Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
۱ مسئلہ ذبیحہ گائے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۳ مسئلہ ذبیحہ گائے أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - هو الناصر مسئلہ ذبیحہ گائے کے متعلق بنام ہندو، سکھ اور مسلم لیڈر صاحبان (تحریر فرمودہ ستمبر۱۹۲۹ء) آپ کو قادیان کے مذبح کے متعلق ناگوار حالات اخبارات کے ذریعہ معلوم ہو چکے ہوں گے.چونکہ یہ معاملہ اب بہت اہمیت اختیار کرتا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس بارہ میں میری مزید خاموشی سلسلہ احمدیہ کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور ملک کے امن کی بربادی کا بھی موجب ہے اس لئے پیشتر اس کے کہ میں کوئی ایسی راہ اختیار کروں جو احمدیہ سلسلہ کے وقار اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ضروری ہو اور ملک سے شوریدہ سری کی روح کو دور کر کے حقیقی امن کی بنیاد رکھنے والی ہو میں نے مناسب سمجھا کہ میں ان سکھ، ہندو اور مسلمان لیڈروں اور بارسوخ افراد کو جو اس معاملہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ذاتی طور پر مخاطب کر کے ان کی رائے معلوم کر لوں تا کہ اگر کوئی ایسی راہ نکل سکے جس سے بغیر ایسے ذرائع کے اختیار کرنے کے جو مختلف اقوام کے لئے تکلیف دہ ہوں مسلمانوں کو ان کے حقوق بھی مل سکیں اور دو سری اقوام کے لئے بھی کسی ناواجب تکلیف کی صورت پیدا نہ ہو تو اسے اختیار کیا جائے.مذبح کے خلاف جن جن اخبارات نے لکھا ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا اکثر حصہ راستی سے دور اور مبالغہ بلکہ خلاف بیانی سے پُر ہے.اصل واقعات یہ ہیں:.قادیان میرے آباء و اجداد کا بنایا ہوا قصبہ ہے اور اس کا اصل نام اسلام پور تھا جس کے
۴ آخر میں قاضی کا لفظ اس وجہ سے زائد کیا جاتا تھا تا یہ ظاہر کیا جائے کہ مغلیہ حکومت کی طرف سے ایک قاضی اس علاقہ کی نگرانی کے لئے رہتا ہے لیکن مرورِ زمانہ سے یہ نام صرف قاضی اور پھر قاضی سے قادی اور قادی سے قادیان بن گیا.میرے آباء و اجداد تین سو سال تک اس پر اور اس کے علاقہ پر پہلے تو مغلیہ حکومت کی طرف سے اور بعد میں طوائف الملوکی کے زمانہ میں آزادانہ طور پر حکومت کرتے رہے ہیں.چنانچہ پرانی روایات اور سرلیپل گریفن کی کتاب ’’روسائے پنجاب‘‘ اس امر پر شاہد ہیں.مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی حکومت سے پہلے ہمارے خاندان کی حکومت کے خلاف سکھ قبائل نے حملہ کیا.اور آہستہ آہستہ ان کے مقبوضات سے جو اسّی (۸۰) دیہات پر مشتمل تھے ، ان کو بے دخل کرتے گئے یہاں تک کہ صرف قادیان ان کے قبضہ میں رہ گیا.اس سے بھی ان کو بے دخل کرنے کے لئے سکھ قبا ئل پاس کے قصبات میں ایک نیم وائرہ کی صورت میں آباد ہو گئے اور آخر میرے دادا کے والد کے زمانے میں میرے آباء کو قادیان چھوڑنا پڑا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں قبائل کا زور ٹوٹنے پر میرے دادا صاحب پھر قادیان میں واپس آگئے اور قادیان اور اس کے ملحقہ سات دیہات پر انہیں دخل مل گیا.اس کے بعد انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تو بر خلاف فوج کے دوسرے افسروں کے میرے دادا صاحب نے انگریزی حکومت سے خفیہ ساز باز نہ کیا اور غالباً اسی وجہ سے ان کے مقبوضہ علاقہ کو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا اور لمبے مقدمات کے بعد صرف قادیان کی ملکیت اور اس کے پاس کے تین گاؤں کی ملکیتِ اعلیٰ ہمارے خاندان کو ملی.میری غرض اس تمید سے یہ ہے کہ قادیان اور اس کے پاس کے اکثر گاؤں اسلامی زمانہ کے آباد شُده ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی بناء پڑی ہے.پس ان کے ساتھ کوئی ہندو روایات وابستہ نہیں ہیں وہ شروع سے اسلامی روایات کے پابند رہے ہیں اور سوائے سکھوں کی حکومت کے چالیس پچاس سالہ عرصہ کے وہ کبھی بھی اسلامی حقوق کی بجا آوری سے محروم نہیں ہوئے.اس وقت بھی قادیان کی زرعی زمین کے مالک صرف میں اور میرے بھائی ہیں.اور محض تھوڑی سی زمین بعض احمدی احباب کے قبضہ میں ہے جنہوں نے وہ زمین ہم ہی سے بغرض آبادی حاصل کی ہے.ہندو اور سکھ صرف بطور مزارعان یا غیر مالکان آباد ہیں اور وہ بھی نہایت قلیل تعداد میں یعنی بمشکل کل آبادی کا قریباً ساتواں حصہ.باوجود ان حالات کے اول میرے دادا صاحب نے اور بعد میں میرے والد صاحب
۵ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دکھایا جائے.قادیان کے کئی ہندو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ چند سال ہوئے کہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ملحقہ گاؤں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے حکام کو کہلا کر مذبح کو رُ کوا دیا اور ایک معزز ہندو صاحب کی تحریر بھی اس بارہ میں میرے پاس موجود ہے جو بوقتِ ضرورت پیش کی جا سکتی ہے.علاوہ ازیں اس امر کا ثبوت کہ اپنے ہمسایوں کے احساسات کا میں نے پورا خیال رکھا ہے یہ بھی ہے کہ جس حد تک قانون گائے ذبح کرنے کو جائز قرار دیتا ہے، میں اس سے بھی جماعت کو برابر روکتا رہا ہوں بلکہ بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہونے پر کہ انہوں نے اس معاملہ میں فتنہ کا طریق اختیار کیا ہے میں نے چھ چھ ماہ یا سال سال کے لئے قادیان سے نکال دیا.ٍ غرض جب تک کہ اقتصادی ضرورت انتہاء کو نہیں پہنچ گئی میں نے اپنے ہمسایوں کے احساسات کو اپنی جماعت کے مالی نقصان پر مقدم رکھا اور زور سے انہیں ان کے حق کے استعمال سے باز رکھا.لیکن قادیان کی آبادی بوجہ احمدی جماعت کا مرکز ہونے کے اس سُرعت سے بڑھ رہی ہے کہ بہت کم شہروں میں چور اس حیثیت کے ہوں اس کی مثال ملتی ہے.اس بڑھتی ہوئی آبادی کا اثر طبعی طور پر قادیان اور اس کے گردو نواح پر پڑنا تھا اور پڑا اور لوگوں میں یہ مطالبہ بڑھتا گیا کہ کثیر التعداد آبادی کو قليل التعداد جماعت کے احساسات کی خاطر آپ مالی نقصان کیوں پہنچاتے ہیں.آبادی کی زیادتی کے ساتھ ساتھ جب میں نے دیکھا کہ ملک کی عام مالی حالت کی خرابی کی وجہ سے ان کے خور و نوش کے سامانوں کا مہیا ہونا بھی مشکل ہو رہا ہے اور لوگ نہایت تنگ حال ہو رہے ہیں تو لوگوں کے بار بار کے اصرار پر اور یہ دیکھ کر کہ سکھ لوگ جھکا کی دکان کھولنے کی تجویز یں کر رہے ہیں، میں نے اجازت دے دی کہ اگر کوئی شخص چاہے تو مذبح کے لئے درخواست دے سکتا ہے.لیکن میں نے اپنا آخری فیصلہ آئندہ پر ملتوی رکھا.اس کے بعد میں چند روز کے لئے لاہور گیا اور اپنے برادرِ نسبتی عزیزم لفٹنٹ خلیفہ تقی الدین احمد.آئی.ایم.ایس کے مکان پر مقیم تھا کہ رات کے گیارہ بجے کے قادیان کے
۶ سات ہندؤوں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مذبح کُھلنے والا ہے میں اس کا تدارک کروں.اس وفد کے رئیس پنڈت دولت رام ممبر میونسپل کمیٹی قادیان تھے.میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف لوگ اپنی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں، دوسری طرف سکھوں نے جھٹکا کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے ان حالات میں میں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی فیصلہ کر سکتا ہوں اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہو گا، میں ایسی صورت اختیار کروں گا تاکہ طرفین کی ضرورت اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے.پس وہ قادیان جانے پر مجھ سے ملیں.میں دوسرے ہی دن قادیان کو روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچنے پر ہندو صاحبان کا ایک بڑا وفد میرے پاس اسی غرض کے لئے آیا.میں نے انہیں سمجھایا کہ سکھوں نے جھٹکا کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہو چکی ہے کہ جب دوسرا فریق ہمارے احساسات کا خیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی پر کیوں مجبور کیا جا تاہے اس لئے پہلے مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع دیں.اس پر وہ لوگ چلے گئے.دوسرے دن ایک آریہ صاحب ایک پاس کے گاؤں کے جتھے دار اور ایک سکھ ڈاکٹر کو لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے ہیں، سو یہ لوگ آگئے ہیں.میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلواؤں گا.آپ صرف ایک قادیان کے آدمی اور ایک جتھے دار کو لے کر آگئے ہیں مگر بہرحال میں ان کی بات سننے کو تیار ہوں.ان لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ جب پہلے گائے کے ذبیحہ سے آپ روکتے تھے تو اب آپ نے مذبح کی درخواست کی کیوں اجازت دے دی ہے.میں نے انہیں بتایا کہ آپ لوگوں کا سوال بھی اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ موجودہ درخواست کسی دشمنی یا دل کے دکھانے کی غرض سے نہیں ہے کیونکہ جب میں پہلے آپ کے احساسات کا خیال رکھتا رہا ہوں تو اب کیوں بِلاوجہ ان کو صدمہ پہنچاؤں گا.ہاں اگر آپ وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کی اقتصادی حالت اور بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی نے حالات بدل دیئے ہیں.اور دوسرے جھٹکا کے سوال کے پیدا ہونے کے سبب سے میں دیانت دارانہ طور پر اس قدر زور نہیں دے سکتا جس قدر کہ پہلے دے سکتا تھا.ہاں میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ میرے
۷ نزدیک جھٹکا پر مسلمانوں کا اعتراض بھی ویساہی فضول ہے جیسے گائے کے ذبیحہ پر ہندوؤں کا لیکن سمجھوتہ کراتے وقت یہ سوال نہیں ہوتا کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں بلکہ لوگوں کے احساسات کا جو غلط ہوں یا صحیح لحاظ رکھنا پڑتا ہے گو مجھے جھٹکا پر کوئی اعتراض نہیں لیکن چونکہ اب دوسرے مسلمانوں کے احساسات کا بھی سوال آگیا ہے جن کو جھٹکا پر اعتراض ہے اور پھر چونکہ میں جج نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ کرانے والے کی حیثیت رکھتا ہوں.میرا فرض ہے کہ طرفین کے احساسات کا یکساں خیال رکھوں.اس گفتگو کے دوران میں جتھہ دار صاحب نے مجھے دھمکی دی کہ اگر گاؤ کُشی کی اجازت ہوئی تو آپ یاد رکھیں کہ فساد ہو جائے گا اور اسی دهمکی کے جواب میں میری شرافت کا صرف ایک ہی تقاضا تھا کہ میں انہیں یہ کہتا کہ اگر آپ فساد سے ڈرا کر اس امر کو روکنا چاہتے ہیں تو میں ہرگز ہرگزر اسے نہیں روکوں گا.اور یہی میں نے ان کو جواب دیا.چونکہ میں نے دیکھا کہ سکھ صاحبان میرے لئے ایسا موقع مہیا کرنے پر تیار نہ تھے کہ میں دوسرے فریق پر زور دے کر اگر ان کو کلّی طور پر نہ روک سکوں، کم از کم ایک ایسا سمجھوتہ کرا دوں جس سے فریقین کی کم سے کم دل آزاری ہو اس لئے میں نے مسلمانوں کو بلوا کر ان سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا اور اس امر کا منتظر رہا کہ ہند و صاحبان کا نمائندہ جب انہیں جاکر اطلاع دے گا اور وہ مجھ سے آکر ملیں گے تو اس وقت آئند ہ طریق عمل پر غور کروں گا.لیکن وہ لوگ پھر میرے پاس نہ آئے اور میں نے سنا ہے.والله أعلم درست ہے یا نہیں کہ آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ جھٹکا کو چلنے دو گائے کا سوال خود زور سے طے کر لیں گے.اس طرح یہ دونوں سوال چلتے رہے میرے کہنے پر مسلمانوں کی طرف سے جھٹکا پر کوئی اعتراض نہ ہوا اور بر سر بازار جھٹکا کی دکان کھل گئی اور مذبح کے متعلق ایک لمبے عرصہ کے غور اور ہندؤوں کے جذبات کا کافی خیال رکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے اجازت دے دی اور مدبح اس طرف بنایا گیا جس طرف کہ مسلمان گاؤں ہیں.اور اس کی فروخت کے لئے ایسے محلّہ میں دُکان کھلوائی گئی جس کی ۰۰ ۱ فیصد آبادی مسلمان ہے.میں نے دورانِ ملاقات میں ہندو صاحبان اور سکھ صاحبان کو بھی کہہ دیا تھا اور اب بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک ملک میں امن اسی اصول پر کار بند ہونے سے ہو گا کہ ہر قوم دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینے سے اجتناب کرے.مسلمانوں کو ان کی مرغوب
۸ چیزوں کے استعمال کرنے کی پوری آزادی ہو اور ہندوؤں اور سکھوں کو ان کی مرغوب چیزوں کے استعمال کی.ہاں بغیر آزادی کو محدود کرنے کے دوسرے کے احساسات کا جس قدر خیال رکھنا ممکن ہو رکھا جائے.جب تک ہندو مسلمان اور سکھ اس اصل کی پابندی نہیں کریں گے کبھی امن نہیں ہو گا اور کبھی نہیں ہو گا.اب میں پھر واقعات کی طرف آتا ہوں.حکام ضلع کی منظوری کے بعد مذبح قائم ہو گیا.اور جب کہ میں کشمیر آیا ہوا تھا.میرے پیچھے ہی اس میں ذبیحہ بھی شروع ہو گیا.اس پر جیسا کہ مجھے باقاعدہ رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے قادیان سے بعض ہندو جو شروع سے ہی مذبح کے خلاف آس پاس کے گاؤں میں سکھوں اور ہندوؤں کو اکسارہے تھے.انہوں نے خوب لوگوں کو جوش دلایا اور آخر سات اگست ۱۹۲۹ء کو سکھوں اور ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے پولیس کی موجودگی میں مذبح گرا دیا اور اینٹوں تک کے ٹکڑے کر دے.احمدیہ جماعت موقع پر مقابلہ سے مجتنب رہی ورنہ اپنی طاقت اور قوت کے لحاظ سے اور قریب کے دیہات کی مزید مدد کے ساتھ وہ اس قابل تھی کہ حملہ آوروں کو ایسا تلخ جواب دیتی کہ انہیں مدتوں تک یاد رہتا مگر انہوں نے امن پسندی کو اور قانون کے احترام کو اپنے ہوش پر مقدم کیا.لیکن افسوس ہے کہ اس امن پسندی کا جواب عام طور پر ہندو اخباروں کی طرف سے نہایت ہی قابل شرم ملا ہے.انہوں نے بجائے اس کے کہ اپنے ہم مذہبوں کے ناجائز رویہ پر اظہار افسوس کرتے خلاف بیانی اور مغالطہ دہی سے ان کی تائید کرنی شروع کی اور انہیں اور بھی اکسایا.اور بجائے اس کے کہ انہیں ملامت کرتے، ان کی اور بھی پیٹھ ٹھونکی اور اس قدر شور برپا کیا کہ اس سے متاثر ہو کر گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ڈر گئے اور انہوں نے سخت قابلِ اعتراض رویہ اختیار کیا.بعض سکھ لیڈروں کا قابلِ تعریف رویہّ لیکن اس کے مقابلہ میں سکھوں کے بعض لیڈروں اور ان کے بعض اخبارات نے نہایت قابل تعریف رویّہ اختیار کیا اور فساد سے پہلے بھی سکھوں کو اس میں شمولیت سے روکا.اور بعد میں بھی ان لوگوں کے فعل کو جنہوں نے مذبح گرایا تھا نا پسند کیا.اس وقت کمشنر صاحب کے سامنے اپیل پیش ہے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیا فیصلہ کریں.لیکن ان کا موجودہ رویہ بہت ہی قابل اعتراض ہے.مگر اس وقت سوال ان کے فیصلہ
۹ کا نہیں ہے کیونکہ جو ہمارا ہے ہم اسے آج نہیں تو کل لے کر رہیں گے.سوال یہ ہے کہ اس فتنہ کا اثر ہندوستان کی دو نہیں تین قوموں پر جنہوں نے چند سال کے لئے نہیں ہمیشہ ہندوستان میں رہنا ہے کیا پڑے گا؟ ٍمیں بتا چکا ہوں کہ میں مدتوں تک مذبح کے خلاف رہا ہوں.نہ اس وجہ سے کہ میں مسلمانوں کا اس بارہ میں حق نہیں سمجھتا بلکہ اس وجہ سے کہ میرے نزدیک باوجود قانونی اور عقلی حق کے جہاں تک ہو سکے اپنے ہمسایہ کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے.مگر میرے نزدیک ہمسایہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اس امر کا خیال رکھے کہ قربانی کرنا صرف دوسرے پر ہی واجب نہیں اس کا بھی فرض ہے کہ جب کسی دوسرے کو حقیقی اور مادی نقصان پہنچ رہا ہو وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے اور مجھے کہ اس کا مذہب صرف اس کے اعمال پر حکومت کر سکتا ہے دوسرے مذہب کے پیروؤں پر اس کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے.غرض گو میں اس وقت تک کہ اقتصادی حالت نے مجبور نہیں کرد یا مذبح کے خلاف رہا ہوں لیکن اب جب کہ اس طرح ظالمانہ طور پر اور امن عامہ کی ذرّہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان اور اس کے نواحی علاقہ کے سکموں اور ہندوؤں نے مذبح گرا دیا ہے ذبیحہ گائے کا سوال ایک نئی صورت میں میرے سامنے آیا ہے.اس واقعہ نے مجھ پر روشن کر دیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی اصل قانون ہے اور اس کے بغیر اور کسی قانون کی حرمت ان کی نگاہ میں نہیں ہے.اس تلخ حقیقت کو اس امرنے اور بھی نمایاں کر دیا ہے کہ مہابیر دَل نام کی ایک سوسائٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ اگر ذبیحہ گائے کی اجازت مل گئی تو اس کے ممبر دوبارہ بھی جبر اور تعدّی سے اس کام کو روکنے سے باز نہیں رہیں گے.ٍ میرے نزدیک موجودہ حالات نے مسلمانوں کو پہلے سے بھی زیادہ مجبور کر دیا ہے کہ وہ گائے کے ذبح کرنے کے حق کو استعمال کریں.اور جہاں یہ حق حاصل نہ ہو وہاں اس کے حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ پہلے تو اقتصادی حالت کا ہی تقاضا تھا.کہ وہ گائے کے گوشت کو استعمال کریں اب مذہبی اور اخلاقی حالات بھی اس کا مطالبہ کرنے لگ گئے ہیں.نہیں اس طرح کہ اسلام میں کسی وجود کا حد سے بڑھ کر احترام شرک ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.کہ بنی اسرائیل چونکہ فرعو نیوں میں رہتے تھے جن میں کہ گائے ایک مقدس
۱۰ وجود سمجھا جاتا تھا اس وجہ سے ہمسائیوں کے خیالات کے بد اثرات سے بچانے کے لئے انہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا.پس جب کہ ہندو صاحبان مسلمانوں کو مجبور کرنے لگے ہیں کہ وہ کسی صورت میں بھی گائے ذبح نہ کیا کریں تو ہمیں ڈر ہے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آہستہ آہستہ گائے کا ناواجب احترام کرنے لگیں گی اور جس طرح انہوں نے اور کئی بد رسوم ہندوؤں کی اختیار کر لی ہیں گائے کی عزت بھی مُشرکانہ طور پر ان کے دل میں جاگزیں ہو جائے گی.اور یہ ایک خیالی خطرہ نہیں ہے.بلکہ سکھوں میں اس کی نظیر ملتی ہے.سکھ لوگ موحّد ہیں اور مشرکانہ خیالات ان کے اصول مذہب کا جزو نہیں ہیں لیکن باوجود اس کے چونکہ ہندوؤں سے ان کی رسوم ملتی تھیں ان سے رشتہ ناطہ کا تعلق رکھنے کی خاطر انہوں نے گائے کا کھانا ترک کر دیا.اب گو وہ کہتے تو یہی ہیں کہ گائے کی عزت ہمارے مذہب کا جزو نہیں صرف اقتصادی طور پر ہم اس کے ذبح کرنے کے مخالف ہیں لیکن حق یہی ہے کہ ان کے دلوں میں آہستہ آہستہ اس کی عزت گھر کر چکی ہے ورنہ اقتصادی طور پر گائے کی حفاظت کا خیال مسلمانوں میں زیادہ ہونا چاہئے تھا جن کے زمینداروں کی تعداد پنجاب میں سکھوں سے بہت زیادہ ہے.ٍ پھر یہ اقتصادی سوال عقلا ًبھی درست نہیں.یورپ کے لوگ گائے کا گوشت کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے ملک کی گائے ہمارے ملک کی گائے سے بہت اچھی ہوتی ہے.اور گائے کی تعداد کو بھی بے روک گاؤ کشی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس ملک میں جس جانور کی کھپت زیادہ ہو گی اس کی پیدائش بھی زیادہ ہو جائے گی کیونکہ اس کے فوائد کی کثرت کی وجہ سے اس کی قدر بڑھ جائے گی اور لوگ اسے زیادہ پالنے لگیں گے.گائے کی حفاظت گاؤ کشی کے روکنے سے ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی نسل کشی کی طرف توجہ کرنے سے ہو گی- یو - پی جس میں کثرت سے گائے ذ بح ہوتی ہے وہاں گائے کی تعداد اس کی نسل کی عمدگی میں پنجاب کی نسبت جہاں کہ بہت سی روکیں ہیں ، کوئی کمی نہیں آئی.اخلاقی طور پر بھی اس جبر کی وجہ سے یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کیونکہ جبر کے ماتحت کسی امر سے رُکنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے.بس اب جب کہ جبر اور تعدّی سے کام لیا گیا ہے اور آئندہ کے لئے بھی دهمکی دی گئی ہے ہر مسلمان کا فرض ہو گا کہ وہ
۱۱ قانون کے اندر رہتے ہوئے ہر ممکن طریق سے اس سرکشی والی روح کا مقابلہ کرے اور اپنی آئندہ نسل کو غلامی اور بزدلی کی دو لعنتوں سے بچائے اور مسلمان اگر اس فتنہ کا مقابلہ نہیں کریں گے تو یقیناً آئندہ وہ شودروں کی طرف ہو کر رہیں گے- ان حالات کو آپ کے سامنے پیش کر کے میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے کہ مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کر سکیں اور ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے- اور ان کے ہمسائیوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں تو آپ مجھے اس سے مطلع کریں میں ہر معقول تجویز پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں- ٍ آپ پر یہ بھی واضح رہے کہ مجھے ہر گز ان لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے جنہوں نے بعض شریروں کے اکسانے سے مذبح کو گرا دیا ہے- میں ہر گز اس پر خوش نہیں کہ ضرور ان کو سزا ہی ملے- اگر مسلمانوں کے جائز حقوق ان کو مل جائیں اور اگر یہ وحشیانہ طریق ترک کر دیا جائے اور دوسرے کے کاموں میں خواہ مخواہ دخل نہ دیا جائے تو میں بڑی خوشی سے ان لوگوں کو معاف کر دوں گا- اور دوسری اقوام سے مل کر گورنمنٹ سے درخواست کروں گا کہ آئندہ دلوں کی صفائی کیلئے ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے- اسی طرح میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبح کو جاری کیا جا سکے- قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرانے کا ذمہ وار ہوں- مثلاً اگر مجھے یہ بتایا جائے کہ قادیان کے نواح میں شہر سے باہر )کیونکہ حفظان صحت کا خیال ضروری ہے( فلاں جگہ مذبح بنایا جائے` پہلی جگہ پر نہ ہو یا یہ کہ دیواریں پہلے سے زیادہ اونچی ہوں یا مثلاً یہ کہ دوکانیں صرف شہر کے فلاں فلاں حصہ میں رکھی جائیں یا اور ایسی ہی تجاویز جس سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کو کم سے کم صدمہ پہنچتا ہو- پیش کی جائیں تو میں انشاء اللہ ان کی تائید کروں گا اور ان کے حصول کے لئے ہندوؤں اور سکھوں کی پوری مدد کروں گا- لیکن اگر مجھے اس پر مجبور کیا جائے کہ گائے کے ذبیحہ کو کلی طور پر بند کر دیا جائے تو میں اسے نہ صرف خلاف عقل مطالبہ سمجھتا ہوں بلکہ گذشتہ طاقت کے مظاہرہ کے بعد ذبیحہ گائے کے ترک کو مسلمانوں کے اخلاق کو بھی اور ان کے مذہب کو بھی برباد کرنے والا سمجھتا ہوں- اور اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں- بلکہ اس مطالبہ کی صورت میں میں یہ اپنا فرض سمجھوں گا کہ مسلمانوں کو اس ظلم سے
۱۲ بچاؤں اور جس قدر تدابیر گائے کے گوشت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے ممکن ہو سکتی ہوں` انہیں اختیار کروں- میرے نزدیک ہمارے برادران وطن کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صرف نئے مذبحوں کے اجراء ہی سے گائے کے گوشت کا استعمال زیادہ نہیں ہوتا- بلکہ اس کے اور بھی طریق ہیں- مثلاًیہ کہ جس جس جگہ پر پہلے سے مذبح موجود ہے- اگر وہاں کے مسلمان جو پہلے شاذو نادر گائے کا گوشت استعمال کرتے تھے- آئندہ عہد کر لیں کہ وہ گائے کا گوشت ہی استعمال کیا کریں گے- یا اکثر استعمال کیا کریں گے تو وہ سمجھ لیں کہ چند ماہ میں بیسیوں مذبحوں سے زیادہ گائے کے گوشت کی کھپت شروع ہو جائے گی- اسی طرح مثلاً اگر ان قصبات کے لوگ جہاں پہلے گائے کا گوشت نہیں ہوتا تھا- قریب کے مذبحوں سے گائے کا گوشت منگوا کر استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے یا مثلاً اگر دیہات کے لوگ جن پر موجودہ قانون حاوی نہیں ہے- گائے زیادہ ذبح کرنے لگیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے؟ غرض ایسے بہت سے ذرائع ہیہ کہ جن کو اختیار کر کے پنجاب میں چند ہی ماہ میں گائے کے گوشت کی کھپت دگنی سے بھی زیادہ کی جا سکتی ہے- اور ان ذرائع کے اختیار کرنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کو بھی پہلے سے زیادہ صدمہ پہنچے گا- اور اگر گورنمنٹ دخل دے گی تو یقیناً یہ تحریک اور بھی زیادہ طاقت پکڑ جائے گی اور ہر مسلمان گاؤں کا براہ راست گورنمنٹ سے مقابلہ شروع ہو جائے گا- لیکن گورنمنٹ سے بہت زیادہ تکلیف خود ہندو صاحبان کے احساسات کو پہنچے گی- میں امید کرتا ہوں کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ میرے خط کا جلد جواب دے کر مجھے ممنون فرمائیں گے- لیکن اگر آپ نے اس طرف جلد توجہ نہ کی اور بعد میں کوئی ناگوار صورت حالات پیدا ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ اپنی قوم کا درد اور ملک کی محبت رکھتے کی وجہ سے آپ کو بھی ضرور تکلیف محسوس ہوگی- مگر چونکہ وقت پر آپ نے خبر نہ لی ہوگی` آپ کو مجھے ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی کچھ کہنے کا حق نہ ہوگا- اور نہ آپ کو یہ حق ہوگا کہ آپ مجھ پر خصوصاً اور باقی مسلمانوں پر عموماً یہ اعتراض کریں کہ ہمیں حالات کو بہتر بنانے کا موقعہ نہیں دیا گیا- یا یہ کہ ایسے ذرائع کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو ملک میں صلح اور آشتی پھیلانے کا موجب ہوتے- پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو ختم کروں میں سکھ لیڈروں کو خصوصیت کے ساتھ اس
۱۳ امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے ان کے جائز حقوق کا ہمیشہ احترام کیا ہے- چنانچہ پچھلے دنوں جب ایک احمدی نو مسلم کی کتاب کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا کہ اس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے- تو گورنمنٹ نے بھی ان کی آواز پر توجہ نہ کی تھی کہ میں نے خود اس کتاب کو ضبط کر لیا اور انہیں اس امر کا اقرار ہوگا کہ میرا ضبطی کا حکم گورنمنٹ کے حکم سے زیادہ موثر تھا- کیونکہ نہ صرف اس کتاب کی خریداری رک گئی بلکہ فروخت شدہ کتاب یا اس کے قابل اعتراض حصے ہر جگہ جلا دیئے گئے- پس میں مخلصانہ طور پر انہیں مشورہ دینے کا حق رکھتا ہوں کہ گاؤکشی کے سوال کے متعلق فیصلہ کرنے سے پہلے وہ دو باتوں پر غور کر لیں- اول اس کا مذہبی پہلو ہے- سکھ اصحاب یہ امر بھلا نہیں سکتے کہ حضرت باوا نانک علیہ رحمتہ نے توحید کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی سے کام لیا ہے- پس جس چیز کو قائم کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے آرام کو قربان کر دیا تھا- اس چیز کو محض ایک عارضی معاہدہ کے قیام کے لئے تباہ ہونے دینا ہر گز اپنے آباء کی خدمات توحید کا اچھا اعتراف نہ ہوگا- دوسرے انہیں یہ بات نہ بھلانی چاہئے کہ جب تک گاؤ کشی کے متعلق عام سکھوں کے جوش کی موجودہ حالت قائم رہے گی اس وقت تک سکھ پبلک کے دو لیڈر رہیں گے- ایک ہندو ساہوکار اور دوسرے سکھوں کے قومی لیڈر- چنانچہ مذبح قادیان کا واقعہ اس امر کا بین ثبوت ہے- باوجود اس کے کہ سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے قومی لیڈر خود قادیان میں کہہ آئے تھے کہ گاؤکشی پر سکھوں کو اور جھٹکہ پر مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے- مسلمانوں نے تو ان کی نصیحت پر عمل کر کے جھٹکہ پر اعتراض نہ کیا- مگر سکھوں کو ہندو جوش دلانے میں کامیاب ہو گئے- پہر انہدام مذبح کے بعد بھی اکالی اور خالصہ سکھوں کے دونوں حصوں کے موقر اخبارات کے سمجھانے کے باوجود قادیان اور اس کے گردو نواح کے سکھوں پر کوئی اثر نہیں ہوا- پس گاؤکشی کے متعلق سکھوں کے رائج الوقت خیالات ان کے قومی شیرازہ کے باندھنے میں بھی روک ہیں- پس امید ہے کہ اپنے مذہب کی جان یعنی توحید کی حفاظت اور اپنے قومی شیرازہ کی مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھ لیڈر اپنی قوم کو اس مشرکانہ خیال کی تائید میں کھڑا ہونے سے باز رکھیں گے بلکہ توحید کے قیام کے لئے ہمارے دوش بدوش کھڑے ہوں گے- میں امید کرتا ہوہ کہ اوپر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان اپنے
۱۴ ہمسائیوں کے احساسات کا جائز احترام کرنے کو تیار ہیں- اس امر کو ترجیح دی جائے گی کہ جن جن مسلمانوں کو جائز طور پر مذبح کی ضرورت ہے- ایسی شرائط کے ساتھ ان کو اجازت دی جائے کہ ان کے ہمسائیوں کو ناواجب تکلیف نہ ہو اور ایسے حالات سے ملک کو بچایا جائے جو اس کے امن کو برباد کرنے والے اور اس کی آزادی کو نقصان پہنچانے والے ہوں- اس جابرانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے جو قادیان کے مذبح کے انہدام میں تیار کیا گیا ہے- اور جو مسلمانوں کو کھلا چیلنج ہے اور اس رویہ کو دیکھتے ہوئے جو بعض ہندو اخبارات نے اس موقعہ پر اختیار کیا ہے- میرے جذبات جس قدر متاثر ہیں- میں نے اس کا اظہار اس مضمون میں نہیں ہونے دیا- تا کہ میری اصل غرض فوت نہ ہو جائے- مگر میں امید کرتا ہوں ہوں کہ باوجود اس کے آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ ایک زندہ قوم اپنی آئندہ نسل کو روحانی اور اخلاقی موت میں پڑنے کے خطرہ میں دیکھ کر انتہائی جدوجہد کرنے کے بغیر خاموش نہیں ہوگی- خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان حال سری نگر کشمیر ۹ ستمبر۱۹۲۹ء (الفضل ۲۰.ستمبر۱۹۲۹ء)
۱۵ ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثاني
۱۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہتے (فرمودہ ۳۰.ستمبر ۱۹۳۹ ، بمقام جموں کشمیر) ۳۰.ستمبر کشمیر سے واپس آتے ہوئے حضرتخلیفۃ المسیح الثانی کو بو جہ لاریوں کے وقت پر نہ پہنچنے کے جموں ٹھہرناپڑا اس موقع پر احباب جموں نے حضور کی تقریب کا انتظام کیا.تشہّد و تعوذ اور تلاوت سورة فاتحہ کے بعد فرمایا.اللہ تعالی کی مرضی اور اس کے منشاء کے ماتحت باوجود اس کوشش کے کہ میں یہاں سے کل بھی روانہ ہو جانا چاہتا تھا مجھے ایک دن کے لئے اسی مقام پر ٹھہرنا پڑا.میرے دل میں خواہش تھی کہ میں اس مقام کو دیکھوں اس لئے کہ ہماری جماعت کے پہلے خلیفہ اور امام حضرت مولوی نورالدین ایک عرصہ تک اس میں رہے ہیں اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے انسان اپنے پیاروں کے مقامات کو دیکھتا ہے.مجھے مدت سے اس کا خیال تھا مگر ہر کام کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے.جب میری خواہش تھی میں نہ آسکا مگر اب بغیر اپنی خواہش کے مجبورا ًمجھے ٹھہرنا پڑا.ہمارے یہاں کے دوستوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان اصحاب کی خاطر جو ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے کچھ بیان کروں.خدا کی حکمت ہے میں سمجھتا تھا میرا وقت ضائع گیا.مگر اب خدا نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے.ممکن ہے میرے اس بیان میں بعض ان لوگوں کو جنہیں تحقیق ِحق مطلوب ہو کوئی مفید بات معلوم ہو اور وہ فائدہ اٹھا ئیں.مذہب کی غرض میرے نزدیک مذہب کی غرض فتنہ و فساد پیدا کرنا نہیں بلکہ مذہب والوں کی صفائی کے لئے ہوتا ہے.اگر فتنہ غرض ہوتی تو اسے شیطان باحسن طریق سرانجام دے سکتا تھا.مگر یہ سب کی ہرگز یہ غرض نہیں.ٍ حضرت محمد رسول اللہ پر جنہوں نے اپنی جوانی کی زندگی اپنی قوم کی بھلائی میں خرچ
۱۸ کی کوئی عقلمند ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ بڑھاپے کی عمر میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.آنحضرت ﷺ کے متعلق تاریخ میں ایک واقعہ درج ہے جو اگر چہ عام مؤرخین کی نظر سے پوشیدہ ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے.وہ جنگ احد کا واقعہ ہے جب کہ آنحضرت ﷺ کے دانت شہید ہوئے.اس وقت ابو سفیان نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہے ابو بکر ؓ کہاں ہے ؟ عمرؓ کہاں ہے ؟ یعنی سب مارے گئے ہیں.اس وقت حضرت عمر ؓ جواب دینے لگے کہ میں تمہارے مارنے کے لئے موجود ہوں مگر آنحضرت ﷺ نے روکا اور اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کہنے دیا.لیکن جب ابو سفیان نے کہااعل هبل أعل هبل تو اس وقت آنحضرت ﷺسے برداشت نہ ہوسکا.اور فرمایا کیوں نہیں کہتے............الله أعلى و اجل غرض آپ نے ہر گز اپنی ذات نہ منوائی نہ اپنی بڑائی چاہی بلکہ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے.پس میں ان واقعات کی موجودگی میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ آنحضرت ﷺ اپنی بڑائی دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے.پس میں یہی ایک بات پیش کر کے احمدیوں سے بھی اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ تعصب سے کام لینا چھوڑ دیں اور صداقت پر غور کریں.اب جب کہ میں گاڑی پر جانے والا ہوں بعض اصحاب نے سوالات کئے ہیں.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام کے جواب دے سکوں صرف ایک بات پیش کرتا ہوں جس سے کوئی اہل مذہب انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ خدا کو ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی سے بڑھ کر پیار کرنے والا کوئی وجود نہیں.اگر کوئی خدا ہے تو وہ ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے.پھر یہ بھی کہا اسے ہماری ہدایت کی زیادہ فکر ہے.ایک امریکن دہریہ کی کتاب میں نے پڑھی ہے جو خدا تعالی کے متعلق دیباچہ میں عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے.ایک بات مجھے سمجھائیں اور وہ یہ کہ اگر خداہے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسے ہمارے ساتھ ہمارے والدین سے زیادہ پیار ہونا چاہئے.اس نے سب کچھ ہمارے لئے بنایا تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ پیار نہ کرے اور والدین سے زیادہ ہماری فکر نہ کرے.پھر کہتا ہے.اگر میں زہر کھاتا ہوں تو مجھے ماں باپ روکتے ہیں، دوست روکتے ہیں مگر جب میں گمرای و ضلات میں مبتلاء ہوتا ہوں تو کیا وجہ خدا میرا ہاتھ نہیں پکڑتا.پھر وہ کہتا ہے مجھ سے کہا جائے گا کہ تم گندے ہو جیسے والدین نالائق اولاد
۱۹ سے ناراض ہو جاتے ہیں اسی طرح خدا بھی تم سے ناراض ہے مگر میں ان کا یہ جواب دوں گا کہ میں تو گنده سہی مگر تم میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتا جس کا ہاتھ خدا پکڑ تا ہو اور اس کو گمراہی و ضلالت کے گڑھے سے بچاتا ہو.عیسائیوں میں سے کوئی تو ہو جو خدا سے تعلق رکھتا ہو اور خدا اس سے تعلق رکھتا ہو.جب میں نے اس کتاب کا یہ مقام پڑھا تو مجھے وجد آگیا کہ یہ فطرت انسانی بول رہی ہے.میں نے کہا بے شک اس کی تسلی عیسائیت نہیں کر سکتی مگر اسلام کر سکتا ہے.قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ۲ لیکن وہ لوگ جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں.موجودہ زمانہ میں فرقوں کی کثرت کا یہ حال ہے کہ ان کا گننا بھی آسان نہیں.اس حالت میں ایک طالب حق کے لئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ وہ خدا کے حضور جھکے اور صحیح راستہ معلوم کرے.ایک صوفی کا واقعہ لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک طالب علم تھا.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگا تو صوفی صاحب نے اسے نصیحت کرنی چاہی اور اس سے دریافت کیا تم اب جاتے ہو مگر یہ تو بتاؤ اگر شیطان نے تمہارا مقابلہ کیا تو کیا کرو گے.طالب علم نے کہا کہ میں بھی اس کا مقابلہ کروں گا.صوفی نے کہا اچھا اگر وہ بھاگ جائے اور پھر آ کر مقابلہ شروع کر دے تو پھر کیا کرو گے.طالب علم نے کہا میں پھر بھی اس کا مقابلہ کروں گا.صوفی نے کہا اس طرح تو تم ہمیشہ شیطان کا مقابلہ ہی کرتے رہو گے.پھر آگے کس طرح ترقی کرو گے طالب علم نے کہا پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا کرنا چاہے.کہا یہ بتاؤ - اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے جاؤ اور اس کا کتا تمہارا مقابلہ کرے تو اس وقت کیا کرو گے.طالب علم نے کہا میں اسے ہٹاؤں گا.صوفی نے کہا اگر وہ باز نہ آئے اور اندر جانے نہ دے تو پھر کیا کرو گے.اس نے کہا میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ اپنے کتے کو رو کو میں اندر آنا چاہتا ہوں.صوفی نے کہا.بس خدا سے ملنے کا بھی یہی طریق ہے کہ جب شیطان پیچھا نہ چھوڑے تو خدا کی طرف انسان تو جہ کرے اور اسے آواز دے کہ تو ہی اسے دور کر دے.پس میرے نزدیک بہترین ذریعہ سچائی کی طلب کا یہ ہے کہ انسان خدا کی طرف متوجہ ہو - خداتعالی سے کہے.میں کسی مذہب کو اس لئے نہیں مانتا کہ یہ میرے ماں باپ کا مذ ہب ہے بلکہ میں مذہب کو مذہب سمجھ کرماننا چاہتا ہوں تو ہی مجھے سچے مذ ہب کا پتہ بتا.جب کوئی یہ طریق اختیار کرے گا تو ضرور خدا اس کی راہنمائی کرے گا.میرا یہ
۲۰ ذاتی تجربہ ہے.نہ صرف میرا بلکہ بہت سے غیر مسلموں سے بھی کرایا گیا ہے اور وہ اس طرح کامیابی حاصل کر چکے ہیں.پس اگر کسی کو دلائل سے راہنمائی نہیں ہوئی تو وہ یہ طریق اختیار کرے پھر خدا تعالی ضرور اس کی رہنمائی کرے گا.سورة فاتحہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ دعا ہے اور صرف مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ مسلمان غیر مسلمان سب اس سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.اس میں سکھایا گیا ہے کہ بندہ یوں دعا کرے.خدایا ! ہمیں ایسا رستہ دکھا جو ہدایت کا راستہ ہے اور جو پہلے منعم عليه گروہ کا رستہ ہے.ایسا رستہ نہ دکھا جو مغضوب عليهم ياضالین کا ہے.پس میرے نزدیک جو شخص ہدایت کا طالب ہے وہ تعصب سے دور ہو کر مذاہب کی قیود سے باہر ہو کر خدا سے دعا کرے کہ اے خدا تو نے مجھے پیدا کیا تو سچائیوں کا منبع ہے، تُوہی سچا ہادی ہے تُو مجھے سچائی کا رستہ دکھا.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص چالیس دن تک ایسا کرے تو ضرور اللہ تعالی اس کے لئے رہنمائی کے سامان پیدا کر دے گا.یہ ایسا طریق ہے جس سے ہر شخص خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو فا ئدہ اُٹھا سکتا ہے.اگر میں دلائل پیش کروں اور آپ لوگ متاثر بھی ہو جائیں تو بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی اور آئے اور ان باتوں کو غلط قرار دے اور ان کے خلاف دلائل پیش کرے اور پھر ان سے تم متاثر ہو جاؤ اس لئے میں ایسی بات پیش کرتا ہوں کہ خود بخود خدا کی طرف سے راہنمائی حاصل ہو جائے.یہ وہ طریق فیصلہ ہے جو میں اپنے لئے بھی پسند کرتا اگر میں ہدایت کی تلاش میں ہوتا مگر چونکہ بعض لوگ دلائل کے خواہشمند ہوتے ہیں اور وہ دلائل سننا چاہتے ہیں سو میں ان اصحاب کے لئے مختصراً چند باتیں پیش کرتا ہوں.ہمارا د عویٰ یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی اور دینی لحاظ سے وہ بالکل کورے تھے.اسلام صرف نام کا رہ گیا تھا اور قرآن کریم سے عمل اٹھ گیا تھا.صرف رسومات کی پابندی باقی تھی اس لئے خدا کے قاعده مستمرّہ کے ماتحت ضرور تھا کہ کوئی أمور و مرسل آتا جو مسلمانوں کی حالت سنوارتا.اسلام قائم کر تا احکامِ قرآن کی پابندی کراتا.حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ مجھے خدا تعالی نے اس غرض کے لئے مبعوث فرمایا ہے.میں مسیح موعود ہوں اور خدا کی طرف سے م أمور ومرسل ہوں.میرا کام یہ ہو گا کہ میں اسلام کو دنیا میں قائم کروں اور غیر مذاہب کے حملوں سے اسے بچاؤں، اعتراضات کا قلع قمع کروں اور
۲۱ حقیقت اسلام پیش کروں.چنانچہ آپ ہی کے ذریعہ وہ اعتراض جو مدت سے آنحضرت ﷺ پر مخالفین اسلام کی طرف سے کیا جاتا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور ہوا.آپ نے ثابت کیا کہ اسلام کی اشاعت کا باعث آنحضرت ﷺکی قوتِ قدسیہ تھی جس سے سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا.آنخضرت ﷺنے اس طرح لاکھوں کو اپنا گرویدہ بنایا.آج بھی خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے جو آپ کا غلام ہے تا آپ کا غلام دنیا میں اسلام بغیر تلوار پھیلائے تا دنیا جان لے کہ جو کام شاگر د کر سکتا ہے وہ استاد کیوں نہیں کر سکتا.آنحضرت ﷺ استاد تھے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی اتباع سے اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات حاصل ہو سکتے ہیں.دیکھو استاد کا کمال کیا یہ ہوتا ہے کہ اس کی نسبت کہا جائے یہ ایسا کامل ہے کہ اس کا کوئی شاگر د پرائمری سے بڑھ نہیں سکتا.یا یہ کہ یہ ایسا کامل ہے کہ اس کے شاگرد بی اے اور ایم اے ہیں.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سے نبوت مل سکتی ہے.سورة ناتھ میں جو انعمت علیهم آیا ہے اس کی دوسرے مقام پر اس طرح تو ضیح کی گئی ہے وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا؎ اس آیت میں منعم علیه گروہ کے چار درجے بیان فرمائے گئے ہیں.نبی، صدیق ،شہید صالح.یعنی اللہ تعالی کی اطاعت اور آنحضرت ﷺ کی پیروی سے انسان یہ چار درجے حاصل کر سکتا ہے.دوسرے انبیاء اور آنحضرت ﷺ میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ پہلے انبیاء کی اتباع سے نبی نہیں بن سکتے تھے صدیق اور شہید ہو سکتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کو وہ کمال حاصل تھا کہ حضور کی اتباع سے نبی بھی بن سکتے ہیں.بعض لوگ ناواقفیت کے باعث یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں مع‘ کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ نبی نہ ہونگے نبیوں کے ساتھ ہو نگے.مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے.یہ مع صرف النبین کے ساتھ ہی نہیں.بلکہ الصِّدِّیْقِیْنَ الشُّهَدَآءِ الصّٰلِحِیْنَ سب کے ساتھ بھی ہے اور اگر ان کے معنی درست تسلیم کئے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ نبی نہ ہو نگے نبیوں کے ساتھ ہونگے.صدیق نہ ہونگے بلکہ صدیقوں کے ساتھ ہونگے.شہید نہ ہو نگے بلکہ شہداء کے ساتھ ہو گئے.صالح نہ ہو نگے بلکہ صالحین کے ساتھ ہوں گے.لیکن اگر غور کیا
۲۲ جائے تو ان معنی سے تواُمّت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا یہاں مع بمعنی من یعنی " سے" کے ہیں.قرآن کریم میں یہ استعمال موجود ہے.چنانچہ آیا ہے.توفنا مع الأبرار ۴؎ یعنی نیکوں میں سے کر کے مار، یہ معنی نہیں کہ جب کوئی نیک بنده مرنے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ وفات دے دے.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺکی اتباع سے مقام نبوت بھی حاصل ہو جاتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع سے جو نبی بنے گا.اس کی نبوت دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ہوتی ہے آنحضرت ﷺ کی نسبت سے وہ امتی ہو تا ہے.پس ایسی نبوت کے حصول میں آنحضرت ﷺ کی کسر شان نہیں.حدیث میں آیا ہے لوكان مؤسي و عيسى حیين لما وسعهما إلا اتباعی ۵؎ یعنی اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو تا.پس اگر نبی کے ماتحت ہونے سے کسر ِشان ہوتی تو رسول کریم ﷺ یہ نہ فرماتے.حضرت مرزا صاحب باو جود دعویٰ نبوت کے امتی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ کی غلامی کے اظہار میں عزت سمجھتے تھے.چنانچہ آپ کا یہ مشہور شعر ہے.کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیانگرز غلمانِ محمد اسی طرح آپ اپنے فارسی الہامی قصیدہ میں فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم گر کفرایں بود بخدا سخت کافرم آپ نے آنحضرت ﷺ کی وہ نعتیں لکھیں جن کا پہلی نعتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں.آپ سے پہلے کی کہی ہوئی نعتیں صرف زلفوں گیسوؤں کے ذکر پر مشتمل ہوتی تھیں.اور کہ آنحضرت ﷺ کا سایہ نہ تھا وغیرہ.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی نعتیں کہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا.ان نعتوں کا موازنہ صرف مطالعہ سے ہو سکتا ہے.ایک شخص نے جب مجھ سے سوا کیا آنحضرت ﷺکی جو بھی نعت دیکھی جائے اس میں آپ کے کمالات کا ذکر نہیں ہوتا آپ کی خوبیوں کا ذکر نہیں کیا جا تا صرف گیسوؤں اور
۲۳ زلفوں کی تعریف ہوتی ہے تو میں سخت شرمندہ ہوا اور میں نے اسے یہ جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نعتیں لکھی ہیں وہ آپ دیکھیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ نعتیں لکھی ہیں جن سے اسلام کی محبت ظاہر اور نمایاں طور پر نظر آتی ہے جو شخص بھی ان نعتوں کو دیکھے کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ایسا شخص آنحضرت ﷺکی کسرِ شان کے لئے کوئی دعویٰ کر تا ہو گا.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی کسرِ شان کرنے والے ہوں اور پھر حضور کی عزت و عظمت قائم کرنے کے لئے ایسی ایسی نعمتیں بھی لکھیں.بالآخر میں کہتا ہوں آپ لوگ خدا تعالی ہی سے راہنمائی حاصل کریں اور اس کے لئے یہ طریق اختیار کریں جو دعا کا ہے.اللہ تعالی مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا کرے کہ ہم صحیح رستے پر گامزن ہوں اور اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں.(الفضل ۳- در نمبر۱۹۲۹ء) ۱؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد ، میرت ابن ہشام (عربی) جلد ۲ صفحہ۱۴۰ ۲؎مطبع مکتبہ فاروقیہ ملتان ۱۹۷۷ء ۲؎العنكبوت:۷۰ ۳؎النساء:.۷۰؎ آل عمران:۱۹۴ ۵؎هو الیواقیت والجواهر مؤلفه الامام شعرانی جلد ۲ صفحہ ۲۰ ام.
۲۵ مذبح قادیان از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود ٓحمد خلیفۃ المسیح الثاني
۲۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم مذبح قادیان کے انہدام کے متعلق اظہارِ خیالات (فرمودہ یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء) سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں اپنے دوستوں کا اس اظہار ِمسرت اور اظہار ِاخلاص پر جو میری آمد پر انہوں نے کیا ہے شکریہ ادا کرتے ہوئے اور اللہ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالی انہیں اس اخلاص اور محبت کی جزائے خیر عطا کرے، اس موضوع کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس پر کہ اس ایڈریس کے جو اس وقت میری آمد پڑھا گیا ہے اکثر مطالب حاوی ہیں.دنیا جانتی ہے ہم نے بزدل کہلا کر خوشامد ی کہلا کر، لالچی اور حریص کہلا کر، بے وقوف اور جاہل کہلا کر اور ہر قسم کے بُرے سے بُرے نام رکھا کر بھی دنیا میں امن اور آشتی قائم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سعی اور جد وجہد سے کام لیا ہے.لوگوں نے ہمارے نازک ترین احساسات کو صدمہ پہنچایا اور ہر طرح کے طعنوں سے بھڑکایا لیکن باوجود ان کے اشتعال اور غیرت دلانے کے ہم نے اپنے جذبات کو دبائے رکھا اور فتنوں اور فسادات کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے مٹانے کی سعی کی ہے.لیکن ایک بات ہے جو میں اپنی جماعت کے دوستوں کو سنا دینا اور ساری دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں اور وہ ہے کہ مومن اگر ایک وقت اپنی نرمی، آشتی اور صلح جوئی کے ثبوت کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو جس وقت اس کی اس آزمائش اور اس امتحان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں سے آگے چلنے سے شریعت اسے روک دیتی ہے، اس وقت اس سے بڑھ کر بہادر اور جری بھی کوئی نہیں ہوتا.اس وقت اسے بہادری اور شجاعت د کھانے سے نہ دنیا کی حکومتیں روک سکتی ہیں، نہ گورنمنٹیں اس کا کچھ کر سکتی ہیں کیونکہ دنیا میں کسی کام سے رُکنے اور باز رہنے کی دو ہی وجوہ ہوتی ہیں.اول
۲۸ شریعت اور عقل کہتی ہے کہ یہ کام نہ کرو.دوسرے بُزدلی اور منافقت کہتی ہے اس سے پیچھے ہٹ جاؤ لیکن جب مومن کو یہ معلوم ہو جاۓ کہ شریعت اور عقل فلاں کام کرنے سے روکتی نہیں بلکہ اس کے کرنے کا حکم دیتی ہے تو ایک ہی بات باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ بُزدلی اسے اس کام کے کرنے سے روک دے.مگر خدا کے بندے کبھی بزدل نہیں ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ اصلیت و اسلام فرماتے ہیں.صادق بُزدل نبود وگر بیند قيامت را جو شخص سچائی پر قائم ہو تو یہ سمجھتا ہو کہ جس رستے پر چل رہا ہے وہ خدا تعالی کی رضا کا راستہ ہے تو پھر اگر قیامت بھی آجائے تو وہ بُزدلی نہیں دکھایا کرتا.پس ہم اپنی ان قدیم روایات کو قائم رکھتے ہوئے جن کی وجہ سے ہم نے اپنے ہم قوموں اور اپنے بھائیوں سے لڑائی مول لی ، ان کی ناراضگی برداشت کی ، ان کے طعنے سنے، انہیں قائم رکھتے ہوئے سعی کریں گے کہ دنیا میں امن قائم رہے ، فتنہ و فساد نہ پیدا ہو- مگر دنیا کو یہ بھی معلوم ہو جانا چاہئے جہاں ہم خود ابتداء نہ کریں گے وہاں اگر کوئی ہمارے متعلق ابتداء کرے گا تو ہم اس کی کوئی حرکت بھی برداشت نہیں کریں گے اور وہ، وہ کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہوگا.ہم کسی کے خلاف ہاتھ میں اٹھاتے لیکن جو ہاتھ ہمارے خلاف اٹھے گا وہ شل کیا جائے گا، وہ قطع کیا جائے گا اور وہ کبھی کامیابی سے نیچے نہیں جھکے گا.ہم نے کبھی باتیں نہیں بنائیں ، کبھی بڑھ بڑھ کر دعوے نہیں کئے اور اس وجہ سے لوگوں کے اعتراض بھی سنے.جب انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے اس وقت ہم ان کے دعووں میں شریک نہ ہوئے اس لئے کہ ہم جانتے تھے یہ محض دعوے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں کیا جائے گا.اس پر ہمارے متعلق کہا گیا یہ بزدل ہیں اس لئے پیچھے ہٹ گئے ہیں.مگر کر کے انہوں نے کبھی کچھ نہ دکھایا.صرف باتیں کر کے رہ گئے.غرض ہم نے کبھی نہیں کہاکہ ہم خون کی ند یاں بہا دیں گے اور ہم تو لوگوں کے زخم مندمل کرنے آئے ہیں نہ کہ خون بہانے کے لئے.پس ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ ہم دنیا میں امن اور صلح قائم کریں گے.مگر باوجود اس کے میں بتا دینا چاہتا ہوں.اگر کوئی ہمارے امن پسندی کے جذبات سے غلط فائدہ اٹھا کر قدم اٹھانا چاہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالی کی جماعتوں نے کبھی پیٹھ نہیں دکھائی اور پہلوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی پیٹھ
۲۹ دکھانے کے لئے تیار نہیں ہیں.مگر میں نے بتایا ہے ہم یوں دعوے نہیں کیا کرتے اور اس وقت بھی میں کوئی دعویٰ کرنا پسند نہیں کرتا اسی لئے میں اس بات کو طول دینا نہیں چاہتا بلکہ صرف اتنا کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسا موقع آئے گا اس وقت ہم دکھا دیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا کرتے ہیں.مؤمن کا کام وقت اور موقع پر کر کے دکھانا ہو تا ہے اس لئے اسے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن چونکہ خیالات کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے دوسرے دھوکا کھا سکتے ہیں اس لئے میں فساد بڑھانے کی غرض سے نہیں بلکہ امن پسندی کی نیت سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم قیام ِامن کے لئے سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتے جس سے بے غیرتی اور بے حمیّتی پیدا ہو.مذبح کے سوال پر میں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سوال یہ نہیں کہ سکھوں اور ہندوؤں نے اینٹوں کی ایک چار دیواری گرا دی.یا یہ کہ ایک خاص غذا کھانے سے مسلمانوں کو روک دیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کوئی قوم اپنی نجابت اور شرافت کو ثابت کرنے کے لئے کبھی ایسی زندگی برداشت نہیں کر سکتی کہ ایک دوسری قوم اسے کہے کہ جو میں کہوں وہ کرے اور جس کی میں اجازت دوں وہ کھائے.اس قوم سے بڑھ کر بے غیرت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی جو اپنے کھانے پینے کو دوسری قوم کے اختیار میں دے دے.اسلام نے کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا کہ اس کی تعلیم پر عمل کرے لیکن اس بات کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تعلیم پر چلنے کیلئے مجبور کرے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندو ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک کہتے تو یہ ہیں کہ اسلام جبر کی تعلیم دیتا ہے مگر جبر خود کرنا چاہتے ہیں اور گائے کا گوشت جبراً بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اسلام نے تو اُن معاملات میں بھی جبر کرنے کی اجازت نہیں دی جو کہ گائے کی نسبت بہت اہم ہیں.مثلاً سُود خوری.اے خدا سے لڑائی قرار دیا گیا ہے.مگر ہم روزانہ بنیوں اور مہاجنوں کو دیکھتے ہیں کہ سودی کاروبار کرتے ہیں.مگر ہم ان کی بہیوں کو چاق نہیں کر دیتے.لیکن یہی طریق طریق جاری ہو جائے کہ جو بات کسی کو دوسرے مذاہب والوں کی ناپسند ہو، اس سے جبراً روک دے تو ہندوؤں کو معلوم ہونا چاہئے.اسلام نے سود خوری کو خدا سے جنگ قرار دیا ہے.اگر اسی اصل پر عمل ہونا چاہئے جو ہندو گائے کے متعلق قرار دے رہے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی حتمال ہوتا ہوا ہے سودی لین دین کرنے والوں کو جبراً روک دیں.ان کی بہیاں پھاڑ دیں اور ان کے مکان گرا دیں.کیا دوسری قومیں
۳۰ مسلمانوں کو یہ حق دینے کے لئے تیار ہیں.کہا جاتا ہے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم تو نہیں ہے.ہم کہتے ہیں کیا وید میں سود لینے کا حکم ہے اور لکھا ہے کہ جو سود نہ لے گا اس کی مکتی نہ ہوگی.اگر نہیں تو گائے اور سود کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے.انہیں ان کا مذہب سود لینے سے روکتا ہے.لیکن ہمارا مذ ہب گائے ذبح کرنا جائز قرار دیتا ہے اور سودی کاروبار کو خدا سے جنگ بتاتا ہے.پھر ہم مسلمان ہی گائے کا گوشت کھاتے ہیں دوسرے ہماری نقل نہیں کرتے.مگر ہندوؤں کا سودی کار و بار دیکھ کر کچھ مسلمان بھی سود لینے لگ گئے ہیں.اگر اسی اصل پر عمل کرنا چاہئے تو کیا دو سری قومیں اس کے لئے تیار ہیں؟ ہمیں تو اس اصل کی صحت سے انکار ہے.لیکن جو اس پر عمل کرتے ہیں کیا وہ یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ مسلمانوں کو ان کی جو بات ناگوار ہو اس میں وہ بھی جبر کر لیں.کیا اس طرح ملک میں امن قائم رہ سکتا ہے اور ملک کے باشندے امن کی زندگی بسر کر سکتے ہیں.اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جہاں مسلمانوں کا زور ہواوہاں مسلمانوں نے ہندوؤں کو دبا لیا.اور جہاں ہندوؤں کا زور ہوا وہاں انہوں نے مسلمانوں کو دبا لیا.اس سے نہ کوئی قوم قائم رہ سکتی ہے نہ امن قائم ہو سکتا ہے.جب ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں تو اس سچائی کو تسلیم کرنا پڑے گا.کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے زندگی بسر نہیں کی جا سکتی.منہ سے سَوَراج سَوَراج ۱؎ کہنے سے سَوَراج حاصل نہیں ہو سکتا.نہ وطنیت ، وطنیت کہنے سے قائم ہو سکتی ہے.بلکہ جب یہ سمجھ لیں کہ ہندوستان میں کئی مذاہب قائم ہیں جن کا آپس میں اختلاف ہے اور ہر ایک کا حق ہے کہ اپنے اپنے مذہب پر چلے.دوسرے کو کسی کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دینا چاہئے اس وقت و طنیّت قائم ہو سکتی ہے.لیکن جب تک اس بات کو تسلیم نہ کر لیا جائے اور اس کے مطابق زندگی بسر نہ کی جائے اس وقت تک وطنیّت قائم ہو سکتی ہے نہ سَوَراجیہ مل سکتا ہے.ہم اس رواداری سے کام لینے کے لئے تیار ہیں اور اس کا عملی ثبوت دے رہے ہیں.ہمارے مرکز میں غیر مذاہب کے لوگ ایسے کام کرتے ہیں جن سے مسلمانوں کے احساسات کو شدید صدمہ پہنچتا ہے مگر ہم ان میں دخل نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں ہر ایک کی مرضی اور اختیار ہے ، جو چاہے کرے.جب دوسروں کے متعلق ہمارا یہ رویہ ہے تو ہم یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ وہ چیز جو ہمارے مذہب نے ہمارے لئے جائز قرار دی ہے وہ دوسروں کے دباؤ پر چھوڑ دیں.ہم اپنی مرضی اور اختیار اور سمجھو تہ سے جو انہیں چھوڑ دیں مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا
۳۱ کہ ہم اپنی نسلوں میں یہ احساس پیدا ہو نے و ہیں کہ فلایا چیز ہم سے زبردستی چُھرا دی گئی ہے.اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ ہم اپنی اولاد کو ہمیشہ کے لئے ہندوؤں اور سکھوں کی غلامی میں دے دیں.پس مو جودہ حالات میں ذبیحہ گاۓ کا سوالی مسلمانوں کے لئے ایسااہم ہے کہ اس پر ان کی اولادوں کی غلامی اور آزادی کا انحصار ہے.دوسری طرف جو لوگ ذبیحہ گائے کو روکنا چاہتے ہیں وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے احساسات حد سے بڑھے ہوئے ہیں ورنہ ان کا حق نہیں کہ ایسا کریں کیونکہ جو گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں وہ ان کے مذہب کے لوگ نہیں بلکہ الگ مذہب کے ہیں اور دوسروں پر جبر کرنے کا انہیں کیا حق ہے.بہرحال انہوں نے جو جبر کا نمونہ دکھایا ہے اس نے مسلمانوں کو بتا دیا ہے کہ یہ ان کی غلامی اور حریت کا سوال ہے اور اس وجہ سے ہم اسے حل کرنے کے لئے مجبور ہیں.ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی ہے ، ان میں کوئی انتظام نہیں، انہیں پھاڑنے کے کئی طریق برادران وطن جانے اور ان پر عمل کرتے رہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں ہم وقت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے کامیاب ہو نگے کیونکہ خدا تعالی کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی پس اگر ہمسایہ قوموں نے ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تو ہم نہ صرف پنجاب کے بلکہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو منظّم کریں گے تاکہ وہ اپنے حقوق حاصل کریں.اور غیر مسلموں کے حد سے بڑھے ہوئے احساسات مٹا دیں اس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی جو اس بات کے لئے مسلمانوں کو مجبور کر رہے ہیں.ہم نے ان لوگوں کا ہمیشہ بے حد خیال رکھا.یہاں کے لوگ گواہ ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہاں سے اس لئے نکال دیا کہ اس نے گائے کا گوشت فروخت کیا اور جب تک میں نےیہ محسوس نہیں کیا کہ اس کام کی واقعی ضرورت ہے اس وقت تک اس کی اجازت نہیں دی.ممکن ہے یہاں کے لوگ غصہ کی حالت میں اس کا انکار کر دیں.جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ پہلے گورنمنٹ نے اجازت نہیں دی تھی نہ کہ آپ نے روکا تھا حالانکہ اس وقت میں نے افسروں کو اجازت دینے سے روکا تھا اور میرے پاس قادیان کے ایک معزّز ہندو کا خط موجود ہے جس میں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ میں نے ہی پہلے مذبح کو روکا تھا.غرض ہم نے ہر طرح ان کا خیال رکھا اور لمبے عرصہ تک رکھا.حالانکہ اس عرصہ میں بھی یہ لوگ ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر طرح کوشش کرتے رہے اور میں سمجھتا ہوں جو طریق انہوں نے اس دفعہ اختیار کیا اگر اس کی بجائے اسی طرح ہی میرے پاس آتے تو جس قدر ممکن ہوتا میں ان کا خیال رکھتا.اور
۳۲ میرے ذہن میں ایسی تجاویز تھیں کہ ان پر عمل کرنے سے ہندو اور سکھ صاحبان کی دلجوئی ہو سکتی تھی مگر ان میں سے ایک فریق نے تو دھمکی دی کہ اگر مذبح جاری ہوا تو فساد ہو جائے گا اور چو نکہ دھمکی کوئی باغیرت انسان برداشت نہیں کر سکتا اس لئے میں نے بھی کہہ دیا جو فساد کرنا چاہتے ہوں وہ کر کے دیکھ لیں.دوسرا فریق ملنے کا وعدہ کر کے نہ آیا.اس نے سمجھا وہ زور سے جو چاہے منوائے گا.ورنہ اگر یہ لوگ میرے پاس آتے تو انکا مدّعا ان کے اختیار کردہ طریق سے زیادہ بہتر حاصل ہو تا.میں نہیں سمجھتا گورنمنٹ کس طرح ایسا ظالمانہ اور خلاف ِعقل فعل کر سکتی ہے کہ مذبح کو روک دے.لیکن اگر وہ ایسا ہی کرے تو بیسیوں طریق ایسے ہیں جن پر عمل کیا جا سکتا ہے اور میں نے معلوم کر لیا ہے کہ ذبیحہ گائے گورنمنٹ کے روکنے سے بھی نہیں رک سکتا اور قانون کے اندر رہ کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور مذبح سے بھی زیادہ کیا جاسکتاہے.پس اگر مذبح کو روک بھی دیا گیا تو ہم قانون کے الفاظ کی تو پابندی کریں گے مگر اس کی روح کو کچل دیں تھے.اور خود کئی ہندوؤں نے میری اس چِٹّھی کے جواب میں جو میں نے شائع کی ہے تسلیم کیا ہے کہ قانون کے ذریعہ اس کا تصفیہ نہیں ہو سکتا اور نہ قانون کے ذریعہ ذبیحہ گائے روکا جا سکتا ہے ایسی باتیں آپس کے سمجھوتہ سے ہی طے ہو سکتی ہیں.اور قانون کی نسبت زیاده عمدگی سے طے ہو سکتی ہیں.مگر اس طریق کو چھوڑ کر جبر کا رنگ اختیار کیا گیا اس لئے ہم بھی مجبور ہیں کہ حریت کی روح د کھائیں اور اپنا حق حاصل کریں.پس ہم اب اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.ہاں غور کرنے کیلئے اب بھی تیار ہیں بشرطیکہ پہلے مذبح قائم کر دیا جائے.جنہوں نے مذبح گرایا ہے وہ پہلے اسے بنادیں اور پھر میرے پاس آئیں اور مجھ سے بات کریں.مذبح کے کھڑے ہونے سے پہلے نہیں.اس صورت میں ہم تمام وہ طریق اختیار کریں گے جن سے اپنی عزت قائم کر لیں اور دنیا کو بتادیں کہ ہم کسی کے غلام ہو کر رہنے کیلئے تیار نہیں ہیں.میں نے بتایا ہے گورنمنٹ کے قانون کی پابندی کرنا ہمارے لئے مذہباً ضروری ہے مگر ایسے رہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ اس قانون کی غرض باطل کی جاسکتی ہے.چنانچہ ہماری جماعت کے ایک معزز شخص نے حکومت کے ایک بڑے افسرسے کہہ دیا تھا آپ جو چاہیں کر لیں میں بھی تمہیں حکومت نہیں کرنے دوں گا گائیوں کے پیچھے ہی پھیرا تا رہوں گا.تو وہ غلطی کا ازالہ کر کے آئیں.میں ہر دو طریق اختیار کرنے کیلئے تیار ہوں جو ہماری عزت کو قائم رکھ سکے ، ہماری ضرورت پوری کر سکے اور ان کے احساسات کا خیال رکھا جا سکے.غرض ہم ان کے
۳۳ احساسات کو زیادہ سے زیادہ مد نظر رکھیں گے.ورنہ نہ صرف ہم ہی ذبیحہ گائے پر زور دیں گے بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تحریک کریں گے.باوجود اس کے مقامی ہندوؤں کے تعلقات ہم سے اچھے نہ تھے.وہ جھوٹی باتیں ہماری طرف منسوب کر کے فتنہ پیدا کرنیکی کوشش کرتے رہتے تھے.میں نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا اور جب ایک گذشتہ سال مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ سیاسی تعلقات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک کی کہ گائے کی قربانی زیادہ کی جائے.تو میں نے اعلان کر دیا کہ ہندوؤں کی دل آزاری کی غرض سے ایسا نہ کیا جائے اس طرح قربانی نہ ہوگی مگر ہماری ان باتوں کا کوئی خیال نہ کیا گیا.ہماری امن پسندی کو بُزدلی بتایا گیا اور کہا گیا قادیان کے اردگرد سکھوں اور ہندوؤں کے ۸۴ گاؤں ہیں وہ مذبح قائم نہیں ہونے دیں گے.میں کہتا ہوں.اگر ۸۴ گاؤں بھی ہوں کیا ہوا مؤمن تو ساری دنیا سے بھی نہیں ڈرتا.میں تو اگر اکیلا ہوتا اور ۸۴ چھوڑ ۸۴ لاکھ گاؤں بھی ارد گرد ہوتے اور عزت کا سوال ہوتا تو میں اکیلا ہی گائے ذبح کرتا اور سب سے کہہ دیتا آؤ جو کر سکتے ہو کر لو.انسان زنده رہتا ہے کچھ کرنے کیلئے.اگر اس کی عزت ہی نہ رہی تو اس نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے کس کے لئے زندہ رہے.ادھر رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے من قتل دون ماله و عرضہ فهو شهيد ۲؎ کہ جو اپنے مال اور عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے.پس مؤمن موت سے نہیں ڈر سکتا.اگر کوئی اسے موت کی دهمکی دیتا ہے تو وہ بڑی خوشی سے اس کا خیر مقدم کرتا ہے کہ آؤ جو مارنا چاہتا ہے مار ڈالے.مگر جن کو خدا نے زندہ رکھنے کیلئے پیدا کیا ہے انہیں کون مار سکتا ہے.مؤمن تو اس دیو کی طرح ہوتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے خون کی ایک ایک بوند سے ایک ایک دیو پیدا ہو جاتا تھا.اگر کوئی ایک احمدی کو مارے گا تو اس کی جگہ سَو کھڑے ہو جائیں گے جس کا جی چاہے یہ تماشہ دیکھ لے.اور ہم سے پہلے کونسی کمی کی گئی ہے لیکن ہمارا کیا بگاڑ لیا.ابھی دیکھ لو ہندوؤں اور سکھوں نے مذبح کی اینٹیں ہی جُدا کی تھیں کہ سارے مسلمانوں کے دل اکٹھے ہو گئے.اگر اس قسم کے جبر سے یہ لوگ کام لیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے.مسلمانوں میں قومی غیرت بھڑکے گی اور مسلمانوں کا تفرقہ جس کا کوئی علاج نظر نہیں آتا اس طرح دور ہو جائے گا.پس ہم ان دھمکیوں سے گھبراتے نہیں.ہاں کوئی صدمہ ہے تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں جو صلح و آشتی پیدا کرنا چاہتے ہیں اسے نقصان نہ پہنچے.ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالی میں اپنی عزت قائم رکھنے اور امن و آشتی سے
۳۴ زندگی بسر کرنے کی توفیق دے.ہم خود بھی امن میں رہیں اور اپنے ہمسایوں کو بھی امن دیں.غرض یہ ایک اہم معاملہ ہو گیا ہے اور اس کا سب اسلامی فرقوں سے تعلق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اس قسم کے نقصان ہمیں اس لئے پہنچ رہے ہیں کہ جن امور میں ہمیں اتحاد کرنا چاہئے ان میں نہیں کرتے.اس وجہ سے ہم سے دوسری قومیں وہی سلوک کر رہی ہیں جو ایک جاٹ نے ایک سید ایک مولوی اور ایک اُن کے خادم سے کیا تھا کہ ان تینوں کو اکیلے اکیلے کر کے خوب پیٹا تھا.مگر میں سمجھتا ہوں مسلمانوں میں یہ بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جن باتوں میں ہم متفق ہو سکتے ہیں ان میں متفق ہو جانا چاہئے.میں نے مسلمانوں کی تنظیم کے متعلق ایک سکیم سوچی ہے جو ایسے اصول پر ہے جو مسلمان خود تسلیم کر لیں.پہلے قادیان کے اردگرد اور ضلع گورداسپور کے مسلمانوں میں اسے جاری کرنے کا ارادہ ہے.پھر وسعت دی جائے گی اگر مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں ہیں اور جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے، کھل گئی ہیں تو دوسری قومیں خود بخود انہیں حقوق دے دیں گی.اب وقت نہیں ہے کیو نکہ مغرب کی نماز قریب ہے کہ میں سکیم کے متعلق کچھ کہوں.میرا ارادہ ہے لوگوں کو جمع کرکے یہ سکیم ان کے سامنے پیش کروں اور پھر کارروائی شروع کی جائے.میں اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ قادیان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کشیدگی چلی آتی تھی وہ اس موقع پر دور ہو گئی.اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے دوست خیال رکھیں گے کہ یہ اتحاد مستقل ہو اور وہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے.میں نے اس کے لئے بھی سکیم تجویز کی ہے کہ اگر کوئی اختلاف پیدا ہو تو کس طرح اسے دور کیا جائے.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی دعویٰ کرنے کی بجائے ہمیں اپنے عمل سے ثبوت دینے کی توفیق دے.میں مظلوم کی موت کو ظالم کی زندگی سے بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ مظلوم خدا کا مقرّب ہو تا ہے اور ظالم خدا سے دور پھینکا جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہمیں اسلام اور مسلمانوں کا اعزاز اور توقیر اس ملک میں اور اس سے باہر بھی قائم کرنے کی توفیق دے اور مسلمان اسی نظر سے دیکھے جائیں جس سے رسول کریم ﷺ اور آپ کے اجداددیکھے جاتے تھے.(الفضل 8 اکتوبر ۱۹۲۹ء)
۳۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم مذبح کے سوال کو حل کرنے پر اہل قادیان کی پوری آمادگی (فرمودہ ۶ اکتوبر ۱۹۲۹ء) مذبح قادیان کے انہدام سے پیدا شدہ صورت حال کے مطابق مشورہ اور غور کرنے کیلئے ۶-اکتوبر ۱۹۲۹ء بعد نماز عصر مسجد نور میں ایک جلسہ منعقد ہوا- جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تقریر فرمائی- حضور نے تلاوت سورہ فاتحہ کے بعد فرمایا- مذبح کے معاملہ میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے- یہاں دو قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں- بعض لوگ تو یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ مذبح کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے- اور ہمیں اس کے متعلق اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں اور بعض کا یہ خیال ہے کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے سستی ہو رہی ہے- اور جس طرح کام ہونا چاہئے اس طرح نہیں چلایا جاتا- لیکن یہ دونوں خیال غلط ہیں- مذبح کے متعلق کام کرنے کا وقت اب شروع ہونے والا ہے ہم نہیں کہہ سکتے گورنمنٹ اس کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی- اس وقت تک ہم نے جو کچھ کیا ہے- وہ یہی ہے کہ تمام باتیں کمشنر تک پہنچا دی ہیں- لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان باتوں پر عمل بھی کرے- اور ہمارا پچھلا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ گورنمنٹ شورش پسندوں سے ڈرتی ہے- اور امن پسند لوگوں کے حقوق کی کماحقہ حفاظت نہیں کرتی- حالانکہ گورنمنٹ کی ضرورت ہی کمزورں کے لئے ہوتی ہے- زبردست تو خود لاٹھی سے اپنی حفاظت کر لیتے ہیں بلکہ ان کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہ رہے تا وہ اپنی من مانی کارروائیاں کریں- اگرچہ ہندوستانہ میں اس وقت بھی ایسے حکام موجود ہیں جو قانون کا احترام اور کمزورں کی اعانت کرتے اور حق و انصاف کو ہر حال میں قائم رکھتے ہیں- لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور
۳۶ اسے عمدہ پالیسی سمجھتا ہے- افسران بالا کے ساتھ گفتگو کرنے سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں- ان میں سے بعض مذبح کے موافق نہیں- بلکہ ڈپٹی کمشنر جس نے انگریزی انصاف کا پورا پورا نمونہ دکھایا ہے اور پوری پوری تحقیقات کے بعد دوسری جماعت کو بے صبر کرنے والی تھی اس کی اجازت دی ہے- افسران <بالا نے اس کے بھی خلاف رائے دی ہے- حالانکہ سنا گیا ہے کہ پہلے کمشنر مسٹر کینوے بھی اس سے متفق تھے- لیکن باوجود اس کے یہ دونوں افسر تجربہ کار، مقامی حالات سے واقف اور علاقہ کے ذمہ وار تھے- ان کی پراوہ نہیں کرتے اور جب تک پورے زور کے ساتھ کوشش نہیں کی گئی- افسران بالا نے واقعات کو معلوم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گویا وہ ایک ایسی قوم کو جو شروع سے وفاداری پر قائم رہی ہے- قانون توڑنے پر مجبور کر رہے تھے- اور دھتکار رہے تھے اور پوری کوشش کے بعد ہم صرف واقعات ان تک پہنچانے کے قابل ہو سکے ہیں- اب اس کا نتیجہ کیا ہوگا- اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا- پس ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہونے والا ہے- اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی ایسا نظام قائم کر لیں کہ اگر فیصلہ ہہمارے خلاف ہو تو معاً اپنا کام شروع کر سکیں- میں نے بتایا ہے کہ ہم مذہباً پاپندی قانون کے لئے مجبور ہیں- اگر احمدیت کا جوا ہماری گردنوں پر نہ ہوتا تو یقیناً ہم بھی وہی طریقہ اختیار کرتے جو دوسرں نے کیا ہوا ہے اور یہ ہمارا گورنمنٹ پر کوئی احسان نہیں اور نہ اس کا بدلہ ہم اس سے چاہتے ہیں اگرچہ گورنمنٹ کا فرض تھا کہ اس انسان کا احترام کرتی جس نے اس کے لئے ایک وفادار جماعت پیدا کر دی ہے- ایسا نہ کرنا گورنمنٹ کی احسان فراموشی ہے- مگر بہرحال ہم پابندی قانون کے لئے مجبور ہیں- اور چاہے طبائع میں کتنا ہی جوش ہو، ہمارے دشمن شریک، ساتھی، واعظ سب ہمیں طعنے دیں ہم نے بہرحال قانون کی پابندی کرنی ہے- لیکن قانون کے معنی ڈپٹی کمشنر، کمشنر یا گورنر کا حکم نہیں بلکہ شہنشاہ معظم کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق گورنمنٹ کے معنی People the of Govt یعنی ملک کی آواز کے ہیں- یعنی گورنمنٹ رعایا کی رائے کا نام ہے- پس جب گورنمنٹ کے معنی یہ ہیں تو اگر ہم اپنی آواز بلند ہی نہ کریں تو ہم تعاون کرنے والے کیسے ٹھہر سکتے ہیں- پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی نمائندگی کو زیادہ مضبوط کریں- اور پورے زور کے ساتھ اپنی آواز افسرانِ بالا تک پہنچائیں- لیکن شرط یہ ہے کہ قانون شکنی نہ ہو اور ہمیشہ آئین کا احترام کیا جائے- پس ہم نے قانون کے اندر رہتے ہوئے اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل
۳۷ کرنے ہیں- یہ اصل ہے جس کے ماتحت ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہئے- عجیب بات ہے کہ میں اپنے خط میں جو لیڈروں کے نام لکھا- جن الفاظ میں انہیں مخاطب کیا، وہی آج سے پچاس سال قبل گورنر جنرل لکھ چکا ہے- جنہیں میں نے بعد میں دیکھا- ملتان کے کمشنر نے حکومت سے دریافت کیا کہ مذبح کے متعلق کیا قوانین ہیں- اس کے جواب میں گورنر جنرل نے لکھا کہ اس میں اس حد تک روک ہونی چاہئے کہ ہندوؤں کی دل آزاری نہ ہو- اس جواب پر اس نے ملتان میں گوکشی بند کر دی- کیونکہ اس نے اس کے معنی یہی سمجھے کہ جہاں ہندوں ہوں وہاں چونکہ ان کی دلازاری ہوتی ہے، اس لئے گوکشی نہیں ہونی چاہئے اور اپنے اس فیصلہ سے لوکل گورنمنٹ کو اطلاع دی- جس نے اسے لکھا تمہارا یہ فیصلہ الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے- اور ساتھ ہی گورنر جنرل کو اطلاع دی کہ کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ آپ کے الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے جس پر گورنر جنرل نے لکھا نہ صرف یہ کہ ہمارے الفاظ کا ہی خیال نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی روح کے بھی خلاف ہے- گاؤمکشی مسلمانوں کا امتیازی نشان ہے اور اس کے بند کر دینے کے یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں ہندوؤں کی حکومت ہے- اور مسلمان ان کے غلام ہیں- پس کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ غلط ہے- اور گاؤکشی کی عام اجازت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ غلامی کی بدترین قسم ہے- دیہات میں جو لوگ ڈرتے ہیں، وہ چونکہ کمزور ہیں- اگر وہ اسے برداشت کرتے ہیں تو کریں- نبیوں کی جماعتیں حُرّ ہوتی ہیں اور حریت پیدا کرنے آتی ہیں اس لئے ہم اسے قبول نہیں کرتے- میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم نے کہ میری جماعت گورنمنٹ کی وفادار ہے- ہمیں غلامی سے بچالیا- لوگ ہمیں غلام کہتے ہیں لیکن حقیقت میں غلام وہ ہیں جو اطاعت کو فرض نہ سمجھتے ہوئے مجبوراً اطاعت کرتے ہیں- اور ہم مذہب کی پابندی میں ایسا کرتے ہیں- وگرنہ ہم اسے کبھی برداشت نہ کرتے- اور فوراً ہتھیار لیکر نکل کھڑے ہوتے- ہماری شریعت نے تو ایمان میں بھی غلامی کو جائز نہیں رکھا- بظاہر یہ کمزوری معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے اس وقت کیوں سکھوں پر لٹھ نہیں چلایا- لیکن یہ بہت بہتر ہوا ہے کیونکہ جہاں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں- ہندو کہتے ہیں مسلمانوں نے ابتداء کی- لیکن یہاں ان کے ظلم کا خالص نمونہ نظر آ رہا ہے- اور ہندو لیڈر غصہ میں دانت پیس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے کیوں مقابلہ نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی تعدّی کا روشن ثبوت ہے- اور یہ واقعات بتاتے ہیں کہ
۳۸ وہ امن و امان سے رہنے کے متمنی نہیں- بلکہ چاہتے ہیں کہ مسلمان چوہڑے، چمار اور گونڈبھیل کی طرف ملک کے اندر رہیں- اب مسلمان دیکھ لیں کہ وہ ایسی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں- ہندو برابر چند سال سے ایسی حرکات کر رہے ہیں- ایک جگہ فساد کرتے ہیں وہاں کے مسلمان دو تین ماہ شور مچا کر خاموش ہو جاتے ہیں تو دوسری جگہ کر دیتے ہیں- پھر تیسری جگہ غرضیکہ فسادات کا ایک سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا ہے- جس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ مسلمان بزدل ہو جائیں اور خود بخود کہنے لگیں کہ ہمیں تمہاری غلامی منظور ہے- غرضیکہ ہندو روز بروز دلیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مہابیر دل نے اعلان کیا ہے کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے لیکن مذبح نہیں بننے دیں گے- پس اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے جس پر غور کرنا ہے- اس کے دو پہلو ہیں- ایک مقامی جس سے باہر والوں کا تعلق نہیں ہے- اور صرف قادیان یا اس کے ملحقہ دیہات سے جو یہاں سے گوشت لے جا سکتے ہیں، تعلق رکھتا ہے- کیونکہ یہاں کے مذبح کا گوشت یہاں کے لوگ ہی کھائیں گے- اور دوسرا پہلو اس جبر کا ہے جو اس کے گرانے کے متعلق کیا گیا- اور وہ تعدی کی روح جس کا مظاہرہ ہوا- یہ ساری دنیا کے احمدیوں بلکہ سارے مسلمانوں بلکہ دوسری اقوام سے بھی تعلق رکھتا ہے- مقامی حصہ کے متعلق تمام اخراجات مقامی جماعت کو برداشت کرنے ہونگے- اگرچہ مرکزی نظام کے ماتحت ہی یہ کام ہوگا- لیکن باہر کے لوگوں سے اس کے لئے مدد نہیں لی جائے گی- لیکن اس ظالمانہ روح کو توڑنا جیسا قادیان سے تعلق رکھتا ہے- ویسا ہی دوسرے مقامات سے ہے- اس لئے لوگوں کے اندر نئی زندگی اور ایسا جوش پیدا کرنا جس سے وہ ثابت کر دیں کہ وہ اس جبر کو ماننے کے لئے تیار نہیں- یہ کام مرکز سے متعلق ہے- پس مرکزی حصہ کے متعلق تو باہر کی جماعتوں سے مدد لی جائے گی- لیکن مقامی پہلو کی ہر قسم کی ذمہ داری مالی، جانی، مقامی لوگوں کو برداشت کرنی چاہئے- اگرچہ اس میں بھی مرکزی جماعت مدد دے گی- لیکن وہ Subsidy قسم کی ہوگی- اصل بوجھ مقامی جماعت پر ہی ہوگا- یہ نہیں کہ اس کے لئے بھی باہر سے مدد مانگیں- اور خود مجاور بن کر بیٹھے رہیں- یہ سپر نہایت بری ہے- مقامی لوگوں کو تو ہرکام میں عملی نمونہ سے باہر والوں کو راہ نمائی کرنی چاہئے- اگر باہر کے لوگ بھی اس بوجھ کو بھی اٹھانے کے لئے تیار ہیں، لیکن ہمیں اپنی ذمہ واری کو خود محسوس کرنا چاہئے- پس آپ لوگ یہ سمجھ کر کہ اس رستہ میں آپ کو بہت سی قربانیاں کرنی پڑیں گی- بھوکے، پیاسے، ننگے رہنا پڑے گا- سپاہیانہ
۳۹ زندگی کی مشق کرنی ہوگی ، راتوں کو جاگنا ہوگا، پہرے دینے ہونگے- ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں اور اس کام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں- (حضور کے اس سوال پر تمام حاضرین نے بلا استثناء کھڑے ہو کر اس کام کو سرانجام دینے پر آمادگی کا اقرار کیا- پھر حضور نے دریافت فرمایا- ) جو لوگ اس معاملہ کو طُول دینا مناسب نہ سمجھتے ہوں اور اسے یہیں ختم کر دینا چاہتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں- (جس پر ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہوا- ) (اس کے بعد حضور نے فرمایا-) ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کی تنظیم کریں، لوگوں کو قانون سے واقف کریں، اس علاقہ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے- اس ضلع میں کثرت مسلمانوں کی ہے- ذیلداروں اور آنریر مجسٹریٹیاں مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کے پاس بہت زیادہ ہیں- مسلمان قانون سے ناواقف ہیں- ہمارا کام ہے کہ انہیں واقف کریں- انہیں بتائیں بلکہ اشتہار دیں کہ گائے کھائیں- یہ کوئی جرم نہیں ہے- صرف یہ شرط ہے کہ پردہ کے اندر اسے ذبح کیا جائے- گائے کے ذبیحہ کرنے کی کہیں بھی ممانعت نہیں سوائے اس جگہ کے جہاں دفعہ ۴۳ ہو- صرف اتنی احتیاط چاہئے کہ نمائش نہ ہو- اس وقت یہاں دفعہ ۴۳ ہے- لیکن اگر کمشنر نے فیصلہ خلاف سنا دیا تو اسی دن یہ منسوخ ہو جائے گی- پس آج سے ہی سکیمیں بنانی چاہئیں کہ پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا- (فرمودہ ۱۵-اکتوبر ۱۹۲۹ء) ۱؎ حکومتِ خوداختیاری ۲؎ بخاری کتاب المظالم باب من قتل دون مالہ میں ’’ من قتل دون مالہ فھو شھید‘‘ کے الفاظ ہیں.
احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثاني
۴۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں (فرموده ۵- اکتوبر ۱۹۲۹ء) ۵- اکتوبر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو جو ایڈریس پیش کیا گیا اس کے جواب میں حضور نے حسب ذیل تقریر فرمائی- سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: میں توپہلے ممبراتِ لجنہ کا اپنی طرف سے اور اپنے خاندان اور اپنے ہمراہیوں کی طرف سے اس دعوت کے متعلق شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہماری آمد پر دی گئی ہے- اس کے بعد اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ لجنہ آہستگی کے ساتھ گو استقلال کے ساتھ اپنے لئے کام کے نئے میدان تلاش کر رہی ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر لجنہ اسی طرح کام کرتی چلی گئی تو حقیقاً نہ کہ نام کے طور پر اسے ہم ایک مرکزی لجنہ قرار دے سکیں گے- اس کے بعد جو کچھ لجنہ اپنے کام کو وسیع کرنے کے متعلق کر رہی ہے اس کی نسبت ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انجمنوں کی زندگی دراصل قانون کی زندگی ہوتی ہے- کسی ایک فرد سے کام لے کر بہت سے افراد کے ہاتھوں میں کام دینے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ افراد متحد جدوجہد کر احترام کے عادی ہو جائیں اور ان کے اندر یہ ماہ پیدا ہو جائے کہ اگر کسی وقت ایک لیڈر سے انجمن محروم ہو جائے تو کام کے تسلسل میں فرق نہ پیدا ہو- اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ اہم اور ضروری بات ہوتی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے- اور قانون کی پابندی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ قانون مقررہ الفاظ میں موجود ہو- جہاں لجنہ کی ممبرات اپنے کام کو وسیع کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں، وہاں انہیں اپنے ہی قانون سے باہر نہیں نکلنا چاہئے- اسی ایڈریس میں جو اس وقت پڑھا گیا ہے، ایک سکول کا ذکر
۴۴ ہے- مگر میرے پاس لجنہ کی جو رپورٹ پہنچتی رہی ہے- اس میں اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں تھا جس رنگ میں اس کا ایڈریس میں ذکر ہے، بلکہ اور رنگ میں تھا- لجنہ جب اپنے کام کی آپ ذمہ وار ہے تو وہ ایسا ریزولیوشن پاس کر سکتی تھی جس کے ماتحت یہ سکول آ جاتا- ممکن ہے لجنہ نے اس کے متعلق ریزولیوشن پا کیا ہو اور مجھے وہ ریزولیوشن نہ پہنچا ہو- مگر جو پہنچا اس میں اور جس بات کا اس وقت ذکر کیا گیا ہے بہت فرق ہے- اس قسم کی اور خامیاں بھی لجنہ کے کام میں ہو جاتی ہیں- جس کی وجہ یہ ہے کہ ممبرات لجنہ کو یہ احساس نہیں کہ پہلے قانون ہونا چاہئے اور پھر اس کے ماتحت کام کرنا چاہئے- خواہ کوئی کتنا اچھا کام ہو- لیکن اگر قانون سے پہلے شروع کیا جاتا تو اس سے انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح برباد ہو جاتی ہے- اس کے مقابلہ میں خواہ کتنا تھوڑا کام ہو لیکن اگر اس کے متعلق قانون پہلے وضع کیا جاتا ہے اور کام پیچھے کیا جاتا ہے تو اس طرح قربانی اور ایثار کا مادہ ترقی کرتا اور انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح پیدا ہوتی ہے- پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں لجنہ کی ممبرات کام کی طرف قدم بڑھاتی ہیں- وہاں کوئی ایسا کام نہ کریں نہ کوئی عہدہ دار ایسا کرے اور نہ ساری ممبرات کہ جس کام کے متعلق قانون نہ پاس ہو- اسے شروع کیا جائے- مجھے یاد ہے جب صدر انجمن کی بنیاد پڑی تو بعض ممبر ایسے کام خود بخود جاری کر لیتے جو انجمن کے اصول کے خلاف ہوتے- ہم ان کی اس بناء پر مخالفت کرتے کہ انجمن کے احصول کے خلاف کوئی کام نہ ہونا چاہئے- اس پر وہ کہتے- دیکھو یہ اچھا کام نہیں ہونے دیتے- ہم ان کو جواب دیتے- اگر کوئی اچھا کام ہے تو سو دفعہ اسے کرو مگر اس کے لئے قانون پاس کر لو- انجمن کے اصول کی خلاف ورزی کر کے کوئی کام کیوں شروع کرتے ہو- پس ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے- قانون پاس کرنے سے قبل کوئی کام نہ شروع کریں- خواہ وہ کام کتنا بڑا اور کتنا مفید ہی کیوں نہ ہو اور میں تو کہوں گا اگر جہاد بھی لجنہ کے فیصلہ پر منحصر ہو تو اس کے فیصلہ سے قبل وہ بھی شروع نہیں ہونا چاہئے- دوسری بات جس کی طرف میں لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جب کوئی جماعت نظام کے ماتحت کام کرنا شروع کرتی ہے تو چونکہ وہ پہلے نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادی نہیں ہوتی، اس لئے کام کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے- ایسے اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہئے- اس قسم کے اختلاف سے نظام کی وہ خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ابتدائی کاموں میں عموماً پائی جاتی ہیں- قانون کی خامیاں وکلاء کے بالمقابل کھڑے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہیں اور اس
۴۵ طرح قانون مکمل ہوتا چلا جاتا ہے- پس اگر لجنہ کے کاموں میں اختلاف پیدا ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اختلاف تو نقائص کی طرف توجہ دلاتا اور دوسرے کی خامیاں ظاہر کرتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون مکمل ہوتا جاتا ہے- اور قانون کے مکمل ہونے سے کام کر پختگی حاصل ہوتی جاتی ہے- پس اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اس کی قدر کرنی چاہئے- دیکھ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے-اختلاف امتی رحمة۱؎ میری امت میں اختلاف رحمت ہے- یہ ایسا ہی اختلاف ہے جو ایک نظام کے ماتحت، ایک انمجن کے ماتحت اور خلافت کے ماتحت کیا جائے- ہاں جو اختلاف اس کے مقابلہ میں اور اس کے باہر ہو کر کیا جائے، وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے- ہر فریق جب یہ کہے کہ ہمیں جو اختلاف ہوگا، وہ جب قانون اور نظام کے خلاف ہوگا ہم اسے چھوڑ دیں گے اور نظام کے ماتحت کام کریں گے- تو ایسا اختلاف نقصان کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فائدہ رسان ہوتا ہے- ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے ان کے سامنے کاموں کا بہت بڑا میدان پڑا ہے- اور ان کے کرنے کے ایسے ایسے کام ہیں جو ابھی ان کے ذہن میں بھی نہیں آ سکتے- ایک زمانہ تھا جب میں ممبرات لجنہ کے سامنے تقریر کرتا اور بتاتا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے تو ممبرات کی تقریر سن کر کہتیں ہم خوب اچھی طرح تقریر سمجھ گئی ہیں- مگر یہ تو بتایا جائے ہم کام کیا کریں میں پھر تقریر کرتا- اور پھر ان کی طرف سے یہی سنتا کہ ہم نے سب باتیں سن لی ہیں مگر جو کام ہمیں کرنا چاہئے وہ بتایا جاشے گویا وہی حالت ہوتی جو ساری رات زلیخا کا قصہ سنانے والے کے متعلق ہوئی تھی کہ ساری رات سن سن کر پوچھنے لگے- زلیخا مرد تھا یا عورت- میں ان کی بات پر حیران ہوتا کہ میں نے تو انہیں دنیا بھر کے کام بتا دیئے ہیں مگر یہ کہہ رہی ہیں بتاؤ ہم کیا کا م کریں- لیکن اب میں دیکھتا ہوں ان میں کام کرنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے- اور انہوں نے جوش سے کام شروع کئے ہوئے ہیں- لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے ان امور کے ساتھ اختلاف کا ہونا بھی لازمی ہے ان کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے- وہ قوم جو ایسے اختلاف کو جو اصولی نہیں ہوتے برداشت نہیں کرتی اور اختلاف کرنے والوں کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی بلکہ علیحدہ ہو جانے پر مجبور کرتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی- مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا باعث یہی ہے کہ جسے کوئی اختلاف ہو اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہےحالانکہ اگر اختلاف اصولی نہیں نظام کو نہیں توڑتا اور اصل جڑ پر ضرب نہیں لگاتا تو اس کا ہونا ضروری ہے اور اسے برداشت کرنا چاہئے- ہاں اگر اختلاف اصولی ہو اسکا جڑ پر حملہ ہو تو
۴۶ ایسا اختلاف کرنے والے کو علیحدہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے- جیسے اس عضو کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے جس میں ایسے جراثیم پیدا ہو جائیں جو سارے جسم کو تباہ کر دینے والے ہوں- ان نصائح کے بعد میں سمجھتا ہوں لجنہ آہستہ آہستہ اپنے کام کو سمجھنے لگ جائے گی اور اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ ہم فخر کر سکیں گے- کہ جس طرح ہماری جماعت کے مرد منظم ہیں اور قانون کے ماتحت کام کرنا جانتے ہیں اسی طرح ہماری جماعت کی عورتیں بھی منظم ہیں- اس کے بعد چونکہ اس ایڈریس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہاں پیش آیا اور جو مذبح کا واقعہ ہے- اس کی طرف میں اپنی تقریر کا رخ پھیرتے ہوئے لجنہ کو مخاطب کرتا ہوں- لجنہ اماء اللہ میں گو ایسی عورتیں نہیں ہیں جن کی اولاد ہو، یا جوان اولاد ہو- الاماشاء اللہ- لیکن بوجہ اس کے کہ یہی عورتوں کی قائمقام ہیں- اس لئے میں انہیں اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس زمانہ میں عورتوں پر عائد ہوتا ہے- ہماری جماعت ہر موقعہ پر باامن جماعت رہی ہے- اب بھی باامن ہے اور باامن رہے گی- مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم کسی جبر سے اپنے حقوق چھوڑ دیں اور ان کی حفاظت نہ کریں- دنیا میں سب سے بڑھ کر باامن رسول کریم ﷺ تھے- مگر آپ کی آخری عمر لڑائیوں میں ہی گذری- دراصل امن اور جنگ متضاد نہیں- بعض دفعہ امن اور جنگ ایک ہی ہوتا ہے بعض دفعہ جنگ امن کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنگ ایک جد تک ان کے خلاف ہوتی ہے- اور ایک حد تک اس کے موافق- بعض دفعہ امن کے قیام کے لئے جنگ کرنی پڑتی ہے- اور بعض دفعہ امن کی بربادی کے لئے جنگ کی جاتی ہے اور بعض دفعہ بین بین حالت ہوتی ہے- یعنی نیت تو امن قائم کرنے کی ہوتی ہے- لیکن فعل امن کو برباد کرنے والا ہوتا ہے- یا نیت تو امن کو برباد کرنے والی ہوتی ہے لیکن فعل امن قائم کر دیتا ہے- پس جب کہ قیام امن کے لئے جنگ بھی ضروری ہوتی ہے- تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری اولادیں بہادر اور مضبوط دل کی ہوں- ہمارے ملک میں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ جب مردوں کے لئے کوئی خاص کام کرنے کا وقت آتا ہے تو عورتوں میں شور پڑ جاتا ہے- کہ ہمار یبچے، ہمارے بھائی، ہمارے خاوند، ہمارے دوسرے رشتہ دار تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے- رسول کریم ﷺ کو جہاں مرد جری اور بہادر ملے تھے- وہاں عورتیں بھی نہایت قوی دل اور مضبوط حوصلہ والی ملی تھیں- یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے غلاموں نے بڑے بڑے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے- ورنہ اگر میدان جنگ میں جانے
۴۷ کے لئے گھر سے نکلنے والا مرد گھر میں روتی ہوئی ماں، چلاتی ہوئی بیوی اور بے ہوش بہن کو چھوڑ کر جائے گا تو کوئی بہادرانہ کام نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کے دل پر غم کا بادل چھایا ہوا ہوگا اور اسے خیال ہوگا معلوم نہیں گھر میں کیا کہرام مچا ہوا ہوگا لیکن اگر وہ گھر والوں کو ہشاش بشاش چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کا دل خوش ہوگا- اور وہ سمجھے گا میں اپنے گھر میں کسی کو افسردہ دل نہیں چھوڑ آیا اور اس خوشی میں وہ پوری طرح جان بازی دکھا سکے گا- ہماری جماعت جوں جوں ترقی کر رہی ہے- اس کے سامنے نہایت اہم کام آ رہے ہیں اور ہم نہیں جانتے ہمیں آگے قدم بڑھانے کے لئے کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی- اور خدا ہی جانتا ہے کتنے مستقبل قریب میں ہمارے سپرد حکومتوں کا انتظام ہوگا- اور اس کے لئے ہمیں کن حالات میں سے گزرنا پڑے گا- پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت کی عورتیں بہادر اور مضبوط دل ہوں- تا کہ ان کی اولاد بہادر اور جری ہو- میں جہاں اپنی جماعت کی عورتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم میں تربیت میں نظام میں خدمت دین میں ترقی کریں- وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ اولاد کو بہادر بنائیں- اور اس کے دل ایسے مضبوط کریں کہ جو بھی قربانی انہیں کرنی پڑے- وہ خوشی سے کریں- وہ جب قربانی کے لئے گھر سے نکلیں- تو خوش خوش نکلیں نہ کہ دل کو دکھ دینے والے نظارے دیکھتے ہوئے نکلیں- چونکہ اب مغرب کی اذان ہو گئی ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دوستوں میں ایسی روح پیدا کرے جس سے بہترین نظام قائم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی روحانیت بھی عطا کرے- تا ایسا نہ ہو کہ نظام باقی رہ جائے اور روحانیت نہ رہے- مجھے لجنہ کی طرف سے رقعہ دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے- کہ جس سکول کا ایڈریس میں ذکر ہے- اس کے متعلق ریزولیوشن پاس کیا گیا ہے- مجھے کوئی ایسا ریزولیوشن نہیں پہنچا- اگر پاس ہوا ہو تو لکھ کر مجھے بھیج دیا جائے میں اسے دیکھ لوں گا- (الفضل۱۱-اکتوبر۱۹۲۹ء) ۱؎ الجامع الصغير للسيوطي جلد اصفه» مطیع خیریہ مصر۱۳۴۱ھ
۴۹ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۵۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء (فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۲۹ء) تشہّد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: آج چونکہ جمعہ ہے اور اس کے خطبہ میں مجھے پھر کچھ بولنا پڑے گا اس لئے میں نہایت اختصار کے ساتھ تمام احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان دنوں میں خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل اور کرم سے اس حصہ عمل کو جو ہمارے اختیارات سے باہر ہے اور اس حصہ عمل کو جو ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہم سے سر انجام نہیں پا سکتا خود اپنے فضل اور لطف سے پورا کر دے- انسان کے ارادے بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں اور گھر میں بیٹھ کر ارادے کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن وہ حصہ جس سے نفع اور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے وہ وہی ہے جس کے ساتھ عمل شامل ہوتا ہے- ارادے ایمان کا جزو ہوتے ہیں اور ایمان کی تمثیل ایک کھیتی کی سی ہے اور عمل کی تمثیل خداوند کریم نے نہر اور پانی سے دی ہے- اور وہی کھیتی سرسبز اور شاداب ہو سکتی ہے جسے موقع پر پانی دیا جائے ورنہ خواہ بہتر سے بہتر بیج عمدہ سے عمدہ زمین میں ڈالا جائے لیکن اس زمین میں نمی اور تری نہ ہو اسے وقت پر پانی نہ دیا جائے تو وہ غلہ پیدا نہیں کر سکتی اور اپنے ثمرات نہیں دے سکتی- پس ہمارے ارادے، ہمارے خیالات اور ہماری جنگیں تبھی نفع دے سکتی ہیں جب استقلال کے ساتھ اعمال کا پانی شامل ہو- بیسیوں انسان کی کوتاہیاں، بیسیوں انسان کی مشکلات، بیسیوں انسان کی کمزوریاں اسے اپنے ان ارادوں کے مطابق عمل کرنے سے روکتی رہتی ہیں جو وہ ایک وقت نہایت خلوص سے اپنے دل میں قائم کرتا ہے- پس ہمیں دعا کرنی چاہئے خدا تعالیٰ ان
۵۲ کوتاہیوں کو دور کر دے جو ہمیں اپنے ارادوں کے مطابق کام کرنے سے روکتی ہیں- پھر وہ کمی پوری کر دے جس کا پورا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے- پھر وہ برکات جن کا نازل کرنا ہمارے قبضہ سے باہر ہے نازل کرے- رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں خدا اس مومن کی دعا قبول کرتا ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرتا ہے-۱؎یہ کیا ہی آسان بات ہے دعا قبول کرانے کے متعلق کہ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے لئے دعا نہ کریں- کریں- لیکن دوسروں کے لئے بھی کریں تا کہ اگر اپنے لئے دعا میں وہ جوش پیدا نہ ہو کہ وہ پوری ہو جائے تو اپنے بھائی کے لئے جوش پیدا ہو جائے- اور اس کے متعلق جو دعا کرے وہ پوری ہو جائے- اسی طرح اس کے بھائی میں اگر اپنے لئے پورا جوش نہیں پیدا ہوا تو اس نے اس کے لئے جو دعا کی وہ قبول ہو جائے- گویا اس کی دعا ہمارے لئے قبول ہو جائے اور اس کے متعلق ہماری دعا مانی جائے- اس کے متعلق مجھے ایک رؤیا یاد آیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہ میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی دیکھا تھا- میں نے دیکھا قیامت کا دن ہے اور خدا کے حضور لوگوں کو پیش کیا جا رہا ہے- خدا تعالیٰ ایک مضبوط خوبصورت جوان کی شکل میں کرسی پر بیٹھا ہے- دائیں طرف حضرت خلیفہ اول اور دوسرے کئی لوگ بیٹھے ہیں میں بھی انہی میں ہوں- وہاں ایک دائیں طرف کوٹھڑی ہے ایک بائیں طرف- اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور ایک شخص پیش کیا گیا جو بہت مضبوط اور تنومند تھا اس کا چہرہ سرخ تھا- یاد نہیں رہا خدا تعالیٰ نے اس سے کچھ پوچھا یا نہیں اور اگر پوچھا تو میں نے نہیں سنا مگر بغیر اس کے کہ وہ جواب دیتا اس کے چہرہ کی رنگت متغیر ہونے لگی اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے کوڑھ ہو گیا ہے- پھر اس کے جسم کا گوشت پوست پیپ بننے لگا آخر سر سے لے کر پیر تک وہ پیپ کا بن گیا- اس پر فرشتوں نے کہا یہ جہنمی ہے آؤ اسے جہنم میں پھینکیں- چنانچہ اسے بائیں طرف کی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا- پھر ایک اور شخص لایا گیا- اللہ تعالیٰ نے اس سے سوال نہیں کیا یا مجھے یاد نہیں رہا اس کا چہرہ چمکنے لگا اور اس کا سارا جسم نور کا بن گیا- اس پر فرشتے بغیر خدا کے حکم کے کہنے لگے یہ جنتی ہے، چلو اسے جنت میں لے جائیں- چنانچہ اسے جنت میں لے گئے- اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا تم اپنی پیٹھوں کی طرف دیکھو جس کے پیچھے پختہ دیوار ہو، وہ جنتی ہے اور جس کے پیچھے دیوار کچی ہو وہ دوزخی ہے- یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ وہاں پھر دکھائی نہ دیا- اور ہم پر اتنی ہیبت طاری ہو گئی کہ کوئی ڈر کے مارے اپنے
۵۳ پیچھے نہ دیکھتا- ہر ایک ڈرتا کہ نہ معلوم اسے کیا نظر آئے- جب اسی حالت میں عرصہ گذر گیا تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا تم میرے پیچھے دیکھو میں تمھارے پیچھے دیکھتا ہوں- میں نے کہا بہت اچھا- میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے پیچھے دیکھا اور انہوں نے میرے پیچھے اور یکدم میں نے چلا کر کہا آپ کے پیچھے پکی دیوار ہے- انہوں نے بھی کہا آپ کے پیچھے پکی دیوار ہے- میرے نزدیک ایک دوسرے کے پیچھے دیکھنے کے معنی یہی ہیں کہ ایمان کی تکمیل ایک دوسرے کی مدد سے ہو سکتی ہے- جب مومن دوسروں کے لئے دعا کرتا اور اپنے آپ کو دوسرے کی خیرخواہی میں مصروف کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے برکت دیتا اور اس کی دعا سنتا ہے- پس احباب دعا کریں اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بھی دعا کریں ساری جماعت کے لئے دعا کریں بلکہ ساری دنیا کے لئے دعا کریں حتی کہ جو اشد ترین دشمن ہو اس کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا کا اس پر فضل ہو- اپنے دلوں کو ہر قسم کے کینہ اور عداوت سے اسی طرح پاک کر لو جس طرح اللہ پاک ہے- وہ جس طرح کافر اور مومن دونوں کو رزق دیتا اور اپنے فیوض نازل کرتا ہے، تم بھی تمام کدورتوں، تمام دشمنیوں اور تمام عداوتوں سے اپنے دلوں کو پاک کر کے دعا کرو- شاید رحم کرنے والی ہستی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہمارے قرضوں کو معاف کر دے جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو معاف کر دیتے ہیں- جب ہم اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے لئے دعا کریں تو وہ بھی ہم پر اس لئے فضل نازل کرے کہ آج میرا بندہ چھوٹے سے دل اور کم حوصلہ کے ساتھ اپنے دشمن کو معاف کرتا اور اس کے لئے دعا کرتا ہے تو میں جو سب کا بادشاہ ہوں اسے معاف کر دوں- پھر آپ لوگ مل کر سلسلہ کے کاموں میں کامیابی کے لئے دعا کریں تا کہ جس کام کو ہم اپنے عمل سے نہیں کر سکتے وہ خدا کے رحم سے ہو جائے- خصوصیت سے ان دوستوں اور جماعتوں کے لئے دعا کی جائے جو سلسلہ کا بوجھ اٹھانے میں خاص حصہ لیتی ہیں- آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جلسہ کی تحریک میں اس دفعہ ایک نقص کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا مگر میں نے جو تحریک کی اس میں خدا تعالیٰ نے برکت دی- احباب کے اخلاص میں جوش پیدا ہوا اور ایک قلیل عرصہ میں پندرہ ہزار سے زیادہ چندہ آ چکا ہے- گو اخراجات جلسہ کے لحاظ سے ابھی پانچ ہزار کی کمی ہے مگر معلوم ہوا ہے ابھی سو کے قریب جماعتیں چندہ دینے والی باقی ہیں- اگر ان جماعتوں کے دوست یہاں موجود ہوں تو میں ان سے کہوں گا وہ دوسری جماعتوں کے احباب کے اخلاص میں ترقی کے لئے دعا کریں کہ ان کا بوجھ
۵۴ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء بھی انہوں نے اٹھایا ہے- شاید اسی طرح خدا تعالیٰ ان کی سوئی ہوئی حالت کو بدل دے- پھر ان کے لئے بھی دعا کی جائے کہ انہیں بھی اخلاص سے حصہ نصیب ہو- پھر خواہ کسی میں چندہ کے لحاظ سے کمزوری ہو، خواہ تبلیغ کے لحاظ سے، خواہ انتظامی لحاظ سے، پھر خواہ مرکزی لوگ ہوں، خواہ بیرونی سب کے لئے دعا کی جائے- کیونکہ ہر ایک خدا کے فضل کا محتاج ہے- اور اس کے فضل کے سوا ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے- (الفضل۳- جنوری ۱۹۳۰ء) ۱؎ابن ماجہ کتاب المناسک باب فضل دعاء الحاج
۵۵ مستورات سے خطاب ۲۸ د سمبر ۱۹۲۹ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثاني
۵۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم مستورات سے خطاب (فرموده ۲۸ دسمبر۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: عورتوں کی موجودہ علمی قابلیت میں نے ہر سال جماعت کی مستورات کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تک تعلیم نہ ہو خدا سے ان کا اپنا معاملہ درست نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ ذمہ داریاں پوری ہو سکتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور خاندان اور اپنی قوم اور ملک کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں- شاید یہ الفاظ جو اس وقت میں نے بیان کئے ہیں آپ کو بوجھل معلوم ہوتے ہوں کیونکہ ان میں یہ کہا گیا ہے کہ تم میں تعلیم نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک تم دوسری زبانیں تو درکنار خود اپنی زبان سے بھی ناواقف ہو مجھے عورتوں میں تقریر کرتے وقت یہ دقت پیش آتی ہے- تقریر میں مشکلات میں کوشش کرتا ہوں کہ میری تقریر میں ایسے الفاظ نہ آئیں جن کو تم سمجھ نہ سکو حالانکہ میں کسی غیر زبان میں تقریر نہیں کیا کرتا- جب قوم کی ایسی گری ہوئی حالت ہو کہ وہ اپنے ملک کی زبان میں بھی بات سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتی ہو تو اس کی کمزور حالت کا اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے- تقریر میں روز مرہ ہی کی زبان ہوتی ہے- مثلاً اگر دین کا ذکر آئے تو اس میں قیامت، تقدیر وغیرہ کے الفاظ ضروری ہیں- پھر جو نہ سمجھے تو واعظ کے لئے کتنی مشکلات ہیں- اس کی دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں- یا تو وہ آسان آسان لفظ لا کر عام فہم طریق کے لفظوں ہی کے خیال میں پڑا رہے اور اپنے مضمون کو خراب کر لے یا اصطلاحی لفظ استعمال کر کے اپنے مضمون کو تو ادا کر دے مگر سامعین اس کو نہ سمجھ سکیں- پس ہر
۵۸ ایک عورت کو تعلیم کی ترقی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے- میں مردوں میں ایک آیت کے موضوع پر کئی کئی گھنٹے بول سکتا ہوں مگر عورتوں میں ادھر ہی توجہ رہتی ہے کہ مضمون عام فہم ہو- اسی وجہ سے عورتوں میں درس، وعظ وغیرہ بہت آسان رہ جاتا ہے اور اصل مضمون ذہن سے اتر جاتا ہے- میں جب عورتوں میں درس دیتا ہوں تو بعض اوقات ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو رکوع کا درس تھوڑے سے وقت میں دے دیتا ہوں- حالانکہ مردوں میں اتنا وقت بعض دفعہ صرف ایک آیت کی تشریح میں لگ جاتا ہے- میں پھر اور بار بار تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کی زبان سیکھو- اپنی ترقی کی طرف توجہ کرو اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے- کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو- اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث، قطب، ولی، صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا- ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبے کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکرؓ اور کوئی عثمانؓ، کوئی علیؓ، کوئی زبیرؓ، کوئی طلحہؓ ہے- تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں- اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا- پھر خدا نے مجھ کو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ، نصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی ان میں وہ روح پیدا نہ ہو سکی جس کی مجھے خواہش تھی- اور کوئی عورت تم میں سے اس قابل نظر نہیں آتی جو کسی وقت تمہاری لیڈری اور راہنمائی کر سکے- افسوس وہ کونسی کوشش ہے جس سے میں تمہیں بیدار کروں- دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے مگر تم خواب غفلت میں سوتی ہو- کیا تم میں کوئی قرآن مجید جانتی ہے؟ پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟ حالانکہ مردوں میں سے عالم کے علاوہ کئی ایسے لوگ ہیں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے جاہل یا معمولی سے علم کے شہر کے
۵۹ رہنے والے یا گاؤں کے رہنے والے ہیں جو باوجود عدم علم ظاہری کے یا کمی علم کے قرآن کے کئی معرفت کے نکتے بتا سکیں گے جو لوگوں کو پہلے معلوم نہ ہوں گے- قادیان کے کئی عربی سے ناواقف بھی عجیب معرفت اور نکات کی باتیں قرآن سے بیان کرتے ہیں- تم ایک عورت کی مثال پیش کرو جس نے قرآن کریم سے کوئی نئی بات نکالی ہو اور ایسی بات پیش کی ہو جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھی اور اب تو آپ میں کچھ ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو مولوی کہلاتی ہیں- میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کون ہے جسے قرآن شریف کی معرفت نصیب ہوئی ہو؟ اس کمی کی وجہ کیا ہے؟ تم میں سے کئی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ مردوں کی طرفداری کی جاتی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کو بھی تم سے دشمنی ہے کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرتا- کیوں خدا کے کلام کا دروازہ تم پر بند ہے اور کیوں فرشتے خدائی دربار تک تمہاری رسائی نہیں کراتے- آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے- فوائد ہیں- حکمت ہے- بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے اسی لئے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے- قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہفیہ ذکر کم- ۱؎ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں- قرآن ٹونہ نہیں- یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے- جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآنکریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا- تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہو گا- لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں، رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب ہو گی- تم سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجے میں معلوم کی ہے- کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنینوعانسان کے لئے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو- اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہو تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے؟
۶۰ ایک عورت نے کس طرح ترقی کی میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سناتا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا- اس کے لکھنے کے متعلق مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن بات ضرور تھی کہ اسے پڑھنا آتا تھا- اس نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا- جنت کی طمع اور دوزخ کے خوف سے نہیں، عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر اس کے اندر دنیا کے تمام علوم ہیں اسے پڑھا- اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اس نے کسی کے پاس زانوئے شاگردی طے نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی- وہ عورت کون تھی؟ اس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا ہے- وہ بی بی فہمِ قرآن میں اکثر مردوں سے بڑھ گئی اس نے قرآن کو جیسا کہ سمجھنے کا حق تھا سمجھا- ان کی صرف ایک مثال سے دنیا کے مرد شرمندہ ہیں کہ وہ بایں ہمہ عقل و دانش اس فہم و فراست کو حاصل نہ کر سکے- وہ آیت یہ ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبین- ۲؎ یعنی محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں دنیا نے سمجھا کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- اور ادھر چونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی فرما دیا کہ لا نبی بعدی ۳(؎جس سے آپ کی مراد تھی کہ میری شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نبی نہ آئے گا) یہ امر ایسے خیال کے لوگوں کے لئے اور بھی موید ثابت ہوا- اور سب نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنے اس خیال کی خوب اشاعت کی- ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کی باتیں ایک مجلس میں ہو رہی تھیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں سے گزریں اور آپ نے سن کر فرمایا ’’قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الا نبی بعدہ‘‘ ۴؎ دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن پر غور کرنے سے کس قدر صحیح نتیجہ نکالا کہ آج اس زمانہ کے نبی نے اس سے فائدہ اٹھایا- وہ خیالات جو تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو مغالطہ میں ڈالے ہوئے تھے ان کو کس صفائی کے ساتھ رد فرمایا ہے- تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قرآن پر غور کرنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فائدہ اٹھایا اور احمدی جماعت ان کی ممنوناحسان ہے- انہوں نے ان کی مشکلات کو آسان کر دیا- یہ تو ایک واقعہ ان کے فہمِ قرآن کا ہے-
۶۱ اسی بی بی کی فہمِ حدیث کی ایک مثال دوسرا واقعہ یہ ہے جس سے ان کے کمالفراست اور غور و فکر کا ثبوت ملتا ہے وہ حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفرؓ کی شہادت کا واقعہ ہے- جب ان کی اطلاع گھر پر آئی تو عورتیں رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے لگیں جیسا کہ عرب کا رواج تھا- اسلام چونکہ نیا نیا تھا اس لئے اسلامی عادات ابھی پوری طرح لوگوں میں پیدا نہ ہو سکی تھیں اور جاہلیت کے زمانے کے اثرات باقی تھے اسی کی پیروی ان عورتوں نے کی- آنحضرت ﷺ کو جب کسی نے آ کر اس کی اطلاع دی تو آپﷺ~ نے فرمایا کہ انہیں منع کرو- منع کرنے سے بھی وہ باز نہ آئیں- پھر آ کر کسی نے شکایت کی- آپﷺ~ نے فرمایا احثوا التراب فی وجوھھن ۵؎ یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو- وہ لوگ جنہوں نے آپﷺ~ کے اس ارشاد کو سنا فی الواقعہ مٹی ڈالنے کے لئے دوڑے- حضرت عائشہؓ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ تم رسول کریم ﷺ کو ایسا بداخلاق سمجھتے ہو کہ اس مصیبت کے وقت بھی تکلیف پہنچانے کا حکم دیں- آپﷺ~ کا تو یہ مطلب تھا کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو- قال اللہ و قال الرسول کا صحیح فہم اسی خاتون کو تھا اب دیکھو جس بات کو مردوں نے نہ سمجھا اسے ایک عورت یعنی حضرت عائشہؓ نے سمجھا اور یہی دنیا میں ایک عورت ہے جس نے قرآن کو اور خدا تعالیٰ کے رسول کے کلام کو صحیح معنوں میں سمجھا- اس کا ایک ثبوت افک کے واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے آپ سے فرمایا کہ عائشہ سچی سچی بات بتا دو کہ کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ میرا کام نہیں خدا تعالیٰ خود جواب دے گا- چنانچہ قرآن کی بعد کی وحی سے یہی ثابت ہوتا ہے- ان کا یہ خیال درست تھا کیونکہ قرآن نے یہی کہا ہے کہ الزام دینے والا گواہ لائے نہ کہ جس پر الزام ہو وہ اپنی بریت کے لئے قسمیں کھاتا پھرے- حضرت عائشہؓ نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا اس لئے مردوں سے زیادہ معرفت حاصل کی- اگر آپ بھی اسی طرح اس پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گی تو ایسا ہی فائدہ حاصل کریں گی اور کسی علم کے حاصل کرنے میں کسی کی محتاج نہ ہوں گی- قرآن شریف ہر ایک زمانے کے علوم اپنے اندر رکھتا ہے- اگر کوئی اس پر غور کرے تو دنیا کو حیران کر دینے والے علوم کا دروازہ اہلدنیا پر خدا کی تائید سے کھول سکتا ہے-
۶۲ قرآن مجید علوم کا خزانہ ہے قرآن کے متعلق ایک موٹی مثال کو لو کہ کس طرح تیرہ سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے حالات بیان کئے ہیں- فرمایا و اذا العشا رعطلت ۶؎یعنی اونٹنیوں کی سواریاں بے کار ہو جائیں گی- دنیا نے آج ریل نکالی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ قرآن نے سالہا سال پہلے بتا دیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا یعنی ایسی سواریاں پیدا ہو جائیں گی کہ ان سواریوں کو ضرورت نہ رہے گی- و اذا الوحوش حشرت ۷؎یعنی ادنیٰ و جاہل قومیں عزت والی بن جائیں گی اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ بھی بیدار ہو کر اپنا حق مانگیں گی اور دنیا کو ان کے حقوق دینے پڑیں گے- اب الیکشن کے سوال کو ہی دیکھو کس زبردست طور پر اس پیشگوئی کی تصدیق کر رہا ہے کہ بڑے بڑے عزت والے برہمن چوہڑوں کے دروازوں پر ووٹ مانگنے کے لئے جاتے ہیں- و اذا النفوس زوجت ۸؎یعنی لوگ ملا دئے جائیں گے- یعنی ادنیٰ اور اعلیٰ ایک جگہ پر اکٹھے ہوں گے- اس کا ایک نمونہ آج کا جلسہ ہی ہے- تم میں سے کئی ہیں کہ جن کی مائیں اور دادیاں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے کو اپنی ہتک خیال کرتی ہوں گی مگر تم خدا کی وحی کے مطابق مل کر بیٹھی ہو اور خدا نے سب کو برابر بنا دیا- زمانہ بدل چکا اس لئے تم بھی تبدیلی پیدا کرو آج تمام سرداریاں ختم ہو گئیں- پہلے زمانہ میں جو حال تھا اس کا نقشہ اس مثال سے خوب ظاہر ہو جا تا ہے- کہتے ہیں کہ ایک چوہدری ایک مراثی کو ساتھ لے کر سفر کو جا رہا تھا راستے میں سرائے میں ٹھہرا جس چار پائی پر وہ بیٹھا اس کے نیچے بارش کی وجہ سے سخت کیچڑ تھا- ناچار بیچارہ مراثی چوہدری کے پاس بیٹھ گیا- چوہدری نے اسے خوب جوتے لگائے اور کہا کہ تم ہماری برابری کرتے ہو- دوسری منزل پر انہیں چار پائی نہ ملی اور چوہدری کو زمین پر بیٹھنا پڑا- تب مراثی پھاؤڑے سے زمین کھودنے لگا اور قبر کی طرح ایک گڑھا بنانے لگا- چوہدری نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا برابر کیسے بیٹھوں؟ اب وہ زمانہ نہیں رہا- آج کئی ادنیٰ اقوام کے ڈپٹی ہیں- اہل غرض سید، پٹھان، مغل سلام کرنے ان کے دروازے پر جاتے ہیں- اب وہ معزز اور بڑا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن اور متقی ہے- اس زمانے
۶۳ میں یاد رکھو کہ اب تم بھی گھروں میں بیٹھ کر حکومت نہیں کر سکو گی- وہ راج کا زمانہ چلا گیا- ساری بڑائیوں کو مٹا کر خدا تعالیٰ اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے- فیصلہ قرآن کے مطابق آج وہ بڑھایا جائے گا جو نیک ہو گا- ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۹؎ کے مطابق متقی عالم ہوتا ہے- قرآن مجید اُمّیوں کو اعلم الناس بنا دیتا ہے دنیاوی لحاظ سے دیکھو حضرت صاحب کو کوئی ایسا دینوی علم حاصل نہ تھا گو ہم اعتقادی طور پر آپ کو عالم مانتے ہیں- آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ معجزانہ رنگ میں لکھی ہیں مگر ظاہری طور پر آپ عالم نہ تھے اسی لئے مخالف مولوی آپ کو طعن کے طور پر منشی لکھا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے علوم کے دروازے آپ پر کھول دیئے- میرا اپنا حال دیکھو زمانہ طالب علمی میں فیل ہی ہوتا رہا- ایک جماعت بھی پاس نہ کر سکا- اسی بناء پر حضرت صاحب سے لوگوں نے شکایت کی کہ یہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے طلب کیا اور ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کو بلایا- میں ڈر رہا تھا کہ دیکھئے میرے لئے کیا سزا تجویز ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عبارت لکھ کر مجھے دی کہ اسے نقل کر دو- جب میں نے اسی طرح نقل کر دی تو مولوی صاحب کو دکھا کر فرمایا کہ شکایت تو غلط معلوم ہوتی ہے- یہ میرا امتحان ہوا- پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے مجھے پڑھایا- ان کے پڑھانے کا یہ طریق تھا کہ آپ ہی ایک ایک سپارہ پڑھتے جاتے- سوال کرنے پر فرماتے کہ میاں آپ ہی آ جائے گا- علمائے زمانہ کو بالمقابل تفسیر القرآن کا چیلنج میرے ظاہری علم کو لیا جائے تو میں کسی صورت میں بھی عالم نہیں کہلا سکتا مگر میں نے قرآن کو قرآن سمجھ کر پڑھا اور اس سے فائدہ اٹھایا- اور اب اس قابل ہوا کہ میں تمام مخالف علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی آیت لے کر مجھ سے تفسیر کلام الہٰی میں مقابلہ کر لیں میں انشاء اللہ تعالیٰ تائید الہٰی سے اس کے ایسے معنے بیان کروں گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی- کوئی مضمون ہو بغیر سوچنے کے کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے- خدا تعالیٰ نے مجھ پر قرآن کریم کے ایسے ایسے نکات ظاہر کئے ہیں جو رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مستثنیٰ کر کے اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے- پس تمام علوم اخلاص اور تقویٰ سے پیدا ہوتے ہیں ظاہر سے نہیں- تم خود اس کو
۶۴ آزماؤ- اخلاص سے قرآن کو پڑھو خدا خود تمہیں اس کا علم عطا کرے گا- بسا اوقات مختلف امور کے ماہر میرے پاس آتے ہیں اور وہ اس کے متعلق مجھ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں- جب میں ان کے سوالوں کا ٹھیک جواب دیتا ہوں تو اس وقت حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کے متعلق آپ نے کون سی کتاب پڑھی ہے- میرے یہ کہنے پر کہ کوئی نہیں- وہ کہتے ہیں کہ جواب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس علم کی کتابیں پڑھی ہیں- میں جواب دیتا ہوں کہ میں نے علوم کی جامع کتاب پڑھی ہے- قرآن کے ہر ایک لفظ اور بات پر غور کرو- پھر تم پر قرآن کے علوم کا دروازہ کھولا جائے گا- معمولی لیاقت کی عورت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے- میں نے سالہا سال وعظ کیا لیکن تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا- خدا کرے کہ اس دفعہ میں دیکھ لوں کہ میری اس نصیحت سے تم کیا فائدہ حاصل کرتی ہو- قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے دینی علوم کے لئے سب سے پہلے قرآن کی ضرورت ہے اس کے پڑھنے میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ یہ خدا کی کتاب ہے- سارا علم اس میں موجود ہے- ہر ہر لفظ پر اعتراض پیدا کرو خدا تعالیٰ خود اس کا حل بتائے گا- غور کرو کہ صرف الحمد للہ کہنے سے کوئی نکتہ نہیں معلوم ہو سکتا لیکن اگر تم یہ اعتراض پیدا کرو کہ ہمارے والدین اور ہمارے استاد کیوں قابل تعریف نہیں تو آگے رب العالمین میں خود اس کا جواب موجود ہے کہ تمہارے احسان کرنے والوں کا رب بھی تو وہی ہے- فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کیوں سب تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں- اسی طرح پر معارف آپ پر کھلیں گے- لیکن اگر نیت صرف یہ ہو کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر برکت حاصل کی جائے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا- قرآن کے بعد سنّتِ رسول کا علم حاصل کرو دوسری چیز جس کا پڑھنا دینی تعلیم کے لئے ضروری ہے وہ سنت رسولﷺ~ کا علم ہے یعنی احادیث نبی کریم ﷺ - دینی تعلیم اس کے بغیر ناقص ہے- اگرچہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے مگر اس کا علم حاصل کرنے کے لئے کامل تقویٰ کی ضرورت ہے- وہ باتیں جو تقویٰ کے کامل ہونے پر منحصر ہیں ان کو قرآن نے چھپایا ہوا ہے- وہ پڑھنے والے پر اس وقت تک نہیں کھلیں گی جب تک وہ درجہ حاصل نہ ہو جائے- انتہائی تقویٰ سب کو نہیں مل سکتا- اس لئے آنحضرت ﷺ نے شریعت کے اہم مسائل اور ابتدائی علوم نکال کر لوگوں پر خود ظاہر کر
۶۵ دیئے ہیں- جیسے نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ وغیرہ اور چونکہ ایمان کے لئے عمل اور عمل کے لئے ان مسائل کا جاننا ضروری ہے اس لئے آپ لوگ سنت و حدیث کا علم بھی ضرور حاصل کریں- ضروری ہے کہ عورتیں قرآن و حدیث سے واقف ہو کر دوسروں کو پڑھائیں- اپنے گھروں، شہروں اور محلوں میں اس کی تعلیم کا انتظام کریں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو تیسرے ضروری دینی تعلیم کے لئے وہ چیز جس کا پڑھنا ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں- اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت پر رحم کر کے اس زمانے کے نبی سے اردو کی کتابیں لکھوائیں تا تم انہیں آسانی سے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکو- اب تمہیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا- قرآن کا اس زمانے کے متعلق ضروری علم آب آپ کی کتابوں میں موجود ہے- اگر تم اس کے پڑھنے یا سننے کی کوشش کرو تو تم میں وہ قابلیتیں پیدا ہو سکتی ہیں کہ باریک در باریک مسئلوں کو حل کر سکتی ہو- حضرت صاحب کی کتابوں کا امتحان لوں گا اس وقت میں حضرت صاحب کی دو کتابیں مقرر کرتا ہوں جن کو ہر ایک عورت پڑھے یا سنے آئندہ سال میں ان کا امتحان لوں گا تا پتہ لگ جائے تم نے میری نصیحت پر عمل کیا ہے یا نہیں- میں وعظ کر کر کے تھک گیا ہوں مگر تم پر ابھی کوئی اثر نہ ہوا- اب میں چاہتا ہوں کہ تم عملی زندگی کی طرف قدم اٹھاؤ- وہ کتابیں کشتی نوح اور شہادت القرآن ہیں- ان کو پڑھنے کی کوشش کریں اور جو نہیں پڑھ سکتیں وہ اپنی اپنی انجمن کے سیکرٹری کی معرفت اس کے سننے کا انتظام کریں- میں اس طرح سوال کروں گا کہ ان پڑھ عورتیں بھی جواب دے سکیں- مثلاً اس طرح سوال کروں گا کہ فلاں کتاب میں فلاں بات ہے یا نہیں؟ تم میں سے ہر ایک کھڑی ہو سکتی اور بیٹھ بھی سکتی ہے- تو میں یہ کہوں گا کہ جس کے نزدیک اس سوال کے متعلق اس کتاب میں یہ ہے وہ کھڑی ہو جائے- یہ معلوم کر لوں گا کہ آپ لوگوں نے وہ کتاب پڑھی ہے یا نہیں- کیونکہ جو بات اس کتاب میں نہ ہو گی جو اس پر کھڑی ہو گی اس کا نہ پڑھنا ظاہر ہو جائے گا- جیسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی یونہی حاجی بن بیٹھا تھا اور حج کے متعلق سنی سنائی باتیں بیان کیا کرتا تھا- حجر اسود ایک پتھر ہے جسے ہاتھ لگانے، چومنے یا اس کی طرف اشارہ کرنے کا طواف کے
۶۶ وقت حکم ہے- یہ حاجی اس سے ناواقف تھا- ایک دانا آدمی وہاں آ گیا اور اس نے اس سے امتحان کے طور پر چند ایک اہل مکہ کے نام پوچھے وہ کیسے تھے؟ پوچھتے کہا کہ حجر اسود صاحب کا کیا حال ہے؟ جواب دیا اچھے ہیں مگر اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور اس سے اس کا جھوٹ کھل گیا - اس طرح میں اس بات کا علم حاصل کر لوں گا کہ آپ نے وہ کتابیں پڑھی ہیں یا نہیں- مثلاً یہ کہ کشتی نوح میں حضرت مسیح ناصری کا ذکر ہے یا نہیں؟ یا شہادت القرآن میں نماز کا ذکر ہے یا نہیں؟ اتنی بات تو جاہل سے جاہل عورت بھی کر سکتی ہے- تمہیں چاہئے کہ ان کتابوں کو اچھی طرح پڑھو تا وقت پر شرمندہ نہ ہونا پڑے- ہماری جماعت کی عورتوں کو دوسری عورتوں سے دینی تعلیم میں زیادہ ہونا چاہئے- رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک مرد و عورت بھی انپڑھ نظر نہ آتا تھا- یہ بہت بڑے اخلاص کا ثبوت ہے- حالانکہ عرب میں تعلیم کا بالکل رواج نہ تھا- اس زمانے میں تعلیم کے متعلق بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے- عام اخبارات بھی پڑھا کرو سب سے آسان ذریعہ کتاب ہے یا تازہ اخبار کا مطالعہ- ہفتہواری یا دوسرے اخبار گو مفید ہوتے ہیں مگر اس سے معلومات روزانہ اخبار کی طرح نہیں ہو سکتے- میرے پاس پانچ روزانہ اخبار، پندرہ سولہ رسالے آتے ہیں مگر میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ روزانہ اخبار کے مطالعہ کی طرف بہت کم توجہ ہے- رسالے تو پڑھ لیتی ہیں حالانکہ رسالوں سے زیادہ اخباروں میں معلومات ہوتی ہیں- علم کی ترقی خبروں سے ہوتی ہے نہ کہ مضمونوں سے- رائے پڑھنا بیوقوفی ہے خبریں زیادہ مفید ہوتی ہیں- میں نے اخبار والوں کی رائے کو کبھی نہیں پڑھا کیونکہ میں خود رائے رکھتا ہوں- چاہئے کہ ہم اپنی رائے رکھیں- خبروں کی طرف خاص توجہ ہو- دوسروں کے آراء پر کبھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے- آراء تو مختلف بھی ہوا کرتی ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ہی الہام سے کوئی کافر ہو جاتا ہے کوئی مومن- یعنی کسی کی رائے ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ درست ہے- اس پر صداقت کھل جاتی ہے- غرض دونوں رائیں اپنی اپنی طرز کی ہوں گی- رائے پڑھنے والا رائے سے متاثر ہو گا نہ اصل حقیقت سے- میں اس کی مثال کے طور پر غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح کی ایک خبر بتاتا ہوں- میری خلافت کے شروع ایام میں اس میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے عنوان اس قسم کے تھے کہ’’حقیقت کھل گئی‘‘-
۶۷ ’’راز طشت ازبام ہو گیا‘‘- ’’محمود کی سازش ظاہر ہو گئی‘‘- لیکن نیچے میری نسبت خبر درج تھی کہ میں رات کو لوگوں کو جگاتا پھرتا تھا کہ اٹھو اور نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ جماعت کو فتنہ سے بچائے- اس پر کئی دوستوں کے میرے پاس خط آئے کہ کیا یہ صحیح بات ہے- میں نے لکھا کہ گھبراتے کیوں ہو- کیا دعا کرنا گناہ ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ چوری کرو، ڈاکے ڈالو، تو اخباروں کی ہیڈنگ سے ڈرنا نہیں چاہئے- الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے- اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا- بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے اور اونچے اور مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی- اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں- یہ دونوں خیالات غلط ہیں- حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے- ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا- اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں- اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا- میاں کہیں پھسل نہ جانا- اس نے جواب دیا امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی- پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو- قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھا ضروری ہے- مصباح کو مفید بنانے کی تجویز اکثر کہا جاتا ہے کہ مصباح میں کوئی علمی مضمون نہیں ہوتا- میں اسے دیکھتا ہوں تو بہت مفید پاتا ہوں- ہاں مضمونوں کی ایک ترتیب چاہئے- سو یہ نقص اخباروں میں عام ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی- اگر کہیں خدا تعالیٰ کے رزاق ہونے کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کشیدہ کا ذکر آ جاتا ہے اور اس قسم کے مضامین سے ذہنی تربیت نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے اخباروں میں مضامین کی ایک ترتیب ہونی چاہئے- اگر تم وعدہ کرو کہ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرو گی تو اس
۶۸ ترتیب کا وعدہ میں کرتا ہوں اس کی ابتدا پیدائش عالم سے شروع کی جائے گی اور ترتیب وار مفید اور کارآمد معلومات کا سلسلہ جاری رہے گا- ہم ان سبقوں کو ایسا آسان کر دیں گے کہ کسی مجلس میں تم شرمندہ نہ ہو گی- اگر کسی جگہ ویدانتی اور زرتشتی فرقوں کا ذکر ہو رہا ہو تو ان کے الفاظ تمہارے لئے موجب حیرت نہ ہوں گے کیونکہ سارے علوم کا تذکرہ اس میں موجود ہو گا- احمدی خواتین مصباح کو باقاعدہ پڑھنے کا اہتمام کریں لجنہ والیاں یہ کریں اپنے اپنے جائے قیام میں جا کر ریزولیوشن پاس کرائیں کہ ہم مصباح کو باقاعدہ پڑھیں گی یا سنیں گی اور اس کی اشاعت کریں گی- تو دو سو لجنہ یا مقامات کی طرف سے اس ریزولیوشن کے متعلق اطلاع آنے پر میں اس سلسلہ مضامین کا انتظام کروں گا- گزشتہ سے گزشتہ سال کا ذکر ہے کہ میں نے اسی جلسہ میں آپ لوگوں سے کہا تھا کہ اگر بیرونجات کی پندرہ عورتیں یہاں آنے کی کوشش کریں تو میں آسان طریقوں سے تمام سلسلہ کے متعلق ضروری مسائل انہیں پندرہ دن کے اندر سکھا دوں گا مگر سوائے ایک عورت کے کسی نے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ دی- اگر اب بھی تمہارا یہی حال ہوا تو پھر تمہاری قسمت- تیسری نصیحت یہ ہے کہ لجنہ کا قیام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہا ہے- اس وقت تین لجنائیں نہایت عمدہ کام کر رہی ہیں یعنی قادیان، سیالکوٹ، امرتسر کی- اور ان سے اتر کر لاہور، پشاور وغیرہ کی لجنائیں- میں امید کرتا ہوں کہ دوسری جگہوں کی لجنائیں بھی مفید کام کرنے کی کوشش کریں گی- قادیان کی لجنہ کا کام ابھی مرکز تک محدود ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ باہر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گی- عورتیں اپنا کام آپ سنبھالیں عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کام آپ سنبھالیں تبھی وہ ترقی کر سکتی ہیں- ہم نہیں جانتے کہ تمھارے دلوں میں کیا ہے؟ عورتوں کی ضروریات کا علم عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے- جس طرح ہمیں مردوں کی ضروریات کا علم ہوتا ہے عورتوں کا نہیں ہو سکتا- ہم نہیں جانتے تمہارے دلوں میں کیا ہے تم خود اپنے خیالات کا اظہار کرو اور جو تمہارے دلوں میں ہے اس کو بیان کرو- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے- ایک بوڑھی عورت کا جو اگر کسی پہاڑ کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے - سبحان اللہ- اگر کسی ولی کا حال سنتی ہے
۶۹ تب بھی سبحان اللہ کہتی ہے- اگر اس کو کہا جائے کہ فلاں ولی کی بات سے درندے تابع ہو گئے تھے تو وہ اسے بھی مان لے گی- اس نے تو ایک بات پکائی ہوئی ہے کہ اللہ میاں کی تو ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں- حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ عوام الناس میں مشہور ہے کہ رسولکریم ﷺ جب معراج کو گئے تو ایک پہاڑ راستے میں آ جانے کی وجہ سے راستہ نہ ملا- آسمان سے آوازوں پر آوازیں آ رہی تھیں کہ جلدی آؤ جلدی آؤ- وہ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے مگر راستے کا کچھ پتہ نہ چلتا- آخر ایک جگہ دو فقیر بیٹھے ہوئے ملے جو بھنگ گھوٹ رہے تھے- ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھہرو ہمیں بھنگ پینے دو- حضرت جبرائیل اور رسول کریم ﷺ تو جلدی کر رہے تھے لیکن فقیر آرام سے بھنگ پیتے رہے- آخر انہوں نے اسے نچوڑ کر اس کے فضلے کا ایک گولہ بنایا اور یا علی کہہ کر پکار کر پہاڑ کو مارا تو پہاڑ پھٹ گیا اور ان کے گزرنے کے لئے راستہ بن گیا- ایسے واقعات کو بھی سن کر عورتیں سبحان اللہ کہہ دیتی ہیں- جاہل اور بیوقوف اسے سچ مان لیتے ہیں- وہ خیال نہیں کرتے کہ اس میں خدا اور رسول سب کی عزت پر حملہ ہے اور علی پر بھی حملہ ہے- علیؓ کو عزت رسول کریم ﷺ کی وجہ سے نصیب ہوئی تھی- جب ان کی بے عزتی کی گئی تو علیؓ کی عزت کس طرح قائم رہ سکتی ہے- ہماری قوم کو دیکھ لو ہم پر کسی نے غلبہ پا کر ہمیں اسلام نہیں سکھایا بلکہ ہمارے آباء نے اسلامی ممالک کو فتح کیا اور اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے- آج ہم کیوں حضرت علیؓ کی عزت کرتے ہیں محض رسول کریم ﷺ کی وجہ سے ہم ان پر ایمان نہ لاتے تو علیؓ محض ایک سردار سے زیادہ ہماری نظروں میں عزت نہ پاتے- غرض ایسا جاہلانہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے- یہ شیر خواروں کا سا ایمان ہے کہ ہر وقت دوسروں کے قبضہ میں ہیں- دوسرا ایمان فرماتے تھے کہ فلسفیوں کا ہوتا ہے جو ہر بات میں شک پیدا کرتے ہیں- یہ گویا ذرا بڑے لڑکوں کا سا ایمان ہے جو دوڑتے اور گرتے ہیں- تیسرا ایمان و لیوں کا ایمان ہے جو گویا بالغ و عاقل کا سا ایمان ہے کہ نہ وہ دوسرے کے ہاتھ میں ہوتے اور نہ حرکت سے معذور اور نہ حرکت کرتے وقت گرتے نہ زخمی ہوتے ہیں بلکہ حرکت بھی کرتے ہیں اور نقصان سے بھی محفوظ رہتے ہیں- ہاں تو یاد رکھو کہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح نصیحت کر سکتی ہیں اس لئے لجنہ کا ہونا ضروری ہے- انہیں عورتوں کی ضروریات کا علم ہو گا اور اس علم کے ماتحت ان کی باتوں کا ان پر زیادہ گہرا اثر پڑ سکتا ہے-
۷۰ لجنہ کے فرائض لجنہ کے یہ فرائض ہونے چاہئیں- اول دیکھیں کہ ان کے حلقہ کی ساری احمدی عورتوں کو کلمہ اور نماز آ گئی ہے یا نہیں- اس کے متعلق وہ ہر سال امتحان لیں اور رپورٹ بھیجیں- اس کام میں غفلت نہ ہو- دوم یہ کہ تبلیغ کریں- ہر جگہ جلسہ کر کے عورتوں کو بلائیں- لجنہ کو اس کی طرف جلد اور فوراً توجہ کرنی چاہئے- غیر احمدی عورتوں کو جب تبلیغ کی جائے گی اور ان کی اصلاح ہو جائے گی تو وہ اپنے مردوں کو بھی مجبور کریں گی کہ وہ احمدیت کو قبول کریں- تیسرا کام چندے کا انتظام ہے چندہ اس لئے نہیں ہوتا کہ اس سے ضروریات پوری ہوں گی- خدا کے کام رکے نہیں رہتے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ایمان پختہ ہو- دیکھو دنیا میں بہت سے خزانے مدفون ہیں اگر خدا چاہے تو ہو اپنے نیک بندوں کو جہاں ہزارہا غیب کے علم سے مطلع کرتا ہے وہاں انہیں یہ بھی بتا سکتا ہے کہ فلاں جگہ خزانہ مدفون ہے اسے دینی ضروریات پر صرف کرو- اللہ تعالیٰ نے بارہا مجھے غیب کی خبریں بتائی ہیں وہ یہ بھی بتا سکتا تھا- مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہارے ایمان پختہ ہوں اور تم میں زندگی کی روح پیدا ہو- رسول کریم ﷺ نے ایک شخص سے زکٰوۃ طلب کی اس نے دینے میں عذر کیا- آپﷺ~ نے ممانعت کر دی کہ آئندہ اس سے زکٰوۃ نہ لی جائے- اس کے بعد وہ بے شمار اونٹ اور بکریاں لاتا اس سے قبول نہ کئے جاتے اور وہ روتا ہوا واپس جاتا- چندے میں زیادہ کی شرط نہیں صرف نیت نیک ہونی چاہئے- تم اپنے ایمانوں میں ترقی کرو اور جہاں جہاں اب تک لجنہ قائم نہیں ہوئی وہاں لجنہ قائم کرو- اور اپنے حقوق خود حاصل کرو- جو حقوق لینے کھڑا ہوتا ہے خدا اس کے حقوق خود دلاتا ہے- نیند سے جاگو، دین کی خدمت کرو- تا مردوں کی طرح تم پر بھی خدا کی برکات نازل ہوں اور خدا کے حضور ان افضال کی مالک بنو جن کا تمہارے آباؤاجداد کو وارث بنایا گیا- (مصباح ۵ا.جنوری ۱۹۳۰ء) الأنبياء:اا الاحزاب:۴۱ بخاری کتاب الانبياء باب ما ذكر عن بنی اسرائیل تكمله مجمع البحار جلد ۲ صفحہ ۸۵ حرف الزاء مطبوعہ نور کشور لکھنو.شرح مواهب اللدنیه جلد ۲ صف ۲۷۴ باب غزوة موته میں یہ \"فاحث في افواههن من التراب\"الفاظ ہیں التكوير:۵ التكوير:۶ کم التکویر:۸ الجرت:۱۴
۷۱ چند اہم اور ضروری أمور از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمو د احمد خلیفه المسیح الثانی
۷۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسؤله الكريم چند اہم اور ضروری امور (فرمودہ ۲۸- دسمبر ۱۹۲۹ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان) حضور نے اول تو احباب کو ان ایام میں زیادہ عرصہ قادیان میں ٹھہرنے کی نصیحت فرمائی- پھر اس سال اپنے طویل عرصہ علیل رہنے کا ذکر کرتے ہوئے اس کام کا ذکر کیا جو قرآن کریم کے اردو نوٹوں کے مرتب کرنے اور ترجمہ انگریزی کے متعلق ہوا- اسی سلسلہ میں حضور نے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم اے کی تصنیف کردہ سیرت رسول کریم ﷺ کا ذکر کیا اور اس کے جلد شائع ہونے کی توقع دلائی- ان امور کے بعد حضور نے نہایت درد ناک الفاظ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی وفات کا ذکر کیا اور ان کی خوبیاں بیان فرمائیں حضور نے فرمایا- میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا اگر اس موقع پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں- حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے- میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواہش تھی ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے- بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں، کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں- یہ کام کرو تو وہ کریں- حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے- وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ وار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور
۷۴ وہ سمجھے- یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہوگی- یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے اور تمام کاموں کا میں ذمہ وار ہوں- میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے چالیس مومن میسر آ جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں- یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا مرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کرو- خدا کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش سے بہت بڑھ چڑھ کر ایسے لوگ ہوں- جیسا کہ نبیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت ہے ایسے چالیس آدمی نہیں بلکہ لاکھوں میسر کر دے جن میں سے ہر ایک یہ سمجھے کہ آسمان اور زمین کا بار اٹھانا اسی کا فرض ہے- پھر اس سال افراد کے لحاظ سے جماعت نے جو ترقی کی- وہ بیان کی- سماٹرا میں احمدیت کی ترقی، وہاں کے احباب کا حصول، دین کی خاطر قادیان آنا اور احمدیہ مشن امریکہ کی کامیابی کا ذکر فرمایا- پھر مذبح قادیان کے واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس کے متعلق احباب جماعت کے جوش کی تعریف فرمائی- سیاسی تحریکات کے متعلق فرمایا- ایسی تمام تحریکات جو قانون شکنی کا موجب نہ ہوں، فساد اور بدامنی پیدا نہ کریں، ان میں ہم شریک ہو سکتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر ان میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ مومن کا یہ بھی کام ہے کہ لوگوں کو ان کے حقوق دلائے- یہ اسلام کا حکم ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ شرارت نہ ہو، فساد نہ ہو، فتنہ نہ ہو- دنیا ہمیں خواہ کچھ کہے ہم سب کچھ برداشت کر لیں گے لیکن جو دین کا حکم ہے اسے ہم کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے- بعض لوگ گھبرا کر لکھتے ہیں اگر ہم دوسروں کے ساتھ ان کے ہر ایک کام میں شامل نہ ہوں تو وہ گالیاں دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے پہلے گالیاں نہیں کھائیں- اگر راستی اور امن کے قیام کے لئے لوگ برا بھلا کہیں تو کہہ لیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں- ہاں ہم تمام ان تحریکوں میں جو قانون کے اندر ہوں ہر جائز خدمت اور جائز قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں اور بحیثیت جماعت ان میں شامل ہو سکتے ہیں- البتہ افراد کا حق نہیں کہ آپ ہی آپ کسی تحریک میں شامل ہو جائیں جو گورنمنٹ سرونٹ نہیں وہ اس میں بھی شامل ہو سکتے ہیں مگر اپنے آپ
۷۵ نہیں جماعت کے نمائندے بن کر جائیں- یہی حال مسلم لیگ اور دیگر سوسائٹیوں کا ہے کہ ان میں احمدی جماعت کے نمائندے ہو کر جائیں تا کہ ہماری پالیسی متحدہ طور پر ان کے سامنے آئے- سَوَراج کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارا کیا خیال ہے؟ اس کا جواب میں نے پہلے بھی دیا ہوا ہے اور اب بھی دیتا ہوں کہ پہلے سوراج گھر سے شروع ہونا چاہئے اور نفس پر حکومت کرنا سیکھنا چاہئے- اگر یہ نہیں تو ملک تو الگ رہا ایک گاؤں کے لئے سوراج حاصل نہیں کیا جا سکتا- جن لوگوں میں درندگی اور وحشت ہو ان کو حکومت ملے تو وہ ایک دوسرے کو ہی پھاڑیں گے- چونکہ روز بروز ایسی تحریکیں نکلتی رہتی اور ایسے امور پیش آتے رہتے ہیں جن میں جماعت کو راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے میں اپنی جماعت کے اخبارات کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہر ایسی بات کے متعلق فوراً مجھ سے پوچھ کر ہدایت شائع کر دیا کریں تا کہ لوگ دبدھا۱؎ میں نہ رہیں- اس سے اخبارات کو بھی فائدہ ہوگا- وہ اپ ٹو ڈیٹ (UP TO DATE )اور زیادہ دلچسپ بن جائیں گے اور لوگوں کو بھی فکر نہ رہے گی کہ کسی معاملہ کے متعلق انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے- ہمارے اخبارات سمجھتے ہیں چونکہ دیگر امور کے متعلق ہم خبریں شائع نہیں کرتے اس لئے جماعت کو ان کا پتہ نہیں ہوتا- حالانکہ لوگ دوسرے اخبارات بھی پڑھتے ہیں اور وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے جماعت کا رویہ بیان کیا جائے- اس کے بعد حضور نے بیمہ کے متعلق اظہار خیالات کرتے ہوئے فرمایا- اس کے متعلق جماعت کے ایک خاص طبقہ میں ہیجان پایا جاتا ہے اور بڑی کثرت سے خطوط آتے ہیں کہ اس بارے میں فیصلہ کیا جائے- حضور نے اس کے متعلق جس قدر تحقیق کی- اس کا بالتفصیل ذکر کرنے اور بیمہ کی مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو تحریروں کی بناء پر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ-: بیمہ کی وہ ساری کی ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آ چکی ہیں ناجائز ہیں- ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا، تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے- مگر میں نے مختلف کمپنیوں کے نمائندوں سے گفتگو کر کے معلوم کیا ہے کہ موجودہ قواعد کے رو سے وہ اس قسم کا انتظام نہیں کر سکتے- لیکن چونکہ جماعت کی
۷۶ کاروباری ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اور ان کا پورا کرنا ضروری ہے اس لئے میں چند دوستوں کے سپرد یہ کام کرنے والا ہوں کہ وہ ایسی سکیم بنائیں جس کی رو سے لوگ روپیہ جمع کر سکیں اور ضرورت کے وقت انہیں روپیہ مل سکے- اگر کوئی ایسی صورت نکل آئے اور کیوں نہ نکلے گی یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مومنین کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کوئی جائز صورت ہی نہ رہے- اگر قانون دان اصحاب توجہ کریں تو ایسی کمپنی بنائی جا سکتی ہے جس میں روپیہ جمع کرانا ناجائز نہ ہو اور ضرورت کے وقت اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے- اس کے متعلق میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے- میں اس کے متعلق قانون دان اصحاب کی رائے سن کر دیکھوں گا کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں- چونکہ یہ ضرورت بہت محسوس کی جا رہی ہے اس لئے اس کا ضرور انتظام ہونا چاہئے- ہاں ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبوراً کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کر دیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں- یہ چونکہ اپنے اختیار کی بات نہیں ہوتی اس لئے جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ موجود ہے- آپ نے فرمایا ہے پراویڈنٹ فنڈ جہاں مجبور کر کے جمع کرایا جاتا ہے وہاں اس رقم پر جو زائد ملے وہ لے لینا چاہئے- اس کے بعد حضور نے مجلس مشاورت میں عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق فرمایا-: ایک اور مسئلہ جس نے ہماری جماعت میں بہت شور برپا کر دیا ہے وہ مجلس مشاورت میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہے- میں نے مجلس مشاورت میں سوال پیش کیا تھا کہ عورتوں کو حقنمائندگی ملنا چاہئے یا نہیں میرے نزدیک کسی مسئلہ کے متعلق اتنا جوش، جوش نہیں بلکہ دیوانگی پیدا نہیں ہوئی جتنی اس بارے میں پیدا ہوئی ہے- عورتیں ہیں تو کمزور مگر معلوم ہوتا ہے ان میں مردوں کو بہادر بنانے کا خاص ملکہ ہے- بعض دوستوں میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر عورتوں کو حق نمائندگی مل گیا تو اسلام مردہ ہو جائے گا- اس کے مقابلہ میں دوسرے فریق میں جوش نہیں دیکھا گیا لیکن عورتوں میں جوش ہے- الفضل میں ایک مضمون ان کے حقِّ نمائندگی کے خلاف جب چھپا تو لجنہ کی طرف سے میرے پاس شکایت آئی کہ اب ہم کیا کریں- جامعہ احمدیہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی اور وہاں حق نمائندگی کے مخالفین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے- میں نے کہا تم بھی میٹنگ کرو جس میں اس مسئلہ پر بحث کرو کہ مردوں کا مجلس مشاورت میں حق ِّ نمائندگی ہے یا نہیں اور پھر فیصلہ کر دو کہ نہیں- جامعہ احمدیہ میں تو
۷۷ بچوں کے مضامین کا فیصلہ کیا گیا ہے نہ کہ حق نمائندگی کا- اگرچہ یہ معمولی سوال نہیں ہے- اس میں غلطی بہت خطرناک ہو سکتی ہے- تا ہم ایسا اہم بھی نہیں ہے کہ اگر عورتوں کو حق نمائندگی دے دیا جائے تو اسلام کو مردہ قرار دینا پڑے- بے شک یہ سوال بہت اہم ہے مگر اس کا شریعت سے تعلق نہیں- شریعت سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مرد سے بھی مشورہ لیا اور عورت سے بھی- باقی رہا یہ کہ کس طریق سے مشورہ لینا چاہئے یہ نہ مردوں کے متعلق بتایا نہ عورتوں کے متعلق- یہ بات عورتوں کو حق نمائندگی نہ ملنے کا کوئی بڑے سے بڑا ممد بھی ثابت نہیں کر سکتا- شریعت نے کہا ہے مشورہ کرو- آگے یہ کس طریق سے کیا جائے یہ ہم پر چھوڑ دیا کہ زمانہ کے حالات کے مطابق جس طرح مناسب ہو کرو- اگر رسول کریم ﷺ کے وقت اس طرح مشورہ کیا جاتا کہ شام، یمن، حلب وغیرہ علاقوں کے نمائندے آتے اور مشورہ میں شریک ہوتے تو ہو سکتا تھا مدینہ میں مشورہ ہی ہو رہا ہوتا اور پیچھے حملہ ہو جاتا- اس لئے رسول کریم ﷺ کا یہ طریق تھا کہ نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرتے اور پھر مشورہ کر لیتے- بعد میں اس طریق کو بدلنا پڑا- پس طریق مشورہ بدلا جا سکتا ہے- کیونکہ یہ شریعت میں موجود نہیں- یہ ہم نے حالات کے مطابق خود مقرر کرنا ہے- اس میں اگر غلطی کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے- مگر شریعت دفن نہ ہوگی، وہ زندہ ہی رہے گی- یہ بات ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ آج وہ زمانہ نہیں کہ کھڑے ہو کر کہہ دیا جائے عورتیں ناقصات العقل والدین ہیں اور اس کے یہ معنی کر لئے جائیں کہ عورتوں میں کوئی عقل نہیں- یہ معنی خود رسول کریم ﷺ کے عمل اور آپ سے بعد کے عمل سے غلط ثابت ہوتے ہیں- اگر اس کے یہی معنی ہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں تو رسول کریم ﷺ نے ام سلمہؓ سے کیوں مشورہ لیا؟ اگر عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایسی عورتیں بھی ہوئی ہیں جنہوں نے کامل العقل مردوں کو عقل کے بارے میں شکست دی اور ان کے پایہ کے مرد نہیں ملتے- میں حضرت عائشہ ؓ کو پیش کرتا ہوں- قرآن کریم میں خاتم النبین کے الفاظ آئے تھے ادھر حدیثوں میں لا نبی بعدی ۲؎ کے الفاظ موجود تھے- جوں جوں زمانہ نبوت سے بعد ہوتا جاتا، ان سے یہ نتیجہ نکالا جاتا کہ رسولِ کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- اس خطرہ کے انسداد کیلئے کسی مرد کو توفیق نہ ملی
۷۸ سوائے حضرت علیؓ یا ایک دو اور کے- مگر حضرت عائشہؓ دھڑلے سے فرماتی ہیں-قولوا انہ خاتم الانبیاء ولاتقولوا لانبی بعدہ۳؎یہ تو کہو کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں- اب دیکھ لو اس زمانہ کے مامور نے کس کی تصدیق کی- ان کی جنہیں ناقصات العقل کہا جاتا ہے یا ان کی جو کامل العقل کہلاتے تھے- اگر اس وقت وہ یہ کہتیں کہ میں جسے ناقصات العقل میں شامل کیا جاتا ہے کیوں بولوں تو آج اس بارے میں کس قدر مشکلات پیش آتیں اور ہم کتنے میدانوں میں شکست کھاتے- جب ہم خاتم النبین کے یہ معنی پیش کرتے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کی امت میں سے آپ کی غلامی میں نبی آ سکتا ہے تو کہا جاتا پہلے کسی نے یہ معنی کیوں نہ سمجھے- اب جب یہ کہا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں دیکھو رسول کریم ﷺ کی بیوی نے یہی معنی سمجھے تھے- دراصل ناقصات العقل والدین نسبتی امر ہے کہ مرد کے مقابلہ میں عورت کم عقل رکھتی ہے- یعنی کامل سے کاملمردسے کامل سے کامل عورت عقل میں کم ہوگی اور دوسرے درجہ کے مرد سے دوسرےدرجہ کی عورت کم ہوگی اور اس سے کوئی انکار نہیں کرتا- بعض باتیں مردوں سے تعلق رکھنے والی ایسی ہیں جن میں عورتوں کو پیچھے رہنا پڑتا ہے جیسے لڑائیاں اور جنگیں ہیں- پس ناقصات العقل نسبتی امر ہے- اور اس سے عورتوں کا حق نمائندگی نہیں مارا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو سب کے سب اول درجہ کی عقل رکھنے والے مردوں کو حق نمائندگی ملنا چاہئے دوسروں کا حق نہیں ہونا چاہئے مگر مجلس مشاورت میں جو نمائندے آتے ہیں ان میں گو اعلیٰ درجہ کی عقل رکھنے والے بھی ہوتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے- ان سے بڑھ کر بیسیوں مرد دوسرے مقامات پر موجود ہوتے ہیں اور مرد ہی نہیں بیسیوں عورتیں بڑھ کر ہوتی ہیں- مثلاً ایک ایسا شخص جو کسی گاؤں سے آتا ہے اور مجلس مشاورت کا نمائندہ ہوتا ہے اس سے زیادہ واقفیت رکھنے والے بہت سے ہماری جماعت کے مرد لاہور میں ہوتے ہیں مگر انہیں نمائندگی کا حق نہیں دیا جاتا- غرض عورتوں کو نمائندگی دینا ان کا حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح انہیں یہ حق دیں- میں سمجھتا ہوں الفضل کے مضامین پڑھ کر بعض لوگوں کو تو یہ خیال پیدا ہو گیا ہوگا کہ جہاد کا موقع آ گیا ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے عورتوں کا یہ حق ہے- ہاں سوال یہ ہے کہ کس طریق سے ان سے مشورہ لیا جائے تا کہ ان کا حق بھی زائل نہ ہو اور ان کے مشورہ سے ہم فائدہ بھی اٹھائیں-
۷۹ اس کے بعد حضور نے شاردا ایکٹ ۴؎ کے متعلق فرمایا- بعض دوست سمجھتے ہیں اس نے شریعت پر حملہ کر دیا ہے اور بعض کہتے ہیں کوئی بھی خطرہ کی بات نہیں ہے- مگر میں کہتا ہوں دونوں افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں- وہ بھی جن کا خیال ہے کہ یہ اسلام پر حملہ کیا گیا ہے اور وہ بھی جو یہ کہتے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں- یہ اسلام پر ہر گز حملہ نہیں ہوا مگر یہ بھی صحیح نہیں کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں- بے شک اسلام پر حملہ نہیں ہوا مگر مسلمانوں پر حملہ ضرور ہوا ہے اور اس سے خطرہ ہے کہ اور بہت سے نقصان نہ پہنچ جائیں- اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور اور بے کس لڑکی کو نابالغی کی حالت میں بیاہ دینا بہت بڑا ظلم ہے اور اسے قوم اور جماعت کے لئے بیکار بنا دینا ہے- کوئی عقلمند اس کی تائید نہیں کرے گا اور نہیں کر سکتا لیکن نکاح اور میاں بیوی کے اجتماع میں فرق ہے- اجتماع تو نابالغی کی حالت میں کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا مگر دیکھنا یہ ہے کہ نکاح بھی کسی صورت میں جائز ہے یا نہیں- یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ عورت کا بلوغت کے بعد نکاح ہو کیونکہ نکاح سے عورت مرد کی رضا مندی کا تعلق ہے اور اگر بلوغت نہیں تو رضا مندی کیسی- پس اگر یہ کہا جائے کہ بلا ضرورت بھی نابالغ کا نکاح جائز ہے تو ہم کہیں گے نکاح کی غرض جو شریعت نے قائم کی ہے وہ باطل ہو جاتی ہے- نکاح سے غرض تو یہ ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے ممد ہونے کا عہد کریں اور یہ عہد نابالغی میں نہیں کیا جا سکتا- لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض حالات میں نابالغ کا نکاح کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے- مثلاً ایک ایسا شخص ہے جس کی ایک بیوی فوت ہو جائے اور دوسری سے اس کے نوجوان لڑکے ہوں اور وہ پسند نہ کرے کہ سوتیلی بہنوں کی ولایت سوتیلے بھائیوں کے سپرد کرے اور کسی اور کو ولی بنا کر وہ یہ بھی نہ چاہتا ہو کہ دوسروں پر ظاہر کرے کہ اس کے گھر میں تفرقہ ہے- وہ نابالغ لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے- مگر شریعت نے اس لڑکی کے لئے یہ رکھا ہے کہ اگر اسے یہ رشتہ ناپسند ہو تو بالغ ہو کر انکار کر دے اس طرح گویا نابالغ کا صرف لفظی نکاح ہو- کئی حالتوں میں یہ نابالغی کا نکاح ہی پسندیدہ ہو جاتا ہے- میرے پاس کئی اس قسم کے بھی خطوط آتے ہیں کہ ماں باپ نے ہمارا نکاح فلاں جگہ کیا تھا ہمیں وہی جگہ پسند ہے لیکن دوسرے رشتہ دار وہ رشتہ چھڑانا چاہتے ہیں- اسی طرح اور کئی احتمالات ممکن ہیں جن میں چھوٹی عمر کی شادی مفید ہو سکتی ہے مگر یہ شاذ و نادر ہوتے ہیں- تا ہم یہ ضرورت ہے کہ نابالغ کی شادی کرنے کی اجازت
۸۰ ہو- مگر ایسی ضرورتوں کو بھی قربان کیا جا سکتا ہے اور شریعت نے یہ جائز رکھا ہے کہ جائز امر کا ناجائز استعمال اگر جائز کیا جائے تو اس میں روک ڈال دی جائے- حدیث میں آتا ہے حضرتعمرؓ کے زمانہ میں لوگ تین طلاقیں اکٹھی دے کر پھر مل جاتے- حضرت عمرؓ نے کہا یہ شریعت کے ساتھ ہنسی ہے- اب اگر کوئی تین طلاقیں اکٹھی دے گا تو اسے پھر ملنے کی اجازت نہ ہوگی تو یہ جائز ہے کہ اگر کسی جائز بات کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے تو اس سے روک دیا جائے مگر اس کا فیصلہ خود مسلمان کریں دوسروں کو اس کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ اگر اور دخل دیں گے تو دوسرے مسائل پر بھی اس کا اثر پڑے گا- مثلاً گائے کا ذبح کرنا مسلمانوں کیلئے جائز ہے- کل کو ہو سکتا ہے ہندو اس کے خلاف قانون پاس کر دیں- اسی طرح طلاق جائز ہے، ایک سے زائد بیویاں کرنا جائز ہے، ان کے خلاف بھی غیرمذاہب والے قانون پاس کر سکتے ہیں مگر ان مسائل میں دخل دینا کوئی مسلمان برداشت نہ کرے گا- ان وجوہات سے نابالغی کی شادی میں رکاوٹ خطرناک ہے- مگر اس کا علاج یہ نہیں جو بعض لوگوں نے تجویز کیا ہے کہ دس دس سال کی لڑکیوں کی شادیاں کر دیں گے- یہ اپنا نقصان آپ کرنے والی بات ہے- اس کے بعد حضور نے یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کو ایسے قانون کی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں بچپن کی شادی کا بہت کم رواج ہے اور وہ بھی روز بروز دور ہو رہا ہے- پھر حضور نے ان امور کی تشریح فرماتے ہوئے جن کی اسلام میں اجازت ہے بتایا کہ بعض ایسی اجازتیں ہیں جن کا شریعت نے ضمناً ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں شریعت کا جزو بنا لیا ہے اور کہہ دیا ہے یہ باتیں کرو تو ان کے متعلق یہ یہ حکم ہے- ان اجازتوں میں کسی کا دخل دینا بہت زیادہ برا ہے- بچپن کی شادی بھی انہی میں سے ہے- شریعت نے اس کی اجازت دی اور اس کے لئے بعض احکام بیان کئے کہ لڑکی بالغ ہو کر چاہے تو ایسی شادی سے انکار کر سکتی ہے- پھر اسی اجازت کی ایک قسم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس پر خود عمل کیا ہو اور بچپن کی شادی ایسی ہی اجازت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس پر عمل کیا- یعنی حضرت عائشہؓ کے ساتھ بچپن میں نکاح کیا- اور ۱۲ سال کی عمر میں ان کا رخصتانہ ہو گیا- یہ صحیح ہے کہ عرب میں بلوغت جلد ہو جاتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے قویٰ اعلیٰ درجہ کے تھے لیکن ان کی عمر ۱۲ سال کی تھی- جب رسول کریم ﷺ کے ہاں تشریف لے گئیں- اب اگر ان کی عمر کے متعلق یہ انتظار کیا جاتا کہ ۱۷، ۱۸ سال کی ہو جاتی تو صرف ایک سال انہیں رسول کریم ﷺ کی
۸۱ صحبت میں رہنے کا موقع ملتا اور دین کی بہت سی باتیں نامکمل رہ جاتیں- مگر جو عرصہ انہیں ملا اس میں انہوں نے دین کی بڑی خدمت کی- اسی لئے ضروری تھا کہ رسول کریم ﷺ کے پاس انہیں ایسے وقت میں خدا تعالیٰ لاتا کہ وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل کر کے دنیا کو فائدہ پہنچا سکتیں- اس لئے انہیں جلد بالغ کر دیا- تو جس بات پر رسول کریم ﷺ نے عمل کیا اور جائز قرار دیا اس سے قطعاً روکنا بہت اہم ہے- میں تو اس کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ بچپن کی شادی سے روکو مگر عارضی جب تک کہ مسلمان اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں قطعی مت روکو- اب اس کے متعلق طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ کو بتایا جائے کہ اس قانون میں کیا کیا نقائص ہیں اور اس سے مسلمانوں کو کیا کیا خطرات ہیں- اگر گورنمنٹ یہ اقرار کرے کہ ایسی باتوں میں آئندہ دخل نہ دیا جائے گا تو پھر اطمینان ہو سکتا ہے اور ہم اسے برداشت کر لیں گے- اس کے بعد حضور نے مالی حالت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا- میں نے اپنی تحریک میں ذکر کیا تھا کہ سلسلہ پر مالی بوجھ پڑا ہوا ہے جو زمیندار جماعتوں کی وجہ سے ہے- اس لئے نہیں کہ ان کے اخلاص میں کمی ہے بلکہ اس لئے کہ پے در پے ایسے حادثات ہوئے ہیں جن سے فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے- مگر یہ بھی صاف بات ہے کہ سلسلہ کے کام جماعت نے ہی کرنے ہیں اس لئے باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا کرنا چاہئے- مجھے گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ پورے طور پر بعض جماعتیں اس طرف توجہ نہیں کرتیں کہ سب کو سلسلہ کا بوجھ اٹھانا چاہئے اس لئے سارا بوجھ چند جماعتوں پر پڑا ہوا ہے- میں سب دوستوں کو اور خصوصاً کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے طور پر جائزہ لیں اور دیکھیں کونسے دوست کم چندہ دیتے ہیں یا نہیں دیتے- اپنے آئندہ سال کے پروگرام میں ایسے لوگوں کی سستی اور کمزوری دور کرنا خاص طور پر رکھا جائے- جس طرح انہیں باقاعدگی کے ساتھ چندہ دینے کی عادت ہے اسی طرح دوسروں کو بھی ہو سکتی ہے- اگر ہمت اور استقلال سے دوست کام کریں تو خدا تعالیٰ برکت دے گا- ابھی دیکھا ہے چندہ جلسہ سالانہ کے لئے تحریک کی گئی- باوجود اس کے کہ سردیوں میں کئی قسم کے بوجھ ہوتے ہیں- پھر یہاں آنے کے لئے بھی خرچ کی ضرورت تھی مگر دوستوں نے پوری توجہ کی- ۱۶ ہزار کے قریب روپیہ آ چکا ہے اور اگر وعدے ملائے جائیں تو ۱۸ ہزار بن جاتا ہے- اس کے علاوہ دوسرے چندے بھی دوستوں نے ادا کئے ہیں-
۸۲ ایسی نظیر سوائے مخلصین کے اور کوئی نہیں پیش کر سکتا- بعض لوگوں کو ایک غلطی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں- یا جو سست ہیں انہیں چندہ کی تحریک نہ کرنی چاہئے- اس سے انہیں ابتلاء آئے گا حالانکہ ایسے لوگوں کو مضبوط کرنے کے لئے قربانی کرانے کی ضرورت ہے- اور یہ اپنے بھائیوں پر بدظنی ہے کہ اس طرح انہیں ابتلاء آ جائے گا- میں نے کئی لوگوں کو جب یہ غلطی دور کرنے کے لئے لکھا اور انہوں نے کوشش کی تو عمدہ نتیجہ نکلا- اور پھر انہوں نے لکھا کہ آپ کی تحریک کی برکت سے ایسا ہوا- بے شک خدا تعالیٰ برکت دیتا ہے مگر اس میں ان کی کوشش کا بھی دخل ہوتا ہے- بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا گیا تو انہوں نے سال سال کا اکٹھا لا دیا- تو یہ اپنے بھائیوں کے متعلق بدظنی ہے کہ اگر ان سے چندہ مانگا گیا تو انہیں ابتلاء آ جائے گا- پس میں جماعتوں کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور اگر وہ سست ہوں تو دوسروں سے کہتا ہوں کہ چندہ کی ادائیگی میں ہر شخص سے باقاعدگی اختیار کرائیں- اس میں شبہ نہیں کہ کامیابی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے- مگر جو ضرورتیں مال سے پوری ہو سکتی ہیں ان کے لئے مال کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا- بعض جگہ کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری خود سست ہوتے ہیں- جب کوئی تحریک کی جائے تو اسے اس لئے روک دیتے ہیں کہ اگر کسی کو چندہ دینے کے لئے کہا تو وہ کہے گا خود بھی لاؤ ایسی جگہ دوسرے دوستوں کو کھڑا ہو جانا چاہئے- ابھی میں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی مثال پیش کی تھی کہ ہر شخص اپنے آپ کو دین کا رکھوالا سمجھے- اگر دیکھیں سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سست ہے تو خود کام کریں- کئی جماعتیں ایسی ہیں جہاں اسی وجہ سے نقص ہے- اگر ان سست سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو بدل دیا جائے تو باقاعدہ چندہ آنے لگ جائے- پھر کئی جگہ چندہ میں کمی آپس کے فتنہ وفساد کی وجہ سے ہے کیونکہ دلوں کی عدم صفائی سے ایمان میں کمزوری آ جاتی ہے- اول تو میں نصیحت کروں گا کہ ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں چاروں طرف دشمن ہی دشمن کھڑے ہوں آپس میں فتنہ وفساد نہ کرو بلکہ اگر کسی سے کوئی غلطی یا کمزوری سرزد ہو تو اسے معاف کرو، معاف کرو، پھر معاف کرو- لیکن اگر معاف نہیں کر سکتے اور سزا ہی دینا چاہتے ہو تو محبت والی سزا دو- کوئی کہے محبت والی سزا کیسی ہوگی- تو یاد رکھنا چاہئے- اصل سزا یہی ہے کہ سزا دیتے وقت بھی محبت ہو، کینہ اور بغض نہ ہو- پس اول تو معاف کرو، ایک دوسرے کی کمزوری سے درگذر کرو اور اگر معاف نہیں کر سکتے تو محبت اور پیار سے جماعت میں فیصلہ کرالو اور پھر جو فیصلہ ہو اسے مان
۸۳ لو- اس طرح بھی جماعت کی بہت ترقی ہو سکتی ہے- مجھے یہ سن کر رونا آتا ہے کہ آپس کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی جاتی ہے- نماز اللہ تعالیٰ کا فرض ہے نہ کہ زید و بکر کا- اگر احمدیت میں غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہوتی، میں تو جا کر مولوی ثناء اللہ جیسے لوگوں کے پیچھے بھی نماز پڑھتا اور بتاتا کہ ہمیں ان سے کوئی بغض یا کینہ نہیں ہے- اگر کوئی اپنے بھائی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا جسے خدا نے ماں جائے بھائی سے بھی بڑھ کر تعلق والا بنایا ہے تو وہ اپنے ساتھ آپ دشمنی کرتا ہے- پس آپس کا تفرقہ دور کرو اور اتحاد پیدا کرو اس طرح بھی جماعت بہت ترقی کر سکتی ہے- مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے الہام الہٰی سے مقرر فرمائی ہے اور وہ وصیت ہے- مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ عورت مرد ملا کر ابھی تک دو ہزار نے بھی وصیت نہیں کی حالانکہ جماعت کی تعداد بہت زیادہ ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے وصیت کو جزو ایمان قرار دیا ہے- احباب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے- اور یوں بھی بیت المال والے کسی نہ کسی طرح وصیت کے قریب قریب چندہ وصول کر ہی لیتے ہیں- مالی لحاظ سے ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے پارے اور رسول کریم ﷺ کی لائف (LIFE) بھی شائع ہو گی- اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے- کم از کم تین ہزار تعداد چھپے تو سستی قیمت رکھی جا سکتی ہے- ابھی سے جماعتیں ذمہ داری لے لیں کہ اتنی اتنی تعداد وہ خود خرید لیں گی یا بکوائیں گی- اس میں امداد کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بک ڈپو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب خریدی جائیں اس طرح فنڈ جمع ہو سکتا ہے- انہی دنوں حوالہ دیکھنے کیلئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی کتاب کشتی نوح نکالی تو اس پر لکھا تھا بار چہارم چھپی- اور ایک ہزار تعداد تھی- اس طرح گویا وہ چار ہزار چھپی- اگر ہر شخص ایک ایک کتاب اپنے پاس رکھتا تو کم از کم ایک لاکھ چھپ سکتی تھی- سب دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھنی چاہئیں کہ ان میں ہماری راہ نمائی کی گئی ہے- اب میں اس اہم فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف کم توجہ ہے- اور وہ تبلیغ ہے- پچھلے سال میں نے تحریک کی تھی کہ احباب اس میں خاص طور پر حصہ لیں اور کم از کم اپنے پایہ کا ایک ایک آدمی سال میں احمدی بنانے کا وعدہ کریں- اس قسم کا وعدہ دو سو چھیاسی
۸۴ دوستوں نے کیا تھا- مجھے یقین ہے کہ بہت سے دوستوں نے یہ وعدہ پورا کیا مگر دفتر کے رجسٹر میں صرف سولہ آدمیوں کے نام درج ہیں- چونکہ ان کے نام جلسہ کے موقع پر سنانے کا میں نے وعدہ کیا تھا اس لئے سناتا ہوں- وہ نام یہ ہیں- ۱ - منشی چراغ الدین صاحب گورداسپور- ۲- نواب بی بی صاحبہ اہلیہ محمد علی صاحب فیض اللہ چک- ۳- دولت خان صاحب بیری- ۴-الطاف حسین صاحب اودے پور کٹیا- ۵-بہادرصاحب کھریپڑ- ۶- دولت خان صاحب کاٹھ گڑھ- ۷- ملک اللہ رکھا صاحب- ۸-محمدعلی صاحب فیض اللہ چک- ۹- بابو احمد جان صاحب نینی تال- ۱۰- محمد عبدالرحیم صاحب رائیچور محبوب نگر- ۱۱- شیخ غلام حیدر صاحب تلونڈی راہوالی- ۱۲- خدا بخش صاحب جنرل سیکرٹری جماعت ہانڈو ضلع لاہور- ۱۳- نور دین صاحب احمدی ہانڈو- ۱۴-الہدادصاحب ہانڈو- ۱۵-مولوی امام الدین صاحب سیکھواں- ۱۶-میاں نانک صاحب سیکھواں- یہ رپورٹ صحیح نہیں- بہت زیادہ دوستوں نے وعدہ پورا کیا لیکن اگر سب نے بھی پورا کیا تو بھی دو سو چھیاسی کی تعداد کتنی تھوڑی ہے- یہ بہت اہم فرض ہے اور ہر احمدی کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے- میں نے مسلمانوں میں زندگی پیدا کرنے کے لئے ان کی سیاسیات میں دخل دیا، ان کے تمدنی معاملات میں حصہ لیا، ان کے معاشرتی امور کی طرف توجہ کی، ان کی تمدنی اصلاح کی کوشش کی مگر میں آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمان اگر زندہ ہونگے تو احمدی ہو کر ورنہ ان کی زندگی کی کوئی صورت نہیں- ان میں اتحاد نہیں، ان میں تنظیم نہیں، ان میں کام کرنے کی روح نہیں، ان میں زندہ رہنے کی خواہش نہیں، ان میں دیانت نہیں، ان میں شجاعت نہیں، ان میں غیرت نہیں، ان کی حرص بڑھی ہوئی ہے، ان میں تفرقہ پھیلا ہوا ہے، وہ بغض و کینہ کا شکار ہو رہے ہیں، وہ ایک دوسرے کے حسد کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے- میں نے چاروں طرف ہاتھ مارے اور ہر ممکن کوشش کی کہ ان میں بیداری پیدا ہو، مگر میں مایوس ہو گیا اور آخر کار میری نظر اسی کمزور جماعت پر آ کر ٹکی جو احمدی جماعت ہے- میرا اندازہ ہے کہ اگر پچیس لاکھ افراد کی جماعت بھی منظم اور احمدی ہو جائے تو مجھے ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ اس پر پہلے دن کا سورج نکلنے پر ہی یقیناً یورپ کے تمام فرقے تسلیم کر لیں گے کہ اسلام کے غالب ہونے میں شبہ نہیں- اب بھی عیسائیوں کی ایک بہت بڑی انجمن انگلش چرچ
۸۵ مشنری سوسائٹی نے اپنے خاص اجلاس میں فیصلہ لکھا ہے کہ احمدی جماعت جہاں جہاں عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے اسے شکست دے رہی ہے- کتنا بڑا اقرار ہے- مگر ہماری ہستی کیا ہے- میرا یقین ہے کہ اگر صرف پچیس لاکھ بھی احمدی ہوں تو ساری دنیا پر اسلام کو غالب کر سکتے ہیں- ہم موجودہ حالت میں بھی غالب ہونگے لیکن اس قدر تعداد ہونے پر دشمن سے دشمن بھی اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں مگر ان ۷ کروڑ مسلمانوں میں کچھ بھی دم نہیں- پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ احمدیت کی اشاعت ہو- اب پھر ایک دفعہ میں اپیل کرتا ہوں- اس وقت یہاں نام نہیں لکھے جائیں گے کیونکہ اس طرح تقریر رہ جائے گی دفتر میں نام بھیج دیئے جائیں- میں اپیل کرتا ہوں اور میرا اپیل کرنا کیا خدا تعالیٰ نے یہ حق رکھا ہے- میں تو ثواب میں شامل ہونے کے لئے کہتا ہوں کہ سارے احباب قطع نظر اس سے کہ ان کی بڑی پوزیشن ہے یا چھوٹی، اگلے سال کم از کم اپنے رتبہ کے ایک ایک آدمی کو احمدی بنائیں- خدا تعالیٰ کے نزدیک تو ہر ایک کا درجہ بڑا ہے- یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ اس طرح تمام طبقوں میں احمدیت پھیل جائے ورنہ جو بھی احمدیت میں آتا ہے خدا کے نزدیک اس کا بڑا درجہ ہے- پھر چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے ہو سکتے ہیں- ہو سکتا ہے جو بظاہر چھوٹا نظر آئے، اپنے علاقہ میں تغیر پیدا کرنے کے لحاظ سے بڑا ثابت ہو- پس دوست اپنے نام لکھا دیں ان کے نام اخبار میں درج کر دیئے جائیں گے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں- نام درج ہو جانے بھی بڑی بات ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے منارۃ المسیح کے متعلق اعلان کیا تھا کہ جو سو روپیہ دے گا اس کا نام منارہ پر لکھا جائے گا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام لکھا جانا بھی بڑی بات ہے تا کہ اگلی نسلیں ان کے نام یاد رکھیں اور جو لوگ روحانی مینار بنانے میں حصہ لیں گے ان کے نام کیوں نہ یاد رکھیں گے- پس اپنے اپنے نام دو تا کہ آئندہ نسلیں یاد رکھیں کہ انہوں نے روحانی مینار بنانے میں حصہ لیا تھا- میں نے دیکھا ہے نئی جماعتیں بہت کم قائم ہو رہی ہیں اس لئے ارادہ ہے کہ نئے علاقوں میں مبلغ بھیجے جائیں جو وہاں رہیں اور تبلیغ کریں- دوست ان کی مدد کریں سیالکوٹ، گجرات، جالندھر، ہوشیار پور وغیرہ علاقوں کے دوست ایسے مقامات کے پتے دیں جہاں دس دس، پندرہ پندرہ میل میں کوئی احمدی نہیں مگر وہاں ان کی رشتہ داریاں ہوں تا کہ وہ اخلاقی مدد مبلغوں کو دے سکیں- اگر ایسے علاقوں کے پتے آ جائیں تو مبلغوں کو وہاں بھیجا جائے- میں نے
۸۶ دیکھا ہے ہمارے مولویوں کو مخالفت برداشت کرنے اور گالیاں سننے کی عادت نہیں رہی- کیونکہ وہ ایسے ہی علاقوں میں جاتے ہیں جہاں احمدی ہیں مگر وہاں جلد ترقی نہیں ہو سکتی- جہاں نئی جماعتیں قائم ہوتی ہیں وہاں جلد احمدیت پھیل جاتی ہے- میں امید کرتا ہوں دوست جلد ایسے حلقوں کے متعلق مجھے اطلاع دیں گے- یہ بھی ارادہ ہے کہ آنے والے سال میں اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا ٹور کروں- برہما کے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جانے سے اچھی تبلیغ ہو سکتی ہے- بنگال کے دوستوں کی بھی مدت سے خواہش ہے کہ میں وہاں جاؤں- اگر یہ سفر تجویز ہو تو راستے کے بڑے بڑے شہروں میں بھی ٹھہر سکتے ہیں اور اگر یہ سفر کامیاب ہو تو اور علاقوں میں بھی جا سکتے ہیں- بھیرہ جانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول کا وطن ہے- عام مسلمانوں کی حالت روز بروز افسوسناک ہو رہی ہے- اسلام کی ہتک ہو رہی ہے مگر انہیں کوئی پرواہ نہیں- ان میں مذہب کے متعلق کچھ بھی احساس نہیں ہے جو اسی طرح پیدا کیا جا سکتا ہے کہ تبلیغ احمدیت پر زور دیا جائے- اس وقت میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مقامات کے متعلق شکایت آئی ہے کہ رسولکریم ﷺ کی سیرت کے متعلق جلسوں کے انعقاد میں چونکہ غیر احمدیوں سے کام لینا پڑا، اس لئے بعض لوگوں میں مداہنت پیدا ہو گئی ہے- میں کسی کا نام نہیں لیتا مگر ایسے لوگ خود اپنے نفسوں میں غور کر لیں- اگر اصل چیز ہی مٹ جائے تو پھر ایسے جلسوں اور ان میں تقریروں کا کیا فائدہ- ایسے جلسوں کے لئے مسلمانوں کے پاس جاؤ اور انہیں کہو آؤ یہ ہمارا متحدہ کام ہے تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ- اگر وہ شامل ہوں تو بہتر ورنہ ان کی منتیں اور خوشامدیں نہ کرو- اگر وہ رسول کریم ﷺ کی تعریف اور شان کے اظہار کے جلسوں میں شامل ہونگے تو برکات حاصل کریں گے اور اس کا فائدہ انہیں خود پہنچے گا- ہمارا ان کے شامل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں- لیکن یاد رکھو! ان کی بے جا رضا مندی کے لئے اپنا دین تباہ نہ کرو- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاری ہدایت میں کسی کے گمراہ ہونے کی وجہ سے فرق آتا ہے تو گمراہ ہونے والے کی پرواہ نہ کرو- تم میں اگر کسی جگہ کوئی اکیلا ہی ہو اور اس کے ساتھ کوئی شامل نہ ہو تو وہ جنگل کے درختوں کے سامنے جا کر محمد ﷺ کی تعریف کرنا شروع کر دے- اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اپنی ذمہ داری سے بری سمجھا جائے گا اور اس کا نتیجہ بھی نکلے گا- لیکن کسی صورت اور کسی
۸۷ حالت میں بھی مداہنت نہیں اختیار کرنی چاہئے بلکہ احمدیت کی تبلیغ کھلے بندوں کرنی چاہئے- اب کے سال یہ تجویز ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا طریق تھا کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد چھوٹے چھوٹے تبلیغی اشتہار شائع کرتے رہتے تھے- اب بھی اس طرح کیا جائے- ایسے اشتہارات دس، بیس، تیس ہزار شائع کئے جائیں- اس طرح امید ہے کہ نیا جوش پیدا ہو جائے گا- میرا ارادہ ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو جنوری میں ہی ایک اشتہار شائع کر دیا جائے تا کہ دوست جاتے ہی اس کام کو شروع کر دیں- پچھلے سال میں نے قرآن کریم اور حدیث کے درس کی طرف احباب کو توجہ دلائی تھی اب پھر توجہ دلاتا ہوں- جہاں جہاں درس جاری ہوا وہاں نمایاں ترقی کے آثار نظر آتے ہیں- وہاں کے احمدیوں کی اولادوں پر نمایاں اثر ہے- ابھی تک جہاں درس جاری نہیں ہوئے وہاں ضرور جاری کئے جائیں- خواہ کوئی کتنا تھوڑا پڑھا ہوا ہو، درس جاری کرے تو خدا تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرے گا اور خود اسے معارف سکھلائے گا- اس طرح درس دینے والے کو خود بھی فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کو بھی- جہاں جہاں درس جاری ہیں وہاں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ درس میں بڑے ہی شامل نہ ہوں بلکہ بچوں کو بھی شامل کیا جائے تا کہ بچپن سے ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا ہو- تھوڑی دیر درس ہو تا کہ وہ بے دل نہ ہوں اور اگر عام درس جاری نہ ہو سکے تو گھر میں بیوی بچوں کو ہی لے کر بیٹھ جانا چاہئے اور ایک رکوع اور اس کا ترجمہ سنا دیا جائے- احباب کم از کم تین ماہ ہی اس طرح کر کے دیکھیں کہ کیا اثر پیدا ہو جاتا ہے- اگر ترجمہ نہ آتا ہو تو مترجم قرآن سے ہی پڑھ دیا جائے- اب میں اپنی جماعت کے دوستوں کی توجہ اس طرف دلاتے ہوئے تقریر ختم کرتا ہوں کہ دنیا میں ترقی کرنے کے دو ہی راستے ہیں- ایک دیوانگی اور دوسرا فرزانگی- بغیر ان کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کہ یا تو انسان پاگل بن کر دنیا ومافیھا کو بھول جائے یا پھر عقل کے اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ کوئی غلطی اس سے سرزد نہ ہو- یورپ کے لوگوں کو دیکھو جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں اس کی سکیم تیار کرتے وقت باریک در باریک باتوں تک پہنچتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سوائے اس کام کے کوئی چیز ان کے پیش نظر ہی نہیں ہے- پس ترقی یا تو فرزانگی سے حاصل ہو سکتی ہے یا دیوانگی سے- دیوانگی کی ترقی وہ ہوتی ہے جو انبیاء کی جماعتیں حاصل کرتی ہیں- لوگ ان پر ہنستے ہیں کہ وہ اپنا مال برباد کر رہے ہیں- چنانچہ آتا ہیے قالوا انومن کما
۸۸ امن السفھاء ۶؎ کفار کہتے ہیں- کیا ہم بھی ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں جو اپنے اموال تباہ کر رہے ہیں- میں نے دوران خلافت میں اس بات کے لئے پورا زور لگایا کہ درمیانی راستہ پر جماعت کو چلاؤں- کچھ کچھ دیوانگی ہو اور کچھ کچھ فرزانگی- مگر مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی- مجھے نہ وہ کامیابی نظر آئی جو دیوانگی سے حاصل ہوتی ہے اور نہ وہ نظر آئی جو فرزانگی سے ملتی ہے- بے شک کامیابی ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی مگر وہ ایسی نہ تھی جو فرزانگی والی ہوتی یا جو دیوانگی والی ہوتی- آپ لوگ اپنے نفسوں میں غور کریں- جب ہم نے یہ کام کر کے چھوڑنا ہے جس کا ذمہ لیا ہے تو اب یا تو وہ راستہ اختیار کریں جو میں نے پیش کیا تھا اور میرے ساتھ تعاون کریں- یا پھر یہ فیصلہ کریں کہ پوری فرزانگی سے کام لینا ہے یا پوری دیوانگی سے- پھر جو بھی فیصلہ کریں اس پر سارے کاربند ہو جائیں- مگر اتنا یاد رکھیں فرزانگی کے لئے مال اور جتھے اور بہت بڑے نظام کی ضرورت ہے- بہرحال احباب اس بارے میں مشورہ دیں کہ وہ کس بات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں- اس کے بعد میں اس بات پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں کہ ہمارے لئے سب سے بڑی چیز دعا ہے- مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے متعلق وہ روح کم نظر آتی ہے جو پہلے سالوں میں دیکھی جاتی تھی- کئی لوگ سمجھتے ہیں الحاح اور زاری کے ساتھ دعا کرنے سے ان کی بڑائی میں فرق آ جائے گا- کئی یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بھی مانگیں اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ غلاموں کی طرح فوراً دے دے اور اگر اس میں فرق پڑے تو پھر ان کے نزدیک دعا کچھ نہیں- انہی دنوں ایک صاحب آئے جو کہنے لگے اگر کسی مقصد کے لئے دعا بھی کریں اور اس کے لئے تدبیر بھی کریں تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے- وہ مستری تھے میں نے ان سے کہا آپ ایک دروازہ لکڑی کا بناتے ہیں اور پھر اس پر پالش کرتے ہیں اگر کوئی یہ سمجھے کہ بغیر دروازہ مکان محفوظ رہ سکتا ہے تو یہ غلط ہے اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ بغیر پالش دروازہ دیر تک محفوظ رہ سکتا ہے تو یہ بھی غلط ہے- جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا سے وہ کام لیا جائے جو دوا کا ہے وہ ایسے ہی ہیں جو یا تو صرف پالش سے دروازہ بنانا چاہتے ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ پالش کے بغیر دروازہ عرصہ تک محفوظ رہ سکتا ہے- غرض بعض کبر کی وجہ سے دعا نہیں کرتے اور بعض قبول نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں- لیکن یاد رکھو کوئی روحانی کامیابی بغیر دعا کے نہیں ہو سکتی اگر آپ لوگ روحانی کامیابی اور سلسلہ کی کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ دعاؤں میں اپنے آپ کو لگاؤ- میں خیال نہیں
۸۹ کر سکتا کہ بغیر دعا کے کس طرح روحانیت قائم رہ سکتی ہے- میرا تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں میں دعا نہ کروں- پس ہر احمدی کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تا کہ وہ اخلاص، روحانیت اور قوت پیدا کرے- دنیاوی چیزوں کی اس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں مل جائے مگر خدا تعالیٰ سوائے دعاؤں کے نہیں مل سکتا- بہت ہیں جو دروازہ پر پہنچ کر محروم رہتے ہیں- کیونکہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ بغیر دعا اور عاجزی کے نہیں کھل سکتا- ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنے محبوب کے دروازہ پر پہنچ کر دروازہ نہ کھٹکھٹائے- خدا تعالیٰ کے ملنے کے دروازہ تک پہنچنا ہمارا کام ہے آگے دروازہ کھولنا اس کا کام ہے- نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ ایسے ہی امور ہیں جیسے کوئی اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور دعا ایسی ہے جیسے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے- پس دعائیں کرو، عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو- ورنہ یاد رکھو روحانیت کے قریب بھی پہنچنا ناممکن ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-قل مایعبوابکم ربی لولا دعاوکم۷؎ کہ تمہارا ایمان لانا اور مال خرچ کرنا کسی کام نہیں آ سکتا اگر تم مجھے نہ پکارو گے- پکارنے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ تمہیں مجھ سے سچیمحبت ہے اور تمہیں ملنے کے بغیر چین نہیں آ سکتا- پس دعاؤں پر زور دو مگر اس کے ساتھ تدبیریں بھی کرو- حضور نے اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کہ سب اصحاب کو تمام تقریریں باقاعدگی کے ساتھ سننی چاہئیں اور اگر کسی کو کوئی خاص ضرورت پیش آئے تو اسے چاہئے کہ جلد سے جلد ضرورت پوری کرکے جلسہ گاہ میں آ جائے فرمایا: میرا خیال تھا کہ ہر ایک جماعت کے لئے جلسہ گاہ میں بلاک تقسیم کر دیئے جائیں اور جماعت کے امیر یا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری صاحب کو ذمہ وار قرار دیا جائے کہ وہ اپنی جماعت کو لے کر اس جگہ بیٹھیں- میں امید کرتا ہوں کہ ایسا انتظام کرنے کی ضرورت نہ پیش آنے دی جائے گی اور احباب جس مقصد کو لے کر یہاں آتے ہیں، اسے حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے- (الفضل ۷- جنوری ۱۹۳۰ء) بدها: شک و شبہ پریشانی گھبراہٹ ، شش و بخاری کتاب الانبياء باب ماذكر عن بنی اسرائیل ۲
۹۰ و تكمله مجمع البحار جلد ۴ صفہ۸۵ حرف الزا.مطبع نولکشور - لكهنؤ شاردا ایکٹ: اجمیر کے ایک معروف شخص مسٹر شاردا راۓ صاحب ہر بلاس تھے.انہوں نے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف مسودہ قانون پیش کیا تھاجو شارد اِبل کے نام سے مشہور ہوا.اس بل سے مسلمان علماء نے شدید اختلاف کیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۸۲۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب بقية نسخ المراجعة بعد الطليقات البقرة:۱۴ الفرقان:۷۸
۹۱ فضائل القرآن (۲) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمو د احمد خليفة المسیح الثانی
۹۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسؤله الكريم فضائل القرآن (نمبر۲) قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد (فرمودہ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان) تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ نور کی ان آیا ت کی تلاوت فرمائی.اللّٰہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکَاۃٍ فِیْھا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَأَنَّھا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُھا یُضِیْءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُّوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَھدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَشَآءُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ.فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہُ فِیْھا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ.رِجَالٌ لَّا تُلْھیْھمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَن ذِکْرِ اللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَآئِالزَّکَاۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُ.لِیَجْزِیَھمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدھمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآء ُ بِغَیْرِ حِسَابٍ.۱ اس کے بعد فرمایا :.اسلام کا مغز اور اس کی جان یہ مضمون جس کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے.اور درحقیقت یہ اسلام کا
۹۴ مغز اور اس کی جان ہے.اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسے پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.یہ مضمون فضائل قرآن کریم کے متعلق ہے.یعنی قرآن کریم میں وہ کون سی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی کتابوں پر اسے فضیلت دی جاسکتی ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم پر ہمارے مذہب کا دارو مدار ہے.اگر خدا نخواستہ قرآن کریم میں ہی کوئی نقص ثابت ہوجائے یا اس میں غیر معمولی خوبیاں ثابت نہ ہوں تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس یہ ایک نہایت ہی نازک مسئلہ ہے جس پر حملہ کرنے سے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے.میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم سے باہر نہیں سمجھتا.آپ بھی قرآن کا جزو ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ.عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۲ یعنی یہ قرآن یقینا رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے.یہ قرآن روح الامین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تاکہ تو انذار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہوجائے.پس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے.اس وجہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی حملہ درحقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہو گا.تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضیلت ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے اور ساری زمانوں کے لئے ہے.اب اگر قرآن کریم ساری دنیا اور سارے زمانوں کے لئے ہے تو ہماری اس کے متعلق ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے.بہ نسبت اس کے کہ قرآن کریم صرف عرب کے لئے ہوتا اور صرف ایک زمانہ کے مفاسد دور کرنے کے لئے آتا.عربوں کے پاس کوئی شریعت نہ تھی کوئی مذہبی کتاب نہ تھی.وہ خیالی باتوں پر یا قومی رسم و رواج پر عمل کرتے تھے.ان کے متعلق ہمارے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے قرآن کریم نے انہیں ان برائیوں سے روک دیا اس وجہ سے اس کی ضرورت تھی.پس اگر عرب ہی کے لئے قرآن ہوتا تو قرآن کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے میں کوئی دقت نہ تھی.مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور یہودی ، مسیحی ، ہندو، پارسی وغیرہ سب اس کے مخاطب ہیں اور تمام دوسری کتابیں
۹۵ جن کو الہامی درجہ دیا جاتا ہے یا وہ کتابیں جن کا پتہ آثار قدیمہ سے لگا ہے ان سب سے افضل ہے.اس وجہ سے ہمارے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ پہلی تمام کتابوں پر مقدم اور ان سے افضل ہے.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو تورات میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو پرانے صحیفوں میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو اناجیل میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو ویدوں میں نہیں.اور قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو زرتشت وغیرہ کی کتابوں میں بھی نہیں.قرآن کریم ایک روحانی خزانہ ہے پھر قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کریم میں وہ روحانی خزانہ ہے جس کے بغیر دنیا میں ہم گزارہ نہیں کرسکتے.صرف دوسری الہامی کتب کے مقابلہ میں زیادتی ثابت کردینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز پیش کی ہے اس سے ایسی نئی سہولتیں بہم پہنچی ہیں جو پہلے حاصل نہ تھیں.جب دو چیزیں صفات کے لحاظ سے برابر ہوں تو ایک کی ظاہری خوبی بھی دوسری پر فضیلت تسلیم کی جاسکتی ہے.جیسے دو آم ایک ہی طرح میٹھے ہوں مگر ان میں سے ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو بڑے کو چھوٹے پر بڑائی کی فضیلت حاصل ہوگی.لیکن قرآن کریم کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ساری دنیا کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے.اب اس کے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آسکتی.اس لئے ہمیں ساری قوموں ،سارے مذاہب اور سارے علوم کے مقابلہ میں قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنا ہوگی.جو کتاب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب سے آخری الہامی کتاب ہے جیسے قرآن کہتا ہے اس کی ذمہ داری پہلی تمام کتب سے بالا خوبیاں پیش کرنے کی ہے.پہلی کتابوں کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اتناثابت کر دے کہ پہلی کتابوں سے زیادہ اس میں خوبیاں پائی جاتی ہیں.لیکن وہ کتاب جو یہ کہے کہ میرے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آسکتی اور میں اب ہمیشہ کے لئے مکمل کتاب ہوں اس کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ پہلی کتابوں سے بڑھ کر خوبیاں پیش کرے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ روحانیت کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں آسکتی جو اس میں نہ ہو.پس وہ کتاب جو صرف یہ نہ کہے کہ میں پہلی کتب کو منسوخ کرتی ہوں بلکہ یہ بھی کہے کہ
۹۶ آئندہ کے لئے بھی سب الہامی کتابوں کا دروازہ بند کرتی ہوں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت پیش کرے کہ آئندہ بھی کوئی ایسی کتاب نازل نہیں ہوسکتی.پس قرآن کریم کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے یہ معیار نہایت ضروری ہے.ہاں علاوہ اس اصولی بحث کے تفصیلی بحث بھی کی جاسکتی ہے کہ فلاں فلاں خوبی قرآن کریم میں ہے جو اور کسی کتاب میں نہیں ہے مگر اصولی طور پر بحث کرنا بھی ضروری ہوگا.جب ہم قرآن کریم میں خوبیوں کی کثرت ثابت کردیں مثلاً یہ کہیں کہ فلاں فلاں خوبیاں وید ، بائیبل اور ژند اوستا میں بھی پائی جاتی ہیں اور قرآ ن کریم میں بھی ہیں مگر یہ چار یا دس بیس خوبیاں ایسی ہیں جو صرف قرآن میں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوگی.مگر اس سے قرآن کریم کا اکمل ہونا ثابت نہ ہوگا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی کہ آئندہ کوئی اور شرعی کتاب نہیں آسکتی.اس طرح قرآن کریم صرف موجودہ کتب کے مقابلہ میں افضل ثابت ہوسکتا.تمام وجوہ ِکمال میں افضل کتاب غرض سب کے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی ثابت کرے کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دوسری کتب میں ہو ہی نہیں سکتا.جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے اس وقت تک صرف اچھی باتیں بتانے سے اس کی افضلیت ثابت نہیں ہوسکتی.ہاں افضلیت چونکہ صرف اعلیٰ خوبیوں کے لحاظ سے نہیں ہوتی بلکہ وسیع خوبیوں کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے.اس لئے خوبیوں کی وسعت اس غرض کے اثبات کے لئے پیش کی جاسکتی ہے کہ گو بعض خوبیاں کسی اور کتاب میں بھی پائی جاتی ہوں مگر خوبیوں کی وسعت کے لحاظ سے فلاں کتاب افضل ہے.ہاں کامل افضل کتاب وہ کہلائے گی جو تمام وجوہ کمال میں افضل ثابت ہو.اور میرا قرآن کریم کے متعلق یہی دعویٰ ہے.جواہرات کی کان ممکن ہے کوئی کہے کہ کیا پہلے لوگوں کو قرآن کریم کے ان فضائل کا علم نہ تھا؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ علم تھا مگر روحانی علوم خدا تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ترقی کرتے ہیں.اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم جواہرات کی ایک کان ہے جس میں سے نئے سے نئے جواہر نکلتے رہتے ہیں تو پھر کیوں ہم انہی جواہرات پر
۹۷ اکتفاء کریں جو پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں.اور کیوں قرآنی کان میں سے ہم نئے ہیرے اور جواہرات نہ نکالیں.پس میں قرآن کریم کے خزانہ میں گیا کیونکہ پہلے میں وہاں سے کئی بار لعل و جواہر نکال چکا تھا.اور پھر اپنے دامن کو بھر کر لایا.جب میں اس خزانہ میں قرآن کریم کی خوبیاں معلوم کرنے کے لئے گیا تو مجھے ایک عجیب بات سوجھی.اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ اس خزانہ میں میں اندھادھند ہاتھ ماروں اور جو چیز میرے ہاتھ میں آئے اسے اٹھالوں حالانکہ ممکن ہے اس سے بہتر چیز وہاں موجود ہو اور میں اسے نہ اٹھا سکوں اس لئے کیوں نہ میں اصولی طور پر غور کروں کہ مجھے کیا لینا چاہیے تب مجھے خیال آیا کہ کسی کتاب کی فضیلت اور اکملیت ثابت کرنے کے لئے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس کے مضامین پر غور کریں اور اس طرح اس کی کوئی خوبی معلوم کریں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کسی چیز کو کسی دوسری چیز پر فضیلت کیوں حاصل ہوتی ہے.پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ جو فضیلت کے معیار ہیں اور جن کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی جاتی ہے وہ کس قدر قرآن میں پائے جاتے ہیں.قرآنی فضیلت کے چھبیس(۲۶) وجوہ جب میں نے اس رنگ میں غور کیا تو قرآن کریم کا سمندر میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہر فضیلت کی وجہ جو دنیا میں پائی جاتی ہے اور جس کی بنا پر ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے وہ بدرجہ اتم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور فضیلت دینے والی خوبیوں کے سارے رنگ قرآن کریم میں موجود ہیں.میں نے اس وقت سرسری نگاہ سے دیکھا تو قرآن کریم کی فضیلت کی چھبیس وجوہات میرے ذہن میں آئیں.بالکل ممکن ہے کہ یہ وجوہات اس سے بہت بڑھ کر ہوں اور میں پھر غور کروں یا کوئی اور غور کرے تو اور وجوہات بھی نکل آئیں مگر جتنی وجوہات اس وقت میرے ذہن میں آئیں ان میں میں نے قرآن کریم کو تمام کتب سے افضل پایا.منبع کی افضیلت (۱) پہلی وجہ کسی چیز کے افضل ہونے کی اس کے منبع کی افضلیت ہوتی ہے جیسے گورنمنٹ کی ملازمت میں باپ نے جو گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ایک دوسرے شخص کو جو تعلیم اور قابلیت کے لحاظ سے بالکل مساوی ہوتا ہے اس پر ایسے شخص کو ترجیع دے د ی جاتی ہے جس کے باپ دادا نے
۹۸ گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں یہ منبع کے لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے.اسی طرح ایک شخص جو امیر باپ کے گھر پیدا ہوتا ہے وہ امارات اپنے ساتھ لاتا ہے اور اسے یہ خوبی منبع کے لحاظ سے حاصل ہوتی ہے.میں نے قرآن کریم کو اس فضیلت کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا.ذاتی قابلیت کے لحاظ سے فضیلت دوسری وجہ فضیلت میرے ذہن میں یہ آئی کہ اندرونی اور ذاتی قابلیت اور طاقت کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے جیسے دوائیں اپنے اندر طاقت رکھتی ہیں اس وجہ کے لحاظ سے بھی میں نے قرآن کریم کو سب سے بڑھ کر پایا.نتائج کے لحاظ سے فضیلت تیسری وجہ فضیلت نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہے اس وجہ سے بھی ایک چیز کو ہم دوسری پر فضیلت دے دیتے ہیں.بعض چیزیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر دوسری چیزوں سے مل کر ان کااچھا نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا جیسے ڈاکٹر جرمز (germs) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ٹیکہ سے مر جاتے ہیں گویا انسان کے جسم میں جرمز اور ٹیکے کا مادہ ملنے سے الٹا اثر ہوتا ہے تو کبھی ایک چیز کو نتائج کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوتی ہے اور جو چیز اس میں بڑھ جاتی ہے اس کی برتری تسلیم کر لی جاتی ہے.اسی طرح بعض تعلیمیں یوں بڑی اچھی اور مفید نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج ایسے اعلیٰ پیدا نہیں ہوتے میں نے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب سے افضل پایا.شدّت ِفائد ہ کے لحاظ سے فضیلت چوتھی وجہ فضیلت شدت فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے.فائدے تو سب چیزوں کے ہوتے ہیں مگر ایک میں زیادہ ہوتے ہیں اور دوسروں میں کم.قرآن کریم میں شدت فوائد کے لحاظ سے بھی فضیلت پائی جاتی ہے.کثرتِ فوائد کے لحاظ سے فضیلت پانچویں.کثرت فوائد کے لحاظ سے بھی ہم ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دیتے ہیں.ایک دوائی ایک بیماری میں بڑا فائدہ دیتی ہے مگر ایک اور دوائی ہوتی ہے جو اتنا فائدہ اس بیماری میں نہیں دیتی مگر پچاس اور بیماریوں میں مفید ہوتی ہے اسے پہلی دوائی پر کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوگی.قرآن کریم کو میں نے اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا.
