Anwarul-Uloom Volume 1

Anwarul-Uloom Volume 1

انوارالعلوم (جلد 1)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

Page 22

Page 23

Page 24

Page 25

Page 26

Page 27

Page 28

Page 29

Page 30

چشمۂ توحیدؔ )تقر یرجلسہ سالانہ 1906ء( از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 31

Page 32

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم شرک اور اس کی بیخ کنی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ١ؕ وَ مَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ.وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰه، اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ.وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ١ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيْكَ١ؕ اِلَيَّ الْمَصِيْرُوَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا وَّ اتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ١ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ يٰبُنَيَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا للّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِۚ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ وَ اقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ١ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ- (لقمان: ۱۳ تا۲۰) شرک کی بیخ کنی کے لئے ہمیشہ ماٗمور آتے ہیںاس وقت میں آپ کے سامنے شرک پرکچھ بولنا چاہتا ہوں.شرک ایک ایسی بلاہے جو کہ بنی نوع انسان کے ساتھ شروع زمانہ سے آج تک لگی ہوئی ہے.نہ اس نے انسان کا پیچھاچھوڑا اور نہ

Page 33

انسان نے اس کا.ہر ایک زمانہ میں ایسے لوگ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے رہےہیں جو شرک کو پامال کریں اور توحید کو دنیا میں پھیلائیں.لیکن انسان جس کو کہ ایک حد تک خدا تعالیٰ نے آزادی دی ہے آج تک اس مرض کو اپنے دل میں چھپا تارہا ہے.گو بہتوں نے ہدایت پائی اور شہداء اور صد یقین کا مرتبہ پایا مگر پھر بھی دنیامیں ایک بڑی تعداد ایسی رہی ہے جنہوں نے شرک کو نہیں چھوڑا.نبیوں سے روگردانی کرنے کی پہلی وجہ شرک ہےاور جب کہ خدا تعالیٰ ایک قوم کی طرف نبی کو بھیج کر اس کی اصلاح کرتا ہے.اور وہ ایک مدت کے بعد جب ان تمام انعامات الٰہی کو جو ان پر وقتاً فوقتاً ہوئے ہوتے ہیں اپنی کوششوں او رسعیوں پر محمول کر کے خدا تعالیٰ سے روگردانی کرتے ہیں تو اس وقت جو پہلی برائی ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ شرک ہے.اسی واسطے جونبی دنیا کی اصلاح کے لئے آتا ہے اس کوسب سے پہلے شرک کا ہی مقابلہ کرناپڑتا ہے.اور شیطان کا سب سے بڑا حملہ جو انسان پر ہوتا ہے وہ شرک ہی ہے.مشرک نہیں بخشا جائے گا خدا تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰٰ دو سرے گناہوں کو اگر چاہے تو بخش دے گا مگر شرک کونہیں.او ر درحقیقت انسان کی کیسی کمزوری اور شرارت ہے کہ وہ خداجس نے ہمارے لئے طرح طرح کے آسائش کے سامان پیدا کئے ہیں اس سے روگردانی کریں جیسا کہ زمین پیدا کی ہے کہ ہم اس پر چلیں پھریں محنت کریں کوشش کریں اور بڑے بڑے مرتبے پائیں.احسانات الٰہی کابیان پھر اس زمین میں مختلف قسم کی تاثیریں رکھی ہیں وہی زمین ہوتی ہے کہ ہم اس میں گیہوں کا دانہ ڈالتے ہیں اور کچھ دنوں تک معدوم ہو جانےکے بعد وہ دانہ تھوڑاسا باہر نکلتا ہے.پھر مختلف زمانوں اور ہواؤں میں سے گزر کر وہ ایک عرصہ کےبعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس میں اسی قسم کے سینکڑوں دانے اور نکل آتے ہیں اور انسان کی خوراک کا سامان کرتے ہیں.پھر اسی زمین میں مکئی کا دانہ ڈالتے ہیں اور وہ اسی زمین کی تاثیر سےاپنے مطابق اثر حاصل کر کے بڑھتا اور آخر انسان کی غذا کے کام آتا ہے.اور مختلف فوائد زمین میں رکھے گئے ہیں کہ جو ہماری زندگی اور آرام اور آسائش کے محافظ ہوتے ہیں.پھر پرند چرند بنائےہیں جن سے سینکڑوں فوائد روزانہ اٹھاتے ہیں.اسی طرح اربعہ عناصر.پس ذرہ بھر بھی شرک کادل میں رکھنا ایسا خوفناک امر ہے اور ایسی بے حیائی ہے کہ اگر خدا

Page 34

تعالیٰ رحیم و کریم نہ ہو تا تو قریب تھاکہ انسان ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک ایسے عذاب میں ڈالا جاتا جس سے کبھی نجات نہ ہوتی.مگر یہ اس کی رحمانیت ہے جو انسان کو اب تک بچائے جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں یہ شیطان سرکش کی پیروی کرتے ہیں.وہ شیطان جس نے یہ کہا ہے کہ میں تیرےبندوں میں سے ایک مقرر حصہ لوں گا یعنی اپنے لئے مخصوص کر لوں گا جو کہ تجھ سے غافل ہوں گے میں تیرے بندوں پر شرک کا حربہ چلاؤں گا ان کے آگے سے حملہ کروں گا اور پیچھے سے حملہ کروں گا غرض کہ دائیں طرف سے بائیں طرف سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے میں ان پر یہ حربہ چلاؤں گا.میں ان کو گمراہ کروں گا ان کو لالچ دوں گا اور ان کو حکم کروں گا پس وہ جانوروں کےکان کاٹ کر خدا کی مخلوق کو دوسروں کے لئے مخصوص کریں گے.پس جس نے کہ شیطان کودوست قرار دیا ہے لیکن شرک کیا کیونکہ اس کا یہی حملہ ہے پس وہ بڑے ہی ٹوٹے اور خسارہ میں ہے.پھرخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان کا وعدہ جو ہے یہ صرف ایک دھوکے کی ٹٹی ہے.اس مقام پر خدا تعالیٰ نے مشرک کے حق میں فرمایا ہے کہ وہ بخشا نہیں جاوے گا.وہ شیطان کا تابعدار ہے اور یہ کہ وہ کبھی کامیاب نہ ہو گا.مشرک کامیاب نہیں ہوتا پہلی دو باتیں تو ایسی ہیں کہ ان میں مشرک ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی بخشے جاویں گے اور ہم شیطان کےتابعدار نہیں.مگر تیسری بات خدا نے ایسی فرما دی ہے کہ جس سے پہلی دو باتیں بھی تصدیق ہو جاتی ہیں.یعنی مشرک کامیاب نہیں ہوں گے.سو حضرت آدم سے لے کر آج تک دیکھ لو کہ کیا مشرک کبھی بھی کسی نبی کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے ؟ حضرت نوحؑ، ہودؑ ،صالحؑ، شعیبؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ ،عیسیٰؑ اور سب سے آخر میں اور سب سے بڑھ کر حضرت نبی کریم ﷺتھے کہ جن کو شرک سےمقابلہ کرنا پڑا.مگر نتیجہ کیا ہوا کیا ان مشرکوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ کوئی نہیں جو کہے کہ میں فرعون یاابوجہل کی اولاد میں سے ہوں.ان لوگوں کی اولاد اپنے آپ کو چھپاتی ہے اور اپنے آباء و اجداد کےاور نام بتلاتی ہے.یہ کیوں؟ اس لئے کہ شرک کبھی کامیاب نہیں ہوتا.اور چونکہ ان لوگوں پر خداکے عذاب نازل ہوئے اور وہ ناکام ہوئے اس لئے ان کی اولاد بھی ان کو برا بھلا کہتی ہے او راس کوپسند نہیں کرتی کہ ان کو ان مشرکوں کے ساتھ منسوب کیا جاوے پس یہ ایک بدیہی ثبوت ہے جو خدا تعالیٰ اس بات کے ثبوت کے لئے پیش کرتا ہے کہ یہ لوگ شیطان کے مرید اور نہ بخشے جانے والےہیں.غرض یہ شرک ایک ایسا پوشیده مرض ہے جیسا کہ مریض کوتپ دق جو رفتہ رفتہ انسان کو ہلاک کر کے میں چھوڑتا ہے یا ایک درخت کو کیڑا کہ ایک مدت کے بعد ایک بڑے عالی شان درخت کو گرا کر زمین کے برابر کر دیتا ہے.

Page 35

پس اس سے بچنے کے لئے انسان کو کامل تقوی اور پرہیز گاری کی ضرورت ہے.انسان کوچاہئے کہ ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے خدا تعالیٰ کی صفات کو رکھے تاکہ ہر گھڑی اس کا دل خدا کی طرف جھکا رہے اور خدا بھی اس پر اپنا سایہ ڈالے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اوپر کی طرف اس نے شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھی ہے.پس انسان کو چاہئے کہ وہ دوڑ کے خدا کے سایہ کے نیچے آجاوے.کیوں کہ جو اس کے سایہ کے نیچے آجاتا ہے وہ شیطان کے حملوں سے بالکل محفوظ ہو جاتا ہے تو شیطان کتنا ہی زور خرچ کرے کہ کسی طرح اس مرد صالح کو پھسلائے.مگر خدا تعالیٰ کی قہروالی نظر اس کو جلا دیتی ہے او راس کو مجال نہیں ہوتی کہ وہ پھراس انسان کی طرف نظر بد سے دیکھ بھی سکے.اور اگر بجائے اس کے ہم سستی کریں اور غفلت کو کام میں لاویں میں تو ہم کو ایک دم کی بھی فرصت نہیں ملتی کہ ہم اپنے آپ کو اس جنگ کے لئے تیار کریں جو کہ یک لخت ہم کو شیطان سےپیش آتی ہے.ایسی حالت میں وہ ہمارے ایمان کو اچک لے جاتا ہے اور ہم کو تہی دست چھوڑ جاتاہے.مگر ہم بکریوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کمزور اور شیطان ایک طاقتور بھیٹر یا ہے پس جب تک ہم خداجو کہ ہمارا نگہبان ہے اس کے سامنے ہیں تب تک تو شیطان کے خونخوار حملہ سے محفوظ ہیں مگر جب ذراسی غفلت کی وجہ سے ہم اس کی نظروں سے اوجھل ہو ئے کہ شیطان نے ہم کو ایک ہی حملہ میں مغلوب کر لیا.خدا کی نظروں سے غائب ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کبھی ایسا بھی موقعہ آجاتا ہے کہ خدا ہم کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو بصیر ہے.میری اس سے یہ مراد ہے کہ جب ہم اس کی خاص نظرِکرم کو اپنی کسی بد کرداری کی وجہ سے دور کر دیں.اور اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے زیادہ اور زیادہ قریب ہونے کی کوشش کریں.اور اس کے لئے وہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب ایک قدم تم میری طرف آئے تو میں دو قدم تمہاری طرف آؤں گا اگر تم میری طرف تیز چل کر آؤ گے تو میں دوڑ کر آؤں گا.پس جب تک ہم خدا تعالیٰ کی طرف تیز قدموں سے بلکہ دوڑ کر نہ جائیں گے ہماری ایسی حالت ہے جیسا کہ ایک بندھی ہوئی بکری بھیٹریئے کے سامنے اور جس کو کہ بھیڑ یا ایک ہی حملہ سے اچک کر لے جاوے گا.شرک سے دوسرے گناہ پیدا ہوتے ہیںپس ہر کام کے کرتے ہوئے اور ہر لفظ کے بولتے ہوئے شرک کادھیان کرلو تاکہ ایسا نہ ہو کہ خدا تعالیٰ سے دور اور شیطان کے شکار ہو جاؤ - اس وقت ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں

Page 36

یہ خیال پیدا ہو کہ میں نے شرک کا اس طرح بیان کیا ہے گویا کہ دنیا میں اور کوئی گناہ ہے ہی نہیں.لیکن نہیں میرا مطلب یہ نہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ شرک میں سے دوسرے گناہ بھی پیدا ہوتےہیں.شرک کی حقیقت جب ایک انسان شرک سے بالکل پاک ہو تو کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ گناہ کرے.کیوں کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی کل صفات پر ایمان رکھتا ہے توکوئی برائی نہیں کر سکتا.چور جب چوری کو جا تا ہے.اگر اس کو یہ ایمان ہو کہ ایک خدا ہے جو کہ دیکھتا ہے اور گناہ کی سزادیتا ہے تو پھر وہ بھی چوری نہیں کر سکتا اسی طرح دوسرے گناہ کرنے والےاگر بجائے مخلوق الٰہی سے ڈرنے کے خود خالق سے ہی ڈریں تو وہ ان تمام فریبوں اور گندگیوں کوچھوڑ دیں جو کہ بصورت دیگر ان کے دلوں میں جاگزیں ہوتے ہیں.پس جو شرک کو چھوڑتا ہے وه |کبھی کوئی گناہ نہیں کر سکتا جس کا کہ اس کو علم ہو اور بے علمی کی خطاء کو تو خدا بھی نہیں پکڑتا.اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ من قال لا إله إلا الله،فدخل الجنة (یعنی جو کوئی کامل طورسے شرک کو چھوڑ دے وہ جنت میں داخل ہو گا) کیوں کہ جب وہ شرک کو چھوڑ دے گا اور حقیقی طور سے خدا کو واحد اور اس کی صفات کو برحق مان لے گا تو وہ کوئی اور گناہ کرے گاہی نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ انعامات الٰہیہ کا مورد ہو.ایسے آدی کا چلنا پھرنا کھانا اور پیناسب خدا کے ہی لئے ہوتا ہے یعنی جب وہ بولتا ہے تو خدا کے لئے بولتا ہے.سنتا ہے تو خدا کے لئے سنتا ہے.کھا تا ہےتو خدا کے لئے کھانا ہے اور پیتا ہے تو خدا کے لئے.اس وقت شیطان بھی اس کے قریب نہیں جاتا.گویا کہ ایسے آدمی کا شیطان بھی مسلمان ہو جا تا ہے.جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ میراشیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے.پس جب انسان اس حد تک اپنے دل کو پاک و صاف کرلیتا ہے تو وہ خدا کا اور خدا اس کا ہو جاتا ہے.ایسے ہی شخص کے لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.یاَ اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةّ ارْجِعِی اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَ ادْخُلِی جَنَّتِی (الفجر: ۲۸-۳۱) اس موقعہ پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہےکہ اے نفس مطمئنہ میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا.پس کیادو سرےلوگ خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہیں.وہ ہیں مگر اس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ بیان فرماتا ہے کہ بندہ تووہ ہے جو اپنے آپ کو بندہ ہونے کے لائق بھی بناوے.جو طرح طرح کے شرکوں میں اور مختلف قسم کی بدعتوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا نفس نفس امارہ ہے تو کیوں کر وہ میرے بندے ہو سکتے ہیں.

Page 37

سچا عبد کون ہوتا ہےبندے کا تو فرض ہے کہ خالص اپنے آقا کے لئے ہو جائے مگر جب ایک آدمی خدا کے علاوہ اوروں کی پرستش کرتا ہے ان سے بھی نفع و ضر کی ویسی ہی امید رکھتا ہے جیسے کہ خدا سے تو کیوں کر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بندہ کہہ سکتا ہے.اوراصل بندہ تو وہ ہے جو نفس مطمئنہ رکھتا ہے اور اس کا قلب خدا تعالیٰ کی الوہیت سے مطمئن ہے اوروہ کسی اور کو خدا تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرا تا.جو ایک خدا کو جو متصف ہے تمام نیک صفات سےاپنے لئے کافی سمجھتا ہے، اور جو عبودیت اور خالص بندگی سے آپ کو خدا تعالیٰ کا بندہ ہونے کےلائق بنادیتا ہے.پس اس جگہ عبد کے معنے ایک بندہ کے ہیں جو خدا کا بندہ ہونے کے قابل ہے.آنحضرت ﷺ و ابوجہل مثال کے لئے دیکھو آنحضرت ﷺ بھی اسی خداکے پیدا کئے ہوئے تھے اور ابو جہل بھی.مگر ابو جہل نے اپنی شرارت ، فسق و فجور اور شرک سے اپنے آپ کو خدا کا بندہ ثابت نہ کیا بلکہ بتوں کا بنده ثابت کیا اورانہیں کی طرف داری میں اپنی جان تک قربان کی.مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے آپ کو خالص خدا کے لئے ہی کر دیا شرک سے بکلی پر ہیز کیا اور اپنی عبادت اور قربانیاں سب خدا کے لئے ہی مخصوص رکھیں اور اپنے آپ کو خد اکابندہ ثابت کیا.پس خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ اس کا انجام کیاہوا اور اس کا کیا؟ ابو جہل تو بدر کے میدان میں قتل کیاگیا اور ایک کنویں میں اس کی لاش پھینکی گئی.اور اس کے مرتے وقت کی خواہش بھی پوری نہ ہوئی یعنی اس نے کہا تھا کہ میری گردن ذرالمبی کر کے کاٹنا کیوں کہ عرب کے معززین کی نشانی یہی ہوتی تھی.مگر کاٹنے والے نے اس کی گردن سر کے پاس سے کاٹ کر ثابت کیا کہ شیطان کے دوست کبھی کامیاب نہیں ہوتے.اور اسی وقت دوسری طرف آنحضرت ﷺ کو وہ فتح نصیب ہوئی کہ وہ خدا تعالیٰ کی جنت کے وارث نہ صرف عقبٰی میں بلکہ اس دنیا میں بھی ثابت ہوئے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ.پس وہ انسان جوخدا تعالیٰ سے کامل تعلق کرنا چاہے وہ شرک کو چھوڑ دے.کیوں کہ خدا کو شرک پسند نہیں.شرک کی دو قسمیں ہیںاب میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شرک دو قسم پر مشتمل ہے.ایک شرک جلی اور ایک شرک خفی.شرک جلی وہ جو کھلا کھلاشرک ہے جیسے بتوں وغیرہ کا شرک، یا انسان پرستی، قبر پرستی، چاند اور سورج پرستی وغیرہ وغیرہ.ایسے شرک کرنے والے تو اس کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہیں مگر اچھا سمجھ کر اور ایسا شرک اکثر دور بھی ہو جاتا ہے.

