Anwarul-Uloom Volume 10

Anwarul-Uloom Volume 10

انوارالعلوم (جلد 10)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

Page 22

Page 23

Page 24

Page 25

Page 26

Page 27

Page 28

Page 29

Page 30

Page 31

Page 32

Page 33

Page 34

Page 35

Page 36

Page 37

Page 38

Page 39

Page 40

Page 41

Page 42

Page 43

Page 44

۱ مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 45

Page 46

۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم مسلمانوں کی انفرادی اور قوی زمہ داریاں (فرموده مورخہ ۱۱ستمبر۱۹۲۷ء بمقام شملہ) أشھد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبدہ و رسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجیم - بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العلمين الرحمن الرحيم O ملك يوم الدين 0 إیاک نعبد و ایاک نستعين O اھدنا الصراط المستقیم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين o جیسا کہ آپ صاحبان نے اشتہار میں مطالعہ فرمایا ہو گا میرا مضمون مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریوں کے متعلق ہے.گو میرا مضمون مسلمانوں کی قومی اور انفرادی ذمہ داریوں کے متعلق ہے.مگر یہ مضمون اس قسم کا ہے کہ قدرتی طور پر دوسری اقوام کا ذکر صراحتاً یا اشارتاً کرنا پڑتا ہے.قومی ذمہ داریاں ہمیشہ اس غرض کے لئے ہوا کرتی ہیں کہ ایک قوم اپنی ہمسایہ اقوام میں عزت و خوشحالی، قوت و بزرگی کے ساتھ زندگی بسر کر سکے.اور ہمسایہ قوموں میں عزت و بزرگی سے زندگی بسر کرنے کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان تعلقات پر غور کریں جو ہمارے ہمسایہ اقوام سے ہیں.پس اس صورت میں لازماً دوسری اقوام کے متعلق ہم کو کچھ نہ کچھ کہنا پڑے گا خواہ اشار تاً ہو یا بعض جگہ صراحتاً.

Page 47

۴ اسلام امن وسلامتی کامذہب ہے ایک بات میں شروع میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے مذہب کا نام اسلام ہے اور اسلام میں داخل ہونے کا نام ایمان ، اور اسلام کے معنے جہاں اپنے آپ کو کلیتہً خدا کے سپرد کر دینا ہے وہاں اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ مسلم اپنے آپ کو بھی سلامتی میں رکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سلامتی بخشتا ہے.اسلام میں داخل ہونے کا نام ایمان ہے اور یہ لفظ یُمن یا امن سے نکلا ہے.اور اس کے معنے برکت یا امن کے ہیں اس لئے ایمان کے معنے جہاں مان لینے کے ہیں امن دینے کے بھی ہوتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ مومن خود بھی امن میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی امن دیتا ہے.قرآن مجید میں خدا تعالی کا نام بھی مؤ من ہے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی دوسرے خدا پر (نعوذبالله) ایمان لاتا ہے بلکہ یہ کہ دنیا امن بخشتاہے.پس میں اپنے ان دوستوں کو جو اس نام میں میرے شریک ہیں جس کو میں نے اختیار کیا ہے یعنی مسلم اور مومن اور ان دوستوں کو جنہوں نے اس نام کو قبول نہیں کیا بتا دینا چاہتا ہوں کہ:.میرے مذہب کی بنیاد امن و سلامتی پر ہے اگر اس مذہب کے پیروؤں میں سے کوئی شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو اس تعلیم اور مفہوم کے خلاف کرے گا تو اس کا یہ فعل سراسر ناجائز اور ناروا ہو گا اور اس کی ذمہ داری اسی پر ہے نہ اسلام پر.اگر میں (خدا نخواستہ) تعلیم اسلام کے خلاف کروں تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی نہ میرے مذہب پر.ایسی حالت میں یہ غلطی ہو گی ان لوگوں کی جو کسی شخص کی ذاتی ذمہ داری کو اسلام یا اس کی تعلیم کی طرف منسوب کریں کیونکہ جس مذہب کا نام اور کام امن اور صلح پر مشتمل ہو وہ اس کے خلاف تعلیم نہیں دیتا جہاں اسلام امن اور صلح کی تعلیم دیتا ہے.وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ امن کے معنے نفس کو مٹا دینے کے نہیں اور نہ شخصی اور قومی برتری اور حفاظت کے لئے سعی کرنا امن کے خلاف ہے بلکہ اپنی یا قوم کی ترقی کے لئے جائز طریقوں سے سعی کرنا خود حفاظتی اور امن کا ذریعہ ہے.جس طرح بعض لوگ کسی کے ذاتی فعل کو جو تعلیم اسلام کے خلاف ہو اسلام کی تعلیم قرار دینے میں غلطی کرتے ہیں اسی طرح جب کوئی شخص اپنی یا قومی ترقی اور حفاظت خود اختیاری کے لئے سعی کرتا ہے تو وہ اسے خلاف امن سمجھتے ہیں اور یہ بے انصافی اور غلطی ہے.دیکھو حکومتیں وہ کسی ملک اور کسی قوم کی ہوں فوجیں اور پولیس رکھتی ہیں اور ان فوجوں اور

Page 48

۵ توپ خانوں پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہیں کیا ان کی غرض ملک میں امن قائم رکھنا ہوتا ہے یا بدامنی پیدا کرنا ؟ حکومت کا منشاء یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک اور اس کی سرحدوں پر امن قائم رکھیں تا اس کی رعایا اور ملک امن کی حالت میں ہر قسم کی ترقی کر سکے.پس کوئی قوم اگر جائز طریقوں پر اپنی ترقی کے لئے کوشش اور اپنی حفاظت کے لئے سامان کرتی ہے اور اس مقصد کے حاصل کرنے میں کسی دوسری ہمسایہ قوم کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچاتی بلکہ اپنے ایک جائز حق کو استعمال کرتی ہے تو اس کی ہمسایہ قوموں کو حق نہیں پہنچتا کہ اس قوم کو ترقی کرنے سے روکیں اور یہ کہتے ہوئے روکیں کہ تم امن کے خلاف کرتے ہو.بے شک فتنہ کی راہیں مسدود ہیں اور ہونی چاہئیں لیکن ترقی کی راہیں ہمیشہ اور ہر شخص اور ہر قوم کے لئے کھلی رہنی چاہئیں.ہندوستان کی موجودہ حالت اس تمہید کے بعد میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان کی جو حالت ہو رہی ہے.اور جو فتنہ و فساد ہندو مسلمانوں میں باہم ہو رہے ہیں وہ ایسے حدود کے اندر نہیں رہے کہ انہیں نظر انداز کیا جا سکے اور اتنے شاذ و نادر نہیں ہیں کہ النادر کالمعدوم کہہ کر ہم ختم کر دیں بلکہ ضرورت ہے کہ ہم ان فسادات کو امن سے بدل دیں اور ان موجبات اور اسباب کا ازالہ کریں جو آئے دن ان فسادات کو پیدا کرتے ہیں.سارا ملک اس وقت پراکندگی، نفاق اور شقاق کا نقشہ بن رہا ہے بلکہ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ در حقیقت نہ کسی ہندو کو اختیار ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنا ملک کہہ سکے اور نہ کسی مسلمان کو.اس لئے کہ کوئی اپنی چیز کو اس طرح پر تباہ و برباد نہیں کرتا.حب وطن کا دعویٰ ایک طرف اور یہ عملی تباہی دوسری طرف.ایک تاریخی واقعہ مجھے اس موقع پر ایک مشہور تاریخی واقعہ یاد آگیا ہے.کہتے ہیں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں اور ان دونوں کے دو بچے تھے.وہ شخص کہیں باہر گیا ہوا تھا اتفاق سے ایک عورت کا بچہ بھیڑیالے گیا.اس نے یہ سمجھ کر کہ خاوند اسی ہے زیادہ محبت کرے گا جس کا بچہ ہو دوسری عورت کے بچے پر قبضہ کر لیا تھا.وہ شور مچاتی تھی کہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی تھی کہ میرا ہے.آخر یہ تنازعہ حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا.اس مقدمہ کے فیصلہ کرنے میں بظاہر بڑی دقّت تھی لیکن خداتعالی نے ان کو ایک طریق فیصلہ سمجھادیا.انہوں نے کہا کہ ایک تیز چُھری لاؤ چنانچہ جب چُھری لائی گئی تو انہوں نے کہا میں اس مقدمہ کا

Page 49

۶ فیصلہ اس طرح پر کرتا ہوں کہ بچہ کو ذبح کر کے دونوں میں آدها آدھا تقسیم کر دوں.یہ کہہ کر چُھری کو ایسے انداز سے پکڑا کہ گویا وہ ابھی ذبح کر دیں گے.یہ دیکھ کر بچے کی اصل ماں جواپنی مامتا سے بے قرار تھی نے کہا خدا کے واسطے ایسا نہ کرو یہ بچہ میرا نہیں اس دوسری کا ہے.مگر اس دوسری کو ذرا بھی احساس نہ تھا اور وہ خاموش کھڑی تھی.حضرت سلیمان نے اس پر اس ماں کو جو اپنی مامتا کا اظہار کر چکی تھی بچہ دے دیا اور کہا کہ تُو ہی اس کی اصلی ماں ہے تیرا بچہ تجھے مبارک ہو.اب غور کرو کہ ایک عورت اپنے بچہ کو قربان ہو تا ہوا نہ دیکھ سکی.اگر وہ اپنے سینے پر سِل رکھ کر دوسری عورت کے سپرد کرنے کو اس لئے تیار ہوئی کہ بچہ زندہ رہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ایک قوم یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے اور امن برباد ہو رہا ہے وہ چھوٹی سے چھوٹی قربانی بھی نہ کر سکے اور اس فساد کو دُور کرنے کی کوئی تدبیر نہ کرے تو وہ کس طرح مُحِب ّملک کہلا سکتی ہے.پس جو ہندو یا مسلمان فساد کو دیکھ کر خاموش بیٹھا رہتا ہے اور ملک میں امن قائم کرنے کی فکر نہیں کرتا وہ ہرگز ہرگز ہندوستانی کہلانے کا مستحق نہیں.وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا اور ہندوستان کے لئے ننگ و عار ہے.یہ فسادات کیسی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں.گزشتہ تین ماہ کے واقعات سامنے ہیں.لاہور، امرتسر، ملتان، کانپور، بریلی، بیتا اور اب ناگپور کے خونی واقعات نے حالات کو بد سے بد تر بنا دیا ہے اور ملک کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے.یہ حالت کی صورت میں ملک کو ترقی کرنے کے قابل نہ رہنے دے گی.مسلمان توجہ کریں میں خصوصیت سے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس ملک میں تھوڑے ہیں.تعدادہی کے لحاظ سے نہیں مال میں بھی بہت کم ہیں.مال ہی نہیں تعلیمی حالت میں بھی بہت پیچھے ہیں.پھرتعلیمی حالت ہی میں نہیں بلکہ وہ اس حصہ میں بھی بہت پیچھے ہیں جو ترقی کا موجب ہوتا ہے.لیکن گورنمنٹ سروسز.ان تمام باتوں میں ہی نہیں بلکہ میں باوجود یہ کہتے ہوئے شرم و ندامت محسوس کرنے کے کہوں گا کہ وہ انسانی حالت میں بھی پیچھے ہیں.ان کی تربیت نہیں، ان میں نظام قائم نہیں.پس ایسی حالت میں جبکہ وہ دوسروں سے پیچھے اور بہت اچھے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ کل ان کا کیا حال ہو گا.ایک معزّز قوم کی زندگی تو جدا امر ہے وہ سوچیں کہ ایسی حالت میں کیا وہ ذلیل ہو کر بھی

Page 50

۷ زندگی بسر کر سکیں گے.پس قبل اس کے کہ معاملہ حد سے گزر جائے اور مرض لا علاج ہو جاوے اٹھو قومی اور شخصی اصلاح کی فکر کرو ورنہ حالت نہایت خطرناک ہے.ناگپور کے واقعات پر ایک خط کا اقتباس فسادات کے متعلق ایک تازہ رپورٹ پڑھتا ہوں.لوگوں کو پچھلے حالات سے جو میں شائع کر چکا ہوں معلوم ہے کہ خدا تعالی نے میرے دل میں اسلام کے لئے ایک درد ديا ہے اور مسلمانوں کی حالت دیکھ کر مجھے جو تکلیف ہوتی ہے خدا کے سوا اسے کوئی سمجھ نہیں سکتا لیکن باوجود اس کے میں نہیں کہہ سکتا کہ فسادات کی تمام تر ذمہ داریاں ہندووں پر ہیں.میرے پاس ناگپور سے ایک رپورٹ آئی ہے.میں جانتا ہوں لکھنے والا جھوٹ نہیں بولتا یہ ممکن ہے کہ اس کے کان میں میانہ کے ساتھ خبریں آئی ہوں مگر ان حالات کو پڑھ کر اور سن کر ایک شخص اس نتیجہ پر آئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے.(اس موقع پر حضرت اقدس نے ناگپور سے آیا ہوا ایک خط سنایا جس میں فسادات کی مفصل رپورٹ تھی.چونکہ وہ حالات اخباروں میں آ چکے ہیں اس لئے اس کی نقل کی یہاں ضرورت نہیں).میری ہمدردی سب کے ساتھ ہے میں دیکھتا ہوں کہ آپس کے تعلقات کی اس خرابی نے حالت یہاں تک پیدا کر دی ہے کہ جائز اخلاقی مدد اور ہمدردی کی روح مفقود ہو رہی ہے.میں نے لاہور کے فسادات میں شائع کیا تھا کہ جہاں میں مسلمان زخمیوں سے ہمدردی کرتا ہوں سکھوں اور ہندو زخمیوں سے بھی ویسی ہی ہمدردی رکھتا ہوں.یہ ایک معمولی بات تھی اور ہر شخص کو جو انسانیت کی حقیقت سمجھتا ہے ، یہی کرنا چاہئے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسلمانوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ میں مسلمانوں کے سوا دوسروں سے کیوں ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.میں نے کہا کہ اگر مسلمان نہ بھی لڑے ہوتے تو بھی میں ہندو اور سکھ زخمیوں کے ساتھ ویسی ہی ہمدردی کرتا.اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی تعلیم دی ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی کروں.مظلوم کی ہمد ردی تو ظاہر ہے کہ وہ ہر قسم کی ہمدردی کا مستحق ہے لیکن ہم کو تو ظالم کی ہمدردی کی بھی تعلیم دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو ظلم کرنے سے روکیں.پس میرا مذہب تو یہی ہے کہ میں ظالم سے بھی ہمدردی کروں.میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتاکہ ان فسادات میں اگر کسی جگہ ہندوؤں نے ابتداء کی تو مسلمانوں نے بھی کمی نہیں کیا پس

Page 51

۸ جب تک ہم اندرونی اصلاح نہ کریں اور نفس میں تبدیلی نہ کریں فسادات نہ مٹیں گے.مسلمانوں کی تعلّیاں میں ایک طرف ان فسادات کے اثرات کو دیکھتا ہوں جو مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور پھر ملک کی متحدہ ترقی پر ہوتے ہیں اور دوسری طرف ایسے موقعوں پر مسلمانوں کو کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ اگر پھر ایسا موقع ہوا تو ہم بتادیں گے اور دکھا دیں گے.اس قسم کے دعوؤں کو سن کر مجھے افسوس آتا ہے کہ اس سے ان کی حقیقی وقعت اور عزت کم ہو رہی ہے.میری عمر ۳۸ سال کی ہے مگر میرا تجربہ اور تاریخی علم بتاتا ہے کہ ہمیشہ ہی مسلمانوں نے بتادینے اور دکھا دینے کے دعوی ٰکے باوجود کبھی کچھ دکھایا بھی؟ جواب یہی ہے کہ کچھ نہیں.اگر بتانے اور دکھانے سے مراد لڑائی جھگڑے اور ملک میں خون کی ندیاں بہا دینا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ قابل شرم ہے خواہ کوئی قوم کرے.کیا دوسروں کی جان لینا اور لوگوں کو مارنا بھی بہادری ہے.اگر یہ بہادری ہے تو وہ لوگ جو دنیا کے امن کو تباہ کرتے اور ڈاکے مار کر قتل و غارت کرتے اور با لآخر اور پھانسی پاتے ہیں سب سے بڑے بہادر ہوں گے؟ کیا تم ان کو بہادر کہتے ہو؟ کوئی عقلمند اور شریف الطبع انسان ایسے خونیوں اور ظالموں کو بہادر نہیں کہتا.اگر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر دوسروں کی جان بچاتے ہو اور مزدوروں کی حفاظت کرتے ہو تو یہ بہادری ہو گی.میں سچ کہتا ہوں کہ ملک کے امن کو برباد کرنا اور فتنہ و فساد پیدا کرنا یہ بہادری نہیں.میں مسلمانوں کو کہتا ہوں اس لئے کہ خطاب انہیں سے ہے کہ بتانے اور دکھانے کا یہ مطلب نہیں.بتانے اور دکھانے کی کوئی اور بات ہے.تم گزشتہ ۸۰ سال کی تاریخ پر نظر کرو کیا کوئی بھی میدان ایسا ہے جس میں تم نے کچھ کر کے دکھایا ہو.تم جانتے نہیں کہ ہمارے اندر کیسی طاقتیں ہیں ان پر غور کرو اور پھر کیا شعبہ زندگی میں کچھ کر کے دکھاؤ تو بات بھی ہے.تم ہندوؤں کے مقابلہ میں یہ دیکھو کہ تعلیم، تجارت، صنعت و حرفت اور ملازمت کے مقابلہ میں کہاں ہو؟ کیا تم بڑھ گئے ہو یا وہ آگے نکل چکے ہیں.اگر تم پیچھے ہو اور ظاہر ہے کہ ہو تو یہ وقت ہے کہ کچھ کر کے دکھاؤ اور اپنے عمل سے بتاؤ کہ تم گو پیچھے ہو مگر ہمت اور کوشش سے آگے بڑھ سکتے ہو.میں جانتا ہوں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ہم بتا دیں گے دکھادیں گے تو وہ سچ کہتے ہیں ان میں یہ قوت اور استعداد ہے مگران کانفسی انکو دھوکا دیتا ہے.پس اس غفلت اور غلط فہمی کو چھوڑ دو اور ایک عام صمیم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ.وہ دن کب

Page 52

۹ آئے گا جب تم کھڑے ہو گئے.اور زندگی کے ہر شعبہ میں کمال کر کے دکھاؤ گے.تم کس دن کا انتظار کر رہے ہو.کیا اس سے بھی زیادہ ذلت کے بعد اٹھوگے.بچپن کا ایک واقعہ میں جب ان واقعات کو دیتا ہوں تو بھی اپنے بچپن کا ایک واقع یاد آ جاتا ہے.دو دکاندار لڑ رہے تھے ایک نے ایک بٹے کو اٹھایا ہوا تھا.اور دوسرے کو کہہ رہا تھا اب گالی دے.وہ دو سرا دکاندار دکان میں گھس گیا اور کہا کہ دُوں گا اور دیتا جاتا تھا.پہلا بٹا تو ہاتھ میں رکھتا تھا مگر سوائے اس کہنے کے کہ اب کے گالی دے اور کچھ کر نہ سکتا تھا.مجھے اس وقت بھی حیرت ہوتی تھی کہ یہ منہ سے کیوں کہتاہے مار کیوں نہیں دیتا.پس جب میں مسلمانوں کے اس قسم کے دعوے سنتا ہوں تو یہ واقعہ باوجود اپنی قباحت اور حماقت کے یاد آجاتا ہے.عملی قوت کے بغیر محض باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں اور مسلمان کی زندگی عملی ہونی چاہئے لاف و گزاف کوئی حقیقت نہیں رکھتی.کیا میں مسلمانوں کو بزدل بناتا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ میں جب مسلمانوں کو عملی زندگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور ان میں حقیقت اسلام پیدا کرنا چاہتا ہوں اور فسادات سے بچنے کا مشورہ دیتا ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے تُو مسلمانوں کا دشمن ہے انہیں بُزدل بنانا چاہتا ہے.میں کہتا ہوں کہ میں مسلمانوں کا دشمن نہیں بلکہ میں تو دُنیا میں کسی بھی انسان کا دشمن نہیں.مسلمان مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں.میں انہیں بزدل نہیں بنانا چاہتا ہاں یہ سچ ہے کہ میں انہیں حقیقی بہادر بنانا چاہتا ہوں جو اسلام کی عملی زندگی سے پیدا ہوتی ہے.میں پسند نہیں کرتا کہ مسلمان باتیں بنائیں بلکہ میں کام دیکھنا چاہتا ہوں.میں انہیں زندگی کے ہر حصہ اور شعبہ میں ممتاز دیکھنا چاہتا ہوں اور اگر حقیقی بہادری کا ان میں ثبوت نہ ہو تو کون اسے تسلیم کرے گا.نبیوں کے دعوی ٰکو بھی کوئی بِلا ثبوت نہیں مانتا حالا نکہ وہ خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں.جب ان کی یہ حالت ہے تو تمہارے دعویٰ کی کیا حقیقت ہے.کہتے ہو تو کر کے دکھاؤ اور ہر شعبہ زندگی میں اپنے کمالات اور امتیاز کا ثبوت دو.مجھے حیرت ہوئی اگلے دن میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا کہ اردو شاعری میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں.میں کہوں گا اگر یہ صحیح بھی ہو تو یہ کس کام آئے گا.علمی ترقی کر کے دکھاؤ تاکہ وہ علمی مقابلوں میں تمهارے کام آئے اور سروسز میں تمہیں آگے بڑھا سکے.اب غور کرو کہ جب ہماری اپنی یہ حالت ہو تو ہم محض دوسروں پر زور ڈالنے سے کیا تسلی

Page 53

۱۰ پاسکتے ہیں اور ہمارا کیا حق ہے کہ ہم دوسروں پر ناراض ہوں گورنمنٹ پر ناراض ہوں یا ہندوؤں پارسیوں، عیسائیوں اور سکھوں پر ناراض ہوں.ہمارا اپنا قصور ہے کہ علمی ترقی میں آگے نہیں بڑھے.خود ہم نے اپنی اولاد کی تعلیمی نگرانی نہیں کی.اور شروع میں انگریزی تعلیم کا پانا ہی ناجائز قرار دے دیا.ایسی حالت میں ایک ہی علاج ہے کہ بجائے دوسروں پر ناراض ہونے کے ہمت اور محنت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تا کہ گذشتہ کی تلافی اگر نہ ہو سکے تو آئندہ کے نقصان سے تو محفوظ ہوں.قوی ترقی کا راز یاد رکھنا چاہئے کہ قوی ترقی انفرادی اور قومی ذمہ داریوں کے پورا کرنے کے بغیر نہیں ہو سکتی.جب تک وہ ذمہ داری جو ہم میں سے ہر ایک پر قوم کا ایک ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ہے اُسے پورا نہ کریں اور اس ذمہ داری کو جو توی حیثیت سے سب پر ہے پورا نہ کیا جائے قوم میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہو سکتے.قوم افراد کا مجموعہ ہوتی ہے.اگر افراد کی حالت اچھی نہ ہو تو قومی حالت کیو نکر اعلی ٰ ہوگی.شخصی صحت اگر درست نہ ہو تو قومی ترقی کیونکر ہو گی.اسی طرح اگر مجموئی حیثیت سے قومی اصلاح نہ ہو تب بھی ترقی نہیں.اس راز کو سمجھنے کے لئے عمارت کی مثال بہت صاف ہے.ایک عمارت کے لئے ضرورت ہے، اینٹ، چونا، لکڑی اور لوہا وغیرہ کی.اگر اینٹ خراب ہو یا دوسرا مصالحہ اچھانہ ہو.خواہ کیسے ہی لائق اور قابل معمار اور انجینئر اس عمارت کو بنانے والے ہوں وہ عمارت اعلیٰ درجہ کی نہیں ہو سکتی.اسی طرح اگر سامان عمارت تو اعلیٰ درجہ کا ہو لیکن جاہل معماروں کے ہاتھ میں ہو تو بھی اس میں نقص ہو جائے گا.اس لئے کہ وہ اس مصالحہ کو عمدگی اور صحیح طریق سے استعمال کرنا نہیں جانتے.ٹھیک اسی طرح قوی ترقی کے لئے دونوں چیزوں کی ضرورت ہے.افراد کی حالت درست اور عمدہ ہو.اور پھر ان افراد سے مجموعی طور پر کام لینے والے بھی صحیح دماغ اور فکر رکھتے ہوں.جب تک دونوں باتوں کا انتظام نہ ہو تمام محنت اکارت جاتی ہے.لیڈرشور مچاتے ہیں کہ قوم بن جاوے اور وہ ایسی ترقی کرے.میں کہتا ہوں کیا اس محض کے دعوؤں اور شور سے قو میں بنا کرتی ہیں؟ اس کے لئے سب سے اول ضرورت ہے کہ افراد قوم کی انفرادی اصلاح ہو ان کی تربیت ہو.جب تربیت ہو چکے تو وہ قوم کے مفید اجزاء بن سکیں گے.پھران کی قابلیت کے موافق ان سے کام لیا

Page 54

۱۱ جاوے.یاد رکھو کہ ہر گھر ہر محلہ ہر گاؤں کی اصلاح جب تک نہ ہو اور ایک ایک فرد اپنے قومی کیریکٹر میں مضبوط نہ ہو تو قوم نہیں بنے گی.اور اگر بغیر انفرادی اصلاح اور تربیت کے قوم بناتے ہو تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہو گی جو مختلف امراض کا شکار ہو کر بستر مرگ پر پڑا ہوا ہو اور غرغره بول رہا ہو.اسے اگر یہ بھی کہا جاوے کہ تیرے بچہ کو قتل کیا جا رہا ہے تو اُسے اُٹھنے کی بھی سکت اور ہمت نہ ہوگی.اس بستر مرگ کے مریض سے قومی توقعات کیا ہو سکیں گی.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ یہ ایک خطرناک غلطی ہوئی ہے کہ قوم کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی گئی اور جنھوں نے انفرادی اصلاح کی طرف توجہ کی ہے انہوں نے ان میں قومی درد پیدا نہیں کیا.اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم انفرادی اور قومی حیثیت میں سب سے پیچھے ہیں.اگرچہ ہمارے ہمسائے بہت آگے نکل چکے ہیں لیکن اب بھی اگر صحیح اصول اور صحیح انتظام کے ساتھ ہم اپنی انفرادی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اصلاح شروع کر دیں.تو میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ ہم کسی سے پیچھے نہ رہیں گے.ضرورت اس امر کی ہے کہ کوشش کے صحیح طریق کو اختیار کر لیں.اب اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں پہلے شخصی ذمہ داریوں کو لیتا ہوں.مسلمان کی انفرادی ذمہ داریاں سب سے پہلی ہے جس کی مسلمان کو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کو حقیقی معنوں میں مسلمان بنایا جاوے.جب تک مسلمان مسلمان نہیں بنتا وہ قومی عمارت کے اندر پختہ اینٹ کے طور پر نہیں لگ سکتا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سب سے پیچھے یا جس کا خانہ بالکل خالی ہے کہ اسلام ہے.اس کی طرف قطعاً توجہ نہیں.کس قدر افسوس کا مقام ہے اگر مسلمانوں میں تلاش کیا جاوے تو سَو میں سے ایک بھی بمشکل نکلے گا جو قرآن شریف پڑھ سکتا ہو.اور ایک فی صدی بھی نہیں جو اسلام کی تعلیم سے واقف ہو.اور ایک فی ہزار بھی نہ نکلے گا جو عمل کرتا ہو.پھر ایسے افراد کا مجمومہ جو قوم ہوگی کہ کیا ہو گی؟ آخر قوم کے کچھ معنے ہیں.ہندو، ہندو کہلاتا ہے-مسلمان، مسلمان کہلاتا ہے.کیوں ہندوستانی کہنے یہ مطلب پورا نہیں ہوتا.حقیقت یہ ہے کہ یہ امتیازِ نام مذہب اور تعلیم کے سبب سے ہے.ہندو کہتا ہے.کہ اس کے پاس ایسی تعلیم ہے جو مسلمان کے پاس نہیں.مسلمان کہتا ہے ہمارے پاس ایسی تعلیم ہے کہ کسی دوسرے کے پاس نہیں.اس لئے ہندو یا مسلمان جدا جدا ناموں سے پکارے جاتے ہیں.اگر ہم اس وجہ سے مسلمان کہلاتے ہیں کہ ہماری تعلیم اعلیٰ درجہ کی ہے تو قابل

Page 55

۱۲ غور یہ امر ہے کہ کونسی بات ہم میں پائی جاتی ہے.اور جب ہم اسلام جو قرآن کریم کی تعلیم ہے اس سے ناواقف ہیں تو پھر کس چیز کے لئے لڑ رہے ہیں.تعجب ہے اسے خود گھرسے عملا ً نکال دیا ہے.ایک مصری لکھتا ہے کہ قرآن کریم گیارہ جگہ کام آتا ہے.منجملہ اس کے (1) غلاف میں رکھنے کے لئے، (۲) قسم کھانے کے لئے اور آخری استعمال یہ ہے کہ وہ قرآن کریم جو ایک شخص نے مسلمان کہلا کر ساری عمرنہ کھولا تھا.مُلّا آ کر اس کی قبر پر کھولے.میں پوچھتا ہوں وہ کتاب جو ہدایت کے لئے آئی تھی، وہ کتاب جو اپنے عامل کو یقیناً کامیاب کر دیتی ہے، وہ کتاب جس کی ابتداء ہی فاتحہ سے ہوتی تھی جو کھلے رہنے کی تعلیم دیتی تھی، آج وہ بند رہتی ہے اور ہم اسے کھول کر بھی نہیں دیکھتے تو پھر کیا حق ہے کہ دوسروں کے گھر جا کر تبلیغ کریں.میں تو اپنے قرآن کو غلاف میں نہیں رکھتا کہ یہ بند کرنے کے مترادف ہے.کھلا رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کی اصل عزت اور عظمت اس کی تلاوت، اس کا فہم اس پر عمل اور پھر اس کی اشاعت ہے.پس سب سے مقدم یہی چیز ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے.اس کو بند نہیں کھول کر آنکھوں کے سامنے رکھیں اسے سمجھیں اور اس کی تعلیم پر عمل کریں.میں پھر کہتا ہوں کہ قرآن شریف غلافوں میں رکھنے کے لئے نہیں.مجھے تو بعض یہی کہیں گے کہ میں اپنے قرآن کو غلاف میں نہیں رکھتا.( اس موقع پر آپ نے اپنا قرآن مجید ہاتھ میں لے کر مکرر دکھایا.عرفانی) مگر یہ خیال غلط ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تو وہ چمڑہ پر لکھا ہوا تھا.اس کا حقیقی اور سچا ادب یہی ہے کہ ہر پڑھو اور عمل کرو.میں بآواز بلند کہتا ہوں اگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں تو ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمان کہلائیں.ان کا اختیار ہے ہندوستانی کہلائیں یا کچھ اور.تعلیم یافتہ طبقہ کی بے توجہی کا راز اور علماء کی غفلت ٍ غرض سب سے پہلی چیز قرآن مجید کی واقفیت ہے.یاد رکھو قرآن کریم بولتا نہیں.اس کو سمجھاناعلماء کاکام ہے.مگر ایک مشکل یہ ہے کہ علماء خود قرآن مجید کے اسرار اور حقائق کو علوم کی روشنی میں بیان کرنے سے قاصر ہیں.تعلیم یافتہ لوگ جو توجہ نہیں کرتے اس کا سِرّ کیا ہے.وہ یہی ہے کہ جب وہ علماء سے کوئی سوال قرآن مجید کے متعلق ایسے رنگ میں کرتے ہیں جس کا تعلق علوم جدیدہ سے ہو تو علماء بجائے جواب دینے کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کافر ہو گیایا یہ کفر ہے.اس قسم کی باتوں نے ان کے دل میں روک پیدا کر دی

Page 56

۱۳ ہے.میرے ایک رشتہ دار یہاں شملہ میں ایک معزز عہده دار ہیں.انہوں نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ مجھے ایک مسئلہ کے متعلق شبہات پیدا ہوئے.میں نے اپنے محلّہ کی مسجد کے امام سے پوچھا کہ ایک اسلام کے نہ ماننے والے نے یہ اعتراض کئے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا اور مجھے سمجھاتا یہ کہا کہ تیرے باپ کے پاس جا کر کہتا ہوں.میں نے اسی دن سے عہد کر لیا کہ کسی مولوی سے پوچھنا نہیں.یہ ایک مثال نہیں میں ایسے بہت سے واقعات سے واقف ہوں.میرے پاس تو تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں اور وہ اپنے اعتراضات پیش کرتے ہیں.میں آزادی سے ان کو پوچھنے کا حق دیتا ہوں اور جواب دیتا ہوں.اس لئے کہ کانشنس کی آواز کو دبا نہیں سکتے.اگر ہم شبہات اور اعتراضات کا جواب نہ دیں گے تو خود اِن کو اسلام اور قرآن سے متنفّر کریں گے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں کہ اپنی اولاد کو مرتد نہ کریں اور انہیں اس کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کو حقیقی مسلمان بنانے کے لئے ہر وقت مستعد اور فکر مند رہنا چاہئے.تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ عقل خداداد کی روشنی میں قرآن کریم سکھائیں.اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اسلام صرف کتاب میں رہ جائے گا.یہ فلسفہ کا زمانہ ہے میں یہ نہیں کہتا کہ فلسفہ یا سائنس کے نام سے ڈر جانا چاہئے قرآن کریم کا فلسفہ ہی سچا فلسفہ ہے اور محض سائنس یا فلسفہ کے نام سے ہر بیوقوفی کی بات مان لو.میں خود مثلاً ڈارون کی تھیوری کو نہیں مانتا.اور میں نے دیکھا ہے کہ اس کے ماننے والے میرے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے.پس حقیقی علوم اور سائنس قرآن کریم کے خلاف نہیں.یہ کمزوری ہوگی اگر ان سے کوئی دب جاوے.نبی کریمﷺ کی محبت پیدا کرنے کا طریق اور مسلمانوں کا موجودہ عمل غرض پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں تاکہ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے ضرورت ہے کہ آپؐ کی ان قربانیوں کو بیان کریں جو آپ ؐنے قوم اور انسان کے لئے کی ہیں.جوں جوں انسان ان قربانیوں پر غور کرے گا آپؐ کے ساتھ محبت اور وفا کا ایک گہرا تعلق پیدا ہوتا جائے گا.مگر اب مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ آپ کی قربانیوں پر تو غور نہیں کرتے.وہ یا تو آپ کی مدح و ثناء کرتے وقت آپ کے بالوں اور چہرہ کی تعریف کریں گے.اور یا آپ کے خوارق اور

Page 57

۱۴ معجزات ایسے رنگ میں بیان کریں گے کہ سننے والے کو ہنسی آجاوے.مثلاً وہ کہیں گے کہ درختوں نے آپ کو سجدہ کیا آپ سے گوہ نے کلام کیا.ایک شخص جو صحیح تاریخ کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف پڑھتا ہو وہ کس طرح ان باتوں کو تسلیم کرے گا.اور صحیح حدیث میں جب ایسی باتوں کا نشان نہ ملے تو کیا جواب ہو گا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی، اخلاقی اور روحانی معجزات کیا کم ہیں؟ وہ اتنے اور ایسے ہیں کہ کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہر زمانہ میں ان کی صداقت ثابت ہے.اب یہ گوہ کے کلام کرنے کا معجزہ، اس میں کیا خوبی ہے جبکہ واقعات کے خلاف ہو.یہ بہت سیدھی بات ہے.تاریخ میں ایک شخص کا نام دب لکھا ہے.مگر علماء اس کا خیال نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ گوہ بول پڑی.اسی طرح وہ شخص جس کے سامنے درخت سجدہ میں گر پڑا ہو، عجوبہ کے طور پر اس کا ادب تو پڑھ سکتا ہے مگر تاریخ میں آکر اس کا وقار کم ہو جائے گا.پس ایسی چیز پیش کرنی چاہئے جو ایک حقیقت رکھتی ہو.اس لئے میں تاکید کرتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھانے کے لئے آپ کی قربانیاں پیش کرو.ہماری کتابوں کے طُومار کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انجیل کا یہ فقرہ اثر کرتا ہے کہ لوگوں کے گناہوں کے لئے آیا ہوں.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نہایت ہی اعلیٰ ہے اور آپ کی قربانیاں بے نظیر ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان قربانیوں کو قرآن کریم نے ایک لفظ میں بیان کیا ہے.لعلك باخع نفسک الا يكونوا مؤمنين.۲؎ تُواپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس غم میں کہ لوگ کیوں مومن نہیں ہوتے.یہ کتنی بڑی قربانی ہے.آپ مخلوق کی نجات اور ان کو خدا تک پہنچانے کے لئے کس قدر فکر مند رہتے تھے.آپ کی روزانہ زندگی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے.جب ان واقعات کو بیان کیا جائے گا تو کوئی بھی ہو خواہ ہندو یا عیسائی، پارسی ہو یا یہودی، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ چیز ہے جو محبت پیدا کر سکتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات خود پڑھنے چاہئیں اور پڑھانے چاہئیں.ایسے مضمون نہیں کہ آپ کی زُلفیں ایسی تھیں اور آنکھیں ایسی تھیں بلکہ آپ کی نیکی، آپ کا تقویٰ، مخلوق کی خدمت کا جوش، دشمنوں کے سخت سے سخت رنج دہ سلوک کے باوجود ان سے نیکی اور ہمدردی.دُعا کی طرف توجہ پھر دُعا اور خشیت الہٰی کی طرف توجہ ہو.آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الدعا مخ العبادة اور زندگی کے ہر شعبہ اور

Page 58

۱۵ حالت اور وقت کے لئے آپ نے دعائیں تعلیم فرمائیں.مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ آج وہ سب سے زیادہ دعاسے عملاً متنفر ہیں.عیسائی سب سے زیادہ دعا کی طرف متوجہ ہیں اور ہندو بھی کم نہیں.میرے ماموں صاحب نے جو ڈاکٹر ہیں فرمایا کہ دہلی دربار کی تقریب پر مہاراجہ صاحب در بھنگہ عبادت کرتے ہوئے انگیٹھی سے جل گئے.یہ ان کی عبادت میں مشغولیت اور توجہ کی ایک مثال ہے کیا مسلمانوں کے اس طبقہ کے لوگوں میں ایسی مثال ملے گی؟ جو باوجود نوابی کے اپنی عبادت اور دُعا میں ایسے مصروف ہوتے ہوں.یورپ جہاں دہریت کا زور ہے اور اپنی دہریت کو یہاں آکر بھی پھیلاتا ہے.لیکن باوجود اس کے دُعاؤں سے وہ بھی غافل نہیں.حرب عظیم کے ایام میں 1918ء میں ایک موقع پر فرانسیسی اور انگریزوں کی فوجوں کوہیلی کا میدان خالی کر دینا پڑا.اس وقت لارڈ ہیگ نے مسٹرلائڈ جارج کو جو پرائم منسٹر تھے تار دیا.لائیڈ جارج اس وقت اپنے وزراء کو لے کر مشورہ کر رہے تھے.تار کا مضمون یہ تھا کہ دنیوی تدابیر کا خاتمہ ہو چکا سواۓ آسمانی ہاتھ کے کوئی نہیں بچا سکتا اس وقت لائڈ جارج کھڑا ہو گیا اور اپنے وزراء کو لے کر دُعامیں مصروف ہو گیا.اور کہا اب تدبیر کا وقت نہیں رہا.میں نہیں جانتا خدا تعالی نے اس دُعا کو سنایا دنیوی سامان پیدا ہو گئے مگر یہ واقعہ ہے کہ جرمنوں کو کئی گھنٹہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ میدان خالی ہے.اتنے میں پیر س سے فوجیں لائی گئیں اور شکست فتح سے تبدیل ہوگئی.یہ اس قوم کا حال ہے جس کو دہر یہ کہتے ہیں کہ ان میں بھی دُعا کی طرف توجہ پائی جاتی ہے.لیکن توجہ نہیں تو مسلمانوں کو.ابھی یہاں ایک مشاعرہ ہوا تھا.میں نے غور سے سنا کسی ہندو شاعر نے اپنے مذہب کے خلاف نہ کہا مگر مسلمان شاعروں کے کلام میں اس قسم کے مضامین آئے کہ خدا کی جنت کی ضرورت نہیں یا دعا کی ضرورت نہیں.میں نے انگریزی شعروں کو بھی پڑھاہے، ان میں بھی یہ بات نہیں مگر مسلمانوں کے اشعار میں ہی یہ بیماری نظر آتی ہے.جب ہمارا یہ حال ہو تو دوسروں کو کچھ کہنے کا کیا حق ہے.میں تو اس وقت فرقہ وارانہ طریق پر نہیں بول رہا ہوں.گو میرا ایمان یہی ہے کہ کوئی شخص کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک میری جماعت میں داخل نہ ہو مگر میں عام طور پر کہتا ہوں.شیعہ ہو یا سنی، وہابی ہو یا کوئی اور اس کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود دعا کی طرف توجہ کرے اور دعاؤں

Page 59

۱۶ کی عادت ڈالے بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہی عادت ڈالے.انگریز اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک وہ دعا نہ کر لیں.کم از کم اتنا ہی کرو کہ روزانہ زندگی میں دعا کرنے کی عادت پیدا کرا دو.اس سے خشیت الہٰی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالی پر ایسا ایمان پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نور کی پھوار پڑنے لگتی ہے.میں یقین دلاتا ہوں اگر اس پر عمل ہو تو بہت جلد تبدیلی ہو جائے گی.(۲) اخلاق کی مضبوطی دو سری بات جس کی طرف میں توجہ دلاتاہوںوہ اخلاق کی مضبوطی ہے.میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ میں دوسروں کے سامنے ان کو شرمندہ کرتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل درد مند ہے.میں جب اپنی قوم کو اس حال میں دیکھتا ہوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے.اس لئے میں اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کوئی کیا کہے گا.میں اپنی قوم کو توجہ دلاتا ہوں اور جن امرا ض میں وہ مبتلا ہے اس سے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.پس میری بات سنو کہ اس میں تمہارے لئے بھلائی ہے.اخلاق کی مضبوطی کے لئے جن امور کی ضرورت ہے.ان میں اول راست بازی ہے.قومی عمارت میں جس مصالح کی ضرورت ہے وہ انفرادی اصلاح ہے اور پہلی اینٹ راست بازی ہے.اس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے.اور جس قدر اعتماد مضبوط ہو گااسی قدر قوم میں اعلی ٰاخلاق اور معاملات کی عمدگی پیدا ہوگی.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کی اقتصادی فلاح کے خیال سے ان میں تحریک کی کہ وہ تجارت کی طرف توجہ کریں اور اپنی دکانیں کھولیں.یہ تحریک کام کر رہی ہے اور مختلف جگہ مسلمانوں کی دکانیں کھل رہی ہیں.لیکن میرے پاس کئی شکایات بھی آ رہی ہیں کہ آپس میں اعتماد نہیں تو دوسرے کیا کریں گے.اعتماد پیدا کرنے کے لئے راست بازی اول شرط ہے.اس لئے خود راست باز بنو اور اپنی اولادوں کو راست بناؤ.اس بات کی نگرانی کرو کہ وہ جھوٹ نہ بولیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ ہم گھروں میں جھوٹ بولتے ہیں تو أولاد میں راست بازی کیونکر پیدا ہوگی.ہم خود ان کی اس اعلی ٰقوت کو ضائع کر رہے ہیں.بچہ کے سامنے ماں نے ایک کام کیا مگر جب باپ نے پوچھا تو انکار کر دیا.اب وہ بچہ دیکھتا ہے کہ ماں نے جھوٹ بولا.وہ بھی اس قسم کی عادت سیکھ لیتا ہے.پس التزام کرو کہ ہرگز جھوٹ نہ بولو.اس پر ہرگز عمل نہ کرو کہ "دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز‘‘- یہ غلط ہے کہ سچ سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.سچ اگر مصیبت کے وقت نہ بولو گے تو اور کونسا وقت اس کے بولنے کا ہے.پس کسی مصیبت سے ڈر کر سچ کو ترک نہ کرو.

Page 60

۱۷ محنت سے عارنہ کرو اخلاق کی مضبوطی کے لئے دوسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محنت سے عار نہ کرو.ہم محنت سے جی چُراتے ہیں اور کام کرناعار.سمجھتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس کے لئے قومی حالت ذمہ دار ہے.سو سال پہلے ہم بادشاہوں کی قوم کے لوگ تھے.پس قومی طریق نے ایسا ہونے دیا.ہندو بادشاہ نہ تھے اس لئے وہ محنت سے عاری نہ تھے.وہ تنزل میں ترقی کے سامان کر رہے تھے.ہم ترقی میں تنّزل کے سامان بنا رہے تھے.ہماری مثال سمندر میں کودنے والے کے گلے میں پتھر باندھ دینے کی سی ہے.مجھے ایک تاجر نے سنایا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ گھر بیٹھے روپیہ کما سکتے ہو.اس اشتہار کے جواب میں اس کے پاس ڈیڑھ سو مسلمانوں کے خطوط پہنچے جو بغیر کام کے روپیہ مل جانے کی درخواست کرتے تھے.چار پانچ ہندوؤں کی درخواستوں میں سے ایک تو ایسی ہی تھی مگر باقیوں نے لکھا کہ آپ کو ایجنٹ مطلوب ہیں تو ہم ایجنسی لینے کو تیار ہیں.اس سے عام ذہنیت کا پتہ مل جاتا ہے کہ ہم روز بروز نکمے ہوئے جاتے ہیں.اس کو چھوڑ دو اپنے اندر اور اپنی اولاد میں کام اور محنت کی عادت ڈالو.یہ عمل کی چیز ہے لیکچروں سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ کمیٹیاں اس کے لئے کام آئیں گی.خواہ خلافت کمیٹی بناؤ یا مسلم لیگ کچھ فائدہ نہیں ہو گا جب تک ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے عملی کام شروع نہ کرے گا.(۳) استقلال مضبومی اخلاق کے لئے تیری چیز استقلال ہے.جس کام کو استقلال سے نہ کیا جاوے وہ کامیابی تک نہیں پہنچتا.حکومت کے زمانہ میں رنگ اور تھا.اب تو جب تک پورے استقلال اور صبر سے کام نہ کروگے کچھ بننے کا نہیں.قومیں دنوں اور مہینوں میں نہیں بنا کرتی ہیں، سالوں میں بھی نہیں بنتی ہیں صدیوں میں بنتی ہیں.ہندو قوم کو جو تم دیکھتے ہو وہ آج نہیں بن گئی.اس کی تاریخ کو غور سے پڑھو گے تو معلوم ہو گا کہ پلاسی کی جنگ کے بعد سے بننے لگی ہے.میں اور میرے ایک ماموں صاحب ہم طب پڑھنے لگے.پہلے ہی دن انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ کل مجھے صبح کو بہت جلد اٹھادینا کیونکہ مولوی صاحب دیر سے آیا کرتے ہیں.میں جا کر نسخہ وغیرہ مریضوں کے لئے لکھوں گا.یہ ایک بچپن کا واقعہ تھا جو میرے سامنے آیا.مگر میں نے دیکھا کہ یہ مسلمانوں میں ایک مرض ہے کہ ہم ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور یہ بے صبری اور عدم استقلال کا نتیجہ ہے.پس اپنے بچوں کے ذہن نشین کردو کہ وہ محنت کریں اور مستقل مزاج ہوں.اگر ہم صحیح راستہ پر ہوں تو کچھ حرج نہیں اگر پچاس سال میں کامیاب ہوں.

Page 61

۱۸ (۳) سادہ زندگی چوتھی بات جس کی ہم کو ضرورت ہے وہ سادہ زندگی ہے.مسلمانوں میں اسراف بہت بڑھ گیا ہے آمد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں.ہندوؤں میں ایسے لوگوں کی تعداد بمشكل تین فیصدی ہوگی مگر مسلمانوں میں یہ مرض عالمگیر ہے.جب تک ہم میں سادہ زندگی نہ ہو خصوصاً نئی پودمیں اس وقت تک قومی حالت کی تبدیلی ممکن نہیں.(۵) ادب پانچویں بات ادب کی کمی ہے.ہندو تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنے بڑوں بزرگوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے ہیں.میں تو اس طرح پر سلام کرنے کو شرک سمجھتا ہوں.لیکن میں ہندو قوم کا قومی کیریکٹر بتاتا ہوں کہ ان میں اپنے بزرگوں کے ادب کی عملی روح موجود ہے.ہم کو یہ تعلیم خصوصیت سے دی گئی تھی کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں، لیکن یہ ادب مفقود ہے.پس ہمارے نوجوان ادب سیکھیں.اس سے ان میں وقار پیدا ہو گا اور قومی کیریکٹر مضبوط.میں اس وقت ایک مثال دیئے بغیر آگے نہیں جا سکتا.ان کو آپریشن NON- COOPERATON (ترک موالات) کے زمانہ میں گاندهی جی ترک موالات کا وعظ کہتے تھے.لیکن مالوی جی کہتے تھے کہ گورنمنٹ ہاتھ بڑھائے تو ہمیں بھی بڑھانا چاہئے.دونوں لیڈروں میں اختلاف رائے تھا مگر اس کا یہ نتیجہ نہ تھا کہ ان میں مخالفت ہو یا ایک دوسرے کی تذلیل روا رکھ سکتا ہو.وہ برا بر ایک دوسرے کا ادب اور اکرام کرتے تھے.دوسری طرف محمد علی صاحب اور جناح صاحب تھے.جناح صاحب اس وقت سے مسلمانوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کہ محمد علی صاحب ابھی میدان میں نہ آئے تھے.لیکن ایک موقع پر اختلاف رائے کا نظارہ یہاں تک دیکھا گیا کہ جناح صاحب کو کھڑکی میں سے نکلنا پڑا.دوسری طرف گاندھی جی نے مالویہ جی کو اپنی گدی پر جگہ دی.جب رَو بدلی تومالویہ جی نے کہہ دیا کہ میں اپنی قوم کا نمائندہ ہوں مگر جناح کی یہ طاقت نہ ہوئی.میرا مطلب اس کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ کام کی قدر کرنی چاہئے.اختلاف رائے کی صورت میں بھی ادب کے طریق کو ترک نہیں کرنا چاہئے.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ جناح صاحب میرے لیڈر نہیں.میں اپنی قوم کا آپ لیڈر ہوں.میرا ان سے بعض معاملات میں اختلاف بھی ہے لیکن میں ان کی خدمات کے باعث انکو قابل عزت اور قابل ادب سمجھتا ہوں.جب تک مسلمانوں میں یہ احساس نہ ہو کہ خدمت کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کریں اور ان کا ادب

Page 62

۱۹ کریں اس وقت تک ان میں قومی وقار پیدا نہ ہو گا.میں اپنی نسبت نہیں کہتا.میں تو گالیاں سننے کا مشّاق اور عادی ہوں.کافر مرتد جو چاہتے ہیں کہتے ہیں لیکن میں یہ اُصول بتائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جولوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں ان کا ادب کرو اور اپنے بچوں میں اپنے عمل سے یہ سپرٹ پیدا کر دو کہ تم اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی خادمانِ قوم کا احترام کرتے ہو.(۶) انسانی ہمدردی چھٹی چیز جس کی ضرورت ہے وہ انسانی ہمدردی ہے.مسلمانوں میں اس کا مادہ بھی کم ہے.انسانی ہمدردی کے بغیر قربانی کامادہ نہیں پیدا ہو تا.دیکھو یورپ کے عیسائی ہزاروں میل چل کر یہاں آتے ہیں اور کوڑھیوں کی خدمت کرتے ہیں.ہندوؤں میں بھی سیوا سمتی ہے.مگر مسلمانوں میں ایسی سوسائٹیاں نہیں.پس عام انسانی ہمدردی سے کام کرو.جب اس کی عادت ہو جائے گی تو عند الضرورت قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی کر سکو گے.(۷) مقابلہ کی خواہش ساتویں چیز جس کی کمی ہے اور اخلاق کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے وہ مقابلہ کی خواہش ہے.مسلمانوں میں اب یہ قوت نہیں رہی حالانکہ قرآن کریم نے مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دلائی تھی.اور یہ حکم دیا تھا فاستبقوا الخيرت ۴؎ آپس میں مقابلہ کر کے نیکیوں میں آگے بڑھا کرو.قرآن مجید تو آپس میں مقابلہ کی تعلیم دیتا ہے تو غیر قوموں کے ساتھ مقابلہ میں سست ہو جانا تو اور بھی گناہ ہؤا.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم مقابلہ میں سست ہوں اور یہ مقابلہ آگے بڑھنے میں ہے.جائز اور پُرامن طریقوں سے باپ اور بھائی سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرو کہ اس قوت کو عملی رنگ دینے سے انسان کبھی سست نہیں ہوتا اور ہر وقت ترقی کے خیال سے مصروف عمل رہتا ہے.پس قومی خدمت کے لئے اپنے عزیزوں اور بزرگوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اور قومی وقار اور اعزاز کو ہمسایہ قوموں سے آگے بڑھانے کے لئے علمی، اقتصادی و اخلاقی امور میں ان سے آگے بڑھ جاؤ.اور ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ تم کو فاستبقوا الخيرت پر عمل کرتا ہے.ایک واقعہ حضرت مولانا اسماعیل شہید کی زندگی کا ایک سبق آموز ہے کہ ان میں مقابلہ کی خواہش کو عملی طور پر ترقی دینے کے لئے کس قدر جوش تھا.ان کا سکھوں سے مقابلہ تھا.کسی نے ان کو کہہ دیا کہ ایک سکھ بڑا تیراک ہے.آپ نے فوراً دریا میں اتر کر تیرنا شروع کر دیا.اور اس میں کافی دسترس حاصل کر لی.یہ روح تھی جو ہمارے اسلاف میں موجود تھی.اب یہ قوت ہم میں سے جاتی رہی.دوسرے

Page 63

۲۰ ہیں کہ وہ ہر مقابلہ میں بڑھنا چاہتے ہیں اور ہم صرف باتوں سے آگے نہیں بڑھتے.میں کہتا ہوں کہ تم اپنی اولاد کے اندر یہ آگ لگا دو کہ وہ کسی کو آگے نہ بڑھنے دیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں سب سے آگے نکل جاویں.علم میں، اخلاق میں، اقتصادی حالت میں، سیاست میں ، مذ ہب میں، غرض کیا چیز میں کسی سے پیچھے نہ رہیں.مگر یاد رکھو کہ یہ مقابلہ امن اور اخلاق کا مقابلہ ہے.دوسروں سے آگے بڑھنے میں کبھی تمہاری اخلاقی کمزوری ظاہر نہ ہو بلکہ اخلاقی فتح کے ساتھ امن کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھو.(8) صحت کی درستی صحت کی درستی نہایت ہی اہم فرائض میں سے ہے.اپنی صحت کے ساتھ اپنی اولاد کی صحت کی طرف خاص طور پرتوجہ کرو.اس کے لئے بہت بڑی ضرورت ہے کہ غذا صحیح وقت پر دی جائے.نہ تو اتنی کم دی جائے کہ پیٹ نہ بھرے اور نہ اس قدر کہ سُوءِہضمی ہو.میں اس وقت ان امور پر کوئی تفصیلی تقریر نہیں کر سکتا بلکہ میں صرف اصول بتا رہا ہوں.غذا کے بعد دوسرا امر ورزش ہے.اس کا لحاظ رکھا جاوے تاکہ ان کا نشوونما صحیح طور پر ہو.اور پھر سب سے زیادہ خیالات اور افکار کی درستی ہے.مسلمان بچوں کے اخلاقی جلد بگڑ جاتے ہیں.اس پر غذا کا بھی اثر ہوتا ہے.بچپن سے بوٹیاں کھانا شروع کر دیتے ہیں.اس سے شہوات ترقی کرتی ہیں ذہن ترقی نہیں کرتا.اس کے لئے ضرورت ہے کہ ان کی غذا میں اس امر کالحاظ رکھا جاوے کہ ان کو دودھ اور دودھ بھی گائے کا زیادہ دیا جاوے.اور نباتات کا جزو غالب ہو اس سے وسعت خیالات اور باریک بینی پیدا ہوتی ہے.گوشت بھی ضروری ہے مگر کم مقدار میں، زیادہ مقدار دودھ اور نباتات کی ہو.اس سے افکار کی درستی ہوگی.(۹) صفائی نویں ضرورت عام صفائی کی ہے.ظاہری صفائی کا اثر باطن پر پڑتا ہے.لوگوں نے یہ غلط سمجھا ہے کہ جس قدر گندے رہیں وہ نیکی ہے.یہ غلط ہے اسلام و صفائی کی تاکید کرتا ہے.نیکی اور تقویٰ کو صفائی کے ساتھ بیان کرتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ اب یا تو لوگوں نے صفائی کے مفہوم کو بالکل بدل دیا ہے اور سادگی سے گذرکر تکلّف اور نمائش کو یہ جگہ دے دی ہے.اور یا بعض نے بالکل گندے رہنے کا نام نیکی اور بزرگی رکھ دیا ہے.اسلام افراط اور تفریط دونوں سے روکتا ہے.پرنس آف ویلز جب ہندوستان آئے تو لاہور کے مقام پر میں بھی مدعو تھا.گو میری عادت

Page 64

۲۱ ایسے جلسوں میں جانے کی نہیں لیکن میں نے دعوت کو رد ّکرنا پسند نہیں کیا.ایک شخص نے میرے کوٹ پر اعتراض کر دیا کہ ایسے اچھے کپڑے کا کوٹ ایک مذہبی جماعت کا امام ہو کر کیوں پہن رکھا ہے حالانکہ اس سے اسلام نے منع نہ کیا تھا.غرض صفائی کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس سے باطن پر اثر پڑتا ہے اور کام کرنے کے لئے اُمنگ پیدا ہوتی ہے.اپنی اولاد کو صفائی پسند بناؤ مگر ان میں زیب و زینت کی زنانہ روح پیدا نہ ہونے دو.(۱۰) پابندی وقت دسویں چیز وقت کی پابندی ہے.بچوں کے ہر کام کا ایک نقشہ اور وقت درج ہو تاکہ وہ مشین کی طرح کام کرنے لگیں.اور اپنے اندر بھی یہی بات پیدا کرو.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اولاد کی تربیت ناراضگی سے نہیں بلکہ نگرانی سے ہوتی ہے.(۱۱) کوئی بیکارنہ رہے گیارہویں چیز جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی بیکار اور نکمّا نہ ہو.قوم کا ایک فرد بھی اگر نکمّا ہو.تو یہ مصیبت ہے.اور جہاں قریباً سب ہی بیکار ہوں اس مصیبت کا اندازہ کون کرے؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اگری (ایک قسم کی گھاس )کی جھولی لئے جا رہا ہے.آپ نے اسے چھین لیا اور کہا جاؤ جا کر کام کرو.مگر آج جو حالت ہے وہ تم سے پوشیده نہیں.قوموں میں تمدنی اور اقتصادی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے.اگر نکمّے ہوں تو وہ اس مقابلہ میں کیا کریں گے.اس ملک میں ہندو، سکھ اور اچھوت ۲۴ کروڑ ہیں.مسلمان ۷ کروڑ.اگر نکمّے ہوں تو اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے.یہ چیزیں ہیں جو اخلاق کی مضبوطی کے لئے ضروری ہیں.جب تک کسی شخص اور قوم میں یہ نہ پائی جاویں اخلاقی مضبوطی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی.اب پھر میں انفرادی ذمہ داریوں کے سلسلہ کی طرف آتا ہوں.چوتھی انفرادی ذمہ داری چوتھی انفرادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر کام کے لئے آدمی ہو.یہی نہیں کہ ہر شخص کام کرے بلکہ ہر کام کے اہل موجود ہوں.نیوی گیشن کے لئے ملّاح بھی ہوں کمانڈر بھی ہوں ڈاکٹر بھی ہوں انجینئر بھی ہوں.کوئی شعبہ انسانی زندگی اور اس کی ضروریات کا نہ ہو جس کے لئے قابل اور ماہر آدمی ہمارے پاس

Page 65

۲۲ نہ ہوں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ ہر مسلمان اس ضرورت کا احساس کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی ایک کو لے کر ماہر بنے.پانچویں ذمہ داری پانچویں ذمہ داری جس کی طرف کم توجہ ہے وہ یہ ہے کہ خوف اور رجا کی حالت افراد میں پیدا کی جاوے.ایمان کے لئے کہاگیا ہے کہ وہ بين الخوف والر جاءوہے.جبکہ ایمان کے لئے ضروری ہے تو قومیت بغیر اس کے کس طرح ہو سکتی ہے.میں اس کی کسی قدر تشریح کرتا ہوں.خو ف کے معنے ہیں ڈر اور رجاکے معنے امید.وہ شخص جو کہتا ہے کہ ڈرنا نہیں چاہتے ، وہ قوم کا دشمن ہے.میں جب یہ کہتا ہوں تو میں قوم کے ایک فرد کو بھی بُزدل نہیں بتانا چاہتا.اور نہ میرا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی تھپڑ مارے تو یہ ڈر کر بھاگ جاوے ہرگز نہیں.یہ شجاعت، ہمت اور حفاظت خود اختیاری کے خلاف ہے.میں جب کہتا ہوں کہ قوم کے افراد میں ڈر ضروری ہے تو اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتے رہیں کہ اگر ہم نے سستی کی اور ذرا بھی غفلت کی اور مقابلہ میں آگے بڑھنے کے جوش اور شوق کو چھوڑ دیا تو بہ حیثیت قوم ہم ہلاک ہو جائیں گے.جو عادات بد اور زہر ہیں وہ ہم میں پیدا نہ ہو جاویں، اس سے ڈرنا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم چوکس اور محتاط رہیں گے.کل کی مجلس میں ایک شخص نے کہا کہ پنجابی کیسے بُزدل ہیں؟ یہ درست نہیں.پنجابی اگر ان خطرات سے ڈرتے ہیں جو قوي اغلاق اور ذمہ داریوں سے بے پروائی برتنے سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ عقل مند ہیں.اعتراض کرنے والے صاحب کو معلوم نہیں کہ حذر کی تعلیم تو خدا نے بھی دی ہے.پس یہ ڈر نہیں کہ ہتھیار ڈال دو ، یہ تو بزدلی ہے.یہ ڈر چوکس رہنے کا مترادف ہے کہ دوسرے ہم سے آگے نہ بڑھ جائیں اور ہماری غفلت میں ہم پر حملہ نہ کردیں.اسی طرح جو لوگ کہتے ہیں کہ اُمید خالی کیا کرے گی وہ بھی غلطی پر ہیں.اُمید تو اعلی ٰ درجہ کی چیز ہے.قرآن مجید نے صاف بتادیا ہے.انه لا يائس من روح الله إلا القوم الكفرون – ۵؎ امید سے امنگ پیدا ہوئی اور حوصلہ بلند ہوتا ہے.اسلام کے ہوتے ہوئے نڈری اور ناامیدی دونوں ناممکن ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس وقت قوم کی حالت یہ ہے کہ ایک خالی ڈرتا ہے اور دوسرا صرف امید رکھتا ہے.گویا آدھوں کی آنکھ نہیں اور دوسرے آدھوں کا ناک نہیں.وہ مجلس میں نہیں کہہ سکتے اور دوسرے کام نہیں کر سکتے.پس قوم کے افراد کے اندر اور مجموعی طور پر قوم میں خوف اور رجا پیدا کرو.

Page 66

۲۳ چھٹی ذمہ داری چھٹی انفرادی ذمہ داری نفس پر قابو ہے.اس وقت افراد کی یہ حالت ہے کہ صبر اور حوصلہ سے ایک بات سن نہیں سکتے اور ضبط اور برداشت کی قوت مفقور ہو رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ گندی گالیوں پر اتر آتے ہیں اور اپنے اخلاق سے نیچے گر جاتے ہیں.اور وہ جوش جو غیرت کے نتیجہ میں پیدا ہونا چاہئے اس کا غلط استعمال کر کے اس کو ضائع کردیتے ہیں.پس چاہئے تو یہ کہ گالیاں دینے کی بجائے کام کر کے دکھاویں اور گالیوں سے پرہیز کریں.گالی ایک ایسی چیز ہے جیسے انجن سے سٹیم نکال دیں.جوش اور غیرت کا صحیح استعمال جاتا رہتا ہے اور قومی اخلاق مرجاتے ہیں.یہ چند انفرادی ذمہ داریاں ہیں اگر مسلمان ان کو سمجھ لیں اور اپنی عملی زندگی کا ضابطہ اور دستور العمل ان کو بنالیں تو ایسے افراد پر مشتمل جو قوم یا جماعت بنے گی اس کی مضبوطی، قوت اور ترقی میں کسے شبہ ہو سکتا ہے؟ اب میں قومی فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.پہلی قومی ذمہ داری، رواداری پہلی قومی ذمہ داری ،رواداری ہے.اختلاف رائے کو سن کر جوش میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اختلاف رائے کو سن لینے کی قوت پیدا کریں.اس سے عقل تیز ہوتی ہے اور سوچنے اور سمجھنے کامادہ بڑھتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ اختلاف نہ ہو جب کہ مختلف خیال مختلف مذاق اور مختلف استعدادوں کے لوگ موجود ہیں تو اختلاف رائے کا ہونا ضروری ہے.ایسی حالت میں ہم رواداری نہیں برت سکتے تو اس کے استعمال کا محل ہی کونسا ہے؟ رواداری اختلاف رائے ہی کے وقت ظاہر ہوتی ہے.اب اگر میں سلسلہ کی بات کرنے لگوں تو جھٹ بعض آدمی کہنے لگیں گے کہ دیکھو! یہ اب اپنے سلسلہ کے متعلق بیان کرنے لگا ہے.یہ عدم رواداری کی مثال ہو گی.میں کہتا ہوں کہ اس سے ڈرتے کیوں ہو؟ پس کبھی اختلاف رائے سے نہ تو گھبراؤ اور نہ بے جا جوش میں آکر عدم رواداری کا ثبوت دو.ہم کبھی اختلاف رائے سے گھبراتے نہیں.میں تو قادیان میں اپنی مسجد میں آریوں کو بُلا کر بھی اجازت دے دیتا ہوں کہ جو تم کہنا چاہتے ہو کہو اور اعتراض کرو ہم اس سے کبھی ڈرتے نہیں اور نہ جوش میں آتے ہیں اس لئے کہ ہمارے پاس ان کے اعتراضوں کے جوابات ہیں.

Page 67

۲۴ حریت ضمیر میں سچ کہتا ہوں کہ اگر مسلمان ترقی کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کرنی چاہئے تو حریت ضمیر کو کُچلنا نہیں چاہئے.اگر ایسے مجمعوں میں جہاں مختلف خیال کے لوگ ہوں ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف تقریر کر رہا ہے، امن کو قائم رکھنے کے لئے وہ فریق جس کے خلاف دوسرا بول رہا ہے کھڑا ہو جائے اور اپنے ہم خیال لوگوں کو اپنے نفس پر قابو پانے اور رواداری دکھانے کی تعلیم دے اور امن کو قائم رکھے تو اعتراض کرنے والے فریق کو خود شرم آئے گی کہ وہ دوسروں کے جذبات کو مجروح نہ کرے.اسی طرح اگر ہندووں کے خلاف کوئی مسلمان تقریر کر رہا ہے تو ہندو امن کو قائم رکھے اور مسلمانوں کے خلاف کوئی ہندو بول رہا ہے تو مسلمان اپنی رواداری کا ثبوت دیں.رواداری کا نہ ہونا بُزدلی پر دلالت کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے.معتدل پسندی سے جواب دو.بے جا جوش اور غصہ کا کوئی نتیجہ نہیں.مگر اب حالت بالکل بدل گئی ہے.لوگ اختلاف رائے کا سننا تو درکنار اس سے ملنا بھی برداشت نہیں کر سکتے.لاہور کے گزشتہ فساد کے ایام میں میں نے اپنے آدمیوں کو بھیجا کہ وہ قیام امن میں حصہ لیں اور مظلوم اور زخمیوں کی امداد کریں.عام طور پر ان مسلمانوں نے بھی جو ہماری جماعت میں نہیں اس کام کو پسند کیا.لیکن ایک شخص سے وہ مزنگ ملنے کے لئے گئے اسے اس قدر وحشت ہوئی کہ وہ چاہتا تھا کہ میرے آدمی جلد اس کے پاس سے چلے جاویں.وہ ہمارے کام کو پسند کرتا تھا مگر اختلاف رائے کو برداشت نہ کر سکتا تھا.مگر میری حالت بالکل جُدا ہے.اسی لاہور کا واقعہ ہے کہ ایک ہندو ڈاکٹر میرے پاس آئے اور کہا کہ گاندھی جی نے کہاہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ قادیان جا کر مجھے ان کو آپریشن (NON - COOPRATION) کا وعظ کریں.میں نے کہا بہت خوب ہے وہ شوق سے آئیں اور مجھے سمجھائیں.قومی اتحاد کے لئے پہلی چیز رواداری ہے.مسلمانوں میں مختلف فرقے اور عقیدے کے لوگ ہیں جب تک وہ آپس میں رواداری کا برتاؤ نہ کریں تو اتحاد نا ممکن ہے.اب اگر ایک احمدی سمجھتا ہے کہ جو نہی میں نے مرزا صاحب کا نام لیا تو گالیوں کی بوچھاڑ اور پتھر پڑیں گے.وہابی سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے عقیدہ کا اظہار کیا اور مسجدسے باہر نکالا گیا.اسی طرح شیعہ سنی ایک دوسرے سے خائف اور ترسا ں رہیں تو رواداری کیونکر پیدا ہوگی؟ پس قومی ترقی کے لئے رواداری کا مادہ پیدا کرو اور خلاف سننے سے مت گھبرا ؤ کوئی ماننے پر مجبور نہیں کرتا.

Page 68

۲۵ دوسرا قومی فرض اتحاد دوسرا قوی قرض اتحاد ہے.قومی ترقی چاہتے ہو تو مشترک أمور میں ایک ہو جاؤ.مثلاً ملازمت کا سوال ہے کہ مسلمانوں کو حکومت کے مختلف محکموں میں ملازمتوں کے لئے ان کا جائز حق دیا جائے.اس مطالبہ میں احمدیت اور غیر احمدیت کا کیا سوال ہے؟ غور کرو مسیح کی وفات یا زندگی کو ملازمتوں کے مسئلہ سے کیا تعلق؟ اگر میں احمدی ہو کر گورنمنٹ سے اپنا حق مانگتا ہوں تو کیا اس سے عیسیٰ کی وفات ثابت ہو جائے گی؟ یا غیراحمدی اپنا حق مانگتا ہے تو اس سے حیات ثابت ہو سکے گی؟ - یہ دنیا کا معاملہ ہے اس میں سب شریک ہیں اور سب کا یکساں فائدہ ہے.پس ہم کو ایسے معالات میں بِلا خیال فرقہ کے ایک ہو جانا چاہئے تاکہ ہمارے مطالبہ میں قوت اور اثر پیدا ہو.سنّی کو سب سے زیادہ، پھر شیعہ کو، پھر ہم کو، پھر اہل حدیث کو ، پس جب تک باوجود اختلاف کے مل کر نہ رہیں گے کچھ فائدہ نہ ہو گا.اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ اختلاف متا نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رحمة العالمين وجود کے آنے پر بھی اختلاف رہا اس لئے کہ وہ طبعی چیز ہے.صحابہ میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنما جیسے عظیم الشان صحابہ میں بھی اختلاف ہوتا مگر وہ فور اً صاف دل ہو گئے اس لئے اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہتے.یہ اختلاف علماء صلحاء اور اولیاء میں ہوتے رہے اس کی پروا نہ کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اختلاف امتى رحمة ۶؎ فرما دیا تو اس سے ڈرنا اور گھبرانا کیوں؟ اختلاف کو رحمت بناؤ نہ کہ لعنت.اب میں بتاتا ہوں کہ یہ اختلاف رحمت کیوں ہے؟ دیکھو اگر سائنس دانوں میں اختلاف نہ ہوتا تو یہ ایجادات جو آئے دن ہو رہی ہیں اور جن سے ملک اور قوم کو نفع پہنچتا ہے کیونکر ہوتیں.اسی اصول پر اگر امت میں رہ کر اختلاف کریں تو رحمت کا موجب ہو گا، اس نکتے کو سمجھ لو.اگر تم باوجود اختلاف کے اتحاد کرو گے تو کیوں رحمت نہ ہو گا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ایک دوسرے کو کافر کہنے کا سوال ہے تو اتحاد کیسے ہو؟ میں کہتا ہوں یہ اعتراض غلط ہے.ایک شیعہ اگر منار پر چڑھ کر دس ہزار مرتبہ کافر کہے یا کوئی اور دوسرے کو کافر کہے تو اس سے اتحاد پر اثر نہیں پڑنا چاہئے.جب میں ایک ہندوسے مل کر گورنمنٹ سے متحدہ قومیت کے نام سے حقوق کا مطالبہ کر سکتا ہوں تو کس قدر شرم کی بات ہوگی کہ ہم مختلف فرقوں کے مسلمان اتحاد اسلامی کے رنگ میں اسلای حقوق کا مطالبہ نہ کر سکیں؟ کافر کو لوگ شاید گالی کہتے ہیں حالانکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ابھی بعض کوتاہیاں اس میں

Page 69

۲۶ ہیں.ہندوؤں کو بھی اس لفظ سے دھوکا لگا ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنے نئے مطالبات میں کافرنہ کہنے کا مطالبہ بھی درج کردیا ہے.میں نے مسلمانوں کو بار ہا اتحاد اسلامی کی تحریک کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اس قسم کے جھگڑوں میں اغراض مشترکہ میں اتحاد کے وقت نہ پڑیں.ہر شخص جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے ہم اس سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی اتحاد کر لیں.میں نے مسلمانوں کی جو سیاسی تعریف کی ہے اسے تمام دوسرے لوگوں نے بھی صحیح سمجھا ہے.پھر مسلمانوں پر تعجب ہو گا اگر وہ اس حقیقت پر غور نہ کریں.میری بات کو اچھی طرح سمجھ لو میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو فرقہ اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے اور قرآن مجید کی تربیت کو منسوخ قرار نہیں دیتا اس سے اتحاد کرلو.قومی برکات اور انعام قومی اتحاد کی روح سے وابستہ ہیں.تیسرا فرض نظام اب تیرا فرض یا توی ذمہ داری نظام ہے.نظام کے متعلق ضروری ہے کہ ایک بات خصوصیت سے یاد رکھیں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت تک نظام کے لئے سب کوششیں بیکار ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چند آدمیوں نے (جو اپنے تموّل یا اپنی علمی وجاہت یا کسی اور ذریعہ سے سمجھتے تھے کہ وہ ممتاز ہیں) ملکر ایک کمیٹی بنالی.وہ خلافت کمیٹی ہو یا لیگ یا کوئی اَور.اسی ترکیب کا نام انہوں نے نظام قرار دے لیا مگر عملی تجربہ اور واقعات نے بتا دیا کہ یہ اصل نظام نہ تھا اور یہی سچ تھا کیونکہ نظام کا یہ مطلب نہیں.اس کے تو معنے ہیں یہ ہیں کہ ہر مسلم اس سِلک میں ہو اور یہ ناممکن ہے جب تک کوئی نظام نمائندگی کے اصول پر نہ ہو کوئی نظام نمائندگی کے بغیر نہیں ہو سکتا.جب تک سات کروڑ مسلمانوں کے نمائندے نہ ہوں کوئی تحریک نظام کامیاب نہیں ہو سکتی.اب تک لوگوں نے جو مختلف کمیٹیاں بنا کر نظام قائم کرنا چاہا کہ اوپر سے نیچے لانے کا طریق ہے اور یہ کامیاب نہیں ہو سکتا.اصل طریق نیچے سے اوپر لے جانے کا ہے اور وہ نمائندگی کے اصول پر ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص نے سوال کیا.آپ نے فرمایا جاؤ اپنے قبیلہ کا ایک سردار منتخب کر کے لاؤ.آپ نے اس میں تعلیم دی تھی کہ اصول نمائندگی پر عمل ہونا چاہئے.جب تک اس روح کو پیدا نہ کرو گے کامیابی ممکن نہیں.اس وقت تک جیسا کہ میں نے ابھی کما چند عام دولت مند سیاسی لوگ مل کر ایک انجمن بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نظام ہے.ہم ان کو لیڈر تو کہہ سکتے ہیں نمائندے نہیں.لیڈر کے معنی ہیں آگے چلنے والے یا پیچھے چلانے

Page 70

۲۷ والے.ہمارے سارے نظام کا نقص یہ ہے کہ نمائندگی کے ذریعہ کام نہیں کیا گیا اور یہی وجہ اس کی ناکامی کی ہے.مثلاً فرض کرو مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی عالم تھے، ان کا بڑا رتبہ سمجھا جاتا تھا مگر کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ وہ ہندوستان کے نمائندے تھے.یہ ایک دینی لیڈر کہلا سکتے ہیں لیکن ملک ان کی ہر بات کو نہیں مان سکتا تھا.پس نمائندگی کے طریق کو اختیار کیا جائے ااس اصول پر جو نظام ہو گا وہ مضبوط اور صحیح ہو گا.ہم کو لیڈروں کی ضرورت نہیں بلکہ پیروؤں کی ضرورت ہے.لیڈر سینکڑوں ہیں اور سینکڑوں مل سکتے ہیں مگر پیرو نہیں اور یہ نہیں ہو سکتے جب تک ہمارے نمائندے مجلس میں نہ بولتے ہوں.پس میرے نزدیک موجورو طریق کو اسلامی حریت قبول نہیں کر سکتی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ تُو کسی بندے کا غلام نہیں.نظام کیونکر قائم ہو؟ سوال ہوتا ہے کہ اگر موجودہ طریق نظام درست نہیں تو پھر کس طرح ہم اپنے قومی نظام کو قائم کر سکتے ہیں؟ یہ سوال نہایت اہم اور ضروری ہے.میرے نزدیک ہر قصبہ ، شہر اور گاؤں میں اسی مشترکہ سوسائٹیاں بنائی جاویں جن میں اصول نمائندگی کی تربیت ہو.اگر اس قسم کی سوسائٹیاں اور کمیٹیاں بن جاویں پر کسی کو طاقت نہ ہوگی کہ کسی کو ذبح کر سکے یا کسی کے حقوق کو پامال کر سکے.اس لئے کہ وہ سات کروڑ عوام کی آواز ہوگی کسی لیڈر یا فرد واحد کی آواز نہ ہوگی.نبیوں کی آواز نبیوں کا معاملہ اس سے بالکل جُدا ہے.اسے خدا تعالی بھیجتا ہے اسکی تائیدات اس کے ساتھ ہوتی ہیں.وہ خدا تعالی پر زنده ایمان پیدا کرنے کے لئے آتا ہے اس کی آواز اپنی نہیں بلکہ خدا کی آواز ہوتی ہے.ملائکہ کی ایک جماعت اس کی تائید کے لئے ہوتی ہے.اس کی کامیابی کے اسباب اور ہوتے ہیں.لیکن قومی ترقی کے لئے جو أصول اور قانون دیتے ہیں وہ اس رنگ میں ہوتے ہیں جو نمائندگی کے اصول پر ہوں.گاندھی جی کو کس قدر عزت ملی.لوگوں نے ان کے جلوس نکالے اور روپیہ بھی دیا.مگر کیا آخر کار وہ کامیاب ہو گئے ؟ ہرگز نہیں.گاندھی جی نے اپنے آپ کو کھڑا کیا تھا کہ 6 ماہ میں سوراج لے لوں گا.لوگوں نے کھڑا نہ کیا تھا اور نتیجہ جو ہوا وہ ظاہر ہے.پس لیڈروں اور ان کی مجلسوں کی ملک کو اس قدر ضرورت میں جس قدر ملک میں عملی پیروان کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ایک مشترکہ انجمن کے وجود سے پوری ہوگی.

Page 71

۲۸ جمعية الاخوان کی تاسیس اس انجمن کا ممبر ہر بالغ مسلمان ہو.اس مشترکہ انجمن کا کو کی مقررہ پروگرام نہ ہو وہ اس لئے کھڑی نہ ہو کہ خلافت یا مسلم لیگ کا کام کرتا ہے بلکہ اس کا نصب العین صرف اور صرف یہ ہو کہ اپنے شہر یا قصبہ یا گاؤں کے مسلمانوں کی ہر بہتری کا کام کرنا ہے.اگر ایسی انجمنیں قائم ہو جائیں اور وہ اخلاص اور نیک دلی کے ساتھ مل کر کام کریں تو لیڈر خود ان کے پاس پہنچیں گے.اور مقامی کاموں کے لئے لیڈروں کی چنداں ضرورت نہ ہوگی.عام مشترکہ امور کے سرانجام دینے میں لیڈر کچھ کر نہ سکیں گے.پس میری یہ تجویز ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں اس قسم کی کمیٹیاں قائم کی جاویں.شملہ والوں سے خطاب میں سمجھتا ہوں کہ شملہ والے یہاں زیادہ ہیں سب سے پہلے وہ ایک کمیٹی بنادیں اور اس کا پہلا اصل یہ ہو کہ کسی میر کے مذہبی عقائد میں درست اندازی نہ کریں.مذہب کا ایک شوشہ بھی کوئی قربان نہیں کرست اور اگر وہ باہمی اختلافی امور میں جھگڑا شروع کر دیں گے تو اصل کام جو امور مشترکہ میں مسلمانوں کے فوائد عامہ کا ہے رہ جائے گا.اس لئے ضروری ہو گا کہ مذہبی امور میں قطعاً مداخلت نہ ہو اور مسلمانوں کی علمی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کے متعلق متحدہ کوشش کریں اگر ایسی کمیٹی یہاں بن جاوے اور کام شروع ہو جاوے تو دوسرے لوگ بھی دوسرے مقامات پر ایسا ہی کریں گے.میں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ کمیٹی کسی لیڈر اور کسی کمیٹی کے ماتحت نہ ہوگی.جب یہ پروگرام جاری ہو جاوے اور ملک میں اس قسم کی کمیٹیوں کا عملی کام شروع ہو جائے تو پھرلیڈر بھی لیڈری کاکام کریں گے کیونکہ وہ نمائندے ہوں گے.انکی رائے کو ٹھکرا دینا سات کروڑ کی رائے کو ٹھکرانا ہو گا اور یہ حکومت بھی نہیں کر سکے گی.جمعية الاخوان کے عام مقاصد پس تمام کم کے خیالات کے مسلمانوں کو شریک کر کے کمیٹی کی بنیاد رکھ دیں اور جو مشترک امور ہیں ان کی اصلاح کے لئے تیار ہو جائیں.اس مجلس کے ممبروں پر چندہ لازمی نہ ہو جو کوئی اپنی خوشی سے جس قدر چاہے دے اور اس کا کام یہ ہو:.(1) کوئی مسلمان آوارہ نہ رہے.ایسے لوگوں کے لئے کوئی نہ کوئی کام تجویز کیا جاوے.(۲) لوگ اپنے اپنے حقوق ادا کریں.اس سے معاملات میں صلاحیت اور درستی پیدا ہوگی.(۳) اپنی اپنی جگہ ایک پنچایت قائم کریں اور تمام تنازعات باہمی کو اسی پنچایت میں عدل و انصاف

Page 72

۲۹ اور پوری دیانت اور بِلا طرفداری کے طے کریں.عدالتوں میں نہ لے جاویں.میں نے اپنی جماعت میں یہی انتظام کیا ہوا ہے.ہماری جماعت کا روپیہ محفوظ رہتا ہے اور ہزاروں فیصلے ہوتے ہیں.ایک قاضی کے فیصلہ کا دو یا تین قاضیوں کے مشترکہ اجلاس میں اپیل ہو جاتا ہے.اور میرے پاس بھی اپیل آتے ہیں.اس نظام نے میری جماعت کو بہت فائدہ پہنچایا ہے.ہم عدالتوں میں صرف اس وقت جاتے ہیں جب کوئی فوجداری معاملہ ہو یا کوئی ہم کو عدالت میں لے جائے.غرض اس پنچایت سسٹم کو جاری کرو اور مسلمانوں کے باہمی تفرقے اور تنازعات جو معاملات کے متعلق ہوں دور کر دو.(۴) مسلمان آپس میں لڑیں نہیں.اگر دو لڑتے ہوں تو فوراً صلح کرادو.اگر اس صلح میں دیر کی گئی تو اس سے کینہ اور انتقام کی سپرٹ پیدا ہو جاتی ہے.(۵) مقامی ضروریات کی نگرانی، عام اسلامی تحریکات پر غور کر کے بے مفید سمجھو اس میں شریک ہو جاؤ.اس ذریعہ سے آزادی رائے پیدا ہوگی.(۶) دوسرے مذاہب کے مسائل کے متعلق سمجھوتہ کر لیں اور اختلافات کو آپس میں لے کر غرض اس قسم کی انجمن کا قائم کرنا نہایت مفید ہو گا اور ایک نمائندہ جماعت پیدا ہو سکے گی.ایسی انجمنوں کی ضرورت اسلامی نقطۂ خیال سے ایک اور بھی ہے.موجودہ حالات کے لحاظ سے مثلاً ورتمان کے لئے ایجی ٹیشن کرنا پڑا.گورنمنٹ نے مجھ سے چاہا کہ میں ایجی ٹیشن نہ کروں.لیکن میں نے گورنمنٹ کو صاف طور پر کہہ دیا کہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنمنٹ کی خاطر قوم کو قربان کر دوں.اس وقت قوم کی حفاظت کا سوال ہے.اگر ہر جگہ انجمنیں ہوتیں تو مجھے ایجی ٹیشن کی ضرورت نہ ہوتی.اسی انجمنوں کے ذریعہ سے قومی کام بآسانی ہو سکتے ہیں.انجمنوں کا نام ایک ہی ہو میرے خیال میں ایسی تمام انجمنوں کا ایک ہی نام ہونا چاہئے.اس وقت ملک میں کیا ایک ایک شہر میں متعدد ناموں کی انجمنیں قائم ہیں کوئی مفيد الاسلام کوئی معین الاسلام وغیرہ.لیکن اگر تمام انجمنوں کا ایک ہی نام ہو اور ایک ہی ان کا کام ہو تو یہ امر بھی اتحاد کے لئے مفید ہوگا.ہر انجمن اپنے دائرہ عمل میں آزاد ہو یہاں تک کہ کسی سنٹرل کمیٹی کا بھی اثر نہ ہو جب تک سب مل کر اس کا فیصلہ نہ کر لیں.ایک ہی نام کا ہونا سائیکالوجیکلی (PSYCHOLOGICALY) (علم النفس کے طور

Page 73

۳۰ پر) بھی ضروری ہے.مجھے ایک نام سوجھا ہے اور وہ جمعية الاخوان ہے.ہر جگہ کی انجمن اسی نام کی ہو اور وہ آزاد ہو لیکن بایں وہ سب کی سب مل کر ترقی کر رہی ہوں گی.میں اس انجمن کے متعلق عام قواعد بھی تیار کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچے.چوتھا فرض قومی آزادی چوتھا فرض قومی آزادی ہے.اگر کوئی قوم دوسروں کی دست نگر ہو تو وہ اپنے قومی حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی.اور جب قومی حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر ہمسایوں سے لڑنے لگتے ہیں.اس ملک میں انگریزی تعلیم کا جب اجراء ہوا تو علماء نے انگریزی پڑھنے کے متعلق کفر کا فتوی دے دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان تعلیم میں پیچھے رہ گئے اور ہندوؤں نے انگریزی پڑھ کر حکومت میں رسوخ بڑھا لیا.اور اب ہم اس کے لئے جھگڑتے ہیں.لیکن اگر قومی آزادی ہو تو دوسروں سے لڑنے کی ضرورت نہیں.ہم اپنے حقوق بآسانی حاصل کر لیں گے.لیکن جب ہم دوسروں سے پیچھے ہوں اور قومی آزادی ہم میں نہ ہو اور پھر دوسروں سے لڑیں تو یہ بے وقوفی ہوگی.وہ تھپڑ جو ہم دوسروں کے منہ پر مارنا چاہتے ہیں ہم کو اپنے منہ پر مارنا چاہئے.ایسی لڑائی سپورٹس مین سپرٹ کے خلاف ہے.قومی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں دوسروں سے آزاد ہوں اس وقت ہم کو اقتصادی، علمی، صنعتی اور حرفی آزادی کی ضرورت ہے اور گورنمنٹ کی ملازمتوں میں بھی ہم کو ہمارا حق اور حصہ ملنا چاہئے.ملازمتوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب بعض کہہ دیتے ہیں کہ ملازمتوں کے لئے کیوں لڑتے ہو؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ انگریز جو دانا اور حکمران قوم ہے وہ ملازمتوں کے لئے کیوں لڑتی ہے؟ اور پھر اگر ملازمت ایسی ہی بُری ہے تو ہندو صاحبان کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ اصل بات یہ ہے کہ گورنمنٹ کی ملازمت کا اثر قومی آزادی پر پڑتا ہے.اس ملازمت کے ذریعہ قوم کی اقتصادی اور تعلیمی حالت پر عجیب عجیب اثر پڑتے ہیں اور ایک ہندو اگر نہر میں انجینئر ہے تو وہ اپنی قوم کو ٹھیکہ داری کے سلسلہ میں کروڑوں روپیہ کا فائدہ پہنچا سکتا ہے، اب اگر یہی حصہ ملازمت ہمارا ہو تو ہم اپنے بھائیوں کو نفع پہنچا سکتے تھے.غرض ملازمت کا اثر بالواسطہ اور بھی بِلاواسطہ دوسری حالتوں پر پڑتا ہے.

Page 74

۳۱ قرضہ سے نجات اب میں یہ بتانا جاتا ہوں کہ اقتصادی حالت کی درستی کے لئے قرضہ سے نجات ضروری ہے.جب تک یہ نہ ہو تو اقتصادی ترقی نہیں ہو سکتی.میں اس قرضہ کے معاملہ میں کسی ہندو مسلم کی قید نہیں لگاتا کہ ہندوسے نہ لو بلکہ مسلمان سے.نہیں میرا یہ ہرگز مطلب نہیں.اس معاملے میں میرا اصول یہ ہے کہ کسی بنئے سے قرض نہ لو.وہ بنیا ہندو ہو مسلمان ہو یا عیسائی ہویعنی فرد واحد سے نہ لو بلکہ اگر ایسی ہی ضرورت آپڑے اور قرض لینے کے بغیر چارہ نہ ہو تو بنک سے لو.کیونکہ وہ حساب رکھنے پر مجبور ہے.بنیا مجبور نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہمارے گاؤں کے ایک مزارعہ نے ایک بنئے سے تین روپے قرض لئے وہ تین سو دے چکا ہے اور ابھی اصل رقم باقی ہے.بنیا کیا کرتا ہے.وہ کچھ نہ کچھ بقایا رکھتا جاتا ہے اور وہ ختم ہونے میں نہیں آتا.میں تو سود کو جائز نہیں سمجھتا لیکن اضطراری اور مجبوری کی حالت میں اگر کسی کو سودی قرضہ لینا پڑتا ہے تو میں کہوں گا کہ ان کے لئے کوآپریٹو سوسائٹیز قائم کریں اور ان سے لین دین کریں.میں ایک بار پھر اس امر کی صراحت کر دینا چاہتا ہوں کہ جب میں کہتا ہوں کہ کی بنئے سے سود نہ لو تو ہرگز کسی ایک یا دوسری قوم کا بنیا مراد نہیں میں تو شمائیلاک کی غلامی سے آزادی کی تلقین کرتا ہوں.خواہ وہ ہندو ہو، مسلم ہو، سکھ ہو، انگریز ہو.میں مسلمان بنیوں کو بھی جانتا ہوں.فتنہ ارتداد میں ایک ملکانا گاؤں ایک مسلمان بنئے کے قبضہ میں تھا.ہر چندا سے کہا گیا کہ ان لوگوں سے رعایت کرو مگر وہ راضی نہ ہوا.شائیلاک کی غلامی سے نجات کا ایک ذریعہ کو آپریٹو سوسائٹیاں ہیں.سول میں ایک مضمون چھپا تھا کہ ایک شخص کو ساٹھ روپیہ کی بجائے تین سو دینا پڑا.پس میں مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ کسی فرد واحد سے قرضہ نہ لو.دوسری نصیحت یہ کروں گا کہ کفایت شعاری سے کام لیں.اپنی آمدنی سے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھیں.کون جانتا ہے کل کیا ہو گا کوئی بچہ بیمار ہو جائے گا یا کوئی اور ضرورت آ پڑے گی.یہ کہنا کہ گزارہ نہیں ہو سکتا صحیح نہیں ہے.ایک شخص جس کو آج پندره روپیہ ملتے ہیں تو اس میں گزارہ کرتا ہے.پھر اگر اس کی ترقی ہو جاوے تو کیوں وہ انہیں پندرہ میں گزارہ نہیں کرتا.کچھ نہ کچھ پس انداز کرنا چاہئے.اصلاح رسوم میں دیکھتا ہوں کہ بہت سا روپیہ فضول رسوم میں ضائع ہوتا ہے.ان تمام رسومات کو ترک کردو.مجد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت میں خدا

Page 75

۳۲ تعالی محل انعام میں فرماتا ہے کہ آپ کی بات ان رسوم کے توڑنے کے لئے ہے.وہ رحمتہ للعلمین ہو کر آئے ہیں.پھر جو چیز رحمت کا باعث بھی مسلمان اسے چھوڑ کر وہی پھانسی اپنے گلے میں کیوں ڈالتے ہیں.رسول کریم کی آمد کی غرض یہ ہے کہ ان تمام فضول اور بے جا رسوم سے جنہوں نے گردنوں میں طوق ڈال دیئے تھے آزاد کر دیں اور ان زنجیروں سے نجات دلائی.مگر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے یہ کس قدر شرم کا مقام ہے.مسلمانوں کے بہت سے قرضوں اور فضول خرچیوں کی اصلاح اسی ایک امرسے ہو سکتی ہے.میرے اُستاد حضرت خلیفہ اول اپنے جو دو سخاکی وجہ سے مشہور تھے اور لوگ آپ کے پاس اس غرض کے لئے آتے رہتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص دہلی سے آیا کہ میری لڑکی کی شادی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں اس قدر روپیہ تمہاری لڑکی کی شادی کے لئے دوں گا جس قدر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کیا.اس نے کہا کہ میری تو ناک کٹ جائے گی.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ:.’’رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تو نہ کٹی اور تمہاری باوجود کٹ جانے کے کہ تم مانگنے کے لئے یہاں آئے ہو ایسی شادی کرتے ہوئے کٹتی ہے".غرض فضول رسومات کو چھوڑ دو.تجارت تیسری چیز ہر قسم کی تجارت ہے.اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے جب تک تجارتی غلامی سے نجات نہ ہو قومی آزادی حاصل نہیں ہوتی.تجارتی ترقی میں دوسروں کو ہم پر اعتراض کیوں ہو.ہم ان کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے.میں ہندوؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں جو مسلمانوں میں تجارت اور دکانوں کے اجراء کی تحریک کچھ عرصہ سے کر رہا ہوں ہرگز یہ منافرت یا ان کو نقصان پہنچانے کے خیال سے نہیں، میں بائیکاٹ اورپٹنگ کا سخت مخالف ہوں.ابھی چند روز ہوۓ کہ پنجاب خلافت کمیٹی کے ایک لیڈر نے مجھ سے اس بارہ میں گفتگو کی میں نے صاف صاف کہا کہ پکٹنگ چھوڑ دو میں اس کا مخالف ہوں.میں ان سے زیادہ واقف نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ ان کے دل میں درد اسلام ہے.میری تجارت کی تحریک محض قوم کی اقتصادی اصلاح اور ترقی کے لئے ہے میں اس کو ضروری سمجھتاہوں.ہاں میں پٹنگ اور بائیکاٹ کو نہ جائز سمجھتا ہوں اور نہ کبھی اس کی تائید کی ہے، میں اسے فساد کا ذریعہ سمجھتا ہوں.

Page 76

۳۳ چُھوت چھات ایک اور امر چُھوت چھات کا ہے.کسی سے چُھوت کرنا یہ فساد کا ذریعہ نہیں.ہندو ہم سے چُھوت کرتے ہیں.ہم نے کبھی اس پر فساد نہیں کیا اور ہندو اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں ملازمت نہیں صنعت و حرفت نہیں.وہ ہم کو بتائیں کہ آخر ہم بھی اپنی ضروریات رکھتے ہیں اگر ان کے پورا کرنے کے لئے ہم تجارت کریں اور جن چیزوں میں وہ ہم سے چُھوت کرتے ہیں ہم ان سے کریں تو انہیں بُرا کیوں منانا چاہئے.میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے بڑھنے پر اعتراض نہ کریں بلکہ خوش ہوں، جس طرح ہم ان کے بڑھنے پر خوش ہوتے ہیں.ایک غور طلب نکتہ تو یاد رکھیں کہ ان کی پہلی تباہی سات کروڑ شودروں کی وجہ سے ہوئی تھی اور وہ شودر نہ ہوتے تو کامیاب ہو جاتے.اب وہ ہم کو اچھوت اور شودر بنانا چاہتے ہیں وہ اس سے پرہیز کریں کہ پھر پندرہ کروڑ شودر ان کے لئے اور نقصان کا موجب ہوں گے.ہماری ترقی سے ان کا ہاتھ مضبوط ہو گا.پھر ان کو ہم سے گلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہماری اس تجارتی جدوجہد سے خوش ہونا چاہئے.ہاں میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ جب کوئی قوم کمزور ہو تو اس قوم کا حق ہوتا ہے کہ اس کی مدد کی جاوے.تم اگر ہماری مدد نہیں کر سکتے تو ہم کو آپ اپنی مدد کرنے دو.آئے دن اسمبلی میں اس قسم کے امور پیش ہوتے رہتے ہیں مثلاً روئی کے متعلق مدد کے لئے کہا جاتا ہے.ہمارے ہندو اور مسلمان بھائی کہتے ہیں کہ ٹیکس انگلستان کے طریق پر نہ ہوں تاکہ صنعت و حرفت ترقی کرے.چھوٹا پودا بڑے پودے کے سایہ میں پنپ نہیں سکتا.مسلمان ترقی نہ کر سکیں گے جب تک ان کے بھائی ہندو عہد نہ کریں کہ ہم ان کی مدد کریں گے.جب مسلمانوں کی حالت مضبوط ہو جاوے اور چُھوت چھات چھوٹ جاوے جیسا کہ مجھے یقین دلایا گیا ہے، اس وقت یہ سب روکیں دور ہو جائیں گی.اس وقت مسلمان اپنے بھائیوں کی اور اپنی مدد آپ کریں اپنی تجارت کو ترقی دیں مگر بائیکاٹ نہ کریں اور اقتصادی ترقی کے لئے ہم سمجھو تہ بھی ہو اسے نہ چھوڑا جاوے.علمی آزادی اسی طرح علمی آزادی ہو.اب مسلمانوں کے لئے عام طور پر مدرسی اور ڈاکٹری اور وکالت میں کچھ موقع ہے.دوسرے شعبوں کی طرف ان کی توجہ نہیں.اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ماں باپ واقف نہیں ہوتے اور قومی حیثیت سے کوئی ایسا محکمہ یا

Page 77

۳۴ ذریعہ نہیں جس سے ان کو زندگی کے مختلف شعبوں میں علمی ترقی کا موقع مل سکے اس لئے ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ مدرّسین سے پوچھ کر فیصلہ کریں کہ طالب علم کے مذاق اور رجحان طبیعت کے لحاظ سے اسے کدھر جانا چاہئے اور کن کن محکموں کے راستے کھلے ہیں.جب یہ انتظام ہو جاوے تو وہ ہر علمی حصہ میں ترقی کر سکیں گے اور انڈسٹری اور گورنمنٹ کی ملازمت میں بھی انہیں پورا حصہ مل سکے گا.ہم نے یہ غلطی کی کہ خود کوئی سکیم اس کے لئے تیار نہ کی اور نہ تعلیم یافتہ لوگوں کی فہرست تیار کی.تاکہ ہم گورنمنٹ کے وقتاً فوقتاً پیش کرتے.لیکن اگر اب تک ہم ایسا نہیں کر سکے تو آئندہ زیادہ دیر تک اس غلطی میں نہیں رہنا چاہئے.آخری بات تبليغ اب میں آخری بات کہہ کر ختم کردیتا ہوں اور وہ تبلیغ ہے.مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کریں.یہ مضمون وسیع ہے میں اس کی تشریح نہیں کر سکتا.صرف اس قدر کہتا ہوں کہ مسلمان تو جہ کریں.اور یہ کہوں گا کہ طریق تبلیغ میں اس امر کو مدنظر رکھیں کہ ایک وحشی کو جو ہم سے بھاگتا ہے اپنے اندر داخل کرنا ہے.دیکھو اگر تم ایک پرند کو پکڑنا چاہو تو اس کو پتھرمارنا چاہئے یا اپنے ساتھ ملانا چاہئے.اگر وحشی پرند یا چرند کے دل کو رام کرنے کی ضرورت ہے تو کیوں اس شخص کے ساتھ محبت اور اخلاق سے پیش آنے کی ضرورت نہیں جس کو تم تبلیغ کرنا چاہتے ہو.یہ کوئی خیالی بات نہیں قرآن شریف نے یہی اصول تسلیم کیا ہے.أدع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة ۷؎ پس اگر تبلیغ فرض ہے اور ضرور فرض ہے.اگر اس فرض کو ادا کرنا ہے اور ضرور کرنا ہے تو یاد رکھو کہ ان کے احساسات کا لحاظ کرو تاکہ وہ تمہاری بات سن لیں.ان کے بزرگوں کا احترام کرو.یہ طریق تبلیغ نہیں کہ دوسروں پر حملہ کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہندو حملہ نہیں کرتے اور ہمارے احساسات کو مجروح نہیں کرتے.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ بھی ایسا کرتے ہیں مگر اس وقت میرا خطاب مسلمانوں سے ہے.میں انہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی تقریر و تحریر میں اس اصل کو مدنظر رکھیں.میرے ہندو بھائی مجھ سے ناراض ہیں کہ میں نے چُھوت چھات کی تحریک کیوں کی ہے؟ میں کہہ چکا ہوں کہ کسی منافرت کے خیال سے نہیں.ہندو اخبارات کو پڑھو ، تو انہوں نے ہمیشہ اعتراف کیا ہے کہ میں اپنی تحریروں اور تقریروں میں ان کے بزرگوں کا احترام کرتا ہوں.میری کتابیں موجود ہیں جو سینکڑوں صفحات کی ہوں گی، ان میں کوئی نہیں دکھا سکتا کہ میں نے اس اصل کو چھوڑا ہو.پس میں نے منافرت کے خیال سے نہیں بلکہ میں نے دیکھا کہ میری قوم کی بھلائی

Page 78

۳۵ اسی میں ہے اور کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا میرا مقصود نہیں.اس طریق کو اختیار کرو تب فائده ہو گا.اب میں آخری اور مختصر سے جملہ پر ختم کر دیتا ہوں.میں جبکہ تمام لوگوں سے صلح اور مودّت کی تعلیم دیتا ہوں.ہندو، سکھ ، عیسائی جو کوئی بھی یہاں موجود ہیں میں ان سے صاف صاف کتا ہوں کہ صلح اور آشتی کے لئے ہم پر قربانی کے لئے تیار ہیں مگر میں اس کے ساتھ ہی پوری قوت اور زور کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ جنگل کے درندوں اور سانپوں سے ہم صلح کر سکتے ہیں مگر ہم ان سے کبھی بھی صلح نہیں کر سکتے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیتے ہیں.و الشعراء.:۴ ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الله او \" البقرة :۱۴۹ کنزالعمال جلدها صفحہ ۱۳۶ حديث نمبر۲۸۹۸۶ مطبوعہ اے ۱۹ء الفاتحة :۱،۷ يوسف :۸۸ النحل :۴۶

Page 79

Page 80

۳۷ مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفه المسیح الثانی

Page 81

Page 82

۳۹ مسلمانانِ ہند کے امتحان کا وقت أعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت* (رقم فرموده مورخہ 8 دسمبر ۱۹۲۷ء) قریباً ساڑھے تین ماہ ہوئے کہ میں نے موجودہ حالات کے متعلق آخری پوسٹر شائع کیا تھا اور جواثر ان پوسٹروں کا ہوا تھا وہ چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ جو تحریک پہلے ہو چکی ہے اسے مسلمان جذب کر لیں تو پھر اور اگلا پوسٹر شائع کیا جائے.گو میں یہ نہیں خیال کر تا کہ وہ تحریکیں جو پچھلے موسم گرما میں کی گئی تھیں وہ مسلمانوں میں پوری طرح جذب ہوگئی ہیں.لیکن اس وقت پھر ایک اہم موقع پیش آیا ہے جس کے سبب سے میں خاموش رہنا پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ اپنے خیالات کو مسلمانوں کے سامنے پیش کر دوں.شاید کہ کوئی درد مند دل ان خیالات سے متاثر ہو اور شاید کہ میں مسلمانوں کی کوئی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہروں.یہ اہم موقع کیا ہے.یہ سائمن کیشن ہے جو شروع سال ۱۹۲۸ء میں ہندوستان میں آنے والا *چونکہ مضمون لمبا ہو گیا ہے اور پوسٹر کی صورت میں شائع نہیں ہو سکتا اس لئے ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا جاتا ہے.احباب کو چاہئے کہ مساجد اور انجمنوں کے ذریعہ سے اسے پڑھوا کر جملہ مسلمانوں کو اس کے مضمون سے آگاہ کریں اور عام طور پر دستی تقسیم نہ کریں کیونکہ دس پندرہ ہزار ٹریکٹ اس طرح کا تقسيم کردہ بہت ہی تھوڑے لوگوں تک محدود رہے گا.ایسی کوشش ہونی چاہئے کہ پوسٹروں سے بھی زیادہ لوگ اس ذریعہ سے واقف ہو جائیں.

Page 83

۴۰ ہے.تعلیم یافتہ اصحاب تو اس کمیشن سے بخوبی واقف ہیں لیکن چونکہ میرا یہ مضمون ان جگہوں پر بھی انشاء اللہ پہنچے گا جہاں اخبارات نہیں پہنچے اور ان لوگوں تک بھی پہنچے گا جو عام طور پر دنیا کی خبروں سے بے خبر ہوتے ہیں اس لئے میں اختصارا ً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ۱۹۱۷ء میں انگریزی حکومت کے وہ وزیر جو ہندوستان کے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں ہندوستان میں اس لئے آئے تھے کہ وائسرائے صاحب بہادر سے مل کر اس امر پر غور کریں کہ ہندوستانیوں کو ان کے ملک میں کہاں تک اختیارات حکومت دیئے جا سکتے ہیں.انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی جو کئی مرحلوں کے بعد پارلیمنٹ سے ایک قانون کی صورت میں پاس ہو کر ہندوستان میں نافذ کی گئی.اس قانون کاماحصل یہ تھا کہ ہندوستانی بھی اَور اقوام عالم کی طرح اس امر کے حقدار ہیں کہ ان کے ملک میں انہیں حکومت کا اختیار ہو لیکن چونکہ وہ مختلف اقوام اور مذاہب میں منقسم ہیں اور تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اس لئے فور اً انہیں پورے اختیارات نہیں دیئے جا سکتے.پس اس امر کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن ہندوستان کو حکومت خود اختیاری دی جائے گی لیکن سردست اس کا اجراء نہیں کیا جاسکتا.سردست صرف یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کچھ اختیار انہیں دیئے جائیں اور ان کے برتنے کے لئے دو کونسلیں ہندوستان کی مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں اور ہر صوبہ کے گورنر کے ساتھ بھی ایک ایک کونسل ہو جس کے ممبروں میں سے دو یا دو سے زیاده و زیر بنائے جائیں جن کے سپرد بعض صیغے حکومت کے کر دیئے جائیں تاکہ اس طریق سے ہندوستانی کام کرنا سیکھ جائیں.بعض صیغے توان کونسلوں کے قریباً اختیار میں دے دیئے گئے اور بعض صیغوں پر اعتراض کرنے کا اور ان کے کام پر بحث کرنے کا انہیں حق دیا گیا.اسی وقت یہ خطرناک غلطی مسلم لیگ اور کانگریس کے ایک سمجھوتے کی بناء پر کی گئی کہ بنگال اور پنجاب جہاں مسلمانوں کی آبادی دوسری قوموں کی نسبت زیادہ ہے وہاں کے لئے ایسے قانون بنائے گئے کہ عملا ًکثرت ہندوؤں کی یا ہندوؤں اور سکھوں کی ہو گئی.صوبہ سرحد کو فوری ضروریات کا خیال کر کے ان حقوق سے محروم رکھا گیا اور اس میں بھی مسلمانوں کو نقصان رہا.اس وقت یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر دس سال کے عرصہ میں ایک کمیشن اس غرض سے ہندوستان بھیجا جایا کرے کہ وہ غور کر کے رپورٹ کرے کہ کیا ہندوستان اب مزید حقوق کے حاصل کرنے کے قابل ہو گیا ہے یا نہیں.یا یہ کہ جو حقوق اسے پہلے دیئے جا چکے ہیں وہ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کر رہا ہے یا نہیں.اگر نہیں تو کیا وہ اس سے چھین لئے جائیں یا نہیں.سائمن کمیشن اسی فیصلہ کی بناء پر بھیجا گیا ہے اور اس کا نام سائمن کمیشن اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس

Page 84

۴۱ کے پریذیڈنٹ سرسائمن ہیں جو انگلستان کے ایک نہایت زیرک اور ہوشیار بیرسٹر ہیں.یہ کمیشن دو سال تک رپورٹ کرے گا کہ آئندہ ہندوستان سے کیا معاملہ کیا جائے.ہندوستان میں آکرمختلف لوگوں سے ان کے خیالات دریافت کرے گا.گورنمنٹ کے بڑے حکام سے مشورہ کرے گا اور پھر جو اس کے ذہن میں آئے گا پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے گا.مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پچھلے چار سال میں ہوتا چلا آیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک نہایت نازک موقع ہے.مسلمانوں کو یہ تجربہ اچھی طرح ہو چکا ہے کہ ہندو لوگوں میں بوجہ ایک لمبے عرصہ تک حکومت سے محروم رہنے کے وسعت حوصلہ بالکل نہیں رہی.ان کی تعداد ملک میں تین چوتھائی ہے یعنی ایک مسلمان کے مقابل پر تین ہندو ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ اگر ہندوستان کو حکومت خود اختیاری ملے تو خواہ وہ مسلمانوں سے کتنی بھی رعایت کریں پھر بھی حکومت انہی کے ہاتھ میں رہے گی اور زیادہ فائدہ انہی کو پہنچے گا.لیکن چونکہ ان میں وسعت حوصلہ نہیں ہے وہ اس قدر بھی مسلمانوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں جس قدر کہ مسلمانوں کو بعض صوبوں میں ان کی تعداد کے روسے ملنا چاہئے.یا جس قدر کہ بعض دوسرے صوبوں میں ان کی جائز نیابت کے لئے انہیں دیا جانا چاہئے.پس ایک طرف تو مسلمانوں کو ان کی جائز نیابت سے محروم کرنے کے لئے ہندو لیڈروں نے یہ شور مچانا شروع کیا کہ کونسلوں کے ممبروں کے انتخاب کا موجودہ طریق بدل دینا چاہئے یعنی یہ نہ ہو کہ مسلمان ممبر کو مسلمان منتخب کریں اور ہندو ممبر کو ہندو بلکہ ہندو اور مسلمان مل کر ممبروں کو منتخب کیا کریں.بظاہر تو یہ بات نہایت معقول ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ملک سے ناواجب تعصّب دور ہو جائے اور مختلف قومیں تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے قریباً ایک سی ہو جائیں تو ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن اس وقت جس قدر بُغض دلوں میں بھرا ہوا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ چونکہ ہندوؤں میں تعلیم اور دولت زیادہ ہے اور مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں اور عام طور پر ہندوؤں کے مقروض ہیں اور بد قسمتی سے مسلمانوں میں تفرقہ بھی زیادہ ہے انتخاب کے وقت ہندو لوگ لا ئق مسلمانوں کے مقابلہ میں ایسے نالائق مسلمانوں کو کھڑا کر دیا کریں گے جو کونسلوں میں جا کر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں اور ہندو لوگ اپنے قرض داروں کو مجبور کر کے اپنے مطلب کے مسلمان امیدواروں کے حق میں رائے دلوائیں گے جیسا کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپل کمیٹیوں کے انتخاب کے وقت ہوا کرتا ہے اور اس طرح گو نام کے مسلمان تو منتخب ہو جائیں گئے لیکن حقیقی طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے بہت ہی کم ممبر ہوں گے اور جو تھوڑی

Page 85

۴۲ بہت طاقت مسلمانوں کو حاصل ہے وہ بھی جاتی رہے گی جس سے مسلمانوں کے حقوق کو سخت نقصان پہنچے گا.دوسری تدبیر ہندوؤں نے یہ کی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اب ملک کو حکومت خود اختیاری ملنے والی ہے گو آہستہ ہی ملے اور چونکہ کسی قوم کو حکومت کے اختیارات اس تعداد کے مطابق ملیں گے جو اس کی ملک میں ہو اس لئے انہوں نے اپنی تعداد بڑھانے کے لئے شدھی کا طریق جاری کیا.حالانکہ اس سے پہلے آریوں پر ہندوؤں کی طرف سے اس بناء پرادهری یا کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے کہ وہ غیر قوموں کو اپنے اندر ملانا جائز سمجھتے ہیں.اسلام ہمیشہ سے تبلیغی مذہب ہے اور وہ شروع سے تبلیغ کرتا چلا آیا ہے لیکن ہندوؤں میں کم سے کم پچھلے ہزار سال میں تبلیغ کانام و نشان نہ تھا اور یہ شدھی کی تحریک صرف اس وجہ سے جاری کی گئی ہے کہ ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہو جائے اور وہ ہندوستان کے واحد مالک بن کر حکومت کریں.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب اس نیت سے تبلیغ کی جائے گی تو کوشش یہی ہوگی کہ دل مانیں نہ مانیں جس طرح ہو لالچ سے، دباؤ ہے، تدبیر سے، ترغیب سے دوسروں کو اپنے اندر ملا لیا جائے تاکہ جلدی سے کام ہو جائے چنانچہ ایسی ہی تدابیر کو اختیار کیا گیا اور ملکانا میں یہی کیا گیا.رؤسا کے دباؤ سے، بنیوں کے اثر سے، قرضوں کے لالچ سے، اسلامی مظالم کی جھوٹی داستانوں سے، سوامی شردھانند ی کی جامعہ مسجد دہلی والی تقریر کی تصویر دکھا کھا کر ہندومذہب اختیار کرنے کا نام قومی ملاپ رکھ رکھ کر ملکانوں کو شدھ کیا گیا اور سمجھا گیا کہ اس رَو کو سب ہندوستان میں جاری کر کے لاکھوں مسلمانوں کو ہندو کر لیا جائے گا.خدا تعالی کے فضل سے مجھے اس وقت یہ توفیق ملی کہ ایک سو کے قریب مبلّغ میں نے وہاں بھیج دیا جنہوں نے ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر اور ماریں کھا کر آریہ مبلّغوں کا مقابلہ کیا.کئی گاؤں واپس مسلمان گئے اور باقی علاقہ کو محفوظ کر لیا.چنانچہ اب تک ہمارے مبلّغ وہاں کام کر رہے ہیں اور سوامی شردھانندجی کا وہ ادعاء کہ گیارہ لاکھ ملکانے چڑیا کے بچے کی طرح چونچ کھولے ہماری طرف (یعنی ہندووں کی طرف) دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کی خبر گیری کریں اب تک ایک خیالی خواب کی طرح اپنی تعبیرکا محتاج ہے.ہندوؤں نے لاکھ ان چو نچوں میں دانے ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ ایسی بند ہیں کہ اِکے دُکّے کو چھوڑ کر باقی سب دانے لینے سے بھی انکاری ہیں اور کئی تو دانے دانے کھا کھا کر پھر اسلامی خشک روٹی کی طرف واپس آجاتی ہیں کہ اس کی لذت کے مقابلہ میں ہندوؤں کے دانے بھی نہیں ہے مزه معلوم دیتے ہیں.

Page 86

۴۳ اسی زمانہ میں شدھی تحریک کو زور دینے کے لئے آریوں کی طرف سے نہایت گنده لٹریچر شائع ہونا شروع ہوا.جس کا ایک ورق اور نہایت تاریک ورق وہ تھا جو راجپال نے اپنی کتاب میں اور پھر دیوی شرن شرمانے ورتمان میں لکھا.ان کتب اور تحریروں کا جو نتیجہ ہوا وہ سب کو معلوم ہے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ ایک رنگ میں موجودہ سیاسی اصلاحات کے نتیجہ میں ہوا.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصلاحات اپنی ذات میں بُری ہیں.یا یہ کہ انگریز حکام نے یہ فسادات اصلاحات کو روکنے کے لئے کروائے تھے.میرے نزدیک یہ دونوں خیال باطل ہیں.جن انگریزوں کا یہ خیال ہے کہ اصلاحات اپنی ذات میں بُری ہیں ان کی بھی غلطی ہے کیونکہ یہ فسادات اصلاحات کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاحات سے تنہا فائدہ اٹھانے کی خواہش سے پیدا ہوئے ہیں.اور اسی طرح جن لوگوں نے گورنمنٹ پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے یہ فسادات کروائے ہیں تاکہ پارلیمنٹ اختیارات کو چھین لے وہ بھی غلطی خوردہ ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو فسادات کی ابتداء مسلمانوں کی طرف سے ہوتی لیکن فسادات کی ابتداء ہندووں کی طرف سے ہوتی ہے.شدھی کی تحریک (اور ایسے ناواجب طور پر) ان کی طرف سے ہوئی، گنده لٹریچر ان کی طرف سے شائع ہونا شروع ہوا.مگر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ہندو جن کو سوراج مل رہا تھا اور جو تعلیم یافتہ اور اپنے فوائد کو سمجھنے والے ہیں اور پھر آریہ سماج جو ہندوؤں کی سب سے زبردست پولیٹیکل پارٹی ہے وہ گورنمنٹ کے اشارے پر یہ کام کرتی تاکہ ہندوستان کو سوراج نہ ملے.آریہ سماج کا پچھلی تحریک شدھی میں وقل بلکہ اس کی طرف سے ابتداء ہی اس امر کی ضامن ہے کہ ان فسادات میں گورنمنٹ کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور وہ اس الزام سے بالکل پاک ہے.ان فسادات کی بنیاد اس تنگ ظرفی پر ہے جو ہندوستان کی حکومت کو صرف اور صرف ہندوؤں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتی تھی.اس کی بنیاد اس ذہنیت پر ہے جو واحد خدا کے پرستاروں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیداؤں کو شودروں کی صف میں کھڑا ہوا دیکھے بغیرنچلا بیٹھنے پر تیار نہ تھی.ہاں میں یہ تسلیم کر ہوں کہ انگریزوں میں سے وہ لوگ جو ہندوستان کو آزاد ہوتا دیکھنا پسند نہیں کرتے انہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب اٹھالیا مگراصل الزام ان حالات کا صرف ہندوستانیوں پر ہے اور ان میں سے بھی ہندوؤں پر.اور پھر ان میں سے بھی آریہ سماج پر.اے کاش ایک امر موہوم کی خواہش میں ملک کی ترقی کو نقصان نہ پہنچایا جاتا.ملک کے امن کو برباد نہ کیا جاتا.دلوں کو کدورت سے اور دماغوں کو تشویش ناک افکار سے پریشان نہ کیا جاتا.

Page 87

۴۴ یہ تو جو کچھ ہوا وہ ہو چکا خواہ وہ افسوسناک تھا یا عبرت ناک.اب سوال یہ ہے کہ آئندہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ اس کمیشن کے فیصلے پر بہت کچھ مسلمانوں کے حقوق کا انحصار ہے اور اس وقت غفلت برتنا سخت مہلک کیونکہ (۱) ہندولیڈر ہر سال ولایت جا کر انگریزوں کے کان بھرتے رہے ہیں کہ ہندوستان کے سب فسادات جداگانہ انتخاب کے نتیجہ میں ہیں اس لئے آئندہ مسلمانوں کو اپنے نمائندے الگ متتخب کرنے کا اختیار نہ ہو.چونکہ انگریز قوم خود اپنی قومی روایات کے لحاظ سے جداگانہ انتخاب کے مخالف ہے اس لئے ان کی اس بات کا انگریزوں پر بہت اثر ہے اس لئے گو کمیشن جداگانہ انتخاب کے اصل کو نہ مٹائے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کو ایسا کمزور کر دے کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ خود بخود مٹ جائے.(۲) بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے لیکن ان کو حق اپنی آبادی کی نسبت سے کم ملا ہوا ہے.اگر یہ بے انصافی اس کمیشن کے وقت میں بھی دور نہ کی گئی تو آئندہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت سمجھ لی جائے گی اور اس کا دور کرناسخت مشکل ہو جائے گا.(۳) سوبہ سرحدی کو اگر آئینی حکومت نہ دی گئی تو اس کا اثر بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر بہت بُرا پڑے گا.در حقیقت یہ ایک صوبہ کا سوال نہیں بلکہ کل ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال ہے کیونکہ اس وقت تک دونوں آئینی صوبے جن میں مسلمان زیادہ ہیں (یعنی پنجاب و بنگال) ان میں مسلمانوں کی زیادتی اس قدر کم ہے کہ وہ ہندوؤں کو ان دوسرے صوبوں کی زیادتی کے بدلہ میں کچھ نہیں دے سکتے جہاں مسلمان کم ہیں لیکن ان کو زیاده حقوق دیئے گئے ہیں.ہاں سرحدی صوبہ میں وہ ان کو کافی بدلہ دے سکتے ہیں اور اس طرح پنجاب اور بنگال جو دوسرے صولوں کے بدلہ میں گویا رہن ہوۓ ہوۓ ہیں آزاد ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے اہم سیاسی فوائد ہیں جن کا ذکر کرنے کی نہ گنجائش ہے اور نہ ان کا ذکر ایسی تحریرات میں مناسب ہے.(3) صوبہ جات کی اندرونی آزادی میں اگر کوئی خلل واقع ہو تو مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا.ان کی حفاظت کا اس سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں کہ جس قدر ممکن ہو سکے صوبہ جات مرکزی حکومت سے اندرونی انتظامات میں آزاد ہوتے جائیں.(۵) سندھ جس میں نوے فی صدی مسلمان ہیں اگر اسے اس وقت آزادی حاصل نہ ہوئی اور بمبئی سے علیحدہ کر کے اسے الگ صوبہ نہ بنا دیا گیا تو یہ بھی مسلمانوں کے لئے عموماً اور پنجاب کے لئے خصوصا ًنقصان کا موجب ہو گا.اس صوبہ کی علیحدگی پنجاب کے مسلمانوں کی اقتصادی آزادی میں بہت کچھ مدد دے سکتی ہے.ان کے علاوہ اور بھی کئی ضمنی سوال ہیں جن کا اثر کے طور پر مسلمانوں کے مستقبل پر پڑ سکتا ہے.

Page 88

۴۵ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کمیشن کے مقرر کرنے میں گورنمنٹ نے ہندوستانیوں کی ہتک کی ہے کیونکہ اس میں کسی ہندوستانی کو ممبر نہیں بنایا.مسلمانوں کے بڑے بڑے سیاست دان جیسے مسٹر جناح اور سر عبدالرحیم کہتے ہیں کہ اس ہتک کی وجہ سے اس کمیشن کا ہمیں بائیکاٹ کر دینا چاہئے اور اس کمیشن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہئے.اور مولانامحمد علی صاحب کا خیال ہے کہ چونکہ اس میں گور نمنٹ کا ہاتھ ہے اس لئے اس سے ہمیں کچھ سروکار نہیں ہونا چاہئے.میں سر عبدالرحیم کاتوواقف نہیں لیکن مسٹر جناح اور مولانا محمد علی سے پچھلے دنوں شملہ میں مجھے شناسائی ہو چکی ہے اور یونیٹی کانفرنس اور قانون حفاظتِ مذاہب کے متعلق گھنٹوں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے.میں مسٹر جناح کو ایک بہت زیرک قابل اور مخلص خادم قوم سمجھتا ہوں اور ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی.میرے نزدیک وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنے ذاتی عروج کا اس قدر خیال نہیں جس قدر کہ قومی ترقی کا ہے.مولانا محمد علی صاحب کو بھی میں نے اس سے بہت اچھا پایا جیسا کہ سنا تھا.وہ ایک درد مند دل رکھنے والے اور محنت سے کام کرنے والے انسان ہیں اور جن مخالف حالات میں وہ کام کر رہے ہیں.وہ اس بات کا انہیں مستحق بناتا ہے کہ مسلمان ان کی قدر کریں اور ان کی رائے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں.مجھے ان سے کئی باتوں میں اختلاف رہا ہے لیکن میں ہمیشہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہوں.پہلے ان کے بڑے بھائی مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی وجہ سے جو ہماری جماعت میں شامل ہیں.اور اب خود ان کی اپنی ذات کی وجہ سے.سر عبدالرحیم صاحب کو گو میں نے دیکھا نہیں لیکن ان کی رائے کو اخبارات میں پڑھا کرمَیں ہمیشہ انہیں ایک سمجھدار اور لائق انسان سمجھتا رہا ہوں.ان لوگوں کے مقابلہ پر جو لوگ ہیں میرے نزدیک وہ سوائے چند کے اس پایہ کے نہیں ہیں جس پایہ کے یہ لوگ ہیں.مگر باوجود اس کے کہ میں مسٹر جناح اور ان کے ہم خیال مسلمانوں کی اس رائے سے سخت اختلاف رکھتا ہوں اور میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی رائے پر دوبارہ غور کریں.اس وقت کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا مسلمانوں کے لئے سخت مضر ہو گا.اس بائیکاٹ کا جس قوم کو فائدہ پہنچے گا وہ ہندو قوم ہے.یا گورنمنٹ کا وہ حصہ جو ہندوستانیوں کو حقوق دیئے جانے کے مخالف ہے.مسلمان بائیکاٹ سے سخت گھاٹے میں رہیں گے اور بعد میں پچھتانے میں کوئی نفع نہ ہو گا.میں ان لوگوں کی رائے کو سخت حقارت سے دیکھتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ مسٹر جناح یا سر عبدالرحیم اس لئے کمیشن کے بائیکاٹ کی تائید میں ہیں کہ انہیں کمیشن کا ممبر ہونے کی امید تھی جو پوری نہیں ہوئی.میں سر فضل

Page 89

۴۶ حسین اور سر عبدالرحیم کا نام شائع کرنے کی ذمہ داری تو میری جماعت پر ہے کیونکہ ہمارے مبلغین نے ہی ان کے نام اس غرض سے انگلستان کی اخبارات میں شائع کئے تھے لیکن مسٹر جناح کا نام بھی اس غرض کے لئے نہیں لیا گیا اور میں ان کی واقفیت کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ ان پر ایسا الزام لگانا ظلم ہے.ان کی رائے یقیناً دیانتداری پر مبنی ہے لیکن افسوس کہ غلط ہے اور میرے نزدیک مسلمانوں کے لئے سخت مضر.یہ خیال بالکل درست ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں کی ہتک کرنے کے لئے ہندوستان کا نام کمیشن میں نہیں رکھا.حکومت ہند کے ارکان کا نام بھی کمیشن میں نہیں ہے بلکہ کمیشن صرف پارلیمنٹ کے ممبروں پر مشتمل ہے.پس کیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے ارکان حکومت کا نام بھی ان کی ہتک کرنے کے لئے نہیں رکھا.پس یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اس لئے کہ ہندوستانیوں کو کمیشن کا ممبر نہ بنانا پڑے صرف پارلیمنٹ کے ممبروں کا کمیشن بھیجا ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے ہندوستانیوں کی ہتک کی ہے ہم اپنے متعلق خواہ بھی کہیں مگر اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دانستہ یا نادانستہ ہم انگریزی حکومت کے ماتحت کم و بیش دو سو سال سے آ چکے ہیں اور جو ہماری ہتک ہوئی تھی وہ ہو چکی ہے.اب حکومت کے پہلو سے اس سے زیادہ تک ہماری کوئی نہیں کر سکتا.اگر برطانوی حکومت سیاسی طور پر ہماری ہتک کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتی.وہ شخصی ہتک کر سکتی ہے، مذہبی ہتک کر سکتی ہے، تمدنی ہتک کر سکتی ہے لیکن یہ اس کے بس میں بھی نہیں کہ سیاستاً وہ ہماری ہتک کرے کیونکہ ہم ایک بڑے لمبے عرصہ سے نہتے ہو کر اس کے قبضہ میں جا چکے ہیں اور اس بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یا توہم میں ہمت ہو تو ہم انگریزوں کو جبراً ملک سے باہر نکال دیں اور یا پھر اس صداقت کو قبول کریں کہ انگریز ہم پر حاکم ہیں.اور جب ہم جبر اً نہیں نہیں نکال سکتے تو پھر ہم ان سے سمجھوتہ کر کے ہی جو کچھ حاصل کر سکتے ہیں کر سکتے ہیں.پس جب فیصلہ انہیں کے ہاتھ میں ہے اور اس کا کسی کو انکار نہیں تو پھر ہندوستانیوں کا کمیشن میں ہونا نہ ہوا عزت و ہتک سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.میں کمیشن کے بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دینے والوں کی دلیل کے سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں.آخر اس بائیکاٹ سے ان کا کیا مطلب ہے.کیا ان کا یہ خیال ہے کہ بائیکاٹ کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر سکے ؟ اگر یہ خیال ہے تو اس سے بودا خیال اور کوئی نہیں ہو سکتا.کمیشن نے تو بے رپورٹ کرنی ہے کہ آیا ہندوستانیوں کو اور اختیارات ملنے چاہئیں یا نہیں.اگر ہندوستانی بائیکاٹ

Page 90

۴۷ کریں گے تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا.برطانیہ کی نیت اگر خراب ہے تو اس سے فائدہ اٹھائے گا اور کہے گا کہ ہندوستانی چونکہ اپنی ضروریات کو ہمارے سامنے پیش نہیں کرتے اس لئے ہم ہندوستانیوں کو زیادہ اختیارات دینے کی سفارش نہیں کرتے.پھر ہندوستان کیا کرے گا.کیا تلوار سے اپنابدلہ لے گا.اگر ہندوستانیوں کے پاس تلوار ہوتی تو وہ پہلے ہی اس حالت کو کیوں پہنچتے.اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ہمیں مانناپڑے گا کہ ہندوستانیوں کو برطانوی حکومت نے کمیشن میں اس لئے شامل نہیں کیا کہ وہ اس امر کی مدعی ہے کہ ہم ہندوستان کے حاکم ہیں اور اس کی آئندہ حکومت کا فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے اور ہندوستانی بے بس ہیں وہ کچھ نہیں کرسکتے.اگر یہی وجہ ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ آزادی کے حاصل کرنے کے لئے کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کریں.اور جبکہ تلوار سے ہم اختیارات حاصل نہیں کر سکتے تو پھر کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ سمجھوتہ سے ہی جس قدر اختیارات مل سکیں حاصل کر لیں.کیونکہ جس قدر اختیارات بھی ہندوستانیوں کو ملیں گے ان سے ان کی طاقت زیادہ بڑھے گی اور جس قدر بھی طاقت انہیں حاصل ہوگی اُسی قدر ان کی آواز میں اثر اور زور ہو گا.پس اختیارات خواہ کمیشن کے ذریعہ سے ملیں خواہ بغیر کمیشن کے، خواہ ہندوستانیوں سے پوچھ کر لیں یا بغیر پوچھے کے، ہمیں انہیں حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ ہر اختیار جو ہندوستانیوں کو ملے گا وہ ان کی طاقت کو بڑھائے گا اور انہیں آزادی کے قریب کر دے گا.پس کمیشن کے بائیکاٹ کا سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں کو جو ہندوستان کی آزادی کے مخالف ہیں یہ موقع دے دیا جائے کہ وہ ہندوستان کی آزادی میں روڑے اٹکائیں.اور ہر شخص جو کمیشن کا بائیکاٹ کرے گا وہ نادانستہ طور پر ہندوستان کی آزادی میں روک ڈالنے والا بنے گا.میرے نزدیک اس مسئلے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے اور وہ ہے کہ ایسے امور میں ہتک کام کرنے والے کے دعویٰ سے ہوتی ہے نہ کہ فعل ہے.بعض فعل اپنی ذات میں ہتک کرنے والے نہیں ہوتے لیکن اگر ان کے کرنے والے ان سے ہتک مراد لیں تو وہ ہتک بنتے ہیں ورنہ نہیں.کمیشن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے.اگر برطانیہ کہے کہ ہم یہ امر اپنا زور دکھانے اور ہندوستانیوں کو ذلیل کرنے کے لئے کرتے ہیں تو بے شک یہ فعل ہتک بن جائے گا ورنہ نہیں کیونکہ خود اس فعل میں کوئی ایا پہلو نہیں جو اپنی ذات میں اسے ہتک کا فعل بنادے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت بہ اصرار کہہ رہی ہے کہ ہماری نیت ہتک کی بالکل نہیں بلکہ ہماری نیت یہ ہے کہ (ا) چونکہ فیصلہ اس

Page 91

۴۸ امر کا کرنا ہے کہ آئندہ آئین حکومت میں کیا تبدیلی ہو اور اس کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت تھی جو غیر جانبدار ہوں اس لئے ہم نے نہ ہندوستان کی حکومت کے ارکان میں سے کسی کو چُناہے اور نہ ہندوستانیوں میں سے بلکہ صرف پارلیمنٹ کے ممبروں کو چُنا ہے جن کو ہندوستان کے آئین حکومت سے کوئی بالواسطہ لگاؤ نہیں ہے.(۲) دوسرے وہ یہ کہتی ہے کہ کمیشن تبھی مفید ہو سکتاہے کہ وہ تھوڑے سے آدمیوں پر مشتمل ہو لیکن ہندوستان میں اس قدر سیاسی اختلاف ہے اور اس قدر مختلف پارٹیاں اور قومیں پائی جاتی ہیں کہ اگر سب خیال کے لوگوں اور سب فرقوں کے نمائندے نہ لئے جاتے تو شور پڑ جاتا تھا اور اگر سب کے نمائندے لئے جاتے تو کمیشن کے ممبروں کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی.آخری بات بہت وزان دار ہے.اور اگر ہم لوگ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو سیاسی امور میں اس وقت ایسا اصولی اختلاف ہو رہا ہے کہ کوئی ہندوستانی سارے ملک کی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا.مسلمان، ہندو، اینگلو انڈینز، سکھ، ادنی ٰ اقوام اور پھر ان مختلف قوموں کے اندرونی فرقہ جات، پھر دوسری جہت سے مثلاً تجارت پیشہ، زراعت پیشہ اور پھر سیاسی نکتہ نگاہ سے ملک کی مختلف پارٹیاں وغیرہ وغیرہ اس قدر مختلف جماعتیں ہیں کہ ان کی موجودگی میں کسی ایک یا دو ہندوستانی کا انتخاب ہرگز ملک کی تسلی کا باعث نہ ہوتا.بلکہ اس سے ہندوستانیوں کی بے چینی شاید اور بھیزیادہ ہو جاتی اور ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہو جاتا.مسلمانوں کے اندر طریق انتخاب کے سوال کو ہی دیکھ لو.بعض لوگ مخلوط انتخاب کے حامی ہیں جیسے مسٹر جناح اور مولانا محمد علی.دوسرے جُداگانہ انتخاب کے جیسے کہ سرشفیع اور سر عبدالرحیم.اب اگر مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کو ممبر منتخب کر لیا جاتا جو مخلوط انتخاب کا حامی ہوتا تو یقینا ً اس کا معتدبہ اثر اس کے ساتھ کے کمشنروں پر پڑتا اور جُداگانہ انتخاب کے حامیوں کے نزدیک مسلمان ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیئے جاتے.غرض کوئی ہندوستانی بھی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا.اندریں حالات برطانوی حکومت نے صرف پارلیمنٹ کے ممبروں کا انتخاب مناسب سمجھا.اب خواہ نیت برطانیہ کی کچھ ہو مگر چونکہ برطانیہ اپنے فیصلہ کی یہ دلیل پیش کرتا ہے اور یہ دلیل معقول ہے.پس خواہ مخواہ ہتک کا پہلو نکالنا اخلاقی لحاظ سے درست نہیں ہو سکتا.خلاصہ یہ کہ میرے نزدیک کمیشن کی مجوزہ ساخت میں ہندوستانیوں کی کوئی ہتک نہیں اور اگر ہتک کا کوئی خیال ہو سکتا تھا تو وزرائے برطانیہ کے متواتر انکار نے اس احتمال کو باطل کردیا ہے.کمیشن کا بائیکاٹ کرنے سے ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کو آئندہ اختیارات یا تو بالکل ہی نہ ملیں یا کم

Page 92

۴۹ ملیں.پس بائیکاٹ سے ہندوستان کی آزادی میں دیر لگے گی فائدہ نہ ہو گا.مذکورہ بالا نقطہ نگاہ تو عام ہندوستانی کا نقطۂ نگاہ ہے.لیکن ایک خالص اسلامی نقطۂ نگاہ ہے جسے اس وقت تک بحث میں نظر انداز کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ کا اثر زیادہ تر مسلمانوں پر پڑے گا اور ہندوؤں پر بہت ہی کم پڑے گا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے ریفارم سکیم منظور ہوئی ہے ہندو اس امر کو سمجھ چکے ہیں کہ ہندوستان کا مستقبل انگریز قوم سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے لیڈر برابر آٹھ سال سے گرمیوں میں انگلستان جاتے ہیں اور بڑے بڑے انگریزوں سے ہندوؤں کے فائدہ کی باتیں کر کر کے انہیں اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں.اسی طرح وہ کوشش کر کے پارلیمنٹ کے ممبروں کو ہندوستان لاتے ہیں اور ہندوؤں کے گھر مہمان ٹهہراتے ہیں.اور ہر وقت ان کے کان ان باتوں سے بھرتے ہیں جو ہندوؤں کے حق میں مفید ہوں اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ.مگر مسلمانوں کے پاس نہ دولت ہے اور نہ ان کے اندر قربانی کا مادہ.چنانچہ وہ اس آٹھ سال کے عرصہ میں بالکل سوتے رہے ہیں اور صرف اس سال عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب احمدی بیرسٹر لاہور ممبر پنجاب کو نسل اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب بیرسٹر ممبر یو.پی کونسل اس غرض سے ولایت گئے تھے اور انہیں کئی بڑے بڑے آدمیوں نے کہا کہ ہمیں تو آج ہی معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی جداگانہ حفاظت کی ضرورت ہے ورنہ ہم تو بی خیال کرتے تھے کہ ہندو لیڈر جو باتیں کہتے رہے ہیں مسلمان ان سے متفق ہیں ورنہ مسلمان کیوں نہ آکر ہم سے اپنے حقوق کے متعلق بات کرتے لیکن دو آدمیوں کی سہ ماہی کوششیں آٹھ سال کے درجنوں آدمیوں کی کوششوں کا مقابلہ کب کر سکتی ہیں.ہندو لیڈروں میں سے اکثر انگلستان کے بااثر لیڈروں کے ذاتی دوست ہیں.جبکہ مسلمانوں میں سے بہت ہی کم لوگ انگریز لیڈروں کے روشناسا ہیں.نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہی سمجھتے ہیں جو ہندووں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.اور مسلمان اس امر کو یاد رکھیں کہ اگر کمیشن کا بائیکاٹ ہوا تو کمیشن جو رپورٹ کرے گا وہ اپنے پہلے علم کی بناء پر کرے گا اور وہ الف سے لے کر ”ی“ تک ہندو لیڈروں کا دیا ہوا ہے.اس کی رپورٹ ایک ایک نقطہ میں مسلمانوں کے فوائد کے خلاف ہو گی اور گویا مہاسبھا کی لکھوائی ہوئی ہوگی.ہندو لیڈر جانتے ہیں کہ کمیشن کے بائیکاٹ میں ان کا کوئی نقصان نہیں.وہ جو کچھ اپنے متعلق کہناتھا آٹھ سال سے انگریز ممبران پارلیمنٹ کو رٹاتے چلے آئے ہیں.اگر نقصان ہے تو مسلمانوں کا جن کے مطالبات اور جن کے حقوق سے پارلیمنٹ کے ممبر قريباً بالکل ناواقف ہیں.پس بائیکاٹ ہندووں کا

Page 93

۵۰ کوئی نقصان نہیں کرے گا لیکن مسلمان اس کے نتیجہ میں سیاسی ترقی کی شاہراہ سے اس قدر دور چلے جائیں گے کہ پھر ان کے لئے سنبھلنا اور واپس آنا سخت مشکل ہو جائے گا.اگر میری یاد غلطی نہیں کرتی تو سر سائمن جو کمیشن کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے ہیں ایک مقدمہ میں جس کی پنڈت موتی لال نہرو ولایت میں پیروی کر رہے ہیں بیرسٹر ہیں.اور کئی ماہ سے ان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں.بھلا کون خیال کر سکتا ہے کہ اس طرح مل کر کام کرتے ہوئے ان کے درمیان سیاسیات ہند کے متعلق تبادلہ خیال نہ ہوتا ہو گا.اور جبکہ پنڈت بھی اپنے خیالات انہیں پہلے ہی بتا چکے ہوں تو انہیں دوبارہ کمیشن کے سامنے جا کر انہی خیالات کو دُہرانے کی چنداں پرواہ نہیں ہو سکتی.اگر کمیشن کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ضرورت ہے تو غریب مسلمانوں کو جن کے لیڈروں کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ پچھلے آٹھ سالوں میں ہندوؤں کی طرح ولایت جاجاکر انگریزوں کو مسلمانوں کے حقوق سے آگاہ کرتے رہے.پس اگر اب کمیشن کے آنے پر ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی بائیکاٹ میں شامل ہو گئے تو نقصان مسلمانوں کاہی ہو گا اور ذمہ داری بھی صرف انہی پر عائد ہوگی کہ دیکھے بھالتے کنویں میں گر گئے.ہندوؤں کے بائیکاٹ کی تحریک ایسی ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص کھانا کھا کر آئے اور اس شخص کو جس نے ابھی کھانا نہیں کھایا ہے کے کہ چلو آج کھانا کیا کھانا ہے فاقہ ہی رہے.وہ تو کھانا کھا چکا ہے.اس کا اس فقرہ کے کہہ دینے سے کوئی نقصان نہیں.نقصان اس کا ہے جس نے ابھی کھانا نہیں کھایا.مسلمانوں کو چاہئے کہ بائیکاٹ کی تحریک کرنے والوں سے کہیں کہ ہمیں بھی اس حد تک انگریزوں کے کان بھر لینے دو جس قدر کہ آپ نے بھرے ہیں.اس کے بعد ہم بھی آپ کے ساتھ بائیکاٹ میں آ کر شریک ہو جائیں گے.* مسلمانوں کو یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس بائیکاٹ کا نتیجہ کیا بتایا جاتا ہے.اگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ بھی حاصل نہ ہوا تو ایسا بائیکاٹ کوئی عقلمند کب کرے گا.اور اگر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انگریز ڈر کر ہندوستان کو حکومت خود اختیاری دے دیں گے تو مسلمان سوچ لیں کہ وہ حکومت جو مسلمانوں کے فوائد کی حفاظت کا سامان ہوئے بغیر ملے گی اس میں مسلمانوں کا ٹھکانا کہاں ہو گا.اگر بغیر کسی سمجھوتے کے سَوَرَاج مسلمانوں کے لئے مفید ہوتا تو اس قدر اختلاف ہندووں سے کیوں کیا *میں اس حد تک اس مضمون کو لکھ چکا تھا کہ اخبارات سے معلوم ہوا کہ ٹائمز آف لندن نے بھی اس دلیل کو پیش کر کے مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ اس وقت ان کا کمیشن کو بائیکاٹ کرنا ان کے لئے مضر ہے ان کے نقطہ نگاہ سے انگریز ناواقف ہیں.

Page 94

۵۱ جاتا.پھر اس سوراج کے لئے ہندو اس قدر شور ہی کیوں کرتے.پس جس نے کی آج سے ایک ماہ پہلے تمام مسلمانان ہند مخالفت کر رہے تھے اسے صرف اسی وجہ سے کہ کمیشن میں ہندوستانی ممبر کیوں نہیں ہیں کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے.کیا ہندوستانی ممبروں کا شامل ہونا اس قدر اہم سوال ہے کہ اس کے لئے مسلمانوں کو ابدالآباد تک کے لئے غلام بنا دینا جائز اور درست ہو سکتا ہے.جو لوگ اس فعل کو بُرا بھی سمجھتے ہیں انہیں بھی یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستانیوں کا ممبر نہ ہونا ایک ادنی ٰ سوال ہے اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ایک اہم تر سوال ہے.اور ادنی ٰچیز پر اعلیٰ کو قربان کر دینا انتہائی درجہ کی نادانی ہے.مندرجہ بالا حالات میں مسلمانوں کا اہم فرض ہے کہ تمام خیالات کو ترک کر کے وہ اس موقع کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنے حقوق کو بالوضاحت کمیشن کے سامنے پیش کریں.میرے نزدیک یہ مسائل ہیں جن کے متعلق مسلمانوں کو تیار ہو جانا چاہئے.اول قليل التعداد جماعت کے حقوق کی حفاظت:- اس کے متعلق پورے طور پر اپنے مطالبات اور دلائل کا ذخیرہ جمع کر لینا چاہئے.یورپ میں چونکہ پارٹیوں کی طاقت بدلتی رہتی ہے اس لئے انگریزوں کے نزدیک قلیل التعداد کی حفاظت کا سوال چنداں اہمیت نہیں رکھتا.وہ خیال کرتے ہیں کہ جو آج کم ہیں کیوں وہ زیادہ ہونے کی کوشش نہیں کرتے.حالانکہ وہاں پارٹیوں کی بنیاد سیاسی خیالات پر ہے جو بدلتے رہتے ہیں اور یہاں مذہب پر جو بہت کم بدلتا ہے اور اس وجہ سے جو کثیر التعداد ہیں وہ بظاہر حالات ہمیشہ کثیر التعداد رہیں گے جب تک تبلیغ سے ان کو اپنا ہم مذہب نہ بنالیا جائے اور قلیل التحد اور جماعت ہمیشہ گھاٹے میں رہے گی.میں انگلستان اور ہندوستان کے فرق کو سمجھاکر کمیشن کے پرانے تعصب کو جے ہندو بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے دور کرنا ہے.دوسرے ادنی ٰ اقوام کے حقوق کا سوال :.گو یہ سوال اسلامی نہیں لیکن مسلمانوں کو ادنی ٰ اقوام کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ اس وقت تک ہندوؤں کو مسلمانوں پر غلبہ ادنی ٰ اقوام کی وجہ سے ہے.ہندو لوگ چوہڑوں وغیرہ کو حق تو کوئی نہیں دیتے لیکن انہیں ہندو قرار دے کر ان کے بدلہ میں خود سیاسی حقوق کے لیے ہیں.مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں ابھاریں ان کی تنظیم میں مدد دیں اور کمیشن کے سامنے ان کے معاملہ کو پیش کرنے میں اعانت کریں.تیسرے جداگانہ انتخاب:- یہ مستقل طور پر کوئی حق نہیں لیکن ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کی سخت ضرورت ہے اور اس کے بغیر کبھی بھی مسلمان ترقی نہیں کر سکیں گے.پس

Page 95

۵۲ اس امر پر زور ہونا چاہئے کہ اس حق کو ہندوستان کے اساسی قانون میں داخل کیا جائے اور جب تک مسلمان قوم بہ حیثیت قوم راضی نہ ہو اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے.چوتھے پنجاب اور بنگال اور جو آئندہ صوبے بنیں جن میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو ان میں مسلمانوں کو اس قدر حقوق دیئے جائیں کہ ان کی کثیر التعداد قليل التعداد نہ ہو جائے اس وقت بنگال کے چھپن فی صدی مسلمانوں کو چالیس فیصدی حق ملا ہوا ہے اور پنجاب کے پچپن فی صدی کو قریباً پینتالیس فی صد گ.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی صوبے کو بھی اپنا نہیں کہہ سکتے اور آزاد ترقی کے لئے ان کے لئے کوئی بھی راستہ نہیں کھلا.پانچویں صوبہ سرحدی میں اصلاحی طریق حکومت کے لئے کوشش ہونی چاہئے اور سندھ کے متعلق یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ بمبئی سے الگ کیا جا کر ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے.چھٹے کامل مذہبی آزادی :.اس امر کو اساسی قانون میں داخل کرنا چاہئے کہ کوئی دوسری قوم آزادی کے کسی مرتبہ پر بھی کسی ایسے امر کو جو کسی دوسری قوم کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہو محدود نہیں کر سکے گی.خوام براہ راست مذہبی اصلاح کے نام سے خواہ تمدنی اور اقتصادی اصلاح کے نام سے بلکہ ہر قوم کی اقتصادی اور تمدنی اصلاح خود اس کے منتخب شدہ ممبروں کے اختیار میں رہنی چاہئے.ساتویں تبلیغ ہر وقت اور ہر زمانہ میں قیود سے آزاد رہے گی.اور اسے کسی رنگ میں روکا نہیں جائے گا.مثلا ًیہ شرط لگا کر کہ مجسٹریٹ کی اجازت سے کوئی شخص مذہب بدل سکتا ہے.و غير دذلک- اس قسم کی قیود سے پہلے مختلف ملکوں میں تبلیغ کو روکا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ ہندوستان میں بھی ہندو لوگ ایسا ہی کریں.آٹھویں زبان کا سوال یعنی زبان کو کبھی قانوناً نہیں بدلا جائے گا.مسلمانوں کو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی پوری اجازت ہو گی.اور جن صوبوں میں اردو رائج ہے ان میں اردو زبان بطورقانونی زبان ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی.زبان کا سوال کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم سوال ہوتا ہے پس اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.یورپ میں بعض سخت جان قوموں کو ان کی زبانیں بدل کر ہی بند کیا گیا ہے.پس کچھ تعجب نہیں کہ کسی دن ہندوؤں کی طرف سے بھی ایسی ہی کوشش ہو.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہیں لیکن یہ اہم امور ہیں جن کو نظر انداز نہیں کرنا

Page 96

۵۳ چاہئے.مگر سوال یہ ہے کہ ان امور کو کمیشن تک بصورت احسن پہنچا دیا جائے اس کے لئے میری طرف سے یہ تجویز ہے کہ ہر شہر اور قصبہ میں ایک اسلامی مقامی انجمن بنائی جائے جو کسی خاص خیال کی پابند نہ ہو.اس کی غرض صرف یہ ہو کہ تمام تجاویز جو مختلف لوگوں یا انجمنوں کی طرف سے شائع ہوں وہ ان پر غور کرے اور سب تجاویز پر غور کر کے اپنی ایک رائے قائم کرے.اس کے بعد جس جس جماعت سے اس کا خیال ملتاہو ریزولیوشن کے ذریعہ سے اسے اطلاع دے کہ فلاں فلاں شہر کے مسلمانوں کی کثرت اس خیال میں آپ سے متفق ہے.قلیل التعداد خیال کی راۓ کو بھی شائع کیا جائے.اس طرح ایک بہت بڑا فائدہ ہو گا اور وہ یہ کہ ہر ایک رائے پر آزادانہ غور ہو سکے گا اور کسی خاص پارٹی کے اچھے یا بُرے خیالات کا پابند نہ ہونا پڑے گا اور مسلمانوں کی صحیح رائے کمیشن تک پہنچ جائے گی.میں اس کی مثال یوں دیتا ہوں کہ فرض کرو کہ مختلف بحثوں کے بعد دس اہم امور کے متعلق فیصلہ ہوا کہ ان کو ضرور پیش کرنا چاہیے.ایک شہر کے لوگوں کو ان میں سے آٹھ میں مسلم لیگ سے اتفاق ہے اور دو میں مثلاً کانگریس میں مسلمانوں سے.اب بجاۓ اس کے کہ دونوں یہ کہتے پھریں کہ ہم سب مسلمانوں کے نمائندے ہیں.یا یہ کہ اس شہر کے لوگ اس پارٹی کی تائید کر دیں جس سے آٹھ امور میں ان کو اتفاق ہے.یہ ہونا چاہئے کہ اس شہر کے لوگ اپنا اجلاس کر کے اور غور کر کے اس کمیٹی کو جس کے ساتھ ان کو آٹھ امور میں اتفاق ہے اپنی طرف سے اختیار لکھ دیں کہ ان ان آٹھ امور میں ہم آپ سے متفق ہیں.آپ یہ پیش کر سکتے ہیں کہ اس جگہ کے مسلمان ان امور میں ہم سے متفق ہیں اور دوسرے دو امور میں دوسری کمیٹی کو لکھ دیں کہ آپ کو اختیار ہے کہ آپ یہ پیش کر دیں کہ ان دو امور میں ہمیں آپ سے اتفاق ہے.یا فرض کرو کہ تین سیاسی جماعتیں یا چار یا پانچ ہوں اور سب سے ایک ایک دو دو امور میں اتفاق ہو تو سب کو لکھ دیں کہ فلاں فلاں امر میں ہمیں آپ سے اتفاق ہے.اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ کسی ایک امر میں بھی کثرت رائے کو اپنی رائے قربان نہیں کرنی پڑے گی.ہر امر میں مسلمانوں کی حقیقی کثرت رائے کمیشن تک پہنچ جائے گی اور اس سے مسلمانوں کے مطالبات کو اس قدر تقویت حاصل ہوگی جو کسی دوسری صورت میں نہیں ہوسکتی.اب ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض اے امور کی خاطر بعض بُرے امور کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے حالانکہ سیاسیات میں آپس میں اختلاف بالکل ممکن ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر قصبہ اور ہر شہر میں ایسی انجمنیں ابھی سے بن جائیں اور وہ ماہواریا

Page 97

۵۴ پندرہ روزہ اجلاس کر کے اس میں مختلف تجاویز پر غور کر کے اپنی رائے قائم کرتی رہیں اور کمیشن کے آنے پر ہر شہر کے لوگ امور متنازعہ پر بحث کر کے ہر مسئلہ کے متعلق اپنی رائے قائم کر کے اسے شائع بھی کرا دیں اور جس مسئلہ میں جس ایسی جماعت سے اتفاق ہو جس کا وفد کمیشن کے سامنے پیش ہوتا ہے اسے اطلاع دے دیں کہ اس بارہ میں آپ ہمارے قائم مقام ہیں تو اس سے مسلمانان ہند کو ایک غیر معمولی سیاسی طاقت حاصل ہو جائے گی.ایسے فیصلوں کی ان ممبروں کو بھی اطلاع دینی چاہئے جو ان کی طرف سے کونسل یا اسمبلی میں ہوں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کے منتخب کرنے والوں کی کیا رائے ہے اور وہ اس کے خلاف راۓ نہ دیں کیونکہ ممبروں کی رائے ذاتی نہیں سمجھی جاتی بلکہ ان کے منتخب کرنے والوں کی رائے سمجھی جاتی ہے.ہاں یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ مختلف خیال والوں کی الگ کیٹیاں نہ بنائی جائیں بلکہ مختلف خیال کے مسلمان ایک ہی جگہ جمع ہو کر مشورہ کیا کریں اور جو قلیل التعداد لوگ ہوں ان کو بھی اختیار ہو کہ وہ اپنی طرف سے کسی دوسری انجمن کو حق نیابت دے دیں مگر یہ لکھ دیں کہ وہ قليل التعداد ہیں.اس طرح کے متفقہ غور میں علاوہ ایک مفید فیصلہ تک پہنچنے میں سہولت ہونے کے اور بہت سے قومی فائدے بھی حاصل ہوں گے.جن کے لکھنے کی اس جگہ گنجائش نہیں ہے.مجھے افسوس ہے کہ یہ تجویز جس قدر عالی شان فوائد اپنے اندر رکھتی ہے میں اس پر تفصیلی بحث نہیں کر سکتا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام تعلیم یافتہ مسلمان اس کے عظیم الشان فوائد اور بے نظیر نتائج کو خود ہی محسوس کریں گے.آخر میں میں تمام مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر قوم کی حالت اس کی اپنی کوششوں سے بدلتی ہے.جو قوم یہ چاہتی ہے کہ دوسرے لوگ ہماری حالت کو بدلیں اور ہمیں ابھاریں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی.کمیشن کا موقع بےشک ایک اچھا موقع ہے اور اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بھر کی کمیشنیں ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتیں جب تک ہم پختہ ارادہ اور عقد ہمت کے ساتھ اپنی اصلاح کے لئے خود آپ کھڑے نہ ہو جائیں.قانون ہمیں کبھی آزاد نہیں کر سکتا جب تک کہ اقتصادی طور پر اور تمدنی طور پر بھی ہم آزادنہ ہوں.میں نے پچھلے دنوں تحریک کی تھی کہ مسلمان اپنی اقتصادی آزادی کے لئے کوشش کریں اور الحمد لله اس تجویز سے ہزاروں جگہوں پر مسلمانوں کی دکانیں کھلیں اور لاکھوں روپیہ مسلمانوں نے کمایا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ پھر اِس بات میں سستی ہو رہی ہے.بدقسمتی سے مسلمان جب اُٹھتے ہیں جوش سے

Page 98

۵۵ اٹھتے ہیں مگر پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں.جب تک مستقل کوشش جاری نہ رہے گی اس وقت تک کامیابی نہ ہو گی.میں اپنے بھائیوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں غور کریں کہ جن لوگوں سے انہوں نے دکانیں کھلوائی تھیں ان کا ہزاروں لاکھوں روپیہ خرچ کرا کے اب جو وہ ان کی مدد سے دریغ کر رہے ہیں اور ان کی دُکانوں کو چھوڑ کر دوسری دُکانوں پر جا رہے ہیں اس کا اثر قوم کے اخلاق پر کیا پڑے گا اور آئندہ نسلیں اس سے کیا سبق حاصل کریں گی.پس اگر حریت چاہتے ہو، اگر آزاد زندگی کی تڑپ رکھتے ہو، اگر پھر ایک دفعہ دنیا میں عزت کی سانس لینا چاہتے ہو، تو خدارا ان سستیوں اور بے استقلالیوں کو چھوڑ دو.تعاون باہمی کی عادت ڈالو اور نقصان اٹھا کر بھی اپنے بھائی کا فائدہ کرو.تب اور صرف تب آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے.سائمن کمیشن نہیں بلکہ خود آپ کی اَن تھک کوششیں اور بے نفس قربانیاں آپ کو کامیابی کے مقام پر کھڑا کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.واخردعوانا ان الحمد لله رب العلمين - خاکسار مرزا محموداحمد امام جماعت احمد یہ قادیان ۸-۱۲-۱۹۲۷ء (الفضل ۱۶دسمبر ۱۹۲۷ء)

Page 99

Page 100

۵۷ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی

Page 101

Page 102

۵۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء (فرمودہ مؤرخہ ۲۶دسمبر ۱۹۲۷ء) تشہد تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تمام احباب اس امر سے آگاہ ہیں کہ ہمارا اس جگہ جمع ہونا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے اور اسکے بھیجے ہوئے اسلام کے غلبہ کے لئے ہے.یہ مقام نہ کوئی سیرو تفریح کا مقام ہے نہ اس جگہ جمع ہونا ہماری تمدنی یا سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کا موجب ہوتا ہے.یہ جگہ ریل سے اور مرکزی مقاموں سے دور ہے خواہ وہ علمی لحاظ سے ہوں یا سیاسی لحاظ سے یا تمدنی لحاظ سے.غرض یہ ایک بستی ہے جو دیوی ساز و سامان کے لحاظ سے اپنے اندر کسی قسم کی کوشش نہیں رکھتی اس لئے آپ لوگ اگر جمع ہوئے ہیں تو صرف اس لئے کہ یہاں سے خدا تعالی کے ایک بنده کی آواز اُٹھی، اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احیاء اور اس کو تقویت دینے کے لئے اپنے ایک بندہ کو کھڑا کیا.ایک کمزور بچہ آکر ایک بلند مینار پر کھڑا ہو کر شہر کے قومی جوانوں اور مضبوط و طاقتور پہلوانوں کو للکارے اور کہے کہ میں سب کو پچھاڑنے کے لئے تیار ہوں تو بے شک یہ بات ہنسی کے قابل ہو گی مگر اس انسان کی بات اس سے بھی زیادہ ہنسی کے قابل ہو گی جس کے اپنے بھی دشمن ہوں اور پراۓ بھی، جس کے رشتہ دار بھی اس سے علیحدہ ہو چکے ہوں اور جسے اردگرد کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں، حتی کہ اس کے اپنے قصبہ کے رہنے والے لوگ بھی اس سے واقف نہ ہوں مگر وہ یہ کہے کہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا گیاہوں اور میں لوگوں کو ہدایت دینے میں کامیاب ہو جاؤں گا.اس کی بات پر اس کے رشتہ داروں نے نفرت کی ہنسی ہنسی، اس کے گاؤں

Page 103

۶۰ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ والوں نے نفرت کا اظہار کیا، اس کے ملک والوں نے حقارت آمیز تبسم سے اسے دیکھا، اس کی طرف سے مونہہ موڑ لیا اور کہا تعجب ہے کہ اس تعلیم کے زمانہ میں بھی ایسے مجنون پیدا ہو سکتے ہیں.مگر اس نے کسی کی حقارت کی کوئی پرواہ نہ کی اور نہ دنیا کی عزت کو کوئی وقعت دی بلکہ اس آواز کی تعمیل میں جو آسمان سے بلند ہو رہی تھی اور جو اسے کہہ رہی تھی کہ اُٹھ کھڑا ہو ساری دنیا کے مقابلہ میں اُٹھ کھڑا ہوا.وہ خود اپنی اس جسارت پر حیران تھا، وہ خود اپنی کمزوری اور بے کسی کو محسوس کرتا تھا، وہ دنیا کی مخالفت اور عداوت سے آگاہ تھا، وہ کوئی مجنون نہ تھا، وہ جاہل نہ تھا، وہ نا تجربہ کار نہ تھا.اس کا علم، اس کا تجربہ ، اس کی عقل، اس کی سمجھ اسے بتا رہی تھی کہ وہ ایک کمزور اور ناتواں ہستی ہے.اس میں کوئی زور اور طاقت نہیں ہے دنیا کی ساری طاقتیں اس کے خلاف ہیں لیکن وہ مجبور تھا کیونکہ اس کا سب سے پیارا آقا اور سب سے بڑا محسن اسے کہہ رہا تھا کہ اُٹھ اور دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو جا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی اس حالت اور اس کیفیت کا اندازہ اس نوٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے اپنی ایک پرائیویٹ نوٹ بُک میں لکھا اور جسے میں نے نوٹ بک سے لے کر شائع کر دیا.وہ تحریر آپ نے دنیا کو دکھانے کے لئے نہ لکھی تھی کہ کوئی اس میں کسی قسم کا تکلّف اور بناوٹ خیال کر سکے.یہ ایک سرگوشی تھی اپنے رب کے ساتھ اور وہ ایک عاجزانہ پکار تھی اپنے اللہ کے حضور جو لکھنے والے کے قلم سے نکلی اور خدا تعالی کے حضور پہنچی.آپ نے وہ تحریر نہ اس لئے کی تھی کہ وہ دنیا میں پہنچے اور نہ پہنچ سکتی تھی اگر میرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے ماتحت نہ ڈال دیتا اور میں اسے شائع نہ کردیتا.اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.اے خدا! میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں.جبکہ تمام دوست و غمخوار مجھے کوئی مدد نہیں دے سکتے اس وقت تُو مجھے تسلی دیتا اور میری مدد کرتا ہے.(مفہوم) غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ایسی حالت میں آواز اٹھائی اور اسی جگہ قادیان سے اُٹھی جو آہستہ آہستہ گونج پیدا کرتی گئی، بلند سے بلند تر ہوتی گئی حتی کہ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.یہ آواز اسی طرح گزری جس طرح ایک جنگل بیابان سے جس میں کثرت سے سرکنڈے ہوں ہوا گزرتی ہے.سرکنڈوں سے مل کر ہوا سے سیٹی کی آواز پیدا ہوتی ہے.سرکنڈے اس کا مقابلہ کرتے اور اُسے گزرنے نہیں دیتے.اس وقت ہوا چلاتی اور آواز پیدا کرتی

Page 104

۶۱ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز دنیا میں سے گزری.یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیامیں سرکنڈے ہی سرکنڈے بھرے پڑے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز ایک ہلکی سی چیخ تھی جو گونج پیدا کرتی گئی.وہ دنیا کی نظروں میں دیوانے کی بڑسمجھی جاتی تھی لیکن چونکہ خدا تعالی کی پھونکی ہوئی روح تھی اس لئے اس نے مردوں کو زندہ کرنا شروع کیا.اور جس طرح مٹی سے برتن بنائے جاتے اور جب ان پر ہاتھ مارا جاتا ہے تو ٹن کی آواز نکلتی ہے اسی طرح جب مٹی میں خدا تعالی کی روح پھو نکی گئی تو اس سے وہ انسان بنا جس نے ساری دنیا پر اور اس کی تمام چیزوں پر حکومت کی.بعینہ اسی طرح وہ آواز اٹھی اور دنیا میں اسی طرح گزری جس طرح سرکنڈوں میں سے ہوا گزرتی ہے لیکن چونکہ خدا تعالی کی طرف سے تھی اس لئے سرکنڈوں نے ہی شکلیں بدلنی شروع کیں اور ان سے انسان کی شکلیں بننی شروع ہو گئیں.اس طرح کبھی ایک طرف انسان کی شکل بنی کبھی دوسری طرف.کبھی یہاں انسانی شکل بنی کبھی وہاں اور اس طرح گویا دوبارہ دنیا میں ایسے انسان پیدا ہوئے جو خدا تعالی کی آواز کو دنیا میں بلند کریں.اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہملوگ یہاں جمع ہوئے ہیں.ہم میں سے بہت سے تو اس لئے آۓ کہ جو خدا تعالی کی طرف سے ان کےسپرد کام ہوا ہے اسے کریں.اور بہت سے اس لئے آئے کہ وہ آواز ایک طاقت رکھتی تھی اس کے متعلق معلوم کریں کہ اگر وہ ان کے آقا اور مالک کی طرف سے آئی ہے تو اسے قبول کریں اور اگر (نعوذ بالله) شیطان کی طرف سے آئی ہے تو اسے رد کریں.غرض دونوں قسم کے لوگ نیک نیتی سے یہاں جمع ہوئے ہیں.اور خدا تعالی اسے ردّ نہیں کرتا جو اخلاص سے اس کی طرف آئے بلکہ جو اس کی طرف جھکتا ہے اسے اٹھاتا ہے اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے.پس آؤ پیشتر اس کے کہ ہم کام شروع کریں خدا تعالی سے عاجزانہ دعا کریں کہ اے خدا ! یہ کام جو ہمارے سپرد ہوا ہے ہماری طاقتوں اور ہماری ہمتوں سے بالا ہے.تُو خود ہی ہماری مدد کر ہماری کوششوں میں برکت ڈال تا کہ لوگ اس آواز پر لبیک کہیں اور دین کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں.دنیا اس وقت شرک سے معمور ہے.اور ہماری مثال ان بچوں کی ہے جو شیروں کے آگے ڈال دیئے گئے ہوں.اگر خدا تعالی کی طرف سے ہمیں مدد نہ ملے گی تو جس طرح بچے کو شیرچیر ڈالتے ہیں اسی طرح ہماری حالت ہو گی.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! تُو آپ ہی ہماری : زبانوں، ہمارے قلوب، ہمارے انکار، ہمارے کاموں، ہمارے وقتوں، ہماری سعی، ہمارے خیالات، ہمارے احساسات، ہمارے جذبات، ہمارے دین، ہماری دنیا میں برکت دے تاکہ تیرے

Page 105

۶۲ نام کو بلند کرنے میں ہم کامیاب ہو سکیں.ہم دنیا میں ہوں یا نہ ہوں مگر صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا لایا ہوا دین دنیا میں قائم ہو جائے.تیرا کلام دنیا میں قائم ہو، شیطان کی حکومت جاتی رہے اور تیری ہی حکومت قائم ہو.(آمین) (الفضل 3 جنوری ۱۹۲۸ء)

Page 106

۶۳ تقرر دلپذیر از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 107

Page 108

۶۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم تقریر دلپذیر (فرموده مورخہ ۲۷دسمبر۱۹۲۷ء) سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات پڑھیں: لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ- ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِوَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰهِۙ-لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا مجھے نہایت افسوس ہے کہ اس دفعہ منتظمین جلسہ کی غلطی اور شدید غلطی کی وجہ سے جلسہ گاہ ایسی تنگ بنائی گئی ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگ انتہائی تنگی سے بیٹھے ہوئے ہیں پھر بھی بہت سے لوگ ابھی دروازوں میں کھڑے ہیں اور بہت سے دروازوں سے باہر دُور تک باہر کھڑے نظر آرہے ہیں اور بہت سے جگہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس لوٹے جارہے ہیں.میں تعجب کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے اس الہام کے باوجود کہ "میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا" ۲؎ کے جلسہ گاہ بنانے والوں کو یہ کیوں خیال نہ آیا کہ اس سال لوگ گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ آئیں گے.پچھلے سالوں میں یہ طریق رہا ہے کہ ہر سال پہلے سال کی نسبت جلسہ گاہ کو بڑھا دیا جاتا تھا اور ہزار پندرہ سو آدمیوں کی پہلے سال

Page 109

۶۶ کی نسبت زیادہ جگہ بنائی جاتی تھی لیکن اس سال جلسہ گاہ گزشتہ سال کی جلسہ گاہ جتنی ہی بنائی گئی بلکہ نیچے کی جگہ ایک فٹ کم کر کے اوپر ایک گیلری زیادہ بنائی گئی.میرے نزدیک منتظمین نے یہ سخت غلطی کی ہے جلسہ کے بعد اس کے متعلق میں ان سے جواب طلب کروں گا اور آئندہ کے لئے جلسہ گاہ کی تعمیر نظارت متعلقہ کے فرائض میں سے قرار دے دوں گا.یہ کہیں نہیں ہوتا کہ جنگکے لئے جنگ کا میدان کرنے والے سپاہی خودہی منتخب کیا کریں بلکہ یہ کام ذمہ دار افسروں کا ہو تا ہے کہ وہ جنگ گاہ مقرر کریں مگر یہاں جلسہ گاہ جو ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے اس کی تیاری اور اس کا اندازہ ایک شخص پر چھوڑ دیا گیا کہ جتنی جلسہ گاہ چاہے وہ بنائے اور جس طرح چاہے بنائے.آج تک کوئی گورنمنٹ ایسی نہیں سنی گئی جس نے یہ قرار دیا ہو کہ لڑنے والی سپاہ اپنے لئے راشن بھی خود جمع کرے اور میدان جنگ بھی وہی منتخب کرے بلکہ یہ کام دوسرے ذمہ دار افسروں کا ہوتا ہے.بحیثیت خلیفہ یہ میرا کام نہیں کہ میں ایسی باتوں میں دخل دوں مگر باوجود اس کے جلسہ کے شروع ہونے سے پہلے مجھے جلسہ گاہ کے متعلق خیال پیدا ہوا کہ پوچھوں جلسہ گاہ کتنی بنائی گئی ہے مگر نظارت کو اس کے متعلق خیال بھی نہیں آیا کہ جلسہ گاہ کیسی بنی ہے کتنی جگہ میں بنی ہے.باہر سے لوگ جلسہ کے موقع پر دین کے متعلق باتیں سننے کے لئے آتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں لیکن اگر ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ کاہی انتظام نہ کیا جائے تو پھر ان کو یہاں بلانے کی کیا ضرورت ہے.اگر جلسہ گاہ بنانے کا کام ایک اوورسیئر کے سپرد کر دینا ہے تو پھر یہ اسی کی مرضی پر منحصر ہے کہ جتنی لمبی چوڑی چاہے بنائے تو میرے نزدیک جلسہ کے متعلق اعلان کر نا بھی اسی کے سپرد کر دینا چاہئے تاکہ وہ اس طرح اعلان کر دیا کرے کہ اس دفعہ اتنے اتنے فٹ جلسہ گاہ بنائی جائے گی اس لئے اتنے لوگ آئیں اس سے زیادہ نہ آئیں.میں اس دفعہ جلسہ گاہ کے اس قدر تنگ بنائے جانے پر پھر افسوس کا اظہار کرتا ہوں اور دوستوں سے کہتا ہوں جس قدر تنگ ہو کر بیٹھ سکیں بیٹھیں تاکہ دوسرے دوستوں کو بھی داخل ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ جگہ مل سکے.میں اس سال بھی حسب عادت آج ان اُمور کے متعلق جو اس سال پیش آئے یا جو آئندہ سال کے پروگرام سے تعلق رکھتے ہیں کچھ بیان کروں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل حسب معمول خدا تعالی کی توفیق سے علمی مضمون بیان کروں گا.قبل اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس سال میں جلسہ کے قریب مجھ پر انفلوئنزا کا حملہ ہوا اور میں ۸-

Page 110

۶۷ دسمبر سے لے کر 18 دسمبر تک بیماری میں مبتلاء رہا.انفلوئنزا کا اثر چونکہ دل پر زیادہ پڑتا ہے.اس لئے میں اس دفعہ اتنی طاقت محسوس نہیں کرتا کہ میں تقریر کر سکوں سوائے اس کے کہ خدا تعالی خاص طور پر طاقت دے دے اور اس کا منشاء ہو کہ میں تقریر کروں.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست جس غرض کے لئے یہاں آئے ہیں اُسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اطمینان سے تقریر سنیں گے اور اس بات کا خیال نہ کریں گے کہ کچھ دوستوں کی غلطی سے جلسہ گاہ تنگ بنائی گئی ہے.چونکہ اس وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا اس لئے اس کا خمیازہ سب دوستوں کو بھگتنا چاہئے اور اس تکلیف کو برداشت کرنا چاہئے.میں جانتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر تنگ ہو کر بیٹھیں تو ان کے اعضاء میں درد شروع ہو جاتا ہے اس لئے آئنده جلسہ گاہ اتنی ہونی چاہئے کہ تنگ ہو کر بیٹھنے کے لئے نہ کہنا پڑے اور دوست اطمینان سے بیٹھ کر تقریر سکیں.اس سال ایک نیا انتظام کیا گیا ہے.میں پہلے اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ انتظام یہ ہے کہ میرے متعلق پہرہ پہلے کی نسبت زیادہ کر دیا گیا ہے.اس کی دو وجہیں ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں ہجوم کے بوجھ کو پہلے کی طرح برداشت نہیں کر سکتا.پہلے بھی بعض دفعہ ہجوم کے دباؤ کی وجہ سے مجھے اعصابی تکلیف معلوم ہوتی تھی اور دل پر بہت بوجھ پڑتا تھا.پس اس دفعہ بیماری کی وجہ سے ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ مجھ پر لوگوں کا ہجوم نہ ہو اور مصافحہ انتظام کے ساتھ ہو.دوسری وجہ یہ ہے کہ متعدد جگہوں سے اطلاعیں آئی ہیں کہ دشمنان اسلام اور دشمنان سلسلہ احمدیہ اس قسم کی تجویزیں کر رہے ہیں کہ مجھ پر حملہ کیا جائے.بعض معزز غیر احمدیوں نے بھی نہایت گھبراہٹ سے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ بعض غیرمذاہب کے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی باتیں ہورہی ہیں.اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ بیسیوں لوگوں نے اس قسم کی خوابیں دیکھیں ہیں جن میں خطرہ دکھایا گیا ہے اور انہوں نے تحریک کی ہے کہ حفاظت کا ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ لوگ قریب نہ پہنچیں جن کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو ایک طرف احمدیوں غیراحمدیوں بلکہ غیر مذاہب کے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی اطلاعوں کی وجہ سے اور دوسری طرف خوابوں کی وجہ سے اس دفعہ ایسا انتظام کیاگیا ہے کہ میرے ارد گرد بے قاعدہ ہجوم نہ ہو اسی وجہ سے مسجد میں بھی میرے گزرنے کے وقت فاصلہ رکھا جاتا ہے.گومذہبی لحاظ سے خدا تعالی کے رستہ میں مارا جانا بہت

Page 111

۶۸ بڑی نعمت ہے لیکن شماتتِ اعداء کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظت کی ضرورت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر دین کے لئے اور خدا تعالی کی راہ میں قربان ہونے کی خواہش اور کس کو ہو سکتی ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کا خطرہ ہوتا تو صحابہ آپ کی حفاظت کرتے اور قبیلے قبیلے کے لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بات کی اجازت دیتے اور اس وقت جبکہ لوگ پہرہ دے رہے ہوتے آپ بعض اوقات ان سے باتیں کرنے کے لئے باہر تشریف لے آتے تاکہ ان کا دل خوش ہو چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے احتیاط کرنے کا حکم ہے اس لئے ہم بھی احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہیں ورنہ ایسی باتیں مومن کے لئے خوشی کاباعث ہوتی ہیں.ہم خدا تعالی کے پرستار ہیں اور اس خدا کے پرستار ہیں جو ہر قسم کی طاقت اور قوت رکھتا ہے.کسی انسان کے پرستار نہیں ہیں اس لئے جانتے ہیں کہ خدا تعالی اپنے کام اپنے آپ چلاتا ہے اور ان کے لئے آپ سامان پیدا کرتا ہے بندوں پر خدا تعالی کے کاموں کا انحصار نہیں ہوتا.بندوں میں سے سب سے بڑا درجہ رسول کا ہوتا ہے مگر خدا تعالی کے کاموں کا انحصار رسول پر بھی نہیں ہوتا پھر خلیفہ کیا.خلیفہ تو رسول کا غلام ہوتا ہے.پس خدا تعالی اپنا کام آپ چلاتا ہے کوئی رہے یا نہ رہے کوئی بچے یا نہ دبچے اس کا کام چلتا ہے اور کوئی اُسے روک نہیں سکتا.اس کے بعد میں نہایت افسوس کے ساتھ ان چند اصحاب کی دائمی جدائی پر اظہار رنج و ملال کرتا ہوں جن کو خدا تعالی کی مشیّت نے اس سال ہم سے جُدا کر لیا ان میں سے مقدّم وجود مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کا ہے.میرے نزدیک ہر سلسلہ کے خادم اور اسلام کے خدمت گزار کاجُدا ہونا بہت رنج اور تکلیف کی بات ہے مگر مولوی عبداللہ صاحب سلسلہ کے خادم ہی نہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے پرانی اور دیرینہ صحبت رکھنے کی خصوصیت ہی نہ رکھتے تھے بلکہ اپنے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ایک بہت بڑا نشان بھی رکھتے تھے جو ان کے دفن ہونے کے ساتھ ہی دفن ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ایک رؤیا دیکھی تھی کہ آپ نے خدا تعالی کے حضور بعض کاغذات پیش کئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر سرخی سے دستخط کرنے چاہے اور قلم کو زیادہ سرخی لگنے پر چھڑکا جس سے چھینٹے گرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے کپڑوں پر پڑے.اس وقت جبکہ آپ نے یہ رؤیا دیکھی مولوی عبد اللہ صاحب سنوری آپ کے پاؤں دبارہے

Page 112

۶۹ تھے.انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پاؤں پر ایک سرخ نشان پڑاہے جو گیلا تھا.انہوں نے اپنی ٹوپی دیکھی تو اس پر بھی اسی قسم کا نشان تھا.اس پر انہوں نے خیال کیا کہ شاید چھت سے چھپکلی کی دُم کٹنے سے خون گرا ہو مگر انہوں نے جب چھت کی طرف دیکھا تو وہ اس قسم کی تھی کہ وہاں چھپکلی کا گمان نہیں ہو سکتا تھا اس پر انہیں بہت حیرت ہوئی اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بیدار ہوئے تو آپ نے پوچھا کیا کوئی خاص بات ہوئی ہے.حضرت صاحب نے اس کے متعلق کچھ نہ فرمایا تب مولوی عبداللہ صاحب نے کہا میں نے اس قسم کا نشان دیکھا ہے.حضرت صاحب نے جواب سے اجتناب کرنا چاہا مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو پھر حضرت صاحب نے رؤیا ۳؎ کا ذکر فرمایا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا کُرتہ دیکھا گیا تو اس پر بھی نشان تھے.مولوی عبداللہ صاحب نے درخواست کی کہ وہ کرتہ انہیں دے دیا جائے تا کہ وہ لوگوں کو نشان دکھا سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے پہلے تو انکار کیا اور فرمایا ایسی باتوں سے شرک کے پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے مگر پھر اُن کے اصرار پر اس شرط پر دے دیا کہ جب وہ فوت ہوں تو ان کے ساتھ ہی یہ کرتہ بھی دفن کر دیا جائے تاکہ اس سے کسی قسم کا شرک نہ پیدا ہو.اس شرط پر مولوی صاحب نے وہ کرتہ لے لیا اور اس کے متعلق انہیں ایسا عشق تھا کہ جلسہ پر لوگوں کو خاص طور پر دکھلایا کرتے تھے اور اس طرح لاکھوں آدمیوں نے اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ اس بات کے گواہ ہو گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی رؤیا ایسے رنگ میں پوری ہوئی جسے کوئی سائنس کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا.مولوی صاحب کی ٹوپی جس پر چھینٹا پڑا تھا وہ تو کسی نے چُرالی مگر کرتہ ان کے پاس محفوظ رہا جو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا.تو ان کی وفات کی وجہ سے ایک یہ بھی صدمہ ہے کہ ایک ایمانشان جو انسانی طاقت سے بالا تھا ہماری آنکھوں سے غائب ہو گیا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ایک رویا دکھائی جاتی ہے جس کے آثار باہر بھی پیدا کر دیئے جاتے ہیں.وہ لوگ جو کہتے کہ الہام کے الفاظ کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں ان کو دکھایا جاتا تھا کہ دیکھو یہاں تو رنگ بھی پیدا کیا گیا ہے.یہ نشان اب نہیں دکھایا جا سکے گا.اسی نشان کے متعلق ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے انکار کیا تو مولوی عبداللہ صاحب ان کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس نشان کے متعلق میں آپ سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں مگر مولوی شاء اللہ صاحب نے مباہلہ نہ کیا.علاوہ اس کے مولوی عبداللہ صاحب جماعت کے پرانے فرد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مخلص خادم تھے.انہوں نے تمہیں

Page 113

۷۰ سال کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی صحبت اختیار کی کثرت سے قادیان آتے اور بڑا اخلاص رکھتے تھے.دوسرے ایک اور صاحب جو بہت پرانے تو نہ تھے مگر بڑا اخلاص رکھتے تھے اور خصوصیت سے سیالکوٹ کی جماعت میں سے جن تین اصحاب کو خدا نے خلافت ثانیہ کے شروع کے وقت فتنہ سے محفوظ رکھا ان میں سے ایک تھے یعنی منشی محمد عبدالله صاحب وہ بھی فوت ہو گئے ہیں ان کے فوت ہونے کا بھی ہمیں صدمہ ہے.اسی زمانہ میں بعض ایسی عورتوں کی بھی وفات ہوئی ہے جو بطور نشان ہے یا جو قومی لحاظ سے افسوسناک جیسے تائی صاحبہ کا انتقال.ان کی وفات پر میں نے ایک خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ بھی ایک نشان تھیں.ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب جنہیں ایسے نشانات معلوم کرنے کا خاص طور پر شوق ہے انہوں نے کوشش کی کہ تائی صاحبہ کے متعلق ان کے سلسلہ میں داخل ہونے سے قبل کے رویہ پر کوئی الزام نہ آنے دیں اور اس قسم کی باتوں کو مٹا دیں اور اس لئے بھی انہوں نے یہ کوشش کی کہ ہماری تائی ہونے کی وجہ سے انہیں احترام مدنظر تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی لکھا ہے کہ تائی صاحبہ خاندان میں سے آپ کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی رہیں ہیں اور میں نے خود سنا کہ جب بھی مجھے دیکھتیں تو یہ کہتیں ’’جیسے کاں ویسی کو کو‘‘ یعنی طنزاً کہتیں جیسا باپ ہے ویساہی بیٹا ہے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی جو مخالفت کی اس کے بیان کرنے میں ان کی کوئی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے.دیکھو حضرت عمررضی اللہ عنہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے مگر آپ کے ہمیشہ کے لئے غلام بن گئے.اس کے بیان کرنے میں نہ تو حضرت عمرؓ کی ہتک ہے اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی.حضرت عمرؓ کی تو اس لئے نہیں کہ آپ گئے تو قتل کرنے کے لئے تھے مگر خدا تعالی نے آپ کو ہدایت دے دی اور آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جو بغض اور عداوت تھی اسے محبت اور اخلاص میں بدل دیا اور رسول کریم صلی للہ علیہ و آلہ وسلم کی اس لئے ہتک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ شان تھی کہ قتل کرنے کے ارادہ سے آنے والے بھی آپؐ کی صداقت کے قائل ہو گئے.تو تائی صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے شدید مخالفوں میں سے تھیں.کبھی ایسانہ ہوتا تھا کہ آپ سامنے سے گزریں اور بُرا بھلا نہ کہیں لیکن اس زمانے مخالفت میں خدا تعالی نے آپ کو بتایا کہ یہ ایمان لے

Page 114

۷۱ آئیں گی اور پھر خدا تعالی نے ان کو ایمان لانے کی بھی توفیق بخشی.بڑے لوگوں میں یہ بات طبعی حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹے کی بات ماننے میں ہتک سمجھتے ہیں کئی لوگوں کو اسی لئے ٹھوکر لگ گئی کہ وہ سمجھتے تھے.ہم عمر میں اور علم میں حضرت مرزا صاحب سے بڑے ہیں پھر ان کی بیعت کس طرح کریں.میرے نزدیک تائی صاحبہ کے لئے یہ بطور سزا کے تھا کہ انھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو اس لئے نہ مانا کہ آپ ان کے چھوٹے دیور تھے.خدا تعالی نے کہا اچھا ان کی بیعت نہ کرو اس چھوٹے دیور کے بیٹے کی بیعت کرائیں گے.اس وقت ان کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ "تائی آئی ‘‘ ۴؎ اس میں کئی باتیں بتائی گئی تھیں.(۱) ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں گی (۲) میرے زمانہ میں ایمان لائیں گی کیونکہ میری تائی تھیں اور ان کے آنے سے مراد ہدایت پانا تھاور نہ یوں تو وہ گھر میں ہی رہتی تھیں (۳) یہ کہ وہ بہت لمبی عمر پائیں گی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ان کے متعلق الہام ہوا اس وقت ان کی عمر۸۰ سال کے قریب تھی مگر اس وقت یہ بتایا گیا کہ دوسرے خلیفہ کے وقت جس کی وہ تائی ہوں گی بیعت کریں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.میری بیعت کر کے وہ سلسلہ میں داخل ہوگئیں اور ایک سو تین سال کی عمر تک پہنچیں.ان حالات میں یہ ایک خاص نشان ہے کہ ایسی سخت زمین میں بھی خدا تعالی نے ہدایت کابیچ ڈالا.پھر ان کو ایسا اخلاص دیا کہ انہوں نے وصیت کی.مجھے یاد ہے وہ پرانی روایات کی اس قدر پایند تھیں کہ جب کبھی گھر کی عورتیں باہر جاتیں تو سخت ناراض ہوتیں اور میں یہ بھی کوئی شرافت ہے ہمارا تو اس گھر میں ڈولا آیا تھا اب جنازہ ہی نکلے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی وفات پر اس لئے ناراض ہو گئیں کہ آپ کو باپ دادا کا قبرستان چھوڑ کر و دوسری جگہ کیوں دفن کیا گیا ہے مگر جب احمدی ہوئیں تو خود اسی قبرستان میں دفن ہونے کے لئے وصیت کی ہیں وہ بھی ایک نشان تھیں.اسی عرصہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی نواسی ہاجرہ فوت ہوئی ہیں.حضرت خلیفہ اول کو ان سے خام اُنس تھا.میں نے دیکھا اپنے بچوں کی طرح رکھتے اور جب اپنے بچوں کے لئے کپڑے بناتے تو ان کے لئے بھی بناتے.مرحومہ میں بھی بہت اخلاص تھا اور سلسلہ کی خدمت کا شوق تھا.لجنہ کی محنت کرنے والی کار کن تھیں.چونکہ جوانی میں ہی فوت ہو گئی ہیں اس وجہ سے ان کی وفات کا اور بھی افسوس ہے.ان باتوں کا اظہار میں نے اس لئے کیا ہے تا جماعت میں یہ احساس پیدا ہو کہ جو وجود سلسلہ

Page 115

۷۲ کے خدمت گزار اور قابل قدر ہوں ان کے لئے محبت اور الفت کے جذبات پیدا ہوں.یوروپین قوموں کو دیکھو جن لوگوں سے قومی خدمات صادر ہوتی ہیں ان کے مجسّمے بناتی اور یادگاریں قائم کرتی ہیں.گو یہ درست نہیں لیکن اس حد تک ضروری ہے کہ جو لوگ سلسلہ کے لئے مفید ہوں اور جُدا ہو جائیں ان سے اپنے اخلاص کا اظہار کیا جائے اور ان کی یاد قائم رکھی جائے.اب میں اس سال کے متعلق جو اَب ختم ہو رہا ہے بعض باتیں بیان کرتا ہوں تا دوستوں کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ انہیں آئندہ کیا کرنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سال ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ ہماری جماعت کی عزت جو پہلے تھی اس سے کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے.وہ لوگ جو پہلے جماعت کے سخت دشمن تھے یہ محسوسکرنے لگ گئے ہیں کہ اگر اسلام کی حفاظت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ احمدی جماعت ہی ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ ایسے سامان پیدا ہو گئے ہیں.ان سامانوں میں سے پہلا سامان تو لاہور کے فسادات تھے جن کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ کچھ لوگوں کے اُکسانے سے بعض سکھوں نے کچھ مسلمانوں کو نہایت بیدردی سے بے کسی کی حالت میں قتل کر دیا.یہ ایسا واقعہ تھا کہ دشمنوں کو بھی مسلمانوں سے ہمدردی پیدا ہونی چاہئے تھی مگر جنہوں نے مارا تھا ان کی قوم نے ان کی امداد کرنی شروع کر دی.ایسے موقع پر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ مسلمانوں سے ہمدردی کی جائے اور جو لوگ مارے گئے ہیں یا گر فتار ہو گئے ہیں ان کے رشتہ داروں کی امداد کی جائے چنانچہ اس غرض سے ناظر اعلیٰ اور دو تین اور اصحاب کو لاہور بھیجا گیا اور جس حد تک ممکن ہو سکالوگوں کی امداد کی گئی اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی ہمدردی کی رَو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان لوگوں نے بھی جو ہمدردی کے محتاج تھے اس بات کو محسوس کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ احمدی مصیبت کے وقت ہماری امداد کے لئے آئے اور انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی مدد کرنے پر آمادہ ہو گئے.اسی دوران میں کچھ اور سامان پیدا ہو گئے.راجپال کے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا اور ہائیکورٹ نے ایسے شخص کو بری کر دیا جس نے صریح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کی تھی اور نہایت بیدردی سے کی تھی.یہ ایک جج کی غلطی تھی یا قانون کا نقص تھا کچھ ہی سمجھ لو مگر اس سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کرنے میں کتنے بے کس اور بے بس ہیں.اس موقع پر مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ تم کس قدر

Page 116

۷۳ بے کس اور بے بس ہو اس وقت تمہیں اپنی حالت کو بدلنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے ورنہ اسلام کا ٹھکانا ہندوستان میں نہیں ہو گا.ہم کسی قوم کو اس بات سے نہیں روکتے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے اور جتھے بنائے.ہم جس بات کو ناپسند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسری قوم کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے ایسی حالت میں اپنی حفاظت کے لئے سیاسی اور تمدنی ذرائع سے کوشش کرنا ضروری ہو جاتا ہے اس کے لئے کئی اشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے گئے جن کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو گئی اور تمام مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اب اگر ہم اپنی حفاظت کے لئے کھڑے نہ ہوئے تو سخت نقصان اٹھائیں گے.میں نے جب اس بارے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی ساری تباہی کی وجہ یہ ہے کہ وہ مذہبی اور سیاسی اتحاد میں فرق نہیں سمجھتے.اس کے متعلق خدا تعالی نے مجھے ایک گربتایا اور وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے جب تک سارے کے سارے مسلمان عقائد میں متحّد نہ ہو جائیں صلح نہیں ہو سکتی کیوں کہنا چاہئے کہ ہر فرقہ کے لوگ بے شک دو سروں کو تبلیغ کریں اور اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کریں مگر سیاسی معاملات میں مل کر کام کریں.چنانچہ میں نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے شائع کیا کہ مسلمان کی دو تعریفیں ہیں.ایک مذہبی اس کے لحاظ سے ہر ایک فرقہ اپنے فرقہ کے لوگوں کو مسلمان کہتا ہے لیکن ایک تعریف سیاسی بھی ہے یعنی جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور قرآن کریم کو آخری شریعت قرار دیتا ہے وہ مسلمان ہے کیونکہ تمدنی اور سیاسی لحاظ سے ان سب کے فوائد مشترک ہیں.یہ تعریف خدا تعالی کے فضل سے تھوڑے ہی دنوں میں ایسی مقبول ہوئی کہ دشمنوں نے بھی اسے قبول کر لیا اور اب سارے ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈروں نے سوائے چند ایک کے اسے تسلیم کرلیا ہے.پہلی دفعہ مسلم لیگ کے جلسہ لاہور میں اس تعریف کو پیش کیاگیا تھا.اس کے بعد سب نے اس کو مان لیا اور سوائے ایک گروہ کے جو غیر مبائعین کا گروہ ہے یا چند متعصّب علماء اور ان کے متبعین کے سب نے اسے پسند کیا ہے اور اس گروہ نے بھی اس لئے اسے تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا کہ اس کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس لئے کہ اگر وہ اسے تسلیم کر لیں تو دوسرے مسلمانوں کو ہمارے خلاف بھڑکانے کے لئے ان کے پاس کوئی حربہ نہیں رہتا.دراصل یہ معاملہ لا یحب علی بل ببغض معاویة کا معاملہ ہے ورنہ سوائے اس طریقت کے مسلمانوں کے اتحاد کی کوئی صورت ہی نہیں ہے.بھلا بتاؤ تو سہی وہ خوارج جن کے نزدیک خلافت کفر تھی اور جو تیرہ سو

Page 117

۷۴ سال سے اس پر لڑتے جھگڑتے چلے آرہے ہیں وہ کب یک لخت اپنے عقیدہ کو چھوڑ کر اتحاد کر سکتے ہیں.وہ فرقے جو صدیوں سے ایک دوسرے سے مقابلے کر رہے ہیں جن کی ایک دوسرے کے ساتھ خونریز لڑائیوں تک نوبت پہنچی جنہوں نے جان ومال کے نقصان پر نقصان اٹھائے ان کے متعلق کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان باتوں کو چھوڑ کر متحد ہو جائیں گے جن پر انہوں نے جانیں دی تھیں.پس موجودہ حالت میں تمام مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا یہی طریق ہے کہ مسلمان کی کامل تعریف کے لحاظ سے جسے چاہیں مسلمان سمجھیں اور جسے میں نہ چاہیں نہ سمجھیں لیکن تمدنی اور سیاسی لحاظ سے جو مسلمان کہلاتا ہے اسے مسلمان ہیں اور متحده مذہبی تمدنی و سیاسی معاملات میں مل کر کام کریں.اس تحریک کا ایسا اثر ہوا کہ معاً مسلمانوں میں اتحاد شروع ہو گیا.یہاں تک کہ وہ فرقے جنہیں ہمارے ساتھ سخت دشمنی تھی انہوں نے بھی اتحاد کی اس تحریک کی تعریف کی اور اس پر عمل کرنے کی آمادگی ظاہر کی.چنانچہ کئی شیعوں، سنّیوں اور اہل حد یثوں کی طرف سے خطوط آئے جنہوں نے لکھا کہ آپ اس تحریک کو جاری رکھیں آپ ہی کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق ہو گا.اس تحریک کا یہاں تک اثر ہوا کہ ایک جگہ آریوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مسلمان چونکہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں اس لئے ہم ان سے بحث نہیں کرنا چاہتے اور انہیں اسلام کی طرف سے مناظر نہیں سمجھتے.اگرچہ سناتنی ہندو آریوں کو ہندو نہیں سمجھتے اور ہندو دہرم سے خارج قرار دیتے ہیں مگر انہوں نے احمدیوں کے متعلق یہ سوال اٹھایا اس جگہ شیعوں کی طرف سے جلسہ تھا اور انہوں نے احمدی مبلغین کو آریوں کے مقابلہ کے لئے بلایا ہوا تھا.انہوں نے کہا ہم احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں تم (آریہ ) احمدیوں کے ڈر کے مارے یہ سوال پیش کرتے ہو تاکہ اس بہانہ سے مباحثہ سے بھاگ جاؤ.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ اب نظر آنے لگا ہے کہ مسلمانوں میں جلد اتحاد ہو سکتا ہے اور مسلمان مل کر غیروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اسی دوران میں ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کا واقعہ پیش آگیا.اس اخبار میں ایک ایسا مضمون شائع ہوا جس میں سختی سے ایک ہائی کورٹ کے ایک جج کے اس فیصلہ پر جو راج پال کے متعلق کیا گیا تھا جرح کی گئی تھی.میں اس وقت بھی حقیقی طور پر اس مضمون میں بعض غلطیاں محسوس کرتا تھا اور اب بھی محسوس کرتا ہوں مگر جس بناء پر ایڈ یٹر اور پرنٹر’’ مسلم آوٹ لک‘‘ پر مقدمہ چلایا گیا وہ غلط

Page 118

۷۵ تھی.وہ مضمون اس وجہ سے لکھا گیا تھا کہ اس فیصلے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک کرنے والے ہر ایک شخص کو چھوڑا جا سکتا ہے اور مسلمانوں کے لئے امن کی کوئی صورت نہیں.اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہئے تھا کہ وہ مضمون کیسی حالت میں لکھا گیا اور کیا اس میں ہائی کورٹ کی ہتک مقصود ہے یا اپنے ٹھیس لگے ہوئے جذبات کا اظہار ہے.پس گو میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس مضمون کالہجہ ایسانہ تھا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا مگر جس بناء پر مقدمہ چلایا گیا وہ درست نہ تھی.چونکہ اس مضمون کی وجہ سے مسلم آوٹ لک کے پروپرائیٹر اور ایڈیٹر کو سزا دے دی گئی اس لئے مجھے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلانی پڑی کہ جو کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کے خلاف آواز اٹھائے ہو تو فوراً جیل خانہ پھیجا جا سکتا ہے اور ہتک کرنے والا ہر قسم کی سزاے محفوظ رہ سکتا ہے.’’مسلم آوٹ لک‘‘ کے مضمون میں اس امر پر اظہار ناراضگی کیا گیا تھا کہ قابل جج کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گالیاں دینا اور بات ہے اور قوم میں نفرت پیدا کرنا اور امر ہے.گویاجج نے یہ قرار دیا تھا کہ اگر کسی کے باپ کو گالی دی جائے تو اس سے اس شخص کو جوش پیدا ہو سکتا ہے لیکن اگر اس کے رسول کو گالی دی جائے تو پھر چوش نہیں پیدا ہو سکتا.ہم ایک ہندوستانی جج سے جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور احساسات سے واقفیت رکھتا تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق مسلمانوں کے اخلاص اور محبت سے آگاہ تھا اس قسم کے فیصلہ کی توقع نہ رکھتے تھے مگر عجیب بات ہے کہ وہ ہندوستانی ہو کر ہندوستان میں رہ کر ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے واقف ہو کر یہ خیال کرتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالیاں دی جائیں تو اس سے مسلمانوں میں نفرت اور حقارت کے جذبات نہیں پیدا ہو سکتے اور نہ جائز طور پر فساد پیدا ہو سکتا ہے لیکن اگر خود ان کو گالیاں دی جائیں تو پھر جائز طور پر فساد ہو سکتا ہے.یہ اس جج کی ناواقفیت تھی جس پر ’’مسلم آوٹ لک‘‘ نے جرح کی تھی نہ کہ ہائی کورٹ پر حملہ کیا تھا.میرے نزدیک ہائی کورٹ پر حملہ کرناسخت ناجائز ہے اور اگر ایسا کیا جاتا تو میں کبھی تائید نہ کرو لیکن یہ بات ہی نہ تھی.ایک جج کی بطور جج ہتک نہ کی گئی تھی بلکہ اس بات کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی کہ ایک ایسا شخص جو مسلمانوں میں رہتا، مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے واقفیت رکھتا، ان کے مذہبی جذبات اور احساسات کو سمجھتا تھا اس نے یہ فیصلہ کیونکر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک سے مسلمانوں میں جائز طور پر جوش نہیں پیدا ہو سکتا.