۹۹ وسعتِ نفع کے لحاظ سے فضیلت چھٹے.کبھی وسعت نفع کے لحاظ سے بھی فضیلت دی جاتی ہے.مثلاً ایک دوائی کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنی بیماریوں میں نفع دیتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی طبائع پر اثر ڈالتی ہیں اور کتنے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مجھے افضل نظر آیا.میعادِ نفع کے لحاظ سے فضیلت ساتویں.نفع کے وقت کے لحاظ سے بھی کہ کتنے عرصہ تک کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے ہم بعض دفعہ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دے دیتے ہیں.جب ایک قسم کے دو کپڑے سامنے ہوں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک کپڑا کتنی مدت تک چلتا ہے اور دوسرا کتنی مدت تک.ایک اگر ایک سال چلنے والا ہو اور دوسرا چھ ماہ تو ایک سال چلنے والے کو دوسرے پر فضیلت دے دی جائے گی.قرآن کریم کی اس لحاظ سے بھی مجھے فضیلت نظر آئی.نفع اٹھانے والوں کے مقام کے لحاظ سے فضیلت آٹھویں.پھر فضیلت کی ایک وجہ ان لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے بھی ہوتی ے جن کووہ نفع پہنچاتی ہے.یعنی دیکھا جاتا ہے کہ کس پایہ کے لوگ اس سے نفع اٹھاتے ہیں.جن چیزوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ بڑے پایہ کے انسانوں کو نفع پہنچاتی ہیں ان کو دوسری چیزوں پر مقدم کر لیا جاتا ہے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.نفع اٹھانے والوں کی اقسام کے لحاظ سے فضیلت نویں.یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی اقسام کی چیزوں کو کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے کیونکہ علاوہ افراد کے ، اقسام بھی ایک درجہ رکھتی ہیں.ایک چیز ایسی ہے جو ایک کروڑ انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے اور ایک اور ہے کہ وہ بھی ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچاتی ہے لیکن ان میں فرق یہ ہو کہ ایک صرف ایک قسم کے لوگوں کو نفع پہنچائے.مثلاً عیسائیوں یا ہندوؤں کو مگر دوسری ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچائے.لیکن عیسائیوں ،ہندوؤں ، یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نفع پہنچائے تو اسے افضل قرار دیا جائے گا.غرض وسعت اقسام افراد کے لحاظ سے بھی ایک چیز افضل قرار دی جاتی ہے اس میں بھی مجھے قرآن کریم کی دوسری کتب پر فضیلت نظر آئی.
۱۰۰ کھوٹ سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت دسویں.اس لحاظ سے بھی کسی چیز کی فضیلت کو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں ملا ہوا.جس چیز میں کھوٹ نہ ہو اسے دوسری چیزوں پر فضیلت دی جاتی ہے.اس میں بھی قرآن کریم تمام کتبِ الٰہیہ سے افضل پایا گیا.یقینی فوائد کے لحاظ سے فضیلت گیارھویں.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کھوٹ سے تو پاک ہوتی ہیں مگر ان کے نفع کے متعلق اطمینان نہیں ہوتا.یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں کوئی غلطی نہ ہوجائے جس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے.لیکن جس کے استعمال کے متعلق غلطی کا کوئی احتمال نہ ہو اور اس کے فوائد کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو اسے اختیا ر کر لیا جاتا اور اس کی فضیلت تسلیم کر لی جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو فضیلت حاصل ہے.ظاہری حسن کے لحاظ سے فضیلت بارھویں.ظاہری حسن کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے.قرآن کریم اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایاگیا.ضروری امور کو نقصان نہ پہنچانے کے لحاظ سے فضیلت تیرھویں.ایک چیز کو دوسری پر اس لئے بھی فضیلت دے د ی جاتی ہے کہ اس کا استعمال دوسری ضروری اشیاء کو نقصان نہیں پہنچائے گا.مثلاً ایک شخص دو بیماریوں میں مبتلا ہو.اس کی ایک بیماری کے لئے ایک ایسی دوا ہو جو بہت فائدہ دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو بڑ ھا دیتی ہو.تو اس کی نسبت وہ دوائی استعمال کی جائے گی جو نفع کم دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو نقصان نہ پہنچاتی ہو.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.فوائد کے سہل الحصول ہونے کے لحاظ سے فضیلت چودھویں.اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دی جاتی ہے کہ اس کے فوائد سہل الحصول ہوتے ہیں.یعنی آسانی سے اس کے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.
۱۰۱ ضروریات پوری کرنے میں یکتا ہونے کے لحاظ سے فضیلت پندرھویں.اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے کہ وہ ایسی ضرورت کو پورا کرتی ہے جسے اور کوئی چیز پورا نہیں کر سکتی.یہ فضیلت بھی قرآن کریم کو دوسری کتب کے مقابلہ میں حاصل ہے.کیونکہ وہ ایسی ضرورتیں پوری کرتا ہے جنہیں اور کوئی کتاب پوری نہیں کرسکتی.اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت سولہویں.اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیزوں پر مقدم کیا جاتا ہے کہ جس ضرور ت کووہ پورا کرتی ہے وہ ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے ہم کسی صورت میں بھی ترک نہیں کر سکتے.کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے نقصان تو ہوتا ہے مگر پھر بھی انہیں چھوڑا جاسکتا ہے.لیکن بعض ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں ہم چھوڑیں تو گئے.قرآن کریم ایسی ضرورتوں کوبھی پورا کرتا ہے اس لئے وہ دوسری کتب سے افضل ہے.حفاظت میں آسانی ہونے کے لحاظ سے فضیلت سترھویں.اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت میں کس قدر کوشش کرنی پڑتی ہے.ایک ایسی چیز جسے ہم آسانی اور سہولت سے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اسے ہم ایسی چیز پر مقدم کر لیتے ہیں جس کی حفاظت مشکل ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.نفع کے لحاظ سے فضیلت اٹھارویں.کسی چیز کی فضیلت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کس قدر ذمہ داریاں ڈالتا ہے.اور اس کے مقابلہ میں نفع کس قدر ہے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے کیونکہ اس کے لینے میں خرچ کم ہوتا ہے اور نفع زیادہ.ہر قسم کے نقصان سے مبّرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت انیسویں.اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے نقصان تو نہیں ہوتا.جب نقصان نہیں ہوتا تو اسے استعمال کر لیا جاتا ہے.مثلاً دو دوائیاں ہیں جن میں سے ایک تھوڑے نفع والی ہے مگر
۱۰۲ کوئی نقصان اس سے پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے تو ہم اسے استعمال کر لیتے ہیں اور زیادہ نفع دینے والی جس کے استعمال سے نقصان کا بھی خطرہ ہو اسے استعمال نہیں کرتے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے.دعوتِ عام کے لحاظ سے فضیلت بیسویں.کسی چیز کو فضیلت اس وجہ سے بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی چیز ہوتی ہے.جب میں نے قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ صرف قرآن ہی اپنا تھا.باقی سب کتب میں مجھے غیریت نظر آئی.قرآن کریم کو میں نے ایک ہندو کی نظر سے بھی دیکھا اور ایک عیسائی کی نظر سے بھی.ایک پارسی کی نظر سے بھی اور ایک بدھ کی نظر سے بھی.پھر کبھی میں سیّد بن کر اس کے پاس گیا کبھی مغل بن کر کبھی شیخ بن کر کبھی راجپوت بن کر کبھی عالم کے رنگ میں اور کبھی جاہل کے رنگ میں.مگر ہر دفعہ اس نے یہی کہا کہ آؤ تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں.لیکن دوسری کتب کے پاس جس حالت میں بھی میں گیا.انہوں نے مجھے دھتکارا اور اپنے پاس تک پھٹکنے نہ دیا.علاج الامراض کے لحاظ سے فضیلت اکیسویں.کسی چیز کو اس لحاظ سے بھی ہم فضیلت دیا کرتے ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا علاج ہو جو ہم میں پائی جاتی ہیں.میں نے جب دیکھا تو قرآن کریم میں مجھے یہ بھی فضیلت نظر آئی.زائد فوائد کے لحاظ سے فضیلت بائیسویں.ایک چیز کو دوسری پر ہم اس لئے بھی مقدم کیا کرتے ہیں کہ اس سے ہمیں زائد فوائد حاصل ہوتے ہیں.میں نے دیکھا کہ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے.مطمحِ نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضیلت تئیسویں.مذہب کی افضلیت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ ترقیات کی امید پیدا کر کے انسان کا مطمح نظر وسیع کرے.اپنے پیروؤں کی ہمت بڑھائے.ان میں مایوسی اور ناامیدی نہ آنے دے اور ان کی امنگوں کو قائم رکھے.میں نے دیکھا کہ اسلام اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات اور تعلق باﷲ کا دروازہ ہمارے لئے کھولتا ہے اور اس طرح ہماری امید کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے وسیع کر کے ہماری ہمت کو بڑھاتا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ انسانی ترقی اس کے مستقبل کے خواب میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے.پس اس لحاظ سے بھی
۱۰۳ مجھے قرآن کریم ہی افضل نظر آیا.دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ سے افضلیت چوبیسویں.اس لحاظ سے بھی کسی چیز کو دوسری چیزوں سے افضل قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک دوسری اشیاء کی ضرورت سے مستغنی کر دیتی ہے.ایسی چیز کی لوگ زیادہ قدر کرتے ہیں کیونکہ انہیں دوسری چیزوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضیلت پچیسویں.کسی چیز کی افضلیت کا ایک یہ بھی باعث ہوتا ہے کہ وہ صحیح علوم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتی اور انہیں لغو امور میں حصہ لینے سے بچاتی ہے.کتاب الٰہی چونکہ معلم ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ صحیح طرف لگائے.انہیں لغویات سے روکے اور صحیح علوم کی طرف ان کی راہنمائی کرے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت چھبیسویں.اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے لئے اسے حاصل کیا گیا تھا.اگر ایک چیز اپنی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو لازماً اس دوسری چیز کو ترجیح دی جائے گی جو اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہو.میں نے دیکھا کہ اس پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت حاصل ہے.غرض غور کرتے وقت مجھے فضیلت کی یہ چھبیس وجوہات نظر آئیں.گو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ممکن ہے کہ اور بھی کئی باتیں غور کرنے سے نکل آئیں.بہر حال جب میں نے ان پر قرآن کریم کو پرکھا تو اسے ہر بات میں دوسری کتب سے افضل پایا قرآن کریم کا دعویٰ اور افضیلت مگر پیشتر اس کے کہ ان امور پر تفصیلی بحث کی جائے سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے خود بھی دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا ہے یا نہیں کہ وہ تمام کتب الٰہیہ سے افضل ہے.اگر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہو تو پھر تواس کی افضلیت اور برتری کے وجوہ پر بھی
۱۰۴ بحث کی جاسکتی ہے.لیکن اگر ا س کا یہ دعویٰ ہی نہ ہو تو اس کی افضلیت کے وجوہ پیش کرنا ’’مدعی سست اور گواہ چست ‘‘ والی بات بن جاتی ہے.اس نقط نگاہ سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی افضلیت کا بڑے واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ہے.اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِھا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھمْ ۳ یعنی اﷲ تعالیٰ نے نہایت زور طاقت اور قوت کے ساتھ اس کتاب کو اتارا ہے جو اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ہے.یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے.یہ کس طرح کہا گیا کہ ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے.اول اس لئے کہ جب قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی کتابوں سے افضل ہے.اعتراض کے موقع پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کتاب الہامی نہیں بلکہ انسانی دست برد کی آماجگاہ بن چکی ہے.لیکن اصولی طور پر ان کو انسانی کتب قرار دے کر قرآن کو ان کے مقابلہ میں لانا بے وقوفی ہے.یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے ایک پہلوان کہے کہ دیکھو میں فلاں بچہ سے طاقت ور ہوں.ہاں اگر بچہ پہلوان کو آکر کہے کہ میں تمہیں گرا دوں گا آؤ تم میرا مقابلہ کر لو تو پہلوان اسے بے شک کہہ سکتا ہے کہ جا چلا جا ورنہ تو میرے ایک ہی تھپڑ سے مر جائے گا.اس آیت میں حدیث کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے.یہ پہلی الہامی کتابوں کے متعلق ہے.اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ اﷲ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے.فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِھَذَا الْحَدِیْثِ ۴ یعنی تو مجھے اور اس کو جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے.اسی طرح فرماتا ہے.وَمَا یَأْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّاکَانُوْا عَنْہُ مُعْرِضِیْن.۵ یعنی رحمن خدا کی طرف سے کبھی کوئی نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لوگ اعراض نہ کرتے ہوں.چونکہ انبیاء کا کلام ضرور کسی نئی شے کو لے کر آتا ہے.یعنی وہ حسب ضرورت آتا ہے خواہ شریعت لائے خواہ فہم لائے خواہ ایمان کی تجدید کے سامان لائے اس لئے اس حدیث کہتے ہیں اور قرآن کریم احسن الحدیث ہے یعنی جنس حدیث میں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ کلام الٰہی میں سب سے افضل ہے.غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اَللّٰہُُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰباً.یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے ان تمام کتابوں سے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں بڑھی ہوئی ہے.پس قرآن کریم سے ہمیں اس
۱۰۵ کی افضلیت کا دعویٰ ملتا ہے.پھر قرآن کریم کی افضلیت کا دعویٰ اس آیت میں بھی موجود ہے کہ.مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنْسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.۶ فرماتا ہے ہم کوئی کلام الٰہی منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے جب تک کہ اس سے بہتر یا اس جیسا کلا م نہ لائیں.یعنی جسے منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں اور جو بھول چکا ہو تا ہے مگر عمل کے قابل ہوتا ہے اسے ویسا ہی لے آتے ہیں.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.اے مخاطب! تجھے یہ کیوں عجیب بات معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.تورات میں ایک نئی شریعت نازل ہونے کی پیشگوئی جب قرآن کریم پہلی الہامی کتب کا ناسخ ہے تو ضروری تھا کہ وہ کچھ تعلیم تو ان تعلیموں سے بہتر لائے اور کچھ وہ لائے جو مٹ گئی ہو.جب میں نے اس پہلو سے غور کیا تو قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوئی.چنانچہ بائیبل میں آتا ہے.’’میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا.اور جو کچھ میں اس سے فرماوں گا وہ سب ان سے کہے گا.‘‘۷ اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی مبعوث ہوگا.حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شریعت نبی تھے اس لئے ان جیسے نبی کے آنے کے لازماً یہ معنی تھے کہ وہ بھی صاحب شریعت ہوگا.پھر جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا تومعلوم ہوا کہ جو کتاب وہ لائے گا اس میں بعض باتیں زائد بھی ہوں گی جو بائیبل میں موجو د نہ ہوں گی.ورنہ نئی شریعت کے آنے کی کیا ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی.لیکن جب وہ منسوخ کی گئی تو ضروری تھا کہ آنے والی شریعت اس سے افضل ہو.پس قرآن کریم کی افضلیت بائیبل کے اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کیونکہ شریعت جدیدہ ناسخہ عقلاً شریعت منسوخہ سے حقیقی طور پر یانسبتی طور پر افضل ہونی چاہیے.
۱۰۶ حضرت موسیٰ ؑکی پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کریم کب کہتا ہے کہ میں وہی کتاب ہوں جس کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا.سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَیْکُمْ رَسُولاً شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُولًا.یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے.شَاہِداً عَلَیْکُمْ.جو تم پر شاہد اور گواہ ہے.کَمَا أَرْسَلْنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُولًا.اور وہ اسی قسم کا رسول ہے جس قسم کا رسول موسیٰ ؑ تھا.جسے فرعون کی طرف بھیجا گیا.اس آیت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ کے مصداق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے.اس کے علاوہ ایک اور طرح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے.اور وہ یہ کہ استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸ حضرت مسیح ؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں اس کا مصداق نہیں انجیل میں آتا ہے ، حضرت مسیح ؑکہتے ہیں.’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.‘‘۹ پس انجیل سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جس آنے والے کی پیشگوئی ہے وہ حضرت مسیح ؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ اس کا مصداق کوئی اور ہے.پھر حضرت مسیح ؑ صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے.مگر وہ جس کی نسبت حضرت موسیٰ ؑ نے پیشگوئی کی وہ ساری دنیا کےلئے ہے اور یہ دعویٰ قرآن ہی پیش کرتا ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے.اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْناً.۱۰ یعنی اے لوگو! آج میں نے دین کے کامل کرنے کی کڑی کوپوراکر دیا.وہ کڑی جو آدم ؑ سے لے کر اب تک نامکمل چلی آتی تھی آج قرآن کے ذریعہ پوری کردی گئی ہے اور میں نے اپنے احسان کو تم پر کامل کر دیا ہے.گویا مختلف چکروں میں سے انسانوں کو گذارتے ہوئے میں انہیں اس مقام پر لے آیا کہ بندہ خدا کامظہر بن گیا اور میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم اپنے بعد کسی اور شریعت اور نئی کتاب کی امید
۱۰۷ نہیں دلاتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ نیا فہم اور نیا علم حاصل کرو جو قرآن کریم کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے.قرآن کریم کے اس دعویٰ کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فضیلت کے وہ تما م وجوہ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور فضیلت کے ہر اصل کے لحاظ سے قرآن کریم تمام دوسری کتب الہامیہ سے افضل اور برتر ہے.منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضیلت کا ثبوت پہلی بات جو میں نے بطور فضیلت بیان کی ہے وہ منبع کے لحاظ سے کسی چیز کی افضلیت ہے.یعنی کسی چیز کے منبع اور مخرج کا اعلیٰ ہونا بھی اس کے لئے وجہ فضیلت ہوتا ہے.جیسے ایک بادشاہ کے کلام کو دوسرے لوگوں کے کلام پر مقدم کیا جاتا ہے.اگر دو آدمی کلام کر رہے ہوں جن میں سے ایک بادشاہ ہو تو سننے والے لازماً بادشاہ کی بات کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے اور بغیر یہ فیصلہ کرنے کے کہ ان میں سے کس کا کلام افضل ہے پہلے ہی یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بادشاہ کا کلام دوسرے سے اہم ہوگا.اسی طرح ایک بڑے ادیب کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دی جاتی ہے.مختلف شعراء اگر ایک جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں مثلاً غالب بھی آجائیں تو بغیر اس کے کہ ان کے اشعار سنے جائیں یہی کہا جائے گا کہ ان کے اشعار افضل ہوں گے.اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی بیمار کے متعلق رائے دیتا ہے اور بعض دفعہ و ہ غلطی بھی کر جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عورتوں کے بتائے ہوئے نسخے زیادہ فائدہ دے دیتے ہیں مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ ایک ڈاکٹر کی بات رد کر دی جائے اور ایک عورت کی بات مان لی جائے.لازماً ڈاکٹر کی بات کی طرف ہی توجہ کی جائے گی.ہاں جسے کسی دوائی سے فائدہ نہ ہوتا ہو وہ کسی عورت کی بتائی ہوئی دوائی بھی استعمال کرے گا کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق وہ یہ کہے گا کہ چلو اس کی دوائی بھی آزمالو.غرض اتھارٹی اپنی ذات میں بھی فضیلت رکھتی ہے.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے لحاظ سے غالب گمان ہوتا ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہوگی.اسی کی طرف پہلے کیوں نہ توجہ کریں.بہرحال جس چیز کی فضیلت مقام اور منبع کے لحاظ سے ثابت ہوجائے اس کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور اسے فضیلت دے د ی جاتی ہے.لیکن اگر منبع ایسا ہو کہ جس سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو تو پھر سبحان اﷲ !
۱۰۸ اب قرآن کریم کوہم اس اصل کے ماتحت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے جو سب خوبیوں کا جامع ہے اور جب ہم یہ دعویٰ پڑھتے ہیں تو ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو پھر یقینا انسانوں کے کلاموں سے افضل ہوگا.اور ان کلاموں کو ہم اس کے مقابلہ میں قطعی طور پر ٹھکرا دیں گے.میں پہلے یہ دعویٰ بیان کر آیا ہوں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِھاً مَّثَانِیَ.اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو قرآن کریم کو تمام انسانی کلاموں پر منبع کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہو گئی.قرآن مجید کے منجانب اﷲ ہونے کے تین دلائل لیکن ظاہر ہے کہ صرف دعویٰ کافی نہیں ہوسکتا دعویٰ کے لئے دلیل بھی چاہیے جس سے ثابت ہو کہ فی الواقعہ قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کے لئے قرآن کریم یہ دلیل دیتا ہے.أَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہٗ شَاہِدٌ مِّنْہٗ وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابُ مُوسٰی إِمَاماً وَّرَحْمَۃً أُوْلٰـئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَکْفُرْ بِہٖ مِنَ الأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ فَلاَ تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہٗ إِنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یُؤْمِنُوْنَ.۱۱ اس آیت میں قرآن مجید کے منجانب اﷲ ہونے کی تین دلیلیں دی گئی ہیں.پہلی دلیل یہ بیان کی کہ.أَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّہٖ.کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک بینۃ یعنی روشن دلیل پر قائم ہو وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا وہ تباہ ہو سکتا ہے.یہاں مَنْ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کا ذکر ہے جیسا کہ آگے آتا ہے.أُوْلٰـئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ.پس فرمایا کیا یہ لوگ تمہارے خیال کے مطابق تباہ و برباد ہوجائیں یا نقصان اٹھائیں گے یہ تو ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جو بینۃ ہے.یعنی اس میں الہامی دلائل ہیں جو مدلول علیہ کے دعویٰ کی صحت کو بیان کر تے ہیں.آیت اور بینۃ میں فرق آیت اور بینۃ میں یہ فرق ہے کہ آیت وہ ہوتی ہے جس سے ہم خود نتیجہ نکالیں اور بینۃ وہ ہوتی ہے جو اپنی دلیل آپ پیش کرے جیسے ایک درخت کو ہم دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس سے کسی صانع نے بنایا ہے یہ آیت ہے لیکن ایک نبی آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یہ
۱۰۹ بینۃہے.تو آیت عام لفظ ہے اور بینۃ خاص.اس سے مراد وہ دلیل ہوتی ہے جو اپنے لئے آپ شاہد ہوتی ہے.قرآن کریم کے بینۃ ہونے کا ثبوت اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کس طرح بینۃ ہے؟ یہ بھی تو دعویٰ ہی ہے کہ قرآن بینۃ ہے اس کے لئے میں کہیں دور نہیں جاتا قرآن کریم کے بینۃ ہونے کا ثبوت اس کی پہلی وحی میں ہی موجود ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.باقی کتابیں دوسروں کی دلیلوں کی محتاج ہوتی ہیں مگر قرآن اپنے دعویٰ کی آپ دلیل دیتاہے.اور قرآن کے بینۃ ہونے کی دلیل ان تین آیتوں میں موجود ہے جو پہلے پہل نازل ہوئیں.قرآن کریم کا یہ کمال دکھانے کے لئے میں نے سب سے پہلی وحی قرآنی کو ہی لیا ہے سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نظر آیا اور اس نے کہا اِقْرَاْ یعنی پڑھ اس کے جواب میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مَا اَنَا بِقَارِیءٍ ۱۲ میں پڑھنا نہیں جانتا مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے کیونکہ اس وقت آپ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپ نے پڑھنا تھا بلکہ جو کچھ جبرائیل بتاتا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا اور یہ آپ کہہ سکتے تھے مگر آپ نے انکسار کا اظہار کیا لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ ہی کو چنا تھا اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو.آخر تیسری بار کہنے پر آپ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا اِقْرَأْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۱۳ کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گیے ہیں جو اور کتابوں میں ہر گز نہیں پائے جاتے دوسری کتابوں کو دیکھو تو ویدیوں شروع ہوتے ہیں ’’اگنی میئر ھے پروہتم‘‘آگ ہماری آقا ہے.بائیبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے ’’ابتداء میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراو کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی.‘‘۱۴ انجیل کی ابتداء اس طرح ہے :
۱۱۰ ’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا ‘‘۱۵ لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.اے محمد (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم )! تم ان لوگوں کے معلم بن جاؤ اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ.ہاں اے محمدپڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائے گی.قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی یہ پہلی پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے بینۃ ہونے کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے فرمایا قرآن کے بینۃ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان دنیا میں قائم کردے گی.حضرت مسیح علیہ السلام پر مخالفین نے اعتراض کیا تھا کہ اسے شیطان سیکھاتا ہے اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا شیطان اپنے خلاف آپ سکھاتا ہے.’’اگر شیطان شیطان کو نکالے تو وہ اپنا ہی مخالف ہوا پھر ا س کی بادشاہت کیونکر قائم رہے گی.‘‘۱۶ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی گم شدہ عظمت قائم کرنے کے لئے آئے اسے شیطان کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.اول تو کوئی کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو یہ کہہ ہی کس طرح سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہوجائے گی.کئی لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی کتاب دنیا کا نقشہ بدل دے گی لیکن پھر اس کتاب پر دوسروں سے ریویو کرانے کے لئے منتیں کرتے پھرتے ہیں.ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ شکوہ کرتا پھرتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ اس کی کتابوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتا.ایک اور مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجتا ہوں خواہ آپ اس کے خلاف ہی لکھیں لیکن لکھیں ضرور.تو بیسیوں کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں پیدا ہوتا.پھر کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں بت پرستی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا.وہاں کہا گیا کہ اسے ایسی حالت میں پڑھ کہ تیرے رب ّ
۱۱۱ کی عزت اس کے ذریعے سے دنیا میں قائم ہوتی جائے گی.اس کلام کے ذریعے تیرا رب اکرم کے طور پر ظاہر ہوگا.اس وقت نہ صرف عرب میں بلکہ سارے جہان میں شرک پھیلا ہوا تھا اور حالت یہ تھی کہ آخری مذہب جو عیسائیت تھا اس کے ماننے والے عیسائی خود لکھتے ہیں کہ اسلام اس لئے اتنی جلدی اور اس وسعت کے ساتھ پھیل گیا کہ عیسائیت میں شرک داخل ہو چکا تھا.ہندوؤں کی کتابو ں کو دیکھو تو یہی معلوم ہوگا کہ اس وقت ہندوؤں میں بکثرت شر ک پایا جاتا تھا.زرتشتی بھی مانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہر طرف شرک ہی شرک تھا.غرضیکہ تمام مذاہب والے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر مذہب میں شرک پھیل چکا تھا.ہم کہتے ہیں یہ درست ہے اور قرآن کریم نے ایسے ہی وقت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شرک مٹ جائے گا اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہوجائے گی.اس وقت جب کہ قرآن نے توحید پیش کی مکہ والوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے کہ انہوں نے کہا أَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا إِنَّ ہَذَا لَشَیْء ٌ عُجَابٌ ۱۷ یہ عجیب بات ہے کہ اس نے سارے معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے ان لوگوں کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ الہ ہیں ہی نہیں.وہ سمجھتے تھے کہ سب معبودوں کو اس نے اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے.سورۃ ص میں ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی.مگر معاً ان کی حالت بدلنے لگی.اور اس کے بعد ان میں اس قدر تغیر پیدا ہوگیا کہ انہوں نے اسلامی توحید کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ کہنے لگے کہ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ۱۸ یعنی یہ یونہی کہتا ہے کہ ہم مشرک ہیں ہم تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بتوں کو مانتے ہیں.گویا وہ معذرت کرتے ہیں کہ ہم کب کہتے ہیں کہ بت خدا ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے ذریعے خدا کا قرب حاصل ہو تا ہے.یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ کا اکرم ہونا ظاہر ہوگیا.غرض فرماتا ہے.اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ تو اس کتاب کو پڑھ کیونکہ اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی توحید پھیلنے لگ جائے گی.لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے لگ جائیں گے اور اس کا جلال دنیا میں قائم ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.مگر یہ تو اس وقت کا حال تھا جب قرآن کریم نازل ہوا.اب دیکھ لو کہ کس طرح شرک کے خیالات دنیا سے مٹ رہے ہیں.ہندوستان میں
۱۱۲ ۳۳ کروڑ بت پوجے جاتے تھے مگر ان ہندوؤں میں سے ہی آریہ اٹھے جو کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل توحید کے ماننے والے ہیں.اسی طرح مسیحیوں کو دیکھو تو وہ کہتے ہیں اصل توحید ہم میں ہی ہے میں نے عیسائیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ اسلام نے ہم پر یہ غلط اعتراض کیا ہے کہ ہم شرک میں مبتلا ہیں حالانکہ اب بھی ان میں ایسے لوگ ہیں جو حضرت مریم اور حضرت مسیح کی پرستش کرتے ہیں.غرض کتنا بڑا تغیر رونما ہوگیا کہ جہاں جہاں قرآن پڑھا گیا وہاں توحید قائم ہوتی چلی گئی.اوردنیا یہ اقرار کرنے لگ گئی کہ خدا ہی اکرم ہے.یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کےمتعلق کی گئی.پھر پہلے دن پہلی وحی میں اور پہلے وقت میں کی گئی.قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ یہ بھی ثابت ہوگا کہ اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے.یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہوجائے گا.وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے.جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے.شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کرتے تھے اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دئیے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یاد رکھتے ہیں.جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آگیا یہاں تک کہ صحابہ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے تو فرمایا اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغیر یہ ہوگا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی چنانچہ آپ کی بعثت کے معاً بعد لکھنے کارواج ترقی پزیر ہوا.صحابہ ؓ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا.مدینہ میں آپ نے سب بچوں کو تعلیم دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہوگئیں.غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ اس بات تعلق قرآن کریم کی فضیلت سے کیا ہے؟ سویاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کو کامل اور افضل ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے
۱۱۳ مخاطب عالم ہوں جاہل نہ ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد علم کا زمانہ آجائے گا.لوگ مختلف علوم کے ماہر ہوں گے.مگر باوجود اس کے یہ کتاب دنیا میں قائم رہے گی اور پڑھی جائے گی.اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکے گا.غرض اس پیشگوئی کے بعد کیا عرب اور کیاد وسرے ممالک ان میں علم کا اتنا رواج ہوا کہ اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی.نئے نئے علوم کی ترویج؎ تیسری پیشگوئی یہ کی کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ خدا کا نام لے کر اس کتاب کو پڑھ جو انسان کو وہ وہ باتیں سکھانے والا ہے جنہیں اس سے پہلے وہ ہر گز نہیں جانتا تھا.گو یہ عام بات ہے کہ جہاں تحریر کی کثرت ہوگی وہاں علوم کا رواج ہوگا.اور لوگ نئی نئی باتیں بیان کریں گے.مگر لغو تحریریں بھی ہو سکتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اب میں انسانوں کو وہ باتیں سکھاؤں گا جو خواہ دینی ہوں یا دنیوی، دنیا اس سے پہلے نہیں جانتی تھی.چنانچہ قرآن کریم نے ایسے علوم بتائے جو نہ تو رات میں موجود ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور کتاب میں.پھر دوسرے علوم بھی اس کے ذریعہ سے کھلنے شروع ہوئے.عرب میں شعر وں کے قواعد ، علم معانی، بیان اور صرف و نحو وغیرہ کے اصول و قواعد کوئی نہ تھے.یہ علوم صرف مسلمانوں نے رائج کئے.عرب کے جاہل لوگوں کی ساری کائنات لوٹ مار تھی.مگر قرآن کریم نازل ہونے کے بعد جن علوم سے وہ ہزاروں سال سے ناآشنا چلے آرہے تھے ان سے وہ آشنا ہوئے اور وہ ساری دنیا کے علوم کے حامل بن گئے.یونانی علوم کی کتابوں کے انہوں نے ترجمے کیے اور پھر ان کے ترجمے یورپ میں گئے.سپین میں جب مسلمان پہنچے تو انہوں نے ان کتابوں کے ترجمے کئے اور پھر ان ترجموں سے یورپ نے فائدہ اٹھایا.غرض عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ کے بعد ایسا تغیر شروع ہوا کہ وہ باتیں جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھیں ساری دنیا میں پھیل گئیں اور مسلمانوں نے ایسے علوم ایجاد کئے جو پہلے نہ تھے.مثلاً علم الاخلاق، علم النفس، سائنس کے متعلق علوم، علم قضا ان سب علوم کے متعلق نئے اصول تجویز کئے.اسی طرح مسلمانوں نے علم روایت نکالا، علم کلام ایجاد کیا، علم قضا اور حـکومت کے قوانین مرتب کئے.پہلے رومن لاء جاری تھا مگر خود یورپین مدبروں نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی لاء اس سے بہتر ہے.حفظان صحت، علم تصوف او رالجبرا کے علوم بھی مسلمانوں کے
۱۱۴ ذریعہ نکلے.غرض ایک طرف تو قرآن نے ایسی روحانی باتیں کیں جو دنیا پہلے نہ جانتی تھی اور دوسری طرف ایسے دنیوی علوم ظاہر ہوئے جن کے مقابلہ میں پہلے علوم ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے.یہ تین پیشگوئیاں قرآن کریم کے الٰہی کتاب ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہیں.قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن کریم اپنی افضلیت کے لئے ایک چوتھی شہادت بھی پیش کرتا ہے.فرماتا ہے لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۱۹ اس کتاب کے معارف اور حقائق صرف انہی لوگوں پر کھل سکتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے مقرب اور اس کی طرف سے پاک کئے گئے ہوں.دیکھو قرآن اسی زبان میں آیا جسے لوگ جانتے تھے.اس کے الفاظ وہی تھے جو لوگ استعمال کرتے تھے اور عربی جاننے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں مگر ان پر قرآن کے معارف نہیں کھلتے.معارف انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے خدا کا کلام ہونے پر ایمان لاتے اور اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے ہیں، کیا کوئی انسان اپنی تصنیف کردہ کتاب کے متعلق یہ شرط عائد کرسکتا ہے کہ میں نے جوکتاب تصنیف کی ہے اس کے مطالب وہی سمجھے گا جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوگا.کوئی انسان اپنی تصنیف کے متعلق اس قسم کی شرط نہیں پیش کرسکتا.پس جو کتاب معروف زبان میں ہو مگر اس کے مطالب کاانکشاف دماغی قابلیتوں اور علوم ظاہری کی بجائے تعلق باﷲ کے ساتھ وابستہ ہو.اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ اس کے علوم کا ظہور خالی علم و فکر پر کیوں نہ ہوتا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ جس قدر الہامی کتب پائی جاتی ہیں ان کے مطالب ان زبانوں کے جاننے والوں پر ظاہر ہوجاتے ہیں.لیکن قرآن کریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہو لیکن اﷲ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس کے معارف کھل جائیں گے.چنانچہ جہاں تورات انجیل وید اور ژند اوستا کے علوم ظاہری عالموں کے ہاتھوں میں ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم صرف روحانی علماء اور اولیاء کے ہاتھ سے ہی کھلتے چلے آئے ہیں.جیسے سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ، حضرت محی الدین صاحب ابن عربیؒ، مولانا رومؒ، امام غزالیؒ، سید احمد صاحب سرہندیؒ، شہاب الدین صاـحب سہروردیؒ، شاہ ولی اﷲ صاحبؒ،یہی لوگ قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے اوردوسروں کو سمجھانے کے قابل ہوئے ہیں.بے شک
۱۱۵ ظاہری علوم رکھنے والے بعض علماء نے بھی قرآن کریم کی تفسیریں لکھی ہیں.لیکن انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب ہوئی ہیں لیکن صوفیاء جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ان کا بڑی عمدگی سے رد کیاہے.روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل مثلاً قرآن کریم میں حضرت یونس ؑ کے متعلق آتا ہے.وَذَالنُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ ۲۰یعنی یونس کو بھی یاد کرو جب وہ غضب کی حالت میں چلا گیا اور اسے یہ یقین تھا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے.اس آیت میں لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ کے جو الفاظ آتے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یونس نے یہ خیال کیا کہ خدا اسے گرفتار نہیں کر سکتا.مگر حضرت محی الدین ابن عربی ؒ اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہلَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ کے معنی ہیں لَنْ نُضِیِّقَ عَلَیْہِ.۲۱ یعنی حضرت یونس علیہ السلام کویقین تھا کہ اﷲ تعالیٰ انہیں تنگی میں نہیں ڈالے گا.بلکہ ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا ساتھ دے گا.غرض عصمت انبیاء کے متعلق ظاہری علماء نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں.لیکن صوفیاء اس سے محفوظ رہے ہیں بلکہ انہوں نے عصمت انبیاء ثابت کرنے کے لئے بڑی لطیف بحثیں کی ہیں.پیدائش عالم کے متعلق ابن عربی ؒ کا ایک کشف اسی طرح دنیا کی پیدائش کے متعلق حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ لکھتے ہیں کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا کہ دنیا کئی لاکھ سال میں مکمل ہوئی ہے اور مکمل ہونے کے سترہ ہزار سال کے بعد انسان کی پیدائش ہوئی ہے.آج لوگ کہتے ہیں کہ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہوا ہے.حالانکہ حضرت محی الدین صاـحب ابن عربیؒ نے پہلے سے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہوئی ہے.وہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے ساتویں باب میں انسان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ھَوَ اٰخِرُ جِنْسٍ مَوْجُوْدٍ مِنَ الْعَالَمِ الْکَبِیْرِ وَاٰ خِرُ صِنْفٍ مِنَ الْمُوَلَّدَاتِ.۲۲ یعنی انسان عالم کبیر کی آخری جنس اور مولّدات ثلثہ (جمادات ، نباتات اور حیوانات) میں سے آخری قسم ہے.اور مولّدات ثلثہ کی پیدا ئش کا زمانہ وہ اکہتر ہزار سال بتاتے ہیں.
۱۱۶ اسی طرح بعض صوفیاء نے قرآن کریم سے استد لال کر کے لکھا کہ زمین گول ہے.چنانچہ کولمبس کے متعلق بیان کیا جاتاہے کہ اسے امریکہ کی طرف جانے کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں سے سنا تھا کہ زمین گول ہے.غرض صوفیاء نے تو زمین کے متعلق لکھا کہ وہ گول ہے مگر ظاہری علوم رکھنے والے اس نہ سمجھ سکے.اسی طرح اجرائے نبوت کے متعلق صوفیاء اور اورلیاء نے تو لکھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں نبی آسکتے ہیں.جیسے محی الدین صاحب ابن عربی ؒ آنے والے مسیح کو امتی بھی اور نبی بھی قرار دیتے ہیں لیکن علماء نے اس کا انکار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج اب اسی زمانہ میں دیکھ لوکہ ظاہری علوم رکھنے والوں کی سمجھ میں قرآن کریم کی کوئی بات نہ آئی.انہوں نے معذرت کے نیچے پناہ لینی چاہی اور لکھ دیا کہ قرآن میں خطابیات ہیں یعنی قرآن نے کئی باتیں ایسی لکھی ہیں جنہیں دوسرے لوگ مانتے تھے.ان کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن خود بھی انہیں درست قرار دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے رد کیا اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت ثابت کی.اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان کیا کہ کوئی ایسی بات بتاؤ جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہو مگر قرآن میں نہ ہو.یا قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں پر جو اعتراض پڑے وہ پیش کرو.آپ نے قرآن کریم سے ایسی ایسی معرفت کی باتیں نکالیں کہ انہیں پڑھنے والے سر دھنتے ہیں اور ان لوگوں کی غفلت اور نادانی پر افسوس کرتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اس محل اعتراض ٹھہرایا.اب آپ کی جماعت پر بھی خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جیسے قرآن کریم کے معارف آپ کی جماعت کے لوگ بیان کر سکتے ہیں وہ باقی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہیں.قرآن کریم دعویٰ کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جن قرآنی علوم اور معارف کا انکشاف ہواان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے وہ اپنی امداد کے لئے انسانوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا.ورنہ وہ کتاب کس کا م کی جو دعویٰ ہی دعویٰ کرتی جائے اور کوئی دلیل نہ دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سےہوسکتی ہے جو دوسروں کی امداد کی
۱۱۷ محتاج نہ ہو.یہ نہ ہو کہ دعویٰ تو خود کرے اور دلیل دوسروں پر چھوڑ دے جو زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے لیکن دلیل دینا اور اس دعویٰ کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے.اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر تعلیم دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے اخلاق کے متعلق جو تعلیم پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا.چنانچہ آپ نے قرآنی علوم کی روشنی میں اخلاق کے ایسے اصول بیان کئے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ علم النفس کے ماہرین بھی ان کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے.بلکہ اب تو یہ معلوم ہوتاہے کہ کئی باتیں جن کی پہلے یہ لوگ مخالفت کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمانے کے بعد ان کی تائید کرنے لگے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعلیم قرآن کریم سے نکالی اور ان سوالات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ اخلاق کس طرح پیدا ہوتے ہیں.ان کے حصول میں کون کون سی روکیں ہیں.ان کے پیدا کرنے کے کیا ذرائع ہیں.یہ سب باتیں قرآن کریم سے آپ نے پیش کیں اور دنیا پر اسلام کی فضیلت ثابت کی.حقیقتِ نبوت کا اثبات تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے حقیقت نبوت ثابت کی.پہلی ساری کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں.چنانچہ میں نے اس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں کو چٹھیاں لکھیں کہ بائیبل کی رو سے نبوت کی کیا تعریف ہے؟ اس پر بعض کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہماری اس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں.حالانکہ وہ مسئلہ جس پر مذہب کی بنیاد ہے اس کی حقیقت تو معلوم ہونی چاہیے.مگر بڑے بڑے پادریوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں اور ایک نے تویہاں تک لکھ دیا کہ میں نبوت کی تعریف لکھتا ہوں مگریہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقت نبوت قرآن کریم سے ثابت کی اور بتایا کہ ان شرائط کےماتحت جن پر وحی نازل ہو انہیں ہم نبی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں.جن پادریوں نے نبوت کے متعلق کچھ لکھا انہوں نے یہی لکھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو پیشگوئیاں کرے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بائیبل میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جو پیشگوئیوں کرتے تھے.مگر نبی نہ تھے.وہ ان میں اور
۱۱۸ سچے نبیوں میں یہ فرق نہ بتا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب چوتھی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے اور اس بات کو پایہء ثبوت تک پہنچا دیا.حالانکہ اس سے خود مسلمان کہلانے والے بھی انکار کررہے تھے.اور کہتے تھے کہ قرآن کی آیات ایک دوسری سے کوئی جوڑ نہیں رکھتیں.قرآنی قِصص میں آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیاں پانچویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں.یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ الٹ دیا.وہاں بات بات پر قصہ شروع ہوجاتا ہے اور اس میں ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں عقل انسانی تسلیم ہی نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر واقعات کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں.کوئی قصہ نہیں.یہ آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات تھے جو پورے ہوئے.قُربِ قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم چھٹے آپ نے قرآن کریم سے قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم واضح کیا او ر جو لغو باتیں پھیلی ہوئی تھی ان کو رد کیا.تمام مذاہب ِباطلہ کا رد ساتویں بات جو نہایت عظیم الشان ہے اور جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیش کی کہ جتنے مذاہب نئے یا پرانے ہیں ان سب کا رد قرآن کریم میں موجود ہے.یہ کتنی آسان بات ہے جس سے قرآن کریم کی فضیلت ظاہر ہوجاتی ہے.برہمو سماج والے کہہ سکتے تھے.بتاؤ ہمارے مذہب کا قرآن میں کہاں رد ہے.پراٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ کہہ سکتے تھے بتاؤ قرآن ہمارے خلاف کیا دلیل دیتا ہے.غرض ہر مذہب والے اس قسم کا مطالبہ کر سکتے تھے مگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج منظور نہ کیا.اب بھی یہ چیلنج موجود ہے.کوئی معقول آدمی اپنے مذہب کے متعلق مطالبہ کرے ہم اسی وقت قرآن کریم سے اس کے مذہب کا رد نکال کر
۱۱۹ دکھا دیں گے.اپنی ذات میں کامل کتاب آٹھویں بات حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کسی اور کتاب کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ذات میں کامل ہے.اور تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں.یہ صرف جھوٹے مذاہب کا رد ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ضروری چیز بھی پیش کرتا ہے.یہ دعویٰ بھی ایساجس کا لوگ تجربہ کرسکتے تھے کیونکہ بعض نئے اخلاق اور نئی قابلیتوں کا علم ہوا تھا.ان کے متعلق وہ پوچھ سکتے تھے کہ بتاؤ قرآن میں کہاں ہیں.مگر کوئی شخص مقابل میں نہ اٹھا.اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے والی کتاب نویں بات آپ نے یہ پیش کی کہ قرآن میں انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقیات کے گُر موجود ہیں اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھولے گئے ہیں اور ہر قسم کی تدابیر بتائی گئی ہیں جن سے وہ ترقیات حاصل کرسکتا ہے.بعث بعد الموت کی ـحقیقت دسویں آپ نے بعث بعد الموت کی حقیقت ثابت کی.دوزخ کا کیا نقشہ ہوگا.کون لوگ اس میں جائیں گے.کیا کیا تکالیف ہوں گی.اسی طرح یہ کہ جنت میں کون لوگ ہوں گے.اس کی لذات کیسی ہوں گی.جنت دائمی ہوگی یا نہیں.غرض ساری باتیں بیان کردیں اس وقت میں ان انکشافات کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں پڑھی جاسکتی ہیں.بالخصوص ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور میری کتاب ’’احمدیت‘‘ میں ان کا ذکر ہے.مطہّر کی تعریف یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ لَا یَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ میں مُطَھَّرٌ کا لفظ استعما ل ہوا ہے نہ کہ طَاھِرٌ کا لفظ.اس کی وجہ یہ کہ طَاھِرٌ وہ شخص ہوتاہے جو زہد و ورع سے ایک پاکیزگی حاصل کرلیتا ہے.اور مُطَھَّرٌ وہ ہوتا ہے جو کسی اندرونی نسبت سے اﷲ تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے.اور مُطَھَّرٌ کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کے قول یا فعل سے ہی ہوتا ہے نہ کہ اس کے کسی عمل یا لوگوں کے کہنے سے.چنانچہ دیکھ لو.وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی صحیح تفاسیر لکھیں.وہ وہی لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے قرب سے مشرف تھے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال تھی.
۱۲۰ ایک سوال کا جواب یہاں ایک سوال ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ دلائل سے تو یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم دوسری انسانی کتابوں سے منبع کے لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کیوں کر ثابت ہوا کہ دوسری الہام کتابوں سے بھی افضل ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ الہامی کتب سے بھی قرآن کریم افضل ہے اس لئے کہ گو وہ کتب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تھیں لیکن بعض صفات کا ظہور ان کے زمانہ میں نہ ہوا تھا.مثلاً ایک زمانہ میں اگر خیانت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر اس بدی کو دور کرنے کی صفت ظاہر ہوئی.اگر لوگوں میں خشونت اور سختی زیادہ پائی جاتی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر رحم اور محبت اور نرمی اور شفقت کی صفت کا ظہور ہوا.لیکن کوئی پہلی کتاب ایسی نہیں جو رب العالمین کی صفت کی مظہر ہو.کوئی کتاب دو صفات کی یا چار صفات کی یا پانچ صفات کی مظہر تھی مگر کوئی کتاب رب العالمین کی صفت کی مظہر نہ تھی.اسی طرح کوئی کتاب قرآن کریم کی طرح اکملیت کی مظہر نہ تھی.کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کی مظہر نہ تھی کیونکہ قرآن کریم سے پہلی ہر ایک کتاب منسوخ ہونے والی تھی لیکن قرآن کریم چونکہ ہمیشہ رہنے والی کتاب تھی اس لئے یہ تینوں صفات قرآن کریم میں ظاہر ہوئیں.جو صفات پہلی کتب میں ظاہر ہوچکی ہیں وہ بھی سب کی سب تمام کتب میں ظاہر نہ ہوئی تھیں بلکہ بعض ایک میں اور بعض دوسری میں بیان کی گئی تھیں.لیکن قرآن کریم میں وہ بھی سب جمع ہیں.پس قرآن کریم منبع کے لحاظ سے بھی افضل ہے.اس مضمون کو قرآن کریم نے اس طرحـ بیان کیا ہے.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٓئِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبَعَ.یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآءُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۲۳یعنی آسمان اور زمین کے کمالات ظاہر کرنے والے خدا کا شکر اور اس کی حمد ہے.وہ اپنے ملائکہ کو اظہار کمالات کے لئے نازل کرتا رہتا ہے اور ان کے کئی پر ہوتے ہیں.یعنی وہ کئی رنگ کی پناہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں.جناح عربی زبان میں پناہ اور حمایت کو بھی کہتے ہیں اور فرشتے جو نازل کئے جاتے ہیں وہ دو دو تین تین چار چار پروں والے ہوتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنی پیدائش میں اضافہ کر دیتا ہے یعنی جیسا موقع ہوتا اتنے ہی پر زیادہ کردیتاہے.یہاں بتایا کہ سب تعریفیں اﷲ کی ہیں جو زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے.اس
۱۲۱ میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول میں آسمان و زمین کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں.پس قرآن کریم کا نزول ان تمام صفات پر مشتمل ہے جن سے یہ دنیا وابستہ ہے اور فَاطِرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہواہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک مرکز پر ساری دنیا جمع نہ ہو خدا تعالیٰ کی ہرلحاظ سے تعریف نہیں کی جاسکتی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تبھی کہا جاسکتا ہے جب ساری دنیا کے لحاظ سے رَبُّ الْعَالَمِیْن کی صفت کا اظہار ہو.اسی لیے فرمایا کہ اب جو تعلیم آئی ہے یہ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآءُ کے مطابق آئی ہے.پہلے صرف دو دو تین تین چار چار کمالات ظاہر کرنے کے لئے آئی تھی پس قرآن کریم کے نزول میں زمین و آسمان کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں.صفاتِ الٰہیہ اور ان کی مظہریت یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کتاب میں کسی صفت کا ذکر ہونا یہ اور امر ہے اور اس کی صفت کا مظہر ہونا اور امر ہے.یوں تو رَبُّ الْعَالَمِیْن کی صفت اور کتب میں بھی ہے مگر وہ اس کی صفت کا مظہر ہونے کی مدعی نہیں ہیں.قرآن کریم کے متعلق اﷲ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے وَ اِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۲۴ یہ کتاب رَبُّ الْعَالَمِیْنَکی صفت کے ماتحت نازل ہوئی ہے.چونکہ یہ سارے جہان کو مخاطب کرتی ہے اس لئے سار ی کی ساری صفات اس میں ظاہر کی گئی ہیں.پس قرآن کریم خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر ہے.ظاہری حُسن میں برتری ایک اور وجہ فضیلت (جسے میں نے بارھویں نمبر پر بیان کیا تھا) کسی چیز کا ظاہری حسن میں دوسری اشیاء پر فائق ہونا ہوتا ہے.کیونکہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں سے انسان طبعی طور پر ظاہری حسن میں فائق چیز کو منتخب کرتا ہے.بلکہ سب سے پہلے یہی چیز انسان کی دلکشی کا موجب بنتی ہے.میں نے جب اس لحاظ سے دیکھا تو قرآن کریم کو ظاہری طور پر بھی خوبصورت پایا.بلکہ ایسا خوبصورت پایا کہ گو یورپ نے اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے اپنا سارا زور صرف کردیا مگر پھر بھی وہ ناکام رہا.اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے یورپ نے چار طریق اختیار کیے ہیں.عیسائیوں کے چار اعتراضات اول.یہ کہا گیا کہ قرآن کریم کا سٹائل (نعوذ باﷲ ) نہایت بھدّاہے.
۱۲۲ دوم.یہ کہا گیا کہ اس میں بہت سے غیر عربی الفاظ داخل ہیں.سوئم.یہ کہ اس میں فضول تکرار ہے یونہی ایک بات کو دہراتا چلا جاتاہے.چہارم.یہ کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں.کہیں احکام شروع ہیں تو ساتھ ہی وعظ کیا جاتاہے.پھر لڑائیوں کا ذکر آجاتا ہے تو ساتھ ہی منافقوں کو ڈانٹا جاتاہے.لیکن یہ اعتراض جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا درست نہیں بلکہ قرآن کریم کا ظاہری حسن بھی اسے کل دنیا کی کتب پر افضل قرار دیتاہے اور یہ فضیلت دس خوبیوں سے ثابت ہے.قرآنی زبان کی فصاحت او ل زبان کی فصاحت.قرآن کی یہ خوبی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیاہے اور عربوں نے تو اس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور بڑے بڑے ادیب اس کے کمال کے آگے عاجز آگئے ہیں.میں اس کے متعلق دوستوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں.لبید عرب کا ایک مشہور شاعر تھا جو سات بڑے مشہور شاعروں میں ایک تھا.پہلے وہ اسلام کا مخالف تھا مگر بعد میں ایمان لے آیا.اسلام لانے کے بعد وہ ہر وقت قرآن کریم پڑھتا رہتا.اور اس نے شعر کہنے ترک کردئیے.حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ کو چٹھی لکھی کہ اپنے علاقہ کے مشہور شاعروں سے اچھے اچھے اشعار لکھوا کر مجھے بھیجو.مغیرہ نے اس کام کے لئے دو شاعر اغلب اور لبید پسند کیے اور انہیں کہا گیا خلیفہء وقت کا حکم آیا ہے کہ کچھ شعر لکھ کر بھیجو.اس پر اغلب نے تو قصیدہ لکھا لیکن لبید نے کہا.جب سے میں اسلام لایا ہوں میں نے شعر کہنے چھوڑ دئیے ہیں.جب انہیں مجبور کیا گیا تو وہ سورۃ بقرہ کی چند آئتیں لکھ کر لے آئے اور کہا کہ ان کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا، مغیرہ نے لبید کو سزا دی اور اغلب کیـحضرت عمر ؓ کے پاس سفارش کی.لیکن حضرت عمرؓ کو لبید کی بات کی اتنی لذت آئی کہ انہوں نے کہا لبید نے جو کچھ کہا ہے اس سے اس کے ایمان کا ثبوت ملتا ہے کہ اتنا قادر الکلام ہونے کے باوجود شرماتا ہے کہ قرآن کے سوا کچھ او راپنی زبان سے نکالے.مسیحیوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کیا لبید نے پہلے کبھی قرآن نہ سنا تھا جبکہ وہ اسلام کا مخالف تھا.وہ دراصل لالچ کے لئے اس طرح کہتا تھا.لیکن اس دلیل سے عیسائیت پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایک انسان کئی بار انجیل پڑھتا اور عیسائیوں کے وعظ سنتاہے مگر عیسائیت کونہیں مانتا.لیکن پھر ایک وقت مان لیتا ہے تو کیا وہ لالچ سے ایمان لاتاہے ؟
۱۲۳ یہ ایک طبعی بات ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بات کا انکار کردیتا ہے لیکن جب اس پر صداقت کھلتی ہے تو اسے مان لیتا ہے.ایسا ہر مذہب میں ہوتا ہے.کئی لوگ ہندو ہوجاتے ہیں.اب کیا انہیں کہا جاتا ہے کہ اتنے سال تو تم ہندو مذہب کا ذکر سنتے رہے اور ہندو نہ ہوئے؟ اب جو ہندو ہوئے ہو تو کسی لالچ کی وجہ سے ہوئے ہو؟ دراصل یہ بہت بودی دلیل ہے اور سوائے اسکے جو خود لالچی ہو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا.یوں تو دنیا میں بڑی اچھی اچھی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ان کی قبولیت بھی ہوتی ہے.مگر دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا کوئی ایسی کتاب لکھی گئی ہے جس کے لکھنے والے نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہو کہ یہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہوگی اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیل جائے گی.یورپین لوگ کہتے ہیں شیکسپئیر جیسا کلام کوئی نہیں لکھ سکتا.گو خدا کی قدرت ہے جب سے قرآن پر یورپین اعتراض کرنے لگے ہیں ایسی سوسائیٹاں بھی بن گئی ہیں جو شیکسپئیر کی تحریروں پر اعتراض کرتی ہیں.لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ اچھا لکھنے والاتھا تو دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا لکھتے وقت اس نے کہا تھا کہ اس کاکلام تمام کلاموں سے افضل رہے گا.اس نے یقینا ایسا نہیں کہا.مگر قرآن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کتاب کا مقابلہ کرنے سے دنیا عاجز رہے گی.میں نے بینٹ کی ایک کتاب پڑھی ہے.جس میں اس نے لکھا ہے کہ جب میں نے یہ کتاب لکھی تو سمجھا کہ بہت مقبول ہوگی مگر چھاپنے والوں نے اس کی اشاعت میں لَیْتَ وَ لَعَلَّ کیا اور پبلک نے بھی قدر نہ کی.پس کوئی لکھنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کتاب مقبول ہوگی یا نہیں.مگر قرآن نے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ یہ کتاب تمام کتب سے افضل ہے اور ہمیشہ افضل رہے گی.پھر عرب وہ ملک تھا جس کا تمام کمال زبان دانی پرتھا.اس ملک میں قرآن آیا اور ان لوگوں کی زبان میں آیا اور پھر اس نے ایسا تغیر پیدا کردیا کہ عربوں کا طرز کلام ہی بدل ڈالا اور انہوں نے قرآن کی طرز اختیار کر لی.ان کی طرز تحریر بدل گئی.پرانا سٹائل جاتا رہا اور قرآن کریم کے سٹائل پر ہی سب چلنے لگے.بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو ماننے والوں نے ایسا کرنا ہی تھا.میں کہتا ہوں بائیبل، انجیل اور ویدوں کے ماننے والوں نے کیونکہ ایسانہ کیا.وہ بھی تو ان کتابوں کو خدا کی طرف سے مانتے تھے.
۱۲۴ قرآن کریم میں غیر زبانوں کے الفاظ یہ اعتراض کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آگئے ہیں یہ بھی درست نہیں.کوئی زبان خواہ وہ نئی ہو یا پرانی غیر زبانوں کے الفاظ سے پاک نہیں ہو سکتی.اعتراض تب ہوتا جب عربی زبان میں وہ الفاظ جاری نہ ہوتے اور عرب کہتے کہ ہم ان الفاظ کو سمجھ نہیں سکتے.جب عرب قرآن کے الفاظ کو سمجھ جاتے تھے اور مکہ والے سمجھ لیتے تھے عرب میں وہ الفاظ جاری تھے اور وہ الفاظ عربی زبان کا ایک حصہ ہوچکے تھے توخواہ وہ غیر زبان کے ہی ہوں کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.بلکہ میں توکہتا ہوں اگر قرآن نے ہی وہ الفاظ عربی میں داخل کئے ہوں تب بھی یہ قرآن کی بہت بڑی طاقت کی علامت ہے کہ وہ الفاظ عربوں میں رائج ہوگئے.کیونکہ جو قادر الکلام نہ ہو اس کی بات چل نہیں سکتی.اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قادر الکلام اپنے کلام میں غلطی بھی کرے تو اسے ایجاد کہیں گے غلطی نہیں کہیں گے.کیونکہ وہ زبان پر عبور رکھتا ہے.پس اگر قرآن میں نئے الفاظ آئے اور وہ عربی زبان کا جزو بن گئے تو یہ قرآن کا اور زیادہ معجزہ ہے.مگریہ درست نہیں کہ غیر زبانوں کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں.دراصل یہ دھوکا اس وجہ سے لگا ہے کہ عربی اور عبرانی زبان کے بعض الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہیں.بلکہ بعض محاورات بھی آپس میں مل گئے ہیں.اس سے یہ غلط طو ر پر سمجھ لیا گیا کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آگئے ہیں.مثلاً فُرْقَانٌ ایک لفظ ہے.اس کے تمام مشتقات عربی میں موجود ہیں.اس کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن نے یہ لفظ باہر سے لیا ہے غلط ہے.اسی طرح رَحْمٰنٌ کے متعلق اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی عربی لفظ ہے.لفظ رحمٰن کی حقیقت اصل بات یہ ہے کہ محققین یورپ کو یہ دھوکا قرآن کریم کی اس آیت سے لگا ہے کہ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ.۲۵ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمن کے سامنے سجدہ میں گرجاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتاہے.معترضین کہتے ہیں.یہ آیت اس بات کی سند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں.کیونکہ عرب کے لوگ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے.اگر یہ غیر زبان کا لفظ نہ ہوتا تو وہ کیوں ایسا کہتے حالانکہ معترضین اس آیت کے معنے ہی نہیں سمجھے.کفار کا اعتراض لفظ رحمن پر نہیں تھا بلکہ اس اصطلاح پر تھا جو قرآن نے رحمن کے لفظ کے ذریعہ پیش کی تھی.قرآن نے یہ نئی اصطلاح پیش کی تھی
۱۲۵ جو عربوں میں رائج نہ تھی.جیسے صلٰوۃ عربی لفظ ہے مگر اصطلاحی صلوٰۃ قرآن نے پیش کی ہے.اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے صلوٰۃ کیا ہوتی ہے.پس ان لوگوں کا اعتراض درحقیقت اسلامی اصطلاح پر تھا.اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے وہ ہم نہیں جانتے اور اصطلاح جدید علم جدید کے لئے ضروری ہوتی ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک طرف تو قرآن میں آتا ہے کہ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ۲۶ یعنی ہم نے ہرایک رسول کو اس کی قوم کی زبان میں ہی وحی دے کر بھیجا ہے اور دوسری طرف سورۃ ہود میں آتا ہے.مخالفین نے حضرت شعیب سے کہا.یٰشُعَیْبُ مَانَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ ۲۷ اے شعیب! ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں.اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حـضرت شعیب علیہ السلام کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ سمجھ نہ سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے اور جو جو مسائل وہ پیش کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے.اہل ِعرب میں رحمٰن کا استعمال وہ الفاظ جو قرآن نے استعمال کیے ہیں وہ ان لوگوں میں پہلے سے موجود تھے.چنانچہ رحمن کا لفظ بھی ان میں استعمال ہوتاتھا.قرآن کریم میں آتا ہے.وَقَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰھُمْ ۲۸ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگررحمٰن کا یہی منشاء ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں توہم شرک نہ کرتے.غرض رحمٰن کا لفظ وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے اور یہ بات وہ لوگ نہیں مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے ان کا شرک باطل ہوجاتا تھا.غرض وَمَاالرَّحْمٰن کے یہ معنی نہیں کہ عرب کے لوگ رحمن کا لفظ نہیں جانتے تھے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہ تھے جو قرآن نے پیش کی.بہرحال قرآن کریم کی فصاحت اس کے حسن کا ایک روشن ثبوت ہے.اور پھر قرآن کریم کی یہ فصاحت ایسی بڑھی ہوئی ہے کہ آج تک علم ادب پر اس کااثر ہے اور زبان عربی کی ترقی کو اس نے ایک خاص لائن پر چلادیا ہے.حتیٰ کہ عرب مسیحی مصنف بھی قرآن کی تعریف کرتے تھے اور ان کے مدارس میں قرآن کریم کے ٹکڑے بطور اد ب کے رکھے جاتے تھے.ایک جاہل ملک میں ایک کتاب کا لوگوں کو والہ و شیدا بنادینا اور انہیں جاہل سے عالم کردینا کوئی معمولی بات نہیں ہے.
۱۲۶ قرآن کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے.ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذات خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے.لیکن اس سے انکار نہیں کی جاسکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خوبصورت بنا دیتی ہے.اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے.بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ے بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو.پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے بلکہ ان سے افضل ہے.اس وجہ سے کہ معروف ترتیب کی اتباع کرنا ایک عام بات ہے.ہر عقلمند ایسا کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتب میں نہیں اور وہ خصوصیات یہ ہیں.ترتیب قرآن کی چندخصوصیات اول.اس کی ترتیب بظاہر مخفی ہے مگر غور اور تامل سے ایک نہایت لطیف ترتیب معلوم ہوتی ہے اور کسی انسانی کتاب میں اس قسم کی ترتیب کی مثال نہیں ملتی کہ بظاہر ترتیب نہ ہو لیکن غور کرنے پر ایک مسلسل ترتیب نظر آئے جو نہایت لطیف اور فلسفیانہ ہو.اس وقت میں قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق مثالیں دینے سے معذور ہوں.کیونکہ جس مقام کی بھی میں ترتیب بیان کروں گا کہا جاسکتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر چن لیا گیا ہے.میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی مثال ایسی چن دیں جس کی ترتیب عام لوگوں کو معلوم نہ ہو اور جو بے جوڑ فقرے نظر آتے ہوں مگر افسوس ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع نہ تھا اس لئے وہ کوئی مثال پیش نہ کرسکے اور میں خود سردر کی وجہ سے ایسا مقام نہ نکال سکا ورنہ بتاتا کہ قرآن کریم میں کیسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے.دوم.قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقع پر پیش آتی ہے اس کا اگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے.گویا اس کی ہرا گلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا
۱۲۷ ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے.بائیبل کے متعلق اوتھر لکھتا ہے."The Gospels do not keep order in their account of miracles and deeds of jesus.This is of small moment.When there is dispute about Holy Writ and no comparison is possible let the matter drop."۲۹ Emile Ludwidg in his book "son of man" says, "Almost all the contradictions arise out of the disorderly nature of the reports, "۳۰ The Gospels, the four main sources of Knowledge, conradict one an other in many respects and are upon some points contradicted by the scanty non-Christians authorities.۳۱ Moreover there is confusion in serial arrangment, a confusion which has been beplored through-out centuries.۳۲ یعنی بائیبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا.پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے.اِیمل لُڈْوِگ(Emil Ludwidg) نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجود ہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے.وہ اپنی کتاب ’’ابن آدم‘‘ میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں ہمیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کے بے ترتیبی کی وجہ سے پید اہوا ہے.اناجیل جو ہمارے علم کے چار بڑے چشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کی مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیاہے، اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود مسیحی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں.اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا اور یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ ہے.
۱۲۸ مختصر آیات میں حقائق و معارف کی کثرت تیسری خوبی جو قرآن کریم کے ظاہری حسن کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کے مضامین کا باوجود اختصار کے مفصل ہونا ہے.چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی مطالب بیان کرتی چلی جاتی ہے.اور پھر اس میں علم کلام، علم تاریخ، علم اوامر اور علم نواہی سب ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں.اس خوبی کی وجہ سے ایک طرف تو قرآن کریم نہایت مختصر ہے اور دوسری طرف جو اس میں عظیم الشان مطالب بیان ہیں وہ بائیبل اور دوسری الہامی کتب میں مل ہی نہیں سکتے.اس کی ایک مثال میں نے ابھی دی ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت میں تین عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی مقام لے لو یہ بات واضح ہوجائے گی.میں اس کے مزید ثبوت کے لئے پھر پہلی آیت کو ہی لے لیتا ہوں.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کی لطیف تفسیر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ.اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ.ان چندآیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کیونکہ فرمایا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.پڑھ اس کلام کو.مگر جب پڑھنے لگوتو یہ کہہ لینا کہ میں اﷲ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں.اس میں استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸، ۱۹ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ.’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا.وہ سب ان سے کہے گا.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کاحساب اس سے لوں گا‘‘.۳۳ پس بِاسْمِ رَبِّکَ میں موسیٰ کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کے مثیل موسیٰ ہونے کادعویٰ پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا ہے.پھر اِقْرَاْ میں تبلیغ کے واجب ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کئی کلام ایسے ہوتے ہیں جو خود پڑھنے والے کے لئے ہوتے ہیں، دوسروں کوسنانے کے لئے نہیں ہوتے.مگر اس کلام کے متعلق فرمایا یہ
۱۲۹ ساری دنیا کے لئے ہے، جا اور اسے سنا.اس میں تبلیغ اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.تیسری بات رَبُّکَ الَّذِیْ خَلَقَ میں یہ بتائی کہ اس کلام کے پیش کرنے میں تمہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی مگر تو اس رب کا نام لے کر پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے.اس میں یہ اشارہ کیا کہ یہ کلام صرف بنی اسرائیل کے لیے یا اہل ہنود کے لئے نہیں یہ اَلْاِنْسَانَ کے لئے ہے اور جب ایک قوم کو مخاطب کرنے والوں کو دکھ اورتکالیف اٹھانی پڑیں تو تم جو ساری دنیا کو مخاطب کررہے ہو تمہیں کس قدر مشکلات پیش آئیں گی.مگر کسی بات سے ڈرنا نہیں یہ کلام تیرے رب کی طرف سے آیا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے اور اس وجہ سے ساری دنیاتیری مخالف ہوگی تیرا رب تیرے ساتھ ہوگا.مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ تیری آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کیونکہ رب آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والے کوکہتے ہیں.چوتھی بات یہ بیان کی کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس میں ایک تو اس طرف توجہ دلائی کہ اے انسان! دیکھ تیری پیدائش کتنی ادنیٰ ہے پھر توخیال بھی کس طرح کرسکتاہے کہ اپنی کامیابی کے ذرائع خود معلوم کرلے گا.دوسرے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرف توجہ دلا دی کہ انسان کو عَلَقٍ سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں قدرتی طور پر تعلق باﷲ کا مادہ رکھا گیا ہے.اور یہ بات تمہاری معاون ہوگی.پس تمہیں گھبرانا نہیں چاہیے اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہیے.غرض ایک چھوٹی سی آیت میں تاریخ، علم کلام، تبلیغ، انسان کی پیدائش اور انسان کی مخفی طاقتوں کا ذکر کردیا.اور ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئیں اور بھی کئی علوم کا اس میں ذکر ہے.قرآن کریم کی مقفّٰی عبارت چہارم قرآن کریم کی عبارت مقفّٰی ہوتی ہے.قافیہ بندی کے ساتھ اگر مضمون خراب ہوجائے تو وہ مقفّٰی عبارت بری معلوم ہوتی ہے.لیکن قرآن کریم کی عبارت باوجود مقفّٰی ہونے کے ایسی ہے جس سے صرف مضمون کی عظمت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ نئے نئے معارف بھی ظاہر ہوتے ہیں.اس کی مثال کے طور پر سورۃ جمعہ کو لے لیتا ہوں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.یُسِبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ.ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ
۱۳۰ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ.وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہٖ مَنْ یَشَآءُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۴ ۳ دیکھو کس طرح ان آیات میں توازن کو قائم رکھا گیا ہے.یہ ہے تو نثر مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اشعار ہیں.مگرباوجود اس کے کوئی لفظ زائد نہیں.شاعر تو مضمون کے لحاظ سے الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا.یہ آیتیں اس زمانہ کے متعلق ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعر ہیں.وزن قائم رکھنے کے لئے ان میں توازن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مقفّٰی عبارت ہے مگر ترتیب خراب نہیں ہوئی.نہ کوئی زائد چیز آئی ہے، ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ہے.سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر خدا تعالیٰ فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ہر ایک چیزخواہ وہ آسمانوں میں ہے خواہ زمین میں اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے.یعنی ہر چیز ثابت کرتی ہے کہ خدا بے عیب ہے.الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ وہ مَلِک ہے، قدوس ہے، عزیز ہے ، حکیم ہے.یہاں قافیہ کے لحاظ سے حکیم پیچھے آیا ہے.اگر ملک پیچھے آتا تو وزن قائم نہ رہتا.آگے اسی ترتیب سے مضمون چلتا ہے.پہلی صفت خدا تعالیٰ کی یہ بیان کی تھی کہ وہ الْمَلِکِ یعنی بادشاہ ہے.اور بادشاہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ رعایا کی بہتری اور بہبودی کے احکام جاری کرے.اس لئے فرمایا ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْھمْجب خدا تعالیٰ ساری دنیا کا بادشاہ ہے تو اس نے اپنی رعایا کو احکام پہنچانے کے لئے امیین میں ایک رسول بھیجااور اپنا نائب مقرر کیامگر یہ نائب باہر سے مقرر نہیں کیا بلکہ تم میں سے ہی بھیجا.دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ الْقُدُّوسِ ہے.اس کے متعلق فرمایا یَتْلُوْا عَلَیْھمْ آیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْھمْ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے.پہلے اﷲ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھریُزَکِّیْھمْ ان کے اعمال کو پاک کرے.تیسری صفت یہ بیان کی تھی کہ الْعَزِیْزِ وہ غالب ہے.اس کے لئے فرمایا
۱۳۱ وَیُعَلِّمُھمُ الْکِتَابَ ان کو کتاب سکھائے.یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی بات وہی سکھا سکتا ہے جس کے شاگرد ہوں.چونکہ عزیزکے معنی غالب کے ہیں اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں یہ رکھا کہ اس رسول کو ہم ایک جماعت دیں گے جسے یہ سکھائے گا اور اسے دنیا پر غلبہ بخشے گا.کیونکہ میں اسے اپنی صفت عزیز کے ماتحت بھیج رہا ہوں.چوتھی صفت الْحَکِیْمِ بیان کی تھی.اس کے متعلق فرمایا وَالْحِکْمَۃَکہ وہ حکمت سکھائے گا.وَإِنْ کَانُوْا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍاور گو اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے مگر پھر بھی یہ رسول اس کتاب کو منوالے گا.اس کے بعد فرمایا وَآخَرِیْنَ مِنْھمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھمْ یہ رسول کچھ اور لوگوں کو بھی سکھائے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے وَھوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کی عبارت تو مقفّٰی بتائی جاتی ہے لیکن یہ ترتیب کیسی ہے کہ انہیں الفاظ کو پھر دہرا دیا گیا ہے جو پہلے آچکے ہیں اور بغیر ضرورت کے صرف قافیہ بندی کے لئے لائے گئے ہیں.لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ یہی الفاظ آنے چاہئیں تھے.اس کی وجہ ہے کہ جب کہا گیا وَآخَرِیْنَ مِنْھمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھم ْکہ یہ رسول ایک اور جماعت کو بھی سکھائے گا جو ان لوگوں سے نہیں ملی تو گویا بتایا کہ ان لوگوں میں اور اس جماعت میں ایک وقفہ ہوگا.اور دوسرے لوگ کچھ مدت کے بعد آئیں گے.اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد مسلمانوں میں سے قرآن مٹ جائے گا اور پھر بعد میں آنے والوں کو سکھایا جائے گا.ورنہ اگر وقفہ نہیں پڑنا تھا تو یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.پیچھے آنے والے آخر پہلوں سے ہی سیکھا کرتے ہیں.اس کے ذکر کی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا تھا جس میں قرآن دانی مٹ جانی تھی.اور پھر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا جانے والا تھا.اب یہ صاف بات ہے کہ درمیانی وقفہ کسی نقص کی وجہ سے ہی ہوسکتا ہے.اور اس نقص کے ازالہ سے ہی اس امر کو دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.پس دوبارہ عَزِیْزٌ وَحَکِیْمٌ کہہ کر بتایا کہ یہ وقفہ دشمنان اسلام کے غلبہ ظاہری اور ان کی علمی اور فلسفی اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ہوگا.اور مسلمان ان سے متأثر ہو کر قرآن کو چھوڑ دیں گے.مگر پھر خدا تعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا.کیونکہ وہ عزیز ہے.چونکہ دوسروں کو حکومت ملنی تھی اور اس سے
۱۳۲ مسلمانوں پر رعب چھا جانا تھا اور ایسے علوم نکل آنے تھے جن کی وجہ سے اسلام پر حملہ کیا جاتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس وقت بھی اپنی صفات عزیز اور حکیم کا اظہار کریں گے اور مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ دیں گے.اور ان علوم کا بھی رد کریں گے جو قرآن کے مقابلہ پر آئیں گے.کیونکہ اصل غلبہ اﷲ تعالیٰ کو ہے اور علوم اس کے بھیجے ہوئے ہیں.پس وہ باوجود ان فتن کے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کردے گا.غرض ان الفاظ کا تکرار صرف مقفّٰی عبارت کے لئے نہیں بلکہ عین اس ترتیب کے ماتحت ہے جس کی یہاں ضرورت تھی.قرآن آیات کا لطیف توازن (۵) پھر قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کرسکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو.یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے.چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا.قرآن کریم کو خدا تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہوسکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہوسکتی.اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہوجاتی ہے.قرآن کریم میں ذکر الٰہی کی کثرت (۶ ) چھٹی خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کی اس میں اتنی کثرت ہے کہ جب انسان قرآن کھولتا ہے تواسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے پر ہے.چنانچہ مکہ کے کئی مخالف جو سخت دشمن ہوا کرتے تھے جب کبھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ جاتے تو کہتے وہاں تو اﷲ تعالیٰ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے.غرض قرآن کریم نے اس طرح عظمتِ الٰہی کو بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اس امر کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا.اور ہر خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا دل اس کثرت سے ذکر الٰہی کو دیکھ کر باغ باغ ہوجاتا ہے.ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے.محمد کے متعلق خواہ کچھ کہو لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے.وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے.یہ مخالفین کی قرآن کریم کے متعلق گواہی ہے کہ وہ ذکر الٰہی سے بھرا ہوا
۱۳۳ ہے.اور ذکر الٰہی ہی مذہب کی جان ہے.لیکن دوسری کتب اس سے عاری ہیں اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کو ضائع کرتی ہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں بندوں کے قصے کہانیاں زیادہ ہیں اور اﷲ کا ذکر کم ہے.سخت کلامی سے مبرّا کتاب ساتویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ سخت کلامی سے مبرّا ہے اور یہ بھی حسن کلام کی ایک قسم ہے.کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اس میں گالیاں ہیں.پھر نہ صرف قرآن سخت کلامی سے مبّرا ہے بلکہ نہایت لطیف اور دلنشیں پیرایہ میں یہ نصیحت کرتا ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِن دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًابِغَیْرِ عِلْمٍ ۳۵ یعنی تم ان معبودان باطلہ کو گالیاں مت دو جن کی وہ اﷲ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتے ہیں.اور اگر تم ان کو گالیاں دو گے تو وہ اﷲ کو گالیاں دیں گے بغیر یہ سمجھنے کے کہ اﷲ تو سب کا ہے.پھر فرماتا ہے کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھمْ۶ ۳ اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں.یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ ان لوگوں کے معبود جھوٹے ہیں اس لئے انہیں برا بھلا کہنے میں کیا حرج ہے.یہ لوگ اب شرک کے عادی ہوچکے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس برے کام کو بھی اچھا سمجھنے لگ گئے ہیں اس لئے اگر تم انہیں گالیاں دو گے تو فتنہ پیدا ہوگا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.کیا ہی لطیف نکتہ قیام امن کے متعلق بیان کیا کہ کسی کے بزرگوں اور قابل تعظیم چیزوں کو برا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ اس سے آپس کے بہت سے جھگڑے اور فساد رک سکتے اور بہت اچھے تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں.فُحش کلامی اور ہر قسم کی بداخلاقی سے منزّہ کتاب آٹھویں ظاہری خوبی قرآن کریم میں یہ ہے کہ وہ فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی کی تعلیم سے منزہ ہے.یعنی اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر طبیعت منغّض ہوجائے یا شرمائے یا بد اخلاقی معلوم ہو.قرآن کریم ایک شریعت کی کتاب ہے اور بوجہ شریعت ہونے کے اسے ایسے مضامین پر بھی بحث کرنی پڑتی ہے جو نہایت نازک ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح ان کو بیان کر جاتا ہے کہ جن کو پڑھ کر جو واقف ہے وہ تو سمجھ جائے اور جس کی عمر ابھی سمجھنے کی نہیں اسے خاموش گذار دیا جائے.مثلاً اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کا
۱۳۴ ذکر ہے.طہارت اور پاکیزگی کے متعلق احکام بیان ہیں ، مگر ان احکام کو ایسی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ بات بھی کہہ دی گئی ہے اور عریاں الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے.لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری کتابوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے شرم آجاتی ہے.جیسا کہ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۸ میں حضرت لوط علیہ اسلام کے متعلق ایک گندے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے.چونکہ یہاں عورتیں بھی بیٹھی ہیں اس لئے میں اس حوالہ کو نہیں پڑھتا.احباب بائیبل سے اس حوالہ کو خود پڑھ لیں.انجیل میں فحش تو نہیں مگر ایک بات اس میں بھی ایسی ہے جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہے اور وہ یہ کہ متی باب ۱۲ میں لکھا ہے.’’جب وہ (مسیح ) بھِیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے.کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں.اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی.اور اپنے شاگِردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں.کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے.‘‘۳۷ حضرت مریم ؑحضرت مسیؑح پر ایمان لانے والی تھیں مخالف نہ تھیں مگر باوجود اس کے انجیل کے بیان کے مطابق آپ نے ان کی پروانہ کی.لیکن قرآن کہتا ہے.ماں باپ خواہ مخالف ہوں ، ان کی عزت و توقیر کرنا تمہارا فرض ہے.پھر رگوید جلد اول کتاب ۴ دعا ۱۸ میں اندر دیوتا کی پیدائش کا ذکر ان الفاظ میں ہے.Not this way go I forth: hard is the passage.Forth from the side obliquely will I issue.Much that is yet undone must ۳۸I accomplish.یعنی اندر نے اپنی پیدائش کے وقت کہا.میں ماں کی پسلیوں میں سے نکل کر جاؤں گا.اسی طرح اتھروید جلد اول کتاب ۳ دعا ۲۵ میں عملِ حُبّ بتایا گیا ہے.اور کہا گیا ہے کہ اے عورت تو چوری چھپے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر بھاگ چل.اتھروید جلد اول کتاب ۵ دعا ۲۵ صفحہ ۲۲۹.۲۳۰ میں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق نہایت فحش دعا درج ہے.پھر مرد عورت کے تعلقات کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کوئی ماں باپ
۱۳۵ اپنے لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے ایسی کتاب نہیں دے سکتے.لیکن قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ایسی پاک زبان میں ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا.ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام نویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے.کہیں چلتے پانیوں سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہیں برستے بادلوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کہیں چمکتی بجلی میں خدا تعالیٰ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہیں دفن ہونے والے مُردوں کا ذکر کرکے خدا تعالیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہیں پیدا ہونے والے بچوں کا حوالہ دے کر قدرت خدا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہیں نجاستوں اور گندوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت بتائی گئی ہے.کہیں پاکیزگی کی ترغیب اور تحریص دلانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.غرض قرآن پڑھ کر انسانی فطرت بول اٹھتی ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے انسانی قلب کا نقشہ کھینچ رہا ہے.لیکن دوسری کتب میں اس طرح قانونِ نیچر کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی.جذباتِ انسانی سے اپیل دسویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ انسان کے اعلیٰ جذبات سے اپیل کرتا ہے.انسانی پیدائش کی خوبیاں بتاتا ہے.انسانی طاقتوں اور قوتوں کا ذکر کرتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ ان سے کام لو اور ترقی کرو.اس کے ساتھ ہی یہ بتاتا ہے کہ ان باتوں سے بچو ورنہ ترقی سے محروم رہ جاؤ گے.یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے.غرض ظاہری حسن میں بھی قرآن کریم ایک افضل کتاب ہے اور اس کی عبارت کو پڑھ کر انسان متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.ہاں جو لوگ قصوں کے شیدا ہیں ان پر اس کی عبارت بیشک گراں گذرتی ہے.قرآن کریم میں تکرار پائے جانے کا اعتراض قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے میں جواب دے چکا ہوں.اب ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک ایک فقرہ کو بار بار دہراتا ہے.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دہرانے کا اعتراض قرآن کریم پر
۱۳۶ عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن خود ان کی الہامی کتابیں اس کی زد میں آتی ہیں.بائیبل میں کئی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں.چاروں اناجیل میں تکرار موجود ہے.وہی بات جو متی کہتا ہے مرقس، لوقا اور یوحنا بھی اسی کو دہراتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں کی کتابوں میں تکرار پایا جاتا ہے.مثلاً اتھروید جلد اول کتاب ۲ دعا ۲۷ اور رگ وید جلد اول کتاب اول دعا ۹۶ میں تکرار موجود ہے.اگر تکرار قابلِ اعتراض بات ہے تو ان پر بھی کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا.قرآن کریم پر یہ اعتراض محض ناسمجھی اور نادانی کی وجہ سے کیا جاتا ہے.میں اسے واضح کرنے کے لئے ایک آیت لے کر اس کا مطلب بیان کر دیتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ سورۃ الرحمٰن میں فَبِأَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۳۹ِکا باربار تکرار ہے اور ایسے موقع پر بھی اسے لایا گیا ہے جہاں اس کا کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا.بلکہ اُلٹ پڑتا ہے جیسے کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ.وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ۴۰ کے ساتھ فَبِأَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ آتا ہے.پادری اکبر مسیح نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کُلُّ مَنْ عَلَیْھا فَانٍ کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی فنا ہونے والا ہے اور وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ کے یہ معنی ہیں کہ صرف خدا ہی باقی رہنے والا ہے جو جلال اور اکرام والا ہے.مگر آگے آتا ہے فَبِأَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان ِتم خدا کی کون کون سی نعمت کا انکار کرو گے.اب اس موقع پر کس نعمت کا ذکر تھا؟ کہ یہ کہا گیا.کیا مرنا اور فنا ہونا بھی ایک نعمت ہے؟ موت کا فلسفہ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ فنا بھی انسان کے لئے ایک انعام ہے.جہاں دیگر مذاہب نے فنا کو سزا قرار دیا ہے وہاں قرآن نے اسے انعام ٹھہرایا ہے.چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرُ.انِ لَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وّھوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ۴۱ یعنی سب برکتوں والا خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور یہ ہر بات پر قادر ہے وہ برکتوں والا خدا ہے جس نے موت اورزندگی کو پیدا کیا.یہ اس لئے کہ انسانوں کے اعمال کا امتحان لے اور ان کے نیک نتائج پیدا کرے وہ غالب ہے اور غفور ہے.ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے موت و حیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ
۱۳۷ أَحْسَنُ عَمَلًا پس موت ضروری تھی کیونکہ موت کے بغیر انسانی اعمال کے نتائج پیدا نہیں ہوسکتے تھے.اس لئے کہ زندگی میں ایک انسان جو اچھے عمل کرتا ہے اگر اسے ان کا بدلہ اسی دنیا میں مل جائے اور جو بدیاں کرتا ہے ان کی اسے یہاں ہی سزا دے دی جائے تو پھر کوئی نبیوں کا انکار کیوں کرے.بلکہ فوری جزا سزا کو دیکھ کر سب مان لیں.لیکن انعام مشقت اور محنت کے بعد ملا کرتا ہے.اگر حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ اسی دنیا میں موجود ہوں اور خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد جو درجات انہیں دئیے ہیں وہ اسی دنیا میں مل گئے ہوں تو پھر ان کا کون منکر رہ سکتا ہے.یا فرعون اور ابوجہل اگر کفر کی وجہ سے اسی دنیا میں آگ میں جل رہے ہوتے تو کون انکار کرتا.اس طرح تو ایمان لانے والوں کو کوئی محنت اور کوشش ہی نہ کرنی پڑتی.لیکن انعام محنت اور کوشش کے بعد ہی ملا کرتا ہے.پس ضروری تھا کہ انعام دینے کے لئے ایک اور دنیا ہو اور وہ ان آنکھوں کے سامنے نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے.پس فرمایا خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ Page 83أَحْسَنُ عَمَلًا حیات کی غرض یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں کام کرے اور موت کی غرض یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کام کرے موت کے بعد ان کے انعام پائے.وَھوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُاور خدا غالب اور بخشنے والا ہے وہ انعام بھی دے سکتا ہے اور کمزوریوں کو معاف بھی کرسکتا ہے.اس آیت میں چونکہ پہلے موت کو رکھا ہے.اس لحاظ سے عزیز کو پہلے رکھا.اورحیاتمیں چونکہ کمزوریاں بھی سرزد ہوجاتی ہیں اس کے لئے غفورکی صفت کو رکھا کہ انسان سے غلطیاں ہوں گی جنہیں خدا معاف کردے گا.پس یہ تکرار نہیں بلکہ بہت بڑی حکمت کے ماتحت اسے رکھا گیا ہے.افضلیت کی تیسری وجہ (۳) افضلیت کی تیسری وجہ ایک الہامی کتاب کے لئے یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے جن کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے.مثلاً اگر ایک چیز پیاس بجھانے کے لئے پی جاتی ہے تو اس کا کام ہے کہ پیاس بجھائے.لیکن چونکہ کتاب مذہب کے متعلق ایک معلم کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ان ضرورتوں کے دو حصے ہوجائیں گے.اول.ان ضرورتوں کی تشریح کرے جن کو پورا کرنے کا وہ مدعی ہے.کیونکہ ضرورت کا احساس بھی وہی کرتا ہے.
۱۳۸ دوم.ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرے.مذہب کی پانچ ضرورتیں سو یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب کی قرآن کریم سے پانچ ضرورتیں ثابت ہوتی ہیں.اول:- وجود باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم.دوم:- انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان اور ان کا ثبوت.سوم:- ان امور کا بیان جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور امداد کے لئے ضروری ہیں.چہارم :-انسانی زندگی کے مآل کا بیان اور اس کا ثبوت.پنجم:- مذکورہ بالا امور میں نہ صرف علمی طور پر روشنی بخشنا بلکہ عملاً بھی خدا تعالیٰ سے وصال کرانا اور روحانی طاقتوں کو مکمل کرانا اور حیاتِ اخروی کے فوائد سے بہرہ ور کرانا.یہ ضرورتیں جو اسلام نے بیان کی ہیں باقی مذاہب بھی اس امر میں اس سے متفق ہیں گو اس مقصد کے پورا کرنے میں قرآن کریم منفرد ہے.کوئی مذہبی کتاب اس بارہ میں اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتی.تورات کو شروع سے آخر تک پڑھ جاؤ ، انجیل کو پڑھ جاؤ، وید کو پڑھ جاؤ بس یہ معلوم ہوگا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اور اس کی ذات میں کسی شک کی گنجائش نہیں مگر اس کا ثبوت وہ کوئی نہیں دیتیں.اسی طرح اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پاسکتا.پس ضرورت تھی کہ اﷲ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جائے اور پھر اس کے دلائل دئیے جائیں.زیادہ سے زیادہ دوسری کتب نے کوئی ثبوت دیا ہے تو معجزات سے دیا ہے.بیشک اس سے اﷲ تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہوجاتا ہے مگر اس کی ہر صفت ثابت نہیں ہوتی.اگر کوئی کتاب خدا تعالیٰ کو غفورکہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا کے غفورہونے کا ثبوت بھی پیش کرے.اگر رحیم قرار دیتی ہے تو اس بات کا ثبوت دے کہ وہ رحیم ہے.غرض باقی مذاہب نے اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیاد ہے بالکل مہمل چھوڑ دیا ہے اس کے مقابل پر قرآن کریم کو دیکھو.وہ نہ صرف اﷲ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی دیتا ہے.اور نہ صرف اس کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اس کی سب صفات کا ثبوت دیتا ہے.اور اس طرح وہ ایک نیا اصل پیش کرتا ہے.جو یہ ہے کہ جس قدر صفاتِ الٰہیہ بندہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبوت ضروری ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہوگا مگر اس کی صفات کا ثبوت نہ
۱۳۹ ہوگا.بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کا ثبوت میں اس وقت اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیے ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَا إِلہَ إِلاَّ ھوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وھوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَکِیْلٌ.لاَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَھوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَھوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۴۲ یعنی یہ ہے تمہارا اﷲ جو تمہارا رب بھی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اسی کی تم عبادت کرو.وہ ہر چیز پر نگران ہے.اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری یہ مادی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں نہ تمہاری عقلیں پہنچ سکتی ہیں.یعنی تمہاری آنکھیں اور عقلیں اﷲ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں.ہاں اﷲ تعالیٰ خود ایسے سامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ جن کے نتیجہ میں وہ بندہ کے پاس آجاتا ہے یعنی اپنی صفات کے ظہور کے ذریعہ.کیونکہ وہ نہایت لطیف اور خبیر ہے.غرض ان صفات کو اﷲ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے.اور لَا تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ کے ثبوت میں بتایا ہے کہ وہ لطیف اور خبیر ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ان آنکھوں سے دکھا دو، وہ غلط کہتے ہیں.اس لئے کہ جو لطیف چیز ہوتی ہے وہ نظر نہیں آیا کرتی.لطیف کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ نظر نہ آئے.ورنہ جو چیز نظر آجائے وہ لطیف نہیں کہلا سکتی.پھر خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کس طرح نظر آسکتا ہے.دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا ہے یا نہیں.سو اس کا ثبوت اس کی صفت خبیر سے مل جاتا ہے.وہ بندہ کی نگہداشت کرتا ہے.اس کی روحانی اور جسمانی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے.کسی کے خبردار ہونے کا آخر کیا ثبوت ہوا کرتا ہے.یہی کہ جس قسم کی ضروریات اسے پیش آئیں ان کا انتظام کرے.مثلاً ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے.اس کے لئے اگر مکان اور مکان میں بستر وغیرہ موجود ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بستر خود بخود آگیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ میزبان بہت خبردار ہے جس نے پہلے سے ہی بستر کا انتظام کردیا.اسی طرح مہمان کے آگے کھانا چنا جائے لیکن میزبان خود اس وقت نظر نہ آئے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ کھانا خودبخود آگیا ہے.اگر مہمان کی ضروریات پوری ہوتی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے والا ایک وجود موجود ہے خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے.پس جسمانی اور روحانی ضرورتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری ہوتی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے.اور جب
۱۴۰ وہ ان ضروریات کے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہے.خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں یہاں یہ نہایت عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں.جس طرح مرد و عورت کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان دو صفات کے ملنے سے نتیجہ پیدا ہوتا ہے.مثلاً خبردار رہنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ تغیر کو بھی غائب نہ ہونے دینا یہ لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہوسکتا.یعنی ایسی ہستی جو موجودات کے ہر ذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو.اور ایسے اتصال کے لئے لطیف ہونا شرط ہے.پس خبیر کی صفت لطیف کے لئے بمنزلہ جوڑے کے ہے.اور اس کے ذریعہ سے اس کا بھی ظہور ہوتا ہے.یا ان دونوں کا آپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہو تو دوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اور دوسری نہ ہو تو پہلی ثابت نہیں ہوتی.اگر خبیر کی صفت وَھوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَسے ثابت نہ ہوتی تو لَا تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُبھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا.اس کے مقابلہ میں اگر لَا تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُثابت نہ ہوتا یعنی اس کا لطیف ہونا تو خبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی.کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا وہ خبیر بھی نہیں ہوسکتا.غرض لطیف ہستی وہ ہوتی ہے جو باریک در باریک اور ہر ذرہ میں موجود ہو.اور جو ایسی لطیف ہو وہ نظر کبھی نہیں آسکتی، ضرور ہے کہ وہ مخفی ہو.پھرلطیف ہونا خبیر ہونے کا بھی ثبوت ہے.کیونکہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایک ہستی ہے جو لطیف ہونے کی وجہ سے ہر ذرہ سے تعلق رکھتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خبیر ہے.غرض خدا تعالیٰ کی صفت لطیف اس کے خبیر ہونے پر شاہد ہے.اور خبیر ہونے کی صفت اس کے لطیف ہونے کی شہادت دے رہی ہے.خدا تعالیٰ کی صفت رَبُّ الْعٰلَمِیْن کا مادی ثبوت ایک اور صفت خدا تعالیٰ کا رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہونا ہے اس کے روحانی اور جسمانی دو ثبوت پیش کئے گئے ہیں.جسمانی ثبوت تو یہ دیا کہ فرمایا اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۴۳ یعنی
۱۴۱ زمین اور آسمان اور انسان اور اس کی طاقتیں (یعنی ترقی کی قابلیتیں جن سے وہ زمین و آسمان پر حکومت کرتا ہے اور جو رب العلمین پر جو ترقیات کا سرچشمہ ہے شاہد ہیں.) اور اغذیہ وغیرہ جو ان طاقتوں کو قائم رکھتی ہیں.یہ سب اﷲ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب العلمین ہونے پر دلالت کرتی ہیں.اس سال جب میں کشمیر گیا تو وہاں ایک ایم.اے مجھے ملنے کے لئے آئے.اور کہنے لگے میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی خدا ہے تو اس نے ہمیں دنیا میں پیدا کر کے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیا.ہم نے کب اس سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر کے دنیا میں بھیج دو؟ میں نے کہا.اگر دنیا کی زندگی مصیبت ہے اور آپ اس مصیبت سے نکلنا چاہتے ہیں تو یہ کون سی مشکل بات ہے.زہر کھالو اور مرجاؤ.کہنے لگے یہ بھی تو نہیں ہوسکتا مرنے کو دل نہیں چاہتا.میں نے کہا.اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ دنیا کی زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور صرف منہ سے اس کی برائی بیان کرتے ہیں.غرض اﷲ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کے لئے قرار کی جگہ بنایا ہے.ہندو کہتے ہیں.دنیا مصیبت کی جگہ ہے مگر جب بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فیس وہی دیتے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے منہ سے جتنا چاہو کہو کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے لیکن یہاں سے تم ہلنا نہیں چاہتے.کیونکہ خدا نے تمہارے لئے اس زمین کو قرارگاہ قرار دیا ہے.پھر وَ السَّمَآءَ بِنَآءً آسمان بھی تمہاری حفاظت کا موجب ہے.جو چیزیں زمین کے ذریعہ پوری نہ ہوسکتی تھیں ان کو ہم تمہارے لئے آسمان سے نازل کرتے ہیں.کیونکہ آسمان بناء کا موجب ہے.وَ صَوَّرَکُمْ پھر اس خدا نے تمہیں شکل دی.فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْاور بڑی اعلیٰ درجہ کی اور مکمل قابلیتوں والی شکل بنائی.وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِاور تمہارے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیدا کی ہیں.اگر چیزیں خراب ہوتیں تو تمہاری قابلیتیں بھی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتیں.مگر ان قابلیتوں کو خرابی سے بچانے کے لئے تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ نے رزق طیّب پیدا کیا.فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ پس اے لوگو! یہ رب العلمینَ ہے.اگر وہ رب العلمین نہ ہوتا اور سورج کوئی اور پیدا کرتا اور زمین کوئی اور پیدا کرتا تو سورج اور زمین کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہوتا.مگر اب دیکھو سورج زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور زمین سورج کی.یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ایک ہی خدا ہے
۱۴۲ جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا اور وہی رب العلمین ہے.صَوَّرَکُمْ میں یہ بھی بتایا ہے کہ بندہ ایسا بنایا گیا ہے کہ باقی سب مخلوق پر حکومت کرتا ہے.یہ جسمانی ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے رب العلمین ہونے کا.خدا تعالیٰ کے رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ہونے کا روحانی ثبوت روحانی ثبوت سورۃ شعراء میں اس طرح دیا کہ بہت سے نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مختلف اقوام کی طرف آئے تھے فرمایا وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ.بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ.وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ۳ ۴ یعنی یہ قرآن رب العلمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کا روحانی ثبوت یہ ہے کہ یہ کلام سب دنیا کو مخاطب کرکے نازل ہوا ہے.جب کہ پہلے کلام صرف مختص القوم اور مختص الزمان تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کے ثبوت تھے.یہ کلام ربوبیتِ عالمین کا ثبوت ہے.غرض یہ قرآن کسی ایک قوم کی طرف نہیں آیا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ کی رب العلمین کی صفت کے ماتحت نازل کیا گیا ہے اور تمام دنیا اس کی مخاطب ہے.پھر اس کلام کو روح الامین لے کر نازل ہوا ہے.یعنی پہلے نبیوں کے کلام میں خرابیاں آگئی تھیں کیونکہ بندوں نے ان کی حفاظت نہ کی.پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے.محفوظ طور پر وہ پہلے کلام آپ پر نازل کئے ہیں.اور چونکہ کلام کے پہنچانے کے لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ پہنچانے میں کوئی نقص نہ رہ جائے اس لئے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے.غرض بائیبل اور وید وغیرہ کتابیں سب خراب ہوچکی تھیں.مگر خدا تعالیٰ کے پاس اصلی تعلیم محفوظ تھی.چنانچہ اس نے روح الامین کے ذریعہ اس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا تاکہ لوگوں کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرسکے یہ کلام عربی زبان میں ہے جو تمام مضامین کو کھول کر بیان کرنے والی ہے.اور اس کے رب العلمین کی طرف سے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہ کلام پہلی کتب میں بھی موجود ہے.اس رنگ میں بھی کہ ان کے اصول اس میں پائے جاتے ہیں اور اس رنگ میں بھی کہ ان سب کو اکٹھا کرکے اس میں بیان کردیا گیا ہے.گویا اس میں تمام غیر مسلم اقوام کی ذہنیت کا خیال رکھا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رب العلمین کی طرف سے ہے.اگر یہ رب العلمین کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ ساری دنیا کی فکر کیوں
۱۴۳ کرتا.پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم وہی ہے جو پہلی کتابوں میں تھی.بلکہ یہ ہیں کہ پہلی کتابوں کی صحیح تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زائد بھی ہے.پھر پہلی کتب میں اس کلام کی موجودگی سے یہ بھی مراد ہے کہ ان میں ایک کتاب کی پیشگوئی پائی جاتی ہے.اسی طرح تمام صفاتِ الٰہیہ کا قرآن کریم میں مبسوط بیان ہے.مگر اور کتابوں میں اس طرح ذکر نہیں ہے.انجیل میں صر ف پانچ سات صفات کا ذکر آتا ہے.تورات میں نسبتاً زیادہ صفات کا ذکر ہے.مگر قرآن نے جتنی صفات پیش کی ہیں اتنی تورات نے بھی پیش نہیں کیں.پھر پہلی کتابیں ان صفات کو بطور دلیل پیش نہیں کرتیں بلکہ صرف دعاؤں میں ان کا ذکر آجاتا ہے.حالانکہ ضروری ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کا نہ صرف بالاستیعاب ذکر ہو بلکہ ان کے الگ الگ کام اور ان کے ثبوت بھی دئیے جائیں مگر یہ کام صرف قرآن کریم نے کیا ہے.صفاتِ الٰہیہ کی تشریح بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہئے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف صفات کے نام بھی کافی نہیں جب تک ان کے صحیح معنی بھی بیان نہ کئے جائیں.کیونکہ خالی نام صرف شدت محبت کے اظہار کے لئے بھی جمع کئے جاسکتے ہیں جب کہ ان ناموں کے لینے والا ان کی حقیقت سے کچھ بھی واقف نہ ہو.جیسے پیار کے وقت انسان بہت سے نام لے لیتا ہے لیکن ان کی حقیقت کا اسے علم نہیں ہوتا.پس صرف کسی صفت کا ذکر کردینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک صفت کا ذکر ہو اور پھر اس کی تشریح اور توضیح بھی خدا تعالیٰ کے الفاظ میں ہو.جیسے گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے تو ساتھ ہی بعض الفاظ کی تشریح بھی کردیتی ہے کہ فلاں لفظ کے یہ معنی ہیں تاکہ اس میں اختلاف نہ شروع ہوجائے.اسی طرح خدائی کلام کا یہ بھی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرے اور خود ہی ان کی تشریح کرے.چنانچہ دیکھ لو رحمٰن کا لفظ عربوں میں موجود تھا اور وہ اسے استعمال کرتے تھے.قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَقَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاھمْ ۴۵ یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر رحمان خدا چاہتا تو ہم اس کے سوا دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرتے.خود مسیلمہ کذاب بھی رحمن یمامہ کہلاتا
۱۴۴ تھا.لیکن جب رحمٰن کے معنوں کو قرآن کریم نے بیان کیا تو وہ حیران رہ گے.اور چونکہ ان معنوں کی رو سے ان کے مذہب پر زد پڑتی تھی صاف کہہ اٹھے کہ ہم نہیں جانتے رحمٰن کیا ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ.اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا۶ ۴ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمٰنکی عبادت کرو.تو وہ کہتے ہیں رحمٰن کون ہے.کیا ہم اس کے آگے سجدہ کریں جس کے آگے سجدہ کرنے کا تو حکم دیتا ہے.اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ وہ رحمٰن کے اور معنی کرتے تھے.چنانچہ آگے اﷲ تعالیٰ نے اس کے معنی بھی کردئیے اور بتادیا کہ ان معنوں میں ہم رحمٰن کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اور ان معنوں سے رد کرتے ہیں.فرماتا ہے.تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا.وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا ۴۷ یعنی رحمٰن تو وہ ہے جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ان میں چمکتا ہوا سورج اور نور دینے والا چاند بنایا.اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا.مگر ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا شکر گذار بندے بننا چاہیں.یہاں رحمٰن کی تشریح کر دی.اور مطلب بیان کر دیا کہ رحمن سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو انسان کے عمل سے بھی پہلے اس کے لئے کام شروع کر دیتی ہے.چنانچہ بتایا.دیکھو ہم نے چاند اور سورج کو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بنایا.اور پھر اس کی ضرورت بھی بیان کردی.اور وہ یہ کہ انسان کو عمل کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت ہے.اگر اسباب نہ ہوں تو وہ عمل کس طرح کرسکے.مثلاً بڑھئی ہو لیکن لکڑی نہ ہو تو وہ کیا کرسکتا ہے.پس ضروری تھا کہ انسان پر اس کے اعمال شروع کرنے سے قبل انعام ہوتا.اور انعام کے طور پر اس کے لئے اسباب مہیا کئے جاتے تاکہ وہ عمل کرسکتا.پس یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.کیونکہ عمل ہوہی نہیں سکتا جب تک پہلے کچھ انعام نہ ہو.پھر یہ وجہ بتائی کہ رحمانیت کی ضرورت انسان کے شکوربننے کے لئے ہے.شکورکے لئے عمل کی شرط ہے.اور عمل بغیر رحمانیت کے نہیں ہوسکتا.اگر اس کی یہ صفت نہ ہوتی اور وہ بلامُزد انعام نہ کرتا تو انسان اپنے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا نہ کرسکتا اور ایک بِلا عمل ہستی
۱۴۵ رہ جاتا.شکورکے لفظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے لئے قلب میں شکریہ کے احساسات کا پیدا ہونا ضروری ہے.اور یہ احساسات بغیر رحمانیت کی صفت کے پیدا نہیں ہوسکتے.اسی طرح اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رحمانیت کے بغیر وہ ا علیٰ محرّک عمل جو بے نفسی کا موجب ہوتا ہے پیدا نہ ہوسکتا.کیونکہ سب کچھ نتیجہ عمل میں ملتا تو ہر عمل لالچ کی وجہ سے ہوتا.مگر چونکہ احسان موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر اس کے عمل کرنے کے قابل بننے سے پہلے نعمتیں نازل کی ہیں.اس لئے اعلیٰ انسان اپنے اعمال کو طلبِ صلہ کی بجائے شکرِ ماضی کے ماتحت لے آتا ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کی شکرگذاری کرتا اور اس کے احکام بجالاتا ہے.نہ اس لئے کہ اب اسے کچھ ملے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پہلے احسانات کا شکر ادا کرے.اس طرح مومن کے دل میں سے لالچ اور طمع کو نکال دیا اور محض خدا تعالیٰ کی شکرگذاری کا جذبہ اس میں پیدا کیا.غرض تکمیل صفات اور دلائل صرف قرآن کریم نے دئیے ہیں.باقی کتب صرف دعا میں بطور ایک ٹونے کے خدا تعالیٰ کے اسماء کو استعمال کرتی ہیں اور وہ ذرہ بھر بھی متشابہ صفات کے فرق اور ان کے دلائل پر روشنی نہیں ڈالتیں.انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان دوسرا امر جس کا بیان ایک الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان ہے.اس مضمون پر بھی قرآن کریم نے بلکہ صرف قرآن کریم نے ہی روشنی ڈالی ہے دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی.یا تو اس لئے کہ جس وقت وہ نازل ہوئیں اس وقت اس قدر روحانی ارتقاء نہ تھا.یا پھر ان کے بگاڑ کے زمانہ میں جو بھی تعلیم ان میں تھی وہ ضائع ہوگئی.مگر قرآن کریم کو دیکھو اس میں ایک اعلیٰ طریق سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے.وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ کی لطیف تفسیر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلًا.اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ.اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ
۱۴۶ عَلَیْکَ کَبِیْرًا.قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا.۴۸ ان آیات سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے.اس کے بعد فرماتا ہے وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ کچھ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح اپنے اندر یہ ذاتی قابلیت رکھتی ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا کلام نکلنے لگ جاتا ہے.یہاں سوال نقل نہیں کیا گیا.اس لئے اس موقع کے لحاظ سے جتنے سوال کے پہلو نکل سکتے ہوں وہ سب جائز ہوں گے.ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ روح کو کس طرح پیدا کیا گیا ہے دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ روح میں کیا کیا طاقتیں رکھی گئی ہیں.تیسراسوال یہ ہوسکتا ہے کہ روح کا انجام کیا ہوگا؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.روح مادیات سے بالا ہے اس لئے یہ تمہارے تصرف میں نہیں آسکتی.اس کی پیدائش اس کا قیام اور اس کا انجام سب اﷲ تعالیٰ کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ خود روح کو پیدا کرنے والا ہے.اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ روح آپ ہی کمال حاصل کرسکتی ہے.فرمایا جب تک خدا کا کلام روح کو حاصل نہ ہو وہ کوئی کمال ظاہر نہیں کرسکتی.پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روح فنا کیوں نہیں ہوتی؟ ان کے متعلق فرمایا کہ زندہ رکھنے والا جو موجود ہے تو فنا کیوں ہو.جیسے آگ جلانے والا جب تک آگ میں لکڑیاں ڈالتا جائے گا وہ نہیں بجھے گی.غرض نہ یہ سوال درست ہے کہ روح ہمیشہ کس طرح رہے گی اور نہ یہ کہ اگر زندہ رہے گی تو حادث نہیں ہے کیونکہ اس کی زندگی خدائی اذن سے ہے نہ کہ اپنی ذاتی قابلیت کی وجہ سے.بہرحال روح کی پیدائش بھی امر یعنی کُنْ کہنے سے ہے اور اس کی ترقی بھی امر یعنی کلامِ الٰہی سے ہے اور اس کا ابدی قیام بھی امر یعنی قضائے الٰہی سے وابستہ ہے.پھر فرمایا کہ انسانی روح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اور آپ ہی تعلیم بیان کرسکتی ہے مگر یہ غلط ہے وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًاروح کے متعلق جو انسانی معلومات ہیں وہ نہایت ناقص اور ناتمام ہیں جس طرح اور غیر مادی اشیاء مثلاً ذات باری یا ملائکہ کے متعلق اس کے معلومات ناقص ہیں.اس کے لئے خدا تعالیٰ کا الہام ضروری ہے جس کے امر سے یہ سب کچھ ہے.اسی طرح اس کی مخفی طاقتوں کا ابھارنا بھی امر پر
۱۴۷ ہی منحصر ہے.تم خود اپنے طور پر اس میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے.یہ سوال اس زمانہ میں بڑے زور سے پیدا ہورہا ہے کہ انسان یا تو خود روحانیت میں کمال پیدا کرکے روحانی تعلیم بنا سکتا ہے یا پھر دوسری روحوں سے تعلق پیدا کر کے ان کی امداد سے ایسی تعلیم ایجاد کرسکتا ہے.اس وہم میں اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگ مبتلا نظر آتے ہیں کہ روحیں انسان کو روحانیت کا اعلیٰ رستہ بتا دیتی ہیں.ان کا خیال ہے کہ انسانی روح میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ مُردوں کی روحیں پوری کردیتی ہیں.اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تمہارا خیال ہے کہ تم خود روحانی طاقتوں کو ترقی دے کر اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیم بنا سکتے ہو.اسی طرح تمہارا خیال ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ ہی آپ یہ کتاب بنالی ہے اس پر خدا کی طرف سے الہام نازل نہیں ہوا.اس کی اپنی روحانی طاقت اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس سے خودبخود ایسی باتیں صادر ہونے لگ گئیں.مگر یہ درست نہیں کیونکہ انسانی طاقتیں اتنی نہیں ہیں کہ ایسا کلام بنا سکیں.انسانی عقل کا اپنے آپ روحانی رستہ تجویز کرنا تو الگ رہا وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلًااگر یہ قرآن جو نازل شدہ ہے اسی کو ہم تمہاری نظر سے اوجھل کردیں تب بھی تم اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دے کر ایسی کتاب نہیں بناسکتے.یعنی اگر ہم یہ بنی بنائی تعلیم ہی دنیا سے غائب کردیں تو پھر بھی انسان اس جیسی تعلیم نہیں بناسکتے.کہاجاسکتا تھا کہ یہ قرآن کا محض ایک دعویٰ ہے کہ اگر قرآن کریم کی تعلیم غائب ہوجائے تو انسان اس جیسی تعلیم نہیں لا سکتے.اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ ثبوت بھی اﷲ تعالیٰ نے پیش کردیا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا.اس کی تحریر تو رہ جائے گی مگر تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوں گے.چنانچہ جب ایسا زمانہ آیا تو نہایت ہی لغو باتیں اسلام اور قرآن کی طرف منسوب ہونے لگ گئیں اور اس کی بے نظیر اخلاقی اور روحانی تعلیم پر پردہ پڑگیا.اس کے بعد فرماتا ہے اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ سوائے اس کے کہ تیرے رب کی خاص رحمت اسے دنیا میں پھر واپس لے آئے اور کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہوگی.چنانچہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی پیشگوئیوں کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کی طرف لمبا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ دوبارہ
۱۴۸ قرآن کریم کا دنیامیں نزول ہوا.اب دیکھ لو.وہی قرآن ہے جو پہلے تھا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیسے کیسے معارف اور حقائق نکل رہے ہیں اور کس طرح قرآن ساری دنیا پر غالب آرہا ہے.در حقیقت اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ قرآن اس وقت دنیا سے اٹھ جائے گا.مگر پھر خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کے ذریعہ اسے زمین پر قائم کر دیا جائے گا.سپر چولزم اور ہپناٹزم والوں کو چیلنج پھر فرماتا ہے قُلْ لَّئَنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَأْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا.تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر جن و انس بھی مل جائیں تب بھی وہ اس قرآن کی مثل یعنی روحانی ترقیات کا راستہ بتا نے والی تعلیم لانے سے قاصررہیں گے.یہاں جنّ سے مراد وہ جنّ نہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں.ایسے جنوں کی متعلق یہ کہنا کہ ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لوبیہودہ بات ہے.یہ تو ایسا ہی ہو گا جیسے کہا جائے کہ تم خواہ فلاں درخت سے مدد لے لو یا فلاں بھیڑ سے امداد حاصل کر لو تو بھی فلاں شاعر جیسے شعر نہیں کہہ سکتے.جس طرح یہ بات لغو ہے اسی طرح ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان سے مدد لے لو لغوبات ہے.پس یہاں جنّ سے مراد کوئی اور وجود نہیں ہیں بلکہ وہ جووجودمخفیہ ہیں جن کا نام سپرچولزم والے ارواح اور ہپنا ٹزم والے قوائے روحانیہ رکھتے ہیں.چونکہ یہ نظروں سے پو شیدہ ہو تے ہیں اس لئے ان کو جنّ کہا گیا ہے.یہ بات یاد رکھنی چا ہئے کہ کسی عقلمند کا دعویٰ نہیں تھا کہ جنّات سے مل کر وہ اعلیٰ روحانی تعلیم بنا سکتا ہے.پس جس چیز کا دعویٰ ہی نہیں تھا اور جس اجتماع کا امکان ہی نہیں تھا اس کا چیلنج عقل کے خلاف ہے.پس ا س جگہ جن سے مراد وہ روحانی افعال ہیں جو سبجیکٹو مائنڈ (SUBJECTIVE MIND) سے ظاہر ہو تے ہیں یا وہ اتحاد ہے جو بقول بعض ارواح غیر مرئی سے انسانوں کا ہو جاتا ہے اور ان سے وہ بعض روحانی علوم دریافت کر لیتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بھی مدد لے لو وہ بھی تمہاری مدد کریں تب بھی تم اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے.پس یہاں جنّ سے مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئے روحانی علوم معلوم کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان سے بھی مدد
۱۴۹ لے لو اور قرآن کی مثل بنا دو.پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ بغیر کلام الٰہی کے کام چل سکتا ہے یا نہیں.چنانچہ دیکھ لو یہ کس قدر زبردست معجزہ قرآن کریم کا ہے کہ وہی زمانہ جس کے متعلق احادیث نبویہ ؐسے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے اٹھنے کا ہے.اور جس زمانہ میں رَحْمَۃِ رَبِّیْ سے دوبارہ قرآن آنے کا ذکر ہے.اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہیں جو ارواح سے مل کر حقائق روحانیہ کے دریافت کرنے کے مدعی ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور اگر ارواح کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ آپ ہی آپ اپنی ترقی کے ذریعہ علوم کو معلوم کر لیں تو وہ قرآن کی مانند کوئی تعلیم پیش کر کے دکھائیں.اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ مثل میں کن کن امور کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے.سو اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَالْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّاکُفُوْرًا.اب ہم نے قرآن میں دو خوبیاں رکھی ہیں.ان کی مثال روحوں سے تعلق رکھنے والے اور خود روحانیت میں ترقی کرنے کا دعویٰ کرنے والے پیش کریں.ایک تو یہ کہ ہر ضروری امر جس کی روح کو ضرورت ہے قرآن کے اندر بیان کر دیا گیا ہے.دوسرے ہر ضروری امر کی ہر ضروری شق بیان کر دی گئی ہے.یعنی مختلف متفاوت فطرتوں کا اس میں پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور ہر حکم ایسے رنگ میں بیان کیا گیا ہے کے وہ سب کے لئے کار آمد ہو.یہاں فلسفیوں اور سپرچولزم والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم ایسی کتاب بنا کر دکھاؤ جس میں وہ ساری باتیں آجائیں جن کی تکمیل ِ روحانیت کے لئے ضروری ہے اور پھر اس کتاب میں ایسی تعلیم ہو جس میں ساری فطرتوں کا لحاظ رکھا گیا ہو.ایسی باتوں کی وہ کوئی مثال نہیں لا سکتے.یہ لوگ بہت مدّت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکتے اور نہ آئندہ کر سکیں گے.اوّل تو وہ قرآن جیسی جامع تعلیم ہی نہیں پیش کر سکتے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ پیش کریں گے تو یا تو وہ قرآن کے مطابق ہو گی اور یا پھر قرآن کے خلاف.اگر قرآن کے مطابق ہو گی تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن موجود ہے.اور اگر قرآن کے خلاف ہو گی تو اس کا ردّ قرآن میں موجود ہو گا.گویا کوئی کتاب ایسی نہیں ہوسکتی جو قرآن کا مقابلہ کر سکے.کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی ہے جو روحانی امو رکے متعلق ایسا عظیم الشان دعویٰ پیش کر سکتی ہو؟
۱۵۰ فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار کلام الٰہی کے بغیر نہیں ہو سکتا اب ایک اور سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر روح کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کو کس طرح سمجھ سکتی ہے.یہ بات ایک اور آیت سے حل ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے روحانی طاقتوں کو فطرت انسانی سے بھی وابستہ قرار دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ روح میں بھی کلام الٰہی موجود ہوتا ہے مگر مخفی طور پر.اور وہ اپنے ظہور کے لئے بیرونی کلام الٰہی کا محتاج ہو تا ہے.پس تھوڑا علم ہو نے کا یہ مطلب نہیں کہ فطرت انسانی کو روحانی طاقتوں سے لگاؤ نہیں.لگاؤ ہے مگر ان طاقتوں کا ظہور سوائے کلام الٰہی کے نہیں ہو سکتا.چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّہ‘لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ.فِیْ کِتَابٍ مَکْنُوْنٍ۴۹یعنی قرآن کریم میں جو تعلیمات ہیں وہ فطرت انسانی میں جو مظہر ِروح ہیں موجود ہیں.کیونکہ انسان اسی شے سے فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اس کے اندر بھی موجود ہو.غیر جنس اسے نفع نہیں دے سکتی.جیسے اگر کان نہ ہوتو سننا ناممکن ہے اور آنکھیں نہ ہوں تو دیکھنا ناممکن ہے.یا اس کی مثال پانی کی سی ہے کہ جب اوپر سے پانی برستا ہے تو چشمے بھی جاری ہو جاتے ہیں اوراگر آسمان سے پانی نہ برسے تو چشمے بھی خشک ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی وحی کا پانی نازل ہوتا ہے تو روح انسانی سے بھی روحانی پانی ابلنے لگتا ہے.کیونکہ الٰہی کلام اور انسانی فطرت ایک دوسرے کے لئے بطور جوڑے کے ہیں.ایک لفظوں میں کتاب الٰہی ہو تی ہے اور دوسری فطرت میں مرکوزہو تی ہے.اور وہی کتاب الہامی ہو سکتی ہے.جو انسانی فطرت کے مطابق ہو پس انسانی فطرت میں بھی کلام الٰہی ہو تا ہے مگر اسے ابھارنے کے لئے الہام کی ضرورت ہو تی ہے خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے کلام کا ایک حصّہ انسان کے دماغ میں رکھ دیا اور دوسرا حصہ اس نے اپنے نبی کو دے کر بھیج دیا.جب یہ دونوں حصّے ایک دوسرے کے ساتھ جڑجاتے ہیں تو اسے خدا کی طرف سے سمجھ لیا جاتا ہے.سفرِ ولایت کے ایام کا ایک واقعہ اس موقع پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں.جب میں ولایت سے واپس آیا تو جس جہاز پر ہم سوار ہوئے اس کا چیف انجینئرایک دن جہاز کی مشینری دکھانے کے لئے مجھے لے گیا.اور دکھانے کے بعد کہنے لگا کہ آپ اپنے سیکرٹریوں کو واپس بھیج دیں.میں آپ کے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا
۱۵۱ ہوں.میں نے کہا بہت اچھا.میں نے ساتھیوں کو بھیج دیا.جب وہ چلے گئے تو کہنے لگا.آپ کے پاس مختلف ممالک کے خطوط آتے ہونگے.اگر آپ مجھے ان خطوط کے ٹکٹ بھجوا دیا کریں تو میں بہت ممنون ہونگا.میں نے کہا اچھا اگر کوئی غیر معمولی ٹکٹ ملا تو بھیج دیا کروں گا.کہنے لگا میں بھی آپ کی خدمت کروں گا.آپ مجھ پر اعتبار کریں اور مجھ سے کام لیں.پھر کہنے لگا.آپ جس غرض کے لئے ولایت گئے تھے وہ مجھے معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ نے حکومت کے خلاف وہاں مشنر ی رکھے ہوئے ہیں انہیں آپ مخفی ہدایات دینے گئے تھے.اب آپ جو مخفی تحریریں بھیجنا چا ہیں وہ میں لے جایا کروں گا.آپ اس طرح کریں کے کارڈ کا ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنریوں کو دیں اور دوسرا میرے ذریعہ بھیجیں.جب دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ فِٹ (FIT)ہو جایا کریں گے تو آپ کے مشنری سمجھ لیں گے کہ آپ نے جو ہدایات ان کو بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں.اس طرح وہ آپ کی ہدایت پہچان لیا کریں گے.اس کا یہ قیاس تو غلط تھا اور میں نے اس کی تردید بھی کی اور کہا کہ ہم اپنی حکومت کے وفادار ہیں.مگر جس طرح اس نے کہا تھا کہ ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنری کودے دیں اور دوسرا ٹکڑا مجھے بھجوا دیں جب وہ دونوں ٹکڑے مل جائیں گے تو مشنری سمجھ لے گا کہ آپ نے جو ہدایت بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں.یہی حالت انسان کی روحانیت کے متعلق ہو تی ہے.ایک ٹکڑ ا کلام الٰہی کا انسان کے دماغ میں ہو تا ہے اور دوسرا ٹکڑا نبی کے پاس ہوتا ہے.جب وہ دونوں فِٹ ہو جاتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر فِٹ نہ ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایساکلام پیش کرنے والا دھوکہ باز ہے.کتابِ مبین اور کتاب ِمکنون کا اتحاد غرض روحانی ترقیات کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہی تعلیم نازل ہو جو روحانی قابلیتوں کے مشابہ ہو.پس اس طرح ایک رنگ میں کلام الٰہی انسانی دماغ میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن وہ مخفی ہو تا ہے اور اس کا ابھارنا ایک کتاب واضح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کا نام اسی جہت سے کتاب مبین آیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌوَّکِتَابٌ مُبِیْنٌ.۵۰ اے لوگو تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آچکی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.پس روحانی قابلیتیں بمنزلہ زمین کے پانی کے ہیں جو آسمانی پانی کے قرب کے ساتھ اونچا
۱۵۲ ہو تا ہے.اور جس طرح بارش نہ ہو نے پر کنوؤں کے پانی سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح الہام کے نازل نہ ہونے پر فطرت کا سر چشمہ خشک ہو نے لگتا ہے.پس باوجود اس کے کہ فطرت میں کلام مخفی طور پر موجود ہے وہ آسمانی پانی کی عدم موجود گی میں گدلا اور خراب ہو جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہو سکتا.ہاں جب آسمانی پانی نازل ہو تو دونوں ایک دوسرے پر گواہ ہو تے ہیں.آسمانی پانی فطرت کے پانی کی صفائی کی گواہی دیتا ہے اور فطرت کا پانی آسمانی پانی کی صفائی پرگواہی دیتا ہے.گویا وہ ایک چیز کے دو ٹکڑے ہیں کہ دونوں مل کر ایک وجود پوراہوتا ہے.اور اﷲ تعالیٰ نے ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں اس لئے رکھا ہے کہ جب آسمانی پانی نازل ہو تو فطرت صحیحہ اس کے لئے بطور شاہد ہو.پس کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد کتاب مبین اور کتاب مکنون دونوں کی سچائی پر شاہد ہو تا ہے.اور دھوکے بازوں کے دھوکہ سے بچا تا ہے اور ان میں آپس میں ایسا ربط ہے کہ جب ایک قریب ہو تو دوسری خود بخود قریب ہو نے لگتی ہے.الہام ہو تو فطرت ابھرنے لگتی ہے جیسا کہ سورۃ انعام میں بطور کلام الٰہی کی تمثیل کے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.وَھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ۵۱ یعنی الٰہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے جس طرح پانی نازل ہو نے سے سبزیاں اگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الٰہی کے نازل ہو نے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں ابھار شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں اسی طرح فطرت کے ابھرنے سے بھی کلام الٰہیہ کھنچ آتا ہے.جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اللّٰہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہٖ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْء ُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہٗ نَارٌ نُورٌ عَلَی نُورٍ یَہْدِیْ اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَن یَشَآء ُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ اس میں بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌاس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں لیمپ ہو اورلیمپ چمکدار گلوب میں ہو جو ستارہ کی طرح چمکے.جس کی وجہ سے اس کی روشنی کا فوکس فائدہ اٹھانے والوں پر پڑ رہا ہو.یُوقَدُ مِن شَجَرَۃٍ
۱۵۳ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنِۃٍاور اس میں اعلیٰ درجہ کا مصفّٰی تیل زیتون کے مبارک شجر کا ہو.لَا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍاور وہ شجر ایسا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی.یَکَادُ زَیْتُھا یُضِیْء ُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہٗ نَارٌایسا تیل اپنی اعلیٰ درجہ کی صفائی کی وجہ سے قریب ہو کہ بغیر آگ کے آپ ہی آپ روشن ہو جائے.نُورٌ عَلٰی نُورٍاس لئے کہ جب اس تیل یعنی فطرت صحیحہ میں ایسی جلا پیدا ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ کا نور جو اس فطرتی نور کو روشن کر دینے کی وجہ سے نار سے مشابہ بھی ہے نازل ہو جاتا ہے اور آسمانی نور زمینی نور سے آکر مل جاتا ہے.اب دیکھو اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے کس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ فطرت کا نور جب کامل جلا پا جائے اور ایسا مصفّٰی ہو جائے کہ گویا خود ہی جل اٹھنے والا ہو تو اس وقت وہ آسمانی نور کو جذب کر لیتا ہے یعنی مورد الہام ہو جاتا ہے.پس یہ کہنا کہ کامل اور مصفّٰی دماغ آپ ہی تعلیم کو معلوم کرے گا درست نہیں.اگر وہ کامل ہے تو الہام خود بخود اس پر نازل ہو گا.اور اگر وہ ناقص ہے تو پھر تعلیم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.غرض اس آیت میں روحانی طاقتوں اور ان کے ارتقاء کے مسئلہ پر سیر کن بحث کی گئی ہے.جس پر عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں.اور یہ بحث دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں مل سکتی.ٍ آگے بتایا کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے.فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَن تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰ صَالِ۵۲ یہ نور ایسے گھروں میں ہے جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ یہ ہو چکا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے گا اورحکومت دی جائے گی.گو یا نور سے مراد محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا کا بادشاہ بنا دیا جائے گا.پس بے شک انسانی فطرت میں بھی نور ہے اور وہ خدا کے نور کے مشابہ ہے مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک فطرت جلا پا جائے یعنی اس قدر مکمل ہو جائے کہ الہام پانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے تو آسمان سے الہام اس پر نازل ہو تا ہے گویا انسانی فطرت صحیحہ الہام کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی.جب فطرت کامل ہو جائے تو ضرور ہے کہ الہام نازل ہو.لیکن اگر الہام نازل نہیں ہو تا تو فطرت کامل نہیں ہو گی.پس بغیر الہام الٰہی کے کام نہیں کیا جا سکتا.
۱۵۴ روحانی طاقتوں کی تکمیل کے لئے کامل تعلیم (۳)تیسری چیز جس کا بیان کرنا ایک مذہب کے لئے نہایت ضروری ہے.وہ ان امور کا بیان کرنا ہے جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور ان کی امداد کے لئے ضروری ہے.یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس میں شریعت کے تمام احکام آ سکتے ہیں.اور مذہب کے تمام اصول اور جزئیات پر بھی اس میں بحث ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی غرض یہی ہو تی ہے کہ روحانی طاقتوں کا ارتقاء ہو.لیکن چونکہ اس لیکچر کے یہ مناسب حال نہیں اس لئے میں اختصار اً اس کے متعلق صرف ایک ریویو کر دیتا ہوں کہ اسلام چونکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ (۱)روح انسانی جسمانی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہو تی ہے اور اس وجہ سےوہ جسمانی تغیرات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتی.جیسے فرمایا.یَا أَیُّھا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً ۵۳ اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤاور مناسب حال اعمال بجا لاؤ.یعنی طیبات کے کھانے سے نیک اعمال کی توفیق عطاہو تی ہے اس لئے وہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کو ایک حد تک انسان کی غذاؤں اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں اور اس کی قوت حاسّہ پر بھی حد بندی کرنی چا ہئے تاکہ معدہ اور حواس کے ذریعہ دماغ اور دل پر بد اثر ات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ نہ ہو اور اس نے اس کے متعلق دو اصول مقرر کئے ہیں.اوّل ضروری اور اصولی امور اس نے خود بتا دیئے ہیں اور ہر مسئلہ کے متعلق تفصیلی احکام دیئے ہیں مگر باوجود اس کے (۲)اس نے تسلیم کیا ہے کہ بعض امور میں انسان کی بدلنے والی ضرورتیں یا مختلف ممالک کے لوگوں کے لئے بدلتے رہنے والے قوانین کی بھی ضرورت ہو گی.کیونکہ زمانہ کے تغیرات کے لحاظ سے ایسی ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں جن کے متعلق اپنے طور پر قوانین بنانے پڑیں.چنانچہ اس کے لئے وہ یہ قاعدہ مقرر فرماتا ہے کہ یَا أَیُّھا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَآءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوْا عَنْھا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنھا وَاللّٰہُ غَفُورٌ حَلِیْمٌ۵۴فرمایا.اے مومنو! تم آپ ہی آپ یہ سوال نہ کیا کرو کہ ہم فلاں کام کس طرح کریں اور فلاں کس طرح.کیونکہ بعض باتیں اﷲ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اس حکمت کے ماتحت چھوڑ دی ہیں کہ اگر انہیں بیان کر دیا جائے تو وہ تمہارے لئے دائمی طور پر مقرر ہو جائیں گی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ ان میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہے گی.پس دوسرا اصل قرآن کریم نے یہ بتایا کہ کامل تعلیم کے
۱۵۵ بعد بھی بعض ہدایتوں میں وقتی طور پر تغیر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے.ان کو قرآن نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے اور فیصلہ کرنے کا یہ طریق بتا دیا ہے کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ۵۵ یعنی مومنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ قومی معاملات کو باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں پس اسلام میں یہ نہیں کہ ہر فرد اپنی اپنی رائے پر چلے بلکہ مشورہ کرنے کے بعد جو بات طے ہو اس پر چلنا چا ہئے.مگر باوجود ان باتوں کے چونکہ انسان پھر بھی غلطی کر سکتا تھا اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے بعض غیبی سامان بھی مہیا کئے ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ ا س نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ انسان کو نیکی کے رستے پر چلاتے رہیں چنانچہ اﷲ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَہٗ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہٖ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُوْنَہ‘ مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ۵۶یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی ملائکہ کی ایک جماعت ہے جو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کر رہی ہے.غرض اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے شریعت نازل کی اور اسے تفصیلی ہدایات دیں.مگر پھر بھی انسان چونکہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی حفاظت پر ملائکہ لگا دئیے گئے ملائکہ کے ایسے اعمال کے متعلق باقی کتب خاموش ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ باقی کتب نے ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کی ہی نہیں.بلکہ ایسے رنگ میں بحث کی ہے کہ ایک طبقہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے لگ گیا.دنیا اس امر پر ہنستی ہے مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں سے ایک احسان ملائکہ کا وجود ہے مگریہ موقع اس پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے.روحانی نتائج کا ظہار (۳)تیسرا اصل یہ بتایا کہ چونکہ انسان اگر ایک ہی رنگ میں کام کرتا چلاجائے اور ا سکے نتائج نہ دیکھے تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے.اس لئے نتائج کے اظہار کا بھی کوئی طریق ہو نا چا ہئے.سکولوں میں طلباء کا امتحان لینے کا یہی مطلب ہو تا ہے کہ نتائج دیکھ کر ان کی ہمت بڑھے اور وہ تعلیم میں ترقی کریں.اسی رنگ میں اﷲ تعالیٰ نے روحانی نتائج کے اظہار کے لئے بھی ایک طریقہ بیان فرما دیا.چنانچہ فرمایا اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۵۷ تم مجھے ساتھ کے ساتھ بلاؤ میں تمہاری پکار سنوں گا.غیر مذاہب کا بے اصولاپن اب یہ تینوں باتیں اسلام کے سوادوسرے مذاہب میں بھی ملیں گی تو سہی مگر بے اصولے طور پر.مثلاً(۱) وہ مذاہب جو احکام دیتے ہیں ان کی حکمت نہیں بتاتے.(۲) احکام تو دیتے ہیں مگر ایسے کے جو انسانی حُریّت کو
۱۵۶ کچلنے والے ہیں.(۳)دوسری کتابیں بعض احکام تو بیان کرتی ہیں لیکن بے جوڑ.یعنی وہ نہ تو یہ بتاتی ہیں کہ جو احکام وہ بیان کرتی ہیں انہیں کیوں بیان کرتی ہیں اور نہ یہ بتاتی ہیں کہ جن کو نہیں بیان کرتیں انہیں کیوں چھوڑتی ہیں.دانستہ چھوڑا گیا ہے یا نادانستہ.جیسے وید ہیں کہ بڑے بڑے اہم امور کے متعلق کچھ بیان نہیں.حتیٰ کے قصاص اور عفو اور محرمات تک کے متعلق بھی کوئی حکم نہیں.انجیل نے تو غضب کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شریعت کو لعنت قرار دیتی ہے اور دوسری طرف احکام بھی دیتی ہے.حالانکہ اگر یہ درست ہے کہ شریعت لعنت ہے تو چاہئے تھا کہ انجیل میں کوئی بھی حکم نہ ہو تا.مگر حکم ہیں.جیسا کہ متی باب ۵ آیت ۳۲میں آتا ہے :.’’ پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے.وہ اس سے زنا کراتا ہے.اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے.‘‘۵۸ اگر شریعت لعنت ہے تو معلوم نہیں اس لعنت سے لوگوں کو کیوں حصہ دیا گیا ہے اور اگر کہو کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے تو باقی ضروری باتیں کیوں چھوڑ دی گئیں.وہ بھی بتا دی جاتیں.غرض ان مذاہب نے ایک بے جوڑ سی بات کردی ہے.کہیں کوئی بات چھوڑ دی اور یہ نہ بتایا کہ جن احکام پر خاموشی اختیار کی ہے ان پر خاموشی کیوں اختیار کی ہے.اور کہیں بیان کر دی اور اس کی حکمت نہ بتائی.مگر قرآن اصولی بات کہتا ہے.جو حکم دیتا ہے اس کی حکمت بتاتا ہے اور جن احکام کو اس نے چھوڑا ہے ان کی وجہ بھی بیان کر دی ہے مگر دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.ویدوں میں بہن بھائی کی شادی کی کہیں ممانعت نہیں ہے.لیکن ویدوں کے ماننے والے اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.قرآنی تعلیم کے مکمل ہو نے کا ایک واضح ثبوت میں ان روحانی ہدایت ناموں کی پرکھ کے متعلق ایک موٹا نسخہ بتاتا ہوں.ہر ایک کتاب جو قرآن کریم کے سواہے اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ ضرور ایسے مسائل نکلیں گے کہ جن پر عمل کرنے کو اخلاقی برائی سمجھا جائے گا.لیکن ان کی ممانعت اس کتاب میں نہیں ملے گی.اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی امر ایسا نہیں جس پر عمل اخلاقی برائی سمجھا جائے اوراس سے اسلام نے نہ روکا ہو.یا اس کے متعلق خاص
۱۵۷ طریق عمل کا ارشاد نہ کیا ہو.یہ مختصر گُر اس کی تعلیم کے مکمل ہو نے کا ایک اہم ثبوت ہے.عالم ِمعاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (۴) چوتھا امر جس کے متعلق ہدایت دینا مذہب کا اہم فرض ہے وہ معاد کے متعلق ہے یعنی وہ بتائے کہ مرنے کے بعد انسان کی کیا حالت ہو گی ؟اسلام اس بارہ میں مفصّل بحث کرتا ہے.جسے اس موقع پر تفصیلاً تو بیان نہیں کیا جا سکتا.لیکن دو آیتیں اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ۵۹یعنی کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری پیدائش عبث اور فضول ہے اور تم لوٹ کر ہمارے طرف نہیں آؤ گے.یہ آیت زمین اور آسمان کی پیدائش اور احیاء اور اماتت اور اﷲ تعالیٰ کی مالکیت کے ذکر کے بعد آئی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان میں ہم نے کتنی طاقتیں رکھی ہیں.کس طرح زمین اور آسمانوں کو اس کے لئے مسخر کیا.اس کے لئے چاند اورسورج پیدا کئے ان کے اثرات رکھے.پھر انسان کے اندر قابلیتیں ودیعت کیں.کیا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور مر کر ختم ہو جائے،یہ کبھی نہیں ہو سکتا.انسان کے لئے بہر حال ایک اور زندگی ہو نی چا ہئے جس میں وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہو اور جو ا سکی پیدائش کی غرض کو تکمیل تک پہنچانے والی ہو.پھر سورۃ قیامہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ.وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ.أَیَحْسَبُ الْاِ نْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہٗ ۶۰ یعنی میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو نے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں.اس پر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی دلیل دینی تھی اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.مگر ذرا آگے پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے.اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے.کیونکہ نبی کی بعثت بھی ایک قیامت ہو تی ہے.چنانچہ اﷲ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے.یَسْأَلُ أَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ.وَخَسَفَ الْقَمَرُ.وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ.یَقُوْلُ الْإِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ أَیْنَ الْمَفَرُّ ۶۱ یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہو گا ان سے کہہ دو کہ یہ وہ زمانہ ہو گا جب نظر پتھر ا جائے گی یعنی نئے نئے علوم نکلیں گے.اور انسان حیران رہ جائیں گے وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَر ُاور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.اس وقت انسان کہے گا کہ اب میں بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں.یہاں قیامت سے مراد
۱۵۸ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اسے قیامت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.اور بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی تباہی اور بربادی انتہا کو پہنچ چکی ہو گی اس وقت خدا تعالیٰ پھر ان کو دوبارہ زندہ کرے گا.یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہو نے کے بعد پھر ترقی کریں گے اور ا س بات کا پورا ہونا بتا دے گا کہ قرآن ایسے منبع سے نکلا ہے جہاں سے کوئی بات غلط نہیں نکلتی.جب یہ بات پوری ہو جائے گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد کے متعلق بھی قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ بھی ضرور پورا ہو گا.دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ انسان کے اندر جو نفسِ لوّامہ رکھا گیا ہے وہ بھی قیامت کا ثبوت ہے.انسان جب کوئی گناہ کی بات کرتا ہے تو اس پر اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے.ایک چھوٹا بچہ بھی جب جھوٹ بو ل رہا ہوتا ہے تو سمٹتا اور سکڑتا جاتا ہے کیونکہ نفس لوامہ جو ا س کے اندر موجود ہے وہ اسے شرم دلا رہا ہو تا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی نفس لوّامہ جس کے نتیجہ میں انسان محسوس کرتا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور بد اخلاقی کیا ہے.گناہ کیا ہے اور ثواب کیا ہے.اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے ورنہ اس کے اندر ندامت کا یہ احساس کیوں پیدا ہو تا.اس طرح قرآن کریم عذاب اور انعام کی تمام تفصیلات بتاتا ہے اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے اور سزااور اس کی غرض اور انعام اور اس کا مقصد اور طریقِ سزااور طریقِ انعام غرض ہر ایک پہلو پر مفصل روشنی ڈالتا ہے جس کی مثال دوسری کتب میں بالکل نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو ناقص طور پر.پس ضرورت مذہب کے بیان کرنے میں بھی اسلام دوسرے مذاہب سے افضل ہے.خدا تعالیٰ سے اتّصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب (۵)اب میں پانچویں بات بیان کرتا ہوں کہ جو ضرورتیں کوئی مذہب پیش کرے اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پورا بھی کرے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب پوری نہیں اترتی.صرف قرآن کریم ہی ہے جو اس امر کا مدعی ہے کہ جب تک کوئی مذہب خدا تعالیٰ سے اتّصال پیدا نہیں کرا تا اور روحانی طاقتوں کو مکمل نہیں کراتا اور اخروی بھلائی کی ضمانت اسے نہیں دیتا اس کی خالی تعلیم ا سے نفع نہیں پہنچا سکتی.
۱۵۹ چنانچہ وہ اس دنیا سے آواز دیتا ہے کہ مَنْ کَانَ فِیْ ھذِہٖ أَعْمٰی فَھوَ فِی الْآخِرَۃِ أَعْمٰی وَأَضَلُّ سَبِیْلًا ۶۲یعنی یہ یاد رکھو کہ نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا کو پا لے کیونکہ مذہب کا مدعا یہ ہے کہ انسان خدا کو دیکھ لے.اور اگر اس دنیا میں خدا کسی کو نظر نہیں آتا تو اگلی دنیا میں بھی نظر نہیں آئے گا.خدا کو دیکھنے کی اس دنیا میں بھی ضرورت ہے.اگر ایک انسان سب عبادات بجا لاتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا تو صاف معلوم ہوا کہ عبادت کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا.اور جو شخص اس دنیا میں خدا کو دیکھنے سے اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور اسے وہاں بھی خدا نظر نہیں آئے گا.أَضَلُّ سَبِیْلًاکہ معنی یہ ہیں کہ اگلے جہان میں اس کی نا بینائی اور بھی بھیانک ہوگی کیونکہ وہاں توبہ کا کوئی موقع نہ ہوگا.آخرت سے آواز پھر وہ آخرت سے آواز دیتا ہے کہ یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُورُھمْ بَیْنَ أَیْدِیْھمْ وَبِأَیْمَانِھمْ بُشْرٰلکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِھا الْأَنْھارُ خٰلِدِیْنَ فِیْھا ذٰلِکَ ھوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَھمْ بِسُوْرٍ لَّہُ بَابٌ بَاطِنُہ‘ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھرُہ‘ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ ۶۳یعنی اس روز تو مومن مردوں اورمومن عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے بھی اور ان کے دائیں طرف بھی بھاگتا جائے گا.اس میں بتایا کہ اگلے جہان کی ترقیات بہت جلدی جلدی ہونگی نور تیز تبھی ہو گا جب کہ ساتھ چلنے والے بھی تیز ہونگے.وہ نور بَیْنَ أَیْدِیْھمْ وَبِأَیْمَانِھمْ رہے گایعنی ان کے دائیں بائیں بھی نور ہو گا اور آگے بھی.گویا اس میں ترقیات کی رفتار کی تیزی اور اس تیزی میں مومنوں کے ہم قدم رہنے کی طرف اشارہ ہے.بُشْرٰلکُمُ الْیَوْمَ خدا تعالیٰ کے فرشتے انہیں کہیں گے کہ آج تمہارے لئے بشارت ہے.جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِھا الْأَنْھارُ خٰلِدِیْنَ فِیْھا ان جنات اور قسم قسم کے باغوں کی جن میں نہریں بہہ رہی ہیں.یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ تم تو دوڑے جارہے ہو ذرا ہمارا بھی انتظار کرو.ہم بھی تم سے نور لے لیں.