Page 38

شرک خفی کی حقیقتمگر زیادہ خوف کے قابل اور انسان کا دشمن شرک خفی ہے یعنی چھپا شرک.ایسا شخص مانتا ہے کہ خدا ایک ہے اور پھر مشرک کا مشرک ہی ہے.وہ بتوں کی پرستش اور دوسری چیزوں کی پرستش کو بھی برا سمجھتا ہے مگر پھر بھی شرک کے مرض میں گرفتار ہے.وہ ایسا ہے جیسا کہ ایک مریض ایک سخت مرض میں گرفتار ہے اور پھر بھی علاج کرانے سے گریز کرتا ہے.حکیم اس کو دوائی دیتا ہے اور وہ حکیم کی عقل پر ہنستا ہے کہ میں تو اچھابھلا ہوں.مگر افسوس کہ اگر اس کو چشم بصیرت ہو تو وہ سمجھے کہ میں حکیم پرہنستا ہوں حالا نکہ میری حالت ایسی ہے کہ اس پر رویا جاوے.پس ایسے شرک سے بچنے کے لئے سوائے اس کے کوئی علاج نہیں کہ خدا پر ہی کامل بھروسہ رکھا جاوے اور خشوع و خضوع سے دعا کی جائے کہ یا الٰہی ہم کو اس مہلک مرض سے بچا.یہ شرک مختلف شکلوں کا ہوتا ہے جیسا کہ ایک شخص جو اپنے حاکم کے ڈر کےمارے اپنے عبادت کے وقتوں میں تساہل بے جا کر تا ہے.یا خیال کرتا ہے کہ یہ حاکم اگر مجھ کو اس نوکری سے الگ کردے تو میرا اور کوئی چارہ نہیں اور میں سخت مصیبت میں مبتلا ہو جاؤں گا.یا یہ کہ اگر فلاں شخص میری مدد نہ کرے گا تو میرا کام نہیں بنے گا.تو وہ شرک کرتا ہے اور گویا کہ خدا سےبڑھ کر اپنے حاکم سے ڈرتا ہے یا خدا کی مدد سے بڑھ کر کسی اور کی مدد پر بھروسہ کرتا ہے.پھر دوستی کے رنگ میں ہوتا ہے.بعض دفعہ انسان کسی دوست کے خوش کرنے کے لئے کوئی ایسی حرکت کربیٹھتا ہے جو شریعت کے خلاف ہو.اور نہیں سمجھتا کہ خدا کا خوش کرنا مجھ پر زیادہ واجب ہے بہ نسبت اس دوست کے.پس وہ شرک کرتا ہے اور پھر اولاو اور مال پر بعض دفعہ ایک انسان اتنابھروسہ کرلیتا ہے یا اتنی محبت پیدا کرلیتا ہے کہ وہ شرک کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے.پس ایسے شرک سے بچنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.خدا سے دعائیں کرو اور خود کوشش کرو.کیوں کہ جو اس کادروازہ کھٹکھٹاتا ہے وہ ناکام واپس نہیں آتا.جو اس کو پکارتا ہے اس کی سنی جاتی ہے.دیکھو آج کل کا زمانہ ایسا خوف ناک ہے کہ خیال کرنے سے ڈر معلوم ہو تا ہے او رویسا ہی بلکہ بڑھ کر با برکت بھی ہے کہ سوچنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے.موجودہ زمانہ آخری زمانہ ہےیہ وہ وقت ہے کہ خدا کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے اور قریب ہے کہ وہ دنیا کو ہلاک کر دے.مگر ساتھ ہی وہ اس وقت خزانہ کھول کر بیٹھا ہے تاکہ جو سوال کرے وہ اپنے سوال سے بڑھ کر پاوے.اس زمانہ کی

Page 39

نسبت ہر قوم اور ہر مذہب میں پیشگوئیاں ہیں کہ اس میں خدا کے مامور کی اور شیطان کی آخری جنگ ہوگی یہاں تک کہ پارسیوں میں بھی پیشگوئی ہے کہ آخر زمانہ میں جس کی فلاں فلاں نشانیاں ہوں گی.اہرمن دیو یعنی شیطان اور یزداں ( مراد ہے کہ یزدانی لوگ) کی آخری جنگ ہوگی اور شیطان بالکل قتل کرڈالا جاوے گا.پس یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ لوگوں نے مال و زر کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے اور گویاکہ خدا کا شریک ٹھہرایا ہے.آخری زمانہ کے مامور کی آمدیہ وقت تھا کہ خدا اپنے بندوں کی مدد کرتا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے اور اس نے ایسا ہی کیا ہے.اور جیسا کہ نبیوں کےذریعہ سے خبر دی تھی اس وقت وہ شخص مامور ہوا ہے جس کے لئے مقدر ہے کہ وہ شیطان کے حربہ کو توڑے لیکن شرک کو دور کرے.ہاں دنیاد یکھ لے گی کہ شرک کس طرح تباہ ہو گا.اب شرک کی بیخ کنی کا وقت ہے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے دلوں سے شرک کو دو رکریں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کو شش کریں.اورہروقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعودو مہدی معہود کا ہاتھ بٹانے کے لئے تیار رہیں جن کو خدا نے یہ کام سپرد کیا ہے.اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ مشرک لوگ ناک کے بل گرائے جائیں.دنیا کو شرک چھوڑنا پڑے گا خواہ وہ اپنی مرضی سے چھوڑےیا کو ڑے سے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیامگر خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا.مذہب عیسوی جو شرک میں حد سے بڑھا ہوا ہے.اور جس نےہزاروں لاکھوں آدمیوں کو روپیہ اور مال کے زور سے اپنے دین میں شامل کرلیا ہے اب اس کےزوال کا وقت آگیا ہے.تم اس کے مال و زر کو دیکھ کر حیران نہ ہو کیوں کہ اس وقت جب کہ اس کانام و نشان نہ تھا خدا تعالیٰ نے سورہ زخرف میں ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھ کو اس بات کا خیال نہ ہوتاکہ دنیا اس کو دیکھ کر ہلاک ہو جائے گی تو میں رحمان کے منکروں یعنی عیسائیوں کو اس قدر مال دیتا کہ سونا چاندی کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے.پس ڈرو نہیں یہ قرآن شریف کی پیش گوئی پوری ہوگئی ہے.مگر اب وہ وقت ہے کہ عیسائیت کا بلند اور مضبوط منار گرادیا جائے.یہ مذہب عیسوی کا قلعہ جس کی دیوار یں لوہے کی تھیں اب گرنے کو ہے کیوں کہ اس کو زنگ لگ گیا ہے اور اب وہ اس قد ر بودا ہے کہ ایک ہی حربہ سے ٹوٹ جاوے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ باران رحمت کے وقت لوہے کوزنگ لگ جاتا ہے اور وہ کمزور اور بودا ہو جاتا ہے پس جب کہ روحانی باران رحمت کانزول شروع ہواتواس مذہبی لوہے کو زنگ لگ گیا.

Page 40

یورپ میں اسلام کی اشاعتاب یہ عیسائی سلطنتیں خود بخود اسلام کی طرف رجوع کریں گی اور وہ یورپ جو عیسائیت کا گھر ہے اسلام کا مرکز ہوگا.عیسائیوں میں خود بخود شرک کے بر خلاف خیال پیدا ہو گئے ہیں.یہاں تک کہ بہت سے حضرت عیسیٰؑ کے خد اہونے کے منکر ہو گئے ہیں.اور بعض ایسے بھی ہیں جو نعوذباللہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ ولدالزنا تھے.پس زمانہ خود بخود شرک کو چھوڑنے والا ہے اور قریب ہے کہ خدا اپنا جلال ظاہر کرے.یہ احمدی جماعت جو کہ اس وقت موردِ انعاماتِ الہیہ اور اس وقت بہت ہی کمزورحالت میں ہے.ایک دن آنے والا ہے کہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی.خدا ہمارے امام کو فرماتا ہے اور وعدہ دیتاہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور اس وقت جو ایک کمزوری کی سی حالت ہے یہ ہماری اپنی کمزوری کی وجہ سے ہے ہم اس وقت یتیم کی طرح ہیں جس کو تمام دنیا نے چھوڑ دیاہے.ایک یتیم تو وہ ہوتا ہے جس کا صرف باپ ہی مرجاتا ہے مگر ہم سے سب دنیا نے قطع تعلق کرلیا.اگر ترقی چاہتے ہو تو ایک دل ہو کر دعائیں مانگو کیوں کہ خدا وحدت کو پسند کرتا ہے کیوں کہ وہ خودواحد ہے.پس جب کہ ایک یتیم کی آواز عرش عظیم کو ہلا دیتی ہے تو کیا چار لاکھ یتیموں کی آواز کچھ بھی اثر نہ کرے گی؟ شرک کو دور کر دو اور تمهارے کام ٹھیک ہو جائیں گے.اب میں آپ لوگوں کے سامنے اس رکوع کا مجمل طور سے بیان کرتا ہوں جو کہ میں نے تقریب کے شروع میں پڑھا تھا.یعنی سورہ لقمان کادوسرا رکوع سورہ لقمان کے دوسرے رکوع کی لطیف تفسیراس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (لقمان: ۱۳) یعنی میں نے لقمان کو حکمت بخشی کہ شکر کرے اللہ کا.اور جو شکر کرتا ہے پس وہ اپنے نفس کے لئے کرتاہے.اور جو کفر کرتا ہے پس اللہ تو بے پرواہ ہے اور تعریف والا ہے.اس جگہ خدا تعالیٰ ظاہر کرتاہےکہ میں نے لقمان کو شکست دی اور دنیا تو پہلے ہی لقمان کو عقل مند مانتی ہے.دنیا میں دو قسم کےانسان ہوتے ہیں.ایک تو وہ جن کو دنیا عقلمند سمجھتی ہے اور خدا کے نزدیک وہ ذلیل ہوتے ہیں.اورایک وہ جن کو دنیا بھی عقلمند اور حکیم سمجھتی ہے اور

Page 41

خدا بھی.پس یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ صرف دنیا ہی لقمان کو عقلمند بتاتی ہے بلکہ میں نے بھی اس کو حکمت دی ہے اور میں بھی اس کو حکمت والا قرار دیتا ہوں.اب دیکھنا چاہئے کہ دنیا میں کون سا انسان تابعداری کرانے کے قابل ہو تا ہے.وہی جو عقلمند ہو.اور وہ جو کہ بیوقوف اور جاہل مطلق ہو وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کی فرماں برداری کی جائے.کفر و شرک کے نتائج کا بیانپس اس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ لقمان تو دنیاوی لوگوں کے خیال بموجب اور دینی لوگوں کے ایمان کے مطابق ایک حکمت والا آدمی تھا.پس ایسے آدمی کی بات تو بڑی وزن دار ہے.اور چاہئے کہ دنیا اس کو قبول کرے کیوں کہ ہوا جووہ اہل الرائے.اب جو بات کہ لقمان کہتا ہے وہ آگے بیان ہوگی.پھرخد ا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکمت کا نتیجہ ہونا چاہئے کہ خدا کا شکر کیا جائے تاکہ وہ خود اپنے پہلے انعامات سے بھی بڑھ کر اس پر انعامات کرے.اور جو شکر کرے وہ تو انسان کی اپنی جان کے لئے بھی مفید ہو تا ہے.کیوں کہ انسان کے شکر کرنے سے خدا تعالیٰ کا تو کچھ بڑھ نہیں جاوے گا خدا تعالیٰ کی صفات میں نہ طاقت میں کوئی ترقی ہوگی بلکہ الٹا شکر کرنے والے کو فائدہ پہنچے گا.پس باوجود ان باتوں کے ہوتےہوئے کفر کرے تو خدا تعالیٰٰ کو اس کی کیا پر واہ ہے.کیا اس کے کفرسے خدا میں کسی قسم کی کمی واقع ہوجائے گی ؟ اور اس طرح وہ شخص اپنا ہی نقصان کرے گا.دیکھو کہ آدم کے زمانہ سے لے کر آج تک جنہوں نے شکر کیا وہ بڑھے اور پھولے اور پھلے.مگر جنہوں نے کفر کیا وہ ہمیشہ تباہ ہی ہوئے.نوح علیہ السلام اور ایسا ہی لوط علیہ السلام نے شکر کیا.وہ ترقی پا گئے خدا کے مقبول ہوئے.ان کی قوم نے کفر کیا وہ تباہ ہو گئیں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے عذاب کے وقت و عدہ کیا تھا کہ جوتیرے تعلق والے ہیں میں ان کو بچاؤں گا.جب طوفان آیا تو ایک بیٹا لگاڈوبنے.حضرت نوح علیہ السلام نے آہ و زاری کی کہ اے خدا یہ تو میرا بیٹا ہے.حکم ہوا کہ خاموش کہ یہ تیرا بیٹا نہیں.اگر تیرابیٹا ہو تا تو تیرا ساتھ دیتا اور مجھ پر ایمان لاتا.جب تو نے میرے ساتھ خالص تعلق پیدا کیا اور شرک سے بکلی پرہیز تو جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہی لوگ تیرے تعلق والے ہیں.احمدیت کی حقیقت پس اے احمدی قوم !خد ا ہمارا رشتہ دار نہیں.شرک سے پرہیز کرو اورعبادت کرو تاکہ خدا تمهارا نگہبان ہو جائے.دیکھو کہ خدا نے نوح علیہ السلام کے بیٹے تک کی پرواہ نہیں کی.پس اس بات سے خوش ہونا کہ احمدی ہیں نادانی ہے.بلکہ ایسے کام کرو کہ احمدی ہونے کے لائق ثابت ہو اور اسی طرح لوطؑ کی بستی کا حال دیکھ لو کہ کس طرح ہوگئی کہ کفر کرتی تھی اور حضرت لوط جو شکر کرنے والے بندے تھے بچ گئے.یہاں حضرت لوطؑ

Page 42

کی بیوی سے بھی ویسا ہی واقع پیش آیا.کیوں کہ وہ کافروں سے تعلق رکھتی تھی.پھر ہے وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ اور جب کہالقمان نے اپنے بیٹے کو جب کہ وہ اس کو نصیحت کرتا تھا کہ اے لڑکے اللہ سے شرک نہ کر کیوں کہ شرک ایک بڑا ظلم ہے.اس جگہ خدا تعالیٰ لقمان کا کلام بتاتا ہے کہ وہ حکمت والا انسان یہ بات کہتاہے اور پھر اپنے لڑکے کو کہ جس کو اس نے اچھی بات ہی کہنی تھی اور پھر معمولی طور سے نہیں کہابلکہ وہ اس وقت اس کو نصیحت کرتا تھا تاکہ اس کی آئندہ زندگی ٹھیک ہو.کہ اے بیٹے خدا سےشرک نہ کر کیوں کہ شرک جو ہے وہ ایک بڑا ظلم ہے.ایک ایساخد اجو کہ ہم پر ہر طرح سے احسان کرتا ہے اور ہمارے نفع اور ضرر پر بھی قادر ہے.اس کے ساتھ ہم اوروں کو برابر ٹھہرا ئیں کتنا ظلم ہے.اب یہاں خیال رکھنا چاہئے کہ شرک سے مراد یہ نہیں کہ صرف لااله الاالله کہہ دیا اورپاک ہو گئے.بلکہ حضرت لقمان فرماتے ہیں کہ کل شرک جلی اور خفی سے اپنے آپ کو بچا.پھر آگےفرماتا ہے وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُیعنی میں نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں وصیت کی ہے.اس کی والدہ کس قدر تنگی اور سستی سے اس کا بار اٹھاتی ہے اور دو برس تک اس کو دودھ پلاتی ہے پس شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری طرف ہی لوٹنا ہے.یہاں والد کا شکر کرنے کی وجہ بیان نہیں کی.مگر وہ ظاہر ہے کہ جب اس کی والدہ تنگی میں ہوتی ہے تو وہ اس کی پرورش کرتا ہے اور جب یہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی بھی خبر گیری کرتا ہے.پھر ایک اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ یہاں فرماتا ہےکہ میرا شکر کرے.یہاں کوئی وجہ تو بیان نہیں کی گئی تو انسان کیوں اس کا شکر کرے.اصل بات یہ ہے کہ بچے کی محبت خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کرنے کے بعد اس کے والدین کے دل میں ایسی ڈال دی ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو پھر ایک دن زندہ نہ رہ سکتا.پھر پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آتا ہے اسی طرح ہوا پانی و غیره.پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ورنہ میری طرف ہی آنا ہے اگرایسانہ کیا تو وہاں اس کی سزا بھگتو گے.پھر ہے کہ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘-وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.اس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ماں باپ بھی جن کی تابعداری تم پر فرض کی گئی ہے اور جس کے نہ کرنے پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے وہ بھی اگرکہیں کہ مجھ سے شرک

