے گیا.میرے جانے کے دوسرے دن بعد بھاگلپور سے بچے آئے چونکہ موٹر میرے ساتھ گئی ہوئی تھی بچوں کے کپڑے لینے کیلئے گھر آئیں چونکہ حمل کی وجہ سے تکلیف پہلے سے تھی پیدل گھر آنے اور کپڑے نکالنے کے کام سے تکلیف بڑھ گئی.اگر وہاں سے ہی واپس چلی جاتیں تو شاید تکلیف اس قدر نہ ہوتی.بچوں کو حضرت (اماں
۹۳ انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره جان ) اور میری چھوٹی ہمشیرہ کو ملوانے برادرم نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر لے گئیں ، اس سے رہی سہی طاقت زائل ہو گئی ، طبیعت پر اس قدر بوجھ تھا کہ کوٹھی سے چلتے ہوئے میری ہمشیرہ کو گلے لگا کر ملیں اور کہا کہ آئیں آخری دفعہ کیلئے گلے تو مل لیں.انہوں نے منع کیا کہ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو تو کہا کہ میری حالت ایسی ہے کہ شاید اب کے جانبر نہ ہوسکوں گی.بعض لوگوں سے ہماری واپسی کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کب آئیں گے جب کسی نے کہا کہ جلد ہی آجائیں گے تو کہا کہ خیر ملاقات تو ہو جائے گی.یہ سب طبیعت کی کمزوری کا مظاہرہ تھا.گھر پہنچیں تو دردزہ شروع ہوگئی اور خون آنے لگا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے ساری رات جاگ کر کائی اور علاج کا کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا ہاں دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ کے معاملہ میں اُن سے کوتاہی ہوئی اسی طرح دوسرے ذمہ دار کارکنوں سے یہ غلطی ہوئی کہ مجھے مناسب طریق پر اور جلد جلد اطلاع نہ دی.انہیں یہ احساس تھا کہ مجھے بیمار چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تھا کہ کیسی حالت ہے اور انہوں نے تسلی دلائی تھی کہ قوت بہت کافی ہے اور کوئی خطرہ نہیں.مگر خیر انہیں یہ احساس تھا اور اب کہ واقعات نے انہی کی تصدیق کی ہے ان کے احساس کو حق بجانب کہنا پڑتا ہے خیر اس احساس کے ماتحت جب تک انہیں یہ خیال نہیں ہوا کہ بیماری سخت ہے وہ مجھے اطلاع دینے سے خود روکتی رہیں اور کہتی رہیں انہیں تار نہ دو انہیں تکلیف ہوگی.جہاں تک میرا خیال ہے اُس وقت اُن کا یہ کہنا میری تکلیف کے خیال سے نہ تھا بلکہ ایک شکوہ کا رنگ تھا.جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو نہایت درد سے بار بار لوگوں سے کہا کہ حضرت صاحب کو اور میرے ابا کو تار دو لیکن افسوس کہ پاس کے لوگوں کو ایسا ذھول ہوا کہ کسی نے تار نہ دی یہاں تک کہ اُن کا وقت قریب آ گیا.آخری وقت کے قریب میری تصویر جوان کے کمرہ میں لٹک رہی تھی اُس کی طرف دیکھا، ایک آہ بھری اور سر کو اس طرح جنبش دی جس طرح کہتے ہیں کہ لو اب ہم جاتے ہیں اور کہا کہ اب میری آنکھوں کے آگے بھی اندھیرا آ گیا ہے،اب میرا آخری وقت ہے ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا جو پاس ہی دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے ایک دومنٹ میں وہ آگئے مگر اتنے میں وہ بے ہوش ہو چکی تھیں اور چند ہی منٹ بعد انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کو جان سپرد کر دی اور اسی شعر کے مطابق جو انہوں نے قادیان آنے سے پہلے لکھا تھا.حضرت مسیح موعود کے قدموں میں خاک ہو کر جاپڑیں.بر آستان آنکه ز خود رفت بهر یار
۹۴ انوار العلوم جلد ۱۳ چوں خاک باش و مرضی یارے دراں بجو میری ساره اس مضمون کی غرض میری اس مضمون کے لکھنے سے ایک تو یہ غرض ہے کہ مرحومہ کے نیک از کار کو دنیا میں قائم رکھنے کی کوشش کروں تا کہ جب انکی اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوان ہو تو ان کی نیکیوں کی پیروی کی کوشش کرے.دوسرے میں مستورات کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی تعلیم اور مرحومہ کی تعلیم میں ایک فرق ہے.دوسری مستورات اپنی ذاتی اغراض کیلئے تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن مرحومہ کی غرض صرف خدمت دین تھی اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی.پس ان میں سے بھی جسے اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ دنیا طلبی کا خیال چھوڑ کر خدا کی رضا کو مقدم رکھے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قادیان میں ہمارے گھر کی مستورات کو دیکھ کر تعلیم کا عام چر چاہے لیکن بہت سی لڑکیاں محض روٹی کمانے کے لئے اور نوکری کرنے کیلئے پڑھ رہی ہیں حالانکہ عورت کا کام نوکری کرنا نہیں ہے.یہ عورتوں کی ملازمتوں کا دستور مغربیت کی لعنتی یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے.اسلام نے روپیہ بہم پہنچا نا مرد کے ذمہ لگایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَي بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَالصَّلِحْتُ قنتت حفِظتُ لِلْغَيْب بمَا حَفِظَ الله یعنی مرد عورتوں پر بطور نگران مقرر ہیں اس وجہ سے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.یعنی مرد کو نگرانی کے مواقع اور نگرانی کی قوتیں زیادہ عطا فرمائی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ مرد کا کام ہے کہ وہ عورت کی ضرورتوں کو مہیا کرے اور اس پر اموال خرچ کرے.پس نیک عورتوں کو چاہئے کہ بجائے کسی دوسری طرح اپنے اوقات خرچ کرنے کے مردوں کی حفاظت اور نگرانی میں اپنے وقت بسر کریں اور مردوں کی غیر حاضری میں جب کہ وہ کسبِ معیشت کیلئے باہر گئے ہوئے ہوں اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان امانتوں کی حفاظت کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہیں.یعنی امور خانہ داری کی طرف متوجہ ہوں ، بچوں کی تربیت کریں، گھر اور محلہ کے اخلاق کو درست رکھیں وغیرہ وغیرہ.مگر افسوس کہ یہ آیت اور اسلام کے اصل کو بعض اہلِ قادیان بھول رہے ہیں اور مغرب کی نقل میں اندھا دھند بغیر اس مقصد کو سمجھنے کے جس کیلئے میں تعلیم دلوا رہا ہوں ، ایک غلط راستہ کے پیچھے پڑگئے ہیں.ہمارے مردوں کو تو مغرب نے اپنا غلام بنالیا ،عورتیں باقی تھیں اگر وہ بھی اسی طرح مغرب کی غلامی میں چلی گئیں تو دین کی خبر گیری کون کرے گا.مرد تو خیر حالاتِ زمانہ سے مجبور ہورہے ہیں عورتوں کو کیوں اسی کنویں میں دھکیلا جائے جس میں سے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۵ میری ساره نکالنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.عورتوں کیلئے بے شک انگریزی کی تعلیم اس وقت تک ضروری ہے جس وقت تک کہ اردو یا عربی ہم لوگوں کو دنیا میں تبلیغ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی اس وقت تک بے شک انگریزی کی تعلیم عورتوں کیلئے مفید ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے لیکن ایسی ہی تعلیم جس میں انگریزی بولنے کی قابلیت جو اصل مقصود ہے، حاصل ہوتی ہو.یا ایک محدود تعداد کیلئے ایسی تعلیم جس کے ذریعہ سے ڈاکٹری وغیرہ کی قسم کے پیشے یا جماعت کی تعلیمی ضروریات پوری ہو سکیں اس سے زیادہ انہماک جماعت کے اخلاق اور اسلامی تمدن کیلئے سخت مضر اور مُہلک ثابت ہو گا.غرضیکہ ایک میرا مقصد یہ ہے کہ میں بتاؤں کہ میں جو تعلیم دلاتا رہا ہوں ، اُس کا مقصد دنیا طلبی کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا نہیں بلکہ تبلیغ کے ذرائع کو وسیع کرنا اور عورتوں کے خیالات کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ہے.پس اگر جہالت کی تاریکی کی جگہ الحاد کی تاریکی نے لے لی تو میرا مقصد ہرگز پورا نہ ہوگا بلکہ الٹا جماعت کو نقصان ہوگا.میں جانتا ہوں کہ میرے ارادے زمانہ کی ہوا کے خلاف ہیں اور خود ہماری جماعت کے لوگوں میں سے ایک طبقہ یقیناً اس کی مخالفت کرے گا.گو وہ خاموش مخالفت ہوگی نہ کہ نمایاں اور لفظی لیکن میں ان باتوں سے نہیں ڈرتا.میں جانتا ہوں کہ اس وقت اسلام کیلئے سب سے زیادہ زبر دست قلعه عورتوں کے دماغوں میں بنایا جاسکتا ہے اور اس قلعہ کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی سکیم پورے طور پر اپنی دینی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے اور انہیں اس قابل کر دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کو اس مقام پر کھڑارکھیں جس پر سے ہٹانے کیلئے حوادث زمانہ کی آندھیاں اپنا پورا زور لگا رہی ہیں.یہ کام بہت بڑا ہے اور میں ایک کمزور انسان ہوں لیکن میرا رب جس پر میرا بھروسہ ہے میری مدد کرے گا اور اندرونی اور بیروی مخالفتوں کو زائل کر کے مجھے یقیناً کامیاب کرے گا کیونکہ اسلام اُس کا دین ہے اور احمدیت اُس کے اپنے ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا ہے.پہلے کام کب میری لیاقت سے ہوئے کہ یہ کام میری لیاقت سے ہوگا.میں تو اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو اسے ایسی کامیابیوں کا مجموعہ پاتا ہوں جو انجام سے پہلے ہر ظاہر بین کی نظر میں ناکامیاں نظر آتی تھیں.مجھے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے انصار عطا فرمائے گا جو اس سکیم کو لے کر کھڑے ہو جائیں گے اور ایسی تأثیر عطا فرمائے گا جو دلوں کو مسخر کر لے گی یہاں تک کہ ہم اسلام کیلئے ایک قلعہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.ایک ایسا قلعہ جس
۹۶ انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره پر کفر کے حملے پاش پاش ہو کر رہ جائیں گے اور اسلام پھر تازہ دم ہو کر ایک نئی دُلہن کی طرح ناز سے باہر نکلے گا اور بغیر تکلیف کے دشمنوں کے گھر پر قبضہ کر لے گا.میں اپنے سامنے ایک لشکر دیکھتا ہوں بغیر توپوں کے ، اور ایک گروہ دیکھتا ہوں بغیر تلواروں کے، دنیا کے سب تلوزیے کے اور اس جہان کے سب توپ خانے اس پر حملہ کرتے ہیں ، وہ اپنی طاقت سے اس نہتے گروہ کو پیسنا ، ا چاہتے ہیں ، وہ بڑھے چلے آتے ہیں اور زور سے حملہ کرتے ہیں اور زیادتی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ، زمین کی چھاتی کا نپتی ہے، وہ اپنی کمزور اولاد کیلئے چلاتی اور واویلا کرتی ہے ، خدا کے مقدسوں کے مزار ہل جاتے ہیں اور آسمان کے ستاروں کے سینے شق ہو جاتے ہیں، تب فوج در فوج خدا کے فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں ، تاریکی دُور ہو جاتی اور نور پھیل جاتا ہے.وہ جو ناممکن کہا جا تا تھا ممکن ہو جاتا ہے اور خداوند خدا جو سَیّدِ وُلدِ آدَم کا خدا ہے، جو بنو فارس کے پہلو ان کا خدا ہے، وہ اپنے جلال کے تخت پر اُترتا ہے اور اپنی بادشاہت کی باگ کمزور کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، ہاں جب یہ سب کچھ ہو چکے گا تب وہ کلام جو خدا نے مسیح ناصری کی زبان پر فرمایا تھا، پورا ہوگا اور وہ مقدس دلہنیں جو شمع ہاتھ میں لئے اپنے دولہا کا انتظار کر رہی تھیں اور تیل اور فتیلہ لئے چوکس اور تیار کھڑی تھیں، آسمان سے اپنے مسیح کو اترتے ہوئے دوبارہ دیکھیں گی اور بے اختیار ہو کر چلا اٹھیں گی هوشعنا ، تب اُن کی نقل میں باقی دنیا کے لوگ بھی کہیں گے.هو شعنا ، کاش ! لوگ اپنی آنکھیں کھولتے اور اپنی عقلوں سے کام لینے کی بجائے خدا کے کلام پر غور کرتے ، تب وہ ایک نیا نور اپنے دل میں پاتے اور ایک نئی چمک اپنی آنکھوں میں محسوس کرتے اور مستقبل سے ڈرنے کی بجائے شوق سے اُس کا انتظار کرتے اور دوسروں سے تیل اور فتیلے مانگنے کی بجائے خود اپنے گھر کے تیل اور فتیلے تیار رکھتے کیونکہ فتح انہی کی ہے جن کی دلہنیں تیل اور فتیلے سے تیار رہیں گی اور جن کی دلہنیں مانگنے جائیں گی وہ ناکام رہیں گے اور ان میں شامل ہوں گے جن سے دولہا منہ پھیر لیتا ہے اور جن کے لئے قلعہ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں.کاش! کوئی ہو جو اس بات کو سمجھے.کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ مجھ سے کیا سارہ بیگم کی محنت رائیگاں گئی ہمدردی کرتے ہیں کہ گویا سارہ بیگم کی موت نے ان کی محنتوں کو برباد کر دیا لیکن یہ درست نہیں اور صرف کوتا ہی نظر کے سبب سے ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۷ میری ساره ساره بیگم نیک نیتی سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کوشش کرتے ہوئے فوت ہوئیں اور جو اس طرح جان دیتا ہے وہ شہید ہوتا ہے اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی آخر الزمان کے قول کے مطابق زچگی کی بیماری سے وفات دے کر ظاہراً بھی شہادت کا مرتبہ عنایت فرمایا ہے.پس وہ زندہ ہیں اور ان کے نیک کام جاری رہیں گے کیونکہ وہ جو خدا تعالیٰ کے لئے بوجھ اُٹھاتا ہے اور اسی کام میں جان دیتا ہے، خدا تعالیٰ اس کے کام کو میٹنے نہیں دیا کرتا.بعض لوگ اپنی حیات سے دنیا کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور بعض موت سے.یہی خدا کی سنت ہے جو قدیم سے چلی آئی ہے.خدا تعالیٰ نے مسیح کی زندگی سے دنیا کو فائدہ پہنچایا اور یکجی کی موت سے.خود ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اگر علی نے زندہ رہ کر اُمت کی راہ نمائی کی تو حمزہ نے بظاہر بے وقت کی موت سے.کئی موتیں ہیں جو زندگی سے زیادہ با برکت ہوتی ہیں اور اگر خدا تعالیٰ کا منشاء اخفاء کی تائید میں نہ ہوتا تو میں وہ کچھ کہہ سکتا تھا جس سے عقلیں دنگ ہو جاتیں لیکن میں اسے مخفی رکھتا ہوں کیونکہ خدا بھی اسے مخفی رکھنا چاہتا ہے اور صرف اس کے آثار کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور کیا خود خدا کا وجود ہم سے مخفی نہیں اور کیا صرف اس کی صفات کا ظہور ہی اس کے وجود کو ہمارے سامنے نہیں لایا.میرے آئندہ ارادے آئندہ عورتوں کی تعلیم کے متعلق بھی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میری آئندہ سکیم کے متعلق سر دست صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کچھ ارادوں اور کچھ تو کل کی ایک سکیم ہے.میں بعض امور کے متعلق جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور کچھ حصے کے متعلق خاموش رہنا چاہتا اور اپنے دماغ کو بھی ہر اک خیال سے آزاد رکھنا چاہتا ہوں تا خدا تعالیٰ کا الہام اِس پر نازل ہو اور اس طرف میری راہنمائی کرے جو اُس کے علم میں بہتر ہے اور جس کی نسبت اُس کی رضا کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے.شاید کوئی بے وقوف کہے کہ ایک چیز کو کیوں خدا پر چھوڑتے ہواور دوسری کو نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ مومن کا قدم اطاعت کا قدم ہوتا ہے جس امر میں خدا تعالیٰ اُسے کہتا ہے کہ اے میرے بندے! اس کے متعلق غور کر کے ایک راہ اختیار کر اور پھر مجھ پر تو کل کر وہ اس کے متعلق غور کرتا اور پھر تو کل کرتا ہے اور جس امر کے متعلق وہ اپنے بندے کو یہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے دل کو خالی کر دے اور توکل کر اور جب میری طرف سے اشارہ ہوتب حرکت کر وہ اسی طرح کرتا ہے اور تو کل کو عمل سے پہلے رکھ دیتا ہے.غرض صحیح راستہ یہی ہے کہ کبھی تو حمل عمل سے پہلے ہوتا ہے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۸ میری ساره اور کبھی عمل تو کل سے پہلے.مگر وہ جو محنت نہیں کر سکے ایک راہ کو اختیار کر لیتے ہیں اور خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.میں اس بات میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک سپاہی ہوں اور میرا یہ طریق نہیں کہ اگر ایک طرف سے دروازہ نہیں کھولا گیا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاؤں.میں سپاہی کی طرح میدانِ جنگ میں جان دینے کو اپنا کام سمجھتا ہوں.میرا کام یہ ہے کہ اگر ایک دروازہ نہیں گھلا تو دوسرا کھولوں اور وہ نہیں گھلا تو تیسرا دروازہ کھولنے کی کوشش کروں.غرض اپنے فرض کے پورا کرنے کیلئے مختلف تدابیر اختیار کروں اور کام کرتا چلا جاؤں.یہاں تک کہ یا شہادت ہو یا فتح کہ مومن کیلئے ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی ہو مبارک ہی مبارک ہے.سیاره بیگم کی والدہ ان کی وفات سے چند ماہ پہلے فوت ہوگئی سارہ بیگم کے رشتہ دار تھیں وہ ایک نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں اگر انہیں ولیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا.ایمان میں ان کو صدق حاصل تھا، ایسی بے شر اور نیک عورتیں اس زمانہ میں کم ہی دیکھی جاتی ہیں.جس عمدگی سے انہوں نے اس رشتہ کو نبھایا، بہت کم لوگ اس طرح نبھا سکتے ہیں.ان کے والد مولوی عبد الماجد صاحب زندہ ہیں لیکن بہت ضعیف، اللہ تعالیٰ انہیں صبر کی توفیق دے اور ان کی قربانی کو قبول کرے سارہ بیگم کے چار بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں.سب سے بڑے پروفیسر عبد القادر صاحب انگریزی اور عربی کے عالم ہیں اور خدمت دین کا جوش رکھتے ہیں لیکن بیمار رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت کامل اور ایمانِ کامل عطا فرمائے.تین چھوٹے بھائی بے کار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی دین اور دنیا میں عزت عطا فرمائے.پروفیسر عبد القادر صاحب کا لڑکا علی میں نے کبھی دیکھا نہیں لیکن گھر میں سب سے زیادہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور باقاعدہ خط لکھتا رہتا ہے یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے.اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب کا مقام عطا کرے اور اپنی ہر قسم کی برکات سے حصہ وافر عطا فرمائے.خدا تعالیٰ مرحومہ کی ہمشیرہ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی صبر کی توفیق دے.سارہ بیگم نے اور کوئی کام کیا یا نہیں لیکن بنگال اور بہار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رشتہ داری میں شامل کر گئی ہیں.ان کی اولاد کے ذریعہ سے إنْشَاءَ اللهُ يتعلق ایک پائیدار تعلق رہے گا.جب تک اک سے ہزار ہوویں مولا کے یار ہوویں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۹۹ میری ساره کی پیشگوئی پوری ہوتی رہے گی ، بنگال اور بہار کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں شامل رہیں گے.میں مبالغہ نہیں کرتا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا صلى الله ہے.حضرت ابراہیم کی بیوی ہاجرہ مصر کی تھیں رسول کریم ﷺ ان کی اولاد سے تھے جب مصر کا ذکر رسول کریم ﷺ فرماتے تو فرماتے مصری ہمارے رشتہ دار ہیں، ان کا لحاظ رکھنا چاہئے.اپنے آقا اور مالک سے خطاب اب میں بندوں سے باتیں ختم کرتا ہوں اوراسے میرے رب! میں تجھ سے مخاطب ہوتا ہوں.اے میرے مولا ! اے میرے پیارے! میں نے تیرے رحم کا اس قدر معائنہ کیا ہے کہ میں ایک منٹ کیلئے بھی یقین نہیں کر سکتا کہ سارہ بیگم کی وفات کوئی بُر افعل تھا.میں یقین کرتا ہوں اور یقین کرنے کی وجو ہات پاتا ہوں کہ اے اَرحَمُ الرَّاحِمِينَ! یہ وفات مرحومہ کیلئے ، میرے لئے ، میرے اور اس کے خاندان کیلئے یقینا تیرا ایک رحم و کرم کا فعل تھا.اے میرے پیارے! کمزور جسم بوجھ محسوس کرتا ہے ، گوشت کا بنا ہوا دل درد سے بھرا ہوا ہے ، مگر روح تیرے فعل کی حکمتوں کی قائل ہے وہ تیرے محبت کے انداز کو اس فعل میں بھی دیکھتی ہے ، وہ اس امر اور ہر امر پر جو تیری طرف سے آئے ، راضی ہے قانع ہے، مطمئن ہے.اے بادشاہ! تیری مرضی پر راضی ہونے میں ہی سب برکت ہے، سب خیر ہے، جاہل انسان تیری حکمتوں کو کب دیکھ سکتا ہے، نادان عقل تیرے افعال کی گہرائیوں کو کب پہنچ سکتی ہے، پر شکتہ فکر کی پرواز تیرے علم کے بلند کناروں کو کب پاسکتی ہے.اے آقا! کون اپنی بنائی ہوئی عمارت کو گراتا ہے، کون اپنے کئے ہوئے کام کو خراب کرتا ہے، پھر اے عقل و فہم کے خالق ! اے زیر کی ودانائی کے پیدا کرنے والے! یہ کیونکر تیری شان کے شایان ہوسکتا ہے کہ بلا حکمت اپنی صنعت کو تو ڑ دے، اپنے بنائے ہوئے کو بگاڑ دے، سنار جب سونے کی ڈلی کو پگھلاتا ہے، عطار جب دواؤں کو گوٹتا اور چھانتا ہے تو بے وقوف ہی اس پر اعتراض کر سکتا ہے، اس کے پگھلانے اور اس کے گوٹنے میں ہزاروں صنعتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لاکھوں ظہور چھپے ہوئے ہوتے ہیں ، پھر اے حکیم و عزیز خدا! تیرے مٹانے اور تیرے توڑنے میں کتنے فوائد پوشیدہ نہ ہوں گے، کتنے منافع مد نظر نہ ہوں گے؟ آہ! تو نے انسان کے ہاتھوں سے تڑ وایا اور پھر بنوایا، اس کے ہاتھوں سے مٹوایا اور پھر روشن کر وایا مگر نادان پھر بھی نہ سمجھے ، دلوں کے اندھے پھر بھی بینا نہ ہوئے ، انہوں نے حُسن اپنی طرف منسوب کیا اور تیری طرف بدصورتی ، طاقت اپنی طرف
: انوار العلوم جلد ۱۳ میری ساره منسوب کی اور تیری طرف کمزوری، حیات اپنی طرف منسوب کی اور تیری طرف موت مگر اے میرے مالک! اے میرے آقا! تو نے مجھے آنکھیں دیں اور اپنے فضل سے بینا کیا ، جب میں مرتا تھا تو نے مجھے زندہ کیا اور جب میں شک کی تاریکیوں میں کھول رہا تھا تو نے مجھے یقین کا نور بخشا، اے میرے پیارے! پھر کب میں نادانوں کے ساتھ شامل ہو سکتا اور اندھوں کے ساتھ بھٹک سکتا ہوں ، اے آقا ! سب طاقت تیری طرف سے ہے، سب حکمت تیری طرف سے ہے، سب حیات تیری طرف سے ہے، سب زندگی تیری طرف سے ہے، سب نور تیری طرف سے ہے، سب علم تیری طرف سے ہے، میں نادان ، کمزور، کم علم، پر شکستہ، تہی دست، تیرے قدموں پر گرتا ہوں ، کوئی ہد یہ نہیں کہ پیش کروں ، کوئی خدمت نہیں کہ بیان کروں ، صرف اتنا کہتا ہوں اور کہتا چلا جاؤں گا کہ مجھے اپنا بنالے صرف اپنا بنا لے، اپنی سبوحیت کیلئے چن لے، اپنی قدوسیت کیلئے انتخاب کرلے، اپنے ذکر کیلئے وقف کر دے، میرے آقا! نور کی تعریف ظلمت کے منہ سے بہت ہی اچھی لگتی ہے، خوبی کو عیب کی موجودگی سے چار چاند لگ جاتے ہیں ، محبت وہ جو ہر ہے جو گندہ نہیں ہوسکتا ، پاک محبت غلیظ برتن میں بھی پاک ہی رہتی ہے اور قبول کرنے کے قابل اور تجھ سے زیادہ قدر کرنے والا کون ہے؟ مرحومہ کیلئے دعا اے میرے رب ! میں اب اپنی پکار کو اُس وقت کیلئے ختم کرتا ہوں.کیونکہ تیرے آگے کی فریاد کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی.اے میرے آقا ! میں اس فریاد کے خاتمہ پر تیرے سامنے ایک تیرا ہی کلام پیش کرتا ہوں اور کلام بھی وہ جو تو نے اپنے محبوب سَيَدُولُدِ آدَمَ پر نازل کیا تھا.اے میرے رب! ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ایک غار میں تین آدمی بارش سے پناہ لینے کیلئے داخل ہوئے.ان کے غار میں داخل ہونے کے بعد ہوا کے زور سے ایک بڑی چٹان لڑھک کر غار کے دروازہ پر آگری اور دروازہ بالکل بند ہو گیا اور نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا.تب اے میرے پیارے! انہوں نے مشورہ کیا اور کہا کہ آؤ ہم اپنے ان اعمال کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو خالص اللہ تعالیٰ کیلئے تھے تا اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے ہمیں بچائے.پس اے میرے رب ! ان تینوں نے باری باری اپنا ایک ایک عمل جسے وہ سمجھتے تھے کہ خالصہ تیرے لئے تھا، یاد کرا کرا کے دعا کی اور ہر شخص کی دعا کے بعد تو نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ غار کے منہ کے آگے کا پتھر ڈھلکتا گیا یہاں تک کہ آخر ان کے نکلنے کا راستہ ہو گیا اور وہ تینوں مسافر اس ہولناک موت سے نجات پاگئے.اے میرے آقا! یہ وہ خبر
انوار العلوم جلد ۱۳ 1+1 میری ساره ہے جو ٹو نے اپنے پیارے رسول کو دی تھی اور یقیناً اس لئے دی تھی کہ تیرے بندے اس سے فائدہ اُٹھائیں.سواے پیارے! میں تیرے منشاء کو پورا کرتے ہوئے تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ دلوں کے بھید جاننے والے آقا ، پوشیدہ رازوں سے آگاہ آقا، نیتوں کی باریکیوں سے واقف آقا ، اگر تیرے علم میں یہ ہے کہ میں نے اور سارہ بیگم نے تیرے ہی لئے ، تیری ہی رضا کی خاطر، تیرے ہی دین کی تقویت کیلئے سارہ بیگم کی پڑھائی کا کام شروع کیا تھا اور اس میں دنیا کی عزت یا نفع یا کوئی دنیوی غرض پوشیدہ نہ تھی ، تو اے رب ! میں بھی ان غار میں پھنسے ہوئے لوگوں کی طرح غم والم کے غار میں سے جس کے سب دروازے بند نظر آتے ہیں تجھے پکارتا ہوں، تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا درخواست کرتا ہوں کہ اے اَرحَمُ الرَّاحِمِينَ! اے بندے کے تھوڑے عمل کو قبول کرنے والے! اے نیتوں کا بدلہ دینے والے رب ! جس کے دروازے سے کوئی سوالی واپس نہیں جاتا تو اس فعل کے بدلہ میں جب کہ تیرے لئے سارہ بیگم نے اپنی عمر سے کوئی فائدہ بظاہر نہیں اُٹھایا تو اُن کو اگلے جہان میں اعلیٰ مقامات عطا فرما، اپنے قرب میں جگہ دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو کی حیثیت سے انہیں قبول کر اور اپنے خُسر کے پاس اعلی علیین میں جگہ دے کہ تیرے فضلوں سے یہ بات کچھ بعید نہیں اور تیری شان کے یہ بالکل شایان ہے.امِينَ اللهُمَّ آمِينَ اور اے میرے پیارے! یہ مت خیال کر کہ جب میں اپنے بندے کی دعا سنتا ہوں تو وہ اور دلیر ہو جاتا ہے کیونکہ تو دینے کیلئے اور ہم مانگنے کیلئے اور تیری یہ سنت ہے کہ جب تو ایک فضل کرتا ہے تو تیری رحمت جوش میں آکر اسے اکیلا نہیں رہنے دیا کرتی تو اسے ضرور جوڑا بنا تا ہے کیونکہ وحدت صرف تیری ذات کو حاصل ہے باقی سب چیزوں کو تو نے جوڑا بنایا ہے پس میں تیری توحید سے ملتجی ہوں ، تیری اس قدیم سنت سے درخواست کرتا ہوں کہ جو کبھی رحمت کے عمل کو اکیلا نہیں رہنے دیتی کہ جب تو سارہ بیگم پر رحم فرمائے تو اے میرے پیارے! ایک دیر سے جُدا شدہ میری پیاری بیوی ، میرے پیارے اُستاد کی لاڈلی بیٹی ، میرے عزیز بچوں کی ماں بھی اس کے ساتھ ہی لیٹی ہوئی تیرے فضلوں کی امیدوار ہے تو اُس پر بھی فضل کر اور اُسے بھی اپنی خاص برکتوں سے حصہ دے اور اعلیٰ ترقیات کا وارث کر جو اس دنیا میں باہم سوت تھیں اُس جہان میں بہنیں ہو کر رہیں کہ تیری جنت میں کینہ اور بغض کا گزر ہیں.امِيْنَ اللَّهُمَّ امِينَ اے پیارے! زبان رکتی ہے اور قلم اٹکتا ہے مگر تجھ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں.تجھ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۰۲ میری ساره سے نہ کہوں تو کس سے کہوں.اک گنہ گار وجود اور بھی تیرے فضل کا امیدوار ہے، ایک ڈوبی ہوئی جان اور بھی تیرے سہارے کی منتظر ہے، ایک جلا ہوا دل اور بھی تیری رحمت کے چھینٹے کو ترس رہا ہے، ایک پھٹا ہوا سینہ اور بھی تیری رافت کی مرہم کی امید لگائے ہوئے بیٹھا ہے، آ آ جب رحمت کا دریا جوش پر ہے تو اسے بھی آغوش میں لے لے ، رحم کرنے پر آیا ہے تو اب رحم کر ، ادھورا نہ چھوڑ.تیری سبوحیت میں کیا کمی آئے گی.اگر اسے سبوحیت کی چادر اڑھادے تیری قدوسیت میں کیا نقص ہو جائے گا ؟ اگر اسے قدوسیت کی عبا میں لپیٹ دے.آہ! تو جانتا ہے کہ پورے پچیس سال ہوئے ایک دل ٹوٹا تھا ایک گلی مُرجھائی تھی پھر نہ ٹوٹا ہوا دل جُڑا نہ سوکھی ہوئی گلی تازہ ہوئی.دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا جو پھر کبھی نہ پر ہوا اور آسمان میں ایک شگاف پیدا ہوا جو پھر کبھی بند نہ ہوا کیا اب بھی تیری رحمت جوش میں نہ آئے گی؟ کیا اب بھی تیرا فضل نازل نہ ہوگا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ البقرة : ۱۵۶ ۱۵۷ در تمین فارسی صفحه ۱۳۶.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ الجمعة : ۴ النساء : ۳۵ تلوزیے: تلوار چلانے والے.جنگجو.بہادر مرزا محمود احمد خلیات السح ۲۳.جون ۱۹۳۳ء الفضل ۲۷.جون ۱۹۳۳ء)
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۰۳ پکارنے والے کی آواز از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی پکارنے والے کی آواز
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۰۴ پکارنے والے کی آواز أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ پکارنے والے کی آواز ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئیگا انجامکار آسمان بارد نشاں الوقت میگوید زمیں اے سننے والو! آسمان کی آواز تم کو کس طرف بلاتی ہے؟ ماں اپنے بچہ کو نہیں بھلا سکتی تو خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کس طرح بھلا سکتا ہے؟ تمہاری مرلیاں اور تمہاری نفیر یاں اور تمہارے سنکھ بہت کچھ شور کر چکے اب اپنے لب بند کرو کہ تمہارا پیدا کرنے والا تمہیں کچھ کہہ رہا ہے.مبارک.ہاں مبارک.اے زمین کے باشندو! کہ آسمان کے دروازے تمہارے لئے کھولے گئے ہیں.مبارک.ہاں مبارک.اے تاریکی میں بسنے والو! کہ روحانیت کا سورج اُفق مشرق سے طلوع ہو رہا ہے وہی امید کا پیغام جو تیرہ سو سال پہلے دیا گیا تھا، آج پھر اس کی منادی کی جارہی ہے وہی تو حید کی تعلیم جو اُس وقت دی گئی تھی، آج پھر اس کا درس دیا جا رہا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے والو! کیا تم اپنے محبوب کی آواز کو نہیں پہچانتے ؟ سنو! وہ حسینوں کا حسین کہ رہا ہے جو میرے نام پر آتا ہے اس کی سنو! اور اس کو میرا سلام پہنچاؤ لے اور اگر تم کو برف کے پہاڑوں پر سے گھٹنوں کے بل چل کر بھی اس کے پاس جانا پڑے تو بھی اس کے پاس پہنچو سے مگر آہ تم نے غور نہیں کیا، تم نے اس کی آواز جو اپنے نام پر نہیں بلکہ اپنے آقا کے نام پر پکارتا تھا نہیں سنی وہ شہروں میں پکارنے والا جنگل میں پکارنے والا ثابت ہوا تا کہ گذشتہ نبیوں کا نوشتہ پورا ہو کہ ” جنگل میں پکارنے والے کی آواز کوسن“ کیا تم نے یہ خیال کر لیا ہے کہ تم ہر عیب سے پاک ہو.یا تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح تمہاری مصیبت کے وقت تمہارے لئے بیکل نہ ہوگی ؟ آہ ! شاید یہ دونوں ہی باتیں تم کو اس
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۰۵ پکارنے والے کی آواز آواز کے سننے سے روک رہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بلند کی جا رہی ہے.مگر کیا تم اول الذکر خیال سے اپنے متعلق حد سے زیادہ نیک ظنی اور ثانی الذکر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حد سے زیادہ بدظنی نہیں کر رہے ہو؟ یا درکھو! تاریخ کے ورق اس پر شاہد ہیں کہ آج تک کوئی آسمانی قوم بغیر خدا تعالیٰ کی آواز کے زندہ نہیں کی گئی.کس نے ہندوؤں کو جب کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کے حامل تھے اُٹھایا ؟ کرشن رامچند راور بدھ نے یا کسی زمینی لیڈر نے ؟ کس نے یہود کو بیدار کیا ؟ داؤ ڈ الیاس دانی ایل اور مسیح نے یا کسی خود ساختہ رہنمانے ؟ پس یہ خیال مت کرو کہ آسمانی قرناء کے بغیر کوئی زمینی آواز مسلمانوں کو بیدار کر سکتی ہے.آسمان سے آنے والی روحیں آسمان ہی کی آواز کو سنتی ہیں.کیا تم دیکھتے نہیں کہ بقول بعض کے دنیا کے سب سے بڑے آدمی گاندھی جی نے بھی جب اپنی آواز کو بے اثر ہوتے ہوئے دیکھا تو آسمان ہی کی پناہ لی اور یہ اعلان کیا کہ میں خدا کی آواز کی اتباع کر رہا ہوں اس کا الہام مجھے پہنچا اور میرے لئے اس کے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن تم نے یہ بھی دیکھا کہ وہی گاندھی جی جو سب دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جب انہوں نے جلد بازی سے اپنے دل کی آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار دیا تو کس طرح ان کی آواز بے اثر ہوگئی اور خدا تعالیٰ کی نصرت جو ایک محنتی قومی کارکن کی حیثیت سے ان کے ساتھ ہوا کرتی تھی ان سے فوراً چھین لی گئی اور اب وہ اس انسان کی طرح پھر رہے ہیں جو چاروں طرف تاریکی پاتا ہے اور روشنی کی شعاع اسے کہیں نظر نہیں آتی.کیا اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گاندھی جی بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت صرف خدا تعالیٰ ہی کی آواز دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہے؟ اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کا کلام سننے کا دعوی کرنا معمولی دعوئی نہیں اگر کوئی شخص ایسا جھوٹا دعوی کرے یا اس دعوی میں جلد بازی سے کام لے تو وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاتا ہے.یہ ایک تازہ آسمانی شہادت ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر جنہوں نے چالیس سال سے اوپر دنیا میں یہ دعویٰ شائع کیا کہ خدا تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا ہے اور ہر نیا دن جو چڑھا وہ ان کی ترقی کا موجب ہوا اور نصرت کے نئے سامان ان کے لئے لایا.یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ ایک شخص گمنامی کی حالت میں خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کا دعوی کرتا اور روز بروز ترقی کرتا چلا جا رہا ہے اور دوسرا شخص عزت کے
1+7 انوار العلوم جلد ۱۳ پکارنے والے کی آواز مقام پر سے اس وقت جب کہ لوگ اسے نبیوں سے بھی افضل قرار دے رہے ہوتے ہیں، کلام الہی سے مشرف ہونے کا دعوی کرتا ہے اور یکدم اس کی حالت زار ہو جاتی ہے اور قوت عملیہ اس سے چھین لی جاتی ہے اور وہ حیران و پریشان رہ جاتا ہے.کیا یہ دونوں مثالیں اس امر کو واضح نہیں کر دیتیں کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ غلط طور پر الہام الہی کا ادعا کرنے والا جب تک کہ وہ کسی شدید غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو ضرور سزا پاتا ہے اور اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ کے سچے مامور ہمیشہ نصرت و تائید حاصل کرتے ہیں اور ہر قسم کی مخالفتوں کے باوجود ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، نہایت سچا دعویٰ ہے.یہ ایک تازہ نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت ثابت کرنے کیلئے آسمان سے نازل کیا ہے.اے کاش! کہ لوگ دیکھیں اور سُنیں تا خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور ان کی حالت بدل دے.سنو! اے سننے والو!! آسمان کی آواز کوئی معمولی سے نہیں جس طرح بندے کے لئے یہ سب سے زیادہ فخر کی بات ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اسے یاد کرے اسی طرح اس کیلئے یہ سب سے زیادہ خطرہ کا مقام بھی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو ر ڈ کر دے یا اس کی طرف سے بے پروائی کرے.پس ہوشیار ہو اور غفلت کو چھوڑ دو اور اس آواز کو جو اس وقت کے لوگوں کے بیدار کرنے کیلئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر اور اسلام کی تعلیم کو زندہ کرنے اور دنیا میں اس کو غالب کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے بلند کی ہے سنو اور قبول کرو.یا درکھو کہ حق کے قبول کرنے میں ہر ساعت کی دیر ترقی اور کامیابی کے وقت کو پیچھے ڈال رہی ہے اور دشمنانِ اسلام کو تضحیک اور اہانت اسلام کا موقع دے رہی ہے.آسمان پر سے خدا تعالیٰ تم کو بلا رہا ہے اور زمین پر تمہارے دل گواہی دے رہے ہیں کہ حقیقی اسلام اب تمہارے دل میں نہیں ہے اور اس کے پیدا کرنے کیلئے کسی بیرونی امداد کے تم محتاج ہو.پھر کیوں خدا تعالیٰ کی آواز کو تم نہیں سنتے ؟ کیوں اپنے دلوں کی حالت ہی کو نہیں دیکھتے ؟ کیا زمین پر تمہارے اپنے دلوں کی شہادت اور آسمان پر خدا تعالیٰ کے فیصلے کی شہادت سے بڑھ کر بھی اور کوئی شہادت ہو سکتی ہے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے وہ نصرت پاسکتے ہیں جو بانی سلسلہ احمدیہ نے پائی ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ایک مفتری کی جماعت کو اسلام کی خدمت کا وہی جوش عطا ہو سکتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو نصیب ہوا ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اشاعتِ اسلام کے کام میں ایک کذاب کا ساتھ دینے والے ویسی ہی
انوار العلوم جلد ۳ ۱۰۷ پکارنے والے کی آواز کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہوئی ؟ ہاں ! کیا گاندھی جی کے الہام کے دعوی کے بعد جو ان کی حالت ہوئی اس تازہ نشان کو دیکھتے ہوئے تم کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا دعوی کرنا کوئی معمولی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس پر کوئی گرفت نہیں کرتا ؟ اگر نہیں تو ئز دلی کو چھوڑو غفلت کو چھوڑو اور اسلام اور بانی اسلام کیلئے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کرنے کیلئے بچے بہادروں کی طرح جماعت احمدیہ میں شامل ہو جاؤ اور دیر نہ کرو کہ ایک ایک منٹ کی دیر اس وقت خطرناک ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ اے سمجھ رکھنے والے عقلمند و! کیا اس زمینی شہادت سے جو تمہارے دل دے رہے ہیں، بڑھ کر کوئی اور شہادت ہو سکتی ہے؟ انصاف سے کام لو اور سچ سچ کہہ دو کہ کیا تمہارے دل گواہی نہیں دیتے کہ تم اسلام سے دور جا پڑے ہو؟ اور یہ کہ اسلام کی وہ مدد اور نصرت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو رہی جو پہلے ہوتی تھی ؟ اگر یہ صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو حق کو مت چھپاؤ عدل کو ہاتھ سے نہ دو تم لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اپنے نفسوں کو تو دھوکا نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ سے تمہارا معاملہ ہے جو دلوں کو جاننے والا ہے.دنیا کی عزت کوئی چیز نہیں عزت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے.حق کے قبول کرنے میں کونسی ہتک ہے؟ دیر نہ کرو اور حق کو قبول کر کے اسلام کی فتح کی گھڑی کو قریب تر کر دو.یاد رکھو کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی آواز اپنے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کیلئے بلند ہوئی ہے اور وہ خود سے نہیں بولے بلکہ خدا تعالیٰ نے انہیں بلایا تھا.پس خدا تعالیٰ کی آواز سنو تا تمہاری فریادیں سنی جائیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر بولنے والے کی سنو تا تمہارے ناموں کی عزت قائم کی جائے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی) قادیان ل الدر المنثور فى التفسير بالمأثور للامام جلال الدين السيوطى المجلد الثاني صفحه ۱۳۴۵.بیروت لبنان ابن ماجه ابواب الفتن باب خروج المهدى
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۰۸ برادرانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط برادران کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ 1+9 بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ برادران جموں و کشمیر کے نام میرا دوسرا خط بسلسله چهارم برادران! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہے اور جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علاقہ پر اس نے ایک مفید اور نیک اثر پیدا کیا ہے.آج میں دوسرا خط آپ کی طرف لکھ رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ گذشتہ کی طرح آپ اس خط کے مضمون کو بھی غور سے پڑھیں گے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں گے.میں آپ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ چونکہ ہر شخص تک یہ خطوط نہیں پہنچائے جا سکتے جس کو یہ خط ملے وہ دوسرے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کو یہ خط پڑھا دے اور ان پڑھوں کو سنا دے اور جو دور ہیں ، ان تک پہنچا دے.حتی کہ ہر باشندہ ریاست جموں و کشمیر کو یہ خط مل جائے یا اس کے مضمون سے وہ واقف ہو جائے.سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گذشتہ ایام میں میرے سامنے یہ کام رہے ہیں.میرا کام اوّل شیخ محمد عبداللہ صاحب اور اس کے ساتھیوں کو جو نہایت ظالمانہ طور پر گرم جگہ پر قید کیا گیا تھا، اس کے خلاف کوشش اور ان کو کسی ٹھنڈے مقام پر تبدیل کروانا.دوم ان کی اور ان کے ساتھیوں کی آزادی کیلئے کوشش.سوم گذشتہ دو ماہ سے جو افسران کشمیر کے عام رو یہ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہی پرانا استبداد نظر آ رہا ہے اس کے خلاف کوشش.میں نے ان تین مقصد وں کے پورا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل ذریعے اختیار کئے.
11 + انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط اول میں نے سوچا کہ جب تک پبلک میں بیداری پیدا نہ کی جائے اور ان کی محبت کو اپنے لیڈروں سے قائم نہ رکھا جائے اس وقت تک اندرونی دباؤ ریاست پر نہیں پڑ سکتا اس کے لئے میں نے اپنا پہلا خط شائع کیا اور کشمیر کے کام کے متعلق جو لوگ سرگرم ہیں، انہیں ہدایت کی کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بہت حد تک کامیابی ہوئی اور میں اس بارہ میں صوبہ جاتی انجمنوں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے اظہار وفاداری کر کے میرے ہاتھوں کو بہت مضبوط کر دیا.دوسری بات میں نے یہ سوچی کہ ریاست کے حکام کو توجہ دلاؤں تا کہ وہ زور اور طاقت کے استعمال کو چھوڑ کر تحمل اور دلیل کی طرف توجہ کریں مگر افسوس کہ اس بارہ میں مسٹر کالون کا رویہ اتنا ہمدردانہ ثابت نہیں ہوا جس قدر کہ مجھے ان سے امید تھی.مجھے ان پر اب تک حُسنِ ظنی ہے لیکن میرے نز دیک انگریز جس قد را نگریزی علاقہ میں مفید کام کر سکتے ہیں، ریاست میں نہیں کر سکتے کیونکہ ریاستوں میں دیانتدار کارکنوں کا ملنا بہت دشوار ہوتا ہے اور بغیر اچھے نائبوں کے انسان اچھا کام نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ انگریز بھی اس خیال میں مجھ سے متفق ہیں.کیونکہ اگر وہ ہندوستانیوں کو حکومت کا پورا اہل سمجھتے تو ہندوستان کو آزادی دینے میں اس قدر پس و پیش کیوں کرتے.اس بارہ میں میں نے جو کچھ کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے اس کام کیلئے سید زین العابدین صاحب کو مقرر کیا کہ وہ مسٹر کالون اور مسٹر پیل سے جا کر ملیں اور ان کے آگے تمام حالات رکھ کر انہیں موجودہ مظالم دور کرنے کی ترغیب دیں.ان کے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو میں نے اس لئے بھجوایا تا کہ وہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے مل کر ان کی طرف سے قانونی طور پر کارروائی کریں اور اسی طرح گذشتہ فسادات میں جو میر واعظ صاحب ہمدانی اور ان کے معتقدوں کے خلاف بعض خلاف قانون کا رروائیاں ہوئی ہیں یا مقدمات چلائے گئے ہیں، اس میں قانونی امداد دیں.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ مہذب دنیا کے معروف دستور کے خلاف گورنر نے ان دونوں صاحبوں کو فوراً ریاست سے نکلنے پر مجبور کیا.حکم کے الفاظ یہ تھے کہ آپ لوگوں کے گذشتہ اعمال سے یہ ثابت ہے کہ آپ سرینگر میں فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں.شیخ بشیر احمد صاحب تو وکیل ہیں، خود اپنی طرف سے ہائی کورٹ کو توجہ دلائیں گے مگر سید زین العابدین صاحب کے متعلق جو حکم دیا گیا تھا اس کے متعلق میں نے حکام کو توجہ دلائی تو مجھے یہ جواب دیا گیا نے
111 انوار العلوم جلد ۱۳ بر درانِ کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط ہے کہ سید زین العابدین کی ہتک منظور نہ تھی بلکہ مطلب صرف یہ تھا کہ ان کے آنے سے لوگوں میں جوش پیدا نہ ہو لیکن حکم کے الفاظ واضح ہیں حکم میں صاف یہ لکھا ہے کہ فساد کرانے کی نیت سے آپ آئے ہیں اور یہ آپ کا گذشتہ طریق عمل اس بد نیتی کی تصدیق کرتا ہے.پس حکام بالا کا یہ کہنا کہ ہمارا ہر گز یہ منشاء نہ تھا کہ شاہ صاحب فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں، صاف بتا تا ہے کہ ریاست کے بعض حکام انگریز افسروں کے احکام کی پوری تعمیل نہیں کرتے بلکہ اپنے پاس سے خلاف واقع با تیں شامل کر دیتے ہیں.ریاست کے حکام کے پاس حکومت کی طاقت ہے اور میرے پاس دلیل کی طاقت.ریاست نے حکومت کا زور آزما لیا ہے اور اب اگر ریاست نے اصلاح نہ کی تو میں دلیل کا زور آزماؤں گا.میں ایک طرف گورنر کے الفاظ کو نقل کروں گا اور دوسری طرف حکام بالا کی تشریح کو اور اسے چھاپ کر تمام ممبران پارلیمنٹ اور انگریزی کے اخبارات اور ذمہ دار افسران کے پاس بھیجوں گا اور پوچھوں گا کہ کیا یہ طریق حکومت کامیاب ہو سکتا ہے؟ میں اس کے ساتھ انگریز افسروں کی وہ تحریرات درج کروں گا جو انہوں نے سید زین العابدین کے نام ارسال کی ہیں اور جن میں لکھا ہے کہ انہوں نے قیام امن میں ریاست کی پوری امداد کی ہے.پھر دنیا اس کو پڑھ کر خود اندازہ لگالے گی کہ گورنر کشمیر کا یہ حکم حکومت کے زور پر تھا یا کہ دلیل اور انصاف کے زور پر.وہ اس امر کا اندازہ لگالے گی کہ انگریز حکام کے منشاء کو ماتحت حکام کس طرح پورا کر رہے ہیں اور ان کی آمد سے غریب مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ دلیل تلوار سے زیادہ زبردست ہے اور باوجود حکومت کشمیر کی طاقت اور اس کے معاونوں کی قوت کے مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر میری کمزوری کے باوجو د مظلوم کی مدد کی کوشش اور انصاف کی تائید آخر کامیاب ہو کر رہے گی.یہ دنیا لا وارث نہیں، اس کے اوپر ایک زبر دست خدا نگران ہے.وہ ہمیشہ انصاف اور سچ کی امداد کرتا ہے اور وہ یقیناً اب بھی ان غیر منصفانہ افعال کو جیتنے نہیں دے گا.تیسری کوشش میں نے یہ کی کہ اپنے انگلستان کے نمائندہ کو تار دی کہ وہ وہاں وزراء اور امراء اور ممبران پارلیمنٹ اور پریس کے سامنے سب حالات رکھیں اور انصاف کی طرف توجہ دلائیں.اس بارہ میں جو کام ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذی اثر دوست نے اس بارہ میں وزیر ہند سے ملاقات اور گفتگو کی ہے.پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے پارلیمنٹ میں سوال کرنے کا وعدہ کیا ہے اور بعض ذمہ دار امراء نے اس معاملہ کی طرف خود توجہ کرنے اور اس کی اہمیت کی طرف
۱۱۲ انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط حکومت کو توجہ دلانے کا وعدہ بھی کیا ہے سو امید ہے کہ اِنشَاءَ اللہ جلد انگلستان کے لوگوں کی توجہ اس سوال کی طرف ہو جائے گی اور ان کی توجہ کا نیک اثر ہند وستان میں بھی پیدا ہو گا.چوتھی کوشش میں نے اس بارہ میں یہ کی ہے کہ اپنے ایک نمائندہ کو شملہ بھجوا دیا ہے تا کہ وہ وہاں کے ذی اثر لوگوں اور حکام کومل کر معاملات کشمیر کی طرف توجہ دلائیں جنہوں نے یہ کام وہاں شروع کر دیا ہے اور امید ہے کہ جلد اس کے نیک نتائج نکلنے شروع ہو جائیں گے لیکن چونکہ میں اب کشمیر کمیٹی کا صدر نہیں ہوں اس لئے یقیناً اس کام میں میرے ہاتھ اور بھی مضبوط ہو جائیں گے اگر کشمیر کی ریاست کی مختلف انجمنیں ریزولیوشنوں کے ذریعہ سے اس امر کا فیصلہ کریں اور حکومت کو اطلاع دیں کہ میں ان کے حقوق کیلئے حکومت کو مخاطب کرنے کا حق رکھتا ہوں اس طرح ایک طرف تو ان لوگوں کی کارروائیوں کا اثر باطل ہو جائے گا جو ریاست میں سے اس امر کے خلاف شور کر رہے ہیں کہ اب مجھے دخل دینے کا کوئی حق نہیں اور دوسری طرف آپ لوگوں کیلئے مناسب موقعوں پر آواز بلند کر نیکی صورت پیدا ہو جائے گی.اس میں شک نہیں کہ کشمیر کا ایک فریق مجھ پر اعتبار نہیں رکھتا یا یہ کہ بعض ہندوؤں نے اپنے فائدہ کیلئے انہیں میرے مقابل پر کھڑا کر دیا ہے مگر مجھے ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں.میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے امداد چاہتے ہیں، میں حسب وعدہ ان کی امداد کروں اور ان کی قومی آزادی اور ان کے حقیقی لیڈر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی آزادی کیلئے کوشش کروں اور انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح مجھے اپنی خدمت کا موقع دیں.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کے لوگ تو چاہتے ہوں کہ میں ان کے معاملہ میں دخل نہ دوں اور میں خواہ مخواہ ان کیلئے اپنا وقت ضائع کرتا رہوں.اپنے کام کے اظہار کے بعد اب میں آپ لوگوں کو موجودہ صورت حالات موجودہ صورت حالات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.آپ لوگ غالبا اس امر کو سمجھ چکے ہونگے کہ بعض افسرانِ ریاست نے یہ دیکھ کر کہ ریاست کے بعض سابق افسران کے مظالم اس قدر طشت از بام ہو چکے ہیں کہ سیاسی عذرات کے ماتحت کشمیر کے حقیقی لیڈروں کو قید کرنا ان کیلئے بالکل ناممکن ہے، قومی خدام کو فساد اور شورش کے الزام کے نیچے گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے.میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ بعض افسرانِ ریاست کی نیت درست نہیں اور اس یقین کی وجوہ یہ ہیں :.
۱۱۳ انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط ا.میرے ایک نمائندہ سے ریاست کے ایک ہند و وزیر نے گذشتہ سال یہ الفاظ کہے تھے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ہمیں بھی پارٹیاں بنانی آتی ہیں اور ہم بھی ریاست میں آپ کے خلاف پارٹیاں بنوا سکتے ہیں.بعض لوگ جو شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے خلاف کوشش کر رہے ہیں، ان کی نسبت یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ اس وزیر سے خاص تعلقات رکھتے ہیں.۲.باہمی مناقشات دیر سے شروع تھے لیکن نہ حکومت نے ان پر سختی سے نوٹس لیا اور نہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو اس کا ذمہ وار بنایا.لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جس میں مسٹر مہتہ کے خلاف ریزولیوشن تھا، یکدم ریاست میں بھی ہلچل شروع ہو گئی اور بعض ریاست کے افراد نے باہر آ کر لوگوں کو اکسانا شروع کیا کہ کمیٹی کا احمدی صدر نہیں ہونا چاہئے اور ان ایجنٹوں میں سے ایک نے اپنے ایک ہم خیال لیڈر سے لاہور میں کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں پندرہ سولہ ہزار فورا مہیا کر سکتا ہوں.پھر اس نے کشمیر جا کر اپنے ایک دوست کو لکھا کہ میں لاہور میں آگ لگا آیا ہوں.اب چاہئے کہ یہ آگ سلکتی رہے اور مجھے نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسٹر مہتہ کے بعض ہوا خواہوں نے یہ کارروائی کی ہے ورنہ واقعات کا یہ اجتماع کس طرح ہوا.آدمی وہی ہیں، حالات وہی ہیں، کام وہی ہے پھر نتائج کیوں مختلف نکلنے لگے؟ ۳.میر واعظ یوسف شاہ صاحب کا تعلق ایسے لوگوں سے ہے جو اپنے آپ کو انتہا پسند ظاہر کرتے ہیں اور شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے ان کو یہی اختلاف ہے کہ وہ اعتدال پسند ہیں لیکن باوجود اس کے ہندو اور سکھ صاحبان کی ایک خاصی تعداد میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے جلوسوں میں شامل ہوتی رہی ہے اگر اختلاف حقیقی ہوتا تو چاہئے تھا کہ ہند وسکھ صاحبان شیخ محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ ہوتے اور انتہا پسندوں کے مخالف.۴.حکومت اور دوسرے ذرائع سے جو بیانات گذشتہ فسادات کے متعلق اخبارات میں شائع ہوئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فسادات کی ابتداء شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی طرف سے یہ تھی اور یہ کہ زیادتی بھی دوسرے فریق کی تھی.اس کا مزید ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ حکومت نے شروع میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو نہیں، بلکہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب کو گرفتار کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یوسف شاہ صاحب کی پارٹی کی طرف سے ابتدا ہوئی اور باوجود اس کے کہ حکومت ابتداء کا ذمہ وار شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو نہیں سمجھتی تھی، وہ
۱۱۴ انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط میر واعظ صاحب سے تو (۱) صرف ضمانت طلب کرتی ہے (۲) ضمانت کے نہ دینے پر زیر حراست کرتی ہے.لیکن رکھتی کشمیر میں ہی ہے (۳) بقول میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے نہ تو انہوں نے ضمانت دی اور نہ حکومت سے کوئی سمجھوتہ کیا ہے پھر بھی حکومت انہیں یہ کہہ کر آزاد کر دیتی ہے کہ کسی نے ان کی جگہ ضمانت دے دی ہے (۴) با وجود اس کے کہ ان کی جماعت کی طرف سے مظاہرے ہور ہے تھے انہیں آزاد کر دیا گیا اور یہ شرط نہیں کی گئی کہ جب تک کشمیر میں امن نہ ہوگا اور ایک معینہ عرصہ تک امن نہ رہے گا، انہیں آزاد نہ کیا جائے گا.(۵) ان کی تائید میں مظاہرے کرنے والوں پر گولیاں نہیں چلائی گئیں لیکن شیخ محمدعبداللہ صاحب سے یہ سلوک کیا جاتا ہے کہ (۱) بغیر ضمانت طلب کرنے کے انہیں آرڈینینس کے ماتحت گرفتار کیا جاتا ہے (۲) انہیں کشمیر سے باہر ایک سخت گرم جگہ پر قید کیا جاتا ہے.(۳) ان کی آزادی کیلئے مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں.(۴) ان کی آزادی کیلئے یہ شرط کی جاتی ہے کہ وہ حکومت سے خاص شرائط پر معاہدہ کریں اور اگر اس میں کامیابی نہیں ہوتی تو ان کی طرف سے ایک جماعت سے معاہدہ لیا جاتا ہے.(دیکھو مختلف اخبار جن کی تردید حکومت نے نہیں کی ) (۵) مزید شرط یہ کی جاتی ہے کہ جب تک امن پر چھ ہفتے نہ گذر جائیں، انہیں آزاد نہ کیا جائے گا.جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کا آزاد ہونا، ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں ہے.وہ جب چاہیں ایک فساد کر دیں اور ان کی آزادی کو ملتوی کرا دیں.یا یہ کہ ریاست کے بعض حکام چاہتے ہیں کہ چھ ہفتہ تک شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ہمدرد اپنے دشمنوں کے رحم پر رہیں اور جو کچھ بھی ظلم ان پر کیا جائے اسے برداشت کریں تا شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی رہائی میں روک پیدا نہ ہو.یہ سب واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت میں ایک ایسا عصر موجود ہے جس کی اصل غرض یہ ہے کہ کسی طرح لوگوں کی ہمدردی کو شیخ محمد عبداللہ صاحب سے ہٹا کر دوسری پارٹی کی طرف کر دیا جائے یا کم سے کم ان کی پارٹی کو کچل دیا جائے.مگر کیا نو جوانان کشمیر ! اس بے غرض خدمت کو بھول جائیں گے جو ان کے لیڈر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے نہایت مخالف حالات میں کی ہے؟ میں امید کرتا ہوں کہ کشمیر کے تمام غیور باشندے اس سوال کا جواب یک زبان ہو کر یہی دیں گے کہ ہر گز نہیں.لیکن با وجود اس کے کہ آپ میں سے ہر ایک یہی جواب دے گا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالات اس امر کی تصدیق نہیں کر رہے اور میرے اس بیان کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں.
۱۱۵ انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط اوّل مجھے ایک کاپی ایک اشتہار کی بھیجی گئی ہے جو ایک ایسے معاہدہ پر مشتمل ہے جو بعض ذمہ دارلوگوں اور حکومت کے درمیان ہوا ہے.اس میں ان لوگوں نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ آئندہ ملک میں کوئی فساد نہ ہوگا اور حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اس میں کامیاب ہوئے تو وہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو چھوڑ دیں گے.میں نے اس کاغذ پر دستخط کرنے والوں کے ناموں کے متعلق دریافت کرایا ہے کہ آیا اس پر میر واعظ یوسف شاہ صاحب کی پارٹی کے بھی دستخط ہیں تو مجھے بتایا گیا ہے کہ نہیں.اگر یہ درست ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے لیڈ ر حکومت کے بعض افسروں کی باتوں میں آگئے ہیں کیونکہ اس معاہدہ کے کھلے اور صاف معنی یہ ہیں کہ فساد کے ذمہ دار پورے طور پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب اور ان کی پارٹی کے لوگ تھے کیونکہ اگر فساد کے ذمہ دار وہ نہ تھے بلکہ دوسرا فریق تھا تو وہ امن کا ذمہ کس طرح لے سکتے تھے.کیا کوئی عظمند اس کو تسلیم کر سکتا ہے کہ فساد تو میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے آدمی کریں اور فسادمٹانے کی ذمہ داری شیخ صاحب کے آدمی لیں اور پھر کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ شیخ صاحب کے دشمن اس لئے فساد چھوڑ دیں گے تا کہ شیخ صاحب کو حکومت چھوڑ دے.بیشک امن قائم کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن امن کا اعلان ان الفاظ میں کرنا کہ گویا سب فساد شیخ صاحب نے کیا ہے اور انہیں کے آدمی سب فساد کرتے تھے وفاداری کے اصول کے بالکل خلاف ہے.دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ بعض لیڈروں نے اس اصل کو تسلیم کر لیا ہے کہ اگر چھ ہفتے تک فسادات نہ ہوئے تو شیخ صاحب آزاد ہونگے.جس کے یہ معنی ہیں کہ شیخ صاحب کی آزادی کو ان کے دشمنوں کے اختیار میں دے دیا گیا ہے.کیا وہ وزراء کو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ لوگوں نے شیخ صاحب کو قید ہی اس لئے کیا ہے کہ کشمیر میں دو پارٹیاں ہیں اور وہ آپس میں لڑتی ہیں پھر کیا اس شرط کے یہ معنی نہیں کہ آپ ان کی دشمن پارٹی کو اُکساتے ہیں کہ وہ فساد کرتی رہے تا کہ شیخ صاحب آزاد نہ ہوں.ہم اپنی پارٹی کے ذمہ وار ہو سکتے ہیں ، دوسری پارٹی کے ذمہ وار کس طرح ہو سکتے ہیں بلکہ میرے نزدیک تو ان کو یہ زور دینا چاہئے تھا کہ اصل سمجھوتہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب ہی کر سکتے ہیں، ہم تو صرف عارضی صلح کر سکتے ہیں اور نیز یہ کہ دوسری پارٹی اگر فساد کرے تو اس کا اثر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کی آزادی پر نہیں پڑنا چاہئے.تیسری دلیل یہ ہے کہ شیخ صاحب کے بعد ایسے لوگوں کے ہاتھ میں بعض عہدے دیئے گئے ہیں جو ان سے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کو گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ایسے لوگوں
انوار العلوم جلد ۱۳ 117 بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط نے یقیناً ان کی ذلت کی کوشش کرنی تھی اور انہوں نے کی.مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلطی صرف بعض کا رکنوں سے ہوئی ہے اور ملک شیخ صاحب کے ساتھ ہے اور اب بھی وفادار ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک اپنی آواز کو زور سے بلند کرے اور اپنے منشاء کو ظاہر کرے.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گو میرے نزدیک اس معاہدہ میں اصولی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اسلام کی تعلیم کے مطابق ہر مسلمان کا فرض ہے کہ امن قائم رکھے.پس خواہ معاہدہ ہو یا نہ ہو خواہ شیخ صاحب کو حکومت فوراً آزاد کر دے یا دیر سے آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہر قسم کے فساد سے بچیں.وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ کشمیر آزاد نہ ہو فساد ڈلوا نیکی پوری کوشش کریں گے مگر آپ کا فرض ہے کہ قانون شکنی نہ کریں اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں که با وجود قانون کا احترام اور ادب کر میکے فتح حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے.اور اگر آپ لوگ میری ہدایتوں پر عمل کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو بغیر کسی فساد کے کامیابی ہوگی.آپ پچھلے سال دیکھ چکے ہیں کہ میرے مشورے آپ کیلئے مفید ثابت ہوئے ہیں، اب پھر آپ لوگ تجر بہ کر لیں یہی راہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوگی کہ قانون نہ توڑیں اور غیر ضروری شور نہ مچائیں.خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے ایسے راستے کھولے ہیں کہ وہ بغیر قانون شکنی کے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر امن کی وہ طاقت رکھی ہے کہ شورش پسندی کو وہ طاقت ہرگز حاصل نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ پہلے بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں مگر میں آپ کو مزید ہوشیار کرنا چاہتا ہوں.آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر آپ آپس میں لڑیں گے تو سب مسلمانوں کی ہمدردی آپ سے جاتی رہے گی اور آپ اکیلے رہ جائیں گے اور دشمنوں کا شکار ہو جائیں گے.آئندہ کیلئے دستور عمل اب میں آپ کو آئندہ کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب حکومت سختی پر اتر آئے تو انجمنیں کام نہیں دے سکتیں.پس جب تک شیخ صاحب باہر نہ نکلیں نوجوانوں کا فرض ہے کہ قومی زندگی کو قائم رکھنے کیلئے اپنی تنظیم کریں اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ سرینگر جسے شہر میںتو محلہ دار قومی خدمت کا در در کھنے والے لوگ آپس میں سے ایک ایک شخص کو اپنا لیڈر بنالیں.اس کا نام خواہ ڈکٹیٹر رکھیں یا کچھ اور.مگر بہر حال محلہ وار ایک ایک لیڈر ہونا چاہئے اور اس کے بعد محلوں کے لیڈر اپنے میں سے ایک لیڈ رتجویز کر لیں جو سارے شہر کے حالات کا نگران رہے.
۱۱۷ انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط جو چھوٹے شہر یا قصبات ہیں وہ اپنا ایک ایک لیڈر چن لیں.اس انتظام میں ہر ایک جماعت کو چاہئے کہ حلفیہ اس امر کا اقرار کرے کہ وہ اپنے لیڈروں کی تمام قومی امور میں فرمانبرداری کرے گی.میں یہ صرف اس خیال سے لکھ رہا ہوں کہ شاید اس وقت تک اس قسم کا انتظام مکمل نہ ہوا ہولیکن اگر شیخ محمد عبد اللہ صاحب جیل میں جانے سے پہلے ایسا انتظام کر چکے ہیں تو جس جس جگہ یہ انتظام موجود ہے وہاں اس قسم کے انتظام کی ضرورت نہیں البتہ جہاں کوئی لیڈر مقر ر نہیں ہو چکا وہاں مقرر کر لیا جائے.میرا جہاں تک علم ہے ابھی ریاست کا اکثر حصہ اس انتظام سے خالی ہے.میں اس سے پونچھ اور بعض دیگر علاقوں کو مستثنی کرتا ہوں، کیونکہ وہاں کی انجمنیں اب تک نہایت منظم صورت میں کام کر رہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نئے انتظام کی ضرورت نہیں لیکن سرینگر اور جموں کے شہروں سے باہر علاقہ کشمیر و جموں میں ابھی تک یہ انتظام مکمل نہیں وہاں فوراً اس قسم کا انتظام ہو جانا چاہئے.یہ آپ لوگوں کیلئے مصیبت کا زمانہ ہے اور ایسے زمانوں میں بغیر ایک لیڈر کے جس کی اطاعت سب لوگ کریں ، کام نہیں چلتا اور جس طرح سارے ملک کو ایک لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح علاقوں اور شہروں اور گاؤں کو بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے میری پہلی نصیحت تو آپ لوگوں کو یہ ہے کہ جس جس جگہ کوئی ایسا شخص موجود نہیں کہ جس کی اطاعت کا آپ اقرار کر چکے ہیں اس اس جگہ فوراً ایک لیڈر منتخب کر کے کام کو منظم کرنے کی کوشش کریں.اگر کسی وقت وہ لیڈ ر قید ہو جائے یا کام چھوڑ دے یا فوت ہو جائے تو اسی وقت دوسرا آدمی اس کی جگہ مقرر کر دیا جائے.جہاں جہاں ایسے آدمی پہلے سے مقرر ہیں یا جہاں پہلے مقرر نہیں تھے اور اب مقرر کئے جائیں، انہیں چاہئے کہ مجھے اپنے ناموں اور پتوں سے اطلاع دیں تا کہ میں انہیں ضروری حالات سے آگاہ رکھوں اور تا کہ ان کی جو امداد مجھ سے ممکن ہو اس کا سامان کروں.میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو جو لوگ اس قومی تحریک میں شامل ہونا چاہیں، ان سب سے حلفیہ اقرار لیا جائے کہ وہ ہر قسم کی شورش اور فساد سے بچیں گے کیونکہ بغیر حلف کے لوگ وقت پر اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں لیکن جب وہ قسم اٹھا لیں تو وہ قسم انہیں ان کے فرائض یاد دلاتی رہتی ہے.چاہئے کہ آپ کی مظلومیت ہمیشہ واضح رہے جب تک آپ کی مظلومیت ثابت کی جا سکے گی اس وقت تک آپ غالب رہیں گے.جب یہ امر مشتبہ ہو جائے گا اس وقت لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور آپ کی تحریک کی ساری طاقت زائل
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۱۸ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط ہو جاۓ گی.جولوگ لیڈر مقرر ہوں یا پہلے سے مقرر ہیں، انہیں چاہئے کہ کامیابی کیلئے مندرجہ ذیل طریق اختیار کریں.ا.جب تک شیخ محمد عبداللہ صاحب قید سے آزاد نہ ہوں، اس وقت تک تمام لوگوں کو نصیحت کریں کہ روزانہ گھروں میں ان کی آزادی کیلئے دعا کریں اس سے ہر گھر میں شیخ صاحب کا ذکر بھی تازہ رہے گا اور بچوں، بوڑھوں ، عورتوں، مردوں سب کو یہ یادر ہے گا کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو آزاد کرانا ان کا فرض ہے اس طرح یہ دعا خود ان کے اندر بھی زندگی قائم رکھے گی.۲.دوسرے ان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ بغیر شور کرنے کے اپنے محلہ یا شہر کے لوگوں کو سیاسی حالات سے باخبر رکھیں اور ان کے علاقہ میں جو ظلم ہوں، ان سے فوراً اپنے مرکزی انتظام کو اور مجھے خبر دیں تا کہ اس کے متعلق مناسب کارروائی کی جاسکے..چونکہ ان دنوں حکومت پر یہ اثر ڈالا جا رہا ہے کہ لوگ شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور چونکہ پبلک مظاہرے اس وقت مناسب نہیں ہیں، اس لئے اس بات کو ظاہر کر نے کیلئے کہ ملک کلّی طور پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ہے چاہئے کہ کوئی نشان ایسا مقرر کر لیا جائے جس کو دیکھتے ہی ہر شخص یہ سمجھ لے کہ یہ لوگ شیخ محمدعبداللہ صاحب کے ساتھ ہیں.میرے خیال میں اگر ایک سیاہ نشان ہر ایک شخص اس وقت تک کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب جیل سے نکلیں اپنے بازو پر باندھ لے تو یہ ایک عمدہ ذریعہ حکومت پر اس امر کے ظاہر کرنے کا ہوگا کہ ملک سوائے چند ایک لوگوں کے کلی طور پر شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ہے.اس طرح بغیر جلوس نکالنے کے ہر گلی اور کو چے میں چلتے ہوئے لوگ اس نشان کے ذریعہ سے حکومت پر واضح کر دیں گے کہ ہم شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور چونکہ اس طرح فرداً فرداً اپنے خیال کے ظاہر کرنے میں کسی فساد کا خطرہ نہیں ہو سکتا ، حکومت بھی اس میں دخل نہ دے سکے گی اور ایک طرف تو ملک منظم ہوتا چلا جائے گا اور دوسری طرف ملک کی رائے کا اظہار ایک پر امن طریق سے ہوتا رہے گا مگر اس قسم کے انتظام کو بااثر بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہ انتظام وسیع ترین پیمانہ پر کیا جائے اور حتی الوسع شیخ صاحب کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی فرد اس سے باہر نہ رہے.آخر میں میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بعض نہایت خوش کن خبریں ملی ہیں جن سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے آپ
۱۱۹ 으 انوار العلوم جلد ۱۳ بر در ان کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا دوسرا خط لوگوں کی بہتری کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے دکھوں کو جلد دور کر نے والا ہے.آپ کو صرف تھوڑے سے حوصلہ کی ضرورت ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ ملک کے غداروں کے دھوکے میں نہ آئیں.میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک آپ لوگوں میں سے کوئی حصہ بھی میری مدد کی ضرورت کو سمجھے گا میں اِنشَاءَ اللہ ہرممکن مدد آپ لوگوں کی ترقی کے بارہ میں کرتا رہوں گا.وَالتَّوْفِيقُ مِنَ اللهِ وَاخِرُ دَعْوَانَا أن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ والسلام خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد قادیان.مؤرخہ ۱.جولائی ۱۹۳۳ء ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۴ تا ۴۷ مطبوعہ ۱۹۶۵ء) 1 میرے پاس اس امر کے باور کرنے کی کافی وجوہ ہیں کہ سید زین العابدین صاحب کے اخراج میں بعض نام نہاد لیڈروں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس امر سے ڈر کر کہ ان کے آنے سے حقیقت حال ظاہر ہو جائے گی بعض اپنے ہمدرد افسروں کے ذریعہ سے ان کے نکالنے کی کوشش کی تا کہ اُن کیلئے راستہ کھلا رہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا آہ! نادر شاہ کہاں گیا از ا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۲۱ آہ! نادر شاہ کہاں گیا اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ سرزمین کابل میں ایک تازہ نشان کا ظہور آہ! نادرشاہ کہاں گیا“ کابل کی سرزمین اس امر میں خصوصیت رکھتی ہے کہ سرزمین کا بل کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات اس میں پے در پے ظاہر ہورہے ہیں.شاید ہندوستان کے بعد وہ دوسرا ملک ہے جس کے متعلق اس قدر کثرت سے اخبار غیبیہ اللہ تعالی کے مامور اور مُرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے شائع کرائی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود کی پہلی پیشگوئی ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی مجددیت بھی نہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شانانِ تُذبَحَانِے کا الہام کر کے کابل میں اُن دوخونوں کی خبر دی جو ناحق اور بلا سبب وہاں کئے جانے والے تھے.یعنی اول مولوی عبدالرحمن صاحب شاگرد صاحبزاده عبد اللطیف صاحب شہید کا قتل اور پھر خود صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا قتل.دوسری پیشگوئی جب یہ پیشگوئی ۱۹۰۳ء کو تحمل کو پہنچ گئی تواللہ تعالی نے آئندہ کے متعلق پھر خبر دی کہ اب تین اور آدمی وہاں سلسلہ احمدیہ کے شہید کئے جائیں گے.چنانچہ یکم جنوری ۱۹۰۶ ء کا الہام ہے: دو تین بکرے ذبح کئے جائیں گے، ۲ الہام ۱۹۲۴ ء میں آکر پورا ہوا جب کہ امیر امان اللہ خان صاحب کے عہد میں دوبارہ احمدیوں پر ظلم شروع ہوا اور پہلے جماعت احمدیہ کے مبلغ مولوی نعمت اللہ صاحب امیر امان اللہ خان کے حکم
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۲۲ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا سے صرف اس جرم میں کہ وہ احمدی تھے اور احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے، سنگسار کئے گئے اور ان کے چند ہفتے بعد مولوی عبد الحلیم صاحب و ملا نو ر علی صاحب اسی جُرم میں شہید کئے گئے.یاد رکھنا چاہئے کہ دونوں الہاموں میں شہیدوں کا نام بکرے رکھا گیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بکرا ایک بے ضرر جانور ہے اور اس میں شر کا مادہ بالکل نہیں ہوتا اس نام سے درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ پانچوں قتل ناحق اور ظالمانہ ہوں گے اور صرف صداقت اور حق کیلئے بطور قربانی کے ان کی بھینٹ چڑھائی جائے گی.ان ظالمانہ قتلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تو امیر حبیب اللہ خان ظالمانہ قتلوں کا نتیجہ ان ظالمانہ ہوں ، محجوب الان جنہوں نے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو شہید کیا تھا، اپنے ہی رشتہ داروں کی سازش سے قتل کئے گئے اور پھر امیر امان اللہ خان جنہوں نے مؤخر الذکر پیشگوئی کو پورا کیا تھا اور تین بے قصور احمدیوں کو ظالمانہ طور پر مروا دیا تھا ایک بچہ سقہ کے ہاتھ سے کہ جو ایک معمولی سپاہی کی حیثیت رکھتا تھا اور صرف تین سو ہمراہیوں کے ساتھ کا بل پر حملہ آور ہوا تھا بُری طرح شکست کھا کر اپنا ملک چھوڑنے کیلئے مجبور ہوئے اور ایک طاقت ور بادشاہ ہونے کے باوجود تو پوں اور گولہ بارود کے انباروں کے ہونے کے باوجود نسبتا کمزور اور نہتی فوج کے ایک دستہ کے مقابلہ میں وہ اپنا تخت نہ سنبھال سکے اور بعد اس کے کہ یورپ کے ہر ملک میں اُن کا شاندار استقبال ہوا تھا، وہ ایک مسافر کی حیثیت میں اٹلی کے ایک گوشہ تنہائی میں اپنی زندگی کے آخری دن گزارنے پر مجبور ہوئے.تیسری پیشگوئی گو حبیب اللہ خان عرف بچہ سقہ کے ساتھ ابتدا میں صرف تین سو سپاہی تھے لیکن امیر امان اللہ خان کے کابل چھوڑنے کے بعد اس کے گرد ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا اور ادھرا میر امان اللہ خان نے بھی قندھار کا رُخ کیا تا کہ وہاں کے قبائل کو جمع کر کے اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کریں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام ملک میں خانہ جنگی کی آگ پھیل گئی اور اس خانہ جنگی میں ہزاروں آدمیوں کا خون ہوائی کہ عام طور پر ایک لاکھ آدمیوں کے مارے جانے کا اندازہ کیا جاتا ہے اور اس طرح ایک تیسری پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری ہوئی جس کے یہ الفاظ تھے کہ :.ریاست کابل میں قریب پچاسی ہزار کے آدمی مریں گے،
۱۲۳ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا اُس وقت لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب افغانستان کی کابل میں طوائف الملو کی منظم حکومت کا خاتمہ ہے.ایک جاہل اور ان پڑھ آدمی جسے سیاست اور تنظیم کا کچھ بھی علم نہیں برسرِ حکومت آ گیا ہے.نتیجہ یہی ہوگا کہ ملک میں آئے دن لڑائی اور فساد ہوتا رہے گا اور حکومت افغانستان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنی ہمسایہ طاقتوں میں مدغم ہو جائے گی لیکن خدا تعالیٰ کا کلام پچیس سال پہلے اس فتنہ کو دور کرنے کیلئے ایک اور شخص کو منتخب کر چکا تھا جو بدامنی کی حالت کو بدل کر افغانستان میں از سر نو امن اور طوائف الملو کی کو دور کر کے پھر ایک منظم حکومت قائم کرنے والا تھا اور یہ شخص جرنیل نادر خان تھا جو اس فتنہ کے وقت فرانس میں بیمار پڑا ہوا تھا.چونکہ نادر خان ایک ذہین جرنیل تھا.بچہ سقہ کی بغاوت کے وقت ان کو بلانے کی پوری کوشش کی گئی لیکن اُن کی بیماری نے ان کو سر اُٹھانے کی مہلت نہ دی اور وہ امیر امان اللہ خان کی امداد کے لئے وقت پر روانہ نہ ہو سکے اور ایسا ہو بھی کس طرح سکتا تھا جب کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور تھا.نا درشاہ کے متعلق پیشگوئی کی تشریح وہ پیشگوئی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ نے ۱۹۰۵ء میں شائع کی تھی اور دو الہاموں پر مشتمل تھی.یہ الہام آپ کو ۳ مئی ۱۹۰۵ ء کو ہوئے تھے اور ان کے الفاظ یہ تھے.(۱) مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رمی (۲) آه ! نادر شاہ کہاں گیا اول الذکر الہام در حقیقت قرآن کریم کی ایک آیت ہے اور جنگِ بدر کی طرف اشارہ کرتی ہے.اس جنگ میں مکہ کے تجربہ کار جرنیل اپنی ساری طاقت لے کر باہر نکلے تھے اور ایک ہزار جنگجو سپاہی ان کے ساتھ تھے.اس کے مقابل پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت ہی مختصر لشکر تھا.یعنی گل تین سو تیرہ آدمی تھے اور ان میں سے بھی اکثر نا تجربہ کار تھے اور بعض کے پاس ہتھیار تک نہ تھے.پرانی اور گند تلواریں یا شکتہ نیزے ان کا سرمایہ تھا.سواریاں بھی بہت کم لوگوں کو میتر تھیں جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور لشکر کفار نے اپنی تعداد اور اپنے تجربہ کی فوقیت کی وجہ سے اسلامی لشکر کو دبانا شروع کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور اُس کے حکم پر ایک مٹھی کنکروں کی اُٹھا کر دشمن کی طرف پھینکی یہ گویا
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۲۴ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا آسمانی طاقتوں کو ایک اشارہ تھا.ادھر آپ نے مٹھی پھینکی اور ادھر ایک تیز آندھی مسلمانوں کی پشت کی طرف سے چل پڑی اور اس کے ساتھ ریت اور کنکروں کا ایک طوفان اُٹھا جس نے کفار کی آنکھوں میں پڑ کر اُن کی نظر کو کمزور کر دیا اور اُن کے تیر بھی ہوا کی مخالفت کی وجہ سے مسلمانوں تک پہنچنے سے رُک گئے اور میدان کے درمیان میں ہی بے کار اور بے ضرر ہو کر گر نے لگے اور اسی ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح اور مکہ والوں کو شکست دی.اسی واقعہ کا اس آیت میں ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تو نے کنکر پھینکے تھے تو درحقیقت تو نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے کیونکہ ان کنکروں کے پھینکتے ہی عناصر میں ایک جوش پیدا ہوا اور وہ دشمن کو تباہ کرنے میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو گئے.اس آیت کو بطور الہام نازل کرنے کے یہ معنی تھے کہ ایک ایسا ہی واقعہ ہونے والا ہے جب کہ پھر ایک لشکر خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے سے زیادہ طاقتو رلشکر کا مقابلہ کرے گا اور باوجود اپنی بے سروسامانی کے وہ تھوڑ اسالشکر اپنے سے بڑے لشکر پر فتح پا جائے گا.اس الہام سے ظاہر ہے کہ جن دو فوجوں میں جنگ ہوگی، ان میں سے ایک فوج سلسلہ احمدیہ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب کی مستحق قرار پا چکی ہوگی.جس طرح مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے سزا کے مستحق قرار دئیے گئے تھے اور ان کے مقابل کا لشکر گو ہوگا تو کنکروں کی طرح ناکارہ لیکن اُس وقت ایسے کام پر مامور ہو گا جس سے اللہ تعالیٰ کے کلام کی تصدیق ہوتی ہوگی اور اُسے مسیح موعود علیہ السلام کی دعا بر پا کرے گی.اب دیکھنا چاہئے کہ سوائے کا بل کی حکومت کے کوئی ایسی حکومت نہیں جس نے بحیثیت حکومت احمدیت پر مکہ والوں کی طرح قتل کے ذریعہ سے ظلم کیا ہو اور پھر اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بددعا کی ہو.جیسا کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بددعا کی ہے آپ فرماتے ہیں.شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی.اب ظالم کا پاداش باقی ہے انَّهُ مَنْ يَّاتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيْهَا وَلَا يَحُى یعنی جو خدا تعالیٰ کے سامنے مُجرم ہو کر پیش ہوتا ہے اُس کے لئے ایک ایسی جہنم مقدر ہے کہ وہ نہ اس میں زندہ رہے گا اور نہ مرے گا.الفضل ۲۲ اکتوبر
۱۲۵ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا یہ امر ظاہر ہے کہ نہ مرنے اور نہ زندہ رہنے کی حالت ذلت ورسوائی کی حالت ہوتی ہے کہ نہ اس میں انسان کو زندہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اُس کی طاقت چھین لی جاتی ہے اور نہ مردہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بظا ہر سانس لیتا ہے.پس اس بددعا کا نتیجہ اسی طرح پیدا ہوسکتا تھا کہ امیر حبیب اللہ خان یا اس کی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک ہو کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے مُردوں کی طرح ہو جائے.کا بل میں بدر کی جنگ کا نظارہ غرض یہ امر ثابت ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے ساتھ مکہ والوں کی طرح کا سلوک کرنے والی حکومت صرف افغانستان ہی کی حکومت تھی اور ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الفاظ قرآنی میں بددعا بھی کی تھی.پس مذکورہ بالا الہام اسی حکومت کی نسبت ہوسکتا ہے اور چونکہ اس الہام میں اسلامی لشکر کا ذکر نہیں بلکہ صرف کنکر پھینکنے کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان پر یہ تباہی کسی احمدی لشکر کے ذریعہ سے نہیں آئے گی بلکہ اللہ تعالیٰ یہ کام ایسے لوگوں سے لے گا جو کنکروں کی طرح ہوں گے.یعنی اُن کی ذات میں کوئی خوبی نہ ہوگی بلکہ وہ صرف خدا تعالیٰ کا نشان پورا کرنے کے لئے ایک آلہ بنائے جائیں گے اور باوجود اس کے کہ وہ حقیر کنکر ہوں گے پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے جنگ بدر جیسا نشان دکھائے گا.یعنی وہ بالکل تھوڑے ہو نگے اور بے سامان ہونگے اور دشمن زیادہ ہو گا اور با سامان ہوگا لیکن پھر بھی وہ حقیر اور ذلیل کنکر ایک نبی کی دعا کے ماتحت حکومت اور اس کے اراکین کو پاش پاش کر دیں گے.چنانچہ دیکھو کہ جب حبیب اللہ خان نے تو بہ سے کام نہ لیا تو پہلے اسی کے بھائیوں کے ہاتھوں سے خدا تعالیٰ نے اس کو قتل کرایا‘ اس کے بعد امیر امان اللہ خان بادشاہ ہوئے اور انہوں نے باپ کی طرح تین بے گناہ احمدیوں کو قتل کرا دیا تب خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کا اور اُس نے اس خاندان کے حد سے بڑھے ہوئے ظلم کا بدلہ لینے کا حکم دے دیا اور اس اطلاع کے مطابق جو قبل از وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُس نے دے رکھی تھی بچہ سقہ کو ایک جماعت کے ساتھ جو تعداد میں اصحاب بدر کے مطابق تھی یعنی گل تین سو سپاہی تھے امان اللہ خان کے مقابلہ کے لئے کھڑا کر دیا اور پھر دوبارہ بدر کی جنگ کا نظارہ دنیا نے دیکھا.یعنی تین سو نا تجربہ کار اور بے سامان سپاہیوں نے ایک حکومت کا جو قلعوں میں محفوظ تھی تختہ الٹ دیا.فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلَّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ کا کنکروں کا اس طرح قلعوں کی دیواروں کو تو ڑ دینا آندھی کے جھونکوں کا تو پوں کے گولوں کے رُخ پھر ادینا کوئی معمولی نشان نہیں بلکہ ایک ایساز بر دست نشان
انوار العلوم جلد ۳ ۱۲۶ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا ہے کہ ہر صحیح الفطرت انسان کے سمجھنے کے لئے کافی ہے.کاش ! جو آ نکھیں رکھتے ہیں دیکھیں اور جو کان رکھتے ہیں سنیں اور جو دل رکھتے ہیں ایمان لائیں تا کہ خدا کے فضلوں کے وارث ہوں.نادر خان کا بادشاہ بننا اور نا گہانی وفات پانا بچہ سقہ کے ہاتھوں امان اللہ خان کی شکست سے یہ الہام پورا ہو جانا تھا اور کنکر اپنا کام کر چکنے کے بعد پھر کنکر ہی بن جانے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا میں یہ لفظ تھے کہ خدا تعالیٰ حبیب اللہ خان سے یہ سلوک کرے کہ نہ وہ زندہ رہے اور نہ مرے اور یہ اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اُس کی اولاد تو باقی رہے لیکن اُن کے پاس حکومت نہ باقی رہے.لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر بچہ سقہ تخت کابل پر قائم رہتا تو امان اللہ خان کو حکومت واپس لینے کا بہت موقع تھا کیونکہ بچہ سقہ میں تدبیر ملکی کی لیاقت نہ تھی اور اس کی طبیعت میں خشونت اور سختی بھی تھی اور اس کے نائب کنکروں کی طرح صرف پچھنا ہی جانتے تھے، ملک کیلئے خیر کا کام کرنا اُن کی طاقت سے بالا تھا اور چونکہ وہ پیشگوئی کو پورا کر چکا تھا خدا تعالیٰ کی نصرت سے بھی محروم ہو چکا تھا.پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُس سے وہ کام لے کر جو اُس کے لئے ازل سے مقدر ہو چکا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو کہ حبیب اللہ خان نہ زندہ رہے نہ مُردہ کسی دوسرے شخص کے ہاتھ سے پورا کرائے.چنانچہ اس کے لئے اُس نے نادر خان کو چنا اور اس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس پہلے الہام کے ساتھ ہی اُسی دن ان الفاظ میں دی کہ آہ ! نادرشاہ کہاں گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ اس پہلے واقعہ کے بعد نادر بادشاہ افغانستان ہوگا اور بادشاہ بننے کے بعد ایک آفت نا گہانی کے ذریعہ سے اس کی موت واقع ہوگی حتی کہ سب ملک چلا اٹھے گا کہ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بچہ سقہ کو خدا تعالیٰ نے جرنیل نادر خاں کے ہاتھوں سے شکست دلا کر ۳ مئی ۱۹۰۵ ء کے دوسرے الہام کو پورا کرنے کے سامان پیدا کرا دیئے اور اس امر کا بھی انتظام کرا دیا کہ امان اللہ خان دوبارہ بادشاہ نہ ہو سکے اور امیر حبیب اللہ خان کے خاندان کے لئے یہ آسمانی فیصلہ جاری ہو جائے کہ وہ نہ مریں اور نہ زندہ رہیں.لیکن جہاں اس الہام میں یہ خبر دی گئی تھی کہ کنکروں سے نادر شاہ کی وفات کی خبر کام لینے کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ نادر نامی ایک شخص بادشاہ ہو جائے گا اور اُس کے ذریعہ سے امیر حبیب اللہ خان کی اولا د کو
۱۲۷ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا اللہ تعالیٰ تخت کا بل سے مستقل طور پر محروم کر کے لا يَمُوتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيَى کا مصداق بنادے گا وہاں اس الہام میں یہ بھی خبر تھی کہ نادر، بادشاہ ہونے کے بعد ایسے وقت میں کہ ابھی اُس کی ضرورت باقی ہوگی، اس دنیا سے گذر جائے گا اور لوگ اُس کی ضرورت کو محسوس کریں گے.اور جیسا کہ قارئین کرام کو معلوم ہوگا، یہ حصہ پیشگوئی کا ۸.نومبر ۱۹۳۳ ء کو پورا ہو گیا ہے.یعنی اس تاریخ کو نادر شاہ بادشاہ افغانستان کو جبکہ وہ دلکشا محل میں ایک فٹ بال کے میچ کے بعد تقسیم انعامات کے لئے تشریف لائے تھے ایک دشمن ملک و ملت نوجوان نے پستول کے تین فائر کر کے ہلاک کردیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اے لوگو! جن کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان باقی ہے، میں تم سے کہتا ہوں کہ کیا یہ نشان خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ؟ کیا یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے ثبوت کے لئے کافی نہیں؟ کیا یہ نشان جو قریباً ۰ ۳ سال بعد آ کر پورا ہوا اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ ہمارا خدا زندہ ہے.وہ جس طرح آدم سے کلام کرتا تھا، نوح سے کلام کرتا تھا، ابراہیم سے کلام کرتا تھا، موسیٰ سے کلام کرتا تھا، عیسی سے کلام کرتا تھا اور سب سے آخر میں لیکن سب سے زیادہ شان کے ساتھ حضرت محمد مصطفی نبیوں کے سردار سے کلام کرتا تھا آج بھی اپنے پیارے بندوں سے کلام کرتا ہے.آج بھی اسلام کے لئے اس کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی طرف سے معجزے دکھائے جاتے ہیں.دیکھو! یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں جو پوری ہوئی.اگر ذرا تا مل سے کام لو تو اس ایک پیشگوئی میں بہت سی پیشگوئیاں جمع ہیں.نادر خاں کی بالکل مخالف حالات میں ترقی (۱) مثلا جس وقت یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع کئے، اُس وقت نادر خاں ایک نوجوان طالب علم تھے اور ان کا خاندان اُس وقت ایسے حالات میں سے گزر رہا تھا کہ کسی بڑے عہدہ کی بھی انہیں امید نہ ہو سکتی تھی.یعنی ان کا خاندان امیر عبدالرحمن کے زمانہ میں زیر عتاب رہ کر اس زمانہ کے بالکل قریب امیر حبیب اللہ خان کی معافی پر افغانستان پہنچا تھا اور بوجہ وطن سے ۲۰ سال باہر رہنے کے انہیں کامیابی کی زیادہ امید نہیں ہو سکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قسم کی ذہانت عطا کی کہ وہ فوجی کام میں جس پر وہ مقرر کئے گئے تھے خاص طور پر قابل ثابت ہوئے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی ترقی کا یہ سامان کر دیا کہ سمت جنوبی میں بغاوت ہوئی جس میں شاہی فوجوں کو شکست ہوئی اس پر نادر خان اس
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۲۸ آہ! نادر شاہ کہاں گیا بغاوت کو فرو کر نے پر مقرر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زبردست کامیابی دی جس کی وجہ سے ان کو عہدہ میں ترقی ملی اور وہ افغانستان کے قابل ترین آدمیوں میں سمجھے جانے لگے.(۲) امیر حبیب اللہ خان یکدم مارے گئے اور کا بل وزیر جنگ اور سپہ سالار بننا سے باہر مارے گئے جس کی وجہ سے عنایت اللہ خان جو ان کے بڑے بیٹے اور امیر نصر اللہ خان کے داماد تھے، اپنے سر سمیت اُس وقت امیر حبیب اللہ خان کے ساتھ تھے بادشاہت سے محروم رہ گئے.کابل کے لوگوں نے فساد کے خوف اور اس طبہ کی وجہ سے کہ امیر حبیب اللہ خان کا قتل امیر نصر اللہ خان اور سردار عنایت اللہ خان کی سازش سے ہوا ہے امان اللہ خان کو تخت پر بٹھا دیا.امان اللہ خان کو اس عہدہ کے حصول کے لئے شاہ خاشی عبد القدوس خان سے مدد لینی پڑی جو نادر خان کے قریبی رشتہ دار تھے.پس باوجود اس کے کہ انہیں نادر خاں پر یہ شبہ تھا کہ امیر حبیب اللہ خان کے خلاف سازش میں ان کا بھی حصہ ہے چند دنوں کی نظر بندی کے بعد انہوں نے انہیں اپنے عہدہ پر بحال کر دیا.اس کے معاً بعد افغانستان اور انگریزوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور اس میں ان کو اس قدر ز بر دست کامیابی ہوئی کہ سپہ سالا را اور وزیر جنگ دونوں عہدے ان کو مل گئے اور یہ جنگ ان کے حق میں ابر رحمت ہو گئی اور تخت شاہی کے اور بھی قریب ہو گئے کیونکہ اس جنگ نے انہیں سمت جنوبی کے لوگوں میں محبوب بھی بنادیا اور ان کی لیاقت کا سکہ بھی ان لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا.(۳) جب یہ الہام ہوا اُس وقت افغانستان کا درجہ ایک افغانستان کا آزاد ہونا ریاست کا تھا اور اس الہام میں نادر کو شاہ بتایا گیا تھا.اگر افغانستان آزاد حکومت نہ بنتی اور کسی طرح سردار نادر خان اس کے حاکم ہو جاتے تب بھی وہ امیر کہلاتے نہ کہ بادشاہ.پس اس الہام میں افغانستان کی حکومت میں ایک زبردست تغیر کی، جس کے نتیجہ میں افغانستان نے آزاد ہو جانا تھا خبر دی گئی تھی.۱۹۰۵ء میں جب یہ الہام ہوا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افغانستان آزاد ہو جائے گا.روس کی حکومت کا خطرہ اس طرح حکومت ہند کو لگا رہتا تھا کہ انگریزی حکومت کو ایک منٹ کے لئے بھی افغانستان کی آزادی تسلیم کرنے کا خیال نہیں آ سکتا تھا.امیر عبدالرحمن جیسا زبردست حاکم یہ جرأت نہ کر سکا کہ انگریزوں سے استقلال کا خواہاں ہو.پھر امیر حبیب اللہ میں کب یہ طاقت ہو سکتی تھی کہ آزادی حاصل کرے بلکہ امیر حبیب اللہ خان نے تو اپنے باپ سے بھی زیادہ انگریزوں سے تعلقات بڑھالئے.
۱۲۹ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا تھے جس کے صلہ میں ان کا وظیفہ بھی بڑھا دیا گیا تھا.پس ان کے زمانہ میں تو کوئی شخص وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ افغانستان آزاد ہو جائے گا اور اس کا امیر بادشاہ بن جائے گا لیکن اُس وقت جبکہ انسانی دماغ اس تغیر کے امکان کا خیال بھی نہیں کر سکتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا الہام میں بتایا گیا کہ افغانستان آزاد ہو جائے گا اور اس کا امیر شاہ کہلائے گا اور خدا تعالیٰ کے خاص نشان سے نادر جو ایک معمولی فوجی افسر تھا، اس ملک کی بادشاہت حاصل کرے گا.پیشگوئی کے اور حصوں کو جانے دو صرف اس حصہ کو لے کر دیکھو کس طرح ایک حکومت کی آزادی کی اور پھر اس کے فرمانروا کی اور ایسے فرمانروا کی جس نے غلام ملک کو آزاد کرایا تباہی کی اور اس کے بعد نادر جیسے انسان کی ، جس کے درمیان اور تخت افغانستان کے درمیان بیسیوں اور مستحق اشخاص حائل تھے بادشاہت کی خبر دی ہے اور پھر وقوع سے چھپیں سال پہلے.کیا یہ زندہ نشان نہیں؟ کیا یہ محیر العقول پیشگوئی نہیں؟ (۴) جب بچہ سقہ نے بغاوت کی ہے جرنیل نادر خان اُس نادر خان کی علالت وقت یورپ میں بیمار پڑے تھے.وہاں سے وہ با وجود بیماری کے ہندوستان آئے لیکن آتے ہی پھر سخت بیمار ہو گئے اور عرصہ تک پشاور میں ان کو بیمار رہنا پڑا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ امان اللہ خان کے ساتھ مل کر جنگ میں شامل نہ ہو سکے.اگر وہ بیمار نہ ہوتے اور امان اللہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو جاتے اور فتح حاصل کر لیتے تو یقیناً تخت امان اللہ خان کے ہاتھ میں آتا اور نادر خان بادشاہ نہ ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیمار کر کے اس وقت تک فتح سے روکے رکھا جب تک کہ امان اللہ خان شکست کھا کر ملک سے بھاگ نہ گئے.پس اس میں بھی ایک زبر دست نشان تھا اور پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے یہ ایک الہی تدبیر تھی اور اپنی ذات میں ایک مستقل نشان.(۵) اگر اُس وقت نا در خان کو بھی اپنے بادشاہ بننے کا خیال نہ تھا کے اعلانات دیکھے جائیں جبکہ نادرشاہ اپنے ملک کو استبداد سے آزاد کرانے کے لئے کوشش کر رہے تھے تو اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک ان کے اپنے ذہن میں بھی بادشاہت کا خیال نہ تھا بلکہ جب تک امان اللہ خان ملک میں رہے وہ برابر ان کی تائید کرتے رہے اور جب وہ حکومت سے دست بردار ہو کر ملک چھوڑ گئے تو اُس وقت سے نادر خان صاحب نے برابر یہ اعلان کیا کہ انہیں خود حکومت
انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا کی خواہش نہیں ملک کے لوگ جو فیصلہ مشورہ کے بعد کریں گے وہ اُسی پر کار بند ہوں گے.بات ظاہر کرتی ہے کہ عین اُس وقت بھی جبکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے جد و جہد کر رہے تھے خود ان کے نزدیک ان کا بادشاہ ہونا ناممکن تھا.لیکن اس کے مقابل میں اُس الہام کو دیکھو کہ ۱۹۰۵ ء میں پورے چھپیں سال پہلے ان کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا گیا تھا.نادر خان کی بے سروسامانی (1) جب وہ خوست کے علاقہ میں داخل ہوئے ہیں تو ان کی حالت ایسی کمزور تھی کہ پریس جاری کرنے کی بھی ان کو طاقت نہیں، ملک کے لوگوں کو صحیح حالات سے اطلاع دینے کے لئے انہوں نے اخبار جاری کرنا چاہا اور اس کے لئے ایک سٹائلو پر لیس جو معمولی چالیس پچاس روپیہ کی چیز ہے، انہوں نے خریدا اور دورانِ جنگ میں اخبار ” اصلاح اسی پر چھپ کر شائع ہوتا رہا.ایسے محدود وسائل کے ساتھ بچہ سقہ جیسے دشمن کا مقابلہ جس نے امیر امان اللہ خان جیسے بادشاہ کو ان کے تمام ہتھیاروں اور فوجوں کے باوجود شکست دی تھی، نیچا دکھانا کوئی معمولی کام نہ تھا.اور خود اپنی ذات میں ایک نشان تھا اور صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے یہ سامان پیدا ہوئے کہ باوجود بے سروسامانی خرابی صحت اور طوائف الملوکی کے نادر خان بچہ سقہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے.افغانستان نے صرف نادر خان کو بادشاہت کا اہل سمجھا (۷) نادر خان اعلان کر چکے تھے کہ وہ بادشاہت کے متمنی نہیں اور ملک جو فیصلہ کرے گا انہیں منظور ہو گا اور اس پر انہوں نے عمل بھی کیا اور لوگوں سے مشورہ لیا.غالب خیال یہی تھا کہ چونکہ شاہی خاندان کے بہت سے افراد زندہ موجود تھے اور چونکہ امراء عام طور پر آپس میں رقابت رکھتے ہیں اس لئے بچہ سقہ کے فتنہ کے فرو ہو جانے پر اول تو لوگ امیر امان اللہ خان کو واپس بلانے کا مشورہ دیں گے اور اگر اُن کی بعض حرکات سے لوگ ناخوش تھے تو کم سے کم اُن کے خاندان کے کسی اور شہزادے کو تخت پیش کریں گے لیکن الہی فیصلہ کو کون روک سکتا تھا.جو تخت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نادر کو ۳ مئی ۱۹۰۵ ء کو انعام کے طور پر مل چکا تھا، جو نادر اس لئے کھڑا کیا گیا تھا کہ تا امیر حبیب اللہ خان کا خاندان لَا يَمُوتُ وَلَا يَحْي کی زندگی بسر کرے اُس تخت سے کون نادر کو محروم کر سکتا تھا ؟ اُس نادر کو کون بادشاہت کے فیصلہ کے وقت نظر انداز کر سکتا تھا ؟ آخر وہی ہوا جو خدا تعالیٰ کی طرف
انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا سے مقدر تھا.یعنی پیشگوئی کے پورے پچیس سال بعد وہ نادر خان جس کے بادشاہ ہونے کے وقوعہ سے چھ ماہ پہلے بھی کوئی امکان نہ تھا، تخت افغانستان پر متمکن ہونے کے لئے منتخب کیا گیا.باوجود اس کے کہ اُس کی خواہش نہ تھی، با وجود اس کے کہ وہ فیصلہ قوم کے ہاتھ میں چھوڑ چکا تھا اُسی کے نام قرعہ پڑا وہی اس بوجھ کو اُٹھانے کا اہل سمجھا گیا اور اس کے سوا کون اہل ہوسکتا تھا جسے خدا تعالیٰ نے اہل قرار دیا.نا در خان کا نادرشاہ کہلانا (۸) مگر نادر خان کے نادرشاہ ہونے میں ایک مرحلہ ابھی باقی تھا بے شک افغانستان آزاد ہو چکا تھا بے شک اس کا امیر اب بادشاہ کہلاتا تھا بے شک اب نادر اس آزاد حکومت کے تخت پر بیٹھ کر شاہ بن گیا تھا لیکن الہام میں اس کا نام نادر خان بادشاہ نہیں رکھا گیا تھا بلکہ نادرشاہ رکھا گیا تھا.اگر بادشاہ نادر خان کے نام سے نادر کو پکارا جاتا تب بھی عقلمند انسان کے نزدیک پیشگوئی کو پورا سمجھا جاتا اور یہ خیال کیا جاتا کہ نادر خان شاہ کو اختصاراً نادرشاہ کہہ دیا گیا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے ایک ایک لفظ کو اس کی اصلی صورت میں پورا کرنا تھا، اس لئے اس کے لئے بھی غیر معمولی سامان پیدا کئے اور خود نادر کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ وہ آئندہ نادرشاہ کہلائے.اے سوچنے والو! سوچو! کیا یہ غیر معمولی خیال نہیں ! بادشاہ ہو کر لوگوں کے نام وہی رہتے ہیں.شاہ ان کے نام کے ساتھ لگ جاتا ہے.کبھی پہلے کبھی بعد میں.لیکن ان کے قومی القاب اور ان کے نام وہی رہتے ہیں.نادر کا نام نادر تھا اور قومی لقب خان تھا.خان کا لفظ شاہ کے عہدہ کے خلاف نہیں بلکہ وہ تو شہنشاہ کے عہدہ کے بھی خلاف نہیں.چنگیز خان آدھی دنیا سے زیادہ کا بادشاہ تھا مگر وہ شاہی لقب کے ساتھ خان بھی کہلاتا تھا.اسی طرح چغتائی خاندان کے کئی بادشاہ ”سلطان“ لقب کے ساتھ خان بھی کہلاتے تھے.جیسے سلطان غیاث الدین براق خان سلطان محمد خان سلطان محمد اولجه خان وغیرہ نام تاریخوں میں مذکورہ ہیں.امان اللہ خان جن کے عہد میں افغانستان آزاد ہوا اور قدرتاً انہیں شاہ کہلانے کا شوق تھا وہ بھی شاہ امان اللہ خان کہلاتے تھے.کیوں پھر اسی طرح نادر خان شاہ نادر خان نہ کہلائے ؟ کیوں ان کا نام ہی بدل کر نادر شاہ کر دیا گیا ؟ اے صداقت پسند روحو! کیا تم اس سے انکار کر سکتی ہو کہ یہ اُس خدائے قادر کا کام تھا اور صرف اُسی کا کام تھا جس نے ۳ مئی ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر دی تھی کہ
۱۳۲ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا آہ! نادر شاہ کہاں گیا.جس خدا نے نادر خان کا نام نادرشاہ رکھا تھا اُسی نے نادر خان اور اُن کے امراء کے دل میں یہ تحریک کی کہ گوشاہ کا لفظ نام کے پہلے بھی استعمال ہو سکتا ہے، گو امان اللہ خان نے باوجود شاہ ہو جانے کے اپنے نام کو امان اللہ شاہ کے نام سے مشہور نہیں کیا، گو خان کا لفظ شاہی کے منافی نہیں، لیکن پھر بھی نادر خان کو آئندہ نادر شاہ کہا جائے تا کہ نادر خان پیشگوئی کے مطابق نہ صرف شاہی کا عہدہ پائیں بلکہ ان کا نام بھی نادرشاہ ہو جائے.بعض جاہل لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نادر خان کو الہام میں نادرشاہ کیوں کہا گیا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نادر خان کا نام تمام دنیا میں نادر شاہ ہی پڑ گیا ہے.حتی کہ خود وہ لوگ جو احمد یہ سلسلہ کے مخالف ہیں اور نادر خاں کو نادر شاہ کہنے پر معترض ہیں، خود اپنے اخبار میں بار ہا نادرشاہ لکھ چکے ہیں جیسا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب.اسی طرح تمام انگریزی اخبارات ان کو نادر شاہ لکھتے ہیں، خود افغانستان کے لوگ انہیں نادر شاہ کہتے اور پکارتے ہیں، حکومت بھی اسی امر کو پسند کرتی ہے کہ انہیں نادر شاہ کہا جائے.چنانچہ روزانہ اخبار سیاست کے ۱۱.دسمبر ۱۹۲۹ء کے پرچہ میں لکھا ہے کہ سردار شاہ ولی خان صاحب نے مالک اخبار سیاست کے ساتھ گفتگو کے دوران میں فرمایا کہ:.ہندوستان میں لوگ اعلیٰ حضرت کا نام غلط لکھتے ہیں.جس روز انہوں نے اعلانِ مملکت کیا، اُس روز وہ خان کی جگہ شاہ ہو گئے اب اُن کا نام نادرشاہ شاہ افغانستان ہے.اس شہادت سے ثابت ہے کہ نادر خان کا نام ہی نادر شاہ رکھ دیا گیا تھا اور شاہ کا لفظ نام کا جز و قرار پا گیا تھا کیونکہ سردار شاہ ولی خان صاحب فرماتے ہیں کہ اب ان کا نام نادرشاہ شاہ افغانستان ہے.شاہ کا لفظ دوسری دفعہ دُہرا کر انہوں نے بتایا ہے کہ پہلا شاہ اُن کے نام کا مجزو ہے.پس خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے اُن کے نام کو کلی طور پر بدل دیا اور اُن کا نام ہی نادرشاہ رکھ دیا گیا.اے حق کے طالبو! یہ تغیر معمولی نہیں، بلکہ نادرشاہ کے برسر حکومت آنے پر بھی اس تغیر کو ناممکن قرار دیا جا تا تھا.چنانچہ سلسلہ احمدیہ کے اھد ترین دشمن اخبار اہلحدیث میں بھی لکھا گیا.کیا افغانستان میں نادرشاہ بولا جاتا ہے؟ کیا افغانستان کی اصطلاح میں بادشاہ کو شاہ کے لقب سے کبھی یاد کیا گیا؟ کیا کبھی عبد الرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ یا
۱۳۳ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا امان اللہ شاہ کے القاب کسی نے سنے؟ وہاں تو شاہ کا لقب بادشاہ کیلئے ہے ہی نہیں.بلکہ ہم کہیں گے کہ ہندوستان میں کسی معتبر تحریر میں عبد الرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ وغیرہ نہیں ملتے.پس اگر یہ الہام افغانستان کے مافی الضمیر کی ترجمانی ہوتی تو شاہ کا لقب...نہ ہوتا بلکہ نادر خان کا لقب ہوتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نادرشاہ والا الہام کسی اور موقع کے لئے ہے امیر نادر خان کے متعلق نہیں میں سمجھتا ہوں، یہ تحریر مولوی ثناء اللہ صاحب کے اخبار اہلحدیث میں اللہ تعالیٰ نے لکھوائی ہے.اس قدر شدید دشمن اخبار اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ نادر خان کا نادر شاہ کہلانا افغانستان کے لوگوں کے حالات اُن کی زبان اور اُن کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ناممکن ہے.ہم کہتے ہیں یہ بالکل درست ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے سابق بادشاہ شاہ نہیں کہلاتے تھے.یہ بھی درست ہے کہ امان اللہ خان بھی بادشاہ ہو کر امان اللہ شاہ نہیں کہلائے بلکہ شاہ امان اللہ یا امان اللہ خان شاہ افغانستان کہلائے.اور یہ سچ ہے کہ افغانستان کے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی قومی روایات کے خلاف یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ وہ نادر خان کو نادرشاہ شاہ افغانستان کہنے لگیں مگر دوسری طرف یہ امر واقعہ ہے کہ نادر خان بادشاہ ہوتے ہی نادرشاہ کہلانے لگے.افغانستان اور ہندوستان کے جرائد انہیں نادرشاہ لکھتے چلے آئے ہیں اور لکھ رہے ہیں اور جیسا کہ ان کے بھائی اور وزیر سردار شاہ ولی خان صاحب کے بیان سے ثابت ہے افغانی حکومت نے ان کا یہی نام تجویز کیا تھا.پس اے وہ لوگو جن کے دل میں خدا کا خوف ہے جو مرنے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کرتے ہو خدا را مجھے بتاؤ کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے اس ناممکن امر کوممکن کرا دیا.جسے مولوی ثناء اللہ صاحب جیسے دشمن سلسلہ کا اخبار بھی ناممکن قرار دیتا ہے اور جو بظاہر حالات واقعہ میں ناممکن تھا.کیا اسی زبر دست خدا نے نہیں جس نے ۳.مئی ۱۹۰۵ء کو پورے چھپیں سال پہلے بانی سلسلہ احمدیہ کے الہام میں نادر کا نام نادرشاہ رکھا تھا.کیا اس زبر دست نشان کو دیکھتے ہوئے بھی تم انکار کرتے چلے جاؤ گے؟ کیا اب بھی تم خدا کے مأمور کو قبول نہیں کرو گے؟ کیا اب بھی تم اپنے پیدا کرنے والے سے صلح نہیں کرو گے؟ اور دہریت اور انکار کے گڑھوں میں گرے رہو گے؟ اگر ایسے زبر دست نشان بھی جن کے ناممکن ہونے کا دشمن بھی اقرار کرتا ہے، تمہارے سمجھانے کے لئے کافی نہیں ؟ اگر نہیں تو بتاؤ کہ تم خدا تعالیٰ سے
۱۳۴ انوار العلوم جلد ۱۳ کس معاملہ کی امید کرتے ہو؟ آہ! نادر شاہ کہاں گیا نادرشاہ کی وفات پر حسرت واندوہ کا اظہار (۹) افغانستان جیسے ملک میں بادشاہ ہونے کے بعد بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا.لوگ جلد جوش میں آ جاتے ہیں اور محبت دشمنی سے بدل جاتی ہے.بالکل تعجب نہ ہوتا اگر نادر شاہ بادشاہ ہونے کے بعد ملک میں بدنام ہو جاتے.یا ملک میں امن قائم کرنے کے قابل ثابت نہ ہوتے اور تفرقہ اور فساد بڑھ جاتا.لیکن آہ ! نادرشاہ کہاں گیا.‘“ کے الفاظ بتاتے تھے کہ ان کی موت کے وقت لوگ ان کے کام کی قدر کرنے لگ جائیں گے اور ان کی موت پر حسرت و اندوہ کا اظہار کریں گے.یہ خود ایک نشان ہے کیونکہ پچیس سال پہلے ایک معمولی آدمی کے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کرنا خود ایک بڑا نشان ہے لیکن ساتھ یہ بتا دینا کہ باوجود اس کے کہ وہ قدیم شاہی خاندان کو علیحدہ کر کے تخت پر بیٹھے گا اور ایسے ملک میں حکومت کرے گا جہاں کے لوگ اصلاح کے نام سے دور بھاگتے ہیں، وہ مفید کام کرتے ہوئے لوگوں میں قبولیت پیدا کرتا چلا جائے گا اور لوگ اُس کی موت پر دل سے حسرت کریں گے.ایک ایسا نشان ہے کہ جس کی عظمت کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.یا درکھنا چاہیئے کہ یہ حصہ الہام کا دو دفعہ پورا ہوا ہے.پہلی دفعہ جب امیر امان اللہ خان کے وقت میں بچہ سقہ نے بغاوت کی اور امیر نے اور امراء نے اور عوام نے اُس وقت خواہش کی کہ کاش! نادر خان ہوتے تو ملک کو سنبھالتے.گو اُس وقت نادر خان نادرشاہ نہ تھے لیکن کبھی آئندہ نام سے بھی کسی کو وقت سے پہلے یاد کر لیا جاتا ہے.جیسے قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے لوگوں کو الْفُلْكِ الْمَشْحُون میں چڑھایا حالانکہ مشحون کے معنی بھری ہوئی کے ہیں.محققین لکھتے ہیں کہ اس جگہ مراد یہ ہے کہ وہ کشتی جو لوگوں کے بیٹھنے سے بھرنے والی تھی.چونکہ بتانا یہ ہے کہ کشتی آدمیوں کی کثرت یا کشتی کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے بھر گئی.بجائے اس مضمون کو الگ بیان کرنے کے یہی کہہ دیا کہ ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں جگہ دی حالانکہ جگہ دیتے ہوئے وہ بھری ہوئی نہ تھی، اسی طرح یہاں ہوا.گو اُس وقت نادر خان بادشاہ نہ تھے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ اس وقت ان کو کامیاب کر کے بادشاہ بنا دیا جائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو نادرشاہ کے نام سے ہی پکارا اور اس طرح ایک مختصر فقرہ میں وسیع مضمون ادا کر دیا.لیکن دوسرے معنی اِس کے اب پورے ہوئے ہیں جبکہ نادرشاہ لوگوں میں نادرشاہ کے نام
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۳۵ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا سے مشہور ہو کر اور اُن کی محبت کو جذب کر کے ایک دشمن ملک کے ہاتھوں سے قتل ہوئے ہیں اور سارا ملک بزبانِ حال چلا رہا ہے کہ آہ ! نادرشاہ کہاں گیا ؟ (۱۰) اس الہام میں یہ بات بھی بتائی گئی اچانک حادثہ سے وفات کی خبر تھی کہ نادرشاہ صاحب کی وفات کسی اچانک حادثہ سے ہوگی.کیونکہ آہ! نادر شاہ کہاں گیا“ کے الفاظ میں نہ صرف افسوس بلکہ حیرت بھی پائی جاتی ہے اور حیرت ہمیشہ بے وقت یا غیر مترقب امر کے متعلق ہوا کرتی ہے.پس ان الفاظ سے ثابت ہے کہ الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ نادرشاہ معمولی طریق پر دنیا سے رخصت نہ ہوں گے بلکہ ان کا دنیا سے جانا غیر معمولی واقعہ کے طور پر ہوگا اور ایسے موقع پر ہو گا جبکہ لوگوں کو اس کی امید نہ ہوگی.نادرشاہ صاحب کے قتل کے جو واقعات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ حصہ بھی لفظاً لفظاً پورا ہوا.کہا جاتا ہے کہ نادرشاہ صاحب ایک فٹ بال میچ کے نتیجہ میں تقسیم انعام کرنے کے لئے اپنے باغ دل کشا نامی میں تشریف لائے اور سینکڑوں لوگوں کے مجمع میں جس میں طالب علم، اُستاد اور امرائے سلطنت وغیرہ تھے چند طالبعلموں سے گفتگو کر رہے تھے کہ انہی طالب علموں میں سے جن کی ہمت بڑھانے کے لئے وہ آئے تھے ایک نے ان پر ایک گز کے فاصلہ پر سے متواتر تین فائر کر دیئے.اور یکدم وہ مجمع طرب بزم عز ا بن گیا.اس واقعہ کی سُرعت اور اس کی سخت حیرت کا موجب ہونا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین فائر یکے بعد دیگرے ہو گئے اور لوگ شاہ کے بچانے کی کوشش نہ کر سکے.جرنیل محمود خان وزیر حرب اور شاہ کے بھائی اُس وقت موجود تھے اور اس طرح اچانک کچھ کا کچھ ہو جانے کا اُن پر اس قدراثر ہوا کہ اخبارات میں لکھا ہے کہ وہ غش کھا کر گر گئے.لوگ گھبرا کر بازاروں کی طرف دوڑ پڑے اور پکارنے لگے کہ شاہ فوت ہو گئے ہیں، شاہ فوت ہو گئے ہیں.یہ سب امور بتاتے ہیں کہ پیشگوئی کے عین مطابق نادرشاہ صاحب کا واقعہ اس حیرت انگیز طریق سے ہوا کہ لوگ اپنے حواس کھو بیٹھے.(۱۱) اس پیشگوئی سے یہ بات بھی نادرشاہ کی افغانستان کو اشد ضرورت معلوم ہوتی تھی کہ جس وقت.نادرشاہ صاحب کی وفات ہو گئی، اُس وقت ملک کو اُن کی اشد ضرورت ہو گی.واقعات سے یہ امر
۱۳۶ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ! نادر شاہ کہاں گیا بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ بڑا ثبوت اس امر کا یہ ہے کہ شاہ موصوف کی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے اخبارات میں یہ امر شائع کرایا کہ اگر دس سال بھی نادرشاہ صاحب کو اور مل گئے تو افغانستان کی حالت درست ہو جائے گی اور وہ ترقی کی چوٹی پر پہنچ جائے گا.اس اعلان کے دوسرے دن وہ مارے گئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب واقف لوگ اس امر کو محسوس کرتے تھے کہ نادرشاہ صاحب کی زندگی کی ابھی ملک کو بہت ضرورت ہے لیکن پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ وہ اُس وقت تک زندہ رہتے.پیشگوئی کے دو پہلو ممکن ہے کہ بعض دشمن یہ اعتراض کریں کہ جب نادرشاہ صاحب خوست پر حملہ کر رہے تھے اُس وقت کہا جاتا تھا کہ آہ ! نادرشاہ کہاں گیا“ سے یہ مراد ہے کہ اس فساد کو دُور کرنے کے لئے نادرشاہ کی ضرورت لوگوں نے محسوس کی ہے اور اب ان کی وفات پر اسے چسپاں کیا جاتا ہے.سو واضح رہے کہ یہ الہام دونوں دفعہ پورا ہوا ہے.اُس وقت بھی کہ جب امان اللہ خان کے بھاگنے کے موقع پر لوگوں کو جرنیل نادر خان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اور اب بھی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت وہ ایک بے وقوف نو جو ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں اور یہ اب کا خیال نہیں بلکہ جماعت احمدیہ میں یہ خیال اُسی وقت سے پیدا ہے جب خوست کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے نادرشاہ صاحب کو فتح دی.چنانچہ اُسی وقت میرے کہنے کے مطابق اس پیشگوئی پر ایک مضمون مولوی شیر علی صاحب نے لکھا تھا جو ۳.جنوری ۱۹۳۰ء کے ” الفضل میں شائع ہو چکا ہے.اُس میں اِس امر کا اظہار کرنے کے بعد کہ یہ پیشگوئی امان اللہ خان کے شکست کھانے سے اور لوگوں میں جرنیل نادر خان کی واپسی کی خواہش سے اور نادر خان کے نادر شاہ بن جانے سے پوری ہوگئی ، مولوی صاحب نے تحریر کیا تھا کہ اس پیشگوئی کے دو مفہوم ہیں.ایک تو وہ جو بغاوت افغانستان کے وقت نادر خان کے باہر ہونے اور لوگوں میں ان کے بلانے کی خواہش پیدا ہونے اور پھر ان کے ملک میں واپس آ کر فتح پانے اور بادشاہ ہو جانے سے پورا ہوا اور ایک دوسرا مفہوم ہے.اس دوسرے مفہوم کے متعلق وہ لکھتے ہیں:.دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم کو کوئی خطرناک مصیبت پیش آئے گی اور اس کے نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائے گا.‘و اس تحریر سے ظاہر ہے کہ احمدی جماعت شروع سے اس امر کی قائل تھی کہ اس پیشگوئی کے دو
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۳۷ آہ! نادر شاہ کہاں گیا پہلو ہیں اور غالب ہے کہ وہ دونوں پہلو ہی پورے ہوں کیونکہ سنت اللہ یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ الہام کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور وہ سب پورے ہو جاتے ہیں.خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے افغانستان کے متعلق ۳ مئی ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح خلاصہ بیان موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دو وحیوں کے ذریعہ سے کچھ اخبار غیبیہ ظاہر کیں.جن میں ایک طرف تو بچہ سقہ کی قلیل جماعت کے ساتھ امان اللہ خان پر فتح کا ذکر تھا اور پھر اس کے بعد یہ اطلاع تھی کہ نادر خان اُس وقت کہیں باہر ہوں گئے ملک اُن کی خواہش کرے گا وہ واپس آکر دشمن پر فتح پائیں گے اور بادشاہ ہو جائیں گے.ان کا نام نادر خان سے نادرشاہ ہو جائے گا اس کے بعد پھر وہ ایک حادثہ عظیمہ کا شکار ہوں گے اور اچانک ان کی موت واقع ہوگی.اور لوگ سخت ماتم اور غم میں مبتلا ہوں گے اور ان کی موت کو ملک کا بہت بڑا نقصان سمجھا جائے گا.یہ پیشگوئی اُس وقت کی گئی تھی جبکہ نادر ابھی ایک ناتجربہ کار نوجوان تھے اور ان کے لئے اعلیٰ عہدہ پر پہنچنے کا کوئی بھی امکان نہ تھا.خدا تعالیٰ کا خالص غیب اب اے لوگو! جو تلاش حق رکھتے ہواور جن کو دنیا کی محبت نے عقمی کی یاد بالکل ہی فراموش نہیں کرا دی، میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس قدر عظیم الشان اخبار چھپیں اور تمیں سال پہلے ایسے حالات میں بتا دینا کسی انسان کا کام ہو سکتا ہے؟ اگر انسان بھی ایسا کر سکتا ہو تو خدا کے رسولوں کی سچائی کا ثبوت ہی کیا ہوا ور خدا تعالیٰ کے کلام کی عزت ہی کیا رہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُوْلِ خدا تعالیٰ اپنے غیب کو سوائے رسولوں کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا.اب اگر ایک مفتری اور نَعُوذُ بِاللهِ شیطان سے تعلق رکھنے والا شخص اس قدر عرصہ پہلے اس قدر لمبا سلسلہ غیبی امور کا بتا سکتا ہے تو بتاؤ کہ قرآن کریم کی سچائی کا کیا ثبوت رہ جائے گا ؟ حکومتوں کا تغیر معمولی بات نہیں اور پھر پُرانے خاندانوں کی حکومت کا خصوصاً ایشیائی ممالک میں بدل جانا اور بھی عجیب بات ہے.اور اگر حکومت بدلے بھی تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے پاس جائے گی.اس شخص کی اس قدر لیبی عمر کا ضامن ہی کون ہو سکتا ہے اور اگر وہ زندہ رہے تو اس کا کون ضامن ہوسکتا ہے کہ اس کی قوتیں اُس وقت تک اس کا ساتھ دیں گی اور وہ اس موقع پر عملی طور پر کوئی حصہ لے سکے گا اور پھر یہ کہ وہ
۱۳۸ انوار العلوم جلد ۱۳ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا کامیاب بھی ہو جائے گا اور پھر کامیابی کے بعد اس اس طرح اُس کی موت واقع ہوگی اور ملک کی حالت اس کے بعد اس اس طرح ہو گی.بخدا یہ خالص غیب ہے جس کا بیان کرنا خدا تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے ممکن نہیں.پس خدا تعالیٰ کے نشانات سے انکار نہ کرو کہ یہ راہ نہایت خطرناک ہے.اے بھائیو! جو خدا امان اللہ خان کو اُس کے تخت سے ایک بچہ سقہ کے ذریعہ سے نکلوا سکتا ہے اُس کے غیب سے آپ کیونکر اپنے آپ کو مامون سمجھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اُس نے اسلام کو بچانے کے لئے آپ میں سے ہی ایک شخص کو مبعوث فرما دیا جس نے اس دہریت کے زمانہ میں اسلام کو تازہ معجزات کے ذریعہ سے پھر زندہ کر دیا ہے.پس وہ جو تمہاری نجات کے لئے آیا ہے، اُس سے دُور مت بھا گو اور وہ جوتمہارا دوست ہے اُس سے دشمنی نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اچھے پھل پیدا نہیں کرتی.کب تک انتظار کرو گے دیکھو! سورج نصف النہار پر آ گیا ہے نشان پرنشان ظاہر ہو رہا ہے.آسمان اور زمین پے در پے اور چلا چلا کر مسیح موعود کی صداقت کی شہادت دے رہے ہیں.آخر تم کب تک انتظار کرتے رہو گے.کیا تم جانتے ہو کہ موت کا وقت کب آئے گا.پس کیوں خوف نہیں کرتے کہ کہیں انتظار ہی انتظار میں جان نہ نکل جائے.سچ سچ کہو کہ اگر تم کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے تو مرنے کے بعد تم نے اس کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے؟ آہ ! تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ کیا خدا نے ہندوستان میں ظاہر ہونا تھا اور وہ نہیں جانتے کہ جب خدا عراق میں ابراہیم پر ظاہر ہوا تھا تو اُس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ نے عراق میں ہی ظاہر ہونا ہے اور جب وہ سینا میں موسیٰ پر ظاہر ہوا تھا تو اُس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا کہ خدا نے بنی اسرائیل میں ہی ظاہر ہونا ہے.اور جب وہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوا تھا تو اُس وقت بھی لوگوں کو یہی طبہ ہوا تھا کہ کیا وہ ناصرہ جیسی بستی میں ہی ظاہر ہوسکتا تھا.اور پھر وہ جب عرب میں سَیدُ وُلدِادَمَ پر ظاہر ہوا تو قرآن کو کھول کر پڑھو اُس وقت کے یہود نے بھی اس پر تعجب کیا تھا کہ کیا اس نے عرب میں ہی ظاہر ہونا تھا.بلکہ یہود تو یہودخود اہلِ عرب نے کہا تھا کہ کیوں ہمارے بڑے شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر خدا ظاہر نہ ہوا ؟ پس یہ وسوسہ نیا نہیں اور نہ یہ وسوسہ نیا ہے کہ خدا کا کلام پیچھے رہ گیا ہے اس زمانہ کے لوگوں کو اس سے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۳۹ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا کوئی حصہ نہیں ملا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کی قوم نے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کیا تھا.پس خدا تعالیٰ کے صریح نشانات دیکھ کر ان وسوسوں میں نہ پڑو کہ لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ جب صداقت مسیح موعود علیہ السلام کثرت معجزات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو چکی تو محض وسوسوں اور شبہات پر کیوں ایمان کی ساعت کو پیچھے ڈالتے ہو کہ ایمان کی ایک ساعت کفر کی زندگی سے زیادہ قیمتی.↓ اپنے پیدا کرنے والے کی آواز کو پہچانو اسے تلاشیان حق 1 خواہ تم کسی ملک کے ہومیں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا نور آ گیا.پس آنکھیں بند نہ کرو اور غفلت کو ترک کر دو.دیکھو ہما را خدا زندہ خدا ہے وہ جو کچھ پہلے کرتا تھا، اب بھی کرتا ہے اور تازہ بتازہ نشانات سے اسلام کی زندگی اور رسول کریم کی حیات سرمدی کو ثابت کرتا ہے.تم کو کیا ہو گیا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کی آواز کو نہیں پہچانتے اور اپنے مالک کے جلوہ کو شناخت نہیں کر سکتے.کیا دل مر گئے ہیں یا خدا تعالیٰ نے ہی کفر کی وجہ سے ان پر مُہر لگا دی ہے.یاد رکھو! خدا کا نورمنہ کی پھونکوں سے نہیں بجھتا.جس درخت کو اللہ تعالیٰ نے لگایا اُسے کون کاٹ سکتا ہے.جو نام خدا نے لکھا اسے کون مٹا سکتا ہے.جس قوم کو خدا نے بڑھانے کا فیصلہ کیا اُسے کون گھٹا سکتا ہے.پس خالقِ ارض و سما کے ارادہ سے مت ٹکراؤ کہ سمندر کی لہر مضبوط پہاڑوں سے ٹکرا سکتی ہے لیکن انسان خواہ کس قدر ہی طاقتور ہو خدائے واحد کے ارادہ کی مخالفت نہیں کر سکتا.مسیح موعود کی جماعت کی ترقی دیکھو! ہر دن جو چڑھتا ہے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بڑھا رہا ہے.باوجود سب لوگوں کی مخالفت کے یہ جماعت بڑھ رہی ہے.پھر تم کیوں اس امر کو جو ہو کر رہنا ہے خوشی سے قبول نہیں کر لیتے اور اُس دن کی انتظار میں ہو جب خدا تعالی کی تلوار تمہاری گردنوں پر رکھی جائے.یاد رکھو کہ ہمیشہ ہی خدا کے مامور ذلیل اور اُن کی جماعتیں حقیر سمجھی گئی ہیں، لیکن دنیا کی مخالفت نے اُن کا کچھ نہیں بگاڑا اور ذلیل ہی سب عزتوں کا سرچشمہ بنے اور وہ حقیر ہی سب بڑائیوں کے وارث ہوئے.پس اُٹھو اور اپنی اور اپنی اولادوں کی جانوں پر رحم کرتے ہوئے حق کو قبول کرو کہ ایک ایک دن قیمتی اور ایک ایک ساعت انمول ہے.تمہارا خدا تم کو اپنا قرب بخشنے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۴۰ آہ! نادر شاہ کہاں گیا کے لئے بے تاب ہے اُس کی آغوش آج پھر اُسی طرح تمہارے لئے کھلی ہے جس طرح ابراہیم اور موسیٰ اور مسیح اور رسول کریم لے کے وقت کھلی تھی.اس نعمت کی قدر کرو اور جو عزت کا مقام تمہارا رب تم کو بخشا چاہتا ہے اسے قبول کرو.وَاخِرُ دَعُونَا أن الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ والسلام ا تذکرہ صفحہ ۸۸.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۸۹.ایڈیشن چہارم ۲ ے تذکرہ صفحہ ۷۰۵.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۴۶.ایڈیشن چہارم ه تذکرہ صفحہ ۵۴۷.یڈیشن چہارم خاکسار مرز امحمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور ۲۰.نومبر ۱۹۳۳ء شائع کردہ بلڈ پوتالیف واشاعت قادیان.نومبر ۱۹۳۳ء) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰ ك يلس : ۸۴ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۰ ء صفحه ۳ الفضل ۳.جنوری ۱۹۳۰ ء صفحہ 1 ا الجن: ۲۷ ال مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحه ۱۲۵ المكتب الاسلامی بیروت ۱۹۲۸ء
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۴۱ رحمة للعلمين از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رحمة للعالمين
انوار العلوم جلد ۳ ۱۴۲ رحمة للعالمين بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ صَلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انسانی دماغ بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب قسم کا بنایا ہے.کئی کئی حالتوں میں سے وہ گزرتا ہے.ایک وقت فلسفہ کے دلائل اُسے اُلجھا رہے ہوتے ہیں تو دوسرے وقت وجدان کی ہوائیں اسے اُڑا رہی ہوتی ہیں، ایک وقت علم کے غوامض اسے نیچے کی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں تو دوسرے وقت عشق کی بلندیاں اسے اوپر کو اٹھا رہی ہوتی ہیں انہی حالتوں میں سے ایک حالت مجھ پر طاری تھی.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کر رہا تھا میری عقل اس کی حد بندی کرنا چاہتی تھی کہ میرا دل میرے ہاتھوں سے نکلنے لگا اس بحر نا پیدا کنار کی شناوری نے میری فکر کوسب قیود سے آزاد کر دیا اور وہ زمانہ اور مکان کی قید سے آزاد ہو کر اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر پرواز کرنے لگا.آسمان کیلئے رحمت میری نگاہ آسمانوں کی طرف گئی اور میں نے روشن سورج اور چپکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا وہ کیسے خوش منظر تھے وہ کیسے دل کھانے والے تھے ان کی ہر ہر شعاع محبت کی چمک سے درخشاں تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے جھمیلوں سے کوئی معشوق محو نظارہ ہے میرا دل اس نظارہ کو دیکھ کر بیتاب ہو گیا.مجھے اس روشنی میں کسی کی صورت نظر آتی تھی کسی ازلی ابدی معشوق کی جو سب حُسنوں کی کان ہے.مجھ پر بالکل اسی کی سی حالت طاری تھی جس نے کہا ہے چاند کو گل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمال یار کا نہ معلوم میں اس خیال میں کب تک محور بتا کہ میں نے عالم خیال میں دیکھا سورج کی روشنی زرد دھیمی پڑنے لگئی چاند اور ستارے مٹتے ہوئے معلوم ہونے لگے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ
۱۴۳ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين وجود جو ان کی چمک دمک کا باعث تھا ناراض ہو کر پیچھے ہٹ گیا ہے اور جھروکہ جھانکنے والے کے چہرہ کے نور سے محروم ہو گیا ہے وہ زندہ نظر آنے والے گرے بے جان مٹی کے ڈھیر نظر آنے لگے میں نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ کہ میری نظر نیچے کی گہرائیوں میں اپنے ہم جنس انسانوں پر پڑی.میں نے دیکھا ہزاروں لاکھوں بظاہر عقلمند نظر آنے والے انسان سر کے بل گرے ہوئے یا گھٹنے ٹیک کر بیٹھے ہوئے گڑ گڑا کر اور رو رو کر دعائیں کر رہے ہیں.کوئی کہتا ہے اے سورج دیوتا! مجھ پر نظر کر میرے اندھیرے گھر کو اپنی شعاعوں سے منور کر میری بیوی کی بے اولاد گود کو اولاد سے بھر دے اور میرے دشمنوں کو تباہ کر.کوئی کہتا اے چندر ما با! میری تاریکی کی گھڑیوں کو اپنے نور سے روشن کر اور غموں اور رنجوں کو ہمارے گھر سے دور کر.کوئی کہتا اے ستار و! تم خوشیوں کا موجب اور میری راحتوں کا منبع ہو.اے زہرہ ! تو محبت سے ہمارے گھروں کو بھر دے اور ہمارے پیاروں کے دل ہماری طرف پھیر دے.اور اے مریخ ! تو ہم پر ناراض نہ ہواور مصیبتوں کی گھڑیاں ہم پر نہ لا اپنا غصہ ہمارے دشمنوں کی طرف پھیر دے.میرا دل اس گھناؤنے نظارہ کو دیکھ کر سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا انسان نے کیسی خوبصورت چیزوں کو کیسا گھناؤنا بنا دیا ہے.جب عاشق محبوب کے چہرے کی بجائے اس کی نقاب سے عشق کرنے لگتا ہے جب اس کے حقیقی حسن کو بھلا کر وہ اس کے لباس کی زیبائش پر فریفتہ ہونے لگتا ہے تو محبوب اس لباس سے نکل جاتا ہے اور خالی لباس عاشق کی طرف پھینک دیتا ہے کہ جا اور اسے دیکھا کر.مگر وہی لباس جو معشوق کے جسم پر خوبصورتیوں کا مجموعہ نظر آتا تھا اب کیسا بُرا کیسا بھذا نظر آتا ہے.میں نے کہا یہی حال آسمان کے اجسام کا ہے جب تک ان میں ازلی ابدی محبوب کا چہرہ دیکھا جائے وہ کیسے خوبصورت نظر آتے ہیں، کیسے شاندار کیسے باعظمت اور جب خود ان کی ذات مقصود ہو جائے ان کی عظمت کس طرح برباد ہو جاتی ہے.ہیئت دان کس طرح بے رحمی سے ان کو چیر پھاڑ کر ایک دھاتوں کا تو وہ ایک گیسوں کا مجموعہ ثابت کر دیتے ہیں.میں نے اس خیال کے پیدا ہونے پر پہلے تو حسرت سے آسمانوں کی طرف اور ان کے کھوئے ہوئے حسن کی طرف دیکھا اور پھر انسان اور اس کی گم شدہ عقل کی طرف نظر کی.میں اسی حال میں تھا کہ ایک نہایت دل کش نہایت سریلی آواز دلوں کو مسحور کر دینے والی افکار کو اپنا لینے والی میرے کانوں میں پڑی اس نے پر جلال و شاندار لہجہ سے کہا.نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ صرف اللہ کو جو ایک ہی ہے اور جس کا قبضہ ان سب فلکی اجرام پر اور دوسری چیزوں پر ہے سجدہ کرو لے اور یاد رکھو کہ اس
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۴۴ رحمة للعالمين نے سورج کو بھی پیدا کیا ہے اور چاند کو بھی اور ستاروں کو بھی اور یہ سب اس کے ایک ادنیٰ اشارے کے تابع ہیں اور خادم ہیں.یاد رکھو کہ وہی پیدا کرتا اور اسی کا حکم چلتا ہے.وہ آواز کیسی موٹرکیسی موہ لینے والی تھی.زمین کی حالت یوں معلوم ہوئی جیسے کسی پر تشعر یرہ کے آجاتا ہے.انسان یوں معلوم ہوا جیسے سوتے ہوئے جاگ پڑتے ہیں، ندامت، شرمندگی اور حیا کے ساتھ ٹمٹماتے ہوئے چہروں کے ساتھ لوگ اُٹھے اور اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھک گئے.آسمان پھر خوبصورت نظر آنے لگا ازلی ابدی معشوق نے پھر سورج، چاند اور ستاروں کی جھلملیوں میں سے دنیا کو جھانکنا شروع کیا، پھر دنیا کا ذرہ ذرہ جلال الہی کا مظہر بن گیا ہیئت دانوں کے سب استدلال اور سب دلیلیں حقیر نظر آنے لگیں، صاحب دل بول اُٹھے، تم اپنی گیسوں اور دھاتوں کے نظریوں کو اپنے گھر لے جاؤ تم چھلکے کو تو دیکھتے ہوؤ مغز پر نگہ نہیں ڈالتے.تم ان دھاتوں کے طوماروں اور گیسوں کے مجموعوں کے پیچھے نہیں دیکھتے کس کا حسن چمک رہا ہے؟ کس کا ہاتھ کام کر رہا ہے؟ میں نے دیکھا چاند کی وہ بے نور مٹی بھی جسے ہیئت دان کہتے ہیں کہ ہزاروں سال کے تغیرات کے ماتحت مُردہ ہو چکی ہے خوشی سے چمک رہی تھی.اسے اس سے کیا کہ وہ سرد ہے یا گرم نیم مردہ ہے یا زندہ اس کا ذرہ ذرہ تو اس خوشی سے دمک رہا تھا کہ وہ اب سے آيَةٌ مِّنُ التِ اللهِ کہلائے گا.کسی چیز نے میرے دل میں ایک چٹکی لی اور میں نے ایک آہ بھری.پھر میں نے کہا یہ آواز توان اجرام فلکی کیلئے ایک رحمت ثابت ہوئی.پھر میری نظر اور بھی بلند ہوئی اور میں نے عالم خیال میں اوپر فرشتوں کیلئے رحمت آسمانوں پر ایک مخلوق دیکھی جو نہایت خوبصورت اور نہایت پاکیزہ تھی.ان کے چہرے میں نے عالم کشف اور رویا میں دیکھے ہوئے تھے.میں نے عالم خیال میں بھی ان کی ویسی ہی شکل دیکھی اور مجھے نہایت بھولے بھالے وجو د نظر آئے لطیف اجسام کے جن کو صرف روحانی آنکھ دیکھ سکتی ہے پاکیزہ صورت اور پاکیزہ سیرت، محنتی اور کام کرنے والے.ایسے کہ ان کو وقت کے آنے جانے کا کچھ علم ہی نہ ہوتا ان کا ہر لحظہ گویا آقا کی خدمت کیلئے رہن تھا وہ مشینیں تھیں جو مالک کے اشارہ پر چلتی ہیں مگر میں نے اپنی فکر کی آنکھ سے دیکھا کہ ان کے خوبصورت چہروں پر افسردگی کے آثار تھے.ان کی تازگی میں بھی ایک جھلک پژمردگی کی تھی.میں نے اس کے سبب کی تلاش کی مگر آسمان پر کوئی بات مجھے نظر نہ آئی جو اس کا موجب ہوتی.ان کا آقا ان سے خوش تھا اور وہ اپنے آقا سے خوش.پھر ان کی افسردگی کا کیا باعث تھا؟ میں نے پھر زمین پر
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۴۵ رحمة للعالمين نظر کی اور ایک دل دہلانے والا نظارہ دیکھا.میں نے بلند عمارتیں دیکھیں جوان فرمانبردار روحوں کے نام پر بنائی گئی تھیں میں نے ان میں ان کے مجسمے دیکھے جن کی لوگ پوجا کر رہے تھے.میں نے بھاری بھر کم جسموں والے بڑے بڑے ببوں والے لوگ دیکھے جو نہایت سنجیدہ شکل بنائے ہوئے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ گویا سب دنیا کا علم سمٹ کر ان کے دماغوں میں جمع ہو گیا ہے اپنے گرد و پیش بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس لہجہ میں کہ گویا وہ ایک بڑے راز کی بات انہیں بتا رہے ہیں ایسی بات کہ جسے دوسرے لوگ عمر بھر کی جستجو اور بیسیوں سال کی تپسیا کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکتے یہ کہہ رہے تھے کہ فرشتے اصل میں خدا کی بیٹیاں ہیں سے اور جو کام خدا تعالیٰ سے کرانا ہو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ان خدا کی بیٹیوں کو قابو میں کیا جائے اور وہ بزعم خود ایسی عبادتیں جن سے فرشتے قابو آتے ہیں لوگوں کو بتارہے تھے.لوگوں کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے اور ان کے دل ان علم روحانی کا خزانہ لگانے والوں پر قربان ہو رہے تھے.پھر میری ایک اور طرف نگہ پڑی میں نے دیکھا ویسے ہی جبوں والے کچھ اور لوگ اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں ایک کنویں کے پاس کھڑے ہوئے کچھ راز و نیاز کی باتیں کر رہے تھے.وہ انہیں بتا رہے تھے جس طرح ایک گہرا راز بتایا جاتا ہے کہ اس کنویں میں ہاروت و ماروت دو فرشتے ایک فاحشہ سے عشق کرنے کے جرم میں قید کئے گئے تھے.کچھ جبہ پوش تو اصرار کر رہے تھے کہ وہ اب بھی اس جگہ قید ہیں اور بعض تو یہاں تک کہتے تھے کہ ان کے کسی اُستاد نے ان کو الٹا لٹکے ہوئے دیکھا بھی ہے جسے سن کر کئی عقیدتمندوں کے جسم پر پھر یری آ جاتی تھی تب مجھے معلوم ہوا کہ انسانی گناہ نے فرشتوں کو بھی نہیں چھوڑا.میں اسی حیرت میں تھا کہ میں نے پھر وہی آواز دلکش، مؤثر ، شیریں آواز ، محبت اور جلال کی ایک عجیب آمیزش کے ساتھ بلند ہوتی ہوئی سنی.اس نے کہا فرشتے خدا کے بندے ہیں نہ کہ بیٹیاں کے اور وہ پوری طرح اس کے فرمانبردار ہیں.کبھی بھی اس کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے.۵ لوگوں میں پھر بیداری پیدا ہوئی.بہت سے لوگ خواب غفلت سے چونکے اور اپنے پہلے عقائد پر شرمندہ اور نادم ہوئے کئی اونچی عمارتیں جو خدا کی بیٹیوں کے نام سے کھڑی کی گئی تھیں، گرا دی گئیں اور ان کی جگہ خدائے واحد و قہار کی عبادت گاہیں کھڑی کی گئیں، وہ کنویں جو فرشتوں کے گناہوں کی یادگار تھے اُجاڑ ہو گئے زائرین نے ان کی زیارت ترک کر دی.میں نے دیکھا فرشتے خوش تھے.گویا ان کے لباسوں پر گندے چھینٹے پڑ گئے تھے جسے دھونے والے نے دھو دیا.میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا یہ آوازان فرشتوں کے لئے بھی ایک رحمت ثابت ہوئی.