۱۶۰ اس وقت ان سے کہا جائے گا تمہیں یہاں سے نور نہیں مل سکتا.اگر طاقت ہے تو تم پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ.اور وہیں جاؤ جہاں سے تم آئے ہو.اور وہاں جا کر نور کی تلاش کرو.اس میں بتایاکہ وہ نور جو اگلے جہان میں کام آئے گا اسی دنیا میں ملتا ہے.وہاں جانے کے بعد نہیں ملے گا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نیکیاں کرے تب اگلے جہان میں کامیاب ہو سکتا ہے.مگر دیکھو رحمت الٰہی بھی کس قدر وسیع ہے.کہا جا سکتا تھا کہ جب دنیامیں کسی کو نور نہیں ملا تو کیا پھر اسے کبھی نور نہ مل سکے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اگر اسے نور مل سکتا ہے جس کی طرف فَالْتَمِسُوْا نُوْرًامیں ایک مخفی اشارہ ہے تو کیسے.اس کے متعلق فرمایا.فَضُرِبَ بَیْنَھمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ.منافقوں اور مومنوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی اور اس میں ایک دروازہ رکھا جائے گا.یہ تو صاف بات ہے کہ جنت والے تو جنت سے باہر نہیں جائیں گئے اس لئے یقینایہ دروازہ اسی لئے رکھا جائے گا کہ باہر والے اندر آجائیں.پس بتایا کہ گو نور اسی دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے لیکن جو اس سے محروم رہیں گے انہیں بعض حالتوں میں سے گذارنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا.اور وہ اس دروازہ میں سے گذر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے.بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھرُہٗ مِن قِبَلِہِ الْعَذَابُمیں بھی اس طرف اشارہ ہے کے جنتی حواس اور قوتوں سے ہی دوزخ پیدا ہو تی ہے.یعنی حواس حقیقی تو نیک ہی ہیں لیکن ان کے غلط استعمال سے دوزخ پیدا ہو تی ہے.غرض اس دعویٰ میں بھی قرآن کریم کے ساتھ اور کوئی کتاب شریک نہیں ہے.ایفائے وعدہ کا ثبوت اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جوکچھ بیان ہوا یہ تو دعویٰ ہے.کیا ایفائے وعدہ بھی ہو گا سو اس کے متعلق فرمایا.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہ کَذِبًا أَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَ ہٗ أَلَیْسَ فِیْ جَھنَّمَ مَثْوًی لِّلْکَافِرِیْنَ.وَالَّذِیْنَ جَاھدُوْا فِیْنَا لَنَھدِیَنَّھمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۶۴یعنی اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرے.یا اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اس سچائی کا انکار کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس آئے.کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم نہیں ہونی چاہئے؟ہاں وہ جو ہماری تعلیم قرآن کے مطابق ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قسم کھا
۱۶۱ کر کہتے ہیں کہ انہیں ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ محسنوں کا ساتھ دیتا ہے.اس آیت میں بتایا کہ ایسے لوگ جتنا ہماری طرف چل کر آ سکیں گے اتنا اگر چلیں گے.تو جب ان کے پیر چلنے سے رہ جائیں گے ہم خود جا کر انہیں لے آئیں گے.کیونکہ ہمارا یہ طریق ہے کہ کچھ بندہ آتا ہے اور کچھ ہم اس کی طرف جاتے ہیں.یہاں وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا الخمیں یہ بتایا کہ قرآن خدا پر افتراء نہیں اگر یہ جھوٹ ہوتا تو اس کے بنانے والا عذاب میں مبتلاء کیا جاتا.پھر وَالَّذِیْنَ جَاھدُوْا فِیْنَا لَنَھدِیَنَّھمْ سُبُلَنَا میں یہ بتایا کہ جھوٹ کوئی اس وقت بولتا ہے جب سچائی سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے.لیکن جب ہم نے کلام نازل ہو نے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہم نے کہہ دیا ہے کہ محسن بن جاؤ تو اﷲ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے تو کیوں سچی کوشش کر کے سچا کلام حاصل نہ کیا جائے.جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے.رضائے الٰہی حاصل کرنے والا کامیاب گروہ اس آیت کے متعلق یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کریں گے.سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ایسا کیا بھی ہے یا نہیں؟ سو اگرچہ اس سوال کا جواب اسی آیت میں آجاتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ سے اتّصال اس کاہوگا جو مناسب روحانی تکمیل حاصل کر چکا ہو اور وہ جنت بھی پائے گا.لیکن علیحدہ علیحدہ بھی ان باتوں کا اﷲ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے کامل تعلق رکھنے والے آخر قرآن پر چل کر اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے جنت پا لی.چنانچہ فرماتا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھدُوا اللّٰہَ عَلَیْہٖ فَمِنْھمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھمْ مَّنْ یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً.لِیَجْزِیَ اللّٰہُ الصَّادِقِیْنَ بِصِدْقِھمْ وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِیْنَ إِنْ شَآءَ أَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً ۶۵فرمایا.ان مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے انہوں نے پورا کر دیا.فَمِنْھمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ‘ وَمِنھمْ مَّنْ یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً.ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا اور وہ خدا سے مل گئے.نَحَبْ کے معنی نذر اور مَااَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہٖ کے بھی ہوتے ہیں پس اس سے مراد وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ
۱۶۲ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۶۶ کے عہد کو پورا کرنے کے ہیں.لیکن فرماتا ہے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی اس خلش میں لگے ہوئے ہیں کہ خدا سے مل جائیں.انہوں نے اپنی طرف سے جدو جہد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی.سو خدا ایسے صادقوں کو بھی ان کے صدق کا ضرور بدلہ دے گا.اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن نے یہ امر تسلیم کیا ہے کہ محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قرآن پر چل کر خدا کو مل گئے.ملائکہ سے مومنوں کا تعلق پھر ملائکہ چونکہ اخلاق فاضلہ کی محرک ہستیاں ہیں.اس لئے مزید ثبوت کے لئے فرمایا کہ ان کی روحانی درستی کی علامتیں بھی ظاہر ہو نے لگتی ہیں اور روحانی تکمیل کے مؤکّل ان سے ملنے لگتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھمُ الْمَلَآئِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوعَدُوْنَ.نَحْنُ أَوْلِیَآؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھا مَا تَشْتَھیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھا مَا تَدَّعُوْنَ.نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۶۷ یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں اﷲ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں یعنی اپنے ایمان سے اس کاثبوت دیتے ہیں.ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی غلطی کا غم کرو.تمہیں جنت کی بشارت ہو.تم خدا سے جا ملو گے اور وہاں تمہیں وہ چیز مل جائے گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مدد گار ہوں گے اور تم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں جو کچھ چاہوگے اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں مل جائے گا.اس میں بتایا کہ تمہاری قلبی اصلاح بھی ہو جائیگی اور عملی بھی.جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعض صحابہ ؓ کے متعلق فرمایا کہ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ ۶۸ تم جو چا ہو کرو.یعنی اب تم بدی کر ہی نہیں سکتے.اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ وَلَکُمْ فِیْھا مَا تَشْتَھیْ أَنفُسُکُمْ تمہارے نفس ایسے پاکیزہ ہو گئے ہیں کہ اب جو کچھ تم چاہو گے پاک چیز ہی چا ہو گے.یعنی تمہارے دل میں نیک تحریکیں ہی ہو نگی بری نہیں ہو نگی.اور ہمیشہ پاک چیزیں ہی مانگو گے بری نہیں مانگو گے.اب سوال ہو تا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے زمانہ پر ہی ختم ہو گیا یا آگے بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا.سو اس کا جواب بھی قرآ ن کریم میں موجود ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.
۱۶۳ ھوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھمْ یَتْلُوْ عَلَیْھمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھمْ وَیُعَلِّمُھمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ.وَآخَرِیْنَ مِنْھمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھمْ وَھوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.یعنی وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سناتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتا ب اور حکمت سکھاتا ہے گوہ وہ اس سے پہلے بڑی بھاری گمراہی میں مبتلاء تھے.اسی طرح ان لوگوں کے سوا اﷲ تعالیٰ ایک دوسری قوم میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو ابھی تک ا ن سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہ آیت بتاتی ہے کہ جو کچھ اس رسول کے زمانہ میں ہوا وہی ا س زمانہ میں بھی ہو گا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا بند نہ ہو گا.فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضیلت (۴)فضیلت کی ایک اور وجہ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے ہو تی ہے.یعنی گو فائدہ تو اور چیزوں میں بھی ہو تا ہے مگر جس چیز کا فائدہ اپنی شدت میں بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے.قرآن کریم کے متعلق جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اس بارے میں فضیلت حاصل ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِھدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ.صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمْتَ عَلَیْھمْ.۶۹یعنی اے مسلمانو!تم ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اﷲ ! ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور اس رستہ پر چلا جس پر چل کر پہلے لوگوں نے تیرے انعامات حاصل کئے.گویا جس قدر انعامات تو نے پہلے لوگوں پر کئے ہیں وہ سب کے سب ہم پر بھی کر.اور پہلے لوگوں کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ أُوْلَئِکَ ھمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھدَآءُ عِنْدَ رَبِّھمْ ۷۰یعنی وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.اس آیت میں بتایا کہ تمام امتوں میں شہداء اور صدیقوں کا دروازہ کھلا تھا.مگر جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکرکیا وہاں فرمایا وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٓـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٓـئِکَ رَفِیْقًا۷۱یعنی وہ لوگ جو اﷲ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگو ں میں شامل ہو نگے جن پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں.گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو
۱۶۴ صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہو سکتا ہے.حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا س بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے.انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں مَعَ الَّذِیْنَ آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اﷲ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہو گی.اس کا ایک جواب تویہ ہے کہ اگر نبی بننے کی نفی کی جائے گی تو اس کے ساتھ ہی صدیق ، شہید اور صالح بننے کی نفی بھی کر نے پڑے گی.اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باﷲ امت محمدیہؐ میں اب کوئی صدیق ، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا.لیکن اگر صالحیت ، شہادت او ر صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے.لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہو تا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مَعَ کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی.جیسا کہ دوسری جگہ مَعَ الَّذِیْنَ نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہو نگے.اسی طرح یہاں بھی کہا جا سکتا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مَعَرکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہو نگے بلکہ سب امتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آ جائیں گی.صرف شہید ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہو نگے.صرف صالح ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہو نگے.اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہو گا.پس مَعَ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلمکی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹایا نہیں.اور بتایا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت سے جو مرتبہ حاصل ہو تاہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے.ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام (۵) ایک اور وجہ فضیلت یہ ہو تی ہے کہ جو چیز پیش کی جائے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو.قرآن کریم کی فضلیت اس لحاظ سے بھی ثابت ہو تی ہے.قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کے متعلق لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے.آج میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اپنے مطالب کے
۱۶۵ لحاظ سے کیسی ضروری اور اہم ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں باقی سب میں ملاوٹ ہے.تورات کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا کا ہے بلکہ اس میں ایک جگہ تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’ خدا وند کا بندا موسیٰ خدا وند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا.اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا.پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.‘‘۷۳ اسی طرح انجیل کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.پس موٹی اور واضح ضرورت اس آیت کی یہی ہے کہ اس میں دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ باقی کتابوں میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں.ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ تو قرآن کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے جو اس وقت کیا گیا جب قرآن نازل ہوا.اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ بعد میں بھی اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکی.سو اس کے متعلق فرماتا ہے.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ ۷۴ہم نے ہی اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.گویا آئندہ کے متعلق بھی ہم اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ کوئی شخص اس میں تغیر و تبدل نہیں کر سکے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا.ربوبیت عالمین کا بلند تصور (۶) فضلیت کی چھٹی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ہو کیونکہ اپنی چیز ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے پیاری لگتی اور افضل نظر آتی ہے.قرآن کریم کو جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی چیز نظر آتا ہے.مثلاً قرآن کریم نے رب العٰلمین کا خیال لوگوں میں پیدا کیا اور اس طرح قومی خداؤں کا تصور باطل کیا.بائیبل پڑھ کر دیکھو تو اس میں اس طرح ذکر آتا ہے بنی اسرائیل کا خدا.تیری قوم کا خدا.فلاں قوم کا خدا.ویدوں کو پڑھ کر دیکھو تو برہمنوں کا خدا الگ معلوم ہوتا ہے اور دوسروں کا الگ.مگر قرآن کی ابتداء ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ
۱۶۶ رَبِّ الْعَالَمِیْن َسے ہوتی ہے.اس طرح دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری دنیا کے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو اپنی طرف بلاتی ہے غرض اسلام نے سب لوگوں کو جو علیحدہ علیحدہ تھے ماں کی طرح اکٹھا کیا اور کہہ دیا کہ ایک خد اکے پاس آجاؤ.پہلے لوگوں میں شرک پیدا ہو نے کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ الگ الگ خدا سمجھتے تھے.ہندو کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے.یہود کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے.پارسی کہتے تھے ہمارا خدا ایساہے.پھر بعض لوگوں نے کہا کہ چلو سب کے خداؤں کو پوجو تاکہ سب سے فائدہ حاصل ہو.اس طرح شرک پیدا ہو گیا مگر اسلام نے بتایا کہ مومن اور کافر سب کا خدا ایک ہی ہے.اور اسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے.چنانچہ فرماتا ہے یُوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یعنی اسلام کا چراغ ایک ایسے برکت والے تیل سے جلایا جا رہا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی.ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے.سب کے لئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں اس طرح اسلام نے قومیت کے امتیاز کو مٹا دیا اور بڑائی کا معیار یہ رکھا ہے کہ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ۷۵اسلام میں بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے.خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ قوم کا فرد ہو اگر وہ متقی ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہے.پس اسلام میں ذات پات کو مٹا دیا اور مختلف مذاہب کے نتیجہ میں جو تفرقے پیدا ہو تے تھے ان کو دور کر دیا.دوستوں کو چا ہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائیں میں نے فضیلت قرآن کی ۲۶ وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے.خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کروں گا.فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرزِجان بنانے کی کوشش کرو.اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کرسکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی.دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طورپر توجہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کو شش کریں.اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعما ل نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیا س بجھ سکتی ہے.پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے.یہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب کہ تم ا س سے فائدہ اٹھاؤ.
۱۶۷ پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو.اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی اقتداء کرو تاکہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو.اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں.۱ النور: ۳۶تا۳۹ ۲ الشعراء :۱۹۳تا۱۹۵ ۳ الزمر : ۲۴ ۴ القلم: ۴۵ ۵ الشعراء : ۶ ۶ البقرۃ: ۱۰۷ ۷ استثناء باب ۱۸ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لنڈن مطبوعہ ۱۸۸۷ء ۸ المزمل : ۱۶ ۹ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲،۱۳ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۹۰۶ء ۱۰ المائدہ :۴ ۱۱ الھود : ۱۸ ۱۲بخا ری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۳ العلق ۲ تا ۶ ۱۴ پیدائش باب ۱آیت ۱،۲ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۸۸۷ء ۱۵ یوحنا باب ۱ آیت ۱،۲ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۸۸۷ء ۱۶ متی باب ۱۲ آیت ۲۶ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۸۸۷ء ۱۷ صٓ: ۶ ۱۸ الزمر : ۴ ۱۹ الواقعہ: ۸۰ ۲۰ الانبیاء : ۸۸ ۲۱ تفسیر ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۸۸ مطبوعہ بار دوم بیروت ۱۹۷۸ ء ۲۲ فتوحات مکیہ (مؤلفہ حضرت محی الدین ابن عربی ) جلد ۱ صفحہ ۱۲۱ مطبوعہ مصر ۲۳ فاطر :۲ ۲۴ الشعراء:۱۹۳ ۲۵ الفرقان : ۶۱ ۲۶ ابراھیم : ۵ ۲۷ ھود: ۹۲ ۲۸ الزخرف : ۲۱ Page 116 ۳۲
۱۶۸ ۳۳ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸،۱۹برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۸۸۷ء ۳۴ الجمعۃ:۲تا ۵ ۳۵ الانعام : ۱۰۹ ۳۶ الانعام : ۱۰۹ ۳۷ متی باب ۱۲ آیت ۴۶ تا ۵۰ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ۱۹۰۶ء ۳۸ The Hymns of the Rigveds VOL:1 Book IV Hymns XVIII, p.416 Benares, 1920 ۳۹ الرحمٰن : ۱۴ ۴۰ الرحمٰن : ۲۷،۲۸ ۴۱الملک:۲،۳ ۴۲ الانعام : ۱۰۳،۱۰۴ ۴۳ المؤمن: ۶۵ ۴۴الشعراء:۱۹۳تا۱۹۷ ۴۵ الزخرف: ۲۱ ۴۶الفرقان: ۶۱ ۴۷ الفرقان:۶۲،۶۳ ۴۸ بنی اسرآئیل :۸۶تا ۹۰ ۴۹الواقعہ:۷۸،۷۹ ۵۰المائدہ : ۱۶ ۵۱ الانعام :۱۰۰ ۵۲ النور:۳۷ ۵۳ المؤمنون :۵۲ ۵۴ المائدہ ۱۰۲ ۵۵ الشوریٰ: ۳۹ ۵۶ الرعد: ۱۲ ۵۷ المؤمن:۶۱ ۵۸متی باب ۵ آیت ۳۲ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء مفہوماً ۵۹المؤمنون:۱۱۶ ۶۰القیٰمۃ :۲تا۴ ۶۱القیٰمۃ:۷تا ۱۱ ۶۲بنی اسرآئیل :۷۳ ۶۳الحدید: ۱۳،۱۴ ۶۴ العنکبوت:۶۹،۷۰ ۶۵ الاحزاب: ۲۴،۲۶ ۶۶الذّٰریات :۵۷ ۶۷حٰم السجدہ:۳۱تا۳۳ ۶۸مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۱۰۹مچبوعہ مصر ۱۳۱۳ء ۶۹الفاتحہ :۶،۷ ۷۰الحدید: ۱۳،۱۴ ۷۱ النسآء:۷۰ ۷۲البقرۃ:۳ ۷۳استثناء باب۳۴ آیت ۵،۶ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائٹی لندن ،مطبوعہ ۱۸۸۷ء ۷۴الحجر:۱۰ ۷۵ الحجرات: ۱۴
ندائے ایمان (1) از حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھوالناصر ندائے ایمان نمبر(ا) اے بھائیو! آپ کو معلوم ہوگا کہ آج سے قریباً پچاس سال پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلٰوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر دنیا کی اصلاح کا کام شروع کیا تھا- آپ اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے اس بہادر نے اسلام کی خدمت کا بیڑا اٹھایا تھا، اس وقت کیا اپنے اور کیا پرائے سب کے سب اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تھے حتیٰ کہ خود اس کے عزیز اور نہایت قریبی رشتہ دار تک اس کو تباہ اور برباد کرنے کے لئے کوشاں تھے اور اسے ثواب کا موجب اور رضائے الہی کا باعث خیال کرتے تھے- ہر ایک جو اس زمانہ کے حالات سے آگاہ ہے بیان کرے گا کہ اس وقت لوگوں کا یہی خیال تھا کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دعویٰ سے توبہ نہ کی تو ان کی تباہی ایک قلیلعرصہ میں یقینی اور قطعی ہے- اور بہت تھے جنہوں نے اپنے خیالوں سے آپ کی تباہی کے متعلق وقت کی تعیین بھی کر دی تھی اور علی الاعلان لاف زنی کرتے تھے کہ دو یا تین سال میں آپ کا نام و نشان تک مٹ جائے گا اور آپ کا دعویٰ ایک قصہ اور کہانی ہو جائے گا- یہ لافزنیاں اگر منہ کی باتوں تک رہتیں تب بھی بات تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے ان دعووں کو پورا کرنے کے لئے عملاً بھی سارا زور لگایا اور مخالفت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی- وہ لوگ جو ایک مجلس میں بیٹھنا حرام سمجھتے تھے آپ کی مخالفت میں سگے بھائیوں سے بھی زیادہ متحد نظر آنے لگے اور جن مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے نظر آتے تھے آپ کو نقصان پہنچانے کی خاطر
۱۷۲ ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے والے بن گئے- زمین جور اور ظلم سے بھر گئی اور آسمان انسان کی تعدی اور دست درازی کے قصے دیکھ کر تاریک ہو گیا اور تاریکی کے فرزندوں نے خیال کر لیا کہ وہ اس شمع کو جسے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جلایا تھا بجھانے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے لیکن باوجود تمام مذاہب کی متفقہ کوششوں کے اور حالات کی نامساعدت کے آپ ہر قسم کے گزند سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدم کو استوار اور مضبوط رکھا- جس وقت آپ کے ہم قوموں اور ہم مذہبوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اس وقت خدا تعالیٰ جو تمام وفاداروں سے بڑھ کر وفا دار اور تمام دوستوں سے بڑھ کر دوست ہے آپ سے پہلے کی نسبت بھی زیادہ پیار کرنے گا- اور اس کی مصفی وحی بارش کی طرح آپ پر نازل ہونے لگی- اور اس کے ذریعہ سے اس نے آپ کے دل کو مضبوط کرنا شروع کیا اور کہا کہ جس طرح تو میرے نام کے لئے تکلیف اٹھا رہا ہے اور بدنام کیا جا رہا ہے اور لوگ تجھ سے دشمنی کر رہے ہیں اور اپنے عزیز تجھے چھوڑ رہے ہیں اور کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اس لئے کہ تو اسلام کی عظمت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے تیری عزت پر حملے کئے جاتے ہیں اور تیری عیب جوئی کے لئے ہر ایک ناواجب ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے میں تیرے نام کو بلند کروں گا اور ایک بڑی جماعت اسلام پر فدا ہونے والوں کی تجھے دوں گا- اور میرے فرشتے میری طرف سے درود اور سلام لیکر تجھ پر نازل ہونگے اور ایک بڑی قوم تجھ سے پیدا ہوگی اور آدم کی طرح ایک نئی دنیا کا تو باپ بنے گا اور تیرے دشمن ذلیل اور خوار ہونگے- اور جن جن راہوں سے وہ تجھ پر حملہ کریں گے انہیں راہوں سے اور ان کے علاوہ اور ایسی راہوں سے بھی جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہونگی ان پر حملہ کروں گا اور ان کے منصوبے ان کے منہ پر ماروں گا- اور ایک یار وفادار کی طرح تیرے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو کر تیرے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور جو تجھ پر وار کرے گا میں اس پر وار کروں گا لیکن وہ جو تیرا دوست اور ساتھی ہوگا میں اسے عزت دوں گا اور اس پر اپنا نور ڈالوں گا اور اپنی برکتوں سے اسے حصہوافر دوں گا- اور اپنے دین کا علم اسے عطا کروں گا- اور دین اسلام کا سپاہی اسے بناؤں گا اور ایسا ہوگا کہ تیرا نام دنیا میں سورج اور چاند کی طرح چمکے گا اور دن بدن تیرا اور تیری جماعت کا قدم ترقی کے زینہ پر بلند ہوتا چلا جائے گا- جوں جوں یہ الہامات آپ کی طرف سے شائع ہوتے تھے مخالف اپنی مخالفت میں اور بھی
۱۷۳ بڑھتے چلے جاتے تھے اور ہر طرح کوشاں تھے کہ آپ کو جھوٹا ثابت کریں لیکن خدا کی باتوں کو کون ٹال سکتا تھا- باوجود ان سب مخالفانہ تدابیر کے جو آپ کے مخالفوں نے آپ کے خلاف استعمال کیں آپ کی صداقت لوگوں پر ظاہر ہونی شروع ہوئی اور روحانی مردے آپ کے ہاتھوں سے زندہ ہونے لگے- اور وہ جو پہلے بہرے تھے اب سننے لگے اور جو پہلے اندھے تھے اب دیکھنے لگے اور جو پہلے روحانی کوڑھ میں مبتلا تھے اب ان کے جسم چاند کی طرح منور نظر آنے لگے اور ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے اور ایک قریب سے اور ایک دور سے خدا کی قرناء کی آواز سن کر دوڑ پڑا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بالکل اسی طرح جس طرح کہ قدیم سے خدا کے نبیوں سے ہوتا چلا آیا ہے ایک جماعت اس خدا کے بہادر کے گرد جمع ہو گئی اور اسلام کا سپہ سالار اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جاں نثار اپنے فدائیوں کے جھرمٹ میں ایک جوان رعنا دولہا کی طرح اسلام کی حفاظت کے لئے آگے بڑھا- اور تم نے بھی دیکھا اور باقی دنیا نے بھی دیکھ لیا کہ وہی جسے کافر و زندیق کہا جاتا تھا اسلام کا علمبردار ثابت ہوا- اور وہی جسے اسلام کا دشمن کہا جاتا تھا اس کی حفاظت کا واحد ذمہ وار نظر آیا- جب عالم کہلانے والے اور تصوف کا دم بھرنے والے اپنی روٹیوں کی فکر میں اور اپنے آرام و آسائش کی جستجو میں تھے وہ اور اس کے ساتھی اسلام کی فکر میں اور اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں مشغول تھے- نہ معلوم اس نے اپنے پر ایمان لانے والوں کے دلوں میں کیا جادو پھونک دیا تھا کہ اسلام کی خدمت کے سوا اور رسول کریم ﷺ کی شان کے بلند کرنے کے سوا ان کو اور کسی بات میں مزا ہی نہیں آتا تھا حتیٰ کہ وہ دن آ گیا جب اسلام کو اس کی پوری شان کے ساتھ قائم کر کے اور اس کے جاں نثاروں کی ایک جماعت بنا کر وہ خدا کا پیارا اپنے پیارے سے جا ملا اور اس کے دشمن جو اس کی تباہی کی خوابیں دیکھ رہے تھے منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے- مگر اب بھی ایک امید پر ان کا سہارا تھا اور وہ یہ کہ شاید اس کے مرنے کے بعد اس کا کام تباہ ہو جائے گا اور اس کی جماعت جو اس کی لسانی اور اس کی جادوبیانی کی وجہ سے اس کے گرد جمع ہو گئی تھی اب پراگندہ ہو جائے گی لیکن زمانہ نے ظاہر کر دیا کہ یہ خیال بھی ایک فریب سے زیادہ حقیقت نہ رکھتا تھا- جس طرح ایک مضبوط درخت روز بروز جڑیں پکڑتا جاتا ہے اس کی جماعت بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ مضبوط ہوتی چلی جائے گی- اور اسلام کی محبت رکھنے والے دل اور اس کی نیکی چاہنے والے دماغ اس زمانہ کے موعود کی عقیدت کی مہمان نوازی کے لئے اپنے دروازے کھول دیں گے تا کہ اسلام کے غلبہ پانے کا زمانہ جلد سے جلد آئے اور کفر ایک
۱۷۴ ناپاک چیز کی طرح دنیا سے اٹھا کر پھینک دیا جائے- مبارک ہیں وہ جو اس دن کے لانے میں پیش قدمی کریں اور خدا کی آواز کو دوسروں سے پہلے قبول کریں- پس اے بھائیو! اس اشتہار کے ذریعہ سے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ حق کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور خدا کی آواز سے بے پرواہی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ کیا معلوم ہے کہ موت کب آ جائے گی اور ہمارے اعمال کے زمانہ کو ختم کر دے گی- اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا کہ آپ اس عظیم الشان کام کے متعلق آج اور کل ہی کرتے رہے اور ایمان کا وقت گذر گیا اور موت کی گھڑی آ گئی تو بتائیں کہ اس وقت کیا چارہ کار ہوگا- نہ پچھتانا کچھ مفید ہوگا اور نہ گریہ و زاری کچھ نفع دے گی- آخر کونسی دلیل ہے جس کے آپ منتظر ہیں اور کونسا نشان ہے جس کی آپ کو جستجو ہے- مسیح موعود کے متعلق جو کام بتایا گیا تھا وہ آپ کے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے اور اسلام ایک نئی زندگی پا رہا ہے- پس جلدی کریں اور مسیح موعود کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں- لیکن اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس معاملہ پر غور ہی نہیں کیا تو بھی میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد تحقیق کی طرف متوجہ ہوں اور مندرجہ طریقوں میں سے ایک کو اختیار کریں- ۱ - جو سوالات آپ کے نزدیک حل طلب ہوں انہیں اپنے قریب کے احمدیوں کے سامنے پیش کر کے حل کرائیں- ۲ - اگر آپ کے پاس کوئی احمدی جماعت نہ ہو تو مجھے اپنے سوالوں سے اطلاع دیں- ۳ - اپنے علاقہ میں جلسہ کر کے احمدی مبلغ منگوا کر خود بھی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے دلائل سنیں اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے نور کے قبول کرنے کی توفیق عنایت فرمائے- خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ قادیان- ضلع گورداسپور- پنجاب ۱۵- جنوری ۱۹۳۰ء
۱۷۵ نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ المسیح الثانی
۱۷۷ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھوالناصر نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ نہرو کمیٹی نے میرے تبصرے کی اشاعت کے بعد اپنی رپورٹ کا ایک تتمہ لکھا ہے اور اس میں اپنی پہلی پیش کردہ تجاویز میں بعض اصلاحیں کی ہیں- میرے نزدیک گو اس اصلاح کے باوجود میرا تبصرہ بہت ہی کم تغیر کا محتاج ہے لیکن چونکہ ممکن ہے بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال گذرے کہ شاید میری تنقید کے بعض حصے تتمہ رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد غیرضروری ہو گئے ہیں اس لئے میں اختصار کے ساتھ اس اصلاح کے ان حصوں کے متعلق جو مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں- تعلیم کے متعلق اصلاح سپلیمنٹری رپورٹ کے عنوان اصولی حقوق (FUNDAMENTALRIGHTS)کے مادہ نمبر۴ کے حصہ نمبر۵ میں تعلیم کے متعلق ایک اصلاح کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ-: ’’جہاں جہاں اقلیتوں کی معقول تعداد ہوگی وہاں ان کی زبان اور انہی کی تحریر میں تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے گا‘‘- یہ اصلاح بے شک ایک مفید اصلاح ہے لیکن اس کے الفاظ نہایت ہی مبہم ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ اس اصلاح کے باوجود مسلمان بہت سے صوبوں میں اپنی زبان میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں- اگر یورپ کی بعد از جنگ پیدا ہونے والی ریاستوں کے قوانین کے مطابق معقول تعداد کی کوئی تشریح کر دی جاتی تو مسلمان اس سے تسلی پا سکتے تھے- معقول کا لفظ اتنا مُبہم
۱۷۸ ہے کہ بالکل ممکن ہے کہ کسی جگہ کے مسلمان بھی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں اور صرف پنجاب کے سکھ اور ہندو ہی اس سے نفع حاصل کر سکیں- اجارہ زمین کے متعلق قانون اسی عنوان کے حصہ سترہ میں ایک زیادتی کی گئی ہے اور میرے نزدیک وہ زیادتی بجائے مفید ہونے کے مسلمانوں کے لئے مضر ہو سکتی ہے، وہ زیادتی یہ ہے: ’’پارلیمنٹ ایسے بھی قوانین بنائے گی کہ جن کے ذریعہ سے کسان کو اجارہ دائمی حاصل ہو جائے گا اور مناسب شرح لگان مقرر ہو جائے گی‘‘- اول تو جہاں تک میں خیال کرتا ہوں ایسے قانون کا بنانا سنٹرل گورنمنٹ کے دائرہ عمل سے باہر ہے کیونکہ جن امور کے متعلق مرکزی حکومت کو قوانین بنانے کا اختیار دیا گیا ہے اور جو نہرو رپورٹ کے شیڈول نمبر۱ 1(.No (Schedule کے عنوان کے نیچے درج ہیں ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کو زمیندار اور کسان کے باہمی حقوق کے متعلق کوئی قانون بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے یہ اختیارات مقامی حکومتوں کے سپرد ہیں- قطع نظر اس کے یہ سوال اپنی ذات میں بھی ایسا ہے کہ سارے ہندوستان کے لئے اس کا حل بالکل ناممکن ہے اور جو حکومت اس کے لئے عام قانون بنائے گی وہ ضرور ملک کو سخت نقصان پہنچائے گی- پس میرے نزدیک اس سوال کے حل کو صوبہ جات پر ہی چھوڑنا چاہئے ورنہ چونکہ مسلمان اپنی نسبت آبادی کے لحاظ سے زمیندارہ کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتے ہیں، وہ اس قانون سے بہت نقصان اٹھا سکتے ہیں- حکومت کی زبان دوسرا تغیر جس کے متعلق میں کچھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں وہ زبان کے عنوان کے نیچے مادہ چار الف کے حصہ اول میں یوں بیان کیا گیا ہے-: ‘’حکومت کی زبان ہندوستانی ہوگی خواہ وہ ناگری میں یا اردو میں لکھی جائے’‘- یہ ‘’خواہ’‘ کا لفظ ایسا مشکوک ہے کہ بالکل ممکن ہے سرکاری رپورٹیں ساری کی ساری ناگری میں ہی شائع ہوتی رہیں اور اس طرح اردو کی ترقی کو نقصان پہنچا دیا جائے- اور یہ لازمی بات ہے کہ اگر سرکاری طور پر ناگری حروف کو رائج کیا گیا تو آہستہ آہستہ عربی اور فارسی کے حروف زبان سے نکل کر موجودہ اردو کی بجائے ہندی بھاشہ ہی کانام اردو ہو جائے گا- خصوصاً
۱۷۹ اس وجہ سے کہ ناگری کے حروف عربی اور فارسی کے الفاظ کے پوری طرح متحمل نہیں ہو سکتے- پس لازماً آہستہ آہستہ ایسے الفاظ متروک ہوتے چلے جائیں گے اور صرف بھاشا ہی کے الفاظ رہ جائیں گے جن کی کہ ناگری زبان پوری طرح متحمل ہو سکتی ہے- میرے نزدیک یہ زیادتی مسلمانوں کے لئے ہر گز نفع رساں نہیں بلکہ اس کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے- صوبہ جاتی حکومتوں پر مرکزی حکومت کا قبضہ تیسرا پارلیمنٹ کے عنوان کے نیچے مادہ نمبر۱۳- الف میں ایک اور جزو بڑھایا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں-: ‘’اشد ضرورتوں کے وقت اور ایسے معاملات میں جو کہ دو صوبوں کے درمیان ہوں ہر قسم کی طاقتیں حاصل ہونگی حتیٰ کہ یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کی گورنمنٹ کے قانونی یا انتظامی فیصلوں کو موقوف کر دے یا معرض التواء میں ڈال دے’‘- (ب)‘’عدالت اعلیٰ کو ایسے معاملات میں جن کا فیصلہ پارلیمنٹ یا مرکزی حکومت نے اوپر کے قانون کے دیئے ہوئے اختیارات کے ماتحت کیا ہو دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہوگا’‘- یہ قاعدہ بھی نہایت ہی خطرناک ہے- اس قاعدہ کے ابتدائی الفاظ کہ ‘’اشد ضرورت کے وقت حکومت اختیاری کو صوبہ جات کی حکومتوں کے قانون کو بدلنے کا حق حاصل ہوگا-’‘ یہ صوبہ جات کی حکومت کو بالکل فضول اور لغو کر دیتے ہیں- بقیہ حصہ قانون کا بے شک اگر قانونی زبان میں اور ایسے الفاظ میں رکھا جائے کہ اس کے الفاظ کی کئی تاویلات نہ ہو سکیں تو بیشک مفید ہو سکتا ہے- لیکن پہلا حصہ نہایت ہی خطرناک ہے اور اس کی موجودگی میں مرکزی حکومت جس میں ہندوؤں کی کثرت ہوگی ہر وقت مسلمانوں کی کثرت والے صوبوں میں دخل اندازی کر کے نقصان پہنچا سکتی ہے- پس میرے نزدیک ‘’اشد ضرورت کے وقت’‘ کے الفاظ اڑا دینے چاہئیں اور باقی حصے کے الفاظ یوں کر دینے چاہئیں کہ کسی صوبے کی حکومت کو کوئی ایسا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہوگا جو دوسرے حصے کی حکومت یا اس کے افراد پر براہراست اثر انداز ہو- اگر کسی صوبے کی حکومت کوئی ایسا قانون بنائے گی تو
۱۸۰ مرکزی حکومت کو ایسے قانون کو منسوخ کرنے یا معرض التواء میں ڈال دینے کا پورا اختیار ہوگا- (ب) اگر اس صوبے کی گورنمنٹ کو جس کے قانون کو منسوخ کیا گیا ہو مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف غیر منصفانہ ہونے کا احتمال ہو تو اسے حق ہوگا کہ وہ عدالت عالیہ میں اس کے خلاف اپیل کرے- صوبوں کے گورنروں کا تقرر چوتھا تغیر صوبہ جاتی مجالس واضع قوانین کے عنوان کے نیچے مادہ نمبر۲۹ میں کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ-: ‘’نہرو رپورٹ میں صوبہ جاتی گورنروں کا تقرر شہنشاہ معظم کے ہاتھ میں رکھا گیا تھا لیکن اب تتمہ میں یہ اختیار گورنر جنرل ان کونسل کو دے دیا گیا ہے’‘- یہ تغیر نہایت ہی خطرناک ہے- اس کے ذریعہ سے مرکزی حکومت نے صوبہ جاتی حکومتوں پر پورے طور پر تصرف کر لیا ہے- گورنروں کا تقرر براہ راست ملک معظم کی طرف سے ہونا چاہئے اور موجودہ پریزیڈنسی گورنروں کی طرح گورنر جنرل کے مشورہ کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے- نئے صوبوں کی تجویز پانچواں تغیر مادہ نمبر ۷۲ کے جزو۶ میں کیا گیا ہے- اس تغیر سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نئے صوبوں کے بنانے کی سفارش کی گئی ہے جن میں ہندو میجارٹی ہوگی- اس تغیر پر اصولاً اعتراض کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں- لیکن اس تغیر سے ہم اتنا ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ اس کمیٹی کے ممبروں کے دماغ پر ہر وقت یہ بات غالب رہتی ہے کہ انفرادی لحاظ سے بھی اور صوبہ جاتی لحاظ سے بھی ہندو عنصر مسلمان عنصر پر غالب رہنا چاہئے- قانون کا بدلنا چھٹا تغیر مادہ نمبر۸۷ میں کیا گیا ہے جو یہ ہے- ‘’قانون اساسی کے بدلنے کیلئے حاضر الوقت ممبروں کے ۵/۴ ممبروں کا اتفاق ضروری ہوگا- اصل رپورٹ میں ۳/۲ کے اتفاق کی شرط لگائی گئی تھی’‘- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تغیر کی وجہ سے یہ قانون پہلے سے بہت اچھا ہو گیا ہے- لیکن پھر بھی اقلیتوں کے حقوق کی اس سے پوری طرح نگہداشت نہیں ہوتی- قانون ِ اَساسی کے
۱۸۱ بدلنے کے لئے یہ ضروری ہونا چاہئے کہ کل منتخب شدہ ممبروں کی تعداد سے ۵/۴ حصہ کے اتفاق سے اس میں تغیر کیا جائے نہ کہ حاضر الوقت ممبروں میں سے ۵/۴ کے اتفاق سے کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت کسی اختلاف کی وجہ سے ایک حصہ ممبروں کا اسی طرح عدم تعاون میں مشغول ہو جس طرح آج کانگریسی لوگ مشغول ہیں- اور اس سے فائدہ اٹھا کر کثیر التعداد جماعت اپنے مطلب کے مطابق قانون اساسی میں تغیر کرے- حاضر الوقت ممبروں میں سے ۵/۴ کے اتفاق کے ساتھ قانون اساسی کا بدل جانا اس قانون کو نہایت ہی بودی بنیادوں پر قائم کر دیتا ہے- فرقہ وارانہ انتخاب ساتواں تغیر فرقہ وارانہ انتخاب کے عنوان کے نیچے مادہ۳ کے حصہ الف کے نیچے کیا گیا ہے اور اس میں یہ الفاظ بڑھائے گئے ہیں-: ‘’پنجاب اور بنگال میں کسی قوم کی نشستیں محفوظ نہیں کی جائیں گی مگر یہ شرط ہوگی کہ فرقہ وارانہ انتخاب کا سوال اگر کسی قوم نے اٹھایا تو دس سال کے تجربے کے بعد پھر دوبارہ زیر بحث آ سکے گا’‘- یہ زیادتی بالکل بے معنی زیادتی ہے- نیابتی حکومت میں بہرحال کثرت رائے کا فیصلہ جاری ہوگا- اس قانون میں اقلیتوں کو بالکل یہ حق نہیں دیا گیا کہ اگر وہ اصرار کریں تو دسسال کے بعد انہیں محفوظ نشستوں کا حق دے دیا جائے گا- بلکہ صرف یہ ہے کہ یہ سوال پھر زیربحث آ سکتا ہے- زیر بحث آنے کے بعد اگر مرکزی حکومت کی ہندو میجارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں تو نہرو کمیٹی کے ممبر ہمیں سمجھائیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے حقوق کے واپس لینے کا کونسا رستہ کھلا ہوگا- پس یہ زیادتی بالکل دھوکا دینے والی ہے اور لفظی فریب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی- آٹھواں تغیر اصل فرقہ وارانہ عنوان کے نیچے ساتویں مادے میں کیا گیاہے- اس مادے کے الفاظ یہ تھے- ‘’جس جس جگہ پر بعض قوموں کے لئے نشستوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے ان مقامات پر صرف دس سال کے لئے یہ قانون جاری رہے گا’‘- اس میں اب یہ زیادتی کی گئی ہے کہ-:
۱۸۲ ‘’بایں شرط کہ یہ سوال اس عرصے کے گذرنے کے بعد پھر زیر غور آ سکتا ہے اگر کوئی قوم اس کا مطالبہ کرے’‘- یہ زیادتی بھی بالکل بے معنی ہے- ‘’زیر غور آ سکتا ہے’‘ میں کوئی معین پالیسی ظاہر نہیں ہوتی- اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس اقلیت کو محفوظ نسشتوں کا زیادہ تر حق دیا گیا ہے وہ مسلمان ہی ہیں- اگر یہ قانون مفید ہے تو یہ صاف بات ہے کہ مسلمان اس کے تغیر کا مطالبہ نہیں کریں گے- جب بھی اس تغیر کا مطالبہ کریں گے ہندو ہی کریں گے- ان حالات میں دوسرے الفاظ میں زیادتی یوں کی گئی ہے کہ اگر دس سال کے گزرنے کے بعد ہندو لوگ یہ مطالبہ کریں گے کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے تو اس سوال پر دوبارہ غور کیا جائے گا- یہ بات تو ظاہر ہے کہ یہ غور مرکزی حکومت میں ہی ہوگا جہاں ہندو اکثریت ہوگی- پس وہ فیصلہ جو مرکزی حکومت کرے گی اس کا بھی ابھی سے قیاس کیا جا سکتا ہے- اس مختصر تنقید کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو تغیرات نہرو کمیٹی نے تجویز کئے ہیں ان میں فائدے کی باتیں بہت کم اور نقصان کی باتیں بہت زیادہ ہیں- اگر کوئی بات میں اس کمیٹی کے حق میں کہہ سکتا ہوں تو صرف یہ کہ یہ کمیٹی ایسے الفاظ کے استعمال کرنے میں بڑی ماہر ہے جو ظاہر میں اور معنی رکھتے ہوں اور باطل میں اور، مگر یہ توصیف قابل تعریف توصیف نہیں- مسلمانوں اور انگریزوں سے اپیل آخر میں میں پھر مسلمان پبلک اور اپنے ماورائالبحر کے رہنے والے انگریز بھائیوں سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ اس رپورٹ کو سمجھے بغیر اس کی تائید نہ کریں- انگریزوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی قوم بے شک اس وقت ہندوستان کی حاکم ہے لیکن وہ اس کی مالک نہیں ہے وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کاغلام بنا دینے کا کوئی حق نہیں رکھتے- وہ قوم جو غلامی کو مٹانے کے لئے اس قدر دعویدار ہے وہ آئندہ نسلوں کی نظر سے ہمیشہ کے لئے گر جائے گی- اگر وہ اس آزادی کے زمانے میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ایک قلم کی جنبش سے ایک ایسی قوم کا غلام بنانے کا فیصلہ کر دے گی جس نے اپنے غلاموں کے ساتھ دنیا کی تمام اقوام سے بدتر سلوک کیا ہے- ہر ایک قوم کے غلام تھوڑے یا زیادہ عرصہ میں آزاد ہوگئے ہیں- لیکن ہندووں کے غلام ہزاروں سال کے گزرنے کے بعد آج بھی اچھوت اقوام کے نام سے ہندووں کے ظالمانہ دستور غلامی پر شہادت دے رہے ہیں- انگلستان کو یاد رکھنا چاہے کہ جس وقت وہ
۱۸۳ ہندوستان کو آزادی دینے پر آمادہ ہوگا اسی وقت سے مسلمان آزاد ہوں گے اور ان کا حق ہو گا کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ یا تو ان کے حقوق کی نگرانی کی جائے یا وہ اپنی آزاد ہستی کے برقرار رکھنے کے لئے مجبور ہوں گے کہ ہر ایک ایسے نئے نظام سے وابستہ ہونے سے انکار کر دیں جو ان کی آزادی کو کچل دینے والا ہو اور اپنے لئے خود کوئی ایسا نظام قائم کریں جس کے ماتحت وہ اپنی آزادی اور حریت قائم رکھ سکیں- مسلمان ایک خدا کا ماننے والا ہے وہ کبھی بھی اچھوتاقوام کا بہروپ بھرنے کے لئے طیار نہیں ہو گا- خواہ اس مصیبت سے بچنے کے لئے اس کو کتنی ہی قربانی کیوں نہ کرنی پڑے- (الفضل۱۱- مئی ۱۹۳۰ء)
۱۸۵ گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثاني
۱۸۷ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھوالناصر گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی نہایت نازک معاملہ میں یہ مضمون پیر اور منگل کی درمیانی رات کو لکھ رہا ہوں- اخبار والوں کو اس وقت تک سائمن کمیشن رپورٹ (SimonCommissionReport) کی دوسری جلد مل چکی ہوگی اور وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہوں گے- مگر ہمیں ابھی تک اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں سوائے اس کے جو پہلی جلد کو پڑھ کر ہم نے قیاس کیا ہے اور وہ قیاس کچھ ایسا خوش کن نہیں ہے- ایک رات صرف درمیان میں ہے لیکن یہ معاملہ ایسا نازک ہے کہ اس میں ایک رات کے انتظار کو بھی میں درست نہیں سمجھتا- جس وقت میرا یہ مضمون لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچے گا، اس وقت تک رپورٹ شائع ہو چکی ہوگی اور غالباً ملک میں ایک جوش کی حالت پیدا ہو چکی ہوگی- لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر سائمن کمیشن کی رپورٹ ہماری امیدوں کے خلاف بھی ہو تب بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس (RoundTableConference)کا مطالبہ تھا ہی اسی وجہ سے کہ اہل ہند کے خیال میں اس کمیشن کی رپورٹ ملکی نقطئہ نگاہ سے قابل تسلیم نہ تھی- پس اگر وہ رپورٹ واقعہ میں ہماری امیدوں کے خلاف ہو تو اس سے صرف اہل ہند کے خیالات کی تائید ہوگی- نہ کہ کوئی ایسی نئی بات جس سے انہیں اپنے رویہ کے بدلنے کی ضرورت محسوس ہو- اگر سائمن رپورٹ مسلمانوں کی خواہشات کے خلاف ہو؟ میرے نزدیک سائمن کمیشن کی
۱۸۸ رپورٹ اگر ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو اس سے صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس میں مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اگر اس میں ہمارے خیالات کی صحیح ترجمانی نہ کی جائے اور فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو تو اس کے بعد سوائے اس کے کہ ملک میں انار کی کا دور شروع ہو جائے ہمارے اختیار میں کچھ باقی نہیں رہتا- پس اس سوال کے متعلق ہمیں پوری طرح غور کر لینا چاہئے اور اپنے لئے ایک ایسا طریق راہ تجویز کر لینا چاہئے جس پر چلنا ہمارے لئے موجب فلاح و کامیابی ہو نہ موجب خسران و ناکامی- اگر سائمن کمیشن کی سفارشات مسلمانوں کے منشاء کے مطابق ہوں اور اگر بالفرض سائمن کمیشن کی سفارشات ہمارے منشاء کے مطابق بھی ہوں تب بھی گول میز کانفرنس کا سوال کماہم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ جب جملہ سوالات از سر نو کانفرنس کے سامنے آئیں گے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی کہ کمیشن کی سفارشات میں کوئی تبدیلی نہ ہو- پس بہرحال گولمیزکانفرنس کا سوال ایک خاص اہمیت رکھتا ہے- خصوصاً ایسی صورت میں کہ مسزاینی بِسینٹ (ANNIE BESANT)نے جو اس کانفرنس کی ممبر مقرر ہو چکی ہیں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ نہرو رپورٹ کو اس کانفرنس میں غور کرنے کیلئے پیش کریں گی- مسلمانوں کو اتحاد کی بے حد ضرورت پیشتر اس کے کہ میں اصل مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں، میں مسلمانوں کو عام طور پر ایک نصیحت کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی جس قدر اس وقت ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی- ہر ایک قوم خواہ وہ کس قدر بھی چھوٹی ہو اس کے تعاون کے وہ محتاج ہیں- اور اگر اس وقت تفرقہ اور شقاق کا بیج انہوں نے بویا تو یقیناً یہ امر ان کے لئے سخت مشکلات کا موجب ہوگا- گول میز کانفرنس کی نمائندگی کے متعلق اگر مسلمانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اس کا فلاں فلاں نمائندہ فلاں فلاں فرقہ میں سے کیوں چنا گیا ہے تو ان سے لازماً ان فرقوں کی ہمدردی ان سے ہٹ جائے گی اور قلیل التعداد جماعتیں اپنے نظام اور اپنی قوت عملیہ میں یقیناً کثیر التعداد جماعتوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں- پس بلاوجہ قومی تفریق کا سوال اٹھانا کسی صورت میں بھی مسلمانوں کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اور اس سے انہیں ہر طرح
۱۸۹ مجتنب رہنا چاہئے اور نمائندگی کے سوال کو صرف اپنے خیالات کی موافقت یا مخالفت کے معیار پر پرکھنا چاہئے- مسئلہ نمائندگی کی مشکلات اس مختصر نصیحت کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نمائندگی کا سوال اس قدر آسان نہیں جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت تک کوئی بھی ملکی انجمن ایسی نہیں ہے کہ جس کی نسبت یہ کہا جا سکے کہ وہ ملک کی صحیحترجمان ہے اور جس کے سب ممبر قوم کے تمام افراد کی رائے سے اس کام کے لئے چنے گئے ہوں- پس سوال یہ ہے کہ کس ذریعہ سے گورنمنٹ معلوم کر سکتی ہے کہ فلاں شخص ملک کی اکثریت کا نمائندہ ہے؟ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں صحیح نمائندگی نہ ہونے سے خطرہ مگر ساتھ ہی اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گورنمنٹ کو اگر بغیر کسی ایسے ذریعہ کے اختیار کرنے کے جس سے قطعی طور پر نہیں تو کم سے کم غالب طور پر یہ معلوم ہو سکے کہ ملک اس وقت کس امر کا مطالبہ کرتا ہے اور کونسے لوگ اس کی رائے کے نمائندے کہلا سکتے ہیں، گول میز کانفرنس کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرے گی تو وہ لوگ گورنمنٹ کے نمائندے کہلائیں گے ملک کے نہیں- اور کیا گورنمنٹ موجودہ جوش کے زمانہ میں خیال کر سکتی ہے کہ اس کے اس فعل کو ہندو یا مسلمان ایک منٹ کے لئے بھی برداشت کر سکیں گے؟ اگر سائمن کمیشن کے مقرر کرنے پر ملک میں شورش پیدا ہوئی تھی تو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے انعقاد پر اگر اس میں مختلف اقوام کی صحیحنمائندگی نہ ہوئی تو زیادہ شور و فساد برپا ہونے کا خطرہ ہے- اور میں ڈرتا ہوں کہ کانگریس کو اس مرحلہ پر ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی جو اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی- گورنمنٹ خود نمائندے منتخب نہ کرے گورنمنٹ کے ذمہ دار عہدہ دار اس میں شک نہیں کہ ایک اجنبی ملک کے باشندے ہیں اور اس ملک کے لوگوں کی ملکی حالت سے پوری طرح واقف نہیں لیکن وہ ان جذبات سے ناواقف نہیں ہو سکتے جو سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں- وہ یہ امر اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس نے واقعہ میں کوئی مفید اور مستقل کام کرنا ہے تو کوئی قوم بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کہ چند گورنمنٹ کے نامزد کردہ ممبران کی قسمت کا فیصلہ ہمیشہ کے لئے
۱۹۰ کر آئیں- قوموں کی آزادی ایسی چیز نہیں جس سے خطرناک عواقب میں مبتلا ہوئے بغیر کوئی گورنمنٹ خواہ وہ کس قدر ہی زبردست کیوں نہ ہو کھیل سکے- میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ پوری دیانتداری سے کام کرے گی اور احتیاط سے ممبروں کا انتخاب کرے گی- مگر بہرحال اگر گورنمنٹ نے نیابت کا کوئی صحیح طریق اختیار نہ کیا تو وہ گورنمنٹ کے منتخب کردہ ممبر ہوں گے نہ کہ قوم کے نمائندے- اور اگر کوئی قوم اس امر پر راضی نہیں ہو سکتی کہ اسمبلی یا کونسل میں جس کا کام بالکل محمدود ہے کوئی شخص گورنمنٹ کی طرف سے نامزد ہو کر اس کا نمائندہ کہلائے تو راؤنڈٹیبل کانفرنس جس نے ایک مستقل فیصلہ کرنا ہے اور حکومت کے اصول طے کرنے ہیں اس کے ممبروں کے متعلق کس طرح کوئی قوم اس کو خوشی سے قبول کر لے گی کہ گورنمنٹ ہی اس کی طرف سے اس کے نمائندوں کو تجویز کر دے- پس میں امید کرتا ہوں کہ گورنمنٹ پچھلی شورشوں سے سبق حاصل کر کے ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گی جس کا کوئی علاج اس کے ہاتھ میں باقی نہ رہے گا- نمائندوں کا انتخاب کس طرح کیا جائے گورنمنٹ کو اس کے فرض کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر اس کانفرنس کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہی ہو تو کس طرح کیا جائے- کیونکہ کوئی ایسی مشینری ہمارے پاس موجود نہیں جس سے مدد لے کر ہم ملک کی صحیح رائے معلوم کر سکیں- میرے نزدیک گو یہ صحیح ہے کہ اس قسم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں لیکن پھر بھی موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض ذرائع ایسے اختیار کئے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے مختلف اقوام کی نمائندگی ایک حد تک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں ہو سکے اور وہ ذرائع یہ ہیں- کونسلوں سے نمائندے طلب کئے جائیں گورنمنٹ تمام صوبہ جات کی کونسلوں کے ہندو، سکھ اور مسلمان ممبروں سے خواہش کرے کہ وہ اپنی کثرت رائے سے ایک یا دو نمائندے (جو تعداد بھی گورنمنٹ مقرر کرے( ایسے تجویز کریں جو ان کی طرف سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں پیش ہوں- اور اسی طرح مرکزی مجالس سے بھی وہ اس امر کی درخواست کرے- آگے ہر ایک قوم کی کونسلوں یا مرکزی مجالس کے ممبروں کو چاہئے کہ وہ اس شخص کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو اس امر کا اقرار کرے کہ وہ اپنے آپ کو ان کا نمائندہ سمجھے گا نہ کہ اپنے ذاتی حق پر جانے والا- جہاں تک میرا
۱۹۱ خیال ہے پنجاب سائمن کمیٹی کے ممبروں کو بھی یہی دھوکا لگا تھا کہ وہ اپنے ذاتی حق کے طور پر اس کمیٹی کے ممبر مقرر کئے گئے ہیں نہ کہ بطور اپنی قوم کے نمائندہ کے اور اس وجہ سے جو بات بھی ان کے نزدیک درست تھی وہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھ دی اور اس امر کا خیال نہ کیا کہ کوئی انسان خواہ کس قدر ہی لائق کیوں نہ ہو محض اپنی انفرادی حیثیت میں کسی ملک یا قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور جب بھی وہ اس کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے بطور نمائندہ کے مقرر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے- اس کے ساتھ ہی ممبروں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہر ایک شہر اور ہر قصبہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے اسمبلی یا کونسلوں کے ممبروں کو اس امر کی طرف صاف الفاظ میں توجہ دلا دیں کہ اگر انہوں نے اس امر میں اپنے نمائندے سے صاف لفظوں میں یہ عہد لے کر کہ وہ گول میز کانفرنس میں اپنی قوم کے خیالات کی ترجمانی کرے گا اس کام کے لئے منتخب نہ کیا تو وہ آئندہ انتخاب میں ہر گز ان کی مدد نہیں کریں گے- سیاسی پارٹیوں کے نمائندے لئے جائیں کونسلوں سے نمائندے طلب کرنے کے علاوہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں سے بھی جو ایک عرصہ سے ملک میں کام کر رہی ہیں اور جن کی اہمیت ایک ثابت شدہ اور مسلمہ امر ہے کچھ نمائندے طلب کرے- اس طرح اس طبقہ کی نمائندگی بھی ہو جائے گی جو گو کونسلوں یا اسمبلی میں شامل نہیں لیکن ملک میں سیاسی اثر کے لحاظ سے کونسلوں یا اسمبلی سے کم بھی نہیں- اس طرح منتخب شدہ نمائندے گو پورے طور پر منتخب نمائندے نہ کہلا سکیں لیکن یہ ضرور ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے وہ بہترین نمائندے کہلانے کے مستحق ہوں گے- ہاں اگر گورنمنٹ یہ دیکھے کہ ملک کے کسی اہم طبقہ کی نمائندگی اس طریق سے حاصل نہیں ہوئی تو وہ اس کمی کو نامزدگی سے پورا کر سکتی ہے- لیکن محض اپنی مرضی سے چند آدمیوں کو مقرر کر دینا خواہ وہ چوٹی کے لیڈر ہی کیوں نہ ہوں ہر گز ملک کو تسلی نہیں دے سکتا اور ایسے انتخاب کا نتیجہ مضر ہی نکلے گا- گورنمنٹ کو غلطی پر متنبہ کیا جائے چونکہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ اس غلطی کا ارتکاب کرنے کو تیار
۱۹۲ بیٹھی ہے اس لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ کونسلوں کے مسلمان ممبر اگر جمع ہو سکیں تو جمع ہو کر ورنہ فرداً فرداً گورنمنٹ کو اطلاع دے دیں کہ اس کے مقرر کردہ نمائندے ان کے یا ان کی قوم کے نمائندے نہ ہوں گے- پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کو اس غلطی سے متنبہ کر دیں اور ان اعلیٰ عہدیداروں کو محض اس امر پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ان سے مشورہ کر کے نمائندے مقرر کرے تا کہ وہ لوگ ان کے خیالات کی نمائندگی کے پابند ہوں اور اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کہہ کر نہ آ جائیں- اسی طرح دونوں مسلم لیگوں اور خلافت کمیٹی کو بھی چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کو اس غلطی سے متنبہ کر دیں اور ان اعلیٰ عہدیداروں کو محض اس امر پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے نام راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں آ گئے ہیں- ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اصول کا سوال ہے اور ان کی قوم کی عزت کا سوال ہے- پس انہیں چاہئے کہ جب ان سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک ہونے کی درخواست کی جائے تو وہ یورپ کے سیاسیین کے دستور کے مطابق گورنمنٹ کو یہی جواب دیں کہ جب تک وہ اپنی اپنی انجمنوں کی مجالسعاملہ سے گفتگو نہ کر لیں وہ اپنی شرکت کا فیصلہ نہیں کر سکتے- اور پھر ان انجمنوں سے اپنی شرکت اور اپنے طریق عمل کے متعلق مشورہ لینے کے بعد اپنی منظوری سے گورنمنٹ کو اطلاع دیں- یہ امر واضح ہے کہ اپنی قوم کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ان کی بات میں جو اثر ہو سکتا ہے اور ان کی آواز میں جو طاقت ہو سکتی ہے وہ گورنمنٹ کے انتخاب میں ہر گز نہیں ہو سکتی گورنمنٹ کے انتخاب کی وجہ سے وہ بڑے آدمی تو کہلا سکتے ہیں لیکن وہ ایک جماعت نہیں کہلا سکتے- اور آدمی خواہ کتنا بھی بڑا ہو جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتا- پھر انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ گورنمنٹ سے صاف کہہ دیں کہ ہم اپنی قوم کے نمائندے ہو کر جا سکتے ہیں ورنہ نہیں تو اس سے گورنمنٹ کی نگاہ میں بھی اور پبلک کی نگاہ میں بھی ان کی عزت بڑھے گی- اور خود مسلمانوں کا بھی رعب قائم ہوگا کیونکہ گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے گا کہ اب یہ قوم ایکجان ہو گئی ہے اور اس کی آواز میں ایک شوکت پیدا ہو گئی ہے- گورنمنٹ کے تجویز کردہ ممبروں سے مطالبہ اگر گورنمنٹ اس امر کو قبول نہ کرے تو پھر میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ جن لوگوں کو گورنمنٹ نمائندہ تجویز کرے ان سے مطالبہ کیا جائے وہ اعلان کریں کہ وہ اپنے آپ کو اپنی قوم کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ اس متفقہ قومی فیصلے کے پابند رہیں گے جو کہ
۱۹۳ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں ہو چکا ہے اور ان حقوق کو ہر گز قربان نہیں کریں گے جن کا مطالبہ اس کانفرنس کے ذریعہ سے مسلمان کر چکے ہیں- جو لوگ اس امر کے لئے تیار نہ ہوں، ان کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ملک کے اعتبار کے قابل نہیں ہیں- اور ان کے متعلق ان کے صوبہ کے لوگ ہر قصبہ اور ہر شہر سے یہ ریزولیوشن پاس کریں کہ وہ ہمارے نمائندے نہیں ہیں- اور ان ریزولیوشنوں کی کاپی لوکل گورنمنٹ ہند کے علاوہ وزیر ہند اور وزیر اعظم برطانیہ کو بھی بھیجی جائے- تا کہ یہ معاملہ پردہ اخفاء میں نہ رہے- نیز یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ان نامزدگان میں سے جو لوگ کونسلوں یا اسمبلی کے ممبر ہوں انہیں اگلے الیکشن کے موقع پر ہر گز ووٹ نہ دیئے جائیں بلکہ ایسے لوگوں کی تائید کی جائے جو ایسے اہم امور میں قومی نمائندگی کے اصول کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں- راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمان ممبروں کا طریق عمل اب ایک سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی دنیا میں دو جماعتیں فیصلہ کے لئے اکٹھی ہوتی ہیں تو انہیں کچھ نہ کچھ بات دوسروں کی ماننی پڑتی ہے- اب اگر کل یا بعض ممبر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ تسلیم کر لیں اور اس کے نقطئہ نگاہ کی وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ بھی اس قاعدہ کلیہ سے آزاد نہیں ہو سکتے- پس سوال یہ ہے کہ وہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر کیا کریں- اگر وہ اپنے مطالبات پیش کر کے یہ کہیں گے کہ ان کو ماننا ہے تو مانو نہیں تو ہم جاتے ہیں تو سب دنیا ان پر ہنسے گی اور وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے- لیکن اگر وہ بعض باتوں کو کانفرنس کے موقع پر چھوڑ دیں گے تو ان کی قوم ان سے ناراض ہو گی- پس اس کا بھی کوئی علاج سوچ لینا چاہئے- مسلمان ممبروں کا نظام اور ان کیلئے ہدایات کا انتظام میرے نزدیک اس کا بہترین علاج یہ ہو سکتا ہے کہ تمام ممبروں کو جو قوم کے نمائندے ہوں یا قوم کی نمائندگی کو تسلیم کر لیں ایک نظام میں منسلک کر دیا جائے اور ان کا ایک سیکرٹری بنا دیا جائے- اس کے بعد آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا اجلاس کیا جائے اور اس میں ایک دفعہ اصلاحات کے سوال پر قومی اور ملکی دونوں نقطئہ نگاہ سے غور کر لیا جائے اور ایک مکمل سکیم تجویز کر کے جس میں حکومت کی تمام جزئیات پر بحث ہو انہیں دے
۱۹۴ دی جائے- جو امور کہ ملکی ہوں ان کے متعلق انہیں ہدایت کر دی جائے کہ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے نمائندوں سے تعاون کر کے کام کریں- اور صرف موٹی موٹی ہدایتیں ایسی دے دی جائیں کہ ان میں تغیر نہ ہو- لیکن جو امور قومی ہوں یا جن ملکی سوالات کا اثر خاص طور پر قوم پر پڑتا ہو ان کے متعلق ایک ایسی سکیم تجویز کر لی جائے جس میں سے بوقت ضرورت کچھ چھوڑا جا سکے اور ساتھ ہی مخفی طور پر یہ ہدایات دے دی جائیں کہ اس سکیم میں اس قدر تغیر آپ لوگ حسب ضرورت کرنے کے مجاز ہونگے مگر اس سے زائد تغیر پر اگر آپ لوگ مجبور ہوں تو آل مسلم پارٹی کانفرنس سے مشورہ کئے بغیر کارروائی نہ کریں- پھر اگر ایسی صورت پیش آئے اور یہ لوگ کسی امر میں مشورہ طلب کریں تو فوراً آل مسلم پارٹی کانفرنس کا اجلاس کر کے مشورہ کر لیا جائے اور نمائندوں کو بذریعہ تار اطلاع دے دی جائے- ہاں یہ امر مدنظر رکھا جائے کہ جو لوگ نمائندہ ہو کر گئے ہوں جہاں تک ہو سکے ان کی تجاویز کو اہمیت دی جائے اور بلاکافی وجہ کے ان کے مشورہ کو رد نہ کیا جائے کیونکہ موقع پر موجود ہونے والا آدمی بعض ایسی باتوں کو جانتا ہے جنہیں دوسرے نہیں جانتے- مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت بہت آسانی سے ہوگی- میرے نزدیک آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے لئے کام کا وقت ابھی آیا ہے- خالی اس امر کو شائع کر دینا کہ مسلمانوں کے یہ مطالبات ہیں کافی نہیں ہے- اگر ایسے لوگ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں گئے جنہوں نے ان مطالبات کو پس پشت ڈال دیا تو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کی قیمت کچھ بھی باقی نہیں رہتی- پس یہی وقت ہے کہ وہ ایک طرف گورنمنٹ کو غلط انتخاب کے بد نتائج سے آگاہ کرے اور دوسری طرف پبلک کو اس کے خطرات سے واقف کرے اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصلہ مسلمانوں کے منتخب نمائندوں اور ان کی اہم سیاسی انجمنوں کے ذریعہ سے نہ ہو اور منتخب شدہ ممبر قومی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں- احساس ذمہ داری میں سمجھتا ہوں کہ اس تھوڑے سے وقت میں اور اس جوش کی حالت میں جو کمیشن سفارشات کی اشاعت پر ملک میں پیدا ہو جائے گی صحیح راہنمائی بہت مشکل کام ہے- لیکن باوجود اس امر کے جاننے کے میں اس ذمہ داری کے
۱۹۵ ادا کرنے سے نہیں رک سکتا جس کے صدابصحراء ثابت ہونے کا احتمال ہے مگر جو اس وقت ہر فرد قوم پر عائد ہے اور اس یقین کے ساتھ اپنی رائے کو شائع کرتا ہوں کہ حق کی آواز ضائع نہیں جاتی- اگر آج دبا بھی دی گئی تو کل ضرور بلند ہو کر رہے گی- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ۲۳- جون ۱۹۳۰ء (الفضل ۲۸- جون ۱۹۳۰
۱۹۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ملہم کی حیثیت میں از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۱۹۹ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصرٍ رسول کریم ﷺ ایک ملہم کی حیثیت میں ہر انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کی کئی حیثیتیں ہوتی ہیں- مثلاً ایک نبی کی، ایک رسول کی، ایک ملہم کی، ایک مامور کی، ایک آمر کی، ایک معلم کی اور ایک مربی کی- ہر ایک حیثیت اپنی ذات میں ایک قیمتی جوہر اور دلفریب چیز ہوتی ہے- جسے دیکھ کر انسان بیاختیار ہو جاتا ہے اور اس کا دل اس اقرار پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے تمام افعال کسی زبردست طاقت کے تصرف کے ماتحت ہیں- میں اس وقت رسول کریم ﷺ کے ملہم ہونے کی حیثیت کو لیتا ہوں کہ اس میں بھی آپ نہ صرف دوسری دنیا سے بلکہ سب نبیوں سے بڑھے ہوئے تھے- ملہم ہونے کی حیثیت میں جس چیز کو ہمیں دیکھنا چاہئے وہ نبی پر نازل ہونے والا کلام ہے- اس کلام کی حیثیت کے مطابق ہم نبی کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں- کیونکہ کلام اسی قدر طاقتیں اپنے ساتھ لے کر آتا ہے جس قدر کام کی اس سے امید کی جاتی ہے- اگر یہ صحیح ہے کہ نبی کا ہتھیار اس کا کلام ہوتا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ضرورت کے مطابق ہی ہتھیار اسے دیا جائے گا- اگر بڑے دشمن کا مقابلہ ہے اور بہت بڑی فتوحات اس کے ذمہ لگائی گئی ہیں تو یقیناً بہت کاری ہتھیار اسے دینا ہوگا تا کہ وہ اپنا کام کر سکے- لیکن تعجب ہے کہ دنیا نے اس صاف اور سیدھی صداقت کو نہیں سمجھا اور کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو سوائے قرآن کریم کے کوئی معجزہ نہیں ملا اور اس سے انہیں یہ بتانا مطلوب ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بھلا کیا معجزہ ہونا تھا- پس اگر اس کے سوا کوئی معجزہ نہیں ملا تو گویا کوئی معجزہ ہی نہیں ملا- لیکن یہ خیال ان لوگوں کا محض ناسمجھی یا حماقت پر مبنی ہے- اول تو یہ درست نہیں کہ
۲۰۰ قرآن کریم کے سوا رسول کریم ﷺ کو کوئی اور نشان نہیں ملا- آپ کی زندگی کا تو ہر پہلو ایک معجزہ تھا- اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر معجزات دیئے کہ سب انبیاء کو مجموعی طور پر بھی اس قدر معجزات نہ ملے ہوں گے- لیکن اگر ہم فرض کر لیں کہ اور کوئی معجزہ آپ کو نہیں ملا، تب بھی قرآنکریم کا معجزہ سب معجزات سے بڑھ کر ہے- اور وہ ایک ہی آپ کے سب نبیوں پر برتر ہونے کا ثبوت ہے- چونکہ بعض لوگوں کو یہ خیال ہے کہ جب قرآن کریم کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کی زبان بہت فصیح ہے- اس وجہ سے یہ لوگ قرآن کریم کے مختلف عیوب بیان کرتے رہتے ہیں اور اس کوشش میں ایسی ایسی احمقانہ حرکات کر بیٹھتے ہیں کہ ہنسی آ جاتی ہے- چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ‘’سوانح محمد’‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں لکھتے ہیں کہ پانچویں سال سے دسویں سال قبل ہجرت میں رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم میں یہودی کتب کے مضامین بیان کرنے شروع گئے اور اس وجہ سے قرآن کریم کا وہ پہلا اندازبیان نہ رہا اور بڑی مشکل سے یہودی روایات کو عربی زبان میں داخل کرنے کے آپ قابل ہوئے اور چونکہ دن کو تو آپ کو فرصت نہیں ہوتی تھی- اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر آپ محنت سے وہ ٹکڑے تیار کرتے ہوں گے- پھر وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات یایھا المزمل قم الیل الا قلیلا- نصفہ اوانقص منہ قلیلا- اوزد علیہ ورتل القران ترتیلا- انا سنلقی علیک قولاثقیلا- ان ناشئہ الیل ھی اشد وطا و اقوم قیلا- ان لک فی النھار سبحا طویلا- واذ کراسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا- ۱؎غالباً اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں- سرمیور محقق تو بہت ہیں لیکن تعجب ہے کہ انہیں اس قدر بھی خیال نہیں آیا کہ یہ آیات مسلمہ طور پر پہلے سال نبوت کی ہیں اور سورۃ مزمل جس کا وہ حصہ ہیں نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض محققین تو اس سورۃ کو ابتدائی سورتوں میں سے سمجھتے ہیں- پس جو سورۃ کہ ابتدائی زمانہ میں اتری ہے- اس میں اس محنت کا ذکر جو پانچویں یا دسویں سال میں بقول ان کے رسول کریم ﷺ کو کرنی پڑی خود ایک معجزہ ہے- کیونکہ کون شخص پانچ چھ سال
۲۰۱ بعد کی ایسی بات بنا سکتا ہے جو اس کے اختیار میں نہ ہو- خلاصہ یہ کہ دشمنان اسلام اس معجزہ کو ہلکا کرنے کے دکھانے کے لئے اس قدر کوشش کرتے ہیں رہتے ہیں کہ خود وہ کوشش ہی اس امر کا ثبوت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے اس معجزہ کو وہ دل میں تسلیم کرتے ہیں- ورنہ اس قدر گھبراہٹ اور تشویش کی کیا ضرورت تھی؟ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی کتاب اپنی ذات میں معجزہ نہیں ہے- بلکہ اس کے نزول سے پہلے وہ بے شک اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے معجزہ ہوں گی لیکن اس سورج کے طلوع کے بعد وہ ستاروں کی طرح مدہم پڑ گئیں- اب حال یہ ہے کہ جو قصے ان کتب میں پائے جاتے ہیں، ان کے ذریعہ سے تو وہ اسلام کا مقابلہ کر لیتے ہیں- کیونکہ قصوں میں جس قدر کوئی چاہے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لے لے- اگر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے کسی شفاء کا ذکر کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں ایک مسیحی دس قصے سنا دے گا اور اگر اس پر استعجاب کا اظہار کیا جائے تو جھٹ کہہ دے گا کہ اگر تمہاری روایت قابل تسلیم ہے تو میری کیوں نہیں؟ لیکن اگر اس سے یہ کہا جائے کہ رسول کریم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے اور یہ زندہ معجزہ ہے- اس کی بنیاد روایتوں پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہے- تو اس کے جواب میں سوائے خاموشی کے اور ان کے پاس کچھ نہیں رہتا- وہ اپنی کتابوں کو پیش نہیں کر سکتے- کیونکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کتب محرف و مبدل ہیں اور اگر بعض ضدی اسے تسلیم نہیں کرتے تو کم سے کم تاریخی ثبوت اس قدر زبردست موجود ہیں کہ ان انکار نہیں کیا جا سکتا- وید کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے کہ مختلف نسخے مل کر کئی نئے وید بن جاتے ہیں- آخر کانٹ چھانٹ کر ایک نسخہ تیار کیا گیا ہے- توریت کا یہ حال ہے کہ اس میں یہاں تک لکھا موجود ہے کہ پھر موسیٰؑ مر گیا اور آج تک اس جیسا کوئی نبی پیدا نہیں ہوا- حالانکہ اس کتاب کی نسبت کہا جاتا ہے کہ خود موسیٰؑ پر نازل ہوئی تھی- دوسری کتب بائبل کی ایسی ہیں کہ اختلافات کی وجہ سے ایک حصہ کی دوسرے حصہ سے شکل نہیں پہچانی جاتی- انجیل میں خود مسیحی آئے دن تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں- اور کبھی کسی آیت کو صحیح قرار دے کر اس میں داخل کر لیتے ہیں- دوسرے وقت میں اسے ردی قرار دے کر پھینک دیتے ہیں- اور اب تو بعض بابوں تک کی صفائی ہونے لگی ہے- اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ الحاقی باب ہیں- مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر
۲۰۲ انجیل کسی معتبر ذریعہ سے پہنچی تھی تو الحاق کا زمانہ انیس سو سال تک کس طرح لمبا ہو گیا؟ معنوں کے فرق کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلوں نے معنی نہیں سمجھے ہم نے سمجھ لئے ہیں- لیکن ظاہر الفاظ کے متعلق ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ پچھلوں نے ان کو داخل کر دیا اور اب موجودہ نسلوں نے انیس سو سال بعد حقیقت کو معلوم کر لیا- جو لوگ ان بابوں اور آیتوں پر عمل کرتے رہے ان کی زندگیاں تو برباد گئیں اور ان کا عرفان تو تباہ ہوا- وہ کتاب آسمانی جس میں دو ہزار سال تک زائد ابواب اور زائد آیات شامل رہیں- اس پر بنی نوع انسان کی کیا یقین کر سکتے ہیں؟ اور آئندہ کے لئے کیا اعتبار ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ابواب خارج نہ کر دیئے جائیں؟ ممکن ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ جس طرح بعض محققین کا خیال ہے کہ ساری انجیل میں صرف ‘’ایلی ایلی لما سبقتانی’‘ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا- کا ایک فقرہ ہے جسے مسیح کے منہ سے نکلا ہوا کہا جا سکتا ہے- اس فقرہ کو انجیل قرار دے کر سب حصوں کو اڑا دیا جائے- مگر یہ ‘’چھوڑ دیا’‘ والا فقرہ ملانے کا موجب کب ہو سکتا ہے؟ غرض دوسرے سب مذاہب کی الہامی کتب ایسی مخدوش حالت میں ہیں کہ اس مقابلہ کی طرف آنے سے ان کے مبلغوں کی روح کانپتی ہے- اور یہی حال دوسری کلام کی خوبیوں کا ہے- اس وجہ سے کلام کے معجزہ کی طرف یہ لوگ کبھی نہیں آتے- حالانکہ کلام کا معجزہ دوسرے معجزوں سے زبردست ہوتا ہے کیونکہ اس کا ثبوت ہر وقت پیش کیا جا سکتا ہے- جب کہ دوسرے معجزات ایسے ہیں کہ روایات کے غبار میں غائب ہو جاتے ہیں- اور جب تک دوسرے شواہد ساتھ نہ ہوں سچے اور جھوٹے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے- کلام کا معجزہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، کئی شاخیں رکھتا ہے اور قرآن کریم کا معجزہ ان تمام شاخوں میں مکمل اور اکمل ہے- لیکن ایک اخبار کے مضمون میں اس قدر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ ہر ایک بات بیان کر دی جائے- نہ ہر امر تفصیل سے بیان ہو سکتا ہے- اس لئے میں صرف اس معجزہ کے دو پہلوؤں کو اختصار سے بیان کرتا ہوں- اور چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی اور کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی مدعی ہے تو اس کے پیرو اس معجزہ کے مقابلہ میں اسے پیش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کی کتاب ایک ذرہ بھر بھی اس کتاب کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ پہلی مثال جو میں پیش کرنی چاہتا ہوں الفاظ قرآنیہ ہیں- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا
۲۰۳ ہے کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون ۲؎ ہم ہی نے اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں- یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو چیز اپنی غرض کو پورا کر رہی ہوتی ہے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں- اور جب وہ اس غرض کو پورا کرنے سے جس کے لئے اسے بنایا یا اختیار کیا گیا تھا رہ جاتی ہے تو ہم اسے پھینک دیتے ہیں- پس اس میں کیا شک ہے کہ اگر کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب تک اس کی ضرورت دنیا میں ہو اس کی حفاظت ہونی چاہئے اور جب اس کی حفاظت بند ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی ضرورت دنیا میں با قی نہیں رہی اس لئے اسے پھینک دیا گیا ہے- قرآن کریم جس قوم میں نازل ہوا وہ علم سے خالی تھی- اس کے مقابلہ میں دوسری کتب سماویہ ایسی اقوام میں نازل ہوئیں کہ جن میں لکھنے پڑھنے کا کافی رواج موجود تھا- لیکن باوجود اس کے وہ کتب محفوظ نہ رہ سکیں- لیکن قرآن کریم اب تک اسی طرح موجود ہے جس طرح کہ وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت تھا اور یہ حفاظت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اس کے لئے خاص آسانیاں حاصل تھیں جو دوسری کتب کو حاصل نہیں تھیں- نہ یہ حفاظت اس وجہ سے ہے کہ اب تک اس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا گیا- جس سے یہ امکان باقی رہ جائے کہ شاید جب اس کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو اس کے نقائص معلوم ہو جائیں- کیونکہ ایک سو سال سے مسیحی مبشرین بائبل کی بدنامی دھونے کیلئے قرآن کریم کی تاریخ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور اس قسم کی عرق ریزی سے کام لے رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی نسبت معلوم نہ ہو تو شاید وہ یہ خیال کرے کہ قرآن کریم کی محبت مسیحی مبشروں کو عام مسلمانوں سے زیادہ ہے- لیکن باوجود اس عرق ریزی کے وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اس کی عبارت میں ایک لفظ بھی ایسا ثابت کر سکیں کہ جو زائد ہو اور اصل قرآن کریم میں نہ ہو- ہزاروں قوموں اور سینکڑوں ملکوں میں مسلمان بستے ہیں اور سب کے پاس قرآن کریم ہوتا ہے- لیکن آج تک ایک بھی ایسی مثال نہیں نکل سکی کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو- ڈاکٹر منگانا نے اپنی طرف سے بڑی کوشش کر کے تین قدیم نسخے قرآن کریم کے تلاش کئے تھے لیکن ان کے بعض اوراق چھاپنے سے ان کی ایسی پردہ دری ہوئی کہ مزید اشاعت کا خیال ہی انہوں نے دل سے نکال دیا- کیونکہ ان کے شائع کردہ ورقوں سے ثابت ہو گیا کہ وہ کوئی صحیح
۲۰۴ نسخے نہ تھے- بلکہ کسی جاہل نو آموز کی طرز تحریر کی غلطیاں تھیں اور اس کو غلطی نہیں کہتے- غلطی وہ ہوتی ہے جسے قوم صحیح تسلیم کر کے دھوکے میں آ جائے- اس قسم کے نسخوں کی تلاش کسی قدیم زمانہ میں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لئے تو آسان راہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کی خراب چھپی ہوئی کتاب میں سے غلط آیات نکال کر کہہ دیا جائے کہ دیکھو قرآن کریم میں اختلاف ہے- چنانچہ ایک پادری سیالکوٹ میں ایسا تھا بھی جو مختلف نسخے قرآن کریم کے اپنے پاس رکھتا تھا اور جو کوئی غلطی اسے ملتی اس پر نشان لگا لیا کرتا تھا- پھر جو مسلمان اسے ملتا اسے دکھاتا تھا کہ تم تو کہتے ہو کہ قرآن کریم محفوظ ہے حالانکہ اس قرآن میں یہ لفظ یوں لکھا ہے اور اس دوسرے میں یوں لکھا ہے- اس کا دماغ اس طرح نہیں کیا کہ ایک توتلے آدمی کو نوکر رکھ چھوڑتا اور اس سے قرآن پڑھوا کر سنواتا اور کہتا کہ دیکھو قرآن کریم میں تغیر ہو سکتا ہے اس نادان نے یہ نہیں سوچا کہ غلطی وہ ہوتی ہے جس سے قوم دھوکا کھا جائے- ورنہ وہ بھول چوک جس کو خود لکھنے والا بھی دوبارہ پڑھنے سے معلوم کر لے کہ یہ غلطی تھی حفاظت کے خلاف نہیں- اس کی حفاظت تو آسانی دماغ میں اور دوسرے نسخوں میں موجود ہے اور اس سے کوئی نقصان عقیدہ یا تفسیر کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس غلطی کی بناء پر کوئی شخص ترجمہ یا تفسیر غلط نہیں کر سکتا- قرآن کریم کو اس بارے میں جو حفاظت حاصل ہے اس کے متعلق میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا- میں صرف ان لوگوں کی شہادت پیش کرتا ہوں کہ جو پکے مسیحی ہیں اور جنہوں نے پورا زور لگایا ہے کہ کسی طرح قرآن کریم کی حفاظت پر وہ کوئی اعتراض کر سکیں- لیکن آخر مجبور ہو کر ان کو ماننا پڑا ہے کہ سب اعتراض فضول اور لغو ہیں قرآن کریم آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح کہ اس وقت محفوظ تھا جب رسول کریم ﷺ دنیا سے جدا ہوئے تھے- سرولیم میور کی شہادت سرولیم میور اپنی کتاب ‘’دی کران’‘ (القرآن) میں لکھتے ہیں-: ‘’زید کا نظر ثانی کیا ہوا قرآن آج تک بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے- اس احتیاط سے اس کی نقل کی گئی ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ قرآن کا استعمال کیا جاتا ہے’‘-۳؎ ‘’جو اختلاف قرآن کریم کے نسخوں میں نظر آتا ہے وہ قریباً سب کا سب
۲۰۵ زیروں زبروں اور وقف وغیرہ کے متعلق ہے لیکن چونکہ زیر زبر اور وقف کی علامت سب بعد کی ایجاد ہیں وہ اصل قرآن کریم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ اس کا جو زید نے جمع کیا تھا-’‘ ۴؎ ‘’یہ بات یقینی ہے کہ زید نے جمع قرآن کا کام پوری دیانتداری سے کیا تھا اور علی اور ان کی جماعت کا جو بدقسمت عثمان کے مخالف تھے اس قرآن کو تسلیم کر لینا ایک یقینی ثبوت ہے کہ وہ قرآن اصلی تھا’‘- ۵؎ ‘’یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا’‘-۶؎ ایک مومن کی دلیل خواہ کس قدر ہی زبردست ہو لیکن دل میں شبہ رہتا ہے کہ شاید اس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا- لیکن یہ اس شخص کی تحریر ہے جس نے پورا زور لگایا ہے کہ اسلام اور بانی اسلام کی شان کو گرا کر دکھائے- خدا ہی جانتا ہے کہ اس اقرار صداقت کے وقت سرمیور کا دل کس قدر غم و غصہ کا شکار ہو رہا ہوگا- لیکن چونکہ انہیں گریز کا کوئی موقع نہ ملا- اس لئے انہیں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا اقرار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا- اس شہادت کو دیکھنے کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ دشمن بھی اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کریم ہر قسم کے دخل سے پاک ہے اور انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون کی پیشگوئی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی ہے اور یہ اس کی عبارت کا معجزہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کی مثال کوئی اور کتاب پیش نہیں کر سکتی- قرآن کریم کے مفہوم کی حفاظت کا معجزہ دوسری مثال کے طور پر میں اسی آیت کے ایک دوسرے مفہوم کو پیش کرتا ہوں-: کلام کی حفاظت کئی طرح ہوتی ہے- اس کے لفظوں کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے مفہوم کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے اثر کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی- میں لفظوں کے علاوہ اس کے مفہوم کی حفاظت کے معجزہ کو پیش کرتا ہوں- بالکل ممکن ہے کہ ایک کتاب کے لفظ تو ایک حد تک موجود ہوں لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے والے لوگ نہ مل
۲۰۶ سکیں- جیسے کہ وید ہیں کہ خواہ بگڑے ہوئے نسخے ہوں لیکن بہرحال اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ تو موجود ہے- لیکن ویدوں کی زبان اب دنیا سے اس قدر مٹ چکی ہے کہ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وید کی عبارت کا مطلب کیا ہے؟ شرک اور توحید، توہم پرستی اور ستارہ پرستی اور طب اور شہوانی تعلقات کی باریکیاں اور ہر قسم کی متضاد باتیں اس سے نکالی جاتی ہیں- لفظ ایک ہوتے ہیں، معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے- ایک قوم دام مارگ کی تعلیم اس سے نکالتی ہے تو دوسری ویدانت کی- اور اختلاف مفہوم میں نہیں بلکہ ترجمہ میں ہوتا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک سارے ہی وید میں اختلاف ہوتا ہے- لیکن قرآن کریم کی زبان ایسی محفوظ ہے کہ گو بعض جگہ پر ایک لفظ کے مختلف معانی کی وجہ سے معنوں کا اختلاف ہو جائے لیکن اول تو وہ اختلاف محدود ہوتا ہے- دوسرے اس کا حل خود قرآن کریم میں موجود ہوتا ہے- یعنی اس کے غلط معنی کرنے ممکن ہی نہیں ہیں- کیونکہ قرآنکریم اپنی تفسیر خود کرتا ہے اور اگر کوئی شخص غلط معنی کرے تو دوسری جگہ کسی اور آیت سے ضرور اس کے معنوں کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے اور اس طرح وانا لہ لحفظون کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں- قرآن کریم کی ایک آیت دوسری کی حفاظت کرتی ہے یعنی قرآن کریم کے مفہوم کے سمجھنے کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی- ہم نے خود ہی اس کے اندر ایسا سامان پیدا کیا ہوا ہے کہ غلطی فوراً پکڑی جاتی ہے اور غلطی کرنے والا اپنے معنوں کی قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے تطبیق پیدا نہیں کر سکتا- یہ قرآن کریم کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کی مثال بھی کسی اور کتاب میں نہیں مل سکتی- دوسری کتب اس طرح لکھی ہوئی ہیں کہ اگر ایک حصہ کے معنوں کو بدل دیا جائے تو دوسرے حصے ہر گز اس غلطی کو ظاہر نہیں کرتے لیکن قرآن کریم کی ہر آیت کی حفاظت کرنے والی دوسری آیتیں موجود ہوتی ہیں- جب کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو فوراً وہ دوسری آیات اس غلطی کو ظاہر کر دیتی ہیں اور اس طرح غلطی کرنے والا پکڑا جاتا ہے- غرض رسول کریم ﷺ بطور ملہم بھی سب ملہموں سے افضل ہیں- کیونکہ آپ کا الہام زندہ ہے- اور اس قدر زبردست معجزانہ اثرات اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی اور الہام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کوئی اور کتاب آپ کی کتاب کے مقابلہ میں نہیں
۲۰۷ ٹھہر سکتی!! ( الفضل ۲۵- اکتوبر ۱۹۳۰ء) المزمل:۲تا ۹ الحجر:۱۰ ۳ دی کران مصنفہ سرولیم میور 2 دی کران مصنفہ سردیم میور صفر ۳۹ دی کران مصنفہ سرولیم میور ۴۰۳۹ دی کران مصنفہ سرولیم میور صفحه ۴۰
۲۰۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثاني
۲۱۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر آنحضرت ﷺ ایک دشمن کی نظر میں سرولیم میور کے- سی- ایس- آئی- جو یو-پی کے ایک سولین تھے اور آخر ترقی کرتے کرتے یو- پی کے لفٹیننٹ گورنر ہو گئے- انہوں نے ایک کتاب آنحضرت ﷺ کے سوانح پر لکھی ہے جو اس موضوع پر مغربی لوگوں کی کتابوں میں سے اگر بہترین نہیں تو بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے- سرولیم میور اسلام اور بانی اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے ہیں- مسلمانوں کے ساتھ مراسم اور حکومت کے ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اپنے قلم کو بہت حد تک روکے رکھتے ہیں- لیکن ان کے متعصبانہ خیالات پھر بھی ان کی تحریر میں سے چھن چھن کر نکل ہی آتے ہیں- رسول کریم ﷺ کے متعلق جو زہر انہوں نے اگلا ہے اور جو نیش زنی انہوں نے کی ہے وہ قابل تعجب نہیں کیونکہ برتن میں سے وہی ٹپکتا ہے جو کچھ اس کے اندر ہوتا ہے مگر اس امر پر حیرت ضرور ہے کہ رسول کریم ﷺ کا حسن کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں بھی شناخت و عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی اس حسن دلآویز کی دید میں محو ہوتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں- مسیحیت کا یہ تیر انداز مجنونانہ طور پر آنحضرت ﷺ کی ذات پر تیر پھینکنے کے بعد جب والہانہ رنگ میں زمین کی طرح جھکتا ہوا نظر آتا ہے کہ انہی خون کے قطروں کو جو اسی کے تیروں سے زمین پر گرے تھے ادب و احترام کے ساتھ چاٹ لے تو دل میں گدگدیاں ہوئے بغیر نہیں رہتیں- اس وقت یہ شخص عداوتواستعجاب کے متضاد جذبات کا مجسمہ نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بادل کی طرح قدرت نے آگ اور پانی ایک ہی جگہ پر جمع کر دیئے ہیں- جب وہ حالت جاتی رہتی ہے تو
۲۱۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں پھر یہ شخص پہلے کی طرح تیر اندازی میں مشغول ہو جاتا ہے- بہت سے دشمنانِ اسلام کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ زمانہ کی پیدائش تھے- یعنی آپ نے زمانہ کو متغیر نہیں کیا- بلکہ اس زمانہ کے حالات نے آپ کے وجود کو پیدا کیا- عرب کے لوگ اپنی حالت سے تنگ آ چکے تھے- عیسائیت ان کی ارواح کو گرما رہی تھی- وہ ایک نئی شکل اختیار کرنے کے لئے تیار تھے- ضرورت صرف ایک سانچے کی تھی جس میں وہ پڑ جائیں اور ڈھل جائیں- وہ سانچہ بھی حالات زمانہ کے ماتحت آپ ہی آپ تیار ہو رہا تھا- وہ سانچہ ﷺ کی ذات تھی- عرب کے قلوب اس میں پڑے اور ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک نیا نام پا کر دنیا میں پھیل گئے، نہ محمد ﷺ نے کوئی نیا قانون دنیا میں پیش کیا نہ دنیا نے ان کے ذریعہ سے کوئی نیا تغیر پیدا کیا- میور بھی اپنی جبلّی حالت کے ماتحت اسی خیال کی تائید کرتا چلا جاتا ہے- لیکن کبھی نسیم محمدی جہالت کی سرزمین سے اس کے پاؤں اکھیڑ دیتی ہے اور وہ لرزتے ہوئے، کانپتے ہوئے، غوطے کھاتے ہوئے، مگر بہرحال زمین سے اوپر ایک نئی دنیا میں پرواز کرنے لگتا ہے- ایسی ہی گھڑیوں میں سے ایک گھڑی میں اس کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں- ‘’یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لازمی نتیجہ تھی، ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے باریک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالی شان کپڑا تیار ہو گیا ہے یا یہ کہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں میں سے ایک شاندار جہاز تیار ہو گیا ہے- یا پھر یہ کہنا کہ کھردری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیار ہو گیا ہے- اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جاتے- اور اپنے متبعین کو ان دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کاربند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جاتا- جو عرب کے گرجا کی بنیاد رکھنے والا قرار پاتا- لیکن جہاں تک انسانی عقل کام دیتی ہے- کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کوئی معقول حصہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا- لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ نے اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ایسی کل ایجاد کی کہ جس کی موقع کے مناسب ڈھل جانے والی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم
۲۱۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں کی پراگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میں بدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں- ایک عیسائی کو وہ ایک عیسائی نظر آتے تھے- ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے- ایک مکہ کے بت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یافتہ عبادت گذار تھے اور اسی طرح ایک لاثانی ہنر اور ایک بے مثال دماغی قابلیت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کوئی بت پرست تھا، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبور کر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے- یہ فعل اس صناع کا ہوتا ہے جو اپنا مصالح آپ تیار کرتا ہے اور یہاں اس مصالح کی مثال چسپاں نہیں ہوتی جو کہ آپ ہی آپ بن جاتا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں- جو اپنے صناع کو خود تیار کرتا ہے- یہ محمد کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا- یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلامی روح تھی جس نے محمد کو بنایا’‘-۱؎ میور خواہ ہوا میں اڑے یا زمین پر چلے- پھر میور ہی ہے- اس کا ڈنگ اس کے ساتھ ہے- لیکن باغ محمدﷺ کے پھولوں سے چوسا ہوا شہد بھی اس کی زبان سے ٹپک رہا ہے- وہ لاکھ کہے کہ اسلام آنحضرت ﷺ کا تیار کردہ ہے- وہ دشمن ہے اور دشمنی اس کا شیوہ- لیکن یہ صداقت جو اس کے قلم سے نکل گئی ہے- اب ہزار کوشش سے بھی وہ اور اس کے ساتھی اس کو لوٹا نہیں سکتے کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہیں کیا- بلکہ محمد ﷺ نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے- اور یہ کام سوائے خدا کے فرشتوں کے اور کوئی نہ کر سکتا- زمینی راہنما زمین کی پیدائش ہوتے ہیں- یہ انسانی راہنما ہی ہوتے ہیں جو نئی زمین پیدا کر جاتے ہیں- کیونکہ جو خالق کی طرف سے آتا ہے، وہی نئی خلق پر قدرت پاتا ہے- (الفضل ۲۵- اکتوبر ۱۹۳۰ء) ۱؎
۲۱۵ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریمﷺدنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۲۱۷ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر عرفان الہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریمﷺ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے (فرمودہ ۲۶- اکتوبر ۱۹۳۰ء بر موقع جلسہ سیرت النبیؐ- قادیان) حضور نے تشہّد تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: گو میری صحت تو مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں آج کوئی تقریر کروں- لیکن چونکہ اس دن سارے ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بعض مقامات پر مسلمان رسول کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرنے کے لئے جمع ہوں گے اور چونکہ یہ دن آج نہیں تو کل ساری دنیا کے لئے نہیں تو کم از کم ہندوستان کی قوموں کے لئے صلح کا پیش خیمہ بننے والا ہے اور ہندوستان میں سے کم از کم بنگال میں تو ابھی سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ہر سال غیر مذاہب کے لوگ اس دن کے منانے میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہے اور زیادہ حصہ لے رہے ہیں- میں امید کرتا ہوں کہ جوں جوں غیر مذاہب کے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہ کوئی مذہبی تبلیغ کا دن نہیں بلکہ مختلف اقوام میں صلح و اتحاد پیدا کرنے کا دن ہے- دلی منافرت اور بغض جو کہ بعض اسباب کی وجہ سے عرصہ داراز سے چلا آتا ہے، اس کے ازالہ کا ذریعہ ہے تو لوگوں میں خود بخود اس دن کا احترام شوق پیاد ہوتا جائے گا- ہمیشہ ایک نیک قدم اٹھانے سے دوسرا نیک قدم اٹھانے کی توفیق ملتی ہے- اور ایک نیک خیال پیدا ہونے سے دوسرا نیک خیال پیدا ہوتا ہے- اس تحریک کے سلسلہ میں میں دیکھتا ہوں کہ اب دوستوں کی طرف سے ایک اور
۲۱۸ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ تحریک پیش کی جا رہی ہے جو بہت معقول ہے اور میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد اس تحریک کے ماتحت بھی جلسے منعقد کرائے جائیں- وہ تحریک یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جو پرافٹ ڈے (PROPHETDAY) نہ ہو بلکہ پرافٹس ڈے (PROPHETSDAY) ہو- یعنی رسول کریم ﷺ کی ذات کے لئے ہی جلسے نہ منعقد کئے جائیں بلکہ تمام انبیاء کی شان کے اظہار کے لئے اس دن جلسے کئے جائیں- ایسے جلسوں میں ایک مسلمان کھڑا ہو جو رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کی بجائے کسی دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرے- اسی طرح ایک عیسائی کھڑا ہو کر بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے حضرت بدھ علیہ السلام یا حضرت کرشن علیہ السلام کی خوبیاں بیان کرے- ایک ہندو کھڑا ہو کر بجائے حضرت کرشنؑ اور رام چندر جیؑ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوبیاں پیش کرے- ایک زرتشتی کھڑا ہو کر بجائے زرتشت کی خوبیاں بیان کرنے کے رسول کریم ﷺ کی خوبیاں بیان کرے- یہ ایک نہایت ہی معقول تجویز ہے- مگر فی الحال دقت یہ ہے کہ اگر ایک ادھورے کام میں دوسرا کام شروع کر دیا جائے تو پہلے کام میں نقص پیدا ہو جاتا ہے- میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد ایسے جلسے منعقد کرانے کی تجویز کی جائے جن میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے دوسرے مذاہب کے بانیوں کی خوبیاں بیان کرے- اس قسم کے جلسے ہندوستان جیسے ملک سے بہت سے تفرقے اور رنجشیں دور کر سکتے ہیں- میں امید کرتا ہوں اللہتعالیٰ توفیق دے تو کسی ایک بزرگ کا نہیں بلکہ بزرگوں کا دن منانے کے لئے ہم کھڑے ہوں گے- اس میں شرط یہ رکھی جائے کہ کوئی شخص اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں نہ بیان کرے بلکہ دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں پیش کرے- اس کے بعد میں یہ بات بھی کہنا چاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کی تعریف کرنا بے شک ایک مسلمان اپنے مذہب کے لحاظ سے ثواب کا کام سمجھتا ہے اور غیر مذاہب والے بھی جنہیں رسول کریم ﷺ کے حالات پڑھنے کا موقع ملا ہو اور جو صداقت کے اظہار کی جرات رکھتے ہوں- اظہار صداقت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی تعریف و توصیف کریں- مگر ایک چیز ہے جسے ہم کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتے اور کسی کے لئے بھی قربان نہیں کر سکتے، خواہ وہ رسول کریم ﷺ کی ذات ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی ذات
۲۱۹ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ ہے- اس لئے کوئی بات ایسی نہیں کہنی چاہئے جس میں شرک کا ایک شائبہ بھی پایا جاتا ہو- ہمیں محمد ﷺ کی ذات سے محبت اس لئے ہے کہ آپ کی ذات خدا نما ہے- اگر خدا نمائی کو آپ کی ذات سے علیحدہ کر دیا جائے- تو پھر آپ بھی ایسے ہی انسان ہیں جیسے دوسرے انسان- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعض اشعار میں بے شک ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں رسول کریم ﷺ کی روح کو مخاطب کیا ہے مگر ملہم اور غیر ملہم کے کلام میں فرق ہوتا ہے- ملہم جسے مخاطب کرتا ہے اسے اپنی آنکھ سے اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے ہیں- کہ میں نے جاگتے ہوئے حضرت علیؓ حضرت حسینؓ اور حضرت فاطمہؓ سے باتیں کیں- پس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اے رسولاللہﷺ!~ یہ بات یوں ہو تو یہ سچ ہے لیکن وہ جسے یہ حالت حاصل نہیں وہ اگر یہ کہتا ہے کہ اے رسول اللہ! آپ کی مجھ پر نظر عنایت ہو- تو غلط کہتا ہے- نظر عنایت خدا ہی کی ہوتی ہے- ہم مشرک نہیں اس لئے ہم خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں- خواہ محمد ﷺ کی ذات ہی کیوں نہ ہو- ہماری جماعت کے شاعروں کو اپنے کلام میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے اگر ’’حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی-‘‘ حفظ ِمراتب کرنا ہمارا فرض ہے- پس ضروری ہے کہ جس امر کی حفاظت کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں ہر حال میں اس کی حفاظت کریں- لیکن اگر وہی چیز جس کی حفاظت کے لئے رسول کریم ﷺ کھڑے ہوئے اسے ضائع کر دیتے ہیں تو پھر رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- اس کے بعد میں اصل مضمون کو لیتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے خصوصیت سے مقرر کیا گیا ہے اور جو یہ ہے کہ ‘’عرفان الہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریم ﷺ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے’‘- عرفان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہچاننے اور شناخت کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت کم ازکم ایک مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ وراء الوراء ہستی ہے اور مجسم نہیں- اس لئے ممکن نہیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ سکیں- یا انسانی ہاتھ اسے چھو سکیں- یا دوسرے ظاہری حواس اسے محسوس کر سکیں- پس وہ ذات جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے- نہ ہاتھوں سے چھوئی جا سکتی ہے اس کے پہچاننے کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے- اس صورت میں یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پہچاننے کا وہ مفہوم نہیں ہو سکتا جو دوسری چیزوں کے
۲۲۰ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا عالی مرتبہ پہچاننے کا ہوتا ہے- مادی چیزوں کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ ہم انہیں آنکھوں سے دیکھتے یا زبانوں سے چکھتے یا کانوں سے سنتے یا ہاتھوں سے چھوتے ہیں- مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں جو دیکھنے سننے، سونگھنے یا چکھنے سے معلوم ہو سکے- چنانچہ وہ ذات خود اپنے متعلق فرماتی ہے- لا تدرکہ الابصار وھویدرک الابصار- وھو اللطیف الخبیر ۱؎ کہ وہ ایسی ذات ہے جسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مگر وہ خود آنکھوں تک پہنچ جاتی ہے- پس جب ہم اسے دیکھ نہیں سکتے تو پھر پہچاننے کے لئے کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا ہوگا اور وہ ذریعہ یہی ہے کہ جو ہستی خالق ہے اور جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ وہ سارے جہان کی خالق ہے- اس کی پہلی شناخت اپنی ذات سے ہوگی- کیونکہ جو چھوا، چکھا، دیکھا اور سنا نہ جا سکے- اس کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ اس کے کام دیکھیں- اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز ہماری اپنی ذات ہی ہے- پس سب سے پہلی شناخت خدا تعالیٰ کی اپنی ذات میں ہی انسان کر سکتا ہے- اور جو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسے پہچان لیتا ہے- اسی لئے صوفیاء کہتے ہیں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہنچان لیا- دوسری شناخت کی صورت یہ ہے کہ دوسری کامل چیزوں میں خدا کو دیکھا جائے- میں نے خدا تعالیٰ کی شناخت کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے کامل چیزوں کو مقدم رکھا ہے- حالانکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی زیادہ آسانی کے ساتھ دیکھی جا سکے گی- مگر یہ درست نہیں کیونکہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی وراء الوراء ہوتی چلی جائے گی- اس لئے کامل چیزوں میں خدا کا دیکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ کی پہچان کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ نظر آ جائے- یہ سب سے بالاوبلند مقام ہے- اس سے دوسرا مقام یہ ہے کہ کامل انسانوں میں خدا نظر آ جائے اور تیسرا مقام یہ ہے کہ باقی انسانوں میں خدا نظر آئے- کامل انسان میں خدا تعالیٰ کا دیکھنا مشکل ہے- مگر عام انسانوں میں خدا کو دیکھنا بھی آسان نہیں- ایک انسان اگر جنگل میں کوئی خوشکن سبزہ زار دیکھے تو بیاختیار سبحان اللہ کہے گا اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ پھر جائے گی- لیکن اس سے بہتر اس کا ہمسایہ ہوگا مگر اس سے لڑتا جھگڑتا رہے گا- وہ سبزہ میں تو خدا کو دیکھ لے گا لیکن ہمسایہ میں اسے نظر نہ آئے گا- وہ گانے والی چڑیا کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کا جلوہ محسوس کرے
۲۲۱ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ گا- مگر بولنے والے انسان میں اسے کچھ نہ نظر آئے گا کیونکہ رقابت کی وجہ سے اس میں دیکھنا مشکل ہوتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے- اس سے اتر کر چوتھا درجہ باقی مخلوق میں خدا تعالیٰ کو دیکھنا ہے- اس میں بھی خدا تعالیٰ کی رؤیت کے اعلیٰ مقامات ہیں- پھر پانچواں مقام یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھائے- ہر کمال جو انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے دو درجے ہوتے ہیں- ایک یہ کہ انسان خود اسے سمجھے- دوسرے یہ کہ دوسروں کو سمجھا سکے- ایک طالب علم خود جس قدر جغرافیہ اور تاریخ سمجھ سکتا ہے اسے اگر کہا جائے کہ اسی قدر دوسرے لڑکوں کو سمجھا دو تو وہ نہیں سمجھا سکے گا- پس پانچواں مقام یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھا سکے- وقت کی کمی کی وجہ سے میں مضمون کو مختصر کر رہا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کی شناخت کے اور بھی مقام ہیں- اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو پہچان لینے کی علامتیں کیا ہوتی ہیں- بعض لوگ دوسروں کو پہچان لیتے ہیں مگر وہ خود نہیں پہچانے جاتے- انسانوں میں اس قسم کا معاملہ روز ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اور بندہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا- کیونکہ بندہ کا علم محدود ہوتا ہے وہ پہچاننے والوں کو پہچاننے سے محروم ہو سکتا ہے- مگر خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے- اس لئے جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لے تو خدا تعالیٰ بھی اپنی پہچان فوراً اس پر ظاہر کر دیتا ہے- خدا تعالیٰ سب کو پہچانتا ہے مگر بندوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لئے اپنے مقام کو ان سے مخفی رکھتا ہے- لیکن جب بندہ اس کی تلاش کرتا اور اسے پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی بندے پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں- پس خدا تعالیٰ کو بندہ کے پہچاننے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بندہ کو پہچان لے- جب بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے جواب میں پہچانتا ہے- عام عرفان کے متعلق رسول کریم ﷺ نے ایک آیت پیش فرمائی ہے- اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں- میں پہلے وہ پیش کرنا چاہتا ہوں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۲؎کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا- اس آیت میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں- اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو انسان پا سکتا ہے- پہلے جتنے بزرگ گذرے ہیں جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدا کو پا لیا تو انہوں نے غلط نہ کہا بلکہ بالکل درست کہا کیونکہ انسان خدا کو پا سکتا ہے- چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے-
۲۲۲ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ اگر تم خدا تعالیٰ کو ملنے کی خواہش رکھتے ہو تو آؤ اس کا ذریعہ میں تمہیں بتاؤں کہ کس طرح مل سکتے ہو- اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ انسان کو مل سکتا ہے- دوسری جگہ اس بات کی اس طرح تصدیق کی گئی کہ فرمایاوالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ۳؎جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں- ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ ہمیں پا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور زمانہ میں ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے کہا کہ خدا مل گیا- مثلاً ایران میں حضرت زرتشت نے کہا- ہندوستان کے کئی بزرگوں حضرت کرشن، حضرت رام چندر، حضرت بدھ کے کلام کو دیکھا جائے گا تو صاف طور پر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کو ہم نے پا لیا- چین میں کنفیوشس ایسے ہی بزرگ گذرے ہیں- شام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مل جاتے ہیں- عرب میں حضرت صالح اور حضرت ہود پائے جاتے ہیں- غرض جہاں بھی جائیں ایسے انسان وہاں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ خدا کو مل گئے اور خدا انہیں مل گیا- یہ ایسی پختہ اور اتنی عام فہم بات ہے کہ اگر اس کا انکار کیا جائے تو دنیا میں کوئی صداقت رہتی ہی نہیں- کیونکہ اگر یہ لوگ جھوٹے ہو سکتے ہیں تو پھر دنیا میں اور کوئی سچا نہیں ہو سکتا- غرض الذین جاھدوا فینالنھدینھم سبلنا میں خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو مجھ سے ملنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے- پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے-یدبرالامر یفصل الایات لعلکم بلقاء ربکم توقنون ۴؎ خدا اپنی باتوں کو اندازہ سے رکھتا ہے اور جہاں جہاں کے متعلق کوئی چیز ہوتی ہے وہاں کھولتا اور تشریح کرتا ہے- تا کہ اس کے بندوں کو اپنے رب کے لقاء پر یقین ہو جائے- پس پہلی بات جو رسول کریم ﷺ نے اس آیت کے ذریعہ دنیا کو بتائی وہ یہ ہے کہ خدا بندوں کو مل سکتا ہے- دوسری بات یہ فرمائی کہ عرفان حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی اور کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ فرمایا فاتبعونی خدا کے ملنے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا- تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ عرفان کے حصول کے لئے صحیح راہ کی ضرورت ہوتی ہے- اور اس کے لئے عارف کی اتباع کی ضرورت ہے چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے کونوا مع الصادقین ۵؎صادقین کے ساتھ مل جاؤ-
۲۲۳ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ چوتھی بات یہ فرمائی کہ وہ صحیح راہنما محمد رسول اللہ ہیں- اس کا اشارہ ‘’نی’‘ میں کیا گیا ہے کہ میری اتباع کرو تب خدا ملے گا- پانچویں بات یہ بتائی یحببکم اللہ کہ انسان اللہ کا محبوب ہو جائے گا- انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا پیدا ہونا اور بات ہے لیکن جب تک خدا کی محبت انسان کی محبت کے جواب میں نہ اترے وہ عارف نہیں کہلا سکتا- خواہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی کتنی محبت ہو- کیونکہ محبوب کا مل جانا اس کی محبت کی علامت ہوتی ہے- پس خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو مل جاتا اور ان سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسا اپنے مقرب سے کیا جاتا ہے- اس طرح بندہ کو اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کے صحیح ہونے کا علم ہو جاتا ہے- لیکن اگر خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور مقربین جیسا سلوک نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہمارے دل میں بھی خدا کی سچی محبت نہیں ہے- بھلا یہ کبھی ممکن ہے کہ دو دلوں میں سچی محبت بھی ہو اور ان کے ملنے میں کوئی روک بھی نہ ہو اور پھر وہ آپس میں نہ ملیں- پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت ہو- جس کے پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ بھی اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اسے نہ ملے- جب خدا تعالٰی کسی بندہ سے محبت کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ اپنے بندہ تک آ سکے تو پھر ناممکن ہے کہ وہ نہ آئے- اسی محبت کا نام عرفان ہے جس کے بعد خدا تعالیٰ مل جاتا ہے اور انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کو کیسا عرفان حاصل تھا- پہلا عرفان یہ ہے کہ اپنی ذات میں انسان خدا تعالیٰ کو دیکھے- یہ سب سے کامل عرفان ہے گو اس کے بھی آگے بڑے بڑے درجے ہیں- رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو عرفان دیا تھا اس کی ایک مثال بتاتا ہوں- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی پہچان کیسی حاصل تھی- جب مکہ کے لوگوں نے رسول کریم ﷺ پر انتہا درجہ کے مظالم شروع کر دیئے اور ان کی وجہ سے دین کی اشاعت میں روک پیدا ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں- آپ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ چھوڑنے کیلئے تیار ہو گئے- اس سے پہلے کئی دفعہ انہیں جانے کے لئے کہا گیا مگر آپ رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ ہوئے- جب رسول کریم ﷺ جانے لگے تو حضرت ابوبکرؓ کو بھی آپ نے ساتھ لے لیا- جب آپ رات کے وقت روانہ ہوئے تو ایک جگہ جو میں نے بھی دیکھی ہے- پہاڑ میں معمولی سی غار
۲۲۴ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ ہے- جس کا منہ دو تین گز چوڑا ہوگا- اس میں جا کر ٹھہر گئے جب مکہ کے لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو انہوں نے آپ کا تعاقب کیا- عرب میں بڑے بڑے ماہر کھوجی ہوا کرتے تھے- ان کی مدد سے تعاقب کرنے والے عین اس مقام پر پہنچ گئے- جہاں رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے تھے- خدا کی قدرت کہ غار کے منہ پر کچھ جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی تھیں- اگر وہ لوگ شاخوں کو ہٹا کر اندر دیکھتے تو رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ بیٹھے ہوئے نظر آ جاتے- جب کھوجی وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اس سے آگے نہیں گئے- خیال کرو اس وقت کیسا نازک موقع تھا- اس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کیلئے- اس وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایالا تحزن ان اللہ معنا- ۶؎ گھبراتے کیوں ہو- خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے- اگر رسول کریم ﷺ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرا نہ جاتے- قوی سے قوی دل گردہ کا انسان بھی دشمن سے عین سر پر آ جانے سے گھبرا جاتا ہے- مگر رسول کریم ﷺ کے بالکل قریب بلکہ سر پر آپ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں- اس جگہ سے آگے نہیں گئے- اس وقت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں-لاتحزن اناللہ معنا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے- یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے یہ کہا- آپ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی اس لئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا- ایک دوسرے موقع پر رسول کریم ﷺ کا عرفان اس طرح ظاہر ہوا کہ مکہ کے قریب کا ایک آدمی تھا جس کا ابوجہل کے ذمہ کچھ قرضہ تھا- اس نے ابوجہل سے قرضہ مانگنا شروع کیا مگر وہ لیت و لعل کرتا رہا- اس زمانہ میں مکہ کے شرفاء نے ایک سوسائٹی بنائی ہوئی تھی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مظلوم ہوں ان کی امداد کرے- اس میں رسول کریم ﷺ بھی شامل تھے- وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ابوجہل نے میرا روپیہ مارا ہوا ہے آپ مجھے اس سے حق لے دیں- رسول کریم ﷺ نے اسے یہ نہ کہا کہ ابوجہل میرا دشمن ہے میرے خلاف شرارتیں کرتا رہتا ہے بلکہ کہا آؤ میرے ساتھ چلو- آپ ؐابوجہل کے
۲۲۵ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ ہاں گئے اس وقت مخالفین کی شرارتیں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ جب رسول کریم ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے- بیہودہ آوازے کستے- ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس آدمی کو لے کر ابوجہل کے محلہ میں گئے اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دی- جب ابوجہل نے دروازہ کھولا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں وہ یہاں کس طرح آ گیا- اس نے پوچھا- آپ کس طرح آئے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا روپیہ دینا ہے؟ ابوجہل نے کہاں ہاں دینا ہے- رسول کریم ﷺ نے فرمایا- دے دو- اس پر اتنا رعب طاری ہوا کہ وہ دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور فوراً روپیہ لا کر دے دیا- اس کے بعد کسی نے اس سے پوچھا- تم تو کہا کرتے تھے کہ محمد کو جس قدر ذلیل کیا جائے اور جتنا دکھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے- پھر تم نے اس سے ڈر کر روپیہ کیوں دے دیا اس نے کہا- آپ لوگ جانتے نہیں میری اس وقت یہ حالت تھی کہ گویا میرے سامنے شیر کھڑا ہے- اگر میں نے ذرا انکار کیا تو مجھے پھاڑ ڈالے گا- اس لئے میں ڈر گیا اور فوراً روپیہ دے دیا-۷؎ اب دیکھو رسول کریم ﷺ کا اشد ترین دشمن کے گھر چلے جانا اور اس سے روپیہ کا مطالبہ کرنا اسی لئے تھا کہ آپ سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کی ذات مجھ میں جلوہ گر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی مجھ پر حملہ کر سکے- تیسرے موقع کی مثال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک جنگ سے واپس آ رہے تھے کہ دوپہر کے وقت جنگل میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے- دوسرے صحابی علیحدہ علیحدہ جگہوں میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص جس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ آپ کو قتل کئے بغیر واپس نہ لوٹوں گا اور جسے دوران جنگ میں حملہ کرنے کا موقع نہ ملا تھا- آیا اور درخت سے لٹکی ہوئی تلوار اتار کر رسول کریم ﷺ کو جگا کر کہنے لگا- اتنی مدت سے میں تمہاری تلاش میں تھا اب مجھے موقع ملا ہے بتاؤ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے- رسول کریم ﷺ نے اسی طرح لیٹے لیٹے بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کئے فرمایا- مجھے اللہ بچا سکتا ہے- ۸؎ یہ الفاظ بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں اور کئی لوگ ان کی نقل کر کے یہ کہہ سکتے ہیں مگر ان کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان میں کیسی صداقت تھی- جب آپ نے فرمایا- مجھے اللہ بچا سکتا ہے تو حملہ آور کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار گر گئی- اس وقت آپ اٹھے اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہا- اب بتاؤ تمہیں کون بچا سکتا ہے- اس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو میں بچ سکتا
۲۲۶ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ ہوں- اسے رسول کریم ﷺ سے سن کر بھی اللہ یاد نہ آیا- مگر رسول کریم ﷺ نے اسے کہا جاؤ اور چھوڑ دیا- یہ عرفان الہٰی کا ہی نتیجہ تھا اور جب تک کامل عرفان حاصل نہ ہو اس وقت تک اس طرح نہیں کیا جا سکتا- اسی طرح ایک اور جنگ کے موقع پر جسے حنین کی جنگ کہتے ہیں اور جس میں کچھ نو مسلم اور کچھ غیر مسلم بھی شامل تھے- جب لڑائی شروع ہوئی تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد ۱۲ ہزار تھی اور دشمن کی تعداد چار ہزار- مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ایسی شکست ہوئی کہ وہ کہتے ہم اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑتے اور نکیل کھینچنے سے ان کے سر پیٹھ کے ساتھ جا لگتے- مگر جب چلاتے تو آگے کی طرف ہی دوڑتے- اس وقت رسول کریم ﷺ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے- بعض صحابہ نے اس وقت رسول کریم ﷺ کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور واپسی کے لئے کہا- مگر آپ نے انہیں جھڑک دیا اور حضرت عباس کو کہا لوگوں کو آواز دو کہ جمع ہو جائیں اور خود دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے- انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ۹؎ میں جھوٹا نبی نہیں ہوں- میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں- یہ ایسا وقت تھا جب کہ وہ جانباز مسلمان سپاہی جو نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے سارے عرب کو شکست دے چکے تھے- بارہ ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے چار ہزار کے مقابلہ سے بھاگ نکلے تھے- جب رسول کریم ﷺ کے اردگرد صرف چند آدمی رہ گئے تھے- جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے- آپ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے- اس وقت آپ نے یہ سمجھا کہ میرا یہ فعل دیکھ کر لوگ مجھے ہی خدا نہ سمجھ لیں- اس لئے آپ نے فرمایا- میں نبی ہوں- ہاں اپنے اندر خدا کو دیکھ رہا ہوں- لوگ مجھے خدا دیکھ رہے ہونگے- اس لئے میں کہتا ہوں کہ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں نبی ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں- خدا نہیں ہوں- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفان کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے- پھر کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر دھوکا میں مبتلا رہتا ہے مگر موت کے وقت اس پر اصل بات کھل جاتی ہے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملہم جو دماغ کی خرابی کی وجہ سے الہام کا دعویٰ کرتے ہیں- مرنے سے قبل معانی کے خط لکھ دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفان اس درجہ کمال پر تھا کہ آپ کی
۲۲۷ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ آخری گھڑیوں کے متعلق لکھا ہے- اس وقت آپ کی زبان پر اس مفہوم کے الفاظ تھے کہ خدا تعالیٰ یہود اور عیسائیوں پر لعنت کرے- انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اس موقع سے یہود اور عیسائیوں کا کیا تعلق تھا- سننے والے تو مسلمان تھے پھر رسول کریم ﷺنے یہ کیوں فرمایا- اس لئے کہ مسلمان آپ کی قبر کو ایسا نہ بنا لیں اور اس کا خطرہ اس وجہ سے تھا کہ آپ کو معلوم تھا کہ لوگوں نے مجھ میں خدا کو دیکھا ہے- اور اس بات کا یقین آپ کو آخر وقت میں بھی تھا- غرض رسول کریم ﷺ عرفان الہٰی کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے اندر خدا تعالیٰ کا ایسا جلال دیکھتے تھے کہ سمجھتے تھے آپ پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا- بیسیوں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں مگر اختصار کے لئے انہیں چھوڑتا ہوں- اس موقع پر میں یہ بھی بتا دوں کہ ایک قسم کی دلیری کا اظہار سنگ دلی کی وجہ سے بھی بعض لوگ کر دیا کرتے ہیں- ایک ڈاکٹر نے سنایا کہ ایک زمیندار کو آپریشن کرنے کیلئے کلورافارم دینا چاہا تو اس نے کہا اس کی ضرورت نہیں میں یونہی آپریشن کرا لوں گا- چنانچہ اس نے بغیر کلورافارم کے آپریشن کرا لیا تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تکلیف اور دکھ باسانی برداشت کر لیتے ہیں مگر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں رحمت کا مادہ نہیں ہوتا اس بارے میں جب ہم رسول کریم ﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں تو آپ کی طبیعت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپ کی طبیعت پر بہت بڑا اثر ہوتا تھا- حدیثوں میں آتا ہے جب کبھی زور کی آندھی یا بارش آتی تو رسول کریم ﷺ گھبرا جاتے- پس ایک طرف تو رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے استغناء اور صفات کو دیکھتے تو آپ کے قلب کی نرمی آندھی اور بارش آنے پر بھی ظاہر ہو جاتی اور دوسری طرف بڑی سے بڑی تکلیف کی بھی کوئی پرواہ نہ کرتے- غرض رسول کریم ﷺ کے دل میں نرمی اور رافت تھی اور اس کثرت سے تھی کہ معمولی معمولی واقعات پر آپ کے آنسو نکل آتے تھے- پس آپ نے مصائب اور شدائد کے مقابلہ میں جس قوت اور حوصلہ کا اظہار کیا اس کی وجہ قساوت قلبی نہ تھی بلکہ وہ عرفان الٰہی کا نتیجہ تھا- دوسرا درجہ عرفان کا یہ ہوتا ہے کہ کامل ذاتوں میں خدا تعالیٰ کو پہچانا جائے- یہ بھی بہت بڑا کام ہے- دنیا میں کئی لوگ عارف ہوتے ہیں مگر ان کی پہچان اپنے تک ہی رہ جاتی ہے- کامل عارف کی مثال تیز نظر وا لے کی ہوتی ہے- ایک انسان دس گز پر کوئی چیز دیکھ سکتا ہے- دوسرا
۲۲۸ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ بیس گز پر دیکھ سکتا ہے- کوئی سو گز پر کوئی دو سو گز اور بعض میل میل دور سے ایک چیز کو پہچان لیتے ہیں- ان میں سے کس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تیز نظر والا ہے- اسی کے متعلق جو زیادہ دور سے ایک چیز کو پہچان لیتا ہے- خدا تعالیٰ چونکہ مجسم نہیں اس لئے وہ دوسری چیزوں میں نظر آتا ہے- اور ان چیزوں میں سے ایک کامل انسان ہے- اب ہم دیکھتے ہیں- خدا تعالیٰ کی ذات جن کامل بندوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ان میں دیکھنے کی رسول کریم ﷺ کی نظر کیسی تھی- دنیا کے جس ملک کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے- اسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کے ماننے والے ہوتے ہیں- مگر وہ اپنے بزرگوں تک ہی ساری بزرگی ختم قرار دے دیتے ہیں- ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر جی کو خدا کا اوتار مانتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوا اور کسی مالک میں کوئی اوتار نہیں ہوا- اسی طرح چین، ایران کے لوگ اور یہودی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے ہیں- باقی سب جھوٹے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں کو دیکھتے تو ہیں مگر قریب والوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں- ان میں عرفان تو ہے مگر بالکل قریب کی چیز کو دیکھنے کا- غرض تمام قوموں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دوسری کامل ذاتوں میں دیکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کا یہ دیکھنا محدود ہے- یا تو وہ بالکل قریب کے بزرگ کو یا اپنے ہی حلقہ کے بزرگ کو دیکھتی ہیں اس سے باہر نہیں دیکھ سکتیں- لیکن خدا تعالیٰ ساری دنیا کا خدا ہے اور تمام کے تمام انسان اسی کے بندے ہیں تو ضروری ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم میں وہ ظاہر ہوا ہو- اور ہر قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے جلوہ نمائی کی ہو- ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ کہ جس چیز کو انسان ایک جگہ دیکھ کر پہچان لیتا ہے اسی قسم کی چیز اگر دوسری جگہ ہو تو اسے بھی پہچان سکتا ہے- اگر کوئی شخص ملیح آباد میں آم کو دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے تو وہ کابل میں آم کو دیکھ کر بھی پہچان لے گا اور ایران میں بھی- لیکن اگر کسی کے سامنے انگلستان میں آم رکھا جائے اور وہ کہے یہ آم نہیں ہے تو کون کہے گا کہ اس شخص کو آم کی پہچان ہے- پہچان لینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ جہاں وہ چیز نظر آئے پہچان لی جائے- کسی نے کہا ہے- بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت رامے شناسم
۲۲۹ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ اپنے معشوق سے کہتا ہے- تم کسی قسم کے بھی کپڑے پہن لو- میری نظر سے تم چھپ نہیں سکتے- مجھے تمہارے قد کا اندازہ ہے- اس لئے میں تمہیں ہر قسم کے کپڑوں میں پہچان لیتا ہوں- جب ایک مجازی عاشق اپنے معشوق کی محبت میں اتنی ترقی کر جاتا ہے- اور معشوق کے قد کا اندازہ ایسا صحیح طور پر لگا لیتا ہے کہ ایک بال بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی عاشق اپنے معشوق کو جہاں دیکھے نہ پہچان لے- غرض عرفان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارف جہاں بھی خدا تعالیٰ کاجلوہ دیکھے پہچان لے- یہ کیا پہچان ہوئی کہ اگر خدا کو اللہ کہا جائے تو پہچان لے- لیکن کوئی گاڈ یا پرمیشور کہے تو نہ پہچانے- حقیقی عرفان یہی ہے کہ کسی نام، کسی شکل اور کسی لباس میں وہ چیز ہو تو اسے پہچان لیا جائے- خدا تعالیٰ کا حسن اس کا جلال اور اس کے کرشمے ہر گوشہ اور ہر حصہ دنیا میں نظر آنے چاہئیں- اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں تو پرانے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک انسان جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سیاہ فام تھا- سیاہ فام ہو- اس سے ہمیں کیا- ہمیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دل گورا تھا- وہ ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے اور ملک کی حالت خراب دیکھ کر کڑھتا ہے- اہل ملک کو جوئے، شراب اور دوسرے گندوں میں مبتلا پا کر ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کے لئے تیار کرتا ہے کہ خون سے ہر قسم کے گندے اور ناپاک داغوں کو دھو دیں- لوگ اس کی باتیں سنتے اور اس پر ہنستے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار کہتا ہے مگر انسانوں کی گردنوں پر تلواریں چلا کر ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے- حتیٰ کہ اس کو ماننے والے بھی اسے کہتے ہیں- کیا خدا خون سے خوش ہوتا ہے کہ انسانوں کے خون بہائے جائیں- مگر وہ انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور سارے ہند میں وہ آگ لگا دیتا ہے کہ اس وقت ۳۳کروڑ نہ سہی لیکن لاکھوں انسان تو بستے ہوں گے اس آگ میں کود پڑتے ہیں اور وہ ایسی جنگ کراتا ہے- جو آج تک نہایت ہولناک جنگ سمجھی جاتی ہے- اسے اپنے ملک کے لوگ نہیں پہچان سکتے لیکن دور عرب میں جہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا جہاں کے بسنے والے اس کی قوم کو برا سمجھتے تھے- مکہ کی چھوٹی سی بستی میں بیٹھا ہوا انسان آنکھ اٹھا کر مشرق کی طرف دیکھتا ہے تو اسے ایک ایسا چہرہ نظر آتا ہے جسے لوگ سیاہ کہتے ہیں- مگر اسے وہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے- اور کہتا ہے اس دور ملک میں اپنے محبوب کو اس میں جلوہ گر دیکھا- وہاں بھی میرا خدا ظاہر ہوا اور اس جگہ بھی اس نے جلوہ نمائی کی- ایک ایسے ملک میں جس سے اس کی قوم کو نہ صرف
۲۳۰ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ کوئی تعلق نہ تھا بلکہ عداوت تھی اور ایسے انسان میں جسے اس کی اپنی قوم گمراہ خیال کرتی تھی- رسول کریم ﷺ نے خدا کا نظارہ دیکھ لیا- اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلوہ کو دیکھنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے- پھر اسی ہندوستان میں ایک اور مثال دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا ہے- اسے ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں- باپ پیدا ہوتے ہی اسے الگ محل میں بند کرا دیتا ہے کیونکہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس کا لڑکا حکومت کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل جائے گا- اس وجہ سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس بچہ کی نظر سے کوئی دکھ اور مصیبت کا نظارہ نہ گذرے- آخر وہ بچہ ایک دن کسی طرح اس محل سے باہر نکلا- اور بادشاہ نے حکم دے دیا کہ جدھر سے گذرے وہاں کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے- مگر خدا کی مرضی راستہ میں ایک اپاہج پڑا ہوا مل گیا- لوگوں نے اسے الگ ڈال دیا- مگر شہزادہ اسے دیکھ کر ٹھہر گیا اور پوچھا یہ کیا چیز ہے- میں نے تو ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی- مصاحبین نے شاہزادہ کی توجہ اس سے ہٹانی چاہی مگر اس پر بڑا اثر ہوا اور اس نے اصرار سے اپاہج کی حالت دریافت کی اور کہا ایسی چیز ہمارے محل میں تو نہیں ہوتی- آخر وہ محل میں گیا اور اپاہج کے متعلق سوچتا رہا- کئی دن کے بعد پھر سیر کے لئے نکلا- بادشاہ نے مصاحبین کو تاکید کر دی کہ کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے- مگر جس طرف سے گزر رہا تھا ادھر سے ایک جنازہ نکلا- جس پر اس کی نظر پڑ گئی- اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ ساتھ والوں نے بتایا- ایک انسان مر گیا ہے- یہ اس کی لاش ہے- یہ سن کر وہ پھر فکر میں پڑ گیا- تیسری بار پھر جب سیر کے لئے نکلا تو ایک بڈھا دیکھا جو بہت کمزور اور ضعیف ہو چکا تھا- اس نے جب پوچھا یہ کیا ہے تو اسے بتایا گیا کہ انسان بڑی عمر کا ہو کر اس طرح ہو جاتا ہے- ان نظاروں کے دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سمجھا- اس دنیا کا آرام و آسائش سب ہیچ ہے- کوئی ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ انسان ان دکھوں سے بچ جائے- اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا- مگر ایک رات وہ بیوی اور بچہ کو سوتے چھوڑ کر محل سے باہر نکل گیا اور مدتوں خدا تعالیٰ کی تلاش میں پھرتا رہا- آخر اس نے خدا تعالیٰ کو پا لیا اور اس کا نام بدھ یعنی عقل مجسم ہوا- اس وقت اس کے ملک کے لوگوں نے اس کی صداقت بھری باتوں کا انکار کیا اور اب بھی کئی لوگ انکار کرتے ہیں- مگر اس عارف نے جو عرب کی سرزمین میں پیدا ہوا بتا دیا- ان من امہ الا خلا فیھا نذیر-۱۰؎اس انسان میں بھی خدا کا جلوہ تھا- غرض دنیا کے ہر حصہ میں ایسے وجود ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان میں
۲۳۱ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ خدا تعالیٰ کا حسن جلوہ گر تھا اور خدا ان کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوا- مگر انسانوں کے دلوں کے بعض اور کینے عداوتیں اور دشمنیاں دوسری قوموں کے خدا رسیدہ لوگوں کے دیکھنے میں روک بن رہی ہیں- ان سب روکوں کو دور کرتے ہوئے محمد ﷺ فرماتے ہیں- یہ غلط ہے کہ خدا نے صرف ہندوستان میں اپنے آپ کو ظاہر کیا- یا صرف ایران میں اپناجلوہ دکھایا بلکہ خدا ہر جگہ اور ہر ملک میں ظاہر ہوا- ایسا عرفان کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھایا- وہ محمد ﷺ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا- وہ بے نظیر عرفان ہے- جس کی مثال نہیں ملتی- محمد ﷺ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دور شمال میں خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھا- اور جنوب میں خدا تعالیٰ کے پیاروں کو پایا- دور مشرق اور مغرب میں خدا نما انسان دیکھے اور سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد دیکھے- یہ ہے وہ عرفان جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے- بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت رامے شناسم خواہ خدا بدھ کی شکل میں یا کنفیوشس کی شکل میں یا زرتشت کی شکل میں یا کرشن اور رام چندر کی شکل میں یا موسیٰ اور عیسیٰ کی شکل میں یا کسی اور شکل میں جلوہ گر ہوا رسول کریم ﷺ نے دیکھ لیا- بعض لوگ کہتے ہیں محمد ﷺ گذشتہ انبیاء سے آخر میں پیدا ہوئے تو اس سے انہیں کیا فضیلت حاصل ہو سکتی ہے- میں کہتا ہوں ذرا سوچو تو سہی ساری دنیا خدا کی اولاد کی طرح ہے- اگرچہ باپ بیٹے کے نقشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے- مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں ضروری جھلک پائی جاتی ہے- اور بیٹے کی باپ سے مشابہت ظاہر ہوتی ہے- اللہ تعالیٰ کی جو تمام انسانوں کا خالق ہے اس کی مشابہت بھی مخلوق سے ہونی چاہئے- اور اعلیٰ درجہ کے بندوں سے زیادہ اس کی مشابہت ہونی چاہئے- یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک چھوٹا بھائی گم ہو جائے اور جب کہیں ملے تو بڑا بھائی اسے پہچان لے مگر اس سے چھوٹا جو گم ہونے والے کے بعد پیدا ہوا- وہ اگر گم ہونے والے بھائی کو پہچان لے تو ان سے میں کون بڑا عارف ہو گا- یقیناً وہی بڑا عارف ہو گا جس کے دیکھنے سے بھی پہلے اس کا بھائی گھر سے نکل گیا تھا- مگر جب اس نے دیکھا تو اسے فوراً پہچان لیا- ایک بھائی دوسرے بھائی کو کس طرح پہچانتا ہے- اسی طرح کہ اس میں اپنے باپ کی کچھ نہ کچھ مشابہت پا لیتا ہے- اور اس طرح بھائی کا پہچاننا باپ کا پہچاننا ہوتا ہے- جب محمد ﷺ نے اپنے
۲۳۲ عرفان ِالہٰی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ بعض نبی بھائیوں کو بعد میں آ کر پہچان لیا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس جس میں بھی یہ مشابہت پائی جائے گی اسے رسول کریم ﷺ نے پہچان لیا - اس میں صرف محمد ﷺ نے پہچان لیا- اس میں صرف محمد ﷺ ہی مخصوص ہیں اور انبیاء نے اپنے اندر خدا تعالیٰ کو پہچانا- مگر رسولکریم ﷺ نے اپنے ہی اندر خدا تعالیٰ کو نہ پہچانا بلکہ دوسروں میں بھی پہچانا اور اپنے زمانہ سے بہت عرصہ قبل آنے والوں میں پہچانا- اس سے بڑھ کر عارف اور کون ہو سکتا ہے- چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے- اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں- ذکر حبیب جتنا بھی ہو حبیب ہی ہوتا ہے- اب میں دعا کرتا ہوں کہ محمد ﷺ میں ہو کر ہم بھی دنیا میں صلح اور امن قائم کر سکیں- اور جس طرح رسول کریم ﷺ نے ہر چیز میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اسی طرح ہم بھی ہر چیز میں خدا کو دیکھیں اور پہچان لیں- (الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ء) ال عمران:۳۲ العنكبوت:۷۰ التوبة:191 بخاری کتاب الانبياء باب مناقب المهاجرين و فضلهم سیرت ابن ہشام جلدا صفحہ ۱۳۹۶۹۳۵ مطبوعہ ۱۲۹۵ء بخاری کتاب الجهاد باب من علق سيفه بالشجر في السفر الانعام:۱۰۴ الرعد:3 بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى ويوم ”نين : فاطر:۲۵
۲۳۳ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۲۳۵ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت (تحریر فرمودہ ۱۳- دسمبر ۱۹۳۰ء) بِلا اجازت استعفیٰ پچھلے دنوں چوہدری ابوالہاشم خان صاحب جنرل سیکرٹری صوبہ بنگال نے اپنے کام سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس وجہ سے صوبہ بنگال کے کام میں نقص پیدا ہونے لگا تھا- چونکہ پراونشل انجمن کے کارکن مرکز کی منظوری سے مقرر ہوتے ہیں اس وجہ سے چوہدری صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں بلااجازت استعفیٰ دیا ہے- ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ وہ موجودہ امیر کے کام سے خوش نہیں ہیں اور ان کے نزدیک بہتر یہی تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں تا کہ اس وجہ سے امیر صاحب کو کام کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو- میرے نزدیک یہ جواب ان کا بالکل ناکافی تھا- جب ایک افسر خلیفہ کی طرف سے منظور کیا جائے تو وہ صرف خلیفہ کے پاس ہی استعفیٰ پیش کر سکتا ہے اور خلیفہ کے پاس اس کی منظوری لینے سے پہلے استعفیٰ پیش کرنا اسلامی اصول کے مطابق درست نہیں ہے- مگر بہرحال چونکہ کام خراب ہونا شروع ہو گیا تھا اور چونکہ امیر کی تعیین موقت ہوتی ہے اس لئے میں نے صوبہ بنگال کے آئندہ نظام کے متعلق جماعت بنگال سے مشورہ لیا اور دریافت کیا کہ مرکز کہاں ہو اور بنگال کا امیر کسے مقرر کیا جائے- منصب امارت کی حقیقت جو جوابات موصول ہوئے ہیں ان سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنگال کے دوست ابھی پوری طرح امارت کے منصب کی حقیقت اور اس کی غرض کو نہیں سمجھے کیونکہ بہت سے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم لوگ کسی ایک امیر پر متفق نہیں ہو سکتے اس لئے امیر اگر کم سے کم کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے آئے تو بہتر ہوگا یا یہ کہ اس وجہ سے ہم رائے نہیں دے سکتے لیکن اگر مجبور ہی کیا جائے تو فلاں یا فلاں
۲۳۶ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت شخص امیر ہوں- اس ناواقفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ بتا دوں کہ اسلامی طریق کے مطابق ہر ملک یا علاقہ میں ایک شخص نبی یا خلیفہ کا نائب ہوتا ہے جسے امیر کہتے ہیں- یہ شخص خلیفہ کی طرف سے اس علاقہ کا نگران ہوتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق مقامی لوگوں کے مشورہ سے اس صوبہ کے ان امور کا انتظام کرتا ہے جن کا انتظام صوبہ کے سپرد کیا گیا ہو- یا ان احکام کی تنفیذ کرتا ہے جو براہ راست خلیفہ یا خلفاء کے مقرر کردہ امراء کی طرف سے جاری کئے گئے ہوں- پس یہ عہدہ حقیقتاً انتخابی نہیں بلکہ تعیینی ہے- لیکن چونکہ ہر اہم معاملہ میں خلیفہ کے لئے حکم ہے کہ وہ پہلے مشورہ لے لیا کرے اس وجہ سے مقامی لوگوں سے اس کے متعلق مشورہ کر لیا جاتا ہے اور ان کے مشورہ کو مشورہ کی حد تک محدود رکھنے کے لئے یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ وہ ایک نام پیش نہ کریں بلکہ دو تین نام پیش کریں تا کہ مشورہ کی صورت قائم رہے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ امیر کثرت رائے سے مقرر ہوا ہے- احباب بنگال کی تجویز اس تفصیل کے بعد اب میں اصل معاملہ کو لیتا ہوں ناظر صاحب اعلیٰ نے ایک لمبی خط وکتابت کے بعد جو رپورٹ میرے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگال کے دوستوں میں امارت اور اس کے مرکز کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے- مختلف آراء کا مطالہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف احباب مندرجہذیل تجاویز پیش کرتے ہیں- ۱-امیر قادیان سے مقرر ہو کر آئے- ۲-چوہدری ابوالہاشم خان صاحب امیر ہوں- ۳-پروفیسر عبداللطیف صاحب امیر ہوں- ۴-مولوی ابوطاہر صاحب امیر ہوں- ۵-پروفیسر عبدالقادرصاحب امیر ہوں- ۶-امیر سرکاری آدمی نہ ہو- ۷-امیر بنگالی ہو- ۸-مقامی امراء میں سے کوئی شخص امیرہو- ۹-مرکز کلکتہ ہو-
۲۳۷ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت ۱۰-مرکز براہمن بڑیہ ہو- ۱۱-مقامی امیر کا مرکز جب وہ صوبہ کا امیر مقرر ہو صوبہ کا مرکز ہو- ۱۲-کسی صوبہ کے امیر کی ضرورت نہیں- ہر اک انجمن براہ راست قادیان سے تعلق رکھے اور اگر ضرور ہی صوبہ کا امیر مقرر کیا جائے تو اس کے اختیارات اور صوبہ کی انجمن کے اختیارات مقامی جماعتوں سے محدود ہوں اور پھر بھی بعض امور میں ان کا تعلق قادیان سے براہ راست رہے- ضروری امور ان سب آراء پر غور کرنے کے بعد اور ان اصول پر غور کرنے کے بعد جو میرے نزدیک اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی طرف سے نظام جماعت کے چلانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں میں بعض ایسے امور کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اصولی طور پر بنگال اور دوسرے ممالک یا صوبہ جات کے انتظام میں ممد ہونگے اور جن پر میرے آئندہ فیصلہ کی بنیاد ہوگی- سلسلہ کے مالی کام کا انتظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور احکام سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کا مالی کام براہ راست ایک شخص کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ انجمن کے ذریعہ سے- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقرر ایگزیکٹو کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں- یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام اور آپ کی تحریرات سے ثابت ہے کہ آپ اس ایگزیکٹو کو تمام دنیا کی جماعت کے لئے نقطئہ اتحادی قرار دیتے ہیں اور پھر یہ بھی آپ کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس انجمن کے لئے قادیان کا مرکز رہنا ضروری قرار دیتے ہیں لیکن مختلف ممالک کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اس انجمن کی آمد کا ایک حصہ مقامی صوبوں یا ملکوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے- خلافت سے وابستگی کی ضرورت دوسری طرف آپ کی تحریرات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں- خلیفہ کو واجب الاطاعت قرار دیتے ہیں اور اس کے وجود کو خدا تعالیٰ کے فضل کا نشان اور ذریعہ فرماتے ہیں جس کے فقدان کے ساتھ سلسلہ کی برکات بھی ختم ہو جائیں گی اور اس سے بغاوت کو شقاوت اور طُغیانی قرار دیتے ہیں-
۲۳۸ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت خلافت کیلئے مشورہ کی ضرورت تیسری طرف اسلام سے یہ امر بوضاحت ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی اور یہ کہ جہاں تک ہو خلیفہ کو کثرت رائے کا احترام کرنا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے- سوائے اس صورت کے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی خلاف ورزی کثرت رائے میں پائے- یا اسلام کو کوئی واضح نقصان پہنچتا دیکھے یا مشورہ کو جماعت کی کثرت رائے کا آئینہ نہ سمجھے- وغیرہ وغیرہ- مجلس عاملہ کی حیثیت ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک خلیفہ کو سب کام اپنے ہاتھ سے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ایک مجلس عاملہ کے ذریعہ سے کرنے چاہئیں تا کہ اس کی رائے میں کوئی خاص تعصب نہ پیدا ہو جائے- وہ مجلس عاملہ اپنے دائرہ عمل میں سب دنیا کی جماعتوں کے لئے واجب الاطاعت ہونی چاہئے- خلیفہ کو جماعت سے مشورہ لے کر اپنی پالیسی کو طے کرنا چاہئے اور اس مشورہ کا انتہائی حد تک لحاظ کرنا چاہئے اور اس سے یہ امر خودبخود نکل آیا کہ جب جماعت کے مشورہ سے کوئی امور طے ہوں تو مجلس عاملہ اس کی پابند ہو-............................بہترین نظام جب قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس عاملہ کا مرکز قرار دیا ہے تو بدرجہ اولیٰ خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے لئے اس مرکز کی پابندی ضروری ہے- حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر نظام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا- اس نظام میں بغیر کسی حصہ ملک کو تکلیف میں ڈالنے کے ترقی کی بے انتہاء گنجائش ہے اور باوجود مختلف صوبہ جات کی مخصوص ضرورتوں کو پورا کرنے کے قومیت کے تنگ بندھنوں سے نکالنے کی بھی پوری صورت موجود ہے- خلیفہ کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کا باشندہ ہو- انجمن عاملہ کیلئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کے باشندوں سے چنی جائے- مجلس شوریٰ اپنی بناوٹ کے لحاظ سے لازماً سب دنیا کی طرف سے چنی جانی چاہئے اور چونکہ بیشتر حصہ اصولی تجاویز کا ایسی مجلس کے ہاتھوں سے گزرنا ہے اس وجہ سے ہر ملک اور قوم کے افراد کو سلسلہ کے کام میں اپنی رائے دینے کا موقع ہوگا اور یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ مسیحی پاپائیت کی طرح کسی خاص قوم کے ہاتھ میں سلسلہ
۲۳۹ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت کا کام چلا جائے گا- کیونکہ رومن کیتھولک نظام میں مجلس شوریٰ پوپ کے مقرر کردہ نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اسلامی مجلس شوریٰ میں سب مسلمانوں کو نمائندگی کا کافی موقع ملتا ہے- پس اس نظام کے ذریعہ سے ہر ملک کو یکساں نمائندگی سلسلہ کے کام میں حاصل ہونے کے لئے راستہ کھلا ہے اور اس کے ماتحت سب دنیا کو ایک نقطہ پر جمع کیا جانا ممکن ہے اور یہی مقصد اسلام کا ہے جو قومیت کے تنگ دائرہ سے دنیا کو نکالنا چاہتا ہے- قومیت کی روح اس میں کوئی شک نہیں کہ قومیت کی روح دنیا پر اس قدر غالب ہے کہ لوگ اس کے احساسات اور جذبات میں لذت محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور بجائے اسے ایک خراب شدہ زخم کے ایک نعمت سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن- باوجود اس کے اس احساس کی اسلام میں گنجائش نہیں اور اس کا قلع قمع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے خواہ اس کے لئے کیسی ہی قربانی کیوں نہ کرنی پڑے- اپنے قریب کے فوائد کو ترجیح دینے کی بجائے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دائمی فائدہ کو مدنظر رکھیں جو اسلام دنیا کو پہنچانا چاہتا ہے ورنہ ہم اسلام کا ایک ہتھیار بننے کی بجائے اسلام کے خلاف ایک ہتھیار بن جائیں گے- اور اپنے وجود کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنائیں گے- امیر کے فرائض اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور وہ وہ نظام ہے جو باوجود صوبہ جاتی نظام کے تمام افراد اور جماعتوں کا تعلق مرکز سے قائم رکھے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک تو امیر ہو جو خلیفہ کا نائب ہو- جس کا فرض ہو کہ وہ یہ دیکھے کہ ایک طرف تو صوبہ یا ملک کی جماعت خلیفہ اور صدر انجمن احمدیہ کے احکام کی پیروی کرتی ہے اور دوسری طرف یہ دیکھے کہ صوبہجات کی اکثریت کی طے کردہ پالیسی پر اس کے مقامی عمال عمل کرتے ہیں- گویا ایک طرف اس کا فرض ہے کہ صوبہ میں مرکز کے احکام کی پابندی کرائے اور دوسری طرف اس کا فرض ہے کہ یہ دیکھے کہ صوبہ کے عمال صوبہ کی جماعت کی اکثریت کے تابع چلتے ہیں- اور اپنے فرائض کو خود سری سے نظر انداز نہیں کرتے اور اسلامی مساوات اور جمہوریت کی روح کو کچلتے نہیں- تیسری طرف یہ دیکھنا بھی اس کا فرض ہے کہ اکثریت اسلام کے منشاء کے خلاف تو نہیں چلتی اور اگر اسے ایسا نظر آئے تو وہ اس کی اصلاح کر کے خلیفہ وقت کے پاس رپورٹ کرے-
۲۴۰ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت غرض بہترین نظام جسے اگر صحیح طور پر چلایا جائے تو تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے امارت کا انتظام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے مقامی انتظام اور مرکز کی ضرورتیں دونوں پوری ہوتی رہتی ہیں- امیر خلیفہ کا نمائندہ ہے امیر کے لئے ہر گز یہ شرط نہیں کہ وہ اسی ملک کا باشندہ ہو- اسلام کے شروع زمانہ میں نوے فیصدی امراء مرکز سے مقرر ہو کر جاتے تھے اور اب بھی ضرورت پر ایسا کیا جا سکتا ہے- چونکہ ہمارے پاس روپیہ نہیں کہ ہم تنخواہیں دے سکیں اس لئے ہم ایسا نہیں کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ضرورت پر ایسا نہ کیا جائے- ہاں یہ ضروری ہے کہ امراء کے تقرر کے وقت مقامی لوگوں کے احساسات کا خیال رکھ لیا جایا کرے- پس اگر مقامی جماعت کے مشورہ کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ مقرر کردہ امیر پر انہیں کوئی خاص اعتراض نہیں ہے باہر سے بھی امیر مقرر کیا جائے تو اس میں اسلامی نکتہ نگاہ سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے- گو میرا طریق عمل یہ ہے کہ مقامی لوگوں میں سے ہی امیر مقرر کرتا ہوں- اور میری انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ امیر لوگوں کی رائے کے مطابق ہی مقرر کیا جائے مگر اس امر کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امیر پبلک کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ خلیفہوقت کا نمائندہ ہے- اس لئے خواہ لوگ کتنا بھی اصرار کریں یہ عہدہ درحقیقت خلیفہوقت کا اعتماد رکھنے والے شخص کو مل سکتا ہے اور اس میں وہی حکمت ہے کہ اسلامی نظام اتحاد عالم پر مبنی ہے نہ کہ قومیت پر- خلیفہ کے انتخاب کے ذریعہ سے جمہور کی رائے کو ظاہر کرنے کا موقع دے دیا جاتا ہے اور پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ تمام عالم اسلام ایک سلک میں منسلک رہے اور قومیت کا سوال پیدا ہو کر اس میں رخنہ اندازی نہ کرے- احمدی یاد رکھیں یہ اصول ہیں جن پر سلسلہ کا آئندہ نظام چلایا جائے گا اور سب صوبوں اور ملکوں کے احمدیوں کو انہیں یاد رکھنا چاہئے تا وہ دھوکا نہ کھائیں اور انہیں کوئی دوسرا شخص دھوکا نہ دے سکے- بنگال کا سوال اصولی بحث کے بعد میں بنگال کے سوال کو لیتا ہوں- جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے نزدیک کلکتہ چونکہ اس وقت بنگال کا سیاسی مرکز ہے ہمارے کام تبھی سہولت سے چل سکتے ہیں کہ اسی کو ہم اپنا مذہبی مرکز قرار دیں- اگر ہمارے لئے ممکن ہوتا کہ ہم پورے وقت کا امیر مقرر کر سکتے اور اس کے ساتھ عملہ بھی پورے وقت کا دے سکتے
۲۴۱ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت تو ہم کلکتہ کو مرکز بنانے پر مجبور نہ ہوتے لیکن موجودہ حالات میں یہی مناسب ہے کہ سردست کلکتہ ہی بنگال کا مرکز رہے- پس میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ حکیم ابوطاہر صاحب جنہوں نے اپنے گزشتہ رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امارت کے منصب کو خوب سمجھتے ہیں انہیں علاوہ کلکتہ کا مقامی امیر ہونے کے تمام بنگال کا بھی امیر مقرر کیا جائے اور آئندہ کے لئے میں انہیں بنگال کا بھی امیر مقرر کرتا ہوں- امیر صوبہ کی مجلس شوریٰ چونکہ صوبہ کے کام کے لئے وہ صرف کلکتہ کے احباب کے مشورہ پر انحصار نہیں کر سکتے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ امیر صوبہ کی ایک مجلس شوریٰ ہو جس میں صوبہ کے تمام مقامی امراء شامل ہوں اور علاوہ اس کے مبلغین سلسلہ بھی اس کے ممبر ہوں- علاوہ ان کے اگر کسی شخص کو خاص طور پر مرکز کی طرف سے اس غرض سے چنا جائے یا صوبہ کی انجمنیں اپنے سالانہ اجتماع میں بعض لوگوں کو خاص طور پر اس کام کے لئے تجویز کریں تو ان لوگوں کو بھی اس مجلس کا ممبر سمجھا جائے- سردست میں علاوہ امراء اور مبلغین کے چوہدری ابوالہاشم خان صاحب، مولوی مبارک علی صاحب اور پروفیسر عبدالقادر صاحب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کرتا ہوں- چندہ کے متعلق فیصلہ بنگال کا جس قدر چندہ ہو سوائے خاص تحریکات کے باقی سب چندہ میں سے ۳/۱ (ایک تہائی( بنگال میں رکھا جانے کی میں اجازت دیتا ہوں کہ اس تینتیس فیصدی میں سے پچیس فیصدی تو مرکزی صوبہ کی انجمن کے سپرد ہو اور بقیہ آٹھ فیصدی ہر اک مقام کی انجمن کو اپنے طور پر مقامی تبلیغ پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہو- صدقات اور زکٰوۃ میں سے بھی ۳/۱ حصہ بنگال کو وہیں رکھنے کا اختیار ہو اور یہ رقم وہاں کے مستحق غرباء پر خرچ کی جائے اور اس کا اختیار صرف امیر کے ہاتھ ہو کیونکہ ان رقوم کے خرچ کرنے کا انتظام شروع زمانہ اسلام سے خلفاء کے ہاتھ میں چلا آیا ہے- صوبہ کی انجمن فوراً کام شروع کر دے صوبہ کی انجمن کو چاہئے کہ اپنے عہدہ دار مقرر کر کے فوراً صوبہ کے تبلیغی اور تعلیمی کام کو چلانے کے لئے کوشش کرے اور زیادہ تر روپیہ تبلیغ پر خرچ کرے- کیونکہ تعلیم کا خاص انتظام اس وقت غالباً صوبہ کے لئے مشکل ہوگا- جوں جوں جماعت ترقی کرتی چلی جائے گی یہ انتظامات خود بخود پختہ ہوتے چلے جائیں گے اور سہولتیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی- تعلیم کا کام
۲۴۲ امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت سردست مذہبی تعلیم اور تربیت تک محدود رہے تو اچھا ہوگا- لیکن میں اس بارہ میں کوئی حکم نہیں دینا چاہتا- صرف مشورہ دیتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک بہت سا نقصان اس وقت تک ناتجربہ کاری سے صوبہ کی انجمن کو ہوا ہے- والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۱۳- دسمبر ۱۹۳۰ء نوٹ-: مقامی مجلس شوریٰ کے مشورہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حسب ذیل نوٹ تحریر فرمایا-: ‘’چونکہ استعفیٰ سے بعض دفعہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے استعفیٰ دینے سے پہلے بالا افسر سے مشورہ کر لینا ضروری ہے اور میرے نزدیک استعفیٰ کو استئذان سمجھنا موجب شرہوگا- نیز میں اس امر سے بھی متفق نہیں ہوں کہ شوریٰ کے متعلق تفصیلی احکام موجود نہیں ہیں- میرے نزدیک شوریٰ کے متعلق رسول کریم ﷺ کا تعامل واضح ہے- چنانچہ جو مشورہ ایگزیکٹو ہوتا اس میں صرف اپنے انتخاب کردہ لوگوں سے رسول کریم ﷺ مشورہ لیتے تھے اور جو معاملہ تمام قوم پر اثر انداز ہوتا اس میں براہ راست سب لوگوں سے یا ان کے مقرر کردہ نمائندوں سے مشورہ لیتے- پس میرے نزدیک غور اور فکر سے ان سب امور کی تفصیل اسلام سے مل سکتی ہے- گو یہ امر صحیح ہے کہ مکان اور زمان کے تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے ایک حد تک ان امور میں تغیر کرنے کی بھی اجازت دی ہے- مگر اصول ضرور واضح اور معین ہیں اگر وہ نہ ہوں تو ہم ہدایت کہاں سے حاصل کریں- خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی مورخہ ۲۵- جنوری ۱۹۳۲ء (الفضل ۱۱- فروری ۱۹۳۲ء)
۲۴۳ ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۲۴۵ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسؤله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کو مدنظر رکھتے ہوئے سائمن کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ دیباچہ سائمن کمیشن COMMISSION( (SIMON کی رپورٹ پر تبصرہ کرنا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس وقت ہندوستان اور انگلستان میں پیدا ہو رہے ہیں کوئی معمولی امر نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ہندوستان کا ایک طبقہ اسے رجعت قہقری قرار دے رہا ہے تو دوسری طرف انگریزی قوم کا ایک حصہ اسے اندھیرے کی چھلانگ بتا رہا ہے- طبائع جوش میں ہیں نوجوان ہندوستان آزادی کے خوشنما خواب دیکھ رہا ہے تو تجربہ کار انگلستان آہستگی اور احتیاط کا مشورہ دے رہا ہے- وہ اسے اپنی آزادی میں حائل قرار دے رہا ہے تو یہ اسے دیوانگی کے مرض میں مبتلا سمجھ رہا ہے ان حالات میں مشورہ دینا آسان کام نہیں- جب ایک خاص خیال انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے تو اچھی سے اچھی بات بھی اسے بری معلوم دینے لگتی ہے اور وہ اپنے خیر خواہ کو بدخواہ سمجھ لیتا ہے لیکن باوجود اس کے میں موجودہ صورت حالات کو دیکھتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتا- کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ حقیقت کو معلوم کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے اور ایک دوسرے کی طرف سے دل اس قدر بغض و کینہ سے لبریز ہیں کہ حُسن ظنی نام کو بھی باقی نہیں رہی ہے- ایک عام ہندوستانی انگریز کی ہر بات میں منصوبہ بازی اور دھوکا دہی کی کوئی چال محسوس کرتا ہے اور ایک عام انگریز ہر آزادی کے خواہشمند
۲۴۶ ہندوستانی کو جاہ پسند اور مفسد تصور کرتا ہے- پس میں سمجھتا ہوں کہ گو ایک مذہبی آدمی ہونے کے لحاظ سے مجھے سیاست ملکی سے اس قدر تعلق نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو رات دن انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں لیکن اسیقدر میری ذمہ داری صلح اور آشتی پیدا کرنے کے متعلق زیادہ ہے- اور نیز میں خیال کرتا ہوں کہ شورش کی دنیا سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے میں شاید کئی امور کی تہہ کو زیادہ آسانی سے پہنچ سکتا ہوں بہ نسبت ان لوگوں کے کہ جو اس جنگ میں ایک یا دوسری طرف سے شامل ہیں- پس اس وقت جب کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے اعلان کی وجہ سے لوگوں کی توجہات مسئلہ ہندوستان کے حل کرنے میں لگی ہوئی ہیں میں بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات دونوں ملکوں کے غیر متعصب لوگوں کے سامنے رکھ دوں- میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ کام مشکل ہے- ہندوستان جیسا وسیع ملک جس میں تینتیس کروڑ نفوس بستے ہیں اور جس میں بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں اس کے مستقبل کے متعلق کچھ لکھنا آسان کام نہیں ہے- پس میں اللہ تعالیٰ سے جو سب مخلوقات کا مالک اور خالق ہے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے کام لے کر اس نازک معاملہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائے اور ہمیں اس راستہ کو اختیار کرنے کی توفیق دے جو ہمارے حال اور مستقبل دونوں کے لئے اچھا ہو اور جس پر چل کر ہم نہ صرف اس قابل ہوں کہ اپنی دنیا کو اچھا کر سکیں- بلکہ اس کی رضا کے حصول کی بھی ہم میں قابلیت پیدا ہو- ہم کمزور ہیں لیکن وہ طاقت والا ہے، ہم مستقبل کی ضرورتوں سے ناواقف ہیں لیکن وہ واقف ہے پس اسی کی مدد سے ہم حقیقی خوشی اور حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں- اور اس کے آگے ہم جھکتے ہیں کہ وہ ہماری مدد اور نصرت کرے اور ہماری بہتری کے سامان پیدا کرے- اس کے بعد میں انگریز افسران حکومت کو خواہ ہندوستان کے ہوں خواہ انگلستان کے خصوصاً اور باقی انگریزوں کو عموماً کہتا ہوں کہ آپ لوگوں پر ایک بہت بڑی ذمہ واری ہے- خدا تعالیٰ نے آپ کے سپرد ایک امانت کی ہے اس امانت کو صحیح طور پر ادا کرنا آپ کا فرض ہے- مادیت کی ترقی نے خدا تعالیٰ پر ایمان بہت کمزور کر دیا ہے اور جو لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں وہ بھی اسے ایک بے تعلق شاہد کی طرح سمجھتے ہیں جو دنیا کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن یہ بات درست نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ نبیوں کا اتنا لمبا سلسلہ نہ جاری کرتا- اس
۲۴۷ دنیا کا پیدا کرنے والا خدا اس کی بہتری سے غافل نہیں رہ سکتا تم اس سیاسی امر میں اس کا ذکر کرنے پر ہنسو یا مجھے بیوقوف سمجھو لیکن حق یہی ہے کہ ایک دن سب کو اس کے حضور جوابدہ ہونا ہے- بہت ہیں جو اس زندگی میں اس کی ہستی کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن ان کی موت کے وقت کی گھڑیاں حسرت و اندوہ میں گزرتی ہیں- پس چاہئے کہ آپ اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی تینتیس کروڑ آدمی کی قسمت کے فیصلہ کے وقت اپنے قلیل اور بے حقیقت فوائد کو بالکل نظر انداز کر دیں کہ وہ روپیہ کی گنتی میں خواہ کروڑوں ہندسوں سے بھی اوپر نکل جائیں لیکن اخلاقوروحانیت کے لحاظ سے ایک آدمی کی آزادی کے برابر بھی ان کی قیمت نہیں ہے- اگر آپ لوگ انصاف سے کام لیں گے تو خواہ آپ کے بعض ابنائے وطن اس وقت آپ کو گالیاں دیں اور غدار کہیں لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ کی اپنی ہی نسلیں نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ آپ کے نام کو عزت سے لیں گے اور آپ کی یاد کے وقت ادب سے لوگوں کی گردنیں جھک جائیں گی اور آپ کا ذکر ہمیشہ کے لئے بابرکت ہو جائے گا- اسی طرح میں اپنے اہل وطن سے کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اپنے دلوں کو تعصب اور کینہ سے خالی کر دو کہ گو یہ جذبات بظاہر میٹھے معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان سے زیادہ تلخ اور تکلیف دہ کوئی چیز نہیں- واقعات بتا رہے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا وقت آ گیا ہے- خدا تعالیٰ دلوں میں ایک نئی روح پھونک رہا ہے- تاریکی کے بادلوں کے پیچھے سے امید کی بجلی بار بار کوند رہی ہے- خواہ ہر آنے والی ساعت کی تاریکی پہلی تاریکی کی نسبت کس قدر ہی زیادہ کیوں نہ ہو ہر بعد میں ظاہر ہونے والی روشنی بھی پہلی روشنی سے بہت زیادہ روشن ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی مشیت کا اظہار کر دیتی ہے- پس اپنے کینہ اور بغض سے خدا تعالیٰ کی رحمت کو غضب سے نہ بدلو اور اس کے فضل کو اس کے قہر میں تبدیل نہ کرو کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم اور سچائی کے منکر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے- یہ حقیقت ہے کہ انگریزی قوم کا وجود ہندوستان میں خواہ کتنا ہی خود غرضی پر مبنی ہو پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے- اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ کھویا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے- اگر دنیا کی مادی ترقی کی بنیاد اب جدید مغربی علوم پر رکھی جانے والی
۲۴۸ ہے جیسا کہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونے والا ہے تو جو کچھ ہم نے کھویا ہے اسے ہم ایک تختی کے دھوئے جانے سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتے- اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر شکر کرنا چاہئے کہ اس نے ہمارے ملک کو دوسرے مشرقی ممالک کی نسبت زیادہ سہولت کے ساتھ ان علوم کا وارث بنا دیا ہے- اگر دیکھا جائے تو سوائے جاپان کے ہندوستان علومجدیدہ اور ان کے نتائج سے باقی سب ایشیائی ممالک کی نسبت زیادہ بہرہ ور ہوا ہے اور دانستہ یا نادانستہ جس طرح بھی ہو اس صورت حالات کے پیدا کرنے میں انگریزوں کا بہت کچھ دخل ہے- اسی طرح ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہندوستانی ہونے کا خیال اور ان کا آپس میں اتحاد بھی بہت کچھ انگریزی سیاست کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور قانون کا ادب اور کم سے کم ہندوستانیوں کے آپس کے اختلافوں میں انصاف بھی انہی کے عہد کا نتیجہ ہے- پس ہمیں ان کے عیبوں کے ساتھ ان کے ہنروں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ جو شخص صداقت کے ایک حصہ کا انکار کرتا ہے وہ دوسرے حصوں کا انکار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے- جس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہماری بیداری کا موجب بنایا ہے ہمیں بھی اس کے ساتھ مجنونانہ سلوک نہیں کرنا چاہئے اور اس آخری فیصلہ کی گھڑیوں کو بِلاوجہ تلخ کر کے دنیا میں ایک نئی جنگ کی بنیاد نہیں رکھنی چاہئے کہ ظلم جس طرح ایک انگریز کے ہاتھ سے بُرا ہے ویسا ہی ایک ہندوستانی کے ہاتھ سے بھی بُرا ہے- پس آپ لوگ نرمی اور محبت سے ایک ایسے فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کریں کہ جو دلوں کی کدورت اور کینہ کو دھو دے اور ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھیں جو محبت و اتحاد کا ایک نیا دور شروع کرنے والی ہو- یاد رکھیں کہ دنیا ایک جسم ہے اور تمام ممالک اس کے عضو ہیں اس وقت تک بہت سے لوگ اس کے اعضاء کو کاٹنے کی کوشش میں لگے رہے ہیں اب خدا چاہتا ہے کہ سب دنیا کو اس کی اصل شکل میں قائم کرے اور ملکیت وملوکیت کی قیدوں سے آزاد کرے- اس مقصد کے حصول کے لئے برطانوی حکومت کا ڈھانچہ ایک بہترین ڈھانچہ ہے اور اس میں یہ قابلیت ہے کہ مختلف الاحوال اور دور دراز کے ملکوں کو بغیر ان کی آزادی کو نقصان پہنچانے کے ایک سلسلہ میں منسلک کر دے- پس ایسے ذرائع کو استعمال کرو کہ عمدگی اور مضبوطی کے ساتھ ہندوستان بھی اس اتحادِعالم کی بنیاد کی ایک مکمل لیکن پیوست اینٹ ہو اور جھوٹی خواہشوں کے پیچھے پڑ کر ایسی راہیں تلاش نہ کرو کہ جو اس عجیب و غریب تجربہ کو جو مختلف ممالک کی آزادی کو قائم رکھتے
۲۴۹ ہوئے انہیں ملکیت کی قیدوں سے آزاد کرانے کے لئے کیا جا رہا ہے تباہ کر دے- خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور ہر ایک جو اس فیصلہ میں حصہ لینے والا ہے، خواہ اس ملک کا، خواہ اُس ملک کا، اس کے دل اور دماغ پر اپنے الہام کی روشنی ڈالے تا کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق چلے یہاں تک کہ دنیا میں ہماری نہیں بلکہ اس کی مرضی کی حکومت ہو کہ اسی میں سب برکت اور اسی میں سب راحت ہے-
۲۵۰ حصّہ اول باب اول اصولی مباحث تمہید اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اس امر کا فیصلہ کر چکی ہے کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں کوئی خاص سکیم غور کرنے کے لئے معین نہیں کی جائے گی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں سب سے زیادہ توجہ سائمن کمیشن کی رپورٹ حاصل کرے گی- میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستانیوں کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے غالباً برطانوی نمائندے اس رپورٹ کا اس قدر کم نام لیں گے جس قدر کہ کام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لئے ممکن ہو اور ہندوستانی نمائندے بھی غالباً اس مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس رپورٹ کی ہندوستان میں ہوئی ہے اس کا ذکر بہت ہی کم کریں گے سوائے اس کے کہ مخالفت کے رنگ میں ہو- لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواہ برطانوی نمائندے ہوں خواہ ہندوستانی دونوں کے دماغوں پر یہ رپورٹ حکومت کر رہی ہوگی اور وہ اس کے اثر سے خواہ کس قدر بھی کوشش کریں آزاد نہیں ہو سکتے- اور اس کے دو سبب ہیں- (۱) اول یہ کہ اس رپورٹ کے علاوہ کوئی اور مکمل رپورٹ نہیں ہے جس نے قانونِ اَساسی کی تمام شاخوں پر روشنی ڈالی ہو اور ہر ایک امر کی دلیل دی ہو- نہرو رپورٹ ہے لیکن وہ (الف) ناقص اور نامکمل ہے- (ب) ایسی جماعت نے اسے تیار کیا ہے جو ہندوستانیوں میں سے خاص فوائد کی نمائندہ تھی- اور (ج) اس میں بعض دوسری اقوام کے
۲۵۱ فوائد کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے- (ہ) اس کے بہت سے اچھے حصے سائمن کمیشن کی رپورٹ میں شامل کر لئے گئے ہیں- (۲) باوجود اس کے کہ سائمن رپورٹ کی شدید مخالفت ہوئی ہے لیکن اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس رپورٹ کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ اس میں مناسب اصلاح کر کے ایک مفید اور قابل عمل اساس حکومت بنایا جا سکتا ہے- اور بعض پیچیدہ مسائل اس میں ایسے طریق پر حل کر دیئے گئے ہیں کہ جن کے بغیر ہندوستان میں کبھی امن نہیں ہو سکتا اور وہ صورت جو سائمن کمیشن نے تجویز کی ہے غالباً ہندوستانیوں کے منہ سے نکلی ہوئی کبھی بھی انگلستان کے لئے قابل تسلیم نہ ہوسکتی- پس انگلستان کی رائے کو آسانی سے متاثر کرنے کے لئے بعض معاملات میں مسلمان اور بعض میں ہندو سائمن رپورٹ کا نام لئے بغیر اس کے دلائل سے فائدہ اٹھانے پر مجبور ہونگے- پس ان حالات میں اس رپورٹ کو نظر انداز کرنا بالکل ناممکن ہے اور کسی چیز کے اچھے حصے کو بھی اس کے برے حصے کی وجہ سے خراب اور بُرا کہنا خلاف دیانت ہے- پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی کارروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سائمن کمیشن کی رپورٹ پر ریویو کروں- سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ رپورٹ اس قدر بری نہیں جس قدر کہ اس خلاصہ سے ظاہر ہوتا تھا جو ہندوستان میں شائع کیا گیا- اس میں کئی جگہ غلطی بھی کی گئی تھی اور کئی جگہ اختصار کی وجہ سے مضمون واضح نہ ہوتا تھا- پس ان حالات میں ہر ایک شخص نے اس پر نہایت سختی سے تنقید کی اور انہی لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں- لیکن اصل کتاب کو پڑھنے کے بعد میری بھی رائے بدل گئی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی بھی رائے بدل گئی- اس کو غور سے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی نقطہ نگاہ سے اس میں بہت سے اچھے امور بھی ہیں اور بہت سے بُرے امور بھی ہیں لیکن باوجود کمیشن کی اس رائے کے کہ یہ رپورٹ ایسے رنگ میں لکھی گئی ہے کہ یا اسے کلّی طور پر قبول کرنا ہوگا یا کلّی طور پر رد کرنا ہوگا میرے نزدیک اس کی اصلاح آسانی سے ہو سکتی ہے اور یہ رائے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی انہوں نے صرف نہرو رپورٹ سے متاثر ہو کر لکھ دی ہے- میں نے اسے خوب غور سے پڑھا ہے اور میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بعض حصوں میں تبدیلی کر کے اور بعض کی جگہ پر بالکل اور قوانین تجویز کر کے ہم اس سکیم کو اختیار کر سکتے ہیں اور
۲۵۶ اس سے کسی صورت میں بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا- یہ امر صرف سائمن کمیشن سے مخصوص نہیں کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں سے تعلق شدید رکھتے ہیں- دنیا کی ہر سکیم میں یہ بات پائی جاتی ہے اور یہ عقلمند آدمی کا کام ہے کہ جب وہ کسی ایک حصہ میں تبدیلی کرنا چاہے تو یہ بھی دیکھ لے کہ اس کا دوسرے حصوں پر کیا اثر پڑتا ہے- پھر اگر دوسرے حصوں میں تبدیلی کرنے سے وہ سکیم کسی مفید غرض کو پورا کرتی ہو تو اس تبدیلی کو اختیار کرے ورنہ موازنہ کرے کہ دوسرے حصوں میں تبدیلی سے زیادہ نقصان ہوتا ہے یا اس حصہ کو قائم رکھنے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جس میں تبدیلی کا اسے خیال پیدا ہوا تھا اور یہی سلوک ہمیں سائمن کمیشن کی رپورٹ سے کرنا چاہئے- اور میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ خود سائمن رپورٹ کو ہی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں زیر بحث لانا چاہئے کہ اس میں زیادہ آسانی رہے گی اور کام جلدی سے ختم ہو جائے گا- ورنہ مختلف سکیمیں پیش ہونگی جن کے پیچھے وہ اخلاقی طاقت نہ ہو گی جو اس رپورٹ کے پیچھے ہے نہ وہ اس قدر غور اور مطالعہ کا نتیجہ ہوں گی- نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کی توجہ کو پوری طرح جذب نہ کر سکیں گی اور نامکمل غور کے نتیجے میں ان کے کئی اچھے نکتے رد کر دیئے جائیں گے اور کئی بُری باتیں بظاہر خوشنما ہونے کی وجہ سے قبول کر لی جائیں گے- لیکن چونکہ اس سکیم کی سخت مخالفت ہو چکی ہے- شاید ممبران راؤنڈ ٹیبل کانفرنس اسے مصلحت کے خلاف سمجھیں کہ اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر اس میں تبدیلی کی کوشش کریں اس لئے اس صورت میں میں تو انہیں یہ مشورہ دوں گا کہ خواہ اس رپورٹ کا ذکر وہ نہ کر سکیں لیکن اس کو خوب مطالعہ کر کے اس مجلس میں شامل ہوں اور ہمیشہ اس کے مضامین پر نگاہ رکھیں کہ باوجود بہت سے نقائص کے یہ رپورٹ ان کے بہت کام آئے گی- خصوصاً مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس رپورٹ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے انگریزوں کو ہندوستان کے لئے فیڈرل سسٹم کے قبول کرنے کی طرف مائل کر دیا ہے حالانکہ انگلستان اپنی قدیم روایات کے اثر کے ماتحت اس سسٹم کو آسانی سے قبول نہیں کر سکتا تھا- مجھے اس جگہ یہ بھی لکھ دینا چاہئے کہ باوجود بہت محنت کے کمیشن کے ممبروں نے شاید جلدی کی وجہ سے بعض مقامات پر حسابی غلطی بھی نکالی ہے اور بعض جگہ بعض مضامین کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اصل مقام پر پھر اس اشارہ کے مطابق سکیم کو پیش نہیں کر سکے لیکن اس امر پر مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں- راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا تو ڈرافٹ بنانے والے اس قسم کے نقائص کی خود اصلاح کر لیں گے-