Page 119

۷۶ آخر جب ایڈیٹر ’مسلم آوٹ لک‘‘ کو سزا دی گئی تو میں نے ۲۲- جولائی کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے جلسہ کرنے کی تحریک کی.مجھے خیال تھا کہ عام طور پر مسلمان اس تحریک کی مخالفت کریں گے اور جلسہ نہیں ہونے دیں گے اس وجہ سے میں تحریک لکھ لینے کے بعد اپنے مضمون میں سے اسے کاٹنے لگا تھا لیکن پھر مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی طرف سے تو یہ تحریک لکھی نہیں خدا تعالی نے مجھ سے لکھائی ہے وہی اس کو کامیاب بنانے کا سامان کرے گا.پھر اگرچہ اس کی مخالفت کی گئی مگر باوجود اس کے سارے ہندوستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تحریک کے ماتحت ۲۲ جولائی کو جلسے کئے گئے.مسلمانوں میں خاص بیداری پیدا ہو گئی اور اخباروں نے لکھا کہ ایسا شاندار مظاہرہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا.اس سے مسلمانوں کو محسوس ہوگیا کہ اگر وہ مل کر آواز اٹھائیں تو وہ پُر شوکت اور پُرہیبت ہو سکتی ہے.اسی دوران میں اس کام کو مضبوط بنانے کے لئے انجمن ترقی اسلام کی بنیاد رکھی گئی تاکہ اس کے ذریعہ ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو عام اسلامی کاموں میں مدد دے سکیں چنانچہ مختلف فرقوں کے ایسے ایک ہزار آدمیوں نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو نہیں کیا ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو ہمارے سلسلہ سے سخت مخالفت رکھتے تھے.حتی کہ کسی احمدی سے مصافحہ کرنا بھی جائز نہ سمجھتے تھے.چنانچہ یو.پی کے ایک پِیر صاحب نے لکھا کہ میں آپ کے سلسلہ کے سخت خلاف تھا اور کسی احمدی سے بات کرنا بھی جائز نہ سمجھتا تھا مگر اب سیاسی اور تمدنی معاملات میں کلّی طور پر اپنے آپ کو آپ کے اختیار میں دیتا ہوں.غرض ہر طبقہ کے لوگ اس انجمن میں داخل ہوئے.ان میں روساء بھی ہیں، علماء بھی ہیں.پِیر بھی ہیں، انگریزی خوان بھی ہیں اور ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے اور اس تحریک کو اس قدر کامیابی ہوئی ہے کہ پہلا اشتہار دس ہزار کی تعداد میں مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا تھا مگر اس میں سے کبھی بچ رہا لیکن آخری اشتہار اس سلسلہ کا جو شائع ہوا وہ ۷ ہزار شائع کیا گیا اور پہلے ہی دن ختم ہو گیا.اگر اس انتظام کو اور مضبوط بنایا جائے تو دس لاکھ اشتہار بھی پورے نہ ہو سکیں اور ایک ماہ میں تمام مسلمانوں کو بیدار کیا جاسکتاہے.غرض خدا تعالی کے فضل سے اس تحریک کا بہت اچھا نتیجہ نکلا اور مسلمانون کو محسوس ہو گیا کہ ان کی تمدنی اور سیاسی نجات آپس کے اتحاد میں ہے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ کامیابی مل کر کام کرنے سے ہی ہو سکتی ہے.حق بات یہ ہے کہ ہمیں کسی قسم کی بڑائی کی خواہش نہیں ہے.سیاسی معاملات میں ہم ہر اس

Page 120

۷۷ شخص کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہیں جو صحیح طور پر راہنمائی کرے.قومی علیحدگی کسی وقت بھی ہمارے نظر نہ تھی مگر مسلمانوں کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ تمدنی اور سیاسی لحاظ سے مل کر کام کرنے میں ہی کامیابی ہے اور اب ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے.پچھلے دنوں کی مسلمان لیڈر مجھے ملے جنہوں نے کہا آپ نے پہلے کیوں مسلمانوں کے متعلق اس قسم کا کام نہیں کیا اگر آپ ایسا کرتے تو ہم کبھی احمدیت کی مخالفت نہ کرتے.میں نے کہا ہم تو شروع سے ہی اس طریق پر کام کرنے کے لئے کہتے چلے آئے ہیں مگر اس وقت آپ لوگوں کے کان ہماری یہ بات سننے کے لئے تیار نہ تھے.اب چونکہ آپ لوگوں کو بھی یہ محسوس ہو گیا ہے کہ مل کر کام کرنا چاہے اس لئے ہماری آواز آپ کو سنائی دینے گئی ہے.میں سمجھتا ہوں مسلمانوں میں ایسی بیداری ہو گئی ہے کہ باوجود مذہبی لحاظ سے ہمارے سخت خلاف ہونے کے ایک طبقہ ہمارے مشترک مذہبی، سیاسی اور تمدنی معاملات میں مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے.اس بیداری کو جاری رکھنے میں چونکہ مسلمانوں اور اسلام کا بہت فائدہ ہے اسی وجہ سے اس سال میں نے شملہ کا سفر اختیار کیا جس کے دو بہت بڑے فائدے ہوئے.ایک تو یہ کہ مذہبی لحاظ سے اس مسودہ میں مشورہ دینے کا موقع میسر آیا جو گورنمنٹ نے مذہب کے بزرگوں کی ہتک کے انسداد کے متعلق پیش کیا اسمبلی کے ممبروں کو اس کے متعلق کئی باتیں میں نے بتائیں.چنانچہ مسودہ میں بعض تبدیلیاں میرے مشورہ کے مطابق ہو گئیں.بعض نہ بھی ہوئیں مگر بہت بڑی کامیابی یہ تھی کہ بڑے بڑے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ اسلام کے لئے احمدی جماعت سب کچھ قربان کر کے کام کرنے کے لئے تیار ہے مسز نائیڈو جو بہت مشہور عورت لیڈر ہیں انہوں نے ذکر کیامیں ایک موقع پر مسٹر محمد علی جناح سے ملی تو انہوں نے کہا احمدی جماعت میں کام کرنے کی عجیب روح ہے اسمبلی میں مسودہ پیش ہوتا ہے مگر اس کے متعلق بہت سے اسمبلی کے ممبروں کو اتنی فکر نہیں جتنی ان لوگوں کو ہے ان کے آدمی نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن ہر وقت ہمارے پاس پہنچ جاتے اور اپنا مشورہ پیش کرتے ہیں.بات یہ ہے کہ جب مجھے مسودہ ملا تو میں نے راتوں رات آدمیوں کو اسمبلی کے بعض ممبروں کے پاس بھیجا کہ جا کر انہیں اس کے متعلق ضروری باتیں بتاؤ.ٍ اس اثناء میں شملہ میں اتحاد کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مجھے بھی ممبر بنایا گیا اس طرح مجھے ہندو مسلمان لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑا جس سے کئی فائدے ہوئے.ایک تو یہ کہ ہندو مسلمان لیڈروں سے واقفیت پیدا ہو گئی جس سے آئند ہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.دوسرے ان کی شخصیتوں کا

Page 121

۷۸ علم ہوگیا.میں کانفرنس میں بولتا بہت کم تھا اور ہر ایک کے کریکٹر کو دیکھتا رہتا تھا اور اب میں ان میں سے ہر ایک کے کریکٹر سے خدا تعالی کے فضل سے واقف ہوں اور اب میں ان کے متعلق بصیرت سے واقفیت رکھتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ ان میں بعض اخلاص سے کام کرنے والے بھی ہیں گو بعض نمائشی بھی ہیں.مگر خوشی اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی سمجھ کے مطابق مسلمانوں کے فائدہ کے لئے اخلاص سے کام کرنے والے ہیں.مجھے یہ افسوس ہے کہ کانفرنس میں بعض مسلمانوں کی طرف سے ایسی باتیں بھی پیش ہوئیں جو مناسب نہ تھیں مگر میں نے یہی طریق رکھا کہ ان کو اپنی مجلس میں اپنے طور پر سمجھایا جائے تاکہ مجلس میں مسلمان ایک دوسرے کی حفاظت نہ کریں اور خدا تعالی کا فضل تھا کہ ہندو لیڈروں میں تو آپس میں تفرقہ ہو جاتا مگر مسلمانوں میں اتحاد رہا اور ہندوؤں کی ایک پارٹی بھی ٹوٹ کر مسلمانوں سے مل گئی.اگرچہ شملہ میں کوئی بات طے نہ ہو سکی مگر یہ اسی کا اثر تھا کہ کلکتہ میں ہندو مسلمان لیڈروں میں گائے اور بابا کے مسئلہ پر اتحاد ہو گیا.بزرگان مذاہب کی توہین کے انسداد کا جو قانون بنا ہے اس کے متعلق میری یہ رائے ہے کہ وہ نامکمل ہے.میں نے گورنمنٹ کے ہوم سیکرٹری کو بتایا تھا کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی ہتک کا انسداد اس سے بھی نہیں ہو گا.اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ کسی مذہب یامذہبی عقائد پر حملہ کیا جائے تو ہتک ہوتی ہے مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مذهب اسلام کا جزو نہیں ہیں جیسا کہ چکڑالوی نبی کو مذہب کا جزو نہیں سمجھتے.اصل بات یہ ہے کہ اب میں حقیقی صلح تب ہی ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کیا جائے گا اور وہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں دوسروں کے عیب نہ گنتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں اگر کسی مذہب میں عیب ہیں تو عیب بیان کرنے سے یہ کسی طرح ثابت ہو گیا کہ عیب بیان کرنے والے کا جو مذہب ہے وہ سچا ہے عیسائیت میں اگر عیب ہیں تو اس سے اسلام سچا نہیں ثابت ہو سکتا.اسی طرح اگر اسلام میں عیب ہیں تو ہندو دھرم سچانہیں قرار پا سکتا.سچائی کے لئے خوبیوں کا ثبوت دینا ضروری ہے.پس ہر مذہب کے پیرو کو چاہئے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو سچ ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کی خوبیاں بیان کرے.اگر ایک شخص دوسرے کو کانا کہے تو اس سے کس طرح ثابت ہو سکتا ہے کہ کہنے والے کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں.پس حقیقی صلح تب ہوگی جب اس

Page 122

۷۹ طریق کو اختیار کیا جائے گا.اگر اس طریق پر عمل کیا جائے تو پھر کسی مسودہ اور کسی قانون کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس پر عمل کرنے میں کسی کا کوئی حرج بھی نہیں ہے کسی کی آزادی میں کوئی فرق نہیں آتا.کیا اگر کسی کو کہا جائے کہ دوسروں کو گالیاں نہ دیا کرو تو کیا وہ کہے گا کہ اس طرح میری آزادی میں فرق آتا ہے.یا اگر کسی کو کہا جائے کہ دوسروں پر پتھرنہ پھینکو تو کیا وہ یہ کہے گا کہ اگر پتھر نہ پھینکوں تو میری آزادی جاتی رہتی ہے.پس مذہب کے متعلق یہ اقرار کر لینا کہ دوسرے مذہب کے عیب نہ بیان کئے جائیں گے یا دوسرے مذہب کی طرف عیب نہ منسوب کئے جائیں گے کوئی مصیبت نہیں ہے صرف ارادہ سے یہ بات تعلق رکھتی ہے.اگر ارادہ کر لیا جائے کہ دوسرے مذاہب کے عیب نہ بیان کئے جائیں گے اور دوسرے مذہب کی طرف عیب نہ منسوب کئے جائیں گے تو اس میں کسی کا کوئی حرج نہیں ہے.اسی طرح صلح کا ایک طریقہ بھی ہے کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے.میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہندوؤں کو اس سے کیا کہ مسلمان گائے ذبح کرتے ہیں یہ مسلمانوں کا کام ہے.اگر بُراہے تو اس کا اثر مسلمانوں پر پڑے گا ہندووں کو مزا حم ہونے کی کیا ضرورت ہے.ورنہ ہو سکتا ہے کہ کل ہندو کہیں کعبہ کی طرف مسلمانوں کا منہ کر کے نماز پڑھنا ہمیں بُرا لگتا ہے اس لئے مسلمان نماز بھی نہ پڑھیں.اگر کسی قوم کا کوئی مذہبی فعل پر بُرا لگنے سے ان لوگوں کا جنہیں بُرا لگے یہ حق ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں مزاحم ہوں تو مسلمان بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہندوؤں کا بتوں کی پوجا کرنا انہیں بُرا لگتا ہے اس لئے یہ کام ہندوؤں کو چھوڑ دینا چاہئے.ہندو کہتے ہیں مسلمان بادشاہوں نے ہندوؤں کے بت توڑنے کا حکم دیا تھا مسلمانوں نے بت توڑے یانہ توڑے اس سوال کو جانے دو مگر اس اعتراض سے یہ تو ظاہر ہے کہ ہندوؤں کو بتوں کا توڑنا بُرا لگتا ہے اور وہ اپنے مذہب میں کسی کے دخل دینے کو ظلم قرار دیتے ہیں پھر وہ خود کیوں گائے کے معاملہ میں مسلمانوں کے مذہب میں دخل دیتے ہیں.وہ لوگ جو اپنے مذہب کے کسی حکم کی یا اجازت پر عمل کرتے ہیں وہ اگر غلطی کرتے ہیں تو خدا انہیں سزا دے گا دوسروں کو ان کے مذہب میں دخل دینے کا کیا حق ہے کہ اپنے مذہب پر عمل کریں اور دوسروں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دیں.میرے نزدیک وہ لوگ جو سکھوں کے جھٹکہ کرنے پر ناراض ہوتے ہیں ان کی بھی نادانی ہے.اگر سکھ جھٹکہ کر کے کھاتے ہیں تو ہمیں کیا اور اگر عیسائی سؤر کھاتے اور شراب پیتے ہیں تو ہمارا کیا حرج ہے ہر ایک کا اپنا اپنا مذہب ہے.ہاں اگر کوئی اپنا ہم مذہب غلطی کرے اور مذہب کے خلاف بات

Page 123

۸۰ کرے تو اسے سمجھانے کا ہر ایک کو حق ہے.مثلاً اگر کوئی سکھ کہلا کر کیس کٹائے تو سکھوں کاحق ہے کہ اسے سمجھائیں اور کیس رکھنے کی حکمت بتائیں.اسی طرح اگر کوئی مسلمان سؤر کا گوشت کھاتا ہے تو مسلمانوں کا حق ہے کہ اسے روکیں اور سؤر کے گوشت کے نقصانات اس کے ذہن نشین کریں یا کوئی ہندو گائے کا گوشت کھاتا ہے جیسا کہ مدراس وغیرہ کی طرف لاکھوں لوگ کھاتے ہیں تو ہندوؤں کو حق ہے کہ انہیں اس سے روکیں اور گائے کا گوشت کھانے کی مضرتیں بتائیں لیکن مسلمانوں کا سکھوں سے یہ کہنا کہ تم جھٹکہ نہ کرو اور ہندوؤں کا مسلمانوں سے یہ کہنا کہ تم گائے کا گوشت نہ کھاؤ اور مسلمانوں کا ہندوؤں سے یہ کہنا کہ تم بتوں کی پوجانہ کرو یہ دھینگا دھانگی ہے.اسی طرح مسلمانوں کا ہندوؤں اور سکھوں سے یہ کہنا کہ مسجد کے پاس باجا نہ بجاؤ یہ بھی درست نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم لے کر بیٹھا ہو اور ہندو اس سے اونچی جگہ پر ہوں تو ان سے اس لئے لڑے کہ اونچے کیوں بیٹھے ہو تو یہ اس کی غلطی ہو گی کیونکہ قرآن مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام ہے نہ کہ ہندو کے نزدیک.کیا ایک شخص جو اپنے باپ کی عزت کی خاطر اس سے نیچے بیٹھا ہو اس کا حق ہے کہ اگر کوئی اس کے باپ کے برابر یا اس سے اونچی جگہ پر آبیٹھے تو اس سے لڑے کہ وہ اونچا کیوں بیٹھا ہے.یا کسی کے ہاں ماتم ہو جائے اور وہ ڈنڈا لئے سارے ضلعمیں پھرے کہ کسی کے گھر شادی نہ ہونے دیں گے کیونکہ ہماری ماں مرگئی ہے تو کیا یہ اس کا حق ہو سکتا ہے؟ یا کسی کے گھر شادی ہو تو ڈنڈا لئے پھرے کہ کسی کے گھر ماتم نہ ہونے دیں گے کیونکہ ہمارے ہاں شادی ہے تو کیا یہ اس کے لئے جائز ہے؟ جو ڈھول بجانا چاہتے ہیں وہ اسے بے شک بجا بجا کر پھاڑ ڈالیں اور باجے جس قدر چاہیں بجالیں کسی کو روکنے کا کیا حق ہے.اسی طرح جو گائے کا گوشت کھانا جائز سمجھتے ہیں وہ کھائیں دوسرے انہیں کیوں روکیں.مگر حیرت ہے یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی جو دینی اور دنیوی علوم کے عالم کہلاتے، مدبر سمجھے جاتے اور راہنما بنے ہوئے ہیں وہ اسی بات پر اڑے بیٹھے ہیں کہ ہم فلاں بات ناجائز سمجھتے ہیں دوسرے کیوں اسے جائز قرار دیتے ہیں ہمیں فلاں کام پسند نہیں اس لئے جنہیں پسند ہے انہیں ہم نہیں کرنے دیں گے.باوجود اس کے کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں دین کے معاملہ میں کوئی کسی پر جبر نہیں کرتا.ان لوگوں کے عمل اور اس قول کو دیکھ کر ایک مشہور قصہ یاد آجاتا ہے.کہتے ہیں ایک گاؤں اس وجہ سے مشہور تھا کہ وہاں سارے بے وقوف بستے تھے اور سب کے سب بے ہودہ باتیں کرتے تھے.اس گاؤں کے قریب سے دو آدمی گزرے جو آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے کہ یہ وہ گاؤں ہے جو بے وقوفوں

Page 124

۸۱ کی وجہ سے مشہور ہے.اس گاؤں کے دو آدمی پاخانہ پھر رہے تھے باتیں کرنے والوں کی باتیں سن کر وہ اسی طرح ننگے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے وہ زمانہ گزر گیا جب اس گاؤں میں بے وقوف بستے تھے اب تو یہاں کا بچہ بچہ عقل مند ہے.یہ سن کر انہوں نے کہا تم بیٹھ جاؤ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ یہاں کوئی بے وقوف نہیں ہے.اب کہاتو یہ جاتا ہے کہ اگلے زمانہ میں مذہب میں جب کیا جاتا تھا اب کسی پر کوئی جبر نہیں کرتا مگر حالت یہ ہے کہ سکھ مسلمانوں کے خلاف، ہندو سکھوں کے خلاف، مسلمان ہندوؤں کے خلاف، ہندو مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ رہے ہیں کہ تم یہ نہ کرو وہ نہ کرو کیونکہ اس سے ہمارے دل دکھتے ہیں اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے.اور جب دوسرا فریق اس دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا تو پھر دست اندازی اور فساد کا پہلو اختیار کیا جاتا ہے یہ جبر نہیں تو اور کیا ہے.جب تک ایک دوسرے کے خلاف یہ جبر ترک نہ کیا جائے گا اس تعدّی کو چھوڑا نہ جائے گا اس ظلم سے ہاتھ نہ اٹھایا جائے گا زبردستی دوسروں کے مذہب میں دخل دینے سے باز نہ رہا جائے گا اس وقت تک امن نہ ہو گا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں مذہبی جبر مٹ گیا ہے اور ہر ایک کو اپنے مذہب میں آزادی حاصل ہے وہ ہندوستان کے ہر قصبہ اور ہر شہر میں دیکھیں کہ کس قدر جبر ہو رہا ہے اور یہ جبر وہ لوگ کر رہے ہیں جو کئی کئی گھنٹے جبر کے خلاف تقریریں کرتے رہتے ہیں.کسی صاحب نے لکھ کر دیا ہے کہ گائے چونکہ ہندوؤں کی پرستش میں داخل ہے اس لئے وہ اس کا گوشت کھانے سے مسلمانوں کو روکتے ہیں.اگر پرستش میں داخل ہونے سے ہندوؤں کو یہ حق حاصل ہے تو پھر ان کی پرستش میں تو سانپ بھی داخل ہے ہندو اس کی پرستش کرتے ہیں کیا ہمیں یہ حق ہے کہ مسلمانوں سے بھی کہیں کہ جہاں سانپ نظر آئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جایا کرو.گائے کی پرستش کرتے ہیں وہ کریں ہم سے کیوں کراتے ہیں؟ وہ ہماری مسجدوں کے سامنے باجے اور ڈھول بجائیں اور ۲۴ گھنٹے صبح سے شام اور شام سے صبح تک بجاتے ہیں ایک ڈھول پھٹ جائے تو دوسرا بجانا شروع کردیں دوسرا پھٹ جائے تو تیسرالے لیں ہم انہیں منع نہیں کریں گے.بات یہ ہے کہ اگر ہندوؤں کو مسجدوں کے پاس ڈھول اور باجے بجانے سے نہ روکا جائے تو وہ خودہی بجانا چھوڑ دیں.یہاں قادیان میں ہم کسی کو نہیں روکتے مگر وہ خود ہی بند کر دیتے ہیں.کئی باتیں ضد کی وجہ سے کی جاتی ہیں اگر ہندو مسلمانوں سے جبراً گائے کا گوشت نہ چھڑائیں تو کئی مسلمان خود ہی چھوڑ دیں غرض جب تک ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل دینے سے نہ

Page 125

۸۲ رکیں گے اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.اس تحریک کے علاوہ اس سال جو تبلیغی کام ہوا ہے وہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہے ابھی کچھ دن ہوئے دو بڑے تبلیغی دورے ہوئے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب کو لمبو گئے وہاں سے بنگال، مدراس، مالابار اور یو.پی میں کئی بڑے بڑے مقامات پر انہوں نے لیکچر دیئے گویا سوائے سندھ کے انہوں نے سارے ہندوستان کا دورہ کیا اور آٹھ ہزار میل سفر کیا.۲۴ ہزار میل ساری دنیا کے چکر کا فاصلہ بتایا جاتا ہے مفتی صاحب اس کے تیسرے حصہ میں پھر آئے.دوسرا دورہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیّر نے کیا ہے جو حیدر آباد دکن گئے تھے.ان دوروں سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں جو بُغض تھاوہ دور ہو رہا ہے کو لمبو میں احمدیوں کی سخت مخالفت کی جاتی تھی ہمارے کئی آدمیوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے زخمی کیا گیا مگر اب مفتی صاحب کے وہاں کئی لیکچر ہوئے جو غیر احمدیوں نے اپنے خرچ اور اپنے انتظام سے کرائے اور وہاں سے کئی خطوط آئے ہیں کہ اگر مفتی صاحب پندرہ بیس دن اور وہاں ٹھہر جاتے تو بہت سے لوگ جماعت میں داخل ہو جاتے.غرض تبلیغی طور پر بھی بہت کامیابی ہوئی ہے اور اب سامان پیدا ہو گئے ہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں ان کے بہت اچھے نتائج رونما ہونگے.انگریزی ترجمہ قرآن ۲۳ پاروں تک ہو چکا ہے اور اگر خدا تعالی چاہے تو اگلے سال مکمل ہو جائے گا.اردو ترجمہ قرآن کے نوٹ بھی درست کر کے لکھے جارہے ہیں انشاء الله دس پارہ تک کے نوٹ اگلے سال شائع ہو سکیں گے.چونکہ اس سال ہنگامی کاموں کی وجہ سے مجھے خاص طور پر مضامین لکھنے پڑے اور سلسلہ کے کاموں کی نگرانی بھی کرنی ہوتی ہے اس لئے ترجمہ کا کام زیادہ نہ کر سکا اور تین ماہ کے قریب تو صحت بھی اچھی نہیں رہی.ادنی ٰ اقوام میں تبلیغ کرنے کے بھی خدا تعالی نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اس پہلوسے بھی زور سے کام کرنے کا موقع ملا ہے.پچھلے دو مہینہ میں ہی تیس کے قریب ایسے لوگ مسلمان ہوئے ہیں اور نو مسلموں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اسی جلسہ پر تین چار آدمی مسلمان ہوئے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پچھلی کوششوں کے نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں.ملکانوں کی حالت کی جس حد تک اصلاح ہو چکی ہے اس کا اندازہ اس ملکانا بچہ کی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جس نے ابھی تقریر کی ہے.شردہانند جی نے کہا تھا گیارہ لاکھ ملکالنے پرندے کی طرح چونچ کھولے منتظر ہیں کہ ان کے منہ میں آریہ دانہ ڈالیں.ان دکانوں میں سے ایک چونچ سے نکلی ہوئی آواز تو

Page 126

۸۳ آپ لوگوں نے سن لی ہے باقیوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیا جائے.ہمارے ذریعہ خدا تعالی نے ان لوگوں پر ایسا فضل کیا ہے کہ آریہ انہیں دانے بھی دیتے ہیں اور ہاتھ بھی جوڑتے ہیں مگر وہ انکار کرتے ہیں اور روز بروز اسلام سے اپنا تعلق مضبوط کر رہے ہیں.اس سال خداتعالی نے دو رسالے جاری کرنے کی توفیق دی تھی جنہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا کام کیا ہے.ان میں سے ایک تو انگریزی کا ’’سن رائز" ہے اور دوسرا’’ مصباح‘‘ عورتوں کا اخبار.سن رائز کے خلاف مجلس مشاورت میں مشورہ دیا گیا تھا لیکن حالات نے مجبور کیا کہ باوجود اس مشورہ کے اسے جاری کیا جائے.اس کے پندرہ سو خریدار ہو چکے ہیں ایک سال کے لحاظ سے یہ اچھی کامیابی ہے گو اخراجات کے لحاظ سے کافی نہیں ہے کیونکہ اس کی قیمت دوروپے اور طلباء سے ایک روپیہ ہے اس کی اشاعت بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.مصباح عورتوں کا اخبار ہے اس کے متعلق مردوں میں کچھ کہنا تو بے فائدہ ہے مگر پھر بھی جو مرد چاہیں کہ اپنی مستورات کو اس سے فائدہ پہنچائیں وہ خریدار بن سکتے ہیں.اس میں کئی عورتوں کے مضامین شائع ہوئے ہیں جو کئی مردوں کے مضامین سے بڑھ گئے ہیں اور ایک دوست تو کہہ رہے تھے کہ عورتیں سب کاموں پر حاوی ہو رہی ہیں ہم کیا کام کریں گے.میں نے کہا مرد کوئی کام کریں یا نہ کریں عورتوں کو ترقی کرنے سے نہیں روکا جاسکتا.اس اخبار کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ عورتوں نے بہت ترقی کی ہے اور جلد جلد آگے قدم بڑھارہی ہیں.گو اس دفعہ جلسہ میں انہوں نے اتنا شور مچایا کہ مجھے کہنا پڑا جس کا بچہ روئے وہ فوراً باہر چلی جائے اس طرح آدھی کے قریب عورتوں کو جلسہ گاہ سے باہر جانا پڑا.مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کو جلسہ پر لانے سے قبل ان سے اقرارلے لیا کریں کہ جب بچہ روئے وہ جلسہ سے باہر آجائیں گی.اب تو یہ صورت ہوتی ہے کہ چار پانچ سو بچوں کے رونے اور شور مچانے سے عورتوں کے جلسہ میں اتنی تقریر یں ہو رہی ہوتی ہیں کہ لیکچرار کے لئے بولنا ناممکن ہوتا ہے پس مردوں کو چاہے عورتوں کو سمجھائیں کہ جس وقت بچہ رونے لگے اسے لے کر چپ چاپ جلسہ سے باہر آجائیں.اس سال خاص خاص لوگوں میں خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا گیا.اگرچہ افسوس ہے کہ متعلقہ صیغہ اس طرف پوری توجہ نہیں دے سکا مگر پھر بھی کئی ایسے لوگ جو پروفیسر ہیں اور عالم سمجھے جاتے ہیں ان سے خط و کتابت کی گئی ایسے لوگوں کی تعداد سَو کے قریب قریب ہے.میرا منشاء ہے کہ اس سلسلہ کو وسیع کیا جائے اور اہل علم اور سمجھدار لوگوں تک اسلام کی

Page 127

۸۴ حقیقت پہنچادی جائے تاکہ مسلمانوں میں ایک مضبوط جماعت پیدا ہو جائے.پچھلے سال مالی حالت بہت کمزور تھی مگر جماعت نے مجلس مشاورت پر جو وعدہ کیا اسے بڑی و دیانتداری سے پورا کیا اور یک لخت اس طرح ترقی ہوئی کہ بہت کچھ کمی پوری ہوگئی گوسال کے آخری مہینہ میں کمی رہی.شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ۹ مہینے کے بعد دوستوں کو وعدہ بھول گیا مگر مومن جو وعدہ کرتا ہے اسے کبھی نہیں بھولا کرتا.جماعت کو چاہئے کہ ہر وقت دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار رہے اور اپنا قدم آگے ہی آگے بڑھاۓ اگر یہی جوش جاری رہے جو اس سال دکھایا گیا ہے تو ایک دو سال کے اندر تمام فنڈز کے قرضے دُور ہو سکتے ہیں اور ایسی سہولت پیدا ہو سکتی ہے کہ چنده خاص لینے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے.اس سال ریزرو فنڈ کے قیام کی تجویز کی گئی تھی مگر جماعت نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے اور بہت تھوڑی رقمیں آئی ہیں اتنی بھی نہیں جو ہنگامی بوجھ کو برداشت کر سکتیں.ساری رقم دس ہزار کے قریب جمع ہوئی اور اس سے زیادہ ٹریکٹوں، اشتہاروں اور مبلغوں کے دوروں پر خرچ ہو گئی اس طرح ریزرو فنڈ کی تحریک آئندہ کے لئے ریزرو رہ گئی.امید ہے دوست اب اس کی طرف توجہ کریں گے تاکہ یہ فنڈ قائم ہو جائے.اس سال تبلیغی کام جو بیرونی ممالک میں ہوا اس میں مسلم پولیٹکل لیگ انڈین کا قیام خاص طور پر قابل ذکر ہے.میں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات انگریزی قوم سے مخفی میں احمدی مبلّغوں کو لندن میں مسلم پولیٹکل لیگ قائم کرنے کا حکم دیا ہے جو قائم ہوگئی اور اس نے اپنا کام شروع کر رکھا ہے.اسی طرح ایک دوست کو ولایت میں پولیٹیکل کام کرنے کی خداتعالی نے توفیق دی.اگرچہ وہ پنجاب کونسل کے مسلمان ممبروں کی طرف سے گئے تھے مگر ان کا تعلق ہماری جماعت سے ہے اور انہوں نے بہت کام کیا ہے وہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہیں ان کو خدا تعالی نے مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ولایت میں کام کرنے کی توفیق بخشی.اس سال انگلستان میں ایسے لوگ مسلمان ہوئے ہیں جو علمی لحاظ سے خاص حیثیت رکھتے ہیں.اور ایسے ہی اور لوگ سلسلہ کے متعلق واقفیت حاصل کر رہے ہیں ان میں سے کئی ایک تیار ہیں کہ داخلِ سلسلہ ہو جائیں.امریکہ میں بھی بہت اچھا کام ہوا ہے.وہاں کے مبلّغ محمد یوسف خان صاحب ابھی واپس آئے ہیں.امریکہ میں کئی بلکہ مشن قائم ہو گئے ہیں.کل ہی ایک امریکن کا خط آیا ہے جس نے لکھا ہے

Page 128

۸۵ کہ مشن قائم کرنے کے لئے جگہ لے لی گئی ہے اور لیکچروں کا انتظام کیا گیا ہے اس طرح خود کام کرنے والے لوگ وہاں پیدا ہو گئے ہیں.یہ بات ابھی انگلستان میں پیدا نہیں ہوئی مگر امریکہ میں ایسے نو مسلم ہیں جو اپنے خرچ سے مکان لیتے، ٹریکٹ شائع کرنے اور لیکچروں کا انتظام کرتے ہیں.ایران میں بھی زیادہ اثر پیدا ہو رہا ہے.وہاں کے مبلّغ لکھتے ہیں کہ گوشہ گوشہ میں احمدیت کا چرچا ہو رہا ہے.وہاں بعض اخبارات میں ہماری اس تحریک کا جو اس سال جاری کی گئی ذکر کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کو احمدیوں کی تقلید کرنی چاہئے.شام میں بھی بہت کامیابی ہوئی ہے حال ہی میں ایک بڑے پِیر کا لڑکا جماعت میں داخل ہوا ہے اس کاباپ فوت ہو گیا ہے اس لئے مریدوں نے اسے لکھا کہ آکر اپنے باپ کی گدی کو سنبھالو مگر اس نے ان لوگوں کو کہا کہ تم اپنے نمائندے میرے پاس بھیجو.میں تمہیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مسیح موعود آگیا ہے.اگر خداتعالی ان لوگوں کو توفیق دے اور وہ ایمان لے آئیں تو وہ ایک جنگی قوم ہے کئی طریق سے مفید ثابت ہو سکتی ہے.اس میں سے کئی ہزار آغا خانی ہو چکے ہیں اور کئی ہز ار بھی باقی ہیں.اس کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ وہاں سے ایک افسوس ناک تار بھی آیا ہے وہاں سے بہت سے خط آتے تھے کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دشمنی بھی بڑھ رہی ہے اور لوگ احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں.اب معلوم ہوا ہے کہ مولوی جلال الدین صاحب مبلّغ کو خنجر کے ساتھ زخمی کیا گیا ہے.اس کے متعلق تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لئے تار دیا گیا تھا جس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا.دوستوں کو چاہئے دعا کریں کہ خدا تعالی ہمارے بھائیوں کی حفاظت کرے.افریقہ میں بھی اس سال اچھا کام ہوا ہے کئی جگہ نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.وہ لوگ تعلیم میں ترقی کر رہے ہیں.گورنمنٹ نے ہمارے مبلّغ کی تعلیمی کوششوں کو قابل تعریف قرار دیا ہے اور اینڈ (AID) دینی شروع کردی ہے.سماٹرا میں کئی سو کی جماعت پیدا ہوگئی ہے.ان لوگوں میں کئی اچھے آسودہ حال لوگ ہیں جو مالی طور پر بھی خدمت کر رہے ہیں وہاں کے پچیّس تیس طالب علم یہاں قادیان میں تعلیم پارہے ہیں.وہاں انہی ایام میں مولوی رحمت علی صاحب سے مباحثہ ہو رہا ہے جس کے لئے کئی سو علماء جمع ہوئے ہیں اس مباحثہ میں کامیابی کے لئے بھی دوستوں کو دعا کرنی چاہئے.اس مباحثہ میں گورنمنٹ کی سے آدمی مقررکئے گئے ہیں جو روائدلکھیں گے.

Page 129

روس کی تبلیغ میں گو وقفہ پڑ گیا ہے مگر پچھلے سال وہاں کے مبلّغ محمد امین خان صاحب کے متعلق جو خطرہ تھا وہ دور ہو گیا ہے اور وہ یہاں بخریت آگئے ہیں صوفی غلام محمد صاحب بھی اسی سال ماریشس سے واپس آئے ہیں جہاں وہ گیارہ سال رہے جب وہ گئے تھے اس وقت وہاں ایک احمدی تھا مگر اب خدا کے فضل سے ہزار کے قریب ہیں اور کئی جگہ انہوں نے اپنی مساجد بنالی ہیں ان خوشیوں کے ساتھ ایک رنج کی بات کا بھی ذکر کرتا ہوں.یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ خوشی کے ساتھ رنج بھی ہوتا ہے اور چار خوشیوں کے ساتھ ایک رنگ کا ہونا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی تحریر سے بھی ثابت ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.غموں کا ایک دن اور چار شادی ہماری ان فتوحات اور کامیابیوں کو دیکھ کر جو خداتعالی نے عطا کیں وہ لوگ جن سے سلسلہ کی عظمت نہیں دیکھی جاتی فتنے کھڑے کرنے میں لگ گئے تاکہ ہمیں کچل دیں مگر جسے خدا رکھے اسے کون کچل سکتا ہے.ایسی باتیں الہٰی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالی کی سنت کے ماتحت لگی ہی رہتی ہیں ان سے گھبرانا نہیں چاہئے.ہمارا فرض کام کرنا ہے دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں جو چیز خدا تعالی کی ہو اسے وہ خود غلبہ عطا کرے گا.عبد المطلب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا کا واقعہ لکھا ہے کہ گورنر یمن نے مکہ پر اس لئے حملہ کیا کہ اس معبد کو توڑ دوں لیکن مکہ پہنچ کر اس کے خیال میں نرمی پیدا ہو گئی اور مکہ والوں کو اس نے کہلا بھیجا کہ اپنے میں سے بڑے بڑے آدمیوں کو بھیجو میں ان سے باتیں کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے عبدالمطلب کو بھیجا جنہوں نے اس سے ایسی معقول گفتگو کی کہ وہ بہت متاثر ہوا.اس پر اس نے کہا آپ مجھ سے کچھ مانگنا چاہیں تو مانگیں اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ وہ کہیں گے مکہ پر حملہ کرنا چھوڑ دو اور میں چھوڑ دونگا.اس طرح میری عزت رہ جائے گی مگر انہوں نے کہا میرا سَو(۱۰۰) اونٹ پھر رہا تھا جسے آپ کے آدمیوں نے پکڑ لیا ہے وہ چھوڑ دیں.یہ سن کر اس نے کہا میرے دل میں آپ کی پہلی گفتگو سے بڑی وقعت پیدا ہوگئی تھی مگر اب بد ظنی پیدا ہو گئی ہے کہ آپ کیسے ادنی ٰ خیال کے آدمی ہیں.انہوں نے کہا میں ادنی ٰ خیال کا آدمی نہیں ہوں میں نے تو آپ کو یہ بتایا ہے کہ جب مجھے اپنے اونٹوں کا فکر ہے تو کعبہ جو خدا کا گھر ہے کیا اس کی خدا کو فکر نہ ہو گی وہ خود اسے بچائے گا اور اس کی حفاظت کے سامان پیدا کرے گا.غرضی اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے.اگر سلسلہ احمدیہ کسی بنده کا سلسلہ ہوتا تو اتنا کہاں چل سکتا تھا.یہ خدا کاہی سلسلہ ہے وہی اس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور

Page 130

۸۷ وہی آئندہ کرے گا.اس فتنہ کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ ہمارے دوستوں نے اخبار میں پڑھا ہو گا.ایک مقدمہ پچھلے دنوں میرے خلاف کیا گیا کہ گویا میں نے آدمی مقرر کئے تھے کہ بعض لوگوں کو مروا دوں.یہ وہ لوگ تھے جو مشین سیویاں کی دکان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں کی طرف سے یہ مقدمہ کیا گیا تھا.دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ آئندہ کے لئے میری ضمانت لی جائے.یہ مقدمہ مجھ پر اور محمد امین خانصاحب پر تھا.اس کے بعض حصوں میں چوہدری فتح محمد صاحب اور نیک محمد خاں صاحب افغان کو بھی شامل کیا گیا.مجھے ان لوگوں کے واقعہ پر اس اندھے کی مثال یاد آتی ہے جو ایک سوجاکھے کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا.اندھے نے یہ سمجھا کہ سوجا کھا جلدی جلدی کھانا کھاتا ہوگا.یہ خیال کر کے اس نے بھی جلدی جلدی کھانا شروع کیا.پھر اس نے سمجھا میرا جلدی جلدی کھانا تو اس نے دیکھ لیا ہو گا اور اس پر اس نے مجھ سے بھی زیادہ جلدی کھانے کی کوئی اور ترکیب نکالی ہوئی مجھے بھی کوئی اور طریق اختیار کرنا چاہے اس پر وہ دونوں ہاتھوں سے کھانے لگ گیا.پھر اسے خیال آیا یہ بات بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اب اس نے کوئی اور ڈھنگ نکالا ہو گا مجھے بھی کچھ اور کرنا چاہئے.اس پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے دامن میں ڈالنے لگ گیا مگر اس پر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی اور اس نے سمجھا اس طرح بھی میں پیچھے رہ جاؤں گا مگر کوئی اور ترکیب اسے یاد نہ آئی اس پر وہ کھانے کا برتن پکڑ کر بیٹھ گیا کہ تم نے کھالیا ہے اب میرا حصہ ہے.یہی حال ان لوگوں کا تھا مگر ان کو کیا معلوم کہ جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالی سب قدر تیں رکھتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی خود حفاظت کرتا ہے انہیں کوئی ناجائز طریق اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے.قتل کرانا تو بڑی بات ہے میں نے ان کے لئے کبھی بد دعا بھی نہیں کی مگر انہوں نے اپنے اوپر قیاس کیا.پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے خلاف کوشش کی جارہی ہے ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار میں بھی بیان کر دی گئی ہیں کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں.ان کو ایک تو اس بات کا غصہ تھا کہ ان میں سے ایک کی شادی اس جگہ نہ ہوئی جس جگہ شادی کرانے کے لئے وہ کہتا تھا پھراسی جگہ اس کے داماد نے شادی کرلی.جو لوگ اخلاق میں گر جاتے ہیں وہ اپنے بُغض کا بدلہ غیر اخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں اس وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں.مجھے جب اس کے متعلق اطلاع ہوئی تو میں نے باپ بیٹے کو بلایا اور کھانا ہے تم لوگ

Page 131

۸۸ اس قسم کی باتیں کرتے ہو.مذہبی لحاظ سے نہ سہی مگر تم جانتے ہو کہ میرا خاندان اس قصبہ کاواحد مالک ہے میں تمہاری نیت کو نیک ہی سمجھ لوں اگر تم کسی گاؤں جا کر وہاں کے واحد مالک کے متعلق نہیں بلکہ دس گھماؤں زمین رکھنے والے زمیندار پر ہی کوئی اتہام بلکہ اس کے متعلق کوئی سچا واقعہ ہی بیان کرو.یا اگر تم پنڈورے میں جا کر کسی چوہرے کے متعلق بھی الزام لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے اور ادہر ہمارے متعلق گندی اور ناپاک باتیں کرتے ہو.اس تمہارے اپنے فعل میں یہ اعتراف موجود ہے کہ میں نے تمہاری اس کمینگی کا بدلہ نہیں لینا اور اسی وجہ سے تم اس قسم کی جرأت کر رہے ہو.ورنہ یاتو تم کہہ دو کہ اس گاؤں میں کوئی اور ایسی شخص نہیں جس پر الزام لگ سکے.یا اگر یہ تسلیم کرتے ہو کہ الزام لگ سکتا ہے تو کیوں کسی اور کے متعلق اس طرح جرأت نہیں کرتے ہو.پس میرے خلاف جو باتیں تم بناتے ہو اس کی وجہ تمہاری سچائی نہیں بلکہ میری شرافت ہے.تم جانتے ہو کہ اگر کسی اور کے متعلق کوئی بات ہم کہیں گے تو وہ ہر طرح اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے گا.مگر میری طرف سے تم کو اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تمہارا یہ طریق ہی میری شرافت کا اعتراف اور اپنی کمینگی کا اظہار ہے.اس وقت میرے سامنے انہوں نے کہا جو کچھ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے یہ غلط ہے اور لوگ جھوٹ کہتے ہیں.پھر ایک نے اپنا خواب سنایا کہ مجھے بلایا گیا ہے آپ سے دعا کرائیں.مگر مجھے معلوم ہوا لوگوں سے جا کر انہوں نے کہا ہماری تسلی کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر نہیں ہوئی اور اب عدالت میں جا کر یہ لکھایا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ باز آجاؤ ورنہ تمہیں سیدھا کر دیں گے.غرض ان لوگوں اور میرے سامنے ایسی باتیں کرنے سے انکار کر گئے تھے شرارت بڑھانیشروع کی.ان کی شرارتوں کے متعلق جن لوگوں نے مجھ سے ذکر کیامیں نے ان کی باتوں پر اعتبار نہ کیا لیکن جب شملہ میں ذکر ہوا تو مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر نے جو مستری فضل کریم کے داماد ہیں بتلایا کہ عبدالکریم مستری فضل کریم کا بڑا لڑکا اس قسم کی باتیں کرتا پھرتا ہے.میں نے انہیں کہا آپ کو غلطی لگی ہو گی.انہوں نے کہا نہیں اس نے خود مجھ سے باتیں کی ہیں.تب ان لوگوں کی شرارت کا پورا علم ہوا.انہی ایام میں جب میں شملہ کیا تو ایک شخص نے ان کی بعض باتوں کے متعلق خط لکھا چونکہ ان دنوں یونٹی کانفرنس کی وجہ سے مجھے بہت کام تھا اس لئے میں نے اس کے جواب کو ملتوی کیا.مگر اس سے چڑ کر اس شخص نے ان باتوں میں زیادہ حصہ لینا شروع کر دیا.آخر نوبت یہاں تک پہنچی

Page 132

۸۹ کہ حکام کو توجہ دلائی گئی کہ یہ ہمیں مروا ڈالیں گے گویا اس اندھے کی طرح انہوں نے کارروائی کرنی شروع کر دی.یہاں تک کہ محمد امین خان صاحب کو ان دنوں ایک جگہ تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تو ان لوگوں میں سے ایک نے اپنے رشتہ داروں کو اطلاع کی کہ محمدامین خان فلاں کو مارنے کے لئے آرہا ہے احتیاط کی جائے.جب میں شملہ سے واپس آیا تو ایک دن عشاء کی نماز کی سنتیں میں گھر میں پڑھنے لگا تھا کہ میاں عبدالوہاب حضرت خلیفہ اول کے لڑکے دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے آوا ز دی اور بتایا کہ ان لوگوں میں اور محمد امین خان صاحب میں پرانی ہو گئی ہے اور جو واقعہ دیکھا تھا بتایا جس میں ان لوگوں کی زیادتی ثابت ہوتی تھی.اسی وقت اتفاقاً ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میری آنکھوں میں دوا لگانے کے لئے آگئے اور میں نے انہیں میاں بشیر احمد صاحب کے مکان پر بھیجا جہاں ایک کمیٹی ہو رہی تھی.یہ سب احباب وہاں آگئے اور میں نے ان میں سے بعض کو کہا کہ محمد امین خان صاحب کو سمجھائیں کہ اگر کوئی سختی بھی کرے تو وہ برداشت کریں اور اگر ان میں جوش پایا جائے اور معلوم ہو کہ وہ نصیحت پر عمل نہیں کر سکتے تو اسی وقت انہیں قادیان سے باہر بھیج دیا جائے تاکہ فساد نہ پیدا ہو.میں یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ اتنے میں باہر سے شور کی آواز آئی اور میں نے لوگوں کو بھیجا کہ باہر جا کر دیکھیں کیا ہوا ہے.تھوڑی دم کے بعد میاں عبدالوہاب صاحب نےپھر آکر بتایا کہ محمد امین خان صاحب اور زاہد میں جو مستری فضل کریم کا لڑکا ہے پھر لڑائی ہو گئی ہے.یہ سن کر میں نے اسی وقت مرزا عبدالحق صاحب مولوی عبد الغنی صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو مقرر کیا کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کریں.جب انہوں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے ایک منصوبہ کیا ہوا تھا اور وہ سارے جتھہ بنا کر عشاء کے بعد اس گلی میں بیٹھے ہوئے تھے جس سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا اور جو محمد امین خان کے گھر کو جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب یہ لوگ افسروں کو اطلا عیں دے رہے تھے کہ ان کو مار ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تو پھر اس جگہ عشاء کے وقت ان کے بیٹھنے کا کیا مطلب تھا جہاں انہیں کوئی کام نہ تھا اور پھر وہ میاں محمد امین خان کے مکان پر کیوں گئے تھے اس کے متعلق وہ کہتے ہیں ہم محمد امین کو سمجھانے کے لئے گئے تھے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے انہیں خطرہ تھا کہ وہ ان میں سے کسی کو مار ڈالے گا.اب قابل غور بات یہ ہے کہ کیا جس سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کو مار ڈالے گا کیا اسے وہی لوگ سمجھانے جایا کرتے ہیں جنہیں خطرہ ہوتا ہے.غرض یہ فتنہ ہے جو پچھلے دنوں میں اٹھا ہے مگر جو فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے اس کے متعلق خدا

Page 133

۹۰ تعالی پہلے ہی بتا دیتا ہے.اس فتنہ کے متعلق بھی کئی سال ہوئے ایک رویا میں نے دیکھی تھی اور وہ رؤیا کئی آدمیوں کو سنائی گئی تھی.پہلے وہ اور جگہ چسپاں کی گئی مگر یہاں بھی لگتی ہے وہ رؤیا میں نے شملہ میں ہی دیکھی تھی اور اسی کا یہ اثر تھا کہ میں اپنے ہر مضمون پر’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ‘‘ کا فقرہ لکھتا ہوں.جو کچھ میں نے دیکھا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے.میں شملہ کی ایک وادی میں سے گزر رہا ہوں جہاں کئی طرح کے جِنّات ہیں اور وہ اشتعال انگیز طریق سے اپنی باتوں کی طرف مجھے متوجہ کرنا چاہتے ہیں اس وقت مجھے بتایا گیا کہ تم ان کی طرف متوجہ نہ ہونا اور’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے جانا.یہ ۱۹۱۳ء میں شملہ میں مجھے خواب آئی تھی جو غیر مبائعین کے فتنہ پر چسپاں کی گئی تھی.مگراب جب کہ یہ فتنہ شملہ میں اٹھا اور میں اسی پہاڑی پر اترا ہوا تھا جہاں ۱۴ سال قبل یہ خواب آئی تھی تو معلوم ہوا کہ وہ اس فتنہ کے متعلق بھی تھی اور اس طرح خدا تعالی نے پہلے ہی اس سے اطلاع دے دی تھی.مجھے ان لوگوں میں سے ایک نے لکھا ہے.اب دیکھیں گے کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے اور یہ بھی طنزاً لکھا ہے کہ اب خوب چندے آئیں گے (اس موقع پر حضور کی خدمت میں ایک تار پیش کیا گیا جسے پڑھ کر فرمایا) ابھی برماسے تار آیا ہے کہ اگر فتنہ انگیزوں سے مباہلہ کیا جائے تو ہمیں بھی شامل کیا جائے.ان کو تو میں جزاكم الله کہتا ہوں مگر مباہلہ کا مطالبہ کرنے والوں سے کہتا ہوں.’’ایاز قدر خور بشناس" - مباہلہ کے لئے بھی حیثیت ہونی چاہے.چند سال ہوئے جب رام مورتی پنجاب میں آیا تو ایک چوہڑے نے اسے چیلنج دیا کہ اس کے ساتھ صبح سے لے کر شام تک جھاڑو دینے میں مقابلہ کرلے.اس کے متعلق اگر کوئی کہے رام مورتی نے بُزدلی دکھائی کہ ایک چوہڑے کے مقابلہ میں جھاڑو نہ دیا تو یہ اس کی غلطی ہو گی.یہی حال ان لوگوں کا ہے.یہ دعویٰ تو انسان کا ہے مگر اس کے برخلاف خدا تعالی نے مجھے بتایا ہے کہ شوکت و سلامتی سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے.کہنے والے نے کہا ہے دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے مگر میں بھی دیکھونگا میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اس شخص کی.اس فتنہ میں کچھ اور لوگ مرد عورتیں بھی شامل ہیں.میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا.اگر وہ باز نہ آئے تو ان کا اخراج بھی جماعت سے ضروری ہو گا مگر میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ وہ اپنے نفس

Page 134

۹۱ کی اصلاح کریں ورنہ ہمارے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.اب میں آئندہ کے لئے جو پروگرام ہے اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.سب سے اول اور ضروری چیز جس کی جماعت کو ضرورت ہے وہ اصلاح نفس ہے.یاد رکھو خدا تعالی نے سلسلہ احمدیہ اس لئے قائم کیا ہے کہ ہم اسلام کی حقیقی شکل دنیا میں ظاہر کریں اور یہ بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ ہمارا خدا تعالی سے کا مل تعلق ہو، اس سے کامل محبت ہو اور ہم اس کے ہو جائیں.جب تک ہمیں یہ بات حاصل نہیں ہوتی ہمیں جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہماری تمام ترقیات وابستہ ہیں اصلاح نفس ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اسی لئے آئے تھے کہ اسلام اور قرآن کی محبت ہمارے دلوں میں گاڑ دیں.پس میں جماعت کے دوستوں سے کہوں گا کہ وہ اصلاح نفس کریں خدا تعالی کا عشق اور اس کی محبت ان کی رگ رگ میں داخل ہو جائے.یاد رکھنا چاہئے بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے کا مل تعلق ہو کوئی کامیابی ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی دنیوی لحاظ سے ہماری ہستی ہی کیا ہے.اسی مقدمہ کی خبر سن کر کئی دوستوں نے لکھا کہ ہماری بھوک بند ہو گئی اور نیند اُڑ گئی ہے.ایسا کیوں ہوا.اس لئے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حکومت نہیں طاقت نہیں اس لئے ہر شخص ہمارے خلاف جو چاہے کہہ سکتا ہے.پس دنیوی لحاظ سے ہماری کوئی ہستی ہی نہیں.اگر ہماری کچھ ہستی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے ساتھ.پس اللہ تعالیٰ سے کامل محبت پیدا کرو تاکہ تمہارے لئے اس کی نصرت آئے اور تمہیں کامیابی حاصل ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر ایک دفعہ مقدمہ ہوا.اور آپ کو خبر دی گئی کہ مجسٹریٹ بعض لوگوں سے سزا دینے کا وعدہ کر آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچائی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا مجسٹریٹ ہاتھ ڈال کر تو دیکھے خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہے.۵؎ میں تمام دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ خدا تعالی کا شیر بننے کی کوشش کریں تاکہ ان پر کسی کے لئے ہاتھ ڈالنا آسان نہ رہے.اس وقت ہمارے پاس دنیوی سامان نہیں.ہم دنیوی فریب اور دھوکے بھی چھوڑ چکے ہیں.ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے کامل محبت اور کامل تعلق پیدا کرنا چاہئے.اس کے لئے نہایت ضروری بات قرآن کریم کا مطالعہ ہے.اصلاح نفس اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک قرآن کریم کا مطالعہ نہ ہو.قرآن جان ہے سارے تقوی ٰوطہارت کی.قرآن

Page 135

۹۲ کریم کی ایک ایک آیت قلب میں وہ تغیر پیدا کر دیتی ہے جو دنیا کی ہزاروں کتابیں نہیں کر سکتیں.قرآن کریم پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ درس جاری کیا جائے.بہت سی ٹھوکریں لوگوں کو اس لئے لگتی ہیں کہ وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے.پس ضروری ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کا ادرس جاری کیا جائے اگر روزانہ درس میں لوگ شامل نہ ہو سکیں تو ہفتے میں تین دن سہی اگر تین وان بھی نہ آسکیں تو دو دن ہی سہی.اگر دو دن بھی نہ آسکیں تو ایک ہی دن سہی مگر درس ضرور جاری ہونا چاہئے تاکہ قرآن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو.اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ جہاں جہاں امیر مقرر ہیں وہاں وہ درس دیں.اگر کسی جگہ کا امیر درس نہیں دے سکتا تو وہ مجھ سے اس بات کی منظوری لے کہ میں درس نہیں دے سکتا درس دینے کے لئے فلاں آدمی مقرر کیا جائے یہ نہیں کہ وہ خودہی اپنے متعلق فیصلہ کر لے.کئی لوگ اپنے متعلق آپ ہی فتویٰ دے لیتے ہیں اور اپنا بوجھ دوسرے پر ڈال دیتے ہیں.ہر جگہ کے امیر کا فرض ہے کہ وہ خود درس دے اگر نہیں دے سکتا مجھے کے میں اور آدمی مقرر کرونگایا اسے ہی درس دینے کے قابل سمجھوں گاتو کہوں گا وہ خود دے.تمام امراء کو جنوری کے مہینہ کے اندر اندر مجھے اطلاع دینی چاہئے کہ درس کے متعلق انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے اور درس روزانہ ہو گا یا دوسرے دن یا ہفتہ میں دو بار یا ایک بار.میں سمجھتا ہوں درس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت راسخ ہو جائے گی اور بہت سے فِتن کا آپ ہی آپ ازالہ ہو جائے گا.دوسری تجویز یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے اعلان کیا تھا قرآن کریم کا درس دیا جائے گا اور اس کے مطابق اگست ۱۹۲۲ء میں دس پاروں کا درس دیا گیا جس میں باہر سے ساٹھ ستّر کے قریب دوست شامل ہوئے تھے.اب اعلان کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی صحت اور زندگی بخشی تو اس دفعہ جولائی کے مہینہ میں پھر دس پاروں کا گیارہویں سے لے کر بیسویں تک کا درس دوں گا جو لوگ شامل ہونا چاہیں جنوری میں ہی اطلاع دے دیں.کم از کم پچاس دوست باہر سے آئیں گے تو درس دوں گا.اس طرح تین سال کے اندر اندر باہر کی جماعتوں کے امراء اور دوسرے لوگ قرآن کریم کی موٹی موٹی باتیں سیکھ سکتے ہیں.اصلاح نفس کے لئے دوسری چیز یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے.افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ باقاعدہ حضرت صاحب کی کتب کا مطالعہ نہیں کرتے.اگر ہراحمدی یہ فیصلہ کر لے کہ حضرت صاحب کی کسی کتاب کا روزانہ کم از کم

Page 136

۹3 ایک صفحہ کا مطالعہ کیا کروں گا تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب میں وہ روشنی اور وہ معارف ہیں جو قرآن کریم میں حتمی طور پر بیان ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ان کی اپنی کتب میں تشریح فرمائی ہے حتی کہ ایک ادنی ٰ لياقت کا آدمی بھی انہیں سمجھ سکتا ہے.اس وجہ سے آپ کی کتب میں بھی وہ نور اور ہدایت ہے جو قرآن کریم میں ہے.قرآن کریم کو یہ فوقیت ہے کہ وہ خود خدا تعالی کے الفاظ میں ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب میں سے کم از کم ایک صفحہ روزانہ پڑھا کرے.عیسائی انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو علی الاعلان دہریہ ہیں باقی سب اسے پڑھتے ہیں.وہ رات کو اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک کہ دعا نہ کرا لیں پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن کو دہر یہ اور بے دین اور کیا کیا کہا جاتا ہے وہ تو اپنی اس مذہبی کتاب کا مطامہ نہیں چھوڑتے جس میں بہت کچھ تغیر و تبدّل ہو چکا ہے مگر آپ لوگ جن کو تازہ کتابیں ملی ہیں آپ انہیں نہیں پڑھتے کم از کم ایک صفحہ روزانہ ضرور پڑھنا چاہئے.دوسری بات اس سال کے پروگرام میں یہ رکھی جاتی ہے کہ منافقین کا اس سال مقابلہ کرنا چاہئے جو کئی جگہ پائے جاتے ہیں وہ ظاہر میں جماعت کے ساتھ ملے رہتے ہیں مگر باطن میں دشمن ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ شر کا مقابلہ شرسے کیا جائے اور جھوٹ کے مقابلہ میں جھوٹ اختیار کیا جائے.خواہ کچھ ہو جائے حتی کہ جان بھی چلی جائے تو بھی شرارت کے مقابلہ میں شرارت نہیں کرنی چاہئے.جب میں یہ کہتا ہوں کہ منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کے حالات اور ان کی شرارتیں معلوم کی جائیں اور ان سے جماعت کو آگاہ کیا جائے.منافق کی ایک موٹی علامت یہ یاد رکھو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بتائی ہے کہ وہ جماعت کی عیب گیری کرے گا وہ کھلے طور پر کہے گا کہ جماعت خراب ہوگئی ہے جماعت بگڑ گئی ہے جو شخص بھی یہ کہتا ہو کہ جماعت خراب ہو گئی ہے سمجھ لو کہ وہ منافق ہے اگر کسی کے پاس ثبوت ہو تو اسے یہ تو حق ہے کہ کے زید بگڑ گیا ہے یا بکر بگڑ گیا ہے اور اگر سنی سنائی بات ہے تو زید و بکر کے متعلق بھی کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے.اول تو اخلاقی لحاظ سے یہ بھی جائز نہیں کہ کسی کے متعلق اس طرح کہا جائے لیکن جو زید و بکر کا نام نہیں لیتا اور نہ کوئی واقعہ پیش کرتا ہے بلکہ یونی کہتا

Page 137

۹۴ ہے کہ جماعت بگڑ گئی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر حملہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو فوت ہوئے ابھی چند سال ہوئے ہیں ترقیات کا زمانہ ابھی آیا نہیں اگر جماعت بگڑ گئی ہے تو آپ خدا کے سچے مامور کس طرح ہو سکتے ہیں.پس وہ شخص جھوٹا ہے جو یہ کہتا ہے کہ جماعت بگڑ گئی ہے دراصل اس کا اپنا ایمان بگڑگیا ہے جس شخص کا جگر خراب ہو جائے وہ جو چیز کھائے اسے کڑوی لگتی ہے مگر تندرست آدمی کڑوی کو کڑوی اور میٹھی کو میٹھی کہتا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ساری جماعت خراب ہوتی ہے یقیناً اس کے اندر بیماری پیدا ہو گئی ہے وہ شخص جو سفید کو سفید اور کالے کو کالا دیکھتا ہے وہ تو تندرست ہے مگر جو یہ کہتا ہے کہ ساری دنیالال رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہے اس کی آنکھ میں نقص ہے کہ اسے ایسا نظرآتا ہے.مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ غیر مبائع سارے کے سارے خراب ہو گئے ہیں تو اسے یہ کہنے کا حق ہے یا نہیں.میں جو بات بیان کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جس جماعت کو کوئی شخص راستی پر سمجھ کر اس میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے آپ کو بھی اسی کا ایک فرد قرار دیتا ہے اس کے متعلق اگر کہتا ہے کہ وہ ساری کی ساری خراب ہو گئی ہے تو یہ کہنے والا منافق ہے.مگر جس فرقہ کو کوئی ناراستی پر سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے عقائد درستنہیں ہیں اور وہ عقائد کے لحاظ سے خراب ہو گئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی غیر احمدیوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ناراستی پر ہیں اگر کوئی شخص غیر مبائع ہو اور پھر ہماری جماعت کو عقائد کے لحاظ سے ناراستی پر ہے تو اسے ہم منافق نہیں کہیں گے.مگر میں تو کسی کے متعلق بھی یہ کہنا جائز نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی خوبی نہیں رہی.دہریوں میں کبھی کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی ہے.پس اگر کوئی یہ کہے کہ عقائد میں غیر مبائع بگڑ گئے ہیں تو یہ صحیح ہو گا.مگر اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اخلاق کے لحاظ سے بالکل بگڑ گئے ہیں اور ان میں کوئی خوبی نہیں رہی تو یہ غلط ہو گا.پس ایسا شخص جو جماعت میں ہونے کا دعویٰ کرتا ہوا یہ کہتا ہے کہ جماعت بگڑ گئی ہے.اس کے متعلق مقامی جماعت کے امیر کو اور مرکز میں اطلاع دینی چاہئے.منافق کی ایک اور علامت یہ ہے کہ وہ دوسروں کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرتا ہے مثلاً یوں کہتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں فلاں میں یہ عیب پایا جاتا ہے.جو شخص اس طرح الزامات اور اتہامات پھیلاتا ہے.گو کہ ان کا بیان کرنا دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے پھر بھی وہ فتنہ انگیز

Page 138

۹۵ ہے.اس کا فرض ہے کہ اگر کسی میں کوئی عیب دیکھتا ہے یا کسی کے متعلق کوئی الزام سنتا ہے تو امیر کے پاس جائے اور اسے بتائے کہ فلاں آدمی یہ بات کا ہے تاکہ وہ اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کر سکے نہ کہ وہ خود اس قسم کی باتوں کو پھیلاتا رہے.حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق کی علامت ہے.چنانچہ آتا ہے.من قال ھلك الناس فهو اھلکھما ۶؎ جس نے کہا کہ لوگ بگڑ گئے وہی ان کو پکاڑنا چاہتا ہے اور وہ منافق ہوتا ہے اس قسم کی باتیں کرنے والے اسی وقت پیدا نہیں ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے اخباروں میں اس قسم کے لوگوں کی باتیں موجود ہیں میں نے ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ کے ایک الحکم میں لکھا دیکھا ہے کہ مالیر کوٹلہ کے ایک شخص کے متعلق اعلان کیا گیا تھا کہ وہ منافق ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اچھے ہیں مگر جماعت بگڑ گئی ہے.دراصل ایسے لوگوں کا یہ محض بہانہ ہوتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں وہ سلسلہ سے اخلاص رکھتے ہیں مگر جو برائی دیکھتے ہیں اسے بیان کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے وقت ڈاکٹر عبدالحکیم نے بھی لکھا تھا کہ مولوی نور الدین صاحب اور ایک دو اور آدمی اچھے ہیں باقی سارے خراب ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اسے لکھا تم خود بگڑ گئے ہو ورنہ میری جماعت میں ہزاروں ایسے ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں.پس ایسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے وقت بھی پائے جاتے تھے.ان کے متعلق خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے مگر اس کے ساتھ ہی میں ایک نصیحت بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میرے اس کہنے کا یہ مطلب نہیں کہا امراء اور دوسرے ذمہ دار لوگ احمدیوں کی کمزوریوں اور عیوب سے آنکھیں بند کر لیں جس طرح یہ کہنے سے کہ سارے لوگ گندے ہو گئے ہیں عیوب پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح یہ کہنے سے کہ سارے کے سارے اعلی ٰدرجہ کے متقی ہیں کسی میں کوئی کمزوری نہیں گند پیدا ہو جاتا ہے.جو عیوب ظاہر میں نظر آئیں ان کے دور کرنے کا انتظام کرنا چاہئے.ہاں تجّسس اسلام میں جائز نہیں.منافق افراد کے نقائص کو افراد تک نہیں محدود سمجھتا بلکہ وہ ساری جماعت پر الزام لگاتا ہے اس کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ امراء اور سیکرٹریان تربیت خاص طور پر خیال رکھیں.اور اگر کسی میں ظاہر طور پر کوئی نقص نظر آئے تو اسے علیحدگی میں محبت اور پیار سے سمجھائیں خصوصیت سے ان باتوں کی نگرانی کریں.

Page 139

۹۶ (1) اولاد کی تربیت.اس وقت تک اس کی طرف پورے طور پر توجہ نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ کئی شخص جو بہت مخلص تھے ان کی اولاد بگڑ گئی.ابھی میں نے ایک خان بہادر صاحب کے متعلق جو بہت مخلص تھے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی اولاد کو سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں رہا.بعض لوگ اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں خود بھی سستی اور کوتاہی کرتے ہیں اس لئے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جو لوگ فوت ہو جائیں ان کی اولاد کی نگرانی کی جائے اور جو زندہ ہوں مگر أولاد کی تربیت میں سستی کرتے ہوں انہیں اس طرف توجہ دلائی جائے.ابھی چند دن ہوئے ایک شخص نے مجھے لکھا کہ ہیڈ ماسٹر نے اس کے لڑکے سے قتل کرانے کی تجویز کی تھی جو کہ بڑی مشکل سے جان بچا کر پہنچا ہے مگر یہ واقعہ بالبداہت غلط تھا لیکن میں نے اس کی تحقیقات کی.کہا گیا تھا کہ شیخ عبدالرحیم صاحب نے اسے بچایا تھا.میں نے نہیں لڑکے کو بلایا اور شیخ عبدالرحیم صاحب سے بھی پوچھا انہوں نے کہا میں تو اس دن کہیں گیا ہی نہیں لڑکے کو بچانا کیسا.لڑکے سے پوچھا تم نے کیا لکھا تھا اس نے کہامیں نے تو خط لکھا ہی نہیں میرے بھائی نے لکھ دیا ہو گا.جب اس کے بھائی سے پوچھا تو اس نے بھی کہا میں نے نہیں لکھا مگر اس کے باپ نے یہاں تک یقین کر لیا تھا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے متعلق گالیوں کی ایک فہرست لکھ کر کہا کہ ایسے آدمی کو کیوں رکھا گیا ہے.تو ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ماں باپ بچوں کی تربیت پورے طور پر نہیں کرتے.ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہارے بچوں کی اچھی تربیت نہ ہوئی تو اس میں تمهاراہی نقصان ہو گا اور اچھی تربیت کرنے سے تمہیں ہی فائدہ پہنچے گا.پس بچوں کی تربیت کا ہر جگہ دوست خاص طور پر خیال رکھیں اور اب جو ان کی طرف سے رپورٹیں آئیں ان میں بچوں کی تربیت کاخاص طور پر ذکر ہو.دوسرے آپس کے معاملات کے متعلق خاص طور پر خیال رکھا جائے اگر کوئی ایک بدمعاملگی کرتا ہے تو سب کے متعلق چرچا ہو جاتا ہے.ایسی باتوں کو روکنے کے لئے ہر طرح انتظام اور کوشش کرنی چاہئے.مثلا ً اگر کوئی مجبوری کی وجہ سے قرضہ نہ ادا کر سکتا ہو تو سارے مل کر اس کا قرضہ ادا کر دیں.آج صبح ہی یہ ذکر ہو رہا تھا کہ شادی غمی کے موقع پر جونیوتہ کا طریق تھا وہ بھی بہت مفید تھا.ایسے موقعوں پر خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور نیوتہ کام آجاتا ہے مگر بعد میں اس میں بھی خرابیاں پیدا کر دی گئیں.پس اگر کوئی احمدی واقعی مجبوری کی وجہ سے قرضہ ادا نہیں کر سکتا تو جماعت کے لوگ مل کر اس کا قرضہ ادا کردیں پھر جب کسی اور کو ضرورت ہو تو اس کی امداد کردی

Page 140

۹۷ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے وقت ایسا کیا گیاتھا.ایک شخص پر سات سو روپیہ قرض تھا جس میں اس کی زمین گروی تھی.دوستوں نے یہ روپیہ جمع کر دیا اور اس نے زمین چُھرالی پھر یہ روپیہ ادا بھی کردیا.تیسری ضروری چیز برادرانہ ہمدردی ہے.اس پر بھی خاص طور پر زور دینا چاہئے یعنی مصیبت اور مشکل کے وقت اپنے بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے.بعض دفعہ بعض لوگوں کو بڑا ابتلاء آجاتا ہے گو یہ کمزوری ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ ابتلاء آتا ہے.بعض اوقات ایساہوا ہے کہ ایک شخص بار پڑے اور کوئی اسے پوچھنے نہ آئے تو وماتلاء میں پڑ جاتا ہے.کسی کے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے بیماری کا پتہ ہی نہ ہو اس لئے یہ تجویز کرنی چاہئے کہ ہفتہ میں دو دن دوستوں کے ہاں جانے کے لئے مقرر کر لینے چاہئیں اور اس طرح باری باری سب دوستوں کے ہاں چکر لگاتے رہنا چاہئے.جہاں جماعتیں تھوڑی تعداد میں ہیں اور دوست ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں وہاں اس قسم کی تجویز کی زیادہ ضرورت ہے اور ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے.پس ایک اس خُلق کی خاص طور پر نگرانی ہونی چاہئے کہ ہفتہ میں ایک دو دن دوسروں کے گھروں پر جا کر ان سے ملاقات کی جائے اور ان کے حالات معلوم کئے جائیں تاکہ اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو دی جا سکے.چوتھی بات زبان کو قابو میں رکھنا ہے تخت کلامی بہت بُرا اثر ڈالتی ہے.بعض اوقات ایسا ہو " ہے کہ آپس میں محبت ہوتی ہے مگر کوئی ناروا بات منہ سے نکل جاتی ہے جس سے فساد پیدا ہو جاتا ہے.اگر کسی دوست میں یہ عیب ہو تو اسے اس کے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پانچویں بات نماز باجماعت کی طرف توجہ کرنا ہے.میں نے کئی بار دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلائی ہے.بہت جگہ اصلاح بھی ہوگئی ہے مگر ابھی ایسی جگہیں باقی ہیں جہاں توجہ کی ضرورت ہے.ہماری کوئی ایک بھی جماعت ایسی نہیں ہونی چاہئے جہاں نماز باجماعت نہ ہوتی ہو.بڑے شہروں میں سارے دوست ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے یا ساری نمازوں میں نہیں پہنچ سکتے مگر پھر بھی کوشش کرنی چاہئے کہ جس نماز میں پہنچ سکیں پہنچا کریں.چھٹی بات یہ ہے کہ جماعت میں سے سستی اور کاہلی کو دور کیا جائے.سستی سے قوموں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے.ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ اسلامی طریق یہ ہے کہ کسی کو بے کار نہیں رہنے دینا چاہئے.سیکرٹری صاحبان اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی

Page 141

۹۸ احمدی بے کار نہ رہے جن کو کوئی کام نہ ملے انہیں مختلف پیشے سکھلا دیئے جائیں.اگر کوئی شخص مہینہ میں دو روپیہ ہی کما سکتا ہے تو وہ اتنا ہی کمائے کیونکہ بالکل خالی رہنے سے کچھ نہ کچھ کما لیناہی اچھا ہے.دیکھو حضرت علیؓ کس شان کے انسان تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے فروخت کرتے تھے.تو کوئی کام جس سے کسب حلال ہو کرنے میں عار نہیں ہونی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی احمدی بیکار اور سست نہ ہو.ساتویں بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں کی کوششوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ مسلمانوں پر اتنی مردنی چھائی ہوئی ہے کہ ان کی زندگی کی صورت ان کے احمدی ہونے میں ہی ہے.مسلمانوں کو دین سے بالکل بے توجہی ہے اور وہ دین کے لئے کوئی قربانی اور ایثار کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے.دین کے لئے اگر کوئی جماعت قربانی کرنے والی ہے تو وہ احمدی جماعت ہی ہے.پس اسلام کی ترقی اور باقی قوموں کی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے فرقوں کے لوگوں میں احمدیت کی تبلیغ کی جائے اور کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے لوگ اس پر ناراض ہوں.ہم انہیں کہتے ہیں تم ہمیں تبلیغ کرو ہم نہیں کرتے ہیں.ہم اس بات کے لئے تیار میں کہ کسی مذہب کا کوئی شخص آئے اور اپنی باتیں ہمیں سنائے.اسی طرح ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی باتیں ان کو سنائیں.یہ باتیں تربیت کے لحاظ سے ضروری ہیں اس کے بعد میں دوستوں کو ریزرو فنڈ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس فنڈ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ بسا اوقات ایسے واقعات ہیں کہ جو عام مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی طرف توجہ کرنا عام مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے ضروری ہوتا ہے مگر ہماری جماعت کا بجٹ چونکہ محدود ہوتا ہے اور ہم اپنے سلسلہ کی ضروریات سے اس قدر روپیہ نہیں بچا سکتے جس سے عام اسلامی معاملات کی درستی کے لئے کافی رقم نکال سکیں جیسے کہ شدھی کا مقابلہ یا تمدنی اور اقتصادی تحریکات ہیں یا ادنی ٰ اقوام کی تبلیغ ہے اور چونکہ یہ کام اس قسم کے ہیں کہ انہیں ہم ہی بہتر کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس تجربہ کار مبلّغ اور کارکن موجود ہیں جو دوسری جماعتوں کے پاس نہیں.پس اگر ہم اس کام کو نہ کریں تو اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر قرض لے کر کریں تو جماعت کی مالی حالت خراب ہو جاتی ہے اس وجہ سے ہم نے۳۵لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک کی ہے تاکہ اصل رقم محفوظ رہے اور اس کی آمد اہم کاموں پر خرچ کی جائے چونکہ یہ عام مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے کاموں کے متعلق تحریک تھی اس لئے میں نے اجازت دی تھی کہ احباب دوسرے مسلمانوں کو بھی اس میں شامل کر لیں مگر جماعت نے اس کی

Page 142

۹۹ طرف پوری توجہ نہیں کی اور جہاں کی وہاں دوسرے مسلمانوں کی بے توجہی سے ہمارے دوست گھبرا گئے.حالانکہ ریزرو فنڈ میں علاوہ شدھی وغیرہ کا مقابلہ کرنے کے اور بھی کئی قسم کے فائدے ہیں.کیا یہی ایک بہت بڑا فائدہ نہیں ہے کہ جب تم کسی غیراحمدی کے پاس ریزرو فنڈ کے لئے جاؤ گے تو وہ پوچھے گا یہ کیسا فنڈ ہے اس پر اسے بتایا جائے گا کہ اس کی غرض اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کے فوائد کی نگہداشت ہے.اس پر وہ پڑھے گا اس بات کا کیا اعتبار ہے کہ یہ فنڈ محفوظ رکھا جائے گا اور جو اغراض بیان کئے گئے ہیں ان کے لئے دیانتداری سے خرچ ہو گا اس پر اسے سلسلہ کا انتظام بتایا جائے گا اور اس طرح لوگ سلسلہ کے حالات سے واقف ہونگے.اور جو شخص انکار کرے گا اس کے پاس دوست پھر اگلے ماہ میں جائیں گے اور اس طرح جاتے جاتے تعلقات مضبوط ہو جائیں گے اور جو لوگ اس فنڈ میں حصہ لیں گے وہ جماعت کے کاموں اور اس کے نظام کی طرف بھی توجہ کریں گے اور حالات معلوم کریں گے اور اس طرح انہیں جماعت کی خدمات کا علم ہوتا رہیگا.میں سمجھتا ہوں اس ریزرو فنڈ کے لئے ضرور کوشش کرنی چاہئے اور چاہے ایک پیسہ بھی نہ ملے اس طرح لاکھوں آدمیوں سے تعلقات پیدا ہو جائیں گے.مگر سب لوگ ایک سے نہیں ہوتے.کئی لوگوں نے اس فنڈ میں رو پے دیا بھی ہے اور جو لوگ روپیہ دیں گے پھر وہ دیکھیں گے کہ کس طرح وہ روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور اس کے لئے وہ ہمارا لٹریچر پڑھیں گے اور ان پر ہماری جماعت کی نیک نیتی کھلتی جائے گی.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کا ایک ہزار آدمی اس بات کا ذمہ لے لے کہ سال میں سَو سے لے کر ہزار تک اس فنڈ کے لئے روپیہ جمع کر دے گا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.اور اگر سَو آدمی ایسا کھڑا ہو جائے جو ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک سال میں جمع کر دے تو اچھی خاصی رقم جمع ہو سکتی ہے.اور ہماری جماعت میں خدا کے فضل سے ایسے آدمی موجود ہیں جو اتنا اثر رکھتے ہیں.اس سال چھٹیوں کے ایام میں ہمارے سکولوں کے طلباء ڈیڑھ ہزار کے قریب چندہ جمع کر کے لائے اگر کچھ طلباء جن کی تعداد سَو سے کم ہی ہو گی ایک ماہ میں ڈیڑھ ہزار روپیہ لا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جماعت کے بااثر لوگ اس کام میں لگ جائیں تو انہیں کامیابی نہ ہو.چنده لانے والے طلباء میں میرا لڑکا ناصراحمد بھی تھا جو ایک سو چھتیس روپیہ لایا تھا حالانکہ اسے کبھی اس سے پہلے دوسرے لوگوں سے چندہ لینے کا موقع نہ ملا تھا.اسی طرح حضرت خلیفہ اول کے لڑکے میاں عبدالمنان بھی چالیس پچاس روپیہ کے قریب لائے تھے.

Page 143

۱۰۰ چونکہ یہ سب مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے کاموں کے لئے چندہ ہے اس لئے اس کے طلب کرنے میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے.اگر کسی کا گھر گر رہا ہو تو اسے بنانے کے لئے اس سے گارا اور اینٹیں لینی منع نہیں بلکہ اس پر احسان ہے.قرآن کریم میں آتا ہے ذوالقرنین سے دیوار بنانے کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا کہ سامان وغیرہ لاؤ اور سامان لے کر دیوار تیار کر دی ۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے لکھا ہے ذوالقرنین سے مراد حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہو گا.۸؎ ایسا موقع پیش آئے گا کہ بالخيريد ان لوگوں کے لینے ضروری ہوں گے اور ان کے ذریعہ ان کی حفاظت کا سامان کرنا ہو گا.پس اس وقت مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سامان مہیا کرنے کے لئے ان سے چندہ لینا ضروری ہے.اگر سو آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں.جو ایک ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک چندہ جمع کریں تو بہت کچھ کام ہو سکتا ہے.(اس موقع پر احباب نے اپنے نام پیش کرنے شروع کئے کہ وہ ایک سَو سے لے کر ہزار تک یا ایک ہزار سے پانچ ہزار تک ریز رو فنڈ میں اس سال جمع کر کے داخل کریں گے.اس وجہ سے کچھ دیر کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تقریر کا سلسلہ بند کر دیا اور پھر فرمایا) اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اخلاص کا نمونہ ہے جس کا پورا ثبوت تو عمل سے ملے گا مگر نیت سے بھی اخلاص کا اظہار ہوتا ہے اور جب نیت سچے طور پر کی جاتی ہے تو خدا تعالی اس کے پورا کرنے کی بھی توفیق عطا کر دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں احباب کے لئے اس چندہ کا جمع کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے ان کے سامنے طالب علموں کی مثال موجود ہے اگر ہمت کریں تو ۲۵لاکھ چھوڑ پچاس لاکھ بھی جمع کر سکتے ہیں.اب چونکہ اس چندہ کے متعلق اتنا وقت لگ گیا ہے کہ اس کے فوائد بتانے کا موقع نہیں رہا اور ضرورت بھی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ دوست اس کے فوائد سمجھ ہی گئے ہیں اسی لئے انہوں نے اس کے فراہم کرنے کے لئے نام لکھائے ہیں.اس سال جو تحریکیں کی گئیں ان میں سے ایک کے متعلق آئندہ کے لئے بھی خاص طور پر خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ تحریک چُھوت چھات کی ہے.اس کے متعلق میں نے عورتوں میں بھی بہت زور دیا ہے اور اب آپ لوگوں کے سامنے بھی اس کا ذکر کرتا ہوں.یہ تحریک مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی جان ہے.علاوہ ازیں مذہبی طور پر بھی یہ بڑا اثر رکھتی ہے ملکانوں میں

Page 144

۱۰۱ ایک بہت بڑا ظلم ہندو پرچارکوں نے یہ بھی کیا کہ وہ انہیں بتاتے تھے کہ دیکھو مسلمان ہم سے ادنی ٰ ہیں اور ہم ان سے اعلی ٰہیں کیونکہ ہم ان کے ہاتھ کی چُھوئی ہوئی چیز نہیں کھاتے مگر وہ ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھا لیتے ہیں.اس پر ہزاروں ملکانے اس لئے مرتد ہو گئے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر اعلیٰ ہو جائیں گے.مسلمانوں نے سات سو سال تک ہندووں کا لحاظ کیا.مسلمان جب بادشاہ تھے اس وقت بھی انہوں نے درگزر گیا اور کہا اگر ہند و ان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے تو نہ کھائیں.مگر اب مسلمان ہندوؤں کے اس طرز عمل کی وجہ سے قلاّش ہو گئے ہیں اور حالات یہاں تک پہنچ گئی.کہ اسلام کی خدمت کے لئے ۲۵ لاکھ روپیہ بھی جمع نہیں ہو سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ ہے نہیں.مسلمانوں میں کئی لوگ لاکھوں اور ہزاروں کی جائدادیں رکھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کے مقروض ہیں پس جب کہ مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہندو چُھوت چھات کی وجہ سے اپنی برتری جتلا کر ناواقف اور جاہل مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہوں.پس میں دوستوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کو خصوصیت سے جاری رکھیں گے اور ہر جگہ ہر مسلمان کے کان میں یہ بات ڈال دیں گے کہ اس تحریک پر عمل کرنے سے تمهاراہی فائدہ ہے.ہماری جماعت میں تو تاجر پیشہ لوگ بہت کم ہیں زمیندار اور ملازمت پیشہ زیادہ ہیں.اس وجہ سے چُھوت چھات کی تحریک کے کامیاب ہونے پر دوسرے مسلمانوں کو ہی فائدہ ہو گا.کم از کم تین چار کروڑ روپیہ سالانہ مسلمانوں کا اس تحریک پر عمل کرنے سے بچ سکتا ہے اور مسلمانوں جیسی کنگال قوم کے لئے اتنا روپیہ پچنا بہت بڑی بات ہے.میں نے عورتوں کو بتایا تھا کہ یہاں قادیان میں مسلمان مٹھائی والا کوئی نہ تھا اس لئے ہم نے مٹھائی خریدنا بند کر دیا اور سات سال تک یہ بندش رہی یہ بتا کر میں نے ان کو یقین دلایا کہ اتنے عرصہ میں کوئی ایک آدمی بھی مٹھائی نہ خریدنے کی وجہ سے نہ مرا.نہ ہمارے بچوں کی صحت کو اور نہ ہماری صحت کو کوئی نقصان پہنچا بلکہ فائدہ نہیں ہوا کہ پیسے بچ گئے.میں سمجھ نہیں سکتا کھانے پینے کی چیزیں غیر مسلموں سے نہ خریدنے میں کونسی مصیبت آجاتی ہے.پوری کچوری نہ کھائی روٹی کھالی.کیا ہندوؤں کی بنائی ہوئی کچوری میں اتنا مزا ہے کہ بے شک دین جائے غیرت جائے مگر پوری کچوری نہ جائے.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خصوصیت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوئی ہوئی میں اس وقت تک نہ کھانی چاہئیں جب تک ہندو بھی علی الاعلان عام مجلسوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے لے کر وہ چیزیں نہ کھائیں.ہم ضدّی نہیں ہم کسی کے دشمن نہیں ہم بائیکاٹ نہیں کرنا

Page 145

۱۰۲ چاہتے بلکہ اپنا مال بچانا چاہتے ہیں اپنی قوم کو بچانا چاہتے ہیں.چاہئے تو یہ کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے سات سو سال تک کھانے پینے کی چیزیں نہیں لیتے رہے اسی طرح مسلمان بھی سات سو سال تک ان سے نہ لیں اور ہندو مسلمانوں سے لیتے رہیں تب مساوات ہوگی مگر ہم یہ کہتے ہیں جس طرح ہندو مسلمانوں سے نہیں خریدتے اسی طرح مسلمان بھی نہ خریدیں.اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں کے لئے کاروبار نکل آئے گا اور اتنے خاندان چل سکیں گے.ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس تحریک پر عمل کرنا چاہئے اور دوسرے لوگوں سے کرانا چاہئے کہ ہمارے فائدہ کی بات نہیں اگر یہ عمل کریں گے تو ہم پر احسان نہیں کریں گے انہیں کو فائدہ پہنچے گا.ایک اور بات جو اس سال کے پروگرام میں رکھنی چاہے وہ مسلمانوں کا آپس میں تعاون ہے یعنی جہاں مسلمان سودا بیچنے والے ہوں وہاں ان سے خریدا جائے.میں نے دیکھا ہے اس سال کی تحریک کے ماتحت سینکڑوں نہیں ہزاروں دکانیں نکلیں.ایک دوست نے بتایا ایک جگہ مسلمانوں کے دکانیں کھولنے کی وجہ سے ۳۵ ہندو دکانوں کا دیوالہ نکل گیا اور ایک کارخانہ فیل ہو گیا جو ایک مسلمان نے خرید لیا.ایک جگہ کے دوست سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایک دکاندار کو جب معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہے تو اس نے اُٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کی جماعت کی مہربانی ہے کہ ہماری دکانیں بھی اب چلنے گئی ہیں پہلے کچھ بِکری نہ ہوتی تھی مگر اب خوب ہوتی ہے.پس مسلمان دکانداروں کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہئے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کا بائیکاٹ کیا جائے بائیکاٹ کرنا ناجائز ہے اور بائیکاٹ کے یہ معنی ہیں کہ کسی صورت میں بھی ان سے کچھ نہیں خریدنا.مگر جہاں مسلمان دکاندار نہ ہوں وہاں ہندووں سے ضرورت کی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں یا جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہ ہوں وہ ہندوؤں سے لی جاسکتی ہیں.مگر تعجب ہے مسلمانوں کو بائیکاٹ کا لفظ ایساپسند آیا ہوا ہے کہ بائیکاٹ کرتے تو نہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے.میں جب اس سال شملہ گیاتو گورنر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکرٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں.میں جب ان سے ملنے کے لئے گیا تو انہوں نے چُھوٹتے ہی تحریک چُھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے.میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا اور نہ ہماری جماعت نے

Page 146

۱۰۳ بائیکاٹ کی تحریک کی.ہم نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندووں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تا کہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے.آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گورنر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں ہے اور اس تحریک میں کوئی حرج نہیں.پس یاد رکھو بائیکاٹ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے یہ نہ شرعاً جائز ہے نہ قانوناً نہ عدلاً اور جب کہ مسلمان بائیکاٹ کرہی نہیں رہے تو اس لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں.جو کچھ کرنا چاہے وہ اپنے بھائیوں کا تعاون اور امدادہے اور اس سے کوئی گورنمنٹ روک نہیں سکتی.دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں نکالیں وہاں ہندوؤں نے شور مچا دیا کہ مسلمان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدتے اور گورنمنٹ کو لکھا کہ اس کم کی تحریک جاری کر کے منافرت پیدا کی جارہی ہے.میرے سامنے جہاں کے لوگوں نے یہ بات پیش کی میں نے انہیں کہا تم بھی کیوں اسی قسم کی درخواستیں گورنمنٹ کو نہیں ہے کہ ہندو ہماری دکانوں سے کچھ نہیں خریدتے آخر میں گورنمنٹ اس کا کوئی جواب دے گی.اگر وہ یہ جواب دے کہ ہندو چونکہ مسلمانوں کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لئے نہیں خریدتے.تو تم بھی کی جواب دے سکتے ہو کہ ہم بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لئے نہیں خریدتے تو جہاں مسلمانوں کی دکانیں تھیں وہ اس قسم کی درخواستیں حکام کو ضرور بھیجیں اس طرح ہندوؤں کی درخواستوں کا جواب خودبخود ہو جائے گا.تجارت میں ترقی کرنے کا ایک طریقہ بھی ہے کہ ہماری جماعت فیصلہ کرے کہ فلاں چیزانی جماعت کے لوگوں کی ساختہ ہی لیں گے.مثلا ً جرابیں اپنی جماعت کی بنائی ہوئی یا ان لوگوں کی بنائی ہوئی جو اس تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اور ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ان سے لیں گے.تین سال تک اگر یہی طریق جاری رکھا جائے تو اس چیز کے فروخت کرنے والے تاجر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور پھر بغیر خاص مدد کے دوسروں کو زِک دے سکتے ہیں.ایک بات خاص طور پر قابل ذکر یہ ہے کہ ابھی تک مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن ہیں حالانکہ خدا تعالی جانتا ہے ہم سے زیادہ مسلمانوں کا خیرخواہ اور کوئی نہیں ملے گا.جس طریق پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنی جماعت کو چلایا ہے اور جو روح اس میں پیدا کی ہے اس کی وجہ سے ہم مسلمانوں کے اتنے خیر خواہ ہیں کہ وہ

Page 147

۱۰۴ خود بھی اپنے اتنے خیر خواہ نہیں ہیں.اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ جہاں ان پر سختی ہو وہاں بھی صبر سے کام لیں اگر کوئی گالیاں دے تو اس کے جواب میں گالی نہ دیں بلکہ یہ کہیں کہ ہم اس کے لئے تیار نہیں ہاں مسائل پر اگر چاہو تو گفتگو کر لو.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کہیں فتنہ و فساد نہ پیدا ہو بلکہ معمولی رنجش اور کبیدگی بھی پیدا نہ ہو کیونکہ لڑائی جھگڑے سے تبلیغ کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ نقصان ہوتا ہے.ہاں دوسروں کی جس قدر ہمدردی کروگے اور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آؤگے اسی قدر زیادہ ترقی ہو گی اس کا یہ مطلب نہیں کہ تبلیغ احمدیت چھوڑ دی جائے ان پر تو ہماری زندگی کا مدار ہے اسے ہم کسی صورت میں بھی چھوڑ نہیں سکتے یہ ہونی چاہئے اور بار بار ہونی چاہئے مگر یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ صلح و آشتی سے ہمدردی اور محبت سے ہو کسی قسم کی سخت کلامی یالڑائی جھگڑا نہ ہونا چاہئے.اب ایک اور ضروری بات کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں سائمن کمیشن آرہا ہے اس کے متعلق میں ایک مفصّل ٹریکٹ شائع کر چکا ہوں جس کا سب سے ضروری حصہ وہ ہے جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اس کمیشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی موقع ہے کہ مسلمانوں کو کچھ حقوق مل سکیں.ہندوؤں نے انگریزوں کے کافی طور پر کان بھرے ہوئے ہیں اگر وہ کمیشن کا بائیکاٹ کر دیں تو ان کا کچھ نقصان نہ ہوگامگر مسلمان بائیکاٹ کرنے پر سخت گھاٹے میں رہیں گے.تمام دوست اپنی اپنی جگہ کوشش کریں اور بائیکاٹ کے نقصانات مسلمانوں کو سمجھائیں اور اس قسم کی کمیٹیاں بنائیں جن کا ذکر اس مضمون میں ہے.احباب اپنے پروگرام میں ایک بات یہ بھی داخل کر لیں کہ سن رائز کی اشاعت بڑھائی جائے.جب تک اس کے دس ہزار خریدار نہ ہو جائیں اس کا کام نہیں چل سکتا.اس وقت ایڈیٹر صاحب مفت کام کر رہے ہیں جو دوسرے فرائض کی وجہ سے راتوں کو بیٹھ کر مضمون لکھتے ہیں دوست کوشش کریں کہ اس کی اشاعت میں ترقی ہو اور دوسرے مسلمانوں کو خریدار بنایا جائے.چونکہ اس میں عام مسلمانوں کے فائدہ کے مضامین ہوتے ہیں اس لئے اسے بآسانی خریدنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.اس سال ایک اور ضروری تحریک میں نے کی تھی اسے جاری رکھنا چاہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ہاتھ میں سونٹایا تلوار رکھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام طور پر احمدیوں نے اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی.بعض غیراحمدیوں نے مجھے لکھا ہے کہ یہ تحریک تو آپ

Page 148

۱۰۵ نے کی تھی جس پر ہم عمل کر رہے ہیں لیکن احمدی اس پر عمل نہیں کرتے.احمدیوں نے شاید یہ سمجھا کہ یہ وقتی تحریک ہے چند دن اس پر عمل کرنا کافی ہے حالانکہ یہ مستقل تحریک ہے اس سے جرأت بھی پیدا ہوتی ہے اور صبروتحمل بھی.مفتی محمد صادق صاحب ایک سرکاری افسرسے ملنے کے لئے گئے تو اس نے کہا یہ بہت اچھی تحریک ہے مسلمانوں کو اس کی وجہ سے اطمینان رہے گا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی ہتھیار ہے.پنجاب کے نو ضلعوں میں اب تلوار رکھنے کی قانونی طور پر اجازت ہے اور باقی اضلاع کے جو لوگ انکم ٹیکس دیتے ہوں یا پچاس روپیہ یا اس سے زیادہ مالیہ ادا کرتے ہوں وہ تلوار رکھ سکتے ہیں باقی صوبوں میں ہر شخص کو تلوار رکھنے کی اجازت ہے.تلواریں بنانے والے ہمارے بھیرہ کے احمدی ہیں جو بہت اچھی تلواریں بناتے ہیں.جن اضلاع میں تلوار رکھنے کی اجازت ہے ان میں رہنے والا ہر احمدی تلوار رکھ سکتا ہے اور دوسروں کو تلوار رکھنے کی تحریک کر سکتا ہے.ان اضلاع کے لوگوں کو حتی المقدور تلوار خریدنی چاہیے.تلوار سَستی بھی مل جاتی ہے پانچ روپیہ تک آسکتی ہے.باقی لوگوں کو سونٹے رکھنے چاہئیں تاکہ ان میں دلیری اور جرأت پیدا ہو.اب میں آخری بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو نہایت اہم ہے.دیکھو ساری مصیبت مسلمانوں کے لئے یہ ہے کہ وہ استقلال سے کام نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالف دلیر ہوتے جاتے ہیں.جو دشمن اٹھتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات پر حملہ کرنے لگ جاتا ہے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا حملہ ہوتا ہے مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جس طرح بچے آپس میں کہتے ہیں آؤ چور چور کھیلیں اس کھیل کے لئے ایک پولیس مین بن جاتا ہے دوسرا چور بن جاتا ہے چور کو پکڑ کر سزا دی جاتی ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ چور اور پولیس مین بننے والےایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر چلے جاتے ہیں اسی طرح مسلمان کرتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت پر حملہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں آؤ رسول اللہ کی عزت کا کھیل کھیلیں اس وقت ان میں بڑا خوش ہوتا ہے مگر دوسرے وقت بالکل ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.اگر مسلمانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حقیقی عزت کا احساس ہو تو بھی آپ کی عزت کی حفاظت سے غافل نہ ہوں.پچھلے دنوں جب آریوں کی طرف سے پے در پے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف حملے ہوئے اور میں نے مسلمانوں کو اس کے مقابلہ کے لئے صحیح طریق عمل بتایا تو کئی خطوط میرے پاس آئے جن میں لکھا تھا کہ تم نے بہت بزدلی سے کام لیا ہے جو یہ لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف بد زبانی کرنے والے کو مارنا نہیں

Page 149

۱۰۶ چاہئے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرے اسے کیوں مارنا نہیں چاہئے آپ مسلمانوں کو اس بزدلی کی تعلیم نہ دیں ایک دو خطوط جن میں پتہ درج تھامیں نے انہیں قائل بھی کیا کہ ان کی رائے غلط ہے مگر اب یہ حالت ہے کہ ان لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کا خیال بھی نہیں رہا اور وہ آپ کی ہتک کرنے والوں کے دوست بن گئے ہیں.ہم خود جانتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں میں صلح ہو اور ملک کی ترقی کے لئے ہندو مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تنگ کرنے والی کوئی بات نہ ہو.کیا کوئی ہے جو اس بات کی ذمہ داری لے کہ اب ہندووں کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف کوئی ناپاک کتاب شائع نہ ہوگی اور اسلام پر والآ زار حملے نہ کئے جائیں گے اب نہ تو ایسے حملوں کا احتمال جاتا رہا ہے اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا کوئی سامان ہوا ہے پھر ہندو مسلمانوں میں اتحاد کس طرح ہو سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات پر کیوں حملہ کی جرأت پیدا ہوتی ہے اور کیوں اس نا پاک فعل کے ارتکاب کی دلیری کی جاتی ہے اس کی دو وجہیں ہیں.ایک یہ کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی ذات کو ایسے بُرے طور پر پادریوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ غیر مسلم لوگ واقعہ میں آپ سے بُغض اور نفرت رکھتے ہیں اور اکثر حصہ ایساہے کہ چاہے وہ منہ سے آپ کو گالی نہ دے مگر دل میں سمجھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اس وجہ سے آپ کے خلاف ناپاک حملے کئے جاتے ہیں.دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوبیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے دنیا کے سامنے آپ کی ذات کو ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ آپ کے متعلق کسی کو محبت اور اخلاص نہیں پیدا ہو سکتا.اس سال میں قصور گیا تو وہاں ایک ہندو نے مجھے ایسی باتیں کیں جنہیں سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا.اس نے کہا یہ کیا بات ہے کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جب کوئی مولوی تعریف کرتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ آپ زُلفیں ایسی خوبصورت تھیں، آپ کی آنکھیں ایسی رسیلی تھیں، آپ کے عارض ایسے دلکش تھے.مذہبی تفوّق کو زُلفوں اور آنکھوں کی خوبصورتی سے کیا تعلق اس کے لئے مذہبی خوبیاں پیش کرنی چاہئیں.بات یہ ہے کہ مسلمان خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صفات سے ناواقف ہیں رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر جو حملے کئے جاتے ہیں ان کو دور کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ غیر مسلموں میں رسول

Page 150

۱۰۷ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت کے متعلق بہترین پروپیگنڈا کیا جائے میں اس کے لئے کئی تجویز میں پیش کرتا ہوں.(1) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لائف میاں بشیر احمد صاحب نے لکھنی شروع کی تھی معلوم نہیں اب انہوں نے اسے کیوں چھوڑا ہوا ہے اس وقت تک جو مختصر سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ان سے یہ بہت اعلی ٰاور عمدہ ہے.اگر وہ اسے مکمل کریں تو کوشش کر کے اس کی بکثرت اشاعت کی جائے میاں بشیر احمد صاحب ہمت کریں اور اسے مکمل کر دیں.(۲) اس سال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے متعلق دو اور کتا بیں لکھی جائیں ایک کتاب تو ایسی ہو جس میں لڑکوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایسے واقعات بتائے جائیں جس سے یہ سبق حاصل کریں اور دو سری ایسی ہو جس میں لڑکیوں کے متعلق آپ کی زندگی کے سبق آموز اور نصیحت خیز واقعات ہوں.میں نے دیکھا ہے عیسائیوں نے حضرت مسیح کی زندگی کے متعلق کئی رنگ کی کتاہیں لکھی ہیں.کوئی لڑکوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے کوئی لڑکیوں کو، کوئی عورتوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے کوئی مردوں کو کوئی بوڑھوں کو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے حالات لکھنے جو بیٹھتا ہے وہ یہی لکھتا ہے فلاں سن میں آپ پیدا ہوئے اتنی لڑائیاں لڑیں اتنے کا کافرمارے اور فلاں سن میں فوت ہو گئے.اس سال یہ تین کتابیں لکھی جائیں جن میں سے ایک کے لکھنے کا میں وعدہ کرتا ہوں اگر اللہ تعالی نے توفیق دی تو لڑکوں کے متعلق سوانح کا جو حصہ ہے وہ میں لکھوں گا.اس کے ساتھ ہی میں ایک اور وعدہ بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک سیرت احادیث کی بناء پر لکھنی شروع کی تھی اس کا کچھ حصہ شائع ہوا تھا اور اس قدر پسند کیا گیا کہ مخالفین تک نے اقرار کیا تھا کہ تیرہ سو سال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی سیرت ایسی دلکش نہیں لکھی گئی میں کوشش کروں گا کہ اسے بھی مکمل کردیں.اس کے میں نے تین حصے کئے تھے ان میں سے تیسرا حصے لکھنا باقی ہے اور اس کے سارے نوٹ لکھ رکھے ہیں میں اسے بھی مکمل کرنے کی کوشش کروں گا.تیسری کتاب جو لڑکیوں کے متعلق ہے وہ میری کتاب کے نمونے کے بعد کوئی دوست لکھیں یا اگلے سال میں خود ہی اسے لکھوں گا.

Page 151

۱۰۸ (اس موقع پر مولانا مولوی عبد الماجد صاحب پروفیسر عربی بھاگلپور کالج نے وعدہ کیا کہ یہ کتاب وہ لکھیں گے) یہ ایک نہایت ہی اہم کام ہے لیکن اس کے علاوہ ایسی کو شش کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق مسلمانوں میں جو تھوڑی بہت بیداری پیدا ہوئی ہے اسے قائم رکھا جائے اس کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.تجویز یہ ہے کہ ۲۰.جون کے دن جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کرنے والے شخص کو سزا دی گئی تھی سارے ہندوستان میں تین مضامین پر تقریریں ہوں (1) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا قربانیاں کیں.(۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاکیزہ زندگی یعنی کس طرح آپ نے نبیوں بلکہ نبیوں کے سردار والی زندگی بسر کی.(۳) آپ نے بنی نوع انسان پر کیا احسان کیا ہے.ان مضامین پر تقریریں کرنے والے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے.ہر جگہ کے تعلیم یافتہ احمدی احباب کو چاہئے کہ اپنے نام پیش کریں کم از کم ایک ہزار آدمی کی ضرورت ہے جو جنوری میں ہی اپنے نام پیش کر دیں تا کہ چھ ماہ کے عرصہ میں ان کو تیار کیا جائے.اس کے لئے تمام ہندوستان کے ہر علاقہ کے احمدیوں کو تیاری کرنی چاہئے تاکہ جون کو تمام ہندوستان میں ہے لیکر کامیابی سے ہوں.ا ال عمران :۲۰۱،۱۹۷ تذکرہ ص ۳۱۲.ایڈیشن چہارم ۳ تذکرہ ۱۲۶،۱۲۸- ایڈیشن چہارم تاریخ احمدیت جلد سوم ص ۲۹۶،۲۹۳ مسلم کتاب البر والصلة.والأداب باب النهي عن قول ھلك الناس الكهف :۹۷،۹۵ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۱۸-۱۳۵روحانی خزائن

Page 152

۱۰۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی

Page 153

Page 154

۱۱۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلى على رسوله الكريم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۲۷ء بر موقع جلسہ سالانہ ) ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل والنھار لایت لا ولی الالباب- الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار- ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظلمین من انصار- ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار- ربنا و اتنا ماوعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیمہ انک لاتخلف المعیاد- فاستجاب لھم ربھم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض فالذین ھاجروا واخرجوا من دیار ھم و اوذوا فی سبیلی وقتلوا وقتلوا لاکفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھر- ثوابا من عنداللہ واللہ عندہ حسن الثواب- ۱؎ میں نے جو چند آیات ابھی تلاوت کی ہیں- ان میں میرے اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آج میں بیان کرنا چاہتا ہوں- یہ مضمون جماعت سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ اسے زندگی اور موت کا سوال کہا جا سکتا ہے- اور جس طرح میں اس مضمون کو اپنی جماعت کے لوگوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں اگر وہ اسی طرح ذہن نشین کر لیں تو تبلیغ میں انشاء اللہ بہت بڑی آسانی ہو سکتی ہے- میں نے بڑا غور کیا ہے اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں سچائی ٹکڑے ٹکڑے

Page 155

۱۱۲ کر کے پیش کرنے سے وہ اثر نہیں پیدا کر سکتی جو مجموعی طور پر پیش کرنے سے ہو سکتا ہے- دیکھو اگر کسی خوبصورت سے خوبصورت انسان کا ناک کاٹ کر لے جائیں اور پوچھیں یہ ناک کیسا خوبصورت ہے؟ تو کوئی اس کی خوبصورتی کا اعتراف نہ کرے گا- اسی طرح اگر کسی خوبصورت انسان کا کان کاٹ کر لے جائیں اور جا کر پوچھیں- یہ کیسا خوبصورت ہے تو اس کی خوبصورتی کا کوئی اثر نہ ہوگا- ہاں سارے اعضاء مل کر متحدہ شکل میں دل پر اثر کرتے ہیں- اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق بھی ہم کو مجموعی رنگ میں غور کرنا چاہئے- اور پھر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچے ثابت ہوتے ہیں یا نہیں- آج ہی ایک دوست نے جو غیر احمدی ہیں مجھے لکھا کہ ہم لوگ یہاں آتے تو اس لئے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق سنیں- مگر اس کے متعلق جلسہ میں مضمون کم رکھے جاتے ہیں- ان کا یہ مطالبہ درست ہے- مگر ان کو اور دوسرے احباب کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ جلسہ جماعت کی تربیت کے لئے بھی ہوتا ہے- اس وجہ سے دونوں قسم کے مضامین ضروری ہوتے ہیں- مگر اتفاقی بات ہے کہ اس دفعہ میرے مضمون کا بھی یہی ہیڈنگ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کیا کام کیا؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس وقت تک اس مسئلہ کے متعلق بہت بےپروائی سے کام لیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں پر تفصیلی طور سے نظر نہیں ڈالی گئی- میں نے بار ہا لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بتاؤ تو مرزا صاحب کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک تفصیلی نظر ڈالیں تو وہ تمام باتیں موجود نظر آتی ہیں جن کے لئے آپ کا آنا ضروری تھا اور اس سوال کا جواب ایسا اہم اور اتنا وزنی ہے کہ اگر اسے بتفصیل بیان کیا جائے تو کوئی حق پسند اس کا انکار نہیں کر سکتا- یہ سوال ایسا اہم ہے کہ اس کے سمجھے بغیر کوئی سمجھدار شخص سلسلہ کی طرف مائل نہیں ہو سکتا- کیونکہ جب تک کسی کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کی اہمیت کا نقش نہ جم جائے وہ آپ کی طرف توجہ کیونکر کر سکتا ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنیوالی تازہ صداقتیں اور نشانات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی ذات میں صداقت کا ثبوت ہوتے ہیں مگر جب تک ان کو بھی ایسے

Page 156

۱۱۳ رنگ میں پیش نہ کیا جائے کہ دنیا ان کا فائدہ سمجھ سکے تو وہ نشانات بھی اثر نہیں کرتے- پس اس سوال کا جواب دینا نہایت ضروری ہے- یہ سوال جب کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کیا کام کیا؟ تو بسا اوقات سوال کرنے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ٹھوس چیز اس کے ہاتھ میں دے دیں وہ ایسی شہادت چاہتا ہے جیسی کہ صرف مادیات میں مل سکتی ہے روحانیات میں نہیں- یا لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وقت سے پہلے نتیجہ نکال لیں وقت ابھی آتا نہیں مگر وہ پوچھتے ہیں کیا نتیجہ نکلا؟ ایسے لوگوں کی وہی مثال ہوتی ہے کہ ایک شخص کہے- چونکہ میرے ہاں اولاد نہیں ہے اس لئے میں اولاد کے لئے دوسری شادی کرتا ہوں- اور جس دن وہ دوسری شادی کرے اس کے دوسرے دن صبح ہی اس کے دوست اس کے ہاں پہنچ جائیں- اور السلام علیکم کے بعد پوچھیں اولاد ہوئی ہے یا نہیں؟ وہ کہے ابھی تو نہیں ہوئی- تو وہ کہیں پھر شادی کیوں کی تھی؟ شادی کا جلد سے جلد نتیجہ نو ماہ کے بعد نکل سکتا ہے اور اگر اس عرصہ کو کم سے کم بھی کر دیا جائے تو بھی سات مہینہ میں نتیجہ نکل سکتا ہے- اتنا انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے- پس کسی کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے نتائج کا مطالبہ کرنا غلطی ہے- دراصل اس قسم کا سوال کرنے والوں کو عام طور پر دو غلطیاں لگتی ہیں- ایک تو یہ کہ جو سوال کرتے ہیں وہ ٹھوس مادی جواب چاہتے ہیں- مثلاً کہتے ہیں- یہ بتاؤ مسلمانوں کی حکومت کہاں کہاں قائم ہوئی؟ یا یہ کہ کتنے کافروں کو مارا ہے- کتنی غیر مسلم سلطنتوں کو شکست دی ہے- غرض وہ یا تو چاندی سونے کے یا مردوں کے ڈھیر دیکھنا چاہتے ہیں- دوسری غلطی یہ لگتی ہے کہ بے موقع نتائج تلاش کرتے ہیں- حالانہ کسی نبی کے متعلق اس قسم کا سوال ایسا باریک ہوتا ہے کہ اگر وہ اسے پہلے انبیاء پر چسپاں کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اس سے باریک سوال اور کوئی نہیں ہو سکتا- جو انبیاء شریعت نہیں لائے ان کے متعلق تو خصوصاً یہ نہایت باریک سوال ہے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اگر کوئی یہ سوال کرتاکہ آپ نے کیا کیا؟ تو اس وقت پیش کیا جا سکتا تھا کہ آپ پر اتنی سورتیں اتری ہیں- اول تو یہ جواب بھی ایسے لوگوں کیلئے تسلی بخش نہیں ہو سکتا- کیونکہ ایک ہی وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل شریعت نہ اتری تھی- چند احکام اترے تھے اور جب تک مکمل شریعت نہ اتری تھی.اس وقت تک اسلام کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا تھا- جس طرح آج سکھوں اور بہائیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تمہارے پاس تو مکمل شریعت نہیں ہے.اس

Page 157

۱۱۴ وقت جب کہ اسلام میں ورثہ کے متعلق مکمل احکام نہ اترے تھے اگر کوئی سوال کرتاکہ اسلام میں ورثہ کے متعلق کیا احکام ہیں؟ تو کوئی جواب نہ دیا جا سکتا تھا- پس شریعت بھی درحقیقت تکمیل کے بعد ہی پیش کی جا سکتی ہے- اور نبی کی زندگی میں صرف اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسے مسئلے بیان کئے ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ہیں- مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تعلیم کامل ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت تک وہ کامل نہیں ہوئی ہوتی- غرض شرعی نبی کے متعلق بھی یہ مشکل پیش آتی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ احکام جو اس پر نازل ہوئے ہوں پیش کئے جا سکتے ہیں- لیکن جو شرعی نبی نہیں ان کے لئے کیا پیش کیا جا سکتا ہے؟ وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا کام کیا کہ آپ کا ماننا ضروری قرار دیا جائے- ان سے ہم کہتے ہیں کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تو مامور اور مرسل نہیں ہیں- آپ سے پہلے ہزاروں مامور گذر چکے ہیں جن کا ذکر قرآن میں اور دوسری کتابوں میں موجود ہے- دو درجن کے قریب انبیاء کا ذکر تو قرآن میں بھی آیا ہے- جن میں سے دو تین کو چھوڑ کر باقی ایسے ہی ہیں- جن پر کوئی شریعت نہ اتری- ہم کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق سوال جانے دو- یہ بتاؤ حضرت مسیح ناصریؑ کے زمانہ میں جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آیا ہوں اس وقت اگر لوگ ان سے یہ سوال کرتے کہ آپ نے کیا کام کیا ہے؟ تو وہ کیا جواب دیتے؟ یا ان کے حواریوں سے پوچھتے کہ حضرت مسیحؑ کا کام بتاؤ تو وہ کیا بتاتے؟ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہتے کہ حضرت مسیحؑ نے مردوں کو زندہ کیا- مگر میں کہتا ہوں یہ تو کام نہیں نشان اور معجزہ ہے اور ایسے نشان تو ہم حضرت مرزا صاحب کے بھی پیش کرتے ہیں- اگر نبی کے کام سے مراد یہ ہے کہ اس نے دنیا کے فائدہ اور دنیا کی ترقی کیلئے کیا کیا، عقائد اور اعمال کے لحاظ سے، سیاست اور تمدن کے لحاظ سے کونسا فائدہ پہنچایا تو حضرت مسیح ناصریؑ اس کا کیا جواب دیتے- پھر ان کے بعد حواری اس کے جواب میں کیا کہتے؟ ان کے جواب کو تو جانے دو، آج جب کہ حضرت مسیحؑ کو گزرے انیس سوسال ہو گئے ہیں آج جا کر عیسائیوں سے پوچھو کہ حضرت مسیحؑ نے کیا کام کیا؟ تو ان کا بڑے سے بڑا جواب یہی ہوگا یسوع مسیح نے دنیا میں محبت کی تعلیم قائم کی اور کہا-: ’’جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے‘‘- ۲؎ یا یہ کہ خدا کی بادشاہت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا- مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیحؑ کے زمانہ

Page 158

۱۱۵ میں ان کے ماننے والوں کو بادشاہت مل گئی تھی؟ ان کو تو صرف وعدہ ہی دیا گیا تھا- اور اگر وعدہ سے تسلی ہو سکتی ہے تو ہم بھی ان لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق سوال کرتے ہیں کہتے ہیں- آپ نے فرمایا ہے- خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی زیادہ کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں جماعت احمدیہ اس طرح پھیل جائے گی کہ باقی لوگ اتنے ہی تھوڑے رہ جائیں گے جتنے اس وقت خانہ بدوش لوگ ہیں- پس اگر وعدہ تسلی کا موجب ہو سکتا ہے تو اسے ہم بھی پیش کر سکتے ہیں- اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر پورا ہو جائے گا- دیکھو اگر حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کے بعد ان کے حواریوں سے لوگ پوچھتے، کہاں ہے وہ بادشاہت جس کا وعدہ دیا گیا ہے؟ اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے ثابت ہو جاتے؟ یا پھر حواریوں سے نہیں ان کے بعد آنے والوں سے لوگ پوچھتے- دکھاؤ وہ بادشاہت جس کا مسیحؑ نے وعدہ کیا ہے اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے قرار پا جاتے- حضرت مسیحؑ کی امت میں تین سو سال کے بعد حکومت آئی- اگر مادی کامیابی کے لئے دعویٰ بھی دلیل ہو سکتا ہے- تو ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی- اور اسے دنیوی لحاظ سے بھی شان و شوکت حاصل ہوگی- لیکن اگر کہو کہ یہ دعویٰ ابھی پورا نہیں ہوا- اس لئے دلیل نہیں ہو سکتا تو ہم کہتے ہیں حضرت مسیح ناصریؑ کے وقت میں بھی بادشاہت قائم ہونے کا دعویٰ پورا نہیں ہوا تھا- پھر کیا وہ جھوٹے تھے؟ حواریوں کے وقت میں پورا نہیں ہوا تھا کیا اس وقت حضرت مسیحؑ جھوٹے تھے؟ حتیٰ کہ تین سو سال تک پورا نہ ہوا کیا اس وقت تک حضرت مسیح سچے نہ تھے؟ اگر باوجود اس کے سچے تھے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام کو کیوں سچا نہیں قرار دیا جاتا؟ جب کہ یہاں بھی ابھی حواریوں کا زمانہ ہی گذر رہا ہے- پس حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایسا ٹھوس جواب جیسا کہ آج کل لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق چاہتے ہیں- نہ ان کے وقت میں مل سکا- نہ حواریوں کے وقت- اور نہ تین سو سال کے عرصہ تک- لیکن اب یہی سوال دنیا کے سامنے پیش کرو- اور پھر دیکھو کیا جواب ملتا ہے- اگر آج سے ۱۹ سو سال پہلے حضرت مسیح کا یہ فقرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے تو یہ لوگ کہتے )نعوذ باللہ(یہ کس پاگل اور مجنون کا کلام ہے- مگر آج دنیا کے جتنے بڑے بڑے

Page 159

۱۱۶ فلاسفر ہیں ان کے پاس جاؤ اور جا کر سوال کرو کہ حضرت مسیحؑ نے دنیا میں آکر کیا کام کیا تھا؟ تو وہ اس سوال کرنے والے کو پاگل قرار دیں گے اور کہیں گے- وہ مسیح جس نے ایک ہی فقرہ کہہ کر کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی زندگی کو بدل دیا اس کے متعلق یہ پوچھنا کہ اس نے کیا کام کیا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اس فقرہ کا آج بھی عیسائیوں پر اتنا اثر ہے کہ باوجود بڑے بڑے ظلم کرنے کے ایک نقطہ رحم کا ان میں باقی رہتا ہے اور کم از کم اتنا تو ہے کہ جب کوئی ظلم کرتے ہیں تو بھی اعلان یہی کرتے ہیں کہ فلاں قوم کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہم یہ کام کر رہے ہیں- خواہ وہ کسی کی کھال ہی ادھیڑ رہے ہوں- مگر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہم تمہارے فائدہ کے لئے ہی کر رہے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رحم کا احساس ان میں ایسا گھر کر گیا ہے کہ ظلم کرتے وقت بھی اس کا اظہار کرتے ہیں- غرض آج سب لوگ مانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے ذریعہ ان کے ماننے والوں میں ایک بہت بڑا تغیر پیدا ہوا- اسی طرح اگر یہ سوال بدھ کے متعلق کیا جاتا کہ انہوں نے آکر کیا کیا.

Page 160

۱۱۷ یا حضرت رامچندر کے متعلق کہا جاتا کہ انہوں نے کیا کیا- تو کیا جواب دیتے؟ یا حضرت اسمٰعیلؑ، حضرت اسحٰقؑ، حضرت زکریاؑ کے زمانہ کے متعلق کیا جائے تو مسلمان کیا جواب دیں- یا حضرت یوسفؑ کے متعلق پوچھا جائے کہ انہوں نے اپنے زمانہ میں کیا کیا؟ تو کیا بتائیں- کیا یہ کہ انہوں نے بادشاہ کے خزانوں کی دیانتداری سے حفاظت کی- مگر یہ کیا کام ہے- اس قسم کے دیانتدار تو کئی وڈ ۳؎ یافاکس ۴؎ نام کے انگریز بھی مل جائیں گے- اسی طرح یرمیاہ نبی کے متعلق اگر کوئی یہی سوال کرے تو کیا جواب دیا جائے گا- کیا یہ کہ وہ اپنے زمانہ میں روتے پیٹتے رہے کہ لوگ بیدار کیوں نہیں ہوتے- بعض انبیاء کے متعلق تو اس قسم کے جواب مل جائیں گے مگر بعض کے متعلق ایسے بھی نہ ملیں گے- مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کی تعلیموں نے دنیا میں تغیر نہیں پیدا کیا اور بڑے بڑے عظیمالشان نتائج نہیں نکلے- بات یہ ہے کہ نبی کی زندگی میں ان تغیرات کا جو آئندہ ہونے والے ہوتے ہیں صرف بیج نظر آنا ہے جس میں سے بعد میں عظیم الشان درخت پیدا ہو جاتا ہے- درخت ان کی زندگیوں میں نہیں دکھایا جا سکتا- جو کچھ دکھایا جا سکتا ہے وہ بیج ہوتا ہے اسے دکھا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سے درخت بن جائے گا- غرض تمام انبیاء کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء نہایت باریک روحانی اثر دنیا میں چھوڑتے ہیں جو مادی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا- ہاں عقلی طور پر سمجھا جا سکتا ہے- کہ نبی نے ایسی چیز چھوڑی ہے جو عظیم الشان نتیجہ پیدا کر سکتی ہے- دراصل انبیاء کی مثال اس بارش کی سی ہوتی ہے جو ایک عرصہ تک رکی رہنے کے بعد برستی ہے- بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پاؤں پھوٹنے لگ جاتے ہیں، درخت سوکھنے شروع ہو جاتے ہیں- لیکن جب بارش ہوتی ہے تو خود بخود ہاتھوں میں نرمی آ جاتی ہے- سبزہ پیدا ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی کیفیات ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں- پس یہ سوال کہ فلاں نبی نے ابتدائی زمانہ میں کیا کیا- نہایت باریک ہوتا ہے اور مومن کا کام ہے کہ نہایت احتیاط سے اس پر غورکرے- اگر کوئی شخص ایک نبی کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ اس کی ابتدائی زندگی میں اسے کوئی مادی کام نظر نہیں آتا اور بہت بڑی کامیابی اور تغیر دکھائی نہیں دیتا تو اسے سب نبیوں کو چھوڑنا پڑے گا- کیونکہ اگر اس کا یہ معیار درست ہے تو پچھلے انبیاء کو بھی اس پر پرکھنا چاہئے اور ان کو بھی چھوڑ دینا چاہئے- مگر مسلمان چونکہ انبیاء کی صداقت کے قائل ہیں اس لئے انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انبیاء کے متعلق غور کرتے وقت

Page 161

۱۱۸ نہایت باریک امور کو دیکھنا چاہئے- اس تمہید کے بعد بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق قرآن اور حدیث میں جو کچھ کام بتایا گیا ہے وہ کوئی مسلمان لے لے اور جو انجیل میں بتایا گیا ہے وہ عیسائی لے لے- میں دعویٰ کرتا ہوں کہ جو کام ان کا بتایا جائے گا اس ایک ایک کام کے مقابلہ میں سو سو کام اس شان اور عظمت کا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیش کر دوں گا- اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت مسیحؑ مردے زندہ کرتے تھے تو میں کہوں گا قرآن سے بتاؤ کہ وہ کیسے مردے زندہ کرتے تھے- پھر جیسے ثابت ہوں ویسے ایک کے مقابلہ میں سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ کئے ہوئے بتا دوں گا- مگر میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مردے زندہ کرنا کام نہیں- اسے اگر ہم ظاہری معنوں میں لیں تو وہ معجزہ کہلائے گا- اسی طرح بیماروں کو اچھا کرنا بھی کام نہیں ہے اور یہ تو طبیب بھی کرتے ہیں- ہاں معجزات کے نتائج کام کہلا سکتے ہیں- مثلاً یہ کہ ان معجزوں کے ذریعہ انہوں نے لوگوں میں پاکیزگی پیدا کی- مگر جو کوئی اس قسم کے یہ نشان بھی ثابت کرے- میں اس ایک کے مقابلہ میں سو سو انشاء اللہ پیش کر دوں گا- ان کے علاوہ قرآن اور حدیث سے مسلمان یا انجیل سے عیسائی جو کام ثابت کریں ان کے مقابلہ میں سو سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دکھادوںگا- اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام بیان کرنا شروع کرتا ہوں- لیکن یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کے جو روحانی کام ہوتے ہیں اور حقیقی کام وہی ہوتے ہیں اور وہی اہم ہوتے ہیں ان کے متعلق میں کچھ نہیں بیان کروں گا- کیونکہ میں اگر روحانی کام پیش کروں تو ایک غیراحمدی کہہ سکتا ہے کہ یہ آپ کا دعویٰ ہے اسے کس طرح مان لیا جائے- مثلاً نبی کا اصلی اور حقیقی کام یہ ہے کہ انسانوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دے- اب اگر میں یہ کہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ماننے والوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیا تو ایک غیر احمدی کہے گا یہ آپ کا دعویٰ ہے- اسے حضرت مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کس طرح تسلیم کر سکتا ہے- اس وجہ سے میں ایسی باتوں کو چھوڑتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے موٹے موٹے کام بیان کرتا ہوں جو دوسروں کیلئے بھی قابل تسلیم ہوں- ۱- پہلا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ جس میں تمام نبی شریک ہیں کہ نبی خدا تعالیٰ کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیا کرتا ہے خدا تعالیٰ دنیا سے مخفی

Page 162

۱۱۹ ہوتا ہے اور انبیاء اس کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ دنیا کی نظروں سے مخفی ہو چکا تھا- اور ایسا مخفی ہو چکا تھا کہ حقیقی تعلق لوگوں کا اس سے بالکل نہ رہا تھا- خالق اور مالک کی حقیقت کا کوئی ثبوت نہ تھا بلکہ یہ صرف کتابوں میں لکھا رہ گیا تھا کہ خدا ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے- جب مسلمانوں سے پوچھا جاتا کہ خدا کے خالق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو وہ کہتے قرآن میں لکھا ہے، یا کہتے کیا تم نہیں مانتے کہ خدا خالق ہے- اور اگر وہ خالق نہیں تو پھر اور کون ہے؟ ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ذکر کو جو حقیقت میں مٹ گیا تھا اس کی کامل صفات کے ذریعہ قائم کیا اور نشانات کے ذریعہ اس کی صفات کو ثابت کیا- میں نے ابھی بتایا تھا کہ نشان اپنی ذات میں کام نہیں ہوتا، ہاں نشان کا نتیجہ کام ہوتا ہے- اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے نشان دکھا کر خدا تعالیٰ کو کامل صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا- مثلاً حضرت صاحب کا ایک الہام ہے جو ابتدائی زمانہ کا ہے کہ-: ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا‘‘- ۵؎ یہ الہام حضرت مرزا صاحب نے اس وقت شائع کیا جب کہ آپ کو یہاں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے- میرے زمانہ میں ہمارے ایک رشتہ دار نے جو قریب کے گاؤں کے رہنے والے ہیں بیعت کی اور بتایا کہ میں یہاں آیا کرتا تھا- آپ کے گھر بھی آیا کرتا تھا لیکن حضرت مرزا صاحب کو نہ جانتا تھا- حضرت مرزا صاحب کے والد کو جانتا تھا- تو حضرت صاحب ایسے گمنام انسان تھے کہ رشتہ دار بھی آپ کو نہ جانتے تھے- قادیان کے لوگ آپ کے واقف نہ تھے- ایسے زمانہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا-: ’’دنیا میں ایک نذیر آیا- پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا- لیکن خدا اسے قبول کرے گا- اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘-۶؎ دیکھو اس میں کیسی عظیم الشان خبر دی گئی ہے- کیا کوئی انسان کسی انسانی تدبیر سے ایسی خبر دے سکتا ہے- یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماموریت سے پہلے ہوا- جس میں ایک تو یہ پیشگوئی تھی کہ آپ زندہ رہیں گے اور ماموریت کا دعویٰ کریں گے- دوسری

Page 163

۱۲۰ پیشگوئی یہ تھی کہ جب آپ دعویٰ کریں گے تو دنیا آپ کو رد کر دے گی- تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ دنیا کوئی معمولی مخالفت نہ کرے گی بلکہ آپ پر ہر قسم کے حملے کئے جائیں گے- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا کی طرف سے وہ حملے رد کئے جائیں گے اور دنیا پر عذاب نازل ہوں گے- پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ آپ کی صداقت آخر ظاہر ہو جائے گی- یہ کوئی معمولی باتیں نہیں جو قبل از وقت اور اس وقت جب کہ ظاہری حالات بالکل خلاف تھے، بتلائی گئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحت شروع سے ہی اتنی کمزور تھی کہ بعض دفعہ بیماری کے حملوں کے وقت ارد گرد بیٹھنے والوں نے سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ کہتے ہیں وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماموریت کا دعویٰ کیا جائے گا- دوسرے یہ کہ لوگ مخالفت کریں گے- یہ بات بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی- گوجرانوالہ کے ضلع کا ایک شخص جس نے ماموریت کا دعویٰ کیا اس کے کئی خط میرے پاس آتے رہے کہ آپ اگر مجھے سچا نہیں سمجھتے تو میرے خلاف کیوں نہیں لکھتے- اور ’’الفضل‘‘ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بھی کچھ نہیں لکھتا- موافق نہیں تو خلاف ہی لکھے- میں نے دل میں سوچا کہ مخالفت بھی خدا ہی کی طرف سے کرائی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی اشاعت کا ذریعہ ہوتی ہے- ایسا ہی چکڑالویوں کے رسالہ پر کئی دفعہ اس کے ایڈیٹر کی طرف سے لکھا ہوا ملا کہ میرا جواب کیوں نہیں دیا جاتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پانچ سات مدعی کھڑے ہوئے مثلاً ظہیرالدین، عبداللطیف، مولوی محمد یار، عبداللہ تیماپوری، نبی بخش- یہ تو اشتہاری نبی ہیں ان کے علاوہ چھوٹے موٹے اور بھی ہیں مگر ان کی مخالفت بھی نہیں ہوئی اور ان کو یہ بات بھی میسر نہ آئی- ان مدعیوں نے کھڑے ہو کر دکھا دیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مرزا صاحب کی لوگوں نے مخالفت کی اس لئے وہ سچے نہیں وہ غلطی پر ہیں- جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو تو مخالفت بھی نصیب نہیں ہوتی- پھر مخالفتیں زبانی حد تک بھی محدود رہتی ہیں- مگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق خدا تعالیٰ نے تیسری پیشگوئی یہ فرمائی کہ معمولی مخالفت نہ ہوگی- بلکہ ایسی ہوگی جس کو رد کرنے کیلئے خدا تعالیٰ زور آور حملے کرے گا- یعنی ایک تو سخت حملے ہوں گے دوسرے کئی اقسام کے ہوں گے اور کئی جماعتوں کی طرف سے ہونگے- اس سے معلوم ہوا کہ دشمن بھی سخت حملے کریں گے

Page 164

۱۲۱ اور کئی اقسام کے حملے کریں گے- جن کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کو بھی اس قسم کا جواب دینا پڑے گا- چنانچہ مخالفین نے آپ پر قسم قسم کے حملے کئے اور یہ حملے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک طرف گورنمنٹ آپ کو گرفتار کرنے کیلئے تلی بیٹھی تھی دوسری طرف پیر گدی، نشین اور مولوی آپ کی مخالفت پر آمادہ اور آپ کی جان کے درپے تھے- عام مسلمانوں نے بھی کوئی کمی نہ کی اور آپ کے خلاف منصوبوں پر منصوبے کئے- ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور باقی سب قوموں نے بھی ناخنوں تک زور لگایا کہ آپ کو تباہ کر دیں، آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ پر اتہام لگائے گئے، آپ کی عزت و آبرو، آپ کی دیانت اور امانت، آپ کے تقویٰ و طہارت پر حملے کئے گئے مگر سب ناکام رہے اور آپ کی عزت بڑھتی گئی- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ ان حملوں کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حملے ہونگے چنانچہ ایسا ہی ہوا- جس نے جس رنگ میں آپ پر حملہ کیا تھا اسی رنگ میں وہ پکڑا گیا- پانچویں پیشگوئی جو آخری بات تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی صداقت ظاہر کر دے گا- اس کے ثبوت میں یہ جلسہ موجود ہے اس وقت تمام دنیا میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں- امریکہ میں موجود ہیں- یورپ میں موجود ہیں- افریقہ میں موجود ہیں- ایشیاء کے ہر علاقہ میں موجود ہیں- کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے چالیس کروڑ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اتنے امریکہ کے باشندے مسلمان نہیں ہوئے جتنے احمدیوں کی قلیل ترین جماعت کی کوششوں سے ہوئے ہیں- اس وقت ایک ایسے امریکن مسلمان کے مقابلہ میں سو احمدی امریکن ہیں- اسی طرح ہالینڈ میں جہاں دوسرے مسلمانوں کا بنایا ہوا ایک بھی مسلمان نہیں، احمدی مسلمان موجود ہیں- اور کئی ایسے ممالک ہیں جہاں احمدی باشندوں کی تعداد اس ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے یہ کتنا بڑا نشان ہے- اور زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ظاہر ہونے کا کتنا بڑا ثبوت ہے- ہندوستان میں ہی دیکھ لو- دوسروں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی کیسی کمزور حالت ہے مگر کتنی ترقی کر رہی ہے- کسی نے کہا ہے سوامی دیانند اور حسن بن صباح کے ماننے والوں نے بھی ترقی کی تھی- انہوں نے ترقی کی ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ کیا کمزوری کی حالت میں انہوں نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایسی ترقی ہوگی اور اس ترقی کے دعویٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع بھی کیا تھا- اتفاقی طور پر ترقی ہو جانا اور بات ہے اور دعویٰ کے بعد ترقی ہونا اور بات

Page 165

۱۲۲ ہے- لارڈریڈنگ۷؎ جو وائسرائے ہند رہ چکے ہیں، پہلے مزدور تھے جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے- مگر یہ اتفاقی باتیں ہوتی ہیں- صداقت کی علامت وہ ترقی ہوتی ہے جس کا پہلے سے دعویٰ کیا جائے اور پھر وہ دعویٰ پورا ہو جائے- پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے اور یہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے-: ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘- ۸؎ اب دیکھ لو کہ دنیا میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اصل باشندوں میں سے دوسرے فرقوں کے مسلمان نہیں مگر احمدی ہیں- اس سے بڑھ کر دنیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ کے پہنچنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے- اسی طرح آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میری مخالفت مٹتی جائے گی اور قبولیت پھیلتی جائے گی- جب آپ نے اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا تو خطرناک طور پر آپ کی مخالفت ہوئی مگر اس وقت آپ نے فرمایا- ؎ وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن اس وقت سوائے دجال کے آپ کا کوئی نام نہ رکھا جاتا تھا- لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا کام اتنا تو نمایاں ہو چکا ہے کہ جو لوگ ابھی آپ کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے ان کا بھی بہت بڑا حصہ کہتا ہے کہ آپ کو دجال نہیں کہنا چاہئے آپ نے بھی اچھا کام کیا ہے- اسی طرح قادیان کی ترقی بھی بہت بڑا نشان ہے آخری جلسہ میں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہوا، اس میں سات سو آدمی کھانا کھانے والے تھے- اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے نکلے تو اس لئے واپس چلے گئے کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے گرد اڑتی ہے- اب دیکھو اگر سات ہزار بھی جلسہ پر آئیں تو شور پڑ جائے کہ کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے تھوڑے لوگ آئے ہیں- ہر سال آنے والوں میں زیادتی ہوتی ہے- پچھلے سال کی ستائیں تاریخ کی حاضری کی نسبت اس سال کی حاضری میں نو سو کی زیادتی ہے- گویا جتنے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آخری

Page 166

۱۲۳ جلسہ پر آئے تھے اس سے بہت زیادہ آدمیوں کی زیادتی ہر سال کے جلسہ کی حاضری میں ہو جاتی ہے- اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں- میں جلسہ کے موقع پر ہی ایک کتاب دیکھ رہا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ’’سراج منیر‘‘ ایک کتاب ہم شائع کریں گے مگر اس کی اشاعت میں تعویق ہوگئی ہے کیونکہ اس کے لئے سو روپیہ کی ضرورت ہے- گویا وہ کتاب جو ایک سو روپیہ کیلئے اس وقت رکی رہی- مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بلکہ آپ کے خلیفہ نے کہا تو دو لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے ہو گئے*- غرض خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اس طرح اپنی صفات کے ثبوت دیئے ہیں جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں کے ذریعہ سے دیتا چلا آیا ہے- میں نے اپنی کتاب ’’احمدیت‘‘ میں کسی قدر تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوا ہے- مگر اس کتاب میں بھی پوری تفصیل سے نہیں لکھ سکا- اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو کسی وقت خدا تعالیٰ کی ساری صفات کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہوئیں، ایک کتاب لکھوں گا اور بتاؤں گا کہ آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی تمام صفات ثابت ہوئی ہیں اور یہی نبی کا کام ہوتا ہے- حضرت مسیح موعودؑ کا دوسرا کام نبی کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کام کرنے والی جماعت پیدا کر جاتا ہے- ہماری جماعت کی کمزوری مالیلحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دیکھو اور پھر اس کے مقابلہ میں اس کے کاموں کی وسعت کو دیکھو- کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ کوئی اور قوم نہیں کر رہی- غیر احمدی اخباروں میں چھپتا رہتا ہے کہ کام کرنے والی ایک ہی جماعت ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے- روس، فرانس، ہالینڈ، آسٹریلیا، امریکہ، انگلینڈ وغیرہ ممالک میں * حضور کا یہ اشارہ ریزروفنڈ کے متعلق تھا جس کی تحریک پر احباب نے جو وعدے لکھائے ان کی مجموعی رقم دو لاکھ بیاسی ہزار ہو گئی تھی-

Page 167

۱۲۴ ہماری طرف سے اسلام کی تبلیغ ہوئی- اور اب تو لوگ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے میں آکر تبلیغ کرو چنانچہ ایران سے مطالبہ آیا ہے کہ بہائیوں کے مقابلہ کیلئے احمدیوں کو آنا چاہئے- بعض لوگ آریوں کا کام مقابلہ میں پیش کرتے ہیں مگر ان لوگوں کے مالوں اور ہمارے مالوں کو دیکھو- پھر ان کے کاموں کی وسعت اور ہمارے کاموں کی وسعت کو دیکھو- ہندوؤں میں سے بعض ایسے مالدار ہیں کہ وہ اکیلے اتنا روپیہ دے سکتے ہیں جتنا ہماری ساری جماعت مل کر سارے سال میں نہیں دے سکتی- اور ایک دو نہیں بلکہ خاصی تعداد میں ایسے لوگ ان میں موجود ہیں- مگر باوجود اس کے ساری ہندو قوم نے مل کر علاقہ ملکانا میں حملہ کیا- مگر جب ہمارے مبلغ پہنچے تو سب بھاگ گئے اس وقت دہلی میں ہندو مسلمانوں کی ایک کانفرس ہوئی جس میں یہ سوال پیش ہوا کہ آؤ صلح کر لیں- اس کانفرنس کو منعقد کرنے والے حکیم اجمل خان صاحب، ڈاکٹر انصاری، مولوی محمد علی صاحب اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد تھے اور ہندوؤں کی طرف سے شردھانند صاحب وغیرہ- جیسا کہ علماء کا ہمارے متعلق طریق عمل رہا ہے انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے اور وہ خود صلح کی شرائط طے کرنے لگے- لیکن شردھانندجی نے کہا کہ احمدی بھی اس علاقہ میں کام کر رہے ہیں، ان کو بلانا چاہئے- اس پر میرے نام حکیم اجمل خان صاحب، ڈاکٹر انصاری اور مولوی ابوالکلام صاحب کا تار آیا کہ اپنے قائم مقام بھیجئے- میں نے یہاں کے آدمیوں کو بھیجا- اور انہیں بتا دیا کہ ملکانوں کے متعلق سوال اٹھے گا اور کہا جائے گا کہ ہندو مسلمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں مگر ہندوؤں نے بیس ہزار ملکانوں کو مرتد کر لیا ہے اس لئے جب یہ سوال پیش ہو تو آپ کہیں کہ ہمیں ۲۰ ہزار مرتدوں کو کلمہ پڑھا لینے دیجئے، تب اس شرط پر صلح ہوگی اور ہم وہاں سے واپس آ جائیں گے- ورنہ جب تک ایک ملکانا بھی مرتد رہے گا ہم وہاں سے نہیں ہٹیں گے- چنانچہ جب ہمارے آدمی کانفرنس میں پہنچے تو یہی سوال پیش ہوا- اور انہوں نے یہی بات کہی جو میں نے بتائی تھی- اس پر مولویوں نے کہا احمدیوں کی ہستی ہی کیا ہے ان کو چھوڑ دیجئے اور ہم سے صلح کیجئے- شردھانندجی نے اس وقت ان سب کے سامنے کہا آپ کے اگر پچاس آدمی بھی وہاں ہوں تو ہمیں ان کی پرواہ نہیں- لیکن جب تک ایک بھی احمدی وہاں ہوگا صلح نہیں ہو سکتی- احمدیوں کو پہلے اس علاقہ سے نکالو اور پھر صلح کے لئے آگے بڑھو- غرض جماعت احمدیہ کے کام کی اہمیت کا ان لوگوں کو بھی اقرار ہے جو جماعت میں داخل

Page 168

۱۲۵ نہیں ہیں- بلکہ جو اسلام کے دشمن ہیں وہ بھی اقرار کرتے ہیں- ابھی کلکتہ میں ڈاکٹر زویمر کے لیکچر ہوئے- یہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں میں سے سب سے زیادہ اسلام کے متعلق واقفیت رکھنے کے مدعی ہیں- مصر میں ایک رسالہ ’’مسلم ورلڈ‘‘ نکالتے ہیں- پچھلی دفعہ جب آئے تو قادیان بھی آئے تھے اور یہاں سے جا کر انہوں نے بعض دوسرے شہروں میں اشتہار دیا تھا کہ وہ ڈاکٹرزویمر جو قادیان سے بھی ہو آیا ہے ان کا لیکچر ہوگا- کچھ عرصہ ہوا وہ کلکتہ گئے اور وہاں انہوں نے لیکچر دیا- مولوی عبدالقادر صاحب ایم اے پروفیسر جو میری ایک بیوی کے بھائی ہیں، انہوں نے کچھ سوال کرنے چاہے- اس پر دریافت کیا گیا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ انہوں نے کہا- ہاں- اس پر کہہ دیا گیا ہم احمدیوں سے مباحثہ نہیں کرتے- مصر میں انہی صاحب کی کوشش سے کئی آدمی مسیحی بنا لئے گئے ہیں- اتفاقاً ایک شخص عبدالرحمن صاحب مصری کو جو ان دنوں مصر میں تھے مل گیا- انہوں نے اسے احمدی نقطہ نگاہ سے دلائل سمجھائے- وہ پادری زویمر کے پاس گیا اور جا کر گفتگو کی- اور کہا حضرت مسیح زندہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے رو سے فوت ہو گئے- اس پادری نے کہا کہ کسی احمدی سے تو تم نہیں ملے؟ اس مصری نے کہا- ہاں ملا ہوں- یہ جواب سن کر وہ گھبرا گئے اور آئندہ بات کرنے سے صاف انکار کر دیا- غرض خدا کے فضل سے ہماری جماعت کو مذہبی دنیا میں ایسی اہمیت حاصل ہو رہی ہے کہ دنیا حیران ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہے- اور آپ کے اس کام کا کوئی انکار نہیں کر سکتا- یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں یہ بھی چونکہ ایمانیات سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے میں اور نیچے اترتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علمی کام بیان کرتا ہوں- حضرت مسیح موعودؑ کا تیسرا کام تیسرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی صفات کے متعلق لوگوں کے خیالات میں جو فساد پڑ گیا تھا، اس کی آپ نے اصلاح کی ہے- مذہب میں سب سے بڑی ہستی خدا تعالیٰ کی ہستی ہے- مگر اس کی ذات کے متعلق مسلمانوں میں اور دوسرے مذہبوں میں اتنا اندھیر مچا ہوا تھا اور ایسی خلاف عقل باتیں بیان کی جاتی تھیں کہ ان کی موجودگی میں اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے کسی کو توجہ ہی نہیں ہو سکتی تھی- اس خرابی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دور

Page 169

۱۲۶ کیا- خدا تعالیٰ کے متعلق یہ غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے- (۱)شرک جلی اور خفی میں لوگ مبتلا تھے(۲)بعض لوگ اللہ تعالیٰٰ کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر خدا ہے تو وہ علت العلل ہے- وہ اس کی قوت ارادی کے منکر تھے اور سمجھتے تھے کہ جس طرح مشین چلتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ سے دنیا کے کام ظاہر ہو رہے ہیں- ہزاروں علتوں میں سے وہ ایک علت ہے گو آخری اور سب سے بڑی- مگر بہرحال ایک اضطرار کے رنگ میں اس کے سب افعال صادر ہوتے ہیں- مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی فلسفہ کے دلدادہ اس خیال سے متاثر ہو چکے تھے (۳)بعض لوگ خیال کر رہے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے اور قدیم ہے- خدا تعالیٰ کا جوڑنے جاڑنے سے زیادہ دنیا سے کوئی تعلق نہیں- بعض مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلا تھے (۴)بعض لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرنے لگ گئے تھے اور یہ کہتے تھے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں پائی جاتی- کیونکہ وہ عدل کے خلاف ہے(۵)بعض لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایسا ناقص اندازہ کرنے لگ گئے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو چند ہزار سال میں محدود کر دیا تھا اور خیال کرتے تھے کہ بس خدا تعالیٰ کی صفات انہی چند ہزار سال میں ظاہر ہوئی ہیں اور اگر اس دور کو لمبا بھی کرتے تھے تو اتنا کہ گو اس دنیا کی عمر لاکھوں سال کی مانتے تھے مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور اسی دور کے ساتھ محدود کرتیتھے- (۶)بعض لوگ خدا کی قدرت کو غلط طریق سے ثابت کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے، چوری بھی کر سکتا ہے- اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس میں قدرت نہیں ہے- (۷)بعض لوگ خدا تعالیٰ کو قانون قضاؤ قدر جاری کرنے کے بعد بالکل بیکار سمجھتے اور اس وجہ سے کہتے تھے کہ دعا کرنا فضول ہے- جب خدا کا قانون جاری ہو گیا کہ فلاں بات اس طرح ہو تو دعا کرنا بے فائدہ ہے- دعا سے اس قانون میں روکاوٹ نہیں پیدا ہو سکتی- (۸) خدا تعالیٰ کی صفات کے اجراء کا مسئلہ بالکل لاینحل سمجھا جانے لگا تھا لوگ خدا تعالیٰ کی سب صفات کے ایک ہی وقت میں جاری ہونے کا علم نہ رکھتے تھے اور سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ جو شدید العقاب ہے وہ اس صفت کو رکھتے ہوئے ایک ہی وقت میں وھاب کس طرح ہو سکتا ہے وہ حیران تھے کہ کیا ایک انسان کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑا سخی ہے اور بڑا بخیل بھی ہے- اگر نہیں تو خدا کے لئے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی

Page 170

۱۲۷ وقت میں قھار بھی ہے اور رحیم بھی- چونکہ قرآن میں خدا تعالیٰ کی ایسی صفات آئی ہیں جو بظاہر آپس میں مخالفت رکھتی ہیں اس لئے وہ لوگ حیران تھے- (۹)بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے تھے کہ ہر چیز خدا ہی خدا ہے اور بعض اس وہم میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک تخت ہے، خدا تعالیٰ اس پر بیٹھا ہوا حکم کرتا ہے- (۱۰)خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں رہی تھی- حتی کہ جب کوئی مکان یا گھر ویران ہو جاتا تو کہتے کہ اب تو اس میں اللہ ہی اللہ ہے- یا کسی کے پاس کچھ نہ رہتا تو کہا جاتا کہ اب تو اس کے پاس اللہ ہی اللہ ہے جس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ بھی ایک خلو ہی کا نام ہے- خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ملنے کی تڑپ بالکل مٹ گئی تھی- جنوں اور بھوتوں کی ملاقات، عمل حب اور عمل بغض کی خواہش تو لوگوں میں تھی- لیکن اگر نہ تھی تو خدا تعالیٰ کی ملاقات کی خواہش نہ تھی- ان اختلافات کے طوفان کے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ان سب غلطیوں سے مذہب کو پاک کر دیا- سب سے پہلے میں شرک کو لیتا ہوں- آپ نے شرک کو پورے طور پر رد کیا اور توحید کو اپنے پورے جلال کے ساتھ ظاہر کیا- آپ سے پہلے مسلمان علماء تین قسم کا شرک مانتے تھے-(۱)بتوں، فرشتوں اور معین چیزوں کی عبادت کرنا- مگر باوجود اس کے عوام تو الگ رہے علماء تک قبروں پر سجدے کرتے تھے لکھنؤ میں ایک بڑے مولوی کو میں نے قبر پر سجدہ کرتے بچشم خود دیکھا ہے- (۲)علماء تسلیم کرتے تھے کہ کسی میں خدائی صفات تسلیم کرنا بھی شرک ہے مگر یہ صرف منہ سے کہتے تھے بڑے سے بڑے توحید پرست وہابی بھی حضرت مسیحؑ کو ایسی صفات دیتے تھے جو خدا سے ہی تعلق رکھتی ہیں- مثلاً یہ کہتے کہ وہ آسمان پر کئی سو سال سے بیٹھے ہیں- نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ ان پر کوئی تغیر آتا ہے- اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بعض انسانوں نے مردے زندہ کئے تھے اور مسیح نے تو علاوہ مردے زندہ کرنے کے پرندے بھی پیدا کئے تھے- (۳) بڑے بڑے عالم اور دین کے ماہر یہ مانا کرتے تھے کہ چیزوں پر اتکال کرنا یعنی یہ سمجھنا کہ کوئی چیز اپنی ذات میں فائدہ پہنچا سکتی ہے یہ بھی شرک ہے- مثلاً اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلاں دوائی بخار اتار دے گی تو وہ شرک کرتا ہے- اصل میں یوں سمجھنا چاہئے کہ فلاں دوائی خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے اثر سے فائدہ دے گی- کیونکہ جب تک ہر چیز میں خدا کا ہی جلوہ نظر

Page 171

۱۲۸ نہ آئے اس وقت تک اس سے فائدہ کی امید رکھنا شرک ہے- یہ شرک کی بہت عمدہ تعریف ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے بھی اوپر تعریف بیان کی ہے جس کی نظیر پچھلے تیرہ سو سال میں نہیں ملتی- آپ نے توحید کے متعلق مختلف کتابوں میں مضامین لکھے ہیں- ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جو باتیں لوگوں نے بیان کی ہیں ان کے اوپر اور ان سے بالا ایک اور درجہ کامل توحید کا ہے- آخری درجہ پچھلے علماء نے توحید کا یہ بیان کیا تھا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ کام کرتا ہوا نظر آئے- گو یہ صحیح ہے مگر ہے تو آخر اپنا خیال ہی- کیونکہ جو شخص اپنے ذہن میں یہ خیال جماتا ہے کہ سب کچھ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے وہ اس توحید کو خود پیدا کر رہا ہے اور اپنی پیدا کی ہوئی توحید کامل توحید نہیں کہلا سکتی- توحید وہی کامل ہوگی کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف جلوہ گر ہو- اور جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ خود ماسویٰ کو مٹا ڈالے اور یہی توحید اصلی توحید ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور قرآن کریم نے اور تمام انبیاء نے پیش کیا ہے یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب ہو جائے کہ اسے اس امر کی ضرورت نہ رہے کہ وہ سوچے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے بلکہ خدا تعالیٰ اپنے ایک ہونے کو خود اس کے لئے ظاہر کر دے- اور ہر چیز میں خدا تعالیٰ اس کے لئے اپنا ہاتھ دکھائے- اور ہر چیز اس کے لئے بطور شفاف شیشہ کے ہو جائے کہ جس طرح وہ اپنے آپ کو بیچ میں سے غائب کر دیتا ہے اور اس کے پرے ہر چیز نظر آنے لگتی ہے- اسی طرح تمام دنیا کی اشیاء ایسے انسان کے لئے بہ منزلہ آئینہ ہو جائیں- اور وہ اپنے خیال سے ان میں اللہ تعالیٰٰ کو نہ دیکھے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو خاص طور پر ظاہر کر کے ہر چیز میں سے اسے نظر آنے لگے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں- خالی عقیدہ رکھنا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ ہے یہ اعلیٰ توحید نہیں- بلکہ کمال توحید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز میں سے اپنا ہاتھ دکھائے- جب ایسا ہو تب خدا تعالیٰ واقعہ میں ہر چیز میں نظر آتا ہے، محض ہمارا خیال نہیں ہوتا- یہ ایسی توحید ہے جو عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انسان کے تمام اعمال پر حاوی ہے ایک مسلمان کی اخلاقی، تمدنی، سیاسی، معاشرتی غرضیکہ ہر قسم کی زندگی پر حاوی ہے- جب انسان کھانا کھائے تو خدااس کھانے میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہو اور کھانے کی تمام ضرورتوں اور اس کی حدود کو اس پر ظاہر کر رہا ہو اور اپنا جلال دکھا رہا ہو، جب پانی پئے تو بھی اسی طرح ہو، جب دوستوں سے ملے تب بھی ایسا ہی ہو- غرض ہر ایک کام جو وہ کرے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ

Page 172

۱۲۹ ہو اور اس میں اپنی قدرت اس کے لئے ظاہر کر رہا ہو- یہ کامل توحید کا درجہ ہے جب کسی کو یہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا- اور اسی توحید پر ایمان لانا مدار نجات ہے- اور اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہالذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلقالسموت والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور پہلوؤں پر بھی اور زمین اور آسمانوں کی پیدائش کے متعلق فکر کرتے ہیں، خدا ان کے سامنے آ جاتا ہے- اور وہ بے اختیار ہو کر پکار اٹھتے ہیں کہ ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار اے ہمارے رب! یہ چیزیں جو تو نے بنائی تھیں لغو نہ تھیں- ان کے ذریعہ ہم تجھ تک آ گئے ہیں- تو پاک ہے اب ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے- یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم اس مقام سے ہٹ جائیں اور ہجر کی آگ ہمیں بھسم کر دے- اب پیشتر اس کے کہ میں ان دوسری غلط فہمیوں کے ازالہ کا ذکر کروں جو خدا تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سب غلطیوں کے دور کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اصل پیش کیا ہے جو ان سب غلطیوں کا ازالہ کر دیتا ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لیس کمثلہ شیء ۹؎ہے- پس اس کے متعلق کوئی بات ہم مخلوق پر قیاس کرکے نہیں کہہ سکتے- اس کے متعلق ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ خود اسی کی صفات پر مبنی ہونا چاہئے ورنہ ہم غلطی میں مبتلا ہو جائیں گے- ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جو عقیدہ ہم خدا تعالیٰ کی نسبت رکھتے ہیں وہ اس کی دوسری صفات کے جنہیں ہم تسلیم کرتے ہیں مطابق ہے یا نہیں- اگر نہیں تو یقیناً ہم غلطی پر ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات متضاد نہیں ہو سکتیں- اس اصل کے بتانے سے آپ نے ایک طرف تو ان غلطیوں کا ازالہ کر دیا جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف غیر مذاہب کی غلطیوں کی بھی حقیقت کھول دی ہے- میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں کئی قسم کی غلطیاں پڑی ہوئی تھیں جن میں سے توحید کے متعلق جو اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے کی ہے اسے میں اوپر بیان کر آیا

Page 173

۱۳۰ ہوں- جو دوسری غلطیاں ہیں ان سب کی اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے اوپر کے بیان کئے ہوئے اصل کے ماتحت کی ہے- چنانچہ دوسری غلطی اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف مذاہب کے پیروؤں میں یہ پیدا ہو رہی تھی کہ وہ اسے علت العلل قرار دیتے تھے- یعنی اس کی قوت ارادی کے منکر تھے- اس غلطی کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہتعالیٰ کی صفت حکیم اور قدیر سے کیا ہے- تمام مذاہب خدا تعالیٰ کے حکیم اور قدیر ہونے کے قائل ہیں- اور یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ حکیم اور قدیر ہے تو علتالعلل نہیں ہو سکتا بلکہ بالارادہ خالق ہے- کسی مشین کو کوئی عقلمند کبھی حکیم نہ کہے گا- پس اگر خدا حکیم ہے تو علت العلل نہیں ہو سکتا- کوئی درزی یہ نہیں کہے گا کہ میری سنگر کی مشین بڑی لائق ہے یا بڑی حکیم ہے- حکمت والا اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ارادہ کے ماتحت کام کرتی ہے- پھر خدا تعالیٰ قادر ہے- اور عربی میں قادر کے معنی اندازہ کرنے والے کے ہیں- یعنی جو ہر اک کام کا اندازہ کرتا ہو اور دیکھتا ہو کہ کس چیز کے مناسب حال کیا طاقتیں یا کیا سامان ہیں- مثلاً یہ فیصلہ کرے کہ گرمی کے لئے کیا قوانین ہوں اور سردی کے لئے کیا- کس کس حیوان کی کس کس قدر عمر ہو- اور یہ اندازہ کوئی بلاارادہ ہستی نہیں کر سکتی- پس خدا تعالیٰ کی قدیر اور حکیم صفات اس کے ارادہ کو ثابت کر رہی ہیں اور اسے قدیر اور حکیم مانتے ہوئے علتالعلل نہیں کہا جا سکتا- (۳)تیسری قسم کے وہ لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں- یعنی خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں ہے- اس کا جواب آپ نے خدا کی صفتمالکیت اور رحیمیت سے دیا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی دو بڑی صفات مالکیت اور رحیمیت ہیں- اب اگر خدا نے دنیا کو پیدا نہیں کیا تو پھر اس پر تصرف جمانے کا بھی اسے کوئی حق نہیں ہے- یہ حق اسے کہاں سے حاصل ہو گیا؟ پس جب تک خدا تعالیٰ کو دنیا کا خالق نہ مانو گے دنیا کا مالک بھی نہیں مان سکتے- دوسری صفت خدا تعالیٰ کی رحیمیت ہے- رحیم کے معنی ہیں وہ ہستی جو انسان کے کام کا بہتر سے بہتر بدلہ دے- اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا کسی چیز کا خالق نہیں تو وہ بدلے اس کے پاس کہاں سے آئیں گے- جو لوگوں کو اپنی اس صفت کے ماتحت دے گا- ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ-‘‘ کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے دادا

Page 174

۱۳۱ کی فاتحہ دلانی تھی- وہ کچھ خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا اور مولوی بغیر امید کے فاتحہ پڑھنے کو تیار نہ تھے- آخر اس نے یہ تدبیر کی کہ مولویوں کو لے کر ایک حلوائی کی دکان پر پہنچا اور ان سے کہا- فاتحہ پڑھو- انہوں نے سمجھا کہ اس کے بعد مٹھائی تقسیم ہو گی- مگر جب وہ فاتحہ پڑھ چکے- تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل دیا- یہی حالت ان لوگوں کے نزدیک خدا کی ہے- اگر خدا کسی چیز کا خالق ہی نہیں ہے تو بدلے کہاں سے آئیں گے؟ اور وہ کہاں سے دے گا خواہ آریہ محدود ہی بدلہ مانیں لیکن بدلہ مانتے تو ہیں اور بدلہ خدا تعالیٰ نہیں دے سکتا ہے جب کہ وہ خالق ہی نہ ہو- جو خود کنگال ہو اس نے بدلہ کیا دینا ہے- (۴)چوتھی قسم کے لوگ وہ تھے جو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ہی منکر تھے ان لوگوں کو حضرت مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور مالکیت سے جواب دیا- مثلاً مسیحیوں کے مذہب کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے اس لئے وہ کسی کا گناہ معاف نہیں کر سکتا- پس اسے دنیا کے گناہ معاف کرنے کے لئے ایک کفارہ کی ضرورت پیش آئی تا اس کا رحم بھی قائم رہے اور عدل بھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بے شک خدا عادل ہے- مگر عدل اس کی صفت نہیں- عدل صفت اس کی ہوتی ہے جو مالک نہ ہو- مالک کی صفت رحم ہوتی ہے- ہاں جب مالک کا رحم کام کے برابر ظاہر ہو تو اسے بھی عدل کہہ سکتے ہیں- پس چونکہ خدا تعالیٰ مالک اور رحمن بھی ہے اس لئے اس کا دوسری چیزوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا- دیکھو خدا تعالیٰ نے انسان کو کان، ناک، آنکھیں بغیر اس کے کسی عمل کے دی ہیں- کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے- پس اگر خدا بغیر انسان کے کسی استحقاق کے یہ چیزیں اسے دے سکتا ہے تو پھر وہ انسان کے گناہ کیوں معاف نہیں کر سکتا- اسی طرح وہ مالک ہے اور بہ حیثیت مالک ہونے کے معاف کرنے سے اس کے عدل پر حرف نہیں آتا- ایک جج بے شک عام حالات میں مجرم کا جرم معاف نہیں کر سکتا- کیونکہ اسے فیصلہ کا حق پبلک کی طرف سے ملتا ہے اور دوسروں کے حق معاف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہوتا- لیکن خدا تعالیٰ اگر معاف کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اسے فیصلہ کا حق دوسروں کی طرف سے نہیں ملا بلکہ اسے یہ حق ملکیت اور خالقیت کی وجہ سے اپنی ذات میں حاصل ہے- پس اس کا عفو عدل کے خلاف نہیں- (۵) پانچویں قسم کے وہ لوگ تھے جو خدا کی صفت خالقیت کو ایک زمانہ تک محدود کرتے

Page 175

۱۳۲ تھے- ان کو آپ نے خدا تعالیٰ کی صفت قیوم سے جواب دیا- فرمایا خدا تعالیٰ کی صفات چاہتی ہیں کہ ان میں تعطل نہ ہو بلکہ وہ ہمیشہ جاری رہیں- قیوم کے معنی ہیں قائم رکھنے والا- اور یہ صفت تمام صفات پر حاوی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہو سکتا- آپ نے جو اصل پیش کیا اور جو تھیوری بیان کی ہے وہ باقی دنیا سے مختلف ہے- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فلاں وقت سے دنیا کو پیدا کیا- گویا اس سے قبل خدا بے کار تھا- اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ دونوں باتیں غلط ہیں- یہ ماننا بھی کہ کسی وقت خدا کی صفات میں تعطل تھا خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کے خلاف ہے- اسی طرح یہ کہنا بھی کہ جب سے خدا تعالیٰ ہے تبھی سے دنیا چلی آ رہی ہے، خدا کی صفات کے خلاف ہے- شائد بعض لوگ کہیں کہ دونوں باتیں کس طرح غلط ہو سکتی ہیں دونوں میں سے ایک نہ ایک تو صحیح ہونی چاہئے- لیکن یہ ان کا خیال مادیات پر قیاس کرنے کے سبب سے ہوگا- اصل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقل انسانی سے بالا ہوتی ہیں- اور عقل ان کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتی- دنیا کا پیدا ہونا چونکہ انسانوں، جمادات بلکہ ذرات کی پیدائش سے بھی پہلے کا واقعہ ہے اس لئے انسانی عقل اس کو نہیں سمجھ سکتی- جو دو عقیدے لوگوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں ان پر غور کر کے دیکھ لو کہ دونوں بالبداہت غلط نظر آتے ہیں- اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جب سے خدا ہے اسی وقت سے دنیا کا سلسلہ ہے تو پھر اسے دنیا کو بھی خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ماننا پڑے گا اور اگر کوئی یہ کہے کہ پیدائش کا سلسلہ کروڑوں یا اربوں سالوں میں محدود ہے تو پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا- کہ خدا تعالیٰ ازل سے نکما تھا صرف چند کروڑ یا چند ارب سال سے وہ خالق بنا- اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں- پس صحیح یہی ہے کہ اس امر کی پوری حقیقت کو انسان پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا- اور سچائی ان دونوں دعوؤں کے درمیان درمیان میں ہے یہ مسئلہ بھی اسی طرح محیر العقول ہے جس طرح کہ زمانہ اور جگہ کا مسئلہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کو محدود یا غیر محدود ماننا دونوں ہی عقل کے خلاف نظر آتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس بحث کا یوں فیصلہ فرمایا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کبھی معطل ہوئی اور نہ دنیا خدا کے ساتھ چلی آ رہی ہے اور صداقت ان دونوں امور کے درمیان ہے- اور اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی ہے کہ

Page 176

۱۳۳ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے گو قدامتِ ذاتی کسی شے کو حاصل نہیں- کوئی ذرہ، کوئی روح، کوئی چیز ماسوی اللہ ایسی نہیں کہ جسے قدامت ذاتی حاصل ہو- لیکن یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے اپنی صفت خلق کو ظاہر کرتا چلا آیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدامت نوعی کا بھی وہ مفہوم نہیں لیا جو دوسرے لوگ لیتے ہیں جو یہ ہے کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے- یہ ایک بیہودہ عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس کے قائل نہیں- یہ کہنا کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں- جو دونوں باطل ہیں- ایک تو یہ کہ خدا بھی ایک عرصہ سے ہے اور مخلوق بھی- کیونکہ جب کا لفظ وقت کی طرف خواہ وہ کتنا ہی لمبا ہو اشارہ کرتا ہے اور ایسا عقیدہ بالکل باطل ہے- دوسرے معنی اس جملہ کے یہ بنتے ہیں کہ مخلوق انہی معنوں میں ازلی ہے کہ جن معنوں میں خدا تعالیٰ ہے- اور یہ معنے بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور عقل کے بھی- خالق اور مخلوق ایک ہی معنوں میں ازلی نہیں ہو سکتے- ضروری ہے کہ خالق کو تقدم حاصل ہو اور مخلوق کو تاخر- یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃوالسلام نے یہ کبھی نہیں لکھا کہ مخلوق بھی ازلی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے اور قدامت اور ازلیت میں فرق ہے- غرض حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نزدیک مخلوق کو قدامت نوعی تو حاصل ہے مگر ازلیت نہیں- خالق مخلوق پر بہرحال مقدم ہے اور دوروحدت دور خلق سے پہلے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالق اور مخلوق کے اس تعلق کو سمجھنا کہ خالق کو ازلیت بھی اور دور وحدت کو تقدیم بھی حاصل ہوا اور مخلوق کو قدامت نوعی بھی حاصل ہو، انسانی عقل کے لئے مشکل ہے لیکن صفات الہٰیہ پر غور کرنے سے یہی ایک عقیدہ ہے جو شان الہی کے مطابق نظر آتا ہے- اس کے علاوہ دوسرے عقائد یا تو شرک پیدا کرتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی صفات پر ناقابل قبول حد بندیاں لگاتے ہیں- اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق وہی عقیدہ درست ہو سکتا ہے جو اس کی دوسری صفات کے مطابق ہو- جو ان کے خلاف ہے وہ عقیدہ قابل قبول نہیں- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰٰ لیس کمثلہ شیء ہے- اس کے افعال کی کنہ کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرنا جس طرح کہ انسان کے افعال کو سمجھا جاتا ہے عقل سے بعید ہے- پس جب کہ خلق عالم کا مسئلہ ایسے امور سے تعلق رکھتا ہے جن کو انسانی عقل پورے طور پر سمجھ

Page 177

۱۳۴ نہیں سکتی تو بہترین طریق اور صحیح طریق یہی ہوگا کہ اسے مادی قواعد سے حل کرنے کی بجائے صفات الہیہ سے حل کیا جائے تا کہ غلطی کے امکان سے حفاظت حاصل ہو جائے اور یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اختیار کیاہے- میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا غلط مفہوم جو اس وقت تک دنیا میں قائم ہے وہ بھی اس مسئلہ کے سمجھنے میں روک ہے اور کچھ بھی تعجب نہیں کہ آئنسٹائن ۱۰؎کی تھیوری (فلسفہ نسبت( ترقی پاتے پاتے اس مسئلہ کو زیادہ قابل فہم بنا دے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ دوروحدت مقدم ہے اور یہ اوپر کے بیان کے مخالف نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ آئندہ کیلئے بھی دوروحدت کی خبر دیتے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ ارواح کے لئے غیر مجذوذ انعام تسلیم فرماتے ہیں- اور آریوں کے اس عقیدہ کو رد فرماتے ہیں کہ اربوں سال کے بعد ارواح پھر مکتی خانہ سے نکال دی جائیں گی- پس معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک آئندہ کسی اور وحدت کا آنا اور اس کے ساتھ ارواح کا فنا سے محفوظ رہنا دوروحدت کے خلاف نہیں- اصل بات یہ ہے کہ دوروحدت کا اصل مفہوم لوگوں نے نہیں سمجھا- مرنے کے بعد کی حالت دوروحدت ہی ہے کیونکہ اس وقت اپنا عمل نہیں ہوتا بلکہ انسان خدا کے تصرف کے ماتحت چلتا ہے- اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا- مرنے کے بعد انسان مشین کی طرح ہوتا ہے- دارالعمل )یعنی بالارادہ عمل( اس دنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور یہی حالت مخلوق کی نسبت سے دوروحدت کے منافی ہے- (۶) حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق ایک اور بحث بھی پیدا ہو رہی تھی اور وہ یہ کہ اس کی قدرت کے مفہوم کو غلط سمجھا جا رہا تھا- بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ خدا قادر ہے اس لئے وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے یا فنا بھی ہو سکتا ہے- بعض کہتے کہ نہیں اس کی صفات اسی قدر ہیں جو اس نے بیان کی ہیں اور وہ جھوٹ نہیں بول سکتا- حضرتمسیح موعود علیہ السلام نے اس جھگڑا کا بھی فیصلہ کر دیا- اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کی صفت کو اس کی دوسری صفات کے مقابلہ پر رکھو اور پھر اس کے متعلق غور کرو- جہاں یہ نظر آتا ہے کہ خدا قدیر ہے وہاں یہ بھی تو ہے کہ خدا کامل ہے اور فنا کمال کے خلاف ہے- دیکھو اگر کوئی کہے کہ میں بڑا پہلوان ہوں، بڑا طاقتور ہوں تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ

Page 178

۱۳۵ تمہاری طاقت ہم تب تسلیم کریں گے جب تم زہر کھا کر مر جاؤ- یہ اس کی طاقت کی علامت نہیں بلکہ اُلٹ ہے- پس خدا تعالیٰ کے کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس میں نقائص اور کمزوریاں بھی ہوں- دراصل ان لوگوں نے قدرت کے معنے نہیں سمجھے- کیا اگر کوئی کہے کہ میں بہت طاقتور ہوں تو اسے کہا جائے گا کہ اگر طاقتور ہو تو نجاست کھا لو- یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ یہ کمزوری ہے اور کمزوری خدا تعالیٰ میں پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ کامل ہستی ہے- (۷) ایک ساتواں گروہ تھا- جس کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا قضا ؤ قدر جاری کرنے کے بعد خالی ہاتھ ہو بیٹھا ہے- اس لئے کسی کی دعا نہیں سن سکتا- ان کے متعلق حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا- بے شک خدا تعالیٰ نے قضا و قدر جاری کی ہے مگر ان میں سے ایک قضاء یہ بھی ہے کہ جب بندے دعائیں مانگیں تو ان کی دعا سنوں گا- یہ کتنا چھوٹا لیکن کیسا تسلی بخش جواب ہے- فرماتے ہیں بے شک خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بندہ بدپرہیزی کرے تو بیمار ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اگر وہ گڑ گڑا کر دعا مانگے تو اچھا بھی کر دیا جائے- پس باوجود قضا و قدر جاری ہونے کے خدا کا عمل تصرف بھی جاری ہے- اس جواب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عملی طور پر بھی دعا کی قبولیت کے ثبوت پیش فرمائے- (۸) خدا تعالیٰ کی صفات کے اجرا کے متعلق بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا- آپ نے اسے بھی دور کیا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت کا ایک دائرہ ہے ایک ہی وقت میں وہ رحیم ہے اور اسی وقت میں شدید العقاب بھی ہے ایک شخص جسے پھانسی کی سزا ملی وہ چونکہ مجرم ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کی صفت شدید العقاب کے ماتحت سزا ملی- مگر جہاں اس کی جان نکل رہی تھی وہاں ایسی تائیدیں جو موت سے تعلق نہیں رکھتیں وہ بھی اس کے لئے جاری تھیں انسانوں کی یہ حالت نہیں ہو سکتی کہ ایک ہی وقت میں ان کی ساری صفات ظاہر ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان رحم بھی کر رہا ہو اور اسی وقت ویسے ہی زور سے عذاب کا اظہار بھی کر رہا ہو- مگر خدا تعالیٰ چونکہ کامل ہے اس لئے ایک ہی وقت اس کی ساری صفات یکساں زور سے ظاہر ہو سکتی ہیں- اگر ایسا نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اگر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو رہا ہو اور ساتھ رحم نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کا صرف رحم جاری ہو اور غضب بند ہو جائے تو مجرم چھوٹ جائیں اور اس طرح بھی تباہی برپا ہو جائے- پس خدا تعالیٰ کی

Page 179

۱۳۶ ساری صفات ایک ہی وقت میں اپنے دائرہ کے اندر کام کر رہی ہوتی ہیں- (۹) نواں غلط عقیدہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ پھیل رہا تھا کہ کچھ لوگ خیال کر رہے تھے کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے- آپ کے بتائے ہوئے اصل سے اس عقیدہ کا بھی رد ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت مالکیت بھی ہے اور جب تک اور مخلوق نہ ہو، خدا مالک نہیں ہو سکتا- اس عقیدہ کے خلاف کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے ان کا رد بھی اس اصل سے ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بتا رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ محدود نہیں- عرش کے متعلق آپ نے فرمایا کہ عرش کرسی وغیرہ کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مادی اشیاء ہیں- اور عرش کوئی سونے یا چاندی سے بنا ہوا تخت نہیں ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے- بلکہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کی حکومت کی صفات ہیں اور ان کے ظہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ تخت پر بیٹھا ہے- (۱۰) ان سب باتوں کے علاوہ ایک اہم کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق کیا یہ تھا کہ آپ نے لوگوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف پھیری- اور ان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت پیدا کر دی- لاکھوں انسانوں کو آپ نے خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دیا اور وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک آپ کو نہیں مانا ان کی بھی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف اس رنگ میں ہو رہی ہے جو آپ کے دعویٰ سے پہلے نہ تھی- خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور بھی بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو آپ نے تفصیلاً یا اجمالاً دور کیں مگر مثال کے طور پر مذکورہ بالا امور کو بیان کیا گیا ہے- حضرت مسیح موعودؑ کا چوتھا کام چوتھا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے کلام الہٰی کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے اور اس کے متعلق جو مختلف خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے ان کی اصلاح کی ہے- اول الہام الہام کے متعلق اور خطرناک خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے- لوگ سمجھتے تھے- (الف) الہام یا آسمانی ہوتا ہے یا شیطانی- (ب)پھر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ الہام صرف نبیوں کو ہو سکتا ہے- (ج)بعض لوگ سمجھتے تھے کہ الہام لفظوں میں نہیں ہو سکتا- دل کی روشنی سے حاصل کردہ علوم کا نام ہی الہام ہے- (د)بعض لوگ اس وسوسہ کا شکار ہو رہے تھے کہ الہام اور خواب کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتے ہیں- (ھ)بعض لوگ اس خیال میں

Page 180

۱۳۷ مبتلا تھے کہ لفظی الہام کا عقیدہ رکھنا انسان کی ذہنی ترقی کے مانع ہے- (و)عام طور پر لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ اب الہام کا سلسلہ بند ہو چکا ہے- یہ اور اس قسم کے اور وساوس الہام کے متعلق لوگوں میں پائے جاتے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب کی اصلاح کی ہے- یہ جو خیال تھا کہ الہام صرف آسمانی یا شیطانی ہوتا ہے اس سے کئی خطرناک نتائج پیدا ہو رہے تھے- بعض مدعیوں کو جب لوگ راستباز سمجھتے تو ان کی وحی کو بھی آسمانی سمجھ لیتے- بعض خوابیں جب لوگوں کی پوری نہ ہوتیں تو وہ الہام اور خواب کی حقیقت سے ہی منکر ہو جاتے وغیرہ وغیرہ- آپ نے اس مسئلہ کو حل کر کے دنیا کو بہت سے ابتلاؤں سے بچا لیا- آپ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ الہام کی دو بڑی قسمیں ہیں- (۱) سچے الہام (۲)جھوٹے الہام جو سچے الہام ہوتے ہیں- یعنی جن میں ایک صحیح واقعہ یا صداقت کی خبر دی ہوئی ہوتی ہے- آگے ان کی بھی کئی قسمیں ہیں- )الف(آسمانی الہام (ب)شیطانی الہام (ج)نفسانی ا لہام- میں نے سچے الہام میں ان دونوں قسموں کو بھی شامل کیا ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کلام سے ثابت ہوتا ہے اور قرآن کریم اور تجربہ اس کا شاہد ہے کہ کبھی شیطانی اور نفسانی الہام بھی سچا ہوتا ہے اور جب کوئی ایسا الہام سچا ہو جائے تو گو ہم اقرار کریں گے کہ وہ پورا ہو گیا مگر اسے آسمانی الہام پھر بھی نہیں کہیں گے- ان الہامات کی بھی جو آسمانی ہوتے ہیں آپ نے کئی قسمیں بتائی ہیں- (۱)انبیاء کی وحی جو یقینی وحی کہلاتی ہے- (۲)دوسری اولیاء کی مصفی وحی یہ وحی بھی غلط نہیں ہوتی لیکن یقینی نہیں کہلاتی کیونکہ وہ اپنے اندر ایسے نشانات نہیں رکھتی جو دنیا پر حجت ہوں اور جس کا انکار گناہ ہو- وہ بیشک مصفی ہوتی ہے مگر اپنے ساتھ ایسے زبردست ثبوت نہیں رکھتی کہ لوگوں کے لئے اسے حجت قرار دیا جائے- (۳)تیسری سالکوں کی وحی جسے اصطفائی وحی کہہ سکتے ہیں یعنی وہ ان کو بزرگی دینے کیلئے ہوتی ہے- مگر اس قدر صاف نہیں ہوتی جس قدر کہ اولیاء اللہ کی- (۴)سالکوں اور مومنوں کی ابتلائی وحی- یہ وحی مومنوں کے تجربہ، آزمائش اور امتحان

Page 181

۱۳۸ لینے اور ان کی ہمت ظاہر کرنے کیلئے ہوتی ہے- (۵)پانچویں جبیزی وحی- یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام سے معلوم ہوتی ہے- میں اس الہام کے الفاظ کے مطابق اس کا نام جبیزی وحی رکھتا ہوں- اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح کامل مومن کا مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہوتا ہے وہ اس قرب کے حصول کے ذریعہ کی تعیین نہیں کرتا- بعض ناقص لوگ اس جدوجہد میں ایک نفسانی خواہش کو بھی ساتھ رکھتے ہیں کہ یہ قرب اس طرح حاصل ہو کہ ہمیں الہام ہو جائے اور الہام کی خواہش بھی قرب کے لئے نہیں بلکہ بڑائی اور درجہ کے حصول کے لئے ہوتی ہے- ایسی صورت میں ان لوگوں کی بڑھی ہوئی خواہش کو دیکھ کر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بھی الہام کر دیتا ہے- جس طرح کھانا کھاتے وقت کوئی کتا آ جاتا ہے تو اس کے آگے بھی آدمی روٹی کا ٹکڑا یا بوٹی پھینک دیتا ہے- اس قسم کا الہام درحقیقت ایک سخت آزمائش ہوتا ہے جو بسا اوقات ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے- جبیز چونکہ سوکھے ٹکڑے کو کہتے ہیں اس لئے اسی مناسبت سے اس وحی کا نام جبیزی وحی رکھا گیا ہے- (۶)چھٹی قسم وحی کی وہ ہے جو ایسے غیر مومن کو ہوتی ہے جو اپنی فطرت میں سعادت رکھتا ہو- اس کا نام میں نے ارشادی وحی رکھا ہے یعنی ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والی- (۷)ساتویں قسم وحی کی طفیلی وحی ہے- کہ کفار اور بدکاروں کو ارشاد کے طور پر نہیں بلکہ ان پر حجت تمام کرنے کیلئے ہوتی ہے- اس کا نام میں نے طفیلی وحی رکھا ہے کیونکہ یہ اس لئے ہوتی ہے کہ انبیاء کی صداقت کے لئے ایک ثبوت ہو- یہ سب آسمانی وحی کی قسمیں ہیں- (ب)شیطانی الہام- جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں بعض شیطانی الہام بھی سچے ہوتے ہیں- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-الا من خطف الخطفة فاتبعہ شھاب ثاقب ۱۱؎یعنی آسمانی امور جب دنیا میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو شیطان بھی ان میں سے کچھ اچک کر اپنے ساتھیوں کو پہنچا دیتا ہے- اور گو اس کے بطلان کا سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے لیکن ارواح خبیثہ سے تعلق رکھنے والوں کی بعض بعض باتیں بھی کبھی سچی نکل آتی ہیں- حضرت مسیحموعودؑ فرماتے ہیں کہ ایسی خوابیں یا نظارے اگر اتفاقاً کبھی سچے بھی نکل آئیں تو ان میں ہیبت اور شوکت نہیں ہوتی اور نامکمل سے اور مبہم سے ہوتے ہیں-

Page 182

۱۳۹ (ج)نفسانی الہام- یعنی ایسے الہام یا خواب جو دماغی کیفیات کے نتیجے میں نظر آئیں- یہ الہام یا خواب بھی کبھی سچے ہوتے ہیں- جس طرح انسانی دماغ جاگتے ہوئے کوئی بات قیاس کر کے آئندہ کے متعلق نکال لیتا ہے اور وہ سچی ہو جاتی ہے- اسی طرح کبھی سوتے ہوئے بھی ایسے اندازہ لگا کر پیش کر دیتا ہے اور وہ کبھی سچے ہو جاتے ہیں- اور ان کے سچے ہو جانے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- ایسی خوابیں کئی قسم کی ہوتی ہیں-(۱)امور طبعیہ سے تعلق رکھنے والی- مثلاً بیماریوں کے متعلق- بیماریاں یکدم نہیں پیدا ہوتیں- بلکہ ان کے ظاہر ہونے سے کئی گھنٹے یا کئی دن یا کئی ہفتے پہلے جسم میں تغیرات شروع ہو جاتے ہیں- ایسے تغیرات کو بعض دفعہ انسانی دماغ محسوس کر کے انسان کی آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے اور وہ بات پوری بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک طبعی اندازہ ہوتا ہے- بیماریوں کے ایسے تغیرات مختلف عرصوں میں واقع ہوتے ہیں- مثلاً ہلکے کتے کا زہر بارہ دن سے دو ماہ تک کہتے ہیں تکمیل تک پہنچتا ہے- پس ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ہلکے کتے نے کاٹا ہو- اور زہر کے اپنے اثر کو مکمل کرنے کے دوران میں اس کا دماغ اس کی کیفیت کو محسوس کر کے ایک نظارہ کی شکل میں اسے دکھا دے- پس یہ خواب یا الہام سچا ہوگا- مگر نفس انسانی کا ایک فعل ہوگا نہ کہ آسمانی- (۲)دوسری قسم اس قسم کی وحی کی عقلی وحی ہوتی ہے- جیسے کوئی شخص کسی امر کو سوچتے سوچتے سو جائے اور اس کا دماغ اس وقت بھی اس کے متعلق غور کرتا رہے )دماغ کا ایک حصہ انسان کی نیند کے وقت بھی کام کرتا رہتا ہے( اور جب وہ کسی نتیجہ پر پہنچے تو ایک نظارہ خواب کی حالت میں نظر آ جائے جس میں وہ نتائج جو دماغ کے حصہ متاثرہ نے غور کرنے کے بعد نکالے تھے دکھا دیئے گئے ہوں- بسا اوقات یہ نتائج دوسرے عقلی نتائج کی طرح صحیح ہوں گے- لیکن باوجود ان کے صحیح ہونے کے اس خواب کو آسمانی خواب نہیں کہیں گے بلکہ نفسانی خواب کہیں گے- کیونکہ اس کا منبع انسانی دماغ ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کا کوئی خاص امر- اوپر کی دونوں قسمیں ایک رنگ میں آسمانی بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ قوانین کے ماتحت انسان کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کا موجب ہوتی ہیں مگر تقدیر عام کے ماتحت- ان کا ظہور کسی خاص حکم کے ذریعہ سے نہیں ہوتا- مگر ایک قسم نفسانی خواہشات کی اور بھی ہے جو خالص نفسانی ہوتی ہے مگر پھر بھی کبھی سچی ہو جاتی ہے اور وہ پراگندہ خواب ہے- (۳)یہ قسم دماغ کی پراگندگی کے نتیجہ میں آتی ہے- مگر چونکہ مختلف اندازے لگانے

Page 183

۱۴۰ والے کا کوئی اندازہ صحیح بھی ہو جاتا ہے- اسی طرح پراگندہ خیالات میں سے کبھی کوئی اتفاقاً صحیح بھی ہو جاتا ہے مگر اس کی صحت نہ خدا کے حکم سے تعلق رکھتی ہے نہ کسی طبعی قانون سے بلکہ اتفاق پر مبنی ہوتی ہے- اب میں جھوٹے الہام کے متعلق بیان کرتا ہوں اس کی بھی کئی قسمیں ہیں- (۱)شیطانی الہام- شیطان چونکہ قیاس سے کام لیتا ہے اس لئے اس کا قیاس اکثر اوقات غلط نکلتا ہے- پھر وہ جھوٹ بھی بولتا ہے- (۲)دوسری قسم نفسانی خواب- اس کی آگے پھر کئی قسمیں ہیں- الف( وہ خواب جو دماغ کی خرابی کا نتیجہ ہو (ب)وہ خواب جو خواہش اور آرزو کے نتیجے میں پیدا ہو جائے- جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کی خوابیں- اس خواب میں اور جبیزی خواب میں بظاہر مناسبت ہے مگر ایک فرق بھی ہے- اور وہ یہ کہ جبیزی خواب تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ بندہ کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے نازل کرتا ہے مگر اس خواب کو خدا تعالیٰ نازل نہیں کرتا بلکہ انسان کی خواہش سے متاثر ہو کر نفس خود پیدا کر لیتا ہے- (۲)دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ الہام یا وحی صرف نبی کو ہو سکتا ہے یہ خیال نہایت غلط اور امت میں پست خیالی پیدا کرنے کا موجب اور قرب الہی کے حقیقی دروازوں کو بند کرنے والا تھا- اس کے نتیجہ میں صرف انسانی تدابیر پر خوش ہو جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جو ایک ہی ذریعہ اس کی خوشنودی کا پتہ لگانے کا ہے بھلا بیٹھے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کی بھی اصلاح کی اور فرمایا کہ الہام ہر شخص کو ہو سکتا ہے- ہاں الہام کے بھی درجے ہوتے ہیں- نبی کو نبیوں والا الہام ہوتا ہے، مومن کو مومنوں والا اور کافر کو کافروں والا- اس حقیقت کو کھول کر آپ نے یہ فتنہ دور فرما دیا کہ غیر مومن کو جب کبھی کوئی سچا الہام ہو جائے تو بعض دفعہ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ بھی خدا کا مقرب ہے- آپ نے فرمایا- ایسے لوگوں کو سچا الہام ہو جاتا ہے مگر نبیوں اور نیک لوگوں کے الہام اور کفار کے الہام میں یہ فرق ہے کہ نبیوں اور اولیاء کے الہام اپنے ساتھ قدرت رکھتے ہیں- اور یہ بات کفار کے الہاموں کو حاصل نہیں ہوتی- تیسری غلطی یہ لگی ہوئی تھی کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ الہام لفظوں میں نہیں ہوتا بلکہ

Page 184

۱۴۱ دل کی روشنی کا نام ہی الہام ہے- آپ نے ان لوگوں کے خیال کی بھی اصلاح فرمائی- نیچریوں، بہائیوں اور اکثر عیسائیوں کا یہی خیال ہے- مسلمان تعلیم یافتہ بھی کثرت سے اسی وہم میں مبتلا ہیں- آپ نے ایسے لوگوں کے سامنے اول اپنا مشاہدہ پیش کیا- اور فرمایا- میں الہام کے الفاظ سنتا ہوں اس لئے میں اس خیال کی تردید کرتا ہوں کہ الہام الفاظ میں نہیں ہوتا- دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام اور خواب انسانی فطرت میں داخل ہے- ہر انسان میں یہ خواہش ہے کہ خدا سے ملے- اور اس فطرت کی خواہش کا جواب بھی ضرور ہونا چاہئے- خالی دل کا خیال اس جوش محبت کا جواب نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی ملاقات کے متعلق رکھا گیا ہے- اس کا جواب صرف الہام اور خواب ہی ہو سکتے ہیں- اسی طرح آپ نے فرمایا کہ خواب اور الہام صرف نبیوں سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے اکثر افراد اس سے کم و بیش حصہ پاتے ہیں- حتی کہ جو بدکار سے بدکار وجود ہیں اور جن کا پیشہ ہی بدکاری ہوتا ہے وہ بھی اس سے کبھی حصہ پا لیتے ہیں- پس اس چیز کا انکار کس طرح ہو سکتا ہے جس پر اکثر انسان شاہد ہیں اور جو چیز تھوڑی یا بہت دنیا کے اکثر افراد کو مل جاتی ہے اس کی نسبت کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا کو تو اس میں حصہ ملتا ہے مگر نبیوں کو ہی اس سے حصہ نہیں مل سکتا- حالانکہ اس چیز کی پیدائش کی غرض ہی نبوت کی تکمیل ہے جب لاکھوں کافر بھی گواہی دیتے ہیں کہ ان کو الہام ہوتے ہیں یا خوابیں آتی ہیں تو الہام یا خواب کا ہونا ناممکن نہ ہوا- اور جب ناممکن نہ ہوا تو نبیوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو الہام نہیں ہوتا بلکہ دل کے خیالات کا نام وہ الہام رکھ لیتے تھے حد درجہ کی نادانی ہے- پھر آپ نے فرمایا کہ الہام ایسی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جو ملہم نہیں جانتا- اگر الہام محض خیال ہی ہوتا تو اسی زبان میں ہوتا جسے ملہم جانتا ہے، اس زبان میں نہ ہوتا جسے وہ نہیں جانتا- لیکن ملہموں کو بعض اوقات ان زبانوں میں بھی الہام ہوتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے- پس معلوم ہوا کہ الہام الفاظ میں ہی ہوتا ہے نہ کہ خیالات کا نام الہام ہے- لفظی الہام پر عام طور پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیا خدا کی بھی زبان ہے اور ہونٹ ہیں کہ وہ الفاظ میں کلام کرتا ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بولنے کے لئے زبان کی حاجت نہیں ہے- کیونکہ وہ لیس کمثلہ شیئ ہے- جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا بغیر ہاتھوں کے پیدا کی ہے، انکے لئے اس بات کا