۱۴۶ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين میری نظر یہاں سے اٹھ کر زمانہ کی طرف گئی.میں نے کہا وقت کتنا زمانہ کیلئے رحمت رہا ہے سب سے یہ فرشتے کام کرر ہے ہیں؟ کب سے سورج اور لمبا اس کے ساتھ کے سیارے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں ؟ کون بتا سکتا ہے کہ زمانہ جو کچھ بھی ہے اس نے کس قدر تغیرات دیکھے ہیں؟ کس طرح اور کب سے یہ خوشی اور غم کا پیمانہ بنارہا ہے.اگر وہ جاندار ٹھے ہوتا تو ایک بے اندازہ زمانہ تک اللہ کی مخلوق کی خدمت میں لگا رہنے پر اسے کسی قد رفخر ہوتا ؟ میں اسی خیال میں تھا کہ مجھے زمانہ کے چہرہ پر بھی دو داغ نظر آئے.مجھے کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیئے کہ زمانہ غیر فانی ہے زمانہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی ہے.اور کچھ لوگ یہ کہتے سنائی دیئے کہ زمانہ ظالم ہے اس نے میرا فلاں رشتہ دار مار دیا زمانہ بُرا ہے اس نے مجھ پر فلاں تباہی وارد کر دی.میں نے کہا اگر زمانہ زندہ ھے ہوتی تو وہ ان کی باتوں کو سنکر ضرور ملول ہوتا.مگر معا وہی آواز پھر بلند ہوئی اس نے کہا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زمانہ ہمارے آدمیوں کو مارتا اور تباہ کرتا ہے یا وہ خدا ہے، غلط کہتے ہیں.انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں مارنا اور جلانا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے.وہ جب تک کسی چیز کو عمر دیتا ہے وہ قائم رہتی ہے اور زمانہ اس کے ساتھ بمنزلہ ایک کیفیت کے رہتا ہے اور پھر اس نے کہا زمانہ کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کی صفات کا ایک ظہور ہے.پس تم جو اسے گالیاں دیتے ہوؤ در حقیقت خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہو.میرا دل اس آواز والے کے اور بھی قریب ہو گیا اور میں نے محبت بھرے دل سے کہا کہ یہ آواز تو زمانے کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.زمانہ سے ہٹ کر میری نگہ کرہ ارض پر پڑی.میں نے کہا ہماری دنیا زمین کیلئے رحمت دوسرے کروں سے کچھ کم خوبصورت نہیں بلکہ بظاہر زیادہ ہے کیونکہ وہاں سے تو صرف روشنی آتی ہے اور یہاں روشنی کے علاوہ قسم قسم کے سبزے اور رنگ رنگ کے نظارے اور پھولوں سے ڈھنچی ہوئی بلند پہاڑیاں اور کلیلیں کرتی ہوئی ندیاں اور اُچھلتے ہوئے چشمے اور سایہ دار وادیاں اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور پھولوں سے آئی ہوئی جھاڑیاں اور لہلہاتے ہوئے کھیت اور غلوں سے بھرے ہوئے کھلیان اور چہچہاتے ہوئے پرندے اور ناز و رعنائی سے بھاگتے ہوئے چوپائے اور نہ معلوم کیا کیا کچھ بھرا پڑا ہے.مجھے اس وقت زمین کچھ ایسی خوبصورت نظر آئی کہ درندوں اور وحوش اور سانپوں اور بچھوؤں اور دوسرے زہر یلے کیڑوں اور مچھروں اور طاعون کے چوہوں تک میں مجھے خوبصورتی ہی خوبصورتی نظر آنے لگی.میں نے خیال کیا کہ شیر بے شک وحشی جانور ہے اور کبھی کبھی انسانوں کو چیر پھاڑ کر کھا
۱۴۷ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين جاتا ہے لیکن اگر شیر نہ ہوتا تو شیر افگن کہاں سے پیدا ہوتے.اگر بہادر شیر انسانوں کی بہادری کی آزمائش کیلئے نہ ہوتا تو بہادری کی آزمائش کا یہی ذریعہ رہ جاتا کہ لوگ بنی نوع انسان پر حملہ کر کے اپنی شجاعت کی آزمائش کرتے اور یہ جانور تو زندہ ہی نہیں مر کر بھی ہمارے کام آتا ہے اس کی چربی اور اس کے ناخن اور اس کی کھال علاجوں اور زینت و زیبائش میں کیسی کارآمد ثابت ہوتی ہے.مجھے سانپ کے زہر سے زیادہ اس کے گوشت کے فوائد نظر آنے لگے اور میں نے کہا کہ اگر سانپ نہ ہوتا تو ہمارے اطباء قرص افعی کہاں سے ایجاد کرتے ؟ اور اگر بچھو نہ ہوتا تو یہ گردوں کی پتھریوں کے مریض آپریشن کے بغیر کس طرح آرام پاتے ؟ میں نے مچھر کو صرف کثرتِ رطوبت کا ایک الارم پایا.بیچارا چھوٹا سا جانور کس طرح رات دن ہمیں بیدار کرتا اور بتاتا ہے کہ گھر میں نالیاں گندی رہتی ہیں شہر کی بد روئیں میلے سے بھری رہتی ہیں.لوگ پانی جیسی نعمت یونہی ضائع کر رہے ہیں غرض رات دن ہمیں اپنے فرض سے آگاہ کرتا رہتا ہے.جب ہم ہوشیار ہی نہیں ہوتے اور سستی کا دامن نہیں چھوڑتے تو بیچارہ غصہ میں آ کر کاتا ہے.بیماری اتنی مچھر سے پیدا نہیں ہوتی جتنی کثرت رطوبت سے جتنی گندی نالیوں کے تعفن سے، بد روؤں کی غلاظت اور بے احتیاطی سے پھینکے ہوئے پانیوں سے.غرض مجھے ہر شے میں اس کے پیدا کرنے والے کا حُسنِ نظر آنے لگا.ہر ذرہ میں ازلی ابدی محبوب کی شکل نظر آنے لگی.مگر ناگاہ میری نظر آبادیوں کی طرف اُٹھ گئی اور میں نے دیکھا کہ لوگ پہاڑیوں، درختوں، پتھروں، دریاؤں، جانوروں کے آگے سجدے کر رہے ہیں اور مغز کو بھول کر چھلکے پر فدا ہورہے ہیں.میری طبیعت منعض کے ہوگئی اور میرا دل متنفر ہو گیا اور مجھے شیر سانپ بچھو تو الگ رہا مصفی پانی میں بھی لاکھوں کیڑے نظر آنے لگے اور سبزہ زار مرغزاروں سے بھی سڑے ہوئے سبزے کی دماغ سوز بو آنے لگی اور میں نے دیکھا کہ یہ زمین تو ایک دن رہنے کے قابل نہیں.مجھے یوں معلوم ہوا گویا یہاں کی ہر ھے مُردہ ہے اور اس کے نظارے ایک بدکار بڑھیا کی مانند ہیں کہ باوجود ہزاروں بناوٹوں اور تزئینوں کے اس کی بدصورتی اور بدسیرتی چُھپ نہیں سکتی.مگر میں اسی حالت میں تھا کہ پھر وہی آواز بلند ہوئی پھر وہی شیریں دل میں کچھ جانے والی آواز اونچی ہوئی اور اس نے کہا کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے، سب کچھ انسان کے نفع کیلئے پیدا کیا گیا ہے.^ اس کے پہاڑ اور اس کے دریا اور اس کے چرند اور اس کے پرند اور اس کے میوے اور اس کے غلے سب کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اعمال میں تنوع پیدا ہو اور وہ ان امانتوں کے بہترین استعمال سے اپنے پیدا کرنے
۱۴۸ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين والے کا قرب حاصل کرے.اس زمین کی اچھی نظر آنے والی اور بظاہر بُری نظر آنے والی سب اشیاء انسان کیلئے آزمائش ہیں.پس مبارک ہے وہ جو ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کا قرب حاصل کرتا ہے.اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ یوں معلوم ہوا گویا اس دنیا کے ذرہ ذرہ کے سر پر سے بوجھ اُتر گیا.یہی جہان ایک جنت نظر آنے لگا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگلے جہان کی جنت اس جنت کا ایک تسلسل ہے اور کچھ بھی نہیں.بہت سے لوگ جنہوں نے اس آواز کو سنا اپنی غلطیوں سے پشیمان ہو کر شرک و بدعت سے تو بہ کر کے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف دوڑ پڑے.پھر دنیا خدا کے جلال کا ظہور گاہ بن گئی.پھر کسی کی تجلیاں اس میں نظر آنے لگ گئیں اور میں نے ایک آہ بھر کر کہا کہ یہ آواز ہماری زمین کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.انسانیت کیلئے رحمت جب میں نے تمام مخلوقات میں سے انسان کی عبادتوں کو دیکھا اور اس کی غلطیوں کے ساتھ اس کی توبہ پر نظر کی اور اس کی ناکامیوں کے ساتھ اس کی متواتر جد و جہد کا معائنہ کیا.تو میرا دل خوشی سے اُچھل پڑا اور میں نے کہا اس خوبصورت دنیا میں ایسی اچھی مخلوق کیسی بھلی معلوم دیتی ہے، کس طرح دل کھینچتی ہے.مگر جب میں اس سرور سے متکلیف ہو رہا تھا، یکدم میری نگہ چند لوگوں پر پڑی جنہوں نے سیاہ بجے پہن رکھے تھے، جن کی بڑی بڑی داڑھیاں اور موٹی موٹی تسبیجیں اور سنجیدہ شکلیں انہیں مذہبی علماء ثابت کر رہی تھیں، ان کے گرد ایک جمگھٹا تھا کثرت سے لوگ ان کی باتوں کو سنتے اور ان سے متاثر ہوتے تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے اکثر لوگ ان کی توجہ کا شکار ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں.ان کے چہروں سے علم کے آثار ظاہر تھے اور ان کی باتوں سے درد اور محبت کی بو آتی تھی.انہوں نے لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے بد بخت انسانو! تم کیوں خوش ہو؟ آخر کس امید پر تم جی رہے ہو؟ کیا تم کو اس جہنم کے گڑھے کی خبر نہیں جو تمہارے آباء نے تمہارے لئے تیار کر رکھا ہے وہ نہ بجھنے والی آگ جو گندھک سے بھڑک رہی ہے وہ تاریکی جس کے سامنے اس دنیا کی تاریکیاں روشنی معلوم ہوتی ہیں تمہارا انتظار کر رہی ہے.پھر تم کیوں خوش ہو؟ تم کس منہ سے نجات کے طالب ہو اور تمہارا دل کس طرح اس کی تمنا کر سکتا ہے تم نہیں سمجھتے کہ پاک اور ناپاک کا جوڑ نہیں ؟ اور ماضی کا بدلنا کسی کے اختیار میں نہیں.تم میں سے کون ہے جو کہے کہ وہ پاک ہے؟ اور خدا تعالیٰ سے ملنے کا مستحق ہے؟ اور تم میں سے کون ہے جو کہے کہ وہ پاک ہوسکتا ہے؟ کیونکہ شریعت پاک نہیں نا پاک کرتی ہے.حکم فرمانبردار نہیں نافرمان بنا تا ہے.کون
۱۴۹ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين ہے جو تمام حکموں پر عمل کر سکتا ہے؟ اور جس نے ایک ادنیٰ سے حکم کی بھی نافرمانی کی وہ باغی بن گیا.کیا عمدہ سے عمدہ شے کو ایک قطرہ ناپاکی کا ناپاک نہیں کر دیتا ؟ پھر تم کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ تم پاک ہو یا پاک ہو سکتے ہو کیا تم کو یاد نہیں کہ تمہارے باپ آدم نے گناہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بھول گیا اور شیطان نے اس کو اور اس کی بیوی حوا کو جو تمہاری ماں تھی ورغلایا اور گنہگار کر دیا ؟ ا تم جو ان کی اولاد ہو کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ ان کے گناہ کے ورثہ سے حصہ نہ لو گے؟ کیا تم امید کرتے ہو کہ ان کی دولت پر تو قابض ہو جاؤ اور ان کے قرضے ادا نہ کرو؟ ان کی نیکیاں تو تم کومل جائیں اور ان کے گناہ میں تم حصہ دار نہ بنو؟ اور جب گناہ تم کو ورثہ میں ملا ہے تو تم اس ورثہ کی لعنت سے بیچ کیونکر سکتے ہو؟ تم خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم کو معاف کر دے گا ؟ نادانو ! تم کو یاد نہیں کہ وہ رحم کرنے والا بھی ہے اور عدل کرنے والا بھی ؟ اس کا رحم اس کے عدل کے مخالف نہیں چل سکتا.پس کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری خاطر اپنے عدل کو بھول جائے؟ میں نے دیکھا ان کی تقریروں میں مایوسی کی لہر اس قدر ز بر دست تھی کہ امیدوں کے پہاڑ کو اُڑا کر لے گئی.جو چہرے خوشیوں سے ٹمٹما رہے تھے حرمان و یاس سے پژمردہ ہو گئے.دنیا اور اس کے باشندے ایک کھلونا اور وہ بھی شکستہ کھلونا نظر آنے لگے مگر ذرا سانس لیکر ان علماء نے پھر گرج کر لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا مگر تم مایوس نہ ہو کہ جہاں تمہاری امیدوں کو تو ڑا گیا ہے وہاں ان کے جوڑنے کا بھی انتظام موجود ہے اور جہاں ڈرایا گیا ہے وہاں بشارت بھی مہیا کی گئی ہے.خدا کے عدل نے تم کو سزا دینی چاہی تھی مگر اس کے رحم نے تم کو بچا لیا اور وہ اس طرح کہ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا کہ تا وہ بے گناہ ہو کر صلیب پر لٹکایا جائے اور سچا ہو کر جھوٹا قرار پائے.چنانچہ وہ مسیح کی شکل میں دنیا میں ظاہر ہوا اور یہود نے اسے بلا کسی گناہ کے صلیب پر لٹکا دیا اور وہ تمام ایمان لانے والوں کے گناہ اُٹھا کر ان کی نجات کا موجب ہوا لے پس تم اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہ اٹھالے گا.اس طرح خدا کا عدل بھی پورا ہوگا اور رحم بھی اور دنیا نجات پا جائے گی.میں نے دیکھا کہ مایوسی پھر دور ہوگئی اور لوگ خوشیوں سے اچھلنے لگے اور ساری دنیا نے ایسی خوشی کی جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی اور لوگ آئے اور صلیب کو جو ان کی نجات کا موجب ہوئی روتے ہوئے چھٹ گئے.وہ بیتاب ہو کر کبھی اس کو بوسہ دیتے اور کبھی اس کو سینہ سے لگاتے اور ایک دیوانگی کے جوش سے انہوں نے اس چیز کا خیر مقدم کیا.لیکن میں نے دیکھا کہ اس جوش کے سرد ہونے پر بعض لوگ سر گوشیاں کر رہے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ یہ تو بے شک معلوم ہوتا ہے کہ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۵۰ رحمة للعالمين گناہ سے انسان بچ نہیں سکتا لیکن امید کا پیغام کچھ سمجھ میں نہیں آیا.اگر خدا کے لئے عادل ہونا ضروری ہے تو اس کا بیٹا بھی ضرور عادل ہوگا اور اگر گناہ گار کے گناہ کو معاف کرنا عدل کے خلاف ہے تو بے گناہ کو سزا دینا بھی تو عدل کے خلاف ہے.پھر کس طرح ہوا کہ خدا کے بیٹے نے دوسروں کے گناہ اپنے سر پر لے لئے اور خدا نے اس بے گناہ کو پکڑ کر سزا دے دی ؟ پھر انہوں نے کہا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ موت کو تو گناہ کی سزا بتایا گیا تھا جب گناہ نہ رہا تو موت کیونکر رہ گئی ؟ گناہ کے معاف ہونے پر موت بھی تو موقوف ہونی چاہئے تھی.پھر بعض لوگوں نے کہا کہ ہم سے تو اب بھی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.اگر ورثہ کا گناہ دور ہو گیا تھا تو گناہ ہم سے باوجود بچنے کی کوشش کے کیوں ہو جاتا ؟ جب بعض دوسروں نے ان کو دلیری سے یہ کہتے ہوئے سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم سے بھی اور ہم سے بھی ؟ پھر میں نے عالم خیال میں دیکھا کہ ان لوگوں نے کہا کہ خدا نے ہم کو کیوں پیدا کیا ؟ انسانیت جو اس قدر اعلیٰ تھے سمجھی جاتی تھی کیسی نا پاک ہے؟ کس طرح گناہ سے اس کا بیج پڑا اور گناہ میں اس نے پرورش پائی اور گناہ ہی اس کی خوارک بنی اور گناہ ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہوا.ایسی نا پاک شے کو وجود میں لانے کا مقصد کیا تھا ؟ یہ جنت کیا شے ہے؟ اور کس کے لئے ہے؟ کیونکہ ہم کو تو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دوزخ کے سوا کسی ٹھے کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.وہ انہیں فکروں میں تھے کہ پھر وہی شیریں اور مست کر دینے والی آواز جو کئی بار پہلے دنیا کے عقدے حل کر چکی تھی بلند ہوئی پھر اس آواز کی صداؤں سے پر کیف نغمے پیدا ہو کر دنیا پر چھا گئے.پھر ہر شخص گوش بآواز ہو گیا.پھر ہر دل رجاء وامید کے جذبات سے دھڑ کنے لگا وہ آواز بلند ہوئی اور اس نے دنیا کو اس بارہ میں طویل پیغام دیا جس کے مطلب اور مفہوم کو میں اپنے الفاظ میں اور اپنی تمثیلات سے ادا کرتا ہوں.اس نے کہا جو کسی کے دل میں ناامیدی پیدا کرتا ہے وہ اس کے ہلاک کرنے کا ذمہ دار ہے." ایمان کی کیفیت خوف وامید کی چار دیواری کے اندر ہی پیدا ہوسکتی ہے اور وہ بھی تب جب امید کا پہلو خوف پر غالب ہو.پس جو امید کو دور کرتا ہے وہ گناہ کو مٹا تا نہیں بڑھاتا ہے اور خطرہ کو کم نہیں زیادہ کرتا ہے.آدم نے بیشک خطا کی لیکن وہ ایک بھول تھی.۱۳ دیدہ دانستہ گناہ نہ تھا.لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ باپ جو کچھ کرے بیٹے کو اس کا ورثہ ملے.اگر یہ ہوتا تو جاہل ماں باپ کے لڑکے ہمیشہ جاہل رہتے اور عالموں کے عالم.مسلول ماں باپ کے بچے ہمیشہ مسلول نہیں ہوتے.نہ کوڑھیوں کے بچے ہمیشہ کوڑھی ہوتے ہیں.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۵۱ رحمة للعالمين بعض باتوں میں ورثہ ہے اور بعض میں ورثہ نہیں اور جہاں ورثہ ہے وہاں بھی خدا تعالیٰ نے ورثہ سے بچنے کے سامان پیدا کئے ہیں.اگر ورثہ سے بچنے کے سامان نہ ہوتے تو تبلیغ اور تعلیم کا مقصد کیا رہ جاتا ؟ کافروں کے بچوں کا ایمان لے آنا بتاتا ہے کہ ایمان کے معاملہ میں خدا تعالیٰ نے ورثہ کا قانون جاری نہیں کیا.اگر اس میں بھی ورثہ کا قانون جاری ہوتا.تو مسیح کی آمد ہی بے کار جاتی.اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو نیک طاقتیں دے کر پیدا کیا ہے پھر بعض انسان ان حالتوں کو ترقی دیتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض ان کو پاؤں میں روند دیتے ہیں اور نامراد ہو جاتے ہیں.قانونِ شریعت بے شک سب کا سب قابل عمل ہے لیکن نجات کی بنیاد عمل پر نہیں ایمان پر ہے جو فضل کو جذب کرتا ہے.عمل اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے اور نہایت ضروری لیکن پھر بھی وہ تکمیل کا ذریعہ ہے اور ذریعہ کی کمی سے چیز کا فقدان نہیں ہوتا.بیج سے درخت پیدا ہوتا ہے لیکن پانی سے وہ بڑھتا ہے ایمان بیج ہے اور عمل پانی جو اسے او پر اُٹھاتا ہے.خالی پانی سے درخت نہیں اُگ سکتا لیکن بیچ ناقص ہو اور پانی میں کسی قدر کمی ہو جائے، تب بھی درخت اُگ آتا ہے.کسان ہمیشہ پانی دینے میں غلطیاں کر دیتے ہیں لیکن اس سے کھیت مارے نہیں جاتے.جب تک بہت زیادہ غلطی نہ ہو جائے انسانی عمل ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس کی کمی اس میں نقص پیدا کرتی ہے لیکن اس کی ایسی کمی جو شرارت اور بغاوت کا رنگ نہ رکھتی ہو اور حد سے بڑھنے والی نہ ہو ایمان کی کھیتی کو تباہ نہیں کر سکتی اور شرارت و بغاوت بھی ہو تو خدا کا عدل تو بہ کے راستہ میں روک نہیں.عدل اس کو نہیں کہتے کہ ضرور سزا دی جائے، بلکہ اس کو کہتے ہیں کہ بے گناہ کو سزا نہ دی جائے.پس گناہ گار کو رحم کر کے بخشنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کے مخالف نہیں عین مطابق ہے.اگر عدل کے معنی یہ ہوں کہ ہر عمل کی عمل کے برابر جزا ملے تو بخشش اور نجات کے معنی ہی کیا ہوئے؟ اس طرح تو نہ صرف گناہ کا بخشنا عدل کے خلاف ہوگا بلکہ عمل سے زیادہ جزا دینا بھی عدل کے خلاف ہوگا.کیونکہ عدل کے معنی برابر کے ہیں.اور اگر یہ صحیح ہو تو کسی شخص کو اس کی عمر کے برابر ایام کے لئے ہی نجات دی جاسکتی ہے اور وہ بھی اس کے اعمال کے وزن کے برابر.مگر اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا پھر نہ معلوم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اس مسئلہ سے کیوں محدود کیا جاتا ہے؟ اس نے کہا خدا مالک ہے اور مالک کیلئے انعام اور بخشش میں کوئی حد بندی نہیں.وہ بیشک وزن کرتا ہے لیکن اس کا وزن اس لئے ہوتا ہے کہ کسی کو اس کے حق سے کم نہ ملے نہ اس لئے کہ اس کے حق سے زیادہ نہ ملے مسیح بیشک بے گناہ انسان اور خدا کا رسول تھا لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ وہ دوسروں
۱۵۲ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين کا بوجھ اُٹھالے گا.قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی صلیب خود ہی اٹھانی ہوگی اور جو خود اپنی صلیب نہ اٹھا سکے گا وہ نجات بھی نہ پاسکے گا.سوائے اس کے کہ خدا کے فضل کے ماتحت اس کی بخشش ہو اور خدا تعالیٰ خود کسی کا بوجھ اُٹھا لے.پس یہ مت کہو کہ انسان فطرتا نا پاک ہے ہاں وہ جو خدا کی دی ہوئی خلعت کو خراب کر دے وہ ناپاک ہے ورنہ خدا کے بندے اس کے قرب کے مستحق ہیں اور قرب یا کر رہیں گے.میں نے دیکھا اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ دلوں کی کھڑکیاں گھل گئیں.خالق اور مخلوق کے تعلقات روشن ہو گئے اور مایوسیاں امید سے بدل گئیں لیکن ساتھ ہی خشیت الہی امید کے ہم پہلو آکر بیٹھ گئی اور ہر غلط اتکال اور نا مناسب استغناء کا دروازہ بند ہو گیا.جو ہمت ہار بیٹھے تھے وہ از سر نو شیطان سے آزادی کی جدوجہد میں لگ گئے اور جو حد سے زیادہ امید لگائے بیٹھے تھے اور دوسروں پر اپنا بوجھ لادنے کی فکر میں تھے انہوں نے دوڑ کر اپنے بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھ لئے.دنیا کی بے چینی دور ہو گئی اور اطمینان دلوں میں خیمہ زن ہو گیا اور اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ انسانیت خوشی سے اچھل رہی تھی.میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی.ویسی ہی جیسے ایک معشوق سے دور پڑے ہوئے عاشق کے سینے سے نکلتی ہے.میں نے دُور اُفق میں بعد زمانی کی غیر متناہی روکوں کو دیکھا اور حسرت سے سر نیچے ڈال دیا.پھر جذبات سے بھرے ہوئے دل سے میری زبان سے نکلا.یہ آواز انسانیت کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.میرے دل میں خیال گذرا کہ جس طرح یہ آواز نسل انسانی کیلئے رحمت انسانیت کیلئے رحمت ثابت ہوئی ہے کیا انسانوں کیلئے بھی رحمت ہے؟ کیا انسان جسمانی لحاظ سے بھی اس سے کوئی نفع حاصل کرتا ہے اور اس کا محتاج ہے.میں اسی خیال میں تھا کہ میں نے دیکھا کچھ لوگ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں اور رات اور دن اسی حالت میں عبادت کرتے ہیں اور میں نے کچھ اور کو دیکھا کہ سخت سردی میں سرد پانیوں میں کھڑے ہو کر ذکر الہی میں مشغول ہیں اور ایک اور جماعت کو میں نے گرمی میں بڑے بڑے الاؤ جلا کر ان میں بیٹھے ہوئے یا محبوب میں ہوش و حواس سے کم پایا اور بعض کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے عہد کر لیا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے اور عورت خاوند کا اور مرد بیوی کا منہ نہ دیکھے گا اور بعض نے کہا کہ وہ اچھی چیزیں نہیں کھائیں گے بلکہ ہر سال اپنی مرغوب اشیاء میں سے بعض کو ترک کرتے چلے جائیں گے.میں نے ان لوگوں کو اس حال میں
انوار العلوم جلد ۳ ۱۵۳ رحمة للعالمين دیکھا اور میرا دل تردد میں پڑ گیا.ایک طرف ان کی شاندار قربانی مجھے ان کی قدر دانی پر مائل کرتی تھی اور دوسری طرف میرا دل سوال کرتا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ نے تمام حسن اور خوبی اس لئے پیدا کی ہے کہ اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور اسے ترک کیا جائے ؟ اور کیا اس سے خود اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں آتا کہ اس نے سب کچھ سلبی فائدے کیلئے پیدا کیا ہے؟ اور حقیقی فائدے کیلئے کچھ بھی نہیں.میں اسی فکر میں تھا کہ میں نے پھر وہی آواز بلند ہوتی ہوئی سنی.مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے اس آواز کے مالک کی نگاہ دلوں کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے اور انسانی فطرت کی گہرائیاں اس پر روشن ہو جاتی ہیں یا جیسے کوئی دلوں کی واقف اور انسانی خواہشات سے آگاہ ہستی سب کچھ دیکھ کر اسے بتاتی جاتی ہے اور میں نے اس آواز کو جس کی شیرینی کو کوئی شیرینی نہیں پہنچ سکتی اور جس کی دلکشی کے مقابل دنیا کے سارے راگ بے لطف نظر آتے ہیں، یہ کہتے ہوئے سنا کہ نادانو ! تمہارے ظاہری تقدس تمہارے کام نہیں آ سکتے.تقدس یہ نہیں کہ تم اپنے جسم کو تکلیف دو.تقدس یہ ہے کہ تمہارے دل صاف ہوں اور بہادر وہ نہیں جو مخالفت سے خائف ہوکر بھاگ جائے.بہادر وہ ہے جو مخالفت کے میدان میں کھڑا ہو کر دشمن کی بات تسلیم نہ کرے.خدا نے جس چیز کو پاک بنایا ہے اس سے گناہ پیدا نہیں ہو سکتا.گناہ تو خدا کے بتائے ہوئے حدود کو توڑنے سے پیدا ہوتا ہے.اور اے نادانو ! کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے تم پر اپنے ہی حق تو مقرر نہیں کئے.جب اس نے تم کو مدنی الطبع بنایا ہے تو اس نے تم پر اپنے دوستوں کے بھی اور اپنے ہمسایوں کے بھی اور اپنی قوم کے بھی بلکہ اپنے نفس کے بھی حق رکھے ہیں.تم ان سب حقوق کو چھوڑ کر اگر رہبانیت کی زندگی بسر کرتے ہو تو تم ایک نیکی کے ارادے سے دس بدیوں کے مرتکب ہوتے ہو اور گناہ کی دلدل سے نکلنے کی بجائے اس میں اور بھی پھنس جاتے ہو.تمہارا شادیاں نہ کرنا تم میں عفت نہیں پیدا کرتا.اگر نسلِ انسانی کے فنا کا ہی نام نیکی ہوتا تو خدا تعالیٰ انسان کو پیدا ہی کیوں کرتا ؟ کیا تم اس کام میں نقص نکالتے ہو جو خدا تعالیٰ نے کیا ؟ اور اس کی پیدائش میں تغیر کرتے ہو.یا د رکھو کہ نیکی یہ نہیں کہ تم نفس کو بلا وجہ دکھ دو.اور دروازوں کی موجودگی میں دیوار میں پھاند کر آؤ.بلکہ نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی بتائی ہوئی حد بندیوں کے اندر استعمال کرو.تا تمہارے اندر صالح خون پیدا ہوا اور تم نیک اعمال پر قادر ہو جاؤ.میں نے دیکھا یہ بات اس قدر خوبصورت اور یہ نصیحت ایسی پاکیزہ تھی کہ انسانوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر رونق آ گئی اور وہ وحشت زدہ مخلوق جو اپنے سایوں سے بھی ڈرکر
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۵۴ رحمة للعالمين بھاگتی تھی اس نے پھر انسانیت کا جامہ پہن لیا اور خدا کی بنائی ہوئی خوبصورتی کو ایک نئی نگہ سے دیکھنا شروع کیا.وہ جو ہر ھے کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ہر حسن میں شیطان کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے تھے اور دنیا کو دشمنوں سے گھرا ہوا خیال کرتے تھے اور اپنے آپ کو تن تنہا سمجھتے ہوئے بوکھلائے ہوئے پھرتے تھے.میں نے دیکھا ان کے چہروں سے اطمینان ظاہر ہونے لگا.بجائے ہر چیز کو زہر خیال کرنے کے تریاق کی خوبیاں بھی انہیں نظر آنے لگیں اور بجائے اپنے آپ کو دشمنوں میں گھرا ہوا محسوس کرنے کے وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ان کے مددگار پیدا کئے ہیں اور ہر پڑاؤ پر ان کی رہنمائی کے لئے علامتیں لگائی ہیں.تب انہوں نے اپنی جلد بازیوں پر ندامت کا اظہار کیا اور اپنی بیوقوفیوں پر افسوس کا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے کہ اس نے دنیا کو ہمارے دشمنوں سے نہیں بھرا بلکہ دوستوں سے معمور کیا ہے اور شکر وامتنان کے جذ بہ سے متاثر ہو کر اپنے مربی اور اپنے ہادی کے آگے سجدہ میں گر گئے.میرے دل سے اس پر پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا کہ یہ آواز نسلِ انسانی کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.جب میں نے محسوس کر لیا کہ انسان فطرۂ نیک ہے اور گذشتہ انبیاء کیلئے رحمت ان میں اعلی ترقیات کے جو ہر چھتی ہیں اور خدا تعالی مخفی کے قرب کی راہیں غیر محدود ہیں تو میں نے کہا کہ آؤ دیکھیں انسان نے کیسے کیسے با کمال وجود پیدا کئے ہیں اور نسل انسانی کے اعلیٰ نمونوں کا مطالعہ کریں اور دیکھیں انہوں نے کن کن کمالات کو حاصل کیا ہے اور کن بلندیوں تک پرواز کی ہے اور میں عالم خیال میں ہندوؤں کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ آپ سب سے قدیم قوم ہیں اور آپ کا مذہب سب سے پرانا ہے.کیا آپ کے مذہب میں کوئی باکمال لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں؟ مجھے سنکر خوشی ہوئی کہ ہند و قوم میں بڑے بڑے باکمال لوگ گزرے ہیں.میرے سامنے انہوں نے ویدوں کے رشیوں کی تعریف کی منوجی کی خبر دی، بیاس جی سے آشنا کیا، کرشن جی کے حالات سنائے رامچند رجی کے واقعات سے آگاہ کیا اور میرا دل ان کی باتوں کو سن کر اور ان کی دنیا کو نیک بنانے کی جد و جہد کو معلوم کر کے بہت ہی لطف میں آیا.تب میں نے ان سے سوال کیا آپ کے ہمسایہ میں بدھ مت والے بستے ہیں کچھ ان کے بانی کی نسبت بھی مجھے خبر دیں.انہوں نے کہا کہ وہ تو ایک دھوکا خوردہ انسان تھے کچھ ایسے خدا رسیدہ آدمی نہ تھے.میں نے کہا کسی اور قوم کے بزرگ کا حال بتائیں لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہمارا مذ ہب سب سے قدیم ہے اور خدا تعالیٰ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۵۵ رحمة للعالمين نے سب ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیا کو دے دی ہے.اس کے بعد اسے کسی اور الہام کے بھیجنے اور معرفت کا رستہ بتانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ تب میں بدھ مت والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے اس مذہب کے بانی کے حالات پوچھے.انہوں نے بدھ جی کے حالات جو سنائے وہ ایسے دلکش اور مؤثر تھے کہ میرا دل بھر آیا اور ان کی محبت میرے دل میں گڑ گئی اور میں نے کہا کہ آپ کے مذہب کے بانی واقع میں بڑے آدمی تھے.انہوں نے خود دکھ برداشت کئے اور دوسروں کو سکھ دیئے خود تکالیف برداشت کیں اور دوسروں کو آرام پہنچایا اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو بنی نوع انسان کی خیر خواہی میں صرف کیا ان کے حالات بالکل کرشن جی اور رامچند رجی کی طرح کے ہیں اور وہ بھی انہی کی طرح آسمان روحانیت کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں، پھر نہ معلوم ہند ولوگ ان کو کیوں اچھا نہیں سمجھتے اور ان کے حسن کی قدر نہیں کرتے.انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے.ہمارے گوتم بدھ اور رامچندر جی اور کرشن جی میں کوئی مناسبت نہیں آپ جو کچھ کرشن جی اور رامچندر جی کی نسبت سنتے ہیں، وہ تو قصے اور کہانیاں ہیں.ہندوؤں کے بزرگ ہمارے مذہب کے بانی کی حقیقت تک کہاں پہنچ سکتے تھے.میں نے ہر چند اصرار کیا کہ دونوں قوموں کے بزرگوں کے حالات آپس میں مشابہ ہیں اور ان کے مخالفوں کے بھی لیکن بدھ مت کے لوگ نہ مانے اور نہ مانے.اور میں زرشتیوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ کیا ان میں بھی کوئی بزرگ گزرا ہے؟ زرشتیوں نے اپنے بزرگ زرتشت کے احوال سنائے جن کوسن کر میرے دل کی کلی کھل گئی اور میرا سینہ خوشی سے بھر گیا کیونکہ اس مرد نیک سیرت کی زندگی ایک اعلیٰ درجہ کا سبق تھی، بدی کے خلاف اس کی جد و جہد نیکی کے قیام کیلئے اس کی مساعی بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف پھیر لانے کیلئے اس کی تگ و دو کچھ ایسی شاندار تھی کہ منجمد خون میں بھی حرارت پیدا ہوتی تھی، ساکن دل بھی حرکت کرنے لگتا تھا.میں نے ان کے احوال معلوم کئے اور بہت ہی فائدہ حاصل کیا.میں نے کہا وہ بالکل کرشن رامچند ربدھ کا نمونہ تھے اور واقع میں اس قابل کہ ان کے نمونہ سے فائدہ اُٹھایا جائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ان کے ماننے والوں نے اس بات کو بہت ہی بُرا مانا اور اس قول میں اپنے بزرگ سردار کی ہتک محسوس کی اور کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوؤں کا تعلق تو بد ارواح سے ہے.آپ نے نہیں سنا کہ ان کا تعلق دیوتا سے ہے اور اندر سے اور اگر آپ ہماری کتب پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ بدارواح کے نام ہیں.پھر آپ نے کس طرح ان لوگوں کے
انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين بزرگوں کو ہمارے آقا سے مشابہت دی.میری حیرت جودوسری اقوام کے رویہ سے پہلے ہی ترقی پر تھی اور بھی بڑھ گئی اور میں تعجب و حیرت سے دوسری قوموں کی طرف متوجہ ہوا.میں نے یہود کو مخاطب کیا اور ان سے ان کے بزرگوں کے حالات دریافت کئے.انہوں نے ایک لمبا سلسلہ بزرگوں کا پیش کیا، انہوں نے دنیا کی ابتدا آدم سے بیان کی اور نوح کے طوفان اور ان کی فتوحات کا ذکر کیا، پھر ابراہیم اور اس کی کامیابیوں اور اسحق اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون اور داؤد اور یسعیاہ اور عزرا اور ان کے علاوہ بیسیوں اور بزرگوں کے کارناموں کا ذکر کیا.انہوں نے خصوصیت سے موسیٰ کا ذکر کیا کہ وہ بہت بڑے نبی تھے اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں شریعت تکمیل کو پہنچی اور انہوں نے کہا کہ ان کی شریعت کے احکام ایسے کامل ہیں کہ جب تک زمین و آسمان قائم ہیں کو ئی شخص ان کا ایک شعشہ بھی مٹا نہیں سکتا.میں نے دیکھا اس سلسلہ میں ابراہیم اور موسیٰ اور داؤد خاص شان کے انسان تھے ابراہیم کے حالات تو ایسے تھے کہ دل محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہو جاتا تھا اور موسیٰ کی قومی تربیت کی جد وجہد اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بچہ کی سی سادگی کے ساتھ ایسار جوع ایسا دلکش نظارہ تھا کہ وہاں سے ملنے کو دل نہ چاہتا تھا مگر داؤد کا عشق بھی کچھ کم ولولہ انگیز نہ تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ داؤد کے ہر ذرہ میں محبت کی بجلی سرایت کر گئی تھی اور ان کی آواز کی ہر لہر میں موسیقی کی روح ناچتی ہوئی معلوم ہوتی تھی.ان کے دردانگیز نوحے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کی گہرائیوں کا پتہ دیتے تھے بلکہ ان کے عشقیہ گیتوں میں ایک ایسے معشوق کی محبت کا بھی اظہار تھا جو ا بھی دنیا میں پیدا نہ ہوا تھا مگر اہل بصیرت لوگوں کو اس کی انتظار تھی اور وہ اپنی روحانی آنکھوں سے ہی دیکھ کر اس کے عاشق ہو رہے تھے.مجھے موسیٰ کی باتوں میں بھی یہ جھلک نظر آئی مگر وہاں ایک فلسفی بولتا ہوا مجھے دکھائی دیا اور داؤد کے نغموں میں عشق کا ترنم اور محبت کا سوز پایا جاتا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا، داؤد نے ایک ہی وقت میں سورج چاند کو دیکھا.کبھی ایک کے جلال کو دیکھتے اور کبھی دوسرے کے جلال کو.وہ ایک کی قوت عائسہ پر عش عش کرتے تو دوسرے کی قوت منعکسہ پر.میری روح یہود کے بزرگوں کے حالات معلوم کر کے بے حد مسرور ہوئی اور میں نے خیال کیا یہاں سے مجھے میری بے چینی کا علاج ملے گا اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کا خیال ہندوؤں اور بدھوں اور زرشتیوں کے بزرگوں کے متعلق کیا ہے؟ میری حیرت کی حد نہ رہی جب انہوں نے بھی مجھے یہ جواب دیا کہ آپ ان لوگوں کے دھوکا میں نہ آئیں، وہ سب گمراہ لوگ تھے.الہام تو صرف عبرانی میں ہو
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۵۷ رحمة للعالمين سکتا ہے خدا تعالیٰ کی زبان بھی عبرانی ہے اور جنت کی زبان بھی عبرانی اور فرشتے بھی عبرانی زبان ہی بولتے ہیں اور ان لوگوں کا دعویٰ تو سنسکرت اور پراکرت اور پہلوی زبانوں میں الہام کا ہے ان کے دعوے تو بالبداہت غلط ہیں.بعض لوگوں نے احتجاج کیا کہ شیطان کی زبان بھی تو آپ کے نزدیک عبرانی تھی.پھر جب شیطان سنسکرت پراکرت اور پہلوی جاننے والوں کے دلوں میں وسوسے ڈال لیتا تھا تو فرشتے نیک باتیں کیوں نہیں ڈال سکتے تھے ؟ اور جب کہ وہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق تھے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ نے کیا کیا ؟ مگر انہوں نے ان باتوں کی طرف توجہ نہ کی اور کہا سب مخلوق ایک سی نہیں ہوتی.ہم خدا کی چنیدہ قوم ہیں، ہم اور دوسرے برابر نہیں ہو سکتے.میرا دل پھر اندر ہی اندر بیٹھنے لگا.مجھے پھر نور غائب ہوتا ہوا اور تاریکی پھیلتی ہوئی نظر آئی اور میں افسردہ دلی سے مسیحیوں کی طرف مخاطب ہوا.میں نے عالم خیال میں ان سے بھی مسیح کے متعلق سوال کیا اور انہوں نے جو حالات ان کے سنائے وہ ایسے دردناک تھے کہ میری آنکھوں میں بار بار آنسو آ جاتے تھے میں نے کہا بیشک یہ بزرگ بھی بالکل دوسری اقوام کے بزرگوں کی طرح بہت بڑے پایہ کے تھے مگر میری اس بات سے خوش ہونے کی بجائے وہ لوگ ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ دوسرے بزرگوں کا ذکر نہ کریں یہود سے باہر تو کوئی بزرگ ہوا ہی نہیں اور یہود کے بزرگ بھی گو خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے مگر سب کے سب گنہ گار تھے.آدم سے لے کر ملا کی تک بلکہ يحي تک ایک بھی پاک نفس نہیں گذرا پاکیزگی صرف خدا کے بیٹے کو حاصل ہے جو مسیح کے رنگ میں ظاہر ہوا.میں نے کہا اور باقی قو میں ؟ انہوں نے کہا وہ مسیح پر ایمان لا کر بچ سکتی ہیں.میں نے کہا.مسیح کے بعد کے لوگ تو اس طرح بچ سکتے ہیں پہلے لوگ کرشن رامچند ، بدھ اور زردتشت جیسے لوگ ؟ وہ نیکیوں کے مجسمے، وہ تقویٰ کی جیتی جاگتی تصویر میں ان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا کوئی ہو نجات وہی پائے گا جو مسیح کی بیگناہ موت پر ایمان لاتا ہے.چونکہ مسیح کی قوم آخری قوم تھی میرا دل مایوسی سے بھر گیا اور میں نے کہا خدایا! یہ کیا بات ہے تو نے حُسن ہر جگہ پیدا کیا ہے لیکن ہر جگہ کی قوم دوسری جگہ کے حسن کو نہیں دیکھ سکتی.کیا یہ حسن ہی نہیں جسے میں حسن سمجھ رہا ہوں.یا لوگوں کی نظروں کو کچھ ہو گیا ؟ میں اسی خیال میں تھا کہ پھر مجھے وہی پیاری آواز وہ مشکل کشا آواز وہ سیدھا راستہ دکھانے والی آواز بلند ہوتی سنائی دی.اس نے کہا سنو اے دنیا کے بُھولے ہوئے لوگو! دنیا کی کوئی قوم نہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہ آئے ہوں.۱۵ خدا تعالیٰ رَبُّ الْعَلَمِينَ
انوار العلوم جلد ۳ ۱۵۸ رحمة للعالمين ہے کسی خاص قوم کا رب نہیں وہ ظالم نہیں اور ہوشیار کرنے کے بغیر سزا نہیں دیتا.پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس کے عذاب تو ہر ملک میں آتے لیکن نبی ہر ملک میں نہ آتے ؟ خدا تعالیٰ کی کوئی زبان نہیں.وہ زبانوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کا الہام بندوں کی زبان میں نازل ہوتا ہے جس قوم کو وہ مخاطب کرتا ہے اسی کی زبان میں وہ کلام کرتا ہے.کہ لوگ اس کی نازل کردہ ہدایتوں کو سمجھیں.خدا کے سب نبی برگزیدہ اور پاک تھے.ان میں تمہارے لئے نمونہ ہے جوان میں سے ایک کا بھی انکار کرتا ہے خدا تعالیٰ کی درگاہ سے راندہ جاتا ہے اور جوان کے نقش قدم پر چلتا ہے برکت پاتا ہے اور ہدایت حاصل کرتا ہے.میری روح اس آواز کو سن کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گر گئی اور میں نے کہا اے پیارے مالک! اگر یہ آواز تیری طرف سے بلند نہ ہوتی تو میں تو تباہ ہو جا تا.مجھے تو نے حسن کو پہچانے کا مادہ دیا ہے.اندھا حُسن سے بے خبر رہ کر دنیا کی اس کیفیت سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا تھا جو میں نے دیکھی لیکن میں جسے تو نے آنکھ دی تھی اگر اس آواز کو نہ سنتا تو دیوانہ ہو جاتا، پاگلوں کی طرح کپڑے پھاڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا، مجھے تو کرش را مجند " بدھ زردتشت، موسی ، عیسی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.میرے لئے یہ عقدہ لا ينحل تھا کہ حسن موجود ہے لیکن لوگ اسے نہیں دیکھتے مگر تیرا شکر اور احسان ہے کہ تو نے اس آواز کو بلند کیا.میرا دل اس وقت اس آواز والے کی محبت سے بھی اس قد رلبریز ہوا کہ میں نے سمجھا میرے صبر کا پیالہ ابھی چھلک جائے گا.میرے سینہ سے پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا کہ یہ آواز تو سب دنیا کے بزرگوں کیلئے ایک رحمت ثابت ہوئی اور میں نے بیتاب ہو کر اس آواز کے مالک کے دامن کو پکڑنا چاہا.لیکن میرے اور اس کے درمیان تیرہ صدیوں کا پردہ حائل تھا.ایک قابو میں نہ آنے والا ماضی ایک بے بس کر دینے والا گزشتہ زمانہ.آہ! اے عزیز و! میں تم کو کیا بتاؤں اس وقت میرا کیا حال تھا.ایک پیاس سے مرنے والے آدمی کے منہ سے پانی کا گلاس لگا کر جس طرح کوئی روک لے وہ اس کی جنگی کو تو محسوس کرے لیکن اس کی تراوت اس کے حلق کو نہ پہنچے بالکل میرا یہی حال تھا.مجھے یوں معلوم ہوتا تھا اس آواز کا صاحب بالکل میرے پاس ہے اور باوجود اس کے اُس کے اور میرے درمیان تیرہ صدیوں کا لمبا بعد تھا میں اس کے دامن کو چھوتا تھا مگر پھر بھی پکڑ نہیں سکتا تھا.اُس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ اگر مجھے داؤد نبی مل جائیں تو میں انہیں پکڑ کر گلے لگا لوں اور پھر خوب روؤں وہ مستقبل کے گلے کر یں اور میں ماضی کے شکوے.کیونکہ انہیں اس امر کا شکوہ تھا کہ وہ اس محبوب سے تیرہ سو سال پہلے کیوں پیدا ہو گئے؟
۱۵۹ انوار العلوم جلد ۱۳ اور مجھے اس کا افسوس کہ میں تیرہ سو سال بعد میں کیوں پیدا ہوا ؟ رحمة للعالمين میں نے بزرگان دین کی طرف توجہ کرنے کے بعد پہلی کتب پہلی کتب کیلئے رحمت کی طرف نگاہ کی اور میں نے خیال کیا کہ بزرگ فوت ہو چکے ان کے کارنامے لوگوں کے سامنے نہیں اور شاید انسان انسان سے حسد بھی کرتا ہے ممکن ہے حسد اور بغض کی وجہ سے لوگوں نے ان بزرگوں کی قدر نہ کی ہو.اور چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی باتوں میں آگئے ہوں، اس لئے آؤ ہم ان کتب پر نظر ڈالیں جو آسمانی کہلاتی ہیں اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگائیں.میں نے ویدوں پر نگہ کی اور ان میں بعض ایسے شاندار خیالات دیکھئے، ایسے پاکیزہ جواہر پارے دریافت کئے کہ میرے دل نے تسلیم کر لیا کہ ان کو پیش کرنے والے ریشی منی خدا تعالیٰ سے ہی سیکھ کر یہ باتیں پیش کرتے تھے.اس کے کئی حصے میری سمجھ میں نہیں آئے لیکن میں نے سمجھا اتنے لمبے عرصہ میں انسانی دست بر دبھی کتابوں کو کچھ کا کچھ بنادیتی ہے بہر حال ان میں مندرج خیالات کی عام رو نہایت پاکیزہ تھی.پھر میں نے گوتم بدھ کی پیش کردہ تعلیم کو دیکھا تو اصولی طور پر اس کو بہت سے حُسن سے پر پایا.اگر ویدوں میں محبت الہی کے جلوے نظر آ رہے تھے تو بدھ کی تعلیم میں خدا تعالیٰ پر اتکال اور اخلاق فاضلہ کے خوبصورت اصل نظر آئے.بیشک ان کی تعلیم میں بھی بہت سی باتیں میری عقل کے خلاف تھیں مگر اصولی طور پر میں اس امر کو سمجھ سکتا تھا کہ وہ تعلیم آسمانی منبع سے ہی نکلی ہے اور انسانی عقل اس کا سر چشمہ نہیں.گو یہ حق ہے کہ انسان نے بعد میں گٹر بیونت سے اس کے حسن کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے.اس کے بعد میں زرتشت کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں میں نے نہ صرف اخلاق کی اعلیٰ تعلیم پائی بلکہ تدبیر کا پہلو نہایت روشن طور پر کام کرتا ہوا نظر آیا.بدھ میں صوفیت کی روح کام کر رہی تھی لیکن زرتشت میں ایک معلم کی جو ایک بچہ کی کمزوریاں دیکھ کر اس کو تفصیلی ہدایات دیتا ہے جن سے اُس کے لئے اپنا کام عمدگی سے پورا کرنا آسان ہو جاتا ہے.میں نے اس میں دوسری تعلیمات کے مقابلہ کی نسبت معاد پر زیادہ زور پایا اور اس میں یہ روح کام کرتی ہوئی دیکھی کہ زیادہ اس خیال میں نہ پڑو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے ؟ تم کدھر جارہے ہو اور مستقبل میں تم سے کیا پیش آنے والا ہے اس کا زیادہ خیال کرو.میں نے دیکھا کہ وہ تعلیم جنت اور دوزخ اور عالم برزخ اور حساب اور تو بہ اور گناہوں کی فلاسفی وغیرہ کے خیالات سے لبریز تھی اور گو اس میں بھی انسانی دست اندازی کے اثر ہو یدا تھے لیکن یہ امر بھی بالبداہت ثابت ہوتا تھا کہ اس کا نزول اللہ تعالیٰ کی
انوار العلوم جلد ۱۳ 17.رحمة للعالمين طرف سے تھا اور زردتشت ایک عمدہ گویے نہ تھے جو فطرت کے رازوں کو ظاہر کر رہے ہوں بلکہ خود ایک ٹے تھے جس میں دوسرا شخص اپنی آواز ڈالتا ہے اور جس سُر کے اظہار کیلئے چاہتا ہے اسے کام میں لاتا ہے.پھر میں نے تو رات اور اس کے ساتھ کی کتب پر نگاہ کی اور انہیں خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور شرک کی تردید اور توحید کے اثبات کے خیالات سے پر پایا.میں نے دیکھا کہ ان کتب میں اللہ تعالیٰ کی بندوں پر حکومت اور ان کی مشکلات میں ان کی رہنمائی پر خاص زور تھا اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا تھا گویا خدا تعالیٰ کوئی الگ بیٹھی ہوئی ہستی نہیں بلکہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو روز مرہ اپنے بندوں کے کام کا جائزہ لیتا ہے اور شریر کو سزا دیتا اور نیک کو انعام دیتا ہے اور ان کی غلطیوں پر تنبیہ کرنے کیلئے تازہ بتازہ احکام بھیجتا رہتا ہے.میں نے اس مجموعہ میں یہ نیا امر دیکھا کہ جہاں گزشتہ کتب تعلیم پر زیادہ زور دیتی تھیں اور معلم کو نظر انداز کر دیتی تھیں وہاں اس مجموعہ میں معلموں کی شخصیتیں نہایت نمایاں نظر آتی تھیں اور تعلیم سے کم معلم کی شخصیت پر زور نہ تھا اور اسی اصل کے ماتحت اس کتاب میں ایک یا دو معلموں کے ذکر پر بس نہیں کی گئی تھی بلکہ معلموں کی ایک لمبی صف تھی جو ہر وقت تعلیم کے صحیح مفہوم کو سمجھانے کیلئے استاد نظر آتی تھی.اس شریعت میں بھی زردتشتی کتاب کی طرح تفصیلات تعلیم پر خاص زور تھا اور گواس میں بھی انسانی ہاتھ کی دخل اندازی صاف ظاہر تھی لیکن میں نے دیکھا کہ آسمانی نور کی روشنی اس قدر درخشاں تھی کہ کوئی نابینا ہی اس کے دیکھنے سے قاصر رہے تو رہے.پھر میں نے انجیل کی طرف نگاہ کی اور اسے گو میں ایک کتاب تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ مسیح کے اقوال اور تعلیمیں اس میں بہت ہی کم نقل تھیں، زیادہ تر اس کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی تھی، لیکن پھر بھی اس میں روحانیت کی جھلک تھی اور جو تھوڑی سی تعلیم مسیح کی طرف منسوب کر کے اس میں لکھی گئی تھی، وہ نہایت اعلیٰ اور دلکش تھی.اس کتاب میں سزا اور جزاء کی جگہ محبت اور رحم پر زیادہ زور تھا اور انسان کی ذاتی تکمیل کی جگہ آسمانی امداد پر انحصار رکھا گیا تھا.بدھ کی طرح تو کل کا مظاہرہ تو نہ تھا لیکن مشکلات کے وقت خدا تعالیٰ کی امداد پر ضرور زور دیا گیا تھا.اس کتاب سے خود ہی ظاہر تھا کہ مسیح گو ایک منهم من اللہ تھے لیکن شریعت جدیدہ کے حامل نہ تھے اور گوان کے الہامات اس میں مذکور نہ تھے لیکن جو کچھ حصہ الہامات کا اس میں مذکور تھا وہ لطیف اور اللہ تعالیٰ کی شان کا ظاہر کرنے والا تھا اور ایک ادنی نظر سے اس کے الہامی ہونے کا علم حاصل کیا جا سکتا تھا.میں نے ایک خوشی کا سانس لیا اور کہا جس طرح خدا تعالیٰ کا مجازی نور اس کے مادی عالم کی ہر ھے سے ظاہر ہے اسی
انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين طرح اس کا حقیقی نور اس کے روحانی عالم کی ہر ھے سے ظاہر ہے میں نے کہا گو نبی فوت ہو چکے ہیں مگر یہ کتب اپنے محسن دلکش کی وجہ سے ضرور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہونگی اور یہ باغ روحانی کے مختلف پودے ضرور یکجا جمع ہو کر دنیا کی روحانی کوفت کو دور کرتے اور اس کی اخلاقی افسردگی کو مٹاتے ہونگے.مگر میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ با وجود آنکھوں کے سامنے ان روحانی جواہرات کی موجودگی کے ہر اک یہی شور مچا رہا تھا کہ میرے پاس تو قیمتی ہیرے ہیں اور دوسروں کے پاس بے قیمت پتھر.میں نے کہا خدایا ان عقل کے اندھوں کو کیا ہو گیا جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے.کیا دنیا سے انصاف مٹ گیا ہے، کیا انسان اپنی روحانیت کی نمائش گذشتہ ایام میں کر چکا اور اب بالکل کھو کھلا ہو گیا ہے؟ کیا یہ دنیا جو کسی وقت خدا کا تخت گاہ کہلاتی تھی، اب محض شیطان کی چوگان بازی کیلئے رہ گئی ہے؟ میں اسی فکر میں تھا کہ پھر وہی دلوں کو پاک اور دماغوں کو منور کر دینے والی آواز بلند ہوئی اور اس نے کہا کہ ہمارا یہ مسلک نہیں کہ دوسروں کی قبروں پر اپنا محل بنا ئیں.جو حسن کو نہیں دیکھتا وہ اندھا ہے.بیشک گذشته کتب میں انسانی دست بُرد نے تغیر کر دیا ہے لیکن پھر بھی ان کا منبع الہی علم ہے اور ہماری آواز ان کی مصدق ہے اور ان کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی شہادت دیتی ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے علاوہ اور مقاصد کے اس مقصد کے لئے بھی مبعوث فرمایا ہے کہ ہم تمام خدا تعالیٰ کی کتب کی تصدیق کریں.اور ان کی سچائی کو ثابت کریں تا اللہ تعالیٰ پر ظلم کا الزام نہ لگے اور تا حسن کو دیکھ کر اس کا انکار کرنے والے روحانی نابینائی کے مرض میں مبتلا نہ کئے جاویں.نادان انسان ان کتب کی صداقت کا کس طرح انکار کر سکتا ہے جو غیب پر مشتمل ہیں اور جن کی صداقت پر آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں کر کے اور خصوصاً ہمارے زمانہ کی خبر دے کر خدا تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے.کوئی انسان نہیں جس کو غیب کا علم ہوا اور یہ کتب تو غیب کے خزانوں سے بھری ہوئی ہیں اور یہ بھی تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ ان میں انسانی ملاوٹ ہے وہ تو حید کی تعلیم کو خاص طور پر پیش کرتی ہیں حالانکہ شیطانی کلام خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم نہیں کیا کرتا.اس آواز کوسن کر میرے دل کی اگر میں گھل گئیں، میری پریشانی دور ہوگئی اور میرے دل سے ایک آہ نکلی اور میں نے کہا یہ آواز گزشتہ کتب کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.جب میں نے دیکھا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں انسانی ضمیر کیلئے رحمت اور سب ہی کے پاس شبع بدایت موجود ہے جس کے ذریعہ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۶۲ رحمة للعالمين سے اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ کا کامل نور پا سکتے ہیں تو میں نے کہا کہ باوجود اس حسد اور بغض کے جو مختلف قوموں کو دوسرے مذاہب کے بزرگوں اور کتب سے ہے پھر بھی وہ اشتراک اور وہ مناسبت جو ایک دوسرے کے مذاہب میں پائی جاتی ہے اور ان اعلیٰ تعلیمات کی وجہ سے جو ان کی کتب میں بھری پڑی ہیں دنیا میں صلح اور امن کی تو ایک بنیاد قائم ہوگئی ہے.گوغیریت اور غیرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے بزرگوں کو تسلیم نہ کریں لیکن کم سے کم اس اتحاد نے دنیا کو لڑائی اور جھگڑوں سے تو ضرور بچا لیا ہو گا.لیکن میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کو مار پیٹ رہے تھے اور طرح طرح سے دکھ دے رہے تھے کہ تم کیوں اپنا عقیدہ چھوڑ کر ہمارے عقیدے کو قبول نہیں کر لیتے ؟ میں نے دیکھا کہ بعض کو گالیاں دی جا رہی تھیں بعض کو پیٹا جا رہا تھا، بعض کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا، بعض پر تمدنی دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور بعض پر اقتصادی.لیاقت تو موجود ہوتی لیکن ملازمت نہ دی جاتی ، اچھا مال تو فروخت کرنے کیلئے ان کے پاس ہوتا لیکن ان سے خرید وفروخت نہ کی جاتی ، عدالتوں میں بلا وجہ اور بے قصور ان کو کھینچا جاتا ، بعض کو تو جلا وطن کیا جاتا اور بعض کو تلوار سے ڈرا کر اپنا مذہب چھوڑ نے کیلئے کہا جاتا.میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ جس پر جبر کیا جاتا تھا اس کا عقیدہ جبر کرنے والے سے سینکڑوں گنے زیادہ اچھا ہوتا ، بعض دفعہ جبر کرنے والے کے اعمال نہایت گندے ہوتے اور جبر کے تختہ مشق کے اعمال نہایت پاکیزہ ہوتے ، میں حیران ہو کر دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.جب بعض لوگ ان جابروں سے پوچھتے کہ آخر یہ کیا ظلم ہے اور ان لوگوں کو کیوں دکھ دیا جاتا ہے تو لوگ جواب میں کہتے کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں ہم لوگ انصاف کر رہے ہیں اور ظلم نہیں بلکہ حقیقی خیر خواہی کرنے والے ہیں اگر مادی طور پر ہم نے کچھ پختی کر لی تو اس کا حرج کیا ہے؟ جب کہ ان کی روح کو ہم نجات دلا رہے ہیں.میں نے دیکھا کہ یہ ظلم ترقی کرتے کرتے اس قدر بڑھ گیا کہ بعض لوگوں کو صرف اس جرم پر آزار پہنچائے جانے لگے کہ وہ کیوں اپنے رب کی آواز کو سنتے ہیں اور بعض کو اس لئے کہ کیوں تو حید کے قائل ہیں اور بعض کو اس لئے کہ کیوں خدا تعالیٰ کی طرف ظلم اور کمزوری منسوب نہیں کرتے اور میں نے لوگوں کو اس لئے بھی دوسروں پر جبر کرتے دیکھا کہ وہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹ بول سکتا ہے.آہ! یہ ایک بھیانک نظارہ تھا جسے دیکھ کر میری روح کانپ گئی اور میں نے کہا آخر ان نبیوں کے آنے کا کیا فائدہ ہوا.یہ شریعتیں کس مصرف کی ہیں کہ ان کے باوجود یہ ظلم ہو رہے ہیں اور میں ابھی اسی سلوک پر حیرت کر رہا تھا
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۶۳ رحمة للعالمين کہ میں نے دیکھا بعض لوگ عبادت کیلئے عبادتگاہوں کی طرف آنا چاہتے تھے کہ بعض دوسرے لوگوں نے ان کو روکا اور کہا کہ تم کو کس نے کہا ہے کہ ان مقدس مقامات کو نا پاک کرو اور کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ جب کہ تم عشائے ربانی میں فطیری کی جگہ خمیری روٹی استعمال کرتے ہوئے یا مقدس اشیاء کو دستانے پہن کر پکڑ لیتے ہو تم ہماری عبادت گاہوں میں داخل ہو کر انہیں نجس کرنا چاہتے ہو.غرض اسی قسم کی باتیں تھیں جن پر میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کو عبادت گاہوں سے روک رہے تھے اور نتیجہ یہ تھا کہ لوگوں کی توجہ عبادت سے ہی ہٹ رہی تھی.پھر میں نے دیکھا کہ بعض لوگ اس سے بھی آگ بڑھ گئے اور انہوں نے ثواب کا سب سے بڑا کام یہ سمجھا کہ جہاں موقع ملا دوسروں کی عبادت گاہ گرادی ، یہودی مسیحیوں کی عبادتگاہیں اور مسیحی یہودیوں کی اور بدھ ہندوؤں کی اور ہندو بدھوں کی عبادتگا ہیں گرا رہے تھے اور اپنے اعمال پر فخر کر رہے تھے اور ہر اک شخص یہ خیال کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کا پیمانہ اس کے لئے دوسری اقوام کی عبادت گاہوں کے گرانے کے کام کے مطابق وسیع ہو گا.آہ یہ مقدس جذبات کی بے حرمتی کا ایک حیا سوز نظارہ تھا.ایک دل دہلا دینے والا منظر تھا میں نے کہا یہ ترقی ہے جو دنیا نے ان ہزاروں سالوں میں کی ہے جن میں قریباً ہر صدی نے ایک نبی پیدا کیا ہے.کیا یہ ارتقاء ہے جسے علمائے سائنس ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں؟ میں شاید نبیوں کے کاموں کی پائیداری کا قائل ہی نہ رہتا اگر وہی پاکیزہ آواز مقدس آواز جو پہلے میرے شبہات کا ازالہ کرتی رہی تھی، پھر بلند نہ ہوتی.پھر میں اسے دنیا کی آوازوں کو دباتے ہوئے نہ پاتا.پھر اسے جلالی انداز میں یہ کہتے نہ سنتا کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا، باطل تو بھاگا ہی کرتا ہے.دین کے معاملہ میں جبر ہرگز جائز نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی میں کامل فرق کر کے دکھا دیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہراک ضروری امر کو کھول دیا ہے اور بقدر ضرورت جسمانی پانی کی طرح وہ مختلف ممالک میں روحانی پانی برساتا رہا ہے.ان کے اختلافات اس امر پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ پانی پاک نہیں بلکہ صرف مختلف ممالک اور مختلف زمانوں کے لوگوں کی طبائع اور ضرورتوں کے فرق پر دلالت کرتا ہے جس کو جب اور جو ضرورت ہوئی خدا تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق سامانِ ہدایت پیدا کر دیئے.پس ان اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اگر کوئی ناحق پر بھی ہو تب بھی اسے جبر سے نہ منواؤ کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ دل کی حالت کے مطابق ہے نہ کہ زبان کے قول کے مطابق.خدا تعالیٰ کو تمہاری باتیں اور تمہارے ظاہری اعمال نہیں پہنچتے بلکہ اس کے حضور میں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۶۴ رحمة للعالمين تمہارے دل کی کیفیت پہنچتی ہے جو جبر سے نہیں پیدا ہوسکتی.ایک دوسرے کو عبادتگاہوں میں عبادت کرنے سے نہ روکو کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو خدا کا نام لینا چاہتا ہے خواہ کسی طریق پر نام لئے اسے اجازت دو تا لوگوں میں عبادت کی طرف توجہ ہو اور لامذہبیت ترقی نہ کرے.لوگوں کی عبادتگاہوں کو نہ گراؤ خواہ آپس میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو کیونکہ اس سے ظلم اور فتنہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور امن کا قائم ہونا لمبے زمانے تک ناممکن ہو جاتا ہے.اگر کوئی ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حکومت کو تباہ کر دے گا اور نئی قو میں پیدا کرے گا جو اس کے حکم کے ماتحت عبادتگاہوں کی حفاظت کریں گی.اس آواز نے میرے خدشات کو دور کر دیا میرے خیالات کو مجتمع کر دیا اور میں نے پھر آزادی کا سانس لیا جس میں ایک طرف تسلی اور دوسری طرف درد ملا ہوا تھا.تسلی اس لئے کہ میں نے دیکھا کہ دنیا کی اصلاح کا دن آ گیا، ظلم مٹایا جائے گا اور درد اس لئے کہ اس آواز کے مالک کی طرف میرا دل زیادہ سے زیادہ کھینچا جار ہا تھا.مگر تیرہ سو سال کا زمانہ پوری تیرہ نا قابل گزر صدیاں میرے اور اس کے درمیان میں حائل تھیں.مگر بہر حال میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی اور شکر و امتنان سے بھرے ہوئے دل سے میں نے کہا کہ یہ آواز انسانی ضمیر کیلئے بھی ایک رحمت ثابت ہوئی.معذوروں کیلئے رحمت اس کے بعد میری نگہ انسانوں میں سے معذوروں پر پڑی.میں نے دیکھا کہ انسانوں میں سے کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ناکارہ اور بے مصرف نظر آتے ہیں ان میں سے اندھے ہیں اور بہرے ہیں اور گونگے ہیں اور لنگڑے ہیں اور اپانچ ہیں اور مفلوج ہیں اور کمزور جسموں والے ہیں اور بیمار ہیں اور بوڑھے ہیں یا چھوٹے ہیں ، بیکار ہیں اور بے سروسامان ہیں اور بے یارو مددگار ہیں.میں نے دیکھا یہ مخلوق خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ دلچسپ مخلوق تھی.میں نے ان میں سے ایسے لوگ دیکھے کہ باوجود اپاہج ہونے کے ان کے دل شرارت سے لبریز تھے اگر کسی کے ہاتھ نہ تھے تو وہ پاؤں سے چوری کرنے کی کوشش کرتا تھا اور اگر پاؤں نہ تھے تو وہ گھسٹ کر بدی کے مقام پر جانا چاہتا تھا اور اگر آنکھیں نہ تھیں تو وہ کانوں سے بدنظری کا مرتکب ہونے کی کوشش کرتا تھا.یا ہاتھوں سے چھو کر اپنے بد خیالات کو پورا کرنے کی سعی کرتا تھا.بے یار و مددگار لوگوں کو میں نے دیکھا ان کے چہروں پر بادشاہوں سے زیادہ نخوت کے آثار تھے، بیکسوں کو دیکھا کہ اپنی بے کسی کی حالت میں ہی وہ دوسروں کو گرانے کیلئے کوشاں تھے مگر میں نے
ܬܪܙ انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين انہی لوگوں میں سے ایسے لوگ دیکھے جن کے دل خدا کے نور سے پُر تھے ، ان کی آنکھیں نہ تھیں مگر وہ بینا لوگوں سے زیادہ تیز نظر رکھتے تھے ، ظاہری کان نہ تھے مگر ان کی سماعت غضب کی تیز تھی ، ہاتھ نہ تھے مگر جس نیکی کو پکڑتے تھے چھوڑنے کا نام نہ لیتے ، پاؤں نہ تھے مگر نیکی کی راہوں پر اس طرح چلتے تھے جس طرح تیز گھوڑا دوڑتا ہے.مگر باوجود ان کے اچھے ارادوں اور میسر شدہ سامانوں کے مطابق کوشش کرنے کے پھر بھی وہ اس قسم کے عمل نہیں کر سکتے تھے جو تندرست اور طاقت رکھنے والے لوگ کر سکتے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ظاہر پینوں کی نگہ میں نکھے اور نا کارہ نظر آتے تھے.میں نے دیکھا ان کو ہاتھوں کے نہ ہونے کا اس قد رصد مہ نہ تھا جس قدر اس کا کہ وہ ان نیک کاموں کو بجا نہیں لا سکتے کہ جن میں ہاتھ کام آتے ہیں، انہیں آنکھوں کے جانے کا اس قد رصدمہ نہ تھا جس قدر اس کا کہ وہ ان نیک کاموں سے محروم ہیں جن میں آنکھیں کام آتی ہیں غرض ہر کمزوری جو ان میں پائی جاتی تھی خود اس کمزوری کا ان کو احساس نہ تھا لیکن اس کمزوری کے نتیجہ میں جس قسم کی نیکیوں سے وہ محروم رہتے تھے ان کا اُن کو بہت احساس تھا.میں نے ان لوگوں کو ہزار بدصورتیوں کے باوجود خوبصورت پایا اور ہزار عیوں کے باوجود کامل دیکھا اور میں جوش سے کہہ اٹھا کہ باوجود مذاہب کے اختلاف کے اس میں تو کسی کو اختلاف نہ ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت خوبصورت مخلوق ہے.ان کے عیب پر ہزار کمال قربان ہو رہا ہے اور یہ لوگ ثابت کر رہے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ فضل کرے تو میلے کے ڈھیر پر بھی پاکیزہ روئیدگی پیدا ہوسکتی ہے مگر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ جب ایک جماعت مجھ سے اس بارہ میں بھی اختلاف پر تیار ہوگئی اور بعض نے کہا کہ ایسے ناپاک لوگوں کو آپ اچھا کہتے ہیں ان سے تو الگ رہنے کا حکم ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تک ناجائز ہے اور نہ ان سے چھونا درست ہے.ایک اور جماعت بولی یہ اپنے گذشتہ اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے پیارے کس طرح ہو گئے بلکہ انہوں نے ان کے گناہ تک گنائے کہ گذشتہ زندگی میں فلاں گناہ کر کے آنکھیں ضائع ہوئیں فلاں گناہ کر کے کان ضائع ہوئے وغیر ذالک.اور بعض نے ہنس کر کہا کہ خیر یہ تو بیوقوفی کی باتیں ہیں اصل میں ان پر دیوسوار ہیں.ہمارے خدا وندان دیووں کو نکالا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کے شاگرد.مگر اب ایسے لوگ ہم میں موجود نہیں رہے.میں نے کہا الہی دنیا کو کیا ہو گیا ہے یہ دل کے اندھے آنکھوں کے اندھوں پر اور دل کے بہرے کانوں کے بہروں پر ہنستے ہیں.یہ بدصورت اور کریہہ المنظر لوگ ان اپاہجوں کے حُسن کو کیا جانیں جن کے دل تیرے نور
انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين سے منور اور جن کے سینے تیری محبت کے پھولوں سے رشک صد مرغزار بن رہے ہیں.آہ میں کس طرح مانوں کہ تو بھی بنیوں کی طرح یہ دیکھتا ہے کہ کس کی تھیلی میں کیا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے.مگر میرے خیالات کی رو کو پھر اسی عقدہ کشا آواز نے روک دیا وہ ناز و رعنائی سے بلند ہوئی.اس ناز سے کہ کسی معشوق کو کب نصیب ہوا ہو گا ، اس شان سے کہ کسی بادشاہ کو خواب میں بھی حاصل نہ ہوئی ہوگی اور اس نے کہا کہ اے کام کرنے والو.اے خدا کی راہ میں جانیں قربان کرنے والو! مت خیال کرو کہ خدا کے حضور میں تم ہی مقبول ہو اور اس کے انعامات کے تم ہی وارث ہو یا د رکھو کہ کچھ تمہارے ایسے بھائی بھی ہیں کہ جو بظاہر ان عمل کی وادیوں کو نہیں طے کر رہے جن کو تم طے کر رہے ہو ، ان کٹھن منزلوں میں سے نہیں گزر رہے جن میں سے تم گزار رہے ہو.لیکن پھر بھی وہ تمہارے ساتھ ہیں.تمہارے شریک ہیں، تمہارے ثوابوں کے حصہ دار ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ایسے ہی مقرب ہیں جیسے کہ تم.میں نے دیکھا نیکوکاروں کی وادی میں ایک عظیم الشان ہلچل پیدا ہوئی اور سب بے اختیار چلا اٹھے کہ کیوں ایسا کیوں ہے؟ اس مقدس آواز نے جواب دیا اس لئے کہ گوان کے ہاتھ پاؤں بوجہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ معذوریوں کے تمہارے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے مگر ان کے دل تمہارے ساتھ ہیں.جب تم عمل کی لذتوں سے مسرور ہور ہے ہوتے ہو وہ غم اور حرمان کے تلخ پیالے پی رہے ہوتے ہیں.بے شک جام مختلف ہیں، بے شک شراب جداجدا ہے لیکن کیف میں کوئی فرق نہیں نتیجہ ایک ہی ہے تم جس مقام کو پاؤں سے چل کر پہنچتے ہو وہ دل کے پروں سے اڑ کر جا پہنچتے ہیں.ان کو نا پاک مت کہو جو ان سے نیک ہیں وہ تم میں سے پاکیزگی میں کم نہیں.میری روح وجد میں آگئی میرا دل خوشی سے ناچنے لگا میں نے کہا صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ انصاف اس کا نام ہے، عدل اس کو کہتے ہیں میرے دل سے پھر ایک آہ نکل گئی اور میں نے کہا طاقت ور کے ساتھی تو سب ہوتے ہیں مگر یہ آواز معذوروں کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.میں کہاں کہاں تم کو اپنے ساتھ لئے پھروں میں نے آئندہ نسلوں کیلئے رحمت اس عالم خیال میں بیسیوں اور مقامات کی سیر کی لیکن اگر میں ان کیفیات کو بیان کروں تو یہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا اس لئے میں اب صرف ایک اور نظارہ کو بیان کر کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.میرے دل میں خیال آیا کہ یہ غیبی آواز ماضی کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی اور حال کے لئے بھی مگر اس کا معاملہ مستقبل کے ساتھ کیسا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ رحمة للعالمين میں نے کہا آئندہ نسلیں لوگوں کو اپنی جانوں سے کم پیاری نہیں ہوتیں.ماں باپ خود فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں بشرطیکہ ان کی اولاد بچ جائے بلکہ سچ پوچھو تو وہ ہر روز اپنے آپ کو اولاد کی خاطر تباہی میں ڈالتے رہتے ہیں.پھر ماضی اور حال کسی کو کب تسلی دے سکتے ہیں جب کہ مستقبل تاریک نظر آتا ہو ، جب کہ آئندہ نسلیں فلاح و کامیابی کی راہوں پر چلنے سے روک دی گئی ہوں.میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا، یہ تو انسانی فطرت کے خلاف ہے کہ کوئی اپنی نسلوں کی تباہی پر راضی ہو جائے اس لئے مستقبل کے متعلق تو ضرور سب مذاہب متحد ہونگے اور اس مقدس وجود سے ان کو اختلاف نہ ہو گا جو دوسرے امور میں ان سے اختلاف کرتا رہا ہے اور ان کیلئے صحیح عقیدہ یا صحیح عمل پیش کرتا رہا ہے.تب میں نے عالم خیال میں ہند و بزرگوں سے سوال کیا کہ آئندہ نسلوں کیلئے آپ میں کیا وعدے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ وید آخری اور اوّل کتاب ہے اس کے بعد اور کوئی کتاب نہیں.میں نے کہا میں تو کتاب کے متعلق سوال نہیں کرتا میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ جو پہلوں نے دیکھا کیا آئندہ نسلوں کے لئے بھی اس کے دیکھنے کا امکان ہے.وید دوبارہ نازل نہ ہوں لیکن ویدوں نے جو عجائبات پہلے لوگوں کو دکھائے کیا ویسے ہی عجائبات پھر بھی دنیا کے لوگ دیکھیں گے اور اپنے ایمان تازہ کریں گے.انہوں نے کہا کہ افسوس ایسا نہیں ہو سکتا.آخر ویدوں کے زمانہ جیسا زمانہ اب دنیا کو کس طرح مل سکتا ہے.میں نے بدھوں سے سوال کیا اور انہوں نے بھی کوئی ایسی امید نہ دلائی.زردشتی لوگوں نے بھی اس پرانے اچھے زمانے کا وعدہ اپنی اولادوں کے لئے نہ دیا.یہود نے کہا ز کر یا تک تو خدا تعالیٰ کا کلام لوگوں پر اترتا رہا اور اس کے معجزات لوگوں کے ایمان تازہ کرتے رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا.مسیحیوں نے کہا حواریوں تک تو روح القدس اترا کرتا تھا مگر اب اس نے یہ کام ترک کر دیا ہے.میں نے کہا اور آئندہ نسلیں ؟ کیا اب وہ محروم رہیں گی ؟ کیا اب ان کے ایمانوں کو تازہ کرنے کیلئے کوئی سامان نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ افسوس! اس رنگ میں اب کچھ نہیں ہو سکتا.میں حیران تھا کہ لوگ کس طرح اپنی اولادوں کو محروم کرنے پر رضامند ہو گئے اور وہ کیوں خدا تعالیٰ کے آگے نہ چلائے کہ اگر اولاد کی محبت دی ہے تو ان کی ترقی کے سامانوں کے وعدے بھی تو کر.مگر میں نے دیکھا ان لوگوں میں کوئی حس نہ تھی وہ اس پر خوش تھے کہ خدا کا کلام نَعُوذُ بِاللهِ کوئی لعنت تھا کہ شکر ہے اس سے ان کی اولادوں کو نجات ملی.میں دلگیر و افسردہ ہو کر ان لوگوں کی طرف سے ہٹا اور میں نے کہا وہ نو ر بھی کیا جس کی روشنی بند ہو جائے اور وہ خدا ہی کیا جس کی جلوہ گری ماضی میں ہی
۱۶۸ انوار العلوم جلد ۳ رحمة للعالمين ختم ہو جائے کہ پھر میں نے اسی مومنی پیاری دلکش آواز کو بلند ہوتے ہوئے پایا.پھر اسے ایک انداز دلر بائی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو نعمت ہم نے پائی اسے اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان میں تقسیم کر دیا.خدا تعالیٰ کی نعمتیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ اسی طرح مستقبل کا بھی رب ہے جس طرح ماضی کا.جو کوئی بھی اس سے سچا تعلق رکھے گا اس کا کلام اس پر نازل ہوگا ، اس کے نشانات اس کیلئے ظاہر ہوں گے، اس کی محبت محدود نہیں کہ وہ اسے گذشتہ لوگوں پر تقسیم کر چکا، وہ ایک غیر محدود خزانہ ہے.جس سے ہر زمانہ کے لوگ علی قدرمراتب حصہ لیں گے.ہر اک جو سچے دل سے کہے گا کہ اللہ میرا رب ہے اور اس تعلق پر سچے عاشقوں کی طرح قائم ہو جائے گا خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوں گے اور اس کے رب کا پیغام اس کو آ کر دیں گے اور اس کی محبت بھری باتیں اس کے کان میں ڈالیں گے اور غموں اور فکروں کے وقت اس کے دوش بدوش کھڑے ہوں گے اور بشارت دیں گے کہ اللہ تمہارا دوست اور تمہارا مددگار ہے.پس کچھ فکر نہ کرو اور غم نہ کرو کل اور الہام الہی کا دروازہ ہمیشہ ان کے لئے کھلا رہے گا اور ان کے عشق کو رد نہ کیا جائے گا بلکہ قبول کیا جائے گا اور وہ سب در جے جو پہلوں کو ملے ہیں ان کو بھی ملیں گے.میں نے یہ بشارت سن کر بے اختیار کہا اللهُ أَكْبَرُ یہ آواز تو آئندہ نسلوں کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئی.اگر آئندہ کے لئے آسمانی نعمتوں کا دروازہ بند ہو جاتا تو عاشق تو جیتے جی ہی مر جاتے.جن کے دل میں عشق الہی کی چنگاری سلگ رہی ہے انہیں جنت بھی اسی لئے اچھی لگتی ہے کہ اس میں معشوق از لی کا قرب نصیب ہوگا ورنہ انار اور انگور ان کے لئے کوئی دلکشی کا سامان نہیں رکھتے.اگر قرب سے ہی ان کو محروم کیا جانا تھا جیسے کہ دوسرے لوگ کہتے ہیں تو ان کے لئے پیدا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا.پس مبارک وہ جس نے آئندہ نسلوں کو بھی امید سے محروم نہ کیا اور عاشقوں کو معشوق کے وصال کی خوشخبری سنا کر ہمیشہ کیلئے اپنا دعا گو بنا لیا.مگر اب تو میرے دل سے ایک بہت ہی درد بھری آہ نکلی اور میں نے کہا.کیا ان تیرہ صدیوں ، نا قابل گذر تیرہ صدیوں کیلئے جن کو ماضی کی مہر نے بالکل ہی عبور کے قابل نہیں چھوڑا طے کرنے کا کوئی راستہ نہیں.کیا میرے اور میرے محبوب کے درمیان ایسی سد سکندری حائل ہے جس کو توڑنا بالکل ناممکن ہے؟ کیا اس مایوسی کی تاریکی کو امید کی کوئی کرن بھی نہیں پھاڑتی.میں انتہائی کرب میں تھا کہ مجھے ایک اور آواز سنائی دی.ایسی قریب کہ اس کے قرب کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ وہ میری رگ گردن سے بھی زیادہ قریب تھی.اور اس نے کہا افسوس
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۶۹ رحمة للعالمين نہ کر میری طرف دیکھ جو چیز تیرے لئے ماضی ہے میرے لئے حال.بےشک کمزور انسان ماضی کو نا قابل وصول سمجھتا ہے اور سمجھتا رہا ہے لیکن میرے سامنے ماضی اور مستقبل سب ایک سے ہیں.جس وجود کو تو دیکھنا چاہتا ہے میں نے اس کے ماضی کو مستقبل سے بدل دیا ہے.میری طرف سیدھا چلا آٹو اس کو میرے قرب میں میری جنت کے اعلیٰ مقامات میں میرے کوثر کے کنارے پر اسی طرح میری نعمتیں تقسیم کرتا ہوا پائے گا جس طرح تیرہ صدیاں گزریں.دنیا کے لوگوں نے اسے ہر قسم کی نعمتیں تقسیم کرتے ہوئے پایا تھا.کیوں وہ سب کے لئے رحمت نہ ہو کہ میں نے اسے پیدا ہی تقسیم کے کام کیلئے کیا تھا تبھی تو وہ ابوالقاسم کہلایا اور تبھی تو اس نے منع کیا کہ کوئی شخص اس کی کنیت اختیار نہ کرے.۱۸ میں نے کہا.اے میرے دل میں بولنے والے ! میں تیرے ازلی حُسن پر قربان.بے شک میر احمد رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِيْنَ تھا لیکن تو رَبُّ الْعَلَمِينَ ہے.تیری رحمت کے قربان ماضی کے ایک منٹ کو کوئی واپس نہیں لا سکتا لیکن تو نے تیرہ صدیوں کے ماضی کو مستقبل بنادیا اور وہ جسے ہم خیال کرتے تھے کہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اس کی آئندہ ملاقات کا وعدہ دلایا.اے میرے محمد کے معشوق آ.میرے دل میں بھی گھر کر لے.تیرا حسن سب سے بالا ہے.تیری شان سب سے نرالی.اور یہ کہتے ہوئے میری ایک آنکھ سے ایک آنسو نکل پڑا.وہ میرے رخسار پر ڈھلکا ہی تھا کہ میری ایک بیوی میرے کمرہ میں داخل ہوئی.میں نے عشق کا راز فاش ہونے کے خوف سے کھٹ وہ آنسو پونچھ دیا ور نہ نہ معلوم اس کے کتنے اور ساتھی اس کے پیچھے چلے آتے.روزنامه الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ء) السجدة: ۳۸ قشعرير: لرزه بدن کپکپی ے بنی اسرائیل: ۴۱ الزخرف: ۲۰ التحريم: ۷ الجاثية: ۲۵ کے منغض : رنجیدہ.ناراض 1> البقرة: ٣٠ و گلتیوں: باب ۳ آیت ۱۱ تا ۱۴ ۱۰ پیدائش: باب ۳ آیت ۱۳ رومیوں: باب ۱۴ آیت ۹
انوار العلوم جلد ۱۳ مسلم کتاب البر والصلة باب النهى عن قول هلك الناس ۱۳ طه: ۱۱۶ ۱۴ یوحنا باب ۱۰ آیت ۸ ۱۵ فاطر: ۲۵، الرعد: ۸ بخاری کتاب المغازى باب نزول النبى الحجر كل حم السجدة: ٣١ بخارى كتاب المناقب باب كنية النبي صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين
انوار العلوم جلد ۳ 121 أسوة كامل از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی أسوة كامل
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۷۲ أسوة كامل اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أسوه کامل (فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ ء بر موقع جلسه سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اصل مضمون شروع کرنے سے قبل میں ایک تحریر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ایک شکایت ہوں جو اسی وقت مجھے دی گئی ہے.اس پر چند ہند و اصحاب کے دستخط ہیں اور انہوں نے شکایت کی ہے کہ آج ایک جلوس ان کی گلیوں میں سے گزرا جس کا پہلے دستور نہ تھا اور کہ اس میں شامل ہونے والے بعض طالب علموں کا رویہ نا پسندیدہ تھا.پیشتر اس کے کہ میں یہ معلوم کروں کہ ان کے رویہ میں کیا نا پسندیدگی تھی جس کے متعلق اگر وہ مجھے بعد میں اطلاع دیں گے تو میں ہر نا پسندیدہ رویہ کے متعلق نوٹس لوں گا لیکن عام نصیحت میں تحقیق سے پہلے ہی کر دیتا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی ناپسندیدہ حرکت کی تو یہ بہت ہی ناپسندیدہ بات تھی.یہ دن ہم نے اس بات کی تیاری کے لئے مقرر کیا ہے کہ مختلف اقوام میں صلح و آشتی کی بنیاد بن سکے اور وہ دن جسے ہم اقوام میں صلح کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں اور جسے ہم آہستہ آہستہ اس صورت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں کہ سب مذاہب کے بزرگوں کو اچھے ناموں سے یاد کیا جائے.تا مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں جو کدورت ہے وہ دور ہو اور پیار بڑھے.اس دن کسی کا دل دکھانا جو پہلے ہی اسلامی تعلیم کی رو سے ناپسندیدہ بات ہے.اور مسلمان کو اس بات سے جس سے دوسرے کو دُکھ ہو مجتنب رہنے کا حکم ہے، خصوصیت سے ناپسندیدہ بات ہے.اور اس دن بالخصوص اس بات کا لحاظ کرنا چاہیئے کہ ایسی بات نہ کی جائے جس سے کسی کا دل دکھے.
انوار العلوم جلد ۳ ۱۷۳ أسوة كامل ان کے اس شکوہ کے متعلق کہ جلوس ان کی مصنوعی حد بندیوں کے نقصانات گلیوں میں سے گزرا جس کا پہلے دستور نہ تھا میں اپنا خیال ظاہر کر دیتا ہوں اور میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ تنگ دلی ہم سب قوموں کو مٹا دینی چاہیئے.میرے نزدیک جب تک ہند و بازار مسلم بازار اور ہند و محلہ مسلم محلہ کی تفریق باقی ہے ہمارے اندر محبت سے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے کی جستجو پیدا ہی نہ ہو گی.ان مصنوعی حد بندیوں کی وجہ سے قلوب میں ایسی گرہیں رہیں گی کہ جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکیں گی.جو چیز قلوب کو مجروح کرتی ہے وہ خواہ ہند و محلہ میں کی جائے یا مسلم محلہ میں وہ بہر حال بُری ہے.اگر ہندو اپنے محلہ میں مسلمانوں کو گالیاں دیں یا مسلمان اپنے محلہ میں ہندوؤں کو بُرا بھلا کہیں تو یہ تو بے شک صحیح ہے کہ چونکہ ایک دوسرے کی گالیوں کو ایک دوسرے نے سنا نہیں، اس لئے جوش نہیں پھیلے گا اور فساد نہیں ہوگا.لیکن فساد اصل دل کا ہوتا ہے.اگر اپنی اپنی جگہوں پر دروازے بند کر کے بلکہ کوٹھڑیوں میں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک دوست دوسرے کے کان میں بلکہ اپنے ہی دل میں ایک دوسرے کو گالیاں دے تب بھی یہ فعل ویسا ہی بُرا ہوگا کیونکہ اپنے دل میں گالی دینے والے کا دل تو خراب ہو گیا اور ایسے دل میں محبت کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی.اس لئے اگر قلوب کی درستی کو مد نظر رکھا جائے تو ایک دوسرے کو گالی دینے یا بُرا بھلا کہنے کے لئے ظاہر و باطن یا اپنے اور پرائے محلہ کی حد بندی کو ئی نہیں لیکن اگر دل شکنی نہ کی جائے اور ہند وجلوس ہمارے محلہ سے گزر جائے تو اس میں خرابی ہی کیا ہے اور اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے یا اگر ہمارا جلوس بغیر کسی دشکنی کے ہند و محلہ میں سے گزر جائے تو اس میں کیا حرج ہے.لیکن یہ میرا اپنا خیال ہے اور جب تک ہندوستان میں فساد کا اصل باعث سب کے اندر یہ وسعت قلبی پیدا نہیں ہوتی ، اس وقت تک اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو چاہیئے کہ اس محلہ کو چھوڑ دیا جائے لیکن میری اپنی رائے یہی ہے کہ صلح و آشتی کے لئے ہمیں یہ تنگ دلی دور کر دینی چاہیئے اور جن چیزوں میں ہمارے مذاہب نے دائرے قائم نہیں کئے مثلاً ہند و محلہ یا مسلم محلہ کسی مذہب نے نہیں بتایا تو ہم خواہ مخواہ نئی حد بندیاں کیوں کریں.ہندوستان میں تمام لڑائیاں ایسی ہی تنگدلانہ ذہنیت میں پیدا ہوتی ہیں جس کا میں ہمیشہ سے مخالف رہا ہوں.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۷۴ أسوة كامل احمدیوں کی وسعت قلبی ہماری چھوٹی مسجد کے نیچے سے ہندو مسلم سکھ براتیں باجہ بجاتے ہوئے گزر جاتی ہیں اور نماز کے وقت بھی جبکہ میں نماز پڑھا رہا ہوتا ہوں، گزرتی ہیں لیکن میں نے انہیں کبھی نہیں روکا.بلکہ بعض لوگوں نے روکنا چاہا تو میں نے انہیں بھی منع کیا.اگر کوئی شخص باجے سے ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تو دین کی طرف ہماری توجہ ہی کیا ہوئی.چاہیئے کہ ہم دین میں ایسے مگن ہوں کہ کوئی چیز ہمیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے.مجھے تو کبھی اس کا احساس نہیں ہوا.بلکہ اگر کسی کو ہوا تو میں نے اسے بھی منع کیا اور یہی کہا کہ یہ گلی گزرنے کی ہے اور اب تک اس میں سے ہندو، سکھ ، مسلمان سب کی براتیں گزرتی ہیں ، یہاں کی بھی اور باہر کی بھی، اور میرا خیال ہے کہ یہی ذریعہ صلح کا ہے نا پسندیدہ باتیں خواہ ہند و محلہ میں ہوں یا اپنے محلہ میں ہر حال میں ناپسندیدہ ہیں.فساد کے خیال سے اگر دوسرے کے محلہ میں جا کر کوئی ایسی بُری حرکت کی جائے تو یہ زیادہ بُری بات ہے.لیکن جو بات ہے ہی ناپسندیدہ اسے اپنے محلہ میں بھی نہیں کرنا چاہیئے.جماعت کو نصیحت اس لئے میں بغیر تحقیق کے ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی حرکت کی ہے تو تو بہ کرے اور اگر نہیں کی تو آئندہ کے لئے مزید احتیاط کرے.اگر کوئی قوم پسند نہیں کرتی تو اس کی گلی میں سے نہ گزرا جائے لیکن پھر بھی میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق صلح کا نہیں اس سے ہر جگہ اور ہر قوم میں فساد ہوتے رہتے ہیں.ایسی ہی باتوں سے ہند و مسلمانوں میں اور پھر مدراس کے علاقہ میں عیسائیوں اور ہندوؤں کے مابین فساد ہوتے رہتے ہیں.یہ خیال کہ ہماری مسجد یا محلہ میں سے کوئی گزر جائے تو یہ تک ہے قطعاً غلط ہے.اگر وہ ہمارا بھائی ہے تو اس میں بہتک کی کیا بات ہے؟ لیکن جب تک دل نہیں بدلتے اور کسی کو دکھ ہوتا ہے اس وقت تک اگر ہم چھوڑ ہی دیں تو کیا حرج ہے.مضمون کی وسعت اور وقت کی تنگی اس کے بعد میں اس غرض کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا گیا ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تفصیلی واقعات تو کسی صورت میں بیان نہیں ہو سکتے کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے.سردیوں کے دن ہیں.اوّل تو عصر و مغرب کی نمازوں کے درمیان وقفہ ہی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا ہوتا ہے.اس میں سے کچھ وقت یہاں پہنچنے میں لگ جاتا ہے، کچھ تلاوت و نظم میں، پھر کھڑے ہونے اور تمہید میں کچھ صرف ہو جاتا ہے.اور
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۷۵ أسوة كامل صرف پندرہ بیس منٹ باقی بچتے ہیں اور کون ہے جو اس قدر قلیل عرصہ میں اس بحر نا پیدا کنا رکو ئیر کر گزر سکے.صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ رسول کریم علیہ کے بعض اعمال کو بیان کیا جائے تا ماننے والوں کے علم اور محبت میں زیادتی ہوا اور دوسروں میں منافرت کم ہو.آج میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کروں گا کہ دنیا میں مذاہب کا اصل مقصد جتنے مذاہب ہیں وہ وصلِ الہی کو ہی اصل مقصد قرار دیتے ہیں.ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، زرتشتی، یہودی ، مجوسی ہر ایک اپنے مذہب کا اصل مقصد وصالِ الہی ہی بتاتے ہیں لیکن وہ سب کے سب اس وصال کو مرنے کے بعد قرار دیتے ہیں.مثلاً سنا تنیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد کامل انسان خدا تعالیٰ میں جذب ہو جاتے ہیں، آریہ کہتے ہیں کہ وہ لمبے عرصہ کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب میں چلے جاتے ہیں، بدھوں کا بھی ایسا ہی عقیدہ ہے.یہودیوں میں سے بعض تو قیامت کے قائل ہی نہیں جو قائل ہیں، وہ یہی سمجھتے ہیں.زرتشتی مسلمان، غرضیکہ سب کا یہی خیال ہے.اور سب نے اس وصال کا زمانہ بغد الموت رکھا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان سفر میں ہو تو بھی اپنے لئے کچھ نہ کچھ سامان ضرور کرتا ہے.اس لئے دنیا میں بھی جو بطور سفر ہے وصالِ الہی کی کوئی تجاویز ہونی چاہئیں.اور اس پر سب مذاہب کا اجتماع ہے کہ جب تک انسان حقیقی مقرب الہی حاصل کرئے اس وقت تک اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کرے تو یہ بھی ایک قسم کا قرب ہے مثلا روزہ کیا ہے؟ یہی کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرح ایک وقت کے لئے کھانے سے ہاتھ اٹھائے پھر نماز ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کسی شریک ساتھی اور رشتہ دار کے ہے اسی طرح انسان بھی ایک وقت کے لئے اپنے ساتھیوں اور رشتہ داروں سے الگ ہو جائے اور اس طرح سب مذاہب میں کچھ نہ کچھ عبادات ہیں.اور سب مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ اصل مقصد انسانی زندگی کا قرب الہی ہے اور دنیا میں اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی صفات کا دل میں پیدا کرنا ہے اور کامل انسان وہی ہو گا جو زیادہ سے زیادہ صفات الہی اپنے وجود میں ظاہر کرے گا.صفات الہی کا مظہر اتم آج کے مضمون میں میں رسول کریم ﷺ کے کاموں میں سے اسی کام کو لیتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ آپ نے صفات الہی کو جس قدر اپنے اندر جذب کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی اور اسی غرض سے میں نے شروع میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے.
انوار العلوم جلد ۳ أسوة كامل اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں.پہلی رَبُّ الْعَلَمِيْنَ صفت ربوبیت ہے.جس طرف دیکھو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کام کر رہی ہے.زمین آسمان، سورج چاند ستارے مشرقی، مغربی گورے کالے ایشیائی یورپین سب اس کی ربوبیت کے نیچے ہیں.اور وہ چھوٹے بڑے امیر غریب سب کی ربوبیت کرتا ہے.دوسری صفت رحمن ہے یعنی جتنی طاقتیں انسان کے اندر ہیں ان صفت رحمانیت کے استعمال کے بیرونی سامان بھی مہیا فرما تا ہے.دنیا کی حکومتوں میں یہ بات نہیں.مثلاً یو نیورسٹی ہے.وہ علم پڑھانے کا سامان تو کرتی ہے مگر یہ نہیں کہ بعد میں نوکری بھی ضرور دے.وہ کہتی ہے کہ ہم نے پڑھا دیا اور اب جاؤ اپنے لئے روزگار تلاش کرو.وہ خالی علم دیتی ہے، اس کے استعمال کے ذرائع نہیں دیتی مگر اللہ تعالیٰ رحمن ہے یعنی وہ قوتوں کے استعمال کے ذرائع بھی ساتھ دیتا ہے.رحمانیت کی لطیف تشریح ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے اس کے مقابل ایک ذریعہ اس کے استعمال کا بھی بنایا ہے.مثلاً آنکھ ہے اس کے لئے روشنی ضروری ہے تا کہ وہ دیکھ سکے اس لئے اس نے سورج پیدا کیا.پھر یہ ضروری ہے کہ آنکھ خوبصورت اشیاء کو دیکھے تا اس میں طراوت پیدا ہو اور اس نے خوبصورت مناظر سبزیاں خوبصورت انسان چرند پرند درخت بیل بوٹے وغیرہ اشیاء پیدا کر دیں.پھر اس نے کان دیئے ہیں مگر یہ نہیں کہا کہ آواز میں خود پیدا کرو بلکہ آواز بھی ساتھ ہی پیدا کر دی ہے.پھر آوازوں کے سننے میں بھی بے شمار فرق ہیں اگر سب کی آواز ایک سی ہوتی تو امتیاز کرنا مشکل ہو جاتالیکن اس قدر بار یک فرق ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.گاڑی آتی ہے گھوڑا آتا ہے لیکن کان دونوں کے شور کو پہچان لیتے ہیں.پھر ہر انسان کی آواز میں کچھ نہ کچھ فرق ہے.تو اتنے امتیاز ہیں کہ اگر انہی کو دیکھا جائے تو کان کے لاکھوں کام نظر آتے ہیں پھر چھونے کی طاقت دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ اس کے لئے کام خود تلاش کرو بلکہ چھونے کے لئے چیزیں بھی پیدا کر دی ہیں.کوئی نرم چیز ہے کوئی سخت کوئی پھسلنی اور کھوئی گھر دری، پھر ان میں سے ہر ایک کی کئی اقسام ہیں.نرمی میں بھی ہزاروں فرق ہیں ہم ریشم پر ہاتھ رکھتے ہیں پھر ربڑ پر رکھتے ہیں اور اگر چہ دونوں نرم ہیں مگر ہماری چھونے کی طاقت دونوں میں ایک امتیاز قائم کرتی ہے اور اس طرح نرمیوں میں بھی ہزاروں امتیاز ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت نے جو طاقتیں انسان کو دی ہیں ان کے استعمال کے ذرائع
انوار العلوم جلد ۱۳ 122 أسوة كامل بھی ساتھ ہی پیدا کر دیئے ہیں.مگر دنیوی حکومتیں ایسا نہیں کرتیں.ان کی مثال تو ایسی ہے کہ کہتے ہیں کوئی شخص شکار کے لئے گیا اور ایک دلچسپ مثال ایک خرگوش مار کر لایا.جب گھر کے قریب پہنچا تو خیال کیا کہ میرا کنبہ تو بہت ہے چھوٹے چھوٹے بچے، بہن، بھائی ہیں ایک خرگوش اگر میں گھر لے گیا تو وہ آپس میں لڑیں گے اس لئے بہتر ہے کہ باہر ہی کسی کو دے جاؤں.پاس سے کوئی سادھو گزر رہا تھا اس نے سوچا کہ اسے ہی دے جاؤں اور اس خیال سے اسے پوچھا کہ سادھو جی خرگوش کھا لیتے ہو.مگر اس کے جواب دینے سے پہلے اسے خیال آیا کہ بچے بوٹیوں پر تو پکنے کے بعد لڑیں گے لیکن اگر میں باہر ہی دے گیا تو گھر پہنچتے ہی سب پوچھیں گے ہمارے لئے کیا لائے اور پھر انہیں کیا جواب دوں گا اس لئے بہتر ہے کہ گھر لے جاؤں.سادھو نے اس کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہاں مل جائے تو کھا ہی لیتے ہیں.اس پر وہ کہنے لگا کہ اچھا پھر مار مار کر کھایا کرو.تو دنیا کی حکومتوں کی مثال ایسی ہی ہے وہ ساری امیدیں پیدا کرنے کے بعد یہ کہہ دیتی ہیں کہ مار مار کر کھایا کرو اسی لئے تعلیم یافتہ نو جوان جن کے متعلق کسی نے کہا ہے کہ:.ایم.اے بنا کے کیوں میری مٹی خراب کی کہتے ہیں کہ اچھا پھر پہلے تمہیں ماریں گے.اور وہی تعلیم یافتہ لوگ جنہیں حکومت نے پڑھا کر ان کے لئے کام کرنے کے سامان مہیا نہیں کئے تھے وہ پھر اسی کے ارکان کو مارنے لگ جاتے ہیں.صلى الله صفت رب العلمین اور رسول کریم یا تو میں تیار ہا تھا کہ پہلی صفت جو اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہے وہ اس کا رَبُّ الْعَلَمِینَ ہوتا ہے.جو بندہ رَبُّ الْعَلَمِينَ بنتا ہے، ہم سمجھیں گے کہ وہ کامل ہے.اور رسول کریم ﷺ کے متعلق ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا آپ نے عالم کی ہر ھے پر نگاہ ڈالی.اور اس کے فائدہ کے لئے کام کیا؟ اگر ڈالی تو ماننا پڑے گا کہ آپ کامل انسان تھے لیکن اگر ہر شے پر آپ کی نگاہ نہیں پڑی اور کوئی حصے ایسے رہ گئے ہیں کہ ان کے لئے آپ نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ رَبُّ الْعَلَمِینَ نہیں کہلا سکیں گے.اس کے لئے ہم کوئی مثال لیتے ہیں اور چونکہ نسلِ انسانی زیر بحث ہے اس لئے ہم جو ان یعنی بنا بنایا آدمی لیتے ہیں.جسے ہر قوم تسلیم کرتی ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے آئندہ نسلوں کا بیج بنایا ہے.غور کرنا چاہیئے کہ اس کی پہلی خواہش کیا ہوگی.بائیل سے بھی ثابت ہے عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اسی کی جنس سے جوڑا ہی اسے تسلی دے سکتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۷۸ أسوة كامل دنیا کی خوبصورتی اور اس کی کوئی ھے اسے تسلی نہیں دے سکتی جب تک اس کا ہم جنس جوڑا نہ ہو.جوشِ جوانی میں شہوات عقل پر غالب آ جاتی ہیں اور وہ کہتی نو جوانوں کی ربوبیت ہیں کہ خواہشات کے دریا میں عذاب سے لا پرواہ ہو کر گود پڑ.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا رسول کریم ﷺ نے اس حالت میں انسان کی ربوبیت کی ہے اور جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے جوش جوانی کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کی ہے.آپ نے فرمایا کوئی شخص نسب کے لئے شادی کرتا ہے کوئی حسب کے لئے کوئی خوبصورتی کے لئے نکاح کرتا ہے مگر میری نصیحت تمہیں یہ ہے کہ اس کے ساتھ نکاح کرو جو اُخروی زندگی کی ترقی کا موجب ہو نے کیونکہ اگر تم خوبصورتی کو دیکھ کر شادی کرو گے تو تمہاری ساری عمر کے اعمال خوبصورتی کے گرد ہی چکر لگاتے رہیں گے اور بڑے خاندان کی عورت سے شادی کرنے والے کا مطمع نظر تمام عمر یہی رہے گا کہ جس طرح بھی ہو اپنے کو بڑا بنائے.جس شخص کی شادی کسی ایسے خاندان میں ہو جو معزز سمجھا جاتا ہو تو اس کی ساری کوشش یہی ہوگی کہ دھوکا سے فریب سے جس طرح بھی ہو سکئے اپنی نسل کو کسی پرانے خاندان سے وابستہ کرے.مسلمانوں میں سید زیادہ معزز سمجھے جاتے ہیں اور ہندوؤں میں برہمن.اور ایسا انسان ہمیشہ جس طرح بھی ہوا اپنے کو کسی پرانے معزز خاندان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش میں لگا رہے گا.خوبصورتی کا محور ہمیشہ شہوت ہو گا اور حسب و نسب کا دھوکا فریب اور جبر.اپنے کو کسی معزز خاندان سے منسوب کرنے والوں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے.ایک شخص کسی عدالت میں ادائے شہادت کے لئے گیا اور اپنی قومیت سید بتائی.اس پر فریق ثانی نے اعتراض کیا عدالت نے اسی فریق کے ایک اور گواہ سے دریافت کیا کہ فلاں آدمی کی قومیت کیا ہے.اس نے کہا کہ یہ پکا سید ہے اس کا باپ ہمارے سامنے موچی تھا لیکن اس کے سیڈ ہونے کے تو ہم خود گواہ ہیں کیونکہ یہ ہمارے سامنے سید بنا ہے.تو یہ بالکل بے ہودہ بات ہے.محض سید کہلانے سے کیا بنتا ہے لیکن لاکھوں آدمی ہیں جو اپنی قومیت بدلنے میں لگے ہوئے ہیں.تو نسب کی وجہ سے شادی کرنے والے کی زندگی کی بنیاد فریب اور جھوٹ پر ہوگی اور خوبصورتی کی وجہ سے شادی کرنے والے کی بنیاد شہوت پر.مگر رسول کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ اگر آج ہی تمہاری نیت ٹھیک نہیں تو آئندہ کیا ہو گا.تم نکاح کی بنیاد بھی دین پر رکھو اس صورت میں تمہارے دونوں کام ہو جائیں گے اور تمہارے اعمال بھی دین کے گرد چکر لگا ئیں گے.
۱۷۹ انوار العلوم جلد ۱۳ أسوة كامل انتخاب کے بعد نکاح کی شرائط طے ہوتی ہیں نکاح کے بارے میں ربوبیت اور پھر ان میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے کہ مرد پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہونگی یا عورت پر مرد والے عورت والوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور عورت والے مرد والوں پر لیکن یہاں بھی رسول کریم ﷺ آ موجود ہوتے ہیں کہ یہاں بھی میری ایک بات سن لو.مرد و عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے دونوں کے احساسات یکساں ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں.جیسے بیوی کو اپنے ماں باپ پسند ہیں ویسے ہی میاں کو بھی اور آپ نے ایک ایسا گر بیان فرما دیا جس پر عمل کر کے دونوں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.آپ نے حکم دیا کہ صلہ رحمی کرو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رحمی تعلقات کا لحاظ رکھو قولِ سدید ختیار کرو گے، یعنی ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا نہ کرو غرضیکہ آپ نے نکاح کے متعلق تفصیلی ہدایات دیں.جنہیں اگر میں بیان کروں تو یہ تقریر خطبہ نکاح بن جائے گی.مختصر یہ ہے کہ اس موقع پر بھی آپ نے ربوبیت کی.پھر بیوی گھر آتی ہے.اور یہ وہ وقت ہوتا بیوی کی آمد کے موقع پر ربوبیت مجھے اب شہوانی جذبات غالب آسکتے ہے ہیں.یہاں رسول کریم ہے پھر آ موجود ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پہلے تھوڑا کام ہمارا کر لو اور دعا کرو.اس تعلق کے نتیجہ میں تمہاری آئندہ نسلیں ہونگی مانا کہ تم نیک ہومگر ہو سکتا ہے کہ تمہاری اولا دشریر ہو تو بھی دنیا میں فساد پیدا ہو گا اور تمہارا قائم کیا ہوا تقومی ملیا میٹ ہو جائے گا اس لئے خدا سے دعا کرو کہ تمہارے ملنے کا نتیجہ تقویٰ ہو.یہ ایسا وقت تھا کہ شہوت چاہتی تھی انسان شہوت کا بیج بوئے.مگر روحانیت چاہتی تھی کہ روحانیت کا بوئے مگر رسول کریم کر بتاتے ہیں کہ بے شک تم شہوت کا بیج بو وؤ مگر روحانیت کی چاشنی کے ساتھ.پھر اولاد پیدا ہوتی ہے.جو نہی بچہ پیدا ہوتا بچہ کی پیدائش کے وقت ربوبیت بپھر اولاد پیدا ہوتی ہے.ہے آپ اسی وقت اس کی ربوبیت کا خیال فرماتے ہیں.اور اس کی تربیت کے لئے اپنی تفصیلی ہدایات دیتے ہیں کہ اور کسی قوم میں ان کی نظیر نہیں ملتی.آپ کا حکم ہے کہ معا بچہ کے کان میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے.بچہ اگر چہ اس وقت بظاہر ایک بے جان چیز ہے مگر اس کے کان میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم آپ نے دیا اور اس میں دو فائدے ہیں.اول یہ کہ اس وقت کی بات کان میں پڑی ہوئی ضائع نہیں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۸۰ أسوة كامل جاتی اور دوسرے یہ کہ والدین کو توجہ دلائی کہ اگر پیدائش کے وقت ہی اس کی تربیت کا حکم ہے تو بڑے ہو کر یہ کتنی ضروری ہوگی.بچہ کی تربیت کا حکم جب اسے ذرا ہوش آئے تو حکم ہے کہ اسے تعلیم دلاؤ.حتی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق بھی تاکید فرمائی.حتی کہ فرمایا جس شخص کی دولڑ کیاں ہوں اور وہ ان کو تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو اس کا ٹھکانہ جنت میں ہو گا.گویا اسے اتنا ضروری قرار دیا کہ ماں باپ پر اس کا انتظام فرض کیا.چنانچہ فرمایا.وا اَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا.اس میں باطنی تعلیم بھی ہے اور ظاہری بھی اور دونوں کے لئے ماں باپ کو ذمہ وار قرار دیا اور فرمایا کہ دونوں تعلیموں سے اولاد کو آراستہ کر کے اسے جہنم سے بچاؤ.جہنم سے مراد بیماری اور غربت وغیرہ بھی ہے جو جہالت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اُخروی جہنم بھی مراد ہے گویا ہر قسم کی جہنم سے اولاد کو بچانے کا حکم دیا.بدا خلاقی بھی جہنم ہے کہ بدا خلاقی سے لوگ نفرت کرتے ہیں.تو یہ آیت عام ہے اور اس میں ہرقسم کی آگ سے اولا دکو بچانے کا حکم دیا ہے.اور مسلمان کا فرض قرار دیا کہ بچے کی بچپن کی حالت میں نگرانی کرے اور فرمایا کہ اگر اس میں خرابی پیدا ہوئی تو تم سے باز پرس ہوگی.یتیموں کی ربوبیت پر بعض بچے یتیم رہ جاتے ہیں ان کے لئے بھی حکم دیا کہ ان کے مال کی حفاظت کی جائے.پھر بتایا کہ ان کے احساسات کا کس طرح خیال رکھا جائے، تعلیم کا کیا انتظام ہو.غرض کہ ان کی پرورش کے لئے تفصیلی احکام صادر فرمائے.گویا ان کو بھی خالی نہیں رہنے دیا.باقی مذاہب میں یہ بات ہرگز نہیں.وہاں اگر اپنی اولاد کی تربیت کا کوئی اصول ہے تو یتامیٰ کے لئے نہیں اور اگر یتامیٰ کے لئے ہے تو اپنی اولاد کیلئے صلى الله نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے سب کو لے لیا ہے اور کسی کو اپنی ربوبیت سے باہر نہیں رہنے دیا.جوانوں کی راہنمائی اس کے بعد انسان جوان ہوتا ہے اور جوانی کے متعلق آپ پھر تفصیلی احکام دیتے ہیں.مثلاً یہ کہ جذبات میں کس حد تک آزادی ہے ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کریں، ماں باپ جوان اولاد کے ساتھ کیسا سلوک کریں رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ میرے باپ نے میرے بھائی کو گھوڑا دیا ہے مگر مجھے نہیں دیا.آپ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ اگر وسعت ہے تو سب کو دو وگر نہ ایک سے بھی واپس لے لو.جوانی میں جب من وتو کے احساسات ہوتے ہیں، اس وقت بھی ان کے متعلق احکام بیان
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۸۱ أسوة كامل کئے.لڑکی کے لئے کیا حد بندیاں اور لڑکے کے لئے کیا ہیں.انہیں اپنی شادی بیاہ کے معاملہ میں کہاں تک آزادی ہے اور کہاں تک پابندی ہے.بھائی بہن کے کیا تعلقات ہیں.پھر دنیا میں لوگ عام طور پر جو کام کرتے ہیں، ان کے دنیوی امور میں ربوبیت متعلق بھی تفصیلی احکام دیئے.آپ نے بتایا کہ تجارت میں دھوکا نہیں کرنا چاہیئے لالے ، لین دین عارضی اور مستقل کے علیحدہ علیحدہ احکام بیان فرمائے.رہن اور بیج کے واسطے مفصل ہدایات دیں.غرض ان تمام ضرورتوں کے لئے آپ نے احکام دئیے.انسان جب بوڑھا ہوتا ہے تو بچوں کو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے اور بتایا کہ بوڑھے ماں باپ کو اُف تک نہ کہو." پھر موت کا وقت ہوتا ہے اس کے لئے بھی احکام مرنے والے کی ربوبیت دیئے اور بتایا کہ وہ انسان کا آخری وقت ہوتا ہے.اس وقت اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لئے مرنے والے کی عاقبت خراب نہ کرو.اسے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے کا موقع دو.تمہارے بچوں کا کیا حال ہو گا بیوی کیا کرے گی ایسے سوالات سے ان قیمتی لمحات کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کے سامنے قرآن کریم کی آیات اور سورہ یسین پڑھو.اس کے بعد اپنی تکالیف کا خود انتظام کر لینا اور ان کا ذکر کر کے اس کے آخری وقت کو خراب نہ کرو.پھر فرمایا کہ اگر کسی کی جائداد ہو تو چاہیئے کہ وہ اس کے لئے پہلے سے وصیت کر رکھے گکھتا اس وقت یہ باتیں اسے پریشان نہ کریں.اور اس پر آپ اس قدر زور دیتے تھے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ہر روز لکھی ہوئی وصیت سرہانے رکھ کر سوتا تھا شام اور یہ اس لئے حکم دیا ہے کہ تا مرنے والے کی آخری گھڑیاں خراب نہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو سکے.یہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا ہوتا ہے تا یہ سلسلہ اُخروی زندگی میں بھی قائم رہے.اگر کوئی مرتے وقت ہائے میرے بچے ہائے میری بیوی کہتا رہے گا تو اُٹھتے وقت بھی اس کا دھیان اس طرف ہو گا لیکن اگر مرتے وقت ہائے اللہ کہے گا تو اُٹھتے وقت بھی اس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہو گی.اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر بچہ روٹی کیلئے روتا ہوا سو جائے تو صبح اُٹھتے وقت وہ روٹی کو ہی یاد کر رہا ہو گا.غرضیکہ رسول کریم اللہ نے انسان کی ان آخری گھڑیوں کو بھی فراموش نہیں کیا.اور حکم دیا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کی جائے.
۱۸۲ انوار العلوم جلد ۳ أسوة كامل پھر انسان مر جاتا ہے.اس وقت کا بھی آپ نے خیال موت کے بعد ر بو بید رکھا اور بتایا کہ کس طرح مُردہ کی تجہیز و تکفین کی جائے.آپ ہر قوم کے مُردوں کا احترام کرتے تھے.ایک وفعہ ایک میت جا رہی تھی کہ آپ اس کے احترام کے طور پر اُٹھ کر کھڑے ہو گئے.کسی نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! یہ تو یہودی تھا.آپ نے فرمایا یہودی بھی تو خدا کا بندہ ہی ہے.پھر فرما یا مر دوں کا ذکر اچھی طرح کیا کرو گے.اور کہا جا سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ نے ہر مرنے والے کی بھی خبر گیری کی اور اس طرح اس کی بھی ربوبیت کر دی اور انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک سب ضروری احکام دے دیئے اور پھر اگر تمام افراد کو علیحدہ علیحدہ لیا جائے تو اس میں بھی آپ کی ربوبیت نظر آئے گی..کا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ سب کی اُخروی زندگی کے لئے روحانی ربوبیت سہارا ہیں.آپ نے ہرقوم کے افراد کودعوت الہی میں شامل ہونے کیلئے بلایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ سب نبی اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے مگر میں سب اقوام کی طرف بھیجا گیا ہوں.یہ نہیں کہ اسلام کسی سے کہے کہ تم ہندو ہو تمہیں عرب کی تعلیم سے کیا واسطہ بلکہ آپ وہ نور لائے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ وجس کا مشرق و مغرب سے کوئی تعلق نہیں.اس رنگ میں بھی آپ نے مظہرِ رَبُّ الْعَلَمِينَ ہونے کا ثبوت دیا.حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی کہ مجھے اپنی تعلیم سکھائیے مگر آپ کی تعلیم چونکہ محدود طبقہ کیلئے تھی اور وہ عورت اس حلقہ سے باہر تھی اس لئے آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اپنے موتی سؤروں کے آگے نہیں ڈال سکتا.اور بچوں کی روٹی چھین کر گتوں کو نہیں دے سکتا اسے اور اس طرح اُسے بتا دیا کہ میری تعلیم محدود ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم کو سب مخلوقات کے لئے عام کر دیا اور اس طرح آپ رَبُّ الْعَلَمِینَ کے مظہر اتم ٹھہرے.غرضیکہ جسمانی اور روحانی دونوں حالتوں میں بھی آپ کی ربوبیت کو عام ربوبیت عام پاؤ گے.یہودیوں میں سو د منع ہے مگر باہم غیروں سے وہ لے لیتے ہیں." آپ نے سُود کو منع فرمایا مگر سب کے لئے.آپ نے حکم دیا کہ اگر کسی مسکین کو حاجت ہے تو اسے سود پر روپیہ دینا ظلم ہے " گویا جسمانی طریق پر بھی آپ نے امتیاز نہیں رکھا.گوافسوس ہے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے پیدا ہو گئے جو غیروں سے دھوکا جائز سمجھتے ہیں.بعض مولویوں نے فتوی دے رکھا ہے کہ کافر سے سود لینا جائز ہے حالانکہ جب کوئی شخص رحم کا
۱۸۳ انوار العلوم جلد ۱۳ أسوة كامل محتاج ہے تو خواہ وہ کسی قوم کا ہو اس پر رحم کرنا چاہیئے اور دھوکا وفریب اگر بُرا ہے تو سب کے ساتھ.یہ نہیں کہ غیروں کے ساتھ اسے جائز سمجھا جائے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ میں نے ایک شخص کو اٹھتی دی کہ چار آنے کی فلاں چیز لے آؤ.وہ تھوڑی دیر کے بعد چیز لے آیا اور اٹھتی بھی ساتھ ہی آپ کو واپس کر دی اور کہنے لگا آج کا فر کو خوب دھوکا دیا.میں نے اسے چار آنے نقد اور چار آنے کی چیز لے لی اور پھر اس سے کہا کہ فلاں چیز تمہارے پاس ہے تو دکھاؤ.یہ کوئی ایسی چیز تھی جو عام طور پر ڈ کا ندار اندر رکھتے ہیں وہ اندر سے لانے کے لئے گیا مگر اٹھتی صندوقچی کے اندر رکھنا بھول گیا اور میں نے اٹھا کر جیب میں ڈال لی.تو بعض مسلمان اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ اسلام کی تعلیم ہر گز نہیں.اسلامی تعلیم تو یہی ہے کہ سب کے ساتھ عدل وانصاف کرو.دنیوی معاملات میں یہ امتیاز نہ ہونا چاہیئے.امتیاز رنگ ونسل کی ممانعت اس کے علاوہ آپ کے نسلی اقیاز کو مٹایا.عیسائیوں کے گرجوں میں امرا ء و غرباء کی کرسیاں علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں، ہندوؤں میں کوئی اچھوت ہے اور کوئی برہمن، یہودیوں میں کوئی بنی ہارون اور کوئی بنو لا وی مگر آپ نے فرمایا کہ نسلی امتیاز کوئی ٹھے نہیں.تم میں سے جو نیکی کرے وہ بڑا اور جو شریر ہو جھوٹ بولے اور بُرے اعمال کرے وہ خواہ کسی قسم سے ہو وہ بُرا ہے.ہے مضمون تو یہ سارے مذاہب کی جزئیات پر حاوی ہے مگر اس جگہ صرف اشارات ہی کئے جاسکتے ہیں کیونکہ مغرب کا وقت ہو چکا ہے.پھر رحمانیت آتی ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ جو چیز اس نے پیدا کی ہے اس الہام الہی کے استعمال کے سامان اور ذرائع بھی مہیا کر دیئے.اس کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ کیا غیر مستحق کے کام کو چلانے کے لئے بھی آپ نے کوئی سامان کیا ہے یا کام کرنے سے پہلے اس کے چلانے کے لئے آپ نے کوئی انتظام کیا ہے.اس ضمن میں پہلی بات یہ یاد رکھنی چاہیئے کہ گسب کے بغیر جو چیز ملاتی ہے وہ الہام ہے.آپ کے زمانہ میں الہام کا دروازہ بند تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وحی کا دروازہ اب بند ہے اور الہام پہلوں پر ختم ہو چکا آئندہ نسلوں کے لئے اسے پانے کی کوئی اُمید نہ تھی.آپ نے انسانوں کے احساسات کا خیال کیا اور بتایا کہ الہام کا دروازہ اب بھی کھلا ہے.اگر کسی انسان کے اندر کسی چیز کے پانے کی اہلیت اور فطرت ہو مگر اسے خیال ہی نہ ہو کہ یہ چیز مجھے مل سکتی ہے، تو وہ اس کے لئے کیا کوشش کرے گا.کسی کے گھر میں
انوار العلوم جلد ۳ ۱۸۴ أسوة كامل خزانہ ہو مگر اسے کوئی علم تک نہ ہو تو اس سے اس کو کیا فائدہ ہوگا.پس قو تیں تو سب میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہر دماغ میں الہام پانے کی قابلیت رکھی ہے.مگر یہ ملتا اُمید اور توکل کے نتیجہ میں ہے اور آپ نے ساری دنیا کے اندر اسکی امید پیدا کی کہ اس کے لئے اب بھی الہام کا دروازہ کھلا ہے.اور یاد رکھنا چاہیئے کہ الہام کے لئے امید اور تو کل ہی دروازہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہی اس سے سلوک کرتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے.اَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بی 10 یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان ۲۵ کرتا ہے، میں اس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں.اگر وہ کہتے ہیں کہ الہام کا دروازہ بند ہے تو میں بھی کہتا ہوں کہ اچھا بند ہی سہی.اور اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا سے مل کر رہیں گے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اچھا آ ؤمل لو.آپ نے یہ روحانی امید دلائی اور توکل کا دروازہ کھول دیا.جسمانی طور پر بھی اس کی ایک مثال پیش کرتا غرباء کی امداد کا مکمل انتظام ہوں.سب مذاہب نے صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے مگر جب تک ایک نظام کے ماتحت یہ کام نہ ہو مکمل نہیں ہوسکتا.ہر کوئی کہہ دے گا کہ اچھا دیدیں گے کب دیں گئے کیا دیں گئے اس کے متعلق کوئی علم نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق ایسے قوانین دیئے ہیں کہ ہر وہ شخص جس میں طاقت اور استطاعت ہے، مجبور ہے کہ ان محتاجوں کے لئے جن کے کام کرنے کے سامان نہیں، ہر سال ایک مقررہ رقم ادا کرے جو ایک جگہ جمع ہو اور جو جملہ محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے.اس طرح غرباء کو اوپر اٹھایا جائے.اور یہ بھی رحمانیت کے ماتحت کام ہے.وقت نہیں وگر نہ اگر اس کی تفصیلات بیان کی جائیں تو معلوم ہو کہ آپ نے اس سے کس طرح چوری، ڈاکہ اور فسادات وغیرہ کا دروازہ بند کر دیا.تیسری صفت رحیمیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کام کا صفت رحیمیت کا مظہر اسم اعلی سے اعلی بدلہ دیا جائے.اچھے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے احسانات کا بدلہ دیا کرتے ہیں.مثلاً ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے جناب والا تو وہ کوشش کرے گا کہ جواب میں اس کا بدلہ ادا کرے اس لئے کہے گا آئے تشریف لائیے سر آنکھوں پر آئے.ایک کہتا ہے آپ بہت اچھے آدمی ہیں.دوسرا کہتا ہے میں کیا ہوں آپ کا مقابلہ میں کسی طرح بھی نہیں کر سکتا.مگر یہ تہذیب اسی حد تک ہے کہ اپنا نقصان نہ ہو جب ذاتی نقصان کا موقع ہو تو سب کچھ بھول جاتا ہے.دہلی والے میرزا صاحب کہلاتے ہیں اور لکھنوی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۸۵ أسوة كامل میر صاحب اور دونوں تہذیب اور وضع داری میں مشہور ہیں.کہتے ہیں کہ کسی موقع پر ایک لکھنوی میر صاحب اور دہلوی مرزا صاحب سٹیشن پر اکٹھے ہو گئے اب دونوں نے خیال کیا کہ اپنی تہذیب کا پوری طرح مظاہرہ کرنا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ دوسرا بد تہذیب سمجھے اور اس لئے گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر میر صاحب کہہ رہے ہیں کہ حضرت میرزا صاحب سوار ہو جیئے اور ساتھ جھکتے بھی جاتے ہیں.اور میر صاحب اس سے بھی زیادہ جھک کر کہہ رہے ہیں کہ آپ تشریف رکھیئے میں ناچیز پیش قدمی کرنے کا حقدار نہیں.لوگ گاڑی میں سامان لا دتے اور بیٹھتے جاتے ہیں.مگر یہ دونوں دروازے کے سامنے کھڑے اپنی تہذیب کے جو ہر دکھا رہے ہیں.لیکن جونہی گاڑی نے سیٹی بجائی ایک نے دوسرے کو وہ دھگا دیا کہ کمبخت آگے سے نہیں ہلتا گھنے بھی دیگا یا نہیں.تو جہاں قربانی کا موقع آتا ہے سب تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے نقصان اُٹھا کر ایک بدلہ رحیمیت کا نقصان اُٹھا کر بدلہ دیا ہے.ہر نبی نے آپ کے متعلق پیشگوئی کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا شخص آئے گا اور لوگوں نے ان سے فائدہ اُٹھایا ہو گا.اول تو اسلام کی تعلیم کو دیکھ کر مسلمان ہونے والوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کی تعداد جو ایسی پیشگوئیوں کی وجہ سے ایمان لائے بہت ہی کم ہے.رسول کریم ﷺ نے اپنی تعلیم اور حسنِ اخلاق سے جن لوگوں کو کھینچا؟ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.مگر پھر بھی آپ نے اپنا نقصان کر کے اس کا بدلہ ادا کیا ہے کیونکہ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ پہلے انبیاء بھی راستباز تھے تو یہ جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے کہ پھر آپ کی کیا ضرورت تھی.اگر آپ یہ کہہ دیتے کہ پہلے سب چور اور بٹما ر تھے اور میں نبی ہوں کیونکہ دنیا کو ایک نیک راہ نما کی ضرورت تھی تو آپ کے لئے بہت آسانی رہتی.مگر نہیں، آپ نے اس احسان کا بدلہ دینے کے لئے فرمایا کہ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ " ان نبیوں کے کہنے سے تو شاید اب ہیں یا سو دو سو لوگ ہی داخلِ اسلام ہوئے ہونگے مگر آپ نے کروڑ ہا انسانوں سے ان کی تقدیس منوا دی اور اس طرح اس معمولی سے احسان کا اتنا شاندار بدلہ دیا اور خود نقصان اُٹھا کر دیا.خود ان کی قوموں نے ان پر اعتراض کئے مگر آپ نے ان کو دور کیا اور فرمایا کہ ان میں عیب ظاہر کر نے والا خود عیبی ہے.غرباء کو بدلہ انبیاء کی جماعتوں میں پہلے ہمیشہ غربا ء ہی داخل ہوتے ہیں چنا نچہ ہرقل نے بھی ابوسفیان سے یہی پوچھا تھا کہ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ
انوار العلوم جلد ۳ ۱۸۶ أسوة كامل أَمْ ضُعَفَاءُهُمْ ۲۷ مگر جب جماعت قائم ہو جاتی ہے اور روپیہ وغیرہ آنے لگے تو ان کے رشتہ دار مالک بن بیٹھتے ہیں اور آپس میں بانٹ لیتے ہیں مگر آپ نے فرمایا کہ جو اموال آئیں میری اولا دخواہ غریب ہی ہو اس کا ان پر کوئی حق نہ ہوگا.غرباء نے دین کی خدمت کی تھی اور یہ رسول کریم ﷺ پر کوئی احسان نہ تھا.ظاہر میں وہ بے شک آپ کی مدد کرتے تھے مگر اصل میں یہ ان کی اپنی جانوں کی مدد تھی مگر پھر آپ نے ان کی اس برائے نام امداد کا اس قدر لحاظ کیا صلى الله کہ فرمایا کہ ہم اپنی اولاد کا حق بھی خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو ان کو دیتے ہیں.چوتھی صفت اس میں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ 19 بیان کی صفتِ مَا لِكِ يَوْمِ الرِّينَ گئی ہے اور مالک وہ ہوتا ہے جو اپنی چیز کا پہلے سے فکر کرے.نوکر تو کہہ دے گا دیکھا جائے گا مگر مالک تمام باتوں کا پہلے سے خیال کرے گا کہ کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو اور رسول کریم عل الله روحانی طور پر اس طرح ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ٹھہرے کہ جتنی غلطیاں انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں ان سے روکنے کے طریق بتائے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں.ایک بج چوری کرنے والے کو سزا دے دیتا ہے مگر ان وجوہ کو نا پید کرنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کرتا جو چوری کا باعث ہوتی ہیں.باقی مذاہب نے یہ تعلیم تو دی ہے کہ شرارت کرنے والے کو سزا دی جائے مگر آپ نے شرارت کا دروازہ بند کیا ہے.ایک طرف آپ نے استغناء پیدا کیا اور فرمایا حریص نہ ہو.پھر اس خیال سے کہ غریب احتیاج کے باعث کسی چوری وغیرہ پر مجبور نہ ہو جائے زکوۃ اور صدقات کا انتظام فرمایا.بعض مذاہب نے حکم دیا ہے کہ بد کاری نہ کرو مگر آپ نے حکم دیا کہ بدنظری نہ کرو جو بدکاری کا اصل باعث ہے اور پھر ضرورت کے نہ پورا ہو سکنے کی صورت میں انسان کو بداخلاقی سے بچانے کیلئے چار تک شادیوں کی اجازت دی اسے گویا حج والا نہیں بلکہ مالک والا معاملہ کیا.کوئی مالک یہ نہیں کرتا کہ نوکر میرے جانوروں کو مارے گا تو اسے سزا دوں گا بلکہ وہ اسے پہلے سے روکتا ہے کہ جانوروں پر سختی نہ کرنا.آپ چونکہ صفت مالک کے مظہر تھے اس لئے ہم سے زیادہ ہماری خیر خواہی کرتے تھے.ایک صحابی دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو جاگتے تھے.آپ نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے اور لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ T یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.گویا جس طرح ما لک نوکر کو کہتا ہے کہ میرے گھوڑے کو تیز مت چلا ؤ اس طرح آپ نے بھی کہا.
2 انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۸۷ أسوة كامل صفات الہی کا مکمل مظہر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس وقت اشارات کے سوا کچھ بیان کرنا ناممکن ہے اور یہ چاروں صفات آپ کے اندرا ایسے طور پر پائی جاتی ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل اکمل بلکہ مکمل انسان تھے یعنی دوسروں کو بھی کامل بنانے والے.پس ہر انسان جو خوبی اور حسن کو دیکھنے والا ہے اسے ان کی قدر کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ سے دعا آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس غرض کے لئے ہم نے یہ دن قائم کیا ہے یعنی مختلف اقوام میں محبت والفت پیدا کرنا وہ اس سے پوری طرح حاصل ہو.لوگوں کے اندر حسن کو دیکھنے کی عادت اور اہلیت پیدا ہو.حسنِ ظاہری کو تو سب دیکھتے ہیں مگر اصلی حسن کو دیکھنے والے بہت کم ہیں.اعلیٰ صداقت اور اعلیٰ اخلاق کو کوئی نہیں دیکھتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے مظہر یعنی انبیاء پیدا کئے تھے، لوگوں میں انہیں دیکھنے کی عادت نہیں.اللہ تعالیٰ اس حالت کو دور کر دے تا لوگ اس کے نور کو دیکھ سکیں.اور ہندو سکھ عیسائی زرتشتی سب میں محبت پیدا ہو وہ انبیاء کے حسن کو دیکھ سکیں.ہر قوم میں جواچھے نمونے ہیں، ان سے سبق حاصل کر سکیں.بدھ ، کرشن اور زرتشت غرضیکہ سب انبیاء کی زندگی میں ایسے واقعات ہیں جن سے مسلمان سبق حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ حسن پیدا کیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو توفیق دے کہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں.رسول کریم یہ تو سب کیلئے مطاع اور سب کی خوبیوں کے جامع ہیں.لیکن ان کے نمونے ہر قوم میں ہیں.پس ہر حسن کو دیکھو اور ہر نیکی پر نگاہ ڈالو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صلح کا شہزادہ کہا گیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ صلح کا یہی رستہ ہے.اور ہمیں بھی توفیق دے کہ دنیا میں صلح و آشتی پیدا کر سکیں اور ہر قسم کی ٹھوکروں سے محفوظ رکھے.(آمین) ( مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۳ ء قادیان) بخارى كتاب النكاح باب الاكفاء في الدين النساء : ٢ بخاری کتاب الادب باب فضُلُ صِلَةِ الرَّحِم، النساء : ۲
انوار العلوم جلد ۱۳ الاحزاب : اے ۱۸۸ بخاری کتاب الدعوات باب مَا يَقُولُ إِذَا أَتَىٰ أَهْلَهُ کنز العمال جلد ۱۶ صفحه ۵۹۹ مكتبة التراث الاسلامی حلب ایڈیشن ۱۹۷۷ء ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى النّفَقَاتِ عَلَى الْبَنَاتِ وَالْأَحْوَاتِ التحريم: 2 النساء : ٧٣ بخارى كتاب الهبة باب الهبة لِلْوَلَد و باب الاشهاد في الهبة.(مفهوماً) ال ابوداؤد كتاب البيوع باب في النهى عَنِ الْعَشَ بنی اسرائیل: ۲۴ سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب القراءة عند الميت البقرة: ١٨١ ۱۵ مسلم كتاب الوصية باب وصية الرجل مكتوبة عنده بخاری کتاب الجنائز باب مَنْ قَامَ بِجَنَازَةِ يَهُودِي كل ابوداؤد كتاب الادب باب فِي النَّهْي عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى بخارى كتاب الصلواة باب قول النبي عل الله جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَهُورًا 19 النور : ٣٦ ۲۰ متی باب ۷ : آیت ۶ ۲۲ استثناء باب ۱۳: آیت ۲۰٬۱۹ ال متی باب ۱۵: آیت ۲۶ ۲۴ الحجرات : ۱۴ ۲۵ بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى يُريدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَّمَ اللَّهِ ۲۶ فاطر: ۲۵ ۲۷ بخارى كتاب بدء الوحى بخارى كتاب الزكواة باب مَا يُذْكَرُ فى الصدقة لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالِهِ ٢٩ الفاتحة : ۳۰۴ النور : ۳۲۳۱ ا النساء: ۴ بخاری کتاب الادب باب حق الضیف میں یہ الفاظ ہیں فَانَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا أسوة كامل
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۸۹ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
۱۹۰ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء انوار العلوم جلد ۱۳ بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۳۳ء) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے پھر ہمیں یہاں جمع ہونے اور اس بات کا ذریعہ بنے کا موقع ملا ہے کہ ہر سال انہی دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند کرنے کیلئے اُس کے بندے چاروں طرف سے جمع ہو کر يَأْتِيَكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتَوْنَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍے کا نظارہ دنیا کے سامنے پیش کریں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایام جوانی میں آپ کے والد صاحب اور ہمارے دادا صاحب اکثر اوقات افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرا ایک بچہ تو لائق ہے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی اور ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب ) مگر دوسرا لڑکا ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) نالائق ہے.کوئی کام نہ اُسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے.مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے؟ یہاں سے جنوب کی طرف ایک گاؤں ہے کا ہلواں اس کا نام ہے وہاں کا ایک سکھ مجھ سے اکثر ملنے آیا کرتا تھا.اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی محبت تھی کہ باوجود سکھ ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر پر جا کر سلام کیا کرتا تھا دُعا کا طریق اِن میں نہیں.خلافت کے ابتدائی ایام میں جب کہ ۹ - ۱۰ بجے کے قریب ڈاک آیا کرتی تھی اور میں مسجد مبارک میں بیٹھ کر ڈاک دیکھا کرتا تھا ایک دن وہ سکھ اُس وقت جب کہ میں ڈاک دیکھ رہا تھا آیا اور مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر سے ہی مجھے دیکھ کر چیخ مار کر کہنے لگا آپ کی جماعت نے مجھ پر بڑا ظلم
۱۹۱ انوار العلوم جلد ۱۳ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء کیا ہے.مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اُس کے تعلقات کا علم تھا میں نے اُسے محبت سے بٹھایا اور پوچھا کیا ہوا ہے، آپ بیان کریں اگر میری جماعت کے کسی شخص نے آپ کو کسی قسم کی تکلیف اور دُکھ دیا ہے تو میں اُسے سزا دوں گا.میرے یہ کہنے پر اُس نے جودُ کھ بتا یا وہ یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی قبر پر متھا ٹیکنے کیلئے گیا تھا مگر مجھے متھا نہیں ٹیکنے دیا گیا.میں نے کہا ہمارے ہاں یہ شرک ہے اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے.اُس نے کہا اگر آپ کے مذہب میں یہ بات نا جائز ہے تو آپ نہ کریں مگر میرے مذہب سے آپ کو کیا واسطہ.مجھے کیوں نہ متھا ٹیکنے دیا جائے.جب اُس کا جوش ٹھنڈا ہوا تو کہنے لگا.ہمارا آپ کے خاندان سے پرانا تعلق ہے میرا باپ بھی آپ کے دادا صاحب کے پاس آیا کرتا تھا، ایک دفعہ جب وہ آیا تو میں اور میرا ایک بھائی بھی ساتھ تھے اُس وقت ہم چھوٹی عمر کے تھے.آپ کے دادا صاحب اُس وقت افسوس سے میرے باپ کو کہنے لگے مجھے بڑا صدمہ ہے اب میری موت کا وقت قریب ہے میں اپنے اس لڑکے کو بہت سمجھا تا ہوں کہ کوئی کام کرے مگر یہ کچھ نہیں کرتا.کیا میرے مرنے کے بعد یہ اپنے بھائی کے نگڑوں پر پڑا رہے گا ؟ پھر کہنے لگے لڑکے لڑکوں کی باتیں مان لیتے ہیں اور ہم دونوں بھائیوں سے کہا تم جا کر اسے سمجھاؤ اور پوچھو کہ اُس کی مرضی کیا ہے؟ ہم دونوں بھائی گئے دوسرے بھائی کو تو میں نے نہیں دیکھا وہ پہلے فوت ہو چکا تھا مگر جس نے یہ بیان کیا وہ مجھ سے ملتا رہتا تھا، اُس نے بتایا ہم آپ کے والد صاحب کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ آپ کے باپ کو شکوہ ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے نہ کوئی ملازمت کرنا چاہتے ہیں اس سے اُن کے دل پر بہت صدمہ ہے.آپ ہمیں بتا ئیں آپ کا ارادہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات سن کر فر ما یا.بڑے مرزا صاحب خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے جس کا نوکر ہونا تھا اُس کا نوکر ہو چکا ہوں.ہم نے آ کر بڑے مرزا صاحب سے کہہ دیا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ مجھے جس کا نوکر ہونا تھا، ہو چکا.اس پر آپ کے دادا صاحب نے کہا اگر وہ کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے.پھر جب دادا صاحب فوت ہو گئے تو باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ دین کی طرف اس قدر تھی کہ بڑے بھائی سے جائداد وغیرہ کے متعلق کوئی سوال نہ کیا.آپ دن رات مسجد میں پڑے رہتے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا.آپ فرمایا کرتے تھے اُن دنوں میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیا کرتا اور آخری عمر تک باوجود یکہ بڑھا پا آ گیا تھا آپ کو چنوں کا شوق رہا اور شاید یہ ورثہ کا شوق ہے جو مجھے بھی ہے اور مجھے -
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۹۲ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء دنیا کی بہت سی نعمتوں کے مقابلہ میں چنے اچھے لگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے کہ میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیتا اور جب کئی دفعہ گھر سے کھانا نہ آتا اور میں پوشیدہ طور پر روزے رکھتا تو چنوں پر گزارہ کر لیا کرتا تھا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھ ماہ تیک متواتر روزے رکھے.اس عرصہ میں بسا اوقات دو پیسے کے چنے بھنوا کر آپ رکھ لیتے.تبلیغ اسلام کا شوق آپ کو شروع سے ہی تھا.ہندولڑکوں کو آپ اپنے پاس جمع کر لیتے اور اُن سے مذہبی گفتگو کرتے رہتے.حافظ معین الدین صاحب جو آپ کے خادم تھے اور نا بینا تھے فرمایا کرتے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب گھر سے کھانا لانے کیلئے بھیجتے تو بعض اوقات اندر سے عورتیں کہہ دیا کرتیں کہ انہیں تو ہر وقت مہمان نوازی کی فکر رہتی ہے ہمارے پاس کھانا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کرتے.اس حالت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے.آج کی حالت تو آپ کے سامنے نہ تھی مگر جو حالت تھی اسے پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے ایک عربی شعر میں وہ نقشہ کھینچا ہے.فرمایا.لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرُتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِى یعنی اے لوگو! ایک وقت وہ تھا کہ دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے مجھے ملتے تھے مگر اب یہ حالت ہے کہ سینکڑوں خاندانوں کو خدا تعالیٰ میرے ذریعہ رزق دے رہا ہے.گجا وہ وقت جب کہ حافظ معین الدین صاحب مرحوم کی روایت کے مطابق جب کوئی مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آتا تو گھر کی مستورات اُسے بوجھ سمجھتیں اور کھانا دینے سے انکار کر دیتیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو باوجود اس کے کہ چھ ماہ تک آٹھ پہرے روزے رکھتے اپنا کھانا مہمان کو دے کر اس حالت کی پردہ پوشی کرنی پڑتی اور گجا یہ وقت کہ آج ہزار ہا آدمی ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے یہاں آتے ہیں اور اُن کا رزق اُن کے آنے سے پہلے ہی یہاں پہنچ جاتا ہے.رات اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں ایک منٹ کے لئے بھی اس لنگر خانہ کی آگ سرد نہیں ہوتی.جس کی خبر اس انسان کو دی گئی تھی جسے شام کے وقت آٹھ پہرہ روزہ افطار کرنے کیلئے بھی روٹی نہ ملتی تھی..جانتے ہو یہ حالت کس طرح پیدا ہوئی یہ تغیر کس طرح رونما ہوا ؟ یہ تغیر انسانی تدابیر کی وجہ
انوار العلوم جلد ۳ ١٩٣ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء سے نہیں ہوا اور نہ یہ حالت انسانی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ تم خیال کرو تم بھی کچھ تدبیریں کر لو گے اور موجودہ حالت کو نہ صرف قائم رکھ سکو گے بلکہ بڑھا لو گے یاد رکھو اس بارے میں کوئی انسانی تدبیر کام نہیں دے سکتی، کوئی انسانی جدوجہد کام نہیں آسکتی.صرف ایک ہی چیز ہے جس سے آج کی ساری رونق قائم ہے اور جس سے یہ رونق ترقی کر سکتی ہے اور یہ چیز تقویٰ اللہ ہے.خدا تعالیٰ پر کامل تو کل اور وثوق ہے.خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا.تیروں سے زیادہ نشانہ پر بیٹھتی ہیں.تلوار سے زیادہ کاری ہوتی ہیں اور توپوں سے زیادہ روکوں کو اڑا دینے والی ہیں.میرے دوستو! غور تو کرو.اگر اِس بزرگ کی گوشہ تنہائی کی دعا ئیں جب ہمیں یہ دن نصیب کر سکتی ہیں تو کیا ہم اس کی کچی اتباع کرتے ہوئے اور اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری کریں، اُس کے آگے گڑ گڑائیں، اُس سے مدد طلب کریں تو ہماری چیخ و پکار خدا تعالیٰ کے عرش پر جانے کی بجائے ناکام واپس آ جائے گی اور نئی دنیا پیدا کر نے کے قابل نہ ہوگی ؟ میں نہ تو وعظ کی کوئی حقیقت سمجھتا ہوں نہ تدابیر کے نتائج جانتا ہوں میں تو یہ جانتا ہوں کہ آزمایا ہوا نسخہ چھوڑ نا نادانی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں.اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما ہم اور ہزاروں تدابیر کرتے ہیں.مگر آؤ! وہ نسخہ جس کے پھل ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں وہ بھی آزمائیں بلکہ وہی آزمائیں.خدا تعالیٰ کے آگے عاجزی اور انکسار سے گر جائیں اور کہیں ہمیں طاقت عطا کر کہ ہم بے طاقت ہیں، ہم اُس سے مدد مانگیں اور التجا کریں کہ ہماری کمزوریوں کو دُور کر دئے ہم اُس کے آستانے پر گر میں اور اپنے نفسوں کو ذبح کر کے اُس سے دائمی حیات طلب کریں.یاد رکھو جو اُس کے آگے گر جائے اُسے وہ رڈ نہیں کرتا.لوگ کہتے ہیں میں نہیں جانتا، میں نے تو چڑیا گھر سے باہر شیر نہیں دیکھا کہ جو شیر کے آگے گر جائے اُس پر شیر حملہ نہیں کرتا.اگر یہ درست ہے تو وہ جو شیروں کا پیدا کرنے والا خدا ہے اُس کے آگے بجز اور انکسار سے گرنے والے کی پکاروہ کیوں نہ سنے گا.ہمارے سپر دنہایت ہی عظیم الشان کام کیا گیا ہے.ایسا عظیم الشان جو دل کو پلا دینے والا ہے، جس کا قیاس بھی دل کو بٹھا دیتا اور جس کا خیال بھی لرزہ براندام کر دیتا ہے.ایک نعمت تھی جو آسمان سے اُتری ایک نو ر تھا جو عرش سے نازل کیا گیا مگر دنیا نے اُس کو دیکھا نہیں، اُسے سمجھا نہیں، اُس کی قدر نہیں کی بلکہ آج دنیا کے نزدیک ( نَعُوذُ بِاللهِ) بدترین وجودہ وہی وجود ہے جسے خدا تعالیٰ نے سب کا سردار بنا کر بھیجا.یعنی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۹۴ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء م مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.ہر مذہب وملت کے لوگوں کو اگر گالیاں دینے کی سوجھتی ہے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو اس کے لئے چن لیتے ہیں.اس کے بعد دوسرا بدترین وجود ( نَعُوذُ بِاللهِ ) وہ ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کو قائم کیا.کوئی گالی اور کوئی بُرا کلمہ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف استعمال نہ کیا جا تا ہو اور اس سے ہمارے سینوں کو چھلنی اور ہمارے قلوب کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا جاتا ہو.اس کے مقابلہ میں ہمارے پاس کیا ہے جس سے دنیا کے دلوں کو صاف کر کے اور لوگوں کی آنکھوں کو منور کر کے اس قابل بنا سکیں کہ وہ صداقت کو قبول کر لیں.ہم تو ان لوگوں کے لئے بددعا بھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارا فرض قراردیا گیا ہے کہ ہم ان کی اصلاح کی کوشش کریں اس وجہ سے ہماری حالت ” گوئم مشکل وگر نہ گوئم مشکل کی مصداق ہے یہ دنیا نہ تو ہمارے لئے رہنے کی جگہ ہے اور نہ چھوڑنے کی.پس آؤ خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اُس سے مدد طلب کریں.وعظ بھی ہوتے رہیں گے اور لیکچر بھی ہو جائیں گے مگر آؤ سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں اور کہیں خدایا! یہ ہمارے لئے نہایت ہی بے کسی اور بے بسی کا زمانہ ہے.جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق اس کے کرنے کی ہم کوشش کرتے ہیں مگر یہ ہماری ہمت اور طاقت کے کرنے کا کام نہیں ہے.ہم تو اپنی جانوں کو بھی سہارا نہیں دے سکتے گجا دوسروں کو سہارا دے سکیں.پس اے ازلی ابدی خدا ! آسمانوں سے اتر اور ہمارے بازوؤں میں طاقت عطا فرما اور ہمیں سہارا دے.اے رحمن ! جس نے بیان اُتارا ہمارے قلوب کو طاقت دے.اے قدوس خدا! ہمیں پاکیزگی کی چادر پہنا، ہماری کمزوریوں کو دور کر اور ہمارے نقائص کو مٹادے تا کہ ہم کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہوں.اے بادشاہ! جہاں دنیا اپنی خوبصورتی سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ہمیں بھی کھینچتی رہتی ہے اپنی خوبصورتی کو ظاہر کر دے اور اپنا ایسا جلوہ دکھا کہ لوگوں کے قلوب اس طرف مائل ہو جائیں.اے خدا! ہر دل اور ہر قلب میں تیری محبت ہو ہم تیرے نام کو روشن کرنے والے ہوں اور ہمارے وجود بھی روشن ہوں.اے ہمارے رب ! وہ لوگ جو تیرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتے اور تیرے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور ہمارا دل دُکھاتے ہیں اُن کے قلوب میں بھی ایسا تغیر پیدا کر دے کہ ہم انہی کے منہ سے درود و صلوۃ سنیں.اے خدا! دشمنوں کو دوست بنادینا تیرا ہی کام ہے تو آ اور ہمارے دشمنوں کو ہمارا دوست بنا دے اور اگر ہمارے دل میں کسی کے متعلق
انوارالعلوم جلد ۱۳ ۱۹۵ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء کینہ و کپٹ ہو تو اُس کو دور کر دے.پس آؤ ہم اس نسخہ کو آزمائیں.یعنی خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور اسی سے ہر قسم کی مدد چاہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے دن ہیں.اس موقع پر میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آجکل رمضان کے دن ہیں اِس وجہ سے یہاں کے دوست دن رات کام کر رہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے بھی رات کے دو بجے اُٹھتے ہیں کیونکہ مہمان روزے بھی رکھتے ہیں اور ان کو سحری کے وقت کھانا کھلانا ہوتا ہے باہر سے آنے والے دوست جہاں کوئی کوتاہی دیکھیں درگزر کریں اور اگر قابل اصلاح سمجھیں تو لکھ کر اور اوپر یہ الفاظ درج کر کے کہ شکایت متعلق انتظام جلسہ میرے دفتر میں جس وقت بھی چاہیں دے دیں وہ مجھے پہنچ جائے گی اور اس کے متعلق ہر ممکن اصلاح کی کوشش کی جائے گی.میں نے پہلے کسی جلسہ کے موقع پر جلسہ میں کام کرنے والوں کی بریت نہیں کی لیکن اب کے کرتا ہوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ سردی کی شدت اور کام کی کثرت کی وجہ سے کوئی جان نہ جاتی رہے.جس قدر کام کا بوجھ اِن دنوں پڑ رہا ہے وہ انسانی طاقت کے لحاظ سے نا قابل برداشت ہے مگر خدا تعالیٰ ہی ہمت دیتا ہے اور کام کرنے والے بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی خدمت کرتا ہوا فوت ہو گیا تو اُسے شہادت کا درجہ مل گیا اور جو زندہ رہے تو ثواب حاصل ہو گیا اور میں کچھ نہیں کہتا صرف یہی کہتا ہوں کہ سب دوست خلوص اور دردِ دل سے میرے ساتھ مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں کی صفائی کرے اور ہمیں دوسروں کے دلوں کی صفائی کرنے کی توفیق عطا کرے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس کام کے اہل نہیں ہیں.جب خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے تو ہم میں کوئی اہلیت ہو گی تبھی سپرد کیا ہے مگر ہمیں وہ اہلیت نہیں کہ کن الفاظ میں ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس اہلیت کو نمایاں کر دے اور ہماری کوششوں کو بار آور کرئے دکھ اور تکلیف کے دن دور ہو جائیں، دنیا کی موجودہ حالت بدل جائے اور اس کے بندے حقیقت میں اس کے بندے ہو جائیں.(اس کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت دعا کروائی.) ا تذکرہ صفحہ ۵۰.ایڈیشن چہارم ے آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۶ (الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۳۳ء)
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۹۶ مستورات سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی مستورات سے خطاب
۱۹۷ مستورات سے خطاب انوار العلوم جلد ۱۳ بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مستورات سے خطاب (فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۳۳ء بر موقع جلسه سالانه) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ کی آواز چونکہ بلند ہے اس لئے وہ سٹیج کے چاروں طرف کہہ دیں کہ چونکہ میں ابھی کل ہی انفلوئنزا کے باعث بستر سے اُٹھا ہوں اس لئے بلند آواز سے نہیں بول سکوں گا اگر وہ خاموشی سے سُن لیں تو بہتر ہے.جن کو آواز نہ پہنچے وہ بھی اگر خاموشی سے سنیں گی اور تقریر کے دوران خاموش رہیں گی تو کم از کم ثواب ہی حاصل کریں گی.فرمایا:.ہر زمانہ میں جو گزرا ہے مرد ہو یا عورت یہ خیال کرتے رہے کہ اپنے آپ کو بلند مرتبہ یا بڑائی کے اظہار کیلئے خوبصورت بنائے رکھیں اور نہیں تو اپنے جسم کو ہی سُرمہ سے گود دیں یا عمارتیں ایسی بلند بنا ئیں کہ خوبصورتی اور تفاخر کا اظہار ہو اور اسی کو فخر یا بلندی مرتبہ کا معیار رکھا.چنانچہ دہلی، بغدادا اور قرطبہ وغیرہ میں ایسی عمارتیں بکثرت تھیں اور ہیں.بعض گانا بجانا ہی خوبی سمجھتے تھے بعض ممالک میں لباس اعلیٰ اور خوبصورت پسند کیا جاتا تھا.چنانچہ بعض لوگ شلوار میں ۴۰ ، ۵۰ گز کی پہنتے تھے.ایک زمانہ ہندوستان پر بھی ایسا آیا کہ لباس تفاخرانہ پہنتے اور موجودہ شلواروں یا پاجاموں کو بُرا جانتے تھے مگر رفتہ رفتہ فیشن اور کا اور ہو گیا.غرض ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی بڑائی اور نئی ایجاد کا طریقہ نکلتا رہا.چنانچہ آجکل ہمارے ملک میں بھی اعلیٰ تعلیم پانے کا فیشن ہے اور ڈگریاں حاصل کرنے کا بھی.میں نہیں سمجھتا کہ سکندر یا تیمور کوملک فتح کرنے کا اتنا شوق ہو گا جتنا کہ آج کل کے ماں باپ لڑکیوں کو اعلیٰ ڈگریاں دلانے کے شائق ہیں.یہ ایک فیشن ہو گیا ہے
انوار العلوم جلد ۳ ۱۹۸ مستورات سے خطاب جو انگریزوں کی ریس اور تقلید میں ہے اور اس فیشن کی روجنون کی حد تک پہنچ چکی ہے اور ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کی ریس سے لڑکیوں کے ڈگریاں حاصل کرنے کی ترقی ہو رہی ہے اور سی بھی ایک جنون ہے.پہلے جنون تھا جہالت کا اور اب جنون ہے موجودہ طریق تعلیم کا.حالانکہ یہ بھی ایک جہالت ہے.دوسرے ممالک والے انگریزوں کو دیوا نہ علم قرار دیتے ہیں مگر وہ غلط سمجھتے ہیں.انگریز قوم علم جہالت کے لئے نہیں سیکھتی بلکہ وہ ضرورت کے ماتحت مفید علم سیکھتی ہے اور اپنے ملک وملت کیلئے مفید اور فیض رساں ہوتی ہے.اگر چہ ہمارے ملک کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ریں تو پیدا ہو رہی ہے مگر نقصان کرنے کیلئے.ابھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا کہ ایک شخص نے یورپ میں اپنے لڑکے کو اعلیٰ تعلیم پانے کیلئے کالج میں بھیجا مگر کہا کہ خود کما کر اور خرچ مہیا کر کے ڈگری لو ہمارے پاس تمہیں دینے کو روپے نہیں ہیں.تو یہ ایک مفید بات ہوئی.مال ضائع نہیں کیا گیا بلکہ بچے کو اپنی قوت باز و پر انحصار رکھنے کی تلقین کی گئی.آج کل عورتوں میں ڈگریاں پانے کا جنون پیدا ہور ہا ہے.وہ بجھتی ہیں کہ ہم مہذب نہیں کہلاسکتیں جب تک کہ کوئی علمی ڈگری ہمارے پاس نہ ہو مگر یہ ان کی جہالت کا ثبوت ہے.میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنی جماعت کی عورتوں کو جہاں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دوں وہاں یہ بھی بتاؤں کہ کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے.ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی نعمت دی ہے.بعض کی آواز اچھی ہوتی ہے اور بعض کی تحریر.بے شک تحریر بھی اچھی چیز ہے اس کے ذریعہ سے انسان ہزاروں میل پر اثر پیدا کر سکتا ہے اور اظہار مدعا کا یہ بہترین طریق ہے.پھر عورتوں کیلئے میں ایک آسان مثال دیتا ہوں.پہلے سوئی استعمال ہوتی تھی لیکن اب سلائی کی مشین سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے.پس علم کے معنی ہیں اپنی طاقتوں کو وسیع کرنا اور ضرورت کے مطابق اپنی زندگی کے آرام و آسائش کی چیزیں مہیا کر لینا اور اچھی چیزوں سے فائدہ اُٹھانا اور اُسے اپنی قوم اور مذہب کیلئے مفید بنانا.علم دو قسم کا ہے.علم الادیان جس سے دین کو فائدہ پہنچتا ہے اور علم الا بد ان جس سے جسم کو فائدہ پہنچتا ہے ان دونوں چیزوں کا نام علم ہے اور کسی دوسری ھے کا نہیں.مثلاً ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا ؟ مرد تو ایسا علم سیکھنے کیلئے مجبور ہے کیونکہ اس نے روزی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۱۹۹ مستورات سے خطاب پیدا کرنی ہے مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ علم نہیں یہ جہالت ہے.عورتوں کا کام ہے گھر کا انتظام اور بچوں کی پرورش مگر لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز کو اچھی جانتے ہیں اور اپنی شے پسند نہیں کرتے اس لئے یورپ کی عورتوں کی ریس کر کے ہماری مسلمان قوم اپنی لڑکیوں کو ڈگریاں دلانا چاہتی ہے حالانکہ عورت گھر کی سلطنت کی ایک مالکہ ہے اور ایک فوجی محکمہ کی گویا آفیسر ہے کیونکہ اس نے پرورش اولا د کرنی ہے.عورتیں سمجھتی ہیں کہ مردوں کے کام شاید زیادہ سہولت اور عزت کے ہیں اور کالجوں میں پڑھنا اور ڈگری پانا کوئی آسان امر ہے اور یہ اعزاز کا موجب ہے.لیکن اگر عورتوں نے مردوں کا کام لے لیا اور مردوں نے عورتوں کا تو یہ ایک ذلت ہوگی.کوئی زمانہ تھا کہ لکھنو میں شاعر بھی زنانہ پن سے شعر کہنے لگے اور عورتوں کی زبان اختیار کی مگر دیکھو اودھ کے بادشاہ جب نسوانی باتیں سیکھنے لگے تو سلطنت کھو دی.ہندوستان کے مسلمانوں کے بچے اس لئے خراب ہیں کہ مائیں نالائق ہیں.ان کو تربیت نہیں آتی.میں ولایت گیا تو جہاز پر ایک انگریزی طرز رہائش کا ہندوستانی تعلیم یافتہ دیکھا جو بالکل یورپ کا تمدن رکھتا تھا.حتی کہ اپنی ہندوستانی زبان کا ایک لفظ بھی اُسے نہ آتا تھا.تو یہ ہے ڈگریاں پانے کا نتیجہ.گویا وہ ہندوستان سے ایک طرح بالکل الگ ہو گیا.تو ہمارے ملک میں اگر کسی کو کھانے پینے کو مل جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں دوسروں سے الگ ہوں.انگریزوں کے ملک میں یہ دستور نہیں کیونکہ وہ لوگ علم سے فائدہ اُٹھاتے ہیں نہ کہ بجائے قوم کو فائدہ پہنچانے کے الگ رہ کر نقصان پہنچاتے ہیں.دیکھو ہماری سٹیج پر ہی یہ بات ہوئی ہے کہ لوگوں کو یہ فخر ہو گیا ہے کہ وہ حج کی بیوی یا بیرسٹر کی ماں یا ڈ پٹی کی بیوی ہیں اس لئے انہیں اونچی جگہ ملنی چاہئے حالانکہ ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے تھا کہ فلاں بہن چونکہ پریذیڈنٹ ہے یا سیکرٹری ہے یا قومی کارکن ہے اس لئے ان کا یہاں ہونا ضروری ہے.دنیا میں عزت پیسوں سے نہیں ہوا کرتی.روپے ملنے سے آدمی بڑا نہیں بن جایا کرتا اور کوئی آدمی نہ تو اعلیٰ بھڑکدار لباس پہننے سے یا بیش قیمت زیورات پہن لینے سے قدر پاتا ہے بلکہ سچی تعلیم انسان کے اندر وقار پیدا کرتی ہے.قابلِ عزت وہی ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ ہو.رگری ہوئی قوموں میں اچھے کپڑوں کا بے شک لحاظ کیا جاتا ہے مگر اصل نیک لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا.حضرت شیخ سعدی کا قصہ آتا ہے کہ ایک امیرانہ دعوت میں اُن کی عزت نہ ہوئی کیونکہ وہ
۲۰۰ انوار العلوم جلد ۱۳ مستورات سے خطاب سادہ لباس پہنا کرتے تھے.دوسرے دن جب کہ وہ اعلیٰ لباس پہن کر گئے تو عزت کی اونچی جگہ دی گئی اور آپ نے اپنے کپڑوں کو کھلانا شروع کیا.جب لوگوں نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میری نہیں بلکہ میرے لباس کی عزت کی گئی ہے.ہندوستان میں یہ جو بڑے بڑے حج اور گورنر ہیں ان کو اپنے بڑے لوگوں میں کوئی پوچھتا بھی نہیں.ایک فنانشل کمشنر تھا اُس نے تصویر کھنچوانے کے وقت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے پیچھے کھڑا ہونے کی اجازت حاصل کی حالانکہ وہ ہمارے ہندوستان میں جب حاکم تھا بہت جابر اور اعلیٰ عزت کا مالک تھا کیونکہ تنخواہ زیادہ تھی اور لوگ زیادہ پیسوں والے کی عزت کرتے ہیں.مگر یہ غلط ہے دولت سے عزت حاصل نہیں ہوتی.خیر ہماری جماعت میں تو ابھی یہ دنیوی عزت آئی ہی نہیں عزت ابھی کہاں.یاد رکھو حقیقی عزت، روحانیت سے، نیکی ، تقویٰ اور طہارت سے پیدا ہوتی ہے.ترقی کرنے کا ذریعہ ہی نیک عملی ہے.عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے.دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے جس سے قوم اور ملت کو فائدہ ہو.تم میں سے کتنی ہیں جو خدمت دین اور تبلیغ اسلام کرتی ہیں.پس خدا اور رسول کی باتیں سنو.حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو ناولوں اور رسالوں کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی ہے لیکن دینی کتابوں کیلئے وقت نہیں ملتا ؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ آب انگریز تو مسلمان ہو کر اردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں مگر ہماری عورتیں اردو نہیں سیکھتیں اور اگر کچھ مشد بد پڑھ لیتی ہیں تو ناول پڑھنے شروع کر دیتی ہیں.علم دین سیکھو، قرآن پڑھو، حدیث پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں علم و حکمت کی باتیں لکھی ہیں ان سے مفید علم سیکھو، بی اے، ایم.اے کی ڈگریاں لینی دین کیلئے مفید نہیں ہیں.پچھلے سال ایک لڑکی جو بی.اے میں تعلیم پاتی تھی اُسے کہا گیا کہ اپنی ہمجولیوں میں تبلیغ احمدیت کیا کرو اُس نے جواب دیا کہ میں آپس میں تفرقہ ڈالنا پسند نہیں کرتی مگر وہ عالم نہیں جاہل تھی.اب کیا فائدہ دیا اُسے ایسے علم نے ؟ اگر بعض باتیں سیکھنے کا نام علم ہے تو کیا بعض باتیں لوہاروں اور تر کھانوں کو نہیں آتیں ؟ علم کے معنی ہیں اپنے مطلب کی چیزوں کو حاصل کرنا.ضرورت پوری کرنے والی ھے کا نام علم ہے.ایک بی.اے کو فوج میں بھرتی نہ کیا گیا اس لئے کہ وہ فوجی کرتبوں سے ناواقف تھا اور وہ فوجی لوگوں کا علم نہیں جانتا تھا.ایک طبیب اگر موسیقی جانتا ہے تو اسے لائق کون کہے گا.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۱ مستورات سے خطاب پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے؟ ہمیں عالم دین کی ضرورت ہے.کوئی لڑکی اگر ایم.اے پاس کر لے اور اُس کو تربیت اولاد یا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے.ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے.جو حدیث پڑھے ، قرآن کریم پڑھے وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے.اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تا کہ وہ مدرس بن سکے یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے لیکن باقی سب علم لغو ہیں.میں کہتا ہوں بی.اے ایم.اے ہو کر کرو گی کیا ؟ میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتا ہوں کہ دین سیکھو اور روحانی علم حاصل کر و.حضرت رابعہ بصری یا عائشہ صدیقہ کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں دیکھو حضرت عائشہ نے علم دین سیکھا اور وہ نصف دین کی مالک ہیں.مسئلہ نبوت میں جب ہمیں ایک حدیث کی ضرورت ہوئی تو ہم کہتے ہیں کہ جاؤ عائشہ سے سیکھو.شیر محمد ایک یکہ بان ان پڑھ جاہل تھا مگر تبلیغ کرنے کا اُسے سلیقہ آتا تھا.جب یکہ چلانے بیٹھتا تو ایک کتاب حضرت صاحب کی ہاتھ میں لے لیتا اور کسی پاس بیٹھے ہوئے کو کہتا کہ مجھے سناؤ.اس طرح سے وہ تبلیغ کرتا تھا.غرض جاہل، ان پڑھ اگر مطلب کی مفید باتیں جانتا ہے تو وہ عالم ہے جاہل نہیں ہے.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ خدمت دین میں ترقی علم کا راز ہے.امیرانسان ، تکبر سے نہیں ہوتا نہ روپے سے بلکہ سچے علم سے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم سب کو سچا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تم حقیقی علم حاصل کرو.مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ ء )
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۲ اہم اور ضروری امور از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة أسبح الثانی اہم اور ضروری امور
انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اہم اور ضروری امور (فرموده ۲۷.دسمبر ۱۹۳۳ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.برادران ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ اپنی صحت کے متعلق انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے ارادوں کو نہیں جان سکتا.اس سال نومبر کے مہینہ میں دو دفعہ مجھے انفلوئنزا کی شکایت ہوئی مگر میں نے اُس وقت چونکہ تمام ملک میں بخار پھیلا ہوا تھا اس تکلیف کو زیادہ محسوس نہ کیا کیونکہ کہتے ہیں ”مرگ انبوہ جتنے دارو اور یوں بھی اس دفعہ دیکھا کہ باوجود دو دفعہ تیز بخار آنے کے بخار نے جلدی چھوڑ دیا اور جلد طبیعت صحت کی طرف عود کر آئی.کئی سال سے صحت کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ تھوڑے، بعض دفعہ زیادہ رمضان کے روزے رہ جاتے تھے اس دفعہ جب رمضان آیا تو مجھے اپنے اندر طاقت زیادہ محسوس ہوئی اور میں نے کہا کہ جہاں تک اجتہاد انتہائی حد کو پہنچ سکے اس کے مطابق سارے روزے رکھنے کی کوشش کروں گا اور ایک روزہ بھی نہ چھوڑوں گا.مگر انسان خیال کچھ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہوتی ہے.دوسرے روزہ کے خاتمہ پر ابھی روزہ کھولا ہی تھا کہ سخت سردی محسوس ہونے لگی اتنی سخت کہ گزشتہ بیماریوں میں مجھے یاد نہیں کبھی اتنی سخت سردی لگی ہو.سردی صبح تک لگتی رہی اور گرم بوتلوں کے رکھنے سے بھی کم نہ ہوئی.صبح کو بخار ہو گیا جو ۱۰۳ درجہ سے بھی اوپر تھا ساتھ ہی اس قدر شدید در دیر ہو گیا کہ پہلے کبھی اس کا بھی تجربہ نہ ہوا تھا.جس طرح اُس دن کی سردی میرے لئے بے مثال تھی، اُس دن در دسر بھی میرے نزدیک بے مثال تھا.تین چار دن کے بعد حرارت تو جاتی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۴ اہم اور ضروری امور رہی مگر ضعف اس قدر ہو گیا کہ میں گل صبح تک سمجھتا تھا اس دفعہ میرے لئے جلسہ میں بولنا مشکل ہوگا خصوصاً اس وجہ سے کہ سر کے درد کا کچھ حصہ باقی تھا اور ذراسی حرکت کرنے حتی کہ بات کرنے کیلئے ذرا سر موڑنے پر بھی گڈی میں ٹھیس پڑتی تھی مگر جس طرح میں نے خیال کیا تھا کہ شاید اب کے کوئی روزہ بھی نہ چھوڑنا پڑے کیونکہ مجھے اپنے جسم میں گزشتہ سالوں کے رمضان کی نسبت زیادہ طاقت محسوس ہوتی تھی اور میرا یہ خیال غلط نکلا اسی طرح با وجود اس کے کہ رات کو بہت دیر تک احباب سے ملاقاتوں میں مصروف رہا، آج صبح سے یکدم در دسر دُور ہو گیا اور میں نے محسوس کیا کہ اب میں جلسہ میں تقریر کرنے سے محروم نہ رہوں گا.گو گلے کی خرابی باقی ہے اور صبح عورتوں میں تقریر کرنے کی وجہ سے اس میں زیادتی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی آج صبح سے صحت میں ایسا غیر معمولی طور پر افاقہ ہو گیا ہے کہ پہلے اس کے متعلق میں قیاس بھی نہ کر سکتا تھا اور اس طرح مجھے اس وقت تقریر کرنے کا موقع مل گیا ہے.پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں، احباب کی توجہ ایک بات کی تحریک دعا طرف دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض دوست جو اس دفعہ جلسہ سالانہ پر نہیں آ سکے ان میں سے بعض نے تاریں بھیجی اور خطوط لکھے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے وہ بیماریوں کی وجہ سے یا اور ضروری کاموں کی وجہ سے یہاں آنے سے اس سال رُک گئے.میں اس وقت ان کے نام سنا دیتا ہوں تا کہ دوران تقریر میں جب دعا کا موقع ملے یا اختتام تقریر پر یا نمازوں میں دعا کی جائے تو ان اصحاب کو بھی یادرکھیں اور ان کیلئے دعائیں کی جائیں.ایک تار حیدر آباد دکن سے سیٹھ محمد غوث صاحب کی طرف سے آیا ہے، وہ وہاں کی جماعت کے فنانشل سیکرٹری ہیں ، سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خدام میں سے ہیں ، خدمت سلسلہ کا خاص جوش رکھتے ہیں اور اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت سے خاص خلوص ہے اور انسانی علم کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ہرا بتلاء میں حق وصداقت پر قائم رہنے والے ہیں ان کی بڑی بیٹی بیمار ہیں ، سیٹھ صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ میں آپ کی اور سلسلہ کی ہر خدمت کرنے کیلئے حاضر ہوں ، جلسہ کے موقع پر میری بیٹی کی صحت کیلئے دعا کی جائے.دوسرے عبدالحکیم صاحب نئی دہلی کے ہیں انہوں نے سب دوستوں کو تار کے ذریعہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُم لکھا ہے.وہ لکھتے ہیں بیماری کی وجہ سے میں جلسہ میں حاضر نہیں ہو سکا، میری صحت کیلئے دعا کی جائے.