۲۵۳ باب دوم ایشیائی ممالک میں نیابتی حکومت کمیشن نے رپورٹ کے حصہ دوم کی تمہید میں اس کا ذکر کیا ہے کہ ہندوستان میں مغربی اصول پر آئین- حکومت کا تجویز کرنا بالکل درست نہیں کیونکہ جو آئین کہ سینکڑوں سال کے تجربہ کے بعد ایک مغربی ملک کے باشندوں نے تجویز کیا ہے وہ آسانی سے ایک ایسے مشرقی ملک پر چسپاں نہیں ہو سکتا جہاں کہ ہزاروں سال تک خود مختار حکومت کا دور دورہ رہا ہے- گو کمیشن نے کسی ایک جگہ اس مضمون پر تفصیلی بحث نہیں کی لیکن مختلف مقامات پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے- اور چونکہ علاوہ کمیشن کے بہت سے یورپین مصنف بھی اس کی طرف اپنی کتب میں توجہ دلاتے رہتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کے متعلق بھی کچھ لکھوں کیونکہ جب تک انسان کے دل کی وہ گرہیں نہ کھل جائیں جن کی وجہ سے وہ کسی خاص مضمون کو سمجھنے کے ناقابل ہو اس وقت تک خواہ وہ سمجھنے کی کوشش بھی کرے اس مضمون کو نہیں سمجھ سکتا- اگر کمیشن کا یہ مطلب ہے کہ انگلستان کا نظام اپنی مکمل صورت میں ہندوستان میں جاری نہیں کیا جا سکتا تو میں اس میں کمیشن کی رائے سے بالکل متفق ہوں لیکن اس میں مشرقومغرب یا کسی پرانی یا نئی روایت کا ہر گز کوئی تعلق نہیں- کسی ملک کے تجویز کردہ آئین بھی کسی دوسرے ملک میں خواہ وہ کسی پرانی یا نئی روایت کا ہر گز کوئی تعلق نہیں- کسی ملک کے تجویز کردہ آئین بھی کسی دوسرے ملک میں خواہ وہ اس پہلے ملک سے خیالات میں انتہائی درجہ کا متحد ہی کیوں نہ ہو پوری طرح جاری نہیں ہو سکتے- انگلستان کا آئین ہندوستان کے لئے ہی ناقابل قبول نہیں بلکہ فرانس اور جرمنی نے بھی اسے اپنے ملک میں جاری نہیں کیا اور یونائیٹڈسٹیٹس (UNITED STATES)جس کے اکثر باشندے انگلستان کے رہنے والے ہیں وہ بھی اس کی نقل کرنے سے قاصر رہا ہے بلکہ خود انگلستان کے ماتحت جو نو آبادیاں ہیں ان میں
۲۵۴ بھی پوری طرح انگریزی آئین جاری نہیں- پس یہ تو ایسی واضح بات ہے کہ اس کا خاص طور پر ذکر کرنا یا اسے اہمیت دینا بالکل خلافِ عقل ہے- لیکن اگر کمیشن کی یہ مراد ہے کہ نیابتی حکومت کا طریق خواہ کسی صورت میں ہو مشرقیحالات کے منافی ہے اور اس کے جاری کرنے میں احتیاط چاہئے تو مجھے اس سے اختلاف ہے- اگر آج سے چند سو سال پہلے یہ بات کہی جاتی تو اور بات تھی لیکن آج جب کہ سب دنیا میں آئینی حکومت کا دور دورہ ہے اور ایران اور افغانستان بھی جو تعلیم کے لحاظ سے بھی اور مغربی ممالک سے تعلقات کے لحاظ سے بھی ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں اس طریق کو جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایران اور ترکی تو ایک حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں اور جاپان بھی اس میں بہت کچھ ترقی کر چکا ہے یہ کہنا کہ ہندوستان جو دنیا کی اس نئی تحریک کا بہت حد تک مطالعہ کر چکا ہے اور تھوڑا بہت تجربہ بھی رکھتا ہے اس کے لائق نہیں بالکل درست نہیں ہو سکتا- دنیا کی تاریخ بھی اس رائے کے مخالف ہے- انگلستان نے بے شک صدیوں میں نیابتی حکومت کا سبق سیکھا ہے لیکن فرانس اور جرمنی نے اس طریق کو یکدم ہی اختیار کر لیا تھا- یہی حال پولینڈ اور آسٹریا کا ہے- ان کی حکومتوں کے تغیر پر سینکڑوں نہیں بلکہ چند ہی سال لگے ہیں- اور اصل بات یہ ہے کہ نمونہ تیار کرنے میں دیر لگتی ہے لیکن نمونہ کی نقل میں اس قدر دیر نہیں لگتی- سٹیم انجن کی دریافت پر جس قدر دیر لگی تھی اتنی دیر اس کا دوسرا نمونہ بنانے میں نہیں لگی اور نہ ہر ملک کی ضرورتوں کے مطابق انجنوں کے نئے نمونوں کے بنانے میں دیر لگی پس یہ استدلال کمیشن کے ممبروں یا دوسرے یوروپین مصنفوں کا درست نہیں- اب زمانہ بدل چکا ہے خواہ مزاج مختلف ہوں، حالات مختلف ہوں لیکن وہ اصولی اتحاد جو سب دنیا کے لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہندوستان بے شک انگلستان کے آئین کی لفظ بہ لفظ نقل نہیں کر سکتا بالکل اسی طرح جس طرح انگلستان کے ہمسایہ ملک فرانس اور جرمن اس کی نقل نہیں کر سکتے لیکن اپنی ضرورتوں کے مطابق وہ ایک نیا ڈھانچہ ضرور تیار کر سکتا ہے اور اس پر عمل بھی کر سکتا ہے- گو ابتداء میں مشکلات ہونگی لیکن کونسا تجربہ بغیر خطرات کے قبول کرنے کے کیا جا سکتا ہے- ہمارا فرض ہے کہ ہم خطرات کو کم کرنے کی کوشش کریں لیکن خطرات کی وجہ سے ترقی کی طرف قدم نہ اٹھانا ہمیں خطرات سے تو شاید نہ بچاوے لیکن ترقی سے ضرور محروم کر دے گا-
۲۵۵ باب سوم کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے؟ اگر ہے تو کس حد تک؟ پیشتر اس کے کہ ہم ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت پر بحث کریں ہمیں اصولی طور پر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ہندوستان اخلاقاً یا سیاستاً آزادی کا مستحق ہے اور اگر ہے تو کس حد تک؟ کیونکہ بغیر اس کے کہ ہمارے خیالات اس سوال کے متعلق ایک اصل پر قائم ہوں ہماری بحثیں بالکل فضول اور لغو ہونگی اور سوائے اس کے کہ ہم اور زیادہ پیچیدگیوں میں پڑ جائیں ہمارے مباحثات کا کچھ فائدہ نہ ہوگا- پس سائمن رپورٹ یا کسی اور رپورٹ پر غور کرنے سے پہلے یا انگریزوں اور ہندوستانی نمائندوں کے تفصیلی تبادلہ خیالات سے پہلے اس سوال کا حل کر لینا ضروری ہے- جب اس سوال کا حل ہو جائے گا تو اگلی بحثیں آسانی سے طے ہو سکیں گی ورنہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہندوستان کو آزادی کا حق ہی حاصل نہیں وہ کس طرح اس بحث کے طے کرنے میں ممد ہو سکتا ہے کہ کس حد تک ہندوستان کو اختیارات دیئے جائیں؟ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو فوراً آزاد کر دیا جائے وہ کب اس بحث میں مدد دے سکتا ہے کہ آئندہ سکیم میں کن کن حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے؟ آزادی ہند کے سوال کو ان دو نقطئہ نگاہ سے دیکھنے والے افراد بھی کسی سمجھوتہ کی طرف آ ہی نہیں سکتے- اور اگر وہ ایک دوسرے کی دھمکیوں یا اصرار یا لوگوں کے مجبور کرنے سے کسی سمجھوتہ پر پہنچیں بھی تو یقیناً وہ سمجھوتہ کسی اصل پر مبنی نہ ہوگا بلکہ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے- اور ایک حصہ بجائے
۲۵۶ دوسرے حصے سے پیوست ہونے کے اس جبر یا مصلحت سے مطابقت رکھے گا جس کے اثر کے نیچے اس کا تصفیہ ہوا تھا اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی سکیم ملک کے لئے کس قدر خطرناک ہوگی؟ پس میرے نزدیک بہتر ہوگا کہ اصل مضمون کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے اسے قریبالفہم بنانے کے لئے اس سوال کو اپنے علم کے مطابق حل کرنے کی کوشش کروں کہ کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے اور اگر ہے تو کس حد تک؟ اور اس غرض کے لئے پہلے میں اس سوال کے پہلے حصہ کو لیتا ہوں- کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے- مذہبی طور پر، اخلاقی طور پر اور سیاسی طور پر- مذہبی سوال سب سے مقدم ہے لیکن چونکہ انگلستان اور ہندوستان اور خود ہندوستان کی مختلف اقوام کا مذہب ایک نہیں اس لئے مذہب کی رو سے بحث اس سوال کے حل کرنے میں مدد نہیں دے سکتی- پس میں اسے چھوڑ کر اخلاقی پہلو کو لیتا ہوں- ۲۰- اگست ۱۹۱۷ء کو مسٹر مانٹیگو MONTAGUE(.(MR نے ہاؤس آف کامنز میں جو تقریر کی- اس میں ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت کے متعلق ایک یہ فقرہ بھی تھا کہ-: ‘’حضور ملک معظم کی حکومت کی پالیسی جس کے ساتھ حکومت ہند کو بھی پورے طور پر اتفاق ہے یہ ہے کہ انتظام مملکت کے ہر شعبہ میں ہندوستانیوں کو بتدریج بڑھنے والا حصہ دیا جائے اور آہستہ آہستہ آزاد محکمے قائم کر دیئے جائیں تا کہ ترقی کرتے کرتے ہندوستان میں برطانوی تاج کے ماتحت ایک آزاد نیابتی حکومت قائم ہو جائے’‘- اس کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کی تمہید میں اسی فقرہ کو لفظ بلفظ نقل کر کے برطانوی پارلیمنٹ بھی اس میں ظاہر کردہ خیالات سے اپنا اتفاق ظاہر کر چکی ہے- یہ بیان کرنا بے محل نہ ہوگا کہ مسٹر مانٹیگو MONTAGUE(.(MR کا اعلان ان کا اپنا ذاتی اعلان نہ تھا بلکہ برطانوی وزارت کا تسلیم شدہ اعلان تھا اور سائمن رپورٹ سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان میں(RESPONSIBLE GOVERNMENT) کے الفاظ لارڈکرزن (LORD CURZON) کے قلم سے لکھے ہوئے اب تک موجود ہیں- پس اس اعلان سے حکومت ہند کے علاوہ جس کی رضا مندی صاف لفظوں میں ظاہر ہے
۲۵۷ برطانوی وزارت بھی اپنا اتفاق ظاہر کر چکی ہے- حکومت ہند، وزارت برطانیہ اور پارلیمنٹ کے بعد بادشاہ کی شخصیت ہی رہ جاتی تھی کہ جن کی تصدیق صاف لفظوں میں اس اعلان کے متعلق نہ تھی- لیکن ۱۵- مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور ملک معظم کی طرف سے گورنر جنرل ہندوستان کے نام جو ہدایت نامہ جاری کیاگیا اس میں صاف لفظوں میں اس اعلان کی طرف اشارہ کر کے نہ صرف اس کی تصدیق کی گئی ہے بلکہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے- ملک معظم تحریر فرماتے ہیں- ‘’دسویں- اوپر کے تمام امور کے لئے ہماری خواہش اور مرضی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے جو اصول ہندوستان میں ایسی نیابتی حکومت کے قیام کے لئے جو ہماری مملکت کا جزو رہے تجویز کئے ہیں- ان پر اس طرح عمل کیا جائے کہ آخر کار اس کے نتیجہ میں برطانوی ہندوستان ہماری ڈومینینز (DOMINIONS) میں اس مقام کو حاصل کر سکے جس کا وہ حقدار ہے’‘- ان اعلانات سے ثابت ہوتا ہے کہ بادشاہ معظم، پارلیمنٹ، وزارت برطانیہ اور حکومت ہند سب کے سب اس امر کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں ان کی حکومت کا طریق آئندہ ایسا ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے مختلف حِصصﷺ سلف گورنمنٹ (SELF GOVERNMENT) حاصل کر لیں گے اور ہندوستان بحیثیت مجموعی نیابتی حکومت حاصل کر لے گا- یہ ایک وعدہ ہے جس سے انگلستان اخلاقاً کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا- اور اگر وہ ’’تدریجی’‘ یا ایسے ہی الفاظ کی پناہ لے کر اس وعدہ کے پورا کرنے میں دیر کرے تو بھی گو وہ قانوناً زیر الزام نہ ہو لیکن اخلاقا ً وہ بہت بڑی ذمہ واری کے نیچے آ جائے گا اور اس چیز کو جو آخر میں حکومتوں کے نشان کے طور پر اکیلی باقی رہ جاتی ہے یعنی ‘’نیک نامی’‘ ناقابل تلافی طور پر نقصان پہنچا دے گا- بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس اعلان میں درجہ نو آبادیات کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ نیابتی حکومت کا ہے اور ان دونو اصطلاحوں میں بہت بڑا فرق ہے- گو اس فرق کی طرف توجہ دلانے والے بعض ایسے انگریز ہیں جن کو میں اپنا دوست سمجھتا ہوں لیکن میں اس میں ان سے اختلاف کئے بغیر نہیں رہ سکتا- اعلان مذکور کے تین جملے قابل غور ہیں- اول- ‘’ہندوستانیوں کی بڑھنے والی شمولیت تمام محکمہ جات میں’‘ اس جملہ میں
۲۵۸ ‘’بڑھنے والی’‘ کا لفظ کوئی حد نہیں رکھتا سوائے اس حد کے جو طبعی ہے یعنی جب کہ تعداد پوری ہو جائے- پس اس لفظ کے استعمال کرنے کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ ہندوستانیوں کو سب قسم کی ملازمتوں میں متواتر بڑھنے والا حصہ دیا جائے گا یہاں تک کہ سب ملازمتیں ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائیں گی- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ ایگزیکٹو (EXECUTIVE)پورے طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائیں گی- دوسرا قابل توجہ جملہ ‘’خود مختار محکموں کے تدریجی نشوونما’‘ کا ہے- اس میں ‘’خود مختار محکموں’‘ سے مراد یقیناً میونسپل کمیٹیاں، ڈسٹرکٹس بورڈز اور صوبہ جاتی حکومتیں ہیں- ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹیاں بھی خود مختار محکمے نہیں کہلا سکتے جب تک کہ صوبہ جاتی حکومتیں ان پر حاکم نہ ہوں اور وہ خود مختار نہ ہوں کیونکہ لوکل بورڈ، بالا حکومت سے آزاد ہو کر کام نہیں کر سکتا- اور کوئی میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈ خود مختارانہ حکومت کرنے والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ جس حکومت سے اسے احکام ملتے ہوں اس کا قیام اس کے ووٹروں کی مرضی کے مطابق نہ ہو- پس میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کا خود مختار ہونا صوبہ جاتی حکومت کے خود مختار ہونے پر منحصر ہے- اور اس فقرہ میں یقیناً انہی تین حﷺ حکومت کا ذکر ہے- پس دوسرے لفظوں میں اس جملہ میں صوبہ جات کی آزادی کا وعدہ ہے- تیسرا قابل توجہ جملہ وہ ہے جس میں اوپر کی پالیسی کا آخری نتیجہ بیان کیا گیا ہے یعنی ‘’اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آخر برطانوی ہند میں ایک ایسی خود مختار حکومت بتدریج قائم ہو جائے جو برطانوی شہنشاہی کا جزو ہو’‘- اس جملہ میں بتایا گیا ہے کہ اوپر کی دونوں تجویزوں کی غرض یہ ہے کہ برطانوی ہند میں نیابتی حکومت تو قائم ہو جائے لیکن وہ برطانوی شہنشاہیت کا حصہ رہے باہر نہ نکل جائے- اس جملہ کے صاف لفظوں میں معنی یہ ہیں کہ پارلیمنٹ نے اس آخری حد تک ہندوستان کو خود مختار حکومت دینے کا وعدہ کیا تھا کہ اگر اس سے زیادہ حق دیا جائے تو ہندوستان برطانوی ایمپائر (EMPIRE) کا حصہ رہ ہی نہیں سکتا- اور یہی چیز ہے جس کا دوسرا نام ‘’ڈومینین سٹیٹس’‘ (DOMINION STATUS)ہے- ڈومینین سٹیٹس اور کامل آزادی میں صرف ایک قدم کا فرق ہے وہ قدم اگر کوئی ڈومینین اٹھائے تو وہ برطانوی ایمپائر کا حصہ نہیں رہتی- اور چونکہ اس حد تک پہنچی ہوئی خود مختار حکومت کا ہندوستان سے وعدہ کیا گیا ہے اس لئے یہ کہنا کہ اس
۲۵۹ سے ڈومینین سٹیٹس مراد نہیں، درست نہیں- اس وعدہ سے صاف ظاہر ہے کہ ایگزیکٹو بھی ہندوستانیوں کو دے دی جائے گی اور صوبہ جات کو بھی پوری آزادی دے دی جائے گی- اور اس طرح آزادی دیتے دیتے مرکزی حکومت ہند کو بھی اس آزادی کے مقام پر پہنچا دیا جائے گا کہ تاج برطانیہ سے علیحدگی کے حق کے علاوہ سب اختیارات اسے حاصل ہونگے- لیکن اگر ہم اس تفصیل میں نہ بھی پڑیں تو بھی خود مختار حکومت کے معنی ڈومینین سٹیٹس کے ہی ہیں- اور اصول آئین کے علماء اس کے یہی معنی کرتے چلے آئے ہیں- چنانچہ مثال کے طور پر میں D.H.P.A.M.Strong.F.C Doctorکی کتاب Modern Political Constitutionsکا ایک حوالہ نقل کرتا ہوں- وہ لکھتے ہیں- ‘’ایک خود مختار نو آبادی وہ ہے جسے نیابتی حکومت حاصل ہو اور جسے نیابتی حکومت کہتے ہیں وہ عملی سیاست میں صرف اس امر کا نام ہے کہ ان نو آبادیوں میں وزارت کو ملکی نمائندوں کے تابع کر دیا جائے جہاں کہ اس سے پہلے وہ برطانوی حکومت کے تابع ہوا کرتی تھی کیونکہ نیابتی حکومت کے صرف یہ معنی نہیں کہ وہ نوآبادی جسے اس قسم کی حکومت حاصل ہو اپنے لئے اپنے فائدے کے مطابق قانون وضع کرنے میں آزاد ہے بلکہ یہ بھی کہ اس کی وزارت آئندہ پوری طرح اور براہراست ملک کے منتخب نمائندوں کے ماتحت ہوگی- ۱؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اصول آئینی کے ماہرین کے نزدیک رسپانسیبل (RESPONSIBLE)گورنمنٹ کے صرف یہ معنی نہیں کہ کسی ملک کو اپنے معاملات کے متعلق قانون سازی کا اختیار کلی طور پر مل جائے بلکہ یہ بھی کہ ایگزیکٹو پوری طرح اور براہ راست ملک کے منتخب نمائندوں کے ماتحت ہو اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی ڈومینین کو اس سے زیادہ اختیار حاصل ہے- دوسرا حوالہ میں مسٹر وڈروولسن سابق پریذیڈنٹ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کا پیش کرتا ہوں- جو سلف گورنمنٹ کے متعلق ہے- وہ اپنی کتاب.States United the in Government Constitutionalمیں لکھتے ہیں-: ‘’نیابتی حکومت آئینی طریق حکومت کی آخری منزل ہے’‘- ۲؎
۲۶۰ اور جب کہ انگلستان ہندوستان کو سلف گورنمنٹ دینے کا وعدہ کر چکا ہے جو کہ آئینی ارتقاء کی آخری منزل ہے تو پھر ڈومینین سٹیٹس کی وہ کونسی بات رہ گئی جو اسے اس وعدہ کے مطابق نہیں مل سکتی- اوپر کے حوالہ جات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ انگلستان صاف طور پر ہندوستان کو رسپانسیبل گورنمنٹ یا ڈومینین سٹیٹس دینے کا وعدہ کر چکا ہے اور اب اپنے اعلان سے پیچھے ہٹنا اس کے لئے اخلاقاً بالکل ناجائز ہے اور اسے اس قسم کا مشورہ دینے والے لوگ اس کی عزت کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں- اب میں دوسرے سوال کو لیتا ہوں کہ کیا ہندوستان سیاسی طور پر آزادی کا مستحق ہے؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب بھی اثبات میں ہے- سیاسی استحقاق دو طرح حاصل ہوتے ہیں- یا خدمت سے یا قابلیت سے- ہندوستان نے جنگ عظیم کے موقع پر انسانی آزادی کے قیام کے لئے ایک بے نظیر قربانی کر کے اپنے اس حق کو ثابت کر دیا ہے- جنگ کے دوران میں برطانیہ کے وزراء بار بار ہندوستانیوں سے اپیل کرتے تھے کہ دول متحدہ دنیا کی آزادی کو برباد کرنا چاہتی ہیں اور انہیں اس برے ارادہ سے روکنے کے لئے ہندوستان کو انگلستان کی مدد کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے- ہر اک شخص جانتا ہے کہ ہندوستان نے اس آواز کا جواب کس شاندار طور پر دیا- دس بارہ لاکھ آدمی کا مہیا کر دینا معمولی بات نہیں خصوصاً جب کہ ہندوستان کو اس جنگ سے کوئی ذاتی سرورکار نہ تھا- ایک محکوم قوم کو انتخاب کے لئے کوئی وسیع میدان حاصل نہیں ہوتا وہ ایک محکومی اور دوسری مملوکی میں چنداں فرق نہیں کرتی پس عام ہندوستانی اس امر کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتا تھا کہ انگریزی غلبہ اور جرمن غلبہ میں کچھ فرق ہے اس کے لئے یہ دونوں باتیں برابر تھیں- مگر پھر بھی پرانے تعلقات کو گو وہ محکومی کے تعلقات تھے اس نے محبت کی نگاہ سے دیکھا اور ان کے توڑنے کو پسند نہ کیا اور اپنا سب کچھ حکومت کے قدموں پر لا کر نثار کر دیا- اس قربانی کو آج کی اطمینان کی حالت کے اثر کے نیچے نہ دیکھو ان حالات کو سامنے لا کر دیکھو جب ہر وقت ڈوور۳؎ کی بندرگاہ کی طرف انگلستان کی نگاہ لگی رہتی تھی اور جب انگلستان کی بہادر عورتیں ہر رات اس خوف میں سوتی تھیں کہ یہ رات ان محُبّانِ وطن کے لئے جو فرانس کے میدان میں اپنے وطن کی حفاظت کے لئے بے حفاظت کھلے میدان میں پڑے ہیں کیا پیغام لاتی ہے؟ جب ہر صبح شادی شدہ عورتیں دھڑکتے ہوئے دلوں
۲۶۱ کے ساتھ اٹھتی تھیں اور پہلا خیال ان کے دلوں میں یہ ہوتا تھا کہ کیا اب بھی وہ سہاگ کی حالت میں ہیں یا بیوہ ہو چکی ہیں- جب حیران و ششدر بچے اپنی ماؤں کا منہ تکا کرتے تھے کہ کس مصیبت نے ان کے چہروں کو زرد اور ان کی آنکھوں کو بے کیف کر رکھا ہے اور حیران ہوتے تھے کہ ان کے والد کو کیا ہو گیا ہے کہ واپس ہونے کا نام ہی نہیں لیتا- جب مائیں اپنے بچوں کو حسرت و اندوہ سے تھپکی دیا کرتی تھیں جنہوں نے کبھی اپنے باپ کا منہ نہ دیکھا تھا اور نہ آئندہ دیکھنے کی امید تھی- جب ارباب حل و عقد جمع ہوتے تھے تو ان کا پہلا سوال یہ ہوتا تھا کہ اب آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ جب انگلستان کی آزاد روح جس نے سات سو سال کی متواتر جدوجہد کے بعد حقیقی آزادی حاصل کی تھی اپنی سب سے عزیز چیز کو ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھتی تھی- ہاں جس وقت ایک مسکراہٹ خدمت اور ایک کلمہ تعریف وفاداری کہلاتا تھا- اس ماحول کو اپنے ذہن میں دوبارہ پیدا کر کے، ان خطرات کو سامنے لا کر، ان امیدوں کو جگا کر، ان بے کسیوں کی یاد کو تازہ کر کے پھر سوچو کہ محکوم ہندوستان جس پر اس جنگ کا کوئی بھی اثر نہیں تھا اس نے کس بہادری اور کس دلیری سے اس نازک موقع پر انگلستان کی مدد کی- جانے دو احمدیہ جماعت کو کہ وہ خوشامد پسند اور فطرتی وفادار مشہور ہے- گاندھی ہی کو دیکھو کہ وہ پیدائشی عدم تعاون کرنے والا شخص بھی اس وقت انگلستان کے لئے ریکروٹ مہیا کرنے کی خدمت میں لگا ہوا تھا اور ہندوستان کی جنگی قومیں اپنے جگر گوشے نکال نکال کر انگلستان کی آزادی کے قیام کے لئے دے رہی تھیں- اب جب کہ وہ خطرہ گزر گیا ہے بعض انگریز کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہندوستانیوں نے روپیہ کے لئے کیا- لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا انگریز فاقے کرکے لڑا کرتے تھے اور حکومت کا کوئی خرچ نہیں کرایا کرتے تھے؟ جو لڑے گا وہ کچھ خرچ بھی کرائے گا- باقی جان روپیہ سے نہیں خریدی جاتی- ہاں چند اپنی زندگی سے مایوس ہو کر روپیہ کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے لیکن ملکوں کے ملک کبھی روپیہ کے لئے اپنی جان بیچنے کو تیار نہیں ہوا کرتے- اور اگر تنخواہ لالچ کو ظاہر کرتی ہے تو ائتلافی ہوں یا اتحادی ان کے سب آدمی لالچ ہی سے کام کیا کرتے تھے- ہندوستان نے کس جوش سے اس موقع پر انگلستان کا ساتھ دیا- اس کا جواب میں اپنے دوست سر مائیکل اوڈوائر ( SIR MICHAEL O, DWYER)کے الفاظ میں دیتا ہوں- جو اس وقت پنجاب کے جو درحقیقت ہندوستان کا ایک ہی جنگی صوبہ ہے لفٹیننٹ گورنر تھے-
۲۶۲ ‘’وہ شاندار جواب جو پنجاب نے برطانوی ایمپائر کی آواز کا دیا اور بھی زیادہ شاندار نظر آتا ہے جب ہم اس امر کو دیکھتے ہیں کہ پچھلی جنگوں کے مواقع پر عموماً اور دوسری افغانی جنگ کے موقع پر خصوصاً یہ ثابت ہو گیا تھا کہ جنگ کے موقع پر کسی بڑی تعداد میں ریکروٹ بھرتی کرنا خواہ ہندوستان کی سرحد پر ہی جنگ کیوں نہ ہو بہت مشکل ہوتا ہے’‘- ‘’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنجاب کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور جن لوگوں کو دیہاتی مسلمانوں کا صرف سطحی علم تھا وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی جنگ کے لئے جو ترکوں کے خلاف تھی اور جو مصر، فلسطین اور عراق جیسے اسلامی ممالک میں جہاں کہ اسلامی مقدس مقامات ہیں لڑی جا رہی تھی مسلمان بھرتی نہیں ہوں گے-........لیکن یہ سب مایوسانہ خیالات باطل ثابت ہوئے- جنگ کی ابتداء میں صرف ایک لاکھ پنجابی سپاہی تھا لیکن جنگ کے خاتمہ تک پانچ لاکھ آدمی فوجی خدمت کر چکا تھا- دوران جنگ میں اندازاً تین لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی بھرتی ہوا تھا- جو کہ کل ہندوستان کی بھرتی کے نصف سے بھی زائد تھا اور ان میں سے نصف پنجاب کے مسلمان تھے جو اس علم کے ساتھ بھرتی ہو رہے تھے کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کرنے جا رہے ہیں اور جن میں سے شاذو نادر کے سوا باقی سب باوجود سخت کوشش کے جو انہیں غدار بنانے کے لئے کی گئی حکومت کے وفادار رہے’‘- ۴؎ آگے صفحہ ۲۱۹ پر وہ پنجابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ-: ‘’انہوں نے شروع جنگ سے ہی بغیر کسی جبر کے دلی شوق سے ہماری آواز پر شاندار طریق سے لبیک کہا’‘- ۵؎ یہ اس شخص کی گواہی ہے جس نے میرے نزدیک انگلستان کے بچانے میں غالباً لارڈکچنر (LORD KITCHENER) اور مسٹر لائڈ جارج GEORGE( (L،ORD کے بعد سب سے زیادہ کام کیا تھا اور جس کی خدمات کا میرے نزدیک سوواں حصہ بھی اعتراف نہیں ہوا اور یہ اس ملک کی قربانی ہے جسے اس جنگ سے کسی حقیقی نقصان کا خطرہ نہ تھا- کہا جاتا ہے کہ یہ خدمات پنجاب کی ہیں لیکن ہم پنجابی اپنے آپ کو باقی ہندوستان سے جدا نہیں سمجھتے- ہمارا صوبہ جنگی اقوام کا وطن ہے اس لئے اس نے لڑنے والی فوج دی- دوسرے
۲۶۳ صوبوں کی آبادی کے اخلاق اور ہیں انہوں نے مزدور اور روپیہ دیا ہر ایک سے جو کچھ ہو سکا اس نے دیا اور دل کھول کر دیا- لیکن یہ بھی درست نہیں کہ باقی ملک نے لڑنے والے فوجی نہیں دیئے- سر اوڈوائر (SIRO'DWYER) تحریر کرتے ہیں کہ-: ‘’گورنمنٹ آف انڈیا نے خود اس طرف توجہ نہیں کی چنانچہ جب اپریل۱۹۱۸ء میں حضور ملک معظم نے اپیل کی تو اس پر سب صوبہ جات میں بیداری پیدا ہوئی اور جنگ کے آخری چھ ماہ میں باقی ہندوستان نے ایک لاکھ تراسی ہزار فوجی ریکروٹ دیئے-’‘۶؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کے بعد ملک میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن اس کا سبب یہ تھا کہ ہندوستان کے احساسات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا- ٹرکی جس کے فتح کرنے میں مسلمانوں کا بہت سا دخل تھا اس کے ساتھ مسلمانوں کے احساسات کو کچلتے ہوئے سب سے برا سلوک کیا گیا اور بعض انگریز ہندوستان کی خدمات کو یہ کہہ کر حقیر ثابت کرنے لگے کہ یہ سب کچھ روپیہ کی خاطر کیا گیا تھا- غرض اس جنگ کے موقع پر جسے جنگ آزادی کہا جاتا ہے ہندوستان نے اپنی خدمات کے ذریعہ سے اپنے آپ کو مہذب دنیا میں برابری کے ساتھ شریک ہونے کا اہل ثابت کر دیا اور اس لحاظ سے وہ آزادی کا مستحق ہے- سوال کے پہلے حصہ کو حل کرنے کے بعد اب میں اس کا دوسرا پہلو لیتا ہوں- کیا ہندوستان قابلیت کے لحاظ سے آزادی کا مستحق ہے؟ جہاں تک میں نے اس سوال پر غور کیا ہے میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ کوئی ملک بھی ایسا ممکن ہے جو آزادی کا مستحق نہ ہو- اگر کسی ملک کی تعلیم کم ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ جیسا وہ ملک ہے ویسے ہی اس کے حاکم ہوں گے- یہ سوال تبھی درست تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ بقائے انسب کے اصول کو پورے طور پر صحیح تسلیم کر لیا جائے لیکن جمہوریت کا اصول تو بقائے انسب کے اصول کے بالکل بر خلاف ہے جسے اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوائے چند پروفیسروں اور فلاسفروں کے کسی کو بھی ملک کی حکومت میں دخل نہیں حاصل ہونا چاہئے-
۲۶۴ علاوہ ازیں قابلیت خود ایک مبہم لفظ ہے- اس کے معنی نہ کتابی علم کے ہیں اور نہ مختلف زبانیں جاننے کے- ایک شخص یا ایک قوم باوجود بالکل ان پڑھ ہونے کے حکومت کے قابل ہو سکتی ہے- چنانچہ لارڈ برائس جو آئینِ اَساسی کے سب سے بڑے ماہر گزرے ہیں لکھتے ہیں کہ-: ‘’اس کی مثالیں مل سکتی ہیں کہ عوام الناس نے بعض ملکوں میں اسی طرح اپنے رائے دہندگی کے حق کو خوبی سے ادا کیا ہے جس طرح کہ ان لوگوں نے جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں’‘- ۷؎ نیز تاریخ سے اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ ایسے ممالک جن میں تعلیم کم تھی ان میں اپنے ملک کے مناسب حال رسپانسیبل گورنمنٹ جاری تھی- پس محض اس وجہ سے کہ ہندوستان کے لوگ اس قدر تعلیم یافتہ نہیں ہیں جس قدر کہ اس زمانہ میں یورپ کے لوگ ہیں ہندوستان کو آزادی کے قابل نہ سمجھنا درست نہیں ہے- ہندوستانی گو دوسرے ملکوں کے لوگوں پر حکومت کرنے کے قابل نہ ہوں لیکن وہ اپنے ملک پر حکومت کرنے کے ضرور قابل ہیں- اور حق تو یہ ہے کہ اگر ان عارضی حالات کو نظر انداز کر دیا جائے جن کے ماتحت ایک قوم دوسری قوم کے ملک پر قبضہ کرنے کے لئے مجبور ہو جاتی ہے تو حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہ پیدا ہوئی ہے اور نہ جب تک سب اقوام انسانیت کے دائرے کے اندر محدود رہتی ہیں پیدا ہو سکتی ہے کہ جو دوسری اقوام پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کے قابل ہو- حقیقت یہ ہے کہ اصول سیاست کے مطابق قابلیت صرف حکومت کرنے کی خواہش کا نام ہے- یہی سب سے اہم امر ہے جسے ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے اور جب کسی ملک میں یہ خواہش زور کے ساتھ پیدا ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم کو آزادی دے دینی چاہئے- کیونکہ تعلیم سے بھی زیادہ یہ خواہش اہمیت رکھتی ہے- لارڈ برائس کی یہ تحریر صداقت سے پر ہے کہ-: ‘’یہ بات جو کہی جاتی ہے بالکل سچی ہے کہ علم اور تجربہ اور نیز ذہانت کسی قوم کو آزاد حکومت کا مستحق بنانے کے لئے نہایت ضروری امور ہیں- لیکن تجربہ نہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک نقص جو اس مقصد کے حصول کی راہ میں ہوتا ہے وہ افراد قوم میں آزادی کی خواہش کا موجود نہ ہونا ہے’‘- ۸؎ یہ بالکل سچ ہے کہ سلف گورنمنٹ (SELF GOVERNMENT) بغیر عوام الناس میں
۲۶۵ خواہش آزادی کے نہیں حاصل ہو سکتی- اور یہ امر بھی ویسا ہی صحیح ہے کہ جب یہ خواہش کسی ملک کے باشندوں میں پیدا ہو جائے تو ان کو آزادی سے محروم رکھنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے- ہندوستان کے گزشتہ واقعات سے یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ہندوستان میں اب یہ عام خواہش ہے کہ اسے آزادی حاصل ہو جائے- یہ تغیر اس قدر جلد ہوا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے- آج سے بارہ تیرہ سال پہلے میں تجربہ کی بناء پر کہا کرتا تھا کہ یہ خواہش صرف چند تعلیم یافتہ لوگوں میں ہے اور باقی لوگ اس سے ناآشنا ہیں- آج میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اب یہ خواہش عوام الناس میں بھی پیدا ہو گئی ہے- بوجہ ایک مذہبی راہنما ہونے کے مجھے کثرت سے گاؤں کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان گوشوں میں جہاں تعلیم کا نام و نشان نہیں زمیندار شوق سے اس دن کے آنے کے متعلق گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ ہندوستان کو کب آزادی ملے گی؟ میں اس سوال کو بالکل ان پڑھ زمینداروں کے منہ سے سن کر محو حیرت ہو جاتا ہوں کہ ‘’کیا انگریز اب ہمارے ملک کو کچھ دیں گے بھی یا نہیں؟’‘ اس سوال کا کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس قدر جلد پیدا ہو جانے کا احتمال آج سے بارہ سال پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا بڑا باعث جنگ عظیم ہے- ان دنوں میں برطانیہ نے ہندوستان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے بڑی کثرت سے ملک میں اپنی مظلومیت اور جرمنوں کے ہاتھوں مختلف ممالک کی آزادی کے تباہ ہو جانے کا پروپیگنڈا کیا تھا- اس پروپیگنڈا نے بعض ایسے اصول سے ہندوستانیوں کو واقف کر دیا جنہیں خود ان کے لیڈر ان کے کانوں میں نہیں ڈال سکے تھے- بے شک یہ امر ایک بہت بڑا دخل اس تغیر میں رکھتا ہے لیکن کونسا تغیر دنیا کا بلاوجہ ہوا کرتا ہے- ایک وجہ اس تغیر کی یہ بھی ہے کہ ہندوستانیوں کو کانگریس نے ان کے بعض حقوق کے تلف ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کے بدلنے سے ان کے وہ حقوق انہیں مل جائیں گے اور ان کے بوجھ کم ہو جائیں گے- زمینداروں کی حالت پنجاب میں پچھلے چار سال سے بہت خراب ہے- فصلوں کی متواتر تباہی اور اس سال غلہ کا نرخ گر جانے کے سبب سے زمینداروں کی کمر بالکل ٹوٹ گئی ہے- انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت کے تغیر سے ان کی یہ مشکلات دور ہو جائیں گی اور اس کی
۲۶۶ وجہ سے وہ حکومت کے تغیر کے خواہاں ہو رہے ہیں گو ان میں سے ایک حصہ ابھی اس قدر دلیر نہیں کہ حکام کے سامنے بھی یہ بات کہے، لیکن اپنی مجالس میں وہ یہ باتیں ضرور کہتے ہیں- کہا جا سکتا ہے کہ یہ خواہش عارضی اسباب کی وجہ سے ہے لیکن یہ دلیل اس خواہش کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتی- بالکل ممکن ہے کہ سلف گورنمنٹ میں ان مشکلات کا علاج نہ ہو سکے لیکن لوگ مشکلات میں یہ نہیں دیکھا کرتے کہ دوسری تدبیر کامیاب ہو گی یا نہیں- وہ صرف یہ دیکھا کرتے ہیں کہ موجودہ تدبیر ہماری مشکلات کو دور نہیں کر سکی اور وہ اسے توڑ کر کوئی اور تدبیر جو خواہ کتنی ہی خلاف عقل کیوں نہ ہو اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جایا کرتے ہیں- جس وقت انگلستان میں تحریک آزادی پیدا ہوئی ہے اس وقت بھی عارضی تکالیف ہی اس کی موجب تھیں- میگنا چارٹا (MAGNA CHARTA) کا باعث اہالئی انگلستان کا آئین سیاست کا مطالعہ نہ تھا بلکہ کنگ جان (KING JOHN) کے حقیقی یا خیالی مظالم سے بچنے کی خاطر انہوں نے میگناچارٹا حاصل کیا تھا- پس میگنا چارٹا آئینِ اَساسی کے احساس سے پیدا نہیں ہوا بلکہ آئینِ اَساسی میگنا چارٹا کی وجہ سے پیدا ہوئے- غرض یہ دلائل اقوام کے تغیر میں کام نہیں آتے اور نہیں آ سکتے- آزادی کے سیاسی استحقاق کے لئے جس امر کو دیکھنا چاہئے وہ صرف ایک عام خواہش ہے اور وہ اس وقت ہندوستان میں پیدا ہو چکی ہے- اگر ہندوستان میں اس سوال کے متعلق عام رائے لی جائے تو جو لوگ اس صورت حالات کو تسلیم نہیں کرتے ان کی آنکھیں کھل جائیں گی- اور میرے نزدیک تو کانگریس کے بائیکاٹ کی تحریک نے بھی ایک حد تک ثابت کر دیا ہے کہ ملک میں ایک عام خواہش حصول آزادی کی پیدا ہو چکی ہے- اور جب یہ خواہش پیدا ہو چکی ہے تو انگلستان کا دیانتدارانہ فرض ہے کہ وہ اب اس سوال کو مناسب طریق پر حل کرے- یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اس نئے تجربے میں نقصان ہونگے- بے شک ہوں گے لیکن بقول لارڈ برائس-: ‘’غلطیاں ہونگی اور نقصان یقیناً اٹھانا پڑے گا لیکن جب تک کسی قوم کو اس کا کوئی مضبوط ہمسایہ غلام نہیں بنا لیتا یا اپنے اندر جذب نہیں کر لیتا، ناکامیاں شاذو نادر ہی ناقابل اصلاح ہوتی ہیں- لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود مختار حکومت کی برکات میں سے یہ ایک برکت ہے کہ نقصان سے علم پیدا ہوتا ہے اور علم سے دانائی پیدا ہوتی ہے- جب کہ اس کے برخلاف غیر حکومت خواہ کس قدر ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو
۲۶۷ اس کے ماتحت لوگوں کا علم اول تو بڑھتا نہیں اور اگر بڑھتا ہے تو نہایت ہی سست رفتار سے’‘-۹؎ انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس خواہش کے پیدا کرنے میں خود اس کا بھی بہت کچھ حصہ ہے اور دوسرے لوگ اس کی اس کوشش کی قدر کریں یا نہ کریں میں اس کیکوشش کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے لوگ اس کے ممنون ہوں- بہرحال جب کہ انگلستان نے یہ خواہش ہندوستانیوں کے دلوں میں پیدا کی ہے پھر ۱۹۱۹ء کے انڈیا ایکٹ کے ذریعہ اس خواہش کو اور بھی تیز کر دیا ہے تو وہ اب کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا- اسے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو اس کے سب سے بڑے آئین اساسی کے ماہر نے جس کے کئی حوالے میں پہلے نقل کر چکا ہوں کہے ہیں- وہ لکھتے ہیں-: ‘’قوموں پر ایسے وقت آیا کرتے ہیں کہ جب آگے بڑھنا کھڑے ہونے سے بہرحال بہتر ہوتا ہے جب کہ اختیارات دینا زیادہ دانشمندی کے مطابق ہوتا ہے- خواہ ان کے غلط استعمال کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو- بہ نسبت اس کے کہ اختیارات کو روک کر بے چینی پیدا کی جائے’‘-۱۰؎ میں انگلستان کا ایک خیر خواہ ہونے کی حیثیت سے جس نے بمعہ اپنی جماعت کے ہر فتنہ اور فساد کے موقع پر قیام امن کی اہم خدمات انجام دی ہیں اور جو اس وقت بھی بائیکاٹ وغیرہ کا مقابلہ کر رہا ہے، اسے بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں یہ وقت آ گیا ہے اور اب اسے وہ تجربہ کرنے دینا چاہئے جس کے لئے وہ فی الحقیقت بے تاب ہو رہا ہے- اگر وہ وقت نہ آ چکا ہوتا تو کانگریس کی خلاف اخلاق اور خلاف عقل تجاویز کبھی بھی ملک میں کامیاب نہ ہوتیں- ان کی وسیع کامیابی بتا رہی ہے کہ ملک کے ایک کافی حصہ کی دماغی کیفیت ہندوستان کی آزادی کے سوال کے متعلق اپنا توازن کھو چکی ہے- کیا ہندو مسلم اختلاف کی موجودگی میں ہندوستان کو آزادی دی جا سکتی ہے؟ جب کبھی ہندوستان کی آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے- بعض لوگ یہ سوال اٹھا دیا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مختلف اقوام میں اس قدر اختلاف ہے کہ انہیں حکومت دینا گویا انہیں تباہ کرنا ہے لیکن بعض لوگ اس کے مقابلہ میں یہ کہا کرتے ہیں کہ حکومت ہندوؤں اور مسلمانوں
۲۶۸ کو خود لڑواتی ہے تا کہ کبھی بھی ہندوستان آزاد نہ ہو سکے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں شدید اختلاف ہے- ایسا شدید کہ ہر بہی خواہ ِ ملک اسے دیکھ کر تکلیف محسوس کرتا ہے- میں جب کبھی اس اختلاف پر غور کرتا ہوں تو میرا دل حسرت و اندوہ سے بھر جاتا ہے لیکن حسرت واقعات کو نہیں بدل سکتی- مگر یہ امر بھی درست نہیں کہ اس کا موجب انگریز ہیں اور یہ کہ وہ جان بوجھ کو ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑواتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزوں میں کوئی برا نہیں- ان میں بھی اسی طرح برے لوگ ہیں جس طرح ہندوستانیوں میں ہیں- بالکل ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ہندو مسلمان کو لڑواتے بھی ہوں جس طرح کہ بعض ہندوستانی اپنے بھائیوں کو لڑواتے ہیں- لیکن میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ ایک قوم کی قوم جو دانائی اور انسانی ہمدردی میں ایک قابل تقلید نمونہ دکھا رہی ہو اخلاق میں اس قدر گر گئی ہو کہ اس کے تمام افراد یا اکثر افراد دو قوموں میں لڑائی کروا کے تماشہ دیکھتے ہوں- اگر ہندوستان کے کسی ایک مقام پر ہندو مسلمان میں فساد ہوتا تو میں سمجھتا کہ کسی انگریز افسر کی کارروائی ہے- پھر اگر صرف ان علاقوں میں فساد ہوتا جو براہ راست انگریزوں کے ماتحت ہوتے ہیں تو میں ایسا سمجھ لیتا لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں فساد ہندوستانی افسروں کے ماتحت بھی ہوتا ہے بلکہ شاید زیادہ ہوتا ہے- اور ریاستوں میں بھی ہوتا ہے جن میں انگریزوں کی سیاست براہ راست کام نہیں کر رہی ہوتی- پھر باوجود ان حقائق کے انگریزوں پر فسادات کا الزام لگانا کسی طرح شرافت نہیں کہلا سکتا اور میرے نزدیک اس قسم کا الزام لگانے والے صرف اپنی گندی فطرت کا ثبوت دیتے ہیں- اگر یہ فساد انگریز کروا رہے ہیں تو وہ فسادات اور مظالم جو سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر سکھ حکومت کے زمانہ میں ہوتے تھے یا وہ خانہ جنگیاں جو سیواجی نے اورنگ زیب کے زمانہ میں کیں اور وہ قتل عام جو اس کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہوا اس کا ذمہ وار کون تھا؟ جب انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندومسلم فسادات شروع ہو چکے تھے- اور جب اسلامی حکومت کے تنزل کے زمانہ سے ہی ہندو مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کی فکر میں لگ گئے تھے تو اس الزام کو انگریزوں پر عائد کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ یہ میں تسلیم کر لوں گا کہ جس طرح ہمارے مختلف میلان ہوتے ہیں انگریزوں کے بھی مختلف میلان ہوتے ہیں- جو انگریز شروع ملازمت میں ایسے علاقہ میں لگتا ہے کہ جس میں
۲۶۹ مسلمان مضبوط اور کام کرنے والے ہوں وہ مسلمانوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو ہندوؤں کے علاقہ میں مقرر ہوتا ہے وہ زیادہ تر ہندوؤں کی طرف مائل ہو جاتا ہے مگر یہ ایک ایسا طبعی امر ہے کہ جس سے کوئی قوم بچ نہیں سکتی- انسانی مدنی الطبع ہے اور جن لوگوں سے اسے زیادہ ملنے کا موقع ملتا ہے وہ ان کی طرف طبعاً زیادہ مائل ہوتا ہے- اس سے بڑھ کر بحیثیت قوم انگریزوں پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا اور یہ کوئی قصور نہیں- اور اگر ہے تو اس کا فائدہ زیادہ تر اس الزام کے لگانے والے یعنی ہندو ہی اٹھاتے ہیں کیونکہ انہی کی اس ملک میں کثرت ہے- اسی وجہ سے انگریز زیادہ تر انہی کی طرف مائل ہوتے ہیں- اصل حقیقت یہ ہے کہ ان فسادات کا اصل موجب ہندو دماغ کی بناوٹ ہے- ہندو بوجہ چھوت چھات اور قومی برتری کے خیال کے دوسری اقوام سے مل کر کام کر ہی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اسے یہ یقین ہو کہ یہ قوم مجھ پر برتری نہیں حاصل کر سکتی- یہ خیالات اسے ورثہ میں ملے ہیں اور ان کے دور کرنے کے لئے محنت درکار ہے جس کے لئے افسوس ہے کہ ہندولیڈر بوجہ غالباً اس سے زیادہ اہم امور یعنی ہندوستان کے لئے آزادی حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کے ابھی فرصت نہیں نکال سکے لیکن اپنے قصور کو دوسری قوم پر تھوپنا ایک صریح ظلم ہے- بہرحال میں اس سوال کے متعلق آگے چل کر تفصیل کے ساتھ لکھوں گا سردست میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اختلافات ضرور موجود ہیں اور نہایت خطرناک صورت میں- اور ان کی ذمہ واری انگریزوں پر نہیں بلکہ ہندؤوں پر ہے لیکن باوجود اس کے ہندوستان کو آزادی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا- اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلافات کی موجودگی میں رسپانسیبل گورنمنٹ (RESPONSIBLE GOVERNMENT)کے راستہ میں سخت روک ہوتی ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رسپانسیبل گورنمنٹ کے بغیر اس قسم کے اختلافات مٹ بھی نہیں سکتے- ہندوؤں میں اختلاف پیدا کرنے کا مادہ اس لئے ہے کہ وہ ہزار سال سے حکومت کے مفہوم سے ناواقف ہیں- جب کہ انگریز اس وقت حکومت کر رہے ہیں اور مسلمان ابھی قریب کے زمانہ میں حکومت کر چکے ہیں اور اب بھی ان کے بھائی بند آزاد ممالک میں حکومت کر رہے ہیں- پس وہ جانتے ہیں کہ ترقی جس قدر ایک ملک کے باشندوں میں صلح سے حاصل ہو سکتی ہے جنگ سے نہیں ہو سکتی- لیکن ہندو بوجہ ایک عرصہ سے حکومت سے محروم ہونے کے خیال
۲۷۰ کرتے ہیں کہ جب تک دوسروں کو پیس نہ دیا جائے ہم ترقی نہیں کر سکتے- وہ کامیابی کی وسیع راہوں سے بے خبر ہیں اور غالباً اس میں چُھوت چھات اور قومی تفریق کا بھی بہت کچھ دخل ہے مگر اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہندوستان میں رسپانسیبل گورنمنٹ کی بنیاد رکھی جائے تا کہ ہندوستان کے باشندوں کو تجربہ سے صلح و آشتی کے فوائد معلوم ہوں اور ان کے اخلاق کی اصلاح ہو- اگر اس علاج کو اختیار نہ کیا گیا تو کبھی بھی یہ نقص دور نہ ہوگا اور کبھی بھی ہندوستان آزادی کا مستحق نہ بنے گا- پس ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ کس طرح آئندہ نظام حکومت میں اس فساد کے امکانات کو کم کیا جائے نہ یہ کہ اس اختلاف کی موجودگی میں ہندوستان کو آزاد حکومت دی ہی نہ جائے- اگر ہندوستان آزادی کا مستحق ہے تو کس حد تک؟ سوال کے اس حصہ کا جواب دینے کے بعد کہ کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے؟ میں سوال کے اس حصہ کو لیتا ہوں کہ اگر ہے تو کس حد تک؟ بعض لوگ اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہندوستان پوری آزادی کا مستحق ہے بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان کو برطانیہ سے الگ ہو کر اپنی حکومت قائم کرنی چاہئے- گو کانگریس کے نمائندے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں نہیں لیکن چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کے نمائندوں میں ایسے شامل ہوں جو کانگریس کے اس مطالبہ کو پیش کر دیں اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کا یہ فعل نہ صرف ہندوستان سے دشمنی کا موجب ہوگا بلکہ دنیا سے دشمنی کا موجب ہوگا- انگلستان پر آپ خواہ کتنے الزام لگا لیں- انگلستان نے ڈومینین سٹیٹس (DOMINION STATUS) کی ایجاد سے دنیا کے اتحاد کی جو راہ کھول دی ہے وہ میرے نزدیک ایک الہٰی اشارہ ہے جو آئندہ طریق عمل کی طرف ہماری راہنمائی کر رہا ہے- ہم قوموں اور ملکوں کے سوال میں اس قدر پھنس گئے ہیں کہ ہمارے ذہن سے یہ امر بالکل اتر گیا ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں اور جس طرح ایک باپ کی اولاد الگ الگ جائیداد رکھنے کے باوجود پھر ایک ہی رشتہ میں
۲۷۱ منسلک ہوتی ہے ہم بھی باوجود الگ الگ ملکوں میں بسنے کے پھر ایک ہی وجود کی طرح ہوں اور نہ تو ملکوں کا اختلاف اور نہ قوموں کا اختلاف ہمارے ان برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہم میں قائم کئے ہیں- بے شک لوگ مجھے مذہبی دیوانہ کہہ لیں لیکن میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ دنیا کو ایک مقام پر جمع کر دے بعد اس کے کہ وہ پراگندہ ہو رہی تھی اور یہ اس کا ارادہ آثار سے ظاہر ہے- میل جول کے سامان نئے سے نئے پیدا ہو رہے ہیں، قومیں آپس میں مل رہی ہیں، اتحاد امم کی خواہش ہی نہیں پیدا ہو رہی بلکہ دنیا ایسی مشکلات میں سے گذر رہی ہے کہ کسی نہ کسی قسم کے اتحاد کے لئے وہ مجبور ہو رہی ہے- ان تدابیر میں سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کو متحد کرنے کیلئے کی جا رہی ہیں ایک لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) بھی ہے اور دوسرے برطانوی حکومت کا موجودہ ڈھانچہ ہے جو میرے نزدیک ابتدائی تدابیر میں سے سب سے مکمل صورت میں ہے اس کے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملک ایک خیالی زنجیر میں بندھے ہوئے اور ایک رشتہ میں منسلک نظر آتے ہیں- کوئی طاقت اور کوئی فوج اس اتحاد کا موجب نہیں، کوئی جبر اسے قائم نہیں رکھے ہوئے، ایک دلی ارادہ اور ایک دلی خواہش یہ سب کچھ کرا رہی ہے- ہر حصہ اپنے ملک میں آزاد ہے ویسا ہی آزاد جیسے کہ وہ ملک جو اس سلطنت سے باہر ہیں مگر پھر سب مل کر ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مشکلات میں ہمدردی کرتے ہیں، ایک کل کا اپنے آپ کو جزو سمجھتے ہیں- کوئی اسے خیال دنیا کہے یا قوت واہمہ کا حد سے بڑھ جانا خیال کرے میں تو اس سسٹم کو دنیا کے آئندہ اتحاد کے لئے بطور بیج کے خیال کرتا ہوں اور دنیا کے اتحاد کے خواب کی تعبیر سمجھتا ہوں- اگر ہندوستان اس سلسلہ کو اپنی شمولیت سے مضبوط کر دے تو یقیناً وہ اتحاد عالم کی ایک شاندار خدمت کرے گا- میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے مخفی اسباب پیدا کر کے یہ سلسلہ شروع کیا ہے- اور آہستہ آہستہ اس کے نقائص دور ہو کر ایک دن یہ ایسا مکمل ہو جائے گا کہ جو تھوڑا بہت شائبہ انگلستان کی برتری کا ہے وہ بھی جاتا رہے گا- اور اس وقت اس کی خوبیوں سے متاثر ہو کر کئی آزاد کہلانے والے ممالک بھی جب ان کے باشندوں کے دلوں سے قومیت کی تنگ دلی کم ہو جائے گی اس میں شمولیت کے خواہشمند ہو جائیں گے- اور غالباً اللہ تعالیٰ کی مشیت جو دنیا سے جنگ کو ایک وقت تک مٹا دینے کے متعلق ہے اسی صورت میں پوری ہوگی اور امن ایک
۲۷۲ مستحکم بنیاد پر قائم ہو جائے گا- اس وقت بہت سے ممالک جن میں انگلستان بھی ایک فرد ہوگا صرف ایک مرکزی نقطہ سے وابستگی پیدا کر کے ایک آزاد نظام کے حصے ہو جائیں گے اور یا تو ان کے باہم اتصال کے لئے کوئی ایسی وزارت قائم کی جائے گی جو براہ راست کسی ملک کے نظام سے تعلق نہ رکھتی ہوگی اور یا پھر تمام ممالک جو اس نظام کا حصہ ہونگے ان کے وزراء باری باری اس خدمت کو انجام دیں گے اور مساوات اپنی پوری صورت میں ظاہر ہو جائے گی- یہ محض وہم کی پرواز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فعل دنیا کو اس طرف لے جا رہا ہے اور محبت کی بنیاد پر اتحاد امم کی ہر سکیم اس کے کسی نظام کو اختیار کرنے پر مجبور ہے- پس جب کہ دنیا کے تغیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو ملکیت اور قومیت کی قیدوں سے آزاد کرانے اور ایک پائیدار اتحاد میں جکڑنے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں تو کیا یہ ہماری بے وقوفی نہ ہوگی کہ ہم جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس راہ کے اختیار کرنے کی طاقت دی ہے اس موقع کو گنوا دیں اور بجائے دنیا میں اتحاد پیدا کرنے کے شقاق کی راہ کھولیں اور بجائے جوڑنے کے توڑنے لگیں- بے شک انسان کو خدا تعالیٰ نے بہت کچھ طاقتیں دی ہیں لیکن جو قوم اس رو کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہے جسے خدا تعالیٰ چلاتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور حوادث کے ساحل پر اس کے جہاز ٹکرا ٹکرا کر غرق ہو جاتے ہیں- پس میں سب نمائندوں سے اور اپنے ملک کے دوسرے باشندوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنے جوشوں پر قابو پاتے ہوئے انگلستان سے علیحدگی کے خیال کو دل سے نکال دیں کہ اس طرح وہ اپنے ملک کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے لیکن دنیا سے دشمنی کے مرتکب ضرور ہو جائیں گے- الغرض انگلستان سے علیحدہ ہونے کا خیال نہ صرف امکان کے خلاف ہے بلکہ قانون قدرت کے منشاء کے بھی خلاف ہے پس اسے ہمیں بالکل نظر انداز کر دینا چاہئے اور اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ انگلستان سے تعلق رکھتے ہوئے ہندوستان کس حد تک آزادی کا مستحق ہے؟ اگر اس سوال کا تعلق موجودہ زمانہ سے نہ ہو بلکہ آئندہ زمانہ سے ہو تو میں جواب دوں گا کہ ہندوستان ویسی ہی آزادی کا مستحق ہے جیسی آزادی کہ دوسری آزاد نو آبادیوں کو حاصل ہے اور جسے ڈومینین سٹیٹس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے- لیکن اگر اس سوال کا تعلق موجودہ
۲۷۳ زمانہ سے ہو تو میں ملامت گر کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر کہوں گا کہ ہندوستان ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ اسے اس وقت کامل آزادی مل جائے فورا ً ڈومینین سٹیٹس مل جانے کو میں برکت نہیں بلکہ عذاب قرار دوں گا- میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تجربہ سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے لیکن تجربہ کی بھی ایک حد ہوتی ہے- جب اس حد سے زیادہ تجربہ کو لے جایا جائے تو پھر تجربہ ہلاکت کا بھی موجب ہو جاتا ہے- پس یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہمیں تجربہ کرنے دو ہم تجربہ سے سیکھ جائیں گے- اگر اس قسم کی آزاد حکومت جو ڈومینین سٹیٹس کہلاتی ہے ہندوستان کو یکدم دے دی جائے تو سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ اسے اس کا تجربہ کرنے کی مہلت بھی کوئی نہ دے گا- باہر کے ممالک کو جانے دو شاید ان کا خطرہ خیالی ہو لیکن ہمارے اپنے اندر لڑنے کی کافی روح موجود ہے- پیشتر اس کے کہ تجربہ ہندوستانیوں کو مضبوط کرے وہ تجربہ کی حد سے آگے نکل چکے ہوں گے اور دنیا تباہی اور بربادی کا ایک ایسا منظر دیکھے گی جو قرون وسطیٰ میں یورپ میں بھی نظر نہیں آیا- ہم ایک وطنیت کے خواہاں لیکن اس صورت میں ہماری قومیت بھی باقی نہیں رہے گی- سٹیج پر کھڑے ہو کر یہ کہہ دینا یا قلم پکڑ کر یہ لکھ دینا کہ ہندوستان اس وقت مکمل آزادی کے قابل ہے آسان ہے لیکن حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- وہ بحری جہاز کہاں ہیں جو ہمارے ساحل کی حفاظت کریں گے اور ہماری تجارتوں کو بے خطرہ فروغ پانے دیں گے؟ اور وہ فوجیں کہاں ہیں کہ جو ہماری سرحدوں کو بچائیں گی اور ہمارے ملک کے امن کو قائم رکھیں گی؟ اور وہ درس گاہیں کہاں ہیں جو ہماری سیاسی اور ملکی ضرورتوں کو پورا کرنے والے نوجوان ہمیں دیں گی؟ بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیں گے کہ ان چیزوں کا نہ ہونا انگریزوں کا قصور ہے- میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ کس کا قصور ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا ان حالات میں فوراً کاملآزاد حکومت مل سکتی ہے؟ کیا یہ کہہ کر کہ یہ انگریزوں کا قصور ہے ہندوستان اس قابل ہو جائے گا کہ فوراً اپنے ملک کے انتظام کو سنبھال لے؟ یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ مثلاً آئرلینڈ نے ایک دن میں آزاد گورنمنٹ حاصل کر لی تھی کیونکہ آئرلینڈ اور ہندوستان میں فرق ہے- آئرلینڈ انگلستان کا ایک جزو تھا اور آزادحکومت کی سب کلیں اس میں اسی طرح موجود تھیں جس طرح کہ آزاد ممالک کی ہوتی
۲۷۴ ہیں- اس کے باشندے اعلیٰ فوجی عہدوں پر مامور تھے اور نظام سلطنت کے ہر شعبہ میں آئرلینڈ کو تجربہ حاصل تھا- علاوہ ازیں آئرلینڈ کا ملک ایک چھوٹا جزیرہ ہے جسے بوجہ انگلستان سے ملحق ہونے کے کسی بحری طاقت سے خطرہ نہیں اور ملک میں صرف ایک ہی قوم بسنے کی وجہ سے کوئی زیادہ پریشانی کے سامان نہیں- یہی حال دوسرے ممالک کا ہے جو جنگ عظیم کے بعد آزاد ہوئے ہیں- گو وہ نام کے لحاظ سے دوسری حکومتوں سے ملحق تھے لیکن کام کے لحاظ سے وہ اپنے حاکموں کے ساتھ شریک تھے اور ان کی جدائی صرف نام کی جدائی تھی لیکن یہ حال ہندوستان میں نہیں- ہندوستان میں اگر کوئی حصہ فوراً آزاد کیا جا سکتا ہے تو وہ صوبہ جات ہیں- جن کے سب کل پرزے پہلے ہی ہندوستانیوں کے قبضہ میں آ چکے ہیں- باقی رہا مرکز اس کے آزاد کرنے کے لئے بہت کچھ تیاری کی ضرورت ہے- فلپائن کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس نے ان جزائر کو اور کیوبا کو آزاد کرانے کے لئے سپین سے جنگ کی لیکن باوجود ارادہ کے انہیں فوراً آزادی دینے کے قابل نہ ہوئیں اور کیوبا کے متعلق تو تھوڑی لیکن فلپائنز کے متعلق بہت زیادہ نگرانی اور حفاظت کی ضرورت انہیں محسوس ہوئی- چنانچہ فلپائنز کی حکومت تو اب تک بھی ان کی نگرانی کی محتاج ہے- اس زمانہ میں کسی ملک کو پوری آزادی حاصل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل چیزوں کی ضرورت ہے- ۱ فوج کے انتظام کرنے کی اہلیت رکھنے والے افسروں کی- ۲ اس قسم کے کارخانوں کی جہاں اسلحہ جنگ تیار اور مرمت ہو سکیں- ۳ ہوائی جہازوں پر کام کرنے والے اور ان کے جنگی کام کی اہلیت رکھنے والے اعلی ٰافسروں کی- ۴ بحری بیڑے کی جو ساحل کی حفاظت نہ صرف غنیم سے بلکہ بد دیانت تاجروں کی دخلاندازی سے بھی کرے- یہ چار چیزیں تو ایسی ہیں کہ جن کی آزادی کے لئے فوری ضرورت ہے- باقی اور بیسیوں امور ہیں کہ جن کی تکمیل کی ضرورت ہے- گو انہیں ایک وقت تک نظر انداز بھی کیا جا
۲۷۵ سکتا ہے لیکن مذکورہ بالا امور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہمارے ہندوستانی کمیشن والے فوجی افسروں یا نوجوان کنگز کمیشن والے افسروں کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک دن میں سب ذمہ داری کے عہدوں کو سنبھالنے کی قابلیت پیدا کر لیں گے- نہ ایک دن میں جنگی بیڑا اور اس پر کام کرنے والے یا ہوائی جہاز اور ان پر کام کرنے والے یا جنگی سامانوں کی مرمت کے ماہر پیدا ہو سکتے ہیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم اپنے ہمسایوں سے صلح رکھیں گے- کیونکہ ہمسایوں سے صلح رکھنی ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہمارے ہمسایوں کے اختیار میں ہے- کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بھی ہم سے صلح رکھیں گے- ان کا موجودہ اظہار دوستی ہر گز ہمیں تسلی نہیں دلا سکتا- اٹلی نے جس دن ٹرکی کے افریقن علاقہ پر حملہ کرنا تھا اسی دن اس کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ٹرکی سے ہمارے تعلقات ایسے اچھے پہلے کبھی نہیں ہوئے- موجودہ زمانہ میں ہمیں نہ صرف افغانستان کی طرف سے خطرہ ہے بلکہ شمالی سرحد کی طرف سے روس اور نیپال دونوں حکومتوں سے خطرہ ہے- پہلے زمانوں میں شمالی لوگوں کو ہندوستان پر حملہ کا خیال نہیں پیدا ہوا تھا لیکن مغلیہ حکومت کے آخری دور میں نیپال کو ہندوستان کی فتح کا خیال پیدا ہو چکا ہے- ایک دفعہ انگریزوں کی وجہ سے اس کا حملہ ناکام ہوا تھا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ آزاد ہندوستان پر بھی اس کا حملہ اسی طرح ناکام ہوگا- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریز اس وقت ملک کو بچانے کے لئے آئیں گے اس قدر دور ملک سے جب کہ خود اس ملک میں جنگی تیاری کا مرکز موجود نہ ہو مدافعت بالکل ناممکن ہوتی ہے اس وقت جنگ کی مشینری یہاں موجود ہے- ہندوستان کو پوری آزادی دینے کے بعد یہ حالت نہیں رہ سکتی اور نئے سرے سے مرکز قائم کرنا بہت مشکل کام ہے- پس ان حالات کے ماتحت ہمیں ایک عرصہ تک انگریزی دخل ہندوستان کی مرکزی حکومت میں تسلیم کرنا ہوگا اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہندوستان کو آزادی کچھ مدارج طے کرنے کے بعد ہی مل سکتی ہے، یکدم نہیں-
۲۷۶ باب چہارم آزادی کے مختلف مدارج کس طرح مقرر کئے جائیں؟ پہلے باب کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس سوال پر غور کریں کہ اگر کامل آزادی فوراً نہیں مل سکتی اور یہ عارضی روک انگلستان نہیں بلکہ ہندوستان کے فائدہ کیلئے ہے تو پھر وہ کونسا طریق اختیار کیا جائے کہ جس کے ذریعہ سے بغیر ناواجب دیر کے ہندوستان کو ہر قدم پر اس قدر آزادی ملتی جائے جس قدر آزادی کا کہ وہ اس وقت مستحق ہو- اس سوال کے دو حل اس وقت تک تجویز کئے جا چکے ہیں- ایک حل مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ۱۱؎ (MONTAGUE CHELMSFORD REPORT) میں تجویز کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ایک رائل کمیشن بیٹھے جو یہ فیصلہ کرے کہ گذشتہ سالوں میں کس قدر ترقی ہندوستان نے کی ہے اور اب اس کے نظام اساسی میں کس قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے- اس حل کو سائمن کمیشن نے رد کر دیا ہے اور ہندوستان کی موجودہ شورش کا بہت بڑا حصہ اس حل کی طرف منسوب کیا ہے- میرے نزدیک یہ درست نہیں- جن حالات میں مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ تیار ہوئی تھی ان کے ماتحت قیام امن کا بہترین علاج یہی تھا کہ ہندوستانیوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ سکیم آخری تجویز نہیں ہے بلکہ انہیں آئندہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اختیارات ملتے چلے جائیں گے- وہ بالکل نیا تجربہ کر رہے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا اور ان کے سامنے ان آنے والے دس سالوں کی تاریخ نہ تھی جو
۲۷۷ سائمن کمیشن کے سامنے تھی- پس ان حالات میں وہی سکیم بہتر تھی جو انہوں نے تجویز کی اور یہ بالکل درست نہیں کہ دوبارہ کمیشن کے قیام کی امید کی وجہ سے ہندوستان میں کوئی شورش ہوئی بلکہ حق یہ ہے کہ شورش کا موجب یہ تھا کہ ہندوستان کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھتا تھا کہ مانٹیگوچیمسفورڈسکیم نے ہندوستان کو اس قدر حق نہیں دیا جس قدر کہ اسے دینا چاہئے تھا بلکہ اس دس سال کے بعد دوبارہ غور ہونے کے خیال سے کئی وہ لوگ جو دوسری صورت میں شورش میں شامل ہو جاتے اس میں شامل نہیں ہوئے- ہاں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پچھلے دس سال میں ہندوستان میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں ان کی بناء پر زیر بحث سوال کا وہی حل بہتر ہے جو سائمن کمیشن نے تجویز کیا ہے- سائمن کمیشن کا تجویز کردہ حل یہ ہے-: ‘’چاہئے کہ نیا اساس جس قدر ممکن ہو اپنے اندر ہی ترقی کا سامان رکھتا ہو- چاہئے کہ اس میں ناقابل تبدیل اور ہمہ گیر اصول نہ ہوں- بلکہ اس میں حسب ضرورت ترقی اور اختلاف کی گنجائش ہو’‘-۱۲؎ میری رائے میں یہ حصہ کمیشن کے بہترین نتائج میں سے ہے- اگر سائمن کمیشن حقیقتاً اس اصل کے مطابق سکیم پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو میرے نزدیک وہ ہمیشہ کے لئے ہندوستانیوں کے شکریہ کا مستحق ہے- کمیشن کے اس اصل کے ماتحت آئندہ ہندوستان کی آئینی ترقی کے لئے کسی اور کمیشن کی ضرورت نہیں ہوگی- ایک ہی دفعہ پارلیمنٹ ایک ایسا مسودہ پاس کر دے گی جس کے ماتحت ہندوستان آپ ہی آپ اپنے وقت پر اس آزادی کو حاصل کر لے گا جو اس کے لئے مقرر کی گئی ہے- مگر جہاں تک میں نے سکیم پر غور کیا ہے یا تو اس مقصد کو سائمن کمیشن اپنی تفصیل میں مدنظر نہیں رکھ سکا یا پھر ہندوستان کی آزادی کا مفہوم سمجھنے میں اسے دھوکا لگا ہے اور وہ ہندوستان کی آزادی کو دوسرے ملکوں کی آزادی سے مختلف چیز سمجھتا ہے- پہلے میں صوبہ جات کو لیتا ہوں- صوبہ جات کا نظام حکومت کمیشن نے یہ مقرر کیا ہے-: ۱ کہ گورنر کو وزارت کی مجالس کا پریزیڈنٹ تجویز کیا ہے- ۲ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو سول سروس کے کسی فرد کو یا کسی ایسے شخص کو جو نہ سروس میں ہو اور نہ کونسل کا ممبر ہو وزیر مقرر کر دے- ۳ اسے اختیار دیا ہے کہ خواہ ایک وزیر اعظم مقرر کر کے اس کے مشورہ سے وزارت مقرر کرے- خواہ مختلف اقوام میں سے وزیر چن لے-
۲۷۸ ہر ایک شخص جو آئینی حکومت کے اصول سے واقف ہے سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حکومت ذمہ دار حکومت نہیں کہلا سکتی اور اس قسم کی تجویز زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر برداشت کی جا سکتی ہے لیکن رپورٹ خاموش ہے کہ اس طریق کو کس طرح بدلا جا سکے گا- آیا اس میں تغیر کرنا گورنمنٹ کے اختیار میں ہوگا، کونسلوں کے اختیار میں ہوگا، گورنر جنرل اور سیکرٹری آف سٹیٹ کے اختیار میں ہوگا، یا پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوگا، اگر گورنر کے اختیار میں ہوگا تو ایک گورنر کے فیصلہ کو دوسرا گورنر بدل سکے گا یا نہیں- اگر بدل سکے گا تو نظام حکومت ہمیشہ آگے پیچھے ہوتا رہے گا- اگر کونسلوں کے اختیار میں ہوگا تو وہ پہلے ہی سیشن میں اسے بدل دیں گی- اگر گورنر جنرل اور سیکرٹری آف سٹیٹ کے اختیار میں ہوگا تو اس کی بھی کوئی آئینی صورت نہیں بتائی اور اگر پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوگا تو وہی سوال نئے کمیشنوں کا پیدا ہو جائے گا- مگر اس سے بھی مشکل سوال مرکزی حکومت کا ہے جس میں کہ حکومت کو نیابتی اصول پر ابھی قائم ہی نہیں کیا گیا- وہاں موجودہ نظام کونسل کس طرح بدلا جا سکے گا- اس کا جواب کمیشن کی رپورٹ نہیں دیتی بلکہ وہ خود تسلیم کرتی ہے کہ اس کی کوئی تدبیر انہیں نہیں سوجھی- وہ اقرار کرتی ہے کہ-: ‘’یہ تو ممکن ہے کہ اس وقت ایک ایسا نظام حکومت مقرر کر دیا جائے جو آئندہ ترقی کے مخالف نہ ہو لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی قانون پارلیمنٹ میں ایسا پاس کر دیا جائے جس کے ذریعہ سے ہندوستان کی مرکزی حکومت اندرونی اصلاح اور ارتقاء کے ذریعہ سے آپ ہی آپ آزادی کی طرف قدم بڑھاتی جائے-۱۳’‘؎ یہ خیال کرتے ہوئے کہ اصل سوال مرکزی حکومت کا ہی تھا صوبہ جات کے موجودہ نظام میں تو معمولی تغیرات کے ساتھ ایک معقول نظام حکومت جو ہر روز کی شورش سے نجات دے دے- ممکن تھا اس فقرہ کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جب کہ مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم نے کم سے کم یہ انتظام کیا تھا کہ وقتاً فوقتاً آئین حکومت پر نظر ثانی ہوتی رہے- سائمن کمیشن نے صرف اظہارحیرت کر دیا ہے اور پیش آنے والی مشکل کا کوئی علاج نہیں بتایا- وہ ایک اعلیٰ اصل قائم کرنے میں تو کامیاب ہوا ہے لیکن اس اصل سے کام لینے میں بری طرح ناکام رہا ہے- میں کوشش کروں گا کہ آئندہ تفصیلی بحث میں ضروری ضروری مقامات پر کمیشن کی رپورٹ کے اس نقص کی طرف توجہ دلاؤں-
۲۷۹ باب پنجم ہندوستان کی دوہری مشکلات انگلستان سے سمجھوتہ اور اقلیتوں کے سوال کا حل اس امر پر اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد کہ سائمن کمیشن کی یہ سفارش کہ آئندہ ہندوستان کے لئے ایسا نظام تجویز کیا جائے کہ جس کے اندر ہی ترقی کی گنجائش ہو اب میں اس اہم سوال کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں جو ہندوستان کی آئینی ترقی کے راستہ میں بطور ایک چٹان کے حائل ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ بوجہ ایک لمبے عرصہ سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے انگلستان سے سمجھوتہ کرنا بھی بہت مشکل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یہ مشکل ہے کہ ہندوستان کے لئے کوئی ایسا طریق حکومت تجویز کیا جائے جس کے ذریعہ سے وہ لوگ برسرحکومت آئیں جو واقعہ میں حکومت کرنے کے مستحق ہوں اور وہ لوگ حکومت پر قائم نہ ہوں جو اسے نفاق و شقاق کا ذریعہ بنا لیں- کارلائل نے کیا سچ کہا ہے کہ ‘’فضیلت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے بعد بھی اصل سوال حل طلب رہ جاتا ہے جو یہ ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دی جائے جو واقعہ میں اس کے اہل ہیں- آہ! ہم اس سوال کا حل کس طرح کریں؟’‘ کار لائل کا یہ قول ہر ملک پر صادق آتا ہے لیکن ہندوستان کی حالت پر تو یہ بہت ہی چسپاں ہوتا ہے- ہمارے لئے انگریزوں سے سمجھوتہ اس قدر مشکل نہیں جس قدر کہ اپنے لئے ایک مناسب قسم کی گورنمنٹ تجویز کرنے کا سوال مشکل ہے- ہمارا ملک تعصّب اور اختلاف کی آماجگاہ بن رہا ہے- اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کو ان دونوں
۲۸۰ خصلتوں کا گھر بنا دیا ہے- اس اختلاف کی موجودگی میں سیلف گورنمنٹ بجائے مفید ہونے کے ملک کے لئے سخت مضر ہو سکتی ہے- بعض لوگ تو اس مشکل کا حل یہ بتاتے ہیں کہ جب تک یہ حالت دور نہ ہو جائے ہندوستان کو کسی قسم کی آزادی دی ہی نہ جائے لیکن جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں یہ علاج صحیح نہیں- اگر ہندوستان کو آزادی نہ ملی تو یہ اختلاف دور ہو ہی نہیں سکتا اور صورت حالات بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی- کیا ڈیما کریسی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے منافی ہے؟ بعض دوسرے لوگ اس کا یہ علاج بتاتے ہیں کہ یہ کوئی مرض ہی نہیں اس کو مرض سمجھنا ہی مرض کو بڑھا رہا ہے- اگر ہندوستان ‘’ڈیماکریسی’‘ (DEMOCRACY) جس کے معنی اکثریت کی حکومت کے ہیں چاہتا ہے تو پھر اسے اقلیتوں کا سوال نظر انداز کر دینا چاہئے کیونکہ ‘’ڈیماکریسی’‘ کی غرضوغایت ہی یہ ہے کہ اکثریت حکومت کرے- اقلیت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اکثریت کے ساتھ وابستہ کرے یا پھر خود اکثریت بننے کی کوشش کرے مگر ‘’ڈیماکریسی’‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ مطالبہ کرنا کہ اکثریت کو حکومت نہ کرنے دو اور اسے پابندیوں میں جکڑ دو گویا ایک طرف ‘’ڈیماکریسی’‘ کے اصول کو رد کرنا ہے تو دوسری طرف فتنہ و فساد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولنا ہے- عام طور پر یہ سوال بعض انگریزوں یا دوسرے مغربی لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے اور سوال کرنے والوں میں سے بعض کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ نہ کریں اس میں ان کا نقصان ہے- اور بعض یہ اعتراض محض ہندوستان کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے کرتے ہیں- میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خیال ‘’ڈیما کریسی’‘ کے مفہوم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- ہر اکثریت کی حکومت کو ‘’ڈیماکریسی’‘ نہیں کہہ سکتے بلکہ اس اکثریت کی حکومت کو ‘’ڈیماکریسی’‘ کہتے ہیں جو خالص ملکی فوائد کو مدنظر رکھتی ہے نہ کہ کسی خاص قوم یا عقیدہ کے لوگوں کے فوائد کو اگر ایک ملک میں ایک قوم یا ایک مذہب کے دس لاکھ آدمی بستے ہوں اور دوسری قوم اور دوسرے مذہب کے ایک لاکھ اور وہ دس لاکھ اپنی قوم یا اپنے مذہب کے لوگوں کے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کریں تو یہ ہر گز ‘’ڈیماکریسی’‘ نہیں کہلائے گی- انگلستان
۲۸۱ کی رومن کیتھولک اکثریت جب پراٹیسٹنٹ (PROTESTANT) اقلیت کے خلاف قواعد بنا رہی تھی تو وہ ہر گز ‘’ڈیماکریسی’‘ کی عامل نہیں تھی- ‘’ڈیماکریسی’‘ اس اکثرت کی حکومت کو کہتے ہیں جس کا جتھا ان اصول پر بنا ہو جو حکومت سے متعلق ہیں- وہ اکثریت جس کا جتھا ملکی سیاست پر نہیں بلکہ کسی خاص مذہبی یا قومی فوائد کی بناء پر بنا ہو اس کی حکومت کو جمہوری حکومت نہیں کہا جا سکتا وہ فرقہ وار حکومت ہے- ڈاکٹر سی- ایف- سٹرانگ STRONG(.F.)C ایم- اے- پی- ایچ- ڈی ‘’ڈیماکریسی’‘ کی تعریف یہ کرتے ہیں- ‘’ڈیماکریسی سے ہماری مراد اس قسم کی حکومت ہے جس میں کہ حکومت کا اختیار قانوناً کسی خاص قوم کو نہ دیا گیا ہو- بلکہ تمام ملک کو بہ حیثیتِ مجموعی دیا گیا ہو-۱۴’‘؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر سٹرانگ نے یہ شرط لگائی ہے کہ حکومتِ قانوناً کسی فرقہ کے سپرد نہ ہو لیکن قانوناً سپرد ہونے یا عملاً ایسا ہونے میں کوئی فرق نہیں- اگر گورنمنٹ قانوناً کسی خاص قوم کے سپرد ہوگی تو ہم کہیں گے کہ یہ قانوناً ڈیماکریسی نہیں اگر عملا ایسا ہوگا تو ہم کہیں گے کہ وہ حکومت عملاً ڈیماکریسی نہیں- بہرحال حقیقی ڈیما کریٹک حکومت وہی ہے جس میں حکومت اس اکثریت کے قبضہ میں ہو جس کا جتھا سیاسی امور کی بناء پر بنا ہو نہ کہ قومی یا مذہبی امور کی بناء پر- لارڈ برائس ڈیما کریسی کے متعلق لکھتے ہیں-: ‘’جس طرح دوسری حکومتیں اس امر کی محتاج ہیں اسی طرح جمہوریت بھی اس امر کی محتاج ہے کہ فردی آزادی کا اس میں پوری طرح خیال رکھا جائے-۱۵’‘؎ پس کوئی حکومت جس میں افراد کے حقوق محفوظ نہ ہوں ہر گز ڈیما کریسی نہیں کہلا سکتی- اور ڈیما کریسی کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ اس کے ذریعہ اقلیتوں کی قربانی کی جائے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی ڈیماکریسی تحریر شدہ یا غیر تحریر شدہ آئین حکومت کے بغیر نہیں ہو سکتی- اور آئین حکومت کی ایک بہت بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ افراد یا جماعتوں کے حقوق کو تلف ہونے سے بچایا جائے پس اسی نقطہ نگاہ سے ہمیں ہندوستان کی اقلیتوں کے سوال کو دیکھنا چاہئے- اگر تو ہندوستان کی اقلیتیں سیاسی اور تمدنی ہیں اور اکثریت بھی سیاسی اور تمدنی ہے تو بے شک ڈیماکریسی کے ماتحت اقلیت کو اکثریت پر قربان ہو جانا چاہئے اور اکثریت کو حکومت کا پورا حق ہونا چاہئے- لیکن اگر اس کے برخلاف اکثریت سے مراد ہندوستان میں ایک
۲۸۲ خاص قوم اور مذہب کی اکثریت ہے تو وہ اکثریت ڈیماکریسی کے نقطہ نگاہ سے اکثریت نہیں بلکہ ایک فرقہ وارانہ جماعت ہے جسے کوئی حق نہیں کہ اقلیت پر بغیر حد بندی کے حکومت کرے- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے کہ اکثریت اقلیت پر بغیر حد بندی کے حکومت کرنے کی مجاز ہے تو اس سے دنیا کی تمام علمی ترقی رک جاتی ہے- ذہنی ترقی کی ہر نئی رو اور ہر جدید علم پہلے معدودے چند افراد کی توجہ کو ہی کھینچتا ہے اور اکثریت اس کی مخالف ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی جانی دشمن ہوتی ہے- اگر اکثریت کو غیر محدود حکومت کرنے کا اختیار ہو تو پھر وہ مختلف مظالم جو دنیا میں مذہب یا فلسفہ کے نام پر ہوتے چلے آئے ہیں انہیں جائز اور درست کہنا ہوگا لیکن کبھی بھی فطرت انسانی نے ان کے جواز کو قبول نہیں کیا- اگر اس اصل کو قبول کر لیا جائے تو دنیا کی تمام علمی، اخلاقی اور مذہبی ترقی رک جاتی ہے- یہ کبھی نہیں ہوا کہ دنیا ایک دن سوتے سوتے اٹھے اور اس کے اکثر افراد ایک نئے مذہبی، فلسفی یا تمدنی یا علمی نکتے کے قائل ہو گئے ہوں- ہر نئی تحقیق اقلیتوں میں نشوونما پاتی رہی ہے اور پاتی رہے گی پس دنیا کی نجات اقلیتوں کی حفاظت میں ہے- اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کر دو تو دنیا تمام علمی اور اخلاقی ترقیوں سے محروم ہو جائے گی- پھر جو لوگ اقلیت کو ا کثریت کے رحم پر چھوڑ دینے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہر ایک اقلیت ایک قسم کی نہیں ہوتی اور نہ ہر ایک چیز قربان کر دینے کے قابل ہوتی ہے- اس دنیا میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو کسی صورت میں قربان نہیں کی جا سکتیں- اگر گلیلیو (GALILEO) اپنے وقت کی اکثریت سے ڈر کر سیاروں کی حرکات کے مسئلہ کو چھوڑ دیتا تو دنیا آج کہاں ہوتی؟ اس قسم کا مشورہ دینے والوں کو پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ ہندوستان کی اقلیتوں کی بنیاد کس امر پر ہے- اگر ان کی بنیاد ٹیرف ریفارم (TARIFF REFORM) یا انکم ٹیکس کے اصول میں اختلاف رکھنے پر ہے تو بے شک انہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جب کہ ان کی بنیاد مذہب پر ہے جسے آزادی اور وطنیت سے بھی زیادہ متبرک سمجھا جاتا ہے اور اگر مذہب کوئی چیز ہے تو اسے ایسا ہی سمجھنا چاہئے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ اقلیت ایسی حکومت کو برداشت کرے جو مذہب کے اختلاف کی وجہ سے اس پر ظلم کرتی ہو- یا ایسے قوانین پاس کرتی ہو جس سے اس کی غرض اس مذہبی اقلیت کے افراد کو دق کر کے ملک سے نکل جانے یا اکثریت کے مذہب کو قبول کرنے یا دائمی طو رپر ایک ادنیٰ پوزیشن قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو-
۲۸۳ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک اقلیت اور اکثریت کے درمیان مذکورہ بالا امور مابہالنزاع ہوں تو اقلیت ہر گز اکثریت کی مرضی پر چلنے کیلئے مجبور نہیں کی جا سکتی- اور میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ ہندوستان میں اقلیت اور اکثریت کا اختلاف اسی قسم کا ہے- کیا تجربہ رواداری سکھا دے گا؟ مذکورہ بالا دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ بے شک اقلیت کے حقوق کی حفاظت ہونی چاہئے لیکن اس کا یہ طریق نہیں کہ قوانین کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی جائے- رواداری تجربہ اور ذمہ واری سے خود بخود آ جاتی ہے- پس بغیر کسی حفاظت کی تدبیر کے ملک میں ایک آزاد نظام حکومت قائم کر دینا چاہئے- اکثریت یا اقلیت جس میں بھی نقص ہو ایک دوسرے سے واسطہ پڑنے پر خود بخود اس کی اصلاح ہو جائے گی اور طبائع آپس میں مل جائیں گی- یہ نقطہ نگاہ ہندوؤں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے- اگر دو قوموں میں ادنیٰ سا اختلاف ہو اور وہ امور جن کی نسبت خطرہ ہو معمولی ہوں تو ایک طریق اصلاح کا وہ بھی ہے جو اوپر بیان ہوا- لیکن سوال یہ ہے کہ جب اقلیت اور اکثریت کا اختلاف اس قسم کا ہو کہ ایک دوسرے کو کچلنا چاہے تو کیا پھر بھی یہ علاج کامیاب ہو سکتا ہے؟ اگر تجربہ سے یہ معلوم ہو کہ ایک قوم دوسری قوم کو کھاتی جاتی ہے تو پھر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ اکٹھے رہنے سے ایک کو دوسری سے خطرہ نہیں ہوگا پھر اگر یہ بھی ثابت ہو جائے کہ اقلیت اور اکثریت زندگی کے کئی شعبوں میں اکٹھی رہتی چلی آئی ہیں لیکن باوجود اس اکٹھا رہنے کے اکثریت اقلیت کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئی تو کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ زیادہ اہم امور میں اکٹھا رہنے سے اکثریت اقلیت سے ایسا سلوک نہیں کرے گی- غرض اگر اختلاف معمولی ہو تو بے شک یہ جرات کی جا سکتی ہے کہ دونوں قوموں کو کچھ عرصہ کے لئے اکٹھا چھوڑ دیا جائے اور انتظار کیا جائے کہ سیاست خود مروت سکھا لے گی لیکن جب کہ اختلاف اہم ہو اور ایک قوم دوسری کو کھانے کی عادی ہو چکی ہو تو پھر محض امید موہوم پر ایک قوم کو تباہی کے گڑھے میں نہیں دھکیلا جا سکتا- یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ جب اقلیت کو اہم امور میں اختلاف ہو جسے وہ قربان نہ کر سکتی ہو تو اس سے اکثریت کے حکم پر سر جھکانے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح جب اکثریت کے عمل سے اور ارادہ سے ثابت ہو جائے کہ وہ اقلیت کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور
۲۸۴ آئندہ نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو اس صورت میں اقلیت کو اکثریت کے سپرد کر کے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ آہستہ آہستہ رواداری کی روح پیدا ہو جائے گی- میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں اقلیت اور اکثریت کے تعلقات نہایت اہم ہیں اور اکثریت کا تعلق اقلیت سے گذشتہ تجربہ اور آئندہ ارادوں کی بناء پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسے اکثریت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا- ہندوؤں کا اقلیتوں سے سلوک ہندوستان میں اس وقت اکثریت ہندو قوم کی ہے اور اس کے مقابلہ میں مسلمان، ادنیٰ اقوام اور انگریز اینگلوانڈین وغیرہ تعداد میں کم ہیں- ان میں سے ادنیٰ اقوام کا سوال تو اتنی دفعہ انگلستان کے لوگوں کے سامنے آ چکا ہے کہ اس کے متعلق میں کچھ زیادہ لکھنا پسند نہیں کرتا لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہندو دوسری اقلیتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں تا کہ ان لوگوں کو جو واقف نہیں ہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہندو لوگ دوسری اقلیتوں سے بھی جہاں تک ان کی طاقت ہے اچھوت اقوام کا سا ہی سلوک کرتے ہیں اور جب تک ان کی یہ حالت قائم ہے اس وقت تک کوئی عقلمند قوم ان پر اعتبار نہیں کر سکتی- سب سے پہلے تو میں ایک دوسرے سے میل ملاقات کے معاملہ کو لیتا ہوں- دنیا میں محبت اور رواداری قائم کرنے کا اصل ذریعہ یہی ہے کہ افراد آپس میں ملتے جلتے رہیں- ایک دوسرے کے ساتھ ملنے جلنے سے دلوں کی کدورت دور ہوتی رہتی ہے اور ملنے میں ایک دوسرے کے قلب کی صفائی کا اظہار کرنے کے لئے بہترین طریق دنیا میں مصافحہ کا ہے- تمام اقوام ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مصافحہ کا طبیعت پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور یہ گویا ادنیٰ سے ادنیٰ ذریعہ ایک دوسرے سے اظہار محبت کا ہوتا ہے لیکن ہندو اپنی روایات میں اس قدر محصور ہے کہ دوسری اقوام سے اتنے سلوک کا بھی روادار نہیں- جب آپ کسی ہندو کو دیکھیں گے تو وہ خواہ آپ کا کیسا ہی واقف ہو اس کی تمام تر کوشش یہ ہوگی کہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ایک غیر قوم کے آدمی سے مصافحہ کرنے سے نجات حاصل کرے- وہ ہاتھ جوڑے گا سامنے جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا لے گا لیکن جہاں تک اس کا بس چلے گا اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں لگائے گا کیونکہ اس کے نزدیک ایسا فعل اسے ناپاک کر دیتا ہے- شاید انگریزوں کو یہ عجیب بات معلوم ہوگی اور وہ خیال کریں گے کہ ہم سے
۲۸۵ تو ہندو مصافحہ کرتے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فعل ان میں سے اکثر کا بالکل بناوٹ اور ظاہر داری کے طور پر ہوتا ہے ورنہ دل میں وہ مسلمان کیا اور انگریز کیا سب کو سخت حقارت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ چھو جانے کو غلاظت سے بھر جانے کے برابر سمجھتے ہیں- اور یہ صرف قیاس نہیں بلکہ واقعہ ہے اس کے ثبوت میں میں ہندوؤں کے چوٹی کے لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ کا قول نقل کرتا ہوں- وہ فرماتے ہیں- ‘’میں جب کسی انگریز سے ملتا ہوں تو ملنے کے بعد پانی سے ہاتھ دھو لیتا ہوں’‘- ۱۶؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ ان ہندوؤں کو چھوڑ کر جو مذہب سے بیزار ہیں باقی اصل ہندو صرف دکھاوے کے لئے دوسری اقوام کے لوگوں سے مصافحہ کرتے ہیں ورنہ وہ دل میں اسے ایک ناپاک فعل تصور کرتے ہیں- دوسرا ذریعہ اقوام میں تعلق بڑھانے کا مل جل کر کھانا پینا ہے اس طرح بھی بہت کچھ اختلاف مٹتا ہے لیکن کوئی ہندو جو حقیقی ہندو ہے کبھی مسلمان یا انگریز یا اور کسی قوم کے ہاتھ کا چُھوا ہوا نہیں کھاتا اور جو ہندو انگریزوں کی دعوتوں میں آ کر کھا لیتے ہیں درحقیقت وہ یا تو ہندو مذہب سے بیزار یا ناواقف ہیں اور یا پھر وہ انگریزوں کو دھوکا دیتے ہیں- اس بارہ میں ہندو قوم کا تعصب اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ پنڈت مدن موہن مالویہ جی تو اس مجلس میں جس میں کوئی غیرہندو بیٹھا ہو پانی پینا بھی پسند نہیں کرتے- چنانچہ ایک خاص مجلس (جو گاندھی جی کا روزہ تڑوانے کے لئے جو انہوں نے ہندو مسلم فساد کی بناء پر رکھا تھا( منعقد کی گئی تھی اور جس کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ہندو مسلمانوں میں شدھی کی وجہ سے جو فساد پیدا ہو گیا ہے اسے دور کیا جائے اس میں مجھ سے بھی خواہش کی گئی تھی کہ میں اپنی جماعت کے نمائندے بھیجوں- ان نمائندوں کا بیان ہے کہ پنڈت مالویہ جی پیاسے بیٹھے رہے اور اس وجہ سے پانی نہ پیا کہ اس مجلس میں کچھ مسلمان بیٹھے ہیں آخر ان کے لئے الگ کمرہ کا انتظام کیا گیا تو انہوں نے وہاں جا کر پانی پیا- جس قوم کے لیڈروں کے تعصب کا یہ حال ہے کیا اس کی نسبت یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے گی- ہر ایک شخص جو ہندوستان سے واقف ہے جانتا ہے کہ ہندو مسلمان دکاندار سے کبھی کوئی چیز لے کر نہیں کھاتے- بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ صفائی کا خیال ہے حالانکہ ایک غریب مسلمان بھی صفائی میں ہندو سے بہتر ہوتا ہے- ہندو
۲۸۶ مٹھائی بنانے والا جس کی مٹھائی شریف سے شریف ہندو شوق سے خرید کر کھا لیتا ہے ایسا غلیظ ہوتا ہے کہ شاید اس کے برابر غلیظ انسان تلاش کرنا مشکل ہوگا اور اس کے برتنوں کو دیکھ کر گھن آتی ہے- بسا اوقات کتے انہیں چاٹ جاتے ہیں اور وہ اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرتا لیکن جب ایک مسلمان پاس سے بھی گذر جاتا ہے تو وہ ‘’دور رہنا، دور رہنا’‘ کا شور مچا دیتا ہے اور اس فعل کی بنیاد ہر گز مذہب پر نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہندوؤں کا اقرار ہے یہ تدبیر صرف دوسری اقوام کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور ہندوؤں کی دولت بڑھانے کے لئے کی گئی ہے- چنانچہ ہندوؤں کا ایک مشہور مذہبی اخبار ‘’مسافر آگرہ’‘ چھوت چھات کے متعلق لکھتا ہے-: ‘’اگر یہ چُھوت چھات نہ ہوتی تو آج کسی قسم کی تجارت بھی ہندوؤں کے ہاتھ میں نظر نہ آتی- ہم کہتے ہیں اگر ہماری تجارت کی کسی طاقت نے حفاظت کی تو وہ طاقت اس بائیکاٹ کی تھی-’‘ ‘’اس تحریک سے ہندو قوم کو جو زبردست فوائد حاصل ہوئے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ جن میں کسی قسم کے مبالغہ کی گنجائش ہو- مثال کے طور پر آپ سب سے پہلے تجارت ہی کو لے لیجئے- آج ملک کی تمام خوردنی اور عمدہ اشیاء کی تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے’‘- ۱۷؎ ایک مذہبی اخبار کا یہ بیان بالکل واضح کر دیتا ہے کہ چُھوت چھات کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اقتصادی بائیکاٹ کی ہی ایک شکل ہے- اس کی اصل غرض یہ ہے کہ دوسری اقوام کے بائیکاٹ پر پردہ پڑا رہے اور انہیں یہ کہہ کر خاموش کرایا جا سکے کہ ہم جو تم سے چیزیں نہیں خریدتے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا مذہب اس سے روکتا ہے- اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ملک میں کھانے کی دکانیں ہندوؤں کی ہیں اور مسلمانوں کی قریباً نہ ہونے کے برابر ہیں- اور ہندوؤں کی اس چھوت چھات کی وجہ سے سٹیشنوں پر بھی کھانے کا ٹھیکہ عام طور پر ہندوؤں کو دیا جاتا ہے اس خیال سے کہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کا کھا لیتے ہیں اور ہندو مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے- اب اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ فی کس سال میں ایک روپیہ کی مٹھائی یا کھانا بازار سے خریدا جا سکتا ہے- یہ اندازہ درحقیقت بہت تھوڑا ہے تو بھی بالغ مسلمانوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال مسلمانوں کی جیب سے چار کروڑ روپیہ ہندوؤں کو مل جاتا ہے
۲۸۷ جس کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی- جس قوم نے اپنی ہمسایہ قوم کے بائیکاٹ کی ایسی منظم صورت نکالی ہے کیا اس کی نسبت اقلیتوں کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس پر اعتبار کریں اور اپنی قسمت کی باگ ڈور اس کے سپرد کر دیں؟ یہ صورت صرف کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق نہیں ہے بلکہ اور تجارتوں کا بھی ایک تھوڑے فرق کے ساتھ یہی حال ہے- مسلمان عام طور پر ہندوؤں کی دکانوں پر سے سودا خریدتے ہیں لیکن ہندو شاذ و نادر ہی مسلمان کی دوکان سے سودا خریدتا ہے- کسی شہر میں، کسی بازار میں، کسی دن صبح سے شام تک پہرہ لگا کر دیکھ لو مسلمان کی دکان پر ہندو گاہگ بہت کم آتا دکھائی دے گا- اگر مسلمان سے کسی قدر ارزاں چیز بھی ملے گی تو بھی وہ ہندو سے ہی خریدے گا- ہندوؤں کا یہ تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مکان بھی کرایہ پر نہیں دیتے- چنانچہ الہٰ آباد کے ایک مشہور ہندو لیڈر جو موجودہ گانگریسی تحریک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیڈر کہلاتے ہیں ان کے بہت سے مکانات الہ آباد میں ہیں لیکن ان کا حکم ہے کہ مکان کسی مسلمان کو کرایہ پر نہ دیا جائے- اور یہ امر ان سے مخصوص نہیں ہندوؤں کے ایک بڑے طبقہ کا یہی حال ہے- میں ۱۹۱۷ء میں بوجہ بیماری بمبئی گیا سمندر کے کنارہ پر رہنے کا چونکہ مشورہ تھا باندرہ جو بمبئی کے مضافات کا ایک قصبہ ہے اس میں ایک بنگلہ کرایہ پر لیا- میری والدہ صاحبہ ہمراہ تھیں انہیں کاربنکل کی تکلیف ہو گئی اور ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ علاج کی سہولت کے لئے بمبئی میں مکان لے لیا جائے- مجھے چونکہ ڈاکٹری مشورہ سمندر کے کنارہ کے پاس رہنے کا تھا چوپاٹی پر مکان کی تلاش کی گئی لیکن کوئی مکان خالی نظر نہ آیا- آخر ایک ریاست کے وزیر اعظم جو بغرض تبدیلی آب و ہوا بمبئی میں آئے ہوئے تھے ان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ مکان خالی کرنے والے ہیں- ان سے دریافت کیا گیا تو اتفاقا وہ وطن کے لحاظ سے پنجابی نکلے اور وطنیت کے خیال سے انہوں نے وعدہ کر لیا کہ وہ مکان بقیہ ٹرم کے لئے ہمیں کرایہ پر دے دیں گے- کرایہ وغیرہ کا فیصلہ ان کے ساتھ ہو گیا مکان پر قبضہ کرنے کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی لیکن بعد میں انہوں نے انکار کر دیا- جب ہم نے زیادہ زور دیا تو انہوں نے بتایا کہ بمبئی میں ایک بڑی جماعت ہندوؤں کی ایسی ہے جس نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مکانات مسلمانوں کو کرایہ پر نہ دیئے جائیں- چنانچہ میں نے جب آپ سے وعدہ کر لیا تو بعض لوگ اس بات کو سن کر میرے
۲۸۸ پاس آئے اور کہا کہ اگر کسی مسلمان کو تم نے مکان کرایہ پر دیا تو آئندہ تم کو بھی کرایہ پر مکان اس علاقہ میں نہیں ملے گا- بے شک اس کی نظیریں مل جائیں گی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کو مکان کرایہ پر دیا ہوگا لیکن وہ مکان بنائے ہی اس غرض سے گئے ہونگے کہ کرایہ پر چڑھائے جائیں ورنہ ہندوؤں نے بڑے شہروں میں اپنے لئے الگ علاقے تجویز کر چھوڑے ہیں- ان میں کسی مسلمان کو نہیں آنے دیتے بالکل اسی طرح جس طرح ساؤتھ افریقہ (SOUTH AFRICA)میں ہندوستانیوں سے اور اقوام کے لوگ سلوک کر رہے ہیں لیکن ان کے طریق عمل پر جہاں ہندو شور مچاتا ہے وہاں خود اسی کی نقل ہندوستان میں کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھ چکا ہے کہ اس طرح سگریگیشن (SEGREGATION) کرنے سے قوموں کو کمزور کیا جا سکتا ہے- یہ سگریگیشن صرف مکانوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ جائدادوں کے متعلق بھی ہے اور ایک منظم صورت میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے جائیدادیں چھڑوا کر ہندوؤں کے قبضہ میں لائی جائیں- اگر ہندوستان کے بنیوں کے ان منصوبوں کو دیکھا جائے جو وہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لئے کرتے ہیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ان کی اصل غرض مالی فائدہ کے لئے جائیداد پر قبضہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ مسلمانوں کو کمزور کرنا ہوتی ہے- بسا اوقات جائیداد اس روپیہ کے مقابلہ میں حقیر ہوتی ہے جو انہوں نے قرض کے طور پر دیا ہوا ہوتا ہے لیکن ان کی اصل آمد ان جائیدادوں کے حصول کے بعد شروع ہوتی ہے- وہ اس علاقہ کے حاکم ہو جاتے ہیں اور اپنے مقروضوں پر ایک جابر بادشاہ کی طرف حکومت کرتے ہیں- یہ تو بھلا کسے توفیق ملے گی کہ وہ اصولی طور پر اس قرضہ کے سلسلہ کی تحقیق کرے مگر میں اس کے متعلق مسٹر تلک جو مشہور مرہٹہ لیڈر گذرے ہیں ان کی وصیت کا ذکر کرتا ہوں جس سے اس ارادہ کا پتہ لگ جائے گا- خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حکیم وارثی صاحب کا ایک بیان شائع کیا ہے- مسٹر وارثی صاحب تحریک آزادی میں جوش سے حصہ لینے والے تھے اور بطور والنٹیئر تلک صاحب کے مکان پر پہرہ دیتے رہے تھے- وہ کہتے ہیں کہ مسٹر تلک نے مرتے وقت اپنے ایک دوست سے کہا کہ مسٹر گاندھی کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ-: ‘’میری طرح ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ جس طرح بھی ہو سکے ہندوستان کی سب جائیدادیں ہندوؤں کے قبضہ میں آ جائیں- پھر صرف حکومت کا مسئلہ باقی رہ
۲۸۹ جائے گا جس کا حل بالکل آسان ہوگا- مقدم بات یہ ہے کہ ملکیت ہندوؤں کے قبضہ میں آ جائے’‘- سرکاری ملازمتوں میں بھی یہ سگریگیشن (SEGREGATION) جاری ہے- پوری کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان اپنا جائز حق نہ لے سکیں- تمام محکمے ہندوؤں سے پر ہیں- ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان ملتے نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں نالائق قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے- مسلمان عرضی دیتے ہیں تو اسے پھاڑ دیا جاتا ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ کوئی جگہ نہیں- اسی دن یا دوسرے دن ہندو آ جاتا ہے تو اس کے لئے جگہ نکل آتی ہے- ایک معزز افسر تعلیم نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک مسلمان امیدوار ملازمت میرے پاس آیا اور میں نے اسے کہا کہ وہ دفتر میں عرضی دے دے- دوسرے دن اس نے مجھے آ کر کہا کہ ہیڈ کلرک نے اس پر یہ لکھ کر عرضی واپس کر دی ہے کہ کوئی گنجائش نہیں ہے- اسی دن یا دوسرے دن اس ہیڈ کلرک نے ایک ہندو کی عرضی میرے سامنے پیش کر دی کہ فلاں جگہ نکلی ہے اس پر اس شخص کو مقرر کیا جائے- میں نے اس سے پوچھا کہ فلاں مسلمان کی درخواست پر تو تم نے لکھا ہے کہ جگہ نہیں ہے اب اس ہندو کے لئے جگہ کہاں سے نکل آئی- تو کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ غلطی ہو گئی- اس کوشش کے علاوہ کہ مسلمان سروس میں نہ آ سکیں ایک منظم کوشش یہ بھی جاری ہے کہ مسلمان جو سروس میں آ چکے ہیں ان کو نکال دیا جائے- ہندو سنگھٹن کی ایک غرض یہ بھی تھی- چنانچہ سنگھٹن کی تحریک جو ۱۹۲۲ء سے شروع ہوئی اس کے معاً بعد پنجاب کے متعدد مسلمان افسروں کے خلاف مقدمات چلے اور انہیں ملازمتوں سے الگ کیا گیا- اور ان سب واقعات کی تہہ میں ہندو سنگھٹن کار فرما تھا- اگر کوئی مسلمان مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو یا گورنمنٹ کا ساتھ دینے والا ہو تو پھر اس کی شامت ہی آ جاتی ہے- اگر ایک آزاد کمیشن کے ذریعہ سے تحقیق کرائی جائے تو ناقابل تردید ثبوت اس امر کا مل جائے گا کہ اگر کسی مسلمان افسر نے چند مسلمانوں کو ملازمت دلائی ہو خواہ وہ ان کی تعداد کے حق کے لحاظ سے کم ہی کیوں نہ ہو تو اس مسلمان کے خلاف کیا اخبارات میں اور کیا دفاتر میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور خفیہ شکایات کی بھی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں رہتی- انہی چند ماہ میں احمدی چونکہ کانگریس کا مقابلہ کرتے رہے ہیں ہندوؤں کے ایک منظم پروپیگنڈا کے ذریعہ سے انہیں تکلیف پہنچائی جا رہی ہے- حال میں پنجاب کی ایک نہر کے ایک ڈپٹی کلکٹر اور ایک اسسٹنٹ انجنیئر کو
۲۹۰ ان کے ہندو آفیسر نے سزائیں دلوائی ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ الزام محکمانہ لگائے گئے ہیں لیکن ہر ایک شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ پندرہ بیس سالہ سروس کے بعد ایک ہی محکمہ میں ایک جماعت کے دو معزز افسر جو کانگریس کے پروپیگنڈا کی مخالفت کر رہے تھے ایک ہی ہندو افسر کے ذریعہ سے جو کانگریس کا موید ہے نالائق قرار پا جاتے ہیں تو ضرور اس میں کوئی بات ہوگی- آخر وجہ کیا ہے کہ ایک ہی کمیونٹی (COMMUNITY)کے دو افسر گرفت میں آ جاتے ہیں اور ایک ہی وقت میں گرفت میں آتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے اپنی سروس کے لمبے عرصہ میں وہ ترقیات حاصل کرتے چلے آئے تھے اور محکمہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے- ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ یہ نتیجہ غلط نکالا گیا ہے ہندوؤں کی مقررہ پالیسی یہ نہیں ہو سکتی اس لئے میں اس وقت ہندوؤں کے مشہور لیڈر بھائی پر مانند ایم- اے کی شہادت اس بارہ میں پیش کرتا ہوں- وہ ہندوستان کی مختلف رنگ میں خدمت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے جو ہندو گورنمنٹ سروس میں ہیں- ان کا نقطہ نگاہ یہ بیان کرتے ہیں- ‘’سرکاری مہربانی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں اور کچھ سرکاری عہدے اپنے ہاتھ میں رکھیں اور سرکار کے ساتھ مل کر پہلے مسلمانوں کو کمزور کریں اور ہندوؤں کی طاقت بڑھا لیں- جب اس طرح طاقت بڑھ جائے گی تو پھر سوراج حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جا سکتی ہے’‘-۱۸؎ یہ اس شخص کا بیان ہے جس نے لالہ لاجپت رائے کی زندگی کے آخری ایام میں ان سے بھی زیادہ ہندو قوم میں رسوخ اور طاقت پیدا کر لی تھی- تمدنی طور پر جو مسلمانوں کا بائیکاٹ ہو رہا ہے وہ بھی کم شدید نہیں- مسلمان ہندوؤں کو ملازم رکھتے ہیں لیکن ہندو مسلمان کو بہت ہی کم ملازمت دیتا ہے اور جب دیتا ہے تو صرف اپنے مطلب اور فائدہ کیلئے دیتا ہے- باجہ اور گائے کے سوال کو ایک عظیم الشان جھگڑے کا موجب بنایا ہوا ہے- وید کے زمانہ کے ہندو خود گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے اور قربانیاں کیا کرتے تھے- چنانچہ رگوید اور اتھروید سے اس کا ثبوت ملتا ہے- اتھر وید کانڈ ۹- سوکت ۳ کے نویں منتر میں لکھا ہے کہ -: ‘’اہل خانہ گائے کا شیریں دودھ اور لذیذ گوشت مہمان کو کھلائے بغیر نہ کھائے’‘- پنڈت ابناس چندر داس ایم- اے لکھتے ہیں-:
۲۹۱ ‘’قدیم آریوں کے ہاں گائے کے گوشت کھانے کی شہادت پائی جاتی ہے- لیکن دودھ نہ دینے والی گائیں شاذ و نادر ہی ماری جاتی تھیں’‘- ۱۹؎ ہندوؤں میں قربانی کا اس قدر رواج تھا کہ بدھ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی وجہ یہ قرار دی گئی تھی کہ انہوں نے قربانی کو روک دیا تھا- چنانچہ مہامہوپادھیائے پنڈت ہرپرشاد شاستری لکھتے ہیں-: ‘’اس (اشوک کی ریاست کے خلاف ہندوؤں کی بغاوت) کا سبب جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے یہ تھا کہ اشوک نے اپنی حکومت میں جانوروں کی قربانی بند کر دی تھی- مگر پشیہ پتر نے تخت پر بیٹھتے ہی دارالخلافہ میں اشوسیدھ یگیہ کیا’‘- (جانور کی قربانی کی عبادت گزاری) ۲۰؎ اب یہ کیا تعجب کی بات نہیں کہ بدھوں کے زمانہ میں تو قربانی روکنے کو بغاوت کا ذریعہ بنایا گیا تھا اور اس زمانہ میں قربانی کی اجازت کو جنگ کا ذریعہ بنایا جاتا ہے- یقیناً مسلمانوں کے آخری زمانہ میں عوام الناس کو بھڑکانے کے لئے یہ ایک تدبیر ایجاد کی گئی تھی اور اسے ترقی دیتے دیتے اب ایک قومی خیال بنا لیا گیا ہے- گائے کے متعلق ہندو قوم کا ظلم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کوئی صوبہ ایسا نہیں جس میں گائے کی وجہ سے خون ریزی نہ ہو چکی ہو اور کوئی سال نہیں گزرتا کہ جس میں گائے کی قربانی کی وجہ سے فساد نہ ہو جاتا ہو حالانکہ مسلمان اپنے لئے گائے قربان کرتے ہیں اور خود کھاتے ہیں، ہندوؤں کو اس سے کیا تعلق- اور اس ظلم پر مزیدبرآں یہ بات ہے کہ ان فسادات پر ہندو قوم فساد کرنے والوں کو ڈانٹتی نہیں بلکہ ان کے لئے عذر تلاش کرتی ہے- پچھلے دس سال میں جس قدر فساد ہوئے ہیں ان کی اگر لسٹ بنائی جائے تو نوے فیصدی فسادوں کی بنیاد ہندوؤں کی طرف سے ثابت ہوگی- اور پھر ساتھ ہی یہ عجیب بات ثابت ہوگی کہ جو فساد مسلمانوں کی غلطی سے ہوئے ہیں ان پر مسلمانوں نے اپنی قوم کو بڑی سختی سے ڈانٹا ہے لیکن وہ نوے فیصدی فساد جو ہندوؤں کی طرف سے ہوئے ہیں ان پر ہندو قوم اور ہندو پریس نے یا تو الزام مسلمانوں پر لگانے کی کوشش کی ہے اور یا پھر فسادیوں کی تائید میں عذر تلاش کرنے لگ گئے ہیں- اب ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ڈیماکریسی جس کا پہلا اصل یہ ہے کہ دوسرے کے فعل میں دست اندازی نہ کی جائے، وہ اور یہ طریق عمل کسی صورت میں یکجا نہیں رہ سکتے-
۲۹۲ جہاں جہاں ہندوؤں کا زور ہے وہاں میونسپل قواعد ایسے بنائے گئے ہیں کہ گائے کا ذبیحہ بند ہو جائے، گورنمنٹ بھی مذبحوں کے کھولنے میں روکاٹ ڈالتی ہے- جہاں چھاؤنی ہو وہاں تو فوجیوں کے لئے گائے کا گوشت مہیا کرنے کے لئے خود سرکاری طور پر انتظام کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی ضرورت کو فساد کا موجب سمجھا جاتا ہے- انگریزی علاقہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل برداشت ہے مگر ہندو ریاستوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ تو انتہاء سے بڑھا ہوا ہے اور اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان میں آزاد حکومت ہوئی تو ہندو اس بارے میں مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے- کشمیر جس میں پچانوے فیصدی مسلمانوں کی آبادی ہے اس میں گائے ذبح کرنے پر کہتے ہیں کہ سات سال قید کی سزا مقرر ہے- اس کا الزام موجودہ مہاراجہ صاحب پر نہیں وہ ایسے والد کے بیٹے ہیں کہ جن کو اسلام سے انس تھا- وہ سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ سے جب کہ وہ کشمیر میں شاہی طبیب تھے خاص انس رکھتے تھے اور انہیں بھائیوں کی طرح جانتے تھے- بلکہ ان کے والد کے تعلق کی وجہ سے ہی انہیں کشمیر چھوڑنا پڑا- پس میں انہیں خاص محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بے تعصب حکمران بننے کی توفیق دے گا اور وہ دوسرے ہندو راجوں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کریں گے- دوسری ریاستوں کا حال بھی کم خراب نہیں- ایک اعلیٰ انگریز پولیٹیکل افسر کی روایت ہے کہ میں ایک ریاست میں ریذیڈنٹ تھا- وہاں مسلمانوں نے گائے ذبح کر دی ان لوگوں سے ایک لاکھ روپیہ ریاست نے لے کر چھوڑا لیکن دوسرے ہی دن ایک بچہ کا قتل ہو گیا تو پچیس روپیہ پر معاملہ کو دبا دیا گیا وہ کہتے ہیں جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ریاست والوں کو ملامت کی- اس سے بھی بڑھ کر اب یہ ظلم ہو رہا ہے کہ بعض ہندو ریاستوں میں تبلیغ اسلام کو بالکل روک دیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ کوئی شخص عدالت میں حاضر ہوئے بغیر مذہب نہیں بدل سکتا- نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہندو ہونا چاہے تو اسے فوراً اجازت مل جاتی ہے لیکن اگر ہندو مسلمان ہونا چاہے تو بڑی لمبی تحقیقات ہوتی ہے- ان اشخاص کے نام دریافت کئے جاتے ہیں جنہوں نے اسے تبلیغ کی تھی- پھر انہیں بھی دق کیا جاتا ہے اور اس مسلمان ہونے کے خواہشمند کو بھی تکلیف دی جاتی ہے اور بعض دفعہ جھوٹے الزام لگا کر قید کر دیا جاتا ہے اور یہاں تک تنگ کیا جاتا ہے کہ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے اور یوں
۲۹۳ نظر آتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ اس ملک میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت نہیں ہے اور یا تو وہ شخص اس علاقہ کو چھوڑ دیتا ہے یا پھر ڈر کر اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے- یہی ظلم مہذب دنیا کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہے لیکن بعض جگہ ظلم اس سے بھی بڑھ جاتا ہے- چنانچہ پچھلے دنوں یو-پی میں ہندوؤں نے کمزور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش شروع کی تو ایک ہندو ریاست جو اس علاقہ کے ساتھ تھی وہاں سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود کھڑے ہو کر اپنے سامنے ایک گاؤں کے لوگوں کو جبراً شدھ کیا- ایک بوڑھی عورت جہیہ نامی (میں نے اس کا نام اس لئے لکھ دیا ہے تا آئندہ نسلوں میں اس کی یاد قائم رہے( ایسی تھی جس نے انکار کیا اور صاف کہہ دیا کہ میں مذہب کو ہر گز قربان نہیں کروں گی- اسے طرح طرح سے دکھ دیا گیا لیکن وہ ساٹھ سالہ بڑھیا اپنے ایمان پر ثابت قدم رہی بلکہ ایک بڑی میٹنگ جو اس کی قوم نے شدھی کے متعلق غور کرنے کے لئے انگریزی علاقہ میں منعقد کی تھی، اس میں وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ میں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنا پسند کروں گی لیکن اسلام کو نہیں چھوڑوں گی- اگر تم مردوں نے اس ظلم کا مقابلہ نہ کیا تو ہم عورتیں اس کا مقابلہ کریں گی- نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کو پانی سے روک دیا گیا، اس کے کھیتوں کو کاٹنے سے روکا گیا، میں نے جب یہ واقعات سنے تو اپنی جماعت کے تعلیم یافتہ آدمیوں کو بھیجا کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس کے کھیت کاٹیں اور چونکہ اس کو رہائش کی بھی تکلیف تھی اس کے لئے ایک مکان بنوا دیا اور اس غرض سے وہاں مبلغ بھیجے کہ ان لوگوں کو ڈھارس دیں اور اسلام کی طرف واپس لائیں لیکن ریاست نے جھٹ قانون بنا دیا کہ کوئی انگریزی علاقہ کا آدمی اس علاقہ میں رات کو نہ رہے- اس پر ہمارے مبلغ انگریزی علاقہ میں خیمے لگا کر رہنے لگے- صبح کو وہ وہاں سے چلے جاتے تھے اور شام کو واپس آ جاتے تھے- شدید گرمی میں ناقابل برداشت تکالیف اٹھا کر انہوں نے اس ظلم کا مقابلہ کیا.......لیکن حکومت برطانیہ کے دفاتر نے باوجود توجہ دلانے کے کوئی توجہ نہ کی کیونکہ ان کے خیال میں ریاستیں آزاد ہیں- جب کہ ریاستوں کے بارہ میں اس وقت ان کا یہ حال ہے تو کون امید کر سکتا ہے کہ آئینی گورنر آزاد صوبہ جات کے معاملات میں مسلمانوں کی خاطر دخل دے گا پس یہ حفاظتی تدبیر ہمیں کب تسلی دے سکتی ہے- یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ متعصبانہ خیالات صرف بعض لوگوں کے ہیں- ایسا نہیں بلکہ ہندو قوم بدقسمتی سے بہ حیثیت قوم اس مرض میں مبتلا ہو چکی ہے اور صرف ایک قلیل تعداد
۲۹۴ اس مرض سے بچی ہوئی ہے- چنانچہ اس وقت شہادت کے طور پر میں خود مسٹر گاندھی کو پیش کرتا ہوں- مسٹر گاندھی نے ۱۹۱۸ء میں ایک تقریر کے دوران میں بیان کیا- ‘’یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ یورپین کے لئے گاؤ کشی جاری رہنے کی بابت ہندو کچھ بھی محسوس نہیں کرتے- میں جانتا ہوں کہ ان کا غصہ اس خوف کے نیچے دب رہا ہے جو انگریزی عملداری نے پیدا کر دیا ہے- مگر ایک ہندو بھی ہندوستان کے طول وعرض میں ایسا نہیں ہے جو ایک دن اپنی سرزمین کو گاؤ کشی سے آزاد کرانے کی امید نہ رکھتا ہو- اور ہندو مذہب کو جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس کی روح کے سراسر خلاف عیسائی یا مسلمان کو بزور شمشیر بھی گاؤ کشی چھوڑنے پر مجبور کرنے سے اِغماض نہ کرے گا’‘- ۲۱؎ مسٹر گاندھی کے اس بیان کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جذبہ تعصّب صرف چند جاہل افراد میں ہے اور اس کی زیادہ پرواہ نہیں کرنی چاہئے- ہندوؤں کے آئندہ ارادے اقلیت کے متعلق اس امر کے ثابت کرنے کے بعد کہ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے لئے اکثریت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کی موجودگی میں صرف ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو حفاظت کا ذریعہ نہیں سمجھا جا سکتا- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ہندوؤں کے آئندہ ارادے اقلیت کے متعلق کیا ہیں کیونکہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک اکثریت پہلے سے ارادہ کر کے آزادی کے حصول کو اقلیت کی ہر محبوب چیز کے قربان کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے تو یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ اس کا نقطہ نگاہ کسی قریب کے مستقبل میں بدل جائے گا- انگریزی حکومت سے وفاداری کا مسلمانوں کو کیا صلہ ملے گا ہندوؤں کے مشہور قومی لیکچرار ستیہ دیو صاحب اپنے ایک لیکچر میں بیان کرتے ہیں-: ‘’میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اگر وہ قوم پرست نہ بنیں بڑے خطرہ میں رہے گا- ہندوستان کے مسلمان اگر اپنے مذہبی.........دیوانہ پن میں ڈوبے رہے (یعنی ہندو نہ ہو گئے) تو ان کا کام صرف بدیشی گورنمنٹ کی مدد کر کے ہندوستان
۲۹۵ کو غلام رکھنا رہ جائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی آزادی کے موقع پر ملک کے سب لوگ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی ہستی بڑے خطرے میں پڑ جائے گی- مسلمانوں کی نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ قوم پرستی کا ہے’‘- ۲۲؎ اس اعلان کے الفاظ کسی تشریح کے محتاج نہیں- آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو صرف اسلام کے جُرم کی ہی سزا نہیں ملے گی بلکہ انگریزی حکومت سے تعاون کی بھی سزا ملے گی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ لارڈارون (LORDIRWIN) اور مسٹربن BEN(.(MR نے جو پچھلے دنوں مسلمانوں کی وفاداری کے متواتر اعلان کئے ہیں اس میں انہوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں کی بلکہ مذکورہ بالا اعلان کی موجودگی میں ان کے موت کے وارنٹ (WARRANT) پر دستخط کئے ہیں- مسلمان کن شرائط پر ہندوستان میں رہ سکیں گے یہی ملکی خادم سا گر صوبہ سی-پی میں اپنی تقریر میں یہ بھی بیان کرتا ہے-: ‘’ہندوؤ! سنگھٹن کرو اور مضبوط بنو اس دنیا میں طاقت ہی کی پوجا ہوتی ہے- اور جب تم مضبوط بن جاؤ گے تو یہی مسلمان خود بخود تمہارے قدموں پر اپنا سر جھکا دیں گے’‘- ‘’جب ہم ہندو سنگھٹن کے ذریعہ سے خاطر خواہ طور پر مضبوط ہو جائیں گے- تو مسلمانوں کے سامنے یہ شرائط پیش کریں گے- (۱-) قرآن کو الہامی کتاب نہیں سمجھنا چاہئے.......(۲)- حضرت محمد کو رسول خدا نہ کہا جائے- (۳) عرب وغیرہ کا خیال دل سے دور کر دینا چاہئے- (۴) سعدی و رومی کی بجائے کبیر و تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے- (۵) اسلامی تہواروں اور تعطیلوں کی بجائے ہندو تہوار تعطیلات منائی جائیں- (۶) مسلمانوں کو رام و کرشن وغیرہ دیوتاؤں کے تہوار منانے چاہئیں- (۷) انہیں اسلامی نام بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور ان کی جگہ رام دین، کرشن خاں وغیرہ نام رکھنے چاہئیں- (۸) عربی کی بجائے تمام عبادتیں ہندی میں کی جائیں’‘- ۲۳؎ پھر یہی صاحب فرماتے ہیں-: ‘’بھارت ورش کی قومی زبان ہے سنسکرت- عربی اور فارسی کو میں
۲۹۶ بھارتورش سے باہر کر دینا چاہتا ہوں’‘- اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ہندو سوراج میں مسلمانوں سے یہ سلوک کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے ان کا مذہب، ان کا تمدن اور ان کی زبان اور ان کے نام تک چُھڑوانا چاہتے ہیں- شاید کوئی کہے کہ ستیہ دیو گو کتنے ہی بڑے آدمی ہوں لیکن ہندو قوم کے چوٹی کے لیڈر نہیں اس لئے میں چند چوٹی کے لیڈروں کے حوالہ جات نقل کرتا ہوں- ڈاکٹر مونجے جو راؤنڈٹیبل کانفرنس (ROUND TABLE CONFERENCE) کے نمائندے مقرر ہوئے ہیں- ہندوؤں کو یوں نصیحت کرتے ہیں- ‘’ہندو اگر سنگھٹ ہو جائیں تو انگریزوں اور ان کے مسلمان پٹھوؤں کو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر نیچا دکھا کر سوراج حاصل کر سکتے ہیں- مسٹر جناح کی تجاویز فورٹین ڈیمانڈز آف مسلمز (FOURTEEN DEMONDS OF MUSLIMS) منتقمانہ مقابلہ کی دھمکی دے رہی ہیں جن کی ہندوؤں کو کچھ پرواہ نہیں- ہندوؤں کو یہ پرانا خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر سوراج حاصل ہونا محال ہے’‘- ڈاکٹر مونجے صاف لفظوں میں ظاہر کر رہے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں- وہ اپنے زور سے انگریزوں اور مسلمانوں دونوں کو درست کر کے رکھ دیں گے اور مسلمانوں سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگے- جن لوگوں کا شروع میں یہ حال ہے ان کا انجام کیا ہوگا؟ ایک اور ہندو لیڈر لالہ ہردیال ایم- اے جن سے یورپ و امریکہ کے لوگ خوب واقف ہیں لکھتے ہیں- ‘’جب انگلستان کچھ عرصہ بعد ہوم رول (HOME RULE) یعنی ۷۵فیصدی سوراجیہ ہمیں پیش کرے تو وہ ہندو قومی دل کے ساتھ عہدوپیمانکرے’‘- ۲۴؎ پھر یہی صاحب لکھتے ہیں-: ‘’ہندو سنگھٹن کا آدرش یہ ہے کہ ہندو قومی سنتھاؤں انسٹی چیوشنز (INSUITUTIONS( کی بنیادوں پر ہندو قومی ریاست قائم کی جائے- ہندو قومی
۲۹۷ سنتھائیں یہ ہیں- مثلاً سنسکرت بھاشا، ہندی بھاشا، ہندو قوم کا اتہاس، ہندو تہوار، ہندو مہاپرشوں کا سمرن، ہندوؤں کے دیش بھارت یا ہندوؤں کے ستھان کا پریم، ہندو قوم کے ساہتیہ کا پریم وغیرہ وغیرہ- پھر جو لوگ آج کل کے نیم عربی، نیم ایرانی مسلمانوں کو قومی تحریک میں خواہ مخواہ شامل کرنا چاہتے ہیں وہ اس صداقت کو نہیں سمجھتے کہ ہر ایک قومی ریاست پرانی قومی سنتھاؤں پر قائم کی جاتی ہے جن سے لوگوں میں یگانگت کا بھاؤ پیدا ہوتا ہے’‘- ۲۵؎ پھر یہی صاحب لکھتے ہیں-: ‘’جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا- تو ہماری جو نیتی (پالیسی( عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف ہوگی اس کا اعلان کر دیا جائے گا- اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہندو مہاسبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے کیا فرائض اور حقوق ہونگے اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہونگی’‘- ۲۶؎ اسی طرح یہ صاحب فرماتے ہیں-: ‘’سوراج پارٹی کا اصول ہونا چاہئے کہ ہر ہندوستانی بچہ کو قومی رتن دیئے جائیں خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی- اگر کوئی فرقہ ان کے لینے سے انکار کرے اور ملک میں دو رنگی پھیلائے تو اس کی قانونی طور پر ممانعت کر دی جائے- یا اس کو عرب کے ریگستان میں کھجوریں کھانے کے لئے بھیج دیا جائے- ہمارے ہندوستان کے آم کیلئے اور نارنگیاں کھانے کا انہیں کوئی حق نہیں’‘- ۲۷؎ یہی لالہ ہردیال صاحب ایک اور موقع پر فرماتے ہیں-: ‘’میں کہتا ہوں کہ ہندو قوم اور ہندوستان اور پنجاب کا مستقبل ان چار آدرشوں (نصب العین) پر منحصر ہے- یعنی (۱)ہندو سنگھٹن (۲) ہندو راج (۳) اسلام اور عیسائیت کی شدھی (۴) افغانستان اور سرحد کی فتح اور شدھی’‘- ‘’اگر ہندوؤں کو اپنی رکھشا کرنی منظور ہے تو خود ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ اور سردار ہری سنگھ نلوہ کی یادگار میں افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے تمام پہاڑی قبیلوں کی شدھی کرنی ہوگی- اگر ہندو اس فرض سے غافل
۲۹۸ رہیں گے تو پھر اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے گی’‘- ۲۸؎ پھر یہی صاحب فرماتے ہیں-: ‘’جب تک پنجاب اور ہندوستان بدیشی مذہبوں (یعنی عیسائیت اور اسلام( سے پاک نہ ہوگا تب تک ہمیں چین سے سونا نہیں ملے گا- جو ہندو اس آدرش (مقصد( کو نہیں مانتا وہ کپوت ہے، بے جان ہے، مردہ دل ہے، بے سمجھ ہے، ہر سچے ہندو کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ اپنے دیش کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کر دے’‘- ۲۹؎ مہاشہ کرشن ورنیکلر پریس (VERNACULAR PRESS)کے سب سے بڑے مالکوں میں سے ہیں- اور آریہ پرتی مذہبی سبھا کے اہم ترین ممبروں میں سے ہیں- وہ لکھتے ہیں-: ‘’اب وقت دور نہیں سمجھنا چاہئے جب کہ یہ اسلام ہمیشہ کے لئے سرزمین ہند سے غائب ہو جائے گا اور جو شخص خواہ وہ مہاتما گاندھی بھی کیوں نہ ہو- ایسے اسلام کی اشاعت یا ڈیفنس ((DEFENCEمیں بالواسطہ یا غیر واسطہ مدد دے گا وہ ملک اور سوراجیہ کا دشمن سمجھا جائے گا اور کوئی سچا ہندو ایسے اشخاص کے ساتھ اپنا کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گا’‘- ‘’سب سے پہلے آپ کا یہ فرض ہوگا کہ ایسے اسلام کو ہمیشہ کے لئے گنگا جی کے سپرد کر دو.........جب تک مسلمان تبلیغ کو ہندوستان کے اندر سے بند نہیں کریں گے دونوں قوموں میں اتحاد نہیں ہوگا اور جو لوگ وید بھگوان اور رام کرشن کا نام مٹا کر عرب کے ریگستان کی تہذیب اور حضرت محمد کا نام سرزمین ورت میں پھیلانا چاہتے ہیں ان کے ساتھ ہندوؤں کا اتحاد کبھی نہیں ہو سکتا’‘- ۳۰؎ پروفیسر رام دیو جو آریہ سماج کے بڑے لیڈر اور ان کے مرکزی کالج کے پرنسپل رہے ہیں اور بعد میں سیاسی کاموں میں پڑ گئے لکھتے ہیں-: ‘’ہندوستان کی ہر ایک مسجد پر ویدک دھرم یا آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گا’‘- ۳۱؎ یہی صاحب آریہ سماج کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرما چکے ہیں-: ‘’اسی طرح اب ایک زمانہ آنے والا ہے کہ تمام مسجدیں آریہ مندر بنائے
۲۹۹ جائیں گے اور ان میں ہون ہوا کریں گے- میں سوچا کرتا ہوں کہ جب دہلی کی جامعمسجد آ جائے گی- ہم کیا کریں گے- ہم تمام ہندوستان کے آریہ نہیں بلکہ تمام دنیا کے آریہ جمع ہو کر ایک کانفرنس کیا کریں گے’‘- ڈاکٹر گوکل چند نارنگ ایم-ایل-سی لاہور ہائی کورٹ کی بار کے پریزیڈنٹ جو سائمن کمیشن کی پنجاب کمیٹی کے ممبر بھی تھے- فرماتے ہیں-: ‘’مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی شرم نہیں آتی کہ اگر آپ کے ایک ہندو بھائی کو مسلمان بنانے میں آپ کسی کو روکتے نہیں اور وہ باز نہیں آتا تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کٹ کر مر جائیں’‘- ۳۲؎ یہ تو انگریزی علاقہ کے لوگوں کا حال ہے- اب ریاستوں کا حال دیکھیں- سر والٹر لارنس (SIR WALTER LAWRENCE)اپنی کتاب انڈیا جس کی ہم نے خدمت کی( میں لکھتے ہیں کہ-: لارڈ کرزن (LORD CURZON (نے میری دعوت کا انتظام کیا تھا- جنرل سر پرتاب سنگھ بہادر برادر مہاراجہ صاحب جودھ پور میرے بڑے دوست تھے- دیرتک مجھ سے باتیں کرتے رہے- دوران گفتگو میں کہنے لگے کہ ‘’میرا مقصد یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو ہندوستان میں فنا کر دوں’‘- میں نے ان کے اس تعصب کی مذمت کی اور ان کے اور اپنے مسلمان دوستوں کا ذکر کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘’ہاں میں بھی انہیں پسند کرتا ہوں لیکن مجھے زیادہ اچھا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مر جائیں’‘-۳۳؎ ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر حصہ ہندو لیڈروں کا خواہ انگریزی علاقہ کے ہوں یا ریاستوں کے (۱) مسلمانوں سے شدید تعصب رکھتے ہیں- (۲) وہ علے الاعلان یہ ارادہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ان کو طاقت حاصل ہوئی تو وہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں گے (۳) وہ ہندوستان میں صرف ہندو راج قائم کریں گے- (۴) عیسائیوں اور مسلمانوں سے وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دیں گے- اور اس اجازت کے ساتھ یہ شرط ہوگی کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو ہو جائیں- (۵)وہ مسلمانوں کی زبان کو مٹا دیں گے- (۶) وہ اقلیتوں کے تہواروں کو قانونا ناجائز کر دیں
۳۰۰ گے- (۷) ان کی عبادتوں کو بدلائیں گے- (۸) گائے کے ذبیحہ کو بزور شمشیر روک دیں گے- (۹) تبلیغ کو ناجائز کر دیں گے- (۱۰) اگر کوئی ہندو اقلیت کے مذہب کو قبول کرنے لگے گا تو ہندو اس سے روکیں گے لیکن اگر وہ باز نہ آیا تو ہندو کٹ کر مر جائیں گے- (۱۱) افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے انہیں شدھ کر لیا جائے گا- (۱۲) مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کر دیا جائے گا- (۱۳) مسلمانوں کے اسلامی نام تک بدل دیئے جائیں گے- (۱۴) جو لوگ ہندو زبان، ہندو مذہب اور ہندو تہذیب اور ہندو تہوار اختیار کرنے کو تیار نہ ہوں گے انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے گا- (۱۵) اگر کوئی شخص خواہ مہاتما گاندھی ہی کیوں نہ ہوں اسلام اور مسلمانوں سے نرمی کی تعلیم دے گا تو اس کا بھی ہندو بائیکاٹ کر دیں گے- یہ ارادے ہیں جو سوراج کے قیام پر ہندو مسلمانوں کے متعلق خصوصاً اور دوسری اقلیتوں کے متعلق عموماً رکھتے ہیں- جو ان کا موجودہ سلوک ہے اس کا ذکر پہلے کر آیا ہوں- کیا ان کی موجودگی میں کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے یا یہ کہ ایسا مطالبہ ڈیماکریسی (DEMOCRACY)کے اصول کے خلاف ہے- کیا اس قدر سخت سلوک اور اس قدر خطرناک ارادوں کی موجودگی میں دنیا کی کسی اور اقلیت نے بھی اس قدر نرم مطالبے کیے ہیں جس قدر کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش ہوتے ہیں؟ میں اس جگہ یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز یہ نہیں سمجھتا کہ سب کے سب ہندو مذکورہ بالا خیالات میں مبتلا ہیں- ان میں یقیناً ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ان خیالات کو اسی طرح حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس طرح اقلیتوں کے لوگ- چنانچہ بعض ہندوصاحبان نے ان خیالات کے خلاف اظہار نفرت کیا بھی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ طبقہ بہت تھوڑا اور دوسرے گروہ کے مقابلہ میں کم اثر رکھنے والا ہے- ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا آ جائے کہ ہندوؤں کے دل سے تعصب اور کینہ نکل جائے اور وہ اپنے اس مرض سے صحت پا جائیں جس کی وجہ سے اپنی قوم کے سوا ہر قوم انہیں گردن زدنی نظر آتی ہے- لیکن جب تک وہ دن آئے اس وقت تک نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کا کوئی سامان ہو-
۳۰۱ باب ششم اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر کے اصول سائمن کمیشن نے اس اختلاف کو تسلیم کیا ہے جو اکثریت اور اقلیت میں ہے لیکن بوجہ غیرملکی ہونے کے وہ لوگ اس کی پوری کیفیت کو معلوم نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے وہ اس کا صحیح علاج تجویز کرنے سے قاصر رہے ہیں- انہوں نے اختصار کے ساتھ ہندو مسلمانوں کو جھگڑے کا جو گائے اور باجہ کے متعلق ہوتا ہے ذکر کیا ہے لیکن وہ یہ معلوم نہیں کر سکے کہ یہاں صرف گائے کا سوال نہیں بلکہ اس اقتصادی اور تمدنی بائیکاٹ کا سوال ہے جو عرصہ دراز سے ہندومسلمانوں کا کرتے چلے آئے ہیں- کمیشن کو اس اختلاف کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کیونکہ اس کے اہم فرائض میں سے ایک یہ فرض بھی تھا کہ وہ ایسے قوانین تجویز کرے جو اس اختلاف کے برے نتیجوں سے دونوں قوموں کو محفوظ رکھیں- لیکن جب تک اختلاف کی حقیقت اور اس کی گہرائی کو اہل کمیشن معلوم نہ کرتے وہ علاج کس طرح تجویز کر سکتے تھے- انہوں نے صرف گائے اور باجے کے سوال کو لے لیا اور اس پر غور نہیں کیا کہ گائے کا سوال ہندو سنگھٹن کی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے اور یہ کہ اس سوال نے موجودہ صورت صرف اسلامی حکومت کے آخری ایام میں اختیار کی ہے بلکہ اب تک بھی بعض ہندو اقوام ہندوستان میں ایسی موجود ہیں جو گائے کا گوشت کھا لیتی ہیں گو اس سیاسی ایجی ٹیشن کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے- کمیشن کو اس منظم بائیکاٹ کی حقیقت کو معلوم کرنا چاہئے تھا جو مسلمانوں کا ہر شعبہ زندگی میں کیا جا رہا ہے- کیا تجارت اور کیا تمدن اور کیا ملازمت اور کیا اقتصادیات ایک بھی تو شعبہ ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کو مذہب یا حفظان صحت یا اقتصاد کے نام سے نقصان نہیں پہنچایا جاتا- پس اصل غرض سیاسی برتری کا حصول ہے- گائے کے سوال کو ہی لے لو- اگر تو صرف
۳۰۲ جہلاء کا معاملہ ہوتا تو ہم کہتے کہ بوجہ گائے کو پوجنے کے انہیں جوش آ جاتا ہے لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سوال میں ویسے ہی جوش سے حصہ لیتے ہیں جس طرح کہ جہلاء اور ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس موقع پر جوش میں آ جاتے ہیں جو گائے کے کھانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے- اس وقت سیاسی تحریک کی باگ ڈور زیادہ تر غیر ممالک میں تعلیم پانے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور یورپین لوگ اس امر کو خوب جانتے ہیں کہ جس وقت یہ لوگ یورپ میں آتے ہیں تو ان میں سے اکثر بلکہ نوے فیصدی سے زیادہ گائے کا گوشت خوب کھاتے ہیں- میں نے جب ۱۹۲۴ء میں ولایت کا سفر کیا تو میرے ایک سیکرٹری صاحب نے یہ دیکھ کر کہ ویٹر (WAITER) ہمیشہ سور کا گوشت ہی سامنے لاتا ہے اور واپس کرنے پر بہت حیران ہوتا ہے- اسے سمجھایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ہمارے سامنے سور کا گوشت پیش ہی نہ کیا کرو- ان کے ساتھ ایک ہندو صاحب بیٹھا کرتے تھے اور ہندو مذہب کے متعلق خوب بحثیں کیا کرتے تھے ان کے متعلق بھی کہہ دیا کہ یہ صاحب گائے کا گوشت نہیں کھاتے ان کے سامنے گائے کا گوشت نہ لایا کرو- وہ صاحب اس وقت تو خاموش ہو رہے لیکن ایک دو دن میں ہی اس محرومی کی تاب نہ لا سکے اور صاف کہہ دیا کہ میں اپنے کھانے کے متعلق خود ہدایت دے لوں گا آپ کو اس سے کچھ تعلق نہیں اور پھر بڑے شوق سے گائے کا گوشت منگوا کر کھانے لگ گئے- لیکن کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جس وقت یہ لوگ ہندوستان آتے ہیں تو گائے کے سوال پر سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں- میں انسانی کمزوری کو تسلیم کرتا ہوں لیکن یہ کیسی انسانی کمزوری ہے کہ جس فعل کا انسان خود مرتکب ہوتا ہے اس کے ارتکاب پر دوسرے انسان کا خون بہانا بھی جائز قرار دیتا ہے- اسی طرح آریہ سماج جو اپنے آپ کو موحد قرار دیتی ہے وہ گائے کے معاملہ میں سب ہندوؤں سے بڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جب اس پر اس فعل کی حماقت ظاہر کی جاتی ہے تو وہ یہ جواب دیتی ہے کہ یہ سوال اقتصادی سوال ہے- کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پنجاب میں زمیندارہ تو زیادہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور ہندو شہری لوگ ہوں جن پر زمیندار کی مشکلات کا اثر سب سے کم پڑتا ہے لیکن سب سے زیادہ اس اقتصادی مسئلہ کے لئے جوش انہیں کو آتا ہے- اور پھر کون عقلمند اس امر کو تسلیم کرے گا کہ ایک گائے کا ذبح کرنا تو ملک کے اقتصادیات پر بہت برا اثر ڈالتا ہے لیکن اس کے بدلہ میں آدمیوں کو قتل کر دینا ملک کی اقتصادی حالت کو
۳۰۳ کوئی نقصان نہیں پہنچاتا؟ غرض یہ عذر بالکل نامعقول ہے اور اصل بات یہی ہے کہ گائے کے سوال کو قوم کے جمع کرنے کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے- اس وجہ سے موحد اور گائے خور بھی اس امر پر جمع ہو جاتے ہیں بلکہ گائے خور اور موحد اس معاملہ میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں اور گائے کی عبادت کرنے والوں کو بھڑکانے کا اصل موجب وہی ہوتے ہیں- اگر کمیشن اس حقیقت کو معلوم کرتا تو وہ کبھی ہندو مسلم سوال کو اس سرسری نگاہ سے نہ دیکھتا جس سے کہ اس نے دیکھا ہے اور کبھی ان حفاظتی تدابیر کو جو اس اختلاف کے خطرناکنتائج سے بچنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں- اس طرح بغیر کافی توجہ دینے کے چھوڑ نہ دیتا- جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقلیتوں اور اکثریت کا فیصلہ کرتے وقت ہمیں ان اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے جو حکومت کے قیام کا باعث ہوتے ہیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت کا اصل مقصد یہ ہے-: ۱ افراد کو ایک دوسرے کے حقوق میں دخل اندازی سے روکنا- ۲ افراد اور جماعت اور ملک کو حکومت سے باہر کے لوگوں کی دست اندازی سے بچانا اور ان پر دست اندازی کرنے سے روکنا- ۳ ایسے ذرائع اختیار کرنا جو ملک کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں- ۴ ان ذرائع کی تکمیل کیلئے ملک سے بحصہ رسدی بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکس وصول کرنا- ۵ ایسا انتظام کرنا کہ افراد یا حکومت کے خلاف قانون توڑنے والوں کے جرم کی صحیح طور پر اور انصاف سے تشخیص اور تعیین کی جا سکے- دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی غرض یہ ہے کہ وہ افراد کے فائدے کیلئے (۱) قانون سازی کرے- (۲) قانون کا نفاذ کرے- (۳) قانون شکن کی ذمہ واری کی تعیین کر کے اسے سزا دے- یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ حکومت کی غرض عدل و انصاف سے کام کرنے والی (۱) لیجسلیٹو (۲) ایگزیکٹو (۳) اور قضاء کا قیام ہے- اس کے سوا حقیقی حکومت کی غرض اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ حقیقی حکومت وہ ہے جو افراد کی مرضی سے قائم ہو اور کونسا فرد ہے جو یہ کہے گا کہ ایسی حکومت قائم کرو جو میرے
۳۰۴ حقوق کو قانون سازی یا اطلاق قانون یا قضاء میں سے کسی شعبہ میں یا سب شعبوں میں تلف کر دے- پس ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی بناتے وقت ہمیں ملحوظ رکھنا ہوگا کہ آئین ایسا ہو کہ جس میں ناواجب طور پر افراد یا جماعتوں کے حقوق تلف نہ ہو سکیں اور حکومت کا فائدہ سب ملک کو پہنچے نہ کہ کسی خاص جماعت کو خواہ وہ اقلیت ہو یا اکثریت- اگر مذکورہ بالا اصل صحیح ہے تو آئین اساسی مختلف ممالک کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہوں گے کیونکہ اس ملک کے افراد کے خاص حالات کو ان میں مدنظر رکھا جائے گا- اگر فرض کرو کہ ایک ملک میں بعض افراد کو اپنی زبان کے متعلق خطرہ ہے تو اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ ان کی زبان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے- اگر مذہب کو خطرہ ہے تو مذہب کا لحاظ رکھا جائے گا- اگر فرض کرو کہ نئی قائم ہونے والی حکومت کے افراد بحیثیت افراد نہیں بلکہ بحیثیت جماعت کے اس نظام میں شامل ہوئے ہیں اور انہیں اپنے اندرونی نظام کے متعلق خطرہ ہے تو ان کے اندرونی نظام کی حفاظت کا خیال رکھا جائے گا- غرض چونکہ جمہوری حکومت افراد یا جماعتوں کی مرضی سے قائم ہوتی ہے حکومت کے نظام میں اس ملک کی ضرورت کے لحاظ سے ایسی حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں گی کہ جن سے افراد یا جماعتوں کے حقیقی یا جائز خوف کا ازالہ ہو سکے تا کہ وہ بشاشت قلب کے ساتھ نظامحکومت کو چلانے کیلئے تیار ہوں جس کے بغیر کوئی حکومت بھی کامیاب نہیں ہو سکتی- اب اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہندوستان کی حالت کو دیکھتے ہیں کہ آیا اس میں آئین حکومت کے قیام کے وقت حفاظتی تدابیر کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کن کن تدابیر کی؟ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں بہت سی اقلیتیں ہیں جن میں سے سب سے زبردست مسلمان ہیں- اور دوسرے نمبر پر مسیحی اور قومی لحاظ سے انگریز- میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ اکثریت اور اقلیت کا اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اکثر اقلیتیں اسے نظر انداز کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں- پس اگر ہندوستان میں صحیح معنوں میں جمہوری حکومت قائم کرنی ہے تو افراد یا جماعتوں کی حفاظت ضروری ہے- اس امر کا فیصلہ کہ کس حد تک اور کن کن امور میں حفاظت ضروری ہے ان اصول پر ہونا چاہئے- ۱ کیا افراد یا مجموعہ افراد کا خوف حقیقی ہے یا وہمی یا بناوٹی؟
۳۰۵ ۲ اس خطرہ کے پیدا ہونے کی ذمہ داری اقلیت پر ہے یا اکثریت پر؟ ۳ جن امور کے متعلق اقلیت خوف کرتی ہے کیا وہ قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں؟ ۴ جن امور کے متعلق اقلیت خوف کرتی ہے کیا انہیں قربان نہیں کیا جا سکتا؟ ۵ جن امور کے متعلق اقلیت حفاظت چاہتی ہے کیا ان کے متعلق حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا نظام کو باطل اور حکومت کو تباہ تو نہیں کرتا؟ ۶ اقلیت جن حفاظتی تدابیر کا مطالبہ کرتی ہے کیا ان سے اکثریت یا دوسری اقلیتوں کے حقوق کو تو نقصان نہیں پہنچتا؟ یہ چھ اصول ہیں جنہیں میرے نزدیک اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق کے فیصلہ کے وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اب میں ان اصول کی روشنی میں اصولی طور پر ہندوستان کی اقلیتوں کے سوال کو لیتا ہوں- پہلا اصل یہ ہے کہ کیا اقلیتوں کا خوف حقیقی یا وہمی یا بناوٹی تو نہیں؟ اس سوال کا حل اس لئے ضروری ہے کہ اگر خوف وہمی ہو تو اس وہم کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر ازالہ ہو جائے تو سب جھگڑا ختم ہو جاتا ہے- اگر ازالہ نہ ہو تو پھر ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ چونکہ خوف وہمی ہے ہم حفاظتی تدابیر کو کم سے کم درجہ تک اختیار کریں تا کہ آئین اساسی بلاوجہ پیچیدہ نہ ہو- (یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت میرے مدنظر یہ امر ہے کہ ہندوستان کا فیصلہ کرتے وقت ایک تیسری قوم بطور جج یا مشیر کار کے شامل ہوگی اس لئے لازماً اس بحث میں اس فریق کو مدنظر رکھنا پڑے گا)- اگر خوف بناوٹی ہو تو اس کی حقیقت معلوم کر کے ہمیں نظر انداز کر دینا چاہئے- اگر حقیقی ہو تو ہمیں اس کے دور کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے- کیونکہ اقلیت کی تباہی جمہوریت کے اصول کے ویسے ہی خلاف ہے جیسے کہ اکثریت کی تباہی- ہندوؤں کے افعال اور ان کے ارادوں کو بالتفصیل لکھ کر میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں اور انگریزوں (میں ہر جگہ اینگلو انڈین کو اس لفظ میں شامل سمجھوں گا) کا خوف حقیقی ہے پس ان کے خوف کا علاج ضروری ہے- گو ہندوستانی مسیحیوں میں سے ایک معقول تعداد کسی حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں سمجھتی لیکن ان کے متعلق بھی خوف حقیقی ہے- لیکن وہ خود حفاظت نہ چاہیں تو زبردستی ان کے لئے ایسی تدابیر کا اختیار کرنا عقل کے خلاف ہوگا-
۳۰۶ اب ایک اقلیت رہ گئی ہے جس کا میں نے اب تک ذکر نہیں کیا- اس اقلیت کے خوف میرے نزدیک بناوٹی ہیں اور صرف زائد حقوق لینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں یہ اقلیت سکھوں کی ہے- سکھ تمدنی طور پر ہندوؤں کا ایک حصہ ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں آپس میں چھوت چھات نہیں، ان میں سے بعض آپس میں رشتہ داریاں بھی کر لیتے ہیں، بہت سے ہندو تہواروں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، بعض ان میں سے مقدس ہندو جگہوں کی زیارت کیلئے بھی جاتے ہیں- غرض تمدنی طور پر سکھ ہندوؤں کا حصہ ہیں گو مذہباً وہ بہ نسبت ہندوؤں کے مسلمانوں کے بہت زیادہ قریب ہیں- ان کے تمدنی طور پر ہندوؤں کا حصہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ جبکہ ہندو ملازمتوں وغیرہ میں مسلمانوں کو باہر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں سکھوں سے ان کا یہ سلوک نہیں ہے- ہندو انجنیئروں کی بدولت مسلمان ریلوے اور نہروں اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ٹھیکوں سے قریباً محروم ہیں لیکن ان محکمہ جات میں ٹھیکہ داری کا کام سکھوں کو اسی طرح مل جاتا ہے جس طرح ہندوؤں کو اور اس کی بدولت سکھ اکثر بڑے بڑے مالدار ہیں- غرض اقتصادی اور تمدنی بائیکاٹ سے یہ لوگ مستثنیٰ ہیں- پس ان کا ہندوؤں سے الگ ایک اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں- اول تو یہ لوگ تمدنی، سیاسی یا اقتصادی طور پر اقلیت کہلا نہیں سکتے کیونکہ ان تینوں امور میں یہ ہندوؤں کے ساتھ کامل یگانگت رکھتے ہیں- دوسرے اس لئے کہ اگر یہ اقلیت ہوں بھی تو وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ کسی شعبہ زندگی میں ان سے بے انصافی ہوئی ہے اپنے حق سے زیادہ ہی ہر چیز ان کو مل رہی ہے- پنجاب کی آبادی میں یہ چودہ فیصدی ہیں لیکن بیس فیصدی حق لے رہے ہیں- ان حالات میں ان کا اپنی زیست کے متعلق خوف ظاہر کرنا میرے نزدیک درست نہیں- لیکن اگر یہ قوم بھی واقعات سے یا دوسری قوموں کے ارادوں سے یہ ثابت کر دے کہ ان کے ساتھ دشمنی کی جاتی ہے اور ان کے حقوق تلف کئے جاتے ہیں یا ان کے تلف کئے جانے کا حقیقی خوف ہے تو اپنے حق اور خوف کے مطابق حفاظت کے یہ بھی ویسے ہی حق دار ہیں جیسے کہ اور اقلیتیں ہیں اور کسی کا حق نہیں کہ انہیں ان کے جائز مطالبات سے محروم رکھنے کی کوشش کرے- دوسرا اصل جسے آئین اساسی کے تجویز کرتے وقت مدنظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ
۳۰۷ اقلیتوں کو جو خطرہ پیدا ہوا ہے اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس امر کی تحقیق اس لئے ضروری ہوتی ہے تا اقلیتیں جان بوجھ کر کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے اکثریتیں ان کے خلاف بھڑک اٹھیں اور اس طرح وہ یہ ثابت کرنا چاہیں کہ انہیں اکثریت سے صحیح طور پر خطرہ ہے اور اس وجہ سے وہ خاص حفاظت کی مستحق ہیں- اگر اس اصل کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی بھی قومیت کی روح ملک میں پیدا نہ ہو سکے گی اور بعض خود غرض لوگ اقلیتوں کو بھڑکا بھڑکا کر ملک کے امن کو برباد کرتے رہیں گے- جیسا کہ ٹرکی کی حکومت میں ہوتا رہا ہے کہ پہلے تو بعض حکومتیں ذاتی اغراض کے ماتحت مسیحی اقلیتوں کو جوش دلا کر کوئی شرارت کروا دیتی تھیں پھر جب ترک انہیں سزا دیتے تھے تو وہی حکومتیں بیج میں آ کودتی تھیں کہ اقلیتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے ان کی حفاظت ہونی چاہئے- اس طرح حفاظتی تدابیر کراتے کراتے ایک دن ان علاقوں کو آزاد کروا دیا گیا- میں گو مسلمانوں کی تائید میں لکھ رہا ہوں لیکن میں یہ کبھی پسند نہیں کروں گا کہ یہی صورت ہندوستان میں پیدا ہو اور کوئی اقلیت خواہ مسلمانوں کی ہی کیوں نہ ہو اپنے جائز حق سے متجاوز ہو کر اکثریت کو جوش دلا دے اور پھر اس امر کا مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں خاص حقوق ملنے چاہئیں تا کہ ہمارے حقوق کی حفاظت ہو- اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک ہندوستان کی اقلیتوں کو جو خطرات ہیں وہ ان کے اپنے پیدا کئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری اکثریت پر ہے- مثلاً ملازمتوں کو لے لیا جائے اس بارہ میں کوئی امکان ہی نہیں ہو سکتا کہ مسلمان ہندوؤں کو بھڑکائیں یا تعلیمی درسگاہوں کو لے لیا جائے ان میں جو مسلمانوں کو پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا بعض عدالتوں تک میں جو مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اگر بعض ججوں کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو یہاں تک نظر آتا ہے کہ ایک ہی قانون اور ایک ہی قسم کے حالات کے ماتحت مسلمان مدعی ہے تو اور فیصلہ ہے اور ہندو مدعی ہے تو اور فیصلہ ہے- یا چھوت چھات کی جاتی ہے یا تجارتی بائیکاٹ جو کیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ مسلمان سات سو سال تک ہندوؤں کے ہاتھ کا کھاتے رہے ہیں اور ان سے سودے خریدتے رہے ہیں- اس ایذا دہی کی کوئی وجہ مسلمانوں کی طرف سے پیدا نہیں ہوئی- ذبح گائے پر جو شور کیا جاتا ہے اسے بھی جائز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ گائے کا ذبح کرنا یا کھانا مسلمانوں کا ذاتی فعل ہے- اس سے ہندوؤں کو کوئی تعلق نہیں
۳۰۸ ہے- اگر مسلمان ہندوؤں کی گائیں پکڑ کر ذبح کرتے یا ان کو ان کا گوشت کھانے پر مجبور کرتے تو اس صورت میں اس فساد کے موجب مسلمان کہلاتے اور ہندو ہر طرح حق بجانب ہوتے- جب ایسا نہیں تو گائے کے ذبح کرنے پر فساد کرنا مسلمانوں کے حق میں دخل اندازی کرنا ہے- اگر مسلمان جن کے مذہب میں سود لینا اور دینا سخت منع ہے یا سور کھانا منع ہے بنکوں کو گرانے یا سور کھانے والوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں تو اسے کون جائز قرار دے گا- اسی طرح اسلام کو اور بانی اسلام کو جو گالیاں ہندو مذہبی مصنفین کی طرف سے دی جاتی ہیں اور تبلیغ کو روکنے اور خالص ہندو راج کے قائم کرنے اور اسلامی زبانوں کو ہی نہیں بلکہ الفاظ کو بھی ملک سے نکال دینے کے جو منصوبے اکثر ہندو لیڈروں کی طرف سے ظاہر ہوئے ہیں ان کا باعث ہرگز مسلمان نہیں کہلا سکتے- غرض جو خطرات ہندوستان کی اقلیتوں کو ہیں وہ ان کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اکثریت کے ہیں اس لئے اقلیتوں کی شکایت بجا ہے اور خاص توجہ کی مستحق ہے- اگر اصولاً دیکھا جائے تو بھی ذمہ داری اکثریت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سائمن کمیشن نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ ہندو مسلم فسادات کی اصل وجہ پولیٹیکل ہے- وہ لکھتے ہیں-: ‘’ہمارے نزدیک اصل سبب (ان فسادات کا(سیاسی طاقت کے حصول کی کوشش اور ان فوائد کو حاصل کرنا ہے جو سیاسی طاقت کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں’‘- ۳۴؎ اور یہی امر صحیح ہے جیسا کہ میں بھی ثابت کر چکا ہوں اور اگر یہ امر صحیح ہے تو ہر ایک یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ فسادات کا فائدہ اقلیت کو نہیں بلکہ اکثریت کو حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ اکثریت کے سامنے آزادی کا خیال ہوتا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اقلیت کو کمزور کر کے اپنی طاقت اس قدر بڑھائے کہ اقلیتیں اس کی آزادانہ حکومت میں روک نہ بن سکیں اور وہ پورے طور پر اپنے منشاء کے مطابق حکومت کر سکے- تیسرا اصل میں نے یہ بتایا تھا کہ اقلیتوں اور اکثریت کا تصفیہ کرتے وقت اس امر کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اقلیت جن امور میں حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے کیا وہ امور قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں کیونکہ اگر وہ غیر ضروری امور ہوں تو انہیں آئین اساسی میں لانا اسے بلاوجہ پیچیدہ کر دیتا ہے- اس صورت میں ہمارا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اقلیت کو سمجھائیں کہ وہ خواہ مخواہ ان پر زور نہ دے اور ایسے چھوٹے امور جن میں تغیر سے نہ اقلیت کو
۳۰۹ نقصان ہے اور نہ اکثریت کو کوئی فائدہ ہے ان کے متعلق یونہی یہ شبہ نہ کرے کہ اکثریت ان میں جبر سے کام لے گی اور اگر اکثریت ایسا کرے بھی تو چونکہ وہ غیر ضروری ہیں اقلیت کو ان میں صبر سے کام لے کر ملک کی فضاء کو درست بنانے کی کوشش کرنی چاہئے- اب میں مسلمانوں کے مطالبات پیش کرتا ہوں تا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا وہ امور قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں؟ مسلمانوں کے مطالبات یہ ہیں-: ۱- ہندوستان کی آئندہ حکومت اشتراکی اصول پر ہو- یعنی مرکزی حکومت کو صوبہ جات سے اختیار ملیں نہ کہ مرکزی حکومت سے صوبہ جات کو اور سوائے ان امور کے جو سارے ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کا اختیار صوبہ جات مرکزی حکومت کو دیں باقی سب امور صوبہ جات کے قبضہ میں رہیں- ۲- سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو بھی دوسرے آزاد صوبوں کی طرح حکومت دی جائے اور سندھ کو بمبئی سے آزاد کر کے نیا صوبہ بنایا جائے اور اسے بھی آزاد صوبوں کے برابر حقوق دیئے جائیں- ۳- اس امر کا انتظام کر لیا جائے کہ تمام اقوام کی نمائندگی ان کی تعداد کے مطابق ہو- سوائے اس کے کہ کوئی اقلیت بہت کمزور ہو اور اس کے ہر قسم کے مفاد کی نمائندگی کے لئے ضروری ہو کہ اسے کچھ زائد نشستیں دے دی جائیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اکثریت کی اکثریت نہ جاتی رہے یا بے اثر نہ ہو جائے- ۴- مرکزی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی اتنی ہو کہ ان کی مرضی کے خلاف قانوناساسی کو تبدیل نہ کیا جا سکے- ۵- قوم وار نمائندوں کا انتخاب جاری رکھا جائے جب تک کہ حقیقی یا عملی اقلیتیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع نہ حاصل کر لیں- ۶- گورنمنٹ، مذہب، تبلیغ یا تبدیلی مذہب کو کسی حد بندی یا پابندی کے نیچے نہ لائے- نہ یہ اجازت ہو کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جس کی غرض ہندوستان کی کسی خاص قوم کے افراد کے حقوق یا اس کی تمدنی یا اقتصادی یا ادبی آزادی کو محدود کرنا ہو- نہ وہ ایسا قانون بنائے جس کی غرض کسی خاص قوم کے افراد کو خاص اختیار دے کر کسی دوسری قوم یا اقوام سے ممتاز کرنا ہو-
۳۱۰ ۷- گورنمنٹ کو کسی قوم کے اہلی قانون (PERSONAL LAWS)میں اس وقت تک دخل دینے کی اجازت نہ ہو جب تک کہ اس قوم کے اپنے منتخب نمائندوں کی اکثریت اس کی تائید میں نہ ہو اس مزید شرط کے ساتھ کہ وہ نمائندے اس خاص مسئلہ کی تائید کا اظہار انتخاب کے وقت کر چکے ہوں- ۸- اس امر کی حفاظت کر لی جائے کہ اقلیتوں کو مخفی یا ظاہر تدابیر کے ذریعہ سے ملازمت کے مناسب حق سے اکثریت محروم نہیں کرے گی اور اقلیتوں کو ان کا واجبی حصہ ملتا رہے گا- ۹- ہندوستان کے آئین اساسی کو ایسی شکل دی جائے کہ اقلیتوں کے منشاء یا صوبہ جات کے منشاء کے خلاف اس میں تبدیلی نہ ہو سکے- ۱۰- صوبہ جات کی حدود میں تبدیلی آئندہ بغیر صوبہ متعلقہ کی مرضی کے نہ ہو سکے- یہ وہ دس مطالبات ہیں جو مختلف شکلوں میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور چونکہ ان میں سب اقلیتوں کے حقوق آ جاتے ہیں اس لئے جہاں تک میں سمجھتا ہوں قلیل تغیر کے ساتھ ان تمام اقلیتوں کے یہ مطالبات ہیں کہ جو اس وقت اکثریت سے خائف ہیں- چنانچہ کلکتہ میں پچھلے دنوں جو انگریزوں کی آل انڈیا کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی اوپر کے مطالبات میں سے اکثر کی تائید کی گئی ہے- ان مطالبات پر ایک سرسری نظر ڈال کر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مطالبہ قومی یا انفرادی ترقی کے لئے ضروری ہے- سوائے مذہبی یا تمدنی حصہ کے کہ شاید سیاسی نقطہ نگاہ سے اسے قومی یا فردی ترقی کا ذریعہ بعض لوگ تصور نہیں کرتے بلکہ اسے قومی ترقی میں روک سمجھتے ہیں لیکن اس حصہ کی حفاظت اگلے اصل میں آ جاتی ہے- چوتھا اصل میں نے یہ بتایا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے وقت یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جن امور کی حفاظت کا وہ مطالبہ کرتی ہیں کیا انہیں ملک کے فائدہ کے لئے قربان نہیں کیا جا سکتا؟ اس اصل کو مدنظر رکھنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ جہاں بعض ایسے امور ہو سکتے ہیں کہ جنہیں قربان کیا جا سکتا ہے وہاں بعض ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں کہ خواہ دوسرے لوگوں کے نزدیک وہ قومی یا فردی ترقی کے لئے ضروری نہ ہوں لیکن جس قوم یا فرد سے وہ متعلق ہیں وہ اپنے عقیدہ کے مطابق انہیں کسی صورت میں قربان نہیں کر سکتا- مذہبی یا تمدنی مسائل بھی اس قسم کے ہیں کہ دوسرے لوگ انہیں ضروری نہ سمجھتے ہوں لیکن جن اقوام سے وہ تعلق رکھتے
۳۱۱ ہیں وہ انہیں اپنی روحانی یا اہلی زندگی کے لئے مادی امور سے بھی زیادہ ضروری سمجھتی ہیں اور وہ کبھی کسی ایسے نظام حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتیں جو ان مسائل میں دخل اندازی کرتا ہو- پس جب کسی اقلیت کو اکثریت سے یہ خطرہ ہو کہ وہ ایسے امور میں دخل اندازی کرے گی تو وہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ ان امور میں اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے- ہندوستان کے سوال کو حل کرتے ہوئے اس اصل کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ ہندوستان میں اقلیتوں کو ان امور میں بھی اکثریت کی دخل اندازی کا خطرہ ہے- وہ صاف طور پر آئندہ مذہبی تبلیغ یا تبدیلی مذہب میں دخل اندازی کی دھمکی دے چکی ہے اور بہت سی ہندو ریاستوں میں عملاً ایسا ہو رہا ہے جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں- اسی طرح گائے کی قربانی یا اس کے ذبیحہ کے متعلق بھی ریاستوں اور میونسپلٹیوں میں قواعد بن چکے ہیں اور آئندہ کیلئے دھمکی دی جا رہی ہے اور کل کو ممکن ہے کہ ورثہ، شادی وغیرہ کے متعلق بھی اکثریت قواعد تجویز کرنے لگے- پس ضروری ہے کہ ان امور کے متعلق بھی اقلیت کی حفاظت کا سامان کیا جائے- پانچواں اصل جسے اقلیتوں کی حفاظت کا فیصلہ کرتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ اقلیتیں جن امور میں حفاظت چاہتی ہیں کیا ان کے متعلق حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا کسی نظام کو باطل اور حکومت کو تباہ تو نہیں کر دیتا؟ اس اصل کو مدنظر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر اقلیتوں کی تدابیر حکومت کو ہی برباد کرنے والی ہوں تو پھر انہیں اختیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس صورت میں آئین اساسی تیار کرنے کے سوال کو ہی ترک کر دیا جائے گا- یا پھر اقلیتوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے دعویٰ کو حد سے آگے نہ بڑھائیں- چھٹا اصل یہ ہے کہ کوئی اقلیت اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایسے مطالبات نہ کرے جن سے کسی اور قوم کا کوئی ایسا حق جو بحیثیت قوم اسے حاصل تھا، تلف ہوتا ہو- اس اصل کی اہمیت تو ظاہر ہی ہے- جس طرح اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اکثریت کے قومی حقوق کی بھی حفاظت کی جائے اور یہ کہ ایک اقلیت کے حق کی دوسری اقلیت کے حق کے مقابلہ میں حفاظت کی جائے- مسلمانوں کے مطالبات کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے کہ جس سے اکثریت یا دوسری اقلیتوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہو- بلکہ وہ سب ایسے مطالبات ہیں کہ اکثریت کو ان سے کوئی نقصان نہیں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کی بھی ان میں برابر کی حفاظت مدنظر رکھی گئی ہے-
۳۱۲ باب ہفتم ہندوستانی اقلیتوں کے مطالبات اصول ِآئینی کے خلاف نہیں ان اصول کو بیان کرنے کے بعد جو اقلیتوں کے متعلق حفاظتی تدابیر کا فیصلہ کرتے ہوئے مدنظر رکھنے چاہئیں، میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی اقلیتوں کے جو مطالبات ہیں وہ اصولی طور پر ان آئینی اصول کے خلاف نہیں ہیں جو مختلف مہذب ممالک میں تسلیم کئے جا چکے ہیں اس لئے بادی الرائے میں انہیں رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ مناسب طریق پر ان کا ہندوستان کے آئندہ آئین اساسی میں شامل کیا جانا ضروری ہے- میں اس وقت تفصیلی بحث میں نہیں پڑوں گا کیونکہ وہ بحث اسی وقت مناسب ہوگی جب ان اصول کو عملی شکل دینے کے متعلق جو تجاویز پیش ہو چکی ہیں یا میں خود پیش کروں گا ان کی خوبی یا بُرائی زیر بحث آئے گی- فی الحال میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر ایک مطالبہ جو ہندوستان کی اقلیتیں کرتی ہیں ان کی مثال مختلف ممالک کے آئین اساسی میں ملتی ہے جس کی وجہ سے ہم ان مطالبات کو خلاف اصول نہیں کہہ سکتے- ذاتی طور پر تو میں اس امر کا قائل نہیں کہ جو امر کسی پہلے آئین اساسی میں نہ پایا جاتا ہو وہ ضرور خلاف اصول اور مضر ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جو بات ہم سے پہلے لوگوں کو نہیں سوجھی وہ ہمیں بھی نہ سوجھے- لیکن چونکہ لوگوں نے یہ عادت بنا لی ہے کہ بجائے بات کی معقولیت دیکھنے کے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسلمہ معقول آدمیوں نے اسے قبول کیا ہے یا نہیں اس لئے میں دنیا کے مختلف آئینی مسودات سے یہ ثابت کرتا ہوں کہ یہ سب کے سب مطالبات معقول تسلیم کئے جا چکے ہیں اور حسب ضرورت مختلف ممالک کے آئین اساسی میں شامل ہیں-
۳۱۳ اول مطالبہ مکمل فیڈرل کانسٹیٹیوشن (FEDERAL CONSTITUTION) کا ہے- اس کے متعلق یہ کہہ دینا کافی ہے کہ دنیا کی قریباً سب نئی حکومتیں یا نئے نظام فیڈرل اصول پر ہی طے ہو رہے ہیں پس اس مطالبے کو ملک و حکومت کے مفاد کے خلاف نہیں کہا جا سکتا- دوسرے مطالبہ کا ایک حصہ سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مطابق حق دینے کا ہے- یہ مطالبہ بھی ملک و حکومت کے مفاد کے خلاف نہیں کیونکہ دنیا کی کوئی آئینیحکومت ایسی نہیں جس میں سب حﷺ ملک کو یکساں حقوق نہ دیئے گئے ہوں- دوسرا حصہ اس مطالبہ کا سندھ کی آزادی کا ہے- اس حصہ کو بھی نظام یا حکومت کی تباہی کا موجب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دس گیارہ صوبوں میں ایک اور صوبہ کی زیادتی ہر گز نظامحکومت کو تباہ نہیں کر سکتی اور نہ قانون اساسی کے اصول میں نئے صوبوں کے قیام کے خلاف کوئی بات پائی جاتی ہے- تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہر قوم کے لئے اس کی تعداد کے مطابق نمائندگی کا انتظام کیا جائے- یہ مطالبہ بھی کسی صورت میں حکومت کو کمزور کرنے کا موجب نہیں ہے کیونکہ اصولنیابت کی تکمیل ہی اس اصل پر مبنی ہے کہ ہر جماعت اپنی تعداد کے مطابق حقوق حاصل کر سکے- چنانچہ آئے دن انتخاب کے نئے سے نئے قواعد جو تیار ہوتے رہتے ہیں تو ان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مختلف جماعتوں کی نیابت ان کی تعداد کے مطابق ہو سکے- چنانچہ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے پروپورشنل ریپریزنٹیشن (PEROPORTIONAL REPRESENTATION) (یعنی نیابت مطابق تعداد) کا اصول ایجاد کیا گیا ہے اور اسے اس قدر ترقی دی گئی ہے کہ اس وقت تک کئی درجن طریق بلکہ ایک ماہر کے بیان کے مطابق قریباً تین سو طریق اس کے ایجاد ہو چکے ہیں- دوسرا حصہ اس مطالبہ کا یہ ہے کہ جہاں اکثریت کی کونسلوں کی اکثریت کو نقصان نہ پہنچتا ہو وہاں قلیل التعداد جماعتوں کے ہر قسم کے مفاد کی نیابت کی خاطر ان کے اصل حق سے کچھ زائد دے دیا جائے- اس مطالبہ کی مثال مجھے اس وقت کوئی معلوم نہیں- لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ زیکو سلویکا کی کونسل اور سینٹ میں غالباً روتھیننیز (RUTHENIANS) کو ان کے اصل حق سے کچھ زائد حق ملا ہوا ہے- چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ مرکزی اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی اس قدر ہو کہ ان کی مرضی
۳۱۴ کے خلاف کانسٹی ٹیوشن تبدیل نہ ہو سکے- یہ اصل بھی مسلّمہ ہے اور مختلف حکومتوں میں اس کے لئے مختلف قواعد بنائے گئے ہیں- چنانچہ یورپ کی نئی حکومتوں میں جو جنگ کے بعد قائم ہوئی ہیں اقلیتوں کی حفاظت کے متعلق جو حفاظتی تدابیر آئینِ اَساسی میں شامل کی گئی ہیں ان کے بدلنے کا حق اکثریت کو نہیں دیا گیا بلکہ انہیں ایک معاہدہ کی صورت دی گئی ہے یا ایک نہ بدل سکنے والے قانون کی صورت دی گئی ہے- پس یہ اصل مسلم ہے گو اس کی عملی شکل میں اختلاف ہو- پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ جب تک حقیقی یا عملی اقلیتیں (جس سے میری مراد وہ اکثریت ہے جو سیاسی حالات کے ماتحت عملاً اقلیت بنا دی گئی ہو- اس کی تفصیل میں تفصیلات سکیم پر ریویو کرتے ہوئے کروں گا)- اپنے پاؤں پر نہ کھڑی ہو جائیں، اس وقت تک جداگانہ انتخاب کا سلسلہ جاری رہے- یہ مطالبہ بھی حکومت کو کمزور کرنے والا نہیں ہے بلکہ اس کی مثال بھی دوسری اقوام کے قوانین اساسی میں ملتی ہے- چنانچہ زیکو سلویکا میں روتھینیا میں کمیونل (COMMUNAL)انتخاب ہوتا رہا ہے- ۳۵؎ چھٹے مطالبہ کا پہلا حصہ یہ ہے کہ گورنمنٹ، مذہب، تبلیغ یا تبدیلی مذہب کے بارہ میں پوری آزادی دے اور اقلیتوں یا افراد کی تمدنی، اقتصادی یا ادبی آزادی کو محدود نہ کرے- اس بارہ میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں- درحقیقت تو یہ حق ڈیماکریسی کے مفہوم کے نیچے ہی آ جاتا ہے لیکن یہ اصل زیکوسلویکا کی حکومت اپنے آئین اساسی میں شامل کر چکی ہے- اسی طرح پولینڈ نے اپنے معاہدہ کے آرٹیکل نمبر۱۰ میں یہودیوں کو نہ صرف اپنی زبان کے پڑھنے اور بولنے کی آزادی دی ہے بلکہ آرٹیکل نمبر۹ میں اس کے لئے پبلک فنڈ سے روپیہ مہیا کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے اور اس روپے کو خرچ کرنے کا حق یہودیوں کی مقرر کردہ کمیٹیوں کے سپرد کیا ہے- آرٹیکل نمبر۱۱ میں سبت کی حفاظت کا اقرار کیا ہے بلکہ پولینڈ نے یہودی سپاہیوں کے لئے کوشر (KOSHER)گوشت تک کے مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے- یوگوسلیویا میں مسلمانوں کی اقلیت ہے اور اس حکومت نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی ان کے اوقاف کی حفاظت کی جائے گی، اور مذہبی یا خیراتی سوسائٹیوں کے بنانے میں کوئی روک پیدا ہونے نہیں دی جائے گی- رومانیہ نے بھی اپنے معاہدہ کے آرٹیکل گیارہ میں وعدہ کیا ہے کہ سیکسنز اور
۳۱۸ زیک نسل کے لوگوں کو علمی اور مذہبی معاملات میں خود مختاری حاصل ہوگی- غرض یہ امر مسلمہ ہے کہ مذہبی، تمدنی اور تبلیغی امور میں حکومت کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور مختلف حکومتوں میں رائج ہے اور بعض حکومتوں کے آئین اساسی میں شامل ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان جس کے حالات ان ملکوں سے زیادہ نازک ہیں اس میں ان امور کی حفاظت کا سامان نہ کیا جائے- ساتواں سوال پرسنل لاء (PERSONAL LAW) کا ہے- اس کی حفاظت کی ضرورت کو بھی دنیا تسلیم کر چکی ہے- چنانچہ یوگوسلیویا اپنے معاہدہ کے آرٹیکل دس میں اقرار کرتا ہے کہ-: ‘’سرب، کروٹ اور سلیویا کی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اہلی قانون اور شخصی درجہ کے متعلق وہ ایسی سہولتیں دے گی کہ جن سے وہ مسلمانوں کے رواج کے مطابق اپنے ان معاملات کو طے کرنے کے قابل ہو سکیں’‘- آٹھواں مطالبہ ملازمتوں میں مناسب حصہ کے متعلق ہے گو کسی دوسرے قانون اساسی میں اس کی شمولیت نظر نہیں آتی لیکن پولینڈ کے یہودیوں اور وہاں کی گورنمنٹ میں جو صلح کا معاہدہ تجویز ہوا تھا اس میں یہ شرط بھی تھی کہ یہودیوں کو ان کی آبادی کی نسبت سے ملازمتوں میں حق ملے گا اور گو بوجہ سیاسی اسباب کے اس معاہدہ کی تکمیل نہیں ہو سکی لیکن اس سے اس قدر ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے باہر بھی اس احتیاط کی ضرورت اور معقولیت کو تسلیم کیا جا چکا ہے- نواں مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین اساسی اقلیتوں اور صوبہ جات کی مرضی کے بغیر تبدیل نہ ہو سکے یہ اصل بھی تسلیم کیا جا چکا ہے- صوبہ جات کے متعلق اس کا اطلاق یونائیٹڈسٹیٹس میں ہوتا ہے اور اقلیتوں کی مرضی کے بغیر اس میں تبدیلی کی بندش نئی یورپین حکومتوں میں ہے جہاں اسے معاہدہ کی صورت دے کر لیگ آف نیشنز کی مرضی کے بغیر ان امور میں جو اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، تبدیلی کا راستہ بند کر دیا گیا ہے- دسواں مطالبہ یہ ہے کہ صوبہ جات کی حدود میں تغیر بغیر صوبہ متعلقہ کی مرضی کے نہ ہو سکے یہ امر اصل میں فیڈریشن کا حصہ ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس وغیرہ سب جگہ اس پر عمل ہو رہا ہے- غرض جس قدر مطالبات ہندوستان کی اقلیتوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں وہ علاوہ معقول ہونے کے متعلق ممالک کے آئین دستوری میں پہلے شامل کئے جا چکے ہیں اس لئے وہ نہ صرف عقل کی تصدیق اپنے ساتھ رکھتے ہیں، بلکہ تجربہ کی تصدیق بھی انہیں حاصل ہے-
۳۱۶ باب ہشتم سائمن کمیشن کی حفاظتی تدابیر میں بتا چکا ہوں کہ اہل کمیشن نے اقلیتوں کے لئے حفاظتی تدابیر کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے- چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ-: ‘’ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک کہ رواداری کی روح ہندوستان میں پیدا ہو جائے اور اس وقت تک کہ اقلیتیں اکثریت کے انصاف پر زیادہ اعتبار کرنے لگیں حفاظتی تدابیر کی ضرورت یقینی طور پر ثابت ہے’‘- ۳۶؎ لیکن انہوں نے اس کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ گورنروں اور گورنر جنرل کے ہاتھ میں اختیارات دیئے جائیں تا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کر سکیں- وہ لکھتے ہیں کہ-: ‘’ہمارا خیال ہے کہ کمزور یا تعداد میں کم جماعتوں کی حفاظت کا عملی ذریعہ صرف یہی ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ دخل اندازی کی طاقت گورنر جنرل اور صوبہجات کے گورنروں کے ہاتھ میں قائم رکھی جائے جسے وہ حسب موقع اسی غرض کے لئے استعمال کیا کریں’‘- ۳۷؎ اسی طرح وہ سنٹرل لیجسلیچر (CENTRAL LEGISLATURE) کے نیچے لکھتے ہیں کہ-: ‘’اس (حفاظت) کو حاصل کرنے کا عملی طریقہ صرف یہ ہے کہ ایک غیرجانبدارانہ دخل اندازی کا حق گورنر جنرل اور صوبہ جات کے گورنروں کے ہاتھ میں محفوظ رکھا جائے’‘- ۳۸؎ ممکن ہے کہ یہ ذریعہ حفاظت انگریزوں کے حقوق کی حفاظت کر سکے گو مجھے اس کے
۳۱۷ متعلق بھی شبہ ہے- لیکن یہ تو یقینی امر ہے کہ وہ دوسری اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اس طرح بالکل نہیں ہو سکتی اور مجھے یقین ہے کہ چند ہی سال میں خود انگریز بھی شکایت کرنے لگیں گے کہ اس طرح ان کے حقوق کی حفاظت نہیں ہو سکتی- کمیشن نے اس امر کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ جن امور میں اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہے ان میں پہلے بھی ضرورت رہتی تھی اور یہ کہ برطانیہ کے نمائندوں نے کیا گورنر اور کیا دوسرے افسر بہت ہی کم ان امور میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہے- مثلاً ملازمتوں کے متعلق مسلمانوں کو شکوہ ہے لیکن اس بارہ میں موجودہ اختیارات کے باوجود حکومت بہت ہی کم علاج کر سکتی ہے- کئی سال ہوئے ریلوے کی ملازمتوں کے متعلق گورنمنٹ نے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کی نگرانی کی جائے گی- لیکن نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ۱۹۲۶ء میں تو آٹھ فیصدی مسلمان ملازمت میں آئے تھے- مگر ۱۹۲۹ء میں کل دو فیصدی مسلمان ملازمت میں لئے گئے ہیں- ڈسٹرک بورڈوں وغیرہ میں نامزدگی کا حق اس لئے دیا گیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہو لیکن اگر گورنمنٹ کبھی ان نامزدگیوں کو دیکھنے کی تکلیف گوارا کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ ہر گز اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ حکام ضلع خواہ انگریز ہوں خواہ ہندوستانی اس حق کو اپنے ساتھ ملنے والوں کے لئے بطور صلہوانعام استعمال کرتے ہیں- میں کونسلوں کی نامزدگیوں کی نسبت یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ بطورانعام یا صلہ استعمال ہوتی ہیں لیکن یہ یقینی امر ہے کہ ان میں بھی توازن کا قیام ہر گز مدنظر نہیں رکھا جاتا اور بسا اوقات وہ اس طرح کی جاتی ہیں کہ جو اقوام پہلے ہی اپنے حق سے زائد لے رہی تھیں نامزدگیوں میں بھی وہ آکر شامل ہو جاتی ہیں- گائے کی قربانی کو گورنمنٹ حتیالامکان روکنے کی کوشش کرتی ہے اور نئے مذبحے کھولنے کی نہایت مشکل سے اجازت دیتی ہے حالانکہ غذا انسانی ضرورتوں میں سے اہم چیز ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی قوم کو اس کی غذا سے روکا جائے جب کہ وہ دوسرے کے احساسات کو صدمہ پہنچائے بغیر ایک الگ جگہ میں اپنی ضرورت کو پورا کرنے پر آمادہ ہو- زبان کی یہ حالت ہے کہ مختلف صوبہ جات میں اردو کی جگہ ہندی لے رہی ہے اور گورنمنٹ بالکل خاموش ہے- حقوق کی حفاظت کا یہ حال ہے کہ پنجاب کے ایک کالج میں ایک سرجن پروفیسر کا عہدہ ولایت کے پاس شدہ ایک قابل مسلمان کی بجائے جو اسی شرط پر نائب پروفیسر ہوا تھا کہ اس جگہ
۳۱۸ کے خالی ہونے پر اسے مقرر کر دیا جائے گا ایک ہندو اسسٹنٹ فزیشن کو دے دیا گیا اور باوجود اس کے کہ پرنسپل نے اعتراض بھی کیا کہ مجھے سرجن کی ضرورت ہے نہ کہ فزیشن کی غیرمسلموزیر نے اپنے فیصلہ کو نہ بدلا- کالجوں میں مسلمان طالبعلموں کیلئے چالیس فیصدی کی حد بندی کر دی گئی ہے حالانکہ صوبہ میں ان کی آبادی نصف سے زیادہ ہے- اسی طرح مسلمانوں کی درسگاہوں کو ان کے حق کی نسبت بہت کم ایڈ (AID) دی جاتی ہے- زیادہ تنخواہ والی نئی جگہوں میں سے اکثر پر ہندوؤں کو مقرر کر دیا گیا ہے- ہندو اور مسیحی اپنے مذہبی دن کی چھٹی مناتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے اجازت دی ہے پھر بھی اکثر محکموں میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کی چھٹی نہیں دی جاتی اور بعض دفاتر چھٹی دیتے ہیں تو بعد میں اتنا وقت کام لے لیتے ہیں حالانکہ یورپ میں جہاں یہودی اقلیت کافی ہے ان کے لئے سبت کی چھٹی کا انتظام کیا گیا ہے- مسلمان اس پر راضی تھے کہ جمعہ کے دن انہیں دو گھنٹہ کی چھٹی ہی دے دی جائے لیکن اس کا کوئی انتظام نہیں حالانکہ وہ آبادی میں سے پچیس فیصدی ہیں- غرض یہ سب کچھ گورنروں کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے- یہ نہیں کہ وہ بددیانت ہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ کیریکٹر کے لوگ ہیں جن کے ذاتی چلن نے ہمارے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے لیکن ان معاملات میں وہ کچھ نہیں کر سکتے اس لئے کہ ساتھ مل کر کام کرنے والوں پر اس قسم کی نکتہ چینی انسانی طبیعت کے خلاف ہے- یہ تو سلوک کے متعلق ہے- اب میں قانون کو لیتا ہوں- پنجاب میں زمینداروں کی حفاظت کے لئے زمیندارہ قانون بنا ہوا ہے- اس سے زمینداروں کو بہت کچھ نجات ساہوکاروں کے ظلموں سے حاصل ہوئی تھی لیکن پچھلے دنوں ہائی کورٹ کے چند فیصلوں کے ذریعہ سے اس قانون کا نفع قریباً باطل ہو گیا ہے- زمینداروں نے بہت زور دیا لیکن گورنمنٹ اپنے مصالح کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکی- زمینداروں نے خود مسودہ پیش کیا تو گورنمنٹ نے آفیشل بلاک (OFFICIAL BLOCK) کی مدد سے اسے مسترد کرا دیا- ساہو کار اس ملک میں بعض دفعہ سَو سَو فیصدی سود لیتے ہیں اور عدالتیں نہایت نامعقول سود انہیں دلاتی ہیں- ایسے کیس موجود ہیں کہ بیس تیس روپیہ ایک شخص نے قرض لیا اور دس پندرہ سال میں
۳۱۹ تین چارسو روپیہ وہ ادا کر چکا ہے لیکن ابھی تین چار سو کا قرض موجود ہے باوجود واویلا کرنے کے ایسے لوگوں کی مشکل اب تک حل نہیں ہوئی- میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب امور اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر سے حل ہو جائیں گے کیونکہ ان میں سے بعض تو اس مد میں آ ہی نہیں سکتے- میرا صرف یہ مطلب ہے کہ باوجود اس وقت تک پورے اختیارات ہونے کے اور آفیشل بلاک ہونے کے گورنر ان مصائب کو بھی نہیں دور کر سکے جن کی حقیقت سے وہ خوب آگاہ ہیں اور جن کی شناعت کو وہ تسلیم کرتے ہیں تو آئندہ تھوڑے اختیارات کے ساتھ وہ کب حقیقی یا سیاسی اقلیتوں کی مدد کر سکیں گے- (سیاسی اقلیت سے میری مراد بنگال اور پنجاب کے مسلمان ہیں جو اکثریت کے باوجود قانوناً اقلیت میں بدل دیئے گئے ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ خاص تدابیر کے بغیر اب وہ ابھر نہیں سکتے-) غرض گورنروں کے ذریعہ سے اقلیتوں کی حفاظت کا طریق بہت ناقص ہے- گورنروں کو بے شک باقی ملکوں کے آئینی گورنروں کی طرح خاص اختیارات ملنے چاہئیں لیکن وہ خاص حالات کے متعلق ہونے چاہئیں نہ کہ ان امور کیلئے جو ہندوستان کا روز مرہ کا شغل بن رہے ہیں- ایسے امور کی اصلاح تو قانون اساسی ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے- گورنروں کا ان امور کے متعلق بااختیار ہونا یوں بھی مصلحت کے خلاف ہے کیونکہ آئندہ گورنر آئینی گورنر ہونگے اور ان کا اصل کام غیر جانبدارانہ رویہ سے اخلاقی اثر ڈال کر لوگوں سے کام لینا ہوگا- پس ان کے سپرد اقلیتوں کے جھگڑوں کو چکانے کا کام کر دینا ان کی پوزیشن کو کمزور کر دے گا اور وہ کبھی بھی اس رسوخ کو حاصل نہ کر سکیں گے جس کے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہوگی- علاوہ ازیں اقلیتیں اس بات سے بھی جائز طور پر خائف ہیں کہ گورنر یقیناً زبردست اقوام کے ساتھ ہوں گے کیونکہ اس کے بغیر وہ حکومت کو صحیح طور پر چلا نہیں سکتے- اسی وجہ سے اگر اختیارات ان کے سپرد ہوں گے تو اقلیتیں خواہ حقیقی ہوں خواہ سیاسی سخت خطرہ میں رہیں گی- نیز سیاسی طور پر بھی اس علاج پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گورنروں کے سپرد ان اختیارات کو کر دینے کے یہ معنی ہونگے کہ صوبہ جاتی آزادی کبھی مکمل ہی نہ ہو کیونکہ
۳۲۰ جب تک گورنروں کو براہ راست دخل دینے کا اختیار رہے گا اس وقت تک صوبہ جات کو مکملآزادی حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر اقلیتوں کی حفاظت کے لئے دخل دینے کی طاقت گورنروںکو دی گئی تو پھر وہ وقت نہ معلوم کب آئے گا جب کہ صوبہ جات پورے طور پر آزاد کہلا سکیں گے؟ کمیشن نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کو کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) میں شامل کرنے کے خلاف مندرجہ ذیل دلائل دیئے ہیں- ‘’مختلف اقلیتوں، مذاہب اور قوموں کے نمائندوں نے ہمارے سامنے زور دیا ہے کہ ہندوستانی مجلس قانون ساز کے اختیارات آئین اساسی میں اس طرح واضح کر دینے چاہئیں کہ وہ امتیازی قانون پاس نہ کر سکے اور اگر وہ ایسا کرے تو اس کا قانون ناجائز سمجھا جائے’‘- ‘’ہمیں یقین ہے کہ قانون کے ذریعہ سے حفاظت خاصخاص اقلیتوں کو نہیں دی جا سکے گی اور نہ ہی ایسا قانون پاس کیا جا سکتا ہے کہ جس سے صرف تجارت کے متعلق طرفداری والے قانون کی ممانعت کی جائے- اس وجہ سے اگر قانون میں حفاظتی تدابیر کا ذکر کیا گیا تو اس کے الفاظ ایسے وسیع بنانے ہوں گے کہ انسانی حقوق کے گنوانے سے زیادہ اس میں کچھ نہ ہو سکے گا اور ان الفاظ سے ان عدالتوں کو جنہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا شکایت کنندہ گروہ اقلیت کہلا سکتا ہے؟ یا یہ کہ کیا وہ قانون جس کی شکایت کی گئی ہے واقعہ میں ناجائز طرفداری والا قانون ہے؟ کوئی امداد نہ ملے گی’‘- علاوہ ازیں یہ دیکھتے ہوئے کہ ہندوستان میں مقدمات جس طرح باریک در باریک باتیں نکال کر کئے جاتے ہیں اور انہیں خاص طور پر لمبا کیا جاتا ہے ہمیں اس امر کی امید رکھنی چاہئے کہ عدالتوں میں ایسے مقدمات لے جائے جایا کریں گے جن کا تصفیہ عدالتوں میں اچھی طرح نہیں ہو سکتا- ‘’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عدالت کو ایسے مقدمات میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہو جن کی بناء حقیقی شکایات ہوں تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ ان مقدمات کو بھی وہ سنے جن کی بنیاد دور از قیاس امور پر رکھی گئی ہو اور جن کے چلانے کی کوئی بھی معقول وجہ موجود نہ ہو- پس ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ فیصلہ کرنے پر
۳۲۱ مجبور ہیں کہ حفاظتی قانون کے ذریعہ سے ناجائز طرفداری والے قانونوں کا ازالہ نہ کریں’‘- ۳۹؎ ان اعتراضات کو بیان کر کے کمیشن کہتا ہے کہ-: ‘’پس حفاظت کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ دخل اندازی کا اختیار گورنر جنرل اور صوبہ جات کے گورنروں کے ہاتھ میں اس غرض کیلئے قائم رکھا جائے اور انہیں جو ہدایات اپنے کام کو صحیح طور پر چلانے کے لئے دی جائیں ان میں یہ واضح کر دیا جائے کہ تمام مناسب موقعوں پر وہ اسی طاقت کو استعمال کریں’‘- میں یہ تو ثابت کر چکا ہوں کہ یہ ذریعہ بھی کوئی ذریعہ نہیں- نہ تو اس سے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہو سکتی ہے اور نہ ہی گورنر کی پوزیشن ہی آئینی طور پر مضبوط رہتی ہے اور علاوہ ازیں اس طریق کے اختیار کرنے سے صوبہ جات کی آزادی بھی خطرہ میں پڑ جاتی ہے- پس میں صرف ان اعتراضات کا جواب دیتا ہوں جو کمیشن نے حفاظتی تدابیر کو آئین اساسی میں لانے کے متعلق کئے ہیں-: (۱) کمیشن کہتا ہے کہ چونکہ مختلف اقلیتوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا اس لئے ہندوستان میں مختلف اقلیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون بنانا پڑے گا اور وہ قانون لازماً بالکل مبہم الفاظ میں ہوگا- کمیشن کے ممبروں نے یہ نہیں سوچا کہ اقلیتیں خواہ کس قدر ہوں وجوہ اختلاف بہت تھوڑے ہیں اور مشترک ہیں- قریباً وہی قانون مسلمانوں کے حق کی حفاظت کرے گا- جو مسیحیوں کے حق کی حفاظت کرے گا اور وہی ہندوؤں کے حق کی بھی کرے گا اور وہی سکھوں کے حق کی بھی کرے گا- مثلاً اگر آئین اساسی میں یہ دفعہ رکھ دی جائے کہ اپنی پرائیویٹ ملکیت کی جگہوں پر کسی قوم کو معبد بنانے سے نہیں روکا جائے گا تو اس کا فائدہ مسلمانوں کو ہی حاصل نہ ہوگا بلکہ مسیحیوں، انگریزوں، ہندوؤں، سکھوں اور پارسیوں سب کو ہوگا- یا مثلاً یہ دفعہ اس میں ہو کہ کوئی امتیازی قانون نہیں بنایا جائے گا تو اس کا فائدہ بھی سب فرقوں کو یکساں پہنچے گا- اسی طرح اگر یہ قانون ہو کہ تبلیغ سے کسی صورت میں نہیں روکا جائے گا نہ تبدیلی مذہب کے لئے کوئی حد بندی کی جائے گی- جیسے مثلاً مجسٹریٹ کی اجازت یا ایسی ہی کوئی شرط تو اس کا فائدہ بھی سب ہی اٹھائیں گے- غرض اکثر قوانین ایسے ہی ہونگے کہ کسی خاص اقلیت کی
۳۲۲ خاطر نہیں بنائے جائیں گے بلکہ سب اقلیتوں کے مفاد ان میں مشترک ہونگے- پس یہ کہنا کہ ہر ایک اقلیت کے حقوق کی حفاظت کا ذکر چونکہ تفصیلاً نہیں ہو سکتا اس لئے مبہم الفاظ میں قوانین بنانے پڑیں گے درست نہیں- لیکن اگر یہ صحیح بھی ہو کہ الگ الگ قوانین بنانے پڑیں گے تو لاکھوں کروڑوں آدمیوں کے مذہب اور جان اور مال کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ چند دفعات کی زیادتی کے خوف سے اسے چھوڑ دیا جائے- میرا سب سے بڑا سوال اس کے متعلق یہ ہے کہ گورنر کو جو ہدایات دی جائیں گی وہ مبہم ہونگی یا مفصل؟ اگر مبہم ہونگی تو کیا کمیشن یہ یقین کرتا ہے کہ نو دس کروڑ افراد اقلیتوں کے ان مبہم ہدایات کی وجہ سے مطمئن ہو جائیں گے؟ اور اگر وہ ہدایات مفصل ہونگی تو جن الفاظ میں گورنر کو ہدایت دی جا سکتی ہے انہیں الفاظ کو کیوں آئین اساسی میں شامل نہیں کیا جا سکتا؟ مبہم الفاظ میں گورنر کو ہدایت دینی تو ایک ایسا فعل ہے جس سے کچھ بھی نفع نہیں پہنچ سکتا بلکہ مضرت کا احتمال ہے- غرض ابہام کا اعتراض ایسا نہیں جو صرف آئین اساسی پر وارد ہوتا ہو- یہ اعتراض اسی زور سے بلکہ اس سے زیادہ زور سے گورنر کو اختیارات دینے پر وارد ہوتا ہے- کل کو ممکن ہے کہ اقلیت پر ایک حملہ ہو اور گورنر کہہ دے کہ قانون اساسی میں اس کا ذکر نہیں- میرے نزدیک اکثریت کو حق ہے کہ اس بارے میں قانون بنائے تو اس صورت میں اقلیتیں کیا کر سکتی ہیں- گورنر کے اختیارات بھی تو تبھی نفع دے سکتے ہیں کہ جب قانون اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کا تفصیلی ذکر ہو تا کہ ان کی بناء پر اقلیتیں مطالبہ کر سکیں اور ان کی روشنی میں گورنر فیصلہ کر سکے- پس گورنر کے ہاتھ میں اختیارات کا رکھنا ہمیں آئین اساسی کی تکمیل سے آزاد نہیں کر سکتا- گورنر کو زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ کا قائم مقام قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ کا قیام آئین اساسی کے مکمل ہونے کی ضرورت ثابت کرتا ہے نہ کہ اس کے غیر ضروری ہونے کی اسی طرح گورنروں کو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہدایت دینا ان حقوق کے بالتفصیل بیان کرنے کا متقاضی ہے نہ کہ اسے بغیر بیان کئے چھوڑ دینے کا- جب حقوق ہی بیان نہ ہونگے تو گورنر فیصلہ کس امر کا کرے گا- غرض یہ دلیل کمیشن کی بالکل کمزور اور بودی ہے- فیصلہ گورنر کے ہاتھ میں ہو یا کسی اور کے ہاتھ میں، یہ لازم ہے کہ ان امور کو کہ جنہیں اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ضروری سمجھا جائے آئین اساسی میں بیان کر دیا جائے- یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ اگر آئین اساسی میں وہ امور بیان نہ ہونگے