Page 185

۱۴۲ ماننا کیا مشکل ہے کہ وہ بغیر زبان کے بولنے کی بھی قدرت رکھتا ہے- ایک جواب آپ نے یہ بھی دیا کہ بغیر الہام کے جو پرشوکت الفاظ میں ہو، اس بات کا یقین نہیں آ سکتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو کوئی حکم دیا گیا ہے- جب باہر سے آئے تب ہی پتہ لگ سکتا ہے کہ کسی اور طاقت نے یہ الفاظ بھیجے ہیں- (۴)چوتھی غلطی بعض لوگوں کو الہام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ الہام کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے- اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- بیشک ایسا بھی ہوتا ہے مگر یہ کہنا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے اور کبھی باہر سے الہام نہیں ہوتا- غلط ہے- کیونکہ نبیوں اور مومنوں کے بعض الہام ایسے علوم پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں انسانی دماغ دریافت نہیں کر سکتا- مثلاً ان میں آئندہ زمانہ کے متعلق بڑی بڑی خبریں ہوتی ہیں- دوسرا جواب اس کا آپ نے یہ دیا کہ اگر کیفیت دماغی سے یہ مراد ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ ہوتا ہے- تو پھر کیا وجہ ہے کہ الہام پانے والے لوگ بہترین دماغ رکھتے ہیں ان کے دماغوں کا بہترین ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ نہیں ہوتا- مجھے تعجب ہے کہ جو لوگ الہام کو دماغی بگاڑ کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ انسانی دماغ بڑھاپے میں کمزور ہو جاتا ہے- لیکن نبیوں پر بڑھاپے کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوا- بلکہ ان کے الہامات میں زیادہ شوکت پیدا ہوتی جاتی ہے- (۵) پانچواں شبہ الہام کے متعلق یہ کیا جاتا ہے کہ الہام کا وجود انسان کی ذہنی اور عقلیترقی کے مخالف ہے- کیونکہ جب الہام سے ایک امر دریافت ہو گیا تو پھر لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کیا موقع ہے؟ اس غلطی کو آپ نے لوگوں کی توجہ اس امر کی طرف پھیر کر دور کیا کہ الہام ذہنی ترقی کے مخالف نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اسے ذہنی ترقی کی خاطر پیدا کیا ہے- کارخانہ عالم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی اور جسمانی دو سلسلے اس دنیا میں متوازی اور مشابہ چل رہے ہیں- جسمانی سلسلہ میں انسانی ہدایت اور راہنمائی کے لئے عقل کے ساتھ تجربہ کو لگایا گیا ہے تا کہ عقل کی کمزوری کو پورا کر دے اور انسان غلطی کے احتمال سے بچ جائے- روحانی سلسلہ میں اس کی جگہ الہام کو عقل کے ساتھ لگایا گیا ہے تا کہ عقل غلطی کر کے انسان کو تباہی کے گڑھے میں نہ گرا دے- خالی عقل جب جسمانی امور میں کافی نہیں ہو سکتی اور تجربہ کی

Page 186

۱۴۳ مدد کی محتاج ہے تو پھر روحانی دنیا میں خالی عقل پر بھروسہ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے اور کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی سلسلہ کے لئے جو ادنیٰ تھا عقل کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے تجربہ کو پیدا کیا اور روحانی سلسلہ میں جو اعلیٰ ہے عقل کی مدد کے لئے کوئی وجود نہ پیدا کیا؟ اگر کوئی کہے کہ جسمانی سلسلہ کی طرح روحانی سلسلہ میں بھی عقل کی امداد کے لئے تجربہ کو ہی کیوں نہ مقرر کیا گیا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجربہ کئی ٹھوکروں کے بعد اصل نتیجہ پر پہنچاتا ہے- دنیا کی زندگی چونکہ عارضی ہے اس لئے اس میں تجربہ کرتے ہوئے ٹھوکریں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکن اگر آئندہ کی زندگی کے متعلق جو ہمیشہ کی زندگی ہے ٹھوکریں کھانے کے لئے انسان کو چھوڑ دیا جاتا تو لاکھوں آدمی جو تجربہ سے پہلے پہلے مر جاتے حق سے محروم رہ جاتے اور سخت نقصان اٹھاتے اور اس دائمی زندگی کی ترقیات کو حاصل نہ کر سکتے- جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے ہیں- علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تجربہ شروع کرنے کیلئے بھی پہلے ایک بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے- روحانی امور چونکہ غیر محسوس ہیں اور مخفی ہیں- اس لئے ان کے متعلق تجربہ مادی امور کی نسبت زیادہ مشکلات رکھتا ہے- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کہ مادہ کے متعلق سائنس نے انتہا درجہ کی ترقی کی ہے- دماغ کے ان افعال کے متعلق جو عقل اور ارادہ سے تعلق رکھتے ہیں- حالانکہ وہ روح کے برابر لطیف نہیں بہت ہی کم تحقیق ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دنیا کی پیدائش پر اس قدر عرصہ گذر جانے کے باوجود اب تک تحقیق شروع ہی نہیں ہوئی- (۶)چھٹا وسوسہ جس میں لوگ مبتلا تھے- یہ تھا کہ الہام کا سلسلہ اب بالکل بند ہو چکا ہے- یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہی نہ تھا بلکہ دوسرے مذاہب کا بھی یہی عقیدہ تھا- یہودی، مسیحی، ہندو سب پہلے زمانہ میں الہام کے قائل ہیں لیکن اب اس کے دروازہ کو بند بتاتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس خطرناک عقیدہ کی غلطی کو بھی دنیا پر ظاہر کیا اور بتایا کہ الہام تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک انعام ہے اور بندہ اور خدا تعالیٰ میں محبت کا نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور یقین اور وثوق تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اس کا سلسلہ بند کر کے مذہب اور روحانیت کا باقی کیا رہ جاتا ہے- مسلمانوں کو آپ نے توجہ دلائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی رحمت

Page 187

۱۴۴ کی بارش اور بھی شان سے نازل ہو- پس آپ کے آنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا یہ انعام بند نہیں ہوا- بلکہ اس میں اور بھی زیادہ ترقی ہو گئی- دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام صرف شریعت نہیں ہوتا بلکہ اس کی اور بھی اغراض ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بندوں کو خدا تعالیٰ پر یقین کامل کرائے- دیکھو جس سے خدا تعالیٰ باتیں کرے، اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو صرف یہ کہے کہ خدا ہے ایمانی لحاظ سے کیا حقیقت رکھ سکتا ہے- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گو شریعت کو مکمل کر گئے ہیں- مگر مسلمانوں کو یقین اور اطمینان قلب کے مرتبہ تک پہنچانے کیلئے پھر بھی الہام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے- تیسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ معارف پر آگاہ کرتا ہے وہ روحانی علوم جو سینکڑوں سالوں کی محنت اور کوشش سے بھی معلوم نہ ہو سکیں، خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہے- پس اس تعلیم کے سہل تر رستہ کو امت محمدیہﷺ کے لئے کس طرح بند کیا جا سکتا ہے- آپ نے اپنے وجود سے ثابت کیا کہ الہام جس قدر جلد اور جس قدر مکمل طور پر معارف روحانیہ کو کھولتا ہے اس کی مثال انسانی جدوجہد میں نہیں پائی جاتی- چنانچہ جو باتیں علماء تیرہ سو سال کے قریب عرصہ میں بحثوں سے حاصل نہ کر سکے، آپ نے چند سال میں الہام کی مدد سے حل کر کے رکھ دیں- اور ان کی مدد سے احمدی علماء دنیا بھر کے مذاہب پر اسلام کو غالب کر رہے ہیں- چوتھا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام کی ایک غرض اظہار محبت بھی ہے جب تک خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر الہام نہ نازل کرے، اس وقت تک کس طرح ان کی تڑپ دور ہو سکتی ہے- غرض آپ نے ثابت کر دیا کہ الہام کا سلسلہ جاری ہے- کیونکہ اگر الہام کو بند مانیں تو خدا تعالیٰ کی کئی صفات میں تعطل ماننا پڑے گا- اس جگہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی صفات میں عارضی تعطل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مانا ہے- چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں خدا تعالیٰ اپنی ایک صفت کو بند کر دیتا ہے تاکہ دوسری صفت جاری ہو- اگر اس طرح ہو سکتا ہے تو یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ الہام کو خدا نے قیامت تک بند کر دیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعطل تب مانا ہے جب دو صفات آپس میں ٹکرائیں- اور جو صفات نہ ٹکرائیں ان کے متعلق تعطل نہیں

Page 188

۱۴۵ مانا- چونکہ الہام کے جاری ہونے میں کسی صفت سے ٹکراؤ نہیں اس لئے اس کے متعلق تعطل ماننا ناواجب ہے- اگر کوئی کہے کہ الہام کا سلسلہ جاری مانا جائے تو بھی تعطل ہوتا ہے کیونکہ ایک مجدد آتا ہے- پھر اس کے ایک سو سال بعد دوسرا آتا ہے اس طرح کچھ عرصہ کیلئے الہام میں تعطل تم بھی مانتے ہو- اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک اس قسم کا کوئی تعطل واقع نہیں ہوتا- کیونکہ آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ الہام صرف نبی یا مجدد کو ہوتا ہے بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ الہام مومنوں کو بھی ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ کافروں اور بدکاروں کو بھی- پس چونکہ زمین گول ہے اور ہر وقت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لوگ سو رہے ہوتے ہیں- پس بالکل قرین قیاس ہے کہ ہر سیکنڈ میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو الہام ہو رہا ہوتا ہے اور ایک سیکنڈ بھی نزول الہام میں تعطل نہیں ہوتا- میں ذاتی طور پر اس شخص کو انعام دینے کو تیار ہوں جو یہ ثابت کر دے کہ کوئی ایک دن بھی ایسا گذرا ہو جس میں کسی کو خواب نہ آئی ہو یا الہام نہ ہوا ہو- اگر یہ ثابت ہو جائے تب بے شک تعطل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں- آپ نے آیات قرآنیہ سے بھی ثابت کیا ہے کہ الہام کے جاری رہنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو جھوٹا نہیں کیا کرتا- اگر کوئی کہے خواب تو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے اس کی بحث نہیں بحث الہام کے متعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی ہدایت کیلئے خدا تعالیٰ کوئی سامان پیدا کرتا ہے یا نہیں- اگر کرتا ہے تو یہ کہنا بیہودہ بات ہے کہ وہ آنکھوں کے ذریعہ سے لکھے ہوئے لفظوں یا تصویری زبان میں تو اپنے منشاء کو ظاہر کر سکتا ہے مگر کانوں کے ذریعہ سے آواز پیدا کر کے جسے الہام کہتے ہیں اپنے منشاء کو ظاہر نہیں کرتا- جب کہ اپنے آقا کی مرضی کو معلوم کرنا ایک فطری تقاضا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے پورا نہ کرے اور الہام کا دروازہ بند کرنا ایک سخت ظلم ہے جو خدا تعالیٰ سے بعید ہے- قرآن کریم کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کلام الہٰی میں سے خاص طور پر قرآن کریم کے متعلق بہت سی غلطیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بھی دور کیا ہے مثلاً (۱) ایک غلطی

Page 189

۱۴۶ بعض مسلمانوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس میں تبدیلی ہو گئی ہے اور بعض حصے اس کے چھپنے سے رہ گئے ہیں- اس خیال کی بھی آپ نے تردید فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم مکمل کتاب ہے- انسان کی جتنی ضرورتیں مذہب سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ سب اس میں بیان کر دی گئی ہیں اگر اس کے بعض پارے یا حصے غائب ہو گئے ہوتے تو اس کی تعلیم میں ضرور کوئی کمی ہونی چاہئے تھی- اور ترتیب مضمون خراب ہو جانی چاہئے تھی- مگر نہ اس کی تعلیم میں کوئی نقص ہے اور نہ ترتیب میں خرابی- جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ غائب نہیں ہوا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- قرآن نے دعویٰ کیا اور چیلنج دیا ہے کہ اس میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں- لیکن اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہوا ہوتا تو ضرور تھا کہ بعض ضروری اخلاقی یا روحانی امور کے متعلق اس میں کوئی ارشاد نہ ملتا- لیکن ایسا نہیں ہے- اس میں ہر ضرورت روحانی کا علاج موجود ہے- اور اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کے غائب ہو جانے کے باوجود اس کے مطالب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی- تو پھر تو جن لوگوں نے اس میں کمی کی ہے وہ حق بجانب تھے کہ انہوں نے ایسے لغو حصہ کو نکال دیا جس کی موجودگی نعوذ باللہ من ذلک قرآن کریم کے حسن میں کمی کر رہی تھی- اگر وہ موجود رہتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ اس حصہ کا کیا فائدہ ہے اور اسے قرآن کریم میں کیوں رکھا گیا ہے- مجھے اس عقیدہ پر ایک واقعہ یاد آگیا- میں چھوٹا سا تھا کہ ایک دن آدھی رات کے وقت کچھ شور ہوا- اور لوگ جاگ پڑے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا بات ہے- وہ ہنستا ہوا واپس آیا اور بتایا کہ ایک دائی بچہ جنا کر واپس آرہی تھی کہ نانک فقیر اسے مل گیا- اور اس نے اس کو مارنا شروع کر دیا- اس نے چیخنا چلانا شروع کیا اور لوگ جمع ہو گئے- جب انہوں نے نانک سے پوچھا کہ تو اسے کیوں مار رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ میرے سرین کاٹ کر لے آئی ہے اس لئے اسے مار رہا ہوں- لوگوں نے اسے کہا کہ تیرے سرین تو سلامت ہیں انہیں تو کسی نے نہیں کاٹا- تو حیران ہو کر کہنے لگا- اچھا- اور دائی کو چھوڑ کر چلا گیا- یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قرآن کریم میں تغیر کے قائل ہیں- وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم آج بھی ایک مکمل کتاب ہے اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہو گیا ہوتا تو اس کے کمال میں نقص آ جاتا-

Page 190

۱۴۷ غرض قرآن کریم کے مکمل ہونے کا ثبوت خود قرآن کریم ہے- اگر حضرت عثمانؓ یا اور کوئی صحابی اس کی ایک آیت بھی نکال دیتے تو اس میں کمی واقع ہو جاتی- لیکن تعجب ہے کہ باوجود اس بیان کے کہ اس سے دس پارے کم کر دیئے گئے اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا- اس صورت میں تو بڑے بڑے اہم مسائل ایسے ہونے چاہئیں تھے جن کے متعلق قرآن کریم میں کچھ ذکر نہ ہوتا- مگر قرآن کریم میں دین اور روحانیت سے تعلق رکھنے والی سب باتیں موجود ہیں- (۲)دوسرا خیال مسلمانوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کا ایک حصہ منسوخ ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا جواب نہایت لطیف پیرایہ میں دیا- اور وہ اس طرح کہ جن آیات کو لوگ منسوخ قرار دیتے تھے- ان میں سے ایسے ایسے معارف بیان فرمائے جن کو سن کر دشمن بھی حیران ہو گئے اور آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ایک آیت بھی قرآن کریم کی ایسی نہیں جس کی ضرورت ثابت نہ کی جا سکے- اور اب وہی غیر احمدی جو بعض آیات کو منسوخ کہتے تھے دشمنان اسلام کے سامنے انہیں آیات کو پیش کر کے اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں- مثلاًلکم دینکم ولی دین ۱۲؎کی آیت جسے منسوخ کہا جاتا تھا- اب اسی کو مخالفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے- (۳) تیسری غلطی قرآن کریم کے متعلق لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ اکثر حصہ مسلمانوں کا یہ خیال کرتا تھا کہ اس کے معارف کا سلسلہ پچھلے زمانہ میں ختم ہو گیا ہے اس وہم کا ازالہ بھی آپ نے کیا- اور اس کے خلاف بڑے زور سے آواز اٹھائی اور ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ پچھلے زمانہ میں اس کے معارف ختم نہیں ہوئے- بلکہ آج بھی ختم نہیں ہوئے- اور آئندہ بھی ختم نہ ہونگے- آپ فرماتے ہیں- ’’جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں- یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو‘‘- ۱۳؎ چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں جو اس زمانہ کے متعلق تھیں اور جنہیں پہلے زمانہ کے لوگ نہیں سمجھتے تھے آپ نے قرآن کریم سے نکال کر سمجھائیں- مثلاًاذا العشار عطلت ؎۱۴کی پیشگوئی تھی- اس کے معنے پہلے لوگ یہی کرتے تھے کہ قیامت کے دن لوگ اونٹوں پر سوار

Page 191

۱۴۸ نہ ہوں گے- مگر قیامت کو اونٹنی کیا کوئی چیز بھی کام نہ آئے گی- بات یہ ہے کہ چونکہ یہ کلام پیشگوئی پر مشتمل تھا- اور اس زمانہ کے لوگوں کے سامنے وہ حالات نہ تھے جو اس کے صحیح معنے کرنے میں ممد ہوتے اس لئے انہوں نے اسے قیامت پر چسپاں کر دیا- اصل میں یہ آخری زمانہ کے متعلق خبر تھی کہ اس وقت ایسی سواریاں نکل آئیں گی کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے- وہ مولوی جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی ہر ایک بات کی مخالفت کرتے ہیں ان کو بھی اگر موٹر کے مقابلہ میں اونٹ کی سواری ملے تو کبھی اس پر سوار نہ ہوں- اسی طرح مثلاًو اذا الوحوش حشرت ۱۵؎کی پیشگوئی ہے یعنی وحوش جمع کر دیئے جائیں گے یعنی چڑیا گھر بنائے جائیں گے- چنانچہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گئی- اسی طرح اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ پہلے زمانہ میں قوموں کو ایک دوسرے سے وحشت تھی- آپس میں تنفر تھا- اب ایسا وقت آیا کہ ایک دوسرے سے تار اور ریل اور جہازوں کے ذریعہ ملنے لگ گئے ہیں- اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہ واذا البحار سجرت ۱۶؎کہ دریا خشک ہو جائیں گے اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ قیامت کے دن زلزلے آئیں گے اس وجہ سے دریا سوکھ جائیں گے حالانکہ قیامت کے دن تو دنیا نے ہی تباہ ہو جانا تھا دریاؤں کے سوکھنے کا کیا ذکر تھا- حضرتمسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا مطلب بتایا کہ دریاؤں کے سوکھنے سے مراد یہ تھی کہ ان میں سے نہریں نکالی جائیں گی- اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہواذا النفوس زوجت ۱۷؎ مختلف لوگوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا- اس کے یہ معنی کئے جاتے تھے کہ قیامت کے دن سب لوگوں کو جمع کر دیا جائے گا- مرد و عورت اکٹھے ہو جائیں گے- حالانکہ قیامت کے دن تو اس زمین نے تباہ ہو جانا تھا- اس میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی کیا صورت ہو سکتی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی کہ ایسے سامان اور ذرائع نکلنے کی اس آیت میں پیشگوئی کی گئی تھی جن کے ذریعہ سے یہاں بیٹھا ہوا شخص دور دراز کے لوگوں سے باتیں کر سکے گا- اب دیکھ لو- ایسا ہی ہو رہا ہے یا نہیں- اسی طرح آپ نے قرآن کریم کی مختلف آیات سے ثابت کیا کہ ان میں صحیح علوم طبعیہ کا ذکر موجود ہے- مثلاًوالشمس وضحھا والقمر اذا تلھا ۱۸؎کی آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ چاند اپنی ذات میں روشن نہیں بلکہ سورج سے روشنی لیتا ہے-

Page 192

۱۴۹ غرض آپ نے بیسیوں آیات سے بتایا کہ قرآن کریم میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے جنہیں ایک ہی زمانہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے- بلکہ اپنے اپنے وقت پر ان کی پوری سمجھ آ سکتی ہے- اسی طرح زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جائے گا قرآن کریم میں سے نئے علوم نکلتے چلے جائیں گے- چنانچہ آج آپ کے بتائے ہوئے ان اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰٰ نے ہمیں قرآن کریم کا ایسا علم دیا ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا- دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کتنا بڑا تغیر کر دیا- آپ سے پہلے مولوی یہی کہا کرتے تھے کہ فلاں بات فلاں تفسیر میں لکھی ہے اور اگر کوئی نئی بات پیش کرتا تو کہتے بتاؤ یہ کس تفسیر میں لکھی ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ جو خدا ان تفسیروں کے مصنفوں کو قرآن سکھا سکتا ہے، وہ ہمیں کیوں نہیں سکھا سکتا- اور اس طرح ایک کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے نکال کر آپ نے ہمیں سمندر کا تیراک بنا دیا- (۴) چوتھی غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم کے مضامین میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہے وہ یہ نہ مانتے تھے کہ آیت کے ساتھ آیت اور لفظ کے ساتھ لفظ کا جوڑ ہے- بلکہ وہ بسا اوقات تقدیم و تاخیر کے نام سے قرآن کریم کی ترتیب کو بدل دیتے تھے- حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس خطرناک نقص کا بھی ازالہ کیا اور بتایا کہ تقدیم و تاخیر بیشک جائز ہوتی ہے- مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا صحیح ترتیب سے وہ افضل ہو سکتی ہے- اگر ترتیب تقدیموتاخیر سے اعلیٰ ہوتی ہے تو قرآن کی طرف ادنیٰ بات کیوں منسوب کرتے ہو؟ آپ نے آریوں کے مقابلہ میں دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم میں نہ صرف معنوی بلکہ ظاہری ترتیب کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے حتی کہ ناموں کو بھی زمانہ کے لحاظ سے ترتیب وار بیان کیا گیا ہے- سوائے اس کے کہ مضمون کی ترتیب کی وجہ سے انہیں آگے پیچھے کرنا پڑا ہو- اور اس میں کیا شک ہے کہ معنوی ترتیب زبانی ترتیب پر مقدم ہوتی ہے- (۵) پانچویں غلطی مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی مطالب قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن کریم میں تکرار مضامین ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم میں ہر گز تکرار مضامین نہیں ہے- بلکہ ہر لفظ جو آتا ہے وہ نیا مضمون اور نئی خوبی لے کر آتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم

Page 193

۱۵۰ کی آیتوں کو پھول سے تشبیہ دی ہے- اب دیکھو کہ پھول میں بظاہر ہر نیا دائرہ پتیوں کا تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ہر دائرہ پھول کے حسن کی زنجیر کو کامل کر رہا ہوتا ہے کیا پھول کی پتیوں کے ایک دائرہ کو اگر توڑ دیا جائے تو پھول کامل پھول رہے گا؟ نہیں- یہی بات قرآن کریم میں ہے- جس طرح پھول میں ہر پتی نئی خوبصورتی پیدا کرتی ہے- اور خدا تعالیٰ پتوں کی ایک زنجیر کے بعد دوسری بناتا ہے اور تب ہی ختم کرتا ہے- جب حسن پورا ہو جاتا ہے- اسی طرح قرآن میں ہر دفعہ کا مضمون ایک نئے مطلب اور نئی غرض کے لئے آتا ہے- اور سارا قرآنکریم مل کر ایک کامل وجود بنتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- یہ خیال کرنا کہ قرآن کریم کی آیتیں ایک دوسری سے الگ الگ ہیں یہ غلط ہے قرآن کریم کی آیتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جسم کے ذرات- اور سورتوں کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کے اجزاء مثلاً انسان کے ۳۲ دانت ہوتے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دانتوں کو ۳۲ دفعہ دہرایا گیا ہے- اس لئے ۳۱ دانت توڑ ڈالنے چاہئیں- اور صرف ایک رہنے دینا چاہئے- یا انسان کے دو کان ہیں- کیا کوئی ایک کان اس لئے کاٹ دے گا کہ دوسرا کان کیوں بنایا گیا ہے یا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انسان کی بارہ پسلیاں نہیں ہونی چاہئیں، گیارہ توڑ دینی چاہئیں- اگر کسی کی ایک پسلی بھی توڑ دے گا تو وہ ضرب شدید کا دعویٰ کر دے گا- اسی طرح انسان کے جسم پر لاکھوں بال ہیں- کیا کوئی سارے بال منڈوا کر ایک رکھ لے گا کہ تکرار نہ ہو- ذرا جسم سے تکرار دور کر دو اور پھر دیکھو کیا باقی رہ جاتا ہے؟ عرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے مطالب بیان کر کے تکرار کا اعتراض کرنے والوں کو ایسا جواب دیا ہے کہ گویا ان کے دانت توڑ دیئے ہیں- (۶)چھٹی غلطی قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے پرانے قصے بیان کئے گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے قصے نہیں بیان کئے گئے گو قﷺقرآنیہ سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے- لیکن اصل میں وہ امت محمدیہﷺ~ کے لئے پیشگوئیاں ہیں- اور جو کچھ ان واقعات میں بیان کیا گیا ہے، وہ بعینہ آئندہ ہونے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مسلسل قصہ نہیں بیان کرتا بلکہ منتخب ٹکڑہ کا ذکر کرتا ہے- یہ امر ایسا بدیہی ہے کہ قرآن کریم کے قص کی جزئیات تک پوری ہوتی رہی ہیں- اور

Page 194

۱۵۱ آئندہ پوری ہوں گی حتی کہ نملہ کا ایک واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے اس کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا- اس وقت بھی نملہ قوم کی حکمران ایک عورت تھی جیسے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں تھی- اس نے ہارون الرشید کے آگے ایک سونے کی تھیلی پیش کی- اور کہا کہ ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں بھی ایک عورت نے ہی تحائف پیش کئے تھے- اب میں بھی عورت ہوں جو یہ پیش کر رہی ہوں اور اس طرح آپ کو سلیمانؑ سے مشابہت حاصل ہو گئی ہے- ہارون الرشید نے بھی اس پر فخر کیا کہ اسے حضرت سیلمانؑ سے تشبیہ دی گئی- (۷) ساتواں شبہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کریم میں تاریخ کے خلاف باتیں ہیں- یہ شبہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گیا تھا- اور غیر مسلموں میں بھی سرسید احمد جیسے لائق شخص نے بھی اس اعتراض سے گھبرا کر یہ جواب پیش کیا کہ قرآن کریم میں خطابیات سے کام لیا گیا ہے- یعنی ایسے واقعات کو یا عقائد کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جو گو صحیح نہیں مگر مخاطب ان کی صحت کا قائل ہے اس لئے اس کے سمجھانے کے لئے انہیں صحیح فرض کر کے پیش کر دیا گیا ہے- لیکن یہ جواب درحقیقت حالات کو اور بھی خطرناک کر دیتا ہے- کیونکہ سوال ہو سکتا ہے کہ کس ذریعہ سے ہمیں معلوم ہو کہ قرآن کریم میں کونسی بات خطابی طور پر پیش کی گئی ہے اور کونسی سچائی کے طور پر- اس دلیل کے ماتحت تو کوئی شخص سارے قرآن کو ہی خطابیات کی قسم کا قرار دیدے تو اس کی بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا- اور دنیا کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا- خطابیدلیل کے لئے ضروری ہے کہ خود مصنف ہی بتائے کہ وہ خطابی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں خطابیات کے اصول کو اختیار نہیں کیا بلکہ اسے رد کیا ہے- اور یہ اصل پیش کیا ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس عالم الغیب کی طرف سے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یقیناً درست ہے- اور اس کے مقابلہ میں دوسری تاریخوں کا جو اپنی کمزوری پر آپ شاہد ہیں پیش کرنا بالکل خلافعقل ہے- ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے معنی خود قرآنکریم کے اصول کے مطابق کئے جائیں- اسے ایک قصوں کی کتاب نہ بنایا جائے اور اس کی پر حکمت تعلیم کو سطحی بیانات کا مجموعہ نہ سمجھ لیا جائے- (۸) آٹھویں غلطی جس میں لوگ مبتلا ہو رہے تھے یہ تھی کہ قرآن کریم بعض ایسے

Page 195

۱۵۲ چھوٹے چھوٹے امور کو بیان کر دیتا ہے جن کا بیان کرنا علم و عرفان اور ارتقائے ذہن انسانی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے بھی غلط ثابت کیا اور بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی فضول امر بیان نہیں ہوا- بلکہ جس قدر مطالب یا واقعات بیان کئے گئے ہیں نہایت اہم ہیں- میں مثال کے طور پر حضرت سیلمانؑ کے ایک واقعہ کو لیتا ہوں- قرآن کریم میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک محل ایسا تیار کرایا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اس کے نیچے پانی بہتا تھا- ملکہسبا جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے اس میں داخل ہونے کو کہا لیکن ملکہ نے سمجھا کہ اس میں پانی ہے اور وہ ڈری- مگر حضرت سلیمانؑ نے بتایا کہ ڈرو نہیں یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ کے نیچے پانی ہے- قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں- قیل لھا ادخلی الصرح فلما راتہ حسبتہ لجہ وکشفت عن ساقیھا قال انہ صرح ممرد من قواریر- قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین- ۱۹؎ یعنی سبا کی ملکہ کو حضرت سلیمان کی طرف سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو جا- جب وہ داخل ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ فرش کی بجائے گہرا پانی ہے اس پر اس نے اپنی پنڈلیوں کو ننگا کر لیا یا یہ کہ وہ گھبرا گئی- تب حضرت سلیمان نے اسے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے یہ پانی نہیں- پانی نیچے ہے اور اوپر شیشہ کا فرش ہے- تب اس نے کہا- اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا- اور اب میں سلیمان کے ساتھ سب جہانوں کے رب اللہ پر ایمان لاتی ہوں- مفسرین ان آیات کے عجیب و غریب معنی کرتے ہیں- بعض کہتے ہیں حضرت سلیمانؑ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے- مگر جنوں نے انہیں خبر دی تھی کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں- حضرت سلیمانؑ نے اس کی پنڈلیاں دیکھنے کیلئے اس طرح کا محل بنوایا- مگر جب اس نے پاجامہ اٹھایا تو معلوم ہوا اس کی پنڈلیوں پر بال نہیں ہیں- بعض کہتے ہیں پنڈلیوں کے بال دیکھنے کیلئے حضرت سلیمانؑ نے اس قدر انتظام کیا کرنا تھا- اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ملکہ کا تخت منگایا تھا- اس پر انہوں نے خیال کیا کہ میری ہتک ہوئی ہے کہ میں نے اس سے تخت مانگا- اس ہتک کو دور کرنے کیلئے آپ نے ایسا قلعہ بنوایا تا کہ وہ اپنی وقعت قائم کر سکیں-

Page 196

۱۵۳ مگر کیا کوئی سمجھدار کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی اہم ہیں کہ خدا کے کلام اور خصوصاً آخری شریعت کے کامل کلام میں ان باتوں کا ذکر کیا جائے جن کا نہ دین سے تعلق ہے نہ عرفان سے- اور کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی ایسے امور میں جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے مشغول ہو سکتے ہیں-؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے کہ اس نے حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے اور صاف طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان ہوا ہے ایمان و عرفان کی ترقی کیلئے ہے- آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی- حضرت سلیمانؑ اسے سبق دینا چاہتے تھے اور شرک چھڑانا چاہتے تھے- پس آپ نے لفظوں میں دلیل دینے کے ساتھ ساتھ یہ طریق بھی پسند کیا کہ عملاً اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں- اور اس کی ملاقات کے لئے ایک ایسے قلعہ کو تجویز کیا جس میں شیشہ کا فرش تھا اور نیچے پانی بہتا تھا- جب ملکہ اس فرش پر سے چلنے لگی تو اسے پانی کی ایک جھلک نظر آئی- جسے دیکھ کر اس نے اپنا لباس اونچا کر لیا- یا یہ کہ وہ گھبرا گئی )کشف ساق کے دونوں ہی معنی ہیں( اس پر حضرت سلیمانؑ نے اسے تسلی دی اور کہا کہ جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو اصل میں شیشہ کا فرش ہے جس کے نیچے پانی ہے- چونکہ پہلے دلائل سے شرک کی غلطی اس پر ثابت کر چکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح پانی کی جھلک شیشہ میں سے تجھے نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلکا ہے اور لوگ انہیں خدا ہی سمجھ لیتے ہیں- حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نور سے نور حاصل کر رہے ہوتے ہیں چنانچہ اس دلیل سے وہ فوراً متاثر ہوئی اور بے تحاشا کہہ اٹھی کہاسملت مع سلیمن للہ رب العلمین اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو سب جہانوں کا رب ہے- یعنی سورج وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں اور اصل فیض رسان وہی ایکہے- اب دیکھو یہ کیسا اہم اور فلسفیانہ مضمون ہے اور اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے- مگر پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بالوں والی پنڈلیاں دیکھنے کے لئے محل بنایا گیا تھا- کیا جن عورتوں کی پنڈلیوں پر بال ہوں ان کی شادی نہیں ہوتی؟ اور نبی ایسے حالات میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مضامین کی اہمیت کو قائم کیا اور اس کی طرف

Page 197

۱۵۴ جو بے حقیقت امور منسوب کئے جاتے تھے ان سے اسے پاک قرار دیا- (۹)نویں غلطی یہ لگ رہی تھی کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے دعوے بے دلیل ہیں، انہیں دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا- مسلمان کہتے قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں- اور دوسرے لوگ کہتے- یہ بیہودہ باتیں ہیں انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک دعویٰ دلائل قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے- اور قرآن اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود دیتا ہے- اور فرمایا یہی بات قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب سے ممتاز کرتی ہے- تم کہتے ہو قرآن کی باتیں بے دلیل ہیں- مگر قرآن میں یہی خصوصیت نہیں کہ اس کی باتیں دلائل سے ثابت ہو سکتی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتوں کے دلائل خود دیتا ہے- وہ کتاب کامل ہی کیا ہوگی جو ہمارے دلائل کی محتاج ہو- بات خدا بیان کرے اور دلائل ہم ڈھونڈیں- یہ تو ایسی ہی مثال ہوئی جیسے راجوں مہاراجوں کے درباروں میں ہوتا ہے کہ جب راجہ صاحب کوئی بات کرتے ہیں تو ان کے مصاحب ہاں جی ہاں جی کہہ کر اس کی تائید و تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں- پس حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کا کوئی دعویٰ ایسا نہیں جن کی دلیل بلکہ دلائل خود اس نے نہ دیئے ہوں- اور اس مضمون کو آپ نے اس وسعت سے بیان کیا کہ دشمنوں پر اس کی وجہ سے ایک موت آ گئی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا امرتسر میں عیسائیوں سے جو مباحثہ ہوا اور جنگمقدس کے نام سے شائع ہوا، اس میں آپ نے عیسائیوں کے سامنے یہی بات پیش کی کہ فریقین جو دعویٰ کریں اس کا ثبوت اپنی الہامی کتاب سے دیں- اور پھر اس کے دلائل بھی الہامی کتاب سے ہی پیش کریں- عیسائی دلائل کیا پیش کرتے وہ یہ دعویٰ بھی انجیل سے نہ نکال سکے کہ مسیحؑ خدا کا بیٹا ہے- حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے- ایک دفعہ میں گاڑی میں بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ ایک عیسائی نے مجھ سے کہا- میں نے مرزا صاحب کا امرتسر والا مباحثہ دیکھا مگر مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا- آپ کے پاس ان کی صداقت کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا- یہی مباحثہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی اور آپ کی سچائی کی دلیل ہے- عیسائی نے کہا وہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں کو کہا تھا- کہ اپنا دعویٰ اور اس کے

Page 198

۱۵۵ دلائل اپنی الہامی کتاب سے پیش کرو- مگر عیسائی اس کا کوئی جواب نہ دے سکے- اگر میں ہوتا تو اٹھ کر چلا آتا- مگر میرا مرزا پندرہ دن تک عیسائیوں کی بیوقوفی کی باتیں سنتا رہا اور ان کو سمجھاتا رہا یہ حضرت مرزا صاحب کا ہی حوصلہ تھا- (۱۰)دسویں غلطی بعض لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم علوم یقینیہ کو رد کرتا اور ان کے خلاف باتیں بیان کرتا ہے- اس غلطی کو بھی آپ نے دور فرمایا اور بتایا کہ قرآنکریم ہی تو ایک کتاب ہے- جو نیچر یا خدا کے فعل کو زور کے ساتھ پیش کرتی ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے- اور ظاہری سلسلہ یعنی نیچر کو باطنی سلسلہ یعنی کلام الہی کے مماثل قرار دیتی ہے- پس یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم علوم طبعیہ کے خلاف باتیں کرتا ہے خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل ایک دوسرے کے کبھی خلاف نہیں ہو سکتے- جو امور قرآن کریم میں خلافقانون قدرت قرار دیئے جاتے ہیں- آپ نے ان کے متعلق فرمایا- وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں- یا تو یہ کہ جس بات کو لوگوں نے قانون قدرت سمجھ لیا ہے وہ قانون قدرت نہیں- یا پھر قرآن کریم کے جو معنی سمجھے گئے ہیں وہ درست نہیں- چنانچہ آپ نے اس کے متعلق کئی مثالیں بیان فرمائیں کہ کس طرح قرآن کریم کے معنی غلط سمجھے گئے- چنانچہ آپ نے یہی مثال دی ہے کہوالسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع ۲۰؎ کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے اور زمین پھٹتی ہے- اور اس پر طبعی لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آسمان کوئی مادی شے ہی نہیں پھر وہ چکر کیونکر لگاتا ہے اور اگر مادی وجود ہو بھی تو بھی زمین چکر کھاتی ہے نہ کہ آسمان- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں- سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں اور رجع کے معنی بار بار آنے کے- پس اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے بلکہ یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طور پر بادلوں کو پیش کرتے ہیں- جو باربار خشک زمین کو سیراب کرنے کے لئے آتے ہیں- پھر زمین کو پیش کرتے ہیں جو بارش ہونے پر پھٹتی ہے یعنی اس سے کھیتی نکلتی ہے- شہادت کے طور پر ان چیزوں کو پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے بادلوں کا سلسلہ پیدا کیا ہے کہ وہ بار بار آتے ہیں اور زمین کی شادابی کا موجب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سرسبزی اور شادابی ناممکن ہے، اسی طرح روحانی سلسلہ کا حال ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰٰ اپنے فضل کے بادل نہیں بھیجتا اور اپنے کلام کا

Page 199

۱۵۶ پانی نہیں برساتا زمین کی پھوٹنے کی قابلیت ظاہر نہیں ہوتی- لیکن جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تب جا کر انسانی ذہن بھی اپنی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے اور آسمانی کلام کی مدد سے باریک در باریک مطالبروحانیہ کو پیدا کرنے لگتا ہے- چنانچہ ان آیات کا سیاق بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے- کیونکہ آگے فرمایا ہے کہانہ لقول فصل وماھو بالھزل-۲۱؎یعنی پہلی بات سے یہ امر ثابت ہے کہ قرآن کریم کوئی لغو بات نہیں، بلکہ حقیقت کو ثابت کرنے والا کلام ہے- کیونکہ اس زمانہ میں بھی زمین خشک ہو رہی تھی اور دینی علوم سے لوگ بے بہرہ تھے- پس ضرورت تھی کہ خدا کی رحمت کا بادل کلام الٰہی کی صورت میں برستا اور لوگوں کی روحانی خشکی کو دور کرتا- اسی طرح آپ نے بتایا کہ دیکھو قرآن کریم کے زمانہ کے لوگوں کا خیال تھا کہ آسمان ایک ٹھوس چیز ہے اور ستارے اس میں جڑے ہوئے ہیں مگر یہ تحقیق واقعہ کے خلاف تھی- قرآن کریم نے اس زمانہ میں ہی اس کو رد کیا ہے- اور فرمایا ہے کہ کل فی فلک یسبحون- ۲۲؎ سیارے ایک آسمان میں جو ٹھوس نہیں ہے بلکہ ایک لطیف مادہ ہے جسے سیال سے نسبت دی جا سکتی ہے اور سیارے اس میں اس طرح گردش کرتے ہیں- جیسے کہ تیراک پانی میں تیرتا ہے- موجودہ تحقیق میں ایتھر کا بیان بالکل اس بیان کے مشابہ ہے- اس طرح آپ نے فرمایا کہ خلق منھا زوجھا ۲۳؎ کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ آدم کی پسلی سے خدا تعالیٰ نے حوا کو پیدا کیا اور اس پر اعتراض کیا جاتا ہے- حالانکہ یہ معنی ہی غلط ہیں- قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حوا آدم ہی کی جنس سے پیدا کی گئی- یعنی جن طاقتوں اور جذبات کو لے کر مرد پیدا ہوا، انہی طاقتوں اور جذبات کو لے کر عورت پیدا ہوئی- کیونکہ اگر مرد اور عورت کے جذبات ایک نہ ہوتے تو ان میں حقیقی انس پیدا نہیں ہو سکتا تھا- بلکہ اگر مرد میں شہوت رکھی جاتی اور عورت میں نہ ہوتی تو کبھی ان میں اتحاد پیدا نہ ہوتا- اور ایک دوسرے سے سر پھٹول ہوتا رہتا- پس جیسے جذبات مرد میں رکھے گئے ہیں، ایسے ہی عورت میں بھی رکھے گئے ہیں تا کہ وہ آپس میں محبت سے رہ سکیں- اب دیکھو یہ مسئلہ مرد و عورت میں کیسا صلح اور محبت کرنے والا ہے جب کوئی مرد عورت سے بلاوجہ ناراض ہو تو اسے کہیں گے- جیسے تمہارے جذبات ہیں، ایسے ہی عورت کے

Page 200

۱۵۷ بھی ہیں- جس طرح تم نہیں چاہتے کہ تمہارے جذبات کو ٹھیس لگے، اسی طرح وہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے جذبات کو پامال نہ کیا جائے پس تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے- اسی طرح آپ نے فرمایا بعض لوگ کہتے ہیں کہ الذی خلق السموت والارض وما بینھما فی ستہ ایام ثم استوی علی العرش الرحمن فاسئل بہ خبیرا ۲۴؎ سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کئے گئے- اور پھر خدا عرش پر قائم ہو گیا- مگر یہ غلط ہے- کیونکہ زمین و آسمان لاکھوں سال میں پیدا ہوئے ہیں- یہ جیالوجی سے ثابت ہے لیکن حق یہ ہے کہ لوگ خود آیت قرآنیہ کو نہیں سمجھتے- ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ زمین و آسمان کتنے سالوں میں بنے مگر یہ جانتے ہیں کہ چھ دنوں میں نہیں بنے- کیونکہ یوم تو سورج سے بنتے ہیں- مگر جب سورج ہی نہ تھا تو یہ دن کہاں سے آگئے؟ یوم کے معنے ایک اندازہ وقت کے ہیں- قرآن کریم میں یوم ایک ہزار سال کا بھی اور پچاس ہزار سال کا بھی آیا ہے- پس اس آیت میں چھ لمبے زمانوں میں زمین و آسمان کی پیدائش مراد ہے- (۱۱) گیارہویں لوگ قرآن کریم کی تفسیر کرنے میں غلطی کیا کرتے تھے- آپ نے ایسے اصول پر تفسیر قرآن کریم کی بنا رکھی کہ غلطی کا امکان بہت ہی کم ہو گیا ہے- ان اصول کے ذریعہ سے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے اتباع پر قرآن کریم کے ایسے معارف کھولے ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلے- چنانچہ میں نے بھی کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی مقام کسی بچہ سے کھلوایا جائے یا قرعہ ڈال لیا جائے پھر اس جگہ کے معارف میں بھی لکھوں گا، دوسری کسی جماعت کا نمائندہ بھی لکھے- پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کے ذریعہ قرآن کریم کے معارف ظاہر کراتا ہے مگر کسی نے یہ بات منظور نہ کی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اصول تفسیر بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں-: (۱) آپ نے بتایا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا راز ہے اور راز ان پر کھولے جاتے ہیں جو خاص تعلق رکھتے ہیں- اس لئے قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے- مگر یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی تفسیریں جن لوگوں نے لکھی ہیں وہ نہ صوفی تھے نہ ولی بلکہ عام مولوی تھے جو عربی جاننے والے تھے- ہاں انہوں نے بعض آیتوں کی تفسیریں لکھی ہیں اور نہایت لطیف تفسیریں لکھی ہیں- جیسا کہ حضرت محی الدین صاحب ابنعربی کی کتب میں آیات قرآنیہ کی تفسیر آتی ہے تو ایسی لطیف ہوتی ہے کہ دل اس کی

Page 201

۱۵۸ صداقت کا قائل ہو جاتا ہے- غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلق باللہ حاصل ہو- (۲)دوسرا اصل آپ نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے- اس نکتہ سے قرآن کریم کی تفسیر آسان بھی ہو گئی ہے اور اس کے لطیف معارف بھی کھلتے ہیں- پس چاہئے کہ جب کوئی قرآن کریم پر غور کرے تو اس بات کو مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ نے ایک لفظ کو پہلے کیوں رکھا ہے اور دوسرے کو بعد میں کیوں- جب وہ اس پر غور کرے گا تو اسے حکمت سمجھ میں آجائے گی- (۳)قرآن کریم کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہوتا- اور کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا- ہر لفظ کسی خاص مفہوم اور مطلب کے ادا کرنے کے لئے آتا ہے- پس کسی لفظ کو یونہی نہ چھوڑو- (۴)جس طرح قرآن کریم کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہوتا- اسی طرح وہ جس سیاقوسباق میں آتا ہے وہیں اس کا آنا ضروری ہوتا ہے پس معنے کرتے وقت پہلے اور پچھلے مضمون کے ساتھ تعلق سمجھنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے- اگر سیاق و سباق کا لحاظ نہ رکھا جائے تو معنے کرنے میں غلطی ہوتی ہے- (۵)قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا ہے اس کے متعلق مفصل پہلے بیان کر آیا ہوں- آپ نے فرمایا جہاں قرآن کریم میں کوئی دعویٰ ہو وہاں اس کی دلیل بھی تلاش کرو ضرور مل جائے گی- (۶)قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے- جہاں کہیں کوئی بات نامکمل نظر آئے اس کے متعلق دوسرا ٹکڑا دوسری جگہ تلاش کرو جو ضرور مل جائے گا اور اس طرح وہ بات مکمل ہو جائے گی- (۷)قرآن کریم میں تکرار نہیں- اس کے متعلق میں تفصیلا پہلے بیان کر آیا ہوں- ۸(قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں- بلکہ ہر گذشتہ واقعہ پیشگوئی کے طور پر بیان ہوا ہے- یہ بھی پہلے بیان کر چکا ہوں- )۹) قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے- پہلے لوگوں کو جو آیت سمجھ نہ آتی تھی اس کے متعلق کہہ دیتے کہ وہ منسوخ ہے اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کا بہت بڑا حصہ منسوخ قرار دے دیا- ان کی مثال ایسی ہی تھی- جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو خیال تھا کہ وہ بڑا

Page 202

۱۵۹ بہادر ہے- اس زمانہ میں بہادر لوگ اپنا کوئی نشان قرار دے کر اپنے جسم پر گدواتے تھے- اس نے اپنا نشان شیر قرار دیا اور اسے بازو پر گدوانا چاہا- وہ گودنے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میرے بازو پر شیر کا نشان گود دو- جب وہ گودنے لگا اور سوئی چبھوئی تو اسے درد ہوئی اور اس نے پوچھا کیا چیز گودنے لگے ہو- گودنے والے نے کہا- شیر کا کان بنانے لگا ہوں- اس نے کہا اگر کان نہ ہو تو کیا اس کے بغیر شیر شیر نہیں رہتا؟ گودنے والے نے کہا کہ نہیں- پھر بھی شیر ہی رہتا ہے- اس نے کہا اچھا تب کان کو چھوڑ دو- اسے بھی پہلے بہانہ سے چھڑا دیا- اسی طرح جو حصہ وہ گودنے لگتا وہی چھڑا دیتا- آخر گودنے والے نے کہا کہ اب تم گھر جاؤ- ایک ایک کر کے سب حصے ہی ختم ہو گئے ہیں- یہی حال قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ ماننے والوں کا تھا- گیارہ سو آیات انہوں نے منسوخ قرار دے دیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں ہے- اور جن آیات کو منسوخ کہا جاتا تھا- ان کے نہایت لطیف معانی اور مطالب بیان فرمائے- (۱۰) ایک گر آپ نے قرآن کریم کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی سنت آپس میں مخالف نہیں ہو سکتے- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی سائنس مخالف نہیں ہوتی- کیونکہ سائنس بعض اوقات خود غلط بات پیش کرتی ہے اور اس کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے- بلکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی سنت اس کے کلام کے خلاف نہیں ہوتی- ہاں یہ ممکن ہے کہ جس طرح کلام الہی کے سمجھنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں اسی طرح فعل الہی کے سمجھنے میں بھی غلطی کر جائیں- (۱۱) آپ نے یہ بھی بتایا کہ عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے- بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں- پس ہمیشہ معانی پر غور کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے جو اس قسم کے دوسرے الفاظ میں پائے جاتے ہیں تاکہ وہ زائد بات ذہن سے غائب نہ ہو جائے جو ایک خاص لفظ کے چننے میں اللہ تعالیٰٰ نے مدنظر رکھی تھی- (۱۲) قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضاء انسانی کے ہیں- جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں آپ نے فرمایا- کسی بات کو سمجھنا ہو تو سارے قرآن پر نظر ڈالنی چاہئے- ایک ایک حصہ کو الگ الگ نہیں لینا چاہئے- (۱۳) تیرھویں غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے قرآن کریم احادیث کے

Page 203

۱۶۰ تابع ہے حتی کہ یہاں تک کہتے تھے کہ احادیث قرآن کی آیات کو منسوخ کر سکتی ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کو اس طرح دور کیا کہ آپ نے فرمایا- قرآن کریم حاکم ہے اور احادیث اس کے تابع ہیں- ہم صرف وہی حدیث مانیں گے جو قرآن کریم کے مطابق ہو گی، ورنہ رد کر دیں گے- اسی طرح وہ حدیث جو قانون قدرت کے مطابق ہو وہ قابل تسلیم ہوگی- کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل مخالف نہیں ہو سکتے- (۱۴) چودھواں نقص لوگوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن ایک مجمل کتاب ہے جس میں موٹی موٹی باتیں بیان کی گئی ہیں- اخلاقی، تمدنی، معاشرتی باتوں کی تفصیل اس میں نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے جس نے روحانیات، معادیات، تمدنیات، سیاسیات اور اخلاقیات کے متعلق جتنے امور روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں، وہ سارے کے سارے بیان کر دیئے ہیں- اور فرمایا میں یہ سب باتیں نکال کر دکھانے کے لئے تیار ہوں- (۱۵) پندرھویں غلطی یہ لوگوں کو لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی بعض تعلیمیں وقتی اور عرب کی حالت اور اس زمانہ کے مطابق تھیں- اب ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے- چنانچہ سید امیر علی جیسے لوگوں نے لکھ دیا کہ فرشتوں کا اعتقاد اور کثرت ازدواج کی اجازت ایسی ہی باتیں ہیں- دراصل یہ لوگ عیسائیوں کے اعتراضوں سے ڈرتے تھے اور اس ڈر کی وجہ سے لکھ دیا کہ یہ باتیں عربوں کے لئے تھیں ہمارے لئے نہیں ہیں- اب ان کو چھوڑا جا سکتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- یہ بات غلط ہے- قرآن کریم کے سارے احکام صحیح اور کوئی حکم وقتی نہیں سوا اس کے جس کے متعلق قرآن کریم نے خود بتا دیا ہو کہ یہ فلاں وقت اور فلاں موقع کے لئے حکم ہے- آپ نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے تھے اس لئے سب تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں اور ہر زمانہ کے لئے ہیں- ہاں ان تعلیموں پر عمل کرنے کے اوقات خود اس نے بتا دیئے ہیں- اور قرآن کریم کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس پر عمل ہمیشہ کے لئے بند ہو یا ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے جس پر کوئی عمل نہ کر سکے اور تفصیلا آپ نے ان اعتراضوں کو دور کیا جو ملائکہ اور کثرت ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل پر پڑتے تھے- (۱۶) سولہویں غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی- کہ وہ قرآن کریم کو ایک متبرک کتاب

Page 204

۱۶۱ قرار دیتے تھے اور روزمرہ کام آنے والی کتاب نہیں سمجھتے تھے- جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اس کی تلاوت اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی طرف سے وہ بالکل بے پرواہ ہو گئے تھے- خوبصورت جز دانوں میں لپیٹ کر قرآن کریم کو رکھ دینا یا خالی لفظ پڑھ لینے کافی سمجھتے تھے کہیں قرآن کریم کا درس نہ ہوتا تھا- حتی کہ اس کا ترجمہ تک نہیں پڑھایا جاتا تھا- ترجمہ کے لئے سارا دارومدار تفسیروں پر تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اس زمانہ میں وہ شخص ہوئے ہیں جنہوں نے قرآن کو قرآن کر کے پیش کیا اور توجہ دلائی کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہئے- آپ سے پہلے قرآن کا کام صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے استعمال کیا جائے- یا مردوں پر پڑھا جائے- یا اچھا خوبصورت غلاف چڑھا کر طاق میں رکھدیا جائے- کیا یہ عجیب بات نہیں کہ شاعروں نے خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں تو بے شمار نظمیں لکھی ہیں- مگر قرآن کریم کی تعریف میں کسی نے بھی کوئی نظم نہیں لکھی- پہلے انسان حضرت مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے قرآن کی تعریف میں نظم لکھی اور فرمایا ؎ جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھنی ہوتی ہے تو وہ انہیں مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ کی حمد کے شعر پڑھنے ہوتے ہیں تو وہ انہیں مل جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تعریف میں انہیں نظم نہیں ملتی اور دشمن سے دشمن بھی حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں- اور یہ کہتے ہوئے کہ مرزا صاحب خود تو برے تھے مگر یہ شعر انہوں نے بہت اچھے کہے ہیں- آپ کے کلام کو پڑھنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحیح معنوں میں قرآنکریم کو ثریا سے لائے ہیں- ملائکہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ پانچواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ ملائکہ کے متعلق جو غلط فہمیاں تھیں انہیں آپ نے دور کیا ہے- (۱) بعض لوگ کہتے تھے کہ قوائے انسانی کا نام ملائکہ رکھا گیا ہے- ورنہ خدا تعالیٰ کو ملائکہ کی کیا ضرورت ہے- آپ نے اس شبہ کا بہ زور رد کیا اور بتایا کہ ملائکہ کا وجود وہمی نہیں

Page 205

۱۶۲ ہے بلکہ وہ کارخانہ عالم میں ایک مفید اور کار آمد وجود ہیں آپ نے فرمایا کہ-: (الف) ملائکہ کی ضرورت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے مگر ان کا وجود انسانوں کے لئے ضروری ہے جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کھانے کے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے لیکن اس نے کھانا بنایا- بغیر سانس کے زندہ رکھ سکتا تھا- مگر اس نے ہوا بنائی- بغیر پانی کے سیر کر سکتا تھا مگر اس نے پانی بنایا- بغیر روشنی کے دکھا سکتا تھا مگر اس نے روشنی بنائی- بغیر ہوا کے سنا سکتا تھا مگر آواز کہ پہنچانے کے لئے اس نے ہوا بنائی- اور اس کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں- اسی طرح اس نے اگر اپنا کلام پہنچانے کے لئے ملائکہ کا وجود بنایا تو حاجت اور ضرورت کا سوال کیوں پیدا ہو گیا؟ باقی ذرائع کے پیدا کرنے سے اگر خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت ہوتی ہے تو ملائکہ کے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی احتیاج کیونکر ثابت ہوئی؟ ان کی پیدائش بھی مخلوق کی ضرورت کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی احتیاج کی وجہ سے- (ب) دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ انسان کی عملی اور ذہنی ترقی کے لئے ملائکہ کا وجود ضروری ہے- علمی ترقی اس طرح ہوتی ہے کہ جو باتیں مخفی در مخفی رکھی گئی ہیں ان کو انسان دریافت کرتے جاتے ہیں اور ترقی کرتے جاتے ہیں- پس ضروری تھا کہ کارخانہ عالم اس طرح چلایا جاتا کہ نتائج یکدم نہ نکلتے بلکہ مخفی در مخفی اسباب کا نتیجہ ہوتے، تا کہ انسان ان کو دریافت کر کے علوم میں ترقی کرتا جاتا اور دنیا اس کے لئے ایک طے شدہ سفر نہ ہوتی بلکہ ہمیشہ اس کے لئے کام موجود رہتا- اس سلسلہ کی آخری کڑی ملائک ہیں- جن کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین کو صحیح طور پر چلائیں جن کو خدا تعالیٰ نے سنت اللہ کے نام سے دنیا میں جاری کیا ہے- ان کے وجود کے بغیر بے جان مادہ کا سلسلہ عمل اس خوبی سے چل ہی نہیں سکتا تھا جس طرح کہ وہ ان کی موجودگی میں چل رہا ہے- (۲) دوسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ تصرف کے ذریعہ سے کام کرتے ہیں نہ کہ خود ہر جگہ جاکر اگر انہیں ہر جگہ جاکر کام کرنا پڑتا تو عزرائیل کے لئے اس قدر آدمیوں کی جان یکدم نکالنی مشکل ہوتی- ہاں جب انہیں کسی مقام پر ظاہر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس جگہ متمثل ہو جاتے ہیں بغیر اس کے کہ اپنی جگہ سے ہلیں- (۳) تیسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگ رہی تھی کہ گویا وہ بھی گناہ کر سکتے ہیں- چنانچہ

Page 206

۱۶۳ آدم کے واقعہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ملائکہ نے خدا تعالیٰ پر اعتراض کیا کہ اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے- اسی طرح خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ملائکہ دنیا میں آئے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے- آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور وہ چاہ بابل میں اب تک قید ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے ان اتہامات سے ملائکہ کو پاک کیا اور بتایا کہ ملائکہ تو قانون قدرت کی پہلی زنجیر ہیں- ان میں خیروشر کے اختیار کرنے کی قدرت ہی حاصل نہیں- انہیں تو جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے کرتے ہیں- نہ اس کے خلاف ایک بالشت ادھر ہو سکتے ہیں نہ ادھر- (۴) چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ ملائکہ کو ایک فضول سا وجود سمجھا جاتا تھا- جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنے گرد ایک حلقہ آدمیوں کا رکھتے ہیں گویا خدا تعالیٰ نے بھی اسی طرح انہیں رکھا ہوا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ ایسا نہیں بلکہ سب کارخانہ عالم انہی پر چل رہا ہے پھر ان کا کام انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکات کرنا بھی ہے اور انسان ان سے تعلقات پیدا کر کے روحانی علوم میں ترقی کر سکتا ہے- انبیاء کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ چھٹا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا کہ انبیاء کے متعلق جو غلطیاں پھیلی ہوئی تھیں ان کو دور کیا- (۱) پہلی غلط فہمی انبیاء کے متعلق یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے سنی سوائے اولیاء اللہ اور صوفیاء کے گروہ اور ان کے متعلقین کے عصمت انبیاء کے مخالف تھے بعض تو امکانات کی حد تک ہی رہتے لیکن بہت سے عملاً انبیاء کی طرف گناہ منسوب کرتے اور اس میں عیب محسوس نہ کرتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے- حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ انہوں نے چوری کی تھی- حضرت الیاس علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ وہ خدا سے ناراض ہو گئے تھے- داؤد علیہ السلام کی نسبت کہتے کہ وہ کسی غیر کی بیوی پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے خاوند کو جنگ پر بھجوا کر مروا دیا- یہ مرض یہاں تک ترقی کر گیا کہ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ رہی تھی- (الف) حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا کہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اور جو باتیں بیان کی جاتی ہیں بالکل جھوٹ ہیں- آپ نے ان باتوں کا غلط ہونا دو طرح ثابت کیا- ایک اس طرح کہ

Page 207

۱۶۴ فرمایا یہ قانون قدرت ہے کہ معرفتِ کامل گناہ سوز ہوتی ہے- مثلاً جسے یقین کامل ہو کہ فلاں چیز زہر ہے، وہ کبھی اسے نہیں کھائے گا- پس جب یہ مانتے ہو کہ نبی کو معرفت کامل حاصل ہوتی ہے تو پھر یہ کہنا کہ نبی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے، یہ دونوں باتیں متضاد ہیں- پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ نبی سے کوئی گناہ سرزدہو- (ب) یہ کہ نبی کے بھیجنے کی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہو، ورنہ نبی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے- کیا خدا تعالیٰ لکھی لکھائی کتاب نہیں بھیج سکتا تھا- پس نبی آتا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے کلام پر عمل کر کے لوگوں کو دکھائے اور ان کے لئے کامل نمونہ بنے پس اگر نبی بھی گناہ کر سکتا ہے تو پھر وہ نمونہ کیا ہوگا- نبی کی تو غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جو لفظوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو وہ اپنے عمل سے لوگوں کو سکھائے- (۲) دوسری غلطی جس میں لوگ مبتلا تھے یہ تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو لوگ کہتے تھے کہ نبی گناہگار ہو سکتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا اور بتایا کہ-: (الف) نبی سے اجتہادی غلطی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری ہے تا کہ معلوم ہو کہ نبی پر جو کلام نازل ہوا وہ اس کا نہیں بلکہ اور ہستی نے نازل کیا ہے- کیونکہ اپنی ذات کے سمجھنے میں کسی کو غلطی نہیں لگتی- کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں بات جب میں نے کہی تھی تو اس کا میں نے اور مطلب سمجھا تھا اور اب اور سمجھتا ہوں- اس غلطی کا لگنا ثبوت ہوتا ہے اس امر کا کہ وہ بات اس کی بنائی ہوئی نہیں- پس آپ نے فرمایا کہ نبی سے اجتہادی غلطی سرزد ہونا ضروری ہے تا کہ اس کی سچائی کا ایک ثبوت بنے- (ب) دوسرے نہ صرف نبی کو اجتہادی غلطی لگتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نبی سے اجتہادی غلطی بعض دفعہ خود کراتا ہے- تا کہ اول نبی کا اصطفاء کرے یعنی اس کا درجہ اور بلند کرے- اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب ہے جب ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بیٹے کو قتل کر دیں- کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو جب وہ قتل کرنے لگے تھے انہیں منع نہ کیا جاتا- لیکن حضرت ابراہیمؑ کو خواب ایسے رنگ میں دکھائی گئی کہ ابراہیمؑ کا ایمان لوگوں پر ظاہر ہو جائے- اور جب وہ اس کے ظاہری معنوں کی

Page 208

۱۶۵ طرف مائل ہوئے تو اس کی حقیقت ان پر کھولی گئی حتی کہ وہ عملاً بیٹے کو قتل کرنے لگے تب بتایا گیا کہ ہمارا یہ مطلب نہ تھا اور یہ خدا تعالیٰ نے اسی لئے کیا تا دنیا کو بتا دے کہ خدا کے لئے ابراہیمؑ اپنا اکلوتا اور بڑھاپے کا بیٹا بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہے- دوسری قسم کی اجتہادی غلطیاں ابتلائی ہوتی ہیں- یعنی بعض لوگوں کا امتحان لینے کیلئے- جیسے صلح حدیبیہ کے وقت ہوا کہ آپﷺ کو خواب میں طواف کا نظارہ دکھایا گیا- مگر اس سے مراد یہ تھی کہ آئندہ سال طواف ہوگا- آپﷺنے سمجھا کہ ابھی عمرہ کر آئیں- اور ایک جماعت کثیر کو لے کر آپﷺ چل پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا پھر بھی اظہار نہ کیا- جب روک پیدا ہوئی تو کئی صحابہ کو حیرت ہوئی اور کمزور طبائع کے لوگ تو تمسخر کرنے لگے اور اس طرح مومنومنافق کے ایمان کی آزمائش ہوگئی- یاد رکھنا چاہئے کہ الہام کے سمجھنے میں تب ہی اجتہادی غلطی لگ سکتی ہے جب الہام کے الفاظ تعبیر طلب ہوں یا جو نظارہ دکھایا جائے وہ تعبیر رکھتا ہو- اگر الہام دماغی اختراع ہوتا تو پھر دماغ سے ایسے الفاظ نکلتے جو واضح ہوتے نہ کہ تعبیر طلب نظارے یا الفاظ- تعبیر طلب نظارے تو ارادے کے ساتھ نہیں بنائے جا سکتے مثلاً دماغ کو اس سے کیا نسبت ہے کہ وہ قحط کو دبلی گائیوں کی شکل میں دکھائے پس اجتہادی غلطی کا سرزد ہونا الہام کے دماغی اختراع ہونے کے منافی ہے اور اس تشریح کی وجہ سے یورپ کی ان نئی تحقیقاتوں پر جو الہام کے متعلق ہو رہی ہیں، پانی پھر جاتا ہے- کیونکہ اجتہادی غلطی کی موجودگی میں جو باریک تعبیر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے الہام کو انسانی دماغ کا اختراع کسی صورت میں قرار نہیں دیا جا سکتا- کیونکہ دماغی اختراع اگر فتور دماغ کا نتیجہ ہو گا تو پراگندہ ہوگا اور کبھی پورا نہ ہوگا- اگر ذہنی قابلیت کا نتیجہ ہو تو صاف الفاظ میں ہوگا، تعبیر طلب نہ ہوگا- (۳) تیسری غلطی لوگوں کو شفاعت انبیاء کے متعلق لگی ہوئی تھی اور اس کی دو شِقّیں تھیں- (الف) یہ کہ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ جو مرضی آئے کرو، شفاعت کے ذریعہ سب کچھ بخشا جائے گا- چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے- مستحق شفاعت گناہگاراں اند یعنی شفاعت کے مستحق گناہگار ہی ہیں-

Page 209

۱۶۶ (ب) بعض لوگ اس کے الٹ یہ خیال کرتے تھے کہ شفاعت شرک ہے- اور صفات باری تعالیٰ کے خلاف ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان دونوں غلطیوں کو دور کیا آپ نے مسئلہ شفاعت کی یہ تشریح کی کہ شفاعت خاص حالتوں میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتی ہے- پس شفاعت پر توکل کرنا درست نہیں ہے- شفاعت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ باوجود پوری کوشش کرنے کے پھر بھی انسان میں کچھ خامی رہ گئی ہو اور جب تک انسان شفیع کے ہمرنگ نہ ہو جائے شفاعت نہیں ہو سکتی- کیونکہ شفیع کے معنی ہیں جوڑا- اور جب تک کوئی رسول کا جوڑا نہ بن جائے شفاعت سے بخشا نہیں جا سکتا- پھر وہ جو کہتے ہیں شفاعت شرک ہے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ اگر شفاعت حکومت کے ذریعہ کرائی جاتی- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے حکما کہتے کہ فلاں کو بخش دے تو یہ شرک ہوتا- مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے شفاعت ہمارے اذن سے ہوگی یعنی ہم حکم دے کر رسول سے یہ کام کرائیں گے جب ہم کہیں گے کہ شفاعت کرو، تب نبی شفاعت کرے گا اور یہ امر شرک ہر گز نہیں ہو سکتا- اس میں نہ خدا تعالیٰ کی ہمسری ہے اور نہ اس کی کسی صفت پر پردہ پڑتا ہے- آپ نے ثابت کیا کہ نہ صرف شفاعت جائز ہے بلکہ دنیا کی روحانی ترقی کیلئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دنیا کی نجات ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ورثہ سے کمالات ملتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کا باپ نماز نہیں پڑھتا- مگر بیٹا پکا نمازی ہوتا ہے، پھر اس بیٹے کو یہ بات ورثہ میں کس طرح ملی؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ باپ میں نماز پڑھنے کی قابلیت تھی تبھی بیٹے میں آئی ورنہ کبھی نہ آتی- بھینس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی- اس لئے کسی بھینس کا بچہ ایسا نہیں ہوتا جو نماز پڑھ سکے- پس حق یہی ہے کہ کمالات ورثہ میں ملتے ہیں اور جب جسمانی کمالات ورثہ میں ملتے ہیں تو روحانی کمالات بھی ان اشخاص کو جو آدم کے مقام پر نہیں ہوتے بغیر ورثہ کے نہیں مل سکتے- پس انسانوں کے لئے جو اپنی ذات میں کمال حاصل نہیں کر سکتے، نبی بھیجے جاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جن پر آسمان سے روحانیت کے فیوض ڈالے جاتے ہیں- اور ان کو خدا تعالیٰ آدم قرار دیتا ہے پھر ان کی روحانیاولاد بن کر دوسرے لوگوں کو روحانی فیوض ملتے ہیں- اور اس طرح وہ نجات حاصل

Page 210

۱۶۷ کرتے ہیں- پس شفاعت تو قانون قدرت سے کامل مطابقت رکھنے والا مسئلہ ہے نہ کہ اس کے خلاف- (۴) انبیاء کے متعلق جن غلطیوں میں مسلمان مبتلا تھے ان میں سے چوتھے نمبر پر وہ غلطیاں ہیں- جو خصوصیت سے حضرت مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو رہی تھیں- مسیح کی ذات ایک نہیں متعدد غلطیوں کی آماجگاہ بنا دی گئی تھی- اور پھر تعجب یہ کہ ان کے متعلق مختلف اقوام غلط خیالات میں پڑی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب غلطیوں کو دور کیا- سب سے پہلی غلطی حضرت مسیحؑ ناصری کی پیدائش کے متعلق تھی- مسلمان بھی اور دوسرے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا تھے کہ حضرت مسیحؑ کی پیدائش انسانی پیدائش سے بالا قسم کی پیدائش تھی- اور ان کا روح اللہ اور کلمہ اللہ سے پیدا ہونا اپنی مثال آپ ہی تھا- اس خیال سے بڑا شرک پیدا ہو گیا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ سب انبیاء میں روح اللہ تھی اور سب کلمہ اللہ تھے- حضرت مسیحؑ پر چونکہ اعتراض کیا جاتا تھا اور انہیں نعوذباللہ ولد الزنا کہا جاتا تھا اس لئے ان کی بریت کے لئے ان کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے ورنہ سارے نبی روح اللہ اور کلمہ اللہ تھے- قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے کفر کا انکار کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایاماکفرسلیمن ۲۵؎ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا باقی سب انبیاء نے کیا تھا- ان کے کفر کے انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا- اس لئے ان کے متعلق الزام کو رد کیا گیا- دوسرے انبیاء کے متعلق چونکہ اس قسم کا الزام نہیں لگا تھا اس لئے ان کے متعلق کفر کی نفی کرنے کی ضرورت نہ تھی- یہی حال حضرت مسیح علیہ السلام کا تھا- جن کے متعلق یہود کا الزام تو الگ رہا، بڑے بڑے عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ (نعوذباللہ)ولد الزنا تھے- مگر اس میں ان کا کیا قصور تھا- چنانچہ ٹالسٹائے جو ایک بہت مشہور عیسائی ہوا ہے- اس نے مفتی محمد صاحب کو لکھا کہ اور تو مرزا صاحب کی باتیں معقول ہیں لیکن مسیح کو بن باپ قرار دینا میری سمجھ میں نہیں آتا- اگر اس کی وجہ مسیح کو پیدائش کے داغ سے بچانا ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں- کیونکہ اس قسم کی پیدائش میں خداوند کا کیا قصور تھا- غرض یہود چونکہ آپ کی پیدائش پر الزام لگاتے تھے کہ

Page 211

۱۶۸ وہ شیطانی تھی اور خود مسیحیوں میں سے بعض نے آئندہ ایسا کرنا تھا، اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کی برائت کے لئے فرمایا کہ ان کی پیدائش روح اللہ سے تھی، کسی گناہ کا نتیجہ نہ تھی- اور کسی ایسے فعل کا نتیجہ نہ تھی جو خدا کی شریعت کے خلاف ہو بلکہ کلمہ اللہ کے مطابق تھی- پس روح اللہ اور کلمہ اللہ کے الفاظ سے مسیح کی پیدائش کا ذکر کرنا تعظیماً نہیں بلکہ اس کی برائت کیلئے ہے- آپ نے یہ بھی بتایا کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم مسیح کی پیدائش کو قانون قدرت سے بالا سمجھیں- ایسی پیدائش اور انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور حیوانوں میں تو یقیناً ہوتی ہے- باقی رہا یہ سوال کہ کیوں خدا تعالیٰ نے انہیں بلا باپ پیدا کیا؟ باپ سے ہی کیوں نہ پیدا کیا- تو اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق بنیاسرائیل میں سے متواتر انبیاء آ رہے تھے- جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے مسیح کی پیدائش کے ذریعہ سے انہیں آخری بار تنبیہہ کی اور بتایا کہ اب تک ہم معاف کر کے تمہارے اندر سے نبی بھیجتے رہے ہیں- مگر اب ہم ایک انسان کو بھیجتے ہیں جو ماں کی طرف سے بنی اسرائیل ہے اور باپ کی طرف سے نہیں- اگر آئندہ بھی باز نہ آؤ گے- تو ایسا ہی آئے گا جو ماں باپ دونوں کی طرف سے غیر اسرائیلی ہوگا- چنانچہ جب بنی اسرائیل نے اس تنبیہہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور شرارت میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو کلی طور پر بنیاسرائیل سے جداتھے- پس حضرت مسیحؑ کی بے باپ پیدائش بطور رحمت کے نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے لئے بطور انذار تھی- چنانچہ اس کا انجام یہی ہوا- دوسری غلطی مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ مسلمان خیال کرتے تھے کہ صرف حضرت مسیح اور ان کی ماں مس شیطان سے پاک تھیں- اور کوئی انسان ایسا نہیں ہوا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ کل انبیاء بلکہ مومن بھی مس شیطان سے پاک ہوتے ہیں- چنانچہ مومنوں کو حکم ہے کہ جب وہ بیوی کے پاس جائیں تو یہ دعا پڑھا کریں-اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا- ۲۶؎ اے اللہ! مجھے بھی شیطان سے بچا اور میری اولاد کو بھی بچا- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بچہ پیدا ہوگا اسے شیطان مس نہ کرے گا- یہ گر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسِّ شیطان سے اولاد کو

Page 212

۱۶۹ محفوظ رکھنے کا بتایا ہے- پس جب امت محمدیہﷺکے افراد بھی مس شیطان سے پاک ہو سکتے ہیں تو انبیاء اور خصوصاً سید ولد آدم کیوں محفوظ نہ ہوں گے- آپ نے بتایا کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ مس شیطان سے پاک تھیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح پر ولد الزنا ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مس شیطان سے پاک تھے یعنی ان کی پیدائش شیطانی نہ تھی- پس حدیث میں جو ان کے پاک ہونے کا ذکر آتا ہے اس سے مراد مسیح اور ابن مریم کی طرح کے لوگ ہیں نہ کہ صرف حضرت مسیح اور حضرت مریم- چنانچہ ان دونوں ناموں کو سورۃ تحریم میں بطور مثال بیان بھی کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی یہ اصطلاح ہے کہ وہ مومنوں کے ایک گروہ کا نام مسیح اور دوسرے کا مریم رکھتا ہے- (۳) تیسری غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کے متعلق لگی ہوئی تھی- مثلاً لوگ کہتے تھے- حضرت مسیح نے مردے زندہ کئے، وہ پرندے پیدا کرتے تھے- حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے ان غلطیوں کو بھی دور فرمایا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کسی کو نہیں دیتا- قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان ہے کہ مردے زندہ کرنا اور پیدا کرنا صرف اسی کا کام ہے- اور مردے زندہ کرنے کے متعلق تو وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں وہ مردے زندہ کرتا ہی نہیں- پس یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح ناصری نے فی الواقع مردے زندہ کئے یا جانور پیدا کئے شرک ہے- اور ہرگز درست نہیں ہاں انہوں نے روحانی طور پر ایسی باتیں کیں یا علم الترب کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے یا یہ کہ ایسے لوگ ان کی دعا سے اچھے ہوئے جو قریبالمرگ تھے- (۴) چوتھی غلطی لوگوں کو حضرت مسیحؑ کی تعلیم کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی تعلیم سب سے اعلیٰ اور بہت مکمل ہے حضرت مسیح نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑے مارے تو تو دوسرا بھی پھیر دے، یہ کمال حلم کی تعلیم ہے اور اس سے بڑھ کر اخلاقی تعلیم ہو ہی نہیں سکتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تعلیم ایک وقت اور ایک قوم کے لئے تو اچھی ہو سکتی تھی- لیکن ہر وقت اور ہر قوم کیلئے یہ تعلیم ہرگز اچھی نہیں- اس لئے سب سے کامل تعلیم نہیں کہلا سکتی- اس تعلیم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہود میں بہت سختی پیدا ہو گئی تھی اور وہ بڑے ظلم کیا کرتے تھے- اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے

Page 213

۱۷۰ حضرت مسیح کے ذریعہ سے ان کو انتہائی درجہ کی نرمی کی تعلیم دی تا کہ ان کی خشونت کم ہو، ورنہ اس تعلیم پر ہر موقع پر ہر گز عمل نہیں ہو سکتا- اس موقع پر مجھے مصر کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے- کہتے ہیں ایک پادری صاحب وعظ کیا کرتے تھے- دیکھو مسیح نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے- وہ کہتے ہیں اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو- ایک دن مجمع میں سے ایک مصری نے نکل کر پادری صاحب کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا- پادری صاحب اس پر بہت غصے ہوئے اور اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے- اس مصری مسلمان نے کہا کہ مسیح کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے تو تمہیں دوسرا گال بھی میری طرف پھیرنا چاہئے تھا تا کہ میں اس پر بھی طمانچہ ماروں- پادری صاحب نے جواب دیا کہ نہیں اس وقت تو میں مسیح کی تعلیم پر نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرونگا، ورنہ تم لوگ بہت دلیر ہو جاؤ گے- پس جیسا کہ عقل بتاتی ہے اور جیسا کہ مسیحی لوگوں کا طریق عمل بتایا ہے اس تعلیم پر ہمیشہ عمل نہیں ہو سکتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کی تعلیم نامکمل ہے اور اس پر ہر وقت اور ہر زمانہ میں عمل نہیں کیا جا سکتا اس کے مقابلہ میں آپ نے بتایا کہ قرآن کی تعلیم کامل ہے اور ہر زمانہ اور ہر وقت کیلئے ہے- (۵) پانچویں غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے متعلق تھی- جس میں مسلمان اور یہود اور عیسائی سب مبتلا تھے- مسلمان کہتے تھے یہود نے حضرت مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکا دیا تھا- اور انہیں خدا نے آسمان پر اٹھا لیا تھا- یہود اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت مسیح کو ہی صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا تھا- مسلمانوں کے خیال کو تو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس طرح رد کیا کہ فرمایا-: حضرت مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکانا صریح ظلم تھا- اور اگر اس شخص کی مرضی سے لٹکایا گیا تھا تو اس کا ثبوت تاریخ میں ہونا چاہئے- پھر اگر مسیح کو خدا نے آسمان پر اٹھا لینا تھا- تو کسی اور غریب کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پس یہ غلط ہے کہ مسیح کی جگہ کسی اور کو صلیب پر لٹکایا گیا- اور یہ بھی کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا- دوسری طرف آپ نے یہود اور مسیحیوں کی بھی تردید کی کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح کو صلیب سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور اس طرح خدا نے ان کو لعنتی موت سے بچا لیا-

Page 214

۱۷۱ اب دیکھو انیس سو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس واقعہ کی اصل حقیقت کا پتہ لگانا کتنا بڑا کام ہے- خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اترنے کے ثبوت آپ نے خود انجیل سے ہی دیئے ہیں- مثلاً یہ کہ حضرت مسیح سے ایک دفعہ علماء وقت نے نشان طلب کیا تھا- تو اس نے انہیں جواب میں کہا- ’’اس زمانہ کے برے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں- مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا- کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا- ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘- ۲۷؎ تورات سے ثابت ہے کہ حضرت یونسؑ تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تھے اور پھر زندہ ہی نکلے تھے- پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح ناصری بھی صلیب کے واقعہ کے موقع پر زندہ ہی قبر میں داخل کئے جاتے اور زندہ ہی نکلتے پس یہ خیال کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے انجیل کے صریح خلاف ہے اور خود مسیح کی تکذیب اس سے لازم آتی ہے- عیسائیت کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ آپ کے کام کی عظمت ثابت کرنے کیلئے اکیلا ہی کافی ہے مگر آپ نے اس پر بھی بس نہیں کی- بلکہ آپ نے تاریخ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر آئے اور وہاں آ کر فوت ہوئے گویا ان کی سب زندگی کو پردہ اخفاء سے نکال کر ظاہر کر دیا- (۶) چھٹی غلطی حضرت مسیح کی زندگی اور دوبارہ آنے کے متعلق تھی اس غلطی کو بھی آپ نے ظاہر کیا اور بتایا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ اپنے کام کے لئے ایک پرانا آدمی سنبھال کر رکھ چھوڑے اور نیا آدمی نہ بنا سکے کیا جو صبح کی باسی روٹی رکھ کر شام کو کھائے اسے امیر کہا جائے گا؟ یہ باسی روٹی رکھنے والے کی امارت نہیں بلکہ غربت کا ثبوت ہوگا- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں- کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ ان کے ذریعہ امت محمدیہﷺ کی اصلاح کرے- ان کے کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ (نعوذ باللہ)اللہ تعالیٰ سے حضرت عیسیٰ جیسا انسان اتفاقاً بن گیا تھا جسے اس نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ جب دنیا میں فتنہ ہوگا تو اسے نازل کرے گا- مگر یہ غلط ہے جس طرح امیروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ جو روٹی بچ رہے اسے غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور دوسرے وقت نیا کھانا تیار کرتے ہیں- اسی طرح

Page 215

۱۷۲ اللہ تعالیٰ بھی ہر زمانہ کے مطابق نئے بندے پیدا کرتا ہے- پھر اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو سنبھال کر زندہ رکھنا ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسان کو زندہ رکھتا مگر آپﷺ تو فوت ہو گئے- کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہے جو عمدہ دوا کو تو پھینک دے اور ادنیٰ دوا کو سنبھال کر رکھ چھوڑے اور پھر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کو کیوں زندہ رکھا- آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت عیسیٰ کو زندہ رکھنے اور امت محمدیہﷺ کی اصلاح کے لئے بھیجنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے معلم تھے اور آپﷺ کا کام اعلیٰ درجہ کے شاگرد پیدا کرنا تھا- مگر کہا یہ جاتا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ امت محمدیہ میں فتنہ پیدا ہوگا، اس وقت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو کوئی ایسا شاگرد نہ پیدا کر سکیں گے جو اس فتنہ کو دور کر سکے مگر حضرت عیسیٰؑ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے تھے، اس کام کے لئے لائے جائیں گے- نیز اس عقیدہ میں امت محمدیہ کی بھی ہتک ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب سے نازک موقع پر خطرناک طور پر ناقابل ثابت ہوگی- حتی کہ دجال تو اس میں پیدا ہوں گے مگر مسیح دوسری امت سے آئے گا- آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح جن کی عزت کے لئے یہ عقیدہ بنایا گیا ہے اس میں ان کی بھی درحقیقت ہتک ہے کیونکہ وہ مستقل نبی تھے- اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ اس نبوت سے علیحدہ کر دیئے جائیں گے اور انہیں امتی بننا پڑے گا- معجزات کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ساتواں کام حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ معجزات کے متعلق جو غلطفہمیاں تھیں، ان کی اصلاح کی- دنیا معجزات کے متعلق دو گروہوں میں تقسیم تھی- بعض لوگ معجزات کے کلی طور پر منکر تھے- اور بعض ہر رطب و یابس قصہ کو صحیح تسلیم کر رہے تھے جو لوگ معجزات کے منکر تھے- انہیں آپ نے علاوہ دلائل کے اپنے معجزات کو پیش کر کے ساکت کیا اور دعویٰ کیا کہ ؎ کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمان محمد جو لوگ ہر رطب و یابس حکایت کو معجزہ قرار دے رہے تھے انہیں آپ نے بتایا کہ معجزہ تو ایک غیر معمولی کیفیت کا نام ہے اور غیر معمولی امور کے تسلیم کرنے کیلئے غیر معمولی ثبوت کی

Page 216

۱۷۳ بھی ضرورت ہوتی ہے- پس انہی معجزات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ (۱) جن کا ذکر الہامی کتاب میں ہو- یا یہ کہ ان کی تائید میں زبردست تاریخی ثبوت ہ(۲) دوسرے جو سنت اللہ کے خلاف نہ ہو خواہ بظاہر اچنبھا نظر آئے- مثلاً خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ کوئی مردہ اس دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتا- اگر کوئی کہے کہ فلاں نبی یا ولی نے مردہ زندہ کیا ہے تو چونکہ یہ قرآن کے خلاف ہوگا، ہم اسے ہر گز تسلیم نہیں کریں گے- کیونکہ معجزہ دکھانے والی ہستی نے خود فرما دیا ہے کہ وہ مردہ زندہ نہیں کرے گی- یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان نہ صرف حضرت عیسیٰ کو بلکہ اور لوگوں کو بھی مردے زندہ کرنے والے قرار دیتے ہیں- ہندو ان سے بھی بڑھ گئے ہیں- مسلمانوں میں تو ایسی روایات ہیں کہ کوئی بزرگ تھے جن کے سامنے پکا ہوا مرغ لایا گیا- انہوں نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور پھر اس کی ہڈیاں جمع کر کے ہاتھ میں پکڑ کر دبائیں اور وہ کڑ کڑ کرتا ہوا مرغ بن گیا- مگر ہندو ان سے بھی عجیب و غریب باتیں بیان کرتے- مثلاً کہتے ہیں کہ ان کے کوئی رشی تھے جو کہیں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک خوبصورت عورت دیکھ کر اسے پھسلانا چاہا، مگر وہ راغب نہ ہوئی کیونکہ بدبخت تھی- اس وقت اس رشی کو یونہی انزال ہو گیا اور انہوں نے دھوتی اتار کر پھینک دی- تھوڑی دیر کے بعد اس دھوتی سے بچہ پیدا ہو گیا کیونکہ رشی کا نطفہ ضائع نہیں جا سکتا تھا- اسی طرح نیل کنٹھ کے متعلق جو ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کہتے ہیں اس نے ایک دریا کا سارا پانی پی لیا- ایک برات جا رہی تھی اسے کھا گیا اور ابھی اس کا پیٹ نہیں بھرا تھا- اب مسلمان ایسے معجزات کہاں سے لائیں گے اس لئے اسی میں ان کی بہتری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معجزوں کے متعلق جو شرط قرار دی ہے اسے مان لیں- ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے معجزات لوگوں سے منوائیں اور دوسروں کے معجزات سے انکار کریں- (۳) تیسری شرط آپ نے یہ بتائی کہ معجزہ میں ایک رنگ کا اخفاء ضروری ہے اگر اخفاء نہ رہے تو معجزہ کی اصل غرض جو ایمان کا پیدا کرنا ہے ضائع ہو جاتی ہے- مثلاً اگر عزرائیل آئے اور کہے کہ فلاں نبی کو مان لو ورنہ ابھی جان نکالتا ہوں تو فوراً تمام لوگ مان لیں گے اور ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہوگا- پس معجزہ کیلئے اخفاء ضروری ہے- کیونکہ معجزہ ایمان کیلئے ہوتا ہے اگر اس میں اخفاء نہ رہے تو اس پر ایمان لانا کیا فائدہ دے سکتا ہے- ہاں اس قدر مخفی بھی نہ

Page 217

۱۷۴ ہونا چاہئے کہ دلیل کے درجہ سے ہی ساقط ہو جائے، ورنہ پھر لوگوں کے لئے حجت نہ رہے گا- (۴) چوتھی شرط یہ ہے کہ معجزہ میں کوئی فائدہ مدنظر ہو کیونکہ معجزہ لغو نہیں ہوتا اور تماشہ کی طرح نہیں دکھایا جاتا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی غایت اور غرض ہوتی ہے- پس جو معجزہ کسی مقصد اور فائدہ پر مشتمل ہو اسی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا- شریعت کی عظمت کا قیام آٹھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ شریعت کی عظمت قائم کی- شریعت کی عظمت غیر مسلموں میں بھی اور مسلمانوں میں بھی بالکل مٹی ہوئی تھی- آپ کے ذریعہ سے وہ پھر قائم ہوئی- (۱) سب سے بڑا وسوسہ شریعت کے متعلق یہ پیدا ہوگیا تھا کہ لوگ شریعت کو چٹی سمجھتے تھے- عیسائی کہتے تھے یسوع مسیح انسانوں کو شریعت سے بچانے کے لئے آیا تھا- گویا شریعت چٹی تھی جس سے وہ بچانے آئے تھے- حالانکہ شریعت تو راہنمائی کے لئے تھی اور کوئی شخص راہنمائی کو چٹی نہیں کہتا- کیا اگر کوئی کسی کو سیدھا راستہ بتائے تو وہ یہ کہا کرتا ہے کہ ہائے اس نے مجھ پر چٹی ڈال دی- مسلمان بھی شریعت کو چٹی سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے اس قسم کی کوششیں کی ہیں کہ شریعت کے فلاں حکم سے بچنے کیلئے کیا حیلہ ہے اور فلاں کیلئے کیا- حتی کہ بعض لوگوں نے کتابالحیل لکھ دی ہے- اگر وہ شریعت کو لعنت نہ سمجھتے تو اس سے بچنے کے لئے حیلے کیوں تلاش کرتے- وہابی کسی قدر اس سے بچے ہوئے تھے مگر دوسرے مسلمانوں نے عجیب عجیب حیلے تراشے ہوئے تھے- مثلاً ایک مشہور فقہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ قربانی کرنا عید کی نماز کے بعد سنت ہے لیکن اگر کسی کو نماز سے پہلے قربانی کرنے کی ضرورت ہو تو وہ یوں کرے کہ شہر کے پاس کے کسی گاؤں میں جا کر بکرا ذبح کر دے- کیونکہ عید شہر میں ہو سکتی ہے اور اس جگہ کے لئے عید کے بعد قربانی کی شرط ہے، اور وہاں سے گوشت شہر میں لے آئے- غرض پچھلے زمانہ میں مولویوں کا کام ہی یہ رہ گیا تھا کہ لوگوں کو حیلے بتائیں- اور لوگ بھی ان سے حیلے ہی دریافت کرتے رہتے تھے- مشہور ہے کہ کچھ لڑکوں نے مردہ گدھے کا گوشت کھا لیا- اس پر مولوی صاحب نے کہا- یہ بہت بڑا گناہ ہوا ہے- لڑکوں کے والدین کو چاہئے کہ ایک شہتیر کھڑا کر کے اسے روٹیوں سے ڈھانپیں اور وہ روٹیاں خیرات کر دی جائیں- کسی نے کہہ دیا- مولوی صاحب آپ کا لڑکا بھی ان میں شامل تھا- اس پر کہنے لگے کہ

Page 218

۱۷۵ ذرا ٹھہر جاؤ- میں پھر غور کر لوں- آخر کہنے لگے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے- شہتیر کو زمین پر لمبا ڈال کر اس پر ایک ایک روٹی رکھ دی جائے اور اس طرح اسے ڈھانپ دیا جائے- (۲) دوسرا وسوسہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ شریعت تو اصل مقصد نہیں ہے اصل مقصد تو انسان کا خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے پس جب خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے تو پھر شریعت پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے- یہ ایک خطرناک مرض تھا جو لوگوں میں پیدا ہو گیا تھا- صوفی کہلانے والے شریعت کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ رہے تھے اور جب مسلمان ان سے پوچھتے کہ شریعت کے احکام پر کیوں عمل نہیں کرتے تو کہتے ہم خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے ہیں- اب ہمیں شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے- اسی عقیدہ کا ایک آدمی ایک دفعہ میرے پاس بھی آیا تھا- میں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ یہ فرمائیں کہ کوئی شخص کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے تک پہنچ جائے تو پھر کیا اسے کشتی میں ہی بیٹھ رہنا چاہئے یا کشتی سے اتر جانا چاہئے- اس کا مطلب یہ تھا کہ جب خدا مل جائے تو پھر شریعت پر چلنے کی کیا ضرورت ہے- جونہی اس نے یہ بات کہی، میں اس کا مطلب سمجھ گیا- میں نے کہا-: اگر دریا کا کنارہ ہو تو بے شک کشتی کو چھوڑ کر اتر جائے- لیکن اگر کنارہ ہی نظر نہ آئے تو پھر کہاں اترے- ایسی صورت میں اگر اتر گیا تو غرق ہی ہوگا- یہ سنکر وہ بہت شرمندہ ہوا اور کوئی جواب نہ دے سکا- میرا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰٰ کا قرب کوئی محدود شے تو نہیں کہ کہہ دیا جائے قرب حاصل ہو گیا ہے، اب شریعت کی کیا ضرورت ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی خوب اچھی طرح ازالہ کیا اور بتایا کہ بے شک انسان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے شریعت پر عمل کرتے رہنا نہیں، مگر خدا تک پہنچنے کے اتنے مدارج ہیں جو ابدالاباد تک ختم نہیں ہو سکتے- اگر کوئی کہے کہ میں خدا تک پہنچ گیا، آگے کوئی درجہ نہیں ہے تو اس کے نزدیک گویا خدا تعالیٰ محدود ہوگا اور یہ عقیدہ کسی کا بھی نہیں ہے- پس جب خدا تعالیٰ کے قرب کے مدارج ختم نہیں ہو سکتے تو ان مدارج کو جس ذریعہ )شریعت( سے حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی چھوڑا نہیں جا سکتا- (۳) تیسرا شبہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال جزو شریعت ہیں- اس وجہ سے اگر کوئی مولوی

Page 219

۱۷۶ کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھتا تو جھٹ کہہ دیتا کہ یہ کافر ہے- کھانے کے بعد کسی کو ہاتھ دھوتے دیکھا تو کہہ دیا کافر ہے کیونکہ یہ رسول کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف کرتا ہے- حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سالن میں مسالے نہ پڑتے تھے- زیتون کے تیل سے روٹی کھا لیتے تھے- اور یہ تیل بالوں کو بھی ملا جاتا تھا- اس لئے کھانے کے بعد منہ پر مل لیتے- اب سالن میں ہلدی اور کئی قسم کے مسالے پڑتے ہیں مگر اب بھی کئی مولوی منہ پر ہاتھ ملنے کو سنت قرار دینے والے، مسالے سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت ہے- ہم کہتے ہیں اگر تم زیتون کے تیل سے کھانا کھاؤ تو بیشک ہاتھ کھانے کے بعد منہ پر مل لو- اور اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں- مگر تم سالن میں جب تک مسالہ ہلدی اور مرچ نہ ہو، کھاتے ہی نہیں، پھر ان مسالوں کو کون منہ پر ملے- ایک دفعہ میں نے ایک مولوی صاحب کی دعوت کی- کھانے کے بعد جب ہاتھ دھونے کیلئے چلمچی آئی تو انہوں نے بڑی حقارت سے اسے پرے ہٹا کر کہا یہ سنت کے خلاف ہے میں ہاتھ نہیں دھوؤں گا- اور سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لئے- درحقیقت یہ سنت کے خلاف نہیں- حدیث میں صاف آتا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھوئے اور بعد میں بھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کا ازالہ یوں فرمایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کئی قسم کے ہیں- ایک وہ اعمال ہیں جو آپ ہمیشہ کرتے اور جن کے کرنے کا آپ نے دوسروں کو بھی حکم دیا اور فرمایا اس طرح کیا کرو- ان کا کرنا واجب ہے (۲)وہ اعمال جو عام طور پر آپﷺ کرتے اور دوسروں کو کرنے کی نصیحت بھی کرتے، یہ سنن ہیں-(۳)وہ اعمال جو آپکرتے اور دوسروں کو فرماتے کہ کر لیا کرو تو اچھے ہیں یہ مستحب ہیں (۴)وہ اعمال جنہیں آپ مختلف طور پر ادا کرتے ان کا سب طریقوں سے کرنا جائز ہے (۵) ایک وہ اعمال ہیں جو کھانے پینے کے متعلق تھے ان میں نہ آپ دوسروں کو کرنے کے لئے کہتے اور نہ کوئی ہدایت دیتے- آپ ان میں عرب کے رواج پر عمل کرتے- ان احکام میں ہر ملک کا انسان اپنے ملک کے رواج پر عمل کر سکتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ لائی گئی جو آپ نے نہ کھائی- اس پر پوچھا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا- نہیں حرام نہیں- مگر ہمارے ہاں لوگ اسے کھاتے نہیں- اسلئے میں بھی اسے نہیں

Page 220

۱۷۷ کھاتا- ۲۸؎ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جن امور میں شریعت ساکت ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ثابت نہ ہو- انہیں حتی الوسع ملک کے دستور اور رواج کے مطابق کر لینا چاہئے تا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو- ایسے امور سنت نہیں کہلاتے- جوں جوں ملک کے حالات کے ماتحت لوگ ان میں تبدیلی کرتے جائیں، اس پر عمل کرنا چاہئے- (۴) چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ بعض لوگوں کے نزدیک شریعت صرف کلام الہٰی تک محدود تھی- نبی کا شریعت سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا جیسا کہ چکڑالوی کہتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ شریعت کے دو حصے ہیں.(۱) ایک اصولی حصہ ہے جس پر دینی، اخلاقی، تمدنی، سیاسی کاموں کا مدار ہے- (۲) دوسرا حصہ جزئیتشریحات اور علمی تفصیلات کا ہے- یہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ کراتا ہے تا کہ نبیوں سے بھی مخلوق کو تعلق پیدا ہو- اور وہ لوگوں کے لئے اسوہ بنیں- پس شریعت میں نبی کی تشریحات بھی شامل ہیں- عبادات کے متعلق اصلاح (۹) نواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادات کی اصلاح کا کیا ہے اس کے متعلق لوگوں کو (۱) اول تو یہ وسوسہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبادت صرف دل سے تعلق رکھتی ہے جسم کو اس سے تعلق نہیں- چنانچہ قریباً بیس سال ہوئے ہیں کہ علی گڑھ میں ایک شخص نے لیکچر دیا- جس میں بیان کیا کہ اب چونکہ زمانہ ترقی کر گیا ہے اس لئے پہلے زمانہ کا طریق عبادت اس وقت قابل عمل نہیں ہے- اب صرف اتنا کافی ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھنا چاہے تو بیٹھے بیٹھے ذرا میز پر سر جھکا کر خدا کو یاد کرلے- روزہ اس طرح رکھا جا سکتا ہے کہ پیٹ بھر کے نہ کھائے- چند بسکٹ ایک آدھ چائے کی پیالی پی لے تو کوئی حرج نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ عبادات کا تعلق روح سے ہے اور روح کا تعلق جسم سے ہے- اگر جسم کو عبادت میں نہ لگائیں گے تو قلبی خشوع نہ پیدا ہوگا- پس جسمانی عبادت کو فضول سمجھنا نہایت غلط طریق اور مہلک راہ ہے اور اصول عبادت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسا خیال پیدا ہوتا ہے- (۲) دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ نماز میں دعا کرنا بھول گئے تھے- سنیوں میں تو نماز میں دعا کرنا گویا کفر سمجھا جاتا تھا- ان کا خیال تھا کہ نماز پڑھ چکنے کے بعد ہاتھ

Page 221

۱۷۸ اٹھا کر دعا کرنی چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس بات کا ذکر آتا تو آپ ہنستے اور فرماتے- ان لوگوں کی تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بادشاہ کے دربار میں جائے مگر وہاں چپ چاپ کھڑا رہ کر واپس آ جائے- اور جب دربار سے باہر آ جائے تو کہے حضور مجھے یہ کچھ دلایا جائے وہ کچھ دلایا جائے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دعا نماز میں کرنی چاہئے اور اپنی زبان میں بھی کرنی چاہئے تا کہ جوش پیدا ہو- (۳) بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ظاہری عبادت کافی ہے- ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی اور بیٹھ گئے- ان لوگوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میں نے ایک کتاب دیکھی ہے جس میں لکھا تھا- اگر کوئی فلاں دعا پڑھ لے تو سارے صلحاء کی نیکیاں اسے مل جائیں گی- اور سب گناہگاروں کے برابر گناہ اگر اس نے کئے ہوں تو وہ بخشے جائیں گے- جن لوگوں کا یہ خیال ہو انہیں روزانہ نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت محسوس ہو سکتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا-: یہ جسم تو گھوڑا ہے اور روح اس پر سوار ہے- تم نے گھوڑے کو پکڑ لیا اور سوار کو چھوڑ دیا- ظاہری عبادتیں تو روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہیں اس لئے قلبی پاکیزگی پیدا کرو جو اصل مقصود ہے- فقہ کی اصلاح دسواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ فقہ کی اصلاح کی جس میں سخت خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور اس قدر اختلاف ہو رہا تھا کہ حد نہ رہی تھی آپ نے اس کے متعلق زریں اصول باندھا اور فرمایا شریعت کی بنیاد مندرجہذیل چیزوں پر ہے- (۱) قرآن کریم (۲) سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (۳) احادیث جو قرآن کریم اور سنت اور عقل کے خلاف نہ ہوں (۴) تفقہ فی الدین (۵) اختلاف طبائع و حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ نے سنت اور حدیث کو الگ الگ کیا- آپ نے فرمایا- سنت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل ہے جس پر آپﷺ قائم ہوئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دی- اور حدیث وہ قول ہے جو آپﷺنے بیان کیا- اب دیکھو ان پانچ اصول سے آپ نے کیسی اصلاح کر دی ہے- سب سے اول درجہ پر آپ نے قرآن کریم کو رکھا کہ وہ خدا کا کلام ہے مفصل ہے مکمل ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی ہو

Page 222

۱۷۹ گی نہ ہوئی ہے، نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا وعدہ ہے- ایسے کلام سے بڑھ کر کونسی بات معتبر ہو سکتی ہے- اس کے بعد سنت ہے کہ صرف قول سے اس کا تعلق نہیں بلکہ عمل سے ہے اور عمل بھی وہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے اور متواتر کرتے تھے- ہزاروں لوگ اسے دیکھتے تھے اور اس کی نقل کرتے تھے- یہ نہیں کہ ایک یا دو یا تین کی گواہی ہو کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا بلکہ ہزاروں آدمیوں کا عمل کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کرتے دیکھ کر آپ کی اتباع میں ایسا کام شروع کیا- اس سنت میں غلطی کا احتمال بہت ہی کم رہ جاتا ہے- اور یہ حدیث سے جو چند افراد کی شہادت ہوتی ہے بہت افضل ہے- اس کے بعد آپ نے حدیث کو رکھا- لیکن ان کے متعلق یہ شرط لگائی کہ صرف راویوں کی پرکھ ان کی صداقت کی علامت نہیں بلکہ ان کا قرآنکریم، سنت اور قانون قدرت کے مطابق ہونا ضروری ہے- حدیث کے بعد تفقہ فیالدین کا مرتبہ رکھا کہ عقل کو استعمال کر کے جو مسائل میں ترقی ہوتی ہے اس کے لئے بھی رستہ کھلا رہے- پھر پانچویں بنیاد فقہ کی آپ نے مختلف حالات اور مزاجوں کو مقرر کیا اور اسے شریعت اسلامیہ کا ضروری جزو قرار دیا- اس اصل سے بہت سے مختلف فیہ مسائل حل ہو گئے- مثلاً آمین کہنے پر جھگڑے ہوتے تھے- آپ نے فرمایا- جس کا دل اونچی آمین کہنے کو چاہے وہ اونچی کہے جس کا دل اونچی کہنا نہ چاہے نہ کہے- جب یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو ان پر جھگڑا فضول ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مزاج کے لوگوں کو مدنظر رکھ کر دونوں طرح عمل کیا ہے پس ہر اک شخص اپنے مزاج کے مطابق عمل کر سکتا ہے- دوسرے کے فعل سے سروکار نہیں رکھنا چاہئے- اسی طرح فرمایا کہ جس کا دل چاہے سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جس کا دل چاہے ناف کے نیچے باندھے- انگلی اٹھائے یا نہ اٹھانے کے متعلق رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ دونوں طرح جائز ہے- اسی طرح بہت سے جھگڑوں کو جو کسی شرعی اختلاف کی وجہ سے نہ تھے بلکہ دو جائز باتوں پر جھگڑنے کے سبب سے تھے اور شریعت کی اس حکمت کو نہ سمجھنے کے سبب سے تھے کہ اس میں مختلف طبائع کا لحاظ رکھ کر مختلف صورتوں کو بھی جائز رکھا جاتا ہے، آپ نے مٹادیا- عورتوں کے حقوق کا قیام گیارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ عورتوں کے وہ حقوق قائم کئے جو آپ کی آمد سے پہلے

Page 223

۱۸۰ بالکل تلف کئے جاتے تھے مثلاً (۱)ورثہ نہیں ملتا تھا (۲)پردہ میں سختی کی جاتی تھی- چلنے پھرنے تک سے روکا جاتا تھا- (۳)علم سے محروم رکھا جاتا تھا- (۴)سلوک اور مراعات سے محروم رکھا جاتا تھا (۵)نکاح کے متعلق اختیار نہیں دیا جاتا تھا- (۶)خلع اور طلاق میں سختی کی جاتی تھی- (۷)حقوق انسانیت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا- آپ نے ان سب کی اصلاح کی- (۱)ورثہ سے محروم رکھنے کو آپ نے سختی سے روکا اور عورتوں کے اس حق کی تائید کی- چنانچہ ہمارے گھر میں کہ جہاں پشتوں سے عورتوں کا حق نہ دیا گیا تھا- ہماری بہنوں کو زمینداری کے پورے حقوق ملے اور وہ ہمارے ساتھ آپ کی جائیداد کی وارث ہوئیں- (۲)پردہ میں جو ظاہری سختی کی جاتی تھی، اسے دور کیا- آپ (حضرت اماں جان) کو ساتھ لے کر سیر کو جایا کرتے- ایک دفعہ آپ ایک سٹیشن پر (حضرت اماں جان) کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے- مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ بہت ناگوار گذرا- کیونکہ اس زمانہ میں بڑی شرم کی بات اور عیب سمجھا جاتا تھا کہ عورت ساتھ ہو- وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس آئے اور کہا- حضرت صاحب بیوی صاحبہ کو ساتھ لے کر ٹہل رہے ہیں- لوگ کیا کہیں گے- آپ جا کر حضرت صاحب سے کہیں کہ بیوی صاحبہ کو بٹھا دیں- حضرت خلیفہ اول نے کہا- آپ خود جاکر کہیں میں تو نہیں کہہ سکتا- آخر آپ گئے اور پھر سر نیچے ڈالے ہوئے آئے- حضرت خلیفہ اول نے پوچھا حضرت صاحب نے کیا جواب دیا- کہنے لگے- جب میں نے کہا لوگ اس طرح ٹہلنے پر اعتراض کریں گے- تو آپ ٹھہر گئے اور فرمایا لوگ کیا اعتراض کریں گے کیا یہ کہیں گے کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کی صحت کی درستی کے لئے ان کے چلنے پھرنے کی آزادی دی اور آج گو تعلیم یافتہ طبقہ اس تغیر کو نہیں سمجھ سکتا- لیکن جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کام کو شروع کیا تھا اس وقت یہ بات حیرت انگیز تھی- آپ نے بتایا کہ پردہ کی غرض بعض کمزوریوں سے بچانا ہے اور اس کے علاوہ عورتوں کو مردوں سے آزادانہ میل جول رکھنے سے روکا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو قید میں ڈالے رکھنے کا حکم دیا ہے- (۳)تیسرے عورتوں کو علم سے محروم رکھا جاتا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کو علم پڑھانے پر خصوصیت سے زور دیا- چنانچہ آپ نے ایک دوست کو

Page 224

۱۸۱ خط میں لکھا کہ عورتوں کو عربی فارسی کے علاوہ کچھ انگریزی کی بھی تعلیم دینی چاہئے اور مختلف علوم سے بھی کچھ آگاہی ان کے لئے ضروری ہے- (۴)چوتھے عورتوں کے متعلق سلوک اور مراعات الہامی طور پر آپ نے قائم کیں اور بتایا سلوک اور مراعات میں عورتیں مردوں کے مساوی ہیں- حتی کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب اپنی بیوی سے اونچی آواز میں بولے تو آپ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ-: مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں- ۲۹؎ (۵)پانچویں عورتوں کو نکاح کے متعلق اختیارات حاصل نہ تھے آپ نے اس حق کو قائم کیا اور عورت کی رضا مندی نکاح کے لئے ضروری قرار دی- بلکہ عورت اور مرد کو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کے ارشاد کو پھر جاری کیا اور بعض مرد و عورت کو آپ نے خود حکم دے کر ایک دوسرے کو دکھلا دیا- (۶)چھٹے طلاق کا رواج اس قدر وسیع تھا کہ جس کی کوئی حد نہ تھی- آپ نے اسے روکا اور جس حد تک ممکن ہو تعلق نکاح کو قائم رکھنے کا ارشاد فرمایا- اس کے مقابلہ میں خلع کا دائرہ اس قدر تنگ کیا گیا تھا کہ عورت گھٹ گھٹ کر مر جاتی، اس کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا- آپ نے اس دروازہ کو کھولا اور عورت کے حقوق جو شریعت نے اسے دیئے ہیں پھر قائم کئے- اور بتایا کہ طلاق کے مقابل میں عورت کو خلع کا حق ہے- اور صرف اس قدر فرق ہے کہ عورت کے لئے شرط ہے کہ وہ قاضی کی معرفت علیحدگی حاصل کرے- ورنہ عورت کی تکلیف اور احساسات کا شریعت نے اس قدر پاس کیا ہے جس قدر مرد کے احساسات کا- (۷)ساتویں عورت کے اہلی اور تمدنی حقوق کو بلند کیا- آپ کی بعثت سے پہلے عورت کے کوئی حقوق ہی نہیں تسلیم کئے جاتے تھے- مگر آپ نے عورتوں کے حقوق پر خاص زور دے کر اسے اس غلامی سے آزاد کیا- جس میں وہ باوجود اسلام کی تعلیم کے مبتلا کر دی گئی تھی- اصلاح اعمال انسانی بارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی اعمال کی اصلاح کے متعلق کیا جس پر نجات کا مدار ہے- تمام دنیا اعمال انسانی کی اصلاح تو ایک اہم امر سمجھتی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کام کس طرح ہو سکتا ہے- مسلمان بھی اس مسئلہ کے متعلق خاموش تھے- بلکہ دوسروں سے کچھ گری ہوئی حالت میں

Page 225

۱۸۲ تھے- آپ نے قرآن کریم سے ایسے گر بتائے کہ اس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا اور راستہ کھول دیا جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا- مسیحیت نے ورثہ کے گناہ کی تھیوری پیش کر کے کہا تھا کہ چونکہ انسان کو گناہ ورثہ میں ملے ہیں، اس لئے کوئی انسان ان سے بچ نہیں سکتا- گویا اس کے نزدیک اصلاح نفس ناممکن تھی اور اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے اس نے کفارہ ایجاد کیا تھا- ہندو مذہب کا عقیدہ تھا کہ اصلاح نفس حساب صاف کرنے سے ہو سکتی ہے- جب حساب صاف ہو جائے گا تب نجات ہو گی- پرمیشور انسان کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب رکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرتا رہتا ہے- اگر بدیاں زیادہ ہوں تو مرنے کے بعد کسی اور جون میں ڈال کر دنیا میں بھیج دیتا ہے- اس طرح ہندو مذہب نے اصلاح نفس کو ناممکن بنا کر انسان کو تناسخ کے چکر میں ڈال دیا تھا- یہود اصلاح نفس کے سرے سے ہی منکر تھے- کیونکہ ان کے نزدیک نبی بھی گناہگار ہو سکتا تھا اور ہوتا ہے- وہ مزے لے لے کر نبیوں کے گناہ گناتے تھے اور اس میں کوئی نقص نہ سمجھتے تھے- ان کے نزدیک نجات کی صورت صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰٰ کسی کو اپنا پیارا قرار دے کر اس سے نجات کو وابستہ کر دے- گویا وہ نجات کو ایک تقدیری عمل سمجھتے تھے اور اپنی نجات پر اس لئے مطمئن تھے کہ وہ ابراہیم کی اولاد اور موسیٰ کی امت ہیں، نہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو اصلاح نفس کے ذریعہ سے حاصل کر چکے ہیں- مسلمانوں نے بھی ملائکہ اور انبیاء تک کو گناہ میں ملوث کر کے یہود کی نقل میں اس مقصد کو فوت کر دیا تھا- اور یہ بات گھڑ لی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب مسلمانوں کی شفاعت کریں گے- اور سب بخشے جائیں گے اس سے بھی زیادہ غضب یہ ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور بہت سے پیر ایسے بنا رکھے تھے اور وہ پیر ان سے کہتے تھے کہ کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت نہیں- ہم تمہیں خود سیدھے جنت میں پہنچا دیں گے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی غلطی کو ثابت کیا اور نجات کے گر قرآن کریم سے پیش کئے اور ایک کامل اور مکمل اصل اصلاح نفس کے لئے جس پر نجات کا مدار ہے پیش کیا- آپ نے تسلیم کیا کہ ورثہ میں انسان کو عیب اور گناہ کا میلان ملتا ہے جس طرح نیکی کا میلان ملتا ہے- آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ نفسانی پاکیزگی کے لئے پچھلے

Page 226

۱۸۳ حساب کی صفائی بھی نہایت ضروری ہے لیکن آپ نے انبیاء کے متعلق گناہ کی نسبت کو سختی سے رد کیا اور اس مسئلہ کو بھی رد کیا کہ انسان باوجود دیدہ و دانستہ شریعت کی مخالفت کرنے کے شفاعت سے حصہ لے سکتا ہے- یہ دونوں مسئلے یہود سے مسلمانوں نے لئے تھے اور اسلامی تعلیم کے مخالف تھے- آپ نے اس خیال کو بھی کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو بدکار بنایا اور کسی کو نیک رد کیا- اور پہلی دو باتوں کو آپ نے اس اصلاح کے ساتھ تسلیم کیا(۱)اس میں کوئی شک نہیں کہ ورثہ سے بھی اچھے اور برے اثر ملتے ہیں- (۲)اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کھانیپینے اور آب و ہوا سے بھی بعض بعض خاص عادات پیدا ہو جاتی ہیں- جیسا کہ مختلف ملکوں کی عادات سے ظاہر ہے- کشمیر کے لوگ بزدل ہوتے ہیں اور پٹھان خونخوار ہوتے ہیں- بنگالی بزدل ہوتے ہیں اور ان کی نسبت پنچابی بہادر ہوتے ہیں- اگر انسان اپنے متعلق پورا پورا اختیار رکھتا تو ہمیشہ یہی کیوں ہوتا کہ بنگالی مارتا نہیں- کشمیری دلیری اور جرات کا کام نہیں کرتا اور پٹھان مرنے مارنے پر تیار رہتا ہے- اس طرح کے قومی عیوب بتاتے ہیں کہ کھانے پینے اور آب و ہوا کا بھی عادات میں دخل ہوتا ہے- پس ان خاص افعال کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں کے سب لوگ اپنی مرضی سے خاص عیب یا خاص خوبیاں اختیار کر لیتے ہیں- (۳)اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تربیت اور عقیدہ کا بھی انسان پر خاص اثر پڑتا رہتا ہے جیسے ہندو گائے کے ذبح کرنے پر جوش میں آ جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ دوسرے کو مارنے پر پھانسی دیا جاؤنگا- مگر جب گائے کو ذبح ہوتے دیکھتا ہے تو قتل پر آمادہ ہو جاتا ہے، یہ عقیدہ کا اثر ہے- (۴)اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس وقت انسان کوئی کام کرنے لگتا ہے اس وقت کے حالات کا بھی اس پر خاص اثر پڑتا ہے- ایک استاد روز لڑکوں سے سبق سنتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے مگر ایک دن اس کی بیوی سے لڑائی ہو جائے اور وہ گھر سے غصہ میں بھرا ہوا نکلے تو سبق سننے کے وقت ذراسی غلطی کرنے پر سزا دے دے گا- پس ظاہر ہے کہ موجودہ حالات کا بھی انسان کے اعمال پر اثر پڑتا ہے- غرض بہت سے امور ہیں جو انسان کے اعمال پر اثر ڈالتے ہیں- پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بتایا کہ صرف ورثہ ہی ایک چیز نہیں کہ جو انسان پر تاثیر کرتا ہے- اس کے علاوہ اور اشیاء بھی ہیں اور جب یہ ثابت ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر ورثہ کا گناہ کفارہ سے دور ہو سکتا ہے تو باقی گناہ کس طرح سے دور ہوں گے؟

Page 227

۱۸۴ پھر آپ نے بتایا کہ اصل میں سب اقوام کو یہ دھوکا لگ گیا ہے کہ انسان کی فطرت گناہگار ہے- کسی کو ورثہ کے گناہ کی تھیوری سے کسی کو پرانے کرم کی وجہ سے کسی کو خلقالانسانضعیفا۳۰؎ کی آیت سے کسی کو تقدیر ازلی کے خیال سے یہ وسوسہ پیدا ہو گیا ہے- حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ باوجود ورثہ تربیت وغیرہ کے اثرات کے انسانی فطرت نیکی پر پیدا کی گئی ہے- فطرت میں عیب سے انقباض اور نیکی کی رغبت رکھی گئی ہے- باقی سب رنگ ہوتے جو اوپر چڑھ جاتے ہیں- ثبوت اس کا یہ ہے کہ بدکار لوگ بھی نیکیاں زیادہ کرتے ہیں- ایک آدمی جسے جھوٹا کہا جاتا ہے- اگر وہ کئی جھوٹ دن میں بولے گا تو ان سے کہیں زیادہ وہ سچ بولے گا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ سب بدیوں کی جڑھ یہ ہے کہ انسان کے دل میں پاگیزگی کی امید کو نکال دیا گیا ہے- اور اسے خود اس کی نظروں میں گرا دیا گیا ہے- انسان کو ازلی شقی کہہ کہہ کر ایسا ہی بنا دیا گیا ہے- کسی لڑکے کو یونہی جھوٹا کہنے لگ جاؤ کچھ عرصہ کے بعد وہ سچ مچ جھوٹ بولنے لگ جائے گا- آپ نے بتایا کہ انسان کو حقیقتا نیک بنایا گیا ہے بدی صرف زنگ ہے- جس دھات سے وہ بنا ہے وہ نیکی ہے- اسے اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہئے تا کہ اس میں دلیری پیدا ہو اور مایوسی دور ہو- اسے اس کے پاک مبدا کی طرف توجہ دلاؤ- اس طرح وہ خود بخود نیکی کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا- (۲)دوسری دلیل دوسرے مذاہب کی تھیوریوں کے رد میں آپ نے یہ پیش کی کہ گناہ اس فعل کو کہتے ہیں جو دیدہ و دانستہ ہو- جو دیدہ و دانستہ نہ ہو- بلکہ جبر سے ہو وہ اس حد تک کہ جبر ہو گناہ نہیں ہوتا- مثلاً بچہ کا ہاتھ پکڑ کر ماں کے منہ پر تھپڑ مارا جائے تو کیا ماں بچہ کو مارے گی؟ پس فرمایا کہ ورثہ کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- عادت کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- تعلیم و تربیت کا اگر اس پر ایسا اثر ہے کہ طبعی طور پر اس کا گناہ سے بچنا ناممکن ہے تو وہ گناہ نہیں اگر طبعی کمزوریاں ایسی ہیں کہ خواہ وہ کچھ کرے ان سے نکل نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- پس اگر اس حد تک روک ہے کہ انسان اسے دور نہ کر سکے تو گناہ نہیں- اور اگر ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ انسان ان سے بچ سکتا ہے- اور اگر اس سے بچ سکتا ہے تو پھر طبی ذرائع کو چھوڑ کر نئے طریقے جیسے کفارہ یا تناسخ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں- اور جس حد تک انسان مجبور ہے، اسی حد تک انسان کو معذور اور اس کی وجہ سے بے گناہ تسلیم

Page 228

۱۸۵ کرنا ہو گا اور اس حد تک اس کو سزا سے آزاد سمجھنا پڑے گا- پس پھر بھی کسی کفارہ یا تناسخ کی ضرورت نہ ہو گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہہ کر کہ گناہ وہ ہے جو جانبوجھ کر اور اپنے اختیار سے کیا جائے- گناہ کی تھیوری ہی بدل دی ہے اور اس وجہ سے قرآنکریم نے جزائے اعمال کے متعلق مندرجہ ذیل اصول کو مدنظر رکھا ہے- (۱)اول اس نے وزن پر خاص زور دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسانیاعمال کے متعلق یہ لحاظ رکھے گا کہ ان میں کہاں تک جبر یا اختیار کا دخل ہے (۲)دوسرے اس نے اللہ تعالیٰ کے ملک یوم الدین ۳۱؎ہونے پر زور دیا ہے- یعنی اس نے حقیقی جزا سزا کو کسی اور کے سپرد نہیں کیا- اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے- اگر جزا و سزا اوروں کے سپرد ہوتی تو وہ انسانی اعمال کے پیچھے جو جبر کا حصہ ہے اس کا خیال نہ رکھ سکتے اور ان اعمال کے بدلہ میں انسان کو گنہگار قرار دے دیتے جن کے کرنے میں وہ گنہگار نہیں یا پورا گناہ گار نہیں- اور ان اعمال کے بدلہ میں اسے نیک قرار دے دیتے جن کے کرنے سے وہ نیک نہیں ہوتا یا پورا نیک نہیں ہوتا- لطیفہ-: یاد رکھنا چاہئے کہ ملک یوم الدین اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ انسانی اعمال کے پیچھے اس قدر علتیں اور روکیں ہیں کہ ان کو سمجھے بغیر جزا سزا ظلم بن جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے یومالدین کے متعلق اپنے لئے مالکیت کا لفظ پسند فرمایا ہے- کیونکہ مالکیت حقیقی تصرف کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی- ملکیت ہو سکتی ہے- ملک منتخب ہو سکتا ہے مگر مالک نہیں- اور اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مالکم یوم الدین بھی نہیں فرمایا- بلکہ مالک یوم الدین فرما کر اس امر پر زور دیا ہے کہ اس جگہ تمہاری مالکیت پر اس قدر زور دینا مقصود نہیں جس قدر کہ اس دن کی مالکیت پر زور دینا مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ اس وقت کا وہ مالک ہو گا- اور کہ اس وقت کا وہ مالک ہے- کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے گی- ایک اور آیت بھی اس مضمون کی تائید کرنے والی ہے اور وہ یہ ہے ولو یواخذاللہ الناس بماکسبوا ماترک علی ظھر ھا من دابہ۳۲؎ یعنی اگر خدا تعالیٰ انسان کو اس کے اعمال پر سزا دینے لگے تو کوئی جانور بھی زمین پر نہ چھوڑے- یعنی انسان سے بہت سے فعل ایسے صادر ہوتے رہتے ہیں جو خلاف شریعت ہوتے ہیں یا جن میں

Page 229

۱۸۶ نفسانیت وغیرہ کا غلبہ ہوتا ہے- مگر خدا تعالیٰ ہر عمل کی سزا نہیں دیتا بلکہ صرف ان اعمال کی سزا دیتا ہے جن میں انسان کا اختیار ہوتا ہے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں ماترک علی ظھرھا من دابہ فرمایا ہے- یعنی اگر انسان کے تمام اعمال پر سزا دیتا تو دنیا پر کوئی جانور بھی نہ چھوڑتا- اس پر طبعا سوال ہوتا ہے کہ جزا انسانوں کے اعمال کی دیتا تو جانور کیوں تباہ ہو جاتے؟ انسانوں کے مقدروں پر دواب کو کیوں سزا ملتی - مفسرین اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں- کہ چونکہ جانور انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کئے گئے ہیں- اس لئے جب انسان تباہ کر دیئے جاتے تو جانور بھی تباہ کر دیئے جاتے- یہ جواب بھی گو صحیح ہو مگر میرے نزدیک اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے- کہ انسان کے اعمال کا کچھ حصہ اسی طرح جبری ہوتا ہے جس طرح حیوانوں گائے بھینسوں کا ہوتا ہے- پس اگر انسان کے سارے اعمال کی سزا دی جائے تو لازماً گائے بیلوں وغیرھما کو بھی سزا دینی ہوتی اور سب حیوانات کو تباہ کر دیا جاتا- مگر ہم ایسا نہیں کرتے- اور جانوروں کو ان کے اعمال کا اس وجہ سے کہ وہ اختیاری نہیں ہوتے سزا نہیں دیتے- اسی طرح ہم انسان کے سب اعمال کی بھی سزا نہیں دیتے، صرف ان اعمال کی سزا دیتے ہیں جو اختیاری ہوتے ہیں- اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جس حد تک انسان پر جبر ہوتا ہے اس کا کیا علاج ہے؟ یا وہ بےعلاج ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ اس کا بھی علاج ہے اور وہ یہ کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے خوف اور محبت کے جذبات بہ شدت پیدا کئے ہیں- ان کے ذریعہ سے وہ اپنی مجبوریوں پر بھی غالب آ جاتا ہے- مثلاً بھیڑیئے میں کاٹنے کا مادہ ہے، مگر محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے بچے کو نہ کاٹے- گویا محبت اس کے کاٹنے کے جذبہ پر غالب آ جاتی ہے- یا جہاں آگ جل رہی ہو وہاں چیتا حملہ نہیں کرتا کیونکہ اسے اپنی جان کا خوف ہوتا ہے- چیتے کا طبعی تقاضا ہے کہ حملہ کرے مگر خوف اس کے اس تقاضا پر غالب آ جاتا ہے- اسی طرح اگر انسان کی محبت اور خوف کے جذبات کو ابھار دیا جائے تو وہ ان بدتاثیرات پر جو اس کے اعمال پر تصرف کر رہی ہوتی ہیں، غالب آ جاتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا کئے ہیں- اور وہ وقتا فوقتا دنیا میں اپنے مامور بھیجتا رہتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اپنی قدرت اور اپنے جلال اور اپنے فضل اور اپنی رحمت کی شان دکھاتا رہتا ہے- تا کہ لوگوں میں کامل محبت اور کامل خوف پیدا کیا جائے- اس طرح جو

Page 230

۱۸۷ لوگ محبت کا جذبہ زیادہ رکھتے ہیں وہ ان نشانات اور تجلیات سے محبت میں ترقی کر کے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور پاک ہو جاتے ہیں- اور جو لوگ خوف کے جذبہ سے زیادہ موافقت رکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قہری تجلیات سے متاثر ہو کر خوف کی وجہ سے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور اس ذریعہ سے بیرونی اثرات جو ایک رنگ کا جبر کر رہے تھے، ان سے انسان محفوظ کر دیا جاتا ہے اور اصلاح نفس میں اسے مدد مل جاتی ہے- نیکی اور بدی کی تعریف اس جگہ طبعا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیکی بدی کیا چیز ہیں- اور اصلاح نفس کس چیز کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے مختلف طرح دیا ہے(۱)بعض نے کہا ہے کہ جو چیز بری معلوم ہو وہ بری ہے اور جو اچھی معلوم ہو وہ اچھی ہے- یہ جواب چونکہ انسان کے خیال سے تعلق رکھتا ہے- اس کے ماتحت ہمیں کہنا پڑے گا کہ ایک ہندو جو بت پرستی کو اچھا سمجھتا ہے، اگر وہ بت پرستی کرے تو اس کا یہ فعل اچھا سمجھا جائے گا- لیکن اگر یہی فعل ایک مسلمان کرے تو برا سمجھا جائے گا- (۲)بعض نے کہا ہے کہ جو بات بحیثیت مجموعی اس شخص کے لئے یا دنیا کے لئے اچھی ہو وہ اچھی ہے اور جو اس لحاظ سے بری ہو، وہ بری ہے- پہلی رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر کوئی قتل کو اچھا سمجھ کر کسی کو قتل کرے تو کیا اس کایہ فعل نیکی ہوگا؟ یا کوئی شخص زنا کرتا ہے اور اسے جائز سمجھتا ہے تو کیا یہ اس کے لئے نیکی ہو جائے گا؟ دوسری رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو چیز بحیثیت مجموعی اچھی ہو یا بری ہو، وہ نیکی یا بدی ہوگی- اس حیثیت مجموعی کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا؟ انسان تو اپنے گردوپیش کی حالت کو بھی پوری طرح نہیں سمجھتا- وہ بحیثیت مجموعی کا پتہ کس طرح لگائے گا؟ اور جس چیز کا علم ہی انسان کو نہیں ہو سکتا اس سے وہ فائدہ کس طرح اٹھا سکتا ہے؟ (۳)تیسری رائے یہ ہے کہ جس بات سے فطرت انسانی انقباض کرے، وہ برائی ہے اور جس بات کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- ساری قومیں جھوٹ سے نفرت کرتی ہیں یہ برائی ہے- اور ساری قومیں صدقہ اور خیرات سے رغبت رکھتی ہیں یہ نیکی ہے- مگر اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ انسانی رغبت یا نفرت کا تو عادات سے بھی تعلق ہوتا ہے- ایک ہندو گائے کے ذبح کرنے سے سخت نفرت کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور مسلمان اس فعل کی طرف

Page 231

۱۸۸ رغبت رکھتا ہے- پس اس اصل کے ماتحت نیکی اور بدی کا فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ (۴)چوتھا خیال یہ ہے کہ جس امر سے شریعت روکے وہ بدی ہے اور جس کی اجازت دے وہ نیکی ہے- اس خیال پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو معلوم ہوا کہ شریعت بدی سے روکتی نہیں بلکہ بدی پیدا کرتی ہے- کیونکہ اگر بدی کا الگ وجود کوئی نہیں شریعت کے روکنے کی وجہ سے وہ بدی بنی ہے تو گویا شریعت اس لئے نہیں آتی کہ بدی سے روکے بلکہ چونکہ اس نے بعض افعال سے روکا ہے اس لئے وہ بدی بن گئے- پس گویا بدی کا دروازہ شریعت نے کھولا ہے- مسیحی مذہب کا یہی نقطہ نگاہ ہے اور اسی وجہ سے اس نے شریعت کو لعنت قرار دیا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ نیکی اور بدی کے متعلق لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان سب باتوں کو تسلیم کیا ہے اور سب کو رد بھی کیا ہے- گویا ان سب خیالات میں صداقت کا ایک ایک حصہ بیان ہوا ہے- آپ کی تعلیم پر غور کر کے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ یہ خیال بھی درست ہے کہ نیکی اور بدی کا بہت کچھ تعلق نیت کے ساتھ بھی ہے- مگر صرف نیت پر ہی نیکی اور بدی کا انحصار نہیں ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص جو کسی اچھے فعل کو خلاف شریعت سمجھتا ہے مگر کر لیتا ہے تو خواہ وہ فعل اچھا ہو پھر بھی گناہگار ہوگا- کیونکہ اس نے اسے گناہ سمجھ کر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت پر آمادہ ہو گیا ہے- اسی طرح مثلاً ایک برے کام کو انسان اچھا سمجھ لیتا ہے- تو بعض اوقات وہ بدی کا مرتکب نہیں قرار دیا جاتا- مثلاً غلطی سے اپنے ایک دوست کو ایسا کھانا کھلا دے جو اس کے لئے مضر ہو تو گو یہ فعل برا ہو مگر اس کی طرف بدی نہیں بلکہ نیکی ہی منسوب ہوگی کہ اس نے دوسرے کے فائدہ کو ہی مدنظر رکھ کر وہ فعل کیا تھا- دوسری تعریف بھی ایک حد تک درست ہے کیونکہ نیکیاں یا بدیاں اپنے اس نتیجہ کے مطابق نیکیاں یا بدیاں بنتی ہیں جو بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتا ہے مگر یہ تعریف ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی- کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس دنیا کے فوائد یا نقصانات کو بھی انسان پوری طرح نہیں سمجھ سکتا- بعض کاموں کے نتائج یا بعض حصے نتائج کے اگلی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اندازہ کرنا انسان کیلئے ناممکن ہے- پس اس تعریف کی مدد سے ہم خود کسی کام کو نیک اور کسی کام کو بد نہیں قرار دے سکتے-

Page 232

۱۸۹ تیسری تعریف کہ جس سے انسانی فطرت انقباض کرے وہ برائی ہے اور جس کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- یہ بھی صحیح ہے لیکن فطرت انسانی دوسرے اثرات یعنی عادات وغیرہ کے ماتحت کبھی خراب بھی ہو جاتی ہے- پس دقت یہ ہے کہ فطرت کا صحیح میلان کس طرح معلوم ہو اور جب تک صحیح میلان فطرت کا معلوم نہ ہو سکے- اس تعریف سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا- چوتھی تعریف کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے اور جس کا حکم دے وہ نیکی ہے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اگر شریعت نے حکم یا نہی کو کسی حکمت پر مبنی کرنا ہے تو اس حکم یا نہی کو اسی حکمت کی طرف منسوب کرنا چاہئے- اور یوں کہنا چاہئے کہ فلاں سبب جس میں پایا جائے وہ بدی ہے- اور فلاں سبب پایا جائے تو وہ نیکی ہے- اور اگر شریعت نے بلا کسی حکمت کے بعض امور کا حکم دینا ہے اور بعض سے روکنا ہے تو شریعت کا یہ فعل لغو اور عبث ہو جاتا ہے- پس یہ سب تعریفیں نامکمل ہیں اور صداقت ان کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیکی بدی کی یہ تعریف کی ہے کہ حسن ازلی اور حسناکمل یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کی موافقت پیدا کرنا نیکی ہے- اور اس کی مخالفت یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کوئی کام کرنا برائی ہے- اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کا اتفاق ہے- خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے یعنی ظلی طور پر اپنی صفات کی چادر اسے پہنائی ہے اور اپنی صفات کا مظہر بننے کی اسے طاقت دی ہے اور اس غرض سے اسے پیدا کیا ہے- گویا انسان تصویر ہے خدا کی اور خدا تعالیٰ اصل ہے- اب یہ امر ظاہر ہے تصویر ¶کا حسن یہی ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو- اور اس کا عیب یہ ہے کہ اصل کے خلاف ہو- پس انسان جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اور جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا تعالیٰ کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے- کیونکہ اس طرح گویا وہ تصویر کو بگاڑ رہا ہوتا ہے- جس کے بنانے کے لئے وہ بنایا گیا ہے- اس مناسبت کی وجہ سے جو انسان اور خدا میں ہے اصل منبع اور مبدا خدا ہے- پس جب انسان درحقیقت ایک تصویر ہے تو لازماً اصل کی مطابقت حسن ہے اور اس کی مخالفت عیب یا دوسرے لفظوں میں مطابقت نیکی ہے اور مخالفت بدی- اب چونکہ انسان کو مخفی طاقتوں کے ساتھ جو محدود دائرہ میں خدا تعالیٰ کی صفات سے مشابہ ہیں پیدا کیا گیا ہے- اس لئے فطرتاً اسے خدا تعالیٰ

Page 233

۱۹۰ کی صفات کے مطابق اعمال سے مناسبت اور مخالف اعمال سے نفرت ہونی چاہئے- پس فطری انقباض اور رغبت نیکی بدی کا پتہ دینے والے ہونگے- اسی طرح اصل کے خلاف چلنے سے نقصان پہنچتا ہے اور مطابق چلنے سے حسن پیدا ہوتا ہے اس لئے لازماً نیکی کا نتیجہ نیک اور لازماً بدیوں کے نتائج بد نکلتے ہیں- تیسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ بالارادہ ہستی ہے اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ بالارادہ کام کرے- پس گناہ اور نیکی ایک حد تک ارادہ سے بھی وابستہ ہو جائیں گے- لیکن باوجود ان تینوں باتوں کو تسلیم کر لینے کے اس امر کے تسلیم کرنے میں بھی کوئی عذر نہیں ہو سکتا کہ انسان بیرونی اثرات اور عادات کی وجہ سے اپنی عقل اور فطرت کے صحیحاستعمال سے بسا اوقات معذور ہو جاتا ہے پس ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریریہدایات بھی ملیں کہ اس اس عمل سے حسن ازلی کے مطابقت پیدا ہوگی اور اس اس طرح اس کی مخالفت ہوگی اور اسی کا نام شریعت ہے- پس اس لحاظ سے شریعت کے مطابق کام کرنے کا نام نیکی ہوا- اور اس کے خلاف کام کرنے کا نام بدی- پس صحیح تعریف نیکی اور بدی کی وہی ہے جو اوپر کی چاروں باتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے- اور جس کی طرف حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی تعلیم اشارہ کرتی ہے- اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان تیرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کئے جو یہ ہیں-: (۱) تبلیغ اسلام- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کو جو مدتوں سے بند ہو چکا تھا- جاری کیا آپ کی بعثت سے پہلے مسلمان تبلیغ اسلام کے کام سے بالکل غافل ہو چکے تھے- اپنے اردگرد کے لوگوں میں کبھی کوئی مسلمان تبلیغ کر لیتا تو کر لیتا لیکن تبلیغ کو باقاعدہ کام کے طور پر کرنا مسلمانوں کے ذہن میں ہی نہ تھا- اور مسیحی ممالک میں تبلیغ کو تو بالکل ناممکن خیال کیا جاتا تھا- آپ نے ۱۸۷۰ء کے قریب سے اس کام کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے خطوط کے ذریعہ سے اور پھر ایک اشتہار کے ذریعہ سے یورپ کے لوگوں کو اسلام کے مقابلہ کی دعوت دی اور بتایا کہ اسلام اپنے محاسن میں تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے، اگر کسی مذہب میں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کرے- مسٹر الیگزنڈروب مشہور امریکن

Page 234

۱۹۱ مسلم مشنری آپ ہی کی تحریرات سے مسلمان ہوئے اور ہندوستان آپ ہی کی ملاقات کو آئے تھے کہ دوسرے مسلمانوں نے انہیں ورغلا دیا کہ مرزا صاحب کے ملنے سے باقی مسلمان ناراض ہو جائیں گے اور آپ کے کام میں مدد نہ دیں گے امریکہ واپس جا کر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا- اور مرتے دم تک اپنے اس فعل پر مختلف خطوط کے ذریعہ ندامت کا اظہار کرتے رہے- اور آج دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کیلئے آپ کی جماعت کی طرف سے مشن کام کر رہے ہیں- اور تعجب ہے کہ آج ساٹھ سال کے بعد صرف آپ ہی کی جماعت اس کام کو کر رہی ہے- (۲)دوسرے آپ نے جہاد کی صحیح تعلیم دی- لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ آپ نے جہاد سے روکا ہے- حالانکہ آپ نے جہاد سے کبھی بھی نہیں روکا بلکہ اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے حقیقت جہاد کو بھلا دیا ہے اور وہ صرف تلوار چلانے کا نام جہاد سمجھتے رہے ہیں- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا- گو دنیا میں اسلام کی حکومت ہو گئی، مگر دلوں میں کفر باقی رہا اور ان ملکوں کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی جن کو اسلامی حکومتوں سے جنگ کا موقع نہ پیش آیا- اور اس وجہ سے وہاں کفار کی حکومت رہی- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفر اپنی جگہ پر پھر طاقت پکڑتا گیا اور بعض قوموں کی سیاسی برتری کے ساتھ ہی اسلام کو نقصان پہنچنے لگا- اگر مسلمان جہاد کی یہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اس فعل کا نام ہے جسے انسان نیکی اور تقویٰ کے قیام کیلئے کرتا ہے اور وہ جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی ہوتا ہے اور ہر ایک قسم کے جہاد کا الگ الگ موقع ہے تو آج کا روز بد نہ دیکھنا پڑتا- اگر اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقع پر جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے- بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا- دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں اور تبلیغ کا جہاد شروع کرنے کا زیادہ موقع ہے- اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام اسلامی ممالک میں پھیل جاتا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تلوار کا جہاد منع ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور

Page 235

۱۹۲ سے اس جہاد کو شروع کر دیا ہے اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی ہے- اب بھی اگر مسلمان اس جہاد کو شروع کر دیں تو کامیاب ہو جائیں گے- اگر مسلمان سمجھیں تو آپ کا یہ فعل ایک زبردست خدمت اسلامی ہے اور اس کے ذریعہ سے آپ نے نہ صرف آئندہ کے لئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گناہ سے بھی بچا لیا ہے کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اسے فرض سمجھ کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے تھے- اور اس طرح اس احساس گناہ کی وجہ سے گناہگار بن رہے تھے- اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے ان کے دلوں پر سے احساس گناہ کا زنگ اترتا جائے گا- اور وہ محسوس کریں گے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے غداری نہیں کر رہے تھے- صرف نقص یہ تھا کہ صحیح جہاد کا انہیں علم نہ تھا- (۳)تیسرا کام اسلام کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا ہے کہ آپ نے جدید علم کلام پیدا کیا ہے- آپ کی بعثت سے پہلے مذاہب کی جنگ گوریلا وار سے مشابہ تھی- ہر اک شخص اٹھ کر کسی ایک بات کو لیکر اعتراض شروع کر دیتا اور اپنے خصم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا تھا- آپ نے اس نقص کو دور کیا اور اعلان کیا کہ مذاہب کی شان کے خلاف ہے کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے کام لیں- نہ کسی کا نقص نکالنے سے مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے- اور نہ صرف ایک مسئلہ پر بحث کر کے کسی مذہب کی حقیقت ظاہر ہو سکتی ہے- مذاہب کی پرکھ مندرجہ ذیل اصول پر ہونی چاہئے- (الف ) مشاہدہ پر- یعنی ہر مذہب جس غرض کے لئے کھڑا ہے اس کا ثبوت دے- یعنی یہ ثابت کرے کہ اس پر چل کر وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے- جس مقصد کو پورا کرنا اس مذہب کا کام ہے- مثلاً اگر خدا کا قرب اس مذہب کی غرض ہے اور ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی ہے تو اسے چاہئے کہ ثابت کرے کہ اس مذہب پر چلنے والوں کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے- کیونکہ اگر وہ یہ ثابت نہیں کر سکتا- تو اس کے قیام کی غرض ہی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسم بے روح ہو جاتا ہے- چند اخلاقی یا تمدنی تعلیمیں یا فلسفیانہ اصول کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں کیونکہ ان باتوں کو تو انسان دوسرے مذاہب سے چرا کر یا خود غوروفکر کر کے بلا اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہو پیش کر سکتا ہے- مذہب کا

Page 236

۱۹۳ اصل ثبوت تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جس مقصد کے لئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب، وہ انسان کو حاصل ہو جائے- اور اسی دنیا میں حاصل ہو جائے کیونکہ اگر کوئی مذہب یہ کہے کہ وہ مرنے کے بعد نجات دلائے گا تو اس دعویٰ پر یقین نہیں کیا جا سکتا اور اس کی صداقت کو پرکھا نہیں جا سکتا- اور علاوہازیں اس دعویٰ میں سب مذاہب شریک ہیں- کوئی مذہب نہیں جو کہتا ہو کہ میرے ذریعہ سے نجات نہیں مل سکتی- گو نجات کے مفہوم میں ان کو اختلاف ہو- پس بعد مرنے کے نجات دلانے کا دعویٰ نہ قابل قبول ہے اور نہ مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے- جو چیز قابل قبول ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب مشاہدہ کے ذریعہ ثابت کر دے کہ اس نے انسانوں کی ایک جماعت کو جو اس پر چلتی تھی، خدا سے ملا دیا- اور اس کا قرب حاصل کرا دیا یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتا- اور پھر ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ اس دلیل کے ساتھ تمام فضول مذہبی بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے- اور نیز سوائے اسلام کے کوئی مذہب میدان میں باقی نہیں رہتا- کیونکہ یہ دعویٰ صرف اسلام کا ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح فیوض ظاہر کرتا ہے جس طرح کہ پہلے زمانوں میں فیوض ظاہر ہوتے تھے اور لوگوں کو خدا سے ملا دیتا ہے- اور خدا تعالیٰ کے قرب کے آثار کا مشاہدہ کرا دیتا ہے- چنانچہ آپ کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر مذاہب کے پیروؤں کو آپ کا اور آپ کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا اور وہ ہر میدان میں شکست کھا کر بھاگنے لگے- (ب) دوسرا اصل مذہبی مباحثات کے متعلق آپ نے یہ پیش کیا کہ دعویٰ اور دلیل دونوں الہامی کتاب میں موجود ہیں- آپ نے مذہبی دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ اس زمانہ میں یہ ایک عجیب رواج ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر کے اس پر بحث کرنے لگ جاتا ہے- اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی فتح اس کے مذہب کی فتح ہوتی ہے اور نہ اس کی شکست اس کے مذہب کی شکست ہوتی ہے اور اس طرح لوگ فضول وقت مذہبی بحثوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں، فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا- پس چاہئے کہ مذہبی بحثوں کے وقت اس امر کا التزام رکھا جائے کہ جس دعویٰ کو پیش کیا جائے اس کے متعلق پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ اس مذہب کی آسمانی کتاب میں موجود ہے اور پھر دلیل بھی اسی کتاب میں سے دی جائے کیونکہ خدا کا کلام بے دلیل نہیں ہو سکتا- ہاں مزید وضاحت کے لئے تائیدی دلائل دیئے جا سکتے ہیں- آپ کے اس اصل نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا- اور وہ

Page 237

۱۹۴ کندہناتراش ۳۳؎ واعظ جو یونہی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ علوم جدیدہ کے فریفتہ جو اپنی قوم کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے جدید علوم کو اپنا مذہبی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کے عادی تھے دونوں سخت گھبرا گئے- آریہ جو روح و مادہ کے انادی ہونے کے متعلق خاص فخر کیا کرتا تھا اس سوال پر آکر بالکل ساکت ہو گیا- کیونکہ وید میں دلیل تو الگ رہی اس مسئلہ کا بھی کہیں ذکر نہیں- آج تک آریہ سماج کے علماء مشغول ہیں مگر وید کی کوئی شرتی نہیں نکال سکے جس سے ان کا یہ مطلب حل ہو- یہی حال دوسرے مذاہب کا ہوا- وہ اس اصل پر اپنے مذاہب کو سچا ثابت نہ کر سکے- لیکن اسلام کا ہر ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنکریم سے نکال کر دکھا دیا اور ہر دعویٰ کے دلائل بھی اسی میں سے نکال کر بتا دیئے- اس حربہ کو آج تک احمدی جماعت کے مبلغ کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور ہر میدان سے کامیاب آتے ہیں- (ج) تیسرا اصل آپ نے یہ پیش کیا کہ ہر مذہب جو عالمگیر ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اس کے لئے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ ثابت کر دے کہ اس کے اندر اچھی تعلیم ہے بلکہ عالمگیر مذہب کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کی تعلیم ہر فطرت کو تسلی دینے والی اور ضرورت حقہ کو پورا کرنے والی ہے- اگر خالی اچھی تعلیم کسی مذہب کی صداقت کا ثبوت سمجھی جائے تو بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کہہ دے کہ میں ایک جدید مذہب لایا ہوں اور میری تعلیم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو، ظلم نہ کرو، غداری نہ کرو- اب یہ تعلیم تو یقیناً اچھی ہے لیکن ہر ضرورت کو پورا کرنے والی نہیں- اور اس وجہ سے باوجود اچھی ہونے کے مذہب کی صداقت کا ثبوت نہیں ہو سکتی- مذاہب موجودہ میں سے مسیحیت کی مثال لی جا سکتی ہے مسیحیوں کے نزدیک مسیح کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی وہ تعلیم ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تیرے ایک گال پر کوئی تھپڑے مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے پھیر دے- اب بظاہر یہ تعلیم بڑی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو فطرت صحیحہ کے مخالف ہے- کیونکہ فطرت نیکی کا قیام چاہتی ہے اور اس تعلیم سے بدی بڑھتی ہے- اسی طرح ہر ضرورت کو بھی یہ نہیں پورا کرتی- کیونکہ انسان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور اس ضرورت کا اس میں علاج نہیں- اس اصل کے ماتحت بھی دشمنان اسلام کو ایک بہت بڑی شکست نصیب ہوئی اور اسلام کو بہت سے میدانوں میں غلبہ حاصل ہوا-

Page 238

۱۹۵ (۴)چوتھا کام اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے آپ نے یہ کیا کہ سکھ جو ہندوستان کی پرجوش اور کام کرنے والی قوم ہے- اسے اسلام کے قریب کر دیا- آپ نے تاریخ سے اور سکھوں کی مذہبی کتب سے ثابت کر کے دکھا دیا کہ باوا نانک علیہ الرحمتہ سکھ مذہب کے بانی درحقیقت مسلمان تھے- اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے- اور نمازیں پڑھتے تھے اور حج کو بھی گئے تھے اور مسلمان پیروں سے عموماً اور باوا فرید علیہ الرحمتہ سے خصوصاً بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے- یہ تحقیق ایسی زبردست اور یقینی ہے کہ مذہبی طور پر اس نے سکھوں کے دلوں میں بہت ہیجان پیدا کر دیا ہے اور اگر مسلمان اس تحقیق کی عظمت کو سمجھ کر آپ کا ہاتھ بٹاتے تو لاکھوں سکھ اس وقت تک مسلمان ہو جاتے- مگر افسوس کہ مسلمانوں نے الٹی مخالفت کی اور اس کے عظیم الشان اثرات کے راستہ میں روکیں ڈالیں- مگر پھر بھی تسلی سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک طبقہ کے اندر اس تحقیق کا گہرا اثر نمایاں ہے- اور جلد یا بدیر یہ تحریک عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوگی- (۵)پانچواں کام آپ نے اسلام کی ترقی کے لئے یہ کیا کہ عربی کو امالالسنہ ثابت کیا- اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے- مسلمانوں نے ابھی تک اس بات کی عظمت کو سمجھا نہیں- بلکہ ابھی تک وہ اس کے برخلاف عربی کو مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تجویز میں مسلمانوں کے اتحادکامل کے لئے بنیاد رکھی گئی ہے- امید ہے کہ کچھ عرصہ تک خود بخود وہ اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی مذہبی اہمیت کے ساتھ اس کی سیاسی اور تمدنی عظمت کو بھی محسوس کریںگے- (۶)چھٹا کام اسلام کی ترقی کے لئے آپ نے یہ کیا ہے کہ ایک عظیم الشان ذخیرہ اسلام کے تائیدی دلائل کا جمع کر دیا ہے- اور آپ کی کتب کی مدد سے اب ہر مذہب اور ہر ملت کے لوگوں کا اور علوم جدیدہ کے غلط استعمال سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں- (۷)ساتواں کام آپ نے یہ کیا ہے کہ امید جو مسلمان کے دلوں سے بالکل مفقود ہوگئی تھی اسے پھر پیدا کر دیا ہے- آپ کے ظہور سے پہلے مسلمان بالکل نا امید ہو چکے تھے- اور سمجھے بیٹھے تھے کہ اسلام دب گیا آپ نے آکر بہزور اعلان کیا کہ اسلام کو میرے ذریعہ ترقی ہوگی.

Page 239

۱۹۶ اور اسلام پہلے دلائل کے ذریعہ سے دنیا پر غالب ہوگا- اور آخر تبلیغ کے ذریعہ سے طاقتور قومیں اس میں شامل ہو کر اس کی سیاسی طاقت کو بڑھا دیں گی- اس طرح آپ نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو باندھا- جھکی ہوئی کمر کو سہارا دیا- بیٹھے ہوئے حوصلوں کو کھڑا کیا- اور مردہ امنگوں کو زندہ کیا- اور اس میں کیا شک ہے کہ جب امید اور زبردست امید پیدا ہو جائے تو سب کچھ کرا لیتی ہے- امید ہی سے قربانی و ایثار پیدا ہوتے ہیں- اور چونکہ مسلمانوں میں امید نہ تھی، قربانی بھی نہ رہی تھی- احمدیوں میں امید ہے، اس لئے قربانی بھی ہے- پھر قربانی بھی مرنے مارنے کی قربانی نہیں بلکہ سامان بقا کو پورا کرنے والی قربانی- جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر ذرہ کو اس طرح ملایا جائے کہ اس سے ترقی کے سامان پیدا ہوں- امن عامہ کا قیام چودھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے امن عامہ کو قائم کیا ہے اس غرض کیلئے آپ نے چند تدبیریں کی ہیں جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور ہوگا- (۱)دنیا میں سب سے بڑی وجہ فساد کی یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کو برابھلا کہتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں- حالانکہ عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے وہ کسی ایک قوم کو ہدایت کیلئے چن لے گا اور باقی سب کو چھوڑ دے گا- مگر عقل سلیم خواہ کچھ کہے دنیا میں یہ خیال پھیلا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے سخت فسادات پیدا ہو رہے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ ہر قوم میں نبی گذرے ہیں- اور اس طرح ایک عظیم الشان وجہ فساد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سے پہلے بھی بعض بزرگوں نے بعض قوموں کے بزرگوں کو یا بعض قوموں نے بعض غیر قومی بزرگوں کو خدا رسیدہ تسلیم کیا ہوا تھا جیسے مثلاً ایک دہلوی بزرگ نے فرمایا کہ کرشن نبی تھے- اسی طرح توریت میں ایوب علیہ السلام کو نبی کر کے پیش کیا گیا ہے- حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اور رنگ میں پیش کیا ہے- آپ کے دعویٰ سے پہلے مختلف اقوام کے ہدایت کے متعلق مختلف خیالات تھے-(۱)بعض کا خیال تھا کہ باقی سب لوگ جہنمی ہیں صرف ان کی قوم نجات یافتہ ہے- یہود اور زردشتی اس خیال کے تھے (۲)بعض کا خیال تھا کہ ان کے بانی کی آمد سے پہلے تو دنیا کی ہدایت کا دروازہ بند تھا مگر اس

Page 240

۱۹۷ کے آنے کے بعد کھلا ہے- مسیحی لوگ اس خیال کے پابند ہیں- ان کے نزدیک ہدایت عام حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوئی ہے- (۳)بعض کا خیال تھا کہ ہدایت قومی تو ان کی قوم سے ہی مخصوص ہے لیکن خاص خاص افراد دوسری اقوام کے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ خاص زور لگائیں- سناتن دھرمی لوگوں کا یہی عقیدہ ہے- وہ اصل اور سچا مذہب تو اپنا تسلیم کرتے ہیں- مگر ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور مذہب کا خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کر کے مجاہدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم کرتا ہے گویا اسے ایک ایسا راستہ مل جاتا ہے جو گو سیدھا تو منزل مقصود تک نہیں پہنچتا لیکن چکر کھا کر پہنچ جاتا ہے- مسلمانوں کے خیالات بھی باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو حل کر دیا تھا، غیرمعین تھے- وہ یہ خیال کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ذریعہ دنیا کی ہدایت ہوتی رہی ہے- حالانکہ بنی اسرائیل کے نبی صرف اپنی قوم کی طرف تھے- نیز وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں- دوسری طرف بنی اسرائیل کے سوا باقی اقوام کو غیر کتابی سمجھتے تھے اور ان کے نبیوں کو جھوٹا قرار دیتے تھے- اس قسم کے خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ مختلف اقوام میں صلح ناممکن ہو رہی تھی- اور ضد میں آکر سب لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ صرف ہم ہی نجات پائیں گے، ہمارے سوا اور کوئی نہیں نجات پا سکتا، ہمارا ہی مذہب اصل مذہب ہے- گویا ہر قوم خدا تعالیٰ کی اکلوتی بیٹی بننا اور اسی حیثیت میں رہنا چاہتی تھی- اور دوسری قوموں سے اگر کسی رعایت کے لئے تیار تھی تو صرف اس قدر کہ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو کر کچھ حصہ خدا کے فضل کا پا سکتے ہو- اور دوسری اقوام کی قدیم قومی روایات اور احساسات کو مٹا کر ایک نئی راہ پر لانا چاہتی تھی- یعنی یہ امید رکھتی تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو جھوٹا اور فریبی قرار دیتے ہوئے اور اپنی ساری پرانی تاریخ کا ورق پھاڑتے ہوئے ان میں آکر مل جائے اور نئے سرے سے ایک پنیری کی طرح جو نئی زمین میں لگائی جاتی ہے بڑھنا شروع کرے- چونکہ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے کرنے کے لئے انسان بہت ہی کم تیار ہو سکتا ہے- خصوصاً ایسا انسان جس کے آباء شاندار کام کر چکے ہوں اور علوم کے حامل رہ چکے ہوں اس لئے قومی جنگ جاری تھی اور صلح کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی-

Page 241

۱۹۸ بعض لوگ دوسروں کے بزرگوں کو بھی تسلیم کر لیتے تھے لیکن ایک مصلح یا معلم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک بزرگ یا پہلوان کی صورت میں جس نے اپنے زور سے ترقی کی- اور وہ اسی کی ذات تک محدود رہی آگے اس کے ذریعہ سے دنیا پر ہدایت قائم نہیں ہوئی- اور اس کا نور دنیا میں پھیلا نہیں- لوگوں نے اس کی دعاؤں سے یا اس کے معجزات و کرامات سے فائدہ اٹھایا لیکن وہ کوئی تعلیم اور اصلاحی سکیم لے کر نہیں آیا جیسے کہ ایوبؑ اور کرشنؑ کی نسبت یہود اور بعض مسلمانوں کا خیال تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر اس نقطہ نگاہ ہی کو بالکل بدل دیا- آپ نے بعض کی شخصیت کو دیکھ کر بزرگ تسلیم نہیں کیا- اور حضرت مظہر جان جاناں کی طرح یہ نہیں کہا کہ کرشن جھوٹا نہیں معلوم ہوتا وہ ضرور خدا کا بزرگ ہوگا- یا جیسے سناتنی کہتے ہیں کہ محمد) صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک بزرگ تھے مگر ہمارا ہی مذہب سچا ہے- بلکہ آپ نے اس مسئلہ پر اصولی طور پر نگاہ ڈالی-(۱)آپ نے سورج اور اس کی شعاعوں پانیوں اور ان کے اثرات، ہوا اور اس کی تاثیرات کو دیکھا اور کہا جس خدا نے سب انسانوں کو ان چیزوں میں مشترک کیا ہے وہ ہدایت میں فرق نہیں کر سکتا- اور اصولاً سب قوموں میں انبیاء کا ہونا لازمی قرار دیا- پس آپ نے مثلاً حضرت کرشن کو اس لئے نبی تسلیم نہ کیا کہ وہ ایک بزرگ ہستی تھے جنہوں نے ایک تاریکی میں پڑے ہوئے ملک میں سے استثنائی طور پر انفرادی جدوجہد کے ساتھ خدا کا قرب حاصل کر لیا، بلکہ اس لئے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا خدا ممکن نہ تھا کہ ہندو قوم کو بھلا دے اور اس کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرے- (۲)دوسرے آپ نے انسان کی فطرت اور اس کی قوتوں کو دیکھا اور بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ جوہر ضائع ہونے والا نہیں، خدا نے اسے ضرور قبول کیا ہوگا- اور اس کو روشن کرنے کے اسباب پیدا کئے ہوں گے- غرض آپ کا نقطہ نگاہ بالکل جداگانہ تھا اور آپ کا فیصلہ چند شاندار ہستیوں سے مرعوب ہونے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور انسانی قابلیت اور پاکیزگی کی بنا پر تھا- اب صلح کا رستہ کھل گیا- کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں اسلام قبول کروں تو مجھے اپنے بزرگوں کو برا سمجھنا پڑے گا- کیونکہ اسلام ان کو بھی بزرگ قرار دیتا ہے- اور اسلام قبول کرنے میں وہ انہی کی تقلید کرے گا- یہی حال زردشتیوں کنفیوشس کے تابعین اور

Page 242

۱۹۹ یہودیوں اور مسیحیوں کا ہوگا- پس ہر مذہب کا انسان اپنے آبائی فخر کو سلامت رکھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور اگر داخل نہ ہو تو صلح میں ضرور شامل ہو سکتاہے- اس اصل کے ذریعہ سے آپ نے بندہ کی خدا تعالیٰ سے بھی صلح کرا دی- کیونکہ پہلے مختلف اقوام کے لوگوں کے دل اس حیرت میں تھے کہ یہ کس طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ میرا خدا نہیں ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا- اور اللہ تعالیٰ کی نسبت ان جذبات محبت کو پیدا نہیں کر سکتے تھے- جو ان کے دل میں پیدا ہونے چاہئیں تھے- مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس زنگ کو بھی دور کرا دیا- اور جہاں اپنی تعلیم کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے درمیان صلح کا راستہ کھولا، وہاں خدا اور بندہ کے درمیان صلح کا بھی راستہ کھولا- (۲)دوسرا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امن عامہ کے قیام کے لئے یہ اختیار کیا کہ آپ نے تجویز پیش کی کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں- دوسرے مذاہب پر اعتراض نہ کریں کیونکہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے سے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں میں بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے- (۳)تیسرا اصل امن عامہ کے قیام کے لئے آپ نے یہ تجویز کیا کہ ملک کی ترقی فساد اور بغاوت کے ذریعہ سے نہ چاہی جائے، بلکہ امن اور صلح کے ساتھ گورنمنٹ سے تعاون کر کے اس کے لئے کوشش کی جائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جب کہ عدم تعاون کا زور ہے لوگ اس اصل کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے- لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعاون سے جس سہولت سے حقوق مل سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں مل سکتے- مگر تعاون سے مراد خوشامد نہیں- خوشامد اور شے ہے اور تعاون اور شے ہے- جسے ہر شخص جو غور و فکر کا مادہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ سکتا ہے- خوشامد اور عہدوں کی لالچ ملک کو تباہ کرتی ہے اور غلامی کو دائمی بناتی ہے مگر تعاون آزادی کی طرف لے جاتا ہے- معاد کے متعلق خیالات کی اصلاح پندرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ جزا اور سزا اور باقی امورمعاد کے متعلق ایک ایسی صحیح تحقیق پیش کی ہے کہ جس سے بڑھ کر اور عقل کو تسلی دینے والی تحقیق ذہن میں نہیں آ سکتی- آپ سے پہلے تمام مذاہب میں جزا و سزا اور معاد کے متعلق

Page 243

۲۰۰ عجیب قسم کے خیالات پھیلے تھے- جن کی وجہ سے دنیا اس عقیدہ سے ہی متنفر ہو رہی تھی اور معاد کو وہم قرار دے رہی تھی- مختلف مذاہب کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے- (۱)بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ نجات عدماحساس کا نام ہے- جیسے بدھوں کا خیال تھا- (۲)بعض کا خیال تھا کہ نجات خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے- سناتنی ہندو اسی عقیدہ کے ہیں- (۳)بعض کا خیال تھا کہ نجات مادہ سے روح کے تعلق کے کامل طور پر آزاد ہو جانے کا نام ہے- جینیوں کا یہی خیال تھا- (۴)بعض کا خیال تھا- نجات عارضی اور وقتی ہے- جیسے آریہ- (۵)بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- جیسے سپرچولسٹ- (۶)بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا خالص جسمانی ہیں جیسے یہود اور مسلمان- (۷)بعض کا خیال تھا کہ دوزخ جسمانی اور جنت روحانی ہے جیسے مسیحی- (۸) بعض کا خیال تھا- دوزخ کی سزائیں جنت کی نعماء کی طرح ہمیشہ کے لئے ہیں- مگر یہ سب امر نہایت ہی قابل اعتراض اور شک و شبہ پیدا کرنے والے تھے- اگر عدماحساس نجات ہے تو خدا نے انسان کو پیدا ہی کیوں کیا؟ پیدا تو اس چیز کیلئے کیا جاتا ہے جو آئندہ حاصل ہونے والی ہو- عدم احساس تو پیدائش سے پہلے موجود تھا- پھر پیدا کرنے کی کیا غرض تھی؟ اسی طرح نجات اگر خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے تو یہ انعام کیا ہوا- فناء خواہ الگ ہو خواہ خدا میں ایک کامل الاحساس ہستی کے لئے انعام نہیں کہلا سکتی- اگر مادہ سے نجات کا نام نجات ہے تو ارواح پہلے ہی مادہ میں کیوں ڈالی گئیں- اس نئے دور کے اجراء کی غرض کیا تھی- اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- کیونکہ انسان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ باہر کے اثرات کو جذب کرنا چاہتا ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ باہر سے بھی لذت حاصل کرے اور اندر سے بھی- اسی طرح وہ جو کہتے ہیں کہ جزا و سزا صرف جسمانی ہیں وہ بھی غلط کہتے ہیں- کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کو ابدی زندگی اس لئے دی جائے گی کہ وہ کھائے اور پیئے اور ایک بے مقصد زندگی بسرکرے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی تردید کی ہے اور

Page 244

۲۰۱ مندرجہ ذیل حقیقت پیش کی ہے- آپ فرماتے ہیں کہ-: انسان کا مقصد نجات نہیں بلکہ فلاح ہے- نجات کے معنی تو بچ جانے کے ہیں اور بچ جانا عدم پر دلالت کرتا ہے- اور عدم مقصد نہیں ہو سکتا- پس انسان کا مقصد فلاح ہے اور فلاح کچھ کھونے کا نام نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کا نام ہے- اور جب حاصل کرنے کا نام فلاح ہے تو ضروری ہے کہ اگلے جہان میں احساس اور زیادہ تیز ہوں تا کہ زیادہ حاصل کر سکیں- یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے- ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمانیہ ۳۴؎کہ اس دنیا میں تو چار بنیادی صفات کا ظہور انسان کے لئے ہوتا ہے- اگلے جہان میں عرش آٹھ بنیادی صفات کا ظہور ہوگا- یعنی اس دنیا کی نسبت اگلے جہان کی تجلیات بہت بڑھ کر ہوں گی- پھر آپ نے ثابت کیا کہ نجات یا فلاح دائمی ہیں اور بتایا کہ عمل کا بدلہ کام کرنے والے کی نیت اور جزا دینے والے کی طاقت پر ہوتا ہے- ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر اور انسان کی فطرت پر نظر کرتے ہوئے جو فنا سے بھاگتی اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتی ہے، فلاح کی ہمیشگی ثابت ہے- اسی طرح آپ نے یہ بھی بتایا کہ جزا و سزا نہ صرف روحانی ہیں اور نہ صرف جسمانی- اور نہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک جسمانی ہو اور دوسری روحانی- کیونکہ اعمال نیک و بد کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے- اس جزا و سزا کا طریق بھی ایک ہی ہونا چاہئے- ہاں چونکہ کامل احساس اندرونی و بیرونی جذبات کے ملنے سے ہوتا ہے اس لئے جزا و سزا اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی حسوں پر مشتمل ہونگی اور چونکہ وہ عالم زیادہ تیز احساسات کی جگہ ہوگا، اس لئے وہاں کی جزا و سزا کے مطابق اور ضروریات کے لحاظ سے ایک نیا جسم انسان کو ملے گا- وہاں بے شک یہ جسم نہ ہوگا- مگر ہوگا ضرور- یعنی نیا جسم دیا جائے گا- جو یہاں کے لحاظ سے روحانی ہوگا- یہاں کی عبادتیں وہاں مختلف اشیاء کی شکل میں نظر آئیں گی- ان کی ظاہری شکل تو ہوگی مگر باوجود اس کے وہ اس دنیا کے مادہ سے نہ بنی ہوئی ہوں گی- گویا وہاں پھل اور دودھ اور شہد اور مکانات تو ہوں گے مگر اس دنیا کی قسم کے نہیں بلکہ ایک لطیف مادہ کے جنہیں لطافت کے سبب سے اس دنیا کے مقابلہ میں روحانی جسم والا کہا جا سکتا ہے- لیکن سزا و جزا کے متعلق آپ نے ایک فرق بیان فرمایا اور وہ یہ کہ دوزخ کی سزا تو

Page 245

۲۰۲ ابدی نہیں ہوگی- کیونکہ انسانی فطرت نیک ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اسے نیکی کی طرف لے جایا جائے- دوسرے انسان خدا کے قرب کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے- اگر وہ دوزخ میں پڑا رہے تو قرب کہاں حاصل کر سکتا ہے- پھر خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے- اگر دوزخ کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو تو رحمت کس طرح وسیع ہوگی- اس صورت میں تو اس کا غضب بھی ویسا ہی وسیع ہوا- جیسے کہ اس کی رحمت- پھر اگر ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو تو انسان جو نیکیاں دنیا میں کرتا ہے، ان کا بدلہ ضائع ہو جائے گا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، کسی کی نیکی ضائع نہیں کی جائے گی- پس عذاب دائمی نہیں ہوگا، فلاح دائمی ہوگی- غرض آپ نے دوزخ کے عذاب کے محدود ہونے کو علمی طور پر کھول کر گویا کائنات عالم کی حقیقت کو کھول دیا ہے- ایک طرف انسانی فطرت کی کمزوری کو دیکھ کر جب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو تربیت کرنے والوں کی تربیت کا اس پر اثر پڑتا ہے- کھانے پینے کا اس پر اثر پڑتا ہے- اردگرد کے حالات کا اثر پڑتا ہے- اور کاموں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے عبادت کے لئے قلیل وقت ملتا ہے- دوسری طرف باوجود ان مجبوریوں کے عام طور پر انسان کی قرب الہی کے لئے جدوجہد کو دیکھ کر جس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ مشغول ہیں تیسری طرف یہ دیکھ کر کہ بنی نوع انسان تک خدا کے کلام کے پہنچانے میں ہزاروں قسم کی دقتیں ہیں اور بہت ہی کم لوگوں کو ایک وقت میں حقیقی طور پر کلام پہنچتا ہے- چوتھے رحمت الہی کی وسعت کو دیکھ کر، پانچویں انسانی طاقتوں کی حد بندیوں کو دیکھ کر ہر ایک صحیح فطرت جزا و سزا کی نسبت مختلف مذاہب کی پیش کردہ تعلیم سے رکتی تھی- مگر آپ نے ایسی تعلیم پیش کر دی کہ ان سب اعتراضات کا ازالہ ہو گیا- اور اب ہمیں نظر آتا ہے- کہ انسانی زندگی ترقیات لامحدود کی ایک کڑی ہے- اور اس میں غیر محدود ترقیات کی گنجائش ہے- اس کی روکیں عارضی ہیں ورنہ بحیثیت مجموعی وہ آگے کی طرف جا رہی ہے اور جائے گی- خود دوزخ بھی ایک عالم ترقی ہے- اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی جگہ ہے- گویا وہ ایک حمام ہے- جن کو آلائشیں لگی ہوں گی انہیں خدا کہے گا- اس حمام میں پہلے نہاؤ اور پھر میرے پاس آؤ- اب آخر میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے کہ یہ سب باتیں تو قرآن کریم میں موجود تھیں- مرزا صاحب نے کیا کیا؟ ان باتوں کے اظہار سے ان کا کام کس طرح ثابت ہوگیا؟

Page 246

۲۰۳ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم یہ کہے کہ ساری باتیں تو خدا نے بتائیں- محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا کام کیا- تو کیا یہی نہیں کہو گے کہ بے شک جو کچھ آپ نے دنیا کو بتایا، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملا- مگر سوال یہ ہے کہ اور کسی کو کیوں نہ ملا؟ آخر کوئی نیکی اور تقویٰ اور قربانی کا درجہ آپ کو ایسا حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہ تھا- تب ہی تو خدا تعالیٰ نے آپ پر یہ علوم کھولے پس وہ کام آپ ہی کا کام کہلائے گا- یہی جواب ہم دیں گے کہ بیشک یہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود تھا- مگر باوجود اس کے لوگوں کو نظر نہ آتا تھا- اور خدا تعالیٰ نے ان علوم کو کسی پر نہ کھولا مگر آپ پر ان علوم کو کھول دیا- اور ایسے وقت میں کھولا جب کہ دنیا قرآن کریم کی طرف سے رو گردان ہو رہی تھی- پس گو یہ علوم قرآن کریم میں موجود تھے مگر دنیا کی نظر سے چونکہ پوشیدہ تھے- اور خدا تعالیٰ نے ان کے کھولنے کے لئے آپ کو چنا، اس لئے وہ آپ ہی کا کام کہلائیں گے- میں نے آپ کے کاموں کی تعداد پندرہ بتائی ہے- لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کا کام یہیں تک ختم ہو گیا ہے- آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے- اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے- اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے- اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ منشاء پورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تین سو خوبیاں بیان کی جائیں گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا- آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خوبیاں بیان فرما دی ہیں- اور میں یہ ثابت کرنے کیلئے تیار ہوں- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین- ۱؎ ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۶ ۲؎ متی باب ۵ آیت ۳۹- برٹش فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۳؎ وڈ JohnWood )۱۸۱۱ء-۱۸۷۱ء( ایسٹ انڈیا کمپنی کی بحریات کا رکن- برنز (Burns) کا اسسٹنٹ، افغانستان کے سفر میں وادی کابل کے متعلق رپورٹ تیار کی اور

Page 247

۲۰۴ دریائے جیحوں کا سرچشمہ دریافت کیا- سندھ میں وفات پائی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۹۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور( ۴؎ فاکس James Charles Fox )۱۷۴۹ء-۱۸۰۶ء( انگریز سیاستدان، مدبر، اور فصیح البیان مقرر جسے ہندوستان کے لوگوں سے بہت ہمدردی تھی- چنانچہ اس نے ۱۷۷۳ء میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جسے Bill India Fox کہتے ہیں اس بل کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی سے چھین کر سات ارکان کی ایک کمیٹی کے سپرد کی جائے- انقلابی جنگ میں اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں امریکی نوآبادیات کی حمایت کی- یہ بڑا ہی ملنسار اور ہمدرد آدمی تھا- ۱۸۰۶ء میں اسے خارجہ امور کا سیکرٹری بنایا گیا- )پاپولر تاریخ انگلستان صفحہ۲۳۹، ۲۴۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۰ء + اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۰۵۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء( ۵؎ تذکرہ صفحہ۱۰۴ ایڈیشن چہارم ۱۹۷۷ء براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۵۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴ ۶؎ تذکرہ صفحہ۱۰۴- ایڈیشن چہارم ۷؎ لارڈ ریڈنگ )۱۸۶۰ء-۱۹۳۵ء( انگریز سیاستدان و وکیل- ۱۹۱۰ء میں اٹارنی جنرل مقرر ہوا- ۱۹۱۳ء سے ۱۹۲۱ء تک انگلستان کا لارڈ چیف جسٹس اور ۱۹۲۱ء سے ۱۹۲۶ء تک ہندوستان کا وائسرائے رہا- لارڈ ریڈنگ سخت گیر وائسرائے ثابت ہوا- اگرچہ اس نے وقتی طور پر سیاسی شورش کو دبا دیا مگر اس سے حکومت کو کوئی مستقل اطمینان نصیب نہ ہوا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۶۹۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء( ۸؎ تذکرہ صفحہ۳۱۲- ایڈیشن چہارم ۹؎ الشوری: ۱۲ ۱۰؎ آئنسٹائن Einstein )۱۸۷۹ء-۱۹۵۵ء( نظری طبیعیات کا ماہر- جرمن نژاد- بعد میں امریکی شہریت اختیار کی- جرمنی میں تعلیم مکمل کر کے سوئٹزرلینڈ میں ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک پیٹنٹ دواؤں کی آزمائش گاہ میں کام کیا- ۱۹۰۵ء میں اس نے قدریوں (EnergyQuenta) کے مماثل، نور کے قدریوں یا ضیائیوں (Photons) کا

Page 248

۲۰۵ مفروضہ وضع کیا اور ان کی بناء پر ضیاء کیمیائی اثر کی توجیہہ کی- اس نے نوعی حرارت کا قدریاتی نظریہ بھی پیش کیا- ۱۹۰۵ء میں ہی اس نے نظریہ اضافیت پیش کیا- اس نظریے کی بناء پر جوہری توانائی دریافت ہوئی- ۱۹۱۱ء میں اس نے تجاذب اور جمود کی معاونت ثابت کی- ۱۹۱۳ء میں برلن میں پروفیسر مقرر ہوا- ۱۹۲۱ء میں اس نے نظری طبیعیات بالخصوص ضیاء کیمیائی اثر کی تحقیق کی بناء پر نوبل انعام حاصل کیا- ۱۹۳۹ء میں صدر روزویلٹ کو بغرض غور ایٹم بم بنانے کی تجویز بھی اسی نے پیش کی- موسیقی کا بھی دلدادہ تھا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۳۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء( ۱۱؎ الصفت: ۱۱ ۱۲؎ الکفرون: ۷ ‏۱۳؎ ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ۱۵۸ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۲۵۸ ۱۴؎ التکویر: ؎۵ ۱۵؎ التکویر: ۶ ۱۶؎ التکویر: ۷ ۱۷؎ التکویر: ۸ ۱۸؎ الشمس: ۲،۳ ۱۹؎ النمل: ۴۵ ۲۰؎ ‏ الطارق: ۱۲،۱۳ ۲۱؎ الطارق: ۱۴،۱۵ ۲۲؎ یس: ۴۱ ۲۳؎ النساء: ۲ ۲۴؎ الفرقان: ۶۰ ۲۵؎ البقرہ: ۱۰۳ ۲۶؎ بخاری کتاب الوضوء باب التسمیہ علی کل حال و عند الوقاع ۲۷؎ متی باب ۱۲ آیت ۳۹،۴۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء ۲۸؎ بخاری کتاب الذبائح والصید باب الضب ۲۹؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۶- ایڈیشن چہارم ۳۰؎ النساء: ۲۹ ۳۱؎ الفاتحہ: ۴ ۳۲؎ فاطر: ۴۶ ۳۳؎ کندہ ناتراش: احمق- نالائق ‏۳۴2؎ الحاقہ: ۱۸ ‏

Page 249

Page 250

۲۰۷ جامعہ احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی

Page 251

Page 252

۲۰۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم جامعہ احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب (فرموده ۲۰ مئی ۱۹۲۸ء) تشّہد و تعوذ اور تلاوت سورة فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.آج کا دن شاید ہمارے لئے کوئی خصوصیت رکھتا ہے کہ اس دن بہت سی دعوتھی جمع ہو گئی ہیں.میرا خیال تھا ہم اس جگہ اس لئے آرہے ہیں کہ دعا کر کے جامعہ احمدیہ کا افتتاح کریں.لیکن سامنے کے موڑ سے مڑتے ہی معلوم ہو گیا کہ یہاں بھی نفسانی مجاہد ہ ہمارا انتظار کر رہا ہے اور ابھی یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا ، شام کو پھر ایک دعوت میں مدعو ہیں.اور ممکن ہے شام سے پہلے پہلے کوئی اور دعوت بھی انتظار کر رہی ہو.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ون ہمارے لئے اکل و شرب کا دن بن گیا ہے.اور رسول کریم ﷺ نے عید کے دن کی یہی تعریف فرمائی ہے.سو جس طرح خدا تعالی نے اس دن میں بغیر اس کے کہ ہم ارادہ اور نیت کر کے پہلے سے انتظام کرتے خود اپنی طرف سے ہی ایسے سامان کر دئے ہیں کہ اس دن کو ہمارے لئے عید کی طرح بنا دیا ہے.اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ واقعہ میں ہمارے لئے اسے عید بنا دے.جب خدا تعالی نے اس دن میں عید سے ظاہری مشابہت پیدا کر دی ہے اور بغیر کسی انسانی ارادہ کے دل کے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں، تو یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے جو کام کی نہ ہو.ہم اس کی شان کو مد نظر رکھ کر یہی امید رکھتے اور اس سے یہی التجا کرتے ہیں کہ اس ظاہری عید کو حقیقی عید یا وے.اس مرور میں روح پھونک دے، اس جسم میں سانس ڈال دے ، اس بے بس مجسمہ کو چلتی پھرتی چیز بنادے کہ جس طرح ظاہری

Page 253

۲۱۰ طور پر اس دن نے عید سے حصہ پایا ہے ، اسی طرح باطن میں بھی عید کی خصوصیات حاصل کر لے.ہمارے جو مبلغ باہر جارہے ہیں ان کے متعلق تو میں پہلے کچھ نصا ئح بیان کر چکا ہوں اور سمجھتا ہوں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.میں نے خود بھی ان کو نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے.اور وہ یہ کہ جب میں تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہوا تو بولنے کی طاقت نہ تھی.حرارت تھی، متلی ہو رہی تھی اور سر درد کی شکایت تھی.مگر تقریر کرتے ہوئے خدا تعالی نے فضل کیا اور اب سوائے سردرد کے باقی آرام ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح مبلغین ان کے سننے سے فائدہ اٹھائیں گے.لیکن اس دوسری تقریب کے متعلق جو مدرسہ احمد یہ نے ترقی کر کے جامعہ قائم ہونے کی کی ہے ، کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالی کے کام وہ آپ ہی کرتا ہے.اور ایسی راہوں سے وہ اپنا کام کرتا ہے کہ انسان کے ذہن، فکر اور واہمہ میں بھی وہ نہیں آتیں.وہ وہاں سے سامان جمع کرتا ہے جہاں سے انسان کو امید ہی نہیں ہوتی.اور وہاں سے نتائج پیدا کرتا ہے جس طرف انسان کی نظریں نہیں اٹھ سکتیں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام کاموں کے لئے اس نے کچھ قواعد رکھے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے کمال کے لئے ایک نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے.بہت لوگوں نے خدا تعالی کی صفات پر غور کر کے صفات کے مفرد پہلو پر غور کیا ہے.لیکن ان کے اجتماعی پہلو پر انہوں نے غور نہیں کیا.وہ کہتے ہیں خدا تعالی رب رحمن رحيم مالك يوم الدین ہے.مگر یہ غور نہیں کرتے کہ یہ تمام صفات ایک نظام کے اندر ہیں.اور ہر ایک صفت کے علیحدہ علیحدہ دائرے اور حلقے ہیں.اور ایک صفت رو سری صفت کے دائرہ کو قطع نہیں کرتی.جب یہ معلوم ہو گیا کہ ہر ایک صفت اپنے دائرہ میں چلتی ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ کمال کی صفات میں سے ایک نظام کی صفت بھی ہے.یعنی نظام کا کامل ہونا بھی اس کی صفات میں سے ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالی فرماتا ہے میری سنت تبدیل نہیں ہوتی.اور جہاں خدا تعالی باوجود طاقت کے فرماتا ہے میں ایسا نہیں کروں گا، پھر وہ نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفی میں بھی قدرت پائی جاتی ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا تعالی اپنے متعلق کیوں یہ

Page 254

۲۱۱ فیصلہ کرتا کہ میں ایسا نہیں کروں گا.پس جس طرح کوئی بات کرنا خدا تعالی کی قدرت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح موقع اور محل کالحاظ رکھتے ہوئے کوئی فعل نہ کرنا بھی خدا تعالی کی قدرت پر دلالت کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بھی قانون مقرر کئے ہوئے ہیں.ان قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کام کے لئے اس نے جو رستے اور طریق مقرر کئے ہیں اگر ان پر چلا جائے تو بابرکت نتائج نکلتے ہیں اور اگر نہ چلا جائے تو ایسے بابرکت نتائج نہیں نکلتے جیسی امید رکھی جاتی ہے.پس اس میں شُبہ نہیں کہ سب کام خدا تعالی ہی کرتا ہے مگر اس میں کبھی شُبہ نہیں ہے کہ مقررہ قانون کے مطابق انسان کے لئے کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے.اس میں شُبہ نہیں خدا تعالی نے رسول کریم ﷺ کے متعلق فرمایا.مارميت اذ رميت ولكن الله رمی ۱؎ خدا تعالی نے بدر کے موقع پر جو برکت نازل کی اور مخالفوں کو شکست ہوئی ، اس کے متعلق فرمایا.اے محمد !(صلی اللہ علیہ و سلم) تم نے نہیں پھینکا تھا.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا جب کہ تم نے پھینکا تھا.اگر سارا کام خدا تعالی نے ہی کرنا تھا تو پھر اِذارَ مَیت کہنے کی کیا ضرورت تھی.اس موقع پر خدا تعالی نے نصرت دی.اور ایسی نصرت دی کہ اس کے متعلق کہا جا سکتا ولكن الله رمی سب کچھ خدا نے ہی کیا تھا.مگر اس کے ساتھ اذار میت کہنا بتاتا ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں پھینکا خدا تعالی نے بھی نہیں پھینکا تھا.بے شک نتیجہ خدا کے پھینکنے سے نکلا مگر اس وقت جب رمیت ہوا.یعنی جب رسول کریم ﷺ نے پھینکا.اسی طرح خدا تعالی نے بحر کو پھاڑا مگر اس وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالی کے کہنے پر سونٹا مارا.پھاڑ ا تو خدا نے تھا مگر پھاڑنے کو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہاتھ سے وابستہ کر دیا.مطلب یہ ہے کہ پہلے کوشش کرو پھر خدا تعالی کی طرف سے نتائج نکلیں گے.غرض تمام کاموں کے لئے خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی ، یہ قاعده مقرر ہے کہ مقدور بھر کو شش کرو.اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرو، پھر جو کمی رہ جائے گی وہ خدا تعالی ٰ پوری کر دے گا.اسی قانون کے ماتحت ضروری ہے کہ سلسلہ کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے ایسی جماعت تیار کی جائے جو ہمیشہ کے لئے سلسلہ کے مذہبی اور تبلیغی کاموں کی اپنے آپ کو حامل سمجھے.ایسی جماعت تیار کرنا بدعت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک گم شدہ چیز ہے جسے اس زمانہ میں

Page 255

۲۱۲ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے قائم کیا.قرآن کریم میں صاف الفاظ میں خدا تعالی فرماتا ہے.ولتكن منکم امة یدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر وأولئك هم المفلحون کے ۲؎ اور دوسری جگہ فرماتا ہے.وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ ۳؎ کہ تمام کے تمام لوگ چونکہ مرکز میں نہیں پہنچ سکتے ، اس لئے چاہئے کہ وہ اپنے میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے وقف کر دیں گے جو دین سیکھے اور پھر جا کر دوسروں کو سکھائے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ مدرسہ رسول کریم ﷺ کے وقت سے قائم ہے اور قرآن کریم نے قائم کیا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر وسعت دی.بے شک آپ سے پہلے عربی مدارس قائم تھے مگر وہ پرانے کالجوں کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.یہ ایسے ہی کالج تھے جیسے اس وقت گورنمنٹ کا لج ہیں.سو اگر موجودہ گورنمنٹ کی حالت گر جائے تو سَو سال کے اندر اندر ان کالجوں کیا وہی حالت ہو جائے گی جو عربی مدارس کی اَب ہے.جن عربی کالجوں کی یہ بگڑی ہوئی شکلیں ہمارے زمانہ میں موجود ہیں وہ اسی طرح کے کالج تھے جس طرح کے حکومت کے اس وقت ہیں.یعنی د نیوی کاروبار کے لئے ان میں لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا نہ کہ تبلیغ کیلئے تعلیم دی جاتی تھی وہی تعلیم اب تک چلی جارہی ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان مدارس میں سے نکلے ہوئے اکثر لوگ ایسے ہونگے جو قرآن نہ جانتے ہوں گے.ایسے مولوی یوں تو زمین آسمان کے قلابے ملا ئیں گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی آیت پیش کر کے کہا جائے گا کہ اس کا مطلب بتاؤ تو کہیں گے اس کے لئے تفسیر دیکھنی چاہئے.مطلب یہ کہ اس نے قرآن پڑھا ہوا ہی نہ ہو گا اور قرآن کے معنی نہیں آتے ہو نگے.کسی نے اپنے شوق سے پڑھ لیا تو پڑھ لیا ، ورنہ ان مدارس میں پڑھایا نہیں جاتا.غرض یہ مدارس تبلیغی نہ تھے بلکہ دنیوی کالج تھے.جیسے گورنمنٹ کا لج، خالصہ کالج، ڈی.اے.وی کالج ہیں.ان مدارس میں پڑھنے والوں کو ملازمتیں ملتی تھیں.وہ دنیوی کاروبار میں اس تعلیم سے فائدہ اٹھاتے تھے.وہ مدرسہ جو تبلیغ اسلام کی خاطر اور اشاعت اسلام کو مد نظر رکھ کر قائم کیا گیا اور جس کی غرض ولتكن منکم امة یدعون إلى الخير - الخ کی مصداق جماعت پیدا کرنا تھی وہ یہی مدرسہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام

Page 256

۲۱۳ نے قائم کیا اور جو ترقی کر کے اب جامعہ بن رہا ہے عربی مدارس میں بے شک حدیث پڑھائی جاتی تھی مگر اس لئے نہیں کہ ولتكن منکم امة یدعون إلى الخير والی جماعت پیدا ہو.بلکہ اسے ایک علم سمجھا جاتا اور اس لئے پڑھایا جاتا کہ اس سے مفتی اور قاضی بننے میں مدد مل سکتی تھی اور نوکری مل جاتی تھی.اسی طرح فقہ پڑھاتے مگر اس لئے نہیں کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر انہیں اسلامی امور سمجھائیں گے بلکہ اس لئے کہ مفتی اور قاضی نہ بن سکیں گے اگر یہ نہ پڑھیں گے.یہ ایسی ہی تعلیم تھی جیسی آج کل لاء (LAW) کالج کی ہے.اس کی غرض یہ نہیں کہ قانون کی آگے تبلیغ کی جائے گی، بلکہ یہ ہے کہ ملازمت حاصل ہو.پس ولتكن منکم امة یدعون إلى الخير و یامرون بالمعروف کو مسلمانوں نے کئی سَو سال سے بھلا رکھا تھا.رسول کریم ﷺنے ایسا سکول جاری کیا تھا اور آپ اس میں پڑھاتے رہے، بعد میں چند صحابہ نے اسے جاری رکھا.جب وہ قوم ختم ہو گئی تو وہ مدرسہ بھی ختم ہو گیا.پھر یہ دنیوی علوم بن گئے یعنی محض دنیوی فوائد کے لئے پڑھے جانے لگے ، اشاعت اسلام ان کے پڑھنے کی غرض نہ رہی.اب اس زمانہ میں خدا تعالی نے ہمیں یہ فضیلت اور مرتبہ دیا اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئے کہ تیرہ سو سال کے بعد ہمیں اس آیت پر عمل کرنے کی توفیق خدا تعالی نے دی.خدا تعالی کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تا کہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو ولتكن منکم امة یدعون إلى الخير - الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں.بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا.انگریزوں میں بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں.مگر یہ اس لئے ہمیں بتایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں.بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلّغ بنیں.اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کانچ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں.تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں.ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی بعض کو جرمنی بعض کو سنسکرت بعض کو

Page 257

۲۱۴ فارسی بعض کو روسی بعض کو سپینش و غیره زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے.کیونکہ جن ملکوں میں مبلغّوں کو بھیجا جائے، ان کی زبان جاننا ضروری ہے.بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں.مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہو تا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے.ہم نے دنیا کی صاف اور واضح باتوں کو اکثر جھوٹا ثابت ہوتا دیکھا ہے مگر ان خوابوں کو ہمیشہ پورا ہوتا دیکھتے ہیں.ان خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ اس میدان میں جہاں آج یہ جلسہ ہو رہا ہے.دن کے وقت کوئی اکیلا نہ آسکتا تھا اور کہا جا تا تھا یہاں جن رہتے ہیں.یہ جگہ جہاں یہ کو ٹھی ہے ، جہاں یہ سر سبز باغ ہے جہاں سینکڑوں آدمی چلتے پھرتے ہیں.یہاں سے کوئی شخص گذرنے کی جرأت نہ کرتا تھا.کیونکہ سمجھا جاتا تھا یہاں جن رہتے ہیں.مگر اس جگہ کے متعلق خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دکھایا کہ یہاں شہر بس رہا ہے.یہ اس وقت کی بات ہے جب قادیان کی دیواروں کے ساتھ پانی کی لہریں ٹکراتی تھیں.جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالی کی عبادت کے لئے آنے سے روکا جا تا.راستے میں کیلے گاڑ دیئے جاتے کہ گذرنے والے گرہیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بتایا مجھے دکھایا گیا ہے یہ علاقہ اس قدر آباد ہو گا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ بات آ سکتی تھی کہ قادیان کی بستی ترقی کر سکے گی.یہ و یران جنگل جہاں جنّات پھرتے تھے ، جِنّ یہی تھے کہ چور چکار لوگوں کو لوٹتے مارتے تھے اور لوگوں نے سمجھ لیا تھا یہاں جنّات رہتے ہیں.تو جہاں جنّات کرتے تھے کس کو توقع ہو سکتی تھی کہ یہاں فرشتے پھرا کریں گے.لوگوں میں مشہور ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا جو بگڑ کر ابلیس بن گیا.یہ جھوٹ مشہور ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ذریعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ جو ابلیس تھے، فرشتے بن گئے.فرشتے کا ابلیس بن نا جھوٹی کہانی ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ ہم نے جنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ملا ئکہ بنتے اور ابلیس کو فرشتے بنتے دیکھا ہے.ہم نے ان ویرانوں کو آباد ہوتے دیکھا ہے جن کی طرف آنے کا کوئی رُخ بھی نہ کرتا تھا.غرض ہم نے ایک ایک بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھی.اور اس وقت کے لحاظ سے نہ کہ آئندہ کے لحاظ سے ترقی کی آخری کڑی جو ریل ہے،

Page 258

۲۱۵ وہ بھی عنقریب آنے والی ہے.اس کے آنے میں سب سے بڑا حصہ قادیان کا ہے.رپورٹ جو گورنمنٹ میں پیش کی گئی، اس میں یہی لکھا تھا کہ قادیان میں کثرت سے لوگ آتے ہیں اس لئے اس ریلوے لائن کا بننا مفید ہو گا.پس یہ ریل قادیان کے سبب اور قاریان کی وجہ سے بن رہی ہے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے قادیان کی ترقی کا اعلان کیا، اُس وقت ان چیزوں کا خیال کس کو ہو سکتا تھا.اور ریل کا خیال تو ایساہے کہ پچھلے سال تک بھی کسی کو خیال نہ تھا کہ اتنی جلدی بننا شروع ہو جائے گی.زیادہ سے زیادہ یہ خیال تھا کہ چھ سات سال تک بن سکے گی مگر خدا تعالی نے آناً فاناً اس کے بننے کے سامان کرئے.پس یہ خوابیں ہیں جو ہم نے پوری ہوتی دیکھیں اور بعض ایسی خوابیں ہیں جو ابھی پوری نہیں ہو ئیں اور بعض ایسی ہیں جو مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے پورا ہونے کے متعلق اندازہ لگانے سے ہم قاصر ہیں.مگر خدا تعالی نے ہمیں اس قدر خوابیں پوری کر کے دکھا دی ہیں کہ ہم پورے وثوق اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو ابھی پوری نہیں ہوئیں ووہ بھی ضرور پوری ہو گی.مگر اس وقت اس بات کو بھی خواب و خیال ہی سمجھا جائے کہ اس کالج میں ہر زبان کے پروفیسر مقرر ہوں جو مختلف ممالک کی زبانیں سکھائیں.اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہر ملک کے لئے مبلغ نکلیں.لیکن یہ ایک دن میں ہو جانے والی بات نہیں ہے.ابھی آج تو ہم اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں.مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلّغین کی کلاس تھی مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے.جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے، اسی طرح کوئی نئی تجویز دیر ینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی.اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے.اس کے متعلق میں نے۱۹۲۴ ء میں صدر انجمن احمد یہ کو لکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے اور اسے موقع دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے.آج وہ خیال پورا ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی.اس موقع پر میں ان طلباء کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اس میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے.وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی ایٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے.ایک شاعر نے