۲۰۵ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور تیسرے ایک پرانے مخلصین میں سے میر سعادت علی صاحب حیدر آباد کے ہیں انہوں نے تار دیا ہے کہ ان کی بیوی بیمار ہیں اور ہسپتال میں پڑی ہیں ان کیلئے دعا کی درخواست ہے.چوتھے صاحب سکندرآباد کے سیٹھ ابراہیم صاحب سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کے ( جوکل کے ایک اجلاس کے صدر تھے ) ماموں ہیں وہ دعا کی درخواست کرتے ہیں.ان کی لڑکی بیمار ہے، اس کی صحت کے لئے درخواست دعا کرتے ہیں.گڑھی کپور کوئی جگہ ہے وہاں کے ایک صاحب محمد ابراہیم صاحب لکھتے ہیں تمام حاضرین ان کے لئے دعا کریں اور تمام دعاؤں میں یاد رکھیں.ایک دوست کے متعلق خط آیا ہے وہ پرانے صحابہ میں سے ہیں اور اپنے علاقہ کیلئے ستون ہیں بہت مخلص ہیں ، وہ بمبئی کے سیٹھ اسماعیل آدم صاحب ہیں.ان کے بچوں کے اور وہاں کی جماعت کی طرف سے بھی ان کیلئے دعا کرنے کے خطوط آتے رہے ہیں.سیٹھ صاحب بہت مخلص اور بہت خدمت کرنے والے انسان ہیں.بمبئی میں ولایت جانے والوں اور آنے والوں کی خدمت کرتے رہتے ہیں.وہ بیمار ہیں اور قرض کی وجہ سے بھی مشکلات میں مبتلا ہیں ان کیلئے بھی احباب دعا کریں.خرید وفروخت کے متعلق عام سفارش مجھ سے اس موقع پر بعض دوستوں نے سفارشات کیلئے کہا ہے میری عادت یہ ہے کہ سوائے کتابوں کے کہ وہ علمی ذخیرہ ہوتی ہیں اور ان سے جماعت کو علمی فائدہ پہنچتا ہے دوسری سفارشیں حتی المقدور نہیں کرتا.حتی المقدور میں نے اس لئے کہا ہے کہ شاید میں نے کسی وقت کسی کی کمزوری یا کسی اور بات کو دیکھ کر سفارش کر دی ہو لیکن جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے، کوئی ایسی سفارش میرے حافظہ میں نہیں ہے اس لئے میں کسی اور چیز کے متعلق سفارش تو نہیں کرتا لیکن یہ کہہ دیتا ہوں کہ ہمارا یہ عام طریق ہے اور ہر مخلص احمدی کا یہ طریق ہونا چاہئے کہ جماعت کے دوستوں سے تعاون کیا جائے اس لئے تمام وہ دوست جو تاجر ہوں دواؤں کے یا سٹیشنری کے یا اور چیزوں کے یا صنعت و حرفت کا کام کرتے ہوں جن بھائیوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہو اور جو چیزیں اپنے بھائیوں سے میسر آ سکیں وہ ان سے خرید کر ان کی مدد کرنی چاہئے.پھر جو چیزیں احمدیوں سے میسر نہ آ سکتی ہوں مگر دوسرے مسلمانوں سے مل سکتی ہوں اُن سے حاصل کریں.پھر جو چیزیں اُن سے بھی نہ مل سکیں اور غیر مسلموں سے مل سکتی ہوں وہ ایسے ہر مسلموں سے خریدی جائیں جو جماعت کی مخالفت کرنے والے نہ ہوں بلکہ جماعت سے اچھے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۶ اہم اور ضروری امور تعلقات رکھتے ہوں.غرض ہمارا عام طریق یہی ہونا چاہئے کہ ہمارا روپیہ اس طرح خرچ ہو کہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اسلام کو پہنچ سکے اور اس کے لئے یہی طریق ہو سکتا ہے کہ ہم جو ضروریات پر روپیہ خرچ کریں وہ ان لوگوں کے پاس جائے جو خدمت دین کیلئے چندے دیتے ہوں یا کم از کم ایسے ہاتھوں میں نہ جائے جو اسلام کی مخالفت کرنے والے ہوں یا کم از کم ایسے لوگوں کے پاس نہ جائے جو ہماری سیاسی طور پر مخالفت کرنے والے ہوں.پس میں یہ عام رنگ میں سفارش کر دیتا ہوں، خاص طور پر نہیں کیونکہ اس طرح بہت بڑی ذمہ واری عائد ہو جاتی ہے.کتب کے متعلق سفارش کتابوں کے متعلق میں خاص طور پر بھی سفارش کر دیا کرتا ہوں اور اب بھی کروں گا.گو کتابیں بیچنے والوں کی یہ بھی شکایت ہوتی ہے کہ با وجود سفارش کے وہ یکی نہیں.میں نہیں سمجھتا جب میری سفارش پر ان کی کتابیں پکتی نہیں تو پھر وہ مجھے سفارش کرنے کیلئے کیوں کہتے ہیں.شاید کتا بیں نہ پکنے سے ان کا یہ مطلب ہو کہ جتنی وہ چاہتے ہیں، اتنی نہیں سکتیں.اول سلسلہ کا ایک بکڈ پو ہے وہ کتا بیں شائع کرتا رہتا ہے اب کے بھی اس نے کتابیں شائع کی ہیں اس کے متعلق میں سفارش کرتا ہوں کہ اس کی شائع کردہ کتابیں خریدی جائیں.اچھوتوں کے متعلق بکڈ پونے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں اچھے حوالے درج ہیں جو اچھوتوں کیلئے بہت مفید ہیں اور بھی کتابیں شائع کی گئی ہیں، وہ خریدی جائیں.پھر کتاب گھر والے فخر الدین صاحب ہیں.وہ سلسلہ کی کتا بیں شائع کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات میں نے دیکھا ہے کہ اپنی ہمت سے بہت زیادہ بار اُٹھا کر شائع کرتے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت ان کی طرف توجہ کرے.بعض کتابیں انہوں نے بہت اچھی شائع کی ہیں اور وہ اس قابل ہیں کہ جماعت ان کی اچھی طرح اشاعت کرے.مثلاً میرے مشورہ کے بعد سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ مختلف زبانوں میں شائع کرنا شروع کیا ہے.یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور یہ وہ رتی ہے جس کے ذریعہ ہم دیگر مذاہب کے لوگوں کو ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں.اس کتاب کا سیٹھ صاحب نے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرایا ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ اور زبانوں میں بھی ترجمہ کرائیں اللہ تعالیٰ ان کے ارادہ میں برکت دے.ان کی طرف سے ہندی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۷ اہم اور ضروری امور اور گورمکھی کے ترجمے فخر الدین صاحب نے چھپوائے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمے اپنا اثر پیدا کر رہے ہیں.آج ہی سکھوں کی ایک گڈی کے مالک نے گورمکھی ترجمہ کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے ایک دوست نے وہ کتاب پڑھنے کو دی تھی جس کا میں مطالعہ کر رہا ہوں.پہلے میرے دل میں اسلام کے متعلق بہت شکوک تھے جو اب دور ہو گئے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر ان کتابوں کو مناسب طور پر ہندوؤں اور سکھوں میں تقسیم کریں تو بہت اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے.بعض لوگ جو اپنے مال کی قدر نہیں کرتے، کسی کتاب کے دس ہیں نسخے خرید لیں گے اور پھر جو سامنے آ جائے اُسے دے یں گے.یہ نہیں دیکھیں گے کہ اس میں اس کتاب سے فائدہ اُٹھانے کی قابلیت بھی ہے یا نہیں اور وہ فائدہ اُٹھانے کی خواہش بھی رکھتا ہے یا نہیں.ایسی کتابیں اُن لوگوں کو دینی چاہئیں جو ان کے مستحق ہوں اور ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.اس طرح اگر اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا ہندی اور گور مکھی ترجمہ تقسیم کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں جو تبلیغ ان قوموں کو پہنچنی چاہئے تھی مگر ابھی تک نہیں پہنچی وہ ایک حد تک پہنچ جائے اور خدا کے فضل سے ٹھوس نتیجہ بھی ان لوگوں کے مسلمان ہونے کی صورت میں نکل آئے.کتاب گھر کی ایک کتاب "حربہ تکفیر اور علمائے زمانہ ہے.مجھے اس کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا.اگر علماء کے نام اور ان کے افعال سے متأثر ہو کر اس میں سخت کلامی نہیں کی گئی تو وہ بھی خریدنی چاہئے اور دوسروں میں تقسیم کرنی چاہئے.یہ ہمارا طریق نہیں کہ سخت کلامی اور درشت بیانی سے کام لیں بلکہ چاہئے کہ جو بات بھی پیش کریں، متانت اور سنجیدگی سے پیش کریں.خواہ مخالف گالیاں ہی دیتا ہو اور بد زبانی کرتا ہو، ہم اس کی وجہ سے اپنی زبان کو کیوں گندہ کر یں.پھر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآن جمع کی ہے.میں نے وہ پڑھی نہیں تا معلوم ہو کہ کس قدر عقل اور سمجھ سے کام لے کر یہ کام کیا گیا ہے مگر اس کی اتنی جلد میں جو شائع ہوئی ہیں، تو انہوں نے اس کے لئے محنت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآن کریم کے حقائق و معارف کے متعلق اشارات ہوتے ہیں اور ان پر غور کرنے والے بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.آپ کی بیان فرمودہ تفسیر میں اتنے معارف ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ایک سطر سے کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.ایک کتاب انہوں نے میر محمد اسحق صاحب کی انسان کامل شائع کی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانِ کامل تھے.کچھ اور ٹریکٹ بھی ہیں جیسے محسن اعظم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم.66
۲۰۸ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور احباب کو چاہئے کہ یہ کتا بیں حسبِ توفیق اور حسب گنجائش ضرور خریدیں.پھر ہماری جماعت کے اخبار ” فاروق “ اور ”نور“ کے متعلق سفارش دو اخبار ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں مفید کام کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں مگر انہیں شکایت ہے کہ لوگ خرید تے نہیں.ایک کے متعلق تو میں نے ” الفضل میں پڑھا ہے کہ اس کو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے.معلوم نہیں وہ جاری ہے یا نہیں.اخبار ” نور“ سکھوں میں اچھی خدمت کرتا رہا ہے اور فاروق غیر مبائعین اور غیر احمدیوں کے متعلق اچھا کام کرتا رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں بعض مضامین جو ” فاروق‘ میں چھپے وہ الفضل میں نہ چھپ سکتے تھے.”الفضل میں عام طور پر مختصر مضامین ہوتے ہیں سوائے میرے خطبات اور مضامین وغیرہ کے.میر قاسم علی صاحب کو سلسلہ کے لٹریچر پر اچھا عبور ہے اور انہوں نے سلسلہ کا لٹریچر جمع بھی کیا ہے.شیخ یعقوب علی صاحب کے بعد میں سمجھتا ہوں وہی ہیں جنہیں سلسلہ کے لٹریچر کے حوالے بکثرت یاد ہیں.اس وجہ سے ان کے مضامین بہت جامع اور مفصل ہوتے ہیں اور بہت مفید ہوتے ہیں.مگر ان کے اخبار کی اشاعت بہت کم رہی ہے.اسی طرح اخبار نور کی اشاعت بھی کم ہے احباب کو ” فاروق اور ”نور“ کی اشاعت بڑھانا چاہئے.میں حیران ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ۴.۵.۶.۷ ہزار آدمی جماعت میں بڑھ جاتا ہے مگر باوجود اس کے ان بیچاروں کی اشاعت ۳.۴ سو سے او پر جاتی ہی نہیں.میں سمجھتا ہوں، یہ لوگوں کی غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے.دوست سمجھتے ہیں.”الفضل میں جو ضروری مصالحہ مل جاتا ہے تو کسی اور اخبار کے خریدنے کی کیا ضرورت ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ”الفضل میں بہت کچھ مصالحہ مل جاتا ہے مگر جو کام یہ اخبار کر رہے ہیں، وہ ” الفضل، نہیں کر رہا اس لئے ان اخبارات کو خریدنے کی بھی احباب کو ضرورت ہے اور ان کی ضرور مدد کرنی چاہئے.رمضان میں سالانہ جلسہ اس سال جلسہ سالانہ جیسا کہ دوست دیکھ رہے ہیں، رمضان میں ہوا ہے.اس سال کی مجلس شوری میں نمائندگان کی آراء سن کر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ایک سال رمضان میں جلسہ کر کے دیکھ لیا جائے اور پھر مشکلات کا اندازہ لگا کر آئندہ دو سالوں کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا کہ جلسہ رمضان میں ہو یا دوسرے ایام میں.احباب جلسہ کے ان دنوں کو اچھی طرح یا درکھیں تا مجلس مشاورت میں صحیح
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۰۹ اہم اور ضروری امور مشورہ دے سکیں کہ جلسہ انہی ایام میں ہو یا ان ایام کو بدل دیا جائے.جہاں تک لیکچراروں کا تعلق ہے رمضان میں اتنے لمبے لیکچر نہیں دیئے جاسکتے جتنے رمضان کے علاوہ کسی اور موقع پر دیئے جا سکتے ہیں.آج تو یہ اتفاقی بات ہے کہ بیمار ہونے کی وجہ سے میں نے روزہ نہیں رکھا.لیکن اگر مجھے روزہ ہوتا.(اور مومن کی یہی خواہش ہونی چاہئے کہ وہ سارے روزے رکھ سکے ) تو بہت جلد گلا پڑ جاتا.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں رمضان میں سالانہ جلسہ ہوا لیکن آپ کے ان ایام اور آج کے ایام میں بہت بڑا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ ہوا اس میں اتنے آدمی شریک ہوئے جتنے آج سٹیج پر بیٹھے ہیں اور اتنے آدمیوں کو انسان کرسی پر بیٹھ کر بھی لیکچر سنا سکتا ہے مگر اتنے عظیم الشان ہجوم کے سامنے بولنا جتنا کہ آج ہے، میرے لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں گلے سے چھیچھڑے نکال نکال کر پھینک رہا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اس قدر ترقی حاصل ہو چکی ہے کہ دشمن تو حیران ہے ہی، ہم خود بھی حیران ہیں.پس رمضان میں جلسہ کرنے کی وجہ سے ایک مشکل یہ ہے کہ پندرہ بیس ہزار کے اجتماع کو روزہ رکھ کر کس طرح سنایا جائے.پھر دوستوں نے دوران لیکچر میں چائے کی پیالی پر پیالی سامنے رکھ رکھ کر کچھ ایسی عادت ڈال دی ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے گلا چاہتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گرم پانی اس میں سے گزر جائے.آج کے لیکچروں کے متعلق بھی شکایت پہنچی ہے کہ ایک لیکچرار کا گلا پڑ گیا تھا حالانکہ اس کا لیکچر صرف ایک گھنٹہ تھا اور مجھے تو چار پانچ گھنٹے اور عورتوں میں جو تقریر کی جاتی ہے اسے ملا کر چھ سات گھنٹے بولنا ہوتا ہے.پس یہ ایک اہم سوال ہے جس پر غور کرنا چاہئے.مجلس شوریٰ میں کثرت رائے اس طرف تھی کہ جلسہ رمضان میں ہی ہو.میں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا تھا.اُس وقت میرے سامنے سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ میں تقریر نہیں کر سکوں گا.رمضان میں روزہ رکھ کر خطبہ جمعہ کرنے سے بھی میرا گلا پڑ جاتا ہے.پس یہ قابل غور امر ہے جلسہ کے موقع پر رات کو تقریریں ہوں ، مصر میں ایسا ہی کرتے ہیں رمضان میں رات کو جاگ کر کام کاج کرتے اور دن کو سوئے رہتے ہیں.یا تو اس طرح کام کیا جائے یا پھر زیادہ سے زیادہ گھنٹہ بھر کی تقریر ہو اس سے زیادہ نہ ہو.یہ اہم بات ہے دوست اسے مدنظر رکھیں.کچھ اور بھی تکالیف ہیں مثلا رمضان کی وجہ سے کام کرنے والوں کا کام بہت بڑھ گیا ہے.انہیں دن میں چار چار بار کھانا کھلانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے.
۲۱۰ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور قادیان آ کر روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں اسی سلسلہ میں ایک اور سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت " مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا ادھر’الفضل“ میں میرا یہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں، وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں.مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں، ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتوی الفضل میں شائع نہیں ہوا.ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا میری روایت سے چھپا ہے.اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں سفر میں روزہ رکھنے سے میں منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مرزا ایوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جب کہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہ کر روزہ کھلوادیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نا جائز ہے.اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کر کے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں.اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبد اللہ سنوری صاحب یہاں رمضان گزارنے کیلئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں.مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے اس دوران میں میں روزے رکھوں یا نہ رکھوں ؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کیلئے وطن ثانی ہے.گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اور اور لوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے.البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا.پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال
۲۱۱ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا تو ہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی فتویٰ ہے.پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قرار دیتے رہے ہیں اور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا.پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایا کہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے.اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتوی تو لے لیں اور دوسرا چھوڑ دیں.اس طرح تو وہی بات بن جاتی ہے جو کسی پٹھان کے متعلق مشہور ہے.پٹھان فقہ کے بہت پابند ہوتے ہیں.ایک پٹھان طالب علم تھا جس نے فقہ میں پڑھا تھا کہ نماز حرکت کبیرہ سے ٹوٹ جاتی ہے.جب اُس نے حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پڑھا کہ آپ نے ایک دفعہ حرکت کی تو کہنے لگا اوہ ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز ٹوٹ گیا.کیونکہ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.غرض جس نے یہ فتویٰ دیا کہ سفر میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے، اُسی نے یہ بھی فرمایا کہ قادیان احمدیوں کا وطن ثانی ہے، یہاں روزہ رکھنا جائز ہے.اس لئے یہاں روزہ رکھنا آپ ہی کے فتویٰ کے مطابق ہوا گو اس کی اور بھی وجوہات ہیں مگر انہیں بیان کرنے کا یہ وقت نہیں ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتوی بیان کر دیا ہے.ایک اور بات میں اس بارے میں بتا دیتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ جب کہ رمضان کے آخری دن چاند نہ دیکھا جا سکا اس پر آپ کو یہ الہام ہوا.عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو.اس پر بعض نے روزہ توڑ دیا کہ جب آج عید ہے تو روزہ رکھ کر کیوں شیطان بنیں.لیکن بعض نے کہا جب خدا تعالیٰ نے الہام میں کہہ دیا ہے کہ عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو اور ادھر شریعت کا حکم یہ ہے کہ چاند دیکھ کر عید کرو تو کیوں نہ روزہ رکھا جائے.دوسرے کہتے جب خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ عید ہے تو عید کے ہونے میں کیا شک رہ گیا اور کیوں روزہ رکھا جائے.دونوں فریق نے یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا اور ایک دوسرے کے متعلق بتایا.آپ نے فرمایا.جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ آج عید ہے تو جنہوں نے آج روزہ توڑ دیا میں انہیں کیا کہوں اور دوسرے جنہوں نے روزہ نہیں تو ڑا چونکہ
۲۱۲ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ عید ہے چاہے کرو چاہے نہ کرو.تو انہیں میں کیا کہوں.جب کہ خدا تعالیٰ نے عید کرنا ان کی مرضی پر چھوڑا.فقہاء نے یہی بحث کی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہئے اور چاند دیکھ کر عید کرنی چاہئے کیونکہ وہ ظاہری طور پر ہی مسئلہ بیان کر سکتے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ عید تو ہے اور ظاہری شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے کہہ دیا چاہے کرو یا نہ کرو یعنی جو یہ سمجھتا ہے کہ شریعت کے ظاہری پہلو کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس کے لئے اجازت ہے کہ مسئلہ کی ظاہری صورت پر عمل کرے اور عید نہ کرے.لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ الہام کے ذریعہ جو خبر دی گئی ہے، اس کا لحاظ رکھنا چاہئے وہ اس دن روزہ نہ رکھے.یہی بات یہاں روزہ رکھنے کے متعلق ہے.جس کے دل میں اس بات کا غلبہ ہے کہ یہ سفر ہے وہ روزہ نہ رکھے ورنہ اس پر حکم عدولی کا فتولی لازم آئے گا اور جس کے دل میں اس بات کا غلبہ ہے کہ یہ مبارک دن ہیں اور یہ مبارک مقام ہے، یہاں کیوں نہ رمضان کی برکات سے فائدہ اُٹھاؤں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اجازت دی ہے تو وہ روزہ رکھے.ورنہ خطرہ ہے کہ دل کو زنگ نہ لگ جائے.پس جو دوست یہاں ٹھہرنے کے ایام میں روزے رکھیں گئے ان کے روزے ادا ہو جائیں گے.یہ نہیں کہ یہاں جو روزے رکھیں گے وہ نفلی روزے ہوں گئے یہ روزے فرضی ہونگے اور ان دنوں کے روزے بعد میں دوبارہ نہیں رکھنے پڑیں گے.اب میں اس سال کے تبلیغ احمدیت کے کام کے تبلیغ احمدیت کے کام پر تبصرہ متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.احباب جانتے ہیں کہ اس وقت تک یوم التبلیغ دو دفعہ منایا جا چکا ہے.یعنی گذشتہ دو سال میں دو دن ایسے مقرر کئے گئے جن میں لوگوں کو سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی گئی یوم النبی ﷺ کی تقریب تو کئی سال سے منائی جارہی ہے.۱۹۲۸ء میں پہلی دفعہ یوم النبی منایا گیا تھا جس کو اب ۶ سال ہو چکے ہیں.ان جلسوں کے متعلق سالِ حال کا تجربہ پہلے سے بھی زیادہ شاندار اور امید افزا ہے.خصوصاً پنجاب کے باہر کے علاقوں میں یوم النبی ﷺ کے جلسے خاص اثر رکھتے ہیں.خاص کر بنگال میں یہ تحریک اس طرح گھر کر رہی ہے کہ ممکن ہے یہ ہند و مسلمانوں کی مشترکہ تحریک بن جائے.بڑے بڑے معزز تعلیم یافتہ اور بااثر ہندو نہ صرف پرائیویٹ گفتگو میں بلکہ پبلک تقریروں میں بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان کے متحد ہونے اور ہند و مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر تحریک اور نہیں ہو سکتی.ایک مشہور ہند ولیڈ رمسٹر پین چندر پال صاحب نے
۲۱۳ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور ایک دفعہ کہا.ہندو مسلمانوں کو اس شخص کا ممنون ہونا چاہئے جس نے یہ تحریک جاری کی ہے.اگر یہ تحریک آج سے میں سال پہلے جاری کی جاتی تو ہندو مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی یہ حالت نہ ہوتی جو اب ہے.اور اگر اس تحریک کو جاری رکھا گیا تو امید ہے کہ اہلِ ہند کے باہمی تعلقات میں خوشگوار تبدیلی پیدا ہو جائے گی.اور بھی کئی ایک بڑے بڑے لوگ اس تحریک کے مفید اثرات سے متاثر ہو چکے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ یہ تحریک عام ہو جائے.اسی طرح یوم التبلیغ کی تحریک نے بھی بہت مفید اثر پیدا کیا ہے.سوائے چند ایک مقامات کے عام طور پر نہ صرف اس کی مخالفت نہیں ہوئی، بلکہ لوگوں نے احمدیوں سے ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا اور خواہش کی کہ انہیں سلسلہ احمدیہ کے متعلق باتیں سنائی جائیں.بعض مقامات پر احمدیوں کی چائے وغیرہ سے تواضع کی گئی عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا گیا اور شوق اور دلچسپی سے باتیں سنی گئیں.ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں اور خاص کر ہندوؤں میں صلى الله رسول کریم ﷺ کی عظمت قائم کرنا اور انہیں آپ کی بے مثال خوبیوں کا معترف بنانا اور مسلمانوں میں احمدیت کی تبلیغ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے.بعض لوگ یونہی ڈرتے ہیں کہ شاید ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور انہیں کامیابی حاصل نہ ہو.ورنہ حق وصداقت کو قبول کرنے کے لئے لوگوں کے قلوب تیار کئے جارہے ہیں اور وہ بڑے شوق سے متوجہ ہو رہے ہیں.اس میں قحبہ نہیں کہ جہاں عام لوگوں کے قلوب صداقت کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں وہاں ان لوگوں کو جو لیڈر کہلاتے ہیں، یہ بات بہت بُری لگ رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عام لوگوں میں ہمیں کامیابی حاصل ہو گئی تو تمام سیاسی تحریکات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر ہند و مسلمانوں میں ہمارے ذریعہ اتحاد پیدا ہو جائے تو وہ لیڈر جن کی لیڈری کی بنیا د ہندو مسلمانوں کے تفرقہ پر قائم ہے ان کے پاس کچھ نہ رہے گا اور وہ اپنی لیڈری کو برقرار نہ رکھ سکیں گے.اس وجہ سے لیڈر کہلانے والوں میں ہماری مخالفت بڑھ رہی ہے جس کا ایک نمونہ کشمیر کمیٹی ہے.اور دوسرا سرحد ضلع ہزارہ میں ہماری مخالفت کا زور شور ہے.مگر اس سے جماعت کو گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ اپنی جد وجہد میں اور زیادہ اضافہ کر دینا چاہیئے.یاد رکھو! اللہ تعالیٰ بھی اُسی وقت مدد کرتا ہے جب بندہ حقیقی طور پر اس کی مدد کا محتاج ہوتا ہے.ہمیں اپنی طرف سے خدمت دین کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہیئے اور ہر قسم کی مخالفت اور ہر قسم کی مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے کرنی چاہیئے.اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت پر بھروسہ رکھنا چاہیئے.اس حالت میں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۱۴ اہم اور ضروری امور وہ ہماری مدد کرے گا اور ضرور کرے گا.اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہماری کامیابی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں ان سامانوں سے فائدہ اُٹھانا ہمارا کام ہے.دیکھو اگر کوئی میزبان مہمان کے لئے عمدہ بستر بچھا دے اور اس پر لحاف رکھ دئے تو یہ سمجھا جائے گا کہ اُس نے میز بانی کا سامان مہیا کر دیا.یہ نہیں امید کی جائے گی کہ میزبان مہمان کو چار پائی پر لٹا کر اس پر لحاف بھی ڈال جائے یا اگر حسب استطاعت عمدہ کھانا پکوا کر اعزاز کے ساتھ مہمان کے آگے رکھ دیا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ میزبان کو مہمان کے منہ میں تھے بھی خود ڈالنے چاہئیں.یہ مہمان پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ خود تھے اپنے منہ میں ڈالے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہماری کامیابی کے سامان مہیا کر دیئے ہیں اب اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور کہیں اللہ میاں ! آئیے اور آپ ہی سب کچھ کر کے ہمیں کامیاب بناد یجئے تو اس طرح کا میابی حاصل نہیں ہوسکتی.یہ تو وہی بات ہو گی جو کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص نہایت ضروری کام کے لئے کہیں جا ر ہا تھا.راستہ کے ایک طرف پڑے ہوئے ایک آدمی نے اُسے آواز دی کہ ذرا ادھر آنا بڑا ضروری کام ہے.جب وہ پاس گیا تو بلانے والے نے کہا: میری چھاتی پر بیر پڑا ہے' اسے اُٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.یہ سن کر اُس شخص کو غصہ آیا کہ اس بات کے لئے اس نے مجھے ضروری سفر پر جاتے ہوئے کیوں بلایا اور اُ سے بُرا بھلا کہنے لگا.تو ایک دوسرے نے جو پاس ہی پڑا تھا اُسے کہا اس پر ناراض کیا ہوتے ہو یہ ایسا ہی سُست ہے کہ کچھ بھی نہیں کرتا حتی کہ ساری رات گتا میرا منہ چاھتار ہا مگر یہ بہش تک نہ کر سکا.اگر ہم بھی اللہ تعالیٰ سے اسی طرح کام کرانا چاہیں تو وہ یہ کام نہیں کرے گا.اُس نے ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے سامان دے دیئے ہیں.ہاتھ پاؤں کان ناک آنکھیں اور دوسرے اعضاء اُس نے عطا کئے، مختلف قسم کی طاقتیں دیں، ہمارے لئے دلائل اور براہین مہیا کئے نشانات اُتارے، مختلف قسم کی ایجادیں ہمارے لئے کرائیں، ہماری ہمتوں اور طاقتوں سے بڑھ کر ہمیں اموال دیئے اب بھی اگر ہم سستی کریں اور یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ آ کر ہمارے ہاتھ پاؤں ہلانے کے بغیر ہی ہمیں کامیاب کر دے گا تو یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ اُسی وقت آتا ہے جب اسباب کام نہیں دے سکتے اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمن اُٹھے اور ہمارے کاغذ پھاڑ دے ہماری قلمیں تو ڑ دئے ہماری سیاہی گرا دے تا آسمان سے ہمارے لئے کاغذ اترے آسمان سے ہمارے لئے قلم و دوات اُترے اور آسمان سے ہمارے لئے سیاہی نازل ہو.پس اگر دوست چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے تازہ نشانات انہیں دیکھنے میں آئیں، خدا تعالیٰ کی تازہ وحی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۱۵ اہم اور ضروری امور ان پر یا ان کے بھائیوں پر نازل ہو اور خدا تعالیٰ کا تازہ عذاب ان کے دشمنوں کے لئے آئے تو انہیں اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے کہ دنیا ان کی مخالفت کرے اور شدید مخالفت کرے اتنی شدید مخالفت کہ جو ہمارے سامانوں کے مقابلہ میں بہت بڑھ جائے.اُس وقت ہماری مدد اور تائید کے لئے خدا تعالیٰ اُترے گا اُس کی نصرت کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ کی نصرت کا دیکھنا ایسی چیز ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی قربانی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.دیکھو ان دنوں ادھر ہماری مخالفت زور سے شروع ہوئی اُدھر خدا تعالیٰ نے کابل میں عظیم الشان نشان ظاہر کر دیا.میں نے اس کے متعلق ایک مضمون بھی لکھا ہے مگر یہ اتنا بڑا نشان ہے کہ اس کے کئی پہلوا بھی باقی ہیں.ہمارے ایک دوست نادر علی شاہ صاحب ہیں.ایک دفعہ وہ میرے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور آ کر کہنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ الهام که آه ! نادر شاہ کہاں گیا ہے، کیا میرے متعلق تو نہیں.میں نے کہا.آپ کا نام تو نادر علی شاہ ہے اور الہام میں نادر شاہ کا ذکر ہے کہنے لگے.شاید میرا نام مخفف کر دیا گیا ہو.تو اس الہام کے متعلق اُدھر ذہن جاہی نہیں سکتا تھا جس طرح کہ یہ پورا ہوا ہے.ایسے عظیم الشان نشان ہمیشہ مخالفتوں اور شدید مخالفتوں کے وقت خدا تعالیٰ ظاہر کیا کرتا ہے.پہلے امان اللہ خان کے متعلق نشان ظاہر کیا اُس وقت بھی سلسلہ کے خلاف بہت شورش پھیلی ہوئی تھی.پس جب بھی مخالفت ہو گی خدا تعالیٰ نشان ظاہر کرے گا اور ضروری نہیں کہ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بیان کردہ نشانات ہی پورے ہوں، خود آپ لوگوں کو الہام ہونے شروع ہو جائیں گے اور آپ لوگوں کے ذریعہ نشانات دکھائے جائیں گے.پس دوستوں کو تبلیغ احمدیت پر اور بھی زیادہ زور دینا چاہیئے.میں نے دیکھا ہے گزشتہ چند سالوں سے جماعت میں تبلیغ کے متعلق کچھ بیداری پیدا ہو رہی ہے.اس کے نتائج تو ابھی نہیں نکلے مگر پہلے جب دوستوں سے تبلیغ کے متعلق پوچھا جاتا تو کہتے لوگ بالکل سوئے پڑے ہیں مذہب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے مگر اب کہتے ہیں لوگ تو احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، صرف ٹھو کر ہی کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار کے قریب آدمی قبول احمدیت کے لئے تیار ہو چکا ہے اور بعض نے تو لکھا ہے کہ ہمارے علاقہ میں ہزار ہا آدمی تیار بیٹھے ہیں.سالِ حال میں تبلیغ کے عملی نتائج بھی اچھے نکلے ہیں.کئی امریکہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.سات آٹھ نئی جماعتیں بنی ہیں.اسی طرح جاوا میں بہت کامیابی حاصل
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۱۶ اہم اور ضروری امور ہو رہی ہے.برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حاصل ہوتی ہیں.مولوی رحمت علی صاحب طالب علمی کے زمانہ میں اور اب بھی اتنے سادہ ہیں کہ لوگ عام طور پر ان کی باتوں پر ہنس پڑتے ہیں.پیچھے جب وہ یہاں آئے اور ایک موقع پر انہوں نے تقریر کی تو پہلے تو میں نے ضبط کیا، لیکن پھر مجھے بھی ہنسی آگئی.وہ کسی شخص کا ذکر کرتے ہوئے عالم کی بجائے ”علماء“ کا لفظ استعمال کرتے تھے.یعنی اس علماء نے یہ کہا.جب دس بارہ بار انہوں نے اسی طرح کہا تو میں نے پوچھا مولوی صاحب آپ یہ کیا کہتے ہیں کہنے لگے پرانی عادت کی وجہ سے یہ لفظ منہ سے نکل جاتا ہے.غرض وہ بہت سادہ ہیں مگر وہ جہاں جہاں بھی گئے، وہاں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا مقابلہ اُن کے علماء نہیں کر سکتے.کچھ عرصہ ہوا.یہاں ڈچ کانسل (DUTCH COUNCIL) مجھے ملنے کے لئے آیا.اُس نے بھی مجھ سے یہ ذکر کیا کہ مولوی رحمت علی بہت بڑا عالم ہے وہاں کا ایک پادری یہاں آیا اُس نے بھی یہی کہا.بات اصل میں یہ ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب اپنے آپ کو بیچ سمجھ کر اللہ تعالی کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر اُس کی راہ میں کام کرتے ہیں.اس پر خدا تعالیٰ اپنی خاص برکتیں نازل کرتا اور ہر موقع پر ان کو کامیابی عطا کرتا ہے.انہوں نے پہلے سماٹرا میں ایک بہت بڑی جماعت قائم کی اب وہ جاوا بھیجے گئے.یہ تعلیم یافتہ علاقہ ہے مولوی صاحب اگر چہ اس علاقہ کی زبان سے ناواقف تھے مگر باوجود اس کے گزشتہ تین ماہ کے اندر انہوں نے تین زبر دست مباحثے کئے ہیں ان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دو جگہ بڑی زبر دست جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.یہاں ہندوستان میں ایک شہر میں ایک مبلغ دو دو سال تک تبلیغ کرتا رہتا ہے تو ایک دو احمدی ہوتے ہیں مگر وہاں بوگر اور بٹاو یہ دو مقامات میں تھوڑے عرصہ میں بڑی بڑی جماعتیں پیدا ہو گئی ہیں.جن کی تعداد دو دو اڑھائی اڑھائی سو افراد کے قریب ہے.اور وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں مگر مولوی رحمت علی صاحب جب آئیں گے تو پھر بھی ویسے ہی سادہ ہونگے جیسے پہلے تھے.ان کے مباحثات کا ذکر جب غیر احمدی اخبارات میں چھپتا ہے، تو بہت تعریف کی جاتی ہے.وہ لکھتے ہیں: مولوی رحمت علی صاحب مباحثہ میں اس طرح بولتے ہیں جس طرح آسمان سے گرج کی آواز آتی ہے.ان کے مقابلہ میں ہمارے بیس ہیں اور تہیں تھیں مولوی تھراتے اور کانپتے ہیں.وہ اخبارات مولوی رحمت علی صاحب کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ جماعت احمدیہ کے تمام علماء کا نچوڑ ہیں.یہ اُس اخلاص اور بے نفسی کا نتیجہ ہے جس سے مولوی صاحب کام کرتے ہیں مجھے یہ پڑھ کر
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۱۷ اہم اور ضروری امور حیرت ہوئی کہ ایک غیر احمدی اخبار نے لکھا.ایک مباحثہ میں میں سے زیادہ مولوی مقابلہ پر تھے مگر وہ مولوی صاحب سے کانپتے تھے اور ڈرتے تھے.جاوا اور سماٹرا کے علاوہ اور جزائر میں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.امریکہ میں تبلیغ کا جو کام ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں بیان نہیں کرتا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب خود دیکھ آئے ہیں اور انہوں نے اس کے متعلق تقریر بھی کی ہے.وہ اس کام سے بہت ہی متاثر ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی مطیع الرحمان صاحب کو اسلامی لٹریچر اور اسلامی مسائل کے متعلق یہ درجہ حاصل ہے کہ اسلامی لٹریچر کے بڑے بڑے ماہر ان کے سامنے کوئی بات پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ صوفی صاحب اسے غلط نہ قرار دے دیں.انگلستان میں اس سال مبلغین کی تبدیلی ہوئی ہے اس وجہ سے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کام کو سنبھال رہے ہیں.میں نے انہیں اب کے ہدایت کی تھی کہ علمی طبقہ میں کام کریں اس کیلئے وہ کوشش کر رہے ہیں.چنانچہ پادریوں کے ایک کلب میں انہوں نے تقریر کی جس کا اچھا اثر ہوا.امید ہے کہ وہاں بھی علمی طبقہ پر احمدی مبلغین کا سکہ بیٹھ جائے گا.مولوی اللہ دتا صاحب شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں وہاں احمدیت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے بعض احمد یوں کو پیٹا بھی گیا ہے، حکومت بھی خلاف ہے، حیفا میں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہے جس کے بہت سے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ دتا صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں.افریقہ کے مبلغ حکیم فضل الرحمن صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں، وہاں بیس ہزار کی جماعت قائم ہو چکی ہے احمدیوں کے چھ سکول ہیں، وہاں کے احمدیوں میں سے ہی کئی ایک بطور مبلغ کا م کرتے ہیں.پس افریقہ کی جماعتیں اور ان کے مبلغ ، مصر اور شام کی جماعتیں اور ان کے مبلغ ، انگلستان کی جماعتیں اور ان کے مبلغ ، امریکہ کی جماعتیں اور ان کے مبلغ ، جاوا اور سماٹرا کی جماعتیں اور ان کے مبلغ ، اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے لئے دعائیں کی جائیں.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کے اور زیادہ عظیم الشان نتائج پیدا کرے.انہیں اپنی رضا حاصل کرنے کے مواقع عطا کرے.ان کے شامل حال اپنی تائید و نصرت کرے اور انہیں اپنی حفاظت میں رکھے.پنجاب میں بھی جماعت ترقی کر رہی ہے اور سرحد کی جماعت بیدار ہو رہی ہے.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری بہت حد تک ملازمت سے فارغ ہو چکے ہیں گلی طور پر شاید ابھی تک
۲۱۸ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور فارغ نہیں ہوئے.ان کا علمی مذاق ہے اب انہیں تبلیغ کا کام کرنے کا زیادہ موقع ملے گا.اس وقت تک صوبہ سرحد کے احمدی اشاعت احمدیت میں پنجاب کے احمدیوں کے قدم بقدم چلتے رہے ہیں.امید ہے کہ اب بھی وہ پیچھے نہ رہیں گے بلکہ ترقی کرنے کی کوشش کریں گے.سرحد کے متعلق عام رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود اس کے کہ سرحدی لوگوں کی طبائع سخت ہوتی ہیں، وہ احمدیت کی طرف زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں.بلکہ پنجاب کے بعض علاقوں سے بھی زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں سوائے ہزارہ کے علاقہ کے وہاں سرحد کی نسبت زیادہ امن قائم ہے مگر خدا تعالیٰ رحم کرے وہاں کے احمدیوں پر کہ وہ تبلیغ کرنے سے ڈرتے رہتے ہیں.بنگال میں بھی خاصی ترقی ہو رہی ہے.وہاں ایک ایسی سکیم کے ماتحت کام ہو رہا ہے کہ وہ سکیم کا میاب ہو گئی تو کم از کم پچاس ہزار آدمی چند مہینے میں سلسلہ میں داخل ہو جائے گا.وہاں جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں، ان میں بڑے بڑے معزز اصحاب بھی ہیں.ایک صاحب نے جو پہلے ایم.ایل سی تھے بیعت کی ہے اب کے وہ ایک خاص وجہ سے امیدوار کھڑے نہ ہوئے آئندہ کھڑے ہوں گے.پھر بیعت کرنے والوں میں ڈاکٹر اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں.البتہ جنوبی ہند میں سستی پائی جاتی ہے.حیدر آباد میں پرانی جماعت ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی جماعت ہے مگر بحیثیت تبلیغ بہت پیچھے ہے.البتہ بحیثیت فرد دوسری جماعتوں کو چیلنج دے سکتی ہے.سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب اس جماعت میں ایک ایسے فرد ہیں کہ جنہیں دیکھ کر مجھے دوہری خوشی حاصل ہوتی ہے.ایک خوشی تو ان کی تبلیغی خدمات کو دیکھ کر حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس لئے کہ ان کے بیعت کرنے سے پہلے شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھے لکھا تھا کہ سکندرآباد میں ایک مخیر سیٹھ ہیں جو احمدیت کی طرف مائل ہیں دعا کریں کہ وہ احمدیت میں داخل ہو جائیں.اُس وقت میں نے دعا کی اور رویا دیکھا کہ ایک تخت بچھا ہے جس پر سیٹھ صاحب بیٹھے ہیں.رویا میں میں نے اُن کی جو شکل دیکھی تھی، بعینہ وہی شکل تھی جو میں نے اُس وقت دیکھی جب وہ مجھے ملے.اس وقت آسمان سے کھڑ کی کھلی اور میں نے دیکھا فرشتے سیٹھ صاحب پر نور پھینک رہے ہیں.ان کے بیعت کرنے پر مجھے خوشی ہوئی کہ میرا خواب پورا ہو گیا.وہ اتنا وقت اور اتنا روپیہ تبلیغ احمدیت کے لئے صرف کرتے ہیں کہ کوئی اور فرد نہیں کرتا.تبلیغ احمدیت کے متعلق ان کا جوش ایسا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ مولوی برہان الدین صاحب وغیرہ میں تھا.اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا جوش اس طرح ہے جیسے سیٹھ عبد الرحمن
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۱۹ اہم اور ضروری امور صاحب میں تھا.اگر اس فرد کو مستی کر دیا جائے تو جماعت کے لحاظ سے حیدر آباد دکن کی جماعت بہت سست ہے اور بہت پیچھے ہے.حیدر آباد کی جماعت پرانی جماعتوں میں سے ہے مگر اس کا قدم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے.وہاں بھی مداہنت کا وہی رنگ نظر آتا ہے جو ہزارہ کے علاقہ میں ہے کہ جب کوئی احمدی ہو تو اُس کے سامنے چندہ کا نام نہ لیا جائے نماز کے لئے نہ کہا جائے وہ خود بخود ترقی کر جائے گا لیکن ایسے تحفہ کو لے کر ہم نے کیا کرنا ہے جسے دین سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو دین کے لئے کوئی قربانی نہ کر سکے.حیدر آباد دکن کے بعض نوجوان ہیں جن میں جوش پایا جاتا ہے.جیسے سیٹھ محمد غوث صاحب کے لڑکے محمد اعظم صاحب اور چند اور نو جوان.اس طرح ممکن ہے خدا تعالیٰ اس علاقہ میں بھی ترقی کے سامان کر دے ور نہ جنوبی ہند پر افسوس ہی آتا ہے.بعض مخلص احمدی نو جوانوں کا ذکر اس موقع پر میں ایک اور خاص بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے.کچھ عرصہ پہلے مُردنی سی چھائی تھی لیکن دو سال سے بیداری پائی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے مخلص نوجوان پیدا ہو رہے ہیں.ان میں سے بعض کے نام آج میں لے دیتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر ، کہ آپ بھی مخلصین کے نام لے کر ذکر کر دیا کرتے تھے.پھر اس لئے بھی کہ جن کے نام لئے جائیں، اُن میں غیرت پیدا ہو جائے کہ اس عزت کو قائم رکھنا چاہیئے.کئی مخلص نو جوان ہیں جن میں سے بعض کے لئے اُن کی سرگرمیوں کے متعلق حد بندی کی ضرورت ہے اور بعض کیلئے قوت عملیہ کو بڑھانے کی ضرورت.ان میں سے ایک تو سرحد کے محمد اللہ بخش صاحب ضیاء ہیں ان میں دین کے متعلق جوش ہے اور کام کرنے کی خواہش ہے.وہ گزشتہ زندگی میں بھی قومی کام کرتے رہے ہیں.احمدی قیود میں اگر خدا تعالیٰ نے انہیں کام کرنے کی توفیق دی تو امید ہے کہ اچھا کام کر سکیں گے.ایک اور نوجوان چودھری فقیر محمد خاں صاحب ہیں یہ نسبتاً پرانے احمدی ہیں اور نو جوانوں کے لئے اچھا نمونہ ہیں.ایک چودھری اعظم علی صاحب ہیں.یہ نئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں.انہوں نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھلایا ہے.وہ شیعوں میں سے آئے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے اخلاص کا قابل تعریف نمونہ پیش کیا ہے.اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ اور نئے آنے
۲۲۰ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور والے کیوں نہ ان کی طرح دین میں ترقی کر سکیں.بیعت کرنے کے چھ ماہ بعد جب میں نے ان کی شکل دیکھی تو میں انہیں پہچان نہ سکا کیونکہ ان کی شکل سے ایسا اخلاص اور ایسی دینداری ظاہر ہوتی تھی گویا کہ وہ پرانے احمدی ہیں.اسی طرح چودھری محمد شریف صاحب وکیل، مرزا عبدالق صاحب وکیل، میاں عطاء اللہ صاحب وکیل چودھری عبداللہ خان صاحب برادر چودھری ظفر اللہ خان صاحب قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب ڈاکٹر محمد منیر صاحب، عبدالرحمن صاحب خادم بشرطیکہ نفس پر قابو رکھیں، چودھری خلیل الرحمن صاحب بنگال اور اسی طرح اور کئی نوجوان ہیں جن کے اندر سلسلہ کی خدمت اور روحانی ترقی کا جوش ہے.بعض نسلی احمدی ہیں، بعض نئے احمدی ہیں اور ان نو جوانوں کی حالت دوسرے نوجوانوں کے لئے نیک نمونہ بن سکتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے صحیح طریق پر ترقی جاری رکھی تو رویا اور کشوف سے بھی حصہ پاسکیں گے.تمام احمد یوں کو کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کی اولاد میں روحانیت پائی جائے اور ہمارے نو جوان روحانیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ اصل چیز یہی ہے.ورنہ علمی بحثوں نے مولویوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور نہ یہ بخشیں ہمیں کوئی فائدہ دے سکتی ہیں.نے مبلغ جو پیدا ہو رہے ہیں، ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں.مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلغ ہیں، مولوی مبارک احمد صاحب کی قابلیت اس سے پہلے معلوم نہ تھی اب ظاہر ہو رہی ہے.ہماری جماعت میں ایک صاحب تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں وہ مبلغین کے متعلق نکتہ چینی کیا کرتے تھے حتی کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے متعلق بھی نکتہ چینی کر دیتے تھے.اب کے وہ مجھے ملنے کے لئے پالم پور گئے تو کہنے لگے میں نے اپنی جماعت میں مبارک احمد ایک مبلغ دیکھا ہے جو بہت قابل ہے.میں نے کہا شکر ہے آپ کو ایک قابل مبلغ تو مل گیا.ایک ور مبلغ شیخ عبد القادر صاحب ہیں وہ ہندوؤں میں سے آئے ہیں اور اب مسلمانوں کے مولوی ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تحریر کا رنگ اچھا ہے.غرض نئے مبلغ نکل رہے ہیں اور اچھے اچھے نکل رہے ہیں.امید ہے کہ جماعت کو مبلغوں کے نہ ملنے کی جو شکائتیں رہتی ہیں، وہ کسی حد تک دور ہو جائیں گی.گو ان کا حلیہ دور ہونا مشکل ہے کیونکہ ابھی مبلغ اس قدر نہیں ہیں کہ ہر جماعت کی شکایت دور کی جا سکے.باقی روپیہ کا سوال ہے.مالی لحاظ سے دنیا پر ایسی تباہی آئی ہوئی ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا.زمیندار اس قدر کچلے اور مسلے جاچکے ہیں کہ ان کی حالت نہایت ہی قابلِ رحم ہوگئی
۲۲۱ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور ہے.اس وقت یہاں پنجاب کونسل کے دومبر بیٹھے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے انہوں نے کونسل میں زمینداروں کے متعلق وہ کوشش نہیں کی جو انہیں کرنی چاہئے تھی.زمینداروں کی تباہی کا سوال ایسا سوال ہے کہ اس کے متعلق حکومت سے خوب لڑنا جھگڑنا چاہیئے اور اس پر ملک کی اصل حقیقت اچھی طرح واضح کر دینی چاہیئے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ حکومت پر اگر اصل حقیقت واضح ہوتو وہ پورا زور اس کی اصلاح کے لئے نہ لگائے گی.انگریز قوم علاوہ دیانت دار ہونے کے کاروباری بھی ہے اور وقت کی ضرورت کو خوب پہچانتی ہے.پس اگر حکومت پر بار بار زور ڈالا جائے اور زمینداروں کی حالت کو ان پر واضح کیا جائے تو ضرور اثر ہوگا.پس کم سے کم ہمارے احمدی ممبران کونسل و اسمبلی وغیرہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اُس وقت تک دم نہیں لینا چاہیئے جب تک غریب زمینداروں کی حالت کی درستی کا انتظام نہ ہو جائے.یادرکھنا چاہیئے کہ مالیہ میں سے چند روپے گھٹا دینے سے کچھ نہیں بن سکتا جب تک اجناس کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں اور فروخت اشیاء کے لئے نئی منڈیاں نہ نکالی جائیں اُس وقت تک زمینداروں کی حالت کبھی درست نہ ہو گی.یہ سوال نہایت اہم ہے اور ہماری جماعت کے ممبران کونسل کو اس بارے میں دوسروں سے مشورہ کر کے یہ کام شروع کر دینا چاہیئے اور حکومت پر زور دنیا چاہیئے کہ وہ زمینداروں کے متعلق جلد توجہ کرے.ورنہ اگر یہی حالت رہی جواب ہے تو کوئی عجب نہیں کہ دو تین سال کے بعد بالشویک خیالات پھیل کر زمینداروں کا ایک طبقہ بغاوت کا رنگ اختیار کر لے جیسا کہ اُس ایڈریس سے بُو آتی ہے جو ریٹائرڈ فوجی افسروں نے حال ہی میں ہمارےصوبہ کے گورنر صاحب بہادر کوغالبا شیخو پورہ ضلع میں دیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ اجناس کی ارزانی کی وجہ سے زمینداروں کی حالت ایسی گر گئی ہے کہ بہت سے ان میں سے مالیہ کی ادائیگی کے لئے زیوروں اور برتنوں اور دیگر اشیاء کے فروخت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اب وہ بالکل تہی دست ہو رہے ہیں.اگر اجناس کی قیمت فوراً نہ بڑھی اور معقول حد تک نہ بڑھی تو ڈر ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتے، انکی طرف سے شورش نہ پیدا ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملک اور حکومت دونوں کے لئے سخت نقصان دہ ہو گا اور ملک کی ترقی بہت پیچھے جا پڑے گی.جہاں تک میرا خیال ہے اگر ہندوستان کے زمینداروں کی حالت ایسی گری ہوئی نہ ہو تو بالشویک پرو پیگنڈا یہاں جڑ نہیں پکڑ سکتا.پس ممبران کو نسل کو چاہیئے کہ رات دن ایک کر کے حکومت کو اس خطرہ سے آگاہ کریں اور اسے زمینداروں کی حالت کی طرف متواتر توجہ دلائیں.حکومت کی یہی خیر خواہی
۲۲۲ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور ہے یہ خیر خواہی نہیں کہ اسے غافل رکھا جائے اور یہ کہا جائے کہ زمینداروں کی حالت اچھی ہے اور وہ مطمئن ہیں.یہ خان بہادری اور دوسرے خطابات حاصل کرنے والوں کا طریق عمل ہے.ملک اور حکومت کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ حکومت کو بتایا جائے کہ زمینداروں کی حالت نہایت ہی نازک ہو چکی ہے اور ملک میں تباہی پھیلتی جا رہی ہے.اگر اس کا انسداد نہ کیا گیا تو چند سال کے بعد زمیندار ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جائیں گے.ان حالات کی وجہ سے ہماری جماعت کو بھی مالی مشکلات درپیش ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان مشکلات میں میرے نزدیک کچھ بے برکتی کو بھی دخل ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو جتنا کام دین کے لئے کرنا چاہیئے اتنا وہ نہیں کرتے.ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہیئے جو شخص خدا تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا وہ کسی اور ٹھوکر میں جا پڑتا ہے اور اس وجہ سے اُس کے مال میں کمی ہو جاتی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اس وجہ سے بھی مشکلات پیش آتی ہیں.اس سال میں نے جو بجٹ تیار کرایا وہ موجودہ آمدنی کے لحاظ سے ہی تیار کرایا گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ایک لاکھ روپیہ جو جماعت کو دین کے لئے دینا چاہیئے وہ نہیں دیتی.اس سال کے ابتدائی مہینوں میں جماعت نے کسی قدر ہمت کی تھی اور نتیجہ یہ ہوا تھا کہ قرض میں ترقی نہ ہوئی تھی مگر اب دو تین ماہ سے پھر سستی ہوئی ہے اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یکدم پچیس ہزار کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے.اگر جماعتیں اپنے بجٹ کے مطابق رقم پوری کر دیں تو مجھے یقین ہے کہ بغیر چندہ خاص کے سلسلہ کی مالی حالت اچھی ہو سکتی ہے.ممکن ہے بعض جماعتوں کو شکایت ہو کہ ان کا بجٹ حساب سے زیادہ مقرر ہو گیا ہے لیکن اُن کے لئے راستہ کھلا ہے اگر کوئی جماعت ایسا خیال کرتی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وجو ہات پیش کر کے بجٹ کی اصلاح کرالے لیکن جماعتیں نہ تو اصلاح کرا ئیں اور نہ بجٹ کو پورا کریں تو یا درکھیں خدا تعالیٰ کی راہ میں تکبر نہیں چلتا.اس راہ میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے آپ کو سوئی کے نا کہ سے گذارتا ہے.وہ جو تکبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں.وہی فائدہ حاصل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنتا ہے جو اُس کی راہ میں تذلل اختیار کرتا ہے اور تذلل کے ذریعہ اُس کی رضا چاہتا ہے.پس اگر کسی جماعت کے بجٹ میں غلطی ہو تو اس کی اصلاح کرالے.مگر جب اصلاح ہو جائے یا اصلاح نہ کرائی جائے اور مقررہ بجٹ تسلیم کر لیا جائے تو پھر بجٹ کے مطابق چندہ دے.پیچھے میں نے اعلان کرایا تھا کہ جو جماعتیں دسمبر تک کا چندہ پورا ادا نہ کریں گی اُن کے متعلق سخت قدم اُٹھایا جائے گا مگر اب میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۲۳ اہم اور ضروری امور چندہ پورا کرنے کا وقت مالی سال کا آخر مقرر کیا جاتا ہے کیونکہ دسمبر تک زمینداروں کی ساری فصلیں تیار نہیں ہوتیں.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ ۳۰.اپریل کے بعد میں ایسی لسٹ تیار کراؤں گا جس سے یہ معلوم ہو کہ کس کس جماعت نے اپنا سالانہ بجٹ پورا کیا اور کس کس نے نہیں کیا.اس کے بعد جو مناسب کارروائی ہوگی کی جائے گی.آج کی رپورٹ یہ ہے کہ اس وقت تک ۸۷ ہزار کے بل قابل ادائیگی ہیں، بعض بل ابھی آئے نہیں اور کارکنوں کی چار ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں.بے شک آپ لوگوں کو بھی مالی مشکلات ہیں لیکن جو ملازم ہیں، اُن کو ماہواری تنخواہ تو مل جاتی ہے مگر یہاں کام کرنے والوں کو چار چار ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتیں.اس وجہ سے مخلصین کے ایمان میں تو کوئی فرق نہیں آتا مگر جو کمزور ایمان والے ہیں ان کے ایمان میں فرق آ جاتا ہے اور وہ اس قسم کی تمسخر آمیز باتیں کرنے لگ جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.چونکہ ایک گندی مچھلی تالاب کو گندہ کر دیتی ہے، اس لئے میں ایک آدھ ایسے شخص کا ذکر کر کے کیوں مخلصین کے ایمان پر پانی پھیروں.مگر اتنا سن لورسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.كَادَ الْفَقْرُ انُ يَكُونَ كُفراً سے یعنی کبھی فقر بھی گھر بن جاتا ہے.اب میں نے مالی مشکلات سے تنگ آ کر فیصلہ کر دیا ہے کہ مبلغین دورے نہ کریں اور خط و کتابت میں بھی کمی کر دی جائے اور قرض لے کر کارکنوں کو دو ماہ کی تنخواہیں دی گئی ہیں.یہ حالت کب تک برداشت کی جاسکتی ہے اور کب تک اس طرح کام چل سکتا ہے.جماعتوں کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور جن کے ذمے بقائے ہوں، انہیں سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دینے چاہئیں بے شک آج کل کی مالی پریشانی بہت بڑی پریشانی ہے مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے سب تکالیف دور ہوسکتی ہیں.کیا جس خدا نے ۱۹۱۴ ء سے لیکر ۱۹۲۴ ء تک غلہ کا بھاؤ نہایت گراں رکھا وہ اب اسی طرح نہیں کر سکتا.وہ اب بھی کر سکتا ہے مگر اس کے لئے اتنی قربانی کرنی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل کے مستحق قرار دے دے.اس میں شبہ نہیں کہ بظاہر حالات یہ محال معلوم ہوتا ہے کہ ۲۳ کروڑ انسانوں کی خرابی کو چند لاکھ انسانوں کی قربانی کی خاطر دور کر دیا جائے.مگر یاد رکھو کہ مخلص جب قربانی کی آخری حد کو پہنچ جائے تو خدا تعالیٰ ایک کے لئے بھی ۳۳ کروڑ کو بخش سکتا ہے اور ایک مخلص کی خاطر بھی ۳۳ کروڑ کو تباہ کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ گو یہ محض ایک قصہ ہے مگر اس میں عبرت ضرور ہے.بعض نے لکھا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کے وقت طوفان آیا اور ساری دنیا اس میں غرق ہوگئی تو خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ابھی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۲۴ اہم اور ضروری امور پانی اور اونچا کرو تا کہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑیا کا جو بچہ بیٹھا ہے وہ پانی پی سکے.اس کہانی میں یہ عبرت ہے کہ ایک بے گناہ کے لئے کروڑوں گناہ گاروں کو تباہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح یہ بھی سیچ ہے کہ ایک بے گناہ کو بچانے کے لئے کروڑوں گناہگاروں کو بھی بخشا جا سکتا ہے.قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے بھی کہ مندرجہ ذیل باتوں سے مصائب اور مشکلات دور ہو سکتی ہیں.اول صبر سے.مومن کو تکالیف اور مصائب میں گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ صبر سے کام لینا چاہیئے.گھبرانے سے کبھی کوئی مصیبت ٹلی ہے کہ اب ٹل سکے خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو مصائب میں مبتلا کر کے دیکھتا ہے کہ میرا بندہ ابتلاء پر ناراض تو نہیں ہوتا اور اس وقت بھی میری رضا کو مقدم رکھتا ہے یا نہیں.مثنوی رومی میں آتا ہے کہ حضرت لقمان کو کسی کی غلامی اختیار کرنا پڑی.ان کا مالک ان پر بہت مہربان تھا اور ان کی بڑی تواضع کرتا تھا.ایک دفعہ اس کے پاس بے موسم کا خربوزہ آیا اُس نے اُس کی ایک قاش تراش کر حضرت لقمان کو دی اور انہوں نے خوب مزے سے کھائی.اُس نے سمجھا انہیں بہت اچھی لگی ہے اِس پر اُس نے اور دی وہ بھی انہوں نے مزے لے لے کر کھائی یہ دیکھ کر ایک قاش اُس نے خود کھانی چاہی لیکن منہ میں ڈالتے ہی اُسے معلوم ہوا کہ وہ بہت بے مزہ ہے.اِس پر اُس نے حضرت لقمان سے کہا یہ آپ نے کیا کیا ایسے بدمزہ خربوزہ کو کیوں مزے لے لے کر کھاتے رہے؟ انہوں نے جواب دیا اس ہاتھ سے میں نے اتنی میٹھی چیزیں کھائی ہیں کہ یہ بڑی بے حیائی ہوتی اگر اس کڑوی قاش پر منہ بناتا.تو خدا تعالیٰ کبھی بندہ سے حضرت لقمان والاصبر دیکھنا چاہتا ہے کہ اتنی نعمتیں جو میں نے اسے دی ہیں مصائب نازل کر کے دیکھوں کہ اس کی کیا حالت ہوتی ہے پھر مصائب و مشکلات سے نجات دلانے والی دوسری چیز قربانی ہے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ طالب علمی کے زمانہ میں مجھے لباس کے متعلق بہت تکلیف رہتی.ایک دفعہ کسی نے دو نہایت عمدہ صدریاں بنوا کر بھیجیں جو مجھے بہت اچھی لگیں.ان میں سے ایک پہن کر میں باہر نکلا اور میں نے کہا کہ میں بھی کیا بانکا ہوں.سیر سے واپس آیا تو معلوم ہوا کہ دوسری صدری چوری ہوگئی ہے.اس پر میں نے جو صدری پہنی ہوئی تھی وہ بھی صدقہ میں دے دی اور میرے پاس کوئی عمدہ کپڑا پہننے کے لئے نہ رہا.مگر خدا تعالیٰ نے ایک امیر آدمی کا جو بیمار تھا علاج کرنے کا موقع پیدا کر دیا اور اس میں کامیابی عطا کی اس طرح مجھے اتنی دولت مل گئی کہ مجھ پر حج فرض ہو گیا.تیسری چیز استقلال ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک کام کچھ عرصہ کرتے ہیں اور -
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۲۵ اہم اور ضروری امور پھر چھوڑ دیتے ہیں حضرت عائشہ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا.سب سے اچھی نیکی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا.جو ہمیشہ جاری رہے..اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو کمزور ہوں وہ اپنے لئے دو پیسے یا ایک پیسہ ہی چندہ مقرر کر لیں اور پھر ہمیشہ ادا کرتے رہیں.چوتھی چیز رضائے الہی کا حصول ہے.جب رضائے الہی آجاتی ہے تو سارا ڈلڈ ر دُور ہو جاتا ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن سے مصائب اور مشکلات دور ہوتے ہیں گھبرانے سے نہیں دُور ہوتے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ ان چیزوں کے حصول کی کوشش کرے.میں نے کہا تبلیغ احمدیت کیلئے کن ذرائع سے کام لینا چاہیے تم کرتی ہے تبلیغ سامان خدا تعالیٰ نے بہم پہنچا دیے ہیں اب ان سے کام لینا ہمارا فرض ہے اور نتائج پیدا ہونے کے لئے ہماری جدوجہد کی ضرورت ہے.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ کیا ذرائع تبلیغ کے ہیں.تبلیغ خدا کی سنت کے ماتحت دو رنگ رکھتی ہے.ایک عام رؤ کہ لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا ہو کہ احمدیت اچھی چیز ہے اور دوسری خاص رؤ کہ کچھ آدمی مدنظر رکھ لئے جائیں کہ وہ احمدی ہونے چاہئیں.ان دونوں رؤوں کا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے.عام اثر پیدا کرنے کے لئے تین چیزیں کام میں لائی جا سکتی ہیں.(۱) جلسے (۲) اشتہارات (۳) کتب اور اخبارات کی تقسیم.ان چیزوں سے عام رو پیدا کی جاسکتی ہے.جلسوں سے ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اس لئے عام جلسے تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہیں.کتابیں اور اخبارات تو لکھے پڑھے لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں ان پڑھ ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ایسے لوگ جلسوں میں تقریریں سن کر فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.دوسرا فائدہ جلسوں کا یہ ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں پر ماحول کا اثر ہوتا ہے.یوں غیر ضروری زیادہ تعلیم سے بہت لوگوں کی عقلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اسی لحاظ سے اَنَعْلَمُ حِجَابَ الْأَكْبَرِ کہا گیا ہے.وہ لوگ جن کو یہ وہم ہو کہ انہیں بڑا علم حاصل ہے وہ دوسروں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنی علمیت پر ہی گھمنڈ کرتے رہتے ہیں لیکن اگر ایسے لوگ بھی جلسہ میں چلے جائیں تو دوسروں کے اثر سے متأثر ہو کر آہستہ آہستہ اثر قبول کر لیتے ہیں، خواہ پہلے پہلے تمسخر ہی کیوں نہ
۲۲۶ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور تیسرا فائدہ جلسوں کا یہ ہوتا ہے کہ جماعت کومل کر کام کرنے کی عادت اور اہلیت پیدا ہوتی ہے.جلسہ کیلئے جلسہ گاہ تیار کرنا ضروری سامان بہم پہنچانا اشتہارات تقسیم کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جو مل کر اور متحدہ طور پر کرنے پڑتے ہیں اور اس طرح کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے.چوتھا فائدہ یہ ہے کہ مخالفت کے برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے.جب کسی جگہ جلسہ کیا جا تا ہے تو لوگ کہتے ہیں اچھا اب یہ اس طرح علی الاعلان تبلیغ کرنے لگے ہیں.اس طرح وہ مخالفت کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور احمدیوں کو ان کی مخالفت برداشت کرنی پڑتی ہے.پانچواں فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات جلسوں میں صبر کا مظاہرہ کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے.لوگ گالیاں دیتے ہیں، پتھر مارتے ہیں اور لاٹھیوں وغیرہ سے حملہ کرتے ہیں جیسا کہ سیالکوٹ اور امرتسر میں ہوا.اس کے مقابلہ میں جب احمدی صبر سے کام لیتے اور استقلال دکھاتے ہیں تو لوگوں کے قلوب اس سے متاثر ہوتے ہیں اور وہ احمد بیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.پھر جلسوں کے علاوہ تبلیغی اشتہارات شائع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سب لوگ جلسوں میں نہیں آ سکتے لیکن اشتہارات ان تک پہنچائے جاسکتے ہیں اور وہ انہیں گھر بیٹھے پڑھ سکتے ہیں.خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں کو اشتہارات سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ فرداً فرداً غور کرنے سے فائدہ اُٹھاتی ہیں ایسے لوگوں کو جب اشتہارات پہنچائے جاتے ہیں اور وہ ان پر غور کرتے ہیں تو متا ثر ہو جاتے ہیں اور دشمن کے اُن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اُن کے دل میں نیکی قائم ہو جاتی ہے.پھر مخالف خواہ انہیں دھوکا دینے کے لئے کچھ کہیں اس کا اُن پر اثر نہیں ہوتا.پھر بیمار اور بوڑھے لوگ جو جلسہ میں نہیں آ سکتے اشتہارات کے ذریعہ اُن تک بھی بات پہنچ جاتی ہے اور بیماروں پر حق وصداقت کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک طبیب نے پوچھا میں کیا خدمت دین کروں ؟ تو آپ نے فرمایا آپ بیماروں کو تبلیغ کیا کریں یہ بہت اچھا موقع ہوتا ہے کیونکہ بیمار کا دل نرم ہوتا ہے.پھر اشتہاروں کے ذریعہ تبلیغ بڑھتی اور پھیلتی جاتی ہے.ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ اشتہارت اس لا پرواہی کے ساتھ تقسیم کئے گئے کہ ایک تبلیغی اشتہار میں پڑیا بندھ کر میرے پاس آئی.یہ بات معیوب ہے مگر بعض دفعہ اس غلطی سے بھی فائدہ ہو جاتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ پڑیا کے کاغذ کے ذریعہ ہی احمدی ہوا.پڑیا کے کاغذ کو دیکھ کر اُس نے پڑھنا شروع
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۲۷ اہم اور ضروری امور کر دیا اور اس سے اثر قبول کر کے احمدیت کی طرف متوجہ ہو گیا.پھر کتب اور اخبارات بہت مفید کام دیتے ہیں کیونکہ یہ تفصیلی مضامین پیش کرتے ہیں.اس ذریعہ سے تبلیغ کرنے کے لئے جماعتوں کو چاہیئے کہ ہر جگہ لائبریریاں قائم کریں، ان میں سلسلہ کی کتب اور اخبارات مہیا کریں.بعض جگہ افراد نے کتب کا ذخیرہ جمع کیا ہے جیسے لا ہور دہلی وغیرہ میں، جماعتوں نے لائبریریاں قائم نہیں کیں سوائے شاید جماعت شملہ کے جنہوں نے کسی قدر کتب جماعت کی طرف سے جمع کی ہیں.اسی طرح بعض اور جگہ بھی ہیں مگر ا کثر مقامات پر نہیں.پس ایسی لائبریریاں قائم کی جائیں جن سے لوگوں کو پڑھنے کے لئے کتا بیں دی جائیں.اس طرح لوگوں کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.ان طریقوں میں سے بعض میں نقائص بھی ہیں، ان کو مدنظر رکھنا چاہیئے.کبر ایک ایسی چیز ہے کہ خواہ اس کا کتنا ہی سر گچلو وہ پھر سر اٹھا لیتا ہے.میں اپنی جماعت کو دیکھتا ہوں دنیا کے مقابلہ میں نہایت کمزور ہے، ہر طرف سے دشمن اس پر حملے کرتے ہیں اور دُکھ دیتے ہیں، جانی اور مالی نقصان پہنچاتے ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی موقع پر احمد یوں میں بھی رکبر آ ہی جاتا ہے.میری حفاظت کے لئے جو لوگ ساتھ ہوتے ہیں ( اور الہی احکام کے مطابق بعض دفعہ ایسے سامانوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے ان میں سے بعض کی چال ڈھال ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اِن کے سامنے آجائے تو گویا اُس کا سر پھوڑ کر رکھ دیں.وہ اس رنگ میں چل رہے ہوتے ہیں اور میں اس سوچ میں پڑا ہوتا ہوں کہ یہ بات احمدیوں میں سے کب نکلے گی.غرض عام جلسے جہاں تبلیغ کے لئے مفید ہوتے ہیں، وہاں ان کی وجہ سے کمر پیدا ہو جاتا ہے اس طرح دوسروں پر رعب ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.جلسہ کی وجہ سے چونکہ اردگرد کے احمدی بھی جمع ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی کچھ طاقت سمجھنے لگتے ہیں اس لئے بعض لوگ اکڑ کر چلنے لگ جاتے ہیں لیکن ایسے افعال اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.اسی سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ میں نے احمد یوں کو اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھنے کے لئے جو کہا ہے تو اس لئے نہیں کہا کہ لاٹھی چلائی جائے.کئی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں اگر لاٹھی چلانی نہیں تو پھر رکھنے کی کیا وجہ ہے.میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ہاتھ میں لاٹھی رکھنے کے لئے اس لئے کہا ہے کہ آپ لوگوں کا صبر حقیقی صبر ہو.اگر تمہارے ہاتھ میں لاٹھی موجود ہے اور کوئی شخص تم پر حملہ کرتا ہے اور تم مار کھا لیتے ہو مگر خود ہاتھ نہیں اُٹھاتے تو یہ حقیقی صبر ہے لیکن اگر تم خالی ہاتھ ہوا اور کوئی تمہیں پیٹتا ہے اور تم اس کا مقابلہ نہیں
۲۲۸ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور کرتے تو یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ تم نے صبر سے کام لیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ تم مقابلہ کر ہی نہیں سکتے تھے.پس میں نے لاٹھی رکھنے کا حکم مارنے کے لئے نہیں بلکہ مار کھانے کے لئے دیا ہے.اگر ہمارے پاس پستول ہوا اور دشمن ہم پر حملہ کرے، مگر ہم پستول نہ چلائیں تو دشمن بھی محسوس کرے گا اور دوسرے لوگ بھی اُسے کہیں گے کہ کچھ تو شرم کر.وہ تمہارا سر اڑ سکتا تھا مگر اُس نے صبر سے کام لیا لیکن اگر کچھ پاس نہ ہو تو نفس بھی شبہ کرے گا کہ شاید بزدلی کے سبب سے میں نے مقابلہ نہیں کیا اور دیکھنے والے بھی یہی کہیں گے کہ بیچارے بے کس کو مارا.اگر یہ بھی کچھ کر سکتا تو دیکھتے کہ اس کو کس طرح پیٹا جاتا.اشتہاروں کے متعلق یہ نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.یہ بات مجھے بہت ہی نا پسند ہے.پھر اشتہارات شائع کرنے کا بھی ایک مرض ہوتا ہے.ہر شخص سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ لکھوں اور اپنی طرف سے شائع کروں.اس قسم کے اشتہارات کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا لیکن اس طرح بہت سا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے.چاہیئے یہ کہ جو اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں انہیں تقسیم کیا جائے اور ان کی اشاعت بڑھائی جائے.خود اشتہارات شائع کرنے میں بعض اوقات خود پسندی بھی آجاتی ہے کہ میرا نام بھی نکلے اور یہ ایسا سخت مرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق ایک قصہ بیان فرمایا کرتے تھے جو یہ ہے کہ ایک عورت تھی اُس نے انگوٹھی بنوائی مگر کسی عورت نے اُس کی تعریف نہ کی.ایک دن اُس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی اور جب لوگ اکٹھے ہوئے تو کہنے لگی صرف یہ انگوٹھی بچی ہے اور کچھ نہیں بچا.کسی نے پوچھا یہ کب بنوائی ہے؟ کہنے لگی اگر یہ کوئی پہلے پوچھ لیتا تو میرا گھر ہی کیوں جلتا.غرض شہرت پسندی ایسا مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اُسے گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ایسے انسان کو پتہ ہی نہیں لگتا.اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ مرکز سے جو اشتہارات آئیں انہیں شائع کیا جائے.ہاں اگر کسی کے ذہن میں کوئی اچھی اور مفید بات آئے تو لکھ کر مرکز میں بھیج دئے یہاں سے وہ شائع ہو جائے گی.ان امور کے علاوہ تبلیغ میں تین باتیں مدنظر رکھنی چاہئیں.اول : یہ کہ تبلیغ ہر طبقہ کے لوگوں میں ہو.بہت دوست اس بارے میں سستی سے کام لے رہے ہیں.بڑے زمینداروں، وکلاء اور حکام کا طبقہ اس بارے میں غافل ہے.ایسا نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہر طبقہ میں تبلیغ کرنی چاہیئے.
۲۲۹ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور دوم : ہر مذہب وملت کے لوگوں کو تبلیغ کی جائے.ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کرشن تھے بابا نانک کی اصل حقیقت ظاہر کرنے والے تھے مگر ہم ہندوؤں اور سکھوں میں تبلیغ نہیں کرتے.سال میں ایک دن تو غیر مسلموں میں تبلیغ کرنے کے لئے مقرر ہے مگر عام تبلیغ بھی ان لوگوں میں ہونی چاہیئے.سوم: صبر اور بُردباری سے کام لینا چاہیئے.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی برکتیں صبر اور بُردباری سے حاصل ہوتی ہیں زور سے نہیں.رسول کریم علیہ کی مجلس میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا.ایک دوسرا شخص آیا اور اُس کی بد گوئی کرنے لگا وہ چُپ بیٹھا رہا اور بدگوئی کرنے والا بڑھتا گیا.آخر اُس نے کہا میں اب تک چُپ بیٹھا ہوں اور تو بڑھتا جاتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.جب تک تو چُپ تھا فرشتے اور تو ﷺ تیری طرف سے جواب دے رہے تھے اب کہ تو بول پڑا فر شتے خاموش ہو گئے ہیں.پس صبر سے کام لینا چاہیئے اور اس حد تک کام لینا چاہیئے کہ لوگوں کی نگاہوں میں تم نئے انسان سمجھے جاؤ.چہارم : نیک نمونہ تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.مجھے یاد ہے اور اس سے مجھے ہمیشہ ہی لطف آیا کرتا ہے.میر حامد شاہ صاحب بڑے مخلص تھے ان کے ایک لڑکے سے ایک آدمی مارا گیا.وہ لڑکا احمدی نہیں اس کی نیت قتل کرنے کی نہ تھی معمولی لڑائی جھگڑے میں ایسی چوٹ لگ گئی کہ چوٹ کھانے والا مر گیا.میر صاحب ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سپر نٹنڈنٹ تھے اُس نے اِن سے واقعہ پوچھا.انہوں نے اسے بھی کہہ دیا کہ میں نے سنا ہے میرے بیٹے سے قتل ہو گیا اور اپنے لڑکے کو بھی تاکید کی کہ جو سچ سچ بات ہے وہ کہہ دینا اور گھر کے بعض لوگ جنہوں نے انہیں اس امر میں دخل نہ دینے کا مشورہ دیا، اُن سے سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ اگر صداقت کو چھوڑا گیا تو میں یہ گھر چھوڑ دوں گا.آخر مقدمہ چلا.جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ گیا وہ خود کھلاڑی تھا اور چونکہ میر صاحب کا یہ لڑکا کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا وہ اس کا ذاتی واقف تھا.اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں اس کی ہمدردی پیدا کر دی اور بعض قانونی نقصوں کی بناء پر اُس نے اس بچہ کو بالکل بری کر دیا.اس طرح میر صاحب نے اپنی صداقت کا نمونہ بھی
۲۳۰ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور سنگین پیش کر دیا اور ان کے بچہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.غرض یہ ایک نمونہ ہے کہ قتل جیے مقدمہ میں صداقت کو ہاتھ سے نہ دیا گیا.احمدیوں کو ہر موقع پر ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہیئے.یہاں بعض اوقات جھگڑے ہو جاتے ہیں.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ انہیں کسی سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے لیکن اگر جھگڑا ہو جائے تو پھر جو سچ سچ بات ہو اس کا سامنے آ کر اعتراف کرنا چاہیئے.تحدیث نعمت کے طور پر ایک تازہ واقعہ بیان کرتا ہوں.ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ایک عزیز کے متعلق قتل کا کیس چلا تھا.ولایت سے چودھری صاحب نے مجھے خط لکھا مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ میرے بھائی پر قتل کا مقدمہ بن گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے لئے آزمائش کا وقت ہے.میں نے اپنے بھائی کو لکھ دیا ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرے اسے بچی کچی بات کہہ دینی چاہیئے.یہ وہ روح ہے جو ساری جماعت میں ہونی چاہیئے تا کہ دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑے کہ یہ جماعت صداقت کی ایسی پابند ہے کہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتی.مسلمانان شمیر کیلئے چندہ وقت چونکہ کم ہے اس لئے میں تفصیل کے ساتھ تو نہیں بیان کر سکتا البتہ اختصار سے یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے کام کے متعلق معلوم ہوتا ہے جماع کو یہ غلطی لگی ہے کہ وہ ختم ہو گیا ہے حالانکہ وہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے.مسلمانانِ کشمیر کے متعلق رفاہ عام کے کام جاری ہیں، پھر کچھ تنظیم کا کام بھی ہم کرتے رہے ہیں، وہ بھی جاری ہے اور جاری رہنا چاہیئے کیونکہ اگر جاری نہ رہا تو اس وقت تک ہم نے جو کام کیا ہے وہ ادھورا رہ جائے گا.لیکن یہ بات مومن کی شان کے شایاں نہیں کہ جس کام کو وہ شروع کرے اُسے ادھورا چھوڑ دے.پس وہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کشیمر کے متعلق ہمارا کام ختم ہو گیا ہے.کام اب بھی ہو رہا ہے ہاں اس خیال سے کہ دوسری کمیٹی سے تصادم نہ ہو کام آہستہ ہورہا ہے.پھر پچھلے قرضے بھی ہیں اِن کا ادا کرنا بھی ضروری ہے.پس کشمیر کے لئے چندہ جو نہایت قلیل ہے یعنی ایک پائی ٹی روپیہ وہ ضرور ادا کرنا چاہیئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس میں شریک کرنا چاہئے.ان سے مسلمانانِ کشمیر کی امداد کے لئے چندہ وصول کرنا چاہیئے.ہندوستان میں سیاسی تغییرات اور جماعت احمدیہ ایک اور اہم بات میں یہ کہنا
انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کچھ سیاسی تغیرات ہونے والے ہیں اور ایک نئی سکیم جاری ہونے والی ہے.ہماری جماعت کو اس کے متعلق بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے میں نے ایک کتاب لکھی تھی گو عام طور پر لوگ ہماری کتابوں کو اتنا نہیں پڑھتے مگر اس کتاب کو خاص طور پر پڑھا گیا ہے.ایک والی ریاست کی لائبریری میں یہ کتاب دیکھی گئی جس پر اُس نے نوٹ لکھے ہوئے تھے.اور بھی کئی لیڈروں نے اُسے پڑھا اور اب لوگ سمٹ سمٹا کر انہی باتوں کی طرف آ رہے ہیں جو میں نے اس کتاب میں لکھی تھیں.ہمارے لنڈن مشن نے بھی نئی سکیم کے متعلق بہت کام کیا ہے اور سب سے زیادہ کام کرنے کا موقع چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ملا ہے جنہوں نے ایک لمبا عرصہ اس کام میں صرف کیا ہے.ہماری اس کام کی وجہ سے بھی مخالفت ہو رہی ہے مگر ہمیں مخالفت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.یہ کام سوشل ریفارم کہلا سکتا ہے سیاسی کام نہیں ہے.آج کل کی سیاست یہ ہوتی ہے کہ حکومت کے مقابلہ میں نیا نظام قائم کرنا اور حکومت کو تنگ کرنا.ان معنوں میں آج کل سیاست کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس قسم کی سیاست میں ہم حصہ نہیں لیتے کیونکہ ہمارا مذہبی عقیدہ ہے کہ حکومت کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور اس سے حتی الوسع تعاون کرنا چاہیئے.بہر حال ہماری مخالفت ہو رہی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مخالفت سیاسی کاموں میں حصہ لینے کی وجہ سے ہے.بے شک ہماری مخالفت کی جارہی ہے مگر مذکورہ بالا وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ سیاست میں دیانت دار لوگ کیوں حصہ لینے لگے ہیں.لوگوں نے اپنی اغراض کی خاطر اپنی اپنی پارٹیاں بنائی ہوئی تھیں اب جو دیانت دار لوگ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے آدمی بھی ملکی معاملات میں شامل ہوں اس پر خود غرض لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے نزدیک سیاست کا مفہوم یہ ہے کہ دل میں کچھ ہوا اور ظاہر کچھ کیا جائے اپنے ذاتی اغراض کو مد نظر رکھ کر کہا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے.اس قسم کی سیاست میں حصہ لینے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روکا ہے اور ایسی سیاست ہمیشہ نا جائز ہے مگر ملک کی خدمت کرنا اور اپنے حقوق کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور یہ کام جاری رہے گا.چونکہ اب سورج کے ڈوبنے میں صرف چند منٹ باقی ہیں.اس لئے میں اور امور کو چھوڑ کر صرف ایک سوال لے لیتا ہوں جو تعلیم و تربیت کے متعلق ہے اور نہایت ضروری سوال ہے اور اس سے پہلے میں تعلیم کے سوال کو لیتا ہوں.میری ایک بیوی اس سال فوت ہو گئی ہیں.اس موقع پر جماعت نے جس ہمدردانہ اور مخلصانہ مواسات کا اظہار کیا اس کا میں شکر یہ ادا کرتا ہوں مگر اس
۲۳۲ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے میری تحریروں سے یا اپنے طور پر بعض غلط اندازے لگائے ہیں میں ان کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہوں.میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ کوئی وجود خواہ وہ کتنا ہی لائق ہو یا کتنا ہی لائق بننے کے قابل ہو دنیا کا انحصار اس پر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے ابنیاء دنیا میں آتے ہیں اور پھر فوت ہو جاتے ہیں ان کے بعد بھی دنیا چلتی رہتی بلکہ ترقی کرتی ہے.اسی طرح میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ خواہ کوئی چیز کتنی پیاری اور کتنی محبوب ہو جب خدا تعالیٰ وہ لے لیتا ہے تو اسی دنیا میں اُس سے بہتر دیتا ہے یا ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ پھر مل جائے گی اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں.پس میری بیوی کا فوت ہونا کوئی ایسا نقصان نہیں تھا کہ اسے نا قابل تلافی نقصان قرار دے دیا جاتا.خدا تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے حکمت کے ماتحت کرتا ہے اور ہر بلا کیں قوم را حق داده آں است است زیر آن گنج کرم بنهاده بالکل درست ہے.اگر ہمیں یہ یقین حاصل نہ ہو کہ خدا تعالیٰ ہم پر جو مصیبت لاتا ہے، ہماری بہتری کے لئے ہی لاتا ہے تو ہم ایمان میں بچے نہیں ہو سکتے لیکن ان کی وفات کے بعد تعلیم نسواں کے متعلق میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہماری جماعت اس بارے میں وہی غلطی کر رہی ہے جو پہلوں سے ہوئی اور وہ یہ کہ وہ زنانہ تعلیم اُسی لائن پر چلا رہے ہیں جو یو نیورسٹی نے بنائی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے.اُن کی اور ہماری حالت میں بہت بڑا فرق ہے.وہ لوگ یو نیورسٹی سے باہر کی تعلیم کو کچھ سمجھتے ہی نہیں.ولایت میں بڑے بڑے عالم یو نیورسٹیوں سے باہر تعلیم پانے والے ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں جو یونیورسٹی سے باہر کا تعلیم یافتہ ہو اُس کی قابلیت کو کوئی وقعت ہی نہیں دی جاتی.اس کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص حد درجہ کا جاہل اور کم عقل ہو، مگر یونیورسٹی کی کوئی ڈگری رکھتا ہو تو اُس کی قدر کی جاتی ہے حالانکہ میں نے یونیورسٹی کی بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں سے ایسی ایسی جہالت کی باتیں سنی ہیں کہ جو عام جاہل بھی کم ہی کرتے ہوں گے.دراصل علم یونیورسٹی کی ڈگریوں کا نام نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ جو لوگ یو نیورسٹی کی ڈگریوں کو علم سمجھتے اور ڈگریوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ہم اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور یہ سمجھیں کہ عورتوں کو یونیورسٹی کی تعلیم کی ضرورت ہے.عورتوں کا ایک ضروری کام بچوں کی پرورش کرنا اور ان کی تربیت کرنا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ایسی تعلیم دی جائے کہ وہ
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۳۳ اہم اور ضروری امور بچوں کی عمدہ طور پر پرورش اور تربیت کر سکیں.انہیں تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا آتا ہوا ور جن عورتوں کو انگریز عورتوں سے ملنا پڑتا ہوا نہیں انگریزی زبان آنی چاہیئے.اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ انٹرنس پاس کریں.یا ایف.اے اور بی.اے کی ڈگریاں حاصل کریں، سوائے ان کے جو تعلیم دینے والی ہوں.میں نے سارہ بیگم کو اسی لئے اس طرف لگایا تھا کہ بی.اے بن جائیں تا ہمیں اپنے گرلز سکول کے لئے اُستانی مل جائے اور اپنی لڑکی کو ان کے ساتھ اس لئے لگا دیا تھا کہ اکیلے پڑھنا مشکل ہوتا ہے.عام طور پر لڑکیوں کی تعلیم زیادہ سے زیادہ مڈل تک ہونی چاہیئے اور اس میں بھی دینی تعلیم کا حصہ زیادہ ہو اگر چہ آج کل کی رو کے ماتحت جماعت کا بڑا حصہ اس کے مخالف ہے مگر میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی اصلاح کروں.اب وقت نہیں ہے کہ میں اس اصلاح کی تفصیل بیان کر سکوں مگر میں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں میرا نقطہ نگاہ سمجھے اور موجودہ طریق تعلیم میں اصلاح کرے.ہم لڑکوں کو کالجوں میں بھیجنے کے لئے مجبور ہیں کہ وہ ڈگریاں حاصل کریں کیونکہ اس کے بغیر وہ سرکاری اداروں میں کام نہیں کر سکتے اور نوکری نہیں مل سکتی مگر یہ حقیقت ہے کہ لڑکے کالجوں میں جا کر خراب اثر کے ماتحت ہوتے ہیں.اگر ان کی مائیں بھی ایسی ہوں گی جو ناول پڑھنے میں مصروف رہیں گی تو ہمارے بچوں کی اصلاح کس طرح ہو سکے گی.ہماری جماعت کے بچوں کی مائیں ایسی ہونی چاہئیں جو دین سے واقف ہوں اور علم دین جانتی ہوں تا کہ بچوں پر جو بُرے اثرات پڑیں انہیں دُور کر سکیں.دوسری چیز تربیت ہے.یہ تقریروں احمدیوں کی تربیت کے متعلق اعلان سے نہیں ہو سکتی.ایک صوفی کا قول ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت کے بعد پہلا خطبہ بیان نہ کر سکے وہ کھڑے ہوئے مگر پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے تو اس کے متعلق اس صوفی نے کہا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا خطبہ یہی تھا.انہوں نے اس طرح بتایا کہ تقریروں سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ کام کرنے سے ہوتی ہے.اصل بات تو یہ ہے کہ حضرت عثمان تقریر کرنے کے عادی نہ تھے جب وہ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو گھبرا گئے.مگر یہ سچی بات ہے کہ اصلاح اور تربیت تقریروں سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے.تربیت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تربیت ابدال یا تبدیلی سے ہوتی ہے اور ایک تربیت سلوک سے ہوتی ہے.صوفیاء نے ان دونوں طریق کو تسلیم کیا ہے.تبدیلی یہ ہے کہ انسان
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۳۴ اہم اور ضروری امور کے اندر کسی اہم حادثہ سے فوراً ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اور سلوک یہ ہے کہ مجاہدہ اور بحث سے آہستہ آہستہ تبدیلی پیدا ہو.یورپ والے بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ فوری تبدیلی کو کنورشن (CONVERSION) کہتے ہیں.صوفیاء کنورشن کو ہی ابدال کہتے ہیں.ابدال کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے ایک شخص ہمیشہ بُرے کاموں میں مبتلا رہتا تھا.اُسے بہت سمجھایا گیا مگر اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا.ایک دفعہ کوئی شخص گلی میں گذرتا ہوا یہ آیت پڑھ رہا تھا.اَلَسمُ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو.اُس وقت وہ حص ناچ اور رنگ رلیوں میں مصروف تھا، آیت سُنتے ہی چنیں مارکر رونے لگ گیا، سارا قرآن سن کر اُس پر اثر نہ ہوتا تھا لیکن یہ آیت سن کر اُس کی حالت بدل گئی.یہ اصلاح کنورشن کہلاتی ہے.ایک سلوک ہوتا ہے یعنی انسان اپنی اصلاح کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے وہ ذکر الہی کرتا ہے مگر کبھی اُس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے، اس پر وہ تو بہ کرتا ہے دعائیں کرتا ہے اور دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور اس طرح اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی یہ دونوں باتیں ایک ہی انسان میں پائی جاتی ہیں.جماعت احمد یہ میں جو شخص داخل ہوتا ہے اس پر یہ دونوں حالتیں آتی ہیں جب کوئی پہلے پہل داخل ہوتا ہے تو وہ ابدال میں شامل ہوتا ہے ایک عظیم الشان تغییر اس پر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ شام کے ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں.گو اس جگہ ابدالِ شام کا ذکر ہے لیکن ہم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمدیت میں سچے دل سے داخل ہونے والے ابدال میں شامل ہوتے ہیں.یعنی شخصیت کو بدل دینے والی ایک فوری تبدیلی ان میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ثابت ہے.بدل عوض کو کہتے ہیں اور تغیر کو بھی.مراد یہ ہوتی ہے کہ پہلے وجود کی جگہ ایک نیا وجود اس شخص کو ملتا ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بعض لوگ پورے ابدال بن جاتے ہیں اور بعض ناقص.یعنی کچھ حصہ ان کا سلوک کا محتاج رہ جاتا ہے اور ان لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدات سے اپنے بقیہ نقصوں کو دور کریں.اس قسم کے نقصوں کو دور کرنے کیلئے وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے مگر خالی وعظ سے یہ کام نہیں ہوتا بلکہ ایک مستقل نگرانی کی حاجت باقی رہتی ہے اور اسی لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ چند دوستوں کو بطور والسنٹئیر طلب کروں جو اس بات کا اقرار کریں کہ وہ اپنی بھی اصلاح کریں گے اور جماعت کے دوسرے لوگوں کی بھی ، اور ان کو بطور ستون مقر ر کیا جائے.
۲۳۵ انوار العلوم جلد ۱۳ اہم اور ضروری امور پس میں اعلان کرتا ہوں کہ اس کام کے لئے ہماری جماعت کے دوست خواہ جوان ہوں خواہ بوڑھے اپنے آپ کو پیش کریں جو سلوک کی منزل طے کرنے کیلئے تیار ہوں، جو اپنی غلطی پر زجر برداشت کرنے کے لئے بھی تیار ہوں اور جب انہیں بتایا جائے کہ تم میں یہ عیب ہے اُسے دور کرو تو وہ اس کو تسلیم کر لیں اور اس کی اصلاح کر لیں نہ کہ اس بات پر اڑ جائیں کہ ہم میں یہ عیب نہیں ہے.پس ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں.اس وقت نہیں بعد میں اپنے نام بھیج دیں.میرا ارادہ ہے کہ اس کے متعلق چند قوانین بنا کر اس کام کو بغیر کسی لمبی تمہید کے شروع کر دیا جائے.پھر بعد میں مکمل تنظیم خود بخود ہوتی جائے گی اور اُس وقت اسے نظارت تعلیم و تربیت کے سپر د کر دیا جائے گا.سر دست میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ اسے صرف تین سال کیلئے جاری کیا جائے تا کہ کوئی نئی بدعت اس سے نہ پیدا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے وقت کے اندر تقریر ختم کر لی ہے.اب میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے گل بتایا تھا ہمارے سپرد بہت بڑا کام کیا گیا ہے مگر ہم میں سے بعض میں کمزوریاں ہیں ایسی کمزوریاں ہیں کہ آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے خانہ خدا میں آنا چھوڑ دیتے ہیں، دینی کاموں میں سستی دکھاتے ہیں دین کیلئے قربانی کرنے سے ہچکچاتے ہیں.سب احباب مل کر دعا کریں آپ میرے لئے دعا کریں میں آپ لوگوں کیلئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہمیں حاصل ہو جائے اور ہم دنیا میں ایسا نمونہ پیش کریں کہ دنیا پکار اُٹھے یہ ہیں ابدل.اب میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہوں.ا تذکرہ صفحہ ۷۴۰.ایڈریشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۴۷.ایڈیشن چہارم الفضل ۴۲ ۷ ۱۱٬۹۴‘ ۱۴ جنوری ۱۹۳۴ء) الجامع الصغير للسيوطى الجزء الثاني صفحه ۷۴ مطبع الخيريه مصر ٥٣٠٢ بخارى كتاب الرقاق باب القَصْدِوَالْمُدَاوَمَة عَلَى القَتلِ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۶ دار الفکر بیروت الحديد: ۱۷ ے تذکرہ صفحہ ۳۶.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۳۶ احمدیت کے اصول از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی احمدیت کے اصول
۲۳۷ انوار العلوم جلد ۱۳ احمدیت کے اصول بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ احمدیت کے اصول فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء بمقام قصور ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اللهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي صَلِّلٍ مُّبِيْنٍ وَّاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.آج کا مضمون احمدیت کے اصول کے متعلق ہے.سلسلہ سلسلہ احمدیہ کی بنیاد احمدیہ کوئی نیا ذہب یا کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اس سلسلہ کے بانی نے لکھا ہے.اس سلسلہ کی غرض احیائے اسلام اشاعتِ اسلام، قیام اسلام اور تائید اسلام ہے اور اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کا یہ امید رکھنا کہ سلسلہ احمدیہ کوئی ایسی بات پیش کرے جو اس زمانہ سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھی ایک غلط امید اور آرزو ہوگی.جس سلسلہ کی بنیاد ہی اس عقیدہ پر ہے کہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں اور اسی صورت میں کہ جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پیش کیا تھا، جس صورت میں کہ قرآن کریم نے اسے بتایا ہے دنیا کے سامنے پیش کرے اس کے دعوی کی صداقت اس امر پر مبنی نہیں ہو سکتی کہ وہ کونسی سچائیاں پیش کرتا ہے بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ ایک شوشہ میں بھی حقیقی اسلام سے انحراف نہیں کرتا.جب ایک مصور زید یا بکر کی تصویر کھینچتا ہے تو اس کا کمال اس میں نہیں کہ زید کے ناک کی بجائے اور لنگ کا ناک بنا دے خواہ وہ اصل سے خوبصورت ہی کیوں نہ ہو یا اصل سے مختلف ما تھا بنا دے.فرض کروز ید کا ما تھا اچھا نہیں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۳۸ احمدیت کے اصول لیکن اگر مصور تصویر میں زیادہ خوبصورت ماتھا بنا دیتا ہے تو ہر عقلمند کہے گا کہ یہ مصور اچھا نہیں.مصور کا کمال اسی میں ہے کہ اگر اصل کا ماتھا خوبصورت ہے تو اسی قسم کا تصویر میں ظاہر کرے اور اگر بدصورت ہے تو ویسی ہی بدصورتی تصویر میں دکھائے.پس سلسلہ احمدیہ کے دعوئی کے مطابق اس کی صداقت اس امر پر ہے کہ وہ ہو بہو اسلام کا نقشہ پیش کرے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا قرآن کریم نے پیش کیا ہے قطع نظر اس سے کہ دنیا اسے اچھا سمجھتی ہے یا برا یہ فیصلہ بعد میں ہو گا.اصل چیز یہی ہے اور اس کا دعوی تبھی ثابت ہوگا جب وہی چیز پیش کرے جو قرآن کریم اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کی ہے.پس سب سے پہلے میرے مضمون کو سمجھنے کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سلسلہ کسی نئی بات کے پیش کرنے کا مدعی نہیں بلکہ صحیح اسلام پیش کرنے کا مدعی ہے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے ایسا کر دیا ہے یا نہیں.دنیا میں صفات الہی کی جلوہ گری میں نے قرآن کریم کی تین آیات پڑھی ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم اور آپ کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے.اس کی تشریح کرنے کے بعد میں بتاؤں گا کہ سلسلہ احمدیہ نے اسے پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اے بندے ! تو اس کلام کے پڑھنے سے پہلے کہہ.میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس کے بعد فرمايا يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ.دنیا میں جدھر نگاہ ڈالو آسمانی طاقتیں بھی اور زمینی بھی یہ امر ثابت کر رہی ہیں کہ ان.وہ کا پیدا کرنے والا ہر عیب سے پاک اور مبرا ہے.الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - ملک یعنی بادشاہ ہے.القدوس تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے.یعنی صرف عیوب سے ہی مبرا نہیں بلکہ ہر قسم کی خوبیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے.اَلعَزِيز غالب ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.الحکیم.اس کی تمام باتیں حکمت پر مبنی ہیں.تو انہی چار صفات کو تم دنیا میں جلوہ گر دیکھو گے.ایک خدا کی ملکیت ایک قدوسیت یعنی پاکیزگی ایک غلبہ یعنی ہر چیز اس کے حکم کے نیچے چل رہی ہے اور ایک حکمت.یہ چار باتیں ہیں اللہ تعالی کی چار صفات اور آنحضرت کے چار کام کیا تمہیں جو ہر جگہ نظر
۲۳۹ انوار العلوم جلد ۳ احمدیت کے اصول ہیں لیکن ہر آنکھ بینا نہیں ہوتی اور ہر عقل رسا نہیں ہوتی ، ہر ذہن حقیقت کو سمجھنے والا نہیں ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ سمجھانے کیلئے کوئی استاد بھی ہو اس لئے فرمایا.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ وہی خدا ہے.اَلْمَلِكِ القُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ـ جس نے امی لوگوں میں یعنی ان لوگوں میں جو صداقتوں سے بالکل بے بہرہ تھے اپنا ایک رسول بھیجا.وہ باہر سے نہیں آیا کہ تم کہہ سکو کہیں سے سیکھ کر آیا ہے بلکہ وہ انہی میں سے تھا جیسے یہ امی تھے ویسا ہی وہ تھا اس نے کسی اور جگہ زندگی بسر نہیں کی کہ کہا جا سکے وہ کہیں سے علوم وفنون سیکھ کر آیا ہے.یہ لوگ اس کی زندگی کے ہر لمحہ سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا، باہر سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ وہ انہی میں سے ایک ہے.وہ کیا کرتا ہے فرمایا.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایہ وہاں پہلے ملک فرمایا تھا اور یہاں اس کے مقابل میں يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایسے فرمایا.یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت ثابت کرتا ہے.بادشاہ اسے کہتے ہیں جس کی باقاعدہ حکومت ہو فوج انتظام کرنے کیلئے اور پولیس مجرموں کو پکڑنے کیلئے موجود ہو بد معاشوں کی سزا یابی اور مقدمات کے تصفیہ کیلئے عدالتیں ہوں، جس کا سکہ رواں ہو.یا پرانے زمانے میں بادشاہ کی یہ نشانی سمجھی جاتی تھی کہ جس کی مہر دنیا میں رائج ہو، جس کا تاج و تخت ہو غرضیکہ بادشاہت کیلئے کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی چار صفات بیان کی ہیں اور ان کے ثبوت کیلئے ہم نے یہ ذریعہ مہیا کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا ہے جو ان چاروں صفات کو دنیا میں ظاہر کرتا ہے.پہلی صفت الملک بیان کی تھی.اس کے متعلق فرمایا رسول کا کام یہ ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله یہ وہ دلائل سناتا ہے جن سے پتہ لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بادشاہ ہے.دوسری صفت القدوس پیش کی تھی اس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا.وَيُزَنِيهِمُ کہ دنیا کو پاک کرتا ہے.عالم کی علامت کیا ہوتی ہے یہی کہ وہ دوسروں کو پڑھاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے ذریعہ عالم ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی طرف سے آنے والے دنیا کو پاک کرتے ہیں.محمد رسول اللہ گندے لوگوں کو لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں آکر وہ پاک ہو جاتے ہیں.تیسری صفت عزیز یعنی غالب ہے ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے.وہ صرف نام کا ملک نہیں بلکہ اس کی ملوکیت ہمیشہ جاری ہے اور اس کا ثبوت یہ دیا کہ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وہ دنیا میں خدا کے قانون اور شریعت کو رائج کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے قانون کو دنیا میں نافذ کر کے اس کی عزیزیت ثابت کرتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۰ احمدیت کے اصول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا میں الہی قانون کو رائج کیا اور اس طرح بتا دیا کہ خدا عزیز ہے.چوتھی چیز الحکیم ہے.اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں.اس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا كه يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ.ہر بات جو وہ کہتا ہے اس کی حکمت بھی ساتھ ہی بیان کر دیتا ہے.دنیوی بادشاہ ایسا نہیں کرتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ بس ہمارا حکم ہے ایسا ہو وجہ کوئی نہیں بیان کرتے لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا حالانکہ دنیا کے بادشاہوں کی اس کے مقابل میں کوئی ہستی ہی نہیں لیکن وہ کہتے ہیں ہمارے سامنے کون بول سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے.وہ انسان کی عقل پر حکومت کرتا ہے زبر دستی نہیں کرتا اور خدا کے حکیم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ محمد ہر شعبہ زندگی کے متعلق تعلیم دیتا ہے مگر اس کا مقصد اس کی غرض، خوبیاں اور فوائد ساتھ بیان کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات کے مقابل چار کام بیان فرمائے.مگر یہ کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی آکر بیان نہیں فرمائے بلکہ قرآن مجید اور دیگر کتب سماویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام پہلے سے چلے آتے ہیں.مکہ کی تجدید کے موقع پر ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ کے یعنی اے میرے رب میں نے اپنی اولاد یہاں لا کر بسائی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ جس وقت اس قوم میں جہالت پیدا ہو جائے اور یہ نور کے محتاج ہوں تو ان میں سے ہی ان کے لئے ایک رسول بھیجیو جوان کو تیری آیات اور نشانات سنائے، تیری شریعت سکھائے، احکام شریعت کی حکمت بتائے اور انہیں پاک کرے.گویا یہی چار باتیں ہیں جو مانگی گئی تھیں.جو ان چار صفات یعنی ملکیت قدوسیت عزیزیت اور حکیمیت کا اظہار ہے اور یہ چار کام تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر گئے.پہلا کام يَتْلُوا عَلَيْهِم الله ہے.اس کے کیا معنی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ صفت ملکیت کے اظہار کیلئے ہے کوئی بادشاہ ہونا چاہئے اور اس میں کہ بادشاہ ہے بہت بڑا فرق ہے.اگر کسی ملک کا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہو آئین نہ ہو تنازعات کے فیصلہ کیلئے عدالتیں نہ ہوں، فوج نہ ہو' پولیس نہ ہو اور ایک شخص دلائل دیتا جائے کہ بادشاہ ضرور ہونا چاہئے تو سننے والا یہی کہے گا کہ جب کوئی نظر تو آتا نہیں، نہ ملک کی بہبودی اور بہتری کیلئے کوئی کوشش ہو رہی ہے نہ بدمعاشوں کیلئے پولیس یا فوج ہے، تو صرف چاہئے سے اس کے وجود کو کس طرح تسلیم کر لیا جائے.عقلی دلائل سکھانے کیلئے کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی کیونکہ یہ تو ہر شخص جان
انوار العلوم جلد ۳ ۲۴۱ احمدیت کے اصول سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق بھی عقلی دلائل ہر انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان کے لئے بھی کسی نبی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.ایک فلاسفر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کسی جاہل سے پوچھا خدا کی ہستی کا ثبوت کیا ہے.اس نے کہا.ہم جنگل میں مینگنیاں پڑی دیکھتے ہیں، تو سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی بکری ادھر سے گذری ہے پھر اتنی بڑی کا ئنات کو دیکھنے سے یہ کیوں نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی خدا ہے.تو خدا تعالیٰ کے متعلق ہر انسان کی فطرت بول پڑتی ہے اور اس قسم کے دلائل کیلئے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.یہاں اللہ تعالیٰ بتا تا ہے کہ ایسے دلائل تو مکہ والوں کو بھی معلوم تھے.ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایسے لوگ تھے جو شرک کے خلاف تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک چچا ہمیشہ شرک کے خلاف تعلیم دیا کرتے تھے.ان سے سوال کیا گیا آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ تو جواب دیا کہ میں نے شرک کے خلاف اتنی کوشش کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ میں ہوتا ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی ایسے لوگ تھے جو شرک کیخلاف تھے اور وہ بغیر کسی دلیل کے اس بات کے مدعی تھے کہ خدا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیوں مبعوث کیا.یہ صاف بات ہے کہ انسان کی عقلی ایمان پر تسلی نہیں ہو سکتی.دلائل صرف ” چاہئے تک پہنچاتے ہیں“ ہے تک نہیں.مگر نبی خدا کی صفات کو ظاہر کر کے بتا دیتے ہیں کہ خدا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ خدا چاہئے بلکہ یہ دکھا دیا کہ خدا ہے اور آپ نے اپنی زندگی کے ہر عمل سے دکھا دیا کہ ایک زندہ خدا موجود ہے.تاریخ اسلام میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں.میں ان سب کو بیان نہیں کر سکتا اس وقت صرف ایک بیان کرتا ہوں جسے بچے بھی جانتے ہیں.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے گئے تو غار ثور میں جا کر ٹھہرئے قریش نے تلاش شروع کی اور کھوجی کی مدد سے عین غار کے منہ تک پہنچ گئے، کھوجی نے وہاں پہنچ کر پورے وثوق سے کہا کہ یہاں تک آئے ہیں، اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ یہاں سے آسمان پر چڑھ گئے ہوں مگر اس سے آگے ہر گز نہیں گئے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے اور مکڑی نے غار کے منہ پر جا لائن دیا اسے دیکھ کر ان میں سے ایک نے کہا میں تو ہمیشہ یہاں آتا ہوں.یہ غار تو ویسی کی ویسی ہی ہے اور ہمیشہ ایسی ہی حالت میں ہوتی ہے.کھوجیوں پر اہل عرب بہت اعتماد رکھتے تھے.کھوجی پورے یقین سے کہتا ہے کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے.وہ لوگ غار کے منہ پر کھڑے ہیں اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ "
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۲ احمدیت کے اصول کے دل میں خیال اور خوف پیدا ہوتا ہے اور بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ ان کا یہ خوف اپنی جان کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا.آپ کچھ گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہیں.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ڈرتے کیوں ہوا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اور یہ ایک ایسا جملہ ہے جو خدا ہونا چاہئے کہنے والے کے منہ سے نہیں نکل سکتا جنہوں نے خدا کو دیکھا نہیں ہوتا وہ ایسی حالت میں نہیں کہتے کہ خدا ہے وہ ہمیں بچائے گا بلکہ وہ ایسے موقع پر جان بچانے کیلئے کئی حیلے اختیار کرتے ہیں.کبھی جھوٹ کبھی فریب اور کبھی خوشامد سے جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے اندر یہ احساس نہیں ہو سکتا کہ نڈر ہو کر کہیں خدا ہمارے ساتھ ہے اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.چنانچہ کھوجی نے ان لوگوں سے کہا بھی کہ غار کے اندر دیکھو مگر کسی نے نہ دیکھا اور اوپر ہی کھڑے ہو کر واپس چلے گئے.یہ ایک ایسی مثال ہے جسے مسلمان بچے بھی جانتے ہیں.وگر نہ آپ کی زندگی کی ہر ساعت میں آپ نے اپنے عمل سے بتایا ہے کہ ایک زندہ خدا موجود ہے اور آپ اسے پیش کرتے تھے اور ایسی طرح کہ کسی کو انکار کی گنجائش نہ رہتی تھی.مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی یہی حالت تھی اور ہر جگہ آپ نے خدا کا جلال اور ارفع و اعلیٰ شان پیش کی بلکه قبل از وقت واقعات بتا دیئے حتی کہ بدر کی جنگ کے متعلق صحابہ کا بیان ہے کہ آپ نے ہمیں یہاں تک بتا دیا تھا کہ فلاں فلاں کا فرفلاں فلاں جگہ مارا جائے گا اور اس سے خدا کا ہونا ثابت ہوتا ہے.یہی چیز ہے جس کیلئے نبی مبعوث ہوتے ہیں.عقلی دلائل کیلئے کسی نبی کی حاجت نہیں صحابہ کے زندہ خدا کو دیکھنے کا ثبوت ہوا کرتی.پہلی بیتا سے متعلق لکھا ہے.بوعلی کہ ان کا ایک شاگرد ایک دفعہ ان کی قابلیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ کہنے لگا آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بڑھ گئے ہیں.بوعلی سینا یہ بات سنکر خاموش رہے.سردی کا موسم آیا تو ایک تالاب کا پانی منجمد ہورہا تھا اور اس پر برف کی پڑیاں جمی ہوئی تھیں آپ نے اس سے کہا اس میں چھلانگ لگاؤ.اس نے جواب دیا آپ پاگل تو نہیں ہو گئے کہ طبیب ہو کر مجھے ایسا حکم دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہلاکت ہے.بوعلی سینا نے کہا تمہیں یاد ہے تم نے مجھے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل بتایا تھا مگر نادان تو اتنا نہیں جانتا کہ آپ کے تو ایک ادنی اشارہ پر ہزاروں لوگ جانیں فدا کر دیتے تھے مگر تو مجھے آپ سے برتر کہنے کے باوجود میرے کہنے پر میری بات نہیں مانتا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو مشاہدات کے ساتھ دنیا کے سامنے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۳ احمدیت کے اصول پیش کیا اور اس امر کے ایسے بین ثبوت دیئے کہ کوئی انکار نہیں کر سکتا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے ایک ادنی اشارے پر ہزاروں لوگ جانیں فدا کر دیتے تھے اور عزیز سے عزیز چیز مسرت کے ساتھ قربان کر دیتے تھے.اگر انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی ان میں یہ بات نہ پیدا ہوسکتی.تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جنگ کیلئے جب تشریف لے گئے اس وقت انصار کے ساتھ آپ کا معاہدہ یہ تھا کہ وہ مدینہ کے اندر آپ کی حفاظت کریں گے.یعنی اگر کوئی دشمن مدینہ میں داخل ہو کر آپ پر حملہ کرے گا تو اس کا مقابلہ کریں گئے باہر جا کر نہیں لڑیں گے.بدر کی طرف جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ لڑائی ہو گی موقع کے قریب آکر اس کی اطلاع دی اور مشورہ کیا کہ ہمیں لڑنا چاہئے یا نہیں.مہاجرین نے کہا ضرور لڑنا چاہئے مگر اس جواب کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ لوگو بولو کیا کرنا چاہئے.مہاجرین پھر جواب دیتے مگر اس جواب کے بعد آپ نے پھر یہی فرمایا.اس پر ایک انصاری بولے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا منشاء شاید ہم سے ہے.آپ سے بیشک ہمارا معاہدہ تھا مگر اسی وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ کے ذریعہ ہم نے خدا کو نہ دیکھا تھا اور صرف سنی سنائی باتیں تھیں.اس کے بعد آپ کے ظہور سے ہم نے زندہ خدا کے زندہ نشانات دیکھے اب وہ حالت نہیں.اب تو اگر آپ سمندر میں کود پڑنے کا حکم دیں گے تو ہمیں اس میں ذرا تا مل نہ ہو گا.خدا کی قسم ! دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گذر کر نہ آئے.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی ہم موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاتو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھرو بلکہ دشمن آپ تک ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی پہنچ سکے گا.ایک صحابی کہتے ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی جنگوں میں شریک ہوا مگر مجھے ہمیشہ حسرت رہی کہ کاش یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی کے.یعنی یہ فقرہ میرے منہ سے نکلتا.یہ بات بغیر اس کے ممکن نہ تھی کہ ان لوگوں نے زندہ خدا کو دیکھ لیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَدُ اللهِ فَوْق أَيْدِيهِمُ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ انہوں نے بیعت کرتے وقت اپنے ہاتھوںپر تیرا ہاتھ میں دیکھا کہ خدا کا ہاتھ دیکھا ہے اور یہ اسی بات ہے جو نبی کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتی.صفت قدوسیت کا اظہار دوسری چیز پاکیزگی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کی حالت سب پر واضح ہے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۴ احمدیت کے اصول اس لئے مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اس کے بعد ان لوگوں کے اندر جو پاکیزگی آئی اس کی ایک مثال بیان کر دیتا ہوں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ حبشہ میں ہجرت کر گئے تو مکہ والوں نے انہیں پکڑنے کیلئے ایک وفد بھیجا جس نے امراء کو تحائف وغیرہ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا لیکن جب وہ نجاشی بادشاہ کے دربار میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارے کچھ لوگ بھاگ کر یہاں آئے ہیں، انہیں لے جانے کی اجازت دی جائے تو اس نے کہا میں ان لوگوں سے باتیں کرنے کے بعد جواب دوں گا.جب مسلمانوں کو طلب کیا گیا تو ان کے امیر نے کہا.اے بادشاہ! ہم دنیا میں بدترین مخلوق تھے، شرابی زانی، چور ڈاکو فریبی اور عورتوں کی بے عزتی کرنے والے تھے مگر خدا نے ہم میں ایک نبی مبعوث کیا جس کے ذریعہ ہماری سب بد عادات چھوٹ گئیں اور ہماری حالتیں بالکل بدل گئیں نہ مانے والوں کی دنیا علیحدہ ہوگئی اور ہماری علیحدہ شہ یہ وہ دعوی تھا جو انہوں نے مخالفوں اور جانی دشمنوں کے سامنے پیش کیا مگر قریش کے وفد کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ یہ کہہ سکے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں، یہ تو اب بھی ویسے ہی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.اگر فی الواقع ان کے اندر پاکیزہ تغیر نہیں ہو چکا تھا تو کیا وجہ ہے کہ صحابہ وہاں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم پاکباز ہو گئے ہیں مگر مخالف یہ نہیں کہہ سکتے کہ غلط کہتے ہیں یہ اب بھی ویسے ہی گندے ہیں.یہ تزکیہ تھا جو بغیر رؤیت الہی کے نہیں ہو سکتا.صفات عزیزیت و حلیمیت کا اظہار تیسری اور چوتھی چیز يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ہے.قرآن کریم کی تفصیلات بیان کرنے کیلئے یہ لیکچر تو کیا اس جیسے دس ہزار لیکچر بھی کافی نہیں ہو سکتے.یہ وہ تعلیم ہے جس نے دنیا سے منوالیا ہے کہ اس کا دنیا کی سب ضرورتوں پر حاوی ہونا ایسی بات ہے جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا.حکمت سکھانا بھی اسلام کی خصوصیت ہے.نماز کیوں پڑھیں، روزہ کیوں رکھیں، حج کیوں کریں، زکوۃ کیوں دیں، غرضیکہ کوئی حکم ایسا نہیں جس کی حکمت نہ بیان کی گئی ہو.ہر بات کے متعلق بتا دیا گیا ہے کہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور تمہاری ہی ترقی کیلئے ہے.یہ چار کام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا میں کئے اور گویا یہ اسلام کا خلاصہ ہے.یعنی اوّل خدا کی ذات مشاہدہ سے منوانا دوسرے بنی نوع انسان کو پاک کرنا، تیسرے ایسی تعلیم دینا جوسب ضرورتوں پر حاوی ہو اور چوتھے انسان میں ایمانی بشاشت پیدا کرنا اور اسے بتا نا کہ اس پر عمل کرنا تمہارے ہی فائدہ کا موجب ہے اور ایسی حکمتیں بیان کرنا کہ اس مذہب کو ماننے والا دوسروں کے
انوار العلوم جلد ۳ ۲۴۵ احمدیت کے اصول سامنے اپنا سر اونچا کر سکے.سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اسلام کی صحیح صورت دنیا میں پیش کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے.اب اگر یہ چاروں باتیں وہ اپنے اندر ثابت کر دے تو ماننا پڑے گا کہ اس نے جو کچھ کہا اور جو دعویٰ کیا، اس میں سچا ہے.جیسے میں نے تصویر کی مثال دی تھی کہ مصور کا کمال اسی میں ہے کہ اصل سے سر موفرق نہ ہو.اگر ایک عیسائی یا ہندو اسلام کی خوبی کا قائل نہیں تو وہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام کی تصویر جو کھینچی گئی ہے وہ خوبصورت نہیں مگر یہ تو اسے ماننا پڑے گا کہ قرآن میں جو کچھ ہے اس کی یہ صیح تصویر ہے.پس اگر یہ چار کام سلسلہ احمدیہ نے شروع کر رکھے ہیں تو اسلام کے ماننے والوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے دعوئی میں سچا ہے اور ہر مسلمان کی توجہ کا مستحق ہے اور غیر مسلموں کو بھی ماننا پڑے گا کہ احمدیت نے جو دعویٰ کیا اسے سچا ثابت کر دکھایا.تمہیدی مسائل اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے احمدیوں اور غیر احمد یوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات یا مرزا صاحب کو مسیح موعود مانے یا نہ ماننے کا ہی فرق ہے حالانکہ یہ تمہیدی باتیں ہیں.اگر ہم یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری وفات پاگئے تو محض اس لئے کہ قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے ثابت کریں کہ آپ کی اُمت میں سے ہی ایک شخص آئے گا.جو مثیل مسیح ہو گا.یہ گویا سڑک بنانے کیلئے ہے وگر نہ اصل چیز تو آنے والے کا کام اور مقصد ہونا چاہئے.وفات مسیح علیہ السلام اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے مسائل تو محض تمہیدی باتیں ہیں اور آپ کے دعوی کو ثابت کرنے کیلئے یہ ضروری قدم ہیں جو اُٹھائے گئے.وگر نہ کام آپ کے بھی وہی چار ہیں جن کا میں نے پہلے حضرت مسیح موعود کے کام ذکر کیا ہے.چنانچہ دوسری آیت میں بیان کیا گیا ہے.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ جو چار کام بیان کئے گئے ہیں، وہ اسی زمانہ کے لئے نہیں بلکہ جس طرح اس زمانہ کی قوموں کی اصلاح کیلئے آپ مبعوث ہوئے ہیں، اسی طرح آئندہ زمانہ میں آئندہ آنے والی قوموں میں بھی آپ یہ کام کریں گے اور جب ان کے لئے ضرورت ہوگی کہ ان کو بھی قرآن سکھایا جائے ان کا تزکیہ کیا جائے ان پر تلاوت آیات کی جائے اور ان کو حکمت سکھائی جائے تو اس وقت ان
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۶ احمدیت کے اصول کاموں کے کرنے کیلئے پھر ہم آپ کو مبعوث کریں گے چنانچہ عبداللہ بن سبا ایک مسلمان تھے جس کا دعویٰ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر گئے ہیں اور پھر آئیں گے کیونکہ قرآن مجید میں آپ کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے.تو مسلمانوں پر اس آیت کی وجہ سے اس قدراثر تھا کہ بعض ان میں سے غلطی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانی کے حقیقی رنگ میں قائل تھے مگر چونکہ وہ صحابہ کا زمانہ تھا اس لئے ایسی بات زیادہ چلی نہیں.حضرت مسیح موعود نے زندہ خدا پیش کیا پس یہی چار کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرنے ہیں.یہی سلسلہ احمدیہ کے اصول ہیں.اوّل يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته - اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے نشانات جن سے خدا نظر آتا ہے دنیا کے سامنے پیش کرنا اور بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی پہلی تصنیف براہین احمد یہ میں اس سوال کو اُٹھایا ہے کہ خدا ہونا چاہئے اور ہے میں بڑا فرق ہے.عقلی دلائل صرف یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ کوئی خدا ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ واقع میں ہے بھی.جیسے عقل سے صرف بادشاہ کی ضرورت ثابت کی جاسکتی ہے اس کا موجود ہونا نہیں بتایا جا سکتا اور عقلی دلائل سے انسان کا دل مطمئن نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ خیال کر سکتا ہے ممکن ہے بعض اور دلائل بھی میرے خلاف ہوں جن کا مجھے علم نہ ہو اس لئے ضروری ہے کہ زندہ خدا کو پیش کیا جائے.یہ سوال آپ نے اس زمانہ میں اُٹھایا جب باوجود اس کے کہ اس امت میں کئی اولیاء ایسے گزرے ہیں جو کلام الہی کے جاری ہونے کے قائل بلکہ اس سے مشرف تھے.مسلمان یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب کلام الہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے حالانکہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو کلام الہی سے مشرف تھے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی ایک مشہور واقعہ ہے.آپ کے ایک کمانڈر ساریہ تھے.آپ کو دکھایا گیا کہ وہ خطرہ کی حالت میں ہیں.چنانچہ آپ نے خطبہ پڑھتے ہوئے زور سے فرمایا.يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ " یعنی اے ساریہ پہاڑ کے ساتھ ہو جاؤ اور یہ آواز ساریہ کو شام میں سنائی دی جب کہ وہ فی الواقع خطرہ میں تھے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنی فوج کو ہلاکت سے بچا لیا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساریہ کی حالت کشف کے ذریعہ دکھائی گئی.اسی طرح ہزار ہا واقعات ہیں مگر ان سب کے باوجود مسلمان مایوس ہو چکے تھے کہ ہم میں اب خدا کا کلام سننے کی اہلیت نہیں.سب ترقیات پرانے لوگوں سے ہی وابستہ تھیں مگر جماعت احمد یہ کے بانی نے آکر یہ بات پیش کی کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے.اگر انسان آب
انوار العلوم جلد ۳ ۲۴۷ احمدیت کے اصول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کی محبت اور اخلاص کو دل میں ترقی دے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کو گداز کر دے قرآن پر عمل کرے تو ظلی بروزی طور پر اب بھی ان برکات سے حصہ پاسکتا ہے.پھر آپ نے اپنے وہ الہامات پیش کئے جو وقتاً فوقتاً پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں.ایسی صورت میں کہ دنیا کو قبول کرنے میں گریز کی صورت نہ رہی.سوائے اس کے کہ کسی کو تحقیق کا موقع نہ ملا ہو یا سوچا نہ ہو یا دل پر زنگ لگ چکا ہو اور کسی نے فیصلہ کر لیا ہو کہ خواہ یہ سچے ہوں میں بہر حال نہیں مانوں گا.حضرت مسیح موعود کی ایک عظیم الشان پیشگوئی گذشتہ ایام میں آپ مسیح کا ایک الہام پورا ہوا ہے جو آپ نے اپنی زندگی میں شائع فرمایا تھا.آپ کے دوالہام تھے.جن میں بتایا گیا تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت احمدیوں پر ظلم کرتی ہوگی وہاں اس حکومت کے مقابل پر ایک ایسی پارٹی کھڑی ہو جائے گی جس کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی مگر وہ حکومت کی طاقتور اور کثیر التعداد فوج پر غالب آ جائے گی گر وہ خود بطور ہتھیار ہوگی اپنی ذات میں کو ئی خوبی نہ رکھتی ہوگی اس لئے اسے مغلوب کر کے اللہ تعالیٰ ملک کے لئے ایک مفید شخص نادر شاہ نامی کو بادشاہ بنائے گالیکن ابھی وہ ملک میں پورے طور پر امن و امان قائم نہ کرنے پائے گا اور ملکی ترقیات کیلئے اس شخص کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہوگی کہ وہ دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور لوگ افسوس کے ساتھ کہیں گے کہ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا اے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۹۰۵ ء میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ۱۹۲۸ء میں ان واقعات کا ظہور شروع ہوا جو اس پیشگوئی سے متعلق تھے.دنیا میں صرف افغانستان کی حکومت ہی ایسی ہے جو احمدیوں پر بطور حکومت تشد داورختی کرتی ہے.دیگر اسلامی ممالک مصر تر کی عرب میں حاکمانہ رنگ میں احمدیوں پر سختی نہیں کی جاتی نہ ہی کسی اور ملک میں ایسا ہوتا ہے.افراد کی طرف سے بعض اوقات زیادتیاں ہوتی رہی ہیں مگر وہ ہر جگہ ہی ہوتی رہتی ہیں.یہاں بھی ہوتی ہیں مگر بحیثیت ملک و حکومت احمد یوں پر ظلم کرنے والا واحد ملک صرف افغانستان ہی ہے.وہاں اس وقت تک عکی الا غلان اور حکومت کے فیصلہ کے ماتحت پانچ احمدی شہید کئے جاچکے ہیں جن میں سے ایک کو قتل اور چار کو سنگسار کیا گیا اس لئے وہی ایک ملک ہے جس کے لئے یہ پیشگوئی ہو سکتی ہے.چنانچہ بچہ سقہ نے تین سو کے قریب آدمیوں کے ساتھ کابل پر حملہ کیا اور باوجود یکہ امان اللہ خان کے پاس فوج، ہتھیار اور سب قسم کے سامانِ جنگ
۲۴۸ انوار العلوم جلد ۱۳ احمدیت کے اصول تھے، اسے کا بل چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا.مگر بچہ سقہ مع اپنے ساتھیوں کے اپنی ذات میں کوئی خوبی نہ رکھتا تھا وہ محض ایک ہتھیا رتھا.اس وقت نادر خاں فرانس میں بیمار پڑا تھا اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی.اگر وہ اس وقت تندرست ہوتا اور آ کر امان اللہ خان کے لئے لڑائی کرتا تو جیسا کہ اس کا ارادہ تھا، امان اللہ خان ہی بادشاہ رہتا مگر وہ ایسے وقت میں افغانستان پہنچا کہ ملک فتح ہونے سے قبل ہی امان اللہ خان وہاں سے بھاگ چکا تھا.اس نے ملک کو فتح کیا اور باوجود یکہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ میں بادشاہ بنا نہیں چاہتا، لوگوں کے اصرار سے مجبور ہو کر تخت پر بیٹھا اور اپنے لئے نادرشاہ کا نام تجویز کیا پھر ملک کے لئے بہت مفید ثابت ہوا.ابھی وہ اپنے کام میں مشغول تھا کہ ہندوستان سے ایک وفد جو ڈاکٹر سر محمد اقبال، سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی پر مشتمل تھا وہاں گیا اور واپس آ کر ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اخبارات میں یہ بیان شائع کیا کہ اگر غازی نادرشاہ کو دس سال بھی کام کرنے کے لئے مل گئے تو وہ ملک کو کچھ کا کچھ بنا دیں گے لیکن اس کے پانچ یا چھ دن کے بعد ہی کسی ظالم اور غلطی خوردہ نوجوان نے گولی مار کر ان کو قتل کر دیا اور سارا ملک بے اختیار چلا اٹھا کہ آہ ! نادر شاہ کہاں گیا.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں.ڈیرہ غازیخان کے ایک جج ہیں جو احمدی نہیں، انہوں نے اپنے علماء کو لکھا ہے کہ اس پیشگوئی سے انکار کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تم ثابت کر دو کہ مرزا صاحب کی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج نہیں اور احمد کی غلط کہتے ہیں.وگر نہ یہ ایسی صفائی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے کہ کوئی تاویل مجھے مطمئن نہیں کر سکتی اور میں اس کی کوئی تاویل سننے کیلئے تیار نہیں.ایک اور صاحب جو اس علاقہ کے بڑے رئیس ہیں.وہ جلسہ سالانہ پر قادیان آئے اور جب مجھ سے ملے تو کہنے لگے مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ پیشگوئی آپ کی کتابوں میں موجود ہو.میرے پاس اس وقت اتفاق سے وہ کتاب پڑی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات جمع کئے گئے ہیں میں نے نکال کر دکھا دیا.کہنے لگے بیشک ٹھیک ہے.ایسی ہی بیسیوں اور سینکڑوں چیزیں ہیں جن کے ذریعہ حضرت مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات پیش کئے اور ایسے رنگ میں کہ مخالفوں کو بھی انہیں تسلیم کرنا پڑا.اس طرح دنیا کے سامنے آپ نے زندہ خدا کا وجود پیش کیا اور خدا کے وجود کے ذہنی نقشہ کو بدل ڈالا.اب یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ خدا ہونا چاہئے یا نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ خدا ہے اور یہی درجہ ہے ایمان کا جو انسان کے لئے خیر و برکت اور فلاح کا موجب ہو سکتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۴۹ احمدیت کے اصول میں ایک دفعہ ہندوستان سے باہر گیا.وہاں بعض لوگوں قرآن خدا کا کلام ہے نے مجھ سے سوال کیا کہ قرآن کریم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الہام نہیں ہوا تھا.ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آپ جھوٹے تھے مگر قرآن آپ کے دل کے خیالات تھے اور یہ بھی آپ کا خیال تھا کہ کوئی خدا ہے جو یہ آیات آپ پر نازل کرتا ہے.ورنہ خدا کا منہ نہیں زبان نہیں پھر کس طرح ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ اس کی باتیں ہیں.میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کی یہ دلیل اس شخص پر تو اثر کر سکتی ہے جس نے خود کچھ نہ دیکھا ہوا اور عقلی طور پر خدا کا قائل ہو.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادموں کا خادم ہوں اور اس شخص کے متبعین میں سے ہوں جس کا دعوی ہے کہ بعد از خدا بعشق گر کفر این بود محمد محترم بخدا سخت کافرم اور جو یہ کہتا ہے کہ میں آپ کا ایک ادنیٰ چاکر ہوں.جب میں نے خود خدا کی آواز اور اس کی باتیں اپنے کانوں سے سنی ہیں تو کیا تم دلیل سے مجھے منوا سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، بلکہ آپ کے دل کے خیالات تھے.جو شخص عقلی طور پر خدا کو مانتا ہے وہ بے شک ان دلائل سے متاثر ہو گا کہ جب خدا کا منہ نہیں تو وہ بات کیسے کرتا ہے مگر جس کے کانوں میں خدا کی آوازیں آتی ہوں، وہ تو ایسی باتیں کرنے والوں سے یہی کہے گا کہ اے جاہل ! تیری سائنس اور تیرے علم نے تجھے تباہ کر دیا حقائق کے سامنے ان کی کیا حقیقت ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اینه کا ایسا زندہ ثبوت پیش کیا ہے کہ اگر کوئی غور کرے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور ایک زندہ خدا موجود ہے.جس کے مقابل پر بادشاہ اور حکومتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.یہی ایمان لے کر ہم دنیا میں جاتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ کوئی چیز دنیا کی ہمارے مقابل میں کوئی ہستی نہیں رکھتی.ایک انگریز نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا سائنس کی اس قدر ترقیوں کے باوجود آپ کا خیال ہے کہ اسلام غالب آ جائے گا.یہ خیال یہاں تک ترقی کر گیا ہے کہ خود مسلمان کالجیٹ بھی اسی قسم کے سوال کرتے رہتے ہیں.میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے اس کا ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ اپنی ہستی کا.شملہ کے آریہ سماج کے سیکرٹری صاحب ایک دفعہ مجھ صداقت اسلام کا ثبوت سے ملنے کیلئے آئے اور سوال کیا کہ اسلام کی صداقت
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۰ احمدیت کے اصول کا ثبوت کیا ہے.میں نے کہا.لمبی باتوں کا فائدہ نہیں، وقت بھی اس وقت تنگ تھا، ایک چھوٹی سی بات ہے.اسلام نے مجھے اپنی صداقت کے متعلق یقین دیا ہے.کہنے لگے کیا آپ سمجھتے ہیں مجھے اپنے مذہب پر یقین نہیں.میں نے کہا جیسا یقین آپ کو ہے ایسا تو ہر عیسائی موسائی غرضیکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہے.ایک عیسائی پادری کسی علاقہ میں مارا جاتا ہے تو ہزار ہا عیسائی لوگ اس کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.بعض تبلیغ کرنے والی عیسائی عورتوں کو مردم خور لوگوں نے کھا لیا تو ان کی جگہ لینے کیلئے ہزار ہا اور نے اپنے نام پیش کر دیئے.یہ عملی ثبوت ہے اس بات کا کہ ان کو عیسائیت کے سچا ہونے کا یقین ہے.کہنے لگے پھر آپ یقین کسے کہتے ہیں.میں نے کہا میں اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر یہ قسم کھاتا ہوں کہ اے خدا! اگر اسلام تیراند ہب نہیں اور قرآن تیری طرف سے نہیں تو ہم سب کو ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم کر دے اور ہم پر اپنا غضب نازل کر.آپ بھی اپنے مذہب کے متعلق ایسی قسم کھائیں.کہنے لگے بیوی بچوں کو کیوں شامل کیا جائے.میں نے کہا جس گولی نے لگنا نہیں اس سے ڈر کیسا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو شک ہے اور حقیقت بھی یہی ہے.ایمان کے کئی مدارج ہوتے ہیں اور مشاہدہ ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہے کہ کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا.جو انسان سورج کو دیکھ رہا ہو اسے خواہ پانچ سو ایسی گھڑیاں اکٹھی کر کے جو ۲۴ گھنٹے کا وقت بتاتی ہیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس وقت رات ہے تو وہ کسی طرح نہیں مان سکتا.کہتے ہیں کسی کی دکان میں چور گھس گیا اس نے باہر سے کنڈی لگا دی.چور نے میاؤں میاؤں کرنا شروع کیا کہ بلی سمجھ کر دروازہ کھول دے اور میں نکل جاؤں.وہ کہنے لگا.میں صبح پہنچوں کو بلاؤں گا اگر وہ کہیں گے کہ بلی ہے تو چھوڑ دوں گا اس وقت نہیں چھوڑ سکتا.تو جس چیز کو انسان خود دیکھ لے اس کے متعلق کس طرح شک کر سکتا ہے.اسی طرح جس نے خدا کا مشاہدہ کیا ہوا گر دنیا کے سارے بادشاہ اور حکومتیں مل کر بھی اس کے دل سے خدا کے متعلق ایمان نکالنا چاہیں اور اس کے لئے سب تدابیر اختیار کریں تو کیا وہ ان کی بات مان لے گا، ہر گز نہیں، وہ یہی کہے گا کہ یہ سب پاگل ہیں.اپنے ایمان میں اسے کوئی شبہ نہ ہوگا اور اس چیز کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر پیش کیا ہے.دوسری چیز پاک کرنا ہے.یہ کام بھی محض حضرت مسیح موعود اور تزکیہ نفوس تعلیم سے نہیں ہوسکتا اللہ تعالی کی مد سے ہی ہوسکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ کام بھی فلاسفر نہیں کر سکتے.جیسے کہ بوعلی سینا کی مثال میں نے دی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۱ احمدیت کے اصول ہے.ان کی تعلیم وہ اثر نہ کر سکتی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے چھوٹے جملے کرتے تھے.حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ بھی اس کی دلیل ہے.آپ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں گئے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ کیا اب تک تمہاری اصلاح کا وقت نہیں آیا.یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور عرض کیا یا رَسُول اللہ ! میں مسلمان ہونے کیلئے ہی حاضر ہوا ہوں.یہ تغیرات اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان سے ہی ہو سکتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے آکر بتایا کہ تزکیہ کا معجزہ اب بھی روشن ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کے ظہور کیلئے خدا نے مجھے بھی یہ معجزہ دیا ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ پاکیزگی چاہتے ہوں، ان کو پاک کرو.اس پاکیزگی کی تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے ایک بات بیان کرتا ہوں.اسلام کی خدمت کیلئے آپ نے ایک جماعت پیدا کی اور آپ کے اثر سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر چہ یہ جماعت چھوٹی سی ہے اور آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہلا سکتی.کسی شہر میں پچاس احمدی ہیں کسی میں سو ، اور دو ہزار سے زائد تو کسی شہر میں نہیں سوائے قادیان کے اور سب کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہ ہوگی مگر دوسرے مسلمان چالیس کروڑ ہیں جن میں کمزور بھی ہیں اور مضبوط بھی، امیر بھی ہیں اور غریب بھی، لیکن اس زمانہ میں جب کہ اسلام پر شدید حملے ہور ہے ہیں، ایسے شدید حملے کہ پہلے کبھی نہیں ہوئے.مٹھی بھر انسانوں کی اس جماعت کو جو جماعت احمد یہ ہے اللہ تعالیٰ نے خدمت دین کی جو توفیق بخشی وہ دوسروں کو نصیب نہیں.ہم خدا کے فضل سے لاکھوں روپیہ سالانہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات تبلیغ اسلام کیلئے خرچ کر رہے ہیں، سینکڑوں آدمیوں نے اس کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں.ان کی بھی خواہشات ہیں، آرزوئیں اور امنگیں ہیں، ان کے رشتہ دار دوست احباب بیوی بچے موجود ہیں مگر اسلام کے نام پر جب ان کو بلایا جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً حاضر ہو جاتے ہیں.بیوی بچوں رشتہ داروں اور وطن کو چھوڑ کر غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے چلے جاتے ہیں اور سات سات آٹھ آٹھ سال تک وہاں کام کرتے رہتے ہیں.غیر ممالک میں، غیر اقوام میں اور پھر ان لوگوں میں اسلام کی اشاعت کرتے ہیں جو ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں، پھر اس صورت میں کہ ان کے پاس سامان بہت کم ہوتے ہیں، اخراجات کی سخت تنگی ہوتی ہے، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ابھی امریکہ سے آئے ہیں انہوں نے امریکہ کے مبلغ کی حالت بتائی کہ وہ مالی تنگی کی وجہ سے کوئی
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۲ احمدیت کے اصول مکان کرایہ پر نہیں لے سکتے، کبھی کسی کے ہاں چلے جاتے ہیں اور کبھی کسی کے ہاں مگر باوجود اس کے ان کی عظمت اور رعب خدا کے فضل سے اتنا ہے کہ جو لوگ علوم مشرقیہ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور مسلّمہ مستشرقین ہیں، وہ ان کے سامنے دم نہیں مارتے.وہاں ایک نومسلم مسٹر بارکر ہیں جو سولیسٹر (SOLICITOR) ہیں.سولیسٹر بھی ایک نوع کی وکالت ہے.ان کا کام بیرسٹروں کیلئے مقدمات تیار کرنا ہوتا ہے.انہوں نے ایک کمپنی سے تاریخ کی کوئی کتاب خریدی، جس کی قیمت اقساط میں ادا کرنا تھی.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی غلط بات لکھ کر ہتک کی گئی تھی.ایسی باتوں کا آج کل یورپ میں بہت رواج ہو گیا ہے.مسٹر بار کرنے اس کمپنی کو لکھا کہ تم لوگوں نے دھوکا کیا ہے کتاب کو تاریخی بیان کیا ہے اور باتیں اس میں غلط درج کی ہیں اس لئے میں اس کی قیمت نہیں دوں گا.اگر تم قیمت لینا چاہتے ہو تو عدالت میں نالش کرو.چنانچہ مقدمہ چلا اس میں شکاگو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی شہادت ہوئی.اس نے دورانِ شہادت میں کہا کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں نہیں لکھا گیا.اس پر ہمارے مبلغ صوفی مطیع الرحمن صاحب نے جوش کے ساتھ کہا کون کہتا ہے کہ قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں لکھا گیا، یہ بات بالکل غلط ہے.اس پر پروفیسر مذکور کہنے لگا اچھا اگر آپ کہتے ہیں کہ میں نے غلط کہا تو میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتا ہوں اور جج نے بھی اپنے فیصلہ میں لکھا کہ افسوس ہے کمپنی نے کتاب میں جھوٹی باتیں لکھ دی ہیں.غرض حضرت مرزا صاحب نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے ہیں جو نہایت تکلیف دہ حالت میں سے گذرتے ہوئے تبلیغ اسلام کرتے ہیں.افریقہ میں اس وقت ۲۰ ہزار کے قریب نو مسلم ہیں اور اس علاقہ کی آب و ہوا اس قدر خراب ہے کہ حکومت اپنے کسی افسر کو دو تین سال سے زیادہ عرصہ کیلئے وہاں نہیں رکھتی مگر ہمارے مبلغ وہاں سات سات آٹھ آٹھ سال متواتر کام کرتے ہیں اور نہایت تنگی ترشی کی حالت میں کرتے ہیں.پھر انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں، صرف قلیل گزارے ملتے ہیں اور یہ ایسے نمونے ہیں کہ ہر انسان سمجھ سکتا ہے یہ وہ عظیم الشان قربانیاں ہیں جو اسلام کے نام پر کی جا رہی ہیں.یہ ہم ہی نہیں کہتے بلکہ مخالفوں کی بیسیوں تحریرات ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی قربانیاں صحابہ کی طرح ہیں.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی محبت لوگوں کے دلوں میں ایسی قائم کر دی ہے کہ وہ اس کے لئے جان و مال سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہیں اور قربان کر رہے ہیں.یہ تزکیہ ہے جو آپ نے کیا.