۳۲۳ جن میں دخل اندازی قانون ساز مجالس کیلئے جائز نہ ہوگی تو جو فیصلہ بھی وہ کرے گی وہ اصولاً آئینی ہوگا- اور اس صورت میں گورنر کا ان کے فیصلہ کو رد کرنا یا اسے تبدیل کرنا غیرآئینی ہوگا- اور اس کے دخل دینے کے معنی یہ ہونگے کہ قانون ساز مجلس تھی تو اپنے اختیارات کے دائرہ کے اندر لیکن گورنر نے بعض اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر اس کے بنائے ہوئے قانون کو رد کر دیا- لیکن کیا اس اصل پر کوئی آئینی حکومت چل سکتی ہے؟ اور کیا اس قسم کی غیرآئینی دخل اندازی دیر تک برداشت کی جا سکتی ہے؟ اس طرح اقلیتیں تو یہ محسوس کریں گی کہ وہ گورنر کے احسان پر زندہ ہیں اور صرف رحم کے طور پر ان سے سلوک کیا جا رہا ہے اور اکثریت بھی اس وجہ سے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھے گی اور ایک نیا آفیشل بلاک OFFICIAL BLOCK)) بن جائے گا جو ایسا ہی ملک کے لئے مضر ہوگا جیسا کہ پہلا آفیشل بلاک مضر ہو رہا ہے- لیکن اگر اس کے بر خلاف آئین اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کا ذکر آ جائے تو بالفرض اگر گورنر کے ہاتھ میں بھی اختیار رکھا جائے تو بھی اس کا دخل دینا آئینی سمجھا جائے گا اور اقلیتوں کو بھی یہ احساس نہ ہوگا کہ وہ کوئی احسان طلب کر رہی ہیں بلکہ وہ جب طلب کریں گی اپنا حق طلب کریں گی- (۲) دوسرا اعتراض کمیشن کا یہ ہے کہ اگر قانون اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کی دفعات کو شامل کیا گیا تو مقدمہ بازی بڑھ جائے گی کیونکہ عدالتوں میں کمزور اور مضبوط ہر قسم کے مقدمات چلائے جا سکتے ہیں- اس کے متعلق میرا یہ سوال ہے کہ گورنر کا رویہ ایسے اوقات میں کیا ہوگا؟ کیا یہ ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے جس معاملہ کو چاہے گا رد کر دے گا اور جسے چاہے گا زیر غور لے آئے گا یا ہر معاملہ پر غور کر کے فیصلہ کرے گا- یا یہ کہ کسی دوسرے افسر سے رپورٹ لے کر اگر وہ سفارش کرے کہ درخواست قابل غور ہے تو وہ غور کرے گا ورنہ نہیں؟ اگر پہلی صورت ہوگی اور وہ بغیر درخواست پڑھنے کے صرف درخواست کنندوں کے نام دیکھ کر فیصلہ کر دیا کرے گا تو ایسے فیصلہ کی حقیقت کچھ بھی نہ ہوگی- اور اگر وہ کسی دوسرے افسر کی رپورٹ پر فیصلہ کرے گا کہ معاملہ قابل غور ہے یا نہیں تو اس کی دو صورتیں ممکن ہیں- اول یہ کہ وزیر متعلقہ کی رپورٹ پر فیصلہ کرے- یہ صورت ظاہر ہے کہ ایسی ہی ہے کہ کسی ملزم سے رائے لی جائے کہ تمہارے
۳۲۴ خلاف مقدمہ سنا جائے یا نہیں؟ اور اگر اس کے لئے کوئی اور محکمہ بنایا جائے گا تو ایسے آفیسر کہاں سے لائے جائیں گے جن کی رپورٹوں پر اطمینان کیا جا سکے کہ وہ گورنر کے آگے معاملہ کو صحیح طور پر رکھیں گے اور اسے دھوکا نہیں دیں گے- اور اگر یہ صورت اختیار کی جائے گی کہ گورنر خود ہر ایک ایسی درخواست کو جو حقوق کے اتلاف کے متعلق ہو سنے گا تو یہ صورت بھی دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگی- اگر تو ایسی درخواستیں زیادہ تعداد میں ہونگی جیسا کہ کمیشن کو خوف ہے تو ایسا گورنر کہاں سے لایا جائے گا جو علاوہ تمام انتظامی کام کی نگرانی اور صوبہ کے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے اور قانون ساز مجالس کے کام کی نگہداشت اور محکمانہ خط و کتابت کے ان کثیر التعداد درخواستوں کو بھی پوری طرح سنے گا اور کافی غور کے بعد ان کے بارہ میں فیصلہ دے گا- اس صورت میں تو ایک نہیں کئی گورنر مقرر کرنے پڑیں گے- اور اگر غرض یہ ہے کہ صرف اشک شوئی کی جائے اور درخواستیں لیکر کوئی سیکرٹری پڑھ لے اور خود ہی یہ فیصلہ لکھ کر ہمارے نزدیک معاملہ دخل اندازی کے قابل نہیں گورنر صاحب کے دستخطوں سے یا ان کی طرف سے دستخط کر کے درخواست کنندوں کو واپس بھیج دے تو کیوں کمیشن نے صاف طور پر یہی سفارش نہ کر دی کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضرورت نہیں- انہیں اکثریت کے رحم پر چھوڑ دیا جائے یا تو وہ ظلم سے تنگ آ کر ملک سے نکل جائیں گی یا تباہ اور برباد ہو کر اکثریت کے لئے راستہ خالی کر دیں گی- ہندوستان کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس سکیم کی اصل غرض صرف یہ ہے کہ کمیشن نے جو حقوق ہندوستان کو بظاہر دیئے تھے وہ اس ترکیب سے انہیں واپس لینا چاہتا ہے- اور آفیشل بلاک کی جگہ ایک اقلیت کا بلاک بنانا چاہتا ہے جو گورنر کے رحم پر ہونے کے سبب موقع بے موقع اور جائز و ناجائز طور پر اکثریت کا مقابلہ گورنروں کے اشارہ پر کرتا رہے اور حکومت پھر بھی پہلے کی طرح ہندوستانیوں کے ہاتھ سے باہر ہی رہے- میں کمیشن کے ممبروں پر یہ الزام نہیں لگاتا لیکن یہ یقینی بات ہے کہ کوئی گورنر ہر گز اس طرح کام نہیں کر سکتا اور نتیجہ یہی ہوگا کہ جب کبھی کوئی اقلیت شور ڈال کر گورنر کو متوجہ کر سکے گی اس کی درخواست پر تو اس صورت میں کہ اکثریت کو کافی شور مچانے کا موقع نہ ملا ہو یا گورنر کے نزدیک انہیں کسی قدر تنبیہ کرنے کی ضرورت ہو کچھ توجہ ہو جائے گی، ورنہ گورنروں کو ایسی درخواستوں کی طرف بذات خاص توجہ کرنے کا نہ موقع ہوگا نہ وہ ایسا کر سکیں گے- کمیشن نے اس امر پر بھی غور
۳۲۵ نہیں کیا کہ گورنر ایگزیکٹو (EXECUTIVE) افسر ہوگا- اور اس وجہ سے لازماً وہ ایگزیکٹو حالات سے متاثر ہوگا اور خالص قانونی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگا اور جو فیصلے وہ کرے گا وہ ایگزیکٹو حالات اور اس کی وزارت کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے- خلاصہ یہ ہے کہ کمیشن نے جس مشکل کی بناء پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئین اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کی تفصیل نہیں ہونی چاہئے وہ مشکل گورنر کو ہدایت دینے کی صورت میں بھی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ شدت سے قائم رہتی ہے- اور جس مشکل سے بچنے کے لئے اس نے عدالتوں کی بجائے گورنر کے ذمہ اس کام کو لگایا ہے وہ مشکل گورنر کے راستہ میں اور بھی اہم صورت میں پیدا ہو جاتی ہے اور حقیقت حال پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچنا پڑتا ہے کہ یا تو گورنر یہ کام کر ہی نہیں سکے گا اور طبعی طور پر اس کے لئے اس کام کو کرنا ناممکن ہوگا اور کام یونہی پڑا رہے گا- اور یا پھر گورنر کا صرف نام ہوگا اور کریں گے دوسرے لوگ اور انصاف کا حاصل کرنا بالکل محال ہوگا- اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ کانسٹی ٹیوشن خود تو اپنے پر عمل کرا نہیں سکتی اور نہ انسان آئندہ کی ضرورتوں کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے- پھر کیا جائے تو کیا؟ میرا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان آئندہ کی سب ضرورتوں کو نہیں سمجھ سکتا لیکن اس وجہ سے کہ ہم آئندہ کی ضرورتوں کو نہیں سمجھ سکتے موجودہ ضرورتوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے- وہ طریقے جو اس وقت تک دنیا کی تاریخ سے اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کے معلوم ہو چکے ہیں اور وہ ارادے جو اکثریت آئندہ کے متعلق ظاہر کر چکی ہے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات آئین اساسی میں رکھ دی جائیں- ہندوستان ہی ایک ایسا ملک نہیں ہے کہ جس میں مختلف اقلیتیں پائی جاتی ہیں اور ممالک بھی ہیں اور انہوں نے یا معاہدات کے ذریعہ یا آئین اساسی کے ذریعہ سے مختلف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی کوشش کی ہے اور یہ درست نہیں کہ سب کے سب اس میں ناکام رہے ہیں- بعض ممالک میں یہ حفاظتی طریق کامیاب ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں- چنانچہ زیکو سلویکا میں بہت حد تک کانسٹی ٹیوشن کی وجہ سے اقلیتوں کو اپنے حقوق کی حفاظت میں کامیابی ہو رہی ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون خالی کافی نہیں ہوتا جب تک اس کے صحیح استعمال کی
۳۲۶ روح بھی مجلس عاملہ میں موجود نہ ہو- لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا قانون اور مجلس عاملہ دونوں کی مخالفت زیادہ آرام دہ صورت ہے یا کم سے کم ایک طرف سے اطمینان بہتر حالت ہے- اگر قانون ہو تو اقلیتوں کو شور مچانے کا موقع ہوتا ہے اور ظالم قوم کے شریف الطبع لوگوں سے اپیل کرنے کا موقع ہوتا ہے- اگر قانون بھی نہ ہو پھر تو کوئی جگہ بھی سہارا لینے کے لئے باقی نہیں رہتی- ہندو نقطئہ نگاہ اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر کے متعلق اس جگہ میں ہندو نقطئہ نگاہ کو بھی پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی بہت کچھ انگریزوں کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے- انگریز فطرتا حفاظتی تدابیر کی ظاہری صورت کے مخالف ہے- جس کی وجہ سے وہ ہر اس رائے کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جو ایسی تدابیر کی ضرورت کو اڑا دے- وہ حفاظتی تدابیر کی ضرورت تسلیم کرنے میں اپنے قومی نظام کی شکست محسوس کرتا ہے- اور اسے یہ خیال نہیں آتا کہ ہر قوم کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور وہ اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اس کا نظام اپنے ارتقاء کے دوران میں ان حالات سے گزر چکا ہے جن میں سے ہندوستان اب گزر رہا ہے- اس تمام تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے جو گزر چکی ہے رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ کی ایک دوسرے کے خلاف تدابیر کو یاد کرتے ہوئے آج کوئی انگریز یہ پسند نہ کرے گا کہ وہی جذبات اور وہی حالات اگر دوبارہ پیدا ہو جائیں تو بجائے آئینی حفاظت کے اس کے ملک کو دوبارہ پہلے سے حالات میں سے گزارا جائے- مگر انگریزی قوم اس تاریخ کو بھول جاتی ہے اور حفاظتی تدابیر کا ذکر آتے ہی سمجھنے لگتی ہے کہ اس سے اس کے نظام کا نقص بیان کرنا مطلوب ہے اور وہ جھٹ اس طرح ہوشیار ہو جاتی ہے کہ جس طرح اس کی عزت پر کوئی حملہ ہونے لگا ہو- پس اندریں حالات بھی ضروری ہے کہ ہندو نقطئہ نگاہ کی حقیقت بھی بیان کر دی جائے تا کہ کم سے کم وہ جو دلیل کی قوت کو تسلیم کرتے ہیں دھوکے میں نہ رہیں- ہندو نقطئہ نگاہ (جس سے میری مراد ان ہندوؤں کا نقطئہ نگاہ ہے جو مہاسبھائی ذہنیت کے ہیں اور جن کا غلبہ اس وقت اپنی قوم پر ہے- ورنہ ہندوؤں میں بہت شریف الطبع اور منصف مزاج لوگ بھی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ سرسپرو جیسے اور بھی کئی آدمی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں موجود ہوں گے- جو اپنی قوم کے خاموش حصہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کی آزادی اور
۳۲۷ اس کے امن کے قیام کی راہ کھول دیں گے) یہ ہے کہ اقلیتوں کو کوئی خطرہ ہی نہیں ہے اور اقلیتیں جو مطالبات کرتی ہیں وہ قومیت کو کمزور کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کے مترادف ہے- میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اقلیتوں کے مطالبات پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا- ان کے مطالبات دوسری اقوام کے حقوق کو تلف کرنے والے ہر گز نہیں ہیں اور نہ وہ ملکی مفاد کے مخالف ہیں لیکن میں اس جگہ اختصار سے پھر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس گروہ کے ہندوؤں کی یہ کوشش کہ اقلیتوں کے مطالبات آئین اساسی میں نہ آئیں اس لئے نہیں کہ یہ لوگ نیشنلسٹ (NATIONALIST) ہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں اقلیتیں بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ نہ لے لیں- ورنہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آئین اساسی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف اقوام اس کے ذریعہ سے آپس میں ایک معاہدہ کرتی ہیں اور اقرار کرتی ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کی ہمیشہ کے لئے محافظ رہیں گی- یا تو ہندو یہ ثابت کریں کہ اقلیتیں جن امور کا مطالبہ کرتی ہیں ان میں ہندوؤں کے حقوق کا اتلاف ہے ورنہ ان کے انکار کرنے کے سوائے اس کے کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کو ان کا حق دینا پسند نہیں کرتے- مثلاً تبلیغی آزادی کو لے لو- اگر ہندو اقلیتوں کو تبلیغ سے روکنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو انہیں اس امر پر کیوں اعتراض ہے کہ قانون اساسی میں یہ شرط رکھی جائے کہ تبلیغ آزاد ہوگی؟ اور اگر ان کا یہ ارادہ نہیں تو وہ ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ کے ان الفاظ پر کہ-: ‘’اگر آپ کے ایک ہندو بھائی کو مسلمان بنانے میں آپ کسی کو روکتے ہیں اور وہ باز نہیں آتا تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کٹ کر مر جائیں’‘ عمل کریں تو ان کا کیا حرج ہے کہ ہندوستان کے قانون اساسی میں یہ بات آ جائے کہ تبدیلی مذہب پر کسی قسم کی کوئی پابندی مقرر نہیں کی جائے گی- یا اگر ہندوؤں کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ انگریزوں کے خلاف خاص قواعد بنا کر ان کی ہندوستانی تجارت کو تباہ کریں تو ان کا کیا حرج ہے کہ آئین اساسی میں یہ بات آ جائے کہ ایسا کوئی قانون نہ بنایا جائے گا جس کا منشاء کسی خاص قوم کی تجارت کو جو ہندوستان کو وطن بنا چکی ہو تباہ کرنا ہو- غرض جب کہ اقلیتیں کسی اور کا حق نہیں مارتیں صرف اپنے جائز حقوق کی حفاظت
۳۲۸ چاہتی ہیں تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مطالبات ملک کو کمزور کرنے والے اور ظالمانہ ہیں اور اکثریت کے لئے ایک دھمکی کے مترادف ہیں؟ جس چیز کے کرنے کا انسان ارادہ رکھتا ہے اس کا اقرار کرنے سے بھی وہ نہیں ڈرا کرتا اور کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) صرف دلی ارادہ کے اظہار کا نام ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں-
حصہ دوم باب اول ہندوستان کا آئینِ اَساسی اب میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ ہندوستان کے آئندہ دستور اساسی کے متعلق اپنے خیالات کو ظاہر کر سکوں کیونکہ ابتدائی مراحل کو میں طے کر چکا ہوں اور اب مجھے صرف نتیجہ بیان کرنا ہے جو یہ ہے کہ ہندوستان کا آئندہ دستور اساسی محفوظ (RIGID) ہو اور اقلیتوں اور صوبوں کے حقوق کی حفاظت اس میں مدنظر رکھی جائے- اکثریت بے شک جو بات ملک کے لئے بہتر سمجھے اس کے مطابق عمل کرے لیکن جب تک اقلیتیں اس پر تسلی نہ پا جائیں اس وقت تک اکثریت کے اختیارات کو اس طرح محدود کر دیا جائے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو تلف نہ کر سکے اور اس حد بندی کو آئین اساسی میں شامل کر دیا جائے کیونکہ آئین اساسی اپنے ساتھ مادیطاقت نہیں رکھتا لیکن اخلاقی طاقت بہت کچھ رکھتا ہے اور اکثریت کا ایک حصہ ضرور معاہدہ کی خلاف ورزی سے پرہیز کرنے پر اصرار کرتا ہے جس کی مدد کے ساتھ اقلیت اپنے حقوق کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے- دنیا میں حکومتیں معاہدات کو توڑتی ہی رہتی ہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیں کہتا کہ معاہدات کی کیا ضرورت ہے؟ جب کسی حکومت کی مرضی ہوگی وہ معاہدہ توڑ دے گی- اس میں کوئی شک نہیں کہ مرضی پر معاہدات ٹوٹ سکتے ہیں اور توڑے جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ معاہدات کو توڑ کر جس قدر ظلم ہوتا ہے اس سے بہت زیادہ بغیر معاہدہ کے ہوتا
۳۳۰ ہے- دنیا میں سب انسان یکساں نہیں ہوتے- بعض لوگ معاہدہ کا احترام کرتے ہیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو ان کے توڑنے سے روکتے ہیں اور اس طرح ظلم کا ایک حصہ مٹ جاتا ہے- پس کانسٹی ٹیوشن میں اقلیتوں کے جائز مطالبات کا آنا ضروری ہے تا کہ ملک کی بھی اور دنیا کی رائے عامہ بھی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی تائید میں استعمال کی جا سکے- مگر میں یہ نہیں کہتا کہ صرف کانسٹی ٹیوشن میں ان حقوق کا ذکر آ جائے کیونکہ گو پبلکرائے بھی بہت کچھ مدد کرتی ہے لیکن بعض دفعہ دیانتدارانہ طور پر معاہدات کے معنی کرنے میں اختلاف ہو جاتا ہے- اس صورت میں کوئی اور نظام بھی ایسا ہونا چاہئے جو غیرجانبدار رہ کر اختلاف کا فیصلہ کر سکے- اس موقع پر کمیشن کی سفارش پھر سامنے آ جاتی ہے- کمیشن کا خیال ہے کہ اس کا فیصلہ گورنر کے ہاتھ میں رکھا جائے لیکن میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ طریق درست نہیں اور اس میں گورنروں کی پوزیشن کو بھی نقصان پہنچے گا اور اقلیتوں کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا- میرے نزدیک اس کا بہترین طریق وہی ہے جسے دنیا تجربہ سے معلوم کر چکی ہے- یعنی عدالت کے سپرد یہ فیصلہ کیا جائے- کانسٹی ٹیوشن ایک معاہدہ ہے اور اسے وہی بدل سکتا ہے جس نے یہ معاہدہ کیا تھا- جو شخص یا اشخاص معاہدہ کرنے والوں کی رضا مندی کے بغیر اسے بدلتے ہیں وہ خلاف قانون کام کرتے ہیں- پس ایک ایسا محکمہ ہونا ضروری ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ آیا واقعہ میں معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں اور یہ فیصلہ ہو بھی اس طرح کہ کسی کو معقول طور پر اعتراض کی گنجائش نہ رہے اور یہ غرض صرف عدالت سے حاصل ہوتی ہے- عدالت کے جج بھی انسان ہوتے ہیں- وہ بھی خاص میلان رکھتے ہیں لیکن ان میں ایک بات ایسی ہوتی ہے جو انصاف کی طرف انہیں مائل کرتی رہتی ہے اور وہ عادت ہے- بہت سے ججوں کی زندگی میں ایسے مقدمات ضرور آتے رہتے ہیں کہ جن میں وہ ایک شدید میلان اور فریق کی طرف محسوس کرتے ہیں لیکن اگر وہ رشوت خور نہ ہوں تو اکثر مقدمات ان کے سامنے ایسے آتے ہیں جن سے انہیں ذاتی دلچسپی نہیں ہوتی اور اس طرح ان کا دماغ اسی رنگ میں نشوونما پاتا رہتا ہے کہ انہیں انصاف کی عادت ہو جاتی ہے- عادت کے علاوہ کچھ احتیاطیں عدالت کے متعلق قانون نے بھی اختیار کی ہیں جو اسے ایک حد تک انصاف پر مجبور کر دیتی ہیں اور وہ یہ کہ اس کی سب کارروائی کھلے بندوں ہوتی ہے اور اس کے سامنے دونو فریق اپنے دلائل پیش کر
۳۳۱ سکتے ہیں- اور وہ پہلے امور قابلِ تنقیح نکال کر قابل بحث امور کو ایک لحاظ سے واضح اور ایک لحاظ سے محدود کر دیتی ہے- پھر عدالت مجبور ہے کہ خود فیصلہ لکھے- اس طرح اس کے فیصلے اور اس کی سب کارروائی کی نقل لینے کا دونوں فریق کو حق ہے- یہ پانچوں امر بظاہر معمولی معلوم دیتے ہیں لیکن انصاف میں بہت ممد ہیں اور کم سے کم ایک بڑی حد تک فریقین کے لئے تسلی اور اطمینان کا موجب ہو جاتے ہیں- اس کے برخلاف ایگزیکٹو (EXECUTIVE)کی کارروائی پس پردہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے رعایت کا شبہ لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے- اس میں فریقین کو ایک دوسرے کے بالمقابل جرح کرنے اور دلائل بیان کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے وہ امور جو ایگزیکٹو پر مشتبہ رہیں انہیں کھولنے کا موقع فریقین کو نہیں ملتا- وہ قابل تنقیح امور کو الگ نکال کر فریقین کو اس سے آگاہ نہیں کرتی کہ اسے معاملہ کی حقیقت سے واقف کرنے کے لئے کن کن امور پر روشنی ڈالنی ضروری ہے- پھر ضروری نہیں کہ وہ فیصلہ خود لکھے یا لکھوائے بلکہ عام طور پر ایگزیکٹو محکموں میں فیصلے دوسرے لوگ لکھتے ہیں اور افسر صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ فیصلہ درست ہے- حالانکہ سب مِسل کو پڑھ کر خود فیصلہ لکھنا یا لکھوانا اور شئے ہے اور دوسرے کے فیصلہ پر نظر اصلاح ڈالنا اور شئے ہے اسی طرح ایگزیکٹو کی سب کارروائی ضروری نہیں کہ تحریر میں آئے اس کا ایک حصہ ضرور زبانی مشوروں پر مبنی ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا ریکارڈ نامکمل ہوتا ہے اور پھر اس نامکمل ریکارڈ کی نقل لینے کا فریقین کو اختیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے فریقین کو اس کے فیصلے کے صحت کے پرکھنے کا موقع نہیں ملتا- ان پانچوں اختلافوں کی وجہ سے حقوق کے تصفیہ کے لئے عدالت کے فیصلہ کو انتظامی حکام کے فیصلہ سے ممتاز کیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس بارے میں ممتاز ہے- میرا یہ مطلب نہیں کہ عدالت خراب نہیں ہو سکتی- میں خود پہلے لکھ چکا ہوں کہ عدالتیں بھی خراب ہو سکتی ہیں لیکن جب دو چیزوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو دونوں کی اچھی یا دونوں کی بری یا دونوں کی اوسط حالت کا مقابلہ کیا جاتا ہے، نہ کہ ایک کی اچھی اور ایک کی بری حالت کا- اور اگر اس طرح ہم عدالت اور ایگزیکٹو کا مقابلہ کریں تو یقیناً ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ بری عدالت بری ایگزیکٹو سے کم نقصان پہنچا سکتی ہے اور اچھی ایگزیکٹو سے اچھی عدالت پر لوگ زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور اس کی یہ وجہ نہیں کہ عدالت پر زیادہ قابل لوگ مقرر کئے جاتے ہیں بلکہ اس کی وجہ وہ قوانین ہیں جن کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں اور جن کی وجہ سے
۳۳۲ لوگوں کے قلوب میں ایک اطمینان سا پیدا ہو جاتا ہے- اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ محبت کے جذبات ہمیشہ ایگزیکٹو سے تعلق رکھتے ہیں، عدالت سے نہیں- کیونکہ اس کی وجہ ایگزیکٹو کے فیصلوں کی خوبی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ عدالت کی بنیاد دلیل پر ہے اور ایگزیکٹو کی احساسات پر، اور محبت احساسات سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ اس کے مقابل پر یہ امر بھی دیکھا جائے گا کہ نسبتی طور پر لوگ عدالت سے اس قدر نفرت بھی نہیں کرتے جس قدر ایگزیکٹو سے، اور اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ ایگزیکٹو کا احساسات سے زیادہ تعلق ہے- مجھے جن جن صاحب علم و تجربہ اور بارسوخ مسلمانوں سے اس بارہ میں تبادلہ خیالات کا موقع ملا ہے میں نے ان سب کو اس امر کے خلاف پایا ہے کہ اختلاف کی صورت میں عدالت پر آئین اساسی کی تشریح کو چھوڑا جائے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ جج کہاں سے لائے جائیں گے جو منصفانہ طور پر فیصلہ کریں گے- اگر تو وہ ہندوستان کی حکومت کی طرف سے مقرر شدہ ہونگے اور ہندو یا مسلمان ہونگے تو بوجہ اس کے کہ آئینی سوالوں کے ساتھ خود ان کے مفاد وابستہ ہوں گے ان کی رائے تعصب کیا ذاتیات سے بھی آزاد نہ ہوگی اور اگر وہ جج برطانیہ کی طرف سے مقرر کر کے بھیجے گئے تو بھی یہ سوال رہے گا کہ برطانیہ ضرور اکثریت کے خیالات سے مرعوب ہوگا اور وہ ایسے جج مقرر نہیں کرے گا جو تمام تعصبات سے بالا ہوں- بے شک اس دلیل میں ایک حد تک وزن ہے- لیکن میرا سوال یہ ہے اور اس کا جواب اس وقت تک کوئی مجھے نہیں دے سکا کہ پھر فیصلہ کس طرح ہوگا؟ یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ میجاریٹی (MAJORITY) کبھی بھی آئین اساسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرے گی- تب بیشک کسی تیسرے محکمہ کی ضرورت نہ ہوگی جو اختلاف کی صورت میں آئین اساسی کے معنی کرے- لیکن اگر میجارٹی پر اس قدر حسن ظن ہے تو پھر حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن اگر یہ ممکن بلکہ قرین قیاس ہے کہ میجارٹی دانستہ یا نادانستہ ایسے فیصلے کرے گی جو آئین ا ساسی کے خلاف ہونگے- یا بعض حالات میں کوئی اقلیت یا کوئی صوبہ یا تمام صوبہ جاتی حکومتیں مرکزی حکومت کے کسی فیصلہ کو آئین اساسی کے خلاف قرار دیں گی تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس اختلاف کا فیصلہ کرنے والا بھی کوئی صیغہ ہو- اگر ایسا صیغہ کوئی نہ ہو تو آئین اساسی کا فائدہ کیا ہے- اس صورت میں وہ اقلیتوں کے لئے ایسا ہی غیر مفید ہے جیسا کہ عام قانون-
۳۳۳ اگر ان لوگوں کا یہ مطلب ہے کہ سائمن کمیشن کی رپورٹ کی تجویز بہتر ہے یعنی ان امور کا گورنر یا گورنر جنرل فیصلہ کیا کرے تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کوئی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس صورت میں صرف یہ سمجھا جائے گا کہ وہ کوئی علیحدہ سپریم کورٹ نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ گورنروں اور گورنر جنرل کو ہی سپریم کورٹ کے اختیار دے دیئے جائیں لیکن اگر ان کا یہ مطلب ہو تو ان کا بیان متضاد ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے خلاف ان کی دلیل یہی ہے کہ ایسے جج کہاں سے آئیں گے جو انصاف سے فیصلہ کریں گے اور وہ کونسی طاقت ہوگی جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہو کہ وہ غیر جانبدار جج مقرر کرے گی؟ جب گورنروں اور گورنر جنرل کو یہ اختیار دینا وہ پسند کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک وہ طاقت بھی موجود ہے جس پر انتخاب کے بارہ میں اعتبار کیا جا سکتا ہے اور وہ آدمی بھی موجود ہیں جو انصاف سے فیصلہ کریں گے- پس جس دلیل پر وہ سپریم کورٹ کی مخالفت کرتے ہیں وہ باطل ہو گئی- صرف یہ سوال رہ گیا کہ آئین اساسی کے معنوں یا اس کے استعمال کے متعلق اگر اختلاف پیدا ہو تو اس کا فیصلہ کوئی مستقل عدالت کرے- یا گورنروں اور گورنر جنرل کو ہی اس غرض کے لئے عدالت فرض کر لیا جائے اور اگر یہی ان کا منشاء ہو تو میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ یہ علاج درست نہیں- اس سے نہ تو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی اور نہ گورنروں کا وقار ہی قائم رہے گا- اور بہتر سے بہتر گورنر اپنی کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس آئینی نقص کی وجہ سے بدنام ہو کر ملک سے نکل جائے گا- میرا یہ خیال ہے کہ وہ لوگ جو سپریم کورٹ کے مخالف ہیں وہ گورنروں کو بھی یہ اختیار دینا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان لوگوں سے میں نے یہ خیالات بھی سنے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق گورنروں کے سپرد کر کے سائمن کمیشن نے ہمیشہ کے لئے ہندوستان کو غلام بنانے کی تجویز کر دی ہے- پس میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی مخالفت وہ لوگ صرف ان مشکلات کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں جو اس کے متعلق نظر آتی ہیں- لیکن اس پر انہوں نے غور ہی نہیں کیا کہ مستقل آئین حکومت رجڈ کانسٹی ٹیوشن (RIGID CONSTITUTION) جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں، لازمی طور پر کسی نہ کسی ایسے محکمہ کی محتاج ہے جو یہ فیصلہ کر سکے کہ اس کی صحیح تشریح اور اس کا صحیح استعمال ہو رہا ہے- اور وہ لوگ آئین اساسی کے اصول کو اسی طرح نظر انداز کر رہے ہیں جس طرح کہ سائمن کمیشن نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے- سائمن کمیشن تو یہ کہتا ہے کہ
۳۳۴ صوبہ جات کا آئین اساسی لچکدار (FLEXIBLE CONSTITUTION) ہو- ہاں گورنر یہ خیال رکھے کہ اقلیتوں کے حقوق تلف تو نہیں کئے جاتے اور سپریم کورٹ کے ہندوستانی مخالف یہ کہتے ہیں کہ آئین اساسی تو مستقل ہو لیکن اس کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی عدالت کے سپرد اس کا فیصلہ نہ کیا جائے- گویا ایک اس کو لچکدار قرار دے کر اس کی لچک کو دور کر دیتا ہے اور دوسرا اسے مستقل قرار دے کر اس کے استقلال کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ دونوں حالتیں بالکل غیر آئینی اور خلاف عقل ہیں اور مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ جو رات دن سیاسیات میں مشغول رہتے ہیں، اس قسم کی غلطی کے مرتکب کس طرح ہو سکتے ہیں- چونکہ میری غرض یہ ہے کہ میں نہ صرف ان لوگوں سے اپیل کروں کہ جو سیاسیاتحاضرہ کے ماہر ہیں بلکہ ان سے بھی جو عقل میں تو ان سے کم نہیں لیکن ان کی خودساختہ اصطلاحات سے واقف نہیں ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے سمجھانے کے لئے میں مذکورہبالاعبارت کی مزید تشریح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں- اس وقت تک سیاسیات کی جس قدر باریکیوں تک انسان کا دماغ پہنچ سکا ہے اس سے ماہرین سیاسیات اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آئینی حکومتوں میں یعنی ان حکومتوں میں جو کسی ایک شخص کی غیر محدود مرضی پر منحصر نہیں ہیں دو قسم کے قوانین ہوتے ہیں- ایک اساسی یعنی وہ قانون جو یہ بتاتے ہیں کہ حکومت خواہ شخصی ہو یا جماعتی، پھر جماعتی کا خواہ قانون ساز حصہ ہو، خواہ انتظامی، خواہ عدالتی، اپنے اختیارات کو کس رنگ میں اور کس حد کے اندر استعمال کرے گا اور دوسرا عام قانون جو حکومت کے عمل کی حدبندی یا تشریح نہیں کرتا بلکہ حکومت کے علاوہ جو افراد یا جماعتیں ہوں، ان کے اعمال کے متعلق قانون تجویز کرتا ہے- دوسرے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ڈیما کریٹک ( DEMOCRRATIC) یعنی جمہوری حکومتیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں- ایک وہ جن کا قانون کلی طور پر اکثریت کی مرضی کے مطابق بنتا ہے- یعنی سب کے سب قوانین خواہ اساسی ہوں یا عام ایک ہی قاعدہ کے مطابق ملک کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت کی رائے کے مطابق بنائے جاتے ہیں چونکہ اس حکومت کے قوانین بلااستثناء منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت کی رائے کے مطابق بنتے ہیں اور جب کوئی دوسری اکثریت انہیں منسوخ کر دے یا اس میں تبدیلی کر دے تو وہ منسوخ ہو جاتے ہیں یا بدل جاتے ہیں- اس وجہ سے اس حکومت کے آئین اساسی کو لچکدار کہتے ہیں- یعنی اکثریت جب
۳۳۵ چاہے عام قانونوں کی طرح اپنے آئین اساسی کو بھی بدل سکتی ہے اور دوسرے قوانین کے مقابلہ میں انہیں کوئی خاص حفاظت حاصل نہیں ہوتی- اس حکومت کی مجلس یا مجالس واضع قوانین پوری طرح آزاد ہوتی ہے- دوسری قسم جمہوری حکومت کی وہ ہوتی ہے کہ جس کے آئین اساسی عام قانونوں سے مختلف قرار دیئے جاتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے باشندے افراد یا جماعتوں یا صوبوں یا ریاستوں کی صورت میں ایک معاہدہ کر کے اس حکومت کو قائم کرتے ہیں اور حکومت پر حد بندی لگاتے ہیں کہ تم کو ملک کے انتظام کیلئے یوں تو پورے اختیارات حاصل ہونگے لیکن فلاں فلاں معاملات میں جب تک معاہدہ کرنے والے افراد یا جماعتیں یا صوبے یا ریاستیں تم کو دوبارہ اختیار نہ دیں تم کوئی قانون نہیں بنا سکتے- گویا اس ملک کی حکومت کو اس ملک کے باشندے پورے اختیار نہیں دیتے بلکہ بعض اختیارات کو سب ملک یا صوبے یا افراد یا جماعتیں اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں تا کہ حکومت ان کے حق کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور ان کے مشورہ کے بغیر کام نہ کر سکے لیکن ان مخصوص امور کے علاوہ دوسرے امور کے متعلق حکومت کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ اکثریت کی مرضی کے مطابق جو قانون چاہے بنا دے- کسی فرد یا کسی جماعت یا کسی صوبہ یا کسی ریاست کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا اس قسم کی حکومت کے آئین اساسی کو مستقل کہتے ہیں- یعنی ان کے بدلنے کا حکومت کو خود اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ افراد یا جماعتیں یا صوبے یا ریاستیں جن کی مرضی کے مطابق وہ قانون بنا تھا، جب مقررہ اصول کے مطابق اپنی مرضی کا اظہار کریں، تبھی انہیں بدلا جا سکتا ہے- وہ طریق جن سے معاہدہ کرنے والی جماعتوں یا افراد یا صوبوں یا ریاستوں کی مرضی کا پتہ لیا جاتا ہے مختلف ہیں لیکن اس جگہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں- حکومت اور قانون کی ان دونوں قسموں کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جن حکومتوں کا آئین اساسی لچکدار ہے انہیں کسی ایسے محکمہ کی ضرورت نہیں جو یہ فیصلہ کرے کہ ان کی حکومت کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط کیونکہ ایسی حکومت کو ہر امر میں فیصلہ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوتا ہے اور جسے پورا اختیار حاصل ہو اس کے فیصلہ کو کون غلط کہہ سکتا ہے لیکن اس کے برخلاف جن حکومتوں کا آئین اساسی مستقل یا غیر لچکدار ہو ان کے اختیارات چونکہ محدود ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی ایسے محکمہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو یہ فیصلہ
۳۳۶ کرے کہ انہوں نے اپنے حق سے باہر تو کوئی قانون نہیں بنا دیا- اس وجہ سے جس قدر آئیناساسی کے اصول کے چوٹی کے ماہر ہیں ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جس حکومت کا آئیناساسی مستقل یا غیر لچک دار ہو یعنی ملک نے اسے یہ آزادی نہ دی ہو کہ وہ جو چاہے کرے اس کے لئے ایک ایسے محکمہ کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی طرف سے اپیل دائر ہونے پر یہ فیصلہ کرے کہ حکومت نے قانون اساسی کی خلاف ورزی تو نہیں کی- چنانچہ لارڈ برائس کینیڈا کی کانسٹی ٹیوشن کا بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ-: ‘’جیسا کہ ان حکومتوں کے متعلق کہ جو کسی آئین اساسی کے ماتحت محدود اختیار رکھتی ہوں عقل کا تقاضا ہے (کینیڈا کی) عدالتوں کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ آیا کوئی قانون حکومت کا غیر آئینی تو نہیں’‘- ۴۰؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ لارڈ برائس کے نزدیک اس حکومت کے لئے جس کے آئین اساسی مستقل ہیں یا دوسرے لفظوں میں جس کی مجلس واضع قوانین محدود اختیارات رکھتی ہے- ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایک ایسا محکمہ ہو جو بصورت اپیل فیصلہ کر سکے کہ مجلس نے اپنے حقوق سے تجاوز تو نہیں کیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ لارڈ برائس کے بیان کے مطابق امریکن مصنفوں کے بر خلاف یورپ کے بہت سے قانون دان اس اصل کے مخالف ہیں اور ضروری نہیں سمجھتے کہ آئین اساسی کے متعلق اختلاف کی صورت میں مجلس قانون ساز کے سوا کوئی اور محکمہ فیصلہ کرے کہ کونسا فریق حق پر ہے- چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں-: ‘’یہ رائے یورپ کے براعظم میں صحیح تسلیم نہیں کی جاتی- وہاں سوئٹررلینڈ اور فرانس کی جمہوریتوں اور جرمن بادشاہت کے قانون دان اب تک مصر ہیں کہ مجلس عاملہ اور عدالت قانون ساز مجلس کے ماتحت ہونی چاہئے- چنانچہ دو نہایت ہی اعلیٰ پایہ کے سوئٹررلینڈ کے قانون دانوں نے میرے سامنے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ امریکن طریق زیادہ معقول ہے بیان کیا کہ (فیصلہ کرنے والی عدالت کے بغیر) سوئٹنررلینڈ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور یہ بھی بیان کیا کہ افراد ملک کو اس طرح کوئی سخت نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ان کے سامنے معاملہ کو پیش کر کے ان کی حفاظت کا سامان کیا جا سکتا ہے’‘- ۴۱؎ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اختلاف جو سوئٹررلینڈ کے قانون دانوں نے کیا ہے حقیقی
۳۳۷ نہیں ہے اور سوئٹنررلینڈ کے قانون اساسی سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سوئٹنررلینڈ میں کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ خود انہی دو ماہرین قانون کے بیان سے جو لارڈ برائس نے نقل کیا ہے ثابت ہے کہ وہاں بھی سپریم کورٹ ہے- کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی سوئٹنررلینڈ میں اس لئے ضرورت نہیں کہ اگر آئین اساسی کے خلاف کوئی بات اسمبلی کرے تو ملک کے باشندے اپنے حق کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اس حفاظت سے ان کی مراد ریفرنڈم (REFERENDUM) ہے- یعنی ملک سے ووٹ لے کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک زیر اعتراض قانون کو آئین اساسی کے خلاف سمجھتا ہے یا نہیں- چنانچہ لارڈ برائس ان کے قول کی مزید تشریح مذکورہ بالا فقرہ سے اگلے فقرہ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ-: ‘’اگر قومی مجلس کے کسی قانون کے متعلق خیال کیا جائے کہ وہ قانون اساسی کے خلاف ہے تو اسی وقت یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے باشندوں کی اس کے متعلق رائے لی جائے- پھر ملک خود فیصلہ کر دے گا کہ قانون آئین اساسی کے خلاف ہے یا نہیں’‘- ۴۲؎ اس طرح پروفیسر ڈبلیو- بی- منرو MUNROE(.B.(W پی- ایچ- ڈی- ایل- ایل- بی لکھتے ہیں کہ-: ‘’اس کے برخلاف اگر کسی معاملہ کے خلاف درخواست دی جائے کہ وہ قانون اساسی کے خلاف ہے اور ملک کی عام رائے اس کے بارہ میں حاصل کی جائے تو اگر اکثر رائے دہندگان اس کے خلاف ہوں تو وہ قانون منسوخ ہو جائے گا’‘- ۴۳؎ ان دونوں حوالوں سے ثابت ہے کہ سوئٹررلینڈ میں بھی آئین اساسی کے ٹوٹنے کی صورت میں ایک ایسا محکمہ مقرر ہے جس کے سامنے اپیل کی جا سکے گو چند آدمیوں کی جماعت پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ملک کے سب افراد پر مشتمل ہے اور سب ملک کے باشندوں کا کورٹ بھی ویسا ہی سپریم کورٹ کہلا سکتا ہے جیسے کہ چند افراد کا کورٹ سپریم کورٹ کہلا سکتا ہے- غرض اصل بات یہ ہے کہ یورپ کے قانون دانوں نے اس امر کو سمجھا ہی نہیں کہ امریکن اور دوسرے ماہرین قانون کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ غیر لچکدار آئین اساسی کے لئے کسی خاص شکل کے سپریم کورٹ کا ہونا ضروری ہے- جو کچھ ان کا دعویٰ ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی حکومت کا آئین اساسی غیر لچکدار ہو یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا محکمہ بنایا جائے کہ جو اختلاف
۳۳۸ کے وقت اس امر کا فیصلہ کرے کہ آیا حکومت نے اپنے اختیارات سے باہر ہو کر تو کوئی قانون نہیں بنایا- کیونکہ اس امر کا فیصلہ مجلس واضع قوانین پر چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی ایک فریق مقدمہ کو خود اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے جج مقرر کر دیا جائے اور سوئٹنررلینڈ نے جو صورت فیصلہ کی تجویز کی ہے یعنی سب ملک کی ریفرنڈم وہ اس ملک کے لحاظ سے بالکل معقول ہے اور یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ سوئٹنررلینڈ میں کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے- ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوئٹنررلینڈ کا سپریم کورٹ یونائیٹڈ سٹیٹس کے سپریم کورٹ سے مختلف ہے- چونکہ بحث کے وقت یہ سوال بھی آ سکتا ہے کہ اگر ریفرنڈم بھی ایک قسم کا سپریم کورٹ ہے تو کیوں ہندوستان میں بھی ویسا ہی سپریم کورٹ نہ جاری کر دیا جائے- یعنی اگر کسی جماعت کو فیڈرل گورنمنٹ کے کسی فیصلہ یا قانون پر اعتراض ہو تو ملک کی عام رائے دریافت کر کے جو کثرت کی رائے ہو اس کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے اس لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اختلاف جو یورپ اور امریکہ کے ماہرین قانون میں ہوا ہے کہ آیا غیر لچکدار قانون اساسی کے لئے کسی سپریم کورٹ کا ہونا لازمی ہے یا نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ ہر ملک کے حالات کے لحاظ سے الگ قسم کے سپریم کورٹ کی ضرورت ہوا کرتی ہے- یہ موقع نہیں کہ میں تفصیلی طور پر بتاؤں کہ کس طرح مختلف ممالک کی مختلف حالتوں کے مطابق مختلف شکلوں کے سپریم کورٹ کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن ہندوستان کے معاملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ غیر لچکدار قانون اساسی کی دو بڑی ضرورتیں ہوتی ہیں- ایک تو شخصی حکومت یا آلیگار کی (OLIGARCHY) یعنی بااثر لوگوں کی حکومت کے حملہ سے بچنا اور دوسرے اکثریت کی حکومت کے حملہ سے بچنا- پہلی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آئین اساسی کے بنانے والوں کے سامنے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کسی وقت کوئی خاص علمی یا مذہبی یا سرمایہ دار یا زمیندار جماعت ملک کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی جمہوریت کی شکل کو توڑ کر ایسے چند بااثر لوگوں کی حکومت (آلیگار کی) میں تبدیل نہ کر دے تب وہ لوگ اس خطرہ سے بچنے کیلئے ایک غیر لچکدار قانون اساسی بناتے ہیں اور اس کی تبدیلی کے متعلق ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں کہ جب تک اکثر افراد کی رائے اس کی تائید میں نہ ہو اس وقت تک اسے تبدیل نہ کیا جا سکے اور اس آئین کے توڑے جانے کے احتمال کے موقع پر بھی فیصلہ ملک کی اکثر آبادی پر چھوڑتے ہیں تا کہ معلوم ہوتا رہے کہ کوئی اقلیت غفلت میں ملک پر
۳۳۹ حکمران تو نہیں ہوگئی- دوسری صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آئین اساسی بنانے والوں کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ اکثریت ہی کہیں اقلیت کو نہ کھا جائے- اور بعض ایسی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ان کے مدنظر ہوتی ہے کہ جو اسی شرط پر اس نظام حکومت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوتی ہیں کہ ان کی جداگانہ ہستی معرض خطر میں نہ آئے- اس صورت میں آئین اساسی کے بنانے والے صرف یہ امر مدنظر نہیں رکھتے کہ اکثریت کے حقوق تلف نہ ہو جائیں بلکہ ایسے قواعد بناتے ہیں جن کی مدد سے اقلیتیں اکثریت کے حملہ سے محفوظ رہیں اور اس صورت میں قانون اساسی کے توڑے جانے کے احتمال کے وقت بھی فیصلہ اکثریت کے سپرد نہیں کیا جاتا بلکہ کسی اور محکمہ کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے- یہ امر ظاہر ہے کہ جس ملک کے قواعد کی غرض چند بااثر افراد کی حکومت سے اپنے ملک کو بچانا ہو ان کے لئے بہترین سپریم کورٹ ملک کی اکثریت کی رائے ہی ہو سکتی ہے کیونکہ چند اشخاص کے فیصلہ سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ملک کا اکثر حصہ اس کا موید ہے لیکن ملک کے اکثر حصہ کا فیصلہ اگر حاصل ہو جائے تو پوری طرح تسلی ہو جاتی ہے کہ اکثریت کی حکومت کا مدعا پورا ہو رہا ہے- برخلاف اس کے جس ملک کا اساس اس اصل پر ہو کہ بعض جماعتوں یا صوبوں کی منفردانہ شخصیت کو نقصان سے بچایا جائے- اس میں اگر سپریم کورٹ ملک کی اکثریت کی رائے کو قرار دیا جائے تو یہ گویا اس غرض کو ہی باطل کرنا ہوگا جس کے لئے قانون اساسی بنایا گیا تھا- جس اکثریت کی دست اندازی سے بچنا مقصود تھا اسی کو جج بنا لینا ایک فریق مقدمہ کے اختیار میں فیصلہ کا اختیار دے دینے کے مترادف ہے- خلاصہ یہ کہ ان دونوں صورتوں میں الگ الگ قسم کے سپریم کورٹ کا ہونا ضروری ہے- پہلی صورت میں ملک کی اکثریت کا فیصلہ ہی قانون اساسی کی حفاظت کر سکتا ہے اور دوسری صورت میں اکثریت کے فیصلہ پر چھوڑ دینا قانوناساسی کی غرض کو باطل کر دیتا ہے- پس انہی مختلف حالات کے ماتحت سوئٹنررلینڈ جس کے آئین اساسی بنانے والوں کے سامنے چند بااثر افراد کی حکومت کا خطرہ تھا انہوں نے اپنے ملک کے آئین اساسی کا مفہوم بتانے کا اختیار ایسے سپریم کورٹ کو دیا جس میں سب افراد ملک شامل تھے اور یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ جسے یہ خطرہ نہیں تھا بلکہ جس کے اجزائے ترکیبی یعنی مختلف ریاستوں کے اوپر ایک ہی خیال حکومت کر رہا تھا کہ یہ نیا نظام کہیں ہماری مستقل حیثیت کو نہ
۳۴۰ مٹا دے اور ہر ریاست ڈر رہی تھی کہ کہیں دوسری ریاستیں مل کر میری ہستی کو معدوم نہ کر دیں یا میری آواز کو کمزور نہ کر دیں اس نے اپنے لئے ایسا نظام تجویز کیا جس میں بعض خاص امور کو تو اکثریت کے فیصلہ سے بالکل باہر نکال لیا اور ایسی شرطیں لگا دیں کہ کسی صورت میں بھی اکثریت اقلیتوں کو قربان نہ کر سکے اور بعض امور کے فیصلہ کے لئے ایسی پابندیاں لگا دیں کہ صرف منتخب نمائندوں کی اکثریت فیصلہ نہ کر سکے بلکہ اقلیتیں جو یونائیٹڈ سٹیٹس کی صورت میں ریاستیں تھیں جب تک بحیثیت ریاستوں کے ایک بہت بڑی کثرت سے اس کی تائید نہ کریں ان امور کے متعلق فیصلہ نہ سمجھا جائے اور اپنے مخصوص حالات کے ماتحت ان لوگوں نے سپریمکورٹ بھی ملک کی تمام آبادی کو قرار نہ دیا کیونکہ اکثریت کے فیصلہ سے بچنے کے لئے ہی وہ تدبیریں کر رہے تھے بلکہ ایک آزاد کورٹ الگ تجویز کیا جس کے سامنے آئین اساسی کے سوال پیش ہوا کریں- چنانچہ اس کورٹ کے ججوں کے انتخاب کا انہوں نے یہ طریق مقرر کیا کہ پریذیڈنٹ ان کا انتخاب کیا کرے لیکن سینٹ کا اتفاق رائے ضروری ہو- سینٹ کے اتفاق رائے میں پھر وہی روح کام کر رہی ہے کہ ریاستوں کو بحیثیت ریاست اس امر کی نگرانی کا موقع مل جائے کہ ایسے جج مقرر نہ ہوں جو اقلیتوں یعنی ریاستوں کے حقوق کو نظر انداز کر دینے والے ہوں- غرض سوئٹنررلینڈ اور یونائیٹڈ سٹیٹس دونوں ملکوں نے اپنے خاص حالات کے مطابق سپریم کورٹ تجویز کئے ہیں خواہ ایک نے اس کا نام سپریم کورٹ نہ رکھا ہو مگر آئیناساسی کی حفاظت اور ترجمانی کرنے والا محکمہ ضرور مرجود ہے اور اس مناسب شکل میں موجود ہے جس شکل میں کہ اس کی ضرورت تھی- یہ جو میں نے کہا ہے کہ سوئٹررلینڈ میں چند بااثر افراد کی حکومت کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی تجویز کیا گیا ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس میں اکثریت کے غلبہ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی تجویز کیا گیا ہے، یہ بے دلیل بات نہیں بلکہ تاریخ اور خود ان ممالک کے آئین اساسی سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس کے متعلق تو ہر تاریخ کے پڑھنے والے کو یہ بات معلوم ہے کہ اس کے آئین اساسی کے بناتے وقت سب سے بڑی دقت یہی تھی کہ ہر ایک ریاست ڈرتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ بعض دوسری ریاستوں کا جتھا مل کر مجھے تباہ کر دے اور اس وقت یونائیٹڈ سٹیٹس کا قانون اساسی بنانے والوں کے سامنے اصل سوال یہی تھا کہ اکثریت، اقلیت کو کچل نہ دے- چنانچہ اس وقت ان لوگوں کی جو کیفیت تھی وہ
۳۴۱ الگزنڈرہملٹن (ALEXANDER HAMILTON) کے خیالات سے جو اس قانون اساسی کے بنانے والوں میں سے ایک نمایاں شخصیت ہے ظاہر ہے- انہوں نے قانون ساز مجلس کے سامنے بیان کیا کہ-: ‘’سب اختیارات اکثریت کو دے دو تو وہ اقلیت کو کچل دے گی اور سب اختیارات اقلیت کو دے دو تو وہ اکثریت کو کچل دے گی اس لئے دونوں کو اس قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل پر اپنی حفاظت کر سکیں’‘- ۴۴؎ مصنف کتاب کا بیان ہے کہ یہ روح سب مجلس پر غالب تھی- چنانچہ وہ لکھتے ہیں-: ‘’اس وقت کی بحثوں میں کثرت سے ایسے بیانات موجود ہیں جن سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے’‘- ۴۵؎ اگر تاریخ کو نہ بھی دیکھا جائے تو خود سینٹ کی بناوٹ اس امر کو خوب واضح کر دیتی ہے کیونکہ سینٹ کے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ہر ریاست کے برابر نمائندے اس میں لئے جائیں خواہ اس کی آبادی زیادہ ہو یا کم اور اس امر پر بھی ریاستوں کو بہ مشکل راضی کیا گیا تھا ورنہ وہ تو کانگریس میں بھی برابر نمائندگی کی طالب تھیں- غرض یونائیٹڈ سٹیٹس کے کانسٹیٹیوشن اور تاریخ دونوں سے ثابت ہے کہ اس کے آئین میں اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کسی صوبہ کو مرکزی حکومت یا دوسرے صوبوں سے نقصان نہ پہنچے- سوئٹررلینڈ کی حکومت کی تاریخ سے گو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا آئین خاص افراد یا جماعت کی دست برد سے بچنے کے لئے بنایا گیا تھا کیونکہ اس کا آئین درحقیقت ایک لمبے عرصہ میں تیار ہوا ہے- لیکن اس ملک کے حالات اور گردو پیش کے حالات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حکومتوں کے سامنے مقصد وحید یہ ہوتا تھا کہ چرچ کسی طرح حکومت پر قبضہ نہ کر لے- ہاں اس ملک کے آئین اساسی سے اس امر کا پتہ ضرور لگتا ہے کہ بعض خاص افراد کی حکومت سے بچنے کے لئے ایسی کوشش کی گئی تھی- چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس ملک میں بعض مسیحی فرقوں کی قانوناً بندش کر دی گئی ہے اور پادریوں پر پادری ہونے کی صورت میں بعض قیود لگائی گئی ہیں اور اسی قسم کے خوف کے ماتحت ودار تھرگ کے علاقہ کو سوئٹنررلینڈ نے اپنے ساتھ ملانے سے انکار کر دیا ہے- ۴۶؎
۳۴۲ غرض ملک کا آئین اساسی جس خطرہ کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے- اسی کے مطابق سپریمکورٹ بھی تجویز کیا جاتا ہے- پس ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہندوستان میں جو مستقل آئین اساسی پر زور دیا جاتا ہے تو کیوں دیا جاتا ہے- آیا اقلیتوں کو خطرہ سے بچانے کے لئے یا کسی خاص بااثر جماعت کے ہاتھ سے اکثریت کو بچانے کے لئے- اگر اول الذکر صورت ہے جیسا کہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہی صورت ہے- تو پھر یونائیٹڈسٹیٹس کی طرح کا سپریم کورٹ ہی کام دے سکتا ہے اور اگر دوسری قسم کے خطرات ہیں جیسا کہ ہر اک جانتا ہے کہ نہیں ہیں تو پھر بیشک سوئٹنررلینڈ جیسا سپریم کورٹ یعنی ریفرنڈم تجویز کیا جا سکتا ہے- خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین اساسی غیر لچک دار ہونا چاہئے اور اقلیتوں کی حفاظت کے لئے جن امور کو ضروری سمجھا جائے وہ اس میں بالتفصیل بیان کئے جائیں اور کوئی ایسا محکمہ ضرور تجویز ہونا چاہئے کہ جو فیصلہ کر سکے کہ قانون اساسی کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی- قانوناساسی کی دفعات کیا ہوں اس کی تبدیلی کی کیا ضرورت ہو سپریم کورٹ کس صورت میں عمل کرے میں اس وقت اس پر بحث نہیں کرتا- اس کا موقع میرے نزدیک فیڈریشن کی بحث کے بعد آئے گا- پس اب میں فیڈرل سسٹم (FEDERAL SYSTEM) پر بحث کرتا ہوں-
۳۴۳ باب دوم ہندوستان میں اتحادی (فیڈرل) حکومت سائمن کمیشن نے مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم کی اتباع میں ہندوستان کے لئے فیڈرل حکومت کی سفارش کی ہے اور میرے نزدیک یہ سفارش اس کی سب سے اہم سفارشوں میں سے ہے اور اسے مانٹیگوچیمسفورڈ پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ گو ثانی الذکر نے بطور تنزل کے تو اتحادی طرزحکومت کی سفارش کی تھی لیکن اپنی سفارشات کا ڈھانچہ ایسا تیار نہیں کیا تھا جو اتحادی طرزحکومت کے بالکل مطابق ہو- لیکن سائمن رپورٹ نے اپنی سکیم فیڈرل اصول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور آئندہ منازل کلی طور پر اس کے اصول کے مطابق مقرر کی ہیں- ہندوستان کے حالات کو سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی درحقیقت اس کے سوا کوئی سفارش نہیں کر سکتا- ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ممالک کا مجموعہ ہے جس کے باشندوں میں آہستہ آہستہ اب جا کر قومیت کا احساس پیدا ہوا ہے- لیکن وہ احساس اس قدر مضبوط نہیں کہ اس پر توحیدی (UNITARY)حکومت کی بنیاد رکھی جا سکے- دوسرے اس کی زبان ایک نہیں- ہر صوبہ کی زبان دوسرے صوبہ سے مختلف ہے بلکہ بعض صوبوں کی بھی ایک زبان نہیں- ایک ہی صوبہ کے مختلف حصوں میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں- اور اسی قدر تعداد میں تقسیم ہیں کہ اس اختلاف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- پھر اقوام کا اختلاف بھی ہے- شمالی ہند کے ہندو جنوبی ہند کے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہیں- جنوبی ہند کے باشندے اپنے آپ کو ویدک تہذیب سے پہلے کا مانتے ہیں- اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ویدوں نے ان کے منتروں سے اپنی تعلیم اخذ کی ہے- اس کے برخلاف شمالی ہند کے باشندے ویدوں کو نہ صرف مذہب کے لحاظ سے سب کتب پر مقدم کرتے ہیں بلکہ انہیں ابتدائے عالم میں قرار دے کر اپنی تہذیب کی بنیاد ہی ان پر رکھتے ہیں- پھر مذاہب کا اختلاف ہے- شمالی صوبہ جات میں ہندو مذہب کا زور
۳۴۴ ہے- لیکن اسلامی تہذیب کا بھی گہرا اثر ان علاقوں پر ہے- اس کے برخلاف وسطی ہند میں ہندو مذہب اور ہندو تہذیب اپنے پورے زور پر نظر آتے ہیں- جنوبی ہند میں جا کر ہندو مذہب تو رہ جاتا ہے لیکن تہذیب (DRAVIDIAN) ڈریویڈین* ۴۶؎ قوم کی آ جاتی ہے- جس نے باوجود براہمنوں کے کچل دینے والے اثر کے اپنی شخصیت کو ترک نہیں کیا اور ایک ادنیٰ اشارہ پر ابھرنے کے لئے تیار ہے- پھر قومی اخلاق کا اختلاف ہے- شمال مغربی ہند کے پٹھان اور شمال مشرقی ہند کے بنگالی میں کوئی جوڑ ہی نہیں- ان دونوں کے اخلاق میں اس قدر فرق ہے جس قدر کہ ایک مانٹی نیگرو کے باشندہ اور ایک شمالی فرانس کے باشندے میں فرق ہے- سندھی کو یو-پی کے باشندوں سے کوئی بھی مناسبت نہیں اور ایک پنجابی اور بہاری کے اخلاق آپس میں کوئی نسبت نہیں رکھتے- اختلاف ہر ملک میں ہوتا ہے مگر یہ اختلاف انتہائی درجہ کا ہے- ایسا اختلاف کہ وہ ایک دوسرے کی مقامی ضرورتوں کے لئے کسی صورت میں بھی مناسب قانون نہیں بنا سکتے- نہ ایک قانون ان سب صوبوں کے لوگوں کے لئے موجب امن و برکت ہو سکتا ہے- پھر سب سے بڑھ کر ہندوستان کی ریاستوں کا سوال ہے- وہ ابھی تک کم سے کم ظاہری طور پر مختار فردی حکومت کے ماتحت ہیں- اگر ہندوستان ترقی کرنا چاہتا ہے تو ان سے کسی نہ کسی رنگ میں اس کا تعلق ضروری ہوگا- لیکن بغیر اس کے کہ وہ اپنی خود مختارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکیں وہ کبھی بھی آزادہندوستان سے اتحاد کرنا پسند نہیں کریں گی- پس ان حالات کے ماتحت ہندوستان میں اگر کوئی طریق حکومت کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ اتحادی یعنی فیڈرل طرز حکومت ہے اور اس وجہ سے کمیشن کی سفارش اس بارہ میں بہت وقعت اور اہمیت رکھتی ہے- اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائمن رپورٹ کس قسم کی فیڈرل حکومت ہندوستان کو دینا چاہتی ہے- اس بارہ میں اس کی سفارشات اس قدر مبہم ہیں کہ ہر شخص جس نے رپورٹ پڑھی ہے اس کا خیال دوسرے سے مختلف ہے- ایک طرف تو سائمن رپورٹ کہتی ہے کہ-: ‘’ایسے علاقوں کا اتحاد جیسے کہ ریاستیں اور صوبہ جات ہند ہیں کہ پہلے (یعنی ریاستیں) تو فردی حکومت کے ماتحت ہیں اور دوسرے جمہوری اصول کے ماتحت ہیں، مجبور کرتا ہے کہ اس کی بنیاد اس اصل پر رکھی جائے کہ ممکن سے ممکن اندرونی آزادی ان علاقوں کو دی جائے جو حکومت ہند کا حصہ بنیں گے’‘- ۴۷؎ لیکن دوسری طرف وہ لکھتے ہیں-:
۳۴۵ ‘’معمولی قانون ساز اختیارات نئی کونسلوں کے بہت وسیع ہونگے کیونکہ انہیں صوبہ کے امن اور اچھی طرح حکومت چلانے کے لئے قانون بنانے کے موجودہ وقت کی طرح پورے اختیارات حاصل ہونگے اور صرف ان امور کے متعلق حد بندی ہوگی (جو حد بندی اس طرح عمل میں لائی جائے گی کہ ہر قانون کے پاس کرنے سے پہلے گورنر جنرل سے اجازت لینی پڑے گی) کہ جو مرکزی اسمبلی سے تعلق رکھتے ہونگے- ہم پورے زور سے اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ ایکٹ کی دفعات کو اس بارہ میں قائم رکھا جائے کیونکہ اس سے مرکزی اور صوبہ جات کے اختیارات کی اچھی تقسیم ہو گئی ہے- ان دفعات میں اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کسی قانون کو جو پاس ہو چکا ہو اور گورنر جنرل کی منظوری حاصل کر چکا ہو غلط قرار نہ دیا جا سکے اور اس طرح مقدمہ بازی کے دروازہ کو بند کر دیا گیا ہے جس کا اس صورت میں کہ مرکز اور صوبہ جات کے اختیارات کو زیادہ وضاحت سے تقسیم کر دیا جائے کھل جانا لازمی تھا’‘- ۴۸؎ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آئندہ بھی کونسلوں کے وہی اختیارات رہیں گے جو اب ہیں اور وہ اختیارات نہایت ہی قلیل ہیں اور درحقیقت ان کی موجودگی میں صوبہ جات کی کونسلیں صوبہ جات کی کونسلیں کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہیں اور چونکہ گذشتہ اختیارات میں یہ شرط بھی لگی ہوئی ہے کہ صوبہ جات کے متعلق قوانین گورنر جنرل کی مرضی سے مرکزیاسمبلی بنا سکتی ہے- پس معلوم ہوا کہ سائمن رپورٹ کی سفارش کے مطابق آئندہ بھی مرکزی اسمبلی گورنر جنرل کی اجازت سے صوبہ جات کے متعلق قانون بنا سکے گی- گویا وہ اختیارات جو صوبہ جات کو دیئے گئے تھے اس طرح وہ بھی عملاً چھینے گئے اور صرف گورنر جنرل کی مرضی کی حد بندی کے ماتحت صوبہ جات کے تمام اختیارات مرکزی اسمبلی کے ہاتھ میں چلے گئے- غرض جو اختیارات اس پیرہ میں صوبہ جات کی کونسلوں کو دیئے گئے ہیں وہ بالکل محدود ہیں اور عملاً سب اختیارات مرکز ہی میں رہے ہیں اور صوبہ جات کے نام نہاد اختیارات کو بھی ایک طرح کا مرکزی بنا دیا گیا ہے- یہ شکل کسی صورت میں اٹانومی (AUTONOMY) کہلانے کی مستحق نہیں- اور اسے اٹانومی کہنا اٹانومی کے دعویداروں کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے-
۳۴۶ ان دو متضاد بیانوں کی وجہ سے مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہیں- بعض تو کہتے ہیں کہ پہلا حوالہ بطور اصول کے ہے اور دوسرا حوالہ صرف درمیانی وقت کے لئے عارضی احتیاط کا کام دیتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ دوسرا حوالہ کمیشن کے اصل خیالات کو ظاہر کرتا ہے اور اس نے صرف ہندوستانیوں کو یہ تسلی دلانے کے لئے کہ اگر مرکز میں ہم کو اختیار نہیں ملے تو صوبہ جات میں تو اٹانومی مل گئی ہے- فیڈرل سسٹم اور اٹانومی کے الفاظ اختیار کئے ہیں ورنہ ان کی تجویز کردہ سکیم فیڈرل سسٹم کہلانے کی مستحق ہر گز نہیں کیونکہ صوبہ جات کو بالکل ایک بے معنی سی کانسٹی چیوشن دی گئی ہے جس کی آئندہ ترقی کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی- اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دوسرے حوالہ کو ہم بطور اصل کے تسلیم کریں تو ہمیں ایسی ہی مایوسانہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے- لیکن میرا خیال ہے کہ کمیشن نے دیدہ دانستہ ایسا نہیں کیا- جس زور سے انہوں نے فیڈریشن اصول کو پیش کیا ہے اور جس طرح انہوں نے زور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت کو طاقتیں دینی مناسب نہیں کیونکہ یہ کام اتحادی اصول کے ماتحت صوبہ جات کا ہے- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہی تھا کہ صوبہ جات کو حقیقی خود اختیاری حکومت ملے جیسے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاستوں کو حاصل ہے- مگر بہرحال خواہ ان کا مطلب کچھ بھی ہو اب جب کہ شبہ پیدا ہو گیا ہے یہ امر آئندہ آئین اساسی میں بوضاحت بیان ہونا چاہئے کہ ہندوستان کی حکومت کامل اتحادی ہوگی اور مرکزی حکومت کو صرف وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو صوبہ جات اسے دیں یا جن اختیارات کو کہ وہ اپنی آزادی کے مکمل ہونے پر اس کے پاس رہنے دینے پر رضامندی ظاہر کریں اور تمام باقی اختیارات صوبہ جات کے قبضہ میں سمجھے جائیں گے اور ان کی مرضی کے بغیر مرکز ان میں کسی صورت میں دخل دینے کا مجاز نہ ہوگا- فیڈرل سسٹم پر اعتراضات اور ان کے جواب بعض ہندو صاحبان کی طرف سے فیڈرل سسٹم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس طرح ہندوستان کی قومیت کمزور ہو جائے گی اور کبھی بھی ہندوستان ایک قوم نہیں بن سکے گا اور بعض ان میں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ فیڈرل طریق کو جاری کر کے انگریزوں کا یہ منشاء ہے کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں رقابت پیدا کر دیں اور اس طرح ہمیشہ کے لئے ہندوستان پر قبضہ رکھیں- یہ اعتراض معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ مسٹر شاستری
۳۴۷ جیسے پرانے خادم ملک کی طرف بھی یہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے انگلستان میں ایک موقع پر فیڈرل سسٹم کے خلاف یہ اعتراض کیا ہے کہ اس سے ہندوستان میں کبھی بھی قومیت پیدا نہیں ہوگی- گو مجھے کبھی بھی مسٹر شاستری سے ملنے کا موقع نہیں ملا لیکن میرے دل میں ان کی بہت عزت ہے کیونکہ میرا ہمیشہ ان کی نسبت یہ خیال رہا ہے کہ وہ ان چند ہندوستانیوں میں سے ہیں کہ جو بات کرنے سے پہلے سوچ لیتے ہیں اور جانچ تول کر بات کرتے ہیں اور نسلی اور مذہبی جھگڑوں کی آگ کے بھڑکانے کے مرتکب نہیں ہوتے ایسے آدمی کی بات ضرور قابل غور ہوتی ہے اس وجہ سے میں نے نہایت غور سے اس سوال کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا ہے- لیکن باوجود اس کے میں اس دلیل کے اندر کوئی بھی حقیقت پانے سے محروم رہا ہوں- میں تاریخ عالم پر ایک گہری نظر ڈالنے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس طرح انسان آپس میں ایکدوسرے سے بحیثیت افراد کے اور بحیثیت اقوام کے مختلف ہیں اسی طرح وہ آپس میں بحیثیت زمانہ کے بھی اور بحیثیت جگہ کے بھی مختلف ہیں- یعنی انسانوں میں یہی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ ایک فرد دوسرے فرد سے اور ایک قوم دوسری قوم سے مختلف ہے بلکہ جس زمانہ میں کوئی شخص یا قوم ہے اگر اسے دوسرے زمانہ میں لے جایا جائے تو اس کے حالات بھی اپنے پہلے حالات سے مختلف ہو جائیں گے- اسی طرح ایک قوم کو اس کے موجودہ ملک سے نکال کر دوسرے ملک میں لے جاؤ تو اس کے حالات بھی وہاں جا کر مختلف ہو جائیں گے- مثال کے طور پر انگلستان کی نو آبادیوں کو دیکھ لو- وہاں کے قوانین انگلستان سے جدا ہیں حالانکہ وہ انگلستان سے جا کر وہاں بسے ہیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک کے تغیر کے ساتھ ان کی ضرورتیں بھی بدلتی گئی ہیں- پھر ان میں آپس میں بھی اتحاد نہیں- کینیڈا کی انگریزی نو آبادیوں نے اپنے لئے اور قوانین تجویز کئے ہیں تو آسٹریا نے اور نیوزی لینڈ نے اور- اور یہ اختلاف عام قوانین میں ہی نہیں ہے بلکہ قانون اساسی میں بھی ہے- اب اگر اس اختلاف کو دیکھ کرکوئی شخص یہ مقابلہ کرنے بیٹھے کہ ان قوانین میں سے کونسا بہتر ہے تو گو بعض غلطیاں وہ نکال لے گا لیکن ایسے مقابلہ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گا کیونکہ بہت سی باتیں جنہیں وہ دوسری باتوں پر ترجیح دے گا درحقیقت ترجیح کے قابل نہیں ہونگی جو جس ملک میں رائج ہے وہاں کے لئے وہی بہتر اور مفید ہوگی- غرض ملکوں کے حالات پر غور کئے بغیر اور قوموں کے حالات پر غور کئے بغیر ایک قاعدہ کلیہ بنا لینا کہ فلاں اصول حکومت فلاں سے بہتر ہے ایک نادانی کا فعل ہے اور
۳۴۸ اس کا مرتکب آپ بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے- مختلف ممالک میں مختلف طرز کی حکومتیں بلاوجہ نہیں ہیں بلکہ دانستہ یا قلبی شعور کے ماتحت نادانستہ طور پر ملک کی خاص ضرورتوں کے مطابق لوگوں نے قوانین بنائے ہیں اور ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ یونیٹری یعنی اتصالی حکومت بہتر ہوتی ہے یا فیڈرل یعنی اتحادی- نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتصالی حکومتوں میں سے شخصی یا حکومت خواص یا جمہوری حکومت اچھی ہوتی ہے- یا یہ کہ اتحادی حکومتوں میں سے مرکز کو مضبوط کرنے والی یا مرکز کو کمزور کرنے والی حکومت اچھی ہوتی ہے- جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ فلاں ملک کے لحاظ سے یا فلاں قوم کے لحاظ سے یا فلاں مذہب کے لحاظ سے فلاں حکومت اچھی ہو سکتی ہے اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قسم کی حکومت سے قومیت پیدا ہوتی ہے- ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں ملک یا فلاں قوم یا مذہب کے لوگوں میں فلاں قسم کی حکومت سے قومیت پیدا ہو سکتی ہے- پس یہ کہنا کہ فیڈرل اصول حکومت سے قومیت کمزور ہو جاتی ہے بالکل طفلانہ خیال ہے- نہ فیڈرل طرز حکومت قومیت پیدا کرتا ہے اور نہ یونیٹری طرز حکومت قومیت پیدا کرتا ہے- قومیت تو اس خیال سے پیدا ہوتی ہے کہ فلاں نظام حکومت ہمارا ہے اس کا قائم رکھنا اور اس کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے- جو نظام بھی یہ جذبات اپنے ملک کی آبادی میں پیدا کر سکتا ہے وہ قومیت پیدا کر دے گا خواہ کسی قسم کا ہو- اور جو نظام حکومت یہ جذبہ پیدا نہیں کر سکے گا وہ اس عمل میں ناکام رہے گا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو- پس قومیت صرف اس نظام سے پیدا ہو سکے گی جو اس ملک کے باشندوں کے دلوں کو اپنے قابو میں لا سکے- تاریخ سے بیسیوں مثالیں اس کی بھی مل سکتی ہیں کہ جب جمہوریت قومیت پیدا کرنے سے محروم رہی تو شخصی حکومت نے قومیت پیدا کر دی- تازہ مثال اٹلی ہی کی موجود ہے- اسی طرح اس کی بھی مثالیں موجود ہیں کہ فیڈرل حکومت نے اعلیٰ درجہ کی قومیت پیدا کر دی جیسے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ہوا یا آئرلینڈ میں ہوا کہ برطانوی طرز حکومت بھی ایک قسم کی فیڈریشن ہے- جب تک آئرلینڈ کو انگلستان نے اپنے ساتھ ملائے رکھا آئرلینڈ نے برطانوی قومیت کے قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب اس کی تکالیف کو دور کر کے آزاد کر دیا تو آج آئرلینڈ انگلستان کے ساتھ ہے- پس اگر ہم ہندوستان کے خیر خواہ ہیں اور ہندوستان میں قومیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ مختلف اقوام اور مختلف صوبوں کو جن میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے مطمئن کریں- اور ہندوستان کے معاملہ میں اس کا علاج صرف ایک
۳۴۹ کامل فیڈریشن ہے- جب تک فیڈریشن کے ذریعہ سے ان مختلف مذاہب اور مختلف زبانوں اور مختلف تہذیب کے لوگوں کو اس خوف سے آزاد نہیں کیا جائے گا کہ ہندوستان کی قومی حکومت انہیں تباہ کر دے گی اس وقت تک اقلیتوں کے دل کبھی بھی ہندوستانی حکومت کو اپنا نہیں سمجھیں گے- اور جب تک وہ نظام حکومت کو اپنا نہیں سمجھیں گے وہ کبھی بھی قومیت کے جذبات سے متاثر نہیں ہونگے خواہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں کتنا ہی اتصال کیوں پیدا نہ کر دو- ہر ایک شخص جس نے انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا ہو سمجھ سکتا ہے کہ جب اختلاف شدید ہو اور ایک دوسرے سے خوف حد سے بڑھا ہوا ہو تو بہترین علاج یہی ہوتا ہے کہ کسی قدر علیحدہ رکھ کر سوچنے کا موقع دیا جائے ورنہ ایسے دو شخص اگر اکٹھے رکھے جائیں تو کوئی تعجب نہیں کہ ایک دوسرے کو محض اس خوف سے قتل کر دے کہ یہ مجھے قتل کرنے لگا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے لوگوں نے دانائی سے اس حکمت کو سمجھا اور وہ ایک قوم بن گئے- ہم اگر اس کو سمجھ لیں گے تو ایک قوم بن جائیں گے اور اگر بغیر مختلف نظاموں کی حقیقت اور ان کے معنی سمجھنے کے طوطوں کی طرح اصطلاحات رٹتے رہے تو خدا جانے بدنصیب ہندوستان کا انجام کیا ہوگا- اتحادی یعنی فیڈرل طرز حکومت پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں چونکہ ثنائی یعنی ڈویل (DUAL) طرز حکومت ہوتی ہے یعنی ایک ہی شخص دو حکومتوں کی رعایا ہوتا ہے اس لئے اختلاف کے مواقع زیادہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور دونوں حکومتیں اپنے اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں- میں اس سوال کی تفصیلات میں پڑ کر مضمون کو لمبا کرنا نہیں چاہتا لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب ڈویل حکومت ایسی ہو کہ ایک کا حکم دوسری کے حکم کے متضاد ہو تب یہ فساد پیدا ہوتے ہیں لیکن جب دونوں حکومتوں کے اختیارات الگ الگ ہوں، حکومت کا دائرہ الگ الگ ہو، تو پھر اختلاف کی کیا وجہ ہو سکتی ہے- جن امور کے متعلق حکومتمقامی نے قانون بنانا ہے ان میں حکومت مرکزی نے نہیں بنانا اور جن میں اس نے بنانا ہے اس نے نہیں بنانا پھر اختلاف اور جھگڑے کی کیا ضرورت ہے- ہاں اس صورت میں اختلاف دو طرح پیدا ہو سکتا ہے یا شرارت سے یا غلطی سے- غلطی کا علاج سپریم کورٹ کرے گا- باقی رہا شرارت کا سوال- سو اگر ایک دوسرے کے خلاف بعض کا موجود ہونا تسلیم کیا جائے تو ساتھ ہی فیڈریشن کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے- پس یہ صورت حالات فیڈریشن کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید میں ایک دلیل ہوگی-
۳۵۰ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے قانون اساسی میں بیرونی اور ریاستوں کی باہمی تجارت فیڈرل گورنمنٹ کے سپرد تھی اور اندرونی تجارت ریاستوں کے سپرد تھی- مگر ریلوں کی ایجاد نے اس فرق کو اڑا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کو بہت بڑی ہوشیاری سے اس قانون کو توڑ مروڑ کر صورت حالات کے مطابق کرنا پڑا- اگر فیڈرل طریق حکومت ہوا تو اسی قسم کی مشکلات ہندوستان کو بھی پیش آئیں گی- میرا جواب یہ ہے کہ ضرورت نے ساتھ ہی یہ عقل بھی تو سکھا دی کہ موجودہ زمانہ میں ہم کانسٹی چیوشن کو کیا رنگ دے سکتے ہیں پھر ڈر کس بات کا؟ دوسرے یہ اعتراض درحقیقت اعتراض ہی نہیں کیونکہ قانون اساسی بدلا بھی تو جا سکتا ہے- جب فیڈرل حکومت کے تمام حصوں کو نئے حالات کے ماتحت کوئی نقص معلوم ہوگا تو وہ خود خواہش کریں گے کہ قانون اساسی کو بدل دیا جائے اور صوبوں کو اپنی خواہش کے بعد اس قانون کے بدلنے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی- غرض فیڈرل طرز حکومت پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ کوئی وقعت نہیں رکھتے- یہ نظام بھی جب اس ملک میں جاری کیا جائے جس میں ملک کے مختلف حصے یا اس کی مختلف اقوام آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار نہ رکھتی ہوں اور ایک دوسرے سے خائف ہوں تو بجائے اختلاف کی خلیج بڑھانے کے اتحاد قلبی کے پیدا کرنے کے لئے راستہ صاف کر دیتا ہے اور دلوں کو اس امر کے لئے آمادہ کر دیتا ہے کہ اگر ضرورت ہو تو کسی وقت زیادہ اتصالی کیفیت گورنمنٹ پیدا کر لی جائے اور جس ملک کے مناسب حال یہ طریق حکومت ہو اس میں اس کو جاری نہ کرنا بلکہ یونیٹری (UNITARY)طریق حکومت جاری کرنا اتحاد نہیں بلکہ فساد پیدا کرتا ہے- مسٹر جیمز بیک JAMES BECK(.MR (یونائیٹڈ سٹیٹس کے سالٹر جنرل نے یونائٹیڈسٹیٹس کے متعلق جو مندرجہ ذیل فقرہ کہا ہے اس سے ہم ہندوستان کے آئندہ نظام کے متعلق فائدہ اٹھا سکتے ہیں- وہ لکھتے ہیں-: ‘’ایک ایسے ملک میں جو ایٹلانٹک سے پیسفک تک اور (شمالی امریکہ کی)جھیلوں سے لے کر (میکسیکو کی) خلیج تک پھیلا ہوا ہے- جس کا شمالی کونہ قطب شمالی کے سمندر سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے اور جس کا جنوبی حصہ خط استواء سے کچھ زیادہ بعید نہیں ہے- عادات، رسوم اور طبائع کے لحاظ سے لوگوں میں اس قدر اختلافات میں کہ اگر ثنائیت (ڈویل ((DUAL کی قسم کی حکومت نہ ہوتی تو نظام حکومت کبھی کا تباہ
۳۵۱ اور برباد ہو چکا ہوتا’‘- ۴۹؎ ہندوستان کے اختلافات یونائٹیڈسٹیٹس سے بہت زیادہ ہیں- پس اگر اس ملک میں یونیٹری حکومت اتحاد نہیں بلکہ فساد پیدا کر سکتی تھی تو یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان میں اس سے قومیت پیدا ہوگی- اگر اس طریق کو اختیار کیا گیا تو قومیت پیدا نہیں ہوگی بلکہ خرابی ہوگی- ہندوستان کے لئے فیڈرل سسٹم کے فوائد علاوہ زبان و رسوم وغیرہ کے اختلاف کے یہ امر بھی غور کے قابل ہے کہ ہندوستان میں حقیقی اتحاد کے لئے فیڈرل اصول حکومت کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس ملک کا ایک تہائی حصہ ریاستوں کے ماتحت ہے اور جب تک وہ حصہ ہندوستان سے ان امور میں مشترک ہو کر کام نہ کرے جو آل انڈیا حیثیت کے ہیں اس وقت تک ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا اور اس کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ فیڈریشن کے اصول پر کام کیا جائے- ورنہ نیم آزاد ریاستیں کبھی بھی برطانوی ہند سے مل کر کام کرنے پر تیار نہ ہونگی- دوسرا فائدہ فیڈرل سسٹم کا یہ ہے کہ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور اس کے مختلف صوبوں کے باشندوں کے مزاج بوجہ مختلف آب و ہوا کے مختلف ہیں- پس یہ لازمی بات ہے کہ فیڈرل سسٹم کے اجراء پر ہر صوبہ اپنی ضرورت کے مطابق حکومت کے قواعد بنائے گا اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں ہندوستان میں متفرق قسم کے سیاسی تجربات ہونے لگ جائیں گے جن تجربات سے مرکزی حکومت فائدہ اٹھائے گی اور اسے آئینی اصول کے مطابق ایک ایسی مکمل صورت اختیار کرنے کا موقع ہوگا جو شاید دنیا کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہے- فیڈرل انڈیا کے حصے اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ ملک کے کونسے حصے اور کس اصل پر فیڈرل انڈیا کا جزو بنیں گے- میں اس وقت ریاست ہائے ہند کے سوال کو چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ مستقل بحث کا محتاج ہے اور صرف برطانوی ہند کو لیتا ہوں- اس وقت ہندوستان نو آئینی صوبوں اور چند غیر آئینی علاقوں میں منقسم ہے- سوال یہ ہے کہ اس موجودہ حالت میں اس کی فیڈریشن کس طرح بن سکتی ہے- کیونکہ فیڈریشن کے اصول کے یہ امر منافی ہے کہ اس کے بعض حصے مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں- اگر ایسا ہوا تو فیڈریشن ناقص ہو جائے گی- کیونکہ اس میں یونیٹری یعنی اتصالی اور فیڈرل یعنی اتحادی دونوں قسم کی
۳۵۲ حکومتیں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں گی- ان علاقوں کے لحاظ سے جن میں مقامی حکومت نہ ہوگی، فیڈرل اسمبلی مقامی حکومت کا رنگ رکھے گی اور ان علاقوں کے لحاظ سے جن میں مقامی حکومت ہوگی، وہ فیڈرل اسمبلی کی حیثیت رکھے گی پھر اس کے ممبروں کے انتخاب کے بھی سائمن رپورٹ کے مطابق مختلف طریق ہونگے- صوبہ جاتی حکومتوں میں تو مقامی کونسلیں اس کے ممبر منتخب کریں گی اور غیر آئینی علاقہ کے لوگ براہ راست انتخاب کریں گے اور (غیرترقی یافتہ( علاقوں کے نمائندے خود گورنر جنرل منتخب کیا کریں گے یہ صورت بالکل غیرآئینی ہوگی اور اس سے فساد پیدا ہوگا- فیڈرل حکومت کا کوئی حصہ فیڈریشن سے آزاد نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ خاص ضرورتوں کے ماتحت کوئی حکومت نیا شہر بسا لے جس کے باشندے یہ جانتے ہوئے وہاں بسیں کہ ہمیں لوکل حکومت میں کوئی حق نہیں ملے گا- یا یہ کہ جو حصہ مقامی آزادی سے محروم ہو وہ فیڈرل حکومت کا حصہ ہی نہ ہو بلکہ اس کا ایک ماتحت علاقہ ہو جیسے کہ یونائٹیڈ سٹیٹس میں فلپائن ہے- ان دونوں صورتوں کے سوا کوئی حصہ ملک کا حقیقی فیڈرل حکومت میں مقامی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا- صرف اس لئے نہیں کہ یہ اس پر ظلم ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ امر فیڈرل اسمبلی کو ایک جہت سے مقامی کونسل کی شکل دے دیتا ہے- جو فیڈرل اصول کے بالکل بر خلاف اور یونیٹری اصول کے مطابق ہے- فیڈرل حکومت تبھی صحیح اصول پر چل سکتی ہے جب اس کے سب حصے برابر کی آزادی رکھتے ہوں- پس جب تک ہندوستان کی موجودہ تقسیم کو نہ بدلا جائے اس وقت تک فیڈرل نظام حکومت اس ملک میں صحیح طور پر جاری نہیں ہو سکتا اور صوبہ جات کا تغیر و تبدل صرف ایک سہولت کا ہی سوال نہیں بلکہ ایک اصولی سوال ہے اور اس وجہ سے اس سے زیادہ قابل توجہ ہے جس قدر توجہ کہ سائمن کمیشن نے اسے دی ہے- سائمن کمیشن کی رپورٹ یہ ہے کہ گورنروں کے صوبوں کے سوا باقی سب صوبوں کی باستثناء شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وہی حالت رہے جو پہلے تھی اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کو بھی وہ ایک نیم آزاد سی حکومت دینا چاہتے ہیں لیکن اگر ان کی اس سفارش کو تسلیم کر لیا جائے تو کبھی بھی ہندوستان صحیح طور پر فیڈرل سسٹم کے اصول پر نشوونما نہیں پا سکتا- تعجب ہے کہ وہ ایک طرف ان صوبوں کے موجودہ نظام کو خود ہی ناقص قرار دیتے ہیں پھر اس کے قیام کی بھی سفارش کرتے ہیں- قریباً ہر گورنر کے صوبہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی غیر ترقی یافتہ
۳۵۳ (BACKWARD) علاقہ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے گورنروں کو دہرے اختیار دینے پڑیں گے- پھر چھوٹے صوبے ہیں ان میں کوئی خاص نظام حکومت ہے ہی نہیں وہ براہراست گورنمنٹ آف انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں- اس وجہ سے ہندوستان کو مجموعی حیثیت سے کوئی آئینی شکل نہیں دی جا سکتی- پس میرے نزدیک اس سوال کو ایک ہی دفعہ حل کر دینا چاہئے- پہلے میں بیک ورڈ (BACK WARD) علاقوں کو لیتا ہوں- کہا جاتا ہے کہ تعلیم میں پیچھے ہونے کے سبب سے وہاں کے باشندے اب تک عام سیاسیات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوئے- لیکن سوال یہ ہے کہ گورنمنٹ نے اب تک ان کے لئے کوشش کیا کی ہے- خواہ وہ کس قدر بھی وحشی ہوں پھر بھی وہ سو سال سے زائد عرصہ سے حکومت برطانیہ کے ماتحت ہیں- پس کون تسلیم کر سکتا ہے کہ اس قدر لمبے عرصہ میں ان کے اندر کوئی مفید تبدیلی نہیں کی جا سکتی تھی- یہ تو بالکل درست ہے کہ وہ سینکڑوں سال کی مہذب دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے مگر ان میں کچھ تو قابلیت آتی لیکن وہ اب تک ویسے کے ویسے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہذب دنیا کی دلکشیوں نے مقامی حکام کو ادھر توجہ نہیں کرنے دی اور نہ ہی حکام بالا نے ان سے وقتاً فوقتاً یہ رپورٹ طلب کی کہ ان کی تعلیمی اور تمدنی ترقی کی طرف تم نے گذشتہ سالوں میں کیا توجہ کی ہے- پھر حکومت کی خواہش بھی انسان پر سوار رہتی ہے کہ اس لئے حکام کو یہ بھی خیال رہا ہوگا کہ ان کے ترقی کرنے پر ہمارے وہ اختیار نہیں رہیں گے جو اب ہیں- ورنہ ایک اس قدر زبردست حکومت سے جب کہ وہ لوگ پوری طرح اس کے ماتحت تھے اس کی اصلاح نہ ہو سکنا عقل کے بالکل خلاف ہے- میں اب اس امر کا ذمہ لینے کے لئے تیار ہوں کہ گورنمنٹ پندرہ بیس سال تک ان علاقوں میں سے ایک علاقہ ہمارے سپرد کر کے دیکھ لے کہ ان کی اس قدر اصلاح ہو جاتی ہے یا نہیں کہ وہ باقی لوگوں کے ساتھ مل کر گزارہ چلانے کے قابل ہو جائیں- غرض میرے نزدیک ان لوگوں کی پچھلی کمزوری صرف اور صرف ان کے غیر ترقی یافتہ (BACK WARD) قرار دینے کی وجہ سے ہے- جب تک پنجاب کو آئینی صوبہ قرار نہ دیا گیا تھا وہ بھی پچاس سالہ انتظام کے باوجود سب صوبوں سے پیچھے تھا لیکن جونہی اسے آئینی حکومت ملی دس بارہ سال کے عرصہ میں پنجاب کی حالت ہی بدل گئی ہے اور وہ اب کسی صورت میں دوسرے صوبوں سے کم نہیں- تعلیم میں وہ کئی صوبوں سے آگے نکل چکا ہے- مادی ترقی میں بھی وہ چھلانگیں مارتا ہوا دوسرے صوبوں کو پیچھے چھوڑ رہا ہے- پس
۳۵۴ غیرترقی یافتہ علاقوں کی آفت سے ہندوستان کو بچانے کا یہی واحد ذریعہ ہے کہ وہ علاقے جو غیرترقی یافتہ کہلاتے ہیں انہیں بقیہ صوبوں کے ساتھ شامل کر دیا جائے- اگر ان کے رقبے بڑے ہوتے تو میں سمجھتا کہ خواہ کسی سبب سے بھی ان کی حالت خراب ہو، لیکن جب حالت خراب ہو چکی ہے تو کیوں دوسرے صوبوں سے ملا کر انہیں بھی ان کی وجہ سے خراب کیا جائے- لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف چھوٹے چھوٹے رقبے ہیں اور انہیں دوسری آبادی کے ساتھ باقاعدہ مدد دینے سے کوئی نقص پیدا نہیں ہو سکتا- وہ دوسرے لوگوں کو ترقی سے نہیں روکیں گے بلکہ ان سے مل کر خود ترقی کر جائیں گے اس لئے انہیں باقاعدہ طور پر آئینی حکومتوں کا جزو بنا دینا چاہئے- ہر صوبہ کی آئینی حکومتیں خود ہی اپنے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ترقی کا سامان پیدا کر لیں گی- زیادہ سے زیادہ اس امر کا انتظام کر دیا جائے کہ ان کی تعلیمی یا صنعتی ترقی کے لئے خاص افسر مقرر ہو جائیں اور خاص رقوم ان کے لئے صوبہ کے فنڈ سے الگ کر دی جایا کریں اس طرح دس پندرہ سال میں ان کی اصلاح ہو جائے گی- بہرحال ہندوستان کا حصہ ہوتے ہوئے انہیں الگ رکھنا ہندوستان کے نظام کو کمزور کرنا ہے- انہی غیر ترقی یافتہ علاقوں میں سے جزائر انڈمان کو بھی پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں چونکہ عمر قید کے سزا یافتہ رہتے ہیں اس وجہ سے ان جزائر کی بھی اصلاح نہیں ہو سکی- اب اس قانون کو موقوف کر دیا گیا ہے لیکن یہ دلیل بھی معقول نہیں- باوجود قیدیوں کے وہاں رہنے کے اس علاقہ کی اصلاح ہو سکتی تھی اور ہونی چاہئے تھی- قیدی صرف ایک محدود علاقہ میں رہتے تھے باقی علاقہ اسی طرح آزاد ہے- پس درحقیقت اس علاقہ کے غیر ترقی یافتہ رہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ مدراس گورنمنٹ جس کے ماتحت یہ علاقہ ہے اسے اپنے قریب کے زیادہ تعلیم یافتہ علاقوں کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں ہوئی اور یہ خدا کی مخلوق ڈیڑھ سو سال تک جہالت کے گڑھے میں گری رہی ہے- اب وقت ہے کہ انہیں دوسرے لوگوں کی طرح حقوق دے دیئے جائیں- اگر وہ آج ان حقوق کو پوری طرح استعمال نہ کر سکیں گے تو کل کریں گے- وہ کونسا ملک ہے جس کے سب حصوں نے ایک ہی وقت میں یکساں طور پر آئینی حقوق سے فائدہ اٹھایا ہے- پس راستہ کھولنا ہمارا کام ہے فائدہ ہر ایک شخص اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرے گا- اور راستہ کھلنے پر ہی دل میں نشوونما کی بھی خواہش پیدا ہوگی- ہاں اگر کوئی خاص خطرہ ہو تو بعض حفاظتی تدابیر سے اس کا علاج تجویز کر لیا جائے-
۳۵۵ اب میں ان چھوٹے صوبوں کو لیتا ہوں جنہیں پراونشل گورنمنٹ (PROVINCIALGOVERNMENT) نہیں ملی- اول دہلی ہے اس کے متعلق کسی دلیل کے بغیر کمیشن نے رپورٹ کی ہے کہ اس کا سابق انتظام ہی قائم رہے اور وہ یہ ہے کہ پنجابکونسل جو قانون پاس کرتی ہے گورنر جنرل خاص اعلان کے ذریعہ سے اسے اس صوبہ میں نافذ کر دیتے ہیں- دوسرا صوبہ کورگ کا ہے- اس کی آبادی ایک لاکھ چھتیس ہزار اور رقبہ ایک ہزار پانچ سو اسی مربع میل ہے- ریاست میسور کا ریذیڈنٹ (RESIDENT) بحیثیت عہدہ اس کا چیف کمشنر ہوتا ہے- اور ایک کونسل اس صوبہ کو ملی ہے جس کا پریذیڈنٹ خود چیف کمشنر ہے- اس وقت تک اس کونسل نے دو قانون پاس کئے ہیں- اور سال میں اوسطاً چھ دن اس کے اجلاس ہوتے ہیں- کمیشن کی رائے میں اس علاقہ کے نظام میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں- تیسرا علاقہ بلوچستان کا ہے اس میں چیف کمشنر حاکم ہے جو جرگہ کی مدد سے وہاں حکومت کرتا ہے اور اس علاقہ کی ریاستوں کے لئے ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل TO THE GOVERNOR GENERAL) (AGENT کا عہدہ بھی اسی کے پاس ہوتا ہے- کمیشن وہاں کے لوگوں کی عادات کی وجہ سے اس ملک کے انتظام میں بھی تبدیلی کی سفارش نہیں کرتا- اس کا رقبہ ایک لاکھ چونتیس ہزار تین سو اڑتیس مربع میل ہے اور آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے- لیکن اکثر رقبہ ریاستوں کے ماتحت ہے اور نصف کے قریب آبادی بھی ان میں بستی ہے- انگریزی علاقہ قریباً دس ہزار مربع میل ہے- لیکن اس کے ساتھ دائمی ٹھیکہ کا علاقہ قریباً چوالیس ہزار میل ہے- چوتھا صوبہ اجمیر مارواڑ ہے- یہ علاقہ ریاستوں میں گھرا ہوا ہے اور بوجہ دوسرے صوبوں سے دور ہونے کے کمیشن اس کی نئی تشکیل کی بھی سفارش نہیں کرتا- اس صوبہ کی آبادی پانچ لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور رقبہ دو ہزار سات سو گیارہ مربع میل ہے- موجودہ نظام حکومت یہ ہے کہ راجپوتانہ کی ریاستوں کے لئے گورنر جنرل کا جو ایجنٹ مقرر ہوتا ہے وہی اس کا چیف کمشنر ہوتا ہے- پانچواں صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ ہے جس کی آبادی قریباً چالیس لاکھ ہے- اور رقبہ تقریباً چالیس ہزار مربع میل ہے- اس کا موجودہ انتظام یہ ہے کہ ایک چیف کمشنر وہاں مقرر ہوتا ہے جو فارن آفس کی معرفت گورنر جنرل کے ماتحت ہے- اس صوبہ کے لئے خاص قوانین گورنر جنرل کی طرف سے مقرر ہیں- وہ یہ پانچ صوبے ہیں جو علاوہ ان علاقوں کے جو بیک ورڈ (BACK WARD)کہلاتے ہیں اس
۳۵۶ وقت تک اصلاحات سے محروم ہیں لیکن کوئی معقول وجہ نہیں کہ انہیں اصلاحات سے محروم رکھا جائے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں کورگ کو بڑی آسانی سے مدراس سے ملایا جا سکتا ہے- کمیشن کا یہ بیان کہ اس علاقہ کا مذہب اور اس کی قومیت مختلف ہے کوئی دلیل نہیں کیونکہ مذہب اور قومیت کا اختلاف دوسرے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے- اصل بات جو دیکھنے والی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ علاقہ جغرافیہ اور تاریخی حیثیت سے الگ حیثیت رکھتا ہو اور دوسرے علاقہ سے مل کر اس کی ترقی میں روک پیدا ہونے کا احتمال ہو اور اس میں الگ صوبہ بننے کی قابلیت ہو اور یہ باتیں کورگ میں نہیں پائی جاتیں- پس کوئی وجہ نہیں کہ اسے مدراس کے ساتھ شامل کر کے اس دو عملی کو جو ملک میں پیدا ہے دور نہ کیا جائے- زبان اور مذہب کے متعلق اس قسم کی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں جو دوسری اقلیتوں کو حاصل ہیں- جیسے کہ اس علاقہ میں ابتدائی تعلیم مقامی زبان میں ہوگی- یا یہ کہ اس علاقہ کے لوگوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے ملازمتیں وغیرہ ملتی رہیں گے- غرض ان کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کر کے مدراس کے ساتھ ملا دینا چاہئے- اسی طرح اجمیر ماڑواڑہ کے علاقہ کو باوجود اس کے کہ وہ یو-پی سے کسی قدر فاصلہ پر ہے یو-پی میں ملا دینا چاہئے کیونکہ دونوں علاقوں کی زبان اور رسم و رواج بالکل ایک سے ہیں اور ان کے ملانے میں کوئی روک نہیں ہے- باقی رہا یہ کہ درمیان میں ریاستوں کا علاقہ ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے- کئی اور علاقے یو-پی کے ہیں جو مرکز سے قریباً اسی قدر فاصلہ پر ہیں- جس قدر کہ اجمیر ماڑواڑ کا علاقہ ہے- اور بعض مقامی ضرورتوں کے لئے الگ انتظام کیا جا سکتا ہے- جیسے مثلاً ایک جوڈیشنل کمشنر کی اسامی مقرر کر دی جائے- تیسرا علاقہ بلوچستان کا ہے یہ علاقہ بھی آبادی اور آمدن کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے گو رقبہ کے لحاظ سے کافی ہے- کیونکہ خالص انگریزی علاقہ بھی قریباً سو میل لمبا اور سو میل چوڑا ہے لیکن اگر ایجنسی کا علاقہ جو براہ راست انگریزی افسروں کے انتظام کے ماتحت ہے شامل کر دیا جائے تو ترپین ہزار مربع میل کا رقبہ ہو جاتا ہے جو بہار اور اڑیسہ کے دو تہائی کے برابر ہے اور آسام سے تھوڑا ہی کم بنتا ہے- پس اس وجہ سے یہ علاقہ اس امر کا مستحق ہے کہ اس کو ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے- تو امید ہے کہ تھوڑے عرصہ میں اس علاقہ کی آبادی اور آمدن دونوں میں ترقی کی دی جائے گی کیونکہ اس وقت تک بوجہ غیر آئینی صوبہ ہونے کے اس علاقہ میں بسنے سے
۳۵۷ لوگ گھبراتے ہیں- اور جس قسم کا سلوک نو واردوں سے اس علاقہ میں ہوتا ہے وہ لوگوں کو جرات نہیں دلاتا کہ اسے اپنا وطن بنائیں- لیکن جونہی کہ اس صوبہ کو آئینی شکل دے دی گئی تو پنجاب اور سندھ کی آبادی کا کچھ حصہ شوق سے اس میں اپنے لئے ترقی کے نئے راستے نکالنے کی کوشش کرنے کے واسطے تیار ہو جائے گا- یہ خیال کہ اس صوبہ کی آمدن کم ہے اس تجویز کے راستہ میں روک نہیں بننا چاہئے کیونکہ اب بھی اس صوبہ پر امپیرئل گورنمنٹ (IMPERIAL GOVERNMENT)ہی روپیہ خرچ کرتی ہے- اگر چند سال تک امپیریل گورنمنٹ اور خرچ کرے گی تو اس ملک کی آمدن خود بخود ترقی کرے گی اور وہ ملک کی عظمت اور ترقی کا موجب ہوگا- لیکن اگر کسی طرح اس تجویز پر عمل نہ کیا جا سکے تو پھر میری رائے میں بہتر ہوگا کہ یا تو اسے صوبہ سرحدی کے ساتھ ملا دیا جائے کہ ساری سرحد ایک نظام کے ماتحت آ جائے- یا پھر سندھ کے ساتھ ملا دیا جائے کہ اس ملک کے ساتھ باقی علاقوں کی نسبت بلوچستان کو زیادہ مشابہت ہے اور ریل کی وجہ سے آمدورفت میں بھی سہولت ہے- باقی جو علاقہ ریاستوں کا ہے وہ دوسری ریاستوں کی طرح پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ (POLITICAL DEPARTMENT)سے تعلق رکھے گا- دہلی کی نسبت بھی میں تو یہی کہوں گا کہ اگر اسے الگ رکھنا ہے تو اس کو بھی ایک صوبہ کی شکل دے دی جائے اور اس کا بہتر طریق یہ ہے کہ ایک دو تحصیلیں پنجاب اور ایک دو تحصیلیں یو-پی کے صوبہ سے لے کر اس کا علاقہ ذرا بڑا کر لیا جائے- چونکہ دہلی بوجہ صدر مقام ہونے کے جلد ترقی کر رہا ہے اور امید ہے کہ اپنے صوبہ کے اخراجات برداشت کرنے اس کے لئے مشکل نہ ہونگے نیز چونکہ اس کا بہت سا خرچ بوجہ صدر مقام ہونے کے ہوگا امپیریل گورنمنٹ کو اس کے اخراجات ادا کرنے میں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہئے- لیکن اگر یہ تجویر کسی وجہ سے ناقابل عمل ہو تب بھی میں یہ کہوں گا کہ اسے صوبہ جاتی حکومت دینی چاہئے- اگر سوئٹزرلینڈ کی کنٹنز (CANTONS) کو جو دہلی سے بہت چھوٹی ہے لوکل سیلف گورنمنٹ (LOCAL SELF GOVERNMENT)کے اختیارات حاصل ہیں تو کیوں دہلی کو یہ اختیارات حاصل نہ ہوں- اب صرف صوبہ سرحدی رہ جاتا ہے- میرے نزدیک وہ بھی اسی طرح آزادی کا مستحق ہے جس طرح اور صوبے- کمیشن نے ایک عجیب مثال دے کر اس صوبہ کو اس کے جائز حق
۳۵۸ سے محروم کرنا چاہا ہے- وہ لکھتا ہے کہ ایک پاؤڈر میگزین (POWDER MAGAZINE) میں کھڑا ہونے والا شخص اپنے لئے عمل کی آزادی کا مطالبہ کر کے سگریٹ نوشی کا لطف نہیں اٹھا سکتا- اس سرحد کے مقام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں کے باشندے بھی دوسرے صوبوں کی طرح اختیارات نہیں مانگ سکتے- اول تو یہ مثال ہی غلط ہے- گن پاؤڈر میگزین میں جانے والا تو خود اس جگہ جاتا ہے لیکن یہاں تو آپ خود دوسرے کے گھر میں گن پاؤڈر کی میگزین بنا دیتے ہیں- آپ کو یہ اجازت کہاں سے حاصل ہوئی کہ کسی کے گھر میں جا کر بارود رکھ دیں اور پھر اس سے مطالبہ کریں کہ اب تم آگ نہ جلاؤ کہ ہمارے پاؤڈر کو آگ لگ جائے گی- صوبہ سرحد والے تو جواب دیں گے کہ یہ حالت تو آپ لوگوں کی اپنی پیدا کی ہوئی ہے ہمیں آزاد کر دو پھر دیکھو ہم اپنے وطن کا انتظام کر لیتے ہیں یا نہیں- دوسرے یہ امر دیکھنا چاہئے کہ صوبہ سرحدی کے فساد کا اصل باعث ہی اس صوبہ کو حقوق کا نہ ملنا ہے- سرحد کا پٹھان دیکھتا ہے کہ اس کا بھائی ڈیورنڈلائن سے پرے ایک پوری آزاد حکومت چلا رہا ہے اور اس سے ورے بھی ایک اندرونی طور پر آزاد حکومت حاصل ہے لیکن یہ اس کا رشتہ دار اور اس سے زیادہ تعلیم یافتہ اپنے گھر کا انتظام کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے آزاد علاقہ کے بھائیوں کو شورش پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور وہ لوگ بھی اس کی ہمدردی میں حکام سرحد کو تنگ کرتے رہتے ہیں- یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب ان لوگوں کے دلوں میں بھی آزادی کا ولولہ اٹھنے لگے جو آزاد حکومتوں سے نہ مکانی قرب رکھتے ہیں اور نہ نسلی تو وہ لوگ جو آزاد حکومتوں کے ہمسایہ ہیں اور نسلا ان سے متحد ہیں حتیٰ کہ ان کی آپس میں کثرت سے شادیاں بھی ہوتی رہتی ہیں وہ آزادی کے جذبات سے خالی رہیں- اور پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ انہیں آزادی سے محروم کر کے امید کی جائے کہ وہ گن پاؤڈر کے خیال سے دیا سلائی نہ جلائیں- وہ تو ضرور دیا سلائی جلائیں گے تا کہ گن پاؤڈر اڑ جائے اور شاید اس طرح ان کے لئے آزادی کا راستہ کھل جائے- کمیشن جس نتیجہ پر صوبہ سرحدی کے متعلق پہنچا ہے وہ بالکل نرالا ہے- دنیا کی دوسری اقوام اپنے سرحدی قبائل کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تا کہ وہ ملک کے لئے بطور سپر کے کام دیں- لیکن کمیشن یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ انہیں دوسروں کی طرح حقوق نہ دیئے جائیں کیونکہ یہ سرحد پر ہیں- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ کبھی مطمئن نہ ہوں اور
۳۵۹ ہمیشہ سرحدی قبائل کو اکساتے رہیں- انگلستان اگر جزیرہ ہے تو کیا ہوا کیا دنیا کی اور ہمیشہ سرحدی قبائل کو اکساتے رہیں- انگلستان اگر جزیرہ ہے تو کیا دنیا کی اور حکومتیں ایسی ہیں یا نہیں جن کی حدود دوسرے ممالک سے ملتی ہیں- پھر کیا وہ اپنے ان علاقوں کو آزادی سے محروم کر دیا کرتی ہیں؟ یہ بات کہ سرحد تبھی مضبوط ہو سکتی ہے جب کہ سرحدی صوبہ کے لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ ہمارا ملک ہے اور جو شخص حملہ کرتا ہے وہ ہماری آزادی میں دخل اندازی کرتا ہے ایسی موٹی بات ہے کہ ایک بچہ بھی اسے سمجھ سکتا ہے- سرحدیوں کو یہ یقین دلا دو کہ تم کو دوسرے صوبوں کی طرح حقوق نہیں مل سکتے تو دیکھو کہ وہ کس طرح آئے دن کوشش کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی ہمسایہ اقوام اور اپنے ہم قوم لوگوں سے مل جائیں- لیکن اس کے برخلاف ان کو اپنے صوبہ میں آزاد حکومت دو پھر دیکھو کہ وہ کس طرح سرحد کی حفاظت کرتے ہیں- اور اصل بات تو یہ ہے کہ اسی دن سے آزاد قبائل بھی دخل اندازی سے باز آ جائیں گے جس دن کہ سرحدی صوبہ کو اختیارات مل گئے کیونکہ وہ انگریزیعلاقہ کے پٹھانوں سے گہرے تعلق پیدا کر چکے ہیں اور اگر وہ ان پر حملہ آور ہوں گے تو انہیں ان تعلقات کو خیر باد کہنا پڑے گا اور پشاور کوہاٹ اور بنوں کے لوگوں سے ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اس لئے وہ ان حملوں سے باز رہیں گے- اور جب حملوں سے باز رہیں گے تو لازماً اپنے گزارہ کے لئے انہیں اور کوئی ذریعہ معاش کا تلاش کرنا پڑے گا اور اس طرح باہستگی وہ متمدن ہوتے چلے جائیں گے- آخر میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کمیشن بھی اس امر کو تو تسلیم کرتا ہے کہ موجودہ انتظام چھوٹے صوبوں کا عارضی ہے لیکن اس نے یہ غور نہیں کیا کہ کم سے کم کورگ اور اجمیر مارواڑہ کے متعلق جو مشکلات ہیں وہ عارضی نہیں ہیں- نہ کورگ والوں کا مذہب اور زبان تبدیل ہونے کا کوئی سیاسی احتمال ہے اور نہ اجمیر مارواڑہ کا علاقہ کسی وقت کسی دوسرے صوبہ کے قریب ہو سکتا ہے پھر اس وقت ان کے متعلق قطعی فیصلہ نہ کرنے سے کونسا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے- آئندہ پر تو ان امور کا فیصلہ ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق احتمال ہوتا ہے کہ شاید کل کو حالات تبدیل ہو جائیں- جب حالات سیاستا وہی رہیں گے جو آج ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان کا فیصلہ بعد میں کیا جائے- پس یا تو یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان چھوٹے چھوٹے چند صوبوں کی وجہ سے ہندوستان کی فیڈریشن کبھی بھی مضبوط نہ کی جائے گی اور یا پھر انہیں کسی نہ کسی صوبہ کے ساتھ ملا دیا جائے-
۳۶۰ اسی طرح وہ صوبے جنہیں مستقل شکل میں رکھنا ہے ان کے متعلق بھی ابھی فیصلہ ہونا چاہئے کہ انہیں بھی آزاد حکومت ملے گی کیونکہ بغیر اس کے فیڈریشن مضبوط نہیں ہو سکتی- ہاں آزاد حکومت سے مراد یہ نہیں کہ تمام صوبوں کو ایک ہی شکل کی حکومت ملے- میں اسے بالکل غیر معقول بات سمجھتا ہوں کہ ہمارے وزراء کی تنخواہیں بھی انگلستان مقرر کرے- اگر تنخواہوں تک کا سوال انگلستان نے حل کرنا ہے تو پھر آزادی کا کیا مطلب ہوا- اصل طریق فیصلہ کا تو یہ ہے کہ وہ آزادی کی مقدار جو اس وقت ہندوستان اور ہندوستانیوں کو ملتی ہے اس کا فیصلہ اب ہو جائے- اور پھر ہر صوبہ کی کونسل اپنا نظام حکومت خود تجویز کرے- یہی اتحادی حکومت کی غرض ہوتی ہے اور اگر یہ غرض پوری نہ ہو تو اتحادیت کی بنیاد یقیناً کمزور ہو گی- یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ریاستوں کے نظام آپس میں مختلف ہیں لیکن ان کی فیڈریشن میں کوئی نقص نہیں اسی طرح ہندوستان میں ہونا چاہئے- اگر پنجاب اپنے وزراء کو تین ہزار تنخواہ دینا چاہتا ہے اور بنگال چھ ہزار تو اس پر انگلستان کے باشندوں کو کیا اور کیوں اعتراض ہو سکتا ہے- اسی طرح اگر انتخاب کے طریقوں میں وہ فرق کرنا چاہتے ہیں بغیر اس کے کہ کسی قوم یا کسی جماعت کے حق کو نقصان پہنچے تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے- اسی طرح اگر وزارت کے متعلق مختلف صوبے آپس میں اختلاف کریں- کوئی صوبہ وزارت کا انتخاب کونسلوں کے سپرد کرے- لیکن کونسلوں کی عمر تک انہیں مستقل عہدہ دے دے- دوسرا ان کا عہدہ پر قائم رہنا کونسلوں کی مرضی کے تابع رکھے تو اس سے نہ تو حکومت ہی کمزور ہوتی ہے نہ فیڈریشن میں کوئی نقص آتا ہے- غرض بیسیوں طریق حکومت کے جو مختلف ملکوں کے تجربہ میں آ چکے ہیں، انہیں مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ جات اگر اپنی ضرورتوں کے مطابق کوئی نظام قائم کریں تو اس پر انگلستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے- جس بات کی حد بندی کی ضرورت ہے وہ صرف یہ ہے کہ بادشاہ معظم نے جو حقوق محفوظ رکھے ہوں یا جو حقوق مرکزی گورنمنٹ کو دیئے گئے ہوں یا جو حقوق اقلیتوں کے لئے محفوظ رکھے گئے ہوں انہیں تلف نہ کیا جائے- ان تینوں شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہر صوبہ کو اجازت ہو کہ اپنی ضرورت کے مطابق انتظام کرے اور اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو چھوٹے صوبوں کو اپنے صوبوں کا انتظام کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی- سوئٹنررلینڈ اگر اپنے وزراء کو نہایت قلیل معاوضہ دیتا ہے اور اس کے نظام میں کوئی نقص نہیں آ جاتا تو اگر بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی ایسا ہی کریں تو اس میں کیا نقص ہے- آخر صوبہ سرحدی کا ہمسایہ
۳۶۱ افغانستان اپنے وزراء کو بہت کم تنخواہیں دیتا ہے اور اس بناء پر اس کے انتظام کو ناقص نہیں کہا جا سکتا- اگر کوئی نقص ہے تو اس کی وجوہ اور ہیں- اسی طرح موجودہ شکل گورنمنٹ کی جو سب صوبوں میں یکساں طور پر جاری ہے اس کے اندر بھی حسب ضرورت تبدیلی کر کے کام کو ہلکا اور اخراجات کو بہت کم کیا جا سکتا ہے- ہمارے ملک کی مثال ہے کہ جتنی چادر دیکھو اتنے پاؤں پھیلاؤ- غرض میرے نزدیک فیڈریشن کے اصل کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ہندوستان کے تمام برطانوی علاقہ کا اسی وقت ایک مکمل فیصلہ ہو جانا چاہئے- ورنہ حکومت میں ثنائیت (دوشاخی) قائم رہے گی اور ہر ایک حکومت خواہ صوبہ جاتی ہو خواہ مرکزی اس میں یہ دہری صورت پائی جائے گی کہ ایک حصہ ملک کے لحاظ سے وہ آئینی اور ایک حصہ ملک کے لحاظ سے غیر آئینی حکومت رہے گی- بلکہ مرکزی حکومت میں تو یہ تین شاخیں پیدا ہو جائیں گی- آئینی مرکزی اور غیر آئینی مرکزی اور صوبہ جاتی- کیونکہ چھوٹے صوبوں کے لئے وہ صوبہ جاتی حکومت کی قائم مقام رہے گی- کانفرنس اگر اس امر کا فیصلہ کئے بغیر اٹھے گی تو وہ یقیناً ایک سخت غلطی کی مرتکب ہوگی اور دونوں فریق کچھ عرصہ کے بعد ان علاقوں کے ذریعہ سے نئے فتنے اٹھتے ہوئے دیکھیں گے- اب میں ان صوبہ جات کو لیتا ہوں جنہیں صوبہ جاتی آزادی کی پہلی قسط مل چکی ہے- ان صوبہ جات کی دو حالتیں ہیں- ان میں سے بعض تو ہندوستان سے علیحدہ ہونا چاہئے ہیں- جیسے برما اور بعض پھٹ کر دو صوبے بننا چاہتے ہیں- جیسے سندھ، اڑیسہ اور کرناٹک وغیرہ- الگ ہونے کا مطالبہ صرف برما کا ہے اور میرے نزدیک یہ مطالبہ بالکل معقول ہے- برما کبھی بھی صحیح طور پر ہندوستان کا حصہ نہیں بنا بلکہ تاریخی اور جغرافیائی اور نسلی اور زبانی اور اقتصادی اور تمدنی طور پر وہ بالکل ہندوستان سے الگ ہے اور عملاً بھی اب تک الگ رہا ہے- چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا کے دفاتر میں تمام صوبہ جات کے افراد ملتے ہیں لیکن برمی نہیں ملتے- اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہندوستان سے اپنے آپ کو الگ سمجھتے ہوئے اس کو ایک دوسرا ملک خیال کرتے ہیں اور اس کے مرکز میں آ کر اپنے حقوق لینے کو بھی ایک قسم کی جلاوطنی خیال کرتے ہیں- پس جو صوبہ اس طرح علیحدہ رہا ہے اور جو ہر شعبہ زندگی میں ہندوستان سے مختلف ہے اسے ہندوستان سے ملائے رکھنا اسے غلام بنانے کے مترادف ہے- برما کا اختلاف ہندوستان
۳۶۲ سے سیلون کی نسبت بھی زیادہ ہے- اور اگر سیلون کو اس سے الگ رکھا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ برما کو الگ نہ رکھا جائے- پس اس صوبہ کو تو الگ اور آزاد حکومت ملنی چاہئے- اور جب ہم یہ فیصلہ کر دیں تو برما کے سوال کے متعلق ہمیں کسی مزید توجہ کی ضرورت نہیں رہتی- نئے صوبہ جات دوسرا سوال صوبہ جات کی تقسیم کا ہے- جب سے بعض صوبہ جات کو ایک حد تک آزادی حاصل ہوئی ہے ملک کے کئی حصوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی مستقل صوبہ قرار دیا جائے- یہ علاقے مندرجہ ذیل ہیں- سندھ، اڑیسہ، کرناٹک، کیرالا اور آندھرا- نہرو رپورٹ نے کرناٹک اور سندھ کے دعویٰ کی تائید کی ہے اور سائمن رپورٹ نے اڑیسہ اور سندھ کے علاقہ کی- جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ تینوں صوبے الگ حکومت دیئے جانے کے قابل ہیں اور ایسا کر دینا چاہئے تا کہ ہندوستان کے صوبوں کی تقسیم کا ایک دفعہ ہی فیصلہ ہو جائے- بقیہ علاقے چھوٹے اور غیر اہم ہیں- ان تین نئے صوبوں کو بنانے سے بمبئی، مدراس اور بنگال اور بہار کے علاقے کاٹنے پڑیں گے- لیکن موخر الذکر علاقے کافی آباد ہیں اور کم سے کم آبادی کے لحاظ سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور بوجہ آبادی کی زیادتی کے ان میں مالی طور پر جلد مضبوط ہونے کی طاقت تسلیم کرنی چاہئے- باقی رہا مدراس، سو اس کا رقبہ تو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور آبادی بھی کافی ہے- دوسرے کرناٹک کو الگ کر کے کورگ کو اس میں شامل کر دیا جائے تو کسی قدر اس علاقہ کی تلافی ہو جائے گی- بمبئی میں سے ایک بہت بڑا حصہ یعنی سندھ نکل جاتا ہے لیکن پھر بھی ایک لاکھ چالیس ہزار مربع میل کے قریب اس کا رقبہ باقی رہ جاتا ہے اور دو کروڑ تیس لاکھ کے قریب آبادی جس سے اس صوبہ کی آبادی اور رقبہ دونوں پنجاب کے رقبہ اور آبادی کے قریب آ جاتے ہیں اور یہ حالت اس صوبہ کے لوگوں کے لئے ہر گز پریشان کن نہیں ہونی چاہئے- ان سب صوبوں میں سے سندھ کا مطالبہ سب سے زبردست ہے- سندھ تاریخ کے لحاظ سے، جغرافیہ کے لحاظ سے، زبان کے لحاظ سے، عادات اور رسوم کے لحاظ سے، آب و ہوا کے لحاظ سے، لباس کے لحاظ سے غرض کسی لحاظ سے بمبئی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا- کبھی بھی تاریخی زمانہ میں یہ علاقہ بمبئی سے متحد نہیں ہوا بلکہ پرانے زمانہ میں تو اسے ہندوستان سے بھی الگ سمجھتے تھے اور اسلامی حملہ سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس ملک پر ہندوستانی راجوں نے حکومت کی ہے- پس جو علاقہ کہ بمبئی سے ہر رنگ میں جدا ہے اسے اس کے اکثر باشندوں کی خواہش
۳۶۳ کے خلاف بمبئی سے ملحق رکھنا کسی طرح جائز نہیں- کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی مالی حالت اچھی نہیں اور اس وجہ سے یہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکے گا- نہرو رپورٹ اور سائمن رپورٹ دونوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے مگر میرے نزدیک یہ اعتراض ان کا درست نہیں- اگر آسام اپنا بوجھ آپ اٹھا سکتا ہے تو کیوں سندھ جو پنجاب کے دریاؤں کے دہانے پر ہے اور جو کراچی جیسی بندرگاہ رکھتا ہے ترقی نہیں کر سکتا- اصل بات یہ ہے کہ سندھ کی مالی حالت بمبئی سے ملحق ہونے کی وجہ سے کمزور ہے ورنہ جیسا کہ کئی تجربہ کار انگریزوں اور ہندوستانیوں نے جو اس صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنی تحقیق بتائی ہے یہ صوبہ اب تک بہت ترقی کر چکا ہے بمبئی اور کراچی میں رقابت ہے اور اس کی وجہ سے کراچی کی ترقی کے راستہ میں ہمیشہ روک پیدا کی جاتی رہی ہے- اسی طرح اس کی زمینوں کے آباد کرنے اور اس میں سڑکوں اور ریلوں کے جاری کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہوئی ہے- اسی طرح ملک میں تعلیم پھیلانے کی طرف بھی بہت کم توجہ ہوئی ہے اور جب کسی صوبہ کو ترقی کے سامان نہ دیئے جائیں گے تو وہ ترقی کس طرح کرے گا- بمبئی سے الگ ہوتے ہی خصوصاً اس کی نئی نہروں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ صوبہ جلد ترقی کر جائے گا اور اپنا بوجھ خود اٹھا سکے گا- اس وقت تک مرکزی حکومت سے اسے اپنے اخراجات کو چلانے کے لئے کچھ قرض دیا جا سکتا ہے- نیز اس کا نظام حکومت ایسا تیار کیا جا سکتا ہے کہ باوجود پوری آزادی کے اس کا خرچ زیادہ نہ ہو- گورنر اور وزراء کی تنخواہیں کم ہوں، وزراء کی تعداد کم ہو، کونسل کے ممبروں کی تعداد کم ہو، شروع میں اسے الگ ہائی کورٹ نہ دیا جائے بلکہ بمبئی یا پنجاب سے عدالتوں کا الحاق رہے، یونیورسٹی چند سال تک نہ بنے، غرض کئی طرح کفایت کر کے اس صوبہ کو جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے- باقی رہا وہ قرض جو نہروں کی وجہ سے بمبئی نے اس کیلئے لیا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ نہروں کے اجراء پر زمینوں کی فروخت سے ادا کیا جا سکے گا- میرے نزدیک سب سے اہم بات جسے مدنظر رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں عام احساس ہے کہ جن علاقوں میں مسلمان زیادہ ہیں انہیں یا تو دوسرے علاقوں سے ملحق کر دیا جاتا ہے یا پھر حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے- پنجاب اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کی مثال ظاہر ہے- پنجاب بہت قریب زمانہ سے حقوق حاصل کر سکا ہے- بنگال کو بھی ناجائز تدابیر سے دیر
۳۶۴ تک ہندو صوبہ بنائے رکھا گیا ہے- چنانچہ باوجود اس کے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ۱۸۳۳ء میں آگرہ کا صوبہ بنانے کی اجازت لے چکی تھی اور یہ فیصلہ تھا کہ بہار کا علاقہ اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا لیکن اس پر عمل نہ ہوا اور آخر لارڈ کرزن (LORD CURZON) نے جن کا حسن سلوک وہ مسلمان جو تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے کی عادی ہیں کسی صورت میں نہیں بھلا سکتے- ۱۹۰۵ء میں مشرقی بنگال کو جدا کر کے مسلمانوں کی ترقی کا راستہ کھولا- مگر ان پر وہ لے دے ہوئی کہ آخر ملک معظم کو دربار دہلی میں اس تقسیم کو منسوخ کرنا پڑا- لیکن وہی غرض جو لارڈ کرزن کے ذہن میں تھی کہ مسلمانوں کو کسی طرح ترقی کا موقع ملے اس طرح پوری کی گئی کہ بہار اور اڑیسہ کو بنگال سے علیحدہ کر دیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کا عنصر بنگال میں زیادہ ہو گیا- غرض مسلمانوں کو یہ شکایت ہے اور مجموعی حیثیت میں نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجا شکایت ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اسلامی صوبوں کو حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے- پس صحیح طریق کار یہی ہے کہ ان کی اس دیرینہ اور جائز شکایت کو دور کر کے فتنہ و فساد کے سامانوں کو جس قدر ہو سکے کم کیا جائے- خلاصہ یہ کہ جس قدر حصے ہندوستان کے آئینی نظام سے باہر ہیں ان کو کسی نہ کسی طرح نظام میں شامل کر دیا جائے اور کسی حصہ ملک کو دوسرے سے زائد آزادی نہ دی جائے تا کہ فیڈریشن اصولی طور پر مکمل ہو جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو آزادی میں برابر گو شکل کے لحاظ سے مختلف حکومت جس کی تدریجی ترقی کے سامان پورے طور پر خود ان صوبوں کے قانون اساسی میں موجود ہوں دی جائے- سندھ کو فوراً بمبئی سے الگ کر کے آزاد آئینی صوبہ کی شکل میں تبدیل کر دیا جائے اور اڑیسہ اور کرناٹک کو بھی الگ الگ صوبے بنا دیا جائے- اسی طرح اگر دہلی کو الگ صوبہ بنایا گیا تو چودہ صوبے ہو جائیں گے اور اگر اسے کسی اور علاقہ کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تو تیرہ صوبے ہندوستان کے ہو جائیں گے جن میں سے پانچ اسلامی صوبے ہونگے اور ۸ ہندو صوبے-
۳۶۵ باب سوم صوبہ جات کی حکومت سائمن رپورٹ نے چونکہ موجودہ طریق حکومت کو قائم رکھنے کی سفارش کی ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دو علیحدہ علیحدہ باب باندھے ہیں- ایک میں گورنروں کے صوبوں پر بحث کی ہے- اور دوسرے میں چیف کمشنروں کے صوبوں کے متعلق بحث کی ہے- لیکن چونکہ میرے نزدیک یہ اصول ہی غلط ہے کہ ایک فیڈریشن کے مختلف حصے مختلف قسم کے اختیارات رکھتے ہوں کیونکہ فیڈریشن کے معنی ہی یہ ہیں کہ عملا ًیا ذہناً ہر ایک حصہ پورا آزاد ہو اور اپنی طرف سے مرکز کو بعض اختیارات اتحاد ملکی کی خاطر دے اس لئے میں نے پہلے باب میں یہ بتایا ہے کہ سب حِصَص ملک کو ایک ہی سطح پر لے آنا چاہئے اور جو حصے ملک کے گورنروں کے صوبوں سے باہر ہیں، انہیں یا تو کسی دوسرے صوبہ سے ملا دینا چاہئے یا پھر ان کو مستقل صوبہ کی شکل میں تبدیل کر دینا چاہئے- پس ان حالات میں میں نے اس باب کا عنوان ‘’گورنروں کے صوبے’‘ نہیں بلکہ ‘’صوبہ جات کی حکومت’‘ رکھا ہے- اس حکومت کے مختلف حصوں میں سے سب سے پہلے میں ایگزیکٹو (EXECUTIVE)کو لیتا ہوں- ۱- صوبہ جات کی ایگزیکٹو دو شاخی حکومت سائمن رپورٹ نے مختلف تجاویز پر بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دوشاخی (DAIRCHY)حکومت کا طریق ہندوستان سے اب بالکل مٹا دیا جائے- عام حالات کے مطابق میرے نزدیک بھی اب وقت آ گیا ہے کہ ایسا ہی کیا جائے- گو میرے نزدیک دوشاخی حکومت کے خلاف جو الزامات ہیں وہ اس قدر اس طریق حکومت پر وارد نہیں ہوتے جس قدر کہ اس تشکیل پر جو اس طریق حکومت کو ہندوستان میں دی گئی تھی-
۳۶۶ جہاں تک مجھے یاد ہے پہلا شخص میں تھا جس نے اس طریق حکومت کی احمدیہ جماعت کے میموریل میں سفارش کی تھی لیکن میری سکیم مندرجہ ذیل اصل پر مبنی تھی کہ جو حصہ اختیارات کا ملک کے سپرد کیا جائے وہ پورے طور پر اس کے سپرد رہے اور جو حصہ سپرد نہ ہو وہ پورے طور پر سپرد نہ ہو- اس وقت مسٹر مانٹیگو MONTANGUE(.MR اس سے متاثر معلوم ہوتے تھے لیکن دھلی کے بعد جہاں احمدیہ جماعت کا وفد پیش ہوا تھا کلکتہ میں یہی سکیم دوسری شکل میں مسٹر کرٹس کی مدد سے ان کے سامنے پیش کی گئی اور چونکہ وہ زیادہ مکمل صورت میں تھی مسٹر مانٹیگو اس کی طرف راغب ہو گئے- جب ان کی رپورٹ آئی تو پنجاب گورنمنٹ نے جس کے رئیس اس وقت سراوڈ وائر (SIR O, DWYER ) تھے ایک کاپی اس کی میرے پاس بھی بھجوائی اور میری رائے اس کے متعلق دریافت کی- میں نے اس پر ایک تفصیلی تبصرہ لکھا اور بتایا کہ یہ طریق فساد پیدا کرے گا- بہتر یہ تھا کہ جو ا ختیارات انہوں نے دینے تجویز کئے ہیں ان سے تھوڑے اختیارات ہندوستانیوں کو دیئے جاتے لیکن مکمل طور پر دیئے جاتے اور جن امور میں اختیار نہیں دیا گیاان میں خواہ اظہار رائے کی اجازت دی جاتی یا نہ لیکن کونسل یا اسمبلی کو متفقہ طور پر اس بارہ میں کوئی ریزولیشن پاس کرنے کی اجازت نہ دی جاتی کیونکہ انسانی فطرت کے یہ خلاف ہے کہ وہ ایک حد تک چل کر درمیان میں کھڑا رہ سکے- اس وقت میری اس رائے کی طرف توجہ نہیں دی گئی غالباً اس وجہ سے کہ وہ ایک مذہبی امام کی طرف سے تھی نہ کہ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے، مجھے خوشی نہیں بلکہ افسوس ہے کہ وہی خطرات جن کو میں نے تفصیلا بیان کیا تھا ظاہر ہوئے اور ملک میں فساد کی ایک رو چل گئی- پس میرے نزدیک دوشاخی حکومت کی وہ شکل جو ہندوستان میں جاری کی گئی ناقص تھی- دوسری صورت میں وہی دوشاخی حکومت کامیاب ہو سکتی تھی- مگر بہرحال اب جب کہ اس طریق حکومت کا تجربہ کیا گیا ہے اب واپس لوٹ کر پھر نئے سرے سے تجربہ نہیں کیا جا سکتا- دوسری طرف پچھلے بارہ سال میں ملک کے حالات بھی بدل گئے ہیں اور اب ضرورت ہے کہ قدم آگے بڑھایا جائے اس لئے میں کمیشن کی رپورٹ کی تائید کرنے پر مجبور ہوں- گو میرا خیال ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کی پوری طرح تصدیق کرنا اب بھی ملک کو فسادات کا آماجگاہ بنا دے گا- مگر میری اپنی رائے جو کچھ بھی اس بارے میں ہے خواہ اسے میرے انگریز دوست ناپسند کریں یا ہندوستانی دوست اس پر ناراض ہوں میں آگے چل کر تفصیلات میں بیان کردوں گا گو بعض امور کے متعلق چونکہ
۳۶۷ دونوں فریق پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ میری آواز صدا بہ صحرا نہ ثابت ہو- گورنرز ہر صوبہ جو ہندوستان میں پہلے سے موجود ہے یا نیا بنایا جائے گا اس کی حکومت کا سردار ایک گورنر ہو لیکن گورنروں کے موجودہ طریق انتخاب میں تبدیلی کی جائے- اس وقت یہ قاعدہ ہے کہ پریزیڈنسی گورنروں کے سوا سب گورنر سول سروس میں سے منتخب کئے جاتے ہیں اور اس طرح جب کہ مدراس، بمبئی اور کلکتہ کے گورنر انگلستان سے براہراست آتے ہیں بہار، آسام، یو-پی، پنجاب اور سنٹرل پراونسز (CENTRAL PROVINCES)کے گورنر ہندوستان کی سول سروس میں سے ہی منتخب کئے جاتے ہیں- دونوں طرح کے انتخاب میں بعض نقائص بھی ہیں اور بعض خوبیاں بھی لیکن یہ امر کہ فلاں فلاں صوبہ کے گورنر براہ ر است آئیں اور فلاں فلاں کے وہیں سے منتخب ہوں بالکل غیر طبعی اور غیرمعقول ہے- اس کی آخر کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے کہ بنگال میں تو براہ راست آنے والا گورنر مفید ہو سکتا ہے اور بہار و اڑیسہ میں ہندوستان کی سول سروس سے چنا ہوا گورنر مفید ہو سکتا ہے- سب صوبوں میں ایک ہی اصل برتنا چاہئے تھا یا سب جگہ سول سروس سے گورنر چنا جاتا یا سب جگہ براہراست آتا- یا سب جگہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا جاتا جیسا مناسب ہوتا کر لیا جاتا- جب سول سروس میں قابل آدمی موجود ہوتا وہاں سے چن لیا جاتا جب وہاں سے خاص قابلیت کا آدمی نہ ملتا تو براہ راست انگلستان سے آدمی بھجوا دیا جاتا- مگر جو طریق اختیار کیا گیا ہے وہ کسی اصل پر بھی مبنی نہیں مگر جو کچھ پہلے ہو چکا سو ہو چکا- اب نئے تغیرات جن کی سفارش کمیشن نے کی ہے ان کے ماتحت لازماً اس طریق میں تغیر کرنا ہوگا- وہ تغیرات یہ ہیں کہ کمیشن سفارش کرتا ہے کہ ڈائی آر کی (DAIRCHY) اُڑا دی جائے اور منسٹر اور ایگزیکٹو منسٹر کا فرق مٹا دیا جائے- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ سروسز اطاعت کے لحاظ سے پوری طرح منسٹروں کے ماتحت آ جائیں گی- جب کہ اس سے پہلے منسٹروں کا اقتدار ان پر بہت ہی کم ہوتا تھا- اسی طرح کمیشن کی یہ بھی رپورٹ ہے کہ گورنر کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ چاہے تو سب منسٹر منتخب شدہ نمائندوں میں سے ہی مقرر کر دے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ممکن بلکہ غالب ہے کہ ایک وقت ایسا آ جائے کہ تمام سول سرونٹس وزراء کے ماتحت ہوں اور ان کی ہدایتوں کے ماتحت عمل کریں کیونکہ سب ایگزیکٹو ان کے قبضہ میں ہوگی- لیکن اگر قاعدہ یہ ہوا کہ پریزیڈنسی صوبوں کے سوا باقی سب جگہ گورنر سول سرونٹس میں سے مقرر
۳۶۸ ہونگے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک شخص منسٹر کے ماتحت کام کرتا ہوا یکدم گورنر بن کر اس کا حاکم ہو جائے گا جو اچھے انتظام کے منافی ہے- موجودہ نظام کے ماتحت بھی مذکورہ بالا صوبوں میں ہر سول سرونٹ بالقوۃ گورنر ہوتا ہے- لیکن ساتھ ہی موجودہ نظام میں منسٹر اس کے اوپر براہ راست افسر نہیں ہوتا- اس وجہ سے وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو میں نے اوپر بیان کیا ہے- نئے تغیر کے بعد اگر اس نقص کی اصلاح نہ کی گئی تو کبھی بھی منسٹروں میں صحیح طور پر کام کرنے کی جرات نہ پیدا ہوگی اور نہ سول سرونٹس میں صحیح طور پر ان کے احکام کو بجا لانے کی روح پیدا ہوگی جس سے نظام ڈھیلا ہوتا چلا جائے گا- پس اگر دو شاخی حکومت کو دور کرنا ہے تو ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آئندہ ان صوبوں کے گورنر بھی براہ راست آئیں گے- اس تبدیلی پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ چونکہ اس طرح سول سرونٹس کے لئے ترقی کی گنجائش کم رہ جاتی ہے لائق آدمی اس طرف آنے سے گریز کریں گے لیکن میرے نزدیک یہ اعتراض درست نہیں- اگر مدراس، بمبئی اور بنگال کو لائق آدمی مل جاتے ہیں تو کیوں ان صوبوں کو نہ ملیں گے؟ ایک اور علاج بھی اس نقص کو رفع کرنے کا کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ بعض صوبوں میں سے ایسے افسروں کو جو اس وقت کام کر رہے ہوں گورنر بنایا جائے گورنر علاوہ انگلستان کے تجربہ کار سیاسیوں کے ایک حصہ گورنروں کا ہندوستان کے ایسے ریٹائرڈ افسروں میں سے بھی مقرر کیا جایا کرے جو کم سے کم پانچ سال پہلے ہندوستان کی ملازمت سے ریٹائر ہو چکا ہو- اس طرح اس ملازمت میں بھی پہلی سی کشش باقی رہے گی اور مذکورہ بالا نقص بھی دور ہو جائے گا بلکہ تجربہ کے ساتھ ساتھ وہ زائد فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے جو براہ راست گورنر مقرر کرنے کے بیان کئے جاتے ہیں- وزارت سائمن رپورٹ کی سفارش یہ ہے کہ-: (۱) منسٹری متفقہ طور پر کونسلوں کے سامنے ذمہ دار ہو- (۲) گورنمنٹ کے سب ممبر منسٹر کہلائیں- ایگزیکٹو ممبر اور منسٹر کی تفریق مٹا دی جائے- (۳) منسٹر کیلئے کوئی شرط نہ ہو کہ وہ منتخب شدہ یا نامزد شدہ ممبر ہی ہو بلکہ سرکاری افسر یا پبلک کے کسی آدمی کو جو کونسل کا ممبر نہ بھی ہو وزارت کے عہدہ پر مقرر کرنے کی گورنر کو
۳۶۹ اجازت ہو- (۴) وزارت کے خلاف صرف بحیثیت مجموعی اظہار ناراضگی ہو سکتا ہے ایک وزیر کے خلاف نہیں ہو سکتا- (۵) وزراء کے علاوہ نائب وزراء کی جگہیں بھی نکالی جائیں- اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جہاں مذہبی اختلاف شدت سے ہوگا وہاں دو مختلف مذاہب کے وزیر اور نائب وزیر مقرر کر کے ایک دوسرے کے ظلم سے حفاظت کی جا سکے گی- مذکورہ بالا اصول کی اصل غرض یہ بتائی گئی ہے کہ وزارت ہر روز تبدیل نہ ہوگی بلکہ ایک حد تک مستقل عرصہ حیات اسے مل جائے گا اور اس طرح وہ اچھا کام کر سکے گی- دوسرے یہ کہ وسیع حلقہ انتخاب کی وجہ سے زیادہ اعلیٰ کارکنوں پر مشتمل وزارت تیار ہو سکے گی- میرے نزدیک یہ سفارش کمیشن کی کہ نائب وزراء کی جگہیں بھی نکالی جائیں، بہت معقول ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کا حکومت کے بنیادی قوانین سے کیا تعلق ہے؟ یہ معاملہ صوبہ جاتی کونسلوں سے متعلق ہے اور انہی پر اسے چھوڑ دینا چاہئے- اس وقت قانون میں صرف یہ بات رکھ دینی چاہئے کہ نئے طریق پر مقرر ہونے والی صوبہ جاتی کونسلوں کے معاً بعد گورنر ایک شخص کے سپرد وزارت بنانے کا کام کرے اور وہ پہلے اجلاس میں پریزیڈنٹ کے انتخاب کے بعد اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے کونسل سے وزارتوں اور نائب وزارتوں کی تعداد مقرر کرا لے- اس طرح ہر صوبہ میں اس کی ضرورت کے مطابق وزراء مقرر ہوں گے- یہ طریق درست نہیں کہ بے تعلق اور بغیر تجربہ کئے کچھ لوگ انگلستان میں بیٹھ کر سب صوبوں کی ضرورتوں کا آپ ہی قیاس کر کے وزارتیں مقرر کر دیں- اور نہ گورنروں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے کیونکہ یہ کام کونسلوں کا ہے کہ وہ ان کاموں کی جو انہوں نے جاری کرنے ہیں تعیین کریں- پس انہی کا یہ کام بھی ہونا چاہئے کہ وہ کام کے مطابق عہدے بھی تجویز کریں اور اسی طرح تنخواہیں مقرر کرنا بھی ان کا کام ہے- ہاں وہ تنخواہیں ذاتی نہیں ہونی چاہئیں یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہر وزیر کے تعین پر تنخواہ بدلی جا سکے- ہاں یہ شرط ہونی چاہئے کہ اگر سول سروس میں سے کسی کو وزیر مقرر کیا جائے تو اس کی تنخواہ اگر وزیر کی تنخواہ سے زائد ہو تو اسے اس کی زائد تنخواہ ملتی رہے- باقی جو امور کمیشن نے وزارت کے متعلق مقرر کئے ہیں گو بظاہر معمولی
۳۷۰ معلوم ہوتے ہیں مگر میرے نزدیک ان کا مضر اثر صوبوں کی سیاسی ارتقاء پر پڑے گا کیونکہ یہ سب اصول پارٹی سسٹم کو کمزور کرنے والے ہیں- مثلاً یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کونسلوں میں پارٹیوں کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اپنے جزوی اختلافات کو اس لئے ترک کر دیتے ہیں کہ تا اصول متفقہ کو اپنی پارٹی کے زور سے اپنے ملک میں جاری کر سکیں- اور اصول کے جاری کرنے کا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایگزیکٹو پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں- لیکن کونسلوں سے باہر کے لوگوں کو بھی اگر وزارت پر مقرر کرنے کی اجازت ہوئی تو کونسلوں میں پارٹیوں کے بنانے کی کوئی غرض باقی نہیں رہے گی اور ممبر اس میں زیادہ فائدہ دیکھیں گے کہ وہ ہر ایک پارٹی سے الگ رہیں تا کہ پوری حریت سے رائے دے سکیں- اس صورت میں انہیں کوئی مجبوری نہ ہوگی کہ وہ اپنے خیالات کے ایک حصہ کو قربان کر کے کسی خاص جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ کر دیں کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ پارٹی کی طاقت سے وزارت کا سوال وابستہ نہیں ہے- پس بہتر ہے کہ ہم الگ ہی رہ کر کام کریں تا کہ ہماری حریت پوری طرح قائم رہے- نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ سول سروس سے کسی وزیر کو لینے کی اجازت دینے کی وجہ تو موجود ہے، یعنی ایک غیر ملک کا شخص اور سرکاری عہدیدار کونسلوں میں نہ قانونا آ سکتا ہے، نہ اپنے رسوخ سے آ سکتا ہے ادھر اس کے تجربہ سے بھی ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں- پس اس کا یہی طریق ہو سکتا ہے کہ اسے ہم براہ راست وزارت پر مقرر کر دیں- لیکن ایک ایسا شخص جو ملازم بھی نہیں اور اس ملک کا باشندہ بھی ہے اور بالکل آزاد ہے کہ کوشش کر کے کونسلوں میں آ سکے وہ اگر کونسلوں میں آنے کی زحمت برداشت نہیں کرتا تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے وزارت کے کام پر مقرر کر کے اس سیاسی نظام کو جس پر کونسلوں کی زندگی کی بنیاد ہے تباہ کر دیا جائے- باقی رہی یہ اجازت کہ گورنر چاہے تو سول سروس میں سے کسی شخص کو وزارت پر مقرر کر دے میں ذاتی طور پر اس کا موید ہوں کیونکہ میرے نزدیک ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کلی طور پر برطانوی حکام کے مشورہ سے ہندوستانی حکومت آزاد ہو سکے لیکن یہ اصول کہ گورنر اپنی مرضی سے ایک آدمی کو سول سرونٹس ( CIVIL SERVANTS)میں سے وزارت کے لئے مقرر کر دیا کرے کسی طرح درست نہیں- اور اس متحدہ ذمہ داری کے اصول کے خلاف ہے، جسے سائمن کمیشن جاری کرنا چاہتا ہے- عقل اسے کسی طرح باور کر سکتی ہے کہ ایک شخص کو جو کونسلوں پر کوئی اثر نہیں رکھتا گورنر اپنی مرضی سے وزارت میں داخل کر دے اور پھر ساری
۳۷۱ وزارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ذمہ واری میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے- انسان ذمہداری تو اس کی لیتا ہے جس کے ساتھ کام کرنے کی رغبت وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے لیکن جس ساتھی کو دوسرا منتخب کرتا ہے اس کے ساتھ وہ ذمہ داری میں کس طرح شریک ہو سکتا ہے؟ دنیا کی مختلف وزارتوں کو دیکھ لو مشترکہ ذمہ داری انہی ملکوں میں ہے جہاں وزیر اعظم اپنی وزارت منتخب کرتا ہے- جہاں انتخاب دوسرے کے ہاتھ سے ہو وہاں گو سب مل کر کام کرنیکی کوشش کرتے ہیں لیکن ذمہ داری مشترکہ نہیں ہوتی- یعنی یہ نہیں ہوتا کہ ایک کے فعل پر نکتہ چینی ہونے پر سب ہی مستعفی ہو جائیں- انگلستان اور فرانس میں ایک وزیر اپنے ہمراہی منتخب کرتا ہے اس لئے وہاں وزارت کی ذمہ داری بھی مشترکہ ہے- لیکن یونائیٹڈ سٹیٹس اور سوئٹزرلینڈ میں سب وزراء الگ الگ چنے جاتے ہیں- اول الذکر میں پریزیڈنٹ وزراء کا انتخاب کرتا ہے اور موخر الذکر میں دونو پارلیمنٹیں مل کر وزراء کا انتخاب کرتی ہیں- پس وہاں ذمہ داری بھی مشترکہ نہیں ہے- اگر ایک وزیر کو پریزیڈنٹ اپنی ذاتی یا ملک کی ناراضگی کی وجہ سے علیحدہ کرنا چاہے تو دوسرے وزراء پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا- اور نہ سوئٹزرلینڈ میں اگر ایک وزیر کے کام پر اعتراض ہو اور وہ استعفاء دے تو سب پابند نہیں کہ وہ بھی ساتھ استعفاء دے دیں- پس یہ عقل کے خلاف ہے کہ وزراء کا انتخاب تو گورنر کرے اور ذمہ داری سب کی مشترکہ ہو- ذمہ داری مشترکہ تبھی ہو سکتی ہے جب کہ پارٹی سسٹم پر ایک وزیر اپنی پارٹی یا اپنے ساتھ اتحاد رکھنے والی پارٹیوں میں سے باقی وزراء کو منتخب کرے پس کمیشن کی تجویز ہر گز قابل عمل نہیں- ہاں چونکہ سردست سول سروس کے افسروں سے کام لینا میرے نزدیک ضروری ہے اس لئے درمیانی راہ میرے نزدیک یہ ہو سکتی ہے کہ یہ شرط کر دی جائے کہ وزارت عالیہ کے لئے جس شخص کو چنا جائے اس کا فرض ہو کہ مثلاً آج سے پندرہ سال تک کم سے کم ایک یورپین سول سرونٹ کو وہ اپنی وزارت میں شامل کرے لیکن اس افسر کی تعیین گورنر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے اختیار میں ہو جس کے سپرد وزارت تیار کرنے کا کام کیا گیا ہے- میرا یہ مطلب نہیں کہ جس افسر کو وہ چنے اسے مجبور کیا جائے کہ وہ وزارت کے کام کو قبول کرے- بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے افسروں میں سے کسی کو اس کام کے لئے راضی کرے- پندرہ سال کے بعد ہر صوبہ کی کونسل کو اختیار ہو کہ وہ حقیقی
۳۷۲ (ABSOLUTE) اکثریت کے ساتھ اس امر کا فیصلہ کرے کہ آئندہ یہ سلسلہ جاری رہے یا بند کر دیا جائے اور وزارت کلی طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائے- اس طرح پارٹی سسٹم بھی ترقی کرے گا اور وزارت مشترکہ ذمہ داری بھی اٹھا سکے گی اور تجربہ کار افسروں کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا بھی ملک کو موقع مل جائے گا اور جس طرح سول سروس کے کسی ایک فرد کو وزارت دینے کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہو اسی طرح کونسلوں سے باہر کسی شخص کو منتخب کرنے کا اختیار بھی اسے ہو لیکن شرط یہ ہو کہ ایسا شخص وزارت کے عہدہ پر مامور ہونے کے چھ ماہ کے عرصہ کے اندر بذریعہ انتخاب کونسل کا ممبر ہو جائے- اگر اس عرصہ میں وہ ممبر منتخب نہ ہو سکے تو پھر وہ وزارت پر قائم نہ رہ سکے بلکہ استعفاء دینے پر مجبور ہو- یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کہ افسران میں سے بعض کا وزارت پر مقرر ہوتے رہنا بشرطیکہ وزیر اعظم کے انتخاب پر ایسا ہو ملک کے لئے ایک وقت تک مفید ہوگا بلکہ میری ذاتی رائے میں صحیح طریق پر حکومت کرنے کے لئے ضروری ہوگا- وہاں گورنر کی مرضی سے ایسے ہندوستانی وزراء کا تقرر جو کونسلوں کے منتخب ممبر نہ ہوں آئینی ترقی کے سخت منافی ہوگا- پس ہندوستانی نمائندوں کو اس امر کو کبھی تسلیم نہیں کرنا چاہئے- سائمن رپورٹ نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ گورنر کو اختیار ہونا چاہئے کہ خواہ ایک پارٹی یا جماعت میں سے وزارت کا انتخاب کرے یا مختلف پارٹیوں میں سے- اس امر کا تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ آئین اساسی کے ماتحت گورنر ہی وزراء مقرر کرتا ہے مگر ساتھ ہی اس کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر صحیح طور پر پارٹیوں کے اصول پر حکومت کو چلانا مدنظر ہو تو اس انتخاب میں گورنر آزاد نہیں ہوتا بلکہ اس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اس بارے میں وہ اس وزیر کی رائے کو قبول کرے جسے وہ وزارت بنانے کے لئے مقرر کرلے وہ وزیر اعظم کو مشورہ دے سکتا ہے لیکن اصل ذمہ واری وزارت کے انتخاب کی وزیر اعظم پر ہی ہوتی ہے- اگر ایسا نہ کیا جائے تو ہر روز مصنوعی پارٹیاں محض وزارتوں کی خاطر بنتی رہیں گی اور آئینی طور پر کام کرنے کی عادت کبھی بھی پارٹیوں کے ممبروں کو نہیں پڑے گی- پس گورنر کو پابند کرنا چاہئے کہ وہ اس بارہ میں وزیر اعظم کے انتخاب کی تصدیق کرے- یا پھر وزارت بنانے کا کام کسی اور وزیر کے سپرد کرے- صرف اسی صورت میں پارٹیاں اپنے اثر کو محسوس کرا سکتی ہیں اور اسی صورت میں گورنر مجبور ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس پارٹی کو موقع دے جو اکثریت رکھتی ہو- ورنہ
۳۷۳ وہی ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے- یعنی گورنر چند اقلیتوں کو ملا کر ایک وزارت مقرر کر دیتے ہیں جو کسی پارٹی کی بھی نمائندہ نہیں ہوتی- گورنر اور وزارت کے تعلقات گورنروں اور وزارت کے تعلقات کے متعلق کمیشن کی رپورٹ یہ ہے کہ: ‘’گو عام طور پر گورنر کو اپنی وزارت کے فیصلوں میں دخل نہیں دینا چاہئے لیکن پانچ مواقع پر اسے اختیار ہوگا کہ وہ دخل دے- یعنی جب وہ سمجھے کہ اس کا دخل دینا ضروری ہے- (۱) صوبہ کے امن اور سلامتی کے قیام کیلئے- (۲) بعض قوموں یا جماعتوں کے مقابل پر بعض دوسری قوموں یا جماعتوں کے فوائد کو کسی سخت نقصان سے بچانے کے لئے- (۳) تا کہ گورنمنٹ کی اس ذمہ داری کی واجبی عہدہ برائی ہو سکے جو کہ ان اقوام کے خرچ سے تعلق رکھتی ہے جو مجلس واضع قوانین کے فیصلہ کے ماتحت نہیں- (۴) تا کہ ان احکام کی تعمیل ہو سکے جو کہ کسی صوبہ کی گورنمنٹ یا گورنمنٹ ہند یا وزیر ہند کی طرف سے پہنچیں- (۵) تا کہ ان فرائض کو ادا کیا جا سکے جو کہ قانونا گورنر پر ذاتی طور پر عائد ہوتے ہیں- مثلاً ایسے فرائض جو کہ ملازمتوں کے سوال یا بیک ورڈ (BACKWARD) یعنی غیرترقییافتہ علاقوں کے متعلق ذمہ داری سے تعلق رکھتے ہیں- ۵۰؎ ان پانچ میں مواقع سے آخری تین تو کسی قدر اصلاح کے ساتھ بالکل درست ہیں اور وہ اصلاح میرے نزدیک یہ ہے کہ چوتھی صورت میں جو گورنمنٹ آف انڈیا کے الفاظ ہیں ان کی جگہ گورنر جنرل کے الفاظ رکھے جائیں اس لئے کہ بعض معاملات میں دخل اندازی کی اس وقت تک گورنر جنرل کو تو اجازت دی جا سکتی ہے جب تک کہ صوبہ جات اور مرکزی حکومت کا نظام پختہ نہیں ہوتا لیکن گورنمنٹ آف انڈیا کو جس سے مراد شروع میں یا کچھ دیر کے بعد وزارت منتخبہ ہو سکتی ہے صوبہ جات وہ اختیار دینے کو ہر گز تیار نہ ہونگے- کیونکہ احتمال ہے کہ وہ صوبہ جات کی آزادی کو کمزور کرنیکی کوشش کریں گے- اسی طرح پانچویں استثناء میں بیک ورڈ علاقوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو میرے نزدیک
۳۷۴ درست نہیں- کیونکہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ اصولاً بھی ایسے علاقوں کی موجودگی فیڈریشن کے اصول کے خلاف ہے اور عملاً بھی اس سے گورنمنٹ میں اوپر سے نیچے تک ثنائیت (DUALITY) پیدا ہوتی ہے جو عمدہ گورنمنٹ کے اصول کے خلاف ہے اور جس کی اجازت صرف خاص صورتوں میں دی جا سکتی ہے- اب دو پہلی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں- میرے نزدیک ان دونوں صورتوں میں گورنر کو اختیار دینا نظام حکومت کو پراگندہ کرنے والا ہوگا- پہلی صورت میں حفاظت اور امن کے لفظ اس قدر مبہم ہیں کہ ان کے ماتحت ہر وقت گورنر دخل دے سکتا ہے اور وزارت کا حقیقی معنوں میں وزارت ہونا صرف گورنر کے مزاج پر منحصر ہوگا- اچھا گورنر اپنے آپ کو روکے رکھے گا بُرا گورنر جس طرح چاہے گا دخل دے گا اور کہے گا کہ یہ امن اور ملک کی حفاظت کی خاطر میں ایسا کرتا ہوں- یہی حال دوسری شق کا ہے- اس میں اقلیتوں کو خطرناک نقصان پہنچنے کی صورت میں دخل اندازی کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایسی بیوقوف وزارت کم ہی ہوگی کہ جو اقلیتوں پر ظلم کو خطرناک صورت میں ظاہر ہونے دے- پس اقلیت کو تو اس شرط سے کچھ فائدہ نہیں- اکثریت ان کا گلا کاٹتی جائے گی اور گورنر خطرناک صورت کے انتظار میں بیٹھا رہے گا- ہاں جب کوئی گورنر ایسا آ جائے گا جو حکومت میں زیادہ حصہ لینے کا خواہشمند ہوگا تو وہ اس استثناء سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ضرور دخل اندازی کرے گا- حالانکہ اگر کوئی وزارت خطرناک طور پر اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تو بجائے اس کے کہ گورنر اس کی غلطیوں کی اصلاح میں لگا رہے اس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس وزارت کو استعفاء دینے پر مجبور کرے اور اگر اس کی جگہ دوسری وزارت نہ کھڑی کی جا سکتی ہو تو اس کونسل کو برخواست کر دے جس کے افراد صرف انہی لوگوں کو وزیر مقرر کرنے کیلئے مصر ہوں جو اقلیتوں پر خطرناک قسم کے ظلم روا رکھتے ہوں اور نئی کونسل کا انتخاب کرائے- میرے نزدیک یہ دونوں صورتیں جن...........میں گورنر کو دخل اندازی کا اختیار دیا گیا ہے ان کی موجودگی میں گورنر کو یہ طریق اختیار کرنا چاہئے کہ وزارت کو سمجھائے- اگر وزارت اس کے مشورہ کو قبول نہ کرے اور وہ سمجھے کہ معاملہ اہم ہے تو اسے مجبور کرے کہ وہ استعفاء دے دے- اگر دوسری وزارت کھڑی نہ ہو یا اسی طریق عمل کو اختیار کرے تو اگر معاملہ اہم ہو
۳۷۵ تو گورنر اس کونسل کو برخواست کر کے نئی کونسل کے انتخاب کا حکم دے- اس طریق کو اختیار کرنے سے دونوں فریق یعنی وزارت بھی اور گورنر بھی اپنی حد کے اندر رہنے کی کوشش کریں گے- وزارت اس بات سے ڈرے گی کہ اگر وہ ناجائز اصرار کرے گی تو شاید کوئی دوسری وزارت اس کی جگہ لینے کو تیار ہو جائے- یا وہ اس امر سے ڈرے گی کہ اگر اس کے ظلموں کی وجہ سے کونسل کو برخواست کیا گیا تو شاید ملک اس کی امداد نہ کرے اور انتخاب میں اسے شکست حاصل ہو- اسی طرح گورنر بھی خیال رکھے گا کہ میں اس وقت اپنے پہلو پر زور دوں جب کہ ملک کا ایک طبقہ میرا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو- ورنہ بلاوجہ دخل اندازی وزارت کو اور زیادہ ہر دل عزیز کر دے گی- اگر مذکورہ بالا طریق کے باوجود بھی ظلم کی کوئی صورت باقی رہ جائے گی تو اس کا علاج سپریم کورٹ کے ذریعہ سے جس کی ضرورت میں پہلے ثابت کر آیا ہوں مظلوم گروہ کر سکتا ہے- وزارت کے کام کے طریق کے متعلق جو کچھ کمیشن نے لکھا ہے میرے نزدیک درست ہے- بعض لوگ مجلس وزارت کا سیکرٹری مقرر کرنے کی جو کمیشن نے سفارش کی ہے تا وہ گورنر کو وزارت کی مجلس کی کارروائیوں سے اطلاع دیتا رہے اسے جاسوس قرار دے کر ناپسند کرتے ہیں لیکن جب کہ وزارت کی مجلس کا پریذیڈنٹ قانوناً گورنر سمجھا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ گورنر حالات سے آگاہ نہ رہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کو حالات سے واقف رکھنے کا نام جاسوسی رکھا جائے- خطرناک حالات کے متعلق گورنروں کے اختیارات کمیشن نے ایسے خطرناک حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب کوئی صورت بھی آئینی طور پر حکومت چلانے کی باقی نہ رہے گورنروں کو خاص اختیارات دیئے ہیں جو یہ ہیں کہ ایسے حالات میں انہیں اختیار ہوگا کہ خواہ وہ سب کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں خواہ اپنے مددگار مقرر کر کے حکومت کا کام چلائیں- خطرناک صورت کی تشریح اس نے یہ کی ہے کہ ایسی وزارت کا بنانا یا قائم رکھنا مشکل ہو جائے جسے کونسل کی امداد حاصل ہو یا جب کہ گورنمنٹ کے کام کو چلانے سے عام طور پر انکار کر دیا جائے اور اس کے کام کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے- ان حالات میں جب گورنر حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لے کمیشن نے اسے اختیار دیا ہے کہ اپنی مرضی سے وزراء مقرر کرے اور انہیں کونسلوں کا ممبر مقرر
۳۷۶ کر دے اور اسے یہ بھی اختیار دیا ہے کہ وہ ضروری اخراجات کی منظوری دے یا ایسا نیا قانون پاس کر دے جس کی قیام امن کیلئے ضرورت ہو لیکن جب گورنر ان اختیارات کو برتنا چاہے تو پارلیمنٹ کو اس کی فوراً اطلاع دے اور بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے ان غیر معمولی اختیارات کو بارہ ماہ سے زائد استعمال نہ کرے- اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حکومت کا کام بند ہونے لگے تو اس قسم کا اختیار گورنر کے ہاتھ میں ضرور ہونا چاہئے کہ جس کی مدد سے وہ حکومت کا کام چلا سکے لیکن خطرہ کی جو تشریح کمیشن نے کی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے غیر معمولی خطرہ نہیں کہہ سکتے اس لئے اس کی وجہ سے غیر معمولی اختیارات کو استعمال کرنیکی اجازت دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا- مثلاً اس کا یہ کہنا کہ جب کوئی ایسی وزارت بنائی یا قائم نہ رکھی جا سکے جسے کونسل کی امداد حاصل ہو تو اس وقت گورنر یہ اختیار برت سکتا ہے ہر گز درست نہیں- یہ حالت ہمیشہ متمدن ممالک میں پیش آتی رہتی ہے لیکن کبھی بھی اس کی وجہ سے آئینی حکومت کو معطل کر کے نیا نظام قائم نہیں کیا جاتا- اگر وزارت کا انتخاب یا اس کا قیام ناممکن نظر آئے تو گورنر کا یہ کام ہے کہ وہ مجلس واضع قوانین کو برخواست کر کے نیا انتخاب کرائے نہ کہ فوراً حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لے- پس اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی موجودہ وزارت کام سے انکار کر دے اور اس کی جگہ لینے کے لئے منتخب نمائندوں میں سے کوئی شخص تیار نہ ہو تو پھر گورنر کو اختیار ہوگا کہ وہ وزارت کا کام اپنی مرضی کے مطابق بعض آدمیوں کے سپرد کر دے اور مجلس کو فوراً برخواست کر کے دوسرا انتخاب کرائے اور اگر وہ مجلس بھی وزارت بنانے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر وزارت کا کام اپنی نگرانی میں لے کر پارلیمنٹ کو اطلاع دے- یا اگر یہ حالت پیدا ہو جائے کہ موجودہ وزارت کام سے انکار کر دے اور بعض منتخب شدہ نمائندے وزارت کا عہدہ لینے کیلئے تیار ہوں تو منتخب شدہ نمائندوں میں سے قائم کی جا سکتی ہے- لیکن کونسل کسی وزارت سے بھی تعاون کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو مختلف پارٹیوں کو وزارت پیش کرنے کے بعد اگر کام کسی صورت میں نہ چل سکے تو گورنر کو چاہئے کہ مجلس کو برخواست کر کے نیا انتخاب کرائے اور اگر اس نئے انتخاب کے بعد بھی وزارت کو کثرت حاصل نہ ہو اور نہ دوسری کوئی پارٹی اکیلی یا دوسروں سے مل کر کونسل میں کثرت حاصل کر سکے اور نہ کثرت خود حکومت کا کام آئینی طور پر اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہو تو اس صورت میں کونسل کو برخواست کر کے گورنر پارلیمنٹ
۳۷۷ کو اطلاع دے- پس ان قیدوں کے ساتھ یہ اختیارات گورنروں کو ملنے چاہئیں ورنہ جن الفاظ میں سائمن کمیشن نے لکھا ہے ان کی رو سے تو عام آئینی مظاہروں کی بناء پر بھی گورنر آئینی حکومت کو توڑ کر غیر آئینی حکومت کو قائم کر سکیں گے-
۳۷۸ صوبہ جات کی مجالس واضع قوانین کونسلوں کی عمر کمیشن نے صوبہ جات کی مجالس واضع قانون کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ صوبہ جات کی کونسلوں کی عمر پانچ سال کر دی جائے اور گورنر کو اختیار ہو تا دوسرے صوبہ جات کے انتخاب سے اس کے انتخاب کے وقت کو برابر رکھنے کے لئے دو سال تک عمر بڑھا کر سات سال کر دے- اس تبدیلی کی وجہ اس نے یہ بتائی ہے کہ آئندہ ہم نے مرکزی مجلس کے متعلق یہ قاعدہ رکھا ہے کہ اس کے ممبر بالواسطہ طور پر کونسلوں کے ذریعہ سے منتخب ہوا کریں- اس وجہ سے اس قسم کا انتظام ہونا چاہئے کہ عام طور پر سب کونسلیں ایک وقت میں منتخب ہوں تا کہ اسمبلی کے ممبروں کے انتخاب میں دقت نہ ہو- کاغذ پر یہ سکیم بے شک اچھی لگے لیکن اس کی تشریح کر کے دیکھیں تو یہ سکیم بالکل غیرمعقول معلوم ہوتی ہے- اول تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ فیڈرل اسمبلی کا انتخاب صوبہ جاتی کونسلوں کے ذریعہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکتا ہے- لیکن یہ سوال تو الگ زیر بحث آئے گا سردست تو میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ صوبہ جاتی کونسلوں کی عمر کو غیر طبعی قواعد کے ماتحت رکھنا انتظام کو خراب کرے گا- صوبہ جاتی کونسلوں کی عمر بے شک پانچ سال رکھی جائے میرے نزدیک یہ اچھا نتیجہ پیدا کرے گا لیکن اس سے زیادہ عمر کے بڑھانے کی اجازت دینی مناسب نہیں- دنیا کے اکثر نیابتی حکومتوں والے ممالک میں کونسلوں کی عمر پانچ سال یا اس سے کم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سیاسی کے ماہروں کا خیال ہے کہ اس عرصہ میں اس قدر تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ملک دوبارہ انتخاب کا بے صبری سے انتظار کرنے لگتا ہے- انگلستان کا ہی تجربہ زیر نظر رکھ لو کہ وہ وزارتیں جو یہ کوشش کرتی ہیں کہ ہم پورے پانچ سال اپنی عمر پوری کر کے پھر جنرل الیکشن کا اعلان کریں الیکشن میں اکثر ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں- پس جب ان ممالک میں جن کا نظام پرانا اور ٹھوس ہو چکا ہے پانچ سال کی عمر ایک کافی
۳۷۹ لمبی عمر سمجھی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک خیالی فائدہ کے لئے سات سال کے لمبے عرصہ تک کونسلوں کی عمر کو لمبا کیا جائے- جب ہندوستان میں صوبے زیادہ ہوگئے اور کونسلوں کو اختیارات زیادہ ملے تو دوسری جمہوری حکومتوں کی طرح یہاں بھی تغیرات جلدی پیدا ہونگے اور ہونے چاہئیں- پس ان تغیرات کو نظر انداز کر کے یہ فرض کر لینا کہ ایسے تغیرات بہت کم ہونگے اور پھر یہ فرض کر لینا کہ وہ دو سال سے پہلے ہی ہونگے محض ایک قیاسی بات ہے- اگر چار پانچ صوبوں میں تغیرات ہوئے اور کسی میں پہلے الیکشن کے بعد دوسرے سال میں کسی میں تیسرے سال میں اور کسی میں چوتھے سال میں تغیر ہوا تو پھر کونسلوں اور اسمبلی کے انتخاب میں کس طرح موافقت قائم رکھی جا سکے گی؟ تو یہ قاعدہ ہونا چاہئے کہ پانچ سال کی مدت پر سب کونسلوں کا خواہ ان کا درمیان میں جدید انتخاب ہو چکا ہو دوبارہ انتخاب ہو- سوائے اس صورت کے کہ آخری سال کے دوران میں انتخاب ہو اس صورت میں انتخاب اگلے انتخاب کے آخر تک کام دے سکے گا- یا پھر آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جب کسی کا انتخاب ہو، ہو، ایسا علاج جو مرض کو تو دور نہیں کر سکتا صرف مزید پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے کس کام کا؟ میں اس جگہ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں گورنروں کو کونسلوں کے برخواست کرنے کا حق دیا گیا ہے وہاں خود کونسلوں کو بھی اپنے برخواست کرنے کا حق ملنا چاہئے- کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت ملک کی رائے ایک خاص پارٹی کی تائید میں بڑھ چکی ہو لیکن گورنر اپنے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسلوں کو برخواست نہ کرتا ہو- اس صورت میں اجازت ہونی چاہئے کہ کونسل کی کثرت رائے کونسل کے برخواست کرنے کا فیصلہ کر دے اور دوبارہ انتخاب کے ذریعہ سے اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرے- ممبروں اور ووٹرونکی تعداد کی زیادتی کمیشن کی ایک یہ تجویز بھی ہے کہ کونسلوں کے ووٹروں کی تعداد اور ممبروں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا جائے- یہ تجویز کمیشن کی نہایت معقول ہے- میرا تو خیال ہے کہ پہلے بھی ووٹروں کی تعداد ناکافی ثابت ہوئی ہے اور اس اصلاح کی دیر سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی- لیکن اس موقع پر میں ایک ضروری اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ووٹروں کی قابلیت کا موجودہ معیار ایک مصنوعی معیار ہے- اصل میں تو ہر عاقل و بالغ ووٹ کا مستحق ہے- پس ان حد بندیوں سے
۳۸۰ جو ووٹروں پر لگائی جائیں اور جس کے نتیجہ میں قوم کو نقصان پہنچتا ہو اس کی ذمہ دار حکومت ہے نہ کہ وہ قوم- پس اس قوم کے حقوق کے نقصان کا ازالہ کرنا بھی حکومت کا کام ہے- گزشتہ سکھ حکومت کے وقت پنجاب میں مسلمانوں کی جائدادیں عام طور پر سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی تھیں اور بنگال کے برطانیہ کے ماتحت آنے کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں نے اپنے کام کی سہولت کے لئے بنگال کی اکثر زمینیں مستقل ٹھیکہ کے اصول پر چند ہندو عمال کے سپرد کر دی تھیں- اس وجہ سے پنجاب اور بنگال میں جائداد کی بنیاد پر مسلمان ووٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور اس امر کو ہمیشہ اس بات کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو نمائندگی ان کی تعداد کے حق سے کم ملنی چاہئے اور یہ مطالبہ انہی زبانوں سے سنا جاتا ہے جو جمہوریت کا وعظ کرتے کرتے خشک ہوتی چلی جاتی ہیں- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت انہیں اسی وقت پسند ہے جب وہ ان کے مطلب کی ہو- حالانکہ کسی قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق ملنا ایک ایسا معقول امر ہے کہ اس میں نہ کوئی رعایت کا پہلو ہے اور نہ کسی پر ظلم ہے- پس چاہئے کہ اگر ووٹروں کے دائرہ کو ابھی کچھ عرصہ تک محدود رکھنے کی تجویز ہو تو اس امر کا انتظام ہو جائے کہ جس جس قوم کو اس سے نقصان پہنچتا ہو اس کا ازالہ کسی دوسری طرح کر دیا جائے یعنی خاص حقوق کے ذریعہ سے اس کے ووٹروں کی تعداد اس تعداد کے برابر (نہ کہ قریباً برابر جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے) کر دی جائے جو اسے تناسب آبادی کے لحاظ سے حاصل ہو سکتی تھی- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشترکہ انتخاب پر جو زور دیا جاتا ہے اس کا راستہ بند کرنے کا الزام بھی اس قدر مسلمانوں پر نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ پر ہے- جس نے فرنچائز (FRANCHISE)کے ایسے اصول مقرر کئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹروں کی تعداد کم رہ جاتی ہے- اس وجہ سے وہ ڈرتے ہیں کہ جائنٹ الیکٹوریٹ (joint electorate)میں نہ معلوم ہمارا کیا حال ہوگا- اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ جائنٹ الیکٹوریٹ لے کر فرنچائز وسیع کرا لو جیسا کہ کانگریس والوں نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے تو یہ بات مسلمانوں کے شبہ کو اور بھی قوی کرتی ہے- کیونکہ اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ گو فرنچائز کی وسعت کی خوبی کو تو ہندو تسلیم کرتے ہیں لیکن
۳۸۱ انہوں نے اس سوال کا حل سودا کرنے کے لئے ملتوی کر رکھا ہے- حالانکہ اصل طریق یہ ہے کہ پہلے ہر نوجوان کے حق رائے دہندگی کو تسلیم کر کے اس کا اجراء کیا جائے پھر اس کا تجربہ ہو چکنے کے بعد مسلمانوں سے مشترکہ انتخاب کے متعلق سمجھوتہ کیا جائے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ ان کی تعداد کے مطابق ہو جائیں اور کچھ عرصہ تک انہیں الیکشن کا تجربہ کرنے کا بھی موقع دے دیا جائے تو مسلمانوں کا میلان خود بخود مشترکہ انتخاب کی طرف ہوتا چلا جائے گا- لیکن اگر ان کے اس حق کو ہندوؤں نے دوسرے امور کے لئے سودا کرنے کے طور پر محفوظ رکھا تو ان کے شبہات اور بھی بڑھتے چلے جائیں گے- لیکن اگر انتظام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً ہی ہر بالغ کو ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا تو بہتر ہے کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں کہ کمیشن کی تجویز کے مطابق ووٹروں کی موجودہ تعداد سے تین گنا زیادہ ووٹ ہو جائیں- لیکن اس امر کا خیال رکھ لیا جائے کہ مسلمانوں کا حق نہ مارا جائے اور ان کی تعداد کے مطابق ان کے ووٹروں کی تعداد ہو- کونسلوں کے ممبروں کی تعداد میں اضافہ ووٹروں کے متعلق اپنی رائے کے اظہار کے بعد میں ممبروں کی زیادتی کے سوال کو لیتا ہوں- میرے نزدیک تمام اقوام کی صحیح نمائندگی کے لئے ضروری ہے کہ جن صوبوں کی آبادی ایک کروڑ سے کم ہو ان کی کونسل کم سے کم پچھتر ممبروں کی ہو- اور ایک کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے صوبوں میں دو سو سے اڑھائی سو تک ممبروں کی تعداد مقرر کی جائے- سوائے بنگال اور یو-پی کے کہ جن کی تعداد دوسرے صوبوں سے بہت زیادہ ہے- ان دونوں صوبوں میں تین سو ممبروں کی کونسلیں مختلف علاقوں کی نمائندگی کے لئے ضروری ہیں-
۳۸۲ جُداگانہ انتخاب اور مختلف اقوام کا حقِّ نیابت اب میں جُداگانہ انتخاب کے سوال کو لیتا ہوں- یہ سوال اس وقت سیاسیات ہند میں اہمترین سوال بن رہا ہے اور مختلف اقوام کے حق نیابت کا سوال بھی اسی کے گرد چکر کھا رہا ہے- مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب اور تعداد سے زیادہ نیابت کا حق صاف الفاظ میں لارڈمنٹو (LORD MINTO)نے منظور کیا تھا- ان کے الفاظ سرآغا خان کی قیادت میں پیش ہونے والے ڈیپوٹیشن (DEPUTATION) کے جواب میں یہ تھے- ‘’آپ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ موجودہ قواعد کی بناء پر جو جماعتیں کونسلوں کے ممبر منتخب کرتی ہیں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی مسلمان امیدوار کو منتخب کریں گی اور یہ کہ اگر اتفاقا وہ ایسا کر بھی دیں تو یہ اسی صورت میں ہوگا کہ وہ امیدوار اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اکثریت کے ہاتھ فروخت کر دے اور اس وجہ سے وہ امید وار اپنی قوم کا نمائندہ نہیں ہوگا- اسی طرح آپ لوگ بالکل جائر طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا فیصلہ صرف آپ کی قوم کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس فیصلہ کے وقت آپ کی قوم کی سیاسی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو اس نے حکومت برطانیہ کی تائید میں کی ہیں- میں بالکل آپ کے اس خیال سے متفق ہوں-
۳۸۳ میں اسی طرح اس امر پر یقین رکھتا ہوں جس طرح کہ میرا خیال ہے کہ آپ لوگ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان میں انتخاب کا حق اگر صرف ایک فرد رعایا ہونے کی حیثیت سے دیا گیا اور مذہب اور رسم و رواج کے اس فرق کو نظرانداز کر دیا گیا جو اس براعظم میں بسنے والی اقوام میں پایا جاتا ہے تو یہ انتظام یقیناً بری طرح برباد ہوگا اور ناکام رہے گا’‘- اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ لارڈ منٹو (LORD MINTO) نے تسلیم کیا تھا کہ-: (۱)مسلمانوں کو مشترکہ انتخاب کے ذریعہ سے نہ تو ان کے حق کے برابر نیابت مل سکتی ہے اور نہ ان کے صحیح نمائندے ہی منتخب ہو سکتے ہیں- (۲) مسلمانوں کو حق صرف تعداد کے مطابق ہی نہیں ملنا چاہئے بلکہ ان کی پولیٹیکل حیثیت کے لحاظ کو مدنظر رکھ کر ان کی تعداد سے زائد حق ملنا چاہئے- چنانچہ اس اعلان کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا نے مارلے منٹو ریفامز سکیم ( MORLEY MINTO REFORMS SCHEME ) میں مسلمانوں کے حقوق کی علیحدہ نمائندگی کے متعلق کچھ قوانین تجویز کئے- جو ۱۹۱۰ء میں نافذ کئے گئے- بہرحال حکومت برطانیہ کا ایک ذمہ وار افسر اس امر کا صریح طور پر اقرار کر چکا ہے کہ علیحدہ نمائندگی کے بغیر نہ کمیت کے لحاظ سے اور نہ کیفیت کے لحاظ سے مسلمانوں کا حق انہیں مل سکتا ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں اکثریت اقلیت کے حقوق تلف کرنے کے لئے اپنی ساری قوت خرچ کر دیتی ہے- ایسی صورت میں جداگانہ انتخاب کے جس قدر نقائص بھی فرض کئے جائیں ان کی ذمہ داری ہندوؤں پر پڑتی ہے نہ کہ مسلمانوں پر- اور ان حالات میں علیحدہ نمائندگی کا حق کوئی رعایت نہیں جس کے بدلہ میں کوئی اور حق مسلمانوں سے لیا جائے یا ان سے کسی قسم کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے بلکہ یہ طریق صرف ان کے جائز حقوق کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے- مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ (MONTAGUECHELMSFORDREPORT )نے بھی اس امر کا تذکرہ کیا ہے اور سائمن کمیشن نے بھی اسے تسلیم کیا ہے کہ علیحدہ نمائندگی ہندوستان کی موجودہ حالات میں ضروری ہے- پس کسی نتیجہ پر پہنچتے وقت پہلے اس امر کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ علیحدہ نمائندگی کی ضرورت مسلمانوں کے کسی فعل کے سبب سے نہیں بلکہ
۳۸۴ ہندوؤں کے افعال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور یہ وہ صداقت ہے کہ اسے لارڈ منٹو (LORD MINTO) بھی تسلیم کر چکے ہیں اور اسی کتاب میں میں ثابت کر چکا ہوں کہ حالات اور عقل بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں- سائمن رپورٹ کا بیان ہے کہ مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ باوجود اس کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے بیان کرتی ہے کہ جُداگانہ انتخاب- ‘’فرقہ وارانہ امتیاز کو ہمیشہ کیلئے مستقل کرتا ہے اور اقوام کے موجودہ تعلقات کو ایک نہ بدل سکنے والی شکل دے دیتا ہے اور حکومت خود اختیاری کے اصول کی ترقی کے راستہ میں ایک سخت روک ہے’‘- خود سائمن کمیشن کے ممبر بھی اس رائے کی ان الفاظ میں تائید کرتے ہیں کہ-: ‘’اگر اوپر کے خیالات کو تسلیم کرنا تعصب ہے تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے خیالات بھی یہی ہیں’‘- ۵۱؎ میرا خیال ہے کہ نہ مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ کے لکھنے والوں نے اور نہ سائمن رپورٹ (SIMON REPOT)کے لکھنے والوں نے اس امر کا خیال کیا ہے کہ جداگانہ اور مشترکہ انتخاب مختلف مواقع کے لحاظ سے مختلف اثر پیدا کرتے ہیں- انسانی دماغ سب شعبہ ہائے زندگی میں ایک ہی طرح عمل کرتا ہے- جس طرح میاں بیوی میں جب شقاق پیدا ہوتا ہے تو ایک حد تک صلح کی کوشش کر کے ہمیں انہیں علیحدہ کرنا پڑتا ہے اور وہ تعلقات جو اکٹھا رکھنے سے درست نہیں ہو سکتے اس طرح بسا اوقات درست ہو جاتے ہیں- یہی حال قوموں کا ہوتا ہے جب ان کا تنافر حد سے بڑھ جاتا ہے تو ان میں ایک حد تک علیحدگی بجائے نقصان کے فائدہ کا موجب ہوتی ہے- مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ اور سائمن رپورٹ کے مصنفوں کے دل پر یہ خیال حاوی معلوم ہوتا ہے کہ صرف اس لئے کہ مسلمان اس کے چھوڑنے پر ناراض ہونگے علیحدہ نمائندگی کی ضرورت ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ صورت حالات میں یہی علاج ملک میں قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے- جب ایک کمزور قوم جس میں بیداری پیدا ہو چکی ہو یہ دیکھتی ہو کہ وہ قوم جو پہلے سے مضبوط تھی اس کی ترقی کے راستہ میں پورا زور لگا کر روکیں پیدا کرتی ہے اور حکومت میں اپنے مناسب حصہ کے حصول کی بھی اسے اجازت نہیں دیتی تو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت کو دیکھ کر یکجائی الیکشن سے اس کے خیالات میں سکون اور محبت پیدا
۳۸۵ نہیں ہو گی بلکہ غصہ اور رنج بڑھے گا اور جب وہ دیکھے گی کہ جائز ذریعہ سے میرے حقوق نہیں ملتے تو وہ فساد اور لڑائی پر آمادہ ہو جائے گی- لیکن جب کسی قوم کے حقوق اسے ملجائیں گے تو وہ ان غم اور غصہ کے خیالات سے بہت کچھ آزاد ہو جائے گی چنانچہ اس کا ثبوت مسٹرچنتامونی کے اس بیان سے جو انہوں نے انڈین ریفارمز کمیٹی (INDIAN REFORMS COMMITTEE) کے سامنے دیا تھا ملتا ہے- مسٹر چنتا مونی لبرل لیڈر ہیں اور اس وقت راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے نمائندے ہو کر گئے ہیں- سر محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں- ‘’جیسا کہ انڈین ریفارمز کمیٹی کے سامنے مسٹر چنتا مونی نے بیان کیا تھا کہ جداگانہ انتخاب سے صوبہ جات متحدہ کے مسلمانوں کے قلوب میں اپنے حقوق کے محفوظ ہو جانے کی وجہ سے جو اطمینان پیدا ہوا اور اس کا جو اچھا نتیجہ ہندو مسلم تعلقات کے بہتر ہو جانے کی صورت میں نکلا وہ ایسا نمایاں تھا کہ مسٹر چنتا مونی اور ان کے ہم خیال ہندوؤں نے میونسپل کمیٹیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں میں بھی جداگانہ انتخاب کے طریق کو جاری کر دیا’‘-۵۲؎ اس کے مقابلہ میں مشترکہ انتخاب نے ہندوستان کی فضاء میں جو اثر پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ایک ممبر متحدہ طور پر سب اقوام کی طرف سے منتخب ہوتا ہے- اس وقت تک کئی الیکشن ہو چکے ہیں لیکن مسلمان اس حلقہ انتخاب سے ایک دفعہ کوشش کرنے کے بعد اس قدر مایوس ہوئے ہیں کہ اب کوئی مسلمان اس حلقہ کی طرف سے کھڑا ہی نہیں ہوتا اور ان کی ساری کوشش اس امر میں مرکوز رہتی ہے کہ کوئی مسلمان اس حلقہ میں ووٹ نہ دے تا کہ ہندو ممبر مسلمانوں کا نمائندہ نہ سمجھا جا سکے- اگر مشترکہ انتخاب کا مطالبہ واقعہ میں ہندوؤں کی طرف سے قومی اتحاد کی خاطر ہوتا تو یہ خطرناک نتیجہ اس حلقہ میں جس کا ہر ووٹر یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہے کیوں نکلتا اور اگر یہ طریق ہر ملک میں قطع نظر وہاں کے مخصوص حالات کے ایسا ہی بابرکت ہوتا تو ہندوستان کے وہ حلقے جن میں اس طریق کو رائج کیا گیا ہے سب سے زیادہ تعصب بغض اور کینہ کے نظارے کیوں دکھاتے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشترکہ انتخاب کے طریق میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے ماتحت جو انتخاب ہوں ان میں ایسے مسائل کو نہیں چھیڑا جا سکتا جو ایک قوم کو دوسری قوم سے لڑوانے
۳۸۶ والے ہوں- مگر میرے نزدیک جہاں پہلے سے تعصب موجود ہو اور سیاسی سوالات زیر بحث نہ ہوں وہاں مشترکہ انتخاب میں سب سے زیادہ یہی سوال اٹھایا جائے گا کیونکہ اگر ہندو الگ حلقہ سے منتخب ہو رہا ہو اور مسلمان الگ حلقہ سے تو ہندو کی اپنے ہندو مدمقابل کے خلاف اور مسلمان کی اپنے مسلمان مدمقابل کے خلاف طاقت خرچ ہوگی لیکن اگر ایک ہی حلقہ سے ہندو اور مسلمان کھڑے ہونگے تو تعصب کی موجودگی کی وجہ سے ان کے لئے سب سے سہل طریق یہ ہوگا کہ اپنی اپنی قوم کے تعصب سے اپیل کر کے اس کی مدد حاصل کریں- اصل میں انگلستان کے لوگ اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ الیکشن کے وقت کسی نہ کسی چیز پر حصول امداد کا دارومدار ہوتا ہے- ووٹر کو جگانا آسان کام نہیں- اس کے جگانے کے لئے کوئی ایسا مقصد اس کے سامنے رکھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی غفلت کو ترک کر کے امیدوار کی مدد کے لئے تیار ہو جائے- انگلستان میں اور دوسرے ممالک میں خاص خاص سیاسی پالیساں ہیں جن کی خوشنمائی اور دلفریبی ظاہر کر کے امیدوار ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں تو اب تک کوئی سیاسی پالیسی سوائے انگریزوں کی مخالفت کے نہیں ہے- آزادی کے ساتھ ہی یہ جوش دلانے کا ذریعہ بھی ختم ہو جائے گا- باقی اور کونسی پالیسی ہے جس سے پبلک میں امیدوار جوش پیدا کر سکیں گے- سیاسی پارٹی کوئی ہے نہیں جس کے پروگرام کی تائید کر کے امیدوار لوگوں کی مدد حاصل کرے اور اگر کوئی پارٹی ہو بھی تو ابھی تک چونکہ پارٹی سسٹم پر حکومت کو قائم نہیں کیا گیا اور آئندہ کے لئے بھی سائمن رپورٹ نے اس کا دروازہ بند کر دیا ہے کوئی پارٹی سیاسی پروگرام نہیں تیار کر سکتی- پس کوئی امیدوار جو کسی حلقہ سے کھڑا ہو اپنے حلقہ کے ووٹروں کے سامنے پیش کرے تو کیا؟ کیا وہ اکیلا کوئی پالیسی تیار کر سکتا ہے اور اگر کرے تو کیا اپنے حلقہ کے لوگوں کو یقین دلا سکتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوا تو اس پالیسی پر عمل کرا سکے گا- پارٹی تو یہ امید دلاسکتی ہے کیونکہ وہ بوجہ ایک جماعت ہونے کے اس امر کی امید رکھتی ہے کہ اگر اس کی کثرت ہوئی تو وہ حکومت پر قابض ہو جائے گی اور اپنی پالیسی کے مطابق حکومت کرے گی لیکن ایک فرد کس برتے پر کوئی وعدہ کر سکتا ہے؟ اس کے لئے تو ان حالات میں سوائے قومی اور مذہبی تعصب کی پناہ لینے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہو سکتا پس وہ اسی حربہ کو استعمال کرے گا- پس اب جب کہ علیحدہ انتخاب کی صورت میں امیدوار کی قوم کے سوال پر یا حد سے حد اس کے کانگریسی یا مخالف کانگریس ہونے کی بنیاد پر الیکشن کا جھگڑا طے کیا جاتا ہے-
۳۸۷ اگر متحدہ انتخاب ہوگا تو مذہب کی بناء پر جنگ ہوگی- پس جب تک کہ حکومت حقیقی طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں نہیں آتی اور بجائے اس کے کہ گورنر مختلف پارٹیوں سے چن کر وزارت بنائے ایک وزیر اعظم کے ذریعہ سے وزارت نہیں بنائی جاتی پارٹی سسٹم کبھی ترقی نہیں پا سکتا اور کبھی بھی سیاسی اصول پر انتخابات میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا- ہاں جب صوبہ جات کو آزادی ملے گی اور لوگ یہ محسوس کریں گے کہ قوانین انگریزوں کی طاقت سے نہیں بلکہ وزارت کی مرضی سے بنتے ہیں تب وہ لوگ جن کو ان قانونوں سے تکلیف پہنچی اکٹھے ہونے شروع ہونگے اور اپنے لئے ایک الگ پالیسی مقرر کرلیں گے اور مشترکہ تکلیف کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ تمام ہندو، سکھ، مسلمان اور مسیحی ایک جتھہ بنا لیں گے جن کوان قانونوں سے تکلیف پہنچی ہوگی اور اس طرح آہستہ آہستہ مختلف سیاسی طریق کار ایسے تجویز ہو جائیں گے جن کی بناء پر لوگوں کو انتخاب کی جنگ لڑنا آسان ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ یہ لوگ اپنی پارٹیوں میں ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی ہر قسم کے لوگ شامل رکھتے ہونگے انتخاب کے موقع پر ہندو، مسلم یا سکھ، مسیحی کا سوال نہیں اٹھا سکیں گے اور نہ اس کی انہیں اس وقت ضرورت محسوس ہوگی تب اور صرف تب وہ وقت آئے گا جب ہندوستان کے مخصوص حالات کے لحاظ سے مخلوط طریق انتخاب بغیر فتنہ پیدا کرنے کے ملک کے لئے مفید ہو سکے گا- اس سے پہلے اسے جاری کر کے دیکھ لو، قومی تعصب کی آگ روزانہ تیز سے تیز تر بھڑکنے لگے گی اور یہ علاج جو یورپین نگاہ میں تریاق نظر آتا ہے ہندوستان کو زہر ہو کر لگے گا- پس علیحدہ انتخاب کے طریق کو مسلمانوں پر احسان کر کے نہیں بلکہ ہندوستان کی ترقی اور یہاں کے باشندوں کے اچھے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری رکھنا چاہئے- اب رہا یہ سوال کہ اگر اس طریق کو جاری کر دیا گیا تو کیا ہمیشہ کے لئے یہ انوکھا طریق ہندوستان کے گلے پڑا رہے گا؟ آخر اس کے دور کرنے کا بھی کوئی طریق ہوگا یا نہیں؟ مسلمانوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس کے دور کرنے کا طریق یہی ہے کہ وہ اقلیتیں جن کے حق میں اس طریق کو جاری کیا جائے اس کے بدلنے کی سفارش کریں- اس وقت تک حکومت ہندوستان کا بھی یہی خیال ہے لیکن میرے نزدیک یہ حل کوئی ایسا آسان حل نہیں- ‘’جن کے حق میں اس قانون کو جاری کیا گیا ہے’‘ مبہم الفاظ ہیں اس کا کون فیصلہ کرے گا کہ یہ قانون کس کے حق میں جاری کیا گیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جن کو جُداگانہ انتخاب کا حق دیاگیا ہے
۳۸۸ یعنی جن کے ووٹروں کی الگ فہرست بنائی جاتی ہے انہیں کے حق میں اس قانون کو سمجھا جائے گا- یہ تعریف بے شک ایک حد تک مشکل کو حل کر دیتی ہے لیکن بعض صوبوں میں اس تعریف سے بھی کام نہیں چلتا- مثلاً پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ ایک عام حلقہ انتخاب ہے- پس معلوم ہوا کہ یہ حق پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کو ملا ہے- لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اوپر کی دونوں قوموں کو چھوڑ کر ہندوؤں اور مسیحیوں کے سوا کسی اور مذہب کے لوگ پنجاب میں نہیں ہیں اور مسیحیوں کی تعداد بھی اس قدر کم ہے کہ یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ نام کے سوا عام حلقہ انتخاب میں ہندوؤں کے سوا کوئی اور قوم بھی شامل ہے- پس ہندو میرے نزدیک جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں اور سکھوں کو الگ کر کے درحقیقت عام حلقہ انتخاب کا لفظ محض ایک نام کی حیثیت رکھتا ہے ورنہ اس سے مراد ہندو ہی ہیں اس لئے یہ حق پنجاب میں ہماری خاطر بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ مسلمانوں اور سکھوں کی خاطر اور کم سے کم میرے نزدیک ان کا یہ دعویٰ خلاف عقل نہیں ہوگا- پس ان حالات میں وہی ہندو جو آج اپنے فائدہ کے لئے مخلوط انتخاب کا دعویٰ کرتے ہیں کل کو مسلمانوں کا فائدہ دیکھ کر علیحدہ انتخاب پر زور دیں گے- اس وقت اس طریق کو جو درحقیقت ایک عارضی تدبیر کے طور پر ہے کس طرح چھوڑا جا سکے گا؟ ابھی چند دن ہوئے ایک مشہور مسلمان سیاسی لیڈر سے اس بارہ میں میری گفتگو ہوئی اور میں نے ان سے یہی سوال کیا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اس طریق انتخاب کو چھوڑنا پڑے گا- اس وقت ہم کس طرح اس طریق کو چھوڑ سکیں گے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے اختیار میں ہوگا کہ ہم چھوڑ دیں- میں نے کہا کہ سائمن رپورٹ نے پنجاب میں اسے ہمارے اختیار میں نہیں رکھا بلکہ ہندو، مسلمان، سکھ تینوں قوموں کی رضامندی پر اس کے منسوخ ہونے کو منحصر رکھا ہے- انہوں نے کہا کہ بے شک لیکن ہم یہ زور دیں گے کہ جس کی خاطر یہ قانون رکھا جائے اس کی مرضی پر یہ منسوخ ہونا چاہئے- میں نے کہا کہ اگر راؤنڈٹیبل کانفرنس کے موقع پر ہماری اس دلیل کو کارگر ہوتے دیکھ کر سکھوں اور ہندوؤں نے بھی پنجاب میں اپنے لئے علیحدہ انتخاب کا مطالبہ پیش کیا تو پھر؟ انہوں نے جواب دیا کہ تب ہم مخلوط انتخاب کی طرف آ جائیں گے- سکھ اور ہندو جُداگانہ انتخاب کو اختیار کر لیں گے اور مخلوط انتخاب ہمارے حصہ میں آ جائے گا جو کہ اس صورت میں بغیر جُداگانہ انتخاب کا الزام اپنے سر لینے کے جُداگانہ انتخاب کے
۳۸۹ برابر ہی مفید ہوگا- چونکہ چائے پر دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی اور کم سے کم میں اپنے دماغ پر پورا زور نہیں دے رہا تھا مجھے یہ تجویز معقول معلوم ہوئی- مگر بعد میں جب میں نے اس کے سب پہلوؤں پر غور کیا تو مجھے یہ تجویز بالکل نامناسب معلوم دی کیونکہ یہ امر میرے دوست کے ذہن سے اتر گیا تھا کہ جداگانہ انتخاب کا حق جسے دیا جائے اس کا چھوڑنا اسی کے اختیار میں ہے- سو اگر مسلمان اس پوزیشن کو اختیار کر لیں گے جو انہوں نے تجویز کی تھی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نئے نظام حکومت کے بعد دوسرے ہی الیکشن پر ہندو، سکھ اپنے اس حق کو چھوڑ کر ہم سے آ ملیں گے اور ہمارے پاس ان کے روکنے کے لئے کوئی دلیل نہ ہو گی کیونکہ مخلوط انتخاب والے کا حق نہیں کہ وہ علیحدہ حلقہ انتخاب والے کو جداگانہ انتخاب کا حق چھوڑنے سے روک سکے- پس نتیجہ یہ ہوگا کہ پیشتر اس کے کہ پنجاب مخلوط انتخاب کے لئے تیار ہو، وہ جداگانہ انتخاب کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اور نظام چونکہ قائم ہو چکا ہوگا مسلمان دوبارہ اس سوال کو نہیں اٹھا سکیں گے- غرض کم سے کم پنجاب میں اس علاج سے ہماری مشکلات کا حل نہیں ہو سکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم کوئی نیا علاج تجویز کریں- میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس کا علاج ایک ہی ہے کہ علیحدہ انتخاب کا حق صرف محدود سالوں کے لئے ہو- اس عرصہ کے گذر جانے پر خود بخود سب ملک میں مخلوط انتخاب کا طریق رائج ہو جائے گا- ہاں اس عرصہ کے گذرنے سے پہلے بھی اگر اس جماعت کے تین چوتھائی منتخب نمائندے جس کے حق میں اس طریق کو جاری کیا گیا ہو یہ فیصلہ کر دیں کہ وہ اس حق کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور گورنرصوبہ کی رائے ہو کہ وہ اپنی قوم کی ترجمانی کر رہے ہیں تو اس قوم کے حق میں اس طریق انتخاب کو ترک کر دیا جائے- قوم کی ترجمانی معلوم کرنے کا ذریعہ یہ ہو کہ گورنر ان کی اس رائے کو شائع کر کے پبلک رائے کو معلوم کرلے- میں نے جہاں تک غور کیا ہے پچیس سال کا عرصہ اس انتخاب کے طریق کو جاری رکھنے کے لئے کافی ہے وہ اقوام جو ڈرتی ہیں کہ کہیں ہماری حق تلفی نہ ہو- اگر وہ اس عرصہ میں بھی اپنے آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکیں تو وہ مزید امداد کی مستحق نہیں ہیں لیکن یہ عرصہ نئے نظام سے شروع ہو- گذشتہ زمانہ اس میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اس زمانہ میں صوبہ جات کو آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی اور بیداری بغیر آزادی کے نہیں پیدا ہوتی-
۳۹۰ اس پچیس سال کے عرصہ کے بعد جہاں جہاں اور جس جس قوم کے حق میں یہ طریق ابھی جاری ہو اسے موقوف کر دیا جائے لیکن شرط یہ ہو کہ صرف ان اقلیتوں کے حق میں اسے موقوف کیا جائے جو تین فیصدی سے زائد ہوں- جن اقلیتوں کی تعداد تین فیصدی سے کم ہو اور انہیں جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو ان کے اس حق کو بغیر ان کی مرضی کے خواہ کسی قدر عرصہ بھی گذر جائے- باطل نہ کیا جائے دوسری شرط یہ ہو کہ اس صورت میں اس حق کو باطل کیا جائے جب کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو چکا ہو- جن قوموں کے حق میں اس قانون کو پچیس سال بعد منسوخ کر دیا جائے ان کی بھی میرے نزدیک دو قسمیں ضروری ہیں- اگر تو وہ قوم جسے جُداگانہ انتخاب کا حق دیا گیا ہو اس کی صوبہ میں اکثریت ہے تب تو کلی طور پر اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے- لیکن اگر وہ قوم اقلیت ہے تو جداگانہ انتخاب تو منسوخ ہو لیکن مخلوط انتخاب کے ساتھ اس کی تعداد یا اس کے مقررہ حق کے برابر نشستیں جو بھی ان میں سے زیادہ ہوں اس قوم کے لئے مقرر کر دی جائیں اور ان مقررہ نشستوں کو ترک کر کے کلی طور پر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا اس قوم کے تین چوتھائی افراد کے ریزولیوشن پر منحصر ہو- اور اس کے ساتھ بھی وہی شرطیں ہوں جو میں وقت سے پہلے جداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرنے کے متعلق بیان کر آیا ہوں- مختلف اقوام کی نیابت کا تناسب جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر ایک قوم کی نمائندگی کا تناسب کیا ہوگا- کیونکہ جس ملک میں یہ طریق جاری نہ ہو وہاں سوائے اس صورت کے کہ مخلوط انتخاب کے ساتھ نشستوں کا تعین کیا جائے یہ سوال بلاواسطہ طور پر پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب سب لوگ مل کر نمائندے منتخب کریں اور نشستوں کا تعین بھی نہ ہو تو جو قوم زیادہ جگہیں لے سکتی ہو لے جائے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا- پس یہ سوال خصوصیت کے ساتھ علیحدہ انتخاب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسی کے ساتھ اسے بیان کرنا مناسب ہے- مسلمانوں کا مطالبہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں شروع سے یہ رہا ہے کہ چونکہ ان کی پولیٹیکل حیثیت اس ملک میں بہت زیادہ ہے- کیونکہ انگریزوں نے ان سے حکومت لی ہے اور اکثر حصے ملک کے ایسے ہیں جو مسلمان بادشاہوں سے بطور ٹھیکہ کے انہوں نے لئے تھے یا بطور انعام کے ان کو ملے تھے پس عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ جس قوم سے حکومت بطور مستاجری
۳۹۱ یا انعام میں لی گئی ہو اس کے حق کو وقعت دی جائے- اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مسلمان فوجی خدمات میں اپنی قومی تعداد سے زیادہ حصہ لیتے رہے ہیں اس لئے بھی انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہئے- یہ مطالبہ معقول ہے یا غیر معقول میں اس بحث میں نہیں پڑتا- بہرحال اس کو لارڈ منٹو تسلیم کر چکے ہیں اور مسٹر گوکھلے جیسا لیڈر اس کی تصدیق کر چکا ہے- لارڈ منٹو کے اعلان کے بعد ہندو مسلم سمجھوتے کے لئے لکھنؤ میں ایک مجلس ہوئی تھی جس میں ہندوؤں نے اس اصل کو قبول کر کے مسلمانوں سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہندو صوبوں میں ہندو مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد حق دے دیں گے لیکن اسی طرح مسلمان مسلمان صوبوں میں ہندوؤں کو ان کے حق سے زائد نشستیں دے دیں- مسلمانوں نے بدقسمتی سے اسے منظور کر لیا- میں اسے بدقسمتی کہتا ہوں کیونکہ تمام بعد میں ظاہر ہونے والے فسادات اسی سمجھوتہ پر مبنی ہیں- ایک طرف ہندو مسلمانوں کو یہ سمجھوتہ یاد دلاتے ہیں دوسری طرف برطانوی نمائندے اس سمجھوتہ کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان نمائندوں نے اپنی طرف سے تو اپنی قوم سے نیکی ہی کرنی چاہی تھی لیکن ہو گئی برائی- اگر لارڈ منٹو کے اعلان اور اس پر مسٹر گوکھلے اور دوسرے ہندو لیڈروں کی تصدیق تک ہی معاملہ ختم ہو جاتا تو مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہوتا- لیکن جہاں تک میرا خیال ہے بعض ہندوؤں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمان اپنا حق لے چلے ہیں یہ چال چلی اور مسلمانوں سے میثاق لکھنو باندھ کر ہمیشہ کے لئے انہیں اپاہج کر دیا- لکھنؤ پیکٹ کیا ہے ایک اقرار ہے کہ ہندوستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب نہ ہوگا- تعداد کے لحاظ سے بے شک مسلمانوں کو بہت کچھ مل گیا ہے لیکن قیمت کے لحاظ سے وہ سب کچھ کھو بیٹھے ہیں- سائمن رپورٹ نے بھی مسلمانوں کو یاد دلایا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی مسلمانوں کو ان کے حق سے بہت زیادہ ملے اور پنجاب اور بنگال میں بھی انہیں قانون کے ذریعہ سے کثرت دلا دی جائے- میرے نزدیک لکھنؤ پیکٹ ایک غلطی تھی لیکن اس کے پیش کرنے والوں کو ایک بات بھول جاتی ہے اور وہ یہ کہ لکھنؤ پیکٹ کی کبھی بھی تصدیق نہیں کی گئی- وہ ہمیشہ کے لئے ایک منسوخ شدہ تحریر کی حیثیت میں رہا ہے اور اس امر کی تو سائمن رپورٹ بھی شہادت دیتی ہے کہ کم سے کم موجودہ زمانہ میں وہ قابل توجہ نہیں ہے- اس میں لکھا ہے:.