Page 43

کر جس کا کہ تجھ کو علم نہیں پس ان کی بات نہ مان مگر پھر بھی دنیا میں ان کی تابعداری ہی کر اور اس کی تابعداری کرجو میری طرف جھکتا ہے کیوں کہ پھر تمهار الوٹنامیری طرف ہے جہاں کہ تم کو تمہارے اعمال سے خبردار کیا جائے گا.یہاں خدا تعالیٰ سخت تاکید کرتا ہے کہ والدین کی بھی اس معاملہ میں پرواہ مت کرو اور مجھ سے شرک نہ کرو اور جب کہ تم میں اور والدین میں ایک قسم کی جدائی ہوئی تو گویا کہ تم ایک یتیم کی طرح رہ گئے مگر خدا تعالیٰ کسی کا احسان نہیں اٹھاتا.پھر خدا تعالیٰ نے جیسا کہ تمہارے پیدا ہونے کے وقت تمہارے والدین سے کیا یعنی ان کےدلوں میں محبت ڈال دی ویسا ہی اب اپنے رسول یا مامور کے دل میں تمہاری محبت ڈال دے گا بلکہ اس سے بڑھ کر کیونکہ خدا کچھ چیزلے کے زیادہ کر کے واپس کر تاہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ- جو میری طرف جھکتا ہے یعنی اس کے رسول کی تابعداری کرو.اوراسی کو والدین تصور کرو.اب پھر لقمان کا قول آیا.یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ یعنی ایسے میں اگر ایک ذراسادانہ ہو جو رائی کے برابر ہو تو خواہ وہ پتھر میں یا آسمانوں میں اور خواہ زمین میں ہو اس کو لے آئے گا کیوں کہ لطيف خبیر ہے.یہاں بھی حضرت لقمان اپنے بیٹے کو بتاتے ہیں کہ خدا ذرا ذراسی بات کو بھی جانتا ہے.پس شرک سے اتنا بچ کہ رائی کا ایک حصہ بھی نہ رہے پھر ہے یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ یعنی اے بیٹے نماز کو قائم کر.نیک باتوں کا وعظ کر اور بدیوں سے لوگوں کو منع کر اورصبر کراس مصیبت پر جو تجھے پہنچے کیوں کہ یہ بڑے کاموں میں سے ہے.اس جگہ حضرت لقمان اپنےبیٹے کو فرماتے ہیں کہ صرف بدی سے بچنا کوئی کمال نہیں بلکہ بدی سے بچنا اور پھر نیکی کرنا کمال ہے.پس اس لئے فرماتے ہیں کہ شرک کو ترک کرنے کے بعد نماز کو قائم کر دے.یعنی اپنی عبادتوں کوسنوار یہاں تک کہ تیر ابولنا تیرا سننا اور کھانا پیناخد اکے لئے ہی ہو جائے.جس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ خدا کا مامور ہو جائے گا اور لوگوں کو نیک باتیں سنانا اور بدیوں سے منع کرتا تیرا کام ہو جائے گا.پھر اس وقت جیسا کہ سنت ہے لوگ تیرے مخالف ہو جائیں گے اور تکلیفیں اور اذیتیں تجھ کو دیں گےکیوں کہ رسولوں کے ساتھ شروع شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے.پس تو ان باتوں پر صبر کرے کیونکہ یہ بڑے امور سے ہے پھر ہے وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍیعنی لوگوں کے لئے اپنے منہ کو مت موڑ اور زمین میں کبر اور اکڑسےمت چل کیونکہ خدا کو متکبر اور فخر کرنے والا انسان پسند

Page 44

نہیں ہوتا.اب حضرت لقمان فرماتے ہیں کہ جب تو صبر کرے گا تو ایک مدت کے بعد لوگ تیری طرف رجوع کریں گے کیوں کہ جب تو خداکے لئے لوگوں سے علیحدہ ہو جائے گا اور لوگ تجھ سے عداوت کریں گے تو آخر خدا خلائق کا منہ تیری طرف پھیر دے گا یہاں تک کہ قریب ہے کہ تو ان سے کج خلقی کرے.پس ایسا مت کرو بلکہ چلو تو ایسی طرز سے کہ اس میں شیخی کی بو نہ پائی جائے کیوں کہ یہ بات خدا کو پسند نہیں وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠یعنی میانہ روی اختیارکر اور اپنی آواز نرم اور نیچی کر کیوں کہ سب سے بری آواز گدھے کی ہے.اس جگہ پر بھی بیان ہے کہ جب تو نبی ہو جائے اور لوگ تیری طرف دور دور سے آویں اور تو دوڑ کر گھر میں گھس جائے تو ان کو کس قدر صدمہ ہو گا کہ ہم تو ملنے آئے اور یہ دوڑ کر گھر چلے گئے.یا کوئی دور سے آیاتھا کہ کچھ کلام سنیں گے مگر یہاں تو نے ایسی اونچی اور کرخت آواز سے کلام کیا کہ اس کے دل کو برالگا کیونکہ دیکھو گدھے کی اونچی آواز ہے مگر سب آوازوں سے بری معلوم ہوتی ہے.اس رکوع میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو فرماتے ہیں کہ تو پہلے شرک کو چھوڑ اور اس طرح گناہوں کو ترک کر کےعبادت کو قائم کر پھر جب تو گناہوں کو چھوڑ دے گا.اور نیکیاں کرے گا تو خد اکابر گزیدہ ہو جائے گا.پس دیکھو کہ خدا کے کلام سے ظاہر ہے کہ کل برائیوں کی جڑ یہی شرک ہے.اب میں یہ دعا کر کےبیٹھتا ہوں کہ خدا ہم کو پاک کرے.ہمارے دل سے شرک کا زنگ دور کرے اور ہم کو توفیق دےکہ ہم بھی لقمان کی ان نصائح پر عمل کر سکیں.آمین.

Page 45

Page 46

محّبت الہٰی منقول از تشحیذ الاذہان از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 47

Page 48

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محبتِ الٰہی محبت کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں کہ محبت ایک خیال ہے اور بعض کا قول ہے کہ محبت ایک جذبہ ہے.لیکن میرا خیال ہے کہ محبت ایک اور ہی چیز ہے جو کہ انسان کی پیدائش کے وقت جبکہ وہ پہلاسانس لینا ہے اس میں داخل کی جاتی ہے.تو کیا محبت ایک انسانی فطرت ہے ؟ نہیں نہیں.محبت ایک غرض ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آدمی کا نام ہی انسان رکھا گیا ہے جس کے معنے ہیں محبت کرنے والا جیسے کہ سورة الر حمن میں خدائے عزوجل نے فرمایا ہے کہ خَلَقَ الإِنسَانَ عَلَّمَهُ البَيَانَ (الرحمٰن: ۴-۵ )یعنی انسان کو پیدا کیا اور اس کو قوت بیانیہ بخشی علمہ البیان کے معنے اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے کیاہی صاف ہو جاتے ہیں وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۷) اب دیکھنا چا ہے کہ عباڈت دو قسم کی ہوتی ہے ایک قولاً اور ایک فعلاً - پس اس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو قوت بیانیہ بخشی پس کیا وجہ ہے کہ وہ میری نا فرمانی کرتا اور اس قوت بیانیہ سے جو میں نے اس کو عطا کی ہے میری تسبیح و تقدیس نہیں بیان کر تا خلق الانسان سے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس جگہ اشارہ کرتا ہے.اےآدمی میں نے تو تیری پیدائش ہی میں محبت کرنا رکھ دیا ہے.تیرا مقصود تو محبت کرنا ہے پھر تو اس قدراحسانات اور عنایات کے باوجود جو کہ میں تجھ پر کر تا ہوں غیر کی محبت میں پڑ گیا ہے.اس جگہ ان آیات کے لکھنے سے میرا صرف اتنا مطلب ہے کر خدا تعالیٰ نے آدمی کو پیداہی محبت کے لئے کیا ہے اوراس کے پیدا کرنے کا مقصد اور غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو اور اس دائمی زندگی بخشنے والے سمندر میں ہمیشہ غوطہ زن رہے جیسا کہ کسی شخص کا قول ہے کہ..درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

Page 49

یعنی انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہے اور وہ درد جوکہ محبت کا لازمی نتیجہ ہے اس کی باریک ٹیس سے ایک خاص لذت اٹھائے ورنہ تابعداری اور اطاعت کے لئے فرشتے موجو وہی تھے.اب دیکھنا چاہئے کہ وہ اختیارات جو انسان کو دیئے گئے ہیں وہ کسی اور مخلوق کو نہیں دیئے گئے فرشتہ ایک مخلوق ہے کہ جس کا خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بہت ذکر کیا ہے اور جن کی معرفت خدا تعالیٰ اکثر اپنے بندوں پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے میں نے اکثراس لئے کہا ہے کہ بزرگ اور اولیاء اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بلا کسی وسیلہ کے بھی خدا کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ پر خاص طور سےمہربان ہو تا ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ ایک ایسا نمونہ موجود ہیں کہ چو ہر وقت ہماری نظروں کےسامنے موجود ہے اور اگرچہ وہ فوت ہو گئے ہیں مگر پھر بھی ان کے معجزات نشانات اور پیشگوئیاں جوکہ ہر زمان اور ہر مکان میں پوری ہو رہی ہیں ایک ایسی حجت ہے کہ جو ہر وقت ہمارے سامنے نبی کریم ﷺ کا زنده و جود پیش کرتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺسے بلا کسی وسیلہ کے خدا تعالیٰٰ نے کلام کیا.جیسا کہ معراج کے موقعہ پر اور دیگر بہت سے موقعوں پر اور یہی نہیں آپﷺ تو بڑی شان کے آدمی تھے.آپ کے ادنی غلاموں پر خدا تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ایسی شفقت فرمائی ہےکہ ان سے اس طرح بلا وسیلہ مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے.میں اس وقت یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ فرشتہ باوجود اسی مقرب الہی مخلوق ہونے کے اس نعمت سے محروم ہے کہ اس کے دل میں محبت پیدا ہو(محبت وہ چیز ہے جو کہ خود بخود ایک مخلوق کے دل میں پیدا ہو ) اور فرشتہ جو خدا تعالیٰ کی تسبیح و تقدیں کرتا ہے تو وہ بھی ارادہ سے نہیں کرتا بلکہ اس کی خلقت میں ایسار کھا گیا ہے او راس کے بر خلاف نہیں کر سکتا مگر انسان بسا اوقات خدا تعالیٰ سے نفرت بھی کرتا ہے جیسا کہ دہریہ وغیرہ کیونکہ وہ اس ہستی کو مانتے ہی نہیں اور سرے ہی سے اس کا انکار کرتے اور لغو بیہودہ قرار دیتے ہیں.پس انسان کی محبت خدا سے اور فرشتہ کی محبت خدا سے ایک فرق رکھتی ہے.انسان ایک ارادہ اور خواہش سے اور محبت سے خدائی تعلق کرتا ہے تو فرشتہ بلا ارادہ اور محبت کے پس وہ تعلق اتنا قابل قدر نہیں جو کہ بلا کسی محبت کے ہو بلکہ وہ جو کہ ارادہ اور اختیار سے ہو زیادہ قابل قدر ہے اور یہ موخرالذکر تعلق صرف ایک انسان کو ہی نصیب ہے اور باقی مخلوقات پہلی قسم کا تعلق رکھتی ہے.یعنی انسان تو بعض دفعہ اپنے اسی اختیار کو جو کہ اس کو خدا تعالیٰ نے عنایت کیا ہے کام میں لا کر اس سےقطع تعلق کرلیتا ہے.گو یہ کام کیسا ہی ہو اور اس کا نتیجہ کتنا ہی خطرناک ہو مگر ایسا واقعہ تو ہوتا ہے کہ ایک انسان خدا سے اپنا تعلق توڑ بیٹھا اور راندہ درگاه الٰہی ہو گیا.مگر اس کے بر خلاف |********** Individual Book PDF Page 4 Single PDF Page 20 of 643 Vol Printed Page 21 **********|| دوسری مخلوق ایسا نہیں کر سکتی اور نہ ان میں یہ طاقت اور قوت ہے صرف انسان کو ہی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دیکھتا ہے اور سوچتا ہے پھر اس کے بعد جو اس کی ضمیر فیصلہ کرتی ہے اس پر عمل کرتا ہے خواہ تواپنے برے اعمال کی وجہ سے اس طرف میلان کرے کہ جس طرف رجوع کرنے سے وہ ہمیشہ کیلئے تباہ ہو جائے اور یا اسی راہ کو اختیار کرے کہ خدا کے فضل سے منزل مقصود تک پہنچ جائے اور یہ خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام قرآن مجید میں فرماتا ہے اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُؕ-اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا (احزاب : ۳ ۷) یعنی ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی پس انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور ڈرے مگر انسان نے اس کو اٹھالیا.تحقیق انسان ظالم اور جاہل ہےاس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی امانت یعنی محبت کو آسمانوں کے رہنے والوں یعنی فرشتوں اور زمین کے حیوانات اور پہاڑوں کے جانداروں پر پیش کیا مگر وہ اس کے اٹھانے سے ڈرے اور انکار کر دیا مگر انسان نے جو کہ ظالم اور جاہل ہے اس کو اٹھا لیا اور محی الدین ابن عربی صاحبؒ جو کہ ائمہ اسلام میں سے گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ اس جگہ پر انسان کی تعریف ہے مذمت نہیں اور ظالم اور جاہل کے الفاظ جو کہ بظاہربرے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اس جگہ پر تعریف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور وہ اس طرح ہے کہ ظالم سے مراد ہے کہ انسان اپنی جان پر ظلم کرسکتا ہے اور ان مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر سکتا ہے جو کہ خدا کی محبت میں اس کو پیش آویں.اور جاہل اس لئے کہ اس نے ان تکالیف اور شدائد کی بابت سوچا بھی نہیں جو اس کو اس راہ میں پیش آسکتی تھیں.اور دوسرے حیوانات نے دور اندیشی سے اس سے انکار کردیا اور گو کہ اس جگہ انسان نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا لیکن یہ اس کی تعریف ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو ایک پیاری اور عمدہ چیز دیکھ کر کسی اور بات کا خیال بھی نہیں کیا.اور وه بو جھ جس کا اٹھانادوسروں نے ناپسند کیا تھا اس کو برضاورغبت اٹھالیا.اور اسی لئے ہے کہ جب انسان اپنے عہد اوراقرار کو پورا کرتا اور خدا کی محبت میں اپنے آپ کو باوجود سخت سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کےثابت قدم رکھتا ہے تو اس پر اس قدر انعام اور اکرام ہوتے ہیں جو کہ کسی اور مخلوق پر نہیں ہوتے.پس یہ بات ثابت ہے کہ انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو کہ محبت کرنے کیلئے پیدا کی گئی ہے.اورجس میں ایک طاقت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے خیال میں اپنے نفع یا نقصان کو سوچ سمجھ کر ایک چیز سے

Page 50

Page 51

ہے جو دائمی ہے اور جو طاقت رکھتا ہے کہ اپنے چاہنے والے کو بدلہ دے اورجو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جو کل صفات سے موصوف ہے بہ نسبت اس شخص کے جو محبت اس سے کرتا ہے جو آخر مرنے والا ہے تباہی ہر وقت اس کا انتظار کر رہی ہے اور اس وقت اس سے محبت کرنے والے کو سوائے تباہی بر بادی ،ذلت اور رسوائی کے کچھ حاصل نہ ہو گا.ہاں مگر اس شخص کوجو کسی دوسرے سے خدا کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے محبت کرتا ہے گو کہ وہ فانی چیز ہے لیکن خدا کی رضا توفانی نہیں.جب ایک شخص خدا کے رسول سے محبت کرتا ہے کہ اس کی بدولت میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کروں اور تاکہ خدا کی رضامیرے شامل حال ہو جائے اس محبت میں وہ روز بروز ترقی حاصل کرتا اور آخر کار سب رشتوں سے زیادہ وہ اس کو عزیز ہو جاتا ہے باپ بیٹا بھائی اوردو سرے عزیزوں کی محبت اس کے دل میں کہیں کم ہو تی ہے بہ نسبت اس محبت کے جو وہ خدا کےرسول سے کرتا ہے.یہ محبت اگرچہ ایک انسان سے ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خدا کی محبت بھی ترقی کرتی جاتی ہے اور جب ایک شخص اس غرض سے اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں اور بھائی سے محبت کرتا ہے کہ خدا کا علم ہے تو اس محبت کی تہہ میں بھی خدا کی ہی محبت ہوتی ہے.قیامت کےدن ایسے شخص کے سر پر خدا کا سایہ ہو گا.اور اس قادر مطلق مالک یوم الدین کی پیاری آواز اس شخص کے کان میں آئے گی اور اس وقت اس کو کیسی خوشی ہوگی جب وہ سنے گا کہ اے میرےبندے تو نے مجھ سے محبت کی اور میرے لئے تکلیفیں اٹھائیں تیرا چلنا پھرنا کھانا پینا اور جاگنا سونا سب میرے ہی لئے تھا.تونے میری رضا کو اپنی رضاپر مقدم رکھا اور جن سے میں نے کہا تھا تو نے محبت کی اور جن کے تعلق سے میں ناراض تھا تو ان سے الگ رہا.اس وقت کیسی خوشکن آواز اس کے کان میں پڑے گی،کہ فدخلی فی عبادی وادخلی جنتیاس وقت اس کو ان چند روزه تکالیف کے بدلے جو کہ اس نے خدا کے لئے برداشت کی ہوں گی دائمی بہشت ملے گا اور وہ ہمیشہ کیلئے اس محبت کا ثمرہ پالے گا جو اس نے خدا سے کی.میں اس جگہ یہ بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ محبت وہی نہیں کہ جو کسی انسان سے کی جائے یا کسی اور چیز سے کی جائے بلکہ میرے خیال میں ہر ایک کام میں جو انسان کرتا ہے اور ہر اک بات جس کو انسان ترک کرتا ہے اس کی محبت یا نفرت کی وجہ سے ہو تا ہے.انسان اپنے پیدا ہونے کے وقت سے جتنے کام کرتا ہے سب محبت کی وجہ سے ہوتے ہیں.کیونکہ جب انسان کو کسی کام کی محبت نہ ہو تو وہ کیونکر اس کو کر سکتا ہے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ محبت کیونکر پیدا ہوتی ہے میرے خیال میں محبت حسن سے پیدا ہوتی ہے اور شاید سب دنیا اس کو قبول کرتی ہوگی.اب خواه حسن صورت ہو خواہ حسن سیرت ہو اور خواہ حسن انجام ہو- حسن صورت اس طرح کہ انسان ایک چیز کو اس