۲۵۳ انوار العلوم جلد ۱۳ احمدیت کے اصول حضرت مسیح موعودا اور تعلیم کتاب تیرا کام بعلمهم الكتب ہے یعنی يُعَلِّمُهُمُ قرآن سکھانا.آپ سے قبل دنیا میں یہ حالت تھی کہ مسلمانوں میں یہ خیال عام تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اور ان کی تعدا د مختلف لوگوں کے نزدیک پانچ سے پانچ سو تک تھی اور یہ قرآن پر ایک زبر دست اعتراض تھا.عیسائی اور دوسرے غیر مسلم کہتے تھے کہ جب اس قدر آیات منسوخ ہیں تو کس طرح امتیاز کیا جا سکتا ہے کہ باقی فی الواقع قابل عمل ہیں.کونسی آیات منسوخ ہیں اور کونسی ناسخ.اگر تو ایک تعداد پر سب متفق ہوتے تو اور بات تھی لیکن جب منسوخ آیات کے متعلق اس قدر اشتباہ ہے تو باقی حصہ کیونکر قابل اعتماد سمجھا جا سکتا ہے اور یہ ایک ایسا خطرناک حملہ تھا کہ صرف اس سے ہی قرآن کریم کی عظمت اٹھ جاتی تھی اور شبہ پیدا ہو جاتا تھا کہ جس آیت پر ہم عمل کرتے ہیں، شاید وہ منسوخ ہی ہو اس عقیدہ کے لوگ دلیل قرآن کریم کی آیت مَانَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا ل سے دیتے تھے اور اس کے معنی یہ کرتے تھے کہ ہم قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں کرتے مگر اس سے بہتر لے آتے ہیں حالانکہ یہاں قرآن کی آیات کا ذکر نہیں بلکہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں مراد ہیں.قرآن کریم پہلی کتابوں کی ان تعلیمات کو جو اُس وقت سچی اور قابل عمل تھیں، وہ دوبارہ لے آیا اور بعض جو قابل عمل نہ رہی تھیں، انہیں بدل کر ان کی جگہ بہتر لایا جو پہلی سے اعلیٰ اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق تھیں اس طرح اس آیت میں پرانی کتب کے نسخ کا ذکر تھا.وگر نہ قرآن بِسْمِ اللہ کی ب سے لے کر وَالنَّاسِ کی س تک ایسا ہی محفوظ اور قابل عمل ہے، جیسے پہلے تھا.حضرت مرزا صاحب نے دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا اور یہ ایسا دعوی تھا جس سے بھاگی ہوئی فوج واپس آ گئی اور پھر کھڑی ہوگئی.لوگوں کو قرآن پر غور کرنے کا موقع ملا اور بعض عظیم الشان صداقتیں جنہیں منسوخ سمجھا جاتا تھا ظا ہر ہوئیں.مثلاً لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين ۱۳ کی آیت کو لَا إِكْرَاهَ فِى الدِّين اور جہاد منسوخ سمجھا جاتا تھا حالانکہ جہاداور یہ حکم دونوں جاری ہیں اور ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں کیونکہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں تو گویا یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اگر کوئی جبر کرے تو اس کا مقابلہ بھی کرنا چاہئے اس طرح یہ احکام ایک دوسرے کو بھی مضبوط کرتے ہیں.تو جب اسلام نے یہ کہا لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين تو ساتھ ہی جہاد کا بھی حکم دیا تا کہ اِکراہ کرنے والوں کا مقابلہ کیا جاسکے اور جب یہ حکم ہوا کہ دین
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۴ احمدیت کے اصول کے رستہ میں رکاوٹوں کا مقابلہ کرو تو یہ بھی حکم ہوا کہ دین کے رستہ میں رکا وٹیں پیدا نہ کرو اس لئے دونوں حکم ایک دوسرے کے مؤید ہیں.لیکن چونکہ یہ اصول بنالیا گیا تھا کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے منسوخ قرار دے دیا جائے اس لئے یہ آیت بھی منسوخ سمجھی جاتی تھی.اسی طرح اور بھی بہت سی آیات منسوخ خیال کی جاتی تھیں.بعض پانچ صد بعض چار سو اور بعض کم و بیش آیات کو منسوخ سمجھتے تھے اور جو زیادہ عقلمند تھے وہ صرف پانچ ہی منسوخ قرار دیتے تھے.مگر حضرت مرزا صاحب نے آ کر بتایا کہ جب پانسو میں سے سوائے پانچ کے باقی سب حل ہو گئیں تو کیوں نہ سمجھ لیا جائے کہ انہیں حل کرنے والا کوئی آجائے گا اور ان کے حل سے کیوں مایوس ہوں.یہ چیز تھی جسے حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا اور ایسا قرآن سکھایا کہ دنیا کی کوئی قوم قرآن کریم کے متعلق ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی.ساری دنیا کو چیلنج میں ساری دنیا کو پینج دیتا ہوں کہ کوئی ایک آیت قرآن کریم کی پیش کی جائے جو حکمت سے خالی ہو اور جس کے متعلق کہا جا سکے کہ وہ اس زمانہ میں قابل عمل نہیں.میں خدا کے فضل سے ثابت کر دوں گا کہ اس میں ایسی خوبیاں ہیں جو دوسری الہامی کتابوں میں نہیں وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ کامل کتاب سکھائے گا اور یہ اس لئے فرمایا کہ دوسری کتابیں بھی ہیں جو ایسی کامل نہیں.پھر مسلمانوں میں ایک خیال یہ بھی مسلمانوں کی ایک اور غلطی کی اصلاح تھا کہ سوائے قرآن کریم کے باقی سب کتابوں میں جھوٹ اور فریب ہے.مگر حضرت مرزا صاحب نے آکر بتایا کہ اس کامل کتاب سے پہلے بھی لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت تھی.اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی انسان تھے جو دل و دماغ رکھتے تھے ان کے اندر قرب الہی کی خواہش تھی تو ماننا پڑے گا کہ وہ اس بات کے بھی مستحق تھے کہ خدا کا کلام ان کے لئے آئے.اگر یہ صحیح ہے کہ وہ خدا کی مخلوق تھے تو یہ بھی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھانے کیلئے کوئی تعلیم بھی دی ہوگی اور نبی بھی بھیجے ہو نگے.مگر مسلمان دنیا کی سب اقوام کے انبیاء کو جھوٹے سمجھتے تھے.اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ - سوائے ان مخلص بندوں کے جو ہر زمانہ میں صحیح اسلام کے جھنڈے کو کھڑا رکھتے چلے آئے ہیں.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آ کر یہ بات پیش کی کہ میں رام چندر اور کرشن جی کی بھی عزت کرتا ہوں اور انہیں خدا کے برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں.تو آپ پر کفر کے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۵ احمدیت کے اصول فتوے لگائے گئے کہ یہ کافروں کو مسلمان بناتا ہے.حالانکہ یہ کتنی عظیم الشان صداقت تھی قرآن کریم اور اسلام کی.جسے حقیقی کمال حاصل ہو وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا وہ جانتا ہے کہ میرا کمال خود میری برتری کا ثبوت ہے مگر جو کمزور ہو وہ ڈرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میرے مقابل کوئی اور نہ ہو جس سے میں شکست کھا جاؤں.پس قرآن نے دوسروں کی صداقت تسلیم کر کے اپنی صداقت ظاہر کی اور اپنا کمال ثابت کیا.چھوٹی سی صداقت رکھنے والا ڈرتا ہے کہ مجھ سے بڑی صداقت معلوم ہونے پر لوگ مجھے قبول نہیں کریں گے لیکن قرآن کریم کو اس کا کوئی اندیشہ نہیں.وہ جانتا ہے کہ دوسری صداقتوں کا لوگ جتنا زیادہ مطالعہ کریں گئے اتنا ہی وہ میرے کمال کا اعتراف کریں گے.ایک چھوٹی سی ٹارچ رکھنے والا گھبراتا ہے کہ جگنو بھی آ جائے تو میرے ٹارچ کی روشنی مشتبہ ہو جائے گی لیکن سورج کی سی روشنی رکھنے والا لیمپوں سے کب ڈرتا ہے.پس قرآن کا کمال یہ تھا کہ وہ تسلیم کرے کہ انجیل، توریت ویڈ سب خدا کی طرف سے تھے اور حضرت عیسی، حضرت موسیٰ ، حضرت کرشن سب اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے حضرت مرزا صاحب نے قرآن کی طرف لوگوں کی حقیقی توجہ منعطف کی.اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ توریت انجیل وغیرہ کتب جھوٹی ہیں تو وہ انہیں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھے گا اور نہ اس طرف متوجہ ہوگا کہ دیگر مذاہب کا مطالعہ کرے.وہ یہی خیال کرے گا کہ میں شیطانی کلام کیوں پڑھوں اور اس طرح ان کے مقابلہ میں قرآن کی عظمت کا احساس بھی اس کے اندر پیدا نہ ہو سکے گا لیکن جب وہ ان کتب کو الہی کلام سمجھے گا تو گو انہیں قابل عمل نہ سمجھے، پھر بھی محبوب کا کلام سمجھ کر ان کا مطالعہ ضرور کرے گا کیونکہ محبوب کا لباس خواہ پرانا ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اسے دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اگر کوئی بوسیدہ جامہ مل جائے تو کیا کوئی مسلمان ایسا ہو گا جو محض اس کے بوسیدہ ہونے کی وجہ سے اس سے اپنی آنکھوں کو منور کرنے کی کوشس نہ کرے.اسی طرح جب ایک انسان کو یہ یقین ہوگا کہ پرانی کتب بھی دراصل خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں اور ایک زمانہ کیلئے وہ ہدایت کا موجب تھیں تو وہ انہیں بھی پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی کوشش کرے گا کہ پہلی کتابوں سے زیادہ چیز اس میں سے تلاش کرے اور اس طرح وہ قرآن کے مخفی خزانے نکالے گا.جب تک دوسری کتابوں کا حسن اس نے نہیں دیکھا تھا، وہ قرآن کی چھوٹی خوبیوں سے تسلی پاسکتا تھا لیکن جب ان کو دیکھے گا تو قرآن کے بڑے معارف معلوم کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے ایک شخص جو کسی گاؤں کا رہنے والا ہو اس کے حسن کا معیار معمولی ہوگا.لیکن جو
انوار العلوم جلد ۳ ۲۵۶ احمدیت کے اصول شخص دنیا میں پھرنے والا ہوگا اس کا اور.ایک گاؤں میں رہنے والا مصور اگر نیچر کا نقشہ کھینچے گا تو یہی دکھائے گا کہ سبزہ لہلہا رہا ہے اور شاخوں پر چڑیاں بیٹھی ہیں لیکن وہ مصور جس نے کشمیریا سوئٹزرلینڈ کے قدرتی مناظر دیکھے ہوں گے وہ ان کا مرقع اور مناظر پیش کرے گا.اسی طرح جس نے دوسری کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا، وہ قرآن کریم کی معمولی خوبیوں پر مطمئن ہو جائے گا لیکن جس نے دوسری کتب دیکھی ہوں گئی وہ قرآن کریم کے مخفی خزانوں کی تلاش کرے گا.اس ایک نکتہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ایسا گر بتا دیا جس سے قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق نقطۂ نگاہ ہی تبدیل ہو گیا اور آج ہم ساری دنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ تم کسی مذہب کی تعلیم خواہ وہ عبادت کے متعلق ہو خواہ وہ تمدن کے متعلق، نماز، روزہ، حج، زکوۃ میاں بیوی کے تعلقات بچوں سے سلوک، راعی ورعایا کے تعلقات، غرضیکہ روحانی واخلاقی شعبوں کی کسی شاخ کے متعلق کوئی تعلیم پیش کرو ہم اگر قرآن کریم سے اس سے بدرجہا بہتر اور مکمل پیش نہ کر دیں تو ہم جھوٹے وگر نہ تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم ہی الکتاب ہے.تعلیم کتاب وحکمت کے دروازے چوتھی چیز حکمت سکھانا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جبر کی تعلیم نہیں دی، کیونکہ اس سے نیکی نہیں پیدا ہوتی.یہ کہنا کہ یہ کام کرو تو جنت ملے گی ورنہ خدا کا عذاب نازل ہوگا.یہ بات بچے کے متعلق تو کام دے سکتی ہے لیکن ایک عقلمند کے دل میں ضرور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ نماز اس لئے پڑھی جاتی ہے کہ دوزخ سے بچ جائیں، ورنہ اپنی ذات میں نماز میں کوئی خوبی نہیں.میں ڈنڈے کے ڈر سے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بچہ سے کہیں کہ پڑھنے جاؤ تمہیں فلاں کھلونا لے دیں گے.وہ بچہ علم کوعلم کے لئے نہیں بلکہ کھلونے یا مٹھائی کیلئے حاصل کرے گا.لیکن ایک طرف تو ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ انسان ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل انسان پیدا ہو گیا.پہلے انبیاء کے وقتوں میں بنی نوع انسان کی حالت بچوں کی سی تھی اس لئے ان کیلئے شریعت بھی ویسی ہی نازل ہوئی.پھر جب بلوغت کے قریب پہنچے تو شریعت بھی اسی نسبت سے آگے بڑھی حتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر ختم ہوگئی.چونکہ آپ کے زمانہ میں انسان بالغ ہو گیا لیکن سلوک اگر اب بھی اس سے بچوں والا ہی کیا جائے تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہوگا کہ دنیا بلوغت کو پہنچ گئی.اگر اب بھی یہی کہا جائے کہ نماز پڑھو وگرنہ دوزخ میں جاؤ گے تو یہ انسان سے
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۷ احمدیت کے اصول بچوں والا سلوک ہی ہوگا.میں ایک دفعہ نڈ وہ کے جلسہ میں گیا وہاں ایک مولوی صاحب نماز پر لیکچر دے رہے تھے.میں ان کا نام نہیں لیتا اس وقت وہ فوت ہو چکے ہیں لیکن یہ بتا دیتا ہوں کہ مولا ناشبلی نہ تھے.وہ ندوہ کے مدرس تھے.ان کے لیکچر کا خلاصہ یہ تھا کہ نماز پڑھو.خدا کہتا ہے فائدہ اس کا یہ ہے کہ جنت ملے گی.جنت کیا ہے.ایک ایسی جگہ جہاں چاروں طرف خوبصورت اور جوان عورتوں کی تصویریں لگی ہونگی جس تصویر کی خواہش کی جائے گی وہ فورا متمثل ہو کر حاضر ہو جائے گی وہاں انسان کے اندر اس قدر طاقت آ جائے گی کہ خواہ ۲۴ گھنٹہ مجامعت کرتا رہے تکان محسوس نہ ہوگی.میرے قریب لکھنؤ کے ایک بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے.خدا مولا ناشیلی کا بھلا کرے کہ آپ نے یہ لیکچر رات کو رکھا ورنہ دن کو ہوتا تو غیر مسلم بھی آجاتے اور ہمارے لئے شرم کے مارے یہاں سے اٹھنا محال ہو جاتا.تو یہ بالکل بچہ والی بات ہے اور اگر نماز روزہ کی یہی حکمت ہے تو یہ انسان سے بالکل بچوں والا سلوک ہے اور اس صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی کوئی ضرورت نہ تھی.کیا حضرت آدم یہ تعلیم نہ دے سکتے تھے.نماز پڑھانے کیلئے اس سے چھوٹی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے اور اگر یہی دلیل تھی تو نبیوں کے اس قدر لمبے سلسلہ کی کیا ضرورت تھی.حقیقت یہ ہے کہ جب انسان بچہ تھا، اس وقت تو بیشک ایسی تعلیم کافی تھی کہ مانو ! تو انعام ملے گا اور نہ مانو گے! تو سزا.لیکن جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا.شریعت بھی بدلتی گئی حتی کہ قرآن کریم ایسی شریعت آئی جس کے ہر حکم میں حکمت ہے اور ويُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ کے یہی معنی ہیں کہ یہ جو کچھ بیان کرتا ہے.اس کی حکمت بھی ساتھ بتا تا ہے.مگر یہ بات مسلمانوں میں اب حضرت مسیح موعود و تعلیم کتاب و حکمت منفرد تھی اس لئے اللہ تعالی نے حضرت مرزا صاحب کو مبعوث کیا.آپ کی کتابیں پڑھو ! آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح آپ نے اسلام کے ہر مسئلہ کی حکمت ایسے رنگ میں بیان فرمائی کہ وہ اسے دیگر ادیان پر فائق ثابت کرتی ہے.آپ کی ایک تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی ہے جس میں آپ نے یہی بات واضح کی ہے اور یورپ کے بڑے بڑے معقول لوگوں نے اس پر ریویو کئے ہیں اور اعتراف کیا ہے کہ اتنی چھوٹی سی کتاب میں اتنی اہم اور معقول باتیں بیان کرنا حیرت ناک امر ہے.اس میں آپ نے بتایا ہے کہ انسان اپنے اوپر بدی کے رستے کس طرح بند اور نیکی کے دروازے کس طرح کھول سکتا ہے.
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۸ احمدیت کے اصول غرضیکہ آپ نے اسلام کی خادم ایک ایسی جماعت عیسائیت پر احمدیت کا رُعب قائم کر دی ہے جس کے مقابلہ کیلئے مذہبی میدان میں یورپ بھی نہیں ٹھہر سکتا.ایک دفعہ عیسائیوں کے تین بااثر پادری قادیان آئے.ان میں سے ایک مسٹر لوکس پر نسپل فورمین کرسچن کالج لاہور تھے ایک مسٹر بیوم لٹریری سیکر ٹری وائی.ایم سی.اے اور ایک مسٹر والٹر تھے جو کہتے تھے کہ احمد یہ جماعت کے متعلق میں ایک کتاب لکھنے کیلئے مواد فراہم کرنے کی خاطر امریکہ سے آیا ہوں.جب وہ واپس امریکہ کی طرف روانہ ہوئے تو مسٹر لوکس نے سیلون کے پادریوں کے سامنے ایک لیکچر دیا اور کہا کہ عیسائیت کے غلبہ کی کوششوں میں جب تک صحیح راستہ اختیار نہ کیا جائے گا، کامیابی نہ ہوگی.اگر تم نے عیسائیت کو اسلام پر غالب کرنا ہے تو قادیان کی چھوٹی سی بستی کی طرف تمہیں متوجہ ہونا چاہئے جہاں عیسائیت کے مقابلہ کی زبر دست تیاریاں ہو رہی ہیں اور وہاں ایسے سامان مہیا ہو رہے ہیں جن سے عیسائیت پاش پاش ہو جائے گی.وہ سامان کیا ہے؟ یہی کہ ہم اسلام کی ہر بات میں حکمت ظاہر کرتے ہیں.اسلام عیسائیت کی طرح یہ نہیں کہتا عیسائیت اور اسلام کی تعلیم کا موازنہ کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو.قرآن کی تعلیم اس بارے میں یہ ہے کہ مارنے کے موقع پر مارو اور معاف کرنے کے موقع پر معاف کرو.ہر حالت میں غرض اصلاح ہو.جس طرح بھی کوئی نیک بن سکئے اسی طرح کرو.دنیا میں دونوں قسم کے ہی لوگ ہوتے ہیں.بعض مار سے ٹھیک ہوتے ہیں اور بعض عفو سے اس لئے اسلام نے دونوں باتیں جائز رکھیں.یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے کر دو! مصر میں ایک پادری صاحب وعظ کیا کرتے تھے اور روز یہی بات پیش کرتے کہ دیکھو عیسائیت کی تعلیم کیسی اچھی ہے جو دشمن کے متعلق بھی یہ کہتی ہے کہ اس کا مقابلہ نہ کرو بلکہ اگر وہ ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو! ایک دن آپ یہی وعظ کر رہے تھے کہ ایک منچلے نے بڑھ کر ان کے منہ پر تھپڑ مار دیا.اس پر پادری صاحب بھی اسے مارنے لگے.اس نے کہا آپ ہر روز یہ تعلیم دیتے ہیں کیا وجہ ہے کہ عمل کے وقت اس کے خلاف کرتے ہیں.کہنے لگے.آج تو مجھے اسلام کی تعلیم پر ہی عمل کرنا پڑے گا، نہیں تو تم روز مجھے مار لیا کرو گے.جنگِ عظم کے موقع پر ایک فری تھنکر رسالہ نے ایک مضمون شائع کیا تھا کہ کیا وجہ ہے جرمنی اور فرانس آپس میں لڑتے ہیں اگر جرمنی نے ایک
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۵۹ احمدیت کے اصول صوبہ پر قبضہ کیا تھا تو فرانس کی حکومت کو چاہئے تھا کہ کہتی آئیے پیرس پر بھی قبضہ کر لیجئے.غرضیکہ حضرت مرزا صاحب کی تمام کتابیں اسلامی احکام کی حکمتوں سے بھری پڑی ہیں اور آپ نے اپنی جماعت کو تعلیم دی ہے کہ اسلام کو جبر کے رنگ میں پیش نہ کرو.یہ ایسی چیز ہے کہ اگر اسے صحیح رنگ میں پیش کیا جائے تو ہر فطرت اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے.خود مجھ سے کئی غیر مسلموں نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سُن کر کہا کہ وہ اسے یاد کریں گے.اسی طرح کئی عیسائی، ہند و مخفی طور پر نمازیں پڑھتے ہیں اگر چہ انہیں اظہار کی جرات نہیں.تو یہ وہ اصول ہیں جو احمدیت کے ہیں.یعنی زندہ خدا کو پیش کرنا اعمال میں پاکیزگی پیدا کرنا اور قرآن کو دیگر ادیان پر غالب کرنا اور لوگوں کو سکھانا.مسلمانوں نے قرآن کریم کی مسلمانوں کی قرآن کریم سے بے توجہی طرف توجہ بالکل چھوڑ دی تھی لا ہور میں مجھ سے تین مولوی صاحبان ملنے آئے جن میں سے دور یو بند کے تعلیم یافتہ تھے.بیٹھتے ہی ایک نے سوال کیا کہ آپ لاہور کیوں آئے ہیں.میں نے کہا یہاں ایگریکلچرل نمائش تھی، اسے دیکھنے کا خیال تھا، بچے بھی دیکھنا چاہتے تھے، اس لئے آ گیا.ایک نے پوچھا آپ کی تعلیم کتنی ہے.میں نے کہا میں کسی مدرسہ کا باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں ہوں.کہنے لگے آخر کچھ تو پڑھا ہوگا.میں نے کہا قرآن پڑھا ہے.پھر پوچھا انتہائی تعلیم کیا ہے.میں نے کہا یہی ابتدائی اور یہی انتہائی ہے.پھر سوال کیا کہ انگریزی پڑھی ہوگی.میں نے کہا میں مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا مگر شروع سے انٹرنس تک ہمیشہ فیل ہی ہوتا رہا.کہنے لگے کہ انگریزی بھی نہیں پڑھی اور عربی بھی نہیں.ایک فرمانے لگے پرائیویٹ طور پر تحصیل کی ہوگی.میں نے کہا صرف قرآن کی.وہ اس امر پر حیران تھے کہ میں نے سوائے قرآن کے اور کوئی تعلیم حاصل نہیں کی اور میں اس پر حیران ہورہا تھا کہ یہ بیچارے قرآن پڑھنے کو معمولی تعلیم سمجھتے ہیں حالانکہ سارے علوم اس کے اندر ہیں.میں نے کسی کا لج میں تعلیم نہیں پائی اور سکول کی قرآن سب علوم کا جامع ہے تعلیم کی حالت کا ابھی میں نے ذکر کر دیا ہے.لیکن میرا دعویٰ ہے کہ مجھے قرآن آتا ہے اور کوئی فلاسفر کوئی سائیکالوجسٹ، کوئی سائنس دان غرضیکہ کسی علم کا ماہر آئے اور اپنے علم کی رُو سے اسلام پر اعتراض کرے.اگر اسی کے علم سے میں اس کا رڈ نہ کر دوں ! تو جھوٹا.میں ہندوستان میں بھی سب جگہ گیا ہوں اور یورپ بھی گیا ہوں اور ہر قسم کے علوم جاننے والوں سے گفتگوئیں ہوئی ہیں.جن میں بڑے بڑے فلسفہ دان، سائنس دان
۲۶۰ انوار العلوم جلد ۱۳ احمدیت کے اصول سپر چولزم کے ماہر تھے مگر سب کو قرآن کے ذریعہ خاموش کر دیا.کیونکہ قرآن سب علوم کا جامع ہے یہ ایک مخفی خزانہ ہے، کسی مذہب وملت یا کسی مذہب کے جاننے والے کو میرے سامنے لے آؤ یا مجھے جہاں کہو میں جاؤں گا اور جو شخص بھی سامنے آئے گا قرآن کی فضیلت اس پر اور اس کے علوم پر ثابت کر دوں گا اور خدا کے فضل سے اسے خاموش ہونا پڑے گا حالانکہ میں مروجہ علوم پڑھا ہوا نہیں ہوں.وہ بھی کیا علوم ہیں جن کے پڑھنے کے بعد اور کتابیں پڑھنے کی ضرورت باقی رہے.مگر قرآن وہ کتاب ہے جسے پڑھنے کے بعد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے حضرت خلیفہ اول مولوی نورالدین صاحب پر.آپ نے مجھے قرآن کریم اور بخاری پڑھا دی تو فرمایا.میں نے سارے علوم تمہیں پڑھا دیئے ہیں.گو اپنے طور پر میں نے بعد میں مطالعہ جاری رکھا مگر بخاری بھی قرآن کی تابع ہے اور محض علم کی تازگی کیلئے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے وگر نہ قرآن کے بعد اس کی بھی ضرورت نہیں رہتی.ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں.قرآن کے اندر ہی سب چیزیں موجود ہیں.مگر مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہ تھی.اور قرآن سے ان کا تعلق باقی نہ رہا تھا.حضرت مرزا صاحب کے ایک دوست تھے جنہیں مولوی محمد حسین صاحب سے بھی عقیدت تھی.جب آپ نے دعوی کیا اور مولوی محمد حسین صاحب مخالفت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تو انہوں نے ان کو لکھا کہ آپ گھبرایئے نہیں مجھے یقین ہے کہ مرزا صاحب کو قرآن پر ایمان ہے.میں انہیں مل کر سمجھا لوں گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مان جائیں گے.چنانچہ وہ آپ سے ملنے آئے اور کہا آپ کا کیا یہ دعویٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا.ہاں قرآن میں ایسا ہی لکھا ہے.وہ کہنے لگے کہ اگر میں قرآن شریف کی دس آیات ایسی پیش کر دوں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت ہو تو کیا آپ مان لیں گے.آپ نے فرمایا.دس آیات کیا اگر ایک آیت کا ٹکڑا بھی پیش کر دیں تو میں مان لوں گا.کہنے لگے.بس مجھے آپ سے یہی امید تھی اور یقین تھا کہ آپ قرآن کے خلاف نہیں جائیں گے.مولوی محمد حسین صاحب ان دنوں لاہور میں تھے وہ ان کے پاس پہنچے اور کہا کہ بس اب فیصلہ ہو گیا ہے، مرزا صاحب فوراً مان جائیں گے.آپ صرف اتنا کریں کہ دس آیات ایسی لکھ دیں جن سے حیات مسیح ثابت ہو.یہ سن کر مولوی صاحب جھنجھلا کر بولے کہ بیوقوفوں کو کس نے کہا ہے کہ علمی مسائل کے اندر دخل دیں.تین ماہ کی بحث کے بعد میں مرزا صاحب کو کھینچ کر حدیث کی طرف لا یا تھا، یہ پھر قرآن کی طرف لے گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ اچھا پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں ہوں.تو مسلمانوں
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۶۱ احمدیت کے اصول کی یہ حالت تھی اور اس کی طرف ان کی کوئی توجہ نہ تھی.حالانکہ قرآن ہی تمام علوم کا جامع ہے اور اسی سے سب مسائل حل ہو سکتے ہیں.کسی قسم کا اعتراض ہو کوئی وسوسہ پیش کر ؤ قرآن میں اس کا جواب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُه ١٢ یعنی ہم نے چونکہ انسان کو پیدا کیا ہے.ہم خوب جانتے ہیں جو وسوسہ بھی اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.یہ وقت نہیں کہ میں اس مسئلہ پر وضاحت سے روشنی ڈال سکوں.مگر یہ میرا دعویٰ ہے کہ کسی علم والا میرے سامنے آئے اور کہے یہ مذہبی مسئلہ قرآن سے نکال دو.میں اِنشَاءَ اللہ وہ بھی اور اس کا جواب بھی نکال دوں گا.پس احمدیت کے یہی اصول ہیں اور حضرت مرزا ہمدردانہ اور نیک مشورہ صاحب نے یہی دنیا کے سامنے پیش کئے اور آپ کی جماعت بھی یہی پیش کرتی ہے.اس نور ہدایت پر غور کرو اور دیکھو کہ قرآن زندہ ہو کر آپ کے مریدوں کے ہاتھوں میں بولتا ہے یا نہیں.دوسروں کو اس کے حل کرنے کیلئے اور کتابوں کی ضرورت ہے.مگر ہمارے ہاتھوں میں یہ خود بولتا ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ جو اس کیلئے بچی جستجو کرے حاصل کر سکتا ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۱۵ پس بجائے اس کے کہ احمدیوں کو گالیاں دی جائیں، کیوں نہ خدا تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ جو رستہ سچ ہے وہ ہمیں بتا دے اگر احمدیت حق ہے تو اسے قبول کرنے کی توفیق دے وگر نہ اس سے بچالے.نہ ہماری مانو! اور نہ کسی مولوی کی بلکہ خدا سے کہو! کہ تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ہدایت کے لئے پیدا کیا، قرآن کو نازل کیا، مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق کس طرف ہے.اس لئے ہم اپنے آپ کو تیرے سامنے ڈالتے ہیں اور عبودیت اور تذلل کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ جو حق ہے، ہم پر کھول دے اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں یہ بات ڈال دے کہ احمدیت سچ ہے تو اسے مان لو.مطبوعه باراول دسمبر ۱۹۳۴ ء.قادیان) 1 الجمعة: اتام البقرة : ١٣٠
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۶۲ المواهب اللدنية الجزء الاوّل صفحه ۶۳ المطبعة الشرفية ١٩٠٧ء سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ مسلم كتاب الجهاد باب غزوة الْبَدْرِ بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيْشُونَ رَبَّكُمُ (الخ) الفتح : اا 2 سیرت ابن ہشام الجز الاوّل صفحہ ۱۱۶.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ا تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۱۲۴، ۱۲۵.مطبوعہ لاہور، ۱۸۷ھ تذکرہ صفحہ ۵۴۷.ایڈیشن چہارم ١٢ البقرة: ١٠٧ ۱۵ العنكبوت: ۷۰ البقرة: ۲۵۷ ق : ۱۷ احمدیت کے اصول
انوار العلوم جلد ۱۳ ۲۶۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے کھلا رہنا چاہئے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی
۲۶۴ انوار العلوم جلد ۱۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے کھلا رہنا چاہیئے فرمودہ ۷.اپریل ۱۹۳۴ء برموقع افتتاح بیت فضل لائل پور ) تشهد تعوذ کے بعد حضور نے فرمایا: خلافت کے شروع ایام سے ہی میں نے یہ اصول مقرر کیا ہوا ہے کہ میں جماعتوں کی طرف سے عام دعوت پر قادیان سے باہر نہیں جایا کرتا جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کے بلانے پر اس کے ہاں جاؤں تو جو محبت اور اخلاص ہر جماعت کے احباب کو ہے، اس کی وجہ سے رقابت کے باعث یا تو مجھے ہر وقت باہر رہنا پڑے گا یا پھر بعض جماعتوں کو شکوہ ہو گا کہ فلاں جگہ گئے اور ہمارے ہاں نہیں آئے.اس سے قبل صرف ایک ہی مثال ایسی ہے کہ جہاں میں جماعت کی دعوت پر گیا یعنی سیالکوٹ کی جماعت کے بلانے پر میں وہاں گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی میں ایک بار اور وہاں جانے کا وعدہ فرمایا تھا اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے میں جماعت کی خواہش پر وہاں گیا.اب یہاں جو آنا میں نے منظور کیا ہے اس کی وجہ زیادہ تر یہی ہے کہ میں نے سمجھا کہ یہ خاص طور پر دینی کام ہے.لائل پورنو آبادی کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے گویا نئی دنیا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کشف بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک نئی دنیا بنانے آئے تھے اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں جاؤں تا وہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
۲۶۵ انوار العلوم جلد ۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے والسلام نے رویا میں دیکھا تھا کہ آپ نے نیا آسمان اور نئی زمین بنائی ہے.اس کے حقیقی معنی تو یہی ہیں کہ ساری دنیا میں آپ کے ذریعہ ایک نئی روح پھونکی جائے گی مگر جز وی معنی یہ بھی ہیں کہ جونئی دنیا بسی ہے وہاں کے لوگوں میں سچا ایمان پیدا کر دیا جائے.پس اس قسم کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں بھی احمدیت کو مضبوط کر دے تا ظاہری آبادی کی طرح یہاں باطنی آبادی بھی ہو جائے، میں یہاں آنے پر آمادہ ہو گیا اور انہی خیالات کے ماتحت میں نے سمجھا کہ اگر دوسری جماعتیں مجھے بلانا چاہیں گی تو میں ان کو جواب دے سکوں گا.اس کے بعد میں ایڈریس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.پہلے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے مسجد کی آبادی کی کوشش کی اور اس کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں قربانیاں کیں اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کے لئے اجر عظیم عطا کرے یہ مسجد اس کی سچی عبادت کا مرکز ہو اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں سے کبر اور خیلاء کو جو عبادت کے منافی ہے نکال دے.پھر جہاں میں ایڈریس دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، وہاں ایک امر کے متعلق اظہار افسوس کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا.ایشیائی لوگوں میں عام رواج ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد کچھ نہ کچھ جذبات پر رکھتے ہیں.یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی ان کے تمام کاموں میں تجارتی رنگ ہوتا ہے.ایشیائی ممالک کا اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو وہ قیدیوں کو آزاد کرے گا، قاتلوں کو معاف کرے گا، ملازموں کو چھٹیاں دے گا اور انعام اکرام تقسیم کرے گا لیکن یورپ میں اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی.غرض ہماری دنیا جذ باقی دنیا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ بعض حالات میں مفید ہوتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اس موقع پر جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو تو فیق دی کہ آپ لوگ اس کے نام پر ایک گھر بنائیں، بعض کا جوشکوہ کیا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا.میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے مخالفت کی ہو گی مگر یہ سمجھ کر کہ اس طرح وہ دین کی کوئی خدمت کر رہے ہیں انہوں نے مخالفت کی لیکن اب جب خدا تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا کی تو چاہیئے تھا کہ خدمت کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے مگر مخالفت کرنے والوں کا ذکر چھوڑ دیتے اور دلوں میں ان کے لئے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے.ایڈریس کے اس حصہ نے مجھے تکلیف دی ہے.خوشی کے موقع پر ایشیائی بادشاہ قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور مخالفت کرنے والے لوگ تو آپ کے قیدی نہ تھے ان کا ذکر چھوڑ دینے میں آپ کا کوئی حرج نہیں ہوتا تھا.
۲۶۶ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے انوار العلوم جلد ۳ اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ دوستوں کو مسجد بنانے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں.آج جلسہ بھی ہے سفر کی وجہ سے مجھے کوفت بھی ہے اس لئے کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا.چار پانچ دن سے تو مجھے اس قدر تکلیف تھی کہ پہلی دفعہ کل ہی جمعہ کے لئے باہر آیا رات بھی سخت تکلیف رہی اور تمام رات جاگتے کئی صبح ڈاکٹری مشورہ یہی تھا کہ میں سفر کو ملتوی کر دوں مگر میں نے کہا طبیعت تو بیشک یہی کہتی ہے مگر وہ سینکڑوں لوگ جو مختلف علاقوں سے آئے ہوں گئے ان کو نظرانداز کر دینا میرے نز دیک گناہ ہے.پس میں اختصار سے کام لوں گا.مساجد اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں رھتی ہیں.مسجد خدا کا گھر ہے اور جو شخص مسجد بنانے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اسے ہم نے بنایا اور یہ ہماری ہے وہ گویا خدا کے گھر کو اپنا گھر قرار دیتا ہے.دنیا میں اگر کوئی شخص کسی معمولی آدمی کے گھر کو بھی کہے کہ یہ میرا ہے تو وہ مجرم سمجھا جاتا ہے اس سے اندازہ کر لو کہ جو شخص خدا کے نام پر ایک گھر بنائے اور پھر اسے اپنا قرار دئے وہ کتنی بڑی سزا کا مستحق ہوگا.پس لائل پور کا ہر احمدی فرد یہی سمجھے کہ یہ خدا کا گھر ہے اگر یہ خدا کا گھر نہیں ہے تو مسجد نہیں ہو سکتی اور اگر خدا کا گھر ہے تو آج سے آپ لوگوں میں سے کوئی شخص ایک ساعت کے لئے بھی یہ خیال نہ کرے کہ یہ ان کی ہے.جس وقت میں نے دو رکعتیں پڑھ کر اس کا افتتاح کیا، اس کے بعد کسی کو اب یہ حق نہیں کہ اسے اپنی قرار دے اور کسی کو اس میں عبادت کرنے سے رو کے حتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہند و یا عیسائی کو بھی روکے گا تو وہ خدا کا فوجداری مجرم ہو گا، کیونکہ وہ خدا کے گھر کو اپنا گھر قرار دے گا.دوسرے لوگ مساجد بناتے ہیں مگر باہر بورڈ لگا دیتے ہیں کہ یہاں کوئی شیعہ احمدی، وہابی نہ آئے مگر وہ دھوکا خوردہ ہیں.وہ خدا کے نام پر مسجد بناتے ہیں مگر پھر اس پر اپنا قبضہ کر لیتے ہیں.تم بھی اگر ایسا ہی کرو گے تو خدا کے فضل کو حاصل نہیں کر سکو گے.تمہارا بورڈ یہی ہونا چاہیئے کہ یہ خدا کا گھر ہے، جس کا جی چاہے یہاں آ کر اس کا نام لے سکتا ہے.خواہ وہ کسی رنگ میں عبادت کرے، ہم خوش ہونگے.رسول کریم ﷺ کے پاس عیسائیوں کا ایک وفد آیا اور کچھ مذہبی مباحثہ کیا اتنے میں ان کی عبادت کا وقت آگیا.عیسائیوں میں بعض مشرک ہوتے ہیں اور بعض موحد بھی.گو وہ بعض مسلمانوں کی طرح حضرت مسیح کی تعظیم ارباب کی حد تک کرتے ہیں.مگر پھر بھی خدا کو ایک مانتے ہیں اس وفد کے عیسائی بت پرست تھے اور انہوں نے سونے کی صلیبیں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں جنہیں وہ پوجتے تھے.انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا کہ ہم باہر
۲۶۷ انوارالعلوم جلد ۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے جا کر اپنی عبادت کر آئیں مگر آپ نے فرمایا کہ یہ مسجد عبادت کے لئے ہی ہے، آپ بے شک یہاں اپنی طرز پر عبادت کریں.چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی صلیبیں رکھیں اور اپنے طریق پر عبادت کی.ہاں مسجدوں کے انتظام کے لئے ایک جماعت ذمہ دار ہوتی ہے وہ انتظامی طور پر دخل دے سکتی ہے.مثلاً اگر وہ دیکھے کہ شور پڑتا ہے تو مختلف لوگوں کی عبادت کے لئے علیحدہ علیحدہ وقت مقرر کر سکتی ہے.یا اگر کوئی کسی چیز کو خراب کرے تو اسے روک سکتی ہے.ایسے انتظامی معاملات میں دخل دینے کا آپ کو بھی حق ہے لیکن اگر عبادت کے معاملہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کی گئی تو یہ مسجد پھر خدا کا گھر نہیں بلکہ بندوں کی ایک جگہ ہوگی اور اس صورت میں آپ لوگوں کے لئے کسی برکت کا موجب نہیں ہو سکتی.یہ دوسری مسجد ہے جس کا اس رنگ میں میں نے افتتاح کیا ہے.پہلی انگلستان کی مسجد تھی وہاں بھی میں نے کہا تھا کہ میں یہ بتا کر کہ یہ خدا کا گھر ہے اور اس میں ہر شخص کو عبادت کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں.اور یہاں بھی میں نے بتا دیا ہے کہ مسجد میں خدا کا ذکر بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں ہر ایک کے لئے اس کا دروازہ کھلا ہونا چاہیئے.آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اسے صاف رکھیں جیسا کہ ابراہیمی دعاؤں سے پتہ لگتا ہے اس کی آبادی کے لئے کوشش کرتے رہیں، اسے گندہ نہ ہونے دیں باجماعت نماز کا اہتمام کریں، جہاں مسجد ہو وہاں ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، نہ ہونے کی صورت میں تو یہ عذر ایک حد تک ہوسکتا ہے کہ مسجد نہ تھی لیکن مسجد بن جانے کے بعد باجماعت نماز میں ہر گز سُستی نہیں ہونی چاہیئے.پس اپنے گھر کی آبادی کے لئے جو کوشش کرتے ہو وہی اس کے لئے بھی کرو.کوئی شخص مکان بنانے کے بعد اسے خالی نہیں چھوڑ دیتا بلکہ رات دن اس میں رہتا ہے اور عقلمند کو اگر زیادہ عرصہ کے لئے کہیں باہر بھی جانا پڑے تو کرایہ پر دے جاتا ہے تا کہ آباد در ہے اس سے زیادہ فکر اللہ تعالیٰ کے گھر کی آبادی کی کرنی چاہیئے.جو لوگ اس مسجد کے نزدیک رہتے ہیں وہ پنج وقت اور جو دور رہتے ہیں وہ دو تین وقت ہی یہاں آ کر با جماعت نماز میں ادا کریں اور کوئی وقت ایسا نہ ہو جب یہ مسجد آباد نظر نہ آئے.مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہوتی ہیں پس یہ مت خیال کرو کہ اس مسجد کی تعمیر کے بعد بھی آپ کی حالت وہی رہے گی جو پہلے تھی.اگر اسی طرح کرو گے جس طرح میں نے بتایا ہے یعنی اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا گھر قرار دو گے تو خدا بھی تم سے وہ سلوک کرے گا جو پہلے نہیں کرتا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر بندہ ایک قدم خدا کی طرف بڑھتا ہے تو خدا اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے، اگر بندہ چل کر اس کی
۲۶۸ انوار العلوم جلد ۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے طرف جائے تو وہ دوڑ کر آتا ہے ہے.پس جو خدا کے دین کی خدمت کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالی کی جزا بہت بڑی ہوتی ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ یقیناً آپ کے لئے ترقی کی نئی راہیں کھول دے گا.آپ کی تبلیغ میں برکت دے گا اور لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا مگر اس موقع سے فائدہ اٹھانا آپ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ جب اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے تو جو لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے وہ اس کی ناراضگی کے مورڈ بن جاتے ہیں.شبلی ایک بزرگ گزرے ہیں جو پہلے بغداد کی حکومت کے ماتحت ایک زبر دست گورنر تھے.اس بادشاہ کا ایک بڑا جرنیل تھا، وہ دربار میں پیش ہوا اور بادشاہ کے سامنے اپنی خدمات بیان کیں.بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسے ایک قیمتی خلعت دیا کہ پہنو.اس نے پہنا تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسے چھینک آئی اسے نزلہ کی شکایت تھی اس نے اِدھر اُدھر ٹولا مگر جیب سے رومال نہ ملا.ادھر ناک بہہ پڑا اور اسے فکر ہوا کہ بادشاہ کے سامنے اس کا ناک بہہ رہا ہے تو اس نے نظر بچا کر اسی خلعت کے دامن سے ناک پونچھ لی مگر بادشاہ نے دیکھ لیا اور اسی وقت حکم دیا کہ خلعت اُتارلو اور اسے اس کے درجہ سے برخاست کر دو کیونکہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے.شبلی نے یہ حالت دیکھی تو چیخ ماری اور زار زار رونے لگے.بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا.انہوں نے کہا کہ اس شخص نے سالہا سال تک اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا اور آپ کے لئے ملک فتح کئے لاکھوں لوگوں کو آپ کا غلام بنایا' ہر روز جب وہ جنگ کے لئے جاتا تو وہ اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنا کر جاتا اگر آپ نے ایک لاکھ روپے کا خلعت بھی اسے دے دیا تو اس کی خدمات کے مقابلہ میں اس کی کیا قیمت ہے مگر اس خلعت کو خراب کرنے پر آپ اس قدر ناراض ہوئے پھر اللہ تعالیٰ نے جو خلعت مجھے دیا ہے اسے آپ کی خاطر میں ہر روز خراب کرتا ہوں اس لئے مجھے خیال آیا ہے کہ میری سزا کیا ہوگی.یہ کہہ کر انہوں نے اسی وقت گورنری سے استعفیٰ پیش کر دیا اور مختلف بزرگوں کے پاس گئے چونکہ وہ سخت ظلم کرتے رہے تھے ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ تمہاری توبہ قبول ہونی مشکل ہے.آخر وہ حضرت جنید بغدادی کے پاس پہنچے.انہوں نے کہا آپ کی توبہ قبول ہو سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ جہاں آپ گورنر تھے وہاں جائیں اور ہر دروازہ پر جا کر دستک دیں اور معافی مانگیں اور کہیں کہ میں نے آپ کا جو کچھ دینا ہے لے لو.یہ کتنا مشکل کام ہے.اگر کسی معمولی افسر سے بھی کہو کہ ایسا کرے تو وہ اس کیلئے آمادہ نہیں ہو گا مگر انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر بہت بڑے بزرگ بن گئے.تو اللہ تعالیٰ کے خلعت کی ناقدری بہت بڑی سزا کا موجب بن جاتی ہے.اس کام کے بدلہ میں
۲۶۹ انوار العلوم جلد ۳ مسجد کا دروازہ ہر مذہب کے عبادت گزاروں کیلئے گھلا رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ آپ کو خلعت دے گا اور وہ یہ کہ آپ کے لئے ترقی کے رستے کھول دے گا.آپ کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.پس ایک طرف اگر مسجد کی آبادی کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے تو دوسری طرف ترقی کے جو راستے کھلیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا بھی آپ کا فرض ہے.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا دین بھی درست ہو جائے گا اور دنیا بھی آپ کے دل حقیقی معنوں میں مسجدیں یعنی خدا کے گھر بن جائیں گے یعنی خدا ان میں آ جائے گا اور آپ کے دلوں میں بس جائے گا اور وہ جنت جس کی امید لوگ اگلے جہان میں کرتے ہیں، آپ کو یہیں حاصل ہو جائے گی.ا تذکرہ صفحہ ۱۹۲ ۱۹۳.ایڈیشن چہارم (الفضل ۱۵.اپریل ۱۹۳۴ء) ل السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۲۳۹ مطبع محمد علی صبیح میدان الازهر بمصر ۱۹۳۵ء بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ تذکرۃ الاولیاء صفحه ۳۴۳ تا ۳۴۵- از فریدالدین عطار مطبوعہ ۱۹۹۰ ء لاہور
انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق تحقیق حق کا صحیح طریق از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ا خلیفۃ المسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ 271 تحقیق حق کا صحیح طریق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تحقیق حق کا صحیح طریق فرموده ۸ - اپریل ۱۹۳۴ء بمقام لائکپور ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسانی پیدائش کی غرض برادران کرام! اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑے مقاصد کے پورا کرنے کیلئے پیدا کیا ہے مگر انسان باوجود اس کے کہ اسے ایک ایسی عظیم الشان حکمت کے ماتحت پیدا کیا گیا ہے اور اتنے بڑے مقاصد کو پورا کر نے کیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ جن کی عظمت کے خیال سے ہی دل خشیت سے بھر جاتا ہے پھر بھی وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ اور ایسے حقیر امور کی جانب جھکا رہتا ہے کہ عقلمند اس کی اس عمومی حالت کو دیکھ کر نہایت ہی حیران رہ جاتا ہے.انسانی پیدائش کا کوئی خاص مقصد ہونے کے متعلق جتنے مذاہب بھی دنیا میں ہیں، خواہ وہ کسی ملک کے ہوں اور خواہ وہ کسی الہامی کتاب کے ماننے والے ہوں، تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی پیدائش خدا کے ساتھ ایک ہو جانے اور اس کا دیدار حاصل کرنے کیلئے وقوع میں آئی ہے اور اس مسئلہ کے متعلق مذاہب میں کوئی اختلاف نہیں.اہلِ ہنود کے علماء سے پوچھ لو وہ یہی بتا ئیں گے کہ انسانی پیدائش اسی لئے ہے کہ انسان ایک دن اپنے پیدا کرنے والے میں جذب ہو جائے، یہود سے پوچھو تو وہ بھی یہیں کہیں گے کہ انسانی پیدائش کی غرض یہی ہے کہ انسان خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائے، مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کی آرزو نہیں رکھتا وہ نابینا اور گنہگار ہے، عیسائی بھی اسی بات کے مدعی ہیں کہ جو شخص خدا کی طرف جھکتا ہے اسے وہ اپنے تخت پر بٹھاتا ہے سکھ اور زرتشتی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پیدائش
انوار العلوم جلد ۱۳ 272 تحقیق حق کا صحیح طریق انسانی کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان کا دل خدا کا گھر بن جائے.گمراہی سے بچنے کا طریق اب غور کرو یہ کتنا بڑا مقصد ہے.اب اس کے مقابلہ میں بنی نوع کی حالت دیکھو تو یوں معلوم ہوگا کہ جیسے کسی ملک کے لوگ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص کو تخت پر بٹھایا جائے اس کے لئے وہ تاج وتخت تیار کرا رہے ہوں مگر وہ چپکے سے ایک جھاڑو اور ٹوکرا اٹھا کر مکان سے باہر نکل جائے اور پاخانہ صاف کرنے لگ جائے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے جسم کو آلائشوں سے آلودہ کر لے یہی وجہ ہے کہ خدا نے جس غرض کیلئے انسان کو پیدا کیا ہے عام طور پر لوگ اسے پاتے نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب انسان اس طرف کا رستہ ہی اختیار نہ کرے جس طرف اسے جانا ہو تو اس جگہ وہ پہنچ کیونکر سکتا ہے.پس اصل چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے اور جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ دلوں میں سنجیدگی پیدا کی جائے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.اگر یہ چیز نہیں تو محض مسلمان کہلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اس بات کو کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا تسلیم نہیں کر سکتا کہ محض نام سے ہی سب کچھ مل جائے گا.قطع نظر اس سے کہ خدا کا خوف اس کے دل میں ہے یا نہیں بلکہ ہر مذہب والے کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ محض نام رکھ لینے سے کچھ نہیں بن سکتا.اس کیلئے دل میں خدا کا خوف اور خشیت پیدا ہونی چاہئے اور اگر یہ چیز حاصل ہو جائے تو ممکن نہیں کہ انسان گمراہ رہ سکے.خود اس سے کتنی ہی غلطیاں کیوں نہ سرزد ہوں اللہ تعالیٰ کی محبت ضرور اسے اپنی طرف کھینچ لے گی.یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص کی اولا دخراب ہو اور وہ اس کی ہدایت کیلئے کوشش نہ کرے اور جتنی محبت والدین کو اولاد سے ہوتی ہے اس سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ سے ہے.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ بندہ تباہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کی ہدایت کی طرف توجہ نہ کرے.یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کوئی خدا ہے ہی نہیں، محض دھوکا ہے، وگر نہ انسان کی طرف وہ کیوں ہاتھ نہیں بڑھاتا اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ خدا ہاتھ تو بڑھاتا ہے لیکن اگر انسان خود اپنی مٹھیوں کو بند کر لے تو اس کا کیا علاج.کھانا موجود ہولیکن کوئی شخص اپنا منہ بھینچ لے تو اسے کس طرح کھلایا جا سکتا ہے.جو بچہ تعلیم حاصل نہ کرنا چاہئے اس کے والدین کی خواہش خواہ کتنی زبر دست کیوں نہ ہو اور وہ کتنا بھی چاہیں اسے کس طرح علم سکھا سکتے ہیں.بے شک یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے اور وہ اپنی جبر یہ ہدایت بے فائدہ ہے قدرت سے انسان کو سب کچھ سکھا سکتا اور سب
انوار العلوم جلد ۱۳ 273 تحقیق حق کا صحیح طریق کچھ اس سے کرا سکتا ہے مگر اس سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، اس میں انسان کیلئے کوئی ثواب نہیں جیسے لوہے کو لوہا بنے اور لکڑی کو کڑی ہونے کا کوئی ثواب نہیں.ثواب اور ا جراسی چیز کا ہو سکتا ہے جسے طبیعت پر بوجھ ڈال کر اور کوشش سے حاصل کیا جائے.مدرسہ میں محنت کرنے والوں کی ہی قدر کی جاتی ہے.یہ بات قدر کے قابل نہیں ہوتی کہ کسی کے دوکان اور دو آنکھیں ہیں.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ جبر سے ہدایت دے سکتا ہے کیونکہ اس طرح پھر انسان کسی انعام کا مستحق نہیں ٹھہر سکتا.اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ انسان کو اپنے قرب کی نعمتوں سے تحقیق حق کا طریق ممسوح کرے اور میرے نزدیک یہ اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان مذہب کے متعلق غور کرتے وقت سب سے پہلے یہ خیال کر لے کہ میں دیانتداری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی خشیت کے ما تحت تحقیق کروں گا.شیخی یا بڑائی کا خیال اس کے اندر نہیں ہونا چاہئے اور نیک نیتی کے ساتھ تحقیق کرنی چاہئے.ہمارے صوبہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں پہلے تو ان کی بہت مخالفت کی گئی، مگر اب ان کی بہت قدر کی جاتی ہے خصوصاً پنجاب میں.میری مراد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی سے ہے جو سردار اہلحدیث تھے.ایک دفعہ کچھ لوگ ایک مولوی صاحب کو ان سے بحث کرانے کیلئے لے آئے وہ صوفی منش آدمی تھے اور اہلحدیث ہونے کے باوجودان کا رجحان تصوف کی طرف تھا.مولوی صاحب کو لے جانے والوں نے کہا کہ یہ فلاں مولوی صاحب ہیں اور آپ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں.مولوی عبداللہ صاحب نے نیچی نظروں سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ہاں اگر نیت بخیر باشد وہ بھی نیک آدمی تھے کہنے لگے بس میں سمجھ گیا، بحث فضول ہے اور بحث کرنے سے انکار کر دیا.اکھاڑے قائم کر نیوالوں کو نصیحت غرض انسان اگر اس مقصد کو بجھ لے جس کی خاطر وہ پیدا کیا گیا ہے تو دین کے بارے میں ہنسی اور محول کی طرف اس کی توجہ جاہی نہیں سکتی.اس کا دل ہر وقت خشیت الہی سے دبا رہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ بجائے اس کے کہ میں لوگوں سے لڑتا پھروں، مجھے خدا کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرنا چاہئے.اسی وقت تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہونے سے دومنٹ قبل مجھے ایک اشتہار دیا گیا ہے جس میں مجھے کہا گیا ہے کہ مباحثہ کر لو.نیز انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے مباحثہ کا چیلنج آپ کو دیا تھا، پھر یہاں کی لوکل جماعت احمدیہ نے اس کا کیوں جواب دیا ہے اب آپ یہاں آئے ہوئے
274 انوار العلوم جلد ۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ہیں اس لئے واپس جانے سے پہلے خود مباحثہ کریں.اب ہر شخص اپنی جگہ پر غور کر سکتا ہے کہ ایک س جو سوائے خاص قومی کاموں اور ضروریات کے کبھی اپنے مرکز کو نہیں چھوڑتا، ایک خاص کام سے یہاں آتا ہے تو ایسے موقع پر اسے مباحثہ کا چیلنج دینے کے معنی ہی کیا ہو سکتے ہیں.تحقیق حق کیلئے کیا یہی ضروری ہے کہ میں ہی مباحثہ کروں اور میرے یہاں سے چلے جانے کے بعد تحقیق حق کا امکان نہ رہے گا.کیا کسی غیر مسلم کا یہ قول صحیح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فوت ہو چکے اب میں کس سے اسلام سمجھوں کیونکہ صرف انہی سے میں سمجھنا چاہتا ہوں.جب یہاں مقامی جماعت احمد یہ موجود ہے اور وہ مباحثہ کا انتظام کر سکتی ہے تو اس کے کیا معنی ہیں کہ میں اپنے پروگرام کو جو مقرر ہے تو ڑ کر مباحثہ کروں.چیلنج دینے کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ کہہ دے بھاگ گئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر یہی بھا گنا ہے تو ہمیشہ ہی خدا کے بندے ایسی بھاگ بھاگتے آئے ہیں.ہمارا کام تو تبلیغ حق ہے اور ہم اس کے لئے ہر وقت تیار ہیں.اگر چیلنج دینے والوں کو واقعی تحقیق کا شوق ہے تو میں ہندوستان میں ہی رہتا ہوں کسی بیرونی ملک میں نہیں وہ شوق سے قادیان آئیں، ہم انہیں ٹھہرائیں گے.اسی غرض سے ہم نے مہمان خانہ بنایا ہوا ہے ان کے کھانے وغیرہ کا خود انتظام کریں گئے وہاں تحقیق کر لیں.پھر یہاں ہماری جماعت موجود ہے، علماء موجود ہیں، ان سے تحقیق کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ محض اکھاڑہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو میں ان کو نصیحت کروں گا کہ اے خدا کے بندو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت بڑی غرض کے لئے پیدا کیا ہے ان باتوں کو چھوڑ دو جو اس غرض سے دور لے جانے والی ہیں.محبت پیارا ور خدا کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرو کہ انہی چیزوں سے خدا مل سکتا ہے انہی سے لوگوں کے دلوں پر اثر ہو سکتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ بندہ سچا ہے تو اس کا بیچ اس کے کام آئے گا اور تمہاری مخالفت اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی.لیکن اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ ہی اسے تباہ کر دے گالے.سچائی ہمیشہ اپنے لئے آپ رستے نکال لیتی ہے اور جھوٹ کو خواہ کتنا بھی کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے وہ کبھی کھڑا نہیں رہ سکتا جھوٹ کبھی غالب نہیں آ سکتا.جھوٹ کو غالب کرنے کی کوشش کرنا ہی وہ مذاہب میں اختلاف کا موجب غلطی ہے جو سارے مذاہب میں اختلاف کا موجب ہے.اگر مسلمان اس امر پر غور کرتے کہ بعض لوگ ہندوستان میں ایسے ہوئے ہیں جن کی لوگوں نے مخالفت کی ویسی ہی مخالفت جیسی حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام اور
275 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق دوسرے نبیوں کی کی گئی مگر خدا تعالیٰ نے انجام کا رانہیں فتح دی اور ان کی قوم کو ان کے ماتحت کر دیا تو وہ حضرت کرشن اور حضرت رامچند رکو کبھی جھوٹے نہ کہتے.پھر اگر وہ اس نکتہ کو سمجھ لیتے کہ ہمیشہ صداقت ہی دنیا میں کامیاب ہوا کرتی ہے تو وہ یہ نہ کہتے کہ یہ نبی نہیں ہو سکتے.اسی طرح ہند و اس بات کو سمجھ لیتے تو وہ کبھی محمد رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا نہ کہتے.اتنا تو خیال کرنا چاہیئے کہ اگر کوئی خدا ہے تو کیا اس پر افتراء کر کے کوئی بچ سکتا ہے.کیا کوئی دنیوی گورنمنٹ ایسی ہے کہ کوئی شخص غلط طور پر کہے میں اس کا تھانیدار ہوں تو اسے نہ پکڑے.پھر کیا عجیب بات نہیں کہ دنیوی حکومتیں تو اتنی ہوشیار ہوں کہ جعلساز کو فوراً پکڑیں مگر جھوٹے مدعی کو خدا کچھ نہ کہے بلکہ اسے پتہ بھی نہ ہو کہ اس کے نام پر کیا کیا دھو کے ہو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے اور دنیا کے بادشاہوں کی اس کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں ہے ممکن نہیں کہ کوئی شخص اس پر افتراء کرے اور پکڑا نہ جائے.ایسے شخص کو ضرور اللہ تعالیٰ اپنی طاقت کا نمونہ دکھاتا ہے.پتھر مارنے اور پتھر کھانے والے پس یہ مت خیال کرو کہ خدا اس بات کا محتاج ہے کہ بندے اس کا نام پھیلانے کیلئے بے جا جوش دکھا ئیں اور خلاف اخلاق حرکات کریں اس سے دین کی کبھی ترقی نہیں ہوسکتی.غور تو کرو د نیا میں جو تمام بزرگ گذرے ہیں وہ پتھر مارنے والے تھے یا کھانے والے؟ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا جس نے دوسروں پر پتھر پھینکے ہوں اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا جس پر مخالفین نے تشدد نہ کیا ہو.مسلمان خوب جانتے ہیں کہ رسول کریم عل الله طائف میں پتھروں کی جھولی بھر کر نہ لے گئے تھے.بلکہ طائف والوں نے آپ پر پتھر برسائے تھے.جولوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں، ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، وہ ماریں کھاتے ہیں مگر پھر بھی منہ سے یہی کہتے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور میں بھی ایسے لوگوں کے لئے جو نا جائز طریقے اختیار کرتے ہیں، خدا گواہ ہے ایسا ہی کرتا ہوں.ان کی باتیں میرے لئے کبھی وجہ ملال نہیں ہوئیں، میں نے خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے.دراصل جو خدا کا ہو جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محبت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لائے نہ کر متنفر کر کے ا بھگا دے.پس اگر میں اس دعوی میں سچا ہوں کہ میں نے صداقت کو پالیا تو میری کوشش لازماً یہی ہو گی کہ لوگوں کو خدا کی طرف لاؤں نہ کہ دور بھگاؤں.دنیا میں لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ہاتھ تک جوڑنے میں تامل نہیں کرتے اور اگر یقین ہو جائے کہ لوگ خدا کے ہو جائیں گے تو
276 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ہمیں ان کے آگے ہاتھ جوڑنے میں بھی پس و پیش نہ ہوگا.ان کی گالی گلوچ اور مار پیٹ کوئی چیز نہیں اگر ہمیں یقین ہو کہ جان دینے سے بھی یہ لوگ ایمان لے آئیں گے تو ہم اسے ایک بہت بڑی سعادت سمجھیں گے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کابل میں ہماری جماعت کے ایک بزرگ کو حکومت نے گرفتار کر لیا اور الزام یہ لگایا کہ اس نے نیا دین قبول کیا ہے جو جہاد کی ممانعت کرتا ہے اور اس وجہ سے یہ افغانستان کا دشمن اور مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے.علماء کے کہنے سے بادشاہ نے ان کی سنگساری کا حکم دے دیا.وہ اتنے بڑے اور صاحب عزت بزرگ تھے کہ امیر حبیب اللہ خان کی تخت نشینی کے وقت تاجپوشی انہوں نے ہی کی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں ان کو مذہبی لحاظ سے سب سے بڑا تصور کیا جاتا تھا.وہ بہت بڑے دولت مند اور جاگیردار تھے ناز و نعم میں پکے ہوئے تھے ایسے انسان کے لئے معمولی سی تکلیف بھی برداشت کرنا مشکل ہوتی ہے مگر انہیں ایک میدان میں جہاں تمام لوگ جمع ہوئے لا کر کھڑا کر دیا گیا.علماء نے بادشاہ سے کہا کہ پہلا پتھر آپ پھینکیں مگر اس نے کہا کہ یہ میرا فتویٰ نہیں بلکہ آپ کا ہے، چنا نچہ علماء کی طرف سے پتھر پھینکے گئے اور پھر سب لوگوں نے سنگ باری شروع کر دی مگر وہ ہاتھ اُٹھا کر اس وقت بھی یہی دعا مانگ رہے تھے کہ خدایا میری قوم نا واقف ہے اس پر عذاب نازل نہ کرنا.ہماری غرض ہدایت کی طرف لانا ہے.اسی شہر میں ایک بیرسٹر متحمل کی ایک مثال تھے معلوم نہیں آج کل یہاں ہیں یا نہیں، میں ان کا نام نہیں لیتا تا کہ اگر یہاں ہوں تو شرمندگی نہ ہو میں جب حج کے لئے جار ہا تھا تو وہ بھی ڈگری لینے کے لئے اسی جہاز میں جارہے تھے.ان کے ساتھ ایک اور ہندو بیرسٹر بھی تھے جو ان دنوں لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں اور مشہور بیرسٹر ہیں وہ عام طور پر مذہبی گفتگو کرتے رہتے تھے اور جب ان کو علم ہوا میں احمدی ہوں تو مذہبی گفتگو کا سلسلہ اور بھی لمبا ہونے لگا.وہ بعض اوقات بانی سلسلہ احمدیہ کو گالی بھی دے دیتے مگر میں تحمل سے جواب دیتا.آخر گیارہ دن کے بعد جب ہم سویز پہنچے تو نامعلوم کس طرح انہیں علم ہو گیا کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں.اس پر وہ بہت گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ معاف کیجئے مجھے علم نہ تھا، اس لئے سخت الفاظ بعض اوقات منہ سے نکل گئے.میں نے انہیں کہا کہ اگر میں بُرا مانتا تو آپ سے کہہ دیتا میں تو چاہتا تھا
277 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق کہ آپ گھل کر اعتراض کریں.پس یہ چیزیں ہماری نگاہ میں کچھ ہستی ہی نہیں رکھتیں.ہمارا مقصد ہمارا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ بندوں کو خدا سے واصل کر دیں اس میں ہماری کوئی ذاتی غرض مخفی نہیں.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ جب میں بہت چھوٹا تھا یعنی میری عمر صرف گیارہ سال کی تھی، تو ایک دفعہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کیا میں احمدی اس لئے ہوں کہ میں مدعی مسیحیت و مہدویت کا بیٹا ہوں یا اس لئے کہ یہی صداقت ہے اور خدا جانتا ہے کہ میں گھر کی چھت کے نیچے نہیں داخل ہوا جب تک مجھے یقین نہیں ہو گیا کہ عقل سے سمجھ کر میں نے احمدیت کو قبول کیا ہے اور یہی صداقت ہے.خدا گواہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر مجھے یقین نہ ہوا کہ یہ صداقت ہے تو میں یہیں سے باہر نکل جاؤں گا، کہیں چلا جاؤں گا اور گھر میں ہر گز داخل نہیں ہوں گا.میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ اگر کوئی ہمیں ثابت کر دے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے میں نہیں ملتا بلکہ اس کی باتیں ماننے سے ملتا ہے تو ہم غلاموں کی طرح اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں.وفات عیسی علیہ السلام اور صداقت مسیح موعود کا ثبوت ایک اہم سوال اب میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ سلسہ احمدیہ دنیا کے سامنے کیا پیش کرتا ہے اور کن دلائل کی بناء پر چاہتا ہے کہ لوگ اس کے بانی کو قبول کر کے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں.اس ضمن میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے دعوای مسیح موعود کو کیوں مانیں؟ اور جبکہ وہ اسلام کو ہی دنیا کے سامنے پیش کرنے کے مدعی ہیں اور کوئی نئی چیز نہیں لائے بلکہ ان کے نزدیک اسلام ہی سب خوبیوں کا جامع ہے، تو پھر جو لوگ اسلام کی صداقت کے قائل ہیں، وہ اس سلسلہ میں کس لئے داخل ہوں اور میں سمجھتا ہوں جتنا یہ سوال لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہوگا، اتنا ہی حق کے پھیلنے میں آسانیاں ہوں گی کیونکہ اس کے رستہ میں مشکل یہی ہے کہ لوگ غور نہیں کرتے اس لئے ان کو صداقت نہیں ملتی.آج میں اس طرح گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ اس سوال کا حل ہو جائے.میرے نزد یک بانی سلسلہ احمد یہ رسول کریم ﷺ کی ذات پر شاہد ہیں اور رسول کریم ﷺ آپ پر شاہد ہیں.اگر ہم اسلام کا سچے دل سے مطالعہ کریں تو یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا دعوی بناوٹی نہیں تھا اور کہ آپ پر ایمان لانا دراصل رسول کریم صلى الله
انوار العلوم جلد ۱۳ 278 تحقیق حق کا صحیح طریق کی صداقت کا اقرار کرنا ہے اور آپ کے دعوئی پر غور کر کے ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی دنیا کے لئے آخری نجات دہندہ ہیں.کیا مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا ؟ ابتداء میں چونکہ بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں اس لئے پہلے میں ان کو لیتا ہوں.سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم جس شخص کے آنے کے منتظر ہیں، وہ آسمان سے آنے والا ہے اور جب مرزا صاحب آسمان سے نہیں اترے تو ہم کس طرح سمجھ لیں کہ آپ ہی وہ ہیں.میں سمجھتا ہوں ہمارے مبلغین نے کل اور آج کی تقریروں میں اس سوال پر بحث کی ہو گی اس لئے مجھے اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں.ہاں اجمالی طور پر بعض باتیں میں بیان کرتا ہوں.اگر ہم ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کریں تو ماننا پڑے گا کہ واقعی آسمان سے کسی آنے والے کی انتظار ہمیں نہیں کرنی چاہیئے بلکہ چاہیئے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض سے ہی پیدا شدہ کوئی شخص کھڑا ہو کر آپ کی امت کی اصلاح اور تنظیم کرے.صحابہ کرام کا عقیدہ اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام کس بات کے منتظر تھے.جو عقیدہ ان تک پہنچے گا وہی صحیح ہوگا کیونکہ وہ لوگ ہر وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے تھے اور انہوں نے جو کچھ اخذ کیا آپ سے کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر ایک ایسا واقعہ ہوا جو صاف طور پر ثابت کر رہا ہے کہ صحابہ کرام آسمان سے کسی کے آنے کے منتظر نہ تھے اور اس واقعہ کو اگر کوئی مسلمان ان جذبات محبت کے ماتحت پڑھے گا جو ایک مسلمان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونے چاہئیں تو اسے مجھ سے متفق ہونا پڑے گا.احادیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو صحابہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ابھی منافق موجود ہیں اس لئے ابھی آپ کی وفات بے موقع ہے.اصل بات یہ ہے کہ آپ کی ذات سے ان لوگوں کو اتنی محبت تھی کہ آپ کی زندگی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز انہیں پیاری لگتی تھی اور اپنے عشق کے نشہ میں وہ یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ آپ ان سے جُدا ہو جائیں گے.ان کے عشق کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح عورتیں تک آپ سے اخلاص کے نشہ میں مخمور تھیں.جنگ اُحد میں غلط طور پر یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں مگر بات صرف یہ تھی کہ آپ سخت زخمی ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے.جولوگ
279 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق اس وقت آپ کی حفاظت کر رہے تھے ان میں سے بعض شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے اوپر گر گئیں.اس سے یہ خبر پھیل گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں لیکن جب صحابہ کرام نے باہر نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.آپ کی شہادت کی خبر مدینہ میں بھی پہنچ گئی.اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد آپ مدینہ واپس آگئے لیکن آپ کی آمد سے قبل عورتیں اور بچے سب روتے اور بلکتے ہوئے شہر سے باہر نکل آئے.ایک صحابی گھوڑا دوڑاتے ہوئے سب سے آگے جا رہے تھے.وہ جب ان عورتوں کے پاس پہنچے تو ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے چونکہ آپ کو اپنی آنکھوں سے زندہ دیکھا تھا اور اس کے دل سے بوجھ ہٹ چکا تھا اس لئے اس نے سوال کا جواب تو نہ دیا بلکہ یہ کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے.مگر اس عورت نے کہا میں نے باپ کا تم سے کب پوچھا ہے مجھے تو یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ صحابی کا دل چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے کی خوشی سے بھرا ہوا تھا اس لئے پھر اس نے اس کے سوال کی طرف توجہ نہ کی اور کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا مگر اس عورت نے پھر کہا کہ میں نے تجھ سے یہ سوال کیا کب ہے؟ میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھ رہی ہوں.اس نے پھر بھی اس سوال کی اہمیت کو نہ سمجھا اور کہا کہ تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے مگر اس عورت نے کہا میں نے تم سے خاوند کے متعلق کب پوچھا ہے ؟ تم یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا آپ تو خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں.اس پر اس عورت نے کہا پھر کوئی پرواہ نہیں خواہ کوئی مارا جائے.تو یہ ان لوگوں کے عشق کا حال تھا.ایک فدائیت کی روح تھی جو ان کے اندر کام کر رہی تھی اور وہ یہ سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے ہیں.جب آپ کی وفات ہوئی تو اس خبر کوسن کر حضرت عمر اتنے جوش میں آئے کہ آپ نے کہا جو یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا.آپ تو موسی کی طرح آسمان پر گئے ہیں، اللہ تعالیٰ سے باتیں کر کے واپس آئیں گے اور منافقوں کی اچھی طرح خبر لیں گے.حضرت ابو بکر اس وقت مدینہ میں نہ تھے بلکہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے.بعض صحابہ نے آپ کے پیچھے آدمی دوڑائے کہ جلدی آئے اسلام میں ایک فتنہ پیدا ہونے لگا ہے.چنانچہ آپ آئے اور سیدھے اندر چلے گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک تھا.حضرت ابو بکر نے آپ کے منہ سے چادر اٹھائی جھکے، پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 280 تحقیق حق کا صحیح طریق تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.پھر آپ باہر آ کر کھڑے ہوئے اور آیت کریمہ وما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تلاوت کر کے فرمایا.اے مسلمانو! محمد اللہ تعالیٰ کے رسول تھے خدا نہیں تھے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول ہوئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں اگر آپ فوت یا قتل ہو جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.پھر فرمایا.مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدْمَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ الله فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ سے یعنی جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوجتا تھا، وہ سمجھ لے کہ آپ فوت ہو چکے ہیں اور جو خدا کی پرستش کرتا تھا، وہ مطمئن رہے کہ خدا ہمیشہ زندہ ہے.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ میری غلطی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی فوت ہو گئے ہیں.اس پر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلنے لگی اور میں گر پڑا.دوسرے صحابہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکلی جا رہی ہے.وہ بے تحا شا مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار بھاگے پھرتے اور حضرت حستان کے یہ شعر پڑھتے تھے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر انہوں نے بے اختیار کہے تھے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى مِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھیں اندھی ہو گئیں اب تیرے بعد کوئی مرے یا جیئے ہمیں کیا.ہمیں تو تیری زندگی کی پر واہ تھی.یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے معاً بعد ہوا جسے کوئی مسلمان سوائے اس کے کہ اس کی آنکھیں پرنم ہو جائیں اور آواز کا نپنے لگے پڑھ یا سن نہیں سکتا.اگر صحابہ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر آئیں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ کیوں کہتے کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آسمان پر گئے ہیں.انہیں تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ آسمان پر گئے تھے آپ کبھی گئے ہیں.پھر حضرت ابو بکر اس آیت سے استنباط کرتے ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ سب رسول فوت ہو چکے ہیں اگر صحابہ میں کوئی شخص حضرت عیسی کے آسمان پر جانے کا
281 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق عقیدہ رکھنے والا ہوتا تو وہ کھڑا ہو کر اس وقت یہ نہ کہتا کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ آسمان پر رہنا شرک نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمان پر جانے سے شرک کیونکر لازم آ سکتا ہے؟ مگر اس وقت سب خاموش رہتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ اس عقیدہ کا کوئی بھی شخص ان میں نہ تھا.دوسری چیز جو اس ضمن میں میں پیش کرتا ہوں یہ سول کریم منبع ہدایت ہیں ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کنفد وَيُعَلِّمُهُمُ مَنَّ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اِذْبَعَثَ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ ويعلمهم الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينِ یعنی اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر احسان کیا.ہر شخص جو مؤمن کہلانا چاہتا ہے غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا، وہ اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے پاک کرتا ہے، کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ سب کے سب پہلے گمراہ تھے پہلی بات جو اس آیت میں بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور اس کے بعد ہر شخص ایمان آپ سے حاصل کرے گا.دوسری یہ کہ آپ سے ایمان حاصل کرنے سے پہلے وہ گمراہ ہو گا گویا تمام وہ لوگ جو آپ کے زمانہ میں ہوئے یا آپ کے بعد وہ آپ کا کلمہ پڑھنے سے قبل گمراہ ہیں.اب غور کرنا چاہئے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ آئیں تو اس آیت کے ماتحت وہ کیا ہوں گے.اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی ایک لمحہ بھی دنیا پر ایسا نہیں آیا اور نہ آئے گا کہ جب آپ کے بغیر بھی کوئی شخص ہدایت یافتہ کہلا سکے گا جو بھی ہدایت لے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عیسی علیہ السلام نَعُوذُ بِاللهِ ضلال میں سے آئیں گے؟ غور کرو! اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کا عقیدہ رکھ کر اس امر سے انکار کیا جائے تو قرآن کریم کی آیت غلط ٹھہرتی ہے اور اگر یہ مانا جائے تو اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک ہے.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُایته گویا غیر اللہ کی آیات نہیں سنا سکتے.یہ تو عام بات ہے کہ شاگرد کا کام استاد کی طرف تو منسوب ہوسکتا ہے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہدایت حاصل کرنے والے مصلحین کا کام اور ان کا آیات پڑھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہو سکتا
282 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ہے لیکن جو آپ کی بعثت سے قبل کا پڑھا ہوا ہو اس کا کام آپ کی طرف کیونکر منسوب ہوسکتا ہے.مثلاً میں نے جو کچھ پڑھا ہے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھا ہے کیونکہ اگر آپ نہ پڑھتے تو میں کس طرح پڑھ سکتا لیکن حضرت عیسی دوبارہ آ کر جو تلاوت آیات کریں گئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو آپ کی بعثت سے پہلے کے ہی پڑھے ہوئے ہیں.پھر فرماتا ہے وَيُزَکیهِمُ یعنی آپ سب کا تزکیہ کریں گے.اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسی نَعُوذُ بِاللهِ گندے ہو کر آئیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا تزکیہ کریں گے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے بغیر کوئی شخص پاک نہیں ہو سکتا.انبیاء ہمیشہ یا تو تکمیل کیلئے آتے ہیں جیسے موسوی سلسلہ کے نبی تھے.یا پھر اس وقت آتے ہیں جب ساری قوم خراب ہو جائے اس لئے یا تو تسلیم کرو کہ قرآن کریم نامکمل ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام اسے مکمل کرنے کیلئے آئیں گے.یا یہ مانو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب حضرت عیسی آئیں گے تو نَعُوذُ بِاللهِ غیر مز کی اور گندے ہوں گے اور یہ کتنا بڑا حملہ ہے، پھر غور کر و حضرت عیسی آ کر جن لوگوں کو پاک کریں گئے وہ کس کے کھاتے میں لکھے جائیں گے.حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے ہدایت پانے کا ثواب منبع ہدایت تک پہنچتا ہے اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کے ذریعہ جو لوگ ہدایت پائیں گئے ان کا ثواب کس کو پہنچے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو پہنچ نہیں سکتا کیونکہ حضرت عیسی نے جو کچھ سیکھا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست سیکھا ہے.پس کیا اس بات سے مسلمانوں کے دل خوش ہوتے ہیں کہ حضرت عیسی ضرور آجائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقیات بے شک قیامت تک کے لئے رُک جائیں.ہم تو ایسے کھانہ کو پھاڑ ڈالیں گے جس میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ ہو.صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدہ ہو کر کسی نیکی کا ثواب بھی حاصل نہ کرنا چاہتے تھے.بخاری اور احادیث کی دوسری کتب میں آتا ہے کہ حضرت عثمان نے ایک دفعہ جب کہ حج کیلئے مکہ میں گئے ہوئے تھے.منی کے مقام پر نماز کی دورکعتوں کی بجائے چار رکعتیں پڑھ لیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں صرف دو پڑھا کرتے تھے اس پر صحابہ میں ایک بہیجان تو ضرور پیدا ہوا مگر انہوں نے خلیفہ کی اقتداء میں چار ہی پڑھ لیں.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا میں تو دو رکعت ہی پڑھاؤں گا لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 283 تحقیق حق کا صحیح طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورکعت ہی پڑھاتے تھے.میں نے خلیفہ وقت کی پیروی کرتے ہوئے پڑھی تو چارہی ہیں مگر دعا یہ کی ہے کہ خدایا! میں نے رسول اللہ کے پیچھے دو پڑھی تھیں، اس لئے مجھے دو کا ہی ثواب عطا ہوئے.میں سمجھتا ہوں.حضرت عثمان نے چونکہ مکہ میں شادی کی ہوئی تھی.اس لئے اپنے آپ کو وہاں مسافر نہ سمجھتے تھے.مگر عبداللہ بن مسعود کو گوارا نہ ہوا کہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں انہوں نے دو رکعت کا ثواب حاصل کیا تھا وہاں آپ کے بغیر چار کا ثواب حاصل کریں.مگر آج مسلمان اپنے عقیدہ کے لحاظ سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ قیامت تک کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ساری نیکیاں حضرت عیسی کے نام لکھ دی جائیں.کیا کسی مومن کی غیرت اسے برداشت کر سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں.مانا نبی کی آمد ضروری ہے حضرت عیسی علیہ السلام نہیں آئیں گے مگر ہم کسی کی آمد مانتے ہی نہیں، نہ آسمان سے نہ زمین سے اور کسی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اس سوال کا جواب سورۃ فاتحہ میں ہے جسے نماز پڑھنے والے دن میں کم سے کم پچاس دفعہ پڑھتے ہیں اور ہر روز دعا کرتے ہیں کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ( یعنی اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا وہ رستہ جو منعم علیہ گروہ کا ہے اور ہم مغضوب اور ضال نہ ہوں، جن لوگوں پر تو نے غضب نازل کیا یا جو آپ تجھے چھوڑ گئے، ان میں ہمیں شامل نہ کیجیو ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے مراد یہود اور نصاری لئے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ امت محمدیہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بگاڑ ممکن تھا یا نہیں.جو لوگ سمجھتے ہیں کسی روحانی مصلح کے آنے کی ضرورت ہی نہیں، ان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر بگاڑ ممکن ہے تو آنے والے کی ضرورت بھی ثابت ہے تا کہ وہ اصلاح کرے اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بگاڑ ممکن ہے کیونکہ جب یہ دعا موجود ہے کہ ہم مغضوب اور ضال نہ بنیں، تو ظاہر ہے کہ بگاڑ ممکن تھا وگر نہ جو کام ہونا ہی نہیں تھا، اس کے لئے دعا سکھانے کی کیا ضرورت تھی.اگر کہا جائے یونہی دعا ہے تو ہم کہیں گے یہ دعا کیوں نہ سکھلائی کہ ہم فرشتے بن جائیں.کوئی انسان زمینی کیر انہیں بن سکتا، سورج چاند نہیں بن سکتا اس لئے اس سے بچنے کیلئے کوئی دعا نہیں سکھائی گئی اللہ تعالیٰ اس سے بچنے کی دعا سکھاتا ہے جو ممکن ہے.اب اگر یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے نہیں بگڑنا تھا تو یہ دعا کیوں روز ہمارے ذمہ لگا دی کہ ۵۰ دفعہ پڑھا کرو.اس
284 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت خطرہ تھا.پھر میں کہتا ہوں دلائل کو جانے دو اپنے نفسوں کو ٹولو.کیا آج کے مسلمان وہی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا کرنا چاہتے تھے.بحث اور ہار جیت کے خیال کو دل سے نکال کر ہر شخص اپنے گھر میں دروازے بند کر کے بیٹھے اور خلی پا لطبع ہو کر غور کرے کیا میں وہی مسلمان ہوں جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا کرنا چاہتے تھے اور پھر دیانتداری کے ساتھ اس کا نفس جو جواب دئے وہ آ کر مجھے بتائے.پھر اپنے محلے والوں اپنے گاؤں یا شہر والوں اپنے ضلع اور صوبہ والوں کے متعلق یہی سوال کرے کہ کیا یہ وہی مسلمان ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنانا چاہتے تھے.میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ سو میں سے سو کو یہی جواب ملے گا کہ ہر گز نہیں اور جب یہ حالت ہے تو مسلمان غیر مسلموں میں تبلیغ کیسے کر سکتے ہیں.آج ہی اس کا تجربہ کر لو غیر مسلمانوں کے پاس جا کر تبلیغ کروان میں سے ہر ایک یہی جواب دے گا کہ اگر یہی مسلمان ہیں جو اسلام پیدا کرنا چاہتا تھا، تو ہم ان سے دور ہی اچھے ہیں.پھر خود اپنی حالت کو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو مسلمان پیدا کرنا چاہتے تھے، ان کی یہ حالت تھی کہ ابتدائی ایام میں جب آپ نے مردم شماری کا حکم دیا اور مسلمان سات سو نکلے تو اس پر صحابہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ہم حیران ہیں آپ نے کیوں مردم شماری کرائی.کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ دنیا ہمیں مٹادے گی اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں، اب ہمیں کیا خدشہ ہو سکتا ہے اور ہم پر دنیا میں کون فتح پاسکتا ہے.مگر کجا یہ کہ آج با وجود اس کے مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں ہر مسلمان کی گردن دوسروں کے ہاتھ میں ہے کسی لحاظ سے بھی انہیں ثریت اور آزادی نصیب نہیں اور دوسروں کے ڈر کے مارے ان کی جان نکلتی ہے.پھر اپنے نفسوں سے پوچھنے کو بھی جانے دو.آؤ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ کی اُمت میں بگاڑ ممکن ہے یا نہیں.آپ فرماتے ہیں.مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہے اسی طرح میری اُمت میں بھی یہود کے مشابہ لوگ ہو جائیں گے اور اسی طرح ان کا تتبع کریں گے.گویا آپ نے یہ خبر دی ہے کہ یہودیت اور نصرانیت کا رنگ پیدا ہو جائے گا.چلو ہم مان لیتے ہیں کہ یہ حالت آج نہیں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ یہ حالت پیدا ضرور ہوگی اور جب وہ حالت پیدا ہو گی تو کسی روحانی مصلح کو اس وقت آنا چاہئے یا نہیں.اگر یہ کہا جائے کہ مسلمان تو ضرور یہود کے ہمرنگ ہو جائیں گے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مصلح کی ضرورت نہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ
285 انوارالعلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق نَعُوذُ بِاللہ آپ کا آنا کوئی رحمت نہیں بلکہ زحمت ہو گیا.آپ کے آنے سے نیکی کا رستہ تو بند ہو گیا مگر شر کا نہیں.وگر نہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح شیطان کے نمائندے دنیا میں موجود ہیں، اسی طرح محمد مصطفیٰ کے نمائندے بھی آتے رہیں گے.گویا عقلی طور پر بھی ثابت ہو گیا کہ جب مسلمانوں میں گمراہی ہوگی تو اس کے دور کرنے والے بھی ہونے چاہئیں.پھر قرآن کریم سے بھی یہ ثابت ہے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ہر مسلمان دن میں کئی بار کہے کہ ہمیں ان لوگوں کا سیدھا رستہ دکھا جن پر تو نے انعام کئے ہیں.پھر دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو صیحتیں ہم مسلمانوں کو کرتے ہیں اگر یہ ان پر عمل کریں گے تو ان کیلئے یہ بہت اچھی بات ہوگی اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں قائم کر دے گا.اگر ان کے اندر خرابی پیدا ہوگی تو ہم ان کی اصلاح کا بندوبست کر دیں گے اور صراط مستقیم دکھائیں گے چنانچہ فرمایا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا ۱۰ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گئے وہ اس جماعت میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے نعمتیں نازل کیں اور وہ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی جماعت ہے اور یہ بڑے اچھے ساتھی ہیں اور یہ انعامات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ ملیں تو اور کس کو ملیں؟ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ خوب جانتا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کو کیا ضرورتیں پیش آئیں گی اور انہیں پورا کرنے کا اس نے مکمل انتظام کر دیا.بعض لوگ کہتے ہیں یہاں معَ کا لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہوں گے ان کو جو درجے حاصل ہوئے وہ حاصل نہ ہوں گے مگر قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جب کوئی نیک بندہ مرے تو ساتھ ہی یہ دعا کرنے والوں کی جان بھی نکل جائے یا یہ کہ ہمیں نیک کر کے ماریو؟ پھر دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّدِيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ ١٢ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور پہلے رسولوں پر بھی وہ صدیق اور شہداء میں شامل ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کو کوئی چیز زائد ملنے والی تھی.پس اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ان کو اس دنیا میں اسی طرح جانشین بنائے گا جس طرح پہلی قوموں میں اس نے بنائے اور جو انعام اُن پر کئے وہی ان پر بھی کرے گا.اب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا انعام
286 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاذْقَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمُ مُلُوكًا ١٣ یعنی جب حضرت موسیٰ نے اپنے قوم سے کہا کہ یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جب اس نے تم میں نبی اور بادشاہ بنائے.گویا نبوت اور بادشاہت دونوں نعمتیں ہیں.دوسری جگہ آتا ہے کہ مسلمانوں میں منعم علیہ گروہ ہوگا.جس کے معنی یہ ہوئے کہ ان میں بھی بادشاہ اور نبی ہوں گے.اب بادشاہ تو مسلمانوں میں ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے سینکڑوں سال تک متمدن دنیا کو اپنے زیر نگین رکھا.پھر کیا یہ عجیب بات نہ ہوگی کہ نبی کوئی بھی نہ ہو.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر یہ وعدہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو وہی انعام ملیں گے جو پہلے لوگوں کو ملے.پس ضروری ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی کسی کو نبوت کا درجہ عطا ہو.دعویٰ سے پہلی بے عیب زندگی کوئی شخص کہ سکتاہے کہ اچھا یہ بھی مان لیا کہ روحانی مصلح آنے والا ہے لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ مرزا صاحب ہی ہیں؟ گویا یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اپنے دعویٰ میں بچے تھے یا نہیں.اس کے لئے ہم قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت دیکھتے ہیں اور اگر وہی ثبوت حضرت مرزا صاحب کے متعلق پائے جائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ آپ بھی سچے ہیں.قرآن کریم میں اَفَمَنْ كَانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ " میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطبین کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ غور کرو! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ تمہارے سامنے ہے جسے سن کر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسے کیوں مانیں.ہم اس سوال کو تسلیم کرتے ہیں مگر تم سوچو تو سہی کہ ان دلائل کی موجودگی میں کیا یہ رڈ کرنے کے قابل ہے.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے تین دلائل بیان کئے گئے ہیں.پہلی بات آفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ ہے.یعنی کیا وہ شخص بھی جو یہ دلائل رکھتا ہو اور یہ دلائل خدا کی طرف سے ہوں، انکار کے قابل ہو سکتا ہے.اس کی صداقت کی پہلی دلیل تو یہ ہے کہ اسے وہ دلائل حاصل ہیں جنہیں بندہ بنا ہی نہیں سکتا.ایسے دلائل قرآن کریم میں بیسیوں ہیں.مگر میں اس وقت صرف چند ایک کولوں گا.سورہ یونس میں آتا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُراً مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُون لے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے.اگر کوئی
287 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق شخص ڈھونگ رچائے تو وہ زیادہ سے زیادہ دو چار ماہ پہلے نمازوں کی پابندی کرے گا اور اپنے آپ کو نیک پاک ظاہر کرنے لگے گا.وہ اسی دن سے اس کا اہتمام شروع کرے گا جس دن سے کہ اس نے لوگوں کولوٹنے اور ٹھگنے کا ارادہ کیا ہوگا، پہلے نہیں کیونکہ پہلے تو اسے پتہ ہی نہ تھا کہ اس نے آگے چل کر کیا کرنا ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں سے کہو کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں نے جھوٹ بنایا ہے، تو اتنا تو خیال کرو کہ میں نے اپنی ساری عمر تم لوگوں میں بسر کی ہے تم ہی میں میں پیدا ہوا تم ہی میں مجھ پر جوانی کا عالم آیا اور تم ہی میں اُدھیڑ عمر آئی اتنے عرصہ میں کبھی تم نے مجھے جھوٹ بولتے دیکھا.اگر نہیں تو پھر کیوں عقل نہیں کرتے.بچپن کی نیکی کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ زمانہ گلیۂ خدا کے قبضہ میں ہوتا ہے.آپ کفار کے سامنے یہ بات پیش فرماتے ہیں کہ تم لوگوں میں ہی میں نے اپنا بچپن گزارا.کیا تم سمجھتے ہو کہ جب میں چھ سات سال کا تھا اُس وقت مجھے علم تھا کہ میں بڑا ہو کر ایسا دعوی کروں گا کہ میں اُسی وقت سے پاکیزہ رہنے کی کوشش کرتا ؟ آپ کے اس سوال کے جواب میں آپ کے تمام رشتہ دار بھائی دوست بلکہ دشمن بھی ساکت ہو گئے.پھر جوانی کا زمانہ آیا کون ہے جو ۱۷ ۱۸ سال کی بھر پور جوانی کے ایام اس وجہ سے نیک رہ کر گزارے کہ ۴۰ سال کی عمر کو پہنچ کر کوئی دعوی کروں گا.ظاہر ہے کہ یہ دن بھی خدا کے قبضہ میں ہوتے ہیں.خصوصاً ایسے لوگوں کی جوانی کے دن جن کے سامنے لالچ آتے ہوں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے لالچ آتے ہی نہیں مگر آپ کے سامنے لالچ آئے.دنیا نے طرح طرح کے لالچوں کے ذریعہ آپ کو اپنی طرف کھینچنا چاہا مگر آپ اس سے جدا رہے.پھر ادھیڑ عمر آئی اس میں بھی آپ نے وہ نمونہ دکھایا کہ کوئی حرف نہ رکھ سکا.حضرت ابو بکر جو آپ کے خاص دوست تھے جب آپ نے دعوئی کیا اس وقت وہ باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو ایک دوست سے ملنے گئے اس کے مکان پر بیٹھے تھے کہ اس کی لونڈی آئی اور آ کر کہا ابو بکر تمہیں معلوم ہے، تمہارا دوست تو سودائی ہو گیا.آپ نے پوچھا کون سا دوست.اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا.آپ نے دریافت کیا وہ کیا کہتا ہے.لونڈی نے بتایا وہ کہتا ہے خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے.آپ نے کہا اگر وہ ایسا کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے.اگر آپ کا پہلا کیریکٹر خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت بے عیب نہ ہوتا تو کیوں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک منٹ کیلئے قحبہ پیدا نہ ہوا.آپ اسی وقت
288 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان پر گئے اور دستک دی.آپ باہر تشریف لائے تو حضرت ابو بکر نے کہا میں ایک بات پوچھنے آیا ہوں.آپ نے کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال کیا معلوم نہیں.میرے دعوی کو سن کر اس پر کیا اثر ہوا ہے.اس لئے کچھ دلائل بیان کرنے لگے لیکن حضرت ابو بکر نے کہا مجھے دلائل کی ضرورت نہیں صرف یہ فرمائیں کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا ہے حضرت ابو بکر نے فوراً کہہ دیا میں اس پر ایمان لاتا ہوں.گویا انہوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ کوئی دلیل سنیں کیونکہ پہلی دلیل جو آپ کے سامنے موجود تھی.اس زمانہ کے لوگوں میں بھی اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آ گئی.لدھیانہ کے رہنے والے ایک میاں نظام الدین صاحب تھے اگر چہ ان پڑھ تھے مگر بہت نیک آدمی تھے.انہوں نے کئی حج بھی کئے.بعض اوقات حج بدل کر آتے اور اگر یہ انتظام نہ ہوسکتا تو پیدل ہی چل پڑتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے وہ آپ اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں کے دوست تھے.آپ نے جب دعویٰ کیا اور مولوی محمد حسین صاحب نے مخالفت شروع کی تو انہوں نے ان کو خط لکھوایا کہ آپ جلدی نہ کریں مرزا صاحب میرے دوست ہیں آپ کیوں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ خدا پر جھوٹ بولیں گے.یقیناً ان کو غلط نہی ہوئی ہوگی یا پھر لوگ جھوٹ بولتے ہیں.وہ خدا پرست آدمی ہیں میں ان کے پاس جاؤں گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ قرآن سے انحراف نہیں کریں گے اس لئے ان کو سمجھا لوں گا.چنانچہ آپ قادیان آئے مولوی محمد حسین صاحب ان دنوں لاہور میں تھے، حضرت خلیفہ اول بھی وہیں تھے مولوی محمد حسین صاحب آپ سے مباحثہ کی طرح ڈال رہے تھے، میاں نظام الدین صاحب قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے.آپ نے کہا ہاں.وہ کہنے لگے اگر قرآن کریم سے سو پچاس ایسی آیات آپ کو دکھا دی جائیں جن سے حیات عیسی علیہ السلام ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سو پچاس آیتوں کی ضرورت نہیں.آپ صرف ایک آیت ہی بتا دیں میں مان جاؤں گا.انہوں نے کہا اچھا میں دس آیات لے آؤں گا.چنانچہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے پاس لاہور پہنچے اور ان سے کہا کہ میں مرزا صاحب کو منا آیا ہوں آپ صرف اتنا کیجئے کہ دس آیات ایسی مجھے لکھ دیں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو میں اُن کو جا کر دکھاؤں گا اور وہ مان جائیں گے.وہ تو ایک ہی آیت دیکھ کر مان لینے پر آمادہ تھے مگر
289 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق میں نے دس کا وعدہ ان سے کیا ہے.یہ سن کر مولوی محمد حسین صاحب سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے جاہل ! لوگوں کو کس نے کہا ہے کہ مذہبی معاملات میں دخل دیں.میں دو ماہ کی بحث کے بعد انہیں حدیث کی طرف لا رہا تھا، یہ پھر قرآن کی طرف لے گئے.اب ان کا ایمان دیکھو.یہ سن کر وہ کہنے لگے تو کیا قرآن آپ کے ساتھ نہیں اگر ایسا ہی ہے تو جدھر قرآن ہے اُدھر ہی ہم ہوں گے.ایسے نمونے اب بھی موجود ہیں.مومن صرف یہ دیکھتا ہے کہ آنے والی آواز خدا کی طرف سے ہے یا نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی یہ شہادت سب غیر مسلموں کیلئے ہو سکتی ہے.آپ کے دعوی کے بعد سینکڑوں ہزاروں آپ کے دشمن کھڑے ہو گئے تھے اور مشہور ہے ”دشمن بات کہے انہونی مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کوئی حرف گیری ہو سکتی ہے اور سوچنے کی بات ہے جب ایک شخص رات کو اس حالت میں سوئے کہ اس نے کبھی انسانوں کے متعلق بھی جھوٹ نہ بولا ہو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ صبح کو وہ اُٹھے اور خدا پر جھوٹ بولنے لگ جائے.یہی دلیل حضرت مرزا صاحب پر بھی چسپاں ہو سکتی ہے آپ بھی خدا کی طرف سے پینہ پر ہیں.آپ کا بھی الہام ہے.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُراً مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) اور یہ ایک مستقل الہام ہے کیونکہ قرآن کریم میں فقد ہے اور یہاں وَلَقَد ہے.بعض لوگ غلطی سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت کو غلط طور پر لکھ دیا ہے.حالانکہ آپ کا یہ مستقل الہام ہے.ہمیں اب دیکھنا یہ چاہئے کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوی سے قبل لوگ آپ کے متعلق کیا کہتے تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری روئے زمین پر اپنے آپ کو اس وقت سب سے بڑا مخالف سمجھتے ہیں.مگر وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب دعویٰ سے پہلے بہت نیک تھے.حتی کہ ایک دفعہ آپ کی زیارت کیلئے پیدل چل کر قادیان آئے.دوسرے مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے جنہوں نے دعوئی کے بعد آپ کے متعلق کفر کا فتویٰ شہر بہ شہر پھر کر تیار کرایا.مگر وہ بھی آپ کی مشہور تصنیف براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تألیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْرًا کہ اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے A..
290 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق دیکھو ایک طرف غیر احمدی مولویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی کو فلاں سے بڑا اور فلاں سے افضل نہیں کہنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو حضرت امام حسینؓ سے بڑا کہا ہے لیکن جب آپ نے ابھی دعوی نہیں کیا تھا اس وقت مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں اسلام کا اتنا بڑا خادم کو ئی نہیں پیدا ہوا.یہ نہیں کہ آپ ایک اچھا نمونہ ہیں بلکہ یہ کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں اسلام میں آپ کی کوئی مثال ہی نہیں ملتی اور یہ اتنی بڑی شہادت ہے کہ جو بھی اس پر غور کرے اسے ماننا پڑے گا کہ آپ کی زندگی بے عیب تھی.پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایسا انسان یکدم ایک صبح اٹھ کر کہہ دے کہ خدا نے مجھے یوں کہا ہے حالانکہ خدا نے اسے کچھ نہ کہا ہو.رات کو ایسی حالت میں سوئے کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں اس جیسا خادمِ اسلام کوئی نہ پیدا ہوا ہو، لیکن صبح اٹھتے ہی بے دین ہو جائے اور ا بے دین بھی ایسا کہ خدا پر افتراء کرنے لگ جائے.ہمارا بیان نہ مانوان غیر مسلموں اور مخالفوں کو جنہوں نے آپ کا دعوی سے قبل کا زمانہ دیکھا ہے کہو کہ اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر تم کھاتے ہوئے کہہ دیں کہ حضرت مرزا صاحب کی زندگی کیسی تھی.ہر ایک یہی کہے گا کہ آپ تو ایک ولی اللہ تھے.بعض لوگ دعوئی سے پہلی زندگی پر ہمیشہ از راه تمسخریہ ایک اعتراض کا جواب اعتراض کرتے ہیں کہ آپ پندرہ میں روپیہ کے سیالکوٹ میں ملازم تھے.اس کے متعلق اول تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک عورت سے نکاح کی خاطر اس کے والد کی دس سال بکریاں چرائیں اس لئے یہ بیہودہ اعتراض ہے.پندرہ بیس روپیہ ماہوار بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تنخواہ سے زیادہ ہی ہیں جو ایک دور و پیہ ماہوار سے زیادہ نہیں بنتی.مگر ہم کہتے ہیں اگر آپ دور و پیہ ماہوار پر بھی ملازم ہوتے تو بھی یہ کوئی اعتراض کی بات نہ تھی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کوفہ کے لوگ ہمیشہ شرارتیں کرتے رہتے تھے اور عمال کو بہت تنگ کرتے تھے.آپ نے ایک شخص کو جن کا نام عبدالرحمن تھا اور جسے انگریزی کتابوں میں SAGACIOUS QAZI کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہاں قاضی مقرر کر کے بھیجا اُس وقت ان کی عمر صرف 19 سال کی تھی.وہ جب پہنچے تو کو فیوں نے کہا کہ دوگر به کشتن روز اوّل والا معاملہ اس کے ساتھ کرنا چاہئے اور شہر سے باہر جا کر اس کا مذاق اُڑانا چاہئے تا وہ سر نہ اُٹھا سکے.انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب ملیں تو اس کی عمر پوچھیں
291 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق خود ہی شرمندہ ہو جائے گا.وہ شہر سے باہر گئے اور شاندار استقبال کیا اور پھر ایک نے پوچھا آپ کی عمر کیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسامہ کو حضرت عمر اور حضرت ابو بکر پر سردار مقرر کر کے بھیجا تھا اس وقت جو اسامہ کی عمر تھی، میری اس سے ایک سال زیادہ ہے.اس پر وہ لوگ سمجھ گئے کہ اس شخص کو عمر جیسے شخص نے کچھ دیکھ کر ہی یہاں کیلئے چنا ہے اور آپس میں اشارے کرنے لگے کہ بس اب کوئی شرارت نہ کرنا.سواگر تنخواہ کا بھی کوئی معیار ہے تو بہر حال حضرت مرزا صاحب کی تنخواہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تھی لیکن ہم اسے نبوت کے لئے کوئی معیار نہیں سمجھتے کیونکہ اگر تنخواہ کا زیادہ ہونا صداقت کا معیار ہوتو سب سے بڑا روحانی انسان ہندوستان کا وائسرے قرار پائے گا جو ساڑھے بائیس ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتا ہے.اگر تنخواہ کی کمی بیشی بھی کوئی چیز ہے تو پھر پانچ سات کی کیا شرط ہے.امریکہ کے پریذیڈنٹ اور وہاں کے بڑے بڑے کروڑ پتیوں کی فضیلت کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے.یہ تو وہی سوال ہے کہ کفار نے کہا تھا کہ اگر تو خدا کا رسول ہے تو تیرے پاس اس قد ر ا موال ہونے چاہئیں کہ تیرا گھر سونے کا ہو.بتاتا سیالکوٹ میں ملازمت کی وجہ اور حکمت الہی فیر میں یا ہوں کہ خداتعالی جو آپ کو سیالکوٹ لے گیا تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کو گھر میں کھانے کو نہ ملتا تھا اور معاش کے لئے آپ کو کسی نوکری کی تلاش تھی.خدا کے فضل سے گورنمنٹ ہمارے خاندان کو رؤسائے پنجاب میں شمار کرتی ہے ہماری جائیدا دکو دیکھ لو قادیان کے ہم مالک ہیں اور ان لوگوں سے قبل جنہوں نے سکونت کی غرض سے ہم سے زمین خریدی، کسی کی چپہ بھر زمین بھی وہاں نہ تھی.اس کے علاوہ تین اور گاؤں ہماری ملکیت ہیں اور دو میں تعلقہ داری ہے.پس سوچنا چاہئے کہ اگر مرزا صاحب نے نوکری کی تو ضرور اس میں کوئی اور غرض ہو گئی، آپ کے دل کی یا خدا تعالیٰ کی اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں دونوں کی ایک ایک غرض تھی.حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریریلی ہے جو آپ نے والد صاحب کے نام لکھی تھی.آپ کے والد صاحب آپ کو دنیوی معاملات میں ہوشیار کرنے کیلئے مقدمات وغیرہ میں مصروف رکھنا چاہتے تھے اور آپ کی جو تحر ریلی ہے اس میں آپ نے اپنے والد صاحب کو لکھا ہے کہ دنیا اور اس کی دولت سب فانی چیزیں ہیں مجھے ان کاموں سے معذور رکھا جائے مگر انہوں نے جب آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تو آپ سیالکوٹ چلے گئے کہ دن کو
292 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق تھوڑا سا کام کر کے رات کو بے فکری کے ساتھ ذکر الہی کر سکیں.دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قادیان سارا ہماری ملکیت ہے اور اب بھی جن لوگوں نے وہاں زمینیں لی ہیں وہ سب احمدی ہیں اس لحاظ سے بھی گویا وہاں کے لوگ ہماری رعایا ہیں اس لئے وہاں کے لوگوں کی حضرت مرزا صاحب کے متعلق شہادت پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ خواجہ کا گواہ مینڈک اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ لا ڈالا جہاں آپ کو غیروں میں رہنا پڑا اور اس طرح خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ نا واقف لوگوں میں سے وہ لوگ جن پر آپ یا آپ کے خاندان کا کوئی اثر نہ ہو آپ کی پاکیزہ زندگی کیلئے شاہد کھڑے کئے جائیں.پھر سیالکوٹ پنجاب میں عیسائیوں کا مرکز ہے وہاں آپ کو ان سے مقابلہ کا بھی موقع مل گیا.آپ عیسائیوں سے مباحثات کرتے رہتے تھے اور مسلمانوں نے آپ کی زندگی کو دیکھا.قادیان کے لوگوں کو آپ کے مزارع کہا جا سکتا تھا مگر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ حیثیت نہیں تھی.وہاں کے تمام بڑے بڑے مسلمان آپ کی علوّ شان کے معترف ہیں.مولوی میر حسن صاحب جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اظہار عقیدت کرتے رہے ہیں.اگر چہ آخر تک سلسلہ کے مخالف رہے مگر وہ ہمیشہ اس بات کے معترف تھے کہ مرزا صاحب کا پہلا کیریکٹر بے نظیر تھا اور آپ کے اخلاق بہت ہی اعلیٰ تھے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں معمولی نوکری اس غرض سے کرائی تھی.اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا رعب ہوتا تھا اب تو کانگریس نے اسے بہت کچھ مٹا دیا ہے اس زمانہ میں پادریوں کا رُعب بھی سرکاری افسروں سے کم نہ تھا اور اعلیٰ افسر تو الگ رہے ادنی ملازموں تک کی یہ حالت تھی کہ چٹھی رسان دیہات میں بڑی شان سے جاتے اور کہتے لاؤ مٹھائی کھلاؤ تمہارا خط لایا ہوں.تو اس وقت پادریوں کا بہت رُعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو وہ حضرت مرزا صاحب کے ملنے کیلئے خود کچہری آیا.ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کیلئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں، کوئی کام ہو تو ارشاد فرما ئیں مگر اس نے کہا میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں.یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جو ہر ہے جو قابل قدر ہے.بَيِّنَةٍ اسلام کی فضیلت على بينة من ربہ میں دوسری چیز قرآن کریم ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا.یہ ایک ایسی کتاب ہے جو
293 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق اپنے اندر ہی اپنی صداقت کے دلائل رکھتی ہے اور اس پر جو غور کرے اسے ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی کتاب ہے.مثلاً اس کی فطری تعلیمات کو لے لوصاف معلوم ہوگا کہ یہ ایک ایسی ہستی کی طرف سے ہے جو فطرت انسانی کو جاننے والی ہے.باقی کتب میں یہ بات نہیں ان پر جب اعتراض کیا جاتا ہے تو جواب کے لئے ان کے ماننے والوں کو اپنے دماغوں پر زور ڈالنا پڑتا ہے مگر کامیابی پھر بھی نہیں ہوتی لیکن قرآن کریم کا دعوی ہے کہ کوئی اعتراض کر و جواب اس کے اندر موجود ہے گویا یہ اپنا بوجھ خود اٹھاتا ہے.باقی مذاہب کی مثال یہ ہے کہ جو شخص ان کو مانے وہ اپنی گٹھڑی ان کے سر پر رکھ دیتے ہیں.مگر اسلام پر جو ایمان لائے یہ اس کا بھی بوجھ خود اٹھا لیتا ہے اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس میں دنیا کا اور کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اسی چیز کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بار بار پیش کرو.جَاهِدَ هُم بِهِ جِهَاداً كَبِيرًا 19 تجھے یہ ایک ایسی تلوار دی گئی ہے کہ اس سے دشمنوں کا مقابلہ کر اور پھر ان کے اندر میری محبت کے جذبات پیدا کر.ہر مضمون اس چھوٹی سی کتاب میں موجود ہے.ایک عیسائی لکھتا ہے کہ قرآن انا جیل کے مجموعے سے چھوٹا ہے.لیکن انا جیل میں صرف ایک مسئلہ رحم بیان کیا گیا اور قرآن میں ساری باتیں موجود ہیں.گویا دشمن بھی اس کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اس میں روحانیت کے متعلق سب باتیں موجود ہیں.اور یہ ایک ایسی بات ہے جسے دیکھ کر ہر شخص کو ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی.تیرہ سو سال کے بعد آج جو حضرت مرزا صاحب اور فہم قرآن اعتراضات پیدا ہوتے ہیں، ان کے جوابات بھی اس کے اندر موجود ہیں جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ چیز حضرت مرزا صاحب کو بھی دی گئی مگر اس طرح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی نئی کتاب دی بلکہ آپ کو قرآن کریم کا خاص فہم عطا کیا اور یہ بھی ایسی چیز ہے جو بندے کی طاقت سے باہر ہے.جس وقت دنیا کے سامنے یہ امر پیش کرنے کی ضرورت ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کو جو قرآن ملا وہ آپ کی صداقت کی دلیل ہے اس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو خصوصیت کے ساتھ فہم قرآن عطا کیا.ادھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے.کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی جب تک کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک نہ کر دیا گیا ہو قرآن کا خاص فہم حاصل نہیں کر سکتا.اس طرح گو یا بتا دیا کہ مامورین و مرسلین اور ان کے بچے توابع کے بغیر کسی کو کامل فہم
انوار العلوم جلد ۱۳ 294 تحقیق حق کا صحیح طریق قرآن کا عطا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام حاصل ہونے پر بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تصنیف براہین احمدیہ میں چیلنج دیا کہ اگر کوئی غیر مسلم اپنی مذہبی کتاب میں سے ان خوبیوں کا پانچواں حصہ بھی ثابت کر دے جو میں نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں، تو میں اسے اپنی ساری جائداد انعام میں دے دوں گا.اس جائداد کی قیمت کا اندازہ اس وقت دس ہزار روپیہ کیا گیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں زمینیں بہت سستی تھیں.ہماری برادری ہی کے ایک آدمی نے اس زمانہ میں کچھ زمین سولہ سو کو خریدی تھی جو اب ڈیڑھ لاکھ میں بیچی ہے.تو اس زمانہ میں دس ہزار کے معنی آج کے لحاظ سے لاکھوں روپیہ کے تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یه چیلنج دیا مگر آج تک کسی نے اسے قبول نہیں کیا.اب بھی وہ کتاب موجود ہے اور اس کے چیلنج کو ہم آج بھی تسلیم کرتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کی تفسیر اور عربی لکھنے کے متعلق بھی آپ نے چیلنج دیئے کہ قرآن کریم کی اتباع کی وجہ سے مجھے یہ نعمتیں عطا ہوئی ہیں اور ان میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.چنا نچہ کوئی سامنے نہیں آیا.پروفیسر مارگولیتھ جو اسلام کے بڑے مخالف اور بڑے مصنف ہیں وہ ایک دفعہ مجھ سے ملنے کے لئے قادیان آئے اور کہنے لگے.کوئی ایسی بات پیش کریں جو میرے لئے حجت ہو.میں نے ان انعامات کا ذکر کیا جو حضرت مرزا صاحب نے مخالفین اسلام کے لئے پیش کئے ہیں.اس پر کہنے لگے اگر میں جواب لکھوں تو کون انعام دے گا، کیونکہ مرزا صاحب تو فوت ہو چکے ہیں میں نے کہا بے شک حضرت مرزا صاحب فوت ہو چکے ہیں مگر آپ کا سلسلہ تو فوت نہیں ہوا.آپ جواب دیں، میں آپ کو انعام دوں گا.وہ اس کا تو کوئی جواب نہ دے سکے مگر ولایت میں جا کر انہوں نے لوگوں سے بیان کیا کہ میں قادیان گیا تھا وہاں کوئی شخص بھی مجھ سے عربی میں بات چیت نہ کر سکا.اس کے دو سال ہی بعد میں تبلیغ کے کاموں کو دیکھنے کے لئے ولایت گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ وہ یوں کہتا ہے.بعض دوستوں نے کہا: اس کے اس دعوی کو غلط ثابت کرنا چاہیئے.ایک دفعہ ہم ایک میٹنگ میں گئے جہاں وہ بھی موجود تھا.ایک طرف میں بیٹھ گیا اور دوسری طرف حافظ روشن علی صاحب مرحوم اور اس سے عربی میں گفتگو شروع کی لیکن دو چار فقرے بولنے کے بعد ہی وہ کہنے لگا کہ مجھ سے انگریزی میں گفتگو کریں اس پر سب انگریز ہنس پڑے.غرض آب بھی دعویٰ موجود ہے.
295 انوار العلوم جلد ۳ تحقیق حق کا صحیح طریق پھر صرف یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہی یہ تمام دنیا کو پیج پر تھی بلکہ آپ آسے بھی یہی چیز دیے گئے ہیں اور آپ کے بات طفیل مجھے بھی ایسے قرآن کریم کے معارف عطا کئے گئے ہیں کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا اور کسی مذہب کا پیرو ہو قرآن کریم پر جو چاہے اعتراض کرئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قرآن سے ہی اس کا جواب دوں گا.میں نے بار ہا دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ معارف قرآن میرے مقابلہ میں لکھو حالانکہ میں کوئی مامور نہیں ہوں مگر کوئی اس کے لئے تیار نہیں ہوا اور اگر کسی نے اسے منظور کرنے کا اعلان بھی کیا تو بے معنی شرائط سے مشروط کر کے ٹال دیا.مثلاً یہ کہ بند کمرہ ہو کوئی کتاب پاس نہ ہو.مگر اتنا نہیں سوچتے کہ اگر خیال ہے کہ میں پہلی کتب اور تفاسیر سے معارف نقل کرلوں گا تو وہی کتب تمہارے پاس بھی ہوں گی تم بھی ایسا ہی کر سکتے ہو.پھر اگر میں دوسری کتب سے نقل کروں گا تو خود اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی ثابت کر دوں گا.کیونکہ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ نئے معارف بیان کروں گا لیکن مقابلہ کے وقت جب پرانی تفاسیر سے نقل کر لوں گا تو خود ہی میرے لئے شرمندگی اور ندامت کا موجب ہو گا.مگر میں جانتا ہوں یہ سب بہانے ہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی کو سامنے آنے کی جرآت ہی نہیں.تیسری چیز عَلى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبَّہ کے سلسلہ میں وہ معجزات اور مخالفوں کی ناکامی الله پیشگوئیاں ہیں جو رسول کریم ﷺ نے بیان کی ہیں.آپ نہایت خطرناک دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے مگر آپ نے دعوی کیا کہ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ال مکہ والوں نے سارا زور لگایا کہ آپ کو قتل کریں، آخر کار تجویز کی کہ سب مل کر آپ کو ماریں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کو قبل از وقت ان کے منصوبوں کا علم دیدیا اور آپ بچ گئے.آپ جب غار ثور میں گئے تو دشمن بھی غار کے منہ تک پہنچ گئے ان کے ساتھ ایک بہت بڑا ماہر کھوجی تھا، ہمارے علاقہ کے لوگ تو کھوجیوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے البتہ اس علاقہ میں رواج ہے، اس کھوجی نے کہا کہ یا تو اس غار میں ہیں یا پھر آسمان پر چڑھ گئے ہیں، اس سے آگے نہیں گئے.لیکن ان لوگوں پر اس قدر تصرف الہی تھا کہ کسی نے جھک کر نیچے نہ دیکھا کہ شاید اس کے اندر ہی ہوں.پھر ایک سردار نے اعلان کیا کہ جو آپ کو پکڑ لائے گا، اسے سو اونٹ انعام دیا جائے گا.چنانچہ ایک شخص آپ کے تعاقب میں گیا اور بالکل قریب جا پہنچا مگر جب وہ حملہ کرنے لگتا تو گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑتا.تین دفعہ ایسا ہی ہوا آخر وہ سمجھ گیا اور اسی
296 انوار العلوم جلد ۳ تحقیق حق کا صحیح طریق وقت ایمان لے آیا.تو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں کثرت سے ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے آپ کی حفاظت کرتے تھے.ایک عورت نے آپ کو کھانے میں زہر دینا چاہا ایک صحابی نے وہ کھانا کھا لیا اور وہ فوت ہو گئے لیکن آپ نے نعمہ اُٹھایا اور پھر رکھ دیا ۲۵.اسی طرح آپ پر پیچھے سے پتھر گرا کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا.آپ بالکل اکیلے باہر چلے جاتے تھے صحابہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو مدینہ سے با ہر کچھ شور ہوا وہ جب اٹھ کر دیکھنے کے لئے جا رہے تھے تو رسول کریم ﷺ گھوڑے پر واپس آتے ہوئے ان کو ملے اور فرمایا.میں دیکھ آیا ہوں، کوئی خطرہ کی بات نہیں.تو آپ راتوں کو اکیلے پھرتے مگر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا حالانکہ سب آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، ان کی سب تذا بیر نا کام ہوئیں.ایسا ہی حضرت مرزا صاحب انتہائی مخالفت کے باوجود حضرت مرزا صاحب کی کامیابی کے متعلق ہوا.آپ کے خلاف بھی دشمنوں نے ہر طرح زور لگایا، قتل کے جھوٹے مقدمات آپ پر دائر کئے گئے، آپ کو قید کرانے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جان لینے کے منصوبے کئے گئے.لکھنو کے ایک مولوی صاحب قادیان آئے، بعد میں احمدی ہو گئے انہوں نے بتایا کہ میں آیا تو آپ کو قتل کرنے کی نیت سے تھا مگر یہاں آ کر صداقت کھل گئی.جس طرح رسول کریم عملے کو نقصان پہنچانے کی تمام تدابیر ناکام ہوئیں اور دشمنوں کی شکست کی تمام پیشگوئیاں جو رسول کریم نے کیں مثلا فتح مکہ کی خبر فتح خیبر کی خبر اور ابو جہل کی موت کہ کہاں اور کس طرح واقع ہوگی وغیرہ وہ سب پوری ہوئیں.اسی طرح کی مثالیں حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں بھی ملتی ہیں.رسول کریم ﷺ کو سخت مخالف حالات میں جو کامیابی ہوئی دشمن بھی اس کے معترف ہیں.ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ اسلام پر جو چاہو اعتراض کرو لیکن ایک بات سخت حیران کن ہے اور وہ یہ کہ ایک کچا مکان جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہے اور بارش میں پانی چھت سے ٹپک ٹپک کر فرش پر کیچڑ ہو جاتا ہے، اس کے اندر چند لوگ بیٹھے ہیں، جن میں سے اگر کسی کا نہ بند ہے تو گرتا نہیں اور گرتا ہے تو پگڑی نہیں غرضیکہ کسی کے بدن پر بھی پورے کپڑے نہیں ہیں وہ نہایت سنجیدگی سے اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ فلاں ملک کو کس طرح فتح کیا جائے اور فلاں کو کس طرح اور پھر وہ کر کے دکھا بھی دیتے ہیں.وہ کہتا ہے :.تم محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر جو چاہو
انوار العلوم جلد ۱۳ 297 تحقیق حق کا صحیح طریق اعتراض کر ولیکن اس کا کیا جواب ہے اور یہ کیا راز تھا.یہی باتیں حضرت مرزا صاحب میں دکھائی دیتی ہیں اور عَلی بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ کی یہی مثال آپ میں ملتی ہے.آپ کو بھی الہام ہوا.يَعْصِمُكَ اللهُ مِنَ النَّاسِ ۲۸ دوسری پیشگوئی آپ کی تھی کہ اِنِّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَانَتَكَ وَإِنِّي مُعِينٌ مَنْ أَرَادَ إِعَانَتَكَ یعنی جو تیری تو ہین کے لئے کھڑا ہو گا، میں اس کی تو ہین کروں گا اور جو تیری مدد کے لئے کھڑا ہوگا، میں اس کی مددکروں گا.غور کرو یہ کتنا بڑا دعوئی ہے.ایک دشمن کے متعلق بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ذلیل ہو گا مگر یہاں ایک قانون بیان کیا گیا اور آپ اتنا بڑا دعویٰ کرتے ہیں ادھر آپ یہ الہام شائع کرتے ہیں اور ادھر آپ کے بہت پرانے دوست مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کی مخالفت کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ میں نے ہی اس کی تعریف کر کے اسے اس قدر عروج پر پہنچایا تھا اور اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا.دیکھو کتنا بڑا مقابلہ ہے.ایک طرف مرزا صاحب ہیں جن کے سب لوگ مخالف ہیں حتی کہ مہدویت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے حکومت کی آنکھ میں بھی آپ کھٹکتے ہیں، عیسائی اس واسطے دشمن تھے کہ یہ ہمارے خدا کی موت ثابت کرتا ہے، ہندؤ مسلمان غرضیکہ سب آپ کے مخالف تھے مگر اس وقت آپ نے اعلان کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنِّى مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ وَإِنِّى مُعِيْنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ اس کے بعد آپ کے مقابلہ کے لئے وہ شخص اُٹھا جو اپنے کو مسلمانوں کا ایڈووکیٹ لکھا کرتا تھا اور تمام اہلحدیث جس کے تابع تھے.اس نے غرور سے کہا کہ میں نے اس شخص کو او پر اُٹھایا تھا اور اب میں ہی اسے گراؤں گا.یہ دونوں میدان مقابلہ میں تھے.ایک کی طرف بظاہر کوئی بھی نہیں تھا مگر دوسرے کی طرف سارا ہندوستان بلکہ غیر ممالک کے لوگ بھی تھے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکلا؟ اس کے لئے بھی ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں.مولوی محمد حسین صاحب نے جب یہ دعویٰ کیا اس پر آج ۴۴ سال گذر گئے ہیں.اب دیکھو یہ دعویٰ کرنے والا کہاں ہے اور کیا اس کے ماننے والوں میں سے کوئی باقی ہے.اور نہیں، میں کہتا ہوں اس کی اپنی اولاد سے ہی اس کی تعریف کرا دو.اس کی اولاد بھی اسے گالیاں دینے والی ہے.ایک لڑکا آریہ ہو گیا تھا اور مولوی محمد حسین صاحب نے مجھ سے اپیل کی کہ اسے بچاؤ.چنانچہ میں نے اپنے آدمی بھیج کر اسے دوبارہ مسلمان کیا لیکن جس شخص کے متعلق اس نے کہا تھا کہ میں اسے گراؤں گا کیا وہ گر گیا یا کم سے کم آج اس کی وہی حالت ہے جو پہلے تھی ؟ ایک دن بھی ایسا نہیں آتا جب اس کی جماعت میں
انوار العلوم جلد ۱۳ 298 تحقیق حق کا صحیح طریق نئے لوگ داخل نہ ہوں.آج ہی دیکھ لو ایک سو کے قریب افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں مرکز سے باہر آیا ہوں بلکہ کوئی ہندو آریہ عیسائی، غیر احمدی جو چاہے آئے اور آ کر دیکھ لے کہ میری روزانہ ڈاک میں احمدی ہونے والوں کے کتنے خطوط ہوتے ہیں اور کوئی موقع ایسا نہیں ہوتا کہ میں باہر آؤں اور بیعت کرنے والا کوئی نہ ہو.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں جماعت قائم ہو چکی ہے اور جہاں ایک آدمی بھی گیا وہاں جماعت قائم ہو گئی.جس سے ظاہر ہے کہ جو آپ کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے.اور جو اہانت کرنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرتا ہے.حضرت مرزا صاحب پر ایک پادری نے مقد م قتل اور دشمنوں کی روسیاہی قتل کا مقدمہ دائر کرایا اور بیان کیا کہ میرے قتل کیلئے آپ نے ایک آدمی کو بھیجا ہے.اس زمانہ میں گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈگلس تھے جو بڑے متعصب خیال کئے جاتے تھے.چنانچہ وہ جب اس ضلع میں آئے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یہ شخص ہمارے مذہب کی اتنے عرصہ سے مخالفت کر رہا ہے ابھی تک اسے کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی.ایسا انسان ڈپٹی کمشنر تھا، ایک پادری کی طرف سے مقدمہ دائر تھا، جس میں پادری کی طرف سے گواہی دینے کیلئے مولوی محمد حسین صاحب گئے ان کا خیال تھا کہ پولیس مرزا صاحب کو گرفتار کر کے لائے گی اور وہ ذلیل حالت میں عدالت کے روبرو کھڑے کئے جائیں گے، جنہیں میں دیکھوں گا.مگر وہی دشمن انگریز افسر جواب تک زندہ ہے اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کو دیکھ کر اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے آپ کو بیٹھنے کیلئے کرسی پیش کی.یہ حالت دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب غصہ سے جل بھن گئے اور آگے بڑھ کر کہنے لگے مجھے بھی کرسی ملنی چاہئے مگر عدالت نے انکار کر دیا.اس پر انہوں نے اصرار کیا تو عدالت نے کہا.بک بک مت کر پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا.اس پر وہ باہر آ گئے وہاں ایک کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ گئے.مشہور ہے کہ جس پر آقا ناراض ہو نو کر بھی ناراض ہوتے ہیں.چپڑاسی نے یہ خیال کر کے کہ اگر صاحب نے دیکھ لیا تو مجھ پر ناراض ہوگا انہیں کرسی سے اٹھا دیا.اس کے بعد ایک چادر پر کچھ مسلمان بیٹھے تھے، مولوی صاحب اس پر جا بیٹھے لیکن چادر والے نے یہ کہتے ہوئے کہ جو شخص ایک مسلمان کے خلاف گواہی دینے آئے، میں اس سے اپنی چادر پلید کرانا نہیں چاہتا، چادر کھینچ لی.وہ کیپٹن ڈگلس جو بعد میں کرنل ہو گیا تھا آج بھی زندہ موجود ہے اور شہادت
انوار العلوم جلد ۱۳ 299 تحقیق حق کا صحیح طریق دیتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھتے ہی مجھ پر حقیقت حال منکشف ہو گئی.ان کے H.V.C ملک غلام حیدر صاحب اس وقت راولپنڈی میں زندہ موجود ہیں ان کے ایک لڑکے ملک عطاء اللہ صاحب.ای.اے سی.غالبا یہاں بھی رہے ہیں وہ خود سناتے ہیں کہ صاحب بٹالہ میں مقدمہ کی سماعت کرنے کے بعد جب سٹیشن پر واپس آیا تو بے قراری کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا.میں نے کہا.ویٹنگ روم میں تشریف رکھیئے.مگر اس نے کہا.نہیں تم جاؤ.پھر دیکھا کہ وہ کچھ گھبرایا سا پھرتا ہے.میں پھر گیا اور جا کر کہا تو اس نے جواب دیا نہیں تم جاؤ.میری طبیعت خراب ہے اور ٹہلتا رہا.پھر مجھے کہا کہ دیکھو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں جس طرف جاتا ہوں مرزا صاحب کی رُوح سامنے آتی ہے جو کہتی ہے کہ مجھ پر الزام جھوٹا ہے اور مرزا صاحب کو دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا ہے.میں نے کہا آپ سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس کو بلا کر مشورہ کر لیں جو انگریز تھے.چنانچہ ان کو مشورہ کیلئے بلایا گیا اور جب وہ آئے تو ڈگلس صاحب نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ جنون سا ہو رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب بے گناہ ہیں، اب کیا کیا جائے.سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ گواہ کو عیسائیوں کے قبضہ سے نکال کر اس سے اصل حقیقت دریافت کرنی چاہئے.ڈپٹی کمشنر نے اُسی وقت حکم لکھا کہ وعدہ معاف گواہ پولیس کے حوالہ کیا جائے.چنانچہ اسے منگوا کر جب سپر نٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا تو پہلے تو اس نے وہی قصہ دُہرا دیا جو اُ سے یاد کرایا گیا تھا مگر جب اسے یقین دلایا گیا کہ ڈرو نہیں اب تمہیں عیسائیوں کے حوالہ نہیں کیا جائے گا.تو وہ چیخ مار کر پاؤں پر گڑ پڑا اور کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے عیسائیوں نے قتل کی دھمکی دے کر مجھ سے یہ شہادت دلوائی ہے وگر نہ حضرت مرزا صاحب کے جن مریدوں کا ذکر گواہی میں ہے مجھے تو ان کے نام بھی یاد نہیں ہیں وہ میری ہتھیلی پر لکھ کر مجھے عدالت میں بھیجتے ہیں.یہ سارا واقعہ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی کمشنر سے بیان کر دیا جس نے اگلی ہی پیشی پر مقدمہ خارج کر دیا.حالانکہ دعوی کرنے والوں میں بڑے بڑے پادری شامل تھے.ایک پادری وارث الدین تھے جو عیسائیوں میں بہت معزز سمجھے جاتے تھے.چنانچہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی نے ان کے نام پر ایک وارث فونٹین پن ایجاد کیا.جسے ہمارے بعض مسلمان نوجوان بھی نہایت شوق سے خریدتے ہیں، محض اس وجہ سے کہ وہ کچھ ستا ملتا ہے.ڈگلس صاحب نے مرزا صاحب کو یہ بھی کہا کہ آپ ان پر نالش کر سکتے ہیں.مگر آپ نے جواب دیا کہ مجھے کسی پر مقدمہ کرنے کی ضرورت نہیں میرے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت کے ساتھ بری کر دیا.
300 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق میں جب ولایت میں گیا تو ڈگلس صاحب کو بھی ملاقات کیلئے بلایا.انہوں نے سنایا کہ آج تک اس واقعہ کا مجھ پر اثر ہے اور اب بھی اگر کوئی مجھے کہے کہ تم نے ۳۵ سال تک ہندوستان میں زندگی بسر کی ہے کوئی عجیب واقعہ سناؤ تو میں یہی سناتا ہوں بلکہ کچھ عرصہ ہوا ضلع ہوشیار پور کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب رخصت پر یہاں آئے جو مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہا کہ کوئی عجیب واقعہ سناؤ.تو میں نے انہیں بھی یہی سنایا اور کہا کہ میں نے مرزا صاحب سے کہا تھا کہ آپ پادری وارث الدین اور اس کے ساتھیوں پر نالش کر سکتے ہیں مگر انہوں نے انکار کر دیا.عجیب بات ہے کہ عین اُس وقت جب میں انہیں یہ بات سنا رہا تھا، نوکر نے ایک ملاقاتی کا کارڈ لا کر دیا جو اسی پادری وارث الدین کا بیٹا تھا.میں نے اسے اندر بلایا اور کہا کہ ہم بھی تمہارے والد کا ہی ذکر کر رہے تھے.اس نے ایک تار دکھایا کہ ابھی آیا ہے اور اس میں لکھا تھا کہ میرا والد فوت ہو گیا ہے.اب غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے.اور انسی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ وَإِنِّي مُعِينٌ مَنْ أَرَادَ إِعَانَتک.کا کیسا ز بر دست ثبوت ہے.مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق آنحضرت حضرت مح موعود علیہ الصلواۃ.والسلام کی صداقت کیلئے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں دوسری چیز وہ باتیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمانہ کے متعلق بیان فرمائیں اور جن میں سے ایک ضلع لائل پور کے متعلق بھی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے نشانات دکھلائے گا اور ثابت کرے گا کہ آپ جھوٹے نہیں.اس کے ثبوت میں جو باتیں پیش کرتا ہے وہ قرآن مجید کی ایک سورۃ میں بیان کی گئی ہیں.اس ساری سورۃ کی اگر تفسیر کی جائے تو اس کے لئے کئی گھنٹے بھی کافی نہیں ہو سکتے اس لئے میں صرف اختصار کے ساتھ اس کے مضمون کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں.خصوصاً اس حصہ کی نسبت جس میں نو آبادیوں کی طرف اشارہ ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَالُوحُوشُ حُشِرَتْ وَإِذَ الْبِحَارُ سُحِرَتْ یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جانگلی کہلانے والے لوگوں میں بھی تعلیم پھیل جائے گی اور دریاؤں سے نہریں کاٹ کر پھیلا دی جائیں گی.یہ دونوں باتیں اکٹھی صرف ہندوستان کی نو آبادیوں میں ہی پائی جاتی ہیں.جہاں کی پُرانی آبادی جانگلی کہلاتی ہے اور جہاں نہروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں تعلیم پھیل کر بیداری پیدا ہوگئی
301 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ یہاں کے اکثر لوگوں کی روزی کا مدار نہروں پر ہے.ان نہروں کے ذریعہ ہی یہ علاقہ ایسا زرخیز ہو گیا وگرنہ یہاں کیا رکھا تھا.آبادی نہایت کم تھی اور بوجہ دُور دُور رہنے کے لوگ تمدن سے نا آشنا ہو گئے تھے اور اس وجہ سے جانگلی کہلاتے تھے.غرض اس پیشگوئی کے دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ کا نقشہ نہایت وضاحت سے کھینچا گیا ہے.بقیہ پیشگوئیاں یہ ہیں کہ جب ستارے مکدر ہو جائیں گئے پہاڑ اڑائے جائیں گئے اونٹ بیکار ہو جائیں گئے وحشیوں کو اکٹھا کیا جائے گا، نہریں جاری ہو جائیں گی ۳۲.لڑکیوں کا مارنا قا نو ناروک دیا جائے گا، اخبارات نکلیں گے، ہیئت کے علوم پھیل جائیں گئے، جہنمی کا رروائیاں کثرت سے ہوں گی جنت کا حصول آسان ہو جائے گا، بدی کی اس قدر کثرت ہوگی کہ تھوڑی سی نیکی بھی خدا کی خوشنودی کا موجب ہوگی، ۳۳ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو فی زمانہ پوری ہو رہی ہیں.لڑکیوں کا قتل اس زمانہ سے قبل پہلے کبھی روکا نہیں گیا تھا حتی کہ مسلمان بادشاہوں نے بھی اپنے زمانہ میں اس کی اجازت ہندوؤں کو دے رکھی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ میں اس پیشگوئی کا ایک تتمہ بھی بیان فرمایا ہے.آپ کا الہام ہے بَلِيَّةٌ مَالِيَّةٌ ۳۴ یعنی ایک زمانہ آئے گا کہ چیزیں موجود ہوں گی مگر روپیہ نہیں ملے گا.پہلے ملک میں کال اور قحط اس لئے ہوتے تھے کہ گندم یا غلہ کم پیدا ہوتا تھا مگر اس وقت مالی مصیبت اس وجہ سے آئی ہے کہ پیدا وار ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہے اور گاہک نہیں ملتے.دیکھو یہ کتنی واضح پیشگوئی ہے.آج ساری دنیا امریکہ انگلینڈ، جرمنی، فرانس، جاپان، ہندوستان غرضیکہ سب رو ر ہے ہیں کہ مر گئے تباہ ہو گئے.زمیندار غلہ پیدا کر رہے ہیں مگر کوئی گاہک نہیں ملتا اور سرکاری مالیہ تک ادا نہیں ہوسکتا غرضیکہ ایک عظیم الشان ابتلاء کی خبر دی گئی تھی جو اس زمانہ میں پوری ہوئی ہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی ذات میں اس کے بعد میں ایک ایسی پیشگوئی کو لیتا ہوں جو آپ سے صداقت مسیح موعود کا زبردست نشان مجھ سے بلکہ ساری دنیا سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے.إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلی دِینِ وَاحِدٍ، ۳۵ یعنی اے اللہ کے رسول کے بیٹے ! میں تیرے ساتھ ہوں تم سب دنیا کے مسلمانوں کو ایک سلسلہ میں جمع کرو اور ایک دین کا پابند بناؤ.