Page 259

۲۱۶ کہا تھا.خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا مے رود دیوار کج اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی.جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی.گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ماتحت ہستی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے.یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے مگر ان طلباء کا ان میں بہت بڑا دخل ہو گا.اس لئے انہیں چاہئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیواریں سیدھی ہوں، ان میں کجی نہ ہو.ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلا ء ہو.اس جامعہ سے پڑھ کر نکلنے والے سارے کے سارے دین کی خدمت میں نہیں لگائے جا سکیں گے.ان میں سے بعض ہی لگ سکیں گے.لیکن ان میں سے ہر ایک اپنا یہ مقصد اور غایت قرار دے سکتا ہے کہ وہ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد اسلام کی اشاعت کے لئے کام کرے گا.اس کے لئے ضروری نہیں کہ انسان مبلغ ہی ہو، پہلے بھی اسلام اسی طرح پھیلا تھا.حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ نے اپنا کاروبار نہ چھوڑ دیا تھا.وہ اپنے کام بھی کرتے اور ساتھ ہی اشاعت اسلام میں رسول کریم ﷺ کی مدد بھی کرتے تھے.تو ہو سکتاہے کہ جامعہ کے بعض طلباء کو تبلیغ کے کام پر نہ لگایا جا سکے.ان میں بطور مبلّغ تبلیغ کرنے کی قابلیت نہ ہو یا کوئی اور مجبوریاں ہوں.ان تمام صورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کو ایک ہی مقصد اپنی زندگی کا قرار دینا چاہئے اور وہ تبلیغ اسلام ہے.خواہ عمل کے کسی میدان میں جائیں ،کوئی کام کریں، اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کو نہ بھولیں.ہو سکتا ہے کہ اس طرح کام کرنے والوں میں سے کئی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کرنے والوں میں سے بعض سے زیادہ عمده طور پر تبلیغ کا کام کریں.پس ان کو ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور وہ تبلیغ ِ اسلام ہے.اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہئے کہ ولتكن منكم امة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنکر واولئک ھم المفلحون اور وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ

Page 260

۲۱۷ میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لگا دینا چاہئے تاکہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے.اور انہیں معلوم ہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے.اس کے بعد میں تمام دوستوں سے جو یہاں جمع ہوئے ہیں خواہش کر تا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس جامعہ میں برکت ہے.اور ان طالب علموں کے لئے جن سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں جن کے چہروں سے ہم اپنا مستقبل پڑھتے ہیں انہیں اس سفر میں جو ماریشس اور امریکہ جانے والے مبلغّوں سے بھی لمبا ہے کیونکہ یہ چند دن کا سفر ہے مگر ان کا زندگی بھر کا بلکہ اس زندگی سے بعد کا بھی سفر ہے، اس میں خدا تعالی ان کا حامی اور ناصر ہو اور انہیں توفیق عطا کرے کہ جو مقصد اور مدعا انہوں نے اس کے حکم کے ماتحت چنا ہے اور حکم بھی وہ ہے جو آخری حکم ہے اور جس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہو گا اس میں کامیاب کرے.(الفضل ۱۳- اگست ۱۹۲۸ء) الانفال:۱۸ آل عمران:۱۰۵ التوبة:۱۲۲

Page 261

Page 262

۲۱۹ سائمن کمیشن اور پنجاب کو نسل از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی

Page 263

Page 264

۲۲۱ أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى علی رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہائی کمیشن اور پنجاب کونسل سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) کے پنجاب آنے پر ممبران پنجاب کونسل نے فیصلہ کیا تھا اور میرے نزدیک نہایت صحیح فیصلہ کیا تھا کہ پنجاب کونسل کمیشن سے تعاون کرے گی اور اس کی خواہش کے مطابق اپنے میں سے سات آدمی مقرر کرے گی تا کہ وہ سائمنکمیشن سے مل کر پنجاب کے مطالبات پر غور اور فکر کریں- اس ریزولیوشن کے مطابق پچھلے دنوں کونسل نے سات آدمی مقرر کئے ہیں جن میں سے تین ہندو، ایک سکھ، ایک انگریز اور دو مسلمان ہیں- اس فیصلہ پر مسلم اخبارات میں خصوصاً اور مسلم پبلک میں عموماً اظہار ناراضگی ہو رہا ہے اور میرے نزدیک مسلمانوں کا اس فیصلہ پر ناراض ہونا درست اور جائز ہے- اس فیصلہ کا مضر اثر موجودہ صورت معاملات یہ ہے کہ مسلمان جو اس صوبہ کی آبادی کا پچپن فیصدی ہیں ان کے نمائندے تیس فیصدی سے بھی کم ہیں اور ہندو جو اٹھائیس فیصدی ہیں ان کے نمائندے بیالیس فیصدی ہیں- اگر گورنمنٹ کی طرف سے ایسا کیا جاتا تب بھی یہ ایک خطرناک بات تھی لیکن موجودہ صورت میں تو اس فیصلہ پر مسلمان ممبران کی رضا مندی کی بھی مہر ثبت معلوم ہوتی ہے پس ظاہرہ طور پر ہماری پوزیشن یہ ہے کہ مسلمان اپنی مرضی سے اس ادنیٰ درجہ کو قبول کر چکے ہیں- موجودہ فیصلہ میں یہ خطرناک نقائص ہیں کہ اول تو مسلمانوں کو وہ حق نہیں ملا جو ملنا چاہئے تھا- اگر صوبہ کی آبادی کا لحاظ رکھا جاتا تو انہیں چار ممبر ملنے چاہئیں تھے اور اگر ان حقوق

Page 265

۲۲۲ کو مدنظر رکھا جاتا جنہیں گورنمنٹ تسلیم کر چکی ہے تو انہیں تین ممبر ملنے چاہئیں تھے لیکن ملے انہیں کل دو ہیں- اور یہ تعداد اس قدر قلیل ہے کہ اس کا خیال نہ گورنمنٹ کو تھا نہ ہندوؤں کو- کوئی بھی تین ممبروں سے کم کی امید نہ رکھتا تھا- پس ایک تو اس فیصلہ سے ہمارے اس دعویٰ کو صدمہ پہنچ گیا کہ ہم اپنی تعداد کے مطابق حق مانگتے ہیں- قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص بغیر احتجاج کرنے کے ایک ادنیٰ مقام پر راضی ہو جاتا ہے تو دوسرے لوگ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اس کو ادنیٰ درجہ دینے میں چنداں ہرج یا خوف کا مقام نہ ہوگا- پس جب مسلمان سات میں سے دو نمائندوں پر راضی ہو گئے ہیں تو یقیناً گورنمنٹ اور کمیشن کے دل میں خیال پیدا ہوگا کہ یہ لوگ گو زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ان کے اندر سچی خواہش اس امر کی نہیں ہے ورنہ کیوں یہ اس مقدار سے تھوڑی تعداد پر راضی ہو جاتے ہیں جس سے زیادہ کا حاصل کرنا ان کے اختیار میں تھا- ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گورنمنٹ نے ہمیں اپنے قانون سے ایسا بے بس بنا رکھا ہے کہ اپنی تعداد کے مطابق حق نہیں لے سکتے کیونکہ گو ہم اپنی تعداد کے مطابق حق نہ لے سکتے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تین ممبریاں ضرور لے سکتے تھے مگر ہم نے اس قدر بھی نہیں لیں اور اپنی مرضی سے نہیں لیں- پس ہماری مذکورہ بالا دلیل عقلمندوں کیلئے ہر گز حجت نہ ہوگی اور ہماری نسبت یہی سمجھا جائے گا کہ ہم اپنے جائز اور ضروری مقام کے حصول کے لئے اس قدر بے تاب نہیں ہیں جس قدر کہ ہم ظاہر کرتے ہیں یا یہ کہ ہم اس مقام کے حصول کے قابل ہی نہیں ہیں- دوسرا نقص اس فیصلہ کی وجہ سے یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم نے اپنی آواز کو خود ہی کمزور کر لیا ہے- چوہدری چھوٹو رام صاحب کا انتخاب گو زمیندار پارٹی کی طرف سے ہوا ہے لیکن ہر اک شخص جانتا ہے کہ عملاً انہیں مسلمانوں نے منتخب کیا ہے اور وہ مسلمانوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں- اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ مسلمانوں کے حقوق کی پوری نیابت کریں گے یا کر سکتے ہیں؟ کیا ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پورے طور پر اس سوال پر زور دیں گے کہ مسلمانوں کے حقوق کو پچھلی دفعہ پامال کیا گیا ہے اور اب اس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے کیا وہ یہ کہیں گے کہ مجلس اور ملازمت اور قضاء میں مسلمانوں کی کمی تعداد کو فوراً پورا کیا جائے- اور ہندوؤں نے جو ان محکموں پر قبضہ کیا ہوا ہے اس سے انہیں آہستگی سے لیکن قطعی طور پر دستبردار کیا جائے- کیا کبھی بھی کسی قوم کے فرد سے خواہ وہ کس قدر بھی تعلق دوستی رکھنے

Page 266

۲۲۳ والا ہو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے متعلق ایسی بات کہے گا اور خصوصاً ایسے شخص سے جو انتخاب کے ذریعہ سے کونسل میں آیا ہو اور آئندہ اس نے آنا ہو- زیادہ سے زیادہ چوہدری چھوٹو رام صاحب سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ یہ کہہ دیں گے کہ زمینداروں کو ان کا پورا حصہ ملے- لیکن کیا مسلمان ممبران کونسل اب تک یہ بھی نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ سے بھی ہندوؤں نے فائدہ اٹھایا ہے اور کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ ہندو زمیندار بھی اس قدر مل سکتے ہیں کہ بغیر مسلمانوں کو ان کا حق دینے کے زمینداروں کے حقوق کے مطالبہ کو پورا کر دیا جائے- اب یہی ہو رہا ہے کہ جس جس صیغہ میں زمینداروں کی تعداد بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے بجائے مسلمان زمینداروں کو بڑھانے کے ہندو زمینداروں کو بڑھایا جا رہا ہے اور پہلی صورت سے صرف اس قدر فرق ہے کہ ہندو شہری کی جگہ ہندو دیہاتی آ رہا ہے- اور ہندو دیہاتی دلیری سے کام کرنے میں ہندو شہری سے بڑھا ہوا ہے- اور شہری اگر خفیہ کام کرتا تھا تو یہ صاف مسلمان امیدوار کو کہہ دیتا ہے کہ میرے دفتر میں مسلمان کے لئے جگہ نہیں ہے- غرض چوہدری صاحب سے جو کچھ امید کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ زمینداروں کو ان کا حق ملنا چاہئے لیکن یہ امید کرنا کہ وہ مسلمانوں کے متعلق یہ کوشش کریں گے کہ ہندوؤں کو ان کے موجودہ اجارہ حکومت سے علیحدہ کر کے ان کی آبادی کے مطابق ہر شعبہ حکومت میں حصہ دیا جائے ایک حد سے بڑھا ہوا مطالبہ اور عقل سے بعید امید ہے- خصوصاً جب کہ چوہدری صاحب کو گو مسلمانوں نے منتخب کیا اور نمائندہ چنا ہے مگر ان کا انتخاب مسلمانوں نے بحیثیت مسلمان نہیں بلکہ بحیثیت زمیندار کیا ہے- پس چوہدری صاحب کہہ سکتے ہیں کہ زمینداروں کی تائید میں مجھ سے جو چاہو کہلا لو مگر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے کسی اسلامی پارٹی نے نہیں بلکہ زمیندار پارٹی نے منتخب کیا ہے- جب حالات یہ ہیں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ چوہدری چھوٹو رام صاحب جو کچھ مسلمانوں کی تائید میں کہہ سکتے ہیں وہ اس قدر نہیں کہ جس کی ہمیں ضرورت ہے- لیکن جس امر میں وہ ہماری مخالفت کرنے پر مجبور ہونگے اس کا سخت نقصان پہنچ جائے گا کیونکہ کہا جائے گا کہ یہ مسلمانوں کے نمائندہ کی رائے ہے- پس اس انتخاب سے ہم نے اپنی رائے کو نہایت کمزور کر لیا ہے- تیسرا نقصان ہمیں اس انتخاب سے یہ پہنچا ہے کہ ہم نے اس انتخاب سے اس دلیل پر تبر

Page 267

۲۲۴ رکھ دیا ہے جس پر ہمارے مطالبات کی بنیاد ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوؤں نے اپنے پچھلے اعمال سے اپنے آپ کو قابل اعتماد ثابت نہیں کیا بلکہ ہر جگہ اور ہر موقع پر ہمیں یہ تلخ تجربہ ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اس انتخاب کے بعد ہم اس دلیل کو کس طرح پیش کر سکتے ہیں- انگریزی دماغ جو مذہبی تعصب کو سمجھنے سے قاصر ہے اور سیاسیات میں مذہبی سوال کو لانے سے گھبراتا ہے جب اس پر یہ نقش خود ہمارے انتخاب سے پڑے گا کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ ہندوؤں پر اعتماد کر سکتے ہیں بلکہ انہیں ایسے نازک موقع پر جب کہ ان کی قوم کی زندگی اور موت کا سوال تھا نمائندہ مقرر کر سکتے ہیں تو یقیناً ان کا رجحان ادھر ہی ہوگا کہ عدم اعتماد محض ایک بہانہ ہے اور صرف مسلمانوں کی یہ خواہش ہے کہ قطع نظر لیاقت کے ان کے نالائق آدمی بھی عہدے پا سکیں ورنہ ہندوؤں سے ان کو کوئی حقیقی ضرر نہیں پہنچ رہا- اب اگر یہ خیال کمیشن کے ممبروں کے دل میں پیدا ہو جائے اور اس انتخاب کے بعد اس قسم کا خیال پیدا ہو جانا بعید نہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ ہماری تمام اس جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلے گا جو ہم مسلمانوں کی اقتصادی اور سیاسی غلامی کے خلاف کرتے چلے آئے ہیں کیا وہ سب کی سب باطل نہ جائے گی- اس جگہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ کمیشن کے ممبر یہ سمجھیں کہ مسلمان ہندوؤں سے نیک سلوک کرتے ہیں لیکن وہ ان سے نیک سلوک نہیں کرتے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ قومی نیابت کے سوال میں دوسری قوم کے آدمی کو نمائندہ بنانا نیک سلوک نہیں کہلاتا بلکہ اس کے صریح یہ معنی ہیں کہ ہم اس پر کلی طور پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے اپنے آدمیوں سے اچھا سمجھتے ہیں یا یہ کہ ہم بیوقوف ہیں اور اپنے برے بھلے کو نہیں سمجھ سکتے اور ان دونوں نتائج میں سے جو بھی کمیشن کے ممبر نکالیں مسلمانوں کے حق میں اچھا نہ ہوگا- صدائے احتجاج کی غلطی غرض یہ تین نقصان ہیں جو اس انتخاب سے مسلمانوں کو پہنچے ہیں اور کوئی شخص بھی غور کرنے کے بعد ان نقصانات کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا- مگر میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ کونسل کے فیصلہ کے خلاف جو احتجاج کی آواز بلند کی گئی ہے وہ بھی درست نہیں- اول تو بعض لوگوں نے یہ بات تحریر و تقریر کے ذریعہ سے مشہور کر رکھی ہے کہ گویا یہ انتخاب کسی سازش کے ذریعہ سے ہوا ہے حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے- سازش بھی طاقت کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ خیال کرنا کہ عزیز مکرم

Page 268

۲۲۵ چوہدری ظفراللہ خان صاحب، سردار سکندر حیات خان صاحب اور چوہدری چھوٹو رام صاحب کو ایسی طاقت حاصل تھی کہ وہ سازش سے لائق آدمیوں کو انتخاب سے محروم کر سکتے تھے یا یہ کہ مسلمانوں کو مناسب حقوق ملنے سے روک سکتے تھے ایک ایسی بات ہے جسے کوئی انسان باور نہیں کر سکتا- ان تینوں صاحبان میں سے ایک صاحب ہندو ہیں، دوسرے پنجاب کے ایک کونے کے رہنے والے ہیں اور تیسرے احمدی ہیں- اور احمدیت لوگوں کی توجہ کو پھیرنے کی بجائے آج کل مخالفت کے اکسانے کا موجب ہو جاتی ہے پھر دونوں مسلمان جونیر ہیں اور سیاسیات کے میدان میں بالکل نئے- پس ان کا انتخاب اگر ہوا ہے تو ان کی لیاقت کی وجہ سے یا ذی اثر لوگوں کی سازش سے- اور دونوں صورتوں میں ان ممبروں پر کوئی الزام نہیں آ سکتا- علاوہ ازیں واقعات سے ثابت ہے کہ انتخاب کے وقت چوہدری ظفراللہ خان صاحب مجلس میں موجود ہی نہ تھے- انہیں بعد میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام منتخب ہو گیا ہے اور اس کے بعد بھی انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے دو دفعہ استعفیٰ دینے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی- پس جو الزامات نمائندوں پر لگائے جاتے ہیں بالکل درست نہیں ہیں- غلطی کی اصل وجہ اصل میں اس تمام غلطی کی وجہیں تین ہیں- ایک تو مسلمانوں کی وہ پالیسی ہے جو انہوں نے میاں سرفضل حسین صاحب کی قیادت میں اصلاحات کے دورہ کی ابتداء سے اختیار کی اور دوسرے بعض ممبروں کی بائیکاٹ کی پالیسی جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اصل میں حق تو یہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے چار ممبر منتخب ہوتے لیکن حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ تین سے زیادہ کا انتخاب ناممکن ہو گیا- اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ہر ممبر کے انتخاب کے لئے سات ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن کل تئیس ممبر مسلمانوں کے ساتھ تھے کیونکہ پانچ عدم تعاونی ممبر ووٹ دینے سے مجتنب رہے- اب یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اس پر واویلا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور دوسری طرف اس نازک موقع پر ووٹ دینے سے اجتناب کر کے خود مسلمان ممبروں نے مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا ہے- اگر عدم تعاونی اس وقت اپنی ذمہ واری کو سمجھتے تو چار مسلمانوں کا منتخب ہونا یقینی تھا لیکن ان کی بائیکاٹ کی پالیسی جو موسم اور غیر موسم ظاہر ہوتی رہتی ہے اس وقت بھی نہایت بے موقع ظاہر ہوئی- یہ عجیب بات ہے کہ وہ مسلمان ممبر کونسل میں جاتے ہیں دوسرے موقعوں پر ووٹ بھی دیتے ہیں لیکن جس وقت مسلمانوں کی آئندہ بہبود

Page 269

۲۲۶ کا سوال آتا ہے تو وہ بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیتے ہیں- میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمانوں نے انہیں اسی غرض سے کونسل میں بھیجا تھا کہ وہ عین اس وقت جب کہ مسلمانوں کے آئندہ حقوق کا سوال پیش ہو روٹھ کر بیٹھ جائیں اگر وہ ذرہ بھی ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو وہ اپنی غلطی کو محسوس کریں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت انہوں نے مسلمانوں کا فائدہ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے- اللہ تعالیٰٰ ان پر رحم کرے- دوسرا سبب میں نے بتایا تھا کہ وہ پالیسی ہے جو مسلمان ابتدائے اصلاحات سے پنجاب میں اختیار کر چکے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے کہ کونسلوں کی ابتداء میں میاں سر فضل حسین صاحب نے دیکھا کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ نے پورے حق نہیں دیئے اور باوجود پنجاب میں کثیرالتعداد ہونے کے کونسلوں میں وہ قلیلالتعداد ہیں اور شاید انہیں حکومت میں کوئی حصہ نہ ملے- تب انہوں نے آہستہ آہستہ ایک زمیندار پارٹی تیار کی اور ہندوؤں میں سے کچھ لوگوں کو جدا کر لیا اور اس طرح ایک جماعت تیار کر لی جس کی مدد سے وہ مسلمانوں کے حقوق کی ایک حد تک نگہداشت کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ آئندہ یہی پالیسی مسلمانوں کے لئے مضر ہوگی- دوسری کونسل میں وہ ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہو گئے اور اس وجہ سے لازماً چوہدری چھوٹو رام صاحب جو ہندو زمیندار پارٹی کے سربرآوردہ رکن تھے اور سرمیاںفضلحسین صاحب کے نائب تھے پارٹی کے لیڈر ہو گئے اور مسلمان پارٹی ایک ہندو کی لیڈری میں آگئی- اب جو سائمن کمیشن کیلئے انتخاب ہونے لگا تو اس زمیندار پارٹی کو یہ مشکل پیش آئی کہ اگر چوہدری چھوٹو رام صاحب کو ممبر نہیں مقرر کرتے تو اخلاقی الزام آتا ہے کہ ان کی قوم سے انہیں جدا کر کے اس اہم موقع پر انہیں الگ کر دیا- اور پھر یہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ پارٹی کا لیڈر اس موقع پر پارٹی کا نمائندہ نہ ہو- پس ان اخلاقی اور رسمی ذمہ واریوں سے متاثر ہو کر پارٹی نے چوہدری صاحب کو منتخب کر لیا اور دو مسلمان ممبروں پر کفایت کر لی- ایک لحاظ سے تو یہ انتخاب قابل تعریف تھا کیونکہ اس سے ظاہر ہو گیا کہ مسلمان کی سرشت میں وفاداری ہے اور وہ اپنا بہت بڑا نقصان برداشت کر کے بھی اپنے ہمراہی کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا- لیکن دوسرے لحاظ سے یہ ایک خطرناک غلطی تھی جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے- میرے نزدیک مسلمان ممبروں کو چاہئے تھا کہ جب انہیں معلوم تھا کہ خلافتی اس وقت اسلام

Page 270

۲۲۷ کے مفاد کی نگہداشت پر اپنی ذاتی آراء کو مقدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ چوہدری صاحب کو صاف کہہ دیتے کہ اس وقت ممبروں کا انتخاب مذہبی اصول پر ہو رہا ہے- اگر ہم چار ممبر حاصل کر سکتے تو ہم یقیناً آپ کی لیڈری اور رفاقت کا لحاظ کرتے- لیکن چونکہ ہم چار ممبر حاصل نہیں کر سکتے اور آپ قومی لحاظ سے مجبور ہیں کہ بعض اسلامی مطالبات کی تائید نہ کر سکیں اس لئے ہم تین مسلمان ممبر منتخب کرنے پر مجبور ہیں- میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری چھوٹو رام صاحب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور وہ خوشی سے اس صورت میں معاملات کو قبول کرتے- خیر جو کچھ ہوا وہ تو ہوا جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ نقص اس پارٹی سسٹم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو شروع کے زمانہ اصلاحات سے مسلمانوں نے اختیار کی ہے- اس وقت مسلمان پارٹی کوئی نہیں بلکہ زمیندار پارٹی ہے پس مسلمان اسلامی مفاد کی اس آزادی سے حفاظت نہیں کر سکتے جس قدر کہ اسلامی پارٹی کی صورت میں کر سکتے تھے- اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس وقت مسلمان پارٹی کے نام سے ووٹ دیئے جاتے تو غالباً کئی خلافتی ممبر بھی اس کے ساتھ ووٹ دینے پر مجبور ہو جاتے- ‏ پارٹی کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت قطع نظر موجودہ مشکل کے جو پیش آ گئی ہے یہ طریق پارٹیوں کا آئندہ بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اس کے بد اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد مسلمان ممبران کونسل موجودہ پارٹی کے نظام میں تبدیل کریں- اور میرے نزدیک مسلمانوں کی اقلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہوگا کہ موجودہ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے- ایک مسلم زمیندار پارٹی ہو اور ایک ہندو زمیندار پارٹی ہو- ہندو پارٹی چوہدری چھوٹو رام صاحب کے ماتحت ہو اور مسلمپارٹی اپنا الگ لیڈر منتخب کرے- جب حکومت کا سوال آئے دونوں پارٹیاں مل کر ملک کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لانے کی کوشش کریں- لیکن جہاں خالص مذہبی سوال ہو وہاں مسلمپارٹی آزادانہ طور پر اپنے نمائندے منتخب کرے- یورپ میں اکثر ممالک میں اب اتحادیحکومتیں ہیں- ایک پارٹی تو بہت ہی کم حکومت کے قابل ہوتی ہے- پس اس طریق کو اختیار کرنے سے مسلمانوں کی آزادی بھی قائم رہے گی اور موجودہ موقع کی طرح کوئی اور موقع پیش آیا تو انہیں ایسی زک نہ اٹھانی پڑے گی جو اب اٹھانی پڑی ہے- اور ساتھ ہی ایک ہندو پارٹی بھی ایسی رہے گی جس کے ساتھ مل کر وہ حکومت کو ایسے طور پر چلا سکیں گے کہ وہ چند

Page 271

۲۲۸ سائن کمیشن اور پنجاب کو نسل شائی لاکس کے قبضہ میں نہ جا سکے- میرے نزدیک اوپر کی اصلاح کے علاوہ مسلمان پارٹی کو اپنا وہپ سسٹم (WHIPSYSTEM) بھی مضبوط رکھنا چاہئے- پچھلے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی لائق وہپ (WHIP) ہے اور نہ اس کا کام معین ہے اور نہ اسے کوئی خاص اختیار ہیں- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت پر مسلمان اپنی طاقت کو جمع نہیں کر سکتے اور پراگندہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا لیتے ہیں- موجودہ موقع پر اگر مضبوط وہپ ہوتا اور وہ حالات کا مطالعہ کرتا رہتا تو مسلمان پارٹی کو چار پانچ ووٹر اور مل سکتے تھے- لیکن کام ایسے بے ڈھنگے طور پر ہوا کہ کئی ممبروں کے ووٹ سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا کیونکہ وہ لاہور چھوڑ چکے تھے- ایسا ہی موقع ولایت میں پیش آتا تو ممکن نہ تھا کہ ممبر اپنی جگہ چھوڑ سکتے- اب ہمیں کیا کرنا چاہئے میرے نزدیک پارٹی کی اصلاح تو ہوتی رہے گی- ہمیں اب یہ سوچنا چاہئے کہ جو غلطی ہو چکی ہے اس کا کیا علاج کیا جائے- بعض لوگ اس کا علاج یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان ممبر استعفیٰ دے دیں- اگر گورنمنٹ نے انہیں منتخب کیا ہوتا تو یہ تدبیر معقول کہی بھی جا سکتی تھی لیکن موجودہ حالات تو خود مسلمانوں نے پیدا کئے ہیں وہ استعفیٰ کس کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے دیں- اور اگر یہ خیال ہے کہ ان کے استعفیٰ دینے سے مسلمانوں کی نمائندگی مضبوط ہو جائے گی تو پہلے اس کے متعلق سوچ لینا چاہئے کہ آیا ایسا ہوگا بھی یا نہیں کیونکہ اگر ان لوگوں کے استعفیٰ دینے سے کوئی مفید تبدیلی نہیں ہو سکتی تو استعفیٰ دینا فضول ہوگا بلکہ مضر- سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کے استعفیٰ دینے پر مسلمانوں کو پھر ممبر منتخب کرنے کا موقع مل جائے گا- اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں تین سوالوں پر غور کر لینا چاہئے- اول یہ کہ کیا انتخاب ہو چکنے کے بعد گورنمنٹ نئے ممبروں کے انتخاب کی اجازت دے گی- دوم یہ کہ انتخاب کونسل سے تعلق رکھتا ہے اور کونسل کے اجلاس اب بند ہو چکے ہیں- وہ دوبارہ اسی وقت جمع ہوگی جب سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) آچکا ہوگا- تو اس صورت میں مسلمانوں کے نمائندوں کو کون منتخب کرے گا- سوم یہ کہ انتخاب ممبران ساری کونسل سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ مسلمانوں سے- فرض کرو گورنمنٹ نئے انتخاب کی اجازت بھی دے دے- اور فرض کرو کہ وہ کونسل کا اجلاس بھی کر دے تو بھی یہ سوال باقی ہے کہ جب کہ

Page 272

۲۲۹ ہندوؤں، سکھوں اور یورپین کا انتخاب ہو چکا ہے اور ان کے ووٹ آزاد ہو چکے ہیں تو کیا وہ اپنے ووٹوں کے زور سے ایسے تین مسلمانوں کا انتخاب نہ کرا دیں گے جو مسلمانوں کے لئے مضر ہوں گے اور ان کی رہی سہی طاقت بھی ٹوٹ جائے گی- غرض ہمیں پورا فیصلہ کرنے سے پہلے ان تین سوالوں پر غور کر لینا چاہئے- ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلمان اس کمیٹی میں شامل ہی نہ ہوں- لیکن میں اس کی تائید نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نمائندے عدم تعاونیوں کے نہیں ہیں بلکہ تعاون کرنے والوں کے ہیں اور عدم تعاون کی پالیسی کا اختیار کرنا ان کے لئے جائز نہیں- علاوہ ازیں یہ عقل کے بالکل بر خلاف ہوگا کہ ہم دو ممبریوں پر ناراض ہو کر جب کہ یہ دو ممبریاں ہماری ہی غلطی کے سبب سے ملیں بالکل ہی شمولیت نہ کریں اور میدان بالکل ہندوؤں کے ہاتھ میں چھوڑ دیں- اور خصوصاً اس صورت میں جب کہ فیصلہ کثرت رائے پر نہیں ہے بلکہ فیصلہ ولایت کی پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے- پس اس غلطی پر جو ہو چکی افسوس کرتے ہوئے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے اس سے بہتر سے بہتر کام لیں اور اپنی تعداد کی کمی کو اپنی محنت اور خیر خواہی اور خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کر کے پورا کرنے کی کوشش کریں- ایک جلسہ کی ضرورت میرے نزدیک اس وقت بہتر سے بہتر پالیسی یہ ہوگی کہ جو لوگ اس وقت سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) میں جانے کی تائید میں ہوں ان کے مختلف الخیال گروہوں کے سربرآوردہ اصحاب کا ایک جلسہ کیا جائے اس میں کونسل کے نمائندے بھی ہوں اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی- اس جلسہ میں حالت موجودہ کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے- اور سب حالات جو موجودہ حالت کے پیدا کرنے کا موجب ہوئے ہیں ان کو بھی معلوم کیا جائے- اور پھر اس نتیجہ پر پہنچنا چاہئے کہ اب اسلامی فوائد کے لئے کونسا طریق زیادہ مفید ہوگا- اگر یہی ثابت ہو کہ اسلامی فوائد کے لئے یہی مفید ہوگا کہ کوئی مسلمان ممبر شامل نہ ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب بہ خوشی استعفیٰ دے دیں گے- اور میں کامل امید رکھتا ہوں کہ سردار سکندرحیاتخان صاحب اور چوہدری چھوٹو رام صاحب بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ ان لوگوں کا پرانا رویہ ہر طرح اطمینان کا یقین دلاتا ہے- اس عرصہ میں ہمیں یہ بھی معلوم کر لینا چاہئے کہ اب جب کہ کونسل کے اجلاس ختم ہو چکے ہیں اور انتخاب کا فیصلہ ہو چکا ہے گورنمنٹ

Page 273

۲۳۰ سابقہ فیصلہ میں کسی تبدیلی پر رضا مند ہوگی یا نہیں- اگر گورنمنٹ اس پر راضی ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ کچھ مشکل نہیں کہ تبدیلی کی جا سکے- کم سے کم ایک ممبر کی طرف سے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ کسی مناسب تبدیلی میں روک نہیں ڈالیں گے بلکہ اس کے پیدا کرنے کیلئے پوری سعی کریں گے- میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تجویز پر مسلمان غور کریں گے- اور اس راہ کو اختیار کریں گے جو فتنہ اور فساد سے بچا کر کوئی مفید تجویز پیدا کرنے میں ممد ہو اور ایسا طریق اختیار نہیں کریں گے جو پہلے ہی سے پراگندہ شدہ اسلامی طاقت کو اور بھی پراگندہ کر دے- میرے نزدیک بعض تجاویز ایسی ہیں جن پر چل کر اگر گورنمنٹ کی طرف سے دقت نہ ہو تو موجودہ صورت کو بدلا جا سکتا ہے لیکن انہیں شائع کرنا میں پسند نہیں کرتا- اگر ایسا اجتماع ہو جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں تو اس وقت میں انہیں ظاہر کر سکتا ہوں- خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ- قادیان ۲۱ مئی ۱۹۲۸ء (الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء)

Page 274

۲۳۱ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبؐی از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثاني

Page 275

Page 276

۲۳۳ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ اعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى علی رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والانبیؐ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی افضل کے پاس نمبر کے لئے مضمون لکھوں.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر میں جو رسول کریم ﷺکے اعلیٰ درجہ اور ارفع شان کے اظہار کے لئے شائع ہونے والا ہے، مضمون لکھنا ایک ثواب کا کام ہے.پس باوجود اس کے کہ ان دنوں میں سخت عدیم الفرصت ہوں اور پھر ساتھ ہی بیمار بھی، ایک مختصر سا مضمون لکھنا ضروری سمجھتا ہوں.رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ایسا شاندار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کس پہلو کو اختیار کروں اور کس کو چھوڑوں.اور انتخاب کی آنکھ خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن میں اس زمانہ کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مضمون کے لئے آپ کی زندگی کے احسن حصہ کو لیتا ہوں کہ کس طرح آپ نے دنیا کو اس غلامی سے نجات دلائی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے گلے کا ہار ہو رہی تھی اور وہ عورتوں کی غلامی ہے.رسول کریم ﷺکی آمد سے پہلے عورتیں ہر ملک میں غلام اور مملوک کی طرح تھیں اور ان کی غلامی مردوں پر بھی اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح کو کامل طور پر جذب نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ سے عورت اپنی خوبصورتی کیا خوب سیرتی کے زور سے بعض مردوں پر حکومت کرتی چلی آئی ہے لیکن یہ آزادی حقیقی آزادی نہ تھی کیونکہ یہ بطور حق کے حاصل نہ تھی بلکہ بطور استثناء کے تھی اور ایسی استثنائی آزادی کبھی صحیح جذبات کے پیدا کرنے کا موجب

Page 277

۲۳۴ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ نہیں ہو سکتی.رسول کریم ﷺ کی بعثت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ہوئی ہے اس وقت تک کی مذہب اور قوم میں عورت کو ایسی آزادی حاصل نہ تھی کہ اسے بطور حق کے ووہ استعمال کر سکے.بے شک بعض ملک جہاں کوئی بھی قانون نہ تھا وہ ہر قسم کی قیود سے آزاد تھے لیکن اسے بھی آزادی نہیں کہا جا سکتا اسے آوارگی کہا جائے گا.آزادی وہ ہے جو تمدن اور مذہب کے قواعد کو پورا کرتے ہوئے حاصل ہو ان قواعد کو توڑ کر جو حالات پیدا ہو وہ آزادی نہیں کہلا سکتی کیونکہ وہ بلند ہمتی پیدا کرنے کا موجب نہیں بلکہ پست ہمتی پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے.رسول کریم ﷺکے زمانہ میں اور اس سے قبل عورت کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی جائیداد کی مالک نہ تھی ، اس کا خاوند اس کی جائیداد کا مالک سمجھا جاتا تھا.اسے اس کے باپ کے مال میں سے حصہ نہ دیا جاتا تھا.وہ اپنے خاوند کے مال کی بھی وارث نہیں سمجھی جاتی تھی گو بعض ملکوں میں اس کی حین حیات وہ اس کی متولی رہتی تھی.اس کا نکاح جب کسی مرد سے ہو جاتا تھا تو یا تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کی قرار دے دی جاتی تھی اور کسی صورت میں اس سے علیحده نہیں ہو سکتی تھی اور یا پھر اس کے خاوند کو تو اختيار ہوتا تھا کہ اسے جدا کر دے.لیکن اسے اپنے خاوند سے جدا ہونے کا کوئی حق حاصل نہ تھا.خواہ اسے کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو.خاوند اگر اس کو چھوڑ دے اور اس سے سلوک نہ رکھے یا کہیں بھاگ جائے تو اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی قانون مقرر نہ تھا.اس کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو لے کر بیٹھی رہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو بھی پالے اور بچوں کو بھی پالے.خاوند کا اختیار سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہو کر اسے مار پیٹ لے اور اس کے خلاف وہ آواز نہیں اُٹھا سکتی تھی.اگر خاوند فوت ہو جائے تو بعض ملکوں میں وہ خاوند کے رشتہ داروں کی ملکیت سمجھی جاتی تھی.وہ جس سے چاہیں اس کا رشتہ کر دیں خواہ بطور احسان کے یا قیمت لے کر بلکہ بعض جگہ وہ خاوند کی جائیدادسمجھی جاتی تھی.بعض خاوند بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے یا جوئے اور شرطوں میں ہار دیتے تھے اور وہ بالکل اپنے اختیارات کے دائرہ میں سمجھے جاتے تھے.عورت کا بچوں پر کوئی اختیار نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند سے زوجیت کی صورت میں نہ اس سے علیحدگی کی صورت میں.عورت گھر کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی اور دین میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کوئی درجہ نہیں رکھتی، دائمی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا.اس کا نتیجہ

Page 278

۲۳۵ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ یہ تھا کہ خاوند عورتوں کی جائیداد کو اڑا دیتے تھے اور اس کو بغیر کسی گذارہ کے چھوڑ دیتے تھے.وہ بیچاری اپنے مال میں سے صدقہ خیرات یا رشتہ داروں کی خدمت کرنے کی مجاز نہ تھی جب تک کہ خاوند کی مرضی نہ ہو اور وہ خاوند جس کے دانت اس کی جائیداد پر ہوتے تھے کبھی اس معاملہ میں راضی نہ ہوتا تھا.ماں باپ جن کا نہایت ہی گہرا اور محبت کا رشتہ ہے ان کے مال سے وہ محروم کر دی جاتی تھی حالانکہ جس طرح لڑکے ان کی محبت کے حقدار ہوتے ہیں، اسی طرح لڑکیاں ہوتی ہیں.جو ماں باپ اس نقص کو دیکھ کر اپنی لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کچھ دے دیتے تھے ان کے خاندانوں میں فساد پڑ جاتا تھا.کیونکہ لڑکے یہ تو نہ سوچتے تھے کہ باپ ماں کے مرنے کے بعد وہ ان کی سب جائیداد کے وارث ہونگے ہاں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے ماں باپ ان کی نسبت لڑکیوں کو زیادہ دیتے ہیں.اسی طرح خاوند جس سے کامل اتحاد کا رشتہ ہوتا تھا، اس کے مال سے بھی اسے محروم رکھا جاتا.خاوند کے دور دور کے رشتہ دار تو اس کی جائداد کے وارث ہو جاتے اور وہ عورت جو اس کی محرم راز اور عمر بھر کی ساتھی ہوتی جس کی محنت اور جس کے کام کا بہت سادخل خاوند کی کمائی میں تھا وہ اس کی جائیداد سے محروم کردی جاتی تھی.یا پھر وہ خاوند کی ساری ہی جائیداد کی نگران قرار دے دی جاتی لیکن وہ اس کے کسی حصے میں تصرّف سے محروم تھی.وہ اس کی آمد کو تو خرچ کر سکتی تھی لیکن اس کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کر سکتی تھی اور اس طرح بہت سے صدقات جاریہ میں اپنی خواہش کے مطابق حصہ لینے سے محروم رہتی تھی.خاوند اس پر خواہ کس قدر ہی ظلم کرے وہ اس سے جُدا نہیں ہو سکتی تھی یا جن قوموں میں جُدا ہو سکتی تھی ایسی شرائط پر کہ بہت ہی شریف عورتیں اس جدائی سے موت کو ترجیح دیتی تھیں.مثلاً جدائی کی یہ شرط تھی کہ خاوند یا عورت کی بدکاری ثابت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ظلم بھی ثابت کیا جائے.اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ بہت سی صورتوں میں جب عورت کا خاوند کے ساتھ رہنا ناممکن ہوتا تھا تو اسے کامل طور پر جُد اکرنیکی بجائے صرف علیحدہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا جو خود ایک سزا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو بے مقصد بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے.یا پھر یہ ہوتا تھا کہ خاوند جب چاہے عورت کو جدا کردے لیکن عورت کو اپنی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کا کسی صورت میں اختیار نہ تھا.اگر خاوند اسے معلّقہ چھوڑ دیتا یا ملک چھوڑ جاتا اور خبر نہ لیتا تو عورت کو مجبور کیا جا تاکہ وہ اس کا انتظار عمر بھر کرتی رہے اور اسے اپنی عمر کو ملک اور قوم کے لئے مفید طور پر بسر کرنے کا اختیار نہ

Page 279

۲۳۶ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ تھا.شادی کی زندگی بجائے آرام کے اس کے لئے مصیبت بن جاتی تھی اس کا کام ہوتا کہ وہ خاوند اور بیوی دونوں کا کام بھی کرے اور خاوند کا انتظار بھی کرے.خاوند کا فرض یعنی گھر کے اخراجات کے لئے کمانا بھی اس کے سپرد ہو جاتا اور عورت کی ذمہ داری کہ بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش کرے یہ بھی اس کے سپرد رہتا.ایک طرف قلبی تکلیف دو سری طرف مادّی ذمہ داریاں.یہ سب اس بے کس جان کے لئے روا رکھی جاتی تھیں.عورتوں کو مارا پیٹا جاتا اور اسے خاوند کا جائز حق تصور کیا جاتا.خاوندوں کے مرنے کے بعد عورتوں کا زبردستی خاوند کے رشتہ داروں سے نکاح کر دیا جاتا تھا یا اور کسی شخص کے پاس قیمت لے کر بیچ دیا جا تا.بلکہ خاوند خود اپنی عورتوں کو بیچ ڈالے.پانڈوں جیسے عظیم الشان شہزادوں نے اپنی بیوی کو جوئے میں ہار دیا اور ملک کے قانون کے سامنے در و پد پدی ۱؎ جیسی شریف شہزادی اُف نہ کر سکی.بچوں کی تعلیم با پرورش میں ماؤں کی رائے نہ کی جاتی تھی اور ان کا بچوں پر کوئی حق نہ تسلیم کیا جاتا تھا.اگر ماں اور باپ میں جُدائی واقع ہو تو بچوں کو باپ کے سپرد کیا جاتا تھا.عورت کا گھر سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کی زندگی میں نہ بعد.جب چاہتا خاوند اسے گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ بے خانماں ہو کر ادهر اُدھر پھرتی رہتی.رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے ان سب فلموں کو یک قلم مٹا دیا گیا.آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ خدا تعالی نے مجھے عورتوں کے حقوق کی نگہداشت خاص طور پر سپرد فرمائی ہے میں خدا تعالی کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانیت برابر ہیں اور جب وہ مل کر کام کریں تو جس طرح مرد کو بعض حقوق عورت پر حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح عورت کو مرد پر بعض حقوق حاصل ہوتے ہیں.عورت اسی طرح جائیداد کی مالک ہو سکتی ہے جس طرح مرد ہو سکتا ہے اور خاوند کا کوئی حق نہیں کہ عورت کے مال کو استعمال کرے جب تک کہ عورت خوشی سے بطو ر ہدیہ اسے کچھ نہ دے.اس سے جبراً مال لینا یا اس طرح لینا کہ شُبہ ہو کہ عورت کی حیاء انکار سے مانع رہی ہے نا درست ہے.خاوند بھی جو کچھ بطور ہدیہ اسے دے وہ عورت کا ہی مال ہو گا اور خاوند اسے واپس نہیں لے سکے گا.وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کے مال کی اسی طرح وارث ہوگی جس طرح کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے وارث ہوتے ہیں ہاں چو نکہ خاندانی ذمہ داریاں مرد پر ہوتی ہیں اور عورت پر صرف اپنی ذات کا بار ہوتا ہے اس لئے اسے مرد سے آدھا حصہ ملے گا.اسی طرح ماں بھی اپنے بیٹے کے مال سے اسی طرح حصہ پائے گی

Page 280

۲۳۷ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ جس طرح باپ.گو مختلف حالات اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے کبھی باپ کے برابر اور کبھی کم حصہ اسے ملے گا.وہ اپنے خاوند کے مرنے پر اس کے مال کی بھی وارث ہوگی خواہ اولاد ہو یا نہ ہو کیونکہ اسے دوسرے کا دستِ نگر نہیں بنایا جا سکتا.اس کی شادی ہے ک ایک پاک اور مقدس عہد ہے جس کا توڑنا بعد اس کے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے انتہائی بے تکلّفی پیدا کر لی، نہایت معیوب ہے.لیکن یہ نہیں کہ اگر عورت اور مرد کی طبیعت میں خطرناک اختلاف ثابت ہو یا مذہبی جسمانی، مالی، تمدنی، طبی مغائرت کے باوجود انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اس عہد کی خاطر اپنی عمر کو برباد کر دیں اور اپنی پیدائش کے مقصد کو کھو دیں.جب ایسے اختلافات پیدا ہو جائیں اور مرد اور عورت متفق ہوں کہ اب وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ اس معاہدہ کو بہ رضا مندی باطل کر دیں.اور اگر مرد اس خیال کا ہو اور عورت نہ ہو تو آپس میں اگر کسی طرح سمجھوتہ نہ ہو سکے تو ایک پنچایت ان کے درمیان فیصلہ کرے جس کے دو ممبر ہوں ایک مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے پھر اگر وہ فیصلہ کریں کہ ابھی عورت اور مرد کو اور کچھ مدت مل کر رہنا چاہئے تو چاہئے کہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر مرد اور عورت مل کر رہیں.لیکن جب اس طرح بھی اتفاق نہ پیدا ہو تو مرد عورت کو جُدا کر سکتا ہے.لیکن اس صورت میں اس نے جو مال اسے دیا ہے وہ اسے واپس نہیں لے سکتا.بلکہ مہر بھی اسے پورا ادا کرنا ہو گا.بر خلاف اس کے اگر عورت مرد سے جُدا ہونا چاہئے، تو وہ قاضی سے درخواست کرے اور اگر قاضی دیکھے کہ کوئی بد اخلاقی کا محرک اس کے پیچھے نہیں ہے تو وہ اسے اس کی علیحدگی کا حکم دے اور اس صورت میں اسے چاہئے کہ خاوند کا ایسا مال جو اس کے پاس محفوط ہو یا مہراسے واپس کر دے.اور اگر عورت کا خاوند اس کے حقوق مخصوصہ کو ادا نہ کرے یا اس سے کلام وغیرہ چھوڑ دے یا اس کو الگ سُلگائے تو اس کی مدت مقرر ہونی چاہئے.اور اگر وہ چار ماہ سے زائد اس کام کا مرتکب ہو تو اسے مجبور کیا جائے کہ یا اصلاح کرے یا طلاق دے.اور اگر وہ اس کو خرچ وغیرہ وینا بند کر دے یا کہیں چلا جائے اور اس کی خبر نہ لے تو اس کا نکاح فسخ قرار دیا جائے (تین سال تک کی مدت فقہائے اسلام نے بیان کی ہے) اور اسے آزاد کیا جائے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کر لے اور ہمیشہ خاوند کو اپنی بیوی اور بچوں کے خرچ کا ذمہ دار قرار دیا جائے.خاوند کو اپنی بیوی کو مناسب تنبیہہ کا اختيار ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ تنبیہہ سزا کا رنگ اختیار کرے تو اس پر لوگوں کو گواہ مقرر کرے اور

Page 281

۲۳۸ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ جُرم کو ظاہر کرے اور گواہی پر اس کی بنیاد رکھے اور سزا ای نہ ہو جو دیر پا اثر چھوڑنے والی ہو.خاوند اپنی بیوی کا مالک ہیں وہ اسے بیچ نہیں سکتا نہ اسے خادموں کی طرح رکھ سکتا ہے، اس کی بیوی اس کے کھانے پینے میں اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کے ساتھ سلوک اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرنا ہو گا اور جس طبقہ کا خاوند ہے اس سے کم لوگ اسے جائز نہ ہو گا.خاوند کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ داروں کو بھی اس پر کوئی اختیار نہیں.وہ آزاد ہے، نیک صورت دیکھ کر اپنا نکاح کر سکتی ہے، اس سے اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں.نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خاص جگہ پر رہے، صرف چار ماہ دس دن تک اسے خاوند کے گھر ضرور رہنا چاہئے تا اس وقت تک وہ تمام حالات ظاہر ہو جائیں جو اس کے اور خاوند کے دوسرے متعلقین کے حقوق پر اثر ڈال سکتے ہیں.عورت کو اس کے خاوند کی وفات کے بعد سال بھر تک علاوہ اس کے ذاتی حق کے خاوند کے مکان میں سے نہیں نکالنا چاہئے تا اس عرصہ میں وہ اپنے حصہ سے اپنی رہائش کا انتظام کر سکے.خاوند بھی ناراض ہو تو خود گھر سے الگ ہو جائے عورت کو گھر سے نہ نکالے کیونکہ گھر عورت کے قبضہ میں سمجھا جاتا ہے.بچوں کی تربیت میں عورت کا بھی حصہ ہے اس سے مشورہ لے لینا چاہئے اور اسے بچہ کے متعلق کوئی تکلیف نہیں دینی چاہئے.دودھ پلوانے نگرانی و غیره بچہ کے متعلق تمام امور میں اس سے پوچھ لینا چاہئے اور اگر عورت اور مرد آپس میں نبھاؤ کو ناممکن پا کر جُد ا ہونا چاہیں تو چھوٹے بچے ماں ہی کے پاس رہیں.ہاں جب بڑے ہو جائیں تو تعلیم وغیرہ کیلئے باپ کے سپرد کر دیئے جائیں.جب تک بچہ ماں کے پاس رہیں ان کا خرچ باپ دے بلکہ ماں کو ان کے لئے جو وقت خرچ کرنا پڑے اور کام کرنا پڑے تو اس کی بھی مالی مدد خاوند کو کرنی چاہئے.عورت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور دینی انعامات بھی وہ ہر قسم کے پا سکتی ہے.مرنے کے بعد بھی وہ اعلی ٰدرجہ کے انعامات پائے گی اور اس دنیا میں بھی حکومت کے مختلف شعبوں میں وہ حصہ لے سکتی ہے.اور اس صورت میں اس کے حقوق کاویساہی خیال رکھا جائے گا.جس طرح کہ مردوں کے حقوق کا.یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺنے اس وقت دی جب اس کے بالکل برعکس خیالات دنیا میں رائج تھے.آپ نے ان احکام کے ذریعہ عورت کو اس غلامی سے آزاد کرا دیا.جس میں وہ ہزاروں سال سے مبتلا تھی جس میں وہ ہر ملک میں پابند کی جاتی تھی جس کا طوق ہر مذہب اس کی گردن میں ڈالتا تھا.ایک شخص نے ایک ہی وقت میں ان دیر ینہ قیود کو کاٹ دیا

Page 282

۲۳۹ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ اور دنیا بھر کی عورتوں کو آزاد کر دیا.اور ماؤں کو آزاد کر کے بچوں کو بھی غلامی کے خیالات سے محفوظ کر لیا اور اعلی ٰخیالات اور بلند حوصلگی کے جذبات کے اُبھرنے کے سامان پیدا کر دیئے.مگر دنیا نے اس خدمت کی قدر نہ کی اس نے وہی بات اور احسان کے طور پر تھی اسے ظلم قرار دیا.طلاق اور خلع کو فساد قرار دیا.ورڈ کو خاندان کی بربادی کا ذریعہ عورت کے مستقل حقوق کو خانگی زندگی کو تباہ کرنے والا.اور وہ اسی طرح کرتی چلی گئی اور کرتی چلی گئی اور تیرہ سو سال تک وہ اپنی نابینائی سے اس بینا کی باتوں پر ہنستی چلی گئی اور اس کی تعلیم کو خلافِ اصولِ فطرت قرار دیتی چلی گئی.یہاں تک کہ وقت آگیا کہ خدا کے کلام کی خوبی ظاہر ہو اور جو تہذیب و شائستگی کے دعویدار تھے وہ رسول کریم ﷺ کے تہذیب سکھانے والے احکام کی پیروی کریں.ان میں سے ہر ایک حکومت ایک ایک کر کے اپنے قوانین کو بدلے اور رسول کریم آپ کے بتائے ہوئے اصول کی پیروی کرے.انگریزی قانون جو طلاق اور خلع کے لئے کسی ایک فریق کی بد کاری اور ساتھ ہی ظلم اور مار پیٹ کو لازمی قرار دیتا تھا ۱۹۲۳ء میں بدل دیا گیا اور صرف بدکاری بھی طلاق اور خلع کا موجب تسلیم کر لی گئی.نیوزی لینڈ میں ۱۹۱۲ء میں فیصلہ کر دیا گیا کہ سات سالہ پاگل کی بیوی کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے اور ۱۹۲۵ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر خاوند یا بیوی عورت اور مرد کے حقوق کو ادا نہ کریں تو طلاق یا خلع ہو سکتا ہے اور تین سال تک خبر نہ لینے پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا (بالکل اسلامی فقہاء کی نقل کی ہے مگر تیرہ سو سال اسلام پر اعتراض کرنے کے بعد) آسٹریا کی ریاست کو ئنیز لینڈ میں پانچ سالہ جنون کو وجہ طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے.ٹسمانيا میں ۱۹۱۹ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ بد کاری، چار سال تک خبر نہ لینا، بد مستی اور تین سال تک عدم توجہی ، قيد ، مار پیٹ اور جنون کو وجہ طلاق قرار دیا گیا ہے.علاقہ وکٹوریا میں ۱۹۲۳ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ خاوند اگر تین سال خبر نہ لے بد کاری کرے خرچ نہ دے یا سخت کرے‘ قید مار پیٹ یا عورت کی طرف سے بد کاری یا جنون یا سختی اور فساد کا ظہور ہو تو طلاق اور خلع ہو سکتا ہے.مغربی آسٹریلیا میں علاوہ اوپر کے قوانین کے حاملہ عورت کی شادی کو بھی فسخ قرار دیا گیا ہے (اسلام بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے ) کیوبا جزیرہ میں ۱۹۱۸ء میں فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ بد کاری

Page 283

۲۴۰ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ پر مجبور کرنا ، مار پیٹ گالی گلوچ ،سزایافتہ ہونا، بد مستی ،جوئے کی عادت‘ حقوق کا ادا نہ کرنا، خرچ نہ دینا ، متعدی بیماری یا باہمی رضامندی کو طلاق یا خلع کی کافی وجوہ تسلیم کر لیا گیا ہے.ٍاٹلی میں ۱۹۱۹ء میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ عورت اپنے مال کی مالک ہوگی اور اس میں سے صدقہ خیرات کر سکے گی یا اسے فروخت کر سکے گی اس وقت تک یورپ میں عورت کو اس کے مال کا مالک نہیں مانا جاتا تھا) میکسیکو امریکہ میں بھی اوپر کے بیان کردہ وجوہ کو طلاق و خلع کے لئے کافی وجہ تسلیم کر لیا گیا ہے.اور ساتھ ہی باہمی رضامندی کو بھی اس کے جواز کیلئے کافی سمجھا گیا ہے.یہ قانون ۱۹۱۷ء میں پاس ہوا ہے.پرتگال میں ۱۹۱۵ء میں ناروے میں ۱۹۰۹ء میں، سویڈن میں ۱۹۲۰ء، اور سوئٹرزلینڈ میں ۱۹۱۲ء میں ایسے قوانین پاس کر دئے گئے کہ جن سے طلاق اور خلع کی اجازت ہوگئی ہے.سویڈن میں باپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک بچہ کے اخراجات ادا کرے.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں گو قانون اب تک یہی کہتا ہے کہ بچہ پر باپ کا حق ہے لیکن عملاً اسلامی طریق پر اصلاح شروع ہو گئی اور جج عورت کے احساسات کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور مرد کو مجبور کر کے خرچ بھی دلوایا جاتا ہے.لیکن ابھی تک اس قانون میں بہت کچھ خامیاں ہیں گو مرد کے حقوق کی حفاظت زیادہ سختی سے کی گئی ہے.عورت کو اس کے مال پر تصرّف بھی دلا یا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی بعض ریاستوں میں یہ بھی قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپاہج ہو جائے تو بیوی پر بھی اس کے اخراجات کا مہیا کرنا لازمی ہوگا.عورتوں کو ووٹ کے حقوق دیئے جارہے ہیں اور ان سے قومی امور میں مشورہ لینے کے لئے بھی راہیں کھولی جا رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں رسول کریم ﷺکے ارشادات کے پورے تیرہ سو سال کے بعد ہوئی ہیں اور ابھی کچھ ہونی باقی ہیں.بہت سے ممالک میں ابھی عورت کو باپ اور ماں اور خاوند کے مال کا وارث نہیں قرار دیا گیا.اور اسی طرح اور کئی حقوق باقی ہیں جن میں اسلام اب بھی باقی دنیا کی راہنمائی کر رہا ہے لیکن ابھی اس نے اس کی راہنمائی کو قبول نہیں کیا لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب رسول کریم ﷺ کی راہنمائی کو ان معاملات میں بھی دنیا قبول کرے گی جس طرح اس نے اور معاملات میں قبول کیا.اور آپ کا جهاد عورتوں کی آزادی کے متعلق اپنے پورے اثرات اور نتائج ظاہر کرے گا.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى ال

Page 284

۲۴۱ عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیؐ إبراهيم إنك حميد مجید مرزا محمود احمد (الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ء) دروپدی شہزادی: ریاست پنجاب کے راجہ درو پد کی خوبصورت بیٹی جسے سویمبر (جؤا) میں ارجن جیت کر لایا تھا.ارجن کی ماں کے مشورہ پر وہ پانچ پانڈو بھائیوں کی مشترکہ بیوی بنی- در و پدی کے پانچ شوہروں سے پانچ بیٹے تھے جنہیں مہا بھارت کی جنگ میں کوروں کے جرنیل نے قتل کر دیا.(ارو و جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحہ ۵۹۷ مطبوعہ لاہور سے ۱۹۸۷ء)

Page 285

Page 286

۲۴۳ دنیا کا مُحسن از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی

Page 287

Page 288

۲۴۵ اعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى علی رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر دنیا کا محسن (فرموده۱۷جون ۱۹۲۸ء بر موقع جلسہ منعقده قادیان) قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین- لا شریک لہ و بذلک امرت و انا اول المسلمین- ۱؎ جلسہ کی غرض آج کا جلسہ اس غرض کے لئے منعقد کیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں وہ رواداری اور وہ ایک دوسرے کے احساسات کا ادب و احترام پیدا ہو جس کے بغیر نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے- ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم تمام ادیان کے بزرگوں اور ہادیوں کا ادب و احترام کریں- تمام وہ لوگ جن کو ان کی قومیں خدا کی طرف سے کھڑا کیا گیا تسلیم کرتی ہیں- تمام وہ لوگ جن کے متبعین کی جماعتیں پائی جاتی ہیں- جو انہیں خدا کا مرسل اور مامور، اوتار یا بھیجا ہوا تسلیم کرتی ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی عزت کریں- ان کی ہتک سے اجتناب کریں- اور اس تعلیم کے ماتحت ہم ہمیشہ ہی مختلف اقوام کے بزرگوں اور ان کے مذہب کے بانیوں کا ادب و احترام کرتے رہے ہیں- ہم یہودیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں- ہم عیسائیوں کے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں- ہم چینیوں کے بزرگوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں- ہم جاپانیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے اور ہم اپنے ابنائے وطن ہندؤوں کے بزرگوں کی تعظیم کرتے ہیں- اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں- اپنی کسی نفسانیت کی وجہ سے نہیں کرتے کسی ذاتی فائدہ اور غرض کے لئے نہیں کرتے بلکہ واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اور دنیا کے لئے مامور سمجھ کر کرتے

Page 289

۲۴۶ ہیں- اور ہم سمجھتے ہیں، دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ جب سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کریں گے تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کا قیام خواہ روحانی لحاظ سے ہو اور خواہ جسمانی لحاظ سے اسی پر ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی زبانوں پر قابو رکھا جائے اور ایسے رنگ میں کلام کیا جائے کہ تفرقہ اور شقاق نہ پیدا ہو- شملہ میں برہمو سماج کا جلسہ میں پچھلے سال شملہ گیا- ان دنوں رام موہن رائے صاحب جو کہ کلکتہ کے بہت بڑے آدمیوں میں سے گذرے ہیں- ان کی برسی تھی اور شملہ میں برہمو سماج کی طرف سے جلسہ ہونا تھا- مسز نائیڈو۲؎ جو کہ ایک ہندو لیڈر ہیں- بڑی بھاری شاعرہ ہیں اور گاندھی جی کی طرح ہندو مسلمانوں میں ادبواحترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اور بہت اثر رکھنے والی ہستی ہیں، وہ مجھے ملنے کے لئے آئیں- انہوں نے ذکر کیا کہ رام موہن رائے کی برسی کا دن ہے اور برہمو سماج نے جلسہ کیا ہے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ بھی اس جلسہ میں چلیں اور تقریر کریں- گو میں نے برہمو سماج کے متعلق کچھ لٹریچر پڑھا ہوا تھا مگر مجھے رام موہن رائے صاحب کی ذات کے متعلق زیادہ واقفیت نہ تھی- اس لئے میں حیران سا رہ گیا- لیکن معاً میرے دل میں خیال آیا کہ خواہ ان کے ذاتی حالات سے کتنی ہی کم واقفیت ہو مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ انہوں نے شرک کو مٹانے کی ایک حد تک کوشش کی ہے- تب میرا انشراح صدر ہو گیا اور میں نے کہا میں اس جلسہ میں آؤں گا- چنانچہ میں وہاں گیا- مسٹر ایس- آر- داس جو وائسرائے کی کونسل کے قانونی ممبر ہیں، وہ اس جلسہ کے پریذیڈنٹ تھے اور بھی بہت سے معزز لوگ وہاں موجود تھے مسز نائیڈو بھی تھیں- سرحبیب اللہ بھی تھے- اتفاق ایسا ہوا اور وہاں کی سوسائٹی کے لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی کہ سامعین کا اکثر حصہ اردو نہ جانتا تھا- مسز نائیڈو نے مجھ سے پوچھا- کیا آپ انگریزی میں تقریر کریں گے- میں نے کہا- انگریزی میں تقریر کرنے کی مجھے عادت نہیں- ولایت میں لکھ کر انگریزی تقریر کرتا رہا- مگر زبانی مختصراً چند الفاظ کہنے کے سوا باقاعدہ تقریر کا موقع نہیں ملا- مسزنائیڈو نے کہہ دیا اردو میں ہی تقریر کریں- لیکن چونکہ پریذیڈنٹ صاحب بالکل اردو نہ سمجھتے تھے اور حاضرین میں سے بھی ۹۰ فیصدی بنگالی تھے جو اردو نہ جانتے تھے، اس لئے میں نے تقریر نہ کی اور اس وجہ سے تقریر رہ گئی مگر میں تیار تھا- دراصل کسی کی خوبی کا نظر آنا بینائی پر دلالت کرتا ہے- اور خوبی کو نہ دیکھ سکنا نابینائی کی علامت ہوتی ہے اور اسلام ہمیں

Page 290

۲۴۷ حکم دیتا ہے کہ کسی کی خوبی کا انکار نہ کرو- اور دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی تعظیم و تکریم کرو- جلسہ میلاد میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مسلمانوں میں جلسے ہوتے ہیں مگر وہ خاص مذہبی رنگ کے ہوتے ہیں جیسے مولود کے جلسے- ان میں غیر مسلموں کے متعلق یہ امید رکھنا کہ وہ شامل ہوں- بہت بڑی بات ہے ان سے یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ وہ بانی اسلام کی خوبیاں سننے کے لئے آ جائیں- مگر یہ کہ کسی جلسہ میں مذہبی رسوم کی پابندی بھی کریں، یہ امید نہیں کی جا سکتی- وہ انسانی، علمی اور اخلاقی نقطئہ نگاہ سے تو ایسے جلسوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئے جائیں- مگر مذہبی نقطئہ نگاہ سے نہیں شامل ہو سکتے- ہندو مسلم اتحاد کی تجویز پس میں نے سمجھا کہ ہندو مسلمانوں میں جو بعد بڑھتا جاتا ہے- اسے روکنے کا یہی طریق ہے کہ ایسے جلسے کئے جائیں- جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذہبی حیثیت سے جلسہ نہ کیا جائے، بلکہ علمی حیثیت سے جلسہ کیا جائے- اگر لوگ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی خوبیاں دیکھ اور سن سکتے ہیں- تو پھر کیا وجہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیاں وہ نہ دیکھ سکیں- ایسے جلسوں میں غیر مسلم لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اس طرح وہ خلیج جو روز بروز بڑھتی جاتی ہے دور ہو سکتی ہے- اور ہندو مسلمانوں میں صلح ممکن ہو سکتی ہے- علاوہ ازیں خود مسلمانوں کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہونے سے عقیدت اور اخلاص پیدا ہو سکتا ہے- پھر دوسرے مذاہب کے لوگ جب آپ کے صحیح حالات سنیں گے تو وہ ایسے لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں روکیں گے- تحریک کی کامیابی یہ تحریک خدا کے فضل سے ایسے رنگ میں کامیاب ہوئی ہے کہ جو ہماری امیدوں سے بڑھ کر ہے- مثلاً کلکتہ میں بڑے بڑے لیڈروں نے جیسے بپن چندر پال جو گاندھی جی سے پہلے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور سی- پی رائے وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے ایسے جلسہ کے اعلان میں اپنے نام لکھائے یا لیکچر دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے- اسی طرح اور کئی لیڈروں نے اپنے نام پیش کئے ہیں- مدراس کے ایک ہندو صاحب نے کئی ضلعوں میں ایسے جلسے کرانے کا ذمہ لیا ہے- اور لکھا ہے کہ ہندوستان میں امن قائم

Page 291

۲۴۸ کرنے کے لئے یہ بہت قیمتی چیز ہمیں مل گئی ہے- پھر درخواست کی ہے کہ ہر سال ایسے جلسے ہونے چاہئیں- اسی طرح تھیوسافیکل سوسائٹی نے مدراس میں جلسہ کرانے کا ذمہ لیا ہے- پھر لاہور میں بڑے بڑے آدمیوں نے اس جلسہ کے اعلان پر دستخط کئے ہیں جیسے لالہ دنی چند صاحب جو بہت بڑے کانگریسی لیڈر ہیں- پھر سکھوں کے بہت بڑے لیڈر سردار کھڑک سنگھ صاحب نے کہا ہے کہ اگر اس دن میں امرتسر میں ہوا تو وہاں کے جلسہ میں اور اگر سیالکوٹ میں ہوا تو اس جگہ جلسہ میں شامل ہوں گا- غرض اس تحریک کو مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم قوموں نے بھی احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور نہ صرف احترام کی نظر سے دیکھا ہے بلکہ خواہش کی ہے کہ ایسے جلسے ہمیشہ ہونے چاہئیں تا کہ تفرقہ دور ہو اور میں سمجھتا ہوں اگر اس سال یہ تحریک کامیاب ہوئی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ امن قائم کرنے کے لئے نہایت مفید تحریک ہے- اور آئندہ ہر قوم اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی- پس اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اس مقصد کو پا لیں جو کہ ایک ہی جیسا ہندوؤں کو بھی پیارا ہے- اور مسلمانوں کو بھی ہے اور وہ ہندوستان کا امن اور ترقی ہے- ۱۷ جون کے لیکچروں کی بنیاد اس تمہید کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں- میں نے اس وقت ایک آیت پڑھی ہے جو یہ ہے-قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین- لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین- اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے- جس پر میں نے آج کے لئے لیکچر رکھے ہیں- آج کے لیکچر کے میں نے تین موضوع قرار دیئے ہیں- (۱) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات (۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں (۳) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس اس آیت میں یہ تینوں امور ہی بیان کئے گئے ہیں- گویا یہ ہیڈنگ (HEADING) میں نے اپنے پاس سے نہیں رکھے بلکہ قرآن کریم نے پیش کئے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے کہلایا ہے کہ تیرے ذریعہ دنیا پر احسان کئے گئے ہیں- تجھ سے دنیا کے لئے

Page 292

۲۴۹ قربانیاں کرائی ہیں اور تجھ کو پاک کیا گیا ہے- صلوہ کے معنی دعا اور رحمت کے ہیں- پس اس کے معنی نیک سلوک اور احسان کے ہوئے- نسک کے معنی ذبح کر دینے کے ہیں- پس اس کے معنی سزا دینے کے ہوئے- محیای یعنی زندگی ذاتی آرام اور آسائش اور ممات یعنی موت ذاتی قربانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے- پس اس آیت میں یہ بتایا کہ کہو میری عبادت یا میرا لوگوں سے حسن سلوک )یہ بھی صلٰوۃ کے معنی ہیں( اور میرا قربانیاں کرنا اور میری اپنی زندگی اور اپنی موت یہ سب خدا ہی کے لئے ہے- پہلی چیز جو صلوتی ہے- اس میں لوگوں پر احسان کرنے کا دعویٰ کیا ہے- یعنی فرمایا میرے ذریعہ لوگوں پر احسان ہوئے ہیں- دوسرے نسکی و محیای و مماتی میں بتایا کہ میرا مارنا یا مرنا یعنی قربانی کرنا یہ بھی خدا ہی کے لئے ہے- اس آخری جملہ میں تقدس کی طرف اشارہ ہے- کیونکہ تقدس کے معنی پاک ہونے کے ہیں اور جو چیز خدا کے لئے ہوگی- وہ پاک نہ ہوگی تو اور کونسی پاک ہوگی پس اس آیت میں تینوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں- ایک تو اس آیت میں دعویٰ بیان کیا گیا ہے- اور دوسرے گر بھی بتا دیا ہے کہ احسان اور قربانی اور تقدس کی دلیل کیا ہوتی ہے- ایک خاص گر اس آیت میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ کسی شخص نے احسان یا قربانی یا تقدس کو دیکھتے وقت اس کے اعمال کے ٹکڑوں کو نہ لینا چاہئے بلکہ تمام زندگی پر نظر کرنی چاہئے- اور اس کے اعمال کے مقصد کو دیکھنا چاہئے صرف سزا کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یہ شخص ظالم ہے، درست نہیں- یا کسی تکلیف دہ عمل کو دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص ظالم ہے صحیح نہیں- کسی کو سزا دیتے ہوئے دیکھ کر کوئی کہے کہ یہ کتنا بڑا ظالم ہے، تو بسا اوقات وہ اس کے متعلق رائے قائم کرنے میں غلطی کر جائے گا- استاد کے بَید مثلاً ہمارے سامنے اس وقت مدرسہ کی عمارت ہے- یہاں سے ایک شخص گذرے اور دیکھے کہ ہیڈ ماسٹر ایک لڑکے کو بید لگا رہا ہے اور وہ کہے یہ کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے تو یہ درست نہ ہوگا- کیونکہ اگر استاد کسی لڑکے کی شرارت پر اسے سزا نہ دے گا تو اس لڑکے کے ماں باپ کو حق ہوگا کہ وہ کہیں استاد نے اس کے لڑکے کو آوارہ کر دیا ہے اور اس کی اصلاح نہیں کی- اور ممکن ہے کہ لڑکا خراب ہو کر کہیں کا کہیں چلا جائے- مثلاً لڑکے نے چوری کی یا امتحان میں نقل کی یا کوئی بدکاری کی- اب اگر پیار و محبت سے سمجھانے پر وہ نہیں سمجھتا اور شرارت میں بڑھتا جاتا ہے- جس پر استاد اسے سزا دیتا ہے- تو یہ ظلم نہیں ہوگا

Page 293

۲۵۰ بلکہ اس سے محبت اور ہمدردی ہوگی- پس دیکھنا یہ ہوگا کہ استاد نے لڑکے کو مارا کیوں ہے- صرف بید لگتے دیکھ کر یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے- اسی طرح کسی گھر میں کوئی ماں یا باپ ایسا نہ ہوگا- جس نے کبھی اپنے بچے کو جھڑکا نہ ہو یا تنبیہہ نہ کی ہو یا مارا نہ ہو- مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سب ماں باپ ظالم ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان سے پیار اور محبت رکھتے ہیں- اور ان کی اصلاح کے لئے جب ضرورت سمجھتے ہیں سزا بھی دیتے ہیں- ڈاکٹر کا نشتر اسی طرح کوئی شخص ہسپتال کے پاس سے گذرے اور دیکھے کہ ڈاکٹر نے نشتر نکالا ہوا ہے اور ایک شخص کے جسم کو چیر رہا ہے- تو اسے کوئی عقلمند آدمی ظلم نہ کہے گا- دیکھنا یہ ہوگا کہ کیوں چیرا دیا گیا ہے- اگر ڈاکٹر چیرا دے کر پیپ نہ نکالتا یا گندہ حصہ کو جدا نہ کرتا تو وہ شخص مر جاتا- پس اگر ڈاکٹر کسی کے زخم سے پیپ نکالتا ہے یا اس کے پیٹ کو چیر کر پتھری نکالتا ہے- یا اس کا کوئی دانت نکالتا ہے- یا بعض دفعہ اس کا ہاتھ یا پاؤں یا ناک یا کان کاٹتا ہے تو وہ ظلم نہیں کرتا، بلکہ رحم کرتا ہے- اور جو شخص یہ دیکھے گا کہ ڈاکٹر اس قسم کا کام کر رہا ہے- وہ یہی کہے گا کہ اس نے احسان کیا ہے اور اس کے احسان ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ لوگ خود ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنا ہاتھ یا پاؤں یا کوئی اور حصہ کٹواتے ہیں- اگر یہ رحم اور احسان نہ ہوتا تو روپیہ اس کے بدلے میں دے کر کیوں ایسا کراتے- کیا کبھی کوئی اپنے پاس سے روپیہ دے کر بھی سزا لیا کرتا ہے- خدا تعالیٰ پر الزام پس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا مقصد کیا ہے- اس کی غرض فائدہ پہنچانا ہے یا تکلیف دینا اور صرف سزا کو دیکھ کر یہ کہنا کہ ظلم کیا گیا ہے درست نہیں ہے- ورنہ دنیا کے سارے مجسٹریٹ، سارے استاد، سارے ماں باپ، سارے ڈاکٹر ظالم قرار دینے پڑیں گے- بلکہ نعوذ باللہ خدا کو بھی ظالم کہنا پڑے گا کیونکہ ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی جان نکالتا ہے- وبائیں آتی ہیں، طوفان آتے ہیں، اگر صرف کسی تکلیف دہ فعل کو دیکھ کر اسے ظلم قرار دینا درست ہو سکتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا بھی ظالم ہے- لیکن اگر خدا تعالیٰ کے ایسے فعل کی کوئی حکمت ہوتی ہے- مثلاً یہی کہ ایک قوم کے نزدیک وہ پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے یا ایک دوسری قوم کے نزدیک گناہوں سے بچانے کے لئے ہوتا ہے- یا اگلے جہان میں ترقی دینے کے

Page 294

۲۵۱ لئے ہوتا ہے- تو ماننا پڑے گا کہ ہر سزا کو دیکھ کر اسے ظلم نہیں کہا جا سکتا- جیسا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سزا آتی ہے، چاہے اسے تناسخ کا نتیجہ سمجھو، چاہے اس دنیا کی زندگی کے اعمال کی جزا سمجھو، چاہے تنبیہہ کے طور پر سمجھو، چاہے ترقی کا ذریعہ سمجھو- مگر بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ظلم نہیں ہے بلکہ رحم ہے- اور انسان کے فائدہ کے لئے ہے- غرض کسی انسان کے فعل میں کوئی سختی یا سزا یا موت یا قتل کا پایا جانا ظلم نہیں ہوتا- ظلم اس وقت ہوتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ محبت اور شفقت، ہمدردی اور خیر خواہی کے طور پر نہیں بلکہ انتقام اور بدلہ لینے کے لئے سزا دی گئی ہے- اگر غصہ اور بے پرواہی، بدلہ اور لذتانتقام کے لئے سزا دی جائے تو یہ فعل یا تو عبث ہوگا اور یا ظالمانہ کہلائے گا- لیکن اگر فعل کی غرض رضائیالہی، اصلاح نفس سزا یافتہ یا حفاظت حقائق ازلیہ ہو، تو یہ فعل برا نہ ہوگا- مذہبی لیڈروں کا لڑائی میں حصہ لینا چنانچہ ہم کہتے ہیں جتنے بڑے بڑے مذہبی لیڈر ہوتے ہیں، انہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے- رامچندر جی نے لڑائی میں حصہ لیا- انہوں نے روان پر جو حملہ کیا اور اسے تباہ کیا یہ درست تھا کیونکہ وہ سبق دینا چاہتے تھے کہ کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے- ان کے اس مقصد کو دیکھ کر ہر عقلمند ان کے اس فعل کو درست کہے گا اور ان کی تعریف کرے گا- اسی طرح کرشن جی نے لڑائی میں حصہ لیا- لڑائی کرنے کی پر زور تحریک کی اور گیتا میں اس بات پر بڑا زور دیا کہ لڑائی کرنا بھی ضروری ہوتا ہے- اور اچھے اغراض کے ماتحت لڑائی کرنا منع نہیں ہے- اور بتایا ہے کہ کرشن جی لڑائی کی تحریک خدا کے لئے ہی کر رہے تھے- اس لئے ان کا فعل اچھا تھا برا نہ تھا- اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں- اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لڑائی کا موقع نہیں ملا- مگر ان کے بعد میں آنے والے پیرؤوں نے لڑائیاں کیں اور حق کے لئے کیں- پس جو کام دنیا کی اصلاح اور فائدہ کے لئے کیا جائے اور نیکی نیتی سے کیا جائے، جائز حد تک کیا جائے، وہ برا نہیں ہوتا بلکہ اچھا ہوتا ہے- رحم کس حال میں اچھا ہے یہی حال رحمت کا بھی ہے- رحم بھی اسی وقت اچھا ہوتا ہے جب کہ نیک نیتی اور نیک ارادہ سے کیا جائے- مثلاً ایک

Page 295

۲۵۲ شخص کے پاس کسی کا لڑکا ہو جو روز بروز خراب ہوتا جائے- مگر وہ اسے کچھ نہ کہے اور کسی برائی سے نہ روکے تو کوئی شخص اسے اچھا نہ کہے گا- ہر ایک یہی کہے گا کہ اس نے بہت برا کیا، فلاں کے لڑکے کو خراب کر دیا- اسی طرح طبعی رحم بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا- ایک شخص میں بزدلی پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے وہ کسی کو سزا نہیں دے سکتا تو یہ اس کی خوبی نہیں، نہ قابل تعریف بات بلکہ یہ نقص ہے- اسی طرح اگر کوئی ریا کے طور پر رحم کرے- اس کے دل میں تو بغض بھرا ہو مگر ظاہر طور پر وہ رحم کا سلوک کرے تو یہ بھی قابل قدر نہ ہوگا- یا اگر نیک سلوک اس لئے کرتا ہو کہ اسے کچھ حاصل ہو جائے تو یہ بھی قابل تعریف نہ ہوگا- جیسے شاعر لوگوں کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ کچھ مل جائے- لیکن اگر حسن سلوک دلیل اور برہان کے ماتحت ہو، فکر کے نتائج میں ہو، دوسرے کے فائدہ کے لئے ہو کہ اس سے ان کی اصلاح ہو گی اور امن قائم ہوگا، تو یہ قابل قدر چیز ہوگی- نفس کا آرام پھر نفس کے آرام کا بھی یہی حالت ہے وہ جس مقصد کے لے ہوگا، اسی کے مطابق اس کا درجہ ہوگا- اگر وہ لذت نفس کے لئے سستی یا تکبر کے لئے یا آرام طلبی کی غرض سے ہو تو برا ہے- لیکن اگر حکمت کے ماتحت ہو، اظہار شکر کے لئے ہو تو اچھا ہے- مثلاً اگر کوئی اس لئے سوتا ہے کہ تازہ دم ہو کر خدا کے لئے یا بنی نوع انسان کے لئے زیادہ محنت سے کام کر سکے گا، تو اس کا یہ آرام پانا قابل تعریف ہوگا- یا کوئی کھانا اس لئے کھاتا ہو کہ طاقت پیدا ہو اور دین یا دنیا کی خدمت کر سکوں- تو یہ بھی قابل تعریف ہوگا- یا اچھے کپڑے اس لئے پہنتا ہو کہ اللہ نے اس پر جو احسان کیا ہے، اسے ظاہرے کرے- صفائی رکھے تو یہ اچھی بات ہے- اسی طرح اگر کوئی زہد اختیار کرے یعنی دنیا کی چیزوں کو چھوڑے تو وہ اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، تو یہ برا فعل ہے- لیکن اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگوں کو نفع پہنچائے تو اچھا ہے- یا اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اسے پیر مان لیں، تو یہ برا ہے- لیکن اگر لوگوں کے لئے قربانی کرتا ہے تو یہ اچھا ہے- پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو سزا دینا یا ان پر رحم کرنا، کسی کو مارنا یا خود مرنا یا زندہ رہنا اگر خدا کے لئے ہے تو اچھا فعل ہے اور اگر خدا کے لئے نہیں تو پھر اچھا فعل نہیں ہے-

Page 296

۲۵۳ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس گر کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو دیکھنا چاہئے کہ آپؐکی زندگی لوگوں کے فائدہ کے لئے تھی یا اپنے فائدہ کے لئے- آپ کا مرنا اپنے لئے تھا یا لوگوں کے فائدہ کے لئے- آپ نے جو احسان کئے وہ اپنے فائدہ کے لئے تھے یا لوگوں کے فائدہ کے لئے- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے جو احسان کئے، وہ اپنے نفس کے لئے تھے تو پھر خواہ آپ کے دس ہزار احسان گنا دئے جائیں یہ آپ کی کوئی خوبی نہ ہوگی- اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے کسی کو جو سزا دی، وہ غصہ اور انتقام کے طور پر دی تھی تو بے شک یہ بری بات ہوگی- لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا- اور یہ ایسی ہی سزا تھی جیسی خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے اور جو دوسروں کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے تو یہ قابل تعریف بات ہوگی- اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی اپنے ذاتی آرام و آسائش کے لئے خرچ کی، تو یہ بری بات ہوگی- لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کی، تو یہ مقدس زندگی ہوگی- اسی طرح آپ کی موت اپنے لئے ہوئی تو بری ہوگی لیکن اگر خدا کے لئے ہوئی، تو مقدس ہوگی- ‏ بُری قربانی دیکھو کئی دفعہ قربانی بھی بری ہو جاتی ہے- ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک شخص آ کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گیا اور بڑے زور سے لڑتا رہا- لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا یہ بڑی جانبازی سے لڑا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ جہنمی ہے- یہ بات سن کر ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور ایک شخص اس کے پیچھے چل پڑا- آخر وہ زخمی ہوا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم کیوں لڑے ہو، تو اس نے کہا کہ میں کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑا- بلکہ مجھے اس قوم سے بغض تھا، اس کی وجہ سے لڑا تھا- تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا- حالانکہ وہ آپ کی طرف سے لڑا تھا- بلکہ آپ نے فرمایا چونکہ یہ صداقت کے لئے نہیں لڑا، بلکہ نفسانیت کے لئے لڑا ہے، اس لئے اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہے- غرض جب مقصد اور مدعا اچھا ہو، سزا بھی اچھی ہوتی ہے اور احسان بھی اچھا ہوتا ہے- لیکن اگر مقصد خراب ہو تو سزا بھی خراب ہوتی ہے اور احسان بھی-

Page 297

۲۵۴ رسول اللہ کا تقدس گو احسان اور قربانی میں ہی تقدس کا ذکر آ جاتا ہے کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھ کر کام کرنے کا نام ہی تقدس ہے- مگر میں اصول طور پر بھی بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں- تقدّس کا دعویٰ سب سے پہلی چیز دعویٰ ہوتا ہے اور جب مصلحین کا سوال ہو تو سب سے مقدم امر یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ انہوں نے خود بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کہ جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمیں صاف لفظوں میں تقدس کا دعویٰ نظر آتا ہے- خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ فرمائیں کہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون- ۳؎ ان کے سامنے یہ بات پیش کرو کہ میں بچپن سے تمہارے اندر رہا ہوں بچہ تھا کہ تم میں رہتے ہوئے بڑا ہوا- تم نے میری ایک ایک بات دیکھی ہے- کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں نے کبھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا اگر کبھی نہیں لیا تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ آج میں تم سے کوئی فریب کر رہا ہوں- یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے کہ آپ پر لوگ کوئی عیب نہیں لگا سکتے- پس وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خدا پر آپ نے جھوٹ بولا- اس دعویٰ کا رد چونکہ آپ کے دشمنوں نے نہیں کیا- اس سے معلوم ہوتا کہ انہیں بھی آپ کے تقدس کا اقرار تھا- تقدّس کے دعویٰ کا ایک اور ثبوت دوسری شہادت ایک اور ہے- یہ بھی قرآن کریم کی ہے اور قرآن کریم کے نہ ماننے والوں کے لئے گو دلیل نہیں لیکن اس سے دعویٰ ضرور ثابت ہو جاتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- قد نعلم انہ لیحزنک الذی یقولون فانھم لا یکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون ۴؎ اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے- ہمیں معلوم ہے کہ لوگ تجھے جھوٹا اور فریبی کہتے ہیں- مکاّر اور ٹھگ قرار دیتے ہیں- طالب حکومت اور شوکت بتاتے ہیں- اور یہ باتیں تجھے بری لگتی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ یہ تجھے بُرا کہتے ہیں- بلکہ اس لئے کہ یہ لوگ ہماری باتوں کا انکار کرتے ہیں- عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے مذہب کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو اسے اتنا جوش نہیں

Page 298

۲۵۵ آتا جتنا اس وقت آتا ہے جب کوئی اسے گالی دے- مگر یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد)صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم( کے نفس کی یہ حالت ہے کہ انہیں جو چاہیں کہہ لیں مگر خدا تعالیٰ کی باتوں کا انکار نہ کریں- اور اس کی شان کے خلاف باتیں نہ کریں- گویا آپ کا غم و حزن محض اللہ کے لئے تھا- اپنی ذات کے لئے نہ تھا- اپنے متعلق اپنی شہادت اب ایک اور شہادت آپ کے تقدس کی پیش کرتا ہوں جو آپ کی اپنی شہادت ہے- عموماً اپنے متعلق اپنی شہادت کو وقعت نہیں دی جاتی لیکن یہ ایسی بے ساختہ شہادت ہے کہ جس کے درست تسلیم کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا- جب آپ کو پہلے پہل الہام ہوا تو آپ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے جو عیسائی تھے- عیسائیوں میں چونکہ الہامی کتاب تھی اور عربوں میں نہ تھی، اس وجہ سے حضرت خدیجہ ؓ آپ کی بیوی ان کے پاس آپ کو لے گئیں تا ان سے اس کے متعلق مشورہ کریں- آپ نے ان سے ذکر کیا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے- ورقہ نے کہا تمہاری قوم تمہیں تمہارے وطن سے نکال دے گی- کاش میں اس وقت جواب ہوتا تو تمہاری مدد کرتا- یہ سن کر آپ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا- او مخرجی ھم ۵؎ میں ہمیشہ لوگوں کا خیر خواہ رہا ہوں اور ان کی بھلائی کی کوشش کرتا رہا ہوں پھر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ یہ مجھے نکال دیں گے- یہ شہادت گو آپ کی اپنی شہادت ہے مگر ہر عقلمند کو ماننا پڑے گا کہ سچی ہے- کیونکہ ایسے موقع پر منہ سے نکلی ہے جب کہ کسی بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا- آپ فرماتے ہیں کیا یہ بھی ممکن ہے کہ میرے جیسے خیر خواہ اور ہمدرد کو نکال دیں- وہ لوگ مجھ سے محبت اور پیار کرتے ہیں- مجھے صدوق اور امین قرار دیتے ہیں میری خیر خواہی کے قائل ہیں- پھر کس طرح ممکن ہے کہ نکال دیں- میں نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، کسی سے کبھی فریب نہیں کیا- کسی کو نقصان نہیں پہنچایا- یہ بھی اس بات کی ایک شہادت ہے کہ آپ کی زندگی مقدس تھی کیونکہ آپ یہ خیال ہی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی یا یہ کہ قوم کے پاس آپ کو نکالنے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے-

Page 299

۲۵۶ بیوی کی شہادت چونکہ خاوند کی سب سے زیادہ راز دان بیوی ہوتی ہے اس لئے میں آپ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق آپ کی بیوی کی بھی ایک شہادت پیش کرتا ہوں- یہ شہادت لوگوں کے سامنے نہیں دی گئی کہ اس میں بناوٹ کا شبہ ہو- بلکہ علیحدہ گھر میں دی گئی ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ عمر کی عورت سے شادی کی- ۲۵ سال کی عمر میں مرد پورا جوان ہوتا ہے- اور چالیس سالہ عورت بڑھاپے کی طرف جا رہی ہوتی ہے- اس عمر کا نوجوان اول تو پہلے ہی ایسے رشتہ کو ناپسند کرتا ہے اور اگر رشتہ ہو جائے تو ناگوار حالات رونما ہو جاتے ہیں- وجہ یہ کہ ایسی عمر میں مرد کی خواہشات اور ہوتی ہیں اور عورت کی اور- لیکن رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کے ۱۵ سال بعد نبوت کا دعویٰ کیا- اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر ۵۵ سال کی تھی اور آپ کی عمر چالیس سال کی- اس پندرہ سال کے عرصہ میں حضرت خدیجہ نے جو نتیجہ نکالا، وہ یہ تھا کہ جب آپ کو الہام ہوا اور آپ اس بات سے گھبرا گئے کہ میں کہاں اور یہ درجہ کہاں- اور آپ نے حضرت خدیجہ سے ذکر کیا تو انہوں نے آپ سے کہاکلا واللہ مایخزیک اللہ ابدا- انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف وتعین علی نوائب الحق ۶؎ فلا یسلط اللہ علیک الشیطین والاوھام والا مراء ان اللہ اختارک لھدایہ قومک-۷ ؎ حضرت خدیجہ الہام نازل ہونے کا ذکر سن کر فوراً کہتی ہیں- نہیں نہیں- خدا کی قسم- خدا کبھی آپ کو ضائع نہ کرے گا- آپ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں- کبھی کوئی بے کس آپ کو نظر نہیں آیا جس کا آپ نے بوجھ نہ اٹھایا ہو- سارے عرب میں یہ خوبیاں نہ تھیں آپ نے زندہ کیں- کوئی مسافر آپ کے پاس نہیں آیا جس کی مہمانی آپ نے نہ کی ہو- کسی پر جائز مصیبت نہیں پڑی جس کی مدد کے آپ تیار نہ ہو گئے ہوں- پس کبھی آپ پر خدا تعالیٰ شیاطین کو مسلط نہ کرے گا- اور کبھی خدا آپ کو مجنون نہ کرے گا- پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنی قوم کی ہدایت کے لئے چن لیا ہے- یہ اس عورت کی گواہی ہے جس نے چالیس سال کی عمر میں پچیس سالہ مرد سے شادی کی تھی- اور اس مرد سے شادی کی تھی جو غریب تھا اور ایسی حالت میں شادی کی تھی کہ کئی

Page 300

۲۵۷ لاکھ روپیہ کی وہ مالک تھی- پھر اس نے اپنی ساری دولت خاوند کے ہاتھ میں دے دی تھی اور اس خاوند کے حق میں ہے جس نے وہ ساری دولت غریبوں میں لٹا دی تھی- ایسی حالت میں اس عورت کو اپنے خاوند کے متعلق شکایت کے بیسیوں مواقع پیدا ہو سکتے تھے- مگر جب حضرت خدیجہ ؓ نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ بوجھ جو مجھ پر ڈالا گیا ہے مجھ سے کس طرح اٹھایا جائے گا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ کس طرح یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا آپ پر شیطانوں کو مسلط کر دے مرد کا عورت سے بڑھ کر محرم راز کوئی نہیں ہو سکتا- پس یہ اس محرم راز کی شہادت ہے آپ کے تقدس کے متعلق- اور وہ بھی لوگوں کے سامنے نہیں کہ کہا جائے اپنے خاوند کی حمایت کے لئے اس نے ایسا کہا بلکہ الگ طور پر آپ کو تسلی دینے کے لئے کہتی ہے- یہ اتنی بڑی شہادت ہے کہ کسی کو اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہو سکتی- دوستوں کی شہادت یہ تو آپ کے تقدس کے متعلق آپ کی بیوی کی شہادت ہے- مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیویوں سے تو اچھا سلوک کرتے ہیں- مگر اپنے ملنے جلنے والوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا- اس لئے کوئی کہہ سکتا ہے مان لیا بانیاسلام کی زندگی بیوی کے متعلق پاکیزہ تھی- لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اپنے دوستوں کے متعلق بھی اچھی تھی اس لئے میں آپ کے دوستوں کی شہادت پیش کرتا ہوں- ان دوستوں میں سے ایک تو ایسے دوست کی شہادت پیش کرتا ہوں جو آپ پر ایمان لایا- اور ایک ایسے کی جو ایمان نہ لایا- جو دوست ایمان لایا وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے- ان کی گواہی یہ ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تو لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ پاگل ہو گئے ہیں یا آپ جھوٹ بولتے ہیں- حضرت ابوبکر ؓ اس وقت مکہ سے باہر تھے- واپسی پر کسی دوست کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس شخص کی لونڈی نے آکر کہا- آپ نے سنا کیسا اندھیر ہو گیا ہے کہ خدیجہ کے خاوند محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے- اور میں نبی ہوں- حضرت ابوبکر ؓ یہ سن کر چپ چاپ اٹھے اور رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے- آکر دروازہ پر دستک دی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر آئے اور چاہا کہ آپ کو اپنے دعویٰ سے خبردار کریں کہ انہوں نے کہا مجھے ایک بات پوچھ لینے دیں- آپ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں-

Page 301

۲۵۸ انہوں نے کہا- بس میں اور کچھ نہیں معلوم کرنا چاہتا- میں جانتا ہوں کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا- اور میں آپ پر ایمان لاتا ہوں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اس میں کچھ کجی پائی- لیکن ابوبکر نے فوراً ہی میری بات کو قبول کر لیا-۸؎ (اس سے مراد خاندان کے باہر کے لوگ ہیں ورنہ حضرت خدیجہ حضرت علیؓ اور زید بن حارثہؓ جو بیٹوں کی طرح آپ کے گھر میں پلے تھے اس میں شامل نہیں- یہ لوگ فوراً ایمان لے آئے تھے- ) یہ دوست کی شہادت ہے کہ وہ کوئی دلیل، کوئی ثبوت، کوئی معجزہ طلب نہیں کرتا- صرف اتنا کہتا ہے کہ یہ بتا دیجئے کیا آپ نے دعویٰ کیا ہے؟ اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ کیا ہے تو ایمان لے آتا ہے- ایک اور دوست آپ کا حکیم ابن حزام تھا- وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جا کر ایمان لایا- ۲۱ سال کے قریب وہ آپ کا مخالف رہا- مگر باوجود اس کے کہ اس نے آپ کے دعویٰ کو نہ مانا، تا ہم اتنا اخلاص رکھتا تھا کہ ایک بادشاہ کا مال جب مکہ میں آ کر نیلام ہوا تو ایک کوٹ جو کئی سو کی قیمت کا تھا اور لوگوں کو بہت پسند آیا تھا، اسے جب اس نے دیکھا تو کہنے لگا محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( سے زیادہ یہ کسی کو نہ سجے گا- اس نے وہ کوٹ خرید لیا اور ہدیہ کے طور پر آپ کے لئے مدینہ میں لے کر آیا- اس اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کو غلطی لگ گئی ہے- مگر یہ نہ سمجھتا تھا کہ آپ فریب دے رہے ہیں- تبھی تو باوجود ایمان نہ لانے کے وہ آپ کے لئے ایک قیمتی تحفہ خرید کر مکہ سے مدینہ تین سو میل کی مسافت طے کر کے لے گیا- ایک غیر جانبدار کی شہادت لیکن بعض دفعہ دوست کی شہادت کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ دوست جو ہوا اس کی شہادت دوست کے حق میں ہی ہوگی- اس لئے میں ایک غیر جانبدار کی شہادت پیش کرتا ہوں- وہ آپ کے بچپن کے متعلق ہے اور یہ ایک لونڈی کی شہادت ہے- ابوطالب کی لونڈی کہتی ہے- جب بچپن میں آپ اپنے چچا ابوطالب کے گھر آئے تو سارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے- مگر آپ نے کبھی ایسی باتوں میں حصہ نہ لیا- کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر سارے بچے لپک پڑتے- مگر آپ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے- جو کچھ دے دیا جاتا کھا لیتے، خود کچھ نہ مانگتے- یہ آپ کے وقار،

Page 302

۲۵۹ عزتِ نفس اور سیر چشمی کے متعلق شہادت ہے- بہت بڑے دشمن کی شہادت مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک وقت اور ایک حالت کے متعلق ہے اس لئے میں ایسی شہادت پیش کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن کی ہے اور بچپن سے لے کر ادھیڑ عمر تک کے زمانہ کے متعلق ہے- اس شخص نے آپ کی مخالفت میں ہر طرح سے حصہ لیا تھا- آپ پر پتھر پھینکے، آپ کے قتل کے منصوبے کئے- اس کا نام نضر بن الحارث تھا- یہ ان ۱۹- اشخاص میں سے تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبہ میں شامل تھے- جب دعویٰ کے بعد لوگ مکہ میں آنے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کا چرچا پھیلا تو مکہ کے لوگوں کو فکر پیدا ہوئی کہ حج کا موقع آ رہا ہے- بہت سے لوگ یہاں آئیں گے اور ان کے متعلق پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گے- اس کے لئے انہوں نے مجلس کی- جس میں قریش کے بڑے بڑے سردار اکٹھے ہوئے تاکہ سب مل کر ایک جواب سوچ لیں- ایسا نہ ہو کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ، اور سب ہی لوگ ہم کو جھوٹا سمجھیں- اس مجلس میں مختلف جواب پیش کئے گئے- ایک شخص نے کہا یہ کہدو کہ جھوٹا ہے اس وقت نضر بن الحارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا- قد کان محمد فیکم غلاما حدثا ارضا کم فیکم واصد قکم حدیثا واعظمکم امانہ حتی اذا رایتم فی صدغیہ الشیب وجاء کم بماجاء کم قلتم ساحر لا واللہ ماھر بساحر۹؎ وہ بڑے جوش سے کہنے لگا- جواب وہ سوچو جو معقول ہو- محمدﷺ تمہارے اندر پیدا ہوا- تمہارے اندر جوان ہوا- تم سب اسے پسند کرتے تھے اور اس کے اخلاق کی تعریف کرتے تھے- اسے سب سے سچا سمجھتے تھے- یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو گیا- اور اس کے سر میں سفید بال آ گئے- اور اس نے وہ دعویٰ کیا جو کرتا ہے- اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے کون جھوٹا مانے گا- لوگ تمہیں ہی جھوٹا کہیں گے اس جواب کو چھوڑ کر کوئی اور جواب گھڑو- یہ دشمن کی گواہی ہے اور بہت بڑے دشمن کی گواہی ہے- پھر تائید کے لئے گواہی نہیں- بلکہ ایسی مجلس میں پیش کی گئی ہے جو آپ کی مخالفت کے لئے منعقد کی گئی تھی اور اس لئے پیش کی گئی تھی کہ کس طرح لوگوں کو آپ کی طرف سے پھرایا جائے-

Page 303

۲۶۰ خادم کی شہادت پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں- بیویوں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں- بھائیوں سے بھی عمدگی سے پیش آتے ہیں- مگر اپنے نوکروں پر سختی کرتے ہیں- اس لئے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک نوکروں سے کیسا تھا- اس کے لئے ایک ایسے شخص کی شہادت پیش کی جاتی ہے جو بچپن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا اور آپ کی وفات تک آپ کے پاس رہا- وہ شخص انس ؓتھے- وہ بیان کرتے ہیں خواہ مجھ سے کوئی کام کتنا ہی خراب ہو جائے- کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ نہ ہوتے تھے- اور نہ ہی بری نظر سے دیکھتے تھے- پھر آپ نے مجھے کوئی کام ایسا نہیں بتایا جو میں نہ کر سکتا تھا اور جو کام مجھے بتاتے آپ بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے اور آپ کبھی سخت کلامی نہ کرتے تھے- معاملہ کرنے والے کی شہادت پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں اور نوکروں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں- مگر جب کسی سے مشارکت مالی انہیں ہو جاتی ہے تو پھر ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جن لوگوں کو معاملہ پڑا ہم ان کی شہادت پر نگاہ ڈالتے ہیں- قیس بن سائب ایک شخص تھا- جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مل کر تجارت کی تھی- وہ مدتوں تک مسلمان نہ ہوا- فتح مکہ کے بعد وہ آپ کے پاس آیا اور کسی نے بتایا کہ یہ فلاں شخص ہے- آپ نے فرمایا- میں تمہاری نسبت اسے زیادہ جانتا ہوں- اس سے مل کر میں نے تجارت کی تھی- اس نے کہانعم الشریک لایداری ولایماری ولایشاری ۱۰؎ کہ اس سے اچھا شریک میں نے نہیں دیکھا- اس نے کبھی ٹھگی نہ کی، کبھی کوئی شرارت نہ کی، کبھی کوئی جھگڑا نہ کیا- وصال کے بعد کی شہادتیں پھر کہا جا سکتا ہے کہ آپ بڑے آدمی تھے زندگی میں لوگ ان سے ڈرتے تھے اور کوئی مخالفانہ بات نہ کہہ سکتے تھے- اس لئے میں اس زمانہ کو لیتا ہوں- جب کہ آپ فوت ہو گئے کہ اس وقت آپ کے متعلق کیا شہادت ملتی ہے- دوسری بیوی کی شہادت اس زمانہ کے متعلق بھی پہلے میں آپ کی ایک بیوی کی شہادت پیش کرتا ہوں اور وہ حضرت عائشہؓ ہیں- جو آپ کی نو

Page 304

۲۶۱ بیویوں میں سے ایک ہیں- کسی کی دو بیویاں ہوں تو اس کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے- مگر آپ کی ۹ بیویاں تھیں اور بڑھاپے کی عمر کی تھیں- اور وہ بیویاں تھیں جن کو کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملا تھا- مگر کسی نے حضرت عائشہؓ سے جب پوچھا- رسول کریم کے خلق کے متعلق تو کچھ بتائیے- تو انہوں نے کہا کان خلقہ القران ۱۱؎ قرآن میں جن اخلاق حمیدہ کا ذکر ہے- وہ سارے کے سارے آپ میں پائے جاتے تھے- حضرت عائشہ ؓ کی محبت کا یہ حال تھا کہ کسی نے انہیں دیکھا کہ روٹی کھا رہی ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں- پوچھا یہ کیا- آپ کیوں رو رہی ہیں- تو کہا کیوں نہ رؤوں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے مگر کبھی چھنے آٹے کی روٹی میں پکا کر ان کو نہ کھلا سکی اب جو میں ایسی روٹی کھا رہی ہوں تو میرے گلے میں پھنس رہی ہے اس وقت اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو میں انہیں یہ روٹی کھلاتی- کسی کو جب ذرا آرام مل جاتا ہے تو وہ اپنے پیارے سے پیارے عزیزوں کو بھول جاتا ہے- مگر حضرت عائشہ ؓ جو نوجوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں- جنہیں کوئی دنیاوی آرام رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حاصل نہ ہوا تھا وہ آپ کے اخلاق کی ایسی معتقد ہیں کہ جب انہیں اچھی چیز ملتی ہے، تو کہتی ہیں کاش رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو میں انہیں کھلاتی- خلفاء کی شہادتیں پھر میں آپ کے خلفاء کی شہادت کو لیتا ہوں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کا قائم مقام بنتا ہے تو اس کی مذمت کرتا ہے تاکہ اپنی عزت قائم کرے- سوائے اس کے جسے خاص روحانی اور اخلاقی تعلقات ہوں- حضرت ابوبکرؓ کی شہادت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ ہوئے- جب ان کے وقت میں سارے عرب میں بغاوت ہو گئی اور لوگوں نے کہہ دیا ہم ٹیکس نہیں دیں گے- تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ ان لوگوں سے مقابلہ پیش آ گیا ہے، اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل جو لشکر روانہ کیا تھا، اسے روک لیا جائے- پہلے بغاوت کو فرو کر لیا جائے اور پھر لشکر کو بھیجا جائے- مگر حضرت ابوبکر ؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عظمت تھی کہ اپنے باپ کا نام لے کر کہنے لگے- کیا ابن ابی قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے- خدا کی قسم! اگر دشمن مدینہ میں آکر ہماری عورتوں کو گھسیٹنے لگے تو بھی میں رسول

Page 305

۲۶۲ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو نہیں روکوں گا-۱۲؎ اس واقعہ کو سن کر کوئی کہہ سکتا ہے- اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی اسلام اپنے دعویٰ میں سچے تھے- ہم بھی کہتے ہیں- بے شک صرف اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا مگر اس سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت راستباز اور متقی انسان تھے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے قول کا پاس ان کے شاگردوں کو غیر معمولی حد تک تھا- حضرت عمرؓ کی شہادت دوسری شہادت آپ کے دوسرے خلیفہ کی پیش کرتا ہوں اور وہ بھی موت کے وقت کی- جب حضرت عمر ؓ فوت ہونے لگے تو انہوں نے اس بات کے لئے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن ہونے کی جگہ مل جائے- چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپ کے پہلو میں دفن کیا جائے-۱۳؎ حضرت عمر وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مورخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اور کسی نے نہیں کی- وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمر ؓ کی تعریف کرتے ہیں- ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپ کے قدموں میں جگہ پائے- حضرت عثمانؓ کی شہادت تیسری شہادت میں آپ کے تیسرے خلیفہ کی پیش کرتا ہوں- جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر آپ کی عزت و احترام ان کی نظر میں تھا- حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بغاوت ہو گئی اور باغیوں نے یہ منصوبہ کیا کہ ان کو مار دیں- اس وقت حضرت معاویہؓ ان کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ باغیوں کا خیال ہے کہ آپ کو مار کر کسی اور صحابی کو خلیفہ بنا لیں گے- اس لئے آپ بڑے بڑے صحابہ کو باہر بھیج دیں- مگر اس وقت جب کہ بغاوت پھیل رہی تھی اور حضرت عثمانؓ کو اپنی جان کا خطرہ تھا- انہوں نے کہا- اے معاویہ! یہ کس طرح مجھ سے امید کی جا سکتی ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر بھیج دوں- جنہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا

Page 306

۲۶۳ تھا- گویا انہوں نے اپنی جان قربان کر دی- مگر صحابہ کو باہر بھیجنے کے لئے تیار نہ ہوئے- اس لئے کہ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا تھا- کیا یہ ادب اور یہ احترام اس شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جس نے ساری عمر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر آپ کی کوئی ٹھگی دیکھی ہو- حضرت علیؓ کی شہادت حضرت علیؓ چونکہ آپ کے عزیز ترین رشتہ دار تھے اور ان کی ساری زندگی ہی آپ کی صداقت کی شہادت میں پیش کی جا سکتی ہے- اس لئے ان کے کسی خاص واقعہ کو بیان کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا- شہادت کا نتیجہ یاد رکھو- شہادت اسی وقت کے لوگوں کی ہوتی ہے- پس آپ کی بیوی کی شہادت پیش کی گئی کہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے- پھر آپ کے دوستوں، دشمنوں کی شہادت پیش کی گئی ہے- پھر وفات کے بعد کے زمانہ کے متعلق شہادت پیش کی گئی ہے- پھر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ موقع کے لوگوں کی گواہی تو قابل اعتبار نہ سمجھی جائے- اور بعد کے لوگ جو کہیں اسے درست مان لیا جائے- موقع ہی کی گواہی اصل گواہی ہوتی ہے- اور موقع کے دوست دشمن سب کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مقدس وجود تھے- پھر کوئی وجہ نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو مقدس نہ کہیں- خدا تعالیٰ کے لئے غیرت دوسرا ثبوت آپ کے تقدس کا وہ غیرت ہے جو آپ خدا تعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے- ایک مشہور واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے کس قدر غیرت تھی- جب احد کی لڑائی ہوئی تو اس میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہو گئے اور دشمنوں نے سمجھا کہ آپ کو انہوں نے مار ڈالا ہے- یہ سمجھ کر مکہ کے ایک سردار نے میدان جنگ میں بلند آواز سے کہا بتاؤ محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کہاں ہے- آپ نے فرمایا کوئی جواب نہ دو- کوئی جواب نہ پا کر اس نے کہا ہم نے محمد کو مار دیا ہے- پھر اس نے کہا ابوبکر کہاں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- کوئی نہ بولو- اس نے کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا ہے- پھر اس نے کہا عمر کہاں ہے- حضرت عمر جوش سے بولنے لگے کہ میں تمہاری خبر لینے کے لئے موجود ہوں مگر آپ نے انہیں روکا کہ جواب مت دو اس پر اس نے کہا ہم نے عمر کو بھی مار دیا ہے- پھر اس نے کہا اعل ھبل- اعل ھبل- ھبل (جو مکہ کا ایک بت تھا)کی شان بلند ہو- کیونکہ ہم نے بتوں کے

Page 307

۲۶۴ مخالفوں کو مار دیا ہے- اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ابھی فرما چکے تھے کہ خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو کیونکہ مصلحت اسی میں تھی- بہت سے مسلمان زخمی تھے اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لوٹ کر ان پرحملہ آور نہ ہوں، فرمانے لگے کہ جواب کیوں نہیں دیتے- کہو- اللہ اعلی و اجل- اللہ اعلی و اجل-۱۴؎ اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے- اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے- اب دیکھو کہ باوجود ایسے نازک موقع کے کہ بہت کثرت سے مسلمان زخمی پڑے تھے- اور بظاہر مسلمانوں کے شکست ہو گئی تھی- آپ نے خدا تعالیٰ کی توحید پر حرف آتے دیکھ کر خاموش رہنے کو پسند نہ کیا- حالانکہ اپنی موت کی خبر کی تردید نہ کرنے دی- اس وقت بولنے کا صرف یہی نتیجہ نظر آتا تھا کہ دشمن حملہ کر کے سب کو مار ڈالے- مگر جب آپ نے خدا تعالیٰ کی تحقیر سنی تو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کردہ پھل تیسرا ثبوت آپ کی تقدیس کا وہ پھل ہیں جو آپ نے پیدا کئے اور اس کے لئے میں حضرت ابوبکرؓ- حضرت عمرؓ- حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو پیش کرتا ہوں- متعصب سے متعصب عیسائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ناپاک سے ناپاک حملے کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں- ابوبکر اور عمر بہت اچھے انسان تھے- وجہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے لئے اتنی قربانیاں کی ہیں کہ دشمن بھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں- مگر جب دشمن یہ مانتے ہیں کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ بہت اعلیٰ انسان تھے- جنہوں نے دنیا کو بے شمار فوائد پہنچائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مفید وجود جو نعوذ باللہ ایک ٹھگ اور عیاش نے پیدا کر دیئے- وہ شخص جس کی نظر دوسروں کے مال پر ہو- وہ کہاں ایسے انسان پیدا کر سکتا ہے- جو اپنا مال بھی خدا کی راہ میں لٹا دیں- ٹھگوں سے ٹھگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور عیاشوں سے عیاش ہی بنتے ہیں- کبھی ٹھگوں سے نیک اور عیاشوں سے متقی نہیں بنائے جا سکتے- یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ جن کے تقویٰ، جن کی دیانت، جن کے ایثار، جن کی سادگی اور جن کی قومی غمخواری کی تمام دنیا قائل اور مقر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہر وقت رہنے کے بعد اگر نعوذ باللہ یہ صفات آپ میں ان لوگوں سے ہزاروں گنے زیادہ نہیں پائی جاتی تھیں تو ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ظاہر کرنے والے ہوتے اور پھر یہ دعویٰ کرتے کہ یہ اخلاق ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمندر میں سے ایک قطرہ کے برابر ملے ہیں-

Page 308

۲۶۵ حضرت عثمان ؓکی زندگی بھی حقیقتاً بے عیب تھی- گو بعض تاریخی غلطیوں کی وجہ سے لوگوں نے اسے اچھی طرح محسوس نہیں کیا- مگر حضرت علیؓ جو چوتھے خلیفہ ہیں اور نہ صرف خلیفہ ہی بلکہ بچپن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پلے تھے اور آپ کے گھر میں رہے تھے اور آپ کے داماد تھے- ان کی نیکی، ان کے زہد، ان کی بے نفسی اور ان کی پاکیزگی کے دشمناناسلام قائل ہیں- میں پوچھتا ہوں- علیؓ ان اعتراضات کی موجودگی میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کئے جاتے ہیں، اوپر کی صفات کو کہاں سے پا سکتے تھے- اور اگر یہ اخلاق ان کے ذاتی تھے- تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے باوجود وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص کیوں رہے- پھر ان چاروں خلفاء کی ہی شرط نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کی قوم ایسی پیدا کر دی جو عدل و انصاف کی مجسمہ تھی- حتیٰ کہ شام کے یہودیوں نے ہی نہیں مسیحیوں تک نے مسلمانوں کے شام کو چھوڑنے کا ارادہ معلوم کر کے ایک وفد بھیجا کہ ہمیں اپنے ہم مذہب مسیحیوں کی حکومت منظور نہیں آپ لوگ یہاں رہیں ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے- کیونکہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری جانیں اور ہماری عزتیں اور ہمارے مال محفوظ ہیں- اب خدا را غور کرو کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں غیر معمولی تقدس بلکہ تقدیس کی طاقت نہ ہوتی- تو عرب کے غیر متمدن لوگ ڈاکوں اور جوئے اور شراب میں فخر محسوس کرنے والے اس قسم کا تغیر کہاں سے پیدا کر لیتے اور عرب کی زمین آسمان کی جائے فخر کیونکر ہو جاتی- اہم اعتراضات کے جوابات آپ کے تقدس کے خلاف کچھ اعتراض بھی کئے جاتے ہیں- میں ان میں سے تین اہم اعتراضات کے جواب بھی اس موقع پر بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں- میور لکھتا ہے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے بے شک بعض اصلاحات کیں لیکن تین خطرناک باتیں انہوں نے رائج کیں جو ان کی خدمات سے بہت زیادہ خطرناک تھیں- اور انہوں نے ان کی نیکیوں کے پلڑہ کو بالکل ہلکا کر دیا ہے اور وہ آپ کی تعلیم طلاق، کثرت ازدواج اور غلامی کے متعلق ہے- مسئلہ طلاق طلاق کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے یا تو اس پر بڑے زور شور سے اعتراض کئے جاتے تھے، اور یا اب تمام ممالک میں اور تمام اقوام میں یہ

Page 309

۲۶۶ مسئلہ جاری ہو رہا ہے اور دنیا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ طلاق کا جائز نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے- بلکہ امریکہ تو طلاق کے جواز میں اسلامی احکام سے بھی آگے نکل گیا ہے- کثرت ِازدواج باقی رہا بیویوں کے متعلق اعتراض- سو زیادہ بیویاں کرنا اپنی ذات میں تو قابل اعتراض فعل نہیں ہے- قابل اعتراض بات تو عیاشی ہے یعنی بعض عورتوں کی طرف ناجائز اور حد سے بڑھی ہوئی رغبت- عیاشی کے لوازمات عیاشی کے لئے یہ چیزیں ضرورت ہوتی ہیں-(۱) بڑا عیاش شراب کا دلدادہ ہوتا ہے- (۲) عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- (۳) عمدہ سامانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- (۴) راگ و رنگ کا دلدادہ ہوتا ہے- (۵) باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے- (۶) پہلے سے زیادہ حسین عورتوں کو تلاش کرتا ہے اور کم عمر عورتیں تلاش کرتا ہے- (۷) عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے- (۸) عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے- (۹) ان کی صحبت میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے- عیاش کی علامتیں یہ عیاش کی علامتیں ہوتی ہیں- کوئی عیاش ایسا نہ ہوگا جو شراب کو ناپسند کرتا ہو- کیونکہ عیاشی کے لئے غم و فکر سے علیحدگی ضروری ہوتی ہے- اور چونکہ ہر انسان کو کوئی نہ کوئی غم لگا ہوتا ہے اس لئے شراب پی کر خود فراموشی حاصل کی جاتی ہے- پھر عیاش کو عمدہ کھانوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ شہوت بڑھے- پھر عیاش کو عمدہ سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ شہوت کے خیالات پیدا ہوں- اس کے لئے یہ بھی ضرورت ہوتا ہے کہ راگ و رنگ ہو، گانا بجانا ہو تاکہ شہوانی خیالات کو طاقت حاصل ہو- پھر عیاش باکرہ عورتوں کا متلاشی ہوتا ہے- کبھی یہ نہ ہوگا کہ کوئی عیاش باکرہ عورتوں کو چھوڑ کر دوسری عورتیں پسند کرے- اور باکرہ عورتوں سے بھی وہ کم عمر عورتوں کو تلاش کرتا ہے- کیونکہ وہ کھیل تماشہ ہی چاہتا ہے اور یہ کم عمری میں زیادہ ہوتا ہے- اسی طرح طبعاً بھی جس قدر رغبت چھوٹی عمر کی عورتوں سے ہو سکتی ہے- بڑی عمر کی عورت سے نہیں ہو سکتی- دوسرے مطلقہ یا بیوہ عورت کے متعلق یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ اس نے پہلے خاوند دیکھا ہوا ہے- ممکن ہے میں اس سے کمزور ہوں اور اس کی نظر میں میری سبکی ہو- پس وہ اس امتحان میں پڑنا نہیں چاہتا- پھر عیاش آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک سے ایک بڑھ کر حسین عورت اس کے قبضہ میں آئے-

Page 310

۲۶۷ اسی طرح عیاش مرد عورت کو خوش کرنا اور اس کی خواہشات کو پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت کرے- وہ عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے- ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے- دوسری کو چھوڑ کر تیسری کی طرف- کیونکہ سب کی طرف توجہ کرنا اس کے مزے کو خراب کرتا ہے- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عیاش مرد عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے- کیونکہ اس کے بغیر اس کی عیاشی کے میلان پورے ہی نہیں ہو سکتے- یہ نو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیر یا کم سے کم ان میں سے بعض کے بغیر دنیا میں کوئی عیاش ہو نہیں سکتا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں؟ شراب پہلی چیز شراب ہے سو دیکھو کہ ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جنہوں نے دنیا میں شراب کو قطعاً حرام کیا ہے- پہلی اقوام میں شراب کو محدود کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے- لیکن اسے بالکل نہیں روکا گیا سوائے اسلام کے- اب سوچو کہ اگر آپ میں عیاشی کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ کی قوم اگر پہلے پانچ دفعہ شراب پیتی تھی تو آپ انہیں حکم دیتے کہ آٹھ دفعہ پیو- اور اگر آٹھ دفعہ پیتی ہوتی تو آپ انہیں کہتے کہ بارہ دفعہ پیا کرو- لیکن آپ نے شراب کو بالکل اور قطعاً حرام قرار دے دیا- کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے شراب کو اس لئے حرام کیا کہ آپ کے تقدس پر لوگ حرف گیری نہ کریں- کیونکہ آپ کے ملک کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے لوگ بھی اس زمانہ میں شراب کو تقدس کے خلاف نہیں سمجھتے تھے- عرب کے کاہن اور ایران کے موبد ۱۵؎اور روم کے پادری اور ہندوستان کے پنڈت شراب میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور شراب تقدس کے خلاف نہیں بلکہ شراب عبادات کا ایک جزو اور ریاضات کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی تھی- پس ایسے وقت میں پبلک اوپینین (OPINION) کا خیال کر کے شراب کو حرام کرنے کا خیال بھی کسی شخص کے دل میں نہیں آ سکتا تھا- پس اگر عیاشی کا ایک خفیف سا میلان بھی آپ میں پایا جاتا جیسا کہ آپ کے دشمن خیال کرتے ہیں- تو آپ شراب کو ہر گز منع نہ فرماتے بلکہ اپنے ملک کے رواج کو جو ملک کے بڑے اور چھوٹے کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا جاری رہنے دیتے- ہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپ کو عیاشی کے لئے شراب کی ضرورت ہی نہ تھی-

Page 311

۲۶۸ کیونکہ شراب کی ضرورت غموں کے غلط کرنے کے لئے ہوتی ہے اور آپ غموں سے آزاد تھے مگر یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زیادہ بودی اور لچر ہوگی کیونکہ آپ کی زندگی غموں کا ایک مرقع تھی- جان کاہیوں کی ایک نہ ٹوٹنے والی زنجیر تھی- نبوت کا دعویٰ پیش کرنے کے بعد سے آپ دنیا کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے- اپنے اور پرایوں کے حملوں کے ہدف بن گئے- دنیا آپ کے دکھ دینے میں صرف لطف ہی محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ وہ اسے ثواب دارین کا موجب خیال کرتی تھی- مکہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ عرب کے لوگ مشرک ہی نہیں بلکہ یہودونصاریٰ بھی آپ کو اپنے مذہب اور اپنی قومیت کے لئے ایک خطرناک وجود سمجھتے تھے- پس ہر اک کی تلوار آپ کے خلاف اٹھ رہی تھی- ہر اک کی زبان آپ کی ہتک عزت کے لئے دراز ہو رہی تھی- ہر اک کی آنکھ غصہ سے سرخ ہو ہو کر آپ پر پڑتی تھی- جب عرب آپ کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو تب بھی آپ کو امن نہ ملا- روم کی حکومت نے آپ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں- ایران کے بادشاہ نے آپ کے قتل کے احکام دیئے- گھر کے دشمن منافقوں نے اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کردیں- غرض دنیوی لحاظ سے ایک شعلہ مارنے والی قبا تھی جو آپ کے لئے تیار کی گئی تھی- ایک گھڑی اور ایک ساعت راحت اور آرام کی آپ کے لئے میسر نہ تھی- حتیٰکہ وفات کے وقت بھی آپ ایک بہت بڑے دشمن کے مقابلہ کے لئے ایک جرارلشکر کو بھیج رہے تھے- ان مصائب اور ان آلام کے ہوتے ہوئے اور شخص ہوتا تو پاگل ہو جاتا مگر آپ بہادری سے ان مشکلات کا مقابلہ کر رہے تھے- پس اگر عیاشی کے لئے نہیں تو غموں ہی کے کم کرنے کے لئے آپ شراب کی اجازت دے سکتے تھے- مگر آپ نے شراب کو حرام اور قطعاً حرام کر دیا- پس کون کہہ سکتا ہے کہ آپ کو غم نہ تھے- اس لئے آپ نے شراب کو حرام کیا- عمدہ کھانے پھر عیاش عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- عیاش لذیذ سے لذیذ اور مقوی سے مقوی کھانے کھاتے ہیں تاکہ شہوت پیدا ہو- مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا یہ حال تھا کہ جس دن آپ فوت ہوئے اس دن شام کو آپ کے گھر فاقہ تھا- بعض اوقات آپ کو بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑا- آپ کے پاس جو کچھ آتا- اسلام کی ضرورتوں پر خرچ کر دیتے- حضرت عائشہ فرماتی ہیں بیسیوں وقت ایسے آئے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملا- کئی وقت ایسے آئے کہ صرف کھجوریں کھا کر گذارہ کیا اور کئی وقت ایسے آئے کہ صرف پانی پی کر وقت

Page 312

۲۶۹ گذارا- جس شخص کے کھانے پینے کی یہ حالت ہو اسے کون عیاش کہہ سکتا ہے- عمدہ سامان پھر عیاشی کے لئے عمدہ سامان جمع کئے جاتے ہیں- تاکہ عیاشی میں لذت پیدا ہو- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کا یہ حال تھا کہ بعض گھروں میں صرف بھیڑبکری کی ایک کھال تھی- جس پر میاں بیوی اکٹھے سو رہتے تھے- چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں ہمارے گھر میں ایک ہی بستر تھا- اور ہمیں اکٹھے سونا پڑتا- جب رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے اٹھتے- تو اسی بچھونے پر نماز پڑھتے اور مجھے اپنی ٹانگیں اکٹھی کر لینی پڑتیں- باکرہ عورتیں پھر عیاش باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بااختیار بادشاہ ہونے کی حالت میں کسی باکرہ سے شادی نہ کی- ہاں مکہ میں ایک باکرہ حضرت عائشہ سے شادی کی- مگر جب صاحب اختیار ہوئے تو ایک بھی نکاح کسی باکرہ سے نہ کیا- اگر آپ عیش پسند ہوتے تو کیا آپ باکرہ عورتوں سے شادی نہ کر سکتے- کئی باکرہ عورتوں نے اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش بھی کیا- مگر آپ نے کسی سے نکاح نہ کیا- بلکہ ان کا نکاح دوسروں سے کرا دیا- حسین عورت کی تلاش پھر عیاش انسان پہلی عورت سے زیادہ حسین تلاش کرتا ہے- جو پہلی عورتوں سے زیادہ اس کی شہوات کو پورا کر سکے- مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ کے درجہ کی آپ کی کوئی بھی بیوی نہ تھی- اگر آپ نعوذ باللہ عیاش ہوتے تو جو نکاح آپ نے بعد میں کئے وہ زیادہ حسین عورتوں سے کرتے- مگر ارونگ جیسا دشمن بھی آپ کے متعلق لکھتا ہے- ‏ years, of Blossom very the in chosen thus wife this Upon shusequently he whom those of any than more dotted Prophet the۱۶؎.married یعنی اس طرح چنی ہوئی یہ بیوی )عائشہؓ( جس سے آپ نے اس کے عنفوان شباب میں بیاہ کیا ہے ایسی تھی کہ جس پر نبی اپنی تمام دوسری بیبیوں سے جو بعد میں بیاہی گئیں فریفتہ تھا- یہ ایک دشمن اور سخت دشمن کی شہادت ہے- اگر نعوذ باللہ آپ عیاش ہوتے تو آپ عائشہؓ کے بعد ان سے زیادہ خوبصورت نہایت نوجوانی کی عمر کی بیویوں کو تلاش کرتے- مگر آپ نے ایسا نہیں کیا- اور ایسی عورتوں سے شادی کی جو عائشہ کا مقابلہ اپنی عمر اور اپنی ظاہری خوبی کے لحاظ سے نہیں کر سکیں اور ایسی حالت میں شادی کی- جب کہ آپ عائشہؓ کے والد کے

Page 313

۲۷۰ اخلاص اور خود ان کے زہد اور تقویٰ کی وجہ سے عائشہؓ سے کمال محبت رکھتے تھے کیا یہ عیاشی کہلا سکتی ہے- مزامیر پھر عیاشی کے لئے مزامیر ضروری ہوتے ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرما دیا ہے کہ یہ شیطانی آلے ہیں- یاد رکھو کہ ایسے لوگ تو ہو سکتے ہیں جو عیاش نہ ہوں اور باجے سنیں مگر کوئی ایسا عیاش نہیں ہو سکتا جو مزامیر نہ سنتا ہو- مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان تھے جو مزامیر کو مٹانے والے تھے- اگر آپ نعوذ باللہ عیاش ہوتے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ ایسا کرتے- عورتوں کی خواہشوں کی پابندی پھر عیاش انسان عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ جب خیبر کا علاقہ فتح ہوا اور وہاں کے ٹیکس کی ایک معقول رقم آنے لگی اور مسلمانوں کے گھروں میں دولت اور فراوانی آ گئی تو آپ کی بیویوں نے بھی جن میں سے اکثر آسودہ حال گھرانوں کی لڑکیاں تھیں- خواہش کی کہ ہم بہت تنگی میں گذارہ کرتی ہیں- اس وقت تو ہم نے اس وجہ سے کچھ نہیں کہا کہ روپیہ تھا ہی نہیں- لیکن اب جب کہ روپیہ آ گیا ہے اور سب لوگوں کو حصہ ملا ہے- ہماری آسودگی کا بھی انتظام ہونا چاہئے اور اس تنگ زندگی سے ہمیں بچانا چاہئے تو اس خواہش کے جواب میں وہ انسان جسے کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ عیاش تھا اور عورتوں کی صحبت میں اس نے عمر گذاری جو جواب دیتا ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے- یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوہ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا- وان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرہ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما- ۱۷؎ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اے نبی ان بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے مال اور زینت کے سامان کی خواہش رکھتی ہو تو آؤ تم کو مال دے دیتا ہوں- مگر اس حالت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں- مال لے کر تم مجھ سے جدا ہو جاؤ- لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت رکھتی ہو اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہو تو پھر ان اموال کا مطالبہ نہ کرو- اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰٰ نے تم میں سے ان کے لئے جو پوری طرح خدا کے احکام کی پابندی کرنے والیاں ہوں گی بہت بڑے

Page 314

ا۲۷ دنیا کا اجر مقرر کر چھوڑے ہیں.اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ میری زوجیت یا میری موجودگی میں تم کو مال نہیں مل سکتا.اگر میری زندگی میں مال لینا چاہتی ہو.تو طلاق لے لو.اور الگ ہو جاؤ کہ میری دینی ذمہ داریاں مالداروں کی زندگی کی برداشت نہیں کر سکتیں.لیکن اگر تم اس وقت میرے کام لو اور میرے ساتھ مل کر خد مت دین کو ترنج دو.تو پھر بھی تم کو مال مل جائے گا مگر میری وفات کے بعد ملے گا.میری موجودگی میں نہیں.چنانچہ آپ کی بیویوں کو مال ملے اور بہت ملے مگر آپ کی وفات کے بعد اب دیکھو کہ اس طرح عورتوں کی خواہشات کو ٹھکرا دینے والا کیا عیاشی کملا سکتا ہے اور کیا کوئی عیاش اپنی بیویوں کی مالی و زینت کی خوائش سن کر انہیں کہہ سکتا ہے کہ زینت کے سامان چاہیں تو طلاق لے لو.عورتوں میں بے انصافی پھر عیاش انسان عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے جسے خوبصورت سمجھے اس کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے.مگر رسول کریم ٹیم کا یہ حال تھا کہ جب آپ بیکار ہوئے تو اس حالت میں بھی دو سرول کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس بیوی کے ہاں چلے جاتے جس کی باری ہوتی.وفات سے تین دن قبل تک ایبای کرتے رہے حتی کہ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہ رو پڑیں اور آپ کی بیویوں نے بھی کہا کہ آپ ایک جمله شهر جایئے.ہم بخوشی اس کی اجازت دیتی ہیں.تب آپ ایک جگہ ٹھہر گئے جو انسان بیویوں میں انصاف کرنے کا اس قدر پابند ہو کر مرض الموت میں بھی دوسرے کے کندھوں کا سہارا لے کر ان کے ہاں باری باری جاتا ہو اسے کون عياش کہہ سکتا ہے.عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرتا پھر عیاش اپنا زیادہ وقت عورتوں کی صحبت میں گزارتا ہے.مگر آپ کی یہ حالت تھی کہ مسیح سے شام تک باہر رہتے اور رات کو جب گھر جاتے تو کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور پھر رات کو اٹھ کر عبادت کرتے.اس طرح بندھے ہوئے اوقات میں آپ کو عیاشی کے لئے کونسا وقت ملتا تھا.رسول کریم ؐ کی شادیوں کی غرض پس آپ کی کئی بیویوں کو دیکھ کر یہ نہیں کیا رسول کریم مٹی کی شادیوں کی غرض جاسکتا کہ نعود بالله آپ عیاش تھے.دیکھنا یہ چاہئے کہ کسی غرض کو مد نظر رکھ کر آپ نے شادیاں کیں.خدا کے لئے یا اپنے نفس

Page 315

۲۷۲ کے لئے- اگر خدا کے لئے کیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا زیادہ بیویاں کرنا عیاشی کی دلیل ہے- میں ثابت کر چکا ہوں کہ آپ کا ایک سے زیادہ بیویاں کرنا نفس کی خواہشات کے لئے نہ تھا- کیونکہ انہیں تو آپ نے پورا نہیں کیا- اس کی وجہ کوئی اور تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جس کے مرد اور عورتیں سب شریعت سے بے خبر تھے- اس قوم میں آپ نے شریعت کو رائج کرنا تھا- پس آپ نے مختلف خاندانوں کی بیویوں سے شادیاں کیں- تاکہ وہ دین کے اس حصہ کو جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے سیکھ کر اپنی ہم جنسوں کو تعلیم دیں اور یہ ایک محض للہی غرض تھی اور آپ کا زیادہ شادیاں کرنا اور ان میں انصاف قائم رکھنا ایک بہت بڑی قربانی تھا نہ کہ عیاشی- اور اب جب کہ میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ جس رنگ میں آپ نے عورتوں سے معاملہ کیا ہے وہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے- تو یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کہ آپ نے اپنی امت کے انہی لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے جو آپ کی طرح عورتوں سے معاملہ کر سکیں تو اس حکم سے کسی ظلم کی بنیاد نہیں پڑی- بلکہ دنیوی ترقی کے لئے ایک بہت بڑی قربانی اور ملک کی اخلاقی درستی کے لئے ایک بہت بڑی تدبیر کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے- غلامی باقی رہا غلامی کا اعتراض- اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں- کیونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور بہت سے پہلوؤں پر بحث کا محتاج ہے- پس میں ایک صاف اور سیدھا طریق اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہوں- کہا جاتا ہے کہ آپ نے غلامی کو رائج کر کے دنیا پر بہت بڑا ظلم کیا ہے- میں کہتا ہوں کہ آؤ آپ کی زندگی پر غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا آپ غلاموں کے حامی تھے یا غلامی کے حامی- اور یہ بھی کہ غلام آپ کے دوست تھے یا آپ کے دشمن- کیونکہ ہر ایک قوم اپنے فوائد کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہے- پہلی بات کو معلوم کرنے کے لئے میں آپ کی جوانی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں- جب آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی ہے اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی اور اس عمر میں انسان کا دماغ حکومت کے خیالات سے بھرا ہوا ہوتا ہے- حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد اپنا سب مال اور اپنے سب غلام آپ سپرد کر دیئے اور آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سب غلاموں کو آزاد کر دیا- اب بتاؤ کہ یہ شخص جس نے جوانی کے ایام میں دولت ہاتھ آتے ہی یہ کام کیا ہے غلامی کاحامی کہلا سکتا ہے یا غلاموں کا-

Page 316

۲۷۳ غلاموں کی رائے پھر ایک مثل مشہور ہے کہ ماں سے زیادہ چاہنے والی کٹنی۱۸؎ کہلائے- اب سیدھی بات ہے کہ غلاموں سے زیادہ کسی کو ان کی آزادی کا خیال نہیں ہو سکتا- دیکھنا یہ چاہئے کہ غلاموں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا رائے تھی- اگر غلام آپ کو اپنا محسن سمجھتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ آپ غلاموں کے محسن تھے نہ کہ غلامی کے حامی- اس کے متعلق میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہے کہ غلام آپ کے کیسے دلدادہ تھے- نبوت کی زندگی کے پہلے سات سال میں کل چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے تھے- ان میں سے کم سے کم پندرہ غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے- گویا کل مومنوں کی تعداد میں تینتیس فیصدی غلام تھے اور مکہ کی آبادی کا لحاظ رکھا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی مومنوں سے نوے فیصدی غلام تھے- مکہ کی آبادی دس بارہ ہزار کی تھی - جس میں چالیس پچاس آدمی ایمان لائے تھے اور زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو غلام وہاں ہوگا- پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ دس بارہ ہزار میں سے تیس پینتیس آدمی ایمان لائے اور پانچ چھ سو آدمیوں میں سے پندرہ سولہ آدمی- کیا غلاموں کا اس کثرت سے آپ پر ایمان لانا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام آپ کو اپنا رہائی دہندہ سمجھتے تھے- غلاموں کا تکلیفیں اٹھانا یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں، وہ غلام ہی تھے- خُبابؓ چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے- وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے- لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے- حتیٰکہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر ان پر انہیں لٹا دیتے تھے اور اوپر سے چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تھے تا کہ آپ کمر نہ ہلا سکیں- ان کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہو گئے- مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپ ایک منٹ کے لئے بھی متذبذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے- آپ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے- چنانچہ حضرت عمرؓ کی حکومت کے ایام میں انہوں نے اپنے گذشتہ مصائب کا ذکر کیا تو انہوں نے ان سے پیٹھ دکھانے کو کہا- جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں-

Page 317

۲۷۴ اب غور کرو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غلامی قائم کرنے کے لئے آتے تو چاہئے تھا کہ خباب آپ کی گردن کاٹنے کے لئے جاتا، نہ یہ کہ آپ کی خاطر گرم کوئلوں پر لوٹتا- زیدؓ پھر ایک اور غلام زید ابن حارثہ تھے- جو ایک عیسائی قبیلہ میں سے تھے- ان کو کسی جنگ میں قید کر کے غلام بنایا گیا تھا- وہ بکتے بکتے حضرت خدیجہ کے قبضہ میں آئے اور انہوں نے شادی پر سب جائیداد سمیت انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا اور آپ نے انہیں آزاد کر دیا- جب ان کے رشتہ داروں کو پتہ لگا کہ وہ مکہ میں ہیں تو ان کا باپ اور چچا آئے اور رسولکریمﷺ~ سے کہا- ان کو آزاد کر دیں- آپ نے فرمایا- میں نے آزاد کیا ہوا ہے- جہاں چاہے چلا جائے- اس پر اس کے باپ نے کہا چلو بیٹا- مگر انہوں نے کہا- آپ کی میرے حال پر بڑی مہربانی ہے- مگر بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارا مجھے کوئی نہیں ہے- اس لئے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا- اب غور کرو ایک نوجوان پکڑا ہوا آتا ہے- ماں باپ کی یاد کے نقش اس کے دل پر جمے ہوئے ہوتے ہیں- مگر جب باپ آ کر اسے کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ چل تو وہ کہتا ہے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اور کوئی چیز اچھی نہیں لکتی- اس کے بعد وہ آپ کے دعویٰ کے وقت آپ پر ایمان لاتا ہے اور آخر ایک دن اپنے خون سے حق رفاقت ادا کرتا ہے- اب بتاؤ کہ کیا یہ فدائیت اور محبت ایک غلام کو اس شخص سے ہو سکتی تھی جو غلامی کا حامی تھا- بلالؓ ایک اور غلام تھے جن کا نام بلال تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن امیہ بن خلف کے غلام تھے- وہ ابتدائی ایام میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے- امیہ انہیں جلتی ریت پر لٹا دیتا تھا اور توبہ کے لئے کہتا تھا- مگر وہ ایمان سے باز نہ آتے تھے- اب خدا را کوئی غور کرے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں پر ظلم کرنے والے ہوتے تو بلال امیہ جیسے دشمن رسول کے گھر میں رہ کر آپ کے خلاف کیا کیا شوخیاں نہ کرتے- وہ ایسے دشمن کے گھر میں ہو کر اور ہر قسم کی مخالف باتیں سن کر بھی آپ پر ایمان لاتے ہیں اور بڑی بڑی تکالیف اٹھاتے ہیں- ان کا آقا اسی وجہ سے انہیں گرم ریت پر لٹا دیا کرتا اور وہ چونکہ عربی زبان زیادہ نہ جانتے تھے- اس لئے وہ زیادہ تو کچھ نہ کہہ سکتے مگر احد احد کہتے رہتے تھے- یعنی اللہ ایک ہے- اللہ ایک ہے- اس پر ناراض ہو کر ان کا آقا انہیں اور تکالیف دیتا اور رسی ان کے پاؤں سے باندھ کر لڑکوں کے سپرد کر دیتا تھا وہ انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے حتیٰ کہ

Page 318

۲۷۵ بلال کی پیٹھ کا چمڑا اتر جاتا تھا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نشہ پھر بھی نہ اترتا تھا اور جس ایمان کی حالت میں ان پر مار پڑنی شروع ہوتی تھی- اس سے بھی زیادہ ایمان پر اس مار کا خاتمہ ہوا کرتا تھا- اب غور کرو یہ محبت اس کے دل میں کس طرح پڑ سکتی تھی- اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کا حامی اور آزاد کرانے والا نہ سمجھتا- اس کے سوا وہ کونسی چیز تھی جو اسے آپ کے دشمن کے گھر میں رہ کر بھی آپ کی طرف مائل کر رہی تھی- سمیہ چوتھا شخص ایک عورت لونڈی تھی جن کا نام سمیہ تھا- ابوجہل ان کو سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی تو ایک دن ناراض ہو کر اس نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو مار دیا- انہوں نے جان دے دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کو نہ چھوڑا- اب سوچو کہ مرد تو مرد عورت لونڈیاں جو شدید ترین دشمنوں کے گھر میں تھیں انہوں نے کس قربانی کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا ہے- اگر وہ یہ دیکھتیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی کے دشمن نہیں اس کے حامی ہیں تو کیا صنف نازک میں سے ہوتے ہوئے وہ اس طرح آپ کے لئے اپنی جان قربان کر سکتی تھیں- عمارؓ پانچویں مثال عمار کی ہے جو سمیہ کے بیٹے تھے- انہیں جلتی ریت پر لٹایا جاتا تھا- صہیبؓ ایک غلام صہیب تھے جو روم سے پکڑے آئے- عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے- جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کے لئے بہت سی تکالیف اٹھائیں- ابو فکیہہؓ ابوفکیہہ ایک غلام تھے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی ایام میں ایمان لائے- انہیں بھی گرم ریت پر لٹایا جاتا- ایک دفعہ رسی باندھ کر انہیں کھینچا جا رہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گذرا- ان کے آقا نے ان کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا- یہ تمہارا خدا ہے انہوں نے کہا میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے- اس پر اس ظالم نے ان کا گلا گھونٹا اور پھر بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیا - جس سے ان کی زبان باہر نکل آئی اور لوگوں نے سمجھا کہ مر گئے ہیں- دیر تک ملنے ملانے سے انہیں ہوش آئی- لبینہؓ لبینہ ایک کنیز تھیں- یہ بھی نہایت ابتدائی ایام میں اسلام لائیں حضرت عمرؓ اپنے

Page 319

۲۷۶ اسلام لانے سے پہلے انہیں اسلام کی وجہ سے تکلیف دیا کرتے تھے مگر یہ اپنے اسلام پر قائم رہیں- زنیزہؓ زنیزہ بھی ایک کنیز تھیں اور ابتدائی ایام میں ہی ایمان لائیں- حضرت عمرؓ اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں ستایا کرتے- ابوجہل نے مار مار کر ان کی آنکھیں پھوڑ دیں- مگر باوجود اس کے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار نہ کیا- ابوجہل اسے دیکھ کر غصہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہو گئے ہیں کہ زنیزہ نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا- نہدیہؓ اورام عبیس ؓ اسی طرح نہدیہ اورام عبیس دو کنیزیں تھیں جو مکی زندگی میں اسلام لائیں اور دونوں نے اسلام لانے کی وجہ سے سخت مصائب برداشت کئے- عامرؓ عامر بن فہیرہ بھی ایک غلام تھے- جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے آزاد کر دیا- انہیں بھی اسلام لانے کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں- حمامہؓ حمامہ بلالؓ کی والدہ تھیں- یہ بھی اسلام لائیں اور اسلام کی خاطر انہوں نے تکالیف اٹھائیں- ان کے علاوہ اور غلام اور لونڈیاں بھی تھیں جو آپ پر ایمان لائیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے سخت تکلیفیں اٹھائیں- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی سات سالوں میں کل چالیس افراد نے آپ کو مانا- جن میں سے کم سے کم ۱۴، ۱۵ غلام تھے- اور انہوں نے آزاد لوگوں سے زیادہ تکالیف اٹھائیں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی قائم کرنے والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے دشمن ہوتے نہ کہ آپ پر ایمان لاتے- غیر مسلم غلاموں کی ہمدردی علاوہ ان غلاموں اور لونڈیوں کے جو آپ پر ایمان لائے- مکہ کے اکثر غلام اور لونڈیاں آپ سے ہمدردی رکھتے تھے- چنانچہ حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کی موجب بھی ان کی ایک غیر مسلمہ لونڈی ہی تھی- جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور مارنے کے لئے اٹھا اور آپ کو بہت تکلیف دی- حضرت حمزہؓ جو رسول کریم کے چچا تھے اور ابھی ایمان نہ لائے تھے ان کی ایک لونڈی دیکھ رہی تھی- اسے بہت صدمہ ہوا اور سارا دن کڑھتی رہی-

Page 320

۲۷۷ جب حضرت حمزہؓ گھر آئے تو کسی بات کا بہانہ ڈھونڈ کر اس نے طعنہ دیا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو- دیکھتے نہیں تمہارے بھتیجے کو ابوجہل نے کس طرح دکھ دیا ہے- حضرت ہمزہؓ شکار کے شائق تھے اور ادھر ادھر پھرنے میں وقت گذارتے تھے- اور حالات سے زیادہ واقف نہ تھے- لونڈی سے یہ بات سن کر ان کا دل اندر ہی اندر گھائل ہو گیا- واقع کی تفصیل سنی اور غیرت سے بے تاب ہو کر باہر نکل آئے- مجلس کفار میں آئے- ہاتھ میں تیر کمان تھا- لونڈی نے کچھ اس طرح واقع بیان کیا تھا کہ درد اور غصہ دونوں جذبات بے طرح۱۹؎ جوش میں تھے- اور بات کرنے کی طاقت نہ تھی- مجلس میں آ کر ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور کمان پر سہارا لگا لیا- بار بار بات کرنا چاہتے تھے مگر شدت غم سے منہ سے بات نہ نکلتی تھی- اسی طرح کھڑے تھے کہ ابوجہل کی نگاہ پڑ گئی اور وہ بولا خیر ہے حمزہ تم تو اس طرح کھڑے ہو جس طرح انسان لڑائی پر آمادہ ہوتا ہے- اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ ٹوٹ پڑے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ ظالم تیرے ظلموں کی کوئی انتہا بھی ہے تو نے محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( کو حد سے بڑھ کر ستایا ہے- لے میں بھی مسلمان ہوتا ہوں اگر طاقت ہے تو آ مجھ سے لڑ لے- ابوجہل بھی مکہ کا سردار تھا، اٹھ کر چمٹ گیا- لیکن اردگرد کے لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھگڑا مکہ کو بھسم کر دے گا، صلح کرا دی- اور اس دن سے حضرت حمزہ کو اسلام کی طرف توجہ ہو گئی- ایک دو دن کے غور کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اسلام سچا ہے اور اپنے ایمان کا اعلان کر دیا- اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے اور وہاں سے زخمی ہو کر واپس آئے تو ایک غلام نے ہی آپ سے ہمدردی کی اور آپ کی حالت کو دیکھ کر روتا رہا- بات یہ ہے کہ سب غلام جانتے تھے کہ آپ ان کو آزاد کرانے کے لئے آئے ہیں نہ کہ ان کی غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرنے کے لئے- اس لئے وہ سب آپ سے محبت رکھتے تھے اور آپ سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان کا شروع زمانہ میں ایمان لانا اور سخت تکالیف اٹھانا اور آخر تک ساتھ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ مکہ کے تمام غلام اور تمام لونڈیاں اس امر کو سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم غلاموں کو آزاد کرانے والی ہے- تبھی ان میں سے سب کے سب جو سمجھدار تھے آپ پر ایمان لائے- یا اگر اس کی جرات نہ کر سکے تو آپ کی مدد کرتے رہے اور آپ سے اظہار ہمدردی کرتے رہے اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں کا معاملہ ہے وہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کا آزاد کرانے والا قرار دیتے ہیں اور جو لوگ نہ

Page 321

۲۷۸ اس وقت تھے اور نہ ان کو غلامی سے کچھ تعلق ہے اور نہ انہوں نے غلاموں کے آزاد کرانے میں کبھی بھی کوئی حصہ لیا ہے- وہ غلامی کے متعلق آپ پر اعتراض کرتے ہیں- اس عملی کام کے علاوہ اس امر پر بھی غور کرنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے غلامی کا رواج تھا اور کوئی ملک غلامی سے پاک نہ تھا- ہندوستان میں مجھے نہیں معلوم دوسری قسم کی غلامی تھی یا نہ تھی- مگر اچھوت اقوام سب کی سب غلام ہی ہیں وہ اعلیٰ پیشوں سے محروم ہیں اور ان کا فرض ہی برہمنوں کی خدمت مقرر کیا گیا ہے- فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگوں میں غلاموں کو کھانا کپڑا دینے کا رواج تھا- یہاں جن لوگوں نے غلامی کا رواج دیا تھا- انہوں نے کھانے کپڑے سے بھی دست برداری دے دی تھی اور غلام کا فرض مقرر کیا تھا کہ وہ اپنے لئے بھی کمائے اور برہمنوں کی بھی خدمت کرے- ایران اور روم بھی غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے- ان ممالک کے لوگوں نے غلامی کے دور کرنے کا کیا علاج مقرر کیا تھا، کچھ بھی نہیں- یہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین تھا جس نے یہ قانون بنایا کہ ہر آزاد کو قید کرنے والا قتل کا مجرم سمجھا جائے گا- پھر یہ شرط لگائی کہ غلام بنانا صرف اس جنگ میں جائز ہے جو جنگ کہ دشمن اسلام صرف اس لئے کریں کہ مسلمانوں سے تلوار کے زور سے اسلام چھڑوائیں- حالانکہ اس تعلیم سے پہلے تمام ممالک میں سیاسی جنگوں کے قیدیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا- پھر یہ شرط لگا دی کہ ایسی مذہبی جنگ میں بھی جو قید ہو اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے گھر کے لوگوں سے کرتے ہو- جو کھاتے ہو وہ کھلاؤ جو پیتے ہو وہ پلاؤ، جو پہنتے ہو وہ پہناؤ- پھر یہ شرط کی کہ باوجود اس خاطر کے ہر اک غلام کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ جب وہ چاہے آزاد ہو جائے- ہاں چونکہ وہ ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہوا ہے- اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے مطابق خرچ جنگ ادا کر دے یا اس کے رشتہ دار کر دیں- پھر یہ شرط لگا دی کہ اگر غلام کے رشتہ دار یا اہل ملک اس کو نہ چھڑوا سکیں اور اس کے پاس روپیہ نہ ہو تو ہر غلام کا حق ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں اور اس کا آقا مجبور ہو گا کہ اس کی طاقت کے مطابق خرچ جنگ اس پر ڈال دے اور اسے نیم آزاد کر دے کہ وہ اپنی کمائی سے قسط وار روپیہ ادا کر کے اپنے آپ کو آزاد کرائے اور جس وقت یہ قسط مقرر ہو، اسی وقت سے غلام کو عملاً آزادی حاصل ہو جائے- پھر یہ حکم دیا کہ جو غلام کو مارے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا غلام آزاد سمجھا جائے- پھر کئی گناہوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا مقرر کیا تاکہ جو کوئی

Page 322

۲۷۹ غلام رہ جائے وہ اس طرح آزاد ہو جائے- اور پھر اسی پر بس نہیں کی- آخر یہ بھی حکم دے دیا کہ حکومت کے مال میں غلاموں کا بھی حق ہے حکومت کو چاہئے کہ ایک رقم ایسی مقرر کرے جس سے وہ غلام آزاد کراتی رہے- اب سوچو کہ غلامی تو ہر ملک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی پائی جاتی تھی- آپ نے تو جاری نہیں کی- آپ نے جو کچھ کیا وہ یہ کیا کہ اس کا دائرہ محدود کر دیا- اور پھر ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ عملاً غلام آزاد ہی ہو جائیں- مگر باوجود اس کے اگر اسلام کے ابتدائی زمانہ میں غلام باقی رہ گئے تھے تو اس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ اسلامی احکام کے ماتحت ان سے آقا ویسا ہی سلوک کرنے پر مجبور تھا جیسے کہ اپنے نفس یا اپنے عزیزوں سے وہ کرتا تھا- اور غریب غلام جانتے تھے کہ ایک مسلمان کا غلام رہ کر اگر ان پر سودوسو یا ہزار دو ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے، تو آزاد رہ کر وہ سات آٹھ روپیہ سے زیادہ نہ کما سکیں گے اور اس میں انہیں اپنا کنبہ پالنا پڑے گا- پس بہت سے تھے جو اس غلامی میں آزادی سے زیادہ آسائش پاتے تھے اور اسلامی احکام سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی تنگ حالت کو بدلنا نہیں چاہتے تھے- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی کے قائم کرنے والے نہیں تھے- بلکہ غلامی کے مٹانے والے تھے اور آپ سے بڑھ کر غلامی کے مٹانے میں اور کسی نے حصہ نہیں لیا- بلکہ آپ کے کام سے ہزارواں حصہ کم بھی کسی نے کام نہیں کیا- رسول اللہﷺ کے احسانات اب میں آپ کے احسانات کی طرف آتا ہوں- لیکن احسانات بیان کرنے سے پہلے میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو احسانات اور قربانیوں دونوں کے متعلق کام آئے گا- یہ واقعہ مکہ کا ہے- عتبہ جو ایک بڑا سردار تھا، آپ کے پاس آیا اور آ کر کہنے لگا- کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپس میں خونریزی ہو اور بھائی بھائی سے جدا ہو جائیں- اگر نہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں، اسے مان لو- وہ تجویز یہ ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی غرض ہے- اگر تمہیں مال حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اپنے اموال کا ایک حصہ تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں- اس طرح تم بہت بڑے مالدار بن جاؤ گے- اور اگر اس بات کی خواہش ہے کہ حکومت حاصل ہو تو ہم سب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنا سردار بنائیں- اور اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو جس عورت کو پسند کرو وہ ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں- اور اگر تم بیمار ہو تو بھی

Page 323

۲۸۰ بتاؤ کہ ہم علاج کے لئے بھی تیار ہیں- غرض عزت چاہتے ہو تو عزت دینے کیلئے تیار ہیں، اگر بادشاہت چاہتے ہو تو بادشاہت دینے کے لئے، اگر عورت چاہتے ہو تو عورت دینے کے لئے اور بیمار ہو تو علاج کرنے کے لئے ہم تیار ہیں- مگر تم یہ کہنا چھوڑ دو کہ خدا ایک ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہاری ان چیزوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں- میرا جواب سنو- یہ فرما کر آپ نے چند آیات قرآن کی تلاوت فرمائیں جن میں توحید کی تعلیم تھی- ان آیات کو سن کر عتبہ پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے واپس جا کر کہا یہ نہ جھوٹا ہے اور نہ ساحر ہے، اس کی مخالفت چھوڑ دو- احسانات کی قسمیں اب میں آپ کے احسانات کا ذکر کرتا ہوں- احسان کئی قسم کے ہوتے ہیں- ایک احسان وقتی ہوتے ہیں اور دوسرے لمبے عرصہ کے لئے- پھر آگے ان کی دو قسمیں ہیں-(۱) طبعی یعنی فطرت کے تقاضا کے ماتحت- جیسے ماں کے دل میں بچہ کی خدمت کا تقاضا ہوتا ہے- (۲) عقلی یعنی ایسا احسان جو عقل کے تقاضا کے ماتحت ہو- مثلاً ایک مظلوم کو دیکھ کر رحم آ جانا اور اس پر احسان کرنا- یا ایک شخص کو جاہل دیکھ کر اس پر رحم کر کے اسے علم پڑھا دینا- پھر آگے عقلی احسان کی بھی دو قسمیں ہیں-(۱) ایسا احسان جس کا بدلہ لینے کی امید ہوتی ہے- مثلاً کسی کو علم پڑھاتے ہیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خیالات کی آگے اشاعت کرے گا- (۲) طبعی عقل یعنی خواہش احسان تو بوجہ دلیل اور عقل کے ہوتی ہے مگر وہ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ طبعی کی طرح ہو جاتی ہے- انسان احسان کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے- اس کی آگے پھر دو قسمیں ہیں- ایک وہ احسان جو اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالے بغیر کیا جاتا ہے- جیسے کسی کے پاس مال ہو اور وہ کسی پر احسان کر کے اسے کچھ مال دے دے- دوسری قسم کا احسان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر دوسرے پر احسان کرتا ہے- مثلاً کسی کے گھر آگ لگی ہے- اس میں کود کر اس کے مال کو یا اس کے گھر کے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے- یہ احسان کی قسمیں ہیں- ان کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف احسان ہی نہیں کیا- بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ احسان کیا ہے- مثلاً آپ کے احسانات صرف عارضی نہیں ہیں، اکثر دائمی ہیں- اور پھر آپ کے احسانات صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہیں جو آپ کے رشتہ دار تھے- بلکہ آپ کے احسانات اپنے دوستوں

Page 324

۲۸۱ سے نکل کر واقفوں اور ان سے بھی گذر کر ناواقفوں تک پھیل گئے ہیں- پھر یہ کہ آپ کے احسانات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نفع کی آپ کو امید نہ تھی بلکہ وہ ایسے ہی طبعی تھے- جیسے کہ ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے اور پھر صرف انتہائی جوش کے ماتحت اور عام احسان ہی آپ نے نہیں کئے بلکہ ساتھ اس کے یہ بات تھی کہ آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر وہ احسانات کئے ہیں اور ان کے بدلہ میں خطرناک سے خطرناک مشکلات میں اپنی جان کو ڈالا ہے- پس احسان کی تمام اقسام میں سے بہتر سے بہتر اقسام کا ظہور آپ سے ہوا ہے اور ایسے رنگ میں ہوا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اب میں آپ کے احسانات کی چند مثالیں بیان کرتا ہوں تا معلوم ہو سکے کہ آپ کے احسان کس اعلیٰ شان کے تھے- شرک کو دور کرنا پہلا احسان آپ کا شرک کو دور کرنا ہے- آپ نے ایک خدا کی پرستش دنیا میں قائم کی- اب تو سب دنیا اس بات کی قائل ہو رہی ہے کہ شرک برا ہے- مگر جب آپ مبعوث ہوئے تھے اس وقت قائل نہ تھی- آپ نے سارے ملک کو اپنا دشمن بنا کر اور سخت سے سخت تکالیف برداشت کر کے اس صداقت کو قائم کیا اور نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنا ممنون احسان کیا- یہ احسان صرف مذہبی پہلو سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دنیوی پہلو بھی ہے اور یہ احسان دنیا کی دنیوی ترقی میں بھی ممد ہے- مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لوگ ان چیزوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے خدا سمجھنے لگیں تو کبھی بھی ان کے طبعی فوائد پر غور نہیں کریں گے اور ان کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے- لیکن جب لوگ ایک خدا کے قائل ہونگے اور سب مخلوق کو انسان کے فائدہ کے لئے قرار دیں گے تو پھر ان کے فوائد کو حاصل کرنے اور ان کو اپنی خدمت میں لگانے کی بھی کوشش کریں گے اور اس طرح سائنس اور علم کی بھی ترقی ہوگی- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو دور کرکے اور توحید کی تعلیم دے کر نہ صرف ایک عظیم الشان مذہبی احسان دنیا پر کیا ہے بلکہ علمی ترقی کا بھی رستہ کھول دیا ہے- مذہب اور سائنس میں صُلح دوسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو دور کر دیا ہے- آپ سے پہلے لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے- آگ جو جلاتی ہے تو اسے بھی خدا نے

Page 325

۲۸۲ پیدا کیا ہے، جس طرح اس نے اپنا کلام نازل کیا ہے- پس اگر مثلاً گرمی کے خواص پر غور کیا جائے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل پر غور ہوگا نہ کہ مذہب کے مخالف- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب اور سائنس میں صلح کرا دی اور آپ نے فرمایا طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمہ ۲۰؎علم مذہب کے خلاف نہیں- میرے ہر ماننے والے پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے کہ علم پڑھے- اس وقت غیر مذاہب والے کہتے ہیں کہ مسلمان جاہل ہیں- مگر یہ ہمارا قصور ہے- ہمارے رسول کا نہیں ہے- اس اعتراض سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں اور ہماری آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں- مگر اس سے ہمارے رسول پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ اس وقت جب کہ مکہ والے علم حاصل کرنا ذلت سمجھتے تھے اور سارے مکہ میں صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے اور ان کو بھی صرف سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے علم پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی- آپ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمة پڑھنا لکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے- پس اگر آج کل مسلمان جاہل ہیں تو یہ قصور ہمارا ہے- ہمارے آقا کا نہیں ہے- اس نے یہی تعلیم دی ہے کہ علم سیکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے- اور یہ اسی کا نتیجہ ¶تھا کہ مسلمانوں نے پچھلے علوم کو قائم رکھا اور نئے علوم کی بنیاد ڈالی جن سے آج دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے- اگر مسلمان پہلے علوم کی حفاظت نہ کرتے تو ارسطو کا فلسفہ اور بقراط کی حکمت آج کوئی نہ معلوم کر سکتا- مسلمانوں نے ان کی کتب کے ترجمے کرائے اور جب کہ ان حکماء کے اپنے اہل وطن ان سے غافل ہو گئے تھے ان کے درس اپنی یونیورسٹیوں میں جاری کئے اور ان کتب کو محفوظ کر دیا اور پھر ان کے ذریعہ سے یہ علوم اور خود مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم سپین میں پہنچے اور اس وقت جب کہ مسیحی علماء علوم کو پڑھنا کفر قرار دے رہے تھے جس طرح کہ آج کل بعض لوگ علوم جدیدہ کا پڑھنا کفر قرار دے رہے ہیں- مسلمانوں کے ذریعہ سے یورپ کے نوجوانوں نے علوم کو سیکھا اور پھر ان پر مزید ترقی کر کے آج کل کے علوم کی بنیاد رکھی- چنانچہ ایک یورپین مصنف لکھتا ہے کہ اہل یورپ کب تک دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکتے اور یہ کہتے رہیں گے کہ مسلمانوں نے علم کی خدمت نہیں کی حالانکہ واقعہ یہ ہے اگر سپین میں مسلمانوں کے ذریعہ علوم نہ پہنچتے تو ہم آج جہالت کی نہایت ابتدائی حالت میں ہوتے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں علوم کی ترقی کا وہ تسلسل قائم رہا ہے جس کے بغیر علمی ترقی بالکل

Page 326

۲۸۳ ناممکن تھی- علم ختم نہیں ہوتا تیسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے بہ زور اس امر کی تعلیم دی کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا- دنیا میں لوگ ایک حد تک ترقی کر کے جب یہ کہتے ہیں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی تو علم مٹنا شروع ہو جاتا ہے اور تمام علوم اور قوموں کے تنزل کا موجب ہی یہ ہے کہ ایک حد تک پہنچ کر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اس سے اوپر اور کیا ترقی ہوگی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے اس خطرناک مرض کو معلوم کیا اور دنیا کے سامنے پیش کرکے اس سے اسے بچایا اور بڑے زور سے تعلیم دی کہ علم خواہ کوئی ہو کبھی ختم نہیں ہوتا- پس ہمیشہ علم کی تحقیق کرتے رہو اور کبھی کسی جگہ پر ٹھہر نہ جاؤ یہ کتنا بڑا نکتہ ہے- ہم لوگ اپنے ایمان کے لحاظ سے یہی مانتے ہیں کہ آپ سب سے بڑے عالم تھے- آپ سے بڑھ کر نہ کوئی عالم ہوا اور نہ ہوگا- مگر آپ بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رب زدنی علما ۲۱؎ اے خدا میرا علم اور بڑھا- اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی علم کے انتہائی مقام کو نہیں پہنچ سکے اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے غیر محدود راستوں پر برابر آگے ہی آگے بڑھتے رہے اور ہمیشہ اضافہ علم کی خواہش آپ کے دل میں موجزن رہی- پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو علم روحانی کے مکمل کرنے والے تھے دعا کرتے رہے کہ ان کا علم اور بڑھے تو کونسا علم ہو سکتا ہے جو ختم ہو جائے اور کونسا شخص ہو سکتا ہے جو کسی علم کو ختم کر لے- اور جب علم کی حد کوئی نہ رہی تو معلوم ہوا کہ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں ہمیشہ مزید ترقی کے لئے کوشش کرتے رہا کریں اور کسی مقام پر پہنچ کر یہ خیال نہ کریں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی- بلکہ ہمیشہ ترقی ہوتی رہے گی اور نئے علوم نکلتے رہیں گے اور ایجادات ہوتی رہیں گے- ہر مرض کی دوا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احسان کیا ہے کہ علوم کسی مقام پر ختم نہیں ہوتے- اسی طرح آپ کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی کہ ہر اک انسانی ضرورت کا خدا تعالیٰ نے علاج مقرر کیا ہے اور کوئی ضرورت حقہ نہیں جس کے پورا کرنے کا سامان نہ موجود ہو چنانچہ آپ فرماتے ہیں لکل داء دواء ۲۲؎ ہر مرض کا علاج خدا تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے یہ تعلیم آپ نے اس وقت دی تھی جب کہ طب میں ہزاروں بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے- اور آج بھی جب کہ طب اتنی ترقی کر گئی ہے- اطباء کہتے میں کہ کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ملک

Page 327

۲۸۴ میں پیدا ہو کر جہاں کوئی طبیب نہ تھا- فرماتے ہیں کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دوا نہ ہو- تجسس کرو علاج پالو گے- آپ کے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں نے علم طب کی طرف توجہ کی اور بیسیوں بیماریوں کا علاج معلوم کر لیا- اور اب یورپ کے اطباء اس تعلیم کی صداقت کو ثابت کر رہے ہیں کہ مختلف لاعلاج سمجھی جانے والی بیماریوں کا علاج تلاش کر رہے ہیں اور کئی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکے ہیں- یہ تعلیم صرف امراض ہی کے متعلق نہیں بلکہ دوسری ضروریات کے متعلق بھی ہے اور اس اصل پر عمل کرنے والے ہمیشہ کامیابی کا منہ دیکھتے رہیں گے- اخلاقی ترقی کا گر پانچواں احسان آپ کی وہ تعلیم ہے جو آپ نے اخلاقی ترقی کے متعلق دی ہے اور جس سے بدی کا قلع قمع ہو جاتا ہے- اور وہ یہ ہے کہ انسان خواہ کیسی گندی حالت میں پہنچ جائے یہ نہ سمجھے کہ وہ نیک نہیں بن سکتا- اس تعلیم کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مایوسی اور ناامیدی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے- آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر فرمایا- انہ لایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون ۲۳؎ کہ خدا کی رحمت سے سوائے انکار کرنے والے کے اور کوئی مایوس نہیں ہوتا- اب دیکھو اس اصل کے ماتحت کس حد تک امید کا دروازہ کھل جاتا ہے- عام طور پر بدی اسی طرح پھیلتی ہے کہ جو شخص بدیوں میں مبتلا ہو چکا ہو- وہ سمجھتا ہے کہ اتنی بدیاں کر لی ہیں تو اب میں کہاں نیک بن سکتا ہوں اور جب وہ یہ رائے قائم کر لیتا ہے تو وہ بدیوں میں بڑھتا جاتا ہے- لیکن اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ خواہ اس سے کتنی ہی بدیاں سرزد ہو چکی ہیں- وہ نیک ہو سکتا ہے اور واپسی کا راستہ اس کے لئے بند نہیں ہے تو اس کے نیک بن جانے کا ہر وقت احتمال ہے- سچے دل سے جستجو کرنے والا ضرور کامیاب ہو جاتا ہے مذکورہ بالا اصل کے ماتحت ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا پر یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی ہے کہ سچی جستجو کبھی ضائع نہیں جاتی- چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ یہ تعلیم دیا کرتے تھے کہ والذین جاھدوا فینالنھدینھم سبلنا ۲۴؎ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ملنے کے لئے کوشش کریں گے ہم ضرور ان کو ہدایت دے دیں گے- یعنی جو بھی سچے دل سے جستجو کرے گا وہ خدا کو پالے گا- یہ

Page 328

۲۸۵ اور بات ہے کہ کس طرح سے خدا تعالیٰ ہدایت دے مگر دے گا ضرور- اور یہ کہنا کہ سکھ یا ہندو یا عیسائی کی دعا قبول نہیں ہوتی- بالکل غلط ہے- طلب ہدایت کے متعلق ہر اک کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر کوئی سچے دل سے جستجو کرے تو ضرور اسے سیدھا رستہ دکھایا جائے گا- اور جب اس کی دعا اپنی حد کو پہنچ جائے گی تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا جن کی مدد سے وہ کشاں کشاں اس راستہ پر پڑ جائیں گے- جس پر چل کر خدا تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوتا ہے- مساوات چھٹا احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ آپ نے قومی امتیازات کو مٹا کر انسانی مساوات کو قائم کیا ہے- آپ سے پہلے ہر قوم اپنے آپ کو اعلیٰ قرار دیتی تھی- عرب تحقیر کے طور پر کہتے کہ عجمی جاہل ہیں- ان کی ہمارے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے- عجمی عربوں کے متعلق کہتے تھے کہ عرب وحشی ہیں- رومی کہتے تھے کہ ہم سب سے اعلیٰ ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیس للعربی فضل علی عجمی الابالتقوی ۲۵؎اے عربو! یاد رکھو- تم کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی- تم بھی ویسے ہی ہو جیسے اور ہیں- سوائے اس صورت کے کہ تم خدا کے خوف میں دوسروں سے بڑھ جاؤ اور یہ فضیلت نسل کی وجہ سے نہ ہوگی بلکہ تقویٰ کی وجہ سے- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی غیر قوم کے لوگوں کو یہ تعلیم دیتے کہ تمہیں دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جا سکتا کہ اپنی قوم کو بڑھانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں- مثلاً اگر کوئی شخص چوہڑوں اور چماروں میں سے کھڑا ہو کر کہے- کہ اے پنڈتو اور برہمنو! تم کو کسی اور قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہے- تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تعلیم مساوات قائم کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عزت قائم کرنے کے لئے ہے- لیکن اگر کوئی سید کھڑا ہو کر سیدوں کو کہے کہ تمہیں دوسروں پر انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جائے گا کہ وہ اپنی قوم کو ایک سچی تعلیم دے کر ان پر احسان کر رہا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو دیکھو آپ نے ایسے ہی الفاظ میں نصیحت کی ہے جو آپ کی قوم کے درجہ کو گراتے ہیں نہ یہ کہ اوروں کے درجہ کو گرا کر اپنی قوم کا درجہ بڑھاتے ہیں- پس آپ کی تعلیم حقیقی مساوات کی تعلیم تھی- آپ یہ نہیں فرماتے کہ اے عجمیو! تم رومیوں یا عربوں سے بڑے نہیں ہو- بلکہ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ تم دوسروں پر فضیلت کا دعویٰ نہ کیا کرو پس آپ کی تعلیم مساوات کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی اور بنی نوع انسان پر ایک عظیم الشان احسان تھا-

Page 329

۲۸۶ اسی ضمن میں آپ نے خدا تعالیٰ سے حکم پا کر کہا- یایھا الناس انا خلقنکم من ذکرو انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا- ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۲۶؎ تو کہہ دے کہ قومیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں جس طرح دو مقابل کی ٹیمیں ہوتی ہیں- قومی مساوات کے ساتھ ساتھ آپ نے تمدنی درجہ میں بھی سب کو برابر کر دیا اور فرمایا سوائے ایسی قوموں کے جن کو حرام و حلال کا پتہ نہیں ہے باقیوں سے مل کر تم کھا پی سکتے ہو یعنی جو صاف ستھرے لوگ ہوں یا جن کے ہاں کوئی معیار حلال و حرام کے لئے مقرر ہو- ان سے کھانا پینا منع نہیں ہے- احکام انصاف میں مساوات اسی طرح احکام انصاف میں برابری رکھ کر آپ نے مساوات کو قائم کیا- خواہ کسی سے لڑائی ہو تو بھی اس کے متعلق انصاف کو قائم رکھا جائے گا- مثل¶ا کسی مسلمان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو تو اس لڑائی میں مسلمان کو کوئی ترجیح نہ دی جائے گی- نہ معاملات میں اپنی قوم کو ترجیح دی جائے گی- جیسے مثلاً یہودیوں میں حکم ہے کہ یہودی سے سود نہ لو- مگر غیر سے لے لو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے سب بندے برابر ہیں نہ کسی مسلمان سے سود لو نہ کسی اور سے- اگر سود ظلم ہے تو ایک یہودی سے لینا ایسا ہی برا ہے جیسا کہ مسلمان سے- مساوات کا ایک بے نظیر سبق اسی طرح آپ نے فرمایا ہے- انصر اخاک ظالما او مظلوما ۲۷؎ اے مسلمان تو اپنے بھائی کی مدد کر- خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم- یہ سن کر صحابہ حیران رہ گئے کہ مظلوم کی تو مدد کی جا سکتی ہے- ظالم کی کیا مدد کی جائے اور انہوں نے کہا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آگیا مگر ظالم کی کس طرح مدد کی جائے- آپ نے فرمایا- ظالم کی مدد اس طرح کرو کہ اسے ظلم سے روک دو- یہ واقعہ نہ صرف اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ نے انصاف اور مساوات کو قائم کیا ہے اور معاملات میں سب انسانوں کو برابر کیا ہے، یہ تعلیم نہیں دی کہ ہر حالت میں اپنے بھائی کا ساتھ دو بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ اگر بھائی ظلم کرے تو یہ خیال کر کے کہ اس کا مقابل غیر ہے بھائی کی مدد نہ کرو بلکہ ایسے وقت میں بھائی کی مدد یہی ہے کہ اس کا ہاتھ ظلم سے روکو کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں- بلکہ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی نہایت مقدس اور پاک تھی- اگر نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظالم ہوتے اور دوسروں کو نقصان پہنچانا

Page 330

۲۸۷ جائز سمجھتے تو جب آپ نے یہ فرمایا تھا- انصر اخاک ظالم او مظلوما- اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم- تو اس وقت مسلمان حیران کیوں رہ جاتے اگر انہیں ظلم کی تعلیم دی جاتی تھی تو ان کے حیران رہ جانے کا کوئی موقع نہ تھا- وہ تو ایسی تعلیم کے سننے کے عادی تھے- لیکن وہ حیران ہوئے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انہیں روزانہ یہی تعلیم ملتی تھی کہ ظلم نہیں کرنا چاہئے اور یہی وجہ تھی کہ جب انہیں یہ کہا گیا کہ اپنے ظالم بھائی کی مدد کر- تو اس تعلیم کو عام تعلیم کے خلاف پا کر وہ گھبرا گئے اور اس کی تشریح طلب کی جو ایسی بے نظیر تھی کہ اس نے اخلاق فاضلہ کے لئے نئے دروازے کھول دیئے- عہد کا احترام اسی مساوات کی مثال کے طور پر آپ کا وہ طریق عمل پیش کیا جا سکتا ہے جو آپ معاہدات کی پابندی میں کرتے تھے- ایک دفعہ آپ لڑائی کے لئے جا رہے تھے- لڑائی کے وقت سب جانتے ہیں کہ ایک ایک آدمی کس قدر قیمتی ہوتا ہے- اس وقت رستہ میں دو آدمی آپ کو ملے- آپ نے دریافت فرمایا- کس طرح آئے ہو- انہوں نے کہا اسلام لانے کے لئے آئے ہیں- ہم مکہ سے آئے ہیں- مگر وہاں کہہ آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد کے لئے نہیں جا رہے- آپ نے فرمایا- یہ کہہ کر آئے ہو تو ہمارے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہو- جب ان سے تم کہہ آئے ہو کہ ہم مسلمانوں کی مدد کو نہیں جا رہے تو اب ہمارے ساتھ ملنے سے وعدہ خلافی ہو جائے گی- پس اس سے بچو- یہ کیسا اعلیٰ سبق مساوات کا ہے- ہر چہ بر خود مپسندی بردیگراں مپسند ایک خالی مقولہ ہے جس پر لوگ عمل نہیں کرتے ہاں زور بہت دیتے ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ایسے بے نظیر طور پر عمل کیا ہے کہ اس کی نظر تاریخ میں نہیں ملتی- ذرا غور کرو ایک ہزار دشمن کے مقابلہ کے لئے آپ جا رہے ہیں اور صرف تین سو آدمی آپ کے ساتھ ہیں اس وقت آپ کو دو آدمی ملتے ہیں- جو تجربہ کار سپاہی ہونے کی وجہ سے آپ کے لئے نہایت کارآمد ہیں مگر آپ انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیتے ہیں تاکہ ان کا عہد قائم رہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ عہد خواہ اپنے سے ہو یا غیر سے کس طرح آپ اس کی پابندی کراتے تھے- حتیٰکہ جو دشمن جنگ کر رہا ہو- اس کے عہد کو بھی پورا کراتے تھے-

Page 331

۲۸۸ تمدنی اور شرعی مساوات کے علاوہ آپ نے روحانی مساوات بھی قائم کی ہے چنانچہ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہر ایک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لئے بھیجا ہے کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ- خدا تعالیٰ کے لئے سب برابر ہیں- پس وہ اس کے دین میں داخل ہو سکتے ہیں اور اعلیٰ روحانی انعامات پا سکتے ہیں- قیامِ امن کے سامان ساتواں احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے سامان پیدا کئے ہیں جس کے ثبوت میں مندرجہ ذیل چند امور پیش کئے جاتے ہیں- ہر قوم کے بزرگوں کا ادب (۱) بہت سی لڑائیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے مذہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے خدا تعالیٰ کو اور کوئی عزیز نہیں ہوا- باقی لوگ ازل سے خدا کے دروازہ سے دھتکارے ہوئے ہیں اب یہ خیال فطرت کے بالکل مخالف ہے خواہ کوئی کسی قوم کا ہو اور کسی ملک کا ہو وہ خدا تعالیٰ پر اپنا ایسا ہی حق سمجھتا ہے جیسا کہ دوسرا- پس اس قوم کے خیال سن کر جذبہ حقارت بھڑک اٹھتا ہے اور جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا ہے- آپ نے اس جھگڑے کا یہ اعلان کر کے کہ ان من امہ الا خلا فیھا نذیر ۲۸؎بالکل بند کر دیا- یعنی کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نبی نہ گذرے ہوں- اس اعلان کے ذریعہ سے سب اقوام کے نبیوں کے تقدس کو قبول کر لیا گیا ہے اور وہ منافرت جو دائرہ ہدایت کے محدود کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اس اعلان کو مدنظر رکھنے والے کے دل سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب مذاہب کی اصل سچائی ہے- پس باوجود اختلاف کے مجھے ان سے اتحاد ہے سب مذاہب خدا کے قائم کئے ہوئے اور اسی کے جاری کئے ہوئے ہیں- پس ان سے بغض اور ان کا قطعی انکار خود خدا کے فضل کا انکار ہے- اب غور کرو آپ نے یہ کیسا امن قائم کرنے کا طریق بتایا ہے- ایک ہندو جب ہم سے پوچھتا ہے تم رامچندر جی کو کیسا سمجھتے ہو- تو ہم کہتے ہیں- ہم انہیں خدا تعالیٰ کا بزرگ سمجھتے ہیں- یہ بات سن کر ایک ہندو ہم سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہے- اسی طرح ہم جہاں جائیں ہمیں اس بات کی فکر نہ ہوگی کہ دوسروں کے بزرگوں میں کیڑے نکالیں- اگر کوئی بتائے کہ

Page 332

۲۸۹ امریکہ یا افریقہ کے فلاں علاقہ میں خدا کا کوئی برگذیدہ گذرا ہے تو ہم کہیں گے ٹھیک ہے- قرآن نے اس کا علم پہلے ہی دے دیا تھا کہ ہر قوم میں ہادی گذرے ہیں- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کے ذریعہ سے قیام امن کا ایک دروازہ کھول دیا ہے- کسی کی قابل عزت چیز کو بُرا نہ کہو (ب) دوسری وجہ لڑائی جھگڑوں کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی قوم کے بزرگوں کو تو برا بھلا نہیں کہتا- لیکن اس کے اصولوں کو برا کہتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فعل سے بھی روکا ہے- آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم کذلک زینا لکل امہ عملھم ثم الی ربھم مرجعھم فینبئھم بما کانوا یعملون ۲۹؎ ٍ فرمایا وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں- جیسے بت وغیرہ- ان کو بھی گالیاں مت دو- گو تمہارے نزدیک وہ چیزیں درست نہ ہوں- مگر پھر بھی تمہارا حق نہیں ہے کہ انہیں سخت الفاظ سے یاد کرو- کیونکہ اس طرح ان لوگوں کے دل دکھیں گے اور پھر لڑائی اور فساد پیدا ہوگا اور وہ بھی بغیر سوچے تمہارے اصول کو برا بھلا کہیں گے اور خدا تعالیٰ کو ضد میں آ کر گالیاں دیں گے- یہ کتنی اعلیٰ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے دوسرے مذاہب کے جو بزرگ سچے تھے- ان کے متعلق تو فرمایا کہ انہیں مان لو- اور جو چیزیں سچی نہ تھیں، ان کے متعلق کہہ دیا کہ انہیں بُرا بھلا نہ کہو- ہر مذہب میں خوبی (ج) تیسری بات لڑائی فساد پیدا کرنے والی یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کے متعلق کہتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹا ہے- اس میں کوئی خوبی نہیں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے فرمایا- وقالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصاری لیست الیھود علی شی وھم یتلون الکتب- کذلک قال الذین لایعلمون مثل قولھم- فاللہ یحکم بینھم یوم القیمہ فیما کانوا فیہ یختلفون- ۳۰؎ فرمایا کیسا اندھیر مچ رہا ہے- یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں- حالانکہ یہ دونوں کتاب الہٰی پڑھتے ہیں یعنی جب کتاب الہٰی

Page 333

۲۸۰ پڑھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ہر اک چیز میں خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور جب کوئی چیز کسی فائدہ کی نہ رہے تو وہ بالکل مٹا دی جاتی ہے پس یہ کس طرح کہتے ہیں کہ دوسرے میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں- وہ مسلمان جو یہ کہتا ہے کہ ہندو مذہب میں عیب ہی عیب ہیں یا ہندو مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں- یا عیسائی ہندوؤں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں، کوئی خوبی نہیں ہے- انہیں غور کرنا چاہئے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عیسائیت دنیا میں قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- یا یہودیت قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- ہندو دھرم قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- یا اسلام قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- کوئی مذہب اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک اس میں کوئی خوبی نہ ہو- مگر یہ تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرو- دراصل یہ بزدلی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے- نیک نیتی سے ماننے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کے قیام کا ایک یہ بھی ذریعہ اختیار کیا ہے کہ آپ نے دنیا کے سامنے اس صداقت کو بھی پیش کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ سب اقوام میں نبی آئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ہر مذہب میں کچھ خوبیاں ہیں بلکہ یہ امر بھی بالکل حق ہے کہ ہر مذہب کے پیرؤوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو اس مذہب کو سچا سمجھ کر مان رہے ہوتے ہیں نہ کہ ضد اور شرارت سے- پس یہ نیکی کی تڑپ جو ماننے والوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے نظر انداز نہیں کی جا سکتی- اور گو وہ غلطی پر ہوں مگر پھر بھی ان کی یہ سعی قابل قدر ہے چنانچہ اس کی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل سے ملتی ہے سب جانتے ہیں کہ اسلام شرک کا سخت مخالف ہے- مگر ایک دفعہ کچھ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مسجد میں بیٹھ کر بحث کرتے رہے حتیٰ کہ ان کی عبادت کا وقت ہو گیا اور عبادت کے لئے مسجد سے باہر جانے لگے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا یہاں ہی عبادت کر لو- چنانچہ انہوں نے بت اپنے سامنے رکھے اور عبادت کر لی- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھے دیکھتے رہے- اب دیکھو کہ انہوں نے تو صلیب یا بزرگوں کے بتوں کی پوجا کی- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں ایسا کرنے کی اجازت دی- کیونکہ آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے ایسا کر رہے ہیں- پس ان کی اس تڑپ

Page 334

۲۹۱ کی آپ نے قدر کی- اور ان کی نیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں جو ذکر الہی کے لئے ہوتی ہے اپنی عبادت بجا لانے کی اجازت دی- جنگ کے حدود دنیا میں ایک باعث فساد کا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی نہ کسی وجہ سے فساد پیدا ہو جائے تو لوگ اسے قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ فساد کو بھی دور فرمایا اور جنگ میں بھی حدود قائم کر دی ہیں- چنانچہ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر آپ نے فرمایا ہے کہ فان انتھوا فان اللہ غفور رحیم ۳۱؎کہ جب لڑائی ہو رہی ہو اور لڑنے والا دشمن لڑائی چھوڑ دے- تو پھر اس سے لڑنا جائز نہیں ہے- کیونکہ یہ ایک قسم کی ندامت ہے اور اللہ تعالیٰ نادم کی ندامت کو ضائع نہیں کرتا- بلکہ بخشش سے کام لیتا ہے اور رحم کرتا ہے- اسی طرح فرمایا کہفلا عدوان الا علی الظلمین ۳۲؎ سزا انہی کو دی جاتی ہے جو ظلم کر رہے ہوں جو اپنی شرارت سے باز آ جائیں انہیں پچھلے قصوروں کی وجہ سے برباد نہیں کرتے جانا چاہئے- حُرّیتِ ضمیر آٹھواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ آپ نے حریت ضمیر کے اصل کو قائم کیا ہے- علمی ترقی کی جڑ حریت ضمیر ہے- شک پیدا ہو اور اس شک کے مطابق تحقیق کی جائے اور جو صحیح نتیجہ نکلے اس کے مطابق اپنے خیال اور اپنے اعمال کو بدلا جائے یہی سب ترقیات کی کنجی ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں اس وقت عرب خصوصاً اور دوسرے ممالک کے لوگ عموماً حریت ضمیر کی قدر نہ جانتے تھے- اس وقت قرآنکریم نے اعلان کیا کہ لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی ۳۳؎ دین کے بارہ میں کچھ جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت اور گمراہی میں خدا تعالیٰ نے نمایاں فرق کر کے دکھا دیا ہے پس جو سمجھنا چاہئے وہ دلیل سے سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہیں ہونا چاہئے- ایک دفعہ عربوں نے خواہش کی کہ آپ سے سمجھوتہ کر لیں اور وہ اس طرح کہ ہم اللہ کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور تم بتوں کی پرستش شروع کر دو- اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق فرمایا کہ لکم دینکم ولی دین ۳۴؎ جب میں بتوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ضمیر کو قربان کر کے ان کی پرستش کروں اور تم واحد خدا کو نہیں مانتے تو تم اس کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو- تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا-

Page 335

۲۹۲ عورتوں کے حقوق نواں احسان آپ کا وہ ہے جو صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کئے جاتے تھے- اور عرب لوگ تو انہیں ورثہ میں بانٹ لیتے تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور اعلان فرمایا کہ ولھن مثل الذی علیھن ۳۵؎ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے- پھر آپ نے اعلان فرمایا جس طرح مردوں کے لئے مرنے کے بعد انعام ہیں- اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں- پھر عورتوں کے لئے جائیداد میں حصے مقرر کئے- اس کی اپنی جائیداد مقرر کی- انگلستان میں بھی آج سے ۲۰ سال قبل عورت کی کوئی جائیداد نہ سمجھی جاتی تھی- جو کچھ اسے باپ سے ملتا، وہ بھی اس کا نہ ہوتا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ حکم دیا کہ عورت اپنے مال کی آپ مالک ہے- خاوند بھی اس کی مرضی کے خلاف اس سے مال نہیں لے سکتا- بچوں کی تربیت، نکاح میں رضامندی اور اس قسم کے بہت سے حقوق آپ نے عورت کو عطا کئے- توہّم کا انسداد دسواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ دنیا میں جو توہم پائے جاتے تھے- آپ نے ان کا انسداد کیا- آپ کی آمد سے پہلے جادو اور ٹونے کا بہت رواج تھا- اور جانوروں سے اور ان کی بولیوں سے لوگ تفاؤل لیتے تھے اور قسم قسم کے وہموں میں مبتلا تھے- مگر جب کہ تعلیم یافتہ ملکوں کے لوگ وہم میں مبتلا تھے- آپ نے ایک جاہل ملک میں پیدا ہو کر سب وہموں کو دور کر دیا اور اعلان کر دیا کہ یہ سب امور فضول اور لغو ہیں- خدا تعالیٰ نے ہر اک امر کے لئے علم پیدا کیا ہے- اس علم سے فائدہ اٹھانا چاہئے- اس کے ذریعہ سے بیماریاں بھی دور ہونگی اور ترقیات حاصل ہونگی- لوگ کہتے ستاروں کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں- آپ نے فرمایا بے شک ان کا بھی اثر ہوتا ہے- مگر یہ ستارے اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت رکھتے ہوں یہ درست نہیں ہے- وہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں- ان کی گردشوں پر اپنے کام کو منحصر رکھنا فضول اور لغو بات ہے- اسی طرح بلی، کوا اور الو وغیرہ جانوروں سے شگون لینے کو آپ نے ناپسند فرمایا- اسی طرح قانون قدرت کی صحت کو تسلیم کر کے فرمایالن تجد لسنہ اللہ تبدیلا ۳۶؎ ایک قانون خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اس کے ماتحت چل کر ترقی کر لو- اس کے خلاف کرو گے تو

Page 336

۲۹۳ ترقی نہ ہوگی ایک دفعہ آپ کہیں جا رہے تھے کہ لوگ کھجور کے پیوند لگا رہے تھے- آپ نے فرمایا- یہ کیا کر رہے ہو، اس کی کیا ضرورت ہے؟ پیوند لگانے والوں نے سمجھا آپ نے منع فرمایا ہے اور انہوں نے پیوند لگانے چھوڑ دیئے- اس سال کھجوروں کو پھل نہ لگے- انہوں نے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا- آپ نے پیوند لگانے سے منع کیا تھا مگر پھل نہیں لگے- آپ نے فرمایا میں نے تو پوچھا تھا، نہ یہ کہ منع کیا تھا- تم نے کیوں پیوند لگانے چھوڑ دیئے تم لوگ ان امور کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو- اسی طرح آپ کے بیٹے ابراہیم کی موت پر گرہن لگا- تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت پر گرہن لگا ہے- تو آپ نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا کہ گرہن خدا تعالیٰ کے ایک قانون سے تعلق رکھتا ہے اسے کسی کی موت اور حیات سے کیا تعلق ہے- سرمایہ اور مزدوری میں اتحاد گیارھواں احسان آپ کا دنیا پر یہ ہے کہ آپ نے سرمایہدار اور مزدور کے تعلقات کو ایسے اصول پر قائم کیا کہ دنیا کی ترقی کے لئے رستہ کھل جاتا ہے اور سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے بالکل دور ہو جاتے ہیں- آپ نے جو تعلیم اللہ تعالیٰٰ کے حکم سے دی ہے اس میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے اس لئے اسے اپنے مال کا ۴۰/۱ حصہ غریبوں کے لئے الگ کر دینا چاہئے- جو ان پر خرچ کیا جائے- لیکن اس کے خرچ کا اختیار گورنمنٹ کو ہوگا- نہ کہ اس شخص کو یا اس کے ہاں کام کرنے والے مزدوروں کو- اس لئے درحقیقت سرمایہ دار صرف اپنے ہی مزدوروں کے ذریعہ نہیں کماتا بلکہ اس کی کمائی پر تمام ملک کے مزدورں کی محنت کا اثر پڑتا ہے- پس چالیسواں حصہ کل سرمایہ کا سرمایہ دار سے وصول کر کے گورنمنٹ غرباء پر اس طرح خرچ کرے کہ کچھ تو اپاہجوں پر کرے اور کچھ ان پر جو اپنی آمد میں گذارہ نہیں کر سکتے اور کچھ غرباء میں سے جو ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں انہیں مدد دے کر- تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل سکیں- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غرباء کی ترقی کے لئے راستہ کھول دیا ہے- اور امراء کو ہمیشہ کے لئے امیر بنے رہنے سے روک دیا ہے- شراب کی ممانعت بارھواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر یہ کیا ہے کہ آپ نے شراب کو بالکل روک دیا ہے- شراب کی برائیوں کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب سب دنیا اس کے نقائص کو تسلیم کر رہی ہے اور مختلف ملکوں

Page 337

۲۹۴ میں اس کے کم کرنے یا بند کرنے کا انتظام ہو رہا ہے- چنانچہ امریکہ والوں نے قانوناً اسے منع کر دیا ہے- ہمارے ملک کے لوگ بھی اس کی ممانعت پر زور دے رہے ہیں اور گو گورنمنٹ نے ابھی تک انکی اس بات کو تسلیم نہیں کیا لیکن امید ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور مسیحیوں کی کوشش جاری رہی تو گورنمنٹ بھی تسلیم کر لے گی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں اب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض قربانیوں کا ذکر کرتا ہوں- لیکن اس سے پہلے میں قربانی کی حقیقت کے متعلق کچھ تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ لوگ سمجھ سکیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں کس شان کی تھیں- قربانی کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اصل قربانی یہ نہیں ہے کہ انسان سے کوئی چیز زبردستی چھین لی جائے- بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کے نفع کے لئے ایسے حالات میں قربانی دی جاوے کہ اس سے بچنا انسان کے اختیار میں ہو دنیا میں ہزاروں لوگ ہر روز مرتے ہیں- مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں- ہزاروں لوگ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں- مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں- اور اس کی یہی وجہ ہے کہ موت انسان کے اختیار میں نہیں ہے- اور ملک چھوڑنے والے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے فائدہ کے لئے ملک چھوڑتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کو آپ لوگ دیکھیں گے کہ وہ ایسی ہی ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی مرضی سے پیش کیا اور لوگوں کے نفع کے لئے پیش کیا نہ کہ اپنے کسی فائدہ کے لئے- دائمی عمل پھر سچی قربانیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں- ایک وہ قربانی ہے جو وقتی ہوتی ہے اور دوسری وہ جو دائمی ہوتی ہے دائمی قربانی اعلیٰ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں میں یہی رنگ پایا جاتا ہے بلکہ آپ کی نسبت روایت ہے کہ آپ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ وہی نیک کام اچھے ہوتے ہیں جو دائمی ہوں- پس ہمیشہ جب نیکی شروع کرو تو اسے ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرو- قربانیوں کی مزید اقسام قربانی کی ان دونوں قسموں کی آگے پھر دو قسمیں ہیں- ایک قربانی جسے دوسرے وصول کرتے ہیں- (۲) وہ قربانی جسے انسان خود پیش کرتا ہے- پہلی قسم کی قربانی یہ ہے کہ مثلاً لوگ اسے اس لئے ماریں کہ وہ صداقت کو چھوڑ