Page 52

Page 53

Page 54

Page 55

لئے پسند کرتا ہے کہ اس کی شکل بھا گئی ہے اوراس میں کوئی چیز ایسی ہے یا خصوصیت ہے جو اس کی آنکھوں کو پسند آگئی ہے اور حسن سیرت اس طرح کہ کسی کے اچھے اخلاق اور عمده بر تاؤ سے ایک شخص کا دل اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور ایسی محبت اس کے دل میں پیدا کر دیتا ہے کہ وہ محبت کرنے والا شخص اس دوسرے شخص کی جگہ اپنے دل میں خاص طور سے پاتا ہے.اور حسن انجام اس طرح کہ ایک شخص کسی کام کے شروع کرنے سے پہلےسوچتا ہے اور غور کر تا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا جب وہ اس کے انجام کو اچھا اور سود مند دیکھتاہےتو وہ ہر طرح سے اس کام کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ تین قسم کی محبتیں ہیں جو میرے خیال میں طرح طرح کی شکلوں میں انسان کی زندگی میں پیش آتی ہیں.بعض دفعہ انسان ایک چیز سے محبت کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ مجھ کو اس سے کیوں محبت ہے اگر چہ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے لیکن اس شخص کی نظروں سے پوشیده - دیکھا جا تا ہے کہ ایک آدمی مدت تک ایک جگہ رہتا اور پھر جب وہ کسی وجہ سے اس جگہ کو چھوڑتا ہے تو اس کے دل میں ایک قسم کا قلق اور گھبراہٹ پائی جاتی ہے.حالانکہ وہ جتنی مدت تک اس جگہ رہا کبھی بھی اس جگہ کی محبت اس کے دل |میں جوش زن نہیں ہوئی.اسی طرح دو بچپن کے دوست جو ایک جگہ رہتے رہے ہیں اور جنہوں نےایک ہی جگہ تعلیم پائی ہے.شاید بہت کم ایسے موقعہ پاتے ہوں گے کہ انہیں ایک دوسرے کی محبت محسوس ہو لیکن جدائی اچانک آکر اس محبت کو شعلہ زن کر دیتی ہے جو ان کے دلوں میں مدت سے خفیہ طور پر بڑھ رہی تھی اس وقت وہ جانتے ہیں اور ان کے دل اچھی طرح محسوس کر لیتے ہیں کہ ہاں ہمیں آپس میں محبت تھی اس بات سے معلوم ہو تا ہے کہ محبت اس آگ کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ دہکتی رہتی ہے اور جب اس کو کسی چیز سے ہلایا جاتا ہے تو وہ اچانک شعلہ زن ہوتی ہے.میرے خیال میں استغفار پڑھنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ محبت الہی کی آگ کو بھڑکایا جائےکیونکہ انسان استغفار پڑھنے کے وقت اپنے گناہوں کو اپنے سامنے دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر یہی حالت رہی تو یہ گناه مجھ میں اور میرے پیارے میں جدائی ڈالیں گے.اور آخر کار میں خدا تعالیٰ سےدور جا پڑوں گا جس سے میں محبت کرتا ہوں اور شیطان کے نزدیک ہو جاؤں گا.جس سے میں نفرت کرتا ہوں.پس اس جدائی کو سامنے دیکھ کروہ کانپ اٹھتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں اور بھی جوش زن ہوتی ہے.اور اس طرح وہ ان گناہوں کو یک لخت ترک کر دیتا ہے جن کی وہ واقفیت حاصل کرلیتا ہے اور ان بندوں کے لئے جو آخر کار گناہوں کے پھندے سے نکل جاتے ہیں استغفار ایک ترقی کا موجب ہوتا ہے.

Page 56

کیونکہ وہ جتناخد اکے قریب جاتے ہیں اتنا ہی ان کے دل میں اس کے پاس جانے کا اور اشتیاق بڑھتا ہے.اور ور جو کچھ کہ فاصله بیچ میں ہوتا ہے اس کو ایک گناه تصور کرتے ہیں اور خدا سے التجا کرتے ہیں کہ ہم کو اور بھی اپنے نزدیک کرلے.غرض کہ یہ محبت ایک ایسی زبردست طاقت ہے کہ یہ ایک طاقتور اور کمزور انسان پر یکساں حکومت کرتی ہے.محبت کے کمال کا نام دنیا میں استقلال رکھا گیا ہے.بعض لوگوں میں محبت کی قوت بہت کم ہوتی ہے انہی لوگوں کا نام بالفاظ دیگر کم ہمت اور بے استقلال ہے.کیونکہ جب انسان کو کسی چیز کی خواہش ہی بدرجہ کمال نہ ہوگی تو کس طرح ایک عرصہ دراز تک اس کے حاصل کرنے کے لئے سرگرداں و پریشان رہ سکتا ہے.مگر جب ایک شخص کو کسی چیز سے بہت ہی انس ہو گا اور وہ چاہے گا کہ کسی طرح میں اس کو حاصل کر ہی لوں.اس وقت وہ ہر قسم کی تکالیف اور مصائب اور شدائد کو برداشت کرلے گا.اور ہر طرح سے آخر اس کو حاصل کر ہی لے گا جیسا کہ کسی نے کہا ہے من جد وجد ورنہ کم سے کم وہ۰ دنیا پر ثابت کر دے گا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ کم توجہی سے کسی کام کو ناتمام چھوڑ دوں بلکہ جب تک میرے ہاتھ پاؤں چلیں اور جب تک دنیاوی وسائل میرا ہاتھ بٹا سکیں.میں ہر ایک اس کام کو جس کے کرنے کا ارادہ کر لوں کمال تک پہنچانے کی کو شش کر تا ہوں.یہ ہیں محبت کی طاقتیں اور قوتیں جن سے وہ دنیا میں کام لیتا ہے.یہ جب جوش زن ہوتی ہے تو اس وقت انسان کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اس کے ہوش و حواس سب ہوا ہو جاتے ہیں اور بے چینی اور بے کلی اس وقت اس کی جلیس ہوتی ہیں وہ اپنے دل میں ایسا درد محسوس کرتا ہے کہ سوائے چند گرم آنسوؤں کے جو کہ اس کی گھبراہٹ کا کچھ تھوڑا سا حال بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا جو اس کی حالت کا اظہار کر سکے.بلکہ خود اس کی طاقت گویائی بھی کچھ کام نہیں دیتی.اور وہ جس کی زبان کبھی تالو سے نہ لگتی تھی.کلیجہ تھامے ہوئے بیٹھا ہوا نظر آتا ہے.یہ حالت اس قابل ہوتی ہے کہ اس کا مشاہدہ کیا جائے.لیکن یہ تو تب ہو اگر دوسروں کو ایسا واقعہ پیش نہ آتا ہو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک.بلکہ قبر کے کونے تک یہی واقعات پیش آتے ہیں.ایک دودھ پیتابچہ تک بھی اپنی ماں کی گود میں اور ایک اجنبی کی گود میں فرق محسوس کرتا ہے اور دوسرے کے ہاتھوں میں جا کر خواہ مخواہ رو پڑتا ہے یا بیکل ہو جاتا ہے.حالانکہ وہ اس وقت اپنے پرائے میں کچھ تمیز نہیں کر سکتا اور اس کو نہیں معلوم ہوتا کہ کون میرا دوست ہے اور کون میرا دشمن ہے وہ صرف اس محبت کے تعلق کی وجہ سے جو اس کو اپنی والدہ سے ہوتی ہے غیر میں اور اپنی ماں میں ایک فرق محسوس کرتا ہے.جیسا کہ کسی نے کہا ہے.کہ دل را بہ دل رہیست.یعنی اگرچہ ایک کو دوسرے کی محبت کا

Page 57

علم بھی نہ ہو تو بھی وہ محبت کی کشش کے وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اسی طرح جب بچہ ذرا بڑا ہو جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ محبت کے اثر سے محفوظ نہیں ہو تا.کیونکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سےمحبت کا تعلق رکھتا ہے اور جب وہ کچھ اور بڑا ہوتا ہے.یعنی بلوغت کے قریب پہنچتا ہے تو اس وقت سے دو سراسلسلہ محبت کا شروع ہو جا تا ہے لیکن اس کو کسی قدر عقل آجاتی ہے کہ محبت کرنے کےلائق ایک اور ہستی ہے جو کہ زمین و آسمان کی پیداکرنے والی اور برے بھلے کی فرق کرنے والی ہے.پس اس وقت اگر وہ اپنی اصلاح کرتا اور صاف اور سیدھی راہ پر چلتا ہے تو آئندہ زندگی میں اس کے لئے بہت ہی آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ راو جو بہتوں کو بہت دشوار اور ناقابل گزر معلوم ہوتا ہے اس کے لئے ایک عمدہ آسان اور بلا خوف و خطر ہو جا تا ہے.پھر اسی طرح انسان جوان ہو کربھی بہت سے تعلقات رکھتا ہے اور اس کو محبت کرنی پڑتی ہے.اور جب وہ بوڑھا ہو تا ہے تو تعلقات اور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ محبت بھی ترقی کر جاتی ہے.اور پھر بوجہ ایک لمبی عمرپانے کے بوڑھا آدمی اپنے کئی دوستوں کو چھوڑ چکا ہو تا ہے اور وہ اس سے پہلے اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ چکے ہوتے ہیں اور خواہ مخواہ اس کو وہ زمانہ جبکہ یہ اپنے دوستوں میں بیٹھا تھا یاد آتا ہے اور محبت اس کو بیقرار کرتی ہے اور نہیں تو اپنی چھوٹی عمر کی باتیں یاد آکر اس کی خدا سے محبت اور بڑھ جاتی ہے.کیونکہ وہ اپنے گناہوں سے ڈرتا اور پچھتاتا ہے اور اگر دوستوں کی جدائی کاداغ بھی رکھتا ہو اور کچھ صلاحیت بھی رکھتا ہو تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے سبحان الله یعنی سب کے لئے فنامقدر ہے اور تکلیفیں آرام کے ساتھ ضروری ہیں.لیکن صرف ہاں صرف ایک الله تعالیٰ ہے جو ان تمام انقلابات اور فنا سے پاک ہے یا بے اختیاری میں وہ یہ کلمہ زبان پر لاتا ہے کہ انا لله وإنا إليه راجعون (البقره: ۱۵)یہ فقرہ جو کسی غم کے وقت بولا جاتا ہے میرے خیال میں اس کے معنوں میں بھی محبت کی طرف ایک اشارہ ہے.یعنی جب ایک چیز جس کو ہم پسند کرتے ہیں ٹوٹ جاتی یا گم ہوجاتی ہے یا ایک شخص ہم سے جدا ہو تا ہے خواہ دائمی خواہ ایک وقت مقررہ تک کے لئے اس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم تو خدا کے لئے ہی ہیں اور ہم نے اسی طرف لوٹنا ہے یعنی فنا سب کے لئے ہےسوائے خدا تعالیٰ کے اور ہم بھی کسی دن انہی فنا شدہ لوگوں کی طرح فنا ہو جائیں گے.لیکن غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے میں ایک محبت کا بھی اشارہ ہے، لیکن خدا تعالیٰ اپنےبندوں کو سکھلاتا ہے کہ نقصان کے وقت تم یہ پڑھا کرو اور اس میں اشارہ فرماتا ہے

Page 58

.کہ تم تو میرےلئے ہی ہو اور میرے پاس ہی لوٹو گے اور ایک میری ہی ہستی ہے کہ جس کی محبت تم کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے.تو کیا وجہ کہ تم ایک فانی چیز سے اس قدر محبت کرتے ہو تم کو تو چاہیے کہ تم مجھ سے محبت کرو جو فانی نہیں.وہ چیزیں تو تم سے جدا ہونے والی ہیں اور اس کے بر خلاف میری طرف تم لوٹنے والے ہو اور مجھ سے تم کو جدائی نہیں تو بتلاؤ کہ ایسی چیز سے محبت کرنی چاہیئے جو جدا ہونے والی ہےاور آخر رنج دینے والی ہے یا اس ہستی ہے جس کی طرف لوٹنا ہو گا.اور اس سے کبھی لوٹنا نہ ہو گا اورہمیشہ اس محبت کا ثمرہ ملتا رہے گا.پس جب انسان کسی خساره یا تکلیف کے وقت اس فقرہ کو زبان پرلاتا ہے تو اس کے دل میں فوراً صبر اور استقلال کی ترغیب پیدا ہوتی ہے کہ کیا وجہ میں ایک فانی چیزسے محبت کروں جبکہ نہایت حسین اور نہایت پیا را غیر فانی خدا میرے سامنے محبت کرنے کو موجود ہے.مگر جب انسان خدا سے محبت کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کے دل میں خدا کی مخلوق کی محبت بھی جوش زن ہوتی ہے اور جتنا وہ اس میں بڑھتا جا تا ہے اتنا ہی اس میں بھی ترقی کر تا ہے.اس وقت انسان جس چیز کو دیکھتاہے معاً قاور خدا کی قدرت یاد آجاتی ہے کہ یہ سب صناعیاں اسی کی ہیں.اور جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ سب اسی کی مخلوق ہے.پس بوجہ اس کے کہ وہ اس کے محبوب کی بنائی ہوئی چیز ہے اور اسی کے ارادہ اور علم سے بنی ہے وہ اس کی قدر کرتا ہے اور اسی لئے وہ ان گناہوں سے بچ جاتا ہے جن میں کہ دوسرے لوگ اس وجہ سے پھنسے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کو خدا سےمحبت نہیں ہوتی یا اس درجہ تک نہیں ہوتی مثلا ایک خدا سے محبت کرنے والا انسان اسراف سےپر ہیز کرے گا کیونکہ وہ برداشت ہی نہیں کر سکے گا کہ ایک چیز جو کہ خدا نے اس کو دی ہے بلا ضرورت اور بلا وجہ ضائع کی جائے اور وہ ظلم و تعدی سے پرہیز کرے گا کیونکہ اس کی طبیعت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی کہ خدا تعالیٰ کی بنائی چیز کو تباہ کرے اور اسی طرح اس محبت سے جو کہ ایک انسان کو خدا سے ہو وہ دیگر تمام گناہوں اور کمزوریوں سے بچتا ہے.اور بر خلاف اس کے جو خدا تعالیٰ سے محبت نہیں رکھتا اگر انجام کے خوف سے اور سزا کے ڈر سے گناہوں اور بدیوں سے بچنےکی کوشش بھی کرے تو اس حد تک نہیں بچ سکتا جہاں تک کہ وہ شخص جو کہ محبت اور اخلاص کی وجہ سے بچتا ہے.اس وقت یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ اخلاص سے کام کرنے والا انسان بھی ایک قسم کی سزا کا ڈر اور خوف رکھتا ہے مگر وہ بھی اس لئے ہوتا ہے کہ کہیں میری محبت میں خلل نہ آجائے اور ایسا نہ ہو کہ میں خدا تعالیٰ سے دور جا پڑوں.ہاں بعض اولیاء کے قول سے یہ بھی ظاہر |ہے کہ ایسے انسان بھی دنیا میں ہوتے ہیں جن کے دل میں خوف دوزخ یا امید بہشت کچھ بھی نہیں ہو

Page 59

تا اور صرف اس اخلاص اور محبت کی وجہ سے اعمال کرتے ہیں جو کہ ان کو خدا سے ہو تا ہے اس جگہ اصل مطلب تو میرا یہ ہے کہ اخلاص اور محبت الہیہ سے انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے.اور محبت کے درجے مختلف ہیں.جتنی محبت ہوگی اسی قدر قرب الٰہی نصیب ہو گا اور گناہوں سے بچنے کی توفیق ملے گی.پس ضروری ہوا کہ گناہوں سے بچنے کیلئے اور ترقی درجات کے لئے ہم اپنا تعلق خدا سے بڑھائیں اور اپنے دل میں وہ اخلاص اور وہ محبت پیداکریں جس سے کہ ہم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور شیطان ہم پر حملہ کرنے سے روکا جائے اور ہم ایک سورج کی طرح ہوں جس سےایک دنیا روشنی پکڑتی ہے.مگر مسئلہ زیرِبحث تو یہ ہے کہ آیا وہ خدا جس سے ہمیں محبت کرنی چاہئےوہ عیسائیوں کا خداہے یہودیوں کا خدا ہے، ہندوؤں کا خدا ہے یا مسلمانوں کا خدا ہے.اس جگہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تو ایک ہی ہے مگر مختلف مذاہب مختلف رنگوں میں اس کو پیش کرتے ہیں اور مختلف شریعتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں٭ اور یہ مذاہب کا جھگڑا بہت پرانے زمانہ سے چلاآتا ہے.اس لئے ایک صاحب بصیرت کا فرض ہے کہ وہ غور سے اسباب پر نظر ڈالتے ہوئےفیصلہ کرے کہ کون سا مذہب سچا اور کون سا خدا اس قابل ہے کہ اس سے محبت کی جائے.بالفاظ دیگر کون سامذ ہب ہے جو کہ خدا کی طرف سے ہے.اب اس موقع پر ہم مختلف مذاہب پر ایک مختصر نظر ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ ناظرین اس سے فائدہ اٹھائیں اور کسی وقت جب کہ ان کو اس قسم کا مباحثہ کرنا پڑے تو اس پر نظر رکھیں.پہلے ہم عیسائیوں کے خدا کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عیسائی اپنے خدا کی نسبت کیا عقیدہ رکھتے ہیں دیکھاجاتا ہے کہ عیسائی ایک مدت سے توحید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحید کے قائل ہیں.یعنی وہ اس بات کے قائل ہیں کہ توحیدہ تثلیث میں ہے اور تثلیث توحید میں ہے اگر چہ یہ ایک ایسی چیز ہے جوانسانی سمجھ میں نہیں آ سکتی.کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک تین ہو اور تین ایک.مگر خواہ یہ ٹھیک ہو یا نہ ہو عیسائی ایسا عقیدہ رکھتے ہیں اور تین کے قائل ہیں اور پھر ساتھ ہی ایک کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ باپ بیٹا اور روح القدس تین خدا ہیں لیکن ساتھ ہی یہ سب ایک ہی ہیں.پہلے تو ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب بہت کچھ انسانی دست برد کے ٭اس وقت بہت سے ناظرین کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو گا کہ ایک فرقہ تو خدا کا منکر ہی ہے پس پہلے خدا ثابت کیا جائے تو پھر کوئی اور بات شروع ہوگی مگر یاد رکھنا چاہئے کہ میرا مضمون ہے دہریہ کے خیالات کارد.کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ محبت کامارول میں ہو اور محبوب کوئی نہ ہو جبکہ دل میں محبت کامادہ موجود ہے کہ اس کا صانع یا خالق کوئی ہے جس نے محبت کامادہ دل میں پیدا کیا ہے اور انسانی دل بھی خواہ مخواہ اس کی طرف کشش کرتا ہے کہ اس کو ڈھونڈ نکالے.پھر ہم دہریہ سے سوال کرتے ہیں کہ خلائق کس نے پیدا کی اور جب وہ ذرات عالم کی طرف اشاره کرے تو پھر یہ سوال ہوگا کہ ان کو کس نے پیدا کیا.اور اسی طرف ایک حد تک چل کر ایک طاقت اتنی پڑے گی جو کہ یہ سب کام چلارہی ہے پس وہی تو خدا ہے جو خالق ارض و سماء اور علیم و خبیر ہے تمام نیک صفات کا مجموعہ ہے.پس دہریہ کا ابطال تو یہ مضمون خود کر رہا ہے پھراس کا ذکر لانابالکل فضول ہے.