۳۹۲ ‘’اس (لکھنؤ کے) معاہدہ کو اب دونوں ہی فریق نمائندگی کا صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں تسلیم کرتے’‘- ۵۳؎ لیکن حق یہ ہے کہ کبھی بھی اس پیکٹ پر عمل نہیں ہوا کیونکہ اس میں ایک اہم شرط تھی جس کی بناء پر یہ فیصلہ تسلیم کیا گیا تھا اور اس شرط پر ایک دن کے لئے بھی عمل نہیں ہوا اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کے ممبروں کی تین چوتھائی یہ فیصلہ کر دے کہ کسی قانون کا ان کی قوم پر خاص طور پر مضر اثر پڑتا ہے تو وہ قانون پاس نہیں ہو سکے گا یہ قانون کبھی بھی قانون کی صورت میں نہیں آیا- پس جس اطمینان کی صورت کی امید دلانے پر مسلمان اس فیصلہ پر راضی ہوئے تھے جب کہ وہ صورت ہی پیدا نہیں ہوئی تو معاہدہ کی کیا ہستی رہی؟ غرض اس معاہدہ پر کسی فیصلہ کی بنیاد رکھنی بالکل درست نہیں اور جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے موجودہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہمیں کوئی اور راہ تلاش کرنی ہوگی- سائمن کمیشن نے یہ راہ تجویز کی ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں تو انہیں وہی حقوق دے دیئے جائیں جو ان کو ملے ہوئے ہیں ۵۴؎ لیکن پنجاب اور بنگال جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں ان کے نزدیک مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق حقوق دینے کمیشن کے نزدیک درست نہیں- کیونکہ ‘’اس سے مسلمانوں کو دونوں صوبوں (بنگال اور پنجاب)میں ایک معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی’‘- ۵۵؎ کمیشن کا خیال ہے کہ-: ‘’موجودہ زائد حق جو چھ صوبوں میں مسلمانوں کو حاصل ہے اس کی موجودگی میں بغیر دونوں قوموں میں کوئی نیا معاہدہ ہونے کے انصاف کے خلاف ہوگا کہ انہیں بنگال اور پنجاب میں موجودہ حق سے زائد دے دیا جائے’‘- کمیشن پھر خود ہی ایک تجویز پیش کرتا ہے- جس کے قبول کرنے پر وہ امید دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے زائد حقوق دوسرے صوبوں سے نہیں چھینے جائیں گے اور جن صوبوں میں ان کی اکثریت ہے ان میں بھی انہیں زیادہ نمائندگی حاصل کرنے کا موقع رہے گا اور وہ یہ ہے کہ وہ بنگال میں مخلوط انتخاب کو مان لیں- پنجاب کے متعلق بھی ان کا خیال ہے کہ اگر مسلمان سکھ اور ہندو تینوں مخلوط انتخاب پر
۳۹۳ راضی ہو جائیں تو اس سمجھوتے کے بعد وہ مسلمانوں کے باقی صوبوں سے زائد حق نہیں چھینیں گے- ایک ایسی جماعت سے جس میں سرجان سائمن (SIR JOHN SIMON) جیسا قانوندان شامل ہو اس قسم کی غیر معقول تجویز کی میں ہر گز امید نہیں کر سکتا تھا- کمیشن نے اس تجویز کے پیش کرتے وقت کئی امور بالکل نظر انداز کر دیئے ہیں- اول یہ کہ جو چیز انسان کی اپنی نہ ہو اسے وہ کسی کو دینے کا حق نہیں رکھتا- وہ لکھتے ہیں کہ-: ‘’اگر باہمی سمجھوتے سے بنگال میں جداگانہ انتخاب کے طریق کو ترک کر دیا جائے تا کہ ہر اک جماعت ایک متحدہ حلقہ انتخاب سے اپیل کر کے جس قدر نشستیں لے جا سکے لے جائے- ہم اس بناء پر مسلمانوں سے ان دوسرے صوبوں میں کہ جہاں وہ اقلیت ہیں- جو زائد حق انہیں ملا ہوا ہے، نہیں چھینیں گے’‘- ۵۶؎ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر پنجاب اور بنگال دونوں مسلم صوبوں میں سے بنگال میں یہ سمجھوتہ ہو جائے کہ جداگانہ طریق انتخاب کو چھوڑ کر مخلوط انتخاب جاری کر لیا جائے تو وہ اس صورت میں دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کے حق سے کچھ کم نہیں کریں گے- لیکن سوال یہ ہے کہ جب ملک کی قوموں میں آپس میں سمجھوتہ ہو جائے کہ وہ باوجود دوسری جگہ مسلمانوں کو زائد حق دینے کے اس صوبہ میں ان سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے جس میں وہ اکثریت ہیں تو اس میں سائمن کمیشن کا کیا دخل ہے- سائمن کمیشن کا دخل تو اس صورت میں ہو سکتا تھا اگر وہ یہ کہتا کہ اگر مسلمان بنگال میں مخلوط انتخاب کو ترک کر دیں تو ہم بغیر دوسرے صوبوں میں سے مسلمانوں کا حق کم کرنے کے بنگال میں عام مقابلہ کی انہیں اجازت دے دیں گے لیکن جب بنیاد انہوں نے مختلف قوموں کے اتفاق پر رکھی ہے تو ان کی دخل اندازی کا سوال ہی نہیں رہتا- اس قسم کی بات انہوں نے پنجاب کے متعلق بھی کہی ہے- دوسری خلاف عقل بات ان کی اس تحریر سے یہ نکلتی ہے کہ ایک طرف تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں اس وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں بھی انہیں اس حق کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر انہیں حق دے دیا جائے اور دوسرے صوبوں میں بھی انہیں ان کی آبادی سے زیادہ حق دے دیا جائے- اور دوسری طرف وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر بنگال اور پنجاب میں مسلمان اور دوسری قومیں سمجھوتہ
۳۹۴ سے جداگانہ انتخاب کو چھوڑ دیں تب ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں ان کا حق کم کرنے کے بغیر انہیں ان دونوں صوبوں میں آزاد مقابلہ کی اجازت دے دی جائے- اب ایک ادنیٰ غور سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں دعوے متضاد ہیں- کیونکہ ایک طرف تو مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں میجارٹی (MAJORITY)سے اس لئے محروم کیا گیا ہے کہ جداگانہ انتخاب ان کے مطالبہ پر جاری کئے گئے ہیں اس وجہ سے انہیں مستقل اکثریت کا حق نہیں دیا جا سکتا- دوسری طرف کمیشن کہتا ہے کہ جداگانہ انتخاب کا طریق چھوڑ کر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں بلکہ دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے- اگر یہ تبدیلی دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے تو مسلمانوں کی وجہ سے اس قانون کا اجراء نہ ہوا بلکہ سب قوموں کے لئے ہوا- پس کمیشن کا جداگانہ انتخاب کی بناء پر مسلمانوں سے کسی قربانی کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوا- لیکن اگر یہ درست ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کی خاطر جاری کیا گیا ہے اور اس وجہ سے انہیں اکثریت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے تو پھر اس کا ترک کرنا بھی صرف انہی کی مرضی پر منحصر ہونا چاہئے نہ کہ دوسروں کی رضامندی پر- تیسری بات جو کمیشن کے اس فیصلہ میں خلاف عقل نظر آتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے یہ غور نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں کو کیا دیتے ہیں اور ان سے کیا لیتے ہیں- وہ جو کچھ مسلمانوں کو دیتے ہیں وہ چند نشستیں ہیں اور جو لیتے ہیں وہ اکثریت ہے اور اقتصادیات کا یہ ایک موٹا اصل ہے کہ چیزوں کی قیمت ان کی تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان کے فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے- کیا سرجان سائمن اپنی پارٹی کی طرف سے یہ سمجھوتہ کسی دوسری پارٹی سے کرنے کو تیار ہونگے کہ جس دفعہ ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں میجارٹی حاصل ہو سکتی ہو وہ اس میجارٹی کو چھوڑ دیں- اور بجائے اس کے آئندہ مختلف پارلیمنٹوں میں مثلاً دس فیصدی نشستیں انہیں حاصل ہو سکتی ہوں تو پندرہ فیصدی نشستیں ان کی پارٹی کو بلا مقابلہ دوسری پارٹیاں دے دیا کریں- یہ ایک موٹی بات ہے کہ دس پارلیمنٹوں کی مینارٹی کی قلیل زیادتی بھی ایک دفعہ کی میجارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی- لیکن سائمن کمیشن اس ظلم اور اس تعدی کا نام برطانوی انصاف رکھتا ہے کہ مسلمانوں کو چھ صوبوں میں کچھ زائد حق دے کر وہ مسلمانوں کو دو صوبوں کی میجارٹی سے محروم کر دیتا ہے اور محروم بھی ابدی طور پر کیونکہ آئندہ میجارٹی کے امکان کو بھی وہ اس شرط سے مشروط کر دیتا ہے کہ دوسری پارٹیاں قواعد کو تبدیل کرنے پر راضی ہوں اور اتنا بھی نہیں سوچتا
۳۹۵ کہ ان پارٹیوں کو مستقل میجارٹی (MAJORITY) چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے- چوتھی بات جو اس فیصلہ میں خلاف عقل ہے یہ ہے کہ سائمن رپورٹ مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں ان کی تعداد کے مطابق نیابت دینے سے اس وجہ سے انکار کرتی ہے کہ-: ‘’اس سے مسلمان کو دونوں صوبوں میں معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی’‘- ۵۷؎ گویا سائمن کمیشن کی نگاہ میں کسی جماعت کو خواہ وہ اکثریت ہی کیوں نہ ہو- مستقل میجارٹی (MAJORITY)دینا درست نہیں اور حد سے بڑھا ہوا مطالبہ ہے لیکن اس حد سے بڑھے ہوئے مطالبہ کا علاج وہ یہ کرتا ہے کہ اقلیت کو مستقل میجارٹی دے دیتا ہے- کیونکہ وہ موجودہ طریق کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور موجودہ قانون میں بنگال اور پنجاب میں درحقیقت ہندوؤں کو اکثریت حاصل ہے- پنجاب کے معاملہ کو اگر مشتبہ بھی قرار دیا جائے تو بھی بنگال کا معاملہ تو بالکل واضح ہے- جنرل کانسٹی چیوانسی (GENERAL CONSTITUENCY) میں چھیالیس ہندو ممبر ہیں اور انتالیس مسلمان ممبر ہیں- ادنیٰ اقوام میں سے جو ممبر ہوگا وہ بھی ہندو ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوتا ہے اس طرح ہندوؤں کو سینتالیس ممبریاں مل گئیں- لیبر کی طرف سے دو ممبر مقرر ہیں- جن میں سے کم سے کم ایک ہندو ہوگا تو اڑتالیس ہندو ہوں گے- اگر ایک لیبر کا ممبر مسلمان فرض کر لیا جائے- جو عام طور پر نہیں ہوتا تو چالیس مسلمان ہوئے- زمینداروں کی کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY)کی طرف سے پانچ ممبر ہوتے ہیں- عملاً وہ سب کے سب ہندو ہوتے ہیں لیکن اگر ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو فرض کر لیتے ہیں کہ چار ہندو اور ایک مسلمان ہوگا- اس طرح باون ہندو اور اکتالیس مسلمان ہوئے- یونیورسٹی کا ممبر بوجہ ہندو ووٹروں کی تعداد زیادہ ہونے کے لازماً ہندو ہوگا- بہرحال اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ ممبر باری باری ہندو مسلمانوں میں سے منتخب ہوتا رہے گا تو اس کو دونوں طرف نہیں ڈالتے- لیکن تجارت چونکہ پورے طور پر ہندوؤں کے قبضہ میں ہے- چار ہندوستانی ممبر سب کے سب ہندو ہونگے- یہ فرض کر کے شاید کبھی مسلمان بھی ہو جائے- ووٹروں کی تعداد کا ایک سرسری اندازہ لگا کر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ چار میں سے ایک مسلمان ہو جایا کرے گا اور اس طرح کل ہندو ممبر چون اور مسلمان بیالیس بنتے ہیں- یعنی بارہ کا فرق ہے- انگریز اینگلوانڈین
۳۹۶ (ANGLOINDIANS) اور ہندوستانی مسیحیوں کی تعداد آٹھ بنتی ہے- اور تجارت کے انگریزنمائندے ملا کر یہ تعداد انیس ہوتی ہے- گویا اکثریت جو چون فیصدی سے کچھ اوپر ہے اس کے کل نمائندے بیالیس اور اقلیت جو پینتالیس فیصدی سے کچھ کم ہے- اس کے کل نمائندے تہتر ہو جاتے ہیں- یعنی پچھتر فیصدی زیادہ حق اقلیت کو دے دیا گیا ہے- اگر انگریز اور مسیحی نمائندوں کو نکال دیا جائے تب بھی ہندو ممبر اپنے حق سے ساٹھ فیصدی زیادہ لے گئے ہیں اور مسلمانوں سے قریباً پچیس فیصدی زیادہ ہیں حالانکہ آبادی میں وہ ان سے بیس فیصدی کم ہیں- یہ اندازے جو میں نے اوپر لکھے ہیں بہت نرم ہیں عملاً جو کچھ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوتا ہے- چنانچہ ۱۹۲۲ء میں منتخب شدہ ممبر چھیالیس ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- زمینداروں کی کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY) میں سے پانچوں ہندو تھے، یونیورسٹی کا ممبر ہندو تھا، تجارتی ممبریوں میں سے گیارہ انگریز اور چار ہندو تھے- ادنیٰ اقوام کا ممبر بھی ہندو تھا- گویا ستاون ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- پھر گورنر صاحب نے جو غیر سرکاری ممبر اپنے اختیار سے نامزد کئے وہ چار تھے لیکن انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ہندو اپنے حق سے بہت زیادہ لے چکے ہیں انہوں نے بھی بجائے مسلمانوں کی کمی کو پورا کرنے کے ایک مسلمان اور تین ہندو نامزد کئے گویا ساٹھ ہندو اور چالیس مسلمان مقرر ہو گئے اور وہ مسلمان جن کو ہندوؤں کے مقابل پر پچیس فیصدی کی اکثریت حاصل تھی ان پر ہندوؤں کو ساٹھ فیصدی کی اکثریت دے دی گئی- خلاصہ یہ کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو توڑ کر بنگال میں قانونی طور پر غیر مبدل اکثریت ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف دے دی گئی ہے اور پنجاب میں بھی کم سے کم ۱۹۲۲ء میں ہندوؤں اور سکھوں کو مسلمانوں پر اکثریت حاصل تھی- اب ممکن ہے کہ مساوات حاصل ہو- پس غور کے قابل بات یہ ہے کہ اکثریت کو قانوناً اگر اکثریت دینی جائز نہیں تو اس کی اکثریت کو قانونا توڑ دینا یا کسی ایک اقلیت یا اقلیتوں کے مجموعہ کو قانونی اکثریت دے دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے- اور کیا اس ناواجب طریق کو جاری رکھتے ہوئے سائمن کمیشن کو یہ خیال نہیں گذرا کہ یہ طریق اکثریت کو اکثریت دینے سے زیادہ ظالمانہ ہے؟ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہندوؤں کی اکثریت خاص منافع کی نمائندگی کے سبب سے ہے نہ کہ عام حلقہ ہائے نیابت کی وجہ سے- کیونکہ بنگال میں تو عام حلقہ نیابت میں بھی ہندوؤں کو مسلمانوں کی انتالیس نشستوں کے مقابل پر چھیالیس نشستیں دی گئی ہیں زمینداری، تجارتی،
۳۹۷ یونیورسٹی اور ڈپرسڈ کلاسز (DEPRESSED CLASSES) کے نام سے ان کی اکثریت کو صرف مزید تقویت دی گئی ہے- اور پنجاب میں بھی یہی بات ہے کہ خاص منافع کے نام سے ہندوؤں اور سکھوں کو اکثریت دے دی گئی ہے- مگر سوال یہ ہے کہ یہ خاص منافع کی نشستیں کس نے قائم کی ہیں- آیا قانون نے یا مسلمانوں نے- جو قانون اس قسم کی مصنوعی شاخیں پیدا کر کے ایک اکثریت کی اکثریت کو باطل کر دیتا ہے کیا وہ ظالمانہ نہیں اور کیا اس کا بدلنا کمیشن کا فرض نہ تھا کیا اس قسم کی خاص نشستیں انگلستان میں جاری ہیں وجہ کیا ہے کہ وہاں تو تجارت کے باوجود ہندوستان سے زیادہ اہم ہونے کے علیحدہ نمائندگی کی مستحق نہیں قرار پاتی اور ہندوستان میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- اگر انگریزی تجارت بوجہ غیر ملکی ہونے کے خاص نمائندوں کی مستحق تھی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ انگریزوں کو زائد نمائندگی دینے کے لئے ہندوؤں کو بھی زائد نمائندگی دے کر مسلمانوں سے بڑھایا جاتا ہے مگر میں اس سوال کے متعلق آگے چل کر زیادہ تفصیل سے لکھوں گا اس لئے یہاں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں- پانچویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ ایک طرف تو وہ فیڈرل اصول کو جاری کر کے یہ اصل تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کے صوبہ جات ایک آزاد ہستی رکھتے ہیں یا لارڈ منٹو (LORD MINTO) کے الفاظ میں ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے- لیکن اس کے برخلاف جب مسلمانوں کے حقوق کا سوال آتا ہے تو وہی کمیشن یہ کہتا ہے کہ چونکہ دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کو زیادہ حق مل گیا ہے اس لئے پنجاب اور بنگال میں ان کی میجارٹی قائم نہیں رکھی جا سکتی- کیا وہ صوبہ جات جو فیڈریشن کے اصول پر زور دیتے ہیں اس امر کو پسند کر سکتے ہیں کہ ایک صوبہ کا حق دوسرے کو دے دیا جائے- کیا دنیا میں کسی اور جگہ بھی یہ قائدہ ہے کہ ایک پارٹی کو ایک صوبے میں زیادہ حق دے دیا جائے اور دوسری کو دوسرے میں- کیا اس قسم کا فیصلہ آسٹریلیا یا کینیڈا کے صوبوں کے متعلق کوئی کمیشن بغیر خطرناک نتائج پیدا کرنے کے کر سکتا ہے- پھر یہ قربانی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کس طرح جائز ہو سکتی ہے- کیا کبھی بھی بنگال اور پنجاب کے باشندوں نے سائمن کمیشن یا کسی اور کمیشن کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ان کے حقوق دوسرے صوبوں کے مسلمانوں میں تقسیم کر دے اور وہ بھی اس طرح کہ مسلمان ہر جگہ کمزور ہو جائیں- میں ذاتی طور پر تو اس امر کے لئے تیار ہو جاؤں گا کہ اگر مثلاً یو-پی اور بہار میں مسلمانوں کو میجارٹی دے دی جائے تو بنگال اور پنجاب
۳۹۸ میں مسلمانوں کو مائنارٹی (MINORITY) دے دی جائے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ دوسرے مسلمان بھی اس پر راضی ہوں- لیکن اس امر پر تو کوئی مسلمان جماعت راضی نہیں اور راضی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے صوبوں کی مسلمان اقلیتوں کو اس قدر حق زائد دے کر جن سے وہ پھر بھی اقلیت میں ہی رہیں مسلمانوں کی دو جگہ کی اکثریت کو اقلیت سے بدل دیا جائے- اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہندوؤں نے جو قربانی دوسرے صوبوں میں کی ہے، اس کا بہت بڑا بدلہ ان کو مل چکا ہے اور وہ یہ کہ صوبہ سرحد کے مسلمان صوبے کو ان کی شہہ اور ان کی خوشی کے لئے اب تک آزادی سے محروم رکھا گیا ہے- بہرحال کسی کمیشن کا یہ حق نہیں کہ پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کا حق وہ اور کسی صوبہ کے لوگوں کی خاطر قربان کر دے- ان دونوں صوبوں کے مسلمان اس کو قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں اور میں جانتا ہوں کہ خواہ کس قدر قربانی ہی کیوں نہ کرنی پڑے وہ ہر گز اس کے لئے تیار نہیں ہونگے- اگر برطانیہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو کسی زائد حق کا حقدار نہیں سمجھتا تو وہ اس زیادتی کو جو دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو دی ہے واپس لے سکتا ہے- لیکن وہ ان صوبوں کو کوئی زیادتی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو کمزور کر کے کسی صورت میں نہیں دے سکتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی کوئی ایسی زیادتی قبول نہیں کریں گے جس کی ناقابل برداشت قیمت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں سے وصول کی جائے- اگر قیمت لینی ہے تو صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان اس قیمت کو ادا کرنے کو تیار ہیں- چنانچہ صوبہ سرحد کے مسلمان اس امر کو قبول کرتے ہیں کہ ہندوؤں کو پچیس فیصدی تک حق دے دیں گویا ان کی آبادی سے پانچ گنے زیادہ- اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے مسلمان بھی اگر انہیں آزادی ملے تو تیار ہیں کہ دوسرے صوبہجات کے مسلمانوں کی خاطر ہندوؤں کو ان کے حق سے بہت زیادہ تعداد میں نیابت دے دیں- چھٹی غلطی اس فیصلہ میں کمیشن سے یہ ہوئی ہے کہ باوجود اس امر کو تسلیم کرنے کے کہ لکھنؤ پیکٹ پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا اور اب تو دونوں پارٹیاں اسے رد کرتی ہیں یہ خیال اس کے ذہن پر مستولی رہا ہے کہ مسلمانوں کو جو کچھ دوسرے صوبوں میں ملا ہے وہ لکھنؤ پیکٹ کی وجہ سے ملا ہے اور اس وجہ سے لکھنؤ پیکٹ کے مطابق پنجاب اور بنگال میں بھی عمل ہونا چاہئے لیکن یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے- نہ مسلمانوں کا دعویٰ لکھنؤ پیکٹ پر مبنی ہے اور نہ اس کی بناء
۳۹۹ پر وہ کسی تبدیلی کے لئے تیار ہیں- مسلمانوں کو اگر ہندو اکثریت کے صوبوں میں کوئی حق ملا ہے یا اس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی بناء لارڈ منٹو کے اعلان پر ہے- جیسا کہ میں پہلے نقل کر چکا ہوں- لارڈ منٹو نے بحیثیت وائسرائے کے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں یہ اعلان کیا تھا کہ-: ‘’آپ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ موجودہ قوانین کی بناء پر جو جماعتیں کونسلوں کے ممبر منتخب کرتی ہیں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی مسلمان امیدوار کو منتخب کریں گی اور یہ کہ اگر اتفاقا وہ ایسا کر دیں تو یہ اسی صورت میں ہوگا کہ وہ امیدوار اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اکثریت کے ہاتھ فروخت کر دے اور اس وجہ سے وہ امید وار اپنی قوم کا نمائندہ نہیں ہوگا- اسی طرح آپ لوگ بالکل جائز طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا فیصلہ صرف آپ کی قوم کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس فیصلہ کے وقت آپ کی قوم کی سیاسی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو اس نے حکومت برطانیہ کی تائید میں کی ہیں- میں آپ کے اس خیال سے بالکل متفق ہوں’‘- اس عبارت سے ظاہر ہے کہ لارڈ منٹو (LORD MINTO) تسلیم کرتے ہیں کہ- (۱) جداگانہ انتخاب کے طریق کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لئے کوئی احسان نہیں بلکہ صرف انہیں موت سے بچانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے- (۲) مسلمانوں کا حق ہے کہ ان کی تعداد سے زیادہ ان کو نیابت دی جائے- پس جداگانہ انتخاب کو سائمن کمیشن یا کوئی اور جماعت احسان قرار دے کر اس کے بدلہ کی طالب نہیں ہو سکتی- وہ ایک ایسا طریق ہے جس کو لارڈ منٹو نے مسلمانوں کے حقوق کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ہے- اسی طرح مسلمانوں کو ان کی تعداد سے زائد نیابت کا دیا جانا بھی لارڈ منٹو کے اعلان کے مطابق کسی اور صوبے میں اپنا حق چھوڑ دینے کے بدلہ میں نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی اہمیت اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہے- پس اس زیادتی کے بدلہ میں پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حق کو تلف کرنا برطانیہ کے لئے ہر گز جائز نہیں ہو سکتا- برطانیہ کے نمائندے کہہ سکتے ہیں کہ لارڈمنٹو کا اعلان ایک پرزہ کاغذ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا- وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ
۴۰۰ زمانہ نہیں رہا کہ ہم اس امر کا خیال کریں کہ ہندوستان کا بڑا حصہ مسلمان حکومت سے بطور انعام یا بطور مستاجری ہمیں ملا تھا اس لئے مسلمانوں کو کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں- اور پھر وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی قیمت ادا ہو چکی- یا یہ کہ اب ان سے بڑھ کر خدمت کرنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں اس لئے ہم نے جن صوبہ جات میں مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد نیابت دی تھی اسے اب واپس لیتے ہیں- لیکن وہ یہ بات کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کی قربانی کے بدلہ میں انہوں نے دوسری صوبہ جات کے مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد دیا تھا کیونکہ یہ امر حکومت ہند کے ریکارڈ کے خلاف ہے- اگر انہیں وہ زیادتی گراں معلوم ہوتی ہے تو وہ بے شک اسے واپس لے لیں لیکن وہ ہم سے اس قربانی کا مطالبہ نہ کریں جو قربانی ہم کسی صورت میں کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور جو مسلمان نمائندہ بھی اس فیصلے پر راضی ہو گیا کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو قربان کر دیا جائے تو مسلمان اسے یقیناً غدار سمجھیں گے اور میرے نزدیک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہونگے- کمیشن کی یہ دلیل کہ کسی قوم کو مستقل میجارٹی نہیں دی جا سکتی بالکل بے حقیقت ہے- میجارٹی کو مستقل میجارٹی ہی دی جاتی ہے- اقلیت کو میجارٹی بے شک نہیں دی جاسکتی مگر اس مستقل اور غیر مستقل کی کوئی شرط نہیں- لیکن کمیشن کا فعل تو بالکل ہی عجیب ہے کہ اس نے اقلیت کو تو قانوناً اکثریت دے دی ہے لیکن اکثریت کو اکثریت دینے سے انکار کر دیا ہے- ساتویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ آخر میں اس حقیقت کو بھی ظاہر کر دیا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ کن مخفی اغراض پر مبنی ہے- کمیشن پنجاب اور بنگال میں جائنٹالیکٹوریٹ (JOINT ELECTORATE) کے چھوڑنے کی تحریک کے متعلق لکھتا ہے- ‘’ہم نے یہ آخری تجویز جو درحقیقت مسلمانوں کو دو راستوں میں سے ایک کے منتخب کرنے کا حق دیتی ہے اس لئے پیش کی ہے- کیونکہ ہم سچے دل سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جس قدر ذرائع ممکن ہو سکیں انہیں اختیار کر کے جداگانہ انتخاب کے طریق کو کم کیا جائے- اور دوسرے (یعنی مشترک( طریق انتخاب کے لئے عملی تجربہ کا موقع نکالا جائے’‘- ۵۸؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سائمن کمیشن کا اصل منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں کو مجبور کر کے
۴۰۱ جُداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرایا جائے- گویا چونکہ حکومت ہند مسلمانوں سے جُداگانہانتخاب کا وعدہ کر چکی ہے اب صاف لفظوں میں تو مسلمانوں سے کمیشن نہیں کہنا چاہتا کہ تم اس حق کو چھوڑ دو- ہاں وہ مخفی ذرائع سے زور دے کر انہیں مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس حق کو چھوڑ دیں- مگر میں کمیشن کے ممبروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وعدہ کے ایفاء کا یہ بہت ہی برا طریق ہے اور علم الاخلاق کے رو سے یہ وعدہ کا پورا کرنا نہیں بلکہ اس کا توڑنا سمجھا جاتا ہے- کمیشن کے ممبروں کو لارڈ منٹو کا یہ اقرار نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ جو مسلمان نمائندے جداگانہ انتخاب کے ذریعہ سے چنے جائیں، وہ حقیقی طور پر مسلمان نمائندے نہیں ہو سکتے اور اس کی روشنی میں دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس قسم کے تجربے کا وقت آ گیا ہے؟ پھر کمیشن کو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ اب بھی انتخاب کا ایک حصہ مخلوط ہے کیا اس تجربہ میں وطنیت کا کوئی نمونہ نظر آتا ہے؟ کیا یونیورسٹیوں کی نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں اگر پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمان یونیورسٹیوں کی نشستیں حاصل نہیں کر سکے تو اس قسم کے انتخاب کی برکات کا انہیں کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے؟ اور جب تجربہ بتاتا ہے کہ ہندو وطنیت نہیں بلکہ مذہب کو ترجیح دیتا ہے تو پھر اس تجربہ کے لئے مسلمانوں کو مشورہ دینا نہیں بلکہ ان کی اکثریت کو تباہ کر کے مجبور کرنا کس طرح قرین انصاف ہو سکتا ہے- میں گو تفصیل سے اس امر کو بیان نہیں کر سکتا لیکن اس جگہ مختصراً اس امر کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں کہ جداگانہ انتخاب کا اصول اس قدر برا نہیں ہے جس قدر کہ ظاہر کیا جاتا ہے بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اس اصل کو سیاسیات نے تسلیم کیا ہوا ہے- پس اس کی مخالفت بوجہ اصول کی خرابی کے نہیں ہے بلکہ اس کی شکل کے اختلاف کی وجہ سے ہے- ہندوستان کے جداگانہ انتخاب اور دوسرے ملکوں کے جداگانہ انتخاب میں فرق صرف یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں اس کی بنیاد نسل یا علاقہ یا پیشہ پر رکھی جاتی ہے اور ہندوستان میں اس کی بنیاد مذہب پر ہے- چنانچہ انگلستان میں ہاؤس آف لارڈز (HOUSE OF LORD)کی بنیاد اسی اصل پر پڑی ہے- سیکنڈ چیمبر (SECOND CHAMBER) کی خوبیاں تو بعد میں معلوم ہوئی ہیں لیکن لارڈز پہلے سے اپنا حق سمجھتے تھے کہ انہیں حکومت کے مسائل میں عذر کرنے کا موقع دیا جائے اور یہ کہ ان کے انتخاب کو عام لوگوں کے ووٹ پر نہ رکھا جائے کیونکہ اس طرح ان کا انتخاب خطرہ میں ہوگا- بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ جب ایک شخص ذاتی حیثیت میں بادشاہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں
۴۰۲ بیٹھنے کیلئے بلایا جائے اور وہ اس دعوت کو قبول کر لے تو آئندہ اس کی اولاد کا بھی حق ہو جائے گا کہ اسے بھی اس غرض کیلئے بلایا جائے- ۵۹؎ یونیورسٹی کی نشستیں بھی اسی اصل کے ماتحت ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو الگ ممبر دیئے جائیں- کیوں انہیں نہ کہا جائے کہ عام حلقہ انتخاب سے اپنے آدمیوں کو بھیجیں- تجارت و صنعت کی نشستیں بھی ایسی ہی ہیں لیکن ان سب منافع کی حفاظت کیلئے اہمیت کے لحاظ سے بہت کم ہی علیحدہ انتخاب کی اجازت دی جاتی ہے لیکن مذہب خطرہ میں ہو تو اس طریق کو بے اصول سمجھا جاتا ہے- یہ واقعہ میں حیرت کی بات ہے اور سمجھ سے بالا ہے- سائمن کمیشن کی تجویز کی غلطیاں ظاہر کرنے کے بعد اب میں وہ تجاویز بتاتا ہوں جو میرے نزدیک معقول ہیں اور جن پر عمل کر کے عدل و انصاف قائم ہو سکتا ہے- سو سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گو بنگال اور پنجاب میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن اکثریت سے مراد صرف تعداد کی اکثریت نہیں ہوتی بلکہ حقیقی اکثریت ہوتی ہے اور وہ اکثریت ان صوبوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے- شروع شروع میں تو مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں خود حکومت نے کمزور کیا تھا کیونکہ عذر کے بعد حکومت کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا حکومت کے مفاد کے خلاف ہوگا- قانون کوئی نہیں تھا لیکن عملاً حکام کی یہی پالیسی تھی کہ وہ مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے- یہ روح اس حد تک ترقی کر گئی تھی کہ ہمارے وطنی شاعر غالب کی سوانح میں اس بارہ میں ان کا ایک عجیب تجربہ لکھا ہے- وہ آخری شاہ دہلی کے درباری تھے اور خود نواب زادے تھے- غدر کے بعد تباہی آئی تو یہ بے چارے بھی فاقوں کو پہنچ گئے- آخر کسی نے مشورہ دیا کہ نوکری کر لیں- انہی دنوں انگریزی مدرسہ میں فارسی کی پروفیسری کی جگہ خالی ہوئی- یہ اس انگریز کے پاس جا پہنچے جس کے سپرد پروفیسر کا انتخاب تھا- وہاں پہنچے تو اس نے دیکھتے ہی کہا کہ ‘’ہم مسلمان کو نہیں مانگتا’‘ غالب سا حاضر جواب بھلا کہاں چوکتا تھا- بولے صاحب! مسلمان کہاں ہوں آپ کو دھوکا ہوا- اگر عمر بھر ایک دن شراب چھوڑی تو کافر اور ایک دن بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان- مگر ان کی حاضر جوابی کام نہ آئی اور صاحب نے گھر سے نکال کر دم لیا- اس قسم کے واقعات ہر روز پیش آتے تھے اور اس وقت تک پیش آتے رہے جب تک لارڈ کرزن (LORD CURZON)نے اس ظلم کا ازالہ نہ کیا اور خاص سرکلر کے ذریعہ سے
۴۰۳ تاکید کی کہ آئندہ ملازمتوں میں مسلمانوں کے حق کو مقدم رکھا جائے کیونکہ یہ قوم بہت پیچھے رہ گئی ہے- لیکن لارڈ کرزن کی تجویز بھی کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ ہندو دفاتر پر بہت قبضہ کر چکے تھے- اب یہ حال ہے کہ دفاتر پر ان کا قبضہ ہے، بنکوں پر ان کا قبضہ ہے اور تجارت پر ان کا قبضہ ہے- پنجاب میں قانون زمیندارہ کے منظور ہونے سے پہلے قریباً تیس فیصدی زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان کے ہاتھ میں جا چکی تھیں- اور بنگال میں انگریزی عمل داری کے شروع ہی میں تحصیل داری کے ٹھیکوں میں وہ ملک کے مالک ہو چکے تھے- اب جو کچھ باقی ہے وہ رہن ہے یا قرضہ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کیونکہ زمیندار قرض لینے پر مجبور ہے اور ہندو ساہوکار اپنی زیادہ طلبی کے راستہ میں کسی قانون کو مانع نہیں پاتا- پس ان حالات میں مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں حقیقی اکثریت کا مالک نہیں کہا جا سکتا حالانکہ جس اکثریت سے کوئی قوم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے وہ حقیقی اکثریت ہے نہ کہ خالی تعدادی اکثریت- پس جب تک مسلمانوں کو حقیقی اکثریت حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ان دونوں صوبوں میں بھی خاص حفاظت کے مستحق ہیں- اوپر کے تمدنی نقص کے علاوہ ایک اور نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ فرنچائز (FRANCHISE)کے اصول ایسے بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں ووٹر دوسری اقوام سے تھوڑے رہ جاتے ہیں- چنانچہ پنجاب جس میں مسلمان ۲ء ۵۵ کی تعداد میں ہیں ان کے ووٹروں کی تعداد ۷ء۴۳ ہے اور بنگال جس میں مسلمان ۶ء۵۴ ہیں- اس میں مسلمان ووٹروں کی تعداد ۱ء۴۵ فیصدی ہے- پس جب کہ بناوٹی قوانین سے مسلمانوں کے ووٹروں کی تعداد کو کم رکھا جاتا ہے تو مسلمان اکثریت میں کس طرح سمجھے جا سکتے ہیں- اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ اس قسم کا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹر مل جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال تو جس قدر جلد ہو سکے حل ہونا چاہئے لیکن باوجود اس نقص کے دور کرنے کے مسلمان فورا ً اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ووٹر فوراً اپنے کام اور اپنے فرض کو نہیں سیکھ جاتے- کچھ عرصہ مسلمانوں کو پھر بھی چاہئے ہوگا جس میں کہ وہ اپنے ووٹروں کو ووٹ دینے کا طریق سکھا سکیں اور ان میں سیاسیات سے دلچسپی پیدا کرا سکیں- کیونکہ شروع میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر یہ فوقیت ہو گی کہ ان کے ووٹروں کی زیادہ تعداد پچھلے بارہ سال کے تجربہ کے ماتحت اپنے کام سے واقف ہو چکی ہو گی اور سیاسی دلچسپی اس میں پیدا ہو چکی ہوگی- نئے ووٹر کو
۴۰۴ پوری دلچسپی نہیں ہوتی- چنانچہ انگلستان میں عورتوں نے کس زور سے ووٹ کا حق حاصل کیا تھا لیکن اس کے استعمال میں وہ شوق ظاہر نہیں کیا جس کی وجہ سے یہی تھی کہ انہیں ابھی ووٹ کے استعمال کا طریق نہیں آیا اور نہ سیاسیات کی تفصیلات سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے- خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں گو ظاہراً اکثریت میں ہیں لیکن طاقت کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں اور اس وجہ سے ویسے ہی حفاظت کے مستحق ہیں جس طرح کہ ظاہریاقلیتیں- کیونکہ زیادہ آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنا تھوڑے آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنے سے زیادہ برا اور ظالمانہ فعل ہے- لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک صداقت ہے کہ اکثریت ہمیشہ کے لئے حفاظت کی مستحق نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح دائمی حفاظت سے مطمئن ہو کر وہ کمزور ہونے لگتی ہے اور نہ صرف خود تباہ ہوتی ہے بلکہ ملک کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے- پس جہاں تک اکثریت کی حفاظت کا سوال ہے اس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ یہ بات صرف عارضی ہو سکتی ہے اور اس حفاظت کا عارضی رکھنا ملک کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ اکثریت کی اپنی زندگی کے قیام کے لئے بھی ضروری ہے- اس اصل کو پیش کرنے کے بعد میں اب پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے سوال کو لیتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ میرے نزدیک اکثریت اسی وقت حفاظت کی مستحق ہوتی ہے جب وہ معنوی طور پر اقلیت ہو اور یہ کہ وہ اس صورت میں بھی دائمی حفاظت کی مستحق نہیں ہوتی- پس اس اصل کے ماتحت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو جن کی نسبت میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ معنوی طور پر وہ اقلیت ہی ہیں گو حفاظت تو مل سکتی ہے لیکن صرف عارضی حفاظت مل سکتی ہے- پس ہمیں جہاں ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی حفاظت کا سامان مہیا کرنا چاہئے وہاں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس حفاظت کے سوال کو کب اور کس طرح ختم کیا جائے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اکثریت کہہ دے گی کہ اب ہمیں حفاظت کی ضرروت نہیں اس وقت حفاظتیتدابیر کو ختم کر دیا جائے گا- لیکن میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ تدبیر قابل عمل نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ جس وقت اکثریت کہے کہ اب ہمیں حفاظتی تدابیر کی ضرورت نہیں اس وقت دوسریاقوام یہ کہہ دیں کہ اب ہم ان کے چھوڑنے پر راضی نہیں اور اس طرح صرف ضد اور تعصب کی وجہ سے نہ کہ حقیقی ضرورت کے لحاظ سے حفاظتی تدابیر جو کہ درحقیقت
۴۰۵ وقتی علاج ہوتی ہیں دائمی طور پر ملک کے گلے پڑ جائیں- اس کے علاوہ میرے نزدیک اس تدبیر کو اختیار کرنے میں یہ نقص بھی ہے کہ گو ہم یہ کہتے رہیں کہ یہ تدابیر وقتی ہیں لیکن جو قوم ان کے ذریعہ سے فائدہ اٹھا رہی ہو گی وہ اس خیال سے کہ ہمارے ہی اختیار میں تو بات ہے جب چاہیں گے ان تدابیر کو چھوڑ دیں گے، اپنی کمزوری کو دور کرنے کے لئے جلد کوشش نہیں کریں گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بجائے اپنے نفس میں بیداری پیدا کرنے یا دوسری قوم سے صلح کی کوشش کرتے رہنے کے حفاظتی قانون پر دارومدار رکھنے کی عادی ہو جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے ان کی تدابیر کی حفاظت کی آڑ لینے پر مجبور رہے گی- پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا طریق ایجاد کریں جس کی مدد سے ہماری تینوں غرضیں پوری ہو جائیں- اول ان حفاظتی تدابیر کو بغیر از سر نو جھگڑا پیدا کرنے کے ختم کیا جا سکے- دوم اکثریت اپنی حالت کو جلد سے جلد اچھا کرنے پر مجبور ہو- سوم حفاظتی تدابیر فساد اور جھگڑے کر بڑھانے میں ممد نہ ہوں- سو ان تینوں غرضوں کو پورا کرنے کے لئے میرے نزدیک صرف ایک ہی تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ چند سال مقرر کر دیے جائیں کہ اس وقت تک یہ حفاظتی تدابیر رہیں گی، اس کے بعد خود بخود منسوخ ہو جائیں گی- اس طرح تینوں فائدے حاصل ہو جائیں گے کیونکہ سال مقرر ہونے کی وجہ سے کسی جماعت کو کسی وقت بھی یہ کہنے کا موقع نہ ملے گا کہ ہم انہیں ختم نہیں ہونے دیں گے- دوسرے اکثریت کو یہ خیال رہے گا کہ صرف فلاں وقت تک یہ حفاظت ہے اس کے بعد ختم ہو جائے گی اس لئے وہ اس قانون سے مطمئن نہیں ہو گی بلکہ پورا زور لگائے گی کہ اس سے پہلے پہلے وہ اپنے افراد کو بیدار کر لے تا کہ اس کے منسوخ ہونے پر وہ اپنی حفاظت خود کر سکے- تیسرے سب اقوام اپنے اندر صلح کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی کیونکہ ہر ایک فریق جان لے گا کہ وہ دوسرے کو اس کی غفلت کی حالت میں کمزور نہیں کر سکتا اور یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد سب کو مل کر کام کرنا ہوگا- پس آئندہ آنے والے مخلوط انتخاب کے خیال سے جب کہ ہر ایک امیدوار کو اپنی ہمسایہ قوم کی امداد کا خواہاں ہونا پڑے گا، سب قوموں کے افراد آپس کی رنجش اور کدورت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے- غرض عرصہ کی تعیین سے یہ تینوں فوائد حاصل ہو جاتے ہیں- اس لئے سب سے بہتر تدبیر یہی ہے کہ عرصہ کی تعیین ہو جائے-
۴۰۶ اب رہا یہ سوال کہ کتنا عرصہ اکثریت کو بیدار کرنے کے لئے ملنا چاہئے سو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں- اس جگہ اصولی طور پر اس قدر اور کہنا چاہتا ہوں کہ کامل صوبہ جاتی آزادی کے حصول کے بعد پندرہ سال یعنی تین الیکشن کا عرصہ اس غرض کے لئے ضروری ہے اور صوبہ جاتی حکومت کی تکمیل کا عرصہ اگر ہم دس سال فرض کریں تو پچیس سال کا عرصہ اس غرض کے لئے بہت مناسب ہے- اس عرصہ کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ اس عرصہ سے کم میں قوم کی تعلیم اور اقتصادی حالت کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے- جہاں اقلیتوں کو حفاظت دی گئی ہے ان کے متعلق بھی میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ اس عرصہ کے بعد جداگانہ انتخاب کا حق ان سے لے لیا جائے لیکن مقررہ نشستوں کے ساتھ مخلوطانتخاب کا حق ان کے پاس اس وقت تک رہے جب تک ان کی مرضی ہو- اس کے بعد میں حق نیابت کی مقدار کے سوال کو لیتا ہوں- جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اقلیتیں دو قسم کی ہوتی ہیں- ایک تعداد کے لحاظ سے اور ایک ضعف اور کمزوری کے لحاظ سے- پس اگر اقلیتوں کے حق کی حفاظت کی ضرورت تسلیم کر لی جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو اقلیت ظاہری نہیں بلکہ معنوی ہے وہ بھی اسی طرح حفاظت کی محتاج ہے جس طرح کہ ظاہری- اور جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ معنوی اقلیت بھی حفاظت کی محتاج ہوتی ہے، تو اسے طاقت پہنچانے کے لئے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر زیادہ سے زیادہ حق اسے جائز طور پر دیا جا سکے اسے ملنا چاہئے تاکہ وہ طاقت حاصل کر سکے- اگر زیادہ سے زیادہ جائز حق اسے نہ دیا جائے تو جس غرض سے اسے حفاظت دی گئی ہے وہ پوری نہیں ہو سکے گی اور ایک اکثریت کا زیادہ سے زیادہ جائز حق وہ تناسب نیابت ہے جو اسے تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- پس عقلا ایک اکثریت جو اس قدر کمزور ہو کہ اقلیت سے بھی اسے خطرہ لاحق ہو اسے پورے طور پر وہ حق ملنا چاہئے کہ جو تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- اور اس دلیل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اگر واقعہ میں اپنی کمزوری دور کرنے کا موقع دینا ہے تو لازمی طور پر پچپن اور چون فیصدی حق نیابت دینا لازمی ہے- چونکہ میرے مقرر کردہ اصول کے مطابق پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو صرف ایک معین مدت تک جو عقلاً ان کے لئے اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے ضروری ہے حفاظت حاصل ہو گی اس لئے کمیشن کا یہ اعتراض بھی دور ہو جاتا ہے کہ قانوناً کسی کو مستقل اکثریت نہیں مل
۴۰۷ سکتی- کیونکہ یہ اکثریت مستقل نہیں ہو گی بلکہ عارضی ہو گی اور پچیس سال کے بعد سب فریق آزاد ہوں گے کہ ووٹروں کو اپنی پالیسی بتا کر اپنے حق میں کر لیں بلکہ اس عرصہ میں سیاسی پالیسیاں قائم ہو چکی ہوں گی- غالب امید ہے کہ مذہبی بنیاد پر الیکشن کی جنگ کا زمانہ بھی گذر چکا ہو گا اور سیاسی سوالات پر الیکشن کا مقابلہ شروع ہو چکا ہو گا اور ان احتیاطوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی جو آج نہایت اہم اور ضروری معلوم ہوتی ہیں- کمیشن کے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کہ اکثریت کی اکثریت کو قانون کی مدد سے قائم رکھنا اصول کے خلاف ہے میں ایک تجویز بھی پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال کو دو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے- یعنی ایک وہ حلقہ ہائے انتخاب جن میں ایک مذہب کے پیرؤوں کے ووٹ اسی فیصدی یا اس سے زائد ہوں- یعنی اکثریت اور اقلیتوں کے ووٹوں کی نسبت ایک اور چار کی ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو- ایسے تمام حلقہ ہائے انتخاب میں مخلوط انتخاب کر دیا جائے اور جن حلقہ ہائے انتخاب میں اس سے کم فرق ہو ان میں جداگانہ انتخاب رہے- اس طرح دونوں ملکوں میں بعض حصوں سے تو جداگانہ انتخاب پر ممبر آئیں گے اور بعض حصوں سے مخلوط انتخاب کے ذریعہ- لیکن چونکہ نسبت ووٹروں کی ایک اور چار کی ہو گی اس لئے جب تک اکتیسں فیصدی ووٹ اقلیت اکثریت سے نہیں چھینے گی اس وقت تک اس پر فتح نہیں پا سکے کی- اس ذریعہ سے ایک ہی وقت میں دونوں قسم کے تجربے شروع ہو جائیں گے اور اکثریت کو کوئی ایسا خطرہ بھی نہ ہو گا جس کا علاج نہ ہو سکے- جس حلقہ میں جداگانہ انتخاب رہے وہ انہیں شرائط کے ساتھ جو میں پہلے لکھ چکا ہوں پچیس سال کے بعد بند ہو جائے- اس طریق سے اکثریت قانونی اکثریت نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اس کا ایک حصہ مخلوط انتخاب سے بغیر کسی قانون کی مدد کے آیا ہو گا- اگر کہا جائے کہ ایک اور چار کا فرق ایسا بڑا فرق ہے کہ اس میں اکثریت کا کامیاب ہونا یقینی ہے پس یہ بھی ایک قسم کی قانونی مدد ہے- تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فائدہ دونوں قوموں کو یکساں ملے گا- دوسرے اگر یہ بات قانونی مدد کہلانے کی مستحق ہو گی تو کیوں سی-پی اور مدراس کے انتخاب جہاں مسیحی اور مسلمان مل کر بھی پندرہ فیصدی سے کم ہیں قانونی طور پر ہندؤوں کو اکثریت دینے والے نہ قرار دیئے جائیں؟ دوسرا سوال ان صوبوں کا ہے جن میں مسلمانوں کی اقلیت ہے- سو صوبہ سرحد اور سندھ دونوں کے آزاد حکومت حاصل کرنے پر اس سوال کا حل خودبخود ہو جاتا ہے- اگر
۴۰۸ ہندوصاحبان بحیثیت مجموعی مسلمانوں سے سمجھوتہ کرنا چاہیں گے تو ان دونوں صوبوں کے مسلمانوں سے سمجھوتہ کر لیں گے- جو حق وہ اپنی اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو دیں گے وہی حق ان کو ان دونوں صوبوں میں اور بلوچستان میں مل جائے گا اور اگر ہندو صاحبان نے بحیثیت قوم سمجھوتہ نہ کرنا چاہا تو ان نئے اسلامی صوبوں میں بھی انہیں کوئی زائد حق نہیں مل سکے گا کیونکہ مسلمان بھی اپنی قوم کا ویسا ہی درد رکھتے ہیں جیسا کہ ہندو اپنی قوم کا رکھتے ہیں- اس صورت میں مسلمانوں کا دعویٰ لارڈ منٹو (LORDMINTO)کے اعلان کی بناء پر زائد نیابت کے لئے قائم رہے گا- لیکن ہندوؤں کو اسلامی صوبوں سے زائد حق مانگنے کا حق نہ ہو گا اس لئے کہ ان کے دعویٰ کی بنیاد کسی گورنمنٹ کے اعلان پر نہیں ہے بلکہ صرف سمجھوتہ پر ہے- پس سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں ان کا مطالبہ ناجائز ہو جائے گا- اس سوال کو اصولی طور پر حل کر لینے کے بعد جب ہم تفصیلات کی طرف آتے ہیں تو ہمیں بہت سی مشکلات معلوم ہوتی ہیں- چنانچہ جب ہم پنجاب اور بنگال کے انتخاب کے حلقوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرح بنائے گئے ہیں کہ ان کی بناء پر مسلمانوں کی اکثریت خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ بہت سے حلقے مخصوص فوائد کے قرار دیئے گئے ہیں- اگر مسلمانوں کو عام حلقوں سے کافی نیابت مل بھی جائے تو مخصوص حلقے توازن کو خراب کر دیتے ہیں- جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ سوال حکومت کو بہت پریشان کر رہا ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں تو یہ پریشانی خود اپنی پیدا کی ہوئی ہے کیونکہ جس قدر وسیع مخصوص فوائد ہندوستان میں ہیں دنیا بھر میں اور کسی جگہ نہیں ہیں- دوسرے ممالک میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑا زمیندار، بڑا تاجر، بڑا صناع اپنی دولت اور اپنے رسوخ کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت کونسلوں میں آنے کا زیادہ موقع حاصل کر سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں براہمنی طریق نے ہر شعبہ پر قبضہ کر رکھا ہے- اگر نسلی براہمن کو ہم اس کے مقام سے ہٹانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو بھی یہ نیا براہمن جو پیشوں یا کاموں کی وجہ سے اپنے آپ کو باقی دنیا سے بالا سمجھتا ہے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا او رہمارے ملک کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے- پنجاب میں علاوہ عام حلقہ ہائے انتخاب کے مندرجہ ذیل حلقہ ہائے انتخاب میں ایک یونیورسٹی کا، ایک بلوچ سرداروں کا، ایک مسلمان زمینداروں کا، ایک ہندو زمینداروں کا،
۴۰۹ ایک سکھ زمینداروں کا، دو تجارتی، ایک مزدوروں کا، ایک مسیحیوں کا، ایک یوروپین کا، ایک اینگلوانڈین کا، ایک فوجی، گویا کل چہتر غیر سرکاری ممبروں میں سے بارہ حلقے مخصوص ہیں یعنی سولہ فیصدی اور یہ ظاہر ہے کہ جہاں سولہ فیصدی بھرتی مخصوص حلقوں سے ہوگی وہاں قوموں کا توازن کب قائم رہ سکتا ہے- دنیا کا اور کونسا ملک ہے جس میں اس سے نصف بھرتی بھی مخصوص حلقوں سے کی جاتی ہو؟ تفصیلا نگاہ ڈالنے کے لئے زمینداروں کا حلقہ ہی لے لو- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ زمیندار کو اپنے انتخاب کے لئے خاص حلقہ کی ضرورت ہے؟ خود سائمن کمیشن نے بھی اس امر پر حیرت ظاہر کی ہے کہ یہ حلقہ الگ کیوں ہے- اور ثابت کیا ہے کہ زمیندار علاوہ اپنے حلقہ کے دوسرے حلقوں سے بھی بہت زیادہ تعداد میں کونسلوں میں داخل ہوئے ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ ان حلقوں کو قائم رکھا جائے- خاص حلقے یا تو اس وجہ سے بنائے جاتے ہیں کہ کسی خاص گروہ کو دوسروں سے مل کر انتخاب کے ذریعہ سے حق نہ مل سکتا ہو- یا اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ملک میں دو کونسلیں ہوں- جیسے کہ ہاؤس آف لارڈز (HOUSE OF LORDS)اور ہاؤس آف کامنز (HOUSE OF COMMONS ) میں فرق کیا گیا ہے- لیکن جب کہ زمینداروں کو نہ خطرہ ہے اور نہ کسی دوسری مجلس کا سوال ہے پھر انہیں خاص حق کیوں دیا جائے- میری یہ تحریر اور بھی وزنی ہو جاتی ہے جب کہ اس امر کو یاد رکھا جائے کہ میں خود ان زمینداروں میں سے ہوں جنہیں اس خاص حق کا فائدہ پہنچتا ہے- اور اس حلقہ کے اڑانے پر میرے اور میرے چار بھائیوں کا یہ حق تلف ہوتا ہے- لیکن باوجود اس کے جو فضول بات ہے میں اسے فضول کہنے سے نہیں رک سکتا- اسی طرح تجارتی حلقہ ہے- وجہ کیا ہے کہ اس حلقہ کو قائم رکھا جائے؟ کیا تاجروں کو دوسرے حلقہ میں کھڑا ہونے سے کوئی روک ہے؟ اگر روک نہیں تو بڑا تاجر جو بڑا رسوخ بھی رکھتا ہے کیوں دوسرے حلقہ سے کھڑا نہیں ہو سکتا؟ کیا انگلستان میں یا امریکہ میں تاجر کو حق دیا گیا ہے کہ ہندوستان میں دیا جائے؟ تاجر بے شک عام حلقہ سے کھڑے ہوں اور سب ممبریاں لے لیں لیکن انہیں خاص طور پر حق کیوں دیا جائے؟ اس طرح فوجی ممبر ہے- جنگ عظیم میں شامل ہونے والے فوجیوں کو خاص طور پر ووٹ کا حق دیا گیا ہے- پس اگر فوجی کوئی خاص فوائد کونسلوں سے وابستہ رکھتے ہیں تو اپنے حد سے بڑھے ہوئے ووٹنگ (VOTING)کے حق سے
۴۱۰ کام لیکر فوجیوں کو کونسلوں میں بھیج سکتے ہیں- الگ فوجی ممبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- یہی حال مزدور ممبر کا ہے کافی طور پر مزدور ووٹر ہر ایک صوبہ میں موجود ہیں وہ اپنے ووٹ سے کام لے کر اپنے آدمی بھیج سکتے ہیں- یہ ایک ایسی بین بات ہے کہ خود سائمن کمیشن کے ایک ایسے ممبر نے جو مزدور پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس پر اعتراض کیا ہے اور نامزدگی کو اور مزدوروں کے مفاد کے خلاف بتایا ہے- اگر یہ حلقہ ہائے مخصوص اڑا دیئے جائیں تو توازن کا قائم رکھنا آسان ہو جاتا ہے- بنگال کے زمینداروں کے حلقے اور تجارتی حلقے اگر اڑا دیئے جائیں تو مختلف اقوام کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹ دینا نسبتاً بہت آسان ہو جاتا ہے- اب ایک انگریزوں کا سوال رہ جاتا ہے- میرے نزدیک اس وجہ سے کہ اس وقت بوجہ حکومت سے ناراضگی کے ان کے خلاف خاص جوش ہے وہ اس امر کے مستحق ہیں کہ انہیں خاص نیابت ملے لیکن ان میں بھی تجارتی اور عام حلقوں کی تقسیم فضول ہے- جس قدر تعداد کہ انگریزی فوائد کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھی جائے اس قدر تعداد ان کے لئے مقرر کر دی جائے- تاجر بھی اور دوسرے بھی اپنے اپنے اثر کے حلقے سے کھڑے ہو کر اپنی نیابت حاصل کر لیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- مگر ہمیں اس پر ضرور اعتراض ہے کہ انگریزوں کو خاص حصہ دینے کے لئے ایسے اصول ایجاد کئے جائیں جن کے ماتحت ہندوؤں کو بھی اپنے حق سے زائد لینے کا موقع مل جائے- جہاں تک میرا خیال ہے یہ فوائد صرف انگریزوں کی نیابت کو مضبوط کرنے کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں لیکن اب مسلمان اس طریق کی مضرتوں سے آگاہ ہو چکے ہیں- وہ انگریزوں کے خاص حق پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے اور انگریزوں کے لئے جو خطرات ہیں ان کو دیکھ کر انہیں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے- لیکن ایسے اصول تجویز کر کے انہیں حق نہ دیئے جائیں کہ ساتھ ہی مسلمانوں کے حق کا ایک ٹکڑا اسی اصل کے ماتحت ہندو بھی کاٹ لیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی ممبریوں کی تقسیم عمدگی سے اس طرح ہو سکتی ہے کہ دو فیصدی حق نیابت انگریزوں اور اینگلو انڈینز (ANGLO INDIANS) کو دے دیا جائے- ان کے تجارتی اور دوسرے سب فوائد بھی اس میں شامل ہوں لیکن تجارت کے نام سے علیحدہ حق نہ دیا جائے- ایک سیٹ یونیورسٹی کو ملے لیکن شرط یہ کر دی جائے کہ ایک دفعہ ہندو یا سکھ ممبر ہو اور دوسری دفعہ مسلمان ممبر گو انتخاب مخلوط ہو- یا پھر یہ کیا جائے کہ دو نشستیں یونیورسٹی
۴۱۱ کو دے دی جائیں لیکن ان میں سے ایک مسلمان کے لئے اور ایک ہندو یا سکھ کے لئے وقف ہو- انتخاب مخلوط ہی ہو- اور یا تو واحد قابل انتقال ووٹ سے انتخاب ہو لیکن شرط یہ ہو کہ دوسرا ممبر وہ نہیں ہوگا جسے دوسرے نمبر پر ووٹ ملیں بلکہ وہ مسلمان امیدوار ہوگا جسے مسلمانوں میں سے سب سے زائد ووٹ ملیں- یا ہر ووٹر کو دو ووٹ دیئے جائیں جن میں سے ایک وہ ہندو کو دینے کا اور ایک مسلمان کو دینے کا پابند ہو یا اور ایسا ہی کوئی طریق اختیار کیا جائے- خاص زمینداروں کو اگر الگ سیٹ دینی ہی ہے تو صرف ڈیرہ غازیخان کے تمنداروں کو جو چھوٹی قسم کے رولنگ چیفس (RULING CHIEFS)ہیں ایک سیٹ دے دی جائے لیکن اس صورت میں ان کے لئے قاعدہ ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے حلقوں میں سے نہیں کھڑے ہو سکتے- اگر ہم پنجاب کے دو سو ممبر فرض کریں جو ضرور ہونے چاہئیں تو یونیورسٹی کی دو اور تمنداروں کی ایک نشست فرض کر کے سات نشستیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک سو ترانوے (۱۹۳) نشستیں باقی رہ جاتی ہیں- آبادی کے لحاظ سے مسلمان پچپن فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- ہندو اکتیس فیصدی کے قریب ہیں اور سکھ بارہ فیصدی ہیں اور مسیحی اور ادنیٰ اقوام وغیرہ ایک فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- پس تعداد آبادی کے لحاظ سے ۱۶ء۲۳ سکھوں کو اور ۸ء۵۹ ہندوؤں کو اور ۵ء۲ مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کو ممبریاں ملنی چاہئیں- ہم ہندوؤں کی نشستیں پوری ساٹھ فرض کر لیتے ہیں اور اسی طرح سکھوں مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کی کسر پوری ممبری فرض کر کے چوبیس اور تین ممبر فرض کر لیتے ہیں- پس بقیہ ۱۹۳ ممبروں میں ایک سو چھ ممبر مسلمان ہوئے- چونکہ ایک یونیورسٹی کی اور ایک تمنداروں کی نشست ان کو مل چکی ہے اس لئے ایک سو آٹھ ممبر ان کے ہوئے- اپنی تعداد کے لحاظ سے انہیں ایک سو گیارہ ممبریاں ملنی چاہئیں تھیں- پس اس حساب کے رو سے انہوں نے تین ممبریاں انگریزوں اور دوسری اقوام کو دیں- اس کے مقابل پر ہندوؤں کی یونیورسٹی کی نشست ملا کر اکسٹھ ممبریاں ہوئیں اور انہیں ایک ممبری اقلیتوں کے لئے قربان کرنی پڑی- جہاں تک میں غور کرتا ہوں اس امر کو دیکھ کر کہ سکھ اور ہندو تمدنی طور پر ایک ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابل پر اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ انتظام نہایت منصفانہ انتظام ہے اور اس میں کسی قوم کا حق نہیں مارا جاتا-
۴۱۲ بنگال کی نسبت میرے نزدیک بہتر طریق یہ ہوگا کہ چھ فیصدی انگریزوں اور اینگلو انڈینز (ANGLO INDIANS) کو نشستیں دے دی جائیں- خواہ تجارت پیشہ ہوں یا دوسرے جو چارفیصدی مسلمانوں سے اور دو فیصدی ہندوؤں سے لی جائیں اور اس طرح مسلمانوں کو ۶ء۵۰ حق دیا جائے اور دوسری اقوام کو ۴ء۴۹ حق دیا جائے- یونیورسٹی کی دو نشستیں مقرر کی جائیں جن میں سے ایک ہندو کو اور ایک مسلمان کو ملے- زمینداروں کی الگ نمائندگی کی ضرورت نہیں- لیکن اگر انہیں علیحدہ نمائندگی دی جائے تو اس اصل پر ہو کہ ہر قوم کے حقنیابت کے برابر اس کی قوم کے زمینداروں کو حق نیابت ملے کیونکہ اگر زمینداروں کو صرف زمینداری کے حقوق کی نیابت کا خیال ہے تو ان کی نیابت اسی طرح ایک مسلمان زمیندار کر سکتا ہے جس طرح ایک ہندو- پس اگر ان کی غرض صرف زمیندارہ حقوق کی حفاظت ہے تو انہیں اس بات پر راضی ہو جانا چاہئے کہ دونوں قوموں کی نیابت کے تناسب کو قائم رکھنے کے لئے زمینداروں کے حلقوں کا انتخاب مخلوط لیکن معین نشستوں کے ساتھ ہو اور تعین نشستوں کا آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہو- اسی طرح اگر ہندوستانی تجارتی حلقوں کو حق دینا ضروری سمجھا جائے تو اسی اصول پر دیا جائے- یعنی نشستوں کا تعین مذہب کے مطابق ہو جائے تا کہ تجارتی اور زمینداری حلقوں کو قومی برتری کا ذریعہ نہ بنایا جائے- آخر مسلمان تاجر بھی ہیں اور زمیندار بھی اور وہ اسی طرح ان مخصوص مفاد کی نگرانی کر سکتے ہیں جس طرح ہندو صاحبان- تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر ان حلقوں کو قائم رکھا جائے تو یہ شرط نہ کر دی جائے کہ تعداد آبادی کے مطابق ان حلقوں کے نمائندے منتخب ہونے چاہئیں- میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ انتخاب کن اصول پر ہوں کیونکہ انتخاب کے مختلف ذرائع میں سے کئی ذرائع ہماری غرض کو پورا کر سکتے ہیں- جو بھی مناسب ہو اسے اختیار کیا جائے- اصل غرض صرف یہ ہے کہ انگریزوں کی نمائندگی کے بعد جس میں چار فیصدی کی قربانی مسلمانوں سے اور دو فیصدی کی قربانی ہندوؤں سے کرائی جائے باقی سب حلقوں میں اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ خواہ مخصوص ہوں خواہ عام نسبت آبادی کی قائم رہے- میں خیال کرتا ہوں کہ میرے کئی دوست مجھ پر اعتراض کریں گے کہ- اس وقت تک تو میں زور دیتا رہا ہوں کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق ووٹ ملیں لیکن اب میں نے خود
۴۱۳ پنجاب میں ساڑھے پچپن کی بجائے چون اور بنگال میں ساڑھے چون کی بجائے پچاس کی تجویز پیش کی ہے- سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں اب بھی اسی تجویز کی تائید میں ہوں لیکن علاوہ ہندوستانی اقوام کے ہمیں انگریزوں کے مخصوص مفاد کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جن کی آبادی بہت کم ہے لیکن تجارت اور صنعت بہت وسیع ہے- پس اگر انہیں کوئی حق دیا گیا تو لازماً دوسری اقوام کے حق میں سے دیا جائے گا اور یہ معقول بات نہیں ہو سکتی کہ ہم انگریزوں کے اس حق کو تو تسلیم کریں لیکن ساتھ ہی اپنی تعداد سے بحصہ رسدی انہیں نشستیں دینے کے لئے تیار نہ ہوں- پس ان حالات میں ہمیں دو اصل تسلیم کرنے پڑیں گے- ایک یہ کہ بنگال و پنجاب میں مسلمانوں کی حقیقی اکثریت قائم رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے حصہ کے مطابق بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ انگریزوں کو حق دے دیں تا کہ ان کے حقوق کی نمائندگی پوری طرح ہو سکے- مسلمانوں کو یہ امر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال دونوں جگہوں میں انگریزوں نے اکثر اوقات مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے اور آل انڈیا برٹش ایسوسی ایشن ( (ALL INDIA BRITISH ASSOCIATION))نے تو حال کے کلکتہ کے اجلاس میں کلی طور پر مسلمانوں کے مطالبات کی تائید کی ہے- پس ہمیں بھی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے- اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی طرف ہمارا دوستانہ طور پر بڑھنا ان کے دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہے گا اور ہم آئند انہیں ایک خیر خواہ دوست پائیں گے- خصوصاً جب کہ ان کا زیادہ تر کام تجارت ہے اور اس وجہ سے ان کی رقابت ہندوؤں سے بہ نسبت مسلمانوں کے بہت زیادہ ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ پنجاب اور بنگال میں آپس میں سمجھوتہ کر کے ایک مستقل اکثریت کے ساتھ مسلمان اور انگریز نمائندے ان دونوں صوبوں کی ترقی کے لئے حکومت قائم کر سکیں گے اور اپنے منصفانہ رویہ سے دوسرے صوبوں کے لئے ایک نیک مثال قائم کر دیں گے- میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ تقسیم جو میں نے اوپر بتائی ہے یہ فرض کر کے ہے کہ پنجاب اور بنگال کی آبادی ۴ء۵۵ اور ۶ء۵۶ ہے- اگر اس سے زائد آبادی مسلمانوں کو حاصل ہوئی جیسا کہ امید ہے کہ آئندہ مردم شماری میں انشاء اللہ حاصل ہوگی تو جو زیادتی اس وقت یا آئندہ مردم شماریوں میں ہوگی یہ سب کی سب مسلمانوں کو ملے گی- اسے کسی صورت
۴۱۴ میں بھی دوسری اقوام میں بانٹا نہیں جائے گا- مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ خوش آئند مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے قوموں کے سمجھوتے کی کوشش کریں اور اگر سکھوں کو خوش کرنے کے لئے کسی قدر اور قربانی کرنی پڑے تو پرواہ نہ کریں- میرا خیال ہے کہ اگر کسی طرح بھی صلح سے کام نہ نکلے تو پنجاب کے مسلمانوں کو باون فیصدی حق تمام دوسری اقوام کی مشترکہ طاقت کے مقابل پر قبول کر لینا چاہئے- کیونکہ انشاء اللہ آئندہ مردم شماری میں ستاون فیصدی تک مسلمانوں کی آبادی ہونے کی امید ہے جسے ملا کر فوراً ہی ساڑھے تریپن فیصدی حق مسلمانوں کو مل جائے گا- جسے ان کی بڑھتی ہوئی نسل انشاء اللہ ہر مردم شماری میں مضبوط کرتی چلی جائے گی- فرنچائز اور عورتوں کی نمائندگی اب میں فرنچائز (FRANCHISE)کے سوال کو لیتا ہوں لیکن چونکہ اس سوال کے صرف اس پہلو کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو عورتوں کے ووٹ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں نے اسی کے ساتھ عورتوں کی نمائندگی کو بھی شامل کر دیا ہے- مجھے اس سوال کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کمیشن نے اس سوال کا فیصلہ کرتے وقت بہت بے احتیاطی سے کام لیا ہے اور اس مضمون کو چھیڑ دیا ہے جسے چھیڑنا اس کے منصب سے باہر تھا یعنی مسلمانوں کے مذہب پر حملہ کیا ہے- سرجان سائمن JOHNSIMON(.SIR )اور ان کے ساتھی اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ پردہ اسلام کا ایک حکم ہے اور اس کے خلاف کچھ لکھنا براہ راست اسلام پر حملہ کرنا ہے- میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنی رائے کے متعلق آزاد ہے- اس بارہ میں اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حریت نہیں سکھاتا اور اگر سر جان سائمن کوئی مذہبی کتاب لکھ رہے ہوتے تو میں ان کے خیالات کا دلچسپی سے مطالعہ کرتا اور ان کے دلائل کے حسن و قبح کو پرکھتا لیکن سر جان سائمن ایک سرکاری کمیشن کی رپورٹ لکھ رہے تھے اور اس وجہ سے انہیں مذہبی مسائل سے علیحدہ رہنا چاہئے تھا- وہ بار بار پردہ کو بہت سے مصائب کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں- مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں-: (‘’مردوں اور عورتوں کی تعداد میں) فرق سب سے نمایاں دس سے بیس سال کی عمر کے افراد میں ہے اور تمدنی رسوم اور عادات جیسے کہ پردہ اور بچپن کی شادی ہیں اور نادان دائیوں کی حرکات کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے- کیونکہ ان امور
۴۱۵ کی وجہ سے ہندوستان کی عورتوں کی قوتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے’‘- ۶۰؎ اسی طرح وہ لکھتے ہیں-: ‘’جب تک کہ ایک چھوٹی لڑکی کی قسمت میں پردہ اور پچپن کی شادی لکھی ہوئی ہے اس وقت تک نہ تو رائے عامہ اور نہ والدین کی اُمنگیں ہی روبکار ہو کر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے آواز اٹھائیں گی’‘- ۶۱؎ بزعم خود ان نقائص کو دور کرنے کیلئے کمیشن نے عورتوں کی فرنچائز پر زور دیا ہے لیکن وہ اس اہم سیاسی اصل کو بھول گئے ہیں کہ سیاسی حقوق مانگنے پر ہی ملنے چاہئیں- جب کہ وہ مردوں کے لئے جو اپنا حق مانگ رہے ہیں فرنچائز کو وسیع کرنے سے گھبراتے ہیں، سرحد کے لوگوں کو براہ راست فرنچائز دینے سے انکار کرتے ہیں، بلوچستان کو اس لئے فرنچائز نہیں دیتے کہ ان کی عادات کے یہ طریق خلاف ہے وہ عورتوں کو فرنچائز دینے کے لئے بغیر ان کی مانگ کے اور ان کے حالات کا خیال کئے بغیر تیار ہو جاتے ہیں- کیا یہ بات ان کے افعال کے متضاد ہونے کا ثبوت نہیں؟ اور کیا یہ امر اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اس سوال کے حل کرنے میں اس قدر تمدنی ضرورتوں کا خیال نہیں کیا گیا جس قدر مغربی تمدن کی برتری کو ثابت کرنا مدنظر رکھا گیا ہے؟ اور ایک شاہی کمیشن کے ممبروں کا اس رویہ کو اختیار کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- مجھے افسوس ہے کہ کمیشن کے اس رویہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مسٹروجوڈبن بھی شامل ہیں- کیونکہ جیسا کہ مجھ سے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک ممبر اور ایک سیکرٹری نے بیان کیا تھا راؤنڈٹیبل کانفرنس کے ممبروں کے انتخاب کے موقع پر باوجود گورنمنٹ آف انڈیا کے دو دفعہ کے انکار کے انہوں نے زور دے کر دو عورتوں کو ممبر مقرر کروایا ہے اور پھر یہ کہہ کر نامزد کروایا ہے کہ ان دو میں سے ایک ہندو اور ایک مسلمان ہو- مسلمان نمائندہ خاتون ہمارے ایک معزز ہم وطن کی بیٹی ہیں اور میرے ایک معزز ہم وطن دوست کی بیوی ہیں اور ان کی ذاتی لیاقت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں- پس میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تحریر کو کسی رنگ میں بھی اس معزز اور قابل احترام خاتون کے خلاف نہیں سمجھا جائے گا- مجھے اعتراض صرف سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس رویہ پر ہے کہ باوجود حکومت ہند کے انکار کے انہوں نے زور دے کر عورتوں میں سے نمائندے مقرر کروائے ہیں اور اس طرح ایک قوم کے اندرونی دستور العمل میں ناجائز دست اندازی کی ہے-
۴۱۶ اب میں سائمن کمیشن کی جو رائے عورتوں کے پردہ کے بارہ میں ہے اس کی تغلیط کرتا ہوں- اول تو سائمن کمیشن نے یہ عجیب استدلال کیا ہے کہ عورتوں کی تعداد جو مردوں سے کم ہے اس کا ایک سبب پردہ ہے اس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتی ہیں- لیکن وہ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ انگلستان میں مردوں اور عورتوں کی نسبت میں فرق ہندوستان سے زیادہ ہے صرف اختلاف یہ ہے کہ وہاں مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں- اور ہندوستان میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہیں- کیا انگلستان کی نسبت بھی کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہاں مردوں پر کوئی خاص ظلم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں اور عورتیں زندہ رہتی ہیں؟ اگر سائمن کمیشن مختلف ممالک کی آبادیوں کا مقابلہ کرتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ عورت و مرد کی آبادی کے فرق کے اصول بالکل اور ہیں اور اکثر وجوہ نہایت باریک طبعی مسائل پر مبنی ہیں جن کی سائمن کمیشن کو کوئی واقفیت نہیں تھی- سائمن کمیشن کے ممبروں کے دلچسپ معائنے کے لئے میں انہیں بتاتا ہوں کہ آئرلینڈ کے شمالی حصہ میں یعنی السٹر کی حکومت میں چار فیصدی عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں- لیکن جنوبی حصہ یعنی آئرش فری سٹیٹ (IRISH FREE STATE) میں قریباً دو فیصدی مرد زیادہ ہیں- کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شمالی حصہ میں تو مردوں پر ظلم ہوتا ہے اور جنوبی حصہ میں عورتوں پر؟ لیکن اس فرق کا حل یہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ بعض باریک طبعی اسباب کی وجہ سے انگریزی قوم میں عورتوں کی زیادتی ہوتی ہے اس وجہ سے شمالی آئرلینڈ میں جس میں انگریزی نسل کے لوگ زیادہ بستے ہیں عورتیں زیادہ ہیں اور جنوبی آئرلینڈ میں جس میں آئرش نسل کی زیادتی ہے اس میں مرد زیادہ ہیں- سائمن کمیشن نے اپنے اندازہ میں ایک اور بھی غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ اس نے غور نہیں کیا کہ عورتوں کی کمی سب سے زیادہ سکھوں اور پہاڑی نسلوں میں ہے اور یہ دونوں قومیں پردہ کی سخت مخالف ہیں اور سکھوں میں بچپن کی شادی کا رواج بھی دوسری قوموں سے کم ہے- سکھ عورت نہایت مضبوط ہوتی ہے- باوجود اس کے سکھوں میں عورتیں کم ہیں اور مرد زیادہ ہیں- پہاڑی قوموں میں عورتوں کی کمی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اب تک ایک عورت کے تین تین چار چار خاوند ہوتے ہیں اور سکھ قوم میں بوجہ رشتہ نہ ملنے کے دوسری قوموں کی عورتوں کو سکھ بنا کر ان سے شادیاں کرتے ہیں-
۴۱۷ پھر اگر سائمن کمیشن واقعات پر نگاہ ڈالتا تو اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ پردہ کا رواج دس فیصدی سے زیادہ لوگوں میں نہیں ہے- دیہات کی عورتوں میں سے ننانوے فیصدی پردہ کے عام مفہوم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں- پس اگر عورتوں کی کمی کا فرق پردہ کی وجہ سے ہے تو اس فرق کو دیکھ کر جو مردوں اور عورتوں کی نسبت میں ہے فرض کر لینا چاہئے کہ پردہ دار حصہ جو صرف دس فیصدی ہے اس میں دو مردوں کے مقابلہ میں ایک عورت ہے جو بالبداہت غلط ہے- بچپن کی شادی جس سے میری مراد کسی خاص عمر سے نہیں ہے بلکہ قویٰ کے نشوونما پانے سے پہلے کی عمر کی شادی ہے بے شک نقصان دہ ہے لیکن مسلمانوں میں اس کا بہت کم رواج ہے اور سائمن کمیشن کا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں اس کے متعلق ایک روایت ہے بالکل خلاف واقعہ ہے- مسلمانوں میں بچپن میں شادی کر دینے کے متعلق کوئی روایت نہیں ہے- اور اگر شارداایکٹ کے خلاف مسلمانوں نے کوئی شور مچایا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ بچپن کی شادی کو ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی غیر مذہب کی اکثریت ان کے پرسنل لاء میں دخل اندازی کرے اور اس طرح آئندہ کے لئے راستہ کھل جائے- یہ عیب ہندوؤں میں ہی ہے اور انہی کو اس کا نقصان بھی پہنچتا ہے کیونکہ ان کے ہاں بیوہ کی شادی کا رواج نہیں- اور اس وجہ سے جو عورت بیوہ ہو جاتی ہے اس کی عمر برباد ہو جاتی ہے- مسلمانوں میں جس قدر یہ رواج ہے بوجہ ہندوؤں کے اثر کے ہے اور ہم لوگ اسے آہستگی سے دور کر رہے ہیں- اب میں پردہ کے صحت اور تعلیم پر اثر کو لیتا ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ مسلمانوں میں ابتداء سے ہے- لیکن باوجود اس کے مسلمان عورتیں حکومتوں کے ہر قسم کے کاموں میں حصہ لیتی رہی ہیں- عورتیں مسلمانوں میں بادشاہ بھی ہوئیں ہیں، فوجوں میں بھی انہوں نے کام کیا ہے، قضاء وغیرہ کے عہدہ پر بھی انہیں مقرر کیا گیا ہے، پروفیسر بھی وہ رہی ہیں اور ان پردہ دار عورتوں کو اس زمانہ میں یہ طاقت اور علم کے کام کرنے پڑے ہیں جس وقت باقی اقوام کی بے پردہ عورتیں صحت اور علم دونوں میں ان کے مقابلہ سے عاجز تھیں- پس معلوم ہوا کہ پردہ نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کی کمزوری اور جہالت کے اس وقت اور اسباب ہیں- میں حیران ہوں کہ کس طرح پردہ کو تعلیم کے لئے روک کہا جاتا ہے- ہماری جماعت
۴۱۸ خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی پردہ کی بھی عامل ہے اور باوجود اس کے عورتوں کی تعلیم اس میں باقی سب ہندوستان کی عورتوں سے زیادہ ہے- میں نے جماعت کی امامت پر مقرر ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور باوجود ہر قسم کے اعتراضات کے اس کو ترقی دیتا چلا گیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں نوے فیصدی سے بھی زیادہ لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں- اور پچھلے تین سال سے یونیورسٹی کے امتحانوں میں ہماری عورتیں شامل ہونے لگی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہماری جماعت کی کوئی نہ کوئی پردہ دار خاتون یونیورسٹی میں اول نمبر پر رہتی چلی آتی ہے- ہاں جو روک ہمارے راستہ میں ہے وہ پردہ کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ استانیاں تیار ہونے میں دیر لگی ہے اور گورنمنٹ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ مرد استاد پس پردہ عورتوں کو پڑھائیں- پس جب تک عورت استانیاں تیار نہ ہو جائیں ہمارے سکول یونیورسٹی سے باقاعدہ طور پر ملحق نہیں ہو سکتے- پس ہمارے تجربہ میں تو عورتوں کی تعلیم میں روک پردہ نہیں بلکہ گورنمنٹ کا رویہ ہے- جو یہ دیکھتے ہوئے کہ استانیاں نہیں مل سکتیں سوسائٹیوں کو اجازت نہیں دیتی کہ اس وقت تک کہ عورت استانیاں کافی تعداد میں میسر آ سکیں عمر رسیدہ اور قابل اعتبار مردوں سے لڑکیوں کو تعلیم دلوائیں- غالباً میری یہ تحریر سر جان سائمن (SIR JOHN SIMON)کی نظر سے بھی گزرے گی- میں امید کرتا ہوں کہ وہ اسے ذاتیات پر مبنی نہیں سمجھیں گے بلکہ انہیں یہ امر یاد ہوگا کہ ان کے اور ان کے رفقاء کے ہندوستان کے ورود کے موقع پر سب سے زیادہ جوش کے ساتھ میری جماعت نے انہیں خوش آمدید کہا تھا اور ان کے بائیکاٹ کے خلاف نہایت زبردست پروپیگنڈا اشتہاروں، ٹریکٹوں، اخباروں اور لیکچروں کے ذریعہ سے کیا تھا- پس مجھے جو اس امر کے خلاف پروٹسٹ (PROTEST )کرنا پڑا تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ میرے نزدیک انہوں نے بغیر کافی تحقیق کے ایک اسلامی حکم پر حملہ کر دیا ہے- خلاصہ یہ کہ پردہ اسلام کا ایک حکم ہے- یوروپین اثر کے ماتحت بعض مسلمان اس کا انکار کریں یا اس پر عمل چھوڑ دیں تو یہ اور بات ہے مگر بہرحال اس کے اسلامی حکم ہونے میں کوئی شبہ نہیں- خود رسول کریم ﷺکی بیویاں پردہ کرتی تھیں اور اس وقت بھی کرتی تھیں جب کہ اسلام کی حکومت اپنے عروج پر تھی اور کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا- اور ہمارا یہ یقین ہے کہ آخر اس برے طور پر استعمال کئے جانے والے اور غلط طور پر سمجھے جانے والے حکم کا
۴۱۹ دن بھی اسی طرح آ جائے گا جس طرح کہ طلاق، شراب اور عورت کے مالی حقوق کا دن آ گیا ہے- پس ایسی تدابیر جن کا اصل مقصد مسلمانوں کو مجبور کر کے ان کے مذہبی احکام کا چھڑوانا ہو کسی صورت میں بھی مسلمانوں کو منظور نہیں ہو سکتیں- یہ ہماری عورتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کریں اور اسلامی اصول کے ماتحت اسے استعمال کریں- کسی دوسری قوم یا دوسری حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں مجبور کر کے اپنے منشاء کے مطابق ہماری قوم کو چلائے- پس اگر عورتوں کو فرنچائز (FRANCHISE) میں شامل کرنے کا نتیجہ یہ ہو کہ جو قوم اس پر عمل نہ کر سکے اس کے ووٹر کم رہ جائیں تو میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی طرف سے کمیشن کو کہہ سکتا ہوں کہ اس امر کو مسلمانوں کے مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی تسلیم نہیں کریں گی- میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو عورتوں کی ترقی کے مخالف ہیں بلکہ میں مذہباً انہیں ویسا ہی روحانی، علمی اور اخلاقی ترقی کا حق دار سمجھتا ہوں جیسا کہ مردوں کو- اور میں نے جس طرح اپنے زمانہ خلافت میں اپنی جماعت میں عورتوں کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے اور اس کا انتظام کیا ہے اسی طرح میں نے ان کو آرگنائز (ORGANIZE) بھی کیا ہے- ان کی انجمنیں قائم کی ہیں اور قومی معاملات میں ان کو رائے دینے کا حق دیا ہے- پس یہ رائے کسی تعصب اور قدامت پسندی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے برطانیہ ہندوستان میں ایسی فضاء پیدا کرنے کا مرتکب ہوگا کہ جو نہ اس کے لئے اور نہ ہندوستان کے لئے برکت کا موجب ہوگی- مسلمان عورت اس وقت سے اپنے حقوق کی مالک ہے جس وقت کہ دنیا عورت کو روح سے خالی سمجھتی تھی- اور صرف دوسری اقوام کے اثر سے وہ اپنے کئی حقوق سے محروم ہے- انشاء اللہ وہ اپنے ہی بھائیوں اور باپوں کی مدد سے اپنے کھوئے ہوئے حق کو واپس لے لے گی- مگر اسی راہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے، جو نہ مرد ہے نہ عورت کہ اس پر ناجائز طرف داری کا الزام لگ سکے- (۳) سیکنڈ چیمبرس میں شروع سے سیکنڈ چیمبرس (SECOND CHAMBERS)کا مخالف رہا ہوں- اس وجہ سے نہیں کہ میں اس کی خوبیوں کا قائل نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز سکیم میں جو سیکنڈ چیمبر کا ڈھانچہ تیار کیا گیا تھا
۴۲۰ وہ میرے نزدیک فتنہ پیدا کرنے والا تھا اور سیکنڈ چیمبرس کی جو غرض ہے اس سے پوری نہ ہوتی تھی اسی وجہ سے میں مرکزی سیکنڈ چیمبر اور صوبہ جاتی سیکنڈ چیمبر دونوں کا مخالف رہا ہوں لیکن اب جب کہ دوبارہ غور ہو رہا ہے اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر ہندوستانیوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اصول پر مبنی اور معقول ڈھانچہ اپنی حکومت کیلئے تیار کریں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دوبارہ اس سارے سوال پر غور کرنا چاہئے- چنانچہ غور کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جو شکل موجودہ کونسل آف سٹیٹ کی ہے وہ درست نہیں- ایک تو اس میں نامزدشدہ عنصر بہت زیادہ ہے اور پھر نامزدگی بھی کسی مقررہ اصول پر نہیں ہے- دوسرے جو شرائط اس کی ممبری کے لئے مقرر ہیں وہ ایسی نہیں کہ ضرور لائق آدمی اس کے اندر آئیں- تیسرے فیڈریشن کا اصول اس میں مدنظر نہیں رکھا گیا- پس ان حالات میں تو نہ کونسل آف سٹیٹ کی ضرورت ہے اور نہ کسی صوبہ میں اس قسم کی کونسل کی ضرورت ہے- لیکن اگر ہندوستانی کونسل کی موجودہ شکل کو ہم نظر انداز کر دیں تو ہمیں اصولاً دیکھنا چاہئے کہ مجلس واضع قانون کے بعد ہمیں کسی اور مجلس کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کیوں؟ جن لوگوں نے دوسری چیمبرس کی مخالفت کی ہے ان کا سردار ABBE SEIVES ایک فرانسیسی قانون دان ہے- اس کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر دوسری چیمبر پہلی کے مطابق فیصلہ کرے گی تو وہ غیر ضروری چیز ہے- اور اگر پہلی کے مخالف کرے گی تو وہ نقصان دہ ہے لیکن باوجود اس کے اکثر حکومتوں میں دو ہی مجالس مقرر ہیں- اور صرف بلقان روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں اور ترکی کے علاقہ میں ایک مجلس وضع قوانین کا کام کرتی ہے- پس مختلف الفوائد اور مختلف الاغراض اقوام کا تجربہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس امر پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا دوسری مجالس مفید ہیں یا نہیں؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ دوسری چیمبر کے موید ہیں وہ اس کے مندرجہ ذیل کام بتاتے ہیں-: (۱) ایک مجلس چونکہ قانون کا مسودہ بناتی ہے اس وجہ سے اس جوش کی حالت میں جو مختلف فریقوں میں پیدا ہو جاتا ہے کئی سقم اس میں رہ جاتے ہیں- پس ان نقائص کو دور کرنے کے لئے ایک دوسری مجلس کی ضرورت ہوتی ہے- اس مجلس کے پاس چونکہ کافی غور کے بعد پاس شدہ قانون جاتا ہے وہ اس کے باریک نقائص کو معلوم کرنے پر زیادہ قادر
۴۲۱ ہوتی ہے- پس دوسری چیمبر کا ہونا ضروری ہے- (۲) چونکہ مجلس عام کے ممبر زیادہ ہوتے ہیں وہ اس قدر وقت بحث پر خرچ نہیں کر سکتے جس قدر کہ تھوڑی جماعت آزادی سے وقت خرچ کر سکتی ہے- پس پالیسی اور اصول کی بحیثیں زیادہ تر دوسری مجلس میں ہی کی سکتی ہیں- (۳) بعض تجربہ کار اور بوڑھے آدمی بوجہ اپنی خاص حیثیت یا اپنے مزاج یا اپنی صحت کے اس فضاء یا اس طریق کار کی برداشت نہیں کر سکتے جو مجلس عام میں اس کی ساخت کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے اس لئے دوسری مجلس میں ان لوگوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- (۴) بوجہ قانون کی ابتدائی تشکیل کے مجلس عام میں جنبہ داری کے جذبات میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے قانون بناتے وقت ہر قسم اور ہر طبقہ کے فوائد کو مدنظر نہیں رکھا جا سکتا- اس فضاء سے محفوظ رہنے والی دوسری چیمبر میں اس نقص کا ازالہ ہو جاتا ہے اور ٹھنڈے دل سے ہر قسم کے فوائد پر نگاہ ڈالی جا سکتی ہے- (۵) ماہرین فنون اگر عام مجلس میں شامل ہوں تو ان کے مشورہ کی قیمت کم ہو جاتی ہے- کیونکہ وہ سینکڑوں میں سے ایک ہوتے ہیں لیکن دوسری چیمبر چونکہ تھوڑے آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس میں ان کا ووٹ زیادہ وزن رکھتا ہے اور اس طرح ملک ان کے تجربہ سے زائد فائدہ حاصل کر سکتا ہے- یہ ظاہر بات ہے کہ چار سو ممبر والی مجلس میں ایک شخص کے ووٹ کی قیمت ۴۰۰/۱ ہوگی- لیکن وہی شخص اگر اس پہلی مجلس کی نظرثانی کرنے والی کمیٹی میں جس کے پچاس ممبر ہوں شامل ہو جائے گا تو اس کے ووٹ کی قیمت ۴۰۰/۸ ہو جائے گی- پس ایسی مجلس میں ماہرین فن کا شامل ہونا ملک کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے جہاں وہ مجلس واضع قوانین کے ممبر بھی سمجھتے جاتے ہیں اور ان کی رائے کا وزن بھی زیادہ ہو جاتا ہے- (۶) اگر ایک مجلس ہو تو الیکشن کے وقت حکومت ملک کے نمائندوں سے بالکل خالی ہو جاتی ہے لیکن دو مجالس ہوں تو ہر وقت ایک نہ ایک مجلس ملک کی نمائندہ موجود رہتی ہے کیونکہ دونوں کا الیکشن الگ الگ وقتوں پر رکھا جا سکتا ہے اور عملاً بھی مختلف ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے-
۴۲۲ (۷) اگر ایک ہی مجلس ہو تو چونکہ ملک کی رائے کا جلدی جلدی اندازہ لگانے کے لئے اسے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد برخواست کرنا پڑتا ہے- بعض تجربہ کار لوگ جن کے شامل کرنے کی بڑی غرض ان کی لیاقت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے لیکن ان کی مالیحالت زیادہ اچھی نہیں ہوتی وہ بار بار کے خرچ سے ڈر کر اس میں حصہ نہیں لے سکتے- لیکن دو مجالس ہوں تو دوسری چیمبر کی عمر کو لمبا کر کے ایسے لوگوں کے لئے خدمت کا موقع پیدا کیا جا سکتا ہے- علاوہ ازیں دوسری مجلس کی عمر کو لمبا کر کے یہ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک تجربہ کار جماعت دیر تک حکومت کے کام میں ممد رہتی ہے- (۸) ملک کی مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں جن میں سے بعض بعض کے ساتھ مشترک نہیں ہو سکتیں- پس اگر ایک ہی جماعت ہو تو بعض فوائد ملک کے نظر انداز کرنے پڑتے ہیں- پس دو چیمبرس کا ہونا ضروری ہے کہ تا ایک مجلس کو ایک قسم کا کام سپرد کر دیا جائے اور دوسری کو دوسرا- جرمن ریچس ریٹ (REICHSRAT) یعنی دوسری مجلس کی یہی غرض رکھی گئی ہے کہ وہ وضع قانون میں حصہ نہیں لیتی بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ وہ مسودات کو مجلس عام میں پیش ہونے سے پہلے دیکھ کر رائے دے کہ آیا وہ پیش کئے جائیں یا نہیں وہ مجلس عام یعنی ریچس ٹیگ (REICHSTAG) کے بنائے ہوئے قانون کو رد بھی نہیں کر سکتی بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ اس کے پاس شدہ مسودہ کو دیکھے اور اگر قابل اعتراض پائے تو دو ہفتہ کے اندر گورنمنٹ کو اس کی اطلاع دے- اگر مجلس عام سے اس کا سمجھوتہ ہو جائے تو خیر ورنہ پریذیڈنٹ اس مسودہ کے متعلق ملک کی رائے عامہ حاصل کر لے- لیکن اگر پریزیڈنٹ تین ماہ کے اندر ایسا نہ کرے اور مجلس عام دو تہائی کثرت کے ساتھ اس بل کو دوبارہ پاس کر دے تو پھر پریزیڈنٹ کا فرض ہے کہ یا تو اسی قانون کو منظور کرے یا ملک کی رائے حاصل کرے- یہ کام جو جرمن دوسری چیمبر (SECOND CHAMBER) کے سپرد ہے نہایت ضروری ہے لیکن باوجود اس کے قانون ساز مجلس کے سپرد کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہی مجلس جو قانون بناتی ہے اپنے کام کی نگرانی نہیں کر سکتی- (۹) ایک فائدہ دوسری مجالس میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ملکوں میں حکومت کے دونوں حصے یعنی قانون ساز اور قانون کا اجراء کرنے والے الگ الگ رکھے جاتے ہیں- یعنی وزراء نہ
۴۲۳ منتخب ممبر ہوتے ہیں اور نہ مجلس قانون ساز کو ان پر کوئی تصرف حاصل ہوتا ہے پس دوسری مجلس دونوں حصوں میں تعلق قائم رکھنے کا کام دیتی ہے- چنانچہ امریکن (SENATE) کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ایک طرف تو مجلس عام کے پاس شدہ قوانین کی نظر ثانی کرتی ہے دوسری طرف پریزیڈنٹ کو جو حکومت کے محکمہ تنفیذ کا رئیس ہے اس کے کام میں مشورہ دیتی ہے یعنی معاہدات کی منظوری کے متعلق سفیروں اور ججوں کے مقرر کرنے کے متعلق اور بعض ایسے ہی اور کاموں کے متعلق- (۱۰) دسواں فائدہ دوسری چیمبر کا جو فیڈرل حکومتوں میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ دوسری چیمبر فیڈرل حکومت کے صوبوں یا ریاستوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور مجلس عام کو جو افراد کی نمائندہ ہوتی ہے ریاستوں کے حقوق تلف نہیں کرنے دیتی- اس وجہ سے فیڈرل حکومتوں میں عام طور پر دوسری مجلس کا انتخاب ایسے اصول پر رکھا جاتا ہے کہ وہ افراد کی بجائے علاقوں کی نمائندہ ہوں تا کہ علاقوں کی آزادی کا خیال رکھ سکیں- یہ دس موٹے موٹے فائدے سیکنڈ چیمبر (SECOND CHAMBER) کے ہیں- اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ بعض تو صرف خاص شکل کی دوسری مجلس میں پائے جا سکتے ہیں اور بعض ہر دوسری مجلس میں جمع ہو سکتے ہیں- ان فوائد کو مجموعی حیثیت سے دیکھنے کے بعد معلوم ہو سکتا ہے کہ دوسری چیمبر کا وجود بھی بغیر مقصد کے نہیں ہے- اور اس کے مخالفین کا اعتراض کہ اگر وہ مجلس عام کے موافق ہے تو غیر ضروری ہے اور اگر مخالف ہے تو موجب تباہی ہے محض ایک ظاہر فریب دلیل ہے- دوسری چیمبر نہ پہلی کے موافق ہے نہ مخالف بلکہ وہ اس کا تتمہ ہے اور اس وجہ سے نہ زائد ہے نہ کام کو خراب کرنے والی- مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم میں دوسری چیمبر کے خلاف تین اعتراض کئے گئے ہیں- ایک یہ کہ اس سے کام پیچیدہ ہو جائے گا- دوسرے یہ کہ اس قدر لائق آدمی نہ مل سکیں گے کہ دو چیمبرس کا کام چلایا جا سکے- تیسرے یہ کہ خاص فوائد والوں کو غیر ضروری حفاظت حاصل ہو جائے گی- مگر یہ تینوں اعتراض درست نہیں- پیچیدگی اس میں کوئی ہے نہیں- سب دنیا میں دوسری چیمبرس کام کر رہی ہے- آدمیوں کا سوال عارضی ہے- اگر دوسری مجلس کی ضرورت ثابت ہو تو اس کا اجراء دس پندرہ سال بعد کیا جا سکتا ہے- اور تیسرا اعتراض بھی درست نہیں
۴۲۴ کیونکہ دوسری مجالس کی شکلیں کئی قسم کی ہیں- ایسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں جن سے اس امر کی حفاظت ہو جائے کہ جو کام ہم ان مجالس سے لینا چاہتے ہیں وہ بھی لئے جا سکیں اور بلاوجہ کسی کا حق بھی نہ مارا جائے- پس ان سب حالات کو مدنظر رکھ کر میرا خیال یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں فوراً سیکنڈ چیمبر جاری کی جائے مگر وہ کسی اصول کے ماتحت ہو- یہ نہ ہو کہ بجائے پہلی اور دوسری مجلس کے دو مجالس عام قائم ہو جائیں اور یونہی وقت اور روپیہ ضائع ہو- صوبہ جات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ ابھی چونکہ نیابتی حکومت سے ہندوستان پورا واقف نہیں اس لئے قانون اساسی میں تو اس کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے لیکن شرط یہ کر دی جائے کہ پندرہ سال کے بعد ہر مقامی کونسل کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کثرت رائے سے دوسری مجلس کے قیام کا فیصلہ کر دے- لیکن قواعد دوسری چیمبر کے یا کم سے کم اس کے لئے اصول ابھی سے مقرر کر دیئے جائیں- دوسری مجلس کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ اس کی ضرورت بہت اہم ہے اسے فوراً قائم کر دینا چاہئے مگر اس شکل میں نہیں جس میں مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم نے اسے قائم کیا ہے بلکہ اس کی اصل صورت جس کا بیان میں انشاء اللہ مرکزی حکومت کے ذکر میں کروں گا-
۴۲۵ باب چہارم عدالت سائمن کمیشن کی رپورٹ کے کمزور ترین مقامات میں سے اس کی وہ سفارش ہے جو اس نے ہائی کورٹوں کو گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت کرنے کے متعلق کی ہے اس کی ساری دلیل یہ ہے کہ بنگال کا ہائی کورٹ چونکہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت ہے اور باقی سب ہائی کورٹ انتظامی لحاظ سے صوبہ جات کی حکومتوں کے ماتحت ہیں اس لئے سب ہائی کورٹوں کو ایک انتظام میں لانے کیلئے ضروری ہے کہ وہ سب گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت کر دیئے جائیں- حالانکہ ایک کورٹ کی خاطر باقی سب ہائی کورٹوں کا انتظام تبدیل کرنا بالکل خلاف عقل ہے اگر وہ یہ سفارش کرتے کہ بنگال ہائی کورٹ بھی گورنمنٹ بنگال کے ماتحت کر دیا جائے تو یہ زیادہ مناسب مشورہ ہوتا- کمیشن کی دلیل صرف یہ ہے کہ بنگال ہائی کورٹ کے ساتھ چونکہ آسام کی عدالتیں بھی ملحق ہیں اس وجہ سے ضروری ہے کہ حکومت ہند کے ماتحت وہ ہائی کورٹ ہو اور چونکہ آئندہ اور صوبہ جات کے بننے کا بھی احتمال ہے جو کہ ممکن ہے کہ الگ ہائی کورٹ کا خرچ برداشت نہ کر سکیں اس لئے ضروری ہے کہ اختلاف انتظام سے بچنے کیلئے سب کورٹ گورنمنٹ آف انڈیا کے پاس آ جائیں- یہ دلیلیں اپنی ذات میں بہت کمزور ہیں- آسام کی عدالتیں اگر بنگال کے ساتھ ملحق ہیں تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آسام کو کچھ رقم خرچ کیلئے بنگال کے حوالے کرنی پڑتی ہے- لیکن یہ کوئی ایسی وجہ نہیں کہ جس کی وجہ سے بنگال ہائیکورٹ کو گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ ملایا جائے- اصل بات یہ ہے کہ بنگال ہائی کورٹ کی گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت ہونیکی یہ وجہ ہی نہیں- یہ تو اس وقت سے چلا آتا ہے جب کہ گورنر جنرل براہ راست بنگال کا حاکم سمجھا جاتا تھا پس اس رسم دیرینہ کے بدلنے کی بجائے جس میں کوئی معقولیت نہیں باقی ہائی کورٹوں کو کیوں خراب کیا جائے- مختلف آزاد ممالک اگر
۴۲۶ آپس میں ڈاک کے اخراجات اور آمد کو تقسیم کر سکتے ہیں تو کیا ایک ملک کے دو صوبے ہائیکورٹوں کے اخراجات کی تقسیم نہیں کر سکتے؟ لیکن میں اس امر کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ کوئی صوبہ ہائی کورٹ کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو- یورپ اور امریکہ کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں اگر یہ سب خرچ برداشت کر سکتی ہیں تو کیوں ہندوستان کے صوبے یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے- یاد رکھنا چاہئے کہ صوبہ جاتی ہائیکورٹ درحقیقت صوبہ کی حکومت کا ایک حصہ ہوتے ہیں اور کسی صحیح فیڈرل حکومت کے ماتحت نہیں ہوتے اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صوبہ جات کے ہائی کورٹوں کے سپرد عدالت کا انتظامی کام بھی ہوتا ہے اور سب ماتحت عدالتیں انتظامی طور پر ان سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ انتظام اور بھی ناقص معلوم ہوتا ہے جب کہ صوبہ کی تمام عدالتیں صوبہ سے تنخواہیں پائیں گی، صوبہ ہی انہیں مقرر کرے گا، اسی کے ماتحت وہ سمجھی جائیں گی تو پھر ہائیکورٹ صوبہ کی طرف سے ان کی نگرانی کرے گا پھر وہ کس طرح کسی دوسری حکومت کا حصہ ہو سکتا ہے- اس کے جواب میں شاید کہا جائے کہ آسام کی مثال موجود ہے کہ وہاں ہائیکورٹ کسی اور کے ماتحت ہے اور ماتحت عدالتیں کسی اور کے ماتحت- لیکن میرا جواب یہ ہے کہ ایک چیز مجبوری سے کی جاتی ہے اور ایک خوشی سے- ان دونوں حالتوں میں بہت فرق ہوتا ہے- اگر آسام کے لئے ہمیں مجبوراً ایسا کرنا پڑا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم سب جگہ جہاں ضرورت نہیں یہی انتظام کر دیں- فیڈریشن کی تکمیل میں ہائی کورٹوں کا صوبہ کے متعلق ہونا شرط ہے- پس ہائی کورٹ کسی صورت میں صوبوں کے اختیار سے باہر نہیں جانے چاہئیں بلکہ آئندہ یہ تغیر ہونا چاہئے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر بھی صوبہ کی طرف سے ہو- ہاں ایک بات کی میں تصدیق کروں گا کہ چونکہ عدالتوں کا وقتی اور سیاسی اثرات سے بالا ہونا ضروری ہے اس لئے ججوں کے متعلق یہ قائدہ باقی رہے کہ جب کوئی شخص ایک دفعہ ہائیکورٹ کا جج مقرر ہو جائے تو اسے اس وقت تک کہ وہ قواعد کے مطابق ریٹائر نہ ہو یا قبلازوقت اپنی مرضی سے استعفاء نہ دے، الگ نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ اس کے خلاف رشوت وغیرہ کے الزامات یقینی طور پر ثابت ہو جائیں- اس صورت میں لیجسلیٹو کونسل (LEGISLATIVE COUNCIL) کی ساٹھ فیصدی کثرت کے ریزولیوشن کے بعد گورنر جج کو
۴۲۷ علیحدہ کر دے- ججوں کے تقرر کے متعلق بھی ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ ملک کی عدالت پر حکومت کے اچھے یا برے ہونے کا بہت حد تک انحصار ہوتا ہے- اس لئے میری رائے تو یہی ہے کہ بہتر ہوگا کہ ججوں کے تقرر میں وزارت کا دخل بالکل نہ ہو بلکہ گورنر ہائیکورٹ سے مشورہ لے کر جج مقرر کیا کرے- اس کا طریق میرے نزدیک یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی نئے جج کے مقرر کرنے کی ضرورت ہو تو گورنر ہائی کورٹ سے ہر آسامی کے لئے تین تین آدمیوں کا پینل طلب کرے- ہائی کورٹ اپنی کثرت رائے سے فی آسامی تین تین آدمی کے نام تجویز کر کے رپورٹ کرے اور گورنر ان میں سے جس کو پسند کرے کام پر مقرر کر دے- گورنر کو یہ بھی اختیار ہو کہ اگر اس کے نزدیک کسی قوم کو ہائی کورٹ میں اس کے حق سے کم نمائندگی حاصل ہو تو وہ سفارشات طلب کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ اس دفعہ صرف فلاں جماعت کے افراد کے نام تجویز کرے- مزید شرط یہ بھی ہو کہ اگر کسی جج کو یہ خیال ہو کہ فلاں شخص خاص طور پر قابل ہے اور اس کا نام پیش نہیں کیا گیا تو وہ اختلافی نوٹ کی شکل میں اپنی رائے گورنر کے پاس بھجوا دے جسے اختیار ہو کہ استثنائی صورتوں میں ان رپورٹوں کو بھی انتخاب میں مدنظر رکھ لے- اسی طرح ایک اصلاح میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایک وزارت عدالت قائم کی جائے اور عدالتوں کا تمام انتظامی کام اس کی وساطت سے ہو تا کہ ایگزیکٹو اور عدالت میں اختلاف نہ ہو- دوسرے بہت سے ممالک میں ایک عدالت کا وزیر ہوتا ہے چنانچہ انگلستان میں بھی لارڈ چانسلر کے نام سے ایک وزیر ہوتا ہے- جس کا کام عدالتی محکمہ کا انتظام ہے- وہ کونٹیکورٹ جج (COUNTY COURT JUDGE) نہ صرف مقرر کرتا ہے بلکہ انہیں ڈسمس (DISMIS) بھی کر سکتا ہے- ہائی کورٹ کے جج بھی اس کی سفارش پر مقرر ہو تی ہیں- ۶۲؎ سپریم کورٹ ہائی کورٹوں کو صوبہ جاتی کورٹ بنانے کے بعد علاوہ اس کانسٹی چیوشنل (CONSTITUTIONAL) سوال کے جس کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں، دوسری ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ضروری ہے کہ ایک سپریم کورٹ ہندوستان میں بنایا جائے جو فیڈرل کورٹ ہو- علاوہ قانون اساسی کے متعلق اختلافوں کا فیصلہ کرنے کے اس
۴۲۸ کورٹ کا یہ بھی کام ہو کہ وہ خاص طور پر بڑے مقدمات میں پریوی کونسل کی جگہ پر ہائی کورٹوں کی اپیلیں سنے- اسی طرح اس کا کام فیڈرل قانونوں کے متعلق آخری اپیل سننا ہو- ایسے مقدمات کی ابتداء کی کارروائی صوبہ جاتی عدالتوں کے ہی سپرد رہے- امریکہ کی طرح ضروری نہیں کہ چھوٹی فیڈرل عدالتیں بھی قائم کی جائیں- یہ کام صوبہ جاتی عدالتوں کے سپرد رہے صرف اپیل سپریم کورٹ کے پاس آئے- چونکہ سپریم کورٹ کا کام قانون اساسی کی تشریح کرنا بھی ہوگا، اس لئے اس کے ججوں کے انتخاب کا سوال خاص اہمیت رکھتا ہے- شاید میرے بہت سے دوست میری اس رائے کو ناپسند کریں گے لیکن میرے نزدیک کم سے کم ابتدائی زمانہ میں اس امر کی ضرورت ہے کہ اس عدالت کے ججوں کا ایک معتدبہ حصہ انگلستان سے مقرر ہو کر آئے- اس کورٹ کے ججوں کے متعلق اگر یہ شرط ہو کہ پہلے پندرہ سال تک لازماً دو تہائی جج پریوی کونسل (PRIVY COUNCIL) کی سفارش پر تاج کی طرف سے مقرر ہوں اور ایک تہائی ججوں کے تقرر کے لئے یہ قاعدہ ہو کہ پہلی دفعہ تو گورنر جنرل مختلف ہائی کورٹوں کے چیف ججوں سے مشورہ کر کے ایسے ججوں میں سے جو تین سے پانچ سال کے اندر ریٹائر ہونے والے ہوں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیں اور آئندہ اس حصہ کی کمی جس کے لئے نامزدگی کا اختیار انہیں دیا گیا ہو وہ سپریم کورٹ سے پینل طلب کر کے جس میں ہر آسامی کے لئے کم سے کم تین آدمیوں کا نام پیش کیا گیا ہو، پوری کریں- اس طرح میرے نزدیک وہ سوال ایک معقول حد تک حل ہو جاتا ہے کہ وہ جج کہاں سے آئیں گے جن پر اعتبار کیا جا سکے- پریوی کونسل کے مقرر شدہ جج چونکہ غیر ملک سے آئیں گے اور ایسے لوگ انہیں مقرر کریں گے جن کا زیادہ تر تعلق عدالتوں سے ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، عام طور پر قابل اعتبار ہونگے- اسی طرح وہ ایک تہائی جج جو سپریم کورٹ کی سفارش سے لیکن گورنر جنرل کے انتخاب سے مقرر ہونگے ان پر بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے- کانسٹی چیوشن کے متعلق جو مقدمات اس کورٹ میں پیش ہوں گے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں- ایک وہ جو حکومتوں کی طرف سے ہوں- یعنی صوبوں یا ریاستوں کی طرف سے (اگر ریاستیں فیڈریشن میں شامل ہوں-( دوسرے مقدمات قومی یا مذہبی اقلیتوں کی طرف سے- تیسرے افراد یا مجموعہ افراد یعنی کمپنیوں ٹرسٹوں وغیرہ کی طرف سے- جو مقدمات کہ حکومتوں یا
۴۲۹ قوموں کی طرف سے ہوں ان کے لئے شرط ہو کہ سات جج ان کا فیصلہ کریں- جن میں سے چار لازماً ان ججوں میں سے ہوں جنہیں پریوی کونسل کی سفارش پر تاج نے مقرر کیا ہو اور جو مقدمات افراد یا مجموعہ افراد کی طرف سے ہوں ان کے لئے تین جج کافی ہوں اور کوئی قید نہ ہو کہ وہ کس قسم کے ججوں میں سے ہوں- کانسٹی چیوشن میں یہ قانون بھی رکھ دیا جائے کہ اگر پندرہ سال کے بعد صوبہ جاتی کونسلوں میں سے اسی فیصدی کونسلیں حقیقی اکثریت کے ساتھ یہ قانون پاس کر دیں کہ آئندہ سپریم کورٹ کے جج پریوی کونسل کی طرف سے مقرر نہ ہوں بلکہ کسی اور طریق سے جس پر وہ متفق ہوں، مقرر ہوں تو ان کے اس ریزولیوشن کے مطابق عمل ہو- سپریم کورٹ کے پاس قانون اساسی کے متعلق کیس چلانے کا طریق میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ قانون اساسی کے متعلق مقدمات تین قسم کے ہو سکتے ہیں- جو افراد یا مجموعہ افراد کی طرف سے ہوں- جو جماعتوں یا قوموں کی طرف سے ہوں- یا جو حکومتوں کی طرف سے ہوں- ان تینوں قسم کے مقدمات میں سے دو قسم کے یعنی افراد کی طرف سے یا جماعتوں کی طرف سے جو مقدمات ہوں وہ پھر دو قسم کے ہو سکتے ہیں- یعنی جو صوبہ جاتی قانون اساسی کے متعلق ہوں یا جو اتحادی قانون اساسی کے متعلق ہوں- ان میں سے جو تو صوبہ جاتی قانون اساسی کے متعلق ہوں، وہ صوبہ جاتی ہائی کورٹوں میں پیش ہوں- اور جو اتحادی قانون اساسی کے متعلق ہوں وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں- سیاسی حقوق کے مقدمات کس طرح سپریم کورٹ میں جائیں؟ سائمن کمیشن نے لکھا ہے کہ اگر کورٹ کے ذمے مختلف قوموں کے حقوق کے تصفیہ کا سوال رکھا گیا تو مقدمات بہت بڑھ جائیں گے- گو تجربہ کے بعد ہی ایسی باتوں کا علم ہو سکتا ہے- لیکن کوئی حرج نہیں کہ اس کی روک کے لئے بھی کچھ قانون مقرر کر دیئے جائیں- میرا خیال ہے کہ مندرجہ ذیل قیود سے اس میں روک تھام ہو سکتی ہے- (۱) جب جھگڑا صوبہ جاتی حکومتوں یا ریاستوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ہو اور آپس میں سمجھوتہ نہ ہو سکے تب گورنر جنرل سے اپیل کی جائے جو دونوں فریق میں صلح کرانے
۴۳۰ کی کوشش کرے- لیکن اگر صلح نہ ہو سکے تو پھر دونوں فریق کو اجازت ہو کہ سپریم کورٹ میں اپنے حق کا فیصلہ کرائیں- (۲) اگر صوبہ جاتی حکومتوں کا آپس میں یا کسی ریاست سے (اگر ریاستیں فیڈریشن میں شامل ہوں) جھگڑا ہو تو پہلے گورنر جنرل ایک پنچایت کے ذریعہ سے جس میں ایک ایک نمائندہ فریقین کا ہو اور ایک گورنر جنرل کی طرف سے ہو فیصلہ کرنے کی کوشش کریں اگر اس طرح فیصلہ نہ ہو سکے تو پھر سپریم کورٹ میں جانے کی اجازت ہو- (۳) اگر کسی قوم یا مذہب کے افراد کو شکایت ہو کہ ان کے حقوق کو قانون اساسی کے خلاف نقصان پہنچایا گیا ہے تو اگر لیجسلیٹو کے خلاف انہیں شکایت ہو، تو وہ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے دو ہفتہ کے اندر صوبہ کے گورنر کے پاس یا بصورت اتحادی اسمبلی کا معاملہ ہونے کے گورنر جنرل کے پاس اپیل کریں- اگر گورنر یا گورنر جنرل سمجھے کہ لیجسلیٹو (LEGISLATIVE) نے فی الواقعہ اس جماعت کے قانون اساسی کے بتائے ہوئے حقوق کو توڑا ہے تو وہ اس قانون کو کونسل یا اسمبلی جس کا بھی معاملہ ہو اس کے پاس دوبارہ غور کرنے کے لئے بھیج دے- اگر گورنر جنرل یا گورنر کی تسلی کے مطابق اصلاح ہو جائے تو وہ اس پر دستخط کرے، ورنہ وہ اس قانون کی تصدیق کو التواء میں ڈال دے جب تک کہ دوسری کونسل یا اسمبلی کا انتخاب ہو- اس وقت اگر وہ اسمبلی یا کونسل جیسی بھی صورت ہو اس قانون کو دوبارہ پاس کر دے تو گورنر جنرل یا گورنر جیسی بھی صورت ہو اس قانون پر دستخط کر دے- اس کے بعد اگر اس فریق کو جسے اپنے حق کے نقصان پہنچنے کا خیال ہے ضرورت محسوس ہو، تو وہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جیسی بھی صورت ہو، اس میں جا کر اپیل کرے- اس طرح میرا خیال ہے کہ بہت سے قومی اور ملکی اختلافات سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے ہی طے ہو جایا کریں گے- اب سوال افراد یا جماعتوں کا رہ جاتا ہے- سو ان کی شکایات عام طور پر مالی ہوں گی یا اصولی انسانی حقوق کے متعلق ہوں گی- مالی مقدمات تو بہر حال چلتے ہی رہتے ہیں- انہیں محدود نہیں کیا جا سکتا اور اصولی انسانی حقوق کے جو سوال ہیں، وہ کثرت سے نہیں ہو سکتے شاذ و نادر ہوں گے- سو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ ایک ایسا حق ہے کہ جس کے متعلق مقدمات علم میں کچھ اضافہ کریں گے اور بحیثیت مجموعی ملک کو کچھ فائدہ ہی ہو گا- پس ان کے راستہ میں
۴۳۱ روک ڈالنے کی میرے نزدیک کوئی ضرورت نہیں- دوسرے ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس قسم کے مقدمات بہت کم ہوتے ہیں- گو اوپر کے مضمون کا بیشتر حصہ سنٹرل (CENTRAL) معاملات سے تعلق رکھتا تھا- لیکن اس خیال سے کہ عدالتوں پر ایک ہی جگہ بحث ہو جائے، میں نے دونوں حصوں کو اکٹھا ہی بیان کر دیا ہے اور اب آئندہ اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہ ہو گی-
۴۳۲ باب پنجم ملازمتیں سائمن کمیشن نے اپنی رپورٹ کی جلد دو کے نویں باب میں ملازمتوں کے مستقبل پر بحث کی ہے- گو اس نے اس باب کو مستقل جگہ دی ہے لیکن میں جوخیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں ان کی رو سے اس بحث کی جگہ صوبہ جاتی کونسلوں کے ماتحت ہی آتی ہے- کمیشن کی رپورٹ پر تمام منتقل شدہ محکموں کی بھرتی صوبہ جات کے سپرد کر دی گئی تھی سوائے طبی محکمہ کے کہ اس کی بھرتی کا ایک حصہ آل انڈیا بھرتی کے اصول پر قائم رکھا گیا تھا کیونکہ یہ کہا گیا تھا کہ جب تک انگریز اس ملک میں کام کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ان کا علاج کرنے کے لئے انگریز ڈاکٹر بھی رہیں اور دوسرے یہ خیال کیا گیا تھا کہ جنگ کے دنوں میں طبی محکمہ پر بہت کچھ دارو مدار ہوتا ہے اگر آئندہ کوئی جنگ ہو اور اس وقت کافی تعداد میں لائق ڈاکٹر نہ ملے تو جنگ کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا- پس ہر صوبہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ کچھ تعداد فوجی ڈاکٹروں کی ضرور ملازم رکھے- لیکن محفوظ محکمہ جات کی بھرتی بدستور آل انڈیا بھرتی کے اصول پر رکھی گئی تھی- یعنی ان محکموں کی بھرتی اب تک وزیر ہند کی وساطت سے کی جاتی ہے اور صوبہ کے لئے ان کی تعداد گورنمنٹ آف انڈیا صوبہ جات کے مشورہ سے مقرر کرتی ہے اور اس تعیین میں وہ اپنی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھتی ہے کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا کے محکموں کے لئے کوئی الگ بھرتی نہیں ہوتی- اس بھرتی کے طریق میں کئی فوائد سمجھے جاتے ہیں- ایک یہ کہ اس طرح ضرورت کے موقع پر ایک افسر کی خدمات بغیر اس کے حقوق وغیرہ کے جھگڑوں کے ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ کی طرف منتقل کی جا سکتی ہیں- دوسرے یہ کہ چھوٹے علاقوں کے لئے جو گورنروں کے
۴۳۳ صوبوں کے علاوہ ہیں الگ ملازم نہیں رکھے جا سکتے کیونکہ بوجہ صوبہ کی غربت کے انہیں ترقی دے کر اوپر نہیں لے جایا جا سکتا- پس ایسے صوبوں میں ضرورت کے مطابق بڑے صوبوں سے آدمی لے لئے جاتے ہیں اور جب ان کی ترقی کا وقت آتا ہے تو انہیں بدل کر ان کی جگہ اور افسر منگوا لئے جاتے ہیں- تیسرے یہ کہ گورنمنٹ آف انڈیا کو اپنے دفتروں میں اکثر تجربہ کار افسروں کی ضرورت رہتی ہے- اگر وہ اپنی الگ بھرتی کرے تو جب تک وہ اپنی ضرورت سے بہت زیادہ بھرتی نہ کرے اس وقت تک اس قدر تعداد اعلیٰ افسروں کی اسے نہیں مل سکتی جس قدر کہ اسے ضرورت ہوتی ہے- چوتھے اگر آل انڈیا بھرتی کے اصل پر ملازمتوں کا انتظام نہ ہو بلکہ صوبہ جات کی بھرتی الگ الگ ہو اور گورنمنٹ آف انڈیا کی الگ تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے افسروں کو صوبہ جات کی حالت کا کچھ علم نہ ہو گا اور وہ یگانگت جو مرکز اور صوبہ جات میں ہونی چاہئے، پیدا نہ ہو سکے گی- اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ضرورتیں جو اوپر مذکور ہوئی ہیں بہت اہم ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ باوجود ان ضرورتوں کے آل انڈیا بھرتی کو جاری رکھنا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا- اگر یہ درست ہے کہ آئندہ صوبہ جات کو آزادی دی جائے گی تو پھر یہ بھی لازمی ہے کہ تمام عہدوں کی بھرتی صوبہ جات کے ماتحت ہو- وہ آزادی کیسی جس میں عہدوں کی تعداد تک مقرر کر دی جائے- اس قسم کی اتحادی حکومت کو کوئی شخص اتحادی حکومت نہیں کہہ سکتا یہ تو کامل اتصالی حکومت ہو گی- جو ضرورتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے بعض کی تو آئندہ ضرورت ہی نہ رہے گی مثلاً صوبہ جات کی واقفیت کی آئندہ اس قدر ضرورت نہ رہے گی- کیونکہ مقامی ضرورتوں سے تعلق رکھنے والے امور مرکز سے علیحدہ کر کے پورے طور پر صوبہ جات کے اختیار میں آ جائیں گے- مرکز سے صرف انہی امور کا تعلق رہ جائے گا جن کا مقامی ضرورتوں سے کچھ تعلق نہیں ہو گا- باقی رہے چھوٹے علاقے ان کے متعلق میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان کا علیحدہ باقی رکھنا صوبہ جاتی آزادی کے راستہ میں روک ہو گا- چنانچہ زیر بحث سوال ہی اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا وجود صوبہ جات کی آزادی کے منافی ہے کیونکہ ملازمتوں کو صوبہ جات کے اختیار سے باہر رکھنے کی ایک وجہ ان علاقوں کی موجودگی بتائی جاتی ہے- پس بجائے اس کے کہ ان علاقوں کی وجہ سے صوبہ جات کی آزادی میں فرق لایا جائے کیوں نہ ان صوبوں کو ہی دوسرے صوبوں
۴۳۴ سے ملا دیا جائے- مگر میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ آف انڈیا آج ہی سے اپنے ملازم الگ بھرتی کرنے شروع کر دے- میرے نزدیک دونوں باتیں ممکن ہیں- یہ بھی کہ گورنمنٹ آف انڈیا اپنی ضرورتوں کے مطابق الگ بھرتی کرے اور یہ بھی کہ وہ صوبہ جات کی حکومتوں سے بطور قرض بعض افسران کی خدمات لے لیا کرے- دونوں صورتوں میں آل انڈیا اصول پر بھرتی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے صوبہ جات کے ساتھ ان کا کوئی ایسا سمجھوتہ ہو جائے جس سے وہ چند افسر اپنے کارکنوں کی تعداد میں زیادہ کر لیں- صوبہ جات پر اس سے کوئی بار نہیں پڑے گا کیونکہ اس قدر افسر گورنمنٹ آف انڈیا ان سے لے لیا کرے گی- لیکن بہر حال یہ عارضی انتظام ہو گا- صوبہ جات کی آزادی کی صورت میں ایک نہ ایک دن گورنمنٹ آف انڈیا کو اپنے عہدوں کے لئے الگ بھرتی کرنی پڑے گی اور اس کو ابھی سے مدنظر رکھ لینا چاہئے- ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور اس کے سب انتظام کو ایک دن میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا- منہ سے کامل آزادی کہہ دینا اور بات ہے اور عملاً اس قدر وسیع انتظام کو بغیر خرابی پیدا کرنے کے بدل دینا بالکل اور بات ہے- پس یہ تو لازمی بات ہے کہ ان سب تغیرات کا فیصلہ ابھی تو بطور پالیسی کے ہی ہو گا- عمل ان امور پر آہستگی اور تدریجی طور پر ہی کیا جا سکتا ہے- مثلاً جو افسر اس وقت ملازمت میں ہیں، ان کی ترقی کے راستوں کو بند نہیں کیا جا سکتا- پس ان کے لئے یہ حق تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ترقی کرتے کرتے گورنمنٹ آف انڈیا کے زیادہ تنخواہ والے عہدوں کو حاصل کریں- اسی طرح گورنمنٹ آف انڈیا بھی ایک دن میں اپنی ملازمتوں کا سلسلہ الگ نہیں کر سکتی- پس ایسے قواعد تجویز کرنے چاہئیں کہ موجودہ ملازمین کے حقوق بھی محفوظ رہیں اور آئندہ بھرتی دو طریق پر ہو- کچھ حصہ آل انڈیا اصول پر اور کچھ حصہ پراونشل اصول پر اور آہستہ آہستہ مثلاً دس سال میں صرف پراونشل اصول پر بھرتی رہ جائے- اسی طرح گورنمنٹ آف انڈیا بھی کچھ ملازم براہ راست بھرتی کرے کچھ صوبہ جات سے مستعار لیا کرے اور وہ بھی پندرہ بیس سال تک اپنے محکموں کو صوبہ جات سے بالکل آزاد کر لے- میں اس امر کی تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ تبدیلی کن مدارج کو طے کر کے ہو
۴۳۵ کیونکہ یہ کام صوبہ جاتی اور مرکزی حکومتوں کے باہم طے کرنے کا ہے- لیکن میں اس امر کے متعلق اپنی رائے بوضاحت ظاہر کرنی چاہتا ہوں کہ فیڈرل اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ جاتی ملازمتوں اور مرکزی ملازمتوں کا الگ کیا جانا ضروری ہے- ہاں اس امر سے کوئی نہیں روک سکتا کہ بغیر اس کے کہ ان دونوں قسم کی ملازمتوں کو ایک سمجھا جائے، کسی وقت کسی خاص افسر کی خدمات گورنمنٹ آف انڈیا کسی صوبہ سے مستعار لے لے کیونکہ کلی طور پر آزاد حکومتیں بھی دوسری حکومتوں سے بعض افسر اس طرح مستعار طور پر لے لیتی ہیں- میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہر صوبہ کی ملازمتوں کی بھرتی کو اسی صوبہ کے انتظام کے نیچے لانے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ بھرتی انگلستان میں نہ ہو کیونکہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے میرا یہ یقین ہے کہ ابھی کافی عرصہ تک انگریز افسروں کی ہندوستان کو ضرورت ہے- میرا مطلب صرف یہ ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے لئے سیکرٹری آف سٹیٹ (SECRETARY OF STATE) بھرتی نہ کیا کرے بلکہ جس قدر انگریز افسروں کی بھرتی ضروری سمجھی جائے، اس قدر بھرتی ہر اک صوبہ کا گورنر وزیر ہند کی معرفت یا ہندوستان کے ہائی کمشنر کی معرفت خاص اس صوبہ کے لئے کرے اور بھرتی شدہ افسر خاص اس صوبہ کے ملازم سمجھے جائیں- ہاں وہ صوبہ اسی طرح وزیر ہند کی معرفت ان کے حقوق ادا کرنے کا ذمہ وار ہو جس طرح اب حکومت ہند اس کی ذمہ وار ہوتی ہے اور چونکہ ان افسروں کی تسلی اور اطمینان پر صوبہ جات کی ترقی کا بہت کچھ دارو مدار ہوگا اس لئے میرے نزدیک اس امر کا پورا انتظام ہونا چاہئے کہ ان کی تنخواہوں اور درجوں کا معیار نہایت سختی کے ساتھ محفوظ رکھا جائے او راس تغیر سے انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے- اس باب سے تو اس کا چنداں تعلق نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس امر کو اور کسی جگہ پر بیان کرنے کا موقع نہیں ملے گا کہ اگر ہندوستان کو برطانوی امپائر (EMPIRE) کا حصہ رکھنا ہے (اور کم سے کم میں تو اسے ایسا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر اس سوال پر اختلاف ہو تو میں شدید ترین سیاسی اتحاد کو بھی اس کی تائید میں توڑنے کے لئے تیار ہوں) تو پھر انگریزی عنصر کا کسی نہ کسی صورت میں ایک لمبے عرصہ تک اس ملک میں قائم رکھنا ضروری ہے- اس وقت تک جو برطانوی نو آبادیات ہیں، وہ یا تو کلی طور پر انگریزی نسل سے آباد ہیں جیسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ یا پھر جزوی طور پر انگریزی نسل سے آباد ہیں- جیسے کینیڈا اور ساؤتھ افریقہ- اور
۴۳۶ ایسے ممالک باوجود دور ہونے کے بوجہ زبان کے اتحاد اور رشتہ داریوں کے تعلقات کے آسانی سے متحد رہ سکتے ہیں لیکن وہ ملک جو ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہو اور جس کی زبان بھی مختلف ہو، تہذیب بھی مختلف ہو، قومیت بھی مختلف ہو، مذہب بھی مختلف ہو، اس کی آزادی کے زمانہ میں اس میں برطانیہ سے وابستگی کا احساس پیدا کرانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ سامان رہے اور اس کا بہترین ذریعہ انگریزی عنصر کی موجودگی ہے- اگر یہ عنصر بھی اس آزادی کے شروع میں کمزور ہو گیا تو کبھی بھی ایک ایمپائر کے فرد ہونے کا وہ احساس ہندوستان میں پیدا نہیں ہو سکے گا جس کے بغیر مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کی آزادی آزادی نہیں بلکہ شدید ترین قید ثابت ہو گی- ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ رقابت کا سوال اسی وقت تک زیب دیتا ہے جب تک کہ خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ نے زور سے ہندوستان کو اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے لیکن جب برطانیہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ہندوستان کو نو آبادیوں والی آزادی دینے کے لئے تیار ہو جائے تو ہندوستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی قومیت کے نقطہ نگاہ کو بدل کر نہ صرف اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھیں بلکہ برطانوی دول متحدہ..........کا بھی ایک فرد سمجھیں اور جس طرح ایک قومیت کو عزیز سمجھیں، اسی طرح دوسری قومیت کو بھی عزیز سمجھیں- اور اس دن سے انگریز اپنے آپ کو ہندوستان میں ایک اجنبی کی حیثیت میں نہیں بلکہ ایک وطنی کی حیثیت میں محسوس کرے- مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جس کا اس جگہ پر بیان کرنا میں ہندوستان اور انگلستان دونوں کے ایک وفات یافتہ دوست کے ذکر خیر کے قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہوں- وہ باہمی دوست اس وقت اپنے وطن میں اپنے ملک کے دشمنوں میں اگر نہیں سمجھا جاتا تو دوستوں میں بھی نہیں خیال کیا جاتا- میری مراد اس سے مسٹرمانٹیگو MONTAGUE(.(MR )ہے- جب وہ ۱۹۱۷ء میں بطور وزیر ہند کے ہندوستان کی حالت کا مطالعہ کر کے آئندہ سیلف گورنمنٹ کی سکیم بنانے کے لئے آئے تو میں نے بھی ان سے ملاقات کی خواہش کی تھی- انہوں نے جس دن احمدیہ وفد کو اپنا ایڈریس پڑھنے کا موقع دیا اسی شام کو مجھے بھی ملاقات کا وقت دیا- جب میں ملنے کے لئے گیا تو مسٹر رابرٹ ROBERT(.MR (ممبر پارلیمنٹ جو ان کے ساتھ ہندوستان آئے تھے دروازہ پر آ کر مجھے اور
۴۳۷ میرے ہمراہی کو اندر لے گئے اور گفتگو کے وقت برابر ساتھ رہے- ممکن ہے آئندہ جو واقعہ میں بیان کرتا ہوں انہیں بھی یاد ہو- ملتے ہی مسٹرمانٹیگو نے مجھ سے پوچھا کہ جو ایڈریس آج احمدیہ جماعت کی طرف سے پڑھا گیا ہے وہ کس کا لکھا ہوا ہے- میں نے انہیں بتایا کہ وہ لکھا ہوا تو میرا ہے لیکن انگریزی ترجمہ دوسرے لوگوں نے کیا ہے- اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس ایڈریس کو سن کر احمدیہ سلسلہ سے اس قدر دلچسپی پیدا ہوئی کہ میں نے فارغ ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہِزایکسیلینسی وائسرائے کو (His Excellency Viceroy)کو لکھا کہ اگر ان کی لائبریری میں کوئی کتاب احمدیت کے بارہ میں ہے تو مجھے بھجوا دیں- چنانچہ انہوں نے ایک کتاب مجھے بھجوا دی- جو میں ابھی ابھی پڑھ رہا تھا اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ کتاب بھی مجھے دکھائی- میرا خیال ہے کہ وہ مسٹر والٹر WALTER(.(MR کی کتاب احمدیت تھی- اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے آپ کے سلسلہ کے متعلق باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک بات جو آپ کے ایڈریس میں مجھے غلط معلوم ہوئی ہے پہلے اس کا ذکر کر لوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایڈریس میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی ریلوں وغیرہ پر فارن کیپٹل لگا ہوا ہے- ایسا تو نہیں ہے ریلوں وغیرہ پر یا انگریزی سرمایہ ہے یا ہندوستانی- میں نے جواب دیا کہ انگریزی سرمایہ بھی تو اجنبی سرمایہ ہے- اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کم سے کم میں تو انگریزوں اور ہندوستانیوں کو ایک ہی سمجھتا ہوں اور ایک دوسرے کے مقابل میں اجنبی نہیں خیال کرتا- میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی آواز میں نہایت ملائمت اور گہرا سوز تھا- ان کی آواز اور ان کے چہرہ کی حالت کا جو میرے دل پر اثر ہوا وہ اس قدر گہرا ہے کہ آج تیرہ سال گذر جانے پر بھی وہ فراموش نہیں ہوا- اس وقت میرے عزیز چودھری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء جو احمدیہ جماعت کے ایک فرد ہیں اور اس وقت راؤنڈٹیبل کانفرنس کا نمائندہ مقرر ہو کر انگلستان گئے ہوئے ہیں، میرے ہمراہ تھے- تاکہ مسٹر مانٹیگو کے سامنے میری باتوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتے جائیں- ممکن ہے ان کے دل پر بھی اس کا اثر ہوا ہو- مگر میرے دل پر تو آج تک ان کی اس بات کا اثر ہے اور جب کبھی میں انگریزی اخبارات میں انگریزوں کے قلم سے نکلا ہوا یہ فقرہ دیکھتا ہوں کہ ‘’مسٹر مانٹیگو جن کی کوئی قومیت بھی نہ تھی’‘- انہوں نے ہندوستان کے متعلق سب خرابی پیدا کی ہے تو مجھے فورا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں حیران ہو جاتا ہوں کہ انسانی علم کس قدر ناقص ہے- وہ شخص جس نے مذکورہ بالا فقرہ میں اپنے دل کی
۴۳۸ گہرائیوں کو میرے لئے روشن کر دیا- جو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ ہندوستانی انگریزوں کو اجنبی سمجھیں بلکہ چاہتا تھا کہ دونوں قوموں کو محبت کی مضبوط رسی سے اس طرح باندھ دیا جائے کہ وہ پیوندی درخت کی طرح ایک ہی درخت بن جائیں اسے انگریزی قوم کا دشمن قرار دیا جاتا ہے- بے شک بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زمانہ کے لوگ ان کی قدر نہیں کرتے بعد میں آنے والے لوگ ان کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اسی قسم کے لوگوں میں سے مسٹر مانٹیگو تھے- ایک وقت وہ تھا کہ ہندوستانی خیال کرتے تھے کہ انہوں نے ہندوستانیوں کو دھوکا دیا ہے- پھر انگریزوں میں سے بہتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے فوائد کو قربان کر دیا ہے لیکن اب بہت سے ہندوستانی اپنی غلطی کو جان چکے ہیں اور بہت سے انگریز آئندہ جان لیں گے- بہر حال اس واقعہ کے بیان کرنے سے میرا مطلب یہ تھا کہ اگر برطانوی نظام کی واقعہ میں کوئی قیمت ہے اور ہندوستان اس میں پرویا جانا چاہتا ہے تو ہمیں اس کے افراد کے اندر وہی احساس پیدا کرنا چاہئے جس کا اظہار مسٹر مانٹیگو نے میرے سامنے کیا- تب اور صرف تب ان مختلف المقام اقوام کے اتحاد کی اصل غرض پوری ہو سکتی ہے- جس کا نصب العین صرف چند اقوام کو جمع کرنا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کو محدود دائروں سے نکال کر انسانیت کے وسیع دائرہ میں لا کر کھڑا کرنا ہے- میں یہ نہیں کہتا کہ ہر انگریز اس حقیقت کو سمجھتا ہے نہ یہ کہتا ہوں کہ کوئی انگریر بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھتا- میں تو صرف قدرت کے اشارہ کی تشریح کرتا ہوں- دل خواہ منزل مقصود کی تڑپ سے خالی ہوں، دماغ خواہ اس کے خیال سے ناواقف ہوں، مگر ایک زبردست طاقت قدموں کو ادھر کی طرف اٹھا رہی ہے- ان باہمت لوگوں کا جو قدرت کے اشاروں کو سمجھتے ہیں کام ہے کہ اس بے مقصد بہنے والے پانی کی رو کو حدوں میں لا کر ایک آبشار کی صورت میں بدل دیں اور اس کی غیر محدود طاقت کو دنیا کے فائدہ کے لئے استعمال کریں- اے کاش! میری بات کو کوئی سمجھنے والا ہو- شاید بعض لوگ خیال کریں کہ میں اپنے مضمون سے باہر چلا گیا ہوں لیکن میں اپنے مضمون سے باہر نہیں گیا- گو ممکن ہے بعض لوگ میرے ساتھ نہ مل سکے ہوں میرا مطلب یہ تھا کہ اگر کسی ا مپائر کا حقیقی طور پر ہم کو حصہ بننا ہے تو ہمیں قومیت کے متعلق بھی اپنے نقطہ نگاہ کو بدل دینا چاہئے اور جب تک نئے حالات ظاہر ہو کر اتحاد کی نئی صورتیں پیدا نہ کر دیں، اس
۴۳۹ وقت تک کسی نہ کسی صورت میں انگریزوں کی ایک تعداد کو اس ملک میں اپنا شریک کار رکھنا چاہئے- یہ سمجھتے ہوئے نہیں کہ وہ انگریز ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ہماری نئی قومیت کے افراد ہیں- ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ تمام قومی بندھنوں کو توڑ دینے کے لئے بیتاب اسلامی روح کا ایک مظاہرہ ہے اور اس وجہ سے حب وطن کے جذبات سے سرشار لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا- ایسے لوگ جو چاہیں سمجھ لیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے، وہی راہ ہندوستان کی ترقی کی ہے- اسے نظر انداز کر کے دیکھ لو کہ ہندوستانی قومیت بھی کبھی پیدا نہیں ہو گی-
۴۴۰ باب ششم مرکزی حکومت صوبہ جاتی حکومتوں، عدالتوں اور ملازمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب میں مرکزی حکومت کو لیتا ہوں- گو مرکزی حکومت خواہ اتصالی طرز کی ہو یا اتحادی طرز کی اجزاء کی حکومت سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اس کی اہمیت صرف ملک کے قانون اساسی سے دوسرے درجہ پر ہوتی ہے- لیکن چونکہ اکثر مطالب جو صوبہ جات اور مرکز کے درمیان میں مشترک تھے بیان ہو چکے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب میرا کام بہت ہلکا ہو گیا ہے- کیونکہ بہت سے مطالب کی نسبت اب مجھے کچھ لکھنا نہیں پڑے گا صرف اشارہ کرنا کافی ہو گا- سائمن رپورٹ نے فیڈرل اصول کو تسلیم کرنے کے بعد اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل طریق اتحادی حکومتوں کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے مختلف حِصص مل کر ملک کے لئے ایک قانون اساسی تجویز کرتے ہیں کیونکہ اتحادی حکومت کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے حصوں نے مرکز کو قائم کیا ہے- پس جب تک ہندوستان کے صوبہ جات میں آزاد حکومت قائم نہ ہو جائے اس وقت تک مرکزی حکومت کا صحیح نظام قائم نہیں ہو سکتا- وہ لکھتے ہیں- ‘’یہ خیال کہ ہندوستان ترقی کر کے فیڈریشن کے اصول پر حکومت خود اختیاری حاصل کرے گا- اس سوال پر کئی لحاظ سے اہم اثر رکھتا ہے کہ مرکزی حکومت میں اس وقت کس حد تک تبدیلی کی جا سکتی ہے ہم اس بات کی طرف اوپر اشارہ کر چکے ہیں کہ صوبہ جات کی موجودہ حدود پر مزید غور ہونا چاہئے اور ہم اس امید کا بھی اظہار کر چکے ہیں کہ آئندہ کسی وقت ایسی ریاستیں بھی ہندوستانی فیڈریشن کا حصہ بن جائیں گی- اندریں حالات ہمارے سامنے یہ صورت درپیش ہے کہ ہم ایسے حصوں کو فیڈریشن کے اصول پر متحد کرنا چاہتے ہیں جن میں سے بعض
۴۴۱ نے تو ابھی تک اپنی آخری صورت اختیار نہیں کی اور بعض نے ابھی تک اس اتحاد میں شمولیت کی رضامندی کا اظہار نہیں کیا- اگر ہم ایسی ریاستوں کو نظر انداز بھی کر دیں اور صوبہ جات کو بھی ان کی موجودہ شکل و صورت میں لے لیں- تب بھی ابھی تک وہ حالات جو فیڈریشن کے مکمل قیام کے لئے ضروری ہیں ہندوستان میں میسر نہیں ہیں کیونکہ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے صوبہ جات مستقل خود اختیاری حکومت حاصل کریں’‘- ۶۳؎ جہاں تک اصول کا تعلق ہے یہ امر بالکل درست اور صحیح ہے- اگر ہم اس لہر کو تسلیم کر لیں کہ ہندوستان میں اتحادی طرز کی حکومت ہو گی تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرکزی حکومت کا فیصلہ صوبہ جات کے اختیار میں ہونا چاہئے اور بجائے اس کے کہ ہم مرکزی حکومت کا ڈھانچہ بنائیں ہمیں اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب کہ صوبہ جات کی آزادی مکمل ہو جائے اور وہ مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ مرکزی حکومت کی کیا شکل ہو، اور اس کے کیا اختیارات ہوں، اور اس کا تعلق اس کے آزاد حصص سے کیا ہو- لیکن اگر ہم اس امر کو دیکھیں کہ ہندوستان میں اتحادی حکومت ان اصول پر طے ہی نہیں ہو رہی جن کی بناء پر اتحادیحکومتیں قائم ہوا کرتی ہیں تو پھر سائمن کمیشن کا بتایا ہوا اصل کچھ ایسا وزن دار نہیں رہتا- کیونکہ اگر اس عام طریق کو لیں جو اتحادی حکومتوں کے قیام کے لئے ہے تو پہلے ہمیں ہندوستان کی حکومت کو توڑ دینا چاہئے اور الگ الگ آزاد صوبے قائم کرنے چاہئیں جن کا کسی مرکز سے تعلق نہ ہو- پھر جب ان کی آزادی مکمل ہو جائے تو پھر انہیں باہم اکٹھا کرنا چاہئے اور ان سے مشورہ کروانا چاہئے کہ وہ کن اصول پر آپس میں ملنا چاہتے ہیں اور پھر جو سکیم وہ مقرر کریں اس کے مطابق ازسر نو ایک سکیم حکومت ہند کی تیار کر کے اس کے ماتحت ایک مرکزی حکومت قائم کرنی چاہئے- پھر ساتھ ہی اس احتمال کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ شاید صوبہ جات جب ملیں تو وہ یہی فیصلہ کریں کہ ہم الگ الگ ہی رہنا چاہتے ہیں- ہمیں کسی مرکزی حکومت کی ضرورت ہی نہیں لیکن کیا کوئی عقل مند خیال کر سکتا ہے کہ یہ طریق معقول ہو گا اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ پیدا ہو گا؟ ہم سائمن رپورٹ کے لکھنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا اب انہوں نے صوبوں کو جو اختیار دیئے ہیں وہ وہی ہیں جو ہر آزاد حکومت کو حاصل ہوتے ہیں- یا انہوں نے نہایت محدود
۴۴۲ اختیارات جو یونائیٹڈسٹیٹس کی ریاستوں سے بھی کم ہیں انہیں دیئے ہیں- پھر وہ بقیہ اختیارات جو ہر حکومت کے قبضہ میں ہوتے ہیں انہوں نے کس غرض کے لئے علیحدہ رکھے ہیں- کیا اسی لئے نہیں کہ وہ مرکز کے پاس رہیں گے- پس اس طرح کیا انہوں نے نادانستہ طور پر ایک کانسٹیچیوشن (CONSTITIUTION) تیار نہیں کر دی- وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عارضی انتظام ہے- کیونکہ ان کی سکیم میں ایسی کوئی تجویز نظر نہیں آتی کہ کسی وقت صوبہ جات الگ الگ ٹیکس لگا سکیں گے- یا ڈاک خانے نکال سکیں گے یا ریلیں جاری کر سکیں گے بلکہ جو کچھ صوبہ جات کے پاس اس وقت ہے اس میں سے بھی کچھ حصہ انہوں نے لے لیا ہے جیسے ہائیکورٹوں کا انتظام وغیرہ- پس آئندہ دس بیس سال کے بعد جب بھی ان کی سکیم کے مطابق صوبہ جات مشورہ کے لئے اکٹھے ہوں گے تو وہ کیا کریں گے- کیا وہ اپنے موجودہ اختیارات میں سے مرکز کو کچھ دیں گے ہرگز نہیں، وہ تو پہلے ہی نہایت محدود ہیں- یا کیا وہ اس لئے اکٹھے ہوں گے کہ مرکز کے اختیارات میں سے کچھ خود لے لیں- اگر یہ صورت مدنظر ہے تو کیوں ابھی سے ان چیزوں کو صوبہ جات کے حوالے نہیں کر دیا جاتا کیونکہ اتحادی اصول کے ماتحت تو تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوتے ہیں- یا کیا وہ صرف موجودہ حالات کی تصدیق ہی کریں گے- اگر یہ امر ہے تو پھر کانسٹی چیوشن کا تو فیصلہ ہو چکا بعد میں صوبہ جات نے اکٹھے ہو کر کیا کرنا ہے- غرض گو عام حالات میں اسی طرح عمل ہوتا ہے جس طرح سائمن کمیشن نے لکھا ہے لکین چونکہ ہندوستان میں ایک پہلے سے قائم شدہ حکومت کو بغیر توڑنے کے ایک نئی شکل دینی ہے اس لئے کوئی اعتراض کی بات نہیں اگر ایک ہی وقت میں دونوں حصوں کے لئے سکیم تیار کی جائے بلکہ ہندوستان کے حالات کے لحاظ سے یہ امر ضروری ہے- کیونکہ اگر بغیر سکیم تیار کرنے کے اس وقت مرکز کو چھوڑ دیا گیا تو صوبہ جات تو یہ خیال کرتے رہیں گے کہ یہ انتظام عارضی ہے اور اسی وقت تک ہے جب تک کہ گورنر جنرل کے ہاتھ میں اختیارات ہیں اور ادھر اسمبلی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ کر سب اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لے گی اور اس وقت نہ برطانیہ صوبہ جات کا ساتھ دے سکے گا اور نہ صوبہ جات ہی میں طاقت ہو گی کہ مرکزی حکومت سے اختیارات تقسیم کرا سکیں- نتیجہ یہ ہو گا کہ لاعلمی میں ہی اتحادی حکومت اتصالی کی شکل اختیار کرے گی اور زیادہ سے زیادہ اس کی شکل ساؤتھ افریقہ (SOUTH AFRICA) کی حکومت کی طرح کی ہو جائے گی- جسے مسلمان اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ہندوستان میں بسنے
۴۴۳ والے انگریز بھی کسی صورت میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں- پس مرکزی کانسٹی چیوشن کا اسی وقت فیصلہ ہو جانا چاہئے- تاکہ اقلیتیں اطمینان سے بیٹھ سکیں اور ان کا یہ خطرہ جاتا رہے کہ کل کو مرکزی حکومت کے تصفیہ کے وقت کہیں پھر ان کے حقوق تلف کرنے کی کوشش نہ کی جائے- لیکن جہاں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہندوستان کے قانون اساسی کو آئندہ وقت کیلئے ملتوی نہ کیا جائے وہاں ایک اور امر کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں صوبہ جات اور مرکز کو آزاد حکومت ملنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر اک اپنی اپنی جگہ انتظام کی درستی میں مشغول ہو جائے گا اور نہ مرکزی حکومت دیکھ سکے گی کہ صوبہ جات اس کی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں- اور نہ صوبہ جات اس امر کی نگرانی کر سکیں گے کہ مرکز کہیں ان کے اختیارات کو تو غصب نہیں کر رہا- نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک دن یا تو مرکز یہ معلوم کر کے حیران رہ جائے گا کہ اس کی سب طاقتیں صوبہ جات چھین کر واپس لے گئے ہیں- یا صوبہ جات یہ معلوم کر کے حیران رہ جائیں گے کہ جس حکومت کا قیام ان کے مدنظر تھا اس کی جگہ ایک ایسی مرکزی حکومت قائم ہو گئی ہے جس نے ان کے سب اختیارات چھین لئے ہیں- ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ صرف قانون کے الفاظ کام نہیں دیتے جب تک ساتھ استعمال کی تشریح بھی موجود نہ ہو- پس یہ امر نہایت ضروری ہے کہ جو قانون بنے ابتداء میں اس کے عمل درآمد کی نہایت ہوشیاری سے نگرانی کی جائے ورنہ قانون کے لفظ تو رہ جائیں گے لیکن مفہوم غائب ہو جائے گا- مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کا انکار نہیں کر سکتا کہ ان حالات میں گو فیڈرل قانون اساسی تو اسی وقت تیار ہو جانا چاہئے لیکن اس پر عمل فوراً نہیں شروع ہونا چاہئے اور اتحادی طریق حکومت کے خواہشمندوں کو چاہئے کہ عارضی جوش کے ماتحت اس تجویز کو نظر انداز کر کے اپنے مقصود کو خطرہ میں نہ ڈالیں- انہیں لازم ہے کہ پہلے صوبہ جاتی نظام کو مکمل کریں اور مرکزی حکومت کے ڈھانچے کو مکمل کر کے اس پر عمل کو چند سالوں کے لئے ملتوی کر دیں جب صوبہ جاتی حکومتیں اپنا کام کرنے لگیں اور چند سال تک انہیں کام کا موقع مل جائے تب مرکزی حکومت کو آہستگی سے اختیارات ملنے شروع ہوں- میری تحریر کا یہ مقصد نہیں کہ مرکز کے متعلق جو کچھ سائمن کمیشن نے لکھا ہے اسے پوری طرح ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے- یا یہ کہ موجودہ نظام حکومت کو ہی اس وقت تک قائم
۴۴۴ رکھنا چاہئے- کیونکہ جس طرح یہ بات اصول کے خلاف ہے کہ اتحادی حکومت کی تکمیل صوبہجات کی آزادی سے پہلے کی جائے اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ صوبہ جات اس وقت تک آزاد ہو سکیں جب تک ان کے لئے آزادی کا ماحول پیدا نہ ہو- اگر ایک ایسی گورنمنٹ مرکزی موجود ہو جس کو آئندہ فیڈرل حکومت سے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو اور اگر کوئی ایسا مقررہ راستہ نہ ہو جس پر چل کر آئندہ فیڈرل انتظام کو مکمل کیا جا سکے تو یقیناً اتحادی حکومت کا قیام ہندوستان کے لئے ناممکن ہو جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ صوبہ جاتی آزادی بھی خطرہ میں پڑ جائے- پس یہ نہایت ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کو ایسے اصول پر قائم کیا جائے کہ اس کے ماتحت صوبہ جاتی حکومت کو آزادی کے حصول کا کافی موقع ہو اور اتحادی حکومت کی اس طرح داغ بیل ڈال دی جائے کہ آئندہ نظام بغیر کسی مشکل کے خود بخود مکمل ہوتا چلا جائے- (۱) ہندوستان کی درجہ نو آبادی والی حکومت اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے کہ اتحادی اصول پر حکومت کی بنیاد بھی قائم ہو جائے اور یہ خطرہ بھی نہ رہے کہ آئندہ ہندوستان کی آزادی کی تکمیل یا اس کی حکومت کی تشکیل میں کوئی دقت پیدا ہو میرے نزدیک یہ تجویز بہترین ہوگی کہ ہندوستان کو نو آبادیات کا درجہ ملنے کا فیصلہ تو ابھی ہو جائے اور آئندہ کیلئے فیڈریشن (FEDERATION) کا ڈھانچہ بھی تیار ہو جائے لیکن بعض تفصیلی امور جن کے اس وقت طے ہونے یا نہ ہونے کو فیڈریشن پر کچھ اثر نہیں پڑتا ان کی جگہ ایک عارضی ڈھانچہ حکومت کا تیار کر لیا جائے جو موجودہ ضروریات کو پورا کرنے والا ہو- پھر جوں جوں صوبے اپنے اندرونی انتظامات کو مکمل کرتے چلے جائیں فیڈریشن کے طے شدہ اصول کے ماتحت مرکزی حکومت کو زائد اختیارات ملتے جائیں- اس طریق سے ہندوستان میں اصولی طور پر تو اتحادی حکومت شروع سے ہی قائم ہو جائے گی اور عملی طور پر آہستہ آہستہ اس کا نفاذ ہوگا- مندرجہ بالا غرض کو پورا کرنے کیلئے میرے نزدیک یہ طریق اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جو مسودہ بھی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے مشورہ کے بعد پارلیمنٹ میں پیش ہو اس میں صاف طور پر درج کر دیا جائے کہ اس قانون کے پاس ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان کو قانوناً نو آبادیوں والی حکومت خود اختیاری حاصل ہو جائے گی اور صرف عملی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اس کا نفاذ