Page 338

۲۹۵ دے، مگر انسان نہ چھوڑے- اس کا نام ہم جبری قربانی رکھ لیتے ہیں- اور دوسری قربانی یہ ہے کہ انسان کے پاس مال ہو اور وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی مرضی سے اسے خرچ کرے- اس کا نام ہم طوعی قربانی رکھ لیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتلا دونوں ہی قسم کے تھے- آپ پر لوگوں نے جبر کیا- اس لئے کہ آپ صداقت کو چھوڑ دیں- مگر آپ نے اسے نہ چھوڑا اسی طرح آپ نے بہت سی قربانیاں ایسی کیں کہ جن کے لئے واقعات نے آپ کو مجبور نہیں کیا تھا- پھر ان دونوں قسموں کی بھی آگے دو قسمیں ہیں-: (۱) استکراہی یعنی ایسی قربانی جو انسان واقعات سے مجبور ہو کر پیش کرتا ہے- مگر اس کا دل اسے ناپسند کرتا ہے- اور (۲) رضائی- یعنی ایسی قربانی کہ انسان واقعات سے مجبور ہو کر اسے پیش کرتا ہے- مگر پھر بھی اس کا دل اسے پسند کرتا ہے- امر اول کی مثال جنگ ہے کہ نیک لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں- لیکن پھر بھی دنیا کے نفع کے لئے اسی ناپسندیدہ شے کو قبول کر لیتے ہیں- اور دوسری مثال لوگوں کی تعلیم کے لئے مال اور وقت خرچ کرنا ہے کہ اس قربانی کو وہ خوشی سے اور رغبت قلبی سے دینا پسند کرتے ہیں یا قوم کی راہ میں موت ہے کہ اپنے آپ کو خود تو ہلاک نہیں کرتے- جب جان دیتے ہیں تو لوگوں کے فعل کے نتیجہ میں دیتے ہیں مگر خواہش رکھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں موت آئے- پس یہ قربانی گو جبری ہے مگر ہے رضائی، یعنی دل اسے پسند کرتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں دونوں ہی قسم کی تھیں- آپ نے وہ قربانیاں بھی کیں جو استکراہی تھیں- یعنی لوگوں کے نفع کے لئے آپ نے ایسے کام کئے کہ جو آپ کو ذاتی طور پر ناپسند تھے- مگر دنیا کے نفع کے لئے آپ نے اپنے میلان کو قربان کر دیا جیسے آپ کی جنگوں میں شرکت اور ایسی قربانیاں بھی کیں کہ جنہیں آپ طبعاً پسند فرماتے تھے- جیسے مال اور آرام کی قربانیاں- پھر قربانیوں کی یہ قسمیں بھی ہیں- ایک وہ قربانیاں جو کسی عارضی مقصد کے لئے ہوں- دوسری وہ قربانیاں جو کسی دائمی صداقت کے لئے ہوں- دوسری قسم کی قربانیاں اعلیٰ ہوتی ہیں- کیونکہ وہ تمام ذاتی نفعوں کے خیال سے بالا ہوتی ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں جیسا کہ آپ لوگ دیکھیں گے اسی قسم کی تھیں- آپ نے کسی عارضی مقصد کے لئے قربانیاں نہیں کیں- بلکہ دائمی صداقتوں اور بنی نوع انسان کی ابدی ترقی کے لئے قربانیاں کی ہیں- پس

Page 339

۲۹۶ آپ کی قربانیاں کیا بلحاظ نیت کے اور کیا بلحاظ مقصد کے اور کیا بلحاظ قربانی کی کمیت اور کیفیت کے نہایت عظیم الشان ہیں- بلکہ حیرت انگیز ہیں اور اگلوں اور پچھلوں کے لئے نمونہ- آپ نے خود ہی دنیا کے دائمی نفع کیلئے اور دائمی صداقتوں کے قیام کے لئے خوشی سے قربانیاں نہیں کیں- بلکہ آپ نے اپنے اتباع کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ بھی خوشی سے قربانیاں کریں تاکہ دنیا ترقی کرے- چنانچہ آپ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر فرماتے ہیں-ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت- وبشر الصبرین- الذین اذا اصابتھم مصیبہ قالوا انا للہ وانا الیہ رجعون- ۳۷؎ ہم ضرور تمہارے ایمان کے کمال کو ظاہر کریں گے- اس طرح سے کہ تمہیں ایسے مواقع میں سے گذرنا پڑے گا کہ تمہیں صداقتوں کے لئے خوف اور بھوک کا سامنا ہوگا اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا- پس جو لوگ ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کی چیز خدا کی راہ میں قربان ہو گئی، انہیں خوشخبری دے کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہ ہونگی- قربانیوں کی شِقّیں جس طرح قربانیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں اسی طرح وہ کئی شقوں کی بھی ہوتی ہیں مثلاً(۱)شہوات کی قربانی- یعنی شہوات کو مٹا دینا (۲)جذبات کی قربانی- یعنی جذبات کو مٹا دینا- (۳)مال کی قربانی- (۴)وطن کی قربانی یعنی وطن چھوڑ دینا (۵)دوستوں کی قربانی- (۶)رشتہ داروں کی قربانی- یعنی خدا کے لئے ان کو چھوڑ دینا- (۷)عزت کی قربانی- یعنی خدا تعالیٰ اور دائمی صداقتوں کے لئے ذلت کو برداشت کرنا یا عزت حاصل کرنے کے مواقع کو چھوڑ دینا- )۸(آرام کی قربانی )۹(آسائش کی قربانی- (۱۰) آئندہ نسل کی قربانی- )۱۱(رشتہ داروں کے احساسات کی قربانی )۱۲(اپنی جان کی قربانی- )۱۳(دوستوں کے احساسات کی قربانی- اب میں یہ بتلاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب قسم کی قربانیاں کی ہیں- شہوات کی قربانی ۱(شہوات کی قربانی اس سے ثابت ہے کہ آپ نے جوانی کی عمر میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی- اور آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی بیوی آپ کو اپنی طرف مائل نہ رکھے بلکہ آپ دنیا کی ترقی کے متعلق کوششوں میں مشغول رہ سکیں- جس وقت آپ نے یہ شادی کی ہے، اس وقت

Page 340

۲۹۷ آپ نے ابھی نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا- اور مذہبی وجہ سے آپ سے اخلاص کی صورت پیدا نہ تھی- پس آپ سمجھتے تھے کہ جوان عورت کی خواہشات چاہیں گی کہ اس کی طرف توجہ کی جاوے- اس لئے آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی اور یہ آپ کی بہت بڑی قربانی تھی- آپ اس وقت ۲۵ سال کے جوان تھے اور آپ کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ ۶۳ سال کی عمر میں بھی صرف چند بال سفید آئے تھے اور آپ ایسے مضبوط تھے کہ آپ ہی نمازیں پڑھاتے تھے اور آپ ہی لشکروں کی کمان کرتے تھے- پس وہ شخص جو بڑھاپے میں بھی نہایت قوی تھا وہ بھرپور جوانی کے وقت نوجوان عورتوں کو چھوڑ کر ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت خدمت مخلوق میں لگا سکے- اس سے بڑھ کر شہوات کی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے- پھر جوانی کی عمر میں تو آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کی کہ وہ آپ کے سارے وقت پر قابو نہ پالے اور جب آپ ادھیڑ عمر کو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ اب عورتوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو آپ سے مذہبی طور پر اخلاص رکھتی ہے اور آپ کے ساتھ مل کر ہر قسم کی مذہبی قربانی کے لئے تیار رہے گی- تو اس وقت اس نیت سے کہ شریعت کے مختلف مسائل کو قوم میں رائج کر سکیں آپ نے کئی جوان عورتوں سے شادی کی اور اس بوجھ کو اٹھایا جو نوجوانوں کی بھی کمر توڑ دیتا ہے- گویا دونوں زمانوں میں جوانی میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی آپ نے شہوات کی قربانی کی- کیونکہ عائشہؓ کی شادی کے بعد دوسری عورتوں سے شادی ایک زبردست قربانی تھی- (۲) جذبات کی قربانی آپ نے مختلف اوقات میں اپنے جذبات کی بھی قربانی کی ہے- چنانچہ اس کی ایک مثال وہ قربانی ہے جسے آپ نے عدل و انصاف کے قیام کے لئے پیش کیا- تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ بدر میں آپ کے چچا عباس قید ہو گئے- حضرت عباس دل سے مسلمان تھے- اور ہمیشہ حضرت کی مدد کیا کرتے تھے- اور مکہ سے دشمنوں کی خبریں بھی بھیجا کرتے تھے- مگر کفار کے زور دینے پر ان کے ساتھ مل کر بدر کی جنگ میں شریک ہوئے- قید ہونے پر اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہی انہیں بھی رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا- چونکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور اس زمانہ کے لحاظ سے ایسے سامان نہیں تھے کہ قیدیوں کے بھاگنے کی روک کی جا سکے- اس لئے رسیاں خوب مضبوطی سے باندھی گئیں- اس

Page 341

۲۹۸ کا نتیجہ یہ ہوا کہ عباس جو نہایت نازو نعم میں پلے ہوئے تھے اور امیر آدمی تھے- اس تکلیف کی تاب نہ لا سکے اور کراہنے لگے- ان کی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوئی اور صحابہ نے دیکھا کہ آپ کبھی ایک کروٹ بدلتے ہیں کبھی دوسری اور انہوں نے سمجھ لیا کہ آپ کی اس بے چینی کا باعث حضرت عباس کا کراہنا ہے اور انہوں نے چپکے سے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں- تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کو ان کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپ نے پوچھا کہ عباس کو کیا ہوا ہے کہ ان کے کراہنے کی آواز نہیں آتی- صحابہ نے کہا یا رسولاللہ آپ کی تکلیف کو دیکھ کر ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں- آپ نے فرمایا- یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو یا ان کی بھی سخت کر دو- یہ قربانی کیسی شاندار ہے- حضرت عباس آپ کے چچا تھے اور محبت کرنے والے چچا- لیکن آپ نے پسند نہ فرمایا کہ ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں اور دوسرے قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی نہ کی جائیں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جس طرح وہ میرے رشتہ دار ہیں- اسی طرح دوسرے قیدی دوسرے صحابہ کے رشتہ دار ہیں اور ان کے دلوں کو بھی وہی تکلیف ہے جو میرے دل کو- پس آپ نے اپنے لئے تکلیف کو برداشت کیا تا کہ انصاف اور عدل کا قانون نہ ٹوٹے- اور اس وقت تک حضرتعباس کو آرام پہنچانے کی اجازت نہ دی جب تک دوسرے قیدیوں کے آرام کی بھی ضرورت نہ پیدا ہو جائے- آپ کی جذبات کی قربانیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ مخالفین آپ کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور آ کر کہا کہ اب بات برداشت سے بڑھ گئی ہے تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ تو بے شک کہا کرے کہ ایک خدا کو پوجو- مگر یہ نہ کہا کرے کہ ہمارے بتوں میں کوئی طاقت بھی نہیں ہے- اگر تم اسے نہ روکو گے تو ہم پھر تم سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہونگے اور ہر طرح کا نقصان پہنچائیں گے- یہ وقت ان کے لئے بڑی مصیبت کا وقت تھا- انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور خیال کیا کہ میرے ان پر بڑے احسان ہیں- یہ میری بات ضرور مان جائیں گے جب آپ آئے تو انہوں نے کہا- اب تو لوگ بہت جوش میں آ گئے ہیں اور وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ تمہاری وجہ سے مجھے اور میرے سب رشتہ داروں کو تکلیف پہنچائیں گے- کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم بتوں کے خلاف وعظ کرنے سے رک جاؤ، تا کہ ہم لوگ ان کی مخالفت سے محفوظ رہیں- اب غور کرو کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے پالا

Page 342

۲۹۹ ہو- پھر چچا ہو اور محسن چچا ہو، اس کی بات کو جو اس نے سخت تکلیف کی حالت میں کہی ہو رد کرنے سے احساسات کو کس قدر ٹھیس اور صدمہ پہنچ سکتا ہے- چنانچہ قدرتاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس مصیبت سے صدمہ پہنچا- ایک طرف ایک زبردست صداقت کی حمایت- دوسری طرف اپنے محسنوں کی جان کی قربانی- ان متضاد تقاضوں کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- لیکن آپ نے فرمایا کہ اے چچا- میں آپ کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھا سکتا ہوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ اور شرک کی مذمتوں کا وعظ چھوڑ دوں- پس آپ بے شک مجھ سے علیحدہ ہو جائیں اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیں- کوئی اور ہوتا تو یہ سمجھتا کہ دیکھو میں نے اس پر اس قدر احسان کئے ہیں- مگر باوجود اس کے یہ میری بات نہیں مانتا- مگر ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو جانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ آپ اس قدر احسان کی قدر کرنے والے ہیں کہ اس وقت میری بات کو رد کرنا ان کے اخلاق کے لحاظ ایک بہت بڑی قربانی ہے اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ اپنے نفس کے لئے نہیں ہے- بلکہ صرف اپنی قوم کی بہتری اور اسے گمراہی سے نکالنے کے لئے ہے- پس وہ بھی آپ کی اس قربانی سے متاثر ہوئے اور بے اختیار ہو کر کہا کہ میرے بھتیجے تو جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے جا اور اپنا کام کر- میں اور میرے دوسرے رشتہ دار تیرے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ مل کر ہر ایک تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں- رشتہ داروں کے جذبات کی قربانی یہ قربانی اپنے جذبات کی قربانی سے بھی مشکل ہوتی ہے- لوگ اپنے جذبات تو مار سکتے ہیں- لیکن اپنے عزیزوں کے جذبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں- کئی ماں باپ خود معمولی کپڑے پہنتے ہیں- لیکن بچوں کو اعلیٰ کپڑے پہناتے ہیں- خود معمولی کھانا کھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اعلیٰ کھانے کھلانے کی کوشش کرتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں پر نظر مارنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے جذبات ہی کو دائمی صداقتوں کے قیام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے قربان نہیں کیا- بلکہ اپنے رشتہ داروں کے جذبات کو بھی قربان کر دیا ہے- اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو بہت بڑی فتح ہوئی اور مسلمانوں کی آسودگی کے سامان پیدا ہو گئے- تو آپ کی پیاری بیٹی فاطمہؓ نے آپ سے کہا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں- چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لوگوں کو اتنے اموال اور نوکر

Page 343

۳۰۰ ملتے ہیں- ایک لونڈی مجھے بھی دے دی جائے- اس کے جواب میں آپ نے فرمایا- یہ چھالے اس سے اچھے ہیں کہ اس مال سے تمہیں کچھ دوں- تم اس حالت میں خوش رہو کہ یہی خدا تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس مال میں حق تھا اور آپ جائز طور پر اس سے لے سکتے تھے- مگر آپ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی مسلمانوں کی ضرورت بہت بڑھی ہوئی ہے، اس مال میں سے کچھ نہ لیا اور اپنی نہایت ہی پیاری بیٹی کی تکلیف کو برادشت کیا- آپ کا اپنی بیویوں کے جذبات کی قربانی کرنے کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں- دوستوں کے جذبات کی قربانی اس کے متعلق میں حضرت ابوبکرؓ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں ان کی کسی یہودی سے گفتگو ہوئی- یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دی- اس پر حضرت ابوبکر کو غصہ آ گیا- اور آپ نے اس سے سختی کی مگر جب یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ حضرتابوبکرؓ سے ناراض ہوئے اور فرمایا- آپ کا حق نہ تھا کہ اس طرح اس شخص سے جھگڑتے- بظاہر یہ قربانی معمولی بات معلوم ہوتی ہے- مگر عقلمند جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے لئے جو ہر وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہو- دوستوں کے جذبات کا احترام کیسا ضروری ہوتا ہے- مگر آپ نے دوسرے لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے کبھی اپنے دوستوں کے جذبات کی پرواہ نہیں کی- اس قسم کی قربانی کی دوسری مثال کے طور پر میں صلح حدیبیہ کا ایک مشہور واقعہ پیش کرتا ہوں- اس صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے گا، تو اسے واپس کر دیا جائے گا- لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا، تو اسے واپس نہیں کیا جاوے گا ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ ایک شخص ابو بصیر نامی مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا- اس کا جسم زخموں سے چور تھا- بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے- اس شخص کے پہنچنے پر اور اس کی نازک حالت کو دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہو گیا- لیکن دوسری طرف کفار نے بھی اس کے اس طرح آنے میں اپنی شکست محسوس کی اور مطالبہ کیا کہ بموجب معاہدہ اسے واپس کر دیا جائے- مسلمان اس بات کے لئے

Page 344

۳۰۱ کھڑے ہو گئے کہ خواہ کچھ ہو جائے- مگر ہم اسے جانے نہ دیں گے- انہوں نے کہا ابھی معاہدہ نہیں ہوا- اس لئے مکہ والوں کا کوئی حق نہیں کہ اس کی واپسی کا مطالبہ کریں- مگر چونکہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرما چکے تھے کہ ہر مرد جو مکہ سے آئے گا، اسے واپس کیا جائے گا- آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دے دیا اور مسلمانوں کے جذبات کو وفائے عہد پر قربان کر دیا- مال کی قربانی آپ کی مالی قربانی کے لئے کسی خاص واقعہ کی مثال دینے کی ضرورت نہیں- ہر اک شخص جانتا ہے کہ جب سے آپ کے پاس مال آنا شروع ہوا، آپ نے اسے قربان کرنا شروع کر دیا- چنانچہ سب سے پہلا مال آپ کو حضرت خدیجہؓ سے ملا اور آپ نے اسے فوراً غرباء کی امداد کے لئے تقسیم کر دیا- اس کے بعد مدینہ میں آپ بادشاہ ہوئے تھے تو باوجود بادشاہ ہونے کے آپ نے حقوق نہ لئے اور سادہ زندگی میں عمر بسر کی- اور جس قدر ممکن ہو سکا غرباء کی خبر گیری کی- حتیٰ کہ آپ نے کھانا تک پیٹ بھر کر نہ کھایا- صحابہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ عام طور پر اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں تو انصار نے جو اپنے آپ کو اہل وطن ہونے کی وجہ سے صاحب خانہ خیال کرتے تھے، یہ انتظام کیا کہ کھانا آپ کے گھر میں بطور ہدیہ بھجوا دیا کرتے- لیکن آپ اسے بھی اکثر مہمانوں میں تقسیم کر دیتے یا ان غرباء میں جو دین کی تعلیم کے لئے مسجد میں بیٹھے رہتے تھے- یہاں تک کہ جب آپ فوت ہوئے تو اس دن بھی آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا اور یہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ ماترکناہ صدقہ ۳۸؎اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے کوئی مال چھوڑا تھا اور اسے آپ نے صدقہ قرار دیا تھا، بلکہ اس کا یہ مطلب تھا کہ ہمارے گھر میں اپنا مال کوئی نہیں ہے جو کچھ ہے وہ صدقہ کا مال ہے- پس اس کامالک بیت المال ہے نہ کہ ہمارے گھر کے لوگ- دوسرے معنی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں- کیونکہ اپنے سارے مال کی وصیت قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے- پس اس حدیث کے یہ معنی کرنے کہ آپ نے اپنا ذاتی مال کوئی چھوڑا تھا اور اسے سب کا سب صدقہ قرار دیا تھا درست نہیں- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی مالی قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ تھی- عزت کی قربانی عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور بہت کم لوگ اس کی جرات رکھتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی

Page 345

۳۰۲ ہیں- مثلاً صلح حدیبیہ ہی کا واقعہ ہے کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو آپ نے لکھایا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور مکہ والوں کے درمیان ہے- حضرت علیؓ یہ معاہدہ لکھ رہے تھے- کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو- کیونکہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اچھا اسے مٹا دو- حضرت علیؓ نے جو محبت رسول کے متوالے تھے کہا، مجھ سے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ کا لفظ لکھ کر کاٹ دوں- آپ نے فرمایا- کاغذ میری طرف کرو اور رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھ سے آپ نے مٹا دیا-۳۹؎ صلح اور امن کی خاطر اس قسم کی قربانی بہت کم لوگ کر سکتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فاتح کی حیثیت میں تھے- آپ کا لشکر جنگ کے لئے بیتاب ہو رہا تھا کیونکہ وہ مکہ والوں کے بے جا مظالم کو دیکھ دیکھ کر جوش سے ابل رہا تھا- اہل مکہ اس وقت بالکل بے بس تھے- ان کا لشکر تھوڑا اور ان کے مددگار دور تھے- پس ان کی ان ہتک آمیز باتوں کا علاج آپ فوراً کر سکتے تھے- مگر آپ کے سامنے یہ بات تھی کہ وہ مقام کہ جسے خدا تعالیٰ نے اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہاں لوگ امن سے اکٹھے ہو کر اصلاح نفس اور اصلاح عالم کی طرف توجہ کر سکیں، اس جگہ جنگ نہ ہو اور اس کی دیرینہ عزت کو صدمہ نہ پہنچے- پس اس کی خاطر ہر ایک ہتک کا کلمہ سنتے تھے اور خاموش ہو جاتے تھے- دوسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں مکہ میں غلاموں کو بہت ذلیل سمجھا جاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بہت معزز تھا- بڑے بڑے قبیلوں والے اس قبیلہ کو لڑکیاں دینا فخر سمجھتے تھے- مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ایک آزاد شدہ غلام سے کرد دی- یہ عزت کی کتنی بڑی قربانی تھی- آپ نے اس طرح عملی قربانی سے لوگوں کو سبق دیا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں- فرق صرف نیکی، تقویٰ، اخلاص اور اخلاق سے پیدا ہوتا ہے- تیسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپ نے قرضہ دینا تھا- اس نے آ کر سخت کلامی شروع کی اور گو ادائیگی قرض کی معیاد ابھی پوری نہ ہوئی تھی- مگر آپ نے اس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیجا کہ فلاں شخص سے جا کر کچھ قرض لے آؤ اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا- جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہ کو اس یہودی پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے کے لئے تیار ہو گئے- مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ مت کہو، کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ

Page 346

کرتا- جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت آپ مدینہ اور اس کے گرد کے بہت سے علاقہ کے بادشاہ ہو چکے تھے اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپ کا اس یہودی کی سختی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھا- چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا- چوتھی مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو کئی دفعہ ایسے آدمیوں کے ماتحت کیا جو خاندانی لحاظ سے ادنیٰ تھے- چنانچہ زید بن حارثہ جو آپ کے آزادکردہ غلام تھے ان کے ماتحت آپ نے حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیار کو ایک فوج میں بھیجا- اسی طرح ابو لہب کے دو بیٹوں سے آپ کی دو بیٹیاں بیاہی ہوئی تھیں- اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم ترک نہ کریں گے تو میں اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دوں گا مگر آپ نے پرواہ نہ کی- اور اس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی- اوپر کی مثالوں کے علاوہ مکہ میں آپ پر غلاظت ڈالی جاتی، منہ پر تھوکا جاتا، تھپڑ مارے جاتے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر کھینچا جاتا اور ہر طرح ہتک کرنے کی کوشش کی جاتی- مگر آپ یہ سب باتیں برداشت کرتے کہ خدا تعالیٰ کے نام کی عزت ہو- آپ مکہ میں صادق اور امین کہلاتے تھے- اپنی قوم کی ترقی کا بیڑا اٹھانے کے بعد آپ کا نام کاذب اور جاہ طلب رکھا گیا- پہلی عزت سب مٹ گئی- پہلا ادب نفرت اور حقارت سے بدل گیا- مگر آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم ہو اور دنیا جہالت اور توہم پرستی سے آزاد ہو- وطن کی قربانی وطن ہر ایک کے لئے ایک عزیز چیز ہوتی ہے- لوگ اس کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنا وطن عزیز تھا اور آپ اسے چھوڑنا نہ چاہتے تھے- مگر آپ نے خدا کے لئے اس کی بھی قربانی کی- آپ کو وطن سے جو محبت تھی اس کا پتہ اس سے ملتا ہے کہ جب آپ وطن چھوڑنے لگے تو آپ کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور آپ نے دردناک الفاظ میں مکہ کی طرف دیکھ کر اسے مخاطب کر کے کہا کہ اے مکہ مجھے تو بہت ہی پیارا ہے- مگر افسوس کہ تیرے رہنے والے مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے- یہ تو وطن کی وہ قربانی تھی جو آپ نے مجبوری کی حالت میں کی- مگر اس کے بعد آپ نے وطن کی ایسی

Page 347

۳۰۴ شاندار قربانی کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی- مکہ سے نکالے جانے کے آٹھ سال بعد آپ پھر مکہ کی طرف واپس آئے اور اس دفعہ آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا- مکہ کے لوگ آپ کا مقابلہ نہ کر سکے- اور مکہ آپ کے ہاتھوں پر فتح ہوا- اور آپ اسی مکہ میں جس میں سے صرف ایک ہمراہی کے ساتھ آپ کو افسردگی سے نکلنا پڑا تھا، ایک فاتح جرنیل کی صورت میں داخل ہوئے- وہ لوگ جو آپ کو نکالنے والے تھے یا مارے جا چکے تھے یا اطاعت قبول کر چکے تھے اور مکہ آپ کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے ایک مضطرب ماں کی طرح تڑپ رہا تھا- لیکن باوجود اس کے کہ آپ کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہاں خانہ کعبہ تھا، آپ نے اسلام کی خاطر اور اس قوم کی خاطر جس نے تکلیف کے وقت آپ کو جگہ دی تھی، اور اس کا دل رکھنے کے لئے مکہ کی رہائش کا خیال نہ کیا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے- یہ آپ کی وطن کی دوسری قربانی تھی- آرام کی قربانی آپ نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور ساری عمر اٹھائیں- مکہ میں تو کفار دکھ دیتے ہی رہے مگر مدینہ میں بھی منافقوں نے آرام نہ لینے دیا- علاوہ ازیں آپ سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کام میں لگے رہتے تھے- راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے- اس طرح آپ نے اپنی آسائش اور آرام کو قربان کر دیا- آپ نے نہ اچھے کپڑے پہنے اور نہ اچھے کھانے کھائے- عورتوں نے مال کا مطالبہ کیا تو انہیں جواب دیا میری زندگی میں تو تمہیں مال نہیں مل سکتا- یہ سب باتیں ایسی ہیں جو آرام کی قربانی سے تعلق رکھتی ہیں- رشتہ داروں کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رشتہ داروں کی قربانی کے لئے تیار رہتے تھے- اس کی مثال کے طور پر ایک تو اس واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی- وہ ایک بڑے خاندان سے تھی- لوگوں نے اس کی سفارش کی- آپ اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ انصاف اور عدل کی خاطر میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا- اگر فاطمہ میری بیٹی سے بھی ایسا فعل سرزد ہو تو اسے بھی سزا دی جائے گی- یہ واقعہ تو آپ کے قلبی خیالات پر دلالت کرتا ہے- مگر عملی ثبوت بھی کثرت سے ملتے ہیں- مثلاً یہ کہ باوجود اس کے کہ صحابہ آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار تھے- آپ خطرناک سے خطرناک مقامات پر اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے- چنانچہ حضرت علیؓ کو ہر میدان میں آگے رکھتے، اسی طرح حضرت حمزہؓ کو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائیوں میں آپ کے عزیز رشتہ

Page 348

۳۰۵ دار مارے گئے- چنانچہ حضرت حمزہؓ احد کی لڑائی میں حضرت جعفرؓ شام کے سریہ میں مارے گئے- اول الذکر آپ کے چچا اور ثانی الذکر آپ کے چچا زاد بھائی تھے- جان کی قربانی جان کی قربانی بھی بہت بڑی قربانی ہے- حتیٰ کہ بعض لوگ غلطی سے صرف اسی قربانی کو قربانی سمجھ بیٹھتے ہیں- آپ نے اس قربانی کو بھی خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے لئے پیش کیا- اشاعت حق کے لئے ہر خطرہ کو برداشت کیا- چنانچہ مکہ میں آپ پر اشاعت توحید کی وجہ سے مکہ والوں نے سخت سے سخت ظلم کیا اور آپ کے مارنے پر انعامات مقرر کئے- مگر آپ نے ذرہ بھر بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی- بلکہ ہمیشہ جان کے خطرے سے استغناء کیا- چنانچہ آپ بے دھڑک ہو کر سخت سے سخت دشمنوں کے پاس تبلیغ کے لئے چلے جاتے تھے- چنانچہ ایک دفعہ آپ تن تنہا طائف تبلیغ کے لئے چلے گئے- حالانکہ طائف ان لوگوں کے اثر کے نیچے تھا جو آپ کے سخت دشمن تھے- وہاں جا کر تبلیغ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے رؤسا نے آپ کے پیچھے لڑکوں اور کتوں کو لگا دیا- جو آپ پر پتھر پھینکتے تھے اور آپ کو کاٹتے تھے- وہ کئی میل تک آپ کا تعاقب کرتے آئے اور آپ پر اس قدر پتھر پڑے کہ آپ کا سب جسم لہولہان ہو گیا اور جوتیوں میں خون بھر گیا- آپ بعض دفعہ زخموں کی تکلیف اور خون کے بہنے کی وجہ سے گر جاتے تھے- تو وہ کم بخت آپ کے بازو پکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے تھے اور پھر مارنے لگتے- اسی طرح ایک دفعہ رات کے وقت شور پڑا اور سمجھا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے- صحابہ اس شور کو سن کر گھروں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہونے لگے کہ تا تحقیق کریں کہ شور کیسا ہے- اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر چڑھے ہوئے جنگل سے واپس آ رہے ہیں اور معلوم ہوا کہ آپ تن تنہا شور کی وجہ دریافت کرنے کے لئے چلے گئے تھے، تا ایسا نہ ہو کہ دشمن اچانک مدینہ پر حملہ کر دے- ایک اور مثال جان کی قربانی کی غزوہ حنین کا واقع ہے- غزوہ حنین میں بہت سے ایسے لوگ شامل تھے جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے- فتح مکہ کے بعد قومی جوش کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے- ہوازن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہ لوگ پسپا ہو گئے اور ان کے بھاگنے سے صحابہ کی سواریاں بھی بھاگ پڑیں اور چار ہزار دشمن کے مقابلہ میں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ صحابی رہ گئے- اس وقت چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی- اور وہاں کھڑے

Page 349

۳۰۶ رہنے والوں کے مارے جانے کا سو فیصدی احتمال تھا- صحابہ نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لوٹائیں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عباس نے گھوڑے کی باگ پکڑ کر واپس کرنا چاہا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باگ چھوڑ دو اور بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گئے اور فرمایا-انا النبی لا کذب ۴۰؎میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں- یعنی اس صورت میں میں اپنی جان کی کیا پرواہ کر سکتا ہوں- احد کی جنگ میں ایک بہت بڑا دشمن آپ پر حملہ کرنے کے لئے آیا- چونکہ وہ تجربہ کار جرنیل تھا- صحابہ نے اسے روکنا چاہا- مگر آپ نے فرمایا آنے دو- وہ مجھ پر حملہ آور ہوا ہے میں ہی اس کا جواب دوں گا- جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تھے تو علاوہ جنگوں کے خفیہ حملے بھی آپ کی جان پر ہوتے رہتے تھے- چنانچہ ایک دفعہ مکہ سے ایک شخص کو لالچ دے کر بھیجا گیا کہ آپ کو خفیہ طور پر مار آئے یہ شخص اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوا اور گرفتار کر لیا گیا- یہود بھی آپ کے قتل کے درپے رہتے تھے- ایک دفعہ آپ کو اپنے محلہ میں بلا کر سر پر پتھر پھینکنا چاہا مگر آپ کو معلوم ہو گیا اور آپ واپس تشریف لے آئے- ایک دفعہ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا- آپ نے ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو حقیقت پر آگاہ کر دیا- تبوک کی جنگ سے واپسی کے وقت چند منافق آگے بڑھ کر راستہ میں چھپ گئے اور آپ پر اندھیرے میں قاتلانہ وار کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰٰ نے آپ کو مطلع کر دیا- آپ نے ان لوگوں کو بھی چھوڑ دیا- غرض آپ پر بڑے بڑے خطرناک حملے کئے گئے- اور تئیس سال کے لمبے عرصہ میں ہر روز گویا آپ کو قتل کرنے کی تجویز کی گئی اور صرف اس وجہ سے کہ آپ توحید کا وعظ کیوں کرتے تھے اور کیوں نیکی اور تقویٰ کی طرف بلاتے تھے- مگر آپ نے اپنی جان کو روز کھو کر صداقت کا وعظ کیا اور سچائی کو قائم کیا- تعجب ہے کہ لوگ ان لوگوں کو تو قربانی کرنے والے سمجھتے ہیں جنہیں ایک موقع جان دینے کا آیا اور ان کی جان چلی گئی- مگر اس کی قربانی کا اقرار کرنے سے رکتے ہیں جس نے ہر روز سچائی کے لئے اپنی جان کو پیش کیا- گو یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے اس کی جان کو محفوظ رکھا- قربانی تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے

Page 350

۳۰۷ کا نام ہے- آگے ہلاکت نہ آئے تو اس میں اس شخص کا کیا قصور ہے جو ہر وقت اپنی جان کو قربانی کے لئے پیش کرتا رہتا ہے- آئندہ نسل کی قربانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی ترقی کے لئے اپنی ہی قربانی نہیں کی- بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی قربانی کی ہے اور یہ قربانی نہایت عظیمالشان قربانی ہے- اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر دیتے ہیں- لیکن ان قربانیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کو فائدہ پہنچ جائے- پس اولاد کی قربانی اکثر اوقات اپنی قربانی سے بھی شاندار ہوتی ہے- آپ نے اس قربانی کا بھی نہایت شاندار نمونہ دکھایا ہے- چنانچہ آپ نے حکم دیا ہے کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لئے منع ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دانا انسان اس امر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا- میری اولاد پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے اور آئے گا کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہوگی- لیکن باوجود اس کے آپ نے فرما دیا کہ میری اولاد کے لئے صدقہ منع ہے- گویا ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لئے کھلا ہے اسے اپنی اولاد کے لئے بند کر دیا اور اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے خیال فرمایا کہ اگر صدقہ میری اولاد کے لئے کھلا رہا تو اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری امت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولاد کو ہی زیادہ تر دیں گے- اور مسلمانوں کے دوسرے غرباء تکلیف اٹھائیں گے- پس آپ نے دوسرے مسلمان غرباء کو تکلیف سے بچانے کے لئے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا اور گویا دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کر دیا- یہ کس قدر قربانی ہے اور کیسی شاندار قربانی ہے- اگر مسلمان اس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں کیونکہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کیا ہے- مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ اس قربانی کے مقابلہ میں ایک شاندار قربانی کریں اور جس دروازہ کو صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں- غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے لئے ہر رنگ میں ایسی قربانیاں کیں جس کی نظیر کسی جگہ نہیں مل سکتی- آپ دنیا میں خالی ہاتھ آئے- باوجود بادشاہ ہونے کے خالی ہاتھ رہے اور خالی ہاتھ چلے گئے- زندگی میں تو دیتے ہی رہے- وفات پانے کے بعد بھی سب کچھ لوگوں کو دے گئے- یعنی آپ کے بعد دوسرے لوگ تخت خلافت پر متمکن ہوئے- اللھم

Page 351

۳۰۸ صل علی محمد وعلی ال محمد وعلی خلفاء محمد وبارک وسلم انک حمید مجید- نصیحت یہ وہ وجود ہے جسے آج دنیا برا بھلا کہتی ہے اور جس کے روشن وجود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے- مگر میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب کے سنجیدہ اور شریف آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور قربانیوں اور پاکبازیوں کا علم حاصل کر کے آپ کا ادب کرنا سیکھیں گے اور آپ کو بنی نوع انسان کا محسن سمجھ کر آپ کو اپنا ہی سمجھیں گے جس طرح کہ وہ اپنے قومی نبیوں کو سمجھتے ہیں اور مسلمان آپ کی زندگی کے حالات معلوم کر کے آپ کے نقشقدم پر چلنے کی کوشش کریں گے اور اس عظیم الشان نعمت کی جو خدا تعالیٰ نے انہیں دی ہے ناشکری نہیں کریں گے اور دین کی طرف سے بے توجہی کی بجائے دین کے احکام پر عمل کرنے کی اور عیش و عشرت کی بجائے قربانی اور دنیا کے لئے مفید بننے کی پوری کوشش کریں گے- اللہتعالیٰ انہیں اس امر کی توفیق دے- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین- ۱؎ الانعام:۱۶۳،۱۶۴ ۲؎ نائیڈو سروجنی )۱۸۷۹ء-۱۹۴۹ء( شاعرہ اور سیاستدان- حیدر آباد دکن میں بارہ سال کی عمر میں میٹرک کیا- بعد میں کیمبرج میں تعلیم پائی- بچپن سے انگریزی میں نظمیں لکھنی شروع کیں- ہندوستانی موضوعات پر رومانی اسلوب میں انگریزی نظمیں لکھ کر انگریزی ادب میں نمایاں شاعرہ کا لوہا منوالیا- اس کی شاعری میں جذبے اور فکر کا امتزاج ہے- ایک دفعہ اس کی نظمیں انگلستان میں گیتوں کی طرح مقبول ہوئیں- ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں قومی خدمتگار کی حیثیت سے مشہور تھی- مہاتماگاندھی کے ساتھ عدم تعاون کی تحریک سے وابستہ ہوئی اور ملک کی سیاست سے گہرا تعلق قائم کیا- کئی دفعہ قید ہوئی- کانپور میں نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ ۱۹۲۵ء کی صدر منتخب ہوئی- ہندوستان کی آزادی کے بعد اترپردیش کی گورنر مقرر ہوئی- اس کی بیٹی بدماجانائیڈو مغربی بنگال کی گورنر رہی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۰۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء( ۳؎ یونس: ۱۷ ۴؎الانعام:۳۴

Page 352

۳۰۹ بخاری باب کیف کان بدء الوحی ۶؎ بخاری باب کیف کان بدء الوحی ۸؎ سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۱ صفحہ۸۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۹؎ سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۱ صفحہ ۱۰۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۱۰؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۳۹۸ھ میں یہ الفاظ ملتے ہیں >کنت شریکی فکنت خیر شریک کنت لاتد اری ولا تماریطلب العلم فریضہ علی کل مسلم< کے الفاظ ہیں- ۲۱؎ طہ:۱۱۵ ۲۲؎ الجامع الصغیر للسیوطی جلد۲ صفحہ۱۰۴ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ ۲۳؎ یوسف: ۸۸ ۲۴ ؎ العنکبوت : ۷۰ ‏]d1 [tag ۲۵؎ ۲۶؎ الحجرات:۱۴ ۲۷؎ بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ ۲۹ه الحجرات :۱۴ بخاری کتاب الاكراه باب يمين الرجل لصاحبه

Page 353

۳۱۰ ۲۸؎ فاطر: ۲۵ ۲۹؎ الانعام: ۱۰۹ ۳۰؎ البقرہ: ۱۱۴ ۳۱؎ البقرہ: ۱۹۳ ۳۲؎ البقرہ : ۱۹۴ ۳۳؎ البقرہ : ۲۵۷ ۳۴؎ الکفرون: ۷ ۳۵؎ البقرہ : ۲۲۹ ۳۶؎ الفتح : ۲۴ ۳۷؎ البقرہ : ۱۵۶،۱۵۷ ۳۸؎ بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث وما ترکناہ صدقہ ۳۹؎ بخاری کتاب الصلح باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان ابن فلان و فلان ابن فلان و ان لم ینسبہ الی قبیلتہ اونسبہ ۴۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ ویوم حنین...........الخ

Page 354

۳۱۱ دین کی راہ میں قربان سے نہ گھبر اؤ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 355

Page 356

۳۱۳ اعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبراؤ (تحریر فرموده ۲۳ جون ۱۹۲۸ء) برادران! آپ لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دشمنوں کی انتہائی مخالفت کے با و جو و رسول کریم ﷺحالات کے متعلق جو جلسے کئے گئے تھے وہ تمام ہندوستان میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہر غیر متعصّب انسان نے ان کے فوائد کو تسلیم کرلیا ہے.آپ لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ غیر مبائعین جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ وابستگی ظاہر کرتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، انہوں نے (باستثناء بعض صاحبان کے) کس جد و جہد سے ہماری نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی تائید میں جلسوں کی مخالفت کی ہے.اس سے آپ کو ایک طرف تو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے ہماری مدد کرتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ غیر مبائعین ہماری مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے یہ خدا اور رسول کی مخالفت سے بھی نہیں رکیں گے.انا لله وانا اليه راجعون؎ اے برادران! ان حالات میں آپ لوگوں پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے آپ نظر انداز نہیں کر سکتے.حالات بتا رہے ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی کے کام میں بھی آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے جائیں گے اور بد سے بد تر سلوک روا رکھا جائے گا.اور آپ کا یہ امید کرنا کہ جس مقصد کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں اس کی ذاتی خوبصورتی لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی‘ درست نہیں.بے شک شریف الطبع لوگ آپ کا ساتھ

Page 357

۳۱۴ دیں گے مگر بہت سے ہیں جو بجائے آپ کا ہاتھ بٹانے کے آپ کی پیٹھ میں خنجر مارنے کے لئے تیار ہوں گے.پس آپ اگر کیا چیز پر بھروسہ کر سکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مددہے اور اس کے فعل نے بار بار آپ پر ثابت کر دیا ہے کہ اس کی مدد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی ہے.پچھلے سال آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ کس طرح کی مالی تنگی تھی لیکن بغیر اس کے کہ بیرونی مدد ہمیں ملتی آپ لوگوں کو خدا تعالی نے ایسی توفیق دی کہ نہ صرف پچھلا قرضہ ہی بہت سا اُترگياء بلکہ اگلے سال کے بجٹ کو پورا کرنے کے لئے بھی کافی رقم جمع ہو گئی.وذلك فضل الله.دشمن اعتراض کرتا ہے کہ ہم غیر احمدیوں سے اس لئے روپیہ وصول کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری مالی حالت خراب ہو رہی ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.ہم نے اپنے کاموں کے لئے نہ پہلے چند ہ لیا ہے نہ آئند ہ چندہ لینے کے لئے تیار ہیں.ہاں جو خود دے دے ،اسے ہم ردّ نہیں کرتے.پس دوسروں کے چندہ کے ہم اپنی جماعت کے کاموں کے لئے محتاج نہیں.وہ تحریک تو ایسے کاموں کے لئے ہے جو تمام مسلمان فرقوں میں مشترک ہے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے وہ اخلاص دیا ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لئے کسی سے چندہ نہیں مانگتی.اس کا دل نور ِ ایمان سے پُر ہے اور اس کا سینہ محبت الہٰی سے بھرپور.ہماری جماعت میں داخل ہونا کوئی معمولی کام نہیں.وہ ایک موت ہے کہ جس سے بڑھ کر اس زمانہ میں کوئی اور موت نہیں.ہر ایک شخص جو اس سلسلہ میں نیچے دل سے داخل ہوتا ہے ، وہ یہی سمجھ کر داخل ہو تا ہے کہ میں خدا کے لئے اور اس کے دین کے لئے ہر ایک موت اور ہر ایک قربانی اور ہر ایک ذلّت کو قبول کروں گا.اور اس ارادہ اور اس نیت سے داخل ہونے والے انسان مشکلات سے نہیں گھبرایا کرتے.ان کا بھروسہ خدا پر ہوتا ہے اور خدا تعالی اپنے پر اعتماد کرنے والوں کو اور اپنی محبت میں گداز لوگوں کو مصیبت کے وقت میں چھوڑا نہیں کرتا.بلکہ وہ ان کا ساتھ دیتا ہے اور ان کی پشت پناہ بن جاتا ہے اور جب دنیا ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو وہ اپنی محبت کا ہاتھ ان پر بڑھاتا ہے اور ان کے آنسوؤں کو اپنے شفقت بھرے ہاتھوں سے پونچھتا ہے.وہ قدوس ہے اور کبھی بے وفائی نہیں کرتا.وہ قادر ہے اور کبھی وقت پر دغا نہیں دیتا.پس تمہیں مبارک ہو کہ تم نے اس کا دامن پکڑا ہے جو تمہیں دونوں جہان میں کامیاب کرے گا اور کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا.ہاں شرط یہ ہے کہ تم بھی اپنے د عویٰ میں سچے ہو اور استقلال سے اس کا دامن پکڑ لو اور

Page 358

۳۱۵ کسی قسم کی قربانی سے نہ گھبراؤ - اے عزیزو! اب ہمارا نیا مالی سال شروع ہوا ہے اور جیسا کہ میں پہلے اعلان کر چکا ہوں جب تک ہمارے خزانہ کی مالی حالت درست نہ ہو جائے، اس وقت تک ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ علاوہ معمولی چندوں کے ہر سال ایک چنده خاص بھی دیا کریں تا کہ معمولی چندوں کی کمی پوری ہو سکے اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہ ہو.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معیّن رقم چندہ خاص میں ادا کریں اور چاہئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چنده عام پر ہرگز نہ پڑے.بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑ تا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہر نا پسند نہیں کرتا.میں یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال چنده خاص کی شرح کم کر دی گئی ہے.یعنی پچھلے سال تو تیس سے چالیس فی صدی اس کی شرح تھی لیکن چونکہ بہت سا مالی بوجھ دور ہو گیا ہے ، اس سال اس چندہ کی شرح پچیس سے تیس فیصدی تک مقرر کی گئی ہے.یعنی جو لوگ مالی تنگی میں ہوں، وہ تو پچیس فیصدی ادا کریں اور جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے یا زیادہ اخلاص دے، وہ تیس فیصدی اپنی ایک ماہ کی آمد میں سے ادا کریں.ہاں جیسا کہ قاعدہ ہے ، وہ اس رقم کو بجائے ایک ماہ میں ادا کرنے کے تین ماہ میں ادا کر سکتے ہیں.زمینداروں کے لئے چونکہ ان کی ماہوار آمدن نہیں ہوتی، علاوه چنده عام کے چنده خاص کی شرح حسب ذیل مقرر کی گئی ہے.یعنی علاوہ اڑھائی سیرفی من پیداوار پر چندہ عام ادا کرنے کے ایک سیرفی من چنده خاص ادا کیا جائے یا جو زمیندار اپنا چندہ عام با قاعدہ شرح کے مطابق نقدی کی صورت میں دیتے ہیں، وہ اپنے سالانہ چندہ کا ایک تہائی یعنی تیسرا حصہ بطور چندہ خاص زائد ادا کریں.مثلاً اگر ایک زمیندار سالانہ ۱۵۰ روپیہ چندہ عام ادا کر تا ہو تو وہ علاوہ چندہ عام کے پچاس روپیہ چنده خاص ادا کرے.پس زمینداروں کے لئے چندہ خاص کی شرح فی من ایک سیر ہر فصل کی ہر قسم کی پیداوار پر ہے یا جس قدر چندہ وہ ہر فصل پر نقد ادا کرتے ہوں ، اس رقم کی ایک تہائی یعنی تیسرا

Page 359

۳۱۶ دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبرا ؤ حصہ چندہ خاص کی شرح ہے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب پچھلے سال سے بھی زیادہ اخلاص سے چندہ کی ترقی کی طرف توجہ کریں گے تاکہ اگلے سال چنده خاص کو بالکل اُڑایا جا سکے.یا کم سے کم اس کی شرح کو ہی کم کیا جا سکے اور اگر ہمارے دوست سب کے سب متفقہ طور پر کوشش کریں تو یہ کچھ بعید نہیں کیونکہ ابھی بہت سے لوگ ہیں جو شرح کے مطابق چندہ نہیں دیتے یا بالکل ہی نہیں دیتے اور بہت سے لوگ ہیں جو دل سے سلسلہ کی صداقت کے قائل ہو چکے ہیں اور صرف ایک محرک چاہتے ہیں.اگر ہمارے احباب محبت اور پیار سے ان کمزور دوستوں کو چست کریں اور وہ لوگ جو سلسلہ کی دہلیز پر کھڑے ہیں ان کو اندر داخل کرنے کی کو شش کریں اور سلسلہ کی اشاعت کے مقصد کو دل سے نہ بھلا ئیں، تو خدا تعالی کے فضل سے سلسلہ کے تمام کاموں کی راہ سے روکیں اٹھ جائیں اور وہ نہات سُرعت سے ترقی کرنے لگیں.میں امید کرتا ہوں کہ میری اس نصیحت پر احباب اس اخلاص سے عمل کریں گے کہ ہر ایک جماعت کا چندہ عام پچھلے سال کے چندہ عام سے کم سے کم پچیس فیصدی زیادہ رہے.اور ہر ایک جو نیک نیتی سے اس کام کے لئے کھڑا ہو گا وہ یقینا ً اس مقصد میں کامیاب ہو گا.کیونکہ خدا تعالی کی مدد اس کے ساتھ ہوگی اور اس کی برکات اس پر نازل ہو رہی ہو نگی.اے میرے پیارو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلاؤں کہ خدا تعالی دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے.پس پہلے سے تیار ہو جاؤ تا موقع ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو.یا د رکھو کہ خدا تعالی کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں، اس کے فضل بھی یکدم آتے ہیں.پس بیدار ہو جاؤ اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی.آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہو کر رہیں گے، خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے.میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہوگئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑنا بعید نہیں.پس چاہئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذي العرش أفلاسا

Page 360

۳۱۷ خدا تعالی سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبراؤ کہ خدا تعالی اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دے گا.اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا.آخر میں میں ان دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں جنہوں نے چندہ ریزرو فنڈ کے وعدے کئے ہیں کہ مومن کو اپنے قول کا پاس کرنا چاہئے.ابھی تک ان کی طرف سے اس چندہ کی طرف پوری توجہ کے آثار ظاہر نہیں ہوئے.میں امید کرتا ہوں کہ اب جب کہ چھ ماہ کے قریب ہی جلسہ میں رہ گئے ہیں، وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے اور دوسرے احباب کو جنہوں نے اب تک اس کام کی طرف توجہ نہیں کی انہیں بھی توجہ دلا تا ہوں کہ اپنے بھائیوں سے پیچھے نہ رہیں اور دس سے پچاس روپیہ، سوسے ہزار روپیہ اور ہزار سے پانچ ہزار روپیہ جمع کر کے بھجوانے والوں کی جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت میں داخل ہو کر ثواب کے مستحق ہوں.مگر نام لکھوانے والوں کو اور جو پچھلے لکھوا چکے ہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے فضلوں کا وارث وہی وعدہ بناتا ہے جسے پورا بھی کیا جائے.لم تقولون ما لا تفعلون ۲؎ کا مصداق کبھی نہیں بننا چاہئے ورنہ دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے.ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ خدا تعالی پر توکل کرنے سچی کوشش کرنے والا کبھی ناکام نہیں رہتا.میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے سینوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کے لئے کھول دے اور ہر ایک جو اس اعلان کو پڑھے، نہ صرف اسے اس پر لبیک کہنے کی توفیق ملے بلکہ وہ درد اور اخلاص سے دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرے.تاکہ خدا کے فضل کے دروازے کھل جائیں اور اس کی رحمت کی چادر ہمیں ڈھانپ لے.اے میرے خدا تو ایسا ہی کر اور ہماری کمزور کوششوں کو اپنے فضل سے بار آور کر.اور ہر ایک جو میری آواز پر لبیک کہتا ہے اسے اپنے خاص فضلوں کا وارث بنا.و أخر دعونا أن الحمد لله رب العلمين - مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی (الفضل ۱۷جولائی ۱۹۲۸ء) البقرة :۷ ۱۵ الصف :۳ ام

Page 361

Page 362

۳۱۹ ’’پیغامِ صلح ‘‘کا پیغام جنگ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثاني

Page 363

Page 364

۳۲۱ اعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر ’’پیغامِ صلح‘‘ کا نام جنگ (تحریر فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۲۸ء) برادران! آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپس کے جھگڑوں کو ناپسند کیا ہے اور ان کے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن باوجود اس کے غیر مبائعین کے متعرف گروہ کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گندے اور غیر شریفانہ پیرایہ میں یہ لوگ مجھ پر اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں گویا کہ ان کے سینے ایک ذخیرہ ہیں حاسدانہ خیالات کا اور ایک سمندر ہیں غضب و غصہ کے احساسات کا- آپ کو یاد ہو گا کہ ۱۹۲۶ء میں جب میں ڈلہوزی آیا تو بعض دوستوں نے تحریک کی کہ ان جھگڑوں کو بند کرنا چاہئے- اس پر میں نے ان سے کہا کہ ہم تو ہمیشہ مدافعانہ لکھتے ہیں اور وہ بھی بہت کم لیکن ابتداء تو دوسرے فریق ہی کی طرف سے ہوتی ہے- پس اس کا فیصلہ کر لیا جائے کہ زیادتی کس کی ہے- مگر ان لوگوں نے کہا کہ پچھلے جھگڑے کو جانے دیا جائے اور اس شرط پر صلح کر لیجئے کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہ لکھا جائے گا- میں نے اس امر کو منظور کر لیا اور آپس میں ایک تحریر لکھی گئی جو ’’الفضل اورپیغام صلح‘‘ دونوں میں شائع کر دی گئی- اس تحریر کی اشاعت کے بعد خلاف معاہدہ پیغام صلح میں جماعت کے خلاف عموماً اور میری ذات کے خلاف خصوصاً مضامین شائع ہوتے رہے حالانکہ اس معاہدہ سے بالخصوص ذاتی جھگڑوں کو روکنا مدنظر تھا- میں برابر اس وعدہ خلافی کو دیکھ کر خاموش رہا حتیٰکہ جب بات انتہا کو پہنچ گئی تو میں

Page 365

۳۲۲ نے حسب احکام قرآن اور دستور زمانہ کے اس امر کا اعلان کر دیا کہ چونکہ دوسرے فریق نے معاہدہ فسخ کر دیا ہے اس لئے اب اس کا اثر ہم پر بھی کوئی نہیں ہوگا- جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے توڑنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے برائت حاصل کر لی تھی اور مکہ پر حملہ کر دیا تھا- اس اعلان پر بھی جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہے انہوں نے شور مچایا کہ گویا میں نے معاہدہ توڑا ہے حالانکہ یہ اس معاہدہ کو توڑتے چلے آ رہے تھے اور بیسیوں دفعہ توڑ چکے تھے جس کے ثبوت میں عنقریب انشائاللہ ایک خلاصہ ان مضامین کا شائع کیا جائے گا جو دو سال کے عرصہ میں پیغام صلح اور الفضل میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں شائع ہوتے رہے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ کس نے معاہدہ کو توڑا ہے اور کس نے اس کا پاس کیا ہے اور کس نے ظلم سے کام لیا ہے اور کون مظلوم ہے- بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ معاہدہ منسوخ ہوا- اور ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پچھلے دو سال میں جو کچھ گالیاں یہ لوگ دیتے رہے تھے وہ درحقیقت ان کے معیار اخلاق کے لحاظ سے ایک نہایت ہی شریفانہ فعل تھا اور درحقیقت ان کے بغض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے نفوس پر جبر کر کے صرف اس قدر پر کفایت کی جو ان کے اخبارات میں شائع ہوا تھا بد زبانی اور سخت کلامی کا ایک ایسا باب کھول دیا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسان غصہ میں کس قدر گر جاتا ہے اور اخلاق حسنہ سے کس قدر دور جا پڑتا ہے- خدا تعالیٰ اس حالت بغض سے بچائے اور ایسے کینہ سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے- نہایت ہی حیرت کا مقام ہے کہ باوجود اس قدر تعدی اور متواتر ظلم کے اور حملہ کی ابتداء کے’’پیغام صلح‘‘ کے ۲۸- محرم کے پرچہ میں لکھا ہے- ’’اس لئے پھر دشنام دہی کا دروازہ کھول دیا ہے-‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جوابی مضامین کے سوا اور وہ بھی چند ایک سے زیادہ نہیں ہمارے اخبارات نے ان لوگوں کے متعلق کچھ لکھا ہی نہیں- اس کے مقابلہ میں ان کے اخبارات میں کالم کے کالم ہمارے خلاف سیاہ کئے جاتے ہیں- اور گالیوں کی ایسی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ الامان- اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرے فرقوں بلکہ غیر مذاہب کے غیرجانبدار لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا تو وہ بلا تردد گواہی دیں گے کہ پیغام صلح جو کچھ ہمارے خلاف لکھتا ہے اور جس طرح سے لکھتا ہے اس سے بیسواں حصہ بھی ہم نہیں لکھتے اور ان کی

Page 366

۳۲۳ عامیانہ طرز کے مقابلہ میں نہایت متانت سے لکھتے ہیں- خصوصاً میری تحریرات اور مولوی محمدعلی صاحب کی تحریرات کا مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک شخص کو اقرار کرنا پڑے گا کہ میں نے اپنے دامن کو بدکلامی کے داغ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ پاک رکھا ہے- میری تحریرات بھی اور مولوی صاحب کی تحریرات بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں- الفضل اور پیغام صلح کے پڑھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں میں نے مولویصاحب کے متعلق کیا لکھا یا کہا ہے اور انہوں نے کیا لکھا اور کہا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے، میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں- آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کر سکیں اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں، لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں ہے- نہ معلوم چند دن کو، نہ معلوم چندہ ماہ کو، نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے، جب سخت دل سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا ماضی پر نگاہ ڈالے گا، جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا- حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا- اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقع میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی- یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا جو اس صورت میں مجھے ملے گا- پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں، بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں، وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا جن کی

Page 367

۳۲۴ کوئی شخص امید کر سکتا ہے- پیغام صلح کی اس سخت کلامی کے خلاف اپنے رویہ کا ذکر کر کے میں اس چیلنج کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے اپنے تازہ پرچہ میں دیا ہے- اس چیلنج کے الفاظ یہ ہیں- ’’ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں- صلح کریں یا جنگ کریں- ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے.‘‘ ۱؎ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں، وہ پیغام جنگ ہے- اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات سے چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے اور آپﷺ~ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے- میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ ان ہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں- پیغام ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں- ہر ایک جو سچے دل سے بیعت میں شامل ہوا ہے اب اس کا فرض ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کے اس اعلان جنگ کو قبول کرے اور ایک سچے مسلمان کی طرح جو بزدل نہیں ہوتا بلکہ بہادری سے اپنے عقیدہ پر قائم ہوتا ہے اور اپنی ہر ایک چیز کو سچائی کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اس امر کے لئے تیار ہو جائے کہ وہ اس جنگ کو جو نفسانیت کی جنگ ہے، جو خود غرضی کی جنگ ہے، جو بے جا تحقیر اور بے سبب بغض کی جنگ ہے، ہر ایک جائز ذریعہ سے جلد سے جلد خاتمہ کرنے کی کوشش کرے گا- جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں- لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے

Page 368

۳۲۵ گا- پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جاؤ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے- اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے- اور کوشش کرو کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچاؤ مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں سے انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تا کہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے- اللہ تعالیٰٰ آپ کے ساتھ ہو- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین- خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۱۸- جولائی ۱۹۲۸ء (الفضل ۲۷- جولائی ۱۹۲۸ء) ۱؎ پیغامِ صلح جِلد ۱۶ نمبر ۴۷مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۵ کالم ۲

Page 369

Page 370

۳۲۷ اظہار حقیقت از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی

Page 371

Page 372

۳۲۹ اعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر کیا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء دیانت سے کام لے رہے ہیں مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء نے سترہ جون کے جلسہ کی کامیابی کے آثار شروع سے محسوس کر کے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے اور یہ ان کی دیرینہ عادت ہے- وہ ہر اس تحریک کی جو میری طرف سے ہو مخالفت کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اگر احمدی جماعت سے کوئی نیک کام ہوگا تو لوگ اس طرف متوجہ ہو جائیں گے اور اس سے ان کے کام کو نقصان پہنچے گا- چنانچہ جب پچھلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے تمام ہندوستان میں جلسے کئے گئے تھے تو اس وقت بھی غیر مبائعین نے ان جلسوں میں شمولیت سے اجتناب کیا تھا اور ان کے بعض افراد نے بیان کیا تھا کہ ہمیں ہمارے مرکز نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے- چنانچہ سوائے دو چار جگہوں کے جہاں سے کہ غیر مبائعین نے اپنے طور پر ان جلسوں میں شمولیت اختیار کی بحیثیت قوم مولوی صاحب کے رفقاء ان جلسوں میں شامل ہونے سے مجتنب رہے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کا بانی میں تھا اور ان لوگوں کے نزدیک میری تحریکات میں حصہ لینا درست نہ تھا- حالانکہ جو وجہ وہ اب بتاتے ہیں وہ اس وقت موجود نہ تھی کیونکہ

Page 373

۳۳۰ اس وقت ختم نبوت کا سوال نہ تھا بلکہ سوال یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو گالیاں دی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے اور مسلمانوں کو اپنی تمدنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے- مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے اس وقت تو ان تحریکات میں حصہ لینا پسند نہ کیا مگر چار پانچ ماہ کے بعد مولوی صاحب نے ایک ٹریکٹ شائع کیا جو اب تک شائع ہو رہا ہے اور اس میں ان تمدنی تحریکات کو جو میں نے پیش کی تھیں اس طرح پیش کیا گیا ہے گویا کہ وہ ابتداء ان کی طرف سے پیش ہوئی تھیں- اور اس امر کو مولوی صاحب بالکل دبا گئے ہیں کہ جس وقت وہ تجاویز میری طرف سے پیش ہوئی تھیں تو اس وقت وہ اور ان کے رفقاء ان میں حصہ لینے کے لئے بالکل تیار نہ تھے- مولوی صاحب کے اس رویہ کے مقابلہ میں میرا رویہ جو ان کے بارہ میں رہا ہے وہ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جس وقت مولوی محمد یعقوب صاحب پر جو مولوی محمد علی صاحب کے ہم زلف اور لائٹ اخبار کے ایڈیٹر ہیں مقدمہ چلانے کا خیال گورنمنٹ نے ظاہر کیا تو اس وفد میں جو اس مقدمہ کے واپس لینے کے لئے اوگلوی صاحب کے پیش ہوا ہماری جماعت لاہور کے سیکرٹری حکیم محمد حسین صاحب قریشی بھی شامل تھے- اور میں نے اپنی جماعت کے بعض وکیلوں کو تاکید کی کہ اگر دوسرا فریق منظور کر لے تو وہ اس مقدمہ کی مفت پیروی کریں اور اس کے علاوہ گورنمنٹ سے پروٹسٹ کیا کہ اس کا مولوی محمد یعقوب صاحب پر مقدمہ چلانا درست نہیں ہے اور یہ کہ اسے چاہئے کہ انہیں آزاد کر دے- بہرحال ہر شخص اپنی طینت کے مطابق معاملہ کرتا ہے- مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہیں اور میں اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہوں اس میں کوئی شکوہ کی وجہ نہیں ہے- مگر جس امر کی طرف میں اس وقت توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے سترہ جون کے جلسوں کی مخالفت کرنے میں دیانتداری سے کام نہیں لیا اور یہ کہ انہوں نے مسلمان پبلک سے حقیقت کو چھپایا ہے اور جو وجہ مخالفت کی وہ ظاہر کرتے رہے ہیں وہ درست نہ تھی اور وہ خوب جانتے تھے کہ وہ پبلک کو دھوکا دے رہے ہیں- اخبار ‘’پیغام صلح’‘ نے ان جلسوں کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان جلسوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا تھا کہ وہ خاتم النبین کی تائید میں ہیں- اور چونکہ نعوذ باللہ میں اور

Page 374

۳۳۱ جماعت احمدیہ بقول ‘’پیغام صلح’‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں اس لئے ہمیں کوئی حق نہ تھا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین قرار دے کر ان کی عظمت کے اظہار کے لئے جلسے کرتے- ہمارا ایسا کرنا ایک دھوکا تھا جو ہم دنیا کو دے رہے تھے- اس مضمون کی مولوی محمد علی صاحب نے اپنی زبان سے ایک معزز رئیس سردار حبیب اللہ صاحب کے سامنے تائید کی ہے- جنہوں نے خود میرے سامنے بہ موجودگی اپنے نانا صاحب اور ہماری جماعت کے بعض افراد کے اس امر کی شہادت دی کہ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمیں ان جلسوں پر یہ اعتراض تھا کہ باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہ ماننے کے ان لوگوں نے خاتم النبین کے نام کے نیچے آپ کی تعظیم کے اظہار کے لئے جلسے کیوں کئے ہیں- پیغام صلح کی اشاعت ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء میں اوپر کے بیان کی تصدیق بھی ہو گئی ہے کیونکہ اس میں مولوی محمد علی صاحب الفضل کی ایک ڈائری کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے سردار حبیب اللہ صاحب سے کہا تھا کہ-: ‘’مگر جن لوگوں کا ختم نبوت پر ایمان نہیں اور آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری کرتے ہیں ان کا دنیا میں یہ اعلان کرنا کہ ہم یوم خاتم النبین منائیں گے دنیا کو دھوکا دینا ہے کہ لوگ یہ خیال کریں کہ واقعی یہ لوگ نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں’‘- ۱؎ پھر لکھتے ہیں کہ-: ‘’جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت صعلم پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتمالنبین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا’‘- ۲؎ ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے اس بیان کی جو سردار حبیب اللہ صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب کی زبانی مجھے معلوم ہوا تھا تحریراً بھی تصدیق کر دی ہے اور اب ان کی اور پیغام صلح کی تحریروں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے جو ۱۷/جون کے جلسوں کی مخالفت کی تھی اس کے اسباب مندرجہ ذیل تھے-

Page 375

۳۳۲ ۱- میں اور میرے احباب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے اس لئے ہمارا حق نہ تھا کہ ہم خاتم النبین کی تائید میں جلسے کرتے- ۲- مولوی صاحب کے عقیدہ کے مطابق عام مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین مانتے ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کے قائل نہیں اس لئے ہمارا خاتم النبین کی تائید میں جلسوں کا اعلان کرنا دھوکا تھا اور ایک فریب تھا- جس سے ہمارا مقصد خاتم النبین ماننے والے غیر احمدی مسلمانوں کو دھوکا دینا تھا- میں اب یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب اور ان کے احباب ان دونوں امور میں دیدہ و دانستہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے وہ باتیں شائع کی ہیں جو ان کے علم اور ان کے یقین کے خلاف ہیں- امر اول کے جواب میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے- قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے- جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں- میرے نزدیک رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے- اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا- اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کے دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکا دینے کیلئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے- میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے- اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرے گا- مولوی محمد علی صاحب بھی میرے اس عقیدہ اور میرے اس فعل سے اچھی طرح واقف ہیں- باوجود اس کے مولوی صاحب کا اور ان کے رفقاء کا یہ شائع کرنا کہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں تقویٰ اور دیانت کے خلاف فعل ہے اور

Page 376

۳۳۳ ہر شریف انسان اُن کے اس فعل پر انہیں ملامت کرے گا- مولوی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہر گز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو گئی ہو اور آپ کی شریعت منسوخ ہو گئی ہو- بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آپ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا اور کسی مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے- اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی جو آپ کو امتی ہونے سے ہر گز باہر نہیں نکالتی تھی- اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا- پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گو میں منہ سے کہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں میں جھوٹا اور دھوکے باز ہوں خود ایک دھوکا ہے اور مولوی صاحب اس امر کو خوب جانتے ہیں- میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس طرح کسی کے ایمان اور اس کے دعویٰ پر باوجود اس کے انکار کے حملہ کرنا جائز ہوتا ہے تو پھر کیا میں جو مرزا صاحب کو امتی نبی مانتا ہوں اور جس کے نزدیک مرزا صاحب کا یہی دعویٰ تھا کیا میرا اور میری جماعت کا حق ہوگا کہ چونکہ مولوی صاحب مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے ہم ان کی نسبت یہ کہا کریں کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء مرزا صاحب کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہنے میں وہ دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں- پھر میں پوچھتا ہوں کہ غیر احمدی طبقہ جو علماء کے ماتحت ہے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مردے زندہ ہو سکتے ہیں اور انبیاء کو ایسی طاقت مل جاتی ہے اور انسان بہ جسد عنصری آسمان پر جا سکتاہے اور اس عقیدہ کے ماتحت ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام بھی مردے

Page 377

۳۳۴ زندہ کیا کرتے تھے اور پرندے بھی پیدا کیا کرتے تھے اور جب یہود نے انہیں مارنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اب تک وہاں زندہ موجود ہیں لیکن ان لوگوں کے برخلاف آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کا واقع ہونا تعلیم قرآنی کے خلاف ہے- تو اس صورت میں کیا مولوی صاحب یہ جائز سمجھیں گے کہ غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب کی نسبت جو ان امور کے قائل نہیں یہ اعلان کریں کہ وہ معجزات کے قائل نہیں ہیں- اور مولویصاحب یہ جواب دیں کہ میں تو معجزات کا قائل ہوں البتہ اس تشریح کا پابند نہیں ہوں جو دوسرے لوگ کرتے ہیں اور جو میرے نزدیک قرآن کریم کے خلاف ہے- پس مجھے معجزات کا منکر نہیں کہا جا سکتا- تو کیا مولوی صاحب یہی جواب ہماری طرف سے نہیں دے سکتے تھے اور یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ گو ہمارا اور ان کا ختم نبوت کے مفہوم میں اختلاف ہے لیکن یہ لوگ چونکہ اس امر کے مدعی ہیں کہ انہیں ختم نبوت پر ایمان ہے اس لئے انہیں خاتم النبین کا منکر نہیں کہا جا سکتا- مگر یہ جواب تو مولوی صاحب کو تب سوجھتا جب وہ عدل اور انصاف سے مسئلہ کی حقیقت پر غور کرنے کے لئے تیار ہوتے- پھر کیا مولوی صاحب اس امر کا جواب دیں گے کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا اور ان کی نسبت یہ یقین کرنا کہ وہ بغیر کھانے پینے کے آسمان پر بیٹھے ہیں اور وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے اور مردے زندہ کیا کرتے تھے شرک ہے یا نہیں- تو پھر کیا وہ اس امر کا اعلان کریں گے کہ تمام مسلمان لا الہ الا اللہ دھوکے اور فریب سے پڑھتے ہیں دراصل وہ سب کے سب مشرک ہیں اور توحید کے منکر ہو کر کافر ہو چکے ہیں- اگر نہیں تو کیوں؟ جب انہوں نے ہم پر ختم نبوت کے منکر ہونے ¶کا الزام لگایا ہے اور دھوکے باز ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے نہیں کہ ہم ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کی جو تشریح ہے ہم اس سے اختلاف رکھتے ہیں تو کیا سبب ہے کہ غیر احمدیوں کی نسبت جو لا الہ الا اللہ تو کہتے ہیں مگر شرک کی تعریف میں مولوی صاحب سے اختلاف رکھتے ہوئے وہ بعض ایسے امور کے قائل ہیں جن کو مولوی صاحب شرک قرار دیتے ہیں مولوی صاحب یہ اعلان نہیں کرتے کہ یہ لوگ دھوکے سے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں ورنہ اصل میں یہ مشرک ہیں- کیا ایسا نہ کرنے کی یہی وجہ تو نہیں کہ مولوی صاحب کے تمام کاموں کا

Page 378

۳۳۵ گزارہ ہی ان لوگوں کے چندوں پر چلتا ہے ورنہ ان کے اپنے ہم عقیدہ معدودے چند آدمی ہیں- پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مولوی صاحب اسی فتویٰ کو جو انہوں نے ہم پر چسپاں کیا ہے کچھ اور لوگوں پر بھی چسپاں کریں گے- اگر وہ اس کے لئے تیار ہیں تو سنیں کہ حضرت عائشہ ؓ کا وہی مذہب ہے جو میرا ہے- وہ فرماتی ہیں-قولوا انہ خاتم النبین ولا تقولوا لا نبی بعدہ ۳؎یہ تو کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں- مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں- اب مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ کیا حضرت عائشہ ؓ کی نسبت بھی وہ یہ اعلان کریں گے کہ وہ خاتم النبین کی منکر تھیں اور لا نبی بعدہ کہنے سے منع کر کے جو انہوں نے خاتم النبین کہنے کی تعلیم دی ہے یہ محض نعوذ باللہ من ذلک لوگوں کو دھوکا دیا ہے- مولوی صاحب نے اپنی کتاب ‘’النبوۃ فی الاسلام’‘ میں اس احتمال کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ قول حضرت عائشہ ؓ کا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہا ہے کہ اس صورت میں یہ قول ان کا مردود ہوگا-۴؎ مگر یہ فتویٰ نہیں دیا کہ میں پھر حضرت عائشہ ؓ کو دھوکا باز کہوں گا- اور کہوں گا کہ خاتمالنبین کہنے میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہی تھیں- اسی طرح کیا مولوی صاحب ان بیسیوں بزرگان اسلام کو جنہوں نے غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا تسلیم کیا ہے ختم نبوت کا منکر قرار دیں گے اور سب کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ دھوکا باز تھے اور لوگوں کو فریب دے رہے تھے- اور تو خیر میں پوچھتا ہوں کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند جنہوں نے اپنے متعدد رسالوں میں غیر تشریعی نبوت کو جائز قرار دیا ہے کیا مولوی صاحب ان کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان لانے کے دعویٰ میں جھوٹے تھے اور دنیا کو فریب دے رہے ہیں- اگر باوجود ان تشریحات کے مولوی صاحب ان کو دھوکا باز نہیں کہتے بلکہ نہیں کہہ سکتے تو پھر اس عقیدہ کی بناء پر مولوی صاحب مجھے اور باقی احمدی جماعت کو دھوکا باز کس طرح کہہ رہے ہیں اور کیا ان کا یہ فعل خود دھوکا نہیں- اور اس وجہ سے نہیں کہ وہ اصل میں یہ چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم الشان خدمت جو ۱۷- جون کے جلسوں کی شکل میں ظاہر ہوئی مجھ سے اور میرے احباب کے ذریعہ سے نہ ہو- گویا ان کا دل میرے کینہ سے اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ اس کو تو پسند کر لیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے

Page 379

۳۳۶ کوشش نہ کی جائے مگر اسے پسند نہیں کر سکتے کہ کوئی اچھا کام میرے ذریعہ سے ہو- غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک ختم ِنبوت کے منکر ہیں! اب میں دوسری بات کو لیتا ہوں جو یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے یہ وعویٰ کیا ہے کہ ان کے نزدیک غیر احمدی فرقے ختم نبوت کے ماننے والوں میں سے ہیں اور چونکہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں اس لئے میرا حق نہ تھا کہ میں ختم نبوت کی تائید کا نام لیکر ان کو جلسہ کرنے کی دعوت دیتا- میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ان کے نزدیک عام مسلمان ختم نبوت کو مانتے ہیں اور اس لئے ان کو ایک ختم نبوت کے منکر کے دھوکا سے بچانے کے لئے ان کے اخبار نے لوگوں کو متوجہ کیا تھا ایک صاف اور واضح دھوکا ہے- مولوی صاحب ہر گز غیراحمدیوں کو ختم نبوت کے ماننے والے نہیں مانتے- وہ انہیں اسی طرح ختم نبوت کے منکر قرار دیتے ہیں جس طرح کہ مجھے اور میرے احباب کو- اور اس کا ثبوت وہ حوالہ جات ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ‘’النبوۃ فی الاسلام’‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے نقل کئے ہیں- ان میں سے چند ذیل میں درج کرتا ہوں- ‘’اور سب حدیثیں اس بات پر متفق ہیں کہ مسیح موعودؑ اس امت میں سے ہوگا- کیونکہ نبوت ختم کر دی گئی ہے اور ہمارے رسول خاتم النبین ہیں’‘-۵؎ ‘’ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو کوئی شک نہیں کہ جو شخص اس مسیح کے نزول پر ایمان لاتا ہے جو بنی اسرائیل کا نبی ہے وہ خاتم النبین کا کافر ہے-’‘۶؎ ‘’پس کچھ شک نہیں کہ اس عقیدہ کو )یعنی آسمان سے مسیح کے نزول پر ایمان لانے( کو نہ ایک بیماری بلکہ کئی بیماریاں لگی ہوئی ہیں- قرآن کی بینات کا مخالف ہے ختم نبوت کے امر کی تکذیب کرتا ہے اور قوم عرب کے محاورات کے مغائر پڑا ہے’‘-۷؎

Page 380

۳۳۷ ‘’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-ولکن رسول اللہ و خاتم النبین اور حدیث میں ہے-لا نبی بعدی اور بایں ہمہ حضرت مسیح کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی- لہذا دنیا میں ان کے دوبارہ آنے کی امید طمع خام- اور اگر کوئی اور نبی نیا یا پرانا آوے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم الانبیاء رہیں’‘-۸؎ ‘’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے- کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آ جائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے- اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہو سکتا ہے- اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت عیسیٰ امتی ہو کر آئیں گے تو شان نبوت تو ان سے منقطع نہیں ہوگی- گو امتیوں کی طرح وہ شریعت اسلام کی پابندی بھی کریں- مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ کے علم میں نبی نہیں ہوں گے- اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ نبی ہوں گے تو وہی اعتراض لازم آیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی دنیا میں آگیا اور اس میں آنحضرت صلعم کی شان کا استخفاف ہے اور نص ِّصریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے’‘- ۹؎ قولہ: مسیح نبی ہو کر نہیں آئے گا- امتی ہو کر آئے گا- مگر نبوت اس کی شان میں مضمر ہوگی- اقول: جب کہ شان نبوت اس کے ساتھ ہوگی اور خدا کے علم میں وہ نبی ہوگا تو بلاشبہ اس کا دنیا میں آنا ختم نبوت کے منافی ہوگا’‘- ۱۰؎ ‘’قرآن شریف جیسا کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ولکن رسول اللہ و خاتم النبین لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتالیس برس تک ان پر جبرئیل علیہالسلام وحی نبوت لیکر نازل ہوتا رہے گا- اب بتلاؤ کہ ان کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختموحی نبوت کہاں باقی رہا- بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰ

Page 381

۳۳۰ ہیں’‘-۱۱؎ یہ حوالہ جات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ہیں- اور انہیں مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب ‘’النبوہ فی الاسلام’‘ میں نقل کیا ہے- اور میں نے اس لئے کہ جو چاہے جہاں سے دیکھ لے دونوں کتب کے صفحات کے حوالے دے دیئے ہیں- یعنی حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی کتب کے بھی اور مولوی صاحب کی کتاب کے بھی ان حوالہ جات سے مندرجہ ذیل مطالب بوضاحت ثابت ہوتے ہیں- اول-: مسیح ناصری کی آمد پر ایمان لانا ختم نبوت کے منافی ہے- دوم-: جو شخص مسیح ناصری کے نزول پر ایمان لاتا ہے وہ خاتم النبین کا کافر ہے اور ختم نبوت کی تکذیب کرتا ہے- سوم-: اگر کوئی شخص یہ عقیدہ بھی رکھے کہ حضرت مسیح ناصری نبی نہیں بلکہ امتی ہو کر دوبارہ دنیا میں آئیں گے تب بھی وہ ختم نبوت کا انکار ہی کرتا ہے- چہارم-: حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کے عقیدہ رکھنے والے کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتمالنبین نہیں ہیں بلکہ مسیح ناصری ہے- یہ چار نتائج جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے نکلتے ہیں صاف بتاتے ہیں کہ آپ کے عقیدہ کی رو سے وہ تمام لوگ جو حضرت مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کے قائل ہیں خواہ انہیں نبی بنا کر اتارتے ہوں خواہ امتی بنا کر بہرحال ختم نبوت کے منکر اور خاتم الانبیاء کے کافر ہیں- اور چونکہ مسلمانوں کا بیشتر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان میں سے ننانوے فیصدی اسی عقیدہ کے قائل ہیں- پس اوپر کے حوالہ جات کی رو سے جو مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب ‘’النبوہ فی الاسلام’‘ میں نقل کئے ہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام غیر احمدی فرقہجات بہحیثیت فرقہ کے ختم نبوت کے منکر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- اور جب مولوی صاحب کے عقیدہ کی رو سے تمام غیر احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے تو پھر وہ بتائیں کہ ان کا یہ لکھنا کہ-: ‘’جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت صلعم پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتمالنبین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی اور آپ کے

Page 382

۳۳۹ بعد کوئی نبی نہیں آئے گا’‘- ۱۲؎ سراسر غلط اور مغالطہ دہی میں شامل ہے یا نہیں- مولوی محمد علی صاحب کا فرض ہے کہ وہ پہلے حضرت مسیح موعود کی کتب کے ان حوالہجات کو رد کریں جو خود انہی کی کتاب میں منقول ہیں- اور اس کے بعد یہ دعویٰ کریں کہ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ان معنوں سے مانتے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- لیکن جیسا کہ اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہے بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک مسلمان ان معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ ان معنوں میں مانتے ہیں کہ آپ کے بعد پرانے نبیوں میں سے ایک نبی آئے گا اور ان کے عقیدہ اور ہمارے عقیدہ میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ ایک ایسا نبی آپ کے بعد آئے گا جس نے نبوت آپ کی اطاعت سے حاصل نہیں کی ہو گی اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایسا نبی کوئی نہیں آئے گا بلکہ پیشگوئی ایسے نبی کے متعلق تھی جس نے اپنے تمام کمالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اتباع میں حاصل کرنے تھے اور جس کا کام محض بیان، علوم قرآنیہ اور اشاعت اسلام اور احیائے قوائے روحانیہ تھا- پس ختم نبوت کے جلسہ میں دوسرے فرقوں کو دعوت اتحاد دے کر ہم نے دنیا کو دھوکا نہیں دیا بلکہ اپنے عقیدہ کے مطابق اعلان کیا اور اس امر میں اشتراک عمل کی دعوت دی جس میں ہمارا دوسرے فرقہ ہائے اسلام سے آپ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ اتحاد ہے- ہاں جب آپ نے لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا آپ کے عقیدہ کی رو سے دوسرے فرقے رسول اللہ کو خاتم النبین ماننے والے ہیں تو آپ نے ایک صریح غلط بیانی کی- ورنہ اصل عقیدہ آپ کا یہی ہے کہ تمام مسلمان فرقے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- اور صرف آپ اور آپ کے چندساتھی اور چند ایسے نو تعلیم یافتہ لوگ جو آمد مسیح کے ہی منکر ہیں ختم نبوت کے قائل ہیں- گو اس جگہ یہ بحث نہیں کہ ہمارا عقیدہ درست ہے یا نہیں بلکہ بحث یہ ہے کہ کیا مولوی صاحب کے عقیدہ کی رو سے فی الواقعہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں اور دوسرے مسلمان فرقے اس کے ماننے والے ہیں- لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک حوالہ میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ خواہ نئے نبی کی آمد کا کوئی ماننے والا ہو یا پرانے نبی کی آمد کا وہ ختم نبوت کا منکر ہے اس لئے میں ضمنا یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سے ہمارے عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی

Page 383

۳۴۰ کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں-: ‘’صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو- یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں امتی بھی قرار دیتا ہے، پھر دوسری طرف اس کا نام بنی بھی رکھتا ہے، یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے- کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے، کوئی مستقل نبوت نہیں ہے’‘-۱۳؎ اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو اوپر کی تشریح کے ساتھ ہی مانتے ہیں- پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات کا ہم پر کوئی مخالف اثر نہیں پڑتا- اور اس کے بعد میں پھر اصل مضمون کی طرف رجوع کرتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات سے ثابت ہے کہ مسیح کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا ختم نبوت کا منکر ہے- پس جب تک مولوی صاحب اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں انہیں اس امر کا اقرار کرنا پڑے گا کہ تمام غیر احمدی خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ختم نبوت کے منکر ہیں- اور ان کا یہ ظاہر کرنا کہ ان کے عقیدہ کی رو سے عام مسلمان ختم نبوت کے قائل ہیں، مغالطہ دہی سے زیادہ نہیں ہے- گو اوپر کی تحریرات کے بعد مولوی صاحب اس بات کی پناہ نہیں لے سکتے کہ نئے نبی اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدہ میں فرق ہے- اور جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ پرانے نبیوں میں سے کوئی نبی آئے گا وہ تو ختم نبوت کا قائل ہے اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ اسی امت میں سے ایک شخص کو اسلام کے قیام کے لئے رسول کریم 2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے نبی کا نام دیا جائے گا وہ ختم نبوت کا منکر ہے- لیکن اگر وہ ایسا کریں تو میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور حوالے کی طرف توجہ دلاتا ہوں- یہ حوالہ بھی انہوں نے اپنی کتاب النبوہ فی الاسلام میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے-: ‘’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے- اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت

Page 384

۳۴۱ ہے- نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے- اور حدیت لا نبی بعدی میں بھی یہی نفی عام ہے’‘- ۱۴؎ اس حوالہ سے ثابت ہے کہ جو شخص یہ فرق کرے کہ پرانے نبی کی واپسی کا عقیدہ رکھنے والا تو ختم نبوت کا قائل ہے اور نئے نبی کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا منکر ہے، وہ شرارتی ہے- مگر شاید مولوی صاحب کی اور ان کے متبعین کی حضرت مسیح موعود کے حوالہ جات سے تسلی نہ ہو کیونکہ وہ خود مجتہد اعظم ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صریح تحریر کے بعد کہ مسیح کا بن باپ ہونا ہمارے عقیدہ میں شامل ہے، وہ اس کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں- اور جبکہ ان کے نزدیک مرزا صاحب محض ایک مجدد ہیں تو پھر ان کی تحقیق کے خلاف اور ان کے عقیدہ کے مباین عقیدہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک کوئی حرج بھی نہیں ہو گا- جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر سے جو مولوی صاحب کے نزدیک سب سے پہلے مجدد تھے اور ان کے محدث ہونے کی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دی تھی، کئی مسائل میں صحابہ نے اختلاف کیا ہے اور آج تک لوگ اختلاف کرتے چلے جاتے ہیں اس لئے میں خود مولوی صاحب کی اپنی ہی ایک تحریر جو کسی پرانے زمانہ کی نہیں بلکہ قریب کے زمانہ کی ہے، پیش کرتا ہوں- جس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ تھوڑا عرصہ پہلے ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے- مولوی صاحب اپنے رسالہ موسومہ بہ ‘’دعوت عمل’‘ میں تحریر فرماتے ہیں- ‘’قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرتا ہے- مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ جو نبی ہیں، وہ آئیں گے- اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اس لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے، خواہ پرانا ہو یا نیا- نبی جب آئے گا، نبوت کے کام کے لئے آئے گا- اور جب نبوت کا کام ختم ہو گیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا- پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا’‘- ۱۵؎ پھر صفحہ ۱۳ پر لکھتے ہیں کہ-: ‘’مسلمانوں نے عقیدہ بنا لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت

Page 385

۳۴۲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی’‘-۱۶؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے- یعنی متضاد اور مخالف ہے- دوم- مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا، ان میں کچھ فرق نہیں- یہ دونوں عقیدے ایک ہی طرح ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں- سوم- مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کی رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو جائے گی- اب اس عقیدہ کے بعد مولوی صاحب کا ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء کے پیغام صلح میں یہ فرمانا کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، صرف ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ایک چال اور خلاف ضمیر عقیدہ کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے نکال رہے تھے- لیکن ۱۷-جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ مولوی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہو گیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں- ان کے ساتھ مل کر کہیں دوسروں کے بھی عقیدے خراب نہ ہو جائیں- کیا یہ تغیر غیر معمولی نہیں ہے کیا یہ تبدیلی موجب حیرت نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ مولوی صاحب میرے بغض کی وجہ سے اس تحریک کو ناکام بنانا چاہتے تھے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر جو ان کے دل میں یقیناً ہوگی، ایک ساعت کے لئے میرا بغض غالب آ گیا- انا للہ وانا الیہ راجعون- میں تو اب بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اس امر سے محفوظ رکھے کہ ان کا دل ہمیشہ کے لئے ان کے جرم کی سزا میں محبت رسول سے محروم رہ جائے- ٍ شاید مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ مسیح کے نزول کو ماننا ختم نبوت کے خلاف ہے اور گو میں نے بھی اس عقیدہ کی تصدیق کی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقعہ وہ لوگ ختم ِنبوت کے منکر ہیں بلکہ صرف یہ

Page 386

۳۴۳ مطلب ہے کہ ان کا عقیدہ حقیقت میں ختم نبوت کے خلاف ہے اور اس قسم کے حقائق کے اظہار سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم کسی کو فی الواقعہ اس عقیدہ کا منکر قرار دے دیں- پس چونکہ غیر احمدی تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ خاتم النبین ہیں اس لئے ہم بھی انہیں خاتمالنبین کا ماننے والا قرار دیتے ہیں- اگر مولوی صاحب یہ فرمائیں تو میں ان سے سوال کروں گا کہ جب کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے معتقدوں کو وہ خود برابر قرار دے چکے ہیں اور ان عقیدوں میں انہیں کچھ فرق نظر نہیں آیا تو یہی وسعت حوصلہ انہوں نے ہمارے حق میں کیوں نہ دکھائی؟ کیا انہیں کوئی ایسی تحریر میری ملی تھی جس میں میں نے یہ لکھا تھا کہ ہم رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- نعوذ باللہ من ذلک- اور اگر ایسی کوئی تحریر انہیں نہیں ملی بلکہ انہوں نے ہمارے عقائد پر قیاس کیا تھا اور ان کے نزدیک ہم اور غیر احمدی جیسا کہ ان کی تحریرات سے میں ثابت کر چکا ہوں، ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور دونوں بقول ان کے صرف منہ سے ختم نبوت کے اقراری ہیں تو پھر انہوں نے دونوں سے سلوک میں فرق کیوں کیا؟ اور ایک کو ختم نبوت کا ماننے والا اور ایک کو منکر کیوں قرار دیا اور حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فیصلہ کو کیوں طاق نسیاں پر رکھ دیا کہ ‘’پرانے اور نئے نبی کی تفریق کرنا شرارت ہے’‘- حق یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دل میں تو دونوں ہی کو خاتم النبین کا ماننے والا ہی سمجھتے ہیں اور اپنی پہلی تحریروں میں دونوں ہی کو منکر قرار دے چکے ہیں- لیکن اس موقع پر اس خوف سے کہ کہیں ۱۷-جون کے جلسوں کی تحریک کامیاب نہ ہو جائے انہوں نے یہ درمیانی راستہ نکالا کہ جو کثیر التعداد جماعتیں ہیں اور جن سے انہیں چندے ملتے رہتے ہیں، انہیں تو انہوں نے اپنی پہلی تحریروں کے خلاف ختم نبوت کا ماننے والا قرار دے لیا اور ہم لوگ جو تعداد میں تھوڑے ہیں اور ہم سے کچھ وصول ہونے کی امید نہیں ہے، ہمیں انہوں نے ختم نبوت کا منکر قرار دے لیا- لیکن حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے- لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے، وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے-

Page 387

۳۴۴ واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین خاکسار مرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح الثانی( ۲۸ جولائی ۱۹۲۸ء ۱،۲؎ پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۱ کالم ۳ ][۳؎ تفسیر الدر المنثور للسیوطی جلد ۵ صفحہ۲۰۴ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۴ھ ۴؎ النبوہ فی الاسلام صفحہ۱۱۷ مولفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۵؎ تحفہ بغداد صفحہ۳۳ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۳۳، النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ، مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۶؎ تحفہ بغداد صفحہ۳۴ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۳۴، النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ، مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۷؎ نورالحق حصہ اول صفحہ۷۰،۷۱ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۷۰،۷۱ النبوہ فی الاسلام صفحہ۷۷ + ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۸؎ ایام الصلح صفحہ۸۲، ۸۳ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۰۸،۳۰۹ + النبوہ فی الاسلام صفحہ۹۷ ضمیمہ مصنفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۹؎ ایام الصلح صفحہ۱۶۶ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۹۲، النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحبصفحہ۹۹ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۱۰؎ ایام الصلح صفحہ۱۸۵ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۱۱ + النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۱۰۱ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۱۱؎ تحفہ گولڑویہ صفحہ۸۸ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۷۴، النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۱۲۰ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۱۲؎ پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۱ کالم نمبر۳ ۱۳؎ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۳۵۲

Page 388

۳۴۵ ۱۴؎ ایام الصلح صفحہ۱۶۶،۱۶۷ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۹۲،۳۹۳ ، + النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صفحہ۹۹ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء ۱۵؎ رسالہ ‘’دعوت عمل’‘ از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۱۲ مطبوعہ اتحاد پرنٹنگ پریس لاہور ۱۶؎ رسالہ ‘’دعوت عمل’‘ از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۱۳ مطبوعہ اتحاد پرنٹنگ پریس لاہور

Page 389

Page 390

۳۴۶ نہرو ر پورٹ اور مسلمانوں کے مصالح از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی

Page 391

Page 392

۳۴۹ اعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر مسلمانوں کے حقوق اور نہرورپورٹ نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح تمہید اس وقت تک نہرو رپورٹ اس قدر زیر بحث آچکی ہے کہ مجھے شاید اس سے بہ تفصیل روشناس کرانے کی ضرورت نہیں ہے- یہ رپورٹ ۱۲/اگست ۱۹۲۸ء کو شائع ہوئی ہے اور اس وقت تک اس کی اشاعت پر ڈیڑھ ماہ گذر چکا ہے- میں نے ۸/اگست سے ۸/ستمبر تک ایک خاص درس قرآن کریم کا شروع کیا ہوا تھا- جس میں شامل ہونے کیلئے پانچ سو کے قریب زن و مرد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے- اس لئے اس وقت تک تو میں اس کی طرف توجہ نہیں کر سکتا تھا- کیونکہ میرا سارا دن درس یا درس کی تیاری میں لگ جاتا تھا- اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے- جب میں فارغ ہوا تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی- لیکن باوجود تلاش کے اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی آئی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی- چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی مجھے اس کا بہت افسوس ہوا- لیکن کچھ کیا نہ جا سکتا تھا- اسی اثناء میں میرے گھر سے شملہ سے واپس آئے اور میں انہیں لینے کیلئے امرتسر کے سٹیشن پر گیا- اور میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب کہ میں نے وہاں کے بک سٹال پر دو نسخے نہرو کمیٹی کی رپورٹ کے دیکھے- غرض اس طرح ۲۱/ ستمبر کو مجھے نہرو رپورٹ کی کاپی ملی اور اسی وقت سے میں نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا- چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے- میں فوراً ہی ‘’الفضل’‘ کے ذریعہ سے اس

Page 393

۳۵۰ کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار کرنا چاہتا ہوں- اگر ضرورت محسوس ہوئی تو بعد میں اسے رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا جائے گا- کیا نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ کہلا سکتی ہے سب سے پہلے تو میں اس سوال کو لیتا ہوں- کہ کیا نہرو کمیٹی تمام ہندوستان کی نمائندہ کہلا سکتی ہے- اور اس کے فیصلہ کو اس عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے- جو ایک ملک کی نمائندہ کمیٹی کی رپورٹ کو حاصل ہونی چاہئے- اس سوال کا جواب دینے کیلئے میں خود اسی رپورٹ کے بیان کو لیتا ہوں- میرے نزدیک اس رپورٹ کو پڑھ لینا ہی اس امر کے معلوم کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس کمیٹی کو کسی صورت میں بھی ملک کی نمائندہ کمیٹی نہیں کہا جا سکتا- اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو کمیٹی کو آل پارٹیز کانفرس (ALLPARTIESCONFERENCE)نے بمبئی کے مقام پر ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء کو مقرر کیا تھا- یہ آل پارٹیز کانفرنس کیا تھی اور کس طرح وجود میں آئی- اس کا حال بھی اسی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے فسادات کو دیکھ کر دسمبر۱۹۲۶ء کے اجلاس میں نیشنل کانگریس نے گوہاٹی کے مقام پر ایک ریزولیوشن پاس کیا تھا کہ ‘’ورکنگ کمیٹی (WORKINGCOMMITTEE) ہندو اور مسلمان لیڈروں سے مشورہ کر کے ایسی تجاویز کرے کہ جن کے ذریعہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین جو قابل افسوس تنازعات ہو رہے ہیں، دور کئے جا سکیں اور ورکنگ کمیٹی اپنی رپورٹ ۳۱ مارچ ۱۹۲۷ء سے پہلے پہلے پیش کرے’‘-۱؎ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے ورکنگ کمیٹی ہندو اور مسلمان لیڈروں سے مشورہ کرتی رہی- لیکن اسی اثناء میں ۲۰ مارچ ۱۹۲۷ء کو بعض بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے دہلی کے مقام پر ایک اجتماع کیا اور ہندو مسلم فسادات کو مٹانے کے لئے بعض تجاویز شائع کیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان مشترک انتخاب پر رضا مند ہو جائیں گے- بشرطیکہ(۱)سندھ کو مستقل صوبہ بنا دیا جائے- (۲)صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو بھی وہی حقوق ¶دے دیئے جائیں جو دوسروں صوبوں کو حاصل ہیں- (۳)پنجاب اور بنگال میں آبادی کی تعداد کے مطابق سب اقوام کو حقوق نیابت حاصل ہوں- (۴)مرکزی دارالنواب )لیجسلیٹو اسمبلی- (LEGISLATIVEASSEMBLY میں مسلمانوں کو کم سے کم ایک تہائی نیابت ملے-

Page 394

۳۵۱ ورکنگ کمیٹی نے ان تجاویز کے شائع ہوتے ہی ایک جلسہ کیا- اور ایک ریزولیوشن پاس کیا کہ وہ مسلمانوں کے اس فیصلہ پر خوش ہے کہ انہوں نے مشترک انتخاب کی تجویز کو منظور کر لیا ہے اور امید ہے کہ ان کی پیش کردہ تجاویز کو بطور بنیاد قرار دے کر ہندوؤں اور مسلمانوں میں سمجھوتہ کرنے میں کامیابی ہو جائے گی اس کے بعد مئی ۱۹۲۷ء کو ورکنگ کمیٹی نے پھر ایک اجلاس کیا- اور مسلمانوں کی تجاویز کی بنیاد پر ایک زیادہ تفصیلی تجویز کو منظور کیا- اور ساتھ کے ساتھ انڈین کانگریس (INDIANCONGRESS) نے بھی ورکنگ کمیٹی کی تجویز کو معمولی سی اصلاح کے بعد منظور کر دیا- آل انڈیا کانگریس نے اسی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ اب ورکنگ کمیٹی کو کونسلوں کے ممبروں اور مختلف اقوام کی پولیٹیکل پارٹیوں سے مشورہ کر کے ایک سوراج کی سکیم تیار کرنی چاہئے- اور اس کی تیاری میں دوسری ایسی ہی یعنی سیاسی، مزور پیشوں کی، تجارتی اور فرقہوارانہ انجمنوں سے بھی تبادلہ خیالات کرنا چاہئے- اس کے معاً بعد لبرل فیڈریشن (LIBERALFEDERATION) نے بھی ایک ریزولیوشن پاس کیا- جس میں اس نے مسلمان لیڈروں کے اعلان پر خوشی کے اظہار کے علاوہ یہ بھی پاس کیا کہ مسلمانوں کی تجویز کے متعلق مختلف اقوام کے باقاعدہ طور پر منتخب شدہ نمائندوں کے جلد سے جلد غور کر کے ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچنا چاہئے- لبرل فیڈریشن کے جلسہ کے بعد مسلم لیگ نے بھی ایک جلسہ کیا- اور یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ لیگ کونسل (LEAGUECOUNCIL) ایک سب کمیٹی مقرر کرے- جو انڈین نیشنل کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ساتھ مل کر ہندوستان کے لئے ایک قانون اساسی تیار کرے- جس میں مسلمانوں کے حقوق کی پورے طور پر نگہداشت کر لی گئی ہو- آل پارٹیز کانفرنس میں شامل ہونے والی جماعتیں ادھر تو لبرل فیڈریشن اور مسلملیگ نے مندرجہ بالا ریزولیوشن پاس کئے ادھر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے کانگریس کے منشاء کے مطابق مختلف انجمنوں کو دعوتی رقعے بھیجے جن میں سے مسلمانوں کی دو انجمنیں تھیں- ایک تو آل انڈیا مسلملیگ- دوسری خلافت کمیٹی- اس کے مقابلہ میں پارسیوں کی چار انجمنوں کو دعوت دی گئی- ریاستوں کے باشندوں کی تین انجمنوں کو دعوت دی گئی- بقول نہرو رپورٹ کے مذکورہ

Page 395

۳۵۲ بالا انجمنوں میں سے بہتوں نے اپنے نمائندے بھیجے- اور ۱۲/فروری ۱۹۲۸ء سے بائیس فروری تک دہلی میں اس کانفرنس کا اجلاس ہوتا رہا- اس کانفرنس نے جو ریزولیوشن پاس کئے، ان کے متعلق مسلم لیگ کی کونسل نے فوراً ہی اجلاس کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا- اور اس طرح یہ آل پارٹیز کانفرنس آل پارٹیز کانفرنس نہیں، بلکہ صرف ہندو کانفرنس رہ گئی- مسلم لیگ کی کونسل نے یہ بھی ریزولیوشن پاس کیا کہ اس کے نمائندے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر زور دیں کہ وہ لیگ کے کلکتہ کے اجلاس کے ریزولیوشن کو قبول کر لیں- اور قانون اساسی کے بنانے میں حصہ لینے سے پہلے کونسل کے پاس رپورٹ کریں کہ انہیں اس امر میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے گویا اس طرح لیگ نے اپنے نمائندوں کو قانون اساسی کی بنانے والی کمیٹی میں حصہ لینے سے بھی روک دیا- نہرو رپورٹ کے مرتب کرنے والے لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کونسل کے اس فیصلہ نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا- کیونکہ اس فیصلہ کی رو سے مسلم لیگ کے نمائندے کمیٹی کی رپورٹ پر غور ہی نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ مسلم لیگ کی پاس کردہ تجویز کو پورے طور پر تسلیم نہ کر لیا جاتا- یا لیگکونسل دوبارہ نئی ہدایات نہ دیتی- ان حالات میں آل پارٹیز کانفرنس ۸/مارچ کو پھر اکٹھی ہوئی- )گو یہ نہیں بتایا گیا- کہ اس دفعہ اس کانفرنس میں کون کون لوگ شامل ہوئے(- اور دو سب کمیٹیاں ایک سندھ کی علیحدگی اور دوسری نسبتی نیابت کے مسئلہ پر غور کرنے کیلئے مقرر کی گئیں- ۲۲/فروری کو جو کمیٹی مقرر کی گئی تھی- اس کی رپورٹ پر غور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ مسلم لیگ کے نمائندوں نے اس پر بحث کرنے سے انکار کر دیا تھا- اس لئے کانفرنس نے رپورٹ کو شائع کرنے کا حکم دیا- اور ۱۹/مئی ۱۹۲۸ء تک اپنے اجلاس کو ملتوی کر دیا- اسی دوران میں ہندو مہاسبھا نے بھی اپنا ایک جلسہ اپریل کے مہینہ میں کیا- اور مسلم لیگ کے فیصلہ کے بعض حصوں کی سختی سے مخالفت کی- آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس بمبئی ۱۹ مئی کو آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس پھر بمبئی میں ہوا اور چونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت کسی متفقہ فیصلہ کی امید نہ ہو سکتی تھی، یہ تجویز کی گئی کہ ایک چھوٹی سی سب کمیٹی مقرر کی جائے جو سب امور پر یکجائی نظر ڈالے- چنانچہ مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی تجویز کی گئی-

Page 396

۳۵۳ سرعلی امام اور مسٹر شعیب قریشی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کے پیش کرنے کیلئے- مسٹر اینی اور مسٹر جیاکار ہندو مہاسبھا کی نمائندگی کیلئے- مسٹر پردہان غیر برہمنوں کے نمائندہ کی حیثیت سے- سردار منگلسنگھ سکھ لیگ کی طرف سے- سرتیج بہادر سپرو لبرل فیڈریشن کی طرف سے- مسٹر جوشی مزدوروں کی طرف سے- ان کے علاوہ مسٹر سوباس چندرا بوس اور پنڈت موتی لال نہرو بھی اس کے ممبر تھے- گویا نو ممبروں میں سے دو مسلمان اور سات ہندو ممبر تھے- رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہوئے- اور اس طرح گویا صرف مسٹر شعیب قریشی مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ رہے- آل پارٹیز کانفرنس تمام ہندوستان کی نمائندہ نہ تھی اوپر کے حالات خود نہرورپورٹ سے ہی لئے گئے ہیں- ان کے علاوہ بعض کارروائیاں جو پس پردہ ہوتی رہی ہیں اور جنہیں اب بعض مسلم لیڈر شائع کر رہے ہیں، میں انہیں نظر انداز کرتا ہوں- کیونکہ میرے مقصد کے حصول کیلئے خود یہی حالات کافی ہیں- ان حالات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی ہر گز تمام ہندوستان کی نمائندہ نہ تھی- چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہو گئے تھے- جن میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے کہ انہوں نے اپنے آپ کو آپ ہی لیڈر قرار دے لیا تھا- نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف جماعتوں کی- مثال کے طور پر میں اپنی ہی جماعت کو لیتا ہوں- ہماری جماعت سے شروع سے لیکر آخر تک کسی نے نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے- حالانکہ ہم تعداد میں کس قدر بھی کم ہوں مگر پارسیوں سے زیادہ ہیں اور آل ¶انڈیا حیثیت رکھتے ہیں- ہماری مضبوط جماعتیں تین صوبوں میں پائی جاتی ہیں- یعنی پنجاب، بنگال اور صوبہسرحدی- اس کے علاوہ بہار، یوپی، مدراس اور سندھ میں بھی معقول جماعتیں پائی جاتی ہیں- اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں تو ہر صوبہ میں ہیں- ہماری جماعت منظم ہے اور رجسٹر شدہ تعداد کے لحاظ سے اور نظام کے لحاظ سے تو شائد کوئی ہندو سوسائٹی بھی اس کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جا سکتی- آل پارٹیز کانفرنس کے نمائندے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے کیونکہ ہماری جماعت اپنے مذہبی اور سیاسی مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم پر طے کرتی ہے- اور محض اس وجہ سے کہ ہمارے نزدیک مذہب، سیاست اور تمدن کی ضروریات کے لئے الگ الگ انجمنوں کی ضرورت نہیں ہے ایک ہی مجلس میں ان مسائل پر بحث ہو سکتی ہے بلکہ

Page 397

۳۵۴ بہتر طریق پر ہوتی ہے ہمیں اپنے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا- مگر ہماری جماعت کو نظر انداز کر دو- اس کمیٹی کا اصل کام ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت مسلم لیگ کے دو حصے ہو چکے تھے- ایک لاہور کی آل انڈیا لیگ کہلاتی ہے اور ایک کلکتہ کی- رپورٹ سے کہیں معلوم نہیں ہوتا- کہ لاہور کی لیگ کی نمائندگی کی بھی کوشش کی گئی- نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صوبہجات کی لیگوں کی نمائندگی کیلئے کوشش کی گئی- حالانکہ جن مسائل پر اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہوتا ہے- وہ آل انڈیا مسائل نہیں ہیں، بلکہ صوبہ جات کے مسائل ہیں- پس خالی آل انڈیا کی مسلم لیگ کے دونوں حصوں کی نمائندگی بھی کافی نہیں ہو سکتی تھی- آلپارٹیز کانفرنس کبھی آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ وہ سب قسم کے خیالات کے لوگوں کو دعوت نہ دے- نہرو رپورٹ ہندوستان کے لئے دو مجالس کی تجویز کو پیش کرتی ہے- ایک جس میں کل ہندوستان کے نمائندے براہ راست چنے جائیں- اور دوسری سینٹ (SENATE) جس میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی نقل میں صوبہ جات کی کونسلیں اپنے نمائندے بھیجیں-۲؎اگر معمولی قسم کے قوانین کے لئے جو وقتی اور جزئی ہونگے، دو قسم کی نمائندگی کی ضرورت ہے تو کیا کانسٹیٹیوشن (CONSTITUTION) کے سوال کے متعلق اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ صوبہ جات کی لیگز کے نمائندے بھی طلب کئے جاتے تا کہ وہ اپنے اپنے نقطہ نگاہ کو پیش کر سکیں- کیا یہ بات آل پارٹیز کانفرنس کی نظر سے پوشیدہ تھی کہ کئی صوبہ جات کی کثرت مرکزیانجمن کی کثرت کے مخالف ہے- پھر مرکزی انجمن کی نمائندگی قانون اساسی کے حل کے لئے کس طرح کافی ہو سکتی تھی- مثال کے طور پر پنجاب، بنگال، سندھ، یوپی اور صوبہ سرحدی کے مسلمانوں کو لے لو- ان میں سے اکثر کے خیالات نیابت کے طریق کے متعلق کلکتہ لیگ سے مختلف ہیں- پھر کلکتہ لیگ کے نمائندے ان لوگوں کے نمائندے کس طرح ہو سکتے تھے- آلپارٹیز کانفرنس اگر ملک کی نمائندہ کہلانا چاہتی تھی- تو اسے چاہئے تھا کہ ہر ایک صوبہ کی انجمنوں کو بھی دعوت دیتی- اور ساتھ ہی یہ بھی لکھتی کہ ان کی طرف سے جو نمائندے آئیں وہ صرف اکثریت کے نمائندے نہ ہوں- بلکہ اقلیتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں تا کہ ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے خیالات کو سننے کے بعد کسی فیصلہ پر پہنچا جائے- لیکن نسبتی نیابت کی حمایت کا دعویٰ کرنے والے کرتے ہیں تو کیا صرف ان انجمنوں کو دعوت دیتے ہیں جو

Page 398

۳۵۵ اصولاً ہندو نقطہ نگاہ سے متفق ہیں- یعنی مشترک انتخاب کے حامیوں کو- ان انجمنوں کے ناموں کو پڑھ جاؤ جن کے نام نہرو رپورٹ کے صفحہ ۲۰ و ۲۱ پر لکھے ہیں- ایک انجمن بھی ان میں ایسی نہیں ہے کہ جو جداگانہ انتخاب کی حامی ہو- پس صرف ان انجمنوں کو بلانا جو پہلے سے اس اصل پر متحد تھیں- جس کے متعلق ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اختلاف رکھتا ہے کیا یہ نہیں بتاتا کہ یہ کانفرنس آل پارٹیز کانفرنس نہ تھی بلکہ ایک خیال کی مختلف جماعتوں کی کانفرنس تھی- آل انڈیا مسلم کانفرنس شملہ اس سوال کی حقیقت اس واقعہ کے یاد کرنے سے پوری طرح کھل جاتی ہے جسے نہرو کمیٹی نے دبا دیا ہے- اور وہ شملہ کے مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس ہے- نہرو کمیٹی نے اس امر کا تو ذکر کیا ہے کہ دہلی میں مسلم لیڈروں نے ایک جلسہ کر کے بعض شرائط کے ماتحت مخلوط انتخاب کو تسلیم کر لیا تھا- لیکن یہ ذکر وہ بالکل چھوڑ گئی ہے کہ اس مشورہ کو قوم کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس بھی شملہ کے مقام پر منعقد کی گئی تھی- حقیقت یہ ہے کہ جب چند مسلم لیڈروں نے دہلی میں مخلوط انتخاب کو بعض شرائط کے ساتھ تسلیم کر لیا تو اس پر ہندوستان میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں- اور ان لیڈروں کو معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کا اکثر حصہ ان کی اس تجویز سے متفق نہیں ہے- اسی عرصہ میں ناگپور میں ہندو مہاسبھا کا جلسہ ہوا- اور اس میں مسٹر کیلکر نے بحیثیت پریزیڈنٹ ایک تقریر کی- جس میں مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق ایسا رویہ اختیار کیا کہ بعض مسلم لیڈر اپنی غلطی کو محسوس کرنے لگے- اس پر مسلم لیگ نے ستمبر ۱۹۲۷ء میں شملہ میں ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا- اور اپنی دعوت کو صرف لیگ کے ممبروں تک محدود نہ رکھا- مجھے بھی اس موقع پر دعوت دی گئی- میں ایسی مجالس میں جایا تو نہیں کرتا- لیکن اس وقت چونکہ اتفاقاً مذہبی مسودہ قانون کی بابت کوشش کرنے کے لئے میں شملہ گیا ہوا تھا میں بھی اس آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شامل ہوا- دو دن کی بحث کے بعد ایک زبردست اکثریت جداگانہ انتخاب کی تائید میں ثابت ہوئی- اور اگر ووٹ لئے جاتے تو یقیناً ۷۰فیصدی ممبر جداگانہ انتخاب کی تائید میں ہوتے- جو لوگ مخلوط انتخاب کی تائید میں تھے ان میں سے بھی اکثر نے اقرار کیا کہ ان کی ذاتی رائے مخلوط انتخاب کی تائید میں ہے- لیکن ان کے ہموطنوں کی رائے جداگانہ انتخاب کے حق میں ہے- وہ ایک قابل دید نظارہ تھا- مسٹر جناح کی

Page 399

۳۵۶ تمام کوششوں کے باوجود مختلف صوبہ جات اور مختلف جماعتوں کے نمائندے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھے- آخر مسٹر جناح نے جو پریزیڈنٹ تھے، اٹھ کر صاف لفظوں میں کہا کہ ووٹ کی ضرورت نہیں- کیونکہ یہ کوئی باقاعدہ ایسوسی ایشن نہیں- وہ مسلمانوں کی عام رائے کو سمجھ گئے اور باوجود اس کے کہ ان کی رائے مخلوط انتخاب کے حق میں ہے مگر وہ مسلمانوں کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہندوؤں سے سمجھوتہ کے وقت اس امر کو پیش کریں گے، جس طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے- یہ کانفرنس دہلی کے بیس مسلم لیڈروں کے فیصلہ پر غور کرنے کیلئے بیٹھی تھی- اور اس میں مخالف اور موافق ہر قسم کے خیالات کے لوگ تھے- لیکن باوجود اس کے سامنے نہ مدراس کانگرس کے ریزولیوشن تھے- اور نہ نہرو کمیٹی کے بلکہ دہلی کے مسلم لیڈروں کی تجویز تھی- جو مدراس کانگریس اور نہرو کمیٹی کی نسبت مسلمانوں کی رائے کے بہت زیادہ قریب تھی- مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کی ایک زبردست اکثریت نے اسے رد کر دیا- حتیٰ کہ خود اس تجویز کے مجوزوں میں سے بھی بعض آدمی جیسے کہ سر محمد شفیع اس کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے- پس جب کہ مسلمانوں کا ایک اجتماع مخلوط انتخاب کی تجویز کو رد کر چکا تھا- تو اس سے یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت مخلوط انتخاب کے مخالف ہے- پھر باوجود اس کے آل پارٹیز کانفرنس نے کیوں ان مخالف خیال والوں کو دعوت نہیں دی- اگر نہیں دی تو بھی وہ تمام خیالات کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی- اور اگر دی اور انہوں نے اس دعوت کو رد کر دیا تو بھی ثابت ہوا کہ ہندوستان کی ایک زبردست قوم کی اکثریت کو اس آل پارٹیز کانفرنس پر کسی قسم کا کوئی اعتبار نہ تھا- حتی کہ وہ اس کے جلسوں میں شامل ہونا بھی پسند نہیں کرتی تھی- پس اس کانفرنس کو ہندوستان کا نمائندہ کون کہہ سکتا ہے- مگر میں جو واقعات اوپر نہرو رپورٹ سے نقل کر آیا ہوں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہہ یہ کانفرنس کلکتہ لیگ کی بھی جو درحقیقت ایک ہی مسلمانوں کی آواز تھی نمائندہ نہ تھی- کیونکہ نہرو رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے- کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل نے اپنے نمائندوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ جب تک کلکتہ سیشن (SESSION) کے پاس کردہ ریزولیوشن کو پہلے تسلیم نہ کر لیا جائے، اس وقت تک وہ اس کی کارروائی میں حصہ نہ لیں- اب سوال یہ ہے کہ اس ریزولیوشن کو لیگ نے کب مسترد کیا؟ نہرو رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہدایت کو کبھی

Page 400

۳۵۷ بھی مسترد نہیں کیا گیا- پس جب اس ہدایت کو مسترد نہیں کیا گیا تو بمبئی کانفرنس کی تجویز کے ماتحت جو سب کمیٹی بنی تھی، اس میں مسلم لیگ کے نمائندے اسی ہدایت کے ماتحت ممبر ہوئے تھے نہ کہ اس سے آزاد ہو کر- اور وہ ہدایت یہ تھی کہ کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن کو کلی طور پر تسلیم کئے بغیر مسلم لیگ قانون اساسی پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں- بمبئی کانفرنس کے دوران میں یا اس کے بعد کوئی جلسہ لیگ کا ایسا نہیں ہوا جس میں اس شرط کو توڑ دیا گیا ہو- پھر کس طرح جائز ہو سکتا تھا کہ لیگ کے نمائندے اپنے اختیار سے باہر جا کر کوئی کام کریں- اب سوال یہ ہے کہ کیا نہرو کمیٹی نے کلکتہ ریزولیوشن کو کلی طور پر تسلیم کیا- وہ خود اقرار کرتی ہے کہ نہیں- ۳؎ مسلم نمائندے تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں- اور اگر نہرو کمیٹی نے کلکتہ ریزولیوشن کو تسلیم نہیں کیا تو لیگ کے فیصلہ کے مطابق اس کے نمائندوں کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت ہی کب ہو سکتی تھی- اور اگر وہ باوجود کونسل کی ہدایت کے اس کمیٹی کے اس فیصلہ کے بعد کہ کلکتہ کی تجویز میں تبدیلی کر دی جائے- اس کمیٹی کے ساتھ بیٹھتے رہے ہیں تو یقیناً وہ لیگ کے نمائندے نہ تھے- وہ لیگ کونسل کے فیصلہ کے مطابق اسی وقت سے لیگ کی نمائندگی سے علیحدہ ہو گئے تھے جب سے انہوں نے کلکتہ ریزولیوشن کے خلاف فیصلہ کو سن کر کمیٹی سے قطع تعلق نہیں کیا- اور اس صورت میں یہ بات خوب اچھی طرح ظاہر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ حصہ جو مسٹر جناح کی صدارت میں کام کرتا ہے، اس کی نیابت بھی اس کمیٹی کو حاصل نہ تھی- اور اس طرح یہ کمیٹی مسلمانوں کے نمائندوں سے بالکل خالی تھی- اور یہی وجہ ہے کہ مولانا شوکت علی مسٹر محمد یعقوب حسرت موہانی مولوی شفیع داؤدی اور دوسرے مسلم لیگ اور خلافت کے سرکردہ ممبر نہرو کمیٹی کی مخالفت کر رہے ہیں- مجھے اس تفصیل سے اس مسئلہ پر اس لئے لکھنا پڑا ہے کہ میں نہایت ہی تکلیف سے دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو گائے اور بیل کی طرح ہانکا جا رہا ہے- سو دو سو آدمی ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں- اور اپنے فیصلہ کو بڑے موٹے لفظوں میں ہندوستان کے لیڈروں کا فیصلہ قرار دے کر شائع کر دیتے ہیں- کوئی نہیں پوچھتا کہ لیڈر ان لوگوں کو کس نے بنایا ہے- دنیا کے کسی اور ملک میں اس سے زیادہ ذلت اور حقارت جمہور کی نہیں کی جاتی- فرض کر لیا جاتا ہے کہ باقی سب ملک چند آدمیوں کی جائیداد ہے- وہ اس سے جس طرح چاہئیں معاملہ کریں- میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے پچھلے سال یونیٹی کانفرنس

Page 401

۳۵۸ (UNITYCONFERENCE) میں دیکھا کہ مجتمع شدہ لوگوں میں سے بھی بعض کو بعض لوگ ڈانٹتے تھے کہ اپنے لیڈروں کی قدر کیوں نہیں کرتے اور ان کی بات کیوں نہیں مانتے- میرا دل کئی بار چاہا کہ پوچھوں کہ کیوں صاحب ان بعض احباب کو باقی لیڈروں کا لیڈر کس نے بنایا ہے مگر آداب مجلس کی وجہ سے خاموش رہا- مگر میں نے اس بنا پر شملہ میں ایک لیکچر دیا اور اس میں یہ بیان کیا کہ ہندوستان لیڈروں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ پیروؤں کی کمی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے- ہر اک جو سیاست میں کچھ حصہ لیتا ہے اپنے آپ کو لیڈر سمجھنے لگتا ہے- اور کبھی خیال نہیں کرتا کہ میرے پیچھے کوئی جماعت ہے بھی یا نہیں- سائمن کمیشن کی آمد پر جو میں نے ٹریکٹ شائع کیا تھا- اس وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شہر اور قصبہ میں مسلمان اپنی انجمنیں بنائیں اور تمام مختلف الخیال مسلمانوں کو اس کا ممبر بنائیں اور پھر ہر ایک تجویز کے متعلق ہر شہر اور قصبہ سے آواز بلند ہو تا کہ معلوم ہو سکے کہ مسلمانوں کی عام رائے کیا ہے- اور بعض بلند آہنگ لوگ اپنی رائے کو مسلمانوں کی رائے نہ قرار دے سکیں- آل انڈیا کانفرنس یا نہرو کمیٹی ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ نہ تھی اب میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں کہ نہ آل انڈیا کانفرنس ہندوستان کی نمائندہ تھی اور نہ نہروکمیٹی مسلمانوں کے کسی فریق کی ہی نمائندہ تھی- ایک خاص خیال کے لوگوں کی ایک کانفرنس ہوئی- اور اس میں سے بھی مسلمانوں کی نیابت کو عملاً خارج کر کے ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی- جس کی رپورٹ اب ہندوستان کے نمائندوں کی رپورٹ کے نام سے مشہور کی جا رہی ہے- کہا جا سکتا ہے کہ نہرو کمیٹی یا آل پارٹیز کانفرنس سب فرقوں اور جماعتوں کی نمائندہ نہ سہی لیکن اگر وہ ایک ایسی رپورٹ پیش کرتی ہے جس میں مختلف اقوام کے حقوق کی نگہداشت کر دی گئی ہے تو کیا اسے روک دیا جائے گا- میں کہتا ہوں کہ ہر گز نہیں- اگر وہ رپورٹ ایسی ہی ہے تو ہم اسے ضرور قبول کریں گے- لیکن ہماری بے اعتباری جو اس وقت تک ہندو مسلم فسادات کا سب سے بڑا موجب ہے اور بھی بڑھ جائے گی اور ہمارے دل ضرور یہ کہیں گے کہ جب قانون اساسی کے بناتے ہوئے مسلمانوں کی نیابت کا خیال نہیں رکھا گیا تو آئندہ چھوٹے

Page 402

۳۵۹ قوانین بناتے ہوئے مسلمانوں کے احساسات کا خیال کب رکھا جائے گا مگر بہرحال چونکہ رپورٹ ہمارے سامنے آ گئی ہے- اس لئے اس کے حسن و قبح کا دیکھنا بھی ضروری ہے- اور میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس پر غور کرنے کے بعد بھی میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سکیم ہر گز ملک کیلئے مفید نہیں ہو سکتی- خصوصاً مسلمانوں کو تو اس سے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے- مسلمانوں کے مطالبات اور ان کے بواعث پیشتر اس کے کہ میں نہرو رپورٹ کی تجاویز پر بحث کروں- میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات کیا ہیں اور کیوں ہیں- میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں میں سیاسی نقطہ نگاہ سے دو پارٹیاں ہیں- ایک پارٹی جو زیادہ تر پنجاب اور یو-پی کے مسلمانوں پر مشتمل ہے- اس کے اصولی مطالبات جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ہیں کہ آئندہ ہندوستان کیلئے جو قانون اساسی تیار ہو- اس میں ان امور کو مدنظر رکھا جائے- پہلا مطالبہ، اتحادی حکومت پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت کا طریق فیڈرل (FEDERAL) یا اتحادی ہو- یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں- برطانیہ جس قدر اور جس وقت اپنا قبضہ کم کرتا جائے- اس کے چھوڑے ہوئے اختیارات مختلف صوبہ جات ملک کو ملتے جائیں- ہاں چونکہ ملک کے انتظام کے لئے ایک مرکزی نظام کی بھی ضرورت ہے- جو امور مشترک ہوں وہ ہندوستانی مرکزی حکومت کے سپرد صوبہ جات کی طرف سے کئے جائیں- گویا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہندوستانی مرکزی حکومت صوبہ جات کو اختیار دیتی ہے- بلکہ یہ سمجھا جائے کہ صوبہ جات ایک منظم گورنمنٹ کے چلانے کے لئے اپنے بعض اختیارات ایک مرکزی حکومت کو دیتے ہیں- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے جو ایک مجرب اصل ہے- اور امریکہ کی ریاست ہائے متحدہ، سوئٹزرلینڈ، ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا میں نہایت کامیاب صورت میں جاری ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فارن معاملات، افواج کے انتظام، ڈاک خانہ، کسٹمز وغیرہ کے علاوہ باقی سب معاملات کا فیصلہ ہر صوبہ کی کونسلیں اپنی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر کریں گی- اور مرکزی حکومت کو ان کے کاموں میں دخل اندازی کا حق نہ ہوگا- مسلمان اس مطالبہ کو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہر قوم کو اپنے طور پر ترقی کرنے کا

Page 403

۳۶۰ موقع ملے- اور تا کہ باوجود اس کے کہ مسلمان بعض صوبوں میں کثیر التعداد ہیں- ہندوستانی مرکزی گورنمنٹ کی دخل اندازی کا شکار نہ ہوں جس میں ہندو اکثریت ہوگی- اب فرض کرو کہ بنگال، پنجاب، سندھ میں مسلمانوں کی اکثریت ہو- لیکن اگر فیڈرل حکومت کا طریق ہندوستان میں رائج نہ ہوگا تو ہندوستان کی مرکزی حکومت کو ہر وقت اختیار ہوگا کہ وہ ان صوبوں کی ترقی میں روک بن جائے اور آئے دن ان کے انتظام میں نقص نکال کر ان کے بعض اختیارات کو واپس لے لے یا ان کے پاس کردہ قوانین کو رد کر دے- اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کا کچھ بھی فائدہ نہ رہے- یہ ایک خیالی شبہ نہیں ہے- بلکہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ نے اس شبہ کو قوی کر دیا ہے- نہرو کمیٹی سندھ کی علیحدگی پر بحث کرتے ہوئے لکھتی ہے- ‘’ہمیں شبہ ہے کہ علیحدگی )سندھ( کی مخالفت کسی بڑے قومی خیال کی بنا پر نہیں ہے بلکہ مالی اقتصادی خیالات پر مبنی ہے- ہندوؤں کو ڈر ہے کہ اگر ایک جداگانہ صوبہ میں مسلمانوں کو اختیارات حاصل ہوئے تو ہندوؤں کی اقتصادی برتری کو نقصان پہنچے گا ہمیں یقین ہے کہ یہ خوف بلاوجہ ہے- ہندوستان کے تمام باشندوں میں سے سندھ کا ہندو اقدام و نفوذ کا مادہ سب سے زیادہ رکھتا ہے- سیاح اسے دنیا کے ہر گوشہ میں نہایت کامیاب تجارت کرتا ہوا اور اپنی کمائی سے اپنے ملک کی دولت بڑھاتا ہوا پاتا ہے- کوئی شخص اس اقدام کی طاقت کو سندھ کے ہندوؤں سے چھین نہیں سکتا- اور جب تک یہ طاقت ان میں موجود ہے- اس وقت تک ان کا مستقبل بالکل محفوظ ہے- نیز اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صوبہ جات کی حکومتوں کے اختیارات محدود ہونگے- اور ایک مرکزی حکومت موجود ہوگی جو تمام اہم محکمہ جات کے متعلق اختیار رکھتی ہوگی’‘- ۴؎ اول تو اس عبارت کو پڑھ کر اور دوسری طرف مسلمانوں کے خوف کے متعلق نہرورپورٹ نے جو کچھ لکھا ہے اسی سے انسان معلوم کر لیتا ہے کہ مسلمانوں سے کس قسم کی ہمدردی کی جائیگی- کیونکہ جہاں ہندوؤں کے خوف کو اس محبت اور ادب سے دور کیا ہے- مسلمانوں کے خوف کے متعلق اسی رپورٹ میں لکھا ہے- ‘’ایک نو وارد ان اعداد کو دیکھ کر اور مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگا کر غالباً یہی خیال کرے گا کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کے خود قابل ہیں- اور انہیں کسی خاص

Page 404

۳۶۱ حفاظت اور چمچوں کے ذریعہ سے دودھ پلانے کی ضرورت نہیں’‘- ۵؎ گویا کہ مسلمان کے جذبات اس رپورٹ کے لکھنے والوں کے نزدیک کچھ بھی قیمت نہیں رکھتے جب کہ ہندو کا دل دکھانا ایک بہت بڑا گناہ ہے- مگر اس کے علاوہ اوپر کے حوالہ سے یہ بھی صاف طور پر عیاں ہے کہ رپورٹ لکھنے والے سندھ کے ہندوؤں کو تسلی دلاتے ہیں کہ وہ سندھ میں مسلمانوں کی کثرت سے نہ گھبرائیں- کیونکہ اوپر ہم جو مرکزی گورنمنٹ والے موجود ہیں- جب اور جس وقت تمہاری اقتصادی برتری کو صدمہ پہنچنے لگے گا ہم دخل اندازی کر دیں گے- گو لفظ ایک حد تک احتیاط کے استعمال کئے گئے ہیں- مگر یہ مضمون بین السطور واضح ہے کہ مرکزی گورنمنٹ نے اپنے ہاتھ میں طاقتیں اسی لئے رکھی ہیں تا کہ صوبہ جات میں ہندوؤں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے- ہم خود نہیں جاہتے کہ کسی کا حق مارا جائے مگر ہمیں یہ شبہ ہے کہ مرکزیگورنمنٹ مسلم اکثریت والے صوبوں کے کاموں میں صرف اسی وقت دخل نہ دے گی جب کہ ہندوؤں کے حقوق تلف ہو رہے ہوں بلکہ بیجا دخل دے کر مسلمان صوبوں کو ترقی کے راستہ سے روک دے گی اور مسلمانوں کی ترقی کی تدابیر کو اختیار نہ کرنے دے گی- جس طرح کہ پچھلے زمانہ میں یورپین طاقتیں ٹرکی میں مسلمانوں کی ترقی کے راستہ میں روک ڈالا کرتی تھیں- لیکن یہی وجہ نہیں کہ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستان کی وسعت اور اس کی زبانوں اور قوموں اور عادات کا اختلاف چاہتا ہے کہ ہر صوبہ الگ الگ آزادانہ ترقی کرے- ملکی حکومت کبھی بھی ہندوستان کیلئے مفید نہیں ہو سکتی- سوائے اس صورت کے کہ فیڈرل اصول پر ہو- اور فیڈرل یعنی اتحادی اصول پر حکومت کوئی غیر مجرب شے نہیں ہے- ریاستہائے متحدہ امریکہ اس اصل پر حکومت کر رہی ہیں- اور اس وقت سب دنیا کی حکومتوں سے طاقتور اور مالدار ہیں- ہاں یہ قانون ضرور ہونا چاہئے کہ صوبہ جات کو کسی وقت اور کسی صورت میں بھی مرکزی حکومت سے علیحدہ ہونے کا اختیار نہ ہوگا- یہ ذمہ داری ہر ایک صوبہ اپنے اوپر لے لے گا تو ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا کوئی احتمال نہ رہے گا- جیسا کہ ایک وقت ریاستہائے متحدہ کو خطرہ ہوا کرتا تھا- دوسرا مطالبہ، نیابت دوسرا مطالبہ اس پارٹی کا یہ ہے کہ مختلف اقوام کی نیابت کے متعلق اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے کہ جن صوبوں میں کہ کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے- ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت

Page 405

۳۶۲ کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو- اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں- لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں- وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے- کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دیئے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی- اس اصل کے ماتحت پنجاب اور بنگال میں ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق ممبری دیا جائے گا- کیونکہ ان دونوں صوبوں میں گو مسلمان زیادہ ہیں- مگر صرف پچپن اور چون فی صدی ہیں- اور اگر ان کے حق میں سے کچھ کم کر کے ہندوؤں یا سکھوں کو دیا جائے تو مسلمانوں کی اکثریت اقلیت سے بدل جاتی ہے حکومت میں غلبہ ان صوبوں میں بھی ہندوؤں کا ہی ہو جاتا ہے- اس کے خلاف یو-پی، بہار، بمبئی، مدراس اور سی- پی میں ہندوؤں کی اکثریت بہت زیادہ ہے- اور مسلمان بہت کم ہیں- پس مسلمانوں کو اوپر کے قاعدہ کے مطابق اپنے حق سے زیادہ ممبریاں ملنی چاہئیں تا کہ ان کی مختلف جماعتوں کو نیابت کا موقع مل جائے- اور اس طرح مسلمانوں کو زیادہ حق دینے سے ہندوؤں کا کوئی نقصان بھی نہیں- کیونکہ وہ پھر بھی مسلمانوں سے بہت زیادہ رہیں گے- اسی طرح صوبہ سرحدی، صوبہسندھ اور صوبہ بلوچستان میں مسلمان بہت زیادہ ہیں- پس ان تین صوبوں میں ہندوؤں کو ان کے حق سے زیادہ ممبریاں ملنی چاہئیں تا کہ ان کے ہر قسم کے فوائد کی کونسلوں میں نیابت ہو جائے- اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی ہے کہ چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم تینتیس فیصدی نیابت کاحق دیا جائے- یعنی جب تک مسلمان تینتیس فیصدی سے کم ہیں انہیں تنتیس فیصدی نیابت کا حق ہو جب وہ مقدار میں اس نسبت سے بڑھ جائیں تو پھر جس قدر حق ان کا بنتا ہو وہ انہیں دیا جائے- تیسرا مطالبہ، جُداگانہ انتخاب تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ جب تک ہندوؤں اور مسلمانوں میں اعتبار قائم نہ ہو جائے- اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں کہ جن میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے تھوڑی ہی زیادہ ہے- جداگانہ انتخاب کا طریق جاری رہے تا کہ مسلمانوں کے نمائندے واقعہ میں مسلمانوں کے نمائندے ہوں- اور ہندو اثر کے ماتحت ہو کر مسلمانوں کے فوائد سے کوتاہی کرنے والے نہ بنیں-

Page 406

۳۶۳ چوتھا مطالبہ، صوبہ سرحدی اور بلوچستان کیلئے نیابتی حکومت چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے- اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے- پانچواں مطالبہ، اقلیت کی زبان کی حفاظت پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرزتحریر میں دخل دینے کا حق نہ ہو- بلکہ اقلیت اگر اپنی زبان کو زندہ رکھنا چاہئے- تو اس زبان کی تعلیم کا سکولوں میں انتظام کرنا حکومت کے لئے ضروری قرار دیا جائے- چھٹا مطالبہ، مذہب اور تبلیغ مذہب کی آزادی چھٹا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت کو مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کا کوئی حق نہ ہو نہ تبدیل مذہب کے لئے وہ کوئی پابندیاں مقرر کر سکے اور نہ حکومت کو کوئی ایسا قانون پاس کرنے کا اختیار ہو جو کہ کسی قوم کی تمدنی یا اقتصادی حالت کو نقصان پہنچانے والا ہو- جیسے مثلاً گائے کے ذبح کے متعلق یا اسی قسم کے اور امور کے متعلق اس قسم کے قوانین اسی وقت پاس کے جا سکیں جب کہ خود اس قوم کے ۵/۳ ممبران اس کی تائید میں ہوں جن پر ان قانون کا خاص طور پر اثر ہوتاہے- ساتواں مطالبہ، قانون اساسی اور اس کی تبدیلی میری طرف سے ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہوتا رہا ہے کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے- اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۳/۲ ممبر اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں- اور یہی کافی نہ ہو بلکہ اس کے بدلنے کیلئے یہ شرط بھی ہو کہ تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در پے ۳/۲ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں- اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں بھی تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور تین متواتر طور پر منتخب شدہ کونسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے- اور پھر اسی صوبہ میں اس تبدیلی کا نفاذ ہو- جس صوبہ کی کونسل کے اس قوم کے ۳/۲ منتخب شدہ

Page 407

۳۶۴ ممبر اس کے نفاذ کے حق میں رائے دے دیں- اگر یہ شرط نہ لگائی گئی تو ہندوؤں کو ہر وقت اختیار ہوگا کہ اپنی اکثریت کے زور سے قانون کو بدل دیں اور ان حفاظتی تدابیر کو منسوخ کر دیں- جنہیں قانوناساسی کے بناتے ہوئے مسلمانوں کی خاطر منظور کر لیا جائے- کلکتہ لیگ کے مطالبات کلکتہ لیگ جس کی نمائندگی کا نہرو کمیٹی کو دعویٰ ہے اس کا فیصلہ یہ تھا کہ اس کے نمائندے کانگریس کے ساتھ قانون اساسی بنانے میں شریک ہوں مگر ان امور کا خیال رکھیں کہ ۱- سندھ ایک مستقل اور خود مختار صوبہ بنایا جائے- ۲- صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں بھی اصلاحات جاری کی جائیں اور باقی صوبوں کے برابر اختیارات ان کو بھی دیئے جائیں- ۳- موجودہ حالات میں مختلف صوبہ جات میں جدا گانہ انتخاب مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے ضروری ہے- اور مسلمان اس حق کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ سندھ کو ایک مستقل اور خود مختار صوبہ نہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں اصلاحات نہ جاری کر دی جائیں- جب یہ شرطیں مکمل طور پر پوری ہو جائیں- تب مسلمان جداگانہ انتخاب کو مشترکہانتخاب کے حق میں چھوڑنے کیلئے تیار ہونگے مگر اس شرط سے کہ آبادی کی تناسب سے ہر قوم کی نیابت محفوظ ہو- سوائے ان صورتوں کے جو ذیل میں درج ہے-: الف-: صوبہ سرحدی، بلوچستان اور سندھ میں مسلمان ہندوؤں کو ان کے جائز حقوق سے زیادہ اسی قدر حق دیں گے- جس قدر زائد حقوق کہ ہندو دوسرے صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہوگی مسلمانوں کو دیں گے- ب- مرکزی حکومت میں موجودہ نیابت سے کم مسلمانوں کو نہ ملے گی- اس کے علاوہ لیگ نے مدراس کانگریس کے فیصلہ کو جو حریت ضمیر مذہبی قانون سازی اور گائے اور باجہ کے سوال کے متعلق تھا- قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اسے بھی اوپر کے ریزولیوشن کے ساتھ شامل کیا جائے- بعض امور جو دوسری پارٹی کے مطالبات میں ہیں وہ اس میں چھوڑ دیئے گئے ہیں- لیکن

Page 408

۳۶۵ اس کے یہ معنی نہیں کہ کلکتہ لیگ ان کے مخالف ہے- مثلاً حکومت اتحادی کا مطالبہ ان مطالبات میں شامل نہیں- لیکن جب ہم ان تقریروں کو دیکھتے ہیں- جو اس موقع پر کی گئی تھیں- تو ہمیں ‘’اب نو ہندو صوبوں کے مقابل پر پانچ مسلمان صوبے ہونگے اور جو سلوک بھی ہندو ان نو صوبوں میں مسلمانوں سے کریں گے مسلمان وہی سلوک اپنے پانچ صوبوں میں ہندوؤں سے کریں گے کیا یہ ایک بڑی کامیابی نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک نیا ہتھیار نہیں مل گیا؟’‘ ۶؎ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے ذہن میں اس وقت یہی تھا کہ صوبہجات کامل طور صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلکتہ لیگ کے ممبروں کے دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ صوبہ جات کو کامل آزاد حکومت حاصل ہوگی- مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد نے جو تقریر اس وقت کی تھی اس کا مندرجہ ذیل فقرہ اپنے مضمون پر خود شاہد ہے- وہ فرماتے ہیں-: پر خود مختار ہونگے، ورنہ اگر سب اہم اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہونے تھے اور صوبہ جات کے کاموں میں اسے دخل دینے کا اختیار حاصل ہونا تھا تو پھر مسلمانوں کو کونسا نیا ہتھیار ملتا ہے- مرکزی حکومت جس میں ہندو اکثریت لازمی ہے، ہر وقت مسلم صوبہ جات کے کام میں دخل دے سکتی ہے جیسا کہ نہرو رپورٹ والوں نے دبے الفاظ میں سندھ کے ہندوؤں سے وعدہ بھی کیا ہے- یا اسی طرح مثلاً زبان کا سوال ہے- کلکتہ لیگ نے زبان کے سوال کو نہیں اٹھایا- لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس سوال کو اہمیت نہیں دیتی تھی، بلکہ محض اس وجہ سے کہ اس سوال کو کانگریس پہلے حل کر چکی تھی اور ملک کی زبان ہندوستانی یا اردو تسلیم کر چکی تھی- جس کی تحریر فارسی یا ناگری رسم الخط دونوں میں جائز ہوگی- پس کلکتہ لیگ نے یہ سمجھا کہ جو فیصلہ کانگریس پہلے کر چکی ہے اسے نہرو کمیٹی نظر انداز نہیں کرے گی- غرض گو بعض باتیں کلکتہ سیشن کے ریزولیوشن میں نہیں ہیں- لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کلکتہ سیشن ان کے مخالف تھا- کلکتہ سیشن جس امر میں لاہور سیشن کے مخالف ہے، وہ صرف یہ بات ہے کہ لاہور کہتا ہے ان صوبوں کا الگ کرنا ہمارا حق ہے- پس ہم اس حق کا مطالبہ بھی کریں گے- اور جداگانہ انتخاب کو بھی اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہمیں ہندوؤں پر اعتماد پیدا نہ ہو جائے- اور ہم یہ نہ دیکھ لیں کہ وہ اپنے روپیہ اور اپنے رسوخ

Page 409

۳۶۶ کو ہمارے تباہ کرنے پر خرچ نہیں کرتے- اس اختلاف کے سوا کوئی اصولی اختلاف کلکتہ اور لاہور میں نہیں ہے- اور کلکتہ سیشن (SESSION) کے بانی مبانی اور اس کے روح رواں مسٹرجناح جنہوں نے شملہ کی آل مسلم کانفرنس میں مسلمانوں کی رائے کا اچھی طرح موازنہ کر لیا تھا، وہ اس امر کو جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں بلکہ لاہور کے ساتھ ہے- چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میں فرمایا تھا-: ‘’ہمیں (کلکتہ لیگ کے بانیوں کو) اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے- لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟- (اس پر لوگوں نے کہا- ہاں)مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوش کن نہ ہوگا- مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میں ہے’‘- ۷؎ ‏نہرو رپورٹ کا فیصلہ میں مسلمانوں کے مطالبات کو اوپر بیان کر چکا ہوں- اور یہ بھی ثابت کر چکا ہوں کہ مسلمانوں کی دونوں پارٹیوں میں آئندہ سوراج کے متعلق کس قدر اختلاف ہے- اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی دونوں پارٹیوں میں سے ہندوؤں کے نقطہ نگاہ کا زیادہ پاس کرنے والی کلکتہ لیگ ہے- مگر وہ بھی صاف لفظوں میں یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ سوراج کی سکیم میں مسلمان اسی وقت شریک ہو سکتے ہیں- جب کہ اوپر کے بیان کردہ امور کا کلی طور پر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو جائے- گویا اوپر کے مطالبات ہندو مسلم صلح کی گفتگو کے لئے بطور بنیاد نہیں ہیں- بلکہ ان کا پہلے منظور ہو جانا ہندو مسلم کی صلح کے لئے بطور شرط ہے- اور اس امر میں لاہور لیگ ان سے متفق ہے- ان کے مخالف نہیں- کیونکہ لاہور لیگ تو ان سے بھی زیادہ مطالبہ کرتی ہے- پس اس چھوٹے مطالبہ میں کسی کمی کو وہ کب جائز قرار دے سکتی ہے- اس قدر اظہار کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ نہرو کمیٹی مذکورہ بالا امور کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے- مطالبہ اول کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ پہلا سوال اتحادی یا فیڈرل طریق حکومت کا ہے- میں بتا چکا ہوں کہ یہ سوال سب

Page 410

۳۶۷ سوالات سے اہم ہے اور اس کے بغیر کوئی حفاظت کا ذریعہ کامیاب نہیں ہو سکتا- اکثر مسلمان اس امر کی تائید میں رائے دے چکے ہیں- اور مسٹر جناح کی لیگ بھی جیسا کہ مولانا ابوالکلامصاحب آزاد کے مذکورہ بالا فقرہ سے ظاہر ہے اس کی تائید میں تھی- لیکن نہرو رپورٹ نے بجائے اتحادی یا فیڈرل طریق حکومت کے ایک قسم کی یونیٹیرین (UNITARIAN) یا مرکزیحکومت کی تجویز پیش کی ہے- جو ملک کی اصل حاکم سمجھی جائے گی- اور صوبہ جات کے اختیار اس مرکزی حکومت سے حاصل کردہ ہونگے- اس میں کوئی شک نہیں کہ نہرو کمیٹی کے ہوشیار ممبر اس امر کے متعلق صفائی کے ساتھ نہیں لکھ سکتے تھے- کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فوراً مسلمان بیدار ہو جائیں گے اور شور کا دبانا مشکل ہو جائے گا- اور چونکہ وہ ایسے اہم سوال کو بغیر اس الزام کا مورد بننے کے نظر انداز بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ یا تو سیاسیات سے نابلد ہیں یا انہوں نے رپورٹ کے تیار کرنے میں محنت سے کام نہیں لیا- اس لئے انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اپنی رپورٹ کے ساتویں باب کے شروع میں اصل تجاویز میں یہ فقرہ لکھ دیا ہے کہ-: ‘’ہم نے قانون اساسی کو مکمل صورت میں تیار کرنے کی کوشش نہیں کی’‘-۸؎ لیکن باوجود اس کے کون عقلمند آدمی کہہ سکتا ہے کہ قانون اساسی کے تیار کرنے والے بغیر مورد الزام بننے کے اس امر کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ آئندہ حکومت ہند کی شکل کیا ہوگی؟ مگر نہرو کمیٹی نے ایسا کیا ہے- لیکن ایسا اہم سوال چونکہ قانون اساسی سے کسی صورت سے بھی جدا نہیں ہو سکتا- اس لئے جس امر کو تعریف کے حذف کر دینے سے چھپایا گیا ہے- اسے تفاصیل نے ظاہر کر دیا ہے- اور رپورٹ کے متعدد مقامات ظاہر کر رہے ہیں کہ رپورٹ نے ایک مضبوط سینٹرل اور ایک رنگ کی یونیٹیرین گورنمنٹ تجویز کی ہے- چنانچہ رپورٹ کے باب تجاویز کے عنوان پارلیمنٹ کے نیچے چونتیسویں مادہ میں لکھا ہے- ‘’صوبہ جات کی کونسلوں کے اختیارات تمام ان امور پر حاوی ہیں جنہیں فہرست دوم میں گنایا گیا ہے’‘- ۹؎ اسی طرح رپورٹ کے عنوان پارلیمنٹ کے نیچے تیرھویں مادہ کی پہلی شق میں یوں درج ہے کہ یہ پارلیمنٹ قانون بنائے گی- ‘’امن نظام اور کامن ویلتھ (COMMONWEALTH) کی حکومت کے اچھی

Page 411

۳۶۸ طرح چلنے کے لئے ان تمام امور کے متعلق جو اس قانون کے مطابق صوبوں کی کونسلوں کے سپرد نہیں کئے گئے’‘- ۱۰؎ اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ آئندہ حکومت ہند میں صوبوں سے مرکزی حکومت کو اختیارات نہیں دیئے گئے- بلکہ مرکزی حکومت کی طرف سے صوبوں کو اختیارات دئے گئے ہیں- اسی طرح صوبہ جات کی مجالس واضع قوانین کے عنوان کے نیچے مادہ تیس)۳۰( کے ماتحت لکھا ہے- ‘’صوبہ کی آمد میں سے بادشاہ کو گورنر صوبہ کی تنخواہ کے طور پر.....سالانہ رقم ادا کی جائے گی جو کہ جب تک کامن ویلتھ کی پارلیمنٹ کوئی دوسرا فیصلہ نہ کرے- اس قاعدہ کے مطابق ہوگی- جو ساتھ درج ہے’‘- ۱۱؎ اس قاعدہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ جات کی مجالس کو مرکزی مجلس کے ماتحت رکھا گیا ہے- اور واضح حوالہ سول سروس کے عنوان کے نیچے ملتا ہے- اس عنوان کے نیچے اکیاسیویں مادہ کے ماتحت لکھا ہے- ‘’پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر اور معین کردہ امور کے متعلق گورنر جنرل ان کونسل COUNCIL) IN GENERAL (GOVERNER یا صوبہ جات کی گورنمنٹوں کو بھی دے سکتی ہے’‘-۱۲؎ ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی نے جو قانون اساسی حکومت ہند کے لئے تجویز کیا ہے، وہ مسلمانوں کے مجموعی مطالبہ کے بالکل مخالف ہے- مسلمانوں کا مطالبہ فیڈرل یا اتحادی گورنمنٹ کا تھا- جس میں کہ سب صوبے آزادانہ حکومت رکھتے ہوں اور وہ اپنی مرضی سے بعض ایسے اختیارات جو بغیر مرکزی حکومت کی موجودگی کے نہیں برتے جا سکتے- ایک مرکزی حکومت کو تفویض کر دیں- اور مرکزی حکومت کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ صوبہ جات کے اندرونی انتظام میں کسی قسم کا بھی دخل دے سکے- یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس قسم کی گورنمنٹ کے مسلمانوں کو ہندوستان میں امن نہیں حاصل ہو سکتا- اگر مسلمانوں کا مطالبہ سندھ، صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو اختیار حاصل کرنے کا ہے تو محض اس لئے کہ ہندوؤں کو اس وجہ سے ان صوبوں میں مسلمانوں پر ظلم کرنے کا خیال پیدا نہیں ہو سکے گا، جہاں مسلمان کم ہیں- کیونکہ مسلمان آزاد صوبوں میں بھی ہندو آبادی بس رہی

Page 412

۳۶۹ ہوگی- لیکن اگر اصل اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں- تو پھر اس احتیاط سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- جب مرکزی حکومت ہر وقت دخل دے سکتی ہے تو جس وقت وہ چاہے گی مسلمانوں کے صوبوں کے معاملات میں دخل دے دے گی- اگر کہو کہ ایسا کیوں کرے گی- تو میں کہتا ہوں کہ اصل سوال تو ہے ہی یہی کہ دونوں قوموں کو ایک دوسرے پر بے اعتباری ہے- اگر بے اعتباری نہیں تو یہ سب شرطیں اور پابندیاں لگائی ہی کیوں جاتی ہیں- صاف کہدو کہ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں پر اعتبار ہے- وہ جس طرح چاہیں حکومت کریں- ہمیں ان سے ہر ایک طرح نیک امید ہے- اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ تو آج ہی سب جھگڑے کا فیصلہ ہو جاتا ہے- اسی وقت ہندو اٹھ کر آپ لوگوں کو گلے لگا لیں گے- مطالبہ دوئم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس جس صوبہ میں اقلیت نہایت کمزور ہو، وہاں اسے اپنے اصل حق سے زائد حق دیا جائے- اور جس جگہ اقلیت کمزور نہ ہو، وہاں اقلیت کو زائد حق نہ دیا جائے- نہرو رپورٹ کا فیصلہ یہ ہے کہ زائد حق کسی جگہ بھی نہ دیا جائے- نہ اس جگہ جہاں اقلیت کم ہو اور نہ وہاں جہاں طاقتور ہو- چنانچہ رپورٹ میں لکھا ہے- ‘’تعداد آبادی کی نسبت سے زائد نمائندگی جو لکھنؤ کے معاہدہ اور مانٹیگ چیمسفورڈ سکیم ۱۳ (MONTAGUECHELMSFORDSCHEME)؎ کے مطابق مسلمانوں کو بعض صوبوں میں دی گئی تھی، وہ ہماری سکیم کے مطابق واپس لے لی جائیگی’‘- ۱۴؎ گویا اس مطالبہ کو بھی کلکتہ اور لاہور لیگ کا مشترکہ تھا، رد کر دیا گیا ہے- جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ مسلمانوں نے چونکہ پنجاب اور بنگال میں بوجہ تعداد میں زیادہ ہونے کے ہندوؤں کی حکومت سے انکار کیا تھا- اس کے بدلہ میں دوسرے صوبہ کے مسلمانوں کو نمائندگی کی ایک قلیل زیادتی سے محروم کر دیا جائے- جس سے وہ حاکم نہیں بنتے تھے- صرف اتنا تھا کہ مختلف جماعتوں اور سیاسی انجمنوں کی نیابت آسانی سے صوبوں کی حکومت میں ہو سکتی تھی- اسی مطالبہ کے ضمن میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ مرکزی حکومت میں بجائے پچیس فیصدی کے مسلمانوں کو ۳۳ فی صدی نمائندگی کا حق دیا جائے تاکہ مختلف صوبوں سے

Page 413

۳۷۰ ان کی نیابت اچھی طرح ہو سکے- اس مطالبہ میں کلکتہ اور لاہور لیگ برابر کی شریک ہیں- نہروکمیٹی نے اس مطالبہ کو بھی رد کر دیا ہے- وہ لکھتی ہے- ‘’مسلمان برطانوی ہندوستان میں ایک چوتھائی سے کچھ کم ہیں- اور ان کے لئے مرکزی پارلیمنٹ میں اس نسبت آبادی سے زیادہ ممبریاں ہر گز محفوظ نہیں کی جا سکتیں’‘- ۱۵؎ اس وقت لیجسلیٹو اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد گو پوری تینتیس فیصدی نہیں ہے- مگر چوتھائی سے زیادہ ہے- چنانچہ نہرو رپورٹ میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے- اس وقت مسلمانوں کی تعداد لیجسلیٹو اسمبلی میں تیس فیصدی ہے- نہرو رپورٹ آئندہ نظام حکومت میں مسلمانوں کو اس قدر بھی حق نہیں دینا چاہتی- گویا مسلم لیگ تو اس بنا پر کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کی نمائندگی چوتھائی ممبروں سے نہیں ہو سکتی- اور کسی قدر زیادہ ممبریوں کے دینے سے ہندوؤں کو کوئی نقصان نہیں موجودہ ممبریوں سے زیادہ کا مطالبہ کرتی ہے اور کم سے کم اس کا مطالبہ یہ ہے کہ موجودہ تعداد ہی رہنے دی جائے- لیکن نہرو کمیٹی موجودہ حق کو بھی چھین کر مسلمانوں کی نیابت کو ایک چوتھائی پر لے آتی ہے- اور مسلم لیگ کے دعویٰ پر وہی مثل صادق آتی ہے کہ چوبے جی چھبے ہونے گئے تھے دوبے ہو کر آئے- مطالبہ سوئم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ تیسرے مطالبہ میں مسلمانوں میں اختلاف تھا- لاہور لیگ جب تک ہندو مسلمانوں میں اعتبار قائم نہ ہو جائے اور مسلمان اپنی مرضی سے جدا گانہ انتخاب کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوں، جداگانہ انتخاب کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھی- کلکتہ لیگ کے نزدیک اگر سندھ کو الگ صوبہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو وہی اختیارات دے دیئے جائیں جو باقی صوبوں کو تو ان تبدیلیوں کے مکمل ہو جانے کے بعد کوئی حرج نہ تھا، اگر مسلمان اپنے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑ دیں- ان دونوں مطالبات میں سے کسی مطالبہ کو بھی لے لیا جائے- نہرو رپورٹ نے اسے پورا نہیں کیا- نہرو کمیٹی تسلیم کرتی ہے کہ مسلم لیگ کونسل کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ کم سے کم مطالبہ ہے جسے کم کرنے کیلئے مسلمان تیار نہیں ہونگے- اور کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن بتاتے ہیں کہ اس کا بھی یہی منشا تھا- کیونکہ جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں، کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن میں یہ الفاظ صاف طور پر درج ہیں کہ-:

Page 414

۳۷۱ ‘’مسلمان اس حق کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے- جب تک کہ سندھ کو ایک مستقل اور خودمختار صوبہ نہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں اصلاحات نہ جاری کر دی جائیں’‘- لیکن نہرو کمیٹی ان تین امور میں سے صرف ایک کو تسلیم کرتی ہے- یعنی صوبہ سرحدی کو نیابتی حقوق دینے کی تائید کرتی ہے- سندھ کے متعلق وہ شرطیں لگاتی ہے کہ فلاں فلاں شرط کے ماتحت اسے آزاد کیا جا سکتا ہے- اور بلوچستان کا ذکر وہ بالکل مشتبہ الفاظ میں کرتی ہے- اس کے صفحہ۵۵ پر یہ الفاظ درج ہیں-: ‘’جن صوبوں کی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں بحث کی ضرورت ہے وہ صوبہسرحدی اور بلوچستان ہیں’‘- اس فقرہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر اس کے مرتبین کے ذہن میں تھا کہ بلوچستان میں ہندوؤں کے حقوق کا سوال پیدا ہوگا- مگر صفحہ ۱۲۴ پر قانون اساسی کے عنوان ثانوی فرقہ وارانہ نمائندگی کے نیچے ساتویں مادہ میں لکھا ہے-: ‘’صوبہ سرحدی میں اور تمام نئے بنائے ہوئے صوبوں میں جو پرانے صوبوں سے کاٹ کر بنائے جائیں گے، وہی طریق حکومت ہوگا جو دوسرے ہندوستان کے صوبوں میں رائج ہوگا’‘- اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون اساسی میں بلوچستان کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہے- ممکن ہے کہ یہ غلطی سے ہو- مگر بہرحال معاملہ مشتبہ ہے- اور ہمیں اس وقت تک یہی کہنا چاہئے کہ نہرو کمیٹی نے ان شرطوں کو پورا نہیں کیا- جن پر کلکتہ لیگ جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے کے لئے تیار تھی- اور جن کے باوجود بھی لاہور مسلم لیگ جداگانہ انتخاب کو کچھ عرصہ کیلئے چھوڑنے پر تیار نہ تھی- لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ لیگ صرف یہ نہیں کہتی کہ ہندو صاحبان ان شرطوں کو پورا کرنے پر راضی ہو جائیں تو جداگانہ انتخاب کو اڑا دیا جائے گا- بلکہ وہ دو احتیاطیں اور کر لیتی ہے- وہ یہ بھی شرط لگاتی ہے کہ ان پر عملدرآمد بھی ہو جائے- اور دوسری شرط یہ لگاتی ہے کہ اس عملدرآمد پر مسلمان اپنی تسلی بھی کر لیں کہ ان کے منشاء کے مطابق کام ہو گیا ہے- کیونکہ وہ کہتی ہے-:

Page 415

۳۷۲ ‘’جب یہ شرطیں مکمل طور پر پوری ہو جائیں، تب مسلمان جداگانہ انتخاب کو مشترکہ انتخاب کے حق میں چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے’‘- لیکن نہرو کمیٹی بغیر ان کے پورا ہونے کے صرف اپنا مشورہ دیکر جداگانہ انتخاب کو اڑا دیتی ہے حالانکہ مسلم لیگ کی شرط کے مطابق اسے چاہئے تھا کہ صاف طور پر لکھتی کہ مشترکہ انتخاب اسی وقت سے شروع ہوگا- جب کہ پہلی تین باتیں پوری ہو جائیں- اسی طرح مسلملیگ کے الفاظ یہ ہیں کہ تب مسلمان جداگانہ انتخاب چھوڑنے کیلئے تیار ہونگے- انگریزی ریزولیوشن کے الفاظ یہ ہیںabandon’’- to prepared ‘‘Will ان الفاظ میں اختیار ابھی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی رکھا گیا ہے- گو یہ مطلب نہیں کہ اگر مسلمان چاہیں تو پھر بھی نہ چھوڑیں- لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ مسلمان پہلے اپنی تسلی کر لیں کہ ان کی شرائط پوری ہو گئی ہیں تب وہ اپنا آخری فیصلہ دیں گے کہ اب جداگانہ انتخاب کو اڑا دیا جائے- مگر نہرو رپورٹ نے ہر گز ان شرائط کا خیال نہیں کیا- مجھے خوب یاد ہے کہ شملہ کی آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں جب یہ سوال بار بار پیش کیا جاتا تھا کہ اگر ہندو ہماری شرطوں پر راضی ہو جائیں لیکن بعد میں عذر کر دیں کہ ہم تو راضی ہیں لیکن فلاں فلاں روک کے سبب سے ابھی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا تو پھر آپ کے ہاتھ میں کیا رہ جائے گا- تو مسٹر جناح بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہماری سفارش کے لفظوں پر غور نہیں کیا گیا- ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جداگانہ انتخاب اس وقت سے جاری کیا جائے گا- جب ہماری شرائط پر عملدرآمد ہو جائے گا- صرف ہندوؤں کے منظور کر لینے سے انتخاب کو نہیں چھوڑا جائے گا- لیکن ابھی ایک سال نہیں گذرا کہ مسٹر جناح کے اس خیال کی تردید ہو گئی ہے- نہرو رپورٹ بغیر ان شرطوں پر عملدرآمد ہونے کے، بلکہ بغیر ان شرطوں کو مکمل طور پر منظور کرنے کے جداگانہ انتخاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ان شرائط کا ذکر تک نہیں کرتی- مسلمانوں کی ایک جماعت نے ہندوستان میں امن کے قیام کے لئے باوجود سخت خطرات کے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی تھی- اور اپنی قوم سے لڑائی مول لی تھی- مگر اس کی تجاویز کا نہرو کمیٹی کے ہاتھوں جو حشر ہوا ہے، میں اسے اوپر بیان کر چکا ہوں- جب شروع میں یہ حال ہے- جب سوراج۱۶؎ کے حصول کے جوش میں ان لوگوں کو مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا ہے تو اس وقت کیا ہوگا جب حکومت مل جائے گی اور سب اختیار

Page 416

۳۷۳ انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا- مطالبہ چہارم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ چوتھا سوال صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو نیابتی حکومت دینے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر نیابتی حکومت دینے کے متعلق تھا- نہرو کمیٹی نے صوبہ سرحدی کے متعلق مطالبہ کو تسلیم کیا ہے- بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیاہے- اور سندھ کے متعلق یہ شرط لگا دی ہے کہ جب تک وہ مالی طور پر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کے باشندے مالی بوجھ کو اٹھانے کیلئے آمادہ نہ ہوں، اس وقت تک اس صوبہ کو آزاد نہ کیا جائے- بظاہر یہ شرطیں معقول معلوم ہوتی ہیں- کیونکہ کہا جا سکتا ہے کہ جو صوبہ اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ الگ کس طرح ہو سکتا ہے- گو مسلمان یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور الگ نہیں ہو سکتا تو پھر جداگانہ انتخاب کو بھی نہ اڑاؤ جس کے لئے سندھ کی علیحدگی بطور شرط ہے- مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ نہرو کمیٹی کے ان سیدھے سادے فقروں کے نیچے نہایت گہرا مضمون پوشیدہ ہے- بوجھ کا لفظ ایسا غیر محدود ہے کہ اس کی حد بندی میں ہی سندھ کو علیحدگی سے محروم رکھا جا سکتا ہے- بوجھ سے مراد ایک سیدھا سادہ نظام بھی ہو سکتا ہے- جس کا اٹھانا یقیناً سندھ کے لئے مشکل نہ ہوگا- لیکن بوجھ سے مراد ایک ایسا بوجھ بھی ہو سکتا ہے، جسے سندھ جیسا چھوٹا صوبہ اٹھا ہی نہ سکے- اور اس صورت میں وہ کبھی الگ ہی نہ ہو سکے- میرے لئے شک کرنیکی کافی وجہ موجود ہے کہ اس جگہ بوجھ سے مراد ضرورت اور طاقت سے زیادہ بوجھ ہے- کیونکہ نہرو رپورٹ ہی میں لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک درخواست سندھ کے ہندوؤں، مسلمانوں اور پارسیوں کی مشترکہ آئی تھی کہ سندھ کو علیحدہ کر دیا جائے اور مالی مشکلات کے متعلق اس درخواست میں یہ حل پیش کیا گیا تھا- کہ ‘’ان کا کوٹ ان کے کپڑے کے مطابق بیونت دیا جائے’‘ یعنی جس قدر طاقت مالی ان کے صوبہ میں ہے- اسی کے مطابق ان کے صوبہ کی گورنمنٹ کا انتظام کر دیا جائے- اور زیادہ دیر تک مالی حالت کی ترقی کا انتظار نہ کیا جائے- لیکن کمیٹی کہتی ہے کہ وہ ان کی اس خواہش کو مالی مشکلات کا آخری حل نہیں قرار دے سکتی-۱۷؎ اس سے ظاہر ہے کہ سندھ کے لئے ایک ایسا انتظام تجویز کیا جائے گا جو اس کی طاقت سے باہر ہو- اور چونکہ وہ اس بوجھ کو اٹھانے کا اقرار کر ہی نہ سکے گا- کیونکہ اس کے معنی یہ ہونگے- کہ وہ بجائے اقتصادی ترقی کے اپنی پہلی حالت کو بھی کھو بیٹھے- اس لئے سندھ کو الگ بھی نہیں کیا جائے گا- اس کا مزید ثبوت اس سے

Page 417

۳۷۴ بھی ملتا ہے کہ پنڈت موتی لال نہرو صاحب نے بمبئی کونسل میں سندھ کی علیحدگی کے مسودہ کو روکنا چاہا ہے- اور کانگریسی ممبروں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر اس مسودہ کو مسلمان ضرور ہی پیش کریں تو وہ اس کی مخالفت کریں- مطالبہ پنجم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ پانچواں سوال زبان کا تھا- اس سوال کو نہرو کمیٹی نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے- وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک معمولی سوال ہے- اول تو یہ سوال معمولی نہیں ہے- اس سے مسلمانوں کی ترقی اور تنزل وابستہ ہے- ہندوستان کی آئندہ حکومت اردو کو اڑا دے- پھر دیکھو کس طرح چند ہی سال میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے وہ تھوڑے بہت کام بھی نکل جاتے ہیں- جو اس وقت ان کے ہاتھ میں ہیں- اور کس طرح ان کی مخصوص تہذیب برباد ہو جاتی ہے- لیکن اگر اسے معمولی بھی فرض کر لیا جائے، تب بھی دیکھنا تو یہ ہے کہ جس قوم سے معاملہ ہے وہ اسے کیا اہمیت دیتی ہے- اگر مسلمان اردو کے سوال کو اہمیت دیتے ہیں- اور اسے اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھتے ہیں تو اسے نظر انداز کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا- مگر میں اس امر پر بعد میں بحث کروں گا کہ زبان کا سوال نہ معمولی ہے اور نہ یہ صرف ہندوستان میں پیدا ہوا ہے- بلکہ اسے دوسرے ممالک میں بھی اہمیت دی گئی ہے- اور اس کے لئے خاص قوانین بنائے گئے ہیں جو قانون اساسی کے ساتھ ہی منظور کئے گئے ہیں- مطالبہ ششم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ چھٹا مطالبہ مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے متعلق تھا- لیکن اس کے متعلق بھی نہرو کمیٹی کی رپورٹ واضح نہیں ہے- بلکہ لفظوں کے ہیر پھیر میں اس مطالبہ کی اہمیت اور اس کی وسعت کو دبا دیا گیا ہے اس کے متعلق جو کچھ نہروکمیٹی نے فیصلہ کیا ہے وہ ذیل میں درج ہے- وہ اصولی حقوق کے عنوان کے نیچے چوتھے مادہ میں لکھتی ہے- ‘’ضمیر کی آزادی اور مذہب کا آزادانہ اقرار اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق بشرطیکہ ایسا مذہبی فعل یا اعلان ملکی امن اور اخلاق کے خلاف نہ ہو ہر فرد بشر کو حاصل ہوگا’‘- ۱۸؎ یہ الفاظ مسلمانوں کے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے- گائے کی قربانی پر ہمیشہ ہندو فساد کرتے ہیں- اس قانون کی رو سے ان کے فساد کی بنا پر گائے کی قربانی سے مسلمانوں کو روکا جا سکتا ہے-

Page 418

۳۷۵ اسی طرح اس میں مذہب کی تبلیغ کے متعلق کچھ ذکر نہیں- یہ قانون ہر شخص کو صرف یہ حق دیتا ہے- کہ وہ اپنے مذہب کا آزادی سے اظہار کرے- مگر اس امر کا حق نہیں دیتا کہ کوئی شخص دوسرے کو آزادی سے تبلیغ کر سکے- قانون کسی وقت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تبلیغ سے فساد ہوتا ہے- اس لئے ہم اس سے روکتے ہیں تم اپنے مذہب کا اظہار کر سکتے ہو لیکن دوسرے شخص کو اس کی دعوت نہیں دے سکتے- اسی طرح قانون کسی وقت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ مذہب کی تبدیلی سے فساد ہوتے ہیں، ہم مذہب کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے- ضمیر کی آزادی کا قانون اس کو نہیں روک سکتا- کیونکہ ضمیر کی آزادی صرف عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے- اور مذہب کی تبدیلی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونے کا نام ہے- اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی مثلاً یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ مجسٹریٹ کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کوئی شخص مذہب تبدیل نہیں کر سکتا- اور اس کی وجہ یہ بتائی جائے کہ اس طرح جبر وغیرہ نہ ہو سکے گا- اور اس طرح تبدیلی مذہب کا سلسلہ روک دیا جائے- جیسا کہ آج کل کئی ریاستوں میں ہو رہا ہے- اول تو اس قدر لمبی مصیبت کو لوگ برداشت نہیں کرتے- اور اگر درخواست دیں تو پھر پوچھا جاتا ہے کس نے تبلیغ کی، کس طرح کی، کوئی دباؤ تو نہیں؟ اور اسی قسم کے سوالات میں اسے پھنسا کر تبدیلیمذہب سے روک دیا جاتا ہے- اس کی مثالیں موجود ہیں اور میں اس امر کو ثابت کر سکتا ہوں- غرض اسی قسم کے کئے رخنے ہیں جو قانون مذہب میں موجود ہیں- اور جن کے ذریعہ سے مذہبیآزادی کو نہایت محدود کیا جا سکتا ہے- پس نہرو رپورٹ مسلمانوں کے مطالبات کو اس جہت سے بھی قطعاً پورا نہیں کرتی- بلکہ میں تو کہتا ہوں وہ اس مطالبہ کے بالکل الٹ جاتی ہے وہ مذکورہ بالا عنوان کے بارہویں مادہ میں کہتی ہے کہ-: ‘’کوئی شخص جو ایسے سکول میں تعلیم پا رہا ہو جسے گورنمنٹ امداد حاصل ہو یا پبلک کے روپیہ سے کسی اور طرح فائدہ اٹھا رہا ہو، اسے ایسی مذہبی تعلیم کے حصول پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو سکول میں دی جاتی ہو’‘- اس مادہ کے ساتھ ذرا اس امر کو بھی ملا لو کہ ہندوستان کی آئندہ گورنمنٹ اگر یہ قانون بھی پاس کر دے کہ کوئی پرائیویٹ سکول جو گورنمنٹ ایڈ (GOVERNMENTAID) لیکر گورنمنٹ کے قانون کا پابند نہ ہو، منظور نہیں کیا جا سکتا- تو اس قانون کے پاس ہونے میں قانون اساسی ہر گز روک نہیں بن سکتا- اور اگر ایسا قانون پاس ہو جائے تو اس کے یہ معنی

Page 419

۳۷۶ ہونگے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے بالکل بیگانہ کر دیا جائے- ہر مذہب اور ہر مذہبی سکول کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہم مذہبوں پر مذہبی تعلیم کے لئے زور دے سکے- اور یہ جبر نہیں ہے جبر یہ ہے کہ انسان دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی تعلیم پر مجبور کرے- پس یہ قانون کئی رنگ میں مسلمانوں کو مذہبی تعلیم سے روکنے کا موجب بنایا جا سکتا ہے- یہ کہنا کہ ہندوؤں پر بھی اس کا یکساں اثر پڑے گا، مذاہب کی کامل ناواقفیت پر دلالت کرے گا- کیونکہ اسلام ایک مقررہ حدود والا مذہب ہے- جس کے جاننے کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہے- اس کے مقابلہ میں ہندو مذہب ایک سیاسی مذہب ہے- اور وید اور اس کی تعلیم سے بالکل بے بہرہ شخص اپنے پاس سے کچھ خیال تجویز کر سکتا ہے- اور پھر اسی طرح ہندو کہلا سکتا ہے جس طرح ویدوں کا سب سے بڑا عالم- مطالبہ ہفتم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ ساتواں مطالبہ یہ کہ وہ سوالات جو قومی بے اعتباری سے پیدا ہوتے ہیں، اور جن کا حل کرنا اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ضروری ہے، انہیں قانون اساسی میں اسی طرح داخل کیا جائے کہ اس کا بدلنا آسان کام نہ ہو- میں نہیں جانتا کہ ہماری جماعت کے سوا کسی اور جماعت کی طرف سے بھی یہ مطالبہ پیش ہوا ہے- یا نہیں- مگر بہرحال یہ اہم ترین مطالبات میں سے ہے- اور اس کی طرف بھی نہرو کمیٹی نے توجہ نہیں کی- اس مطالبہ کی طرف ایک رنگ میں لکھنؤ پیکٹ (LUCKNOWPACT) میں اشارہ ضرور تھا- مگر وہ مطالبہ قانونی زبان میں نہ تھا- مبہم الفاظ میں تھا- مذکورہ بالا بیان سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ سات مطالبات میں سے جو مسلمانوں کی طرف سے ہوئے ہیں- ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں- جسے نہرو کمیٹی نے پورے طور پر منظور کر لیا ہو بلکہ بعض کو بالکل رد کر دیا ہے اور بعض کو ناقص طور پر قبول کیا ہے- اور عجیب بات یہ ہے کہ نقص ہمیشہ اسی حصہ میں واقع ہوا ہے جس سے اس مطالبہ کی اصل غرض فوت ہو جاتی ہے- اور اس کا قبول کرنا نہ کرنا برابر ہو جاتا ہے- اب سوال ہے کہ جب نہرو کمیٹی نے ان شرطوں کو بھی رد کر دیا ہے جن کو مسلمانوں میں سے نرم سے نرم جماعت نے آخری شرطیں قرار دیا تھا- تو کیا ایسا فیصلہ انصاف کا فیصلہ کہلا سکتا ہے- اور کیا اسے قبول کر کے مسلمان ہندوستان میں امن سے رہ سکتے ہیں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے، ہر گز نہیں- اور میں اگلے حصہ مضمون میں

Page 420

۳۷۷ اسی پر بحث کرنی چاہتا ہوں- اور اپنے مضمون کو کئی سوالوں پر تقسیم کرتا ہوں تا کہ اچھی طرح ہر اک شخص کی سمجھ میں آ سکے- ۱- کیا تفاصیل کو آزاد حکومت کے حصول تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا پیشتر اس کے کہ میں اس امر پر بحث کروں کہ مسلمانوں کے مطالبات کہاں تک ضروری اور جائز ہیں، میں ایک خطرناک وہم کو دور کرنا چاہتا ہوں جو مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہے- اور جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں، جس کے بعد واپس لوٹنا ناممکن ہوگا اور پچھتانے اور نادم ہونے سے کچھ نہیں بنے گا- اور وہ وہم یہ ہے کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہونا ہے ہو جائے- بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہو گا تو موجودہ فیصلہ کو بدل دیا جائے گا- میں سمجھتا ہوں کہ اکثر مسلمانوں کے دل میں یہی احساس ہے اور اس احساس کی وجہ سے ایک غلط اور میرے نزدیک خطرناک احساس حفاظت ان کے دلوں میں پیدا ہے- اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس فیصلہ کو جو آج سوراج کے متعلق ہوگا، بدلنا ان کی طاقت سے باہر ہوگا، تو پھر وہ کبھی جلدی نہ کریں گے- اور اس ہزاروں خطرات سے پر قدم کے اٹھانے سے پہلے وہ لاکھوں قسم کے سوالات کو حل کرنا چاہیں گے اور بیسیوں راستے واپسی کے سوچیں گے- لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ اگر اس فیصلہ میں کوئی نقص ہوگا تو اسے بعد میں بدلا جا سکتا ہے- اور اس وجہ سے مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف ایک تجربہ ہوگا- اگر اس میں نقص نظر آئے گا تو ہم اور تدبیر سوچیں گے- لیکن میں انہیں خوب اچھی طرح اور واضح کر کے سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے- آج جو قدم وہ اٹھائیں گے- اگر اس میں غلطی ہوگی تو الٹے پاؤں لوٹنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا- بلکہ جن امور کا مطالبہ انہوں نے کیا ہے، اگر وہ آج انہیں منوانا چاہیں تو بہت زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان مطالبات کا منوانا بالکل ناممکن ہوگا- ڈومینین سلف گورنمنٹ کیا ہے مسلمانوں کو یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ جس امر کا مطالبہ نہرو کمیٹی نے کیا ہے اور جس امر کا مطالبہ آج قریباً ہر ایک ہندوستانی کر رہا ہے وہ ڈومینین سلف گورنمنٹ (DOMINIONSELFGOVERNMENT) ہے- یعنی نیم آزاد حکومت- یہ نیم آزاد

Page 421

۳۷۸ حکومت کیا شے ہے؟ اس کا سمجھ لینا ان کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس کے سمجھ لینے کے بغیر انہیں معلوم نہ ہو سکے گا کہ وہ اس وقت اپنے مطالبات پر زور نہ دیکر اپنی اور اپنی اولادوں کا خون کر رہے ہیں- نہیں نہیں بلکہ وہ خود اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ رہے ہیں- اور ہندوستان میں سپین کی تباہی کی داغ بیل ڈال رہے ہیں- عیاذا باللہ ڈومینین سلف گورنمنٹ ایک تازہ اصطلاح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی آزاد حکومت جس قسم کی حکومت کہ کینیڈا، آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ، نیوزی لینڈ کو حاصل تھی- اور اب پانچ سال سے جنوبی آئرلینڈ کو بھی حاصل ہے- مختلف بحثوں جھگڑوں اور سمجھوتوں کے بعد جنگ کے زمانہ تک برطانوی گورنمنٹ سے ڈومینینز (DOMINIONS) کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہو چکے تھے- اول- برطانوی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہ بنائے گی جو کسی ڈومینین کے اندرونی نظم ونسق سے تعلق رکھتا ہو بلکہ اس ڈومینین کو پورا حق حاصل ہوگا- کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کے متعلق خود قانون بنائے- برطانوی گورنمنٹ کی پریوی کونسل (PRIVYCOUNCIL) کے پاس اپیل کرنے کا حق اگر کوئی ڈومینین چاہے تو اپنے اہل وطن سے چھین سکتی ہے- یعنی اس ڈومینین کے ججوں کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے- ہر ڈومینین اپنے ملک کی حفاظت کیلئے خشکی یا تری کی فوج رکھ سکتی ہے- اسی طرح ہر ایک ڈومینین اپنے قانون اساسی کو اپنی پارلیمنٹ کے فیصلہ سے بھی بدل سکتی ہے، گو وہ قانون اساسی برطانوی پارلیمنٹ کا ہی پاس کردہ ہو- ڈومینین گورنمنٹ کے پاس کردہ قوانین پر گو برطانوی حکومت کو ویٹو (VETO) کا حق حاصل ہے لیکن وہ حق استعمال نہیں کیا جائے گا- جب تک کہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو جو صرف اس ڈومینین سے تعلق نہ رکھتا ہو، بلکہ برطانوی حکومت کے دوسرے حصوں پر بھی موثر ہو- چنانچہ ۱۹۱۱ء کی امپیریل (IMPERIAL) کانفرنس میں یہ فیصلہ کر دیا گیا تھا کہ ڈومینین حکومت کے متعلق آئندہ برطانوی پالیسی یہ ہوگی کہ وہ ہر ڈومینین کو پوری بغیر حد بندیوں کے اور کامل مقامی آزاد گورنمنٹ دے دے گا- اور اس وقت تک دخل نہ دے گا جب کہ ڈومینین کوئی ایسا فعل نہ کر لے جو برطانوی حکومت سے اس کے وفادارانہ تعلقات کے خلاف ہو-۱۹؎ لیکن اس عرصہ میں اور تغیرات پیدا ہو گئے ہیں- اور ان کے مطابق ڈومینینز کو اور بھی زیادہ اختیارات مل چکے ہیں- اور گو اب بھی رسمی طور پر برطانوی حکومت کو ڈومینینز

Page 422

۳۷۹ کے قوانین کے متعلق ویٹو کا اختیار حاصل ہے- لیکن عملاً اس کو کلی طور پر چھوڑ دیا گیا ہے- چنانچہ ۱۹۲۰ء میں کوئینزلینڈ (QUEEN'SLAND) میں ایک قانون پاس کیا گیا- جس کے خلاف وہاں کے زمینداروں نے بھی اور برطانیہ کے زمینداروں نے بھی شور مچایا کہ یہ قانون قانون اساسی کے خلاف ہے- اور اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ گورنمنٹ زبردستی زمینداروں کی زمینیں چھین لے- لیکن برطانوی گورنمنٹ نے دخل دینے سے انکار کر لیا کہ ہم ڈومینینز کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دے سکتے- صرف ایک امر کا ڈومینینز کو اختیار حاصل نہیں ہے- اور وہ ان کا اپنے علاقہ کو بڑھانے اور گھٹانے کا سوال ہے- اس معاملہ میں وہ برطانیہ کی مرضی کی پابند ہیں- بیرونی تعلقات کے لحاظ سے بھی جنگ کے بعد سے ڈومینینز کو بہت آزادی حاصل ہو چکی ہے وہ اپنے طور پر مگر بعد اجازت برطانیہ کے دوسری حکومتوں سے معاہدہ بھی کر سکتی ہیں- اور ۱۹۲۴ء میں جنوبی آئرلینڈ سے معاہدہ کرتے وقت برطانیہ نے سب ڈومینینز کا حق تسلیم کر لیا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینے پر مجبور ہونگی جب کہ برطانیہ پر کوئی اور حکومت حملہ آور ہو ورنہ اگر برطانیہ کسی اور حکومت سے جنگ کرے تو لازمی نہیں کہ وہ اس جنگ میں شریک ہوں- بلکہ ان کی پارلیمنٹوں کو اختیار ہوگا کہ وہ خواہ عملی طور پر جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کریں، خواہ علیحدہ رہنے کا- معاہدات کے متعلق بھی تسلیم کر دیا گیا ہے کہ اگر ڈومینینز سے کسی معاہدہ کے متعلق مشورہ نہ کیا جائے گا اور ان کی طرف سے اس معاہدہ پر دستخط نہ ہونگے- تو ڈومینینز پر اس معاہدہ کا کوئی اثر نہ ہوگا- ۱۹۲۴ء میں مسٹر بونرلسابق وزیراعظم نے امپیریل کانفرنس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اس امر کا اقرار کیا کہ ڈومینینز کو یہ بھی حق ہے کہ جب وہ چاہیں، برطانیہ سے علیحدگی کا اعلان کر کے کامل طور پر آزاد ہو جائیں- ساؤتھ افریقہ اور کینیڈا کی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر اس حق کے حاصل ہونے کا اعلان کر چکی ہیں- ۲۰؎ اوپر میں نے جو ڈومینینز کی حکومت کے قواعد بتائے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہے کہ ڈومینین کی حکومت سے مراد ایک آزاد حکومت ہے- صرف اس فرق کے ساتھ کہ فی الحال وہ برطانیہ کے بادشاہ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتی ہے- اور اپنے آپ کو برطانوی حکومت کا جزو تسلیم کر کے اس کی شوکت کو بڑھاتی ہے اور اس کے رسوخ سے خود فائدہ اٹھاتی ہے- مگر باوجود اس

Page 423

۳۸۰ کے یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ جب چاہے برطانیہ سے اپنا تعلق توڑ دے- دوسری حدبندی اس کی کامل آزادی پر یہ ہے کہ جب تک وہ جدا نہ ہو وہ اہم خارجی معاملات کے تصفیہ میں برطانوی حکومت کے توسط سے کام لیتی ہے ورنہ اندرونی طور پر وہ پوری طرح مختار ہے- وہ نہ صرف عام قوانین اپنے لئے بنا سکتی ہے، بلکہ اپنے قانون اساسی کو بھی بدل سکتی ہے- اس قسم کی آزاد حکومت ہے جس کا مطالبہ اس وقت نہرو کمیٹی نے کیا ہے اور اس مطالبہ میں تمام ہندوستان سوائے چند لوگوں کے اس کے ساتھ شامل ہے- مگر سوال یہ ہے کہ ایسی آزاد حکومت کے قوانین میں تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے- کیونکہ اس وقت ہم نے اسی امر پر غور کرنا ہے کہ اگر موجودہ فیصلہ جو نہرو کمیٹی نے کیا ہے ہمارے موافق نہ ہو تو کیا ہم اسے بدلوا سکیں گے- اور اگر بدلوا سکیں گے تو کس طرح؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی حکومت میں قوانین کو بدلوانے کے تین ہی طریق ہیں- ۱-کثرت رائے سے قوانین کو بدل دینا- ۲-مقابلہ کر کے حکومت کو مجبور کرنا- ۳-بیرونی حکومتوں کی مدد سے حکومت کو مٹا دینا- میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ اس وقت نہرو کمیٹی کے فیصلہ پر متفق ہیں- وہ ان تینوں امور میں سے ایک نہ ایک کو اپنے آئندہ دکھوں کا علاج سمجھ رہے ہیں- بعض خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ حقوق جو ہم نے آج چھوڑ دیئے ہیں، کل کو ہمارے لئے ضروری معلوم ہوئے تو ہم پھر مجالس قوانین کے ذریعہ سے قوانین کو بدلوا لیں گے- بعض خیال کرتے ہیں کہ بیشک کونسلوں کے ذریعہ سے تو ہم نہیں بدلوا سکتے لیکن اگر کسی تبدیلی کی ضرورت ہوئی تو ہم مقابلہ کر کے زور سے اپنی مرضی کے مطابق قوانین بدلوا لیں گے- بعض سمجھتے ہیں کہ ہم میں زور نہیں ہے لیکن ہندوستان کی ہمسایہ حکومتیں مسلمان ہیں ان کی مدد سے ہم ایسی حکومت کو تباہ کر دیں گے جو ہمارے حقوق کے حصول میں روک ڈالے گی- اس لئے میں الگ الگ تینوں طریقوں کو لیکر بتاتا ہوں کہ ڈومینین حکومت کے اصول کے مطابق یہ تینوں طریق بظاہر ناممکن ہیں اور ان میں سے ایک کے ذریعہ بھی مسلمان اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ لے سکیں گے- کونسلوں کے ذریعہ مسلمانوں کا مطالبات حاصل کرنا پہلا امر کہ کونسلوں کے ذریعہ سے مسلمان اپنے مطالبات کو پورا کر لیں گے- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے جس قدر مطالبات ہیں سب کے سب آئندہ قانون اساسی میں مرکزی حکومت کے سپرد کئے گئے ہیں اور مرکزی حکومت میں

Page 424

۳۸۱ نہرو کمیٹی میں مسلمانوں کو موجودہ حق نیابت سے بھی کم حق دیا ہے یعنی صرف چوتھائی- پس جب کہ ہمارا موجودہ تجربہ یہ ہے کہ تیس فیصدی حق کے باوجود بھی مسلمان اسمبلی میں اپنی مرضی نہیں منوا سکتے- حالانکہ بعض دفعہ وہ گورنمنٹ کے ممبروں سے بھی مل جاتے ہیں- تو آئندہ پچیس فیصدی ممبروں کے ساتھ وہ کیا کچھ کر سکیں گے اور خصوصاً جب کہ انگریز ممبروں کا عنصر آزاد حکومت میں سے بالکل مٹ جائے گا- پھر خصوصاً جب کہ سوال کسی عام پالیسی کا نہ ہوگا، بلکہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی طاقت موجودہ قوانین کی وجہ سے کمزور ہے- ان کو طاقتور کرنے کے لئے قوانین میں تبدیلی کرنی چاہے اور ان کے پرانے مطالبات کو پورا کر دینا چاہئے- کیا کوئی عقلمند ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم کر سکتا ہے کہ اس سوال کے پیش ہونے پر ایک ہندو بھی مسلمانوں کے حق میں ووٹ دے گا- اور کیا کوئی عقلمند بھی اس امر کو تسلیم کر سکتا ہے- کہ اس صورت میں پچیس فی صدی ممبر پچھتر فیصدی ممبروں کی رائے کے خلاف قانون پاس کرا لیں گے- اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ جس قانون کی تبدیلی کا سوال ہوگا وہ قانون اساسی ہے نہ کہ عام قوانین اور قوانین اساسی کی تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے- نہرو کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے صفحہ۱۲۳ پر قانون اساسی کے بدلنے کا مندرجہ ذیل طریق پیش کیا ہے-: ‏ پارلیمنٹ نیا قانون بنا کر قانون اساسی کی جس دفعہ کو چاہئے منسوخ یا تبدیل کر سکتی ہے- مگر شرط یہ ہوگی کہ وہ بل جس میں قانون اساسی کی تبدیلی کا سوال اٹھایا گیا ہو وہ پارلیمنٹ کی دونوں مجلسوں کی مشترکہ میٹنگ میں پاس ہوا ہو- اس طرح کہ تیسری دفعہ ووٹ لیتے وقت دونوں مجالس کے ممبروں کی کل تعداد میں سے کم سے کم دو تہائی ممبر دونوں مجالس کے اس کے پاس کرنے پر متفق ہوں’‘- اس قاعدہ کی رو سے مسلمانوں کو اگر محسوس ہو کہ انہوں نے نہرو کمیٹی کی رائے کو قبول کرنے میں غلطی کی ہے- اور اپنے مطالبات کے چھوڑنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے تو انہیں موجودہ مطالبات پورا کرانے کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہوگا کہ ان کا ہر ایک ممبر اس وقت مجلس میں موجود ہو اور ان کے پیش کردہ مسودہ کی تائید کرے، بلکہ یہ بھی ضروری ہوگا کہ ہندو ممبروں کی کل تعداد میں سے بھی بیالیس فیصدی یعنی دو سو چونتیس ممبران کی تائید میں ہوں- کیا کوئی نیم مجنون بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ ایک ایسے مسودہ کی تائید جس کا مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو اور جس کی وجہ سے ہندوؤں کو اپنے بعض غصب کئے ہوئے حقوق واپس کر دینے پڑتے

Page 425

۳۸۲ ہوں، اس قدر ہندو ممبر کسی وقت بھی کرنے کے لئے تیار ہونگے- اور یہ اندازہ بھی درحقیقت تھوڑا ہے کیونکہ یہ فرض کر لینا کہ کوئی وقت ایسا آئے گا کہ سب کے سب پارلیمنٹ کے ممبر جمع ہو جائیں گے درست ہی نہیں- یورپ کی پارلیمنٹوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا- سات سو کی تعداد میں سے کچھ بیمار ہونگے، بعض کے رشتہ دار بیمار ہونگے، بعض کو ایسے کام پیش آ جائیں گے جن کو چھوڑ کر وہ نہ آ سکیں گے- پس بیس فی صدی ممبروں کو غیر حاضر فرض کر لینا چاہئے- اور اس صورت میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے حاضر الوقت ممبروں میں سے ساٹھ فیصدی ممبروں کی تائید کی ضرورت ہوگی- میں پھر پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی مسلمان خواہ اس وقت وہ کس قدر ہی نہروکمیٹی کی تائید میں ہو یہ کہہ سکتا ہے کہ آج سے دس سال کے بعد اگر معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے مخلوط انتخاب مضر ثابت ہوا ہے- جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہونگے کہ ہندو اپنی تعداد سے زیادہ ممبریاں لے جاتے ہیں- یا ایسے مسلمان ممبر بھیج دیتے ہیں جو بجائے مسلمانوں کے فائدہ کے ہندوؤں کا فائدہ کریں، تو اس وقت خود ہندوؤں میں سے ۶۰ فیصدی ممبرپارلیمنٹ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بات پر ووٹ دیں گے کہ ہندوؤں کو اس فائدہ سے روکا جائے اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دے دیا جائے- یا یہ کہ صوبہجات کو اندرونیمعاملات میں آزاد حکومت دے دی جائے- اگر نہیں اور ہر عقلمند کہے گا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، تو میں پوچھتا ہوں کہ جب بعد میں اپنے حقوق واپس لینے ناممکن ہونگے تو کیوں ابھی ان کے حصول پر زور نہ دیا جائے- زور سے اپنے مطالبات پورے کرانا دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان زور سے اپنے حقوق لے لیں- اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کیا مسلمان اپنے اندر وہ زور محسوس کرتے ہیں؟ اس وقت انگریز اس ملک پر حاکم ہیں اور وہ چونکہ غیر ملک کے باشندے ہیں، ان کی تعداد یہاں صرف چند لاکھ ہے- ہندو مسلمان دونوں ان سے حکومت واپس لینے پر متفق ہیں- مگر کیا باوجود اس کے ہمارا زور اس حد تک کارآمد ہوا ہے کہ فوراً حکومت کو بدل دیں- اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس وقت جب کہ ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہوگی- اور اس حکومت کی پہلی شکل کو قائم رکھنے کا فائدہ چند لاکھ نہیں بلکہ چھبیس کروڑ آدمیوں کو پہنچتا ہوگا کیا مسلمان کسی قسم کا بھی زور دکھا سکیں گے- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ فوج مرکزی حکومت کے قبضہ میں ہوگی اور یہ خیال

Page 426

۳۸۳ کرنا کہ مسلمان سپاہی اس گورنمنٹ کو چھوڑ کر جس کے وہ تنخواہ دار ہونگے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ایک بعید از قیاس امر ہے- اب بھی دیکھ لو کہ وہ برطانوی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں یا ہندوستانیوں کا- سپاہی کی اٹھان ہی وفاداری کے جذبات پر ہوتی ہے- اور وہ حکومت کی مخالفت کا ارتکاب کرنے کیلئے جلد تیار نہیں ہوتا- نیز آجکل فوج کا نظام ایسا ہے کہ کوئی حصہ بغاوت نہیں کر سکتا کیونکہ کوئی حصہ فوج کا اپنی ذات میں مکمل نہیں ہوتا- بلکہ چھ سات قسم کی فوج ہوتی ہے- جو جنگ کے وقت ایک دوسرے کی محتاج ہوتی ہے- اور ہر حصہ جانتا ہے کہ اگر میں علیحدہ ہو جاؤں تو خود تباہ ہو جاؤں گا- علاوہ ازیں ہوائی جہاز اور ٹینک اور نئی قسم کی توپوں نے اب جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا ہے- ایک جہاز ایک علاقہ کے علاقہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے- ایک ٹینک ایک فوج کا مقابلہ کر سکتا ہے- غرض اب جنگ آلات جنگ پر منحصر ہے، نہ کہ انسانی طاقت اور شجاعت پر- اور اس وجہ سے بہادری اور قربانی بغیر آلات جنگ کے وہ نفع نہیں پہنچا سکتی جو آج سے پہلے پہنچا سکتی تھی- اسی وجہ سے آج کل جن ملکوں میں بغاوت ہوتی ہے- وہ ایک حصہ رعایا کی بغاوت نہیں ہوتی، بلکہ سب ملک کی بغاوت ہوتی ہے- لوگ اندر ہی اندر سب ملک کو اکستاتے ہیں اور فوج اور حکام اور رعایا یک دم مقابلہ کرتی ہے- اور صرف چند اعلیٰ افسر مقابلہ پر رہ جاتے ہیں لیکن ہندوستان میں یہ صورت مسلمانوں کیلئے کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتی- کیونکہ اکثر حصہ آبادی کا ہندو ہے اور لامحالہ ان کو ہندو گورنمنٹ سے ہی ہمدردی ہوگی- علاوہ ازیں مسلمانوں کو اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہندو قوم بنئے کا ہی نام نہیں- پنجاب کے مسلمان عام طور پر اسی وہم میں مبتلاء ہیں کہ ان بنیوں نے ہمارا کیا مقابلہ کرنا ہے- حالانکہ سکھ بھی تمدنی لحاظ سے ہندوؤں میں شامل ہیں گو مذہبا وہ ان سے دور اور مسلمانوں کے قریب ہیں- دوسرے بعض سیاسی حالات ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ جب تک کوئی خاص دل و دماغ کا لیڈر پیدا نہ ہو سکھ سیاستاً بھی ہندوؤں سے ملنے پر مجبور ہونگے کیونکہ سکھ صرف پنجاب میں ہیں- اور یہاں انہیں ویسی ہی اہمیت حاصل ہے جو تمام ہندوستان میں مسلمانوں کو حاصل ہے- لیکن پنجاب کے مخصوص حالات کے ماتحت کہ یہاں کی اکثریت جو مسلمانوں پر مشتمل ہے بہت تھوڑی ہے، انہیں خاص حقوق نہیں دئے جا سکتے- اور ان کی اس خواہش کے پورا ہونے میں روک مسلمان ہیں- پس وہ ان حالات سے مجبور ہیں کہ ہندوؤں سے سمجھوتہ کریں- اسی وجہ سے باوجود مسلمانوں کی کوشش کے اور گوردواروں کے معاملہ میں ہندو قوم کے مقابلہ کے