302 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا اس وقت میں طالب علم تھا اور طالب علم بھی ایسا جو ہمیشہ فیل ہوتا تھا اور میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوگی وگر نہ اگر کچھ پاس کر لیتا تو ممکن ہے مجھے خیال ہوتا کہ میں یہ ہوں وہ ہوں لیکن اب تو اس حقیقت کا انکار نہیں ہوسکتا کہ جو کچھ مجھے آتا ہے یہ اللہ کا ہی فضل ہے میری اس میں کوئی خوبی نہیں.کچھ عرصہ ہوا لا ہور میں دو مولوی صاحبان مجھ سے ملنے آئے اور بطور تمسخر ایک نے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کہاں تک ہے.میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے.میں نے کہا.کچھ بھی نہیں.کہنے لگے آخر کچھ تو ہوگی.میں نے کہا صرف قرآن جانتا ہوں.کہنے لگے بس قرآن.مجھے ان پر تعجب ہوا کہ ان کے نزدیک قرآن جانا کوئی چیز ہی نہیں اور انہیں اس پر خوشی کہ ان کی تعلیم کچھ نہیں.پھر ایک نے پوچھا.انگریزی پڑھی ہوگی.میں نے کہا پڑھتا تو تھا مگر ہر جماعت میں فیل ہوتا تھا.کہنے لگے تو پھر انگریزی بھی نہ ہوئی.اس کے بعد پوچھنے لگے.پرائیویٹ طور پر تو کوئی تعلیم حاصل کی ہوگی.میں نے کہا وہ بھی قرآن ہی پڑھا ہے اور واقعی یہ امر واقع ہے.میں ہر جماعت میں فیل ہوتا تھا میری صحت کمزور تھی اور اطباء نے کہا تھا کہ اس کی تعلیم پر زور نہ دیا جائے، وگر نہ اسے سل ہو جائے گی.ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کرتا ہے کہ اے ابنِ رَسُولِ اللہ ! اُٹھے اور ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی میری عمر چھوٹی تھی.پھر صدر انجمن کے بعض ممبر یہ کہہ رہے تھے کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اور وہ پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں اور اس طرح گو یا خلافت کا نشان ہی مٹانے میں لگے ہوئے تھے.اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے تو اس الہام کے پورے ہونے کا کوئی موقع نہ رہتا.پھر اس کے بعد بھی بعض لوگ میری مخالفت کرتے رہے ہیں اور اس کوشش میں رہے ہیں کہ میں خلیفہ نہ بن سکوں حالانکہ مجھے کبھی اس کا وہم بھی نہ تھا.ایک دفعہ مجھے یاد ہے میں گھر میں بیٹھا تھا کہ مسجد مبارک میں جو ہمارے گھر سے ملحق ہے خلافت کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی.مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ جھگڑا کیا ہے لیکن میرے کان میں آواز آئی کہ ہم نے مولوی صاحب کے ہاتھ پر تو بیعت کر لی تھی اب ایک لونڈے کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کریں.مجھے کوئی وہم بھی نہ تھا کہ میں بھی خلیفہ ہوسکتا ہوں اس لئے میں نے بڑی حیرانی سے ایک صاحب سے جو اس مجلس میں شامل تھے دریافت کیا کہ یہ لونڈا کون ہے جس کا ذکر ہور ہا تھا انہوں نے بتایا کہ وہ آپ ہی کے متعلق بات ہو رہی تھی.اللہ تعالی گواہ ہے اور میں اس
انوار العلوم جلد ۳ 303 تحقیق حق کا صحیح طریق کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مجھے نہ تو کوئی اس کا علم تھا اور نہ ہی طاقت تھی.جب حضرت خلیفہ اول سخت بیمار ہوئے تو میں نے اختلاف پر غور کیا اور بہت غور کیا.جب میں نے یہ دیکھا کہ جماعت کا ایک حصہ عقائد میں ہم سے خلاف ہے تو میں نے کہا کہ یہ لوگ ہماری بات تو نہیں مانیں گئے آؤ ہم ہی ان کی مان لیتے ہیں.چنانچہ میں نے سب رشتہ داروں کو جمع کر کے کہا کہ سلسلہ میں اتحاد سب چیزوں پر مقدم ہے.آؤ ہم ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور میں نے تجویز کیا کہ سب سے پہلے مولوی محمد احسن صاحب کی بیعت کرنے کی کوشش کی جائے.اگر ان پر اتفاق نہ ہو تو سید حامد شاہ صاحب کا نام پیش کیا جائے اور اگر ان پر بھی اتفاق نہ ہو تو مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے خیال کیا کہ لوگ ضرور میری بیعت کریں گے اور انکارِ خلافت پر اصرار کیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اصرار کیا کہ میں بیعت لوں اور مجھے بیعت لینی پڑی.پس میری خلافت غیر معمولی حالات میں ہوئی اور اس الہام کے ماتحت ہوئی.اس کے بعد الہام کے دوسرے حصہ کے پورے ہونے کا وقت آیا.جب میں خلیفہ ہوا اس وقت ہندوستان سے باہر احمدی نہ تھے.یا اگر تھے تو وہ نسلاً ہندوستانی تھے.مگر اب خدا کے فضل سے انگلینڈ امریکہ جزائر امریکہ ایران، شام الجزائر، سماٹرا، جاوا‘ بور نیو نیو گائنا گولڈ کوسٹ لیگوس، نٹال، مصر اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے مقامات پر جماعتیں ہیں.کئی مقامات پر اپنی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ان لوگوں میں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دینے والے تھے آپ پر درود بھیجنے والے پیدا ہو گئے ہیں.ایک انگریز نو مسلم نے جو پہلے عیسائی تھا مجھے خط لکھا کہ کوئی رات ایسی نہیں کہ میں سونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجوں کہ آپ ایسادین لائے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس لئے کہ آپ کے ذریعہ یہ صداقت مجھ تک پہنچی.چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اور اس کے بعد ہدایت خلق کیلئے درد اور ترپ ایک ٹی پارٹی ہے.اس لئے اگر چہ مضمون ختم نہیں ہوا، تاہم تقریر کو میں ختم کرتا ہوں اور اگر رات کو جلسہ ہوا تو میں کوشش کروں گا کہ مضمون مکمل کر دوں.اس کے بعد میں ان سب بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو جلسہ میں آئے اور محبت سے
304 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق تقریر سنتے رہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں کسی کیلئے کوئی کپٹ، کوئی کینہ یا بغض اور عناد نہیں، میں مخالفوں کے لئے بھی اپنے دل میں محبت کے جذبات رکھتا ہوں اور اپنا مقصد یہی سمجھتا ہوں کہ علاوہ اشاعت اسلام کے لوگوں میں باہم مؤدت پیدا کروں اور اگر ہندو بھائیوں میں ہمارے ذریعہ سے اتحاد ہو سکے تو میں اسے بہت بڑی کامیابی سمجھوں گا.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کریں.لوگوں سے محبت اور پیار بڑھائیں، ہمدردانہ تعلقات پیدا کریں، میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میں جس نظر سے اپنے مخالفوں کو دیکھتا ہوں، شاید ان کے عزیز بھی انہیں نہ دیکھتے ہوں گے.میرے دل میں ایک درد ہے، ایک تڑپ ہے کہ وہ ایک ایسے مقام سے محروم ہیں جس کے بغیر انسان کو حقیقی راحت حاصل نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے ان کے قلوب کھول دے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ سچائی کو پھیلا سکیں اور اس کے لئے قربانی کرسکیں.ساری دنیا کو بھائی بھائی بنا دیں اور توفیق دے کہ محبت اور پیار سے تبادلہ خیالات کر کے لوگوں کو اس نتیجہ پر پہنچنے کے مواقع بہم پہنچا سکیں کہ جس پر پہنچنے سے انسانی زندگی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے.اس کے بعد حضور تشریف لے گئے اور پھر مغرب وعشاء کی نمازیں جلسہ گاہ میں پڑھانے کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی.معذرت سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے افسوس ہے کہ ایک غلط نہی کی وجہ سے ہماری نماز ذرا دیر سے ہوئی اور جلسہ کے وقت میں سے کچھ نماز کیلئے لینا پڑا.شرعاً تو مغرب و عشاء کی نمازوں کو دونوں وقتوں میں جمع کرنا جائز ہے لیکن انتظام کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے تجویز یہ تھی کہ مغرب کے ساتھ میں عشاء کی نماز پڑھا دوں اور اس کے بعد جلسہ کی کارروائی شروع کر دی جائے لیکن ایک غلط فہمی کی وجہ سے یہ تو قف ہو گیا.اس لئے جو دوست وقت مقررہ پر تقریر سننے کیلئے آئے اور ان کو انتظار کرنا پڑا، میں ان سے معذرت چاہتا ہوں.ہماری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ ہر کام وقت مقررہ پر ہومگر آج غلط فہمی کے باعث ایسا ہوا اور میں جب نمازیں پڑھانے کیلئے آیا تو دوست یہاں نہیں تھے.میں نے کہا تھا کہ میری تقریر کا کچھ حصہ باقی ہے.اسے دوسرے وقت میں اگر ممکن ہوا تو بیان کروں گا.اس وعدہ کے مطابق میں آب آیا ہوں.گو سارا دن ملاقاتوں اور پھر تقریر کی وجہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 305 تحقیق حق کا صحیح طریق سے میری طبیعت جو پہلے ہی پیچش کی وجہ سے کمزور تھی، زیادہ ضعف محسوس کر رہی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کچھ وقت اور بول سکوں تو یہ اس کمزوری کا اعلیٰ بدلہ ہوگا اور اعلیٰ چیز کیلئے : ادنی کو قربان کر دیتا ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاعون کی پیشگوئی صداقت کے جو دلائل قرآن کریم نے بیان کئے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ عَلى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّہ تھے.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایسے دلائل حاصل تھے جو آپ کی صداقت کو ظاہر کرتے اور معترضین کو ساکت کرتے ہیں.اسی سنت کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جاری کی اس نے بانی سلسلہ احمدیہ کیلئے بھی نشان دکھائے اور اپنے پاس سے آپ کو بھی بینات دیں.ان بینات میں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوئیں، بعض ظلتی طور پر بانی سلسلہ احمدیہ کو بھی عطا ہوئیں اور ان میں سے میں پیشگوئیوں کا ذکر کر رہا تھا.ان پیشگوئیوں میں سے ایک اور کا میں ذکر کرتا ہوں جس سے پنجاب کا ہر شخص واقف ہے اور وہ طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے.طاعون بے شک پہلے بھی پھوٹتی رہی ہے اور اس علاقہ بار میں بھی جہانگیر کے وقت میں سخت طاعون پھوٹی تھی اور اسی وجہ سے لوگ اس علاقہ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے لیکن کسی امر کا ایک وقت ظاہر ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ آئندہ کے لئے وہ نشان نہیں قرار پاسکتا.پیشگوئی کے معنی اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر قبل از وقوع لوگوں کو ایک اعتراض کا جواب بتانے کے ہیں.پس اگر کسی امر کے متعلق پہلے سے خبر دے دی جائے تو وہ پیشگوئی ہے خواہ اس کا وقوع دنیا میں بکثرت ہوتا ہو.مثلاً دنیا میں روزانہ ہزار ہا آدمی پیدا ہوتے ہوں گے لیکن باوجود اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی اولاد کی نسبت پیشگوئی ہی کہلاتی ہے.اسی طرح ہر انسان مرتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو بعض دشمنوں کی موت کی خبر دی وہ پیشگوئی ہی کہلاتی ہے.پس جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ طاعون تو دنیا میں آیا ہی کرتی ہے ان کا اعتراض صحیح نہیں کیونکہ گو طاعون پہلے بھی آتی رہی ہے مگر یہ تو ضروری نہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے وقت میں ہندوستان میں آتی.پس جب کہ وہ آپ کے بتائے ہوئے وقت میں بتائی ہوئی علامات کے ساتھ اور بتائے ہوئے علاقہ میں ظاہر ہوئی تو اسے پیشگوئی کہا جائے گا نہ کہ قیاس.حضرت مسیح موعود
306 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق الصلوۃ والسلام نے طاعون کی پیشگوئی براہین احمدیہ کے وقت یعنی قریباً ۶۵ سال پہلے کی تھی.اس وقت آپ کو الہام ہوا تھا کہ:.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.۳۶ اس الہام میں بتایا گیا تھا کہ آپ ایک دعوی کریں گے.لوگ اس کا انکار کریں گے.اور پھر خدا تعالیٰ قہری نشانوں سے اس دعویٰ کی تصدیق کرے گا.یہ اجمالی پیشگوئی تھی.اس کے بعد آپ نے دعویٰ کیا اور عام طور پر ایسا سخت جوش آپ کے خلاف پیدا ہوا کہ اب تو میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ پھر ایک جوش ہمارے خلاف پیدا ہو چکا ہے، ہاں درمیانی عرصہ میں اس کی نظیر مانی محال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ ملتان گئے اور میری خواہش پر مجھے بھی ساتھ لے گئے.میری عمر اُس وقت ۷-۸ سال ہو گی.واپسی پر لاہور بھی ٹھہرے اور ڈبی بازار کے پاس رہنے والے کسی دوست کی خواہش پر اس کے گھر گئے.واپسی پر جب سنہری مسجد کے پاس سے آپ کی گاڑی گزر رہی تھی تو میں نے دیکھا لوگ آپ کو گندی گالیاں دیتے اور پتھر مارتے تھے میں اگر چہ بچہ تھا مگر اس وقت کا ایک نظارہ مجھے اب تک یاد ہے.ایک شخص جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور زرد رنگ کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ زخم ابھی ہرے ہیں وہ کٹے ہوئے باز وکو دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا اور ہائے ہائے مرزا کہتا جاتا تھا.یہ ایک ایسا نظارہ تھا جس کا میری طبیعت پر آج تک اثر ہے.تو اس زمانہ کی مخالفت کی یہ حالت تھی کہ انتہاء درجہ کا جوش تھا.آپ نے مخالفین کو بار بار توجہ دلائی کہ اس سے کچھ فائدہ نہیں.تم لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے تباہ کر دے.آپ لوگ میری مخالفت میں اپنے اخلاق کیوں تباہ کرتے ہو.اگر میں حق پر ہوں تو تم میرا بگاڑ کچھ نہیں سکتے اور ناحق پر ہوں تو خدا خود بخود مجھے تباہ کر دے گا.تمہیں مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں.مگر لوگ مخالفت میں برا بر بڑھتے گئے.تب ۱۸۹۴ ء میں آپ نے عربی میں ایک قصیدہ لکھا جس میں مندرجہ ذیل اشعار تھے.فَلَمَّا طَغَى الْفِسْقُ الْمُبِيدُ بِسَيْلِهِ تَمَنَّيْتُ لَوْ كَانَ الوَبَاءُ الْمُتَبَّرُ فَإِنَّ هَلَاكَ النَّاسِ عِنْدَ أُولِى النهى اَحَبُّ وَ أولى مِنْ ضَلَالٍ يخسر
307 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق یعنی میں نے ہر طرح لوگوں کو سمجھایا مگر لوگ نہ سمجھے اور جب میں نے دیکھا کہ نافرمانی حد سے بڑھتی جا رہی ہے اور بار بار توجہ دلائے جانے کے لوگ باز نہیں آتے اور یہ طوفان گناہ انہیں خدا تعالیٰ سے دور سے دور تر لے جائے گا تب میں نے دعا کی کہ الہی ! اس حالت سے تو بہتر تھا کہ یہ لوگ مر جاتے.کوئی وباء ایسی پڑے کہ یہ لوگ جسمانی موت کا شکار ہو جائیں کیونکہ جولوگ عقل اور سمجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا کے حضور گناہ گار ہو کر جینے سے مرنا ہزار درجہ بہتر ہے.اس کے بعد کتاب سراج منیر میں جو ۱۸۹۷ ء میں شائع ہوئی، آپ تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ يَامَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا " یعنی دنیا پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اے دنیا کیلئے مسیح کے طور پر ظاہر ہونے والے! ہم متعدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تو ان سے ہمیں بیچا.اس الہام میں صاف طور پر ایک سخت اور عام طور پر پھیلنے والی متعدی بیماری کی خبر دی گئی تھی بلکہ کئی متعدی و باؤں کی جن میں سے ایک طاعون ہے.اس کے بعد فروری ۱۸۹۸ء کے ابتدائی حصہ میں آپ کو الہام ہوا.اَلاَمْرَاضُ تُشَاءُ وَالتَّفُوسُ تُضَاعُ 9 یعنی ہندوستان میں کئی قسم کے امراض پھیلنے والے ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی.اُس وقت تک تو عام الفاظ میں متعدی و باؤں کی خبر دی گئی تھی.لیکن ۶.فروری کو وضاحت سے بتایا گیا کہ ان وباؤں میں سے ایک وباطاعون ہو گی.چنانچہ ۶.فروری ۱۸۹۸ء کو آپ نے رو یادیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.آپ نے پوچھا یہ کیسے درخت ہیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.اس وقت آپ پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا.یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا.یہ اس وقت کا رؤیا ہے جب ابھی بمبئی میں تھوڑی تھوڑی طاعون پھوٹی تھی اور پنجاب میں مطلق طاعون نہ تھی.اسی رؤیا کے شائع ہونے کے بعد پنجاب میں طاعون آئی اور کیسی شدید آئی لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں.ایک سال کے اندر ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ آدمی مرے بلکہ بعض اوقات تو ایک ایک ہفتہ میں ۲۵ - ۳۰ ہزا ر اموات ہو جاتی تھیں.گویا ایک طوفان تھا جو کسی طرح تھمنے میں نہ آتا تھا.بعض کی تو ہیبت ہی سے جان نکل جاتی تھی اور ہماری جماعت کا کثیر حصہ ایسا ہے جس نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر صداقت کو قبول کیا ہے.
308 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق زلزلہ بہار کے متعلق پیشگوئی اس کے بعد ایک اور پیشگوئی لیتا ہوں جو قریب عرصہ میں پوری ہوئی ہے اور اسے اختصار سے بیان کرتا ہوں.یکم جون ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَ مُقَامُهَا " یعنی مکان اور عارضی مکانات جن میں پہاڑوں پر جا کر لوگ رہتے ہیں تباہ ہو گئے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو پھر زلزلوں کی خبر دی.اور ان میں سے ایک میں اس کا مقام بھی بتا دیا.آپ نے ایک رویا میں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے اور وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا." اس پیشگوئی کے مطابق نیپال اور بہار میں زلزلہ آیا.جغرافیہ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ نیپال اور بہار کا وہ حصہ جس میں زلزلہ آیا ہے قادیان سے شمال مشرق میں واقع ہے.اس زلزلہ کی خبر کے ساتھ یہ بھی خبر تھی کہ اس کے ساتھ طوفان بھی ہوں گے.اب دیکھ لو کیسے واضح طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے.قادیان سے شمال مشرق میں زلزلہ سے ہزار ہا جانیں تلف ہوگئیں اور ساتھ ہی طوفان کی وجہ سے صحنوں میں ندیاں چل پڑیں.اس پیشگوئی کی عظمت کا پتہ اس امر سے لگ سکتا ہے کہ حکومت نے ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد ماہرین سیمالوجی کو جاپان سے منگوایا تھا اور وہ تحقیقات کر کے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ایک سو سال تک اس ملک میں سخت زلزلہ نہیں آ سکتا.جب کہ ظاہری علوم کے ماہر یہ خبر دے رہے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو بتایا کہ قریب میں ہی ایک اور زلزلہ آنے والا ہے.چنانچہ زلزلہ آیا اور اس سے ایسی تباہی ہوئی کہ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کی تباہی بھی اس کے سامنے بیچ ہے.حکومت کی رپورٹ کے مطابق دس ہزار انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ پندرہ بیس کروڑ تک جا پہنچتا ہے.جانوں کی تباہی کا اندازہ ابھی تک صحیح نہیں کیا جا سکتا.نیپال کی تباہی کو ملا کر یقیناً ۲۰ ہزار سے زائد اموات نکلیں ندازہ ابھی تک الہی مدینہ کے پہچاننے کی ایک یہ علامت بھی ہوتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کی جامعیت انسانی ضرورتوں کو پورا کرے کوئی انسان ایسا نہیں کر سکتا.خصوصاً عقائد کے معاملہ میں کسی کو کیا خبر کہ خدا تعالیٰ کس بات سے راضی ہوگا.ایک فلسفی ایک تھیوری پیش کرتا ہے اور دوسرا اس کا رڈ کر دیتا ہے.قائم ہمیشہ وہی بات رہتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے.قرآن پاک خدا کی کتاب ہے اور دیکھ لو کونسا مسئلہ ہے جو اس میں
انوار العلوم جلد ۱۳ 309 تحقیق حق کا صحیح طریق موجود نہیں.انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک اور اس کے بعد کے لئے تمام ضروری باتیں اس میں بیان کر دی گئی ہیں.بچپن جوانی ، شادی بڑھاپا ہر وقت کے فرائض بتا دیئے گئے ہیں.پھر سودا لینے اور دینے، قرض لینے و دینے، حکومت اور رعایا کے تعلقات غلام و آقا مزدور اور مزدوری کرانے والے تاجروں اور گاہکوں غرضیکہ کوئی پیشہ اور فن اور زندگی کا کوئی پہلو نہیں جس کے لئے مکمل ہدایات اور پوری رہنمائی موجود نہ ہو اور کامل تعلیم اس کے لئے موجود نہ ہو.پھر ایسی معقول تعلیم کہ دنیا دھکے کھا کھا کر اس کی طرف آنے پر مجبور ہو رہی ہے.پہلے یورپ میں طلاق کے مسئلہ پر ہنسی کی جاتی تھی حتی کہ بعض مسلم لیڈر بھی یہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ یہ حکم اس زمانہ کیلئے نہیں.سیدا میر علی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عربوں کیلئے تھا، وگر نہ اسلام کا یہ کوئی مستقل مسئلہ نہیں.گویا اہلِ یورپ کا اتنا رُعب تھا کہ مسلمان بھی اسے اسلام سے خارج ہی قرار دینا چاہتے تھے مگر اب یورپ میں اس کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے کہ وہ اپنی ذات میں عیب بن گیا ہے.میں نے ٹائمنز میں پڑھا تھا کہ ایک عورت فوت ہوئی ہے جس نے بارہ خاوند کئے.ایک عورت نے اس لئے طلاق حاصل کی کہ میرا خاوند مجھے چومتا نہیں.ایک نے اس وجہ سے طلاق حاصل کرنے کی درخواست دی کہ میں نے ایک ناول لکھا تھا میرا خاوند کہتا ہے میں اسے شائع نہ کروں اس لئے میں اس کے گھر میں نہیں رہنا چاہتی.غرض ایسی ایسی چھوٹی باتوں پر طلاقیں شروع ہوگئی ہیں لیکن اسلام نے بتایا ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں مل جائیں تو پھر ان کارشتہ نہ ٹوٹنا چاہئے مگر جب نہ مل سکیں تو جدائی ہی بہتر ہے.جھگڑے کی صورت میں پہلے باہم صلح کی کوشش کی جائے اور اگر اس طرح کامیابی نہ ہو تو دونوں کی طرف سے حگم بیٹھیں جو صلح کرانے کی کوشش کریں لیکن جب نباہ کی کوئی صورت بھی نہ بن سکے تو پھر طلاق کی اجازت ہے.مسلمانوں کی اس حالت کو نہ دیکھو کہ باہر کسی سے لڑ کر آئے کھانے میں نمک ذرا کم و بیش ہوا تو کھٹ بیوی کو کہہ دیا تم پر تین طلاق یہ جہالت کی باتیں ہیں اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں.قرآن کریم نے طلاق کیلئے شرائط مقرر کی ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری رکھا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی ضرورت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.میں بتا رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کی ساری ضرورتوں کو پورا کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ دوسری مثال اس کی یہ ہے کہ آپ نے بدی کو
310 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق چھوڑنے کی طاقت لوگوں کے دلوں میں پیدا کی.امریکہ نے شراب نوشی کی ممانعت کا قانون پاس کیا مگر وہ طاقت نہ پیدا کر سکا جو شراب ترک کرنے کیلئے ضروری تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف شراب سے نہ روکا بلکہ وہ طاقت پیدا کی جس سے اسے چھوڑا جا سکتا ہے اور یہی فرق ہے اسلام میں اور دنیوی طاقتوں و حکومتوں میں.کسی چیز کو حرام قرار دینے اور لوگوں سے اسے چھڑانے کیلئے بھی ایک طاقت چاہئے کیونکہ یہ ایک قربانی ہے جو بغیر طاقت کے نہیں ہو سکتی اور یہ طاقت دنیوی نہیں بلکہ وہ طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور جسے قوت قدسیہ کہا جاتا ہے.بوعلی سینا کے متعلق لکھا ہے کہ آپ ایک دفعہ کوئی مسئلہ بیان کر رہے تھے ان کی تقریرین کر ایک شاگر داھو ہو گیا اور مستی میں آکر کہنے لگا خدا کی قسم آپ تو محمد رسول اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں.وہ ایک فلسفی اور نیک آدمی تھے اس وقت تو خاموش رہے جب سردی کا موسم آیا، عراق میں سردی بہت پڑتی اور پانی جم جاتا ہے وہ ایک تالاب کے پاس بیٹھے تھے جو بالکل یخ بستہ تھا.اسی شاگرد کو انہوں نے کہا کہ اس تالاب میں کود پڑو.اس نے جواب دیا کہ آپ اتنے بڑے طبیب ہو کر ایسی جہالت کی بات کہتے ہیں.وہ کہنے لگے بے حیاء تجھے یاد نہیں، تو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ سے بھی بڑھ کر ہو.محمد رسول اللہ کے تو ایک اشارے پر ہزاروں لوگوں نے جانیں فدا کر دیں مگر تو میرے کہنے پر اس تالاب میں بھی نہیں گو دسکتا.تو اصل چیز قوت قدسیہ ہے.جب امریکہ نے شراب کی بندش کے احکام جاری کئے تو میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس میں دیکھنے والی بات یہی ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کر سکتا ہے یا نہیں اور وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اور دنیوی حکومتوں کی طاقتیں کتنا بڑا فرق رکھتی ہیں.اب امریکہ جہاں سے چلا تھا، وہیں واپس آ گیا اور اس نے ممانعت شراب کے قانون کو منسوخ کر دیا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا عجیب واقعہ ہے.آپ نے حکم دیا کہ شراب منع ہے اور سب جانتے ہیں کہ نشہ والے شخص کو کوئی ہوش نہیں ہوتا.مجھے تو اس کا تجربہ نہیں باہر رہنے والوں کو تو ایسے لوگوں کو دیکھنے کے مواقع عام طور پر ملتے رہتے ہیں.ہاں ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا.اسی کمپارٹمنٹ میں ایک ریاست کے وزیر صاحب بیٹھے تھے.جنہیں میں نہیں پہچانتا تھا مگر وہ مجھے جانتے تھے.کہنے لگے کیوں مرزا صاحب آپ کی کیا خاطر کروں ؟ اور اسی فقرہ کو بار بار دہرانا شروع کیا.پھر ایک اور صاحب بیٹھے تھے انہیں کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی
311 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق جگہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے.پھر ایک سکھ ای.اے.سی آگئے ان سے بھی یہی کہنا شروع کر دیا کہ آپ کی کیا خاطر کروں؟ میں نے سمجھا انہیں کوئی مرض ہے مگر کسی نے بتایا کہ نہیں، نشہ کی حالت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرمایا کہ شراب منع ہے تو اس وقت مدینہ میں ایک دعوت ہو رہی تھی شراب کے مشکوں کے ملکے بھرے رکھے تھے اور لوگ پی پی کر مست ہو رہے تھے کہ گلی میں سے ایک شخص اعلان کرتا ہوا گزرا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب منع کر دی ہے، ایک شخص اٹھا کہ باہر جا کر معلوم کروں کہنے والا کیا کہتا ہے مگر دوسرا اسی نشہ کی حالت میں اٹھا اور سونٹا مار کر مٹکوں کو تو ڑ دیا کہ پہلے شراب کو زمین پر بہا کر پھر دریافت کریں گے اس کے مقابل میں امریکہ کی حالت دیکھو کہ جن کو حکم دیا گیا وہ ہوش میں تھے پھر اس قانون کا نفاذ کرانے کیلئے کروڑوں روپیہ تنخواہ لینے والے سپاہی تھے مگر کامیابی نہ ہوسکی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ کوئی فوج تھی، نہ پولیس، مخمور لوگوں کے کان میں آپ کی آواز پڑتی ہے اور وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ پوچھ لیں اعلان کا کیا مطلب ہے اور اسی وقت شراب کے مکے تو ڑ دیتے ہیں اور پھر شراب کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے.یہی وہ چیز ہے جس سے کام ہوتے ہیں.اسلام کے بعد کسی اور مذہب کی ضرورت نہیں میرے پاس ایک دفعہ ایک جماعت بہائیوں کی آئی ان کا عقیدہ ہے کہ بہاء اللہ نئی شریعت لائے تھے ان سے گفتگو ہوتی رہی.میں نے کہا کہ میں ایک بات پیش کرتا ہوں دنیا کو ضرورت تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر اسے پورا کیا اور آپ کی آمد سے دنیا کی ضرورتیں پوری ہو گئیں.اب آپ لوگ کہتے ہیں بہاء اللہ آئے اور نئی شریعت لائے لیکن تم کوئی ایسا مسئلہ بتاؤ جس کی ضرورت دنیا کو ہومگر وہ قرآن کریم میں نہ ہو.بہاء اللہ کا قول اور فعل میں یہ بات ہمیشہ بہائیوں کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں مگر آج تک کسی نے کوئی جواب نہیں دیا.میرے سفیر انگلستان کے دوران میں ایک مشہور بنکر کی جو ہانگ کانگ میں کام کرتا ہے بیوی مجھ سے ملنے آئی.وہ بہائی ہے اس کے سامنے یہ بات جب میں نے پیش کی تو وہ کہنے لگی میں بتاتی ہوں اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اب ایک ہی بیوی رکھنی چاہئے بہاء اللہ نے
انوار العلوم جلد ۱۳ 312 تحقیق حق کا صحیح طریق اس حکم کی اصلاح کی ہے.میں نے کہا.اول تو یہ امر بحث طلب ہے کہ شادی ایک ہی چاہئے یا زیادہ کی بھی اجازت ہو سکتی ہے لیکن اس امر کو تسلیم کر کے میں پوچھتا ہوں کہ تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ خود بہاء اللہ کی دو بیویاں تھیں اگر دنیا کے سب لوگوں کو صرف ایک بیوی کی ضرورت تھی اور اسی بات کو رائج کرنے کیلئے وہ آئے تھے تو انہوں نے خود کیوں دو کیں اور پھر اپنے بیٹے عباس کو کیوں کہا کہ تمہارے ہاں اولاد نہیں ہوتی ، اس لئے دوسری شادی کر لو.پہلے تو اس نے ان واقعات کا سرے سے انکار کر دیا لیکن اس کے ساتھ ایک ایرانی بہائی عورت تھی.میں نے کہا اس سے پوچھو کیا یہ باتیں درست ہیں یا نہیں.میرے اصرار پر اس نے پوچھا تو اس ایرانی بہائی عورت نے جواب دیا کہ ہم مانتے ہیں، ان کی دو بیویاں تھیں مگر وہ دعوئی سے پہلے کی تھیں.میں نے کہا جب وہ خدا تعالیٰ کا بروز تھے تو کیا وہ پہلے سے نہ جانتے تھے کہ میں نے یہ تعلیم دینی ہے.مگر خیر اس بات کو بھی جانے دو یہ بتاؤ کہ بعد میں کیا ہوا.وہ کہنے لگی دعویٰ کے بعد انہوں نے ایک کو بہن قرار دے دیا.میں نے کہا اول تو یہ صریح ظلم ہے کہ ایک کو بیوی رکھا اور دوسری کو بہن بنا لیا.مگر اسے بھی جانے دو اور یہ بتاؤ کہ کیا اس عورت کے بطن سے کہ جسے انہوں نے بہن قرار دے دیا تھا آخر تک اولاد ہوتی رہی یا نہیں کیا وہ اولادا اپنی بہن سے پیدا کر رہے تھے.یہ بات سن کر وہ شرمندہ ہوگئیں.ان کے ساتھ ایک امریکن لیڈی تھی کہ وہ بھی اپنے آپ کو بہائی کہتی تھی یہ باتیں سن کر وہ کھڑی ہوگئی اور جوش سے کہنے لگی میں اسلام کو مانتی ہوں، بہائیت کو نہیں.غرض اس وقت تک کوئی بات ایسی معلوم ایک خلاف عقل عقیدہ کی اصلاح نہیں ہوئی کہ جس کی دنیا کوضرورت ہو اور قرآن کریم میں مذکور نہ ہو اور میں کہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی انسان کسی علم سے اعتراض کرئے میں انشاء الله العزیز قرآن کریم سے ہی اسے جواب دوں گا.اور میرا دعویٰ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا کی ضرورتوں کو پورا کر دیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی آکر یہ بات کی ہے.یعنی دنیا کی ضرورتوں کو پورا کیا ہے.قرآن کریم آخری کتاب ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی مگر اس کے باوجود اس کے ماننے والوں نے اس سے اعراض کر کے اس کے علوم کو کھو دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے علوم کو پھر دنیا میں رائج کیا اور اس کے مخفی خزانوں کو ظاہر کیا.مثال کے طور پر میں بیان کرتا ہوں کہ مسلمانوں میں باوجود قرآن کی تعلیم کے صریح خلاف یہ عقیدہ پیدا ہو گیا تھا کہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 313 تحقیق حق کا صحیح طریق نبوت صرف بنی اسرائیل میں چلی آتی ہے.صرف چند انبیاء ہیں، مثلاً حضرت ایوب، حضرت ہوں حضرت صالح ، حضرت شعیب وغیرہ جو باہر سے آئے وگر نہ سوائے بنی اسرائیل کے کسی اور قوم میں کوئی نبی نہیں آیا.حالانکہ سورۃ فاتحہ کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے کو رَبُّ الْعَلَمِينَ فرمایا ہے.یعنی سارے جہانوں کا رب ہے اور اس کی دلیل کیا ہے کہ سورج، چانڈ پانی ہوا اور زندگی کے دوسرے سامان اس نے سب کیلئے یکساں طور پر پیدا کئے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان سب سے بڑھ کر روحانی چیز ہو سکتی ہے اس لئے سوچنا چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ نے جسمانی زندگی کے سامان پیدا کئے ہیں تو روحانی پانی سے کیوں محروم رکھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد تو بے شک کوئی شخص آپ پر ایمان لائے بغیر نجات نہیں پاسکتا مگر آپ سے پہلے جو انبیاء مبعوث ہوئے انہیں تو جو لوگ ماننا چاہتے تھے ان کو بھی وہ اپنی جماعت میں شامل نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی کہا ہے اپنے موتی سوروں کے آگے مت ڈالو.۴۵ جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں تک میری لائی ہوئی ہدایت کو نہ پہنچاؤ.کیونکہ وہ صرف بنی اسرائیل کیلئے ہی تھے اور ظاہر ہے کہ جب اپنے ملک میں رہنے والی دوسری قوم کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ میری ہدایت سے اس کا تعلق نہیں، تو چین و جاپان کا کوئی شخص اگر ان کے پاس چلا جاتا تو وہ اسے سؤروں سے بھی بدتر بتاتے.ہندوؤں میں سمندر کے سفر کو بے دینی سے تعبیر کیا جاتا تھا اس لئے ان کا مذہب اہلِ عرب کو کیا فائدہ دے سکتا تھا.پس ضروری تھا کہ سب اقوام اور سب ممالک کے علیحدہ علیحدہ نبی آتے.عقلِ سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی زندگی کے سامان تو سب کیلئے یکساں پیدا کئے ہوں مگر روحانی زندگی کے سامان کو کسی قوم سے مخصوص رکھا ہو.حضرت مرزا صاحب نے آکر بتایا کہ قرآن شریف میں صاف طور پر آیا ہے کہ وَاِنْ من أُمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيْهَا نَذِيرٌ ٤٦ اور آپ نے اعلان کیا کہ رام کرشن زرتشت، کنفیوشس و غیره سب اللہ تعالیٰ کے رسول تھے جو اپنی اپنی قوموں کی طرف ہدایت لیکر آئے تا دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کیلئے تیار کریں.باوجود یکہ یہ بات قرآن کریم میں صاف طور پر موجود ہے مگر پھر بھی مسلمانوں کیلئے یہ اچنبھا خیال تھا اور آپ پر کفر کے جو فتوے لگائے گئے ان میں ایک وجہ تکفیر یہ بیان کی گئی کہ یہ شخص کا فروں کو نبی قرار دیتا ہے.غور کر وقرآن کریم سے کس قدر بیگانگی ہے.اگر وہ لوگ نبی نہ تھے تو بتاؤ ان اقوام کے لئے کون نبی تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کیلئے کیا سامان مہیا کئے تھے.خدا تعالیٰ کے متعلق ایک غلطی تھی جسے حضرت مرزا صاحب
314 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق نے آ کر دور کیا اور اس طرح عقلِ سلیم کے ایک مطالبہ کو پورا کر کے لوگوں کو اطمینان عطا کیا.ایک اور غلطی یہ تھی کہ قرآن کریم میں الہام کے متعلق غلط عقیدہ کی اصلاح اللہ تعالی فرماتا ہے.ان السلينيسين اِنَّ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ۷ ۴ یعنی جولوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور پھر استقامت دکھاتے ہیں، ان پر ملائک نازل ہوتے ہیں جو ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی حزن و غم نہ کرو.لیکن باوجود یکہ یہ آیت قرآن کریم میں موجود ہے مگر مسلمان خیال کرتے تھے کہ وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر بتایا ہے کہ وحي شريعت بند ہے نہ کہ دوسری وحی.تو مسلمانوں میں یہ عام غلطی تھی کہ خدا تعالیٰ اب کسی سے کلام نہیں کرتا حالانکہ جو بولتا نہیں اس کے متعلق یہ یقین کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ سنتا ہے.کسی کے بولنے سے ہی پتہ لگتا ہے کہ وہ سنتا بھی ہے.کسی شخص کو آواز دونہ بولے تو سمجھو گے بہرا ہے مگر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ مسلمان کہتے تھے اللہ تعالیٰ کو پکارتے جاؤ مگر وہ جواب کبھی نہیں دیتا اور جب لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ سنتا نہیں کیونکہ وہ بولتا نہیں تو اس کی طرف توجہ ہی چھوڑ دی نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی طرف توجہ چھوڑ دی.لوگوں کا دعا پر سے عقیدہ بھی اُٹھ گیا.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ دعا سے سب مصیبتیں دور ہو سکتی ہیں مگر دعا کی طرف انسان کی توجہ اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب بھی ملے لیکن اگر خالی پکارتے جاؤ اور آگے سے کچھ جواب نہ ملے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی پتھر کو پکارتا جائے.اولیاء کے تذکرہ کی کسی کتاب میں ہے کہ ایک بزرگ سالہا سال سے روزانہ ایک دعا کیا کرتے تھے اور روزانہ ہی ان کو جواب ملتا تھا کہ تیری یہ دعا قبول نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ ان کا کوئی مریدان کے پاس آکر رہا.رات کے وقت انہوں نے دعا کی تو یہی آواز آئی جو مرید کو بھی سنائی دی.وہ بہت حیران ہوا کہ اتنے بڑے بزرگ ہیں اور جواب ایسا ملا ہے.اگلے روز پھر انہوں نے دعا کی اور پھر وہی جواب ملا جو مرید نے بھی سنا.تیسرے دن جب وہ دعا کرنے لگے تو مرید نے کہا کہ بے شرمی کی کوئی حد ہونی چاہئیے دو دن سے ایسا جواب مل رہا ہے اور آپ پھر وہی دعا کرنے لگے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ بے وقوف میرا کام دعا کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کا قبول کرنا یا نہ کرنا میں اپنا کام کئے جاتا ہوں وہ اپنا.اسی وقت ان کو الہام ہوا کہ ہم نے تیرا استقلال دیکھ لیا ہے اور تیری بیس سالہ سب دعائیں قبول ہیں.چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا تھا
انوار العلوم جلد ۱۳ 315 تحقیق حق کا صحیح طریق اس سے ان کا ایمان بڑھتا رہتا تھا کہ میرا خدا زندہ خدا ہے وگر نہ وہ کبھی اتنا لمبا عرصہ دعانہ کرتے دوسرے ہی روز چھوڑ دیتے تو یقین جواب سے ہی پیدا ہوتا ہے.مسلمانوں میں یہ ایک بھاری غلطی تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر دور کیا.آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہوسکتا.جس طرح وہ پہلے بولتا تھا، اب بھی بولتا ہے اب بھی اس کی سب صفات جاری ہیں.جس طرح وہ پہلے پیدا کرتا اور مارتا تھا جس طرح وہ پہلے رزق دیتا تھا، اب بھی ویسے ہی کرتا ہے اور جب وہ سب کچھ پہلے کی طرح اب بھی کرتا ہے تو اس کا بولنا کیوں بند ہو گیا.خدا تعالیٰ کے نہ بولنے کا عقیدہ ایک ایسی نامعقول بات ہے جسے عقلِ سلیم قبول نہیں کر سکتی.قرآن کریم کے متعلق ایک غلط عقیدہ کی اصلاح اس کے علاوہ کلام الہی کے بارہ میں مسلمانوں کا ایک عقیدہ اسلام کیلئے سخت نقصان کا موجب ہو ر ہا تھا.تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کے مدعی ایک ایسا عقیدہ رکھتے تھے کہ جس کی بناء پر دشمن کو قرآن کریم پر ہر قسم کے اعتراضات کرنے کا موقع مل جاتا تھا.یعنی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں مگر دراصل وہ منسوخ ہیں.غور کرو! یہ کتنا بڑا ظلم ہورہا تھا بعض نے ایسی آیات کی تعداد گیارہ سو بعض نے سات سو بعض نے چھ سو بعض نے چار سو اور اسی طرح مختلف لوگوں نے مختلف بیان کی ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ایسی آیات صرف پانچ ہیں.ایسی آیات کے متعلق عقل سے ہی استدلال کیا جاتا ہے اور سوچو کہ اس سبب سے دشمن کو اعتراض کا کتنا موقع مل سکتا ہے.وہ کہہ سکتا ہے کہ یقینی طور پر تو کسی کو معلوم نہیں کہ کون سی آیات منسوخ ہیں اس لئے قرآن کریم کا اعتبار ہی کیا ہو سکتا ہے ممکن ہے جو آیت تم صداقت کیلئے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہو وہ منسوخ ہو چکی ہو.لیکن حضرت مرزا صاحب نے آ کر اس یقین کے ساتھ اس عقیدہ کی تردید کی کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب بن گئی.یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس کے متعلق مسلمانوں میں خیال ہو گیا تھا کہ اس کا رڈ کرنا کفر میں داخل ہو گیا ہے اور بڑی دلیری سے کہتے تھے کہ فلاں فلاں آیت منسوخ ہے حالانکہ ایسا کرنے سے اسلام پر ایمان ہی نہیں رہ سکتا اور حضرت مرزا صاحب نے اس عقیدہ کی تردید کر کے جو کام کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے ہی اگر مسلمان سمجھیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ آپ کیلئے یہی چیز بَيِّنَةٍ مِنْ رَّبِّہ تھی.جس سے آپ نے دنیا کو ایک
316 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق نئی زندگی بخشی.آیات کو منسوخ قرار دینے کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگ ان معارف کا جو قرآن کریم میں ہیں انکار کر رہے تھے اور اپنی ناسمجھی سے جن باتوں کو سمجھ نہ سکتے انہیں منسوخ قرار دے رہے تھے.مثلاً قرآن کریم میں ایک طرف کفار سے جنگ کا حکم ہے اور دوسری طرف یہ کہ دین میں جبر نہ کرو.اب دونوں میں تطبیق نہ کر سکنے کی وجہ سے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ لڑائی کا حکم منسوخ ہے حالانکہ دونوں کے علیحدہ علیحدہ مواقع ہیں.ایک جگہ تو یہ بتایا ہے کہ مذہبی معاملہ میں کسی پر کوئی جبر نہ کرو اور دوسری یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی حملہ کرے تو دین کی حفاظت کیلئے اس سے ضرورلر و اس تعلیم کو جہاں جی چاہے پیش کرو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ملائکہ کے متعلق صحیح عقیدہ تیسری غلطی ملائکہ کے متعلق تھی.بعض کہتے تھے کہ ان کا وجود ثابت نہیں، بعض بڑے بڑے محققین نے لکھا ہے کہ یہ صرف صفات الہیہ ہیں حالانکہ قرآن کریم نے ان کے وجود پر اتنا زور دیا ہے کہ کسی طور پر انکار ممکن ہی نہیں.بعض نے یہ دھوکا کھایا ہے کہ فرشتے آدمیوں کی طرح زمین پر اتر آتے ہیں گو یا بعض نے ان کا مادی وجود قرار دے دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ دوفرشتے ہاروت و ماروت ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے تھے اور اس وجہ سے بابل کے ایک کنویں میں آج تک مقید ہیں.اسی سلسلہ میں شیطان کو بھی فرشتہ قرار دے دیا گیا حالانکہ قرآن کریم میں صاف ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے.پھر بعض نے سرے سے فرشتوں کے وجود کا ہی انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر بتایا کہ دونوں عقائد قرآن کریم کے خلاف ہیں.قرآن کریم میں صاف طور پر ہے کہ ان کا وجود ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مادی جسم اختیار کر کے کسی جگہ جاتے ہیں.اگر ایسا ہو تو جس وقت فرشتہ زید کی جان نکالنے کیلئے ایک جگہ جائے اور اسی وقت بکر کی جان نکل رہی ہو تو وہ کون نکالے.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح سورج اپنے مقام سے ساری دنیا کو منور کرتا ہے اسی طرح ملائکہ بھی اپنے مقام سے ہر جگہ کام کرتے ہیں.سورج وہی ہے جو اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے.سورج کی جو ٹکیہ ہم دیکھتے ہیں یہ تو اس کی شعاعوں کا مجموعہ ہے.اس پر بعض لوگوں نے یہ دھوکا کھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرشتوں کے منکر ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں.چوتھی چیز عصمت انبیاء ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اللہ تعالیٰ سے ہدایت لے کر لوگوں کی راہ نمائی کیلئے آتے رہتے ہیں عصمت انبیاء اور وہ ہر قسم کے گناہ سے پاک ہوتے ہیں لیکن حضرت مرزا صاحب سے پہلے مسلمانوں کا یہ خیال.
317 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق تھا کہ انبیاء بھی گناہ کر لیتے ہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے، ۴۸ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے چوری کی، ۲۹ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ناحق خون کر دیا، حالانکہ اس کا مطلب کچھ اور ہے غرضیکہ سب انبیاء پر الزام لگاتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے آکر بتایا کہ انبیاء نمونہ ہوتے ہیں اگر نمونہ گندہ ہو تو دوسرے اس سے کیا ہدایت حاصل کر سکتے ہیں اور جب یہ سمجھ لیا جائے کہ جن کو اللہ تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کیلئے بھیجتا ہے وہ گندے ہوتے ہیں تو لوگوں کا پاک بننے سے مایوس ہو جانا لازمی ہے اور اس عقیدہ کے نتیجہ میں مایوسی مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھی.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک مقدمہ میں شہادت دیتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے یہاں تک کہہ دیا کہ جھوٹ بول کر بھی انسان متقی رہ سکتا ہے.یہ نقائص اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ سمجھ لیا گیا تھا کہ نبی جھوٹ بول سکتے ہیں.مگر آپ نے بتایا کہ نبی گنہگار نہیں ہوتے وہ خدا کی عصمت کے نیچے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بطور دلیل پیش کیا اور اعلان کیا کہ میرا کوئی عیب پکڑو اور جب تم مجھ میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے تو پہلے انبیاء کوکس طرح گناہ گار قرار دے سکتے ہو.ایک اور ظلم کی بات یہ تھی کہ مسلمان سمجھتے تھے.حضرت عیسیٰ مس شیطان اور انبیاء علیہ السلام اور ان کی ماں تو مس شیطان سے پاک ہیں مگر باقی سب انسانوں کو شیطان نے چھوا ہے، حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی اسی زمرہ میں شامل کیا جاتا تھا.حضرت مرزا صاحب نے اس کا بھی رڈ کیا اور بتایا کہ اس عقیدہ سے نبوت پر پانی پھر جاتا ہے اور قرآن و احادیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صاف طور پر موجود ہے کہ آپ نیکیوں کا مجموعہ تھے.اگر احادیث میں یہ لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام مکس شیطان سے پاک تھے اللہ تو یہ بھی تو لکھا ہے کہ ہر مومن مرد و عورت جب ملیں تو دعا کریں کہ اے اللہ ! ہمارے اس میل کے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہو وہ شیطان کے مکس سے پاک ہو.۲.دراصل یہاں حضرت عیسی اور حضرت مریم کو مشابہت کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ مومن کی مثال عیسی اور مریم کی سی ہوتی ہے اور جو لوگ مسیحی یا مریمی صفات اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، وہ پاک ہو جاتے ہیں.غرضیکہ یہ ایک ایسا خطرناک حملہ تھا جس کی وجہ سے ہزار ہا لوگ عیسائی ہو گئے.عیسائیوں کی
318 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق طرف سے یہ امر حضرت عیسی علیہ السلام کی فضیلت کے ثبوت میں پیش کیا جاتا تھا کہ بتاؤ جب سب لوگوں کو سوائے حضرت عیسی کے شیطان نے مکس کیا ہے اور تم اسے مانتے ہوتو پھر بانی اسلام اور دیگر انبیاء پر ان کی فضیلت ثابت ہے اور مسلمانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا مگر باوجود اس کے وہ اس عقیدہ کو اس قدرضروری سمجھتے تھے کہ ہم پر ناراض ہوتے ہیں کہ کیوں ہم اس کے خلاف کہتے ہیں.مسیح کی دوبارہ آمد ایک اور بہت بڑی غلطی یہ تھی کہ ایک طرف تو یہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے افضل ہیں اور دوسری طرف یہ کہ حضرت مسیح دوبارہ آئیں گئے ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی ۵۳ جاتی کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی یعنی اگر موسیٰ و عیسی زندہ ہوتے تو میری اتباع کے سوا انہیں چارہ نہ ہوتا.مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا کہ جب حضرت عیسی دوبارہ آئیں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کی اصلاح کریں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے افضل کس طرح ہو سکتے ہیں اور ہم کس طرح مان لیں کہ اگر وہ آپ کی زندگی میں ہوتے تو ضرور آپ کے تابع ہوتے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو مسیح کا نام اس لئے دیا تا یہ اعتراض دور ہو کیونکہ آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کی اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہوا.چھٹی چیز جہاد ہے جس کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں.پھر جہاد کا غلط مفہوم اور غلط عقائد نے بھی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جب دوبارہ آئیں گے تو کافروں سے جنگ کر کے سب کو مار دیں گے اور سب کچھ مسلمانوں کے قبضہ میں دے دیں گے.اسی وجہ سے حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے جہاد کا انکار کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ آپ نے انکار نہیں کیا.جہاں قرآن جہاد کو فرض قرار دیتا ہے، وہاں کرنا اب بھی فرض ہے.جب کوئی اس غرض سے حملہ کرے کہ مسلمانوں سے ان کا دین چھڑائے تو حملہ آور سے جو جنگ نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں لیکن حضرت عیسی کے متعلق یہ خیال رکھنے کا کہ وہ جبراً سب کو مسلمان بنا ئیں گئے، نتیجہ یہ ہوا
319 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق کہ مسلمانوں نے تبلیغ چھوڑ دی بلکہ ہر قسم کی ترقی کیلئے جد و جہد ترک کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آمد عیسی کا انتظار کرنے لگے اور اس وجہ سے ہر جگہ وہ نا کام ہو گئے.اسلام غریب الدیار کی طرح ہو گیا.ایک زمانہ تھا جب ایک مسلمان عورت عیسائی بادشاہ کے قبضہ میں آ گئی خلفائے بغداد جب برائے نام رہ گئے تو عیسائیوں نے شام کو فتح کیا اور ایک مسلمہ کو پکڑ کر اس کی بے حرمتی کی اور نقاب وغیرہ اُتارا.اُس وقت اس نے کہا.کہاں ہے خلیفہ المسلمین کہ ایک مسلمہ کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور وہ اس کی حفاظت نہیں کرتا.ایک سوداگر کے کان میں یہ آواز پہنچی اُس نے آ کر خلیفہ بغداد سے اس کا ذکر کیا.یہ وقت وہ تھا جب یورپ کی ساری فوجیں مسلمانوں کے خلاف جمع تھیں اور مسلمان شکست کھا چکے تھے مگر پھر بھی خلیفہ نے جب یہ بات سنی تو اس نے فوراً کہا کہ خدا کی طرف سے جو فرض مجھ پر عائد ہے، میں اسے ضرور ادا کروں گا وہ گرا ہوا بلکہ مُردہ خلیفہ اُٹھا اور اس نے کہا جب تک میں اس عورت کو نہیں چھڑا لیتا آرام نہ کروں گا.چنانچہ وہ فوج لے کر گیا، شام کو فتح کیا اور عورت کو چھڑا کر واپس لایا.لیکن آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کوئی خانہ کعبہ پر بھی حملہ کرے تو وہ کچھ نہیں کریں گے.ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ترکی خلیفہ کی شکست پر خوش ہوئے حالانکہ ہم تو اسے خلیفہ مانتے ہی نہ تھے.مگر ان کو خلیفہ ماننے والے گئے اور اپنی گولیوں سے اس کے ملک کو انگریزوں کیلئے فتح کیا اور یہ اسی لئے کہ وہ جہاد کے مسئلہ کو غلط رنگ میں سمجھے ہوئے تھے.صحابہ کرام اٹھے اور افغانستان، ایران ہند، سپین، الجزائر غرضیکہ تمام ممالک پر چھا گئے اسی طرح مسلمانوں کے اندر اگر وہی روح آج بھی ہوتی تو سب ممالک ان سے بھرے ہوئے ہوتے اور عیسائی ممالک میں جہاں مسیح کی عبادت کے گھنٹے بجتے ہیں، وہاں الله اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتیں.حضرت مرزا صاحب نے آکر مسلمانوں کو بتایا کہ ان کے تنزل کا باعث جہاد کے متعلق بھی غلط عقیدہ ہے اور اس طرح اس عقیدہ کے نتیجہ کے طور پر تبلیغ میں جوڑ کا وٹ تھی، اسے دور کیا.اب جماعت احمدیہ مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ داخلِ اسلام ہو رہے ہیں.پھر مسلمانوں میں جنت و دوزخ کے متعلق ایسے عقائد دوزخ و جنت کی حقیقت تھے جو نوجوانوں کی بے دینی کا باعث بنے ہوئے تھے.یہ سمجھا جاتا تھا کہ جو عیاشی یہاں منع ہے، وہ جنت میں کی جائے گی.میں ایک دفعہ ندوۃ العلماء کے جلسہ میں گیا وہاں ایک مولوی صاحب نماز کی خوبیوں پر تقریر کر رہے تھے میں
320 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ان کا نام نہیں لیتا لیکن یہ بتا دیتا ہوں کہ مولوی شبلی نہ تھے.شبلی صاحب تعلیم یافتہ اور روشن خیال آدمی تھے اور قوم کا درد رکھتے تھے.ان مولوی صاحب نے جو کچھ اپنی تقریر میں کہا، میں اسے بیان نہیں کر سکتا.نماز کی بڑی خوبی انہوں نے یہ بیان کی کہ نماز پڑھنے سے جنت ملے گی اور جنت کا جو نقشہ انہوں نے کھینچا اسے میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں عورتیں بھی ہیں.اس جلسہ میں ایک بیرسٹر صاحب بیٹھے تھے وہ کہنے لگے خدا بھلا کرے مولا ناشبلی کا کہ یہ لیکچر رات کو رکھا اگر دن کو رکھتے تو اس وقت چونکہ غیر مسلم بھی ہوتے ہم تو ندامت سے ان کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے اور ہمیں یہاں سے اٹھنا محال ہو جاتا.دنیا کی جتنی عیاشیاں ہیں، مسلمانوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ساری کی ساری اپنی بھیا تک صورت میں جنت میں ہوں گی.حضرت مرزا صاحب نے آ کر بتایا کہ جنت کی نعمتیں تمثیلی طور پر ہیں.رویا میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ اسے آم دیا گیا ہے تو اس سے مطلب دنیا کا آم نہیں ہوتا بلکہ اس کی تعبیر اور ہوگی.رؤیا میں بھی ایک زندگی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نیند کے وقت اللہ تعالیٰ بندہ کی روح قبض کرتا ہے.۵۴ نیند اور موت میں گو فرق ہے، موت مستقل چیز ہے اور یہ عارضی مگر پھر بھی کون کہہ سکتا ہے کہ رویا کی دنیا اصلی نہیں.اس قسم کی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ رویا میں ایک شخص کو کوئی حادثہ پیش آیا اور جب وہ بیدار ہوا تو اس کے بال سفید ہو چکے تھے، رویا میں پھل کھایا اور اُٹھنے پر اس کا ذائقہ موجود تھا، رویا میں پانی میں سے گذرے اور اُٹھنے پر پاؤں پر نم تھے.تو رویا بھی بڑے نشانات کا موجب ہوتا ہے لیکن جس طرح رویا میں اگر کوئی آم دیکھے تو اس سے مراد یہ آم نہیں، بلکہ دوسری چیز ہوتی ہے اسی طرح جنت کی نعماء سے یہ مراد نہیں کہ یہی ہوں گی بلکہ یہ مطلب ہے کہ اعمال متشکل ہوں گے.یہاں انسان جو نمازیں پڑھتا روزے رکھتا اور دوسری نیکیاں کرتا ہے وہی روحانی آم یا دوسری نعمتوں کی صورت میں اس کے سامنے آئیں گے اور وہ کہے گا کہ هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۵۵ وگرنہ یہ آم تو انسان یہاں بھی کھاتا ہے، وہاں اس کے لئے ان میں کیا زیادہ مزا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت اور وصلِ جنت ہے نہ کہ حور و غلمان.پھر دوزخ کے متعلق بھی ایک نہایت مکر وہ خیال لوگوں کے دلوں میں تھا اور وہ یہ کہ سوائے چند آدمیوں کے باقی سب ابد الآباد تک دوزخ میں رہیں گے.آپ نے فرمایا کہ دیکھوڈ نیوی گورنمنٹیں بھی کسی کو ہمیشہ کیلئے قید نہیں کر لیتیں.جن کو عمر قید کی سزادی جاتی ہے وہ بھی ۱۹ ، ۲۰ سال کے بعد رہا کر
321 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق دیئے جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ ابدا لآباد تک کسی کو دوزخ میں کیوں رکھے گا حالانکہ ہر شخص کے کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ ٥٦ اور اگر وہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں ہی رہیں گے تو ان کے نیک کاموں کا بدلہ کب ملے گا.آپ نے ثابت کیا کہ خواہ کسی مذہب وملت کے لوگ ہوں، ایک عرصہ تک دوزخ میں رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ان کو ڈھانپ لے گا.اور پھر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُون سچا غلام سبھی بن سکتا ہے جب جنت میں آئے اور ہر رنگ میں فرمانبرداروں کا نمونہ پیش کرے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ، اگر کوئی شخص ہمیشہ کیلئے دوزخ میں رہے تو کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے.آپ نے ثابت کیا کہ ہر گناہ گار خواہ وہ کروڑوں اربوں سال دوزخ میں کیوں نہ رہے آخر وہ خدا تعالیٰ کی بخشش کے نیچے آئے گا.یہ اعتراض مٹ جائے گا کہ اس کے بندے فرمانبردار نہیں ہیں.غرضیکہ حضرت مرزا صاحب نے آ کر اس زمانے کی ساری ضرورتوں کو پورا کیا اور جب کام پورا ہو گیا تو پھر کسی اور کے آنیکی کیا ضرورت ہے.۵۸ دوسری چیز یہ ہے کہ يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ یہ مؤمنوں کے اندر عظیم الشان تغییر شاہد دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ظاہری اور ایک باطنی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ایک ایسی جماعت چھوڑی کہ دشمن نے بھی یہ تسلیم کر لیا کہ یہ خدا کے مقرب لوگ ہیں.صحابہ میں سے سوائے ان لوگوں کے جو کمزور تھے باقی سب ایسے تھے جو الہام پاتے تھے اور اس طرح وہ جماعت کے طور پر شاہد تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ مختلف ممالک میں گئے اور دشمن آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ جہاں گئے وہاں لوگوں سے ایسا محبت کا سلوک کیا کہ لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے.مسلمانوں نے ایک دفعہ ایک عیسائی ملک پر قبضہ کیا لیکن بعد میں کسی مصلحت کی وجہ سے انہیں پیچھے ٹنا پڑا.مگر عیسائی ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نہ جائیں.وہ لوگ مسلمانوں کے وہاں سے چلے جانے کو اپنے لئے مصیبت سمجھتے اور روتے کہ کاش آپ یہاں ہی رہیں.اللہ جس سے ظاہر ہے کہ ان کے اندر ایک قوت اور کشش تھی کہ جس کے دشمن بھی معترف تھے.پھر الہامات کی مثالیں بھی ان میں موجود ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ اسلامی لشکر چلا آ رہا ۵۹
انوار العلوم جلد ۱۳ 322 تحقیق حق کا صحیح طریق تھا کہ پیچھے سے عیسائی لشکر دھوکا دے کر حملہ آور ہوا اور قریب تھا کہ سارا اسلامی لشکر تباہ ہو جاتا.حضرت عمر اس وقت مدینہ میں خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بے اختیار بول اُٹھے.يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ - يَا سَارِيَةُ الْجَمَلَ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ - ٢٠ ساریہ اسلامی فوج کے کمانڈر کا نام تھا.لوگ حیران تھے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں.مگر آپ نے بتایا کہ میں نے عالم کشف میں ایسا نظارہ دیکھا ہے.چند یوم بعد ایک مشتر سوار لشکرِ اسلامی سے آیا اور ایک خط لایا جس میں ساریہ نے اپنی پوزیش کا بعینہ وہی نقشہ کھینچا ہوا تھا جو حضرت عمرؓ کو کشف میں دکھائی گئی تھی اور لکھا تھا کہ میں نے یکدم یہ آواز سنی تھی.يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ جو آپ کی آواز سے مشابہ تھی اور اس سے متنبہ ہوکر میں بچ گیا.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبر دست نشان ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر الہام کا زبر دست مادہ تھا اور یہ يَتْلُوهُ شَاهِدٌ منسہ کا ایک نظارہ تھا کہ آپ نے چوروں ڈاکوؤں اور فسادی لوگوں کے اندر وہ روح پیدا کر دی کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے سوا کوئی چیز ان کے مد نظر نہ رہی.ایک بیوہ عورت خنساء نامی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک جنگ میں ایک دن بہت سے مسلمان مارے گئے.اس کے چار جوان بیٹے تھے اس نے ان کو بلا یا اور کہا کہ دیکھو میں نے بڑی محنت و مشقت سے تمہاری پرورش کی ہے اور تمہارے آباء کے ننگ و ناموس کی حفاظت کی ہے حالانکہ تمہارے باپ کا مجھ پر کوئی احسان نہ تھا، کوئی جائیداد اس نے تمہاری پرورش کیلئے نہ چھوڑی، زندگی میں وہ جواری تھا اور میں اسے اپنے بھائی سے روپیہ لے کر دیا کرتی تھی پس اگر تم سمجھتے ہو کہ میرا تم پر کوئی حق ہے تو اس کے صلہ میں میں تم سے یہ چاہتی ہوں کہ میدانِ جنگ میں جاؤ پھر یا تو دشمن کو مغلوب کر کے آؤ یا شہید ہو جاؤ.اے غور کرو! یہ کتنی بڑی قربانی ہے.وہ عورت بیوہ ہے، پھر بڑھیا ہے اور جانتی ہے کہ اب میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوناممکن نہیں مگر وہ چاروں بچوں کو میدانِ جنگ میں بھیج کر ان سے خواہش کرتی ہے کہ شکست کھا کر مجھے منہ نہ دکھانا.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق مخالف بھی کہتے ہیں کہ یہ عجیب قوم ہے جب میدان جنگ میں جاتی ہے تو اس قدر جوش کے ساتھ لڑتی ہے مگر عام حالات میں خون کا ایک قطرہ گرانا بھی گوارا نہیں کر سکتی.ایران میں مسلمان جب گئے تو ایران کے بادشاہ نے ان کے ایک وفد کوطلب کیا اور اس سے کہا کہ تم لوگ وحشی اور گو ہیں کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو.تمہیں ہمارے ملک پر فوج کشی کی جرات کیسے ہوئی.کچھ روپیہ لے لو اور چلے جاؤ خواہ مخواہ ہلاکت میں نہ پڑو.مگر
انوار العلوم جلد ۱۳ 323 تحقیق حق کا صحیح طریق صحابہ سے جواب دیتے ہیں کہ بے شک ہم لوگ ایسے ہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور ہم میں ایک نبی مبعوث کیا جس نے ہمیں انسان بنا دیا اور ہمارے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر دیئے.کہاں ہیں وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان روپیہ حاصل کرنے کیلئے لڑتے تھے.غور سے دیکھو! ان کی جرات کتنی ہے.وہ جواب دیتے ہیں کہ پہلے تم نے حملہ کیا تھا اور اب ہم جب تک ایران کو فتح نہ کر لیں، واپس نہیں جا سکتے.اس وقت ایران کی سلطنت ایسی ہی تھی جیسے اب انگلستان کی.بادشاہ نے حکم دیا کہ مٹی کا ایک بورا لایا جائے اور پھر اسے رئیس وفد کے سر پر رکھوا کر کہا کہ جاؤ اب میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا.انہوں نے مٹی کا بورا بلا تامل سر پر اٹھا لیا اور دوڑ کر وہاں سے نکل گئے اور کہا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بادشاہ نے ایران کی زمین اپنے ہاتھ سے ہمارے حوالے کر دی ہے.غور کرو یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کے اندر پیدا کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی مدد کی کہ کوئی دشمن ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بھی يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ کے ماتحت تھے.خدا تعالیٰ نے آپ پر الہام نازل کیا کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ- ۶۳ ساری برکتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہیں.برکتوں والا ہے استاد اور برکتوں والا ہے شاگر د گویا آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے شَاهِدٌ مِنْهُ تھے.لیکن اسی طرح آپ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے شاہد بھجوائے ہیں.چنانچہ آپ کی جماعت میں بھی ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور خود مجھ سے ہزاروں مرتبہ اس نے باتیں کی ہیں.اب میرے سامنے اگر کوئی شخص یہ بات پیش کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے باتیں نہیں کرتا تو میں اسے کس طرح مان سکتا ہوں.ولایت میں جب میں گیا تو وہاں ایک فلسفی ڈاکٹر نے مجھ سے گفتگو کی.جس میں اس نے کہا کہ الہام وغیرہ کوئی چیز نہیں، سب انسان کے اپنے خیالات کا نام ہے.میں نے کہا کہ جب میرے کانوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنا ہوتو خشک فلسفیانہ باتوں کا مجھ پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور میں کیونکر تسلیم کرسکتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سناء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا.اس پر اسے تسلیم کرنا پڑا کہ بے شک ایسے انسان پران دلائل کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا.
انوار العلوم جلد ۱۳ 324 تحقیق حق کا صحیح طریق ذاتی تجربہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی بار میں نے ایسی باتیں پہلے سے لوگوں کو بتا ئیں جو اسی طرح پوری ہوئیں.لطیفہ کے طور پر اس وقت ایک کا ذکر کرتا ہوں.ہماری جماعت میں ایک مطلوب خاں صاحب ہیں جو فوج میں ڈاکٹر تھے.وہ عراق میں لڑائی میں شامل تھے ان کے والد ۷۰.۷۵ سال کے بوڑھے قادیان میں مجھ سے ملنے آئے.قادیان سے ان کے واپس جانے کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ ان کا لڑ کا جنگ میں مارا گیا ہے.چونکہ میں تھوڑا ہی عرصہ پہلے ان سے مل چکا تھا اور ان کی ضعیف العمری دیکھ چکا تھا اس لئے مجھے بہت صدمہ ہوا اور میرے منہ سے بار بار یہی دعا نکلتی کہ کاش! مطلوب خاں زندہ ہو.مگر پھر خیال آتا کہ جب گورنمنٹ کی طرف سے موت کی اطلاع آ چکی ہے تو کاش زندہ ہو کے کیا معنی ہو سکتے ہیں.آخر میں نے خواب میں دیکھا کہ مطلوب خاں صاحب میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تین دن دفن رہ کر پھر زندہ ہو گیا ہوں.میں حیران تھا کہ ہم تو اس دنیا میں مرکر زندہ ہونے کے قائل ہی نہیں مگر یہ رویا اتنا صاف تھا کہ میں سمجھتا تھا یہ خیال نہیں ہو سکتا اور یہ ضرور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس دن کھانے کے وقت میں نے اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر کیا اور میرے ایک بھائی نے مطلوب خاں صاحب کے ایک رشتہ دار کو بتایا جس نے اپنے چا کو خط لکھا.اس نے اطلاع دی کہ یہ صحیح ہے.مطلوب خاں کا تار آیا ہے کہ گھبراؤ نہیں میں زندہ ہوں.میں حیران تھا کہ یہ کیا بات ہے مگر معلوم ہوا کہ جس طرح میں نے خواب میں دیکھا تھا، اسی طرح واقعہ پیش آیا.بات یہ ہوئی کہ عربوں سے انگریزی فوج کی جنگ ہوئی انگریزی فوج کے ساتھ یہ ڈاکٹر تھے.انہیں عرب گرفتار کر کے لے گئے لیکن کوئی اور ڈاکٹر دوسری فوج سے آیا تھا.اس کی لاش کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے انگریزی افسران کو یہ دھوکا لگا کہ مطلوب خاں مارے گئے ہیں اور انہوں نے ہندوستان اُن کی موت کا تار دے دیا.عربوں کے ہاں قیدی رکھنے کا تو کوئی انتظام تھا نہیں.اغلباً وہ انہیں قتل کر دیتے لیکن خدا تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ ایک ہوائی جہار نے اس گاؤں پر گولہ باری کی جس میں یہ قید تھے.گاؤں کے لوگ بھاگ گئے اور مطلوب خاں کو بھاگنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے واپس آکر اپنے عزیزوں کو اپنی سلامتی کا تار دیا.خواب میں جو مجھے بتایا گیا تھا کہ تین دن ہوئے وہ زندہ ہو گئے.اس سے مراد ان کی قید سے رہائی تھی.جو ان کے لئے دوسری زندگی ہی تھی کیونکہ وہاں رہتے تو ضرور مارے جاتے.اس کے علاوہ میرا سینکڑوں دفعہ کا تجربہ ہے کہ جو خواب دیکھا جاتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے.میں جب لائل پور کے لئے صبح کو روانہ
325 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق ہونے والا تھا تو اسی رات ایک خواب دیکھا کہ آسمان پر بہت سے بادل ظاہر ہورہے ہیں اور کوئی آواز دے رہا ہے کہ دیکھو آسمان سے ایک ہاتھ ظاہر ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے سفید سفید بادلوں کے ٹکڑے اُفق پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر پھٹ جاتے ہیں پھٹتے وقت ان میں سے ایک سفید نورانی ہاتھ ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح انگلیوں کو حرکت دیتا ہے جیسے کہ بات کرتے وقت بعض لوگ اشارہ کرتے ہیں.بیداری کے بعد میرا خیال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرع کی طرف گیا کہ:.ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا اور میں سمجھا کہ اسلام کی عظمت کے اظہار کیلئے خدا کا کوئی نشان ظاہر ہوگا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت احمدیہ میں الہام کا اجراء کے بعد آپ کی جماعت میں الہامی کلام کا اجراء صاف بتا رہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو کوئی دماغی نقص نہ تھا بلکہ آپ حقیقتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور اس کے مقرب بندے تھے.اب میں دلیل کے اس تیسرے حصہ کو لیتا ہوں کہ مِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پہلی کتب میں سینکڑوں پیشگوئیاں موجود ہیں.اگر میں انہیں بیان کرنے لگوں تو یہ لیکچر بہت لمبا ہو جائے گا اور ان میں یہاں تک تفاصیل موجود ہیں کہ جنگ بدر کا پورا پورا نقشہ بیان کیا گیا ہے.جنگ کہاں اور کس طرح ہوگی.رئیس الکفا ر یعنی ابو جہل کی موت کہاں اور کس طرح واقع ہوگی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے تفصیلی واقعات بیان کئے گئے ہیں اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی موجود ہے.احادیث میں آپ کے زمانہ کی صاف علامتیں بتائی گئی ہیں کہ عورتوں کی کثرت ہو جائے گی اور مرد کم ہوں گے، پھر عورتوں میں عریانی زیادہ ہوگی وہ تجارتی کاروبار میں شریک ہوں گی.اب دیکھ لو یہ ساری باتیں اس وقت پوری ہو رہی ہیں.آخری زمانہ کا موعود مصلح میں تفاصیل تو اس وقت بیان نہیں کر سکتا کیونکہ پہلے ہی مضمون بہت لمبا ہو چکا ہے اور تھوڑا تھوڑا بھی بیان کروں تو مضمون کی عظمت جاتی رہتی ہے اس لئے میں نے اشارتاً ان کا ذکر کر دیا ہے.ہاں اختصار کے ساتھ ایک اور بات کہہ دینا چاہتا ہوں.سب مذاہب میں یہ وعدہ موجود تھا کہ آخری
326 انوار العلوم جلد ۱۳ تحقیق حق کا صحیح طریق زمانہ میں ایک مصلح پیدا ہو گا اور ہر مذہب والے سمجھتے تھے کہ ان کا پیغمبر دوبارہ دنیا میں آئے گا اور بتایا گیا تھا کہ اس زمانہ میں بدی بہت پھیل جائے گی، چھوٹی لڑکیوں کے نکاح ہوں گئے ان سے بچے پیدا ہوں گئے امن کا زمانہ ہوگا، بچے سانپوں سے کھیلیں گئے اس زمانہ کو خدا نے صلح کا زمانہ قرار دیا تھا، بدھ کہہ رہے تھے مہاتما بدھ جو کہیں گے ہمیں منظور ہوگا، عیسائی تسلیم کرتے تھے کہ حضرت عیسی جو کہیں گے ہمیں منظور ہوگا.مسلمان کہہ رہے تھے.کہ جو امام مہدی کہیں گے ہم مانیں گے، ہندو کہتے تھے کہ جو کرشن کہیں گے ہمیں اس سے انکار نہ ہو گا تب خدا تعالیٰ نے ایک ہی شخص کو سب نام دیکر بھیجا جس نے کہا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے تم سب لوگوں کے انتظار کے نتیجہ میں بھیجا ہے جس کا فیصلہ منظور کرنے کا تم نے اقرار کیا ہوا ہے.میرا فیصلہ یہ ہے کہ نجات محمد کی غلامی میں ہے سب دنیا کی اقوام کا فیصلہ اسی کے ہاتھ پر ہے.وگر نہ اگر حضرت عیسی آتے تو ہندو کہہ دیتے، ہمیں تو کرشن کا فیصلہ ہی منظور ہو سکتا ہے اور اگر کرشن آتے تو مسلمان کہتے ہم ان کی بات نہیں مان سکتے اسی طرح بدھ کے آنے کی صورت میں عیسائی انکار کر دیتے.پس فیصلہ کی صورت یہی تھی کہ سارے نام ایک ہی شخص کے ہوں وہ آئے اور کہہ دے کہ جاؤ سب کے سب محمد کے پاس جاؤ کہ اسی میں تمہاری نجات ہے.اپنی قوم کو مخاطب کر کے اس نے کہا کہ تم مجھے کا فر کہتے ہو مگر میرا مذہب سن لو جو یہ ہے کہ:.بعد از خدا بعشق متخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم میں محمد کے عشق میں مخمور ہوں اور اگر اس کا نام کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.تم کہتے ہو میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کی ہے.یاد رکھو میرا مقصد یہ ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کروں.اول تو یہ ہے ہی غلط کہ میں کسی نبی کی ہتک کرتا ہوں ہم سب کی عزت کرتے ہیں لیکن اگر ایسا کرنے میں کسی کی ہتک ہوتی ہو تو بے شک ہو.میں نے جو دعوے کئے وہ اپنی عظمت و شان کے اظہار کے لئے نہیں، بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے کئے ہیں.مجھے خدا کے بعد بس وہی پیارا ہے لیکن اگر تم اسے کفر سمجھتے ہو تو مجھ جیسا کا فرتم کو دنیا میں نہیں ملے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع میں میں بھی کہتا ہوں کہ مخالف لاکھ چلا ئیں کہ فلاں بات سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک ہوتی ہے.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
انوار العلوم جلد ۱۳ 327 تحقیق حق کا صحیح طریق کی عزت قائم کرنے کے لئے حضرت عیسی یا کسی اور کی بہتک ہوتی ہو تو ہمیں ہرگز اس کی پر واہ نہیں ہوگی.بے شک آپ لوگ ہمیں سنگسار کریں یا قتل کریں آپ کی دھمکیاں اور ظلم ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کے دوبارہ قائم کرنے سے نہیں روک سکتے.سامعین کا شکریہ اس کے بعد میں ان تمام دوستوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جو تقریر سننے کیلئے آئے اور دعا کرتا ہوں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سچے رستہ پر چلنے قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے اختلافات کو دور کر کے ہندؤ عیسائی، سکھ غرضیکہ سب کو ہدایت دے کر دین واحد پر جمع کر دے تا وہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک ہو جائیں.اے میرے قادر وتوا نا خدا! میں تیرے حضور به درخواست کرتا ہوں کہ کوئی عیسائی ہو یا ہند و وسکھ سب تیرے بندے ہیں.پس اپنے بندوں کو گمراہ ہونے سے بچالے.تیری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے.دوزخ کے دروازے بند کر کے جنت کے دروازے کھول دے.اللَّهُمَّ امِينَ (مطبوعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۴ء قادیان) ↓ المؤمن: ۲۹ A سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحه ۹۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ال عمران: ۱۴۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا سیرت ابن ہشام الجزء الثالث صفحه ۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۳۹۷ حاشیہ مطبع محمد علی صبیح میدان الا زھر بمصر ۱۹۳۵ء آل عمران: ۱۶۵ بخاری کتاب ابواب التقصير باب الصلوة بمنى الفاتحة: ۶ تا ۷ ترندیى كتاب الايمان باب ماجاء في افتراق هذهِ الْأُمَّةِ ا النساء : ٧٠ ال آل عمران: ۱۹۴ ۱۲ الحديد: ۲۰ المائدة : ۲۱ هود: ۱۸ ها يونس : ۱۷
انوار العلوم جلد ۱۳ 328 تحقیق حق کا صحیح طریق السيرة الحلبية الجزء الاوّل صفحه ۳۰۹ تا ۳۱۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء کا تذکرہ صفحہ ۸۹.ایڈیشن چہارم اشاعۃ السنۃ جلد ۷ شمارہ نمبر ۶ صفحه ۲۹ 19 الفرقان : ۵۳ ٢٠ الواقعة : ٨٠ ۲۲ تاريخ الخميس الجزء الاوّل صفحه ۳۷۰ مطبوعه ۳۰۲ھ ات المائدة: ۶۸ ۲۳ سیرت ابن هشام جلد ا صفحہ اما مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ ه ، المواهب الدنية الجزء الثاني صفحہ ا دار الكتب العلمية بيروت ۲۴ سيرة ابن هشام الجزء الاوّل صفحه ۷۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۵ سیرت ابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۸۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۶ سیرت ابن هشام الجزء الاوّل صفحه ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۷ بخاری كتاب الجهاد و السير باب السُّرْعَةِ وَالرَّكْضِ فِي الفزع ۲۸ تذکرہ صفحہ ۷۹ ، ۲۸۰ پر الہام کے الفاظ اس طرح ہیں.وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ۲۹ 66 النَّاسِ.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۲۰.ایڈیشن چہارم ۳۰ اشاعة السنة جلد ۳ نمبر ۴ ٣١ التكوير: ٧٦ ٣٢ التكوير : ۳تا۷ ۳۳ التكوير : ۹ تا ۱۵ ۳۴ تذکرہ صفحہ ۴۲.ایڈیشن چہارم ۳۵ تذکرہ صفحہ ۵۷۷.ایڈیشن چہارم ۳۶ تذکرہ صفحہ ۸۴.ایڈیشن چہارم ۳۷ حمامة البشرى صفحہ ۱۲۰ روحانی خزائن جلدے صفحہ ۳۳۶ تذکرہ صفحہ ۳۶.ایڈیشن چہارم ۳۹ تذکرہ صفحہ ۳۷۶.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۳۴.ایڈیشن چهارم ا تذکرہ صفحہ ۵۱۵.ایڈیشن چہارم ۲۲ تذکرہ صفحہ ۷۱۵.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۳ 329 تحقیق حق کا صحیح طریق مسلم كتاب الاشربة باب تحريم الخمر (الخ) الفاتحة: ٢ ۴۵ متی باب ۷ آیت ۶ ۲۶ فاطر: ۲۵ حم السجدة: ٣١ ۲۸ بخاری کتاب الانبیاء باب قول الله تعالى واتخذ الله إبراهِيمَ خَلِيلاً و تفسیر در منثور الجزء الرابع صفحه ۵۳ - ۵۴ دار الكتب العلمية بيروت ١٩٩٠ء ۵۰ تفسیر در منثور الجزء الخامس صفحه ۳۲ دار الكتب العلمية بيروت ١٩٩٠ء ال مسند احمد بن حنبل الجزء الثانی ۲۷۴ - ۲۷۵ المکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۸ء ۵۲ بخاری کتاب الدعوات باب ما يقول إذَا أتى أهله ۵۳ تفسیر ابن کثیر الجزء الاول صفحہ ۳۷۸ مطبع البابی الحلبى مصر ۵۴ مسند احمد بن حنبل الجزء الرابع صفحه ۹۱ المكتب الاسلامی بیروت ۵۵ البقرة: ۲۶ ۵۸ الاعراف: ۱۵۷ ۵۶ الزلزال: ۸ ۵۷ الذريت: ۵۷ ۵۹ فتوح البلدان البلاذری صفحہ ۴۳ - الطبعة الاولى المطبعة المصرية الازهر ١٩٣٢ء تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۱۲۴ - ۱۲۵ مطبوعہ ۱۸۷۰ ء لاہور ال اسد الغابة في معرفة الصحابة المجلد الخامس فحه ۳۲ مطبع اسلامیه طهران ۱۳۷۷ھ تاريخ الامم و الملوک لابی جعفر محمد بن جرير الطبرى المجلد الرابع صفحه ۳۳۲ تا ۳۲۵ دار الفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء تذکرہ صفحہ ۲۵.ایڈیشن چهارم
انوار العلوم جلد ۱۳ 330 سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
331 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ سردار کھڑک سنگھ صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق سردار کھڑک سنگھ صاحب ! مجھے اس علاقہ کا رئیس ہونے اور جماعت احمدیہ کا امام ہونے کے لحاظ سے خوشی ہوئی تھی کہ سکھ صاحبان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے آپ کا سا تجربہ کار لیڈر قادیان آیا ہے اور مجھے امید تھی کہ آپ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں گے اور حق اور راستی کی اہمیت ان پر ظاہر کریں گے لیکن میرے تعجب کی کوئی حد نہیں رہی جبکہ مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے لیکچر میں بیان کیا ہے کہ قادیان میں احمدی ،سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں اور یہ کہ احمدی اگر باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ نے اپنے لیکچر میں بیان فرمایا ہے کہ احمدیوں کے یہ ظلم اس وجہ سے ہیں کہ گورنمنٹ انہیں شہ دیتی ہے اور آپ نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ انگریزوں کو سیدھا کر دیا جائے تو احمدی آپ سیدھے ہو جائیں گے.مجھے یہ بھی رپورٹ ملی کہ ایک احراری نے بھی آپ کے جلسہ میں تقریر کی ہے اور کہا ہے کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمد می ان کے گرو کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر بھی ان کو غیرت نہیں آتی.سب سے پہلے تو میں آپ کی اور آپ کے ہمراہیوں کی توجہ اسی احراری کی تقریر کی طرف پھر ا تا ہوں کہ کیا یہ شخص دیانت دار تھا ؟ اگر اس شخص کے نزدیک حضرت باوا صاحب کو ایک مسلمان ولی اللہ کہنا با وا صاحب کی ہتک کرنا ہے تو اس بے غیرت سے آپ نے دریافت کرنا تھا کہ وہ اب تک اس ہتک والے چولے کو کیوں پہنے ہوئے ہے اور کیوں سکھ ہو کر اس گندگی سے
323 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق پاک نہیں ہو جاتا.آپ گو اسلام سے ناواقف ہوں لیکن اس قدر بات تو آپ کو بھی معلوم ہو گی کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دوہی گروہ ہیں، یا مسلمان یا کافر.اگر اس احراری کے نزدیک جو منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مسلمان کہنے سے باوا صاحب کی ہتک ہوتی ہے تو اس سے آپ دریافت کریں کہ وہ باوا صاحب کو کیا سمجھتا ہے؟ اگر وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر کوئی درجہ با وا صاحب کو دے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اور اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ با واصاحب بانی اسلام علیہ السلام کے منکر تھے اور اس طرح کا فر تھے تو آپ بتائیں کہ وہ با وا صاحب کی ہتک کرنے والا ہوا یا ہم لوگ جو ان کو ایک بزرگ اور خدا رسیدہ انسان سمجھتے ہیں؟ سردار صاحب ! آپ شاید جانتے ہیں کہ ولی اللہ مسلمان سے اوپر مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہوتے ہیں.اگر یہ احراری با واصاحب کو رسول یا پیغمبر کہتا ہو تو اس سے اس کی قوم کے نام اشتہار دلوائیں اور اس کا خرچ مجھ سے لیں لیکن اگر وہ اس سے انکار کرے تو سمجھ لیں کہ جس وقت اس نے یہ کہا تھا کہ احمدیوں کی غلطی ہے کہ وہ باوا صاحب کو مسلمان ولی اللہ کہتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ انہیں مسلمان ولی اللہ سے بڑا سمجھتا ہے بلکہ وہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ اپنے فطرتی گند کی وجہ سے باوا صاحب کو کافر اور خدا سے دور قرار دے رہا تھا اور اگر یہ بات درست ہے تو آپ سوچیں کہ آپ مر کر اپنے مقدس گرو کو کس طرح منہ دکھائیں گے.کیا وہ آپ سے یہ نہ پوچھیں گے کہ جو لوگ مجھے ولی اللہ کہتے تھے وہ تو تمہارے دشمن تھے اور جو مجھے کافر سمجھتے تھے اُن کو تم نے اپنا دوست بنایا تھا.سردار صاحب! اگر واقعہ میں آپ کو حضرت باوا صاحب پر ایمان ہے تو آپ نے ایک سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور حضرت باوا صاحب کی روح کو سخت صدمہ پہنچایا ہے.پس تو بہ کریں اور بندوں کی خوشنودی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف متوجہ ہوں اور اگر واقعہ میں حضرت باوا صاحب سے آپ کو محبت ہے تو جب وہ شخص آپ سے ملئے آپ اُس وقت تک اُس کو نہ چھوڑیں جب تک اُس سے پوچھ نہ لیں کہ ایک مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر کون سا درجہ حضرت با وا صاحب کو دیتا ہے اور اگر وہ اِس کا جواب نہایت دل شکن دے یا خاموش ہو جائے اور بہانے بنانے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ نے دنیوی اغراض کی خاطر حضرت باوا صاحب کی ہتک خود سکھوں کے جلسہ میں کروائی اور با واصاحب کی ہتک کروانے والے آپ ہیں ہم نہیں.
333 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق سردار صاحب! اب میں ان باتوں کو لیتا ہوں جو خود آپ نے یا آپ کے ساتھیوں نے کہی ہیں.اور سب سے اول تو میں آپ کی اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوں جو احمدیوں کے مظالم کے متعلق آپ کو لگی ہے.آپ نے بیان کیا ہے کہ آپ نے خوب تحقیق کر لی ہے کہ احمدی سکھوں پر سخت ظلم کرتے ہیں.میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی تحقیق بالکل غلط ہے.احمدی سکھوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں سے فرداً فرداًوہ قسم دیگر جسے پنجابی میں دودھ پت کی قسم کہتے ہیں پوچھیں، تو ان میں سے ننانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں اور جو کوئی مصیبت زدہ ہمارے پاس آیا ہے ہم نے ان کی مدد کی ہے.بالکل ممکن ہے کہ بعض نادان احمدیوں نے بعض سکھوں سے ناواجب سلوک کیا ہولیکن ان سے پوچھیں کہ جب کبھی میرے پاس ایسی رپورٹ ہوئی اور میں نے احمدی کو خطا وار پایا، میں نے اسے سزادی یا نہیں دی.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ ایک احمدی نے اپنی کتاب میں حضرت باوا صاحب کے متعلق کچھ الفاظ سو عواد بی کے لکھ دیئے تھے میرے پاس سکھوں کا وفد آیا تو میں نے نہ صرف یہ کہ اُس احمدی کو سخت سرزنش کی، بلکہ اُس کی اس کتاب کو ضبط کر لیا اور وہ صفحات تلف کروائے جو سکھ صاحبان کیلئے دل آزار تھے.اردگرد کے سکھوں کو آپ قسم دے کر پوچھیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی خاطر پندرہ سال تک میں نے قادیان میں مدیح نہیں بننے دیا اور اب بھی مذبح صرف چند نادانوں کی نادانی کی وجہ سے بنا ہے ورنہ میں نے ہندو اور سکھ رؤساء کو یقین دلا دیا تھا کہ اگر وہ مجھ پر چھوڑ دیں تو ان کے احساسات کا پورا خیال رکھا جائے گا.لیکن افسوس کہ مفسدہ پرداز لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہ کیا اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں جن کی وجہ سے مجھے اپنا قدم بیچ میں سے ہٹانا پڑا.سردار صاحب! یہاں کے سکھوں کو تم دیکر پوچھیں کہ ان کی درخواست پر میں نے اپنے سکول میں ان کیلئے خاص انتظام کیا یا نہیں ؟ اور اُس وقت جب وہ مجھے سے لڑ رہے تھے آریوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر میں نے ماضی کو بھلا کر پھر ان کے بچوں کیلئے ان کے حسب دلخواہ تعلیم کا انتظام کرنے پر آمادگی ظاہر کی یا نہیں ؟ ہاں انہیں قسم دیگر پوچھیئے کہ انفلوئنزا کے دنوں میں جبکہ میں اور میرے گھر کے سب لوگ سخت تکلیف میں مبتلا تھے قادیان کا ہر گھر مریضوں کی چیخ و پکار سے ایک میدانِ جنگ کا نقشہ پیش
334 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق کر رہا تھا، اُس وقت اپنے پاس سے دوائیں دیکر اور اطباء اور ڈاکٹروں کو فارغ کر کے ان کے علاج کے لئے چھ چھ سات سات میل تک باہر بھجوایا یا نہیں ؟ اور یہ بھی ان سے پوچھیئے کہ کوئی ایسے سکھ طالب علم انہیں معلوم ہیں یا نہیں جن کی تعلیم کے لئے میں نے مدد کی.اور کوئی ایسے سکھ خاندان ہیں یا نہیں جنہوں نے اپنی مشکلات میں میری طرف رجوع کیا اور میں نے ہر ایک طرح اُن کی امداد کی.دور کیوں جاتے ہیں اسی علاقہ کے رئیس خاندان سے جہاں آپ کا جلسہ ہو رہا ہے پوچھیں کہ کیا بعض سکھ خاندانوں کے اختلاف کے وقت میں نے انہیں تباہی سے بچانے کیلئے با ہمی سمجھوتے کرائے یا نہیں ؟ ان کی خاندانی وجاہتوں کے خطرہ میں پڑنے کے وقت ان کا پوری طرح ساتھ دیا یا نہیں ؟ سردار صاحب! اگر ان باتوں کا جواب آپ کو اثبات میں ملے تو ذرا سوچیں کہ کیا دشمن ایسے ہی ہوتے ہیں.کیا ظالم اسی قسم کے کام کیا کرتے ہیں.یادرکھیں کہ حقیقت چُھپ نہیں سکتی آپ بے شک آج مجھے اور میری جماعت کو ظالم کہہ کر چلے جاویں لیکن یا درکھیں کہ نقصان آپ کا ہی ہوگا میرا نہیں کیونکہ آپ کے جانے کے بعد جب لوگ ٹھنڈے دل سے میرے سلوک پر غور کریں گے.جب وہ دیکھیں گے کہ ایک شخص جو ان کا خیر خواہ ہے اور ان سے محبت کرتا ہے، آپ اسے ظالم اور بدخواہ قرار دے گئے ہیں تو وہ حیرت میں پڑ جائیں گے اور ان کے دل کہہ اُٹھیں گے کہ ہمارے ایک ایسے لیڈر نے جسے ہم اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے ہم سے دشمنی کی اور ہم میں اور ہمارے خیر خواہوں میں لڑائی ڈالنے کی کوشش کی.مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو دھوکا دیا گیا ہے اور بعض شریروں نے آپ کو غلط اطلاعات دی ہیں.ورنہ مجھے اس وقت تک یہی یقین ہے کہ جب حق کھل جائے گا تو آپ اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کریں گے اور اپنے الفاظ کو واپس لیں گے.سردار صاحب ! دوسری بات آپ نے یہ کہی ہے کہ یہ ظلم انگریزی حکومت کروا رہی ہے اور یہ کہ آپ اس حکومت کو سمندر پار نکال دیں گے.اگر یہ روایت درست ہے اور آپ نے ایسا ہی کہا ہے تو میں کہوں گا کہ اس بات کے کہنے سے آپ نے اپنی زبر دست کمزوری کا اظہار کیا ہے.سردار صاحب! اگر واقعہ میں انگریز ایسے ہی بُرے ہیں اور اگر واقعہ میں آپ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ آپ جب چاہیں، انہیں پکڑ کر باہر نکال دیں تو آپ اپنی قوم اور اپنے ملک پر اس قدر ظلم کیوں کر رہے ہیں انگریزوں کو پکڑ کر باہر نکال دیجئے.جلسوں میں اس قسم کی تقریروں سے
335 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق کیا فائدہ.جب یہ بات آپ کے اختیار کی ہے تو قوم کو اس عرصہ تک ظلم کا تختہ مشق بنا رہنے دینے میں آپ نے سخت غلطی کی ہے اور آپ خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوں گے.اُٹھیئے اور اس ظلم کو مٹا کر قوم وملت کی دعائیں لیجئے لیکن اگر یہ بات آپ کے اختیار کی نہیں تو سمجھ لیجئے کہ وہ بات کہنی اور اُس بات کا دعوی کرنا جو انسان کے اختیار میں نہیں کتنا بڑا گناہ ہے.اور ایسے دعویٰ سے آپ پر کتنی بڑی ذمہ واری آتی ہے.سردار صاحب! تیسری بات آپ نے یہ کہی ہے کہ اگر احمدی ظلم سے باز نہ آئے تو آپ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ان کے ظلموں میں سے ایک ظلم آپ نے مذبح کا اجراء بتایا ہے.اول تو میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سکھ قوم ایک موحد قوم ہے، ان کے گرو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خالص توحید کی تعلیم دی پھر آپ یہ بتائیں کہ مذبح پر آپ کو اس قدر جوش کیوں آتا ہے.ہند و تو گائے کو برہمنی اوتار سمجھتے ہیں، اس لئے ان کے غصہ کی وجہ تو سمجھ میں آسکتی ہے مگر آپ تو حید کا دعویٰ رکھتے ہوئے اس قسم کا جوش کس طرح دکھا سکتے ہیں.اگر تو حید کا دعوئی صحیح ہے تو اونٹ گھوڑا اور گائے بھینس سب کا درجہ آپ کے نزدیک ایک ہونا چاہیئے لیکن ان جانوروں کے ذبح ہونے پر آپ کو جوش نہیں آتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یا یہ جوش سیاسی ہے اور ہندوؤں سے سمجھوتہ کرنے کی نیت سے ہے.یا پھر اپنے ست گرؤوں کی تو حید کے مغز کو آپ نے نہیں سمجھا.بے شک اگر آپ یہ کہیں کہ ہماری سیاسی ضرورتیں بھی مجبور کرتی ہیں کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ اتحاد رکھیں اور اس لئے ہمیں گائے کی حفاظت کرنی پڑتی ہے تو میں اسے ایک جائز فعل کہوں گا مگر اسے دین کا جز و قرار دینا میرے نزدیک سکھی مذہب کے مغز کے خلاف ہے.اس کے علاوہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا قادیان کی گائیں خاص طور پر مقدس ہیں کہ آپ کو اپنا غصہ یہاں آ کر ظاہر کرنے کی ضرورت ہوئی.آپ کے وطن سیالکوٹ میں روزانہ اتنی گائیں ذبح ہوتی ہیں کہ قادیان میں سال میں اتنی نہیں ہوتیں آپ نے سیالکوٹ کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہ بجائی بلکہ کیوں نہ ان سکھوں کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجائی جو گائے کے پٹھے کی تندیاں بناتے اور فروخت کرتے ہیں اور لاکھوں روپیہ کا بیوپار سالانہ ان کا اس تجارت سے ہوتا ہے.اگر واقعہ میں آپ کے دل میں گائے کی اِس قدر عظمت ہے تو پہلے آپ کو سیالکوٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی چاہیئے اور آپ کے ہمراہی کو اس کا ملبہ سمندر میں جا کر گرا
336 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھا اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق آنا چاہیئے کہ خیرات اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے.سردار صاحب! میں اس بارہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ فقرہ کہنے میں تقویٰ سے کام نہیں لیا.اینٹ سے اینٹ بجانا خدا تعالیٰ کا کام ہے بندوں کا کام نہیں.منہ سے دعوی کرنے پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا.اگر میں بھی آپ ہی کی طرح جوش میں آنے والا ہوتا تو شاید میں بھی آپ کے اس دعوی کو سن کر یہ کہہ دیتا کہ میں بھی آپ کے مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے تقویٰ عطا فرمایا ہے.جب میں نے آپ کا یہ دعویٰ سنا تو بجائے کوئی ایسا فقرہ کہنے کے مجھے آپ پر رحم آیا اور میں نے کہا کہ میرے اس بھائی کو اگر خدا تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی تو کبھی یہ ایسا دعویٰ نہ کرتا.جس شخص کو اپنی زندگی کے ایک منٹ پر اختیار نہ ہو اُس کا یہ کہنا کہ وہ فلاں جگہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا ایک قابلِ رحم امر نہیں تو اور کیا ہے.سردار صاحب! جب آپ کے گر و صاحب ظاہر ہوئے تھے تو وہ بھی ظاہر حالت میں کمزور تھے اور اُس وقت کے طاقتور لوگ بھی آپ کی طرح یہ کہا کرتے تھے کہ ہم چاہیں تو ان کو یوں نقصان پہنچا دیں یوں ذلیل کر دیں مگر آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا کس طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رات اور دن ترقی کرتا چلا گیا اور اُس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے اپنے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی.آپ نے دعوی کیا ہے کہ دیکھو مغل ہمارے مقابلہ میں کس طرح تباہ ہو گئے.میں اس امر کو صحیح مان لیتا ہوں مگر پوچھتا ہوں کہ آخر وہ کیوں تباہ ہو گئے کیا سردار کھڑک سنگھ کی بہادری سے یا اللہ تعالیٰ کی مدد سے.اگر آپ کی بہادری سے ایسا ہوا تھا تو انگریزوں کے مقابلہ میں آپ کی تلواریں کیوں ٹوٹ گئی تھیں.یادرکھیں کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ وہ کبھی کسی قوم کو بڑھاتا ہے کبھی کسی کو.کبھی مغلوں کی تلواروں کے آگے پنجاب کے سور ماؤں کے باپ داداے اور ہندوستان کے راجے بھیڑوں اور بکریوں کی طرح بھاگتے پھرتے تھے.پھر وہ وقت آیا کہ مرہٹوں اور سکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی قوموں نے ان کے چھکے چھڑا دئیے.پھر وہی مرہٹے احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیٹھ دکھا کر ایسے بھاگے کہ سینکڑوں میل تک ان کا پتہ نہ تھا اور وہی سکھ انگریزی فوجوں سے اس قدر خائف ہوئے کہ تو ہیں تک چھوڑ کر فرار ہو گئے.پس سوال بہادری کا نہیں، سوال خدا تعالیٰ کی دین کا ہے.منہ کے دعوے نجات نہیں دیتے، خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو عزت دیتا ہے.پس جس جگہ کو خدا تعالیٰ بڑھانا چاہتا ہے اُس کے متعلق ایسے دعوے کر کے جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں، اپنی عاقبت نہ بگاڑیں.ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور
337 انوار العلوم جلد ۱۳ سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنا نور قادیان میں اُتارا ہے.پس خدا کا خوف کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی آواز کوسنیں اور ٹھنڈے دل اور نیک ارادوں سے اِس بات کو سنیں جسے ایک شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.یہ دنیا چند روزہ ہے نہ پہلے کوئی رہا نہ اب رہے گا نہ آپ رہیں گے نہ میں رہوں گا، نہ آپ کے سامعین رہیں گے، ہم سب کوئی آگے کوئی پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے جانے والے ہیں پس عاقبت کی فکر کیجئے اور ایسے الفاظ منہ سے نہ نکالیے جو خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا موجب ہیں.یا د رکھیں کہ جس قدر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اُسی قدر زیادہ منکسر المزاج ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے پیارے کبھی ایسے دعوے نہیں کیا کرتے اگر باور نہ ہو تو حضرت باوا نا نک صاحب کا کلام پڑھیں کبھی انہوں نے بھی ایسا کہا کہ میں فلاں شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا ؟ ہاں جب کہا یہی کہا کہ خدا تعالیٰ میں سب طاقتیں ہیں، وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے سب پیارے کہتے چلے آئے ہیں اور یہی بات میں بھی کہتا ہوں کہ عزت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.نہ آپ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں اور نہ میں قادیان کی کوئی اینٹ بچا سکتا ہوں ہوگا وہی جو خدا چاہے گا اور خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ قادیان کو عزت دے اور اسے بڑھائے یہاں تک کہ اس کی آبادی بیٹ سے تک پہنچ جائے، اب اس ارادہ کے پورا ہونے میں نہ آپ روک ڈال سکتے ہیں اور نہ کوئی اور.اگر شک ہو تو یہاں کے سکھوں سے دریافت کر لیجئے کہ یہ خدا کی خبر بانی سلسلہ احمدیہ نے کس وقت اور کن حالات میں شائع کی تھی اور پھر کن حالات میں وہ پوری ہوئی پس میں تو آپ کے اس اشتعال دلانے والے جملہ کے جواب میں کچھ نہیں کہتا صرف یہی کہتا ہوں کہ اللہ آپ کے بڑھاپے پر رحم کر کے اس متکبرانہ فقرہ کی سزا سے بچالے اور سچی توبہ کی توفیق دے اور سچ کو قبول کرنے کی ہمت بخشے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ( ۲۷ مئی ۱۹۳۴ء ) ۲۷ مئی کو سکھوں نے بسراء نزد قادیان کے مقام پر جلسہ کیا جس میں سردار کھڑک سنگھ نے اشتعال انگیز تقریر کی.اس کے جواب میں ۲۷ مئی ہی کی رات کو حضور نے یہ مضمون رقم فرمایا جو راتوں رات چھپ کر ۲۸ مئی کو تقسیم ہو گیا.( الفضل ۳۱ مئی ۱۹۳۴ء) قادیان کے قریب ایک گاؤں.
انوار العلوم جلد ۱۳ 338 اصلاح ہمارا نصب العین از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی اصلاح ہمارا نصب العین
انوار العلوم جلد ۱۳ 339 اصلاح ہمارا نصب العین أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ اصلاح ہمارا نصب العین ہم اصلاح کے پہلے پرچہ کو اہالیان کشمیر کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اپنے نصب العین کو بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ تا حکومت اور رعایا دوست اور دشمن کسی کو بھی ہمارے مقصد کے متعلق کوئی شبہ نہ رہے.گذشتہ تین سال کی جدو جہد سے کشمیر میں جو فضا پیدا ہو چکی ہے وہ اس بات کو چاہتی ہے کہ ان نئی طاقتوں سے جو ملک میں پیدا ہوگئی ہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے ورنہ خطرہ ہے کہ وہ طاقتیں بجائے ملک کے لئے مفید ہونے کے مضر ہو جائیں.گذشتہ تین سال میں ملک میں جو کچھ ہوا ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی شخص ایک پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک بڑے دریا کا دہانہ کاٹ کر اسے ایک نہایت گہرے گڑھا میں گرا دے.یہ بلندی سے پستی میں گرنے والا پانی اپنے اندر بے انتہا ء طاقت رکھتا ہے لاکھوں گھوڑوں کی بجلی کی طاقت اس کے اندر موجود ہوتی ہے، ہزاروں مکانات اس سے روشن کئے جا سکتے ہیں، سینکڑوں کارخانے اس سے چلائے جا سکتے ہیں، ہزاروں کنویں، آہٹ اور پن چکیاں حرکت میں لائی جاسکتی ہیں اور لاکھوں آدمیوں کو بے روزگاری سے بچا کر آرام اور راحت کی زندگی بخشی جاسکتی ہے لیکن اگر اس طاقت کو استعمال نہ کیا جائے اور اس پانی کو بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا جائے تو وہ چٹانوں کو گرانے مکانوں کو برباد کرنے، گاؤں اور شہروں کو اُجاڑ نے کھیتوں اور باغوں کو تباہ کرنے کے سوا کس کام آ سکتا ہے؟ کشمیر ہاں مدتوں سے سوئے ہوئے کشمیر میں ایک بیداری پیدا ہوئی ہے جس طرح یخ بستہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر گرمیوں کے سورج کی کرنیں منجمد پانی میں حرکت پیدا کر دیتی ہیں اور قطرہ قطرہ کر کے وہ برف کے ڈھیر سے جُدا ہونے لگتا اور ایک نہ ختم ہونے والی سیر و سیاحت کو شروع کر دیتا ہے اسی طرح کشمیر کی نو جوان روحوں میں گرمی پیدا ہوگئی ہے.وہ ایک ایک کر کے گذشتہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 340 اصلاح ہمارا نصب العین منجمد حالت کو چھوڑ رہی ہیں، زندگی کا خون پھر ایک دفعہ ان کی رگوں میں دوڑ نے لگا ہے وہ پھر ایک دفعہ اپنے جنت نظیر ملک کو جو دوزخ سے بدتر ہو رہا تھا جنت نظیر بنانے کے لئے حرکت کرنے لگے ہیں ایک نہ ختم ہونے والی بے چین کر دینے والی حرکت ان کے اندر پیدا ہو رہی ہے.یہ ایک خوشی کی بات ہے مگر ساتھ ہی اس میں ایک خطرہ کا الارم بھی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ اونچے پہاڑوں سے پکھل کر آنے والی برف ملک کو برباد کرنے والی ثابت ہوگی یا اسے آباد کرنے والی؟ وہ مختلف چوٹیوں سے بہہ کر آنے والی چھوٹی چھوٹی نالیاں جو تندرست بچوں کی طرح بے فکری کے ساتھ پتھروں کے ساتھ کھیلتی ہوئی نشیب کی طرف آ رہی ہوتی ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک مہیب سیلاب کی شکل میں تبدیل ہو کر قیامت کا نظارہ نہ دکھائیں گی ؟ پس جہاں بیداری میں ایک خوشی کی جھلک ہے وہاں عظیم الشان خطرات بھی پوشیدہ ہیں اور ملک کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ اس امر کو یا د رکھیں کہ حدوں کے اندر بہنے والا پانی ملک کو آباد کر تا لیکن حدوں کو تو ڑ کر بہنے والا پانی ملک کو برباد کرتا ہے.جہاں ان کا فرض ہے کہ ملک میں بیداری پیدا کریں وہاں ان کا یہ بھی فرض ہے کہ بیدار نوجوانوں کی زندگیوں کو اعلیٰ مقاصد کے لئے خرچ کریں اور اعلیٰ اخلاق کی زنجیروں میں جکڑ دیں.اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کی سب محنت اکارت جائے گی اور سب کوشش رائیگاں.اصلاح اسی مقصد کو لے کر جاری ہوا ہے کہ وہ ایک طرف إِنْشَاءَ اللہ ملک میں بیداری کی لہر پیدا کرے گا تو دوسری طرف بیدار شدہ روحوں کو مذہبی اخلاقی اور تمدنی ذمہ داریوں کو بجالانے کا مشورہ دے گا.اس کی تمام تر کوشش اس پر صرف ہوگی کہ نو جوانوں کے اوقات ضائع نہ ہو جائیں، ان کی قربانیاں بے ثمر نہ رہیں، ایک ایک پیسہ جو ملک کی بہتری کے لئے خرچ ہو ایک ایک لمحہ جو قوم کی بہبودی کے لئے صرف کیا جائے ایک ایک کانٹا جس کی خلش ملت کی ترقی کے لئے برداشت کرنی پڑے اس کا نتیجہ ملک، قوم اور ملت کو کئی گنا ترقی کے ساتھ ملے.اگر ہم اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو یقیناً ہمارے ملک کا مستقبل اندوہناک ہوگا.الْعِيَاذُ باللهِ - ہمارا مقصد تعمیری پروگرام کو جاری کرنا ہو گا ہم کوشش کریں گے کہ ملک کو صحیح تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائیں تا کہ ہمارے نوجوان بھی ہندوستان کے نوجوانوں کی طرح روٹی کی فکر میں سرگرداں نہ پھریں.ہماری کوشش ہو گی کہ نوجوانوں میں قربانی کی روح کے ساتھ استقلال کی روح بھی پیدا کریں تا کہ وہ اس بگولے کی طرح نہ ہوں جو ہر چیز کو ہلا کر آپ بھی
انوار العلوم جلد ۱۳ 341 اصلاح ہمارا نصب العین غائب ہو جاتا ہے بلکہ وہ صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی طرح ہوں جو مُردہ روحوں میں جان ڈال دیتے ہیں اور بارہ مہینے خدمت خلق میں لگے رہتے ہیں.ہمارا اخبار علاوہ خالص علمی مضامین شائع کرنے کے ایسے مضامین بھی شائع کیا کرے گا جن میں صنعت وحرفت کے متعلق مفید نسخے ظاہر کئے جائیں گے تا کہ قومی ترقی کے لئے ان ضروری شعبوں کی طرف توجہ رکھنے والے لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں.ہماری کوشش ہوگی کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے پوری کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر اور جموں کی تمام اقوام کے درمیان صلح اور آشتی پیدا کرنے کی کوشش کریں.ہم کبھی اس امر کو برداشت نہیں کریں گے کہ ریاست مسلمانوں کے حقوق کو خصوصاً اور دوسری اقوام کے حقوق کو عموماً پامال کرے لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری پوری کوشش ہوگی کہ شورش اور قانون شکنی کی تحریکات کا مقابلہ کریں اور اس بارہ میں ہم لوگوں کے اعتراض سے ہرگز خائف نہ ہوں گے جس طرح کہ حکومت پر صحیح نکتہ چینی کرنے سے بھی ہم خائف نہ ہوں گے اِنْشَاءَ اللہ.ہمارا سارا زور مسلمانوں کو منظم کرنے پر خرچ ہو گا.ہمارے نزدیک مسلمانوں کو اس قدر نقصان ان کے دشمنوں کی طرف سے نہیں پہنچ رہا جس قدر کہ اپنے اندر تنظیم نہ ہونے کے سبب سے.پس ہماری کوشش یہ ہوگی کہ مسلمانوں کی تنظیم کو مکمل کیا جائے تا کہ بغیر شورش اور فساد کا راہ اختیار کرنے کے وہ حکومت پر زور ڈال سکیں.جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں کوئی قوم بغیر مذہب اور اخلاق کے ترقی نہیں کر سکتی پس اصلاح بد رسومات کے دور کرنے ، مذہب سے نفرت کے جذبہ کو محبت کے جذبہ سے بدلنے اور تمدنی اصلاح کے ہر شعبہ کو مضبوط کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کرے گا.یہ کام اہم ہے ایک ملک کی سب ضرورتوں کا اجارہ دار بننے کا دعوی معمولی دعوی نہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اس کام میں ہماری مدد کرے گا اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری ہمتوں میں برکت دے اور ہماری نیتوں کو درست رکھے.ہم ان اہلِ کشمیر سے بھی استدعا کرتے ہیں جو ان مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ اس کام میں ہماری مدد کریں.صحیح اور ضروری خبروں سے ہمیں مطلع کرتے رہیں اور اصلاح کی آواز کو ہر فرد بشر تک پہنچانے کی کوشش کریں تا کہ اس میں روز بروز طاقت پیدا ہوتی جائے اور وہ قلیل ترین عرصہ میں ملک کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو سکے.ہم حکومت سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ ملک میں امن کے قیام کی غرض سے ان کچی
342 انوار العلوم جلد ۱۳ اصلاح ہمارا نصب العین شکایات کے دور کرنے کی طرف توجہ کرے گی جو وقتا فوقتا اصلاح میں شائع ہوں گی اور اہلِ ہنود اور سکھوں سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری نیت پر پہلے سے ہی حملہ نہ کریں.ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم کسی ایسے مطالبہ کی تائید نہ کریں گے جو غیر منصفانہ ہو خواہ اس کے پیش کرنے والے ہمارے عزیز ترین دوست ہی کیوں نہ ہوں.امید ہے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر کشمیر کی ترقی کے لئے کوشش کرنے میں دریغ نہ کریں گے.آخر یہ ملک جس طرح ہمارا ہے ان کا بھی ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اخبار اصلاح ۴.اگست ۱۹۳۴ ء )
انوار العلوم جلد ۱۳ 343 حکومت پنجاب اور جماعت احمد یہ حکومت پنجاب اور جماعت احمدیہ از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ 344 حکومت پنجاب اور جماعت احمدیہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حکومت پنجاب اور جماعت احمدیہ ہماری جماعت کے جو دوست میرے خطبات سنتے یا پڑھتے رہے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ احرار کے جلسہ کے تعلق میں جو نوٹس گورنمنٹ نے مجھے دیا تھا اُس پر مجھے یہ اعتراض تھا کہ جس سرکلر چھٹی کی بنا پر حکومت نے یہ نوٹس دیا ہے وہ میری طرف سے نہ تھی بلکہ ناظر امور عامہ کی طرف سے تھی اور یہ کہ حکومت کا یہ طریق کہ ناظر کے ایک فعل پر خلیفہ وقت کو نوٹس دے ایسی پیچیدگیاں پیدا کر دتیا ہے کہ آئندہ خلافت کا کام ناممکن ہو جاتا ہے.نیز جبکہ دوسری کسی جماعت سے حکومت یہ سلوک نہیں کرتی کہ اُس کے افراد کے افعال کو اُن کے رئیس کی طرف منسوب کرے اور اسے ان کا ذمہ وار قرار دے تو جماعت احمدیہ کے بارہ میں اس استثنائی سلوک کے کیا معنی ہیں؟ اس بارے میں حکومت سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا ہے جس کی طرف میں نے اپنے خطبات میں اشارہ بھی کیا تھا.سو اب جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ حکومت پنجاب نے اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ جاری شدہ سرکلر کی ذمہ واری امام جماعت احمدیہ پر عائد نہیں ہوتی اور یہ کہ اگر حکومت کو نوٹس جاری کرنے کے وقت اس بات کا علم ہوتا کہ یہ سرکلر ناظر امور عامہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے تو وہ امام جماعت احمدیہ کو یہ نوٹس نہ دیتی کہ وہ اس سرکلر کو واپس لیں بلکہ وہ اس شخص کو مخاطب کرتی جس کی طرف سے وہ سرکلر جاری ہوا تھا.حکومت نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ جو سرکلر جاری کیا گیا تھا وہ حکومت کے نوٹس سے قبل ہی منسوخ کیا جا چکا تھا اور یہ کہ اگر اسے اس منسوخی کا بر وقت علم ہو جاتا تو پھر حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس جاری ہی نہ کیا جاتا.اسی طرح حکومت نے اس امر کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس نوٹس سے یہ مراد ہر گز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک امام جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلاف امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیا ہے.
345 انوار العلوم جلد ۳ حکومت پنجاب اور جماعت احمد یہ حکومت پنجاب کی ان تسلی بخش چٹھیوں کے علاوہ نائب وزیر ہند صاحب نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد احمد یہ لنڈن کو جنہیں میں نے اس معاملہ میں حکومت برطانیہ کو توجہ دلانے کے لئے مقرر کیا تھا، ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیا ہے اُس کے کرتے وقت اُن کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو جس کی وفاداری پورے طور پر مسلم ہے کسی طرح ٹھیس لگے اور انہوں نے درد صاحب کو اس خط میں یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حکومت کے اس فعل میں قطعاً کوئی غرض یا نیت نہ تھی کہ جماعت احمدیہ کی کسی قسم کی تحقیر ہو.یا اس کے امام کے احترام میں کسی قسم کا فرق آئے.حکومت پنجاب کی ان چٹھیوں اور نائب وزیر ہند صاحب کے اس خط کی بناء پر میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میرے خطبات کے اس حصہ کو جو حکومتِ پنجاب کے فعل کے خلاف احتجاج کے طور پر تھا اب طے شدہ سمجھا جائے.اس اعلان کے ساتھ ہی میں اس امر پر بھی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور انگلستان میں بہت سے انگریز افسروں اور سابق گورنروں نے اس موقع پر ہم سے نہایت ہمدردی کا برتاؤ کیا ہے اور بعض نے پوری امداد کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے جذبات اور اخلاص کا بڑے زور سے اظہار کیا ہے.مندرجہ بالا اعلان سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ جن مقامی حکام نے نا واجب کا رروائیاں کی ہیں ان کو یا جو اعتراض ہمیں پنجاب کریمنل لاء امنڈ منٹ ایکٹ ۱۹۳۲ء کے دائرہ استعمال پر ہے اس کو بھی طے شدہ سمجھا جائے گا.لیکن یہ امور ایسے ہیں جیسا کہ میں اپنے ایک خطبہ میں کہہ چکا ہوں کہ انہیں یا تو پرائیوٹ طور پر حکومت کے ساتھ یا کونسلوں کے ذریعہ سے بھی طے کیا جاسکتا ہے اس لئے ہمیں ان امور کے متعلق خاص نظام کے ماتحت جدوجہد کی ضرورت نہیں.اصل سوال جس کے لئے جماعت کو فکر تھی یہی تھا کہ امام جماعت احمدیہ کو خواہ مخواہ دق کیا جائے اور جماعت کے افسروں یا افراد کے افعال کو اس کی طرف منسوب کر کے اس کے کام میں روک ڈالی جائے اور چونکہ یہ امر صفائی سے طے ہو گیا ہے اس لئے باقی امور کے متعلق جماعت کو سر دست کسی تشویش کی ضرورت نہیں.بعض جماعتیں حکومت کے پاس اظہار ناراضی کے ریزولیوشن بھجوا رہی ہیں انہیں بھی
انوار العلوم جلد ۱۳ 346 حکومت پنجاب اور جماعت احمد یہ اس اعلان کے ذریعہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اب چونکہ اس حصہ کا تصفیہ ہو چکا ہے آئندہ کوئی جماعت اس بارہ میں کوئی ریزولیوشن پاس نہ کرے اور نہ حکومت کو بھجوائے.ہماری غرض کبھی بھی حکومت سے ٹکراؤ کی نہیں ہوئی اور نہ ہم بے جا فخر کو پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کی تذلیل چاہتے ہیں اور نہ ہم اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ حکومت کے وقار کو اس طرح گرایا جائے کہ اس کے لئے امن کا قیام مشکل ہو جائے.پس میں دل سے خوش ہوں کہ یہ معاملہ اس طرح طے ہو گیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس امر کا موقع عطا فرمایا کہ میں اپنی ساری توجہ اس حملہ کی طرف پھیر دوں جو دینی لحاظ سے سلسلہ احمدیہ پر کیا جا رہا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اس دوسری جنگ میں ان وعدوں اور عہدوں کے مطابق جو وہ کر چکی ہے اور اس کام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہمارے سامنے ہے ہرممکن قربانی کرے گی اور ہر مطالبہ پر جو میں اس سے کروں گا بشاشت قلب سے لبیک کہے گی.اے خدا ! تو انہیں ایسا ہی کرنے کی توفیق دے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار مرز امحموداحمد خلیفة المسیح ۱۷.دسمبر ۱۹۳۴ء (الفضل ۲۰.دسمبر ۱۹۳۴ء)
انوار العلوم جلد ۱۳ 347 افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ 348 افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قادیان کو فتح کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۳۶.دسمبر ۱۹۳۴ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.برادران! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء احسان ہے اور جس قدر بھی اس کا شکر ادا کریں تھوڑا ہے کہ اس نے ہمیں اپنا ذکر بلند کرنے کیلئے اور اپنی تسبیح وتحمید و تمجید کرنے کا موقع پھر ایک باراس مقام میں عطا کیا جس مقام کو اُس نے اپنی صفات کے ظہور کا اِس زمانہ میں مرکز مقر ر فرمایا ہے.ہم اُن دنوں کو نہیں بھول سکتے جب کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں پڑی تھی اور جب کسی شخص کے وہم وگمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ ہستی جسے اس کے ضلع کے لوگ بھی نہ جانتے تھے کسی وقت سارے جہان کا مرجع بن جائے گی.کبھی وہ وقت تھا کہ وہ شخص جس کے متعلق بعض دفعہ اُس کے والد کے گہرے دوست بھی اُس کا نام سن کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا مرزا غلام مرتضی صاحب کا کوئی اور بیٹا بھی ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے والد کے دوستوں میں سے کئی ایسے تھے جو سالہا سال کی ملاقات کے بعد یہ معلوم نہ کر سکے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے سوا ان کا کوئی اور بیٹا بھی ہے کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ گوشتہ تنہائی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے عادی تھے.اس وقت ہمارے ایک دوست سٹیج پر میرے پاس ہی بیٹھے ہیں، وہ سنایا کرتے ہیں ابتدائے ایام میں یعنی اپنی ابتدائی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُن کے والد صاحب مقدمات کی پیروی کیلئے بھیج دیا کرتے تھے.ایک اہم مقدمہ چل رہا تھا جس کی کامیابی پر خاندانی عزت اور خاندان کے وقار کا انحصار تھا حضرت
349 انوار العلوم جلد ۱۳ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے والد صاحب نے لاہور بھیج دیا کہ وہاں جا کر پیروی کریں چنانچہ آپ لمبا عرصہ جو مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے قریب تھا لا ہور رہے.قادیان کے سید محمد علی شاہ صاحب لاہور میں رہتے تھے، اُن کے پاس آپ ٹھہرے اور انہوں نے اپنے ایک دوست کی گاڑی کا انتظام کر دیا کہ جب چیف کورٹ کا وقت ہو آپ کو وہاں پہنچا آیا کرے اور جب وقت ختم ہو جائے آپ کو لے آئے.یہ بیان کرنے والے دوست کے والد صاحب کی گاڑی تھی.کئی دنوں کے انتظار کے بعد جب فیصلہ سنایا گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی سید محمد علی شاہ صاحب کے گھر آگئے.سید صاحب نے پوچھا آج آپ گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی آگئے.آپ بڑے خوش خوش تھے.فرمانے لگے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا اس لئے میں پہلے ہی آ گیا.سید صاحب نے آپ کی خوشی کو دیکھ کر سمجھا، مقدمہ میں کامیابی ہوئی ہوگی مگر جب پوچھا کہ کیا مقدمہ جیت گئے تو آپ نے فرمایا.مقدمہ تو ہار گئے مگر اچھا ہوا جھگڑا تو مٹا' اب ہم اطمینان سے خدا تعالیٰ کو یاد کر سکیں گے.یہ سن کر سید صاحب بہت ناراض ہوئے، اُس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی نہیں کیا تھا اور جب آپ نے دعوی کیا تو بھی کچھ عرصہ تک سید صاحب مخالف رہے انہوں نے ناراض ہو کر کہا اس مقدمہ کے ہار جانے سے تو آپ کے خاندان پر تباہی آ جائے گی اور آپ خوش ہو رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا.دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ حالت تھی آپ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے.آپ فرماتے اُسی خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک اُس نے مجھے مجبور نہیں کر دیا کہ دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑا ہوں، اُس وقت تک میں نے دنیا کی طرف توجہ نہ کی.گویا روحانی طور پر آپ غار حرا میں رہتے تھے جس میں رہتے ہوئے آپ کو دنیا کی کوئی خبر نہ تھی اور دنیا کو آپ کی کوئی خبر نہ تھی.اُس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ لے یعنی وہ وقت آگیا ہے کہ ہماری مدد تمہارے لئے نازل ہو دنیا میں تمہارا نام پہچانا جائے.پھر آپ کو بتایا گیا کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.پھر فرمایا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اب آپ لوگوں میں سے قریباً ہر شخص اس بات سے آگاہی رکھتا ہے کہ کتنے زور آور حملوں
انوار العلوم جلد ۱۳ 350 افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء سے ہر ایک کا دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے فتح کیا گیا اور کس طرح دنیا کے کناروں تک خدا تعالیٰ نے اس شخص کا نام پہنچایا جسے پہلے دنیا جانتی نہ تھی اور جب جانا تو اس لئے جانا کہ آپ کے نام کو مٹا دے.آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم احمدیت کو مٹا دیں گے، بعض کہتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو مٹا دیا، بعض اپنے ناموں کے ساتھ فاتح قادیان بھی لکھتے ہیں لیکن ہر بینا آنکھ اور ہر عقلمند انسان اس بات کو دیکھتا اور سمجھتا ہے کہ قادیان کو فتح کرنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا اور نہ ہوگا بلکہ قادیان ہی دنیا کو فتح کر رہی ہے.بھلا اس گوشئہ گمنامی کی بستی کے متعلق جہاں آنے کیلئے یکہ کی سواری بھی میسر نہ آتی تھی، جہاں ہفتہ میں دو دفعہ ڈاک آیا کرتی تھی، کون خیال کرسکتا تھا کہ دنیا کے دور دراز کے گوشوں سے لوگ یہاں آئیں گئے اس لئے نہیں کہ یہاں دنیوی ترقی کا سامان میسر آ سکتا ہے اس لئے بھی نہیں کہ کسی قسم کا کوئی جسمانی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے بلکہ اس لئے کہ یہاں آ کر روحانی غذا حاصل کریں گے.یہاں خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے.اس وقت پنجاب کے بڑے بڑے شہر بھی ایسے نہیں، جہاں ان ممالک اور ان علاقوں کے لوگ آکر اس کثرت سے رہتے ہوں جیسے کہ قادیان میں آتے اور رہتے ہیں.ایسے ایسے علاقوں اور ممالک کے لوگ قادیان میں آتے ہیں جہاں کے لوگ پنجاب سے واقف نہ تھے.مدراس کے علاقہ کے لوگ اور مالا بار کے علاقہ کے لوگ جتنی تعداد میں یہاں آتے اور رہتے ہیں، اتنی تعداد میں لا ہور میں بھی نہیں ہوں گے.اسی طرح سماٹرا اور جاوا کے لوگوں کی یہاں اتنی تعداد ہے جتنی لاہور میں نہ ہو گی.یہ بات کس طرح پیدا ہوئی ؟ اگر ان الفاظ کے پیچھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے، آسمانی طاقت نہ تھی تو ان باتوں کو کس نے قائم کر دیا.باوجود دنیا کی مخالفت کے خدا تعالیٰ نے ہی ان پیشگوئیوں کو پورا کیا.نادان خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قائم کئے ہوئے سلسلہ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے مٹا دیں گے.گو ظاہری حالات کے لحاظ سے سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ ہے اور اب بھی ایسی حالت میں ہے کہ دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی قوم اور چھوٹے سے چھوٹا فرقہ بھی اس سے زیادہ تعدا د رکھتا ہے.سکھ سب سے قلیل قوم ہیں لیکن ابھی سکھوں کی تعداد بھی احمدیوں سے زیادہ ہے اہلحدیث فرقہ کے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی تعداد
351 انوار العلوم جلد ۱۳ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء زیادہ ہے اور حنفیوں کی تعداد تو زیادہ ہے ہی، پھر ہندؤوں کی تعداد بہت زیادہ ہے گویا ہر فرقہ کی تعداد زیادہ ہے پھر باوجود اس کے کہ کسی فرقہ کی ایسی مخالفت نہیں کی جا رہی ہے جیسی جماعت احمد یہ کی کی گئی اور کی جارہی ہے مگر باوجود اس کے جماعت احمد یہ بڑھتی گئی، بڑھتی جا رہی ہے اور بڑھتی جائے گی.میں اپنے الفاظ میں نہیں کہتا کہ اسے کمر اور تکبر سمجھا جائے.میں خدا تعالیٰ کے ہی الفاظ دُوہراتا ہوں کہ ان کا بیان کرنا کبر نہیں بلکہ ان کا چھپا نا منافقت ہے کہ میں وثوق اور یقین کے ساتھ اس سے بھی زیادہ وثوق اور یقین کے ساتھ جو مجھے اس بات پر ہے کہ میں انسان ہوں کہتا ہوں اور اُن تک پہنچاتا ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ اور اُن کی اولادیں، پھر اُن کی اولادیں، اُن کے تمام دوست اُن کے تمام جتھے اور وہ تمام طاقتیں جو شیطان سے مؤید ہیں اور وہ تمام حکومتیں جو دنیا میں قائم ہیں، سب کی سب مل کر بھی اگر سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ سلسلہ جھوٹا ہوگا.مگر میں بتا چکا ہوں شیطان اپنے سارے لاؤلشکر سمیت حملہ کر کے دیکھ لے گا یہ سلسلہ بڑھے گا، بڑھے گا اور ضرور بڑھے گا، یہاں تک کہ وہ جو مٹانے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں وہ خود مٹ جائیں گے اور دنیا دیکھ لے گی کہ دنیا کی ہر بستی قادیان کی مظہر بن جائے گی یعنی دنیا کی ہر بستی میں احمدیوں کی حکومت ہوگی اور دوسروں کے مقابلہ میں ان کی تعداد زیادہ ہوگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ یہ جماعت بڑھتی جائے گی حتی کہ وہ لوگ جو جماعت سے الگ رہیں گئے اُن کی وہی حالت ہو جائے گی جو سائنسیوں وغیرہ کی آجکل ہے.خدا تعالیٰ کا یہ فرمودہ پورا ہوکر رہے گا.احمدیت کو مٹانے والے اپنا پورا زور لگالیں.بے شک ہم کمزور ہیں، ہم قلیل التعداد ہیں، ہم بے سروسامان ہیں، مگر یہ ترقی ہونے والی ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ ہوکر رہے گی کیونکہ:.قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا پس اے دوستو ! ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے جیسے چلتی گاڑی کو ہاتھ لگا کر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم اس گاڑی کو چلا رہے ہیں، حالانکہ گاڑی انجن چلا رہا ہوتا ہے.ہماری گاڑی کا انجن ، ڈرائیور اور گارڈ خدا ہے یہ گاڑی اُسی کی طاقت سے چلی اُسی کی حفاظت میں چل رہی ہے اور اسی کے چلانے سے چل سکتی ہے اور جس گاڑی کا انجن، گارڈ اور ڈرائیور خدا ہو اس کے لئے کونسا خطرہ ہو سکتا ہے.ہمارے لئے تو مفت کا اجر ہے کہ ہمارے متعلق سمجھا جاتا ہے دین کی خدمت کر رہے ہیں حالانکہ ہم کچھ نہیں کرتے.سب کچھ خدا تعالیٰ ہی کر رہا ہے اُسی نے کرنا ہے اور وہی کرے
انوار العلوم جلد ۱۳ 352 افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء گا.ہماری حالت تو وہی ہے کہ کسی نے کہا ہے:.ہم بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گئے غرض ہماری لہو لگانے والی بات ہے.مگر افسوس ہوگا اگر لہو لگانے میں بھی ہم میں سے کوئی کمزوری دکھائے، تلوار چلانا اور اپنا خون پیش کرنا تو بڑی بات ہے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو تھوڑی بہت قربانی کا موقع انہیں مل رہا ہے، اس سے انہیں اخلاص، محبت، جرات اور استقلال سے فائدہ اُٹھانا چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل نازل ہوں ، اس کی خاص برکتیں حاصل ہوں اور ہم ترقی کے اُس مقام پر پہنچ سکیں جس پر پہنچنا ہمارے لئے ضروری ہے.اس کے بعد ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ دعائیہ الفاظ لکھ کر دیئے ہیں جو آپ نے جلسہ پر آنے والوں کے متعلق تحریر فرمائے ہیں.میں وہ سناتا ہوں اور پھر خود بھی دعا کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہر ایک صاحب جو اس لکھی جلسہ کیلئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان تہی کیساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دے اور اُن کے ہم وغم دور فرما دے اور اُن کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اُٹھا دے جن پر اُس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا! اے ذوالحجد والعطا ء اور رحیم اور مشکل گشا ! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین یہ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کیلئے دعا ہے.میں بھی اسی اصل پر اس جلسہ کا افتتاح کروں گا.باقی اصل افتتاح تو اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ ۵ یعنی تیری مد دوہ کریں گے جن کو الہام ہوگا.پس جو بھی یہاں آتا اور جلسہ میں شامل ہوتا ہے وہ وحی پاتا ہے.گو اس کے کانوں نے وحی کی آواز کو نہ سنا مگر اُس کے دل نے سنا اور وہ خدا تعالیٰ کی وحی کا مورد ہوا.پس میں دعا کرتا ہوں کہ جلسہ میں شامل ہونے والے احباب پر خدا تعالیٰ خاص برکات نازل کرے.ان کے نیک ارادے پورے کرے اور ان کے اس اخلاص اور اس خدمت کو قبول کر کے انہیں دین
انوار العلوم جلد ۱۳ 353 افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء کیلئے اور زیادہ قربانیوں کی تو فیق عطا کرے.پھر ان پس ماندگان کا جن کے دل جلسہ میں شامل ہونے والوں کے ساتھ ہیں، ناصر اور مددگار ہو.ان پر بھی اپنی برکات نازل کرے.پھر یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ جو لوگ یہاں آئے ہیں وہ بہتر سے بہتر فوائد اور برکات حاصل کریں اور جب اپنے گھروں میں واپس جائیں تو ان برکات کو وہاں بھی پھیلائیں اور اس طرح خدا تعالیٰ سارے سال کو ہی ان کے لئے جلسہ بنا دے تاکہ ان کا کوئی دن ایسا نہ ہو جو کہ خدا کے لئے جمع ہونے اور دین کی خدمت میں صرف ہونے والا نہ ہو بلکہ ہر روز احباب خدا کے فضلوں اور برکتوں کے وارث ہوتے رہیں.بعض دوستوں نے تاریں دی ہیں کہ وہ جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے ان کے لئے دعا کی جائے ان کو میں بھی دعا میں یا درکھوں گا.ا تذکرہ صفحہ ۶۶.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۳۲.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۱۰۴.ایڈیشن چہارم مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۳۴۲ مطبوعہ ۱۹۷۱ء ۵ تذکرہ صفحہ ۵۰.ایڈیشن چہارم ( الفضل یکم جنوری ۱۹۳۵ء )
انوار العلوم جلد ۱۳ 354 بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاید از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی
355 انوار العلوم جلد ۱۳ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاھد انسانی کامیابی کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:.اول اعتقادات کی درستی کہ خیالات کی درستی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.خیال کی حیثیت روشنی کی ہوتی ہے اور اس کے بغیر انسان اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے.دوسرے عمل کی درستی.عمل اگر درست نہ ہوتب بھی انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.عمل کی مثال ہاتھ پاؤں کی ہے اگر ہاتھ پاؤں نہ ہوں تب بھی انسان اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا.تیسرے محرک.اگر محرک نہ ہو تب بھی انسان کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ خیالات خواہ درست ہوں، عمل خواہ درست ہو لیکن محرک موجود نہ ہو تو انسان کے عمل میں استقلال نہیں پیدا ہوتا.استقلال جذبات کی شدت سے پیدا ہوتا ہے.پس جب جذبات کمزور ہوں تو انسان استقلال سے کام نہیں کر سکتا.آب اے دوستو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کے سینہ کو حق کے لئے کھولے اگر آپ غور کریں اور اپنے دل سے تعصب کے خیالات کو دور کر دیں اور ہار جیت کی کشمکش کو نظر انداز کر دیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی کے وقت بھی اور آج بھی یہ تینوں باتیں مسلمانوں سے مفقود ہیں اور صرف بانی سلسلہ احمدیہ کی بدولت یہ تینوں چیزیں جماعت احمدیہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بانی سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے راستباز بندے تھے اور اس کی طرف سے مامور.اے دوستو ! میں کس طرح آپ کے سامنے اپنا دل چیر کر رکھوں اور کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ آپ کی محبت اور آپ کی خیر خواہی میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور
356 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد اگر ایک طرف میرے ہر ذرہ جسم پر اللہ تعالیٰ کی محبت قبضہ کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسی کے حکم اور اسی کے ارشاد کے ماتحت آپ لوگوں کی خیر خواہی اور آپ کی بھلائی کی تڑپ بھی میرے جذبات میں ایک تلاطم پیدا کر رہی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ میں آپ کو دھوکا دینے کیلئے یہ سطور نہیں لکھ رہا نہ آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں اور نہ آپ پر اپنی بڑائی جتانے کے لئے لکھ رہا ہوں بلکہ میرا پیدا کرنے والا اور میرا مالک جس کے سامنے میں نے مرکز پیش ہونا ہے اس امر کا شاہد ہے کہ میں آپ کی بہتری اور بہبودی کیلئے یہ سطور لکھ رہا ہوں اور سوائے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے میری اور کوئی غرض نہیں اور اس لئے ہی آپ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کریں کہ کیا یہ تینوں باتیں جو مذہب و جماعت کی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں دوسرے مسلمانوں میں موجود ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر آپ غور کریں کہ میں جو آپ کو کامیابی کی راہ کی طرف بلاتا ہوں آپ کا دوست ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو اس سے روکتے ہیں وہ آپ کے دوست ہیں؟ میں آپ کو تفصیل میں ڈالنا پسند نہیں کرتا اور ایک مختصر اشتہار میں تفصیل بیان بھی نہیں کی جاسکتی مگر میں اعتقادات میں سے صرف ایک اعتقاد کو لے لیتا ہوں اور وہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا عقیدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا، اُس وقت سب مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آئندہ کسی وقت دنیا میں تشریف لائیں گے اور کافروں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے.ہر تعلیم یافتہ آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ خواہ غلط ہو خواہ صحیح قوم کے خیالات اور اعمال پر کیسے گہرے اثر ڈال سکتا ہے اور مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا بھی.جب مرزا صاحب علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ یہ عقیدہ نہایت خطرناک ہے اُس وقت صرف سرسید اور ان کے ہمنوا وفات مسیح کے قائل تھے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مسیح کا زندہ آسمان پر ہونا قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ امر قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور چونکہ سرسید قانونِ قدرت کے خلاف جسے وہ معلومہ سائنس کے مترادف خیال کرتے تھے کوئی فعل جائز نہ سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس عقیدہ کا بھی انکار کیا لیکن یہ ظاہر ہے کہ مذہب سے لگاؤ رکھنے والوں کیلئے یہ دلیل تسلی کا موجب نہیں ہوسکتی، وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو صرف اس کے ارادہ کی حد بندیوں میں رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور انسان کے محدود تجربہ کو قانونِ قدرت کا
357 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد عظیم الشان نام دینے کو تیار نہیں ہوتے نتیجہ یہ ہوا کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے اس دعوی کو پیش کیا تو سب فرقوں کی طرف سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آپ کو معجزات کا منکر اور نبوت کا منکر اور قدرت الہی کا منکر اور مسیح ناصری کی بہتک کرنے والا اور نہ معلوم کیا کیا کچھ قرار دیا گیا.اس واقعہ کو صرف سنتالیس سال کا عرصہ ہوا اور ان تماشوں کو دیکھنے والے لاکھوں آدمی اب بھی موجود ہیں.ان سے دریافت کریں اگر آپ اس وقت پیدا نہ ہوئے تھے یا بچے تھے اور پھر سوچیں کہ مسلمانوں کے دل پر اس عقیدہ کا کتنا گہرا اثر تھا.بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اعلان وفات مسیح سے وہ یوں معلوم کرتے تھے کہ گویا ان کا آخری سہارا چھین لیا گیا ہے لیکن آپ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کی اور برابر قرآن کریم ، حدیث اور عقل سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرتے چلے گئے.آپ نے ثابت کیا کہ:.(۱) قرآن کریم کی نصوص صریحہ مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ قرار دیتی ہیں مثلاً وہ مکالمہ جو قیامت کے دن حضرت مسیح علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوگا اور جس کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ مائدہ میں ہے صاف بتاتا ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے مشرک نہیں بنے.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ سمجھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی لوگ ابھی حق پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ہی نہیں پیدا ہوئی.(۲) احادیث میں صریح طور پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ہمارے آقاسید دو جہان سے دو گئی تھی سے پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھا جائے تو حضرت عیسی کی عمر اس وقت تک بھی تھیں گئے تک پہنچ جاتی ہے اور نہ معلوم آئندہ کس قدر فرق بڑھتا چلا جائے.(۳) اگر حضرت مسیح علیہ السلام واپس تشریف لاویں تو اس سے ختم رسالت کا انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نبوت کا مقام پاچکے تھے اور آپ کا پھر دوبارہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو کر حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت سے دنیا آخری استفادہ کرے گی.(۴) اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہونگے تو اس میں حضرت مسیح کی ہتک ہے کہ وہ نبوت مستقلہ کے مقام سے معزول ہو کر ایک امتی کی حیثیت سے نازل کئے جائیں گے.(۵) اسی عقیدہ سے امت محمدیہ کی بھی ہنک ہے کہ پہلی امتیں تو اپنے اپنے زمانہ میں اپنے قومی
358 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد فسادوں کو دور کرنے کیلئے ایسے آدمی پیدا کرسکیں جنہوں نے ان مفاسد کو دور کیا لیکن اُمتِ محمد یہ پہلے ہی صدمہ میں ایسی ناکارہ ثابت ہوگی کہ اسے اپنی امداد کیلئے باہر کی مد کی ضرورت پیش آئے گی.(۶) اس عقیدہ سے عیسائی مذہب کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مسیحی مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ تمہارا رسول فوت ہو چکا ہے ہمارا مسیح زندہ ہے اور جب تمہارے رسول کی امت گمراہ ہو جائے گی اس وقت ہمارا مسیح تمہارے عقیدہ کی رُو سے ان کے بچاؤ کیلئے آسمان سے نازل ہوگا.اب بتاؤ زندہ اچھا ہوتا ہے یا مردہ اور مدد مانگنے والا بڑا ہوتا ہے یا مدد دینے والا جب کہ مدد مانگنے والے کا اس پر کوئی احسان نہ ہو.(۷) اس عقیدہ سے مسلمانوں کی قوۃ عملیہ جاتی رہی ہے کیونکہ جب کسی قوم کو خیال ہو جائے کہ بجائے انتہائی قربانیوں سے اپنی حالت بدلنے کے اسے خود بخود کسی بیرونی مدد سے ترقی تک پہنچا دیا جائے گا تو اس کی عزیمت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے عمل میں ضعف پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ اس کا اثر مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے.یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ دلائل کا ایک ذخیرہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا لیکن مسلمانوں نے ان دلائل پر کان نہ دھرا اور اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے.اب اے دوستو ! آپ خود ہی غور کریں کہ کیا اوپر کے دلائل ایسے نہیں کہ جنہیں سن کر ہر دردمند کا دل اسلام کے درد سے بھر جاتا ہے اور وہ اس عقیدہ کی شناعت اور بُرائی سے آگاہ ہو جاتا ہے.آپ سوچ سکتے ہیں کہ گو یہ عقیدہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے.پس اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر بھی زور دیا درست تھا اور آپ کی یہ خدمت اسلام کی عظیم الشان خدمت تھی اور مسلمانوں پر احسان.مسلمان اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر اس کا اثر کیا ہوا؟ سو آپ کو معلوم ہو کہ یا تو ہرمر وفات مسیح کے عقیدہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا یا اب اکثر تعلیم یافتہ طبقہ حضرت مسیح ناصری کو وفات یافتہ کہتا ہے اور کفر کا فتویٰ لگانے والے علماء اس مسئلہ پر بحث کرنے سے کترانے لگ گئے ہیں اور یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہمیں اس سے کیا کہ عیسی مر گیا یا زندہ ہے لیکن اے دوستو! یہ جواب درست نہیں جس طرح پہلے انہوں نے غلطی کی تھی اب بھی وہ غلطی کرتے ہیں.جب کہ یہ ثابت ہے کہ حیات مسیح کے عقیدہ سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے تو پھر یہ
359 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد کہنا کہ ہمیں کیا مسیح زندہ ہیں یا مر گئے پہلی بیوقوفی سے کم بیوقوفی نہیں کیونکہ اس کے معنی تو یہ بنتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی جاتی ہے، ہمیں اس سے کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے، ہمیں اس سے کیا کہ اسلام کو نقصان پہنچتا ہے مگر بہر حال اس تغیر مقام سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دل اس عقیدہ کی غلطی کو تسلیم کر چکے ہیں گو ضد اور ہٹ صفائی کے ساتھ اس کے تسلیم کرنے میں روک بن رہے ہیں مگر کیا وہ لوگ اسلام کے لیڈر کہلا سکتے ہیں جو صرف اس لئے ایک ایسے عقیدہ پر پردہ ڈال رہے ہوں جو اسلام کیلئے مضر ہے کہ ایسے ردّ کرنے سے لوگوں پر یہ کھل جائے گا کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں غلہ یں غلطی کی تھی.بہر حال علماء جو رویہ چاہیں اختیار کریں ہر اک مسلمان پر اب یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ عقائد کی جنگ میں دوسرے علماء مرزا صاحب علیہ السلام کے مقابل پر سخت شکست کھا چکے ہیں اور وہ مسئلہ جس کے بیان کرنے پر علماء نے بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا آج اکثر مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں قائم ہو چکا ہے اور یہ پہلی شہادت مرزا صاحب کی صداقت کی ہے.دوسری چیز جس سے انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے درستی عمل ہے اور اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوششوں میں سے میں ایک کوشش کو بطور نمونہ پیش کرتا ہوں.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا مسلمانوں کی عملی سستی اور بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی، عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہورہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنے کیلئے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے.اسلام کے خادم اپالوجسٹس (APOLOGISTS) کی صفوں میں کھڑے ان اسلامی عقائد کیلئے جنہیں یورپ نا قابل قبول سمجھتا تھا معذرتیں پیش کر رہے تھے.اُس وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے ان طریقوں کے خلاف احتجاج کیا، اُس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں.اس کا ہر حکم حکمتوں سے پر اور اس کا ہر ارشا د صداقتوں سے معمور ہے.اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اُس کے قریب نہیں لے گئے پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے.اُس وقت جب کہ یورپ کو اسلام کا خیال بھی نہیں آ سکتا تھا انہوں نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کروا کے یورپ میں تقسیم کرائے اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت عطا فرمائی تو آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جہاد کسی وقت چھوڑا انہیں جا سکتا.جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں کہ جن پر عمل
360 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دوصورتیں مقرر کی ہیں، ایک جنگ کے ایام کیلئے اور ایک صلح کے ایام کے لئے.جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تو اُس وقت ان کیلئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اُس وقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا.اس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تا کہ اسلام جس طرح جنگ کے ایام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے اور دونوں زمانے اس کی روشنی کے پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوت عملیہ کمزور نہ ہو.یادر ہے کہ اس جہاد کا ثبوت قرآن کریم میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے.فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيراً کے یعنی کفار کی باتوں کو مت مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ان سے جہاد کبیر کرتا چلا جایہاں تک کہ لوگوں کے دلوں پر فتح پالے.افسوس کہ مسلمانوں کی عملی طاقتیں چونکہ ماری گئی تھیں ان کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہ کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلہ احمد یہ جہاد کے منکر ہیں حالانکہ یہ سراسر بہتان اور جھوٹ تھا.بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر نہ تھے بلکہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکانِ اسلام کی طرح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میں نہیں ہوسکتا اور چونکہ جماعت کا سُست ہو جانا اس کی ہلاکت کا موجب ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں.جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہو تلوار کا جہاد فرض ہے اور جب لو ہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے.غرض جہاد کسی وقت نہیں چھوڑا جا سکتا.کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ سے جہاد کرنا پڑے گا اور کبھی قرآن کے ذریعہ سے.وہ جہاد کو کسی وقت بھی چھوڑ نہیں سکتے.