۴۴۵ ان شرائط کے ساتھ جو ذیل میں بیان کی جاتی ہیں بتدریج ہوگا- اس کے بعد ان حفاظتی تدابیر اور موقت قیود کو بیان کر دیا جائے جو درمیانی عرصہ کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پہلے صوبہ جاتی نظام مکمل ہو جائے تو پھر مرکز کو مکمل کیا جائے ضروری سمجھی جائیں- غرض اس وقت بوضاحت یہ امر بیان کر دیا جائے کہ ہندوستان کو اصولی طور پر درجہ نوآبادیات دے دیا گیا ہے گو حفاظتی تدابیر بھی ساتھ ہی بیان کر دی جائیں اور اسی طرح آئندہ نظام حکومت کی ترقی کی صورتیں بھی بتا دی جائیں- یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ جب نہ مرکزی حکومت کا نظام مکمل ہوا ہو اور نہ صوبہ جات کو ہی مکمل آزادی ملی ہو تو پھر اس قسم کے اعلان سے کیا فائدہ؟ کیونکہ کسی چیز کا بطور اصول کے مل جانا اس کے عملی حصول میں بہت کچھ ممد ہوتا ہے- ایک شخص اگر کسی سے وعدہ کرے کہ میں تجھے کچھ مال دوں گا- اس کی جائیداد میں اور اس یتیم کی جائیداد میں جس کی طرف سے دوسرے لوگ انتظام کر رہے ہوں بہت کچھ فرق ہوتا ہے- انتظام کے لحاظ سے تو دونوں برابر ہونگے- وہ بھی جس کے پاس کچھ نہیں اور کسی نے اسے کچھ جائیداد دینے کا وعدہ کیا ہے اور صاحب جائیداد یتیم بھی لیکن حقیقت میں دونوں میں بہت فرق ہوگا- اول الذکر ایک جائیداد کا وعدہ ہو جانے سے صاحب جائیداد نہیں کہلا سکتا اور ثانی الذکر صاحب جائیداد کہلاتا ہے- اگر یہ اعلان نہ کیا جائے کہ ہندوستان کو درجہ نو آبادیات دے دیا گیا ہے تو خواہ کس قدر اختیارات بھی ہندوستان کو مل جائیں پھر بھی اس کے لئے امید و بیم کی حالت باقی رہے گی لیکن اگر یہ اعلان ہو جائے تو خواہ اختیارات محدود ہی ہوں آزادی کی جنگ ختم ہو جائے گی اور صرف اندرونی انتظام کی مہم اس کے لئے باقی رہ جائے گی- دونوں حالتوں میں ایک موٹا فرق جسے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ اس اعلان کے بعد ہندوستان کا تعلق پارلیمنٹ سے اسی طرح ختم ہو جائے گا جس طرح کہ دوسری نوآبادیوں کا- اور جو مراحل بھی عملی آزادی کے اس کو طے کرنے ہونگے ان کا طے کرنا ان ہدایات کے ماتحت جو اس اعلان کے ساتھ ہی دے دی جائیں گی صرف اس کا اپنا کام ہوگا یا پھر بعض امور کا تصفیہ ہندوستان کی حکومت تنفیذی اور انگلستان کی وزارت کے درمیان رہ جائے گا اور آئندہ نہ پارلیمنٹ کے کسی اور قانون کی ضرورت رہے گی اور نہ کسی شاہی کمیشن
۴۴۶ کی- خلاصہ یہ کہ فیڈرل اصول کے ماتحت ہندوستان کی مرکزی حکومت کا ڈھانچہ اسی وقت تیار ہو جانا چاہئے اور ہندوستان کو درجہ نو آبادیات کے ملنے کا اسی وقت اعلان ہو جانا چاہئے- اس سے ایک تو ہندوستان کی بے چینی دور ہو جائے گی اور دوسرے اقلیتوں کو اطمینان ہو جائے گا- مذکورہ بالا فرق کے علاوہ قانونی لحاظ سے بھی ہندوستان کے درجہ میں مندرجہ ذیل فرق پیدا ہو جائے گا- (۱) برطانوی پارلیمنٹ قانونی طور پر اس کا فیصلہ کر دے گی کہ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت کلی طور پر آزاد ہے- (۲) صوبہ جات کی عملی آزادی کو تسلیم کر لیا جائے گا- (۳) آئندہ نظام حکومت کے فیصلہ کا حق برطانیہ سے منتقل ہو کر ہندوستان کے صوبوں کو حاصل ہو جائے گا جس سے گویا عملاً بھی ہندوستان کو آزادی حاصل ہو جائے گی- (۴) حقیقی آزادی کی جدوجہد جو اصل میں ملک کے انتظام کی اندرونی درستی کا ہی نام ہے بے خدشہ ہو جائے گی- کسی دوسری طاقت کے اس میں دخل انداز ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہے گا- (۵) ہندوستان کے نمائندے بطور ذاتی حق کے برطانوی ایمپائر کی کانفرنسوں میں شامل ہو سکیں گے- (۶) ہندوستان کا تعلق بجائے پارلیمنٹ کے وزارت کے توسط سے ملک معظم سے ہوگا- (۷) گورنروں کا عہدہ یا گورنر جنرل کا عہدہ سب کے سب آئینی ہو جائیں گے- (۸) چونکہ ہندوستان کی آزادی کی ترقی کا فیصلہ کسی اور طاقت کے ہاتھ میں نہیں رہے گا بلکہ ایک آئین کے ماتحت فی ذاتہ اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی اس لئے کسی افسر کو خواہ انگریز ہو خواہ ہندوستانی ہو اس کے راستہ میں روکیں پیدا کرنے کی جرات نہیں ہوگی اور سب کے سب مجبور ہوں گے کہ طوعا یا کرھا مقررہ راہ کی طرف قدم اٹھاتے چلے جائیں- (۹) گورنر جنرل آئندہ وزارت کا قائم مقام نہیں سمجھا جایا کرے گا بلکہ بادشاہ کا اور جب تک وزارت کونسلوں کے آگے جوابدہ نہیں ہوتی اس وقت تک وہ ایگزیکٹو
۴۴۷ (EXECUTIVE) کا سردار ہونے کی حیثیت سے وزیر ہند سے جو خط و کتاب کرے گا وہ اس کا نائب ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہندوستان کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کرے گا- غرض گو اس وقت درجہ نو آبادی دینے کا عملی نتیجہ یہ نکلے کہ فوراً ہی ہندوستان بہرجہت وہ آزادی حاصل کر لے جو ملک معظم کے ماتحت دوسری نو آبادیوں کو حاصل ہے لیکن بعض اصولی اور اہم فوائد اس سے حاصل ہونگے اور آئندہ کے لئے آخری مقام تک پہنچنے کے لئے کوئی روک باقی نہ رہے گی- (۲) قانونِ اَساسی اس فیصلہ کے ساتھ ہی کہ ہندوستان کو آئندہ سے درجہ نو آبادیات حاصل ہے اس قانون کا بھی جو ہندوستان کی اتحادی حکومت کے لئے بمنزلہ اساس رہے گا فیصلہ کر دینا چاہئے- یہ کہنا کہ ہمارا کیا ہوا فیصلہ ہمیشہ کے لئے ملک کو پابند کیونکر کر سکتا ہے درست نہیں- کیونکہ سب دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت کچھ لوگ مل کر ایک فیصلہ کر دیتے ہیں اور آئندہ کے لئے وہ قانون اساسی بن جاتا ہے- امریکہ کا قانون اساسی بھی چند ایسے لوگوں نے بنایا تھا جو ان معنوں میں ملک کے صحیح نمائندے نہیں کہلا سکتے تھے کہ ملک نے انہیں کثرت رائے سے اس غرض کے لئے منتخب کیا تھا لیکن ان کا بنایا ہوا قانون اساسی اب تک کام دے رہا ہے بلکہ آج تک امریکن قوم اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گو وہ لوگ اپنے زمانہ کے لوگوں کے بھی نمائندے نہ تھے لیکن انہوں نے قانون اساسی بناتے ہوئے دیانتداری سے اپنے ملک کی ضرورتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا قانون بنا دیا جس سے وہ ضرورتیں پوری ہو سکتی تھیں- پس گو وہ لوگ ووٹوں کے ذریعہ سے نمائندے نہ تھے لیکن خیالات کی ترجمانی کے لحاظ سے وہ نمائندے بن گئے- دوسری بات یہ ہے کہ قانون اساسی گو ہمیشہ کے لئے ملک کو پابند کر دیتا ہے لیکن اس کی تبدیلی کی گنجائش بھی اس میں موجود ہوتی ہے- پس اگر اس میں کوئی سخت نقص ہو گیا ہو تو ملک کے لوگ اس کی اصلاح کرنے پر ہر وقت قادر ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ ملک کے لئے مضر نہیں ہو سکتا- ہاں فائدہ اس سے بے شک پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس کے بننے سے ایک ایسی شاہراہ تیار ہو جاتی ہے جسے ملک کے لوگ اپنے سامنے رکھ کر بغیر پریشانی کے آگے کی طرف قدم اٹھا
۴۴۸ سکتے ہیں- تمام دنیا کا یہ تجربہ ہے کہ ناقص پروگرام، پروگرام کے بالکل نہ ہونے سے بہرحال اچھا رہتا ہے- پس ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ آج ہی ہندوستان کے لئے ایک قانون اساسی تیار ہو جائے- ہندوستان کے قانون اساسی کے متعلق میں اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں تفصیل کے ساتھ لکھ آیا ہوں اس لئے اب مجھے ان بحثوں میں دوبارہ پڑنے کی ضرورت نہیں- اس جگہ میں صرف ان امور کو بالاختصار بیان کر دیتا ہوں جن کا ذکر ہندوستان کے قانون اساسی میں ضرور ہونا چاہئے- (۱) اصول حکومت مکمل اتحادی ہو یعنی صوبہ جات کے ہاتھ میں سب اختیار رہیں سوائے ان اختیارات کے جو وضاحتا مرکزی حکومت کو دیئے گئے ہوں اور وہ اختیارات انہی امور کے متعلق ہوں جن کا اثر کل ہندوستان پر پڑتا ہے- (۲) مجالس واضع قوانین دو ہوں- لیکن یہ نہیں کہ دونوں مجلسیں ایک ہی کام کرنے والی ہوں بلکہ دوسری مجلس ایسے رنگ کی ہو کہ اس قسم کی مجلسوں کی جو غرض ہوتی ہے اس سے پوری ہو یعنی ایک مجلس افراد کی نمائندہ ہو اور دوسری علاقوں کی- (۳) اس میں مرکز کے لئے بھی اور صوبہ جات کی حکومت کے لئے بھی یہ شرط رکھی جائے کہ وہ مذہب پر عمل یا اس کی تبلیغ یا تعلیم یا مذہب بدلنے پر کسی قسم کی قید نہیں لگائیں گے- (۴) کسی قوم کی زبان یا اس کی تہذیب یا اس کی خوراک پر کسی قسم کی حد بندی نہیں کی جائے گی- (۵) مختلف صوبوں کے ساتھ سلوک میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا نہ مختلف افراد اور اقوام میں کوئی فرق کیا جائے گا- (۶) وہ مذاہب جن میں ایک معین اہلی قانون ہے اس میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی سوائے اس کے کہ اس مذہب کے لوگ خود اپنے مذہب کی فقہ کو اس سوال کے متعلق قانون کے ماتحت لانا چاہیں- (۷) ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں کو حتی الامکان ان کی تعداد کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دینے کی کوشش کی جائے گی اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا جس میں کسی قوم یا مذہب کے افراد کو جو ہندوستان کے باشندے ہوں کسی ملازمت یا
۴۴۹ فائدہ کے کام سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ہو- (۸) کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا جس کی غرض بعض افراد یا جماعتوں کو امتیازی طور پر فائدہ پہنچانا یا بعض افراد یا جماعتوں کو خاص طور پر نقصان پہنچانا ہو- (۹) جُداگانہ انتخاب کو پچیس سال تک منسوخ نہ کیا جائے گا سوائے اس صورت کے کہ جو قوم اس سے فائدہ اٹھا رہی ہو اس کے ۸۰ فیصدی منتخب ممبر اسے ترک کرنے کی درخواست کریں لیکن یہ ضروری ہوگا کہ جس مجلس کے انتخاب میں جداگانہ انتخاب اڑانے کی درخواست ہو اس مجلس کے اسی فیصدی ممبروں کی درخواست ہو- (۱۰) اتحادی حکومت کے جو حﷺ پہلی دفعہ مقرر ہو جائیں ان کے توڑنے یا ایک کو دوسرے سے ملانے کا اس حصہ کی مرضی کے سوا جس کا توڑا جانا ان حصوں کی مرضی کے سوا جن کو ملانا مقصود ہو کسی کو حق نہ ہوگا- (۱۱) اگر سندھ (SIND( نارتھ ویسٹرن(NORTHWESTERN) فرنٹیئر پراونس (FRONTIERPROVINCE) اور بلوچستان کو نیا نظام جاری ہونے سے پہلے صوبہ جاتی آزادی نہ ملے تو یہ بھی قانون اساسی میں درج ہونا چاہئے کہ پہلے پانچ سال کے اندر اندر ان صوبوں کو دوسرے صوبوں کی طرح خود اختیاری حکومت مل جائے گی اور یہ کہ اگر پانچ سال کے اندر مرکزی حکومت اس کا انتظام نہ کرے تو اس کا کوئی قانون اس وقت تک کہ وہ اس غرض کو پورا کرے جائز قانون نہ کہلا سکے گا کیونکہ اس کے وہ حﷺ جنہوں نے اسے اختیار دیئے ہیں رائے دینے میں آزاد نہ ہونگے- (۱۲(مافراد کے حقوق کی فہرست دے دی جائے کہ ان میں حکومت کو دخل دینے کا حق نہ ہوگا- مثلاً جائیداد کا چھیننا، ووٹ کا حق چھیننا، بغیر مقدمہ کے گرفتار کرنا، قانون کے پاس ہونے سے پہلے جرائم پر گرفتار کرنا یا سزا دینا وغیرہ وغیرہ- (۱۳( کسی صوبہ کی اندرونی آزادی کو مرکز کسی وقت اور کسی صورت میں نہیں چھین سکتا اور نہ کم کر سکتا ہے- (۱۴( جو اختیارات مرکز کو نہیں دیئے گئے ان کے متعلق کوئی قانون اس کا جائز نہ ہوگا بلکہ اس کے متعلق صوبہ جات کے قانون ہی تنفیذ کے قابل ہونگے- (۱۵( سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی قانون اساسی کے متعلق اور صوبہ کے ہائیکورٹ کا فیصلہ
۴۵۰ صوبہ کے قانون اساسی کے متعلق آخری ہوگا اور اگر صوبہ جات یا مرکزی حکومت کو اس پر اعتراض ہو تو وہ صرف مقررہ قواعد کے رو سے قانون اساسی میں ترمیم کر سکتے ہیں- (۱۶( ہر ترمیم قانون اساسی کی جو مقررہ اصول کے مطابق نہ ہو جائز نہ ہوگی- (۱۷( عبادت گاہوں کا بنانا، مذہبی نظام کیلئے انجمنوں یا خاص نظام کا بنانا، مذہبی مدارس، اوقاف وغیرہ میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی جائے گی- یہ چند امور میں نے ایسے گنائے ہیں کہ جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ورنہ کانسٹی چیوشن میں اور کئی امر لانے پڑیں گے لیکن یہ کام قانون سازوں کا ہے وہی کامل بحث و تمحیص کے بعد اس کی تفصیلات کو طے کر سکتے ہیں- ہاں میں اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ مرکزی حکومت کے اختیار مقرر کرتے وقت (۱) یہ نہ کیا جائے کہ جو اختیارات اس وقت مرکزی حکومت کو حاصل ہیں انہی کو قائم رہنے دیا جائے کیونکہ وہ اختیارات بہت زیادہ ہیں- چاہئے کہ امریکنکانسٹیچیوشن اور نہرو رپورٹ کے بتائے ہوئے مرکزی حقوق کو ملا کر اس کے درمیان میں راہ نکالی جائے- امریکن نظام حکومت میں بہت تنگی سے کام لیا گیا ہے اور نہرو رپورٹ میں مرکز کو بہت اختیار دیئے گئے ہیں- (۱) سول لاء اس وقت مرکزی حکومت کے ماتحت ہے نہرورپورٹ نے بھی اسے مرکز کے ماتحت رکھنے کی تجویز کی ہے لیکن کامل فیڈرل حکومتوں میں سول لاء (CIVIL LAW) زیادہ تر ریاستی حکومتوں کے متعلق ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ سول لاء درحقیقت ملک کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے- اور تہذیب کا اختلاف ہی اتحادی حکومت کا باعث ہوتا ہے- پس عقلاً تو سول لاء صوبہ جات کے سپرد ہونا چاہئے لیکن چونکہ اس وقت تک سول لاء ہندوستان میں ایک ہی ہے اس لئے اس کا بدلنا بھی اب ٹھیک نہیں- پس اگر یہ شرط کر دی جائے کہ شادی، بیاہ، ورثہ، طلاق وغیرہ معاملات کے متعلق جو اہلیقانون کہلاتا ہے قوانین بنانا مرکزی حکومت کے نہیں بلکہ صوبہ جاتی حکومتوں کے سپرد ہوگا تو اس طرح وہ حصہ قانون کا جس میں مختلف علاقوں کے لوگوں میں مختلف دستور ہیں مرکز کے اختیار سے باہر ہو جائے گا اور بغیر سارے سول لاء کو منسوخ کرنے کے فیڈرل اصول کی حفاظت بھی ہو جائے گی- پس اول تو اہلی قانون میں حکومت دخل ہی نہ دے گی اور اگر کسی جماعت کے
۴۵۱ اپنے کہنے پر دخل دے گی تو قانون صرف اس صوبہ کے لئے ہوگا اور اس وجہ سے اس علاقہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا اس میں پورا لحاظ رکھا جا سکے گا- قانون ِاَساسی کی تبدیلی جس طرح قانون اساسی کا بنانا اقلیتوں اور صوبوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ضروری ہے اسی طرح اس میں تبدیلی کے قواعد بھی ان کے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں- ان کیلئے اس طرح کہ اگر قانون اساسی کا بدلنا حد سے زیادہ آسان ہو تو قانون اساسی کا سب فائدہ ان کیلئے باطل ہو جاتا ہے اور ملک کے لئے اس طرح کہ اگر اس کا بدلنا حد سے زیادہ مشکل ہو تو ملک بعض اوقات اپنی اشدضرورتوں کو بھی پورا نہیں کر سکتا اور اس کی ترقی رک جاتی ہے- پس ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون اساسی بنانا چاہئے اور دونوں نقصوں سے اسے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے- میرے نزدیک وہ طریق جس سے یہ دونوں نقص پیدا نہیں ہو سکیں گے یہ ہے (۱) جو تبدیلی ایسی ہو کہ اس کا اثر کسی خاص صوبہ پر پڑتا ہو جیسے کسی صوبہ کے علاقہ میں تبدیلی کرنا اس کے لئے تو یہ شرط ہو کہ دو تہائی حقیقی اکثریت کے ساتھ اگر دونوں مرکزی مجالس اسے منظور کریں اور پھر اس صوبہ کی مجلس تین چوتھائی حقیقی اکثریت سے اسے منظور کرے تو وہ تبدیل ہو جائے- (۲) اگر وہ تبدیلی جو تجویز کی گئی ہو کسی خاص صوبہ سے تعلق نہ رکھتی ہو بلکہ اس کا اثر سب صوبوں پر پڑتا ہو تو مرکزی مجالس کی دو تہائی حقیقی اکثریت کے بعد دو تہائی صوبوں کی مجالس اگر دو دو تہائی حقیقی اکثریت سے اس تبدیلی کو قبول کر لیں تو قانون اساسی میں اس کے مطابق تبدیلی کر دی جائے لیکن مزید شرط یہ ہو کہ مرکزی مجالس کے فیصلہ کی تاریخ سے لے کر دو سال کے اندر صوبہ جاتی مجالس شرائط مذکورہ بالا کے مطابق تصدیق کر دیں- اگر دو سال کے اندر صوبہ جات کی طرف سے مقررہ قواعد کے مطابق تصدیق نہ ہو تو وہ قانون باطل سمجھا جائے اور جب تک اسمبلی کا دوبارہ انتخاب نہ ہو جائے تب تک اس سوال کو دوبارہ پیش کرنے کی اجازت بھی نہ ہو- (۳) کچھ ایسے حصے بھی قانون اساسی میں ہونگے جن کے مطابق قطعی طور پر یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان کے متعلق کسی صورت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی جیسے کہ مذہب کی
۴۵۲ آزادی، تبدیلی مذہب کا اختیار، تبلیغ کی آزادی، زبان کی آزادی، قومی ترقی، مذہبی ترقی یا قومی نظام کی مجالس کی آزادی یا مثلاً تاج برطانیہ سے تعلق کا سوال ہے اس کے متعلق کسی اندرونی فیصلے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے- ہاں موخر الذکر سوال اگر کسی وقت برطانیہ کے سمجھوتہ سے طے ہو تو ہو سکتا ہے- (۴) جن امور کی تبدیلی کے لئے کوئی خاص قواعد قانون اساسی میں بیان ہو چکے ہوں یا حدبندیاں مقرر ہوں انہیں عام قواعد پر مقدم رکھا جائے گا- (۵) سندھ، صوبہ سرحدی اور بلوچستان کی آزادی سے پہلے قانون اساسی کی تبدیلی کے متعلق کوئی قانون پاس نہیں کیا جائے گا- میں سمجھتا ہوں اگر ان قواعد کو منظور کر لیا جائے تو قانون اساسی میں تبدیلی زیادہ مشکل بھی نہ ہوگی اور ایسی آسان بھی نہ ہوگی کہ اقلیتوں یا صوبہ جات کے حقوق کو نقصان پہنچ جائے-
۴۵۳ باب ہفتم مرکزی حکومت کا وقتی انتظام میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس وقت نہ ہندوستان کے حالات اجازت دیتے ہیں کہ حکومت خود اختیاری کے طریق کو پوری طرح ہندوستان کی مرکزی حکومت میں قائم کیا جائے اور نہ نئے انتظام کے ماتحت جب تک صوبہ جات اپنے اپنے علاقہ کے انتظام کو نہ سنبھال لیں، مناسب ہی ہے کہ ایسا کیا جائے اس لئے اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک وقتیحکومت کے قانون کے ڈھانچہ کی بنیاد کن اصول پر رکھنی چاہئے- میرے نزدیک اس نظام کے بناتے ہوئے ہمیں مندرجہ ذیل اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے-: (۱) ہم مرکزی حکومت کی بنیاد ایسے اصول پر رکھیں کہ بجائے اس کے کہ کسی وقت اسے بدل کر ایک نیا نظام اس کی جگہ قائم کرنا پڑے ہم اسی میں تغیر پیدا کرتے ہوئے اسے مکمل کر سکیں- کیونکہ جب کبھی ایک بالکل نیا نظام بنایا جاتا ہے تو اس میں کئی قسم کی خامیاں رہ جاتی ہیں جن کے دور کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے لیکن ایک نظام کو درجہ بدرجہ تبدیل کرتے ہوئے مکمل کرنے میں یہ خطرہ نہیں ہوتا- (۲) ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو نظام بھی قائم ہو اس کے ذریعہ سے ہندوستانیوں کی ایسی تربیت ہوتی جائے کہ جب بھی ان کے ہاتھ میں کام آئے تو وہ اسے سنبھال سکیں- (۳) ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ اس نظام میں یہ احتیاط کر لی جائے کہ وہ ہماری اصل سکیم کیلئے مددگار ثابت ہو- (۴) اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو مرکزی نظام میں ہندوستانیوں کے دخل کو موجودہ دخل سے کم کر دے کیونکہ اس سے بھی فتنہ کا احتمال
۴۵۴ ہے اور ڈر ہے کہ طبائع کی بے چینی مقصد کے پورا ہونے میں روک نہ بن جائے- ان اصول کے ماتحت عارضی مرکزی نظام کیلئے مندرجہ ذیل سکیم کا اختیار کرنا بہتر ہوگا- (۱) گورنر جنرل نو آبادی کے درجہ کی حکومتوں میں حکومت کا محور گورنر جنرل ہوتا ہے کیونکہ وہ ملک معظم کا قائم مقام سمجھا جانے کی وجہ سے اس رشتہ اتحاد کی ظاہری کڑی ہوتا ہے جو برطانوی امپائر (EMPIRE)کے مفہوم میں مرکوز ہے- گورنر جنرل کی حیثیت ان نو آبادیات میں جو درمیانی مقام آزادی کے طے کر چکی ہیں کلی طور پر آئینی ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں چونکہ ابھی کچھ مدت تک کامل اختیارات مرکزی اسمبلی کو نہیں دیئے جا سکتے لازماً وہ محفوظ اختیارات ایگزیکٹو (EXECUTIVE)کو حاصل ہونگے اور بوجہ اس کے گورنر جنرل ایگزیکٹو کا سردار بھی ہوگا اور ملک معظم کا نمائندہ بھی، اس لئے اس کے نام سے وہ اختیارات برتے جائیں گے- لیکن اس کے ساتھ ہی چونکہ وہ ہندوستان کے درجہ نو آبادی کے حصول کے ساتھ ہی ایک آئینی گورنر کی حیثیت میں بدل چکا ہوگا اس لئے میرے نزدیک گورنرجنرل کے اختیارات آئندہ تین قسم میں تقسیم ہونے چاہئیں- (۱) وہ اختیارات جو اسے مستقل طور پر حاصل ہونگے یعنی اس زمانہ میں بھی حاصل ہونگے جب کہ عملاً ہندوستان کی حکومت کا ہر حصہ درجہ مستعمرات کی آزادی کو حاصل کر چکا ہوگا- یہ اختیارات وہی ہوں گے جو دوسری نو آبادیوں کے گورنروں کو حاصل ہیں اور گورنر جنرل انہیں انہی قیود کے ساتھ استعمال کر سکے گا جن قیود کے ساتھ کہ نو آبادیوں کے گورنر انہیں استعمال کرتے ہیں- (۱) وہ اختیارات جو اسے عارضی طور پر حاصل ہونگے لیکن مرکزی اسمبلی کے برسراقتدار ہونے پر وہ اس کی طرف منتقل ہو جائیں گے جیسے آرڈیننس (ORDINANCE) وغیرہ قسم کے اختیارات یا وزارت مقرر کرنے کے یا اس کے کاموں میں تصرف کرنے کے اختیارات- (۳) کوئی ایسے اختیارات جو صوبہ جاتی معاملات کے متعلق اس کے ہاتھ میں کچھ عرصہ کیلئے رکھے جائیں- یہ اختیارات جس وقت ختم ہونگے یا تو باطل ہو جائیں گے یا صوبہ جاتی کونسلوں کے پاس چلے جائیں گے اسمبلی کو حاصل نہیں ہونگے- اگر اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھا گیا تو لازماً گورنر جنرل کے وقتی اختیارات اسمبلی کے طاقت
۴۵۵ پکڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی نمائندہ وزارت کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور اتحادیت خطرہ میں پڑ جائے گی- ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ آرڈیننس وغیرہ قسم کے اختیارات بربریت کی علامت ہیں انہیں یک دم مٹا دینا چاہئے لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں- آئرلینڈ کی آزادی کے موقع پر وہ لوگ جنہوں نے انگلستان کے ساتھ سمجھوتے میں حصہ نہیں لیا تھا، انہوں نے اس خیال سے کہ اس طرح ان کے وقار کو صدمہ پہنچا ہے اس سمجھوتے کی قیمت کو کم کر کے دکھانے کی پوری کوشش کی تھی- اور ملک میں ایسے فسادات پیدا کر دیئے تھے کہ جن کی مثال غالباً آزادی سے پہلے زمانہ میں بھی نہیں ملتی- ہندوستان میں بھی یہی صورت پیش آنے والی ہے- وہ لوگ جو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے مخالف ہیں، اگر انہوں نے دیکھا کہ کانفرنس کامیاب ہو گئی ہے تو اپنی عزت کو خطرہ میں دیکھ کر وہ ہر اک ممکن کوشش ملک میں فساد پیدا کرنے کی کریں گے اور جب تک غیر معمولی طاقت سے ان کا مقابلہ نہ کیا جائے گا، ان کا فتنہ فرو نہ ہو سکے گا- پس اس زمانہ تک کہ حکومت نو آبادیات کے اصول پر خود ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائے غیر معمولی حالات کے لئے غیر معمولی اختیارات کا گورنر جنرل کے ہاتھ میں رہنا ضروری ہے ورنہ خواہ کسقدر بڑا حصہ آزادی کا ہندوستان کو مل جائے اس کے دشمن اسے تباہ کر کے چھوڑیں گے- یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت سے برطانیہ نے ہندوستان کے لئے درجہ مستعمرات کا اعلان کیا، اسی وقت سے اس کے سیاسییں کا نقطئہ نگاہ بدل جائے گا اور وہ ایسے لوگوں کو ہندوستان کا گورنر جنرل کر کے بھیجیں گے کہ جو پوری طرح اسے درجہ مستعمرات کی طرف لے جانے والے ہونگے کیونکہ اس کے بعد خود اس کا فائدہ ہوگا کہ ہندوستان کی خوشنودی کو حاصل کرے- (۲) قانون ساز مجالس اس وقت ہندوستان میں دو مجلسیں ہیں- ایک اسمبلی (ASSEMBLY) کہلاتی ہے اور دوسری کونسل آف سٹیٹ- اس میں کوئی شک نہیں کہ کونسل آف سٹیٹ (COUNSIL OF STATE ) تنفیذ کرنے اور قانون کے اسمبلی میں پاس ہونے اور نافذ ہونے کے درمیان کچھ دیر لگانے کا موجب ہو کر اس بات کا سامان مہیا کر دیتی ہے کہ اگر ملک کو قانون ناپسند ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جا سکے لیکن اتحادی حکومت کے جو اصول ہیں ان کی حفاظت کا مقصد اس سے پورا نہیں ہوتا- اسی
۴۵۶ طرح اسمبلی کی موجودہ صورت نہ تربیت کا موجب ہوتی ہے نہ ملک کی تسلی کا اس لئے ضرورت ہے کہ دونوں مجالس میں کچھ اصلاح کی جائے تا کہ وہ ان مقاصد کو پورا کر سکیں جن کے لئے انہیں قائم کیا گیا ہے- اسمبلی سائمن کمیشن کی رپورٹ ہے کہ (۱) اسمبلی آئندہ فیڈرل اسمبلی (FEDERAL ASSEMBLY) کہلائے- (۲) اس کے ممبروں کی تعداد اڑھائی سو سے دو سو اسی تک بڑھا دی جائے- (۳) اس کے ممبروں کا انتخاب بجائے براہ راست ہونے کے بالواسطہ ہو یعنی صوبہ جات کی کونسلوں کے ممبر اس کے ممبر منتخب کریں- خواہ اپنے ممبروں میں سے خواہ دوسرے لوگوں میں سے لیکن جس کو بھی وہ چنیں وہ کونسل کا ووٹر ضرور ہو- (۴) ان کا انتخاب ‘’نمائندگی بلحاظ تناسب’‘ کے اصول پر ہو- جس کی وجہ سے ہر اقلیت کو اس کا حق مل جائے گا- (۵) اگر کونسل کا کوئی ممبر اسمبلی کے لئے ممبر چنا جائے تو ضروری نہیں ہوگا کہ وہ کونسل کی ممبری سے استعفی دے- اگر کونسل کے ساتھ اسمبلی میں بھی کام کرنا چاہے تو کر سکتا ہے- (۶) ممبروں کے اخراجات صوبہ جات کے ہی ذمہ ڈالے جائیں گے- اس تبدیلی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ:- (۱) اسمبلی کے ممبروں کی تعداد کو بڑھانے کے باوجود ان کا حلقہ انتخاب بہت بڑا ہوگا اس وجہ سے ممبر اپنے ووٹروں سے تعلق نہیں رکھ سکے گا- (۲) اتحادی اصول پر حکومت کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ صوبہ جات کی نمائندگی مرکز میں بہ حیثیت علاقہ کے ہو- (۳) عام ہندوستانی مرکزی کاموں کی نگرانی نہیں کر سکتا- جب اسمبلی کے ممبروں کو کونسل کے ممبر منتخب کریں گے جو زیادہ سمجھدار اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں تو اسمبلی کے ممبروں کو خیال رہے گا کہ ہمارے کام کی نگرانی کی جا رہی ہے- اسمبلی کا نام فیڈرل اسمبلی ہو تو اچھا ہے کیونکہ اس سے اسمبلی کے ممبروں کو یہ خیال رہے گا کہ آئندہ ہندوستان کی حکومت اتحادی اصول پر چلائی جائے گی- ممبروں کی تعداد کا بڑھانا بھی ضروری ہے اور میرے نزدیک دو سو اسی (۲۸۰( بھی نہیں تین سو ممبر ہونے چاہئیں بلکہ اگر اس سے بھی بڑھا دیئے جائیں تو کچھ حرج نہیں- ہندوستان سے بہت چھوٹے ممالک کی قانون ساز مجالس کے بہت زیادہ ممبر ہوتے ہیں- پس جس قدر زیادہ ممبر کام کی سہولت کو مدنظر
۴۵۷ رکھتے ہوئے بنائے جائیں اتنا ہی اچھا ہے- لیکن اگر چار پانچ سو ممبر سردست بنانے مناسب نہ سمجھے جائیں تو تین ساڑھے تین سو ممبر ضرور ہونے چاہئیں اس سے کم تعداد سے ٹھیک طرح سے ملک کی نمائندگی نہیں ہو سکتی- سائمن کمیشن کی یہ تجویز ہے کہ اسمبلی کے ممبروں کی تنخواہیں صوبہ جات کے بجٹ سے دی جائیں میرے نزدیک کسی طرح بھی مناسب نہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طریق دوسرے ملکوں میں رائج نہیں ہے کہ فیڈرل اخراجات صوبہ جات ادا کریں- گو ان کے اخراجات کو کمیشن نے نان ووٹیبل (NON VOTABLE)رکھا ہے لیکن پھر بھی یہ احساس کہ فیڈرل اسمبلی کے اخراجات مرکز ادا نہیں کرتا بلکہ صوبہ جات ادا کرتے ہیں ان کے درجہ میں تخفیف کر دیتا ہے اور یوں بھی یہی بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ جس جگہ کا کام کیا جائے وہیں سے تنخواہ ملے- جب مرکزی ایگزیکٹو کو مرکز کے بجٹ سے تنخواہ ملے گی تو کیوں مجلس واضع قوانین کے اخراجات مرکزی فنڈ سے نہ ملیں- اب میں اس سوال کو جو سب سے اہم ہے لیتا ہوں یعنی اسمبلی کے ممبروں کا بالواسطہ طریق سے انتخاب- بعض لوگ اس طریق انتخاب کو دنیا کے مقررہ اصول سے بالکل نرالا دیکھ کر جب حیران رہ جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ طریق محض اس وجہ سے اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ کمیشن نے انگریز ممبروں کی نمائندگی ان کی تعداد سے تین سو گنا زیادہ مقرر کی ہے اور اس قدر قلیل جماعت اپنے میں سے اس قدر ممبر مہیا نہیں کر سکتی کہ وہ دونوں جگہ کام کریں اس لئے کمیشن نے اس طریق کو ایجاد کیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ انگریز ممبر اپنی نمائندگی کے برابر ممبر بھی مہیا نہ کر سکیں اس طرح ایک ہی جماعت کو دونوں جگہ کام کرنے کی اجازت دے کر کمیشن نے اس مشکل کو دور کیا ہے- میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی شخص کی طرف اپنے پاس سے محرکات بنا کر منسوب کریں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عجیب طریق نہ صرف بالکل خلاف عقل ہے بلکہ دنیا کے تجربہ کے بھی خلاف ہے اور جس قدر دلائل اس کی تائید میں دیئے گئے ہیں سب نہایت کمزور اور بودے ہیں- پہلی دلیل جو کمیشن نے دی ہے یہ ہے کہ بلاواسطہ انتخاب کی صورت میں حلقہ انتخاب اس قدر بڑا ہو جاتا ہے کہ ممبر اپنے منتخب کرنے والوں سے تعلق نہیں رکھ سکتے اور انتخاب میں بہت تکلیف ہوتی ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمبلی کے حلقے بڑے ہیں اور اس میں بھی
۴۵۸ کوئی شک نہیں کہ اتنے بڑے حلقوں میں کوشش کرنا نسبتاً مشکل ہوتا ہے- لیکن سوال تو یہ ہے کہ بڑے ملک کے بڑے ہی حلقے ہو سکتے ہیں اور محض بڑے حلقوں کی وجہ سے لوگوں کو ان کے جائز حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا- کمیشن کو صرف انگلستان کے حلقوں کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ دوسرے بڑے بڑے ملکوں کے انتخاب کے حلقوں کو دیکھنا چاہئے- مثلاً آسٹریلین کامن ویلتھ (AUSTRALIAN COMMON WEALTH) کا رقبہ انیس لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو اکاسی مربع میل ہے اور آبادی چون لاکھ پینتیس ہزار ہے- اس کی مجلس میں بہتر (۷۲) ممبر ہیں اور سینٹ میں چھتیس (۳۶-) گویا اسمبلی کا ہر ممبر اوسطا ستائیس ہزار نو سو اسی میل رقبہ کی طرف سے اور پچھترہزار آدمیوں کی طرف سے اور سینٹ کا ہر ممبر پچپن ہزار مربع میل اور ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کی طرف سے ممبر ہوتا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس کا ملک تیس لاکھ چھبیس ہزار نوسواناسی مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے دس کروڑ ہے- ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز (HOUSE OF REPRESENTATIVES)کے ممبر چار سو پینتیس ہیں اور سینٹ کے چھیانوے- گویا ہر پہلی مجلس کا ممبر قریباً سات ہزار میل مربع کی طرف سے اور ایک لاکھ چوہتر ہزار آدمیوں کی طرف سے ہوتا ہے- اور ہر سینٹر قریباً تیس ہزار میل کی طرف سے اور قریباً تیس لاکھ آدمیوں کی طرف سے نمائندہ ہوتا ہے- اس کے مقابلہ میں ہندوستان کا کل رقبہ اٹھارہ لاکھ پانچ ہزار مربع میل ہے جس میں ریاستوں اور ایجنسیوں کا رقبہ نکال کر کل رقبہ دس لاکھ اکتالیس ہزار مربع میل رہ جاتا ہے- اور ریاستوں کی آبادی منہا کر کے انگریزی علاقہ کی آبادی چوبیس کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ہے- لیکن برما کو چونکہ ہندوستان سے علیحدہ کرنے کی تجویز ہے اس کا دو لاکھ تیس ہزار مربع میل رقبہ اور ایک کروڑ اکتیس لاکھ آبادی نکال کر ہندوستان کا رقبہ آٹھلاکھ گیارہ ہزار مربع میل رہ جائے گا اور آبادی تئیس کروڑ پینتیس لاکھ رہ جائے گی- اب اگر ہندوستان کی اسمبلی کے تین سو ممبر فرض کئے جائیں تو فی ممبر قریباً دو ہزار سات سو مربع میل رقبہ کی طرف سے اور سات لاکھ اٹھہتر ہزار تین سو تینتیس آدمیوں کی طرف سے نمائندہ ہو گا- گویا ہر ممبر یونائیٹڈ سٹیٹس کے ہر ممبر کے مقابلہ میں صرف تیسرے حصہ رقبہ کی طرف سے اور آسٹریلیا کے ہر ممبر سے دسویں حصہ رقبہ کی طرف سے نمائندہ ہو گا- لیکن آبادی کے لحاظ سے اسمبلی کا ہر ممبر یونائیٹڈسٹیٹس کے ممبر کی نسبت چار گنی تعداد کا نمائندہ اور آسٹریلین ممبر کے مقابلہ میں دس گنے زیادہ تعداد کا نمائندہ ہو گا- پس علاقہ کے لحاظ سے
۴۵۹ یونائیٹڈسٹیٹس اور آسٹریلیا کا ممبر زیادہ وسیع علاقہ کا نمائندہ ہوتا ہے اور آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا ممبر زیادہ لوگوں کا نمائندہ ہو گا- مگر یہ امر ظاہر ہے کہ اصل تکلیف رقبہ کے بڑا ہونے میں ہوتی ہے ورنہ نہ ہر ممبر ہر ووٹر کے پاس جاتا ہے نہ جا سکتا ہے- ضرورت اس کی ہوتی ہے کہ وہ اس علاقہ کے نمائندوں سے تعلق رکھ سکے اور یہ ظاہر ہے کہ جس قدر رقبہ چھوٹا ہو گا ممبر اس میں جلدی پھر سکے گا اور اس میں ہندوستانی ممبر یونائیٹڈسٹیٹس اور آسٹریلیا کے ممبر سے فائدہ میں رہے گا- پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کمیشن کے نزدیک موجودہ انتظام میں اس لئے تغیر کی ضرورت ہے کہ ممبر اپنے علاقہ کے لوگوں سے تعلق نہیں رکھ سکتا- لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ تعلق نہیں رکھ سکتا تو اس وقت اسے ووٹ کیونکر ملتے ہیں- تب تو چاہئے تھا کہ دور کے علاقے اسے ووٹ نہ دیتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر امیدوار کو ہر جگہ کے ووٹ مل جاتے ہیں- اس کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ اس کا علاقہ کے سرکردہ لوگوں کی امداد حاصل کرنا ہے اور یہی صحیح جواب ہے- لیکن اس صورت میں بالواسطہ انتخاب کا مخالف کہہ سکتا ہے کہ جن لوگوں کی وہ امداد حاصل کرتا ہے بہرحال ان سے تو وہ تعلق پیدا کرتا ہے اور کر سکتا ہے- پس کیا ہزار یا دو ہزار آدمی سے جو ملک کے بااثر لوگ ہیں اور جن کے پیچھے ملک کے ووٹر چلتے ہیں تعلق رکھنے والا شخص اس سے بہتر نہیں جو صرف کونسل کے دس یا پندرہ ممبروں سے تعلق رکھتا ہے- دوسرے وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ عام طور پر نمائندہ اسی علاقہ کا رہنے والا ہوتا ہے جس کا وہ باشندہ ہوتا ہے اور ضرور ایک کافی تعداد ووٹروں کی اس کی واقف بھی ہوتی ہے اور اس سے ملنے کا اسے موقع بھی ملتا رہتا ہے لیکن کونسل کا چنا ہوا نمائندہ اگر کونسل کے ممبروں میں سے نہ ہوا تو اسے ان سے ملتے رہنے کا کون سا موقع ملے گا- امرتسر کا نمائندہ امرتسر کے ووٹروں سے تو روزانہ ملنے کا موقع پاتا رہے گا- لیکن لاہور میں بیٹھنے والی کونسل کے ممبروں سے دہلی اور شملہ میں کام کرتے ہوئے اسے ملنے کا کونسا موقع مل سکتا ہے- اسی طرح مثلاً ملتان کا ممبر سارے ضلع میں تو نہیں پھرتا رہے گا لیکن ملتان شہر کے ووٹروں سے اسے روزانہ ہی ملنے کا موقع ملے گا اور ضلع کے لوگ بھی وہاں کام کے لئے آتے رہیں گے ان سے بھی وہ ملتا رہے گا- لیکن کونسل کے جن ممبروں نے اسے منتخب کیا ہو گا ان سے ملنے کا اسے بعض دفعہ سال میں ایک دفعہ بھی موقع نہیں ملے گا اور بالکل ممکن ہے کہ اسمبلی کی ساری عمر میں ہی موقع نہ ملے- پنجاب کے ممبر کو تو
۴۶۰ شاید شملہ میں کہ جہاں دونوں مجلسیں جمع ہوتی ہیں موقع مل بھی جائے لیکن دوسرے صوبوں کے ممبروں کو دہلی اور شملہ میں کام کرتے ہوئے اپنی مقامی کونسلوں کے ممبروں سے ملنے کا کوئی موقع ہی نہیں ہو سکتا- غرض جو دلیل کمیشن نے تعلقات کے متعلق دی ہے وہ اس کے خلاف ہے، موید نہیں- بلاواسطہ انتخاب سے اسمبلی کے ممبر کا اپنے علاقہ سے بھی کوئی تعلق نہیں رہے گا اور کونسل سے بھی ہرگز تعلق پیدا نہ ہو گا- دوسری دلیل کمیشن نے یہ دی ہے کہ جب حکومت اتحادی اصول پر ہو تو علاقوں کے لحاظ سے نمائندگی ضروری ہوتی ہے تاکہ اتحادیت کے اصول کی حفاظت ہو سکے- یہ دلیل بیشک وقیع ہے- اتحادی اصول کی نگرانی کرنے والے لوگ مرکز میں ضرور موجود رہنے چاہئیں لیکن اس کا وہ طریق جو کمیشن نے ایجاد کیا ہے کہیں بھی جاری نہیں ہے- دنیا کی تمام پہلی مجالس ملک کے نمائندوں کی طرف سے چنی جاتی ہیں کوئی فیڈریشن ایسی نہیں کہ جس کی پہلی اسمبلی کے نمائندے صوبہ جات کی طرف سے آتے ہوں- ہاں دوسری مجلس کے ممبر یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ میں ۱۹۱۳ء تک ریاستوں کی مجالس کی طرف سے منتخب ہو کر آتے تھے- اور سوئٹررلینڈ کی بعض کنٹنز (CANTONS)میں اب بھی بجائے بلاواسطہ کے بالواسطہ انتخاب ہوتا ہے مگر صرف دوسری مجلس کے لئے پہلی مجلس کے لئے نہیں- لیکن کمیشن یہ مشورہ دیتا ہے کہ دنیا کے دستور کے خلاف پہلی مجلس کو علاقوں کا نمائندہ بنایا جائے- حالانکہ اتحادی حکومت کا اصول یہ ہے کہ مرکز میں دونوں حصوں کے نمائندے ہونے چاہئیں علاقوں کے بھی- اور افراد ملک کے بھی اور اس کا صرف ایک ہی طریق دنیا میں اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ پہلی مجلس کو جو زیادہ اختیار رکھتی ہے افراد کا نمائندہ بنایا جاتا ہے اور دوسری مجلس کو جو کم اختیارات رکھتی ہے علاقوں کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے- جس کی یہ وجہ ہے کہ اصل حکومت کا حق افراد کے ہاتھ میں سمجھا جاتا ہے اور علاقوں کو صرف اقلیتوں کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے دوسری مجلس کے اختیارات حفاظتی تدابیر تک محدود رکھے جاتے ہیں اور پہلی مجلس کو اصل قانون ساز مجلس سمجھا جاتا ہے- لیکن کمیشن تمام اصول سیاست تمام اصول انصاف اور تمام دنیا کے تجربوں کے خلاف یہ عجیب مشورہ دیتا ہے کہ اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ دونوں کا انتخاب صوبہ جات کی کونسلیں کریں- جب ایک ہی منتخب کرنے والے ہونگے تو دو قسم کی
۴۶۱ مجالس کا فائدہ کیا ہے- پھر لطف یہ ہے کہ کمیشن اس امر کی بھی امید رکھتا ہے کہ کونسل آف سٹیٹ میں زیادہ قابلیت کے آدمی مثلاً سابق وزراء، سابق جج، اعلیٰ عہدہ دار وغیرہ لانے چاہئیں اور وہ اس طرح کہ اس کی ممبری کی شرائط ایسی رکھی جائیں کہ اسی قسم کے لوگ آ سکیں- لیکن کمیشن نے اس امر کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ صرف ایک ہی کونسل آف سٹیٹ دنیا میں ایسی ہے کہ جس کے ووٹر اور اسمبلی کے ووٹر ایک ہی ہوتے ہیں- لیکن یہ دوسری مجلس اپنے مقصد کے پورا کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور وہ آسٹریلیا کی دوسری مجلس ہے- لیکن چونکہ اختیارات اور فائدہ پہلی مجلس میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے آسٹریلیا کے تمام قابل لوگ اسی کی ممبری کی کوشش کرتے ہیں- باقی سب دنیا کی مجالس میں دونوں مجلسوں کے ووٹروں کی قابلیتیں الگ الگ رکھی جاتی ہیں یا دوسری مجالس کو بعض خاص اختیارات دیئے جاتے ہیں کہ تا قابل لوگ ادھر متوجہ ہوں- مگر جہاں یہ دونوں صورتیں نہ ہوں وہاں یہ امید کرنا کہ قابل امیدوار کام کا اچھا میدان چھوڑ کر اور اسمبلی کے امیدواروں کے برابر تکلیف اٹھا کر کونسل آف سٹیٹ میں جائیں گے ایک ایسی خلاف عقل بات ہے جسے کوئی عقل مند تسلیم نہیں کر سکتا اور کمیشن کے تجویز کردہ اصل پر اگر کام ہوا تو ہندوستان کی کونسل آف سٹیٹ میں وہی لوگ جائیں گے جو یا تو اسمبلی کے انتخاب سے مایوس ہو چکے ہوں گے یا جن کی غرض صرف کسی نہ کسی ملکی مجلس کا ممبر کہلانا ہو گی- سائمن کمیشن نے اس امر کو بھی بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ دنیا کے تجربہ کردہ سیاسی اصول کے مطابق اتحادی طرز کی حکومت کے مرکز میں صرف علاقوں کے نمائندے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ افراد اور علاقوں دونوں کے نمائندے ہونے چاہئیں کیونکہ مرکزی حکومت کا کام صرف ایسے قوانین پاس کرنا نہیں جن کا تعلق علاقوں سے ہو بلکہ وہ ایسے قوانین بھی پاس کرتی ہے جو افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں- پس دونوں کے نمائندے اس میں ہونے چاہئیں تاکہ دونوں کے حقوق محفوظ رہیں- لیکن کمیشن نے افراد کی نمائندگی کو بالکل اڑا دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی قابل وقعت نظام میں نہیں ملتی اور اس امر کو بھی نظر انداز کر دیا ہے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد یونائیٹڈ سٹیٹس میں ۳۱-مئی ۱۹۱۳ء کو سترھویں اصلاح کے ذریعہ سے دوسری مجلس کے انتخاب بھی براہ راست کر دیئے گئے ہیں- پس جب کہ دوسری دنیا تجربہ کے بعد دوسری مجالس کے انتخاب بھی بلاواسطہ کر رہی ہے سائمن کمیشن ہندوستان کے لئے دونوں
۴۶۲ مجالس کے انتخاب بالواسطہ تجویز کرتا ہے- تیسری دلیل کمیشن نے یہ دی ہے کہ عام ہندوستانی اسمبلی کے کاموں کی نگرانی نہیں کر سکتے- لیکن جب کونسل کے ممبر ہی اسمبلی کے ممبروں کو منتخب کریں گے تو انہیں خیال رہے گا کہ ہماری بھی کوئی نگرانی کر رہا ہے- یہ دلیل بھی اوپر کی دلیلوں کی طرح کمزور ہے کیونکہ کونسلوں کے ذریعہ سے انتخاب کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نگرانی اور بھی کم رہ جائے گی کیونکہ کونسلوں میں منتخب ہونے والوں کا نقطہ نگاہ بالکل اور ہوتا ہے اور اسمبلی میں منتخب ہونے والوں کا اور- کونسلوں کے ممبروں سے بہت زیادہ نگرانی وہ لوگ کر سکتے ہیں کہ جن کو مرکزی امور سے دلچسپی ہو- چنانچہ اس کا روزانہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ اسمبلی میں پیش ہونے والے معاملات کی طرف جب کہ کونسلوں کے ممبروں کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی عام پبلک میں سے ایک طبقہ میں اس کے متعلق ہیجان پیدا ہو رہا ہوتا ہے- علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پروپورشنل ریپریزنٹیشن سسٹم (PROPORTIONAL REPRESENTATION SYSTEM) کے مطابق وہی قوم اپنے نمائندے بھیج سکتی ہے جس کے امیدوار اس کے ووٹوں کے مطابق کھڑے ہوں- اگر ووٹر زیادہ ہو جائیں تو اس قوم کی نمائندگی کم ہو جاتی ہے- اب ہم فرض کرتے ہیں کہ پنجاب کونسل سے نمائندے چنے جانے لگے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ اسمبلی کے لئے کل تیس ممبروں کا انتخاب صوبہ کی طرف سے ہونا ہے- پس بوجہ مسلمانوں کی آبادی پچپن فیصدی ہونے کے ان کے حصہ میں سولہ ممبریاں آنی چاہئیں لیکن مسلمانوں میں سے کچھ ‘’زمیندارپارٹی’‘ میں ہیں اور کچھ ‘’نیشنلپارٹی’‘ میں جس میں ہندو ممبروں کی تعداد زیادہ ہے- اب یہ انتخاب کس اصول پر ہو گا- کیا مسلمان مسلمان کو ووٹ دیں گے یا اپنی پارٹی کے ساتھ ووٹ دیں گے- اگر پارٹی کے ساتھ دیں گے تو مسلمان نمائندوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور اگر اپنی پارٹی کے مخالف امیدوار کو دیں گے کیونکہ وہ مسلمان ہے تو ایک تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ مخلوط انتخاب کے ذریعہ سے ہم بجائے سیاسی اصول کی قیمت بڑھانے کے اس کی قیمت کو کم کر دیں گے کیونکہ محض اس خوف سے کہ میرے ہم مذہبوں کے نمائندے کم نہ ہو جائیں ایک شخص اپنے سیاسی خیالات کو قربان کر دینے پر مجبور ہو گا- دوسرے اس طریق سے چنے ہوئے اسمبلی کے ممبر کی نگرانی بالکل نہ رہے گی- کیونکہ جس امیدوار کو اس کے مخالف الخیال
۴۶۳ شخص نے صرف اس کے مذہب کی وجہ سے ووٹ دیا ہو گا وہ اس کی نگرانی کیونکر کر سکے گا- اسے تو امیدوار جواب دے گا کہ میاں تم نے اپنے ہم مذہب کے نمائندوں کی تعداد پوری کرنے کے لئے ووٹ دیا تھا میں نے کب تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری پالیسی کی اتباع کروں گا- لیکن جو شخص جداگانہ انتخاب میں اپنے ہم مذہب کے مقابلہ میں جیتے گا اس کے ووٹر اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیوں ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتا- پس کمیشن کی تجویز پر عمل کر کے نگرانی ہرگز نہیں بڑھے گی بلکہ کم ہو گی- کمیشن کے دلائل کو رد کرنے کے بعد میں چند اور دلائل دیتا ہوں- جن کی بناء پر میرے نزدیک بالواسطہ انتخاب کا طریق نہایت خطرناک ہے اور خصوصاً مسلمانوں کے فوائد کے تو بالکل ہی خلاف ہے- (۱) سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں سے حکومت کا وعدہ ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر مخلوط انتخاب کو جاری نہیں کیا جائے گا اور اس وعدہ میں ہرگز کوئی شرط نہیں ہے کہ کونسلوں میں ان کو یہ حق ہو گا اسمبلی میں نہیں ہو گا- پس ‘’انتخاب مطابق تعداد’‘ جس کے معنی مخلوط انتخاب کے ہیں کسی صورت میں بھی مسلمانوں کی مرضی کے برخلاف جاری نہیں کیا جا سکتا اور اگر مسلمانوں کے نمائندے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں اس کو تسلیم بھی کر آئے تب بھی مسلمان پبلک اس کو ہرگز نہیں مانے گی- کیونکہ وہ بحیثیت جماعت اس اصل کو فوراً جاری کرنے کے سخت مخالف ہے اور اگر سائمن رپورٹ کی اس تجویز کی وہ مخالفت نہیں ہوئی جو نہرورپورٹ کی ہوئی تھی تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عام طور پر مسلمان اس طریق انتخاب کو سمجھتے نہیں- وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ممبر مسلمان امیدواروں کو ووٹ دیں گے اور ہندو ہندوؤں کو- لیکن جس وقت مسلمان پبلک کو یہ معلوم ہوا جیسا کہ اب میری کتاب کے شائع ہونے پر ہو جائے گا کہ اس انتخاب کے معنی مخلوطانتخاب کے ہیں تو مسلمان ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی مخالفت کریں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ اسمبلی میں مخلوطانتخاب کا دروازہ کھول کر مسلمان کونسلوں میں بھی اپنے اس حق کو اصولاً کھو بیٹھتے ہیں- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے مخلوط انتخاب میں وہ نقائص نہیں ہیں کہ جو عام مخلوط انتخاب میں ہیں کیونکہ اس میں ہر مذہب کے افراد مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے آدمیوں کو ووٹ دیں ورنہ ان کے اپنے ممبر کم ہو جائیں گے- لیکن یہ جواب درست نہیں کیونکہ اس
۴۶۴ طریق انتخاب کی رو سے بھی دوسری پارٹی کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس طریق انتخاب میں کسی جماعت کے عدد میں جو زائد کسر ہو اس کی امداد سے وہ دوسرے مذہب کے بعض اپنے زیر اثر آدمیوں کو ممبر کروا سکتے ہیں- اس طرح ان کی کسر بالواسطہ طور پر ان کے کام آ جائے گی اور دوسرے مذہب کی نمائندگی کمزور ہو جائے گی- پس یہ درست نہیں کہ اس صورت میں مسلمان کو خطرہ نہیں اس میں بھی ویسے ہی خطرات ہیں جیسے کہ عام مخلوط انتخاب میں- علاوہ ازیں جہاں مسلمان بہت کم ہیں وہاں اس اصول کے ماتحت ان کے حقوق انہیں نہیں مل سکیں گے- مثلاً صوبہ جات وسطی میں مسلمانوں کی آبادی کل چار فیصدی ہے- گو ان کے ممبروں کی تعداد ۶۰ء۹ ہے- اب اگر فرض کر لیا جائے کہ اس صوبہ سے دس ممبر مرکزیانجمن کے لئے چنے جائیں گے تو اس صوبہ سے ایک بھی مسلمان نہیں چنا جا سکے گا- اسی طرح اور کئی جگہ پر تھوڑی تھوڑی کسر کی وجہ سے مسلمانوں کا سالم ممبر جاتا رہے گا- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ اسی بنیاد پر تو مخلوط انتخاب ہندو مانگ رہے ہیں کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، زیادہ مالدار ہیں، زیادہ تجربہ کار ہیں اور مسلمان ان کے مقروض ہونے کے سبب سے بہت کچھ ان کے زیر اثر رہتے ہیں- پس یہ امید کرنا کہ اس مخلوط انتخاب سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچے گا درست نہیں بلکہ یہ یقینی بات ہے کہ ہندو مالی دباؤ سے بھی اور مسلمانوں کو پھاڑ کر بھی اسلامی نمائندگی کو کم کر دیں گے- یا پھر ایسے لوگوں کو نمائندہ بنائیں گے جو صحیح معنوں میں مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہو نگے- میں نے پنجاب کونسل کے بعض ممبروں سے سنا ہے کہ یہ طریق اچھا ہے اس سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ اس ذریعہ سے ہمارا حق مل جایا کرتا ہے- لیکن اس امر کی موجودگی میں کہ سائمن کمیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لئے جو صوبہ کی کمیٹی اسی اصل کے مطابق چنی گئی تھی اس میں دو مسلمان، تین ہندو اور ایک سکھ اور ایک انگریز چنا گیا تھا- کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ذریعہ کامیاب ہے- نیز مسلمانوں کا تجربہ پنجاب میں مذہب کی بناء پر نمائندگی کا نہیں ہے بلکہ زمیندار پارٹی کے لحاظ سے ہے اور اس میں شک نہیں کہ پارٹیوں کو ایک حد تک اپنی تعداد کے مطابق ‘’انتخاب مطابق تعداد’‘ کے اصول پر ان کا حق مل جاتا ہے- لیکن مذہب کی بناء پر جس قوم کو نمائندگی کا دعویٰ ہو اس کا حق محفوظ نہیں ہوتا- کیونکہ ایک مذہب
۴۶۵ کے آدمی ضروری نہیں کہ سیاسی طور پر بھی ایک ہی خیال کے ہوں- اور جب سیاسی اختلاف ہو تو یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ انسان صرف اس وجہ سے ایک امیدوار کو ووٹ دے کہ وہ اس کا ہم مذہب ہے- دوسری دلیل اس طریق نمائندگی کے خلاف یہ ہے کہ اس سے حلقہ انتخاب بہت محدود ہو جاتا ہے یعنی مختلف صوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سو سے تین سو تک ممبر ہونگے جو اسمبلی کے نمائندے چنیں گے اور اس قدر قلیل تعداد ووٹروں کی ہو تو دوستیاں بھی اور رشوتیں بھی بہت اثر کرتی ہیں- پس یہ طریق انتخاب اخلاقی بگاڑ کا زیادہ موجب ہوگا- جب حلقہ وسیع ہو، تب بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن نہ کوئی انسان ہزاروں آدمیوں سے دوستانہ طور پر ووٹ لے سکتا ہے اور نہ ان کو لالچ دے سکتا ہے- تیسرے کونسلوں اور اسمبلی کے فرائض بالکل جدا گانہ ہونگے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی شخص کے ذریعہ سے دونوں امور کا ملک خیال رکھ سکے نتیجہ یہ ہوگا کہ اسمبلی کبھی بھی ملک کی صحیح نمائندہ نہیں ہوگی- یہ امر بالکل عقل میں نہیں آ سکتا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں مقامی اور مرکزی دونوں مجالس کی ضروریات کو ملک کے سامنے پیش کر سکے گا اور وہ کر بھی کب سکتا ہے جب کہ وہ خود دوسری مجلس کا امیدوار ہی نہیں- اور اگر کوئی امیدوار ہو بھی تو بھی وہ بسا اوقات اپنے خیالات اسمبلی کے کام کے متعلق ظاہر نہیں کر سکے گا کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کے خیالات مقامی کونسل کے کاموں کے متعلق تو اپنے علاقہ کے اکثر ووٹروں سے متفق ہوں لیکن اسمبلی کے معاملات کے متعلق مختلف ہوں- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ وہ اپنے اس اختلاف کو ظاہر کر کے اپنے انتخاب کے مواقع کو خراب کر لے گا؟ اور اگر وہ ظاہر بھی کرے تو اکثر ووٹر ایسے ہوں گے کہ اگر مقامی اور مرکزی سوالوں کا مقابلہ آ پڑے تو وہ مقامی سوال کو ترجیح دیں گے- پس اگر ایک مقامی کونسل کا مناسب امیدوار مرکزی امور میں خلاف رائے بھی رکھتا ہو تب بھی بہت سے ووٹر مقامی معاملات کے اتحاد کی وجہ سے اسی کے حق میں رائے دیں گے اور اس طرح اسمبلی ملک کی نمائندگی سے بالکل محروم رہ جائے گی اور صرف اس وجہ سے کہ مقامی کونسلوں کے ممبر اس کے ممبروں کا انتخاب کریں گے اسے ملک کا نمائندہ کہنا درست نہ ہوگا- اور کوئی شخص جو سیاسیات کے مبادی سے بھی واقف ہے اس طرح منتخب ہونے والی اسمبلی کو ملک کی نمائندہ اسمبلی نہیں کہہ سکے گا- ہندوستان تو ابھی تعلیم میں بہت پیچھے
۴۶۶ ہے مہذب ملکوں کا ابھی تک یہ حال ہے کہ لوکل معاملات کو لوگ مقدم رکھتے ہیں- چنانچہ میرے سفر انگلستان کے موقع پر ایک با اثر کانسر ویٹو ممبر پارلیمنٹ ( CONSERVATIVE MEMBER PARLIAMENT)نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے یہاں اس قدر اس شخص کے سیاسی خیالوں کو نہیں دیکھا جاتا جس قدر اس امر کو کہ اس نے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کے لئے کیا کیا ہے- اگر کوئی اپنے حلقہ کے لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوا ہو تو پھر بہت سے لوگ جو سیاسی اصول کی طرف سے بے پرواہ ہوتے ہیں اسے ووٹ دے دیتے ہیں- پس جب اس ملک میں جس میں اس قدر عرصہ سے نمائندہ حکومت چلی آ رہی ہے لوگوں کا یہ حال ہے تو ہندوستان کا کیا حال ہوگا- چوتھا نقص اس طریق انتخاب سے یہ پیدا ہوگا کہ چونکہ کونسلوں کے ممبروں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ممبروں کو بھی اسمبلی کے لئے چن سکتے ہیں اور ایسے چنے ہوئے ممبر چاہیں تو دونوں مجالس کے ممبر رہ سکتے ہیں اکثر ایسا ہی ہوگا کہ ممبر آپس میں ہی ایک دوسرے کو اسمبلی کے لئے چن لیں گے اور پھر وہ دونوں عزتوں کو جمع رکھنے کے لئے دونوں ہی مجالس کے ممبر رہیں گے- جس سے یہ نقص پیدا ہو جائے گا کہ تمام حکومت دھڑا بندی کے اثر کے نیچے آ جائے گی اور لانگ پارلیمنٹ (LONG PARLIAMENT) کے ممبروں کی طرح ملک کا سب اختیار ایک خاص پارٹی کے قبضہ میں آ جائے گا- اور پھر ایک ہی وقت اگر اجلاس ہونگے اور ضرور اکثر اوقات ایسا ہی ہوگا تو دونوں مجالس یعنی صوبوں کی اور مرکزی نقصان اٹھائیں گی کیونکہ نہ ممبر اس طرف توجہ دے سکیں گے اور نہ اس طرف- اگر یہ شرط بھی کر دی جائے کہ جو صوبہ کی کونسل کا ممبر اسمبلی کے لئے چنا جائے وہ کونسل سے استعفیٰ دے دے تو پھر ہر انتخاب کے موقع پر فوراً ہی ایک معقول تعداد کے حلقوں میں ان لوگوں کی جگہ پر کرنے کے لئے دوبارا انتخاب کرنا پڑے گا جسے لوگ قدرتاً ناپسند کرتے ہیں- غرض یہ طریق انتخاب نہ صرف خلاف عقل ہے اور اصول سیاست کے مخالف ہے ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے خصوصاً اور ملک کے لئے عموماً سخت مضر ہے- اس سے مرکزی حکومت بھی بہت کمزور ہو جائے گی اور یقیناً درجہ نو آبادیات کے حصول میں دیر واقع ہو گئی- پس اسمبلی کا انتخاب براہ راست پبلک کی طرف سے ہونا چاہئے اور اس میں مسلمانوں کا حق جداگانہ انتخاب کا قائم رہنا چاہئے-
۴۶۷ میں اس موقع پر یہ امر بھی بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ اسمبلی میں مقامی کونسلوں کی نمائندگی کی تجویز سب سے پہلے میری طرف سے ہی سائمن کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھی- چنانچہ احمدیہ جماعت کی طرف سے جو میمورنڈم (MEMORANDUM )سائمن کمیشن کو بھیجا گیا تھا اس کے یہ الفاظ ہیں- ‘’علاوہ ازیں ہماری رائے میں یہ مناسب ہے کہ صوبہ جاتی کونسلوں کو مرکزیمجالس میں نیابت حاصل ہو کیونکہ اس سے فیڈریشن کے صحیح نشوونما میں مدد مل سکتی ہے- اس سے یقیناً صوبہ جاتی کونسلوں اور مرکزی اسمبلی میں زیادہ رابطہ و اتحاد پیدا ہو جائے گا جو دونوں کے لئے مفید ہو گا’‘- ۶۴؎ میری اس رائے کو پنجاب سائمن کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں شامل کر لیا- پس اس خیال کا بانی میں ہی ہوں لیکن باوجود اس کے میں سائمن کمیشن کی سفارش کا مخالف ہوں- اس لئے کہ میری سفارش اس اصل پر مبنی تھی کہ-: (۱) کونسل آف سٹیٹ کی موجودہ شکل بے اصول ہے اس کو توڑ دیا جائے اور اس کی جگہ اسمبلی میں ایک حد تک کونسلوں کو نمائندگی دے کر دونوں ضرورتیں اسمبلی میں پوری کر لی جائیں- (۲) سب ممبر نہیں بلکہ کچھ ممبر کونسلوں سے لئے جائیں- باقی براہ راست منتخب ہوں- پس میری سفارش سیاسی اصول پر مبنی تھی لیکن سائمن کمیشن کی سفارش کسی اصل پر مبنی نہیں- اس نے کونسل آف سٹیٹ کو بھی قائم رکھا ہے اور اسمبلی کے قریباً سب ممبر کونسلوں سے بھیجنے کی سفارش کی ہے- کونسل آف سٹیٹ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کونسل آف سٹیٹ کی موجودہ شکل بالکل غیراصولی ہے- اس کا کوئی خاص کام نہیں جس کی وجہ سے اسے قائم رکھا جائے- اس وجہ سے میری رائے شروع سے یہ رہی ہے کہ اگر اس کی صورت بدلی نہ جائے تو اس کو توڑ دیا جائے- سائمن کمیشن نے اس میں کچھ اصلاح کی ہے لیکن ویسی ہی صورت اسمبلی کے متعلق پیدا کر کے بھی اس کی غرض کو باطل کر دیا ہے- پس میرے نزدیک ضرورت ہے کہ اسمبلی کی نشستیں تو براہ راست انتخاب کے ذریعہ سے پر کی جائیں اور کونسل آف سٹیٹ کا انتخاب اس سے مختلف ہو- میں اس کے لئے مندرجہ ذیل تجویز پیش کرتا ہوں-
۴۶۸ (۱) کونسل آف سٹیٹ کے ممبر اسمبلی سے ایک تہائی ہوا کریں- (۲) ان میں سے ۵/۴ ممبر صوبہ جات کی کونسلیں منتخب کیا کریں اور ۱۰/۱ ممبر گورنر جنرل انکونسل( GOVERNOR GENERAL IN COUNCIL) ایسے لوگوں میں سے جنہوں نے علمی یا عملی خدمت ملک کی کی ہو یا زمیندارہ، تجارت وغیرہ خاص مفاد کی نیابت کرنے والے لوگوں میں سے نامزد کریں- ان نامزد شدہ ممبروں میں قومی توازن کو قائم رکھا جائے- کونسلوں کی نمائندگی علاقہ کے اصول پر ہو اور ہر ایک صوبہ خواہ بڑا ہو، خواہ چھوٹا ہو اسے برابر کے ممبر بھیجنے کا اختیار ہو- ووٹنگ واحد قابل انتقال ووٹ کے اصول پر ہو- اگر اسے کسی وجہ سے پسند نہ کیا جائے تو ‘’انتخاب مطابق تعداد’‘ کے طریق کو اختیار کر لیا جائے- لیکن میرے نزدیک اقلیتوں کے فوائد کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے پہلا طریق زیادہ مفید ہو گا- مگر یہ امور مختلف اقوام کے نمائندے بحث کے بعد بہتر طور پر طے کر سکتے ہیں- شاید اس پر اعتراض ہو کہ اب کیوں میں نے مخلوط انتخاب کے طریق کو پسند کر لیا ہے- تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری مجلس کا انتخاب علاقہ کے اصول پر ہوتا ہے اور پہلی کا افراد پر- اس لئے پہلی چیمبر کے انتخاب پر جو افراد کی نمائندہ تھی مجھے اعتراض تھا- دوسری چونکہ افراد کی نمائندہ ہی نہیں ہے- اس میں مخلوط انتخاب پر مجھے اعتراض نہیں- گو ‘’انتخاب مطابق تعداد’‘ پر اعتراض ہے کیونکہ اس طرح اسلامی صوبوں کے الگ بنانے میں جو زائد حفاظت مسلمانوں کے حقوق کی مدنظر رکھی گئی تھی وہ کمزور ہو جائے گی- جو ممبر گورنر جنرل نامزد کریں ان کے متعلق انہیں اختیار ہو کہ خواہ ایک عرصہ انتخاب کے لئے منتخب کریں خواہ عمر بھر کے لئے مقرر کریں کیونکہ کچھ لائف ممبروں کا مقرر ہونا بھی ایسی کونسل میں مفید ہوتا ہے- اس سے قومی کاموں میں خاص طور پر حصہ لینے کا شوق بھی لوگوں میں پیدا ہو گا کیونکہ سمجھا جائے گا کہ خاص خدمت کرنے والوں کو ملک میں دائمی حق نیابت کی صورت میں اعزاز دیا جاتا ہے- (۳) کونسل آف سٹیٹ کی عمر سات سال ہوا کرے تاکہ جس وقت اسمبلی کا انتخاب ہو رہا ہو ایک مجلس ایگزیکٹو مدد دینے کے لئے موجود رہے-
۴۶۹ قانون ساز مجالس کے اختیارات میں یہ پہلے بتا چکا ہوں کہ قانون اساسی کے طے ہونے کے فوراً بعد مرکز میں اس پر عمل شروع نہ ہو بلکہ ایک وقتی انتظام پہلے قائم کیا جائے جو حسب قوانین تبدیل ہوتا ہوا قانون اساسی کے مطابق ہو جائے اس لئے جو کچھ میں اب لکھوں گا وہ اس امر کو مدنظر رکھ کر ہو گا کہ پہلی اسمبلی جو نئے نظام کے ماتحت منتخب ہو اس کے کیا اختیارات ہوں- میرے نزدیک یہ مناسب نہیں کہ فوراً ہی ایگزیکٹو کو اسمبلی کے تابع کر دیا جائے- اس لئے میرے نزدیک مناسب یہ ہو گا کہ چند سال تک موجودہ تعلق اسمبلی اور ایگزیکٹو کا بہت حد تک قائم رکھا جائے- لیکن اس امر کا خیال رکھتے ہوئے کہ آئندہ حکومت خود اختیاری اصول پر چلائی جائے گی مندرجہ ذیل تغیر کر دیئے جائیں- (۱) اسمبلی کو آئندہ مالی معاملات میں پوری آزادی ہو اور اس کا فیصلہ اس امر میں ناطق ہو سوائے اس کے کہ گورنر جنرل کسی امر کو ملک کے مفاد کے خلاف دیکھ کر رد کر دیں- مالیبل جس قدر پیش ہوں ان کی اصلاح کا بھی اسمبلی کو اختیار ہو اور بغیر اس کی اجازت کے بل کو واپس لینے کا حکومت کو اختیار نہ ہو- (۲) اس وقتی نظام کے دوران میں اگر دونوں مرکزی مجالس تین چوتھائی کی کثرت سے کوئی فیصلہ کر دیں تو گورنمنٹ اس پر عمل کرنے کی پابند ہو- بشرطیکہ وہ امر کانسٹی چیوشن (CONSTITUTION( یا ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کے اختیارات یا نان ووٹیبل (NONVOTABLE)امور سے تعلق نہ رکھتا ہو- گورنر جنرل کو بھی اس فیصلہ کو رد کرنے کا اختیار نہ ہو- صرف یہ اختیار ہو کہ وہ پہلے دونوں مجالس کے پاس اس فیصلہ کو واپس کریں اور دوبارہ غور کرنے کی ہدایت کریں اور اس کی وجوہ بیان کر دیں- اگر دونوں مجالس ان کی مرضی کے مطابق اصلاح کر دیں تو فبہا، ورنہ اگر اصلاح نہ ہو یا مرضی کے مطابق نہ ہو اور گورنر جنرل یہ سمجھیں کہ اس فیصلہ کا اجراء خطرناک ہے تو وہ دونوں مجالس کو برخاست کر کے نئی مجالس کا انتخاب کرائیں اور اس وقت تک اس فیصلہ کو ملتوی رکھیں- اگر دوسری منتخب شدہ مجالس بھی تین چوتھائی کی اکثریت سے اس
۴۷۰ فیصلہ کی تائید کریں تو پھر بہر حال اس کا اجراء کیا جائے- (۳) چونکہ یہ امر بھی ضروری ہے کہ ملکی عنصر کو حکومت کے طریق سے آگاہ کیا جائے اور ایک حد تک اس کا اثر ایگزیکٹو پر بھی ہو- دوسری طرف یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈائی آرکی (DIARCHY) کی موجودہ صورت کو جو فی الواقع مضر ہے دور کیا جائے اس لئے میرے نزدیک ایک درمیانی تجویز یہ مناسب ہو گی کہ ہر انتخاب کے بعد اسمبلی کے ممبر کونسل آف سٹیٹ کے ممبروں سے مل کر تیس آدمیوں کی ایک فہرست تیار کر کے گورنر جنرل کے پاس بھیج دیا کریں جو ان میں سے چند آدمیوں کو منتخب کر کے ان میں سے ایک ایک کو ہر ایگزیکٹو ممبر کے ساتھ پارلیمنٹری سیکرٹری کے طور پر لگا دیں- یہ سیکرٹری تنخواہ دار ہوں اور اسی طرح ڈسپلن کے پابند ہوں جس طرح دوسرے ملازم ہوتے ہیں اور ان کا فرض ہو کہ وہ محکمہ کی پالیسی کی پابندی کریں اور اس کے رازوں کو محفوظ رکھیں اور پورے طور پر اپنے افسر اور گورنر جنرل کے سامنے جوابدہ ہوں نہ کہ اسمبلی کے سامنے- ان کے ساتھ ایک مستقل آفیشل سیکرٹری بھی ہو لیکن یہ فرق نہ کیا جائے کہ چند محکمے مستقل طور پر ان منتخب سیکرٹریوں کے لئے مخصوص کر دیئے جائیں بلکہ دونوں سیکرٹریوں کے جو کام سپرد ہو ان پر باری باری منتخب اور مستقل کارکن لگتے رہیں تاکہ محکمہ کی تمام شاخوں کا منتخب سیکرٹریوں کو علم اور تجربہ ہوتا رہے- اسمبلی کے برخاست ہونے یا کئے جانے پر یہ لوگ بھی کام سے علیحدہ ہو جائیں- اور پھر نئے انتخاب پر نیا پینل تیار ہو جس سے گورنر جنرل نئے وزراء کا انتخاب کریں لیکن اسمبلی کے برخاست ہونے سے پہلے انہیں گورنر جنرل تو علیحدہ کر سکیں لیکن اسمبلی ان کے خلاف کوئی ووٹ پاس نہ کر سکے- اس طرح ایک تو ایگزیکٹو اپنا کام بغیر کسی قسم کی روک کے کر سکے گی دوسرے ایسے لوگ حکومت کا کام کرنے کی مشق پیدا کر لیں گے جن پر مجالس قانون ساز کو اعتبار ہو گا- تیسرے وہ لوگ جو سیکرٹری مقرر ہوں گے باوجود ایگزیکٹو کا جزو ہونے کے بوجہ منتخب مجالس میں سے آنے کے ملک کی صحیح ترجمانی ایگزیکٹو مشوروں کے وقت کر سکیں گے- اورایگزیکٹو پر اپنا اخلاقی اثر ڈال کر اسے ایک حد تک مجالس کے منشاء کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو سکیں گے- چوتھے یہ لوگ گورنمنٹ کے لئے بھی مفید ہوں گے کیونکہ بوجہ مختلف پارٹیوں کا نمائندہ ہونے کے اس پر ان کا اثر ہو گا اور
۴۷۱ منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو کے درمیان میں بطور ایک واسطہ کے بن جائیں گے کیونکہ ایک طرف ان کے سامنے حکومت کی مشکلات ہوں گی اور دوسری طرف پبلک کی خواہشات- (۴) چوتھے بعض محکمے ایسے نامزد کر دیئے جائیں- جیسے کہ مثلاً تعلیم ہے، حفظان صحت ہے، صنعت و حرفت ہے کہ ان محکموں کے متعلق اسمبلی کو حق ہو کہ وہ سال کے شروع میں ایک عام ہدایت طریق کار کے متعلق دے دیں اور وہ محکمے اس ہدایت کی حتی الوسع پابندی کریں- حتی الوسع سے مراد یہ کہ جب خاص وجوہ سے عمل نہ ہو سکتا ہو تب اسمبلی کے منشاء کے خلاف عمل ہو- ورنہ اسی کے مطابق ہو مجھے معلوم ہے کہ یہ محکمے اصل میں صوبہ جاتی ہیں لیکن کچھ کام ان کے ماتحت مرکز سے بھی متعلق ہے- نیز میں نے ان کا ذکر صرف بطور مثال کے کیا ہے ورنہ اگر یہ مناسب نہ ہوں تو اور ایسے محکمے اس غرض کے لئے چنے جا سکتے ہیں- (۵) فوج، فارن اور پولیٹیکل معاملات کے متعلق اسمبلی کو ریزولیوشن پاس کرنے کی اجازت نہ ہو عام اظہار رائے کر سکتی ہے- کونسل آف سٹیٹ کا کام علاوہ پینل تجویز کرنے کے یہ ہو-: (۱) اسمبلی کے پاس شدہ مسودات پر نظر ثانی جس کے بعد مسودہ پھر پہلی مجلس میں جائے- اگر اسمبلی سفارشوں کو منظور کر لے تو فبہا اگر منظور نہ کرے تو دونوں مجلسوں کی جائنٹکمیٹی کے سپرد ہو- اگر پھر بھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے اور اسمبلی ساٹھ فیصدی حقیقیاکثریت سے اسے دوبارہ پاس کر دے تو وہ پاس شدہ سمجھا جائے ورنہ رد ہو جائے- لیکن نیا مسودہ پاس کرنے یا اس پر بحث کر کے اسے رد کرنے کی کونسل آفسٹیٹ کو اجازت نہ ہو- ہاں اسے ایگزیکٹو سے سفارش کرنے کا اختیار دیا جائے کہ فلاں امر کے متعلق قانون کی ضرورت ہے- (۲) مالی مسودات میں ترمیم کرنے کا اسے اختیار نہ ہو لیکن سفارش کر کے دوبارہ غور کرنے کے لئے وہ بجٹ یا مالی مسودہ کو بھیج سکے لیکن پورے طور پر بجٹ کو یا کسی اور مالی مسودہ کو رد کرنے کا اسے اختیار ہو- لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ سمجھا جائے کہ اگر اسمبلی ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو دونوں مجالس برخاست ہو جائیں اور اگر نئے
۴۷۲ انتخاب کے بعد بھی اسمبلی اس مسودہ کو پاس کر دے تو پھر اسے پاس سمجھا جائے- دونوں کو برخاست کرنے کی غرض یہ ہے کہ تابغیر کافی وجہ کے کونسل آف سٹیٹ بجٹ کو رد نہ کرے اور تا ممبروں کو احساس رہے کہ اگر ہم نے بلا وجہ ایسا کام کیا تو صوبہ جات ہمیں دوبارہ منتخب نہ کریں گے- (۳) کونسل آف سٹیٹ کو یہ بھی اختیار ہو کہ جس مسودہ کے متعلق وہ یہ فیصلہ کر دے کہ اس سے صوبہ جات کے ان حقوق پر زد پڑتی ہے جو قانون اساسی کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہیں تو وہ مسودہ کسی مزید کارروائی سے پہلے صوبہ جات کی کونسلوں کے پاس بھیجا جائے اور اگر کونسلوں کی اکثریت کا یہ فیصلہ ہو کہ اس سے ان کے حقوق پر زد پڑتی ہے تو وہ مسودہ رد کر دیا جائے- لیکن گورنر جنرل کو اختیار ہو کہ اگر وہ یہ دیکھیں کہ معاملہ اہم ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے تو کونسل کے فیصلہ کو رد کر کے مسودہ پر مزید کارروائی ہونے کی اجازت دے دیں- اس صورت میں جو صوبہ یہ سمجھتا ہو کہ اس سے اس کی یا صوبہ جات کی حق تلفی ہوئی ہے وہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں پیش کر کے فیصلہ کرا سکتا ہے یا اگر صوبہ جات اور مرکز کے درمیان یا صوبہ جات اور صوبہجات کے درمیان فیصلہ کے لئے ثالثی کا طریق زیادہ پسند کیا جائے تو امریکن شرائط اتحاد مابینالدول(ARTICLES OF CONFEDERATION) کی دفعہ ۹ کے مطابق کچھ اصول طے کر لئے جائیں اور اختلاف کے موقع پر ان کے ماتحت فیصلہ کیا جایا کرے- مجلس عاملہ (ایگزیکٹو کونسل) میرے نزدیک ڈومینین سٹیٹس (DOMINION STATUS )کے اصول پر کام چلانے کے لئے ایگزیکٹو کے موجودہ طریق میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے اس وقت ایگزیکٹو کونسل (EXECUTIVE COUNCIL) کا ایک ممبر کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے- یہ طریق جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے درست نہیں کیونکہ کمانڈر انچیف ایک مستقل عہدہ دار ہے اور بوجہ اپنے سیاسی خیالات کے نہیں بلکہ اپنے ماہر فن ہونے کے اپنے اس کام پر مقرر کیا جاتا ہے- پس اسے ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنانا درست نہیں- میرے نزدیک آئندہ اصلاحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جنگی وزیر مقرر کر دیا جائے جو سویلین (CIVILIAN) ہو تاکہ جب بھی حکومتخوداختیاری مکمل ہو آسانی سے اس صیغہ کو منتقل کیا جا سکے اور میری اوپر کی
انوار العلوم جلد اا ۴۷۳ بیان کردہ سکیم کے ماتحت اس محکمہ میں بھی مرکزی مجالس کی سفارش پر ایک غیر سرکاری افسر مقرر کیا جا سکے- ہاں اس صیغہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات قانون میں ضرور آ جانی چاہئے کہ ایک تجربہ کار افسر سیکرٹری کے عہدہ کا وزیر جنگ کے ساتھ مقرر کیا جائے تا کہ فنی (TECHNICAL) معاملات میں وہ مشورہ دے سکے- دوسری اصلاح میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ سائمن رپورٹ نے جو لیڈر آفدی ہاؤس (LEADER OF THE HOUSE) ایک نیا عہدہ تجویز کیا ہے اس کی زیادتی کی جائے اور لیڈر آف دی ہاؤس پر مقرر ہونے والا شخص صرف قانون ساز مجلس میں ہی لیڈر کا کام نہ دے بلکہ ایگزیکٹو کونسل کا بھی وائس پریزیڈنٹ ہو اور اس کی حیثیت وزارت میں وزیراعظم کی سی ہو- گورنر جنرل کو اختیار ہو کہ وہ اہم معاملات میں وزارت کو بلوا کر اپنے سامنے مشورہ کرے اور خود مجلس وزارت کی صدارت کرے- لیکن عام طور پر جیسا کہ آئینی حکومتوں میں دستور ہے صدارت کے کام کو وزیر اعظم پر چھوڑ دے- اس سے آہستہ آہستہ اسی راہ پر کام پڑ جائے گا جس پر اسے ڈالنا مقصود ہے- تیسری اصلاح یہ ضروری ہے کہ سائمن کمیشن کی سفارش کے مطابق آئندہ انتخاب ممبروں کا وائسرائے کی مرضی پر رہے- یہ بھی اچھی اصلاح ہے اس سے آئندہ وزارت کے لئے داغ بیل پڑ جائے گی اور بغیر کسی تغیر کے آہستگی سے سروسز (SERVICES) کی بجائے اسمبلی کے ممبروں کی طرف وزارت منتقل ہو سکے گی- چوتھی اصلاح یہ بھی مفید ہو سکتی ہے کہ ایگزیکٹو کے ممبر، ممبر کہلانے کی بجائے سیکرٹری یا منسٹر کہلائیں اس صورت میں اسمبلی کے منتخب ممبر جن کے بطور نائب مقرر کرنے کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں بجائے سیکرٹری کے نائب سیکرٹری کہلائیں- یہ اصلاح گو نام کی ہے لیکن نام کا بھی انسان کی طبیعت پر اثر ہو جاتا ہے اور نام اسے اس طریق عمل کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے جو اس کے لئے پسند کیا گیا ہے- ایگزیکٹو کونسل کے ممبر دونوں مرکزی مجلسوں کے بہ حیثیت عہدہ ممبر ہوں اور ان کے سوا اسمبلی میں کوئی نامزد شدہ ممبر نہ ہو- مرکزی حکومت میں انتخابی عنصر کی ترقی یہ انتظام میرے نزدیک پہلے پانچ سال تک کسی صورت میں تبدیل نہ ہو سکے- پانچ سال کے بعد دونوں مرکزی مجالس میں اگر تین چوتھائی ممبروں کی کثرت سے یہ ریزولیوشن پاس
۴۷۴ ہو جائے کہ اب دوسرا قدم آزادی کی طرف اٹھانے کا وقت آ گیا ہے تو اس ریزولیوشن کے بعد حکومت ہندوستان میں مزید تغیر کر دیا جائے اور وہ میرے نزدیک یہ ہو کہ علاوہ ان نائبسیکرٹریوں کے جو پہلی اسمبلی میں مقرر کئے گئے تھے- اس ریزولیوشن کے پاس ہونے کے بعد آٹھ میں سے (لیڈر آف دی ہاؤس کو ملا کر آئندہ آٹھ ممبر ہو جائیں گے)پانچ ایگزیکٹو ممبر ہندوستانی کر دیئے جائیں- نیز ان کا تعین بجائے موجودہ طریق کے اسی طرح دونوں مجالس کے منتخب پینل سے ہو جس طرح کہ میں نے سیکرٹریوں یا ممبروں کا نام سیکرٹری ہو جانے کی صورت میں نائب سیکرٹریوں کے لئے تجویز کیا ہے لیکن اسمبلی اور ایگزیکٹو کے تعلقات وہی رہیں جو پہلی کونسل میں تھے- یعنی یہ سیکرٹری (میری مراد ایگزیکٹو ممبر سے ہے( بھی اسی طرح گورنر جنرل کے سامنے جوابدہ ہوں جس طرح ایگزیکٹو ممبر ہوتے ہیں صرف اپنے اخلاقی دباؤ سے ملک کی رائے پر اثر ڈالیں- اسی طرح یہ مزید اختیار مرکزی مجالس کو دیا جائے کہ پہلی کونسل میں جن امور کے متعلق ان کا فیصلہ تین چوتھائی ووٹ سے لازمی ہوتا تھا اب ساٹھ فیصدی حقیقی (ABSOLUTE) اکثریت سے جو فیصلہ دونوں مجالس کر دیں بشرطیکہ قانون اساسی نان ووٹیبل امور یا ایگزیکٹو کے اختیارات سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ فیصلہ انہی شرائط کے ساتھ جو پہلے بیان ہو چکی ہیں ایگزیکٹو کے لئے واجب العمل ہو- اس کے پانچ سال تک پھر کسی مزید امر کا فیصلہ کرنے کا مجالس کو اختیار نہ ہو- لیکن دوسرے پانچ سال کے گزرنے پر پھر دونوں مرکزی مجالس کو اختیار ہو کہ وہ تیسرے قدم کے اٹھانے کا ریزولیوشن تین چوتھائی ممبروں کی رائے سے پاس کریں جس کے بعد میرے نزدیک مزید اختیارات اسمبلی کو ملیں جو یہ ہوں- آئندہ سے گورنر جنرل رسپانسیبل منسٹری (RESPONSIBLE MINISTERY) بنائیں جس میں یہ شرط ہو کہ جس کے سپرد وزارت کا کام کیا جائے وہ کم سے کم دو انگریز ممبر سروسز میں سے اپنے ساتھ شامل کرے جن میں سے ایک فوج کے محکمہ کا انچارج ہو- ان کا انتخاب اس کے اختیار میں ہو لیکن وہ پابند ہو کہ سول سروس کے دو انگریز ممبروں کو ضرور شامل کرے- اس وقت سے وزارت پوری طرح مجالس کے ماتحت ہو اور صرف گورنر جنرل کو ویٹو کا اختیار ہو- یا مسودہ کو واپس نظر ثانی کے لئے بھیجنے کا اختیار ہو- پولیٹیکل اور فارن معاملات گورنر جنرل سے براہ راست متعلق رہیں اور ملٹری بجٹ نان ووٹیبل (NON VOTABLE)
۴۷۵ رہے- باقی سب امور میں مرکزی مجالس کو پورا اختیار ہو- اس کے بعد بہت چھوٹی اصلاحات باقی رہ جائیں گی جو آہستگی سے ہوتی چلی جائیں گی- اور قانون ساز مجلس کے زور دینے پر ان میں خود بخود اصلاح ہوتی چلی جائے گی کیونکہ اس موقع پر پہنچ کر اسمبلی کا زور اس قدر ہو جائے گا کہ ملک کی کوئی صحیح خواہش بغیر پوری ہونے کے نہیں رہے گی- حکومت ہند اور صوبہ جات کا تعلق صوبہ جاتی آزادی کے بعد مرکز کا دخل صوبہ جاتی معاملات میں نہیں رہنا چاہئے اور رہنا ممکن بھی نہیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر انتظام میں خرابی ہو تو اس کا کیا علاج ہوگا؟ کیونکہ یہی سوال مرکزی حکومت کے متعلق کیا جا سکتا ہے کہ اگر اس کا انتظام خراب ہوا تو اس کا کیا علاج ہوگا؟ انسانی کاموں کا یہی حال ہے کہ آخر ایک جگہ پر یہ اعتبار کیا جاتا ہے کہ ذمہ وار ٹھیک طور پر کام کریں گے- جب کونسلیں مقرر ہو جائیں گی اور ملک کی براہ راست نگرانی میں حکومت آ جائے گی تو پھر یہی سمجھنا چاہئے کہ مرکز کی ذمہ داری ادا ہو گئی- ہاں سوال ان امور کا رہ جاتا ہے جو مرکزی ہیں چونکہ ان میں سے بھی بہت سے امور کا عمل درآمد اگر فضول اخراجات سے بچنا ہو تو صوبہ جات کی حکومتوں کے ذریعہ سے ہوگا اس لئے صوبہ جات کی ایگزیکٹو ایسے تمام امور میں مرکزی حکومت کے ماتحت ہونی چاہئے اور ان احکام کی تعمیل میں اور ان کے متعلق معلومات بہم پہنچانے میں وہ پوری پابند ہونی چاہئے اور صوبہ جات کے گورنر اس امر کی نگرانی کے ذمہ وار ہونے چاہئیں کہ مرکزی امور کی تعمیل صوبہجات میں پوری طرح ہوتی ہے یا نہیں- یونائیٹڈ سٹیٹس میں اس غرض کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے الگ عہدہ دار ہیں- لیکن ہندوستان میں میرے نزدیک اس قدر علیحدگی کی ضرورت نہیں ہے-
۴۷۶ باب ہشتم فوج تمام سوالات میں سے جو ہندوستان کے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں فوج کا سوال سب سے اہم ہے- کیونکہ اس محکمہ پر ملک کے اندرونی اور بیرونی امن کا دارو مدار ہے اور سب سے زیادہ اس محکمہ میں ہی ہندوستانیوں کی کمی ہے- فوجی اسلحہ کا بنانا اور ہر قسم کے ہتھیاروں کی درستی اور مرمت اور ہر محکمہ کے ماہرین فن کی موجودگی میں ہندوستان بہت ہی پیچھے ہے لیکن باوجود اس کے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وجہ سے ہندوستانیوں کو ان کے ملک میں آزادی نہ دی جائے- ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے- جاپان بے شک جزیرہ ہے اور اسے خشکی کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دو بحری طاقتیں اس میں دخل پیدا کر چکی تھیں- ایک یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ اور دوسرے برطانیہ- باوجود اس کے جاپان نے نہایت سرعت سے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط کر لیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ جرنیل ایک دن میں نہیں بنتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ضرورت کے وقت جرنیلوں کے بنانے میں اس قدر دیر لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی جس قدر کہ امن کے دنوں میں- عام طور پر جرنیل پچیس تیس سال کی نوکری کے بعد بنتا ہے لیکن جنگ عظیم کے دنوں میں ہر قوم کے فوجی افسر کس طرح جلد جلد جرنیل اور کرنیل بنتے تھے- غرض موقع کی بات ہوتی ہے جیسا موقع ہوتا ہے ویسا انسان کام کر لیتا ہے- پس اگر ابتدائی دنوں میں بعض عام قواعد کو ترک کر کے ہندوستانی افسروں کو نسبتاً جلدی ترقی دے دی جائے اور بجائے عرصہ ملازمت کے دیکھنے کے لائق افسروں کی قابلیتوں کا امتحان لے کر انہیں ترقی دے دی جائے تو عام اندازے سے بہت جلد ہندوستانی فوج تیار ہو سکتی ہے- سائمن کمیشن نے لکھا ہے کہ چونکہ ہندوستان کی فوج کا مقصد صرف ہندوستان کی
۴۷۷ حفاظت نہیں بلکہ ایمپائر (EMPIRE) کی حفاظت ہے اس لئے ہندوستانی فوج کو ایمپائر کے نقطہنگاہ سے ہی دیکھنا چاہئے اور اس دلیل کو قائم کر کے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ آئندہ ہندوستان سے ایک مقررہ رقم فوج کے اخراجات کی لی جائے باقی انگلستان ادا کرے لیکن باوجود پورا غور کرنے کے میں کمیشن کی اس دلیل کو نہیں سمجھا- میں یہ تو تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوستان برطانوی ایمپائر کا ایک اہم حصہ ہے لیکن یہ امر کہ اس کی حفاظت کا سوال اس سے زیادہ امپیریل ہے جس قدر کہ آسٹریلیا یا کینیڈا کی حفاظت کا سوال میری سمجھ سے باہر ہے- کمیشن نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستان کے اعمال کا ہی ہندوستان کی سرحدوں پر اثر نہیں پڑے گا بلکہ دوسری جگہوں پر بھی اگر برطانوی امپائر کا کسی سے جھگڑا ہوا تو ہندوستان پر اس کا اثر پڑے گا- اس وجہ سے یہ امپیریل کا سوال ہے- اگر اس وجہ سے یہ سوال امپیریل ہے تو پھر بجائے ہندوستان کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے یہ چاہئے تھا کہ سب برطانوی علاقے اس کی مالی امداد کرتے لیکن کمیشن تجویز یہ کرتا ہے کہ اس وجہ سے اس کی فوجیں برطانوی محکمہ جنگ کے ماتحت رہنی چاہئیں- یہ ایسی ہی دلیل ہے جیسے کہ ڈومینین (DOMINION) حکومتیں کسی وقت یہ کہہ دیں کہ چونکہ برطانوی امپائر کی حفاظت میں بحری فوج کا بہت کچھ دخل ہے اس لئے اس کا بحری انتظام نوآبادیوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دینا چاہئے تاکہ وہ مطمئن رہے کہ انتظام ٹھیک ہے- اگر ہندوستان کو یہ یقین ہو جائے کہ برطانوی حکومت کا ایک قیمتی حصہ بننے کے یہ معنے ہیں کہ اسے آزادی سے محروم رکھا جائے تو ہندوستان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھے- ہندوستانی اسی وقت تک برطانوی تعلق کو قدر سے دیکھتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں جب تک وہ اسے ترقی اور آزادی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی وقت تک وہ برطانوی امپائر کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں- پس ایسی کوئی سکیم خواہ فوج کے متعلق ہو، خواہ کسی اور محکمہ کی نسبت جو عملاً ہندوستان کو آزادی سے محروم کر دے کسی صورت میں ہندوستان اور انگلستان میں اچھے تعلقات پیدا کرنے میں ممد نہیں ہو سکتی اور ایسی سکیم کو کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا- پس میرے نزدیک ہندوستانی فوج کو بھی ایسے طریق پر چلانا چاہئے جس سے وہ ایک دن ہندوستان کی مجالس حکومت کے ماتحت لائی جا سکے- یہ یقینی بات ہے کہ جب ایسا دن آیا اس
۴۷۸ دن ہندوستان کی قیمت.......انگریزوں کی نسبت ہندوستانیوں کی نظر میں زیادہ ہو گی اور اس لئے وہ کبھی بھی پسند نہیں کریں گے کہ اس کی آزادی کو خطرہ میں پڑنے دیں- میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستان میں فوج کا سوال حل کرنے کے لئے سکین کمیٹی (SCAN COMMITTEE) کی رپورٹ سے بہتر طریق کوئی نہیں ہو سکتا- اس کمیٹی میں برطانیہ کے بہترین جرنیلوں میں سے ایک جرنیل شامل تھا- یعنی آرمی سیکرٹری شامل تھا اور ہندوستانی رائے عامہ کے بہترین نمائندے بھی شامل تھے- پس وہ رپورٹ جو ایک طرف جنرل سکین (GENERAL SCAN) جیسے آدمی کی تصدیق اپنے ساتھ رکھتی ہے اور دوسری طرف ہندوستانی رائے کی تائید رکھتی ہے نظر انداز کرنے کے قابل نہیں- اس رپورٹ میں تین باتوں کی خاص طور پر سفارش کی گئی ہے- (۱) ہندوستان میں ایک فوجی کالج سنڈھرسٹ کے نمونہ پر بنایا جائے- (۲) جب تک یہ بات حاصل نہ ہو ہندوستانیوں کو ہر سال بڑھنے والی تعداد میں سنڈھرسٹ میں داخل کیا جائے حتی کہ ۱۹۵۲ء تک فوج کے نصف عہدہ دار ہندوستانی ہو جائیں- (۳) وہ آٹھ رجمنٹس جن میں خالص ہندوستانی افسروں کو بھرتی کرنے کی کوشش ہو رہی ہے توڑ دی جائیں اور ہندوستانی افسروں کو سب قسم کے فوجی محکموں میں انگریزوں سے مل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے- افسوس ہے کہ گورنمنٹ ہند نے اس سکیم کو رد کر دیا اور تینوں میں سے ایک تجویز کو بھی قبول نہ کیا- گو اب مجھے ایک نہایت ہی ذمہ وار اتھارٹی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان میں سنڈھرسٹ کی سکیم کے لئے گورنمنٹ آف انڈیا باوجود کمانڈر انچیف کی مخالفت کے زور دے رہی ہے مگر صرف یہی ایک سوال قابل غور نہیں اس سے تو صرف یہ فائدہ ہو گا کہ ہندوستانی افسر زیادہ جلدی تیار ہو سکیں گے اور مسلمانوں کو جو اب تک فوجی خدمات کرتے آئے ہیں اور جو بوجہ غربت انگلستان جا کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے اعلیٰ فوجی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن دوسرے دونوں امور بھی نہایت اہم ہیں- جب تک کالج کھلے ہندوستانیوں کو زیادہ تعداد میں سنڈھرسٹ میں بھیجنا چاہئے اور اگر وہاں زیادہ گنجائش نہ ہو تو زائد رقم خرچ کر کے بھی گنجائش نکالی جائے گو وہ بار ہندوستان پر ڈال دیا جائے- اسی طرح ہندوستانی اور انگریز افسروں کو اکٹھا ہی کام کرنے کا موقع دینا چاہئے تاکہ وہ ایک دوسرے کے
۴۷۹ مزاج شناس بھی ہوں اور ہندوستانیوں کا یہ وہم بھی دور ہو کہ ہمیں الگ فوج میں رکھ کر حکام کی غرض یہ ہے کہ ہم کو پورا موقع ترقی کا نہ دیا جائے- میں حیران ہوں کہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اعتراض کیا گیا ہے- اس وقت تک میں نے ایک ہی اعتراض سنا ہے کہ انگریز افسر ہندوستانی کے ماتحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں- اگر یہ درست ہے تو ہندوستانی بھی انتہاء درجہ کے بے غیرت ہوں گے اگر انگریزوں کے ماتحت کام کرنے پر تیار ہوں- اگر اس دلیل کی وجہ سے حکومت دونوں کو الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو میرے نزدیک حکومت بھی اس جرم کی موید ہے اور ایسی صورت میں اسے ہرگز یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ہندوستانی اس کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس صورت میں کانگریس کے تمام مظاہرات محض قومی غیرت کا ثبوت ہیں اور اس پر کوئی الزام نہیں آ سکتا- لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ لارڈ ارون (LORD IRWIN) جیسا شریفانسان کبھی اس دلیل کا موید نہیں ہوگا- کیونکہ یہ طبیعت تو انتہائی درجہ کی بد اخلاقی پر دلالت کرتی ہے اور لارڈارون ایک اعلیٰ درجہ کے شریف انسان ہیں- یاد رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں طبائع کے اختلاف کو دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا- کیونکہ باوجود اس اختلاف کے ہندوستانی افسر انگریزوں کی ماتحتی کرتے ہیں پھر انگریز افسر کیوں ہندوستانی کی ماتحتی نہیں کر سکتا اگر اس میں یہ برداشت نہیں تو وہ ہندوستانی سے بہت کم مہذب ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ حکومت اس کے ہاتھ میں دی جائے- غرض سکین کمیٹی (SCAN COMMITTEE) کی رپورٹ کے خلاف جو کچھ سنا جاتا ہے وہ معقول نہیں اور اس پر جلد سے جلد عمل کر کے ہندوستانی افسروں کو اس قابل کر دینا چاہئے کہ وہ ہندوستانی فوجوں کا خود انتظام کر سکیں- لیکن اس وقت تک کہ وہ دن آئے جب خود ہندوستانی فوج کی تمام شاخوں کا چارج لے سکیں اور اس کی سب ضرورتوں کو سمجھ سکیں وہی طریق جاری کیا جائے جو میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ فوجی سیکرٹری الگ ہو اور اس کا نائب ایک ہندوستانی اسی پینل میں سے منتخب کیا جائے کہ جسے دونوں مرکزی مجالس نے اس غرض کے لئے گورنر جنرل کے سامنے پیش کیا ہو- جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسی سکیم ہر خطرہ سے خالی ہو گی جس میں یہ انتظام ہو کہ فوج کا انتظام تیس سال تک کلی طور پر ہندوستان کی مجالس واضع قوانین کے ہاتھ میں آ جائے اور
۴۸۰ ہمیں فوجی سکیم اس امر کو مدنظر رکھ کر بنانی چاہئے- میرے نزدیک سیکرٹری کے علاوہ ہمیں کچھ عرصہ کے بعد ایک ملٹری کمیٹی بھی مقرر کر دینی چاہئے جس میں کچھ والیان ریاست ہوں اور کچھ ہندوستانی جو فوجی تجربہ رکھتے ہوں اور شرط کر دی جائے کہ فوجی بجٹ وغیرہ ان کی منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش ہو- اس قسم کی کمیٹی فوراً نہیں بن سکتی کیونکہ گو تجربہ کار والیان ریاست فوراً مل سکتے ہیں لیکن تجربہ کار فوجی افسر اس وقت نہیں مل سکتے- لیکن آٹھ دس سال کے عرصہ تک جب موجودہ فوجی افسر تجربہ حاصل کر لیں گے ان سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر مسٹرونسٹن چرچل (SIR WINSTON CHURCHILL) تھوڑے سے تجربہ کے بعد وزیر جنگ ہو سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان کے نوجوان پندرہ بیس سال کی جنگی خدمت کے بعد فوجی ضروریات کے متعلق ہمیں مشورہ نہ دے سکیں-
۴۸۱ باب نہم ریاست ہائے ہند اب میں ریاست ہائے ہند کا سوال لیتا ہوں کہ اس نئے نظام میں ان کا کیا درجہ ہو؟ ریاستیں ہندوستان کی آبادی کے قریباً چوتھے حصے اور اس کے رقبہ کے قریباً تیسرے حصے پر مشتمل ہیں- اس وجہ سے ان کا نظام حکومت سے الگ رہنا ہندوستان کی ترقی پر ضرور اثر ڈالے گا اس لئے ضرورت ہے کہ کسی نہ کسی اصول پر برطانوی ہندوستان اور ریاستوں میں تعلق پیدا کیا جائے- ریاستوں کا نقطہ نگاہ جو مجھے معلوم ہے یہ ہے کہ وہ اصل میں تو براہ راست سیکرٹری آف سٹیٹ سے تعلق رکھنا پسند کرتی ہیں لیکن اگر اس کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو پولیٹیکل محکمہ سے تعلق قائم رہنے کو برطانوی ہند سے وابستہ ہونے پر ترجیح دیتی ہیں*- میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ ریاستیں اس امر سے خائف ہیں کہ اگر ان کا برطانوی ہند سے تعلق ہو گیا تو برطانوی ہند زور دے گا کہ ان کے علاقہ میں بھی ویسے ہی آزاد نظام حکومت قائم ہو جائیں جس قسم کے برطانوی ہند میں ہوں گے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ صورت تو نہیں ہو گی لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ریاستوں کے باشندوں میں آزادی کی تحریک پیدا ہوئی تو برطانوی ہند کے باشندوں کو قدرتاً اس تحریک سے ہمدردی ہو گی- کیونکہ ایک انسان جن مشکلات میں سے خود گزر چکا ہو ویسی ہی مشکلات میں سے گزرنے والے دوسرے انسان سے اسے طبعا ہمدردی ہوتی ہے- مگر یہ ہمدردی بہر حالت پیدا ہو گی خواہ ریاستوں کا تعلق برطانوی ہند سے ہو- یا نہ ہو اور ریاستوں کو پہلے سے ہی سمجھ لینا چاہئے کہ * بعض بہی خواہان ملک کے زور دینے پر ریاستوں کا نقطئہ نگاہ بدل گیا ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ راونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر اکثر والیان ریاست نے فیڈریشن میں شمولیت کو پسند کر لیا ہے-
۴۸۲ جب ان کے چاروں طرف انسانیت آزادی سے متمتع ہو رہی ہو گی وہ اپنی رعایا کو اس تحریک سے غافل نہیں رکھ سکتے- اور ہندوستان کے نو آبادیوں والی حکومت کے حاصل کر لینے کے بعد وہ یہ امید نہیں کر سکتے کہ برطانیہ اس خواہش کے دبانے میں ان کی کچھ زیادہ مدد کرے گا- پس جو واقعات کل سختی سے پیش آنے والے ہیں ان کا احساس آج ہی کر کے ان کی سختی کو کم کر دینا چاہئے- میسور اور بعض دوسری جنوبی ہند کی ریاستیں اس طرف قدم اٹھا رہی ہیں پس اگر دوسری ریاستیں بھی ان کے نقش قدم پر چلیں تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اس سے ان کو یہ بھی فائدہ ہو گا کہ پولیٹیکل افسر جو ان کے کاموں میں روزانہ دخل دیتے ہیں دخل نہیں دے سکیں گے کیونکہ آئینی حکومت میں بہت سے امور تمام ملک کے مشورہ سے طے ہوتے ہیں اور ایگزیکٹو کو دبانا آسان ہے لیکن ملک کی رائے کو دبانا آسان نہیں- اور ایسی حکومت جو ملک سے مشورہ لے کر کام کرتی ہو اسے کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے کیونکہ وہ حکومت ہر تجویز پر عمل کرنے سے پہلے مجبور ہوتی ہے کہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ لے لے پس اگر پولیٹیکل افسر اس حکومت سے کوئی کام لینا چاہے گا تو وہ حکومت مجبور ہو گی کہ اس کے مشورہ کو ملک کے نمائندوں کے سامنے پیش کرے اور یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی پولیٹیکل افسر اس کی برداشت کرے کہ اس کی ہدایت کو مجلس قانون ساز کے سامنے رکھ دیا جائے- مگر بہرحال یہ معاملہ ریاستوں کا ہے اور اس میں ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں- ہمارا تعلق تو اس وقت اس امر سے ہے کہ کیا ریاستیں ہندوستان کی اتحادی حکومت میں شامل ہو سکتی ہیں؟ میرا جواب افسوس کے ساتھ یہ ہے کہ موجودہ حالت میں نہیں- ہاں مجھے یقین ہے کہ اگر ریاستیں ہندوستان فیڈرل سسٹم میں شامل نہیں ہوں گی تو انہیں سخت نقصان پہنچے گا- کیونکہ-: (۱) ریاستوں کا علاقہ بالکل پراگندہ ہے پھر سب ریاستیں ایک جیسی طاقتور نہیں- کوئی کمزور ہے تو کوئی طاقتور- پس اگر کسی وقت برطانوی ہند اور ریاستوں میں رقابت پیدا ہوئی تو ریاستیں کسی صورت میں برطانوی ہند کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی اور برطانیہ ہندوستان کو آزادی دینے کے بعد کسی صورت میں بھی اس جنگ میں دخل نہیں دے گا اور نہیں دے سکے گا کیونکہ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اقتصادی تدابیر سے ہو گی- (۲) ریاستوں میں سے صرف چند ساحل سمندر پر ہیں اور ان کا علاقہ باقی ریاستوں سے نہیں
۴۸۳ ملتا- اگر آپس میں اتحاد نہ ہوا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کسٹمز وغیرہ کے سوال میں برطانوی ہند ریاستوں کی خواہشات اور ضروریات کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس سے انہیں بہت مالی نقصان پہنچے گا- (۳) ریلوں وغیرہ کے معاملہ میں بوجہ پراگندہ ہونے کے برطانوی ہند ریاستوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے- برطانوی ہند کو صرف ایک ریل کی مشکل ہے ورنہ وہ بالکل آزاد ہے اور بالمقابل ریلیں جاری کر کے اور ریاستوں کی ریلوں سے تعلق قطع کر کے وہ انہیں سخت نقصان پہنچا سکتا ہے- غرض ریاستوں کا جائے وقوع ایسا ہے کہ بغیر ہندوستان کی فیڈریشن میں داخل ہونے کے ان کے لئے سخت مشکلات ہوں گی- لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری طرف بھی مشکلات ہیں ریاستوں کے لئے بھی اور برطانوی ہند کے لئے بھی- ریاستوں کے لئے تو یہ دقت ہے کہ فیڈریشن میں شامل ہونے سے انہیں اور ان معاملات میں اپنے حق کو چھوڑنا پڑے گا جو مرکزی ہوں گے- دوسرے ان کے طے کرنے میں انہیں زیادہ سے زیادہ اپنی رعایا کی آبادی کے برابر اپنی آواز کی قیمت تسلیم کرنی ہو گی- اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں نہ تو وہ اس امر کے لئے تیار ہیں کہ مرکزی امور میں وہ ہندوستانی مجالس کے قانونوں کو تسلیم کر لیں اور نہ وہ اس امر کے لئے تیار ہیں کہ ایک چوتھائی نمائندگی حاصل کریں- برطانوی ہند کے راستہ میں بھی ان کے شامل ہونے سے مشکلات ہیں- اول یہ کہ ریاستوں کی نمائندگی کس طرح پر اور کس مجلس میں ہو گی؟ اگر تو ان کے نمائندوں کا انتخاب پبلک کرے گی تو یہ ناممکن ہو گا کیونکہ اکثر ریاستیں ایسی ہیں کہ ان کی رعایا اتنی نہیں کہ آبادی کی بناء پر اپنا نمائندہ منتخب کر سکے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ مختلف ریاستوں کی آبادی مل کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرے کیونکہ بہت سی ریاستیں بالکل پراگندہ ہیں- دوسرے ابھی والیانریاست بھی اس امر کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے کہ تمام اہم امور ان کی رعایا کے نمائندے طے کر آئیں اور ان کا اس مشورہ میں دخل ہی نہ ہو- دوسری صورت اب یہ رہ جاتی ہے کہ ریاستوں کے نمائندے والیان ریاست کی طرف سے مقرر ہوں اور والیان ریاست غالباً سردست اس کے بغیر اور کوئی صورت مانیں گے بھی نہیں- لیکن اس صورت کو برطانوی ہند کبھی قبول نہیں کر سکتا کہ دو تین سو ووٹر مل کر ایک
۴۸۴ چوتھائی ممبروں کو نامزد کریں- کیونکہ اول تو منتخب مجالس میں نامزد ممبروں کی جگہ ہی نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی برداشت بھی کر لی جائے تب بھی کسی مجلس کے ایک چوتھائی ممبروں کا چند افراد کا نمائندہ ہونا اور ان کے حکم کے ماتحت ہونا اصول سیاست کے خلاف ہے اور اس سے وہ مجالس ہرگز آزاد مجالس نہیں کہلا سکتیں اور ان کی آزادی بالکل وہمی ہو جاتی ہے- نیز منتخب شدہ ممبر گو ووٹروں کی مرضی کا لحاظ کرتا ہے لیکن وہ ان کا نوکر نہیں ہوتا اور نہ ہر بات میں ان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن ریاستوں کے نمائندے ان کے ملازم اور ہر امر میں ان کے سامنے جواب دہ ہوں گے- پس وہ لوگ ووٹنگ مشینیں تو ہوں گے لیکن ایک منتخب مجلس قانون ساز کے ممبر کہلانے کے مستحق نہ ہوں گے اور مجلس کا توازن بالکل خراب کر دیں گے- علاوہ ازیں برطانوی ہند کا جائز طور پر خوف ہو گا کہ ریاستوں کے نمائندے درحقیقت برطانوی ہند کے نمائندے ہوں گے اور ان کی مدد سے ایک نیا آفیشل بلاک (OFFICIAL BLOCK)بن جائے گا کیونکہ جب تک ریاستیں پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ (POLITICAL DEPARTMENT)کے ماتحت ہیں وہ اس کے اشارہ پر چلنے کے لئے مجبور ہیں- پس اگر برطانیہ نے ان کے نمائندوں کوہندوستانیوں کے مفاد کے خلاف آفیشل بلاک کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تو ہندوستانی گویا ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں جا پڑیں گے- پھر یہ بھی سوال حل طلب ہے کہ ریاستیں اگر شامل ہوں تو کس مجلس میں؟ اگر کہو کہ اسمبلی میں تو اسمبلی افراد کی نمائندہ ہے نہ کہ علاقوں کی- پھر اسمبلی میں بجٹ وغیرہ بھی پاس ہوتے ہیں جن کے ساتھ ریاستوں کا کوئی تعلق نہ ہو گا- اگر کونسل آف سٹیٹ میں نمائندگی رکھی جائے تو ریاستوں کو قدرتاً اعتراض ہو گا کہ ان کو اس کونسل میں جگہ دی گئی ہے جس کے اختیارات محدود ہیں اور اس طرح ان کی رائے پر حد بندیاں لگا دی گئی ہیں- پس بوجہ اس کے کہ ان سے مشورہ پوری طرح نہیں لیا گیا وہ مرکزی مجلسوں کے فیصلوں کے پابند نہیں ہو سکتے- پھر ایک اور دقت برطانوی ہندوستان کے لئے پیش آئے گی اور وہ یہ ہے کہ کونسل آف سٹیٹ کو بہر حال علاقوں کا قائم مقام رکھنا ہو گا لیکن اگر ریاستیں اس میں شامل ہوئیں تو صوبوں کا توازن خراب ہو جائے گا اور قانون اساسی بالکل خطرہ میں پڑ جائے گا کیونکہ صوبوں کے حقوق
۴۸۵ سے ریاستوں کو کوئی دلچسپی نہ ہو گی کیونکہ وہ خود معاہدات کے رو سے دخل اندازی سے محفوظ ہوں گی- پس ان کے نمائندے اگر ان لوگوں سے مل گئے جو اتصالی حکومت کی تائید میں ہوں گے تو صوبہ جات کی آزادی تباہ ہو جائے گی- یہ اور ایسی ہی اور بہت سی مشکلات ہیں جن کی وجہ سے جب تک ریاستیں پولیٹیکل محکمہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک ان میں انتخابی حکومت کا طریق جاری نہیں ہوتا وہ ہندوستان کی اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ میں شامل نہیں ہو سکتیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان دونوں امور میں تبدیلی ریاستوں کے لئے مفید ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس فائدہ کو ابھی تسلیم نہیں کرتیں اور جب تک وہ تسلیم نہ کریں انہیں نہ مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ اس صورت میں ہندوستان کے مفاد کو عموماً اور اقلیتوں کے مفاد کو خصوصاً خطرہ میں ڈالا جا سکتا ہے- پس ضرورت ہے کہ اس سوال کو کسی اور نقطہ نگاہ سے دیکھا اور حل کیا جائے- میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے- اور وہ یہ ہے کہ اتحادی حکومت کا طریق برطانوی ہند اور ریاستی ہند میں الگ الگ جاری کیا جائے- ریاستی ہند کا اتحاد کس قسم کا اتحاد ہو ہمیں اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں- بہرحال چیمبر آف پرنسز (CHAMBER OF PRINCES) کے ذریعہ سے یا کسی اور ذریعہ سے وہ بھی اپنے نظام میں ایک یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر ان دونوں نظاموں کی ایک کانفیڈریشن (CONFEDERATION)بنا دی جائے- وہ ہندوستان کی فیڈریشن (FEDERATION) میں تو شریک نہ ہوں لیکن کانفیڈریشن میں شریک ہوں اور انہیں ہندوستان کے قانون سے تو کچھ تعلق نہ ہو لیکن کسٹمز، ریلوے، سکہ، صرافی، پوسٹ آفس، تار، ہوائی جہاز، سڑکوں، بے تار برقی کا آلہ، تجارت، بنکنگ، ماوراء البحر ہندوستانیوں کے حقوق، افیون وغیرہ (یہ فہرست سائمن کمیشن رپورٹ سے لی گئی ہے)- قسم کے امور کے تصفیہ کے لئے سرِدست ریاستوں کی فیڈریشن برطانوی ہند کے ساتھ شریک ہو جائے- سائمن کمیشن نے دونوں حصوں کے تعاون کے لئے ایک کمیٹی تجویز کی ہے جس میں کچھ لوگ تو برطانوی ہند سے شامل ہوں اور کچھ لوگ والیان ریاست کی طرف سے- حکومت ہند کے نمائندے کمیشن نے دو قسم کے تجویز کئے ہیں- یعنی کچھ تو مجالس قانون ساز سے چنے جائیں
۴۸۶ اور کچھ وائسرائے مقرر کریں- لیکن جو سب سے اہم سوال تھا کمیشن نے اسے حل نہیں کیا، یعنی ان کے آپس میں ملنے اور مشورہ کرنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ اس نے صرف یہ ذکر کیا ہے کہ اس کمیٹی کے غور و خوض کا نتیجہ اسمبلی اور چیمبرز آف پرنسز دونوں کے سامنے پیش کر دیا جائے- لیکن گو اس سے بالواسطہ طور پر تو کچھ فائدہ ہو لیکن بلاواسطہ طور پر اس کا کچھ نتیجہ نہ نکلے گا- پس میرے خیال میں سائمن کی تجویز سے زیادہ اتحاد پیدا کرنے والی تجویز ہونی چاہئے تاکہ آپس میں اتحاد کا راستہ نکل آئے- میں لکھ چکا ہوں کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ ریاستوں کا آپس میں کوئی نظام ہو- والیان ریاست کے دلوں میں عام طور یہ خیال ہے کہ یہ امر ان کے درجہ کے منافی ہے کہ وہ ہندوستان کے باشندوں سے مل کر کام کریں اور ان کا یہ احساس کسی زیادہ گہرے تعلق کے پیدا کرنے میں روک ہے- علاوہ ازیں یہ امر بھی کہ ایک علاقہ کی حکومت جمہوری ہے اور دوسری شخصی روک پیدا کرتا ہے- لیکن اگر ریاستوں کا آپس میں سمجھوتہ ہو جائے کہ ان کی چیمبرزآف پرنسز بجائے خالی غور کرنے والی مجلس کے ایک قسم کی اتحادی مجلس ہو تو پھر ہندوستانی اور ریاستی علاقوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہو جاتی ہے- کیونکہ اس صورت میں یہ انتظام کیا جا سکتا ہے کہ دونوں کی ایگزیکٹو آپس میں مشورہ کر لیا کرے لیکن یہ تدبیر تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب دونوں کا نظام نیابتی ہو- یعنی دونوں شاخوں کا نظام کثرت رائے کا آئینہ ہو تاکہ دونوں مجالس جو رائے مشورہ سے قائم کریں اسے اپنی اپنی مجالس میں منظور بھی کروا سکیں- گویا یہ اس قسم کا مشورہ ہو گا جیسا کہ برطانیہ کی امپیریل (IMPERIAL) کانفرنس ہوتی ہے کہ مجلس عاملہ کے ممبر آپس میں مل کر ایک پالیسی طے کر لیتے ہیں اور پھر اپنی اپنی مجالس میں اپنے اثر اور رسوخ سے اسے منظور کروا لیتے ہیں- اگر اس قسم کے نظام کے بنانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو اس سے کئی قسم کے فوائد ہوں گے- (۱) ریاستوں کو آپس میں ایسے اتحاد سے دریغ نہ ہو گا جس میں والیان ریاست یا ان کے نمائندے شامل ہوں اور ایک ایسی مرکزی مجلس بنا لیں جس میں ایسے امور جو مرکزی کہے جانے کے مستحق ہیں- مشورہ سے طے کیا کریں اور اس مجلس کا فیصلہ ان مشترک امور میں سب ریاستوں کے لئے واجب الاطاعت ہو-
۴۸۷ (۲) ریاستوں کو اس طرح نیابتی حکومت کرنے کی عادت ہو جائے گی اور گو شروع شروع میں وہ صرف اپنے ہم رتبہ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے لیکن اس عادت کے پڑ جانے کے بعد امید ہے کہ برطانوی ہند کے نمائندوں سے مل کر کام کرنے میں بھی انہیں اعتراض نہ ہو گا- مل کر کام کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ اس مجلس کے فیصلوں کے ماننے سے انہیں انکار نہ ہو گا جس میں وہ اپنی تعداد کے مطابق نیابت رکھتے ہوں گے- (۳) اگر اس قسم کی فیڈریشن ریاستوں میں قائم ہو گئی تو ریاستوں کا انتظام بھی پہلے سے اچھا ہو جائے گا- اس وقت فرداً فرداً تو بعض ریاستوں کا بہت اچھا انتظام ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض ریاستوں سے برطانوی ہند بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن یکسانیت ریاستوں میں مفقود ہے- بعض ریاستوں کا انتظام ایسا خراب ہے کہ اسے حکومت نہیں کہہ سکتے صرف خدا تعالیٰ کا عذاب کہہ سکتے ہیں- پس اگر فیڈریشن قائم ہو جائے گی تو نیابتیحکومت کی عادت اندرونی معاملات پر بھی اثر انداز ہو گی اور مشترک تصفیہ سے ریاستوں میں ایک یکسانیت بھی پیدا ہو جائے گی- (۴) برطانوی ہند کا نظام خراب ہوئے بغیر برطانوی ہند اور ریاستی ہند مشترک ہو کر کام کر سکیں گے- (۵) اس اشتراک کے نتیجہ میں نوے فیصدی امید ہو گی کہ دونوں حصوں کی مجلسوں میں سمجھوتے کے مطابق قانون پاس ہو جائے- (۶) آئندہ کے لئے دونوں فریق کے فیڈریشن میں شامل ہونے کا راستہ صاف ہو جائے گا- یہ سوال کہ ریاستیں کوئی بڑی اور کوئی چھوٹی ہیں- ان کی فیڈریشن کس اصول پر بن سکتی ہے کوئی زیادہ اہم نہیں کیونکہ اس کا حل ہم پرانی امپیریل جرمن بنڈیسریٹ (BUNDESRAT) کے اصول پر کر سکتے ہیں جس میں کہ جرمن ریاستوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں- ان جرمن ریاستوں کے رقبے اور آبادی میں اس قدر فرق تھا کہ امریکہ کے پریزیڈیٹ مسٹر لاول نے ان کے اتحاد کے متعلق کہا تھا کہ یہ ایک اتحاد ہے جس میں ‘’ایک شیر، نصف درجن کے قریب لومڑیاں اور بیس کے قریب چوہیاں شامل ہیں’‘-
۴۸۸ ہندوستان کی ریاستوں کا تفاوت بھی اسی قسم کا ہے- پس اسی اصل پر کہ جو جرمنریاستوں نے قبول کیا تھا ہندوستانی ریاستیں اپنا نظام قائم کر سکتی ہیں- وہ اصل جو جرمن ریاستوں نے اپنی نیابت کے لئے تسلیم کیا تھا یہ تھا کہ کسی ریاست کو حق نیابت نہ اس کے رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے دیا جائے گا اور نہ چھوٹی بڑی ریاستوں کو یکساں حق ملے گا بلکہ دونوں امور کو مدنظر رکھ کر ایک نسبت نکال لی جائے گی جس کے مطابق مختلف ریاستوں کو حق دیا جائے گا- چنانچہ اس اصل کے مطابق انہوں نے پرشیا کو جس کی آبادی باقی سب ریاستوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ تھی اٹھاون میں سے کل سترہ ووٹ دیئے تھے- یہاں بھی اسی اصول پر ریاستوں کی نمائندگی رکھی جائے - یعنی چھوٹی ریاستوں کو اس لحاظ سے کہ وہ اپنے گھر میں ویسی ہی آزاد ہیں جیسے کہ بڑی ریاستیں کچھ زائد حق دیا جائے اور بڑی ریاستوں کو بوجہ اس کے کہ ان کی نمائندگی اگر ان کے رقبے اور آبادی کے مطابق ہو تو وہ چھوٹی ریاستوں کی آواز کو بالکل دبا دیں گی ان کے حق سے کم ملے- اسی طرح ریاستوں کی مجلس کی ساخت بھی اس امپیریل بنڈسٹریٹ کے اصول پر ہو کیونکہ دوسری تمام دنیا کی مجالس سے اس میں یہ فرق ہو گا کہ اس میں یا والی ریاست ممبر ہو گا یا اس کا مقرر کردہ شخص اور جس ریاست کے زیادہ ممبر ہوں گے وہ سب کے سب ایک رائے دینے پر مجبور ہوں گے- کیونکہ وہ والی ریاست یا ریاست کے نمائندے ہوں گے نہ کہ افراد کے- اور یہی حال جرمن بنڈیسریٹ (BUNDESRAT) کا ۱۹۱۰ء سے پہلے تھا- پروفیسر ڈبلیو- بی مانرو MANROE(.B.(W اس کے متعلق لکھتے ہیں- ‘’جرمن کی فیڈرل مجلس بنڈیسریٹ (BUNDESRAT)کے ممبر معین میعاد کے لئے مقرر نہیں ہوتے تھے بلکہ ان ریاستوں کو جن کے وہ نمائندے تھے اختیار ہوتا تھا کہ جب چاہیں انہیں واپس بلا لیں- یہ ممبر ان ہدایات کے ماتحت رائے دیتے تھے جو ان کو ان کی ریاستوں کی طرف سے ملتی تھیں اور اسی لئے ہر ایک ریاست کے جملہ ممبر متحدہ صورت میں ووٹ دیتے تھے- بلکہ ہر ریاست کا ہر ممبر اپنی ریاست کی طرف سے ووٹ دے سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ کسی ریاست کے دوسرے ممبر بھی حاضر ہوں- اس جہت سے بنڈیسرہٹ گویا ایک سفراء کا مجمع تھی نہ کہ نمائندوں کی مجلس.......یہ محض ایک بین الاقوام مجلس شوریٰ نہیں
۴۸۹ تھی- بلکہ نظام اساسی کا حصہ تھی- جسے قانون سازی کا اختیار حاصل تھا’‘-۶۵؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ جرمن سینٹ کی ساخت ایسی تھی جیسے کہ سفیروں کی کونسل کی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اسے قانون پاس کرنے کی بھی اجازت تھی اور اسی قسم کی کونسل کی اس وقت ریاستوں کو ضرورت ہے- یعنی اس کے نمائندے والیان ریاست کے نمائندے ہوں اور انہیں ووٹ کا حق ذاتی حیثیت میں حاصل نہ ہو بلکہ ریاست کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ہو اور جب ریاست چاہے پہلے نمائندہ کو واپس بلا لے اور نیا نمائندہ بھیج دے اور اگر ایک نمائندہ غیر حاضر ہو تو دوسرا اس کا ووٹ بھی دے دے کیونکہ ووٹ نمائندہ کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے- اس طریق عمل کو اختیار کر کے ریاستیں پہلا قدم فیڈریشن کے اصول کی طرف اٹھا سکتی ہیں ورنہ ان کا اتحاد مشکل ہے کیونکہ حیدر آباد، میسور، کشمیر، بڑودہ وغیرہ بڑی ریاستیں جب قانون ساز مجالس کے بنانے کا سوال آئے گا ضرور اپنی بڑائی کا سوال اٹھائیں گی پس ان کے مطالبہ کا حل اور چھوٹی ریاستوں کے حقوق کی حفاظت مذکورہ بالا اصل کے ماتحت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اس نظام کے ماتحت بڑی ریاستوں کو ایک حد تک زائد نمائندگی بھی مل سکتی ہے اور پھر ریاستوں میں جو شخصی حکومت کا طریق ہے اس کے قائم رہتے ہوئے ایک نمائندہ مجلس بھی تیار ہو سکتی ہے- مجھے معلوم ہے کہ بعض ریاستیں ہندوستانی فیڈریشن میں شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب تک ریاستیں پولیٹیکل سیکرٹری کے ماتحت ہیں اور جب تک ان کے نمائندوں کو والیان ریاست نے خود چننا ہے اور جب تک ان کے نمائندوں کی رائے والیانِ ریاست کے تابع رہنی ہے اس وقت تک ہندوستان کی آزادی کو خطرہ میں ڈالے بغیر وہ ہندوستانی فیڈریشن میں شامل نہیں ہو سکتیں- ان سوالات کو وہ حل کر دیں تو پھر ان کے فیڈریشن میں شامل ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا- لیکن جب تک یہ نہ ہو تو صرف یہی طریق ہے کہ وہ بھی صوبہ جاتی اور مرکزی اصول پر ایک تقسیم اپنے کاموں کی کریں- صوبہ جاتی قسم کے کاموں میں ہر ریاست خود مختار ہو- مرکزی قسم کے کاموں میں وہ مرکزی مجلس کے فیصلوں کی پابند ہو- اس مرکزی مجلس کی ایگزیکٹو نمائندگی کے اصول پر ہو اور اکثریت کی نمائندہ ہو- وہ امور جن کے متعلق یہ مجلس اور برطانوی ہند اشتراکِ عمل کا فیصلہ کر
۴۹۰ لیں ان کے متعلق جب کوئی سوال ہو تو اس وقت کی برطانوی ایگزیکٹو اور ریاستی ایگزیکٹو مل کر ایک مسودہ تیار کر لیں- چونکہ دونوں کو اپنی اپنی مجلس میں اکثریت حاصل ہو گی اس لئے دونوں ان مسودات کے پاس کرانے میں کامیاب ہو سکیں گی- اگر مسودات کے پیش کرنے کے بعد ممبران مجلس میں زیادہ مخالفت نظر آئے تو دونوں پھر مل کر مشورہ کر لیں اور ایسے تغیرات کر لیں جو دونوں کے لئے تسلی کا موجب ہوں- اس طرح اکثر امور میں مشورہ کے ساتھ کام ہو سکے گا اور جب تک فیڈریشن مکمل نہ ہو یہی ہو سکتا ہے کہ جس قدر اتحاد ہو سکے اسے قبول کر لیا جائے- لیکن ایک اور امر بھی غور طلب ہے اور وہ یہ کہ اوپر کی سکیم اسی وقت چل سکتی ہے جب کہ دونوں فیڈریشنوں کی ایگزیکٹو مجلسیں کونسلوں کے آگے جواب دہ ہوں- جب تک یہ بات نہ ہو ایگزیکٹو کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی اور وہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی- پس اس وقت تک کے لئے کیا انتظام ہو گا؟ میرے نزدیک اس وقت تک کے لئے یہ علاج ہو سکتا ہے کہ ایک سب کمیٹی اس قسم کی جیسی کہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی مجلس مندوبین میں ہوتی ہے بنا دی جائے- اس میں مجلس کی سب پارٹیوں کے ممبر شامل ہوں- اسی قسم کی ایک کمیٹی چیمبر آف پرنسز کی طرف سے ہو- ان دونوں کمیٹیوں کا یہ کام ہو کہ جو مسودہ بھی اگزیکٹو کی طرف سے ان امور کے متعلق پیش ہونا ہو- جن میں اشتراک کا فیصلہ کیا گیا ہو وہ پہلے ان کے مشترک اجلاس میں پیش ہو اور اس صیغہ کا سیکرٹری اور اسی طرح مجالس مرکزی کے پینل سے چنا ہوا اسسٹنٹ سیکرٹری ان لوگوں سے مشورہ کرے اور جس قدر اثر یہ کمیٹی ڈال سکے ڈال کر مسودہ ایسی شکل میں تجویز کیا جائے جو سب کے لئے قابل منظوری ہو- اس صورت میں چونکہ ایگزیکٹو کو مجلس میں اکثریت نہ ہو گی اس لئے اس قدر فائدہ تو نہ ہو گا جو اول الذکر صورت میں ہے لیکن بہر حال ایک حد تک تعاون کی صورت پیدا ہو جائے گی- میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریاستوں کو ایک دفعہ سنجیدگی سے اور پھر زمانہ کی رفتار پر غور کر کے اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ہندوستانی فیڈریشن میں شامل ہو نے کے قابل ہو سکیں- اس میں ان کی بھی عزت اور ان کی رعایا اور ان کے ملک کی بھی بہتری ہے- انہیں غور کرنا چاہئے کہ ان سے بہت زیادہ
۴۹۱ صاحب اقتدار اور بہت زیادہ اختیار رکھنے والی حکومتیں آخر میں نیابتی اور اتحادی اصول کی طرف مائل ہونے کے لئے مجبور ہوئی ہیں- پس جو کل ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہو گا اور خراب صورت میں ہو گا وہ کیوں آج عمدگی اور نظام کے ساتھ نہ ہو جائے- اگر وہ فوراً فیڈریشن میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں تو ہم پھر امپیریل جرمنی کانسٹی چیوشن کی نقل کر کے اپنی مشکلات کا حل سوچ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ مجلس مندوبین میں صوبوں اور ریاستوں کی رعایا کے افراد کے نمائندے ہوں اور دوسری مجلس کو بجائے کونسل آف سٹیٹ کے سٹیٹس کونسل قرار دے دیا جائے اور اس میں ریاستوں اور صوبہ جات کی حکومتوں کی نمائندگی کا طریق جاری کر دیا جائے- اس وقت یہ بات آسانی سے ہو سکتی ہے لیکن بعد میں اس قسم کے تغیرات مشکل ہوں گے-
۴۹۲ باب دہم متفرق میں نے مالی امور کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور نہ اس مضمون کی مجھے اس قدر واقفیت ہے- لیکن صوبہ جات اور مرکزی خزانوں کی تقسیم میں یہ دو امور مدنظر رکھنے ضروری ہیں-: (۱) علمی اور تمدنی ترقی کے تمام کام صوبہ جات کے اختیار میں ہوں گے- اس لئے ضروری ہے کہ اموال کی تقسیم ایسی ہو کہ صوبہ جات ان اہم محکموں میں ترقی کر سکیں، ورنہ حکومت کے جو اصل مطلوب امر ہیں وہ بغیر کافی توجہ کے رہ جائیں گے- (۲) صوبہ جات کو اپنے اعتبار پر قرض لینے کی اجازت ہونی چاہئے گویہ شرط ہو جائے کہ ہر صوبہ صرف اپنے علاقے کے اندر قرض لے سکتا ہے- بیرون ہند کی منڈی سے یا دوسرے صوبوں سے بغیر اجازت مرکز قرض نہ لے تاکہ ناجائز مقابلہ نہ ہو- اس قسم کی اجازت دینے سے مرکز سے مقابلہ کی صورت پیدا ہونے کا ہرگز احتمال نہیں کیونکہ اول تو بڑے بڑے مالداروں کے تعلقات مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ہوں گے، کیونکہ بڑاگاہگ لوگوں کی توجہ کو زیادہ کھینچتا ہے، دوسرے ہندوستان سے باہر کی منڈیاں اسی کے اختیار میں رہیں گی- (۳) جن صیغوں کی آمد صوبہ جات کے اخراجات کی وجہ سے بڑھے ان کی آمد کی ترقی میں صوبہ جات کو بھی حصہ وار مقرر کیا جائے ورنہ آزادی کے حصول کے بعد تو مرکزی حکومت انہیں مجبور نہ کر سکے گی- پس وہ ان صیغوں کی طرف کم توجہ دیں گے اور مرکز کے مالیات کو نقصان پہنچے گا یا کم سے کم آپس کے تعلقات کشیدہ ہوں گے- اب ایک اور بات ہے جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ مرکزی حکومت اور سیکرٹری آف سٹیٹ کا تعلق ہے- میرے نزدیک وزیر ہند کی کونسل کو تو فوراً منسوخ کر دینا
۴۹۳ چاہئے- اس کی کوئی ذمہ واری نہیں ہے اور وہ خواہ مخواہ وزیر ہند کے کام کو ایک کونسل کے کام کے مشابہ دکھا کر لوگوں کو غلطی میں ڈالتی ہے اور جب اصولاً ہندوستان کی نسبت حکومتخود اختیاری کا فیصلہ ہو گیا تو پھر اس مجلس کی ضرورت بھی نہیں- سیکرٹری آف سٹیٹ کا تعلق آئندہ حکومت ہند سے محدود ہو جانا چاہئے- یعنی صرف انہی معاملات میں اس کا تعلق گورنرجنرل سے رہے جو ابھی حکومت ہند کے قبضہ میں رہیں گے یعنی پولیٹیکل اور فوج اور فارن یا اس کام کے متعلق جو گورنر جنرل یا گورنروں کے سپرد بحیثیت گورنر جنرل یا گورنر کیا گیا ہو- باقی سب امور کا تصفیہ گورنر جنرل ہندوستان میں کریں اور زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ واری رپورٹ یا ماہواری وزیر ہند کو جایا کرے جس سے انہیں حالات سے آگاہی رہے- تتمہ میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے محض اس نیت سے لکھا ہے کہ شاید ان باتوں سے کوئی امر ہندوستان کے نمائندوں یا برطانیہ کے نمائندوں کی توجہ کو کھینچ لے اور اس عظیم الشان سوال کے حل کرنے میں جو اس وقت دو عظیم الشان ملکوں کے سامنے اور جس کے حل ہونے پر خدا تعالیٰ کی تینتیس کروڑ مخلوق کے آرام یا تکلیف کا انحصار ہے میں کچھ حصہ لے کر ثواب کا مستحق ہو جاؤں- اور اگر میں کسی جگہ تفصیلات میں پڑا ہوں تو محض اس وجہ سے کہ ان سے میرے مقرر کردہ اصول کی تشریح ہو جائے ورنہ مجھے خوب معلوم ہے کہ سیاسی مسائل بھی دوسرے مسائل کی طرح سینکڑوں طریق پر حل کئے جا سکتے ہیں اور کسی شخص کا یہ کہنا کہ اس کی بتائی ہوئی تفصیل ہی کام کو درست کر سکتی ہے نرم سے نرم لفظوں میں بھی ایک بے دلیل بات کہلانے کا مستحق ہے- ہاں اصول ایک ایسی چیز ہیں جنہیں ہم دعویٰ کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں اور ان اصول کے متعلق جو میں نے پیش کئے ہیں میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت معقول اور منصفانہ ہیں اور ان کو نظر انداز کر کے ہندوستان میں عدل اور انصاف کا قائم کرنا قریباً ناممکن ہے- میں آخر میں تمام نمائندگان راؤنڈ ٹیبل کانفرنس، ممبران پارلیمنٹ اور ہندوستان اور انگلستان کے بارسوخ افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک اہم ذمہ واری کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہے- پس تمام قسم کے تعصبات سے بالا ہو کر اس کام کو کرنے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے نام کو یاد رکھیں اور ان کے فیصلوں سے سکھ پانے والوں کی دعائیں ان کو ہمیشہ پہنچتی رہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے
۴۹۴ مستحق ہو جائیں- نفسانیت عارضی معاملات میں بھی بری ہے لیکن وہ فیصلے جن کا اثر شاید سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہنا ہے اور اربوں انسانوں پر پڑنا ہے ان پر پہنچتے وقت ذاتی رنجشوں یا دنیوی فوائد کی خواہش کو اپنے اوپر غالب آنے دینا ایک بہت بڑا ظلم ہے- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی نیتوں کو صاف اور ارادوں کو بلند اور عقلوں کو تیز کرے اور اس اجتماع اور اس اجتماع کے نتیجہ میں ہونے والے فیصلوں کو ہندوستان اور انگلستان اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان رشتہ اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب بنائے تاکہ ہم سب خدا تعالیٰ کی ذمہ واریوں سے بھی اور اپنے ہم عصروں اور اپنی آئندہ نسلوں کی ذمہ واریوں سے بھی عزت کے ساتھ سبکدوش ہوں اور تا اس وقت کہ ہم اس دنیا سے جدا ہوں دنیا اس وقت سے جب کہ ہم اس میں آئے تھے نیکی، محبت اور یگانگت میں ایک لمبا فاصلہ طے کر چکی ہو- آمین- ثم آمین واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
۴۹۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم انگلینڈ اور ہندوستان کے چِیدہ اصحاب کی آراء چونکہ گول میز کانفرنس میں مسائل ہند کے متعلق گفتگو شروع ہو چکی تھی اس لئے مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات اور ان کی معقولیت سے سیاسی لیڈروں اور حکومت ہند اور برطانیہ کے ارکان کو آگاہ کرنے کے لئے اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن انگلستان اور ہندوستان میں بکثرت مفت تقسیم کیا گیا- اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر جو آراء ظاہر کی گئیں ہیں ان میں سے چند ایک بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں-: لارڈ میسٹن سابق گورنر یو- پی-: ‘’میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے- میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں- مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہوگا-’‘ لفٹینٹ کمانڈر کینوردی ممبر پارلیمنٹ-: ‘’کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت ممنون ہوں- میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے-’‘ سر میلکم ہیلی (SIR MALCOLM HAILEY) گورنر صوبہ یو-پی و سابق گورنر پنجاب-: ‘’میرے پیارے مولوی صاحب (امام مسجد لندن) اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے- میں آپ کا بہت ممنون ہوں- جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں- اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے- مجھے یقین ہے کہ
۴۹۶ یہ کتاب میرے لئے مفید ہو گی اور میں اسے نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھوں گا- سردار محمد اسماعیل بیگ دیوان ریاست میسور-: ‘’سر مرزا آپ کی کتاب پا کر بہت ممنون ہیں- وہ اسے بہت دلچسپی سے پڑھیں گے- علیالخصوص اس وجہ سے کہ وہ آپ کی جماعت کے امام سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں’‘- آپ کا صادق آئی- ایم- ایس- سیکرٹری مسٹر اے- ایچ غزنوی آف بنگال-: ‘’کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ کے لئے مسٹر اے- ایچ غزنوی مولوی فرزند علی صاحب کے بہت ممنون ہیں- انہوں نے اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا ہے’‘- مسٹر ڈبلیو- پی- بارٹن Barton(.P.W.(Mr ‘’میں جناب کا امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کرنے کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں- یہ ایک نہایت دلچسپ تصنیف ہے- میرے دل میں اس بات کی بڑی وقعت ہے کہ مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے’‘- مسٹر آر- ای ہالینڈ (انڈیا آفس( Office( (India Holland.E.R.Mr ‘’جناب کے ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ- میں نے اسے بہت دلچسپ پایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے’‘- سر ہون اوملر O،MILLAR( (SIR HONE ‘’اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کے لئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کے لئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں- میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں- سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے- میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے- لیکن میں اس اخلاص، معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہز ہولی نس (HIS HOLINESS ) (امام جماعت احمدیہ( نے آپ کی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہز ہولی نس کے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے اس امر کے متعلق بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں- مجھے افسوس ہے کہ میں ابھی تک بارنس میں حاضر ہو کر آپ کی مسجد کو نہیں دیکھ سکا اور
۴۹۷ نہ آپ سے ملاقات کر سکا ہوں- کل امید ہے کہ اگر موسم نے مجھے اتنا سفر کرنے کی اجازت دی تو میں چوہدری ظفراللہ خان کی دعوت سے فائدہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آپ کے اپنے لوگوں میں ملاقات کروں گا’‘- لارڈ کریو- سابق وزیر ہند ‘’لارڈ کریو مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کے لئے امام مسجد لنڈن کے بہت ممنون ہیں- انہوں نے یہ کتاب دلچسپی سے پڑھی ہے’‘- سرای گیٹ GATT(.E.(SIR ‘’میں جناب کا کتاب ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ کے ارسال کے لئے نہایت شکر گذار ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں’‘- سر گریہم بوور ‘’میں مسئلہ ہند پر آپ کی ارسال کردہ کتاب کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں اور میں اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا- گول میز کے مندوبین نے ابتداء تو اچھی کی ہے- یوں تو میرا خیال ہے کہ فیڈرل سسٹم کو سبھی پسند کرتے ہیں لیکن تفاصیل کے متعلق دقتیں ہیں- مثلاً ہندوستان کی فوج اقوام کی اکثر مسلمان ہوں اور ہندی افواج میں اعلیٰ ترین رجمنٹیں مسلمانوں کی ہیں- تو کیا یہ تجویز ہے کہ انگریز افسروں کی بجائے ہندی افسر مقرر کر دئے جائیں؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نظام چل نہ سکے گا- یہی میری رائے پولیس کے متعلق ہے- فوج اور پولیس کا سوال ظاہراً تو بہت آسان ہے لیکن عملاً اتنا آسان نہیں- میں یہ کتاب سرجیمز-ارانز سابق چیف جسٹس جنوبی افریقہ کو بھیجوں گا اور اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار (کیپ ٹائمز) کے ایڈیٹر کو اس کا دیباچہ شائع کرنے پر آمادہ کریں- جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا بڑا اثر ہے اور ریاست ہائے متحدہ کے یہودیوں کے علاوہ دوسرے درجہ پر صیہون فنڈ میں چندہ دینے والے یہیں کے یہودی ہیں- یہی صوبہ جاتی تحریک انہیں مسلمانوں کا دشمن بنائے ہوئے ہے- یورپین لوگ خاص کر انگریز مسلمانوں کے حق میں ہیں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ اخبار (کیپ ٹائمز) ہز ہولی نس کی اس تصنیف کا دیباچہ شائع کرے’‘- سر جان کر KERR( JOHN.(SIR)
۴۹۸ کتاب ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ کی ایک جلد ارسال فرمانے کے لئے میں آپ کا بہت مشکور ہوں اورمیں اسے بہت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں’‘- لارڈ ڈارلنگ (LORD DARLING) ‘’لارڈ ڈارلنگ امام مسجد لندن کی طرف سے مسئلہ ہند کے متعلق کتاب پا کر بہت مشکور ہیں- انہیں یقین ہے کہ اس کتاب سے انہیں بہت سی کار آمد معلومات اور تنقید ملے گی’‘- سر جیمز واکر WALKER( GAMES.(SIR ) ‘’مجھے ایک جلد ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ مصنفہ جناب امام جماعت احمدیہ ملی ہے- میں اس کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں- میں نے اس کے بعض جستہ جستہ مقامات دیکھے ہیں- مجھے یقین ہے کہ یہ تصنیف قابل دید ہو گی’‘- میجر آر- ای- فشر- سی- بی- ای FISHER(.E.(MAJORR ) ‘’آپ نے از راہ کرم مجھے مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب ارسال فرمائی- اس کا شکریہ مجھ پر واجب ہے- میں اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں- مجھے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جو تجارب حاصل ہوئے ہیں ان کی بناء پر آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے- بطور ممبر انڈین ایمپائر سوسائٹی (INDIAN EMPIRE SOCIETY) کے میں یقیناً ہمیشہ اس بات کا حامی رہوں گا کہ اسلام کے متعلق جو برطانیہ کی ذمہ واری ہے وہ ہماری قوم کے اعلیٰ ترین اخلاقی فرائض میں سے ہے- میں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال مسلمانوں میں رہ کر گزارے ہیں- وہ روا داری اور مہمان نوازی اور سخاوت جو مسلمان دوسری موحد اقوام سے برتتے ہیں اسلام کے اعلیٰ معیار تعلیم کی شاہد ہے ہر دو مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت میں ایک مجانست ہے- اسلام عیسائیت کی روایات کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دونوں مذاہب میں ایک مضبوط اتحاد پیدا ہو جانا چاہئے- اگرچہ میں خود عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں اسلامی روح کو جس نے ترقی اور تہذیب کے پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتا ہوں’‘- آنریبل پیٹرسن- سی- ایس- آئی- سی- آئی- ای (HonourablePeterson) کتاب ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ کے ارسال کا بہت بہت شکریہ- مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی- امید ہے چند دنوں میں ختم کر لوں گا- لیکن جس
۴۹۹ قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گھتی کے سلجھانے کے لئے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے- مسلمانوں کا نقطئہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے- امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا’‘- لارڈ ہیلشم (LORD HALISHAM) ‘’میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائمنرپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے- میں اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہوں کہ سائمنرپورٹ کو خالی الذہن ہو کر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا یا غیرمعقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں- اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ وار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے’‘- لارڈ سڈنہم ‘’میں اس بات کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مہربانی فرما کر مجھے جماعت احمدیہ کے خیالات سے جو ہز ہولی نس نے بڑی خوبی سے بیان فرمائے ہیں آگاہ ہونے کا موقع دیا ہے- میں نے دیکھا ہے کہ ہز ہولی نس اس خیال سے متفق ہیں کہ ہندوستان ابھی درجہ نو آبادیات کے لائق نہیں اور یہ کہ بہت سے دوسرے مبصرین کی طرح ہزہولی نس بھی اس خیال کے ہیں کہ انگریزی (DEMOCRACY) کے نمونہ پر ہندوستان کی حکومت ہونی چاہئے- مگر شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پریذیڈینٹ اپنے وزراء خود چنتا ہے اور یہ وزراء اس کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں نہ کہ ملک کی کانگریس کے سامنے- فیڈرل نظام پر عملدار آمد کرنے میں بعض خاصی دقتیں ہیں- اضلاع متحدہ امریکہ کو چار سال کی جنگ اور دس لاکھ آدمیوں کی جانوں کی قربانی کے بعد یہ درجہ ملا تھا- فی الحال جیسا کہ سائمن کمیشن کی رائے ہے ہندوستان فیڈرل حکومت کے قابل نہیں ہوا- کبھی ہندوستان کے سے حالات میں کسی ملک میں فیڈرل حکومت قائم نہیں ہوئی- فیڈریشنیں قدرتی طور پر خود بخود بن جایا کرتی ہیں جب لوگ ان کے لئے تیار ہوں- ہندوستان کو جو بہت کافی حد تک حکومت خود اختیاری دی جا چکی ہے اس پر جو کچھ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے مستزاد کیا جا سکے اس میں دریغ نہیں ہونا چاہئے- لیکن میرے خیال میں سب سے اہم معاملہ پبلک کی بہبودی کا ہے جسے کانگریس اور بالشویک خیال کے لوگ مزید نقصان پہنچا
۵۰۰ رہے ہیں’‘- برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لندن (TIME OF LONDON)مورخہ ۲۰نومبر ۱۹۳۰ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل (FEDERAL IDEAL) کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران لکھتا ہے کہ-: ‘’ہندوستان کے مسئلہ کے متعلق ایک اور ممتاز تصنیف مرزا (بشیرالدین محمود( خلیفہ المسیح امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے’‘- ایل- ایم ایمرسی- مشہور ممبر کنزرویٹو پارٹی ‘’میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے- اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے- نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں’‘- ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں- ‘’میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی- میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں- ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو بھی ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے- اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے- جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سر انجام دی ہے’‘- سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم- ایل- اے- کراچی ‘’میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ بہترین تصانیف میں سے ہے’‘- علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور تحریر فرماتے ہیں- ‘’تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے- نہایت عمدہ اور جامع ہے’‘- اخبار انقلاب لاہور اپنی اشاعت مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء میں رقطراز ہے-: ‘’جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے- یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا’‘- اخبار سیاست اپنی اشاعت مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء میں رقمطراز ہے-:
۵۰۱ ‘’مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتداء کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حقشناسانسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے- آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے- اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطئہ نگاہ پیش کرنے میں، مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطئہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے- زیر بحث کتاب سائمن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے- جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے- آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے- آپ کی زبان بہت شستہ ہے’‘- ایڈیٹر صاحب اخبار ہمت لکھنؤ مورخہ ۵- دسمبر ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں رقمطراز ہے-: ‘’ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا، انگریزی میں ترجمہ ہو کر طبع ہونا، اغلاط کی درستی، پروف کی صحت اور اس سے متعلقہ سینکڑوں دقتوں کے باوجود تکمیل پانا اور فضائی ڈاک پر لنڈن روانہ کیا جانا اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطئہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ- غرضیکہ کتاب مذکور ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے’‘- 1 Modern Political Constitutions by Dr, C.F.Strong.M.A.P.H.D London Page 222 Published in London 1930.۲ Constitutional Government in the United States by Mr.Woodrow Wilson Page, 54.3 ڈوور: شہر اور بندر گاہ- کینٹ انگلستان کی کھریا مٹی کی ڈھلوان چٹان کے نیچے ایک خلیج کے کنارے واقع ہے- یہ پانچ بندرگاہوں میں سب سے بڑی ہے جسے انگلستان کی کلید کہا
۵۰۲ جاتا ہے- پہلی عالمی جنگ میں اہم بحری اڈہ تھا اور دوسری عالمی جنگ میں دور مار جرمن توپوں کا مسلسل نشانہ بنا رہا- ڈوور کا تاریخی حصار اور شیکسپیئر کی چٹان قابل دید مقامات ہیں- (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ ۶۲۸ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور) ۴؎.India as I knew it by Sir, Michael O'Dwyer Page 414,415.India as I Knew it by Sir, Michael OʻDwyer Page 219.2 India as I knew it by Sir, Michael O'Dwyer Page 225..Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 89..Published in London 1929.۸ Modern Democracies by Lord James Bryce Voleil Page 548,549 Published in London 1929.و Modern Democracies by Lord James Bryce Vol, il.Page 566,567 Published in London1929.Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 568 Published in London 1929.MONTAGUE CHELMSFORD REPORT- عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجی ٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے- لارڈ چیمس فورڈ جو لارڈہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹرمانٹیگو MONTAGUE(.(MR کی معیت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک رپورٹ تیار کی جو مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے نام سے مشہور ہے- پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ سکیم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی- اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا- ملخص از نیوتاریخ انگلستان صفحہ۳۱۳ مطبوعہ لاہور، آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان صفحہ
۵۰۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۴ء یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۷۹۳۹۵ مطبوعہ لاہور) سائن رپورٹ جلد ۲ صفحہ۵ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ Modern Political Constitutions by Dr, C.F.STRONG M.A.P.H.D London Page 163 Published in London 1930.Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 67 Published in London 1929.۸ سناتن دھرم پر پارک ۱۸.اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۲ مسافر آگرہ (اخبار) جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۲ ہندو سنگھٹن اور آریہ ساج صفحہ ۱۸۸ ویدک انڈیا طبع دوم صفہو ۲۰ گدھ کا پراچین اتھاس صفحہ ۳۷۲ سٹیٹس مین کلکتہ ۲۳۲۲ اخبار وکیل ۹ دسمبر۱۹۲۵ء ۲۶۶۲۵۲۴ ملاپ لاہور ۲۵ مئی ۱۹۲۵ء ۴۸۶۲۷ ملاپ ۲۳ جون ۱۹۲۸ء و اخبار تیج دہلی گروگنال اشاعت ۱۰ جنوری ۱۹۲۷ء ۳۴ پرتاب.\"India which we served\" by Sir Walter Lawrance.۳۴ سائمن رپورٹ جلد اول صفہ ۳۰ The protection of Minorities by L.P.Mair Page 118 Printed at the Chapel River Press Kingston Surry London Published in 1928.
۵۰۴ London Published in 1928 ۳۶ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۴۳ تو سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۲۳ ۸ثه سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحه ۱۳۰ ۳۹ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۱۳۰۱۲۹ ۴۰ Modern Democracies by Lord James Bryce Vol, Page 542 Published in London 1929..\" Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 401 Published in London 1929..Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 401 402 Published in London 1929 ۴۳ The Goverments of Europe by Professor William Bennett Munroe P.H.D.L.L.B Page 738.Printed in the U.S.A 1963.مه Constitution of the United State by Mr.M.James Beck Saltus General Page 117.Constitution of the United State by Mr.M.James Beck Saltus General Page 116..Modern Democracies by Lord James Bryce Voll Page 382 384 Published in London 1929 ۴۶ ۴۹ DRAVIDIAN: \"ریوں کی آمد سے قبل ہندوستان کے قدیم باشندوں کا سب سے بڑا گرو - در اوڑی نسل کے نوگ اب بھی جنوبی ہند میں مدراس سے لے کر راس کماری تک آباد ہیں.اریوں نے ان لوگوں پر تشدد کر کے انہیں جنوب کی طرف دھکیل دیا تھا.ان لوگوں کی لسانی اور مذہبی بنیاد میں بھارتی ہندووں سے مختلف ہیں.طرز تعمیر خصوصا مندروں کی صورت بھی مختلف ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ۵۹۵)
۵۰۵ مطبوعہ لا ہو ر ۱۹۸۷ء) سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۱۸ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۸۲ Constitution of the United State by Mr.M.James Beck Saltus General Page 127 سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۳۶ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۵۹ important indian problems by Sir.Mohammad Shafee Page 89 The Constitution Administration and laws of the Impire by Mr.R.B.C.Keth Page 172..۲۰ سائمن رپورٹ جلد اصفها۵ سائمن رپورٹ جلدا صفحہ ۵۲ How Briton is Governed by Mr.Romsay Muse P.22..۳ سائمن رپورٹ جلد ۲ صفحہ ۱۹ میمورنڈم پیش شده رو برو سائن کمیشن صفحہ 2 The Goverments of Europe by Professor William Bennett Munroe P.H.D.L.L.B Page 543 Printed in the U.S.A 1963.