Page 427

۳۸۴ سکھ ہندوؤں سے زیادہ ساز باز رکھتے ہیں- سکھوں کے علاوہ خالص ہندو اقوام جو لڑنے کے قابل ہیں ہندو جاٹ، ہندو راجپوت، ڈوگرے، پوربی، مرہٹے اور جنوبی ہند کی بہت سی اقوام ہیں- گورکھے گو مذہبا بدھ ہیں مگر وہ اپنے آپ کو ہندو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں- پس یہ خیال کر لینا کہ ہندوؤں میں طاقت کہاں سے آئی- ایک وہم اور ایک دل خوش کن لیکن تباہ کرنے والے خیال سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا مسلمان اس امر پر پھول رہے ہیں کہ اس وقت فوجوں میں مسلمانوں کا عنصر زیادہ ہے، حالانکہ یہ انگریروں کی پالیسی ہے ایک ایسے ملک میں کہ جس میں ہندو آبادی زیادہ ہے- اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے انگریزوں کی مصلحت یہی ہونی چاہئے کہ وہ قلیل التعداد جماعتوں کو ان کی نسبت سے زیادہ فوج میں بھرتی کریں- لیکن ایک آزاد ہندوستان میں یہ ضرورت نہ رہے گی- بلکہ اس کے برخلاف اکثریت کو یہ خیال ہوگا کہ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنے ہم مذہبوں کی فوج کو بھرتی کریں- اور سکھ، ڈوگرے، راجپوت، جاٹ، مرہٹے، گورکھے، پوربی اور جنوبی ہند کی اقوام کو ملا کر کم سے کم پانچ چھ کروڑ کی آبادی ہے جس میں سے فوج باسآنی بھرتی کی جا سکتی ہے- پس یہ خیال ہم زور سے منوا لیں گے، ایک شیطانی وسوسہ ہے، جسے جس قدر جلد دل سے نکالا جائے اسی قدر اچھا ہے- بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم عدم تعاون سے کام لیں گے- لیکن یاد رہے کہ عدم تعاون بڑی جماعت چھوٹی جماعت کے مقابلہ میں استعمال کر سکتی ہے- نہ کہ چھوٹی جماعت بڑی جماعت کے مقابلہ میں- تھوڑے سے لوگ اور خصوصاً وہ لوگ جن کے کام پر ملک کا تمدن یا ملک کی سیاست قائم نہیں، بہتوں کے مقابلہ میں کر کیا سکتے ہیں- بروولی میں ہندوستانیوں کو کیا طاقت حاصل تھی- یہی کہ ملک ان کے ساتھ تھا- انگریز اپنے ملک سے آکر ہندوستان کی زمینداریاں خرید نہیں سکتے تھے- لیکن اگر کسی وقت ہندو مسلمان کا مقابلہ ہو، تو ہندوؤں کو وہ دقت نہ ہوگی جو انگریزوں کو ہے- ان کے پاس ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین تین ہندو موجود ہونگے- پس عدم تعاون سے مقابلہ کا خیال بھی بالکل دور از قیاس ہے- بیرونی ممالک کی امداد سے مطالبات حاصل کرنا تیسری صورت یہ ہے کہ بیرونی ملکوں سے ملکر مسلمان اپنے حقوق واپس لے لیں- مگر یہ بھی ممکن نہ ہوگا- کیونکہ اول تو دوسرے ملکوں کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ ان کی خاطر ایک زبردست ہمسایہ طاقت سے لڑیں- کیا اس سے پہلے قریب کے زمانہ میں کسی

Page 428

۳۸۵ اسلامی حکومت نے بھی دوسری اسلامی حکومت کی مدد کی ہے کہ ہندوستان کی رعایا کی مدد کرنے کے لئے پاس کی حکومتیں آ جائیں گی- دوسرے یہ خیال کہ اگر کوئی حکومت باہر سے آئے گی تو وہ صرف مسلمانوں کو حق دے کر واپس چلی جائے گی اور صرف اس کام کے لئے لاکھوں جانوں اور اربوں روپیہ کا نقصان قبول کرے گی، ایک مجنونانہ خیال ہے- جو باہر سے حملہ کرے گا وہ یا سب مفتوحہ ملک کا مطالبہ کرے گا یا ایک حصہ کا- اور میں سمجھتا ہوں کہ اس خیال کے خلاف خود مسلمانوں کا ہی ایک حصہ کھڑا ہو جائے گا- اور وہ بیرونی لوگوں کو اپنے ملک میں گھسنے دینے کیلئے تیار نہ ہوگا- تیسرے یہ کہ اگر بفرض محال کوئی بیرونی قوم اس امر کے لئے تیار ہوئی بھی تو ہندوستان جیسے وسیع ملک کا مقابلہ اور پھر اس حالت میں کہ وہ جدید آلات حرب کا ذخیرہ رکھتا ہو کونسی قوم کرے گی- افغانستان کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے- اس سے ڈیوڑھی ایران کی ہے- ہندوستان کی آبادی تینتیس کروڑ ہے- چوتھے اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کو نو آبادی کی حکومت ملنی ہے نہ کہ خود مختار- اس لئے ہندوستان پھر بھی برطانویحکومت کا جزو ہوگا- اور ساری برطانوی طاقت ایسے وقت میں ہندوستان کی حفاظت کیلئے جمع ہو جائے گی- پس دنیوی سامانوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ امر بھی ناممکن ہے- اور علاوہ ازیں ایسی امید رکھنی اخلاقی طور پر بھی ایک بہت بڑا گناہ اور قومی غداریہے- ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ چونکہ ہندوستان کامل طور پر آزاد نہ ہوگا- ہم برطانوی حکومت سے اپیل کر کے اپنے حقوق لے لیں گے- لیکن جو کچھ میں اوپر ڈومینین گورنمنٹ (DOMINIONGOVERNMENT) کے حقوق کے متعلق لکھ آیا ہوں، اس کو غور سے دیکھنے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ صورت بھی ناممکن ہے- اول تو اس لئے کہ یہاں سوال یہ نہیں کہ ہندو ہمارے حقوق چھین لیں گے- بلکہ سوال یہ ہے کہ اس وقت بعض حقوق ہم اپنی مرضی سے چھوڑ رہے ہیں- اگر بعد میں ہمیں اپنی غلطی معلوم ہو تو ان حقوق کو پھر تسلیم کرانے کا کیا ذریعہ ہے- اب یہ بات قانون سے واضح ہے کہ گو برطانیہ نے رسمی طور پر ڈومینینز کے فیصلوں کو رد کرنے کا حق تو محفوظ رکھا ہے- لیکن یہ حق برطانیہ کو رسما بھی حاصل نہیں کہ وہ نئی بات ڈومینینز سے منواوے- پس قانوناً اس سوال میں برطانیہ کو بھی کوئی اختیار حاصل نہ ہوگا- اور اگر برطانیہ کو کوئی حق حاصل بھی ہو تو بھی کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے- کہ برطانیہ ایسے معاملہ میں دخل دینا پسند کرے گا- میں برطانیہ پر حسن ظن رکھتا ہوں مگر میں بھی جو

Page 429

۳۸۶ اس پر حسن ظن رکھتا ہوں ایک منٹ کے لئے خیال نہیں کر سکتا کہ برطانیہ کسی دوسرے کے لئے اپنے قومی نقصان کو برداشت کر لے گا- ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ڈومینین حکومت کا تعلق برطانوی حکومت سے صرف قلبی ہوتا ہے کوئی مادی طاقت اسے برطانوی حکومت سے وابستہ نہیں کرتی- اس کی فوجیں اپنی، اس کی ممبری طاقت اپنی، اس کا نظام اپنا، ایک گورنر ہی ہے نا جو برطانیہ سے آتا ہے اور وہ بھی بے اختیار اور جب نو آبادیوں کو یہ حق بھی حاصل ہو کہ جب وہ چاہیں، برطانیہ سے الگ ہو جائیں تو کب ممکن ہو سکتا ہے کہ برطانیہ ایک قلیل التعداد جماعت کی خاطر ایک اتنی بڑی حکومت کو ناراض کر لے گا جو اس کے تاج کا ہیرا کہلاتی ہے- برطانیہ کا انصاف اس وقت تک ہے جب تک کہ اس کے قومی فوائد کو نقصان نہیں پہنچتا- جس وقت اس کے قومی فوائد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو وہ ایسے معاملہ کو اس کی اندرونی حقیقت کے لحاظ سے نہیں دیکھے گا- بلکہ شاہی مصالح کی نگاہ سے دیکھے گا- یاد رکھنا چاہئے کہ قلیل التعداد جماعتوں کا ساتھ کوئی نہیں دیا کرتا جب تک اپنا ذاتی فائدہ نہ ہو- قلیل التعداد جماعتوں کو اپنے فوائد کی نگرانی خود ہی کرنی پڑتی ہے- میں اس امر کے متعلق کہ قلیل التعداد جماعت کو انصاف پانے میں نہایت دقت ہوتی ہے، اس شخص کی شہادت پیش کرتا ہوں جو اس وقت اس مسئلہ کا سب سے بڑا عالم ہے- میری مراد پروفیسر گلبرٹ مرے سے ہے- یہ صاحب جنگ عظیم کے بعد صلح کی کانفرنس میں برطانوی سفارت کے ساتھ بطور ماہر فن کے بھیجے گئے تھے- اور اس کے بعد لیگ آف نیشنز (LEAGUEOFNATIONINS) کی تنظیم میں بھی انہوں نے کام کیا ہے- انہیں قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق کا خاص خیال ہے- چنانچہ انہوں نے لیگ میں کئی مفید تجاویز ایسی پیش کی ہیں- جن میں قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق کی حفاظت کو مدنظر رکھا گیا ہے- یہ صاحب دی پروٹیکشن آف مائناریٹیز )(PROTECTIONOFMINORITIES مصنفہ مس ایل- پی- میر ایم اے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں-: ‘’وہ فرض جو کونسل کا مقرر کیا گیا تھا- وہ اس عظیم الشان مجلس کی شرمیلی شرافت کو کسی قدر مرعوب کرنے والا ثابت ہوا ہے- مظلوم اقلیتوں کی حمایت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی ہر دلعزیزی کھو بیٹھے- اور کونسل کے کسی ممبر نے شکایتیں سننے یا بے انصافی کے دور کرنے میں کوئی غیر واجبی چستی نہیں دکھائی’‘- ۲۱؎

Page 430

۳۸۷ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قلیل التعداد جماعتوں کی اپیلیں بھی چنداں کارگر نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کی مدد کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کثیر التعداد جماعتوں سے لڑا جائے- اور دوسرے کی خاطر اس بکھیڑے میں پڑنے کو کوئی پسند نہیں کرتا- پس اس دروازہ کو بھی مسلمانوں کو بند ہی سمجھنا چاہئے- کیا مسلمان نہیں دیکھتے کہ جس وقت سے اصلاحات جاری ہوئی ہیں- انگریزوں میں سے اکثر حصہ روز بروز ہندوؤں کے ہاتھوں میں پڑتا جاتا ہے- انگریزیاخباروں کو پڑھ کر دیکھو- وہ یہ استثنائے چند سب کے سب ہندوؤں کی تائید میں ہیں- انگریز مدبروں کی تقریریں پڑھو وہ سب کے سب ہندوؤں کے نقطہ نگاہ کے موید ہیں- انگریز حکام کو دیکھو- وہ ہندو قوم کی پیٹھ پر ہاتھ دھرتے ہیں- آخر یہ کیا بات ہے- کیا مسلمان سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندو حق پر ہیں اور مسلمان ناراستی پر- اگر ان کا یہی خیال ہے تو وہ اپنی ناراستی کو کیوں نہیں چھوڑتے اور کیوں سچائی کو اختیار نہیں کرتے- لیکن اگر یہ بات نہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ فوری تبدیلی اصلاحات کی وجہ سے ہے- چونکہ اس ملک میں نیابتی حکومت کی بنیاد ڈالدی گئی ہے- اس لئے انگریر بھی روز بروز ہندوؤں کی طرف جھک رہے ہیں- ان کے اندر وہی معقولہ تغیر پیدا کر رہا ہے کہ-: یار غالب شو کہ تا غالب شوی اور ابھی تو ابتداء ہے- جس وقت ہندوستان کو کامل نیابتی حکومت مل گئی اور اسمبلی پر ہندوؤں کا قبضہ ہو گیا اس وقت تو انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہو گا کہ ہندوؤں کی خوشی اور رضا کو حاصل کریں- آئرلینڈ میں اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوں کے مقابلہ میں اگر جنوبی آئرلینڈ والوں کی بات کو انگریزوں نے تسلیم کر لیا تھا، تو ہندوستانی مسلمانوں کا ساتھ خلاف مصالح ملکی کے وہ کب دینے لگے- پس مسلمانوں کو آج ہی ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اپنے حقوق محفوظ کر لینے چاہئیں- ورنہ جو کچھ وہ آج چھوڑیں گے، کل انہیں کسی صورت میں نہیں مل سکے گا اور ان کے لئے دو ہی دروازے کھلے ہونگے- یا اپنے مذہب کو خیر باد کہہ کر ہندوؤں سے جا ملنا اور یا پھر آہستہ آہستہ اپنی قوم کو تباہ اور برباد ہونے دینا- کیا ان دونوں طریقوں میں سے کسی کو بھی مسلمان پسند کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو میں آج انہیں یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوتا ہوں کہ اپنے حقوق لینے کا یہی وقت ہے- اس وقت آپ نے غلطی کی تو پھر آپ کا ٹھکانا کہیں نہ ہوگا- پس جلد بازی سے آزاد حکومت کی لالچ میں اپنی موجودہ آزادی کو بھی نہ کھو ڈالیں اور

Page 431

۳۸۸ ایک دوسرے سپین کا نظارہ پیدا نہ کریں کہ ہمارے رونے کے لئے پہلا سپین ہی کافی ہے- میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو- اب جب کہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے، اس لئے جو جائز کوشش کی جائے، میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں- مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں- اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کر لیا جائے، اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں گے ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہو گی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو کمیٹی کے مخالف جو مسلمان ہیں خواہ مسلم لیگ کے ممبر ہوں خواہ خلافت والے خواہ دوسرے لوگ، ان کے وہ مطالبات جو میں اوپر لکھ آیا ہوں، اگر ان کی بناء پر فیصلہ ہو تو پھر مسلمانوں کو فیصلہ کی تبدیلی کا خوف نہیں رہتا- کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں- اور اگر بعد میں ان احتیاطوں کے ضرورت نہ رہے تو قوانین کا تبدیل کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا- کیونکہ ان کے بدلنے میں مسلمانوں کا فائدہ نہیں بلکہ ہندؤوں کا فائدہ ہو گا اور ہندو اس تبدیلی کی مخالفت نہیں کریں گے- کیا قلیل التعداد جماعتوں کو خاص قوانین کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو مدتوں سے زیر بحث ہے- رومی امپائر (EMPIRE) نے یہودیوں کے متعلق چند سال کے لئے عارضی طور پر اور اسلامی حکومت نے ابتدائے عہد سے غیر مسلموں کے متعلق ایسے قوانین کو جاری کیا تھا کہ جن سے اقلیتوں کی حفاظت ہو سکے- قسطنطنیہ کی فتح پر محمد ثانی نے مسیحیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے خاص قواعد بنائے- جن کا بیشتر حصہ فروری ۱۹۲۶ء تک جاری رہا- جبکہ ترکی حکومت نے اسلامی قوانین کی جگہ سوئیٹزرلینڈ کا قانون دیوانی اپنے ملک میں جاری کر دیا- لیکن اس سوال کو بین الاقوامی حیثیت سب سے پہلے ۱۸۱۴ء میں حاصل ہوئی ہے- جبکہ کانگریس آف وینا (VIENNA) نے یونائیٹڈ نیدر لینڈ (UNITEDNETHERLAND) کی نئی حکومت قائم کی- چونکہ اس ملک میں دو مذہب اور دو زبانیں بولی جاتی تھیں- اس لئے

Page 432

۳۸۹ قلیل التعداد جماعتوں کی حفاظت کے لئے ایک دستاویز لکھی گئی جو تاریخ میں ‘’آٹھ دفعات’‘ کے نام سے مشہور ہے اس کی دفعہ دو یہ ہے- ‘’قانون اساسی کی ان دفعات میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکے گی جو تمام مذاہب کو یکساں حق اور آزادی عطا کرتے ہیں- اور سب شہریوں کو خواہ ان کا کوئی مذہب ہو- سرکاریعہدوں اور اعزازوں کا مستحق قرار دیتے ہیں’‘-۲۲؎ پھر دفعہ چار یہ ہیں کہ-: ‘’تمام باشندگان نیدرلینڈز اس طرح برابر کے حقوق حاصل کر کے تمام ایسے تجارتی اور دوسرے حقوق پر یکساں دعویٰ رکھیں گے، جن کی ان کے حالات اجازت دیتے ہیں- اور کوئی روک یا مشکل ان کے راستہ میں نہ ڈالی جائے گی- جس سے دوسریقوم زیادہ فائدہ حاصل کر لے’‘-۲۳؎ چونکہ اس وقت تک صرف مذہب ہی اختلاف کا موجب سمجھا جاتا تھا- اس لئے اسی کا ذکر اس معاہدہ میں کیا گیا تھا- گو بعد میں ثابت ہوا کہ اکثریت اقلیت کو تباہ کرنے کے لئے اور ذرائع بھی ایجاد کر لیتی ہے- چنانچہ نیدرلینڈز میں فلیجنگ زبان کو دبا کر جو اقلیت کی زبان تھی، اقلیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی- اس کے بعد ۱۸۳۰ء میں یونان کی حکومت کے قیام کے وقت ۱۸۶۳ء میں جزائر آیونین کی علیحدگی کے وقت ۱۸۵۶ء میں رومانیہ کی علیحدگی کے وقت کانگرس آف برلن میں ۱۸۷۸ء میں سرویا مانٹینگرو اور بلغاریہ کے علاقوں کے متعلق اقلیتوں کی حفاظت کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا اور ایسے قوانین تجویز کئے گئے کہ اقلیتوں کے حقوق تلف نہ ہو سکیں- جنگ عظیم کے بعد یورپ میں نئی تبدیلیاں ہوئیں تو پولینڈ، لتھیونیا، لٹویا، استھونیا، آسٹریا، ہنگری، رومانیا، زکوسلویکا ،(CZECHOSLOVAKIA) یوگوسلیویا (YUGOSLAVIA) سے خاص معاہدات لئے گئے، جن کا نام معاہدات متعلق اقلیت ہے- ان معاہدات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی ہے- کہ اقلیتوں کے حقوق اکثریتوں کے دستتصرف سے محفوظ رہیں- اوپر کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے- کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت صدیوں سے زیربحث ہے اور اقوام عالم اس کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں- اور اس وقت عام طور پر یہ امر

Page 433

۳۹۰ تسلیم کیا جاتا ہے- کہ اقلیتوں کو خصوصاً جبکہ وہ ممتاز وجود رکھتی ہوں- خاص حفاظت کی ضرورت ہے- اور اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف یہ ہے کہ بعض اقوام اس امر کی دعویدار ہیں کہ ان کے ملکوں میں چونکہ اقلیتوں کو اکثریت سے کوئی اختلاف نہیں، اس لئے ان کے ملک میں یہ قانون نہ جاری کیا جائے- لیکن دوسری اقوام کہتی ہیں کہ نہیں- جب ہمارے ملک میں یہ قانون جاری کیا گیا ہے- تو سب اقوام کو اس پر عمل کرنے کا معاہدہ کرنا چاہئے- چنانچہ دیپروٹیکشن آف مائناریٹیز کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے-: ‘’لیکن پریزیڈیٹ ولسن (PRESIDENTWILSON) نے اس امر کا کوئی جواب نہ دیا کہ اقلیتوں کی حفاظت کا قانون ان تمام حکومتوں میں جاری ہونا چاہئے جن میں اقلیتیں پائی جاتی ہیں- یہ سوال اب تک بھی بغیر جواب کے پڑا ہے- اور وہ عدممساوات جو ان معاہدات سے پیدا ہوئی ہے- )کہ نئی حکومتوں کو اس کا پابند کیا گیا ہے لیکن پرانی حکومتوں کو نہیں( اس کو بہ نسبت اس اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے جسے ان معاہدات میں جائز قرار دیا گیا ہے، بہت زیادہ بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے’‘- جنگ عظیم کے بعد جن ملکوں میں نئی اقلیتیں آئی ہیں- ان میں سے ایک اٹلی بھی ہے جس سے اقلیتوں والا معاہدہ نہیں لیا گیا- لیکن وہاں جو حال اقلیتوں کا ہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اقلیتوں کو حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے- )اور مسلمان بھی اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ اگر خود حفاظتی کے بغیر انہوں نے ہندؤوں سے سمجھوتا کر لیا تو ان کا کیا انجام ہو گا( اٹلی کو جو نیا علاقہ جنگ کے بعد ملا ہے، اس میں سے کچھ تو وہ ہے جس میں جرمن آبادی پائی جاتی ہے اور کچھ وہ ہے جس میں سرب اور کروٹس پائے جاتے ہیں- ان لوگوں سے اٹلی نے جو ہندوستان سے یقیناً زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے، کیا سلوک کیا ہے- وہ خود سینور میوز لمینی کی ایک گفتگو سے ظاہر ہے- فروری ۱۹۲۶ء کو فرانس کے ایک اخبار کے نمائندہ کے سوال کے جواب میں انہوں نے بیان کیا کہ-: ‘’جب میں نے جنوبی ٹائرال کا معائنہ کیا- )آسٹرین علاقہ جو اب اٹلی کو ملا ہے اور جس میں جرمن نسل کے لوگ بستے ہیں( تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہر ایک چیز جرمنی اثر کے ماتحت ہے- گرجہ، سکول، پبلک، کارکن، ریل اور پوسٹ آفس کے افسر سب

Page 434

۳۹۱ جرمن ہیں ہر جگہ پر صرف جرمنی زبان ہی سننے میں آتی تھی- اور لوگ ایسے گیت گاتے تھے جن کا روم میں گانا فوری گرفتاری کا موجب ہوتا- اب اس علاقہ کے ہر ایک سکول میں اٹالین زبان لازمی ہے تمام ڈاک خانہ اور ریل کے افسر اٹالین ہیں- اور اب ہم وہاں بہت سے اطالوی خاندان بسانے کی فکر میں ہیں- ایک ہزار خاندان پنشنر فوجیوں کا جنوب ٹائرال کو اس غرض کے لئے بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں کی زمین کی حالت کو اچھا بنائیں- اس طرح ہم اس ملک کو اطالوی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے’‘-۲۴؎ اس اطالوی بنانے کی تفصیل یہ ہے کہ-: ‘’تمام قانون صرف اطالوی زبان میں شائع کئے جاتے ہیں- ۱۵- اکتوبر ۱۹۲۵ء کا اعلان اطالوی زبان کو عدالتوں میں لازمی قرار دیتا ہے- اور اس طرح قلیل التعداد جماعتوں کے قانونی حق کو سخت صدمہ پہنچاتا ہے- یہ اعلان اطالوی زبان کے سوا باقی سب زبانوں کو دیوانی یافوجداری کارروائیوں میں خواہ زبانی ہو یا تحریری ممنوع قرار دیتا ہے اسیسر (ASSESSOR) وہی لوگ بنائے جا سکتے ہیں جو اطالوی زبان جانتے ہوں- تمام کاغذات اور شہادتیں جو اور کسی زبان میں ہوں، رد کر دی جاتی ہیں’‘-۲۵؎ ‘’چونکہ صرف اطالوی جاننے والے لوگ اسیسر بنائے جاتے ہیں اس لئے اقلیتوں کے ہر فرد کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ سب کی سب جیوری (JURY) اس کے قطعی طور پر مخالف ہو گی’‘ ۲۶؎ ‘’کوئی ایک فرد بھی اقلیتوں کا ان قوانین سے کسی نہ کسی وقت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن ٹولو مئی )اطالوی وزیر( کے پروگرام میں مذکور بالاامور کے علاوہ اور ذرائع بھی لوگوں کو اطالوی قوم شامل کر لینے کے لئے تجویز کئے گئے ہیں’‘-۲۷؎ ان امور کو گنانے کے بعد دی پروٹیکشن آف مائناریٹیز کی لائق مصنفہ لکھتی ہے کہ-: ‘’صرف اقلیتوں کے معاہدات نے ہی دوسری حکومتوں کی اقلیتوں کو اس انجام سے محفوظ رکھا ہے- یہ مثال اس امر کی کہ بغیر حد بندیوں کے قوم پرستی کیا کچھ کر سکتی ہے- ظاہر کرتی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے معاہدات کیسے ضروری ہیں

Page 435

۳۹۲ اور یہ کیسی سخت غلطی تھی کہ اطالوی حکومت کی خود اختیاری کا احترام کرتے ہوئے اسے اس معاہدہ سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا’‘- ۲۸؎ مجھے اس مثال کے بعد اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے- اٹلی جس میں اس امر کا لحاظ نہیں کیا گیا، اس جگہ اقلیتوں کی حالت باواز بلند دوسرے ایسے ہی ممالک کو کہہ رہی ہے کہ-: من نہ کردم شما حذر بکنید اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ باوجود عبرت کے موجود ہونے کے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں- نہرو رپورٹ کے نزدیک اقلیتوں کو خاص حفاظت کی ضرورت نہیں جو کچھ میں اوپر لکھ چکا ہوں اس کے بعد اس کی ضرورت تو نہیں کہ میں نہرو رپورٹ کے دعویٰ کو پیش کر کے رد کروں- لیکن اس خیال سے کہ تفصیل شاید اس مسئلہ کو اور روشن کر دے، میں بتانا چاہتا ہوں کہ نہرو کمیٹی نے بھی اس امر پر زور دیا ہے اور کانگریس والے اور مہاسبھا والے بھی ہمیشہ اس امر پر زور دیتے چلے آئے ہیں کہ قلیل التعداد جماعتوں کو خاص حفاظت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب انصاف کے ساتھ قواعد بنائے جائیں تو ان کے ماتحت قلیل التعداد جماعتوں کو کسی نقصان کے پہنچنے کا احتمال نہیں ہوتا- یہ دلیل ہمیشہ ہندوؤں کی طرف سے پیش ہوتی چلی آئی ہے اور نہرو کمیٹی کے بین السطور سے بھی یہ صاف ظاہر ہے- بلکہ نہرو کمیٹی تو ایک عجیبنرالی منظق بھی چھانٹتی ہے - وہ لکھتی ہے کہ-: ‘’اگر قومی حفاظت کی ضرورت کسی جماعت کے لئے ضروری بھی ہو- تو اس کی ضرورت دو بڑی جماعتوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے لئے تو بالکل نہیں- اس کی ضرورت ان چھوٹی اقوام کے لئے تسلیم کی جاسکتی ہے جو سب ملکر ہندوستان کی دس فیصدی آبادی بنتی ہے’‘- ۲۹؎ گویا اول تو قلیل التعداد جماعتوں کی حفاظت کے قواعد کی ضرورت ہی نہیں- اگر ہو تو پھر بالکل چھوٹی جماعتوں کو ہے نہ کہ مسلمانوں کو- اس منطق کے سمجھنے سے میں قاصر ہوں اور یہ

Page 436

۳۹۳ عقل کے بالکل برخلاف ہے- یہ بات تب درست ہو سکتی ہے اگر ہم مندرجہ ذیل امور کو صحیح سمجھ لیں جو ہرگز درست نہیں-(۱)بڑی اقلیت اور اکثریت میں اختلاف کا امکان بہ نسبت چھوٹی اقلیت کے کم ہوتا ہے- (۲)یکساں قواعد تجویز کرنے سے انصاف قائم ہو جاتا ہے- میں ان دونوں باتوں کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ کوئی اور عقلمند انہیں صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو گا- پہلا دعویٰ اس لئے باطل ہے کہ اقلیت اور اکثریت میں جھگڑا اقلیت اور اکثریت کے سبب سے نہیں ہوتا بلکہ بعض ایسے اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے جو دونوں کو مدمقابل پر لا کر عداوت پیدا کر دیتے ہیں- اور جب وہ اسباب پیدا ہوں تو خواہ اقلیت بڑی ہو یا چھوٹی، اکثریت اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے- اقلیت اور اکثریت کے ٹکرانے کے اسباب ان مختلف اسباب میں سے جو اقلیت اور اکثریت میں ٹکراؤ کرا دیتے ہیں مندرجہ ذیل اسباب بڑے بڑے ہیں- (۱)اقلیت قریب زمانہ میں پہلے حاکم رہی ہو- اور اس نے اکثریت پر ظلم کئے ہوں یا اکثریت کو یہ یقین دلا دیا گیا ہو کہ اس نے ظلم کئے ہیں ان دونوں صورتوں میں اکثریت کے ذہن پر یہ بات غالب ہوتی ہے کہ ہم نے ان لوگوں سے پچھلے بدلے لینے ہیں- (۲)اقلیت اپنی تہذیب اور اپنے تمدن میں اکثریت سے اعلیٰ اور اس پر غالب ہو- اس صورت میں بھی اکثریت چاہتی ہے کہ اقلیت کو تباہ کر دے- کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر اسے ترقی کا موقع دیا گیا تو وہ ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن کو تباہ کر دے گی- (۳)جب اقلیت میں کوئی ایسا امر پایا جائے جو اسے اکثریت میں جذب ہونے سے مانع ہو- اس وجہ سے اکثریت کو خوف ہوتا ہے کہ ہمیشہ ملک میں دو پارٹیاں رہیں گی- اور کسی وقت بھی ہمیں امید نہ ہو گی کہ اقلیت ہم میں جذب ہو کر ایک ہو جائے گی- یا جذب نہ ہو گی تو کمسے کم ہمارے ساتھ سموئی جائے گی اور اس کے ممتاز نشانات مٹ کر وہ ظاہر میں ہم سے متحد ہو جائے گی- (۴)جب اقلیت میں کوئی ایسی طاقت پائی جائے جس کی وجہ سے اکثریت کو خوف ہو کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ کسی وقت اکثریت ہو جائے گی- (۵)جب اقلیت اپنے آپ کو ملک کا حصہ نہ قرار دے اور اس کی نظر ملکی حدود سے باہر

Page 437

۳۹۴ نکل کر اپنے غیر ملکی بھائیوں پر پڑ رہی ہو- اس وقت اکثریت اقلیت سے خائف ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی وقت غداری نہ کریں اور انہیں دبانا چاہتی ہے- (۶)جب اکثریت اقلیت کی گری ہوئی اقتصادی حالت کی وجہ سے نفع حاصل کر رہی ہوتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ اقلیت کی بیداری کی وجہ سے ہمیں نقصان پہنچے گا- یہ موٹی موٹی چھ وجوہ ہیں جن میں سے بعض یا تمام کے پائے جانے پر اکثریت اقلیت کو دبانے کی کوشش کرتی ہے اور جن کی وجہ سے اقلیتوں کو بھی اکثریت سے خوف رہتا ہے- اب ان اسباب پر نظر ڈال کر ہر اک عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ بڑی اقلیتوں کو چھوٹی اقلیتوں سے کم خطرہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی- بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو خواہ وہ بہت ہی کم ہوں، خواہ اچھی تعداد میں ہوں، جب بھی اوپر کے حالات پیدا ہو جائیں یکساں خوف ہوگا- بلکہ حق یہ ہے کہ جب اقلیت بہت ہی تھوڑی ہو مثلاً صرف ایک فیصدی یا دو فیصدی ہو یا اس سے بھی کم ہو تو اسے کوئی خطرہ ہوتا ہی نہیں- کیونکہ اکثریت سمجھتی ہے کہ اس سے نقصان کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں- پس مسیحیوں، بدھوں، پارسیوں وغیرہ کو جن کی مجموعی تعداد دسفیصدی بتائی گئی ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے- خطرہ ہے تو مسلمانوں کو جن کی نسبت ہندو لوگ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کسی وقت یہ لوگ بڑھ کر ہم پر غالب ہو جائیں- یورپ میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت دوسرے ممالک میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی اور اچھی اقلیتوں میں فرق نہیں کیا جاتا- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں اقلیتوں کی حفاظت کے وقت یہ خیال نہیں کیا گیا کہ اقلیت بڑی ہے یا چھوٹی- مثلاً پولینڈ میں اقلیتوں کی تعداد اٹھائیس فیصدی سے زیادہ ہے- مگر وہاں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے- زیکوسلویکا میں جرمن ہی پچیس فیصدی کے قریب ہیں- اور باقی اقلیتوں کی تعداد ملا کر اقلیتوں کی کل تعداد چالیس فیصدی کے قریب ہو جاتی ہے- مگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے- پس یہ کہنا کہ صرف چھوٹی اقلیتوں کی حفاظت کی جانی چاہئے نہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ دنیا کے دستور کے بھی خلاف ہے- اور میں حیران ہوں کہ نہرو کمیٹی نے کس طرح جرات کی کہ اس عقل و نقل کے خلاف تھیوری کو اس دلیری سے اپنی رپورٹ میں پیش کردیا- اس جگہ میں اس امر کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا کہ زبردست کے لئے ہر ایک

Page 438

۳۹۵ امر دلیل بن جاتا ہے- یہ عجیب بات ہے کہ ہماری ہندوستان کی اکثریت یعنی ہندو صاحبان نہرورپورٹ کے ذریعہ سے جس حقیقت کو ہم سے منوانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ چھوٹی اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ بڑی اقلیتوں کو اور لکھتے ہیں کہ-: ‘’چھوٹی اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہو سکتی ہے جو سب مل کر دس فیصدی بنتیہے’‘-۳۰؎ اس کے مقابلہ میں استھونیا (ESTHONIA) کی حکومت جو روس کی سابقہ حکومت سے الگ ہو کر بنی ہے- اور جس میں اقلیتوں کی تعداد دس فیصدی ہے ۳۱؎وہ لیگ آف نیشنز کے مطالبہ پر کہ ان کے ملک میں بھی اقلیتوں کی حفاظت کا قانون جاری ہونا چاہئے لکھتی ہی کہ-: ‘’ہمارے ملک کی اقلیت اتنی چھوٹی ہے کہ اس کے حقوق کی حفاظت کی ضرورت ہی نہیں’‘- ۳۲؎ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کو اس لئے حفاظت کا حق نہیں دینا چاہتی کہ ان کی تعداد اتنی کم نہیں کہ انہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہو- ہاں دس فیصدی والیاقلیت حفاظت کے لئے قوانین کا مطالبہ کر سکتی ہے- لیکن استھونیا کی اکثریت لکھتی ہے کہ ہمارے ہاں کی اقلیتوں کو کسی خاص حفاظت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ‘’اتنی تھوڑی ہیں’‘ کہ صرف دس فی صدی ہیں- پس چونکہ اقلیت کی تعداد زیادہ نہیں ہے، اس لئے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے الگ قوانین بنائے جائیں- مگر ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ دونوں جوابوں کا مفہوم ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اقلیت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اکثریت اسے اس کا حق دینے پر راضی نہیں ہے- بلکہ وہ ہر قسم کے بہانے بنا کر اسے تباہ کرنا چاہتی ہے- کیا یکساں قواعد تجویز کرنا انصاف کیلئے کافی ہے اس اصل کو غلط ثابت کرنے کے بعد کہ خوف کے لحاظ سے چھوٹی اور بڑی اقلیتوں میں کوئی فرق ہوتا ہے- اب میں دوسرے دعویٰ کو لیتا ہوں- جو یہ ہے کہ یکساں قواعد کا تجویز کرنا انصاف کے قیام کے لئے کافی ہے- میں نے اس دعویٰ کے لئے یکساں کا لفظ استعمال کیا ہے تا کہ اس لفظ میں انصاف اور مساوات دونوں مفہوم آ جائیں- کیونکہ اس دعویٰ کی دو ہی شقیں ہیں- ایک یہ کہ سب کے لئے ایک ہی قانون ہو تو اس سے انصاف قائم ہو جاتا ہے اور کسی کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ہو سکتا- اور دوسری شق یہ ہے کہ اگر دونوں

Page 439

۳۹۶ فریق کا یکساں لحاظ رکھ لیا جائے اور قوانین ایسے ہوں کہ دونوں کی ضرورت کا خیال ان میں ہو- تو پھر کسی کو شکایت کا موقع نہیں ہو سکتا- میرے نزدیک یہ دعویٰ دونوں معنوں کے لحاظ سے غلط ہے- نہ یہ درست ہے کہ قوموں کے لئے ایک ہی قانون بنایا جائے تو ان میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ انصاف قائم ہو گیا ہے- اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ اگر دونوں قوموں کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق انصاف سے قواعد بنا دئے جائیں تو ان کے حق محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہئے- پہلی بات کہ جب سارے ملک کے لئے ایک قانون بنا دیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ انصاف یہی چاہتا ہے کہ سب سے یکساں سلوک ہو- اس لئے درست نہیں کہ سب انسانوں کی حالت برابر نہیں ہوتی نہ سب پر قانون کا ایک سا اثر پڑتا ہے- بلکہ بعض پر زیادہ اور بعض پر کم- اور جب قانون کا اثر نمایاں طور پر ایک خاص گروہ پر پڑتا ہو اور دوسری قوم پر اس کا اثر بالکل نہ پڑتا ہو یا بہت کم پڑتا ہو تو ایسا قانون ہر گز منصفانہ نہیں کہلا سکتا- مثال کے طور پر دیکھ لو کہ اگر ہندوستان میں یہ قانون پاس کر دیا جائے جیسا کہ بعض میونسپل کمیٹیاں اب قریب قریب ایسا کر بھی رہی ہیں کہ گائے ذبح نہ کی جائے- تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قانون سب کے لئے برابر ہے- ہندوؤں کے لئے بھی اور مسلمانوں کے لئے بھی اس لئے انصاف کے مطابق ہے- اس قانون کے متعلق یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قانون برابر ہے- بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس قانون کا مضر اثر کس پر پڑتا ہے- اور یہ ظاہر ہے کہ ہندو تو خود ہی گائے نہیں ذبح کرتا- پس گو اس قانون میں ہندو مسلمان کو برابر رکھا جائے، مگر اس کا اثر صرف مسلمانوں پر پڑے گا- یا مثلاً اگر پنجاب کی آئندہ حکومت ¶یہ قانون پاس کر دے کہ زمین سب گورنمنٹ کی ہوگی یا سندھ میں ایسا قانون بن جائے- تو گو اس کا کچھ اثر ہندوؤں پر بھی پڑے گا- لیکن زیادہ تر اس کا اثر مسلمانوں پر ہی پڑے گا اور انہیں کو نقصان پہنچے گا- یا مثلاً تجارت پر اگر زیادہ ٹیکس لگا دیا جائے- جس سے تجارت کا تباہ کرنا مقصود ہو تو کوئی نہ کہے گا کہ اس کا اثر مسلمانوں پر بھی برابر پڑتا ہے- ہر عقلمند سمجھ لے گا کہ اس قانون کا اصل مقصد ہندوؤں کو نقصان پہنچانا ہے- پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ جب یکساں قواعد بن جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے- ایک ایسے گھر میں جس میں بچے بھی ہوں اور بڑے بھی، اگر ایسی غذا پکا دی

Page 440

۳۹۷ جائے، جسے صرف بڑے کھا سکیں اور یہ کہا جائے کہ انصاف کر دیا گیا ہے- تو کوئی شخص تسلیم نہیں کرے گا کہ انصاف کر دیا گیا ہے- یا ایک میلے میں جہاں لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہو- اگر کوئی شخص ایک چھوٹے بچے کو چلانے لگے کہ سب میں برابری چاہئے- تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا کہ انصاف ہو گیا ہے- انصاف اور برابری تبھی ہو گی کہ جب اس بچے کی طاقت کے مطابق انتظام کیا جائے- اسے گودی میں اٹھا کر چلو، پھر انصاف قائم ہوگا- اور بچوں کے لئے ان کی عمر کے مطابق غذا تیار کرو پھر انصاف قائم ہوگا- عقلاً اس امر کو ثابت کر چکنے کے بعد کہ ایک قسم کا قانون ضروری نہیں کہ انصاف کے مطابق بھی ہو- بلکہ بہت دفعہ اس سے بے انصافی پیدا ہوتی ہے- میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف خیال ہی نہیں ہے، بلکہ عملاً دنیا میں ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ بظاہر ایک سا قانون بنا کر بعض اقوام کو نقصان پہنچاتے ہیں- چنانچہ ایسٹ افریقہ کے داخلہ کے متعلق جب قواعد بنائے گئے ہیں- تو اسی وقت سارے ہندوستان میں شور پڑ گیا تھا کہ گو بظاہر یہ قانون سب کے لئے یکساں معلوم ہوتا ہے- لیکن اصل غرض اس کی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچے- اسی طرح زیکوسلویکا کی نئی حکومت میں یہ قانون پاس کیا گیا تھا کہ جس کے پاس ۱۵۰ایکڑ سے زیادہ زمین ہو ضبط کی جائے- اور دوسرے لوگوں کو دے دی جائے اب بظاہر یہ قانون نہایت انصاف پر مبنی معلوم ہوتا ہے- لیکن اصل غرض اس کی یہ تھی کہ جرمن لوگ جو جنگ سے پہلے یہاں کے بڑے بڑے زمیندار تھے، انہیں نقصان پہنچایا جائے- زک لوگ زیادہ تر کارخانہ دار تھے- پس اس قانون سے زکس کو بہت کم نقصان کا احتمال تھا- حالانکہ بظاہر قانون منصفانہ تھا- چنانچہ اس پر جرمنوں نے بہت کچھ شور مچایا- مگر ان کی حکومت نے سنی نہیں- یہی جواب دیتی رہی کہ ہم نے انصاف کا قانون بنایا ہے- جیسا تم کو اس قانون سے نقصان ہے ویسا ہی اور قوموں کو- ۳۳؎اسی طرح رومانیانے ٹرنسلومینیا کے صوبہ میں کیا- جس میں کہ مگیار قوم کی زمینیں زیادہ تھیں- ۳۴؎ پس تاریخی واقعات سے بھی ثابت ہے کہ ایک قانون سب کے لئے یکساں بنایا جاتا ہے لیکن اس میں غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص قوم کو اس سے نقصان پہنچ جائے یا یہ کہ وہ اپنا حق نہ لے سکے- میری اس رائے سے ایل- پی- میئرز کی رائے بھی متفق ہے وہ لکھتی ہیں-: ‘’اقلیتوں پر ظلم ایک خام اور ناقص طریق سے بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ قتل اور ملک

Page 441

۳۹۸ سے نکال دینے کے طریق ہیں- لیکن یہی بات زیادہ مہذب طریقوں سے بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے- جن میں سے )اکثریتوں میں( زیادہ مقبول مادری زبان کے آزادانہ استعمال سے روک دینے کا طریق ہے- تعلیم کے قوانین تجارت کے قوانین اور انصاف کے قائم کرنے کے قوانین اس مقصد کو پورا کرنے کے بڑے کھلے کھلے ذرائع ہیں’‘- ۳۵؎ ‏ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اکثریتیں اقلیتوں پر مہذبانہ طور پر ظلم کرتی ہیں- اور ایسے قوانین بنا کر نقصان پہنچاتی ہیں جو بظاہر یکساں ہوتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ صرف ایک قوم کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے- پس ہندوستان کا قانون اساسی بناتے وقت صرف یہ دیکھنا کافی نہ ہوگا کہ قوانین ہندومسلمانوں کے لئے برابر ہیں- بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان قوانین کا ہندوؤں پر کیا اثر پڑتا ہے اور مسلمانوں پر کیا- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ بظاہر برابر نظر آنے والے قوانین باطن میں مسلمانوں کے لئے مضر ہیں، خواہ اس لحاظ سے کہ مسلمانوں کو ان سے کوئی نقصان پہنچتا ہے، خواہ اس لحاظ سے کہ ان کی وجہ سے مسلمان اپنے جائز حقوق کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو ان کا بدلنا ضروری ہوگا- صرف صحیح قانون بنا دینا قیام انصاف کیلئے کافی نہیں دوسرا پہلو اس سوال کا یہ ہے کہ اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں ہر قوم کی ضرورت کا لحاظ رکھا جائے تو کیا یہ کافی نہ ہوگا اور کیا اس سے انصاف قائم نہ ہو جائے گا؟ میرا جواب اس سوال کے متعلق بھی یہی ہے کہ ہر گز نہیں- کوئی قوم صرف باانصاف قوانین کے پاس ہو جانے سے محفوظ نہیں ہو جاتی- بلکہ اس کے لئے دو اور باتوں کی ضرورت ہوتی ہے-(۱)اس انتظام کی کہ اس قانون پرعمل کرتے وقت بھی اس امر کی نگرانی ضروری ہوگی کہ اس قانون پر اس کے منشاء کے مطابق عمل کیا جاتا ہے یا نہیں؟ بہتر سے بہتر قانون پر اگر عمل نہ کیا جائے تو اس سے کیا فائدہ- ایک ڈاکٹر ہسپتال میں کونین کے ڈبے رکھ چھوڑے لیکن مریضوں کو نہ دے تو انہیں کیا نفع ہوگا- قانون اپنی ذات میں کچھ بھی چیز نہیں- عمدہ قانون کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح استعمال بھی کیا جائے- قانون کا صحیح نتیجہ اس کے صحیح استعمال پر مبنی ہوتا ہے- پس اگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت

Page 442

۳۹۹ قانون کے ذریعہ سے ہو بھی جائے- لیکن اس کے صحیح استعمال کا علاج نہ ہو تو بھی اقلیتوں کو امن نصیب نہیں ہو سکتا- چنانچہ لیگ آف نیشنز میں اقلیتوں کی حفاظت کے سوال میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ خالی قانون نفع نہیں دے سکتا- اور اس امر کی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اس قانون پر اس منشاء کے عین مطابق عمل بھی ہو- مثال کے طور پر استھونین گورنمنٹ کی گفت و شنید کو میں پیش کرتا ہوں- لیگ آف نیشنز نے اس حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کا لیگ کو یقین دلائے- لیکن اس نے اول اول انکار کیا اور جواب دیا کہ اگر ہمارے ملک میں اقلیتوں کی حفاظت کا قانون توڑا گیا- تو اس وقت لیگ دخل دے سکتی ہے- لیکن لیگ کی طرف سے جو ایجنٹ (AGENT) اس تصفیہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا- اس نے اس جواب پر نوٹ لکھا کہ- ‘’اس جواب سے لیگ کو اس وقت تک دخل دینے کا کوئی حق حاصل نہ ہوگا جب تک قانون نہ بدلا جائے- لیکن قانون بدلے بغیر اگر استھونین گورنمنٹ اقلیتوں کو دکھ دیتی رہے تو اس کا علاج نہ ہو سکے گا’‘- لیگ نے اس نوٹ کی صحت کو تسلیم کیا اور استھونین گورنمنٹ کے جواب کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ تمہارے اس جواب سے اقلیتوں کی حفاظت نہیں ہوتی- اس واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے سب عقلمند تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ صرف قوانین کی صحت کافی نہیں ہوتی- بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ذرائع استعمال کئے جائیں کہ قوانین کے منشاء کے مطابق عمل بھی ہو- راجپال کا کیس موجود ہے اس وقت وہ سب اخبار جو اس وقت نہرو کمیٹی کی تائید میں لکھ رہے ہیں، یہ لکھ رہے تھے کہ قانون کے منشاء کے مطابق عمل نہیں ہوا- پس یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور اس کا بند کرنا ضروری ہے- (۲)دوسرے اس انتظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ آئندہ کے لئے اس قانون کو محفوظ کر دیا جائے- کیونکہ اکثریت کے لئے یہ بالکل آسان ہے- کہ وہ پہلے تو اقلیت کو تسلی دلا دے اور ان کی مرضی کے مطابق قانون بنا دے- لیکن بعد میں جب حکومت مل جائے تو پھر اس قانون کو بدل دے- کیونکہ جس طرح قانون بنانا اس کے اختیار میں ہے- اس کا بدلنا بھی اس کے اختیار میںہے- میں دیکھتا ہوں کہ یورپ کی نئی حکومتوں میں جو جنگ کے بعد قائم ہوئی ہیں، اقلیتوں کی

Page 443

۴۰۰ حفاظت کیلئے دونوں امور کا انتظام کیا گیا ہے- اس امر کا بھی کہ قانون کا صحیح استعمال ہو اور اس امر کا بھی کہ قانون کو بدلا نہ جا سکے- امر اول کا انتظام ایک تو یہ کیا گیا ہے کہ لیگ آف نیشنز کو حق دیا گیا ہے کہ وہ ایسے امور کی اپیل سن سکے جو قلیل التعداد جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں- اور اگر قلیل التعداد جماعتوں کی طرف سے کوئی شکایت پہنچے تو لیگ کمیشن مقرر کر کے دیکھ لیتی ہے کہ آیا وہ شکایت صحیح ہے یا غلط- اور اس طرح قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں- دوسرا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ قلیل التعداد جماعتوں کو گورنمنٹ میں ایسا دخل دیا گیا ہے- جس کی بنا پر وہ اپنے حقوق کی خود نگرانی کر سکتی ہیں- مثلاً زیکو سلویکا میں روتھینین قوم جو روسی قوم کی ایک شاخ ہے- چونکہ ایک علیحدہ تہذیت اور علیحدہ زبان اور علیحدہ مذہب رکھتی ہے- اس قوم کو روتھینیا کے علاقہ میں کامل خود اختیاری حکومت دے دی گئی ہے- گو خارجی معاملات میں اور عام قوانین میں وہ زیکو سلویکا کے ماتحت ہے- یہ انتظام تو اس وجہ سے ہے کہ ایک صوبہ میں روتھینین قوم کی کثرت ہے- لیکن جن ملکوں میں قلیل التعداد آبادیاں پھیلی ہوئی ہیں اور کسی صوبہ میں بھی ان کی کثرت نہیں ہے- وہاں ان کے حقوق کی مزید حفاظت اس طرح کی گئی ہے کہ ان کی قوم کی زبان اور ان کے مذہب اور تمدن کی حفاظت کے لئے یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ گورنمنٹ خود اسی قوم کی کمیٹیوں کو روپیہ دے دے اور وہ اپنی نگرانی میں اپنے سکولوں اور اپنی مذہبی سوسائٹیوں کا انتظام کریں- دوسرا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ قومی تعداد کے لحاظ سے ملازمتوں کو اقلیتوں کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے- اسی طرح اقلیتوں کا ایک معقول عنصر گورنمنٹ میں موجود رہتا ہے- جو یہ دیکھتا رہتا ہے کہ ان کے بھائیوں کے حقوق نہ مارے جائیں- اس امر کا انتظام کہ قانون بدلا نہ جا سکے- اس طرح کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کے متعلق جو قانون ہے- اس کے لئے یہ شرط کر دی گئی ہے کہ لیگ آف نیشنز کی اجازت کے بغیر کوئی گورنمنٹ اس قانون کو نہیں بدل سکتی پس خواہ کسی گورنمنٹ کی اکثریت اس قانون کو بدلنا بھی چاہئے تو بھی وہ اپنے قانون اساسی یا اپنی بین الاقوامی ذمہ داری کے سبب سے اسے بدلنے پر قادر نہیں ہو سکتی- اور اگر وہ اس قانون کو زور سے توڑنا چاہے تو دوسری حکومتیں اس کی ذمہوار ہیں کہ وہ ایسا نہ کر سکے- ۳۶؎ نہرو رپورٹ میں اقلیتوں کی کوئی حفاظت نہیں کی گئی اب اس کے مقابلہ میں دیکھا جائے کہ نہرو کمیٹی نے

Page 444

۴۰۱ اقلیتوں کی حفاظت کی کیا تدبیر کی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں- نہرو کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق نہ تو مسلمانوں کو ان صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہے خود اختیاری حکومت دی گئی ہے جس طرح کہ روتھینیا میں لعل رشینز کو دی گئی ہے، نہ ان صوبوں میں جن میں مسلمانوں کی اقلیت ہے اس امر کا انتظام کیا گیا ہے کہ تعلیم اور مذہب اور تمدن کے اصول کا طے کرنا مسلمانوں کی کمیٹیوں کے قبضہ میں رکھا جائے- نہ اس امر کا انتظام کیا گیا ہے کہ ان صوبوں کو جہاں آج کل مسلمانوں کی اکثریت ہے آئندہ ایسی شکل میں نہ بدل دیا جائے گا کہ مسلمان تھوڑے رہ جائیں- اور نہ پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ جو مطالبات مسلمانوں کے آج ناقص طور پر منظور ہوئے ہیں، کم سے کم وہی آئندہ محفوظ رہیں گے- بلکہ قانون اساسی کو بدلنے کے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ دو تہائی ممبروں کی رائے سے قانون اساسی بدلا جا سکتا ہے- ۳۷؎اور قانون اساسی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو پچیس فیصدی ممبریاں ملیں گی- ۳۸؎ پس اس کے یہ معنی ہوئے کہ گو مسلمانوں میں سے ایک بھی رائے ہندو حاصل نہ کر سکیں بلکہ پانچ چھ فیصدی تک ہندو ممبر بھی اگر ہندوؤں کے مخالف ہو جائیں، تب بھی وہ جس وقت چاہیں، ان حقوق کو جنہیں وہ اس وقت دے رہے ہیں واپس لے سکتے ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوؤں کے لئے دو تہائی ووٹ جمع کر لینا مشکل ہوگا- قانون اساسی کے بدلنے کے لئے پونے ستاسٹھ فیصدی ووٹوں کی ضرورت ہے- اور ہندو قوم کو نہرو رپورٹ کے مطابق پچھترفیصدی ووٹ حاصل ہونگے- پھر ان کے لئے یہ بات کیا مشکل ہے کہ جب چاہیں قانون اساسی کو بدل دیں اور مسلمان منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں- میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ امر پوری طرح واضح ہو چکا ہے کہ چھوٹی اور بڑی اقلیت میں کوئی فرق نہیں- اگر اقلیت کے حقوق کے تلف ہونے کا احتمال ہو تو اقلیت بڑی ہو یا چھوٹی اسے حفاظت کی ضرورت ہے- اور میں وہ امور بھی بیان کر چکا ہوں کہ جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اکثریت اقلیت کو دکھ دیا کرتی ہے- اور پھر میں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ خالی قوانین بھی کافی نہیں ہوتے، بلکہ دو باتوں کا انتظام کر لینا ضروری ہوتا ہے-: اول یہ کہ قوانین پر صحیح طور پر عمل ہو اور اس کے ذرائع میں سے ایک بڑا کارآمد ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ اقلیت کی کثرت ہو اس میں اسے خود مختار حکومت دی جائے اور جس جگہ کثرت نہ

Page 445

۴۰۲ ہو وہاں کم سے کم ایک تو اپیل کا حق کھلا رکھا جائے دوسرے اس امر کا خیال رکھا جائے کہ اقلیت کے خاص معاملات اس کی اپنی کمیٹیوں کے ذریعہ سے طے پائیں- اور ملازمتوں میں کمسے کم اس کے حق کے مطابق اسے نیابت حاصل ہو- اور دوسرا انتظام یہ کیا جائے کہ قانوناساسی کا وہ حصہ جو اقلیت کے حقوق سے تعلق رکھتا ہو، وہ اس وقت تک نہ بدل سکے جب تک کہ خاص شرائط کے ماتحت خود اقلیت بھی اس کے بدلنے پر راضی نہ ہو- مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو کمیٹی کی رپورٹ پر تفصیلی نظر جو کچھ میں اس وقت لکھ چکا ہوں- میرے نزدیک ایک سیاست سے واقف شخص کے لئے کافی ہے اور وہ اس کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے کہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ ملک کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی اور اس کے تسلیم کر لینے میں مسلمانوں کو سخت نقصان ہے- لیکن چونکہ عام طور پر لوگ سیاسی امور سے واقف نہیں- نہ انہیں اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ وقت خرچ کر کے اصول کو فروغ پر چسپاں کریں- اس لئے میں مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر ایک تفصیلی نظر بھی ڈالنی ضروری سمجھتا ہوں- مسلمانوں کے مطالبات میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں- ۱- ہندوستان کی آئندہ حکومت فیڈرل اصول پر ہو، یعنی صوبہ جات سے مرکزی حکومت کو اختیار ملیں نہ کہ مرکزی حکومت سے صوبہ جات کو- اور سوائے ان امور کے جن میں مشترکہحکومت کا کام چلانے کیلئے صوبہ جات اپنے اختیارات مرکزی حکومت کو دیں- باقی سب اختیارات صوبہ جات کے پاس رہیں- ۲- صوبہ سرحدی کو ویسی ہی بااختیار حکومت دی جائے- جیسی کہ اور صوبوں کو اور سندھ اور بلوچستان کو آزاد کر کے انہیں بھی ویسی ہی آزاد حکومت دی جائے- ۳- ہر قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق نیابت مقامی مجالس میں دیا جائے- سوائے اس صورت کے کہ کسی قوم کی تعداد دوسری قوم کے مقابل پر بہت تھوڑی ہو- اس صورت میں اس کی اصل تعداد سے کسی قدر زائد حق اسے دے دیا جائے- ۴- مرکزی حکومت میں مسلمانوں کو ان کے موجودہ حق سے کسی صورت میں کم نہ دیا

Page 446

۴۰۳ جائے بلکہ ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک ثلث نیابت کا حق انہیں دیا جائے- ۵- انتخاب کا طریق قومی ہو، یعنی ہر ایک قوم اپنے نمائندے خود چنے- اور بعض کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر اوپر کے چار مطالبات کو پورا کر دیا جائے تو ان پر عملدرآمد ہونے کے بعد مخلوط انتخاب محفوظ نشستوں کے ساتھ جاری کیا جا سکتا ہے- ۶- مذہب، مذہب کی تبلیغ یا مذہب کی تبدیلی میں حکومت کسی قسم کا دخل نہ دے- اور مذہب یا تمدن و تہذیب کے متعلق کوئی ایسا قانون پاس نہ کر سکے جس کا اثر کسی خاص مذہب کے لوگوں پر ہی کلی طور پر یا زیادہ طور پر پڑتا ہو- ان مطالبات کے صحیح عمل درآمد کو دیکھنے کیلئے یہ بھی مطالبات مسلمانوں کی طرف سے تھیکہ-: الف- مختلف اقوام کو ان کی تعداد کے مطابق ملازمتوں میں حصہ دیا جائے- ب- قانون اساسی کی تبدیلی کے لئے ایسے قوانین بنا دیئے جائیں کہ قلیل التعداد کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو فیصلہ ہو اسے بغیر قلیل التعداد جماعتوں کی مرضی کے تبدیل نہ کیا جا سکے- زیکوسلویکا کا قانون اساسی مطالعہ کرنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ وہاں کے حالات بہت کچھ ہندوستان سے ملتے ہیں اور پھر پچھلے چند ہفتوں کی ہندوؤں کی کش مکش کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک یہ قاعدہ بھی ہونا چاہئے کہ کسی صوبہ کی حدود کو تبدیل کرنے کا حق مرکزیحکومت کو نہ ہوگا، بلکہ اس کا فیصلہ خود اس صوبہ سے ہی تعلق رکھے گا- ان مطالبات کے گنوانے کے بعد میں ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لیکر اس امر پر بحث کرنا چاہتا ہوں- کہ آیا یہ مطالبات اول جائز ہیں یا نہیں، دوم ضروری ہیں یا نہیں؟ کیونکہ حقوق کے فیصلہ کے وقت یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اول وہ مطالبہ جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ جو مطالبہ جائز ہی نہیں- اس کا پیش کرنا ہی غلط ہے- کسی کا حق نہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے لئے دوسرے کو اس کا حق چھوڑنے پر مجبور کرے- دوسرے یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا وہ مطالبہ ضروری ہے یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیا جائے کہ مدعی کو اس کا مطالبہ دینے میں مدعا علیہ کا کیا نقصان ہے اور نہ دینے میں مدعی کا کیا نقصان ہے- اس وقت تک صحیح نتیجہ پر پہنچنا ناممکن ہوتا ہے- اور بسا اوقات ایسے شخص سے قربانی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے- جس کے لئے وہ قربانی مہلک ہوتی ہے- اور اس شخص کو فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے جو آگے ہی بہت کچھ لے چکا

Page 447

۴۰۴ ہوتا ہے- میں سمجھتا ہوں- کہ ان اصول کے ماتحت پہلے ہمیں اس سوال پر اصولی غور کرنا چاہئے کہ کیا ہندوستان کی موجودہ حالت اس قسم کی ہے کہ مسلمانوں کو کسی خاص حفاظت کی ضرورت ہو- اور انہیں ایک علیحدہ اقلیت کی صورت میں رہنے دینا ناگزیز ہو- میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں سے تو ہر ایک شخص اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی اس وقت خاص حفاظت کی ضرورت ہے- میں پہلے بتا آیا ہوں کہ ان وجوہ میں سے جو کسی اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے پر مائل کرتے ہوں- بڑے بڑے وجوہ چھ ہیں- پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ وجوہ اس وقت پائے جاتے ہیں یا نہیں- مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت اور اس کی وجوہات پہلی وجہ اول وجہ یہ ہوتی ہے کہ اقلیت اس ملک میں پہلے حاکم رہ چکی ہو- اور یا تو عملاً ظلم کر چکی ہو- یا اکثریت کو یہ دھوکا لگ گیا ہو یا دھوکا دیا گیا ہو کہ اقلیت اپنے زمانہاقتدار میں اس پر ظلم کرتی رہی ہے- ایسی صورت میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثریت اپنے برسراقتدار ہونے پر حقیقی یا خیالی مظالم کا بدلہ اقلیت سے لیتی ہے- چنانچہ قدیم تاریخ کی مثالوں میں سے بدھوں کی مثال موجود ہے کہ انہیں ہندوؤں نے بالکل تباہ کر دیا- سپین کے مسلمانوں کی مثال موجود ہے کہ انہیں مسیحیوں نے تباہ کر دیا- زمانہ حاضر میں دوسرے ممالک کی مثالوں میں سے یونان، سرویا، رومانیہ اور بلغاریہ کی مثال موجود ہے کہ ان علاقوں میں ترکوں پر خصوصاً اور مسلمانوں پر عموماً سخت سے سخت ظلم ہوتے رہے ہیں- محض اس وہم کی بنا پر کہ ترک اپنے زمانہ اقتدار میں ان کے آباء و اجداد سے ظلم کرتے رہے ہیں پولینڈ میں جرمنوں سے بدسلوکی ہو رہی ہے- کیونکہ ایک حصہ پولینڈ کا جرمنی کے ماتحت تھا- زیکوسلویکا میں جرمن زمینداروں سے اسی وجہ سے سختی ہو رہی ہے- رومانیہ میں مگیار قوم سے، یوگوسلاویا میں آسٹرینز اور مگیار سے اٹلی میں آسٹرینز سے ظلم ہو رہا ہے- یہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور ہمیں بتا رہی ہیں کہ حقیقی یا وہمی ظلموں کی بناء پر ایک قوم دوسری قوم کو تباہ کیا کرتی ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ذہنی حالت ہندوؤں کی بھی ہے- اول تو انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت کی جڑہیں مضبوط کرنے کے لئے مسلمان

Page 448

۴۰۵ بادشاہوں کو تاریخ میں نہایت خطرناک صورت میں پیش کیا ہے- تا کہ لوگ ان کی یاد کو بھول کر انگریزی حکومت سے وابستہ ہو جائیں- دوسرے اب تمام ہندو اپنی قومیت کو مضبوط کرنے کیلئے پورے زور سے شاذ و نادر صحیح لیکن اکثر جھوٹے اور مفتریانہ الزامات مسلمان بادشاہوں پر لگا رہے ہیں- وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کے تمدن اور ان کی علمی ترقی کو مسلمانوں نے آ کر بالکل تباہ کر دیا ہے- اگر وہ نہ آتے تو آج ہندو نہ معلوم کیا سے کیا ہوتے- بہت سے ہندو مردوں اور ہندو عورتوں کے سینے آج مسلمانوں کے وہمی مظالم کے خلاف غیظ و غضب کی آگ سے جل رہے ہیں- وہ اپنی قوم کی تباہی کا واحد ذمہ دار مسلمانوں کو سمجھتے ہیں- وہ ان کی تباہی پر اپنی قومی ترقی کی بنیاد رکھنا بالکل جائز خیال کرتے ہیں- اس تعصب کی حالت جہاں تک پہنچ گئی ہے، اس کا کسی قدر نقشہ اس مثال سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ میرے ایک رشتہ دار نے ایک استانی اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے رکھی ہے- وہ مذہباً مسیحی ہے لیکن نسلاً ہندو ہے- اور میسور کی رہنے والی ہے- اس کا یہ حال ہے کہ تاریخ میں اگر کسی جگہ کسی مسلمان بادشاہ کا ذکر آ جائے تو وہ ان صفحوں کو چھوڑ جاتی ہے- اور جب بچے زور دیتے ہیں تو یہ جواب دیتی ہے کہ میں خوب جانتی ہوں کہ پہلے کونسا حصہ کتاب کا پڑھانا چاہئے اور بعد میں کونسا- یہ حالت ایک عورت کی ہے اور ایسی عورت کی جو خوب تعلیم یافتہ ہے- اور کئی دفعہ ولایت ہو آئی ہے- اسی پر قیاس ہندو قوم کے بہت سے افراد کا کیا جا سکتا ہے- یہ جوش و خروش ہندو قوم کا مردہ بادشاہوں کے خلاف کیوں ہے؟ کیا اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لئے نہیں؟ اور اس ذریعہ سے جو بیداری پیدا ہوگی، کیا مسلمان اس کے نتائج سے آنکھیں بن کر سکتے ہیں یقیناً نہیں- اور اس وجہ سے وہ حقبجانب ہیں کہ ایسے قوانین کا مطالبہ کریں جن سے ان کی قومی زندگی تباہی سے بچ جائے- اور اس کی ذمہ داری ایک حد تک انگریزوں پر اور ان سے زیادہ خود ہندوؤں پر ہے- دوسری وجہ دوسری بات جس کی وجہ سے اکثریت اقلیت کو تباہ کرنا چاہتی ہے یہ ہے کہ اقلیت اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کی وجہ سے اکثریت سے اعلیٰ ہو ایسی صورت میں اکثریت چونکہ اقلیت سے خائف ہوتی ہے- وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے- ہندو مسلمان سوال میں یہ صورت بھی پیدا ہے- مجھے اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ حالت کیوں پیدا ہے لیکن اس امر میں

Page 449

۴۰۶ کوئی شک نہیں کہ تہذیب اور تمدن کے اصول کے لحاظ سے مسلمانوں کو ہندوؤں پر برتری حاصل ہے- ان میں چھوت چھات نہیں ہے- ان میں ایک حد تک قومی مساوات ہے- ان میں شادی بیاہ کی رسومات ہندوؤں کی نسبت بہت کم ہیں- بیوہ کی شادی کا دستور ابھی بہت حد تک باقی ہے- غرض ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی بنیاد ہندوؤں سے بالکل الگ اصول پر ہے- اور ہندو سمجھتے ہیں کہ نہ تو اس تہذیب اور تمدن کو ہم کچل سکتے ہیں اور نہ اس کی موجودگی میں ہم اپنی قدیم روایات کے مطابق ترقی کر سکتے ہیں- پس اس حالت میں خوف ہے کہ وہ اسلامیتہذیب اور تمدن کی آزاد نشوونما کے راستہ میں روک ڈالیں گے- تیسری وجہ تیسرا سبب جو اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے کی طرف راغب کرتا ہے یہ ہے کہ اقلیت دائمی اقلیت ہو- یعنی اس میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو اسے اپنی جگہ تبدیل کرنے سے مانع ہو- اس صورت میں اکثریت یہ خیال کرتی ہے کہ چونکہ اس اقلیت کو ہم جذب نہیں کر سکے، آؤ اسے ہم مٹا دیں- یہ وجہ بھی اس وقت موجود ہے- اسلام ایک ایسا ممتاز مذہب ہے جس نے سیاست تمدن اخلاق اور معاملات کے لئے ایک ممتاز اور مستقل دستورالعمل پیش کیا ہے- پس مسلمان دوسری اقوام کی طرح ان مسائل کے متعلق جن پر اسلام نے روشنی ڈالی ہے، سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور نہ دوسرے کا رنگ قبول کر سکتا ہے- عام طور پر اکثریتوں کو جب یہ یقین ہوتا ہے کہ اقلیت کو اس کی جگہ پر باندھ رکھنے والی کوئی چیز نہیں- تو وہ امید کرتی ہے- کہ کچھ عرصہ میں یا تو اقلیت ہم میں جذب ہو جائے گی- یا پھر کھوئی جائے گی- یعنی بعض باتیں اپنی چھوڑ دے گی- اور بعض ہماری مان لے گی- جیسا کہ مثلاً پرانے زمانہ میں ہندوستان میں ہوا- کہ باہر سے آنے والی اقوام نے ہندوؤں کے دیوتاؤں کو قبول کر لیا اور ہندوؤں نے ان کے بعض معبودوں کو قبول کر لیا- اسی طرح باہر سے آنے والی اقوام نے ہندوؤں کے سب سے بڑے تمدنی دستور یعنی قومیت کے اصول کو تسلیم کر لیا اور چاروں ورنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہو گئیں اسلام کی موجودگی میں مسلمان ایسا نہیں کر سکتے- پس ہندو یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اسلام ہے اس وقت تک تمدن اور تہذیب میں مسلمانوں کا ہمارا دباؤ تسلیم کرنا ناممکن ہے- پس لازماً وہ یہ کوشش کریں گے اور اب بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو یا ہندوستان سے نکال دیں یا اپنے ساتھ شامل کر لیں-

Page 450

۴۰۷ چوتھی وجہ چوتھی چیز جو اکثریت کو اقلیت کا دشمن بنا دیتی ہے یہ ہے کہ اقلیت میں کوئی بڑھنے والی طاقت موجود ہو- اور اکثریت کو یہ خطرہ ہو کہ کسی وقت وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی- اس وجہ سے وہ اقلیت کو ظالمانہ قوانین سے مٹانے کی کوشش کرتی رہتی ہے- یہ سبب بھی ہندوستان میں موجود ہے، اسلام ایک زبردست تبلیغی مذہب ہے- وہ اپنی کمزوری کے ایام میں بھی اپنی تعداد بڑھاتا رہا ہے- پچھلی مردم شماریاں اس امر پر شاہد ہیں کہ اسلام نہ صرف نسلاً بلکہ تبلیغی طور پر بھی بڑھ رہا ہے- پس یہ بات ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہندو قوم اس حالت کو جاری نہیں رہنے دے سکتی- اسے اگر اختیارات مل جائیں تو وہ پورا زور لگائے گی کہ جس مقصد کو وہ مذہبی تبلیغ سے حاصل نہ کرسکے وہ اسے جابرانہ قانون سے حاصل کرے- اور طاقت حاصل ہونے پر اس غرض کیلئے سینکڑوں تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں- جو بظاہر منصفانہ بھی ہوں اور ان سے یہ مقصد بھی پورا ہو جائے- پس مسلمانوں کے لئے خودحفاظتی ضروری ہے- اس جگہ یہ اعتراض نہیں پڑتا کہ پارٹی سسٹم )PARTYSYSTEM) تو اکثریت اور ¶اقلیت کے مقابلہ پر ہی مبنی ہوتا ہے- اور باوجود اس کے اکثریت اقلیت کو تباہ نہیں کرتی- کیونکہ وہ اکثریت اور اقلیت تغیر پذیر ہوتی ہیں- آج ایک اکثریت جو اقلیت ہے، کل وہ اقلیت ہو جاتی ہے اور پھر اکثریت بن جاتی ہے- اس صورت میں چونکہ ہیر پھیر رہتا ہے، دشمنی پیدا نہیں ہوتی- لیکن یہاں اس اقلیت اور اکثریت کا سوال ہے جو سیاسی مسائل پر مبنی نہیں- بلکہ مذہب پر اس کی بنا ہے- ایسی پارٹیوں میں روزانہ تبدیلی نہیں ہوتی- اور بالکل ممکن ہے کہ ایک مذہب اگر زبردست ہے تو اکثریت کو اقلیت بنا دینے کے بعد وہی ملک پر ہمیشہ کے لئے قابض ہو جائے- پانچویں وجہ پانچواں سبب جس کے باعث اکثریت اقلیتوں پر ظلم کیا کرتی ہے، اقلیتوں کا غیرملکی لوگوں سے تعلق ہے- اکثریت چاہتی ہے کہ ملک کے سب لوگ اسی کے ساتھ وابستہ رہیں اور ملک کے باہر کی کسی قوم پر دوستانہ نگاہ نہ ڈالیں- لیکن اقلیت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ملک سے باہر کی بعض اقوام سے بھی تعلق رکھنے پر مجبور ہوتی ہے- اس حالت میں اکثریت ہمیشہ اس سے مشتبہ رہتی ہے اور ڈرتی ہے کہ کسی وقت غیر ملکیوں سے مل کر ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں- اور اس شبہ کی وجہ سے اقلیت کو نقصان پہنچانے پر تلی رہتی

Page 451

۴۰۸ ہے- اس قسم کے واقعات دنیا میں کثرت سے ہوتے رہتے ہیں- چنانچہ یونانی حکومت میں بلغاریوں کے ساتھ اسی بنا پر ظلم ہوتا رہتا ہے- اسی طرح لیتھونیا میں پولز اور پولینڈ میں لیتھونینز کے ساتھ یہ سبب بھی ہندوستان میں موجود ہے- مسلمان اپنی مذہبی روایات کی بنا پر تمام دنیا کے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں- اور شدت سے ان کی مصائب سے متاثر ہوتے ہیں- اور یہی حال باہر کے مسلمانوں کا ہے گو ایک دوسرے کی مصیبت میں مدد نہ دیں، لیکن ان سے متاثر ضرور ہو جاتے ہیں اور ان کی ہمدردی کرتے ہیں- پس ایسی صورت میں ہندوستان کی اکثریت ضرور ان سے مشتبہ رہے گی- اور ان کی ترقی کے راستہ میں روک بنے گی- یہ شبہ وہمی نہیں ہے، بلکہ اب بھی ہندو عام طور پر شاکی نظر آتے ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو پورے طور پر ہندوستانی نہیں سمجھتے- بلکہ غیر ملکیوں سے بہت راہ و رسم رکھتے ہیں- گو وہ اس وقت منہ سے نہیں کہتے- لیکن ان کے دل میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کل کو اگر افغانستان- ایران یا عرب سے ہندوستان کی جنگ چھڑی تو مسلمان کیا کریں گے- کیا یہ سرحد پار کے مسلمان بھائیوں کی تائید نہیں کریں گے- اگر ایسا کریں گے تو یقیناً ہندوستان کی حکومت میں ہمیشہ ایک کمزور عنصر موجود رہے گا- اب یہ بات تو اللہ تعالیٰٰ ہی جانتا ہے کہ ایسا موقع پیش آئے تو مسلمان کیا کریں گے- لیکن یہ شبہ جس کا اظہار کئی دفعہ ہندو لیڈر کر چکے ہیں ان کے دلوں میں ضرور کھٹکتا رہے گا اور اس کی بنا پر وہ مسلمانوں کی ترقی میں روڑا اٹکانے کو حب الوطنی کا ایک اعلیٰ فعل خیال کریں گے- میں اس سوال کے بارہ میں اس حد تک تو ہندوؤں سے متفق ہوں کہ حب الوطنی کے جذبات کو انصاف کی حدود کے اندر بڑھانا ملکی حکومت کے لئے ضروری ہے- لیکن میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمان اپنے اس وسیع جذبہ محبت کو جو وہ کل دنیا کے مسلمانوں سے رکھتا ہے- کس طرح دور کر سکتا ہے- وہ صدیوں سے اسے ورثہ میں مل رہا ہے اور درحقیقت وہ اب اس کی طبیعت ثانیہ بن گیا ہے- اور پھر انصاف کی شرط جو حب الوطنی کے ساتھ میں نے لگائی ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- کل کو ہندوستان عرب پر اوم کا جھنڈا کھڑا کرنے کی نیت کرے جیسا کہ آریہ لیڈر کہہ چکے ہیں تو یقیناً مسلمان اس وقت اپنی اعلیٰ ذمہ داریوں کو ملکی ذمہ داری پر قربان نہیں کر سکے گا- چھٹی وجہ چھٹا سبب جو اکثریت کو اقلیت کے دبا دینے یا دبائے رکھنے پر مجبور کرتا ہے یہ ہے کہ اکثریت اقلیت کی گری ہوئی اقتصادی حالت سے فائدہ اٹھا رہی ہو اور خیال

Page 452

۴۰۹ کرتی ہو کہ اقلیت کی بیداری سے اسے نقصان پہنچے گا- پس وہ ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ اقلیت غافل ہی رہے- یہ وجہ بھی اس وقت پیدا ہے- جس طرح یورپ کی بہت سی دولت ایشیا کی غفلت کی وجہ سے ہے، اسی طرح ہندوؤں کی بہت سی دولت مسلمانوں سے براہ راست یا بالواسطہ آتی ہے- مسلمان تاجر نہیں، اس لئے سب تجارت کا نفع ہندو اٹھا رہے ہیں، مسلمان کارخانہ دار نہیں اس لئے صنعت و حرفت کا نفع بھی ہندو ہی اٹھا رہے ہیں- مسلمان اعلیٰ پیشہ ور نہیں اس لئے اعلیٰ پیشوں کا فائدہ بھی ہندو ہی حاصل کر رہے ہیں- جیسے وکلاء، ڈاکٹر، انجینیئر وغیرہ- مسلمان بینکر نہیں، پس بنک کے نفع کو بھی ہندو ہی حاصل کر رہے ہیں- مسلمان ٹھیکیدار نہیں پس ٹھیکیداری کے منافع بھی ہندوؤں کو ہی پہنچ رہے ہیں- مسلمانوں میں تعلیم کم ہے، پس گورنمنٹ کے عہدے بھی ہندوؤں کے ہی ہاتھ میں ہیں- مسلمان تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں، پس یونیورسٹیوں سے بھی ہندو ہی فائدہ حاصل کر رہے ہیں- غرض ہر اک اقتصادی میدان میں مسلمان ہندوؤں سے پیچھے ہیں اور ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہندوؤں کو خاص نفع ہو رہا ہے- اب اس حالت میں ہندو خوب سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ترقی کی تو ہماری دولت کم ہو جائے گی اور ایک حصہ دولت کا مسلمان لے جائیں گے- پس ان حالات میں کوئی عقلمند کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ ہندو بہ رضاؤ رغبت مسلمانوں کو آگے بڑھنے دیں گے- کیا مسلمان اپنی مقبوضہ چیزیں ہندوؤں کو بانٹ دیتے ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ اپنی مقبوضہ چیزیں بخوشی مسلمانوں کو دے دیں- پس جب حالات یہ ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو ہر ایک مسلمان کو یہ اندیشہ ہے اور بالکل جائز اندیشہ ہے کہ ہندو برسراقتدار آنے پر پورا زور لگائیں گے کہ مسلمان اپنی غفلت سے بیدار نہ ہوں- اور ضروری ہے کہ پہلے سے ایسے قواعد بنا لئے جائیں کہ ہندو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں اور مسلمانوں کے لئے کام کے دروازے کھلے رہیں- بعض لوگ اس موقع پر نادانی سے یا مسلمانوں کو غافل رکھنے کیلئے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ترقی کے راستے بہت ہیں ملک ابھی اور ترقی کرے گا- پس مسلمانوں کی ترقی کے راستے مسدود نہیں ہیں- مگر یہ بات احمقانہ ہے دنیا کی ترقی کے بھی بہت سے راستے ہیں- لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یورپ کے لوگ ہندوستان کی صنعتی ترقی کے راستے میں روکیں ڈالتے ہیں- اگر انگریز صناع دور کا فاصلہ پر بیٹھے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہندوستان صنعت و حرفت میں ترقی کر

Page 453

۴۱۰ جائے کیونکہ ڈرتے ہیں کہ اس سے ہمارے مال کو نقصان پہنچے گا تو ہندوستان کے ہندو تاجر کس طرح برداشت کر سکیں گے کہ مسلمان بھی اس میدان میں آگے نکلیں- اسی طرح گورنمنٹ عہدے محدود ہیں اور ان پر ہندو قابض ہیں کیا اس میں کوئی شک ہے کہ جس قدر عنصر مسلمانوں کا گورنمنٹ کے عہدوں میں بڑھایا جائے اسی قدر عنصر ہندوؤں کا کم ہوگا- کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مسلمانوں کو عہدے دینے کے لئے کوئی گورنمنٹ ملکی ہو یا غیر ملکی نئے عہدے نکالے- پس کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندو بخوشی خود مسلمانوں کیلئے جگہیں خالی کر دیں گے- اگر ایسا نہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ابھی سے ایسے قوانین تجویز ہو جائیں جن سے مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں- مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق واقعات کی شہادت اس وقت تک تو میں نے اصولاً اس امر کی بحث کی تھی کہ ہندوستان میں ایسے حالات موجود ہیں جن کی بنا پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے لیکن اب میں مختصراً واقعات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جائے- میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان بھی اس امر کا انکار کرے گا کہ ہندو مسلم تعلقات وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہئیں یا یہ کہ تعصب دونوں اقوام میں کام نہیں کر رہا گورنمنٹ کی ملازمتوں کو لے لو- شروع سے لیکر آخر تک ہندو عنصر غالب ہے- مسلمان اپنے جائز حقوق سے محروم کئے جا رہے ہیں جو شخص کسی نہ کسی سبب سے ملازمت میں آ بھی جاتا ہے تو ہندو عملہ اس کے نکالنے کے درپے رہتا ہے- چند دن ہوئے بنگال کے ایک مسلمان ممبر کونسل نے نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ تعجب ہے کہ ایک مسلمان ملازم ایک ہندو افسر کے ماتحت آکر فوراً نالائق ہو جاتا ہے لیکن ایک انگریر افسر کے نیچے جا کر لائق بن جاتا ہے- ہم پنجاب میں بھی اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کر سکتے ہیں کہ نہایت لائق مسلمان جن کی انگریز افسروں نے بے حد تعریف کی تھی، ہندو افسروں کے ماتحت آکر بالکل نالائق بن گئے بعض ہندو مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کیلئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ انگریزوں کی چال ہے وہ ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کارروائی میں ہندوؤں کا فائدہ ہے یا انگریزوں کا اگر ہندوؤں کا فائدہ ہے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انگریز ایسا کرتے ہیں- دوسرے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا

Page 454

۴۱۱ عقل اسے باور کر سکتی ہے کہ انگریز اس غرض کے لئے ہندوؤں کو ہی اپنا آلہ کار بناتے ہیں- کبھی مسلمانوں کو یہ سبق نہیں پڑھاتے کہ ہندوؤں کو نالائق قرار دے کر نکالنے کی کوشش کرو- تیسرے کئی گورنمنٹ افسر بعد میں قومی لیڈر بن گئے ہیں- کیا ان میں سے کوئی شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ اسے انگریز کہا کرتے تھے کہ تو ہندوؤں کو لائق قرار دے اور مسلمانوں کو نالائق بنا بنا کر نکالتا جا- میں تو دیکھتا ہوں کہ یہ مرض اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب بعض ہندوافسر برملا مسلمان امیدوار کو کہہ دیتے ہیں کہ تم پر کوئی کیس کھڑا کروں یا یونہی اپنی مرضی سے فلاں عہدہ سے دست برداری دے دو گے- میرے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن افسوس کہ اس کا علاج موجود نہیں- یہی حال تعلیمی محکموں میں ہے- تعلیم کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کئے جا رہے ہیں مسلمان زیادہ فیل کئے جاتے ہیں- بعض فنون کے پروفیسر صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تمہیں پاس نہیں ہونے دینا- اور اورل )ORAL) امتحان میں فیل کر دیتے ہیں- گورنمنٹ سے وظیفہ لیتا لیتا طالبعلم جس وقت آخری منزل پر پہنچتا ہے، اس کا کیریکٹر تباہ کر دیا جاتا ہے- مسلمان دکانداروں سے ہندو سودا نہیں لیتے- اور کھانے پینے میں جو چھوت چھات ہے وہ تو ظاہر ہے ہی- سٹیجوں پر سے بھائی بھائی کا اعلان کرنا اور بات ہے- ان کروڑوں محنت کش خاندانوں میں جا کر دیکھو کہ کس طرح مسلمانوں کے گھروں میں ماتم ہو رہا ہے ہندو بنیا زمیندار کا خون چوس رہا ہے- اس سے ہندوزمیندار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے- مگر چونکہ اس کی کوشش کا آخری نتیجہ مسلمانوں کی تباہی ہے اس کے خلاف قانون پاس نہیں ہونے دیا جاتا- اور مسلمان کے ساتھ ہندو کو اس امید میں پیسا جاتا ہے کہ اس کی حالت کو ہم بعد میں درست کر لیں گے- مسلمان اخبارات کے اشتہارات کے کالم دیکھو ہندو اخبارات سے دوگنی اور تین گنی اشاعت ہے- مگر عدالتوں کے اشتہار اور دوسرے گورنمنٹ اشتہارات ان میں بہت کم نظر آئیں گے- لیکن ہندو اخبارات ذلیل سے ذلیل بھی ان اشتہارات سے بھرے ہوئے ہوں گے- اور انہی اشتہارات کی بدولت چل رہے ہوں گے- اسلامی مسائل کونسل میں ایک نجاست کی طرح پھینکے جاتے ہیں لیکن ہندوؤں کی ہر اک ضرورت مقدم کی جاتی ہے- آج ہی کا تار مظہر ہے کہ سندھ کی علیحدگی کا سوال بمبئی کونسل میں پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا- ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند انسان بھی کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کو خود حفاظتی کی ضرورت نہیں اور کیا ان

Page 455

۴۱۲ حالات کی موجودگی میں کوئی مسلمان جو اپنے ہوش و حواس میں ہو، اسلام کے فوائد کو بغیر معقول گارنٹی )GUARANTEE) کے مہمل چھوڑ سکتا ہے- اگر کوئی ایسا کرے گا تو آئندہ نسلیں اس پر لعنت کریں گی اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں ایک مجرم کی حیثیت میں پیش کیا جائے گا- مسلمانوں کا پہلا مطالبہ ہندوستان کے لئے فیڈرل حکومت جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مسلمانوں کا پہلا مطالبہ فیڈرل حکومت کا ہے یعنی اختیاراتحکومت صوبہ جات کو ملیں جنہیں کامل خود اختیاری حکومت حاصل ہو- مرکزی حکومت کو صرف وہی کام صوبہ جات کی طرف سے تفویض ہوں جن کا مرکزی حکومت کو دیا جانا ضروری ہو اور جن اختیارات کا قانون اساسی میں ذکر نہ ہو وہ صوبہ جات کے سمجھے جائیں- اور ضرورت پیش آنے پر صوبہ جات وہ اختیار خاص قانون کے ماتحت مرکزی حکومت کو دے سکتے ہیں- مرکزی حکومت کو کسی صورت میں صوبہ جات کی حکومت کے کاموں میں دخل دینے کا حق حاصل نہ ہو- یہ مطالبہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب مسلمانوں کا ہے- کم سے کم دونوں مسلم لیگوں کا یہ مطالبہ ضرور ہے- اس مطالبہ کو نہرو کمیٹی نے کلی طور پر مسترد کر دیا ہے- اور بجائے فیڈرل حکومت کے مرکزی حکومت کے طریق کو منظور کیا ہے- یعنی ان کی تجویز کی رو سے ہندوستان کی حکومت کے اختیار مرکزی پارلیمنٹ کو دیئے گئے ہیں اور ان کی طرف سے بعض اختیارات صوبہ جات کو عطا کئے گئے ہیں- مسلمانوں کے مطالبہ اور نہرو رپورٹ کی تجویز میں فرق مسلمانوں کے مطالبہ اور اس تجویز میں فرق یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے مطالبہ کے مطابق حکومت قائم کی جاتی تو حکومت ہند کو صوبوں کی حکومتوں کے کام میں دخل دینے کا اختیار نہیں رہتا تھا- دوسرے یہ اختیار بھی نہیں رہتا تھا کہ وہ کسی صوبہ کے اختیار چھین سکے- تیسرے اگر کوئی نیا کام نکلے تو اس پر مرکزی حکومت کو حق حاصل نہیں ہوتا تھا- بلکہ ہر نئے کام کا حق صوبہ جات کی حکومت کو حاصل ہوتا تھا- اگر وہ چاہتے تو کثرت رائے سے مقررہ قواعد کے مطابق اسے مرکزی حکومت کے سپرد کر سکتے تھے- نہرو کمیٹی کی تجویز کے مطابق مرکزی حکومت کو صوبہ جات کے کاموں میں دخل دینے کا پورا اختیار ہے- وہ جب چاہے کسی صوبہ کے اختیار کو چھین لے- اور اس کی حکومت کا کوئی اور انتظام کر

Page 456

۴۱۳ دے- یا جب چاہے سب صوبہ جات کے اختیارات کو محدود کر کے اپنے اختیار کو بڑھائے- اور جو نیا کام نکلے بطور حق کے وہ اسی کے حلقہ کار میں ہوگا- وہ اگر چاہے تو صوبہ جات کی طرف اس حق کو منتقل کر دے اور اگر چاہے تو خود اپنے پاس رکھے- ہندو مسلم تعلقات پر دونوں تجاویر کا اثر دونوں تجاویز میں فرق بتانے کے بعد میں اب یہ بتاتا ہوں کہ ہندو مسلم تعلقات پر ان دونوں تجاویر کا کیا اثر پڑتا ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں چونکہ مسلمان صرف پچیسفیصدی ہیں- اس لئے ان کو خواہ کتنا بھی حق دے دیا جائے- وہ مرکزی حکومت میں ہندوؤں سے بہت کم رہیں گے- نہرو کمیٹی نے انہیں پچیس فیصدی حق دیا ہے- اس صورت میں تین ہندوؤں کے مقابلہ میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلمان ہوگا- اور مسلم لیگ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مانگتی ہے- اس صورت میں دو ہندوؤں کے مقابلہ میں صرف ایک مسلمان ہوگا- اور یہ ظاہر ہے کہ پچھتر کے مقابلہ میں پچیس یا چھیاسٹھ کے مقابلہ میں تینتیس ممبر کچھ بھی نہیں کر سکتے پس مرکزی حکومت لازماً ہندوؤں کے اختیار میں ہوگی- اور وہ جو کچھ چاہیں گے کر سکیں گے- اب چونکہ اصل حاکم ہندوستان کی مرکزی انجمن قرار دی گئی ہے اور صوبہ جات صرف گماشتے بنائے گئے ہیں اس کا لازماً نتیجہ یہ ہوگا کہ باوجود چند صوبے مسلمانوں کی اکثریت کے قرار دینے کے حکومت اصل ہندوؤں کی ہی رہے گی اور وہ جس طرح چاہیں گے کریں گے- پس نہرو کمیٹی نے فیڈرل )FEDERAL) یعنی اتحادی حکومت کو جس میں سب صوبے برابر کے حقدار ہوتے ہیں رد کر کے مسلمانوں کو بالکل بے بس کر دیا جاتا ہے- اس تجویز پر اگر عمل ہو جائے اور باقی سب مطالبات مسلمانوں کے منظور کر لئے جائیں تب بھی مسلمانوں کا کوئی حق حکومت میں باقی نہیں رہتا- اس مضمون کو سمجھانے کے لئے میں اس فرض پر کہ صوبہ جات کے متعلق مسلمانوں کے سب مطالبات کو منظور کر لیا گیا ہے آئندہ کی حالت بتاتا ہوں کہ کیا ہوگی- مرکزی حکومت کو کلی اختیار حاصل ہونے سے ہندو کیا کچھ کریں گے مسلمانوں کے مطالبہ کے ماتحت پنجاب، بنگال، سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحدی میں ایسی حکومت ہوگی جس کا زیادہ عنصر مسلمان ہوگا- اس کے مقابلہ میں یوپی، بہار، مدراس، بمبئی، وسطی صوبوں اور

Page 457

۴۱۴ آسام میں ایسی حکومت ہوگی- جس میں ہندوعنصر زیادہ ہوگا لیکن باوجود اس کے کہ صوبہ جات کو بعض اختیار حاصل ہونگے- وہ قانونی طور پر مرکزی حکومت کے گماشتے ہونگے جس میں ہندو عنصر مسلم عنصر سے بہت زیادہ ہوگا- اب اس حالت میں دیکھ لو کہ ہندو کیا کچھ نہ کر سکیں گے- فرض کرو کل کو پنجاب اور بنگال میں مسلمان یونیورسٹی کے متعلق فیصلہ کریں کہ اس میں مسلمان عنصر نسبت آبادی کے مطابق ہو یا ملازمتوں کے متعلق فیصلہ کریں کہ ان میں مسلم عنصر آبادی کے تناسب سے ہو مرکزی حکومت اس میں دخل دے دے کہ ہمارے نزدیک یہ قانون فرقہ وارانہ اصول پر مبنی ہے- اسے ہم روکنا چاہتے ہیں- پنجاب اور بنگال اس امر کو تسلیم نہ کریں اور اپنے منشاء کو پورا کرنے پر زور دیں- مرکزی حکومت اس پر ایک مسودہ پیش کر دے کہ پنجاب اور بنگال نے چونکہ اپنے آپ کو حکومت کا اہل ثابت نہیں کیا- اس لئے اس سے فلاں فلاں حقوق مرکزی حکومت واپس لیتی ہے- یا اس کی حکومت کا نظام پوری طرح بدل کر اس اس طرح کرتی ہے- بتاؤ کہ اس وقت مسلمانوں کا کیا حال ہوگا- تم یہ نہیں کہہ سکتے- کہ ایسا کیوں ہوگا- اس وقت بھی گورنمنٹ بعض میونسپل کمیٹیوں کے ساتھ ایسا کرتی ہے کہ ان پر بعض الزامات لگا کر ان کے حقوق واپس لے لیتی ہے- مرکزی حکومت کو حکومت کا مالک قرار دے کر صوبہ جات کی حیثیت میونسپل کمیٹیوں سے زیادہ نہ ہوگی- انہیں جس قدر بھی اختیارات دے دو پھر بھی وہ مختار عام سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتے- مالک مرکزی حکومت ہوگی- وہ جس وقت چاہے گی اپنے مختار نامہ کو منسوخ کر دے گی، پھر مسلمانوں کے پاس کیا رہ جائے گا- بنگال اور پنجاب کی مسلم اکثریت کس طرح اقلیت بنائی جا سکتی ہے میں ایک اورمثال لیتا ہوں اور وہ یہ کہ نہرو رپورٹ کی رو سے مرکزی حکومت صوبہ جات کی حدود کو تبدیل کر سکتی ہے- بیشک آج مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت حاصل کر لیں، حقوق بھی لے لیں لیکن پنجاب اور بنگال چونکہ اصل مالک نہ ہونگے- بلکہ گماشتے ہونگے، اس لئے کل کو اگر مرکزی حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ آسام کو بنگال کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کے راستے میں کوئی روک نہیں- یا اڑیا علاقے بہار سے نکال کر بنگال کے ساتھ ملا دیں- اس بہانہ سے کہ اڑیا قوم چھوٹی ہے، اس کا الگ صوبہ نہیں بنایا جا سکتا- اس لئے ان سب کو بنگال میں جمع کر دو تو مسلمانوں کا کوئی بس نہیں چل سکے گا- اور اس ایک تغیر سے جو بظاہر بالکل غیر فرقہ وارانہ معلوم ہوگا، بنگال کے

Page 458

۴۱۵ مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور وہی حقوق جو مسلمانوں نے اپنے لئے حاصل کئے ہوں گے ہندوؤں کے قبضہ میں چلے جائیں گے- اسی طرح اگر پنجاب میں مرکزی حکومت تبدیلی کر دے- یوپی ایک بہت بڑا صوبہ ہے- پنجاب سے اس کی آبادی قریباً دگنی ہے- اسی طرح پنجاب کے تین اضلاع راولپنڈی، اٹک، میانوالی، افغان طرز رہائش سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت پنجاب کے اور ڈیرہ غازیخان بلوچوں سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے- اگر آئندہ زمانہ میں مرکزی حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ افغانوں سے زیادہ مشابہت رکھنے والے پنجابی اضلاع کو صوبہ سرحدی سے ملا دیا جائے اور ڈیرہ غازخان کو بلوچستان سے تو بتاؤ کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کا کیا باقی رہ جائے گا- اور پھر اگر وہ میرٹھ اور مظفر نگر کے علاقوں کو پنجاب سے ملا دیں- یا انبالہ اور دہلی کے علاقہ کو یوپی سے کاٹ کر پنجاب میں ملا دیں- تو کیا مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں نہ بدل جائے گی- اور ان دو بڑے اسلامی صوبوں میں اسلامیاکثریت کے مٹ جانے سے جس آزاد ترقی کے مسلمان خواہاں ہیں، کیا اس کا کوئی بھی امکاں باقی رہ جائے گا- اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جن کے ذریعہ سے مرکزی حکومت نہرو رپورٹ کیپیش کردہ طرز حکومت کی رو سے بنگال اور پنجاب کے اسلامی صوبہ جات کو یا تو بالکل مٹا سکتی ہے یا ان میں ہندوؤں کی اکثریت کر سکتی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے جو مطالبہ ہے، اس کی رو سے ایسا نہیں ہو سکتا- کیونکہ مسلمان فیڈرل حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں اصل مالک صوبہ جات قرار پاتے ہیں مرکزی حکومت ایک گماشتہ کی حیثیت رکھے گی وہ قانوناً صرف انہی معاملات میں دخل دے سکے گی جن میں دخل دینے کا اختیار اسے صوبہ جات دیں گے اور اس وجہ سے وہ کسی صوبہ کے حدود کو اس صوبہ کے لوگوں کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کر سکے گی اور نہ صوبہ جات کی حکومت پر الزام لگا کر اس کے اختیار چھین سکے گی- ‏ مرکزی حکومت کو سب اختیار ملنے پر مسلمانوں کو کیوں خطرہ ہے اس جگہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی حکومت کو اختیار تو سب صوبوں کے متعلق ملا ہے- ہندوؤں کے صوبوں کے متعلق بھی اور مسلمانوں کے صوبوں کے متعلق بھی پھر ہمیں کیوں اعتراض ہو- کیونکہ اصل سوال تو اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے تعلقات اچھے نہیں ہیں- اور قریب زمانہ تک

Page 459

۴۱۶ ان کے اچھے ہونے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی- اور اگر اچھے بھی ہو جائیں تو موجودہ حالات میں اس تغیر پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا- کیونکہ پچھلے پندرہ سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سال میں دو تین دفعہ بدلتے ہیں- لیکن غضب یہ ہے کہ جب تعلقات خراب ہوتے ہیں تب بھی مسلمانوں کو ہی نقصان ہوتا ہے اور جب وہ اچھے ہوتے ہیں تب بھی کچھ مسلمانوں کو ہی دینا پڑتا ہے- پس ان حالات میں ہندو مرکزی حکومت سے مسلمانوں کو تو خوف ہو سکتا ہے، ہندوؤں کو نہیں- پنجاب کے مسلمان تو ڈر سکتے ہیں کہ پنجاب کو ہندو مرکزی حکومت ہندو صوبہ نہ بنا دے- یوپی کے ہندو صوبہ کو مرکزی حکومت سے جو اکثریت کی وجہ سے ہندو حکومت ہو گی- کیا خوف ہو سکتا ہے- پس یہ کہنا کہ اثر سب پر برابر ہوگا، ایک دھوکا اور فریب ہے- گورنر یا حکومت برطانیہ دخل نہ دے سکے گی یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے حالات ہونگے تو گورنر یا حکومت برطانیہ دخل دے دے گی- کیونکہ جو لوگ اب مسلمانوں کے مطالبات پورا کرنے کو تیار نہیں وہ آئندہ کب کریں گے- اور پھر کیا اس قدر اہم معاملہ کو گورنر پر چھوڑا جا سکتا ہے- اگر ایک غیر شخص کی رائے پر اس قدر اعتبار ہو سکتا ہے تو سائمن کمیشن )SIMONCOMMISSION) کے خلاف اس قدر جوش کیوں ہے- اس میں تو ایک شخص نہیں بلکہ سات آدمی شامل ہیں اور آئندہ کا معاملہ صرف ایک گورنر سے تعلق رکھے گا- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آئینیحکومتوں میں گورنروں کے اختیارات صرف فرضی ہوا کرتے ہیں- نہرو رپورٹ موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ان شبہات کا ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ قانوناساسی میں یہ امر شامل کر دیا جائے کہ صوبہ جات کی حکومت میں مرکزی حکومت دخل نہ دے سکے گی- اور یہ بھی کہ اس کی حدود کو اس کی مرضی کے بغیر بدل نہ سکے گی- اس سے مسلمانوں کی حالت مضبوط ہو جائے گی- تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئندہ تغیرات کے بعد نہرورپورٹ کو اچھا بنا دیا جائے تو اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے- ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کی موجودہ شکل مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں- مگر اس مخصوص سوال کے متعلق تو میں یہ بھی کہوں گا کہ اس تغیر کے باوجود بھی مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے- کیونکہ اگر قانوناساسی میں اس امر کو داخل بھی کر دیا جائے تو اس امر کا کون ذمہ دار ہے کہ قانون اساسی

Page 460

۴۱۷ کو آئندہ بدل نہ دیا جائے گا- جب حق حکومت، مرکزی حکومت کو دیا گیا ہے اور قانون اساسی کو بدلنے کا حق بھی اسے دے دیا گیا ہے تو کل کو وہ ان قوانین کو بدل سکتی ہے اور اپنے لئے یہ اختیار تجویز کر سکتی ہے کہ ہم صوبہ جات کے معاملات میں ضرورت کے موقع پر دخل دے سکتے ہیں اور ان کی حدود کو بھی بدل سکتے ہیں- پس جب تک ملکیت مرکزی حکومت کی تسلیم کی گئی ہے اس وقت تک اس بارے میں کوئی حقیقی حفاظت مسلمانوں کو حاصل نہیں ہو سکتی- علاج صرف یہی ہے کہ حق حکومت صوبہ جات کو دیاجائے- ساہو کارے والی روح کا مظاہرہ لوگ نہرو رپورٹ کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں جب اس مقام پر آتا ہوں تو اس رپورٹ کے لکھنے والوں کی عقل پر مجھے تعجب آتا ہے- انہوں نے بعض دوسرے امور میں مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر کے خواہ مخواہ انہیں بھڑکا دیا- اگر وہ صرف حق حکومت مرکزی حکومت کو دے کر صوبہ جات کو سب اختیار دے دیتے اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق بھی دے دیتے- پنجاب اور بنگال میں اکثریت بھی دے دیتے- تب بھی ہندوؤں کا کچھ نہ بگڑتا- کیونکہ وہ حکومت کے ملنے کے بعد جس وقت چاہتے ان حقوق کو ملیا میٹ کر سکتے تھے- مگر معلوم ہوتا ہے کہ ساہوکارے والی روح ان پر غالب تھی- اور وہ منہ سے بھی مسلمانوں کو کچھ دینے کیلئے تیار نہ تھے- جس طرح کہ گڑیانی کے ایک بنئے کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ وہاں کے ایک پٹھان رئیس سے کہا کرتا تھا کہ خان صاحب تمہارا مال سو ہمارا مال اور ہمارا مال سوا ہاہاہا! ہاہاہا- یعنی ہنسی میں بھی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ ہمارا مال سو تمہارا مال- بلکہ ہنس کر بات ختم کر دیتا تھا- یہی حال نہرو کمیٹی کا ہے کہ اس نے ہنسی میں بھی مسلمانوں کو حق نہ دیئے- اگر وہ یہ حق رکھ کر باقی سب کچھ دے دیتی تو شائد اکثر مسلمان دھوکے میں آ جاتے- اور چند سمجھ دار لوگ ہی اصل حقیقت تک پہنچتے مگر ان کے سمجھانے کا شائد کچھ اثر نہ ہوتا- مسلمانوں کا مطالبہ پورا کرنے پر حکومت کا طریق کیا ہوگا نہرو رپورٹ کی تجویز کا بودا پن بتانے کے بعد میں اب یہ بتاتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کا مطالبہ پورا کیا جائے تو ہندوستان کی حکومت کا طریق یہ ہوگا کہ سب صوبہ جات اپنے اپنے علاقہ میں خود مختار حکومتیں سمجھے جائیں گے- جو اپنے فوائد اور ہندوستان کے مجموعی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے- اس امر پر اتفاق کریں گے کہ

Page 461

۴۱۸ چنداختیارات جن کا ایک مرکز کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے جیسے ملکی فوج )صوبہ جات اپنی ضروریات کیلئے ایک مقامی فوج بھی رکھتے ہیں) ریل، تار، ڈاک، محصول برآمد درآمد کا انتظام، امور خارجیہ اور ان کا مقرر کرنا، سکہ کا اجراء وغیرہ وغیرہ ایک مرکزی حکومت کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں- جو اختیارات مرکزی حکومت کو شروع میں مل جائیں گے- ان سے زائد اس نے اگر حاصل کرنے ہوں یا کوئی نیا صیغہ نکلے جس کا اس سے پہلے خیال نہ ہو تو وہ چند قواعد کے مطابق تمام صوبہ جات مل کر اور مشورہ کے بعد اگر چاہیں تو ان کو عطا کریں گے- اس طرزحکومت میں ہر اک صوبہ اپنے طور پر ترقی کرنے کا پورا اختیار رکھے گا- اسلامی صوبے بغیر ہندو مرکزی حکومت کی دخل اندازی کے خوف کے آزادی سے ترقی کر سکیں گے اور ہندو صوبے اپنی جگہ ترقی کر سکیں گے اگر کہو کہ ہندو صوبوں میں مسلمانوں پر ظلم ہوا تو اس صورت میں اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہ ہوگی- تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرکزی حکومت تو ہندو ہی ہوگی- اس کے ذریعہ سے مسلمانوں نے کیا کر لینا ہے- اگر ہندو ان کی بات سننے پر تیار ہونگے تو وہی اثر جو مرکزی حکومت پر ڈالنا ہے، اس صوبہ کی حکومت پر ڈالا جا سکتا ہے جس میں جھگڑا پیدا ہوگا- لیکن مرکزی حکومت کو حکومت کا حق دے دینے میں تو مسلمانوں کیلئے کوئی صوبہ بھی آزاد نہ رہے گا- اس آزاد حکومت کا یہ بھی اثر ہوگا کہ مرکزی حکومت بھی ظلم کرتے ہوئے ڈرے گی- کیونکہ وہ جانے گی کہ اس کے اختیار کی وسعت صوبہ جات کی رائے پر ہے- اگر وہ کسی خاص مذہب کے صوبہ کو دق کرے گی تو اسے بھی حقوق کے ملنے میں مشکل ہوگی- اس صوبہجات کی نگرانی میں یاد رکھنا چاہئے کہ آٹھ یا نو ہندو صوبوں کے مقابلہ میں پانچ مسلمان صوبے ہونگے- اور آبادی کی نسبت سے مسلمانوں کا حق زیادہ ہو جائے گا- یعنی ثلث سے بھی زیادہ اور اختیارات کی وسعت کے سوال کے متعلق دوسری حکومتوں کی طرح یہ قانون بنانا ہوگا کہ تین چوتھائی صوبوں کی مرضی پر اختیارات وسیع ہو سکتے ہیں- اور اس طرح مسلمانوں کا زور بہت حد تک موثر ہوگا- مسلمانوں کا فیڈرل حکومت کا مطالبہ جائز ہے یہ بتانے کے بعد کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ضروری ہے اور بلاوجہ نہیں اور یہ کہ اس کے بغیر مسلمانوں کے حقوق ہر گز محفوظ نہیں رہتے اور نہرو رپورٹ کا اس مطالبہ کو رد کرنا گویا مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت سے انکار کرنا ہے، اب میں اس امر پر روشنی ڈالتا

Page 462

۴۱۹ ہوں کہ کیا یہ مطالبہ جائز ہے، سو یاد رکھنا چاہئے کہ جواز پر دو طرح غور کیا جا سکتا ہے- اول: کیا اس مطالبہ سے کسی اور کے حقوق پر زد پڑتی ہے- دوم: کیا ملک کی ترقی اور نشوونما کے لئے یہ مطالبہ مضر ہے- اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی ایک بھی ثابت ہو تو ہمیں اس مطالبہ کے پورا ہونے پر مسلمان کے فوائد اور اس کے مقابلہ پر ملک یا دوسری اقوام کو جو نقصانات پہنچ سکتے ہیں ان کا موزانہ کرنا پڑے گا- پہلا سوال کہ کیا اس مطالبہ کے پورا کرنے سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس جگہ پیدا ہی نہیں ہوتا- کیونکہ فیڈرل حکومت کے قیام میں کسی قوم کو نقصان نہیں پہنچتا- ہندوؤں کی اس ملک میں کثرت ہے- مرکزی حکومت میں ان کی کثرت ہی رہے گی- باقی رہے صوبہ جات ان میں بھی جو صوبے ہندو اکثریت والے ہیں، ان میں ہندوؤں کی کثرت رہے گی- اور جو مسلمان اکثریت والے ہیں، ان میں مسلمانوں کی اکثریت رہے گی- پس اس انتظام میں نہ ہندوؤں کا کوئی نقصان ہے اور نہ کسی قوم کا- اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہے- اور یہ مطالبہ مسلمانوں کا کسی رعایت کا مطالبہ نہیں ہے- بلکہ بغیر کسی رعایت کے اپنے حق کی حفاظت کا مطالبہ ہے- اور اگر ہندو انہیں ایسے حقوق بھی دینے کیلئے تیار نہیں جن میں انہیں کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی، صرف اقلیتوں کی حفاظت ہوتی ہے تو انہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ اقلیتیں ان کے ساتھ مل جائیں گی- فیڈرل طرز حکومت ترقی میں روک نہیں دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا یہ مطالبہ ملک کی ترقی کے راستہ میں تو روک نہ ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ کا اصول کوئی غیر مجرب اصول نہیں ہے، بلکہ ایک لمبے عرصہ سے اس کا تجربہ کیا جا رہا ہے اور یہ بہترین اصل ثابت ہوا ہے- برٹشامپائر )BRITISHEMPIRE) بھی درحقیقت ایک قسم کا فیڈریشن )FEDERATION) ہے کہ جس کے آزاد حصوں کے کام میں مرکزی حکومت کوئی دخل نہیں دیتی- لیکن سب سے بہتر تجربہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہوا ہے- ان ریاستوں کی گورنمنٹ کی ابتدا ہی فیڈرل اصول پر ہوئی ہے اور برابر یہ گورنمنٹ ترقی ہی کرتی چلی جا رہی ہے- اس وقت سب دنیا سے مالدار حکومت یہی ہے، بلکہ سب سے زیادہ طاقتور بھی- پچیس سال کی بات ہے کہ انگریزی حکومت

Page 463

۴۲۰ سب سے بڑی دو بحری حکومتوں کے بیڑوں سے بڑا بیڑا بناتی تھی- لیکن آج اس وسیع حکومت کو ریاستہائے متحدہ کے مقابلہ سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے- اور کل ہی کی بات ہے کہ ایک لیبر لیڈر نے تقریر میں کہا کہ کیا کوئی حکومت پاگل ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ ریاستہائے متحدہ کو ناراض کر کے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال لیگی- پس باوجود اس کامیاب تجربہ کے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ فیڈرل حکومت سے گورنمنٹ طاقت نہیں پاتی- ریاستہائے متحدہ کے علاوہ جنوبی افریقہ، آسڑیلیا اور سوئٹزرلینڈ میں بھی اسی قسم کی حکومت ہے- گو آسڑیلیا اور ساؤتھ افریقہ کی حکومتوں پر انگریزی طرز حکومت کا اثر پڑا ہے اور سوئٹزرلینڈ نے ملک کے چھوٹا ہونے کے سبب سے بعض ایسے قوانین بنائے ہیں کہ وسیع ملک میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا- مگر بہر حال یہ حکومتیں فیڈرل اصول پر ہیں اور کامیاب طور پر چل رہی ہیں- ان کے علاوہ ایک اور نئی حکومت ہے یعنی زیکوسلویکا جس میں نئی قسم کا تجربہ کیا گیا ہے- یعنی سارے ملک میں تو فیڈریشن نہیں ہے- لیکن روتھینیا کے علاقہ کو ان لوگوں کے خوف کی وجہ سے کامل خود اختیاری حکومت دیدی گئی ہے جس کو کبھی مٹا نہ سکنے کا عہد زیکوسلویکا نے کیا ہے- مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر اسی طریق پر ہندو راضی ہو جائیں یعنی پانچوں مسلم صوبے فیڈریشن کے اصول پر ہندوستان سے ملحق رہیں- اور ہندو صوبے مضبوط مرکزیحکومت کے ماتحت رہیں- اور جس طرح روتھینیا والوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ ان معاملات میں مرکزیپارلیمنٹ میں دوسرے صوبوں کے متعلق رائے نہ دیں گے جن امور میں کہ ان کے صوبے میں مرکزی حکومت دخل نہیں دیتی- (مگر زیکوسلویکا نے ان کے اس اقرار کے باوجود اپنے معاملات میں رائے دینے کا انہیں حق دیکر ایک بے نظیر وسعت حوصلہ کا ثبوت دیا ہے)- اسی طرح مسلمان بھی شوق سے یہ عہد کر لیں گے کہ جو اختیارات مسلم صوبہ جات اپنے لئے محفوظ رکھیں گے ان میں ان صوبہ جات کے نمائندے دوسرے صوبوں کے کاموں میں دخل نہ دیں گے- ہندوستان کی فیڈریشن کیسی ہو گو یہ موقع نہیں کہ میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کروں کہ ہندوستان کی فیڈریشن کیسی ہو- لیکن چونکہ ممکن ہے بحث میں بعض نقائص کو لوگ پیش کریں- اس لئے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان میں ریاستہائے متحدہ کا طریق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے- کیونکہ وہ ملک بھی ہندوستان کی طرح وسیع ہے اور اس میں مختلف نسلیں اور

Page 464

۴۲۱ مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں- ہاں یہ شرط ہو جانی چاہئے کہ کوئی صوبہ فیڈریشن سے آزاد نہیں ہو سکتا- اور یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف وہی اختیارات مرکزی حکومت کو دیئے جائیں جو امریکہ میں دیئے گئے ہیں بلکہ ان سے زائد اختیارات دیئے جا سکتے ہیں- ہاں اس امر کا لحاظ رکھنا ہو گا کہ صوبہ جات کے اندرونی نظم و نسق میں خلل نہ آئے- مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال میں سمجھتا ہوں کہ میں یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ فیڈریشن کا سوال مسلمانوں کے لئے موت اور حیات کا سوال ہے- اور یہ بھی کہ فیڈریشن کے اصول کو تسلیم کر لینے میں ہندؤوں کا کوئی نقصان نہیں اور سیاستا اس قسم کی حکومت میں کوئی خرابی نہیں- اور اس لئے اس حصہ کو ان فقرات پر ختم کرتا ہوں کہ مسلمان یاد رکھیں کہ ان کے سب مطالبات میں سے وزنی مطالبہ یہی ہے- اگر اسے وہ حاصل کر لیں تو باقی مطالبات میں کوئی نقص رہ بھی جائے تو کوئی حرج نہیں- لیکن اس مطالبہ میں اگر کوئی نقص رہ گیا تو پھر ان کے لئے کہیں ٹھکانا نہ ہو گا- اللہ تعالیٰٰ انہیں ہر ایک شر سے محفوظ رکھے- مسلمانوں کا دوسرا مطالبہ، تین نئے اسلامی صوبوں کا قیام دوسرا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ تین نئے اسلامی صوبے قائم کئے جائیں- کہ اس طرح کہ صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو وہی حقوق دیئے جائیں جو دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں- اور سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک کامل طور پر با اختیار صوبہ بنا دیا جائے- نہرو کمیٹی نے اس مطالبہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ صوبہ سرحدی کو دوسرے صوبوں کی طرح حقوق دے دیئے جائیں- بلوچستان کے متعلق ایک چیستان سی ہے- بعض حﷺ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق آزادی اسے ملے گا- لیکن جس جگہ حق کا فیصلہ کیا گیا ہے وہاں اس صوبہ کا ذکر نہیں ہے- نہ معلوم بھول گیا ہے یا جان کر چھوڑ دیا گیا ہے- ایک صوبہ کا صوبہ بھول جانا ایک ایسی کمیٹی کے لئے جو خاص سیاسی امور کے تصفیہ کے لئے مقرر ہوئی تھی، قابل تعجب ضرور ہے- سندھ کی علیحدگی کے رستہ میں شرائط کے روڑے سندھ کے متعلق نہرو رپورٹ ان شرائط سے آزادی کا وعدہ

Page 465

۴۲۲ کرتی ہے- کہ(اول) اس کی مالی حالت ایسی ثابت ہو جائے کہ وہ اپنا بوجھ اٹھا سکے-۳۹؎ یا اس کے باشندے یہ اقرار کر لیں کہ وہ حکومت کا بوجھ اٹھا لیں گے-۴۰؎ بشرطیکہ وہ بوجھ نہرو کمیٹی کی رپورٹ کرنے والوں کے ارادوں کے مطابق ہو-۴۱؎ (دوم) کوئی اور روک پیدا نہ ہو جائے جس کا ازالہ نا ممکن ہو-۴۲؎ (سوم) وہ یہ بھی اشارہ کرتے ہیں- اور پھر اس اشارہ کو چھپانا چاہتے ہیں کہ سندھ کو علیحدہ صوبہ بنانے کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ وہ پوری طرح آزاد صوبہ ہو وہ لکھتے ہیں کہ-: ‘’ہمیں یہ بھی کہہ دینا چاہئے کہ ایک صوبہ کی علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ضرور اس کی اقتصادی زندگی بھی علیحدہ کر دی جائے- نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ سب اعضائیگورنمنٹ اس کے لئے نئے بنائے جائیں- مثلاً یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہائیکورٹ ایک سے زیادہ صوبوں کا کام کرے’‘- ۴۳؎ سندھ کبھی آزاد نہ کیا جائے گا اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبہ کو پورا کرنے کا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ پنجاب، بنگال، سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحدی کو کامل آزادی حاصل ہو جائے گی- لیکن نہرو رپورٹ کے مطابق کم سے کم بنگال میں اسلامی عنصر کو کمزور کر دیا جائے گا- )جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا) صوبہ سرحدی کو کاملآزادی ملے گی- بلوچستان کے متعلق ان کی رائے ظاہر نہیں ہوئی- سندھ کی آزادی مشتبہ ہے، کیونکہ ان کے مطالبات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے نہایت قوی شبہ ہوتا ہے کہ سندھ کبھی بھی آزاد نہیں کیا جائے گا- اور اگر آزاد کیا جائے گا تو اس صورت سے کہ اس کی آزادی صرف نام کی ہو گی- اول تو ان کا یہ قول کہ کوئی غیر معمولی سبب پیدا نہ ہو جائے تو سندھ کو آزاد کرنے میں کوئی روک نہ ہو گی- ایک اشارہ ہے ہندو ایجیٹیٹر(AGITATOR) کو کہ اس وقت شور نہ مچاؤ- سندھ کو آزادی تمہارے ہی بھائیوں کے اختیار میں ہو گی- اور وہ اس میں پوری روک ڈالیں گے- میں اسے ایک خدا پرست انسان کا اظہار عقیدت نہیں قرار دے سکتا- جو ہر آئندہ کے کام میں خدا تعالیٰ کی قدرت کے ظہور کا راستہ کھلا رکھتا ہے- اور کسی آئندہ کی بات پر یقینی اور قطعی رائے ظاہر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا- یہ انشاء اللہ کی قسم کا جملہ نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس مقام کے سوا دوسرے مقامات پر بھی وہ ایسے ہی جملے استعمال کرتے، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے- وہ کرناٹک کی علیحدگی کے متعلق اس رضا برقضا

Page 466

۴۲۳ کے عقیدہ کا اظہار نہیں کرتے- وہ اپنی اور سفارشوں کے متعلق (اور نہرو رپورٹ ہے ہی آئندہ کے متعلق) کسی جگہ پر یہ فقرہ استعمال نہیں کرتے- پس اس جگہ ان الفاظ کا استعمال صاف بتاتا ہے کہ یہاں خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی بے بضاعتی کا اقرار نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی طاقت کا مظاہر ہے- سندھ کی مالی حالت کی شرط اسی طرح وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مالی حالت سندھ کی اس قابل ثابت ہو کہ وہ آزاد کیا جا سکے- یا وہاں کے لوگ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوں- تب سندھ کو آزاد کیا جائے گا- یہ شرط بھی ایسی ہے کہ اس میں آئندہ کے لئے سندھ کی آزادی میں روک ڈالنے کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے- کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ مالیکمیشن سندھ کو آزادی کے قابل قرار ہی نہ دے- اور سندھ کے لوگ جب بوجھ اٹھانے پر آمادگی ظاہر کریں تو ان کے لئے ایک ایسی حکومت کی تجویز پیش کی جائے جس کی ناز برداری ان کے لئے ناممکن ہو- کیونکہ سندھ کے ہندو مسلمانوں کے اجتماعی مطالبہ کے جواب میں کمیشن والے خود لکھ چکے ہیں کہ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ تمہاری مالی حالت کو مدنظر رکھ کر ایک ایسی گورنمنٹ کی تجویز کو منظور کر لیں جو تمہاری مالی حالت کے مطابق ہو- ۴۴؎پس ان باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کی آزادی کے راستہ میں ہر قسم کی روکیں ڈالی جائیں گی- اور تسلیاں جو دی گئی ہیں، صرف طفل تسلیاں ہیں- اس سے زیادہ ان کی حقیقت نہیں ہے- کسی کا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ بدظنی کیوں کی جاتی ہے- کیونکہ یہ پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے، قومی سمجھوتا ہے- اور قومی سمجھوتوں میں ہر ایک لفظ کا دیکھنا اور اس پر غور کرنا فرض ہے- اور جو ایسا نہیں کرتا وہ قومی غدار ہے نہ کہ حسن ظن کرنے والا مومن- آگے معاہدات کے الفاظ کی جانچ پڑتال نہ کرنے کے سبب سے ترکی اور عرب اور ایران اور مصر سخت نقصان اٹھا چکے ہیں اور یہ بد قسمتی ہوگی اگر پچھلے واقعات سے مسلمان فائدہ نہ اٹھائیں اور ان سے درس عبرت نہ لیں- سندھ کو کیسی آزادی دی جائے گی تیسری بات جس کی طرف کمیٹی نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ ضروری نہیں کہ سندھ پوری طرح آزاد کیا جائے- کیونکہ آزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقتصادی آزادی بھی اسے حاصل ہو- اور تمام محکمہ جات گورنمنٹ بھی اسے حاصل ہوں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ اقتصادی آزادی حاصل نہ

Page 467

۴۲۴ ہو تو وہ صوبہ آزاد کس طرح کہلا سکتا ہے- اصل چیز جس کے لئے الگ حکومتیں قائم کی جاتی ہیں وہ تو ہے ہی اقتصادی اور تمدنی آزادی- سیاست تو اس آزادی کے حصول کا ذریعہ ہے- چونکہ آزاد سیاست کے بغیر آزاد اقتصادی نشوونما حاصل نہیں ہوتی- اس لئے لوگ آزاد سیاست کی جستجو کرتے ہیں- پس اقتصادی زندگی کو کسی دوسرے صوبہ کے ساتھ وابستہ کرنے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اسے آزادی نہ دی جائے- میں افسوس سے اس امر کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ سندھ کے سوال پر جو کچھ کمیشن نے لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے تو سندھ کو مالی سوال پر آزادی سے محروم کیا جائے گا- اگر وہاں کے لوگ مالی بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوئے تو پھر ایسی وزنی مشینری حکومت کی ان کے سامنے پیش کی جائے گی جسے وہ قبول نہ کر سکیں- اور جب سندھ مایوس ہو جائے گا تو اس وقت اس کے سامنے وہ تجویر پیش کی جائے گی- جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ-: ‘’ہمیں یہ بھی کہہ دینا چاہئے کہ ایک صوبہ کی علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ضرور اس کی اقتصادی زندگی بھی علیحدہ کر دی جائے- نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ سب اعضائگورنمنٹ اس کے لئے بنائے جائیں- مثلاً یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہائیکورٹ ایک سے زیادہ صوبوں کا کام کرے’‘- ۴۵؎ اور یہ بات ظاہر ہے- کہ ایک مایوس شدہ صوبہ جب ساری نہ ملے گی تو آدھی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور سندھ کی حکومت ایک نیم آزاد صوبہ کی سی قرار پا جائے گی- بنگال میں مسلمانوں کی میجارٹی کس طرح توڑی جائے گی میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں کہ نہرو کمیٹی نے بنگال میں مسلمانوں کی میجارٹی )MAJORITY) کو توڑنے کا بھی ایک دروازہ کھلا رکھا ہے- اب میں اس پر کسی قدر روشنی ڈالتا ہوں- رپورٹ کے صفحہ۶۳ پر لکھا ہے- ‘’ہمارے شریک کار مسٹر سوباش چندرا بوس تسلی ظاہر کرتے ہیں کہ اڑیا بولنے والے علاقے آپس میں ملا دینے چاہئیں- اور اگر مالی طور پر ممکن ہو تو ان کا ایک جدا گانہ صوبہ بنا دینا چاہئے اسی طرح ان کی رائے یہ بھی ہے کہ آسام، اڑیسہ اور بہار میں

Page 468

۴۲۵ بنگالی بولنے والے علاقوں کا مطالبہ کہ انہیں بنگال سے ملا دیا جائے ایک معقول اور جائز مطالبہہے’‘- مسٹر سوباش چندرا بوس کے اس مطالبہ کے متعلق کمیشن نے ہوشیاری سے بحث نہیں کی- کیونکہ فتنہ خوابید کو جگانے کی کیا ضرورت تھی- لیکن انہوں نے اس خیال کو پیش کر کے آئندہ کے لئے راستہ کھول دیا ہے کیونکہ وہ اپنی رپورٹ میں خود یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ صوبہجات کی نئی تقسیم زبان اور کثرت آبادی کی خواہش کے مطابق ۴۶؎ہونی چاہئے- اور یہ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان لوگوں کی زبان بنگالی ہے- اور ان کی خواہش بھی ہے کہ اپنے بنگالیبھائیوں سے انہیں ملا دیا جائے- پس جب ان کے اس فقرہ کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے- کہ ‘’یہ بات واضح ہے کہ صوبہ جات کی تقسیم نئے سرے سے ہونی چاہئے’‘- ۴۷؎تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ بنگال کی ایسی تبدیلی کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ جس میں ہندو عنصر مسلمانوں سے زیادہ ہو جائے گا- پنجاب کی مسلم اکثریت کو خطرہ اس فقرہ سے کہ ‘’یہ بات تو واضح ہے کہ صوبہ جات کی تقسیم نئے سرے سے ہونی چاہئے’‘- پنجاب بھی باہر نہیں- اور اس کی داغ بیل اگر رپورٹ لکھنے والوں کے ذہن میں نہ تھی تو اب بعد میں پڑنے لگ گئی ہے- چنانچہ پنجاب کی نیشنل پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کے متعلق انہیں نہرورپورٹ کا فیصلہ منظور ہے بشرطیکہ مغربی اضلاع صوبہسرحدی میں شامل کر دیئے جائیں- اور میرٹھ کمشنری پنجاب میں )سول اینڈ ملٹری گزٹ) یعنی انہیں یہ فیصلہ اس صورت میں منظور ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو توڑ کر ہندو اکثریت کر دی جائے یہ تجویز نہ معلوم کب تک زور پکڑے- مگر بہر حال اب عملی سیاست کے صفحات پر آگئی ہے اور ہندو مرکزی اکثریت اگر ایسا کرے تو اس میں کیا روک ہو سکتی ہے- نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کو کیا دیا پس موجودہ صورت حالات یہ ہے کہ مسلمانوں نے چاہا تھا- پنجاب، بنگال، سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان آزاد اور خود مختار اسلامی صوبے ہوں- نہرو رپورٹ سندھ کو ایک نیم آزاد حکومت دینا چاہتی ہے- بنگال کی اسلامی اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کا اشارہ کرتی ہے- اور اپنے پیش کردہ اصول کے مطابق اسے ناقابل رد مطالبہ قرار دیتی ہے- پنجاب کے متعلق ایک

Page 469

۴۲۶ ایسی ہی تحریک شروع ہو گئی ہے جس کا روکنا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں ہے- پس نہرورپورٹ کے نتیجہ میں ایک نیم آزاد سندھ ایک ہندو بنگال ایک ہندو پنجاب مسلمانوں کو دیا گیا ہے- باقی رہے صوبہ سرحدی اور بلوچستان، سو بلوچستان کا معاملہ مشکوک ہے- اگر وہ آزاد بھی کر دیا جائے تو دو چھوٹے چھوٹے صوبے مسلمانوں کے قبضہ میں رہ گئے جو زیادہ سے زیادہ ایک عبرتناک ہجرت کے لئے راستہ کا کام دے سکتے ہیں- اور مسلمانوں کو یہ یاد دلانے کے کام آئیں گے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا تھا اسے آنکھیں بند کر کے کھو دینے کی سزا میں اب تم ادھر سے ہی واپس چلے جاؤ جدھر سے تم آئے تھے- ‏ مسلمانوں کے مطالبہ کی معقولیت مسلمانوں کے مطالبہ اور نہرو رپورٹ کی تجویز میں فرق بتانے کے بعد اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا مطالبہ ضروری تھا- سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر کی ضرورت کو تمام دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ جن اقوام کے مذہب اور تمدن میں اختلاف ہو، انہیں آزاد نشو ونما کا موقع ضرور ملنا چاہئے ورنہ فساد اور فتنہ کا دروازہ وسیع ہو جاتا ہے- اور صلح اور امن حاصل نہیں ہوتا- یورپ میں جہاں جہاں زبان اور تمدن کا اختلاف ہے- ان علاقوں کو الگ علاقہ کی صورت میں نشو ونما پانے کا موقع دیا جاتا ہے- زیکوسلویکا کا واقعہ میں پہلے لکھ چکا ہوں- اس میں روتھینیا کو الگ اور اندورنی طور پر آزاد حکومت عطا کی گئی ہے- ریاستہائے متحدہ کی ریاستوں کا قیام بھی اسی اصل پر ہے کہ چونکہ وہ الگ الگ پہلے سے قائم تھیں اور ہر اک کا ایک خاص طریق تمدن قائم ہو چکا تھا اور مذہب کا بھی اختلاف تھا، اس لئے ریاستوں کو توڑ کر ایک حکومت قائم کرنے کی بجائے انہیں علیحدہ ہی رہنے دیا گیا پس یہ مطالبہ بالکل عقل کے مطابق ہے- اور اس کی ضرورت مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص تمدن اور اپنی روایات کو قائم رکھ سکیں اور ان کی قومی روح تباہ نہ ہو جائے- جو ضرورت ہندوستان کو انگریزی اثر سے آزاد ہونے کی ہے وہی ضرورت مسلمانوں کو ان کی کثرت رکھنے والے صوبوں میں ایک حد تک آزاد رہنے میں ہے- اگر یہ ضرورت غیر حقیقی ہے تو پھر ہندوستان کی آزادی کی ضرورت بھی غیر حقیقی ہے- مگر میں تفصیل سے اس بحث پر یہاں نہیں لکھ سکتا، کیونکہ اس کے دلائل محفوظ نشستوں کی ضرورت کے دلائل سے ملتے ہیں اور اس کا ذکر آئندہ ہوگا پس اس جگہ میں اس پر زیادہ تفصیل سے بحث کروں گا-

Page 470

۴۲۷ مسلمانوں کے مطالبہ سے کسی کے حقوق کا اتلاف نہیں اب رہا یہ سوال کہ کیا یہ مطالبہ جائز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقوق کے لحاظ سے بھی اور سیاست کے لحاظ سے بھی یہ مطالبہ بالکل جائز ہے حقوق کے لحاظ سے اس لئے کہ اس میں کسی کے حق کا اتلاف نہیں- صوبہ سرحدی کو نیابتی حکومت نہ دینے میں سرحدیوں کے حقوق کا اتلاف ہے- اسی طرح سندھ جس کی نسبت خود رپورٹ والے تسلیم کر چکے ہیں- کہ اس کی زبان علیحدہ ہے- اس کا تعلق بمبئی سے مصنوعی ہے- بمبئی تک لوگوں کا پہنچنا بہت مشکل ہے- اس کی آزادی میں کسی کا حق کس طرح مارا جا سکتا ہے- اگر حق مارا جاتا ہے تو سندھ کو الگ نہ کرنے کی صورت میں سندھیوں کا مارا جاتا ہے- بلوچستان پہلے ہی ایک علیحدہ صوبہ ہے پس اسے نیابتی حق دینے میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے- سندھ کی آزادی اور ہندو دو باتیں ہیں جنہیں پیش کیا جا سکتا ہے- ایک تو یہ کہ اس تغیر میں ان ہندوؤں کا نقصان ہے جو ان صوبوں میں بستے ہیں- کیونکہ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں انہیں نقصان پہنچنے کا احتمال ہے- لیکن یہ کوئی نقصان نہیں- اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر بمبئی، مدراس، یوپی، بہار وغیرہ صوبوں کو بھی حق نہیں ملنے چاہئیں- کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اقلیت کو ایسا ہی خوف ہو سکتا ہے- بلکہ حق یہ ہے کہ کہ مسلمانوں کو زیادہ خوف ہے- کیونکہ مرکزی حکومت گو فیڈرل اصول پر ہو پھر بھی ایک بہت بڑا وزن رکھے گی اور اس میں اکثریت ہندوؤں کی ہوگی- دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ سندھ پر بمبئی کا بہت کچھ روپیہ خرچ ہو چکا ہے، اس لئے اسے آزادی کا حق نہیں- یہ جواب بھی درست نہیں- یہ تو ویسا ہی جواب ہے جیسا کہ بعض انگریز کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہمارے تاجر ہیں- ہم سرمایہ لگا چکے ہیں، اس لئے اسے آزادی نہیں ملنی چاہئے- اگر سندھ پر بمبئی کا اس قدر بھی خرچ ہو رہا ہوتا تو آج بمبئی کے ہندو سندھ کی آزادی پر سب سے زیادہ زور دینے والے ہوتے- مگر وہ سب سے زیادہ سندھ کو قابو رکھنا چاہتے ہیں- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گو ظاہر میں بمبئی سندھ پر روپیہ خرچ کر رہا ہے، لیکن اصل میں وہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- کیا اس میں شک ہے کہ کراچی جیسا بندر موجود ہوتے ہوئے سندھ مالی ترقی نہیں کر سکا- اور کیا اس کی یہی وجہ نہیں کہ بمبئی سندھ سے فائدہ حاصل کر رہا تھا- اور نہیں چاہتا تھا کہ

Page 471

۴۲۸ کراچی ترقی کر سکے تا کہ اس کا فائدہ ضائع نہ جائے- غرض بمبئی نے بلاواسطہ اگر سندھ پر ایک روپیہ خرچ کیا ہے تو بالواسطہ اس نے دو کمائے ہیں اور تب ہی اس کی وابستگی اسے اس قدر مرغوب ہے- پس یہ دونوں اعتراض باطل ہیں اور کسی کا حق سندھ کے آزاد ہونے میں تلف نہیں ہوتا- صوبہ سرحدی اور سندھ کو آزادی دینا سیاستا ًضروری ہے اب رہا سیاست کا سوال سو سیاستا ان صوبوں کے آزاد ہونے میں بڑا نفع ہے اور نہ ہونے میں نقصان- اگر سندھ کو نیابتی حکومت دے کر علیحدہ صوبہ نہ بنایا گیا تو جیسا کہ خود نہرو رپورٹ نے تسلیم کیا ہے، سندھ میں سخت ایجیٹیشن (AGITATIONS) ہوگا اور ملکی طاقت ضائع ہو گی- ۴۸؎ صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو اگر نیابتی حکومت نہ دی گئی تو ظاہر ہے کہ سرحدی صوبے ہونے کی وجہ سے وہ سرحد پار کی حکومتوں کی سازش کی آماجگاہ بن سکیں گے- بہترین سیاسی پالیسی یہی ہوتی ہے کہ سرحدی صوبوں کو خوش رکھا جائے- ورنہ ان میں ہمسایہ حکومتیں ریشہ دوانیاں شروع کر دیتی ہیں اور خود ملک کا ایک حصہ اپنی حکومت کے خلاف کھڑا ہو کر اسے کمزور کر دیتا ہے- یہ ظاہر امر ہے کہ اگر سرحدی صوبوں کو دوسرے صوبوں کے سے حقوق نہ ملے تو وہ ہندوستان سے ملحق رہنے پر رضا مند نہ ہوں گے- اور ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی کہ وہ کسی دوسری مملکت سے مل کر اپنی آزادی حاصل کریں- پس صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو آزادی نہ دینا بدترین سیاست ہوگی- اور ہندوستان کو نہ صرف خانہ جنگی میں مبتلا کر دے گی بلکہ غیر حکومتوں کی چھاؤنیاں اس ملک میں قائم کر دے گی- نہرو رپورٹ لکھنے والوں کے دل میں تعصب میں سمجھتا ہوں کہ میں کافی بحث کر چکا ہوں کہ تین نئے اسلامی صوبوں کے قیام کے متعلق مسلمانوں کے مطالبات بالکل درست ہیں- اور ان کے پورا کرنے میں کسی کی حق تلفی نہیں- اور سیاستا ان کا قائم کرنا ملک کے لئے نہایت ضروری ہے- اور ایسے اہم مطالبہ کا پورا نہ کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں کے دل تعصب سے خالی نہ تھے- اور یہ ظاہر ہے کہ جس وقت تک کثرت کے دل سے تعصب نہ نکلے گا، اقلیت بھی اس کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکتی-

Page 472

۴۲۹ مسلمانوں کا تیسرا مطالبہ نیابت مطابق آبادی تیسرا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ ہر صوبہ میں ہر جماعت کو اس کی تعداد کے مطابق نمائندگی کا حق دیا جائے- سوائے اس صورت کے کسی صوبہ میں اقلیت بہت کم ہو- تب اقلیت کو اس کی آبادی سے کسی قدر زیادہ حقوق دیئے جا سکتے ہیں- اور اگر ایسا کیا جائے تو جو حقوق ہندو صوبوں میں مسلمانوں کو دیئے جائیں، وہی حقوق ویسے ہی مسلمان صوبوں میں ہندوؤں کو دیئے جائیں- مطالبہ کا خلاصہ اس مطالبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑی قوم جو حساب میں آ سکتی ہے اس کے حق کو جو اس کی تعداد آبادی کے مطابق بنتا ہو، محفوظ کر دیا جائے تا کہ دوسری قومیں اپنی چالاکی سے اسے اس کے حق سے محروم نہ کر دیں- نہرو رپورٹ کا فیصلہ نہرو رپورٹ نے اس کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ خیال عمدہسیاست کے بالکل خلاف ہے کہ کسی قوم کا حق مقرر کر دیا جائے- زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو اقوام بہت ہی کم ہیں ان کے حقوق مقرر کر دیئے جائیں- اور حق سے زیادہ دینا تو کسی صورت میں بھی درست نہیں- اس امر کو سمجھ لینا چاہئے کہ حقوق کی حفاظت انتخاب سے تعلق رکھنے والے امور میں محفوظ نشستوں سے ہوتی ہے- یعنی یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ فیصدی کس قدر ممبریاں لازماً فلاں قوم کو ملیں گی اور وہ جگہیں بھی مقرر کر دی جاتی ہیں کہ جہاں سے اس قوم کے سوا کوئی اور ممبر منتخب نہیں ہو سکتا- پس حقوق مقرر کرنے سے مراد درحقیقت حلقہ ہائے انتخاب کی تعیین ہوتی ہے کہ اتنے حلقوں سے سوائے فلاں قوم کے امیدوار کے اور کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا- اب نہرو رپورٹ کے فیصلہ کے مطابق پنجاب اور بنگال کے سوا باقی صوبوں میں اگر اقلیتوں کی خواہش ہوگی تو انہیں ان کی آبادی کی تعداد کے مطابق محفوظ نشستیں دے دی جائیں گی- پس اس قانون کے مطابق پنجاب اور بنگال میں تو اپنے اپنے زور سے جس قدر ممبریاں ہندو مسلمان لے جائیں، لے جائیں- ان کی کوئی حد بندی نہیں ہوگی- اور باقی صوبوں میں سے صوبہ سرحدی بلوچستان اور سندھ اگر قائم ہو جائیں- تو ہندوؤں کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہیں تو اپنی آبادی کے مطابق نشستوں کو ریزرو کرا لیں- اور اس سے زائد میں مسلمانوں کا مقابلہ کریں- اور ان صوبوں کے سوا باقی صوبوں میں یہی حق مسلمانوں کو حاصل

Page 473

۴۳۰ ہوگا- گویا اس تجویز کے مطابق مسلم لیگ کے مطالبہ کا پورا کرنا تو الگ رہا- جو کچھ مسلمانوں کو پہلے مل رہا تھا- وہ بھی ان سے چھین لیا گیا ہے- مسلم لیگ تو یہ طلب کر رہی تھی کہ جو حق اب مسلمانوں کو مل رہا ہے- اس قدر حق مسلمانوں کے لئے محفوظ کر لیا جائے اور اس سے زائد نشستوں میں ہندوؤں کا مقابلہ کرنیکی مسلمانوں کو اجازت ہو- اور یہی حق ان صوبوں میں ہندوؤں کو مل جائے- جن میں مسلمانوں کی کثرت بہت زیادہ ہو- لیکن نہرو رپورٹ صرف اسی قدر حق مسلمانوں کا رکھتی ہے جو مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے انہیں ملنا چاہئے- جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان جو یوپی میں ۱۵ فیصدی ہیں لیکن تیس فیصدی حق نیابت انہیں مل رہا ہے- آئندہ انہیں صرف پندرہ فیصدی کا حق حاصل ہوگا- اس سے زیادہ اگر وہ زور سے لے سکیں، تو لے لیں- بہار جس میں مسلمان دس فیصدی سے بھی کم ہیں لیکن اس وقت بیس فیصدی کے قریب حق لے رہے ہیں، آئندہ انہیں صرف دس فیصدی کا حق حاصل ہوگا اور مدراس میں مسلمانوں کی آبادی چھ فیصدی کے قریب ہے، اور اس وقت انہیں حق نیابت بارہ فیصدی کے قریب ملا ہوا ہے- نہرو رپورٹ کی تجویز کے مطابق آئندہ وہاں مسلمانوں کو صرف چھ فیصدی حق حاصل ہوگا- آسام میں مسلمانوں کی تعداد اکیس فیصدی کے قریب ہے- لیکن کونسلوں میں انہیں اس وقت تیس فیصدی تک کا حق حاصل ہے- نہرو رپورٹ کے مطابق آئندہ انہیں صرف اکیس فیصدی نیابت کا حق حاصل ہوگا- بمبئی جس میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصدی کے قریب ہے- لیکن حق نمائندگی ایک ثلث کے قریب انہیں حاصل ہے، آئندہ صرف بیس فیصدی انہیں ملے گا- غرض نہرو رپورٹ نے جو سفارش کی ہے- اس کی رو سے ہر صوبہ میں مسلمانوں کی نیابت نصف سے لیکر ایک تہائی تک کم ہو جائے گی- اور اس کے مقابلہ میں جو کچھ ملا ہے- وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں اور دوسرے صوبوں میں سے جو کچھ مسلمان زور سے لے سکیں لے لیں- یہ تقسیم بالکل ایسی ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ ایک بخیل ہندو راجہ نے اپنے پروہت کو خوش ہو کر وہ گائے بخش دی تھی جو ایک سال پہلے گم ہو چکی تھی- مگر اس کا لڑکا جو اس سے بھی زیادہ بخیل تھا- گھبرا کر بول اٹھا کہ پتا جی وہ تو شاید یہ تلاش کر لے- اسے وہ گائے دیجئے جو پرارسال مر گئی تھی- لکھنؤ پیکٹ )LUCKNOWPACT) نے مسلمانوں کی جان نکالنے کی کوشش کی تھی- نہرو رپورٹ نے کھال تک ادھیڑنے کا تہیہ کیا ہے- مجھے تعجب ہے کہ وہ

Page 474

۴۳۱ مسلمان جو اس وقت اس رپورٹ کی تائید میں ہیں، وہ کیا سوچ کر تائید کر رہے ہیں- کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ واپس لیا گیا ہے وہ تو ایک یقینی چیز ہے- آٹھ ہندو صوبوں میں جو مسلمانوں کو اس وقت حق حاصل تھا- اس میں قریباً آدھا حق چھین لیا گیا ہے- یعنی کل ہندو صوبوں میں اس وقت مسلمانوں کو متفقہ اوسط کے لحاظ سے چوبیس فیصدی کے قریب حق نیابت کا حاصل تھا- لیکن آئندہ صرف چودہ فیصدی کے قریب رہ جائے گا اور اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیا وہ کچھ گیا ہے جو بالکل وہمی اور خیالی ہے- بہت بڑا دھوکا کہا جاتا ہے کہ یہ حق جو مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے کہ آئندہ مسلمان اپنے حق کے علاوہ جس قدر اور نشستوں کے لئے چاہیں گے، ہندوؤں کے مقابلہ پر کھڑے ہو سکیں گے- اس سے ان کے لئے راستہ کھول دیا گیا ہے- وہ اس کے ذریعہ سے ترقی کر سکتے ہیں اور ہندوؤں سے اپنے حق سے زیادہ نشستیں چھین سکتے ہیں- یہ خیال بالکل دھوکا ہے- اور اس کی تائید میں جو باتیں پیش کی جاتی ہیں وہ یا جہالت پر یا کم عقلی پر یا دنیا کی تاریخ سے ناواقفی پر دلالت کرتی ہیں- نیابت مطابق آبادی کے دلائل پہلی دلیل سب سے پہلی دلیل جو میں اس خیال کے رد سے پیش کرنا چاہتا ہوں وہ خود نہروکمیٹی کی اپنی شہادت ہے- جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں، کہا جاتا ہے کہ محفوظ نشستوں کے طریق کو چھوڑنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے- کیونکہ اس طرح وہ اپنے حق سے زیادہ لے لیں گے- نہرو کمیٹی بھی اس دلیل کو صحیح سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نے مسلمانوں پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں آزاد مقابلہ کا حق دے کر ان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے- ۴۹؎ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اقلیتوں کا کلی طور پر اپنے حق سے محروم ہو جانا بالکل ممکن ہے- نہرو رپورٹ بیان کرتی ہے- ‘’بے قاعدہ کانفرنس کے ریزولیوشن کے پاس ہونے کے بعد یہ بات ہمارے نوٹس میں لائی گئی ہے کہ مسلمان اقلیتوں کو اس سے سخت نقصان پہنچے گا جو کہ زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس ممبر تک مرکزی پارلیمنٹ کے لئے جس کے پانچ سو ممبر ہونگے، بنگال

Page 475

۴۳۲ اور پنجاب سے بھیج سکیں گے اور شاید ایک یا دو یوپی اور بہار سے- اور دوسرے صوبوں سے جن میں ان کی آبادی سات فی صدی سے بھی کم ہے، ان کا کسی ممبر کو بھیج سکنا قریباً ناممکن ہوگا- اور کہا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان جو چوبیسفیصدی ہیں، انہیں صرف دس فی صدی نیابت مرکزی پارلیمنٹ میں حاصل ہو سکے گی- یہی دلیل کہا جاتا ہے کہ ان صوبوں کے متعلق بھی چسپاں ہوتی ہے- جن میں کہ مسلمانوں کی اقلیت تھوڑی ہے- ہم اس دلیل کی قوت کو تسلیم کرتے ہیں، اور اس امر کو دیکھ کر حالات سے مجبور ہو گئے ہیں کہ عارضی طور پر فرقہ وارانہ عنصر کو ملک کے انتخابی نظام میں داخل کر لیں.........اور مسلمان اقلیتوں کے حق میں یہ استثناء کرتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ان کے لئے نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے مرکزی اور صوبہ جات کی مجالس میں محفوظ کر دی جائیں’‘- ۵۰؎ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو رپورٹ کو یہ امر تسلیم ہے کہ(۱)پنجاب اور بنگال سے مسلمان حد سے حد چالیس ممبر مرکزی پارلیمنٹ میں بھیج سکیں گے- (۲)اقلیتیں مخلوطانتخاب میں خطرہ میں ہوتی ہے- اور بالکل ممکن ہے کہ سات فیصدی تک کی اقلیت اپنا ایک نمائندہ بھی نہ بھیج سکے- یہ اس رپورٹ کی شہادت ہے جس کی تائید میں اس قدر شور کیا جا رہا ہے- یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ مخلوط انتخاب کی صورت میں اقلیتیں خطرہ میں ہوتی ہیں- حتیٰکہ وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ممکن ہے مدراس، بمبئی، برما اور وسطی صوبہ جات میں مسلمان مرکزیپارلیمنٹ میں ایک نمائندہ بھی نہ بھیج سکیں- اور یوپی اور بہار سے جہاں سے آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کے نمائندے بائیس کے قریب جانے چاہئیں وہ صرف دو تین نمائندے منتخب کرنے پر قادر ہو سکیں- نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اس وقت مخلوط انتخاب کی خوبی یا مضرت پر بحث نہیں کر رہا- میں صرف اس امر پر بحث کر رہا ہوں کہ آیا نہرو کمیٹی کی رپورٹ کی تجاویز کے ذریعہ سے جس قدر نمائندگی مسلمان حاصل کرنا چاہتے تھے حاصل ہو گئی ہے یا کم سے کم جس قدر نمائندگی انہیں اس وقت حاصل ہے وہ قائم رکھی گئی ہے- اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ خود اسی رپورٹ کی بنا پر یہ امر ثابت ہے کہ

Page 476

۴۳۳ زیادہ نمائندگی کا ملنا تو الگ رہا جو نمائندگی اس وقت مسلمانوں کو حاصل ہے، وہ بھی آئندہ انہیں حاصل نہ ہو سکے گی- اس حقیقت کے سمجھنے کیلئے یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اس وقت لیجسلیٹو اسمبلی (LEGISLATIVEASSEMBLY) میں مسلمانوں کو ساڑھے انتیس فی صدی حق نیابت حاصل ہے- آئندہ ہندوستانی پارلیمنٹ (PARLIAMENT) کے ممبروں کی تعداد نہرو کمیٹی نے پانچ سو تجویز کی ہے- پس آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کو سوا سو نشستیں ملنی چاہئیں اور موجودہ حق جو انہیں حاصل ہے اس کی رو سے ڈیڑھ سو نشستیں ملنی چاہئیں- کلکتہ مسلم لیگ کا اصل مطالبہ ایک تہائی کا تھا- پس اس کی رو سے ایک سو چھیاسٹھ ممبریاں مسلمانوں کو ملنی چاہئیں اب میں دکھاتا ہوں کہ نہرو کمیٹی کے اندازہ کے مطابق مسلمانوں کو کس قدر ممبریاں ملیں گی- نہرو کمیٹی اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ پنجاب اور بنگال سے مسلمان تیس اور چالیس کے درمیان نشستیں انتخاب کے ذریعہ سے حاصل کر سکیں گے- ہم فرض کر لیتے ہیں کہ جو بڑے سے بڑا اندازہ اس کا ہے، مسلمان خوش قسمتی سے اسی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے- اور سمجھ لیتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال سے مسلمانوں کو چالیس نشستیں حاصل ہو جائیں گی- دوسرے مسلمان صوبے سندھ، صوبہ سرحدی اور بلوچستان کے متعلق بھی ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہاں بھی ہندو مسلمانوں سے کوئی سیٹ چھین نہیں سکیں گے اور مسلمان اپنا حق پورا وصول کر لیں گے- چونکہ ان تینوں صوبوں کی آبادی اکاسٹھ لاکھ چھبیس ہزار ہے جس میں پانچفی صدی ہندو ہیں- پس کل مسلمان اٹھاون لاکھ باون ہزار ہوئے اور ان کا حق نیابت گیارہ نشستیں ہوا- یوپی میں مسلمانوں کی تعداد اکہتر لاکھ ہے- بہار میں پینتیس لاکھ، آسام میں پندرہ لاکھ، مدراس میں پچیس لاکھ، وسطی صوبہ میں قریباً پانچ لاکھ، بمبئی میں قریباً بارہ لاکھ- )سندھ کے علاوہ) برما کا حال مجھے معلوم نہیں- مگر غالباً زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ ہوگی- )کیونکہ ۱۹۰۱ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ چھیالیس ہزار تھی) یہ کل آبادی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہوتی ہے- اور اس پر مسلمانوں کو تینتیس ممبریوں کا حق حاصل ہوتا ہے- گویا سب کا مجموعہ چوراسی ممبریاں ہوتی ہیں یہ خیال کر کے کہ انڈمان۵۱؎ کورگ اجمیر مار واڑ وغیرہ کو اس حساب میں شامل نہیں کیا گیا- اور بعض جگہ ہزاروں کی تعداد چھوڑ دی گئی ہے- تو ہم ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ کی جگہ ایک کروڑ پچہتر لاکھ فرض کر لیتے ہیں- اس صورت میں دو ممبر اور

Page 477

۴۳۴ بڑھ جائیں گے اور چھیاسی مسلمان منتخب ہو جائیں گے- یہ اعداد اپنی حقیقت کو خود ظاہر کر رہے ہیں- مسلم لیگ کا مطالبہ ایک سو چھیاسٹھ نشستوں کا تھا- اس وقت گورنمنٹ نے جو حق دیا ہے اس کی رو سے ڈیڑھ سو نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں- آبادی کے لحاظ سے سوا سو انہیں ملنی چاہئیں- نہرو رپورٹ کا اندازہ ہے کہ ہمارے اصول کے مطابق چھیاسی نشستیں انہیں ملیں گی- خود ہی غور کر لو کہ یہ تغیر مسلمانوں کو کہاں سے کہاں لے جائے گا- یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو رپورٹ ہندوؤں کی تیار کردہ ہے- جو اپنا پورا زور اس امر پر لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو مطمئن کریں- پس جب ان کا یہ اندازہ ہے تو دوسرے اندازے ان کے مقابلہ میں کہاں ٹھہر سکتے ہیں- یہ کہنا کہ مسلمان جن علاقوں میں کم ہیں- ان میں اپنے مقرر کردہ حق سے زائد لے لیں گے، کم سے کم نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں کی رائے کے خلاف ہے کیونکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ-: ‘’ان صوبوں میں کہ جہاں مسلمان سات فی صدی سے بھی کم ہیں- )بمبئی، مدراس، وسطی صوبہ برما وغیرہ) وہاں اس امر کا کوئی احتمال نہیں کہ ایک مسلمان بھی )مرکزی پارلیمنٹ کیلئے) منتخب ہو سکے’‘- ۵۲؎ اور یوپی- اور بہار میں شاید ایک دو نشستیں حاصل کر لیں- اب بھلا کوئی بھی عقلمند اس امر کو تسلیم کر سکتا ہے کہ بمبئی، مدراس، برما اور وسطی صوبہ کے سب کے سب مسلمان تو ایک مسلمان ممبر کا انتخاب بھی اپنے اپنے حلقہ سے نہ کر سکیں- لیکن محفوظ نشستوں پر جب ان کے ووٹ ختم ہو جائیں تو پھر وہ ہندوؤں سے بھی ان کا حق چھیننے پر تیار ہو جائیں- یہ ظاہر ہے کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کو محفوظ نشستیں انہی علاقوں میں دی جائیں گی جہاں ان کی آبادی زیادہ ہوگی اور ان کے اکثر ووٹ انہی ممبروں کے چننے پر خرچ ہو جائیں گے- اور شاید باقی صوبہ میں کل مسلمان ووٹوں میں سے دس پندرہ فی صدی ووٹ رہ جائیں تو کونسی عقل اس کو باور کر سکتی ہے کہ سب کے سب ووٹ تو اپنا جائز حق بھی لینے پر قادر نہ تھے- لیکن بچے کھچے ووٹ ہندوؤں کا بھی جو ترانوے فی صدی ہونگے حق چھین لیں گے- پس یہ امر ظاہر ہے کہ جن صوبہ جات میں مسلمان کم ہیں نہرو رپورٹ اندازہ کرتی ہے کہ وہاں مسلمان اپنے حق سے ہر گز زیادہ نیابت حاصل نہیں کر سکتے- باقی رہے پنجاب اور بنگال سو اس کا حال وہ خود ہی بتا چکے ہیں کہ تیس چالیس نشستیں مسلمانوں کو ملیں گی حالانکہ آبادی کے لحاظ

Page 478

۴۳۵ سے ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں کو چوہتر نشستیں ملنی چاہئیں- خلاصہ یہ کہ نہرو رپورٹ کے اپنے بیان کے مطابق بھی بغیر محفوظ نشستوں کے مسلمانوں کا حق محفوظ نہیں ہے اور دنیا کی کوئی سیاست اس امر کو تسلیم نہ کرے گی کہ آٹھ کروڑ آبادی کو اس کے حق سے محروم کر دیا جائے- دوسری دلیل دوسری دلیل محفوظ نشستوں کی تائید میں یہ ہے کہ ہندوستان کی اقلیت اور اکثریت ایسی ہے کہ جس کی بنیاد مذہب پر ہے یورپ میں پارٹیوں کی بنیاد سیاست پر ہوتی ہے- اس لئے وہ تو روز بروز بدلتی رہتی ہیں- لیکن یہ اس قدر جلد نہیں بدل سکتیں- پس اگر ایک قوم حاکم ہوگی تو اس کے بدلنے کا احتمال ہی نہ ہوگا- اور خطرہ ہے کہ وہ اپنے لمبے اور مسلسل دور حکومت میں دوسری قوم کو نقصان پہنچا دے- مثلاً اس کی اقلیت کو اور بھی کم کر کے دکھائے- جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے کہ حکومت میں غالب پارٹی دوسری پارٹی کی تعداد کو مردم شماری میں کم کرکے دکھا دیتی ہے یا انتخاب کے ایسے قاعدے تجویز کر دیتی ہے کہ جن سے اس کی پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے اور دوسری پارٹی کو نقصان ہوتا ہے- پس ان خطرات سے کمزور پارٹیوں کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ نشستوں کو محفوظ کر دیا جائے تا کہ ایک دوسرے سے خطرہ نہ رہے- اور یاد رکھو کہ جب تک دل ایک دوسرے سے خائف رہیں گے، ملک میں امن نہ ہوگا- پس محفوظ نشستوں کا طریق امن کے قیام کا ذریعہ ہے نہ کہ اس کے مخالف- جب مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کے اتلاف کا خوف ہے تو کیا وجہ ہے کہ انہیں بنگال اور پنجاب میں بھی محفوظ نشستیں نہ دی جائیں- بہرحال وہ ان صوبوں میں اپنا حق مانگتے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں مانگتے- پس ان کا حق دینے سے انکار کرنا ان کے دلوں میں اور شبہ پیدا کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو رپورٹ خود تسلیم کر چکی ہے کہ مخلوط انتخاب سے قوموں کے حق مارے جاتے ہیں- اور اس لئے انگلستان کی مثال بھی پیش کی ہے کہ وہاں کنزرویٹوپارٹی (CONSERVATIVEPARTY) تھوڑے ووٹوں سے حاکم ہو گئی- اور لیبر پارٹی (LABOURPARTY) زیادہ ووٹ لیکر بھی شکست کھا گئی- یہی سوال مسلمانوں کا ہے کہ دو ہی بڑے صوبے ایسے ہیں- جن میں ان کی آبادی زیادہ ہے- اگر ان علاقوں میں یہی ہوتا رہا کہ تھوڑے ووٹوں والے جیتتے رہے اور زیادہ ووٹوں والے محکوم رہے تو ان کے لئے مشکل پیش آ جائے گی-

Page 479

۴۳۶ تیسری دلیل تیسری دلیل پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے لئے محفوظ نشستوں کا حق مقرر کرنے کے بارہ میں یہ ہے کہ ہندوستان کے آٹھ بڑے صوبوں میں سے چھصوبے ایسے ہیں کہ جن میں ہندو زیادہ ہیں- اور لازماً وہاں تہذیب اور تمدن کا رنگ غالب ہوگا- ہندوؤں کی زیادتی وہاں ایسی ہے کہ مسلمان کبھی بھی حکومت پر قادر نہیں ہو سکتے- دو ہی صوبے ہیں کہ جن میں مسلمان زیادہ ہیں- لیکن ان میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی نہیں کہ یہ یقین کیا جائے کہ مسلمان ہی ہمیشہ حاکم ہونگے اور اپنی روایات کے مطابق ترقی کر سکیں گے- پس مسلمان چاہتے ہیں کہ ان دو صوبوں میں اس امر کا دروازہ کھلا رہے کہ وہ اپنی روایات کے مطابق نشوونما پائیں- اور اس کی صورت سوائے محفوظ نشستوں کے اور کوئی نظر نہیں آتی- اس میں کوئی شک نہیں کہ جب نشستیں محفوظ نہ ہوں تو ایک قوم اپنے حق سے زیادہ بھی لے سکتی ہے- مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ اپنے حق کو بھی کھو بیٹھے- اور جس وقت آبادی کا فرق اس قدر کم ہو جیسا کہ پنجاب اور بنگال میں ہے- اور اقلیت ایسی مضبوط ہو جیسے کہ ہندو ہیں تو خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے- نہرو رپورٹ والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اقلیت ہو جانے کا خوف ہے- وہ لکھتے ہیں کہ-: ‘’خواہ کچھ بھی ہو(پنجاب کے) مسلمان اس قدر نشستیں ضرور حاصل کر لیں گے کہ اگر ان کی اکثریت نہ ہو تو کم سے کم ایسی مضبوط اقلیت ضرور ہوگی جو اکثریت سے کچھ ہی کم ہوگی’‘- ۵۳؎ مسلمان یہی کہتے ہیں کہ صرف دو صوبے ہیں جن میں ہماری اکثریت ہے- اور ہم اس خطرہ میں نہیں پڑنا چاہتے کہ ہماری اکثریت ایسی اقلیت ہو جائے کہ جو اکثریت سے کچھ ہی کم ہو- مسلمانوں کے اس قسم کے خیالات کا نہرو رپورٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس میں لکھا ہیکہ-: ‘’مسلمان چونکہ سارے ہندوستان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیت ہیں وہ خوف کرتے ہیں- کہ اکثریت انہیں دق نہ کرے اور اس مشکل کو دور کرنے کیلئے انہوں نے ایک عجیب طریق ایجاد کیا ہے- اور وہ یہ کہ کم سے کم بعض حصحص ہندوستان میں وہ غالب رہیں- ہم اس جگہ ان کے مطالبہ پر تنقید نہیں کرتے- اس موجودہ تفرقہ کے زمانہ

Page 480

۴۳۷ میں ممکن ہے کہ مطالبہ کسی قدر جائز ہو- لیکن ہم یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان اصول سے دور جا پڑا ہے- جن پر ہم نے اپنی سکیم کی بنیاد رکھی ہے- جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بہترین حفاظت کا ذریعہ یہی ہے کہ ایک شخص خود حاکم بن بیٹھے’‘-۵۴؎ کیا مسلمانوں کا مطالبہ خلاف انصاف ہے نہرو کمیٹی کو یہ اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ کے یہ معنی ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت بغیر اس کے ہو ہی نہیں سکتی کہ انہیں ہی حاکم بنا دیا جائے- اور چونکہ یہ بات ظاہر نظر میں ہی خلاف انصاف نظر آتی ہے- اس لئے گویا نہرو کمیٹی نے نتیجہ کو ایک ہی بات میں محصور کر کے مسلمانوں کے مطالبہ کو خلاف انصاف ثابت کیا ہے- مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں نہرو کمیٹی نے مسلمانوں کے مطالبہ کے ایسے معنی لئے ہیں جو کم سے کم ان کے سمجھدار طبقہ کے ذہن میں نہیں ہیں- مجھے یاد ہے کہ شملہ اتحاد کانفرنس کے موقع پر بھی ایک ہندوڈیلیگیٹ )DELEGATE) نے جنہیں ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارا جاتا تھا، اور شاید اگر میں غلطی نہیں کرتا تو وہ ڈاکٹر نندلعل صاحب بیرسٹر تھے، یہ ذکر کیا تھا کہ یہ کیا تجویز ہوئی کہ سی- پی میں ایک مسلمان کو کوئی ہندو مارے اور پنجاب کا ایک مسلمان آکر اس کے بدلے میں میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دے- میں جہاں تک سمجھتا ہوں یہ مفہوم مسلمانوں کے دل میں اس تجویز کا کبھی نہ تھا- قومی جرائم کی سزا میں باقی افراد قوم خواہ وہ جرم میں شریک ہوں یا نہ ہوں- یقیناً شریک ہوتے ہیں لیکن اس طرح بلاحد بندی سزائیں دینا یا بدلے لینا خلاف عقل و انصاف ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر بعض مسلمان ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھ کر ہندو صاحبان سے یہ کہیں کہ-: ‘’آپ بھی ہندوستان کی آزادی چاہتے ہیں اور ہم بھی آزادی چاہتے ہیں- آپ جانتے ہیں کہ بغیر ہماری مدد کے آپ کو یہ آزادی حاصل نہیں ہو سکتی- لیکن آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے آپ کے تعلقات ایک لمبے عرصہ سے اچھے نہیں ہیں- ہمیں شکایت ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں ہمارے حقوق تلف کر دئے گئے ہیں- پس اس کا علاج یہ کیوں نہ کریں کہ چونکہ ہندوستان ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے- جس کے اندر کئی ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے بعض ایک دوسرے سے اس

Page 481

۴۳۸ قدر مختلف ہیں کہ یورپ کی آزاد حکومتوں کی زبانیں بھی اس قدر مختلف نہیں- اور چونکہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں آپ زیادہ ہیں اور بعض میں ہم- ہم اس امر پر راضی ہو جائیں کہ جس علاقہ میں کوئی قوم زیادہ ہے، اسے غالب عنصر حکومت میں مل جائے- اس طرح ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہو جائے گا- ہر اک قوم کہے گی کہ جب دوسری قوم نے مجھ پر اعتماد کیا ہے تو کیوں میں اس پر اعتبار نہ کروں- اور ٹھنڈے دل سے سب ہندوستان کی ترقی میں لگ جائیں’‘- تو اس میں کونسی بات خلاف عقل یا خلاف انصاف ہے- اس تجویز کے یہ معنی کیوں کئے جائیں کہ سی- پی میں اگر کوئی ہندو مسلمان کو مار لے گا تو پنجاب کا مسلمان پنجاب کے ہندو کو مارے گا- یا اس کے الٹ ہوگا- اور اس طرح ڈر کر انصاف قائم ہو جائے گا- اصل مطالبہ کی غرض تو یہ ہے کہ ہندو ہر جگہ مسلمان کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے جہاں وہ عقلاً ماتحت نہیں رکھ سکتا- وہاں وہ ایسی تجویز کرتا ہے کہ اس کے غالب آنے کے لئے راستہ کھلا رہے- مسلمان کے دل میں قدرتاً اس پر شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت کا طریق یہ ہوگا کہ ہندوستان صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا تو کیوں مجھے بھی ان صوبوں میں آزاد نشوونما کا موقع نہیں دیا جاتا- جن میں کہ میری قوم زیادہ ہے- اور یہ شبہ اسے کسی نہ کسی مخفی سبب کی طرف توجہ دلاتا ہے اور گو یہ شبہ صحیح ہو یا نہ ہو مگر صلح کے راستہ میں ضرور روک ہوتا ہے- ہندوؤں اور مسلمانوں کی اکثریت میں فرق اس موقع پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے صرف اسلامی اکثریت والے صوبوں میں تو ہر قوم کے لئے ترقی کا راستہ کھلا نہیں رکھا بلکہ ہم نے تو ہر صوبہ میں یہ راستہ کھلا رکھا ہے کہ اکثریت پر اقلیت غالب آ سکے- مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا بنگال اور پنجاب کے سوا جن میں اسلامی اکثریت ہے- کوئی اور بڑا صوبہ ہے- جس میں معقول طور پر یہ امید کی جا سکے کہ اقلیت اور اکثریت عام طور پر آپس میں جگہ بدلتی رہے گی؟ اگر نہیں تو دونوں مثالوں میں مشابہت کیا ہوئی- پنجاب اور بنگال میں اقلیت ایسی طاقتور ہے کہ اگر وہ اپنے علم مال اور انتظام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے حکومت پر قائم نہ ہو تو کم سے کم وہ اکثریت کے ساتھ اپنی جگہ کا تبادلہ ضرور کرتی رہے گی- لیکن مدراس، بمبئی، سی-پی، یو-پی، بہار اور برما میں مسلمانوں کی اقلیت جو کہیں بھی پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں ہمیشہ ہی اقلیت رہے گی- اور حکومت میں اسے کبھی

Page 482

۴۳۹ بھی دخل حاصل نہ ہوگا- پس برابری تبھی ہوتی ہے کہ پنجاب اور بنگال میں نشستیں محفوظ ہوں- اور اس طرح مسلمانوں کو بھی کہا جا سکے کہ جس طرح ہندوؤں نے تم پر ان صوبوں میں اعتبار کیا ہے، تم بھی دوسرے صوبوں میں ان پر اعتبار کرو- اور دل سے ہر ایک قسم کے شکوک کو نکال دو- نہرو کمیٹی اس غالبیت کے اصول پر خاص زور دیتی ہے وہ لکھتی ہے کہ-: ‘’ہم ایک قوم کا دوسری پر دائمی طور پر تسلط نہیں دیکھ سکتے- ہم اس امر کو کلی طور پر روک نہیں سکتے- لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ ایک قوم کو دوسری پر تسلط کا موقع نہ دے دیا جائے- بلکہ ہر ایک فرد یا قوم کو اس سے روکا جائے کہ وہ دوسرے فرد یا دوسری قوم کو تکلیف دے- اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے’‘- ۵۵؎ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے اس تسلط کو روک دیا ہے- مدراس بہار وغیرہ میں نہرورپورٹ خود تسلیم کرتی ہے کہ ہندوؤں کو غلبہ رہے گا- اور مسلمانوں کی اقلیت وہاں ‘’ناقابل التفات’‘ ہے- اور اس میں لکھا ہے کہ-: ‘’یہ بات ہر ایک سمجھ لے گا کہ مسلمان اقلیتوں کے حق میں یہ رعایت کر کے (یعنی بہار، یو-پی، مدراس وغیرہ میں نشستیں محفوظ کر کے) ہم وہ نقائص پیدا نہیں کر رہے جو اکثریت کے لئے محفوظ نشستوں کا قاعدہ جاری کرنے کی صورت میں پیدا ہوتے تھے- کیونکہ ایک اقلیت (یعنی اس قسم کی چھوٹی اقلیت) بہرحال اقلیت ہی رہے گی- خواہ اس کے لئے بعض نشستیں محفوظ کر دی گئی ہوں- یا نہ کی گئی ہوں- اور کسی صورت میں بھی اکثریت پر غالب نہیں آ سکتی’‘- ۵۶؎ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی کے نزدیک بمبئی، مدراس، یو-پی وغیرہ صوبہ جات میں مسلمان ہمیشہ اقلیت ہی کی صورت میں رہیں گے- جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان صوبوں میں ہمیشہ حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں رہے گی اور اسی کا نام انہوں نے تسلط رکھا ہے- پس جب کہ اس قسم کا تسلط دوسرے صوبوں میں ہوگا اور اس سے کوئی نقص واقع نہ ہوگا، تو کیا وجہ ہے کہ ویسی ہی حالت پنجاب اور بنگال میں نہ پیدا کر دی جائے اگر ہمیشہ ایک قوم کا نیابت میں زیادہ ہونا برا ہے- تو وہ سب جگہ برا ہے- اور اگر اس کی بمبئی اور مدراس میں برداشت کی

Page 483

۴۴۰ جا سکتی ہے تو یقیناً پنجاب اور بنگال میں بھی برداشت کی جا سکتی ہے- مسلمانوں کا مطالبہ سمجھنے میں غلطی اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے مطالبہ کے سمجھنے میں نہرو کمیٹی نے ایک اور سخت غلطی کھائی ہے اور وہ فرقہ وارانہ جذبات میں خود ایسے مبتلا رہے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے مطالبہ کو بھی اسی رنگ میں دیکھا ہے وہ غلطی یہ ہے کہ نہرو کمیٹی نے یہ سمجھا ہے کہ مسلمانوں کا گویا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اکیلے ہی پنجاب اور بنگال میں حکومت کریں- یہ مسلمانوں کا مطالبہ نہیں- ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جس طرح ہندوستان کے بعض دوسرے صوبوں میں جہاں ہندو زیادہ ہیں آئینی مجالس میں نیابت لازماً ہندوؤں کی زیادہ رہے گی اس طرح پنجاب اور بنگال میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں، نیابت کی زیادتی مسلمانوں کو حاصل ہونی چاہئے- اور چونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت اس قدر نہیں کہ وہ بغیر کسی خاص قانون کے اپنی اکثریت کو قائم رکھ سکیں، اس لئے یہ قانون نافذ کر دیا جائے کہ یہ حق ان کا دوسرے جائز یا ناجائز ذرائع سے توڑ نہیں دیا جائے گا- ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ اس میں تسلط کا سوال نہیں ہے- تسلط کا سوال تب ہوتا اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے کہ ہندواکثریت والے صوبوں میں ہندوؤں کی حکومت ہو- اور مسلماناکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت ہو- لیکن ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ ہندو اکثریت والے صوبوں میں ہندوؤں کی نیابت جس طرح ہمیشہ زیادہ رہے گی- اسی طرح مسلمان اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی نیابت زیادہ رہے- اور نیابت کی زیادتی کے یہ معنی نہیں کہ حکومت بھی خالص طور پر ان کے ہاتھ میں رہے- اسی وقت دیکھ لو کہ جداگانہ انتخاب کی موجودگی میں جس کے ذمہ دنیا کے سب عیب لگائے جاتے ہیں، پنجاب میں خالص اسلامی پارٹی کوئی نہیں ہے- ایک زمیندار پارٹی ہے جس میں مسلمان اور ہندو شامل ہیں- اور ایک خلافتی پارٹی ہے جو سوراجیوں سے ملکر کام کرتی ہے- پس پنجاب اور بنگال میں صرف چھ فیصدی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہندو باسانی حکومت میں ایک بڑا حصہ لے سکتے ہیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمان اور ہندو آپس میں ملیں گے کیونکر- جب کہ مذہبی نیابت کو جاری رکھا جائے گا، کیونکر مذہب سیاست کا نام نہیں- مذہب کا تعلق تمدن اور تہذیب سے ہے- سیاسی معاملات میں مختلف مذاہب کے لوگ خود مل جاتے ہیں- اگر اس وقت ایسے شدید اختلاف کے باوجود مل

Page 484

۴۴۱ جاتے ہیں تو آئندہ کیوں نہ ملیں گے- کونسی عقل یہ تجویز کر سکتی ہے کہ مسلمان سب کے سب سیاست میں ایک خیال کے رہیں گے- اور اگر وہ ایک خیال کے نہیں رہیں گے تو پارٹیوں کے بننے پر یقیناً کوئی خالص اسلامی پارٹی پنجاب اور بنگال میں حکومت نہیں کر سکے گی- بلکہ حکومت کیلئے ہندو عنصر کی شمولیت ضروری ہوگی- پس ڈومینیشن )DOMINATIONکا سوال ہر گز یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا- اور نہرو کمیٹی نے فرقہ وارانہ خیالات سے شدید تاثر کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف وہ بات منسوب کر دی ہے- جو ان کے مطالبہ میں شامل نہیں بلکہ خود نہروکمیٹی کے ممبروں کے دماغ سے نکلی ہے- حق یہ ہے کہ تسلط تو ہندو اکثریت والے صوبوں میں ہو سکتا ہے اور ہوگا- کیونکہ وہاں اکثریت اس قدر زیادہ ہے کہ ہندوؤں کی کئی پارٹیاں ہو کر بھی غالب گمان ہے کہ کوئی خالص ہندو پارٹی ہی حکومت کیا کرے گی- ہاں صوبہ سرحدی اور سندھ وغیرہ میں مسلمانوں کو بھی یہ موقع حاصل ہوگا مگر وہ صوبے بالکل چھوٹے ہیں اور ہندوستان کے عام معاملات پر کوئی زیادہ اثر نہیں ڈال سکتے- چوتھی دلیل اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کا نیابت کی اکثریت پر زور دینا اور بہت سے معقول دلائل سے بھی ضروری ثابت ہوتا ہے- میں یہ تو ثابت کر چکا ہوں کہ بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی اس قدر اکثریت نہیں کہ اس کے حقوق محفوظ ہو جانے پر بھی وہ اکیلے حکومت کر سکیں- بلکہ ان دونوں صوبوں میں یقیناً ایسی پارٹیاں حکومت کریں گی جن میں ایک حد تک ہندو عنصر شامل ہوگا- مگر باوجود اس کے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چونکہ مسلمانوں کو نیابت میں کثرت حاصل ہوگی، جو حکومت بھی ان صوبوں میں قائم ہوگی اس میں ایک کافی حصہ اسلامی عنصر کا ہوگا- جسے ان صوبوں کی آئندہحکومت کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکے گی- اس امر کی وضاحت کے بعد اب یہ سوچنا چاہئے کہ فرقہ وارانہ خیالات کو جانے دو، قومی نقطہ نگاہ سے کیا یہ بات ملک کے لئے مفید ہو سکتی ہے کہ ملک کے اداری ) ADMINISTRATION)حصہ میں مسلمانوں کی آواز بالکل نہ ہو یا ایسی کم ہو کہ نہ ہونے کے برابر ہو- کونسا سیاست کا طالبعلم نہیں جانتا کہ عمدہ حکومت عمدہ قانونوں پر ہی نہیں چلتی بلکہ قوانین کے اچھے استعمال کی بھی ویسی ہی ضرورت ہوتی ہے- اب یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان جس کی حکومت صوبوں میں تقسیم ہو گی- جس طرح اس کے لئے ایک مرکزی مجلس قوانین کی ضرورت ہوگی- اسی طرح اس کے لئے یہ بھی

Page 485

۴۴۲ ضروری ہوگا کہ اس کی صوبہ جات کی حکومتیں اداری ضرورتوں کیلئے وقتا فوقتا مشورے کیا کریں- نہرو کمیٹی کے رو سے بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت پنجاب و بنگال میں مسلمان ہی حاکم ہوں اور کسی وقت ہندو ہی حاکم ہوں- اب سوال یہ ہے کہ جس وقت ہندو ہی حاکم ہونگے- اس وقت اگزیکٹو (EXECUTIVE) کے مشوروں میں مسلمانوں کی آواز کیا ہوگی- یقیناً کوئی تسلیم نہیں کر سکتا کہ سرحد اور سندھ کے چھوٹے چھوٹے صوبے اس ضرورت کو پورا کر سکیں گے پس قومی نقطہ نگاہ سے بھی یہ ضروری ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے لئے ایسا قانون بنایا جائے کہ یہاں کی ہر حکومت میں اسلامی عنصر موجود ہے- اور اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کا حق نیابت محفوظ کر دیا جائے- پانچویں دلیل میں اس اہم معاملہ کے متعلق ایک اور دلیل بھی دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ نہرو کمیٹی نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ ہر قوم کی تہذیب جداگانہ ہوتی ہے- اور ہر قوم اپنی روایات کے مطابق ترقی کرنے کی خواہش رکھتی ہے- اور باوجود ایک ملک میں رہنے اور ایک سیاست میں پروئے جانے کے پھر آپس میں تہذیب کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے- نہرورپورٹ میں لکھا ہے- ‘’حفاظت کا احساس پیدا کرنے کے ذرائع صرف یہ ہیں کہ حفاظتی تدابیر اور کفالتوں کے ساتھ بہ حد ممکن کسی قوم کو تہذیبی آزادی عطا کی جائے’‘- ۵۷؎ پس معلوم ہوا کہ نہرو کمیٹی کو تسلیم ہے کہ مختلف اقوام کی تہذیب جداگانہ ہوتی ہے- اور اس کی حفاظت کا مطالبہ غیر معقول نہیں- اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو علاوہ اطمینان اور اعتبار کی صورت پیدا کرنے کے اداری محکموں میں اپنی آواز کی نیابت کے حصول کے علاوہ صوبہ جات میں اپنی تعداد کے مطابق نیابت کے حصول کی خواہش کے یہ بھی خواہش ہے کہ ان دو صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہے، وہ اسلامی روایات کے مطابق اپنی مخصوص تہذیب کو نشوونما دیں- مجھے اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہر قوم جب ترقی کرتی ہے تو چند اصولی مسائل پر اس کی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے- اور وہ اپنی روایات اور ترقی کی راہوں میں دوسری اقوام سے ایک جداگانہ صورت اختیار کر لیتی ہے- اسے انگریزی میں کلچر(CULTURE) کہتے ہیں- اور اردو میں تہذیب ہی کہہ سکتے ہیں- گو تہذیب کا لفظ اس جگہ سویلزیشن CIVILIZATION) سے کسی قدر جداگانہ معنوں میں استعمال ہوگا- یہ کلچر

Page 486

۴۴۳ قوموں کو سیاسی آزادی سے بھی زیادہ مرغوب ہوتا ہے- اور جس قدر وہ اس کی حفاظت کے لئے لڑتی ہیں، اتنی سیاسیات کے لئے بھی نہیں لڑتیں- یہ کلچر ایک ہیولی کی سی چیز ہے اسے مادی اشیاء کی طرح معین بھی نہیں کیا جا سکتا- اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا- ہر قوم اپنے مذہب کے سبب سے یا اپنے گردو پیش کے حالات کے سبب سے ایک خاص قسم کا دماغی میلان پیدا کر لیتی ہے- اور اس کی تمام ترقی اسی لائن پر ہوتی ہے اس کا فلسفہ اس کا تمدن، اس کی علمیترقی، اس کی اقتصادی ترقی اسی دائرہ میں چکر کھاتی ہوئی اپنے وجود کو نمایاں کرتی چلی جاتی ہے- گویا وہ ذہنی زمین ہے- جس پر اگنے والا ہر علم پودوں کی طرح ایک خاص رنگ اختیار کر لیتا ہے- جس طرح مختلف زمینوں میں مختلف پھل پھول ایک امتیازی صورت پیدا کر لیتے ہیں- اسی طرح مختلف کلچرز کے ماتحت نشوونما پانیوالے ایک خاص رنگ اور ادا پیدا کر لیتے ہیں- اور قوموں کو اپنے کلچر سے ایک ایسی طبعی مناسبت ہو جاتی ہے کہ اس سے باہر جا کر وہ اسی طرح مرجھا جاتی ہیں جس طرح کہ ایک خاص ملک کا درخت دوسرے ملک کی زمین میں لگایا جاکر- تمام علوم ایک ہی ہیں لیکن انگریزوں اور فرانسیسیوں اور روسیوں اور جرمنوں کو دیکھو- ان میں سے ہر ایک ان کی طرف ایک خاص امتیازی رنگ میں متوجہ ہوتا ہے- ہندوستانیوں کو بھی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ انگریزوں نے مغربیت سے ہمارے مشرقی اخلاق کو رنگ کر ہمیں کہیں کا نہیں رکھا- غرض یہ تہذیب مذہب کے بعد ہر اک شے سے زیادہ پیاری ہوتی ہے- اور سچ تو یہ ہے کہ کلچر ہر قوم کے جسم کے لئے زندگی کے سانس کا کام دیتی ہے- جس قوم کا کوئی مخصوص کلچر نہیں اس کی کوئی زندگی ہی نہیں- وہ آج نہیں تو کل دوسری اقوام میں جذب ہو کر اپنے وجود کو کھو بیٹھے گی، کیونکہ وہ مفید وجود نہیں- جس طرح مختلف لیباریٹریز میں بیٹھے مختلف سائنس دان اپنے اپنے رنگ میں علوم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں- اسی طرح مختلف اقوام اپنی کلچر کے دائرہ میں انسانی حیات کے فلسفہ کے تجربے کر کے دنیا کو نفع پہنچاتے ہوئے- اور اس کے نقطہ نگاہ کو پورا کرتے ہوئے اپنی کلچر کو بھی ترقی دے رہی ہیں- جو قوم اس مشترک خزانہ کے بڑھانے میں حصہ نہیں لیتی، وہ اخلاقاً تو مردہ ہی ہوتی ہے مادی طور پر بھی آخر مر کر ہی رہتی ہے- ہندو صاحبان کو جو آج حکومت کا خیال ہے وہ بھی تو اسی کلچر کی وجہ سے ہے ‘’اچھی حکومت اپنی حکومت کا قائم مقام نہیں ہو سکتی’‘- کا مقولہ بھی درحقیقت اسی صداقت پر مشتمل

Page 487

۴۴۴ ہے- کیونکہ اچھی حکومت مال اور آرام کو تو بڑھا دے گی، مگر وہ کسی قوم کی کلچر کو نہیں بڑھا سکتی، بلکہ اسے تباہ کر دے گی- کلچر کی ترقی کا موجب صرف اپنی حکومت ہی ہوتی ہے- پس جس طرح ہندو صاحبان اپنی پرانی تاریخ کو پڑھ کر بے چین ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ زمانہ حال کی مناسبت میں وہ اپنی مخصوص کلچر کو نشوونما دیں اور دنیا کے تمدن اور تہذیب میں زیادتی کا موجب ہوں- اسی طرح وہ سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا دل بھی ہے- وہ بھی ایک شاندار روایت رکھتے ہیں- وہ بھی ایسے آباء کی اولاد ہیں جن میں اقدام کا مادہ انتہا درجہ کو پہنچا ہوا تھا- ان کی بھی امنگیں ہیں وہ ہندوستان سے علیحدہ نہیں وہ ہندوستانی ہیں- اور کسی سے کم ہندوستانی نہیں لیکن اس میں کیا شک ہے کہ جہاں ہندو عنصر زیادہ ہوگا وہاں حکومت ہندو کلچر اور ہندو فلسفہ پر نشوونما پائے گی- پس وہ بھی چاہتے ہیں کہ بعض صوبوں میں جن میں وہ زیادہ ہیں، انہیں بھی اس امر کا موقع ملے کہ وہ اسلامی کلچر اور تہذیب کے مطابق نشوونما پائیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے احکام کو وہ جاری کریں- ایسی مخلوط حکومتوں میں اپنے مذہب کے احکام جاری کرنا درست نہیں نہ ہندوؤں کے لئے نہ مسلمانوں کیلئے- مگر اس کے علاوہ زندگی کے ہزاروں شعبے ہیں جن میں قطع نظر مذہب کے انسان اپنے مخصوص قومی فلسفہ کے مطابق ترقی کرنی چاہتا ہے- اور دنیوی ترقی کے متعلق جو اس کی قوم کی سکیم ہوتی ہے، اس کی پنیری لگاتا ہے اور پھر اس سے باغ تیار کرتا ہے- پس اس چیز کی جائز امنگ اور خواہش مسلمانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی دو بڑے صوبوں میں ایسا موقع پائیں کہ ایک عرصہ تک بلاوقفہ کے وہ اپنے مخصوص قومیاصول پر ترقی کرنے کی راہ پا سکیں- کیا یہ مطالبہ ناجائز ہے- کیا یہ خواہش غیر طبعی ہے- یا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ آرزو قومیت کی روح کے منافی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں- آزاد کلچر متحدہقومیت کو ہر گز نقصان نہیں پہنچاتی- جس طرح ہندوستان کی ڈومینین (DOMINION) حکومت انگلستان کو نقصان نہیں پہنچائے گی- باوجود اس کے کہ وہ ایشیائی کلچر کے نشوونما دینے میں ایک بہت بڑی لیبارٹری (LABORATORY) ثابت ہوگی- افسوس ہے کہ نہرو رپورٹ خواہ اور کچھ بھی ہو، مسلمانوں کی اس خواہش کا علاج مہیا نہیں کرتی- وہ خواہ اس کا دروازہ کھولتی ہے کہ کبھی مسلمان پنجاب اور بنگال میں ہندوؤں پر بالکل غالب آ جائیں مگر اس کا انتظام نہیں کرتی کہ انہیں ایک عرصہ تک اس امر کا موقع ملے کہ اپنی روایات کے مطابق عمل کر کے دنیا کی تہذیب کے مجموعی خزانہ میں اپنا حصہ بھی شامل کر سکیں- کیونکہ کلچر بغیر متواتر موقع پانے

Page 488

۴۴۵ کے اپنے آثار ظاہر نہیں کرتی اور نہرو سکیم کے ماتحت پنجاب اور بنگال میں ایسے مواقع آ سکتے ہیں کہ اسلامی عنصر حکومت سے نکل ہی جائے- چھٹی دلیل پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے حق کے بقدر آبادی محفوظ رہنے کے حق میں یہ بھی ایک دلیل ہے کہ ہر قوم کی ترقی کے لئے اس کے افراد کا تمام کاموں سے واقف ہونا بھی ضروری ہے یہ ظاہر ہے کہ ہندو صوبوں میں مسلمانوں کی اعلیٰ سیاسی عہدوں کے لئے تربیت نہیں ہو سکتی- ان کے لئے پنجاب اور بنگال ہی رہ جائیں گے کہ یہی دو اہم صوبے مسلمانوں کی اکثریت کے ہیں- اگر ان میں بھی ایسی حکومت آتی رہی جو خالص ہندو ہو- یا اس میں مسلمانوں کا عنصر بہت کم ہو تو مسلمان کیلئے ان اعلیٰ کاموں کے لئے تربیت کا دروازہ بالکل ہی بند ہو جائے گا- جس سے انہیں سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے صوبہ سرحدی اور سندھ اور بلوچستان کو پیش نہیں کیا جا سکتا- کیونکہ بلوچستان کی آبادی تو سوا چار لاکھ ہے اور گویا ایک میونسپل کمیٹی کے برابر کی حیثیت ہے- صوبہ سرحدی اور سندھ بھی آبادی کے لحاظ سے اور مالی طورپر نہایت کمزور ہیں- پس ان صوبوں میں اس پیمانہ پر حکومت کو وسعت حاصل نہ ہوگی- جو بڑے صوبوں میں اور مختلف لیاقتوں کے اپنی قدر کے مطابق نشوونما پانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کو کم سے کم اس قدر عرصہ تک کہ وہ اپنی گذشتہ کمزوری پوری کر لیں- متواترتربیت کا موقع دیا جائے- اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ پنجاب اور بنگال میں ان کے حقوق محفوظ ہوں- اگر یہ انتظام نہ ہوا تو مسلمان کبھی بھی حکومت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہونگے اور ملک کے لئے قوت بننے کی بجائے اس پر ایک بار بن جائیں گے- محفوظ حقوق کے خلاف نہرو رپورٹ کے دلائل ان دلائل کے بیان کرنے کے بعد جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق پنجاب اور بنگال میں بھی ویسے ہی محفوظ ہونے چاہئیں جیسے کہ ان صوبوں میں جن میں مسلمان بہت کم ہیں- ہندوؤں کے حقوق بوجہ ان کی عظیم الشان اکثریت کے محفوظ ہونگے- اب میں نہرو رپورٹ کے ان دلائل کو توڑتا ہوں جو محفوظ حقوق کے خلاف دئے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں- ۱- میجارٹی کے حقوق کی حفاظت اور نشستوں کے محفوظ کر دینے سے فرقہ وارانہ منافرت

Page 489

۴۴۶ ترقی کرتی ہے- کیونکہ انتخابی نقطہ نگاہ ایک غیر حقیقی سوال ہوتا ہے-(یعنی مذہب کا اختلاف) ۲- مخلوط انتخاب کے ساتھ اگر اکثریت کی نشستوں کو محفوظ کر دیا جائے تو اتفاق کا پیدا ہونا مشکل ہے کیونکہ اکثریت کو یقین ہو جائے گا کہ وہ اقلیت کے ووٹوں کی محتاج نہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرے گی- ۳- حکومت مسؤلی (RESPONSIBLEGOVERNMENT)) اسے کہتے ہیں جس میں حکومت تنفیذی ایگزیکٹو (EXECUTIVE) مجلس واضع قوانین کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے- اور مجلس واضع قوانین جماعت منتخبین (ELECTORATE) کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اگر حکومت تنفیذی کے کل ممبر جن کی پشت پر اکثرت ہو محفوظ حقوق کی وجہ سے باختیار ہوئے ہوں- نہ کہ منتخبین کے بے قید انتخاب کے ماتحت- تو اس صورت میں نہ تو جمہور کی نیابت حاصل ہوئی اور نہ کوئی مسؤل حکومت قائم ہوئی- ۴- پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آبادی اس طرح تقسیم شدہ ہے کہ محفوظ نشستوں کی انہیں ضرورت نہیں- وہ اپنی تعداد کے مطابق اپنے حقوق اچھی طرح حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ- اس کے ساتھ ہی میں اس دلیل کو بھی شامل کر لیتا ہوں جو ہمارے صوبہ کے ایک قابلقدر ممبر کونسل نے دی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں باوجود اس کے کہ مسلمان ووٹر کم تھے وہ بہت زیادہ ممبریاں لے گئے ہیں- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو آزاد مقابلہ میں زیادہ فائدہ رہے گا- نہرو کمیٹی کی پہلی دلیل کا ردّ کمیٹی کی پہلی دلیل یہ ہے کہ چونکہ محفوظ نشستوں میں انتخابی نقطہ ایک غیر حقیقی سوال یعنی مذہب ہوتا ہے، اس لئے فرقہ وارانہ منافرت بڑھتی ہے میں اس دلیل کے سمجھنے سے قاصر ہوں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ جس جگہ نشست ایک خاص قوم کے لئے محفوظ ہوگی، وہاں انتخاب کا مرکز قومی سوال کیونکر ہوگا- کیونکہ اس صورت میں تو قومی سوال پہلے ہی حل ہو چکا ہوگا- قانون فیصلہ کر چکا ہوگا کہ فلاں جگہ سے مسلمان ممبر ہی کھڑا ہو سکتا ہے- پس یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ممبر ایسے حلقہ سے کھڑا ہو کر یہ کہے کہ مجھے ووٹ دو کیونکہ میں مسلمان ہوں- یہ سوال تو غیر محفوظ نشستوں میں پیدا ہو سکتا ہے- کیونکہ ایسے حلقوں میں ممکن ہے کہ ایک ہندو امیدوار ہو اور ایک مسلمان-