361 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد غرض یہ عجیب اور پُر لطف جنگ تھی کہ جو شخص جہاد کیلئے مسلمانوں کو بلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اُسے جہاد کا منکر کہا جاتا تھا اور جو لوگ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کا جہاد کر رہے تھے انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جاسکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا ؟ اسلام حضرت زین العابدین کی طرح میدان کربلا میں بے یارومددگار پڑا تھا اور مسلمان علماء جہاد کی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کیلئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنانِ اسلام کیلئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا.شاید کوئی یہ کہے کہ دوسرے مسلمان بھی تو تبلیغ کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَ رَائِهِ جہاد امام کے پیچھے ہوتا ہے بغیر امام کے نہیں اور مسلمان اس وقت کسی امام کے ہاتھ پر جمع نہیں.پس ان کی تبلیغ تو بھاگی ہوئی فوج کے افراد کی منفر دانہ جنگ ہے.کبھی اس طرح فتح حاصل نہیں ہوتی.فتح تو منظم فوج کو ہوتی ہے جس کا افسر سب امور پر غور کر کے مناسب مقامات حملے کیلئے خود تجویز کرتا اور عقل اور غور سے جنگ کے محاذ کو قائم کرتا ہے.پس بعض افراد کی منفردانہ کوششیں جہاد نہیں کہلاسکتیں.آج اس قدر لمبے عرصہ کے تجربہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پر وگرام جو بانی سلسلہ نے قائم کیا تھا وہی درست ہے پچاس سال کے شور کے بعد مسلمان تلوار کا جہاد آج تک نہیں کر سکے کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں کسی کو آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی.قرآن کریم سے جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی ہے.وہ لاکھوں آدمی ان مولویوں کی مخالفت کے باوجود چھین کر لے گئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ہزار ہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولی کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشانِ اسلام میں شامل کر چکے ہیں اور وہ جو پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے آج ان پر درود بھیج رہے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تنظیم کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم کیوں پیدا ہوئی اور کیوں دوسروں سے تنظیم کی تو فیق چھن گئی ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوت عملیہ پیدا کرنے کا صحیح نسخہ استعمال نہیں کیا گیا.جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی، جس قوم کو ہر وقت جہاد میں نہ لگایا جائے وہ خاص مواقع پر بھی جہاد نہیں کر سکتی پس اس معاملہ میں بھی فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
362 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد حاصل ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ جس نکتہ تک آپ کا دماغ پہنچا دوسروں کا نہیں پہنچا.دنیا نے آپ کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی، آپ نے دنیا کے چیلنج کو قبول کیا اور فتح حاصل کی.تیسرا ذریعہ انسانی کامیابی کا محرک صحیح کا میسر آنا ہے.بانی سلسلہ کے دعویٰ کے وقت محرک کے بارہ میں بھی آپ میں اور دوسرے علماء میں اختلاف ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے سامنے حقیقت پیش کی کہ انسانی زندگی کا نقطہ مرکزی محبت الہی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندہ کا تعلق محبت کا ہے تو سزا تابع ہے انعام اور بخشش کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتدا بھی رحمت سے کی جاتی ہے اور انتہاء بھی رحمت سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندہ کو عبودیت اور بخشش کیلئے پیدا کیا ہے اور ہر بندہ کو یہ چیز نصیب ہو کر رہے گی.یہ جذبہ محبت پیدا کر کے آپ نے اپنی جماعت کے دلوں میں عمل کا یہ محرک پیدا کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قد راحسانات ہیں تو ہمیں بھی اس کے جواب میں بطور اظہارِ شکر یہ اس مقصود کو پورا کرنا چاہئے جس کے لئے اُس نے دنیا کو پیدا کیا ہے.اس محبت الہی کے جذبہ نے انہیں تمام انعامات اور تمام دیگر خواہشات سے مستغنی کر دیا ہے.وہ عہدوں اور جزاء کے امیدوار نہیں.وہ سب ماضی کو دیکھتے ہیں اور آئندہ کیلئے خدا تعالیٰ سے سودا نہیں کرنا چاہئے.اس محرک کے متعلق بھی علماء نے اختلاف کیا وہ محبت کے جذبہ کو کچلنے میں لطف محسوس کرتے تھے.انہیں اس امر کا شوق تھا کہ دنیا کے سب بزرگوں کو جن کا نام قرآن کریم میں مذکور نہیں جھوٹا اور فریبی کہیں، انہیں شوق تھا کہ وہ اپنے اور یہود کے باپ دادوں کے سوا سب کو جہنم میں دھکیل دیں، وہ اس امر میں مسرت حاصل کرتے تھے کہ ایک دفعہ جہنم میں دھکیل کر وہ پھر کسی کو باہر نہیں نکلنے دیں گئے انہیں محبت الہی کے لفظ پر اعتراض نہ تھا لیکن وہ محبت پیدا کرنے کے سب ذرائع کو مٹا دینا چاہتے تھے وہ خدا تعالیٰ کو ایک بھیانک شکل میں پیش کر کے کہتے تھے کہ ہمارا یہ خدا ہے، اب جو چاہے اس سے محبت کرے مگر کون اس خدا سے محبت کر سکتا تھا، نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے محرک حقیقی کوئی باقی نہ رہا تھا.چند وقتی سیاسی ضرورتیں، چند عارضی قومی جھگڑے انہیں کبھی عمل کی طرف مائل کر دیں تو کر دیں لیکن مستقل آگ ہمیشہ رہنے والی جلن انہیں نصیب نہ تھی.مگر مرزا صاحب علیہ السلام نے باوجود کفر کے فتووں کے اس بات کا اعلان کیا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں، راستباز ظاہر ہوئے ہیں اور جس طرح موسیٰ علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ تھے کرشن، رامچند ر، بدھ ، زردشت بھی خدا کے برگزیدہ تھے.اُس نے ہمیشہ محبت اور بخشش کا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھایا ہے اور آئندہ بڑھا تا
363 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد رہے گا.نیز یہ کہ جس طرح وہ ماضی میں بخشش کا ہاتھ بلند کرتا رہا ہے آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرے گا اور دائی دوزخ کسی کو نہ ملے گی سب بندے آخر بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سزا بطور علاج ہوتی ہے نہ بطور ایذاء اور تکلیف دہی کے.آہ! علماء کا وہ غصہ دیکھنے کے قابل تھا جب انہوں نے مرزا صاحب کے یہ الفاظ سنے جس طرح سارا دن کی محنت کے بعد شکار پکڑ کر لانے والے چڑی مار کی چڑیاں کوئی چھوڑ دے تو وہ غصہ میں دیوانہ ہو جاتا ہے اسی طرح علماء کے چہرے غصہ سے سرخ ہو گئے اور یوں معلوم ہوا جیسے کہ ان کے پکڑے ہوئے شکار مرزا صاحب نے چھوڑ دیئے ہیں.مگر بانی سلسلہ نے ان امور کی پرواہ نہیں کی انہوں نے خود گالیاں سنیں اور ایذائیں برداشت کیں لیکن خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا راستہ کھول دیا اور اعمال مستقلہ کیلئے ایک محرک پیدا کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی وہ آگ پیدا ہوگئی جو انہیں رات دن بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لانے پر مجبور کر رہی ہے.عشق آه! کیسا پیارا لفظ ہے یہ عشق کی آگ ہمارے دلوں میں مرزا صاحب نے پیدا کر دی عشق زبردستی نہیں پیدا ہوتا.عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے یا احسان سے.ہم ایک حسین یا محسن کو بدنما صورت میں پیش کر کے عشق نہیں پیدا کر سکتے.عشق حُسن واحسان سے ہی پیدا ہوتا ہے اور مرزا صاحب نے ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کو جس صورت میں پیش کیا وہ حقیقی حسن اور کامل احسان کو ظاہر کرنے والا تھا اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ دنیا کے سامنے موجود ہے.ہم دیوانے ہیں خدا تعالیٰ کے ہم مجنون ہیں اس حُسن کی کان کے فریفتہ ہیں اس احسانوں کے منبع کئے اس کی رحمتوں کی کوئی انتہا نہیں، اس کی بخششوں کی کوئی حد نہیں، پھر ہم کیوں نہ اسے چاہیں اور کیوں اس محبت کرنے والی ہستی کی طرف دنیا کو کھینچ کر نہ لاویں.لوگوں کی بادشاہت ملکوں پر ہے ہماری بادشاہت دلوں پر ہے.لوگ علاقے فتح کرتے ہیں ہم دل فتح کرتے ہیں اور پھر انہیں نذر کے طور پر اپنے آقا کے قدموں پر لا کر ڈالتے ہیں.بھلا ملک فتح کرنے والے اپنے خدا کو کیا دے سکتے ہیں کیا وہ چین کا محتاج ہے یا جاپان کا ؟ لیکن وہ پاک دل کا تحفہ قبول کرتا ہے محبت کرنے والے قلب کو شکریہ سے منظور کرتا ہے.پس ہم وہ چیز لاتے ہیں جسے ہمارا خدا قبول کرنے کیلئے تیار ہے کیونکہ ہم اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے بلکہ خدا تعالیٰ کیلئے چاہتے ہیں.اب اے دوستو! دیکھو کیسا زبر دست محرک ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کر دیا ہے.ہمیں اب اس سے غرض نہیں کہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہو رہی ہے یا سکھ مسلمان کی یا عیسائی
364 انوار العلوم جلد ۱۳ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد مسلمان کی ، ان عارضی محرکات سے ہم آزاد ہیں.یہ لڑائیاں تو ختم ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی جوش بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور عمل ختم ہو جاتا ہے.ہمارا محرک تو محبت الہی ہے جو کسی عارضی تغیر سے متأثر نہیں، یہ عشق کسی وقت میں بیکار بیٹھنے نہیں دیتا اس لئے ہمارا مقام ہر وقت آگے ہے ہماری رفتار ہر وقت تیز ہے بڑا کام ہمارے سامنے ہے لیکن ایک بڑی بھٹی بھی ہمارے دلوں میں جل رہی ہے جو ہر وقت بانی سلسلہ کی دور بینی اور حقیقت مینی پر شاہد ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى خَلِيفَتِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِک وَسَلَّم - اے دوستو! ہزاروں گواہ بائی سلسلہ کی سچائی کے ہیں لیکن یہ تین گواہ میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں اور عقملند کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے.پس آپ ان امور پر غور کریں اور جدھر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اشارہ کر رہا ہے اُدھر چل پڑیں.یہ عمر چند روزہ ہے اور اس دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں.اُس جگہ اپنا گھر بنائیں جو فنا سے محفوظ ہے اور اُس یار سے اپنا دل لگا ئیں جس کی محبت ہر نقص سے پاک کر دینے والی ہے.ایک عظیم الشان نعمت کا دروازہ آپ کے لئے کھولا گیا ہے اس دروازہ سے منہ موڑ کر دوسری طرف نہ جائیں کہ بَاطِنُهُ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﷺ کا ارشاد آپ کو اس سے روک رہا ہے.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ آپ کی ہمدردی نے مجھے اس پیغام پر مجبور کیا ہے اور کسی نفسانی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی ہمدردی کی وجہ سے میں نے یہ آواز اُٹھائی ہے.پس ایک دردمند کی آواز سنیں اور ایک خیر خواہ کی بات پر کان دھر لیں کہ اس میں آپ کا بھلا ہوگا اور آپ کا دین اور دنیا دونوں اس سے سُدھر جائیں گے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اسے قبول کریں اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو عین راحت سمجھیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ (مطبوعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۴ء کو آپر یٹوسٹیم پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگس لاہور ) المائدة: ۱۱۸۱۱۷
انوار العلوم جلد ۱۳ 365 بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے تین شاہد کنز العمال جلد ۱۳ صفحه ۶۷۶ دار الکتب الاسلامی حلب الفرقان: ۵۳ بخارى كتاب الجهاد والسير باب يُقَاتَلُ مِنْ وَّرَاءِ الْإِمَامِ وَيُتَّقَى بِهِ الحديد: ۱۴
انوار العلوم جلد ۱۳ 366 مستورات سے خطاب (فرموده ۲۷ - دسمبر ۱۹۳۴ء) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی مستورات سے خطاب
انوار العلوم جلد ۱۳ 367 مستورات سے خطاب بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مستورات سے خطاب فرموده ۲۷.دسمبر ۱۹۳۴ء) حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہمارے ملک بلکہ تمام ملکوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عورتیں جو ہیں وہ طبعی طور پر اور فطری طور پر کوئی بڑا کام کرنے کی اہل نہیں تو عورتوں کو چاہئے تھا کہ وہ بڑے کام کر کے ان کے اس خیال کو غلط ثابت کرتیں لیکن بر خلاف اس کے وہ بھی اس پر قانع ہو گئیں.کیا واقعی وہ کسی بڑے کام کی اہل نہیں ؟ اور کیا اس کی بڑی بھاری وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں فرمایا کہ دوزخ میں میں نے بہت سی عورتیں دیکھیں بوجہ احسان فراموش ہونے اور بوجہ ناقص العقل اور بوجہ ناقص الدین ہونے کے لے حضور کا یہ فرمانا تو عورتوں کو اُن کے نفس سے آگاہ کرنے کیلئے تھا کہ دیکھو تمہارے یہ نقص تم کو دوزخ میں لے جانے کے محرک ہیں، احسان کی قدر نہ کرنا یہ فطرت نہیں ہو سکتی بلکہ یہ عادت ہے دیکھو اگر ایک چور چوری کرتا ہے تو چوری اُس کی فطرت نہیں بلکہ عادت ہے، اگر عورتوں کی عادت احسان فراموشی کرنا ہے تو یہ عادت جو ہے وہ بدلی جاسکتی ہے لیکن اس وقت کے جاہل علماء نے عورتوں کو بجائے یہ بتانے کے کہ تم میں یہ عادات خراب ہیں ان کو چھوڑ دو ان کو یہ بتلایا کہ تمہاری فطرت ہی ایسی ہے کہ تم اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتیں اور عورتوں نے بھی کہہ دیا کہ اچھا ایسا ہی سہی.پس جب طبیعت کسی بیماری کا علاج نہ کرے اور مریض تسلی پا جائے تو پھر نتیجہ ہلاکت ہی ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ اللہ وسلم نے یہ فرما کر کہ عورتیں بوجہ اس کے دوزخ میں جائیں گی کہ وہ احسان فراموش ہیں، ناقص ہیں دین میں اور ناقص ہیں عقل میں ان کو غیرت دلائی کہ تم ان عادتوں کو چھوڑ دو تو جنت میں
انوار العلوم جلد ۱۳ 368 مستورات سے خطاب داخل ہو جاؤ گی.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ آپ کے پاس آئیں تو آپ نے خوش طبعی کے طور پر کہا کہ بوڑھا تو جنت میں داخل ہو ہی نہیں سکتا.وہ بہت پریشان ہوئیں تو آپ نے فرمایا کہ جنت میں سب جوان ہو کر داخل ہوں گے ۲.تو مطلب آپ کا عورتوں کو کہنے کا یہی تھا کہ تم احسان فراموشی چھوڑ دو اور اپنی عقلوں کو بڑھاؤ.اکثر بچوں کو دیکھا ہے کہ پہلے عقل کم ہوتی ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ عقل درست ہو جاتی ہے.تو اب اگر عورتوں کو بھی ایسا کہا کہ تم عقل میں یا دین میں ناقص ہو تو کیا وہ عقل یا دین چھوڑ کر بیٹھ جائیں.نہیں ہرگز نہیں.کیونکہ تم ناقص ہو دین میں.اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ تم دین چھوڑ کر ہی بیٹھ جاؤ بلکہ یہ تھا کہ تم دین سیکھو.ہم دیکھتے ہیں بچے سکولوں میں جاتے ہیں اور شروع میں کچھ نہیں جانتے لیکن آخر سیکھ کر جانتے ہیں تو کیا شروع میں پڑھنا نہ آئے تو پڑھنا ہی چھوڑ دیا جائے ؟ یہ تو نصیحت تھی کہ احسان فراموشی چھوڑ دو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ آپ سے پہلے عورتوں کو جانوروں کی طرف سمجھا جاتا تھا اور طرح طرح کے ناقص نام رکھے جاتے تھے اور اب بھی اکثر قو میں ان میں روح ہی نہیں مانتیں.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر احسان کیا ہے یہ فرما کر کہ عورت اور مرد انسانیت میں برابر ہیں.سے ہم تو دیکھتے ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ عورت دیندار ہوتی ہے اور مرد دین میں کمزور عورت عقلمند ہوتی ہے اور مرد عقل میں کمزور یہ کتنا بڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں پر احسان کیا.تو عورتوں کا فرض تھا کہ اس احسان کے شکریہ میں اشاعتِ اسلام کرتیں لیکن یہ سب قصور علمائے زمانہ کا ہے انہوں نے عورتوں کو یہ بتلایا کہ تمہاری عقل اور ذہن کمزور ہے تم کچھ کر ہی نہیں سکتیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو غیرت دلائی تھی کہ تم کہاں بغیر امر صالح کے جنت میں داخل ہو سکتی ہو عقل نہیں سیکھتی ہو دین کے کام نہیں کرتی ہو.عقل کام سے آتی ہے اور کام سیکھنے سے آتے ہیں لیکن اس کا الٹا مفہوم سمجھانے کا قصور مولویوں کا ہے.آج میں نے تمہیں حدیث کی حقیقت سمجھا دی ہے تا کہ تم اچھی طرح سمجھ لو کہ اس کا مطلب یہ تھا.اب اس نصیحت کے بعد جو تمہید ہے میرے مضمون کی ، یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی خدمت کا یہ نادر موقع ہے کیونکہ اسلام کا آدھا دھڑ مولویوں نے مار دیا تھا کہ عورتیں ناقص العقل ہیں وہ کچھ کر ہی نہیں سکتیں اور اسلام کے متعلق ایسی ایسی باتیں مسلمانوں میں پیدا کی تھیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو گیا کہ تمام انبیاء مس شیطان سے مبرا نہیں.الغرض سارے انبیاء پر کچھ نہ
369 انوار العلوم جلد ۱۳ مستورات سے خطاب کچھ عیب لگائے ہوئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر اسلام کی اصل تصویر پیش کی.علماء نے لوگوں میں یہ پھیلایا ہوا تھا کہ قرآن کریم کی بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ماننے کے قابل نہیں.اگر وہ سب میں تم کو بتاؤں تو تم حیران ہو جاؤ.یادرکھو اسلام وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا ہے.حقیقی اسلام ہے تو وہ احمدیت ہی ہے.پس اگر اس وقت احمدیت خطرے میں ہے تو اسلام خطرے میں ہے.اب جو اسلام مولوی پیش کرتے ہیں وہ ہر گز ماننے کے قابل نہیں.غیر مسلموں کے سامنے یہ اسلام کی تعلیم بُرے رنگ میں پیش کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی غیر مسلم مسافر ا کیلا مل جائے تو اُس کا مال چھین لو اگر کسی کافر کی بیوی مل جائے تو بغیر نکاح کے جائز تو ایسے اسلام کو کون مانے گا.پھر علماء کہتے ہیں کہ جہاد کا مسئلہ اصل اسلام ہے ہندؤ عیسائی، سکھ جو بھی ہو اُس کا قتل جائز اُس کا مال لے لینا جائز.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ امرتسر گیا اور ایک آدمی کو چار آنے دیئے کہ کچھ مٹھائی خرید لاؤ.جب وہ چیز لے کر واپس آیا تو پیسے بھی اُس کے ہاتھ میں تھے.میں نے پوچھا تم چیز بھی لائے ہو اور پیسے بھی واپس لائے ہو کہنے لگا کہ یہ مال غنیمت کا ہے میں نے دکان دار کو کہا کہ اندر سے دوسری چیز مجھے لا کر دکھاؤ.وہ اندر سے چیز لینے گیا تو میں نے اٹھنی اُس کی اُٹھالی.میں نے کہا تم نے یہ چوری کی ہے.کہنے لگا وہ تو ہندو تھا مسلمان نہ تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ احسان ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم پیش کی ہے.اگر کوئی اسلام کی یہ تعلیم پیش کرے کہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہوان کو مارو اُن کی چوری کرو تو کیا کوئی ایسے اسلام کو مانے گا ؟ ہر گز کوئی مانے کو تیار نہ ہوگا.اس بناء پر وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ کر دیا ہے اور آج کل مولویوں نے جگہ جگہ جتھے بنائے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے اور یہ اس کے برخلاف ہیں اس لئے ان کو اور ان کی جماعت کو تباہ کر دو کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار توڑ دی.وہ جماعت احمدیہ کی تباہی و ایذا رسانی کے کیوں درپے ہیں ؟ اسی لئے کہ حضرت صاحب نے ظلم اور بے ایمانی دور کی.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو کابل والوں نے اسی لئے مروایا تھا کہ وہ کہتے تھے انگریزوں کو نہ مارو.اسی طرح ایک اور احمدی تھا جوا کیلا تھا اُس کا باپ اور رشتہ دار غیر احمدی تھے.اُس کو کھانا کھلانے سے پہلے اِس طرح مارا جا تا تھا جیسے کھانے کے ساتھ سالن لیا جاتا ہے اور ہر روز اُسے اِسی طرح مارا جاتا تھا.ایک دفعہ اُس کے بھائی اُس کو مار رہے تھے کہ اُس کا باپ آ گیا وہ چلایا کہ میں مر گیا.تو اُس کے باپ کو کچھ رحم آ گیا اور کہا کہ اس کو چھوڑ دو.
انوار العلوم جلد ۱۳ 370 مستورات سے خطاب دو سال برابر اُس کی یہی حالت رہی اس پر غصہ صرف یہی تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے.اسی طرح نارووال کا ایک شخص جو تجارت کیا کرتا تھا اُس کو بڑی تکلیفیں پہنچائی گئیں.کابل کی حالت تم سن چکی ہو جو جو حالات وہاں پیش آتے رہے ہیں.پھر لاہور اور بعض جماعتوں کے احمدی تبلیغ کیلئے گئے تو کئی سو آدمی ان کے پیچھے پڑے گتے اُن کے پیچھے ڈالے گئے، بعض عورتیں جو احمدی ہوگئیں یا غلطی سے غیر احمدیوں کے ہاں بیاہی گئیں اُن کے میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں.اُن کو گالیاں دی جاتی ہیں اور طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں.اکثر غیر احمدی جو دفتروں میں افسر ہیں وہ احمد یوں کو تکلیفیں دیتے ہیں اور اُن کو چُھٹیاں نہیں دیتے کہ وہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کر سکیں.یا بر خاست کرا دیتے ہیں.پھر تعلیم یافتہ جو دفتروں میں ملازمت کیلئے جاتے ہیں ان کی ملازمت میں طرح طرح کی روک ڈالتے ہیں محض اس لئے کہ ملازمت چاہنے والے احمدی ہیں.پھر کئی احمدی ایسے ہیں جن کے بیوی بچوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا اور سالہا سال کے بعد بیوی احمدی ہوئی اور وہ کئی سال تکلیفیں اُٹھاتے رہے.پھر گورنمنٹ کے پاس جا کر اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ گورنمنٹ کے برخلاف ہیں.ادھر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گورنمنٹ کے جاسوس ہیں اور گورنمنٹ کو یہ کہہ کر ہمارے برخلاف کرتے ہیں اور اُدھر پبلک کو اکساتے ہیں کہ ان پر حملہ کر دوان کے اسباب توڑ دو مسجدوں میں کہا جاتا ہے کہ احمدی سور ہیں ان کو مسجدوں میں نہ آنے دو نکاحوں کے فتح کرنے کی تجویز میں پاس کرتے ہیں.غرض اس وقت ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کی تھی.باوجود زمین وسیع ہونے کے ہم پر تنگ ہے.ابھی حال ہی میں قادیان میں جلسے ہوئے اور ہمیں گالیاں دی گئیں اور گورنمنٹ کے بعض افسروں نے بھی ان کا ساتھ دیا.اُدھر گورنمنٹ کو برخلاف کیا جاتا ہے اِ دھر لوگوں کو بہکایا جارہا ہے بہر حال ہمارے دشمن یا درکھیں وہ ناکام رہیں گے.بے شک بیوی، بچے اور خاوند، کو چھوڑ دے اور خاوند بچوں اور بیوی کو چھوڑ دے لیکن احمدیت نہیں چھوڑی جاسکتی.ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ ایک بچہ آیا اُس کے ماں باپ نے اُس پر بڑی سختیاں کیں، اُس کے کپڑے تک اُتار لئے ہماری جماعت اُس کو کپڑے پہنا کر لائی ہے.سو جو آنے والے ہیں آئیں گے خواہ کچھ بھی ہو.جسے خدا نے لانا تھا وہ کپڑے تک اُتر وا آیا اور آ گیا.جسے خدا لاتا ہے کون ہے جو اُس کو روک سکتا ہے؟ ایمان کو کوئی تلوار سے کاٹ کر پتھروں سے مار کر ہٹا نہیں سکتا.کابل کے حالات صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے حالات اور نعمت اللہ خاں صاحب شہید کے حالات سب جانتے ہیں
انوار العلوم جلد ۱۳ 371 مستورات سے خطاب کہ اُن کو بازاروں میں پھر اتے تھے.بعض کو نکیل ڈال کر کہا کہ تم احمدیت کو چھوڑ دو لیکن وہ احمدیت سے نہ پھرے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب میدان میں لایا گیا تو بادشاہ نے کہا کہ اب بھی احمدیت کو چھوڑ دو.علماء پتھر مارتے تھے.آپ کے مُرید ہتھکڑیاں دیکھ کر روتے تو آپ فرماتے یہ سونے کے کنگن ہیں.ایک ہندوستان کا تاجر جو اُس وقت وہاں موجود تھا اور وہ اب احمدی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے بھی کئی پتھر مارے تھے.خون بہہ رہا تھا اور آپ یہ کہتے جاتے تھے کہ میری قوم نادانی سے یہ کر رہی ہے.لوگ شکاری کتوں کی طرح لپک رہے ہیں، ہڈیاں پتھروں سے چور ہو رہی ہیں لیکن آپ ہاتھ اُٹھائے دعا کرتے ہیں.یہ تھا ایمان ایک احمدی کا.تو ایمان کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتا.غرض کوئی بھی ایمان کو مٹا نہیں سکتا.حکومتیں ہوں، رعایا ہوں امیر ہوں یا علماء ہوں، وہ ہمارے جسم اور جان کو مار سکتے ہیں لیکن ایمان کو خراب نہیں کر سکتے.تو ہمارا فرض ہے مردوں ہی کا نہیں بلکہ عورتوں کا بھی ویسا ہی فرض ہے کہ سلسلہ کے لئے قربانیوں کیلئے تیار رہیں.ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں جنہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا ئیں جب تک کہ خدا نے انہیں موت نہیں دی اس لئے تمہارا فرض ہے کہ مردوں کے دوش بدوش رہو.اگر تمہیں دین سے محبت ہے تو ان فتنوں کے زمانے میں میں نے جو سکیم مقرر کی ہے اُس کی پابند رہو.دیکھو ماں ساری رات بچے کیلئے جاگتی ہے تو کیا وہ کسی پر احسان کرتی ہے؟ تو اگر دین کی محبت ہے تو اس کے لئے ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کرو.میں سب را از تو آپ کو بتلا نہیں سکتا کیونکہ جرنیل کا کام نہیں کہ ہر ایک راز سپاہیوں کو بتلا دے.میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے کی اپیل کی تھی لیکن ہم صرف روپے سے مقابلہ نہیں کر سکتے.دشمنوں کے پاس ایسے کئی آدمی ہیں جو بڑے متمول ہیں وہ یکمشت ساٹھ ہزار روپے دے سکتے ہیں.بمبئی میں کئی سوداگر ہیں جو دس دس بیس بیس لاکھ کے مالک ہوں گے تو اگر ہم ایک کروڑ روپیہ بھی جمع کر لیں تو تب بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.دین کی خاطر قربانی.سادہ زندگی اصل کام ہر احدی مرد اور حمدی عورت کا قربانی ہے.تو ہر ایک عورت، مرد سادہ زندگی بسر کرے کیونکہ ہم کو نہیں معلوم ہمیں کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی.دیکھو! اگر یہ ہی عادت ڈالیں کہ جو ہوا وہ خرچ کر دیا، حالانکہ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ اپنے مال میں نہ بخل کرو نہ اسراف تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب دین کیلئے ضرورت ہوگی تو کچھ بھی دینے کیلئے نہ ہوگا.پس میں یہ
انوار العلوم جلد ۱۳ 372 مستورات سے خطاب کہتا ہوں کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت کی عادت ڈالو.اچھے کھانے کھانے والے یا جن کے گھر سامانوں سے بھرے پڑے ہوں وہ کس طرح ہجرت کریں گے (اگر ہجرت کی ضرورت پڑ جائے یا کسی کو دین کی خدمت کیلئے کسی دوسرے علاقے میں بود و باش رکھنی پڑے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دفعہ جانا پڑا اور بہیں ہزار مسلمان گئے تین مسلمان نہ گئے.جو مسلمان نہ گئے وہ بہت مالدار تھے اُن کو یہ خیال تھا کہ ہمارے پاس بار برداری وغیرہ سب کچھ ہے ہم پیچھے جا شامل ہوں گے اور وہ اسی مال کے گھمنڈ میں نہ گئے.حضور علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ ٹھہرتے ہوئے جایا کرتے تھے.اس دفعہ آپ نے شہر کے قریب ڈیرہ نہ لگایا اور چلے گئے اور جب وہ اپنے گھروں سے پیچھے نکلے اور آپ کو نہ پایا.راستہ میں خطرہ تھا آخر واپس آنا پڑا.اللہ تعالیٰ کو اُن کا یہ فعل پسند نہ آیا اور پچاس دن کی سزا اُن کیلئے مقرر کی کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے.نوکر چاکر اور بیوی بچے اور کسی مسلمان کو اجازت نہ تھی کہ ان سے کلام کرے.ایک مرد نے تو خود اپنی بیوی کو اُس کی ماں کے گھر بھیج دیا کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اور اس سے کلام کرلوں.ایک شخص کو بولنے کی زیادہ عادت تھی.وہ کہتے ہیں کہ میں سب سے بولتا اور کوئی مجھے جواب نہ دیتا.ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس گیا وہ اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا اُسے کہا اے ا میرے بھائی! میرا کھانا اور میرا بیٹھنا ایک ہے اور تو میرا ہمراز ہے کیا میں منافق ہوں ؟ مطلب یہ تھا کہ اس کے منہ سے سن لوں کہ میں مؤمن ہوں یا منافق.لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا تو آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں.جب میں نے یہ رنگ دیکھا تو دل میں یہ کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں.میری آنکھوں کے سامنے اتنا اندھیرا ہو گیا کہ مجھ کو اُس باغ کے دروازے نظر نہیں آتے تھے اور میں دیوار پھاند کر باہر آیا.میں بازار سے گزر رہا تھا تو ایک شخص نے میری طرف اشارہ کر کے ایک دوسرے شخص کو بتایا کہ یہ ہیں.اُس آدمی نے مجھے ایک خط دیا.جب دیکھا تو وہ خط ایک بادشاہ کا تھا جس میں لکھا تھا سنا ہے کہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہاری عزت کا کوئی پاس نہیں کیا تم میرے پاس چلے آؤ.تب میں سمجھا یہ شیطان ہے اور مجھ کو دھوکا دینا چاہتا ہے.میں نے اُس آدمی کو کہا تم میرے پیچھے چلے آؤ اور جاتے جاتے جب میں ایک تنور کے پاس پہنچا تو وہ خط میں نے تنور میں ڈال دیا.اُس کو کہا کہ جا اپنے بادشاہ کو کہہ یہ تیرے خط کا جواب ہے.میں روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاتا اور سلام کر کے حضور کا منہ دیکھتا شاید آہستہ سے جواب دیا ہوا ور چلا جاتا
373 انوار العلوم جلد ۱۳ مستورات سے خطاب اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آتا کہ شاید حضور نے سنا نہ ہو اور پھر سلام کر کے منہ دیکھتا کہ شاید ہونٹ ہلیں اور آہستہ سے جواب دیتے ہوں.غرض با وجود زمین وسیع ہونے کے ہم پر تنگ تھی.ایک روز صبح کے وقت جب ہمارے گناہوں کی معافی کا حکم نازل ہوا تو بہت سے لوگ خبر دینے کیلئے دوڑے.ایک شخص بہت ہوشیار تھا.وہ ایک چھت پر چڑھ گیا اور چلا یا اے مالک! تیرا قصور خدا نے معاف کر دیا ( میں اس لئے یہ بتلا رہا ہوں کہ مال روک ہو جاتا ہے.دیکھو غریب لوگ چل پڑے لیکن جو مالدار تھا مال اُس کی راہ میں روک ہو گیا ) جو آدمی سب سے پہلے میرے پاس آیا میں نے اُس کو ایک جوڑا دیا اور کہا میرے پاس یہی مال ہے باقی سب دولت باغ و زمین چونکہ یہی سامان میرے راستے میں روک ہوئے میں نے عہد کر لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپر د کر دوں گا تو یہی جوڑا میرا مال ہے جو میں آپ کو دیتا ہوں گے.اس تاریخی واقعہ سے فائدہ اُٹھاؤ اور یہ اقرار کرو کہ ہم کھانے پینے میں سادگی اختیار کریں گی ایک کھانا کھا ئیں گی.اکثر زمیندار عورتیں بھی کئی قسم کی سبزیاں پکا لیتی ہیں ہر احمدی بچہ دعورت اقرار کرے کہ لباس سادہ رکھیں گے.جتنے جوڑے پہلے بناتے تھے اب کم بنائیں گے اور گوٹہ کناری آئندہ نہ خریدیں گے پہلا بنا ہوا منع نہیں.ڈاکٹر ایسے نسخے تجویز کریں جو ہلکی قیمت کے ہوں کھیل تماشے نہ دیکھیں، بیاہ شادی میں نقد روپیہ دیں یا بالکل تھوڑا روپیہ دیں، رسم و رواج میں مکان کی آرائش پر زیادہ نہ خرچ کریں، اگر کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو بنا سکتے ہیں، اس میں بہت سے حکم امراء کے لئے ہیں، کچھ درمیانے لوگوں کیلئے کچھ غرباء کیلئے جو بچت ہو اس کی جائدادیں بنائی جائیں، اس طرح اس میں غرباء عورتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں.گاؤں کی عورتیں باہم مل جائیں اور دو دو روپے ملا کر ایک رقم جمع کریں اور دو سو کی کوئی جائداد لے لیں اور کرائے کی جو آمد ہو اُس کو آپس میں تقسیم کر لیں.اگر کسی وقت چندے کی ضرورت ہو تو اس میں سے دے سکتی ہیں.اگر اسی طرح ہر ایک شخص کچھ نہ کچھ بچا کر اپنی جائیدادیں بنانے لگ جائے تو تھوڑے عرصہ میں بہت کچھ بنا سکتے ہیں.پھر جب مالی حالت مضبوط ہو جائے گی تو خدمت دین کا بھی موقع مل جائے گا.اگر ہزار کا زیور کسی جائیداد کی صورت میں تبدیل کر لیں تو پانچ روپے ماہوار کم از کم آمد ہو سکتی ہے لیکن میں یہ حکم نہیں دیتا کہ کمزور ابتلاء میں نہ پڑ جائیں.کیونکہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ عورتوں کو زیورات اپنے عزیزوں سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں.تم میں سے اکثر ہیں جن کے زیور تو ہیں لیکن زکوۃ نہیں دیتی ہو.اسی طرح سے تم ان عذابوں سے بچ جاؤ گی جو ز کوۃ نہ
374 انوار العلوم جلد ۱۳ مستورات سے خطاب دینے کی وجہ سے ہوتے ہیں.اگر تمہارے پاس زیور میں تم کو پھر ز کو ۃ دینی پڑے گی.اسی زیور کی جائدا دخرید لوتو تمہاری آمد کا حصہ ہو جائیں گے.تم بھی آسانی سے خرچ کر سکو گی اور دین کی راہ میں بھی خرچ کرنے کی سہولت ہوگی اور تم مل کر بھی جائیداد بنا سکتی ہو.جہاں لجنہ ہو وہاں لجنہ والیاں کوشش کریں، جہاں لجنہ نہ ہو وہاں لجنہ بنائی جائیں، زمیندار عورتیں بھی اپنے کام کاج کرنے کے درمیان میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ وقت نکال لیں اور چھٹو اور ٹوکریاں ہی بنالیں تو آ نہ دو آنہ ضرور کما سکتی ہیں اور بڑی بڑی ہنر والیاں ہیں تمہیں روپے ماہوار تک کما سکتی ہیں.لیکن میں نے چونکہ آجکل حکم دیا ہے کہ آرائش نہ کرو اس لئے ایسی سادہ چیزیں بنائیں.مثلاً پراندے آزار بند.آئندہ کیلئے میں تجویز کرتا ہوں ۱۹۳۶ ء فروری سے نمائش ہوا کرے اور اس میں سب جگہ کی عورتیں چیزیں بھیجا کریں وہاں یہ چیزیں پک سکتی ہیں اور یہ لا ہور میں نمائش ہو.اس میں ہر جگہ کی عورتیں شامل ہوں.حیدر آباد دکن، بنگال، یوپی سرحد، پنجاب کی عورتیں بھی آئیں اور اس وقت جو مخالفت ہو رہی ہے اس کے جواب میں ہماری عورتیں عورتوں میں تبلیغ کریں اور اس کا نفرنس و نمائش میں قصور امرتسر، فیروز پور گوجرانوالہ ہر ضلع کی عورتیں ہوں.لیکچراروں کو عدگی سے لیکچروں کیلئے تیار کرایا جائے میں اس کی مدد کیلئے مرد بھی مقرر کروں گا.اسی طرح عورتیں بھی تبلیغ میں حصہ لے سکتی ہیں.رفتہ رفتہ دوسری جگہوں میں بھی تبلیغی مرکز بنائے جائیں.مثلاً لا ہور امرتسر، سیالکوٹ تا دوسری جگہ بھی عورتیں تبلیغ کر سکیں.اب میں نے تمہارے لئے بھی کام بتا دیئے ہیں.آئندہ تم یہ نہیں کہ سکتیں کہ تم کو خدمت کا موقع نہیں ملا.اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ تبلیغی کاموں میں حصہ لو.اگر تم اب بھی عذر کرو تو جائز نہ ہوگا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ اسلام کی خدمت کی توفیق ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں اور مردوں کو دے اور تم کوشش کرو کہ دشمن تمہاری کوششوں کو دیکھ کر تم میں داخل ہوں.اب تمہارے لئے کوئی غذر کی گنجائش نہیں.ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ کام مقرر ہیں.سستی کروگی تو خدا کے حضور جوابدہ ہوگی.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اُس کی رضا پر چلیں.آمین.بخاری کتاب الحيض باب ترث الحائض الصوم مشكوة كتاب الاداب باب المزاح بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۳۵ء) النساء: ٢
انوار العلوم جلد ۱۳ 375 حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کواہم ہدایات از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
376 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ( فرموده ۲۷.دسمبر ۱۹۳۴ء بر موقع جلسه سالانه ) جلسہ سے ایک دو دن پہلے مجھے زکام اور نزلہ کی سخت شکایت ہو گئی تھی.ہمارے ڈاکٹروں نے پوری کوشش کی اپنی طرف سے کہ خدا تعالیٰ چاہے تو نزلہ رُک جائے اور بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ نزلہ رک بھی گیا ہے.چنانچہ کل کا ناغہ کرنے کے بعد آج پھر میں نے روزہ رکھ لیا لیکن اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ نزلہ پھر گلے میں گر رہا ہے اور شاید اس حالت میں میں سب دوستوں تک پوری طرح اپنی آواز نہ پہنچا سکوں اور شاید میں زیادہ دیر تک نہ بول سکوں.اس کے ساتھ ہی مجھے سخت سردرد کی بھی تکلیف ہو گئی ہے اور وہ بھی میرے اونچا بولنے میں مانع ہے مگر جہاں تک اللہ تعالیٰ توفیق دے اور جتنی بلند آواز سے بولنے کی توفیق دے میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا پھر بھی اگر سارے دوستوں تک آواز نہ پہنچے تو بجائے اس کے کہ وہ حرکت کر کے دوسروں کو بھی ان باتوں کو سننے سے محروم کر دیں جن کا سننا ضروری ہے اور جن کے سننے کیلئے وہ یہاں آئے ہیں خاموش بیٹھے رہیں اور دوسروں کو جن تک میری آواز پہنچ سکے فائدہ اُٹھانے دیں.یہ مت خیال کرو کہ جب تم کسی بات کو سنتے نہیں اور تمہیں خاموش بیٹھنا پڑتا ہے تو یہ ضیاع وقت ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے لئے انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ اس کے لئے ثواب کا موجب ہوتا ہے.اور بسا اوقات بظاہر ضائع نظر آنے والی چیز خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہونے والی ہوتی ہے.حج کے موقع پر جانوروں کی بکثرت قربانیاں کی جاتی ہیں اتنی کثرت سے کہ ان کا گوشت
377 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کھانے والا کوئی نہیں ہوتا.مکہ میں جو صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں، وہ بھی قربانیاں کرتے ہیں اور ان ایام میں قریباً سب ہی حیثیت والے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو کوٹ رہے ہوتے ہیں.پھر حاجی قربانیاں کرتے ہیں اور بعض دفعہ وہاں جمع ہونے والے انسانوں کی تعداد سے بھی قربانیاں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ بعض لوگ ماں باپ کی طرف سے اور اپنے دوستوں کی طرف سے بھی قربانیاں کرتے ہیں.میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے سات قربانیاں کی تھیں، ایک رسول کریم علی اللہ کی طرف سے ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ایک والدہ صاحبہ کی طرف سے ایک حضرت خلیفہ اول کی طرف سے ایک اپنی طرف سے ایک اپنی بیوی کی طرف سے اور ایک جماعت کے دوستوں کی طرف سے.تو وہاں اس قسم کی قربانیاں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ کھانے والے اتنے نہیں ہوتے جتنے بکرے وغیرہ ذبح ہوتے ہیں.کئی لوگ جو نئی تہذیب کے دلدادہ کہلاتے ہیں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اسراف ہے جو جائز نہیں.حالانکہ بعض حالتوں میں اسراف بھی مفید ہوتا ہے اور کبھی یہ سکھانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ضائع ہونے دو جو ضائع ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک شخص اسراف اور ضروری اخراجات میں فیصلہ نہیں کر سکتا.بعض اوقات ایک شخص ضروری اخراجات کو بھی اسراف سمجھ لیتا ہے اور نیکی کے حصول سے محروم رہ جاتا ہے.ایسے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر انہیں کسی موقع پر خرچ کرنا اسراف نظر آئے تو بھی کرنا چا ہے.پس جن دوستوں کو باوجود میری کوشش کے آواز نہ پہنچے وہ بھی بیٹھے رہیں تا کہ ان کے اٹھنے سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو.اس وقت میرے ارد گرد دوستوں نے کئی ایک کتا بیں رکھ دی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کوشش کی کہ پھلدار درخت لگائیں اب ان درختوں کو پھل آ گیا ہے مگر وہ جھڑتا نہیں آپ سوٹا لے کر اس پھل کو جھاڑ دیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسی رسم ہو گئی ہے جس کے متعلق مجھے احتیاط کرنی چاہئے.اس لئے میں صرف اتنی اطلاع دینے پر اکتفاء کرتا ہوں کہ کئی دوستوں نے کتابیں شائع کی ہیں اور میں سمجھتا ہوں بعض کتابیں مفید اور بعض بہت مفید بھی ہیں اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہتا گویا مجمل سفارش کرتا ہوں اور آئندہ کوشش کروں گا کہ ابتدائی خطبہ بجائے خلیفہ کے خطبہ کے، نیلام کرنے والے کا خطبہ نہ بن جائے اور آئندہ کوشش کروں گا کہ مجمل سفارش کو بھی ترک کر دوں.اس وقت اتنی سفارش کرتا ہوں کہ سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت مفید اور ضروری ہے اور جو مفید لٹریچر
378 انوار العلوم جلد ۱۳ ہے احباب اسے خریدیں.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہاں ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہاں ہوزری کا کام شروع کیا گیا ہے اور ایک ایسا کارخانہ کھولا گیا ہے جس پر جماعت کا روپیہ لگایا گیا ہے.غرض یہ ہے کہ یہاں آہستہ آہستہ مختلف اقسام کے کارخانے کھولے جائیں.جب میں نے ایک مجلس مشاورت کے موقع پر احباب سے ہوزری کے متعلق مشورہ لیا تھا تو یہ بھی کہا تھا کہ جب کا رخا نہ جاری ہو جائے اور مال تیار ہونے لگے تو جس سائز کی گجرابوں کی انہیں ضرورت ہوا اور وہ مل سکتی ہوں تو اسی کا رخانہ کی خرید میں اور یہاں تک کہا گیا تھا کہ جب ہندوستان میں ابتداء میں جرا نہیں بنے لگیں جو ڈھیلی ڈھالی ہوتی تھیں اگر اس قسم کی بھی یہاں بنے لگیں تو ان کے خریدنے میں عذر نہ کریں.سلسلہ کی ترقی اور جماعت کی تنظیم کے لئے ایسا مال خریدنا پڑے تو بھی اعتراض نہ ہو سوائے اس کے کہ مطلوبہ سائز کی جُرا ہیں نہ مل سکیں.آئندہ جماعت کا فرض ہو گا کہ جب اس کارخانہ کی مجرا ہیں مل سکیں تو وہی خریدیں.اب کارخانہ نے مال تیار کرنا شروع کر دیا ہے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ خریدیں اور یہاں آتے جاتے بھی وہی مال خریدا کر یں.افسوس ہے کہ کارخانہ نے ابھی تک ایجنسیاں قائم کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ مال کا ایسے رنگ میں اشتہار دیا ہے جو ضروری ہے مگر یہ کارخانہ والوں کا کام ہے.جماعت کا فرض یہ ہے کہ تمام دوست اسی کارخانہ کی جرا نہیں خریدیں اور پہنیں.امید ہے دوست اس بات کو یا درکھیں گے.بعض دوستوں کی طرف سے دعا کے لئے تار آئے ہیں.لیفٹینٹ غلام احمد صاحب نے لنڈی کوتل سے لکھا ہے کہ چھٹی نہیں مل سکی اس لئے جلسہ میں شامل نہیں ہو سکا میرے لئے دعا کی جائے.ایک تار میں تار والوں نے ظلم کر کے نام مٹا دیا ہے اس لئے پڑھا نہیں جاتا.وہ اپنے ایک دوست کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں ان کے لئے دعا کی جائے.ڈاکٹر بشیر احمد صاحب زاہدان سے تار دیتے ہیں.سب دوستوں کو السَّلامُ عَلَيْكُمْ کہتے اور درخواست کرتے ہیں کہ انہیں دعاؤں میں یا درکھا جائے نیز زاہدان کے دوسرے دوستوں کو بھی یاد رکھا جائے.محمد شریف صاحب کا کول ضلع ہزارہ سے لکھتے ہیں کہ چھٹی نہیں مل سکی، دعاؤں میں شریک کیا جائے.شیخ حسن صاحب یاد گیر سے لکھتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور سب کو السَّلامُ عَلَيْكُمُ ہتے ہیں.اس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زمانہ جس کے متعلق میں عرصہ سے توجہ دلاتا رہا ہوں کہ تیار رہنا چاہئے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ آ گیا ہے.مجھے
379 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیاری نہیں کی تھی اگر جماعت کے لوگ اس کے لئے پہلے سے تیاری کر چکے ہوتے تو آج کسی قسم کے فکر کی ضرورت نہ ہوتی اور کسی رنگ میں بھی دشمن کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی اور اگر جرات کرتا تو اسے فوراً معلوم ہو جاتا کہ جماعت احمدیہ پر ہاتھ ڈالنا معمولی بات نہیں ہے لیکن باوجود بار بار توجہ دلانے کے اور بار بار آگاہ کرنے کے کہ دشمن تیاری کر رہا ہے، جماعت کے اکثر افراد نے اس بات کو عارضی خطرات کی تنبیہہ سمجھا اور مستقل خطرہ کی طرف توجہ نہ کی.آخر بعض مسلمان کہلانے والوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمد یہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اس سے آگے بڑھ گئی تو اس کا مٹانا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے انہوں نے تنظیم کر کے اور ایسے لوگوں کی مدد لے کر جو بظا ہر ہمارے دوست بنے ہوئے تھے مگر اندرونی طور پر دشمن تھے ہمارے خلاف اڈا قائم کر لیا اور ایسی تنظیم کی جس کی غرض احمدیت کو کچل دینا ہے.۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے دوران میں ایک دن سرسکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دیگی اس بارے میں دونوں کا تبادلہ خیال چاہتا ہوں، کیا آپ شریک ہو سکتے ہیں؟ میں اُس وقت لاہور میں ہی تھا میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں.میٹنگ سر سکندر حیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور میں اس میں شریک ہوا.چودھری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدی جماعت کو کچل کر رکھ دیں.میں نے اس پر مسکر اکر کہا اگر جماعت احمد یہ کسی انسان کے ہاتھ سے پھلی جاسکتی تو کبھی کی پچھلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقینا وہ رہنے کے قابل نہیں ہے.یہ پہلی کوشش تھی.پھر احرار نے جماعت احمدیہ کو کچلنے کی مزید کوشش شروع کی اور یہ عجیب بات ہے کہ وہی احراری جو اپنی دوسری تحریکات کے لئے جب کوشش کرتے تو انہیں روپیہ نہیں ملتا تھا انہوں نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف کوشش شروع کی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑے خزانہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاص طبقہ اندر ہی اندر ان کی مدد کر رہا اور انہیں روپیہ دے رہا ہے تا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی جائے.مذہبی مخالفت ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں افسر اور غیر افسر کا کوئی سوال نہیں ہوتا.جب احراریوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق مذہبی مخالفت کا سوال اُٹھایا تو حکومت کے بعض گلن پُرزے
380 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات جو حکومت کے وفادار نہ تھے انہوں نے احراریوں سے مفاہمت شروع کر دی اور یہ یقینی طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ انہوں نے کوشش کی کہ جس طرح بھی ممکن ہوا حراریوں کا زور بڑھائیں اور احمدیوں کا زور کم کریں.اس کا نظارہ ہم نے قادیان میں بھی دیکھا.احراری حکومت کے کھلے مخالف ہیں اور قدم قدم پر حکومت کی مخالفت کرتے رہے ہیں.کشمیر ایجی ٹیشن انہوں نے شروع کی حکومت کو انہوں نے دھمکیاں دیں اور حکومت کے لاکھوں روپے انہوں نے خرچ کرائے مگر وہی احراری جن کا مقابلہ حکومت کے ساتھ تھا اور جو یہ کہتے تھے کہ ہم حکومت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیں گئے، ہم نے دیکھا کہ جب ان کی شرارتوں کے متعلق بعض مقامی افسروں سے شکایت کی جاتی تو وہ احراریوں کی پیٹھ ٹھونکتے اور ان کی طرف سے عذرات پیش کرنے شروع کر دیتے.اور اگر کوئی عذر نہ پیش کر سکتے تو یہی کہہ دیتے کہ بیوقوف بھی دنیا میں ہوتے ہیں آپ کی جماعت بڑی فراخ دل اور تعلیم یافتہ ہے.اسے ان لوگوں کے ساتھ فراخ دلی کا سلوک کرنا چاہئے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پولیس کے بعض افسر اور دوسرے سول کے بعض افسر جنہیں تنخواہیں تو اس کام کے لئے ملتی ہیں کہ امن قائم رکھیں مگر وہ امن شکنوں کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ملے ہوئے تھے جو گورنمنٹ کو اُلٹنے کا ارادہ رکھتے اور اس کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں.متواتر ان لوگوں نے قادیان میں آکر شورش کرنی چاہی، فساد پھیلانا چاہا بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر بعض افسران کی پیٹھ ٹھونکتے رہے.حکومت کے افسروں میں اچھے بھی ہوں گے مگر اس وقت میں بُرے لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں.اچھوں کی ہم بہت تعریفیں کر چکے اور کرتے رہیں گے مگر اس وقت ہم مجبور ہیں کہ بُر وں کا ذکر کریں.غرض اس وقت ہماری جماعت پر جو حملہ کیا جا رہا ہے وہ ایک جماعت کی طرف سے ہے اور ہر جگہ حملہ کیا جا رہا ہے پہلے اگر بٹالہ کے احمدیوں کو مارا اور گالیاں دی جاتیں اور اس کی طرف حکومت کو توجہ دلائی جاتی تو افسر کہہ دیتے کہ ہم توجہ کریں گے یا کہہ دیتے ہم کچھ نہیں کر سکتے اسی طرح اگر کسی اور جگہ احمدیوں کے خلاف شورش ہوتی اور حکام کو توجہ دلائی جاتی تو وہ طفل تسلی دے دیتے یا کچھ نہ کچھ شرارت کا انسداد کر دیتے.اگر کوئی افسر جماعت احمدیہ سے کینہ رکھتا تو کہہ دیتا ایسی باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں اور اگر شریف ہوتا اور اپنے فرض کو سمجھتا تو کچھ نہ کچھ نوٹس لے لیتا اور اس طرح بات طے ہو جاتی کیونکہ اس وقت شرارت مقامی ہوتی ساری جماعت کے خلاف نہ ہوتی تھی.ہر مقام کے متعلق افراد کی کوشش افراد کے خلاف ہوتی مگر آج کل کئی جماعتیں ہیں جو
381 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات متحدہ طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں اور احمدی ہونے کی وجہ سے مخالفت کر رہی ہیں.جہاں جہاں احمدی ہیں، وہاں وہاں منظم مخالفت کی جارہی ہے.گویا پہلے اعضاء پر حملہ ہوتا تھا مگر اب سر پر حملہ کیا جا رہا ہے.پہلے اردگرد حملہ کیا جاتا تھا مگر اب مرکز پر حملہ کیا جا رہا ہے اور اس طرز کا حملہ کیا جا رہا ہے جو نہایت ہی اشتعال انگیز اور امن شکن ہے.ایک طریق اس حملہ کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر نہایت گندے اور نہایت ناپاک حملے کئے جاتے ہیں.ایسے گندے کہ اگر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تعلیم پیش نظر نہ ہوتی ، اگر احمدیت ہاتھ نہ روکتی تو با وجود اس حکومت کی فوجوں اور پولیس کے ہزار ہا خون ہو جاتے.میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں.میں نے اپنے کانوں سے مخالفین کی گالیاں سنیں اور اپنے سامنے بٹھا کرسنیں مگر باوجود اس کے تہذیب اور متانت کے ساتھ ایسے لوگوں سے باتیں کرتا رہا.میں نے پتھر بھی کھائے اُس وقت بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر امرتسر میں پتھر پھینکے گئے اُس وقت میں بچہ تھا مگر اُس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مجھے حصہ دے دیا.لوگ بڑی کثرت سے اُس گاڑی پر پتھر مار رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے.میری اُس وقت چودہ پندرہ سال کی عمر ہوگی.گاڑی کی ایک کھڑکی گھلی تھی میں نے وہ کھڑی بند کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس زور سے پتھر مار رہے تھے کہ کھڑ کی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پتھر میرے ہاتھ پر لگے.پھر جب سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر پھینکے گئے، اُس وقت بھی مجھے لگے.پھر جب تھوڑا عرصہ ہوا میں سیالکوٹ گیا تو باوجود اس کے کہ جماعت کے لوگوں نے میرے ارد گر د حلقہ بنالیا تھا، مجھے چار پتھر لگے.غرض میں نے مخالفین سے پتھر کھائے ہیں، گالیاں سنی ہیں اور اشتعال انگیزیاں دیکھی ہیں لیکن اُف نہیں کی اس لئے نہیں کہ غیرت نہیں آتی ، جوش نہیں آتا، غصہ نہیں آتا بلکہ محض اس لئے کہ اس شخص کا ہمیں حکم ہے جسے مخالفین گالیاں دیتے ہیں، جن پر اتہام لگاتے ہیں، جس کی تذلیل کرتے ہیں کہ ہاتھ نہیں اُٹھانا.ورنہ اگر اُس کا حکم نہ ہوتا تو نہ ہم بیوی بچوں کی پرواہ کرتے نہ اپنی جانوں کی پرواہ کرتے نہ کسی طاقت کی پرواہ کرتے وہ شیطان کے چیلے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں، آپ پر ناپاک اور گندے الزامات لگاتے ہیں، آپ کی تحقیر اور تذلیل کرتے ہیں، ان کی جانیں محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی طفیل بچی ہوئی ہیں ورنہ
382 انوار العلوم جلد ۱۳ و,, حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کوئی حکومت ، کوئی طاقت اور کوئی انتظام ان کو بچانہیں سکتا.غرض اس ہستی کو جس کی تحقیر اور تذلیل دیکھنا اور جس کے متعلق گالیاں اور بد زبانیاں سننا ہماری طاقت برداشت سے باہر ہے حد سے بڑھی ہوئی گالیاں دی جاتیں اور نا قابل برداشت تذلیل کی جاتی ہے اور ایسے موقع پر کی جاتی ہے جبکہ اشتعال فوراً پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً انہی ایام میں جب کہ ہمارا سالانہ جلسہ ہو رہا ہے آٹھ نو ہزار کے قریب قادیان میں احمدیوں کی آبادی ہے تین چار ہزار احمدی ارد گرد کے دیہات سے آئے ہوئے ہیں، گیارہ بارہ ہزار احمدی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے جمع ہیں اور تیس چوبیس ہزا ر احمدیوں کا اجتماع قادیان میں موجود ہے، آج اس جگہ جہاں ایک چپہ بھر زمین بھی مخالفین کی نہیں ہے، جہاں ان کی تعداد عام حالات میں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں ۱۱۰ فیصدی بھی نہیں ہے اور جہاں اس وقت سرکاری حکام موجود ہیں، نہایت ہی گندہ اور ناپاک لٹریچر تقسیم کیا جارہا ہے.جس میں لکھا ہے کہ " کیا مرزا قادیانی عورت تھی یا مرد مرزا کے ساتھ خدا کا بد فعلی کرنا مرزا کو حیض آنا مرزا کا حاملہ ہونا’ در دزہ سے تکلیف پانا مگر وہ افسر جو احراریوں کے جلسہ کے موقع پر احمدیوں کو کیمرے رکھنے سے روکتے تھے آج کہتے ہیں کہ ہم ایسے لٹریچر کو روک نہیں سکتے.اگر اس وقت کوئی ایسا قانون تھا جس کے ماتحت احمدیوں کو کیمرے رکھنے سے روکا جا سکتا تھا مگر آج گندہ لٹریچر روکنے کے لئے کوئی قانون نہیں تو معلوم ہوا کہ اُس وقت کوئی ایسا دماغ کام کر رہا تھا جو آج نہیں ہے.اُس وقت فتنہ و فساد پھیلانے والے ان حکام کے چیلے چانٹے تھے جن کا اس فتنہ میں ہاتھ ہے اس لئے وہ ان کی شرارت انگیز حرکات پر خوش ہوتے تھے اور احمد یوں کو انکی حرکات کا ثبوت بہم پہنچانے سے روکتے تھے تا کہ ضلع کے منصف مزاج حاکم یا اوپر کے حکام ان کی حقیقت سے ناواقف رہیں مگر آج کل جماعت احمدیہ کے لوگ جبکہ کثرت سے یہاں آئے ہوئے ہیں، فتنہ پرداز گالیاں دیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں تو پولیس کے وہی افسر خوش ہوتے ہیں کہ وہ اشتعال انگیز باتیں کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس قسم کی اشتعال انگیزی بھی ہم پر اثر نہیں کر سکتی کیونکہ ہمیں ایسی تعلیم دی گئی ہے جس نے ہمیں گلیہ جکڑ رکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے سچا مومن خصی ہو جاتا ہے.پس حکومت کے افسروں کو پولیس اور سول کے حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں، ہم بالکل پر امن ہیں
383 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کیونکہ ہم سچے مومن ہیں اور مومن خصی ہو جاتا ہے.ہمیں جوش آتا ہے اور آئے گا مگر وہ دل میں ہی رہے گا، ہمیں غیرت آئے گی مگر وہ ظاہر نہ ہو گی، ہمارے قلوب ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے مگر زبانیں خاموش رہیں گی، ہاں ایک اور ہستی ہے جو خاموش نہ رہے گی وہ بدلہ لے گی اور ضرور لے گئی حکومتوں سے بھی اور افراد سے بھی کوئی بڑے سے بڑا افسر کوئی بڑے سے بڑا لیڈر کوئی بڑے سے بڑا جتھا اور کوئی بڑی سے بڑی حکومت اُس کی گرفت سے بچ نہ سکے گی.حکومت انگریزی بہت بڑی اور بہت طاقت ور حکومت ہے مگر جو اس کے غدار اور فرض ناشناس حاکم ہیں، انہیں وہ خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتی.وہ ایسے حکام کو بم کے گولوں سے بچانے کا انتظام کر سکتی ہے؟ اور وہ احمدیوں نے چلانے نہیں مگر ہیضہ قولنج اور طاعون کے حملہ سے وہ کسی کو نہیں بچا سکتی اور نہ کوئی اور طاقت ہے جو خدا کی گرفت سے بچا سکے.اگر یہی حالت جاری رہی اور کسی دن بددعا نکل گئی تو حکومت دیکھ لے گی کہ اپنے تمام سامانوں اور اپنی تمام حفاظتوں کے باوجود ان کو بچانہ سکے گی.ہمارا خدا ظلم اور نا انصافی کرنے والوں کو دیکھ رہا ہے وہ ہمارے زخمی قلوب اور ان میں جو جذبات ہیں، ان کو دیکھتا ہے، پھر ہمارے صبر کو دیکھتا ہے، آخر وہ ایک دن اپنا فیصلہ نافد کرے گا اور پھر دنیا دیکھ لے گی کہ کیا کچھ رونما ہوتا ہے.علاوہ اس گندے اور اشتعال انگیز لٹریچر کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف شائع کیا جاتا ہے، مرکز سلسلہ اور جماعت احمدیہ کے خلاف بھی لوگوں کو طرح طرح سے اُکسایا اور ورغلایا جاتا ہے.مثلاً پچھلے دنوں ”زمیندار اخبار نے شائع کیا کہ احمدیوں کی طرف سے اسے اس قسم کی چٹھیاں ملی ہیں جن میں مولوی ظفر علی صاحب کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں.ہر ایک عقل مند اس قسم کی چٹھی لکھنے والے کو یا تو نیم پاگل سمجھے گا یا یہ خیال کرے گا کہ چٹھی مصنوعی ہوگی.مگر اس موقع پر ہوتا کیا ہے؟ یہ کہ مخالفین کے اس طبقہ میں شور مچ جاتا ہے کہ اب قتل ہونے لگیں گے اور احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے.ادھر گورنمنٹ کو فکر پڑ گئی پولیس نے انتظامات کرنے شروع کر دیئے سی.آئی.ڈی جمع ہونے لگ گئی مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ جب اٹھی پر لکھنے والے کا نام اور پتہ درج ہے تو کیوں اسے پکڑتے نہیں.وہ دکھی جرمن یا جاپان سے تو نہیں آئی تھی کہ لکھنے والا پکڑا نہ جا سکتا تھا.وہ کراچی کی چھٹھی تھی کیا حکومت کراچی سے اس کا پتہ نہ لگا سکتی تھی؟ وہاں ایک احمدی مبارک احمد رہتا ہے مگر پیٹھی پر مبارک مبارز لکھا تھا اور دوسری پیٹھی پر سید احمد نام درج تھا.ہمیں بہت حد تک یقین ہے کہ یہ پٹھیاں کس نے لکھیں.اگر
384 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات حکومت تحقیقات کرتی اور جس آدمی کو پیش کیا جاتا، اس کے خط کے ساتھ اس چٹھی کا خط ملاتی تو غالباً معلوم ہو جاتا کہ لکھنے والا حکومت کے ہی ایک محکمہ کا آدمی ہے.حکومت اس بارے میں بآسانی تحقیقات کر سکتی تھی لیکن بجائے اس کے کہ یہ تحقیقات کی جاتی کہ کراچی میں ایسے احمدی ہیں یا نہیں، پولیس کے حکام نے ”زمیندار کے شور وشر پر اس قسم کے انتظامات شروع کر دیئے کہ گویا اس کی شائع کردہ چٹھیاں بالکل درست تھیں اور فی الواقع قتل کا اندیشہ تھا.پھر ”زمیندار“ میں اسی قتل کرنے کی چٹھی لکھنے والے کی طرف سے اعلان کرا دیا جاتا ہے کہ وہ پہلے احمدی تھا مگر اب احمدیت سے مرتد ہو گیا ہے.اس کے متعلق ہم چیلنج دیتے ہیں کہ ثابت کریں وہ شخص کبھی احمدی ہوا.احمدی ہونے کے لئے بیعت کی جاتی ہے اور بیعت کرنے والوں کے نام شائع کئے جاتے ہیں.اس کا نام کب شائع ہوا.پھر احمدی کے لئے شرط ہے کہ وہ با قاعدہ چندہ ادا کرے اس نے کب چندہ دیا.کراچی میں باقاعدہ احمدی جماعت ہے اور تمام احمد یوں کے رجسٹروں میں نام درج ہیں، چندہ دینے والوں کو رسید میں دی جاتی ہیں، اس شخص سے پوچھا جا سکتا ہے کہ رسید میں دکھاؤ بیعت کرنے کے جواب میں جو خط تمہیں آیا وہ دکھاؤ.اگر اس طرح اسے احمدی ثابت نہیں کیا جا سکتا تو صاف بات ہے کہ بعض شریروں اور فتنہ پردازوں نے جعلی خطوط بنا کر شائع کرائے اور اس طرح عام لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اشتعال دلایا.مگر عجیب بات ہے کہ اشتعال تو احمدیوں کے خلاف دلایا گیا اور مصنوعی خطوط کے ذریعہ احمدیوں کی جان و مال کو خطرہ میں ڈالا گیا لیکن حکومت ان کی حفاظت کا انتظام کرتی ہے جنہوں نے اشتعال دلایا اور اس طرح جماعت احمدیہ کو اور زیادہ خطرات میں ڈال دیتی ہے.یہ سب کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، ہمارا خدا بھی دیکھ رہا ہے اور وہ افسر بھی دیکھ رہے ہیں جنہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اُن کے دل شرافت سے خالی نہیں ہیں.حکومت کسی ایک آدمی کا نام نہیں، بلکہ لاکھوں انسانوں کے مجموعہ کا نام ہے جو حکومت کر رہے ہیں.ان میں شریف بھی ہیں اور شریر بھی.آج اگر شریف ڈر کر نہ بولیں یا نا واقفی کی وجہ سے خاموش ہوں اور دخل نہ دیں تو اور بات ہے مگر ممکن ہے کہ کل انہیں علم ہو یا کمزور جرآت کریں اور فتنہ پردازوں کی حرکات بند کرنے کی کوشش کر یں لیکن اگر نہ کریں تو خدا تعالیٰ خود ہماری حفاظت کرے گا.آسمان سے تیر آئیں گے اور ہمارے دشمنوں کے سینوں کو چھیدیں گے.طاعون سے جو ہزار ہا لوگ مرے کیا وہ ہم نے مارے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طاعون طعن سے نکلا ہے اور طعن
385 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کے معنی نیزہ مارنا ہیں.پس وہی خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت آپ کے دشمنوں کے متعلق قہری جلوہ دکھایا، وہی اب بھی موجود ہے.اور اب بھی ضرور اپنی طاقتوں کا جلوہ دکھائے گا اور ہر گز خاموش نہ رہے گا.ہاں ! ہم خاموش رہیں گے اور جماعت کو نصیحت کریں گے کہ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہو سکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سُن کر امن پسند رہتی ہے.پھر لطیفہ یہ ہے کہ جو حرکات جماعت احمدیہ کے خلاف کی جاتی ہیں وہ اس قدر معقولیت سے دور ہیں کہ معمولی عقل و سمجھ کا انسان بھی ان کی بے ہودگی کو سمجھ سکتا ہے.ایک ہی وقت اعلان کیا جاتا ہے کہ احمد ی حکومت کے جاسوس ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ انگریزوں کے دشمن ہیں لیکن بغض و کینہ کی انتہاء ہے کہ جب فتنہ پرداز یہ کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے دشمن ہیں، تو پڑھنے والے کہتے ہیں کیا ہی اچھا کہا اور جب کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے جاسوس ہیں، تو پھر بھی کہتے ہیں واہ واہ کیا خوب کہا.گویا ایک ہی وقت میں دونوں باتیں جو ایک دوسری کی متضاد ہیں پسند کی جاتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حکومت کا ایک جزو بھی ایسے لوگوں کی باتوں کو درست تسلیم کرتا اور اپنے طرز عمل سے ان کی حمایت کرتا ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ احمدی حکومت کے جاسوس ہیں، تو حکومت کے افسر خاموشی سے گزر جاتے ہیں، گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں لیکن جب کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے دشمن ہیں تو احمدیوں کے خلاف ڈائریاں لکھنے لگ جاتے ہیں.غرض فتنہ پرداز لوگ اس طرح ایک طرف تو حکومت کو ہمارے خلاف اکساتے اور دوسری طرف مسلمانوں سے لڑاتے ہیں اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ کانگرس سے مل کر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہمیں جو کچھ ملنا تھا مل چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی کہا گیا اور دو دفعہ مجھے بھی کہلایا گیا کہ کیا حکومت اگر کوئی خطاب دے تو اسے قبول کر لیا جائے گا.میں نے کہا اگر حکومت ایسا کرے گی تو وہ میری ہتک کرے گی.ہمیں خدا تعالیٰ سے جو کچھ مل چکا ہے اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر حکومت کیا دے سکتی ہے.اپنے متعلق خطاب کا ذکر تو الگ رہا، اگر جماعت احمدیہ کا کوئی شخص بھی خطاب کے متعلق کچھ پوچھتا ہے تو میں اسے یہی کہتا ہوں کہ مجھے تو انسانی خطاب سے گھن آتی ہے.احمدی کہلانے سے بڑا خطاب اور کیا ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آپ کے والد صاحب کو خیال تھا کہ ان کا
386 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات گزارہ کس طرح چلے گا نہ تو یہ جائداد کا انتظام کر سکتے ہیں اور نہ نوکری کرنا چاہتے ہیں.قریب کے گاؤں کا ایک سکھ تھا اُس کے دو بیٹے دادا صاحب کے پاس آیا کرتے تھے.ان میں سے ایک نے مجھے سنایا کہ بڑے مرزا صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا: تم جاؤ غلام احمد تمہاری عمر کا ہے اسے سمجھاؤ کہ اگر وہ جائداد کا انتظام نہیں کر سکتا تو اسے ملازم کرا دوں.میں نے جا کر کہا آپ کے والد صاحب ناراض ہو رہے ہیں کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کیا بھائی کے ٹکڑوں پر پڑے رہو گئے اگر کہو تو ملازم کرا دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سن کر فر ما یا والد صاحب تو یونہی فکر کرتے ہیں، انہیں کہہ دو میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا ہوں.باوجود یکہ دادا صاحب دنیا دار آدمی تھے اس سکھ کا بیان ہے کہ جب میں نے انہیں جا کر کہا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں تو خاموش ہو گئے اور پھر کہا اگر اس نے یہ کہا ہے تو سچ کہتا ہے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا.پس ہم اس کے قائم کئے ہوئے سلسلہ کو چلانے والے ہیں جو دنیا کی نوکریوں سے آزاد تھا.دنیا وی نوکریوں کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دنیاوی مفاد حاصل کئے جائیں.ہمارے پاس تو وہ کا غذات پڑے ہیں جن میں حکومت کی طرف سے لکھا ہے کہ وہ ہمارے خاندان کی پھر پہلی حالت بحال کر دے گی.یہ تحریر میں حکومت تسلیم کرتی رہی ہے مگر ہم نے ان کو کبھی اتنی بھی وقعت نہ دی جتنی رڈی کاغذ کو دی جاتی ہے.کبھی ہم نے ان کی بناء پر حکومت سے کچھ مانگا ؟ قطعا نہیں.ملک میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے حکومت کی چھوٹی چھوٹی خدمات کیں اور حکومت نے ان کو مربعے دیئے مگر کیا ہم نے کبھی حکومت سے کچھ مانگا ؟ یا جماعت کی خدمات کی بناء پر کچھ مانگا.جنگ عظیم میں ہم نے تین ہزار کے قریب افراد مہیا کئے اور ہزار ہا روپیہ خرچ کیا.اتنی ہی تعداد ب شخص کی طرف منسوب کی گئی، حالانکہ اس نے اتنے آدمی نہ دیئے تھے اسے سر کا خطاب مل گیا مگر ہم نے کچھ نہیں مانگا.اگر ہماری خدمات دنیاوی اغراض کے ماتحت ہوتیں تو کبھی تو اس کا کوئی نشان ظاہر ہوتا.باوجود اس کے اگر حکومت کو یہ خیال ہو کہ ہم اس سے جاہ طلبی کرتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہے.ہمیں جو کچھ ملنا تھا وہ اُسی وقت مل گیا جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.حضرت مسیح علیہ السلام پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.یہود اُن کے پاس گئے اور سوال کیا کہ کیا ہم قیصر کو مالیہ نہ دیں.آپ نے فرمایا: ذرا وہ در ہم تو دکھا ؤ جو تم کو دینا پڑتا ہے.جب انہوں نے درہم دکھایا تو آپ نے کہا اس پر کس کی تصویر
387 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہے یا کس کا نام ہے؟ ان کے بتانے پر کہ قیصر کا ، انہوں نے کہا: بس پھر جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو لے پس ہم بھی خدا کے لئے وہی مانگتے ہیں جو خدا کا ہے اور خدا کو پنجاب یا ہندوستان کی کیا ضرورت ہے وہ دل چاہتا ہے اور ہم بھی اس کے لئے لوگوں کے قلوب ہی طلب کرتے ہیں دنیا وی حکومتوں سے ہمیں کیا کام.مگر میں یہ بزدلی سے نہیں کہتا بلکہ دیانت داری سے بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں.اس کا میدانِ عمل اور ہے اور ہمارا اور ہے لیکن اگر وہ خود ہم سے ٹکرائے گی تو اُس کا وہی حال ہوگا جو کونے کے پتھر سے ٹکرانے والے کا ہوتا ہے.ہمیں وفاداری کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم اس پر قائم رہنا چاہتے ہیں.مگر اس قسم کے گتے جو ہمارے پیچھے چھوڑے گئے ہیں اور حکومت ان کا تدارک کر کے ان کے ضرر سے ہمیں نہیں بچاتی خدا تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گئے خدا تعالیٰ ضرور ان سے بدلہ لے گا اور حکومت بھی جلد اس کا انسداد نہ کرنے کے سبب سے زیر الزام آئے گی.ہماری امن پسندی کی تو یہ حالت ہے کہ بعض مقامی حکام نے احراریوں کے جلسہ کے موقع پر جب حکم دیا کہ احمدی اپنے پاس کیمرے نہ رکھیں، تو میں نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی ہدایت کر دی حالانکہ کیمروں سے کسی کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا.کیمرہ سے کبھی کسی نے کسی پر حملہ کیا ؟ اس سے کبھی کوئی خون ہوا؟ کبھی اس سے کسی نے کسی کی آنکھ ہی پھوڑی ہے؟ ایسا نا معقول شخص کون ہوگا کہ دو آنے کی سوئی جو کام کر سکتی ہے وہ دو اڑھائی سو روپیہ کے کیمرے سے لے.مگر احراریوں کے جلسہ پر حکم دیا گیا کہ احمدی اپنے پاس کیمرے نہ رکھیں، ان سے فساد ہو جائے گا اور اس کی وجہ صرف ان چھوٹے افسروں کی یا سپاہیوں کی شکایت تھی جو ڈرتے تھے کہ احمدی ہماری حرکات کی تصویر نہ لے لیں اور جب ان کی شکایت کی غرض نہ سمجھتے ہوئے سپر نٹنڈنٹ پولیس نے حکم دیا کہ احمدی کیمرے نہ رکھیں، اس سے اشتعال ہوتا ہے تو میں نے جماعت کو اس سے بھی منع کر دیا.پھر ایک لڑکے نے جو مستری کا کام سیکھتا تھا، ایک کھڈ سٹک بنائی تو اس کا نام نیزہ رکھا گیا اور اخباروں میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ قادیان میں نیزے پکڑے گئے ہیں.باوجود اس کے کہ یہ بالکل جھوٹ تھا اور باوجود اس کے کہ ہم نے اس کے متعلق چیلنج دیا اور میں نے خود سی.آئی.ڈی کے سپرنٹنڈنٹ صاحب کو کہا کہ آپ میری اجازت سے اسی وقت ہماری در بندی کر کے تلاشی لے لیں تا کہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے اور چونکہ ہم خود راضی ہیں، قانون کا کوئی اعتراض نہ ہو
388 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات گا.ہر احمدی کے گھر کی تلاشی لے لی جائے کہ کس قدر نیزے احمدیوں کے گھروں میں ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ جب آپ نے کہہ دیا کہ ایسا نہیں تو اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے.کوئی افسر نہیں جو آپ کے انکار کو تسلیم نہ کرے گا لیکن مقامی حکام نے اس خبر کی جو شائع ہوئی تھی کوئی تردید نہ کی بلکہ جب بعض حکام کو سلسلہ کے نمائندوں نے کہا کہ آپ ان شخصوں پر مقدمہ کیوں نہیں چلاتے جن کے پاس سے نیزے نکلے تھے.تو وہ بے اختیار بول اُٹھے کہ اصل بات یہ ہے کہ وہ نیز نہیں، کھڈ سٹک تھی اور قانو نا اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا مگر باوجود اس کے اس خبر کی تردید نہ کی گئی اور ہمارے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جیسا کہ کہتے ہیں ایک شخص کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی.وہ کہنے لگا خدا کی قسم فلاں جگہ اتنی سخت لڑائی ہوئی ہے کہ کئی لاشیں پڑی ہیں.جب اس سے پھر پوچھا گیا تو کہنے لگا قرآن کی قسم سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں.اسے کہا گیا اپنی جان کی قسم کھا کر بتا ؤ تو کہنے لگا صرف دو آدمی مارے گئے ہیں.پھر کہا گیا سچ سچ بتاؤ تو کہنے لگا ایک آدمی کے خراش آئی ہے اور جب کہا گیا کہ صحیح صحیح بتا ؤ بات کیا ہے تو کہنے لگا دو بلیاں لڑ رہی تھیں.جس رنگ میں ہم نے خبر سنی تھی، ہر تحقیق کے بعد اس میں کمی آتی گئی مگر جن لوگوں نے یہ سب جھوٹ بولا تھا، انہیں کوئی باز پرس نہ ہوئی اور اخباری لحاظ سے یہ خبر اب تک قائم ہے اور ایک پُر امن سلسلہ کے نام پر ایک بدنما دھبہ.ہم نہیں جانتے کہ یہ خبر ایسوسی ایٹڈ پریس میں کس نے شائع کرائی مجسٹریٹ علاقہ نے یا ڈپٹی کمشنر نے یا سپر نٹنڈنٹ پولیس نے.بے شک ہم بھی دریافت کر سکتے تھے کہ یہ بات کس نے بنائی اور پھیلائی لیکن اگر ہم ایسا کرتے تو جھٹ رپورٹ کر دی جاتی کہ سرکاری آدمیوں کے کام میں دست اندازی کی جاتی ہے.اس کے متعلق حکومت ہی پتہ لگا سکتی تھی اور معلوم کر سکتی تھی کہ کس نے جھوٹ بولا اور ایسوسی ایٹڈ پریس کو کس نے یہ خبر مہیا کی.مگر باوجود ہمارے بار بار کہنے کے توجہ نہیں کی جاتی.اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے افسر ہیں جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں اور وہ حکومت کے بھی وفادار نہیں ہیں اور وہ اس قسم کی تحقیق سے حکام بالا کو باز رکھتے ہیں.غرض ہمارے خلاف ایسی کارروائیاں کرائی جارہی ہیں جو سخت اشتعال دلانے والی اور فتنہ کو انگیخت کرنے والی ہیں.میں اس وقت ان کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا.بعض کے متعلق تو میں اپنے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اور بعض کے متعلق جو شکوہ تھا اس کی نسبت میں نے لکھ دیا
389 انوار العلوم جلد ۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہے کہ حکومت سے جھگڑا طے ہو گیا.مگر اعلیٰ حکام سے اتر کر جو نچلا طبقہ ہے وہ جو حرکات کرتا رہا ہے وہ اب تک جاری ہیں اور احراریوں کو ان کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ شرارت کرنے کی جرات مل رہی ہے.حکومت کا فرض ہے کہ تحقیقات کر کے ایسے افسروں کو سزا دے اور اس کا فرض ہے کہ شرارت اور فتنہ پھیلانے والوں کی شرارتوں کا انسداد کرے.ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خصی کر دیا ہے مگر ساری دنیا تو خصی نہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جو حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں اُس وقت حکومت کو ہماری مدد کی ضرورت ہوگی.ہم خواہ اُس وقت اس کی مدد کریں لیکن حکومت کو اخلاقی طور پر اُس وقت کس قدر شرمندگی اُٹھانی پڑے گی کہ صلى الله جن کی عزتوں پر حملہ ہوتا دیکھ کر ہم خاموش رہے آج انہی کی مدد کے طالب ہونا پڑا.پھر کہا جاتا ہے کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.ادھر اخباروں میں شائع کرتے ہیں کہ جو رسول کریم ﷺ کی ہتک کرئے اُس کا قتل کرنا جائز ہے.مطلب یہ کہ احمدیوں کو قتل کرنا جائز ہے اور عوام کو چاہئے کہ احمدیوں کو قتل کریں حالانکہ رسول کریم ﷺ کی ہتک ہم نہیں کرتے بلکہ وہ خود کرتے ہیں.وہ کسی منصف کو بٹھا کر فیصلہ کرا لیں کہ رسول کریم کی ہتک وہ کرتے ہیں یا ہم ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو کہتے ہیں:.بعد از خدا بعشق گر کفر این بود محمد محمرم بخدا سخت کافرم الله الله یعنی خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کے عشق سے میں مخمور ہوں اس کا نام اگر کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کا فر ہوں.یہ ہمارا عقیدہ ہے مگر کہا یہ جاتا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.پھر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز تھے اور آپ کے حلیہ میں آئے آپ کا ادب آپ کے دل میں اس قدر تھا کہ آپ کی آل و اولاد کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی شاگردی کے تعلق سے آپ کی اولاد کا اس درجہ پاس کرتے تھے.غرض رسول کریم ﷺ کی جو عزت ہمارے دل میں ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم تسلیم ہی نہیں کر سکتے کہ کسی اور کے دل میں اس سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کی عزت ہوسکتی ہے.پھر دیکھو رسول کریم ﷺ کی عزت بچانے اور آپ کی تو قیر قائم کرنے کے لئے آگے ہم آتے ہیں یا وہ ؟ جب رسول کریم ﷺ کو دوسرے مذاہب کے بد زبان لوگ گالیاں دیتے ہیں تو کون
390 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ان گالیوں کو ر ڈ کرنے کے لئے اُٹھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی خوبیاں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.پھر انگلستان افریقہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں ہم جاتے ہیں تا کہ وہاں کے لوگوں کو رسول کریم علیہ کی غلامی میں داخل کریں یا وہ.عجیب بات ہے کہ رسول کریم سے محبت تو اُن کو ہو لیکن آپ کی شان میں بدزبانی کرنے والوں کی حرکات سے درد صلى الله ہمارے دلوں میں پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نمونہ سے بتا دیا ہے کہ آپ رسول کریم ﷺ کے متعلق کتنی غیرت رکھتے تھے.آپ ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے لیکھرام جو مشہور آریہ تھا، آپ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے آکر سلام کہا آپ نے کوئی جواب نہ دیا.پھر اُس نے سلام کیا پھر بھی آپ نے جواب نہ دیا.تیسری دفعہ اُس نے سلام کیا، پھر بھی آپ نے توجہ نہ کی.اس پر کسی نے آپ سے کہا، پنڈت لیکھر ام سلام کہتے ہیں.اس پر آپ نے نہایت غصہ سے کہا: اسے شرم نہیں آتی ، میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے.ہم پر رسول کریم ﷺ کی تک کرنے کا الزام لگانے والوں میں سے کتنے ہیں جو ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں.ان میں سے کئی ایسے ہیں جو رسول کریم ہے کے شدید مخالفوں کی دعوتیں کھا لیتے اور انہیں اپنے گھروں میں عزت سے بٹھاتے ہیں اور اس وقت بھی وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے ان کی خوشامد میں کر رہے ہیں.غرض ہم اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے رسول کریم ﷺ کی عزت بچا رہے ہیں.مگر انہوں نے کیا کیا ہے؟ یہی نا کہ کچھ ہندو مار ڈالے اور اس طرح اسلام کو بد نام کر دیا.یہ اسلام کو دنیا کی نظروں میں بدنام کرنے والے اور رسول کریم ﷺ سے دنیا کو متنفر کرنے والے آپ کے خیر خواہ لیکن لاکھوں روپیہ اسلام کی اشاعت کیلئے خرچ کرنے والی اور ہزاروں آدمیوں کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی خوبیاں دنیا میں پیش کرنے والی جماعت آپ کی دشمن ہو گئی.ہم نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ، افریقہ اور امریکہ میں رسول کریم کو گالیاں دینے والوں کو مسلمان بنارہے ہیں.کچھ عرصہ ہوا ایک نو مسلم نے مجھے لکھا کہ میں پہلے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب آپ کے مبلغ کے ذریعہ مجھ پر یہ اثر ہوا ہے کہ میں اُس وقت تک نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں.کیا یہی وہ ہتک ہے جو ہم رسول کریم ﷺ کی کر رہے ہیں.پھر ہم پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کی الله
391 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہتک کرتے ہیں مگر اس الزام کے لگانے والوں کو یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ کوئی مولود نہیں خواہ مرد ہو خواہ عورت جسے شیطان نے نہ چھوا ہو سوائے حضرت عیسیٰ اور ان کی ماں کے سے کیا ان کے اس حدیث کو پیش کرنے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ رسول کریم صلى الله کی والدہ اور والد اور خود رسول کریم اللہ پر اس طرح حملہ کرتے ہیں؟ اسی طرح وہ حضرت ابراہیم حضرت یعقوب، حضرت اسحاق اور دوسرے انبیاء کو بھی انہی میں شامل کر رہے ہیں جن کو شیطان نے چھوا ؟ یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر یہ کہتے ہوئے تو ذرا نہیں شرماتے کہ رسول کریم کے باپ دادے اور آپ کی دادیاں نانیاں سب کو شیطان نے چھوا.مگر جب مسیحی لوگ ان کی ان باتوں سے فائدہ اُٹھا کر حضرت مسیح کی نبی کریم ﷺ پر فضیلت ثابت کرتے ہیں، ہم اس کے خلاف کہتے اور ان باتوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں.یہ ہے ان کی غیرت کا حال.پھر وہ امہات المؤمنین کو گالیاں دیتے ہیں اور آیت اِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا کے یہ معنی کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں سے کہا گیا ہے تمہیں تو بہ کرنی چاہیئے تمہارے دل گندے ہو چکے ہیں.ان کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں کے دل گندے ہو گئے تھے کے لیکن ہم لوگ ان معنوں کے منکر ہیں.ہمارے نزدیک امہات المؤمنین پاکباز ، پاک شعار اور تقویٰ کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والی ہماری مقدس ما ئیں تھیں اور اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اے ہمارے پیغمبر کی بیو یو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو تو یہ فعل تمہارے مقام کے عین شایانِ شان ہے کیونکہ تمہارے دل تو پہلے سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف جھک رہے ہیں مگر باوجود اس کے یہ لوگ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.پھر کوئی نبی نہیں جس کی انہوں نے ہتک نہ کی ہو ہر ایک کے خلاف ایسے ایسے گندے الزامات ان کی کتابوں میں موجود ہیں جنہیں کوئی شریف انسان سُن بھی نہیں سکتا.اگر ہمارے خلاف ان کا یہی طریق عمل جاری رہا اور ہمیں ان کے لٹریچر کو شائع کرنا پڑا تو پھر گورنمنٹ کہے گی شائع نہ کرو اس سے فساد ہوتا ہے لیکن وہ ان لوگوں کو الزام لگانے سے نہیں روکتی.پھر قادیان میں منافق بنائے جاتے ہیں.اور بعض سرکاری افسران کو اپنے ساتھ لئے لئے پھرتے ہیں.کسی کو انفارمر بنایا جاتا ہے کسی کی کرسی نشینی کی سفارش کی جاتی ہے.گویا افسر چاہتے ہیں کہ ہم میں تفرقہ پیدا کر کے تماشہ دیکھیں.ہمارے لاہور کے غیر مبائع دوست کہا کرتے ہیں،
392 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات قادیان میں کہاں منافق ہو سکتے ہیں کیونکہ احمدیوں کی وہاں حکومت نہیں.مگر وہ یہودا اسکر یوطی کو بھول جاتے ہیں جب حضرت مسیح علیہ السلام آئے، اُس وقت اُن کے پاس کہاں حکومت تھی مگر اُس وقت بھی منافق تھے.غرض سارے ہندوستان میں ہمارے خلاف آگ لگی ہوئی ہے.فتنہ پردازوں کی چونکہ نواب اور رئیس مدد کرتے ہیں، اس لئے انہیں جرات ہو رہی ہے.پھر کچھ اس لئے عام مسلمانوں سے ان کو مددمل جاتی ہے کہ ہمارے خلاف لوگوں میں وہ یہ غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم کی بہتک کرتے ہیں اور وہ اس ہتک کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں.غرض ہر جگہ ہمارے خلاف بڑا جوش پایا جاتا ہے.ہماری جماعت کے بعض دوست اس جوش کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ اخبار ”زمیندار“ اور ” احسان نے فلاں غلط بیانی اور فتنہ پردازی کی اس لئے جوش پیدا ہوا.یا یہ کہ فلاں بات پیدا ہوئی اس لئے لوگ مشتعل ہو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے اور آج میں اس مخالفت اور اس مخالفانہ جوش و خروش کا سبب بتانا چاہتا ہوں.ظاہری اسباب کو دیکھ کر یہ کہنا کہ مخالفت ان کی وجہ سے ہو رہی ہے، ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی نادان قلم ہلتا دیکھ کر سمجھے کہ قلم لکھ رہا ہے حالانکہ قلم کو ہلانے والا ہاتھ ہوتا ہے ہاتھ کو ہلانے والا باز و ہوتا ہے اور باز وکو ہلانے والا دماغ ہوتا ہے اور دماغ کو قوت ارادی ہلا رہی ہوتی ہے.یہی حال یہاں ہے.اس مخالفت کی وجہ اور ہی ہے.دراصل نبیوں کی بعثت کی غرض جماعت بنانا نہیں ہوتی.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چونکہ جماعت بنا دی ہے، اس لئے وہ کامیاب ہو جائیں گے.لیکن اگر انبیاء کی غرض جماعت بنانا ہی ہوتا تو ہر نبی کوئی بنی بنائی جماعت ہی لے لیتا.پھر جماعتیں تو دنیا کے لیڈر بھی بنا لیتے ہیں.بعض لوگ انبیاء کی بعثت کی غرض فتح پانا اور غالب ہونا سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں یہ اپنی کوشش سے بھی لوگوں کو حاصل ہو جاتی ہے.جاپانیوں اور انگریزوں کے لئے کونسا نبی آیا کہ انہوں نے اتنی ترقی کی.ہم بھی اگر بادشاہ بن جائیں اور دنیاوی ترقی حاصل کر لیں تو ہم کون سے تیں مارخاں بن جائیں گے.رسول کریم ﷺ کی حکومت تلوار کے ذریعہ قائم نہ ہوئی تھی.ایک یورپین مصنف لکھتا ہے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلوار چلائی اور تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلایا.مگر سوال یہ ہے کہ ان کو تلوار چلانے والے کہاں سے حاصل ہوئے؟ بات یہ ہے کہ روحانی جماعتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح حاصل ہوتی ہے نہ کہ اپنی طاقت سے پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء جماعت کیوں بناتے ہیں؟ اصل بات یہ
393 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہے کہ انبیاء دنیا میں جماعت نہیں بلکہ پاک اور مقدس جماعت بنانے کے لئے آتے ہیں.اور تقدس جو ہوا کرتا ہے وہ آسمان سے نہیں اُتر ا کرتا.الہام اور وحی آسمان سے اترتی ہے اور نبوت بھی آسمان سے اترتی ہے.مگر تقدس آسمان سے نہیں اترتا اور نہ بازاروں سے مل سکتا ہے، یعنی چندے دینے سے حاصل نہیں ہو سکتا.اگر ایسا ہوتا تو موجودہ زمانہ میں راک فیلر کارنیگی 1 وغیرہ سب سے زیادہ تقدس رکھتے کیونکہ انہوں نے کروڑوں روپے رفاہ عام کے لئے خرچ کئے.ایک شخص کے متعلق چھپا تھا کہ اس نے ایک ارب سے زیادہ روپیہ اپنی زندگی میں بطور صدقہ دیا.بعض ایسے بھی لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ صدقہ میں دے دیا اور جب مرے تو پیچھے کوڑی بھی باقی نہ تھی.اگر روپیہ سے تقدس مل سکتا تو یہ لوگ سب سے بڑے مقدس ہوتے.پھر تقدس کہاں سے آتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے تقدس دو طرح سے آتا ہے پہلے عارضی طور پر اُس وقت آتا ہے جب کوئی شخص خدا کے رسول یا اُس کے خلیفہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرتا ہے.جیسے بیاہ شادیوں میں گلاب پاشی کی جاتی ہے اسی طرح بیعت کرنے والے پر خدا کے فرشتے تقدس چھڑ کہتے ہیں.مگر جس طرح باہر کی خوشبو خواہ کتنی قیمتی ہو.(سنا ہے شاہی زمانوں میں ہزار ہزار روپیہ تو لہ کا عطر بھی ہوا کرتا تھا.) وہ ساری عمر نہیں رہتی اسی طرح باہر کا تقدس بھی ہمیشہ نہیں رہتا.ہمیشہ رہنے والا تقدس اندر کا ہی ہوتا ہے.ہزار روپیہ تو لہ والا عطر کچھ عرصہ کے بعد اُڑ جاتا، مگر پچاس روپے کی کستوری کی خوشبو قائم رہتی ہے.تو اندرونی خوشبو قائم رہتی ہے اور بیرونی عارضی ہوتی ہے.جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نبی یا اس کے خلیفہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس خوشی کے موقع پر تقدس کا پانی اُس پر چھڑ کہتے ہیں تا کہ اُس کے ناک کو تقدس کی خوشبو سے آشنائی حاصل ہو جائے اور وہ دھوکا نہ کھائے.چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْق أَيْدِيهِمْ یقیناً وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں، وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں.اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھ کو لگا.اللہ تعالیٰ چونکہ قدوس ہے اس لئے جب قدوس کا ہاتھ بیعت کرنے والے کو لگتا ہے تو اُسے تقدس کی خوشبو آنے لگ جاتی ہے.یہ عارضی تقدس اُس وقت ملتا ہے جب کوئی شخص بیعت میں داخل ہوتا ہے.اُس وقت وہ الوہیت کا جامہ پہن لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے آثاراً سے نظر آنے لگ جاتے ہیں.مگر یہ نمونہ ہوتا ہے اُسے آگاہ کر کے خوشخبری دینے کے لئے.اس کے بعد اگر وہ اپنے اندر نقدس نہ پیدا کرے گا تو بیرونی نقدس اڑ جائے گا.
394 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات جب کسی شخص سے تقدس کی خوشبو آنے لگتی ہے تو جس طرح کئی شکاری گتے ہوتے ہیں انہیں اگر کسی چور کے کپڑے کی خوشبو سنگھا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ دس ہیں بلکہ سو میل تک بھی پیچھے جا کر اُسے پکڑ لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت میں بھی ایک شکاری گتا ہے جسے تقدس کی خوشبو سے دشمنی ہے اور جس میں اسے یہ خوشبو آئے، اُس پر دیوانہ وار حملہ کرتا ہے.اُس کا نام شیطان ہے.جہاں اُسے تقدس کی خوشبو آئے گی وہاں دوڑ کر جائے گا اور کوشش کرے گا کہ جس سے خوشبو آتی ہے اُس چیر ڈالے.جب خدا کا ہاتھ کسی کے ہاتھ پر نبی یا خلیفہ کے ذریعہ رکھا جاتا ہے تو ادھر تقدس کی خوشبو پیدا ہوتی ہے اور ادھر شیطان حملہ کر دیتا ہے.پہلے آدم نے جب خدا تعالیٰ سے تقدس کی خوشبو پائی تو اس سے شیطان نے سونگھی.اب جہاں وہ خوشبو پاتا ہے اُدھر دوڑ پڑتا ہے.وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پیچھے دوڑا، پھر حضرت نوح علیہ السلام آئے اور انہوں نے خوشبو پائی تو ان کے پیچھے دوڑا پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے اور ان کے ذریعہ یہ خوشبو پھیلی تو اُن کے پیچھے دوڑ پڑا، پھر حضرت کرشن جی حضرت رام چندر جی حضرت زرتشت، حضرت عیسی حضرت محمد ﷺ آئے تو ان کے پیچھے دوڑا اگر ان سب میں ایک ہی قسم کی خوشبو نہ ہوتی تو ان پر شیطان کا حملہ بھی ایک ہی رنگ میں نہ ہوتا.چونکہ ان کی خوشبو ایک ہی طرح کی تھی اور وہ الوہیت کی خوشبو تھی، اس لئے شیطان نے ان کے زمانوں میں حملہ بھی ایک ہی رنگ میں کیا.اب وہی گتا ہمارے پیچھے دوڑ پڑا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے تقدس کی خوشبو ہم میں پیدا ہو چکی ہے اس لئے شیطان سے تعلق رکھنے والے اس خوشبو کو برداشت نہیں کر سکتے اور جس طرح شکاری کتا بو کے پیچھے دوڑتا ہے اسی طرح وہ ہمارے پیچھے دوڑتے اور ہمیں پلا قصور اور بغیر گناہ کے قتل کرنا اور تباہ کرنا چاہتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلَى صلى الله حين A یعنی اے آدم کی اولاد! جاؤ تم جہاں بھی جاؤ گے شیطان تمہارے پیچھے لگا رہے گا.پس جب کوئی آدم بنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلِ وَلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَحُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ ايته وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ فِتْنَةٌ لِلَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّلِمِينَ لَفِى شِقَاقٍ بَعِيدٍ
395 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تم سے پہلے کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا کہ جب اُس نے ارادہ کیا اور سکیم بنائی تو شیطان نے اُس کے رستہ میں روکیں نہ پیدا کرنی شروع کر دی ہوں.ہاں اللہ تعالیٰ لمبی جد و جہد کے بعد شیطان کی روکوں کو مٹا دیتا ہے اور ان باتوں کو قائم کر دیتا ہے جو اُس کی طرف سے ہوتی ہیں.اللہ بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے.اللہ کیوں ایسا کرتا ہے اس لئے کہ نبی مقدس جماعت بنائے.جب شیطان روکیں پیدا کرتا ہے تو جن کے دلوں میں بدی ہوتی ہے اور جن کے قلوب سخت ہوتے ہیں، وہ اس کی بات مان لیتے ہیں اور بلا وجہ مؤمنوں پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں اور ایسے ظالم دُور کی گمراہی میں پڑے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے اور وہ لوگوں کی اصلاح کی تجاویز کرتا ہے، تو شیطان روکیں ڈالنا شروع کر دیتا ہے تاکہ مومنوں اور منافقوں کو الگ الگ کر دے.صلى الله وہ جو ہمیں کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اور دوسرے انبیاء کی ہتک کرتے ہیں اگر انہی آیات کو لے لیا جائے تو وہ ان کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ شیطان نے سب انبیاء پر تصرف کیا حتی کہ رسول کریم ﷺ پر بھی اس نے تصرف کر لیا تھا اور آپ کی زبان پر بتوں کی تعریف جاری کر دی تھی حالانکہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ رسول کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ لوگ سچے مومن اور مقدس انسان بن جائیں اور شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مقدس نہ بنیں.وہ ان کے پیچھے دوڑتا ہے کہ ان کو مقدس بننے سے پہلے ہی چیر پھاڑ دے کیونکہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلطان یعنی خدا کے بندہ پر شیطان کا تصرف نہیں ہو سکتا.شیطان کوشش کرتا ہے کہ خدا کا بندہ بننے سے پہلے پہلے تصرف جمالے.اس طرح دوڑ شروع ہو جاتی ہے.تب جو کمزور ہوتے ہیں وہ شیطان کے قبضہ میں آ جاتے ہیں اور جو طاقت رکھتے ہیں وہ خدا کی مقدس جماعت میں شامل ہوتے جاتے ہیں.پس انبیاء کی جماعتوں کے مقابلہ میں فتنے اس لئے کھڑے کئے جاتے ہیں کہ کمزور ظاہر کر دیئے جائیں.پہلے تو وہ بھی تھوڑی دیر دوڑتے ہیں مگر پھر سمجھتے ہیں ہمارا تو کوئی نقصان نہیں ہمیں تو شیطان کے چیلے کچھ نہ کہیں گے.اس طرح وہ مقدس جماعت سے گرتے جاتے ہیں اور جماعت صاف ہوتی جاتی ہے.دراصل گرنے والے وہی ہوتے ہیں جن کے اندر تقدس پیدا نہیں ہوا ہوتا ورنہ جس میں نقدس پیدا ہو جائے وہ کبھی شیطانی لوگوں کے تصرف میں نہیں آ سکتا اور ان میں شامل نہیں ہو
396 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات سکتا.وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اپنے آپ کو شیطان کے آگے ڈال دیا تو اُسے میرے جسم سے تقدس کی خوشبو آ جائے گی اور وہ مجھے پہچان لے گا اور پھاڑ کر پھینک دے گا اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ لاہور کے حال کے الیکشن میں ایک الیکشن افسر کے سامنے جو ہماری جماعت سے تعلق رکھتا تھا ایک آدمی ووٹ دینے کے لئے پیش ہوا.یہ الیکشن ہند و وارڈ کا تھا اور ووٹ دینے والا شخص شکل و شباہت سے مسلمان معلوم ہوتا تھا مگر ہندو کی طرف سے ہندو بن کر ووٹ دینے آیا تھا.اس احمدی افسر نے اُسے ڈانٹا کہ تو مسلمان ہو کر ووٹ دینے آیا ہے؟ تو اس نے گھبرا کر کہا.قرآن کی قسم ! میں مسلمان نہیں ہندو ہوں اس طرح وہ ظاہر ہو گیا تو جس میں تقدس آ جائے اُس کا تقدس ظاہر ہو ہی جاتا ہے.شیطان اُس کے پیچھے لگا ہوتا ہے وہ آگے دوڑتا جاتا ہے اور اسے خدا تعالیٰ پر بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے نہیں پھڑ وائے گا اور مصیبت کتنی بھی لمبی ہوتی جائے اس کی روح مضبوط ہوتی جاتی ہے خواہ جسم کمزوری محسوس کرے.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے مصیبت کے وقت اپنے حواریوں سے کہا.آؤ میرے ساتھ دعا کرو مگر وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی اُن کے ساتھ دعا نہ کر سکے.اُس وقت کی حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا کے الفاظ کتنے درد ناک ہیں.کہتے ہیں.میری روح تو مستعد ہے لیکن جسم کمزور ہے.یعنی روح تو صلیب پر لٹکنے کے لئے تیار ہے لیکن جسم چاہتا ہے کہ یہ پیالہ مل جائے.یہی مومن کی حالت ہوتی ہے.ایک طرف تو وہ رضا بالقضاء ہوتا ہے کہ جو ہونا ہے ہو جائے مگر اُس کا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر یہ مصیبت ٹل جائے تو اچھا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کبھی نہیں چھوڑ تاجب تک مومن ہر قسم کے ابتلاء میں سے نہ گزرے.چنانچہ فرماتا ہے اَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسْتَهُمُ الْبَاسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوْا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَريبٌ.اے مومنو! اے مامور کی جماعت! کبھی یہ مت خیال کرو کہ بغیر مصیبتیں اُٹھائے تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم سمجھتے ہو کہ تم جنت کے پاس پہنچ جاؤ گے اور اس میں داخل ہو جاؤ گئے، حالانکہ ابھی تمہاری وہ حالت نہیں ہوئی جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کی ہوئی.کیا تمہاری مصیبتیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو پہنچیں.اُن کو مالی بھی اور جسمانی بھی مصیبتیں پہنچیں.اور چاروں طرف سے انہیں خوب جھنجوڑا گیا جس طرح جامن کو برتن میں ڈال کر ہلایا جاتا ہے.
397 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات یہاں تک کہ رسول اور اُس کے ساتھ والے پکار اٹھے.کہ مَتى نَصْرُ اللهِ اے خدا ! ہماری مصیبتیں انتہاء کو پہنچ گئیں.تیری نصرت کہاں ہے.جب یہ وقت آ جائے ساری مصیبتیں آ جائیں، پاؤں لڑکھڑانے لگیں، دشمن اپنے سارے حربے استعمال کر چکے جسم آگے چلنے سے انکار کر دیں دشمن کے گتے یعنی تمام اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر ظلم کرنے والے لوگ اپنے قریب پہنچتے ہوئے نظر آئیں، جسم بالکل جواب دے بیٹھے تو بے اختیار دل سے نکلتا ہے.اے خدا! تو کہاں ہے؟ اُس وقت خدا تعالیٰ کہتا ہے.اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَریب گھبراؤ نہیں میں یہ تمہارے قریب ہی ہوں.تب سنت اللہ یہ ہے کہ جنگل بیابان میں جہاں پانی کا بھی نشان نظر نہیں آتا جنت بنا کر مومنوں کے پاس رکھ دی جاتی ہے.جگہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ حقیقت کے لحاظ سے.چنانچہ آتا ہے.وَادَ الْجَنَّةُ الفَتْ ) کہ مومن کے پاس جنت لائی جاتی ہے مومن کو وہاں نہیں لے جایا جا تا.جب مصائب انتہاء کو پہنچ جائیں تو پھر چلنے کی طاقت نہیں ہوتی کہ مومن چل کر جنت میں جا سکے اس لئے جنت مومن کے پاس لائی جاتی ہے.وہ جن کے دل میں آخر تک کسی قسم کی بدظنی نہیں آتی ، وہ جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں، وہ جو دین کے لئے ہر ایک قربانی کرنا اپنے اوپر خدا تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں، خدا تعالیٰ اُن کو جنت کے دروازہ پر کھڑا کر دیتا ہے اور کہتا ہے.فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي " اے میرے بندے ! اب تو میرے بچے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا.پس وہ بے کس اور بے بس انسان جو مصائب کا مقابلہ کر کر کے تھک جاتا ہے، جس کا جسم چور چور ہو جاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کے آگے گر جاتا ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ جنت سمیت سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور اسے کہتا ہے.يَا يَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِى ها کہ اے وہ جو نفس مطمئنہ تھا یعنی جو مصائب اور مشکلات میں مبتلاء ہونے پر بھی خوب مضبوط تھا.مطمئن کے معنی ہیں وہ جو ہلتا نہیں.پہلے بتایا تھا کہ مومن کو ہلایا جاتا ہے.اب فرماتا ہے شیطان کی ذریت نے سارا زور لگایا کہ تجھے ہلائے مگر تو اپنی جگہ پر قائم رہا.دنیا نے تیری قدر نہ کی مگر تیرا پیدا کرنے والا رب تجھے نہیں چھوڑے گا.تو اپنے رب کی طرف آجا.تیرے رب نے اتنی مصیبتوں اور مشکلات کے ذریعہ تیرا امتحان لیا اور تو پھر بھی خوش ہی رہا.جب تو اس حالت میں بھی اتنا خوش رہا تو جو کو تا ہیاں تجھ سے ہوئی ہیں، میں بھی ان کی وجہ سے ناراض نہیں بلکہ تجھ پر خوش ہوں فَادُ خُلِى
398 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي.پس اے میرے بندے ! تو نے شیطان سے بہت دکھ اُٹھائے اور میرا وعدہ تھا کہ اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَان جب کوئی میرا بندہ بن جاتا ہے تو پھر شیطان اُس پر قبضہ نہیں کر سکتا آج میں تجھے اپنے بندوں میں داخل کرتا ہوں اور جب تو میرا بندہ بن گیا تو یہ میری جنت تیری ہوگئی.۱۴ پس فرمایا کہ جب جنت مل جائے خواہ اس دنیا میں خواہ انگلی دنیا میں، پھر انسان شیطان کے حملہ سے محفوظ ہو جاتا ہے.کہا جاتا ہے حضرت آدم کو جب جنت سے نکالا گیا تو شیطان نے کہا.رَبِّ فَانُظُرُ نِی إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.کہ آپ ان بندوں پر اعتبار کرتے ہیں مجھے يُبْعَثُونَ تک موقع دیں تا کہ میں ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں.خدا تعالیٰ نے فرمایا.فَاِنَّكَ مِنَ الْمَنْظَرِينَ " تمہیں ڈھیل ہے جاؤ.جو کچھ کر سکتے ہو کر لو.لوگ کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے شیطان کو انسانوں کے پیچھے لگا دیا.مگر دیکھو شیطان ہی آ کر مومن کو جنت تک پہنچا گیا.شیطان پیچھے لگا تو مومن آگے بھاگا اور بھاگتے بھاگتے خدا تعالیٰ تک پہنچ گیا اور خدا تعالیٰ نے اُسے کہہ دیا یہ ہے جنت کا دروازہ اس میں داخل ہو جاؤ.گویا وہی شیطان جس نے آدم کو جنت سے نکالا تھا خدا تعالیٰ نے ایسی تدبیر کی کہ اسی کے ذریعہ بندوں کو جنت میں داخل کر دیا.پس معلوم ہوا کہ تقدس گھر بیٹھے سیجوں پر نہیں ملتا بلکہ کانٹوں پر کوٹنے اور تلواروں کے نیچے گردن رکھنے سے ملتا ہے اور یہ کانٹے شیطان بچھا تا اور یہ تلواریں شیطان چلاتا ہے.شیطان حملہ کرتا ہے تو مومن جنت کی طرف دوڑتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ اس میں داخل ہو جا تا ہے.پس یہ جو کچھ ہمارے خلاف ہو رہا ہے.یہ اخبار ”زمیندار احسان‘ اور حکومت کے غدار افسر نہیں کر رہے بلکہ خدا تعالیٰ کی وہی سنت اپنا کام کر رہی ہے جس کے متعلق آتا ہے.ام حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوْا حَتَّى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ جِب تم إِن مصائب اور مشکلات میں سے گز رو گے تب جنت میں داخل ہوسکو گے.مجھے مولوی عبد الکریم صاحب کا ایک لطیفہ نہیں کھولتا جو یہاں خوب چسپاں ہوتا ہے.ایک صاحب جو اب بھی زندہ ہیں، اُس وقت نو عمر لڑکے تھے، مسجد مبارک میں بیٹھے دعائیں کر رہے اور
399 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات رورو کر کہہ رہے تھے الہی ! میرے گناہ معاف کر دے.مولوی صاحب گھر سے نکلے تو ایسے جوش سے کہ اُس وقت تو میں ڈر گیا تھا مگر اب لطف آتا ہے.کہنے لگے دل چاہتا ہے کہ اسے اُٹھا کر نیچے پھینک دوں.اس نے کون سے گناہ کئے ہیں جن کی معافی مانگ رہا ہے.ہماری جماعت کے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصیبتیں ٹل جائیں وہ غور کریں ابھی کونسی مصیبتیں آئی ہیں جن کے ٹلنے کی خواہش رکھتے ہو.خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ جب تک ویسی ہی مصیبتیں نہ آئیں جیسی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام اور رسول کریم کی جماعتوں پر آ ئیں، اُس وقت تک جنت میں داخل ہونے کی اہلیت نہیں پیدا ہوسکتی.لیکن کوئی ہے جو دیانت داری سے یہ کہہ سکے کہ ویسی ہی مصیبتیں ہم پر آ گئی ہیں.میں تو نہیں کہہ سکتا اور کوئی ایک شخص بھی نہیں کہہ سکتا.صرف مصیبت کا آنا مراد نہیں بلکہ ایسی مصیبتیں آئیں جیسی پہلے انبیاء کی جماعتوں پر آئیں.جب وہ آئیں اور انسان اپنے آپ کو مومن ثابت کرے تب جنت میں داخل ہوتا ہے.تو شیطان ہمیں جنت کی طرف دھکیل رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ آہستہ آہستہ دھکیل رہا ہے.اور جس طرح آہستہ آہستہ روئی دھنی جاتی ہے، اس طرح ہمیں دھنا جا رہا ہے.ہم مصائب مانگتے نہیں مگر ان سے ڈر کر جھوٹی تدبیروں سے مصائب کو کم بھی نہیں کرنا چاہتے.مصائب کو آنے دو جتنی کہ آتی ہیں اور یقین رکھو کہ آخر کا رشیطنت ہی بھسم ہوگی.رہے کمز ور تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے مصائب لائے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ کمزوروں کو الگ کر دیا جائے گا.پس کمزوروں کو الگ ہونے دو ورنہ وہیں بیٹھے رہو گے جہاں بیٹھے ہو اور جنت میں داخل نہ ہو سکو گے.اور وہی بات ہوگی جو ایک بزرگ نے اپنے شاگرد سے کہی تھی.انہوں نے شاگرد سے کہا: اب تم اپنے وطن جاتے ہو مگر یہ تو بتاؤ کیا وہاں شیطان ہوتا ہے.شاگرد نے حیران ہو کر کہا آپ یہ کیا پوچھتے ہیں شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے.بزرگ نے کہا اگر شیطان تم سے مقابلہ کرے تو تم کیا کرو گے.انہوں نے کہا میں بھی شیطان کا مقابلہ کروں گا.بزرگ نے کہا اگر شیطان نے پھر حملہ کیا تو کیا کرو گے انہوں نے کہا پھر مقابلہ کروں گا.بزرگ نے کہا اگر اسی طرح تم ساری عمر شیطان سے لڑتے رہے تو خدا تعالیٰ کے پاس کب جاؤ گے.انہوں نے کہا پھر آپ ہی بتا ئیں مجھے کیا کرنا چاہئے.بزرگ نے کہا اگر تم کسی دوست کے پاس جانا چا ہو اور اُس کا خونخوار گتا تمہیں جانے نہ دے تو کیا کرو گے.انہوں نے کہا گتے کو مار کر بھگانے کی کوشش کروں گا.بزرگ نے کہا گتا پھر آ جائے تو.انہوں نے کہا گتے کے مالک کو آواز دوں گا کہ اسے
400 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات روکو.بزرگ نے کہا شیطان کے متعلق بھی یہی کرنا.خدا تعالیٰ سے کہنا اللہ میاں ! میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر شیطان آنے نہیں دیتا اور رستہ روکے کھڑا ہے.آپ اس گتے کو باندھ دیں.پس وہ تدبیریں کرو جو شیطان پر غالب آنے کے لئے ضروری ہیں تا کہ بہشت کے اندر داخل ہو سکو.بعض لوگ غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے ایسی تدبیریں کرتے ہیں جن میں کمزوروں کا تو لحاظ کیا جاتا ہے مگر طاقت وروں کو آگے بڑھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے.پھر اس وقت تک ہم نے جو قربانیاں کی ہیں، ان کے متعلق دیکھنا چاہئے کہ ان کی کیا حقیقت ہے.کیا اسی قسم کی قربانیاں ہمارے دشمن نہیں کر رہے؟ ہم اموال صرف کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے خلاف جلسے کرتے ہیں اور ان میں روپیہ پیسہ خرچ کرتے ہیں.ان کے اخبار کی ضمانت ضبط ہوتی ہے تو وہ اور جمع کرا دیتے ہیں.گو ان چندہ دینے والوں میں سے اکثر بے خبر لوگ ہوتے ہیں اور شریر نہیں ہوتے مگر بہر حال کچھ شریروں کی طرف سے اور کچھ بھولے بھالے فریب خوردہ لوگوں کی طرف سے رقوم جمع ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ مومنوں کے متعلق فرماتا ہے.اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُوْنَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيماً حَكِيمًا ۱۸ یعنی اگر تم کو دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے تو اُن کو بھی پہنچتی ہے.مگر مومن اور کافر کی قربانی میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ کافر جو قربانی کرتا ہے، وہ عقلاً نفع بخش ہوتی ہے.”زمیندار کی تین ہزار روپیہ کی ضمانت ضبط ہوتی ہے تو پانچ ہزار سے آ جاتا ہے اور دو ہزار نفع ہو جاتا ہے.اگر کوئی قید ہوتا ہے تو اس میں بھی نفع میں رہتا ہے.پس کا فرقر بانی میں نفع اور فائدہ کا امیدوار ہوتا ہے.اُس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کسان زمین میں غلہ پھینک رہا ہوتا ہے.لیکن مومن کی مثال یہ ہوتی ہے کہ جیسے کو ئی شخص سمندر میں غلہ پھینکے.لوگ اسے کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا.علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور میں لوگ چندہ دیتے ہیں تا کہ شہرت ہو مگر صدرانجمن احمدیہ کو چندہ دینے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے.لوگ گورنمنٹ کے خلاف تقریریں کرتے قید ہوتے ہیں تو عوام میں عزت ہو جاتی ہے لیکن ہماری جماعت کا اگر کوئی شخص ایسا کرے تو ہم خود اُ سے ڈانٹیں گے.کابل میں ہمارے آدمی مارے گئے تو محمود طرزی سے ملنے کے لئے میں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بھیجا.جب انہوں نے کہا کہ حکومت کابل نے ہمارے آدمیوں کی حفاظت کا وعدہ کر کے مار دیا ہے تو طرزی صاحب کہنے لگے شکایت تو ہمیں ہونی چاہئے کہ دو تین آدمیوں کے
401 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ۱۹ مارے جانے پر ساری دنیا میں تم نے ہمیں بدنام کر دیا نہ کہ تم کو.غرض ہماری قربانیوں کو کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جاتا لیکن یاد رکھو قربانی کرتے کرتے ایک وقت آ جاتا ہے جب مومن سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہم تباہ ہونے لگے.جب یہ وقت آتا ہے سبھی کامیابی حاصل ہوتی ہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی ایذاء رسانیوں سے بچنے کے لئے مکہ اور مدینہ میں دعائیں نہ کرتے تھے مگر ان کی قبولیت میں دیر ہوتی رہی لیکن بدر کے موقع پر آپ نے جو دعا کی وہ فوراً قبول ہوگئی.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے ایک طرف مسلمانوں کو دیکھا اور دوسری طرف کفار کو اور سمجھا اب ظاہری طاقت اور ظاہری سامان کے ذریعہ مسلمان بچ نہیں سکتے اب مسلمانوں کی تباہی یقینی نظر آتی ہے.اُس وقت آپ کے منہ سے یہ دعا نکل گئی.اَللَّهُمَّ اِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِى الْاَرْضِ اَبَداً الہی ! اگر آج یہ مسلمانوں کا چھوٹا سا گر وہ مارا گیا تو پھر دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا.تب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور وہ کفار جنہیں چودہ سال کی شرارتوں اور مخالفتوں کی سزا نہ ملی تھی، جھٹ پٹ مارے گئے.گویا اُن کو مارنے کے لئے آسمان سے فرشتے اُترے.یہی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی الہام کی گئی ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ اے اللہ ! یہ بے کس جماعت ہے اور یہی تیرا نام لینے والی ہے یہ اگر تباہ ہو گئی تو اور کوئی تیرا نام لیوا نہ رہے گا.اس سے پتہ لگتا ہے ایک زمانہ جماعت احمدیہ پر ایسا آنے والا ہے جبکہ اس کی وہی حالت ہوگی جو بدر میں مسلمانوں کی تھی.ہم بے ہتھیار ہوں گے اور دشمن با ہتھیار ہم تھوڑے ہونگے اور وہ بہت زیادہ ہم بے کس و بے بس ہوں گے اور دشمن کو ہر طرح کی شوکت میسر ہو گی، اُس وقت خدا تعالیٰ کا خاص نشان ظاہر ہو گا مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیں کہ ہمارے مٹنے سے خدا تعالیٰ کا نام لینے والے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے مٹ جائیں.گویا ہماری عبادتیں دوسروں کی عبادتوں سے بالکل ممتاز ہوں، ہماری قربانیاں دوسروں کی قربانیوں سے ممتاز ہوں ہمارے قلوب میں وہ اخلاص اور خدا تعالیٰ کے عشق کی وہ آگ ہو کہ اگر اسے بجھا دیا گیا تو پھر دنیا میں وہ نہ مل سکے.یہ چیز اپنے اندر پیدا کر لو اور پھر دیکھو خدا تعالیٰ تمہارے لئے کیا نشان دکھاتا ہے.اے دوستو اور اے عزیز و! یا درکھو.ابتلاء پر ابتلاء آ ئیں گے، مصیبت پر مصیبت آئے گی تم جب تک چور چور ہو کر خدا تعالیٰ کے آگے اپنے آپ کو نہ ڈال دو اور دشمن جب تک تمہیں کچلنے
402 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کے لئے ساراز ور نہ لگالے اور اس کے مقابلہ میں تم ویسی ہی ثابت قدمی نہ دکھاؤ جیسی پہلے انبیاء کی جماعتیں دکھاتی رہی ہیں، اُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے اور نہ یہ باتیں ٹل سکتی ہیں جو تمہیں پیش آ رہی ہیں یہ باتیں بڑھیں گی.اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لو حکومت کے آگے ناک رگڑ کر دیکھ لو اگر اس کے پاس تم مخالفین کی گالیاں بھی لے کر جاؤ گے تو کبھی کہ دیا جائے گا یہ گالیاں نہیں اور کبھی کہہ دیا جائے گا تمہارے جیسے وسیع الا خلاق لوگ ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے غرض کچھ بھی نہ کیا جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ تم کو بیدار کیا جائے.میں یہ نہیں کہتا کہ حکام کو ان کا فرض یاد نہ دلاؤ ہمارا ان پر حق ہے اور ہم ایسا ضرور کرتے رہیں گے.نہ میں یہ کہتا ہوں کہ مخالفین کا مقابلہ نہ کرو کیونکہ مشکلات کا مقابلہ کرنا شریعت کا حکم ہے.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ یہ مشکلات بڑھتی ہی جائیں گی جب تک تم وہ حالت نہ پیدا کر لو جو میں نے بیان کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.تین قسم کے لوگ ہماری جماعت میں ہیں.ایک وہ جو مجھے خدا کا ماہور اور مُرسل سمجھ کر ایمان لائے.دوسرے وہ جو اس لئے ایمان لائے کہ یہ ایک منظم جماعت ہے وہ صدر انجمن سے تعلق رکھتے ہیں.تیسرے وہ جو مولوی نورالدین صاحب سے حُسنِ ظن رکھتے تھے اور ان کی وجہ سے جماعت میں داخل ہو گئے.پھر فرمایا نجات وہی پاسکتا ہے جسے ایمان عجائز نصیب ہو.سچا سمجھ کر وہ مانتا ہے پھر خواہ جیئے یا مرے اس ایمان پر قائم رہتا ہے.اب تک بعض لوگ جماعت کو ان راہوں پر چلانا چاہتے ہیں جن پر انجمن حمایت اسلام والے یا علی گڑھ یو نیورسٹی والے چل رہے ہیں کہ کچھ چندہ ادا کر دیں، جلسے کر دیں اور اپنا کام ختم سمجھ کر گھروں میں بیٹھ رہیں.مگر ایک منٹ کے لئے ہی غور کر کے دیکھ لو کیا کسی نبی کی جماعت اس رنگ میں چلی ہے جس رنگ میں اس وقت تک ہم چل رہے ہیں.میں اس سے اپنے آپ کو اور ہزاروں دوسرے احمدیوں کو منفی کرتا ہوں مگر ہزاروں ایسے ہیں جو یہی سمجھتے ہیں اور نئے تعلیم یافتہ طبقہ کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو کہتا ہے بیرونی ممالک میں مشن قائم کئے جاتے ہیں، کیا یہاں کام تھوڑا ہے.مگر کیا نبیوں کی قائم کردہ کوئی جماعت ایسی ہوئی ہے جو صرف اپنے گھر میں تنظیم کر کے کامیاب ہوئی ہو.نبیوں کے ماننے والے پاگلوں اور مجنونوں کی طرح دنیا میں پھیل گئے اور ہر قسم کی مشکلات اور مصائب میں انہوں نے اپنے آپ کو ڈالدیا اور اب بھی ایسا ہی کرنا ہو گا.خدا تعالیٰ کی راہ میں پاگل بنا پاگل کہلا نا اور پاگلوں والے کام کرنا ہوگا وہ تمام قربانیاں کرنی پڑیں گی جو پہلوں نے کیں، اپنی جانوں کی کوئی حقیقت نہیں سمجھنی ہوگی نہ اپنے مالوں
403 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات کی اپنے مالوں کو اُسی طرح پھینکنا ہو گا جس طرح سمندر میں کوئی چیز پھینکی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ دس ہیں، تمیں سو سال تک اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے.کئی لوگ پوچھتے ہیں فلاں کام کرنے کا دیا گیا ہے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا.انہیں معلوم ہونا چاہئے اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چودہ سالہ مکہ کی زندگی کا نکلا اور جو دو سو سال حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے بعد کے زمانہ کا نکلا.صرف کسی کام کے شروع کر دینے سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا جب تک اپنی جون نہ بدل لو اپنے اندر تقدس نہ پیدا کر لو حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کا رنگ نہ پیدا کر لو کامیابی نہ ہو گی.میری ان تحریکوں کے متعلق جو میں نے پچھلے دنوں کی ہیں بعض دوستوں نے لکھا ہے ہم تو امید کرتے تھے کہ آپ لاکھوں روپے اور لاکھوں والنٹیر زمانگیں گے مگر آپ نے صرف ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ مانگا اور چند آدمی مانگے.میں معترف ہوں ان دوستوں کے اخلاص اور ایثار کا.مگر میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ وسعتِ خیال میں انہوں نے مجھے شکست دے دی ہے.میں نے نہ ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ مانگا ہے اور نہ چند آدمی مانگے ہیں بلکہ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کھانا کھلا دو.آسمانی جماعتیں لاکھوں کروڑوں انسانوں سے نہیں جیتا کرتیں اور نہ لاکھوں کروڑوں روپوں سے جیتی ہیں، بلکہ پوری چیز سے جیتی ہیں.اگر جماعت کے سو آدمی ہوں اور سو ہی مل جائیں تو وہ جماعت کا میاب ہو جاتی ہے.پس میرا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ مومنوں کے پاس ہے وہ مجھے دے دیں اور جتنے مومن ہیں وہ سب کے سب مجھے مل جائیں.اگر ان کے پاس صرف دوروپے ہیں اور دو ہی مجھے مل جاتے ہیں تو میں جیتوں گا اور اگر صرف دو ہی مومن ہیں اور دونوں مجھے مل جاتے ہیں، تو میں کامیاب ہوں گا.اگر ایک لاکھ کی جماعت ہے جس میں سے ۹۹۹۹۹ منافق ہیں اور صرف ایک مومن ہے تو وہ جب میرے پاس آ گیا کامیابی ہو جائے گی اور اگر اس مومن کے پاس صرف ایک دھیلا ہے اور وہ بھی کھوٹا مگر وہ لے آتا ہے تو فتح ہو جائے گی.پس یہ کہنا ان کی غلطی ہے کہ وہ لاکھوں کی امید رکھتے تھے مگر میں نے صرف چند مانگے ہیں.ہم تو يَوْم اور بَعْضَ یوم ہی جانتے ہیں.میرا سوال نہ آج کیلئے ہے نہ کل کے لئے اور نہ پرسوں کیلئے نہ ہزاروں روپے کا ہے نہ لاکھوں کا نہ کروڑوں کا نہ ہزاروں انسانوں کیلئے ہے نہ کروڑوں کیلئے اگر کوئی
404 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات بہت بڑا امیر آدمی احمدی ہو جاتا ہے اور ایک ارب روپیہ دے دیتا ہے جب کہ جماعت بحیثیت جماعت قربانی نہیں کرتی تو کیا اس سے احمدیت کامیاب ہو جائے گی.نہیں.اس کے مقابلہ میں اگر ایک ہی غریب احمدی ہے اور وہ اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیتا ہے.مثلاً اس کے پاس ایک ہی روپیہ ہے اور وہی دے دیتا ہے تو کامیابی حاصل ہو جائے گی.پس میرا یہ مطالبہ ہے کہ ہر مومن اپنی جان اور اپنا تمام مال دے تب کا میابی ہوگی.اگر کہو کہ بعض کی سستی اور کوتاہی کا الزام ہم پر کیوں رکھا جاتا ہے تو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھائے اور پیچھے نہ رہنے دے.مومن کسی حال میں پیچھے نہیں رہتا اگر کوئی رہتا ہے تو اسی وجہ سے کہ اس کی تربیت نہیں ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت شراب کے حرام ہونے کا جب حکم نازل ہوا تو کچھ صحابہ ایک جگہ بیٹھے شراب پی رہے تھے اور شراب کے نشہ میں مخمور تھے.شراب کا نشہ کتنا بڑا ہوتا ہے.اُس وقت ایک بازار سے یہ کہتا ہوا گزرا کہ اے مسلمانو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے.اس مخمور حالت میں جب کہ کوئی اپنے ماں باپ کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا ایک نے شراب کے نشہ میں کہا ذرا دروازہ کھولنا تا معلوم کریں کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے.دوسرا اُٹھا اور اُس نے کہا پہلے میں شراب کے مٹکے اور دوسرے برتنوں کو توڑوں گا اور پھر پوچھوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا کہا ہے.پس مومن کو جب آواز پڑے تو خواہ وہ دنیا کے نشے میں کتنا ہی مخمور ہو تو بھی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مومنوں تک آواز پہنچے.ہمیں کافروں اور منافقوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مومنوں کی ہے اور سب کے سب مومنوں کی ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ آپس میں اگر کسی سے ناراضگی ہو تو صلح کر لو تا کہ سب کے سب مل کر آگے بڑھیں اور ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہو جا ئیں.پس جب سب مومن آ گئے تو ان کا سب مال آ گیا، تب فتح یقینی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا سارا مال مجھے دے دیں بلکہ یہ ہے کہ وہ سمجھیں ان کے پاس جو کچھ ہے میرا ہی ہے.پس سب کے سب مومنوں کو ساتھ لے کر اُٹھو اور مل کر آگے قدم بڑھاؤ.اگر کسی کو کسی سے ناراضگی ہو تو اسے دور کر دو.دیکھو جن بچوں کے ماں باپ مر جاتے ہیں، وہ آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح پیار و محبت کرتے ہیں.اگر ان کے ماں باپ کو گالیاں دی جارہی ہوں اور وہ کچھ نہ کرسکیں تو کیا کریں گے.یہی کہ ایک دوسرے سے چمٹ کر رونے لگ جائیں گے.میں نے وہ بچے دیکھے ہیں جو ماں کے مر
405 انوار العلوم جلد ۱۳.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات جانے کی وجہ سے دوسری ماؤں کے سپرد کئے گئے اور جب ان کی ماں کو بُرا بھلا کہا گیا، وہ آپس میں لپٹ کر رونے لگ گئے.قرآن کریم میں نبی کو مومنوں کا باپ قرار دیا گیا ہے ".رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوئے ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور ہم اس وجہ سے اپنے آپ کو یتیم سمجھتے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فوت ہو چکے ہیں.آج لوگ اُن کو بُرا بھلا کہتے ہیں مگر ہم بے بس ہیں.اس لئے نہیں کہ ہم میں کچھ کرنے کی طاقت نہیں ہے.ان سے بہت زیادہ طاقت ہے جو ہمیں دُکھ دے رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہی ہمارے ہاتھ باندھ گیا ہے جس کے خلاف بد زبانی کر کے ہمیں دُکھ دیا جا رہا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ باندھ دیئے ہیں پس ہم بے بس ہیں.اگر اس وقت ہم ایک دوسرے سے نہیں چمٹ جاتے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا باپ سمجھتے ہیں اور آپ کے خلاف بدزبانی کرنے والوں سے ہمیں صدمہ پہنچ رہا ہے.جب میری بیوی امتہ الحی مرحومہ فوت ہوئیں تو بڑی لڑکی سات آٹھ سال کی تھی اور چھوٹی پانچ چھ سال کی.ماں کے فوت ہونے پر بڑی لڑکی مجھے چمٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی امتہ الرشید خلیل کو جو اُن کا چھوٹا بھائی ہے، اب کون پالے گا.اُس وقت وہ ساری لڑائیاں بُھول گئی اور اپنے سے سب سے قریب چیز وہی بہن نظر آئی جس سے لڑتی رہتی تھی.پس میں کس طرح مان لوں کہ ہم اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنا باپ سمجھتے ہیں جب کہ ہم ایک دوسرے کو گلے سے پکڑنے کیلئے تیار ہوں.تمام احمد یوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ جاؤ اور اپنے دوسرے بھائیوں کے گلے سے لیٹے رہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچ جاؤ.مسجد اقصیٰ میں جب میں نے اعلان کیا کہ آپس کی ناراضیاں دُور کر دو اور بنیان مرصوص بن کر دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ تو قادیان کے احمدیوں نے کہا ہم ایسا ہی کرنے کیلئے تیار ہیں اور باہر کے احمدیوں نے لکھا کہ کاش ! ہم بھی اُس وقت موجود ہوتے.آج باہر کے ہزاروں احمدی یہاں موجود ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں نے انہیں خدا کا پیغام پہنچا دیا.تم اس وقت ایک یتیم قوم ہو تم پر مصائب پر مصائب آئیں گے اور تمہیں بھائیوں کی طرح رہنا ہوگا جاؤ اپنے ان بھائیوں کے گلے مل جاؤ جن سے تمہیں کسی قسم کی ناراضگی اور رنج ہے جاؤ اور ان سے مل جاؤ.کیا میں نے تمہیں خدا کا یہ پیغام پہنچا دیا.( اس پر تمام مجمع نے متفق اللسان ہو کر کہا.ہاں حضور نے پیغام پہنچا دیا)
406 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات پھر میں نے سادگی کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی ہے اس لئے کہ تم اعلیٰ قربانیاں کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ.محنت اور مشقت برداشت کرنے کی تم میں طاقت پیدا ہو مشکلات اور تکالیف برداشت کر سکو اور جب تمہارے پاس مال ہوگا تو تم اعلیٰ قربانی کرنے کے قابل ہوسکو گے.دل کی قربانی سے مال نہیں مہیا ہو سکتا لیکن جب دل کی قربانی ہوگی اور تمہارے پاس مال بھی ہوگا تو اسے تم پیش کر سکو گے.پس سادہ کھانا کھاؤ، سادہ کپڑے پہنو اور کفایت شعاری سے گزارہ کرو.اپنی آمدنی میں سے چندے دو اور ایک حصہ امانت فنڈ میں جمع کراؤ پھر کچھ اپنے پاس بھی جمع کرو.بعض کہتے ہیں کہ یہ دین کے خلاف ہے مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا کہ کم از کم تنخواہ کا ۴/۱ حصہ جمع کرتے جاؤ.پس نب تک تمہیں یہ آواز نہیں آتی کہ سب کچھ لے آؤ اُس وقت تک کچھ نہ کچھ جمع کرتے جانا چاہئے.بعض کہتے ہیں کہ کیا یہ صرف تین سال کیلئے ہے مگر بات یہ ہے کہ تین سال کی معیاد تو ایسی ہی ہے جیسا کہ جب کوئی جانور چلتا نہ ہو تو اُسے چلانے کیلئے گھاس دکھائی جاتی ہے پھر جب چل پڑے تو چلتا ہی جاتا ہے.میں عالم الغیب نہیں ہوں میں نہیں جانتا کہ مشکلات کب تک دور ہوں گی.میں نے مشکلات دور کرنے کی تدابیر پیش کی ہیں اور یہ خیال کیا ہے کہ جب جماعت ان پر کار بند ہو جائے گی تو پھر ان پر عمل کرتی رہے گی.پس یہ تدابیر فتح حاصل ہونے تک کے لئے ہیں.ان پر عمل کرانے کیلئے جبر اس لئے نہیں کیا گیا کہ عمل کرنے والوں کو ثواب زیادہ حاصل ہو.اگر کوئی ان تدابیر پر عمل نہیں کرتا تو نہ ہم اُسے جماعت سے نکالیں گے اور نہ اُسے بُرا کہیں گے.یہ جو کچھ پیش کیا گیا ہے یہ ابتدائی سکیم ہے.بعض اور تدابیر بھی ہیں جن میں سے کئی ایک ایسی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں ان پر یقیناً عمل کرنا پڑے گا اور اب وہی ہمارے ساتھ چل سکے گا جو یہ سمجھے گا کہ ”جب اُکھلی میں سر دیا تو پھر موسلوں سے کیا ڈرنا‘ جو اس کے لئے تیار نہیں وہ گھروں میں بیٹھے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کشف ہے.آپ نے دیکھا کہ ایک نالی شرقا غربا بہت لمبی صدہا میل تک کھوئی ہے.اور اس کے اوپر بے شمار بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار بیٹھا ہے اور آسمان کی طرف اُن کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے.میں اُس وقت اُس مقام پر ٹہل رہا ہوں اور اُن کو دیکھ رہا
407 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ہوں اتنے میں اُن کے نزدیک جا کر میں نے کہا قُل مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ انہوں نے اُسی وقت چھریاں پھیر دیں کہ حکم ہو گیا.اس رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی آواز پر کان نہیں دھرتا اور اُس کے بلانے پر لبیک نہیں کہتا، اُس کی آسمانی بادشاہت میں کوئی قدر نہیں ہوتی اور وہ گوہ کھانے والی بھیڑوں کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اُس کے فرشتے خود اُسے ذبح کر دیتے ہیں یعنی تباہی میں ڈال دیتے ہیں.پس ہر وہ شخص جو کہتا تو یہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہوں مگر کرتا یہ ہے کہ دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ میلا کھانے والی بھیڑ سے زیادہ کیا حقیقت رکھتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور کوئی لبیک نہ کہے تو خدا تعالیٰ کو اُس کی کیا پرواہ ہے.کوئی شخص تب ہی مومن ہوسکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے تو بے اختیار لبیک لبیک کہتا ہوا پہنچ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی امیر تھا جس کے بہت سے دوست تھے لیکن وہ ایک غریب آدمی سے سب سے زیادہ تعلق رکھا کرتا تھا.اُس کی بیوی اُسے ملامت کرتی کہ تم اس شخص سے مل کر اپنی ذلت کراتے ہو.آخر تنگ آکر ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آؤ میں اپنے دوستوں کا تجربہ کرتا ہوں.چنانچہ وہ اپنی بیوی کو لے کر پہلے ایک امیر دوست کے ہاں گیا اور جا کر کہا میرا دیوالہ نکل گیا ہے اس وقت مجھے پانچ سات ہزار روپیہ دیں.وہ دوست یہ سن کر بڑی ہمدردی کی باتیں کرنے لگا اور اس نے بڑا افسوس ظاہر کیا لیکن آخر کہنے لگار و پیہ میرے پاس نہیں ہے.پھر وہ دوسرے اور تیسرے دوست کے پاس گیا مگر کسی نے امداد کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کی.حتی کہ شام تک یہ حالت ہوگئی کہ دوستوں نے اُس کی آواز پر دروازہ کھولنا ہی بند کر دیا اور دروازہ کھولے بغیر ہی اُسے جواب دے دیا جا تا کہ گھر میں نہیں ہیں.سب سے آخر پر وہ اُس غریب دوست کے ہاں گیا جس پر اُس کی بیوی کو اعتراض تھا اور جس کے متعلق وہ اُسے ہمیشہ یہ کہا کرتی تھی کہ یہ تمہاری شان کے قابل نہیں ہے اس سے تم نے کیوں دوستی رکھی ہوئی ہے.وہ اُس کے پاس گیا، اُس وقت رات ہو چکی تھی اور جا کر اُس دوست کو آواز دے کر کہنے لگا جلدی باہر آئیے.جب وہ تھوڑی دیر تک باہر نہ آیا تو بیوی نے کہا دیکھا اس نے بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں کی.آخر کچھ دیر کے بعد جب وہ باہر آیا تو امیر نے پوچھا اتنی دیر لگانے کی کیا وجہ ہے؟ اُس نے کہا آپ اس وقت کبھی میرے پاس نہ آئے تھے اور آج جب آئے تو میں نے خیال کیا کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہوگی اس لئے میں نے اپنی بیوی کو
408 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ساتھ لے لیا تا کہ اسے خدمت کرنے کا موقع مل سکے.پھر خیال آیا کہ گو آپ امیر آدمی ہیں لیکن بعض دفعہ اُمراء پر بھی مصائب آ جاتے ہیں شاید آپ کو روپیہ کی ضرورت ہو.اس پر جتنا روپیہ میرے پاس تھا وہ میں نے ہمیانی میں ڈال کر کمر میں باندھ لیا.پھر خیال آیا شاید جان دینے کی ضرورت ہو اس لئے میں نے تلوار گلے میں لٹکا لی اس تیاری میں دیر لگ گئی.اب میں حاضر ہوں اور جہاں کہتے ہو چلنے کیلئے تیار ہوں.یہی سچے مومن کی مثال ہے.جب اُسے خدا تعالیٰ کیلئے بلایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میری جان اور مال سب کچھ حاضر ہے لیکن جو ایسے موقع پر دیر کرتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہیں اور حضرت مسیح موعود کے متعلق حضرت عیسی علیہ السلام نے جو پیشگوئی کی ہوئی ہے اُس میں فرماتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہے جیسے دولہا نے آنا ہو اور دس کنواریاں اُس کے انتظار میں اپنے دیووں میں تیل ڈال کر بیٹھ جائیں.ان میں سے پانچ نے تو زائد تیل لے لیا اور پانچ نے نہ لیا جب آدھی رات کے وقت دولہا آیا تو اُس وقت تک دیئے بجھ چکے تھے.جن کے پاس تیل تھا انہوں نے جھٹ اپنے دیوں میں تیل ڈال لیا لیکن جن کے پاس تیل نہ تھا، انہوں نے اپنی سہیلیوں سے تیل مانگا مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ شاید ہمیں پھر ضرورت ہو تم بازار سے جا کر تیل خرید و.وہ تو بازار چلی گئیں اور دولہا تیل والیوں کو لے کر قلعہ میں چلا گیا.جب دوسری سہیلیاں تیل لے کر واپس ہوئیں تو قلعہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا.انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ نہ کھولا گیا اور انہیں یہ جواب ملا کہ جو صحیح طور انتظار کر رہی تھیں انہیں موقع دے دیا گیا اور جو غافل ہو گئیں اُن کے لئے دروازہ نہیں کھولا جا سکتا.پس یاد رکھو کہ تم میں سے وہی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوگا جو پوری طرح ۲۴ مُستعد رہے گا.یا د رکھو کہ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ آپ لوگوں کو دو میں سے ایک چیز قبول کرنی ہوگی.یا تو وہ زندگی قبول کرو جس کے بعد کوئی زندگی نہیں یا پھر وہ موت قبول کرو جس کے بعد کوئی موت نہیں.وہ جو بظاہر زندگی ہے خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کے بعد زندگی نہیں اور وہ جوموت ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کے بعد حیات ابدی ہے.میں نے جو اخراجات کیلئے پہلی قسط طلب کی ہے اس کے متعلق اگر چہ سب نے ابھی تک توجہ نہیں کی مگر روپیہ آیا ہے اور جس قدر طلب کیا گیا تھا اس سے بہت زیادہ آیا ہے.امانت فنڈ کا
409 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات روپیہ بھی کافی آ جائے گا اور اگر پیش آمدہ ضروریات سے زیادہ چندہ آ گیا تو میرا ارادہ ہے کہ چونکہ انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کی فوراً ضرورت ہے.اس میں سے کچھ روپیہ اس کام پر خرچ کیا جائے.اگر اس کام سے بھی بڑھ گیا تو وہ اگلے سال کام آ جائے گا.دین کی خدمت کیلئے زندگی وقف کرنے والوں کی بھی کافی تعداد ہو چکی ہے مگر کئی باتیں ابھی ایسی ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مثلاً.ا.نوجوانوں کا غیر ممالک میں جانا.اعلیٰ عہد یداروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کا لیکچر دینے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا..رخصت لے کر یا فراغت کے موسم میں تبلیغ کیلئے اپنا نام لکھانا.۲ ۲۵ لاکھ روپیہ تک کیلئے ریزرو فنڈ جمع کرنا.پنشن یافتہ یا فارغ البال لوگوں کا مرکز میں کام کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا..قادیان کے سکولوں میں بچوں کو تعلیم کیلئے بھیجنا اور ان کے متعلق یہ اختیار دینا کہ ان کی دینی تربیت پر زور دینے کیلئے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں.ے.قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کرنا.یہ سات باتیں ایسی ہیں جن کی طرف ابھی تک کم توجہ کی گئی ہے.ان میں سے ہر ایک کے متعلق احباب کو چاہئے کہ مجھے جواب دیں.بہت سے احباب نے توجہ کی ہے مگر جس قدر جماعت ہے، اس کے مقابلہ میں توجہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.یہ اصل تحریکیں ہیں اور یا درکھنا چاہئے کہ میں سب کچھ مانگ رہا ہوں، ہاں فی الحال یہ چند مطالبات کئے ہیں.پس احباب کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں، سادہ کھانا کھا ئیں، سادہ کپڑا پہنیں، دین کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں، کوئی احمدی بیکار نہ رہے اگر کسی کو جھاڑو دینے کا کام ملے تو وہ بھی کر لئے اس میں بھی فائدہ ہے.بہر حال کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے اس کے جو فوائد ہیں وہ میں اس وقت نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بیکار نہ رہے.ماں باپ سنگ دل بن کر اپنے بریکا رلڑکوں سے کہہ دیں کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا ہے اب تم جوان ہو جاؤ اور خود کما کر کھاؤ.بے شک یہ سنگدلی ہے مگر اُس پیار اور محبت سے ہزار درجہ بہتر ہے جو بیکاری میں مبتلا رکھتی ہے.میں نے یہ بھی سوچا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے دینی کورس تیار کیا جائے اور پھر اس
410 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات میں ان کا امتحان لیا جائے.کوئی احمدی لڑکا یا لڑ کی ایسی نہ ہو جسے اس کورس کی تعلیم نہ ہو ہر ایک کے لئے اس کا پڑھنالازمی ہو.زمیندار احباب سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سستے چُھوٹ گئے اُن کی بھی باری آ رہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ زمیندار طبقہ جو نہایت شاندار قربانیاں کرتا رہا ہے اب بھی کرے گا.پراپیگنڈا کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اُس نے اپنا کام کرنا شروع کر دیا ہے مگر جو کچھ وہ تیار کرے اُسے لوگوں کے گھروں تک پہنچانا جماعت کا کام ہے مگر جماعت کی توجہ اس طرف کم ہے.اگر توجہ کی جائے تو کئی سو الفضل‘ اور کئی سو ریویو اور سن رائز کے پرچے جاری کرائے جا سکتے ہیں اور اس طرح بہت اہم کام ہو سکتا ہے.في الحال میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ ”الفضل“ کے کم از کم دوسو پرچے مفت کئے جائیں اور پانچ پانچ سو ریویو اور سن رائز“ کے.اتنی تعداد جماعتوں کے نام بحصہ رسدی لگا دی جائے اور احباب اپنی اپنی جگہ کوشش کریں کہ اتنے پر چوں کی قیمت مفت اشاعت کیلئے جمع ہو جائے.میں نے کئی بار اخبارات کی ایجنسیاں قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اگر احباب کوشش کریں تو اس طرح ہزاروں کی تعداد میں پرچے نکل سکتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح مہینہ میں روپیہ ڈیڑھ روپیہ سے زائد آمد نہیں ہو سکتی مگر میں کہتا ہوں کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ صفر سے بہر حال زیادہ ہوتا ہے اور آج کل تو اس سے ایک شخص ایک مہینہ تک کھانا کھا سکتا ہے.پس میں تمام جماعتوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ کے بے کاروں یا اُن کو جنہیں اپنے دوسرے کاموں سے فرصت مل سکتی ہے اخبارات فروخت کرنے کے کام پر لگا دیں.غرض ہر رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.میں تمہیں ایک طرف تو یہ کہتا ہوں کہ جاؤ نکل کر تمام دنیا میں پھیل جاؤ اور دوسری طرف یہ کہتا ہوں کہ جب تمہیں مرکز سلسلہ سے آواز آئے کہ آ جاؤ تو لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جاؤ.یہ آنا جسمانی طور پر بھی ہو سکتا ہے اور روحانی اخلاقی اور مالی طور پر بھی.اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے.اِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى - قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنُ قَالَ بَلَى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبى - قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْر فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلّ جَبَلِ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَا تِيْنَكَ سَعَيًا - ۲۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ آپ کے حکم سے میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.اب بتائیے میری جماعت کس طرح غالب آئے گی.چنانچہ انہوں نے کہا.رَبِّ اَرِنی
411 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتی.اے میرے رب ! ہم تو دنیا کے مقابلہ میں مُردہ ہیں.بتائیے آپ کس طرح ان مردوں کو زندہ کریں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اَوَلَمْ تُؤْمِنُ.کیا تمہیں زندہ کرنے پر ایمان نہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ایمان ہے اور آپ کا وعدہ ہے مگر لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِی میں یہ چاہتا ہوں کہ اس وعدہ کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھوں کیونکہ اطمینان اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب چیز مل جائے.ایمان کے معنی چیز کے ملنے پر یقین ہوتا ہے اور اطمینان چیز کے ملنے پر حاصل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا فَخُذُ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ چار پرندے لو.فَصُرُ هُنَّ إِلَيْكَ اور انہیں اپنے ساتھ سیدھا لو ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا.پھر انہیں چار پہاڑوں پر رکھ دو ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِيْنَكَ سَعَيًا.پھر انہیں بلا ؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے.اس طرح یہ بتایا کہ اپنی جماعت میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کرو اور انہیں کہو کہ دنیا میں چاروں طرف نکل جائیں مگر یہ سمجھا دو کہ جب تمہیں آواز آئے تو جمع ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا ہے.پس اس مضمون نے آپ کی جماعت کے بارہ میں بھی پورا ہونا ہے.مومن کو کلام الہی میں پرندہ کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام چونکہ ابراہیم رکھا گیا ہے اس لئے آپ سب لوگ ان کے پرندے ہوئے.پس اے ابراہیم ثانی کے پرندو! اگر احیاء چاہتے ہو تو دنیا میں پھیل جاؤ مگر اس طرح نہیں کہ اپنے اصل گھر کو بھول جاؤ.تمہارا اصل گھر قادیان ہی ہے خواہ تم کہیں رہتے ہؤا سے یاد رکھو.جب تمہیں ابراہیمی آواز آئے، قادیان سے خدا کا نمائندہ میں یا کوئی اور جب کہے کہ اے احمد یو! خدا کے دین کو تمہاری اس وقت ضرورت ہے تم جہاں جہاں ہو مرکز میں حاضر ہو جاؤ.اگر مال کی ضرورت ہو تو مال حاضر کر و اگر جان کی ضرورت ہو تو جان پیش کر دو اور چاروں طرف سے وہی نظارہ نظر آئے جو حج کے موقع پر ہر طرف سے لَبَّیک اَللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کہنے والوں کا نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ تمہاری نسل چاروں طرف پھیل جائے گی اور جب تم ان کو بلا ؤ گے تو دوڑے آئیں گے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہونا چاہئے کہ چاروں طرف سے لبیک کہنے والے دوڑے آئیں.اس نظارہ ہی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ زمین قادیاں اب محترم ہے
412 انوار العلوم جلد ۱۳ ہجوم خلق حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ارض حرم ہے ہو پس جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ کہ کامیابی کا ذریعہ یہی ہے اور جب آواز پہنچے تو یوں جمع ہے جاؤ جس طرح پرندے اڑ کر جمع ہو جاتے ہیں.پھر خواہ کتنی بڑی کوئی فرعونی طاقت تمہارے مٹانے کیلئے کھڑی ہو جائے اُسے معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کو مٹانا آسان نہیں ہے.یہ وہ چیز ہے جس کی میں آپ لوگوں سے امید کرتا ہوں.کیونکہ آپ وہ لوگ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے حقیقی ایمان پیدا کیا اور جو مقدس گھر کے گر دگھومنے والے پرندے ہیں.میں نے خدا تعالیٰ کی باتیں آپ کو پہنچا دیں، جو کچھ کہنا تھا کہ دیا اور جو کچھ بتانا تھا بتا دیا اب یہ تمہارا کام ہے کہ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّیک کہتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ.(الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ء) متی باب ۲۲ آیت ۱۶ تا ۲۱ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۱۹۲ - المكتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۸ء التحريم: ۵ جامع البیان تالیف ابی جعفر محمد بن جریر الطبرى الجزء الثامن والعشرون | صفحہ ۱۲۱ - مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۵۴ء راک فیلر (John Davison Rockefeller) پیدائش ۱۸۳۹ء وفات ۱۹۳۷ء مشہور امریکی صنعت کار اور مخیر.اس کی سٹنڈرڈ آئیل کمپنی امریکہ میں مخالفوں کو بے دردی سے کچل کر تیل صاف کرنے کی صنعت پر چھا گئی.۱۸۹۲ء میں اس نے شکاگو یو نیورسٹی قائم کی.دوسرے فلاحی اداروں پر پچاس کروڑ ڈالر خرچ کئے جن میں راک فیلر فاؤنڈیشن ( قائم شد ه ۱۹۱۳ ء ) بھی شامل ہے.یہ ادارہ صحت عامہ کی بہتری اور سائنس کے فروغ کیلئے قائم کیا گیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۶۵۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) کارنیگی اینڈ رو( ۱۸۳۵ ء.۱۹۱۹ ء ) امریکی صنعت کار اور انسان دوست.سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا.۱۸۷۳ء کے بعد فولا دسازی کی طرف راغب ہوا اور ۱۹۰۰ ء میں کارنیگی سٹیل کمپنی پورے ملک کا ایک چوتھائی فولاد تیار کرنے لگی.رفاہ عامہ کیلئے پینتیس کروڑ ڈالر کا ترکہ چھوڑا جس میں نیو یارک کارنیگی ہال (۱۸۹۱ء) اور دو ہزار آٹھ سو سے زائد لائبریریاں شامل ہیں.