Page 60

نیچے آچکا ہے.کیونکہ تین خداؤں کی کونسل ظاہر کرتی ہے کہ ایک خدا انتظام مخلوق سے قاصر ہے جو کہ خود ان کے عقیدہ کے بر خلاف ہے.وہ خدا کو قادر مطلق سمجھتے ہیں پھر کیونکر ممکن ہو کہ تینوں قادر ہوں قادر مطلق تو وہ ہے جو بلا کسی اور کی مدد کے حکمران ہو مگر یہاں تو دو اور ساتھ لگے ہوئے ہیں ہم خود عیسائی سلطنتوں میں دیکھتے ہیں کہ جب ایک کام پر ایک سے زیادہ آدمی لگائے جاتے ہیں توان میں سے ایک کو دوسرے کی نسبت زیادہ اختیار دیئے جاتے ہیں اور وہ بوجہ اس امتیاز کے جو کہ اپنے دوسرے ساتھیوں پر رکھتا ہے اس اختلاف کو مٹاتا ہے جو کہ و قتاً فوقتاً حادثات زمانہ اورضروریات وقت کی وجہ سے ان میں پڑ جاتا ہے.پس اگر یہ ممکن تھا کہ تین ہی قادر مطلق ہوں تو یہ عیسائی سلطنتیں جو کہ حضرت عیسی کی غلامی کا دم بھرتے ہیں کچھ نمونہ ہم کو بھی تو دکھلائیں کہ کس طرح تین کا قادر مطلق ہونا ممکن ہو سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ملی ہوئی بات بھی ہم ان میں نہیں پاتے تو کیوں کر خیال کر سکتے ہیں کہ ان کے خدا تین بھی ہیں اور پھر قادر مطلق بھی اور پھر ایک کےایک - تمین کا ہندسہ ظاہر کرتا تھا کہ انتظام کے لئے کثرت رائے پر فیصلہ ہوتا ہو گا مگر افسوس اورحیرت کی بات تو میں ہے کہ پھر وہ تینوں قادر مطلتی بھی ہیں اگر کثرت رائے ہوتی ہے تو جب ایک مخالف کی بات نہ مانی جاتی ہو گی تو کیا اس کی قدرت میں کوئی فرق نہیں واقع ہوتا ہو گا.بات یہ ہے کہ یہ عقیدہ کچھ ایسا بے ڈھنگا اور لغوواقع ہوا ہے کہ کوئی انسانی عقل حتٰی کہ خود عیسائی بھی اس کو سمجھ نہیں سکتے بلکہ جب ان سے سوال کیا جائے تو صاف جواب دیتے ہیں کہ یہ عقیدہ انسانی عقل سے بالاہے مگر کیا یہ عقیدہ جو انسانی عقل سے بالا ہو اس قابل ہے کہ انسان کے سامنے پیش کر کے اس کو پریشان اور حیران کردیا جائے کیا یہ عیسائیوں کے خدا کی کونسل کا ظلم نہیں کہ وہ ایسا عقیدہ انسان کو منوانا چاہتی ہے جس کے مطابق اس نے انسان کا دماغ بنایا ہی نہیں.ایک دنیاوی گو ر نمنٹ تو اپنی رعایا کی بہتری کی تجاویز سوچتی ہے اور نہیں تو کم سے کم اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ کہیں وہ بوجھ جو میں اس پر ڈالتی ہوں حد سے زیادہ تو نہیں ہو جاتا مگر یہ آسمانی کو نسل اس بات پر انسان کو دائمی دوزخ میں ڈالتی ہے جس کا ماننا اس کے لئے ناقابل برداشت بوجھ ہے.کیا یہی وہ عدل ہے کہ جس پرعیسائیوں کا خدافخر کر تا ہے ؟ پھر ایک اور بات ہم کو نہایت تعجب میں ڈالتی ہے کہ جبکہ زمانہ ایک ہےلیکن جب سے خداہے اس وقت سے بیٹا.اور ساتھ ہی قدرت اور طاقت بھی ایک ہی ہے اور پھربیٹے کی ماں بھی کوئی نہیں تو ایک کو بیٹا اور ایک کو باپ کس طرح قرار دیا گیا ہے کیا بیٹے کا نہیں کہ وہ باپ ہونے کا دعوی کرے جبکہ وہ قادر مطلق ہے اور باپ کا ہم عمربھی تو کیوں اس کی حق تلفی کر

Page 61

کے اس کو بیٹا قرار دیا گیا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیت کی بنیاد کفارہ پر رکھی گئی ہے اور یہی چبوترہ ہے جس پر کہ عیسائیت کا بت رکھا گیا ہے یا یہی وہ مسالہ ہے کہ جس پر عیسائیت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اوراس کفار سے یہ مراد ہے کہ جب بیٹے نے یعنی مسیح نے دیکھا کہ باپ تو بوجہ عدل کے کسی کاگناہ بخش نہیں سکتا اور اتنی مخلوق خواہ مخواہ جہنم میں جاری ہے تو اس نے اپنی قربانی کر کے مخلوقات الٰہی کو گناہ سے بچایا.لیکن وہ میت کی شکل میں اس دنیامیں ظہور پذیر ہوا اور پھر یہودیوں کے ہاتھ سےسولی دیا جا کر تمام گناہوں کو اپنے سر پر لے گیا اور اب وہ جو کہ اس کے کفارہ پر ایمان لائیں ان کےتمام گناہ بخشے جائیں گے.اور وہ ان وعدوں کے مستحق ہوں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے ساتھ کئے ہیں مگر اس پر غور کرنے کے ساتھ ہی پہلا اعترا ض جو اس پر پڑتا ہے وہ یہ ہےکہ جب خدا بھی قادر مطلق اور بیٹا بھی تو کیا وجہ کہ مسیح نے اپنی قدرت سے تمام لوگوں کو نجات نہ دیدی تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ(یعقوب باب ۲ آیت ۳) میں صاف طور سے لکھا ہے کہ ”رحم عدالت پرغالب ہوتا ہے تو کیوں خدا کو ضرورت پڑی کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرے اور طاقت کو گناه سے بچائے جبکہ رقم عدالت پر غالب ہے تو کیوں اس نے رحم کر کے لوگوں کو نہیں چھڑا دیا اور کیوں اس نے ان کو جو کہ گناہ گار تھے بخش نہ دیا ؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ یعقوب کا قول ہمارے لئے سندنہیں تو یہ ایک نہایت ذلیل عذر ہو گا.کیونکہ اگر ایسا ہے تو کیوں یعقوب کے خطوط کو بائبل میں جگہ دی گئی ہے اور اگر وہ اس قابل ہیں کہ ان کو ردی کے ٹوکرے میں پھینک دیا جائے تو کیوں اب بھی عیسائی اس سے سند لیتے ہیں.اگر وہ خطوط غلطی سے بائبل میں درج ہو گئے تھے تو اب ان کو نکالا جاسکتا ہے مگر اس صورت میں بھی ایک بہت بڑی مشکل پیش آوے گی اور وہ یہ کہ مسیح نے اپنے بارہ حواریوں کے لئے تخت کا وعدہ کیا تھا اور اگر چہ وہ پورا نہیں ہوا مگر پھر بھی عیسائیوں نے تخت سےمراد آسمانی تخت لے کر کسی قدر اپنا پیچھا چھڑایا تھا اور اب جبکہ یعقوب کے خطوں کو بھی خلاف ارشاد حضرت عیسئی تصور کیا جائے گا تو لازم ہو گا کہ لیعقوب کو بھی ایک بد گو اور جھوٹا انسان سمجھا جائے اور اس صورت میں دو حواری روحانی تختوں سے بھی محروم ہو جائیں گے.ایک تو یعقوب دوسرے یہودا اسکریوتی جس نے تیسں روپے لے کر اپنے استاد یسوع کو دشمنوں کے حوالے کر دیا اوراس روحانی تخت سے محروم رہا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا.اور اب جبکہ دو حواری آسانی تحت سے محروم کئے جائیں گے تو معلوم نہیں کہ عیسائیوں

Page 62

کو وہ کسی قسم کے تخت مانے پڑیں گے جس کا کہ یسوع نے اپنے حواریوں سے وعدہ کیا تھا.اب میں اصل مطلب کی طرف لوٹتا ہوں اور عیسائیوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ذرا ’’رحم عدالت پر غالب ہو تاہے“ کے معنی تو بتائیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دانیال نبی کی کتاب باب ۹ آیت میں لکھا ہے.”اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اپنی ساری راست بازی کے موافق اپنے قہراور اپنے خشم سے جو تیرے ہی شہر یوروشلم پر ہے جو کوہ مقدس ہے دست پردار ہو، کیونکہ ہمارے گناہوں کے اور ہمارے باپ دادوں کی شرارتوں کے سبب سے یوروشلم اور تیرے لوگ ان ساری قوموں کے حضور میں جو آس پاس ہیں مور د ملامت ہوئے‘‘ اس جگہ دانیال نبی اپنے گناہوں اور اپنی قوم کے گناہوں کی معانی خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں.پس اگر وہ گناہ معاف نہیں کر سکتا اور عادل ہے تو دانیال نبی کا یہ فعل عبث ہو جا تا ہے مگر اس کے بر خلاف جبریل نے آکر ان کو سنایا ہے کہ تیری دعا سنی گئی اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ نمبر۲ باب ۳۰ آیت ۲۱میں لکھا ہے کہ حزقیاہ نے بنی اسرائیل کیلئے دعامانگی اور خداوند نے اس کی سنی اور معاف کیا" (فارن بائبل سوسائی.مشین سیم پر ہیں اور میانه مطبوعہ ۱۹۰۸ء) کیاعیسائی صاحبان اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ جب خدا کی عادت ہے کہ وہ گناہ معاف کردیتا ہے تو کیوں اس کولغو کا م سوجھا کہ اپنے بیٹے کو مفت میں پھانسی دلوائی اور لوگوں کے گناہ معاف نہ کئے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی اس بات کے جواب میں بعض دفعہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یسوع سے پہلے جو لوگ بیٹے پرایمان رکھتے تھے ان کے گناہ بھی بنائے گئے لیکن اس جگہ یہ بات بھی نہیں کیونکہ ایمان لانے والےکے گناہ تو پہلے ہی بخشے گئے خدا نے یہ کیا لغو بات کی کہ میں نے حزقیاہ کی دعا سن کر گناہ معاف کئے جوکفارہ پر پہلے سے ہی ایمان لائے ہوئے تھے اور جن کا یقین اور اخلاص اول ہی سے کامل تھا ان کو گناہگار ٹھہرانا ایک بہت بڑی نا انصافی ہے اور یا تو اس جگہ خدا سے ہی غلطی ہوگئی ہے یا حز قیل نبی ؑنے نعوذ بالله افتراء سے کام لیا اور مخلوق الہٰی کو دھوکہ دینا چاہا ہے اور یہ دونوں ایسی صورتیں ہیں کہ ان میں سے ایک کو مان کر بھی عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتاہے.مگر نہیں جس مذہب کا خدا گناہ سے پاک نہیں اس میں ایک نبی پر تہمت کا لگنا اور گناہ گار ثابت ہونا کوئی بڑی بات نہیں پھر ہم دیکھتے ہیں اب تک جو ہم نے ثابت کیا ہے یہ ہے کہ عیسائیوں کا خدااول تو اس قابل ہی نہیں کہ وہ سمجھ میں آسکے اور پھر اس کی باتیں اور کلام کچھ ایسی متناقض واقع ہوئی ہیں کہ ایک عقلندسے عقلمند انسان ان کے سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ گناه معاف کرتا ہے اور دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ میں عادل ہوں اور گناہ

Page 63

معاف نہیں کر سکتا.یہ بات تعجب اور حیرت سے دیکھنے کے قابل ہے کہ خدائے قادر کو کیا ضرورت پڑی کہ اس نے ایسا دو رخا کلام کیا.کیا وہ اپنے بندوں سے ڈرتا ہے یا کوئی اور بھید ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے.مگر پہلی بات زیادہ زبردست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے یہودیوں کی مار کھا کر ایک تجربہ حاصل کر لیا تھا اورخیال کیا تھا کہ اگر میں کفار کا باطل مسئلہ ان کے سامنے پیش نہ کروں گا تو معلوم نہیں مجھ سے کیاسلوک کریں گے.اب ہم اتناتو ثابت کر چکے ہیں کہ کفارہ کا مسئلہ انسانی عقل سے بعید ہے اور یہ کہ عیسائیوں کا خدادو رخاکلام کرتا ہے پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم ایسے خدا سے محبت کریں اور ہر لحظہ اور ہر گھڑی اپنے دل میں اس کا تصور جمائے رکھیں.اب ہم دیکھتے ہیں تو عیسائیوں کا خدا جووعدہ کرتا ہے اس کو پورا بھی نہیں کرتا.اس نے کہا ہے کہ گناہ کی سزا جسم پر پڑتی ہے اور روح پر بھی.اور میں اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے جیسا کہ پیدائش باب 3 آیت ۱۹ میں ہے کہ میں تیرےحمل میں تیرے درد کو بہت پڑھاؤں گاتو درد کے ساتھ بچے جنے گی اسی طرح آیت ۱۹۱۸ میں ہے"وہ(زمین) تیرے لئے کاٹنے اور اونٹ کٹارے اگاوے گی اور تو کھیت کی نبات کھائے گا.تو اپنے منہ کے پسینہ کی روٹی کھائے گا‘‘ اور یہ وہ سزا ہے جو کہ آدم علیہ السلام و حوا کو بسبب ایک گناہ کےخدا تعالیٰ نے دیا ہے مگر جبکہ کوئی مسیح کے کفارہ پر ایمان لائے تو چاہئے کہ وہ اس تکلیف سےبچ جائے.کیونکہ مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کئے گئے اوراب اس کا حق ہے کہ اگر وہ عورت ہے تو دردزہ سے بچہ نہ جنے اور اگر مرد ہے تو اس کو محنت مزدوری نہ کرنی پڑے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں ہر سال بیسیوں عورتیں بچہ جننے کی تکلیف سے ہلاک ہوجاتی ہیں.کیا خدا کو اپنا وعدہ بھول گیا؟ یا وہ آرام میں ہے اور قصوں کے دیووں کی طرح جو کہ ایک دراز زمانہ تک ایک ہی کروٹ پر سوتے رہتے ہیں وہ بھی سو رہا ہے.بہرحال کچھ بھی ہو اسے خبردارکرنا چاہئے اور تمام عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ مل کر اس کی خدمت میں ایک ڈیپوٹیشن پیش کریں تاکہ اس روز مرہ کی تکلیف سے بچ جائیں.اور ایسا ہو کہ کچھ عورتیں بلادرد کے بچہ جنیں اورمرد بلا محنت کے روزی حاصل کریں تب بیشک عیسائیوں کا فرض ہو گا کہ وہ دنیا کے سامنے اس مذہب کو پیش کریں.اور گو کہ تثلیث لوگوں کی سمجھ میں نہ آوے مگر ان کا یہ کہنے کا حق ہو جائے گاکہ وہ جو ہم سے وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا کیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وعدہ کرنے والا بھی موجود ہے.مگر جبکہ ان کا خدا وعدہ کر کے بھول جاتا ہے تو ہم اس سے نجات کی کسی طرح امید رکھ سکتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے عیسائیوں سے تین وعدے کئے ہیں مگر اب تک ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا اس نے بارہ حواریوں سے بارہ تخت کا وعدہ کیا.یہاں تک کہ لو قا باب ۲۲ آیت