Page 490

۴۴۷ اور ہندو اپنی قوم کو یہ کہے کہ میں ہندو ہوں، مجھے ووٹ دو- اور مسلمان کہے کہ میں مسلمان ہوں مجھے ووٹ دو- لیکن جس جگہ قانون مذہب کا فیصلہ کر چکا ہو، وہاں تو یہ سوال اٹھ ہی نہیں سکتا- وہاں تو سوال یا فرقہ کا اٹھ سکتا ہے کہ امیدوار سنی ہے یا شیعہ یا پھر سیاسی نقطہ نگاہ کا سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مختلف امیدواروں کے سیاسی خیالات کیا ہیں- اور یہ یقینی بات ہے کہ محفوظنشست کی صورت میں اسی سوال کو انتخاب میں اہمیت حاصل ہوگی- اور اگر بجائے جداگانہانتخاب کے مخلوط انتخاب ہو تو اس صورت میں اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ سوائے سیاسی سوال کے کوئی اور سوال نہ اٹھے گا کیونکہ مختلف ممبروں کو ہندوؤں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہوگی- پس وہ مجبور ہونگے کہ مذہبی سوال کو درمیان میں نہ آنے دیں تا کہ ان کا مدمقابل دوسری قوموں کے ووٹوں سے فتح نہ لے- دوسرے یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ انتخابوں میں ایک ہی امیدوار نہیں ہوا کرتا، بلکہ کئی امیدوار ہوتے ہیں- پس یہ خیال کرنا کہ جو کھڑا ہوگا، وہ اسلامی امیدوار ہونے کی صورت میں کھڑا ہوگا اور اس طرح قومی منافرت بڑھے گی، درست نہیں- کیونکہ ایک ہی وقت میں کئی امیدوار کھڑے ہو کر سب یہی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ مسلمان ہیں- اس لئے انہیں ووٹ دیا جائے- انہیں دوسرے امور پیش کرنے ہونگے اور وہ سیاسی ہونگے- اور اگر یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کہ کوئی امیدوار بھی ایسا نہ ہو- جو ہندو نقطہ نگاہ کے ساتھ متفق ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس جگہ ایک شخص بھی مسلمانوں میں سے ایسا نہ ہوگا- جو سیاسی خیالات میں وہاں کے ہندوؤں سے متفق ہو تو یہ کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہاں سے اگر ہندو کھڑا ہو تو اسے مسلمان جائز طور پر ووٹ دے دیں گے- میں نے جائز کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ ووٹنگ مخفی ہوتی ہے- اس لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ ناجائز ذرائع سے مسلمانوں سے ووٹ لے لئے جائیں اور وہ قومی غداری کرنے پر اس لئے تیار ہو جائیں کہ ان کا راز فاش نہ ہوگا- لیکن ایسے ووٹوں سے چنا ہوا شخص ملک کا نمائندہ نہیں ہوگا، بلکہ ہوا و ہوس کا نمائندہ ہوگا- دوسری دلیل کا ردّ ۱ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر اکثریت کی نشستیں محفوظ کر دی جائیں تو منافرت قومی دور نہ ہوگی- کیونکہ اکثریت اقلیت کی محتاج نہیں رہے گی- اس کا ایک تو یہ جواب ہے کہ اسی حالت کو ایک اور نگاہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ

Page 491

۴۴۸ یہ کہ اس طرح قوموں کا خوف چونکہ دور ہو جائے گا- اور ایک دوسرے سے حق تلفی کا خطرہ جاتا رہے گا اس لئے تعلقات زیادہ درست ہو جائیں گے- دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ووٹوں کی محتاج قوم نہیں ہوا کرتی بلکہ افراد ہوتے ہیں- کسی جگہ کی ممبری کے لئے زید اور بکر جو دو شخص کھڑے ہونگے، ان کو اس بات سے کوئی اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ نے مسلمان کے لئے سیٹ محفوظ کر دی ہے- گورنمنٹ مسلمان کے لئے سیٹ محفوظ کرے گی نہ کہ کسی شخص کیلئے- پس ہر امیدوار اپنی تائید کے لئے ایک ایک ووٹ کا محتاج ہوگا- اور لازماً اپنے حریف پر برتری حاصل کرنے کیلئے ہر اک ممبر کی مدد حاصل کرنیکی کوشش کرے گا- پس یہ دعویٰ بھی بالکل باطل ہے- کہ محفوظ نشستوں کی وجہ سے اکثریت اقلیت کی محتاج نہ رہے گی- احتیاج امیدوارں کو ہوتی ہے نہ کہ قوم کو اور ان کی احتیاج ہر صورت میں قائم رہے گی- اور ان کی احتیاج کے ساتھ ان کے ہمدردوں کو بھی احتیاج ہوگی- اور اس طرح بالواسطہ طور پر ساری اکثریت ہی کسی نہ کسی امیدوار کی کامیابی کی خاطر اقلیت کی محتاج ہو جائے گی- پس محفوظ نشستیں منافرت قومی کے دور کرنے کے راستہ میں ہر گز روک نہیں ہیں- تیسری دلیل کا ردّ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر محفوظ نشستیں کر دی جائیں تو رسپانسیبل گورنمنٹ (RESPONSIBLEGOVERNMENT) کا اصول باطل ہو جاتا ہے- کیونکہ اس صورت میں ہم منتخب کرنیوالی جماعتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا نمائندہ فلاں دائرہ سے چنیں اور اس کے باہر نہ جائیں- تو گویا اکثریت بوجہ ایک قانونی حد بندی کے حکومت کرتی ہے نہ کہ آزاد انتخاب کی وجہ سے- اور اگر یہ بات حاصل ہوئی تو نیابتی حکومت کی اصل غرض ہی فوت ہو گئی- میرے نزدیک یہ سوال سیاسی طور پر بہت اہم ہے- اگر نتیجہ وہی پیدا ہوتا ہو جو کمیشن نے نکالا ہے تو یقیناً یہ بحث یہیں ختم ہو جاتی ہے- مگر میرے نزدیک نتیجہ نکالنے میں کمیشن نے غلطی کی ہے- کیونکہ اول تو وہی سوال ہے کہ کیا جس خیال کی نمائندگی ایک ہندو کر سکتا تھا اسی خیال کی نمائندگی کرنے والا کوئی مسلمان نہیں مل سکتا- اگر نہیں تو معلوم ہوا کہ ہئیت انتخابی اس خیال کے مخالف ہے- اور اگر انتخاب کرنے والے ایک خیال کے مخالف ہیں تو ہندو کے کھڑا ہونے سے نیابت زیادہ کس طرح ہو جائے گی جب تک کہ ناجائز وسائل استعمال نہ کئے

Page 492

۴۴۹ گئے ہوں- اور ناجائز وسائل بہرحال ناجائز ہیں- دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں کیا شک ہے کہ مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے انتخاب کرنے والوں کے حق کو محدود کر دیا جاتا ہے- مثلاً خود نہرو کمیٹی نے بعض صوبوں میں مسلمان اقلیتوں اور بعض میں ہندو اقلیتوں کے حق میں حقوق محفوظ کر کے اکثریت کے انتخاب کے حق کو محدود کر دیاہے- اسی طرح مثلاً ممبروں کیلئے عمر کی نہرو کمیٹی نے شرط لگائی ہے کہ اکیس سالہ آدمی ووٹ دے سکتا ہے- اور چونکہ کوئی اور قید موجود نہیں، معلوم ہوا کہ اسی عمر کا آدمی ممبر منتخب ہو سکے گا- یہ بھی ایک قید ہے اکیس سال سے پہلے بھی کئی لوگ صاحب عقل و فہم ہو جاتے ہیں- پھر انتخاب کرنے والوں کیلئے یہ قید کیوں لگائی گئی ہے- اسی طرح گو مجھے سکیم میں نظر نہیں آیا لیکن جیسا کہ دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے، ہندوستانیقومیت کی بھی ممبر کیلئے شرط ہوگی- کیونکہ سب مہذب ملکوں میں یہ قید موجود ہے- لیکن کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسا خیر خواہ شخص انتخاب کرنے والوں کو مل جائے جو باوجود غیرہندوستانی ہونے کے ہندوستانیوں کا خیر خواہ ہو یا وہ ہندوستانی بننا تو چاہتا ہو لیکن قواعد اس کے ہندوستانی بننے میں کچھ عرصہ کیلئے روک ہوں- غرض انتخاب کے دائرہ کو اب بھی نہرو کمیٹی نے محدود کیا ہے- اور قانون اساسی کے مکمل ہونے پر اور بھی یہ دائرہ محدود کرنا پڑے گا- پس معلوم ہوا کہ حد بندی کر دینا نیابتیگورنمنٹ کے اصول کے مخالف نہیں، بلکہ ناجائز حد بندی کرنا اصول نیابت کے خلاف ہے اور جب کہ ایک صوبہ کی اکثریت ایک حق کا مطالبہ کرتی ہے اور مطالبہ بھی وہ جس میں دوسرے کے حق کو تلف نہیں کیا جاتا تو ایسی حد بندی کو ناجائز کیونکر کہا جا سکتا ہے اور جب وہ ناجائز نہیں تو وہ نیابت کے قانون کو تلف کرنے والی بھی نہیں- زیادہ سے زیادہ جو کچھ اس طریق انتخاب کے متعلق کہا جا سکتا ہے- وہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ملک کے سب حصے مل کر اپنے نمائندے منتخب کریں- ملک کے مختلف حصے اپنے اپنے حلقوں میں انتخاب کریں گے- پس نمائندگی موجود ہے، صرف اس کی شکل بدلی ہے- اور شکلوں کے لحاظ سے تو دنیا کی تمام مہذب حکومتوں کے انتخاب کے طریق کا آپس میں اختلاف ہے-

Page 493

۴۵۰ چوتھی دلیل کا ردّ اب رہی چوتھی اور آخری دلیل اور شاید محفوظ نشستوں کے مخالفین کے نزدیک سب سے زبردست دلیل- لیکن ہر اک عقلمند محسوس کرے گا کہ یہ دلیل نہیں ہے بلکہ احساسات سے ملا عبہ ہے- اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ملاعبہ میں نہرو رپورٹ کے مصنف بھی خوب دل کھول کر شامل ہوئے ہیں- اور یہ نہیں خیال کیا کہ ان کی یہ ترغیب اس کے بالکل الٹ نتیجہ پیدا کرے گی جو انہوں نے پیدا کرنا چاہا ہے- یہ دلیل جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں، یہ ہے کہ محفوظ نشستوں سے تو مسلمانوں کو صرف آبادی کے مطابق حق ملیں گے- لیکن اگر محفوظ نشستیں نہ ہوں تو انہیں اور بھی زیادہ حق مل جائیں گے- پس انہیں اس پر ناراض نہیں ہونا چاہئے- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پنجاب اور بنگال میں اس طرح تقسیم ہے کہ مخلوط انتخاب کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچتا ہے- نہرو کمیٹی اس نظریہ پر اس قدر خوش ہے کہ اس نے باربار مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دلائی ہے- وہ صفحہ ۴۸ پر لکھتے ہیں-: ‘’ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ (باوجود محفوظ نشستوں کے نہ ہونے کے) اس فوقیت نے بنگال کے ہندوؤں کو ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں کوئی نفع نہیں دیا- اور ہمیں یقین ہے کہ کونسلوں کے انتخاب کا نتیجہ اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا’‘- پھر لکھتے ہیں-: ‘’مگر ہندو نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہم اس امر کا یقین کر سکتے ہیں کہ مسلمان اکثریت کیلئے پنجاب اور بنگال میں نشستوں کا محفوظ کرنا نشستوں کے محفوظ نہ کرنے کی نسبت عملی طور پر ہندوؤں کو اور غالباً سکھوں کو بھی نفع پہنچا سکتا ہے- وہ اعداد اور واقعات جو ہم بیان کر چکے ہیں- ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی حالت ایسی مضبوط ہے کہ وہ ایسے مخلوط انتخاب میں جس کے ساتھ نشستیں محفوظ نہ ہوں اپنی آبادی کی نسبت سے زیادہ ممبریاں حاصل کر لیں گے اور اس طرح بالکل ممکن ہے کہ ہندو اور سکھ اپنی آبادی کی نسبت سے بھی کم نیابت حاصل کریں- یہ ایک ایسا نظریہ نہیں جو صرف ممکن ہے، بلکہ غالباً ایسا ہی ہوگا لیکن ایسے وقوعہ کو کسی طرح روکا نہیں جا سکتا’‘- ۵۸؎

Page 494

۴۵۱ اسی طرح بنگال کی نسبت لکھا ہے-: ‘’ہندو اقلیت گو بہت بڑی اقلیت ہے- بہت ہی غالب گمان ہے کہ اعداد کے لحاظ سے ایک بے قید انتخاب میں زیادہ نقصان اٹھائے گی- بہ نسبت اس انتخاب کے کہ جس میں محفوظ نشستوں کی قید لگی ہوئی ہو’‘- ۵۹؎ ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو رپورٹ اس امر پر خاص زور دینا چاہتی ہے کہ محفوظنشستوں کے بغیر مسلمان بنگال اور پنجاب میں خاص طور پر غالب رہیں گے- اور ایک ایسی رپورٹ کا جسے ہندوؤں نے تیار کیا ہے اس قدر زور مسلمانوں کو زائد حقوق کے ملنے پر دینا خواہ مخواہ ہی شک میں ڈالتا ہے- اور خصوصاً جب کہ وہی رپورٹ صفحہ اکاون پر یہ تسلیم کرتی ہے کہ محفوظ نشستوں کے بغیر پنجاب اور بنگال کے مرکزی پارلیمنٹ کے لئے بجائے اپنی تعداد کے مطابق بہتر ممبر نامزد کر سکنے کے صرف تیس سے چالیس تک ممبریاں نامزد کر سکیں گے- تو اس یقین اور غالب امید کا بھانڈا اس طرح پھوٹ جاتا ہے کہ کوئی پردہ اسے چھپا نہیں سکتا- میں یہاں مختصر لفظوں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اوپر کے حوالہ جات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہروکمیٹی کے نزدیک مخلوط انتخاب کے باوجود ملک میں انتخابات کی جنگ صرف فرقہ وارانہ اصول پر لڑی جائے گی- کیونکہ اگر اس اصل کے جاری ہو جانے کے بعد ان کے نزدیک قومی خیالات میں اصلاح ہو سکتی تو کس دلیل پر مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں اکثریت حاصل ہو سکتی تھی- آبادی کی تقسیم کا انتخاب پر اثر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ آبادی کی تقسیم کا انتخاب پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا- یاد رکھنا چاہئے کہ نہروکمیٹی نے تین حلقے پنجاب کے بتائے ہیں- ایک حلقہ وہ جس میں مسلمان زیادہ ہیں- ایک وہ جس میں ہندو مسلمان کا پلڑہ برابر ہے اور ایک وہ جس میں ہندوؤں کا پلڑہ بھاری ہے- اور اس سے ثابت کیا ہے کہ چونکہ وہ علاقہ جس میں ہندوؤں کا پلڑہ بھاری ہے، تھوڑا ہے، اس لئے مسلمان بہرحال ہندوؤں، سکھوں سے فائدہ میں رہیں گے- اور یہی حال بنگال کا ہے میرے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے- نہرو کمیٹی نے فرض کر لیا ہے کہ انتخاب کا حلقہ ضلع ہوگا- حالانکہ انتخاب کا حلقہ ضلع نہیں ہوگا- بلکہ اس سے بہت چھوٹا علاقہ ہوگا- نہرو کمیٹی نے ہر ایک لاکھ آدمی کو ایک ممبر منتخب کرنے کا حق دیا ہے- پنجاب کی آبادی دو کروڑ چھ لاکھ پچاس ہزار ہے-

Page 495

۴۵۲ اور اضلاع اٹھائیں ہیں پس اوسطاً ہر ضلع کے حصہ میں ساڑھے سات ممبر آئیں گے- اور اس تقسیم میں یقیناً بعض حلقے ایسے ہونگے- جہاں ہندو آبادی یا سکھ آبادی ایسی حقیر نہ ہوگی جیسی کہ سب ضلع کی آبادی کے مقابلہ میں وہ نظر آتی ہے اور یہ بات اس قاعدہ کو زیر نظر رکھنے سے اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ جو قوم کسی علاقہ میں کم ہو اور اس کا دوسری اقوام سے اختلاف ہو وہ بجائے دیہات میں بسنے کے شہروں میں رہتی ہے- ہندو بھی ایسا ہی کرتے ہیں- اور ان تمام علاقوں میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں، جا کر دیکھ لو کہ ہندو ان علاقوں میں گاؤں میں نہیں بلکہ قصبوں میں بستے ہیں اور اکھٹے رہتے ہیں- اور پھر ان میں سے جو گاؤں میں جا کر کام کرتے ہیں، وہ بھی اپنی جائداد شہر میں خرید لیتے ہیں اور اپنا تعلق قصبات سے نہیں توڑتے- چنانچہ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی پچپن فیصدی اور سکھوں اور ہندوؤں کی کل آبادی تنتالیس فی صدی ہے لیکن شہروں کی نیابت میں آٹھ ممبر ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں اور چھ مسلمانوں کی طرف سے- یعنی شہری آبادی کی نیابت کے لحاظ سے سکھ ہندو ستاون فیصدی ہیں اور مسلمان تینتالیس فی صدی- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ کا حق ملنے پر یہ نسبت نہ رہے گی اور ہندوؤں اور سکھوں کی نسبت کم ہو جائے گی اور مسلمانوں کی ترقی کرے گی- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس نسبت سے ظاہر ہے کہ ہندو اور سکھ شہروں میں زیادہ بستے ہیں اور اسلامی کثرت والے علاقوں میں یہ بات اور زیادہ نمایاں ہوگی خصوصاً جب ہر بالغ کو ووٹ کا حق ملا تو ان علاقوں میں ہر ہندو اپنا ووٹ کا حق شہر میں رکھے گا- اور اس طرح اپنا حق ان علاقوں میں بھی وصول کر کے رہے گا جن میں اس کی اقلیت ہے- پس نہرو کمیٹی کا نقشہ محض دکھاوے کا ہے- اور اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے- اور یقیناً وہ زبردست فیکٹر (FACTOR) جسے نہرو کمیٹی نے بھی تسلیم کیا ہے یعنی ہندوؤں اور سکھوں کی تعلیمی اور مالی برتری وہ عمل کئے بغیر نہیں رہے گا- اب ایک ہی سوال رہ جاتا ہے اور وہ بنگال اور پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب ہیں- کہا جاتا ہے کہ ان انتخابوں میں مسلمانوں نے اپنے حق سے زیادہ حاصل کیا تھا- اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان باوجود کمزوری کے اپنی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے اپنے حق سے زیادہ لینے پر قادر ہیں اور جب ہم یہ اندازہ کر لیں کہ وہ آئندہ منظم بھی ہو جائیں گے تو اس وقت تو یقیناً ایک بہت بڑا غلبہ حاصل کر لیں گے-

Page 496

۴۵۳ بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کا انتخاب چونکہ یہ حصہ مضمون کا بہت لمبا ہو چکا ہے میں بنگال اور پنجاب کو ملا کر ہی اس سوال پر روشنی ڈالتا ہوں اور پہلے بنگال کو لیتا ہوں- بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے الیکشنوں کا خود نہرو کمیٹی نے ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیل بیان کر کے یہ بتانا چاہا ہے کہ بعض ضلعوں میں مسلمانوں نے اپنے حق سے زیادہ لے لیا ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ کل صوبہ کے لحاظ سے مسلمانوں نے کیا حاصل کیا ہے- سو جب ہم ضلعوں کی نشستوں کی میزان لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کی ممبریوں کی تعداد چار سو اٹھاون (۴۵۸) ہے اس میں سے مسلمانوں کو بحساب آبادی دو سو سینتالیس (۲۴۷) ملنی چاہئے تھی- اور ہندؤوں کو دو سو گیارہ (۲۱۱-) لیکن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہندؤوں نے دو سو انچاس نشستیں (۲۴۹) حاصل کی ہیں- اور مسلمانوں نے دو سو نو (۲۰۹) گویا مسلمان جو چون (۵۴) فیصد ہیں، انہیں پینتالیس (۴۵) فیصد نشستیں ملی ہیں- اور ہندو جو چھیالیس (۴۶) فیصد تھے، انہیں پچپن (۵۵) فیصد نشستیں ملی ہیں- یہ امید ہے جو نہرو کمیٹی ہمیں دلاتی ہے- اگر اسی قسم کا حق کونسلوں میں بھی ملنا ہے تو مسلمانوں کو کیا خوشی ہو سکتی ہے- پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کا انتخاب اب میں پنجاب کو لیتا ہوں- اور اقرار کرتا ہوں کہ بادی النظر میں پنجاب کا معاملہ بہت مضبوط ہے- چوہدری افضل حق صاحب نے جو اعداد و شمار پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے متعلق شائع کئے ہیں وہ بہت سے لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ان پر نظر ڈال کر یقین کر لیتے ہیں کہ اعداد و شمار اس امر کی تائید میں ہیں کہ مسلمان کافی طاقت رکھتے ہیں کہ باوجود مالی اور علمی کمزوری کے پنجاب میں اپنے حق کی حفاظت کر سکیں- بلکہ اس سے زیادہ لے سکیں- ان اعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے چار سو تینتالیس (۴۴۳) اور حق رائے دہندگی کے لحاظ سے تین سو باسٹھ نشستیں (۳۶۳) ملنی چاہئیں تھیں- مگر ملیں چار سو آٹھ (۴۰۸-) گویا حق رائے دہندگی کے لحاظ سے مسلمانوں نے اپنے مقابل والوں سے چھیالیس نشستیں (۴۶) چھین لیں- سکھوں کو آبادی کے لحاظ سے پونے ستاسی (۸۷) نشستوں کا حق تھا- اور رائے دہندگی کے لحاظ سے ایک سو پونے پچاسی کا- لیکن انہوں نے حاصل ایک سو پچاسی کیں- گویا اپنے حق سے نہایت ہی خفیف زیادتی حاصل کی- ہندؤوں کا

Page 497

۴۵۴ اس کے مقابلہ میں آبادی کے لحاظ سے دو سو سوا پچھتر ممبریوں کا حق تھا رائے دہندگی کے لحاظ سے دو سو اڑسٹھ (۲۶۸) کا اور حاصل انہوں نے دو سو اکیس (۲۲۱) کیں- اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں- اخذ کردہ نتائج سے اختلاف باوجود ان کھلے کھلے اعداد کے مجھے ان نتائج سے اختلاف ہے جو نکالے گئے ہیں- اور سب سے پہلے تو میرا یہ سوال ہے کہ کیا دنیا کی کسی معقول ہستی نے بھی ایک وقت کے نتیجہ پر حقائق کا اندازہ لگایا ہے- نتائج نکالنے کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ کم سے کم دس انتخابوں کے اعداد ہوں اور پھر ان کو ملا کر دیکھا جائے کہ اوسطاً کون سی قوم کس قدر نمائندگی حاصل کر سکی ہے- اگر یہ فرق اعداد کا صرف قریب کے انتخابوں کا ہے، بنگال میں بھی اور پنجاب میں بھی، تو یقیناً اس سے ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ نتائج مسلمانوں کی ہوشیاری کے سبب سے نہیں ہیں- بلکہ اس فرقہ وارانہ جذبہ کی شدت کے ہیں جو پچھلے چار پانچ سال میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے- ملتان کے فسادات، کلکتہ کے فسادات، باریسال کے فسادات، لاہور کے فسادات، اور موپلوں پر مظالم ایسے نہ تھے کہ انہیں دیکھ اور سن کر ایک غافل سے غافل مسلمان کی آنکھوں میں بھی خون نہ اتر آتا- پس اس جذبات کے عارضی ابھار کو ایک مستقل معیار قرار نہیں دیا جا سکتا- کیا غیر محفوظ نشستوں کے حامی ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی دونوں اقوام کے جذبات کو اسی طرح ابھارتے رہیں گے- اور دونوں قوموں میں نہ ختم ہونے والی جنگ جاری رکھیں گے- اگر نہیں اور ملک کی خیر خواہی چاہتی ہے کہ وہ ایسا نہ کریں تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو نتیجہ دونوں قوموں کے ابھرے ہوئے جذبات کا تھا، اس سے ایک مستقل اندازہ کس طرح لگایا جا سکتا ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کسی قوم کو کوئی ناقابل تلافی صدمہ پہنچتا ہے تو اس وقت وہ تمام دوسرے اثرات کو بھلا دیتی ہے اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر کام کرتی ہے- اور اس وقت اس کے اعداد اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں- چونکہ پچھلے چندسالوں میں مسلمانوں پر سخت ظلم ہوا ہے- بوجہ مظلوم ہونے کے ان کے جذبات دوسری اقوام سے زیادہ مشتعل تھے- اور اس وقت کی ان کی جدوجہد پر ہمیشہ کا قیاس کرنا بالکل خلاف عقل ہوگا- اور ان اعدادو شمار کی قدرومنزلت اسی وقت ثابت ہو گی، جب کہ کم سے کم دس انتخابوں کے اعداد و شمار سے وہی نتیجہ نکلتا ہو جو پچھلے انتخابوں کے اعداد و شمار سے نکلتا ہے کیونکہ مقابلہ اعداد کے صحیح نتائج

Page 498

۴۵۵ واقفین فن کے نزدیک اسی وقت نکالے جاتے ہیں جس وقت کہ اول وہ خاص حالات کے اثر سے آزاد ہوں- دوم ایک لمبے عرصہ کے اعداد کا مقابلہ کر کے دیکھا جائے- سوم ان اعداد و شمار سے یہ نہ ثابت ہوتا ہو کہ کوئی مخالف رو اندر ہی اندر ترقی کر رہی ہے- یا اس کے آئندہ ترقی کرنے کا احتمال ہے یعنی یہ ثابت ہو جائے کہ جو نتیجہ ہم نکال رہے ہیں- اس کے خلاف ہر سال کے اعداد میں کوئی تدریجی طور پر بڑھنے والا فیکٹر(FACTOR) موجود نہیں ہے- مگر ہمارے قابلقدر نوجوان نے اور نہرو کمیٹی نے جو اعداد پیش کئے ہیں، ان میں اوپر کی تینوں باتوں میں سے ایک کا بھی خیال نہیں رکھا گیا- نہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان انتخابوں کے وقت کوئی خاص حالات پیدا نہ تھے )میں ثابت کر چکا ہوں کہ خاص حالات تھے) اور نہ کئی انتخابوں کے اعداد پیش کئے گئے ہیں اور نہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ پچھلے انتخابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کی اس برتری کو مٹانے والے کوئی اسباب رونما ہو رہے ہیں- اس وجہ سے ان اعداد سے نتیجہ نکالنا بالکل خلاف عقل اور خلاف تجربہ ہے- اعداد و شمار کی قدرو قیمت تو صرف اوسط کے کلیہ پر منحصر ہے- اس کے سوا اعداد و شمار کی کوئی قیمت ہی نہیں- ایک مثال پر تو انحصار سخت خطرناک ہوتا ہے- کمزور سے کمزور فوج بھی کبھی زبردست سے زبردست غنیم کو ایک میدان میں شکست دے دیتی ہے مگر اس فعل کی تکرار نہیں ہوتی- ہندؤوں کا ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں دلچسپی نہ لینا یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اعداد و شمار سے یہ امر ثابت بھی ہو جائے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں مسلمان پچھلے انتخابات میں متواتر جیتتے چلے آئے ہیں، تب بھی اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ کونسلوں کے الیکشن میں بھی مسلمان ضرور ہندؤوں پر غالب رہیں گے، درست نہیں- کیونکہ ڈسٹرکٹ بورڈوں اور کونسلوں میں کوئی مشارکت ہی نہیں- اصل بات یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں کوئی حقیقی عزت اور حکومت نہیں ہے اور نہ ان کا اثر تجارتی امور پر پڑتا ہے- اس وجہ سے ہندو دماغ یعنی بنیا ان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا- وہ اسی وقت دخل دیتا ہے کہ جب اس کا اپنا انٹرسٹ(INTEREST) ہو- مگر ڈسٹرکٹ بورڈ میں اس کا کیا انٹرسٹ ہے؟ وہ اگر ان کے انتخاب میں حصہ لیتا ہے تو صرف بعض دوستوں کی خاطر- ہاں میونسپل کمیٹیوں میں وہ دخل دیتا ہے اور کونسلوں میں دخل دیتا ہے کیونکہ میونسپل کمیٹیوں کا تجارت سے تعلق ہے- اور اسی طرح کونسلوں کا اور پھر اس کے

Page 499

۴۵۶ ساتھ ان میں حکومت بھی ہے- اور ہندؤوں کا دیرینہ آئڈیل (IDEAL) ان کے ذریعہ سے پورا ہوتا نظر آتا ہے- یعنی یہ کہ وہ پھر ہندو تہذیب کو دنیا میں قائم کریں گے- پس ڈسٹرکٹ بورڈوں پر قیاس کرنا بالکل درست نہیں انگلستان کے پارلیمنٹ کے انتخاب اور لوکل بروز (BOROUGHS) کے انتخاب کے نتائج کو سامنے رکھ کر دیکھ لو- کہ ملک پارلیمنٹ میں اور پارٹی کو بھیجتا ہے- اور لوکل بروز (BOROUGHS) اور میونسپل کمیٹیوں میں بعض دفعہ بالکل مخالف پارٹی کو بھیجتا ہے- اس لئے واقفان سیاست جانتے ہیں کہ ایک کے نتائج پر دوسری کا قیاس نہیں کرنا چاہئے- پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ نہرو کمیٹی یا ہمارے پنجاب کے ممبر کونسل نے کس طرح دونوں کو ایک شے قرار دے کر بورڈوں کے انتخاب سے کونسلوں کے متعلق نتیجہ نکال لیا ہے- ڈسٹرکٹ بورڈوں سے ہندؤوں کی بے اعتنائی میرے نزدیک سیاسی اصول کے مطابق اور عقلی دلائل کی رہبری سے غور کرنے کے علاوہ اگر ہم خود ان عداد پر غور کریں تو بھی ہمیں یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ انتخاب کا جو نتیجہ پیدا ہوا ہے وہ مسلمانوں کی ہوشیاری کی وجہ سے نہیں- بلکہ ہندؤوں کی بیاعتنائی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- چنانچہ دیکھ لو کہ مسلمانوں نے جس قدر نشستیں زائد لی ہیں وہ ہندؤوں سے لی ہیں نہ کہ سکھوں سے- اگر مسلمانوں کی ہوشیاری کے سبب سے یہ نتیجہ نکلتا تو وہ سکھوں سے بھی زائد نشستیں حاصل کرتے مگر اعداد کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب نشستیں ہندؤوں ہی نے کھوئی ہیں ان کی نشستوں کی کمی پونے سینتالیس ہے- اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی زیادتی چھیالیس ہے- اور سکھوں کی زیادتی ۴/۱ نشست کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے بھی ہندؤوں کا حق چھینا ہے - اور سکھوں نے بھی ہندؤوں کا- حالانکہ اگر اقلیت پر اکثریت کے غلبہ کا سوال ہوتا تو سکھ زیادہ نقصان میں رہتے، کیونکہ ان کی اقلیت بہت کم ہے- اور ہندؤوں سے قریباً آدھی ہے- پس ان اعداد سے یہ نتیجہ کسی صورت میں بھی نہیں نکالا جا سکتا کہ مسلمانوں نے اپنی طاقت سے یہ غلبہ حاصل کیا ہے- بلکہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندؤوں کو ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتظام کے ساتھ کوئی خاص انٹرسٹ (INTEREST) نہیں ہے- اور جب یہ امر بالبداہت ثابت ہوتا ہے کہ ہندؤوں کی کمزوری ڈسٹرکٹ بورڈ میں بوجہ ان کی رغبت کی کمی کے ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ کونسلوں میں بھی

Page 500

۴۵۷ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھائیں گے کسی طرح درست نہیں ہو سکتا- یاد رکھنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں زیادہ تر زمیندار کا انٹرسٹ ہوتا ہے اور بنیا زمین تو خرید لیتا ہے لیکن وہ کبھی زمیندار نہیں بننا چاہتا- اس وجہ سے وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے کام میں اس قدر حصہ نہیں لیتا- جس قدر کہ بظاہر اسے لینا چاہئے اور جو ہندو زمیندار ہے- وہ اسی طرح بنئے کے ہاتھوں مظلوم ہے جیسے کہ ہم مسلمان ہیں سرکاری عہدوں کو دیکھو- ان میں کانگڑہ، حصار، رہتک، گوڑگانواں، کرنال، انبالہ کے ہندو زمیندار بھی ویسے ہی کم نظر آئیں گے جیسے کہ مسلمان بلکہ ان سے بھی کم- اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہندوبنئے کے تسلط کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں میں زیادہ مقابلہ اس طبقہ کے لوگوں سے ہے نہ کہ ہندو تاجر اور ساہوکار سے- علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخاب میں مرکزی انجمنیں دخل نہیں دیتیں اور نہ شہروں سے آکر لوگ امید وار بنتے ہیں- لیکن کونسلوں میں مرکزی مجالس آکر دخل دیتی ہیں اور وہاں کے مالدار لوگ آکر مقابلہ کرتے ہیں پس دونوں کی مشابہت آپس میں بالکل ہی نہیں ہے- خلاصہ یہ کہ اول تو جو اعداد پیش کئے گئے ہیں- وہ اس صورت میں نہیں کہ سائنٹیفک (SCIENTIFIC) طور پر ان سے کوئی نتیجہ نکالا جا سکے- اور اگر ان سے وہی نتیجہ نکلے جو نکالا جاتا ہے تو بھی ڈسٹرکٹ بورڈوں پر کونسلوں کے الیکشنوں کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے- کیونکہ دونوں میں کوئی مماثلت نہیں اور نتیجہ نکالنے کے لئے مماثلت کا ہونا ضروری ہوتا ہے- مسلمانوں کی قومی ہستی کو خطرہ مگر میں کہتا ہوں کہ ایک منٹ کے لئے تمام وہ امور تسلیم کر لو جو اس مثال کے پیش کرنے والے منوانا چاہتے ہیں- پھر بھی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان اعداد سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ انتخاب میں غالب رہیں گے- یا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کبھی مسلمان بھی غالب ہو سکیں گے- میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقل مند بھی ان اعداد سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ ہمیشہ مسلمان اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں لے لیا کریں گے کیونکہ جس آرگنائزیشن )ORGANIZATION) کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھلا ہوگا- اسی کا دروازہ ہندؤوں کے لئے بھی کھلا ہوگا اور پھر جب ہم اس امر کو مدنظر

Page 501

۴۵۸ رکھیں کہ ہندو اقلیت ہیں اور اقلیت میں جوش اکثریت سے زیادہ ہوتا ہے- اور اس سے بڑھ کر اس بات کو بھی دیکھیں کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں پنجاب میں دو اقلتیں ہیں- اور ان میں سے ہر اک یہ سمجھتی ہے کہ میں بہت تھوڑی ہوں اور یہ امر ان کے جوش کو بڑھا دیتا ہے- اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ دونوں اقلیتیں مل کر مسلمانوں کے قریب پہنچ جاتی ہیں تو خطرہ اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے- اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان بعض اوقات اکثریت حاصل کر لیں گے تو یہ دوسری اقوام بھی ضرور اکثریت حاصل کرتی رہیں گی- اور اگر یہ ہوتا رہا تو پھر مسلمانوں کے لئے اس رنگ میں ترقی کرنے کا کوئی موقع نہ رہے گا جو ہندؤوں کو دوسرے صوبوں میں ملے گا- اور مسلمانوں کو چند ہی سال میں پورے طور پر اپنے آپ کو ہندو کلچر (CULTURE) کے آگے ڈال کر اپنی قومی ہستی کو کھو دینا پڑے گا- کلچر کی ترقی کے لئے زبردست حکومت کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر کہ متواتر حکومت کی- اور وہ تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب کہ محفوظ نشستیں ہوں بیشک اس صورت میں ہندؤوں کا عنصر قریباً ہر حکومت میں شامل رہے گا- مگر میرے نزدیک یہ بہتر ہوگا، کیونکہ اس طرح فرقہ وارانہ حکومت کا سدباب ہو جائے گا اور اتحاد میں زیادہ مدد ملے گی- مسلمانوں کا چوتھا مطالبہ مرکزی حکومت میں اسلامی نیابت چوتھا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ مرکزیحکومت میں انہیں ایک ثلث نیابت دی جائے- اور کم سے کم ان کے موجودہ حق کو کم نہ کیا جائے- جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں اس مطالبہ کو بھی رد کر دیا گیا ہے- نہرو رپورٹ میں لکھا ہے- ‘’ہم نے خوب غور کیا ہے لیکن ہم افسوس کرتے ہیں کہ ہم مرکزی پارلیمنٹ کی کل نشستوں میں سے ایک تہائی کی مسلمانوں کے لئے سفارش نہیں کر سکتے’‘-۶۰؎ اس کی جگہ جو کچھ رپورٹ تجویز کرتی ہے- وہ یہ ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان بہت کم ہیں- ان میں ان کے حقوق بقدر آبادی محفوظ کر دئے جائیں- اور پنجاب اور بنگال میں آزاد مقابلہ رہے- مجنونانہ خیال میں یہ بتا چکا ہوں کہ خود نہرو رپورٹ کے بیان کے مطابق ان صوبوں میں جن میں مسلمان کم ہیں مسلمانوں کا زیادہ حق لے لینا تو بڑی بات ہے، وہ اس قدر

Page 502

۴۵۹ حق بھی نہیں لے سکتے جس قدر حق کہ ان کو آبادی کے لحاظ سے ملنا چاہئے- پس یہ امید کرنی کہ اس انتظام کی رو سے مسلمانوں کو ان کی آبادی سے زیادہ حق مل سکے گا- ایک مجنونانہ خیال ہے- پس نہرو کمیٹی کے فیصلہ کی رو سے مسلمانوں کا سخت نقصان ہوا ہے- اور ضروری ہے کہ کم سے کم ایک ثلث ممبریوں کا حق ان کے لئے محفوظ رکھا جائے- نہرو رپورٹ کے دلائل نہرو کمیٹی جو دلائل اس کے خلاف پیش کرتی ہے وہ یہ ہیں کہ-: ۱ -کسی قوم کو اس کی تعداد سے زائد حق دینا اصول کے خلاف ہے- ۲ -اگر مسلمانوں کو زائد حق دیا گیا تو دوسری قلیل التعداد جماعتوں کی حق تلفی ہو گی- ۳ -اگر مسلمانوں کے لئے ایک ثلث نشستیں خاص کر دی جائیں تو ان کی تقسیم کا کیا طریق ہو گا؟ اس طرح ہمیں لازماً پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کو محفوظ نشستوں کا حق دینا پڑے گا جسے ہم غلط ثابت کر چکے ہیں- پس علاوہ اس کے یہ بات اصولی طور پر غلط ہے، اس پر عمل کرنے میں بھی مشکلات ہیں- تعداد سے زائد حق پہلی بات کہ کسی جماعت کو اس کی تعداد سے زائد حق دینا اصول کے خلاف ہے بالکل درست نہیں- اگر یہ بات درست ہوتی تو بینالاقوامی گفتگو میں ہمیشہ بڑی حکومتوں کے نمائندے زائد ہوتے اور چھوٹی حکومتوں کے کم- لیکن واقعہ یہ ہے کہ رائے کے لحاظ سے وہی حق بلجیئم کو جو ایک چھوٹی سی حکومت ہے، حاصل ہے جو کہ برطانیہ کو جو چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے- پس قوموں کے حقوق کے وقتخالی تعداد نہیں دیکھی جاتی بلکہ تعداد کے علاوہ اور امور بھی قابل غور ہوتے ہیں- نیابتی حکومت کی حقیقت میرے نزدیک نیابت کی نسبت کے سمجھنے کے لئے نیابتیحکومت کی حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہئے- نیابتی حکومت کی بنیاد اسی اصل پر ہے کہ ہر انسان آزاد ہے- لیکن(۱)وہ ایک کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور ہے کہ کسی نہ کسی حکومت سے وابستہ ہو- (۲)آزادی کا استعمال اسی وقت جائز ہے- جبکہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچتا ہو- چونکہ یہ دونوں مقصد بغیر ایک نظام سے وابستہ ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے اس لئے حکومت کا قیام ضروری ہے- چونکہ یہ امر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے- اس لئے حکومت کا بہترین طریق وہ ہی ہوگا جس میں فرد کی

Page 503

۴۶۰ آزادی کم سے کم قربان ہو- اور حکومت میں زیادہ سے زیادہ ممکن حصہ اسے حاصل ہو- چونکہ حکومت بہت سے افراد کے ملنے سے ہوتی ہے- اور کوئی مجموعہ بہت سے افراد کا ایسا نہیں مل سکتا کہ جس کی رائے ہر اک امر میں متفق ہو- اس لئے درمیانی راہ حکومت کی یہ ہوگی کہ ہر امر میں اس رائے پر عمل ہو جس پر زیادہ سے زیادہ لوگ متفق ہوں- اور چونکہ ہر امر پر لوگوں کی رائے لینا ناممکن ہے، اس لئے آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز کی جائے کہ بجائے مسائل پر رائے لینے کے ملک کے عاقلوں، بالغوں سے یہ رائے لے لی جائے کہ حکومت کے معاملات میں کن لوگوں پر وہ اعتبار کرتے ہیں- تاکہ پیش آمدہ امور میں ان سے رائے لے لی جایا کرے- اس کے سوا کوئی اور معقول وجہ نیابتی حکومت کے قیام کی نہیں ہے- لیکن یہ سلسلہ خیالات اپنی تمام کڑیوں میں ایک اصل کی طرف اشارہ کرتا چلا جاتا ہے اور وہ حریت افراد ہے- تمام افراد آزاد ہیں- اپنے معاملات میں فیصلہ کرنے کا کامل حق انہیں حاصل ہے- حکومت کی خاطر اپنے حق کو چھوڑ دینا ایک مجبوری کا امر ہے- ہر اک جو اپنی حریت کو چھوڑتا ہے، وہ گویا ملکوقوم کی خاطر ایک قربانی کرتا ہے- اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ انسانی طبائع مختلف ہیں ایک معاملہ میں لوگ مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں تو دوسرے معاملہ میں مجھ سے اتفاق کریں گے- اس لئے میں ایک بات دوسروں کے لئے چھوڑ دیتا ہوں کہ دوسرے موقع پر اسی قانون کے ماتحت میری بات مانی جائے گی- جہاں تک افراد کا سوال ہے اور پھر خصوصاً سیاسیات کا یہ سمجھوتا ٹھیک چلتا ہے- لیکن جس وقت قومیتوں اور مذہب کا سوال درمیان میں آجاتا ہے، یہ دلیل رہ جاتی ہے- کیونکہ کوئی شخص قومیت اور مذہب کو قربان نہیں کر سکتا- وہ اپنی رائے کو تو کثرت کے لئے اس وجہ سے قربان کرتا تھا کہ دوسرے ہی معاملہ میں کثرت میرے ساتھ ہو گی- لیکن وہ مذہب اور قوم کو کس بنا پر قربان کر سکتا ہے- کیا وہ امید کر سکتا ہے کہ دوسرا بھی میری خاطر مذہب اور قوم قربان کر دے گا- اور فرض کرو کہ دوسرا شخص اس امر کے لئے تیار بھی ہو جائے- کیا ایک دیانتدار آدمی اپنے مذہب کو اس لئے چھوڑ دے گا کہ دوسرا بھی اپنے مذہب کو چھوڑنے کے لئے تیار ہے؟ ہرگز نہیں- پس ایسے وقت میں لازماً وہ یہ سوال کرے گا کہ میری قومیت اور مذہب کی حفاظت کا سامان کر دو- تب میں اپنا پیدائشی حق آزادی مجموعہ افراد کے حق ِّمیں چھوڑنے کے لئے تیار ہوں-

Page 504

۴۶۱ مسلمانوں کے سامنے مذہب اور قومیت کا سوال یہی سوال اس وقت ہندوستان میں پیدا ہے- مسلمانوں کے سامنے مذہب اور قومیت کا سوال ہے- سیاست کا سوال ہوتا تو وہ یہ سمجھ لیتے کہ رائے ہر معاملہ میں بدلتی رہے گی- لیکن یہاں دو مختلف قومیں اور زبردست قومیں بستی ہیں جن کے مذہب الگ ہیں- اور جن کے تمدن کے اصول الگ ہیں- پس ایک مستقل اکثریت کے مقابلہ میں ایک مستقل اقلیت بن کر رہنے کے لئے وہ کس طرح تیار ہو سکتے ہیں- جب تک کہ ان کے حقوق کی حفاظت کا انتظام نہ ہو جائے- یہاں سیاسی مسائل کا سوال نہیں کہ ہر مسئلہ پر اقلیت اور اکثریت بدلتی چلی جائے گی بلکہ قومی اور مذہبی حقوق کا سوال ہے- یہ کہنا بالکل فضول ہوگا کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرنا چاہئے- کیونکہ اگر یہی بات ہے تو کیوں ہندو ہی مسلمانوں پر اعتبار کر کے انہیں نصف سے زیادہ نشستیں نہیں دے دیتے- اور دوسرے ہمارے سامنے ریاستوں اور سرکاری دفاتر کا تجربہ موجود ہے- وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے آئندہ کے لئے حفاظت کا سامان نہ کرنا قومی خود کشی سے کم نہ ہو گا- غرض مستقل اقلیت اور اکثریت کا سوال ان اصول پر طے نہیں کیا جا سکتا جو بدلنے والی اکثریت اور اقلیت کے سوال کے حل کرنے میں کام آتے ہیں- بلکہ ان اصول پر طے ہوتا ہے کہ جن پر دو مختلف حکومتوں کے باہمی اختلاف طے کئے جاتے ہیں- اور اگر ان حالات میں مسلمان زیادہ نمائندگی مانگتے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- آخر ان کے اس دعویٰ کا کیا رد ہے کہ نیابتی حکومتیں اکثریت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں- ہم جو یہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں کہ حکومت ہند کو ہندو اکثریت کے ہاتھ میں دے دیں تو کیا ہمارا اس قدر حق بھی نہیں کہ ہم مطالبہ کریں کہ قانوناساسی کی کوئی تبدیلی بغیر ہمارے مشورہ کے نہ ہو- قانونِ اَساسی کی تبدیلی اور مسلمان میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ نہرو کمیٹی نے قانون اساسی کی تبدیلی کے لئے ۳/۲ ممبروں کی رائے کی شرط رکھی ہے- اور اگر مسلمانوں کو ان کی تعداد کے برابر بھی ممبریاں مرکزی پارلیمنٹوں میں مل جائیں تو انہیں ۴/۱ نشستیں ملیں گی- جس کے یہ معنی ہیں کہ قانون اساسی اس وقت بھی بدلا جا سکتا ہے کہ جب ایک مسلمان بھی اس کی تائید میں نہ ہو- کیونکہ مسلمان نیابت اگر آبادی کے مطابق ہو تو مسلمان ممبر پچیس (۲۵) فیصدی ہوں گے- اور ہندو پچھتر (۷۵) فیصدی اور

Page 505

۴۶۲ قانونِ اساسی چھیاسٹھ )۶۶) فیصدی ممبر بدل سکتے ہیں پس مسلمانوں کا حکومت میں دخل قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے- کہ تینتیس (۳۳) فیصدی نہیں بلکہ چونتیس (۳۴) فیصدی ممبریاں دونوں مرکزی پارلیمنٹوں میں مسلمانوں کو دی جائیں- ہندؤوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا- وہ پھر بھی اکثریت رہتے ہیں- مسلمان حکومت کے لئے حق نہیں مانگتے- وہ صرف اس قدر مانگتے ہیں کہ جس حق کی موجودگی میں ان کا اپنا حق نہ مارا جائے- ورنہ حکومت کرنے کے لحاظ سے چونتیس (۳۴) فیصدی اقلیت بھی ویسی ہی بیکار ہے جیسے کہ پچیس (۲۵) فیصدی- ہندو صاحبان کا یہ کہنا کہ اقلیت کا کیا حق ہے کہ وہ اپنی تعداد سے زائد حق مانگے- نیابتی حکومت میں بہر حال اکثریت حکومت کرتی ہے، ہرگز درست نہیں- کیونکہ نیابتی اور انتخابی حکومتوں کا دارومدار فردی آزادی کے حق پر ہے- اگر فردی آزادی کا اصل درست نہیں تو نیابتی اور انتخابی حکومت بھی ایک بے معنے شے ہے- اور اگر فردی آزادی کا حق درست ہے تو آٹھ کروڑ مسلمان جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انتخابی اور نیابتی حکومت کا قیام فردی آزادی کے قیام کے لئے ہوتا ہے- پس ہم کس طرح اس طریق حکومت پر راضی ہو سکتے ہیں کہ جو ایک چوتھائی آبادی کے حقوق کو بغیر حفاظت کے چھوڑ دیتا ہے- ہم اپنے لئے اکثریت کے طالب نہیں- مگر کیا ہم اس قدر حق کے طلب کرنے میں بھی حق بجانب نہیں جو اس حق کی حفاظت کرتا ہو جس کے قائم رکھنے کے لئے ہی انتخابی اور نیابتی حکومت قائم کی جاتی ہے- اور جس کی خاطر فرد اپنی آزادی کو محدود کرتا ہے- اگر اکثریت کو اپنی غیر مبدل کثرت کے سبب سے حکومت کا حق حاصل ہے تو پھر انتخابی اور جبری حکومت میں فرق کیا ہے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک اکثریت کے لئے حکومت کا حق تسلیم کیا گیا ہے- مگر اس سے مراد سیاسی اکثریت ہوتی ہے- جو حالات کے ماتحت بدلتی رہتی ہے، نہ کہ ایسی اکثریت جو دائمی ہو- اور جس کے بعض فیصلے مذہبی تعصب سے متاثر ہو سکتے ہوں- جب یہ خطرہ ہو کہ کسی اکثریت کے فیصلے بیرونی اثرات سے متاثر ہو سکتے ہیں اور وہ اکثریت نہ بدلنے والی ہو تو اس وقت اس قوم کی حفاظت کا ذریعہ پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے جس پر اکثریت کے متعصبانہ فیصلوں کا اثر ممکن ہو- اقلیت کو زائد حق نیابت کب دینا ضروری ہے شاید کوئی شخص یہ کہے کہ تب تو پھر ہر حکومت میں ہر مذہبی اقلیت کو

Page 506

۴۶۳ زائد حق نیابت دینے کی ضرورت پیش آئے گی اور اگر اس طرح ہوگا تو پھر نیابتی حکومت چلے گی کیونکر؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس اقلیت کے لئے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی نسبت خطرہ ہو کہ اکثریت اور اس کے درمیان مذہبی یا قومی تعصب حائل ہوگا- ورنہ خالی اقلیت ہونے کی وجہ سے کسی خاص قانون کی ضرورت پیش نہیں آتی- دوسرے اگر ایک سے زیادہ اقلیتیں مل کر ایسی تعداد کو پہنچ جاتی ہوں کہ اکثریت کو ظلم سے روک سکیں، تب بھی کسی خاص حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں ہوتی- ہندوستان میں مشکل یہی ہے کہ قابل ذکر اقلیت صرف ایک ہی ہے- بدھ اور سکھ گو ہندوؤں سے علیحدہ مذہب کے دعویدار ہیں مگر وہ عملی سیاست میں ایک ہیں- اور وہ درحقیقت اقلیتوں کی حفاظت کا موجب نہیں ہیں، بلکہ اکثریت کا پلڑہ بھاری کرنے کا موجب ہیں- اگر دو حقیقی اقلیتیں ہندوستان میں ہوتیں جو مل کر ایک زبردست اقلیت بن جاتیں تب مسلمانوں کو زائد حق دینے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی- اس وقت حقیقی اقلیت مسلمانوں کے سوا صرف مسیحیوں کی ہے- مگر وہ صرف ایک فیصدی ہیں- اور انہیں نہ تو اپنی انتہائی کمزوری کی وجہ سے ہندوؤں سے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ظلم کے روکنے میں مسلمانوں کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں- کیا ہندوستان کو خود اختیاری حکومت نہیں ملنی چاہئے میں اس موقع پر اس خیال کو رد کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو بعض لوگ ہندو مسلم مناقشات کے ذکر پر ظاہر کیا کرتے ہیں- اور وہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں اس قدر اختلاف ہے تو پھر ہندوستان کو خود اختیاری حکومت نہیں ملنی چاہئے- میرے نزدیک جب ایسے ذرائع موجود ہیں کہ اقلیت کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے خود اختیاری حکومت ہندوستان کو نہ دی جائے- یورپ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں کہ جن میں شدید اختلاف کا وجود تسلیم کیا گیا ہے- مگر باوجود اس کے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے ذرائع اختیار کر کے وہاں جدید حکومتیں قائم کی گئی ہیں- پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کچھ یورپ میں کیا گیا ہے وہی ہندوستان میں نہ کیا جائے- دوسری اقلیتوں کے حقوق تلف ہونے کا سوال دوسری دلیل نہرو کمیٹی کی مسلمانوں کو زیادہ نیابت دینے کے خلاف یہ ہے کہ اس طرح دوسری اقلیتوں کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ

Page 507

۴۶۴ اس دلیل کا کیا مفہوم ہے اور مجھے ڈر ہے کہ خود نہرو کمیٹی بھی اس کا مطلب نہیں سمجھتی تھی- کیونکہ مسلمانوں کو زائد حق دینے کی وجہ سے دوسری اقلیتوں کے حقوق کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچ سکتا- اول تو مسلمانوں کے سوا اور کوئی اقلیت ایسی ہے ہی نہیں جسے مستقل اقلیت کہا جا سکے- بدھ لوگ اس وقت ہندوستان میں ہندوؤں کی ایک شاخ بن رہے ہیں- انہیں وہ خطرات ہی نہیں جو مسلمانوں کو ہیں- قومی سوالات کے موقع پر وہ ہمیشہ ہندوؤں کے ساتھ ہوتے ہیں- سکھوں کا بھی یہی حال ہے- باقی رہے مسیحی، وہ صرف ایک فی صدی ہیں- اور اکثر ہندوؤں سے نکل کر مسیحی ہوئے ہیں- اور کوئی ماضی نہیں رکھتے جس کے ساتھ انہیں وابستگی ہو- کوئی چیز ان کے پاس ایسی نہیں جس کے کھوئے جانے کا خطرہ ہو- پس ان کو خوف کوئی نہیں ہو سکتا- اور مسلمانوں کا یہ مطالبہ بھی نہیں کہ مسیحیوں کا حق نیابت کم کر کے انہیں دیا جائے- ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ اکثریت کے پاس اس قدر گنجائش ہے کہ اس کا حق نیابت کم کر کے مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ کیا جا سکتا ہے- اور باوجود اس کے اکثریت کی اکثریت میں فرق نہیں آتا- پس دوسری اقلیتوں کے حقوق کو کم کرنے کا اس جگہ کوئی سوال ہی نہیں کہ انہیں نقصان کا اندیشہ ہو- کیوں نشستیں مخصوص نہ کی جائیں؟ تیسری دلیل نہرو کمیٹی کی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کیلئے نشستیں مخصوص کر دی جائیں تو ان کی تقسیم کس طرح ہوگی اس طرح تو پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کے لئے حق نیابت محفوظ کر دینا ہوگا لیکن یہ بھی کوئی دلیل نہیں- کیونکہ یہ امر تو مسلمانوں کے مطالبات میں شامل ہے کہ پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کی نیابت کا حق محفوظ ہونا چاہئے اور میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہی طریق درست اور انصاف کے مطابق ہے پس دلیل کی بنیاد ایک ایسا امر پر رکھنا جو خود مابہ النزاع ہے- عقل کے خلاف ہے اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے لئے نشستوں کی حفاظت نہ کی جائے گی تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا- کیونکہ مجلس نیابت کے نمائندوں کے انتخاب کے وقت ہندوستان کو مجموعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا- اور ہندوستان کی مجموعی آبادی کو مدنظر رکھ کر مسلمان اقلیت ہیں، بلکہ کمزور اقلیت- پس اگر بفرض محال صوبوں میں نشستیں محفوظ نہ بھی ہوں تب بھی مرکزی مجلس کیلئے نشستوں کی حفاظت کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے- انہیں محفوظ کیا جا سکتا ہے-

Page 508

۴۶۵ ہندو کس طرح مسلمانوں کا اعتبار حاصل کر سکتے ہیں میں آخر میں ہندو صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں وسعت حوصلہ سے کام لینا چاہئے- وہ اس بات کی امید ہرگز نہ رکھیں کہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہوتے ہوئے بھی وہ مسلمانوں کا حق چھیننا چاہیں گے تو انہیں آزادی کے حصول میں کامیابی ہوگی- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی آزادی کا فردی لحاظ سے گو ہر اک فرد کو فائدہ پہنچے گا- مگر قومی لحاظ سے اس کا نفع ہندوؤں کو پہنچے گا- کیونکہ ان کی تعداد اس ملک میں بہت زیادہ ہے- پس انہیں وسعت حوصلہ سے کام لینا چاہئے- اور اس تنگ نظریہ پر انہیں زور نہیں دینا چاہئے جس کے اختیار کرنے سے ایک اقلیت کو بھی شرمانا چاہئے- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کسی قوم کا فرض ہے کہ وہ وسعتحوصلہ دکھائے تو وہ زبردست اکثریت ہی ہے- انہیں پروفیسر مرے (PROFESSORMURREY) کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ-: ‘’دونوں طرفوں کو نہ صرف عفو بلکہ احسان سے کام لینا چاہئے- اور دنیا تو یہی کہے گی کہ پہلا فرض غالب قوم کا ہے کہ وہ احسان سے کام لے’‘- ۶۱؎ یہی قول ان پر بھی چسپاں ہوتا ہے- اگر ہندوؤں کی اکثریت باوجود اس کے کہ ان کی اکثریت کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا، مسلمانوں کی اقلیت سے ان شرائط کے طے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جن کی واحد غرض مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے تو پھر اسے بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ مسلمانوں کا اعتبار حاصل کر لے گی، اور وہ گورنمنٹ کو ایک ملکی گورنمنٹ خیال کریں گے- مسلمانوں کا پانچواں مطالبہ جُداگانہ طریق انتخاب پانچواں مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ انتخاب کا طریق جداگانہ ہو- یعنی مسلمان مسلمان ممبر منتخب کریں- اور ہندو ہندو ممبر منتخب کریں- مگر اس مطالبہ کے متعلق مسلمانوں میں اختلاف تھا- بعض کے نزدیک جداگانہ انتخاب اس وقت تک جاری رہنا چاہئے، جب تک خود مسلمان اس کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں- بعض کے نزدیک اوپر کے مطالبات کے منظور ہونے پر اس مطالبہ کو مخلوط انتخاب کے حق میں چھوڑا جا سکتا ہے- بشرطیکہ مسلمانوں کے حقوق تمام صوبوں میں اور مرکزی گورنمنٹ میں محفوظ کر دئے جائیں- جُداگانہ انتخاب کی

Page 509

۴۶۶ تائید میں مسلمانوں کے ایک معتدبہ حصہ کی رائے ہے- لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ جداگانہ انتخاب ایک عارضی علاج ہے- اس لئے اس امر پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جداگانہ انتخاب اصولی طور پر مخلوط انتخاب کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے- دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا جداگانہ انتخاب اس عارضی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے یا نہیں- جس کے لئے اسے تجویز کیا جاتا ہے وہ عارضی ضرورت مسلمانوں اور ہندوؤں کی آپس کے بے اعتباری ہے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں- اس بے اعتباری کے وجود کا کسی کو انکار نہیں- سوال صرف یہ ہے کہ اس بے اعتباری کے زمانہ میں انتخاب کا طریق کیا ہو مسلم لیگ کا کلکتہ سیکشن بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ جب تک بعض شرطیں پوری نہ ہو جائیں- اس وقت تک اس کو اڑانا درست نہ ہوگا- اور چونکہ وہ شرطیں پوری نہیں ہوئیں، اس لئے سمجھنا چاہئے کہ وہ بھی جداگانہ انتخاب کی تائید میں ہیں- جُداگانہ انتخاب کا فائدہ میں جہاں تک سمجھتا ہوں جداگانہ انتخاب کم سے کم عارضی طور پر فساد کے مٹانے میں ضرور مفید ہوگا- یہ خیال کہ اس وقت تک اس نے کیا اثر کیا ہے، چنداں وزن نہیں رکھتا- اس لئے کہ اس کے مقابلہ میں یہی سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک ڈسٹرکٹ بورڈوں کے مشترک انتخاب نے کیا اثر کیا ہے- یا ان میونسپل کمیٹیوں کے انتخاب نے کیا اثر کیا ہے جہاں مخلوط انتخاب ہے- اصل بات یہ ہے کہ جداگانہ انتخاب اگر برا ہے تو بینالاقوامی تعلقات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اندرونی تعلقات کے لحاظ سے- بینالاقوامی تعلقات تو اس سے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں- ہاں یہ ضرور نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ قوم میں اقدام کی روح کمزور ہو جاتی ہے- لیکن اس وقت چونکہ ہندو مسلم تعلقات خراب ہیں، اس کو اختیار کرنا اشد ضروری ہے- اس طریق کے اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دونوں قومیں اطمینان سے کام کریں گی- موجودہ تجربہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے- ہم دیکھتے ہیں کہ جُداگانہ انتخاب کے طریق پر عمل کرتے ہوئے ایک جگہ بھی خالص مسلم پارٹی کوئی نہیں بنی- اگر جُداگانہ انتخاب تفرقہ پیدا کرتا تو چاہئے تھا کہ کونسلوں میں مسلم اور ہندو پارٹیاں بنتیں- مگر ان پارٹیوں کا نہ بننا بناتا ہے کہ اس تجویر میں وہ نقص نہیں ہے جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے- آخر اس جداگانہ انتخاب کی مدد سے وہ مسلمان بھی کامیاب ہوئے ہیں- جو سوراج پارٹی میں شامل ہیں- اور وہ بھی جو مخلوطانتخاب کے حامی ہیں اسی طرح وہ ہندو بھی جو

Page 510

۴۶۷ مسلمانوں سے مل کر کام کر رہے ہیں- پس کونسلوں کے انتخاب کے لحاظ سے تو ہمیں اس کا کوئی خاص برا اثر نظر نہیں آتا- باہمی تفاہم کیلئے ایک مفید تجویز میرا خیال یہ ہے کہ اگر دوسرے مسلمان اس پر متفق ہوں تو طریق انتخاب کے متعلق یہ سمجھوتہ کر لیا جائے کہ مسلم لیگ کے مطالبات کے پورا ہو جانے اور سوراج کے حصول کے بعد دس سال تک ان صوبوں میں جہاں ہندو یا مسلمان چاہیں جداگانہ انتخاب کا طریق جاری رہے- اس دس سال کے عرصہ میں اگر وہ قوم جس کا یہ مطالبہ ہو، خوشی سے اپنے حق کو چھوڑ دے تو اس کی مرضی، ورنہ دس سال تک جداگانہ انتخاب ضرور رکھا جائے- اس کے بعد جن صوبوں میں ہندو یا مسلمان کمزور اقلیت ہیں، وہاں تو اس وقت تک کیلئے کہ وہ اقلیت اپنی مرضی سے اپنے حق کو نہ چھوڑے، مخلوطانتخاب اور محفوظ نشستوں کے طریق کو جاری رکھا جائے- اور پنجاب اور بنگال میں ایک مقررہ عرصہ تک مخلوط انتخاب اور محفوظ نشستوں کے طریق کو جاری کیا جائے- اس کے بعد خالی مخلوط انتخاب کو- مگر شرط یہی ہو کہ ڈومینین سلف گورنمنٹ(DOMINIONSELFGOVERNMENT)کے حصول اور مسلمانوں کی شکایات کے دور ہونے کے بعد سے یہ انتظام شروع ہو تا کہ مسلمان اپنے حق سے پورا فائدہ اٹھا کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں- میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس بات کو بطور تجویز نہیں بلکہ بطور ایک خیال کے پیش کرتا ہوں جس پر غور کر کے ممکن ہے کہ کوئی مفید درمیانی راہ نکل سکے- جو مسلمانوں کے دونوں مختلف گروہوں کو اکٹھا کر دے- میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر ایک کافی عرصہ مسلمانوں کو آزاد گورنمنٹ میں اپنے حقوق کی حفاظت کا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا مل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ تدریجی ترقی کے بعد کھلے میدان میں اپنے حریف کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں- اور خصوصاً جب کہ یہ انتظام صرف بنگال اور پنجاب کے لئے ہو جہاں کہ مسلمانوں کی اکثریت ہے تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ ہم لوگوں کے لئے اس میں کیا نقصان ہے- بہرحال یہ ایک تجویز ہے جس پر ہندو اور مسلمان اگر غور کریں تو شاید باہمی تفاہم کی صورت پیدا ہو جائے- میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جداگانہ انتخاب اصول انتخاب کے بالکل خلاف نہیں ہے- اور صرف یہ کہہ دینا کہ یورپ میں اس پر عمل نہیں ہوتا اس لئے یہ طریق ہی صحیح نہیں،

Page 511

۴۶۸ کوئی دلیل نہیں- جس ملک میں ایسی اقوام بستی ہوں کہ جو اپنی جداگانہ تہذیب اور جداگانہ مذہب رکھتی ہوں اور ان کے درمیان میں ایک لمبے عرصہ سے جھگڑے اور مناقشے ہوں، ان کے متعلق کوئی نہ کوئی احتیاط کرنی ضروری ہوگی ورنہ چھوٹی قوم کی تباہی یقینی ہو جائے گی اور اس کی ذمہ داری اکثریت پر ہی ہوگی- کیونکہ ایسے جھگڑوں کے موقعوں پر اکثریت ہی کے بس میں ہوتا ہے کہ وہ اقلیت کو اطمینان دلائے- پس حق تو یہ تھا کہ خود ہندو صاحبان مسلمانوں سے کہتے کہ آپ کو اطمینان دلانے کا طریق یہ ہے کہ آپ اپنے نمائندے الگ منتخب کریں- اور ہم اپنے نمائندے الگ منتخب کریں گے- لیکن تعجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے علاج پیش کرنے پر بھی اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیںہیں- جُداگانہ انتخاب افتراق کا موجب نہیں کہا جاتا ہے کہ جُداگانہ انتخاب سے افتراق پیدا ہوتا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے جس کا رد اصولاً تو میں اوپر بیان کر چکا ہوں- اب واقعات کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا ہندو مسلمانوں میں اختلاف جداگانہ انتخاب سے پہلے کا ہے یا پیچھے کا؟ اگر بعد کا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اس طریق فیصلہ سے پہلے مسلمانوں کی نسبت مختلف گورنمنٹ کے محکموں میں کیا تھی؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کو پورا حق ملا کرتا تھا تو پھر بیشک کہا جائے گا کہ اس سے پہلے ہندوؤں کو مسلمانوں سے تعصب نہ تھا- لیکن اگر پہلے موجودہ حالت سے بھی بدتر حال تھا تو ماننا پڑے گا کہ جداگانہ انتخاب سے تعصب نہیں پیدا ہوا بلکہ تعصب کی وجہ سے مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا خیال پیدا ہوا ہے- اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ آج کل پہلے سے زیادہ تعصب کی صورت پیدا ہے تو اس کا باعث جداگانہ انتخاب کو قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ ہندوؤں کی اس بے چینی کو کہ جو حقوق وہ پہلے بلاشرکت غیرے استعمال کر رہے تھے، اب مسلمان بھی کسی قدر ان میں حصہ لے رہے ہیں- میں اس قصہ کو ختم کرنے سے پہلے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نیابت کی اصل غرض ایک قوم کے صحیح خیالات کی ترجمانی ہوتی ہے- اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحیح ترجمانی ایک قوم کی اس کا ہم مذہب ہی اچھی طرح کر سکتا ہے- ہمیں یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ الیکشن کے وقت عارضی اور جوش دلانے والے سوالات اٹھا کر ووٹ حاصل کر لئے جاتے ہیں- لیکن دوران اجلاس کونسل میں بیسیوں نئے سوال پیدا ہو جاتے ہیں جن کا خود انتخاب کرنے والوں کو

Page 512

۴۶۹ کوئی علم نہیں ہوتا- پس اصل نیابت وہی ہے جو اپنے ہم مذہب کریں تا کہ ہر نئے پیش آمدہ معاملہ میں صحیح نیابت ہو سکے- اور یہ امر اس وقت تک ضروری ہے جب تک کہ قوم کی ایسی حالت نہ ہو جائے کہ سب لوگ مذہب اور پالیٹکس (POLITICS) کو الگ رکھنے کے عادی ہو جائیں- اور تمام اقوام کے تعلقات مضبوط ہو کر ایک ہندوستانی نیشنلٹی (NATIONALITY) پیدا ہو جائے اور اختلاف دور ہو جائے- اور اختلاف بالفاظ پروفیسر ایل- بی- مرے (L.B MURREY)ایک دن میں اور سچی خواہشات سے دور نہیں ہو سکتا ‘’بلکہ وہ صرف آہستہ آہستہ باہمی روا داری کے ذریعہ سے نسلوں کے بعد دور ہو سکتاہے’‘- مسلمان کا چھٹا مطالبہ مذہب اور تمدن کی حفاظت چھٹے امر کے متعلق مجھے اس جگہ مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں مذہب اور تمدن کی حفاظت کے متعلق اپنی مختلف تحریروں میں بہ تفصیل لکھ چکا ہوں- یہاں اس قدر کہہ دینا ضروری ہے کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونی چاہئے- میرے نزدیک یورپ میں اقلیتوں کی حفاظت کیلئے جو کچھ کیا گیا ہے اس کی ایک مختصرفہرست شاید اس ہیڈنگ کی تفاصیل کیلئے مفید ہوگی- اس لئے میں ذیل میں چند وہ باتیں درج کرتا ہوں جو کہ اقلیتوں کی تہذیب اور ان کے مذہب کی حفاظت کیلئے ضروری سمجھی گئی ہیں- میرے نزدیک قانوناساسی بناتے وقت اور ہندو مسلم سمجھوتے کے وقت انہیں مدنظر رکھ لینا چاہئے- کانگریس آف برلن ۱۸۷۸ء میں رومانیہ کی آزادی کے اعلان کے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کی حفاظت کیلئے یہ شرطیں کی گئی تھیں- اول-: مذہب، عقیدہ اور خاص اصول کی وجہ سے کسی کو دیوانی یا فوجداری حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا نہ سرکاری عہدوں، عزتوں یا مجالس سے محروم کیا جائے گا اور نہ مختلف پیشوں اور حرفتوں سے روکا جائے گا- دوم-: مذہبی مجالس کے بنانے یا تنظیم سے یا مذہبی پیشواؤں کی ملاقات سے ملک کے اندر یا باہر نہیں روکا جائے گا- لیگ آف نیشنز (LEAGUEOFNATIONS) کی نگرانی کے ماتحت جو معاہدات

Page 513

۴۷۰ اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ہوئے ہیں ان میں پولینڈ سے یہ اقرار لیا گیا ہے کہ ان ضلعوں اور شہروں میں جہاں اقلیت ایک معقول تعداد میں رہتی ہو- گورنمنٹ ذمہ دار ہوگی کہ پرائمریسکولوں میں اس کی زبان میں تعلیم دے- ایسے ضلعوں میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی رقم سرکاری خزانہ سے تعلیمی، مذہبی یا خیراتی کاموں کے لئے دی جائے تو اقلیت کو بھی اس کی تعداد کے مطابق اس روپیہ میں سے حصہ دیا جائے- )مادہ نو) اور ان حقوق کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی صورت میں موقوف نہیں کئے جا سکتے- یہودیوں کے متعلق اسی معاہدہ کے مادہ دس میں لکھا ہے کہ جو روپیہ یہودیوں کی تعلیم کے لئے الگ کیا جائے گا وہ یہودیوں کی منتخب کردہ کمیٹیوں کی معرفت خرچ ہوگا- مادہ گیارہ میں لکھا ہے کہ یہودیوں سے کوئی ایسا کام نہ کرایا جائے گا جس کی وجہ سے ان کے سبت کی حرمت میں فرق آتا ہو- (جمعہ کی بے قدری کرنے والے مسلمان اس سے سبق حاصل کریں- یہ ایک مردہ قوم کا حال ہے جب کہ مسلمانوں کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابدی طور پر زندہ ہے) ہاں فوجی اور پولیس کی ضرورتوں کے وقت اس کا لحاظ نہیں رکھا جا سکے گا- انتخاب ہفتہ کے دن نہ ہوا کریں- یوگوسلیویا سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت میں مسلمانوں کو قانون وراثت، طلاق، نکاح، حقوق زن و شوہر کے متعلق اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہوگی- )یاد رکھنے کے قابل ہے) حکومت مساجد، تکیوں اور دوسری مسلمانوں کی عمارات کی حفاظت کی ذمہدار ہوگی- اوقاف میں کسی قسم کا تصرف نہ کیا جائے گا- )یاد رکھنے کے قابل ہے) اور آئندہ نئے اوقاف یا ایسے صیغوں کے قیام میں کوئی روک نہ ڈالی جائے گی- زیکوسلویکا میں زبان کی تعلیم کو پرائمری تک محدود نہیں کیا گیا- البانیہ سے یہ معاہدہ لیا گیا ہے کہ اس میں ایسا طریق انتخاب جاری کیا جائے گا- جس میں اقلیتوں کے قومی مذہبی اور لسانی حقوق کی نگہداشت پوری طرح ہوتی جائے گی- جزائر الانڈ کے متعلق فن لینڈ سے یہاں تک معاہدہ لیا گیا ہے کہ جن سکولوں میں فنشزبان میں تعلیم دی جائے ان کے لئے الانڈ کے باشندوں سے روپیہ نہ لیا جائے- پولینڈ سے یہودیوں کے متعلق یہ اقرار بھی لیا گیا کہ یہودیوں کے مذہبی سکولوں میں تعلیم پانا بھی جبری تعلیم کے قانون کو پورا کرنے کا موجب سمجھا جائے گا- (مسلمان اسے بھی یاد

Page 514

۴۷۱ رکھیں) یہ بھی شرط رکھی گئی کہ یہودی ملازموں اور سپاہیوں کو نماز کیلئے وقت دیا جائے گا- انہیں ان کے مذہب کے مطابق غذا مہیا کر کے دی جائے گی- علماء فوجی جبری خدمت سے آزاد ہونگے- (یہ امور بھی فیصلہ کے وقت یاد رکھنے چاہئیں) یہ امر بھی واضح ہونا چاہئے کہ کسی قوم کے بادشاہوں کو حقیر کر کے سکولوں کی کتابوں میں نہ دکھایا جائے گا- کیونکہ اس سے قومی کریکٹر بچوں کا تباہ ہو جاتا ہے- یورپ کی بعض حکومتوں میں کیا جاتا ہے اور ہندوؤں کے دماغ کی افتاد خاص طور پر اس ناپسندیدہ طریق کے مطابق معلوم ہوتی ہے- اوپر کے بیان کردہ امور سے یہ امر بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے کہ قومی حفاظت کے سوال کے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بات چھوٹی ہے یا بڑی- بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو قوم کے کیرکٹر کا کیا حال ہوگا- پس ضروری ہے کہ مذہب اور تمدن اور زبان کی حفاظت کیلئے پورے سامان پیدا کر لئے جائیں- قوانین کے صحیح استعمال کی ضمانت میں نے بتایا تھا کہ قوانین کے صحیح استعمال کی بھی کوئی ضمانت ہونی چاہئے- کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کے صحیح استعمال کے بغیر قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا- اس غرض کے پورا کرنے کے دو طریق دنیا میں مقرر ہیں-(۱)اقلیت کو اس کی تعداد کے مطابق ہر قسم کی ملازمتوں میں حصہ دیا جائے- (۲)کوئی ایسی عدالت اپیل ہو جس کے پاس اختلاف کی صورت میں معاملہ پیش کیا جا سکے- مسلمانوں کی طرف سے پہلا مطالبہ ہمیشہ پیش ہوتا رہتا ہے- اور انہیں قابلیت کا عذر پیش کر کے ہمیشہ ان کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے- لیکن یہ عذر بالکل جھوٹا ہے- مسلمان ہر گز ناقابل نہیں ہیں بلکہ انہیں ناقابل ظاہر کیا جاتا ہے- اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں کہ ایک مسلمان انگریز افسروں کے ماتحت ہر قسم کی ترقیات کا مستحق ہوتا رہا ہے، مگر ہندوافسر کے ماتحت آتے ہی ناقابل ہو جاتا ہے- پس ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی قابلیت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے- ہاں اس کی قابلیت کے چھپانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور انگریز حکام بھی شکایتیں کر کر کے بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- اور یہ ظاہر بات ہے کہ ہندو چونکہ پرانے زمانہ سے دفاتر میں گھسے ہوئے ہیں، وہ زیادہ بھی ہیں اور بڑے بڑے

Page 515

۴۷۲ عہدوں پر بھی سرفراز ہیں، انہیں انگریزوں کے کان بھرنے کا اچھا موقع ملتا ہے- اس وجہ سے بعض انگریز بھی خیال کرنے لگے ہیں کہ مسلمان نالائق ہیں- حالانکہ اگر ان عہدہ داروں کے ریکارڈ نکال کر دیکھے جائیں جن کو نالائق قرار دیا جاتا ہے تو اکثر ایسے نکلیں گے جو ہندو افسر کی ماتحتی میں آنے سے پہلے نہایت اعلیٰ ریکارڈ رکھتے تھے- مگر افسوس ہے کہ انگریز افسر بھی بغیر محنت کے صرف سنی سنائی باتوں پر یقین لا رہے ہیں- اور ایک قوم کی قوم کے خون کرنے سے نہیں ڈرتے- تناسبِ آبادی کے مطابق ملازمتیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قوم کی تعداد کے مطابق عہدوں کا مطالبہ رائج الوقت سیاست کے خلاف ہے- یورپ کی اقلیتوں کے متعلق یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے- اور اس مطالبہ کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے- پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں اس مطالبہ کو ادنیٰ اور فضول قرار دیا جائے- چنانچہ مثال کے طور پر پولینڈ کو ہی لے لو- اس میں یہودیوں کی اقلیت کے متعلق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ-: ‘’یہودیوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جائے گا’‘- ۶۲؎ لٹویا حکومت کے انتظام کے دیکھنے کیلئے لیگ کی کونسل نے ایک کمیشن مقرر کیا تھا- اس نے جو رپورٹ کی ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا کہ اس اصل کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے- کمیشن لکھتا ہے کہ یہودیوں سے انصاف نہیں ہوتا- حکومت کے عہدوں میں یہودی اپنی تعدادآبادی سے بہت کم حصہ پا رہے ہیں- ۶۳؎ ملازمتوں کا سوال نہایت اہم ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملازمتوں کے سوال کو معمولی نہیں قرار دیا جاتا- اور اس کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہر اک قوم اپنی تعداد کے مطابق حکومت کے عہدوں میں حصہ پائے، تا کہ اس کے ہم مذہب اس امر کا خیال رکھ سکیں کہ اس قوم کے وہ حقوق جو قانون کے ذریعہ سے محفوظ کر دیئے گئے تھے قانون کے استعمال کے ذریعہ سے ضائع تو نہیں کر دئے گئے- غرض ملازمتوں میں مناسب حصہ پانا ہر اک قوم کی ترقی کیلئے ضروری ہے- اور یہ ضروری ہے کہ آئندہ نظام حکومت میں اس کا بھی انتظام کر لیا جائے-

Page 516

۴۷۳ برطانیہ کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے دوسرا طریق قانون اساسی کے استعمال کی حفاظت کا، اپیل ہے- ہندوستان کے حالات کے لحاظ سے اس میں دقتیں ہیں- ہندوستان کی حکومت کا منزل مقصود ڈومینین سلف گورنمنٹ (DOMINIONSELFGOVERNMENT) رکھا گیا ہے- اور میرے نزدیک یہی صحیح راہ ہے- بعض لوگ تو اسے درمیانی راہ سمجھتے ہیں اور اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ضروری خیال کرتے ہیں- میرا اپنا خیال ہے کہ اپنی ذات میں بھی یہ طریق حکومت بہترین ہے اور خصوصاً مسلمانوں کیلئے- اس وقت نہ تو انگریز اس امر کو سمجھ رہے ہیں اور نہ ہندوستان اس امر کو سمجھتا ہے کہ برطانیہ کا مستقبل ایشیا اور خصوصاً اسلام سے وابستہ ہے- لیکن زمانہ مستقبل انشاء اللہ اس امر کو ثابت کر دے گا کہ حقیقت یہی ہے- انگلستان صدیوں کی عادت سے مجبور ہو کر اس امر کا اقرار کر سکے یا نہ کر سکے، حق یہی ہے کہ اس کی گرفت یورپ پر کمزور ہو چکی ہے- اس کا دبدبہ اب وہ نہیں جو پہلے تھا- اس کی جگہ آج ریاست ہائے متحدہ نے لے لی ہے- جس طرح کئی صدیاں پہلے انگلستان کی پالیسی تھی کہ یورپ کے معاملات میں دخل نہیں دینا- اسی طرح آج امریکہ کی بھی حالت ہے- مگر جس طرح انگلستان کو حالات سے مجبور ہو کر ایسی پالیسی کو بدلنا پڑا، اسی طرح ریاستہائے متحدہ کو بھی بدلنا پڑے گا- اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کی طاقت کا احساس بیرونی طاقتوں کو زیادہ ہونے لگے گا- اور انگلستان مجبور ہوگا کہ اپنی پوزیشن کے قیام کیلئے اور حلیف تلاش کرے- بلکہ یوں کہو کہ اور حلیف تراشے اور اس وقت سوائے ایشیاء کے اور خصوصاً اسلام کے ساتھ اتحاد کے بغیر انگلستان اپنا سر اقوام عالم میں اونچا نہیں رکھ سکے گا- جس طرح رومی حکومت جس وقت بازنٹائن حکومت میں تبدیل ہوئی تھی تو اس کی طاقت کا انحصار ایشیاء پر ہو گیا تھا، اسی طرح انگلستان سے ہوگا- اور جس وقت یہ احساس انگلستان میں پیدا ہونا شروع ہوگا، اس وقت وہ اسلام کی طرف خاص طور پر توجہ کرے گا- جس طرح براعظم کی طاقتوں کی مخالفت نے رومنکیتھولک انگلستان کو پروٹسٹنٹ بنا دیا تھا، اسی طرح نئی مخالفت کا دور اس کے اندر ایک نئی مذہبی تبدیلی پیدا کر دے گا- اور اس کے افراد اپنے اندر ایک فکر کی آزادی محسوس کریں گے- اور اس وقت اسلام کے لئے ایک خاص موقع ہوگا- بہرحال انگلستان کا مستقبل ایشیا سے وابستہ ہے اور اس صورت میں یقیناً ایشیا کی ترقی میں انگلستان ایک بڑی مدد ثابت ہوگا- اور اس کا نیا نقطہ نگاہ اس کے موجودہ رویہ کو بالکل

Page 517

۴۷۴ بدل دے گا- پس نہ صرف وقتی تدبیر کے طور پر بلکہ ایک مستقل تدبیر کے طور پر انگلستان کے ساتھ اتحاد ہندوستان کے لئے اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے مفید ہے- اور انہیں موجودہ حالات کی بجائے ان تغیرات پر زیادہ نگاہ رکھنی چاہئے جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں اور جن کا اثر مستقبل میں ایسے طور پر ظاہر ہونے والا ہے کہ وہ موجودہ حالات کو بالکل بدل ڈالیگا- قانون ِاَساسی کے غلط استعمال پر اپیل کی گنجائش ہونی چاہئے میں اصل مبحث سے کسی قدر دور جا پڑا ہوں- لیکن میرے نزدیک اتنا دور نہیں کہ جتنا بادی النظر سے دیکھنے والا خیال کرے گا- میرا مطلب یہ ہے کہ انگلستان سے تحالف جس کا بہترین ذریعہ بادشاہ انگلستان سے وابستگی ہے اور جسے دوسرے لفظوں میں ڈومینین سلف گورنمنٹ کہتے ہیں اس وقت ہندوستان کی حکومت کا مقصد رکھا گیا ہے- اور اس قسم کی حکومت کے ماتحت ایک غیر جانبدار جماعت کے پاس اپیل کا راستہ کھلا رکھا جا سکتا ہے- پس قانون اساسی میں اس کی اجازت ہونی چاہئے کہ جب کوئی فرد یا افراد دیکھیں کہ قانون اساسی کو حکومت غلط استعمال کر رہی ہے تو اس کے خلاف اپیل کر سکیں- اور یہ اپیل جیسا کہ دوسری ڈومینینز کے متعلق طے ہو چکا ہے، پریوی کونسل میں ہونی چاہئے- میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہندوؤں کے زور آور ہونے کی حالت میں ایسی اپیلوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے گی- مگر صوبہجات کو حکومت خود اختیاری حاصل ہونے کی صورت میں مسلمانوں کی آواز اس قدر کمزور نہ ہوگی- اور ضرور ایسی اپیلوں سے قانون شکنی میں ایک حد تک روک پیدا ہو جائے گی- قانون اساسی میں تبدیلی قانون اساسی کے غلط استعمال کے علاوہ جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں- قانون اساسی میں تبدیلی کے طریق کا بھی سوال ہے- اگر قانوناساسی اس طرح تبدیل ہو سکے کہ جب چاہے اکثریت اسے بدل ڈالے، تو ہماری ساری بحثیں اور ہماری ساری کوششیں لغو اور فضول ہو جاتی ہیں- کیونکہ اس صورت میں جب چاہیں ہندو ان اختیارات کو جو اس وقت مسلمانوں کو مل جائیں سلب کر سکتے ہیں- پس ضروری ہے کہ قانوناساسی کی تبدیلی کو ایسی شرائط سے مشروط کیا جائے کہ ایک بڑی بھاری قوم کی مرضی کے بغیر ہی اس میں تبدیلی اور تغیر نہ ہو سکے- میں افسوس سے کہتا ہوں کہ موجودہ قانون میں اس امر کا کوئی انتظام نہیں ہے بلکہ قانون اساسی کی تبدیلی کیلئے صرف دو تہائی ممبروں کے

Page 518

۴۷۵ ووٹ کافی رکھے گئے ہیں- پس چونکہ نہرو کمیٹی کی تجاویز کے مطابق کم سے کم پچھتر فیصدی ہندوممبر ضرور مرکزی پارلیمنٹوں میں ہونگے، اس لئے قانون اساسی کا صرف ہندو ووٹروں کی مدد سے بدلایا جا سکنا بالکل ممکن ہے- اور یہ صورت کہ ایک ملک کا قانون اساسی ملک کی ایک اہم اقلیت کی مرضی کے صریح خلاف بدلا جا سکے- ملک کے امن کا کبھی موجب نہیں ہو سکتا- پس اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم سے کم چونتیس یا تینتیس فیصدی کی جائے- تا کہ کوئی ایسی تبدیلی بغیر مسلمانوں کی رائے کے نہ ہوسکے- زائد نمائندگی خلاف اصول نہیں یہ کہنا کہ اقلیتوں کو زائد نمائندگی دینا اصول کے خلاف ہے- دنیا کی کانسٹی ٹیوشنز (CONSTITUTIONS) سے بے خبری کا ثبوت ہے- زیکو سلویکا میں اقلیتوں کو ان کی تعداد سے زائد حقوق دیئے گئے ہیں- چنانچہ جرمن اقلیت نے پانچ اپریل ۱۹۲۲ء کو لیگ آف نیشنز میں جب شکایت کی کہ ان سے زیکو سلیویکا میں اچھا سلوک نہیں ہوتا- تو جو جواب لیگ کو سلویکاگورنمنٹ نے دیا اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ-: ‘’وہ )یعنی جرمن) باوجود اس کے قومی مجلس میں اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں رکھتے ہیں- اور اگر انہیں کافی اکثریت حاصل ہو جائے تو قانون اساسی کو بدل سکتے ہیں’‘- ۶۴؎ غرض میرے نزدیک ایک علاج موجودہ مشکل کا یہی ہے کہ مسلمانوں کو چونتیس )۳۴) یا کم سے کم تینتیس (۳۳) نشستیں مرکزی پارلیمنٹ اور سینٹ میں دی جائیں تا کہ ان کی رائے کے بغیر قانون اساسی نہ بدل سکے- اسلامی مفاد سے تعلق رکھنے والے امور میں تبدیلی مذکورہ بالا علاج تو عام امور کے متعلق ہوگا لیکن بعض سوالات مسلمانوں کے خاص حقوق سے تعلق رکھتے ہیں- اور میرے نزدیک ان کی تبدیلی سوائے مسلمانوں کی مرضی کے کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے- وہ امور وہی ہیں جن کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں- ان امور کے متعلق لکھنؤ پیکٹ والا سمجھوتہ بہترین ہے- یعنی یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان امور میں تبدیلی اس وقت تک نہیں ہونی چاہئے کہ جب تک مرکزی پارلیمنٹ کے منتخب شدہ مسلمان ممبر دوتہائی ووٹ کے ساتھ کسی تبدیلی کے حق میں رائے نہ دیں- اس وقت

Page 519

۴۷۶ تک مذکورہ بالا امور کے متعلق جو قانون اساسی تیار ہو، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہو- اور نیز یہ کہ ایسے قانون کو صرف انہی صوبوں میں رائج کیا جا سکے جہاں کے دو تہائی مسلمان ممبر اپنے صوبہ میں اس کے اجراء کا فیصلہ کر دیں- ان احتیاطوں سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہو سکتی ہے- اور کوئی وجہ نہیں کہ ہندو صاحبان ان احتیاطوں کے متعلق راضی نہ ہوں- اب ہمیں کیا کرنا چاہئے میں اس وقت تک نہرو رپورٹ کے ان ضروری امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں جن کا تعلق مسلمانوں کے مطالبات کے ساتھ ہے- پس اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے- بہت سے لوگ ہونگے جو نہرو رپورٹ کے نقائص کو دیکھ کر یہ کہہ دیں گے کہ ہم اس رپورٹ کو تباہ کر دیں- لیکن میں اس رائے کے سخت مخالف ہوں- جو کچھ میں اوپر لکھ چکا ہوں اس سے قارئین سمجھ گئے ہونگے کہ اسلامی مفاد کی حفاظت کے معاملہ میں نہرو رپورٹ کی مخالفت میں کسی دوسرے شخص سے میں پیچھے نہیں ہوں- لیکن باوجود اس کے میں اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ اپنے رنگ کی پہلی کوشش ہے جس میں ہندوستانیوں کی طرف سے اپنے نصب العین کو تفصیلی رنگ میں پیش کیا گیا ہے- اور اس لئے اس امر کی مستحق ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہو سکے تو ہم اس کی اصلاح کر دیں اور اسے اپنا متفقہ مطالبہ بنا لیں- وہ قوم جو ہر روز نئے سرے سے کام شروع کرتی ہے، اپنے کام میں ہرگز کامیاب نہیں ہوتی- نئے سرے سے کام شروع کرنے میں یہ نقص ہوتا ہے کہ سب سوالات پر پھر نئے سرے سے بحث ہوتی ہے- پھر دوبارہ ان امور پر وقت خرچ کیا جاتا ہے جن پر ایک دفعہ وقت خرچ ہو چکا ہوتا ہے- اور نیاجوش اور نیا ولولہ پھر اس مقام پر پہنچنے تک خرچ ہو جاتا ہے جس مقام تک کہ ہم پہلے پہنچ چکے تھے- اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کولہو کے بیل کی طرح دماغ، وقت، روپیہ بلکہ اتحاد کی قربانیوں کے بعد پھر اسی جگہ کھڑا رہتا ہے جس جگہ کہ وہ اس تحریک سے پہلے تھا- وہ قوم جو نئے سرے سے ریل اور تار کی ایجاد میں مشغول ہوگی تا کہ کسی کی ممنون احسان نہ ہو، کبھی دوسری اقوام کے مقابلہ پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوگی- پس میرے نزدیک ہماری کوشش یہ نہ ہونی چاہئے کہ ہم اس رپورٹ کو تباہ کر دیں- بلکہ یہ کہ ہم اس رپورٹ میں اصلاح کریں اور اگر اس رپورٹ کے مرتب کرنیوالوں نے بعض اچھی باتیں لکھی ہیں تو ان کا فخر انہیں حاصل ہونے

Page 520

۴۷۷ دیں- اور اپنے کام کی بنیاد حسد اور افتراق پر نہیں بلکہ حبالوطنی اور اعتراف خدمات پر رکھیں- میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہم اس طرح کام کریں گے تو ہمارے لئے کامیابی آسان ہو جائے گی- ہمیں یہ نہیں بھلانا چاہئے کہ اس رپورٹ کے لکھنے والے خواہ کتنے ہی تجربہ کار اور خیر خواہ ملک افراد ہوں مگر پھر بھی دو ایک خاص مذہب اور سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے اور طبعاً ان کا میلان اس مذہب اور سوسائٹی کی طرف تھا- پس ہمیں ان کی اس بشری کمزوری اور نقص کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے معاملہ کرنا چاہئے- اور سوچنا چاہئے کہ اگر فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو شاید ہم میں سے بعض ویسی ہی کمزوری دکھاتے- پس میرے نزدیک ملک کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اس رپورٹ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں نہ کہ تردید کی نظر سے- اس میں کوئی شک نہیں کہ رپورٹ لکھنے والوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ان کی تجاویز ایسی ہیں کہ اگر انہیں قبول کرنا ہو تو یکجائی صورت میں وہ قبول کی جا سکتی ہیں- لیکن ان کی اس رائے کا ملک پابند نہیں ہے- ان کے مدنظر رپورٹ لکھتے وقت یہ تھا کہ ہم کچھ نہ کچھ کر کے دکھائیں- اور ہمارے مدنظر یہ ہوگا کہ ہم اس کام میں سے اچھا اور برا الگ الگ چھانٹ لیں- پس ہمیں حق ہے کہ ہم مناسب تبدیلیاں کر کے اپنے ہمسایوں سے کہیں کہ آپ نے اپنی قوم کے فوائد کو سوچ لیا ہے- ہم نے اپنی قوم کے منافع پر غور کر لیا ہے- آؤ اب ملکر فیصلہ کر لیں کہ کس نقطہ پر ہم دونوں جمع ہو سکتے ہیں- ووٹ دہندگی کا سوال غور طلب ہے میرے نزدیک صرف انہی مطالبات پر غور کرنا ضروری نہیں ہے جن کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں- بلکہ اس کے علاوہ اور بھی سوالات ہیں کہ جن پر اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے- مثلاً ایک سوال حق ووٹ دہندگی کا ہے- یہ سوال بہت پیچیدہ ہے- میرے نزدیک عورتوں کا بھی حق ہے کہ وہ مشورہ میں حصہ لیں- اور ہم ایک حصہ انسانی کو اس کے حقوق سے یکسر محروم نہیں کر سکتے- لیکن دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ہر بالغ مرد و عورت کو ووٹ کا حق دیا جائے تو مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے- مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور ان کی عورتیں ان کے مردوں سے بھی- پھر پردہ کا سوال ہے- ووٹ دینا اگر ہر ووٹر کے لئے جیسا کہ زیکوسلویکا اور بعض دوسری حکومتوں میں لازمی قرار دیا گیا ہے، یہاں بھی لازمی قرار دیا جائے- اور نہ دینے والے کو سزا ملے تب تو شاید مسلمان عورتیں

Page 521

۴۷۸ ووٹ دینے کیلئے نکلیں- ورنہ قریباً ناممکن ہے- پس ہمارے لئے غور کر کے کسی درمیانی نتیجہ پر پہنچنا نہایت ضروری ہے- خارجی تعلقات دوسرا سوال خارجی تعلقات کا ہے- نہرو کمیٹی نے خارجی تعلقات کے متعلق صرف ایک مختصر سا نوٹ دیا ہے- اور نہایت ہوشیاری سے اس کی تفصیلات میں پڑنے سے گریز کیا ہے لیکن جو کچھ انہوں نے اشارتاً کہا ہے- وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے- ان کے بیان کا ماحصل یہ ہے کہ برطانیہ ہندوستانی گورنمنٹ کی وساطت سے جو معاملہ ہندوستان کے اردگرد کی ایشیائی حکومتوں سے کرتا ہے- وہی آئندہ ہندوستانی حکومت ان حکومتوں سے کرے- میرے نزدیک وہ دن اسلامی حکومتوں کیلئے نہایت ہی تاریک ہوگا جب عرب پر اوم کا جھنڈا گاڑنے کی نیت رکھنے والے ہندوستان کی خارجی پالیسی کے نگران ہوئے اور افغانستان، ایران اور عرب کے تعلقات ان کے سپرد کئے گئے- انگلستان کے تعلقات ان ایشیائی حکومتوں سے بالکل ہی اور اصول پر مبنی ہیں- ان کی پشت پر اقتصادی برتری کا خیال متحرک ہے- لیکن آزاد ہندوستان کی حکومت جو ابھی سے سیاسی برتری کے خواب دیکھ رہی ہے ان تعلقات کو بالکل ہی اور نگاہ سے دیکھے گی- پس میرے نزدیک خارجیتعلقات برطانوی گورنمنٹ کے ہی ہاتھوں میں رہنے چاہئیں- سوائے ان چھوٹے معاملات کے جو تجارت، مسافروں، ڈاک خانہ اور اسی قسم کے چھوٹے معاملات سے تعلقات رکھتے ہیں- ورنہ ہندوستانی حکومت پاس کی اسلامی حکومتوں کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کی کوشش کرتی رہے گی- احترام جمعہ المبارک تیسرا سوال جمعہ کے احترام کا سوال ہے- قومی زندگی کے برقرار رکھنے کیلئے یہ سوال نہایت اہم ہے- اگر یہودی اپنی شریعت کے نزول کے ساڑھے تین ہزار سال بعد اپنے سبت کی حفاظت ضروری سمجھتے ہیں اور مسیحی اتوار کی حفاظت معاہدات کے ذریعہ سے کراتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جمعہ کی نماز کیلئے سہولت کو قانون کا ایک اہم جزو قرار نہ دیں- اسلامی مذہبی قانون چوتھا سوال اسلامی مذہبی قانون کا ہے- ایک مشترکہ حکومت میں خالص اسلامی قانون تو رائج نہیں ہو سکتا- لیکن کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور نہ دیں-

Page 522

۴۷۹ ہائیکورٹوں کے جج پانچواں سوال ہائیکورٹ کے ججوں کے متعلق ہے- صوبہ جات کی کاملخوداختیاری کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک ضروری ہے کہ صوبہجات کے ہائیکورٹوں کے جج صوبہ جات ہی کی طرف سے مقرر کئے جائیں اور انہی کی کونسلوں کے فیصلہ پر ان کی علیحدگی وقوع میں آئے- نہرو رپورٹ نے اس کا اختیار گورنر جنرل کو دیا ہے- مگر آئینی گورنر جنرل اپنے وزراء کے مشورے پر کاربند ہونے پر مجبور ہوگا اور مرکزی حکومت کے وزراء تمام کے تمام یا اکثر ہندو ہی ہونگے- پس اگر اس طریق کو جاری کیا گیا تو تمام ہائیکورٹ ہندوؤں کے اختیار میں چلے جائیں گے- ہاں سپریم کورٹ گورنر جنرل کے ساتھ وابستہ ہونا چاہئے- علاوہ ان معاملات کے جو مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں- عام معاملات حکومت کے متعلق بھی ہمارے لئے غور کرنا ضروری ہے- میرا خیال ہے کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں نے ان نئی کانسٹی ٹیوشنز (CONSTITUTIONS) کا گہرا مطالعہ نہیں کیا جو جنگ کے بعد نئی حکومتوں نے اپنے لئے تجویز کی ہیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں مزید غور سے نہرو رپورٹ کی تجویز کردہ کانسٹیٹیوشن سے بہتر کانسٹی ٹیوشن تیار ہو سکتی ہے- ریاستوں کا سوال ریاستوں کا سوال بھی ابھی حل نہیں ہوا- نہرو کمیٹی کا تجویز کردہ طریقِ عمل نہ معقول ہے نہ ریاستوں کو منظور ہو سکتا ہے- انگریز تو ریاستوں پر اپنے غلبہ کی وجہ سے حکومت کر رہے تھے- آئندہ نظام حکومت میں ایک حصہ ہندوستان کو دوسرے حصہ ہندوستان پر حکومت کرنے کا اختیار کس طرح ہو سکتا ہے- پس ضروری ہے کہ مزید غور کے بعد ایک ایسا نظام تجویز کیا جائے جو ایک طرف ہندوستان کے اتحاد میں فرق نہ آنے دے- اور دوسری طرف ہندوستان کے بعض حصوں کو دوسرے حصوں کے ماتحت نہ کر دے- میرا خیال ہے کہ اگر ریاستوں کو کامل خود اختیاری حکومت دے کر جس میں وہاں کے باشندوں کے حقوق کی بھی حفاظت کر لی گئی ہو ایک مستقل انڈین امپیریل کانفرنس(INDIANIMPERIALCONFERENCE) کی بنیاد رکھی جائے- اور سینٹ کو اڑا دیا جائے تو موجودہ مشکل کا ایک حل نکل سکتا ہے اس کانفرنس میں صوبہ جات کے نمائندے مجلسیکونسل کے نمائندے اور ریاستوں کے نمائندے ہوں- اور یہ ایسے امور کے متعلق فیصلہ کرے- جو صوبہجات کے باہمی تعلقات یا اہم آل انڈیا (ALLINDIA) معاملات سے

Page 523

۴۸۰ تعلق رکھتے ہوں یہ کانفرنس واضع قوانین نہ ہو، بلکہ تنفیذی ہو یعنی ایڈمنسٹریٹو (ADMINISTRATIVE)معاملات کے ساتھ اس کا تعلق ہو- یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مجلس کو پریوی کونسل کے طور پر مزید حقوق کے ساتھ گورنرجنرل سے وابستہ کر دیا جائے- اور قانون اساسی کے اختلافات کے متعلق بھی یہی رائے دیا کرے- آل پارٹیز مسلم کانفرنس خلاصہ یہ کہ ہمیں نہرو کمیٹی کی رپورٹ پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہونی چاہئے- جس میں عام مسلمان فرقوں کے نمائندے طلب کئے جائیں- مجھے اس بات کو معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ ایسی کانفرنس کی بنیاد لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلمان نمائندوں نے رکھ دی ہے- اور دسمبر میں اس کے انعقاد کی تجویز ہو رہی ہے- اس لئے مجھے اس امر پر زیادہ زور دینے کی تو اب ضرورت نہیں معلوم ہوتی- لیکن میں اس کانفرنس کے داعیان کو اس امر کی طرف توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ اس کی دعوت کو جس قدر بھی زیادہ وسیع کریں، مفید ہوگا- اور ان کی کامیابی کا انحصار ان کی دعوت کی وسعت پر ہوگا- یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مخالف خیالات کے لوگوں کو کثرت سے دعوت دیں کانفرنس میں بولنے والوں کیلئے وقت کی تعیین کر دی جائے- جو موافق و مخالف پر یکساں حاوی ہو لیکن بولنے کا پورے طور پر ہر ایک کو موقع دیا جائے- اگر نہرو کمیٹی کے مخالف اور موافق دونوں فریقوں کو یکساں حقوق اور نمائندگی کے ساتھ اس میں شامل نہ کیا گیا تو مسلمانوں کی آواز کبھی مضبوطی کے ساتھ بلند نہ ہوگی- مخالفت سچائی کو کمزور نہیں کرتی، بلکہ مضبوط کرتی ہے- ہمیں اپنے ذاتی خیالات پر اسلام اور مسلمانوں کے فوائد مقدم ہونے چاہئیں- اگر کوئی شخص ہم سے بہتر خیالات رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے خیالات کو رد کر دیں- ہمیں اسے دور ہٹانے کی بجائے اسے قریب بلانا چاہئے اور اس کی رائے کو شوق سے سننا چاہئے- کیونکہ رائے کی مضبوطی ہم خیالوں کی تائید سے نہیں بلکہ مخالف کی تنقید سے ہوا کرتی ہے- ہمیں چاہئے کہ اس کانفرنس میں نہرو کمیٹی پر اصولی بحث کریں لیکن چونکہ ایسی کانفرنسوں میں تفصیلی طور پر غور کرنا ناممکن ہوتا ہے- اس لئے اصولی طور پر غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی مقرر کرنی چاہئے- جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں میں اصلاح کرنے کی اور کمیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے- اور ایک

Page 524

۴۸۱ مکمل نظام تیار کر کے جس میں نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو، بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون پیش کیا گیا ہو- آل انڈیا مسلم کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں پیش کرے- اور اگر کل مسلمان متحدہ طور پر اسے منظور کر لیں یا ان کی اکثریت اس کی تائید کرے- تو اس قانون اساسی کو شائع کر دیا جائے- کیونکہ ایک مکمل قانون اساسی جو اثر پیدا کر سکتا ہے وہ محض تنقید نہیں پیدا کر سکتی- نہرو کمیٹی نے جو اس وقت شور پیدا کر دیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ایک مکمل قانون ہے- پس جب تک ہم بھی نہرو کمیٹی میں مناسباصلاحات کر کے ایک مکمل قانون نہیں پیش کریں گے- اس وقت تک دنیا ہمیں ایک عملیسیاست دان کی حیثیت میں نہیں، بلکہ ایک حاسد تنقید کرنے والے کی شکل میں دیکھے گی- نہرو رپورٹ کے خلاف پروپیگنڈے کی ضرورت ‏ دوسری بات جس کی ہمیں ضرورت ہے یہ ہے کہ ہر شہر اور قصبہ میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان جلسوں کی رپورٹوں کو گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجا جائے- کیونکہ تعاون یا عدمتعاون کے سوال سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے- اور اگر مسلمانوں نے ایک پراثر اور پرزور آواز نہ اٹھائی تو یقیناً گورنمنٹ بھی اور دوسرے لوگ بھی یہی خیال کریں گے کہ مسلمان اس رائے سے متفق ہیں- اور اگر اس غلط خیال کے ماتحت آئندہ نظام حکومت میں بعض ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں جو مسلمانوں کے خلاف ہوں تو یقیناً جاری شدہ قوانین میں تبدیلی مشکل ہو جائے گی اور سٹیٹس کوا‘‘(STATUS QUO) کا پرانا مسئلہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں روک بن جائے گا- مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرنے کی ضرورت علاوہ ازیں اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں عام طور پر جلسے کر کے مسلمانوں کو ان کی بہتری اور ان کے فائدہ سے آگاہ کیا جائے نہرو رپورٹ کے حامی ہر جگہ پہنچ کر اپنے خیالات منوانے کی کوشش کر رہے ہیں- لیکن اس کے مخالفوں میں سے بہت ہی کم ہیں جو عامہالمسلمین کو اس کی خرابیاں بتانے کی طرف متوجہ ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ سیاست کے پیچیدہ مسائل بغیر سمجھائے کے عوام کی سمجھ میں نہیں آ سکتے- مسٹر گاندھی کی ساری طاقت

Page 525

۴۸۲ ان کے رؤئے سخن کی تبدیلی میں پوشیدہ تھی- ان سے پہلے لیڈر ملک کے بہترین دماغوں کو مخاطب کرنے میں ہندوستان کی کامیابی کا راز مضمر سمجھتے تھے- گاندھی نے اپنا رخ عوام الناس کی طرف پھیر دیا- اور اس میں کیا شبہ ہے کہ حکومت جمہوری کا مطالبہ کرنے والے جمہور کو اپنے ساتھ ملائے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے- کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک طرف تو جمہوری حکومت کا مطالبہ کرے اور دوسری طرف جمہور سے پیٹھ پھیرے رکھے- پس ضروری ہے کہ عامہ المسلمین کو موجودہ حالات سے آگاہ کیا جاوے- اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گاؤں میں جلسے ہوں اور مسلمانوں کو حقیقت حالات سے آگاہ کیا جاوے اور ان کی رائے کو مضبوط کیا جاوے- بڑے آدمیوں کی کانفرنس صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں بے شک ممد ہو سکے گی- لیکن وہ اس وقت تک کامیاب بنا دینے والے زور سے خالی رہے گی جب تک جمہور اس کی پشت پر نہ ہوں- جماعت احمدیہ ہر جائز اعانت کے لئے تیا رہے میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں- اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں- انگلستان کی رائے کو بدلنے کی کوشش ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انگلستان کی رائے پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کریں- میں نے سر دست اس کے لئے تجویز کی ہے کہ اپنے اس مضمون کا انگریزی ترجمہ کرا کے پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے ذمہ دار انگریزوں میں تقسیم کراؤں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے اور اس میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پورے طور پر نہیں کی گئی- ممبران پارلیمنٹ سے تعلقات کا فائدہ مجھے نہایت افسوس ہے کہ ہندو انتہا پسند باوجود اپنے عدم تعاون کے دعووں اور سٹیجوں پر کھڑے ہو کر گورنمنٹ برطانیہ کو گالی دینے کے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں کو اپنے زیر اثر لانے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں- جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت دو تین درجن پارلیمنٹ کے ممبر انتہا پسند ہندؤوں کے گہرے دوست ہیں- لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں

Page 526

۴۸۳ سے حقیقی رنگ میں ہمدردی رکھنے والا ایک ممبر بھی نہیں- اسی طرح انگریزی پریس کے ایک حصہ پر بھی ہندو اثر رکھتے ہیں- لیکن مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں کی- اور اس وجہ سے انگلستان کے سیاسی حلقوں میں ہندؤوں کی آواز کو جو اثر حاصل ہے، مسلمانوں کی آواز اس سے محروم ہے- میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک ہندو عدم تعاونی کو تو ضرورت ہو کہ وہ باوجود عدم تعاون پر عمل کرنے کے شخصی طور پر انگریز مدبرین کو متاثر کرنے کر کوشش کرتا رہے لیکن ایک مسلمان کے لئے یہ کام حرام ہو- زیادہ سے زیادہ ایک عدم تعاونی یہی کہے گا ناکہ انگریز ہمارے دشمن ہیں، لیکن کیا کوئی عقل مند بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ دشمن کے آدمی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانا برا ہے- میں تو انگریزوں کو اپنا دوست ہی سمجھتا ہوں- اور مجھے یقین ہے کہ انگریزوں اور اسلام کا مستقبل روز بروز متحد ہوتا چلا جائے گا- لیکن جو انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ دشمن کے آدمیوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے- یہ تو جنگ کی حکمتوں میں سے ایک بہترین حکمت ہے- اور جنگی حکمتوں کو ترک کرنے والا خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے- مسلمانوں کو نصیحت میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے تمام مسلمانوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ وقت ان کے لئے بہت نازک ہے- چاروں طرف سے تاریک بادل امڈے آرہے ہیں- زمانہ مسلمانوں کو ایک اور زخم دینے کو تیار ہے- ایک دفعہ پھر وہ بنیادیں جن پر انہیں عظیم الشان اعتماد تھا، ہل رہی ہیں- وہ عمود جن پر ان کے نظام کی چھتیں رکھی گئی تھیں، متزلزل ہو رہے ہیں- وہ لوگ جنہیں وہ اپنا سپاہی سمجھتے تھے، دشمن کی فوج میں شامل ہو کر ان سے لڑنے پر آمادہ ہیں- ان کی عقل اور ان کی دانش کے امتحان کا وقت پھر آ رہا ہے- خدا پھر دیکھنا چاہتا ہے کہ پچھلی مصیبتوں سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے- اور پچھلے تجربوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے- پس یہ وقت ہے کہ وہ بیدار ہوں، ہوشیار ہوں، زور دار تحریروں اور لچھے دار تقریروں کی سحرکاریوں سے متاثر ہونے کی بجائے ان آنکھوں سے کام لیں جو خدا نے انہیں دی ہیں- اور ان کانوں سے کام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے- اور اس دل و دماغ سے کام لیں جو ان کے رب نے انہیں بخشا ہے- اور اس بات کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ذلت کی چادر جو انہیں پہنائی جاتی ہے، وہ اسے ہر گز نہیں پہنیں گے- خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا- مگر انہوں نے خود اپنے لئے ذلت خریدی- لیکن اب ان کو چاہئے کہ

Page 527

۴۸۴ وہ ذلت کے جامے کو اُتار پھینکیں- اور اپنی موروثی عزت کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ لیں- ہاں مگر یاد رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے- کہ تو جس سے بھی محبت کرتا ہے، اس سے بھی حدود کے اندر ہی محبت رکھ- اور جس سے بغض رکھتا ہے، اس سے بھی حدود کے اندر ہی بغض رکھ- شرافت کا امتحان مخالفت ہی کے وقت میں ہوتا ہے- پس اپنے حقوق کے لئے پوری جدو جہد کریں- لیکن ایسے ذرائع اختیار نہ کریں جو دین اور دیانت کے خلاف ہوں- میں حیران ہوں کہ کیوں ان لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- جو مخالف خیالات رکھتے ہیں- ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی سنیں اور اپنی سنائیں- خیالات کا اختلاف تو دنیا کی ترقی کی کلید ہے- پس اس سے گھبرانا نہیں چاہئے- اگر کوئی بددیانتی کرتا ہے تو اپنی بددیانتی کی سزا پائے گا- لیکن اگر وہ نیک نیتی سے ہمیں اپنے خیالات سنانا چاہتا ہے- تو اس کی مخالفت کر کے خواہ ہم حق پر ہی ہوں، اپنے لئے نیکی کے دروازے بند کر دیں گے- بجائے جنگ و جدل کے مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والی جدو جہد کو اختیار کریں- اور گالی کا جواب محبت سے اور سختی کا جواب نرمی سے دیں- تا کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ان کے اندر ایک ایسی طاقت ہے جسے بغض و عناد کی آندھیاں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں- وہ اپنے نفوس پر اعتماد رکھتے ہیں اور مضبوط چٹانوں کی طرح ہیں جو ہر حالت میں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں نہ کہ چھوٹے کنکروں کی طرح کہ جو تھوڑی سی ہوا پر اودہم مچا دیتے ہیں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین خاکسار مرزا محمود احمد ۱؎نہرو رپورٹ صفحہ۱۷،۱۸ ۲؎نہرو رپورٹ صفحہ۹۵ ۳؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۲۵ ۴؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۳۲ ‏ ۵؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۲۸ ۶؎سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۳ ۷؎سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۵ کالم۳

Page 528

۴۸۵ ۸؎ نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۰ ۹؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۱۱۱ ۱۰؎ نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۵ ۱۱؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۱۰۹ ‏h1] gat[۱۲؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۱۲۱ ۱۳؎ مانٹیگ چیمسفورڈ سکیم SCHEEM) CHELMSFORD )MONTEGUE جنگِ عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا- جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجیٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے لارڈ چیمسفورڈ جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹر مانٹیگو )MONTEGUE) کی معیت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم بنائی جو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی- اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا- ۱۴؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۲ ۱۵؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۴ ‏]2 [stf۱۶؎ حکومت خود اختیاری ۱۷؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۶۹ ۱۸؎ نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۲ ۱۹؎ لاء آف کانسٹی چیوشن مصنفہ اے وی ڈائس ۲۰؎.444.p Edition 13th Britannica Encyclopeadia The ‏1926 Published ‏۲۱؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of nProtectio The 7-8.P.London Surrey Kingston Press River

Page 529

۴۸۶ ‏۲۲؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 30.P.London Surrey Kingston Press River ‏۲۳؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 30.P.London Surrey Kingston Press River ‏۲۴؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 209.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۲۵،۲۶؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 212.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۲۷؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 213.P.London Surrey Kingston Press River ‏۲۸؎ lepahC Mair,.P.L by minorities of Protection The 216.P.London Surrey Kingston RiverPress ۲۹،۳۰؎ نہرو رپورٹ صفحہ۲۸ ‏۳۱؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 114.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۳۲؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 54.P.London yerruS Kingston Press River ‏۳۳؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 120.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۳۴؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 144.P.London Surrey Kingston Press River ‏۳۵؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 20.P.London Surrey nKingsto RiverPress ‏۳۶؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The.London Surrey Kingston RiverPress ۳۷؎ نہرو رپورٹ صفحہ۱۲۳ ۳۸؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۴ ۳۹؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۸ ۴۰؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۷

Page 530

۴۸۷ ۴۱؎ نہرو رپورٹ صفحہ ۶۹ ۴۲،۴۳؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۸ ۴۴؎ نہرو رپورٹ صفحہ۱۴۹ ۴۵؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۸ ۴۶؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۶ ۴۷؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۱ ۴۸؎ نہرو رپورٹ صفحہ۶۷ ۴۹؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۲ ‏۵۰2؎نہرو رپورٹ صفحہ۵۱،۵۲ ۵۱؎انڈمان: انڈمان اورنکوبار جزائر- یہ علاقہ انڈمان کے دو سو جزیروں اور ۹۰ میل کے فاصلے پر ان کے جنوب میں نکوبار کے انیس جزیروں پر مشتمل ہے- یہ جزیرے ساتویںصدی میں دریافت ہو چکے تھے- ۱۸۵۸ء سے ہندوستان کی انگریزی حکومت نے جزائرانڈمان میں ان لوگوں کو قیدی بنا کر بھیجنا شروع کیا جنہیں کسی سیاسی یا دوسری نوعیت کے شدید جرم کی پاداش میں حبس دوام یا جلاوطنی کی سزا دی جاتی تھی- انگریزوں کے زمانے میں لوگ اسے کالا پانی کہتے تھے- ۱۹۴۵ء میں یہ طریقہ ختم کر دیا گیا- جزائرانڈمان میں نکوبار کو شامل کر کے بھارت نے ایک نیا صوبہ بنا دیا جسے انڈمان اور نکو بار کہتے ہیں- اس کا صدر مقام پورٹ بلیئر ہے جو کلکتہ سے ۷۸۰ میل کی دوری پر جانب جنوب مشرق واقع ہے- (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۴۰، ۱۴۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۵۲؎نہرو رپورٹ صفحہ۵۱ ۵۳؎ نہرو رپورٹ صفحہ۳۵ ۵۴،۵۵؎نہرو رپورٹ صفحہ۲۹ ۵۶؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۲ ۵۷؎ نہرو رپورٹ صفحہ۲۸ ۵۸؎ نہرو رپورٹ صفحہ۴۹ ۵۹؎ نہرو رپورٹ صفحہ۴۷

Page 531

۴۸۸ ۶۰؎ نہرو رپورٹ صفحہ۵۴ ‏۶۱؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 9.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏]2 [stf۶۲؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 97.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۶۳؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 113.P.London Surrey Kingston RiverPress ‏۶۴؎ Chapel Mair,.P.L by minorities of Protection The 120.P.London Surrey Kingston Press River ‏

Page 532

۴۸۹ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 533

Page 534

۴۹۱ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء ‏بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء (فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ سالانہ) میری غرض اس وقت یہاں آنے کی صرف یہ ہے کہ میں دعا کے ساتھ اس جلسہ کا افتتاح کروں- میں اللہ تعالیٰٰ کا فضل سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے آج اس موقع پر یہاں آنے کی توفیق دی ہے، ورنہ پرسوں شام تک میں امید نہیں کرتا تھا کہ آ کر جلسہ کا افتتاح کر سکوں گا- اس وقت میں دوستوں کو صرف اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری دعائیں حقیقی دعائیں ہونی چاہئیں- جس طرح دنیا میں اور رسمیں ہیں جنہیں ادا کیا جاتا ہے، اسی طرح دعائیں بھی لوگ رسمی طور پر کرتے ہیں- جس طرح دنیا دار لوگ اپنے جلسوں کے افتتاح کے موقع پر بعض قومی رسوم ادا کرتے ہیں اسی طرح بعض مذہبی لوگ اپنے جلسوں کا افتتاح دعا کے ساتھ کرتے ہیں- مگر ان کی دعائیں ان کے ہونٹوں سے نیچے قلوب سے نہیں نکل رہی ہوتیں اور پھر ان کے ہاتھوں کے فاصلہ سے آگے پرواز نہیں کرتیں- ان کی دعائیں زبانوں سے نکل کر ہونٹوں تک آ کر رہ جاتی ہیں نہ ان کے دل سے نکلتی ہیں نہ خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلاتی ہیں- وہ ایک جسم ہوتی ہیں بلا روح کے یا ایک تلوار ہوتی ہیں جس کی دھار بالکل کند ہوتی ہے- بلکہ اگر میں قرآن کے الفاظ کی ترجمانی کروں تو میں کہوں گا کہ وہ ایسی تلوار ہوتی ہے جس کی دھار کند ہوتی ہے جو دشمن پر پڑتی ہے لیکن اس کی دوسری طرف بہت تیز ہوتی ہے- جو ایسی تلوار چلانے والے کو کاٹ دیتی ہے- کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے- فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون ۱؎وہ دعا بجائے اس کے کہ کوئی مفید اثر پیدا کرے، اسی کو کاٹ دیتی ہے جو ایسی دعا کرتا ہے- کیونکہ وہ خداوند خدا زمینوآسمان کے خالق خدا سے ہنسی اور تمسخر ہوتا ہے-

Page 535

۴۹۲ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء پس اے میرے دوستو! بھائیو اور عزیزو! ہماری دعا ہمارے دلوں سے نکلے- خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے نکلے تاکہ اللہ تعالیٰٰ کے حضور مقبول ہو- ہمارے لئے بابرکت ہو اور ہماری کوششیں اور محنتیں ضائع نہ ہوں- (الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء) ۱؎ الماعون:۶،۷ ‏

Page 536

۴۹۳ فضائل القرآن فضائل القرآن (نمبر۱) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 537

Page 538

۴۹۵ فضائل القرآن اعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – هوالناصر فضائل القرآن (نمبر۱) قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت اور مستشرقین یورپ کے اعتراضات کا رد (فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے متعلق کوئی حد بندی کرنا یا کوئی حد بندی چاہنا انسانی طاقت سے بالا اور ادب کے منافی ہے- لیکن آج جس وقت نماز جمعہ کے قریب بادل گھر آئے اور تیز بارش برسنے لگی تو باوجود ضعف اور خرابی صحت کے میری طبیعت یہی چاہتی تھی کہ کم ازکم جلسہ سب دوستوں کے ساتھ مل کر دعا پر ختم ہو- اللہ تعالیٰ کی طاقتیں تو بہت وسیع ہیں لیکن بندہ گھبرا جاتا ہے- جب بارش تھمنے میں نہ آئی تو میں نے ایک تحریر لکھی اور دوستوں سے کہا کہ اس کی نقلیں کروا کر ابھی کمروں میں پہنچا دی جائیں- اس کا مضمون یہ تھا کہ بارش کی

Page 539

۴۹۶ وجہ سے چونکہ ہم سب لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے سوا پانچ بجے میں دعا کروں گا سب دوست اپنی اپنی جگہ اس دعا میں شامل ہو جائیں- لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی نقلیں ہو ہی رہی تھیں کہ بارش تھم گئی اور میں نے کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی ہے اب نقلیں کروانے کی ضرورت نہیں- قرآنی مطالب پر غور کرنے کیلئے بعض اصولی باتیں ‏ مجھے افسوس ہے کہ آج میں اس مضمون کو پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں جو اس جلسے کے لئے میں نے تجویز کیا تھا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کم ازکم وقت لے اور اسے خلاصتہ بھی بیان کیا جائے تب بھی پانچ چھ گھنٹے میں بیان ہو سکتا ہے- اور اتنی لمبی تقریر موسم کے خراب ہونے اور پھر طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اس وقت نہیں ہو سکتی- میں نے اس مضمون کو جلسہ سالانہ کے لئے اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ مضمون قرآن کریم کے متعلق ہے اور میراارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰٰ کا فضل شامل حال ہو تو آئندہ جو قرآن کریم کا ترجمہ ہماری طرف سے شائع ہو اس کا اسے دیباچہ بنا دیا جائے- کچھ حصہ ان مضامین کا جلسہ کے موقع پر بیان کر دوں اور باقی حصہ میں خود لکھ لوں- لیکن چونکہ اس وقت یہ مضمون تفصیلی طور پر بیان نہیں ہوسکتا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ قرآن کریم پرغور کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کن کن مطالب پرغور کرنا چاہئے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیر مسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کر رہے ہیں اور مسلمان اس طرف سے کتنے غافل اور لاپرواہ ہیں- میرے نزدیک قرآن کریم پر مجموعی نظر ڈالنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے- ضرورت قرآن اول کیا اس وقت جبکہ قرآن کریم نازل ہوا دنیا کو کسی الہامی کتاب کی ضرورت تھی یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی چیز باموقع نازل ہوئی ہے اس وقت تک خدا تعالٰے کی طرف وہ منسوب نہیں کی جاسکتی- بہت لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں کی حالت خراب تھی- مگر لوگوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب بھی نازل ہو- دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت تشریف لائے جب لوگوں کی عملی حالت بالکل خراب ہو چکی تھی لیکن کیا آپ کوئی کتاب لائے- پس یہ کہنا کہ لوگوں کی عادات

Page 540

۴۹۷ خراب ہوگئی تھیں فسق وفجور پیدا ہوگیا تھا یہ اس بات کے لئے کافی نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی بھی ضرورت تھی- یا یہ کہ عربوں میں بد رسوم پیدا ہوگئی تھیں- بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے- سوتیلی ماؤں سے شادی کر لیتے تھے- اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ عربوں کے لئے ایک کتاب کی ضرورت تھی - یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ساری دنیا کے لئے ضرورت تھی- جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت سخت خراب تھی- مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیھما السلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے- ہمیں جو چیز ثابت کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں تمام مذہبی کتب میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ذات میں دنیا کو تسلی دینے کے لئے نا کافی تھیں- پس قرآن کریم کے نازل ہونے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتب میں بگاڑ ثابت کرنا ضروری ہے- قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی (۲)دوسرے اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی؟ کیونکہ کسی وحی کے نزول کے طریق سے بھی بہت کچھ اس کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے- مثلاًاس بات پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آجائیگا کہ جس انسان پر یہ وحی نازل ہوئی کیا اس کے نازل ہونے کے وقت کی کیفیت سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا نعوذباللہ دماغ خراب تھا- بیسیوں لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہ یہ الہام ہوا- وہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے- مگر ان کا دماغ خراب ہوتا ہے- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے- آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے اس نے پھر کہا- جب میں سجدہ کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے- عرش پر سجدہ کر اور کہتا ہے- تو محمد ہے- تو عیسیٰ ہے- تو موسیٰ ہے- آپ نے فرمایا- کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا جمال اور جلال بھی دیا جاتا ہے یا قرآن کریم کے علوم بھی تم پر کھولے جاتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر خدا تعالیٰ تمہیں عرش پر نہیں لے جاتا ہے- بلکہ شیطان بہکاتا ہے اگر خدا تمہیں عرش پر لے جاتا اور محمد قرار دیتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتیں بھی تمہیں آپ کی غلامی میں عطا فرماتا- تو قرآن کریم کی وحی کے نزول پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سامنے آجائیگا

Page 541

۴۹۸ کہ جس شخص پر یہ کلام اتراوہ ایسا تو نہ تھا کہ مجنوں ہو یا اس کے دماغ میں کوئی اور نقص ہو- جمع قرآن پر بحث (۳)تیسرا سوال قرآن کریم پر نظر ڈالتے وقت یہ سامنے آئے گا کہ قرآن کریم کس طرح جمع ہوا؟ یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی گئی کیا اسی صورت میں سامنے آئی ہے جو اس کے نازل کرنیوالے کامنشا تھا؟ اگر اسی صورت میں سامنے آئی ہے تب تو معلوم ہوا کہ اس پر غور کرنے سے وہ صحیح منشاء معلوم ہوجائیگا- جو پیش کرنے والے کا تھا- لیکن اگر اس میں کوئی خرابی اور نقص پیدا ہو گیا ہے تو پھر اس کتاب کے پیش کرنے والے کا جو منشا تھا وہ خبط ہو گیا- اس وجہ سے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی- یورپ کے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم صحیح طور پر جمع نہیں ہوا- وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی عبارت کی کوئی ترتیب نہیں یونہی مختلف باتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے- حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ (۴)چوتھی چیز یہ ثابت کرنی ہو گی کہ قرآن اب تک محفوظ بھی ہے- اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن صحیح طور پر پیش کرنے والے کے منشاء کے مطابق جمع ہوا ہے- مگر یہ کہا جائے کہ اس میں کچھ زائد حصہ بھی شامل ہو گیا ہے یا اس میں سے کچھ حصہ حذف ہو گیا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کتاب اب اصل شکل میں نہیں رہی- اس وجہ سے وہ فائدہ نہیں دے سکتی جس کے لئے آئی تھی اور دنیا کے لئے کامل ہدایت نامہ نہیں ہو سکتی- اس کے لئے بھی عیسائی مورخین نے بڑا زور لگایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں ہے- قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق (۵)پانچواں سوال جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے کیا تعلق ہے- آیا قرآن کریم پہلی کتب کا مصدق ہے یا نہیں اگر ہے تو کس طرح؟ ان کو موجودہ صورت میں درست تسلیم کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ پہلے صحیح اتری تھیں مگر اب بگڑ گئی ہیں- یورپ کے لوگوں نے اس بات کے لئے بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم نے پہلی کتب کو ان کی موجودہ صورت میں صحیح تسلیم کیا ہے- اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے ان کتب کی موجودہ شکل کو درست مانا ہے تو پھر قرآن کریم کا ان سے جو اختلاف ہوگا وہ غلط ہوگا- سرولیم میور نے

Page 542

۴۹۹ اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے- اس میں اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک پہلی کتابیں صحیح ہیں- قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق (۶)چھٹا سوال یہ ہو گا کہ اتنی عظیم الشان کتاب جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے ہے اس کی تصدیق پہلی کتب سے ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قرآن کریم کا ذکر پہلی کتب میں موجود ہے؟ تا لوگ معلوم کر لیں کہ پہلی کتب میں اس کی جو خبر دی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آیا ہے- قرآن کریم میں پہلی کتب سے زائد خوبیاں (۷)ساتواں سوال اس کے ساتھ ہی یہ پیدا ہو جائے گا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے کون سی زائد چیز لایا ہے- یا تو وہ یہ کہے کہ پہلی سب کتابیں جھوٹی ہیں اس لئے مجھے نازل کیا گیا ہے- لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی سچی ہیں تو پھر یہ دکھانا چاہئے کہ قرآن کریم زائد خوبیاں کیا پیش کرتا ہے- ورنہ اس کے نازل ہونے کی ضرورت ثابت نہ ہوگی- پس یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ قرآن دوسری کتب کے مقابلہ میں افضل ہے- ترتیب قرآن (۸)ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ آیا قرآن کریم میں کوئی ترتیب مدنظر ہے؟ یعنی اس میں کوئی معنوی ترتیب ہے؟ یورپ والے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں- بالکل بے ربط کلام ہے- اور عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علماء نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں نعوذ باللہ کوئی ترتیب نہیں- لیکن کسی کتاب کا بیترتیب ثابت ہونا اس پر بہت بھاری حملہ ہے اور اگر اس میں ترتیب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اس طرح نہیں جس طرح نازل ہوئی تھی- پہلی اتری ہوئی آیتیں پیچھے اور پچھلی پہلے کر دی گئیں ہیں-سورۃ علق پہلے نازل ہوئی مگر بعد میں رکھی گئی اور سورۃ فاتحہ بعد میں نازل ہوئی اور اسے پہلے رکھا گیا- اسی طرح اور آیتوں کو بھی آگے پیچھے کیا گیا ہے- مکہ میں بعض آیتیں اتریں جنہیں مدنی سورتوں میں درج کیا گیا ہے- اور بعض مدینہ میں اتریں انہیں مکی سورتوں میں لکھا گیا ہے- اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ میں قرآن کریم کی ترتیب مدنظر تھی تو پھر کیوں اسی طرح جمع نہ کیا گیا جس طرح نازل ہوا تھا- اور اگر وہ ترتیب صحیح ہے جس میں اب قرآن موجود ہے تو پھر کیوں اسی ترتیب سے نازل نہ ہوا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل یورپ نے اٹھایا ہے- اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصولی

Page 543

۵۰۰ طور پر میں نے اس طرح حل کیا ہے کہ ہر سمجھدار کی سمجھ میں آجائے گا- ناسخ ومنسوخ کی بحث (۹)ایک سوال قرآن کریم کے متعلق ناسخ ومنسوخ کا آجاتا ہے- یہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے- کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنکریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں- انہیں بعض دوسری آیتوں یا حدیثوں نے منسوخ کر دیا ہے- وہ پڑھی تو جائیں گی مگر ان پر عمل نہیں کیا جائیگا- یورپ والوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ناسخ منسوخ کا ڈھکوسلا اس لئے بنایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صریح تضاد پایا جاتا ہے- جب اسے دور کرنے کی مسلمانوں کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے متضاد آتیوں میں سے ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے دیا- نزول قرآن کا مقصد اور اس کا پورا ہونا (۱۰)پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ آیا قرآنکریم اس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لئے کوئی مذہب نازل ہوتا ہے- ہر ایک الہامی کتاب اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب اس مقصد کو پورا کرے جسے الہامی کتاب کو پورا کرنا چاہیے- اور لوگ جن الہامی کتب کو مانتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب آنے کی یہ یہ ضرورت تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے وہ نازل ہوا ہے؟ اگر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ورنہ نہیں- فطرت َانسانی کے مطابق تعلیم (۱۱)پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر طبقہ اور ہر درجہ کی فطرت کے لوگوں کے لئے ہے- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی تعلیم فی الواقع ایسی ہے کہ اس سے ایک ان پڑھ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر ایک عالم پڑھے تو وہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے- اگر اس کی تعلیم ایسی ہے تو یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہلا سکتی ہے- ورنہ نہیں- فہم ِقرآن کے اصول (۱۲)ایک اور سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے اصول کیا ہیں؟ ہر کتاب کو سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے لئے کوئی نہ کوئی کلید ہوتی ہے- قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کن اصول کی ضرورت ہے؟ گویا قرآن کریم کو اصول تفسیر بھی بیان کرنے چاہئیں تاکہ ان سے کام لے کر ہر

Page 544

۵۰۱ انسان اپنی سمجھ اور اپنے علم کے مطابق فہم قرآن حاصل کر سکے- قرآن کریم کو پہلی کتب کا مصدق کن معنوں میں کہا گیا ہے؟ ‏ ( ۱۳)ایک سوال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قرآن اس لئے پہلی کتب کا مصدق ہے کہ ان کتابوں کی نقل کرتا ہے- اس نقل کے الزام سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ قرآن ان کا مصدق ہے- ہم کہتے ہیں بے شک قرآنان کی تصدیق کرتا ہے- مگر ان کے خلاف بھی تو کہتا ہے- اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن دوسری کتابوں سے کیا نقل کرتا ہے اور کیا چھوڑتا ہے؟ اور جو بات نقل کرتا ہے- اسے پہلی کتاب سے زائد بیان کرتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پہلی کتابوں سے اختلاف کرتا ہے- ایسی صورت میں کیا وجہ ہے کہ ہم قرآن کی بات کو صحیح مانیں- پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض (۱۴)پھر قرآن میں پرانے واقعات بیان کئے گئے ہیں- ان کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا ہے- کیا قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی کفار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان ھذا الا اساطیر الاولین ۱؎قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں- قَسموں کی حقیقت (۱۵)یہ سوال بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں؟ قسموں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام بنایا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ اسے خدا کا کلام قرار دے رہے ہیں- اس لئے قسمیں کھانے لگے- اس قسم کے شبہات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی کیا وجہ ہوتی ہے؟ معجزات پر بحث (۱۶)اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات پر زور دینا کہ کوئی نشان دکھانا رسول کے اختیار میں نہیں- جب خدا چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے- دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ پوشی کے لئے ہے- اس کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سارے کا سارا قرآن نشانات کا مجموعہ ہے- خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں (۱۷)اسی طرح قرآن کریم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سائنس اور

Page 545

۵۰۲ علوم طبعیہ کے خلاف باتیں پیش کرتا ہے- چونکہ خدا تعالیٰ کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا اس لئے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کے کسی فعل کے خلاف نہیں ہے- اس میں ایسی سچائیاں ہیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں- اور انہیں علوم طبعیہ کے خلاف قرار دیا جاتا تھا مگر اب انہیں درست قرار دیا جاتا ہے- قرآن کریم کے روحانی کمالات (۱۸)یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن کریم میں کیا کمالات ہیں اور قرآن کریم بنی نوع انسان کو کس اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچانے کے لئے آیا ہے- آخری شرعی کلام (۱۹)یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے- لوگ کہتے ہیں جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کلام نازل ہوتا رہا ہے تو اب شرعی کلام کا آنا کیوں بند ہو گیا- اس کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اب کسی اور شرعی کلام کی ضرورت نہیں- عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ (۲۰)پھر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآنکریم کے لئے عربی زبان کیوں اختیار کی گئی کیوں فارسی، سنسکرت یا کوئی اور زبان اختیار نہ کی گئی؟ پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی رد اور صحیح اصول کا بیان (۲۱)پھر جب قرآنکریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور تمام پہلی مذہبی تعلیموں کا قائم مقام ہے تو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ ان تعلیموں میں جو نقائص تھے ان کو اصولی طور پر قرآن کریم نے دور کر دیا ہے اور ان کی جگہ صحیح اصول قائم کئے ہیں- قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت (۲۲)پھر قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے کہ اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے یہ یہ ثبوت ہیں- قرآن کریم کے اثرات (۲۳)قرآن کریم کے اثرات پر بھی بحث کرنی ہو گی-

Page 546

۵۰۳ متشابہات کا حل (۲۴)آیات متشابہات کو حل کرنا بھی ضروری ہے- قرآن کریم یہ تو کہتا ہے کہ اس میں کچھ آیات متشابہات ہیں مگر یہ نہیں بتاتا کہ کون کون سی ہیں- جب تک ان آیات کا پتہ نہ ہو سارے قرآن کو متشابہات کہنا پڑے گا- مجھے اللہ تعالیٰٰ نے اس بارے میں بھی ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ معمولی سے معمولی علم رکھنے والے کے لئے بھی متشابہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا اور نیز یہ کہ آیات متشابہات قرآن کریم کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہیں- حروفِ مقطّعات کا حل (۲۵)حروف مقطعات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ ان کی کیا ضرورت اور غرض ہے؟ سات قراء توں سے کیا مراد ہے (۲۶)یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآنکریم کی سات قرائتیں ہیں ان سے کیا مراد ہے؟ یہ بحث بھی ضروری ہے- خلق قرآن کا مسئلہ (۲۷)کلام الہی کو خدا تعالیٰ کے علم سے کیا نسبت ہے- پہلے زمانہ میں اس پر بہت بڑی بحث ہوئی ہے- اور بڑے بڑے علماء کو خلق قرآن کے مسئلہ پر ماریں پڑی ہیں- حضرت امام احمد بن حنبل کو عباسی خلیفہ نے مار مار کر اتنا چور کر دیا کہ وہ فوت ہو گئے- غرض خلق قرآن کے مسئلہ پر بھی بحث ضروری ہے یعنی خدا کے کلام کو خدا سے کیا نسبت ہے- قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے (۲۸)پھر ایک بحث یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے- کسی کتاب کی پیشگوئیاں بتا دینا کہ وہ پوری ہو رہی ہیں اس کی زندگی کا ثبوت نہیں- تورات اور انجیل کی بعض پیشگوئیاں بھی اب تک پوری ہو رہی ہیں- لیکن ان کتب سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا جو ان کے نازل ہونے کے وقت مدنظر تھا- مگر قرآن کریم آج بھی وہ مقصد پورا کر رہا ہے جسے لیکر وہ نازل ہوا تھا- قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے (۲۹)پھر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے- یعنی سوال یہ ہے کہ مذہب کو کہاں تک دوسری بحثوں سے تعلق ہے- اخلاق، سیاست، تمدن وغیرہ مذہب میں شامل ہیں یا نہیں-

Page 547

۵۰۴ قرآن ذوالمعارف ہے (۳۰)یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن ذوالمعارف ہے اور یہ اس کی خوبی ہے نقص نہیں کہ ایک آیت کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں- قرآن کامل کتاب ہے (۳۱)اس بات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور اب کسی اور آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں- مگر اس کے باوجود سنت اور حدیث کی ضرورت ہے اور اس سے قرآن کریم کے کمال میں نقص پیدا نہیں ہوتا- قرآن کریم کی فصاحت (۳۲) قرآن کریم جو فصیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے- اس کا کیا مطلب ہے اور یہ کہ وہ کس طرح بے مثل ہے اور کیوں کوئی اس کی مثل نہیں لا سکتا- قرآن کریم کا دوسری الہامی کتب سے مقابلہ (۳۳)قرآن اور دوسری کتابوں کی تعلیم کا مقابلہ بھی ضروری ہے- ایک بے نظیر روحانی، جسمانی، تمدنی اور سیاسی قانون (۳۴)اجمالی طور پر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم بے نظیر روحانی، جسمانی، تمدنی اور سیاسی قانون ہے- قرآن کریم کے استعارات (۳۵)قرآن کریم میں استعارات کیوں آئے ہیں- ان کی کیا ضرورت ہے- یہ سوال بھی قابل حل ہے- تراجِم قرآن کی ضرورت (۳۶)یہ بھی کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ شائع کرنا کیوں ضروری ہے؟ حفاظتِ قرآن کے ذرائع (۳۷)قرآن کریم کی حفاظت کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ اس دعویٰ کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے گئے ہیں- قرآن کریم کو شعر کیوں کہا گیا ہے (۳۸)قرآن کریم کو جو اس زمانہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک شاعر کا کلام ہے اور قرآن کریم نے اس کی تردید کی ہے۲؎ اس کا کیا مطلب ہے- یعنی قرآن میں شعر کا کیا مفہوم ہے- اور جب

Page 548

۵۰۵ خدا تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق کہتا ہے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے- قرآن کریم آہستہ آہستہ کیوں نازل ہوا (۳۹)یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیوں نازل ہوا- کیوں نہ ایک ہی دفعہ نازل ہو گیا- قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا (۴۰)یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا- قرآن کریم کے تمام الفاظ الہامی ہیں (۴۱)یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے وہی الفاظ ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کئے یا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیال آیا- اسے آپ نے اپنے لفظوں میں لکھوا دیا؟ یورپ اس دوسری صورت کو ثابت کرنے کے لئے بڑا زور لگاتا ہے- وجہ یہ کہ انجیل کے نسخوں میں چونکہ اختلاف ہے- اس لئے وہ کہتے ہیں کہ الفاظ الہامی نہیں بلکہ مطلب الہامی ہے- اگر الفاظ میں اختلاف ہے تو کوئی حرج نہیں- کہتے ہیں کسی گیڈر کی دم کٹ گئی تھی- اس نے سب گیڈروں کو جمع کر کے تحریک کی کہ ہر ایک کو اپنی دم کٹوا دینی چاہئے- اس نے دم کے کئی ایک نقصان بتائے- کئی گیڈر اس کے لئے تیار ہو گئے- لیکن ایک بوڑھے گیڈر نے کہا کہ پہلے دم کٹانے کی تحریک کرنے والا اٹھ کر دکھائے کہ اس کی اپنی دم ہے یا نہیں- اگر اس کی دم پہلے ہی کٹی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ سب کو اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے- یہی حال یورپ والوں کا ہے- ان کی انجیلوں میں چونکہ اختلاف پایا جاتا ہے-اس لئے وہ قرآن کے متعلق بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے الفاظ الہامی نہیں- قرآن کریم ہر قسم کے شیطانی کلام سے مُنزّہ ہے (۴۲)یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی شیطانی کلام بھی شامل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا سامان مسلمانوں نے ہی بہم پہنچایا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر نعوذ باللہ بعض شیطانی فقرے جاری ہو گئے تھے جن کے متعلق جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں- یوروپین لوگ کہتے ہیں

Page 549

۵۰۶ مخالفین کو خوش کرنے کے لئے آپﷺ~ نے کچھ کلمات کہے تھے لیکن بعد میں ان پر پچھتائے اور کہہ دیا کہ منسوخ ہو گئے ہیں- اس اعتراض کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری ہے- قرآن کریم کے مخاطب کون تھے؟ (۴۳)ایک یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب کون لوگ تھے- صرف اہل عرب یا ساری دنیا کے لوگ؟ اور پھر یہ بھی کہ شروع میں صرف اہل عرب مخاطب تھے اور بعد میں اور لوگ- یا سب کے سب شروع سے ہی مخاطب تھے؟ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہونا چاہئے یا بامحاورہ (۴۴)پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہو یا بامحاورہ؟ عام طور پر لوگ لفظی ترجمہ پسند کرتے ہیں- مگر اس طرح عربی کی سمجھ آتی ہے- مطلب سمجھ میں نہیں آتا- وجہ یہ کہ لفظ کے نیچے لفظ ہوتا ہے- اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اوپر کے عربی لفظ کا ترجمہ یہ ہے- لیکن سارے فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا- کیونکہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں فرق ہے- لفظی ترجمہ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں- فلاں کی آنکھ بیٹھ گئی- اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والا اگر یہ ترجمہ کرے کہ ‘‘HIS EYE HAD SAT’’ اور عربی میں یہ کرے کہ جلست عینہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظی ترجمہ اصل مفہوم کو ظاہر نہیں کرے گا- کیونکہ آنکھ بیٹھنے کا جو مفہوم اردو میں ہے وہ دوسری زبانوں کے لفظی ترجمہ میں نہیں پایا جاتا- ترجمہ کی غرض چونکہ مطلب سمجھانا ہے اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ مطلب سمجھ میں آجائے، چاہے محاورہ بدلنا ہی پڑے- یہ سوالات ہیں جن پر مقدمہ قرآن میں بحث کی ضرورت ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہتعالیٰ چاہے تو ان امور پر بحث کروں- قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ اب میں جماعت کو یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی خدمت ایک نہایت اہم خدمت ہے- یورپین اقوام کا اسلام کے خلاف جس بات پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم کی اہمیت کو گرایا جائے- چنانچہ نولڈکے جو جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے اور یورپ میں عربی زبان کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اس نے انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں غلطیاں اور نقائص ثابت کرنے کے لئے یورپین مصنفوں نے بڑا

Page 550

۵۰۷ زور لگایا ہے مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں- ۳؎گویا خود تسلیم کرتا ہے کہ یوروپین مصنفوں نے قرآن کریم کے خلاف بڑا زور لگایا ہے- مگر سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے خلاف خطرناک کوشش ایک کتاب ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا نام ہے- ’’تین پرانے قرآنوں کے صفحات‘‘ ایک عورت نے جو ڈاکٹر آف فلاسفی ہے یہ کتاب لکھی ہے اور اس نے بیان کیا ہے کہ وہ مصر میں گئی- جہاں اس نے ایک کتاب خریدی جو عیسائی کتابوں کی نقل تھی- جب اس کے صفحات پر بعض دوائیں لگائی گئیں تو نیچے سے اور حروف نمودار ہو گئے- ڈاکٹر منگانا نے اس کے متعلق بتایا کہ یہ ایک پرانا قرآن ہے- جس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں اور موجودہ قرآن میں فرق ہے- وہ کہتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگڑ چکا ہے- وہ اس کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے جب قرآن نقل کیا تو باقی قرآنوں کو جلا دیا- چونکہ ان میں جو کچھ لکھا تھا اسے کوئی نقل نہ کر سکتا تھا- اس لئے اس وقت عیسائیوں نے بظاہر اپنے مذہب کی ایک کتاب لکھی لیکن دراصل خفیہ طور پر اس میں وہ قرآن نقل کیا جسے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا- اب بعض قسم کی دوائیاں لگانے سے پوشیدہ لکھا ہوا قرآن ظاہر ہو گیا ہے- یہ ایک نہایت خطرناک چال ہے جو چلی گئی- اس کتاب کا پرانا کاغذ دکھایا جاتا ہے- اس پر پرانی تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں- عیسائیوں کی مزوّرانہ چالیں اس کے متعلق میں نے مفصل تحقیقات کی ہے جو آج پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب نہ وقت ہے اور نہ موقع کیونکہ بادل گھرے ہوئے ہیں- البتہ اس کے متعلق ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں- وہ صفحات جو اس کتاب میں پرانے قرآن کے قرار دیکر شائع کئے ہیں- وہ اپنی غلطی آپ ظاہر کر رہے ہیں- مثلاً قرآن میں آتا ہے-فامنوباللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون۴؎لیکن جو عیسائیوں کا لکھا ہوا قرآن ہے- اس میں آتا ہی فامنو باللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعہ- کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے کلمہ پر اور کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ لیتے ہیں- مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ کے پیرو تھے-

Page 551

۵۰۸ اس قسم کی چالیں اس میں چلی گئی ہیں- مگر باوجود اس قسم کی کوششوں کے یہی باتیں ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں- اول اس طرح کہ عیسائیوں کی طرف سے جو قرآن پیش کیا جاتا ہے اس کی وہی ترتیب ہے جو موجودہ قرآن کی ہے- اس لئے ان کا یہ کہنا انہی کے پیش کردہ قرآن سے غلط ہو گیا کہ حضرت عثمانرضی اللہ عنہ کے وقت قرآن کریم کی ترتیب بدل گئی تھی- پھر اس قرآن میں بعض ایسے الفاظ لکھے ہیں جو عربی کے ہیں ہی نہیں- مثلاً ایک جگہ علم کو ایلم لکھا ہے- اسی طرح ایک جگہ ایسی غلطی کی ہے جس سے اس چور کا مشہور قصہ یاد آجاتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نیا نیا چور بنا تھا- چوری کرنے کے بعد جب پولیس تحقیقات کے لئے آئی تو وہ خود بھی وہاں چلا گیا- اور تحقیقات میں مدد دینے لگ گیا- کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے چور ادھر سے آیا- یہاں سے اترا اور پھر ادھر گیا- پولیس والوں نے تاڑ لیا کہ اس کا چوری میں ضرور دخل ہے- اس لئے اس سے ساری باتیں پوچھنے لگے اور جدھر وہ لے گیا اس کے ساتھ چل پڑے- آخر ایک دروازہ کے پاس جا کر کہنے لگا- معلوم ہوتا ہے چور اس دروازہ سے نکلا اور اسے یہاں سے ٹھوکر لگی- اس پر گٹھڑی اندر اور میں باہر- اس موقع پر بے اختیار اس کے منہ سے میں نکل گیا- پولیس نے فوراً اسے پکڑ لیا- یہی حال یہاں ہوا- قرآن کریم میں ایک آیت ہے وانزل جنودا لم تروھا ۵؎اللہ تعالیٰ نے ایسے لشکر اتارے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے- یہاں ھا کی ضمیر جنود کے طرف جاتی ہے- مگر عیسائیوں کے پیش کردہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہاں جندا ہے مگر آگے ھا ہی رکھا ہے اور ضمیر کو نہیں بدلا- غرض اس قسم کی بہت سی شہادتیں ہیں جن سے اس کے اندر سے ہی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں، معلوم ہوتا ہے کسی نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اسے لکھا اور اس میں غلطیاں کرتا گیا- چنانچہ واذا استسقی کوک کے ساتھ لکھا ہے- اسی طرح ھم السفھاء کو ھمسفھا لکھ دیا- اسی طرح اور کئی الفاظ غلط لکھے ہیں- مثلاً انماالنسی کو انما ال ناسی لکھا ہے- حالانکہ ناسی ان معنوں میں آتا ہی نہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاہل عیسائی قرآن کی نقل کرنے بیٹھا جسے عربی نہ آتی تھی اور اس قسم کی غلطیاں کرتا گیا- اب میں قرآن کریم کے متعلق یوروپین مستشرقین کے بعض متفرق اعتراضات کا ذکر کرتا ہوں-

Page 552

۵۰۹ قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں یورپ کے مستشرق کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں- خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا اسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے- چونکہ بندہ کو ہی اگلے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ اگلی باتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حالات پیش آتے جاتے تھے ان کے متعلق قرآن میں ذکر کر دیتے- پس یہ انکا کلام ہے، خدا کا کلام نہیں- قرآن کریم نے خود اس سوال کو لیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القران جملہ واحدہ ۶؎ یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس رسول پر ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سوال عیسائیوں کو اب سوجھا ہے یہی سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار نے بھی کیا تھا کہ ایک ہی دفعہ قرآن کیوں نہ اترا- اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ کذلک اسی طرح اترنا چاہئے تھا جس طرح اتارا گیا ہے- لنثبت بہ فوادک ۷؎ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں- گویا قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے اس کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کے نازل ہونے سے دل کی مضبوطی کس طرح ہوتی ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بتا دیتا ہوں- (۱)اگر ایک ہی دفعہ قرآن نازل ہو جانے پر اس سے استدلال کرتے رہتے تو دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی جیسی کسی امر کے متعلق فوراً کلام الہی کے اترنے سے ہو سکتی ہے- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لطف اس میں آتا ہوگا کہ آپ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق وحی ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا- وہ لطف ہمیں اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے- اسی طرح جب کوئی واقعہ پیش آتا، آپ پر اس کے متعلق کلام الہی نازل ہو جاتا اور اس طرح معلوم ہو جاتا کہ اس کلام کا یہ مفہوم ہے- اگر آپ اجتہاد کر کے آیات کو کسی بات پر چسپاں کرتے تو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا- (۲)قرآن کریم لنثبت بہ فوادک کا مصداق اس طرح ہے کہ جو کتاب ساری دنیا

Page 553

۵۱۰ کے لئے آئی ہو اسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا- اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا اترتا تو اسے وہی شخص حفظ کر سکتا تھا جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا- لیکن آہستہ آہستہ اترنے سے بہت لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرتے گئے- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہوگی بلکہ محفوظ رہے گی- یہی وجہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جنہیں قرآن کریم حفظ تھا مگر اب اس نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں- اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ ساتھ کے ساتھ یاد کرتے جاتے تھے- (۳) تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں راسخ نہ ہو سکتا تھا- اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والا مسلمان نظر آتے ہیں- اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا- لیکن اگر کسی کو ہم ایک کتاب لکھ کر دے دیں کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ موجود نہ ہو تو لوگ سو سال میں بھی اس پر عمل کرنا نہ سیکھ سکیں- پس قرآن کریم کی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے آہستہ آہستہ نازل کیا جاتا- ایک حکم پر عمل کرنا جب لوگ سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا- پھر تیسرا- اور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا- (۴) اگر ایک ہی وقت قرآن نازل ہوتا تو ترتیب وہی رکھنی پڑتی جو اب ہے- لیکن یہ ترتیب اس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی- جس طرح اب ہمارے لئے وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا- اگر نماز اور روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی، تو وہ سمجھ میں ہی نہ آ سکتے تھے- پس پہلے نبوت کو ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچانی چاہئے تھی کہ یہ سچا نبی ہے- اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقع تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے- مگر اب یہ ضروری نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو ماننے والی ایک جماعت موجود ہے- اب جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے- پس اس کے لئے قرآن کی اسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے- لیکن قرآن کے

Page 554

۵۱۱ ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا- (۵) اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہوتا تو ایک حصہ میں دوسرے حصہ کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا تھا- مثلاً قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر صحیح و سلامت لے جائیں گے- اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے جایا گیا اس وقت یہ نہ کہا جا سکتا کہ دیکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئیں ہیں- یہ اسی صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ایک حصہ نازل ہوتا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح و سلامت لے جانے کی پیشگوئی ہوتی- پھر جب یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی اس وقت وہ حصہ اترتا جس میں اس کے پورا ہونے کے متعلق اشارہ ہوتا- (۶)میرے نزدیک ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کیا جانا تھا کہ کسی اور نے بنا کر دیا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اس اعتراض کا ذکر بھی آتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-وقال الذین کفروا ان ھذا الا افلک افترنہ واعانہ علیہ قوم اخرون ۸؎یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنا لیا ہے- اور اس کے بنانے پر ایک اور قوم نے اس کی مدد کی ہے- اگر قرآن اکٹھا ملتا تو مخالف یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی نے بنا کر یہ کتاب دے دی ہے- اب کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا کچھ مدینہ میں- مکہ والے اگر کہیں کہ کوئی بنا کر دیتا ہے تو مدینہ میں کون بنا کر دیتا تھا- پھر قرآن مجلس میں بھی نازل ہوتا، اس وقت کون سکھاتا تھا- پھر قرآن سفر میں بھی نازل ہوتا- ایسا کون شخص تھا جو ہر لڑائی میں شامل ہوا، کوئی بھی نہیں- غرض قرآن سفر اور حضر میں رات اور دن میں، مکہ اور مدینہ میں، مجلس اور علیحدگی میں نازل ہوا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں کا جواب ہو گیا کہ قرآن کوئی اور انسان بنا کر آپ کو نہیں دیتا تھا- ورنہ اگر اکٹھی کتاب نازل ہوتی تو کہا جاتا کہ کوئی شخص کتاب بنا کر دے گیا- جسے سنا دیا جاتا ہے مگر اب جب کہ موقع اور محل کے مطابق آیات اترتی رہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقع پر کوئی بنا کر دے دیتا ہے- پس قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اترنا ثبوت ہے لنثبت بہ فوادک کا- جمع قرآن پر اعتراضات ایک اعتراض جمع قرآن کے متعلق کیا جاتا ہے- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی اصلی صورت میں محفوظ نہیں وہ اپنے

Page 555

۵۱۲ اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ-: (۱) محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس قدر کام ہوتے تھے اور جس طرح وہ لڑائیوں اور شورشوں میں گھرے ہوئے تھے ایسی حالت میں انہیں قرآن صحیح طور پر کہاں یاد رہ سکتا تھا- (۲) کہا جاتا ہے کہ عربوں کا حافظہ بہت اچھا تھا- مگر یہ غلط ہے- صحیح بات یہ ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں ہوتا تھا جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کی ان نظموں میں اختلاف ہے جو پہلے شاعروں کی ہیں- کوئی کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسی طرح- اس سے معلوم ہوا کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے ورنہ اختلاف کیوں ہوتا- (۳) قرآن رسول کے زمانہ میں پورا نہیں لکھا گیا- اگر پورا لکھا جاتا تو حافظوں کے مارے جانے پر قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ کیوں ظاہر کیا جاتا- (۴) قرآن میں آتا ہے- الذین جعلوا القران عضین ۹؎یعنی وہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا- کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پیدا ہو گئے تھے- (۵) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خود پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے انہوں نے قرآن لکھنے کے لئے کاتب رکھے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے لکھ دیتے- (۶) لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن کے پڑھنے میں بڑا اختلاف ہو گیا تھا- اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں قرآن کے متعلق اختلاف موجود تھا- (۷) حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت کے قرآن کی جتنی کاپیاں تھیں وہ جلوا دی تھیں- اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں اختلاف تھا اس قرآن سے جو عثمانؓ نے لکھوایا- اگر اختلاف نہیں تھا تو ان کو کیوں جلوایا گیا- (۸) قرآن کریم کی اصلیت پر صرف زید گواہ ہے- مگر اس کا تو فرض تھا کہ قرآن لکھے- اس پر بھروسہ کس طرح کیا جا سکتا ہے- (۹) اگر حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن کی کاپی درست تھی تو پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں دوبارہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی- یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی کاپیوں کو غلط سمجھا گیا- (۱۰) حضرت عثمانؓ پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ خلیفہ ہوئے تو بہت سے قرآن تھے-

Page 556

۵۱۳ لیکن جب وہ فوت ہوئے تو پیچھے صرف ایک قرآن چھوڑا- اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف والے قرآنوں کو جلا دیا گیا تھا- مخالفین کے اعتراضات کے جوابات اب میں ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں- پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے کاموں اور شورشوں میں قرآن کریم یاد کس طرح رہ سکتا تھا- یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے- جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یاد رہا اور شب و روز نمازوں میں سنایا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے- مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے سامنے پروفیسر مارگولیتھ نے یہ اعتراض کیا کہ اتنا بڑا قرآن کس طرح یاد رہ گیا- میں نے کہا- محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپﷺ~ کے سپرد ساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا؟ آپﷺ~ اسے کیوں یاد نہ رکھتے- میرے ایک لڑکے نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن یاد کر لیا ہے- اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارے کا سارا قرآن یاد ہے- جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا وہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا حافظہ اچھا نہ تھا، کیونکہ وہ پرانی نظموں میں اختلاف کرتے ہیں- اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ یہ شتر مرغ والی مثال ہے- ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عربوں کو پرانے قصیدے یاد ہوتے تھے جن میں اختلاف ہوتا تھا- اور دوسری طرف مارگولیتھ کہتا ہے کہ پرانے زمانہ میں قصیدے تھے ہی نہیں یوں ہی بنا کر پہلے لوگوں کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں- گویا جس پہلو سے اسلام پر اعتراض کرنا چاہا- وہی سامنے رکھ لیا- اصل بات یہ ہے کہ عربوں کے ایسے حافظے ہوتے تھے کہ مشہور ہے ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جس شاعر کو ایک لاکھ شعر یاد نہ ہوں وہ میرے پاس نہ آئے- اس پر ایک شاعر آیا اور اس نے آ کر کہا- میں بادشاہ سے ملنے کے لئے آیا ہوں- اسے بتایا گیا کہ بادشاہ سے ملنے کے لئے ایک لاکھ شعر یاد ہونے ضروری ہیں- اس نے کہا- بادشاہ سے جا کر کہہ دو- وہ ایک لاکھ شعر اسلامی زمانہ کا سننا چاہتا ہے یا زمانہ جاہلیت کا- عورتوں کے سننا چاہتا ہے یا مردوں کے- میں سب کے اشعار سنانے کیلئے تیار ہوں- یہ سن کر بادشاہ فوراً باہر آ گیا- اور آکر کہا- کیا آپ فلاں شاعر ہیں- اس نے کہا- ہاں میں وہی ہوں- بادشاہ نے کہا- اسی لئے میں نے یہ اعلان کیا

Page 557

۵۱۴ تھا کہ آپ میرے پاس آتے نہ تھے- میں نے خیال کیا کہ شاید اس اعلان پر جوش کی وجہ سے آپ آ جائیں- پس یہ کہنا غلط ہے کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے- رہی یہ بات کے شعروں میں اختلاف ہے- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو شعر یاد رکھتے تھے وہ انہیں الہامی کتاب کے شعر سمجھ کر نہیں یاد کرتے تھے بلکہ ان کا مطلب اخذ کر لیتے تھے- مگر قرآن کو تو خدا کا کلام سمجھ کر یاد کرتے تھے- اس وجہ سے اس کا ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہ کرتے تھے- پھر شعر جو وہ یاد کرتے تھے وہ استادوں سے پڑھ کر یاد نہ کرتے تھے بلکہ جس سے سنتے یاد کر لیتے- اور ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ صحیح الفاظ ہی یاد کرائے- لیکن اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لکھنے کے متعلق اور قرآن یاد کرنے کے متعلق خاص قواعد مقرر تھے اور قرآن یاد کرانے کے لئے چار آدمی مقرر تھے- اور اس میں اتنی احتیاط کی جاتی تھی کہ ایک دفعہ نماز میں حضرتعلیؓ نے پڑھنے والے کو لقمہ دے دیا- تو انہیں منع کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس کام کے لئے مقرر نہیں- غرض قرآن کریم کے بارہ میں اتنی احتیاط کی گئی تھی کہ چار آدمی اس کام کے لئے مقرر تھے حالانکہ قرآن جاننے والے ہزاروں تھے- اس کے مقابلہ میں شاعروں کی طرف سے کونسے لوگ مقرر تھے- جو شعر یاد کراتے تھے- امراء القیس نے کسے مقرر کیا تھا کہ اس کے اشعار لوگوں کو یاد کرایا کرے- مگر قرآن یاد کرانے کے متعلق تو استاد در استاد بات چلی آ رہی ہے- سوم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا- جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو- جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے- رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے- حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں- اس لئے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓ سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ انی اری ان تامر جمع القران میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع

Page 558

۵۱۵ کرنے کا حکم دیں- یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں- پھر حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو- چنانچہ فرمایا اجمعہ اسے ایک جگہ جمع کر دو- یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو- غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا- لکھنے کا سوال نہ تھا- چہارم- یہ اعتراض تھا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق الذین جعلوا القران عضین آیا ہے- سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر ویسا ہی عذاب نازل کرے گا- جیسا ان لوگوں پر کیا جو قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض پر نہیں کرتے- اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کافروں اور منافقوں کا ذکر ہے- اور اگر یہی معنے کئے جائیں کہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اس وقت جمع تھا- اس لئے دشمن اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ تھا مگر منافق اس کے ٹکڑے ٹکڑے رکھتے تھے- پنجم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے- اس لئے کاتب جو چاہتے لکھ دیتے- اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی اس کا انتظام کر لیا تھا- اور وہ یہ کہ جب وحی نازل ہوتی تو کاتب کو کہتے لکھ لو اور چار آدمیوں کو کہتے یاد کر لو- اس طرح لکھنے والے کی غلطی یاد کرنے والے درست کرا سکتے تھے- اور یاد کرنے والوں کی غلطی لکھنے والا بتا سکتا تھا- فرض کرو لکھنے والے نے لفظ غلط لکھ لیا مگر یاد کرنے والے اس غلطی کے ساتھ کیونکر متفق ہو سکتے تھے، اس طرح فوراً غلطی پکڑی جا سکتی تھی- ششم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے پڑھنے میں بہت اختلاف ہو گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے متعلق اختلاف ہو گیا تھا- بلکہ صاف لکھا ہے کہ قرائت میں اختلاف تھا- اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ سات قرائتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا- چونکہ بعض قوموں کے لئے بعض الفاظ کا ادا کرنا مشکل تھا- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلایا جاتا کہ ان الفاظ کو اس طرح بھی پڑھ سکتے ہیں- اس بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ نے انہیں بلا کر کہا کہ مختلف قبائل کے لوگ کہتے ہیں

Page 559

۵۱۶ کہ ہماری قرائت صحیح ہے اور اس پر جھگڑا پیدا ہو رہا ہے- اس لئے اس کا فیصلہ ہونا چاہئے- حضرت علیؓ نے کہا آپ ہی فیصلہ کر دیں- انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مسلمان ہو کر اب سب ایک ہو گئے ہیں اس لئے ایک ہی قرائت ہونی چاہئے اور وہ قریش والی قرائت ہے- ہفتم- اگر قرائتوں میں اختلاف نہ تھا تو حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن جلائے کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی صریح طور پر غلط ہے- وہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے پاس حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا قرآن تھا- وہ ان سے منگوایا گیا اور کہا گیا کہ نقل کرنے کے بعد واپس کر دیں- چنانچہ واپس کر دیا گیا- اور جلائے مختلف قرائتوں والے قرآن گئے تھے تا کہ قرائتوں کا اختلاف نہ رہے- ہشتم- یہ جو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اصلیت پر صرف زیدؓ کی گواہی ہے، یہ بھی غلط ہے- حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو رکھا اور مسجد کے دروازہ پر بٹھا دیا- اور حکم دیا کہ کوئی تحریر ان کے پاس ایسی نہ لائی جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی نہ ہو اور جس کے ساتھ دو گواہ نہ ہوں جو یہ کہیں کہ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوائی تھی- نہم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اختلاف نہیں تھا تو حضرت عثمانؓ کے وقت دوبارہ تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی- اس کا جواب یہ ہے کہ قرائتوں کی تحقیق کرائی گئی تھی عبارتوں اور سورتوں کی تحقیق نہیں کروائی گئی- دہم- اس طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر اختلاف نہ تھا تو ایک کے سوا باقی کاپیاں کیوں جلائی گئیں- اس کا بھی وہی جواب ہے کہ مختلف قرائتوں والی کاپیاں جلائی گئی تھیں- پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے وقت بہت قرآن تھے مگر ان کے بعد ایک رہ گیا- اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے مختلف قرائتوں کو اڑا دیا اور پھر جن قوموں کی قراتوں کو مٹایا گیا انہوں نے یہ اعتراض کیا- پس نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا- اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے- محکمات اور متشابہات اب میں متشابہات کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دیتا ہوں- اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں محکمات بھی ہیں اور متشابہات

Page 560

۵۱۷ بھی، پھر قرآن کا کیا اعتبار رہا- اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے متشابہات پر غور ہی نہیں کیا گیا- سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن امالکتب و اخر متشبھت ۱۰؎کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے رسول پر اتارا- اس میں کچھ تو محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ متشابہات ہیں- اس کے متعلق لوگ کہتے ہیں- ہمیں کیا معلوم کہ کونسی آیت محکم ہے اور کونسی متشابہ- اس کے مقابلہ میں سورۃ ہود میں آتا ہے-کتب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ۱۱؎کہ یہ کتاب وہ ہے جس کی ساری آیات محکمات ہیں- اس سے بظاہر اوپر کی بات غلط ہو گئی کہ قرآن کی بعض آیات متشابہ ہیں اور بعض محکم- تیسری جگہ آتا ہے-اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی ]71 [p۱۲؎یعنی خدا ہی ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب نازل فرمائی ہے جو متشابہ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی ساری آیتیں ہی متشابہ ہیں- حالانکہ پہلے ساری آیات کو محکم قرار دیا گیا تھا- اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ محکم اور متشابہ کا مطلب اور تھا جو سمجھا نہیں گیا- اور عجیب بات یہ ہے کہ متشابہ کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جس سے شکوک پیدا ہوں- حالانکہ قرآن متشابہ کی یہ تفسیر کرتا ہے-مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ ۱۳؎کہ اس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہیں اور جو لوگ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں- ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- پھر ان کے جسم کا روآں روآں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں- یعنی ان کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں- اب بتاؤ- کیا کسی شکی بات سے اس طرح ہو سکتا ہے- صاف معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ کا اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کے معنی ہیں جو دوسری سے ملتی ہو- یعنی متشابہ وہ تعلیم ہے جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہو- مثلاً روزہ رکھنا ہے- یہ حکم اپنی ذات میں متشابہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی- جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم ۱۴؎پس مجرد روزہ رکھنے کا حکم متشابہ ہے- اسی طرح قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لکل امة جعلنا منسکا ۱۵؎یعنی ہر قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق

Page 561

۵۱۸ مقرر کیا ہے- پس قربانی کا حکم بھی متشابہ ہے- دراصل قرآن نے اس میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ قرآن نے دوسری کتابوں سے چوری کر کے سب کچھ پیش کر دیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخرمتشبھات کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کچھ تعلیمیں تو جدید ہیں اور کچھ تعلیمیں ایسی ہیں جو لازماً پچھلی تعلیموں سے ملنی چاہئیں- مثلاً پہلے نبیوں نے کہا سچ بولا کرو- کیا قرآن یہ کہتا ہے کہ سچ نہ بولا کرو- جھوٹ بولا کرو؟ غرض فرمایا قرآن میں بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں- مگر آگے فرماتا ہے-فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنہ وابتغاء تاویلہ ۱۶؎بیوقوف لوگ جدید تعلیموں پر نظر نہیں ڈالتے اور پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی تعلیموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نقل کی ہے- وہ محض فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ایسا کرتے ہیں ومایعلم تاویلہ الا اللہ ۱۷؎حالانکہ ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تعلیم دوبارہ نازل کرنی ضروری ہے- انسان کے ہاتھ میں اس نے یہ کام نہیں رکھا- کیونکہ گو وہ تعلیم پہلے نازل ہو چکی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس کی وہ مقدار جو آئندہ کے لئے ضروری ہوتی ہے- اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے- کوئی اور نہیں کر سکتا- اور یا پھر خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بعد وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی کتب کا حقیقی علم رکھنے والے ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک اس تعلیم کو قائم رکھا جانا ضروری تھا اور کسی امر کو کیوں بدلا گیا؟ اس کی اور تشریحات صحیحہ بھی ہو سکتی ہیں- مگر ان میں محکم اور متشابہ کو معین نہیں کیا جا سکتا- ایک ہی آیت ایک وقت میں محکم اور ایک وقت میں متشابہ ہو جاتی ہے- یعنی جو آیت کسی کی سمجھ میں آ گئی وہ محکم ہو گئی اور جو نہ آئی متشابہ ہو گئی مگر پھر اختلاف ہو سکتا ہے- ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک معنی کے لحاظ سے کسی آیت کو محکم قرار دے دے اور دوسرا اسے درست نہ سمجھتے ہوئے اسے متشابہ کہہ دے مگر ان معنوں میں محکم آیات بالکل ظاہر ہو جاتی ہیں- یعنی وہ تعلیمات قرآنیہ جو پہلی کتب سے زائد ہیں وہ سب محکم ہیں اور دوسری متشابہ- سارے قرآن کو محکم اور سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے باقی رہا یہ سوال کہ پھر

Page 562

۵۱۹ ایک جگہ سارے قرآن کو محکم اور دوسری جگہ سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے- تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی اصطلاح میں محکم تعلیم وہی ہے جس میں قرآن کریم نے تجدید کی ہے- اور جس امر میں وہ پہلی کتب سے ملتا ہے وہ متشابہ ہے- لیکن ایک لحاظ سے سارا ہی قرآن محکم ہے- کیونکہ اصولاً کسی تعلیم کو دیکھتے ہوئے اس کے کسی ایک ٹکڑے کو نہیں بلکہ مجموعہ کو دیکھتے ہیں- اور احکام کی مختلف اجناس کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم بالکل جدا ہے- کسی حصہ تعلیم میں بھی اس نے اصلاح کو ترک نہیں کیا- اور وہ پہلی کتب کے بالکل مشابہ نہیں ہے، اس لئے وہ سب محکم ہے- لیکن اسی طرح چونکہ سب اصول شریعت کا پہلی کتب میں پہلے لوگوں کے درجہ کے مطابق نازل ہونا بھی ضروری تھا تا کہ پہلے زمانہ کے لوگ بھی اپنے اپنے دائرہ میں تکمیل حاصل کریں اس لئے ہر قسم کے احکام جو قرآن کریم میں ہیں کسی نہ کسی صورت میں پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لحاظ سے قرآن کریم سب کا سب متشابہ ہے- نماز بھی پہلے مذاہب میں ہے- روزہ بھی ہے- حج بھی ہے، زکٰوۃ بھی ہے اور اس تشابہ کو دیکھ کر بعض لوگ دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا پھر کیا فائدہ ہوا- عیسائیوں میں سے ’’ینابیع الاسلام‘‘ وغیرہ کتابوں کے مصنف اسی گروہ میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دوسری کتب سے مشابہت ثابت کر کے قرآن کو جھوٹا قرار دیا ہے- حالانکہ قرآن کریم نے پہلے سے اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا نہایت واضح جواب دے دیا ہے- حق یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ ایک زبردست حقیقت بتائی ہے کہ ہر ایک آسمانی صحیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کچھ محکم ہو اور کچھ متشابہ- متشابہ اس لئے کہ جو صحیفہ پہلی تعلیمات سے بکلی جدا ہو جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس سے پہلے کوئی شخص خدا کا برگزیدہ ہوا ہی نہیں- اور خدا تعالیٰ نے کسی کو ہدایت دی ہی نہیں، اور یہ باطل ہوگا- اور محکم اس لئے کہ اگر وہ کوئی جدید خوبی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا تو اس کی آمد کی ضرورت کیا ہے، پہلی تعلیم تو موجود ہی تھی- اور کون ہے جو اس اصل کی خوبی کا انکار کر سکے یا اس کی سچائی کو رد کر سکے- مفسرین نے محکم اور متشابہ کی تاویل میں بہت کچھ زور لگایا ہے- مگر اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ دھوکا کھایا ہے-

Page 563

۵۲۰ اب چونکہ سردی بڑھ رہی ہے اور بادل بھی گھرے ہوئے ہیں اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین اس تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع کے ساتھ مل کر دعا کی اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور اس امر پر سجدہ شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کو کمزوری صحت کے باوجود جلسہ میں شامل ہو کر تقریر کرنے اور پھر سب کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی توفیق بخشی- فالحمدللہ علی ذلک) ۱؎ الانعام:۲۶ کے الحاقة:۴۲ THE ENCYCLOPAEDIA BRITANNICA VOL 15th.1911ءP.905 PUBLISHED الاعراف:۱۵۹ التوبة:۲۶ الفرقان:۵ والحجر:۹۴ الفرقان:۳۳ آل عمران:۸ البقرة :۱۸۴ هود:۲ الحج:۳۵ الزمر:۴۴ که آل عمران:۸

Page 564

۵۲۱ لایمسہ الا المطھرون کی تفسیر از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 565

Page 566

۵۲۳ لایمسہ الا المطھرون کی تفسیر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم لایمسہ الالمطھرون کی تفسیر (فرمودہ ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء بمقام مسجد احمدیہ لاہور) میں نے ایک دفعہ ایک رؤیا دیکھا تھا جسے کئی دفعہ سنا چکا ہوں- اس کے اندر اخلاقی اور روحانی سبق دیا گیا ہے- چونکہ اس موقع کے لحاظ سے بھی وہ اس قابل ہے کہ اس کے ذکر سے میں اس وقت تقریر شروع کروں اس لئے اس کا ذکر کرتا ہوں- میں نے رؤیا دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے- جو نہایت خوبصورت، نہایت حسین، نہایت پاکیزہ اور نہایت ذکی ہے- جس کے چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلتی اور جس کی آنکھوں سے ذہانت اور شرافت ٹپکتی ہے- آٹھ نو سال کی عمر ہے اور نہایت خوبصورت لباس پہنے ہوئے ہے- ایک سنگِ مرمر کا چبوترہ ہے جس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں- وہ بچہ دوسری یا تیسری سیڑھی پر کھڑا اوپر ہاتھ اٹھائے اور سر جھکائے دعا مانگ رہا ہے- تب میں نے دیکھا بادلوں میں سے ایک حسین عورت جس کے لباس کے رنگ غیر معمولی شوخی اور خوبصورتی رکھتے ہیں اور نہایت خوشنما رنگوں والے پر رکھتی ہے، نیچے اتری اور بچے پر جھک کر اسے پیار کرنے لگی- اس وقت مجھے بتایا گیا کہ بچہ حضرت مسیح ہے اور عورت حضرت مریم- تب میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہو گیا LOVE CREATES LOVE محبت محبت پیدا کرتی ہے- یہ ایک نہایت ہی زبردست صداقت ہے کہ محبت قلوب کے نہایت باریک خانوں میں داخل ہو جاتی ہے- آواز کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ خاموش چیز ہے، لیکن اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ واضح ہے- وہ شخص جس کی آنکھ محبت کے باریک اثرات دیکھنے کی قابلیت

Page 567

۵۲۴ نہیں رکھتی، وہ تمام عالم میں سکون اور خاموشی دیکھ رہا ہوتا ہے- لیکن محبت کے جذبات اتنا عظیم الشان تلاطم اندر ہی اندر پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ کان جو محبت کے اثرات سننے سے نا آشنا اور وہ آنکھیں جو محبت کی حرکات دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں، وہ بھی حیران رہ جاتی ہیں- میں نے اس کے اثرات کو دیکھا اور بار ہا دیکھا ہے- بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نہایت کمزوری اور نقاہت کی حالت میں دوستوں کی مجلس میں آیا اور اس خیال اور اس وثوق سے آیا کہ اس قلیل عرصہ میں کوئی موقع ایسا پیدا نہیں ہو سکتا کہ دوست مجھ سے باتیں سننے کی جو خواہش رکھتے ہیں، وہ پوری کی جا سکے- لیکن ایک مخفی ہاتھ نے اور اس مخفی ہاتھ نے جو گرے ہوئے کو اٹھاتا اور کمزور کو سہارا دیتا ہے، میری حالت میں تغیر پیدا کر دیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں تقریر کروں اور دوستوں کو روحانی اور جسمانی تربیت کے متعلق باتیں سناؤں- اسی جلسہ سالانہ پر ایک صاحب نے جو یوں تو کئی سال سے ملتے ہیں مگر ابھی تک غیراحمدی ہیں مجھ سے سوال کیا کہ میں نے کئی بار دیکھا ہے آپ بیمار اور کمزور ہوتے ہیں مگر پھر لمبی لمبی تقریریں بھی کرتے ہیں- آپ کو کس قسم کی بیماری ہے جس کی آپ کوئی پرواہ نہیں کرتے اور اتنی مشقت برداشت کر لیتے ہیں- میں نے کہا مجھے بیماری تو اسی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی دوسرے لوگوں کو ہوتی ہے مگر موقع پر خدا تعالیٰ طبیعت میں ایسا تغیر پیدا کر دیتا ہے کہ میں تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور پھر وہ خیالات کے اظہار کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے- میں آج بھی ارادہ تو نہ رکھتا تھا کہ یہاں کوئی تقریر کروں- چند ہی دن ہوئے کہ میں چارپائی سے اٹھا ہوں- ۶ دسمبر سے لے کر آج پانچ دن قبل تک میں صاحب فراش تھا- اسی وجہ سے لاہور تک موٹر میں آنے کی وجہ سے کمر میں درد ہو گیا ہے- آج کچھ حرارت بھی ہے، اس لئے میں امید نہ رکھتا تھا کہ کچھ بیان کر سکوں گا- مگر بعض دوستوں نے جب مجبور کیا کہ میں کرسی پر بیٹھوں اور یہ مجھے گراں گذرا کہ باقی دوست فرش پر بیٹھے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھوں- اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ تقریر کروں- اسی طرح سب دوست دیکھ بھی لیں گے اور باتیں بھی سن لیں گے- میں نے اس سال سالانہ جلسہ کے موقع پر قرآن کی طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ دلائی تھی- اس وقت بعض دوستوں نے کچھ سوالات کئے تھے اور رقعے لکھ کر دے تھے- چونکہ دوران تقریر میں جواب دیتا اصل تقریر سے دوسری طرف متوجہ

Page 568

۵۲۵ ہو جانا ہوتا ہے اور یہ اصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے- ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کر رہے تھے کہ دوسرے شخص نے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا- آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی- اس سے اس نے سمجھا آپ ناراض ہیں- لیکن جب آپ نے کلام ختم کیا تو اسے بلایا اور فرمایا دوران کلام میں بات کرنا درست نہیں- اب میں نے وہ بات ختم کر لی ہے، تم جو بات کرنا چاہتے ہو کرو- میرا اپنا طریق یہ ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی سوال موضوع تقریر سے گہرا تعلق رکھتا ہے تو میں اس کا جواب بیان کر دیتا ہوں- اور بعض اوقات جب سوال موضوع تقریر سے الگ ہوتا ہے، اسے چھوڑ دیتا ہوں- جلسہ کے موقع پر جب میں تقریر کر رہا تھا تو ایک سوال اگرچہ قرآن کے متعلق کیا گیا تھا مگر میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تھا- اس لئے میں نے چھوڑ دیا تھا- لیکن چونکہ ممکن ہے وہ سوال اور لوگوں کے دل میں بھی پیدا ہوتا ہو، اس لئے اب اس کے متعلق بیان کرتا ہوں- سوال یہ تھا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- لا یمسہ الاالمطھرون ۱ ؎ کہ قرآن کو پاکیزہ اور مطہر لوگ ہی چھوئیں گے، دوسرے لوگ اس تک پہنچ نہیں سکیں گے- مگر ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میں گندے سے گندے لوگ قرآن کریم کو ہاتھ لگا لیتے ہیں- عیسائی، ہندو، آریہ حتی کہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے اور شرعی طہارت کا قطعی خیال نہ رکھنے والے بھی قرآن کریم کو چھوتے ہیں- عیسائیوں نے تو قرآن کریم چھپوائے بھی ہیں- پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو اور عیسائی قرآن کریم چھپواتے، اسے فروخت کرتے اور اس کی تفسیریں لکھتے ہیں- بعض نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ کوئی ناپاک انسان قرآنکریم کو چھو نہیں سکتا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کوئی ناپاک انسان چھوئے نہیں- یعنی یہ حکم ہے اور اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ قرآن کریم کو باوضو ہاتھ لگایا جائے- اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہے- لیکن نہ تو اس آیت کا یہ مفہوم ہے اور نہ سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ مفہوم درست ہے- علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف ہے- حضرت علیؓ کہتے ہیں حائضہ عورت بھی قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے اور بہت سے ائمہ نے لکھا ہے حائضہ عورت پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھنا بھی مس ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ

Page 569

۵۲۶ ذہن میں سے گذرتے ہیں- بہرحال حائضہ کو کپڑے میں ہاتھ لپیٹ کر قرآن کریم کو چھونے یا بغیر کپڑے کے چھونے بلکہ پڑھنےکی بھی اجازت دی گئی ہے- پھر لا یمسہ الالمطھرون کا کیا مطلب ہوا- اس کے متعلق لوگوں کو بہت سی مشکلات پیش آئی ہیں- مگر خدا تعالیٰ نے مجھے اس کے نہایت لطیف معنی سمجھائے ہیں- میرے نزدیک اس کے دو معنی ہیں- ایک معنی تو یہ ہیں کہ سچا اور حقیقی مس یہ ہوا کرتا ہے کہ اس چیز سے تعلق ہو جائے- مثلاً محاورہ ہے فلاں کو تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- باوجود اس کے کہ ایک لڑکا مدرسہ میں جاتا ہے پورا وقت کلاس میں بیٹھتا ہے مگر استاد اس کے متعلق کہتا ہے اسے تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- کیا اس پر وہ طالب علم کہہ سکتا ہے کہ استاد کی یہ بات صحیح نہیں- کیونکہ میں روز مدرسہ جاتا ہوں، اس مضمون کی کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی ہے پھر کیونکر مجھے اس مضمون سے مس نہیں- بات یہ ہے، استاد کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اس مضمون سے حقیقی لگاؤ نہیں- ان نتائج کو ہو حاصل نہیں کر سکتا جو اس مضمون کے پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں- لا یمسہ الالمطھرون کے ایک معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم اپنے ساتھ فوائد لایا ہے- وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے ساتھ تعلق پیدا کرے گا، وہ قیامت کو ہی نجات پا سکے گا- اگر قرآن کا صرف یہی دعویٰ ہو تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے- مرنے کے بعد اگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے- قرآن کریم نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ کہتا ہے میں اپنے ماننے والوں اور سچا تعلق پیدا کرنے والوں کو اسی دنیا میں انعامات کا وارث بنا دیتا ہوں- یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ اگلے جہاں میں بھی قرآن کے ماننے والوں کو نجات حاصل ہو گی- چنانچہ قرآن کریم اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے متعلق بتاتا ہے- اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ۲؎ کہ ایسے لوگوں کو دو باتیں حاصل ہو جاتی ہیں - ایک یہ کہ ایسے لوگ ہدایت الٰہی پر سوار ہو جائیں گے- ہدایت پر سوار ہونے کا کیا مطلب ہے- یہ کہ جس طرح گھوڑا اپنے سوار کے ماتحت ہو جاتا ہے، جدھر سوار چاہے اسے پھیر لیتا ہے، اسی طرح ہدایت ایسے لوگوں کے تابع ہو جاتی ہے یعنی ایسے انسان کے ذریعہ ہدایت پھیلتی ہے- یہ قرآن کریم کی خاص خصوصیت ہے- دوسری مذہبی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ ان کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے- مگر قرآن یہ کہتا ہے- اس کی تعلیم پر چلنے

Page 570

۵۲۷ والے کو یہ مقدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے- وہ جدھر رخ کرتا ہے، دنیا اس کے قدموں میں گرتی ہے- دوسری بات قرآن پر عمل کرنے والوں کے متعلق یہ بیان کی کہ اولئک ھم المفلحون- جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوں گے، اسے ضرور پا لیں گے- مفلحون کے یہ معنی نہیں کہ بڑے بن جائیں گے- اس کا مطلب یہ قرار دے کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں قرآن کو نہ ماننے والے دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں، آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں، عزت و شوکت رکھتے ہیں- ان کے مقابلہ میں قرآن کو ماننے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے، پھر مفلح کس طرح ہوئے- مگر یاد رکھنا چاہے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ میرے ماننے والوں کو حکومت مل جائے گی، سلطنت حاصل ہو جائے گی- ایک وقت اور ایک زمانہ کے لئے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بھی ملے گی- لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ دنیا کی حکومت ہی قرآن کی تعلیم پر چلنے والوں کا مقصد ہے- بلکہ یہ کہا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں روحانیت قائم کریں- اگر اس میں کوئی کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا، چاہے دنیا میں سب سے غریب ہی ہو- پس مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے- بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو، اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے- دیکھو حضرت امام حسینؓ مارے گئے اور بادشاہ نہ بن سکے- لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے، ہرگز نہیں- وہ کامیاب ہو گئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے، اس میں کامیاب ہو گئے- ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں، انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا- اس میں ان کو کامیابی حاصل ہو گئی- ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خلفاء راشدین نہیں کہا گیا- کیونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتا دیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے- یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آ جائے و ہ خلیفہ بن جائے- اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچا لیا- اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کر کے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں- اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی- پس اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والا مفلح ہوتا ہے، خواہ ایک شہادت چھوڑ

Page 571

۵۲۸ سوشہادتیں اسے حاصل ہوں- تو فرمایا اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ایسے انسان کو فلاح نصیب ہو جاتی ہے اور ہدایت اس کے ماتحت آ جاتی ہے- اس کے کلام میں تاثیر، برکت اور نور ہوتا ہے- یہ قرآن کا دعویٰ ہے- اب سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے، ہدایت اس کے تابع ہو جاتی ہے اور وہ مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے- مگر ہم تو بہتیرے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں مگر ان کے متعلق یہ نتیجہ نہیں نکلتا- اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ لا یمسہ الالمطھرون- مطہر لوگ ہی اس کے برکات اور فیوض سے حصہ پاتے ہیں- یہ نہیں کہ جو مونہہ سے قرآن کے الفاظ نکالے، وہ فائدہ اٹھا لے- یہ مس مطہر لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے- پس یہاں مس سے مراد ظاہری طور پر چھونا نہیں، ایک نجاست سے بھرا ہوا انسان بھی قرآن کو چھو لیتا ہے- اگر وہ مسلمان ہو گا تو گناہ گار ہو گا اور اگر کافر ہے تو وہ تو قرآن کو مانتا ہی نہیں- پس لا یمسہ الالمطھرون کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی برکات، اس کے فضائل اور اس کی رحمتوں سے حصہ نہیں پاتے مگر مطہر لوگ - جو لوگ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں وہی اس کی برکات اور رحمتوں سے حصہ پاتے ہیں- ایک معنی تو اس کے یہ ہیں- ایک اور معنی ہیں جو علمی طور پر نہایت عظیم الشان ہیں- اور وہ یہ ہیں دنیا میں کئی ایک کتابیں پائی جاتی ہیں- جو اس بات کی مدعی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- ایسی کتابیں ہندوؤں، عیسائیوں، زرتشتیوں وغیرہ کی ہیں- اسی طرح قرآن بھی مدعی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے- اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن کو ان کتابوں پر کیا فضیلت ہے کہ ان کو چھوڑ کر اسے مانا جائے- وہ بھی اس بات کی دعویدار ہیں کہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- اور قرآن کا بھی یہی دعویٰ ہے- اور ہمارے لئے تو اس لحاظ سے بھی مشکل ہے کہ قرآن نے تسلیم کیا ہے کہ خدا کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے کتابیں آتی رہی ہیں- اس طرح ان کتابوں کا پلہ بھاری ہو گیا کہ قرآن نے بھی ان کے آنے کی تصدیق کر دی- مگر ان کتابوں کے ماننے والے قرآن کو نہیں مانتے- اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کونسی کتاب ماننی چاہئے جبکہ بظاہر قرآن کی اپنی تصدیق سے ان کتابوں کا درجہ بڑھ جاتا ہے- قرآن نے اس بات کے لئے کہ یہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جسے ماننا چاہئے جو

Page 572

۵۲۹ دلائل دیئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے جو اس آیت میں بیان ہے- یہ سیدھی بات ہے کہ ہر انسان اپنا خزانہ اور اپنی قیمتی چیزیں اپنے پیاروں کے لئے محفوظ رکھتا ہے- مثلاً انسان اپنی جائداد اپنے وارثوں کے لئے قرار دیتا ہے- کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی جائداد پر قابض ہو جائیں اور اس کے وارث محروم رہ جائیں- اسی طرح سلطنتیں چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اموال ان کے ملک میں ہوں، اسی بات کے لئے لڑتی ہیں- ہندوستان میں اسی لئے شورش پیدا ہوتی رہتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں دوسرے ملک کے لوگ ہمارے ملک سے اموال لے جا رہے ہیں- ان اموال سے ہمارے ملک کے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے- ورنہ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر لنکا شائر بند ہو جائے تو کپڑے کے کارخانے ہندوستان کے زمیندار نہیں چلا لیں گے، بڑے بڑے سیٹھ ساہوکار ہی ایسے کارخانوں کے مالک ہوں گے اور ممکن ہے اب جو کپڑا سستا ہے، اس وقت لوگوں کو مہنگا ملے مگر شور مچانے کے لئے وہ بھی تیار ہیں اور کہتے ہیں ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہو- اگر اہل ہند کو حکومت مل جائے تو زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار لوگ پارلیمنٹ کے ممبر بن جائیں گے اور باقی سارے لوگ ان کے جوئے کے نیچے ہوں گے- مگر وہ بھی حکومت کے ایسے ہی شائق ہیں جیسے وہ لوگ جو اس بات کے امیدوار ہیں کہ وہ پریذیڈنٹ بن جائیں گے یا کوئی اور بڑا عہدہ حاصل کر لیں گے- اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ اپنے ملک کا خزانہ اپنے لوگوں کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں- مذہبی کتب بھی بطور خزانہ ہوتی ہیں- جس طرح جسمانی خزانے ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی خزانے بھی ہوتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم کو کہیں شفاء قرار دیا گیا ہے، کہیں پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے جس سے کھیتیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں- ادھر ہم دیکھتے ہیں یہ قانونقدرت بلکہ قانون فطرت ہے کہ اپنا خزانہ اپنوں کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے- اب اگر قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ روحانی خزانہ ہے تو ضرور ہے کہ یہ خزانہ انہیں کو ملے جو اس سے حقیقی تعلق رکھنے والے ہوں اور یہ انہیں کے لئے کھلے جن کو اس کے کھولنے کی جستجو اور شوق ہو- اگر اس کے خلاف ہو اور یہ خزانہ اس کے مخالفوں پر کھلے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں ہو سکتی- انسانی کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے،گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے مگر اس قانون کو گورنمنٹ کی نسبت دوسرے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں-کئی بار ‘’پاؤنیر’‘ اور ‘’سول’‘ نے لکھا ہے- مسٹر جناح قوانیں سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے، اس لئے گورنمنٹ کے وزراء کو