413 انوار العلوم جلد ۱۳ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۱۶۴ مطبوعہ لا ہور (۱۹۸۸ ء ) ك الفتح: اا البقرة: ٣٧ بنی اسرائیل: ۶۶ متی باب ۳۹ آیت ۳۶ تا ۴۱ البقره: ۲۱۵ الحج: ۵۴٬۵۳ التكوير: ۱۴ ١٤ الفجر : ۳۰ ۳۱ ۱۵ الفجر : ۲۸ تا ۳۱ الحجر : ٣٨٣٧ كل العنكبوت: ۴ ١٨ النساء: ۱۰۵ 19 مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوَة بَدْرٍ میں یہ الفاظ ہیں.اللَّهُمَّ انكَ إِنْ تُهْلِكَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ“ ۲۰ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائدة باب قوله انما الخمرو الميسرو الانصاب ال الاحزاب : ۷ ۲۲ تذکرہ صفحہ ۱۸.ایڈیشن چہارم ۲۳ روپیہ پیسہ رکھنے والی پتلی تھیلی ۲۴ متی باب ۲۵ آیت ۱ تا ۱۳ ( مفهوما )
انوار العلوم جلد ۱۳ 414 سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیل اسیح الثانی
415 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مقدمہ میں وکیل ملزم کے سوالات جرح اور اُن کے جواب (مورخہ ۲۷٬۲۵۴۳ مارچ ۱۹۳۵ ء دیوان سکھ آنند صاحب سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں ملزم سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے وکیل شیخ محمد شریف صاحب کے سوالات اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے جوابات ) سوال : آپ کو معلوم ہے کہ قادیان میں مجلس احرار کی تبلیغی کا نفرنس ہوئی ؟ جواب: ہاں سوال: اس سے پہلے کہ کا نفرنس ہوئی آپ کو کتنی دیر پہلے پتہ چل گیا تھا کہ کا نفرنس ہوگی.جواب: تاریخ تو یاد نہیں.افواہیں پانچ چھ مہینے قبل سے سنی جاتی تھیں اور یقینی علم دو یا تین ہفتہ قبل ہوا تھا.سوال: آپ احرار کی کانفرنس کے منعقد ہونے کے خلاف تھے.یعنی آپ کو اس کے منعقد ہونے پر اعتراض تھا.جواب: میرا اس سے کوئی تعلق نہ تھا.میں نے ذاتی طور پر اس معاملہ کی طرف توجہ نہیں کی.سوال: آپ نے کوشش کی کہ کانفرنس نہ ہو.جواب: ذاتی طور پر میں نے نہیں کی.سوال : خان صاحب فرزند علی آپ کے مریدوں میں سے کون ہیں.جواب: وہ صدر انجمن احمدیہ کے ٹرسٹی ہیں اور ٹرسٹی ہونے کے لحاظ سے ہی امور عامہ کا ناظر أن
انوار العلوم جلد ۱۳ کا عہدہ ہے.416 سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: وہ احرار کا نفرنس بند کرانے کیلئے شملہ گئے تھے.جواب: مجھے معلوم نہیں کہ ان کے شملہ جانے کی غرض احرار کا نفرنس کا بند کرانا تھا.احرار کا نفرنس کے متعلق جو کچھ شملہ میں ہوا اس کا علم مجھے بعد میں ہوا.سوال: کیوں گئے تھے.جواب: یہ ان سے پوچھ سکتے ہیں.سوال : آپ کو یہ علم ہے کہ وہ شملہ میں کمشنر لاہور سے ملے تھے.جواب: مجھے یہ علم ہے کہ کمشنر صاحب نے خود اُن کو بلایا تھا، انہوں نے خود ملنے کی خواہش نہ کی تھی.وہ شملہ میں تھے اور کمشنر صاحب نے خود انہیں ملنے کیلئے کہا تھا جس میں احرار کانفرنس کا ذکر ہوا.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ جب احراری جلسہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے تو آپ نے مُریدوں کو چٹھی بھیجی کہ قادیان میں آؤ.جواب : نہیں.کوئی چٹھی میں نے نہیں بھیجی.جب میں یہ کہتا ہوں کہ چٹھی نہیں بھیجی گئی تو اس کا یہ مطلب ہے کہ دفتر سے باہر نہیں نکلی.میں نے چٹھی لکھنے کیلئے آرڈر دیا تھا مگر چٹھیاں لکھی نہیں گئی تھیں بلکہ پیشتر اس کے کہ چٹھیاں لکھی جاتیں مرزا معراج الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ سی.آئی.ڈی مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ پولیس کا کافی انتظام ہوگا چٹھی جاری نہ کریں تو میں نے چیٹھی روک دی.سوال: کیا آپ نے دو چٹھیاں لکھیں.ایک ۳.اکتوبر کو اور دوسرے ۱۶.اکتوبر کو.جواب: ۱۳.۱۴ - ۱۵ - ۱۶ میں سے کسی تاریخ کو جو چٹھی گئی میں بتا چکا ہوں کہ ایک چٹھی لکھنے کا میں نے حکم دیا تھا مگر وہ بھیجی نہیں گئی اسے روک دیا گیا تھا اس سے پہلے میں نے کوئی آرڈر نہیں دیا تھا اور نہ ۳.اکتوبر کو کوئی چٹھی میری طرف سے بھیجی گئی.سوال: کیا آپ نے آرڈر کسی اندیشہ کی وجہ سے دیا تھا.جواب: میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس وقت میرے دل میں کوئی خاص خطرہ تھا مگر چونکہ قادیان ہماری مقدس جگہ ہے احتیاطی طور پر بھی ایسا کرنا ضروری تھا.سوال: جن کو آپ احراری کہتے ہیں ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں.
417 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: میرے دل میں ان کے متعلق کوئی دشمنی نہیں ہے.ان میں سے کوئی شخص دشمنی کی بات کرے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ دشمن ہے.سوال : احرار کا نفرنس میں جو لوگ آئے، آپ ان کو دشمن سمجھتے تھے.جواب : اُس وقت آنے والے کئی دوست بھی تھے.سوال: احرار کو آپ دشمن سمجھتے تھے.جواب: جب کوئی یہ کہتا ہے کہ میں فلاں کو دشمن سمجھتا ہوں، تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں.ایک یہ کہ وہ دشمنی کر رہا ہے اور دوسرے یہ کہ کہنے والے کے دل میں اس کے متعلق ہے.میرے دل میں ان کے متعلق دشمنی نہیں.ان میں سے جو دشمنی والے فعل کرے سمجھتا ہوں کہ وہ ہم سے دشمنی رکھتا ہے.سوال: کیا آپ نے ان کے متعلق دشمنی کا لفظ استعمال کیا.جواب : یاد نہیں کہ عام طور پر کیا ہو ممکن ہے بعض خاص موقعوں پر کیا ہو.سوال: الفضل اخبار آپ کا سرکاری گزٹ ہے.جواب: اس اخبار کی مالک صدرانجمن احمد یہ ہے.سوال: کیا آپ کا یہ اخبار اسی طرح کا ہے جس طرح کا گورنمنٹ گزٹ ہوتا ہے.جواب : گورنمنٹ گزٹ کا ہر لفظ گورنمنٹ کی طرف سے ہوتا ہے.الفضل میں جو کچھ لکھتا ہے ایڈیٹر لکھتا ہے.یہ نہیں کہ اس کا ہر لفظ ہم لکھ کر دیتے ہیں.سوال: آپ کے حکم سے آپ کی مرضی سے بحیثیت جماعت یہ پر چہ جاری ہے.جواب: اس کو میں نے جاری کیا تھا.پھر وقف کر دیا.صدر انجمن اس پراپرٹی کی مالک ہے.پھر میں اسے اپنی طرف کیوں منسوب کروں.سوال: آپ کے حکم اور آپ کی مرضی سے یہ پرچہ جاری ہے.آپ کی اتھارٹی کے ماتحت الفضل جاری ہے.جواب: اتھارٹی کے اگر یہ معنی ہیں کہ الفضل کے مضامین کا میں ذمہ دار ہوں تو پھر غلط ہے.لیکن اگر یہ مراد ہو کہ میں اسے بند کرانا چاہوں تو کر سکتا ہوں یا نہیں.تو چونکہ یہ جماعت کی طرف سے جاری ہے میں اسے بند کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں.سوال : آپ کے خطبات اس میں چھپتے ہیں.
418 انوار العلوم جلد ۱۳ جواب : اکثر چھپتے ہیں بعض نہیں بھی چھپتے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: جو چھپتے ہیں.ان کے متعلق یہ شکایت تو نہیں پیدا ہوتی کہ غلط ہیں.جواب: کئی دفعہ یہ شکایت پیدا ہوئی ہے کہ فلاں غلطی ہوگئی.سوال: اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو دوسرے پرچہ میں اسے دور کر دیا جاتا ہے.جواب: بعض دفعہ بہت دیر کے بعد غلطی کا علم ہوتا ہے.اگر کسی غلطی کے متعلق سمجھا جائے کہ اصلاح ضروری ہے تو ہو جاتی ہے اور نہ غلطی رہ بھی جاتی ہے.میں دوسرے خطبہ یا مجلس میں بیان کر دیتا ہوں کہ فلاں بات غلط لکھی گئی ہے.درست یوں ہے.یہ ضروری نہیں کہ اخبار کے دوسرے ہی پرچہ میں اصلاح چھپ جائے.سوال: جب احرار کا نفرنس ہونے لگی تھی.انہی ایام میں آپ کے کسی مرید کی تلاشی ہوئی تھی اور اُس سے بُر چھیاں نکلی تھیں.جواب: مجھے علم نہیں کہ کسی کی تلاشی ہوئی اور بر چھیاں نکلیں.ایک شخص سے کھڈ سیک لی گئی تھی.سوال: جب احرار کا نفرنس ہوئی تو اس سے پہلے یا اس وقت آپ نے لوگوں کو تحریک کی کہ بندوقیں اور تلوار میں خریدیں.جواب: اس کا نفرنس کے قریب کے ایام میں میں نے کوئی تحریک نہیں کی کہ اسلحہ خریدیں.سوال: ۱۹۳۰ء میں یاد ہے کہ اس قسم کی تحریک کی.جواب: یقینی طور پر ساری بات یاد نہیں.وہ بات پیش کی جائے تو بتا سکتا ہوں کہ کیا مطلب تھا.سوال: یہ جناب کو علم ہو گا کہ احرار کا نفرنس کے ایام میں قادیان میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کی گئی.جواب: میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ جاری کی گئی ہے، کسی افسر نے مجھے نہیں بتایا تھا.سوال: احرار کا نفرنس سے کچھ پہلے مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ پہلے آپ نے ان کے خلاف کوئی اشتعال انگیز تقریر کی تھی.جواب: میں نے کبھی کوئی اشتعال انگیز تقریر نہیں کی.سوال: کیا آپ نے زبردست تقریر کی تھی.جواب: تقریر سامنے رکھی جائے تو بتا سکتا ہوں.سوال: کیا آپ کو اتنا یاد ہے کہ احراریوں کا ذکر کر کے آپ نے کہا تھا کہ یہ چیونٹی ہیں اور ہم ہاتھی ہیں.
419 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: میرے سامنے وہ الفاظ پیش کئے جائیں تو دیکھ کر بتا سکتا ہوں.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ ایک احمدی ایک ہزار پر بھاری ہے.جواب: میں سوال سمجھنا چاہتا ہوں.کیا آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایسا ہے یا یہ کہ یہ میں نے کہا ہے.سوال: سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ایسا کہا.جواب: مجھے یاد نہیں میرے سامنے لایا جائے تو بتا سکتا ہوں.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں نے نہیں کہا.ممکن ہے کہا ہو.سوال: کیا آپ کو یاد ہے کہ جب اسمبلی کا انتخاب ہوا.اور مسٹر گا با احراری امیدوار کھڑے ہوئے تو آپ چاہتے تھے کہ ان کی بجائے حاجی رحیم بخش کامیاب ہو جائیں.جواب: میں نے حاجی رحیم بخش صاحب کی تائید کی تھی.سوال: کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسٹر گا با کامیاب ہو گئے.جواب: میں نے اخباروں میں اعلان پڑھا تھا.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب آپ کے مرید ہیں.جواب: ہاں.سوال: ان کی تقرری کی احرار نے بہت مخالفت کی تھی.اور بہت کچھ لکھا تھا کہ وہ نہ ہوں.جواب: چونکہ لوگوں میں مشہور تھا کہ احرار نے مخالفت کی.یہ میں نے سنا تھا اور کثرت سے سنا تھا اس لئے میں نے یقین کیا کہ مخالفت کی.سوال: آپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا کا میاب ہو جانا ہمارا روحانی معجزہ ہے.جواب: ایک آدھ لفظ کی کمی بیشی سے مفہوم میں بہت فرق پڑ جاتا ہے.اس لئے جب تک اصل الفاظ پیش نہ کئے جائیں.نہیں کہہ سکتا کہ کیا میں نے کچھ کہا تھا یا نہیں.سوال: ۲۱.جون ۱۹۳۴ ء کے الفضل میں آپ کا جو خطبہ شائع ہوا ہے.اس کے صفحہ ے پر یہ الفاظ ہیں.ایک عام مومن ۱۰ پر بھاری ہو جاتا ہے اور اگر اس سے بھی ترقی کرے تو صحابہ کے طرز عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک نے ہزار کا مقابلہ کیا ہے.یہ آپ کے الفاظ ہیں.
420 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: یہ میرے الفاظ ہیں.ان کے ساتھ یہ الفاظ میں درج کراتا ہوں.جن میں ان کی تشریح کی گئی ہے.کہ آج کل تو جسمانی مقابلہ ہے ہی نہیں اس لئے اس لحاظ سے بھی ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ، جو الفاظ سوال میں پیش کئے گئے ہیں وہ قرآن کی ایک آیت کی تشریح ہے.سوال: الفاظ میں جو لفظ مومن ہے.یہ اپنے متعلق ہی سمجھتے ہیں یا دوسرے مسلمانوں کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں.احراریوں کی طرف تو نہیں منسوب کرتے.جواب نہیں.اپنی جماعت کے متعلق ہے.اس فقرہ میں مومن کے لفظ سے مراد احراری نہیں.سوال: الفضل کا ایک پرچہ دکھا کر پوچھا کہ اس میں زیر عنوان اسمبلی کے امیدوار اور احراری“ جو مضمون چھپا ہے.اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں.جواب : یہ میرا مضمون نہیں.میں نے نہیں لکھا اور میں کہہ چکا ہوں میں الفضل کے ہر لفظ کا ذمہ وار نہیں.سوال: ۹.دسمبر ۱۹۳۴ء کے الفضل میں آپ نے اپنی جماعت کو ڈائنامیٹ سے تشبیہہ دی ہے.عدالت نے کہا کہ یہ پر چہ داخل ہو چکا ہے.سوال: کیا آپ نے ۹.دسمبر سے پہلے بھی ڈائنامیٹ کا لفظ استعمال کیا ہے.جواب: مجھے یاد نہیں.احراری کا نفرنس سے پہلے یہ لفظ استعمال کیا ہو.سوال: آپ کو انہی ایام میں جبکہ احرار کا نفرنس ہوئی.شکایت تھی کہ آپ کے چند آدمی آپکی جماعت کے منافق ہیں.آپ نے ان کو بڑا لتاڑا اور ان کے خلاف پُر زور خطبہ دیا.پھر کہا.آپ کو شکایت تھی کہ آپ کی جماعت میں منافق ہیں جو دوسروں کو شکایتیں پہنچاتے ہیں.جواب: جس دن سے میں خلیفہ ہوا.بعض لوگ ایسے چلے آتے ہیں اور ہر جماعت میں کچھ منافق ہوتے ہیں.سوال: آپ نے اپنی جماعت کے رُوبرو خطبہ دیا جس میں زور دیا کہ منافقوں کا پتہ لگا ئیں مجھے معلوم ہے مگر میں بتا نا نہیں چاہتا.جواب: اپنی جماعت کے کسی شخص نے جھوٹ بول دیا تو اسے ہم منافق کہیں گے.دوسرے
421 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان فرقوں کے متعلق ہم منافق کا لفظ استعمال نہیں کرتے.ہاں اگر ان کا کوئی شخص اپنی قوم کے خلاف خفیہ کارروائی کرے جیسے عیسائی عیسائی ہو کر عیسائیوں کو نقصان پہنچائے تو وہ شخص عیسائی منافق ہوگا.جس طرح احمدی احمدی ہو کر احمد یوں کو نقصان پہنچائے تو وہ احمدی منافق ہوگا.عدالت: ۱۵ ـ اگست کے الفضل کے پرچہ میں آپ کی جو تقریر درج ہے اور جس میں منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے.یہ آپ کی تقریر ہے.جواب: ہاں سوال: اس تقریر میں منافق کا لفظ آپ نے کن لوگوں کی نسبت استعمال کیا ہے.جواب: اپنی جماعت کے کمزور لوگوں کے متعلق.سوال: قادیان میں پہلے بھی دوسرے مسلمانوں کا جلسہ ہوا آپ کو یاد ہے.جواب: ہاں.سوال: کب ہوا.جواب: سنہ یاد نہیں.یہ جانتا ہوں کہ پہلے ہوا.سوال: آپ کو یہ یاد ہے کہ ۱۹۲۳ء میں علماء قادیان میں اکٹھے ہوئے تھے اور جماعت احمد یہ کے افراد نے انہیں سختی سے مارا پیٹا تھا اور مقدمہ بازی تک نوبت پہنچی تھی.جواب: مجھے ذاتی علم نہیں کہ احمدیوں نے غیر احمد یوں کو سختی سے مارا پیٹا ہو.(نوٹ از رپورٹر : قانون کی اصطلاح میں صرف وہ شہادت لی جاسکتی ہے جو سماعی نہ ہو.مثلاً جس چیز کا رؤیت سے تعلق ہو وہ آنکھوں سے دیکھی ہوئی ہو.جس کا سماع سے تعلق ہو وہ خود کانوں سے سُنی ہو ؤ غیر ڈالک.(حضرت صاحب کا یہ جواب کہ ذاتی طور پر علم نہیں.قانون کی اس تصریح کی روشنی میں ہے.) سوال: آپ محمد حسین کو جانتے ہیں جو قتل ہوا.جواب: میں نے اسے نہیں دیکھا.اگر جاننے کا یہ مطلب ہے کہ سنا وہ قتل ہو گیا تو یہ سنا تھا.سوال: محمد علی آپ کی جماعت کا آدمی تھا.جواب: ہاں.سوال: محمد علی کو پھانسی ہوئی تھی.
422 انوار العلوم جلد ۱۳ جواب: ہاں.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: محمد حسین جو قتل ہوا کیا وہ عبد الکریم مباہلہ والے کا ضامن تھا.جواب: مجھے معلوم نہیں.سوال: جب محمد علی کو پھانسی ہوئی.آپ نے اس کے جنازہ کی نماز بھی پڑھائی اور جنازہ کو کندھا دیا.جواب : جنازہ پڑھانا یاد ہے.کندھا دینا اچھی طرح یاد نہیں، ممکن ہے دیا ہو.سوال: کیا محمدعلی بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا.جواب: ہاں.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ بہشتی مقبرہ خاص مقام ہے قادیان میں اور اس میں خاص آدمی دفن کئے جاتے ہیں.جواب: وہاں ایسے لوگ دفن ہوتے ہیں جنہوں نے وصیت کی ہوا اور جسے صدر انجمن نے قبول کر لیا ہو.سوال: کیا وہاں دفن ہونے کا معاوضہ دینا پڑتا ہے.جواب: ہر شخص جو اپنی جائداد کے کم از کم ۱۰/۱ حصہ کی وصیت کرتا ہے.اشاعتِ اسلام کیلئے اسے دفن ہونے کی اجازت دی جاتی ہے.سوال: محمد علی نے کوئی وصیت کی اور کوئی جائیدا دانجمن کو دی.جواب: مجھے وصیت کا یاد پڑتا ہے لیکن جائیداد دینے کے متعلق اس وقت یاد نہیں.سوال: محمد علی کو قتل کی سزا دی گئی اور اس کا جرم ثابت ہو گیا.کیا آپ جائز سمجھتے ہیں کہ اسے بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے.جواب: اس کا جواب تفصیل اور تشریح چاہتا ہے.اگر عدالت کہے تو جواب دے سکتا ہوں.سوال: عنایت شاہ اور غریب شاہ جو ۱۹۳۳ ء میں قادیان گئے اور انہوں نے وہاں احرار کا دفتر کھولا.ان کو آپ جانتے ہیں.جواب: غریب شاہ کا نام میں نے سنا ہے.عنایت شاہ کا نام نہیں جانتا (اس موقع پر عدالت کو توجہ دلائی گئی کہ نام کی صحت کا ذمہ وار وکیل ہے ) سوال: کیا عبدالکریم نے آپ سے کہا تھا کہ مباہلہ کر لیں.
423 انوار العلوم جلد ۱۳ جواب: ہاں.سوال: آپ نے منظور نہیں کیا تھا.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: چونکہ اسلام کے خلاف تھا اور قرآن کی شرطوں کے ماتحت نہ آتا تھا.اس لئے منظور نہ کیا.سوال: کیا عبدالکریم نے مباہلہ نامی اخبار پینج سے پہلے جاری کیا تھا.یا بعد میں.جواب: مجھے یاد نہیں.سوال: آپ نے پیشگوئی کی تھی کہ عبد الکریم اور اس کے ساتھی مر جائیں گے.جواب: ہر ایک نے مرنا ہے.اس قسم کی پیشگوئی کی کیا ضرورت تھی.مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس کے مرنے کی پیشگوئی کی.سوال: کیا یہ اسی وجہ سے آپ نے کہا تھا کہ عبد الکریم نے آپ کو مباہلہ کیلئے کہا تھا.جواب: حوالہ پیش کریں.سوال : آپ کو معلوم ہے کہ مباہلہ والوں کے مکان کو آگ لگ گئی تھی.جواب: سنا تھا.ذاتی علم نہیں.سوال: اپریل ۱۹۳۰ء کے آخر میں آپ نے دیکھا تھا کہ مباہلہ والوں کا مکان کھڑا ہے یا جل چکا ہے.جواب: مجھے یاد نہیں.سوال: ان کا مکان آپ کے مکان سے کتنی دور ہے.جواب: ایک فرلانگ کے قریب ہوگا.سوال: ۱۹۳۰ ء کے بعد سے اب تک پتہ ہے کہ وہ مکان کھڑا ہے.جواب: یہ پتہ ہے کہ اب وہاں صد را مجمن کی بلڈنگ ہے.عدالت : آپ کو کس طرح معلوم ہے کہ وہاں صدرانجمن کی بلڈنگ ہے.جواب: اس مکان کے متعلق مجھے سپر نٹنڈنٹ پولیس خان بہادر عبدالعزیز صاحب نے بتایا تھا.کہ ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ وہ مکان گرا دیا گیا ہے.میں نے انہیں کہا مجھے علم نہیں میں نے یہ سنا ہے کہ گر گیا ہے.بعض کہتے ہیں کہ گرا دیا گیا ہے.چونکہ یہ قانون ہے کہ شاملات پر مالک کی اجازت سے جو مکان بناتا ہے، جب وہ چھوڑ کر چلا جائے تو وہ زمین
424 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان مالک کو ملتی ہے.اس کے ماتحت میرے ایک بھائی نے جس کے سپر د جائیداد کا کام ہے اس مکان کے گرنے یا گرائے جانے کے بعد جس کا مجھے علم نہیں، صدرانجمن احمدیہ کو وہ جگہ دے دی اور اب وہاں صدرانجمن کا مکان ہے.سوال: کب سے ہے.جواب: یاد نہیں شاید ۱۹۳۳ ء کے آخر یا ۱۹۳۴ ء کے شروع سے.سوال: آپ محمد امین سے واقف ہیں.جواب: ہاں.سوال: عبدالکریم اور اس کے بھائی پر محمد امین نے حملہ کیا تھا اور اس پر عبدالکریم نے دعوی کیا تھا.جواب: مجھے ذاتی علم اس کے متعلق نہیں.سوال: یہی محمد امین ۱۹۳۱ء میں قتل کیا گیا قادیان میں.وہ اپنے ہاتھ سے مرا یا کسی نے اسے مارا.جواب: مجھے ذاتی علم نہیں.میں نے لوگوں سے سنا کہ اس نے ایک شخص پر حملہ کیا، اس میں وہ زخمی ہو کر مر گیا.سوال: آپ کو یاد ہے کہ ۲.اکتوبر ۱۹۳۴ ء کو احراریوں کے فتنہ پر آپ نے خطبہ دیا جو الفضل ۲۱.اکتوبر میں چھپا ہے.جواب: ہاں (اس کے متعلق مزید سوال کرنے چاہیں.عدالت نے کہا.پر چہ اگر بٹ ہو چکا ہے.ان سوالات کی ضرورت نہیں ) سوال: آپ یہ بتلائیے کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ محمد صاحب آخری نبی ہیں.جواب: میرا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں.سوال: آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کے والد مرزا غلام احمد صاحب نبی تھے.جواب: ہاں.سوال: دوسرے جو مسلمان ہیں.وہ اس بات کے خلاف کہتے ہیں.جواب: بعض لوگ اختلاف نہیں کرتے ہزار ہا دل سے مانتے ہیں.مگر ظاہر ہونے کی جرات نہیں کرتے کہ بیعت میں شامل ہو جا ئیں اور دین کیلئے قربانیاں کریں.
425 انوار العلوم جلد ۱۳ سوال: ان کی فہرست آپ کے پاس ہوگی.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: فہرست نہیں مختلف اوقات میں ایسے لوگ باتیں کرتے ہیں.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ مرزا صاحب نبی تھے.اور بہت سے مسلمان ان کے مخالف ہیں اور علماء بھی.جواب: بہت سے ایسے لوگ ہیں جو حضرت مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے.سوال: جمعیۃ العلماء دہلی والے مخالف ہیں یا نہیں.جواب: مخالف ہیں.سوال: فرنگی محل والے بھی مخالف ہیں.جواب: ہاں.سوال: جمعیۃ العلماء سہارن پوروالے.جواب: مجھے معلوم نہیں کہ سہارن پور میں کوئی جمعیۃ العلماء ہے سوال: بریلی والے جواب: اس سے آپ کی کیا مراد ہے وہاں ہمارے بھی آدمی ہیں.سوال: وہاں کے علماء جواب: ان کا نام لیں.سوال: دیو بند کے علماء.جواب: ہاں مخالف ہیں مگر موجودہ علماء ان کے بانی مولوی محمد قاسم صاحب اس بارہ میں ہم سے متفق ہیں.سوال: کیا یہ لوگ اس بات کی وجہ سے مخالف ہیں کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا.مرزا صاحب ان کو سخت الفاظ کہتے رہے اور وہ ان کو کہتے رہے.جواب : یہ حقیقت نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے پہلے بُرا بھلا کہا اور حضرت مرزا صاحب نے ان کو جواب دیا اور ان کے اعتراضوں کو رڈ کیا.سوال: آپ یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں کا بڑا گر وہ مانتا ہے کہ محمد صاحب کی قدر جان سے بھی زیادہ عزیز ہے.جواب: ہم سوائے اللہ تعالیٰ کے اپنی جانوں سے کیا سب چیزوں سے زیادہ عزیز رسول کریم
426 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں.دوسرے مسلمانوں کے متعلق میں کیا کہ سکتا ہوں.سوال: دوسرے مسلمانوں کے متعلق پتہ ہے کہ محمد صاحب کے متعلق ان کا کیا عقیدہ ہے.جواب: کچھ ایسے بھی ہیں جو پروا نہیں کرتے اور ایسے بھی ہیں جو ز بر دست عقیدت رکھتے ہیں.سوال: کیا یہ درست ہے کہ آپ محمد صاحب کی عزت برقرار رکھنے کیلئے تیار ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے.جواب: بے شک میں برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اُس سے لڑ پڑوں گا بلکہ میرے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بُرا کہے گا.سوال: جو یہ کہے کہ میں اسلام میں داخل ہوں مگر محمد صاحب کو آخری نبی نہیں مانتا اور تمام رسولوں سے بڑھ کر نہیں مانتا اُسے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ جواب: میرے نزدیک مسلمان ہو کر جو یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل تھے وہ غلطی کرتا اور اسلام کے خلاف کہتا ہے اور میرے نزدیک جو مسلمان یہ تسلیم نہیں کرتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت قیامت تک جاری ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ کی نبوت ختم ہو کر اور نبوت کی ضرورت ہے وہ غلطی کرتا ہے.سوال: آپ نے ایک طرف تو کہا کہ جو مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ محمد صاحب آخری نبی نہ تھے اور دوسرے انبیاء سے بڑھ کر نہیں مانتا وہ غلطی کرتا ہے اور دوسری طرف کہا جو نبوت ختم سمجھتا ہے وہ اسلام کے خلاف کرتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب: آخر سے کہتے ہیں جو بعد میں آئے جواند رہی ہو وہ بعد نہیں کہلاتا.سوال: آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صاحب کے بعد نبی آ سکتا ہے مگر دوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ کوئی نبی نہیں آ سکتا.جواب: ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تابع ہے وہ بعد نہیں.اور یہ درست نہیں کہ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع کوئی نبی نہیں آ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جن کے متعلق آپ نے فرمایا کہ آدھا دین ان سے سیکھو وہ فرماتی ہیں.قُولُوا خاتم النبيين ولا تقولوا لانبی بعدہ کے بے شک یہ تو کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
427 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ اب کوئی نبی نہ آئے گا.پھر بہت سے صحابہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ کوئی نبی نہیں آ سکتا.سوال: میں نے صحابہ کے متعلق نہیں پوچھا.جواب: میں صحابہ کو مسلمان سمجھتا ہوں.صحابہ مسلمان تھے اور اُن کا عقیدہ یہ تھا کہ ایسا نبی آ سکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو.ہم یہ مانتے ہیں کہ آپ کے ماتحت آپ کی شریعت قائم کرنے کیلئے نبی آ سکتا ہے دوسرے سارے مسلمان اس کا انکار نہیں کرتے.ان میں بھی ایسے ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں اختلاف کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ محمد صاحب کے بعد کسی کو نبی نہیں مانتے مگر آپ مانتے ہیں.جواب: یہ نہیں.اس لئے کہ یہی بات جب دوسری جگہ دیکھتے ہیں تو ہماری مخالفت کرنے والے وہاں ناراض نہیں ہوتے.ہمارے خلاف عوام میں شورش پیدا کرنے کیلئے یہ کہتے ہیں.سوال: آپ کے نزدیک ان کے اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ جواب: یہ ان سے پوچھیں.سوال: آپ کی پارٹی کا آپ کے والد صاحب کے زمانہ میں بھی اور اب بھی دوسرے مسلمانوں سے کیا یہی جھگڑا ہے کہ آپ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور وہ نہیں مانتے.جواب: میں اس کا جواب دے چکا ہوں.سوال : آپ مانتے ہیں کہ مرزا صاحب کے بعد اُن کی جماعت کی دو پارٹیاں ہو گئیں.ایک لا ہور کی پارٹی اور ایک قادیان کی.جواب: ہاں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے بعد دو پارٹیاں ہوگئیں.سوال: آپ دوسرے خلیفہ ہیں؟ جواب: ہاں سوال: اگر کوئی کہے کہ میرا رتبہ حمد صاحب سے بڑھ کر ہے تو آپ اُس کے متعلق کیا کہیں گے؟ جواب: میں کہہ چکا ہوں کہ جو یہ کہتا ہے غلطی کرتا ہے.سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لاہوری جماعت کے لوگوں کو آپ سے اصولی اختلاف یہی ہے کہ آپ مرزا صاحب کو نبی سمجھتے ہیں.
428 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: میرے نزدیک یہ درست نہیں.میرے نزدیک مجھ سے ذاتی عداوت اختلاف کی اصل ذمہ وار ہے.سوال: حقیقۃ الوحی صفحہ ۸۹ پر لکھا ہے کہ آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا.جواب: یہ ٹھیک ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ کہنے والا اپنا رتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا قرار دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر ہے.این اس مریم کے ذکر کو چھوڑو بہتر غلام احمد ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں ابن مریم سے بڑھ کر ہوں.اسی طرح سینکڑوں جگہ آپ نے لکھا ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خادم ہوں ایک منٹ ان سے جدا ہونا میرے لئے موت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ گل بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ یعنی ہر برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے اور وہ بڑا مبارک ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم پائی یعنی میں خود.اس الہام کا مطلب یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے تمام بزرگوں سے آپ کا درجہ بڑا تھا.سوال: آپ اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ تمام دنیا کو دشمن سمجھے.جواب: میرے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک سب دنیا سے ہوشیار نہ رہے.سوال: میں کہتا ہوں آپ نے کہا سب کو دشمن سمجھو.جواب: فقرہ دکھائیں.سوال: کیا مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جو نبی ہوتا ہے وہ عام انسانوں سے اخلاق میں بہت بڑھ کر ہوتا ہے.جواب: اس وقت کے عام مسلمانوں میں سے ایک حصہ کا یہ عقیدہ ہے کہ نبیوں میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں اور مسلمانوں میں ایسے خیالات پائے جاتے ہیں.سوال: کیا آپ کے نزدیک نبی اخلاقی طور پر دوسروں سے بڑھ کر ہوتا ہے.
429 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: ہماری جماعت کا بے شک یہ عقیدہ ہے کہ نبی کی زندگی کامل ہوتی ہے اور اپنے زمانہ کے لوگوں سے ہرا خلاقی مذہبی حالت اُس کی مکمل ہوتی ہے.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ جو نبی ہوتے ہیں اُن کی سادہ زندگی ہوتی ہے وہ عیش و آرام نہیں کرتے مصیبتیں جھیلتے ہیں.جواب: سادی زندگی نسبتی امر ہے.حضرت سلیمان نے گھوڑے رکھے ہوئے تھے، قلعے بناتے تھے ، دیگیں چڑھاتے تھے ، ایک عورت کیلئے انہوں نے قیمتی تخت بنوایا حالانکہ وہ نبی تھے.سادہ زندگی نسبتی لحاظ سے ہوتی ہے یعنی ایسی زندگی بسر کرنا جو نبی کی ضرورت کے مطابق نہ ہو.یا ایسی زندگی جس کا اثر لوگوں کی زندگیوں پر بُرا ہو ، وہ نبی کی نہیں ہوسکتی.سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سادہ زندگی بہتر کرتے تھے؟ جواب: آپ کی زندگی بھی مقابلہ کے لحاظ سے سادہ تھی ورنہ آپ کے پاس گھوڑے تھے اور کئی صحابہ کے پاس نہ تھے.سوال: کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کی روٹی کھاتے تھے؟ جواب: کبھی کبھی کھاتے تھے.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ آپ کے پاس کپڑا نہ ہوتا اور چٹائی پر جنگے بدن سوتے ؟ جواب: کبھی ایسا بھی ہوتا مگر کبھی حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ کے پاس ایک سے زیادہ لباس بھی ہوتا تھا.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ آپ محمد صاحب کی زندگی کو کامل نمونہ سمجھتے ہیں ؟ جواب: یقیناً جن حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کام کیا ان حالات میں وہی کام سب سے افضل ہے.ہے.سوال : یہ ٹھیک ہے کہ نبی کے شایانِ شان نہیں کہ سوا خدا کے کسی اور سے ڈرے؟ جواب: یہ ٹھیک ہے کہ نبی خدا کے سوا کسی نہیں ڈرتا.سوال: کیا بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کو بڑا ناز ہے کہ آپ نے انگریزوں کی بڑی خدمت کی.(اس موقع پر سرکاری وکیل نے کہا کہ آپ ناز کا لفظ استعمال نہ کیجئے کہ یہ اچھا لفظ نہیں.) جواب: بانی سلسلہ احمدیہ، مجھے اور جماعت کو اس بات پر فخر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے سچائی کا
430 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان مار کیا کہ انگریزوں نے اس ملک میں امن قائم کیا اور ملک کی خدمت کی.مجھے فخر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے سچائی کا اظہار کیا کسی کی خوشامد نہیں کی.بلکہ امر واقعہ کا اظہار کیا.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نوشیرواں کے زمانہ میں پیدا ہوا.سوال: یہ آپ کو معلوم ہے کہ جہاد مسلمانوں کا ایک عقیدہ ہے؟ جواب: آپ تشریح کریں کہ آپ جہاد کا کیا مطلب سمجھتے ہیں.سوال کتاب تریاق القلوب مرزا صاحب کی کتاب ہے؟ جواب: ہاں سوال: انگریزوں کے متعلق کیا یہ درست ہے کہ آپ کو ہمیشہ اُن سے فائدے پہنچے ؟ جواب: مجھے یا جماعت کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا.ہم اُن کے انصاف کی قدر کرتے رہے ہیں اور اس وجہ سے ہم نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں.سوال : اگر کسی کو کوئی کہتا کہے یا اور کوئی لفظ تو کیا یہ درست ہے؟ جواب: بطور گالی ایسے لفظ کا استعمال درست نہیں.سوال: کتے میں ایک صفت وفاداری کی بھی ہے اگر کوئی اس صفت کی وجہ سے کسی کو گتا کہے تو یہ درست ہو گا ؟ جواب: نہیں.یہ لفظ صفت کے اظہار کے لئے اُسی وقت درست ہوگا جب کہ کسی کی بُرائی کا اظہار مد نظر ہو.اور اُسی وقت جائز ہو گا جب کہ ایسے شخص کے متعلق ایسا لفظ استعمال کیا جائے جو خود ایسے الفاظ استعمال کر چکا ہو.یعنی صرف اُس صورت میں جائز ہوگا (صفت کے طور پر استعمال کرنا) جب کہ اس کا موصوف اس سے زیادہ سخت الفاظ گتا کہنے والے کے متعلق استعمال کر چکا ہو.سوال: یہ ٹھیک ہے کہ مرزا صاحب نے بڑے سخت الفاظ مسلمانوں کو کہے؟ جواب: کبھی جواب کے سوا نہیں کہے اور جوابی طور پر ان سے کم سخت الفاظ کہے ایسے لوگوں کے متعلق جنہوں نے پہلے بہت زیادہ سخت الفاظ آپ کے متعلق استعمال کئے.سوال: انجام آتھم مرزا صاحب کی کتاب ہے؟ جواب: ہاں
431 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: اس کے صفحہ ۲ پر لکھا ہوا ہے کہ اے بدذات فرقہ مولویاں“.جواب: جواب میں کہا ہے اور اُن کو کہا ہے جنہوں نے اس سے بہت زیادہ سخت الفاظ کہے.سوال: اگر کوئی مجھے گالی دے اور میں جواب میں گالی دوں تو یہ بکر انہیں؟ جواب: میرا مذ ہب اسلام کہتا ہے کہ اگر حد سے بڑھنے والے کو تنبیہہ کے طور پر جواباً کوئی نسبتاً کم سخت لفظ کہا جائے تو جائز ہے.گالی نہیں.کیونکہ گالی جھوٹ ہوتا ہے.سوال: جو دوسرے مسلمان ہیں کیا آپ کی جماعت کے لوگ ان کو نہ لڑکیاں دیتے اور نہ ان کی لڑکیاں لیتے ہیں.جواب: ہم لڑکیاں دیتے نہیں لے لیتے ہیں.سوائے تین چار سال کے کہ ہماری جماعت میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی.اس لئے اپنے اندر رشتے کرنے کیلئے عارضی طور پر ایک مدت مقرر کر دی ہے کہ دوسروں کی لڑکیاں نہ لی جائیں.سوال: اگر کوئی مرجائے اور وہ احمدی نہ ہوتو کیا آپ اس کے جنازہ پر جائیں گے؟ جواب: جنازہ پر جائیں گے دفن کریں گے مگر جنازہ نہیں پڑھیں گے.سوال: جواحمدی نہیں ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے یا نہیں؟ جواب: نہیں.سوال: جو احمدی نہیں وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ جواب: یہ وہ بتا سکتا ہے.کوئی میرے پیچھے نماز پڑھے مجھے اس سے کیا.میں نے کبھی کسی کو روکا نہیں.سوال: کیا یہ ٹھیک ہے کہ اسلام میں حکم ہے تبلیغ کرو؟ جواب: ہاں سوال: تبلیغ کا کام آپ شد ومد سے کرتے ہیں.آپ نے یوم التبلیغ مقرر کیا ہوا ہے؟ جواب: ہاں یہ ٹھیک ہے.سوال : آپ سمجھتے ہیں تبلیغ کرنا ہر مسلمان کا حق ہے.جواب: دنیا کے ہر شخص کا خواہ وہ عیسائی ہو یا ہندو، حق ہے کہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے مسلمان کی کیا شرط ہے.سوال: یہ بھی ٹھیک ہے کہ تبلیغ کرتے وقت سخت الفاظ نہ کہے؟
432 انوار العلوم جلد ۱۳ جواب: اس شرط کے ساتھ جو پہلے بیان کر چکا ہوں.سوال: انوارالاسلام مرزا صاحب کی کتاب ہے؟ جواب: ہاں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: کئی آدمی ایسے ہیں جو پہلے آپ کے ساتھ شامل تھے پھر اوروں کے ساتھ جا شامل ہوئے.جواب: ہر سال چار پانچ چھ ہزار مرد میری جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور جانے والے سال میں دو چار ہوتے ہونگے اور کبھی نہیں بھی ہو نگے.سوال: جب قادیان میں احرار کا نفرنس ہوئی تو آپ نے بُرا ما نا اس وجہ سے کہ آپ کے آدمی ان میں شامل نہ ہو جائیں؟ جواب: میں اس وجہ سے کس طرح بُرا مان سکتا تھا جب کہ ہماری جماعت کے متعلق گورنمنٹ کا آرڈر تھا کہ وہاں کوئی نہ جائے.میں نے تو شکوہ کیا تھا کہ کا نفرنس اگر ہمارے لئے کی گئی تھی تو ہمیں جانے سے کیوں روکتے تھے اور کیوں نہ جانے دیا.سوال : سید اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کہلاتے ہیں یہ ٹھیک ہے؟ جواب: چند ایک سید اپنے متعلق نواسے کا لفظ فخراً استعمال کرتے ہیں باقی نہیں.ہاں یوں تو سارے ہی سید، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی کی اولاد ہیں.سوال: آپ کو معلوم ہے کہ احرار کے پاس کچھ سرمایہ ہے؟ جواب: مجھے کیا پتہ ہے.سوال: آپ کے پاس قادیان میں انصاف کا محکمہ ہے؟ جواب: انصاف کے محکمہ سے آپ کی کیا مراد ہے.سوال: جہاں جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے.جواب: ایسے جھگڑے جو قابل دست اندازی پولیس نہیں ہوتے ہمارے پاس آ جائیں تو ان کیلئے فیصلہ کرنے والے مقرر کر دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ طے کر دیں اور جو پولیس کی دست اندازی کے قابل ہوں اُن کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے پولیس میں لے جائیں.سوال: اس کے لئے کوئی محکمہ قائم کیا ہوا ہے؟ جواب: ہاں.محکمہ قضاء ہے.
433 انوار العلوم جلد ۱۳ سوال: اس میں دیوانی مقدمات بھی کئے جاتے ہیں؟ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: ہاں مالی معاملات کا بھی فیصلہ کیا جاتا ہے مگر ہم کسی کو مجبور نہیں کرتے.سوال: آپ کے اس محکمہ میں کوئی شکایت کرنی ہو تو اس کیلئے کوئی کاغذ مقر ر کیا ہوا ہے؟ جواب: مجھے اس کا علم نہیں.مجھے جہاں تک علم ہے ایسا نہیں ہے.یہ محکمہ قضاء کو علم ہو گا.سوال: (ایک کاغذ دکھا کر ) اس شکل کا کاغذ آپ نے دیکھا ہوا ہے؟ یہ لوکل انجمن احمد یہ کا ہے.جواب: میرے سامنے یہ کبھی نہیں آیا.میں آج پہلی دفعہ اسے دیکھ رہا ہوں.اس کا محکمہ قضاء سے واسطہ نہیں.یہ لوکل انجمن احمد یہ قادیان سے تعلق رکھتا ہے اور لوکل انجمن الگ ہے اور مرکزی انجمن الگ.سوال: آپ کو یہ بھی علم نہیں کہ یہ کا غذا ایک آنہ کو پکتا ہے.جواب: نہیں.سوال: مرزا بشیر احمد صاحب آپ کے کیا لگتے ہیں؟ جواب: میرے بھائی ہیں.سوال: آپ نے یہ بھی مقرر کیا ہوا ہے کہ احمدی آپس میں تجارت کریں دوسرے مسلمانوں، ہندوؤں سکھوں سے نہ کی جائے.جواب: ایک دفعہ بعض لوگوں نے شکایت کی تھی کہ ہند و بازار میں جھگڑا ہو گیا تھا.اس پر میں نے کہا کہ جو لوگ مخالفین کی باتیں برداشت نہ کر سکیں اور انہیں ان سے خوف ہو وہ وہاں نہ جائیں اور آپس میں لین دین کریں.لیکن جو لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں وہ بے شک ان سے سودا لیں.اس پر بعض نے پہلا اقرار کیا بعض نے دوسرا.ورنہ میرا حکم نہیں کہ ہندوؤں یا سکھوں یا عیسائیوں سے نہ خریدیں.چنانچہ لوگ سودا نہیں خریدتے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اس اقرار سے باہر رہے اور خریدتے ہیں.لیکن یہ بھی صرف قادیان میں ہے باہر کیلئے نہیں.میں خود قادیان کے باہر کے ہندوؤں سے کئی دفعہ سودا خریدتا ہوں.کچھ ہند و قادیان کے بھی ہیں جن سے یہ اقرار کرنے والے بھی خریدتے ہیں مثلاً لا لہ گنہیا شاہ صاحب.سوال: اللہ دتا میراثی قادیان کو آپ جانتے ہیں؟
434 انوار العلوم جلد ۱۳ جواب: نہیں.سوال: مرزا مہتاب بیگ کو جانتے ہیں؟ جواب: ہاں.سوال: کیا کام کرتے ہیں؟ جواب: درزی کا.سوال : چوہدری حاکم علی کو جانتے ہیں؟ جواب: جانتا ہوں.سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان سوال: قادیان میں آپ کے وزیر خارجہ، وزیر عامہ بھی ہے؟ جواب: میرے کوئی وزیر قادیان میں یا اور کہیں نہیں.سوال: آپ نے جو کام کرنا ہو خود کرتے ہیں؟ جواب: ہمارا نظام یہ ہے کہ صدر انجمن کے مختلف محکموں کے افسر مقرر ہیں.ان کو ناظر کہتے ہیں.ان کو مقرر میں کرتا ہوں اور وہ جواب دہ قانونی طور پر صدر انجمن کے آگے ہوتے ہیں اور اپنے صیغہ کے آخری ذمہ دار ہوتے ہیں.صدر انجمن انتظامی جماعت ہے.ناظروں کو میں اِس لئے مقرر کرتا ہوں کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے.میں دیکھ لوں جو مقرر ہوئے وہ ہمارے منشاء کو پورا کرنے والے اور موزوں ہیں.سوال: آپ نے احمد یہ کور بنائی ہے؟ جواب: صدرانجمن کے انتظام کے ما تحت بنی تھی اب مجھے اس کے متعلق علم نہیں.سوال: کب سے نہیں ؟ جواب: دو ڈیڑھ سال سے اس کا کوئی کام میرے سامنے نہیں آیا اور میں نے سنا نہیں کہ اس نے کوئی کام کیا.سوال: آپ نے آدمی مقرر کیا نشانہ سکھانے کیلئے ؟ جواب: اس کا صدر انجمن سے تعلق ہے مجھے معلوم نہیں.اب ایسا انتظام ہے یا نہیں.مجھے علم نہیں.پہلے اس قسم کا انتظام تھا جیسے سکاؤٹ وغیرہ کا ہوتا ہے تا کہ وہ جلسوں وغیرہ کا انتظام کریں.مجھے دو سال سے اس کے متعلق علم نہیں کہ اب یہ انتظام ہے یا نہیں.سوال: عورتوں کو بھی نشانہ وغیرہ سکھایا جاتا ہے؟
435 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: میں نے اپنی بیویوں سے بعض اوقات بندوق چلوائی ہے اور جس گھر میں بندوق ہو اُس کی عورتیں کبھی چلا لیتی ہیں.یوں عورتوں کیلئے اس قسم کا کوئی انتظام نہیں.سوال: نعمت اللہ ڈرل ماسٹر ہے اور غلام نبی بھی ؟ جواب: میں ان کو جانتا ہوں.نعمت اللہ ڈرل ماسٹر ہے سکول میں اور غلام نبی چوکیداروں کا دفعدار ہے.سوال: یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کو کہا فوجی تعلیم سکھو؟ جواب: فوجی تعلیم سے آپ کی کیا مراد ہے.کیا یہ کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ.سوال: نہیں یہ کہ نشانہ وغیرہ سیکھو بندوقیں رکھو.جواب: میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ جن کو لائسنس مل سکتے ہیں ان کو بندوقیں لینی چاہئیں اور چلانی سیکھنی چاہئیں.سوال: آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام دنیا کو فتح کرلیں گے؟ جواب: ہر مذہب والے کو یہ سمجھنا چاہئے کہ چونکہ سچائی اُس کے پاس ہے وہ دنیا کو اپنا ہم خیال بنالے گا.ہمارے پاس سچائی ہے ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک وقت سب دنیا ہمارے مذہب میں داخل ہو جائے گی.سوال: آپ کو یاد ہے کہ ملا ئکتہ اللہ آپ کی کتاب ہے؟ جواب: یہ میرا لیکچر ہے.سوال: اس میں آپ نے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے.” زار روس کا سونٹا چھین کر مجھے دیا گیا.جواب: یہ میرا الہام نہیں.عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے کارروائی بند کی گئی.اور بیان سننے کے بعد ( حضرت صاحب ) نے لکھایا.مجھے بعد میں محمد علی صاحب کی وصیت کے متعلق یاد آیا کہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ وفات کے وقت ان کا قرضہ ان کے مال سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن ان کی زندگی میں انجمن ان کی وصیت منظور کر چکی ہے اس لئے بہشتی مقبرہ میں ان کو دفن کیا جائے.اس کے بعد پانچ بجے کے قریب حضور کچہری سے واپس تشریف لے آئے.
انوار العلوم جلد ۱۳ 436 سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان (الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۳۵ء) ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء کی کارروائی سرکاری وکیل کے سوالات کے جواب میں یہ عام قاعدہ نہیں ہے کہ جس کا قرضہ جائیداد سے زیادہ ہو اور اس نے وصیت کرائی ہوئی ہو.اس کے ترکہ سے کچھ نہ لیا جائے.بعض اوقات کسی کی وصیت صدرانجمن منسوخ بھی کر دیتی ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے محمد علی صاحب نے اُس وقت وصیت نہ کی تھی جب کہ وہ جیل میں تھے بلکہ دیر کی ، کی ہوئی تھی.میرے سامنے محمد علی صاحب کی وصیت منظوری کیلئے پیش نہ ہوئی تھی نہ کوئی اور پیش ہوتی ہے.میں نے محمد علی صاحب کے مقدمہ کی پیروی کرنے کیلئے کسی کو مقرر نہیں کیا تھا.مجھے ذاتی علم نہیں کہ جماعت نے اس کے مقدمہ کی پیروی کی.میں نے سنا ہے کہ کی.مرزا عبدالحق صاحب وکیل، مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر، پیر اکبر علی صاحب ایڈووکیٹ جنہوں نے مقدمہ کی پیروی کی.میری جماعت کے ہیں.مولوی فضل الدین صاحب نے اس کا ذکر مجھ سے کیا.پیرا کبر علی صاحب نے مجھے یاد نہیں کہ کہا ہو.میں نے سنا ضرور تھا کہ انہوں نے پیروی کی.مولوی فضل الدین صاحب کا عہدہ مشیر قانونی کا ہے.مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ اُس وقت جماعت احمد یہ گورداسپور کے امیر تھے.اس وقت وہ جماعت احمد یہ گورداسپور کے پریذیڈنٹ ہیں.محمد علی صاحب کو سیشن کورٹ سے موت کی سزا ہوئی تھی.مجھے یہ ذاتی علم نہیں ہے کہ میری جماعت نے ان کی ہائی کورٹ کی اپیل کیلئے چندہ کیا تھا.میرا خیال ہے کہ پریوی کونسل میں اپیل نہیں کی گئی تھی.یہ یاد ہے کہ کسی نے گورنر سے رحم کی درخواست کی تھی.یہ معلوم نہیں کسی شخص کے نام پر وہ اپیل تھی.محمد علی صاحب صوبہ سرحد کے رہنے والے تھے.یہ مجھے معلوم نہیں کہ محمد علی صاحب واقعہ قتل سے کتنا عرصہ پہلے قادیان آئے تھے.قادیان میں مجلس شوری ہوئی تھی.جس میں بہت سے لوگ باہر کی جماعتوں کے آئے
437 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان تھے.اس وقت محمد علی صاحب بھی آئے تھے.میں نے اس واقعہ قتل سے ۲۰.۱۳ روز قبل پبلک میں جو کچھ کہا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ مباہلہ والوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب آسمان سے آئے گا.وہ خدا کی گرفت میں آئیں گے نہ کہ انسانی عذاب میں.الفضل یکم اپریل ۱۹۳۰ء میں مباہلہ والوں کے متعلق جو ذکر ہے وہ میری تقریر کا حصہ ہے اور درست ہے.جب محمد علی صاحب جیل میں تھے تو مجھے اتنا یاد ہے کہ ان کا ایک خط میرے پاس آیا تھا جس میں انہوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ مجھ سے یہ فعل احمدیت کی تعلیم کی نا واقفیت کی وجہ سے ہو گیا ہے اب میں نے سلسلہ کی کتابیں پڑھی ہیں اور مجھے اپنی غلطی کا علم ہوا ہے اور میں تو بہ کرتا ہوں.دعا کریں خدا تعالیٰ میری غلطی معاف کر دے.وہ چٹھی محفوظ نہیں.کیونکہ اس پر تین چار سال گزر چکے ہیں البتہ میں نے اس کا ذکر اپنے ایک خطبہ میں کیا تھا.اگر موقع ملے تو وہ پیش کر سکتا ہوں.مولوی شیر علی صاحب صیغہ تالیف و تصنیف کے ناظر ہیں.اپنی عدم موجودگی میں بعض اوقات میں نے ان کو قادیان کی جماعت کا امیر مقرر کیا.(اس موقع پر ملزم کے وکیل نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے کورٹ میں موجود ہونے پر اس لئے اعتراض پیش کیا کہ ان کو بھی گواہ کے طور پر پیش کرنا ہے.مگر عدالت نے اس بناء پر اس اعتراض کو رڈ کر دیا کہ سرکاری وکیل کو ان کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں ) ۱۸.جولائی ۱۹۳۱ ء کے الفضل میں جو خطبہ چھپا ہے.وہ میرا ہے اور یہی وہ خطبہ ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ پیش کر سکتا ہوں.میں اس مسلمان کو جہنمی جانتا ہوں، جو دیدہ دانستہ کسی مسلمان کو قتل کرے اور پھر تو بہ نہ کرے.تو بہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اقرار کرے اسے گناہ سمجھے اور اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کرے.سوال: آپ اس مسلمان کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں یعنی اسے مسلمان مانتے ہیں یا کا فر جو کہ خدا کو ایک مانتا ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ کا آخری اور سچا پیغمبر جانتا ہو اور قرآن کو خدا کی سچی اور الہامی کتاب مانتا ہو نماز پڑھتا ہو مرزا غلام احمد صاحب کو
438 انوار العلوم جلد ۱۳ بُرا نہ کہتا ہو مگر ان کو نبی بھی نہ مانتا ہو.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان جواب: میرا یہ عقیدہ ہے کہ چونکہ حضرت مرزا صاحب خدا کے بھیجے ہوئے رسول اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے ہیں اس لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص سمجھ کر خدا تعالیٰ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان رکھتا ہو اور پھر حضرت مرزا صاحب پر ایمان نہ لائے.جو شخص خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا، قرآن کریم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر غور نہیں کرتا اور ان تینوں امور کے باوجود حضرت مرزا صاحب کی باتوں کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے.اگر کسی شخص میں وہ ساری شرائط پائی جاتی ہیں جو اسلام میں مسلمان ہونے کیلئے ضروری ہیں تو وہ مسلمان ہے ورنہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے، قرآن کریم کے ماننے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا سمجھنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مسلمان نہیں ہوگا.حضرت مرزا صاحب کو نبی نہ ماننے والوں میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو مسلمان ہوں اور ایسے بھی جو کافر ہوں.میں اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں جو یہ یقین رکھتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے الہامات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.گو یہ کہے کہ میں ان کی تحریروں میں جو نبی کا لفظ آیا ہے اس کے معنی حقیقی نبی نہیں کرتا.نبی کے سوا دوسروں کا ہر الہام قطعی اور کامل نہیں ہوسکتا.قادیان میں جو احرار کا نفرنس ہوئی، اس کا مقصد احمدی عقائد کے خلاف تبلیغ کرنا نہیں ہو سکتا تھا.اگر یہ غرض ہوتی تو حکومت احمدیوں کو وہاں جانے سے نہ روکتی.میرے نزدیک اس کا صرف احمدیت کے خلاف تبلیغ کرنا مقصد نہیں تھا.قادیان میں غیر احمدی بھی ہیں.احرار کا نفرنس میں جو تقریریں ہوئیں.وہ میں نے کانفرنس کے بعد اخبار احسان“ اور ”زمیندار“ میں پڑھیں.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی تقریر کے خلاف گورنمنٹ سے سلسلہ جنبانی نہیں کی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے.احمدی اخباروں نے تقریروں کے خلاف پروٹسٹ کیا مگر گورنمنٹ کو کوئی خط نہیں لکھا گیا.میں اپنی جماعت میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو حرامی نہیں کہتا.اس بناء پر حضرت
439 انوار العلوم جلد ۱۳ مرزا صاحب نے بھی کسی کو حرامی نہیں کہا.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان ذریۃ البغایا کے معنی ہیں.بے وفا لوگوں کے طریق پر چلنے والے.یا بے وفا عورتوں کے طریق پر چلنے والے لوگ.بے وفا عورتیں یا جماعتیں بھی اس کے معنی ہیں.بغایا کے معنی بد کار عورت کے بھی ہیں.بغایا جمع ہے ممکن ہے مفرد معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہو مگر لغت دیکھے بغیر اس کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا.میرے عقیدہ کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت مرزا صاحب کے آنے تک کوئی نبی نہیں آیا.یہ سچ ہے کہ اس عرصہ میں بعض نے نبوت کا دعوی کیا مگر میرے عقیدہ کی رُو سے ان کا دعویٰ غلط ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے غلطی پر تھے.قادیان میں جو احمدی پٹھان رہتے ہیں، میرے نزدیک وہ شریف آدمی ہیں.ان سے مجھے حملہ کرنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے.میں بغیر حوالہ دیکھے نہیں کہہ سکتا کہ مولوی محمد علی صاحب نے جو لا ہوری فریق کے امیر ہیں، کوئی شکایت کی کہ پٹھان مجھے مارنہ دیں.میں اپنی جماعت کے جس آدمی پر اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ناراض ہوں، اس کا گھر بار ضبط نہیں کیا کرتا.بعض ایسے لوگ جن کے اخلاقی جرم اور نا پسند یدہ حرکات کا بچوں پر بُرا اثر پڑتا ہو اور وہ جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ان سے میں خواہش کرتا ہوں کہ قادیان سے چلے جائیں.ان میں سے بعض جو نہیں مانتے وہ نہیں بھی جاتے.میں خان کا بلی کو جانتا ہوں، اس کے متعلق اپنی جماعت کے کارکنوں میں سے کسی نے جب مجھ سے دریافت کیا کہ وہ ناپسندیدہ حرکات کرتا ہے، کیا کیا جائے تو میں نے خواہش کی کہ وہ قادیان سے باہر چلا جائے.عدالت: وہ قادیان سے چلا گیا تھا.جواب: ہاں.میں نے اس کے رشتہ داروں سے کہا تھا کہ جب تک وہ اصلاح نہ کرے قادیان نہ آئے.اس موقع پر ایک تحریر پیش کی گئی جس کے متعلق فرمایا کہ یہ خط میرا ہی معلوم ہوتا ہے.گو اس کی سیاہی وہ نہیں جو میں عام طور پر استعمال کیا کرتا ہوں.اس میں وہ مضمون ہے جو میں نے ایک چٹھی میں لکھا تھا.
انوار العلوم جلد ۱۳ 440 سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان میں محفوظ الحق علمی کو جانتا ہوں.مجھے یاد نہیں کہ اسے نکالا گیا تھا.اس کے خلاف شکایت پیدا ہوئی تھی اس لئے سلسلہ کی ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا تھا.اس کے بعد وہ کچھ دن رہا اور پھر چلا گیا.میں محمد اسماعیل ولد حکیم قطب الدین صاحب کو جانتا ہوں.اس کو جماعت احمدیہ سے نکالا گیا ہے.ہمارا محکمہ جو امور عامہ ہے، اس نے میرے ایک قانون کی بناء پر اسے نکالا.میں امید کرتا ہوں کہ اس کے ماں باپ اور بہن کو جو احمدی ہیں، اس سے تعلقات نہیں رکھنے چاہیں تھے.شاہ عالم کو بھی جماعت سے نکالا گیا تھا.جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ قادیان سے باہر نہیں گیا نہ محمد اسماعیل باہر گیا.مجھے یاد نہیں کہ گل نورکو جماعت سے خارج کیا گیا ہو.وہ اب قادیان میں ہی ہے، مجھے معلوم نہیں.ابراہیم علی کو بید مارے گئے.بید مارنے کی سزا ہم کسی کو نہیں دیتے.یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے سکولوں میں سزا ملتی ہے ہاتھوں پر سوٹیاں ماری گئی ہوں.میں عبد السلام ولد ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو جانتا ہوں.مجھے یہ یاد ہے کہ اس کیلئے کوئی سزا تجویز کی گئی تھی.یہ یاد نہیں کہ وہ سزا کیا تھی.یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتا.لیکن بہت ممکن ہے کہ اس کے باپ کو کہا گیا ہو کہ وہ اسے سزا دے.اور ممکن ہے اسے سزا نہ ملی ہو.یہ بھی ممکن ہے کہ اس لڑکے کے باپ کو کہا گیا ہو کہ اگر لڑکے کی والدہ اس کو منع کرتی ہے کہ جو سزا اس کی اصلاح کیلئے تجویز کی گئی ہے وہ نہ لے تو آپ اس سے تعلق نہ رکھیں.یاد تازہ کئے بغیر نہیں کہہ سکتا کہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو اس لئے ۲۵ روپے جرمانہ کیا گیا کہ تمہارا لڑکا سزا نہیں پاتا اور تم سزا دلانے کے لئے تیار نہیں.جس کو اخراج کی سزا ملی ہو اس سے تعلقات نہ رکھنے کے لئے کہنا میرا کام نہیں.ایسے امور امور عامہ کے متعلق ہیں.مجھے معلوم نہیں کہ ناظر امور عامہ نے دوسری عورتوں کو ڈاکٹر عبداللہ صاحب کی عورت سے نہ ملنے کا حکم دیا.قادیان سے کسی کو چلے جانے کے لئے کہنا میرے سامنے پیش ہوتا ہے.آگے اس کے نتیجہ میں جو تفصیلات پیدا ہوں وہ امور عامہ سے تعلق رکھتی ہیں.
441 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان میں عبد الکریم صاحب کو جانتا ہوں.ان کے لڑ کے عبدالعزیز کے متعلق مجھے یاد ہے کہ اسے جماعت سے فارغ کیا گیا تھا یا قادیان سے چلے جانے کے لئے کہا گیا تھا.عبد الکریم صاحب کی لڑکی آمنہ کے متعلق مجھے یاد نہیں.اس پر عدالت ایک بجے لنچ کے لئے بند ہوئی ) ۱۶ اپریل ۱۹۲۰ ء کے الفضل میں جو خطبہ ہے.اس میں آمنہ لنچ کے بعد کا بیان کے متعلق جو حوالہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست ہے.خطوط کے متعلق اس خطبہ میں جو حوالہ ہے.وہ بھی درست ہے.شیخ فتح محمد صاحب منیجر سٹور قادیان کو بھی جماعت سے خارج کیا گیا تھا.وہ کچھ عرصہ جماعت سے نکالے جانے پر بھی قادیان رہے پھر چلے گئے.میں خواجہ اعجاز علی شاہ صاحب کو جانتا ہوں.یہ یاد نہیں کہ ان کو جماعت سے نکالا گیا تھا.اور نہ یہ یاد ہے کہ کسی جماعت کے آدمی نے ان کو کلہاڑی سے مارا تھا.عبدالعزیز ابراہیم عبد اللہ ولد نور دین میں سے کسی کی قادیان میں جائداد نہیں.شیخ فتح محمد صاحب کے متعلق میں کہہ نہیں سکتا کہ ان کی جائداد ہے یا نہیں.ان کی جائداد ضبط نہیں کی جاتی اور نہ ہم قانو نا کر سکتے ہیں جن کو جماعت سے خارج کیا جائے.عبد الکریم مباہلہ والا کا جہاں مکان تھا وہ جگہ میرے بھائی نے واجب العرض قادیان کی زیر دفعہ ۸.حاصل کی تھی اور صد رانجمن کو دی تھی.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جائداد جو غیر قابض اور غیر مالک کی ہو جس نے اس پر رہائش ترک کر دی ہو، بغیر قبضہ چھوڑے اس جائداد پر مالک قابض ہو جائیں گے کیونکہ اس کے متعلق مجھے قانون کی واقفیت نہیں.اس بارہ میں وہی کہا جائے گا جو قانون کہتا ہے.مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے مختار سے کہا تھا کہ غیر مالکوں سے جن میں عبد الکریم کا باپ بھی شامل تھا، تحریر لے لی جائے کہ اگر مکان چھوڑ جائیں تو مالکوں کی جگہ ہو گی مجھے معلوم نہیں اس کے لئے اس نے تحریر لی یا نہ لی.میں نہیں کہہ سکتا کہ عبد الکریم نے قبضہ چھوڑایا نہ.مگر چار سال سے اس میں نہیں رہتا تھا اور مکان بوسیدہ حالت میں تھا.جماعت کے لوگوں کی اہلیں یعنی مرافع بعض میرے پاس آتے ہیں.جو قواعد ا پلیں کرنے کے متعلق ہیں کہ کس حالت میں میرے پاس اپیلیں ہوسکتی ہیں.ان کے متعلق ہدایات
442 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان ہیں جو صدرا انجمن احمد یہ کے پاس ہیں.میں نہیں جانتا کہ اپیلوں کے دائر کر نے پر فیس لی جاتی ہے.محکمہ نقول قائم کرنے کے متعلق میں نے کوئی ہدایت نہیں دی ہوئی.اور نہ میرے علم میں کوئی محکمہ ایسا ہے.دستاویز پیش کردہ پر جو مہر ہے وہ محکمہ امور عامہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری محکمہ قضاء سے تعلق رکھتی ہے.ہمارے وہ احکام جو دیوانی معاملات کے متعلق ہوتے ہیں ان کی تعمیل اس طرح نہیں ہوتی جس طرح عدالت کے احکام کی (یعنی قرقی وغیرہ نہیں ہوتی ) لیکن اہم کاموں میں جو تعمیل نہیں کرتے ان کو ہم برادری سے خارج کرنے کے لئے کہتے ہیں.فرعون لفظ کے کئی معنی ہیں.اصطلاحی بھی اور وضعی بھی.جو شخص جبر اور ظلم سے حکومت کرے اسے بھی فرعون کہہ لیتے ہیں.مجھے معلوم نہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد کو فرعون کہا گیا.الفاظ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگی سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے بشرطیکہ سیاق وسباق خلاف نہ ہو کہ کچھ ان میں سے ہم میں شامل ہو جائیں گے اور کچھ باقی رہ جائیں گے.اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ اس جماعت میں اختلاف پڑ جائے گا.خطبہ جو’ الفضل ۵.اگست میں شائع ہوا ہے.اور جس میں ذکر ہے کہ ہم کونے کے پتھر ہیں، میرا ہے اور یہ حصہ درست ہے.جب میں نے ملزم کی تقریر پڑھی تو میں نے اسے قابلِ اعتراض پایا.مگر اس کے فعل کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اس کی ذات کے خلاف نفرت نہ پیدا ہوئی.ایسے الفاظ جو اشتعال پیدا کرنے والے اور نفرت پیدا کرنے والے ہوں.ان سے میرے دل میں ملزم کے خلاف نفرت و اشتعال اس لئے پیدا نہیں ہوا کہ میں نے اپنے نفس کو اس قابل بنایا ہوا ہے کہ کسی انسان کے خلاف میرے دل میں عداوت نہ پیدا ہو.میں ملزم کی تقریر سے زبانی کوئی ایسا لفظ نہیں بتا سکتا جو اشتعال انگیز اور نفرت انگیز ہے.اس موقع پر اخبار زمیندار ۱۴.اکتوبر کا پرچہ پڑھنے کے لئے دیا گیا) میں نے ملزم کی تقریر کو جو پر چہ زمیندار ۲۴ اکتوبر میں ہے.دیکھ لیا ہے.اس کے بعض فقرات قابلِ اعتراض ہیں.اور وہ یہ ہیں.(۱) فرعونی تخت الٹا جا رہا ہے.(۲) بعض مسلمان ایسے ہیں جو مرزائیت کو ایک مستقل لعنت سمجھتے ہیں.
443 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان (۳) وہ نقاب اُتارے گھونگھٹ کھوئے پردہ اٹھا کر باہر آئے، بینی پکڑے مولا علی کے جو ہر یکھے، کشتی لڑے غرض ہر ایک رنگ میں آجائے.وہ موٹر میں آئے میں ننگے پیروں آؤں وہ دیبا اور حریر پہن کر آئے، میں گاندھی جی کی کھلڑی ( کھدر ) پہن کر آؤں، وہ عنبری کھا کر آئے، میں بھو کا آؤں وہ زعفران کی چائے اور یاقوتی اور پلومر کی دکان کی ٹانک وائن اپنے ابا کی سنت میں پی کر آئے میں اپنے نانا کی سنت میں پیٹ پر پتھر باندھ کر آؤں.(۴) ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور پولیس سب آئیں اور دیکھیں کہ پانچ منٹ میں فیصلہ ختم ہو جاتا ہے یا نہیں.وہ باہر نکلے اور صرف اسی پر اکتفاء نہ کرے کہ حکومت ہمارے سروں پر مسلط کر دے.حکومت پانچ منٹ کے لئے غیر جانب دار ہو پھر دیکھو بخاری کا رنگ.(۵) ان کی چالبازیوں کے باوجود (۶) اس خبیث زمین پر معلوم نہیں ہم کیوں آئے ہیں.(۷) یہاں خاتم النبیین کی تو ہین ہوتی ہے.(۸) واضح رہے، صبح ہونے سے پہلے یہاں آگ لگی ہوگی.(۹) مجھے اکیلا چھوڑ دو اور دیکھو میں بشیر محمود کو کیا کرتا ہوں.(۱۰) ان کا کعبہ لنڈن بن جائے گا.(11) نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ میثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا یہ ہے مسلمان کا عقیدہ لیکن یہ مرزائی وہی ہیں جو خواجہ میثرب کی ہتک کرتے ہیں.(۱۲) ابن سعود مرزائیوں کے نقطہ نظر سے واجب القتل ہے.(۱۳) بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف منسوب کر کے کہا:.میرے مخالفین جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کیتیوں سے بدتر ہیں.اس اخبار کے علاوہ میں نے یہ تقریر اور ذریعہ سے بھی پڑھی تھی.اس مقدمہ کے دوران میں تقریر کے متعلق کسی نے اس وقت تک مجھے کچھ نہیں بتایا جب تک کہ زمیندار میں وہ چھپی نہیں تھی.مجھے یاد نہیں ہے کہ ملزم کی تقریر پڑھنے کے بعد میں نے خطبہ میں اس کا ذکر کیا.یا الفضل نے ذکر کیا.میرا خیال ہے کہ بہت سے رقعے لوگوں نے اس تقریر کے خلاف لکھے تھے اور خطوط بھی لکھے
444 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ خطوط دفتر میں موجود ہوں.ملزم کی تقریر کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ سامعین کے عقائد کو بدلا جائے.کیونکہ کسی احمدی کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی.تقریر سے معلوم ہوتا ہے اصل غرض احمد یوں کے خلاف منافرت پھیلا نا تھی.بے شک اس کا یہ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اس بغض کی وجہ سے لوگ احمدی نہ ہو جائیں.تقریر کرنے والے نے جو فرعونی تخت کہا ہے اس کو ہماری جماعت گالی سمجھتی ہے اس لئے قابلِ اعتراض ہے.کیونکہ ہم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا فرستادہ سمجھتے ہیں اور ان کی تعلیم کے متعلق ایسا لفظ بولا گیا ہے.مجھے معلوم نہیں کہ بعض مسلمان ایسے ہیں جو احمدیت کو مستقل لعنت سمجھتے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے کبھی احمدیت کے خلاف میں نے یہ لفظ نہیں پڑھا.یہ فقرہ کہ نقاب اُتارے گھونگھٹ کھوئے باہر آئے جس کا ذکر فقرہ نمبر (۳) میں ہے.یہ میری ذات کے متعلق کہا گیا ہے مگر الفاظ ٹانک وائن والا جو فقرہ ہے، وہ بانی سلسلہ کے متعلق ہے.یہ مجھے معلوم ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی دکان سے ایک دفعہ ٹانک وائن جو دوائی ہے کھانسی کے لئے اور جسے حال، کوکا وائن بھی کہتے ہیں منگائی تھی.میں نے کبھی یاقوتی نہیں خریدی اپنی زندگی میں.بعض دوستوں نے بطور تحفہ کبھی پیش کی تو اس دوست کی خوشی کیلئے چکھ لی استعمال کبھی نہیں کی.میں نے زعفران کی چائے یاد ہے ایک دفعہ زندگی میں پی.میں نے دیبا و حریر یعنی ریشمی کپڑا کبھی استعمال نہیں کیا نہ اپنے لڑکوں کو پہننے کی اجازت دی ہے.میری موٹر گاڑی ہے جسے میں استعمال کرتا ہوں.لفظ خبیث کا استعمال قادیان کے متعلق گالی ہے.اس سے ہمارے مذہبی احساس کو ٹھیس لگتی ہے کیونکہ ہم قادیان کو مقدس مقام سمجھتے ہیں.عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو ایک دفعہ امرتسر میں دیکھا جبکہ میں تقریر کر رہا تھا.ملزم اس میں شامل ہوا تھا.مجھے ملزم سے کوئی عداوت نہیں.یہ جو شعر ہے نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ میثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
445 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان اسے الگ پڑھا جائے تو میں اس کے معنوں سے متفق ہوں لیکن اس کو اگلی عبارت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو قابلِ اعتراض ہے.کیونکہ یہ اشتعال انگیز ہے.فقرہ نمبر ۳ نجم الہدیٰ میں درج ہے.مگر ملزم نے اپنی تقریر میں اصل فقروں سے جُدا کر کے استعمال کیا ہے اور یہ عیسائیوں کے متعلق ہے.آئینہ صداقت میری کتاب ہے.عدالت :.سوال متعلق آئینہ صداقت کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ کتاب پیش نہیں کی گئی.میرا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم ے سے برتر نہ کوئی ہو سکتا ہے اور نہ ان کے برابر ہوسکتا ہے.ملائکۃ اللہ ایک کتاب ہے جس میں میری ایک تقریر درج ہے.کریم الفضل ۲۸.مارچ ۱۹۳۵ء ) ۲۷ مارچ ۱۹۳۵ ء کی کارروائی سرکاری وکیل کے سوالات کے جواب میں اخبار ”زمیندار“ کی پالیسی جماعت احمدیہ کے خلاف ہے.رسول کریم ﷺ کو ہم آخری نبی ان معنوں میں کہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نبی نہیں آ سکتا بلکہ جو آئے گا آپ کی اتباع میں آئے گا.چونکہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ رسول کی متابعت میں ہے.اس لئے حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی تو ہین نہیں ہوتی.میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا رسول کریم ع سے بڑا رتبہ رکھنا تو در کنار وہ ان کے برابر بھی نہیں ہو سکتے اس لئے جہاں حضرت مرزا صاحب کے تخت کے متعلق یہ آیا ہے کہ تیرا تخت سب سے اوپر بچھا یا گیا، وہاں رسول کریم علیہ کے بعد میں آنے والے تختوں کا ذکر ہے نہ یہ کہ رسول کریم ﷺ کے تخت سے اوپر حضرت مرزا صاحب کا تخت بچھایا گیا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب اربعین کے صفحہ کا میں حضرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے.اور حقیقۃ الوحی کا صفحہ ۶ بھی اسی عقیدہ کی تائید کرتا ہے.حضرت مرزا صاحب کے جو سخت الفاظ پیش کئے گئے ہیں وہ آپ نے ان مولویوں کے متعلق استعمال کئے ہیں جنہوں نے پہلے آپ کے خلاف سخت کلامی اور بدزبانی کی کتاب البریہ کے صفحہ ۹۷ پر ان بُرے الفاظ اور بد زبانی کی فہرست درج ہے جو دوسروں
446 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف کی.حضرت مرزا صاحب کی کتاب الہدیٰ کے صفحہ ۶۸ میں سخت الفاظ کے متعلق لکھا ہے کہ یہ ان لوگوں کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں جو شرارتیں کرتے ہیں، سب کے متعلق نہیں.کتاب ایام الصلح جو حضرت مرزا صاحب کی کتاب ہے.اس کے ٹائیٹل کے صفحہ ۲ پر بعنوان اشتہا ر ا طلاع عام جو مضمون ہے اس میں بھی بانی سلسلہ احمدیہ نے سخت الفاظ استعمال کرنے کی وجہ بیان کی ہے.لفظ ذریت سے مراد پیر بھی ہے.چنانچہ ذریت دجال کا لفظ غیر احمدی علماء نے احمدیوں کے خلاف استعمال کیا ہے جو کہ فتویٰ علماء کے صفحہ ۴ پر درج ہے.فروع کافی جلد ۳ میں امام ابو جعفر کی ایک حدیث درج ہے.سے جس میں انہوں نے غیر شیعوں کے لئے اولاد بغایا کا لفظ استعمال کیا ہے.چند احرار ایسے بھی ہیں جو شیعہ ہیں.”الفضل ۵ - جون ۱۹۳۰ ء میں جو میرا خطبہ ہے.اس کے صفحہ 9 میں وہ وجوہات بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر قادیان کے بعض لوگوں سے سودا خریدنا چھوڑا ہے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ احمدی جماعت میں سے کسی نے احرار کا نفرنس جو اکتو بر ۱۹۳۴ء میں منعقد ہوئی بند کرانے کی کوشش کی تھی.میں یہ نہیں چاہتا کہ ہندو یا سکھ قادیان سے باہر چلے جائیں.ہاں یہ میری خواہش ہے کہ مسلمان ہو جائیں اور اگر مسلمان نہ ہوں تب بھی وہ خوشی سے قادیان میں سکونت رکھیں ہم جبر نہیں کرتے.مجھے یقینی طور پر یاد ہے کہ ہم نے ایک کنال زمین لالہ گوکل چند صاحب ریٹائر ڈ تحصیلدار قادیان کو چار پانچ سال ہوئے ہبہ کر دی تھی.ہم غیر احمدیوں سے یہ نہیں کہتے کہ اپنے جھگڑے ہمارے محکمہ قضاء میں لا کر فیصلہ کرا نہ ہم احمدیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ محکمہ قضا میں ضرور فیصلہ کرائیں جماعت احمدیہ سے جس کو خارج کیا جائے اسے قادیان چھوڑ دینے کے لئے ہم نہیں کہتے.بعض کیسوں میں بعض احمد یوں کو جنہوں نے فیصلہ کو تسلیم نہ کیا جماعت سے خارج کیا گیا ہے.مگر احمدیوں اس وجہ سے کہ پہلے تو ہمارے پاس آئے اور فیصلہ کرانے پر رضامندی ظاہر کی.مگر جب ہم نے فیصلہ کیا تو اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا.اور اس طرح خلاف معاہدہ کیا.یہ واقعہ ہے کہ بعض احمدی بغیر ہمارے محکمہ قضاء میں آنے کے سرکاری عدالتوں میں فیصلہ
447 انوار العلوم جلد ۳ کے لئے آتے ہیں.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان قاضی محمد علی صاحب کی وصیت جس کا میرے بیان میں ذکر ہے.معہ دوسری متعلقہ دستاویزات پیش کی جاتی ہے.دو درجن کے قریب وصیت کرنے والوں کی ایسی مثالیں ہیں کہ جنہوں نے وصیت کی اور ان کی کوئی جائداد نہ پائی گئی.مگر ان کو مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.ایسے لوگوں کی فہرست موجود ہے.ہماری جماعت کا محمد حسین کے قتل میں کوئی ہاتھ نہ تھا.میرے خطبہ میں جو ۲۹.اپریل ۱۹۳۰ء کے الفضل میں چھپا اس قتل کے متعلق اظہار افسوس کے الفاظ پائے جاتے ہیں.مکہ.مدینہ کو احمدی جماعت مقدس اور متبرک مقامات سمجھتی ہے اور میں نے خود حج کیا ہے.اگر احمدیوں کے خلاف کوئی یہ الزام لگائے کہ مکہ و مدینہ کی عزت نہیں کرتے تو ہم اسے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں.چونکہ قاضی محمد علی صاحب نے دلیری سے اپنے جرم قتل کا اقرار کر لیا اور اس گناہ سے تو بہ کی اور ظاہر کیا کہ اس نے یہ فعل سلسلہ کی تعلیم کے خلاف کیا اور اپنی غلطی کا اقرار کیا اور قتل چونکہ عمداًنہ تھا، اس لئے اسے مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.الفضل ۵ - اگست ۱۹۳۴ ء کے صفحہ ۸ پر منافق کے متعلق جو حوالہ درج ہے.اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایسے شخص کو میرے سامنے پیش کرو تا کہ اسے جماعت سے خارج کروں.ہمیں اچھا کھانے اور اچھا پہننے سے شریعت اسلام میں منع نہیں کیا گیا اگر کھانے اور پہننے کی ،، چیزوں کا استعمال مناسب حد کے اندر ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مشک اور عنبر استعمال فرماتے تھے.یہ سیرت النبی ؟ صفحہ ۶۳.حصہ اول جلد ۲ از مولانا شبلی میں بیان کیا گیا ہے.رسول کریم ﷺ نے بعض اوقات قیمتی کپڑے بھی پہنے.یہ بات ابوداؤدصفحہ ۵۵۹ میں درج ہے.ہر سال پانچ سے لے کر دس ہزار افراد تک کا جماعت احمدیہ میں اضافہ ہوتا ہے.یعنی اس قدر لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں.۱۹۲۱ء میں پنجاب میں جو مردم شماری ہوئی اس میں احمدیوں کی تعداد ۲۸ ہزار لکھی گئی تھی.اور ۱۹۳۱ ء کی مردم شماری میں ۵۶ ہزار قرار دی گئی.سیف چشتیائی جو پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے لکھی ہے.اس کے صفحہ ۱۰۴ پر حضرت
448 انوار العلوم جلد ۱۳ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان مرزا صاحب کے متعلق ملعونیت کا تکمہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ہے.اور اس کے صفحہ ۱۰ پر دجال قادیانی“ کے الفاظ بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق استعمال کئے ہیں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اپنی کتاب انوار الاسلام کے صفحہ ۳۴ میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت مسیح علیہ السلام یا کسی اور نبی کے خلاف سخت کلامی نہیں کی.اسی بات کا ایام اصلح اور کتاب البریہ میں بھی ذکر آیا ہے.وکیل ملزم کے جواب میں میرے بیان میں تختوں کا جو ذکر آیا ہے اس سے مراد آ نحضرت ے کے بعد کے اولیاء کے تحت ہیں اور اولیاء نبی کے درجہ سے کم درجہ پر ہوتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے دعوی نبوت ۱۸۹۰ ء کے آخر میں یا ۱۸۹۱ء کے شروع میں کیا.مولویوں نے آپ کے خلاف جو سخت کلامی کی اور سخت الفاظ استعمال کئے وہ دعوی نبوت سے پہلے بھی کئے.بہت سی کتب جو حضرت مرزا صاحب نے لکھی ہیں ان کا ترجمہ دوسروں کا کیا ہوا ہے.لوجة النور کے صفحہ ۶۷ - ۶۸ کا ترجمہ غالباً آپ کا کیا ہوا نہیں.غیر احمد یوں یا ہندوؤں کو مفت زمین دینے کی تحریر غالبا کوئی ہوگی.میرے علم میں قاضی محمد علی صاحب کی کوئی دوسری وصیت نہیں ہے.حضرت مرزا صاحب کے خلاف آپ کے دعویٰ نبوت سے قبل بھی مولویوں نے سخت الفاظ استعمال کئے.مجھے یاد نہیں کہ کتاب سیف چشتیائی حضرت مرزا صاحب کی کسی کتاب کے جواب میں لکھی گئی.حضرت مرزا صاحب کی کتاب اعجا ز احمدی سیف چشتیائی کے بعد لکھی گئی ہے اور اعجاز امسیح ( الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۵ء ) سے پہلے.البداية والنهاية جلد ۳ صفحه ۱۲۹ مطبوعہ ۱۹۶۶ ء بیروت تكمله مجمع البحار المجلد الرابع فحه ۵۸ حرف الزاء مطبوعہ نولشکور لکھنو میں "قولوا انه خاتم الانبياء ولا تقولوا لا نبی بعدہ کے الفاظ ہیں.فروع کافی جلد ۳ کتاب الروضة صفحه ۳۵ مطبوعه ۱۸۸۴ء سیرت النبی از شبلی نعمانی حصہ اوّل جلد دوئم صفحہ ۱۲۳ مطبوعہ ۱۹۲۰ء ۵، سیف چشتیائی صفحہ ۱۰۴ مطبوعہ مطبع مصطفائی لاہور ۶،۵،
انوار العلوم جلد ۱۳ 449 جماعت احد پیدا کناف عالم تک پھیل کر رہے گی جماعت احمد سیا کناف عالم تیک عام پھیل کر رہے گی از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
450 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمد یہا کناف عالم تک پھیل کر رہے گی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جماعت احمد یا کناف عائم تک پھیل کر رہے گی فرموده ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء بمقام گورداسپور ) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن کریم میں مسیح موعود کے متعلق جو خبر دی گئی ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہوگا کہ میں کہوں مسیح موعود کی جماعت کے متعلق جو خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ گزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْنَهُ فَاذَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ہے وہ جماعت اس سبزے کی طرح ہوگی جو زمین میں سے نکلتا ہے اور نہایت ہی کمزور اور نا طاقت ہوتا ہے جدھر سے بھی ہوا چلے گئی اس سے وہ جھک جائے گا یعنی ان کی کمزوری ایسی ہوگی کہ جدھر سے بھی مخالفت کی ہوا آ جائے ان بے چاروں کو جھکنا پڑے گا.اس میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی ایام مسیح موعود میں جماعت احمد یہ دنیا کی اور قوموں کے مقابلہ میں ایسی ہو گی جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے.چھوٹا سا پودا جب اس کی کونپل زمین سے نکلتی ہے چاہے وہ گیہوں کا پودا ہو یا آم کا یا بڑ کا پودا ہو جس نے بعد میں ایک عظیم الشان درخت بننا ہوتا ہے اتنا نازک اور اتنا نرم ہوتا ہے کہ ہوا کا جب ایک معمولی سا جھونکا بھی آتا ہے تو اس سے وہ جھک جاتا ہے.دائیں طرف سے ہوا چلے تو بائیں طرف جھک جاتا ہے بائیں طرف سے ہوا چلے تو دائیں طرف جھک جاتا ہے.اگر اس میں طاقت ہوتی ہے تو صرف اتنی کہ وہ اپنی جڑا نہیں کھوتا اور نہ اس کا سر چاروں طرف جُھکا چلا جاتا ہے.اپنی خواہش اس کی یہی ہوتی ہے کہ میں بڑھوں اور مضبوط بنوں مگر اردگرد کے حوادثات کبھی اسے ادھر جُھکا دیتے ہیں کبھی اُدھر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مسیح موعود کا جو لگا ہوا پورا ہو گا دنیا اسے جُھکا تو سکے گی یہ تو سنتِ الہی کے مطابق ایک کام ہو گا کہ اس پر حوادثات آئیں، دائیں طرف کی ہوائیں بھی اسے جھکا لیں گی اور بائیں طرف کی
451 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمد یا کناف عالم تک پھیل کر رہے گی ہوائیں بھی مگر اس پودے کو جڑ سے نہیں اُکھاڑ سکیں گی بلکہ وہ بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ مضبوط ہو جائے گا اور دنیا کی مخالفانہ ہواؤں کا کچھ نہ کچھ مقابلہ کرنا شروع کر دے گا.اس وقت زور زور کی آندھیاں چلیں گی اور اسے جڑ سے اُکھاڑ نا چاہیں گی گویا وہ پودا جتنا بڑھتا جائے گا اتنی ہی اس کی مخالفت ترقی کرتی جائے گی مگر آخر وہ وقت آئے گا جبکہ اس کی جڑیں مضبوط ہو جائیں گی اور دنیا کے حوادث اور مخالفت کی آندھیاں اسے اپنی جگہ سے کبھی پہلا نہ سکیں گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يُعْجِبُ الزُرّاع جس طرح کسان اس درخت کو دیکھ کر جوز ور کی آندھیاں چلنے کے باوجود اپنے مقام سے نہیں ہل سکتا خوش ہو کر کہتا ہے کہ اب یہ کتنا مضبوط درخت بن گیا.اسی طرح جب مسیح موعود کی جماعت ترقی کرے گی اور اکناف عالم تک اپنی شاخوں کو پھیلا دے گی تو اسوقت خدا تعالیٰ خوش ہو کر کہے گا بتاؤ تو کوئی شخص ہے جو اسے ہلا سکتا ہو.تب وہی آندھیاں جو پہلے اسے جھکا دیتیں ہلا دیتیں اور خطرات میں مبتلاء کر دیتی تھیں، آئیں گی اور یوں گزر جائیں گی کہ پتہ بھی نہیں لگے گا.گویا اس کی مثال اس بیل کی سی ہو گی جس کے متعلق لوگوں نے یہ بات بنائی ہوئی ہے کہ اس کے سینگ پر ایک دفعہ کوئی مچھر بیٹھا تو تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کہنے لگا اگر تم تھک گئے ہو تو میں اُڑ جاؤں.بیل نے کہا مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم بیٹھے کب تھے اڑنے کے متعلق میں کیا کہہ سکتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ احمدیت کو ایک دن ایسا مضبوط کرے گا کہ حوادثات زمانہ کا اسے پتہ ہی نہیں لگے گا.بے شک وہ ترقی کا زمانہ ہو گا بے شک وہ دنیوی کا میابی کا زمانہ ہوگا بے شک وہ آراموں اور سکھوں کا زمانہ ہو گا مگر اے عزیز و! میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آج کے دکھوں سے بڑھ کر وہ برکت والا زمانہ نہیں ہوگا.اگر آج ایک مومن کو کھڑا کر کے دکھایا جائے کہ ان مصائب کے بدلہ میں جنت میں اس کے لئے کتنے بلند مدارج مقرر کئے گئے ہیں، کتنی عظیم الشان اُخروی ترقیات کا ابدی انعام اسے دیا جانے والا ہے، کتنی عزت اور رفعت کا اسے مالک بنایا جانے والا ہے اور پھر اسے دکھایا جائے کہ دنیا میں احمدیت کس طرح ترقی کرے گی اسے نظر آئے کہ کس طرح حکومتیں احمدی ہیں، بادشاہ احمدی ہیں اور لوگ ہاتھ جوڑ جوڑ کر انہیں سلام کر رہے ہیں.کس طرح احمدیت لوگوں کے قلوب کو فتح کر چکی ہے.غرض اس زمانہ کے لوگوں کی دنیوی شان دکھا کر اگر وہ اخروی جزاء دکھائی جائے جو موجودہ زمانہ کے مصائب کا نتیجہ ہے اور پھر پوچھا جائے تم دنیا میں حکومت کے تخت پر بیٹھو گے یا
452 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمد یا کناف عالم تک پھیل کر رہے گی حضرت مسیح موعود کے لئے ماریں اور گالیاں کھاؤ گے؟ تو یقیناً وہ حقارت کے ساتھ دنیا کی حکومتوں کو ٹھکرا دے گا اور کہے گا اے میرے خدا مجھے ماریں کھانا اور تیری عزت اور جلال کے لئے تکالیف برداشت کرنا د نیوی انعاموں سے بہت زیادہ محبوب ہے.پس اگلے جہان کے انعاموں کے مقابلہ میں ان دنیوی انعامات کی تو کوئی ہستی ہی نہیں.پس اے بھائیو! گو اس وقت آپ لوگوں کے سامنے مشکلات ہیں، اتنی سخت مشکلات کہ ان کو دیکھ کر آپ کا دل ڈر رہا ہے لیکن یقین رکھیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عالم آخرت میں جزاء ملے گی تو آپ کو افسوس پیدا ہو گا کہ کن معمولی معمولی باتوں کا نام ہم نے قربانی رکھا.بے شک کئی دوست ایسے ہیں جو اپنی عزت کے خطرہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس محبت کی وجہ سے جو بانی سلسلہ احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے انہیں ہے وہ ان گالیوں کو برداشت نہیں کر سکتے جو مخالفوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں اور ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے مگر سچ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا احسان اور کرم کیا کہ اس زمانہ میں آ پیدا کیا.آج جو قربانیاں آپ لوگوں کو نظر آتی ہیں، مرنے کے بعد آپ ان پر ہنسیں گے اور کہیں گے یہ تو کچھ بھی چیز نہیں تھیں.اے خدا تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج تاہم پھر تیرے دین کی خاطر مصائب برداشت کریں.رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ ایک بچے سے جس کے والد جنگ میں شہید ہو گئے تھے کہا.اے بچے! میں تمہیں بتاؤں مرنے کے بعد تمہارے باپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا.اس نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! فرمائیے.آپ نے کہا شہادت کے بعد خدا تعالیٰ نے تمہارے باپ کی روح کو اپنے سامنے کھڑا کیا اور کہا تو نے اتنا اچھا کام کیا ہے کہ میں تجھ پر بہت خوش ہوں تو مجھ سے جو مانگنا چاہے مانگ.تیرے باپ نے جواب دیا اے خدا ! صرف ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ تو مجھے پھر دنیا میں زندہ کرتا میں پھر تیرے دین کے لئے مارا جاؤں.اللہ تعالیٰ نے یہ مطالبہ سنا تو وہ ہنسا اور اس نے کہا.اگر میں نے یہ قانون نہ مقرر کیا ہوتا کہ مُردے دوبارہ دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتے تو میں تجھے واپس بھیج دیتا ہے تو مومن جس وقت اگلے جہان کے اُن انعامات کو دیکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کئے تو وہ حیران ہوتا ہے اور کہتا ہے میں اپنی ناچیز خدمات کو قربانیاں کیوں کہتا رہا.اس پر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے پھر دنیا میں بھیجے تا کہ وہ پھر دین کی خدمت بجا لائے.جس طرح کمزور لوگوں کے دلوں میں بسا
453 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احد پیدا کناف عالم تک پھیل کر رہے گی اوقات یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ مشکلات کا زمانہ جلدی گذر جائے اسی طرح مؤمنوں کے دلوں میں اگلے جہان کے انعامات دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہو گی کہ کاش انہیں پھر ان مشکلات سے حصہ پانے کیلئے دنیا میں کو ٹا دیا جائے.پس خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمت دی جو وہ اپنے پیاروں کو دیا کرتا ہے.تم مت دیکھو اپنے بوسیدہ لباسوں کو مت دیکھو ان گالیوں کو جو تمہیں دی جاتی ہیں، مت دیکھو اس شورش کو جو تمہارے خلاف بر پا ہے کیونکہ تم ہی ہو جو خدا کے جلال کے تخت پر اس کے دائیں ہاتھ بیٹھنے والے ہو.اس کے بعد میں دوستوں کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اگر چہ میری گواہی ختم ہوگئی ہے مگر اس پر سرکاری وکیل کی جرح باقی ہے اور اس کے لئے پرسوں میں پھر آؤں گا.یہ چند دن کی تکلیف ہے جو آپ لوگوں کو اٹھانی پڑی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہیں اور جتنے دن بھی اس طرح گذر جائیں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جذب کرنے کا موجب ہونگے.میرے لئے بھی گو آنے جانے میں ظاہری طور پر تکلیف ہے لیکن در حقیقت یہ تکلیفیں کچھ بھی چیز نہیں.اسی طرح جماعت کے وہ مخلصین جو دن بھر یہاں موجود رہتے ہیں، ان کے لئے بھی یہ دن برکات کا موجب ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اب اور ایک دن بڑھا دیا ہے اور ہم اس کی رضا پر ہر حالت میں خوش ہیں.الفتح: ٣٠ الفضل ۲۸.مارچ ۱۹۳۵ء ) ترندی ابواب التفسير باب ومن سورة ال عمران حدیث نمبر ۳۰۱۰
انوار العلوم جلد ۱۳ 454 ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعت از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی
انوار العلوم جلد ۱۳ 455 ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعہ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعت (1) سر محمد اقبال صاحب کو کچھ عرصہ سے میری ذات سے خصوصاً اور جماعت احمد یہ سے عموماً بغض پیدا ہو گیا ہے اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ یا تو کبھی وہ انہی عقائد کی موجودگی میں جو ہماری جماعت کے آب ہیں جماعت احمدیہ سے تعلق مؤانست اور مؤاخات رکھنا بُر انہیں سمجھتے تھے.یا اب کچھ عرصہ سے وہ اس کے خلاف خلوت و جلوت میں آواز اُٹھاتے رہتے ہیں.میں ان وجوہ کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جو اس تبدیلی کا سبب ہوئے ہیں، جس نے ۱۹۱۱ ء کے اقبال کو جو علیگڑھ کالج میں مسلمان طلباء کو تعلیم دے رہا تھا کہ پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں، ۱۹۳۵ء میں ایک دوسرے اقبال کی صورت میں بدل دیا جو یہ کہہ رہا ہے کہ :.”میرے نزدیک قادیانیت سے بہائیت زیادہ ایماندارانہ ہے.کیونکہ بہائیت نے اسلام سے اپنی علیحدگی کا اعلان واشگاف طور پر کر دیا لیکن قادیانیت نے اپنے چہرے سے منافقت کی نقاب الٹ دینے کے بجائے اپنے آپ کو محض نمائشی طور پر جز و اسلام قرار دیا اور باطنی طور پر اسلام کی روح اور اسلام کے تخیل کو تباہ و برباد کرنے کی پوری پوری کوشش کی.۲ یعنی ۱۹۱۱ء کی احمد یہ جماعت آج ہی کے عقائد کے ساتھ صحابہ کا خالص نمونہ تھی لیکن ۱۹۳۵ء کی احمدیت بہائیت سے بھی بدتر ہے.اس بہائیت سے جو صاف لفظوں میں قرآن کریم کو
انوار العلوم جلد ۱۳ 456 ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعہ منسوخ کہتی ہے جو واضح عبارتوں میں بہاء اللہ کو ظہور الہی قرار دیتے ہوئے رسول کریم ﷺ پران کو فضیلت دیتی ہے.گویا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے نزدیک اگر ایک شخص رسول کریم کی رسالت کو منسوخ قرار دیتا، قرآن کریم سے بڑھ کر تعلیم لانے کا مدعی ہوتا، نمازوں کو تبدیل کر دیتا اور قبلہ کو بدل دیتا ہے اور نیا کلمہ بنا تا اور اپنے لئے خدائی کا دعوی کرتا ہے حتی کہ اس کی قبر پر سجدہ کیا جاتا ہے تو بھی اس کا وجود ایسا کر انہیں مگر جو شخص رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین قرار دیتا، آپ کی تعلیم کو آخری تعلیم بتاتا، قرآن کریم کے ایک ایک لفظ ایک ایک حرکت کو آخر تک خدا تعالیٰ کی حفاظت میں سمجھتا ہے اسلامی تعلیم کے ہر حکم پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے اور آئندہ کے لئے سب روحانی ترقیات کو رسول کریم ﷺ کی فرمانبرداری اور غلامی میں محصور سمجھتا ہے وہ بُرا اور بائیکاٹ کرنے کے قابل ہے.دوسرے لفظوں میں سر محمد اقبال صاحب مسلمانوں سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ جو شخص رسول صلى الله کریم ﷺ کی رسالت کو منسوخ کرئے قرآن کریم کے بعد ایک نئی کتاب لانے کا مدعی ہو اپنے لئے خدائی کا مقام تجویز کرے اور اپنے سامنے سجدہ کرنے کو جائز قرار دے جس کے خلیفہ کی بیعت فارم میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے وہ بانی سلسلہ احمدیہ سے اچھا ہے جو اپنے آپ کو خادم رسول اکرم ع قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم کی اطاعت کو اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہیں اور کعبہ کو بیت اللہ اور کلمہ کو مدار نجات سمجھتے ہیں.کیونکہ بہائی تو رسول کریم ﷺ کی ذات پر اور قرآن کریم پر حملہ کرتے ہیں لیکن احمدی سر محمد اقبال اور ان کے ہم نواؤں کو روحانی بیمار قرار دے کر انہیں اپنے علاج کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان کے ایمان کی کمزوریوں کو ان پر ظاہر کرتے ہیں.بہ میں تفاوت را از کجاست تا به کجا سر محمد اقبال صاحب اس عذر کی پناہ نہیں لے سکتے کہ میرا صرف مطلب یہ ہے کہ بہائی منافق نہیں اور احمدی منافق ہیں کیونکہ اول تو یہ غلط ہے کہ بہائی کھلے بندوں اپنے مذہب کی تلقین کرتے ہیں.اگر سرمحمد اقبال یہ دعوی کریں تو اس کے صرف یہ معنی ہونگے کہ بیسویں صدی کا یہ مشہور فلسفی ان فلسفی تحریکات تک سے آگاہ نہیں جن سے اس وقت کے معمولی نوشت وخواند والے لوگ آگاہ ہیں.سر محمد اقبال کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہائی اپنی کتب عام طور پر لوگوں کو نہیں دیتے بلکہ انہیں چھپاتے ہیں، وہ ہر ملک میں الگ الگ عقائد کا اظہار کرتے ہیں، وہ امریکہ میں صاف لفظوں میں بہاء اللہ کو خدا کے
457 انوار العلوم جلد ۱۳ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعہ طور پر پیش کرتے ہیں لیکن اسلامی ممالک میں اس کی حیثیت ایک کامل ظہور کی بتاتے ہیں، وہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھ لیتے ہیں، ویسا ہی وضو کرتے ہیں اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے ہیں جتنی کہ مسلمان لیکن الگ طور پر وہ صرف تین نمازوں کے قائل ہیں اور ان کے ہاں نماز پڑھنے کا طریق بھی اسلام سے مختلف ہے.پھر یہ بھی درست نہیں کہ احمدی منافق ہیں اور لوگوں سے اپنے عقائد چھپاتے ہیں.اگر احمدی مداہنت سے کام لیتے تو آج سر محمد اقبال کو اس قد ر ا ظہا ر غصہ کی ضرورت ہی کیوں ہوتی.احمدی ہندوستان کے ہر گوشہ میں رہتے ہیں، دوسرے فرقوں کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان کے حالات سے واقف ہیں، وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے رسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھنے والے روزے رکھنے والے حج کرنے والے اور زکوۃ دینے والے ہیں.وہ کونسی بات ہے جو احمدی چھپاتے ہیں؟ اور سرمحمد اقبال کے پاس وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے انہوں نے یہ معلوم کیا کہ احمدیوں کے دل میں کچھ اور ہے مگر ظا ہر وہ کچھ اور کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ تو اس قدرمحتاط تھے کہ جب ایک صحابی نے ایک شخص کو جس نے جنگ میں عین اس وقت کلمہ پڑھا تھا جب وہ اسے قتل کرنے لگے تھے قتل کر دیا اور عذر یہ رکھا کہ اس نے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَہ سے کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے.لیکن ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب آج دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قوم جس کے افراد نے افغانستان میں اپنے عقائد چھپانے پسند نہ کئے لیکن جان دے دی ساری کی ساری منافق ہے اور ظاہر کچھ اور کہتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے.اگر یہ الزام کوئی ایسا شخص لگاتا جسے احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو میں اسے معذور سمجھ لیتا لیکن سر محمد اقبال معذور نہیں کہلا سکتے.ان کے والد صاحب مرحوم احمدی تھے.ان کے بڑے بھائی صاحب شیخ عطا محمد صاحب احمدی ہیں، ان کے اکلوتے بھتیجے شیخ محمد اعجاز احمد صاحب سب حج احمدی ہیں، اسی طرح ان کے خاندان کے اور کئی افراد احمدی ہیں.ان کے بڑے بھائی صاحب حال ہی میں کئی ماہ ان کے پاس رہے ہیں بلکہ جس وقت انہوں نے یہ اعلان شائع کیا ہے اس وقت بھی سر محمد اقبال صاحب کی کوٹھی وہ تعمیر کرا رہے تھے.کیا سرمحمد اقبال صاحب نے ان کی
458 انوار العلوم جلد ۱۳.ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمد یہ جماعہ رہائش کے ایام میں انہیں منافق پایا تھا یا خود اپنی زندگی سے زیادہ پاک زندگی ان کی پائی تھی.ان کے سگے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب ایسے نیک نوجوان ہیں کہ اگر سر محمد اقبال غور کریں تو یقیناً انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کی اپنی جوانی اس نوجوان کی زندگی سے سینکڑوں سبق لے سکتی ہے.پھر ان الله شواہد کی موجودگی میں ان کا کہنا کہ احمدی منافق ہیں اور وہ ظاہر میں رسول کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن دل میں رسول کریم اللہ کے دین کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں، کہاں تک درست ہوسکتا ہے.میں تمام ان شریف مسلمانوں سے جو اسلام کی محبت رکھتے ہیں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس صورتِ حالات پر غور کریں جو ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب کے اعلان نے پیدا کر دی ہے اور دیکھیں کہ کیا اس قسم کے غیظ و غضب کے بھرے ہوئے اعلان مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنائیں گے یا خراب کریں گے اور سوچیں کہ ایک شخص جو اپنے احمدی بھائی کو بلوا کر اس سے اپنی کوٹھی بنواتا ہے دوسرے مسلمانوں کو ان کے بائیکاٹ کی تعلیم دیتا ہے کہاں تک لوگوں کے لئے راہ نما بن سکتا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو رسول کریم ﷺ کی ذات پر کھلا حملہ کرنے والے کو اچھا قرار دیتا ہے اور اپنے ایمان پر اعتراض کرنے والے کو نا قابلِ معافی قرار دیتا ہے کہاں تک مسلمانوں کا خیر خواہ قرار دیا جا سکتا ہے.کاش! سر محمد اقبال اس عمر میں ان امور کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ذکر الہی اور احکام اسلام کی بجا آوری کی طرف توجہ کرتے اور پیشتر اس کے کہ تو بہ کا دروازہ بند ہوتا اپنے نفس کی اصلاح کرتے تا خدا تعالیٰ ان کو موت سے پہلے صداقت کے سمجھنے کی توفیق دیتا اور وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بچے متبع کے طور پر اپنے رب کے حضور میں پیش ہو سکتے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ والسلام.خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ (الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۳۵ء) ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر صفحہ ۱۸- اقبال اکیڈمی لاہور.زمیندار ۵ مئی ۱۹۳۵ء مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۰۷ المكتب الاسلامی بیروت میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں "أَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ“
انوار العلوم جلد ۱۳ 459 زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی چائی کا نشان ہے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی
460 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے اے خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے لوگو! حق کے قبول کرنے میں دیر کب تک؟ خدا تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تا وہ اس کی صفات کا مظہر ہو، تا وہ ان خوبصورتیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرے جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں پوشیدہ ہیں لیکن ابلیس نے اس میں روک ڈالی اور ان کو چُھپانا چاہا.اس نے نہ چاہا کہ خدا کا حسن ظاہر ہو بلکہ اس نے حکومت اور اپنی بڑائی کو پسند کیا.یہ وہ جنگ ہے جو آج تک چلی آ رہی ہے.خدا کے بندے اس لئے آتے رہتے ہیں تا اللہ تعالیٰ کی بڑائی دنیا میں قائم کریں اور شیطان کے دوست یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ لوگوں کو ان سے غافل کریں اور ان کی طرف سے توجہ ہٹا دیں.وہ اپنے دل کی باتوں کو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی طرف منسوب کر کے ان کے چہرہ کو داغدار دکھانا چاہتے ہیں اور اپنی سیاہی کو ان کے منہ پر مل کر انہیں سیاہ فام بنانا چاہتے ہیں لیکن کیا آسمان و زمین کا مالک خدا اپنے خادموں کو یوں چھوڑ سکتا ہے؟ کیا وہ اپنی پیدا کی ہوئی روشنی کو بجھنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ یا اپنے نور کو تاریکی کے پر دے میں چھپنے پر راضی ہو سکتا ہے؟ نہیں، بخدا نہیں ! وہ زور آور حملوں سے اپنے مسکین اور بیکس ما موروں کی مدد کرتا ہے اور ان کے بلند کرنے کے لئے دنیا کی بلندیوں کو پست کرنے سے بھی نہیں رکھتا.آہ! یہ کیسا درد ناک نظارہ ہے جو دنیا میں ابتدائے آفرینش سے دکھایا جا رہا ہے.آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ، تمام کائنات کا مالک ہر چیز پر قادر خدا اپنی ذلیل مخلوق کو جو اُس کے ایک اشارہ سے فنا کی جا سکتی ہے اپنی طرف بلاتا ہے، وہ اُسے عزت دینا چاہتا ہے اپنا قرب بخشنا چاہتا ہے
461 انوار العلوم جلد ۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے اپنی محبت کا پیالہ پلانا چاہتا ہے، اپنے وصال سے متمتع کرنا چاہتا ہے اپنی جنت کے دروازے اس کے لئے کھول دیتا ہے ایک ذلیل کیڑے سے بنے ہوئے انسان کیلئے اپنے فضلوں کی ایک بڑی دعوت کے سامان کرتا ہے اور اپنے پیارے اور مقدس وجود وں کو ان کے بلانے کیلئے بھیجتا ہے لیکن وہ نادان اور غافل مخلوق شیطان اور اس کی ذریت کی آواز کوسن کر خدا تعالیٰ کی دعوت کورڈ کر دیتی ہے، وہ نجاست پر رغبت سے منہ مارتی ہے لیکن پاک غذا کو ہزا ر نفرت کے ساتھ پرے پھینک دیتی ہے، وہ ناک بھوں چڑھا کر منہ پھیر لیتی ہے اور اس یار از لی کی ایک جھلک دیکھنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتی.اے ظالم انسان ! یہ سلسلہ کب تک چلا جائے گا ؟ کب تک جنت کے دروازے تیری انتظار میں کھلے رہیں گے؟ کب تک تو اپنے دشمن شیطان کی مجلس میں بیٹھا اپنے خون کے پیالے پیئے گا اور اپنی روح کو آپ مارے گا ؟ کب تیری آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے محبوب کے ہاتھ سے وہ زندگی بخش جام لیکر پی جائے گا جسے وہ مدتوں سے تیرے لئے اپنے پیارے ہاتھوں میں لئے کھڑا ہے؟ دیکھ ! خدا تعالیٰ نے پھر تجھے بلانے کیلئے اپنا مسیح بھیجا ہے جس کی خبر تمام انبیاء دیتے چلے آئے ہیں.جس کی نسبت خود اس کے آقا اور سردار تمام انبیاء و اولیاء کے سرتاج حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ کیا ہی مبارک ہے وہ اُمت جس کی ابتدا میں میں اور آخر میں مسیح موعود ہوگا لے مگر اے انسان! تو نے اس کا کس طرح استقبال کیا ؟ کیا محبت کے ہاتھ پھیلا کر یا پتھروں کی بوچھاڑ سے؟ کیا مرحبا کہہ کر یا گالیاں دے کر ؟ اے شریف انسان ! میں تجھ سے پوچھتا ہوں اور خدا تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، اسی خدا کا جس کے ہاتھ میں تیری جان ہے کہ کیا تو نے اس قدر گندی گالیاں اور وہ بد زبانیاں جو اس خدا تعالیٰ کے مامور کے متعلق جائز سمجھی گئی ہیں کبھی کسی اور شخص کے متعلق بھی سنی ہیں؟ پھر کیا ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ جو اپنے پیاروں کی سخت غیرت رکھتا ہے خاموش رہتا اور اس بد زبانی کا نتیجہ نہ دکھاتا ؟ اس نے مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کی ابتداء میں کہہ دیا تھا:.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آورحملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.یہ وہ پُر شوکت الفاظ ہیں جو آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے بانی سلسلہ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے
462 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے کہے اور جو اُسی وقت انہوں نے شائع کر دئیے.اب اے سوچنے والے دل اور سچائی سے محبت رکھنے والی روح! غور تو کر کہ کیا یہ الہام لفظ بہ لفظ پورا ہوا یا نہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا نے مسیح موعود کے دعوئی کو ر ڈ کیا ؟ اور کیا یہ سچ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید میں ہزار ہا قہری نشان دکھائے اُسی طرح جس طرح اُس نے آدم اور نوح اور ابراہیم اور لوط اور موسیٰ اور عیسی علیہم السلام کی تائید میں نشان دکھائے تھے؟ میں اس وقت دوسرے نشانات کا ذکر نہیں کرتا صرف اُس قہری نشان کا ذکر کرتا ہوں جو کوئٹہ کے زلزلہ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جس میں ساٹھ ہزار کے قریب آدمی مر گیا ہے اور کوئٹہ کی آبادی کا قریباً ۸۰ فیصدی حصہ تباہ ہو گیا ہے اور عمارتیں تو قریباً سب ہی تباہ ہو گئی ہیں.آج تک زلزلہ کے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں اور ۲۰، ۲۵ ہزار کے قریب لاشیں اب تک اس علاقہ میں کفن کے بغیر مٹی کے نیچے سڑ رہی ہیں.یہ ایسا عبرتناک نظارہ ہے جسے دیکھ کر سنگدل سے سنگدل انسان کا دل بھر آنا چاہئے مگر افسوس کہ اس زمانہ کے لوگ اس سے بھی نصیحت نہیں اُٹھاتے.پورے اکتیس سال ہوئے بانی سلسلہ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی "عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَ مَقَامُهَا إِنِّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ خدا تعالیٰ عنقریب دنیا پر ایک تباہی لائے گا وہ تباہی ایسی ہوگی کہ اس سے اُن علاقوں کی عمارتیں بھی گر جائیں گی جہاں لوگ عارضی طور پر سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں اور اُن علاقوں کی عمارتیں بھی جہاں لوگ مستقل رہائش کے طور پر رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس آفت کے وقت اُن لوگوں کو جو تیرے گھر میں رہتے ہیں محفوظ رکھے گا.(۸.جون ۱۹۰۴ ء ) اس الہام کا پہلا حصہ یکم مئی کو بھی بطور الہام نازل ہوا تھا اور یہ دونوں الہام اُسی وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے شائع کر دیئے تھے.اس کے قریباً ایک سال کے بعد ۴.اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ کا وہ شدید زلزلہ آیا جس میں ۲۵ ہزار کے قریب آدمی مر گئے اور جو زخمی ہوئے اُن کی تو کوئی گنتی ہی نہیں.اب اے خدا سے خوف رکھنے والے لوگو! ذرا غور تو کرو کہ یہ نشان کیسا واضح تھا.اس الہام میں صاف بتا یا گیا تھا کہ :.(۱) زلزلہ آئے گا.کیونکہ زلزلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے علاقہ کے علاقہ کی عمارتیں گر جائیں.(۲) وہ ایسی جگہ آئے گا جو لوگوں کے لئے سیر گاہ ہوگی اور لوگ وہاں سیر کے لئے جایا کرتے ہونگے.اب دیکھ لو کہ ڈلہوزی دھرم سالہ پالم پور وغیرہ کا علاقہ ایسا ہے کہ اس کی اکثر
463 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے آبادی باہر سے سیر کرنے کیلئے آنے والوں پر مشتمل ہوتی ہے.(۳) یہ کہ وہ قادیان کے قریب جگہ ہوگی اور قادیان اس زلزلہ کے حلقہ میں ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ دیار مسیح موعود کو محفوظ رکھے گا.یہ بات بھی پوری ہوئی کیونکہ قادیان زلزلہ کے علاقہ کے بالکل قریب تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ امرتسر اور لاہور جو قادیان کی نسبت زلزلہ کے علاقہ سے ۵۰ اور ۷۰ میل دور تھے وہاں تو ہزارہا عمارتوں کو نقصان پہنچا، سینکڑوں آدمی فوت ہو گئے ، لیکن قادیان اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گھر با وجود بہت قریب ہونے کے بالکل محفوظ رہا.لوگوں نے اس پر ہنسی اڑائی اور کہا کہ یہ اتفاق کی بات ہے، کبھی تضمینی بات بھی تو پوری ہو جاتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے سنگدلو ! صبر کرو اگر تم نے اس نشان سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ہم اور نشان دکھائیں گے اور ایسی کثرت سے دکھائیں گے کہ اتفاق کا کوئی سوال ہی نہیں رہے گا اور اس نے پھر خبر دی کہ میں دنیا کے ہر علاقہ میں زلزلہ پر زلزلہ لاؤں گا اور ایسے شدید زلزلے دنیا میں آئیں گے کہ ایک قیامت کا نظارہ لوگوں کی آنکھوں کے آگے آ جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں:.”اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگا نہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوع کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوڈ کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ اے وہ لوگو! جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور جو موت کو بالکل ہی نہیں بھلا چکے ذرا ان الفاظ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح جاپان کے زلزلے اور بہار کے زلزلے اور کوئٹہ کے
464 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے زلزلے کی ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے.اور انہی کی نہیں بلکہ بہت سے اور زلزلوں کی جو دنیا کو تباہ کر دینے والے اور انسانی امن کو برباد کر دینے والے ہو نگے.دلوں کا امن جاتا رہے گا اور قلوب کا اطمینان تباہ ہو جائے گا کیونکہ لوگوں نے اپنے پیدا کرنے والے کی آواز کو نہیں سنا اور شیطان کے پیچھے لگ گئے اور خدا کی محبت کو دلوں سے نکال دیا اور دنیا کی محبت کو اپنے سینوں میں جگہ دی.انہوں نے اپنے خیر خواہ کو گالیاں دیں اور اپنے دشمنوں کو اپنا سردار بنا لیا.اے کاش! کہ وہ اپنی آنکھیں کھولتے اور دیکھتے کہ ان کے علماء انہیں کدھر لے جا رہے ہیں.کیا وہ انہیں سچ کی تعلیم دیتے ہیں یا جھوٹ کی ؟ وہ انہیں اخلاق سکھاتے ہیں یا بد زبانی ؟ اور تو بہ کرتے اور خدا کے مامور کو قبول کرتے اور دلوں میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرتے کہ لاف و گزاف سے خدا نہیں ملتا بلکہ عجز و انکسار سے ملتا ہے تب وہ دیکھتے کہ آسمان کی بادشاہت کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے اور خدا تعالیٰ آسمان سے ان کی مدد کیلئے خود اُترتا.اے عزیز و! جو تفصیلی پیشگوئیاں زلزلوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ "عَفَتِ الذِيَارُ كَذِکری که یعنی ایک علاقہ اس طرح مٹ جائے گا جس طرح اس میں میری نماز اور قرآن کریم کا چرچا مٹ گیا ہے.اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے زلزلوں میں سے کم سے کم ایک زلزلہ اسلامی علاقہ میں آئے گا.جس طرح مسلمانوں میں سے نماز اور قرآن کریم پر عمل مٹ گیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس علاقہ کو مٹا دے گا.اب اے حق سے محبت رکھنے والی رُوحو! غور تو کرو کہ مسلمانوں میں کتنی تعداد نماز پڑھتی یا قرآن کریم کی طرف توجہ کرتی ہے؟ یقیناً دس پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں.اب اس بات کو مد نظر رکھ کر کوئٹہ کے علاقہ کی تباہی کے حالات کو پڑھو تو تم کو معلوم ہوگا کہ وہاں کے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کی نسبت بالکل محفوظ رہنے والوں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے.یعنی وہاں بھی جو لوگ بالکل محفوظ رہے ہیں وہ دس پندرہ فیصدی ہی ہیں اور جو لوگ مرے یا زخمی ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۵ فیصدی کے قریب ہے.اب سوچو کہ یہ کیسی واضح پیشگوئی تھی کہ جس میں نہ صرف علاقہ بتا دیا گیا تھا بلکہ مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تک کی طرف اشارہ کر دیا گیا تھا.بلکہ جب ہم ایک اور الہام کو ملاتے ہیں جو یہ ہے کہ ” پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی ، تو ہمیں زلزلہ کا وقت بھی معلوم ہو جاتا ہے.کیونکہ الہام میں زلزلہ کا 66
465 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے وقت بہار بتایا گیا ہے اور بہار کا وقت شمالی علاقوں کے لئے یکم جنوری سے ۳۱.مئی تک ہوتا ہے.یعنی گرم علاقوں میں پہلے شروع ہوتا اور جلد ختم ہو جاتا ہے اور سرد علاقوں میں بعد میں شروع ہوتا اور دیر میں ختم ہوتا ہے.اور تعیین بہار کے موسم کی خود بانی سلسلہ احمدیہ نے کر دی تھی اور اپنی کتاب الوصیت بار ہفتم کے صفحہ ۱۵ پر لکھا تھا کہ بہار کا موسم جنوری کی ابتداء سے مئی کے آخر تک ہے.چنانچہ اسی کے ماتحت بہار میں جو گرم علاقہ ہے زلزلہ ۱۶.جنوری کو آیا اور کوئٹہ میں جو پہاڑی علاقہ ہے اور جہاں بوجہ سردی شگوفہ دیر میں نکلتا ہے عین ۳۱.مئی کو ، بانی سلسلہ احمدیہ کے کہنے کے مطابق جو بہار کا آخری دن ہے زلزلہ آیا.اب اے سوچنے والو سوچو اور غور کرنے والو غور کرو کہ کیا یہ قہری نشان ایسا نہیں کہ تمہارے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرے.آخر سوچو تو سہی کہ کیا ایک کا ذب کیلئے اللہ تعالیٰ ایسے نشان دکھا سکتا ہے؟ خدا تو کاذب کو شرمندہ کرتا ہے اور اس کے جھوٹ کو ظاہر کرتا ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نشان پر نشان دکھاتا چلا جاتا ہے اور عذاب پر عذاب لاتا چلا جاتا ہے.کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ لوگ غور کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کر کے اس کے عذاب سے محفوظ ہوں اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں؟ میں دیکھتا ہوں کہ احراری لیکچرار اور اخبار لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ زلزلوں کی خبر تو قرآن کریم میں موجود ہے پھر یہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کیونکر ہوئی ؟ مگر یہ نادان نہیں سمجھتے کہ قرآن کریم میں تو یہ پیشگوئی تیرہ سو سال سے موجود تھی پھر تیرہ سو سال میں کیوں نہ کسی نے اس پیشگوئی کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا ؟ بانی سلسلہ احمدیہ کا زلزلوں کی خبر دینا اور دعویٰ کرنا کہ قرآن کریم کی پیشگوئی میرے ہی زمانہ کے متعلق تھی یہ تو اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ ہی قرآنی موعود ہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ اُدھر بانی سلسلہ علیہ السلام زلزلوں کی خبر دیتے ہیں اور ادھر قرآن کریم کی پیشگوئی پوری ہونی شروع ہو جاتی ہے.کیا یہ کھلا ثبوت نہیں اس امر کا کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا خدا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجنے والا ہے؟ چنانچہ جب قرآنی پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آ گیا تو اس نے اپنے ما مور کو بتا دیا کہ اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہونے والا ہے.دوسرے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سے صرف نقل کر کے اس پیشگوئی کو شائع کر دیا تھا اور آپ کو الہاماً اس کے وقت سے خبر نہیں دی گئی تھی تو سوال یہ ہے کہ آپ تو
466 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے بقول احرار ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ) ناپاک اور گنہگار تھے پھر کیا سبب ہے کہ اس قرآنی ارشاد کے مخالف کہ سوائے پاک لوگوں کے قرآن کریم کے معارف تک کوئی نہیں پہنچ سکتا آپ کو تو قرآن کریم سے زلزلہ کے صحیح وقت اور مقام اور علاقوں تک کا علم ہو گیا مگر یہ رسول کریم ﷺ صلى الله کی گدی پر بیٹھنے کا دعوی کرنے والے علماء اس سے ناواقف رہے اور ان کو قرآن کریم میں کچھ بھی نظر نہ آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعوی ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے قرآن کریم سے ملا ہے.پھر قرآن کریم میں ان پیشگوئیوں کے موجود ہونے سے آپ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں کی تفصیلات خدا تعالیٰ نے تازہ الہام سے مجھے بتائی ہیں.اگر یہ دعویٰ غلط ہے تو رسول کی گدی کے دعویدار بتائیں کہ ان میں سے کس نے ایک سال سے بھی کم عرصہ پہلے کانگڑہ کے زلزلہ کی خبر دی تھی ؟ اور کس نے بہار کے زلزلہ اور اس کے وقت اس کی لہروں کی سمت تک کی خبر دی تھی ؟ اور کس نے کوئٹہ کے زلزلہ کے مقام اور اس کے وقت اور اس کی تباہی کی نوعیت کی خبر دی تھی ؟ اگر مسیح موعود علیہ السلام کے سوا کسی نے نہیں تو وقوعہ کے بعد اس قسم کی بہانہ سازیاں کرنا کیا تقومی کے خلاف نہیں ؟ اور لوگوں کو حق سے محروم رکھنے کی کوشش نہیں ؟ پھر کیا یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ قرآن کریم میں جہاں زلزلہ کی خبر ہے اس کے ساتھ ہی یہ خبر ہے کہ جس وقت اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آئے گا اللہ تعالیٰ اس زلزلہ کی پھر ایک تازہ وحی کے ذریعہ سے دنیا کو خبر دے گا.چنانچہ سورۃ زلزال میں اللہ تعالیٰ زلزلہ کی خبر دے کر فرماتا ہے:.بِأَنَّ رَبَّكَ اَوْحَى لَهَا.یہ سب اس لئے ہوگا کہ اے رسول! تیرا رب زمین کے بارہ میں پھر ایک وحی نازل کرے گا.اسی طرح قرآن کریم میں صاف طور پر آتا ہے کہ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولات ہم کبھی دنیا پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک پہلے رسول نہ بھیج لیں.پس اگر یہ عذاب قرآنی ہے تو اسی قرآن کریم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس قسم کے عالمگیر عذاب بغیر مامور کی بعثت کے نہیں آیا کرتے.پھر کیوں لوگ آنکھیں کھول کر اس مامور کی تلاش نہیں کرتے اور اس پر ہنسی اڑانے کی جگہ اس کی اطاعت اختیار نہیں کرتے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ زلزلہ تو بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد آیا ہے پھر یہ ان کی صداقت کا نشان کیونکر ہوا ؟ اے کاش! یہ لوگ اس طرح اندھے ہو کر نہ چلتے.کیا یہ نہیں سوچتے
467 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے کہ ایک طرف تو خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں تیرہ سو سال پہلے ان زلزلوں کی خبر دی گئی تھی اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی وفات کے ستائیس سال بعد زلزلہ کیوں آیا ؟ کیا ایک ہی منہ سے ان دو باتوں کا نکلنا نہیں بتاتا کہ یہ علماء کہلانے والے لوگ کس قدرحق سے دور ہو گئے ہیں.کیا کوئی منصف دنیا میں نہیں رہا جو ان سے پوچھے کہ موجودہ زلزلوں کی خبر اگر قرآن کریم میں آئی ہے اور وہ تیرہ سو سال بعد پوری ہو کر رسول کریم ﷺ کی سچائی کا ثبوت بنی ہے تو کیوں آپ کے ایک خادم کی خبر ستائیس سال وفات کے بعد پوری ہو کر اس کی صداقت کا ثبوت نہیں بن سکتی ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا تھا کہ یہ زلزلے میری زندگی میں آئیں گے لیکن ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ رَبِّ اَخِرُ وَقتَ هَذَات یعنی اے خدا ! اس زلزلہ کے وقت کو پیچھے ڈال دے.اور پھر الہام ہوا أَخَّرَهُ اللهُ إِلى وَقَتِ مُسَمَّى " اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک پیچھے ڈال دیا.اسی طرح آپ کو الہام ہوا تھا.رَبِّ لَا تُرِنِى زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ رَبِّ لَا تُرِنِى مَوْتَ اَحَدٍ مِنهُم " اے خدا ! وہ سخت زلزلہ مجھے نہ دکھا ئیو.اے خدا! مجھے اپنے آدمیوں میں سے کسی کی موت نہ دکھا ئیو.ان الہامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ زلزلے جن میں بعض احمد یوں کا نقصان بھی قلیل حد تک مقدر تھا انہیں خدا تعالیٰ نے ملتوی کر دیا تھا اور آپ کی وفات کے بعد اُن کا ظہور مقدر کر دیا تھا.پس ان الہامات کی موجودگی میں یہ اعتراض بالکل بے حقیقت ہو جاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ زلزلے آیا ہی کرتے ہیں.میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر زلزلے آیا ہی کرتے ہیں اور ان کی نسبت پیشگوئی کرنا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا تو پھر خدا تعالیٰ نے سورۃ زلزال ساری کی ساری زلزلہ کی خبر کے لئے کیوں اُتاری؟ اگر کہو کہ اس سے مراد قیامت ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ تمہارا وہ دعویٰ کہاں گیا کہ موجودہ زلزلوں کی خبر قرآن کریم میں موجود ہے؟ غرض اگر موجودہ زلزلوں کی خبر قرآن کریم میں موجود ہے تو معلوم ہوا کہ یہ زلزلے ایسے اہم ہیں کہ ان کی خبر دینا پیشگوئی کہلا سکتا ہے اور اگر موجود نہیں تو ان علماء کا یہ کہنا جھوٹ ہوا کہ ان زلزلوں کی خبر مرزا صاحب نے قرآن کریم سے نقل کر کے لوگوں کو سنا دی تھی، انہیں کوئی الہام نہیں ہوا.
468 انوار العلوم جلد ۱۳.زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے اے حق پسند انسانو! اُوپر کی تحریر سے آپ لوگ سمجھ چکے ہونگے کہ موجودہ زمانہ کے علماء صداقت کو قائم کرنے کی نہیں بلکہ اسے چُھپانے کی کوشش کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے ایک ما مور بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو پھر اپنی طرف بلائے.وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف سے کہتا ہے ، وہ قرآن کی تعلیم کو قائم کرنے اور اسلام کے نام کو روشن کرنے کیلئے آیا ہے پھر تم کیوں اس کی دشمنی کر کے اسلام اور قرآن سے دشمنی کرتے ہو؟ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تمہارے دلوں کی اصلاح ہو اور تم خدا تعالیٰ کے پیارے کہلا ؤ ؟ کیا یہ مولوی تم کو زیادہ پیارے ہیں یا خدا تعالیٰ جس نے تم کو پیدا کیا ؟ یاد رکھو تم پر محبت تمام ہو چکی ہے.نشان پر نشان خدا تعالیٰ نے دکھائے ہیں تا تم ہدایت پاؤ مگر افسوس ! تمہارے علماء نے تم کو ٹھنڈے دل سے صداقت پر غور نہیں کرنے دیا.انہوں نے تمہارے منہ خدا تعالیٰ سے پھیر کر شیطان کی طرف کر دیے ہیں.اے کاش! کوئٹہ کا زلزلہ تمہاری آنکھیں کھول دے اور تم اپنے آپ کو اور اپنی اولا د کو محفوظ کر لو ورنہ میں پھر وہی الفاظ دُہراتا ہوں جو بانی سلسلہ احمدیہ نے اٹھائیس سال پہلے لکھے تھے :.د میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.‘، ۱۲ ،، اے عزیز و! ابھی وقت ہے کہ تم ایمان لاؤ اور شیطان کے پنجہ سے اپنے آپ کو آزاد کر لو دیکھو! کوئٹہ میں زلزلہ آیا اور دوسرے لوگ سو میں سے ۸۵ زخمی ہوئے یا فوت ہوئے لیکن احمدی سو میں سے ۸۵ کے قریب بچے.اگر تم ایمان لاؤ گے تو خدا تعالیٰ تم پر بھی رحم کرے گا اور تم اسلام کی شوکت کا موجب بنو گے.اے خدا! تو لوگوں کے دلوں کو کھول دے خواہ وہ ہندو ہوں ، سکھ ہوں یا عیسائی یا مسلمان کہ
469 انوار العلوم جلد ۱۳ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے وہ حق کو قبول کریں اور تیرے بچے دین یعنی اسلام کو ظا ہر اور باطن میں قبول کر کے تیری برکتوں کو حاصل کریں اور تیرے منور چہرہ کو دیکھیں.اے خدا! تو ایسا ہی کر ! وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ۱۹.جولائی ۱۹۳۵ء ( مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان ) ا کنز العمال جلد ۱۴ صفحہ ۳۳۷ حدیث نمبر ۳۸۸۵۸ـ مكتبة التراث الاسلامی حلب ۱۹۷۵ء تذکرہ صفحہ ۱۰۴.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۱۶.ایڈیشن چہارم حقیقۃ الوحی صفحه ۳۹ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۹۹ تذکرہ صفحہ ۵۲۶.ایڈیشن چهارم تذکرہ ۵۴۷ ایڈیشن چہارم ، سورة الزلزال : ٦ بنی اسراءیل: ۱۶ ا تذکرہ صفحہ ۶۰۶.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۶۰۰.ایڈیشن چہارم
انوار العلوم جلد ۱۳ 470 جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا رویہ جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا قابلِ مذمت رویہ از ید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود حمد خلیفہ اسیح الثانی
471 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا رویہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا قابل مذمت رویه ( بعض مؤقر اخبارات کے نمائندوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوکر جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی معاندانہ سرگرمیوں اور حکومت کے رویہ کے متعلق اظہارِ خیالات کی درخواست کی.اس پر حضور نے ایک بیان دیا.اسے جس رنگ میں مرتب کر کے نمائندگان پریس نے بعض انگریزی اور اُردو اخبارات میں شائع کرایا ہے.وہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.) احرار کا مدعا متعدد واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے احرار کامد عا و مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم احمدی امن شکنی کریں.بعض مقامی افسروں کی بھی یہی خواہش معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہم نے ان کے سامنے جو شکایات پیش کیں ان پر انہوں نے عملی طور پر کوئی کارروائی نہ کی.۲۹.مارچ کی شب کو احراریوں نے ایک احمدی محمد اسمعیل صدیقی پر حملہ کیا ، پہلے اس کی دُکان میں پھر ایک گلی میں.پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی اسی شب کو دفعہ ۱۴۴ جو جنوری سے نافذ العمل تھی ختم ہوتی تھی.حملہ آوروں کا مقصد یہ معلوم ہوتا تھا کہ احمدی مغلوب الغضب ہو کر امن شکنی کے مرتکب ہوں اور اس طرح دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کو حق بجانب ٹھہرایا جا سکے لیکن احمدی بالکل پُر امن رہے اور قانون شکن لوگوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی.
472 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا رویہ ۲۷.جون کو خان صاحب فرزند علی ناظر امور عامه صد رانجمن احمدیہ نے پولیس کا رویہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بٹالہ کیمپ لوکل حکام اور صوبہ کے اعلیٰ حکام کو ایک خط بھیجا جس میں ان کو مطلع کیا گیا تھا کہ ہم کو بعض احرار کے اس ارادے کے متعلق علم ہوا ہے کہ وہ ہمارے خلیفہ، ہمارے احمدی بھائیوں اور ہماری عورتوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.اس کے چند روز بعد میرے چھوٹے بھائی مرزا شریف احمد پر شارع عام میں حملہ کیا گیا.اس اثناء میں پولیس نے اس قسم کے واقعات کو ناممکن الوقوع بنانے کے لئے کسی قسم کی احتیاطی تدابیراختیار نہ کیں، حالانکہ اس کو اس کے متعلق بر وقت مطلع کیا گیا تھا.ہم ایک کھلے میدان میں ایک عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے گو وہ زمین ہماری تھی مگر اس خیال سے کہ کہیں عید گاہ کی طرح یہاں بھی کوئی جھگڑا کھڑا نہ کر دیا جائے، ہم نے ریونیو حکام سے اس کی حد بندی کرا لینی مناسب سمجھی چنانچہ حد بندی کرائی گئی اور ریونیو ریکارڈ سے بھی معلوم ہو گیا کہ وہ زمین میری اور میرے بھائیوں کی ملکیت تھی لیکن حد بندی ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس موقع پر آپہنچے اور انہوں نے حکم دیا کہ گو اس زمین کی حد بندی ریونیو حکام نے کی ہے مگر اس پر عمارت تعمیر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی.کچھ عرصہ پیشتر ہم نے اپنی زمین پر ایک دیوار کھڑی کر دی تھی تا کہ دیوار کا معاملہ ہمسائیوں کی زمین سے وہ علیحدہ ہو جائے لیکن عید گاہ کے معاملہ کے فوراً بعد اس دیوار کو ایک ہجوم نے جو میلہ کے سلسلہ میں اکٹھا ہوا تھا ، دن دہاڑے گرا دیا.یہ میلہ کئی سال سے بند تھا اس سال صرف اس لئے منایا گیا کہ لوگوں کو اکٹھا کیا جائے اور کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جائے..ایک نئی آبادی کے باشندوں کی درخواست پر صدرانجمن احمدیہ نے زمین مسجد کا معاملہ کا ایک ٹکڑا اُن کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں نماز پڑھا کریں اور آخر کار اس زمین پر مسجد کھڑی کی جانی تھی لیکن احراریوں نے اس کے نزدیک ہی شاملات میں سے ایک قطعہ اراضی پر قبضہ کر لیا اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کی تیاری شروع کر دی حالانکہ وہ اپنی سابقہ شروع کی ہوئی عمارت کو جسے وہ جامعہ ملیہ کا نام دیتے تھے ابھی تک مکمل نہ کر سکے تھے وہ عمارت کئی ماہ سے بغیر چھت کے رہی.اس نئے قطعہ اراضی پر انہوں نے کچھ اینٹیں وغیرہ اکٹھی کر لیں لیکن چونکہ اس بات کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا اس لئے انہوں نے اس زمین کو چھوڑ دیا اور
473 انوار العلوم جلد ۱۳ جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب کے بعض افسروں کا رویہ اینٹیں وہاں پڑی کی پڑی رہ گئیں.یہ اس بات کا بدیہی ثبوت ہے کہ وہ ایسا صرف گڑ بڑ پھیلا نے کے لئے کرتے ہیں.علاقہ مجسٹریٹ نے کریمنل لاءایمنڈ منٹ ایکٹ کے ماتحت مجسٹریٹ علاقہ کا رویہ خالص مذہبی جلسوں کے انعقاد کی ممانعت کر دی.ایک جلسہ سے بھی جو ایک خالص مذہبی گروہ کا تھا اور جس کے ممبر صرف ۱۰ اور ۱۸ برس کی درمیانی عمر کے لڑکے تھے ، ایسا ہی سلوک کیا گیا.کچھ عرصہ پہلے عید گاہ میں گڑ بڑ پیدا ہوئی ریونیو ریکارڈ سے معلوم ہوتا عید گاہ کا معاملہ ہے کہ عید گاہ کی زمین میں جائداد کے متعلق حقوق میرے خاندان کے ہیں مگر قبضہ ” اہل اسلام کا دکھایا گیا ہے.گذشتہ ۳۵ برس سے احمدی وہاں نماز عید ادا کرتے رہے ہیں، جبکہ غیر احمدی اس سے ۶۰۰ فٹ کے فاصلہ پر ایک اور جگہ نماز ادا کرتے رہے ہیں.کچھ دن پہلے انجمن احمدیہ نے کچھ مزدوروں کو عید گاہ میں مرمت کرنے کے لئے بھیجا انہوں نے قریب ہی زمین کھودنی شروع کی.جہاں سے زمین کھودی گئی وہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہمارے خاندان کی جائداد تھی اور ہماری ہی ملکیت میں تھی مگر جونہی مرمت کا کام شروع ہوا کچھ احرار وہاں آگئے اور انہوں نے احمدیوں کو کام سے روک دیا.صد را منجمن احمدیہ نے فوٹوگرافر بھیجے کہ وہ اس واقعہ کا فوٹو لے لیں تا کہ اسے بعد میں بطور شہادت پیش کیا جا سکے مگر کچھ دیر بعد کچھ پولیس میں آگئے انہوں نے کیمرے چھین لئے اور ایک کیمرہ تو ڑ دیا اور ۶.احمدیوں کو جن میں ۴ کیمرہ مین تھے، گرفتار کر لیا گیا.اس شخص کو بھی جو کام کی نگرانی کر رہا تھا اور پولیس میں صدرا انجمن کی طرف سے اطلاع دینے گیا تھا گرفتار کر لیا اور زیر دفعہ ۱۰۷ تعزیرات ہند اُن کا چالان کر دیا گیا.فلمیں اور کیمرے ابھی تک پولیس کے قبضے میں ہیں حالانکہ ہم نے درخواست کی ہوئی ہے کہ وہ ہمیں دیئے جائیں کیونکہ ہماری شہادت ان کے بغیر نامکمل رہے گی.احرار کا الزام احرار نے الزام لگایا ہے کہ احمدی عید گاہ کے قریب واقع قبروں کو مسمار کرنے گئے تھے لیکن ان قبروں میں میرے آباء واجداد اور میری دو بہنوں کی قبریں بھی ہیں جس سے احراریوں کے بیان کی نامعقولیت ثابت ہوتی ہے.(الفضل ۲۹.اگست ۱۹۳۵ء)
انوار العلوم جلد ۳ 474 اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِي عَلَى رَسُولِهِ الكَريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھوالناصر احرار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباہلہ کی شرائط طے کریں بغیر شرائط طے کئے احرار کے قادیان آنے کی غرض مباہلہ نہیں بلکہ فساد کرنا ہوگی اور اس کی ذمہ وارحکومت ہوگی یا احرار ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو میں نے احرار کوئی معین فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ایک پسٹر اور ٹریک شائع کیا تھا جس کا عنوان مجلس احرار کا مباہلہ کے متعلق نا پسندیدہ رویہ تھا.مجھے امید تھی کہ اس اعلان کے بعد مجلس احرار اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کر کے سنجیدگی سے مباہلہ کی گفتگو کی طرف مائل ہو گی.مگر افسوس کہ میری امید کے خلاف مجلس احرار نے اپنے رویہ کو اور بھی ناخوشگوار بنا لیا ہے.اور بجائے صحیح طریق اختیار کرنے کے تحریف سے کام لینا شروع کر دیا ہے.میرا مضمون بالکل واضح تھا.میں نے لکھا تھا کہ احرار نے اعلان کیا ہے کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں.اس اعلان کے مطابق انہیں میری سب باتوں کو جو اس بارہ میں شائع ہو چکی
انوار العلوم جلد ۱۳ 475 ہیں.تسلیم کرنا چاہیئے.اور ان باتوں میں سے بعض یہ ہیں.ا.مباہلہ میں پانچ سو یا ہزار آدمی بہ تراضی فریقین شامل ہوں.یعنی دونوں طرف سے یا پانچ سو یا ہزار آدمی برا بر تعداد میں شامل ہوں.۲.مقام مبالہ لاہور یا گورداسپور ہو.لیکن بعد میں احرار کے اس مطالبہ پر کہ مقام مباہلہ قادیان ہو.میں نے لکھا.کہ اگر احرار کو لاہور یا گورداسپور پر کوئی خاص اعتراض ہو یا وہ قادیان میں اپنی شان دکھانا چاہتے ہوں.تو قادیان ہی میں مباہلہ کیا جا سکتا ہے..ایک کمیٹی دونوں فریق کی سب شرائط کو طے کرے.اور اس کے فیصلہ کے بعد :.۴.ایک تاریخی جو فیصلہ کے پندرہ دن بعد ہو مباہلہ کے لئے مقرر کی جائے.میں نے اس امر پر روشنی ڈالی تھی کہ خالی منظوری کے اعلان سے ان امور پر روشنی نہیں پڑتی.اور اس اعلان کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ احرار نے میری سب شرطوں کو منظور کر لیا ہے.پس دونوں فریق کے نمائندے غیر معین شرائط کو معین کریں اور تفصیلات کو طے کریں.اور پھر بہ تراضی فریقین مباہلہ کی تاریخ مقرر کی جائے.ورنہ خود ہی تاریخ مقرر کر دینا شرائط کو ماننا نہیں ان کو ہنسی اڑانا ہے.اس قدر واضح اعلان کے بعد بھی میں دیکھتا ہوں کہ احرار صحیح طریق پر نہیں آتے اور نہ جماعت احمدیہ کے نمائندوں کے خطوط کا جواب دیتے ہیں.اور نہ اپنی طرف سے شرائط طے کرنے کے لئے نمائندے مقرر کرتے ہیں.بلکہ صرف ”مجاہد اخبار میں اعلان کرتے چلے جاتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کوئی معین فیصلہ کرنا نہیں چاہتے.میرے اشتہار کے جواب میں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے جو بیان ” مجاہد “ میں شائع کیا ہے اور جو تقریریں انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے چنیوٹ میں کی ہیں ان میں جو باتیں انہوں نے بیان کی ہیں، وہ ذیل میں درج کر کے میں ان کا بھی جواب دے دیتا ہوں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ احرار کن ہتھیاروں پر آگئے ہیں.مسٹر مظہر علی صاحب نے چنیوٹ میں کیا شرائط کی منظوری اسی کا نام ہے بیان کیا ہے کہ ” میں نے قادیان جا کر کہا تھا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہیئے.اور مرزا صاحب کی صداقت پر ہونا چاہیئے اور مرزا نے تسلیم کر لیا ہے.“ ( مجاہد ۶ نومبر صفحہ ۲) اسی کے متعلق سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشین
انوار العلوم جلد ۱۳ 476 آلومہار نے بھی اپنی تقریر میں چنیوٹ میں کہا ہے کہ " مرزا محمود نے مجلس احرار کو چیلنج دیا ہے کہ آؤ مجھ سے مرزا کی نبوت پر قادیان آ کر مباہلہ کرو.زعمائے احرار نے مرزا محمود کے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے.( مجاہد صفحہ (۳) لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے چیلنج اس امر کا دیا تھا کہ احرار جو یہ الزام لگاتے ہیں.کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمد یہ رسول کریم ﷺ سے مرزا صاحب کے درجہ کو بڑھاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی بہتک کرتی ہے اس پر لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کر لیں.اس پر مجھے معلوم ہوا کہ احرار نے کہا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر بھی مباہلہ ہو اور قادیان میں ہو.اس پر میں نے لکھا کہ اگر صداقت پر بھی مباہلہ کرنا ہے تو بے شک یہ مباہلہ بھی ہو.مگر یہ مباہلہ الگ ہو اور رسول کریم ﷺ سے بانی سلسلہ احمدیہ کو بڑھا کر پیش کرنے کے الزام کے متعلق الگ مباہلہ ہو.اور قادیان کے متعلق لکھا کہ اگر احرار کو لاہور یا گورداسپور پر کوئی خاص اعتراض ہے تو وہ قادیان آسکتے ہیں.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ چنیوٹ کی تقریر میں صدر احرار کا نفرنس نے قطعاً غلط بیانی سے کام لیا ہے.(1) بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی کے متعلق مباہلہ کے چیلنج کو میری طرف منسوب کیا ہے حالانکہ یہ چیلنج احرار کی طرف سے تھا.اور شاید مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کو اپنے صدر کی تقریر یاد نہ تھی کہ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ چیلنج خود ان کی طرف سے تھا.(۲) صدر صاحب کہتے ہیں کہ مرزا محمود نے قادیان آ کر مباہلہ کرنے کا چیلنج دیا ہے حالانکہ میں نے لاہور یا گورداسپور کا چیلنج دیا تھا نہ کہ قادیان کا اور اظہر صاحب نے اپنی تقریر میں اس کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ تجویز خود ان کی طرف سے تھی.(۳) اظہر صاحب نے جہاں ان دو باتوں میں اپنے صدر صاحب کے بیان کی قلعی کھولدی ہے وہاں اپنی طرف سے ایک غلط بیانی زائد بھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ د میں نے کہا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہیئے.اور مرزا غلام احمد کی صداقت پر ہونا چاہیئے.مرزا محمود نے تسلیم کر لیا ہے کہ بے شک احرار قادیان میں ہی آکر ہم سے مباہلہ کر لیں.“ اس فقرہ کو پڑھ کر ہر شخص یہی سمجھے گا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہیئے اور سلسلہ احمدیہ کی صداقت میں ہونا چاہیئے اور سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے متعلق ہی ہونا چاہیئے.نہ کہ ہتک آنحضرت ﷺ فداہ قلبی و نفسی کے الزام کے متعلق.جس کا یہ مطلب ہے کہ گویا میں نے صل الله
انوار العلوم جلد ۱۳ 477 اصل بنائے مباہلہ کو ترک کر دیا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے میں نے کبھی اصل بنائے مباہلہ کو صلى الله ترک نہیں کیا.بلکہ اس کے برعکس میں نے تو یہ کہا تھا کہ احرار اس لئے ہتک آنحضرت علی کے الزام کے متعلق مباہلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ طبقہ جانتا ہے کہ احرار کا یہ الزام کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے آنحضرت ﷺ کی ہتک کی ہے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے.لیکن پھر بھی ہم احرار کے اس مطالبہ کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی مباہلہ ہو جائے بشرطیکہ یہ مباہلہ پہلے مباہلہ کے علاوہ ہو.اور اس کے لئے الگ پانچ سو آدمیوں کی تعداد دونوں فریق کی طرف سے پیش کی جائے لیکن لیڈر وہی ہوں.اب رہا مباہلہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا سوال.اس کے متعلق صدر احرار کا نفرنس چنیوٹ میں بیان کرتے ہیں کہ ۲۳.نومبر کو زعمائے احرار اور ہزاروں مسلمان قادیان کے میدان مباہلہ میں پہنچ جائیں گے.“ ( مجاہد ۶ نومبر صفحه ۲) ان الفاظ سے واضح ہے کہ میری بیان کردہ شرائط کو وہ صرف میرے لئے حجت قرار دیتے ہیں.اور خود اس پر کار بند ہونے کے لئے تیار نہیں.لیکن اس کے باوجود اخبار میں اعلان کرتے چلے جاتے ہیں کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں.اگر شرائط کی منظوری اسی کا نام ہے تو کوئی خدا کا بندہ یہ بتائے کہ نامنظوری کسے کہتے ہیں.مباہلہ کرنے والوں کی فہرستیں میں نے لکھا تھا کہ ضروری ہے کہ شرائط کے تصیفہ کے ساتھ مباہلہ کرنے والوں کی فہرستیں بھی دی جاتیں تا کہ ان کے متعلق تحقیق کر لی جائے.اظہر صاحب کہتے ہیں.اگر ان میں سے کوئی بیمار ہو گیا تو اس کا کیا علاج ہوگا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا علان آسان ہے.اور وہ یہ کہ دس یا پندرہ فیصدی نام مطلوبہ تعداد سے زیادہ دے دیئے جائیں.اگر پانچ سو میں سے یا ہزار میں سے جتنی تعداد کا بھی فیصلہ ہو، بعض لوگ نہ پہنچ سکیں تو ان کی خالی جگہ زائد تعداد میں سے پر کر لی جائے.ہاں اگر اظہر صاحب کو یہ خیال ہو کہ شائد وہ پانچ کا پانچ سو ہی نہ پہنچ سکے تو پھر کیا ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ معاملہ ہو کہ پندرہ فی صدی سے زائد آدمی ریز رو رکھ کر بھی ان کے غیر حاضروں کی کمی پوری نہ ہو سکے.تو یہی سمجھا
انوار العلوم جلد ۱۳ 478 جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو مباہلہ سے بھی پہلے پکڑ لیا ہے.ورنہ دس پندرہ فی صدی کی اتنی تعداد ہے کہ عام حالات میں اس قدر آدمیوں کا ایسے اہم کام کے لئے پختہ وعدہ کر کے نہ پہنچ سکنا ایک خلاف عقل بات ہے.اور یا تو وہ لوگ عذاب الہی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس حد تک معذور ہو جائیں گے.یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ دین کے لئے قربانی کرنے کا ان میں مادہ ہی نہیں.اور یہ خون ان کے باطل پر ہونے کا ایک ثبوت ہوگا.شائد اظہر صاحب کو اپنا پہلا فقرہ یاد نہیں رہا.اسی لئے وہ ساتھ یہ فقرہ بھی لکھ گئے ہیں کہ ”ہم اپنی طرف سے ان کی ہزار کی شرط کو بھی منظور کر چکے ہیں.( مجاہد ۵ نومبر صفحہ ۷ ) یہ عجیب لطیفہ ہے.کہ اپنی نسبت تو وہ لکھتے ہیں کہ پانچ سو یا ہزار کی شرط مرزا محمود کی عائد کردہ ہے.ہمارے نمائندے ہزار سے بھی بہت زیادہ ہوں گے.اور ہماری نسبت لکھتے ہیں کہ ہم انہیں پانچ سو یا ہزار کا پابند نہیں کرتے بلکہ جس قدر آدمی ان کو مل سکیں.وہ لے آئیں جب دونوں فریق کو ہی انہوں نے اس شرط سے آزاد کر دیا.تو اس فقرہ کے معنی ہی کیا ہوئے کہ اپنی طرف سے ہم ان کی ہزار کی شرط کو بھی منظور کر چکے ہیں.انہیں تو یہ لکھنا چاہیئے تھا کہ ہم اس شرط کو دونوں فریق پر سے اڑا چکے ہیں.احرار کا تاریخ مباہلہ مقرر کرنا میں نے اعتراض کیا تھا کہ احرار کو ۱۳ نومبر کی تاریخ مقرر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے.ان کے اس اعلان کے بعد کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں، میرے شائع کردہ اعلان کی روشنی میں یا تو تاریخ مقرر کرنے کا حق مجھے حاصل ہے یا دونوں فریق کو مجموعی طور پر.اس پر مسٹر مظہر علی صاحب اظہر لکھتے ہیں کہ شائد مرزا صاحب کو بھول گیا ہے.کہ وہ اپنے خطبہ مطبوعہ ۱۸.اکتوبر میں کہہ چکے ہیں کہ:.خدا تعالیٰ نے ان (احرار ) کی گردن پکڑی ہے، اس لئے کسی کو سامنے آنے کی جرات نہیں ہوئی.اگر ہمت ہے تو سب کے سب آئیں.“ اول تو اس فقرہ میں تحریف ہے.لیکن اسے درست سمجھ کر بھی میں ہر اردو دان شخص سے پوچھتا ہوں کہ کیا اردو سے مس رکھنے والا شخص اس عبارت کے وہ معنی کر سکتا ہے جو اظہر صاحب نے کئے ہیں.میں نے یہ فقرہ اس موقعہ پر استعمال کیا تھا کہ احرار باقاعدہ سب لیڈروں کی طرف سے مباہلہ کو منظور کرنے کی بجائے ایک شخص کو قادیان بھیج دیتے ہیں جو اپنی طرف سے
انوار العلوم جلد ۳ 479 ایک اعلان کر دیتا ہے.کیوں نہیں سب کے سب جو میرے مخاطب ہیں اس کی منظوری کا اعلان کرتے.اس سے تاریخ کا تعیین کا حق احرار کو کہاں سے ملا.احرار کی دھینگا مشتی لطیف یہ ہے کہ میرے جس خطبہ سے یہ فقرہ چنا گیا ہے اس کے آخر میں میرا یہ فقرہ بھی موجود ہے کہ :.” جب نہ کوئی تاریخ مقرر ہوئی ہے نہ شرائط طے ہوئے ہیں تو احمدی فرار کیسے کر گئے.فرار تو تب ہے کہ شرائط طے ہو جائیں وقت مقرر ہو جائے اور پھر ایک (الفضل ۸ اکتوبر ) فریق نہ آئے“ اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ میرے نزدیک شرائط کا طے ہونا اور اس کے بعد وقت کا مقر ر کیا جانا دونوں فریق کے اختیار میں رکھا گیا ہے نہ کہ احرار کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو چاہو شرط پیش کر دو اور جو چاہو وقت مقرر کر دو.جب میرے نزدیک اب تک شرائط ہی طے نہیں ہوئیں تو میں تاریخ سے کس طرح اتفاق کر سکتا ہوں.اسی طرح میرے خطبہ مطبوعہ ۶.اکتوبر میں لکھا ہے:.” جو شرائط احرار پیش کرنا چاہتے ہیں وہ پیش کریں تا کہ جلد سے جلد مباہلہ کی تاریخ اور مقام کی تعیین کا اعلان کیا جا سکے.“ ان فقرات کی موجودگی میں اور بغیر اس کے کہ زبان ان معنوں کی اجازت دیتی ہو جو میرے مذکورہ بالا فقرہ سے مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے نکالے ہیں، احرار کے لئے یہ حق نکال لینا کہ وہ جو تاریخ چاہیں مقرر کر دیں، معقولیت نہیں بلکہ دھینگا مشتی ہے.احرار کی ٹال مٹول کی وجہ اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ احرار کا اس قسم کی ٹال مٹول سے مطلب کیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ احرار کو اس سال قادیان میں کا نفرنس کرنے سے حکومت نے روک دیا تھا.جب انہوں نے میرا چینج مباہلہ پڑھا تو انہوں نے سوچا کہ مباہلہ تو خیر دیکھا جائے گا.اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ہم حکومت سے برسر پیکار ہوئے بغیر قادیان میں کا نفرنس کرلیں گے.کیونکہ مباہلہ کا چیلنج جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے اور ان کے بلانے پر جائیں گے، حکومت ہم کو روکے گی نہیں.چنانچہ یہ امر دل میں رکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بغیر اس کے کہ شرائط تحریر طے نہ ہوئی ہونگی اور کئی باتیں
انوار العلوم جلد ۱۳ 480 عین موقعہ پر ایسی نکل آئیں گی جن کی بناء پر مباہلہ سے انکار کیا جا سکے گا.ہاں اس بہانہ سے قادیان میں کا نفرنس کا موقعہ مل جائے گا.تاریخ مباہلہ کے متعلق اس قدر عرصہ پہلے اعلان کرنے سے غرض یہ تھی کہ اگر وہ میری شرط مانتے کہ شرطیں طے ہونے کے بعد تاریخ مقرر کی جائے اور پندرہ دن کی مہلت دی جائے تو اس صورت میں اس عرصہ میں انہیں اپنا انتظام کرنا اور ہنگامہ کے لئے لوگوں کو جمع کرنا مشکل ہوتا.اب انہوں نے قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے آپ ہی تاریخ مقرر کر دی تا کہ اس عرصہ میں لوگوں کو آمادہ کر کے کانفرنس کی تیاری کر لیں.یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں ان کے مندرجہ ذیل ثبوت ہیں:.(۱) احرار اپنی تمام تقریروں میں لوگوں کو ۳۳.نومبر کے دن قادیان پہنچنے کے لئے کہہ رہے ہیں.اور عام تحریک کی جا رہی ہے کہ لوگ اس دن ہزاروں کی تعداد میں قادیان پہنچیں.(۲) اس خیال سے کہ شائد بہت سے لوگ مباہلہ کے نام سے قادیان جانے کے لئے تیار نہ ہوں گے.اس امر کی بنیاد رکھی جارہی ہے کہ ایک جماعت ایسی ہو گی جو صرف مباہلہ کو دیکھنے آئے گی.چنانچہ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر اپنے جواب لکھتے ہیں کہ:.جائے.در مجلس مباہلہ کا انتظام جس طرح مرزا محمود فرما ئیں، ہمیں منظور ہو گا.فقط یہ احتیاط چاہیئے کہ مباہلین کو دیکھنے والے لوگوں کی راہ میں روکاوٹ نہ ڈالی ( مجاہد ۵.نومبر صفحه ۵) اس عبارت سے اور احرار کی تقریروں سے جو وہ باہر کر رہے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ پبلک کے کچھ حصہ کو یہ کہہ کر قادیان آنے کی تحریک کی جارہی ہے کہ وہاں چل کر مباہلہ دیکھنا.تا کہ مباہلہ کی آڑ میں ایک بڑا اجتماع کر کے ممنوعہ کا نفرنس کی جا سکے.بلکہ نظارہ بینوں کے لئے روک نہ ہونے کے مطالبہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت فساد کرنے کی صورت میں بھی مد نظر ہے.(۳) قادیان کے اردگرد کے دیہات میں احرار کی طرف سے لوگ جا کر لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ ۳.نومبر کو مباہلہ بھی ہوگا.اس دن لوگ مباہلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوں.اس دیدار نمائی کی تحریک کے اس کے سوا کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ لوگ جمع ہو جائیں اور کانفرنس کی جا
انوار العلوم جلد ۱۳ 481 سکے.اور ہو سکے تو کچھ فساد بھی کھڑا کر دیا جائے.ورنہ مباہلہ میں نہ لمبی چوڑی تقریریں ہونی ہیں کہ ان کے سننے کے لئے لوگوں کو بلایا جا رہا ہے.اور نہ وہاں کوئی تماشا ہونا ہے کہ جس کے دیکھنے کے لئے علاقہ کے لوگوں کو جمع کیا جا رہا ہے.مباہلہ ہو کر چھپ جائے گا اور لوگوں کو خود حالات معلوم ہو جائیں گے.(۴) مگر ان سب دلائل سے بڑھ کر چوتھی دلیل وہ اشتہار ہے.جو (مولا نا ) عنایت اللہ امیر مجلس احرار قادیان (ضلع گورداسپور کی طرف سے قادیان کے نواحی علاقہ میں شائع ہو رہا ہے.اس اشتہار میں چندہ کی اپیل کی گئی ہے اور لکھا ہے کہ:.پچھلے سال قادیان میں جو کا نفرنس ہوئی تھی، اس میں نصف لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہوئے تھے.حالانکہ کا نفرنس کا پہلا سال تھا.اس سال انشاء اللہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قادیان میں جمع ہونے والے ہیں.“ احرار کی قادیان میں فساد پیدا کرنی کی نیت غرض مذکورہ بالا باتوں سے ثابت ہے کہ احرار کی اصل غرض مباہلہ نہیں بلکہ کانفرنس کا انعقاد ہے.اور قادیان میں مباہلہ ہونے پر اصرار بھی اسی وجہ سے ہے.مگر قادیان ہمارا مقدس مقام ہے.ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اس کو سب دنیا سے زیادہ عزیز جانتے ہیں.ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے ہاتھوں سے فساد کی جگہ بنا ئیں.اسلام نے اس اصل کو تسلیم کیا ہے کہ مقدس مقامات دوسرے لوگوں کی شرارتوں سے پاک رہنے چاہئیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم احرار کو کا نفرنس کے انعقاد میں مدد دیں.اس لئے میں صاف لفظوں میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم قادیان میں مبالہ کے لئے تیار ہیں مگر کا نفرنس کے لئے نہیں.اگر احرار کو فی الواقع مباہلہ منظور ہے تو ا.شرائط طے کرلیں ۲.پھر ایک تاریخ بتر اضی طرفین مقرر ہو جائے جس کی اطلاع حکومت کو بغیر ا نتظام دے دی جائے گی.۳.اگر وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو جو عام دعوت انہوں نے دی ہے اس کو عام اعلان کے ذریعہ سے واپس لیں.