Page 64

۳۶ میں ہے کہ ”اب جس کے پاس بٹواہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ اس تخت کےوعدہ کو اور بھی مضبوط کیا جائے مگر افسوس ہے تخت تو کیا ملے تھے ان میں سے ایک حواری تو برگشتہ ہو گیا جس نے کہ تیس کھوٹے درہم لے کر اپنے استاد کا سراغ بتایا اور ایک نے تین دفعہ یسوع پرلعنت کی.پس ایک تو یہ وعدہ تھا جو آج تک پورا نہ ہوا.اور دوسرا وہ ہے جو قیامت تک کبھی نہ ہو گا یعنی مسیح نے حواریوں سے وعدہ کیا تھا(لوقا باب ۲۱ آیت ۴۷ )لوگ ابن آدم کو بدلی میں قدرت اور بڑے جلال کے ساتھ آتے دیکھیں گے " پھر آیت ۳۲،۳۳ میں ہے کہ "میں تم سے سچ کچھ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب نہ ہو لیوے یہ پشت کبھی نہ گزرے گی آسمان و زمین نکل جائیں گے پر میری باتیں کبھی نہ ٹلیں گی مگروہ پشت تو الگ رہی اس زمانہ سے آج تک یہودیوں کی بیسیوں پشتیں گذر گئیں مگر اب تک پیسوع آسمان سے قدرت اور بڑے جلال کے ساتھ نہیں اترا.پھر تیسری وعده خلافی وہ ہے جو کہ ہم اور گناہوں کی معافی کی نسبت بیان کر چکے ہیں.اب دیکھنا چاہیئے کہ جب یہ تینوں و عدے مسیح یا خدا نے اپنے بندوں سے کئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے تو اس سےاور کیا امید ہو سکتی ہے.اب ہم آخری بات جو ناظرین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں وہ عیسائیوں کایہ عقیدہ ہے کہ مسیح لعنتی تھا.اور یہ بات بالکل ہی لغو اور بیہودہ ہے کیونکہ لعنت تعلق رکھتی ہے دل سے اور کسی کا لعنتی ہو تا ظا ہر کرتا ہے کہ اس کا دل خدا سےپھر گیا.مگر یہاں تو خود مسیح ہی خدا تھا اس کا دل پھرا تو کس سے پھرا اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت انسانی قالب میں تھا تو اور الزام آئے گااور اس صورت میں جانا پڑے گا کہ اس کا دل خدا سے جو باپ تھا پھر گیا اور یہ بات ناممکن ہے کیونکہ وہ اسی کی طرف تو لوگوں کو بلانے آیا تھا پس ان تمام باتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ عیسائیوں کاخد اوہ خدا نہیں جس سے ہم کسی بہتری کی امید کر سکیں یا ہمارا دل جس کی طرف محبت کرنے کے لئے جھک جائے اور یہ کفارہ کی آڑ بھی سوائے دھوکے کی ٹٹی کے اور کچھ نہیں اور یہ ایک لغو بات ہے کہ مرے کوئی اور گناہ کسی کے بخشے جائیں ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک شخص کےسردرد ہو اور دو سرا اپنے سر میں پتھر مار لے اور وہ جو کہ سر درد میں مبتلا تھابیماری سے شفایاب ہو پھر ہم کس طرح یقین کر سکتے ہیں کہ مسیح نے دنیا پر رحم کھا کر اپنے آپ کو قربان کر دیا اور دوسروں کے گناہوں کو اپنے سر پر لے لیا.اور وہ جو کہ قادر مطلق تھا اور خدا کا اکلوتابیٹا

Page 65

تھا ایک دن اس پر ایسا بھی آیا کہ وہ اپنے باپ سے تعلق توڑ بیٹھا اور اس قادر مطلق کا انکار کردیا جس کی طاقت اور جلال کا وہ سب سے زیادہ واقف تھا.کیونکہ لعنت کا یہی مفہوم ہے اور اگر توریت ہم کو ایسی نظیر بتاتی تو کچھ بات بھی تھی مگر بجائے اسکے کہ توریت کفارہ کی کوئی نظیر بتائے وہ الٹی اس کی منکر ہے.کیونکہ پیدائش باب۴۴ آیت ۱۶،۱۷ میں لکھا ہے کہ "بہودا بولا کہ ہم اپنے خداوند سے کیا کہیں اور کیا بولیں اور کیونکر اپنے تئیں پاک ٹھہراویں کہ خدا نے تیرے چاکر کی بد کاری ظاہر کی دیکھ کہ ہم اور وہ بھی جس پاس سے پیالا نکلا اپنے خداوند کے غلام ہیں وہ بولا خدا نہ کرے کہ میں ایسا کروں.یہ شخص جس پاس سے پیالا نکلا وہی میرا غلام ہو گا.اور تم اپنے باپ کے پاس سلامت جاؤ‘‘.اس جگہ حضرت یوسف اپنے بھائی کو ایک پیالہ کی چوری کا ملزم بھی ٹھہراتے ہیں.(یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ کہیں در حقیقت حضرت یوسف کے بھائی نے چوری کی بلکہ پیالہ حضرت یوسف کے غلاموں سے غلہ کی بوری میں رکھا گیا تھا) اور ان کےدوسرے بھائی اپنے آپ کو ان کے پاس ایک قیدی یا غلام کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر وہ جواب دیتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہ میں ایسا کروں اور اگر کفاره جائز ہوتا تو حضرت یوسفؑ کے بھائی جواب دینے کہ جب خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا کی خاطر قربان کر دیا اور اس بیٹے کی قربانی کو قبول کیا تو کیا وجہ کہ ہماری قربانی اپنے بھائی کے بدلے رد کی جائے اور خود حضرت یوسف جو کہ نبی تھے یہ فقرہ زبان پر نہ لاتے.کیونکہ خدا نہ کرے کا لفظ ظاہر کر تا ہے کہ ایک کے بدلے دوسرے کو پکڑ نا شریعت کے لحاظ سے ناجائز تھا اس لئے حضرت یوسفؑ فرماتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہ مجھ سےایسا برا فعل سرزد ہو.اس جگہ کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی اپنےبھائی کے بدلے میں اپنے آپ کو غلام نہیں قرار دیتے بلکہ وہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ پکڑواتےہیں.مگر حضرت یوسفؑ کے جواب پر غور کرنے سے یہ بات اس پر کھل جائے گی کہ ان کا اصل مطلب یہی تھا کہ ان میں سے ایک رکھا جائے اور چھوٹا بھائی چھوڑ دیا جائے اور پھر اس گفتگو میں آگے چل کر یہودا کا آیت ۳۳ میں یہ کہنا کہ ’’اب مجھے اجازت دیجئے کہ تیرا چا کر جو ان کے بدلے اپنے خداوند کی غلامی میں رہے اور جو ان کو اس کے بھائیوں کے ساتھ جانے دے‘‘ صاف ظاہرکرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے بدلہ میں قید کروانا چاہتا تھا.مگر حضرت یوسف نے صاف جواب دیا اور اس کو ایک گناہ قرار دیا.پس جبکہ کفارہ شربیعت میں ناجائز تھا اور نبی اس کو ایک گناه ٹھہراتے تھے تو کیونکر یہ مانا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ سے

Page 66

پہلے جو لوگ گذرے ہیں وہ ان کے کفارہ پر ایمان رکھتے تھے.یا کفارہ پر بھی ہم کس طرح یقین کریں بلکہ شریعت موسوی اس کو ناجائز ٹھہراتی ہے.جس شریعت پر چلنے کا فخرخود حضرت عیسیٰؑ کو تھا پھر ان دلائل کے علا وہ ایک بات ایسی زبردست ہے کہ جس کو خیال میں لا کر ہم ایک دم کیلئے بھی حضرت عیسیٰؑ کو خدائی کا منصب نہیں دے سکتے یا دوسرے الفاظ میں ہم قطعاً یہ و ہم بھی نہیں کر سکتے کہ عیسائی مذہب سچا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر سری نگر کے خانیار محلہ میں معلوم کی گئی ہے اور انجیل سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ صلیب پر مرے نہیں بلکہ اس پرسے زندہ اتار لئے گئے تھے.اور تاریخی شہادتوں سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچائی گئی ہے کہ وہ سری نگر میں آئے اور وہاں آکر فوت ہوئے جس کی گو ایی خود سری نگر کے باشندے بھی دیتے ہیں اب ہم نے مختصر سے دلائل اس بات کے دے دیئے ہیں کہ آیا عیسائی مذہب سچا ہے یا نہیں.یا کہ اس کا خدااس قابل ہے کہ ہم اس سے محبت کریں یا نہیں.اور ان دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے انسانی تصرفات اس مذہب میں جگہ رکھتے ہیں اور یہ اس قابل نہیں رہا کہ خدا کی تلاش کرنےوالا آدمی اس سے کچھ فائدہ اٹھائے.اس لئے اب ہم یہودیوں میں خدا کی تلاش کرتے ہیں کہ شایدہم کو وہ خدا ملے جس سے کہ ہم محبت کریں اور وہ ہماری محبت کا بدلہ دے اور اس قابل ہو کہ ہم اس سے تسلی پائیں جو کہ آفات اور مشکلات کے وقت اپنے بندوں کی دستگیری کرے.مگر افسوس کہ اس مذہب کی طرف ایک ہی قدم اٹھا کر ایک مایوسی سی ہو جاتی ہے اور طالب حق جو کہ حق اوراصلیت کی تلاش میں دن رات سرگردان و پریشان رہتا ہو اور جس کو فکر اور غم اس لئے گھیرےرہتے ہوں کہ کسی طرح اس کو وہ خدا ملے کہ جس کی محبت سے اس کا دل پاک ہو جائے اور یہ ایک سکھ اور چین کی زندگی پاوے گھبرااٹھتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسا مذہب ہے کہ جس کے پیروخدا کے تعلق اور اس کے راستے کی ہد ایت کو اپنے لئے ہی مخصوص سمجھتے ہیں.ناظرین کو یاد رکھناچاہئے کہ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ سوائے ہمارے نجات کسی کو نہیں مل سکتی اور یہ کہ اور کوئی شخص اگر ہم میں داخل ہو نا چاہے تو اس کے لئے یہ دروازه قطعاً بند ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ کوئی شخص توریت اور حضرت موسیٰؑ پر ایمان لا کر یہودیوں کے زمرہ میں داخل ہو جائے.اگر کوئی شخص یہودیوں میں داخل نہیں ہو سکتا تھا تو چاہئے تھا کہ کوئی اور طریقہ بھی نکالا جاتاکہ جس سے دنیا دائمی عذاب اور ہمیشہ کیلئے لعنت سے بچ جاتی.مگر نہیں.شاید خدا تعالیٰ کا یہودیوں سے رشتہ ہے کہ نجات سوائے ان کے اور کسی کو ملتی نہیں سکتی.اس نجات کا فائدہ ہی کیا ہوا کہ سوائے ایک فرقہ کے ces

Page 67

اور کسی کو نہ ملے باقی تمام فرتے اور تمام قومیں باوجود اقرار کرنے کے کہ یہودی مذہب سچا اور خدا کی طرف سے ہے اس بات سے محروم رہیں کہ وہ خدا کی محبت کی لذت اٹھائیں.پھر جبکہ یہودیوں پر ہی نجات کا ملنا نہ ملنا مختصر ہے تو جزا و سزا اور حشر و نشر وغیرہ بالکل بیہودہ اور لغو ہو جاتے ہیں اور اسی لے یہودیوں کے بعض فرقے بالکل انکار کر بیٹھے ہیں کہ کبھی جزاء و سزا کا کوئی دن آوے گا.اور انہوں نے یہی نہیں کیا کہ جزاء و سزا کا انکار کریں بلکہ ان کے خیال میں مذہب کوئی چیز نہیں صرف کچھ قوانین ہیں تاکہ بنی نوع انسان میں انتظام قائم رہے.پس ایسے لوگوں کا ذکر کرنے کی کوئی |ضرورت نہیں جنہوں نے مذہب کو ایک معمولی قوانین کا مجموعہ قرار دیا ہے.کیونکہ اگر ایسا ہو تاتودنیا میں کبھی کوئی سلطنت اس دو ہزار سال کے عرصہ میں رہ ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ اس عرصہ کےدر میان کوئی یہودی سلطنت ہوئی ہی نہیں پھر یہ انتظام چو ہے تو کیو نکر قائم رہا اور اگر یہ کہیں کہ عیسائی بھی تو ریت پر ایمان رکھتے ہیں ان کی سلطنت یہودیوں کی سلطنت ہی ہے تو یہ غلط ہے.کیونکہ ان کو تو بزعم خود کسی شریعت کی ضرورت ہی نہیں اور ان کو اجازت ہے کہ سوائے چند باتوں کے جوکہ حواریوں کی کونسل نے قرار دی ہیں اور سب کام کریں اور جس طرح دل چاہے عمل کریں ان کے گناہوں کا بوجھ تو بیچارے کی گردن پر رکھا گیا ہے.اور یہ بالکل آزاد ہیں پھر عیسائیوں کی سلطنت کو اپنے اصول کے مطابق سمجھنا خلاف واقعہ ہو گا.اور اس کے علاوہ عیسائی سلطنتیں کہیں قصور معاف کرتی ہیں تو کہیں سزا دیتی ہیں حالانکہ توریت میں ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ لو کہ دنیا عبرت حاصل کرے.پس عیسائی سلطنتوں کو اپنے میں شامل کرنا تو کسی طرح بجا ہی نہیں ، اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں بغیر تعلیم موسوی کے بھی انتظام چل سکتاہے.اور دوسری قومیں بھی اس قابل ہیں کہ وہ بغیر توریت کی مدد کے دنیا کا انتظام چلاویں پس ہم اب ان فرقوں پر نظر ڈالتے ہیں جو کہ جزاء و سزا کے قائل ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ایک دن ایسابھی آنے والا ہے جبکہ خدا تعالیٰ کے رو برو لوگ اپنے اعمال کا حساب دیں گے اور وہ کام جو کہ انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے ان کا بدلہ ان کو ملے گا مگر یہاں پھر یہ اعتراض آتا ہے کہ جب یہودیوں کیلئے نجات لازم ہے اور دوسروں کے لئے حرام تو جزاء و سزا کے دن کی ضرورت ہی کیاہے ؟ کیونکہ جزاء و سزا اس لئے ہے کہ وہاں بھلے اور برے میں فرق کر کے دکھایا جائے اور ظاہر کیاجائے کہ فلاں نے بہت عمدہ کام کیا اور فلاں نے بہت برا اور اس لئے اس کو جو کہ نیک اور شریف تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ یہ

Page 68

انعام دیئے جاتے ہیں اور وہ جو کہ بد تھا اور برائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتا تھا یہ سزادی جاتی ہے.مگر یہاں تو یہ بات ہی نہیں کیونکہ یہودیوں کیلئے نجات لازم ہوئی اور دوسروں کے لئے حرام پر کیا ضرورت تھی کہ حشرونشر کا دن مقرر کیا جاتا اور پھر خدا تعالیٰ کانعوذ باللہ یہ سخت ظلم ہے کہ اس نے ایک شخص کو یہودیوں میں پیدا کیا اور دوسرے کو نہیں اور باوجوداس کے کہ وہ یہودی نیک اعمال بھی نہیں کرتا اور یہ دوسرا آدمی چاہتاہے کہ میں یہودی فرقے میں داخل ہو کر نجات پاؤں.مگر وہ جو یہودی ہے مفت میں نجات حاصل کرتا ہے اور وہ جو کہ کسی اورگروہ سے ہے بلاگناہ کے مارا جاتا ہے اگر خدا تمام دنیا کو یہودی پیدا کر تا تو بھی کچھ بات تھی کہ اس نے تمام انسانوں کو یہودی پیدا کیا تھا مگر ایک نے اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سزا پائی اور دوسرے نے نجات مگر یہاں تو گویا کہ دھکے دے کر بنی نوع انسان کو نجات اور محبت الٰہی سے خارج کیا گیاہے.قیامت کے دن اگر ایک انسان کہے کہ میں تو یہودی مذہب قبول کرنے کے لئے تیار تھا مگر اسے خدا تو نے اور تیرے جانشینوں اور حاکموں نے مجھ کو ایسا کرنے سے باز رکھا تو اس وقت خدا تعالیٰ کیا جواب دے سکتا ہے سوائے اس کے کہ میری مرضی میں جس کو چاہوں دوزخ میں ڈالوں اور جس کو چاہوں بہشت عطا کروں مگر یہ وہ جواب نہیں ہو سکتا کہ جس سے ایک طالب حق کی تسلی ہو سکے.اور اس صورت میں یہودیوں کے مذہب اور اس کے خدا کی مثال اس کنویں کی سی ہوگی جس پرایک شخص کھڑا ڈول نکال رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جو پیاسا ہے اس طرف آئے تاکہ میں اس کوشیریں اور ٹھنڈے پانی سے سیر کروں اور اس گرمی کی شدت اور سختی سے بچاؤں جو کہ سورج کی گرم اور جھلس دینے والی دھوپ سے پہنچ رہی ہے مگر جب ایک پیاسا جو کہ کئی کوس کا سفر کر تا ہوا اور ریتلے میدان اور دھوپ کی گرمی سے تکلیف اٹھاتا ہوا آیا اور اس نے اس کنویں پر کھڑےہوئے شخص کی آواز کو سن کر اور اس کے کلمات سے تسلی پاکر اس سے کچھ پانی مانگا تو اس نے اس آفت زدہ مسافر کو جھٹک دیا کہ جا اپنا راستہ لے کیونکہ یہ پانی تیرے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کےلئے ہے جو کہ سامنے اس بڑے گھنے اور سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھے ہیں اور جو کہ شیریں اور سردچشمہ کا پانی اچھال رہے ہیں اور بے فکری اور خوشی ان کے چہرہ سے عیاں ہے.پس کیا کوئی شخص اس شخص کو عقلمند کہے گا جس نے کہ ایک پیاسے آدمی کو تھوڑا سا پانی پینے میں دریغ کیا تاکہ وہ پیاس کی شدت کو رفع کرنے اور ان لوگوں کو ایک ڈول دینا چاہتا ہے جو کہ خود ایک چشمہ میں پاؤں ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں اور درخت کا سایہ ان کو دھوپ کی شدت سے بچا رہا ہے پس دیکھو کہ وہ کنواں تو وہ تعلیم ہے جو کہ یہودیوں کا خدا دیتا ہے اور وہ شخص جو پانی نکال رہا ہے وہ خود خدا ہے جو کہ نجات کیلئے لوگوں کو پکار رہا ہے اور وہ لوگ جو سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھے ہیں ces