Page 573

۵۳۰ دبا لیتا ہے- چونکہ گورنمنٹ کا قانون انسانی کلام ہوتا ہے اس لئے اس کا مخالف موافقین کی نسبت اس کی زیادہ باریکیاں سمجھ سکتا ہے- اگر خدا تعالیٰ کا کلام جو برکت اور انعام کے طور پر نازل ہوتا ہے، اسے خدا تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے زیادہ عمدگی سے سمجھ سکیں تو وہ برکت کہاں رہے گی- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آسمانی کتاب کے پرکھنے کا گر بتایا ہے- آسمانی کتاب بطور رحمت، برکت اور نعمت کے نازل ہوتی ہے- اگر غیر لوگ جنہوں نے اس کے احکام کا جوا اپنی گردنوں پر نہیں رکھا، اس کے ماننے والوں سے زیادہ اس کی باریکیاں سمجھ لیں تو معلوم ہوا اس خزانے کو دوسرے لے گئے- اس لئے فرمایا اس خزانہ پر ایسے محافظ ہیں کہ یہ ماننے والوں کے لئے ہی کھلتا ہے، دوسروں کے لئے نہیں- مگر انجیل کو دیکھ لو اس کے مفسر وہی لوگ ہیں جنہیں انجیل کے مطابق روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل نہیں ہیں، یہی حال ویدوں کا ہے- مگر قرآن کریم کے علوم میں وہی لوگ آگے بڑھے جو تقویٰ اور طہارت میں بھی اعلیٰ تھے- علماء نے قرآن کریم کی جو تفسیریں لکھی ہیں، آج مسلمان انہیں چھپائے پھرتے ہیں تاکہ غیر مذاہب کے لوگ ان کی بناء پر اعتراض نہ کریں- لیکن صوفیاء نے وہ وہ باتیں لکھی ہیں جو اس وقت دنیا کو معلوم نہ تھیں اور اب معلوم ہو رہی ہیں- پہلے کہا جاتا تھا کہ موجودہ دنیا کی عمر پانچ چھ ہزار سال ہے- مگر ابن عربی نے کہا مجھے کشف میں بتایا گیا ہے کہ کئی لاکھ سال سے یہ دنیا ہے اور کئی لاکھ سال سے یہ بنتی چلی آ رہی ہے- اب یورپین لوگ ایولیوشن (EVOLUTION) تھیوری کے ماتحت یہی مان رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تھیوری ایجاد کی حالانکہ اس کے اصل موجد ابن عربی ہیں- اسی طرح ظاہری علماء یہ کہتے رہے کہ غیر تو غیر جو مسلمان بھی دوزخ میں جائے گا، وہ پھر نہیں نکلے گا مگر ابن عربی کہتے ہیں- خدا کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ شیطان بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں نہیں رہے گا اور قرآن کریم بھی یہی کہتا ہے- پھر عام مفسر تو کہتے رہے کہ سورۃ نجم کی آیات میں شیطان نے یہ فقرات داخل کر دئے تھے- تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی-۳؎ کہ کچھ دیویاں ایسی ہیں جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے- یہ شرک کا کلام شیطان نے(نعوذ باللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر قرآن کریم پڑھتے ہوئے جاری کر دیا-

Page 574

۵۳۱ پھر کہتے ہیں- سورۃ حج کی ایک آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسے رد کر دیا گیا ہے- لیکن ان کے مقابلہ میں ابن عربی نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ شیطان انبیاء کے رستہ میں روڑے اٹکاتا ہے اور خدا تعالیٰ ان کو دور کر دیتا اور نبی کو کامیاب کر دیتا ہے- غرض ایک ایک بات صوفیا کی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے بالکل صحیح اور درست کہی- اسی سلسلہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج جو ترقیاں فلسفہ، اخلاق، تاریخ وغیرہ کی بیان کی جاتی ہیں، یہ سب کچھ پہلے قرآن کریم میں بیان ہو چکی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلسفہ اخلاق کی ایسی تھیوریاں بیان کی ہیں کہ پہلے لوگ ان کے خلاف تھے- لیکن اب امریکہ والوں نے وہ باتیں لکھی ہیں تو ان کی بڑی تعریف کی جا رہی ہے، حالانکہ ان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ باتیں نہایت وضاحت سے لکھ دی ہیں- بادلوں کے متعلق پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ سمندر سے پانی پی کر آتے اور برستے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے پانی سے بخارات ہوائیں اٹھاتی اور پھر بادل بوجھل ہوتے اور برستے ہیں- بدی اور نیکی کی صحیح تشریح سے پہلے لوگ واقف نہ تھے- اب قرآنکریم سے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے مگر یہ باتیں کسی ایسے انسان نے بیان نہیں کیں جو دنیاوی علوم کے لحاظ سے بڑا عالم ہو- بلکہ اس شخص نے بیان کی ہیں جس نے کسی مدرسے میں تعلیم نہیں پائی اور جس کے متعلق مخالف یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ وہ صحیح اردو بھی نہیں لکھ سکتا- بات یہ ہے قرآن کریم کے علوم ظاہری علم سے وابستہ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ سے وابستہ ہیں- آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے انہیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھ کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں- بعض لوگ کہتے ہیں مولوی نورالدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں- خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے- آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا- کئی دفعہ پینک ۴؎ میں اس کے حقے کی چلم ٹوٹ جاتی- ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا- غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے- کئی لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ آپ کو کئی سال پڑھانے کی قابلیت رکھتے ہیں- اب اس سوال کو جانے دو کہ آپ نے دنیا میں کیا تغیر پیدا کیا- مگر اس میں شبہ نہیں کہ سارا اسلامی

Page 575

۵۳۲ عالم اس بات کو تسلیم کرتا ہے- سوائے ان لوگوں کے جو بلاء تعصب میں حد سے زیادہ مبتلا ہو چکے ہیں کہ اسلام کے دشمنوں کو شکست دینے والے یہی لوگ ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں- میرے ایک سسرال سے غیر احمدی رشتہ دار ہیں- جو معزز عہدیدار ہیں- انہوں نے مجھے خط لکھا کہ قرآن کریم کے مطالب کو بگاڑنے والا تم سے بڑھ کر کوئی نہیں مگر میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں ر ہ سکتا کہ اسلام کے دشمنوں کا سر کچلنے کے لئے آپ کی باتیں بہت کارگر ہیں- میں نے کہا عجیب بات ہے- قرآن بگڑ کر دشمنان اسلام کا سر کچلتا ہے، یوں نہیں کچل سکتا- انہوں نے یہ بھی لکھا مجھے آپ اس خط کا جواب نہ لکھیں- شائد انہوں نے یہ اس لئے لکھا کہ انہوں نے سخت الفاظ استعمال کئے تھے- انہوں نے سمجھا ہو گا میں بھی انہیں سخت جواب دوں گا، حالانکہ میں ایسا نہ کرتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے جو علوم ظاہر کئے ہیں، وہ سمندر ہیں اور دشمن بھی انہیں تسلیم کرتے ہیں- جب ترجمہ القرآن کا پہلا پارہ انگریزی میں قادیان سے شائع ہوا تو فورمین کرسچین کالج لاہور کے پرنسپل اور وائی-ایم-سی اے کے سیکرٹری مجھ سے ملنے کے لئے قادیان آئے، انہوں نے مختلف امور کے متعلق گفتگو کی- انہیں وہ پارہ دیا گیا- اس وقت تو انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا لیکن بعد میں سیلون میں تقریر کی جس میں بیان کیا- ‘’اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ازہر وغیرہ میں نہیں ہو گا جن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں- بلکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ہو گا جہاں سے میں ابھی ہو کر آیا ہوں اور جہاں سے قرآن کا ترجمہ شائع ہونا شروع ہوا اور وہ قادیان ہے- اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حالت ہے-’‘ ‘’اسی طرح امریکہ کا ایک رسالہ ہے جس نے لکھا جب یہ ترجمہ مکمل ہو گیا جو قادیان سے شائع ہونا شروع ہوا ہے تو اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہو گا یا عیسائیت’‘- یہ تو مخالفین اسلام کی آراء ہیں- ادھر مسلمان بھی جو آپ کو جاہل اور بے علم کہتے تھے، ان میں سے اکثر یا تو یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ قرآن کریم کی وہ خدمت آپ نے کی ہے جو اور کسی نے اس زمانہ میں نہیں کی- یا یہ کہ قرآن کو تو بگاڑ کرپیش کرتے ہیں مگر غیر مذاہب کے

Page 576

۵۳۳ مقابلہ میں اسلام کی فتح انہی کے ذریعہ ہوتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے لایمسہ الاالمطھرون خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھ جائے جب تک تقویٰ و طہارت حاصل نہ کرے گا علوم قرآنیہ میں بچہ ہی ہو گا- وہی ان علوم کا ماہر ہو گا خواہ وہ دینوی علوم نہ رکھتا ہو جو روحانی پاکیزگی رکھتا ہو گا- اس پر ایسے علوم کھولے جائیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی- پس قرآن کریم سچائی کا یہ معیار بتایا ہے کہ جو خدائی کتاب ہو، اس کے علوم روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں- ہم اس صداقت کو آج بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں- میں ہی ہوں میں نے ہائی سکول میں پڑھا مگر کسی جماعت میں پاس نہ ہوا- حساب سے مجھے مس ہی نہ تھا- عربی میں قرآن کریم کا خالی ترجمہ حضرت خلیفہ اول نے پڑھایا اور باوجود اس کے کہ مجھے بہت کم عربی آتی تھی، آدھا پونا پارہ روزانہ پڑھا دیتے اور فرماتے ایک دفعہ قرآن میں سے گذر جاؤ- اسی طرح بخاری میں سے انہوں نے گذار دیا- اگر میں کوئی سوال کرتا تو فرماتے میاں یہ باتیں خود خدا سکھائے گا- اسی طرح میرے سوال کو ٹال دیتے- کبھی خود کچھ بتانا چاہتے تو بتا دیتے، میرے سوال پر کچھ نہ بتاتے- اس طرح پڑھا کر فرمانے لگے مجھے جو کچھ آتا تھا، میں نے تمہیں سکھا دیا ہے اس وقت تو میں نہ سمجھ سکا کہ کس طرح وہ سب کچھ سکھا دیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس فقرہ میں انہوں نے سب کچھ سکھایا کہ خدا خود سکھاتا ہے- اگر دل پاکیزہ ہو، خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو خدا تعالیٰ قرآن کریم کے علوم خود سکھاتا ہے- چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ جب حج کے لئے جانے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میں نے کبھی پہلے یہ بات ظاہر نہ کی تھی تاکہ تمہاری ترقی میں روک نہ ہو- اب ظاہر کرتا ہوں کہ یوں تو میں نے تمہیں قرآن پڑھایا لیکن کئی معارف قرآنیہ تم سے سنے اور یا رکھے- اور اس طرح تم سے قرآن پڑھا- اب چونکہ تم جار ہے ہو- اس لئے سنا دیا ہے کہ شاید پھر ملاقات ہو یا نہ ہو- تو میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اٹھے جو یہ کہے کہ میں قرآن کے معارف اور حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں اس سے مقابلہ کے لئے تیار ہوں- وہ خود تسلیم کرے یا نہ کرے، دنیا اور حقائق پسند دنیا تسلیم کرے گی کہ جو حقائق اور معارف میں نے بیان کئے ہوں گے، وہ بہت بڑھ کر ہوں گے- تو قرآن کا علم محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے- اور یہ قرآن کریم کی بہت بڑی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ جس کتاب کا علم خدا کے فضل سے حاصل ہو، وہی خدا کی

Page 577

۵۳۴ کتاب ہو سکتی ہے- جسے خدا تعالیٰ اپنے کلام کے حقائق سے واقف ہونے کا مستحق سمجھتا ہے، اس پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے- لیکن جو خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، اسے یہ کتاب ایسی ہی بدنما لگتی ہے جیسی پنڈت دیانند صاحب کو لگی کہ انہیں اس میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آئی- وہ لوگ جو ظاہری علوم کے بڑے بڑے دعوے رکھتے تھے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابلہ میں قرآن کریم کے نکات بیان کرنے میں ایسے ہی ہیچ تھے جیسے کمزور دماغ کا انسان ایک اعلیٰ دماغ کے انسان کے مقابلہ میں ہوتا ہے- وہ سوائے اس کے یہ کہتے رہے غلط تاویلیں کرتے ہو، قرآن کو بگاڑتے ہو اور کچھ نہ کر سکے- آج انہی کی زریتیں اور ان کے ساتھی تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے جو حقائق بیان کئے وہ کسی نے بیان نہیں کئے- عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل سر سید نے قرآن کریم کی تفسیر لکھنی شروع کی- اور قرآنی مطالب کو اس طرح پیش کیا کہ وہ نئی تعلیم کے مطابق معلوم ہوں- اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود نے کئی آیات کی ایسی تشریح بیان کی کہ اس وقت یورپ کی تحقیقات اس کے خلاف تھی- مگر اب حضرت مسیح موعود کی بیان کردہ کئی باتوں کی تصدیق اہل یورپ بھی کرنے لگے ہیں اور کئی ابھی باقی ہیں- کیا عجیب بات نہیں کہ ان کی باتیں تو مٹی جا رہی ہیں جنہوں نے زمانہ کے حالات کے مطابق کہی تھیں مگر حضرت مسیح موعود کی فرمودہ باتیں اب مخالف بھی مانتے جا رہے ہیں- غرض لایمسہ الاالمطھرون سچے کلام الٰہی کے پرکھنے کا معیار ہے کہ جتنا کوئی باطنی علوم میں ترقی کرے گا، اتنا ہی زیادہ اس کلام کے سمجھنے میں ترقی کرے گا- جس کتاب کے متعلق یہ بات پائی جائے گی وہی خدا کی طرف سے ہو گی- یہ دوسرے معنی ہیں اس آیت کے- یہ معنی نہیں کہ کوئی ناپاک ہاتھ قرآن کو نہیں لگا سکتا- یہ مس تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوا- حضرت عمر ؓ کے متعلق آتا ہے- مسلمان ہونے سے قبل انہوں نے بہن سے قرآن مانگا، انہوں نے باوجود ان کے مشرک ہونے کے ان کے ہاتھ میں دے دیا- بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت پر واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرے اور تقویٰ و طہارت اختیار کرے- آگے اس کے کئی مدارج ہیں- کئی لوگ ہوتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کو سامنے رکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے

Page 578

۵۳۵ ہیں ہم اس درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے- جیسے تندرستی اور صحت کے مدارج ہوتے ہیں، اسی طرح روحانیت کے بھی مدارج ہوتے ہیں- اور ہر درجہ کے ساتھ معارف تعلق رکھتے ہیں- جتنا جتنا کوئی درجہ پاتا جاتا ہے، اتنے ہی زیادہ اعلیٰ معارف سمجھنے کی اس میں قابلیت پیدا ہوتی جاتی ہے- اگر باوجود کسی کی کوشش اور سعی کے اس میں کمزوری رہ جائے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک سپاہی اپنی طرف سے پوری ہمت اور بہادری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے- اگر وہ جرنیل کی طرح کام نہیں کر سکتا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے ملک کی خدمت نہیں کی- اس نے ضرور کی ہے مگر اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق- پس اگر کسی میں تقویٰوطہارت حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ رکھنے کے اور کوشش کرنے کے باوجود کوئی کمزوری رہ جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اس کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اسے بھی اس کا بدلہ دیتا ہے تاکہ اس کا حوصلہ بڑھے اور وہ اور زیادہ کوشش کرے- پس کسی کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے، کوشش کرنی چاہئے کہ طہارت اور کوشش کرے- خدا تعالیٰ نے اولئک علی ھدی من ربھم میں یہی بتایا ہے- کہ جب انسان میں اخلاص پیدا ہوتا ہے تو اسے سواری ملتی ہے جو اسے آگے لے جاتی ہے- اسی طرح اسے اور ترقی ملتی ہے- پھر وہ سواری اور آگے لے جاتی ہے- (الفضل ۵ فروری ۱۹۲۹ء) له الواقعة:۸۰ البقرة :۶ تفسیر روح المعانی جلد ۹ ص ۲۰۹ مطبوعہ استنبول ۱۹۲۶ء پینک: افیون یا پوست کے نشہ کی اونگھ

Page 579

Page 580

۵۳۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 581

Page 582

۵۳۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ-ھوالناصر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے بظاہر یہ ایک عجیب بات معلوم دیتی ہے کہ وہ شخص جسے انبیاء کے سردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اسے ایک انسان کی حیثیت میں بھی پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو- لیکن حق یہ ہے کہ باوجود نبوت کے دعویٰ کے کوئی شخص اس بات سے بالا نہیں ہو سکتا کہ اس کی انسانیت پر بحث کی جائے کیونکہ نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے اور انسانیت ہی کے کمالات کے ظہور کے لئے اس کا وجود پیدا کیا گیا ہے- میرے نزدیک یوں سمجھنا چاہئے کہ نبوت ایک بارش ہے جو فطرت انسانی کی مخفی طاقتوں کو ابھار کر باہر نکال دیتی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جس زمین پر وہ بارش خدا تعالیٰ کے انتخاب کے ماتحت نازل ہوگی وہ زمین اس بارش کے اثر کو قبول کرنے کی سب سے زیادہ قابلیت رکھتی ہوگی اور انسانی کمالات کو سب سے زیادہ ظاہر کرے گی- کامل نبی کامل انسان ہوتا ہے اوپر کی بات کو پوری طرح واضح کرنے کے لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت گندی نہیں ہے جس کی اصلاح نبوت کرتی ہے بلکہ اسلام کے نزدیک فطرت انسانی ان تمام قابلیتوں کو بیج کے طور پر اپنے اندر رکھتی ہے جن کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے ہاں وہ اسی طرح بیرونی مدد کی محتاج ہے جس طرح آنکھ نور کی اور زمین بارش کی- پس نبوت کا یہ کام نہیں کہ وہ فطرتانسانی کے بعض خواص کو کاٹے بلکہ اس کا یہ کام ہے کہ وہ تمام خواص انسانی کو صحیح طور

Page 583

۵۴۰ پر ابھارے- پس کامل نبی کا کامل انسان ہونا ضروری ہے جب تک انسانیت کے تمام لطیف خواص کسی انسان میں صحیح طور پر نشوونما نہ پائیں وہ نبی نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ خواص اپنے اپنے دائرہ میں کمال کو نہ پہنچ جائیں وہ شخص نبی نہیں کہلا سکتا- خاص دائرہ میں خاص قابلیت یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ کسی خاص بات میں غیر معمولی قابلیت رکھتے ہیں اور دنیا ان کی لیاقت کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے لیکن آخر کار وہ پاگل اور مجنون ہو کر مرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص دائرہ میں قابلیت کا ظہور انسانی کمال پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف بعض خواص انسانی کے ایک محدود دائرہ میں حد سے زیادہ ترقی کر جانے پر دلالت کرتا ہے- یہ امر بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جس کے اندر عشق کا مادہ ایسا غالب آ گیا ہو کہ دوسرے تمام جذبات پر وہ غالب ہو گیا ہو، بجائے کسی انسان پر عاشق ہونے کے خدا تعالیٰ ہی کی محبت کی طرف متوجہ ہو جائے اور دنیا و مافیھا کو بھلا دے- مگر ایسا شخص کبھی بھی ان کمالات روحانیہ کو حاصل نہ کر سکے گا جو دوسرے لوگ حاصل کر سکتے ہیں- کیونکہ اس کا جذبہ محبت بگڑی ہوئی نفسی حالت کا نتیجہ ہے تندرست اور صحیح نشوونما کا نتیجہ نہیں ہے- اس شخص کی حالت بالکل اس بیج کی سی ہوگی جو نہایت طاقتور زمین میں بویا جاتا ہے اور اس قدر جلد نشوونما پا کر بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کی بالیں دانوں سے محروم رہ جاتی ہیں وہ بھوسہ تو بہت کچھ دے دیتا ہے مگر دانہ اس سے بہت کم نکلتا ہے- اس کے مقابلہ میں جو شخص تمام انسانیکمالات کو ظاہر کرنے والا ہوگا اس کی نشوونما تمام خواص فطرت پر مشتمل ہوگی اور ان کے اندر ایک خاص تناسب ہوگا- ہر ایک خاصہ فطرت اس نسبت سے ترقی کرے گا جس نسبت سے کہ اسے ترقی کرنی چاہئے- مثلاً سزا دینے کی طاقت بھی اس کی نشوونما پائے گی اور رحم کی بھی اور عفو کی بھی اور برداشت کی بھی اور موازنہ کی بھی کہ یہ پانچوں جذبات جرائم کے متعلق فیصلہ کرتے وقت ضروری ہوتے ہیں- ان میں سے ایک جذبہ بھی اپنی حد مناسب سے کم ہو جائے تو انسانیت ناقص ہو جائے گی اور کمالات انسانیہ کا ظہور ناممکن رہ جائے گا- چونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور علم النفس کے باریک مطالعہ کے بغیر اس کا سمجھ میں آنا بغیر تفصیل کے مشکل ہے اور وہ چند کالم جن میں میں نے اس مضمون کو ختم کرنا ہے اس کے لئے کافی نہیں- اس لئے میں ایک دو مثالوں کے ذریعہ سے اس امر پر روشنی ڈال کر اصل

Page 584

۵۴۱ مضمون کی طرف آتا ہوں- وفاداری کا جذبہ مثال کے طور پر میں وفاداری کے جذبہ کو لیتا ہوں ہر شخص اسے پسند کرتا ہے لیکن یہی جذبہ اگر بدصحبت کے متعلق استعمال ہو تو کیسا سخت مضر ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے- دو شخص ایک جرم میں شریک ہوتے ہیں ایک کی ضمیر ایک وقت میں اسے ملامت کرنے لگتی ہے لیکن اس کی وفاداری کی روح جو موازنہ نیک و بد کی طاقت سے بڑھی ہوئی تھی، اس کی اندرونی آواز کو خاموش کرا دیتی ہے اور اس کے کان میں کہہ دیتی ہے کہ بے وفا نہیں ہونا چاہئے جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب مجھے اپنے دوست کا ساتھ دینا چاہئے- اولاد کی محبت کا جذبہ یا مثلاً اولاد کی محبت ایک اچھا جذبہ ہے اور بقائے عالم کے زبردست اسباب میں سے ہے لیکن اگر کسی شخص کے اندر یہی جذبہ ترقی کر جائے اور باقی جذبات کو دبا دے تو یہی ایک گناہ بن جاتا ہے اور اولاد کو بھی گناہ کا عادی بنا دیتا ہے- غرض کسی ایک یا بعض خواص فطرت انسانی کا کمال حقیقی کمال نہیں ہوتا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ بعض حالتوں میں وہ ایک خطرناک نقص کی صورت بن جائے- اور نہ ایسا کمال بنی نوعانسان کے لئے نمونہ بن سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی بن سکتا ہے جو طبعی ترقی کا مظہر ہو- غیر طبعی ترقی دوسرے کے لئے نمونہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کا حاصل کرنا دوسروں کے لئے ناممکن ہوتا ہے اور نمونہ کے لئے شرط ہے کہ اس کی نقل کرنا ہماری طاقت میں ہو- ‏رسول کریم کا رتبہ بحیثیت انسان اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اس امر کے متعلق اپنی تحقیق کو پیش کرتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت انسان کے کیا رتبہ رکھتے تھے- انسانی تقاضے نبوت کے منافی نہیں جو کچھ میں اوپر لکھ آیا ہوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ(۱) نبوت کمالات انسانیہ کے صحیح ظہور کا نمونہ پیش کرنے کیلئے آتی ہے- (۲) پس کامل نبی کے لئے کامل انسان ہونا ضروری ہے- (۳) اگر کوئی شخص بعض خواص انسانی کو ان کی انتہائی صورت میں دکھاتا ہے تو یہ اس کے کامل انسان ہونے کی علامت نہیں بلکہ بسا اوقات یہ امر اس کے نظام عصبی کی ظاہر یا مخفی خرابی کی علامت ہو سکتا ہے ان امور کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ انسانی تقاضوں کے پورا کرنے کو نبوت کے منافی سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں- حق یہ ہے کہ

Page 585

۵۴۲ نبوت ایک ذہنی کیفیت ہے اور انسانی تقاضوں کا صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنا اس کیفیت کا عملی ظہور ہے جس کے بغیر نمونہ کامل نہیں ہو سکتا- نبی ہماری فطرت کو بدلنے کیلئے نہیں آتا بلکہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنے کیلئے ہمیں عملی سبق دینے کے لئے آتا ہے- پس فطرت کے تقاضوں کا کلی ترک اگر بعض دوسرے شخصوں کے لئے جائز بھی ہو سکتا ہے تو نبی کے لئے نہیں کیونکہ وہ نمونہ ہے امت کے لئے اور جس قدر تقاضوں کو وہ ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اپنے نمونہ کو نامکمل کر دیتا ہے- انسانوں کے لئے کامل نمونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس طرح کامل نبی تھے کامل انسان بھی تھے اور آپ کے اہم کاموں نے آپ کو انسانی جذبات سے غافل نہیں کر دیا تھا- بلکہ ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ انسانی تقاضوں کو بھی ایسے رنگ میں پورا کر رہے تھے کہ تمام انسانوں کے لئے ایک کامل نمونہ قائم ہو رہا تھا- اچھا کھانا فطرت انسانی کے کمالات سے ناواقف لوگوں میں یہ عام خیال ہے کہ اچھا کھانا ایک حیوانی فعل ہے اور اعلیٰ روحانی مقامات کے منافی ہے لیکن وہ فطرت انسانی جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کے بالکل برخلاف ہے- کھانوں کا انسانی اخلاق سے ایک گہرا تعلق ہے اور مختلف کھانے اپنے نباتی احساسات کو انسانی جسم میں جا کر اخلاقی میلانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کھانے میں میانہ روی کی تو بے شک تعلیم دیتے تھے لیکن عمدہ کھانے سے آپ نے کبھی نہیں روکا- بلکہ جب کبھی کسی نے عمدہ کھانا دعوت میں پیش کیا آپ نے اسے استعمال فرمایا- ہاں یہ شرط لگا دی کہ کھانے کے متعلق ان امور کو مدنظر رکھو(۱) ایسی طرح کھانے کی چیزوں کو ضائع نہ کرو کہ غرباء کو تکلیف ہو (۲) جس وقت ملک میں قحط ہو اور لوگ تکلیف میں ہوں غذا سادہ کر دو تا کہ تمہارے بہت سے کھانوں میں غرباء کا ایک کھانا بھی ضائع نہ ہو جائے- (۳) سوائے حقیقی ضرورت کے کھانوں کا ذخیرہ جمع نہ کرو تا غرباء اپنے حصہ سے محروم نہ رہ جائیں- خوش طبعی انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خوش طبعی بھی ہے ہنسی انسان کے طبعی جذبات میں سے ہے- ایک اچھا انسان جو اپنے ہم جنسوں کیلئے وبال جان نہ بننا چاہتا ہو- اس کے لئے خوش مذاق ہونا بھی شرط ہے- لیکن دنیا کو یہ ایک وہم ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ

Page 586

۵۴۳ ہو اس کے لئے نہایت سنجیدہ مزاج اور خاموش رہنے والا ہونا ضروری ہے مسکراہٹ اس کے درجہ کو گرانی ہے اور ہنسی اس کے تقویٰ کو برباد کر دیتی ہے لیکن انسانیت پر غور کرنے والا انسان جانتا ہے کہ ہنسی اور خوش طبعی کو انسانی تمدن سے خارج کر کے وہ ایک ایسا ڈھانچہ رہ جاتا ہے جو تمام خوشنمائیوں سے معرا ہو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اپنی تمام سنجیدگیوں کے اور عارضی خوشیوں سے بالا ہونے کے اور باوجود اپنے اس عظیم الشان دعویٰ کے جو ان کے درجہ کو معمولی انسان سے غیر محدود طور پر اونچا کر دیتا تھا اس طبعی جذبہ کو دبانے کی کبھی کوشش نہ کرتے تھے- آپ کے درجہ کی بلندی اور رفعت میں سے پھوٹ پھوٹ کر خوش طبعی کا انسانیجذبہ ایسے خوشنما طور پر نکل رہا تھا کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی وہ جو ایک تند اور سخت مزاج حاکم کو دیکھنے کی امید رکھتا تھا، ایک خوش مذاق اور مسکراتے ہوئے چہرہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا- مجلس اصحاب میں بیٹھے جہاں اعلیٰ تعلیمات کا درس دیا جاتا تھا لوگوں کی کوفت کو دور کرنے اور ملال کو کم کرنے کے لئے لطائف بھی بیان ہوتے چلے جاتے تھے کبھی اپنے اصحاب سے پاکیزہ ہنسی بھی ہوتی جاتی تھی- بچے آ جاتے تو ان کو بہلانے کے لئے کوئی چڑیا چڑے کا قصہ بھی بیان ہو جاتا تھا- کبھی بچہ کو خوش کرنے کے لئے اس کے منہ پر پانی کا باریک چھینٹا دیا جاتا تو اہل خانہ کی دلجوئی کے لئے عرب کی مروجہ کہانیوں میں سے کوئی کہانی بھی سنا دی جاتی تھی مگر ہاں ان سب امور کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی جاتی تھی کہ(۱)ہنسی اس رنگ میں نہ کرو کہ دوسرے کی تحقیر یا دلشکنی ہو (۲)ہنسی کو پیشہ یا عادت نہ بناؤ اور اس غرض سے ہنسی نہ کرو کہ لوگ ہنسیں بلکہ جس وقت طبیعت خود بخود اپنے آپ کو پرکیف رنگ میں ظاہر کرنا چاہے اسے ایسا کرنے دو (۳)ہنسی اور مذاق میں جھوٹ نہ ہو بلکہ صداقت کا پہلو محفوظ ہو،تا ادنیٰ طبعی جذبات کے ظہور کے وقت اعلیٰ طبعی جذبات کا خون نہ ہوتا چلا جائے- صفائی پسندی انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا صفائی پسندی کا ہے جسم کو صاف رکھنا منہ کو صاف رکھنا- کپڑوں کو صاف رکھنا اور ایسی اشیاء کا استعمال کرنا جو ناک کی قوت کو صدمہ نہ پہنچانے والی ہوں بلکہ اس کے لئے موجب راحت ہوں- اس تقاضا کو بھی لوگوں نے غلطی سے تقویٰ اور نیکی کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والوں کے طریق کے خلاف سمجھا ہے اور ایک ایسی راہ اختیار کر لی ہے کہ یا تو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طیب اشاء فضول جائیں یا خدا کے بندے جو ان طیب اشیاء کو استعمال کریں گنہگار ٹھہریں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بناوٹی نیکی

Page 587

۵۴۴ اور جھوٹے تقویٰ کی چادر کو بھی چاک کر دیا اور حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک رہنے کو پسند کرتا ہے- آپ جہاں رہتے اکثر غسل فرماتے- کئی امور کے ساتھ غسل کو آپ نے واجب قرار دے دیا- چونکہ انسان اپنے گھر کے اشغال کی وجہ سے صفائی میں سستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے ساتھ غسل کو واجب قرار دیا- پانچوں نمازوں سے پہلے آپ ان اعضا کو دھوتے جو عام طور پر گردو غبار کا محل بنتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتے- کپڑوں کی صفائی کو آپ پسند فرماتے- جمعہ کے دن دھلے ہوئے کپڑے پہن کر آنے کا حکم دیتے اور خوشبو کو خود بھی پسند فرماتے اور اجتماع کے مواقع کے لئے خوشبو کا لگانا پسند فرماتے- جہاں اجتماع ہونا ہو چونکہ مختلف قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں متعدی بیماریوں کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا، آپ وہاں خوشبودار مصالحہ جات اور ان جگہوں کو صاف رکھنے کا حکم دیتے- بدبودار اشیاء سے پرہیز فرماتے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے کہ بدبودار اشیاء کھا کر اجتماع کی جگہوں میں آئیں- غرض جسم کی صفائی، لباس کی پاکیزگی اور ناک کے احساس کا آپ پورا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیتے- ہاں یہ ضرور فرماتے کہ جسم کی صفائی میں اس قدر منہمک نہ ہو جاؤ کہ روح کی صفائی کا خیال ہی نہ رہے اور لباس کی پاکیزگی کا اس قدر خیال نہ رکھو کہ ملکوملت کی خدمت سے محروم ہو جاؤ اور غریب لوگوں کی صحبت سے احتراز کرنے لگو اور کھانے میں اس قدر احتیاط نہ کرو کہ ضروری غذائیں ترک ہو جائیں ہاں یہ خیال رکھو کہ اہل مجلس کو تکلیف نہ ہو تاکہ اچھے شہری بنو اور لوگ تمہاری صحبت کو ناگوار نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کریں لوگوں نے کہا کہ صفائی اور خوشبو سے بچو کہ وہ جسم کو پاک مگر دل کو ناپاک کرتی ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حبب الی..........الطیب ۱؎ اور ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۲؎ مجھے خوشبو کی محبت بخشی گئی ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ ظاہری اور باطنی صفائی رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے- مرد و عورت کا تعلق عورت و مرد کا تعلق بھی ایک ایسا طبعی تقاضا ہے کہ دنیا کا تمدن اس پر مبنی ہے اور وہ گویا دنیا کی ترقی کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہے مگر عجیب بات ہے کہ دنیا کے ایک کثیر حصہ نے اسے بھی روحانیات کے خلاف سمجھ رکھا ہے- وہ عورت جو نسلِ انسانی کے چلانے کی ذمہ وار ہے جس کے بغیر انسان ایک کٹا ہوا جسم معلوم ہوتا ہے جو

Page 588

۵۴۵ کسی کام کا نہیں جو مرد کے لئے بطور لباس کے ہے اور جس کے لئے مرد بطور لباس کے ہے اس عورت کو ہاں اس عورت کو ایک ناپاک شے قرار دیا جاتا تھا اور خدا رسیدہ انسان کے لئے جائے اجتناب سمجھا جاتا تھا اور اس طرح گویا پاکیزگی کو انسانیت کے مخالف قرار دے کر خود پاکیزگی کے درخت پر ہی تبر رکھا جاتا تھا- کیا یہ سچ نہیں کہ انسان ہی حقیقی پاکیزگی کا برتن ہے اور برتن کے بغیر لطیف اشیاء محفوظ رہ ہی نہیں سکتیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو پا کر انسان کو نہیں بھلایا- آپ نے شادیاں کیں اور اپنے ملک کے فائدہ اور مسلمانوں کے فائدہ اور بعض دفعہ خود بیویوں کے فائدہ کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور نہ صرف شادیاں کیں بلکہ جذبات محبت سے اپنی بیویوں کو محروم نہیں کیا- اور ان سے اس طرح معاملہ کیا کہ ان میں سے ہر اک نے یہ سمجھا کہ گویا آپ اسی کے لئے ہیں آپ خدا کے تھے اور خدا آپ کا تھا- مگر آپ نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ گویا خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا سے نرالا پا کر چن لیا بلکہ آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ بہتر انسان کو اپنے لئے چنتا ہے چونکہ آپ بہتر انسان بن گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو اختیار کر لیا- بیوی کی محبت خدا کی رحمت ہے دنیا نے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو چھوڑ دو اہلی تعلقات کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دو- تب تم خدا سے ملو گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں بلکہ تم اپنے اہل ہی کے ذریعہ سے خدا سے مل سکتے ہو دنیا کا ہر ایک ذرہ خدا کی پیدائش ہے اور ہر اک ذرہ تم کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور جس چیز کو اس نے جس قدر خوبصورت بنایا ہے اسی قدر واضح طور پر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ کیلئے دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کی اعلیٰ مخلوقات میں سے عورتیں بھی ہیں اسی وجہ سے حبب الی من دنیاکم النساء ۳؎ مجھے دنیوی چیزوں میں سے بیویوں کی محبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تحفہ کے ملی ہے اور خیر کم خیر کم لاھلیکم ۴؎تم میں سے بہتر لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ نیک سلوک کریں- اور ان کے احساسات کا خیال رکھیں- کیا ہی عجیب فرق ہے دنیا نے کہا کہ خدا نے عورت کو ایک خوبصورت سانپ بنا کر پیدا کیا ہے اور انسان کو ہوشیار کیا ہے کہ اس کی خوبصورتی کی طرف نہ دیکھے بلکہ اس کے زہر سے بچے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیویوں سے محبت کروں اور جو رحمتیں اس نے مجھ پر کی ہیں ان میں سے ایک رحمت یہ ہے کہ میرے دل میں

Page 589

۵۴۶ اپنی بیویوں کی محبت پیدا کر دی گئی ہے لوگوں نے کہا کہ عورتوں سے دور بھاگو اور ان کے فریبوں سے بچو- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے محبت کرو اور ان سے محبت کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچو کیونکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت بنائی ہے اسی طرح بیوی کی دعا کو بھی اپنے قرب کا ذریعہ بنایا ہے پس اس کے دل کو خوش کرو خدا تعالیٰ تم سے خوش ہوگا- بیویوں کے احساسات کا خیال رکھو آپ عملاً اس حکم پر عمل کرتے اپنی بیویوں کے سب احساسات کا خیال رکھتے- گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے- ان سے پیار کرتے ان کی دلدہی کے لئے باریک در باریک راہیں تلاش کرتے ایک بیوی نے ایک گلاس سے پانی پیا تو اسی جگہ پر منہ رکھ کر خود پانی پی لیا- ایک بیوی کو جو یہود میں سے تھی دوسری نے غصہ میں یہودن کہہ دیا تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں کہتیں کہ میں یہودن نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی اولاد ہوں- اگر کوئی بیمار ہوتی تو آپ اس کی بیماری کو اپنی بیماری سمجھتے اور اس سے بھی زیادہ اس کے درد کو محسوس کرتے ان کے جذبات کا خیال رکھتے اور انہیں اپنے عزیزوں سے جدا نہ کرتے بلکہ تعلق بڑھانے میں مدد کرتے- اپنی ایک بیوی ام حبیبہؓ کے گھر میں آپ داخل ہوئے وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو جو بعد میں بادشاہ اسلام ہوئے پیار کر رہی تھیں- آپ نے اس امر کو ناپسند نہیں فرمایا بلکہ محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور بہن بھائی کی محبت کو طبعی تقاضوں کا ایک خوبصورت جلوہ تصور فرماتے ہوئے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا ام حبیبہ کیا معاویہ تمہیں پیارا ہے ام حبیبہ نے جواب دیا- ہاں فرمایا اگر یہ تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے- بیوی کا دل اس جواب کو سن کر کس قدر خوشی سے اچھلا ہو گا کہ میرے رشتہ داروں کو یہ غیریت کی نگاہ سے نہیں بلکہ میری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ جو مجھے جس قدر پیارا ہو اسی قدر ان کو بھی پیارا ہوتا ہے گویا وہی نظارہ ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی مگر باوجود انسانیت کے اس کامل اور اتم نظارہ کے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کلی طور پر اور سر سے پا تک اپنے خدا کے تھے- اور اپنی بیویوں کو بھی اسی کا اور خالص اسی کا بنانا چاہتے تھے-

Page 590

۵۴۷ بقائے نسل کا جذبہ انسانی فطرت بقائے نسل کے جذبہ سے نہایت ہی گہرے طور پر رنگین ہے جونہی ایک عورت کامل جوان ہوتی ہے اولاد کی خواہش خواہ الفاظ میں پیدا نہ ہو مگر تاثیرات کے ذریعہ سے ظاہر ہونے لگتی ہے صحیح القویٰ مرد خواہ کسی قدر ہی آزاد کیوں نہ ہو اپنی علیحدگی کی گھڑیوں میں اس کی طرف ایک زبردست رغبت پاتا ہے مگر باوجود اس کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا رسیدوں کو اولاد سے کیا تعلق- وہ نہیں سمجھتے کہ اگر اولاد سے ان کو تعلق نہیں تو اولاد کی تربیت جو نسل انسانی کا ایک اہم ترین فرض ہے اس میں دنیا کا رہنما کون ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد ہوئی اور آپ نے اس اولاد پر فخر کیا اس کی محبت کو چھپایا نہیں اسے خدا کی ایک رحمت قرار دیا- اولاد سے بے تعلقی کا اظہار نہیں کیا اس کی طرف توجہ کی اور اس کی تربیت کا خیال رکھا- اس سے بے اعتنائی نہیں ظاہر کی بلکہ اس سے محبت کرنے کو خدا تعالیٰ کے مقدس فرائض میں سے قرار دیا جب وہ نا سمجھ تھی اس کی پرورش کی جب وہ چھوٹی تھی اس کی تربیت کی جب وہ بڑی ہوئی اسے تعلیم دلائی اور جب وہ اپنے گھر بار کی مالک ہوئی اس کا ادب کیا اور اپنی محبت کا مقر اسے بنایا- ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ بیمار ہوا اس کے دیکھنے کیلئے آپ کی صاحبزادی نے آپ کو بلایا اس کی حالت اس وقت سخت تکلیف کی تھی اور زندگی کی آخری گھڑیوں کو نہایت اضطراب اور دکھ کے ساتھ وہ طے کر رہا تھا- آپ نے اسے ہاتھوں میں لیا اور اس کے اضطراب کو دیکھا آنکھیں فرط محبت اور وفوررحمت سے پرنم ہو گئیں- ایک شخص جو اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ نبی کے لئے یہی ضروری نہیں کہ ہمیں خدا کی باتیں سکھائے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ہمارے لئے کاملنمونہ ہو انسانیت کا، مکمل نقشہ ہو بشریت کا- اس امر کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور بے اختیار ہو کر بولا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں صبر کا سبق دیتے ہیں اور آج خود آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تمہارا دل شاید رحم سے خالی ہوگا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحم دل بنایا ہے- کیا لطیف سبق ایک ہی فقرہ میں دے دیا کہ اولاد کی محبت اور ان کی تکلیف کا احساس تو انسانیت کے اعلیٰ جذبات میں سے ہے خدا کا نبی ان جذبات سے خالی کیونکر ہو سکتا ہے وہ دوسروں کے لئے اس میں بھی نمونہ ہے جس طرح اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں نمونہ ہے-

Page 591

۵۴۸ اولاد کی تکریم آپ کی اولاد میں سے آخر عمر میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ رہ گئی تھیں جب کبھی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ کھڑے ہو جاتے بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے- آپ کی اولاد کھیلتی ہوئی پاس آ جاتی تو گود میں اٹھا لیتے پیار کرتے اور ان کی عمر کے مطابق نصیحت کرتے اور اخلاق کا کوئی عمدہ سبق دیتے- غرض آپ نے اس جذبہ انسانیت میں بھی ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے لئے قائم کیا ہے- ہاں اولاد کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ یہ تعلیم بھی دیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کہ اولادا کی محبت انسان کو اس کے ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہیں اور نہ خود اولاد کی اصل ذمہ داری کو جو اعلیٰ پرورش اعلیٰ تربیت اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ رہنمائی پر مشتمل ہے اس کی نظروں سے اوجھل کر دے- صحت کی درستی اور ورزش کا خیال انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑ ہے کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں بھی ہمارے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ کو صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف نہیں قرار دیا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باہر باغات میں جا کر بیٹھتے تھے- گھوڑے کی سواری کرتے تھے اپنے صحابہ کو کھیلوں وغیرہ میں مشغول دیکھ کر بجائے ان پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے- ایک دفعہ آپ نے اپنے احباب کو تیر اندازی کا مقابلہ کرتے دیکھا تو خود بھی اس مقابلہ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی- مرد تو مرد رہے آپ عورتوں کو بھی ورزش کرنے کی ترغیب دیتے تھے- چنانچہ کئی دفعہ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزش جسمانی کی تحریک کی- ہاں آپ اس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہو جائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ خود مقصد- دنیا کے لئے اسوہ حسنہ غرض انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھا کر اور بے نظیر مثال قائم کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ آپ کی زندگی دنیا کے لئے ایک اسوہ حسنہ تھی کیونکہ اگر آپ صرف خدا تعالیٰ کی عبادت یا اعلیٰ فلسفیانہ تعلیمات کی اشاعت کی طرف متوجہ ہوتے تو ہر اک سمجھ دار انسان کے

Page 592

۵۴۹ دل میں یہ خیال پیدا ہوتاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر معمولی دل و دماغ کے انسان تھے اور ان جذبات سے عاری تھے جو عام انسان کے دل میں موجزن رہتے ہیں اور اس وجہ سے باوجود اپنے اعلیٰ تقویٰ کے وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتے لیکن آپ کی ساری زندگی اس شبہ کا ازالہ کرتی ہے- آپ ہماری ہی طرح کے جذبات رکھتے تھے اور ہماری ہی طرح کی ذمہ واریاں- اور پھر آپ ان ذمہ داریوں سے بزدلانہ طور پر آنکھیں نہیں بند کر لیتے تھے بلکہ آپ ان ذمہ داریوں کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور ان کے ادا کرنے کو اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے تھے کہ ہر اک انسان محسوس کرتا تھا اور کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ اس نمونہ کی تقلید سے وہ کسی عذر اور بہانے سے بچ نہیں سکتا یہاں ایک ایسا شخص ہے جو اسی کی طرح کے جذبات اور اسی کی طرح کے احساسات لے کر پیدا ہوا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات کو کچلتا نہیں بلکہ انہیں ایک بہادر آدمی کی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے- ایک ایسا انسان ہے جس کے راستہ میں وہ سب مشکلات ہیں جو دوسرے انسانوں کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں اور وہ ان سب مشکلات کو دور کرتا ہوا اپنا بوجھ خود اٹھائے ہوئے تقویٰ اور طہارت کے اس پل پر سے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے نڈر اور بے خوف گذر جاتا ہے اور ایک آنچ ہاں ایک خفیف سی آنچ بھی اسے نہیں آتی- ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا قدم نہیں لڑکھڑاتا- پس جب وہ انسان ہمارے جیسا انسان اس کام کو جسے لوگ ناممکن خیال کرتے تھے اور کرتے ہیں اس خوبی سے سرانجام دے سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کام کو نہ کر سکیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف کلام الہٰی میں اشارہ خدا تعالیٰ کس لطیف پیرایہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منھم ان انذر الناس وبشرالذین امنوا ان لھم قدم صدق عند ربھم ۵؎ کیا لوگوں کو اس پر تعجب آتا ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر یہ کہتے ہوئے وحی نازل کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر اور ان لوگوں کو جو مان لیں خوشخبری دے کہ ان کے رب کے حضور میں انہیں ایک ہمیشہ قائم رہنے والا درجہ حاصل ہے محمد رسول اللہ ہم میں سے ایک انسان ہے اسی لئے اس کے نقش قدم پر چلنے میں ہمیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا- جو

Page 593

۵۵۰ امر اس کے لئے ممکن ہے وہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی ممکن ہے وہ ایسا نبی نہیں جو انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے مقام کو حاصل کرتا ہے بلکہ ایسا نبی ہے جو انسانیت کو کامل کرتے ہوئے اور اس کے دروازہ میں سے گزرتے ہوئے نبی بنتا ہے اس کا ایک ہاتھ خدا کی طرف ہے جو اس کا پیدا کرنے والا اور اسے ترقیات عطا فرمانے والا ہے اور وہ اس کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو مانگتا ہے اور دوسرا ہاتھ اپنے ہم جنسوں اور بھائیوں کی طرف ہے جنہیں وہ ہمت کرنے اور اپنے پیچھے پیچھے چلے آنے اور خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا وعدہ دے رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ کان قاب قوسین اوادنی ۶؎کا مظہر ہے- خدا کی لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوں تجھ پر اے کامل انسان جس نے ہمیں شش و پنج کی زندگی سے نجات دلا کر اس یقین پر قائم کیا کہ انسانیت تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ وہ تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ اور خدا تعالیٰ کے وصال کا ایک موجب ہے- تیرا درجہ بلند ہو کہ تو جس قدر خدا کے قریب ہوا، اسی قدر ہمارے نزدیک ہوا- یقیناً تو ہمارا ہے اور ہم تیرے ہیں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین (الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۹ء) الجامع الصغير جلد اصفحہ ۱۲۲مطبوعہ مطبع خیر یہ مصر۱۳۲۱ھ البقرة : ۲۲۳ الجامع الصغير جلدا صفحہ ۲۲ ۱مطبوعہ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ الجامع الصغير جلد ۲ صفحہ و مطبوعہ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ میں \"خیر کم خیرکم لأهله\" کے الفاظ ہیں.يونس :۳ والنجم:۱۰

Page 594

۵۵۱ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 595

Page 596

۵۵۳ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ-ھوالناصر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں اہم مضامین پر اخبار میں قلم اٹھانے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو پر روشنی ڈال دی جائے ورنہ جو مضامین کہ سینکڑوں صفحات کے محتاج ہیں انہیں ایک دو صفحات میں لے آنا یقیناً انسانی طاقت سے بالا ہے میں بھی مذکورہ بالا مضمون کے متعلق جو اپنی تفصیلات کے لئے بیسیوں مجلدات کا محتاج ہے بلکہ پھر بھی ختم نہیں ہو سکتا یہی طریق اختیار کروں گا- خدا تعالیٰ کا کلمہ انبیاء خدا تعالیٰ کا کلمہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل لو کان البحر مداد الکلمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا ۱؎ تو کہہ دے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے میرے کلمات کی توضیح اور تشریح کی جائے تو سمندر ختم ہو جائیں گے مگر میرے کلمات کے کمالات کا بیان ختم نہ ہوگا- خواہ اس قدر سیاہی ہم اور بھی کیوں نہ پیدا کر دیں- غرض نبوت کا مضمون تو ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے مگر موقع کے لحاظ سے اس کا ایک قطرہ پیش کیا جا سکتا ہے- نبی کے کام قرآن کریم نے نبی کے چار کام مقرر فرمائے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہالسلام کی دعا میں اس کا اشارہ ہے ان کی دعا قرآن کریم میں یوں نقل ہے ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم ۲؎ اے ہمارے رب! اہل مکہ میں ایک عظیم الشان

Page 597

۵۵۴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو اور ان کو تیرے نشانات سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے اور انہیں پاک کرے- ایک سرسری نگہ ڈالنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نبی کے کاموں کا ایک بہترین نقشہ ہے جو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچ دیا ہے- نبی کا کام(۱)اللہ تعالیٰٰ کی آیات کا سنانا- (۲)کتاب کا سکھانا- (۳)حکمت کی باتوں کی تعلیم دینا اور (۴)لوگوں کے نفوس کو پاک کرنا ہے- کیا اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں کوئی اور نقشہ نبی کے کاموں کا کھینچا جا سکتا ہے؟ آؤ اب ہم دیکھیں کہ ان کاموں کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ثابت ہوتے ہیں- نبی کا پہلا کام آیات سنانا پہلا کام نبی کا آیات کا سنانا بتایا گیا ہے- آیت کے معنی عربی زبان میں عبرت اور دلیل کے ہوتے ہیں- جو چیز کسی اور چیز کی طرف راہنمائی کرے وہ آیت ہے پس آیات کے سنانے کا یہ مطلب ہوا کہ ایسی باتیں بتائیں جو امور غیبیہ پر ایمان لانے کا موجب ہوں کیونکہ امور غیبیہ ایسے امور ہیں کہ انسان ان تک خود نہیں رسائی پا سکتا خدا تعالیٰ کا وجود سب سے مقدم ہے بلکہ ایک ہی حقیقی وجود ہے مگر وہ اس قدر وراء الورا ہے کہ اس تک پہنچنا انسانی طاقت سے بالا ہے اس تک پہنچنے کا ذریعہ محض وہ دلائل اور براہین اور وہ عرفان اور مشاہدہ ظہور صفات الہیہ ہو سکتا ہے جو ہمیں اس کے قریب کر دے اور اس کے وجود کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک باقی نہ چھوڑے یہی حال قانون قدرت کے ظہور کا اور ملائکہ کا اور رسالت کا اور کلام الہی کا اور بعثت مابعدالموت کا ہے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کی سمجھ انسان کو براہ راست ہو سکتی ہے- بلکہ ان میں سے ہر ایک شے ایسے دلائل کی محتاج ہے جو ہمیں روحانی اور عقلی طور پر ان کے قریب کر دیں- ان سے ہمیں ایسا اتصال بخش دے کہ گویا ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا- امور مذکورہ بالا کی اہمیت اس امر سے ثابت ہے کہ جس قدر بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ان امور پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی نام کے نیچے ان امور کو اپنے معتقدات میں شامل رکھتے ہیں خواہ تشریحات میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو- پس جو شخص بھی ان امور پر ایمان لانے کو ہمارے لئے آسان کر دیتا ہے اور ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جس جگہ کھڑے ہو کر ان امور کا گویا ایسا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کسی

Page 598

۵۵۵ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی وہ نبوت کے کام کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے- صفاتِ الہٰی کا بیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب ہم غور کرتے ہیں اور آپ کے کام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ مذکورہ بالا کام کو آپ نے ایسے بے نظیر طریق پر کیا ہے کہ اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی- خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق سب سے پہلی چیز اس کی صفات کا بیان ہے ایک غیر محدود ہستی ہونے کے لحاظ سے وہ اپنی صفات ہی کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے اگر کوئی شخص صفات الہیہ کو اس طرح بیان نہیں کرتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰٰ کی عظمت دلنشین ہو اور دوسری طرف عقل ان کا اس حد تک ادراک کر سکے جس حد تک کہ ان کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے ممکن ¶ہو وہ ہر گز خدا تعالیٰ تک بندوں کو پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا- توحید الہٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات خدا تعالیٰ کی بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک طرف تو عقل انسانی ان سے تسلی پا جاتی ہے دوسری طرف وہ ایک غیر محدود اور قادر اور خالق ہستی کے بالکل شایان شان ہیں آپ ایک طرف خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں اور جلووں سے پاک ثابت کرتے ہیں اور اس کی توحید پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ تمام آلائشوں اور نقصوں سے اسے پاک قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کی محبت اور اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچانی کی خواہش کو ایسے واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دل محبت سے بھر جاتا ہے اور عقل مطمئن ہو جاتی ہے مگر آپ اسی پر بس نہیں کرتے آپ اس اصل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ امور جن پر ایمان لانا انسان کی نجات کے لئے ضروری ہو ان پر ایمان لانے کی بنیاد صرف عقلی دلیل پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مشاہدہ پر ہونی چاہئے تا کہ دل شک و شبہ کے احتمال سے بھی پاک ہو جائے اور آپ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات اس کے خاص بندوں کے لئے ایسے خاص رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ ان کے معجزانہ ظہور کو دیکھ کر انسان کا دل یقین کی آخری کیفیات سے لبریز ہو جاتا ہے- ملائکہ کی حقیقت ملائکہ کے متعلق جہاں ایک طرف آپ نے ان لوگوں کے خیالات کو رد کیا ہے جو ان کے وجود ہی کے منکر ہیں وہاں ان لوگوں کے خیالات کو بھی رد کیا ہے جو انہیں بادشاہی درباریوں کی حیثیت میں پیش کرتے ہیں اور بتایا ہے کہ ملائکہ نظام عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ میں اسی طرح ضروری وجود ہیں کہ جس طرح دوسرے

Page 599

۵۵۶ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں نظر آنے والے اسباب وہ ایک مادی خدا کے دربار کی رونق نہیں ہیں بلکہ ایک غیر مادی خدا کے احکام تکوین کی پہلی کڑیاں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلے پوری طرح ان پر قائم ہیں اور جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت نہیں ہو سکتی اسی طرح ملائکہ کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن ہے- قانون قدرت کیا ہے؟ آپ نے قانون قدرت کو ایسا قریب الفہم کر دیا کہ مادی عللواسباب کا دیکھنے والا سائنس دان اور عقلی موجبات کی موشگافی کرنے والا فلسفی اور روحانی اثرات پر نگہ رکھنے والا صوفی اور موٹی موٹی باتوں سے نتیجہ نکالنے والا عامی یکساں طور پر تسلی پا گیا- ہر اک نے اسے اپنے اپنے نقطئہ نگاہ سے دیکھا- غور کیا اور اطمینان کا سانس لیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی تصدیق کر دی کیونکہ مختلف پہلوؤں سے غور کرنے کے بعد جب ایک ہی نتیجہ نکلے تو اس نتیجہ کی صحت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا- رسالت اور کلام الہٰی کی ضرورت آپ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت اور قانون قدرت کی مثالوں سے ثابت کیا وہ خدا جس نے جسمانی آنکھ کے لئے سوج کو پیدا کیا ہے کس طرح ممکن ہے کہ روحانی آنکھ کو کام کرنے کے قابل بنانے کے لئے اس نے روحانی سورج اور روحانی نور پیدا نہ کیا ہو حالانکہ جسمانی آنکھ کا تعلق تو ایک محدود عرصہ سے ہے لیکن روحانی بینائی کا اثر انسان کی تمام آئندہ زندگی پر ہے خواہ اس دنیا کی ہو خواہ اگلے جہاں کی- بعث مابعد الموت بعث ما بعد الموت کے متعلق بھی آپ نے مختلف پیرایوں سے بحث کی اور ایسے رنگ میں اسے پیش کیا کہ وہ ایک خالص علمی مسئلہ کی بجائے ایک عملی مسئلہ بن گیا- انسانی اعمال ایک زبردست جزاء کے طالب ہیں اور وہ جزا اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے دوسروں کی نگہ سے مخفی رکھا جائے کیونکہ اس عظیم الشان جزاء کے ظاہر ہو جانے پر انسانی اعمال اختیاری نہیں رہیں گے بلکہ ایک رنگ میں غیر اختیاری ہو جائیں گے- عالم آخرت ایک نئی دنیا نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں مادیات کے اثر سے آزاد ہو کر انسانی روح اسی راستہ پر بلا روک ٹوک چلنا شروع کر دیتی ہے جو اس نے اپنے اعمال کی داغ بیل ڈال کر اپنے لئے تیار کیا تھا خدا تعالیٰ ایک غم و غصہ سے پر بادشاہ نہیں اس کی صفات کے تقاضے نے انسان کو پیدا کیا تھا اور وہی صفات اس امر کی متقاضی ہیں کہ انسان

Page 600

۵۵۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں آخر کار اپنے مقصد کو پا جائے اور کوئی پہلے اور کوئی پیچھے آخر اس وجود سے پیوست ہو جائے جس وجود کی رحمت اسے عالم وجود میں لائی تھی- غرض ہر اک مخفی مسئلہ کو جس پر ایمان کی بنیاد تھی وہم اور شک کے بادلوں سے نکال کر ایک چمکتے ہوئے سورج کی روشنی کے نیچے آپ نے رکھ دیا تا کہ ہر شخص اپنی عقل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکے اور اپنے روحانی ادراک سے اسے چھو سکے اور وہم اور وسوسہ سے نکل کر یقین اور اطمینان حاصل کر سکے- نبی کا دوسرا کام تعلیم کتاب دوسرا کام نبی کا تعلیم کتاب ہے اس کام کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیا ہے کہ کسی اور وجود میں اس کی مثال نہیں ملتی- آپ نے سب سے اول تو یہ بتایا کہ شریعت ایک فضل ہے انسان اپنی دنیوی اوراخروی زندگی کی بہتری کیلئے اس امر کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس پر اپنی مرضی کا اظہار کرے تا کہ اس روحانی سفر میں جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے کاموں کی بنیاد شک اور وہم پر نہ ہو بلکہ یقین اور وثوق پر ہو شریعت ایک بوجھ نہیں جو آگے ہی بوجھ سے دبے ہوئے انسان کو کچلنے کے لئے اس کے سر پر رکھ دیا گیا ہے وہ کسی سزا کا نتیجہ نہیں بلکہ محبت کے تقاضے کے ماتحت اس کا نزول ہوا ہے اور ان مخفی گڑھوں اور یکدم چکر کھا جانے والے موڑوں اور سر بلند اور سیدھی پہاڑیوں اور تیز اور سرعت سے بہنے والی ندیوں اور حد سے جھکی ہوئی شاخوں اور کانٹے دار جھاڑیوں اور گندگی اور میلے کے ڈھیروں سے مطلع کرنے کے لئے اتاری گئی ہے جو اس لمبے سفر میں انسان کے لئے تکلیف کا موجب اور اسے اس کے سفر کو بارام طے کرنے سے محروم کر دینے کا باعث ہو سکتی ہیں وہ نہ سزا ہے نہ امتحان بلکہ رہنما ہے اور ہادی- اس کا کوئی حکم خدا تعالیٰ کی شان کو بڑھانے والا نہیں بلکہ ہر اک حکم انسان کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے- عالمگیر شریعت آپ نے دنیا کے سامنے یہ ایک نیا طریق پیش کیا کہ شریعت عالمگیر ہونی چاہئے اور اس میں مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ رکھا جانا چاہئے جو کتاب کہ مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ نہیں کرتی وہ گویا دنیا کے ایک حصہ کو نجات پانے سے بالکل محروم کر دیتی ہے اور اس طرح خود اس غرض کو معدوم کر دیتی ہے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا-

Page 601

۵۵۸ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں شریعت کے دو اہم امور تیسرا اصل کتاب کی تعلیم میں آپ نے یہ مدنظر رکھا کہ شریعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ دو اہم ضرورتوں کو پورا کرے ایک طرف تو اس میں ان تمام ضروری امور کے متعلق ہدایت ہو جن کا مذہبی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ تعلق ہے اور دوسری طرف انسان کی ذہنی ترقی کے لئے اس میں گنجائش ہو اور وہ انسانی دماغ کو بالکل جامد بنا کر اس میں سڑاندھ نہ پیدا کر دے- ان دو اصول کے ماتحت آپ نے ان دو خطرناک راستوں کو بند کر دیا جو حقیقی روحانیت کو تباہ کرنے کا باعث بن جایا کرتے ہیں یعنی اباحت کے راستہ کو بھی جو انسان کے روحانی مفاد کو مادی لذات کی قربان گاہ پر قربان کروا دیا کرتا ہے اور تقلید جامد کے راستہ کو بھی جو انسانی دماغ کو ایک سڑے ہوئے تالاب کی طرف بنا کر ان بدبوؤں کا مرکز بنا دیتا ہے جو نشوونما کی تمام قابلیتوں کو جلا کر رکھ دیتی ہیں- نبی کا تیسرا کام، تعلیم حکمت تیسرا کام نبی کا تعلیم حکمت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام میں بھی ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باوجود خدا تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے بے نظیر اظہار کے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو چاہے حکم دے اور کسی کو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مجال نہ ہو وہ اگر قادر ہے تو غنی بھی ہے کسی حکم میں خود اس کا اپنا فائدہ مدنظر نہیں ہوتا اور پھر وہ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم نہیں دیتا جس میں کہ کوئی حکمت نہ ہو پس کسی تعلیم کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی جزئیات تمام حکمتوں سے اور اس کے احکام تمام علتوں سے خالی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا ہی اس امر کا ضامن ہے کہ وہ بات ضرور حکمتوں سے پر اور مقاصد عالیہ سے وابستہ ہے ورنہ وہ حکیم اور غنی ہستی اس کا حکم کیوں دیتی- اس اصل کے ماتحت آپ نے اپنی تمام تعلیم کی حکمتیں ساتھ ساتھ بیان فرمائی ہیں ہر اک بات جس کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کے کرنے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں اور ہر اک بات جس سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ اس کے کرنے سے کیا نقصانات ہیں اور اس کے نہ کرنے میں کیا فوائد ہیں- پس آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والا اپنے دل میں انقباض نہیں محسوس کرتا بلکہ ایک جوش اور خوشی محسوس کرتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً فائدہ ہے اور جس امر سے مجھے روکا گیا ہے اس میں

Page 602

۵۵۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً نفع ہے اور یہ بشاشت اس کے اندر ایک ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دیتی ہے کہ شریعت پر عمل کرنا اسے ناگوار نہیں گزرتا بلکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ایک ضروری فرض سمجھتا ہے اور اسے ایک چٹی نہیں خیال کرتا بلکہ ایک عظیم الشان رحمت خیال کرتا ہے- نبی کا چوتھا کام، تزکیہ نفس چوتھا کام ایک نبی کا تزکیہ نفس ہے یعنی لوگوں کے دلوں کو پاک کر کے ان کے اندر ایسی قابلیت پیدا کرنا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اتصال تام حاصل کر سکیں اور اس کے فیوض کو اپنے نفس میں جذب کر کے بقیہ دنیا کے لئے اس کے مظہر اور اس کی قدرتوں کی جلوہ گاہ بن سکیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو اس احسن طریق پر پورا کیا ہے کہ دوست تو دوست آپ کے دشمن بھی اس کام کے قائل ہیں جس ملک میں آپ پیدا ہوئے اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے، اس کی جو حالت تھی وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں خود اس زمانہ کی عام حالت بھی اچھی نہ تھی عرب جو آپ کا ملک تھا اس کے سوا دوسرے ممالک بھی مذہبی، اخلاقی، علمی اور عملی حالت میں اچھے نہ تھے گویا ایک رات تھی جو سب دنیا پر چھائی ہوئی تھی- اول تو پہلے مذاہب کی پاک تعلیموں کو ہی لوگوں نے بگاڑ دیا تھا دوم جو کچھ پہلی تعلیموں میں سے موجود تھا اس پر بھی عمل نہ تھا- مذہب تو ایک بالا چیز ہے معمولی انسانیت بھی مردہ ہو چکی تھی اور شرافت مفقود ہو رہی تھی شرکت و بدعت اور گندیرسوم ایک دوسرے کا حق مارنا، فسق و فجور ظلم، قتل و غارت، بے شرمی اور بے حیائی، جہالت، سستی، نکما پن، تفرقہ، شراب خوری، جوئے بازی، کبر، خود پسندی، غرض ہر اک عیب اس وقت موجود تھا اور اس کے مقابل کی ہر ایک نیکی مفقود تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی مٹ گیا تھا اور اس کے ارتکاب پر بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے فخر کیا جاتا تھا- اس زمانہ میں پیدا ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوم کو اپنی تربیت کے لئے چنا جو اس تاریک زمانہ میں بھی سب قوموں سے گناہ اور بدی میں بڑھی ہوئی تھی- نظام حکومت اس کے اندر اس قدر مفقود تھا کہ اسے سب سے زیادہ فخر اپنی لا مرکزیت پر تھا- اس قوم کے اندر اپنی پاکیزی کی روح آپ نے پھونکنی شروع کی- جیسا کہ قاعدہ ہے جس چیز کو جی نہ چاہے انسان اس کا مقابلہ کرتا ہے لوگوں نے آپ کا مقابلہ شروع کیا اور سخت ہی مقابلہ کیا مگر آپ استقلال اور صبر سے اپنا کام کرتے چلے گئے اور لوگوں کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی ماریں کھائیں گالیاں سنیں، طعنے

Page 603

۵۶۰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں سہے سب کچھ برداشت کیا- مگر دنیا کی گمراہی کو برداشت نہ کیا- آخر ایک ایک کر کے لوگوں کے دلوں پر فتح پانی شروع کی- سالہا سال تک یہ مقابلہ جاری رہا بڑے بڑے قوی دل، دل ہار گئے مگر آپ نے دل نہ ہارا جس طرح پانی پہاڑوں کو چوٹیوں پر سے بہتے بہتے نرمی سے ملائمت سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آخر ایسی نشیب والی جگہیں پیدا کر لیتا ہے- جن پر سے وہ آسانی کے ساتھ بہہ سکے- اسی طرح آپ نے اپنے نیک نمونہ سے اور موثر وعظ سے دنیا کی اصلاح کا کام جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آ گیا کہ پاکیزگی اور طہارت کی خوبی کے دل قائل ہو گئے- روحانی مردوں نے اپنے اندر ایک نئی روح، سوئے ہوؤں نے تمازت آفتاب، بیماروں نے صحت کے آثار اور کمزوروں نے ایک طاقت کی لہر اپنے اندر محسوس کرنی شروع کی دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا- جہاں ظلم اور تعدی کی حکومت تھی وہاں عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو گیا- جہاں جہالت کے بادل چھا رہے تھے وہاں علم کا سورج چمکنے لگا- جہاں برودت اور جمود جمے بیٹھے تھے وہاں امن اور سعی کی گرم بازاری ہو گئی- نسل انسانی نے سانس لیا، کروٹ بدلی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی- اس معجزانہ تغیر پر نظر ڈالی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفس جدوجہد نے پیدا کر دیا تھا- اور بے اختیار ہو کر چلا اٹھی کہ بے شک تو نبی ہے بلکہ نبیوں کا سردار- اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۹ء) الکھف: ۱۱۰ البقرہ:۱۳۰

Page 604

۵۶۱ توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرتﷺکی تعلیم از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 605

Page 606

۵۶۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم (فرمودہ ۲ جون ۱۹۲۹ء بمقام قادیان) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا- اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر دوبارہ اس تحریک پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی جو میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ ملک کے امن اور اس میں صلح کے قیام کا موجب ہوگی- میں نے پچھلے سال اس مہینہ میں گو اسی تاریخ تو نہیں، اسی موقع پر ان جلسوں کی غرض بیان کی تھی جو کہ ایک ہی دن میں سارے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر بھی اس غرض سے منعقد کئے گئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مبارک حالات بیان کئے جائیں- میں نے بتایا تھا کہ اس قسم کے جلسے علاوہ اس کے کہ ان کے ذریعہ ایک عظیم الشان تاریخی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے- مختلف قوموں میں صلح اور آشتی کا موجب ہونگے- اس سال بعض ہندو لیڈروں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آیا ان کے بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں تو ہماری جماعت ان جلسوں میں اسی رنگ میں شریک ہوگی- جس طرح وہ شریک ہو رہے ہیں- میں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ ان جلسوں کی غرض جب یہ بھی ہے کہ مختلف اقوام میں اتحاد اور رابطہ پیدا کیا جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ جب دوسری اقوام ان بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کریں جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیئے، تو ہماری جماعت کے لوگ ان جلسوں میں شامل نہ ہوں- ہماری جماعت کے لوگ بڑی فراخ دلی اور پورے وسعت حوصلہ اور بڑے شوق سے ان میں شامل ہونگے- میں نے گزشتہ سال کے جلسہ پر جو تقریر کی، اس میں مثال کے طور پر بیان کیا تھا کہ جب میں شملہ گیا تو وہاں ایک جلسہ

Page 607

۵۶۴ برہموسماج کا ہوا جس میں شمولیت کے لئے مسز نائیڈو نے مجھے بھی دعوت دی اور میں اس میں شامل ہوا- مجھے تقریر کے لئے بھی کہا گیا لیکن چونکہ تمام کے تمام حاضرین انگریزی سمجھنے والے تھے، اور بہت قلیل التعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اردو سمجھ سکتے تھے اور مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کا ملکہ نہ تھا، اس مجبوری کی وجہ سے میں تقریر نہ کر سکا ورنہ میں نے کہہ دیا تھا کہ تقریر کروں گا- چونکہ ابھی تک اس قسم کے جلسوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا، اس لئے پوری طرح ان پر عمل نہیں شروع ہوا- لیکن جب بھی ایسے جلسے کئے گئے اور حضرت کرشن، حضرت رامچندر یا اور بزرگوں کے حالات بیان کئے گئے- انہوں نے دنیا میں جو اصلاحیں کی ہیں، وہ پیش کی گئیں- انہوں نے خود تکلیفیں اٹھا کر دوسروں کو جو آرام پہنچایا، ان کے لئے جلسے کئے گئے تو کوئی احمدی نہ ہوگا جو شوق اور محبت سے ان میں شامل نہ ہوگا- لیکن یہ ضروری ہے کہ انبیاء کا ذکر انبیاء کے طور پر کیا جائے اور قومی مصلحین کا ذکر اسی رنگ میں ہوگا نہ کہ انبیاء کے رنگ میں- میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر قوم کی طرف سے اپنے مذہبی بزرگوں کے متعلق اس قسم کے جلسے ہوں تو وہ بھی یقیناً ہمارے ان جلسوں کو بہت پر لطف اور بہت دلچسپ بنا دیں گے- کیونکہ اس طرح آپس میں بہت زیادہ تعاون کا سلسلہ شروع ہو جائے گا- اور جس قدر محنت اور کوشش ہمیں اب ان جلسوں کے انعقاد کے متعلق کرنی پڑتی ہے، اس وقت اتنی نہ کرنے پڑے گی- جب دیگر مذاہب کے لوگ دیکھیں گے کہ ان کے جلسوں میں ہر جگہ ہماری جماعت کے لوگ شامل ہوتے ہیں- محبت اور شوق سے ان کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہیں- کھلے دل سے ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں، تو یقیناً ہمارے جلسوں میں ان کی شمولیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگی اور بہت زیادہ اخلاص اور محبت سے ہوگی- مجھے اس بات سے نہایت خوشی ہے کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ جلسے ہو رہے ہیں- پچھلے سال ہندوستان کے مختلف مقامات کے لوگوں نے پانچ سو جلسے کرنے کا وعدہ کیا تھا- مگر اس سال ۱۹ سو سے زیادہ جلسوں کے وعدے آ چکے ہیں- پچھلے سال ایک ہزار کے قریب جلسے ہوئے تھے- اس سے اندازہ لگا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سال چار پانچ ہزار جگہ لوگ اس مبارک تقریب پر جمع ہونگے- انسانی آنکھ دور تک نہیں دیکھ سکتی اور میری آنکھ بھی اس نظارہ کو نہیں دیکھ سکتی جو سارے ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی آج رونما ہے- لیکن خدا نے جو روحانی آنکھ پیدا کی ہے، اس سے میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، اس سے دل خوشی سے بھرتا جا رہا ہے اور نظر آ رہا ہے کہ یہی جلسے ایک دن

Page 608

۵۶۵ فتنہ و فساد کو مٹا کر امن و اتحاد کی صحیح بنیاد قائم کر دیں گے- اس سال نہ صرف یہ کہ جلسے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ منعقد ہونگے بلکہ پہلے سے زیادہ مقتدر اور معزز لوگوں نے ان میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے- کل ہی کلکتہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر سین گپتا نے جو کلکتہ کے نہایت معزز آدمی ہیں، شمولیت کا وعدہ کیا ہے- اور بڑے بڑے لوگوں نے اشتہار میں اپنے نام لکھائے ہیں- بہت سی اعلیٰ طبقہ کی خواتین نے بھی جلسہ میں شریک ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا ہے- پچھلے سال تو بنگال کی ایک مشہور خاتون نے جو ایم- اے ہیں، اس بات پر اظہار افسوس کیا تھا کہ ہمارے طبقہ کو ان جلسوں میں زیادہ حصہ لینے کا موقع کیوں نہ دیا گیا- اسی طرح اور مقامات کے معززین کے متعلق بھی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے اعلانات میں اپنے نام لکھائے، شمولیت جلسہ کے وعدے کئے اور ہر طرح جلسہ کو کامیاب بنانے میں امداد دی- اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے- پچھلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تین پہلوؤں کو لیا گیا تھا- اور میں نے بھی ان پر اظہار خیالات کیا تھا- اس سال ان کے علاوہ دو اور پہلو تجویز کئے گئے ہیں اور وہ یہ کہ- (۱) توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اس پر زور- (۲) غیر مذاہب کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل- گو دوسرے مقامات پر یہی طریق رکھا گیا ہے کہ مختلف مضامین پر مختلف لوگاظہار خیالات کریں- لیکن اس مقام (قادیان) کے مخصوص حالات کی وجہ سے پچھلے سال بھی یہی طریق تھا کہ تینوں مضامین پر میں نے ہی اظہار خیالات کیا تھا اور اب بھی یہی ارادہ ہے کہ انشاء اللہ دونوں مضامین پر میں ہی بولوں گا- مجھے افسوس ہے کہ اس تقریب کی اہمیت کے لحاظ سے جتنا لمبا کلام اور جس طرز کا کلام ہونا چاہئے تھا بوجہ بیماری اور کھانسی میں اتنا لمبا بیان نہیں کر سکوں گا اس لئے مجبوراً اختصار کے ساتھ اہم پہلو لے کر اظہار خیالات کروں گا- میں سب سے پہلے توحید کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں- لوگوں میں یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ توحید کے متعلق مختلف مذاہب میں اصولی اختلاف پایا جاتا ہے مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کئی مذاہب ایسے ہیں جو توحید کے قائل

Page 609

۵۶۶ نہیں، مگر یہ درست نہیں ہے- یہ اور بات ہے کہ توحید کی تفصیل اور تشریح میں اختلاف ہو مگر اصولی طور پر تمام مذاہب کے لوگ توحید کے قائل ہیں- حتیٰ کہ جن مذاہب کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ توحید کے خلاف ہیں، وہ بھی دراصل توحید کے قائل ہیں- میں نے ہندوؤں، سکھوں، یہودیوں، زرتشتیوں، عیسائیوں، بدھوں کی کتب کا مطالعہ کیا ہے- اور اسلام تو ہے ہی اپنا مذہب، اس کا مطالعہ سب سے زیادہ کیا ہے- ان سب کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ساری اقوام اور تمام مذاہب توحید کے لفظ پر جمع ہیں اور سب کے سب اس کے قائل ہیں- عام مسلمان خیال کرتے ہیں کہ عیسائی توحید کے قائل نہیں- مگر میں نے عیسائیوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسلمان توحید کے قائل نہیں- توحید کے اصل قائل ہم (عیسائی) ہیں- اسی طرح میں نے ہندوؤں کی کتب میں پڑھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو توحید کے قائل اور دوسروں کو اس کے خلاف بتاتے ہیں- یہی حال دوسرے مذاہب کا ہے- اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لفظ توحید کے سب قائل ہیں- باقی تشریحات میں اختلاف ہے- اور جب کوئی قوم خود اقرار کرتی ہو کہ وہ توحید کی قائل ہے تو پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ قائل نہیں، درست نہیں ہو سکتا اور سب اقوام اور سب مذاہب کے لوگوں کا توحید کا قائل ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ مسئلہ باقی دنیا کی نظر میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی ایک ہی غرض پیش کرتے ہیں- اور وہ یہ کہ بندوں کا خدا سے تعلق پیدا کرنا- خواہ اس ہستی کا نام خدا رکھ لیا جائے یا گاڈ (GOD) یا پرمیشور یا ایزد، اس سے بندہ کا تعلق پیدا کرنا مذہب کی غرض ہے- اب صاف بات ہے کہ اگر کوئی مذہب توحید پر قائم نہ ہو تو یقیناً وہ اپنے پیرؤوں کو اور طرف لے جائے گا- اور اس کا پیرو اس مقصد کے حاصل کرنے سے محروم ہو جائے گا جو مذہب کا ہے- جب تک ایک نقطہ نہ ہو جس پر پہنچنا مقصود ہو، اس وقت تک تمام کوششیں بے کار جاتی ہیں- اور ساری اقوام اس پر متفق ہیں کہ ایک ہی نقطہ ہے جس تک سب کو پہنچنا ہے- بعض قومیں گو بتوں کو پوجتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہم بتوں کو اس لئے پوجا کرتی ہیں کہ وہ خدا تک ہمیں پہنچا دیں- غرض ہر مذہب والا اپنے مذہب کی غرض خدا تک پہنچنا قرار دیتا ہے اور اگر کوئی خدا تک نہ پہنچے تو ہر مذہب والا سمجھے گا کہ وہ اصل مقصد کے پانے سے محروم رہ گیا- اس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنی ہیں کہ جسے توحید کا راز معلوم نہ ہوا وہ محروم رہ گیا- میں نے جیسا کہ بتایا ہے، ایسے جلسوں کی

Page 610

۵۶۷ غرض مختلف اقوام میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا ہے- اس لئے میں ایسے رنگ میں اپنا مضمون بیان کروں گا کہ کسی پر حملہ نہ ہو بلکہ ہمارا مذہب جو کچھ بتاتا ہے، اسے پیش کیا جائے- ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں وہ سب کے سب خدا کی طرف سے قائم کئے گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نہ کوئی نبی، اوتار، رشی اور منی نہ گذرا ہو- یہ بات آپ نے اپنے پاس سے نہیں لکھی بلکہ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خیال تھا اور پرانے آئمہ کا بھی یہی مذہب تھا- اس عقیدہ کی موجودگی میں یہ کہنا کہ توحید پہلے نہ تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، قرآن کریم کی تردید کرنا ہے- جب قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو یقیناً ہر قوم میں توحید بھی قائم ہوئی- اگر آج کسی قوم میں توحید نہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے، اس وقت نہ تھی تو اس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ اس وقت وہ قوم توحید سے تہی دست ہو چکی تھی، نہ یہ کہ اس قوم میں جو نبی آیا اس نے توحید کی تعلیم نہ دی تھی- پس ہر وہ مذہب جو خدا تعالیٰ کو مانتا ہے اس میں توحید کی تعلیم دی گئی- ہاں اس پر سب اقوام متفق ہیں کہ جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اس وقت توحید مٹ چکی تھی- چنانچہ ہندوؤں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہو چکی تھی، مذہبی حالت بہت خراب ہو چکی تھی- عیسائیوں کی کتابوں میں بھی لکھا ہے- کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا- اور لکھا ہے کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ عیسائی قوم سے توحید جاتی رہی تھی- عیسائیوں نے اسلام میں توحید دیکھ کر اسے قبول کر لیا- یہی بات زرتشتی کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں چونکہ زرتشتی لوگ توحید چھوڑ چکے تھے، انہیں مسلمانوں کی پیش کردہ توحید پسند آ گئی اور وہ مسلمان ہو گئے- غرض یہ سب مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل گیا تھا، دنیا میں توحید نہ رہی تھی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں پیدا ہو کر ایسے مقام میں پیدا ہو کر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا، وہاں کوئی مذہب ہی نہ تھا، کوئی ایسی کتاب نہ تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہو کہ خدا کی طرف سے ملی ہے- بلکہ وہ لوگ سمجھتے تھے، ہمارے بزرگ جو بات کہہ گئے وہی مذہب ہے- حالانکہ مذہب وہی کہلا سکتا ہے جس کے ماننے والوں کے پاس ایسی کتاب ہو، جس کے متعلق ان کا اعتقاد ہو کہ پرمیشور یا خدا نے نازل کی ہے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم میں پیدا ہوئے جس کا کوئی مذہب نہ تھا- وہ نہ وید کو

Page 611

۵۶۸ الہامی مانتی تھی نہ توریت کو، نہ انجیل کو نہ ژند کو- ایسے ملک اور ایسی قوم میں پیدا ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیا کہ آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں- پہلی چیز جو توحید کے قیام کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمائی، وہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے متعلق دنیا نے اب بھی نہیں سمجھا کہ اس کا توحید سے کیا تعلق ہے وہ نکتہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اعلان کیا کہ ساری دنیا میں نبی آتے رہے ہیں- بظاہر اس امر کا توحید سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس امر کو تسلیم کرنے کے توحید ثابت ہی نہیں ہو سکتی- بغیر یہ ماننے کے کہ مصر، ایران، ہندوستان، چین، جاپان، یورپ، امریکہ میں خدا نے نبی پیدا کئے، توحید کامل نہیں ہو سکتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر اس پر بڑا زور دیا ہے- چنانچہ قرآن میں آتا ہےان من امة الا خلافیھا نذیر ۱؎ کہ کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو- پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ولقد بعثنا فی کل امہ رسولا ۲؎ کہ ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا اس کے ساتھ ہی توحید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ان اعبد واللہ و اجتنبوا الطاغوت ہم نے رسول اس لئے بھیجے کہ وہ لوگوں کو سکھائیں اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے بچو- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم میں ہی صداقت آئی، باقی ساری دنیا کو خدا نے چھوڑے رکھا تھا- حق یہ ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس میں نبی اور رسول نہ آئے ہوں- اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس بات کا توحید سے تعلق ہے- جب کوئی قوم یہ خیال رکھے اور ہمارے اندر ہی خدا نے نبی یا اوتار بھیجے، دوسری اقوام میں نہیں بھیجے تو اس سے یہ بھی خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمارا خاص خدا ہے جو دوسروں کا خدا نہیں اور یہ خیال جب ہر ایک قوم میں پیدا ہو جائے گا تو دنیا میں قومی خداؤں کا احساس پایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے متعلق یہ وسیع نظریہ کہ ایک ہی خدا سب کا خالق ہے پیدا نہ ہوگا- ہر قوم یہ محدود خیال رکھے گی کہ ایک ایسا خدا ہے جو ہماری قوم کا خدا ہے، باقیوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے- اس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق محدود خیال پیدا ہوتا ہے- حالانکہ جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم میں مصلح آئے- ہندوؤں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسروں کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اپنے آپ پر مصائب کے پہاڑ گرا لئے،

Page 612

۵۶۹ تکالیف کے بھنور میں پڑ کر ڈوبتی ہوئی دنیا کو ترا لیا- اسی طرح ہم دیکھتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے انسان پیدا ہوئے جن کی زندگیاں خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف تھیں- دنیا کی اور اقوام میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ جب جب ان کی دینی اور روحانی حالت خراب ہوئی- خدا کی طرف سے ان میں ایسے انسان پیدا کئے گئے جنہوں نے ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا- پس جب سب اقوام میں ایک ہی قسم کے فساد کے وقت ایک ہی قوم کا علاج کیا گیا تو کیوں نہ مانا جائے کہ ایک ہی ہستی کی طرف سے یہ سارے انسان بھیجے گئے تھے اور جب یہ خیال کیا جائے تو کسی انسان کے ذہن میں قومی خدا کا تصور نہیں پیدا ہوتا- بلکہ رب العلمین کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے- یہ سمجھنا کہ خدا کا ہماری قوم کے ساتھ ہی تعلق رہا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں رہا- ہم میں جب خرابی پیدا ہوئی، اس وقت اس نے اپنا کوئی پیارا بھیج دیا- مگر کسی اور قوم میں نہ بھیجا اس سے ایک قومی خدا کا تصور ذہن میں آتا ہے- یہی وجہ ہے کہ مختلف اقوام اپنا اپنا خدا الگ سمجھتی اور کہتی ہیں ہمارا خدا ایسا ہے اور فلاں قوم کا خدا ایسا- حتیٰ کہ یہاں تک بھی لکھ دیا گیا کہ ہمارے خدا نے فلاں قوم کے خدا پر فتح پائی- گویا اپنے جیتنے کو انہوں نے اپنے خدا کا دوسروں کے خدا پر جیتنا قرار دیا- اس کی وجہ یہی ہے انہوں نے سمجھا نہیں کہ ہر قوم میں مصلح آتے رہے ہیں اور ہر قوم کی ہدایت کے سامان خدا تعالیٰ کرتا رہا ہے- اس بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف سخت جھگڑا کرتے رہے ہیں- لیکن اگر یہ سمجھ لیں کہ ہر قوم میں نبی اور مصلح آتے رہے ہیں- تو ان میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ سب کا ایک ہی خدا ہے گو اس کے نام مختلف رکھ لئے گئے ہیں- اب تو ناموں کی وجہ سے بھی الگ الگ خدا سمجھے جاتے ہیں- بچپن کا ایک واقعہ ابھی تک مجھے یاد ہے ایک لڑکے نے مجھ سے باتیں کرتے کرتے کہا ہندوؤں کا خدا کیسا خدا ہے- میں نے کہا جو ہمارا خدا ہے وہی ان کا خدا ہے- کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے ان کا خدا تو پرمیشور ہے- میں نے کہا خدا تو وہی ہے، ہندوؤں نے نام اور رکھا ہوا ہے- یہ سن کر وہ بڑا حیران ہوا- دراصل بات وہی ہے جو مثنوی والے نے لکھی ہے- انہوں نے لکھا ہے چار فقیر تھے جو مانگتے پھرتے تھے- کسی نے انہیں ایک سکہ دے کر کہا جاؤ جو چیز کھانے کو جی چاہے جا کر خرید لو- ایک نے کہا ہم انگور لیں گے دوسرے نے کہا انگور نہیں عنب لیں گے- تیسرے نے کہا داکھ لیں گے- چوتھے نے ترکی زبان کا ایک لفظ استعمال کیا کہ وہ لیں گے- اس پر ان کا جھگڑا ہو گیا-

Page 613

۵۷۰ ہر ایک کہنے لگا جو چیز میں کہتا ہوں وہ خریدو- وہ جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا- اس نے پوچھا کیوں لڑتے ہو- ہر ایک نے اپنا قصہ سنایا- وہ چاروں زبانیں جانتا تھا، بات سمجھ گیا- اس نے کہا آؤ میں سب کو اس کی پسند کی چیز خرید دیتا ہوں اس نے جا کر انگور خرید دیئے اور انہیں دیکھ کر سب خوش ہو گئے- اسی طرح قوموں نے ایک ہی خدا کے نام تو اپنی اپنی زبان میں رکھے تھے- لیکن حالت یہ ہو گئی کہ مختلف ناموں سے مختلف خدا سمجھے جانے لگے اور ہر قوم نے اپنا خدا علیحدہ قرار دے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمارے لئے فلاں نبی یا رشی بھیجا اور باقی سب لوگوں کو چھوڑ دیا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- سب کے لئے خدا نے نبی بھیجے- ان کے مختلف نام رکھ لینے سے ان میں فرق نہیں پڑ سکتا- وہ سب سچے اور خدا کے پیارے تھے- غرض اس مسئلہ کو دنیا میں قائم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کو مضبوط بنیاد پر قائم کر دیا- دوسرا مسئلہ جس کا تعلق لوگوں نے مسئلہ توحید سے نہیں سمجھا لیکن وہ بھی نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے وہ عالمگیر مذہب پیش کرنا ہے- جب مختلف مذاہب کے لوگوں میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اور وہ اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیم کو چھوڑ چکے تو ان میں سے ہر ایک نے یہ خیال کر لیا کہ ہماری قوم ہی ہدایت پا سکتی ہے اور کوئی قوم اس نعمت سے مستفیض نہیں ہو سکتی- جب سب قومیں اپنی اپنی جگہ یہ سمجھی بیٹھی تھیں- اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ ساری دنیا کے لئے ہدایت پانے کا رستہ خدا تعالیٰ نے کھلا رہا ہے- چنانچہ اپنے مشن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر آپ نے اعلان فرمایا کہ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۳؎ یہ نہیں کہ ہدایت کا دروازہ صرف عربوں کے لئے کھلا ہے باقی اقوام کے لئے نہیں- مجھے خدا نے رسول بنا کر ساری دنیا کے لئے بھیجا ہے اور سب اقوام ہدایت پا سکتی ہیں- اب غور کرو جب یہ خیال پیدا کیا جائے گا کہ سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے تو سب کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ جاگزیں ہو جائے گا- لیکن اگر یہ خیال پیدا کیا جائے کہ صرف عربوں کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے، ہندوستانیوں کے لئے یا ایرانیوں کے لئے یا چینیوں کے لئے نہیں تو پھر یہ خیال پیدا ہوگا کہ ان کا خدا کوئی اور ہے وہ خدا نہیں جو عربوں کا ہے- پس عالمگیر مذہب پیش کرنے سے توحید کا بہت بڑا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور یہی خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر پیدا کیا ہے- آپ نے اعلان فرمایا- مجھے خدا تعالیٰ نے ساری

Page 614

۵۷۱ دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے- کسی قوم کا انسان ہو، وہ میرے ذریعہ ہدایت پا سکتا ہے، روحانی مدارج طے کر سکتا ہے، اور خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے- اس طرح آپ نے قومی خدا کا خیال مٹا دیا اور اس کی بجائے عالمگیر خدا پیش کیا جس سے اصل توحید قائم ہوئی- چنانچہ آپ کی بعثت کے بعد تمام دنیا کے ادیان میں پھر توحید کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے- یہ تو مذہبی نقطئہ نگاہ تھا ان دو اصول کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے مسئلہ کو مضبوط کیا- یوں کہنے سے کہ خدا ایک ہے، لوگ نہ مان سکتے تھے جب تک ان کے دماغ میں ایسے احساسات نہ پیدا کئے جاتے کہ خدا تعالیٰ سب کا ہے اور سب کے لئے اس کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی احساس پیدا کئے یہ تو مذہبی نقطئہ نگاہ تھا- ایک دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو پیش فرمایا ہے- اور وہ اس طرح کہ کمپیریٹو ریلیجن (COMPARATIVE RELIGION) (یہ ایک نیا علم نکلا ہے کہ سب مذاہب کے اصول کو جمع کر دیا جاتا ہے- اور بتایا جاتا ہے کہ مذاہب میں کتنی باتیں مشترک ہیں- مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ سب مذاہب میں خدا کا خیال مشترک ہے) والوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ مذہب میں بھی اسی طرح ارتقا ہوتا چلا آیا ہے جس طرح دنیا میں- وہ کہتے ہیں ہر چیز میں آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے- مذہب نے بھی آہستہ آہستہ ترقی کی ہے- جسے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پہلے انسان خدا کو نہ مانتے تھے بلکہ عناصر کی پرستش کرتے تھے اور عناصر کو خدا کا ظل قرار دیتے تھے- جب انسانوں نے ترقی کی تو عناصر کی بجائے ارواح کو خدا کا ظل ماننے لگے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے ایک خدا کے خیال پر قائم ہوئے- اسی لئے وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ دنیا نے آہستہ آہستہ خدا کا کھوج نکال لیا- یہ ان میں سے ان لوگوں کا قول ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں- وہ کہتے ہیں جس طرح مٹی کا تیل انسانوں نے کوشش کرتے کرتے نکال لیا، وہ خود بخود نہ نکلا تھا- اسی طرح خدا تو موجود تھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا- آخر ترقی کرتے کرتے اس کا پتہ لگا لیا گیا، وہ خود ظاہر نہ ہوا- لیکن جو خدا تعالیٰ کے قائل ہی نہیں وہ کہتے ہیں خدا کوئی نہیں- دنیا نے اپنی عقل سے ایک نقشہ تجویز کر لیا ہے جسے خدا کہا جاتا ہے- اس خیال کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ کسی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو سکتا ہے- ان کے نقطئہ نگاہ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم

Page 615

۵۷۲ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے متعلق عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے- کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن توحید کے متعلق ساری ترقی آپ کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھی- آپ نے توحید کی جو تشریح فرمائی، اس کے بعد کوئی نئی تشریح آپ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد نہیں نکلی- اس لئے ماننا پڑے گا کہ خیال انسانی کا ارتقاء آپ کی ذات میں آ کر مکمل ہوا اور دنیا کے لئے آپ ہی مقصد اعظم تھے- جب آپ مبعوث ہو گئے تو پھر توحید مکمل ہو گئی اور آپ نے توحید کی وہ تشریح پیش کر دی کہ اس کے بعد کسی اور تشریح کی ضرورت نہ رہی- میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے رشی، منی اور رسول گزرے، انہوں نے توحید کو ناقص طور پر پیش کیا- کیونکہ توحید کو ناقص رنگ میں پیش کرنے والا نبی ہی نہیں ہو سکتا- جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہو کر آیا، اس نے مکمل توحید پیش کی- مگر اپنے زمانہ کے لحاظ سے مکمل پیش کی- اگر مسئلہ ارتقاء کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت توحید کا نقطہ کمال کو پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے مکمل ہو گیا- علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت اب میں علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت پیش کرتا ہوں- اول: علم سائنس میں بغیر توحید کے ترقی نہیں ہو سکتی- سائنس اس قانون کی دریافت کا نام ہے جو دنیا میں جاری ہے- مثلاً یہ کہ آگ جلاتی ہے پانی پیاس بجھاتا ہے- غرض خواص اشیاء جو ایک مقررہ رنگ میں چلتے ہیں، ان کا دریافت کرنا سائنس رہے- اب اگر آپ کسی اور خدا نے پیدا کی ہو، درخت کسی اور خدا نے، پہاڑ کسی اور نے، تو یہ چیزیں آپس میں موافقت نہیں رکھیں گے بلکہ ایک دوسری سے ٹکراتی رہیں گی- لیکن جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پرمیشور ایک ہی ہے اور سب چیزیں اسی کے ماتحت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ سب کے لئے ایک ہی قانون جاری ہے- اور یہ بغیر ایک خدا کے ہو نہیں سکتا- اگر دنیا کی تمام اشیاء کے لئے ایک ہی ہستی قانون جاری کرنے والا نہیں تو پھر سائنس باطل ہے- اب پانی میں بجھانے اور آگ میں جلانے کی خاصیت ہے- اگر آپ پیدا کرنے والا خدا اور ہو اور پانی پیدا کرنے والا اور، اور وہ اپنی اپنی پیدا کردہ چیزوں کی خاصیتیں بدل دیں تو کیا کام چل سکتا ہے- مثلاً ایک خدا نے مگنیشیا اس لئے بنایا کہ جلاب لگائے اور دوسرے خدا نے معدہ ایسا بنایا کہ مگنیشیاکے اثر کو قبول کرلے-

Page 616

۵۷۳ لیکن اگر وہ معدہ کی اس خاصیت کو بدل دے تو پھر خواہ کوئی کتنا مگنیشیا پئے جلاب ہی نہ لگیں گے- غرض بغیر توحید ماننے کے سائنس چل ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی دنیا میں ترقی ہو سکتی ہے- دوم: بغیر توحید کے علم کی تحقیق کی جرات بھی کسی کو نہیں ہو سکتی- کیونکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ اور چیزوں میں بھی خدائی طاقتیں ہیں تو ان کی تحقیقات کرنے کی کیونکر جرات کی جائے گی- مثلاً جو شخص کسی چیز کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ بھی رب ہے، اسے چیرنے پھاڑنے کے لئے کس طرح تیار ہو سکے گا- لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ ایک ہی خدا ہے جس نے باقی سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر انسان ان اشیاء کی تحقیقات کریں گے اور اس طرح علوم میں ترقی ہوگی- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید پر زور دینے کے بعد علوم میں اس قدر ترقی ہوئی جس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر ۱۳ سوسال کے اندر اندر علوم نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جو پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی- یہ توحید کی وجہ سے ہی علوم نے ترقی کی- جب لوگوں نے یہ سمجھا کہ تمام چیزوں کا ایک ہی خدا ہے اور اس نے سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو اس سے علوم میں ترقی کرنے کے دروازے کھل گئے- ہر چیز کے متعلق تحقیقات شروع ہو گئی- ان پہلوؤں کے علاوہ جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور طرح بھی توحید کو قائم کیا ہے- یعنی اصولی طور پر توحید کی تعلیم دی ہے- آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ توحید کو مان لو- بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح مانو- اسی طرح آپ نے یہی نہیں فرمایا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ کس طرح شرک نہ کرو اور کس طرح اس سے بچو- پھر آپ نے صرف یہ نہیں کہا کہ توحید کو مان لو بلکہ توحید کے دلائل دے کر کہا ہے کہ اسے مانو- اسی طرح آپ نے صرف یہی نہیں کہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل دے کر شرک کی برائی سمجھائی ہے- چنانچہ قرآن کریم میں شرک کے متعلق آتا ہے- قل ھو اللہ احد- اللہ الصمد- لم یلد ولم یولد- ولم یکن لہ کفوا احد ۴؎ اس میں چار اقسام کا شرک پیش کر کے اس کا رد کیا گیا ہے- فرمایا شرک چار طرح کیا جا سکتا ہے- اول شرک احدیت کے لحاظ سے کہ خدا کی ذات ایسی کوئی اور ذات قرار دی جائے- یہ درست نہیں کیونکہ ھواللہ احد اللہ ایک ہی ہے، کوئی اس کا ہم پایہ نہیں- دوم یہ کہ صفات کے لحاظ سے خدا کا شریک مقرر کیا جائے- یہ بھی نادرست ہے-

Page 617

۵۷۴ کیونکہ اللہ الصمد صمد وہ ہے جس کی مدد کے بغیر کوئی چیز قائم نہ رہ سکے- اللہ تعالیٰٰ کا سہارا اس کی صفات کے ذریعہ ہی ہوتا ہے- اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خیال کرنا شرک ہے کہ کوئی اور ہستیاں بھی ہیں جن کی مدد کے بغیر کوئی چیز زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی- یا کوئی کام نہیں ہو سکتا- سوم یہ کہ کوئی خیال کرے خدا ایک زمانہ میں تھا مگر پھر فوت ہو گیا اور آگے اس کی اولاد چل پڑی- یہ بھی شرک ہے- اس سے خدا تعالیٰ میں یہ نقص ماننا پڑتا ہے کہ وہ فنا ہو جاتا ہے- یہ ازلیت کے لحاظ سے شرک ہے- چہارم یہ کہ کسی کو خدا کا ہمسر ماننا بھی شرک ہے- یعنی یہ کہ کسی دوسرے کو خدا نے اپنی طاقتیں دے دیں اور وہ اس طرح خدا کے برابر ہو گیا- یہ بھی شرک ہے- یہ چار اقسام شرک کی ہیں- دنیا کے سارے شرک ان کے اندر آ جاتے ہیں- پھر توحید کے متعلق فرمایا- اللہ لا الہ الا ھوالحی القیوم لاتا خذہ سنہ ولانوم- لہ مافی السموت ومافی الارض- من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ- یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بشی من علمہ الا بماشاء وسع کرسیہ السموت والارض- ولا یودہ حفظھما وھو العلی العظیم- ۵؎کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں الحی القیوم وہ اپنی ذات میں زندہ ہے اور دوسروں کو زندہ رکھتا ہے لاتاخذہ سنہ ولانوم پھر اس کے کاموں میں وقفہ نہیں پڑتا- اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے کاموں میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے- کیونکہ وقفہ ماننے کا یہ مطلب ہوا کہ اگر خدا کا تعلق دنیا سے نہ رہے تو بھی دنیا اپنے آپ چل سکتی ہے- تو فرمایالاتا خذہ سنہ ولانوم کہ اسے نیند یا اونگھ کبھی نہیں آئی-لہ ما فی السموت وما فی الارض ہر ایک چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے- انسان کو چاہئے ہر چیز کے متعلق یہی سمجھے کہ اس کااصل مالک خدا ہی ہے اور کسی کا اختیار اس پر نہیں ہے- من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ پھر یہ بھی تسلیم کرے کہ بے شک دعائیں قبول کرنے کا سلسلہ خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے- مگر یہ خیال نہ کرے کہ کوئی خدا سے کوئی بات زور سے منوا سکتا ہے- خدا خود کسی امر کے متعلق اجازت دے کہ لو اب مانگو- تو انسان مانگ سکتا ہے، ورنہ نہیں- یعلم مابین ایدیھم وماخلفھم وہ جانتا ہے جو ہو چکا یا جو ہوگا- توحید کے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے

Page 618

۵۷۵ کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرف کامل نہیں ہو سکتا- پس خدا تعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے-ولا یحیطون بشی من علمہ الابما شاء اور کوئی انسان خدا کے دیئے ہوئے علم کے بغیر کچھ نہیں حاصل کر سکتا- پس انسان سمجھے جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے- خدا ہی سے حاصل ہونا ہے- آگے فرمایاوسع کرسیہ السموت والارض اس کی کرسی ساری زمین اور آسمانوں پر چھا گئی- کرسی وہ مقام ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے- مطلب یہ کہ ہر ذرہ جو حرکت کرتا ہے، خدا کے تصرف کے ماتحت کرتا ہے- اس کے مانے بغیر بھی توحید کامل نہیں ہو سکتی- آگے فرمایاولا یودہ حفظھما وہ جو حفاظت کر رہا ہے اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا، ہمیشہ جاری رہے گی-وھوالعلی باوجود اس کے کہ ہر ذرہ ذرہ سے اس کی قدرت ظاہر ہو رہی ہے، وہ اتنا بلند ہے کہ کوئی خود بخود اس کی کنہہ تک نہیں پہنچ سکتا- العظیم مگر وہ بلندی پر ہی نہیں کہ کوئی اس کی کنہہ تک نہ پہنچ سکے- بلکہ وہ بھی ہے- قدرتوں کے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے، اسے پا سکتا ہے- ہر شخص بڑی جلدی اس تک پہنچ سکتا اور اس کا وصال حاصل کر سکتا ہے- پس بتایا کہ توحید کامل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال ہو جائے- جب کوئی خدا کو پا لے، اس وقت اسے توحید کامل حاصل ہوگئی- گویا اتصال کا نام ہی توحید ہے- یہ وہ توحید ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہے کہ اسی دنیا میں خدا سے ایسا وصول ہو جائے کہ انسان کا اپنا وجود مٹ جائے اور خدا ہی خدا باقی رہے- توحید کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کو ایک بتانا اور ایک قرار دینا، یعنی اپنی زبان کے اقرار کے علاوہ اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا کہ خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں اگر خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسان کی مرضی مطابقت نہیں رکھتی، اگر خدا تعالیٰ کے ارادوں سے انسان کے ارادے نہیں ملتے، تو وہ توحید کا سچا اقرار نہیں کرتا- اصل توحید یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو مٹا کر دکھاوے کہ خدا تعالیٰ ہی کی مرضی دنیا میں چلتی ہے- پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل سے شرک کا رد فرمایا ہے- آپ نے شرک کے رد میں ایک دلیل یہ دی کہ کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو- ہر ایک چیز دوسری کی محتاج ہے- آسمان سے پانی برستا ہے، اس کا تعلق سورج سے ہے- گرمی پانی کو بخارات بنا کر اڑاتی ہے اور اس طرح بادل بنتے ہیں- پھر اس سے زمین کی گردش کا تعلق ہے.

Page 619

۵۷۶ اسی طرح ہر چیز کا ایک سلسلہ چلتا ہے- دہلی میں ایک بزرگ گذرے ہیں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے ایک شاگرد سے پوچھا میاں تمہیں لڈو کھانا آتا ہے- اس نے کہا یہ کونسی مشکل بات ہے- لڈو اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا- انہوں نے فرمایا- نہیں یہ کھانے کا طریق نہیں، کسی دن لڈو آئے تو تمہیں بتائیں گے کس طرح کھانا چاہئے- ایک دن کسی نے لڈو لا کر پیش کئے تو انہوں نے شاگرد کو بلا کر پاس بٹھا لیا اور ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا- اس سے ایک تھوڑا سا ٹکڑا توڑا اور کہنا شروع کیا- میاں غلام علی )یہ ان کے شاگرد کا نام تھا) تمہیں پتہ ہے اس لڈو کی تیاری کیلئے خدا تعالیٰ نے کتنے سامان پیدا کئے- اس میں گھی پڑا، میٹھا پڑا، میدا پڑا اور کتنی چیزیں پڑیں- پھر ان چیزوں کی تیاری میں کتنے سامان کئے گئے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ مظہر جان جانان ایک لڈو کھائے- آگے ان کی تشریح کرنی شروع کر دی- ساتھ ساتھ ہر بات پر محویت میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے تھے- اس میں ظہر سے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے- غرض کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو خود بخود بغیر کسی دوسری چیز کے سہارے کے قائم ہو- ہر ایک کا ایک سلسلہ چلتا ہے- ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے بیسیوں سامان پہلے سے موجود ہوتے ہیں- اگر بچہ پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہو اور اس کی ضروریات پیدا کرنے والا کوئی اور تو پھر بچہ کے لئے اس کی ضروریات کا کس طرح انتظام ہوتا- بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی ضروریات کا انتظام موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے جو بچہ کو پیدا کرنے والا اور اس کے لئے انتظام کرنے والا ہے- اسی طرح سب جگہ ایک ہی انتظام اور ایک ہی قانون جاری ہے- جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے- اور بھی بیسیوں دلائل ہیں- لیکن انہیں میں اس وقت چھوڑتا ہوں- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اشاعت کے لئے کیا کیا- اس کے لئے بھی صرف ایک بات پیش کرتا ہوں- آپ سے لوگوں کی ساری دشمنی توحید ہی کے پھیلانے کی وجہ سے تھی- ایک دفعہ کفار نے آپ کو کہلا بھیجا اگر مال چاہتے ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر دیتے ہیں، اگر حکومت چاہتے ہو تو تمہیں اپنا حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں، اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو سارے عرب میں سے خوبصورت عورت پیش کرنے کے لئے تیار ہیں، اور اگر دماغ خراب ہو گیا ہے تو اس کا علاج کرنے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر تم ہمارے بتوں کے

Page 620

۵۷۷ خلاف کچھ نہ کہو- جب یہ پیغام ایک رئیس نے آپ کو پہنچایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ میری بے نفس خدمت کی ان لوگوں نے کیا قیمت ڈالی ہے- اور جواب میں فرمایا اگر سورج کو میرے دائیں رکھ دو اور چاند کو بائیں اور کہو توحید چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا- پیغام لانے والا آپ کا بڑا سخت دشمن تھا- مگر آپ کا جواب سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے جو باتیں اس کے منہ سے سنی ہیں، ان کی وجہ سے کہتا ہوں اس کی مخالفت چھوڑ دو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے- غرض آپ کو دشمنوں کی طرف سے تمام تکلیفیں توحید کی اشاعت کی وجہ سے دی گئیں- آپ کو مارا جاتا، کتے اور لڑکے آپ کے پیچھے ڈالے جاتے- ایک دفعہ آپ طائف گئے تو وہاں کے لوگوں نے اس قدر مارا کہ آپ سر سے لے کر پاؤں تک لہولہان ہو گئے- آپ تکلیف کی وجہ سے گر پڑتے لیکن جب اٹھتے تو وہ لوگ پھر آپ پر پتھر پھینکتے- ایسی حالت میں بھی آپ کے منہ سے یہی نکلتا خدایا ان لوگوں کو معاف کر دے کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں- ان تمام حالات میں سے گذرتے ہوئے آپ نے توحید کی تبلیغ کو نہیں چھوڑا اور یہی کہتے رہے کہ خواہ یہ کچھ کریں میں توحید کی تبلیغ نہیں چھوڑ سکتا- پھر جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی یہی کہتے فوت ہوئے- میرے بعد شرک نہ کرنا اور میں تو سمجھتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت بھی خدا تعالیٰ نے اپنی توحید کا ثبوت آپ کے والد کو قبل ازولادت اور والدہ کو جلد بعد از ولادت فوت کر کے دیا- آپ کی بے کسی کی ابتداء اور شاندارانجام خود خدا تعالیٰ کی توحید کا بڑا ثبوت تھا- اب میں مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں سے کیا سلوک کیا اور ان کے متعلق کیا تعلیم دی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح طور پر یہ تعلیم دی ہے- کہ کسی کی خوبی کا ا نکار نہیں کرنا چاہیئے اور یہ بھی کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں جن کا انکار کرنا ظلم ہے- چنانچہ قرآن میں آتا ہے وقالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصری لیست الیھود علی شی وھم یتلون الکتب- ۶؎ فرمایا کیسے ظلم کی بات ہے، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں اور یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں، حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں- کیا اس میں کوئی بھی خوبی نہیں- تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ دوسروں کی

Page 621

۵۷۸ خوبی کو تسلیم کرنا چاہئے- جو شخص کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں کوئی خوبی نہیں، وہ غلطی کرتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایسی اعلیٰ تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ تمام اقوام کے دل رکھ لئے ہیں- کسی کے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں اس مذہب کے پیروؤں کے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے- اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ہر قوم کی خوبی تسلیم کرو- اس طرح آپ نے تمام قوموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے- دوم-: آپ نے فرمایا کسی مذہب کے افراد کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ اپنے مذہب کو قریب سے مانتے ہیں- باوجود اس کے کہ پہلے مذاہب بگڑ چکے ہیں تاہم ان کے ماننے والوں میں سے اکثر انہیں دل سے سچا سمجھتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں بعض یہود اور نصاری کی تعریف آئی ہے- یہودیوں کے متعلق آتا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر انہیں پہاڑ کے برابر بھی سونا دے دو تو وہ اس میں خیانت نہ کریں گے- اس سے معلوم ہوتا ہے- یہودیوں میں ایسے لوگ تھے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے تھے- آج کل مسلمانوں میں بھی یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور باوجود اس کے ان کو نہیں چھوڑتے- حالانکہ ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں میں سے ۹۹فی صدی ایسے ہیں جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں- اسی طرح عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ ہیں جو خدا کا ذکر سن کر رونے لگ جاتے ہیں، خشیت سے ان کے دل بھر جاتے ہیں- کیا ایسے لوگ اپنے مذہب کو فریب سے ماننے والے ہو سکتے ہیں- یہ تعلیم دے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے احساسات کا ادب اور احترام کرنا سکھایا ہے- تیسری تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ آپ نے حکم دیا سب قوموں کے متعلق تسلیم کرو کہ ان میں انبیاء آئے- اس بات پر اجمالی طور پر ایمان لاؤ کہ سب اقوام میں نبی آئے- اس طرح آپ نے انٹرنیشنل لاء (INTERNATIONALLAW) کو مذہب میں جاری کر دیا- گزشتہ جنگ کے دوران میں روس کی حکومت میں تبدیلی ہو گئی جس پر باقی حکومتیں اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں- روسی اس کے لئے منتیں کرتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی- بعض لوگ کہیں گے دوسری حکومتوں کے تسلیم کر لینے سے کیا فائدہ ہوتا ہے کہ

Page 622

۵۷۹ روسی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں- بات یہ ہے اس میں بہت بڑے فائدے ہوتے ہیں- جس حکومت کو دوسری حکومتیں تسلیم کر لیں، اسے بینالاقوامی قانون کے فوائد حاصل ہونے لگ جاتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے تمام مذاہب کے حقوق کو تسلیم کیا اور یہ قرار دیا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں- ان مذاہب کی غلط باتوں سے اختلاف بھی کیا، ان کا مقابلہ بھی کیا مگر ان کے ماننے والوں کے احساسات کا احترام کیا اور ان کے حقوق قائم کئے- یہ بہت بڑا حق تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دیا- چوتھی تعلیم آپ نے یہ دی کہ جب کسی قسم کی بحث ہو تو گالیوں پر نہ اتر آؤ- چنانچہ آتا ہے لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم- ۷؎جب دوسری قوموں سے جھگڑا ہو تو وہ ہستیاں جنہیں تم نہیں مانتے، خواہ انہیں خدا کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہو- انہیں تم برا نہ کہو، ورنہ وہ بھی اس خدا کو گالیاں دیں گے جسے تم مانتے ہو- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت کلامی سے روکا ہے- پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہیں کرنا چاہئے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سمجھا جاتا تھا جس قوم سے مذہبی اختلاف ہو اس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کرنے کا حق حاصل ہے- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا- چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ فرمایا- وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ۸؎تم جنگ کر سکتے ہو- مگر انہی سے جو تم پر حملہ آور ہوں- مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کبھی کسی پر حملہ نہ کرنا- اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو حریت ضمیر عطا کی کہ خواہ کسی کا کوئی مذہب ہو، اس وجہ سے کسی کو حق نہیں کہ اسے مارے یا نقصان پہنچائے- چھٹا سلوک آپ نے یہ کیا کہ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دیا- پہلے کہا جاتا تھا کہ ہدایت صرف ہماری قوم کے لئے ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا اور اپنی قوم اور دوسری قوموں میں کوئی فرق نہیں رکھا چنانچہ فرمایا- انی رسول اللہ الیکم جمیعا- ۹؎میں دنیا کی سب اقوام کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں، سب کو ہدایت کا رستہ دکھا سکتا ہوں-

Page 623

۵۸۰ ساتواں حق غیر مسلم اقوام کا یہ قرار دیا کہ فرمایا عہد وہی قائم نہیں رکھنا چاہئے جو اپنی قوم کے اندر ہوا ہو بلکہ خواہ کسی قوم سے عہد ہو، اسے قائم رکھنا چاہئے- لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہوتی ہے اور اس غلطی میں وہ مسلمان بھی مبتلا ہو گئے ہیں جو قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے کہ غیروں سے جو عہد ہو، اسے توڑ دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- و اما تخا فن من قوم خیانہ فانبذ الیھم علی سواء۱۰؎کہ اگر کوئی قوم عہد توڑ دے تو اسے بتا دینا چاہئے کہ تم نے عہد توڑ دیا ہے، اب ہم پر بھی عہد کی پابندی نہیں، یونہی اس پر حملہ نہیں کر دینا چاہئے- چنانچہ ابوسفیان جب مکہ سے آیا اور آ کر اس نے کہا اب میں نئے سرے سے عہد کرتا ہوں، تو اس موقع پر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو اچانک حملہ کر سکتے تھے- مگر آپ نے فرمایا- ابوسفیان تم نے یہ اعلان کیا ہے، میں نے نہیں کیا اور اس طرح بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے- اس کے مقابلہ میں آج کل کیا ہوتا ہے، یہ کہ جب کسی پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں- پیچھے اٹلی نے جب ترکی پر حملہ کیا تو اس حملہ سے تین دن قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے آج کل ایسے اچھے تعلقات ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے- یہ اس لئے تھا تا کہ ترکی بالکل غافل رہے- مگر ابوسفیان نے جب اعلان کیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو آپ پر کوئی ذمہ واری عائد نہ ہوتی تھی- مگر آپ خاموش نہ رہے اور فرما دیا یہ تمہارا اعلان ہے، ہمارا نہیں- اس طرح ان کو بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے- آٹھویں آپ نے یہ تعلیم دی کہ مسلم اور غیر مسلم کے تمدنی حقوق ایک قرار دیئے- یہ بات صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آپ سے پہلے نہ تھی- یہودیوں کو یہ حکم تھا کہ تم اپنے بھائیوں یعنی یہودیوں سے سود نہ لو، دوسروں سے لے لیا کرو- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود نہ یہودیوں سے لو نہ عیسائیوں سے نہ مسلمانوں سے، غرض کسی سے بھی سود نہ لو- سب سے ایک سلوک کرنے کا حکم دیا- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمدنی سلوک کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم کو ایک قرار دیا- نویں تعلیم یہ دی کہ غلاموں کی آزادی میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں رکھا- کہا جائے گا قرآن میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے- مگر یہ حکم اسی موقع کے لئے ہے

Page 624

۵۸۱ جہاں مسلمانوں کو نقصان اور صدمہ پہنچا ہو، ورنہ عام طور پر سب غلاموں کی آزادی کا آپ نے حکم دیا- جنگ حنین کے موقع پر سینکڑوں غلام جو پکڑے آئے، باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھے انہیں آپ نے آزاد کر دیا- دسویں تعلیم غیر مسلموں کے متعلق آپ نے یہ دی کہ جہاں اسلامی حکومت ہو، وہاں مسلمانوں پر زیادہ بوجھ رکھا جائے اور دوسروں پر کم-(۱) مسلمان لڑائی میں شامل ہوں- (۲) عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا دیں- (۳) زکٰوۃ دیں- یعنی جمع مال کا حصہ دیں- یہ خدمات مسلمانوں کے لئے رکھی گئیں اور غیر مسلموں کے لئے اڑھائی روپیہ کے قریب فی کس ٹیکس رکھا جو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے- اور پھر اسی وجہ سے مسلمانوں پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری رکھی گئی ہے- آج کل یورپ میں دس دس روپیہ فی کس ٹیکس لگا ہوا ہے اور بعض ممالک میں اس سے بھی زیادہ ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے زیادہ ٹیکس رکھا اور جنگیخدمات بھی ان کا فرض قرار دیا- لیکن دوسروں کے لئے ٹیکس بھی کم رکھا اور جنگی خدمات سے بھی آزاد کر دیا- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مذاہب کے انسانوں کے متعلق اپنا عمل کیا رکھا- اس کے لئے دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے- پہلی مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر قوم کے نیک انسانوں کا عملاً احترام کیا- لکھا ہے طی قوم سے جب جنگ ہوئی تو کچھ مشرک بطور قیدی پکڑے آئے- ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی- اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ جانتے ہیں میں کس کی بیٹی ہوں- آپ نے فرمایا کس کی بیٹی ہو؟ اس نے کہا میں اس شخص کی بیٹی ہوں جو مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آیا کرتا تھا- یعنی حاتم کی- وہ مسلمان نہ تھا لیکن چونکہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتا تھا، اس لئے اس کی وجہ سے اس کی بیٹی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیا- اس کا بھائی گرفتاری کے خوف سے بھاگا پھرتا تھا- آپ نے اسی وقت اسے روپیہ اور سواری دے کر کہا جا کر بھائی کو لے آؤ- وہ گئی اور اسے لے آئی- اس پر اس سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا- اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر غیر مذاہب کے لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور اس وجہ سے اچھا سلوک کیا-

Page 625

۵۸۲ دوسری مثال نصاریٰ نجران کا واقعہ پیش کرتا ہوں- نجران کے نصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کے لئے آئے- انہوں نے ایسے رنگ میں بحث کی کہ تاریخوں میں آتا ہے بے ادبی سے گفتگو کرتے رہے- جب گفتگو کرتے کرتے اٹھ کر اس لئے جانے لگے کہ ان کی نماز کا وقت آ گیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہیں نماز ادا کر لو- چنانچہ انہوں نے مسجد میں ہی اپنی صلیبیں نکالیں اور انہیں سامنے رکھ کر عبادت کر لی-۱۱؎ آج دیکھو کس طرح مسجدوں اور مندروں کے متعلق لڑائیاں ہوتی ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں سے کہا کہ مسجد میں اپنے طریق سے عبادت کر لو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اعلان کیا تھا کہ لنڈن کی مسجد میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی آزادی کے ساتھ آنے کی اجازت ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس بات کو پیش کر کے کہا یہ مسجد نہیں دھر مسالہ ہے- غرض یہ عملی سلوک ہے غیر اقوام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا- کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانیں لینے کے لئے اور ان پر ظلم کرنے کے لئے آئے تھے- جو جانیں لینے کے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں صلیبیں پوجنے کی اجازت دے سکتا ہے- اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپ نے اخرالمساجد ۱۲؎ فرمایا اور جس میں نماز پڑھنے پر دیگر مساجد کی نسبت بہت زیادہ ثواب رکھا گیا ہے- اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے نبی کی موجودگی میں اور اس نبی کی موجودگی میں جو خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے آیا- نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کیا حرج ہے بے شک کر لو- آج بڑے بڑے حوصلہ والوں کی بھی اتنی جرات نہیں کہ اپنی عبادت گاہوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے دیں- تیسری مثال یہ ہے کہ آپ ہمسائیوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے کہ صحابہ ہر وقت اس کی پابندی یاد رکھتے- لکھا ہے کہ ابن عباس ایک دفعہ گھر میں آئے- انہوں نے دیکھا کہیں سے ان کے ہاں گوشت آیا ہے- انہوں نے گھر والوں سے پوچھا اپنے ہمسائے یہودی کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں- آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ گھر والوں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں- انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے جبرائیل نے اتنی دفعہ ہمسایہ کے حق کی تاکید کی کہ میں

Page 626

۵۸۳ نے سمجھا اسے وراثت میں شریک کر دیا جائے گا- یہ عملی سلوک تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آپ نے غیر مذاہب کے لوگوں سے روا رکھا- آپ لوگوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے- ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے کسی یہودی نے کہا موسیٰ کی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی- اس پر حضرتابوبکرؓ نے اسے طمانچہ مار دیا- جب یہ معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت ابوبکر جیسے انسان کو زجر کی- غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسے طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور وہ اسے طمانچہ مار بیٹھتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کیوں تم نے ایسا کیا- اسے حق ہے جو چاہے عقیدہ رکھے- چوتھی مثال فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور اس نے گوشت میں زہر ملا دیا- جب آپ کے سامنے رکھا گیا تو ایک صحابی بشر نے اس میں سے کھا لیا- مگر آپ کو الہاماً معلوم ہو گیا- اس لئے آپ نے لقمہ اٹھا کر پھر رکھ دیا- آپ نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کھانے میں تو زہر ہے- اس نے کہا آپ کو کس نے بتلا دیا- آپ نے ایک ہڈی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس نے- یہودن نے کہا میں نے اس لئے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کے سچے نبی ہیں تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی- اگر جھوٹے ہیں تو دنیا کو آپ کے وجود سے نجات حاصل ہو جائے گی- آپ نے یہ سن کر فرمایا اسے کچھ نہ کہو- حالانکہ وہ صحابی بشر فوت ہو گئے- آپ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا صحابی فوت ہو گیا مگر آپ نے عورت ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا- حالانکہ اس نے آپ کی اور آپ کے مخلص صحابہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس طرح اسلام کو بیخ و بن سے اکھیڑنا چاہا تھا- یہ کتنا بڑا سلوک تھا- پانچویں مثال جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو حکم دیتے کسی قوم کی عبادت گاہیں نہ گرائی جائیں- ان کے مذہبی پیشواؤں کو نہ مارا جائے- عورتوں پر اور بوڑھوں، بچوں پر حملہ نہ کیا جائے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے یہ رواج تھا کہ پادریوں اور صوفیوں کو مار ڈالا جاتا تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روک دیا- اگر آپ دیگر مذاہب کے ایسے دشمن ہوتے جیسے مخالفین آپ کو قرار دیتے ہیں تو کیا آپ یہ حکم دیتے کہ ان مذاہب کے راہنماؤں کو

Page 627

۵۸۴ چھوڑ دیا جائے- آپ تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ان کو مارا جائے- مگر آپ نے فرمایا جو تلوار لے کر حملہ کرتا ہے اسے مارو- لیکن جو لوگ مذہبی کاموں میں لگے ہوئے ہوں، ان کو نہ مارو- چھٹی مثال دنیا میں طریق ہے کہ جن لوگوں سے جنگ ہوئی ہے، ان کے احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مفتوح اقوام کو ہر طرح دبانے اور ان کے جذبات کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے- انگریزی حکومت بڑی مہذب کہلاتی ہے مگر آج تک لاہور میں لارنس کا مجسمہ ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا ہے- جس کے نیچے ہندوستانیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے- قلم کی حکومت چاہتے ہو یا تلوار کی ہر ہندوستانی سمجھتا ہے اس میں اہل ہند کی ہتک کی گئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے اگر تم قلم کی حکومت نہ مانو گے تو تلوار کے زور سے تم پر حکومت کی جائے گی- ہندوستانیوں نے اس مجسمہ کے ہٹائے جانے کے لئے بڑا زور بھی لگایا- مگر گورنمنٹ نے نہیں مانا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے مکہ والوں نے آپ پر کس قدر ظلم کئے تھے- متواتر ۱۳ سال مکہ والے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کرتے رہے- عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا- رسیوں سے باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹا گیا- بھٹیوں سے کوئلے نکال کر ان پر مسلمانوں کو لٹایا گیا- پتھریلی زمین پر گھسیٹا گیا- بعض مردوں اور عورتوں کی آنکھیں نکال دی گئیں- اور یہاں تک ظلم کئے گئے کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا- وہاں بھی ان لوگوں نے آپ کو چین نہ لینے دیا- وہاں کے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا- قیصر اور کسریٰ کی حکومتوں کو اشتعال دلایا- مگر جب ایسی قوم کے خلاف آپ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ چڑھائی کر کے جاتے ہیں تو ابوسفیان آ جاتا ہے اس وقت مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے اہلمکہ کے سارے مظالم ایک ایک کر کے آ رہے ہیں- ان کا خون جوش سے ابل رہا اور وہ سمجھ رہے ہیں آج ہم اپنے بھائیوں کے خون کے ایک ایک قطرہ کا بدلہ لیں گے- اس وقت فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر کہتا ہے آج مکہ والوں کی خیر نہیں، ہم ان کے ظلموں کا ان سے بدلہ لیں گے- اس پر ابوسفیان آگے بڑھ کر شکایت کرتا ہے کہ اس شخص نے ہمارا دل دکھایا ہے (کس کا؟ شدید دشمن بالمقابل لشکر کے کمانڈر کا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس شخص کو بلوایا اور فرمایا آپ کو معزول کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے کفار مکہ کے احساسات کا خیال نہیں

Page 628

۵۸۵ رکھا- دیکھو ابھی معلوم نہیں کہ مکہ والے کیا رویہ اختیار کریں گے، لڑائی کا کیا نتیجہ رونما ہو گا- مگر مکہ والوں کے ایک سردار کے یہ کہنے پر کہ فلاں افسر نے ہمارا دل دکھایا ہے، ایک کمانڈر کو معزول کر دیا جاتا ہے- کیا دنیا کی تمام جنگوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جا سکتی ہے- کمانڈر چھوڑ نائیک )NIKE) اور لانس نائیک )LANCENAIK) کی مثال بھی نہیں دکھائی جا سکتی کہ اسے اس لئے سزا دی گئی ہو کہ اس نے میدان جنگ میں کھڑے ہو کر کہا ہو آج ہم دشمن کی خوب خبر لیں گے اور اسے پوری پوری شکست دیں گے- اب میں اپنی تقریر ایک واقعہ کا ذکر کر کے ختم کرتا ہوں- مخالفوں کی طاقت کو کچلنے کا آخری موقع فتح مکہ تھا- مگر دیکھو کس محبت اور پیار کا معاملہ آپ نے ان لوگوں سے کیا- مغربیتاریخوں میں ایک مشہور شخص ابراہیم لنکن ہوا ہے- اس کے زمانہ میں دو گروہوں میں لڑائی ہو- ایک کہتا کہ غلامی قائم رہنی چاہئے مگر دوسرا گروہ اسے ظلم قرار دے کر مٹانا چاہتا- ابراہیملنکن مٹانے والوں میں سے تھا- اس کی بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب دوسرے فریق کو شکست ہوئی اور اسے فتح تو وہ سر نیچے کئے ہوئے گیا- کہتے ہیں وہ دعا کر رہا تھا کہ فیصلہ ہو گیا- فوجوں نے اسے کہا کہ بینڈ بجاتے ہوئے جانا چاہئے مگر اس نے کہا نہیں اس طرح دوسروں کا دل دکھے گا- یہ اس کی خاص خوبی بیان کی جاتی ہے- مگر وہ ایسا شخص تھا جسے ان لوگوں نے کوئی ذاتی دکھ نہ دیا تھا- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو ان لوگوں کی غداری کی وجہ سے حملہ آور ہوئے تھے- اور ان دشمنوں پر حملہ کرنے گئے تھے جنہوں نے قریبا ً ربع صدی تک مسلمانوں پر ظلم کئے تھے- جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بے حد دکھ دیئے تھے- مگر جب مکہ کے قریب پہنچے تو سب کمانڈروں کو جمع کیا اور فرمایا جب تم مکہ میں داخل ہو گے، میں ساتھ نہ ہوں گا، تم نے کسی کو مارنا نہیں- اور جب مکہ نظر آیا اور آپ نے مخالفوں کی طرف سے لڑائی کے سامان نہ دیکھے تو سجدہ میں گر گئے- کہا گیا ہے کہ لنکن دعا کرتا ہوا گیا تھا- مگر اس کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حالت نہ تھی- جو دکھ اہل مکہ نے آپ کو دیئے تھے، ان کا لاکھواں حصہ بھی لنکن کو نہ دیا گیا تھا- مگر آپ نے قوم کو خونریزی سے بچا لیا- مسلمانوں کے چار لشکر گئے مگر آپ کسی لشکر کے ساتھ نہ گئے بلکہ اکیلے گئے تاکہ شان نہ ظاہر ہو- اور جا کر کعبہ میں نماز پڑھی اور اعلان کر دیا کہ جو شخص گھر میں بیٹھا رہے گا، اسے معاف کیا

Page 629

۵۸۶ جاتا ہے- اس کے بعد مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے- وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ اپنے مذہب پر قائم تھے- اور وہ لوگ تھے جنہوں نے ۱۳ سال کے ہر منٹ میں آپ کو مارنے کی کوشش کی تھی- اور اس کے بعد سات سال تک دو سو میل دور جا کر آپ کی تباہی کی کوشش کرتے رہے تھے- ان سے پوچھا جاتا ہے بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے- اگر ان کے جسموں کا قیمہ بھی کر دیا جاتا تو یہ ان کے جرموں کے مقابلہ میں کافی سزا نہ تھی- مگر جب انہوں نے کہا ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا- تو آپ نے فرمایا لا تثریب علیکم الیوم۱۳؎ جاؤ تمہیں معاف کیا جاتا ہے اور کوئی گرفت نہیں کی جاتی- یہ وہ خاتمہ ہے جو اس جنگ کا ہوا جو آپ کے قدیمی دشمنوں اور آپ کے درمیان ہوئی- وہ لوگ جو کہتے ہیں- اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا وہ سن لیں، اگر کوئی شخص یہ کہلانے کا مستحق ہے کہ اس نے تلوار کے مقابلہ میں عفو سے کام لیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے- اگر عمر بھر کے ظلموں اور دکھوں کو کسی نے بخش دیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی- میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے مقدس وجود پر کوئی اعتراض کرنے کی بجائے اس کے مخالف بھی اس کی تقدیس کریں گے- اب آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ آپس کا تفرقہ دور ہو اور آپس میں ایسی صلح کریں کہ ایک دوسرے کے حقوق نہ لیں بلکہ بھائی بھائی بن کر اور ایک دوسرے کے حقوق دیتے ہوئے صلح کریں- (الفضل ۵،۷، ۸- دسمبر ۱۹۴۴ء) النحل:۳۷ الاعراف:۱۵۹) الاخلاص: ۲تا ۵ البقرة :۲۵۶ البقرة:۱۱۴ الانعام:۰۹ البقرة:19۱ الاعراف:۱۵۹) الانفال:۵۹ زرقانی مؤلفہ علامہ محمد عبدالباقی جلد ۴ صفه ام مطبوعہ مصر ۱۳۲ه مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدی مكة و مدينة شرح مواهب اللدنیه جلد ۲ صفحہ۳۰۲ طبع بار اول مطیع از هر یہ مصر :

Page 630

۵۸۷ کامیابی از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 631

Page 632

۵۸۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم کامیابی کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنوں سے عام طور پر ہمارے اہل ملک ناواقف ہیں اور یہی ہماری ناکامیوں کی ہے- ہمارے ملک میں کامیابی نام ہے روپیہ کا- کامیابی نام ہے اچھے کپڑے پہننے کا اور اچھے کھانے کھانے کا- کامیابی نام ہے لوگوں پر تسلط پانے اور حکومت کرنے کا- مگر حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ غلط مفہوم کامیابی کا نہیں ہو سکتا- جن چیزوں کو ہم کامیابی قرار دیتے ہیں انہی کو اپنا کام یعنی مقصد بنا لینا کامیابی کے راستہ میں روک ہوا کرتا ہے- یہ چیزیں خود کامیابی نہیں بلک بعض دفعہ کامیابی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں- اس غلط فہمی کی وجہ سے بعض لوگ پوچھ بیٹھا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسینؑ کیوں ناکام ہوئے اور یزید کیوں کامیاب ہوا- حالانکہ اگر غور کرتے تو یزید باوجود مال و دولت اور جاہ و حشم کے ناکام رہا اور حضرت امام حسینؑ باوجود شہادت کے کامیاب رہے- کیونکہ ان کا مقصد حکومت نہیں بلکہ حقوق العباد کی حفاظت تھا- تیرہ سو سال گذر چکے ہیں مگر وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسینؑ کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخاب خلافت کا حق اہل ملک کو ہے، کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعد بطور وارثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا، آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا- بلکہ ان کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے- پس کامیاب حضرت امام حسینؑ ہوئے نہ کہ یزید- قرآن کریم نے نہایت مختصر الفاظ میں کامیابی کا گر بتایا ہے اور میں اس کی طرف ناظرین کو توجہ دلاتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم با حسان رضی اللہ عنھم ورضواعنہ واعدلھم جنت تجری تحتھاالانھار خلدین فیھا ابدا- ذلک الفوز العظیم ۱؎ نوٹ-: یہ مضمون ابتداء خواجہ حسن نظامی صاحب کے رسالہ ‘’کامیابی’‘ دہلی میں شائع ہوا-

Page 633

۵۹۰ یعنی وہ لوگ جو دوسروں سے آگے نکلنے اور اول رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی ہر اک چیز کو قربان کر دیتے ہیں یا ایسے لوگوں کے ممد اور معاون ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو مذکورہ بالا جماعت کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے اور اسی نے ان لوگوں کے لئے ایسے باغات تیار کئے ہیں جن کے اندر نہریں چلتی ہیں اور وہ ان میں بستے چلے جائیں گے- یہ بہت بڑی کامیابی ہے- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے- آرام اور آسائش کے سامان اس کے نتیجہ میں ملتے ہیں خود مقصود بالذات نہیں ہوتے- اور نیز یہ بتایا گیا ہے کہ کامیابی کا گر یہ ہے کہ کوئی قوم ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے جو قربانی چاہتے ہیں اور جن کا فائدہ بادی النظر میں انسان کی اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو ہی پہنچتا ہے، دوسری اقوام سے آگے بڑھنے اور اول رہنے کی کوشش کرے- یہ وہ گر ہے جسے ہماری قوم نے نظر انداز کر دیا ہے- اور یہی وہ گر ہے جس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے- ہمارے اندر دولت مند بھی ہیں اور صاحب جائداد بھی لیکن باوجود اس کے ہم کامیاب نہیں- اس لئے کہ ہماری قوم اور ہمارے اہل ملک کی کوششیں اپنے نفس کی عزت اور اپنے آرام کے حصول کے لئے خرچ ہوتی ہیں- لیکن کامیابی کا گر یہ ہے کہ قوم سب کی سب مہاجر ہو جائے- یعنی اپنے نفس کو بھلا کر ان کاموں میں لگ جائے جو نبی نوع انسان کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں یا انصار بن جائے یعنی ایسے لوگوں کی مدد گار اور معاون ہو حتیٰ کہ دنیا کا ہر ایک ملک اپنے گرد و پیش ایسے سامان دیکھے جن کے بغیر اس کا گذارہ مشکل تھا اور جن کا حصول اسی قوم کی شدید قربانیوں کے بغیر ناممکن تھا- یہ قوم کامیاب ہوتی ہے اور اس کا ذکر خیر دنیا سے کبھی نہیں مٹ سکتا- میں امید کرتا ہوں کہ میرے برادران وطن اسی صداقت کو سمجھ کر اس کی طرف پوری توجہ کریں گے- خالی نقل سے وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ بعض علوم و فنون میں السابقون الاولون ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور دوسری اقوام کو اپنے پیچھے چلانے میں کامیاب نہ ہوں گے وہ برابر ناکامی کا منہ دیکھتے رہیں گے- لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سابقہ ناکامیاں ہمیں بیدار کر دیں- کیا ہماری پستی کے لئے کوئی قعر مذلت باقی ہے جس تک گرنا ہمارے

Page 634

۵۹۱ لئے ضروری ہے- کیا ہم بچپن کے زمانہ سے نکل کر شباب نہیں بلکہ پیری کا زمانہ ہی دیکھیں گے اور پھر نابالغ بنے رہیں گے- خدا نہ کرے کہ ایسا ہو بلکہ خدا کرے کہ ہماری قوم بیدار ہو کر مہاجر و انصار کا رنگ دکھاتی ہوئی دنیا کی ترقی کے میدان میں السابقون الاولون کے دوش بدوش کھڑی ہو اور ہر ایک قربانی عارضی نہیں بلکہ مستقل اس پر آسان ہو اور کامیابی کے میدان میں ایک ایسی پائیدار یادگار چھوڑے جس کے نقش مرور زمانہ سے بھی نہ مٹ سکیں- آمین- اللھم امین و اخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین- (الفضل ۱۲- جولائی ۱۹۲۹ء) ۱؎ التوبہ: ۱۰۰

Page 635

Page 636

‏ ۵۹۰ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 637

Page 638

۵۹۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں (فرمودہ ۱۶- اگست ۱۹۲۹ء بمقام یاڑی پورہ کشمیر) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جب کسی بستی میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتا ہے- توجعلوا اعزة اھلھا اذلة۱؎وہ اس کے بڑے لوگوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دیتا ہے- اور ہم دیکھتے ہیں دنیا میں جب کبھی حکومت بدلتی ہے تو جہاں نیا بادشاہ اور نئے حاکم ہو جاتے ہیں وہاں اس کے ساتھ دنیا میں بہت بڑا تغیر بھی واقع ہوتا ہے- وہ لوگ جو اس ملک میں بڑے سمجھے جاتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں سب کام ہوتے ہیں، وہ اپنی عزت اور حکومت کی حفاظت کیلئے نئے بادشاہ سے مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اور بادشاہ قابض ہو گیا تو ان کی حکومت میں خلل واقع ہوگا- اگر اس مقابلہ میں نیا بادشاہ غالب آ جاتا ہے تو وہ چھوٹوں کو بڑا بنا دیتا ہے اور بڑوں کو چھوٹا کر دیتا ہے- خدائی سلسلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو عرب میں گو کوئی بادشاہ نہیں تھا مگر ہر علاقہ میں بڑے بڑے لوگ تھے جو اپنے اپنے علاقہ پر حکومت کرتے تھے- مدینہ میں، طائف میں، حضرموت میں، یمن وغیرہ میں، غرض ہر علاقہ میں رئیس تھے- جب آپ نے نبوت کا پیغام

Page 639

۵۹۶ پہنچایا تو آپ کی باتوں میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو بری ہو- آپ نے ایک بات بھی ایسی نہ کہی جس سے مخالفین یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ شخص اپنی بڑائی چاہتا ہے اور ہمیں گرانا چاہتا ہے- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا حکم دیا تو اس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا، سراسر دوسروں کا ہی فائدہ تھا- اگر آپ نے حقیقی مالک کو راضی کرنے کی تعلیم دی تو جو لوگ اس تعلیم پر چلتے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیتے ان کی اپنی ذاتوں کو ہی فائدہ پہنچتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ ہوتا- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکٰوۃ دینے کا حکم دیا تو اس میں بھی لوگوں کا ہی فائدہ تھا نہ کہ آپﷺ کا- آپﷺ نے تو سیدوں کو زکٰوۃ لینے سے منع کر دیا حالانکہ سیدوں میں بھی غریب ہوتے ہیں- تو نہ صرف آپ زکٰوۃ کے مال سے مجتنب رہے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی فرما گئے کہ ان کے لئے زکٰوۃ کا مال جائز نہیں-۲؎ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا اس میں آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا تھا کونسی جاگیر مل جاتی تھی یہ صرف لوگوں کے فائدہ کے لئے آپ نے تعلیم دی- اسی طرح چوری کرنے سے منع فرمایا- اس سے بھی آپ کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا صرف لوگوں کے بھلے کے لئے فرمایا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تو بعض اوقات کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا تھا اس حالت میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے جو چوری سے منع فرمایا تو اس لئے کہ تا آپ کے گھر محفوظ رہیں بلکہ یہ حکم صرف لوگوں کے اموال کی حفاظت کیلئے دیا- اسی طرح آپﷺ~ نے ظلم کرنے سے منع فرمایا یہ حکم بھی اس لئے دیا تا لوگ ایک دوسرے کے ظلم سے بچیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تو علیحدگی میں عبادت کر کے اپنا وقت گزارتے تھے- پس جو بھی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دی نہ تو اس میں کوئی برائی تھی اور نہ آپﷺ~ کی اس میں کوئی ذاتی غرض تھی- آپﷺنے جھوٹ سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی، چوری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی، بدکاری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی، عرب لوگ شراب سے بدمست رہتے تھے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی مگر باوجود اس کے پھر بھی لوگوں نے آپ کو سخت تکلیفیں دیں- آپ کے ماننے والوں پر ایسے ظلم و ستم ڈھائے کہ وہ ہمیشہ مصائب کا تختہ مشق بنے رہے- ان تکالیف سے تنگ آ کر بعض صحابہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ہجرت کر کے حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہوئے مگر مکہ والوں کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی کہ چار پانچ سو کوس پر بھی وہ اپنے غریب

Page 640

۵۹۷ ہموطنوں کو آرام سے بسنے دیں- انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو تحفے بھیج کر اس بات کے لئے رضامند کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے لیکن جب یہ تدبیر کار گر نہ ہوئی تو بعض ان میں سے حبشہ پہنچے ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے جو بعد میں بہت بڑے صحابی ہوئے انہوں نے مصر فتح کیا تھا- انہوں نے جا کر حبشہ کے بادشاہ سے کہا یہ لوگ ہمارے غلام ہیں اور بغاوت کر کے وہاں سے بھاگ آئے ہیں- بادشاہ منصف مزاج تھا اس نے مسلمانوں کو بلایا اور دریافت کیا آپ لوگوں پر کیا الزام ہے؟ انہوں نے جواب دیا- اے بادشاہ! ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم لوگ چوری کیا کرتے تھے، بدکاری میں مبتلاء تھے، شرک کے گناہ سے ملوث تھے، ہر قسم کا دغا فریب کرتے تھے کہ خدا کا ایک برگزیدہ پیدا ہوا اس نے ہمیں ان باتوں سے روکا- ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور یہ سب برائیاں چھوڑ دیں بس یہی ہمارا قصور ہے- یہ تقریر ایسے رقت بھرے الفاظ میں کی گئی کہ بادشاہ اور درباری سب رو پڑے اور بادشاہ نے انہیں واپس دینے سے انکار کر دیا- جب اس طرح بھی اہل مکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو عمرو بن عاص نے اپنے ساتھی سے کہا اب میں درباریوں کو ان کے خلاف اکساتا ہوں- چنانچہ اس نے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ بادشاہ کو یہ کہہ کر مخالف بنائیں کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں- بادشاہ عیسائی تھا اسے اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی- دوسرے دن درباریوں نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ! یہ لوگ نہ صرف مکہ والوں کے دشمن ہیں بلکہ تمہارے بھی دشمن ہیں کیونکہ یہ حضرت عیسیٰؑ کی توہین کرتے ہیں- بادشاہ نے پھر مسلمان مہاجرین کو بلایا اور اس بارے میں دریافت کیا- انہوں نے کہا ہم لوگ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور دل سے ان کی تعظیم کرتے ہیں- ہاں ہم انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے اور سورۃ مریم کی آیات سنائیں- بادشاہ نے ان کا جواب سنکر ایک تنکا اٹھایا اور خدا کی قسم کھا کر کہا میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ اس تنکا کے برابر بھی نہیں سمجھتا- درباری یہ سن کر بادشاہ کے خلاف سخت برافروختہ ہو گئے مگر بادشاہ نے انہیں وہ واقعہ یاد دلایا جب کہ وہ اس کے باپ کی وفات پر اسے قتل کر کے اس کے چچا کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے-۳؎ مگر خدا نے کچھ ایسے سامان کر دیئے کہ بادشاہت اسے مل گئی- بادشاہ نے کہا کہ تم لوگوں کا مجھ پر

Page 641

۵۹۸ کچھ احسان نہیں یہ خدا کا مجھ پر احسان ہے- بادشاہت کے جانے کا مجھے کچھ بھی ڈر نہیں وہ خدا جس نے مجھے بادشاہت عطا کی میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور یہ ظلم جو تم مجھ سے کرانا چاہتے ہو ہر گز نہیں کروں گا- ایک وقت تو یہ حالت تھی لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ یہ اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے دشمن مسلمان ہوئے اور اخلاص میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کی- یہی عمرو بن عاص جب مسلمان ہو گئے تھے تو اپنے متعلق کہنے لگے- مجھ پر دو زمانے آئے ایک اسلام کی مخالفت کا اور ایک موافقت کا- مخالفت کے زمانہ میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا بغض رکھتا تھا کہ حقارت سے کبھی چہرہ نہیں دیکھتا تھا پھر موافقت کا زمانہ آیا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس قدر دل میں جاگزیں ہوئی اور آپ کا جلال ایسا تھا کہ میں رعب کی وجہ سے آپ کے چہرہ کی طرف نگاہ نہیں کر سکتا تھا- ابوجہل کا لڑکا عکرمہ تھا پہلے مخالفت کرتا رہا لڑائیوں میں سرگرم حصہ لیتا تھا مگر جب اسلام اختیار کیا تو ہر طرح کی قربانیاں کیں، جان و مال سے دریغ نہ کیا، اور اسلام کی اس قدر خدمت کی کہ اپنا پورا جان نثار ہونا ثابت کر دیا- غرضیکہ وہ دشمنان اسلام جو سخت مخالفت پر تلے رہتے تھے آخر کار انہوں نے حقانیت کو مانا اور مان کر ہر طرح کی قربانیوں میں حصہ لیا- اسی طرح ایک وقت تو وہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو گھروں سے باہر نکلنا دشوار تھا- اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گزارہ کرنا پڑتا تھا تا کہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں لیکن پھر وہ بھی زمانہ آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے ایک جرار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے- اس طرح وہ دن آیا کہ دشمن کو دروازے بند کر لینے پڑے اور کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ باہر نکل سکے- وہ لوگ جو غریب سمجھے جاتے تھے اور جو اتنے مظلوم تھے کہ کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچتا تھا، اس وقت وہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے اور اس دن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کو دکھا دیا کہ کس طرح چھوٹے بڑے بنائے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں- پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے باپ سے کسی نے کہا ابوبکر مسلمانوں کا خلیفہ ہو گیا- اس پر وہ تعجب سے پوچھنے لگے کون ابوبکر؟ کیا ابوقحافہ کا بیٹا؟ جب ان کو یقین دلایا گیا کہ وہی خلیفہ ہوئے ہیں تو وہ دریافت کرنے لگے- کیا

Page 642

۵۹۹ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں بنوہاشم نے ان کو مان لیا ہے، بنو عبدالشمس، بنو عبدالمطلب وغیرہ نے ان کی اطاعت اختیار کر لی ہے؟ جب کہا گیا کہ ہاں سب نے مان لیا ہے تو حضرت ابوبکر ؓ کے والد نے اگرچہ وہ پہلے سے اسلام میں داخل تھے مگر کمزور ایمان رکھتے تھے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا ہے- ۴؎یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی قوت قدسیہ کا اثر ہے کہ ان قبائل نے ابوبکر ؓ کی اطاعت اختیار کر لی، ورنہ ابوبکر کی کیا حقیقت تھی- پھر حضرت ابوہریرہ کو دیکھو- فتوحات کے زمانہ میں ایک دن ریشمی رومال میں تھوک کر کہنے لگے- واہ واہ ابوہریرہ- ایک وہ زمانہ تھا کہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو جانے پر لوگ مرگی کے خیال سے جوتیاں مارا کرتے تھے اور ایک یہ زمانہ ہے ریشمی رومالوں میں تھوکتے ہو- پاس بیٹھنے والوں نے یہ بات سنکر پوچھا آپ نے کیا فرمایا؟ کہنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تا کہ جب آپ باہر تشریف لائیں اور کچھ فرمائیں تو میں سن سکوں اس وجہ سے میرے کھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا- بعض دفعہ سات سات فاقے کرنے پڑتے تھے اور بعض اوقات شدت بھوک کے سبب بے ہوشی طاری ہو جاتی اور اس بے ہوشی کو مرگی خیال کیا جاتا اور عرب کے رواج کے ماتحت اس کا علاج جوتیوں سے کیا جاتا- ایک دفعہ جب کہ بھوک نے بہت ستایا تو میں نے صدقہ کی آیت نکال کر حضرت ابوبکر ؓ کے پیش کی- انہوں نے اس کا مطلب بیان کیا اور چل دیئے- اسی طرح حضرت عمر ؓ کے پیش کی- انہوں نے بھی مطلب بیان کیا اور چل دیئے- حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں جب وہ مطلب بیان کر کے چل پڑتے اور آیت کے پیش کرنے سے میری غرض کو نہ سمجھتے تو میں اپنے دل میں کہتا کیا یہ معنی مجھے معلوم نہ تھے یہ مجھ سے بہتر تو نہیں جانتے- اس اثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا ابوہریرہ! کیا بھوک لگی ہے- میں نے عرض کیا ہاں- اس پر آپ نے مسجد کے دوسرے غرباء کوبھی بلانے کے لئے فرمایا- چنانچہ جب میں سب کو بلا کر لے گیا تو آپ نے دودھ کا ایک پیالہ نکالا اور پلانا شروع کیا مگر مجھے چھوڑ کر پہلے دوسروں کو پلانے لگ گئے- اس پر میں دل میں کڑھا کہ بھوک سے تو میں مر رہا تھا ایک پیالہ دودھ ہے وہ دوسرے پینے لگ گئے ہیں مجھے کیا ملے گا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو پلا کر مجھے فرمایا- ابوہریرہ! اب تم پیو- میں نے پیا- حضور نے فرمایا اور پیو- پھر میں نے پیا- اس طرح حضور نے مجھے کئی بار پلایا- حتیٰ کہ پیٹ میں ذرا بھی گنجائش باقی نہ رہی- یہ واقعہ سنا کر حضرت ابوہریرہ

Page 643

۶۰۰ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں ؓ فرمانے لگے اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ میرا یہ حال تھا۵؎ اور ایک یہ زمانہ ہے کہ جب خدا نے فضل کیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق فتوحات ہوئیں اور میں ایران کے بادشاہ کے رومال میں تھوکتا ہوں- حضرت ابوہریرہؓ فتوحات کے زمانہ میں مصر کے گورنر بھی بنا دیئے گئے تھے- الغرض دنیا میں جب خدا کے نبی آتے ہیں تو لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں- وجہمخالفت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو حکومت ہمیں حاصل ہے وہ اسے حاصل ہو جائے گی- ایسے لوگوں کو چھوٹا بنا دیا جاتا ہے اور جو نبی کو قبول کرتے ہیں انہیں ادنیٰ حالت سے بڑا بنا دیا جاتا ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مبعوث ہوئے تو ان کی قوم نہایت ذلیل سمجھی جاتی تھی- اینٹیں پاتھنے کا کام ان سے لیا جاتا تھا لیکن حضرت موسیٰ کو مان کر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی- اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے آپ کے ماننے والے بھی ادنیٰ قوموں سے تعلق رکھتے تھے حواری اور مچھلیاں پکڑنے والے آپ کے متبع تھے مگر خدا نے ان کو عزت دی- باقی جو بڑے بنے بیٹھے تھے، ان سب کو ذلیل و رسوا کر دیا- آج بھی خدا نے ایک مامور بھیجا ہے جس کے ہاتھ پر ہم سب احمدیوں نے بیعت کی ہے- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام- الہٰی سلسلوں کی طرح یہ سلسلہ بھی پہلے بہت کمزور سمجھا جاتا تھا مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے سلسلہ ترقی کرتا جاتا ہے اور اس کی عظمت لوگوں کے دلوں پر بیٹھتی جاتی ہے- ایک دفعہ کچھ حنفی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے لے گئے- بٹالہ پہنچنے پر آپ نے فرمایا- پہلے میں یہ تو معلوم کر لوں کہ وہ کہتے کیا ہیں؟ مولوی محمد حسین صاحب نے بتایا کہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کی بات بہرحال مقدم ہے اور حدیث موخر- اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہی ٹھیک ہے میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں- حضرت صاحب کے اس جواب پر مباحثہ کے لئے لے جانے والے تالیاں پیٹنے لگے مگر آپ نے ان کی تالیوں کا کچھ بھی خیال نہ کیا اور خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے خلاف کچھ کہنا گناہ سمجھا- جب آپ قادیان کو واپس لوٹے تو راستے میں الہام ہوا- آج تو نے میری خاطر ذلت قبول کی ہے- مگر میں تجھے عزت دوں گا اور تمام دنیا میں تیرا نام معزز کروں گا- بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے- مگر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فعل بہت بڑی بات تھی-

Page 644

۶۰۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آپ بھی بڑے مرزا صاحب کے بیٹے ہیں- آپ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہتے- آپ کے والد افسوس کیا کرتے کہ یہ میرا بیٹا آئندہ زندگی میں بھوکا مرے گا کیونکہ یہ تو زمیندارہ بھی نہیں کر سکے گا- مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک عظیم الشان ہستی بننے والا ہے- اس زمانہ کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ آپ نے بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی جو بری ہو- اس سرینگر میں فاحشہ عورتیں موجود ہیں- مولوی اور واعظ انہیں دیکھتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرو تو فوراً مخالفت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے- نہ صرف مخالفت بلکہ سخت افروختہ ہو جائیں گے- مانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کی ہے اور بعض لوگوں کا عقیدہ ان کی زندگی کا ہے مگر اس قدر افروختہ ہونے کے کیا معنی- زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ کی غلطی ہے- مسلمانوں کی ذلت کا ایک بہت بڑا باعث یہ بھی ہے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر مدفون مانا اور عیسیٰ علیہ السلام کو بقید حیات آسمان پر بٹھایا- یہی عیسائی جو ہم پر حکومت کرتے ہیں مسلمان بادشاہ ہونے کے زمانہ میں ان کی منت و سماجت پر ان کے لڑکوں کو سکولوں میں داخل کیا جاتا تھا مگر آج یہ بادشاہ ہیں- اس کی وجہ کیا ہے- یہی کہ مسلمانوں نے حضرت محمد رسول اللہہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین میں دفن کیا خدا نے بھی انہیں ذلیل و رسوا کر دیا- حضرت عیسیٰ کو آسمان پر بٹھایا خدا نے بھی ان کی قوم کو ان پر حاکم کر دیا- انہی عقائد کی وجہ سے مسلمان عیسائیوں سے مغلوب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا ایک حصہ عیسائیت کا شکار ہو چکا ہے- ایک سادہ لوح مسلمان نہایت آسانی سے ان کے جال میں پھنس جاتا ہے- وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کر کے دکھاتے ہیں اس طرح پر کہ ساتھ ساتھ اقرار کرواتے چلے جاتے ہیں- وہ پوچھتے ہیں بتاؤ بھائی دونوں نبیوں میں سے زندہ کون ہے؟ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے- اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ آسمان پر کون ہے، مردے کون زندہ کیا کرتا تھا، پرندے کون پیدا کرتا تھا- مسلمان ان سب کا جواب حضرت عیسیٰ کے متعلق اثبات میں دیتا ہے

Page 645

۶۰۲ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نفی کرتا ہے- پھر عیسائی کہتے ہیں وہ جو زندہ ہے، آسمان پر ہے، مردوں کو زندہ کرتا تھا، پرندے پیدا کرتا تھا، ہم اسے مانیں اور اسے نجات دہندہ قرار دیں یا اسے جو زندہ نہیں نہ آسمان پر ہے اور نہ مردوں کو زندہ کرتا تھا نہ کوئی چیز اس نے پیدا کی- اس مقابلہ میں مسلمان کے پاس کوئی حقیقی جواب نہیں ہوتا اور وہ مجبور ہوتا ہے کہ عیسائیت اختیار کرے، عیسیٰ کی خدائی کو تسلیم کرے، کیونکہ جن باتوں کو وہ پہلے سے مانتا چلا آتا ہے عیسائی وہی باتیں اس کے سامنے رکھتے ہیں اور وہی باتیں ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کو مستلزم ہیں- بر خلاف اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کی اور حقیقت اسلام کو لوگوں کے سامنے رکھا، باطل کی آمیزش کو دور کیا اور خدائی احکام کو دنیا میں جاری کیا- مگر لوگوں نے آپ کی مخالفت کی اور ہر طرح سے مقابلہ کیا تا یہ تعلیم دنیا میں نہ پھیلے- آپ کے خلاف ہر قسم کے ذلیل و رسوا کرنے کے منصوبے کئے گئے، آپ پر مقدمات کئے گئے، جھوٹے گواہ بنا کر لے جائے گئے، مارنے کی کوشش کی گئی، قتل کے مقدمے بنائے گئے- یہی وہ زمانہ تھا جب کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا میں مرزا صاحب کو اپنے قلم سے مٹا دوں گا مگر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو خدا نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان ترقی کر رہا ہے اور احمدیت پھیلتی جاتی ہے- افغانستان جہاں کہ احمدیوں پر سخت مظالم ڈھائے جاتے ہیں، ان کو مروا دیا جاتا ہے اس ملک میں بھی خدا کے فضل سے احمدیت ترقی کرتی جاتی ہے- مولوی نعمت اللہ خان صاحب جن کو محمود طرزی وزیر امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان کی چٹھی پر کہ اپنا مبلغ بھیجو، افغانستان میں بطور مبلغ بھیجا تھا لیکن جب انہوں نے لوگوں کے سامنے احمدیت کو پیش کیا تو ان کے خلاف وہاں کے علماء نے فتاویٰ کفر لگائے اور انہیں واجبا لقتل قرار دیا اور انہیں تکلیفوں میں ڈال کر سنگسار کر دیا انہیں ذلیل کرنے کی غرض سے بازاروں میں پھیرایا گیا- غرضیکہ ہر نوع کی تکلیف انہیں پہنچائی گئی مگر انہوں نے احمدیت کو نہ چھوڑا- ایک انگریز مصنف جو ان دنوں وہاں موجود تھا اور اس نے سنگساری کا واقعہ دیکھا تھا وہ لکھتا ہے کہ جب مولوی نعت اللہ خان صاحب کو گاڑا گیا اور پتھر پڑنے شروع ہوئے تو وہ یہی کہتے تھے میں نے حق کو قبول کیا ہے، میں اسے نہیں چھوڑ سکتا- آپ مجھے مار دیں میں تو آپ

Page 646

۶۰۳ کے حق میں دعا ہی کروں گا- باوجود ایسے خطرناک مظالم کے پھر بھی اس ملک میں جماعت ترقی کر رہی ہے- اب جب کہ امیر امان اللہ خان اپنے ملک کو چھوڑ کر روما )اٹلی) میں پہنچ چکے ہیں ان کے ایک وزیر کی چٹھی میرے نام سیلون سے آئی ہے کہ میں جب افغانستان میں تھا تو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتا تھا- اب ولایت جا رہا ہوں، واپسی پر افغانستان میں آ کر پھر تبلیغ کروں گا- خدا کی گرفت سے بڑھ کر کسی کی گرفت نہیں ہو سکتی- امان اللہ خان کے ان بے جا مظالم پر خدا کی گرفت ہوئی- اس نے لڑ کر ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا اس وجہ سے قوم اس کی بہت ممنون تھی اور اس کی بہت عزت کرتی تھی مگر یکدفعہ حالات بدلے اور وہ عزت جو اسے حاصل تھی ذلت کے رنگ میں بدل گئی اور اب جس حال میں امان اللہ خان ہیں وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں- غرضیکہ احمدیت ہر ملک میں پھیلتی جاتی ہے- اس علاقہ میں بھی احمدیت پھیلی ہے- یاڑی پورہ، گنج پورہ، آسنور، رشی نگر، بنڈہ پور وغیرہ دیہات میں ہزاروں احمدی ہیں مگر باقی علاقوں کی نسبت کم ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم کم ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہاں نہیں آئے- یہاں حق کی آواز پہنچی اور لوگوں نے قبول کی- پھر وہ مرکز میں پہنچے اور صداقت کو معلوم کیا اور اس پر قائم ہو گئے اور واپس آ کر دوسرے لوگوں تک اس صداقت کو پہنچایا اور اس طرح صداقت پھیلتی گئی- یاد رکھو! خدا کی طرف سے آنے والا برکات کے ساتھ آتا ہے- گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام شریعت کی نئی کتاب نہیں لائے اور نہ نیا کلمہ جاری کیا ہے- وہی نمازیں ہیں، وہی روزے ہیں جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا مگر آپ کے ساتھ برکات کا نزول ہوا جن سے بہتوں کو فائدہ ہوا- کشمیر کی جماعتوں کے متعلق جب میں غور کرتا ہوں تو افسوس آتا ہے کہ انہوں نے نمایاں ترقی نہیں کی جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے تبلیغ کرنا چھوڑ دیا ہے- میں سمجھتا ہوں کوئی شخص سری نگر جائے اور اس سے راجہ صاحب مصافحہ کریں تو وہ ہر جگہ اس کا ذکر کرے گا لیکن جب خدا تعالیٰ کے نائب نے دنیا کو آواز دی اور تم لوگوں نے اس پر لبیک کہا اور اس کے سلسلہ میں داخل ہوئے جسے خدا دنیا میں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم حق کی آواز دوسروں تک نہیں پہنچاتے- افسوس ہے کہ یہاں کی جماعتوں نے اس کی پوری قدر نہ کی- آج نہیں تو آنے والی نسلیں تمہارے کپڑوں تک سے برکت حاصل کریں گی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے پیرؤوں سے لوگ برکات حاصل کرتے رہے-

Page 647

۶۰۴ حضرت ابو ذر غفاریؓ کا قصہ حدیث میں آتا ہے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سنا تو وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی تعلیم کو سن کر اسلام میں داخل ہو گئے- چونکہ آپ کا قبیلہ سخت مخالف تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہی- آپ نے اجازت دے دی- اس کے بعد کچھ دن وہ حضور کی صحبت میں رہے اور اس قدر اسلام کی محبت ان کے اندر موجزن ہوئی کہ وہ سرداران مکہ کے سامنے جا کر بلند آواز سے کہنے لگے-اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا رسول اللہ-اس پر انہیں اس قدر زدو کوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش گئے- حضرت عباس جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے وہاں سے گذرے اور انہیں یہ کہہ کر چھڑایا کہ جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے؟ غفار قبیلہ کا ہے اور اگر وہ تمہارے مخالف ہوگئے تو تمہاری ساری تجارت بند ہو جائے گی اور کوئی چیز تمہارے پاس نہیں پہنچ سکے گی- اس دن تو وہ چھوٹ گئے لیکن دوسرے دن پھر اسی طرح کیا اور پھر مار کھائی- پہلے تو وہ اپنے قبیلہ میں جا کر اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہتے تھے مگر ایمان نے ایسا جوش مارا کہ انہوں نے مکہ ہی میں اشاعت اسلام شروع کر دی- ٍ ہماری کشمیر کی جماعتیں تبلیغ کے معاملہ میں بہت سست نظر آتی ہیں- اس دفعہ بھی اور پہلے بھی جب کبھی میں یہاں آیا یہی دیکھا- یہ عذر درست نہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں- ہماری جماعت میں بہت سے ایسے ان پڑھ ہیں جو ایک حرف بھی نہیں جانتے مگر احمدیت کے لئے ایسا جوش رکھتے ہیں کہ سینکڑوں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں- احمدیت کی سچائی کی یہ بھی ایک زبردست دلیل ہے کہ کوئی زمانہ تھا جب مسلمان کہلانے والے عیسائی ہوتے تھے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا تو عیسائی اور انگریز لوگ مسلمان ہونے لگے- گویا پہلے اگر شیر بکری کو کھاتے تھے تو اب بکری شیروں کو کھانے لگی اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے ہوا- ولایت میں انگریز مسلمان ہو رہے ہیں امریکہ میں امریکن لوگ اسلام قبول کرتے جاتے ہیں- یہی لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے مگر اب اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں- عیسائی پادریوں کو نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ احمدیوں سے بات چیت نہ کریں- پادری زویمر جو کسی زمانہ میں مصر میں رہتا تھا اس نے ایک شخص سے سوال کیا جس کا وہ جواب نہ دے سکا- اتفاقاً وہ شخص ہمارے

Page 648

۶۰۵ ایک طالب علم سے ملا جو مصر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے ہوئے تھے اور جو آج کل مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر ہیں- انہوں نے اس شخص کو سوال کا جواب سمجھایا اور کہا یہ جواب پادری کے سامنے پیش کرنا- چنانچہ وہ شخص پادری زویمر کے پاس گیا اور اسے جواب سنایا- پادری صاحب گھبرا کر کہنے لگے کیا تم کسی قادیانی سے تو مل کر نہیں آئے، اب یہاں نہ آنا- غرضیکہ یہ لوگ اب احمدیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے- پس احمدیت کی اشاعت بزدلی سے نہ کرو بلکہ جرات اور بہادری سے کرو- یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنی شروع کر دو بلکہ یہ ہے کہ گورنمنٹ سے مل کر کام کیا جائے- ہم پنجاب میں رہتے ہیں وہاں گورنمنٹ سے ملکر کام کرتے ہیں مگر ڈرتے نہیں- اگر ہماری جماعت دوسروں پر ظاہر کر دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خزانہ ہے تو پھر کون ہے جو انکار کرے اور خزانہ کو رد کر دے- میں پھر کہتا ہوں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم ان پڑھ ہیں- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے مگر سب دنیا کو آپ نے تعلیم دی- پس خدا کا فضل حاصل کرو، پھر سب کچھ پا لو گے- نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو پھر کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں- اصل چیز خدا کی محبت ہے، اسے پیدا کرو- پڑھائی صرف ‘’سونے پر سہاگہ’‘ کا کام دیتی ہے- اگر کتابی علم سے کچھ بنتا تو پھر اسلام نہ پھیلتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے- عرب لوگ امی تھے، مگر دیکھو ان امیوں نے کس طرح اسلام پھیلایا- پہلے بزرگ مختلف پیشے اختیار کر کے اسلام کو پھیلایا کرتے تھے- وہ امی تھے اپنا کام کرتے تھے مگر خدا کی محبت ان میں موجزن تھی اس لئے وہ اسلام کی راہ میں تکلیف اٹھا کر بھی اسلام پھیلاتے تھے- پس کوشش کرو کہ حق دنیا میں پھیل جائے اور اس وقت تک آرام نہ کرو جب تک حق تمام دنیا تک نہ پہنچ جائے- اپنے نفوس میں اصلاح کرو اور اپنی حالت درست کرو- اللہ تعالیٰٰ آپ لوگوں پر اپنے فضل نازل کرے گا اور لوگوں کے قلوب میں الہام کرے گا تا کہ وہ آپ کی مدد کریں اور ہاتھ بٹائیں- اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسنور کے علاقہ کے کچھ طلباء قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے ہیں- ایک ان میں سے فارغ التحصیل ہونے والا ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہتعالیٰ چاہے تو اسے اس علاقہ میں مقرر کیا جائے- اس کے بعد اور طالب علم جوں جوں تیار ہوتے جائیں، انہیں اس علاقہ میں تبلیغ کے کام پر لگایا جائے تا کہ وہ اپنے علاقہ کو سنبھالیں- مگر

Page 649

۶۰۶ قبل اس کے کہ ایسا ہو آپ لوگوں کو اپنی سستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا چاہئے- آج ہی مجھ سے شکایت کی گئی ہے کہ عام طور پر لوگ چندہ نہیں دیتے- میں نے کہا چندہ لینے والے بھی آپ لوگ ہیں اور دینے والے بھی آپ ہی- ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں- جب تک کسی کو دین کے لئے خرچ کرنے کا خود شوق نہ ہو دوسرے کیا کر سکتے ہیں- ہاں یہ سیدھی اور پکی بات ہے کہ جب کوئی جماعت بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوتی ہے تو اسے بیرونی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے- ایسے تمام علاقے جن کی زبان علیحدہ ہے مگر ہندوستان کا ہی حصہ ہیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کے چندہ کا ایک حصہ انہیں کے علاقہ میں خرچ کیا جائے- گذشتہ مجلس مشاورت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسے علاقوں کا چندہ ۲۵فیصدی انہی میں خرچ کیا جائے- باقی مرکز میں بھیجا جائے- اور جو دوسرے ممالک ہیں وہاں کا ۷۵ فیصدی چندہ وہیں خرچ ہو اور ۲۵ فیصدی مرکز میں بھیجا جائے- مرکز میں چندہ بھیجنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر خانہ ہے دفاتر ہیں جو ساری جماعت کے انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں ان کے اخراجات کے لئے چندہ کی ضرورت ہے- اس علاقہ کی جماعتیں اگر باقاعدہ چندہ دیں تو اس میں سے ۲۵ فیصدی یہاں خرچ کیا جا سکتا ہے جس سے کئی مدرسے چل سکتے ہیں اور مبلغ رکھے جا سکتے ہیں- پھر ہر احمدی کو تبلیغ میں حصہ لینا چاہئے- پنجاب میں احمدیت اسی طرح پھیلی کہ سینکڑوں آدمی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور ۸۰ فیصدی چندہ پنجاب کا ہوتا ہے جس سے کئی کام کرنے والے مقرر کئے جاتے ہیں اسی طرح کشمیر میں بھی ہو سکتا ہے- موجودہ جماعت تبلیغی اخراجات برداشت کرے اور جوں جوں جماعت بڑھتی جائے، آمد بھی بڑھتی جائے جس سے کئی مبلغ رکھے جائیں اور کئی مدرسے بنائے جا سکیں- مگر پہلے انہی لوگوں کو سارا بوجھ اٹھانا چاہئے جو اس وقت احمدیت میں داخل ہیں- میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ، زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم، خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے- خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں- اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے اور کتنی جلدی ترقی ہوتی ہے- لیکن یہ حالت نہ

Page 650

۶۰۷ ہو تو خواہ کوئی مبلغ آئے یا میں خود ہی آؤں جسے خدا تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور وعظ کروں تو لوگ یہی کہیں گے جب احمدیوں میں کوئی تغیر نہیں نظر آتا تو ہم کیوں احمدی بنیں- پس اپنے اخلاق درست کرو، اپنے معاملات درست کرو، اپنے تعلقات درست کرو، اور لوگوں پر ثابت کر دو کہ ان کی سچی ہمدردی اور خیر خواہی آپ کے دل میں ہے- میں بخار کی حالت میں تھا اور آج ہی مجھے واپس سری نگر جانا ہے چونکہ معلوم ہوا تھا کہ لوگ یہاں جمع ہیں اس لئے آ گیا ہوں- میرے گھر سے بھی بیمار ہیں اس لئے میرا واپس جانا ضروری ہے- میں آپ لوگوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنے کی کوشش کریں- عبادات باقاعدہ ادا کریں- چندہ وغیرہ میں اچھی طرح حصہ لیں اور تبلیغ میں سرگرم رہیں- خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آپ لوگوں کی ضرورتیں پوری کر سکیں اور آپ لوگوں کو پورے جوش سے کام کرنے کی ہمت عطا کرے اور دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی توفیق بخشے- جو لوگ اس سچائی کو قبول نہیں کرتے، وہ اسلام کے غلبہ میں روک ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جماعت قائم کی ہے وہ اسلام کی حفاظت کرنے والی فوج ہے- جو اس فوج میں شامل نہیں ہوتا وہ اسلام کی شکست کا باعث بنتا ہے- خدا تعالیٰ لوگوں کو سمجھ دے تا کہ وہ اس فوج میں داخل ہوں اور اسلام دنیا میں کامیاب ہو اور ساری دنیا میں پھیل جائے- (الفضل ۱۲-نومبر ۱۹۲۹ء) النمل : ۳۵ که مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صنم ۴۰۹ مطبوعہ مکتبہ اسلامی بیروت ۳۹۸ ام السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحہ ۳۵۹ تا ۳۹۴ مطبوه مصر۱۹۳۶ء بخاری کتاب الاعتصام باب ماذكر النبي صلى الله عليه و سلم بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله عليه و سلم و اصحابه

Page 651

Page 652

۶۰۹ پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 653

Page 654

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ -ھوالناصر پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ پنجاب کے تمام مسلم اخبارات میں اس وقت شور پڑ رہا ہے کہ پنجاب سائمن کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے جس رپورٹ پر اپنے دستخط ثبت کئے ہیں، وہ مسلمانوں کے منافع کے خلاف ہے- چونکہ سائمن کمیشن کی آمد پر ہماری جماعت کی طرف سے بھی ایک میموریل پیش ہوا تھا- اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس رپورٹ کے اس حصہ کے متعلق جو اس وقت زیر بحث ہے، اپنے خیالات ظاہر کروں- پچپن کی بجائے اکاون فیصدی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے اس تجویز پر دستخط کئے ہیں کہ پنجاب کونسل میں کل ایک سوپینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳ ممبر مسلمان ہوں اور باقی ہندو، سکھ، مسیحی وغیرہ- اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو بجائے پچپن فی صدی کے اکاونفیصدی سے بھی کم ممبریاں ملتی ہیں- مسلمان ممبروں کی غلطی مجھے پہلے سے یہ معلوم تھا کہ بعض لوگ مسلمانوں میں یہ تحریک کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے مطالبہ کو کم کر کے مذکورہ بالا حد تک لے آئیں تو گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ کارکن ان کے مطالبات کی تائید کرنے کے لئے تیار ہوں گے- میں نے جس وقت یہ بات سنی، اس وقت بھی اس کی مخالفت کی اور اب بھی اس کا سخت مخالف ہوں- اور میرے نزدیک پنجاب سائمن کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے اس بات کو تسلیم کر کے سخت غلطی کی ہے، حقیقی بھی اور سیاسی بھی- اللہ تعالیٰٰ اس کے بد نتائج سے مسلمانوں کو

Page 655

بچائے- اظہار رائے میں تاخیر کی وجہ افسوس ہے کہ بوجہ سفر پر ہونے کے اردو اخبارات جو قادیان کے پتہ پر جاتے رہے تھے، مجھے دیر سے ملے اور سفر کی وجہ سے میں اس امر کے متعلق اس سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکا- مگر میں سمجھتا ہوں موجودہ حالات میں میرا خاموش رہنا قومی مفاد کے مخالف ہوگا اس وجہ سے باوجود دیر ہونے کے میں اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں رک سکتا- مسلمان ممبروں سے تعلقات اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں مسلمان ممبران جو اس کمیٹی کے ممبر تھے، مجھے عزیز ہیں- ایک تو خود اس جماعت کے فرد ہیں جس کی خدمت اللہ تعالیٰٰ نے میرے سپرد فرمائی ہے اور میں ان کی بے نفسی اور دیانت پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں کہ جیسا اپنے نفس پر اور دوسرے صاحب یعنی سردارسکندرحیات خان صاحب چند ایک دفعہ کی ملاقات میں اپنی سعادت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا نقش میرے دل پر جما چکے ہیں- اور مجھے ان سے محبت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ جذبہ یک طرفہ نہیں- لیکن باوجود اس کے جو کچھ خدا تعالٰی نے موجودہ صورت کے متعلق مجھے سمجھایا ہے اس کی بناء پر میں ان عزیزوں کی رائے کی علی الاعلان تغلیط سے باز نہیں رہ سکتا اور مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر یہ دونوں عزیز اپنی غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے- گو مجھے شک ہے کہ ان کا ایسا اعتراف ہمیں کوئی فائدہ بھی دے سکے گا یا نہیں- اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا اصل آج سے آٹھ سال پہلے میں نے یہ اصل مختلف سیاسی لیڈروں کے سامنے پیش کیا کہ ممبریوں کی تقسیم کے متعلق یہ قاعدہ ہونا چاہئے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ان کے حق سے زائد انہیں دیا جائے- بشرطیکہ کسی صوبہ کی اکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے- اس اصل کو اب عام طور پر مسلمان تسلیم کر چکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ غیر اقوام کے غیر متعصب اصحاب بھی اس کی معقولیت سے انکار نہیں کر سکتے- مسلمان ممبروں کی تسلیم کردہ تجویز میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ممبروں کی تسلیم کردہ تجویز اس اصل کے بالکل مخالف ہے- کیونکہ گو انہوں نے ظاہر میں مسلمانوں کے لئے اکثریت کی تجویز کی ہے لیکن حقیقت میں وہ برابری ہے

Page 656

۶۱۳ بلکہ ہندؤوں کی دولت اور ان کے اثر کو دیکھتے ہوئے برابری سے بھی کم ہے- ایک سو پینسٹھ (۱۶۵) ممبروں میں سے تراسی (۸۳) کے معنے یہ ہیں کہ ایک فی صدی کی زیادتی بھی مسلمانوں کو نہیں دی گئی- حالانکہ انہیں تعداد کے لحاظ سے دس فی صدی زیادتی حاصل تھی- ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایک سو پینسٹھ میں سے ایک کی زیادتی زیادتی نہیں ہے- کیونکہ کوئی نظام ایسا مضبوط نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک آدمی کو بھی باہر نہ جانے دے اور اس تعداد کا تسلیم کر لینا کہ جس کی وجہ سے صرف ایک آدمی کے پھر جانے سے اکثریت اقلیت بن جائے، نہایت ہی خطرناک ہے- اس میں اخلاقاً بھی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچے گا، کیونکہ دنیا کی نظر میں وہ اکثریت کے حقوق حاصل کر چکے ہوں گے اور اگر جیسا کہ ان حالات میں امید ہے انہیں نقصان پہنچا تو دنیا یہی کہے گی کہ جو باوجود اکثریت کے اپنے جائز حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ خود ہی نالائق ہیں پارلیمنٹ کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ چار پانچ فیصدی کی اکثریت بھی اکثریت نہیں سمجھی جایا کرتی اور ان حالات میں اکثر حکومتیں مستعفی ہو جایا کرتی ہیں- پس ایک فیصدی اکثریت ہر گز اکثریت نہیں ہے اور مسلمانوں کے تسلیم شدہ اور عقلاً ناقابل تردید اصل کو مسلم ممبران نے اپنی پیش کردہ تجویز سے بالکل رد کر دیا ہے- لفظی کثرت ہرگز ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی- کثرت وہ کہلا سکتی ہے جو معقول حد تک موثر ہو ورنہ لفظ کثرت اپنے اندر ہرگز کوئی ایسا جذب نہیں رکھتا کہ ہم محض اس کی خاطر ملک میں اختلاف پیدا کر لیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں مسلمان ممبران کمیٹی کو بعض اصولی غلط فہمیاں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے ایسی سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے- پہلی غلطی اول ان کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ گورنمنٹ موجودہ صورت میں ان کی تائید کرے گی- پس اس خیال سے کہ ان کے مطالبات ضرور منظور ہو جائیں اور کم سے کم وہ اکثریت جو اب غیر مسلموں کو حاصل ہے دور ہو جائے، انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس وقت یہ سوال نہ تھا کہ کیا منظور ہو گا یا نہ ہو گا، بلکہ قومی مطالبات کو پیش کرنا مطلوب تھا- پس خواہ گورنمنٹ ان کے مطالبات کی کسی قدر بھی مخالفت کرتی، انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہ ہوتے تا کہ ایک دفعہ مسلمانوں کے مطالبات ان کے نمائندوں کے ذریعہ سے ریکارڈ میں آ جاتے- اگر گورنمنٹ

Page 657

۶۱۴ انہیں تسلیم نہ کرتی تو اس کی مرضی تھی- ہمارے مطالبات پھر بھی موجود رہتے اور ہم ہر وقت ان پر زور دے سکتے تھے- دوسری غلطی دوسری غلطی انہیں یہ لگی ہے کہ انہوں نے اپنے متعلق یہ خیال کر لیا کہ وہ بطور جج کے اس کمیٹی کے ممبر بنے تھے اور اس وجہ سے جس طریق کے متعلق انہوں نے خیال کیا کہ اس سے سمجھوتے کی صورت نکل آئے گی اسے پیش کر دیا- حالانکہ وہ جج نہ تھے بلکہ وکیل تھے- اور ایک وکیل کی حیثیت میں ان کا فرض تھا کہ وہ ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے جن کے وہ وکیل تھے- دیانت اور ا مانت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وکیل اپنے موکل کی ترجمانی کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اپنے عہدہ سے استعفاء دیدے- مسلمان ممبران ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں کے لئے درواز ہ کھلا ہے کہ وہ ان کے خیالات کر تردید کریں- اور یہ ظاہر کریں کہ انہوں نے مسلمانوں کے خیالات کر ترجمانی نہیں کی- بے شک مسلمانوں کے لئے یہ درواز ہ کھلا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آئینی طرز حکومت میں عوام کی رائے کون سی سمجھی جایا کرتی ہے- آیا وہ رائے جو اس کے آئینی نمائندے ظاہر کرتے ہیں یا وہ رائے جو پبلک جماعتیں ظاہر کیا کرتی ہیں کونسلوں کے ممبر ہرگز اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ آئینی حکومت کے قیام کے بعد پبلک مجالس کی رائے کونسلوں کے نمائندوں سے بہت کم وزن دار خیال کی جاتی ہے- چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا متواتر اس امر کا اظہار کر چکی ہے کہ اسمبلی کے نمائندوں کی رائے کو ہم ملک کی رائے سمجھیں گے کیونکہ وہ منتخب شدہ نمائندے ہیں- پس ان حالات میں مسلمان نمائندے ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی رائے کو ذاتی رائے سمجھ لیا جائے- جن لوگوں کے پاس ان کی رائے جائے گی، وہ ہرگز اسے ذاتی رائے قرار نہیں دیں گے بلکہ ملکی مجالس کی رائے پر ان کی رائے کو ترجیح دیں گے اور اسے پبلک کی حقیقی آواز قرار دیں گے- لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ پبلک کی حقیقی آواز نہیں ہے- بلکہ جس حد تک بھی ہمارے ملک کے حالات کے مطابق پبلک کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے، پبلک کی رائے ان کے خلاف ہے حتی کہ اکثر ممبران کونسل کی رائے بھی ان کے خلاف ہے- پس جبکہ گورنمنٹ برطانیہ نے آئینی دستور کے مطابق ان کی رائے ہی کو پبلک کی رائے قرار دینا تھا تو ان کا دیانتدارانہ فرض تھا کہ اگر پبلک

Page 658

۶۱۵ کی رائے کے مطابق جو ان سے پوشیدہ نہ تھی، وہ رائے نہیں دے سکتے تھے تو ممبری سے استعفاء دے دیتے- اور اگر وہ پبلک کی رائے کے ساتھ اختلاف نہیں رکھتے تھے یا شدید اختلاف نہیں رکھتے تھے تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ پورے زور سے مسلمانوں کے مطالبہ کو پیش کرتے اور کسی دوسرے شخص کی بات کو قبول نہ کرتے- مگر افسوس کہ انہوں نے دونوں باتوں میں سے ایک کو بھی قبول نہ کیا- تیسری غلطی تیسری غلطی جو ان صاحبوں کو معلوم ہوتا ہے یہ لگی کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ جس قدر مطالبات کو کم کیا جائے، اسی قدر وہ معقول معلوم ہوں گے اور ان کے منظور ہونے کا زیادہ احتمال ہو گا- حالانکہ یہ اصل بالکل غلط ہے- یہ اصل صرف دیندار، خدا ترس لوگوں کے سامنے چلتا ہے- جو لوگ موجودہ سیاسیات کی دلدل میں پھنس رہے ہیں، وہ اس اصل کو نہیں جانتے- ان کے پیش نظر تو صرف یہ بات ہوتی ہے کہ جو مطالبہ بھی پیش کیا جائے، اس کے متعلق سودا کیا جائے- آپ اگر اپنے حق سے پچاس فیصدی بھی کم کر کے پیش کر دیں گے تو فیصلہ کرنے والا امن کو قائم رکھنے اور دونوں فریق کے خیالات سمونے کے نام سے انہیں اور کم کر دے گا- سکھوں پر لوگ ہنستے ہیں- لیکن انہوں نے نہایت عقلمندی سے کام کیا کہ تیس فیصدی کا مطالبہ کیا- وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کا پروپیگنڈہ کامیاب ہوا تو وہ اس مطالبہ کی وجہ سے بیس فیصدی تو لے ہی لیں گے- اصل میں تو مسلمانوں کو پنجاب میں ساٹھ فیصدی کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا اور پورے زور سے اس پر قائم رہنا تھا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کو ان کے حق کے قریب قریب مل جاتا- مگر اپنے حق سے تو ذرہ بھر بھی کم کا مطالبہ ان کے لئے زہر ہے- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اس زہر کا ازالہ نہ ہوا تو جو انہوں نے مانگا ہے، وہ بھی ان کو نہ ملے گا- چوتھی غلطی چوتھی غلطی مسلم ممبران کو یہ لگی ہے کہ انہوں نے پنجاب کے حالات کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب وہ علیحدہ نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انصاف چاہتا ہے کہ پھر وہ پورے حق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ انصاف کے خلاف ہے کہ وہ قانون کے زور سے ایک زبردست اکثریت حاصل کر لیں- حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اگر حالات علیحدہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کرتے تو خواہ مسلمان اس ذریعہ سے اقلیت کا ہی مطالبہ کرتے، یہ ناجائر ہوتا- لیکن اگر زبردست اقلیت کے اپنے پیدا کردہ حالات سے مجبور ہو کر تعداد کے لحاظ سے زیادہ، لیکن سیاستاً کمزور اکثریت علیحدہ انتخاب کا صرف تھوڑے سے عرصہ کے لئے مطالبہ کرتی ہے تو یہ انصاف کے مخالف نہیں- بلکہ بالکل مطابق ہے کہ وہ اپنی تعداد کے

Page 659

۶۱۶ برابر نمائندگی کا مطالبہ کریں- پھر ایک اور بھی سوال ہے اور وہ یہ کہ اگر کچھ عرصہ کے بعد مسلمان مشترک انتخاب کو قبول کر لیں تو موجودہ مسودہ میں وہ کونسی شق ہے جو اس امر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ اس وقت انہیں اپنی تعداد کے مطابق حق مل جائے گا- محض کمیٹی کے ذہنی خیالات تو اس وقت مسلمانوں کو نفع نہیں پہنچا سکیں گے- غلطی کے ازالہ کی صورتیں کمیٹی کی تجویز کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں اس امر کو لیتا ہوں کہ اب اس غلطی کا ازالہ کس طرح ہو سکتا ہے-: (۱) سب سے اول تو میرے نزدیک کمیٹی کے مسلمان ممبروں کا فرض ہے کہ جب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ مسلمان اکثریت ان کی اس تجویز کے مخالف ہے تو وہ ایک نوٹ لکھ کر کمیشن کو روانہ کر دیں کہ ہماری اس تجویز کو صرف ذاتی رائے قرار دیا جائے- ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مسلمان اکثریت اس کے مخالف ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے ان کے حق کے مطابق نمائندہ کا مطالبہ کرتی ہے- میں بتا چکا ہوں کہ آئین دستور کے مطابق وہ اپنی قوم کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں لیکن اس امر میں وہ قومی رائے کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں- پس اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ان پر واجب ہے- ان کا تقرر گورنمنٹ کی طرف سے نہیں بلکہ ان کی قوم کی طرف سے ہوا ہے اور اس کے خیالات کے متعلق گورنمنٹ کو اگر غلط فہمی لگے اور وہ اس کا ازالہ نہ کریں تو وہ ایک بہت بڑی اخلاقی ذمہ واری کی ادائیگی سے قاصر رہیں گے- (۲) اگر وہ ایسا نہ کریں تو دوسرے مسلمان ممبران کونسل کو جو اس معاملہ میں رائے عامہ کی تائید میں ہوں ایک میموریل بنا کر اس کی ایک ایک کاپی گورنمنٹ پنجاب سائمن کمیشن اور انڈینسائمن کمیٹی کے پاس بھیج دینی چاہئے کہ اس سوال کے متعلق ہماری رائے میں ہمارے نمائندوں نے ہماری نمائندگی نہیں کی پس اس رائے کو ان کی ذاتی رائے سمجھا جائے- مسلمانوں کے نمائندوں کی کثرت اس تجویز کو ہرگز قبول نہیں کر سکتی- (۳) مختلف سیاسی انجمنیں اور نمائندہ جماعتیں ایسے ریزولیوشن پاس کر کے مذکورہ بالا تینوں جماعتوں کو بجھوا دیں- جن میں کہ مسلمانوں کے خیالات کی اس بارہ میں صحیح ترجمانی ہو- لیکن چونکہ سیاسی انجمنوں کا صحیح طور پر انتخاب نہیں ہوتا اور وہ باوجود اپنے بڑے بڑے ناموں کے

Page 660

صرف چند سو آدمیوں کی نمائندہ ہوتی ہیں، اول الذکریا اگر اس پر عمل نہ ہو تو ثانی الذکر تجاویز زیادہ کارآمد ہوں گی- اگر مسلم نمائندوں نے اول الذکر تجویز کے مطابق عمل نہ کیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اپنے خیالات سے مذکورہ بالا تینوں جماعتوں کو آگاہ کر دے گی- ایک نہایت مفید تجویز ایک اور تجویز ہے جس کے خلاف مسلمان اخبارات نے آواز اٹھائی ہے اور وہ کمیٹی کی یہ تجویز ہے کہ ایک حصہ مرکزی مجلس کا صوبہ جات کی کونسلوں کے توسط سے چنا جائے- میں اس امر میں ان اخبارات کی رائے سے متفق نہیں- میرے نزدیک انہوں نے غور نہیں کیا کہ صوبہ جات کی کونسلوں کی خود اختیاری کو قائم نہ رکھنے کے لئے اور مرکزی مجلس کو اس کی حدود کے اندر رکھنے کے لئے یہ تجویز ایک نہایت مفید آلہ ہو سکتی ہے- ممالک متحدہ میں اس غرض کو پورا کرنے کے لئے سینٹ کام دیتی ہے- اگر کونسل آف سٹیٹ کا انتخاب اسی اصول پر نہ ہو تو کسی قدر تعداد اسمبلی کے ممبروں کی ضرور اسی طرح چنی جانی چاہئے اور اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہے نہ کہ نقصان اگر اس تجویز پر عمل کیا گیا تو دوسرے ہندو صوبہ جات بھی مسلمانوں کے اس مطالبہ کی ہمیشہ تائید کریں گے کہ صوبہ جات کو کامل اندرونی آزادی حاصل ہونی چاہئے- ایسے ممبر صوبہ جات کی کونسل کے وکلاء کے طور پر ہوں گے- مگر یہ ایک جزوی سوال ہے، اس پر اس قدر زور دینے کی بھی ضرورت نہیں- مسلمان اخبارات سے خطاب میں آخر میں مسلمان اخبارات کو اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا موجودہ اختلاف چاہتا ہے کہ ہماری آپس کی مخالفت خواہ کیسی پرزور ہو مگر اس میں نیتوں پر حملہ نہ ہو- اور اگر دل میں ہمیں یقین بھی ہو جائے کہ ایک شخص محض نیک نیتی سے کام نہیں کر رہا تو بھی قومی کاموں میں ایسے خیالات کے اظہار سے ہم حتی الوسع باز رہیں تاکہ بجائے فائدہ کے نقصان نہ ہو- اگر اس شخص کی نیت خراب ہو گی تو اس کا اندرونہ خود ظاہر ہو کر رہے گا اور خدا تعالیٰ اس سے گرفت کرے گا- لیکن اگر ہم اپنے اندازہ میں غلطی کریں گے تو یقین¶ا ہم گنہگار بنیں گے- پس ہمیں اپنی نکتہ چینی کو صرف ظاہر تک محدود رکھنا چاہئے اور دلوں کے اسرار کو نکالنے کی یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے- اگر اخلاقی اور مذہبی بناء پر ہم ایسا نہ کریں تو کم سے کم سیاسی مصلحت کے طور پر ہی اس طریق کو اختیار کر لیں- اس کے اختیار کرنے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں- بلکہ

Page 661

۶۱۸ بالکل ممکن ہے کہ اگر وہ شخص جس سے ہمیں اختلاف ہے، حد سے تجاوز نہیں کر جاتا تو اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جائے اور ہماری خرابی کا موجب نہ بنے بلکہ ہمارا دست و بازو بن کر ہماری تقویت کا باعث ہو- ایک شبہ کا ازالہ میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے اس شبہ کا ازالہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جب میری اور جماعت کی رائے زیر بحث مسئلہ میں مسلمانوں کی کثرت رائے کے مطابق تھی تو کیوں چودھری ظفراللہ خان صاحب نے اس کے خلاف رائے دی- سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ چودھری صاحب کو نہ میں نے کوئی ہدایت دی اور نہ دینی مناسب تھی- کیونکہ وہ میری طرف سے یا جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر کمیٹی میں نہ گئے تھے- ہر ایک احمدی اگر اسے سچے طور پر مجھ سے اختلاف ہو، ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھ سے اختلاف رکھ سکتا ہے- ہاں اگر اختلاف ایسا ہوتا کہ جس پر عمل کرنا یا جس کا ظاہر کرنا تفرقہ، تشتت، یا تباہی کا موجب ہوتا تو میرا حق تھا کہ میں قبل از وقت معلوم ہونے پر اس کے اظہار سے انہیں روک دیتا اور اگر وہ اخلاقاً اپنی موجودہ پوزیشن میں اس کے اظہار سے باز نہ رہ سکتے تو ان کا فرض ہوتا کہ وہ اس عہدہ سے استعفاء دے دیتے اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسا موقع ہوتا تو چودھری صاحب ایسا ہی کرتے- مگر چونکہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوا، اس لئے ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے- خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ (الفضل ۳۰- اگست ۱۹۲۹ء)

Page 662

Page 663

Page 664

Page 665

Page 666

Page 667

Page 668

Page 669

Page 670

Page 671

Page 672

Page 673

Page 674

Page 675

Page 676

Page 677

Page 678

Page 679

Page 680

Page 681

Page 682

Page 683

Page 684

Page 685

Page 686

Page 687

Page 688

Page 689

Page 690

Page 691

Page 692

Page 693

Page 694

Page 695

Page 696

Page 697

Page 698

Page 699

Page 700

Page 700