انوار العلوم جلد ۱۳ 482 ۴.مجلس احرار ہمیں یہ تحریری وعدہ دے کہ مباہلہ کے دن اور اس سے چار دن پہلے اور چار دن بعد کوئی اور جلسہ یا کا نفرنس سوائے اس مجلس کے جو مباہلہ کے دن بغرض مباہلہ منعقد ہوگی وہ منعقد نہیں کریں گے.اور نہ جلوس نکالیں گے اور نہ کوئی تقریر کریں گے.اور یہ تحریر مجاہد میں بھی شائع کر دی جائے.۵.یہ کہ ان کی طرف سے مباہلہ کرنے والوں کے سوا جن کی فہرست ان کو پندرہ دن پہلے سے دینی ہوگی کوئی شخص باہر سے نہ تحریری نہ زبانی بلایا جائے گا.نہ وہ (اس صورت میں کہ انہیں ہماری ضیافت منظور نہ ہو ) کسی کی رہائش کا یا خوراک کا جماعتی حیثیت میں یا منفردانہ حیثیت میں مذکورہ بالا نو ایام میں انتظام کریں گے.۶.مباہلہ کی جگہ پر مباہلہ کرنے والوں اور منتظمین اور پولیس کے سوا اور کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوگی.اگر وہ مذکورہ بالا باتوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہر حق پسند شخص تسلیم کرے گا کہ احرار کی نیت مباہلہ کی نہیں بلکہ اس بہانے سے قادیان میں کانفرنس کرنے کی ہے.پس میں یہ واضح طور پر کہ دینا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں ہم قادیان میں نہیں بلکہ گورداسپور یا لاہور میں مباہلہ کریں گے.وہاں بے شک جس قدر آدمیوں کو چاہیں بلالیں.گو اس صورت میں بھی مباہلہ کرنے والوں کے علاوہ دوسرے آدمیوں کو میدان مباہلہ میں آنے کی اجازت نہ ہوگی.میرے اس اعلان کے بعد بغیر شرائط طے کئے کے اور بغیر ایسی تاریخ کے مقرر کئے کے جو دونوں فریق کی رضا مندی سے ہو.اگر احرار ۳۳.نومبر یا اور کسی تاریخ کو قادیان آئیں تو اس کی غرض محض کا نفرنس ہوگی نہ کہ مباہلہ.اور اس صورت میں اس کی ذمہ داری یا تو حکومت پر ہوگی یا احرار پر.جماعت احمدیہ پر اس کی کوئی ذمہ واری نہ ہوگی.ایک افتراء کی تردید مباہلہ کے تعلق تو جو کچھ میں نے لکھنا تھا لکھ دیا ہے مگر میں ایک اور افتراء کی بھی جو مظہر علی صاحب اظہر نے میری نسبت کیا ہے تردید ضروری سمجھتا ہوں.مسٹر اظہر صاحب نے اپنے جواب میں میرے خطبہ سے ایک فقرہ جو ذیل میں درج ہے.نقل کیا ہے.تحریریں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہوں، کسی اور احمدی کی نہ ہوں.کیونکہ اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی
انوار العلوم جلد ۱۳ 483 ہے.بہر حال دوسروں کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی.“ (الفضل مطبوعہ ۶.اکتوبر ) اس فقرہ کو نقل کر کے مسٹر مظہر علی صاحب اظہر لکھتے ہیں.کہ اس عبارت میں مرزا صاحب نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ان کی اور ان کے بھائیوں اور متبعین کی تحریروں میں توہین رسول کریم ﷺ اور تو ہین مکہ معظمہ و مدینہ منورہ موجود ہے.چونکہ مرزا صاحب نے اقبال جرم کر لیا ہے، اس لئے ہم نے انہیں مجبور نہیں کیا.( مجاہدہ ۵.اکتو بر صفحہ ۷ کالم ۳) میرا پہلا جواب تو اس کے متعلق یہ ہے کہ لعنة الله علی الکاذبین اور یہ کہ اگر اس اور عبارت سے یہ مطلب نکلتا ہو.یا میرے دل میں کوئی ایسی بات ہو تو اللہ تعالیٰ کا عذاب مجھ پر اور میری اولاد پر ہو.اگر مسٹر مظہر علی صاحب میں کوئی تخم دیانت باقی ہے اور انہوں نے صحیح سمجھ کر یہ فقرات لکھے ہیں.تو کیا وہ جرآت کریں گے کہ وہ بھی ایک اعلان کر دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس فقرہ کا یہی مطلب ہے کہ مرزا محمود احمد اور اس کے بھائی اور جماعت احمد یہ رسول کریم ﷺ کی بہتک کیا کرتی ہے اور اس میں اقبال جرم ہے.اور اگر میں اس بیان میں لوگوں کو دھوکا دیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر لعنت نازل ہو.اظہر صاحب کے لئے اس قسم کی لعنت کا اعلان کرنا بڑی بات نہیں کیونکہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے نزدیک حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ پر لعنت بھیجنا بھی کارثواب سمجھا جاتا ہے.اگر اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے انہوں نے لعنت طلب کر لی جس کا طلب کرنا ان پر واجب ہو گیا ہے تو یہ انہیں زیادہ گراں نہیں گزرنا چاہئے.مسٹر مظہر علی صاحب نے تحریف کی دوسرا جواب میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اظہر صاحب نے اپنی سہولت کے لئے اس فقرہ میں تحریف کی ہے.میرا اصل فقرہ یہ ہے.اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے.اور پھر ان کی غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے.لیکن بہر حال دوسروں کی تحریر حجت نہیں (الفضل مطبوعہ ۶.اکتوبر ) ہو سکتی.ناظرین دیکھیں کہ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے کس طرح تحریف سے کام لیا ہے.ایک نہایت ضروری فقرہ جو دو فقروں کے درمیان ہے، خاموشی سے اڑا دیا ہے.قرآن کریم میں
انوار العلوم جلد ۱۳ 484 تحریف ماننے والے لوگوں کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں.لیکن پھر بھی اس طرح اخبار میں دوسرے کے کلام کو محرف کر کے پیش کرنا انتہا درجہ کی دلیر ہے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ میرے مندرجہ بالا فقرہ نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ چونکہ ہر شخص اعلی پایہ کا نہیں ہوتا.اگر کبھی اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.خصوصاً جبکہ اس کا علم ہونے پر جماعت اس سے برأت ظاہر کر دے.اس سے یہ کہاں سے نکلا کہ میں نے اقبال کر لیا ہے کہ مجھ سے اور میرے بھائیوں سے اور دیگر احمدیوں سے نعوذ بـالـلـه من ذالک رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوئی ہے.میں نے تو اپنے سابق اشتہار میں خدا تعالیٰ کی مؤکد عذاب قسم کھائی تھی کہ رسول کریم ملا فضل الرسل اور سید ولد آدم تھے.“ کیا آپ کی ہتک کرنے والا شخص یہ قسم اور مؤکد بغداب قسم کھا سکتا ہے.یہ تو میری قسم ہے.اس کے علاوہ مباہلہ کے جو الفاظ مباہلین کے لئے (جن میں میں میرے بھائی اور دوسرے احمدی شامل ہوں گے میں نے تجویز کئے ہیں.اس عبارت پر مشتمل ہیں.”ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.اگر ہم رسول کریم ﷺ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں.آپ کو خاتم النبین نہ سمجھتے ہوں آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں.“ (الفضل ۶.اکتوبر ) جب اس اخبار میں جس کا فقرہ اظہر صاحب نے نقل کیا ہے.یہ الفاظ موجود ہیں جو مباہلہ کے وقت میں اور میرے بھائی اور دیگر احمدی کہیں گے تو کس طرح کوئی عقل مند اس فقرہ کے یہ معنی کر سکتا ہے کہ میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے.دوسروں کی تحریروں میں غلطی کا امکان میں نے جو بات کہی ہے صرف یہ ہے کہ ہر جماعت میں بعض لوگ جہاد کی وجہ سے یا بعض منافق جماعت کو بدنام کرنے کے لئے ایسے امور شائع کر دیتے ہیں یا بیان کر دیتے ہیں جو اس جماعت کے اعتقاد کے خلاف ہوتے ہیں.اگر جماعت کو اطلاع ہوتی ہے تو وہ ان کی تردید کر دیتی ہے.پس چونکہ دوسروں کی بعض تحریروں میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے.اس لئے حجت صرف بانی سلسلہ کی تحریروں سے پکڑی جاسکتی ہے.اور یہ ایسی بات
انوار العلوم جلد ۱۳ 485 نہیں جو جماعت احمدیہ سے مخصوص ہو.ہر جماعت کا یہی حال ہے.کوئی قوم بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہمارے ہر منصف یا خطیب کی تحریر یا بات قابل قبول ہے.اور اس وجہ سے تمام فرقے قابل حجت صرف اپنے سلسلہ کے بانی کی کتب کو تسلیم کرتے ہیں یا ایسے آئمہ کو جن کو وہ خالی از خطا سمجھتے ہوں اور اس بحث میں نہیں پڑتے کہ بعض اور قابل اعتبار علماء بھی ہو سکتے ہیں.مثلاً مسلمان غیر قوموں سے بحث کے وقت صرف قرآن کریم پر انحصار رکھتے ہیں.دوسری سب کتب کی نسبت کہتے ہیں.کہ صحیح ہونگی.تو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں.کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا.کہ مسلمانوں کے نزدیک سب بزرگوں نے جھوٹ بولا ہے.(نعوذ باللہ من ذالک) مثال کے طور پر یہ بات لے لیجئے.کہ مظہر علی صاحب جس فرقہ سے یعنی شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں.وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.اور سنی بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.اب اگر کوئی عیسائی ایک مسلمان پر یہ اعتراض کرے کہ تمہارے رسول کریم له و نعوذ باللہ من ذالک ) لوگوں سے ڈر کر خدا تعالیٰ کے حکام کو چھپا لیا کرتے تھے اور اس کی تائید میں وہ اظہر صاحب کے ہم مذہبوں کی معتبر کتاب تفسیر صافی کا حوالہ صفحہ ۱۲۷ سے دے کر آنحضرت ﷺ کو جب حضرت علی کی ولایت کے اعلان کا حکم ہوا.تو آپ نے نعوذ باللہ من ذالک لوگوں سے ڈر کر اس حکم کو چھپایا تو اب بتا ئیں.کہ ایک مسلمان کے لئے اس کے سوا کیا چارہ ہے.کہ وہ کہے کہ اظہر صاحب یا ان کے ہم مذہبوں نے اگر غلطی کی ہو تو اسلام اس کا ذمہ وار نہیں ہمارے لئے تو قرآن کریم حجت ہے.اور وہ تو رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتا ہے.کہ انک لعلی خلق عظیم کہ سب اعلیٰ اختلاق به حد کمال تیرے اندر پائے جاتے ہیں.پس قرآن کریم کی اس شہادت کے بعد ہم ایسی خرافات کو کب تسلیم کر سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں سے خوف کھا کر احکام الہی کو چھپا لیتے تھے خواہ یہ قول احرار کے سیکرٹری کا مذہب ہو یا اس کی جماعت کا یا مثلاً اگر کوئی کینه در دشمن یہ اعتراض کرے کہ مسلمانوں نے یہ تسلیم کیا ہے.کہ نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم محرف و مبدل ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجلس احرار کے سیکرٹری مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کا جس فرقہ سے تعلق ہے ان کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر حضرت عمر وغیر ہم کو قرآن کریم بطور امانت دیا گیا تھا.حرفوه و بد لوہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذالک اس میں تحریف کر دی.
486.انوار العلوم جلد ۱۳ اور اسے بدل دیا.جس کی وجہ سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ( نعوذ باللہ من ذالک ) منافق ہو گئے تھے.لقدنا فقا قبل ذالک ورد اعلی الله (فروع کافی جلد ۳ صفحہ ۶۱ - ۶۲) تو اب ایک غیرت مند مسلمان سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہے.کہ احرار کے سیکرٹری کا یا اس کی جماعت کا خواہ کچھ مذہب ہو.ہم پر قرآن کریم جت ہے.جب وہ کہتا ہے.کہ انـــا نـحـن نزلنا الذكووانا له لحافظون با ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے.اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.تو ایسی خرافات کو ہم غلط سمجھتے ہیں.اور اسی طرح جب قرآن کریم السابقون الاولون کی تعریف کرتا ہے.اور انہیں ہمارے لئے نمونہ قرار دیتا ہے.تو جوشخص برا کہتا ہے.وہ اسلام کے خلاف کہتا ہے.اور چونکہ قرآن کریم کے سوا اور اس قول کے سوا جو رسول کریم ﷺ سے ثابت ہوا اور کوئی قول مسلمانوں پر حجت نہیں.اس لئے ہم ان حوالوں کو کوئی وقعت نہیں دیتے.تو اب بتائیں کہ کیا اس کے یہ معنی ہونگے.کہ ایسا شخص سب آئمہ اسلام کو قرآن کریم کے خلاف چلنے والا کہتا ہے.بہر حال جب سلسلہ احمدیہ کی خصوصیات کا ذکر ہوگا.تو حجت صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں ہوں گی.باقی باتوں سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں.پس جو کچھ میں نے لکھا.درست لکھا.اور اظہر صاحب کا اعلان محض فساد اور لوگوں کو بھڑکانے کی نیت سے ہے.آخر میں میں پھر مسلمانوں کے فہمیدہ طبقہ سے اپیل کرتا ہوں.کہ احرار کو مجبور کریں.کہ وہ شرائط کا تصفیہ کر کے مسلمہ فریقین تاریخ پر احمدیوں سے مباہلہ کریں.اور اس قسم کی اشتعال انگریزی اور غلط بیانی سے پر ہیز کریں جو انہوں نے اختیار کر رکھی ہے.تاحق اور باطل میں فرق ہو.اور خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو.آمین واخر دعوانا الحمد لله رب العلمين خاکسار مرزا محموداحمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ) ۷.نومبر ۱۹۳۵ء
انوار العلوم جلد ۱۳ 487 اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِي عَلَى رَسُولِهِ الكَريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھوالناصر کیا احرار واقعہ میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں برادران! السلام علیکم ورحمۃ اللہ.کچھ عرصہ سے لیڈران احرار لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا وہ تو مباہلہ کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن امام جماعت احمد یہ اس سے گریز کر رہا ہے.میں افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ احرار کا یہ اعلان قطعاً درست نہیں اور تقومی اور طہارت کے بالکل خلاف ہے.حقیقت یہ ہے کہ احرار سلسلہ احمدیہ اور اس کے بانی پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ ان کے نزد یک رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں کرتے بلکہ آپ کی ہتک کرتے ہیں.اور اسی طرح یہ کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے قادیان کو (نعوذ باللہ من ذالک) افضل سمجھتے ہیں.اور اگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منور کی اینٹ سے اینٹ بھی بج جائے تو بھی وہ خوش ہوں گے.میں نے اس الزام کی تردید کی اور ان امور پر جماعت احرار کو مباہلہ کا چینچ دیا.اور اپنی طرف سے یہ شرطیں پیش کیں کہ (1) پانچ سو یا ہزار آدمی دونوں طرف سے مباہلہ میں شامل ہورں اور یہ لوگ امام جماعت احمدیہ اور ناظران سلسلہ احمدیہ اور پانچ لیڈران احرار کے جن کے نام دیئے گئے تھے اور جن کی شمولیت ضروری قرار دی گئی تھی.علاوہ ہوں.(۲) مباہلہ لاہور یا گورداس پور میں ہو.
انوار العلوم جلد ۱۳ 488 (۳) دونوں طرف کے نمائندے مل کر تفصیلات طے کر لیں.اور اگر میری مقرہ کردہ شرائط میں تبدیلی مناسب ہو تو وہ بھی تراضی فریقی سے کی جاسکتی ہے اور (۴) ان مراحل کے بعد مباہلہ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے جو تصفیہ شرائط کے بعد پندرہ دن کے وقفہ پر ہو.ان میں سے ایک بات بھی نہیں جو احرار نے تسلیم کی ہو.اور باوجود اس کے وہ شور مچا رہے ہیں کہ وہ مباہلہ کے لئے تیار ہیں.میرے اس اعلان پر مظہر علی صاحب اظہر نے یہ کہا تھا کہ وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں.ان کے الفاظ تھے.ہم مرزا محمود کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ مباہلہ سے پہلو تہی کر سکے.ہاں یہ ضروری وہ گا کہ مباہلہ قادیان میں ہو.“ ( مجاہد ۲.اکتوبر ۱۹۳۵ ءصفحہ ۲) چونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ کم از کم دین کے ایسے اہم معاملہ میں ہنسی مذاق سے کام نہ لیں گے، میں نے اعلان کر دیا کہ اگر قادیان پر انہیں اصرار ہے تو بہت اچھا ہمیں یہی منظور ہے مگر باقی شرائط کا تصفیہ ہو جانا ضروری ہے.اور میں نے فیصلہ جلد کرانے کے لئے اپنی طرف سے نمائندوں کی ایک کمیٹی بھی مقرر کر دی.جنہوں نے تصفیہ شرائط کے لئے زعمائے احرار کو الگ الگ رجسٹری چٹھیاں لکھیں مگر ان میں سے کسی کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں ملا.اگر احرار ثابت کر دیں کہ یہ رجسٹری چٹھیاں ان کو نہیں ملیں یا یہ کہ انہوں نے ان کا جواب بذریعہ ڈاک دے دیا تھا تو میں ایک سو روپیہ احرار کو انعام دینے کے لئے تیار ہوں.اور اس غرض کے لئے مسٹر سیف الدین صاحب کچلو کو ثالث ماننے کو تیار ہوں.جب بھی احرار چاہیں جماعت احمدیہ کا نمائندہ ایک سور و پیہ مسٹر کچلو کے پاس جمع کرا دے گا.اس کے پندرہ دن کے اندر احرار ا پنا ثبوت کچلو صاحب کے سامنے پیش کر دیں.اور اگر کچلو صاحب ان کے حق میں فیصلہ کریں تو روپیہ ان کو دیدیں اور اگر فیصلہ ہمارے حق میں ہو یا پندرہ دن کے اندر احرار ثبوت پیش نہ کریں تو روپیہ جمع کرانے والے کو واپس مل جائے.الغرض احرار کی طرف سے ہمارے کسی خط کا بذریعہ خط جواب نہیں دیا گیا.آخر بار بار زور دینے پر اظہر صاحب نے میرے نام ۱۴.اکتوبر کو ایک تاری بھیجا.( یہ عجیب بات ہے کہ اس موقع پر یہی ہمیں کوئی چٹھی نہیں بھجوائی گئی حالانکہ اس قدر پہلے تار بھجوانا بالکل بے معنی تھا.) کہ وہ ۲۳ نومبر کو مباہلہ کے لئے آ جائیں گے.اس کا جواب ناظر شعبہ تبلیغ جماعت احمدیہ کی
انوار العلوم جلد ۱۳ 489 طرف سے ۱۶.اکتوبر کو دیا گیا جس میں یہ لکھا گیا کہ پہلے حسب اعلان شرائط کا تصفیہ ہونا ضروری ہے، اس کے بعد مباہلہ کی تاریخ مقرر ہوگی.اس کا جواب احرار کی طرف سے آج تک نہیں ملا.لیکن باوجود اس کے وہ لوگوں کو یہ دھوکہ دے رہے ہیں کہ وہ مباہلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن امام جماعت احمد یہ اس سے گریز کرنا ہے.اگر میرا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ۲.اکتوبر کو ان کے نام ان کے تار کے جواب میں ایک چٹھی ہماری جماعت کی طرف سے بھیجی گئی یا یہ غلط ہے کہ اس چٹھی کا جواب اس وقت تک ناظر دعوۃ و تبلیغ کو بذریعہ چٹھی احرار کی طرف سے نہیں ملا تو میں اس پر ایک سو روپیہ کا مزید انعام مقرر کرتا ہوں.اور اس کے لئے بھی مسلمانوں کے مشہور لیڈر مسٹرسیف الدین صاحب کچلو کو ثالث تسلیم کرنے کو تیار ہوں.اگر وہ دونوں طرف کے کاغذاب کو دیکھ کر اور اور ثبوت سن کر یہ فیصلہ کر دیں کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے احرار کو کوئی ایسی تحریر نہیں بھیجی گئی یا یہ کہ اس تحریر کا جواب احرار کی طرف سے بذریعہ خط ناظر دعوۃ و تبلیغ جماعت احمدیہ کو دے دیا گیا تھا تو ایک سو روپیہ مجلس احرار کو ہماری طرف سے ادا کر دیں ورنہ ان کے خلاف فیصلہ ہونے پر یا اس صورت میں کہ پندرہ دن کے اندر اندر وہ اپنا ثبوت مسٹر کچلو کے پاس پیش نہ کریں، وہ رقم روپیہ جمع کرانے والے کو واپس کر دی جائے گی.جب بھی احرار چاہیں یہ روپیہ مسٹر کچلو صاحب کے پاس ہمارا کوئی نمائندہ جمع کرا دے گا.اگر احرار دیانت سے کام لے رہے ہیں تو یہ فیصلہ جو میں خود انہیں کے ایک ہم مذہب کے سپرد کرتا ہوں، وہ اس کے لئے آمادہ ہو جائیں اور مقررہ انعام ہم سے وصول کر لیں.یه درست ہے کہ احرار نے ہمارے چیلنج کے جواب میں اخباروں میں یہ اعلان کرنا شروع کیا تھا کہ انہیں سب شرائط منظور ہیں.لیکن حقیقتا یہ درست نہیں تھا کیونکہ اول اگر انہیں واعقی سب شرائط منظور تھیں تو کیوں انہیں ان شرائط کے تحریر میں لانے سے گریز تھا.دوسرے میری شائع کردہ شرطوں میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ دونوں طرف کے نمائندے مل کر آخری ڈھانچہ شرائط کا طے کر لیں.لیکن جب وہ جماعت احمدیہ کے نمائندوں کو جواب تک نہیں دیتے تھے تو اس شرط کا پورا ہوا تو الگ رہا، شرطوں کے پورا ہونے کا امکان تک باقی نہ رہا تھا.جب معاملہ اس حد تک پہنچا اور میں نے دیکھا کہ ایک طرف تو احرار شرطوں کو تحریر میں نہیں
انوار العلوم جلد ۱۳ 490 لاتے اور دوسری طرف مباہلہ کے بہانے سے لوگوں میں کانفرنس کی تیاری کی تحریک کر رہے ہیں تو میں نے مناسب سمجھا کہ اب اس معاملہ کا دوٹوک فیصلہ ہو جانا چاہیئے.چنانچہ میں نے اس خیال سے کہ شاید احرار میری اخباری اعلانات کا جواب دینے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہوں.( گو اس میں ہتک کی کوئی بات نہ تھی ) میں نے ناظر دعوۃ تبلیغ کو اپنانمائندہ ہونے کی تحریر لکھ دی.اور یہ تحریر بذریعہ رجسٹری ۱۵ نومبر کو انہوں نے مجلس احرار کو بھجوا کر خواہش کی کہ وہ ان سے شرائط کا تصفیہ کر لیں.لیکن آج تک اس کا بھی کوئی جواب احرار کی طرف سے نہیں دیا گیا.اگر میرا یہ بیان درست نہیں تو میں اس کے غلط ثابت کرنے کیلئے بھی مزید ایک سو روپیہ کی رقم مجلس احرار کیلئے بطور انعام مقرر کرتا ہوں.اگر وہ یہ ثابت کر دیں کہ ایسا رجسٹری خط انہیں نہیں بھجوایا گیا یا یہ کہ اس رجسٹری کا جواب وہ میری اس تحریر سے پہلے ناظر دعوة وتبلیغ کو تحریراً بھجوا چکے ہیں تو ایک سوروپیہ جو میرا کوئی نمائندہ پہلے سے مسٹر کچلو کے پاس جمع کرا دے گا مسٹر کچلو کے پاس جمع کرا دے گا مسٹر کچلو احرار کے سپرد کر دیں گے.لیکن اگر وہ میری بات کو غلط ثابت نہ کر سکے یا روپیہ جمع کرانے کے بعد پندرہ دن کے اندر انہوں نے مسٹر کچلو کے پاس اپنا ثبوت پیش نہ کر دیا تو پھر یہ روپیہ جمع کرانے والے کو واپس دے دیا جائے گا.دوسری حرکت جس کا ارتکاب احرار کی طرف سے ہو رہا تھا یہ تھی کہ وہ اس مباہلہ کے چیلنج کو قادیان میں کانفرنس کے انعقاد کا ذریعہ بنا رہے تھے.میں نے اس امر کا ثبوت پیش کر کے اپنے اشتہار مورخہ ۷.نومبر کے ذریعہ اعلان کر دیا کہ اگر احرار فی الواقع مباہلہ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ کانفرنس یا جلسہ تو اخباروں میں اعلان کر دیں کہ وہ زمانہ مباہلہ میں قادیان میں علاوہ مجلس مباہلہ کے وہ کوئی اور کانفرنس یا جلسہ نہیں کریں گے نہ اپنی طرف سے نہ ماتحت مجالس کی طرف سے اور نہ افراد کی طرف سے.اور یہ کہ وہ صرف انہیں لوگوں کو ساتھ لائیں گے جن کے نام مباہلہ کی فہرست میں آجائیں جو فہرست کے شائع شدہ شرائط کے مطابق پانچ سو یا ہزار سے زائد نہیں ہونی چاہیئے، سوائے دس یا پندرہ فی صدی کے جو بطور ریز رو ر کھے جائیں تا غیر حاضروں کی جگہ ان سے پر کی جائے.اور میں نے لکھا تھا کہ ایسی تحریر میں قبل از وقت دینے کی صورت میں ہم قادیان میں ہی مباہلہ کرنے پر تیار ہوں گے.اور اگر وہ یہ تحریر نہ دیں اور ایسا اعلان کریں تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ وہ مباہلہ کا کا نفرنس کا بہانہ بنانا چاہتے ہیں.
491 انوار العلوم جلد ۱۳ تفصیل کے لئے دیکھو میرا اشتہار مطبوعہ ۷.نومبر ۱۹۳۵ ء ) مگر افسوس کہ اس وقت تک ان کی طرف سے نہ تو یہ اعلان ان الفاظ میں ہوا ہے جن الفاظ میں کہ میرا مطالبہ تھا اور نہ ہی ایسی کوئی تحریرہ ہمارے مطالبہ کے مطابق ہمیں دی گئی ہے.اگر یہ میرا بیان درست نہیں تو اس کے لئے بھی میں شرائط مذکورہ بالا کے مطابق ایک سو روپیہ کا مزید انعام مقرر کرتا ہوں.جماعت احمدیہ کے نمائندے احرار کے اشتہارات اور نیز بعض گواہوں کو گواہیوں سے یہ ثابت کریں گے کہ مباہلہ کے علاوہ احرار اس موقع پر قادیان میں ایک اور اجتماع بھی کرنا چاہتے تھے.اگر احرار اس کی تردید کریں کہ کانفرنس کی تحریک کا کوئی اشتہار ان کے قادیان کے کارکن اور صدر کی طرف سے شائع نہیں ہوا اور یہ کہ ان کے زعماء نے مختلف جگہوں میں مباہلہ کرنے والے کے سوا دوسرے لوگوں کو بھی اس موقع پر قادیان میں جمع ہونے کی تحریک نہیں کی اور جلسہ اور تقریروں کی امید نہیں دلوائی تو وہ اس کا اعلان کر دیں جس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک سور و پیہ کچلو صاحب کے پاس جمع کروا دیا جائے گا جو احرار کے ثبوت کو سچا سمجھنے کی صورت میں ان کو بلا توقف یہ رقم دے دیں گے.ورنہ عدم ثبوت یا پندرہ دن تک ثبوت پیش نہ کرنے کی صورت میں یہ رقم روپیہ جمع کرانے والے کو واپس کر دیں گے.ہاں یہ شرط ہو گی کہ میرے ان سب مطالبات جن کے متعلق میں نے انعامات مقرر کئے ہیں، کٹھی تحقیق کی جائے.ایک ایک کو الگ الگ لینے کی اجازت نہ ہوگی تاکہ معاملہ لٹکتا نہ چلا جائے.سوائے اس صورت کے کہ احراران مطالبات میں سے بعض کے اپنی غلطی تسلیم کر لیں کہ اس اس بارہ میں ہم سے غلطی ہوگئی ہے اس لئے صرف فلاں فلاں معاملے کی ہم تحقیق کرانا چاہتے ہیں.اگر احرار کو مسٹر سیف الدین صاحب کچلو کی شخصیت پر اعتراض ہو تو میں اس امر کے لئے بھی تیار ہوں کہ مسٹر عبد اللہ یوسف علی صاحب آئی سی ایس ریٹائرڈ.یا سر محمد یعقوب یا مولانا ابوالکلام صاحب آزاد میں سے کسی کو ان امور کے تصفیہ کے لئے تجویز کر دیا جائے.مذکورہ بالا اشخاص میں سے جس پر بھی احرار کو اعتماد ہو میں شرائط مذکورہ بالا کے مطابق فیصلہ ان پر چھوڑ نے کے لئے تیار ہوں اور احرار کی منظوری کے بعد مقررہ روپیہ فوراً جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کے پاس جمع کرا دیا جائے گا.برادران! اگر احرار کو مباہلہ کرنا مطلوب ہے نہ کہ کا نفرنس تو قادیان پر نہیں کیوں اصرار
انوار العلوم جلد ۱۳ 492 ہے.کیا شریعت کی رو سے قادیان کے باہر مباہلہ ہو نہیں سکتا یا کیا نعوذ باللہ من ذالک اللہ تعالیٰ کی قادیان میں حکومت سے اور باہر اس کی حکومت نہیں ہے.ہمارے لئے تو ایک وجہ موجود ہے کہ حکومت نے احرار کو قادیان میں کا نفرنس سے روکا ہوا ہے مگر وہ مباہلہ کے بہانہ سے اپنا اجتماع کر کے حکومت کے حکم کو رد کرنا چاہتے ہیں.دوسرے قادیان مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اور ان سے اتر کر ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ایک جوش کے موقعہ پر وہاں لوگ جمع ہوں اور فساد کی کوئی صورت پیدا ہو مگر احرار کو قادیان میں مباہلہ کر نیکی کوئی وجہ نہیں.اور اگر یہاں مباہلہ کر نیکی کوئی غرض ہو بھی تو مباہلہ والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو جمع کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور ان کا اصرار کرنا کہ یا تو ہم مباہلہ قادیان میں کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ایک ایسی بات ہے جس کی نسبت ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ وہ بالکل غیر ضروری اور ۳۴۷ نا معقول ہے.اب میں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کے اس جواب کو لیتا ہوں جو انہوں نے حکومت کو بھجوایا اور اخبارات میں شائع کرایا ہے.آپ اس میں لکھتے ہیں.”آپ کی چٹھی نمبر ایس.ایس.بی مورخہ ۲.جولائی ۱۹۳۵ء کو ( متن میں ) گورنمنٹ کا جو فیصلہ درج کیا گیا تھا اس کے مطابق مجوزہ سالانہ تبلیغ کا نفرنس ترک کر دی گئی تھی.مرزا محمود احمد نے اس پر مجلس احرار کو چیلنج دینا شروع کر دیا کہ وہ مباہلہ کے لئے رضا مند ہے.اور انہوں نے مجلس کے لیڈروں کو اپنے معتقدوں کے ہمراہ قادیان آنے اور ان کا مہمان بننے کے لئے اخبار الفضل مطبوعہ ۶.اکتوبر ۱۹۳۵ ء میں دعوت دی تھی.اس لئے مجلس کو مجبوراً یہ چیلنج قبول کرنا پڑا.“ ( نبدے ماترم ۲۰ نومبر ۱۹۳۵ء) اس چٹھی سے مسٹر مظہر علی صاحب نے چیف سیکرٹری صاحب گورنمنٹ پنجاب پر اور اس کو شائع کر کے عوام الناس پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ (1) احرار نے چونکہ قادیان میں کانفرنس ملتوی کر دی تھی، اس وجہ سے امام جماعت احمدیہ نے انہیں چیلنج دینا شروع کر دیا.یعنی ان کی اس مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں لوگوں میں ذلیل کرنا چاہا.(۲) احرار قادیان آنے کا ارادہ ترک کر چکے تھے مگر چونکہ امام جماعت احمدیہ نے انہیں قادیان آنے کا چیلنج دیا، وہ اس چیلنج کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے.اللہ تعالیٰ احرار پر رحم کرے
انوار العلوم جلد ۱۳ 493 کہ وہ اسلام کو اس طرح بدنام نہ کریں کیونکہ یہ دونوں باتیں صریح جھوٹ ہیں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ چونکہ احرار کو قادیان میں کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا تھا، اس لئے میں نے احرار کو مباہلہ کا چیلنج دینا شروع کر دیا.میرا مباہلہ کا چینج لاہور یا گورداسپور کے لئے تھا.اگر میں نے اس ممانعت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے چیلنج دیا ہوتا تو میں قادیان آنے کا چیلنج دیتا نہ کہ لاہور یا گورداسپور کا.دوسری بات بھی یعنی یہ کہ احرار نے قادیان آنے کا ارداہ ترک کر دیا تھا مگر جب میں نے ان کو چیلنج دیا کہ وہ قادیان آ کر مباہلہ کریں تو مجبوراً انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ویسی ہی جھوٹ ہے جیسی کہ پہلی بات.انہوں نے ہرگز میرے چیلنج پر مجبور ہو کر قادیان آنے کا ارادہ نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں قادیان میں مباہلہ کروں.چنانچه ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء کے مجاہد میں مظہر علی صاحب اظہر کی جو تقریر شائع ہوئی ہے اس کا عنوان یہ ہے." " مرزا محمود کی دعوت مباہلہ کا کیفیت موت طاری کر دینے والا جواب مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے.مرد ہو تو بال بچوں سمیت میدان میں نکل آؤ.“ پھر اصل اعلان میں یہ فقرہ درج ہے.ہم مرزا محمود کو کوئی موقع نہیں دینگے کہ وہ مباہلہ سے پہلو تہی کر سکے ہاں یہ ضرور ہو گا کہ مباہلہ قادیان میں ہو.(مجاہد ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ ء ) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ میرے مجبور کرنے پر انہوں نے قادیان آنا منظور نہیں کیا.بلکہ خودانہوں نے اپنی طرف سے یہ شرط لگائی کہ وہ صرف قادیان میں مباہلہ کر سکتے ہیں باہر نہیں.اس کے بعد احرار کا حکومت کو یہ لکھنا کہ ہم تو قادیان نہ جاتے تھے مرزا محمود نے ہمیں مجبور کر کے قادیان بلایا ہے، کیا کسی عقلمند انسان کے نزدیک بھی درست ہو سکتا ہے؟ اور کیا یہ فعل دیانت داری کا فعل سمجھا جا سکتا ہے؟ میں مذکورہ بالا دونوں امور کے لئے بھی سوسور و پیہ مزیدا نعام مقرر کرتا ہوں کہ (۱) اگر میرے اعلانات سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ میں نے مباہلہ کا چیلنج اس لئے دیا تھا کہ احرار کو قادیان آنے کی ممانعت تھی یا (۲) یہ ثابت ہو جائے کہ احرار تو قادیان آنے کو تیار نہ تھے مگر میں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ضرور قادیان آ کر ہی مباہلہ کریں تو سوسو روپیہ مزید انعام ان دونوں باتوں کے ثابت ہونے پر مجلس احرار کو جماعت احمدیہ کی طرف سے دیا جائے گا.اور اس انعام کے تصفیہ کے
494 انوار العلوم جلد ۱۳ لئے بھی میں مذکورہ بالا شرائط اور مذکورہ بالا ثالثوں میں سے کسی ایک کو پیش کرتا ہوں.کیا میں امید کروں کہ مجلس احراران امور کے لئے مذکورہ بالا شرائط کے ماتحت مذکورہ بالا لوگوں میں سے کسی ایک سے فیصلہ کرانے کو تیار ہو گی ؟ یہ لوگ سب کے سب غیر احمدی ہیں اور احرار کے ہم مذہب ہیں اور مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر ہیں.اور ان میں سے کسی ایک کی نسبت بھی یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ احرار کے مقابل پر میری رعایت کریں گے.بلکہ ہر انصاف پسند تسلیم کرے گا کہ میں نے گویا خود احرار کے اپنے ہم مذہبوں کے سپردان امور کا فیصلہ کر دیا ہے.مگر اس فیصلہ کے لئے یہ شرط ہو گی کہ تحریری صورت میں بادلائل دیا جائے اور دونوں فریق کے دلائل کو نقل کر کے وجوہ فیصلہ لکھی جائیں اور دونوں فریق کو ایک ایک نقل اس کی فوراً دے دی جائے تا کہ بعد میں اس فیصلہ کو شائع کیا جا سکے.برادران ! میں اس بارہ میں جو کچھ کر سکتا تھا وہ میں نے کر دیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے خوف کو دل میں رکھ کر انصاف سے کام لیں گے اور احرار کی اس دھوکہ دہی کا ازالہ کریں گے کہ وہ لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے گریز کرتے ہیں جو بالکل جھوٹ اور غلط ہے.ہم اب بھی مباہلہ کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے دونوں فریق کے نمائندے آپس میں تحریری طور پر شرائط طے کر لیں.اور مجلس مباہلہ کے لئے ایک مسلمه فریقین صدر مقرر ہو جاوے جو اس امر کا ذمہ وار ہو کر مسلمہ فریقین شرائط کی پابندی کی جائے گی اور مباہلہ لاہور یا کسی ایسے مقام پر جوطرفین کے لئے پر امن اور مناسب ہو وقوع میں آ جائے.لیکن اگر اب بھی احرار کو قادیان میں مباہلہ ہونے پر اصرار ہو تو پھر اس صورت میں انہیں چاہیئے کہ میری شائع کردہ شرائط کے ماتحت سمجھوتہ کر لیں.اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مل کر حوحکومت کو لکھ دیں گے کہ مباہلہ قادیان میں دونوں فریق کی ذمہ واری پر ہوگا.اور کسی قسم کی بدنظمی کا خطرہ نہ ہوگا.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو آؤ یوں کر لیں کہ فریقین مباہلہ کے الفاظ کی تعیین کرلیں اور دونوں فریق اپنے اپنے الفاظ پر دستخط کر کے ایک دوسرے کو دے دی تا کہ رسالہ کی صورت میں اسے شائع کر دیا جائے.آخر مباہلہ کی دعا خواہ تحریر میں آئے یا زبانی کی جائے ایک سا اثر رکھتی ہے.اور خدا تعالیٰ جس طرح منہ کی باتیں سنتا ہے قلم کی تحریر سے بھی آگاہ ہوتا ہے.لیکن اگر ان سب باتوں کے باوجود احرار مباہلہ پر تیار نہ ہوں لیکن غلط بیانی سے
انوار العلوم جلد ۱۳ 495 کام لیتے چلے جاویں تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں غلط بیانیوں کا نکھار ہوکر رہے گا.ان کی غلط بیانیاں چند دن تک انہیں نفع دے سکتی مگر ہمیشہ کے لئے نہیں.بعض لوگ جوش کی حالت میں اگر ان کے فریب میں آبھی جائیں تو بے شک آجائیں مگر صا دقت آخر غالب آ کر رہے گی.اور جلد یا بدیر دنیا پر کھل جائے گا کہ یہ سب کا روائی احرار نے شہید گنج کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کی تھی.ایک زندہ اور خبر دار خدا کے ہاتھ میں ہماری قسمتیں ہیں وہ جھوٹ کو کبھی سرسبز نہیں ہونے دے گا.وہ اس دھو کہ کو قائم نہیں رہنے دے گا.اس مالک یوم الدین خدا کے پاس ہماری اپیل ہے کہ وہ احرار کے اس افزاء کی قلعی کھول دے.اور مسلمانوں کو سمجھ دے کہ ان کے اس فریب میں نہ آئیں اور بے گناہوں کو بے وجہ ہدف ملامت نہ بنا ئیں کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں.فتح یہ نہیں کہ انسان جھوٹ سے لوگوں کو اشتعال دلاوے.فتح یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے سچائی پر قائم رہے.مکہ کے کافر بھی لوگوں کو رسول کریم اللہ کے خلاف جھوٹ بول کر بھڑکا دیا کرتے تھے.پھر اگر آپ کے ادنیٰ خادموں اور جاں نثاروں کے خلاف احرار جھوٹ بول کر اشتعال دلانے کی کوشش کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.لیکن نہ آقا کے مقابلہ میں یہ دھوکہ دیر تک قائم رہا اور نہ اب خدا کے مقابلہ میں دیر تک قائم رہے گا.میں نے سچائی سے اور انصاف سے فیصلہ کرنا چاہا مگر ان لوگوں نے حیلوں اور حجتوں سے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا.میرا خدا مجھے اسی طرح نہیں چھوڑے گا.وہ ان کے موجودہ اور آئندہ سب فریبوں سے مجھے محفوظ رکھے گا.اور اس کا ہاتھ رکے گا نہیں جب تک کہ وہ سچ کو سچ ثابت نہ کر دے کہ اس کی شان کے یہی مطابق ہے اور اس کی صفات حسنہ اسی کی متقاضی ہیں.وآخر دعوانا ان الْحَمدِ لله ربّ العلمين والسلام خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان ۲۱.نومبر ۱۹۳۵ء
7 ۱۵ ۱۹ ۲۱ ۳۱ ۳۵ انڈیکس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات
ابتلاء ابتلاء کیلئے آئندہ لوگ ترسیں گے احمدی احمدیوں کو خدا تعالیٰ اعتراضات کے جوابات آپ سمجھا دیتا ہے ایک احمدی کا لطیف جواب احمدی علمی اور روحانی تقریریں ۹۲ کلید مضامین احراری احراریوں کا ایک احمدی اسلام وہی ہے جو حضرت مسیح موعود نے پیش فرمایا محمد اسماعیل صدیقی پر حملہ اسلامی تعلیم ادب ادب اور بنی نوع انسان کی ۶۰۳ اسلامی تعلیم کی جامعیت اشتہارات محبت نہایت وسیع مضامین ہیں ۱۴۹ اشتہارات کے فوائد استقلال اصلاح استقلال جذبات کی شدت تقریروں سے اصلاح نہیں سے پیدا ہوتا ہے اسلام سننے کے عادی ہوتے ہیں احمدیوں کی وسعت قلبی ۲۸۱ اسلام اور تدریجی ترقی Δ تمام احمد یوں کو کوشش کرنی اسلام اور علمی تحقیقات چاہئے کہ انکی اولاد میں ۴۶۵ ہوتی بلکہ کام کرنے سے ۱۰۴ اصلاح ہوتی ہے اعتراض ۱۰۵ اعتراضوں کے جواب ۴۹۵ ۴۲۵،۴۲۴ ۳۳۸ ۳۴۵ ۶۰،۵۹ ۴۲۱۴۰۶ ایک اعتراض کا جواب اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت ۳۳۲ اسلام ایک زندہ مذہب ہے ۴۹۵ تا ۴۹۷ اسلام کسی امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا روحانیت پائی جائے احمدیوں پر مظالم احمد یوں پر ہتک رسول کا الزام احمدیت ۵۱۶ اسلام اس لئے آیا ہے کہ ۱۱۷ ۱۳۲ ۱۴۸ اللہ تعالیٰ اللہ کے معنی ہیں ہر ایک خوبی سے متصف اور ہر ایک عیب سے مبرا 117 بنی نوع انسان میں محبت اور ۴۸۸ احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں ۳۵۱ اخوت کے تعلقات قائم کرے اسلام کے بعد کسی اور مذہب احمدیت کا عیسائیت پر رعب احمدیت کے غلبہ کی پیشگوئی ۳۷۲ اسلام - کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق بھی عقلی دلائل ہر انسان کی فطرت میں ہیں ۳۵۵ ۴۲۷ ہمارے پاس زندہ خدا ہے ۳۲ ،۲۴۳
۵۹۵ ۳۰۸ ۳۳۳ ۴۸۰ ۳۹۱ ۱۶ ۲۴۳ ۳۶۴ ۴۹۷ ۳۵۳ ۳۲۸ صفات الہیہ امانت فنڈ انکسار دنیا میں صفات الہی کی جلوہ گری ۳۵۲ اپنی آمدنی میں سے چندے دو اور خدا عجز وانکسار سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں انگریز ایک حصہ امانت فنڈ میں جمع کراؤ ۵۳۳ امراض انگریز قوم ضرورت کے ماتحت 1 علم سیکھتی ہے ۱۶۷ امن انگریز قوم کا روباری بھی ہے ۴۳۱،۴۳۰ وہ ہمیشہ انصاف اور سچ کی امداد شدیدا مراض اور ان کا علاج فرماتا ہے جس طرف دیکھو اللہ تعالی کی ہر مسلمان کا فرض ہے کہ امن انگریز افسروں نے ہم سے ربوبیت کام کر رہی ہے ۲۸۳ قائم رکھے وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے امہات المؤمنین اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ۴۵۵ امہات المؤمنین پاکباز ۷۲ | ہمدردی کا برتاؤ کیا ہے اہل اللہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے وہ زور آور حملوں سے اپنے پاک شعار تقویٰ کی راہوں پر ہیں اُن کے دل نرم ہو جاتے ہیں مسکین اور بے کس ماموروں کی چلنے والی تھیں مدد کرتا ہے الحكيم ۵۹۱ انبیاء ۳۵۲ انبیاء کو ہمیشہ گالیاں دی جاتی رہیں ۵۱۸ ۹۲ (الرحمن) رحمانیت کی لطیف انبیاء ہر قسم کے گناہ سے پاک ہیں ۴۳۲ ایمان ایمان لانے والوں کی دوا قسام ایمان کی ایک ساعت کفر کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے ۲۸۳ انبیاء دنیا میں پاک اور مقدس ایمان کے کئی مدارج ہیں تشریح الْعَزِيزِ ۳۵۳،۳۵۲ جماعت بنانے کیلئے آتے ہیں ۵۱۹ ایمان کو کوئی بھی مٹا نہیں سکتا القدوس ۳۵۳،۳۵۲ | انصار الله المَلِك ۳۵۳،۳۵۲ انصار اللہ کی بنیاد میری کئی الہام خوابوں پر ہے ۸۵ بادشاہت خدا تعالیٰ نے ہر دماغ میں انصار اللہ کے کام کی تعریف ۸۶ بادشاہت کی تعریف الہام پانے کی قابلیت رکھی ہے ۲۹۱ انعامات بر میں الہام کیلئے امیداور توکل ہی اگلے جہان کے انعاموں کے برکتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دروازہ ہے ۲۹۱ مقابلہ میں دنیوی انعامات کی الہام اور وحی آسمان سے اترتی ہے ۵۲۰ کوئی ہستی نہیں ۵۸۱ سے حاصل ہوتی ہیں
۵۲۰ ۵۲۱ ۵۲۱ ۵۲۲ ۵۲۵ ۳۴۵ ۹۱ ۳۳۴ ۷۴ ۷۳ اللہ تعالیٰ کی برکتیں صبر اور جماعت کیلئے ابتلاء کے زمانہ کی تقدس دو طرح سے آتا ہے بُردباری سے حاصل ہوتی ہیں ۳۴۱ پیشگوئی بزدل ۵۲۸ شیطان کو تقدس کی خوشبو سے دنیا کبھی بُزدل کے قبضہ میں نہیں آ سکتی بکرا ۹۶ دشمنی ہے خدا تعالیٰ کے تقدس کی خوشبو میرا یہ تجربہ ہے کہ جب خدا کسی ہم میں پیدا ہو چکی ہے سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ کام گرنے والے وہی ہوتے ہیں بکرے میں شتر کا مادہ بالکل ہو کر رہتا ہے نہیں ہوتا ۲۲۶ تحقیق ۱۵۳ جن کے اندر تقدس نہیں ہوتا بہائی بہائی عام طور پر لوگوں کو کتب نہیں دیتے بہشتی مقبرہ ۵۸۶ تقدس کانٹوں پر کوٹنے اور تحقیق حق کا طریق ۳۹۰۳۸۹ تلواروں کے نیچے گردن رکھنے تذلل وہی خدا تعالیٰ کے انعامات کا سے ملتا ہے تقریر وارث بنتا ہے جو اُس کی راہ حضرت عثمان تقریر کرنے بہشتی مقبرہ میں موصی دفن کئے میں تذلیل اختیار کرتا ہے جاتے ہیں بیکار ۵۵۰ | تربیت تربیت کی دو اقسام بریکاروں کو اخبارات فروخت تعلق باللہ ۳۳۴ ۳۴۵ کے عادی نہ تھے تکالیف خدا تعالیٰ کیلئے جو تکالیف انسان برداشت کرتا ہے وہ بادشاہوں کرنے کے کام پر لگا دیں ۵۳۷ انسان کا اصلی تعلق خدا ہی سے کے تخت سے بھی زیادہ اعزاز کا بیمار بیمار کا دل نرم ہوتا ہے پیدائش ۳۳۸ ہونا چاہئے تعلیم سچی تعلیم انسان کے اندر وقار پیدا کرتی ہے پیدائش انسانی کی غرض ۳۸۷ | تقدس ۱۴۲ ۳۰۹ موجب ہوتی ہیں یاد رکھیں خدا تعالیٰ کی راہ میں تکبر نہیں چلتا تناسخ قرآن تناسخ کارڈ کرتا ہے ۵۲۰ پیشگوئی ہمیشہ رہنے والا تقدس اندر کا پیشگوئی کے معنی ۴۲۱ ہوتا ہے
توکل پڑھے لکھے لوگوں پر جلسے کے جماعت احمد یہ اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ ماحول کا اثر ہوتا ہے کے تو کل پر ہونی چاہئے ۱۴۷ تا ۱۵۷ جلسوں کے ذریعہ جماعت کو پر تیر آسمان سے تیر آئیں گے اور ہمارے دشمنوں کے سینوں کو چھیدیں گے ٹکراؤ ۵۱۱ ملکر کام کرنے کی عادت اور ۳۳۷ حکومت پنجاب ۴۷۹ تا ۴۸ جماعت احمد یہ بڑھتی جا رہی ہے ۳۸۸ جماعت احمدیہ کو حالات حاضرہ اہلیت پیدا ہوتی ہے ۳۳۷، ۳۳۸ کے متعلق اہم ہدایات جلسوں میں بعض اوقات صبر کا مقام مصطفیٰ کی بلندی کیلئے مظاہرہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۵۰۱تا۵۳۹ ۳۳۸ جماعت احمدیہ کی کوششیں ۵۱۶، ۵۷ جلسوں کے ذریعہ مخالفت جماعت احمد یہ اپنی جانیں دیکر اور برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے ۳۳۸ اپنے مال قربان کر کے رسول کریم ہماری غرض کبھی بھی حکومت جماعت کی عزت بیچارہی ہے ۴۸۱ جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی جماعت احمدیہ میں تین قسم کے جماعت میں داخل ہوتا ہے تو لوگ ہیں سے ٹکراؤ نہیں ثواب اُس کی عقل تیز ہو جاتی ہے ثواب اور اجر اُسی چیز کا ہے جماعت احمدیہ ۵۱۷ ۵۲۹ جماعت احمد یہ مذہبی جماعت ہے ۵۶۲ جماعت احمد بیا کناف عالم جسے طبیعت پر بوجھ ڈال کر کیا جائے خدا تعالیٰ کیلئے انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ اس کیلئے ثواب کا موجب ہوتا ہے で ۵۷۹ تا ۵۸۲ تک پھیل کر رہے گی جماعت احمدیہ کو روحانی علوم ے جماعت احمدیہ کے متعلق پنجاب ۳۸۹ کے متعلق مشاہدہ حاصل ہے جماعت کو نصیحت جماعت احمدیہ کی اسلامی ۵۰۳ خدمات ۲۸۱ کے بعض افسروں کا رویہ ۶۰۳ تا ۶۰۵ جنگ ۳۶۶،۳۶۵ | جنگ بدر کا ایک معجزہ جماعت احمد یہ ہر ملک میں جنگ عظیم قائم ہے ۴۱۴ جنگ عظیم میں ہم نے تین ہزار جلسے تبلیغ کیلئے نہایت ضروری ہیں ۳۳۷ جماعت احمدیہ میں ہزاروں افراد افرا د حکومت کو پیش کئے جلسوں سے ان پڑھ بھی فائدہ ہیں جن سے اللہ کلام کرتا ہے اُٹھا سکتے ہیں ۴۳۹ جہاد ۲۲۸ ،۲۲۷ ۵۱۳ ۳۳۷ احمدیہ جماعت احمد یہ میں الہام کا اجراء ۴۱) جہاد کو قر آن فرض قرار دیتا ہے قرآن ۴۳۴
لا ٣٠٢ ۴۳۰ ۴۳۰ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے ۴۶۹ جو خدا کے دین کی خدمت کرتا دعا کے ماتحت ہی نیک نتائج جہاد کی دو قسمیں ۴۷۰ ہے اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی جزاء نکلتے ہیں جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جاسکتا ۴۷۰ بہت بڑی ہے ۳۸۳ | دعاؤں کی برکات دعا سے سب مصیبتیں دور ہو سکتی جہا دامام کے پیچھے ہوتا ہے ۴۷۱ خطاب جھنڈا احمدی کہلانے سے بڑا خطاب ہیں ۵۱۲ دعا کے بارہ میں ایک بزرگ کا خود پسندی واقعہ جھنڈا علامت ہوتی ہے اس اور کیا ہوسکتا ہے بات کی کہ ہم اللہ کے دین کو اونچارھیں گے ایک صحابی کا جنگ میں جھنڈا تھامنے کا واقعہ جھوٹ ۹۰ خود اشتہارات شائع کرنے دعوت الی اللہ 90 میں بعض اوقات خود پسندی آ ۳۹۰ جاتی ہے خوردبین ۳۴۰ غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات دعوت الی اللہ کے ذرائع ۱۲۷ تا ۱۳۴ ۳۳۷ ۳۴۰ ۳۴۰ ۳۴۱ ۳۴۱ ۳۶۶ ۳۵۹ جھوٹ کبھی غالب نہیں آ سکتا حقوق اللہ جو شخص خدا تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا وہ کسی جگہ ٹھوکر میں جاپڑتا ہے حکومت ۳۳۴ دعوت الی اللہ ہر طبقہ کے لوگوں میں ہو خورد بین سے معلوم ہوا کہ بہت سی بیماریاں باریک ہر مذہب وملت کے لوگوں میں کیڑوں سے پیدا ہوتی ہیں دعوت الی اللہ کی جائے 11.دعوت الی اللہ میں نیک نمونہ نہایت ضروری ہے دعوت الی اللہ میں صبر اور خیالات خیالات کی درستی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہوتی حکومت لاکھوں انسانوں کے ہمارا حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں مجموعہ کا نام ہے خ ختم نبوت ختم نبوت کی تشریح خدمت ۵۱۱ ۵۱۴ دعا , ۴۶۵ کر دباری سے کام لینا چاہئے حضرت مرزا صاحب نے ایسے لوگو پیدا کئے جو تکلیف دہ حالات میں دعوت الی اللہ کرتے ہیں دعویٰ ۵۵۴ دعا اُسی وقت قبول ہوتی ہے جب دعا کرنے والا حق پر ہوتا ہے ۵۹ سلسلہ احمدیہ کا دعوی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دل ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جن قرآن مجید دل کو انوار الہیہ عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے ۳۱۰ سے کام ہو جاتا ہے ۶۰ کا مہبط قرار دیتا ہے ۸۸
۴۹۷ ۵۳۲ ۵۳۳ دلائل قادیان آنے والے مسافروں سادہ زندگی قرآن کریم نے سادہ دلائل کی کو دورانِ قیام روزہ رکھنے طرف توجہ دلائی ہے دلیل دلیل تلوار سے زیادہ زبردست ہے ۱۳۲ کی اجازت ۱۶۷ ز زلزلہ زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سادہ زندگی بسر کرو ۳۲۳۳۲۲ سادہ زندگی کے مطالبہ کا مقصد سادہ کھانا کھاؤ ، سادہ کیڑ.پہنو اور کفایت شعاری سے گزارہ کرو دوزخ سچائی کا نشان ہے ۵۹۱ تا ۶۰۰ سچائی سچائی ہمیشہ اپنے لئے آپ زلزلہ کوئٹہ میں ساٹھ ہزار آدمی دوزخ جنت کی حقیقت ۴۳۵ تا ۴۳۷ دین مر گئے چاہئے کہ ہم دین میں ایسے مگن عالمگیر زلزلوں کی خبر ہوں کہ کوئی چیز ہمیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے دینی کورس زمیندار ۲۸۱ زمینداروں کے مسائل حل کرنے کی تلقین لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے دینی اجناس کی ارزانی کی وجہ سے کورس کی تجویز دینی مجالس دینی مجالس کی اہمیت دینی مجالس میں بیٹھنا بھی نیکی ہے ۵۹۳ ۵۹۴ ٣٣٣ رستے نکال لیتی ہے سکھ ایک سکھ کی حضرت مسیح موعود سے فدائیت سکھ قوم ایک موحد قوم ہے سوشل معاملات ۵۳۶ زمینداروں کی حالت گر گئی ہے رسول کریم اور صحابہ کے طریق ۴ ۳۳۳ ۳۹۰ ۳۰۰،۲۹۹ ۴۵۳ میں سوشل معاملات کے لحاظ زمیندار طبقہ شاندار قربانیاں کرتا رہا ہے زندگی ذلت کی زندگی سے عزت کی رضائے الہی موت اچھی ہے س ہم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے سادگی کام کرتے ہیں روزه ۵۳۶ سے کوئی فرق نہیں تھا ۱۶۲ ش اقوام عالم کی شرک سے بیزاری بعثت حضور کے وقت ساری قومیں شرک میں مبتلا تھیں ۱۵۱ ۱۲ ۱۳ اقرار کرو کہ ہم کھانے پینے میں شرک کے رد میں چار دلائل ۶۶،۶۵ ۴۹۹ شرک کی تعریف سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے ۳۲۳۳۲۲ سادگی اختیار کریں گے اختیار ۱۲۴ ۱۲۳
۹۳ ۵۹۷ ۳۱۰ ۴۵۴ ۸۹ ۹۴ ع عاشق حضرت عمرؓ کے ایک چچا شرک صحابہ نے حضور کے حکم پر شراب ۵۳۱۴۲۷ ،۴۲۶ کے خلاف تعلیم دیا کرتے تھے ۳۵۵ فورا چھوڑ دی شہرت پسندی شہرت پسندی ایسا مرض ہے کہ صحابہ حضور کے بعد مختلف طلبگار ہوتا ہے جس کو لگ جائے اُسے کھن کی ممالک میں پھیل گئے صحابہ خدا سے الہام پاتے تھے ۴۳۷ عاشق صادق ، سوز اور عشق کا طرح کھا جاتا ہے شورش ۴۳۷ عذاب ۳۴۰ صحابہ کی ایران کے بادشاہ عالمگیر عذاب بغیر مامور کی سے گفتگو مقابلہ اور شورش مومن کیلئے صحابہ اجرائے نبوت کے خوشی کا باعث ہے شیطان قائل تھے صداقت ۴۳۸ ۵۵۵ بعثت کے نہیں آتے عزت حقیقی عزت تقویٰ اور طہارت سے پیدا ہوتی ہے جب کوئی آدم بننے کی کوشش صداقت معلوم کرنے کا طریق ۱۳۷ تا ۱۴۳ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو صداقتِ مسیح موعود کی ایک کرتا ہے شیطان اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۵۲۱ دلیل شیطان حملہ کرتا ہے تو مومن جنت کی طرف دوڑتا ہے ۵۲۵ شیطان کے مقابلہ کا طریق ۵۲۶ ص عزت دیتا ہے ۲۰۲ تا ۴۰۶ عشق اگر دل میں عشق ہو تو تمام b تکلیفیں راحت بن جاتی ہیں طاعون عشق وہ چیز ہے جو دل میں پیدا طاعون کی پیشگوئی ۴۲۱ ہوتی ہے جب عشق پیدا ہوتا ہے تو انسان سب کچھ بھول جاتا ہے طبعی قانون صبر سے کام لینا چاہئے ۳۴۱ طبیعی قانون پر خدائے واحد کی عشق غیر محدود ہے صحابة صحابہ کے زندہ خدا کو دیکھنے کے طلاق ثبوت صحابہ کی نجاشی کے دربار میں حاضری ۵۴ عشق حُسن سے پیدا ہوتا ہے یا ۴۲۵ احسان سے عشق کی آگ ہمارے دلوں ۹۸ ۹۹ ۴۷۳ میں حضرت مرزا صاحب نے قرآن نے طلاق کیلئے شرائط ۳۵۶ یورپ میں طلاق کی کثرت ۳۵۸ مقرر کی ہیں ۴۲۵ پیدا کی
عورتوں کا ایک ضروری کام روحانی جماعتوں کو خدا تعالیٰ کی خدا تعالیٰ نے کسی علم کو مشکل بچوں کی پرورش کرنا ہے ۳۴۴ طرف سے فتح حاصل ہوتی ہے ۵۱۹ و ایک صحابیہ کی حضور سے بے نظیر ۳۹۵ فتنے فتنوں کی حکمت کمزوروں کو عورتوں کا فرض ہے کہ سلسلہ الگ کرنا ہے نہیں بنایا علم کی دوا قسام ۳۰۸ محبت علمِ طبّ علم طب میں ترقی 11+1+9 علماء کیلئے قربانیوں کیلئے تیار رہیں ۴۹۷ ۵۲۲ ۱۲ ۹ ۱۰ ا.۱۲ ۱۵ عیسائیت فرقان فرقان کے معانی ق ۳۶۴ قابلیت عقائد کی جنگ میں دوسرے بعض عیسائی تبلیغ کرنے والی عورتوں کو مردم خور لوگوں نے علماء حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں شکست کھا گئے یہ عمر چند روزہ ہے عمل عمل اگر درست نہ ہو تو انسان کامیاب نہیں ہوسکتا عورت عورت کا کام نوکری کرنا نہیں ۴۶۹ کھالیا ۴۷۴ ۴۶۵ ۲۰۰ عیسائیت اورا سلام کی تعلیم کا اللہ تعالیٰ نے ہر طبقہ کے لوگوں موازنه غ ۳۷۳،۳۷۲ میں علوم سمجھنے کی قابلیت رکھی ہے قرآن کریم قرآن کے معارف کبھی ختم نہ ایک غریب کے اخلاص کا واقعہ ۵۳۴ ہونگے سوائے قرآن کے کوئی کتاب قابل عمل نہیں قرآن کریم کے چھ دعوے قرآن میں عملی ترقی کے سامان ہیں الفرقان قرآن کریم ہی ہے قرآن نے ہر اعتراض کا جواب دے دیا ہے ۱۱۶ ۴۷۱ ۴۷۱ عورتوں کی ذمہ داریاں آجکل عورتوں میں ڈگریاں ۲۰۰ فاتحہ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے پانے کا جنون پیدا ہورہا ہے فتح عورتوں کا کام گھر کا انتظام اور فتح منتظم فوج کو ہوتی ہے بچوں کی پرورش ۳۰۹ احمدیوں کو خدا نے ہر میدان فتح ایک عورت کی انگوٹھی کا واقعہ ۳۴۰ میں شیخ دی ہے
۴۶۵ ۵۳۱ قرآن کریم کی پہلی اصولی ہر مضمون اس چھوٹی سی کتاب اصلاح میں ہے ۴۰۹ قرآن کریم کی دوسری اصولی کامیابی کامیابی کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے دشمن بھی قرآن کی خوبی کا ا.اعتقادات کی درستی اصلاح ۵۷ قرآن کریم کی تیسری اصولی اعتراف کرتے ہیں ۴۰۹ ۲ عمل کی درستی اصلاح ۶۵ قرآن کریم آخری کتاب ہے ۴۲۸ ۳- محرک قرآن کریم کی چھوتھی اصولی قربانی ہر مومن اپنی جان اور اپنا تمام اصلاح ۶۸ اصل کام ہر احمدی مرد اور مال دے تب کامیابی ہوگی جاؤ اور دُنیا میں پھیل جاؤ کہ ۴۹۷ کامیابی کا ذریعہ یہی ہے قرآن کریم کی پانچویں اصولی عورت کا قربانی ہے اصلاح قرآن کریم کی چھٹی اصولی اصلاح قرآن کریم کی ساتویں اصولی اصلاح قرآن کریم کی آٹھویں اصولی اصلاح اے قوم ۷۲ ۷۵ کوئی قوم بغیر مذہب اور اخلاق کبر ایک ایسی چیز ہے خواہ کتنا کے ترقی نہیں کر سکتی کارکن ۷ کارکنوں کو چار چار ماہ تک ۴۶۱ سر گچلو وہ سر اُٹھاتا ہے ۵۳۸ ۳۳۹ کتب اور اخبارات کے فوائد ۳۳۹،۳۳۸ کمال قرآن کریم پر سیتا رتھ پرکاش تنخواہیں نہیں ملتیں ۳۳۵ جسے حقیقی کمال ہو وہ کسی سے ڈر کے اعتراض کی حقیقت ۱۱۵ تا ۱۲۴ قرآن کی ایک آیت سُن کر تبدیلی قرآن خدا کا کلام ہے ۳۴۶ ۳۶۳ قرآن سارے کا سارا محفوظ ہے ۳۶۷ کافر کا فرقربانی میں نفع اور فائدہ کا امیدوار ہوتا ہے کامل انسان قرآن سب علوم کا جامع ہے ۳۷۳ کامل انسان وہی ہوگا جو زیادہ قرآن پڑھنے کے بعد اور کسی سے زیادہ صفات الہیہ اپنے ۳۷۴ وجود میں ظاہر کرے گا کتاب کی ضرورت نہیں رہتی ۳۷۴ ۵۲۷ نہیں سکتا گالیاں گ خدا کیلئے گالیاں کھانا عزت ہے ۲۸۲ | تمہارا اصل گھر قادیان ہے ۳۶۹ ۹۲ ۵۳۸
جہاں لجنہ نہ ہو لجنہ قائم کی جائے لڑکیاں محبت الہی مستعد جتنی محبت والدین کو اولاد سے ہے تم میں سے وہی خدا تعالیٰ کی ۳۸۸ بادشاہت میں داخل ہوگا جو ۵۰۰ اس سے زیادہ اللہ کو بندہ سے ہے ہمارا محرک محبت الہی ہے عام طور پر لڑکیوں کی تعلیم زیادہ محنت ۴۷۴ مستعد رہے گا مسجد ۵۳۵ ۳۸۲،۳۸۱ ۳۸۲ ۲۱۴ ٣٣ ۳۶۴ ۵۳۳ سے زیادہ مڈل تک ہونی چاہئے ۳۴۵ محنت کی عادت ڈالو ۴۹۷ مسجد خدا کا گھر ہے اس کا دروازہ مخالفت سرحد میں ہماری مخالفت کا مائیں زور شور ہے ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت جہاں جہاں احمدی ہیں وہاں ہے منظم مخالفت کی جارہی ہے ہندوستان کے مسلمانوں کے ۳۱۱ ۳۲۵ ۵۰۸ ہر مذہب کے عبادت گزار کیلئے گھلا رہنا چاہئے مسجد بن جانے کے بعد باجماعت نماز میں ہرگز سُستی نہیں ہونی چاہئے مسلمان مائیں نالائق ہیں ۳۰۹ پایا جاتا ہے مبلغ ہر جگہ ہمارے خلاف بڑا جوش بچے اس لئے خراب ہیں کہ مسلمانوں کی خراب حالت ۵۱۹ | مسلمانوں کی قرآن سے سارے ہندوستان میں ہمارے بے توجہی خلاف آگ لگی ہوئی ہے جب بھی کوئی مبلغ آتا ہے میں ۵۱۹ مشاہدہ مدد مشاہدہ ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہمیشہ اُس کی دعوت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اُسی وقت مدد کرتا ہے ہے کہ کسی قسم کا شک نہیں رہتا مبلغین کے اعزاز میں پارٹی جب بندہ حقیقی طور پر اُس کی مشق دینے کی تلقین ܙ مدد کا محتاج ہو ۳۲۵ جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے نئے مبلغ نکل رہے ہیں اور مذہب اچھےاچھے نکل رہے ہیں ۳۳۲ تمام مذاہب خدا کی طرف سے ہیں امریکہ کے ایک مبلغ کی مالی تنگی ۳۶۶،۳۶۵ مذاہب کا اصل مقصد مبلغین کی قربانیوں کا ذکر ۳۶۶،۳۶۵ مذہب عش عشق کا نام ہے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی مشکلات ۲۸۲ میں نے مشکلات دور کرنے کی ۸۸ تدابیر پیش کی ہیں ۹
مصائب منکسر المزاج اگر کسی کو دین کی راہ میں جس قدر کوئی شخص خدا تعالیٰ ن مصائب آئیں تو وہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے اُسی خوش قسمت ہے ۹۱ قدر زیادہ منکسر المزاج ہوتا ہے ۴۵۵ بغیر اچھے نائیوں کے انسان مصائب کا علاج.صبر، قربانی موعود مصلح اچھا کام نہیں کر سکتا استقلال ۳۳۶ سب مذاہب میں وعدہ تھا کہ ناظر ۱۶۶ مصائب کا علاج رضائے الہی ۳۳۷ آخری زمانہ میں ایک مصلح پیدا ہوگا صدر انجمن کے مختلف محکموں ۴۴۱ کے جو افسر ہیں ان کو ناظر کہتے ہیں وہ اپنے صیغہ کے آخری مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ مصائب کو آنے دو مصائب لائے ہی اس لئے ۵۲۶ مومن جاتے ہیں کہ کمزوروں کو الگ کر دیا جائے ۵۲۶ مطالبات اللہ تعالی کے دیئے ہوئے ذمہ دار ہوتے ہیں مقام پر خوش رہے ۸۹ نبوت ۵۶۲ ۵۲۰ نبوت آسمان سے اُترتی ہے مومنِ صادق ابتلاؤں سے تحریک جدید کے مطالبات ۵۳۶ ہر گز نہیں گھبراتا مطمئن ۹۱ نبی ( نیز دیکھئے انبیاء ) اللہ تعالیٰ کبھی نہیں چھوڑتا جب نبی دنیا میں خدا کے جلال کے مطمئن کے معنی ہیں وہ جو ہلتا تک ہر قسم کے ابتلا میں سے نہ اظہار کیلئے آتا ہے نہیں مغربیت ۵۲۳ خدا کے سب نبی برگزیدہ اور ۵۲۴ | گزرے مومن کے پاس جنت لائی جاتی ہے ۵۲۴ | پاک تھے عورتوں کی ملازمتوں کا دستور ہر مومن کا فرض ہے کہ دوسروں نبی خدا کی صفات کو ظاہر کر کے مغربیت کی لعنتی یادگاروں میں کو آگے بڑھائے سے ایک یادگار ہے ملائکہ قرآن نے ملائکہ کے وجود پر زور دیا ہے ۲۰۰ ۴۳۲ ۵۳۱ بتا دیتے ہیں کہ خدا ہے مومن کسی حال میں پیچھے نہیں رہتا ۵۳۱ نبی کی آمد ضروری ہے مومن وہ ہے جو خدا کی آواز پر نبیوں کو ماننے والے پاگلوں ۵۳۲ اور مجنونوں کی طرح دنیا میں لبیک کہے مومن کو کلام الہی میں پرندہ کہا گیا ۵۳۸ پھیل گئے ۶۳ ۲۶۳ ۳۵۵ ۳۹۹ ۵۲۹
۹۳ ۵۱۷ 11 نجات نجات کی بنیاد عمل پر نہیں ایمان اکھاڑے قائم کرنے والوں کو نصیحت کو مبائع ۳۸۹ ایک نو مبائع کے اخلاص کا ذکر تمام احمد یوں کو میری نصیحت پر ہے جو فضل کو جذب کرتی ہے نجات وہی پا سکتا ہے جسے ایمان عجائز نصیب ہو نشان جب بھی مخالفت ہوگی خدا تعالیٰ نشان ظاہر کرے گا نشان کی شرائط نصائح ۲۵۶ ۵۲۹ ۳۲۷ ۵۲۸ ۹۵ ہے کہ جاؤ اور اپنے بھائیوں کے گلے سے لپٹے رہو نصرت الہی خشیت اللہ سے نصرت الہی ملتی ہے مخالفت کے نتیجہ میں نصرت الہی کے نشان ملتے ہیں نفس مطمئنہ ۵۳۲ ܬܙ ۳۲۷،۳۲۶ ایک نو مسلم کا بیان خدا نے انسانی فطرت میں نیکی رکھی ہے واستین زندگی وقف کرنے والوں کی بھی کافی تعداد ہو چکی ہے نفس مطمئنہ.وہ نفس جو دل میں سوز اور درد پیدا کرو تم ماریں کھاؤ مگر ہاتھ نہ اُٹھاؤ ۹۷ مصائب اور مشکلات میں مبتلا کشمیر کے سیاسی لیڈر اپنے محلہ وسیع حلقہ ۵۳۵ ادب اور محبت نہایت وسیع حلقہ ہونے پر بھی خوب مضبوط تھا یا شہر کے لوگوں کو سیاسی حالات سے باخبر رکھیں ۷۴ نکاح کشمیری اپنے باز و پر سیاہ نشان نکاح کے بارہ میں حضور کی باندھ لیں ۷۴ ربوبیت ۵۲۴ ۲۸۶ رکھتے ہیں وصل الہی جتنے مذاہب ہیں وہ وصل الہی کو ہی اصل مقصد قرار دیتے ہیں ۱۴۸ ۲۸۲
۲۰۰ آیات قرآنیہ ۵۶۸ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (۲۵۶) الفاتحة اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۶، ۳۹۹ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (۲۵۷) ۳۶۷ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ ال عمران غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ (۷) ۵۰ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ (۲۶۱) البقرة وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ امَنَّا بِاللهِ (۹) ۱۶ قل اللَّهُمَّ مَلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي (۷۰) | ۵۳۷ وَمَالَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيل الله (۷۶) الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ (۲۸۲۷) ۵۷ فَقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ (۸۵) هذَا لَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ (۲۶) ٤٣٦ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ قُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمُ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (۳۷) وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنت (۸۸) نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ (۹۸) ۵۲۱ اِنْ تَكُونُوا تَألَمُونَ فَإِنَّهُمْ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (۳۲) ۲۸ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (۹۸) ۳۰ ۵۲ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ ۹۴ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (۱۴۵) ۳۹۶ يَالَمُونَ (۱۰۵) وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (109_101) كَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا (۱۶۵) ۴۰۱ ۳۹ ۳۹ ۵۲۷ ۵۲ اے ۵۱ ۴۰۲ ۴۱۱ مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنُسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا (۱۰۷) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولا منهم (۱۳۰) ۳۶۷ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ (۱۶۵) ۳۹۷ وَلِلهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (190) 19 يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فِي السّلْمِ كَافَّةً (۲۰۹) ام حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ (۲۱۵) لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۲۵۶) لَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ ۱۲۱ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ (۱۹۱ تا ۱۹۸) المائدة الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم (۴) ۵۴ ۴۰۱۷۵،۶۲۶۱ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمٍ (۲۱) وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (YA) ۵۲۳ يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا.....وَصَابِرُوا لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ (۲۰۱) ۱۲۲ النساء ۶۴ بَنِي إِسْرَائِيلَ (۷۹) الانعام الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ قُلْ لِمَنْ مَّا فِي السَّمَواتِ
وَالْأَرْضِ (۳) هود الانبياء قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَالْهُدَى أَفَمَنْ كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَهُمْ مِّنْ كُلَّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (۷۲) (۷۴) (۱۸) ۶۸ ۶۹ الحجر (۹۷) ۴۰۲ الحج رَبِّ فَانْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (۳۸،۳۷) قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلُم (۸۳) النحل تا لِلَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ (۶۵،۶۴) (۹۲) ۷۰۵۱،۵۰ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (۵۴،۵۳) | ۵۲۵ 1.۲۱۲ ۵۲۱ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ (۷۹) ۲۶ المؤمنون حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ (۱۰۱،۱۰۰) ۷۳ النور ۱۲۱ (91) الاعراف رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (102) قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ (۱۵۷ تا ۱۵۹) الانفال ۴۳۷ ، ۴۸ بنی اسرائیل لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (٣٦) ٢٨٩ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ قَدْيَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ رَسُولاً (٢) ۴۳ لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (۳۷) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَراً (۴۸) التوبة وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ (۶) وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ (١٠٠) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً ۳۹ ۵۱ ۲۹ عَلَيْهِمْ سُلْطَانُ (۶۶) مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (۷۳) طه وَقَدَاتَيْنكَ مِنْ لَّدُنَّا (1+11++)153 وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَال (۱۰۶ ۱۰۹) ۵۹۷ مِنكُمْ لِوَاذًا (۶۴) الفُرقان تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ (۲) ۵۲۲ هَبَاءٌ مَّنثُورًا (۲۴) جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (۵۳) ۳۶ ۳۵ ۳۵ القصص إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الأرض (۵) وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ الهَا اخَرَ (۸۹) ۱۲ ۱۳۳ ۴۷۰۴۰۹ ۶۶ ۴۹ (۱۰۳)
۲۹ ۳۵ ۵۱ ۵۵،۳۴ ۸۸،۶۷ | الطور وَالطُّورِ وَكِتب (۲تا) إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ العنكبوت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمُ سُبُلَنَا (۷۰) الاحزاب (۱۲) الجاثية ۳۷۵ وَقَالُوا مَاهِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا (۲۵) ۷ (۸ تا ۱۲) ۲۶ (۲۸) ۳۳ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ النجم وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الفتح الا وَحْيٌ يُوحَى (۵۰۴) ۲۶ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا القمر النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ (۷) اذْقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ (۱۴) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ (۴۱) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ (۵۷) ۳۲ يُبَايِعُونَ اللَّهَ (۱۱) ۴۵، ۵۲۰،۳۵۷ | سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ فاطر إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (۲۵) قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ الدبر (۴۶) (۱۷) ۴۲۹،۲۹۲،۴۶ كَزَرُعٍ اَخْرَجَ شَطْتَهُ ۳۷ الواقعة لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۸۰) ۴۰۹ الحديد هُوَالًا وَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ ۱۵۳،۶۷ ۴۷۴ ۳۴۶ ۴۰۱ ۲۵ ۵۷۹ الحجرت يا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنكُمُ (۴) مِنْ ذَكَرٍ (۱۴) ق بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ ۷۶ ( ۱۴ ) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ الَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا (۷) وَالَّذِينَ آمَنُوا بالله وَرُسُلِهِ (۲۰) المجادلة ۳۷۵،۶۷ ،۱۵ (K) الذريت ۲۲۹ ۴۸،۴۷ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا ۴۲۹ | زَوجَينَ (۵۰) ۷۲ يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ (۱۳) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (۲۲) ۴۳۶،۷۷ لِيَعْبُدُون (۵۷) يسن فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ (۸۴) الزمر قُلْ يعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا أَسْرَفُوا (۵۴) اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (۶۴،۶۳) حم السجدة إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (۳۱) الشورى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ
الحشر هُوَا لَّذِي أَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا (۳) الجمعة ۳۴ الجن إِنَّا سَمِعْنَا قُرُانًا عَجَبًا (۲) ۲۵ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (۲۷) عبس يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامِ بَرَرَةٍ فِي الْأَرْضِ (۲تا۴) التحريم إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ ۳۵۱،۳۰ (12014) التكوير وَإِذَا لُوُحُوشُ حُشِرَتْ (2.4) ۲۴۱ ۳۰ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا (۵) قُوا أَنْفُسَكُمْ أَهْلِيكُمْ نَارًا (<) ۵۱۸ ۲۸۷ اذَ الْجَنَّةُ أُخْلِفَتْ (۱۴) الفجر يأيُّهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ( ۲۸ تا ۳۱) ۵۲۴ ۵۲۴ التين وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (۵ تا ۷) الزلزال ۴۹ بأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا (۳) ۵۹۷ مَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرَ ايَّرَهُ (۸) القارعة أُمُّهُ هَاوِيَةٌ (١٠) الاخلاص قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ (۲) ۴۳۶
أُعْطِيتُ مَفَاتِيحُ الشَّامِ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ ورَائِهِ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ أَنَا عِندَظَنَّ عَبْدِي بِي إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ ۳۷ ۴۷۱ ۲۹۱ ۴۵ احادیث ظلم سے مراد شرک ہے مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ ماں کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی أطَاعَنِي وَمَنْ عَلَى أَمِيرِى نہیں ہوتی جتنی اللہ تعالیٰ کو اُس ۱۵۱ وقت ہوتی ہے جب گنہگار بندہ فَقَدْ عَصَانِي ن اُس کے حضور توبہ کرتا ہے نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ سب سے زیادہ مقرب انسان DO إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ ۴۶،۴۵ هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ ع عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَادَ الْفَقْرُانْ يَكُونَ كُفْرًا ۲۱۳ هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ احادیث بالمعنى ۳۴ سب سے زیادہ تکالیف کا مورد ۹۱ ۵۸۷ بنتا ہے میں اُس کو جھنڈا دونگا جو اُس کا حق ادا کرے گا اعمال انسانی نیت پر موقوف ہوتے ہیں ΑΛ ۸۹ ۹۰ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس اگر کسی نے دنیا کے پردے پر مجلس میں ایک شخص آیا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس لڑنے ۵،۴ ܪܬܙ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۱۱ ۲۱۱ ۱۳۳۵ جب ذکر الہی کی مجلس منعقد ہوتی والے کو دیکھ لے كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالِ لَمْ يُبْدَءُ ہے تو اس کے خاتمہ تک فرشتے مصری ہمارے رشتہ دار ہیں بِسْمِ اللَّهِ فَهُوَ أَقْطَعُ وَابْتَرُ ۱۱۶ نازل ہوتے ہیں ل تین آدمیوں کا غار میں بند ہونا مجلس میں سب لوگ بیٹھے رہیں اور دعا کرنا لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْتِ اگر اٹھنا پڑے تو اجازت لیکر جائیں ۱۰۵ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ ۳۹۳ بچہ کے پیدا ہوتے ہی کان میں اذان دی جائے لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ ۲۸۶،۸ آخری زمانہ میں اسلام اور قرآن کے آثار مٹ جائیں گے ۴۳۴ آسمان میں ایک بالشت بھر جگہ بھی اسلام جب شروع ہوا اس کی ۲۴۳ ایسی نہیں جہاں ملائکہ نہ ہوں ۳۲ حیثیت مسافرانہ تھی
۴۳۳ ۴۹۳ ۴۹۴ ۵۱۸ ۵۵۴ ۵۹۲ اللہ تعالٰی.اہل فارس میں سے انسان کے آخری وقت میں میری اُمت میں یہود کے مشابہ کسی کو کھڑا کرے گا ۲۱۲ آیات قرآنی اور بیسن پڑھو ۲۸۸ لوگ ہو جائیں گے اگر تم کو برف کے پہاڑوں پر یہودی بھی تو خدا کا بندہ ہے ۲۸۹ اے اللہ ! ہمارے میل کے نتیجہ سے گزر کر جانا پڑے تو اُس کے مُردوں کا ذکر اچھی طرح کرو ۲۸۹ میں جو بچہ پیدا ہو وہ شیطان کے پاس پہنچو اور میرا سلام پہنچاؤ اُس کے ساتھ نکاح کرو جو ۲۱۹ کسی مسکین کوسو د پر روپیہ دینا ظلم ہے مس سے پاک ہو ۲۸۹ نیند کے وقت اللہ تعالیٰ بندہ کی میں سب اقوام کی طرف بھیجا گیا ۲۸۹ روح قبض کرتا ہے اُخروی زندگی کی ترقی کا موجب جوا موال آئیں میری اولا د کا ان دوزخ میں میں نے بہت سی ہو ۲۸۵ پر کوئی حق نہیں ۲۹۳ عورتیں دیکھیں خدا سے دعا کرو کہ تمہارے ملنے سب سے اچھی نیکی وہ ہے جو بوڑھا تو جنت میں داخل ہو ہی کا نتیجہ تقویٰ ہو صلہ رحمی کرو ۲۸۶ ہمیشہ جاری رہے ۳۳۷ نہیں سکتا ۲۸۶ جب تک تو چُپ تھا فرشتے تیری کوئی مولود نہیں جسے شیطان نے اگر وسعت ہے تو سب کو دو طرف سے جواب دے رہے جس شخص کی دولڑکیاں ہوں وہ اُن کو تعلیم دلائے اچھی تربیت کرے اُس کا ٹھکانہ جنت ہوگا ۲۸۷ تھے ڈرتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۳۴۱ ۳۵۶ چھوا ہو سوائے حضرت عیسی اور اُن کی ماں کے.آدھا دین عائشہ سے سیکھو کیا ہی مبارک ہے وہ اُمت جس ۲۸۷ اگر بندہ ایک قدم خدا کی طرف کی ابتدا میں میں اور آخر تجارت میں دھوکا نہیں کرنا بڑھتا ہے تو خدا اُس کی طرف چاہیئے ۲۸۸ دو قدم بڑھتا ہے ۳۸۳،۳۸۲ میں مسیح موعود ہوگا
اسماء اس کے قتل کی پیشگوئی ۴۰ تا ۴۳ اللہ دتہ میراثی ۲۵۵،۲۳۱ آدم علیہ السلام حضرت ۲۳۱، ۲۵۵ ابوسفیان حضرت ۲۹۲ ۵۶۱ الیاس علیہ السلام حضرت ۲۲۰٬۶۵ ۵۹۳۵۹۱۵۲۵۵۲۱۳۷۱،۲۶۲۲۶۱ آمنہ حضرت ۱۹۴ ابوھریرہ.حضرت احمد شاہ ابدالی ۴۵ امان اللہ خان امیر شاہ افغانستان ۲۲۵ ۴۵۴ ۲۲۹،۲۲۶ ۲۳۰ ۲۳۳ تا ۲۳۸ ۵۶۹۵۶۸۱۹۵ ۲۴،۲۰ ارسطو حضرت ابراہیم علیہ السلام.حضرت اسامه ۱۵۲ تا ۴۵۴ ۱۳۳ ۱۲۰۵ ۲۴۲٬۲۳ اسحاق علیہ السلام حضرت ۵۲۱۵۱۸۴۳۲٬۴۲۱۲۶۱۲۴۳ ۵۹۳٬۵۳۸٬۵۳۷۵۳۰۵۲۶ اسد اللہ چوہدری.حضرت بعثت محمدی کے متعلق آپکی ایک دعا ابراہیم سیٹھ ۱۸ ، ۱۹ اسمعیل علیہ السلام.حضرت ۱۳۳ ۲۴۰ تا ۲۴۲، ۳۶۲،۳۶۱،۳۲۷ ۴۰۷۴۰۶ امتا امتہ الحی.حرم حضرت مصلح موعود ۶۰۲۱ ۵۱۸،۲۶۱ امۃ الرشید ۵۳۲،۱۹۷ ، ۱۹۵، ۱۸۰ ۱۸ ۱۹۳ بنت حضرت مصلح موعود امة النصير بنت حضرت مصلح موعود ۵۴۳۲۲۱۱۹ ۵۳۲ ۱۸۵ 194.1^2.14 ۴۲۵ ۳۱۷ اسمعیل آدم.حضرت سیٹھ امیر علی سید ابراہیم علی ۵۶۹،۵۶۸ وہ اپنے علاقہ کیلئے ستون ہیں ابن سعود ۵۷۱ اعجاز علی شاہ خواجہ ۳۱۷ ۵۶۹ امیہ بن خلف ایوب علیہ السلام.حضرت ابوبکر حضرت ۴۰۷۳۵۵ | اعظم علی چودھری.انہوں نے ایوب بیگ.حضرت مرزا حضور کی وفات پر آپکا رد عمل ۳۹۶،۳۹۵ اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھلایا ہے ۳۳۱ فضل حق چوہدری بارکہ (امریکہ کا نومسلم) ۵۶۴ بدھ علیہ السلام.حضرت ۳۳ ۴۲۸ ۳۲۲ آپکے ایمان لانے کا واقعہ ۴۰۴٬۴۰۳ اکبر علی پیر ابو جعفر حضرت امام ۵۷۴ اللہ دتہ (حضرت مولانا ابوالعطاء) ۲۲۰ ۲۶۲،۲۶۰ تا ۴۴۱،۲۹۴،۲۶۵ ابو جہل ۴۲۳۹ ۷۸٬۵۳ شام اور مصر میں اچھا کام کر برهان الدین جہلمی ۴۴۱۴۱۲۹۴ رہے ہیں ۳۲۹ حضرت مولوی ۴۷۲ ۴۴۲ ۳۳۰
۲۳۵ چنگیز خان ۵۶۱ بشیر احمد حضرت مرزا بشیر احمد شیخ حضرت ایڈووکیٹ ۱۶۳ ۱۶۶ بشیر احمد ڈاکٹر (آف زاہدان) ۵۰۵ حاکم حاکم علی.چوہدری بوعلی سینا ۳۶۴ حامد شاہ سید ۵۶۲ ۴۱۹ دانی ایل داؤد علیہ السلام.حضرت ۲۲۰ ۲۶،۲۴ ۲۶۳۲۶۱،۲۲۰، ۵۰ ان کا ایک واقعہ ۴۲۶،۳۵۶،۲۰ میر حامد شاہ صاحب بڑے مخلص دیانند پنڈت ۱۱۵ ، ۱۱۸ تا ۱۲۴ ۱۳۳ بہاء اللہ بہاء اللہ کا قول اور فعل ۴۲۷، ۴۳۸ تھے.ان کی سچائی کا واقعہ بیاس جی پیراں دتہ پیل.مسٹر ۲۵۹ حبقوق.حضرت ۳۴۱ ۵۳،۳۵ ۳۷۲ حقوق نبی کی پیشگوئی ۳۱ تا ۴۳ ۱۶۶ حبیب اللہ خان.امیر رابعہ بصری شاه افغانستان ۲۲۹،۲۲۶ تا ۲۳۲ را جرز ڈاکٹر ۳۹۲،۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۴ حسان بن ثابت.حضرت ۳۹۶ راس مسعود سر راک فیلر ۴۱۵ ،۴۱۴ ۳۱۱ 11+ ۳۶۲ ۵۲۰ انکا شعر حسن شیخ ( یادگیر) ۵۰۵ | رام ۴۲۹ سین علیہ السلام - حضرت امام ۴۰۶ رامچند ر.حضرت ۲۶۰،۲۵۹،۲۲۰ حشمت اللہ.حضرت ڈاکٹر حمزہ.حضرت حنیف احمد.مرزا خ ۱۸۰ ۵۲۱۴۷۲،۳۹۱۳۶۸ ،۲۶۳،۲۶۲ ۱ ۱۸ ،۱۹۹ رحمت علی.حضرت مولوی ۲۰۳ وہ جہاں بھی گئے وہاں عظیم الشان ۱۸۵ تغیر پیدا کر دیا ۳۲۸ ۳۲۸ ۳۲۸ ۵۴۷ ۱۹۸ ۳۰۷ ۲۳۶ تقی الدین احمد.کیپٹن تیمور ث ثناء اللہ مولوی.امرتسری ۴۳۳،۴۰۵،۲۳۷ で جلال الدین شمس.حضرت مولانا جنید بغدادی.حضرت ۳۲۹ ۳۸۳ ย جہانگیر.اس کے وقت میں خدیجہ - حضرت وہ اتنے سادہ ہیں کہ لوگ ان کی ۱۹۶ باتوں پر ہنس پڑتے ہیں سخت طاعون پھوٹی ۲۱ خلیل احمد حضرت مرزا ۵۳۲۷۹ چ خلیل الرحمن.چوہدری ۳۳۲ وہ اپنے آپ کو بیچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں رحیم بخش.حاجی ۱۸۶،۱۸۵ چندر پال بین خنساء حضرت.اس نے چاروں سیرت کے جلسوں پران کا تبصر و ۳۲۵،۳۲۴) بیوں کو شہادت کی ترغیب دی ۱۳۸ رفیع احمد مرزا
روشن علی.حضرت حافظ ۱۵۴ سیده ساره بیگم کے چھ سالہ بچہ کا سلطان محمد اولجه خان ۴۱۰،۳۳۲،۳۱۰ ان کا ایک ایمان افروز واقعہ ز ۸۶ ۵۲۱۴۷۲،۴۲۹،۲۹۴۲۶۵ غیر معمولی عمل سارہ بیگم کی زندگی تعلیم کا غیر معمولی شوق محض خدا کیلئے تعلیم حاصل کی سارہ بیگم کی ایک پاک خواہش وہ ادب کے مقام پر کھڑی ١٦٦ تھیں زرتشت - حضرت ۲۶۲۲۶۰،۴۶ زکریا علیہ السلام زین العابدین.حضرت ولی اللہ شاہ ۲۷۲۶۰ ۴۷۱۰ ۷۵۰ ۱۶۷ زینب.حضور کی صاحبزادی س سارہ.حضرت ۱۹۶ ۱۸۵ سلیمان علیہ السلام ۱۸۹ ۱۹۴ ۱۹۰ 19+ ۱۹۲ ۱۹۴۱۹۳ حضرت ۲۳۵ ۵۵۷،۹۵ ۲۲ تا ۲۴ آپ کی پیشگوئی سلیمان ندوی سید سنگھا.مسز شاہ عالم اُن کے اخلاق ۱۹۵، ۱۹۴ اُن کی عادات ۱۹۵ تا ۱۹۷ اُن کا گورنری سے استعفیٰ دینا حضرت مصلح موعود سے تعلقات ۱۹۸ شریف احمد.حضرت مرزا ان کی وفات ۱۹۹، ۱۹۸ آپ پر حملہ ۳۶۲ ۱۹۵ ۵۶۸ ۳۷۱ ۵۷۵،۴۳۵ ٣٨٣ ۶۰۴ ( حرم حضرت ابراہیم علیہ السلام) سارہ.حضرت سیدہ ( حرم حضرت مصلح موعود ) ۶۰ ۱۸۶،۱۸۱ ۲۰۵،۱۹۵ وہ زندہ ہیں ان کے نیک کام شعیب علیہ السلام.حضرت ۲۰۳ شیبہ بن ربیعہ ۴۲۸ جاری رہیں گے ۳۳ شیر علی.حضرت مولوی ۵۶۵،۲۴۰ سارہ بیگم کے رشتہ دار ۲۰۴ ان کیلئے حضرت مصلح موعود کی دعا ۲۰۷ شیر محمد یکه بان سارہ بیگم کے متعلق تحریک نکاح ۱۸۰ ساریہ کمانڈر ان کا خط حضرت مصلح موعود کے نام تعلیم میں شمولیت علمی قابلیت عمدہ خط اور زود نویسی ایف اے کی تعلیم میں مشکلات انگریزی کی تعلیم حضرت سیدہ سارہ بیگم کی اولاد ۱۸۳ سرسید ۱۸۴ وہ وفات مسیح کے قائل تھے ۱۸۴ سعادت علی میر ۱۸۴ سعدی.حضرت شیخ ۱۸۴ سکندر ۱۸۵ | سکندرحیات خان سر.۴۳۷ ،۳۶۰ ۵۷ ۴۶۶ ۳۱۷ ۳۱۰،۳۰۹ ۳۰۷ اس کا طریق تبلیغ صالح علیہ السلام.حضرت صفیہ.حضرت ان کا خواب ظ ظفر علی خان.مولوی ۳۱۱ ۴۲۸ ۳۸ ۵۱۰
۳۹۹،۳۹۸ ۲۶۱ ۶۶۶۵،۱۳ عزرانبی عزیز ۲۳۲ ۵۲۵ عبد القدوس خان عائشہ حضرت ۳۳۷،۳۱۳۳ عبدالکریم حضرت مولوی سیالکوٹی آپ کا قول قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ ان کا ایک لطیفہ عزیز احمد.چوہدری ۵۶۹،۵۶۸،۵۵۲٬۵۵۱ | عصمت اللہ.چوہدری عبدالکریم (مباھلے والا) عبداللطیف شہید حضرت صاحبزادہ ان کی شہادت ۲۲۶،۲۲۵،۹۶ عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۶۳ ۱۶۳ ۵۴۳ ۵۷۲۵۶۶ ۴۹۵ تا ۴۹۷ عطاء اللہ ملک.ای.اے سی ۴۱۴ ۳۹۲ عطاء اللہ میاں.وکیل ۳۳۲ عبد اللہ اللہ دین حضرت سیٹھ ۳۸،۳۷ عطاء محمد شیخ برادر ڈاکٹر اقبال ۵۸۷ ۵۵۴ ۵۶۴،۳۳۲ ۱۵۲ ۶۴ ۳۱۶ ۱۶۳ الانبياء عبدالحق.حضرت مرزا عبدالحق.ماسٹر عبدالحکیم.ڈاکٹر عبدالحکیم عبدالحلیم شہید کابل عبدالحمید قاضی عبدالرحمن.مولوی ان کے بارہ میں حضرت ۲۲۵ عبدالرحمن امیر.شاہ کابل مصلح موعود کار و یا علی حضرت ۳۳۰ | عمر.حضرت ۲۰۳،۲۳ ۳۶ ۲۳۱ عبد اللہ بن مسعودؓ.حضرت ۴۰۷ ، ۴۰۶،۳۹۶،۳۶۵،۳۵۵ ۴۲ ۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۲ عبدالرحمن بن عوف.حضرت ام عبد اللہ بن سبا ۳۹۸ ،۴۲ ۵۳،۴۳، ۳۹۸ | عمر الدین شملوی عبدالرحمن خادم.حضرت ملک ۳۳۲ وہ حضور کی بعثت نانی کے قائل عیسی علیہ السلام.حضرت ۱۲۹ عنایت اللہ خان ۲۳۲ ۵۷،۵۶،۵۴،۴۶،۴۳،۳۳،۲۵ عبدالرحمن.سیٹھ عبدالرحمن ۳۳۰ ۴۰۶ عبداللہ.ڈاکٹر عبدالرحیم درد.حضرت مولانا ۱۴۷ عبداللہ خان.| عبد السلام عبدالعزیز ۱۵۱ ،۴۸۰،۳۲۹،۱۹۶،۱۶۳ | حضرت چوہدری ۵۶۸ ۲۴۲۲۳۱،۲۲۰،۲۰۳۲۰۲۶۶ ۵۶۸ ۳۵۹،۲۸۹،۲۶۵۰۲۶۳۲۶۲۲۴۳ ۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۰،۳۷۴،۳۶۹ ۳۳۲،۱۹۴ ۳۲۲ تا ۳۹۹، ۴۳۴۴۳۳،۴۲۹،۴۰۴ ۵۱۳،۴۷۲،۴۶۷ ، ۴۶۶۰۴۴۲،۴۴۱ عبداللہ سنوری.حضرت منشی ۱۷ ۵ تا ۵۳۵،۵۳۰،۵۲۶۰۵۲۱،۵۱۹ ۵۶۹،۵۶۸ | عبد اللہ غزنوی.حضرت مولوی ۳۸۹ ۵۹۳،۵۷۶ ۴۳ تا ۵۲ آپ کی پیشگوئی عبد العزیز خان سپرنٹنڈنٹ پولیس ۵۵۱ عبد الماجد - بھاگلپوری ۱۸۰ ۲۰۴ عبدالقادر.پروفیسر ۱۸۰ ۲۰۴ عتبہ بن ربیعہ عبدالقادر.حضرت شیخ ۳۳۲ عثمان.حضرت ۴۲،۳۹،۳۳ ۳۴۵ آپ اور آپ کی والدہ مس شیطان سے پاک تھے ۴۳۳
۴۳۳،۴۳۲ حیات مسیح کے عقیدہ کے بچپن سے دعوت الی اللہ کا شوق ۳۰۱ آپ نے عصمت انبیاء پر اعتراضات نقصانات ۴۶۷، ۴۶۸ چھ ماہ کے روزے رکھنا ۳۰۱ کورڈ کیا ۳۱۹ جہاد کے غلط عقیدہ کی اصلاح غ آپ کے کام ۳۵۹ آپ نے جنت و دوزخ کی حضرت مسیح کا حواریوں کو دعا دینا ۵۲۳ تفسیر کے معارف غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا آپ نے زندہ خدا پیش کیا ۳۶۰ اصلیت بتائی مسیح موعود و مہدی معہود ۵۶،۸ آپ اور تزکیۂ نفوس ۳۶۵،۳۶۴ آپ کی صداقت کے تین ۱۳۹،۱۳۴ ۱۳۳ ۱۲۹ ،۹۶۰۹۲،۸۶ ۱۸۳،۱۸۲،۱۸۰ ۱۵۵، ۱۵ ۱۰ ۱۴۱ ۱۴۰ ۱۹۷ ، ۱۹۹ ، ۲۰۰ ۲۲۵،۲۱۴۲۰۴ تا ۲۳۱ ۲۹۹،۲۹۴،۲۴۳،۲۴۱۲۳۵ ،۲۳۳ آپ اور تعلیم کتاب ۳۶۷ شاهد ۴۳۵ ۴۳۷ ،۴۳۶ ۴۶۵ تا ۴۷۴ آپ کی تمام کتب اسلامی احکام آپ گوشہ تنہائی میں رہتے ۴۸۶،۴۸۵ کی حکمتوں سے بھری ہیں ۳۰۳٬۳۰۲،۳۰۰، ۳۲۱،۳۱۸ تا ۳۲۴ | سیالکوٹ میں ملازمت ۳۷۳ جلسہ میں شامل ہونے کیلئے آپ ۴۰۸ ،۴۰۷ کی دعائیں ۳۳۵،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۷ تا ۳۴۰،۳۳۸ آپ کا فہم قرآن ۴۰۹ تا ۴۱ آپ کا احسان ہے کہ اسلام کی صحیح ۳۷۹،۳۷۰،۳۶۸،۳۴۶،۳۴۳ ۴۰۲،۳۹۳ ۴۰ ۴۰۶،۴۰ ، ۴۱۸ ، ۴۲۸ آپ کے چیلنج ۴۱۰ تعلیم پیش کی ۴۸۹ ۴۹۵ ۱،۴۴۲ ۴۷ تا ۴۷۳ ، ۴۹۴،۴۸۷ ۵۰۴۰ مخالفت کے باوجود کامیابی ۴۱۲ تا ۴۱۶ آپ پر پتھر پھینکے گئے ۵۰۹ تا ۵۲۱،۵۱۹،۵۱۶۰۵۱۲، ۵۲۸ مقدمہ قتل اور دشمنوں کی روسیاہی ۴۱۴ ۵۵۲۵۳۸،۵۳۵،۵۳۴۵۳۲۰۵۲۹ آپ کا خدا کے دربار کا نوکر بننا ۵۰۸ ۵۱۳ ۵۱۷ آپ کے عشق رسول کا واقعہ ۵۶۵،۵۵۶،۵۵۳ تا ۵۶۷ ،۵۷۰ آپ کے متعلق آنحضرت کی ۵۷۳،۵۷۲ ،۵۷۹،۵۷۶ تا ۵۸ | پیشگوئیاں ۴۴۱۴۱۷ ،۴۱۶ ۵۹۲ تا ۵۹۷،۵۹۶،۵۹۴ آپ کا سفر ملتان اور مخالفت ۴۲۲ آپ کا حضرت مولانا نورالدین کو ارشاد تنخواہ کا 1/4 حصہ جمع میں اسلام کیلئے تازہ معجزات لایا ہوں آپ کا ایک ایمان افروز واقعہ آپ کو خدا کی نصرت حاصل تھی آپ کے ایام جوانی آپ کو بھنے ہوئے چنوں کا شوق تھا 2 ۶۴ ۲۲۰ تا ۲۲۲ ۳۰۰،۲۹۹ ۳۰۱،۳۰۰ آپ نے قرآنی علوم کو دنیا میں رائج کیا الہام کے متعلق غلط عقیدہ کی ۴۲۸ کرتے جاؤ ۳۶۱ ۵۳۳،۴۲۴ ،۴۲۳،۳۶۲ پیشگوئیاں اصلاح کی ۴۲۹ تا ۴۳۱ عربی الہامات ناسخ و منسوخ کی اصلاح اسم أَخَّرَهُ اللَّهُ إِلَى وَقْتِ مُسَمًّى ۵۹۸ ملائکہ کے متعلق غلط عقائد کی الْأَمْرَاضُ تُشَاءُ وَالنُّفْوَسُ اصلاح ۴۳۲ ۴۲۳
إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ ۴۱۷ اُردو الہامات ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ ۴۳،۴۱۲ بلية مالية رَبِّ أَخِرُ وَقْتَ هَذَا ۴۱۷ ۵۹۸ گیتا میں لکھی گئی ۱۳۴ تین بکرے ذبح کئے جائیں گے ۲۲۵ ریاست کابل میں قریب پچاسی ۲۲۶ فتح محمد شیخ ف ( مینیجر سٹور قادیان) فخر الدین ۵۶۹ ۳۱۹،۳۱۸ فرزند علی خان.حضرت مولوی ۱۴۷ رَبِّ لَا تُرِنِي زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ ۵۹۸ ہزار آدمی مریں گے شَاتَان تُذْبَحَان ۲۲۵ | آہ ! نادرشاہ کہاں گیا ! ۳۶۱،۲۲۷ ۵۹۵ | عید تو ہے چاہے کر دیا نہ کرو عَفَتِ الذِيَارُ كَذِكُرِى عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا ۵۹۳ فَحَانَ أَن تُعَانَ وَتُعْرَف بَيْنَ النَّاس كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَدٍ ۴۸۶ ۳۲۳ فرعون ۶۰۴۵۶۵،۵۴۳، ۱۵۳ ۱۵۱ ۷۶،۲۵ ۵۶۴ فضل الدین.مولوی پلیڈر دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے فضل الرحمن - حضرت مولوی حکیم قبول کرے گا.۴۲۱ وہ بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں ۳۲۹ وہ ۵۹۲۴۸۶،۴۲۲ فضل داد.چوہدری میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں فضیلت.بیگم سیدہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۵۵۶،۴۳۹ تک پہنچاؤں گا وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِّنْ ۴۸۶ فقیر محمد خان.چوہدری ۱۹۴ ۳۰۷ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری وہ نو جوانوں کیلئے اچھا نمونہ ہیں ۳۳۱ ہوئی ۵۹۵ AL ۳۲۰ ۵۶۸ ۵۲۰ ۱۶۶،۱۶۱ ۴۰۵ حضرت بانی سلسلہ کے رویا مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى ۲۲۷ يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا ۴۲۳ آپ کا ایک کشف يَأْتِيكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ٢٩٩،٨٦ غلام احمد.لیفٹینٹ يَدْعُونَ لَكَ اَبْدَالُ الشَّامِ ۳۴۶ يَعْصِمُكَ اللَّهُ مِنَ النَّاسِ ۴۱۲ غلام حیدر ۴۲۳ ۵۳۳۴۲۴ ۳۸۰،۳۷۹ ۴۱۴ ق قاسم علی خان منشی قادیانی قاسم علی.حضرت میر." میر قاسم علی صاحب کو سلسلہ کے لٹریچر پر اچھا عبور ہے قطب الدین حکیم غلام رسول.راجیکی حضرت مولانا غلام قادر مرزا ۴۸۵،۲۹۹ 2 يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ غلام مرتضی.حضرت مرزا ۴۸۵ کارنیگی مِّنَ السَّمَاءِ ۴۸۹ | غیاث الدین.سلطان ۲۳۵ | کالون.مسٹر
۴۶ کرشن.حضرت ۲۶۳۲۶۲،۲۶۰۲۵۹،۲۲۰، ۱۳۴ ۴۲۹،۳۹۱،۳۶۹،۳۶۸ ،۳۴۱،۲۹۴ ۵۲۱۴۷۲،۴۴۲ ۴۴۱ کعب بن مالک مقاطعے کا واقعہ کھڑک سنگھ ۴۹۹،۴۹۸ کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق کنفیوشس گوش ( نمرود کا باپ) ۴۴۹ تا ۴۵۵ مبارک احمد.مولوی ۳۳۲ آپ کا ایک کشف محفوظ الحق علمی ۵۶۷ غزوہ حنین میں شجاعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ انگلی زخمی ہونے پر شعر پڑھنا وسلم.حضرت ، آپ شیطان کے سب سے ۱۳۸ ، ۱۴ ، ۱۸ تا ۲۵ ، ۲۷ تا ۳۲۳۱،۲۹ | بڑے دشمن تھے ۳۶،۳۵، ۳۸ تا ۴۰ ۴۲ ۴۳ ، ۴۵ تا ۵۵ آسمان کیلئے رحمت ۶۳،۶۱۵۷، ۷۸، ۸۸ تا ۹۰، ۱۰۴۹۷ ۱۰۶ ، ۱۰۷ ۱۰۹ ۱۱۱۰ ۱۲۴ ۱۴ ۱۵ ۱۵۶ فرشتوں کیلئے رحمت ۱۸۸ ،۹ ۱۸ ، ۱۹۶ ،۲۰۳، ۲۰۵ ۲۱۱ تا ۲۱۴ زمانہ کیلئے رحمت ۲۱۹ تا ۲۲۲ ، ۲۳۱،۲۲۷ ،۱،۲۴۳ ۲۸۲،۲۸ ۳۵۹،۳۵۱٬۳۴۲۱ ،۳۳۵،۳۲۵،۳۰۳ ۴۲۹ ۳۶۸،۳۶۶،۳۶۵،۳۶۳،۳۶۱،۳۶۰ ۳۶ ۳۹۱٬۳۹۰،۳۷۵،۳۷ ۱۳۶۹ ۳۷ ۹۱ ۹۲ ۲۴۷ تا ۲۴۹ ۲۵۰،۲۴۹ ۲۵۱ زمین کیلئے رحمت ۲۵۱ تا ۲۵۳ انسانیت کیلئے رحمت ۲۵۳ تا ۲۵۷ نسلِ انسانی کیلئے رحمت ۲۵۷ تا۲۵۹ گابا (احراری) گاندھی گل نور ۳۹۳ تا ۳۹۸،۳۹۶ تا ۴۰۶،۴۰۱، ۴۰۸ گذشتہ انبیاء کیلئے رحمت ۲۵۹ تا ۲۶۴ ۵۴۷ ۴۳۶،۴۳۴۴۳۳،۴۲۸ ،۴۲۱۴۱۹ ،۴۱۶ ۴۶۷ ، ۴۵۰ ، ۴۴۲ ۴۴۱ ۴۳۹،۴۳۷ ۵۷۰۲۲۲۲۲۰ ۴۹۸ ،۴۹۶،۴۹۴۰ ۴۹۳ ،۴۷ ۱۴۷۰ ۵۶۸ ۵۶۱ پہلی کتب کیلئے رحمت ۲۶۴ تا ۲۶۶ انسانی ضمیر کیلئے رحمت ۲۶۹۵۲۶۶ گنہیا شاہ.لالہ گوکل چند.لالہ ل ۵۷۴ ۱۶،۵۰۴ ۵ تا ۲۲ ۵ ، ۵۲۶ ، ۲۸ ۵ تا ۵۳۱ | معذوروں کیلئے رحمت ۲۶۹ تا ۲۷ ۵۵۲ تا ۵۶۵۰۵۶۰۰۵۵۸ تا ۵۶۷ آئندہ نسلوں کیلئے رحمت ۲۷۱ تا ۲۷۴ ۵۷۶،۵۷۵،۵۷۳ ۵۸۶۰۵۸ تا ۵۸۸ صفت رب العلمین کے مظہر ۴ ۲۸ تا۲۹۰ ۵۹۲، ۵۹۷ تا ۵۹۹ لقمان علیہ السلام.حضرت ۳۳۶ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے بھی لوط علیہ السلام.حضرت ۵۹۳ رسول آتے رہے ۵۹۹،۵۹۴ آپ کا حلیہ لوکس ( پرنسپل کرسچن کالج لاہور ) ۳۷۲ آپ کی ابوت روحانی ۵۱۷ آپ پر درود بھیجنے کا حکم لیکھرام آپ کی ایک بددعا ۳۴۲۴،۲ ۴۱۰ آپ کی ایک دعا مارگولیتھ.پروفیسر 1.۵۳۱۲۶ ۳۳،۳۲ ۳۳ ۳۴ آپ اور نوجوانوں کی تربیت ۲۸۵ ،۲۸۷ بیوی کی آمد کے موقع پر ربوبیت ربوبیت ۲۸۶ ۲۸۷ ،۲۸۶ ۲۸۷ بچہ کی پیدائش کے وقت تیموں کی ربوبیت مرنے والے کی ربوبیت ۲۸۸، ۲۸۹ دنیوی امور میں ربوبیت روحانی ربوبیت ۲۸۸ ۲۸۹
آپ نے نسلی امتیاز کو مٹایا ۲۹۰ | محمد احمد.مولوی غرباء کی امداد کا انتظام ۲۹۱ محمد اسحق - حضرت میر صفت رحیمیت کا مظہر اتم ۲۹۱ تا ۲۹۳ محمد اسلم.حضرت قاضی.پروفیسر صفت مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے مظہر.محمد اسماعیل ۲۹۴،۲۹۳ محمد اسماعیل صدیقی آپ کے چار کام ۳۵۲ تا ۳۵۸ | محمد اعجاز احمد آپ نے دنیا کو خدا دکھایا ۳۵۶،۳۵۵ (علامہ اقبال کے بھتیجے ) آپ کے ذریعہ صفت قدوستیت محمد اقبال.ڈاکٹر.علامہ.سر کا اظہار ۴۲۷ ،۴۲۵،۳۵۸ ،۳۵۷ ۳۵۷ آپ کا صحابہ سے مشورہ لینا ڈاکٹر سر محمد اقبال اور ۱۳ محمد شریف.شیخ ۳۱۹ محمد ظفر اللہ خان.چوہدری.۳۳۲ ۵۶۸ ۶۰۳ حضرت سر آپ کی سچائی ۵۴۳ ۱۵۳ ۳۳۲،۳۲۹،۳۰۸ ،۱۹۴ ۵۴۷ ،۳۶۵ ۵۸۷ آپ کے کام کی تعریف محمد عبداللہ.شیخ شیر کشمیر ۲۴۰ ۴۰۸ ،۳۶۲ ۳۴۲ ۳۴۳ ۱۶۵ ۱۶۶، ۱۶۸ تا ۷۱ ۷۳ ۱۷۴ محمد علی (ایک مبائع احمدی) آپ کے ذریعہ عزیز حکیم کا اظہار ۳۵۸ احمد یہ جماعت ۵۸۵ تا ۵۸۸ محمد علی.مولوی آپ نے کبھی جبر کی تعلیم نہیں دی ۳۷۰ ان کے خاندان کے کئی افراد احمدی ہیں عیسائی وفد کو مسجد میں عبادت کی اجازت ۳۸۲٬۳۸۱ محمد اللہ بخش ضیا آپ منبع ہدایت ہیں ۳۹۷ ان میں دین کے متعلق جوش ہے ۵۸۷ ۵۴۹ ۵۶۳،۵۵۰تا ۵۶۵ (امیر فریق لاہور ) محمد علی خان.حضرت نواب ۳۳۱ محمد علی شاہ سید محمد علی قاضی ۵۵۲ Λ ۴۱۴۴۱۳،۴۰۶،۴۰۵ ، ۴۰۴ ،۳۷۴ ۵۶۷ ،۴۱۹ ۱۹۸ ۴۸۶ ۵۷۴ تا ۵۷۶ وہ خدمت سلسلہ کا خاص جوش رکھتے ہیں ۳۱۶ محمد غوث.سیٹھ آپ کا مردم شماری کرانا ۴۰۰ محمد امین آپ کی صداقت کے دلائل ۴۰۲ محمد حسین.بٹالوی مولوی آپ کے دعویٰ سے قبل کی زندگی ۴۰۴،۴۰۳ محمد معجزانہ حفاظت ۴۱۲۰۴۱۱ محمد حسین ماسٹر ۱۹۲ ۱۹۳ محمد منیر.ڈاکٹر محمد سلیم.مولوی محمد یوسف.قاضی پشاوری حسین ۵۴۹ ،۵۵۰ | محمد قاسم نانوتوی مولوی ٣٣١ ۵۵۳ ۳۳۲ ۳۲۹ آپ کے مخالفین کی ناکامی ۴۱۲۰۴۱۱ آپ کی تمام پیشگوئیاں پوری ہوئیں محمد ابراہیم محمد احسن.مولوی ۴۱۲ ۳۱۷ ۴۱۹ وہ ایک اچھے مبلغ ہیں ۳۳۲ | محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین محمد شریف.چوہدری.وکیل محمد شریف ( کاکول ہزارہ) ۳۳۲ مصلح موعود ۱۶۴ ۴۷۴،۴۵۵ ، ۴۳۹،۲۴۴ ، ۲۱۵ ، ۱۸۰ ۶۰۳۶۰۰،۵۸۸ ،۴۸۱
۱۴۲ حج کے موقع پر قربانیاں گیارہ سال کی عمر میں دعا مقام محمود بزبانِ محمود ” جب مستریوں کا فتنہ اُٹھا...آپ کی نصائح ۹۶ ۹۷ عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا تھا“ ۹۲ اپنے دلوں میں عشق پیدا کرو ۹۳ | میں بیان میں نے تمام مذاہب کی مذہبی عورتوں کو نصائح کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ۱۳۹ ۳۱۰ محمود خان (افغان جرنیل) کشمیریوں کو ہدایات ۱۷۲ ۱۷۴ محمود طرزی میں ہمیشہ آنے والے مبلغین کے کشمیر یوں کیلئے کام ۱۶۵ محمود غزنوی ۵۰۴ ۵۴۳ تا ۵۷۶ ۲۳۹ ۵۲۷ ۱۳ ۱۶ اعزاز میں حصہ لیتا ہوں آپ کے چیلنج ۱۶۰۱۵ ۴۱۱۴۱۰،۳۷۴،۳۷۳،۳۶۸ ہمارا خاندان مزاح کا زبردست میلان رکھتا ہے فرشتوں کے ذریعہ سورہ فاتحہ سیکھنا ۱۹۵ میرا رب میری مدد کرے گا ۲۰۱ مجھے دنیا کی بہت سی نعمتوں کے تعریف کرنا مقابلہ میں چنے اچھے لگتے ہیں ۳۰۱،۳۰۰ دنیا کا کوئی انسان کسی علم سے اعتراض کرے میں قرآن سے جواب دوں گا اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ۴۲۸ محی الدین ابن عربی مریم علیھا السلام.حضرت آپ کا ایک مجذوب احمدی کی مطلوب خان ۳۲۲ ۶۰ ۴۳۳،۷۰ ۴۴۰،۴۳۹ ۸۸۸۷ مطیع الرحمن صوفی ( مبلغ امریکہ) ۳۶۶ دین کی راہ میں تکلیف اُٹھانے اسلامی لٹریچر کے بڑے بڑے والوں سے ہمدردی ۹۰ ماہر اُن کے سامنے......ڈرتے ایک سکھ کا آپ سے سوال ۱۳۰ ہیں آپ کی تعلیمی حالت ۱۵۲ معراج الدین.مرزا پروفیسر مارگولیتھ سے گفتگو ۱۵۴ ،۴۱۰ معین الدین.حافظ حضرت سارہ بیگم کو پہلا خط ۱۸۱ ملا کی نبی مبلغین کیلئے دعا کی تحریک ۳۲۹ ملک صدق سالم ایک انگریز کے سوال کا جواب ۳۶۳ منوجی ۳۲۹ ۵۴۴ ۳۰۱ ۲۶۲ ۶۶۰۶۵ ۲۵۹ ۲۴ تقویٰ عطا فر مایا ہے ۴۵۴ لوگوں کی بھلائی کی تڑپ میرے دلی جذبات میں تلاطم پیدا کر رہی ہے ۴۶۶ میں نے پتھر کھائے میرے دل میں احرار کے متعلق دشمنی نہیں ۵۰۸ ۵۴۵ بچوں کیلئے آپ کی دعائیں ۱۸۶ تا ۱۸۸ آپ کی عام دعائیں ۲۰۸،۲۰۷ ۴۴۲،۳۰۴،۳۰۳ سیکرٹری آریہ سماج سے گفتگو ۳۶۴۳۶۳ موسیٰ علیہ السلام - حضرت ہندو بیرسٹر سے گفتگو بچپن کا واقعہ ۳۹۲.۲۳۱ ۱۳۳۷ ۱۷۰ ، ۵۴،۵۱،۴۶،۲۵ ۳۹۰،۳۶۹،۲۶۳۲۶۱۲۴۳ ، ۲۴۲ ۴۳۲،۴۰۷ ، ۴۰۶۰۴۰۲،۳۹۶،۳۹۵ ۵۹۳،۵۳۰،۵۲۶۰۴۷۲۰۴۴۲،۴۳۴ ۳۹۳ ہدایت خلق کیلئے درد اور تڑپ ۴۲۰،۴۱۹ ندوۃ العلماء کے جلسہ میں جانا سکھ قوم سے ہمدردی ۴۳۵ آپ کی ایک پیشگوئی ۴۵۲،۴۵۱ مہتاب بیگ.مرزا ۲۱ ۵۶۲
مہتہ.مسٹر مہر علی شاہ گولڑوی میرحسن.مولوی ۱۶۹ نصر اللہ خان.امیر ۲۳۲ ولی خان.سردارشاه ۵۷۵ ۴۰۸ نظام الدین ان کے ایمان لانے کا واقعہ ۴۰۵،۴۰۴ | ہاجرہ.حضرت DO ۲۳۷ ،۲۳۶ ۲۰۵ میر واعظ ہمدانی ۱۲۱ ۱۲۲ نعمت اللہ خان.شہید کابل ۲۲۵،۹۶ ہارون علیہ السلام.ہارون علیہ السلام.حضرت ۲۶۷۷ میر واعظ یوسف شاہ ۶۹ ۱ تا ۷ نعمت اللہ.ڈرل ماسٹر ن نادرشاه ۲۳۰ ۲۳۲ ۲۳۵،۲۳۳ تا ۳۶۲،۳۶۱،۲۴۱ نادرشاہ کے متعلق پیشگوئی کی تشریح نادرشاہ کا بادشاہ بننا نادر شاہ کی وفات کی خبر نمرود ۵۶۳ ہر قل ۳۶ ہکسلے (ایک دہریہ) ۲۳۱ نوح علیہ السلام.حضرت ھود علیہ السلام.حضرت ۵۹۳۵۳۰،۵۲۱،۳۳۵،۲۶۱ ۵۹۹،۵۹۴ ۲۲۷ تا۲۲۹ نورالدین.حضرت مولانا ۲۳۰ ۲۳۰ ۲۲ ی سیحی علیہ السلام.حضرت ١٠ يسعياه ۳۲۲،۲۹۰،۱۷۹،۱۵۳، ۱۵۲،۶۹،۶۴ ۵۲۹،۵۴۰،۴۱۸ ،۴۰۴،۳۷۴ ۲۹۲ k ۴۲۸ ۶۰ ۲۶۲۲۰۳ نادر شاہ کی مخالف حالات میں ترقی نادرشاہ کی علالت نادرشاہ کی بے سروسامانی نادر خان کا نادر شاہ کہلانا نادر علی شاہ ناصرہ بیگم ۲۳۱ ۲۳۳ آپ کے بعض واقعات نورالدین ۲۳۴ ۲۳۵ نور علی.شہید کابل ۳۲۷ نوشیرواں ۲۶۱۵۳،۲۷ ۴۹۵،۳۳۶ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی ۲۴ تا ۳۰ ۵۶۹ ۲۲۶ ۵۵۸ یعقوب علیہ السلام حضرت ۵۱۸،۲۶۱ یعقوب بیگ.حضرت ڈاکٹر ۱۵۲ یعقوب علی.حضرت شیخ یوسف علیہ السلام.حضرت ۳۳۰،۳۲۰ ۲۶ بنت حضرت مصلح موعود ۱۸۴ وارث الدین.پادری ۴۱۵، ۴۱۶ نا تک.حضرت ہاوا نپولین نجاشی ۱۳۴ والٹر ۴۵۵،۴۵۱۴۵۰،۴۴۹، ۱۳۹ ۹۷ ۳۵۸ ۳۷۲ ۴۳۲،۲۶۱۲۴۲ ۴۳۱ یوسف خان.چوہدری ولی اللہ شاہ.حضرت محدث دہلوی ولی اللہ شاہ.سید حضرت ۵۲۷ یہودا اسکر یوطی ۱۶۳ ۵۱۸
۳۲۹ ۱۷۳ ۳۶۱ مقامات ۵۵۳ پنجاب میں جماعت ترقی ۴۳۴،۳۸۳،۳۰۷ ۴۹۷ ،۴۲۳،۳۱۷ کر رہی ہے پنجاب میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے ج پیرس ترکی ۵۰۰،۳۲۴،۲۰۴ ۳۳۰ ۴۱۹ ۳۲۸ اٹلی افریقہ بریلی بغداد ۱۳۶۶،۳۲۹ ۴۷، ۵۷ بمبئی بنگال ۲۳۳،۲۳۲۲۲۹ ،۹۶ افغانستان ۲۳۵ تا ۳۶۲،۳۶۱،۲۴۱،۲۴۰،۲۳۸ الجزائر امرتسر امریکہ ۳۹۲، ۴۳۵ ، ۵۸۷ بنگال میں بھی خاص ترقی ہو ۴۳۵،۴۱۹ | رہی ہے ۵۰۰،۴۹۵،۳۳۸ | بور نیو ۵۹۴۵۷۲٬۵۰۸ بوگر (انڈونیشیا کی جگہ) ۳۲۹،۳۲۷ ،۱۴۰، ۱۱۱ ۱۱۰ ۵۹۷ ،۵۹۴۴۲۴۲۰۴ ۱۹۸ ،۱۸۲،۱۸۱ جاپان ۵۹۳،۳۳۲ جاوا ۲۳۳ | جحفه ۴۲۹،۴۱۷ ۵۹۴۵۱۰ ، ۴۷۳ ۳۲۷ تا ۳۲۹، ۴۱۹ ، ۴۸۷ ۳۴ ۴۱۷ ،۳۷۲ ۱۷۳ ۴۷۳،۴۲۹،۱۳ ۳۵۸ چ ۳۷۲،۳۶۵، ۴۱۷، ۴۲۵،۴۱۹ تا ۴۲۷ بہار ۴۷۱، ۵۱۷ بھاگلپور ۱۵۱ ۱۴۰ انگلستان (برطانیہ) ۳۲۹،۲۱۲،۱۷۹، ۱۶۸ ، ۱۶۷ ، ۱۵۳ ۵۱۷ ، ۴۸۰۰ ۴۲۷ ، ۴۱۹ ،۴۱۷ ،۳۸۲ ٣٠٩ اودھ ایران پالم پور ۱۰۶،۳۷، ۴۳۵،۴۱۹ | پنجاب ایرانی بادشاہ کا مسلمانوں کو ۱۶۱۰۱۵۱ جرمنی ۳۸۹،۳۳۰،۳۲۴،۲۱۵،۱۸۴، ۴۰۷، ۴۰۸ | جموں ۴۸۷ ، ۴۸۰ ، ۴۷۹،۴۵ ،۴ ،۴۲۳ ۴۲۱ ۴۳۸ ۵۸۵،۵۱۴،۵۰۹ ۵۹۴ ۳۲۴ حبشه پنجاب کے علاقوں میں ۴۱۴۰۸ ، ۶۰۴۵۰۷ سیرۃ النبی کے جلسے خاص اثر ۳۲۸ رکھتے ہیں مٹی کا بورا دینا ایشیا بٹالہ بٹاویہ
۳۳۰،۳۷،۳۱۶ سرحد ۵۶۴،۵۰۰،۳۳۱۳۳۰ ۵۰۰،۳۳۱ سرحد کی جماعت بیدار ہو ۳۲۹ رہی ہے سرینگر عراق ع ۴۳۹،۲۴۲،۳۶ ۳۲۹ | عراق میں سردی بہت پڑتی ۱۷۳،۷۲،۱۶۶ ہے ۴۲۶ ۳۶،۳۲،۳۱،۲۶ ۳۶۱۲۴۲،۱۰۶،۱۰۴،۳۸ ۳۳۰،۳۱۷ عرب ۴۸۷ ،۴۱۹،۳۲۹،۳۲۸ ۲۴۰، ۲۳۴ سکندر آباد ۳۸ سماٹرا سیلون حیدر آباد دکن حیفا خ خوست ۵۹۳ سوئٹزرلینڈ ۲۹۱، ۵۵۳،۳۱۶،۳۰۷ سہارن پور ۳۷۲ تیرہ سو سال قبل عرب کی ۳۷۰ حالت ۵۵۳ | علیگڑھ ۱۰۳ ۵۸۵،۵۲۹،۵۲۷،۵۷ ۴۱۷ ،۳۷۳،۳۷۲،۳۶۲ ۵۵۳ ۳۱،۲۶ ۵۰۰،۱۵۳ ف فرانس فرنگی محل فلسطین فیروز پور ق ۳۷۹،۳۳۸ ،۸۶ سیالکوٹ ۴۰۶ تا ۵۰۸،۵۰۰،۴۵۳،۴۰۸ ۲۴۲ ش ۵۵۳ } ۵۹۳ ۳۶۲ شام ۲۱۲ ۳۷،۳۶،۲۶ ۴۳۵،۴۳۴،۴۱۹، ۳۶۰،۳۴۶،۳۲۹ شکاگو شملہ شیخو پوره ۸۵،۸،۷ ،۳ ۳۶۶ قادیان ۱۷۹، ۱۵۴ ۱۵۰ ۱۴۹،۱۳۷ ،۹۲،۸۶ ۳۱۵،۲۷۹،۲۱۵ ،۲۰۰ ، ۱۹۹ ، ۱۸ ۱۰ ۱۸۰ ۳۹۰،۳۷۹،۳۷۲،۳۶۵،۳۶۲،۳۲۲ ۴۲۴۴۱۲۰۴۱۰ ، ۴۰۷ ، ۴۰۵ ، ۴۰۴ ۴۸۸،۴۸۶،۴۵۳،۴۵۱،۴۴۹ ،۴۳۹ ۵۴۴،۳۶۳ ۱۶۸ ۳۳۳ ۵۳۲،۵۱۸ ،۵۱۴،۵۰۹،۵۰۷ ، ۴۹۶ ۳۷ ۵۵۵،۵۵۲،۵۴۹۰ ۵۴ ۶۰ ۵۴۴ ۵۴۳ ۵۶۴۵۶۲،۵۶۱۰۵۶۰ تا ۵۷۲۰۵۶۹ ۶۰۰ ۵۹۴،۵۷۴ ۳۹۱ b دھرم ساله دھلی دیوبند ڈلہوزی ڈیرہ غازیخان.ایک غیر احمدی حج کا بیان ۴۱۴ ، ۱۹۸ ،۱۸۵ ز راولپنڈی روس زاهدان صنعاء س سان فرانسسکو پین ۴۳۵ طائف
قادیان احمدیوں کیلئے وطن ثانی ہے ۳۲۳،۳۲۲ ۱۶۶۰۱۶۲۰۱۶۱ تا ۱۷۲ لاہور ۱۵۲ ، ۱۶۹، ۳۷۳،۳۳۹،۱۹۷ ۴۸۶،۴۲۲،۴۱۸ ، ۴۰۴ ،۳۹۲،۳۷۴ ۴۶۲۰۴۶۱،۳۷۰ ۵۲۳،۵۷ ،۵۰۶ ، ۵۰۰ ، ۴۹۶۰ ۴۸۷ ۵۹۴،۵۵۵،۵۴۴،۵۲۷ ۳۴۲ خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنا کشمیر کے متعلق کام اب بھی نور قادیان میں اُتارا ہے ۴۵۴ جاری ہے قادیان کو فتح کرنے والا مسلمانانِ ن کشمیر کیلئے چندہ ادا کوئی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا ۴۸۷ کرنے کی تلقین قادیان دنیا کو فتح کر رہی کشمیر کی نوجوان روح میں ۳۴۲ لدھیانہ لکھنو لنڈن ۴۸۷ گرمی پیدا ہوگئی ہے ۴۵۹ لنڈی کوتل ۳۰۷ کوئٹہ ۵۹۳ تا ۵۹۹،۵۹۷ | لیگوس ۵۰۰،۳۵۱ کوئٹہ کی آبادی کا %80 ۲۲۶ حصہ تباہ ہو گیا قرطبه قصور قندهار ک کابل ۲۲۶، ۲۲۸ ۲۳۰ تا ۲۳۲ ۴۹۵،۳۹۲،۳۶۲،۳۶۱،۳۲۷ ۵۲۷ ،۴۹۶ سرزمین کابل کی خصوصیت کابل میں طوائف الملو کی کا کول ( ہزارہ) کانگڑہ زلزلہ کانگڑہ میں 25 ہزار آدمی مارے گئے کا ھلواں (گاؤں) کراچی ۲۲۵ ۲۲۷ گوفه گجرات.گجرات میں بیداری پیدا ہو رہی ہے گڑھی کپور گوجرانوالہ ۵۹۳ ۴۰۶ ۸۶ ۳۱۷ ۵۰۰ گورداسپور ۴۱۰،۸۶ ۵۶۴،۵۴۳ ۵۹۷ گولڈ کوسٹ ۵۹۳ ۲۹۹ ۵۱۱،۵۱۰ ل لائکپور (فیصل آباد) لائک پورنو و آبادی کا مرکز ہے ۵۷۹،۵۷۱ ۴۱۹ ۳۸۷ ،۳۸۱ ۳۷۹ مالا بار مدائن مدراس مدین مد پینه ۴۰۴ ۴۱۲،۳۷۱،۳۰۹ ۵۷۱۴۸۰،۳۴۳۱۵۳ ۴۱۹ }}} MAL ۳۲،۲۲ تا ۴۰،۳۹،۳۴ ۳۹۶،۳۹۵،۳۵۷ ،۳۵۶۰۹۱ ۵۷۵،۵۲۸ ،۴۲۶ ۳۲۹،۳۲۱،۲۰۵،۳۶ ۴۱۹،۳۷۲،۳۶۱ ۳۰،۲۷،۲۶،۲۲،۲۰۱۹ تا ۳۳ ۵۳،۳۹،۳۶ تا ۵۵ ، ۲۲۷ تا ۳۵۵،۲۲۹ ۵۰۴۴۷۰،۴۱۱،۳۹۸ ،۳۵۸ ،۳۵۶ ۵۷۵،۵۳۰، ۵۲۸
ہندوستان میں سیاسی تغیرات اور جماعت احمدیہ ۳۴۲ تا ۳۴۵ ی ۹۵ ۳۷ ۵۰۰ ۲۲۶،۱۰۹ رو ۴۲۷ ۳۳۱۳۳۰ DO ۴۲۲ ۳۹۸ ہانگ کانگ ہزارہ ہندوستان ۲۳۶،۲۳۳،۲۲۵،۱۶۸ ،۱۶۶۰۱۶۱۰ ۱۴۰ ۳۰۱،۲۴۲،۲۳۷، ۳۱۰،۳۰۹،۳۰۷ یمن ۳۹۰،۳۷۳،۳۶۳،۳۶۲،۳۳۳،۳۲۸ ۳۲۴، ۴۱۳،۴۰۷ ، ۴۱۵ تا ۴۲۱۷۴۱۹۰۴۷ ۴۹۶ ۲۴۲ ۴۱۹ ۳۷۱ ۴۸ ۰،۴۶۰۰ ۴۵۴ ۴۴۰،۴۳۵،۴۲۳ ۳۶۶،۳۴۶،۳۰۹،۳۰۸ ،۲۳۳ ۵۸۷،۵۱۹،۵۷،۵۱۴۵۰۹،۵۰۵۴۹۷ ۴۲۴ ۴۶۹،۴۳۵،۴۲۵،۳۸۰،۳۷۳،۳۷۲ ہندوستان میں فساد کا اصل ۴۱۹ ۵۹۴،۵۱۷ ، ۴۷ ۱۳۷۳ ۲۸۰ باعث ملتان منی ن نارووال ناصره ( مولد مسیح) ثال ندوه نیپال نیو گائنا
آئینہ صداقت آ.اہل حدیث (اخبار) ۲۳۶، ۲۳۷ ۵۷۳،۵۷۲ ابوداؤد ایام صلح احسان (اخبار) ۵۶۶،۵۲۵،۵۱۹ بائیل کتابیات انوار الاسلام ۵۷۵٬۵۶۰ رنگیلا رسول ۵۷۶،۵۷۳ ۳۶،۳۳،۳۲۲۳۲۲۲۰، ۱۵ ریویو زمیندار (اخبار) ز ۹۲ ۵۳۷ ۵۱۰ اربعین ۵۷۳ ۲۸۴،۲۱۲،۷۱،۴۳ ،۴۰،۳۸ ۵۷۳،۵۶۶۰۵۲۵،۵۱۹ ،۵۱۱ اسلامی اصول کی فلاسفی ۳۸ بخاری ۳۹۸ ،۳۷۴،۱۵۲ ۳۷۱۳۱۹ براہین احمدیہ ۴۲۱،۴۰۹،۳۶۰۶ زند اوستا ژ દ ۱۴ اصلاح (اخبار) ۴۵۹،۲۳۴ ۴۶۲،۴۶۰ اعجاز احمدی البدر ۱۸۰ ۱۸۰ الفضل (اخبار) براہین احمدیہ پر مولوی محمد حسین ستیارتھ پرکاش بٹالوی کا ریویو تاج العروس ۳۲،۳۱ سراج منیر سن رائز سیاست (اخبار) تریاق القلوب ۱۲۳، ۱۱۵ ۴۰۵ ۴۲۳ ۵۳۷ ۲۳۶ ۳۲۰،۲۴۰ ۵۵۲۵۴۹،۵۴۸ ،۵۴۵ ،۵۳۷ ،۳۲۲ ۵۶۹۰۵۶۵ تا ۵۷۱ ۴۰ ۵۷ ۵۷۵۰ تورات ۱۳۹،۱۲۰،۵۱ ،۳۶۹،۲۶۵ سیف چشتیائی سیرۃ النبی شبلی ف ۵۷۶،۵۷۵ ۵۷۵ ۳۲۰ ۵۷۴ ۵۷۳ حربہ تکفیر اور علماء زمانہ ۳۱۹ ۵۹۶ | حقیقۃ الوحی ۵۷۳٬۵۵۶ | فاروق (اخبار) خ ۱۲۰،۵۱۴۳،۱۳ خلافت (اخبار) غیر مبائعین اور غیر احمدیوں کے متعلق اچھا کام کر رہا ہے فروع کافی ۱۹۹، ۱۱۸ ۳۶۹،۲۶۵،۱۳۹ ۳۱۹ الهدى الوصیت انجام آتھم انجیل انسان کامل
قاموس قدوری ۳۱ مباہلہ (اخبار) متی ۳۲۳ مثنوی رومی ۵۵۱ نجم الهدی ۲۵ نور (اخبار) ۳۳۶،۱۵۲ ۳۱۹ نوراخبارسکھوں میں اچھی خدمت کرتا رہا ہے کتاب البریہ ۵۷۶،۵۷۳ محسن اعظم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۱۹ ملائکہ اللہ ۵۷۳،۵۶۳ لُجَّةُ النور منتهی الادب ۱۸۲ وید ۵۷۲ ۳۲۰ ۱۴