Page 69

اور چشمہ میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں یہودی ہیں.جو کہ یہودی ہونے اور بنی اسرائیل میں پیدا ہونے کی وجہ سےخوش ہیں.اور عذاب آخرت سے بے فکر میں اور وہ جو کہ دور سے پانی ما نگنے آتا ہے اور جس کو پیاس کی شدت سے سخت تکلیف ہے ان لوگوں میں سے ہے جو کہ دوسرے مذہبوں ، قوموں اورفرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو کہ (خدانخواستہ) یہودیوں کی تعلیم ہی سچی سمجھ کر اور پیاس کو بجھادینے والی سمجھ کر آیا ہے اور چاہتا ہے کہ مجھ کو بھی وہی تعلیم تلقین کی جائے مگر آگے سے صاف جواب ملتا ہے کہ نہیں یہ تو انہی لوگوں کیلئے ہے جن کو پہلے سے ہی یہودیت کا جامہ پہنایا گیا ہے.پس اس صورت میں کیسا باطل ہو جاتا ہے یہ دعوٰی کہ نجات حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے اور یہی وہ پیالہ ہے جس کے پینے سے محبت کی آگ تسکین پکڑتی ہے.کیونکہ جب ایک گمراہ اور ایک پیاسا ہدایت پانا اور پیاس کی شدت سے بچنا چاہے تو صاف جواب دیا جاتا ہے کہ پہلے یہودیت کایعنی بنی اسرائیل ہونے کا سرٹیفکیٹ دکھاؤ اور پھر نجات ملے گی اس تعلیم کا فائدہ ہی کیا ہے جو کہ عالموں کو دی جائے اور کس کام کی ہے وہ نجات جو کہ نجات یافتوں کو ملے.پس یہ عقیدہ عیسائیوں کےکفارہ کی طرح اس قابل نہیں کہ جس کو کوئی عقلند باور کر سکے یا کوئی حق کا طالب جس سے تسلی یاسکے بلکہ فوراً خیال اس طرف جاتا ہے کہ ضرور اس تعلیم میں کوئی نقص ہے کہ جس کو چھپانے کیلئے نجات کا دروازہ صرف یہودیوں پر ہی کھولا گیا ہے اور مخالفوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا گیاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی کمزوریاں دوسروں پر کھل جائیں.اب ہم یہودیوں کی تعلیم پر کچھ روشنی ڈالنی چاہتے ہیں مگر اس سے بیشتراتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق بھی اگر چہ یہودی صاف طور سے نہ کہیں مگر ان کے عقائد سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ کسی حد تک یہ خدا تعالیٰ کے جسم کے قائل ہیں جیسا کہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیداکر کے ساتویں دن آرام کیا اور آرام کرنے کے لئے جسم کی ضرورت ہے کیونکہ تھکاوٹ کے بعد ہی آرام ہو تاہے اور تکلیف کے بعد ہی راحت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اس کو مان لیتے اگر اس کے یہ معنی لئے جاتے کہ یہ ایک استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے.مگر قرآن شریف نے ان کا رد کیا ہے اورفرمایا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو بنایا اور تھکا نہیں جس سے صاف طور سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسوقت یہود کا مذہب یہی تھا کہ خدا درحقیقت تھک گیا اور اس کو آرام کی حاجت ہوئی اور یہود نےاس کا انکار نہیں کیا کہ ہم تو کسی تھکاوٹ کے قا ئل ہی نہیں اور یہ ہم پر تہمت لگائی

Page 70

گئی ہے.بلکہ وہ خاموش رہے اور اس سے ثابت کیا ہے کہ ہم اس عقیدہ کو در حقیقت سچا سمجھتے ہیں پس ایساخداجو خود تھک جاتا ہے ہماری محبت کا کیا بدلہ دے سکتاہے.ممکن ہے کہ وہ دنیا کے انتظام سے ہی تھک جائے اور دوزخ بہشت سب کو فنا کر دے اور اس طرح وہ جو کہ گناہ گار ہیں فائدے میں رہیں کہ اس دنیا میں بھی عیش کرتے رہے اور آگے بھی کوئی پرسش نہ ہوئی اور وہ ایک نیک اور صالح آدمی جوکہ تمام عمر خدا تعالیٰ کی محبت کیلئے بڑے بڑے مجاہدات کرتے رہے بے بد لہ کے چھوڑ دیئے جائیں اور ان کی تمام محنتیں برباد ہو جائیں.غرض کہ یہ مسئلہ انسانی سمجھ سے بالا ہے اور اس لئے ہم اس پربے فائدہ خامہ فرسائی نہیں کرنا چاہتے.اور چاہتے ہیں کہ اب ہم یہودیوں کی تعلیم کو دیکھیں کہ وہ کیسی ہے شاید وہی کچھ ایسی تسلی بخش نکل آئے کہ باقی سب دھبے مٹ جائیں.مگر افسوس کہ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے کیو نکہ وہ انسانی فطرت کے بر خلاف ہے کیونکہ حکم ہے کہ جو کوئی تمهارا دانت توڑ دے تو تم اس کا دانت توڑ دو اگر کوئی تمہاری آنکھ پھوڑ دے تو تم اس کی آنکھ پھوڑ دو اور اسی طرح یہ کہ اگر کوئی تمهارا آدمی مار دے تو تم اس کو مار دو یا دیت لو اور تمام امور میں عفو کا کہیں نام بھی نہیں حالانکہ انسانی فطرت میں ہے کہ بعض دفعہ ایک انسان ایک گناہ کو معاف کردیتا ہے تو دوسرے وقت میں کسی مصلحت کے لئے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے.اور اگر یہودیوں کی تعلیم پر عمل کیا جائے تو ایک دن میں ہی دنیا کا کام تمام ہو جائے لیکن ملک میں طرح طرح کے فساد اور بیسیوں بغاوتیں پھوٹ پڑیں اور کوئی گورنمنٹ یا حکومت نہ ہو کہ جس کی رعایا اس قاعدے سے تنگ آکر مقابلہ پر کمرنہ باندھے.اصل میں یہ بات ہے کہ یہ قوانین وقتی تھے اور ایک قوم کیلئے محدود تھے.اس لئے ان کو تمام دنیا پر حاوی کرتا سخت نادانی ہے اور پھر اگر یہودی بننے کا دروازہ کھلا ہو تو اس بات پر بحث کی جائے اور اچھی طرح ثابت کیا جائے کہ وہ کوئی اور ہی زمانہ تھا کہ جب یہ تعلیم پھیلائی جاتی اور قابل عمل سمجھی جاتی تھی لیکن اب دنیا کے حالات بدل گئے ہیں اور دنیا میں علم اور سائنس کے بڑھ جانے ریلوں کے جاری ہونے اور تار کے پھیلنے سے لوگوں کادستور العمل اور طریقہ معاشرت بھی بدل گیا ہے.پس اس زمانہ میں یہ تعلیم ایک بوسیدہ عصاےزیادہ وقعت نہیں رکھتی کہ جس کو زور سے زمین پر مارنے سے کھل جاتا ہے کہ اس کے اندرسوائے کچھ کرم خوردہ بورے کے اور کچھ نہیں ہے.پھر مکالمہ مخاطبہ الہام یا وحی جو کچھ بھی اس کوکہیں یہ ایک فرقہ کی کامل سچائی کی دلیل ہوتا ہے.کیونکہ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایک فرقہ کےبہت سے افراد الہام الٰہی سے مستفیض ہوتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ نصرت الٰہی بھی شامل

Page 71

ہےتو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس سلسلہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا سچا تعلق ہے جو اوروں کے ساتھ نہیں اور ضروری اور یقینی ہو گا کہ وہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کا کلام کبھی جھوٹے اور مفتی انسان یا گروہ کے شامل حال نہیں ہوتا اور اس بات کی بجث ہم اگلے حصے میں کریں گے کہ آیا الہام ضروری ہے یا نہیں اور اس وقت صرف مجملاً بیان کرتے ہیں کہ الہام ایک بڑی شہادت ہے کسی مذہب کے سچاہونے یا نہ ہونے پر مگریہودی اور عیسائی اس سےمحروم ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا دینی جسم اب الہام کا دوسرے الفاظ میں سچائی کی روح سے خالی ہے او راس قابل نہیں کہ ہماری تسلی کر سکے کیونکہ جب ہم محبت کریں گے تو فطر تاًہمارےدل میں محبوب سے کلام کرنے کا شوق بھی پیدا ہو گا.اور اگر وہاں سے کوئی جواب ہی نہ ملے تو کیا کیا بدظنیاں ہمارے وال میں پیدا ہوں گی.پس ہماری تسلی کے لئے یہ موجودہ یہودی مذہب تو کافی نہیں ہو سکتا.اب ہم ہندو مذہب پر نظر ڈالتے ہیں یا یہ کہو کہ ہم سناتن و حرم کی طرف توجہ کرتے ہیں، مگر ہم اول یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مذہب کے پیروؤں کے نزدیک یہ مذہب اس وقت سے چلا آتا ہے جبکہ یہ موجودہ دنیا پیدا ہو گی اور ان کے خیال کے بموجب پر میشور نے اپنا کلام چار رشیوں پراتارا اور ان کو الہام سے مستفیض کیا مگر اس کے بعد الہام کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کرو با اور اب خواہ کوئی کتنا سر پٹکے لیکن ممکن ہی نہیں کہ وہ دروازہ کھولا جائے.پھر ان کا یہ عقیدہ ہے کہ بتوں کی پرستش کے سوا پرمیشور کا ملنا محال ہے اور پھر یہ کہ تناسخ ہمیشہ انسان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا ہے اورایک انسان کبھی گائے کی شکل میں اور کبھی کتے کی شکل میں اس دنیا میں بار بار آتا ہے، اب ہم جداجد امسائل پر نظر ڈالتے ہیں اول یہ کہ سب سے قدیم وید ہے اس کی تعلیم مکمل ہے اور پھر امام کی ضرورت نہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وید کاقدیم ماننا بالکل غلط ہے ، کیونکہ سب سے پرانے وید کی عمرجوہے تو وہ تین سوا تین ہزار سے زیادہ نہیں کیونکہ وید کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کالکھا ہوا ہے جبکہ آریہ ہندوؤں کو ہندوستان کے اصلی باشندوں سے مقابلہ اور جنگیں پیش آتی ہیں کیونکہ اس میں دعائیں ہیں کہ یالٰہی ہم کو فتح دے اور ہمارے دشمنوں کو ذلیل کر اور ہماری گائیں زیادہ دودھ دیں پس یہ کوئی بڑا عرصہ نہیں ہے بلکہ اگر چار ہزار سال بھی مان لیں تب بھی حضرت نوح ؑکے بعد کا زمانہ ہی ہے اور اس طرح ہندووں کا یہ دعویٰ کہ ہم اور ہماری کتابیں قدیم سے چلےآتے ہیں بالکل غلط ٹھہرتا ہے.ہم مثال

Page 72

کے طور پر یہاں چند منتر نقل کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوپائے گا کہ در حقیقت وید میں کیا ہے اور کس زمانہ کا ہے.رگ وید انو واک سوکت میں اس طرح لکھا ہے کہ’’ ہم تیری جو ہمارا دوست ہے اور جسم کو سب فوقیت دیتے ہیں اور سب بلاتے ہیں منت کرتے ہیں تاکہ تواے گھروں کی حفاظت کرنے والے اپنے پوجاریوں پر مہربان ہو" پھر آگے چل کر اسی میں ہے کہ ’’پس اے اندر جو ہماری بہتری میں راضی ہوتا ہے ایسا کر کہ ہمیں خوراک با فراط ملے اور مضبوط اور بہت دودھ دینے والی گائیں ہمارے ہاتھ آویں جن کے باعث سے ہمیں خوشی نصیب ہو“ پھر انوواک بارہ سوکت نو میں ہے ’’ایسا ہو کہ اگنی تیرے دولت مند پجاری بہت خوراک حاصل کریں ایسا ہو کہ وہ ہد بادان جو تیری مہما کرتے ہیں اور تجھے جماتے ہیں ان کی عمر دراز ہو ایسا ہوکہ ہم لڑائیوں میں اپنے دشمنوں سے لوٹ حاصل کریں اور دیوتا کا بھاگ انہیں نذر کریں" ان تین منتروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کس زمانہ کا لکھا ہوا ہے.گائیوں کی زیادتی کی دعا گھروں کی حفاظت کی دعا عمروں کی ترقی کی دعا اور دشمن پرفتح پانے کی دعا صاف ظاہر کرتی ہے کہ اس وقت کا لکھا ہوا ہے جبکہ آریہ ہندو وسط ایشیا کو چھوڑ کر ہندوستان میں آئے تھے اور یہاں کےاصل باشندوں سے ان کی جنگیں رہتی تھیں جو باشندے کہ اب تک بھی کہیں کہیں ہندوستان میں موجود ہیں.اور پھر منو کے دھرم شاستر میں جو قوانین مقرر کئے گئے ہیں کہ اس طرح ہمیں رہناچاہئے اور ہمارے فلاں فلاں قوم سے یہ بہ حقوق ہونے چاہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت تک ہندوؤں میں سوشل قانون نہ تھے جن کے بغیر کوئی فاتح طاقت یا حاکم قوم کبھی رہ ہی نہیں سکتی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آریہ ہندوؤں کا زمانہ یا وید کا زمانہ منو کے قریب قریب کا زمانہ ہی ہے پس اس طرح بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وید سب سے پہلے یا ازلی کتاب نہیں ہے بلکہ کئی کتابوں کے بعد کی ہے اور ایک محدود زمانہ رکھتی ہے پس مدعی کایہ دعوٰی کہ یہ سب سے پہلی کتاب ہے اوراس کے بعد الہام کی کوئی حاجت نہیں بالکل غلط ٹھہر تا ہے.پہلی کتاب تو اس لئے نہیں کہ اسزمانے سے پہلے جبکہ وید کا دنیا میں نزول ہٹوایا یہ کہو کہ وید لکھا گیا ہے کئی اور قومیں اور نسلیں بڑی بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کر چکی ہیں.اور یہ ضروری ہے کہ وہ کسی مذہب کی پابند ہوں کیونکہ ان کے لئے بھی پر میشر نے کوئی طریقہ تو ہدایت اور رہنمائی کا رکھا ہی ہو گا اور اگر ان کی رہنمائی کے لئے کوئی کتاب یا صحیفہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا تو اس طرح خداسخت ظالم ثابت ہوتا ہے کہ جس نے باوجود اس کے کہ ایک گروہ کو پید اکیا زبان دی طاقت دی اور دنیاپر اختیار دیا مگر وہ راستہ جو اس کی طرف رہنمائی کر تا تھا

Page 73

ان کو نہ بتایا.اس دنیاوی زندگی کے لئے جو کہ چند روزہ ہے ہر طرح کے آسائش کے سامان ان کے لئے مہیا کئے گئے مگر اس دائمی زندگی کے لئے اور اس دائمی عیش کیلئے جو کہ مرنے کے بعد انسان کو مل سکتا ہے کوئی طریقہ یا قاعدہ مقرر نہ کیاگیا اور انسان کو وحشی جانور کی طرح زمین پر چھوڑ دیا کہ زمین میں پھرے اور سوائے کھانے پینےکے اور کسی کام سے سروکار نہ رکھے.مگر چونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ پرمیشور ظالم نہیں اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ ان لوگوں کے لئے بھی ہدایت کی کوئی راہ مقرر کی گئی تھی پس ہم ہی ثابت کرناچاہتے تھے اور جب یہ ثابت ہوا تو معلوم ہوا کہ وید سے پہلے بھی کوئی کتاب تھی جس سے دنیا کی رہنمائی کی جاتی تھی.پس ہندووں کا یہ عقیدہ کہ پرمیشور ایک ہی دفعہ بولا اور اس کی طرف سےایک ہی کتاب ہے یعنی وید خود ان کے اپنے عقیدہ کی رو سے باطل ٹهہرتاہے.پھر اگر یہ کہا جائے کہ پرمیشور پہلے تو بولتا تھا لیکن و ید چونکہ مکمل کتاب تھی اس نے اسے پھربولنا اور کسی کو اپنے کلام سے مستفیض کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ خدا کو ئی لغو بات تو کرتا ہی نہیں ہیں جب ضرورت نہ رہی تو اس نے کلام کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا.مگر یہ بات بھی کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتی کیونکہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ وید کی اصلاح کی ضرورت ہوئی اور اس لئے منو کادھرم شاستر بنایا گیا.اور بفرض محال ضرورت بھی نہ پڑی سہی تو بھی تو ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ کلام نہ کرے اور چپ ہو کر بیٹھ جائے جب ایک وقت بولتا تھا تو اب کیوں نہیں بولتا.مانا کہ تعلیم پوری ہو گئی مگر ایک عاشق را نا اسی فکر میں رہتا ہے کہ کسی طرح اپنے معشوق یا محبوب سےکلام کرے اس کا بھی تو کچھ حق ہے کہ وہ اس تڑپ کو دور کرنے کا جو کہ اس کے دل میں بار بار پیداہوتی ہے کوئی ذریعہ حاصل کرے پس اگر کچھ نہیں تو اس بے قرار کو ہی جو کہ پرمیشور کے بدلہ اپنامال اسباب جان اور عزت و آبرو تک قربان کر کے جنگل بہ جنگل پھر رہا ہے اپنی آواز سنایا کرے گاکہ اس کے دل کو تسلی ہو اور وہ اس محبت میں جو کہ خالص اسی کے ساتھ رکھتا ہے اور بھی ترقی کرے اور نہ صرف یہی بلکہ دوسرے لوگوں کی تسلی کا بھی باعث ہو کیونکہ جب لوگ دیکھیں گے کہ خدا تعالیٰ ایک آدمی سے کلام کرتا ہے تو ان کے دل میں اس کی ہستی کا کامل یقین ہو جائے گا اوروہ خود بھی کوشش کریں گے کہ ہم بھی اس آدمی کی طرح خدا تعالیٰ سے محبت کر کے یہ رتبہ حاصل کریں پس یہ بات نہ صرف ایک بیقرار محبت کی تسلی کا باعث ہوگی بلکہ لوگوں کی ترقی ایمان اور خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کی خواہش کا ذریعہ بنے گی جس سے کہ