۵۰۷ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی
۵۰۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء (فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۰ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اسلام جیسا مذہب ہمیں عطا فرمایا اور قرآن جیسی کتاب ہمیں بخشی- یہ وہ نعمت اور وہ خزانہ ہے جس کی نسبت وہی اصدق الصادقین خود فرماتا ہے اگر سب جن و انس بھی جمع ہو جائیں تب بھی اس قسم کا خزانہ تیار نہیں کر سکتے-۱؎ معمولی انسانوں کی بنی ہوئی چیزیں دنیا میں بہت قیمت پاتی ہیں- ایک مصور چند رنگ جمع کر دیتا ہے جو قدرتی نظاروں کی خوبصورتی ظاہر کرتے ہیں- وہ خالق نہیں بلکہ وہ نقال ہوتا ہے مگر اس کی نقلیں بھی اچھی بنی ہوئی تیس چالیس لاکھ کو بک جاتی ہیں- ایک انسان جو تصویر بناتا ہے اس میں کچھ گھاس کے تنکے ہوتے ہیں، کچھ درخت ہوتے ہیں، کہیں کسی ندی کے بہنے کا نظارہ دکھایا جاتا ہے، کہیں پہاڑ کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی دکھائی جاتی ہیں، گویا خدا تعالیٰ کی پیدائش کے وہ حصے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں ان کا بھی اس تصویر میں کروڑواں حصہ بھی نہیں ہوتا- پھر نہ ان پہاڑوں کی برف ہمیں پانی پہنچاتی ہے، نہ ان پہاڑوں کی چوٹیاں ہمارے لئے گرمی سے بچنے کے لئے سرد مقامات پیش کرتی ہیں- نہ وہ سبزہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس سے پھول پھل پیدا ہو سکیں یا کسی قسم کا غلہ اس سے حاصل کیا جا سکے وہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ایک نہایت قلیل حصہ کی نقل اور تصویر یا نظارہ ہوتا ہے مگر وہ جتنا اصل نظارہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اتنی ہی اس کی قیمت بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ میں نے بتایا ہے کہ بعض تصاویر تیس تیس لاکھ روپیہ کو بِک جاتی ہیں- لیکن انسانی صنعت جو محض نقل ہوتی ہے اور ایک
۵۱۰ نہایت ہی قلیل حصہ کی نقل ہوتی ہے وہ اگر اتنی قیمت پاتی ہے تو وہ چیز جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمام جن اور انس مل کر بھی کوشش کریں تو اس کے مقابلہ کی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے مقابلہ کی پیدا کرنا تو الگ رہا اس کے کسی حصہ کی نقل بھی نہیں کر سکتے- وہ کسقدر قیمتی ہو سکتی ہے- مثل کے معنی تصویر کے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روحانی سلسلہ جسمانی سلسلہ سے اعلیٰ ہے- تم جسمانی چیزوں کی تصویر کھینچ سکتے ہو مگر یہ ہم روحانی چیز پیش کرتے ہیں تمام کے تمام مل جاؤ اور اس کی تصویر بناؤ- اصل کے مطابق بنانا تو تمہارے لئے جسمانی سلسلہ میں بھی ممکن نہیں ہے تم نقل ہی کر سکتے ہو مگر تم اس کی نقل بھی نہیں کر سکتے۲؎ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسا مذہب اور قرآن جیسی کتاب عطا کی- اس پر مزید فضل یہ ہوا کہ ہمارے گناہوں، ہماری شامت اعمال، ہماری غفلتوں اور ہماری خطاؤں کی وجہ سے جب یہ پاک کلام دنیا سے اٹھ گیا تو اس نے پھر عطا کیا- وہ کلام جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ جن و انس مل کر بھی اس کے کسی حصے کی تصویر اور نقل پیش نہیں کر سکتے- اس میں مسلمان کہلانے والوں اور مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والوں کو ہزاروں عیب دکھائی دینے لگے- اور وہ لوگ اچھے اور قابل مسلمان سمجھے جانے لگے جو قرآن کے متعلق اچھی معذرت پیش کر سکیں- سرسید احمد صاحب علی گڑھ کالج کے بانی جن کی تعلیمی کوششوں کی ہم قدر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک حد تک خدمت کی ان کی مذہبی لحاظ سے پوزیشن یہی تھی کہ وہ قرآن کی طرف سے معذرت پیش کرنے میں قابل سمجھتے جاتے اور ان کی معذرت یہی ہوتی کہ وہ کہتے قرآن میں پرانے زمانہ کی باتیں ہیں- اور ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے کی گئی ہیں جو جاہل تھے- اہل یورپ کو ان کا کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے- اسی طرح سید امیر علی صاحب مسلمانوں کے دوسرے مشہور لیڈر تھے- ان کے متعلق بھی یہی بات کہی جاتی کہ وہ اسلام کی طرف سے بہت اچھی معذرت پیش کرتے ہیں- مثلاً قرآن کریم میں جہاں ملائکہ کا لفظ آیا اس کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ یورپ کے لوگوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے پہلے زمانہ کے لوگ اس قسم کی مخلوق مانا ہی کرتے تھے انہی کے خیالات کو مدنظر رکھ کر قرآن میں یہ ذکر آ گیا ہے- اسی طرح پردہ وغیرہ کے متعلق کہتے کہ یہ اس زمانے کے لئے تھا جب کہ تہذیب نے اتنی ترقی نہ کی تھی-
۵۱۱ غرض اسلام کے بہترین خادم بلکہ محسن وہ لوگ سمجھے جاتے تھے جو قرآن کریم کی خیالیغلطیوں اور وہمی تقصیروں کا ازالہ اپنی باتوں سے کرتے تھے- اس ماحول اور ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک نبی بھیجا جس نے قرآن کریم کو اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور بتا دیا کہ جہاں چاہو اسے لے جاؤ کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے اور اس کے ایک لفظ کو بھی غلط ثابت کرنے کی جرات رکھے- یہ تو ایک بم ہے کہ باطل کی جتنی بھی بڑی سے بڑی عمارت پر اسے گراؤ اسے پاش پاش کر دے گا- اس کی طرف سے کسی قسم کی معذرت کرنے کی ضرورت نہیں- معذرت تو بیمار اور ناکارہ کی طرف سے کی جاتی ہے مگر وہ کلام جو دنیا کے لئے ہدایت لے کر آیا اس کی طرف سے معذرت پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے- وہ تو خدا تعالیٰ کے نوراور اس کی برکتوں کا مجموعہ ہے- اس کے سامنے دنیا کو ضرورت ہے کہ معذرت پیش کرے جو ظلمت اور گمراہی میں پڑی ہوئی ہے- پھر اس کے سامنے دوسری مذہبی کتابوں کو ہاتھ جوڑنے چاہئیں اور کہنا چاہئے اب ہماری زیادہ پردہدری نہ کی جائے- پس اس کلام کا تو یہ مرتبہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے انسان آتے اور کہتے ہم جہالت میں مبتلا ہیں تم خدا تعالیٰ کا کلام ہو ہماری دستگیری کرو اور ہمیں ظلمت کے گڑھے سے نکالو- قرآن کو کسی قسم کی معذرت پیش کرنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے اس کا تو ایک ایک لفظ عقل، نقل، تاریخ، جغرافیہ، سائنس غرض دنیا کے ہر علم سے درست ثابت ہوتا ہے- غرض خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل ہوا کہ اس نے ہمارے زمانہ میں ایک ایسا انسان بھیجا جو دوبارہ دنیا میں قرآن لایا پھر اس کا ایک فضل یہ ہوا کہ ہم لوگ جو علم کے لحاظ سے، عقل کے لحاظ سے، تجربہ کے لحاظ سے، ظاہری سامانوں کے لحاظ سے دنیا میں نہایت ہی کمزور ہیں بلکہ بغیرمبالغہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس چیز کو ہم سے جدا کر دیا جائے جو خدا تعالیٰ کے مامور نے ہمیں عطا کی ہے تو ہم دنیا میں بدترین خلائق کہلانے کے مستحق ہیں- مگر باوجود اس کے کہ ہم بدترین خلائق ہیں اور انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں آج کل کی متمدن کہلانے والی قومیں جاہل، وحشی اور بدتہذیب کہتی ہیں ہم میں سے ہی خدا تعالیٰ نے ایسے آدمیوں کو چُنا جنہوں نے مہذب کہلانے والی اقوام کو ہدایت، علم و عرفان دیا اور مہذب قومیں ہماری باتوں کے آگے سرتسلیم خم کر رہی ہیں- وہ قومیں جو ہمیں غیرمہذب کہتی تھیں اور اب بھی دوسروں کو غیرمہذب اور وحشی ہی کہتی ہیں وہ خواہش کرتی ہیں کہ ہم سے تہذیب اور روحانیت سیکھیں اور
۵۱۲ ہم ان کیلئے علماء بھیجیں- یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور رحمت ہے- ہماری کوئی قربانی، کوئی ایثار، کوئی اخلاص اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا- یہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت ہے شروع میں بھی اور آخر میں بھی- نہ ابتداء میں ہمارا کوئی عمل اس فضل کے نازل ہونے کا باعث ہوا اور نہ کوئی انتہائی عمل اس کا بدلہ ہو سکتا ہے- ان حالات میں آؤ ہم خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں اور جہاں سے بے مانگے اتنا کچھ ملا ہے وہاں سے مانگ کر دیکھیں کہ کتنا ملتا ہے- آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں اس کام کے لئے چنا ہے، اسی طرح اس کے کرنے کی اہمیت اور طاقت بھی عطا کرے اور توفیق بخشے- ہمارے کاموں میں برکت دے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ آسمان پر نہ چاہے زمین میں اس کے فرشتے لوگوں کے قلوب نہیں کھولتے- ہم لوگوں کے کانوں تک خدا اور اس کے رسول کا کلام پہنچا سکتے ہیں مگر دلوں تک نہیں پہنچا سکتے- حالانکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ لوگوں کے قلوب تک پہنچائیں- یہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے کرے اور اس کی مدد اور تائید سے ہی ایسا ہو سکتا ہے- پس پیشتر اس کے کہ جلسہ شروع ہو میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے اعمال اور اقوال میں برکت دے، ہمیں اپنے فضل کے سایہ کے نیچے رکھے، فرشتے آسمان سے ہماری تائید اور نصرت کے لئے نازل کرے، ہم کمزور ہیں ہمیں طاقت عطا کرے، ہم ضعیف ہیں ہمیں توانائی بخشے ہم جاہل ہیں ہمیں علم دے، ہم بے عمل ہیں ہمیں اعمال حسنہ کی توفیق دے، ہم دنیا کے مقابلہ میں نہتے ہیں وہ ہمیں کامیابی کے سامان عطا کرے تا کہ ہم اس عظیم الشان جنگ میں کامیاب ہوں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے- دنیا اس وقت ناپاکی اور غفلت میں مبتلا ہے، جہالت اور ظلمت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے، شیطان اپنی ساری فوجوں کے ساتھ مقابلہ میں کھڑا ہے، ہم باوجود نہایت کمزوری اور ناتوانی کے اس کے مقابلہ کے لئے منتخب کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ اپنا خاص فضل نازل کرے تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں- ہمیں اپنے فضل سے خدا تعالیٰ ایسی کامیابی عطا کرے کہ دنیا ہماری کمزوری اور ناتوانی کو دیکھتی ہوئی پکار اٹھے کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہی ہے اور اسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی اصلاح اور بہتری کے لئے بھیجا- دعا سے پہلے میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں- یہ اجتماع کا موقع ہے اور اس پر اس بات کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق
۵۱۳ خدا تعالیٰ کا الہام ہے لا نبقی لک من المخزیات ذکرا ۳؎ کہ ہم تیرے لئے رسوائی والی کوئی بات باقی نہ چھوڑیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مخالفین کی طرف سے ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کے سلسلہ میں شامل نہیں- مخالف کہتے اگر مرزا صاحب سچے ہوتے تو ان کا اپنا بیٹا کیوں نہ انہیں مانتا- اگرچہ یہ کوئی ایسا اعتراض نہیں جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر حرف آ سکتا- حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی ان کو نہ مانا تھا اس سے حضرت نوح علیہ السلام کی صداقت باطل نہیں قرار دی جا سکتی- پس مخالفین کا یہ اعتراض محض جہالت اور نادانی کی وجہ سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بھی دور کر دیا اور ایسے لوگوں کا منہ بند کر دیا چنانچہ کل مرزا سلطان احمد صاحب میری بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور اس طرح بھی دشمن کا منہ بند ہو گیا- اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی بیٹا آپ کی جماعت میں داخل نہیں اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری کی ساری اولاد احمدیت میں داخل ہو گئی ہے- (اس پر تمام مجمع نے نہایت بلند آواز سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد پیش کی- اور حضور نے ‘’خیر مبارک’‘ کہا) ایک بات کا ذکر کرنا میں اپنی تقریر میں بھول گیا تھا اور وہ یہ کہ پچھلے ہفتہ دو دفعہ میں نے دو رؤیا دیکھے ہیں- جن میں ایسے نظارے دکھائے گئے جو مخفی ابتلاء کا پتہ دیتے ہیں- ایک رؤیا تو میں نے آج سے پانچ دن قبل دیکھا- ایک پرسوں- میں ان کی تشریح نہیں کرتا- یہ منع ہے کیونکہ منذر رؤیا کا بیان کرنا بعض اوقات اس کے پورا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے لیکن اتنا بتا دیتا ہوں تا کہ دوستوں کی توجہ دعا کی طرف ہو کہ ایک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام پر کیا گیا اور ایک مجھ پر- اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے مبرم تقدیر بھی ٹل جایا کرتی ہے- احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہر قسم کی مشکلات دور فرمائے اور ہر قسم کے ابتلاؤں سے جماعت کو محفوظ رکھے تا کہ ہم عمدگی اور آسانی سے اس کے سلسلہ کی خدمت کر سکیں- (الفضل یکم جنوری ۱۹۳۱ء) بنی اسر بیل :۸۹ تذکرہ ص ۵۳۸-ایڈیشن چہارم ۲
۵۱۵ مستورات سے خطاب ۲۷دسمبر ۱۹۳۰ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۵۱۷ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مستورات سے خطاب (فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ) تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد آیاتو اذ قال ربک للملئکہ انی جاعل فیالارض خلیفہ- قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک و نقدس لک- قال انی اعلم مالا تعلمون- ۱؎ تلاوت کر کے فرمایا-: دنیا میں خلیفہ دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک وہ جنہیں انسان بناتا ہے دوسرے جنہیں خدا الہام کے ذریعہ بناتا ہے- الہام کی بناء پر ہونے والے خلیفہ کو نبی کہتے ہیں جو ملہم خلیفے ہوتے ہیں ان کے آنے پر دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ خود فسادی ہوتے ہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ طبائع ناموافق ہوتی ہیں- اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیدائش کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ اس وقت فرشتوں نے بھی یہی کہا کہ آپ دنیا میں ایسے شخص کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد کرے- یعنی فرشتوں نے سوال کیا کہ آپ کی غرض تو اصلاح معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت یہ فساد کا موجب ہے- اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے- میں خلیفہ اس لئے بناتا ہوں کہ تا اچھے اور خراب علیحدہ کئے جائیں- قرآن میں پہلے اسی سوال کو لیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک نبی کی بعثت پر فساد برپا ہوئے اور نبیوں کو ان کا موجب بنایا گیا- دیگر نبیوں کے علاوہ محمد رسول اللہﷺ کے وقت بھی یہی عام مقولہ تھا کہ اس نے بھائی بھائی کو الگ کر دیا- اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ آپ بانی فساد ہیں- بہتر (۷۲( فرقے تو پہلے ہی تھے اب آپ نے
۵۱۸ احمدیوں کا تہترواں (۷۳( فرقہ نکال دیا- چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تفرقے کم کئے جاتے الٹا ایک زائد کر دیا- شائد تمہارے خیال میں بھی جو غیر احمدی ہیں ان کا یہی خیال ہو اس لئے پہلے میں اسی مسئلہ کو صاف کرتا ہوں- پہلا سوال خون و فساد کا ہے اس کے متعلق یاد رکھو کہ قرآن کریم نے نبی کی آمد سے پہلے کی حقیقت یوں واضح کی ہے کہ ظھر الفساد فی البرو البحر-۲؎ یعنی اس وقت خشکی وتری میں فساد تھے اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے- اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے پہلے کیا دنیا ایک ہی فرقہ پر تھی یا یہ فساد موجود پہلے ہی تھے؟ شیعہ حنفی پہلے ہی موجود تھے یا نہیں؟ گیارھویں، آمین، رفع یدین کے قضیے پہلے ہی تھے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ- غور کرو تو معلوم ہو گا کہ اتنا فساد تھا جس کی حد نہیں اور جس کے سننے سے بھی شرم آتی ہے- افغانستان میں سینکڑوں آدمیوں کی انگلیاں مروڑ دی گئیں صرف اس لئے کہ التحیات میں تشہد کے وقت وہ شہادت کی انگلی کو اٹھاتے تھے اور حنفی اپنے عقیدہ کے مطابق ایسی نماز کو ضائع سمجھتے تھے- ایک دوست نے سنایا کہ ایک مرتبہ ایک اہلحدیث حنفیوں کی مسجد میں ان کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ رہا تھا- التحیات میں اس نے انگلی اٹھائی- اس کا انگلی اٹھانا تھا کہ تمام مقتدی نمازیں توڑ کر اس پر ٹوٹ پڑے اور حرامی حرامی کہنا شروع کر دیا- چنانچہ یہ فساد حضرت مسیح موعود کے آنے سے پہلے ہی تھے- مسیح موعود نے تو آ کر اصلاح کی- چوٹ لگانے والا فسادی ہوتا ہے یا ڈاکٹر جو نشتر لے کر علاج پر آمادہ ہوتا ہے؟ ایک شخص کا بخار سے منہ کڑوا ہو ڈاکٹر کونین دے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ظالم نے منہ کڑوا کر دیا- اگر ڈاکٹر بلغم کو نہ نکالتا تو جسم کی خرابی بڑھ جاتی- بلغم نکال دینے پر اعتراض کیسا؟ ہڈی ٹوٹی رہتی اگر زخم کو نشتر سے صاف نہ کیا جاتا اس پر جلن آمیز دوائی نہ چھڑکی جاتی تو مریض کی حالت کس طرح بہتر ہو سکتی- اس کی تو جان خطر میں پڑ جاتی- اس صورت میں کس طرح کوئی ڈاکٹر کو ملزم بنا سکتا ہے- ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اسی تفرقے کے متعلق سوال کیا- آپ نے فرمایا- اچھا بتاؤ- اپنا اچھا دودھ سنبھالنے کے لئے دہی کے ساتھ ملا کر رکھتے ہیں یا علیحدہ؟ ظاہر ہے کہ دہی کے ساتھ اچھا دودھ ایک منٹ بھی اچھا نہیں رہ سکتا- پس
۵۱۹ فرستادہ جماعت کا درماندہ جماعت سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا- جس طرح بیمار سے پرہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماروں سے فرستادہ جماعت کو علیحدہ رکھے اسی لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ، شادی، نماز وغیرہ ہو کیونکہ اکثر عورتیں ہی اس میں اختلاف کرتی ہیں- اس لئے میں عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح مریض کے ساتھ تندرست کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے یاد رکھو یہی حالت تمہاری غیر احمدیوں سے تعلق رکھنے میں ہو گی- اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ بہن یا بھائی کا رشتہ ہوا چھوڑا کس طرح جائے- میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر زلزلہ آ جائے یا آگ لگ جائے تو ایک بہن بھائی کی پروا نہ کر کے بلکہ اس کو پیچھے دھکیل کر خود اس گرتی ہوئی چھت سے جلدی نکل بھاگنے کی کوشش کرے گی تو پھر دین کے معاملہ میں کیوں یہ خیال کیا جاتا ہے؟ دراصل یہ آرام کے وقت کے جذبات ہیں مصیبت کے وقت کے نہیں- اگر خدا رات کو تم میں سے کسی کے پاس فرشتہ ملک الموت بھیجے جو کہے کہ حکم تو تیرے بھائی یا دوسرے عزیز کی جان نکالنے کا ہے- مگر خیر میں اس کے بدلے تیری جان لیتا ہوں تو کوئی عورت بھی اس کو قبول نہ کرے گی- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-یا ایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا-۳؎ یعنی بچاؤ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کو آگ سے- اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیرو اگر دوسرے غیراحمدی سے بیاہی گئی تو خاوند کی وجہ سے یقیناً وہ احمدیت سے دور ہو جائے گی یا کڑھ کڑھ کر مر جائے گی- اپنے رشتہ داروں سے الگ کی جائے گی بوجہ تعصب مذہبی کے- تو یہ ایک آگ ہے- کیا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کو آگ میں ڈالتی؟ مگر اس طرح ایک تھوڑے سے تعلقات کے لئے اسے دائمی آگ میں ڈال دیا- پس اس سے بچو- مسیح موعود کے آنے پر جو تفرقے اٹھے یہ پہلے ہی تھے نئے نہیں- لیکن اگر تم قربانیاں کرو تو دوسروں کو تحریک ہو کہ اس طرح یہ تفرقے مٹ سکتے ہیں- مثلاً احمدی ہو کر غیروں سے رشتے نہ کرو- اپنا نمونہ اچھا دکھاؤ تو ان کو بھی ترغیب ہو- اور اگر احمدی ہو کر بھی تم ان سے رشتے برابر قائم رکھتی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ رشتے تو ہم کو یوں بھی مل جاتے ہیں پھر احمدی ہو کر کیا کرنا- یاد رکھو کہ یہ قومی گناہ ہے اگر تم ان سے بکلی ایسے تعلقات قطع کر لو اور خدا کے لئے اس قربانی کو اختیار کرو تو ادھر تو خدا خود ان رشتہ داروں کی بجائے تم کو بہتر رشتے دے گا اور پھر تمھارے اس استقلال کے صلے میں تمہارے وہ رشتہ دار بھی واپس ملا دے گا مگر شرط یہی ہے کہ
۵۲۰ تم استقلال کو ہاتھ سے نہ دو- یہ مت سمجھو کہ خدا تمہیں ہمیشہ کے لئے جدا ہی رکھے گا- نہیں ہرگز نہیں- وہ تمہیں ملائے گا اور دائمی طور پر ملائے گا- وہ تمہارا استقلال دیکھتا ہے- پس اپنے تعلقات خدا کے لئے قطع کرو اور راضی برضاء ہوتا تمہارے رشتہ دار بھی تم سے بالاخر دائمی مل جائیں- میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کبڈی ہو رہی ہے احمدی اور غیر احمدی دو پارٹیاں ہیں- احمدیوں کی پارٹی فریق مخالف کو پکڑ پکڑ کر لا رہی ہے یہاں تک کہ سب ختم ہو گئے- فریق مخالف میں سے صرف ایک بڑا سا آدمی رہ گیا جو دیوار کے ساتھ لگ کر رینگتا ہوا آخر احمدیوں میں مل کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ جب سارے ادھر آ گئے تو میں تنہا ادھر کیا کروں- اس میں تمہارے لئے سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ تمہارے رشتہ داروں کو تم سے ملائے گا- لیکن اگر تم خود اس کے فیصلوں کو توڑ کر یہ قرابتیں قائم کرو تو یاد رکھو کہ ہمیشہ کے لئے وہ تم سے دور کئے جائیں گے کیونکہ تمہارا یہ فعل خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوگا- پس اس کی ناراضگی ہمیشہ کے لئے تمہیں جدا کر دے گی- حضرت عمرؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ آنحضرت ؎ کے سخت مخالف تھے اتنے سخت کہ ایک مرتبہ اپنی ایک لونڈی کو محض اسلام لانے کی وجہ سے اتنا مارا کہ اس کی آنکھیں ضائع ہو گئیں اور ایک دفعہ جب آنحضرت ﷺ کو مارنے کا کفار نے منصوبہ کیا تو آپ نے اس بیڑے کو اٹھانے کا تہیہ کیا- کسی نے آپ کا ارادہ معلوم کر کے کہا کہ پہلے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تو محمدﷺ کے حلقہ بگوش ہیں- اسی وقت بہن کے گھر گئے- بہن بہنوئی ایک صحابیؓ سے قرآن شریف سن رہے تھے- قرآن چھپا دیا گیا- عمر نے ان سے دریافت کرنے کے بعد اپنے بہنوئی پر تلوار کا حملہ کیا- بہن آڑے آ گئی اور زخمی ہو گئی- عورت کو مارنا چونکہ بزدلی کی علامت سمجھی جاتی ہے عمرؓ شرمندہ ہو گئے- بہن کا خون بہتا دیکھ کر اس ندامت کو مٹانے کے لئے پوچھا بتاؤ تو کیا پڑھ رہے تھے- بہنوئی نے چاہا کہ قرآن شریف دکھاویں مگر بہن نے جوش سے کہا تو ناپاک ہے وہ مقدس کتاب کیونکر تجھے دکھائی جا سکتی ہے- عمرؓ چونکہ اپنے فعل اور بہن کی قوت ایمانی سے بے حد متاثر ہو چکے تھے نرم ہو گئے اور جھٹ ایمان لے آئے-۴؎ یہ اس لئے کہ عورت نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے اس معزز بھائی کو قطعی چھوڑ دیں گے مگر اس مقدس دین کو نہ چھوڑیں گے- پس ان کے اس استقلال پر اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کے دل کو نرم کر دیا- وہ
۵۲۱ مسلمان ہو کر اسلام کے جاں نثار بن گئے- اگر عورت یہ ہمت نہ دکھاتی تو عمرؓ پر اتنا اثر نہ ہوتا اور نہ بہن بھائی ابدی طور پر یوں ملتے کہ ذرا بھی جدائی نہ ہوئی- یاد رکھو کہ یہ محض قربانی کا ثمرہ تھا- پس اگر تم اپنے رشتہ داروں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہو تو قربانی کرو- اللہ تعالیٰ کا نشتر فائدہ کے لئے اور اس کی سزا رحم کے لئے ہوتی ہے- وہ کبھی ظلم سے کسی کو سزا نہیں دیتا- اس کا رحم بے پایاں ہے- خود فرماتا ہے رحمتی وسعت۵؎ کہ میری رحمت وسیع ہے- تو وسیع رحمت والے سے کس طرح ظلم کی توقع ہو سکتی ہے اس کے کسی فعل سے ظلم ظاہر نہیں ہوتا- دوزخ محض سزا دہی اور تادیب کے لئے ایک ہسپتال ہے جہاں کوئی چند دن رہا- کوئی چند ہفتے، کوئی چند مہینے، کوئی چند سال مگر جس طرح کوئی ہمیشہ دنیوی ہسپتالوں میں نہیں رہتا اسی طرح وہ ہسپتال (دوزخ)بھی دائمی نہیں- جنت گھر ہے اور دوزخ ہسپتال- اللہ تعالیٰ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اپنے بندوں کو دائمی دکھ میں ڈال دے- حدیث میں آتا ہے کہ آخر ایک دن دوزخ کے دروازے جنت کی ہوائیں ہلائیں گی اور اسے ٹھنڈا کر دیں گی- یہ بھی وسیع رحمت کی دلیل ہے- پس تمہارے اقرباء کی جدائیاں تادیب و ترقی کے لئے ہیں نہ ظلم و جور کی وجہ سے- جیسے ماں کے پیٹ سے بچے کا جدا ہونا اس کی ترقیات کے لئے مفید اور ضروری ہے- تو کیا کوئی ماں اپنے بچے کا پیٹ سے جدا ہونا ناپسند کرتی ہے؟ کیا وہ کبھی کہتی ہے کہ ہائے کیوں میرا بچہ میرے پیٹ سے الگ کیا گیا؟ ہرگز نہیں کہتی- کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس علیحدگی میں اس کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے راستے نکلیں گے- وہ پیٹ میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا تھا- پس خدا تعالیٰ بھی تمہارے رشتہ داروں کو اسی لئے جدا کرتا ہے کہ تا وہ ہمیشہ کے لئے تم سے آملیں- علم ادم الاسماء۶؎ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا ہے کہ اس تفرقے میں (جو تمہارے نزدیک ہے) مدرسہ ہے اور اس طرح الگ کر کے علوم سے بہرہ ور کرنا مقصود ہے- دیکھو اگر اگر بہن بھائی ماں باپ سب اکٹھے ہوں تو تعلیم کیونکر پوری ہو سکتی ہے- لیکن سکول علیحدہ ہوتا ہے تو تعلیم کا انتظام بھی مکمل ہو سکتا ہے- ایک لڑکا جو خاص طور پر سکول بھیجا جائے خیال کرتا ہے کہ میں تمام رشتہ داروں سے محض تعلیمی غرض سے علیحدہ کیا گیا ہوں- اس
۵۲۲ طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کو اس فرض کا احساس رہتا ہے اور غرض بھی پوری ہوتی ہے- اکٹھا رہ کر یہ احساس ناممکن ہے پس علم ادم الاسماء کا یہ مطلب ہوا کہ ہم نے تعلیم کے تمام پہلوؤں یا شعبوں کو مکمل کرنے کے لئے خلیفہ بنایا کہ تا وہ اس طرح لوگوں کو علیحدہ کر کے تعلیم دے اور خدا تعالیٰ کی صفتوں کا علم مخلوق کو دے- پس یہ علیحدگی زحمت نہیں رحمت ہے- روحانی بیماروں سے علیحدگی کے بغیر خدا کو پا لینا تمہارے لئے ناممکن تھا- اب علیحدہ ہو کر تم نے خدا کو پا لیا- تو یہ تم کو نہایت بیش قیمت نعمت مل گئی جس کا جتنا شکر کرو تھوڑا ہے نہ کہ الٹا ان اقرباء کی جدائیوں پر گھبراؤ یا لغرش دکھاؤ- میں مکرر نصیحت کرتا ہوں کہ ان رشتہ داروں سے جن کا روحانی طور پر تم سے قطع تعلق ہو چکا، رشتہ داریاں قائم نہ کرو- ان کے جنازوں وغیرہ میں شرکت نہ کرو- اپنے آپ کو ان تعلقات کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب کے مورد نہ بناؤ- اب اس کے بعد میں خدا تعالیٰ کے علم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں- سب سے ضروری چیز خدا کا علم ہے بہت عورتیں سمجھتی ہوں گی کہ ہمیں خدا کا علم ہے- مگر نہیں وہ خدا کو نہیں جانتیں- اگر جانتیں تو اس پر پورا پورا ایمان ہوتا- نہ جاننے کے سبب سے ہی عورتیں جھٹ ہر کام اور ہر انجام پر تقدیر کو لے بیٹھتی ہیں- یہ ثبوت ہے خدا کا علم نہ ہونے کا اور اس کی صفات سے بے خبری کا- یاد رکھو یہ تمہارا تقدیر کا مسئلہ غلط ہے- اپنی کوتاہیوں کے صلہ میں جو بدانجامیاں ظاہر ہوتی ہیں ان کا نام تم تقدیر رکھ کر خدا تعالیٰ پر الزام رکھتی ہو- یہ نہیں خیال کرتیں کہ خدا جو اتنا بڑا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اس کو کیا ضرورت ہے کہ تم میں سے کسی کو دکھ دے کسی کو سکھ- کسی کو رلائے کسی کو ہنسائے اس کا اس میں کیا فائدہ ہے- کیا کوئی ماں پسند کرتی ہے کہ ایک بیٹا جئے ایک مر جائے- ایک اندھا ہو ایک سوجاکھا- ایک بیمار ہو ایک تندرست؟ یہ جاہلانہ خیال ہے- ہماری قوم کی بہت سی تباہی یہی تقدیر کا مسئلہ ہے- اسی مسئلہ کے طفیل ہماری کوششیں ضائع ہو گئیں- ہماری محنتیں برباد ہو گئیں اور ہماری تمام سرگرمیاں بے ثمر رہ گئیں- تم خوب یاد رکھو کہ یہ تقدیری مسئلہ بالکل غلط ہے- اللہ تعالیٰ نے قانون بنائے ہیں جو ان پر سیدھے چلے انہوں نے کامیابی پائی جو الٹے چلے وہ ناکام رہ گئے- مثلاً یہی جلسہ ہے جس میں کئی پیچھے بیٹھی ہیں کئی آگے- لیکن کیا اس طرح ان کو خدا نے بٹھلایا ہے؟ مانا کہ منتظمات کا بھی ایک حد تک اس میں دخل ہو گا مگر پھر بھی پہلے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے- پہلے آنے والی کو
۵۲۳ اچھی اور قریب جگہ مل گئی پیچھے آنے والی کو دور- اس میں تقدیر کا کیا دخل ہے- حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک دفعہ طاعون کے موقع پر لوگوں نے کہا یہاں سے چلے جانا چاہئے حضرت عمرؓ کی بھی یہی رائے تھی- مگر آج کل مسئلہ کے مطابق اس وقت بھی چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اختلاف کیا اور اسی تقدیر کو پیش کر کے کہا اتفرون من قدر اللہ ۷؎یعنی کیا تم تقدیر سے بھاگتے ہو؟ مگر اس کا جواب حضرت عمرؓ نے کیا ہی لطیف دیا- فرمایا افر من قدر اللہ الی قدر اللہ-۸؎ سوچو! کہ اگر یہ تقدیر ہے کہ ایک کیڑے کے کاٹنے سے آدمی بیمار ہو تو یہ بھی تو تقدیر ہے کہ ڈاکٹر دوائی دے اور وہ اچھا ہو جائے- تم ایک تقدیر پر ایمان لاتی ہو دوسری پر نہیں- تمہاری مثال اس مراثی کی سی ہے جو نکھٹو تھا- بیوی معاش کے لئے مجبور کرتی تھی اور وہ عذر کرتا تھا کہ کوئی کام ہی نہیں ملتا- آخر ایک دفعہ فوج میں بھرتی ہوئی بیوی نے کہا کہ تو اس میں ہی شامل ہو جا- کہنے لگا شاید تو میری موت کی خواہشمند ہے کیونکہ بھرتی جنگ کے لئے ہے اور جنگ میں موت ہی ہے- بیوی نے اس کو سبق دینے کے لئے چکی میں دانے پیسے جن میں کچھ ثابت رہے کچھ پس گئے اور خاوند سے کہا کہ دیکھ سارے ہی دانے چکی میں پِس نہیں جاتے ثابت بھی تو رہتے ہیں- پس تو نے کیونکر کہا کہ جنگ میں سب کی موت ہی ہے- وہ کہنے لگا تو مجھے پسے ہوئے دانوں میں شمار کر- کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ بچہ ماں کی پھٹکار سے بیمار ہوا یا ماں کی بدعا سے مرا؟ مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق تم نہایت بے باکی اور بے خوفی سے کہہ دیتی ہو کہ یہ ظلم خدا کی تقدیر ہے- تم خدا کو مالک خیال کرتی ہو تو ساتھ رحیم بھی خیال کرو ظالم کیوں خیال کرتی ہو- خدا کا کیا فائدہ ہے کہ تمہارے بچے کو بیمار کرے تم نے اس کو ننگا رکھا تم نے بے احتیاطی کی تم نے بد پرہیزی کی وہ نمونیا میں مبتلا ہو گیا اب تم خدا پر الزام رکھتی ہو اپنی غفلت نہیں کہتیں- تمہارا بچہ جاہل رہا اس لئے کہ تم نے اسے پڑھنے کا شوق نہ دلایا- اس کی تادیب نہ کی- اس کو آوارگی سے نہ بچایا مگر اپنے اس قصور پر اب تقدیر کا حوالہ دیتی ہو- بھلا کب خدا کے فرشتوں نے تمہارے بچے کو جاہل رہنے کی ترغیب دی؟ کب انہوں نے تمہارے بچے کی کتابیں چھین لیں؟ کب اس کے سکول کے راستے کو روکا- یہی وہ تقدیر کا مسئلہ ہے کہ جس پر ایمان لا کر ہمارا ملک خدا کے فضلوں سے محروم ہو گیا- دیکھو اسی ملک کے انگریز بچے تندرست اور تمہارے بیمار ہیں- اس
۵۲۴ میں انگریز تعلیم یافتہ اور تم جاہل، انگریز آسودہ حال تم فلاکت زدہ ، وہ عالی مرتبہ اور بشاش تم سراپا نکبت اور غمگین- اس کی وجہ یہ نہیں کہ تقدیر کی ان سے دوستی اور تم سے دشمنی ہے بلکہ وجہ محض یہ ہے کہ انہوں نے قانون قدرت کے مطابق کام کیا یا یوں کہو کہ دنیا کی مشینری کا صحیح استعمال کیا اور فائدہ اٹھایا مگر تم نے نافرمانی اور خلاف قاعدگی سے نقصان پایا- جب بچہ بیمار ہو جاتا ہے تمہاری غفلت کی وجہ سے، تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے، تمہاری جہالت کی وجہ سے، تو تم اس کو تقدیر سے وابستہ کرتی ہو اپنی غلطی کو نہیں مانتیں اور نہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتی ہو- خود تربیت کا خیال نہیں رکھتیں مگر جب وہ خراب اور اوباش ہو جاتا ہے تو کہتی ہو ‘’جی تقدیر-’‘ یاد رکھو یہ تمام باتیں غفلت اور قانون شکنی کی ہیں- خدا نے قانون بنائے ہیں ان پر چلنے والے کامیاب ہوں گے خلاف ورزی کرنے والے تباہ- پس میں پھر کہتا ہوں کہ اس تقدیر کی آڑ میں خدا پر الزام نہ رکھو-علم ادم الاسما ءکا یہی مطلب ہے کہ خدا کا علم یعنی اس کی صفات سے واقفیت- تم خدا کی فرستادہ جماعت کا حصہ ہو- تم کو اس کی ذات کا علم ہونا ضروری ہے- تم تقدیر کو چھوڑو تقدیر خدا کے ساتھ اچھے موقعوں پر منسوب کرو- جانو کہ وہ قادر ہے وہ رحیم ہے، وہ کریم ہے، وہ رحمن ہے، وہ عقدہ کشا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسئلہ تقدیر کو کیسی لطیف شان دی ہے- فرماتے ہیں بیمار میں پڑتا ہوں شفاء خدا دیتا ہے- جاہل میں رہتا ہوں علم خدا دیتا ہے- غفلت میں کرتا ہوں ہوش میں وہ لاتا ہے- پس تم بھی ظالمانہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرو- اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دور کرو- اس کے بنائے ہوئے قوانین کو صحیح طریق سے عمل میں لاؤ تا یہ اِدبار تم سے دور ہو- اور یہ بات یاد رکھو کہ آئندہ ہماری جماعت میں یہ مسئلہ نہ اٹھے- دوسرا مسئلہ دعا کا ہے یہ ایسا ہتھیار ہے کہ جہاں پڑے کاٹ دیتا ہے- اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺسے فرماتا ہے کہ اے میرے رسول! ہمارے بندوں سے کہدے کہ میرا رب تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم دعا سے اس کے ساتھ تعلق نہ رکھو-۹؎ مگر افسوس ہمارے ملک میں دعا کی ایسی بے قدری ہوئی ہے کہ ٹوٹی جوتی کی بھی نہ ہوتی ہو- حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو یہ ایک ایسا ہتھیار دیا ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کرتے کم تھا- دعا خالق اور مخلوق کے مابین راستے کی سیڑھی ہے- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ ایک کھائی کھدی ہوئی
۵۲۵ ہے اور بھیڑیں لیٹی ہوئی ہیں گویا ذبح کرنی ہیں- جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے منتظر تھے کہ ان کو ذبح کریں- اس وقت کشفی طور پر آپ کو معلوم ہوا کہ بھیڑیں گناہگار انسان ہیں- پھر آواز آئی کہ قل مایعبوابکم ربی لو لا دعاء کم-۱۰؎ خدا سے دعا کرو کہ تمہاری سختیاں معاف ہوں گویا سخت سے سخت مشکلات کا حل دعا سے ہو سکتا ہے- اگر دعا نہ ہوتی تو انسان زندگی بالکل بے کیف رہتی- حضرت مسیح ناصری نے کیا لطیف فرمایا کہ ‘’انسان روٹی سے نہیں خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے’‘-۱۱؎ پس خدا کا علم اور اس کے بعد دعا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں اس کے بغیر تمہاری زندگیاں بیکار، تمھارے کام بے ثمر ہیں، یہ مت خیال کرو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ خدا کو نہیں مانتے اور وہ پھر بھی بڑے خوش نصیب ہیں- یہ صحیح ہے مگر بادشاہت کوئی کامیابی نہیں- اگر کوئی اس پر گھمنڈ کرتا ہے تو اس کی بیوقوفی ہے- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس طرح ایک کسمپرس چُوڑا جان کندنی یا تکلیفِ جسمانی کے وقت درد و کَرب سے کراہتا ہے اسی طرح ایک طاقت ور مگر خدا کو نہ ماننے والا بادشاہ بھی- نبیوں کی زندگی دیکھو کہ جن کو زمانہ کے شدو مد کی کچھ پروا نہیں، دکھو کا غم نہیں- مصائب میں سینہ سپر بھی ہیں بے فکر بھی- غرض ان کا دل اس طرح مطمئن ہے کہ تمام جہان کی بادشاہت حاصل کر کے ایک دنیاوی بادشاہ کو بھی نہیں ہو سکتا- وجہ یہ کہ دنیاوی بادشاہ کا بھروسہ اسباب مادی پر ہوتا ہے مگر خدا کے فرستادہ کا چونکہ خدا کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے پس وہ اپنے اس حامی کی حمایت میں ہر طرح بے فکر رہتا ہے- گو اس کے پاس مادی اسباب کی قلت ہو بلکہ نہ ہونے کے برابر- مگر اس کی مسرت اور اس کے اطمینان کو کوئی نہیں پا سکتا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کونسی سلطنت یا طاقت تھی مگر آپ مصائب اور شدائد زمانہ سے بے فکر تھے- زار روس جو ایک نہایت بلند بادشاہ تھا اس کے متعلق آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ وہ نہایت بے کسی کی حالت میں تباہ ہو گا- پھر اسی طرح ہوا- اب شہنشاہ زار کی پہلی قوت دیکھو پھر اس پیشگوئی کے بعد اس کے بعد بے کسی- پس معلوم ہوا کہ دنیا کے بادشاہوں کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی- وہ بالکل مردہ بدست زندہ کی مثال ہیں مگر خدا کے پیارے ہر طرح بااقتدار- ایک ولی بزرگ کا واقعہ ہے جو دہلی میں رہتے تھے بادشاہ ِ وقت ان سے ناراض ہو گیا-
۵۲۶ کہیں دہلی سے باہر گیا ہوا تھا- دشمن نے کوئی چغلی لگائی اور بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ دہلی پہنچتے ہی اس بزرگ کو سزائے موت دوں گا- لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ بادشاہ کے آنے سے پہلے ہی یہاں سے کہیں چلے جائیں یا معافی مانگیں- مگر آپ خاموش رہے یہاں تک کہ بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ گیا- خبریں آتی تھیں کہ بادشاہ ان بزرگ پر غضب ناک ہو رہا ہے اور آتے ہی عبرت ناک سزا دے گا- خیر خواہوں نے پھر وہی مشورہ دیا مگر آپ نے کہا ‘’آنے دو ہوا کیا آخر باشادہ ہے خدا تو نہیں’‘ یہاں تک کہ سنا گیا کہ کل صبح بادشاہ کی سواری کشمیر میں داخل ہو گی- بادشاہ اب دہلی کے بہت نزدیک ہے مگر ان بزرگ نے بڑے اطمینان سے فرمایا ‘’ہنوز دلی دور است’‘- سننے والے حیران تھے کہ بادشاہ چند لمحوں میں آیا چاہتا ہے یہ دلی دور بتاتے ہیں مگر اسی رات کو بادشاہ قولنج سے مر گیا اور اسے دلی میں داخل ہونا نصیب ہی نہ ہوا- آنحضرت ؎ کے متعلق واقعہ ہے کہ دنیوی حالت نہایت غربت میں تھی- ہاں ظاہری حالت بے بسی کی سی- مگر باوجود اس ظاہری بے سرو سامانی کے ایران کے بادشاہ کے پاس آپ کی نبوت اور ترقی کی رپورٹیں برابر پہنچتی تھیں اور وہ آپ سے باوجود بادشاہ ہونے کے خائف تھا آخر اس نے عرب کے گورنر کو آپ کی گرفتاری کا حکم بھیجا- آدمی شاہی حکم لے کر آپ کے پاس آئے اور صاف صاف عرض کر دیا اور کہا کہ نافرمانی نہ کیجئے بے چون و چرا ہمارے ہاتھ اپنے آپ کو دے دیجئے- باشادہ بہت بڑا ہے اس کے حکم کی تعمیل میں ایران چلئے اسی میں آپ کا بھلا ہے- آپ نے فرمایا کہ کل اس کا جواب دوں گا- دوسرے دن آپ نے ان سے فرمایا- سنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا- جاؤ واپس- انہوں نے واپس جا کر من و عن گورنر کو کہہ دیا- گورنر حیران ہو گیا- وہ ایران کی ڈاک کا منتظر رہا یہاں تک کہ وہی اطلاع اس کو پہنچی کہ خود اس کے بیٹے نے اس کو قتل کر دیا اور اسی رات جس رات آپ نے فرمایا تھا- خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارا باپ بڑا ظالم تھا ہم نے اس کو مار دیا- اب ہم خود بادشاہ ہیں- ہمارے باپ نے از راہ ظلم عرب کے ایک شخص کو قتل کا حکم دیا ہے- اب چونکہ وہ مار دیا گیا ہم اس کے حکم کو منسوخ کرتے ہیں-۱۲؎ تو اب دیکھو بادشاہت دنیا میں کوئی چیز نہیں- اصل مقصود تو یہ ہے کہ خطروں سے محفوظ ہو جائیں اور خطروں سے وہی محفوظ ہو سکتے ہیں جو خدا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں- خدا کی صفات پر ایمان لاتے اور دعاؤں سے اس کی مدد کو پاتے ہیں- ہاں تو یاد رکھو کہ خدا سنتا ہے مگر
۵۲۷ قاعدے سے قانون قدرت کے مطابق- کیا دیوار پر آٹا دے مارنے سے روٹی پک سکتی ہے؟ بلکہ روٹی اسی قاعدے سے پکے گی جو قداعد اس کے لئے بنائے گئے ہیں- پس دعا بھی اسی قاعدے سے قبول ہو گی جو اس کے لئے مقرر ہے- اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھنے کو توفیق دے- آمین’‘ (مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۱ء) ۱؎ البقرہ: ۳۱ ۲؎ الروم : ۴۲ ۳؎ التحریم :۷ ۴؎ السیرہ النبوتہ لابن ھشام جلد۱ صفحہ۳۶۶ تا ۳۸۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۵؎ الاعراف: ۱۵۷ ۶؎ البقرہ : ۳۲ ۷؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرہ والکھانہ میں تفرون کی بجائے ‘’افرارا’‘ کے الفاظ ہیں- ۸؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرہ والکھانہ میں ‘’افر’‘ کی بجائے ‘’نفر’‘ ہے- ۹؎ الفرقان :۷۸ ۱۰؎ ملفوظات جلد ۴ صفحہ۱۲۵، ۱۲۶ (جدید ایڈیشن( ۱۱؎ متی باب ۴ آیت ۴ (مفہوما( ۱۲؎ طبری جلد ۳ صفحہ ۱۵۷۱ تا ۱۵۷۵ مطبوعہ ۱۸۸۱ء
۵۲۹ بعض اہم اور ضروری أمور از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۵۳۱ بعض اہم اور ضروری امور بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بعض اہم اور ضروری امور (فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اول تو اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے پھر اس سنت کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی جو اس کے مامور اور مرسل نے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اشارہ سے جلسہ سالانہ کے رنگ میں قائم کی- اس کے بعد فرمایا-: ہم چونکہ اس وقت اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے فیوض حاصل کریں اس لئے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں ہمارے لئے ماضی میں کیا پیدا کیا گیا جس کی حفاظت کرنا اور جسے ترقی دینا ہمارا فرض ہے یا جسے دور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے- کئی باتیں ایسی پیدا کی جاتی ہیں جن کا دور کرنا مومن کا فرض ہوتا ہے اور کئی ایسی ہوتی ہیں جن کا حاصل کرنا مومن کے فرائض میں داخل ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ابتلاء لاتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کس طرح خدا تعالیٰ کے افعال پر غور و تدبر کرتے ہیں- اللہ تعالیٰ بڑا غیور ہے جہاں وہ کسی کا محتاج نہیں، وہاں اس میں غیرت بھی کمال درجہ کی ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے افعال سچے عاشق کی طرح دیکھتے ہیں یا نہیں- ایک سچے عاشق کی کیا حالت ہوتی ہے یہ کہ ہر وقت اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی حرکات دیکھتا رہے، اس کی ہر بات پر نگاہ رکھے اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے- پس سچے مومنوں کو خدا تعالیٰ کے افعال پر نگاہ رکھنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کن امور میں انہیں ہوشیار کرنا چاہتا ہے اور کن میں آگے بڑھانا چاہتا ہے-
۵۳۲ بعض اہم اور ضروری امور ایک بہت بڑا ابتلاء اس سال ہماری جماعت پر ایک بہت بڑا ابتلاء آیا- گذشتہ مارچ میں چند لوگوں نے جو جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب دیکھا کہ جماعت ان کا پیدا کردہ فتنہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے وہی طریق اختیار کیا جو فتنہ پرداز لوگ اپنی شرارت کو انتہا تک پہنچانے کے لئے اختیار کیا کرتے ہیں- یعنی ایسی تحریریں شائع کرنی شروع کر دیں جن سے اشتعال آئے اور جن کو دیکھ کر صبر سے کام لینا محال ہو جائے- مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے ہماری جماعت کو ایک سبق دیا اور بتایا کہ وہ مومن کو ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے- خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو یہ سکھانا چاہا کہ ایسے واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں جب انسان اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکتا لیکن ادھر شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نفس کو قابو میں رکھا جائے- میں سمجھتا ہوں ان انتہا درجہ کی اشتعال انگیزیوں کے مقابلہ میں جو فتنہ پردازوں نے شرارت کو بڑھانے کے لئے کیں سوائے چند کوتاہیوں کے ہماری جماعت کے لوگوں نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور لاکھوں انسانوں کی جماعت میں سے چند کوتاہیاں اس جماعت کے اعلیٰ اخلاق اور ضبط نفس پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ کسی قسم کا اس پر حرف لاتی ہیں- ان حالات میں جس عمدگی سے جماعت نے کام کیا اس کی نظیر کا کسی اور جگہ ملنا محال ہے- ایک طرف جماعت کے لوگوں کی غیرت اور حمیّت کا امتحان تھا اور دوسری طرف اپنے نفس پر قابو رکھنے کا- گویا دو آگیں تھیں جن میں وہ کھڑے تھے اور جہاں یہ دونوں آگیں جمع ہو جائیں وہاں عقلمند سے عقلمند انسانوں کی عقل بھی ماری جاتی ہے- مگر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جماعت پوری طرح کامیاب ہوئی- اس نے غیرت بھی دکھائی اور اپنے نفس پر قابو بھی رکھا اور اگر کسی سے کچھ کوتاہی ہوئی تو ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ باقی جماعت کے صبر، تحمل اور استقلال کی وجہ سے اور شریعت اور اسلام کی تکریم کے طور پر اپنے نفس پر قابو رکھنے کی وجہ سے کوتاہی کرنے والوں کو معاف کر دے- وفات کی جھوٹی خبر ہماری جماعت کی ایک اور آزمائش جو خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے ذریعہ کی اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک رنگ میں آزمائش تھی اور ایک رنگ میں انعام- اب میں اس کا ذکر کرتا ہوں- مستریوں نے جو فتنہ پھیلایا اس کے متعلق قدرتی طور پر کبھی یہ خدشہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید جماعت کا ایک حصہ اپنے اندر کمزوری محسوس کرے کیونکہ دشمن جو روز بروز شرارت میں بڑھتا جاتا ہے شاید اس کو
۵۳۳ بعض اہم اور ضروری امور اندر سے مدد ملتی ہو- یہ انسانی کمزوری کے ماتحت میرے دل میں خیال پیدا ہوتا- اللہ تعالیٰ نے اسے دور کرنے کے لئے دشمن سے ہی ہتھیار چلوایا- فتنہ پرداز لوگ بڑے دعویٰ کے ساتھ یہ کہتے تھے کہ جماعت کے لوگ انہیں مخفی طور پر مدد دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے اسے غلط اور محض جھوٹ ثابت کرنے کیلئے ایسا ذریعہ پیدا کرایا اور دشمن کے ہاتھ سے ہی پیدا کرایا کہ اس کا وہ انکار نہ کر سکتا تھا- یہ وہ خبر تھی جو میری موت کی شائع کرائی گئی- اس خبر نے جماعت کے اخلاص اور محبت کے جذبات کو نکال کر باہر رکھ دیا اور اخلاص کی ایسی نمائش ہوئی جو دنیا میں پچھلے سالوں میں بہت کم ہوئی ہوگی- اس خبر کے پھیلانے پر دشمن نے معلوم کر لیا کہ وہ اپنی شرارت میں بالکل ناکام ہو چکا ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ جماعت کے کسی حصہ میں بھی اخلاص کی کوئی کمی نہیں ہوئی- مجھے اس وقت تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں- اس خبر کے شائع ہونے پر جو خطوط آئے اور ہم نے جماعت کے لوگوں کی جو حالت دیکھی اس کی تفسیر الفاظ میں ممکن نہیں اس سے ظاہر ہو گیا کہ جماعت میں جو اخلاص ہے وہ ہمارے اندازہ سے باہر ہے- بہت سے خطوط ایسے آئے جن میں جماعت کے معزز افراد نے لکھا کہ اس خبر کے سنتے ہی انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ملازمتیں چھوڑ کر بقیہ عمر دین کی خدمت میں صرف کریں گے- یہ انتہائی قربانی تھی اور صحیح قربانی تھی- جس کا ارادہ کیا گیا- انتخاب ِخلافت سب سے بڑی آزمائش ہے جہاں خدا تعالیٰ نے جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقع دیا وہاں یہ بھی بتا دیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو اور ایک نہ ایک دن اسے اپنے مخلصین سے جدا ہونا پڑتا ہے- اس بات کا احساس بھی خدا تعالیٰ نے جماعت کو کرا دیا- اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے- یاد رکھو! اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہو جماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہو جائے گی- انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں- یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا- ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جا گرتا ہے- غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچاننی
۵۳۴ بعض اہم اور ضروری امور چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر شرمناک حملہ پچھلے دنوں ایک شرمناک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں اس کا باعث وہی چند نادان منافق ہیں جو فتنہ پردازی میں حصہ لے رہے ہیں اور جس طرح جماعت کے مخلصین کا اخلاص ظاہر ہوا اسی طرح بعض منافقین کی منافقت ظاہر ہو گئی- اور تو اور اس قسم کے بھی سنگ دل معلوم ہوئے کہ قاضی محمد علی صاحب کا پیغام آیا ایک شخص مجھے کہتا رہا تم کیوں یہ نہیں کہہ دیتے کہ سازش کر کے مجھ سے قتل کرایا گیا ہے- ایسے ہی کچھ لوگ تھے جو مستریوں کے فتنہ کا ذکر کر کے کہتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیوں ایسے الزام نہ لگائے جاتے تھے- اب کوئی بات ہوگی تبھی الزام لگاتے ہیں- میں سمجھتا ہوں یہ رسالہ جس کا نام تائید اسلام رکھا گیا ہے لیکن دراصل بدترین کفری رسالہ ہے ایسے ہی لوگ اس کی اشاعت کا موجب ہوئے ہیں- اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کی ذات پر ایسے گندے اتہام لگائے گئے ہیں جیسے مستری مجھ پر لگاتے تھے- میں وہ الفاظ نہیں پڑھ سکتا میں نے گھر پر ان کے پڑھنے کی کوشش کی- مگر نہ پڑھ سکا- چند سطور پڑھ کر چھوڑ دینے پر مجبور ہوا- بہرحال وہ ویسے ہی اعتراضات ہیں جیسے مجھ پر کئے گئے اور میں سمجھتا ہوں ہر گناہ کے نتیجہ میں گند نکلتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دشمن اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے- مگر مومن کا کام یہ ہے کہ ایسی باتوں کو پرے پھینک دے اس لئے ہم نے ان کو پھینک دیا- مگر بعد میں آنے والے چند نادانوں نے کہا ان کو کیوں پھینکا گیا- ہم نے ایسی باتوں کو اس لئے پرے پھینک دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے- لا نبقی لک من المخزیات ذکرا۱؎ پس ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم لعنتوں کو جمع کرتے رہیں- یہ لعنتیوں کا کام ہے- ہمارا کام یہ ہے کہ ہم رحمتوں کو چُنیں- خدا تعالیٰ کی گرفت جہاں ہماری غیرت یہ نہیں چاہتی کہ ہم ایسی باتوں پر طوالت سے بحث کریں وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پوری طرح ایسی باتوں کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار کر دیں- اس قسم کے اعتراضات کرنے والوں سے کہہ
۵۳۵ بعض اہم اور ضروری امور دیں کہ تم اپنی بہو بیٹیوں اور بیویوں کی فہرست بنا لو- میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ ہر ایک چیز حتیٰ کہ خلافت کو بھی پیش کر کے کہہ دوں کہ اگر ان میں وہی باتیں نہ پیدا ہو جائیں جن کا جھوٹا الزام ہم پر لگاتے ہیں تو ہم جھوٹے- یہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کی گرفت ہے جو پوری ہو کر رہے گی اور خدا تعالیٰ کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے- شیعوں کو دیکھ لو جتنی کنچنیاں ہوتی ہیں ان میں سے اکثر شیعہ کہلاتی ہیں- شیعوں نے خدا تعالیٰ کے پاک بندوں پر بعض اعتراضات کئے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزار سال سے اس قسم کے عیب ان میں پیدا ہو گئے- گورنمنٹ سے مطالبہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ضرور بدلہ لیتا ہے اور اب بھی ضرور لے گا- مگر موجودہ گورنمنٹ نے جب یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ مذہبی پیشواؤں پر ناپاک حملے کرنے والوں کی گرفت کی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم گورنمنٹ سے اس قانون کے استعمال کرنے کا مطالبہ نہ کریں- جس حق کو گورنمنٹ خود تسلیم کرتی ہے ہمارا حق ہے کہ ہم اس کا مطالبہ کریں- میں امید کرتا ہوں کہ ساری جماعت اس بات پر متفق ہوگی کہ گورنمنٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ اس قانون سے کام لے یا پھر اس قانون کو منسوخ کر دے- جب تک یہ قانون موجود ہے اس وقت تک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جماعت احمدیہ کے امام کو دوسرے فرقوں کے پیشواؤں سے کم درجہ دے- اب میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے- ہم اپنے لئے کوئی خاص رعایت نہیں چاہتے- گورنمنٹ یا تو اس قانون کو منسوخ کر دے یا پھر اسی طرح ہمارے لئے اس کا اجرا کرے جس طرح اوروں کے مذہبی پیشواؤں کے متعلق کرتی ہے- تازہ تصانیف اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو کتابیں نہایت اعلیٰ پایہ کی تصنیف ہو چکی ہیں- ان کے مسودات کے بعض حصے میرے سامنے پیش ہو چکے ہیں- ان میں سے ایک تو رسول کریم ؎ کی سیرت پر ہے جو میاں بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے اور سیرت کی موجودہ کتابوں میں سے سب سے بہتر کتاب ہے- اس کے ذریعہ اسلام کی خدمت میں بہت آسانی پیدا ہو جائے گی- انشاء اللہ دوسری کتاب ایک مخالف سلسلہ کی کتاب ‘’عشرہ کاملہ’‘ کا جواب ہے- جو مولوی اللہ دتا صاحب کو تبلیغ کے کام سے فارغ کر کے لکھائی گئی ہے- اس کا نام میں نے ہی ‘’تفہیمات ربانیہ’‘ رکھا ہے- اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا- اس کتاب کے لئے کئی
۵۳۶ بعض اہم اور ضروری امور سال سے مطالبہ ہو رہا تھا- کئی دوستوں نے بتایا کہ ‘’عشرہ کاملہ’‘ میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے- اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے- دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے- تفسیر القرآن گذشتہ جلسہ سالانہ پر ایک چیز کا میں نے وعدہ کیا تھا اور وہ قرآن کریم کی اردو تفسیر تھی- یہ تفسیر چار سو صفحہ تک چھپ چکی ہے اور اس سے زیادہ کا مسودہ تیار ہو چکا ہے- یہ درس کے نوٹ ہیں اور چونکہ نظر ثانی کرتے وقت مجھے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے اس کی اشاعت میں دیر ہو گئی اور جولائی کے بعد اور اہم وقتی کاموں کی وجہ سے میں یہ کام نہ کر سکا- میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے صحت اور توفیق بخشی تو چند ماہ تک یہ کتاب تیار ہو جائے گی- انگریزی ترجمہ قرآن کی نظر ثانی بھی بہت کچھ ہو چکی ہے- تھوڑا سا حصہ باقی ہے وہ مارچ تک امید ہے ختم ہو جائے گا- غیر مبائعین کی کذب بیانی اس کے بعد حضور نے غیر مبائعین کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ جھوٹ اور غلط بیانی میں کس طرح حد سے گذر چکے ہیں- اور اس بات پر اظہار تعجب و افسوس فرمایا کہ ایسے ایسے جھوٹ دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں کیوں درد نہیں پیدا ہوتا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ کسی حالت میں خفیف سے خفیف جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئے- حضور نے ان لوگوں کے حد سے بڑھے ہوئے جھوٹ کی مثال میں ۳۰- ستمبر کے پیغام کا ایک مضمون پڑھ کر سنایا- جس میں لکھا ہے کہ خلیفہ قادیان کو اپنے بعد کی خلافت کی فکر ابھی سے دامن گیر ہے اور اس منصب جلیلہ کے لئے اپنے لخت جگر میاں ناصر احمد کے نام قرعہ فال نکالا ہے- اس انتخاب کے بعد ولی عہد خلافت پرنس آف ویلز کی طرح دورہ پر نکلے- تمام قادیانی جماعتوں کو اپنے دیدارفیض آثار سے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور عطا فرمایا- ہدیے، نظرانے اور تحائف وصول کر کے کامیابی سے قادیان واپس تشریف فرما ہوئے- اس کامیاب دورہ کا اندازہ لگانے کے بعد کہ مریدوں نے میاں ناصر کو سر آنکھوں پر قبول کیا- اخباروں، پوسٹروں، اشتہاروں اور خطوط وغیرہ کی پیشانیوں کو ھوالناصر کے فقرہ سے مزین کیا جانے لگا اور یوں ایک رنگ میں اعلان کیا گیا کہ ہونے والا خلیفہ ناصر میاں ہے- تمام حاضرین نے لعنت اللہ
۵۳۷ بعض اہم اور ضروری امور علی الکاذبین کہتے ہوئے شہادت دی کہ میاں ناصر احمد صاحب نے کوئی دورہ نہیں کیا- حضور نے وضاحت کے ساتھ پیغام کے اس مضمون کی تردید کی اور بتایا کہ میاں ناصر احمد کو خلافت کے لئے دورہ کرانے کا الزام لگانے والے دیکھیں- میں تو وہ ہوں جس نے ۱۹۲۴ء کی مجلس مشاورت میں یہ بات پیش کی تھی کہ کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا- چنانچہ میں نے پیش کیا تھا کہ- ‘’کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقرر نہیں کر سکتا- نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شوریٰ اس کے کسی مذکورہ بالا رشتہ دار کو اس کا جانشیں مقرر کر سکتی ہے- نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضاحتاً یا اشارتاً اپنے کسی ایسے مذکورہ بالا رشتہ دار کی نسبت تحریک کرے کہ اس کو جانشین مقرر کیا جائے- اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شوریٰ کا فرض ہوگا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادنہ طور سے خلیفہ حسب قداعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نامزدگی چونکہ ناجائز تھی، وہ مسترد سمجھی جائے گی’‘-۲؎ اب دیکھو غیر مبائعین کی طرف سے یہ الزام اس شخص پر لگایا جاتا ہے جس نے خلافت کے متعلق پیش بندیاں پہلے سے ہی کر دی ہیں تا کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کر سکے اور اگر کرے تو اسے مسترد کر دیا جائے- تبلیغی اشتہارات میں نے پچھلے سال تبلیغی اشتہارات شائع کرنے کا اعلان کیا تھا- ایک اشتہار شائع بھی کیا گیا- اس کے بعد یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کس قسم کے اشتہار ہوں التواء کیا گیا- اسی دوران میں سیاسی تحریکات ملک میں بڑے زور سے پیدا ہو گئیں اور لوگ سیاسیات میں منہمک ہو گئے- خیال تھا کہ یہ تحریکات جلد ختم ہو جائیں گی مگر یہ لمبی ہوتی چلی گئی ہیں- اب ارادہ ہے کہ اشتہارات کا سلسلہ شروع کر دیا جائے- وہ لوگ اپنا راگ گاتے ہیں تو ہم بھی اپنا راگ گائیں- سیاسیات میں دخل جہاں تک ممکن ہو ہم سیاسیات سے الگ رہتے ہیں لیکن اس سال سیاسی حالات میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا اور ایسی باتیں رونما ہوئیں جو دین
۵۳۸ بعض اہم اور ضروری امور پر اثر انداز ہو سکتی ہیں- ان کی وجہ سے ہم خاموش نہیں رہ سکتے تھے- ہندوستان کے حالات ایسے ہیں کہ اگر ہندوستان والوں کو بغیر حد بندی کے ملکی اختیارات مل گئے تو وہ سب سے پہلے ہم پر ہی ہاتھ صاف کریں گے- اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسی قیود اور پابندیوں کا مطالبہ کریں جو ملک کے امن کو برباد نہ ہونے دیں- اس وجہ سے ہمیں ان معاملات میں دخل دینا پڑا اور ظاہر ہے کہ یہ دخل سیاسی لحاظ سے نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے ہے- اگر ہندو اس قسم کے قوانین نافذ کر دیں جن کی وجہ سے دین کی اشاعت بند ہو جائے جیسا کہ ہندو ریاستوں میں اب بھی اس قسم کی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے مسلمان ہونے والوں کو روکا جاتا ہے تو ہم ہندوستان کے لئے اس قسم کے قانون کس طرح برداشت کر سکتے ہیں اور ہمارا کس طرح گزارہ ہو سکتا ہے- جب کہ ہمارا اوڑھنا، بچھونا، جینا، مرنا دین ہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم کوشش کریں کہ دین کی اشاعت میں رکاوٹ پیدا کرنے والی کوئی بات نہ ہو- اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی سیاسی تحریک کا دین بااخلاق پر اثر پڑتا ہے تب ہم دخل دیتے ہیں- جیسے کل گورنر صاحب پر حملہ کے خلاف ہماری طرف سے اظہار نفرت کیا گیا- یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں سیاسیات میں بھی ایسی ہی برتری عطا کی ہے جیسی دوسرے امور میں- اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے- ہماری اپنی قابلیتوں کا اس میں کوئی دخل نہیں- اب بیسیوں بڑے بڑے سیاست دان یورپ اور ہندوستان کے لوگوں کی تحریریں موجود ہیں جن میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہم نے ہندوستان کے نظم و نسق کے متعلق جو رائے پیش کی ہے وہ بہت صائب ہے- اس قسم کی تحریروں میں سے کچھ سائمن رپورٹ پر تبصرہ کے اردو ایڈیشن میں شائع کر دی گئی ہیں اور بہت سی باقی ہیں جو بعد میں آئی ہیں- غرض خدا تعالیٰ نے اس طرح بھی ہماری برتری تسلیم کرا دی ہے- اس پر ہمیں کوئی فخر نہیں- ہم تو خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جب ہماری خدمت کے اچھے نتائج نکلیں تو اس کا اچھا اثر ضرور اہل ملک پر ہوگا- ہم تو اقلیت میں ہیں حکومت دوسری قومیں ہی کریں گی مگر باوجود اس کے ہم جو اتنی محنت اور مشقت برداشت کرتے اور روپیہ صرف کر رہے ہیں کیا اس سے شرفاء پر یہ اثر نہ ہوگا کہ ہم میں اتنی تڑپ کیوں ہے- ضرور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ملک اور اہل ملک کی خدمت کی یہ تڑپ حضرت مرزا صاحب نے ہی پیدا کی ہے- اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب اور عزت لوگوں میں بڑھے گی اور اس
۵۳۹ بعض اہم اور ضروری امور طرح آپس کا بعد دور ہوتا جائے گا- باقی جو دلائل کا کام ہے وہ کریں گے- کتاب میری کتاب ‘’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل’‘ اردو، انگریزی میں شائع ہو چکی ہے- اس کے لئے کچھ چندہ کیا گیا تھا مگر خرچ اندازہ سے زیادہ ہو گیا ہے- اس لئے کچھ قرضہ باقی ہے اسے جلد ادا کرنا ضروری ہے- اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب فروخت ہو جائے- میں احباب سے خواہش کرتا ہوں کہ شہروں میں رہنے والے اصحاب انگریزی ایڈیشن کے کئی کئی نسخے خرید لیں اور انگریزی خوانوں میں فروخت کریں اسی طرح اردو ایڈیشن کی اشاعت بھی کی جائے- مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ کتاب کثر ت سے شائع ہو مگر مفت نہیں بلکہ فروخت کی جائے یہ کتاب علیحدہ خرچ سے چھپوا کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رکھوا دی گئی ہے تا کہ اس کی آمد سے قرضہ ادا ہو سکے اور صدر انجمن احمدیہ پر بوجھ نہ پڑے- انگریزی اخبار سن رائز اسی سال میں نے اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی اخبار سن رائز کو ہفتہ وار کر دیا ہے- عام طور پر میری عادت ہے کہ میں مجلس شوریٰ کے مشورہ کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرتا لیکن حالات فوری طور پر ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ سن رائز کو ہفتہ وار کرنا پڑا- میں احباب سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اس کی اشاعت بڑھانے کے لئے کوشش کریں- اس کے ایڈیٹر ملک غلام فرید صاحب ہیں تو نوجوان مگر ان میں کام کرنیکی قابلیت ہے- اگر احباب مدد کریں تو صحیح سیاسی خیالات پھیلانے میں مفید کام کر سکتے ہیں- مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریروں کا جواب اس سال جب میں شملہ جانے لگا تو مجھے معلوم ہوا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے بالمقابل تفسیر نویسی کے متعلق ایک مضمون شائع کیا ہے- روانگی کے وقت وہ مضمون مجھے ملا- شملہ میں چونکہ اور بہت کام تھا اس لئے میں اس مضمون کی طرف توجہ نہ کر سکا- دوسرے یہ بھی خیال تھا کہ پہلے حوالے دیکھ کر جواب لکھوں- آخر میں نے میاں غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل سے حوالے منگوائے لیکن اتنے میں ولایت سے خطوط آئے کہ جس طرح نہرو رپورٹ پر تبصرہ کیا گیا تھا اسی طرح اگر سائمن رپورٹ پر بھی تبصرہ لکھا جائے تو بہت مفید ہو
۵۴۰ بعض اہم اور ضروری امور سکتا ہے- اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ سائمن رپورٹ پر بھی تبصرہ لکھوں اور اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریروں کا جواب لکھوں گا کیونکہ اگر پہلے ان کا جواب لکھا گیا اور مولوی صاحب کو معلوم ہو گیا کہ میں سائمن رپورٹ پر تبصرہ لکھنے میں مصروف ہوں تو وہ کہیں گے ابھی آؤ اور قرآن کی تفسیر لکھو- اس لئے اس وقت انہیں جواب دوں گا جب فرصت ہوگی کیونکہ دیکھا گیا ہے مولوی ایسے موقع کی تاک میں رہتے ہیں جب کہ انہیں مقابلہ سے بچنے کے لئے کوئی بہانہ مل سکے- مثلاً جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا کہ انہیں مباحثات سے روکا گیا ہے تو مولویوں نے جھٹ اعلان کر دیا آؤ اب مباحثہ کر لو- اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر مباحثہ کرنے پر آمادہ ہو گئے تو کہہ دیں گے انہوں نے الہٰی ہدایات کے خلاف کیا اور اگر آمادہ نہ ہوئے تو کہہ دیں گے جھوٹے ہیں اس لئے مباحثہ نہیں کرتے- اس وجہ سے میں نے خیال کیا کہ جب مجھے فرصت ہوگی، اسی وقت مولوی صاحب کو مخاطب کروں گا اس وقت تک جس قدر چاہیں ہنسی اڑا لیں- غرض میں نے سائمن رپورٹ کے متعلق کتاب لکھنی شروع کر دی اس کے بعد راؤنڈٹیبل کانفرنس کا کام شروع ہو گیا- جس کے متعلق ہندوستان میں اور باہر بہت کچھ کرنا پڑا- اس وجہ سے بہت سی ڈاک بھی جمع ہو گئی اور شکایات آنی شروع ہو گئیں کہ خطوط کے جواب نہیں آتے- پس اس کام سے فارغ ہو کر ڈاک کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑی- ۱۵- دسمبر کو مجھے ڈاک اور دوسرے کاموں سے فراغت ہوئی- اس وقت میں نے خیال کیا کہ اگر اب جواب دوں تو مولوی صاحب جلسہ سالانہ کی تاریخوں میں کہیں گے تفسیر لکھو اس لئے یہی مناسب ہے کہ جلسہ سالانہ پر ان کے متعلق اعلان کروں- اس کے بعد جو وقت بھی وہ تفسیر نویسی کے لئے مقرر کریں گے ہم اسے انشاء اللہ منظور کر لیں گے- اوپر کی وجہ کے علاوہ میں دسمبر میں بیمار بھی رہا- اور ناف کے قریب پھوڑا ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک بیٹھ کر نہ لکھ سکتا تھا- اب میں اصل بحث کو لیتا ہوں- ۷- مارچ ۱۹۳۰ء کے الفضل میں میرا ایک مکالمہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے جو بڑے سیاح تھے اور انہوں نے دنیا کے بڑے حصہ کا چکر لگایا تھا شائع ہوا- آخر انہوں نے بیعت کر لی اور حیدر آباد میں جا کر فوت ہو گئے- انہوں نے مجھ سے کئی سوالات کئے تھے جن کے میں نے جواب دیئے- اسی سلسلہ میں انہوں نے پوچھا- کیا علماء اندھے ہیں جو ایسے واضح دلائل کو نہیں مانتے اس کے جواب میں
۵۴۱ بعض اہم اور ضروری امور میں نے انہیں جو کچھ کہا- وہ الفضل ۷- مارچ ۱۹۳۰ء میں ان الفاظ میں شائع ہوا ہے- ‘’اس زمانہ کے علماء کو شرمن تحت ادیم السماء ۳؎یعنی بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور دراصل کسی آنے والے کی ضرورت بھی اسی وقت ہوتی ہے جب علماء بگڑ جائیں- جب تک یہودی علماء میں علم باقی تھا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرتے تھے رسول کریم ؎ نہ آئے- اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے آنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ علماء کی حالت بگڑ جاتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان علماء کو چیلنج دیا کہ میرے مقابل میں آ کر تفسیر لکھو.اگر ان علماء میں علم ہوتا تو وہ اسے قبول کیوں نہ کرتے- پھر حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے فرمایا ہے- یہ تفسیر قرآن کا کام میرا ہے یا اس کا جو مجھ سے ہو اور اس طرح یہ دروازہ اپنی جماعت کیلئے بھی کھلا رکھا- اب میں نے بھی کئی بار چیلنج دیا ہے کہ قرعہ ڈال کر کوئی مقام نکال لو- اگر یہ نہیں تو جس مقام پر تم کو زیادہ عبور ہو بلکہ یہاں تک کہ تم کو ایک مقام پر جتنا عرصہ چاہو غور کر لو اور مجھے وہ نہ بتاؤ- پھر میرے مقابل میں آ کر اس کی تفسیر لکھو- دنیا فوراً دیکھ لے گی کہ علوم کے دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا ان پر- مگر کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ سامنے آئے’‘ الفضل میں اس مکالمہ کے شائع ہونے پر غالباً بعض لوگوں کی تحریک پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا- ‘’پہلے بھی خلیفہ قادیان نے دیو بندیوں کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ تعلیمی حیثیت سے ہم بھی دیو بندی ہیں- پس ایک سادہ قرآن شریف لے کر بٹالہ کی جامع مسجد میں آکر بالمقابل تفسیر لکھئے- جس کے جواب میں آج تک ہاں نہ پہنچی بلکہ انکار کر گئے- گذشتہ را صلوٰۃ اب سہی- ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں- صرف یہ کہ سادہ قرآن اور کاغذ قلم دوات لیکر الگ الگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہوگا اور تفسیر اور معارف کیلئے ضروری ہو گا کہ علوم عربیہ کے ماتحت ہوں، بس’‘۴؎ اس تحریر سے یہ امور ثابت ہوتے ہیں- اول یہ کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے تفسیرنویسی کے متعلق میرا وہ چیلنج منظور کر لیا تھا جو میں نے دیو بندیوں کو دیا تھا- دوم یہ کہ
۵۴۲ بعض اہم اور ضروری امور باوجود ان کے قبول کر لینے کے میری طرف سے ہاں نہ پہنچی بلکہ انکار کر دیا- پہلی بات کہ مولوی صاحب نے چیلنج منظور کر لیا تھا- خود ان کی اپنی بات سے رد ہو جاتی ہے- وہ چیلنج منظور نہیں کرتے بلکہ ایک نیا چیلنج دیتے ہیں- چنانچہ باوجود یہ لکھنے کے کہ ان کی طرف سے کوئی شرط نہیں پھر شرطیں پیش کرتے ہیں حالانکہ شرطیں پیش کرنے کا حق چیلنج دینے والے کا ہوتا ہے چیلنج منظور کرنے والے کا نہیں ہوتا- چیلنج منظور کرنے والا یہ تو کہہ سکتا ہے کہ جو شرائط پیش کی گئی ہیں وہ معقول نہیں غلط ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی طرف سے یہ شرطیں پیش کرتا ہوں- مولوی صاحب کا کام یہ تھا کہ میرے چیلنج میں جو شرائط تھیں ان میں سے جنہیں درست سمجھتے ان کے متعلق اعلان کر دیتے کہ انہیں منظور کرتا ہوں اور جنہیں درست نہ سمجھتے ان کے متعلق ثابت کرتے کہ یہ معقول نہیں- نہ کہ خود شرائط پیش کرنا شروع کر دیتے- یا انہیں یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ جس رنگ میں میں نے چیلنج دیا ہے وہ خدا کی طرف سے موید ہونے کا ثبوت نہیں بن سکتا- پھر وہ خود اپنی طرف سے چیلنج دیتے اور شرائط پیش کرتے- اس پر یا تو میں ان کی شرائط کو غلط ثابت کرتا یا ان کے چیلنج کو قبول کر لیتا- مگر وہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا چیلنج منظور کر لیا اور دوسری طرف اپنی شرائط پیش کر رہے ہیں- یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی کہ یہاں کے ایک سادہ مزاج شخص نے جس کا عرف میاں بگا تھا حضرت خلیفہ المسیح الاول کے حضور میں کی تھی- اس نے ایک دن حضرت خلیفہ اول سے آ کر کہا کہ میری شادی کا بہت کچھ انتظام ہو گیا ہے تھوڑی سی بات ہے وہ آپ کر دیں- حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کیا انتظام ہوا ہے؟ کہنے لگا میں اور میری ماں اس امر پر راضی ہو گئے ہیں کہ میرا نکاح ہو جائے اب آپ صرف کسی لڑکی اور روپیہ کا انتظام کر دیں- مولوی ثناء اللہ صاحب کی منظوری بھی ایسی ہی ہے- وہ کہتے ہیں میں نے چیلنج منظور کر لیا مگر میری طرف سے یہ یہ شرط ہے- اس کی بجائے یہی کیوں نہ کہہ دیا کہ چیلنج منظور ہے مگر شرط یہ ہے کہ مقابلہ نہ ہو- جن امور کو وہ پیش کرتے ہیں ان کے متعلق وہ یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ تمہارا چیلنج مجھے منظور ہے مگر تم بھی میرا ایک چیلنج منظور کرو- جس کی یہ یہ شرائط ہیں- مولوی صاحب نے یہ جو کہا ہے کہ ان کو جواب نہ دیا گیا تھا اور ہماری طرف سے خاموشی رہی یہ بھی درست نہیں- ان کو جواب دیا گیا تھا- چنانچہ ۲۷- اکتوبر ۱۹۲۵ء کے الفضل
۵۴۳ بعض اہم اور ضروری امور میں میری منظوری سے ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں یہ فقرے درج ہیں- ‘’حسب ارشاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ حضور کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اگرچہ آپ نہ دیوبندی ہیں اور نہ دیو بندیوں نے آپ کو اپنا وکیل اور قائم مقام تسلیم کیا ہے تا ہم جیسا کہ الفضل مورخہ ۱۰- ستمبر ۱۹۲۵ء میں دیو بندیوں کے مقابلہ پر نہ آنے کی صورت میں آپ کو اجازت دی گئی ہے- اگر آپ تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ان دو صورتوں میں سے جو الفضل نے پیش کی ہیں- جو صورت چاہیں اختیار فرما لیں- حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو دونوں صورتیں منظور ہیں’‘- پہلی صورت الفضل نے اپنے پرچہ ۱۰- ستمبر ۱۹۲۵ء میں یہ پیش کی ہے کہ چونکہ مولوی ثنائاللہ صاحب نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۱- اگست ۱۹۲۵ء میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ علوم ظاہری کے عالم ہیں اور نہ کسی باطنی درجہ کے مدعی ہیں اس لئے انہیں اختیار ہوگا کہ اپنا شبہ دور کرنے کے لئے وہ بالمشافہ تفسیر نویسی کرنا چاہتے ہوں تو قادیان تشریف لے آئیں- ان کے تمام اخراجات مناسب ہم ادا کریں گے اور اگر کسی قسم کی جانی یا مالی حفاظت کی ذمہ داری بھی وہ ہم پر عائد کریں گے تو اس کے لئے بھی ہم تیار ہوں گے- یہ صورت حضرت خلیفہ المسیح منظور فرماتے ہیں- دوسری صورت الفضل نے یہ پیش کی تھی کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان تشریف نہ لانا چاہیں تو مناسب انتظام کے ساتھ قرعہ اندازی ہونے کے بعد وہ اپنی جگہ قرآنشریف کے ان تین رکوع کی تفسیر لکھیں جو قرعہ اندازی سے منتخب ہونگے اور حضرت خلیفہ المسیح اپنی جگہ انہی منتخب شدہ تین رکوع کی تفسیر لکھیں اور پھر یہ دونوں تفسیریں مساوی خرچ کے ساتھ یکجا کر کے شائع کی جائیں تا کہ دنیا دیکھ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان نے کیا- قرعہ اندازی ایسے طریق سے ہوگی کہ کسی فریق کو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو اور مقام قرعہ اندازی امرتسر ہی ہوگا- اس دوسری صورت پر بھی حضرت خلیفہ المسیح کو کوئی اعتراض نہیں’‘- یہ ہے حقیقت مولوی صاحب کے دوسرے دعویٰ کی کہ ہم نے ان کی منظوری کے بعد خاموشی اختیار کی بلکہ انکار- کیا صاف انکار ہے؟ انکار اسی کو کہتے ہیں کہ ہم نے کہا
۵۴۴ بعض اہم اور ضروری امور مولوی صاحب کے اخراجات بھی ہم ادا کریں گے، جلسہ کا انتظام بھی ہم کریں گے، ان کی جانی اور مالی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم لیں گے- یہ ہے وہ انکار جو چودھویں صدی کے وارث انبیاء بننے کے دعویدار نے ہمارے متعلق بیان کیا ہے- جس کے متعلق اس زمانہ کے حمقاء بھی کہیں گے کہ اس سے ہماری مثال نہ دو- میرا اصل چیلنج جو اس وقت دیا گیا تھا اور جو اب بھی قائم ہے ۱۶- جولائی ۱۹۲۵ء کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے- ‘’غیر احمدی علماء مل کر قرآن کریم کے وہ معارف روحانیہ بیان کریں جو پہلی کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی- پھر میں ان کے مقابلہ پر کم سے کم دگنے معارف قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھے ہیں- اور ان مولویوں کو تو کیا سوجھنے تھے پہلے مفسرین و مصنفین نے بھی نہیں لکھے اگر میں کم سے کم دگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں- طریق فیصلہ یہ ہوگا کہ مولوی صاحبان معارف قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اس کے بعد میں اس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی- اس مدت میں جس قدر باتیں ان کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں ان کو میں پیش کروں گا- اگر ثالث فیصلہ دیں کہ وہ باتیں واقعہ میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ ان کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف قرآنیہ ہوں جو پہلی کتب میں پائے نہیں جاتے- اس کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی کتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنف اسلامی نے نہیں لکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا منصف تسلیم کریں اس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ ان کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ آیا میرے بیان کردہ معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی تحریرات سے لئے گئے ہونگے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہونگے- ان علماء کے ان معارف قرآنیہ سے کم از کم دُگنے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں- اگر میں
۵۴۵ بعض اہم اور ضروری امور ایسے دگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں- لیکن اگر مولوی صاحبان اس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا- یہ ضروری ہوگا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معاً بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج دے- مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دگنی چوگنی قیمت کا وی- پی میرے نام کر دیں- اگر مولوی صاحب اس طریق فیصلہ کو ناپسند کریں اور اس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے’‘- یہ وہ چیلنج ہے جو دیو بندی مولویوں کو دیا گیا تھا جس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا تھا کہ میں بھی دیو بند کا پڑھا ہوا ہوں- میں اسے منظور کرتا ہوں لیکن کہتے ہیں سادہ قرآن اور کاغذ قلم دوات لیکر الگ الگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہوگا- میں کہتا ہوں ترجمہ یا بے ترجمہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں- معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب کی عقل میں اتنی کمی آ گئی ہے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے میرے متعدد مضامین اور کتابیں پڑھی ہونگی- مخالفین پر میری تحریروں کا رعب بھی جانتے ہیں- مگر خیال کرتے ہیں کہ جب میرے ہاتھ میں بے ترجمہ قرآن آیا تو بس میں ان کے مقابلہ میں رہ جاؤں گا- گویا جو کچھ میری طرف سے شائع ہوتا ہے وہ مولوی صاحب لکھ کر مجھے بھیج دیا کرتے ہیں اور میں اپنی طرف سے اسے شائع کر دیتا ہوں- مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے میری طرف سے یہ چیلنج نہیں کہ میں بڑا عالم ہوں- اگر
۵۴۲ بعض اہم اور ضروری امور کوئی یہ دعویٰ کرے تو اس کے لئے ایسی بات پیش کر دینا جو اس کی ذاتی قابلیت کی نفی کرتی ہو اس کے دعویٰ کو رد کر سکتی ہے- مگر جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز پیش کرے جس میں خدا تعالیٰ کی تائید شامل ہو- میں نے یہ چیلنج نہیں دیا کہ میں مولوی نذیر احمد صاحب سے اچھا قرآن کا اردو ترجمہ کرونگا- اس ترجمہ کیلئے اردو کی ڈکشنریاں اور کتابیں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے- مگر میں نے اردو میں ترجمہ کرنے کا چیلنج نہیں دیا- پھر میں نے یہ چیلنج ساری دنیا کو دیا ہے- اگر ترجمہ کرنے کا ہی مقابلہ ہو تو میں چینی زبان جاننے والوں سے چینی میں ترجمہ کرنے کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہوں- فارسی جاننے والوں سے فارسی میں ترجمہ کرنے کا کیونکر مقابلہ کر سکتا ہوں، علیٰ ھذالقیاس دوسری زبانوں میں کس طرح ترجمے کر سکتا ہوں- غرض میں نے ترجمہ کرنے کا چیلنج نہیں دیا اور نہ ترجمہ کر لینے سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہے- مولوی نذیر احمد صاحب کا اگر اردو ترجمہ اچھا ثابت ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کی طرف سے تھے بلکہ یہ کہ وہ اچھے اردو دان تھے- صرف بلاترجمہ قرآن کی شرط لگانے سے مولوی صاحب کی یہ غرض ہوگی کہ میں تفسیروں اور دوسری کتابوں سے عبارتیں نہ نقل کر لوں- مگر یہ کتابیں تو ان کے پاس بھی ہوں گی- اگر میں ان میں سے لکھ سکوں گا تو وہ بھی ایسی کتابیں لا سکتے ہیں وہ ان کتابوں سے کیوں نہ لکھ سکیں گے لیکن اگر ان کے پاس ایسی کتابیں نہ ہوں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جو کتاب وہ دیکھنا چاہیں گے، ہم انہیں دکھا دیں گے- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ تفسیروں وغیرہ کے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے- زیر بحث یہ امر تھا کہ تفسیر لکھنے والے کی تفسیر میں کچھ ایسے معارف ہوں جو پہلی کتابوں میں نہ ہوں- مگر میں تفسیروں کا حافظ نہیں ہوں- پھر ان تفسیروں کو دیکھے بغیر یہ کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں بات ان میں آئی ہے یا نہیں آئی- میں نے یہ چیلنج نہیں دیا کہ میں تفسیروں کا حافظ ہوں بلکہ یہ کہا ہے کہ میں کچھ ایسے معارف بیان کروں گا جو پہلی کتابوں میں نہ ہوں گے اور اس کے لئے تفسیروں کا دیکھنا ضروری ہے- تا معلوم ہو سکے کہ جو کچھ لکھا گیا وہ پہلی کتابوں میں نہیں ہے- میری طرف سے کوشش تو یہی ہوگی کہ کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جو پہلی کتابوں میں ہو- مگر جب تک یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ پہلی کتابوں میں وہ باتیں نہیں کس طرح تسلی ہو سکتی ہے- ہاں
۵۴۷ بعض اہم اور ضروری امور اگر میں ان کتابوں میں سے کچھ نقل کروں گا تو اس سے میرا دعویٰ ہی غلط ہو جائے گا- پس نقل تو میرے دعویٰ کو باطل کرتی ہے پھر مجھے اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے- کلیدِ قرآن کی ضرورت اسی طرح قرآن کریم کی کلید کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میں قرآن کریم کا حافظ ہوں اس لئے قرآن کریم کی کلید کی ضرورت ہوگی- وہ مضمون جو میرے ذہن میں ہوتا ہے وہ دوسروں کو معلوم نہیں ہوتا- مگر ساری آیت مجھے یاد نہیں ہوتی- حافظ روشن علی صاحب مرحوم خدا تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ایک دفعہ لاہور میرے ساتھ تھے- میری ایک تقریر بھی وہاں تھی اس کے لئے میں نوٹ لکھانے لگا تو آیتیں ان سے پوچھتا جاتا تھا- وہ کہنے لگے ان آیات کی بناء پر کیا تقریر ہوگی ان آیات کا تو کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا- میں نے کہا جوڑ جلسہ میں جا کر معلوم ہو گا جب میں تقریر کروں گا- غرض آیات کے نکالنے کے لئے کلید کی ضرورت ہوتی ہے- اپنے لئے اور کڑی شرائط پس میرا چیلنج اب بھی موجود ہے- ہاں میں اپنے لئے اس کی شرطوں کو اور کڑا کر دیتا ہوں- اور چند ایسے معارف کی شرط بھی جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں اڑا دیتا ہوں اور یہ ذمہ لیتا ہوں کہ میری تفسیر میں کوئی نکتہ بھی ایسا نہ ہوگا جو کسی پہلی تفسیر میں ہو- مولوی صاحب یہاں آئیں تو ان کا خرچ ہم خود دیں گے لیکن وہ یہاں نہ آنا چاہیں تو گورداسپور آ جائیں مگر کسی مسجد میں اجتماع نہ ہوگا کیونکہ ان لوگوں کی مسجدوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہم خوب جانتے ہیں- علیحدہ مکان میں اجتماع ہو جو فریقین کے لئے مساوی حیثیت رکھتا ہو- اگر وہ گورداسپور آ جائیں جہاں مکان متحدہ ہو تو ان کے کرایہ کے اخراجات ہم دیں گے اور اگر قادیان میں آئیں تو ان کے اور ان کے ساتھیوں کے کھانے پینے کا خرچ بھی ہم دیں گے- ہماری طرف سے صرف یہ شرط ہے کہ ایسے معارف بیان ہوں جن سے قرآن کریم کی افضلیت ثابت ہو، اسلام کی صداقت ثابت ہو- مولوی صاحب نے یہ شرط لگائی ہے کہ تفسیر اور معارف کے لئے ضروری ہوگا کہ علوم عربیہ کے ماتحت ہوں- مگر یہ صاف بات ہے اور ایسا ہی ہونا ضروری ہے- ورنہ مثلاً قرآن کریم میں جو ذالک الکتب ۵؎ آیا ہے- میں- کتاب کے معنی کپڑا لکھوں، تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ غلط ہے- پھر اس شرط کے پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے- اگر علوم عربیہ کے خلاف کوئی بات ہوگی تو وہ فوراً رد ہو جائے گی-
۵۴۸ بعض اہم اور ضروری امور کوئی اردو تفسیر پاس نہ ہوگی مولوی صاحب کی تحریر میں ایک اور بھی لطیفہ ہے- وہ ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ اور کوئی کتاب پاس نہ ہو جس سے مراد ان کی تفاسیر ہیں اور دوسری طرف یہ شرط لگاتے ہیں کہ صرف سادہ یعنی بے ترجمہ قرآن ہو- گویا ان کے نزدیک اگر میرے پاس سادہ قرآن ہوا تو میں کچھ نہ لکھ سکوں گا- کیونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اور میں عربی نہیں جانتا- لیکن ساتھ ہی ان کے خیال میں میرے پاس رازی کی تفسیر نہیں ہونی چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ میں اس کے مطالب چرالوں- مولوی صاحب کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب خدا کسی کی عقل مار دیتا ہے تو وہ عام بیوقوفوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتاہے کہ جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتا وہ رازی اور ابن حیان کے مطالب کو سمجھ لے گا اور ان کی تفاسیر سے مضمون چرا لے گا- اگر مولوی صاحب کی عقل میں یہ بات آ گئی ہے تو گو یہ انتہائی درجہ کی احمقانہ بات ہے میں یہ شرط اپنے چیلنج میں اور بڑھا دیتا ہوں کہ کوئی اردو کی کتاب نہ رکھنی ہوگی اور نہ ترجمہ والا قرآن ہوگا- جب ان کا یہ خیال ہے کہ میں قرآن کریم بھی بغیر ترجمہ دیکھے نہیں سمجھ سکتا تو یہ ظاہر ہے کہ عربی کتب کی موجودگی سے صرف مولوی صاحب کو ہی فائدہ پہنچے گا میں تو ان سے فائدہ حاصل کر ہی نہیں سکتا- باقی رہیں ان کی شرائط سو وہ ایک علیحدہ چیلنج ہیں اگر مولوی صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ معقول ہیں اور ان سے کسی کا موید من اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ انہیں بطور چیلنج کے شائع کر کے دیکھ لیں- اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے اسی وقت سامان کرتا ہے یا نہیں- اگر انہیں عربی دانی کا دعویٰ ہے تو اعلان کر دیں کہ خدا تعالیٰ اس میں ان کی مدد کرے گا کوئی آئے اور مقابلہ کر لے- پھر ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہی ان کے اس چیلنج کو منظور کرنے کی توفیق عطا کر دے- مگر اب تو میرا چیلنج ہے کہ قرآن کریم کی پیشگوئی کے ماتحت جو جماعتیں راستی پر ہوں، ان پر معارف قرآنیہ خاص طور پر کھولے جاتے ہیں- پس کوئی مخالف احمدیت خواہ عرب کا ہو، خواہ مصر کا ہو، خواہ شام کا ہو، خواہ ہندوستان کا میرے مقابلہ پر قرعہ سے تین رکوع قرآن کریم کے چن کر تین دن میں تفسیر لکھ دے- اللہ تعالیٰ مجھے ضرور ایسے مطالب سمجھائے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے باہر نہیں ملیں گے اور جو علوم عربیہ کے مخالف نہیں ہونگے انہیں جس امر میں دعویٰ ہو اسے وہ الگ شائع کر دیں- غرض اگر انہوں نے میرا چیلنج منظور کر لیا ہے تو آئیں معارف لکھیں ان کا خرچ ہم دیں
۵۴۹ بعض اہم اور ضروری امور گے- اب میں چند کی شرط بھی نہیں رکھتا- تمام کے تمام نکات ایسے ہوں گے جو کسی پہلی کتاب میں نہ ہوں گے اور ان تفسیروں میں تو یقیناً نہ ہوں گے جو پاس رکھی جائیں گی وہ صرف اس لئے رکھی جائیں گی کہ تا معلوم ہو مفسرین نے کیا لکھا ہے- تا ہم ان کی لکھی ہوئی باتوں میں نہ پڑیں- شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے امداد کا دعویٰ ہے تو تفسیروں کو دیکھنے کی کیا ضرورت ہے- یا کلید کی کیا ضرورت ہے- اللہ تعالیٰ خود بتا دے گا کہ فلاں مضمون تفسیر میں ہے یا نہیں- یا فلاں آیت کے الفاظ کیا ہیں- تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ محض نافہمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے- چیلنج یہ نہیں دیا گیا کہ تفسیر الہام سے لکھی جائے گی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ تائید الہی سے لکھی جائے گی اور تائید الہی الفاظ میں اور معین مضامین کی صورت میں نازل نہیں ہوا کرتی بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے دماغ کو خاص روشنی دے دی جاتی ہے اور اس پر خاص علوم کا دروازہ کھل جاتا ہے- مگر یہ نہیں کہ اس کو ساتھ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پہلی کتب میں ہے اور یہ نہیں ایسا صرف الہام سے ہو سکتا ہے- اور اس جگہ الہامی تفسیر کا دعویٰ نہیں- گو الہام بھی ہو تو بھی اس میں سنت اللہ نہیں ہوتی کہ حوالہ جات بھی بتائے جائیں- میں امید کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے معارف لکھنے کے متعلق جو میرا چیلنج تھا اس کی میں پوری تشریح کر چکا ہوں- اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو اس کی قبولیت کا اعلان کر دیں- اگر ان کے نزدیک یہ چیلنج درست نہیں تو پھر ان کے نزدیک جو فیصلہ کا ذریعہ ہے، اسے اپنی طرف سے بطور چیلنج پیش کر دیں- خواہ سب دنیا سے زیادہ فصیح عربی لکھنے کا چیلنج دیں، خواہ سب دنیا سے بہتر ترجمہ قرآن کریم کرنے کا چیلنج دیں- وہ جو بھی چیلنج دیں اگر وہ شریعت کے خلاف نہ ہوا تو بیسیوں آدمی ان کے چیلنج کو قبول کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے- انشائاللہتعالی سورۃ التحریم کی تفسیر پھر حضور نے سورۃ التحریم کی آیت یایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا-۶؎ کی تشریح فرماتے ہوئے اس آگ سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لئے سب سے ضروری چیز دعا ثابت کی- اس کے متعلق ضروری ہدایات دیں اور اس پر پوری طرح کاربند ہونے کا ارشاد فرمایا-
۵۵۰ بعض اہم اور ضروری امور ہر احمدی کشتی نوح پڑھے یا سنے اسی ضمن میں ایک بات یہ بیان فرمائی کہ اگلے سال تمام کے تمام احمدی پڑھے لکھے یا ان پڑھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کشتی نوح پڑھیں یا سنیں- اسی طرح ہر سال ایک کتاب مقرر کر دی جایا کرے تو سب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب سے واقف ہو جائیں گے- آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں سن لیں اور جو یہاں نہیں انہیں سنا دیں کہ اگلے سال کشتی نوح کا پڑھنا یا سننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے- زیادہ سے زیادہ یہ تین گھنٹہ میں ختم ہو سکتی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے- آخر میں حضور نے سورہ تحریم کے پہلے رکوع کی نہایت ہی پر معارف تفسیر بیان کی اور ثابت کیا کہ جس آگ سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کا حکم اس سورہ میں دیا گیا ہے اس کا ذکر اسی سورہ میں کر دیا گیا ہے اور وہ یہ آگیں ہیں- ۱- مسلم نہ ہونا- ۲-مومن نہ ہونا- ۳- قانت نہ ہونا- ۴- تائب نہ ہونا- ۵- عابد نہ ہونا- ۶- سائح نہ ہونا- ان کی نہایت لطیف تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ مسلمانوں کی دینی اور دنیوی کامیابی انہی چھ باتوں سے بچنے میں ہے- (الفضل ۱۳،۳۱ جنوری ۱۹۳۰ء) ۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۳۸،۵۸۱- ایڈیشن چہارم، الوصیت صفحہ ۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱ ۲؎ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۹،۴۰ ۳؎ مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث جلد۱ صفحہ۵۳۱ مطبوعہ مکتبہ حقانیہ پشاور ۴؎ الہدیت ۲۳ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۵؎ البقرہ:۳ ۶؎ التحریم:۷
۵۵۱ فضائل القرآن (نمبر ۳) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۵۵۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ فضائل القرآن (نمبر۳) ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتا کتاب صدقہ و خیرات اور مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (فرمودہ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۰ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عبس کی حسب ذیل آیا ت کی تلاوت فرمائی.عَبَسَ وَتَوَلّٰی.أَنْ جَآءَ ہُ الْأَعْمٰی.وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی.أَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی.أَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی.فَأَنْتَ لَہُ تَصَدّٰی.وَمَا عَلَیْکَ أَلَّا یَزَّکّٰی.وَأَمَّا مَنْ جَآءَ کَ یَسْعٰی.وَہُوَ یَخْشٰی.فَأَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰی.کَلَّا إِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ.فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہُ.فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ.مَّرْفُوعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ.بِأَیْدِیْ سَفَرَۃٍ.کِرَامٍ بَرَرَۃٍ.۱ اس کے بعد فرمایا :.مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی.اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلتی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہو گئی تو آواز بلند ہو جائے گی اور سب احباب تک پہنچنی شروع
۵۵۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہو جائے گی.دوست گھبرائے نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں.ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں.سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کردوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں.اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہوجائے گی جس کے متعلق مشہو ر ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جو لوگ اسے دریا سے پار اتارنے کے لئے کہتے انہیں پار لے جاتا.ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جا رہا تھا اور ابھی دریا کے نصف ہی میں پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جاؤ.اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آگیا جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو.اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آگیا اور تیسرے کو لے چلا.ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا اچانک پانی کا ایک ریلہ آیا تو پہلے نے کہا کہ میاں ہر دلعزیز مجھے بچانا.یہ سن کر اس نے جس شخص کو اٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کے لئے لپکا اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے.پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہر قسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے.گو ممکن ہے کہ اس طرح ہر دل عزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا.پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا.البتہ مختصر طور پر چند باتیں بیان کر دیتا ہوں.مسلمان محکوم ہو سکتا ہے یا نہیں سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہیے.اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں.یہ صورت حالات کیوں ہے؟ اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتاہی نہیں.
۵۵۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں.پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگراصول کا.مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا.مسلم محکو م ہوتا ہے مگر حق کا.پس جب کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف.اگر ا س کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہیے.لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے.لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۲ یعنی جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اَسْلِمْ مسلمان ہو جاؤ تو انہوں نے کہا.اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن تو رب العالمین کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں.غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا.ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے.پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی.پس جب ان انبیاء ؑ کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں.جو ان لوگوں سے اقرب ہیں.رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے.اگر ا س محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آسکتا.اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کو کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہیے خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحت رہے.باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں
۵۵۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہے.میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا بھلا اس شخص کو کون غلا م کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا.وہ غلام کس طرح کہلاسکتا ہے اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہر احمدی آزاد ہے.عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمان کی حکومتیں چھن گئیں لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح ؑکی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئیں ہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے.عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دئیے گئے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کر نے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائے گی عیسائیوں کو نہیں.مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی ؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے برے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی؟ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کئی اور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی.شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دئیے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا
۵۵۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے.اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس پر پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خدا تعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے.علی ؓ اور خالد ؓ کے مثیل چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علی ؓ یا خالد ؓ پیدا نہ کرسکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے.اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے کیا.اس لئے اس میں خالدؓ اور علیؓ کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے.شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے.اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوگئی ہے.پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے.پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتابھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ماننے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا.پھر ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ایسے لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح ؑ کی طرح قربانیاں کیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کرلیا.اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کے لئے اپنی جان قربان کر دی.پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے.احمدیت کا پیغام ابھی تک ساری دنیا میں نہیں پہنچا پانچواں سوال یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مزرا صاحب کے بعد خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا.اب خلیفہ دوم کا زمانہ ہے مگر ابھی تک ساری دنیا میں مرزا صاحب کا نام نہیں پہنچا لیکن گاندھی جی کا پہنچ گیاہے.اس کا جواب یہ ہے کہ نام پھیلنے میں حقیقی عظمت نہیں ہوتی.مشہور ہے کہ کسی شخص
۵۵۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) نے چاہِ زم زم میں پیشاب کر دیا.لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب مارا.اس نے کہا خواہ کچھ کر ومیری جو غرض تھی وہ پوری ہوگئی ہے.اس سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری کیا غرض تھی ؟ تو اس نے کہا مجھے شہرت کی خواہش تھی.یہاں چونکہ ساری دنیا کے لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے جب میری اس حرکت کا علم سب کو ہوگا تو خواہ وہ مجھے گالیاں دیں لیکن جہاں جہاں بھی جائیں گے اس بات کا ذکر کریں گے اور اس طرح ساری دنیا میں میری شہرت ہو جائے گی.غرض نام اس طرح بھی پھیل جاتا ہے لیکن حقیقی نام وہ ہوتا ہے جو دنیا کی مخالفت کے باوجود پیدا کیا جائے.گاندھی جی نے کھڑے ہو کر کیا کہا ؟وہی جو ہر ہندوستانی کہتا تھا.قدرتی طور پر ہر ہندوستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ملک آزاد ہو.یہی گاندھی جی نے کہا.لیکن حضرت مرزا صاحب وہ منوانا چاہتے تھے جسے دنیا چھوڑ چکی تھی اور جس کا نام بھی لینا نہیں چاہتی تھی.گاندھی جی کی مثال تو اس تیراک کی سی ہے جو ادھر ہی تیرتا جائے جد ھر دریا کا بہاؤ ہو.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال اس تیراک کی سی ہے جو دریا کے بہاؤ کے مخالف تیر رہا ہو.اس وجہ سے آپ کا ایک میل تیرنا بھی بہاؤ کی طرف پچاس میل تیرنے والے سے بڑھ کرہے.دنیا الہام کی منکر ہو چکی تھی.حضرت مرزا صاحب اسے یہ مسئلہ منوانا چاہتے تھے.دنیا مذہب کو چھوڑ چکی تھی.آپ مذہب کی پابندی کرانے کے لئے آئے.پھر آپ کا اور گاندھی جی کا کیا مقابلہ.ابھی دیکھ لو.میرے مضامین چونکہ عام لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے دوسرے اخبارات میں نہیں چھپتے.لیکن ابھی میں انگریزوں کے خلاف وہی روش اختیار کر لوں جو دوسرے لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے تو تمام اخبارات میں شور مچ جائے گا کہ خلیفہ صاحب نے یہ بات کہی ہے جو بڑے عقلمند اور محب وطن ہیں.لیکن چونکہ ان کے منشاء کے مطابق اور ان کی خواہشات کے ماتحت ہمارے مضامین نہیں ہوتے اس لئے خواہ ان میں کیسی ہی پختہ اور مدلّل باتیں ہوں انہیں شائع نہیں کرتے.سوال کرنے والے دوست نے شاید اس پوربی عورت کا قصہ نہیں سنا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کا خاوند مر گیا تو وہ یہ کہہ کر رونے لگی کہ اس کا اتنا قرضہ فلاں فلاں کے ذمہ ہے وہ کون وصول کرے گا.اس کے رشتہ کے مردوں میں سے ایک نے اکڑ کر کہا اری ہم ری ہم.اسی طرح وہ صولیاں گناتی گئی اور وہ کہتا چلا گیا.’’اری ہم ری ہم‘‘.لیکن جب اس نے کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا قرض دینا ہے وہ کون دے گا تو کہنے لگا ’’ارے میں ہی بولتا جاؤں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘ اسی طرح
۵۵۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) گاندھی جی تو وصولیوں کی بات کہہ رہے تھے اور سارا ہندوستان ان کی آواز پر کہتا جاتا ہے ’’ہم ری ہم ‘‘ لیکن حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا اس پر اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے.اس لئے اس آواز پر لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ’’ ارے ہم ہی بولیں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘.کہا گیا ہے کہ گاندھی جی کے کارنامے دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ان کے نام سے کانپ رہی ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گاندھی جی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے کانپ رہی ہے.وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ ۳۳ کروڑ کی آبادی پر چند لاکھ افراد کی حکومت کس قدر مشکل ہے.انگریز اس بات سے ڈ ر رہا ہے نہ کہ گاندھی جی سے.سفارشات سوالات کے جواب دینے کے بعد اب ایک تو میں سفارش بچوں کے متعلق کرتا ہوں.جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء نے اپنے اپنے رسالوں کے سالنامے نکالے ہیں.چونکہ ملک میں رسالوں کے سالنامے نکالنے کا مرض پیدا ہو چکا ہے اس لئے بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے پرچوں کی خریداری کے متعلق سفارش کروں.جب یہ رسالے جاری کرنے لگے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر سکول اور جامعہ ان کو چلائے تو شوق سے نکالو لیکن اگر کہو کہ جماعت میں ان کے متعلق تحریک کی جائے تو یہ خواہش نہ کرنا.لیکن اب چونکہ یہ پٹھان والی بات ہوگئی ہے کہ اس کا بچہ اپنے استاد پر تلوار سے وار کرنے لگا.تو اس نے کہا کہ اس کا پہلا وار ہے کر لینے دو.اس لئے گو اس سے ہماری ہی جیبوں پر اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے بچوں کا پہلا وار ہے اسلئے میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ ان کے رسالے خریدے جائیں.ایک تو اس لئے کہ یہ لڑکے پہلے وار کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے وار کی قدر کی جائے.دوسرے انہوں نے ایک رنگ میں احسان بھی جتایا ہے.وہ کہتے ہیں ہم جلسہ کے کاموں میں لگے رہے اور رسالے نہ بیچ سکے.اب تو گویا ایک وجہ بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے.دوست ان کے رسالے خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کریں.اب میں ان باتوں میں سے دو چار اختصار کے ساتھ بیان کر تا ہوں جو کل بیان کیں تھیں.احمدی تاجر وں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت میں نے بیان کیا تھا کہ مومن کے لئے دینی اور دنیوی طور پر ہر قسم کی آگ سے بچنا نہایت ضروری ہے.لیکن چونکہ وقت کم تھا میں نے
۵۶۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) اس آگ سے بچنے کے صرف اصول بیان کر دیئے تھے تفصیل چھوڑ دی تھی.اب میں ان میں سے ایک بات کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں.دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہوسکتے باہمی تعاون سے ہوسکتے ہیں.ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سر انجام نہیں دیئے جاسکتے.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان قیدیوں کا جو جنگ بد رمیں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں.وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کابھی انتظام فرمایا.اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی.ہمیں بھی دین کے ساتھ جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہیے.ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہیے اور جہاں دنیادین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دیناچاہیے.دنیوی ترقی کے لیے بہترین چیز تعاون ہے.یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی.لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے.جب سارا یورپ اکٹھا ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے.اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کردو.اس کا جو نتیجہ ہوا و ہ ظاہر ہے.پس تعاو ن سے جو نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے.اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لئے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے.بے شک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کرسکتے.اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے اس لئے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے.اس کے لئے سر دست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیاجائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں.اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے.اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے.یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان آسٹریا اور جرمنی وغیر میں بھی جاتا ہے.اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا
۵۶۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) سکتا ہے.سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں.اس لئے اس سال کے لئے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحب رسوخ ہوں ، سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں ، کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں ، کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ ورسم رکھتے ہوں.وہ یہ مد نظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے.میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنالیں.جس کے صرف وہی حصہ دار ہوں جو یہ کاروبار کرتے ہیں تاکہ سب کو حصہ رسد ی منافع مل سکے.اس وقت میں صرف یہ تحریک کرتا ہوں.جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کرلیں گے اس وقت اخبار میں اعلان کردوں گا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے.اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہوگی.تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز اسی طرح ایک کمپنی تعاون کرنے والی قائم کرنی چاہیے جس میں تاجر زمیندار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوں.میں نے اس کے لئے کچھ قواعد تجویز کئے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب نے پسند کیا تھا.اب ان کو شائع کر دیا جائے گا.یہ اس قسم کی کمپنی ہوگی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے.اس طرح جو روپیہ جمع ہوگا اس سے رہن با قبضہ جائیداد خریدلی جائے گی.اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لئے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن یاقبضہ جائیداد خریدی جائے گی.جیسا کہ انجمن کے کارکنا ن کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیاجاتا ہے.اس طرح جو نفع حاصل ہوگا اس کا نصف یا ثلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا.جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہوگی.میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلا ن کردینا چاہتا ہوں.پھر مشورہ کرکے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی دوست اس کے لئے تیاری کر رکھیں.اب میں وہ مضمون شروع کر تا ہوں جسے میں نے اس سال کے لئے منتخب کیا ہے.
۵۶۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) فضائل القرآن کے مضمون کی اہمیت میں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائل قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا.یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی.آپ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب موجود تھے اگر آپ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپ ؐ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لیکن اگر قرآن کریم کی افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی.ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ ’’آب آمد تیمّم برخاست‘‘ اگریہ ثابت ہوجائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے.میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولی طور پر ہم افضلیت ثابت کردیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کلی طور پر تمام کتب الٰہیہ سے افضل ہے.میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھبیس وجوہ بیان کی تھیں.مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی.اور باقی بیس میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں.بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں.حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش یہ مضمون دراصل اس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا۳.اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ :.’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی
۵۶۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) پھر بعد اُس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہرًا و باطنًا حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیّت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں.‘‘۴ پھر بعد میں آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا دیا کہ:.’’ اورمیں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثباتِ حقیّتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل (یعنی سچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات)ہزارہا نشانوں کے قائم مقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا.‘‘۵ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فر مادیئے.مگر ہر ایک نظر ان تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا.پچاس وجوہِ فضلیت لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کے لئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے.کیونکہ میں نے نوٹ کرنے لگا تو ۲۶ کی بجائے ۵۰ فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح ۲۰ کی بجائے ۴۴ میرے ذمے نکلیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کرکے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جاسکی تھیں تو اس سال ۴۴ کس طرح بیان کی جا سکیں گی.اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گُر بیان کرکے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی.اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر
۵۶۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) سکتے ہوں گے.اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو بھی لے لوں.اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کرسکتا.اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے.اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا.قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہے بلکہ جو باتیں پہلی کتابو ں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے.میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے.اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے.گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو.اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا.بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیاجائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلیٰ تعلیم پیش کی ہے.پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کے لئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہوسکتی ہو میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے.صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت پہلی مثال میں میں صدقہ و خیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں.یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے.ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ حیوانوں تک میں موجود ہیں.ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے.ایک پرندہ دوسرے پرندے سے ہمدردی کرتا ہے.اگر ایک کوّا مارو تو بیس کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہوجاتے ہیں.وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے اور اگر کسی نے مرا ہوا کوّا اٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تاکہ اسے چھڑالیں.غرض ہمدردی اور ایک دوسرے
۵۶۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) سے احسان کا مادہ حیوانوں اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے.ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں.انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعے دوسروں کی امداد کرتے ہیں.بہرحال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہیے.بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہیے تھی.کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدم ؑ سے لے کر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہو سکتی.صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں.انجیل میں آتا ہے.’’یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو نا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.۶ گویا انجیل کی رو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا.اسی طرح آتا ہے.’’اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا.‘‘۷ پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیح ؑ فرماتے ہیں.’’جب تو خیرات کرے توجوتیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے.اس صورت میں تیرا باپ جوپوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا.‘‘۸ ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ
۵۶۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) اول جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو.دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو.یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے.یہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دو.گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جوکچھ ہو وہ دے دے گا توپھر لے گا کون.یہ تو ویسی ہی بات ہو گی جیسے ملّانوں نے ایک رسم اسقاط بنائی ہوئی ہے.چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے.اس طرح پھر تا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آجاتا ہے.پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کرلیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آجائے گا.پس یہ تعلیم عمل کے قابل ہی نہیں ہے عمل کے قابل تعلیم وہی ہو سکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جاسکے.اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ :.’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے.‘‘۹ یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے.مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جا رہے ہیں.انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بے تاب ہو رہا ہے.اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا.کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے اب وہ کیا کرے وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کے لئے ادھر ادھر بھیجتا ہے تاکہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے کہ یہ اپنا بخل چھپانے کے لیے مجھ سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے.اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے.علاوہ ازیں اس کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی.لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بڑابے رحم ہے.اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے.کئی ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ
۵۶۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے.خواہ کوئی ہمارے سامنے بھوکا مر جائے.غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کے لئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہے.صدقہ کے متعلق تورات کی تعلیم اب تورات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ دیکھ کراس کی تکلیف کو دور کر نا چاہیے.گویا تورات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے.پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے.ایک واجبی اور دوسری نفلی.یہ انجیل سے یقینا اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں بے شک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا برا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے.جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح کبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے.حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے.دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی سمجھی جاتی ہے.لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں.اور یہ خیال کہ میں بڑاہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لو گ میرے محتاج ہیں اس کی روحانی زندگی کوکچل دینے اور اﷲ تعالیٰ سے دور کر دینے والا خیال ہے.اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہیے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے.اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا.یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کے لئے دیا گیا ہے.دیکھوماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذبہ کے ماتحت پلاتی ہے.ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے.کئی ایسی مائیں ہوں گی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا.یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلانا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی.کیونکہ ماں بچہ کو فطری محبت سے دودھ پلاتی ہے رحم کے طور پر نہیں پلاتی.
۵۶۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھے ہو ں گے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں.تاہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے.وید کہتے ہیں جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہیے جو نہ دے وہ گنہگار ہوگا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گہنگار ہوگا.گویا (۱) ایک طرف تو مانگنا سکھایا(۲) اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا(۳) اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ اسے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں.یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے.چونکہ ہندوؤں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے.چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اسی گائے کے دودھ پر ہو رہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فوراً دے دے.اگر نہ دے گاتو سخت گنہگار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا.۱۰ ان ساری تعلیموں کو دیکھو.ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی.اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی راہنما ہوتی ہے.کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا.گویا انسان نے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا.بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے.اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے اور اگر ان مذاہب کے پیروؤں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص ہیں.اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہیے صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہیے.سوائے اس کے اور کوئی با ت صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی.ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں.فی الحال
۵۶۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہم اس کے متعلق اتنا مان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے.اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقہ کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے.اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے.کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں.اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے.صدقہ کے مختلف پہلوؤں پر اسلام کی روشنی اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنا دیا ہے.صدقہ کی مقدار پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہیے.انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو.وید کہتا ہے کہ برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چون و چرا دے دو.مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے اسلام کہتا ہے.وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلَی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْھا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا.إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَآء ُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ کَانَ بِعِبَادِہِ خَبِیْرًا بَصِیْرًا.۱۱یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کو تو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں.(مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں ) اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے.گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہیے.گویا پادری تو یہ کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا.اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہیے.بہرحال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں.قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے کہ اور پھر کہتا ہے لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ نہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو.یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگو ں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں.ان میں سستی پیدا ہوتی ہے.وہ محنت ومشقت کر نے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دے دو.اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے
۵۷۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) دو نتائج ہوں گے.فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَحْسُوْرًا.قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے.فرمایا.اگر تو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہیے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَحْسُوْرًا تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب تجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے برا کیا.بھوکے کو کچھ نہ دیا محتاج کی مدد نہ کی حاجتمند کی امداد نہ کی.اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہیے.اس سے اختلاف کیوں کیا.اس کی دلیل یہ دی فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَحْسُوْرًا.حَسَرَ الشَّیْءَ کے معنی ہوتے ہیں کَشَفَہٗ۱۲ اس نے کھول دیا اور حَسَرَ الْغُصْنَ کے معنی ہیں قَشَرَہٗ۱۳.ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اتار دیا.گویا درخت کی چھال اتار دینے کو حَسَرَکہتے ہیں.اسی طرح حَسَرَ الْبَعِیْرَ کے معنی ہیں سَاقَہٗ حَتّٰی اَعْیَاھُ۱۴ اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا.جس طرح درخت کی اوپر کی موٹی چھال اتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح جانور کو اتنا چلایاجائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا.پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دودنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے.اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اونٹ کی طرح بن جاؤ گے یا چھال اترے ہوئے درخت کی طرح ہو جاؤ گے تو کل کیا کرو گے.جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے.پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تاکہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے.پھر بڑھے اور پھر دے.یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں.اگر وہ اپناسارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے.پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سرسبز ہونے کے سامان نہ رہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کے لئے مرغی مار ڈالی تھی.کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی.اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلاؤں تو ہر روز دو انڈے دے
۵۷۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) دیا کرے گی.اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مر گئی.پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہوجائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا.پھر حَسَرَکے معنی ننگے ہوجانے کے بھی ہیں.اس لئے مَحْسُوْرًا ۱۵ کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ ننگا ہوجائے گا اور جو ننگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے اور گھر میں بند ہوکر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے.پس فرمایا.اگر تم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہوکر بیٹھنا پڑے گا اور تم کام کے قابل نہ رہو گے.یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا کریں.کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ رَبَّکَ یَبْسِطُ الرِّزْق لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے.ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے.اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کردیا جائے تو دنیا میں تباہی آجائے.جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے.اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اورملک تباہ ہوجائے گا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اسی قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے اور اسی لیے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے.چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہوسکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے.وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی.وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی.وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی.اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے.غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے.لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے.اور نفع میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرتاہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے.رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا ہم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں
۵۷۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے.تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کرسکتے.ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنادئیے ہیں.اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہوجاتی ہے، یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہوسکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہیے.پھر جب تک غرباء کو اٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہوجاتے ہیں.گویا غرباء کے نہ ابھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہوجاتے ہیں.پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو ان پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے.اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتادی اور اس کی دلیل بھی دے دی.اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت دوسری جگہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اِذَٓااَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَیْنَ ذَالِکَ قَوَامًا ۱۶ اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے.جنہیں ہم مال و دولت دیں ان کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کردیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو.وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر.اس میں اسلام نے کچھ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتاہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن، مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں.آپ ان کے جواب میں سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے.گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا.اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا.تو انہوں نے فرمایا میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتاجب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا.اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتاکہ اے عبدالقادر ! تجھے میری ذات کی قسم تو فلاں کپڑا پہن.۱۷ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور
۵۷۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) کے لئے نہیں ہوسکتی.ایسا انسان اگر اپنے اوپر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لئے گئے.رمضان کا مہینہ تھا.کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے.۱۸ پس اسلام کہتاہے.جہاں کھانا مفید ہے اور اس ے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا.دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں.وہ باری باری رات کوآپ کے مکان کا پہرہ دیتے.اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا کام تھا اور صحابہؓ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپ کی حفاظت کا انتظام کرتے.کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باﷲ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے.پہرہ آپ کے لئے ضروری تھا اور اس کامقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہو تا.صدقہ وخیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِْیلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا.اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا.۱۹ اس میں مندرجہ ذیل باتیں کی گئی ہیں.اول.انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لٹا دے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی رکھ لے.گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں کچھ خیرات کرے.دوم.اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے.تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا کے معنی ہیں.بکھیر دینا.اگر دس بھوکے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہوتو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی.وہی روٹی اگر ایک کو دے دو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا.یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کونین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہوگا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہوسکے گی.تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال
۵۷۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) تقسیم نہ کردو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے.جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا.اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا ایسا انسا ن شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے.اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا، اور ناشکری پیدا کرے گا.اخوان الشیاطین کہنے میں حکمت یہاں اﷲ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا.لیکن حقیقتاً اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا.اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے.پھر تھوڑی چیز کو بہتوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اﷲ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کردیا.وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے.اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی.صدقہ دینے کا صحیح طریق پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے.جو یہ ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلانِیَۃً ۲۰یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں.اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیدہ صدقہ دو.دوم علانیہ صدقہ دو.یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہوگیا.انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ ’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے.‘‘
۵۷۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو اور پوشیدہ طور پر بھی.فرمایا اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُؤْھَا الْفُقَرَآءَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۲۱یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے.لیکن وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُؤْھَا الْفُقَرَآءَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے.گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتادی.کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا تو یہ بھی فرما دیا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کے لئے بہتر ہوگا.کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے.دیکھو جو لوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنچتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے.ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جبے پہنے پھرتے تھے.اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوؤں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے.جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے.ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا.اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا.میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا.جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے.انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آیئے آپ بھی کھانا کھائیں.مگر اس نے نہ کھایا.جب وہ اترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ برا مناتے ہیں.تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا.تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتا ہے.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۲۲تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے.ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑیں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں.پس اگر کوئی ظاہر طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے ، بھائی یا دوسرے رشتہ دار، مرید، ملازم دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے.دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا.بچوں کو صدقہ دینے کی
۵۷۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) عادت پڑے گی.جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی.تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے.ہوسکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو.ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آجائے گا.یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں.اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کے لئے اچھی ہے اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہوسکتا ہے.لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا.تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کے لئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتاہے.ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہوسکتا ہے جو صرف ظاہر ہ خیرات دیتا ہے.پھر لَکُمْ کہہ کر یہ بھی بتادیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہوان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے.غرض مخفی طور پر صدقہ دینا، دینے والے کے لئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریاء پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لیے بھی اس کی خفت نہیں ہوتی.صدقہ کی مختلف اقسام صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں.صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا.وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۲۳تم نماز باشرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکوٰۃ دو.آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتائیں.اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے.جب جہاد کا موقع پیش آجائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کردے.دوم لازمی مقررہ جیسے فرمایا خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً ۲۴یہ زکوٰۃ ہے.لیکن ایک صدقہ وقتی غیر مقررہ ہے اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو.
۵۷۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو.چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں.مجھے خیال آیا حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں.آج میں ان سے بڑھوں گا.یہ خیال کرکے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لے آیا.وہ زمانہ اسلام کے لیے انتہائی مصیبت کا دور تھا.لیکن حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا.اﷲ اور اس کا رسول.حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں.یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکر سے بڑھنا چاہاتھا مگر آج بھی مجھ سے ابو بکر بڑھ گئے.۲۵ ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے مراد گھر کا سارااندوختہ تھا.وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آگئے تھے.جہا د کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع ۲۴ میں ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاَنْفَقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃ ۲۶ تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو.اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہوجاؤ گے.پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے.اس کے متعلق بقرہ رکوع ۲۶ میں آتا ہے.مَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۲۷ جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کرسکتے ہو.اپنے والدین کے لئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے، یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لئے.یہ صدقہ اختیاری رکھا.ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے.فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ.لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْم.۲۸ مَعْلُوْمٌ کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقرہ صدقہ ہے.کیونکہ مَعْلُوْمٌ کے معنی ہیں مقرر کردیا گیا.یعنی رقم مقررکردی کہ اتنا دینا ضروری ہے.یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے.پس
۵۷۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) فرمایا فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ.ان کے مال میں ایک مقرر حق ہوتا ہے.لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْم.سوال کرنے والے اور محروم کا.گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا.وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقّ لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْم یہاں مَعْلُوْم کا لفظ نہیں رکھا گیا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے.حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو مَحْرُوْمٌ کے ساتھ مَعْلُوْمٌ قافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا.مگر سورۃ ذاریات میں مَعْلُوْم کا لفظ اڑا دیا.کیونکہ یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے.صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہوجاتی ہے.مگر اسلام کہتا ہے فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْم.لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُوْم.فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْم.۲۹ محتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو.اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو.دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًامِنْہُ ۳۰ یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے.اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کے لئے نہیں پیدا کی گئیں.اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہیے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو.یہی حال دوسری چیزوں کا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے.سَخَّرَ لَکُمْ کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے.پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہورہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے پیدا
۵۷۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) کی ہے.بے شک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی تو حق ہوتا ہے.جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے.لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے.یہ حق صدقہ اور زکوٰۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے.اب دیکھو یہ نکتہ بیان کرکے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے.جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے.ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے.ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں.صدقہ کے محرکات پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں ؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بری ہوجاتی ہے.مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہوجائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہوگی.لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہوگی.پس برے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنیٰ ہوجاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہوجاتی ہے.یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے.یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے.اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ مَثَلُ الَّذِیْ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ اِبْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ۳۱ یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں.ایک یہ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّٰہِ محض یہ غرض ہو کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو دوسری یہ کہ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کبھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہوجائے.پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ راضی ہوجائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد ہوتی ہے جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہوں گے وہ قوم بھی کمزور ہوجائے گی.کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہوں گے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی.اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.پس صدقہ
۵۸۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ تَثْبِیْتًا مِنْ اَنْفُسِھِمْ اس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے.اسی طرح نیک لوگو ں کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ یعنی نیک وہ ہوتا ہے جو عَلٰی حُبِّہٖ مال دیتا رہے.کتنے مختصر الفاظ ہیں.لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں.عَلٰی حُبِّہٖ کے معنے یہ ہیں کہ اول اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے.چنانچہ پہلے اﷲ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے.گویا وہ مال دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر.انہیں اﷲ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اسکی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں.۲.حُبِّہٖ کی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے.اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں.وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں.اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں.۳.حُبِّہٖ کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے.اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں.کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے.وہ چٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے.اسی حُبِّہٖ کے متعلق دوسری جگہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی ۳۲کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں.جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں.دودھ کیا ہوتاہے ماں کا خون ہوتا ہے.مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں.تو فرمایا.وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں.جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے ’’میں صدقے
۵۸۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) جاواں، میں واری جاواں‘‘حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تمہارا وہ درجہ ہونا چاہیے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیاہے نہ کہ تم ان نے پر کوئی احسان کیا ہے.صدقات کی غرض و غایت چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے.ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنی اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے.دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے.جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو.ایسی حالت نہ ہوجائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے.صدقات سے معذوری کے اصول ساتویں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کیے ہیں.یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو.یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو.جیسے فرمایا.وَامَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمِ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا ۳۳ اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں.اوّل جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو.ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو.دوم.جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو.لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دوں گا تو خدا کاغضب نازل ہوگا اور اگر نہ دوں گا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا.وَامَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا.بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دوں گا تو خدا کا فضل نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے.مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کردیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الٰہی کا موجب ہوگا.یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقینا اﷲ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا.اب ایک اور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کادل تو چاہتا ہے کہ دے ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ نہیں دیتا.ایک بچہ ہے جوہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے.وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی.اس لئے اسے پورا نہیں کرتے.
۵۸۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کے لئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے.صدقات سے انکار کرنے کا طریق آٹھویں.اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے اور انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہیے.یعنی بتایا کہ انکار کرو تو کس طرح کرو.فرمایا.اَمَّاالسَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ ۳۴ جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو.تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہیے.پھر فرمایا.فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا ایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو.لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہیے.یہ اَمَّاالسَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْمیں آچکا ہے قَوْلًا مَّیْسُوْرًا کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اسے ذلّت اور شرمندگی محسوس ہو.صدقات میں کیا چیز دی جائے نویں.اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے.یہ بھی ایک اہم سوال ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ.اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوادئیے جائیں تو زیادہ اچھا ہوگا.یامثلاً ایک شخص کو پلاؤ کھانے کی بجائے دس کو آٹا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے.لیکن یہ ان کی غلطی ہے.اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے.اسلام جانتاہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں.اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہیے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہوسکیں.اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے.قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لایا کرتا تھا.ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جارہا تھا.اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیااس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو.اس نے کہا.یہ بڑا قیمتی کھانا ہے.تمہیں کس طرح دیا جاسکتا ہے.کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے.یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے.لکڑ ہارے نے پوچھا.یہ کتنا قیمتی ہے.اسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے.اس پر وہ
۵۸۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) لکڑیاں ڈالنے لگا.پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا.پھر دو لانے لگا.ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا.اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا.آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا.جب وہ اسے لے کر گھر گیا.تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جاکر کھانا مانگا.لکڑہارے کی بیوی نے کہا.یہی کھانا اسے دے دو.کیونکہ ہم توچھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا.لکڑہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا.اسی طرحـ ہمایوں کو جس سقّہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا.اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی.یہ تھی ایک سقّہ کے دل کی خواہش تو خدا تعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے.فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہوسکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۳۵کہ جو کچھ خدا نے دیا ہواس میں سے خرچ کرو.روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہیے کبھی اچھا کپڑا بھی دو.اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو.اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا.کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ اِذَا اَثْمَرَ وَ اٰ تُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ وَلَا تُسْرِفُوْا.۳۶ اے باغوں والے مسلمانو!جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گزرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گزرتا ہے.کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ اِذَا اَثْمَرَ جب پھل پکیں تو خوب کھاؤ مگر ایک بات ضرور مد نظر رکھو اور وہ یہ ہے کہ وَ اٰ تُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تاکہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں.یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھالیں.مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا وَلَا تُسْرِفُوْا ہا ں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہو.مگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونی چاہیے.پھر بتایا کہ جو کچھ دوحلال مال سے دو.فرمایا یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ۳۷ اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اٹھتاہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں.وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں
۵۸۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہوتے، وہ کہتے ہیں فلاں ڈاکو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ غریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دے دو اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.کسی کی خاطر ناجائز فعل کرنا درست نہیں.لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘ کا مصداق بننا ہے.اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں.تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپرد کرو.ایک تاریخی لطیفہ ہے.لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا.میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیت المال سے تنخواہ لوں.میں آئندہ تنخواہ نہیں لوں گا.اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گزارہ کرو گے.اس نے کہا.میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے.میں اس کی کمائی سے گزارہ کر لوں گا.گویا اس نےاسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھ لیا.غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہیے دسویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ دے کون.کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہیے غرباء کو نہیں دینا چاہیے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہیے.کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرّآءِ ۳۸ مومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تاکہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہوجائیں.صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کردیتا ہوں.
۵۸۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں.ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہو اسے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے.میں کسے صدقہ دوں ؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہوجا تا ہے.اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جوکئی وقت کا بھوکا ہو.دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے.اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں اور پھر و ہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو تنگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے.سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے.جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں.اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے.اسی لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تاکہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں.اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے.یعنی رمضان کے بعد صدقۃ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا.حتٰی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے.صدقہ کے مستحقین گیارھویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے.میں نے بتایا ہے.وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے.بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے.مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے.بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے، اپنے لوگوں کے لئے نہیں.مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں کو دینا چاہیے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے.بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے.قُلْ مَااَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَا لْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی دور نہ ہوسکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو.پھر اقربین کو دو.یتامیٰ کو دو مساکین کو دو.مسافروں کو دو.پھر فرماتا ہے.اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۳۹یعنی صدقات غریبوں
۵۸۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) کے لئے ، مساکین کے لئے اور جو ان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں.اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کے لئے یعنی ان کے کھانے پینے کے لئے، ان کی رہائش کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے.پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے.قرض داروں کے لئے جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں.یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اﷲ جاننے والا اور حکمت والا ہے.اسی طرح فرمایا.لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْ ھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.۴۰ یعنی اﷲ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دو ان کو جو تم سے لڑتے نہیں.جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا.تم ان سے نیکی اور انصاف کرو.اﷲ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے.اسی طرح فرماتا ہے.فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِلسِّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ مسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے.پھر فرماتا ہے.وَلَایَأْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِاَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ.۴۱یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اﷲ کو صدقہ نہ دوں گا چاہیے کہ تم درگذر سے کام لو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق درگذر سے کام لے.پس کسی سے ناراض ہو کر اس صدقہ سے محروم نہیں کرنا چاہیے.ان آیا ت سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کاارشاد فرمایا ہے.کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا.نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے.دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا.اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی.اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو (الف) اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں.(ب) جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو
۵۸۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہی صدقہ شمار کر لیا ہے.سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے.(الف) مثلاًایک لکھ پتی ہومگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہوگیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں.اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ کہ وہ کوئی لٹیرا ہو ااور دغاباز ہے یا ٹھگ ہے.لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھگ اور دغاباز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا.(ب)مساکین.مسکین سے مراد غریب نہیں.کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوتے تو پھر للفقراء کیوں فرمایا.دراصل مسکین سے مرا ایسا شخص ہے جو سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے.مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایساہے کہ دس ہزار روپے سے کام چل سکتا ہے.ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلاسکتا.وہ بہرحال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا.اگر اسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے.ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد.(ج) ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو.مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہو اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں.تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کردے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہوجاتی ہے ایسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جاسکتی ہے.یا زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے.اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدد دی جاسکتی ہے.چہارم.صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے.کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہوسکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جاسکیں گی.یہ ایک سوال ہے، جس کی طرف اور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی.یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کا بھی حق ہے.پنجم.یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہیے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہوجاتی ہے لیکن اسلام کہتاہے کہ انہیں
۵۸۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) دیناچاہیے.کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے ، یا نہیں.اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اسے دے دینا چاہیے.ششم.اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں مشغول ہوں تاکہ وہ نقصان نہ پہنچائیں.ہفتم.انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کی کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی.صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کردیا ہے.گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا.گؤشالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں.صدقات کی تقسیم کے اصول بارھویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے.اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں.فرمایا تُطَھرْہُمْ وَتُزَکِّیْھمْ بِھا ۴۲ یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چاہئیں.اول.تُطَہِّرْہُمْ قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے.دوم.وَتُزَکِّیھمْ بِھا قوم کو بلند کرنے کے لئے.زَکیٰ کے معنی اٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں.صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں ؟ (۱) شریعت نے ایسے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے.اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے.یا میرا روپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی.
۵۸۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) (۲) حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ کہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے.(۳) لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دئیے.چنانچہ فرمایا.یَآ أَیُّھا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لٓاَ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٰذٰی ۴۳ اے مومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو.(۴) پھر ایک اور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا.فرمایا یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ۴۴ اﷲ تعالیٰ سود کو مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کوبڑھائے گا.اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے.صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہوسکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی.چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ یَحْسَبُھمُ الْجَاھلُ أَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھمْ بِسِیْمَاھمْ لاَ یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافًا۴۵ یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے.لیکن جو اس سے واقف ہے.وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے.اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا.یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہوجاتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا.اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں.آپ نے دیا.اس نے پھر مانگا.آپ نے پھر دیا.اس نے پھر مانگا آپ نے پھر دیا.پھر آپؐ نے فرمایا.میں تمہیں ایک بات بتاؤں؟ اور وہ یہ کہ مانگنا اچھا نہیں ہوتا.اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد میں کسی سے نہیں مانگوں گا.ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا.دوسرا شخص اٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو.میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا.اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا.تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہ لیں.وہاں یہ بھی بتادیا کہ مانگنا نہیں چاہئے.یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے.
۵۹۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہوگی.اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائے گی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے.عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے.یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے.اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا.گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے.غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے.پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے.کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے.مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے.حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے.عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے.میں اس وقت کثرتِ ازدواج ، حقوق نسواں ایک دوسرے کے معاملے میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں ، مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں.میں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مرد و عورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں.اور بتاؤں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے.اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنادیا ہے.دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں.مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے :- ’’شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں.اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کرسکتے مگر وہی جنہیں
۵۹۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) یہ قدرت دی گئی ہے.کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا.اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا.جو قبول کر سکتا ہےوہ قبول کرے.‘‘۴۶ گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے.مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے.ہاں جو برداشت نہ کرسکے وہ شادی کرلے اسی طرح ۱.کرنتھیوں باب ۷ میں لکھا ہے:- ’’مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے.‘‘۴۷ ’’میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کرسکیں تو بیاہ کر لیں.‘‘۴۸ گویا عورت مرد اگر بِن بیاہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے.یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں.تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ ’’خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھردیا.اور خداوندخدا اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے.اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی.کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی.اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے.‘‘۴۹ ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہوجائے گا.اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی.یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہوگا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا.صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے.
۵۹۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا.صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے.مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہوکر عبادت کرے.منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارہ رہنا چاہئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے.لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوؤں کی اصل مقدس کتاب ہے.شادی کی ضرورت.اس کی حقیقت اور اس کے نظا م وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں.بدھ مذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمانِ مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے.خواہ مرد ہو خواہ عورت.یہی جَین مذہب کی تعلیم ہے.اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے.اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے.اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے ؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے.نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے.اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ یَآ أَیُّھا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھا زَوْجَھا ۵۰ یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو.جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنایا.اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.انسانیت ایک جوہر ہے.یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے.انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے.وہ نفس واحدہ ہے.اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں.آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت.جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی.وہ تبھی کامل ہوگی جب اس کے دو نوں ٹکڑے جوڑ دئیے جائیں گے.یہ اسلام نے مرد اور عورت کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ
۵۹۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملاناپڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہوگی.اور جب انسانیت مکمل نہ ہوگی تو انسان کمال حاصل نہ کرسکے گا.حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی.جیسا کہ بائیبل میں ہے.لیکن یہ درست نہیں.کیونکہ اول تو اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۵۱ یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے.تو کیا انسان کا جوڑا بنانا نعوذ باﷲ اسے یاد نہ رہا تھاکہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں ، عقلیات ہوں ، احساسات ہوں ، ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں.کوئی ارادہ ، کوئی احساس ، کوئی جذبہ مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں.اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو جسم نہ ملیں.کوئی حیوان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں.کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو انسان نہ ملیں.پس جب اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا.قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں اس لئے جب خدا نے پہلا ذرّہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا.پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وَخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا۵۲ ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا.اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھا زَوْجَھا تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا.سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنی نہیں کئے جاتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا۵۳کہ اے بنی نوع انسان! اﷲ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں.اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا.اسی طرح سورۃ شوریٰ رکوع ۲ میں آتا ہے جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا
۵۹۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) ۵۴ تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایاگیا.اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی.اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنادیتا.مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ھوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْھا زَوْجَھا لِیَسْکُنَ إِلَیْھا۵۵ وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وَجَعَلَ مِنْھا زَوْجَھا اوراس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہے لِیَسْکُنَ إِلَیْھا تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے.وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا کو بنایا گیا.یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا.لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زَوْجَھا کی ضمیرنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے اسی طرح مِنْھا میں بھی ضمیر مؤنث استعمال کی گئی ہے.اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لئے لِیَسْکُنَ میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مردعورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں.الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہوسکتے.مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں.اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی.اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہوسکتا.اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہوسکتی.پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے.اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گذارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے.
۵۹۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کے مجموعے کانام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے.اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقینا ًمذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا.اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعی فعل کو برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقینا ًانسانی تکمیل کے راستہ میں روک ڈال کر اپنی فضیلت کے حق کو باطل کرتی ہے.اب یہ سوال ہوسکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تاکہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی.اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۵۶ اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تاکہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو.گویا انسان میں ایک اضطراب تھا.اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دو ٹکڑے کردئیے گئے.اور ان کو آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا گیا.اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت و مرد کے تعلقات ہوسکتے ہیں سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی ۵۷ والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے.اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے.جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہوتو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تجسس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کردی ہے.جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہوجاتی ہے اور وہ اسے پالیتا ہے.جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو.تب اس کی زبان سے بَلٰی کی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں.اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے
۵۹۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کے قابل نہیں ہوں.تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بَلٰی یقینا آپ ہی اصل مقصود ہیں.اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجسس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرلیتے اور اسے پالیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا اب سوال ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کردی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہراً محبت ہوتی تو حصولِ اتّصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا.ثواب کے لئے اخفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کے لئے اور عورت کے پیچھے مرد کے لئے اپنی محبت کو چھپادیا تاکہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں.مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے.اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں.اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کردیتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو.جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کے لئے مرد اور مرد کے لئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا.اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کردیتی.دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کی خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے.پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا.جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے.اسی کی طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا اَلنِّسَاءُ وَ الطِّیْبُ وَ جُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ ۵۸ ایک روایت میں مِنَ الدُّنْیَا کی بجائے مِنْ دُنْیَاکُمْ کے الفاظ بھی آتے ہیں.یعنی دنیا میں
۵۹۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں.اَلنِّسَاءُ عورتیں اَلطِّیْبُ خوشبو وَ جُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے.یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں.اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اﷲ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور عاجزانہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں.وہ بھی انسان کے لئے سکون کا موجب ہوتی ہیں.مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کے لئے عورت سکون کا باعث ہے یہ ذکر نہیں کہ عورت کے لئے بھی مرد سکون کا باعث ہے.یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہوں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ھنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھنَّ ۵۹ یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو.پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں.عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لئے.مردو عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے.اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا.کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندا ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے.پس ھنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھنَّ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے.اس طرح بھی لِتَسْکُنُوْٓااِلَیْھَا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیقِ سفر کے کام کرتے ہیں.روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستگی حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ ہیں.اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے.یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے.نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں.اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن
۵۹۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے.حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں.جہاں اﷲ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دئیے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کردیا ہے.جب جسم ان کی تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا.کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے.مگر ایسا نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے مرفوع القلم قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا.اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بَلٰی تو کہہ ہی چکی تھی.مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے.جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں.رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق انہیں قوتوں میں سے جوانسان کو ابدیت کے حصول کے لئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو رجولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں.یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا.پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں.بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے.رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض درحقیقت بقا کی حِس پیدا کرنے کی خواہش ہے.اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں.یعنی نسل کشی.گویا نسلِ انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے.اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اﷲ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنادیا اور یہ بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے.روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے.اس لئے بقاء پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا.اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی پیدائش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے.پہلے چھوٹا جانور بنا.پھر بڑا.
۵۹۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا.چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا۶۰ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کردے.وَقَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَارًا۶۱ تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے.غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے.اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں.پس تمام حیوانات درحقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں.اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کے لئے بننی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے.اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے.اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں.غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں.اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا.اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا.یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے.اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوا نی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں.چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہوجاتے ہیں.ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے.کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوتِ رجولیت ساتھ ہی نشوونما پاجاتی ہے.گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں.اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے.پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کے لئے جو خدا تعالیٰ نے غدودِ شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان
۶۰۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا.اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے.اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کے لئے موجب سکون بنادیا.حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے.آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا.بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا.آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح و تحمید کی تو شفا ہوگئی.پس یہ بہت باریک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا.روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اﷲ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تاکہ غفلت میں کمال ، غلط اطمینان کا باعث ہوکر باعثِ تباہی نہ ہو اور تاکہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے.یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے.اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداءً رجولیّتِ ایمان کی حالت غالب ہوتی ہے اور ہر مومن پر رجولیّت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے.مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا.لیکن جب کوئی علم حاصل کرلے گا تو اسے اطمینان حاصل ہوجائے گا کہ علم حاصل کر لیا.ہر جگہ یہی بات چلتی ہے.قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے.کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہوجاتا ہے.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں.کفر کی طرف کفر والی کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت.اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے.درحقیقت قرآن اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور
۶۰۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) نسائیت فیضان کا.لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے.البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں.اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں.یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں.یعنی بعض لوگوں میں فطرتاً ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی.جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہوجاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسبی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں.جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریمی صفت ہوتے ہیں.تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں.کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں.حالانکہ تمام صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں.چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ اپنی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں حضرت مسیح ؑسے یہ روایت کرتے ہیں کہ لَنْ یَّلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمَآءِ مَنْ لَمْ یُوْلَدْ مَرَّتَیْنِ۶۲ یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو.ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی.اور دوسری مریم والی پیدائش.پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں.وَ صَرْفُ الْیَقِیْنِ عَلَی الْکَمَالِ یَحْصُلُ فِی ھٰذِہِ الْوِلَادَۃِ وَ بِھٰذِہِ الْوِلَادَۃِ یَسْتَحِقُّ مِیْرَاثَ الْاَنْبِیَاءِ وَ مَنْ لَمْ یَصِلْہُ مِیْرَاثُ الْاَنْبِیَاءِ مَا وُلِدَ وَ اِنْ کَانَ عَلٰی کَمَالٍ مِنَ الْفِطْنَۃِ وَ الذَّکَاءِ لِاَنَّ الْفِطْنَۃَ وَ الذَّکَاءَ نَتِیْجَۃُ الْعَقْلِ.وَ الْعَقْلُ اِذَا کَانَ یَابِسًا مِنْ نُورِ الشَّرْعِ لَا یَدْخُلُ الْمَلَکُوْتَ وَلَا یَزَالُ مُتَرَدِّدًا فِیْ الْمُلْکِ۶۳ یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے.اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے.پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی.اگرچہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سوجھیں اور اگرچہ اس میں بڑی ذکاء ہو.یہ عقل کا نتیجہ ہوگا.روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے.پس روحانیت میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے
۶۰۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) کہ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ اِلاَّ وَالشَّیْطَانُ یَمَسُّہٗ حِیْنَ یُوْلَدُ فَیَسْتَھلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّیْطَانِ اِیَّاہُ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَھا ۶۴ یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے.اس سے مراد صرف مریم اور عیسیٰ نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باﷲ شیطان نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بھی چھؤا تھا.اس حدیث میں دراصل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدا ئشیں ہوتی ہیں.ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش.جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بنتا ہے.مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیّت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی.ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی.ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے.یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں.غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں.جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تأثیری یا تأثری پہلو کہہ سکتے ہیں.جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جاکر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تأثیر اور تأثر کے ملنے سے ہی روحانیت کوسکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسےایک نئی پیدائش حاصل ہوجاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے.یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیّت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے.جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کردیا ہے.
۶۰۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) مرد عورت میں مَوَدَّت کا مادہ دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً اس ذریعہ سے تم میں مَوّدت پیدا کی گئی ہے.مَوّدت محبت کو کہتے ہیں.لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مَوّدت میں ایک فرق پایا جاتا ہے.اور وہ یہ کہ مَوّدتْ اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے.لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مَوّدتْ کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے.ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے.مگر اﷲ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا.کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کرسکے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے وَدُوْدہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے آیا ہے کہ وہ وَدُوْدُ ہے.وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مردو عورت کے لئے مَوَدَّۃً کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے.لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کرسکتا.اس لئے بندوں کے لئے یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہٗ۶۵ یا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۶۶ آتا ہے یَوَدُّوْنَ اللّٰہَ نہیں آتا.مرد و عورت میں اﷲ تعالیٰ نے مَوّدتْ کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کردی ہے.اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اس طرح طبعاً تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اﷲ تعالیٰ یہ مَوّدتْ پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں.اور ذمہ داریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مَوَدَّتْ پیدا کردی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں.مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسۂ رحم کا اجراء تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رَحْمَۃً پیدا کی گئی ہے.کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا
۶۰۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہے.مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے.جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے.لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہوجاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کاٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے.پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہوجاتی ہے اور پھرہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے.وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہوجاتے ہیں.لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے.اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہوجاتے ہیں.گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے.غرض اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے.اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کردیتا ہے اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک.عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں ؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کے لئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقاتِ شہوانی مضر ہیں.یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں.اﷲ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے.فرمایا ہے.نِسَآؤُکُمْ حَرْ ثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ۶۷ تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں تم جس طرح چاہو ان میں آؤ.اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں.
۶۰۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ اس طرح آؤ کہ آگے نسل چلے اور یادگار قائم رہے.پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا.اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.۱.نرو مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے.یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے.اسے غیر محدود بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے.یہی کہ نسل چلائی جائے.پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا.تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو.اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا بیج ضائع ہوگا.۲.دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہوجا تا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہوجاتی ہے.پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے.جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے.اس آیت سے یہ بھی نکل آیاکہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں.کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معاًدوسری بودی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی.اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے.لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کےمتعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو.جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہوجائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہوجائے اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا کرنے لگے.اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہئے.اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو.تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا.اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی.پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو.اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب
۶۰۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا.باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہو گا.پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو.خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہوں خواہ وہ لین دین کے متعلق ہو خواہ اور معاملات کے متعلق ہو.اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے.انشاء اﷲ تعالیٰ پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے.حتیٰ کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے.لیکن بوجہ ا س کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہو تا ہے میں اب اصول کی طر ف آتا ہوں.میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے.اورثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہر امر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے.وہ چھ اصول یہ تھے.اوّل.جس کا منبع افضل ہو.دوم.ظاہری حسن.سوم.وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے ا س کی ضرورت سمجھی گئی ہو.چہارم.اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو.پنجم.جس میں ملاوٹ نہ ہو.ششم.وہ چیز اپنی ہو.اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کر کے بتاتا ہوں کہ قرآن کریم وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے.قرآنی فضلیت کی ساتویں وجہ ساتویں وجہ فضلیت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھو ٹ سے زیادہ محفوظ ہو.جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کونسا کپڑا زیادہ چلے گا.جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے بلکہ جو زیادہ دیر چلنے ولا ہو وہ لیتے ہیں.یہی حال اور چیزوں کا ہو تا ہے.زیادہ چلنی والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے.تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازماً ہوتا ہے.اگر دو تعلیمیں برابر ہوں لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقیناً تقدّم حاصل ہو گا.اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتابیں.الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہو نے کے کیا معنی ہو تے ہیں یہی کہ الہامی
۶۰۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو.اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو.پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے.گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہو نے سے رہ گئے تھے.مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی.ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے.قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ :(۱)قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُونَ(الحجر:۱۰)یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی.پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کو ئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی.لیکن یہ صرف دعویٰ ہے.میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا.اس دعویٰ میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے نہ انجیل کا نہ تورات کا نہ وید کا اور نہ کسی اور کتاب کا.قرآن کریم نے اس دعویٰ کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے اور وہ یہ کہ (i) یہ کامل ذکر ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَہم نے اس کامل ذکر کو اتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہو نے سے چونکہ دنیا تباہ ہو تی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں.نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے.لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی.(ii)دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے.اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہو نے دیں.حفاظت قرآن کے ذرائع پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا.سورۃ حجرمیں جب فرمایاکہ تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِیْنٍ۶۸ یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو مبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے.تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لَوْ مَا تَأْتِیْنَا بِالْمَلٓائِکَۃِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۶۹ اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے
۶۰۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے.چا ہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اترتے.یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ا سکا جواب دیا.اور فرمایا مَا نُنَزِّلُ الْمَلٓائِکَۃَ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَا کَانُوْا إِذًا مُّنظَرِیْنَ۷۰ فر شتے تو پیغامبرہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی.فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں.فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا.وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے.حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا سو ہم بتاتے ہیں کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں.اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لو تم کچھ نہیں کر سکتے اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا.پھر فرمایا وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الأَوَّلِیْنَ.وَمَا یَأْتِیْھم مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھزِؤنَ.کَذَلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوبِ الْمُجْرِمِیْنَ.لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَقَد خَلَتْ سُنَّۃُ الأَوَّلِیْنَ.۷۱ یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہو تا چلا آیا ہے.لیکن پہلے انبیاء تو ا س کتاب کے متعلق جو ان پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی.پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے.ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہو تی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعاً معقول بات نہیں ہے.یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہو تا رہتا ہے.اب رہا اس کے محفوظ ہو نیکا ثبوت سو اس کے متعلق فرماتا ہے.وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءٍ فَظَلُّوْا فِیْہٖ یَعْرُجُوْنَ.لَقَالُوْا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ.وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنَّاھا لِلنَّاظِرِیْنَ.وَحَفِظْنَاھا مِن کُلِّ شَیْطَانٍ رَّجِیْمٍ.إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہٗ شِھابٌ مُّبِیْنٌ۷۲ فر مایا.یہ بے وقوف لوگ اپنی ناواقفی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے.جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی.انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے.اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہو تے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے.ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری
۶۱۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آرہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.پس معلوم ہوا کہ ہم نابینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے.اس کے بعد اﷲ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ وَلَقَدْ جَعَلْنَافِی السَّمَآءِ بَرُوْجًاوَّ زَیَّنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ.ہم نے ا س کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں.اور ہم نے ا س کے آسمان کو ستاروں سے خوب صورت بنایا ہے.یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی.وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ.اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چا ہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیا ہے.پس اب اس کلام کو کوئی شریر چھو نہیں سکتا.اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُبِیْنٌ.ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے جیسے عیسائی کرتے ہیں.مگر جو دور سے سن کر باتیں بنانے والے ہو نگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے.ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو ان کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا.یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کا غلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کردیں گے.یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کے لئے اختیار کیا گیا.زَیَّنّٰھَامیں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اورمُبِیْنٌ میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے مراد نہیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہو گاجو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا.اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا.دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ لَا یَمَسُّہٗ إِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ۷۳ یعنی اس کو وہی لوگ چھو سکتے ہیں جو مطہر اور خادم دین ہوں.دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چا ہیں نہیں چھو سکتے.پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے کہ شیطان اسے چھو نہیں سکتا.ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا.تو کیا مومن چھو سکتا ہے ؟مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے.پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چُھو سکتا
۶۱۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) ہے.ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآء فَوَجَدْنَاھا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَشُھبًا.وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِھابًا رَّصَدًا.۷۴ یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں اور آسمان کو ہم نے شُھُب سے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اسے پتھر پڑتے ہیں.اس سے بات بالکل وا ضح ہو جاتی ہے.یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جوّہے اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے اور اگر فرض کر لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو ا سکا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے مگر پھر نہ بیٹھے.حالانکہ حدیث سےمعلوم ہو تا ہے کہ ارواح ِ کافرہ بھی آسمان پر نہیں جا سکتیں.پھر ہم کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب شیطان اوپر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا ؟کیا اﷲ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی.پھر وہ کو ن تھے جو خدا تعالیٰ کے غیب سن کر زمین پر آجایا کرتے تھے.حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رد کرتا ہے.قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کوغیب معلوم ہو سکتا ہے.پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذ با ﷲ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا.اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے ہیں.در اصل ان آیات کے یہ معنی ہیں کہ آسمان روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے.یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا.یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے.اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کو سن کر جس طرح چا ہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑنے والا اسے چُھو نہیں سکتا.بلکہ اگر
۶۱۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہوا ستارہ ا ٓگرے گا.گویا لمس تو بالکل بند ہے لیکن سمع ہو سکتا ہے مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بد نیتی سے سنے اس کی فوراً تردید ہو جاتی ہے.غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظاً بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا.اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی.شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے.پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو.سو یاد رکھنا چا ہئے کہ (۱)وہ آسمان جس سے کلام نازل ہو تا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہو سکتا ورنہ اﷲ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا.پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب ہو.پس آسمان جس سے کلام اترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے.(۲)عربی زبان کے محاورہ کی رو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارۃً سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں.چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہو تاہے.بارش چونکہ اوپر سے نازل ہو تی ہے اس لئے اسے بھی سما ء کہہ دہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَأَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْھمْ مِّدْرَارًا.۷۵ ہم نے ان پر بادلوں کو موسلا دھار بارش برساتے ہوئے بھیجا.اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہو تی ہے.کہتے ہیں.مَازِلْنَا نَطَاُ السَّمَآءَ حتّٰی اَتَیْنَا کُمْ.ہم سماء یعنی سبزی کو کچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے.پس اس جگہ سماء سے مراد آسمانی کتاب ہے.ورنہ یہ کہنا بے جا ہو گا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے.پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے.ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھوسکتے.سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ا ن کو بگاڑ لیتے تھے.چنانچہ سورۃ بینہ میں آتا ہے.لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَھلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَأْتِیَھمُ الْبَیِّنَۃُ.رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْ صُحُفًا مُّطَھرَۃً.فِیْھا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ.۷۶ فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑنہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آجاتی.بینہ
۶۱۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) کیا ہے؟وہ خدا کا رسول ہے جو ان پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے.کئی ایسی تعلیمیں تھی جو بگڑ گئی تھیں.قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے.پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی.قرآن کے متعلق فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں.ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا.دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی تھی سو اسے دور کر کے اخذ کر لیا.غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے.اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چا ہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیاگیا ہے.سمائے روحانی حیّی و قیّوم کی صفات پر بنیاد اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآ ن کے ذریعہ بنا جس کی بنیاد حیّی و قیّوم کی صفات پر رکھی گئی ہے.مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات ِ الٰہیہ کے ماتحت نازل ہو تے رہے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَانٍ یعنی ہر زمانہ نبوت میں اﷲ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہو تا ہے.اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے.یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْہٖ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ أَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.۷۷ یعنی اﷲ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ ا سکی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو.پس یوم سے مراد زمانہ نبوت ہے اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سماء بھی بلند ی کا نام ہے.پس اس روحانی آسمان کو بھی سماء کہہ سکتے ہیں اور اس کے لئے صفت حیّی و قیّوم کو استعمال کیا گیا ہے.یہ ثبوت کہ قرآن حییٌّ و قیُّوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ قرآن کریم کی کونسی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا آیت الکرسی۷۸ اور آیت الکرسی کی بنیاد حیّی و قیّومپر ہے.یہ روایت ابی بن کعب ؓ، ابن مسعود ؓ، ابوذر
۶۱۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) غفاری ؓ، ابو ہریرہ ؓ، اور چار پانچ صحابہؓ سے مروی ہے اور اکثر کتبِ حدیث میں ہے.اَعْظَمُ اٰیَۃ سے مراداور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں جو بطور امّ کے ہو.یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے.چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا کسی اور نبی کو نہیں ملی۷۹.یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا اور وہ صفات حیّی و قیّوم کی ہی ہیں.چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہو نے کا ذکر ہے.حیّی کے معنی ہو تے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا.اور قیّوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا.پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے.یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا.اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے.پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا.آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے ۸۰.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان کی صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایالَا یَمَسُّہٗ إِلَّا الْمُطَھرُوْنَ پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا.حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا صاف ظاہر ہے کہ ا سی کلام کی طرف اِنَّا لَمَسْنَا والی آیت میں اشارہ ہے.نیز یہ بھی دیکھنا چا ہئے کہ اگر ٔحفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں شُھُب کے نزول کے ذکر کے کیا معنی ہیں ؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جا سکتا اور اگر جاتا ہے اس پر شہاب گرتا ہے.
۶۱۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) کتبِ سابقہ میں تحریف اب عملاً دیکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں.تورات میں جو حضرت موسیٰ ؑپر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰ ؑ کی موت کا ذکر ہے اسی طرح انجیل میں حضرت مسیح کی موت کا ذکر ہے.ژَنْد اَوِسْتَا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اسے بگاڑ دیا.میں تو کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھاجائے گا کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کی ان کی کتاب بگڑ چکی ہے.ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ کہ وہ بگڑ چکے ہیں.وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دعائیں سیکھائی گئی ہیں اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چا ہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے.جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دعائیں ہوں وہ کیونکر لمس ِ شیطانی سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھوا.لیکن اسکے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعویٰ طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لَایَمَسُّہٗ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ.کوئی اسے بگاڑ نہیں سکتا اور کوئی اگر اسے خراب کرنا چا ہے گا تو اس پر شُھُب گریں گے.یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں.حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ ’’بائیبل سوسائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلدیں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں.‘‘۸۱ اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے تھے.تو اب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہو گیا.مگر ہم کہتے ہیں اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مسّ کیا مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا.آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے.اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے.روسی حکومت نے ایک دفعہ چا ہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے لیکن ملک میں اتنا شور پڑا کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے
۶۱۶ فضائل القرآن(نمبر ۳) باز رہنا پڑا.یہ بھی شُھُب ہی تھے جو اس پر گرے.انجیل کے متعلق کیوں ایسانہیں ہو تا.پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چا ہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آ گئی.حفاظتِ قرآ ن اور یورپین مستشرقین دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیّر و تبدل نہیں ہو سکتا.اﷲ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں.یعنی اس کے نگران ہیں.اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کَلَّا إِنَّھا تَذْکِرَۃٌ.فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہٗ.فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ.مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھرَۃٍ.بِأَیْدِیْ سَفَرَۃٍ.کِرَامٍ بَرَرَۃٍ.یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلندشان رکھنے والے اور پاک ہیں.اور یہ صحیفے دور دورسفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزّز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں.یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہو تا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مد نظر رکھ کر اتاری گئی ہے.میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہو تے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے اور وہ یہ کہ (۱)یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی.ا سکا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اورلوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے.اس ادب کو سر ولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے.The Two sources would correspond closely with each other : for the Coran, even while the Prophet was yet alive , was regarded with a superstitious awe as containing the very words of God ; so that any variations would be reconciled by a direct refrence to Mahomet himself, and after his death to the orignals where they existed , or copies from the same , end to the memory of the Prophet's confidential friends and amanuenses.۸۲ یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ
۶۱۷ فضائل القرآن(نمبر ۳) کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے.خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے.دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مرفوعۃ یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کو ئی خرابی نہیں آ سکتی کیونکہ ا سکے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے.اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ انہیں خدا کا کلام نہ یقین کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے.اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائے گی.غرض فرمایا.قرآن کے مطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ انہیں سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں اور جو دشمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے.سر ولیم میور اس بارہ میں لکھتا ہے.The contents and the arrangement of the Coran speak forcibly for its authenticity.All the fragments that could obtained have , with artless simplicity , been joined togather.The patchwork bears no marks of a desidning genius or moulding hand ۸۳.اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں.تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا.اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جرأت ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے.جو سمجھتے ہیں وہ بَرَرَۃٍ ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے.تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقائص سے پاک بنائی گئی ہے اور ایسی اعلیٰ چیز میں جو دخل دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے.اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو.سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے اس کا فوراً پتہ لگ جاتا ہے.اسی طرح تاج محل کی حالت ہے.معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ چھپ سکتا ہے لیکن اگر
۶۱۸ فضائل القرآن(نمبر ۳) تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے.پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوب صورتی میں دخل نہیں دے سکتے.کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جرأت ہی نہیں ہو تی.قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں ، جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے.اول فرمایا بِأَیْدِیْ سَفَرَۃٍ.سَفَرَۃٍ کے ایک معنی لکھنے والے کے ہو تے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہو نگے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہو تی گئی لکھی جاتی رہی.اور جوبات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے.پھر فرمایا یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کِرَامٍ بَرَرَۃٍہیں.یعنی معزز لوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں.پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہونگے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہو نگے.اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہوں گے وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے.اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے.پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑہی ناممکن ہو جائے گا.اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے.بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو اور پھر مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے.ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اورنگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے.اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے.ا سمیں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے.چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے ۴۳ قرآن موجود تھے.
۶۱۹ فضائل القرآن(نمبر ۳) دوسرے معنی سَفَرَۃٍ کے سفر کرنے والے کے ہیں.ان معنوں کی رو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا بلکہ فوراً دنیا کہ چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا.اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چا ہے گا تو عرب ،شام ،ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہو گاوہ بگاڑ کو رد کر دے گا.غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تاکہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی تمام عرب، افریقہ اورابی سینا میں پہنچ گیا تھا.پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین، شام، عراق، فارس اور افغانستان،چین ، اناطولیہ ،مصر ، ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا.پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح سے مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا پیدا ہو نا ناممکن ہو گیا.اور پھر ا س میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی.پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا مؤید ہو گیا.سَفَرَۃٍ کے معنی اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں.اس لحاظ سے ا سکے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈر وں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہو گا جو سب کے سب نیک ہو نگے.اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی.کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی.یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا.سرولیم میور لکھتا ہے.It is conceivable that ,either Ali, or his party , when thus arrived at power ,would have tolerated a mutilated Coran-mutliated expressly to destroy his claims? yet we find that they used the same Coran as their opponents , and raised
۶۲۰ فضائل القرآن(نمبر ۳) no shadow of an objection against it.۸۴ یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیرکیا گیاہے.مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہو ئیں تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا.اسی طرح لکھتا ہے.So for from objecting to Othman's revision , Ali multiplied copies of the edition among other MSS.Supposed to have been written by Ali, one is said to have been preserved at Mashhed Ali as late as the fourteenth century which bore his signature.۸۵ یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہو نے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن بتایاہے.مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبر دست نشان ہے.قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا.دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا.مسلمانوں میں جنگیں ہو نگی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا.اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا.سَفَرَۃٍکے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اٹھا دینے کے بھی ہو تے ہیں.اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہو نگے کہ ا س کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس وخاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کاموجب ہوسکتا تھا دور کرتے رہیں گے اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظا ہر کرتے رہیں گے.اور اس کے بلند مطالب کو لوگوں کے سامنے لاکر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کرام ہوں گے یعنی ماہرین فن ہونگے اور بَرَرَۃٍ ہو نگے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہو نگے.اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے.لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں
۶۲۱ فضائل القرآن(نمبر ۳) تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتا ب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں.لیکن کِرَامٍ کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے کتاب کیلئے مَرْفُوعَۃٍ اور مُطَھَّرَۃٍ فرمایا ہے اور انسانوں کے لئے سَفَرَۃٍ بَرَرَۃٍ.لیکن اگر ہم غور کریں تو در حقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے.سَفَرَۃٍ کا جوڑ مَرْفُوْعَۃٍ سے ہے.کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے.اور سفر کے معنی خفاء کو دور کر نے کے ہو تے ہیں.چنانچہ جب سَفَرَتِ الرِّیْحُ الْفَیْحَ عَنْ وَجْہِ السَّمَائِ کہیں تو ا سکے معنی ہوتے ہیں کَشَفَتْہ یعنی ہوا نے گردو غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا.اسی طرح مُطَھَّرَۃٍکے مقابلہ میں بَرَرَۃٍ فرمایا ہے.کیونکہ مُطَھَّرَۃٍکے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بَرَرَۃٍ کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں.پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے.ٍ اﷲ اﷲ !! کیا زبر دست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعویٰ کو زبردست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے.سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر اٹھنے لگا تھا جب کہ آپ کی وفات میں شبہ پیدا ہو گیا اور گویا آپ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو کھڑا کرکے یہ اختلاف دور کر دیا.انہوں نے قرآن کریم ہی کہ یہ آیت پیش کی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۸۶ ا وراس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کھڑا نہ رہ سکے اور گر گئے.مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیحؑ کے بعد کیا ہو ا.ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ پیدا ہو گیا.اور حضرت موسیٰ ؑکی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاں حضرت ہارونؑ جیسے اور مسیحؑ کے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجود گی میں گمراہی شروع ہو گئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آئی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے.لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی جو اباحت کے رنگ میں تھی.اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہو گئی اور ہمیشہ امت محمدیہ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے ہیں جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دور کرتے رہے.اس کے مقابلہ میں دوسرے مذہب کی حالت بدلتی چلی گئی اور اصلاح کرنے والے کوئی
۶۲۲ فضائل القرآن(نمبر ۳) پیدا نہ ہوئے.اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا.موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کر نے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر دور کر دیا.اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھا.حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ پس قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر.اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہو تارہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا.خدا تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ۸۷ آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے.پس جب مکمل دین آ گیا اور نعمت کامل ہو گئی تو اب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی.اب جو بھی مامور آئے گا اسی کی تائید میں آئے گا.اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا.اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے لیکن خدا نے اپنےمتعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے.اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کے متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں.پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.دوستوں کو ایک نصیحت میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چا ہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں.جنہیں مجبوری ہو رخصت ختم ہو چکی ہو وہ تو جا سکتے ہیں لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں انہیں ضرور ٹھہرنا چا ہئے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقع پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے انہیں چا ہئے کہ جلسہ کے ختم ہو نے کے بعد بھی ٹھہرا کریں.یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں.یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں.یہاں کا کاروبار دیکھیں.بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دعا کریں.ا ب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے
۶۲۳ فضائل القرآن(نمبر ۳) اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.۱ عبس :۲تا۱۷ ۲ البقرۃ : ۱۳۲ ۳ براہین احمدیہ چہارحصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۲۹ ۴ اشتہار بعنوان ہم اور ہماری کتاب.براہین احمدیہ چہارحصص جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ ۵ دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۶ ۶ متی باب ۱۹ آیت ۲۳،۲۴برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۷ متی باب ۹۱ آیت ۲۱برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۸ متی باب ۲ آیت ۳،۴برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۹ متی باب ۶ آیت ۳برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۱۰ The Hymns of the Atharra.Vede ,Vol,II P.120 Book XII Hymn IV Benares, Published 1917 ۱۱ بنی اسرائیل :۳۰،۳۱ ۱۲ تا ۱۵ اقرب الموارد جلد۱ صفحہ ۱۹۰ زیر لفظ’’ حسر ‘‘ مطبوعہ بیروت ۱۸۹۹ء ۱۶ الفرقان : ۶۸ ۱۷ تذکرۃ الاولیاء ۱۸ مسلم کتاب الصیام با ب جواز الصوم الفطر فی شھر الرمضان للمسافر ۱۹ بنی اسرائیل : ۲۷،۲۸ ۲۰ البقرۃ:۲۷۵ ۲۱ البقرۃ:۲۷۲ ۲۲ بخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القریٰ و المدن ۲۳ البقرۃ:۱۱۱ ۲۴ البقرۃ: ۱۰۳ ۲۵ ترمذی کتاب المناقب ابی بکر صدیق ۲۶ البقرۃ:۱۹۶ ۲۷ البقرۃ:۲۱۶ ۲۸ المعارج:۲۵،۲۶ ۲۹ الذّٰریات:۲۰ ۳۰ الجاثیہ: ۱۴ ۳۱ البقرۃ:۲۶۶ ۳۲ النحل : ۹۱ ۳۳ بنی اسرائیل :۲۹ ۳۴ الضحیٰ : ۱۱ ۳۵ البقرۃ:۴ ۳۶ الانعام : ۱۴۲ ۳۷ البقرۃ:۲۶۸ ۳۸ اٰل عمران : ۱۳۵ ۳۹ التوبہ : ۶۰ ۴۰ الممتحنۃ : ۹
۶۲۴ فضائل القرآن(نمبر ۳) ۴۱ النور : ۲۳ ۴۲ التوبہ:۱۰۳ ۴۳ البقرۃ:۲۶۵ ۴۴ البقرۃ:۶۷۷ ۴۵ البقرۃ:۶۷۴ ۴۶ متی باب ۱۹ آیت ۱۰تا۱۲ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۲ء Page 195 ۴۷ کرنتھیوں ۱.باب ۷ آیت ۲،۳ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۴۸ کرنتھیوں ۱.باب ۷ آیت ۸تا۹ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۴۹ پیدائش باب ۲ آیت ۲۱ تا ۲۴ برٹش اینڈ فاران بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۵۰ النساء : ۲ ۵۱ الذّٰریات : ۵۰ ۵۲ النبا:۹ ۵۳ النحل : ۷۳ ۵۴ الشوریٰ : ۱۲ ۵۵ الاعراف : ۱۹۰ ۵۶ الروم: ۲۲ ۵۷ الاعراف :۱۷۳ ۵۸ الجامع الصغیر للسویطی جلد ۱صفحہ ۱۲۲ مطبوعہ مصر +مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۲۸ بیروت ۱۹۷۸ء ۵۹ البقرۃ: ۱۸۸ ۶۰ نوح : ۱۴ ۶۱ نوح : ۱۵ ۶۲،۶۳ عوارف المعارف مؤلفہ حضرت شہاب الدین سہر وردی صفحہ ۴۵،۴۶ احیاء علوم الدین اللغزالی صفحہ۷۴.مطبوعہ بیروت ۴۱۰۴ء ۶۴ بخاری کتاب التفسیر.تفسیر سورۃ اٰل عمران زیر آیت انی اعیذھابک....۶۵ المائدہ : ۵۵ ۶۶ البقرہ:۱۶۶ ۶۷ البقرۃ : ۲۲۴ ۶۸ الحجر: ۲ ۶۹ الحجر: ۸ ۷۰ الحجر :۹ ۷۱ الحجر: ۱۱تا ۱۴ ۷۲ الحجر:۱۵تا۱۹ ۷۳ الواقعہ :۸۰ ۷۴ الجن : ۹،۱۰ ۷۵ الحجر:الانعام :۷ ۷۶ الحجر:البیّنہ :۲تا ۴ ۷۷ السجدہ: ۶ ۷۸ ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی آیۃ الکرسی ۷۹ درمنثور جلد ۱ صفحہ ۳۲۵، ۳۲۶ ۸۰ بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل البقرۃ ۸۱ اخبار نور افشاں ۲۸ نومبر ۱۹۳۰ء
۶۲۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) ۸۲ The Life of Mahoment By Willian Muir P.555 Published in London 1877 ۸۳ The Life of Mahoment By Willian Muir P.561 Published in London 1877 ۸۴ ، ۸۵ The Life of Mahoment By Willian Muir P.559 Published in London 1877 ۸۶ اٰل عمران: ۱۴۵ ۸۷ المائدہ: ۴ ۶۲۵ فضائل القرآن(نمبر ۳) ۸۲ The Life of Mahoment By Willian Muir P.555 Published in London 1877 ۸۳ The Life of Mahoment By Willian Muir P.561 Published in London 1877 ۸۴ ، ۸۵ The Life of Mahoment By Willian Muir P.559 Published in London 1877 ۸۶ اٰل عمران: ۱۴۵ ۸۷ المائدہ: ۴