Page 74

خدا تعالیٰ کی وہ غرض بھی پوری ہوجائے گی جو کہ اس نے انسان کے پیدا کرنے میں رکھی تھی پس تعلیم کا پورا ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ الہام و وحی کا سلسلہ بھی بند کیا جائے بیشک شریعت ختم سمجھی جائے گی لیکن خدا تعالیٰ سے کلام کرنے کی خواہش جو کہ محبت کا لازمی نتیجہ ہے کبھی بھی رک نہیں سکتی کیونکہ محب یعنی محبت کرنے والا اس بات کو چاہتا ہے کہ جس سے میں محبت کرتا ہوں کسی طرح اس کا حال بھی مجھ کومعلوم ہو کہ وہ مجھ کو چاہتا ہے یا نہیں اور اس بات کے دریافت کرنے کے لئے ہر طرح کی وہ کوشش کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر اہل ہنود کے مذہب میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی گئی ہے جس سےکہ محب محبوب کی محبت کو دریافت کر سکے اور اسی طرح گویا کہ کل عاشقوں کا خون کیا گیا ہے جو کہ اپنی جانیں اس بات کے لئے قربان کر دیتے ہیں کہ کسی طرح محبوب ہم پر ایک نظر ڈالے اور جبکہ ان کو تسلی ہی نہ ہوگی کہ پرمیشور ہماری محبت کو جانتا ہے یا نہیں تو ان کے دل کس طرح قرار پائیں گئے اور وہ کوشش جو کہ خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں کسی طرح جاری رہ سکےگی جبکہ ان کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ ہماری کوشش کہاں تک بار آور ہوئی یا کسی حد تک اس کےکامیاب ہونے کی امید ہے اور اس صورت میں تھوڑی مدت کے بعد عاشقوں کے دل کھڑے ہوجائیں گے اور طرح طرح کے خیالات اور وساوس میں پڑ جائیں گے یہاں تک کہ خود اس ہستی سے ہی انکار کر بیٹھیں گے.جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں میں کثرت سے خدا کا انکار پایا جاتا ہےجیسا کہ آریہ جینی ناستک مت وغیرہ وغیرہ.یہاں آریہ کالفظ پڑھ کر ناظرین تعجب کریں گے کہ ان کا نام دہریوں یا خدا کی ہستی کا انکار کرنے والوں کی فہرست میں کیوں لایا گیا ہے.کیونکہ یہ خدا کا انکارنہیں کرتے بلکہ اقرار کرتے ہیں مگر میں آگے چل کر انشاء اللہ آریوں کے بیان میں ثابت کروں گاکہ آریہ در حقیقت خدا کا ہی انکار کرتے ہیں اور دہریت کے پھیل جانے کے علاوہ جو لوگ خدا پرایمان بھی لاویں وہ بھی اس یقین اور معرفت کے ساتھ خدا کو کب مان سکتے ہیں جیسا کہ وہ جن کےسامنے ہر وقت ایسے لوگ موجود ہیں جن سے کہ خدا ہم کلام ہوتا ہے کیونکہ شنیدہ کے بود ماننددیده- ان کو کیا معلوم کہ کسی زمانہ میں کچھ رشی گذرے تھے اور ان سے کچھ کام بھی کیا گیا ہے لیکن اب وہ سلسلہ قطعا بند کیا گیا ہے اور جو کہ اس بات پر کچھ بھی غور کریں گے ان کے دل میں فوراً یہ شک گذرے گا کہ کہیں یہ رشیوں کا ہونا اور ان سے خدا کا کلام کرنا ان قصوں میں سے تو نہیں جو کہ بچوں کے بہلانے کے لئے بنائے گئے ہیں کیونکہ اگر یہ

Page 75

سچ ہوتا کہ خدا کسی سے کلام بھی کر تا ہے تو آج کل بھی کیسے کرتايا کم سے کم کی تاریخی زمانہ میں اس کی شہادت پائی جاتی.مگر ایسا نہیں اس لئے ضرور اس میں کوئی راز ہے.اور ایسے شکوک کو رفع کرنے کے لئے اور دنیا پر اپنا نام ثابت کرنے کے لئے پر میشور کو ضروری تھا کہ وہ کچھ بندوبست کر تامگر افسوس کہ ہمیں کوئی ایسا ذریعہ نہیں ملتا جس سے کہ ہم اس اعتراض کو مٹا سکیں اور اگر کوئی ہے اور اب بھی کوئی ایسا انسان دنیامیں موجود ہے جس سے خدا کام کرتا ہے تو امید ہے کہ کوئی ہندو مہاشہ ہمیں اس سے انٹروڈیوس(Introduce کرائیں گے اور دنیا پر ایک بڑا احسان کریں گے کہ آج تک مخالف جس بات کارونا رو رہے تھے اور بار بار اعتراض کرتے تھے کہ امام علی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے وہ غلط ہے اورہندوؤں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ رشیوں کی طرح خدا سے اس قسم کا تعلق رکھتے ہیں.مگر یہ ثابت کرنا ایسا ہی محال ہے جیسا کہ یہ ثابت کردیا کہ تین ایک ہے اور ایک تین.پس ہم دوسری بات کو لیتے ہیں اور اس بات کو کہ آیا ہم نے ہندوؤں کا سلسلہ الہام سے منقطع ہو نا ثابت کررہا ہے یا نہیں ناظرین کے انصاف پر ہی چھوڑتے ہیں اور وہ دوسری بات ان کا یہ عقیدہ ہے کہ بتوں کی پرستش کے بغیر نجات کا ملنا محال ہے اس عقیدہ کے ردّ کے لئے ہم کو کچھ گہری تحقیقات کی ضرورت نہیں.کیونکہ ہم پہلے اس بات کو ثابت کر چکے ہیں کہ کسی سوال کا آگے سے جواب ملناہی اس بات کا کامل ثبوت ہوتاہے کہ وہ چیز در حقیقت اس بات کے لائق ہے کہ ہماری بات کو پورا کرسکے یا ہم کو تسلی ہی دے سکے مگر بتوں کے آگے سر جھکانا اس قدر فضول ہے کہ خواہ کتناہی چیخیں چلائیں وہاں سے جواب باصواب ملناتو الگ رہا انکار تک سے اطلاع نہیں دی جاتی.پھر ہم کس طرح تسلیم کر لیں کہ وہ سنتے بھی ہیں.کیونکہ ایک چیز کا یا ایک جاندار کا بولنا اس بات پر دلالت کرتاہے کہ وہ سنتا بھی ہے مگر جب چیخنے پر بھی جواب نہ ملے تو فوراً خیال اس طرف جاتا ہے کہ ضرور اس |جاندار کی یا تو زبان نہیں یا کان نہیں اور ان دونوں صورتوں میں بتوں کا ابطال ہوتا ہے اگر سنتےنہیں تو انہوں نے ہمارے کام خاک کرنے ہیں ، اور اگر بول نہیں سکتے اور خود اپنے لئے گویائی پیدا نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں.اور دو سرے غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندووں نے ان عجائبات قدرت کو جن کے سمجھنے سے ان کی عقل قاصر رہی خدایا اس کے نائب تصور کر لیاہے اوراسی طرح بڑی اور شاندار چیزوں کو بھی وہی درجہ عطا کیا ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوچیزوں کو انہوں نے خدا نہیں بنایا بلکہ لاکھوں چیزوں کو قابل پرستش ٹھہرایا ہے یہاں تک کہ اندازہ لگایا جا تا ہے کہ ہندووں کے تینتیس (۳۳) کروڑ دیوتاہیں.اور یہ کامل ثبوت ہے ہمارے دعوٰی کاکہ در حقیقت جس بات کی بڑائی ان کے دل میں بیٹھ گئی اس کی یہ پرستش کرنے لگ گئے.اور جو بڑا

Page 76

آدمی ان میں پیدا ہو اس کی انہوں نے پوجا شروع کردی یہاں تک کہ انہوں نے مسلمان فقیروں کوبھی او تارمان لیا ہے اور آج ہندوستان میں کئی سو سے زیادہ ایسی مسلمانوں کی قبریں ہوں گی جن کو ہندو پوجتے ہیں.اور دیکھا جاتا ہے کہ درخت جب پرانا ہو جاتاہے تو اس کی بھی یہ پرستی کرنے لگ جاتے ہیں.خوبصورت پتھروں کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور ضعیف الاعتقادی میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ عورت اور مرد کی شرم گاہوں تک کی پوجا کرتے ہیں.پس کیا یہ بات اس بات کے ثبوت کے لئے کافی نہیں کہ ہر ایک عجیب اور شاندار چیز کی یہ پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں خدا مل جائے اور جس کو اس بات پربھروسہ نہ ہو کہ خدا کس طریقہ سے ملتا ہے تو وہ اوروں کی ہدایت کا بیڑا کس طرح اٹھا سکتا ہے اور وہ کسی طرح کہہ سکتا کہ خدا اس طریقہ سے ملتا ہے اور اس طریقہ سے نہیں.قرآن شریف نے بت پرستی کے ابطال میں ایک بہت عمده دلیل بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے جو کہ بنی اسرائیل کے ایک بڑے بادشاہ گزرے ہیں اور اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی |ہونے کا درجہ بھی رکھتے ہیں ایک عورت کو جو کہ سباکی شہزادی تھی اپنے پایہ تخت میں بلایا اور وہ شہزادی سورج پرست تھی (یہ پوجا ہندوؤں میں نہایت کثرت سے جاری ہے) اور انہوں نے اس کوغلطی پر ثابت کرنے کے لئے ایک مکان بنایا اور اس میں اپنے شیشے کا فرش کیا جو کہ نہایت صاف تھااور اس کے نیچے سے نہرگذاری مجھ سے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہاں نہریں جاری ہیں اور بیچ میں کوئی روک حائل نہیں اور جب وہ شہزادی وہاں سے گزرنے گئی تو اس نے نہر سمجھ کر اپنےپائنچے اٹھائے مگر حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ یہ شیشہ کا فرش ہے شہر میں جس پر اس نے اپنی غلطی کااقرار کیا کہ میں جو سورج کی پرستش کرتی تھی اس میں میری غلطی ہی تھی.سورج کے لئے روشنی مہیا کرنے والی ایک اور ذات ہے جس نے خود سورج کو پیدا کیا اور اس میں روشنی پھیلانے کےخواص بھی رکھے.پس اسی طرح ہنود میں یہ جس قدر بت پرستی پھیلی ہوئی ہے صرف کم توجہی کی وجہ سے ہے اگر اس معاملہ میں یہ تدبیر کرتے اور پرمیشور سے دعا کرتے تو ممکن تھا کہ ان کو ہدایت ہوتی مگر انہوں نے اس معاملہ میں کچھ بھی توجہ نہ کی.حالانکہ ان پر آئندہ زندگی کا مدار تھا اور موت کے بعد کے زمانہ کا اس کے مطابق آغاز تھا.یعنی بھلے کاموں کی جزاء بھلی اور برے کاموں کی جزاء بری ملنی تھی.اب ہم تناسخ کا مسئلہ لیتے ہیں کہ جس پر ہندوؤں کو بڑا فخر ہے اور جس پر کہ مدت سےہندوؤں اور دوسرے مذاہب میں مباحثات کا سلسلہ جاری ہے.تناسخ یہ ہے کہ جس طرح انسان کام

Page 77

کرتا ہے اسی طرح کا اس کو بدلہ مل کر وہ دوسری دفعہ پھر پید ا ہو تا ہے اور اگر کسی نے کوئی برے کام کئے ہوتے ہیں تو بیل گدها کتا وغیرہ بہت سی مختلف شکلوں میں اس دنیا میں دوبارہ لوٹ آتا ہے اورایک مدت کے بعد جبکہ اس کے گناہوں کی پوری سزا مل چکی ہے تو پھر اس کو بہشت میں داخل کیاجاتا ہے.اب دیکھنے کی یہ بات ہے کہ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت گویا کہ وہ کچھ اچھےکام کر کے اس کے بدلہ میں یہ انعام پاتا ہے اور اگر پھروہ اچھے ہی کام کرے تو پھر اس کو دو بار ہ دنیامیں انسان کی شکل ہی میں آنا چاہئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں ہندوؤں میں ایک بہت بڑاعالم و فاضل پیدا ہوتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد ایک زمانہ گزر جاتا ہے مگر کوئی اس کا جوڑ پیدا نہیں ہوتا.اگر تناسخ کا مسئلہ درحقیقت صحیح تھا تو ضروری تھا کہ ایک بڑا آدمی جو کہ اپنی ساری عمر میں ہمیشہ اچھے کام ہی کرتا رہا پھر ایک عالیشان گھرانے میں پیدا ہو اور دنیا میں اپنے ظہور سے برکتیں پھیلائےمگر مشاہدہ اس کے بر خلاف ظاہر کرتا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عقیدہ ہی غلط ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ کوئی انسان برے اعمال کرنے کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تو یہ ماننا پڑے گا کہ سناتن دهرم نجات کے بالکل بر خلاف ہے اور اس کے پیرو ان سے بےفائدہ نجات کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ تناسخ کی وجہ سے نجات کا دروازہ بالکل بند ہے اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اس سے نجات پر کوئی اثر نہیں پڑ تاتو کم سے کم یہ مشکل تو حل نہیں ہوتی کہ کرشن علیہ السلام کی پیشگوئی ہے کہ آخری |زمانہ میں جب بدی بڑھ جائے گی،گائے بکری کے برابر دودھ دے گی، دس برس کی لڑکی بچہ جنے گی تواس وقت کلنک او تار جنم لیں گے اور وہ کل جگ کا زمانہ ہو گا.پس اس صورت سے لازمی تھا کہ بجائے اس کے کہ دنیا میں انسانوں کی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوتی روز بروز آبادی گھٹتی جاتی کیونکہ کل جگ کے زمانہ میں بدیوں کی کثرت کی وجہ سے انسان بہت کم پیدا ہوتے اور گھوڑےگدھےخچر بندر اور ریچھ کی کوئی حد ہی نہ ہوتی.بلکہ بجائے اس کے کہ دنیا میں اس قدر ترقیاں ہوتیں چاہئے تھا کہ انسان و حشیوں کی طرح ہو جاتے.تمام ترقیاں رک جاتیں اور درندوں اور انسانوںمیں کوئی فرق نہ رہتا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں میں اس وقت کوئی سلطنت نہیں ہے حالانکہ بعض نیکیوں کا بدلہ ہوتا تھا کہ ایک انسان باخدا راجہ یا مہاراجہ ہو جائے جیسا کہ بکرماجیت پرتھوی راج وغیرہ پہلے زمانہ میں ہوئے اور یہ کہ اس کے ماتحت ایک بڑا ملک ہو جس پر کہ وہ خود مختارانہ حکمراں ہو.مگر آج چونکہ ہندوؤں میں ایسا کوئی نہیں اس لئے معلوم ہو تا ہے کہ وہ نیکیاں اور وہ خوبیاں جن کا

Page 78

بدلہ انسان کو اس صورت میں ملتا ہے وہ اب رہی ہی نہیں اور دنیا سے ایسے عمدہ کام ہی اٹھ گئے ہیں جن سے کہ ایک انسان خودمختار راجہ بنتا تھا اور اس طرح ہم خیال کر سکتے ہیں کہ کچھ مدت کےبعد یہ مذہب مر جائے بلکہ روحانی طور پر اب بھی مردہ ہی ہے کیونکہ اس وقت ان میں کوئی ایسانیک بخت نہیں ہے جس نے کہ نیک کام کرنے کے بعد راجہ مہاراجہ کا درجہ حاصل کیا ہو.اور اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت بھی ہم میں راجہ مہاراجہ موجود ہیں تو یہ بے فائدہ کی بحث ہوگی.کیونکہ اس وقت کے راجوں کی حالت تو اظہر من الشمس ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس مذہب میں سے وہ نیکیاں جن سے کہ با اختیار راجہ کی صورت میں انسان پیدا ہوتا ہے نہیں رہیں اور اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ ایسا آدمی کسی اور مذہب میں پیدا ہو جاتا ہے مگر یہ گویا اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارنی ہے کیونکہ اس صورت میں مانناپڑے گا کہ وہ سرے مذاہب بھی سچے ہیں.اس وقت ایک اور بہت زبردست دلیل ہمارے خیال میں آئی ہے جس سے کہ تناسخ کا ابطال خوب اچھی طرح سے ہو تاہے.ہنود کو بڑا فخراس بات کا ہے کہ ہم قدیم سے ہیں اور ہم فلاں فلاں سورماؤں کی نسلوں سے ہیں اور دوسری تمام نسلیں پیچھے کی ہیں اور ہماری نسبت کم درجے کی ہیں مگرتناسخ کو مانتے ہوئے یہ عقیدہ بالکل باطل ہو جاتا ہے کیونکہ تمام دنیا کی قوموں کی شناخت تمام نسلوں کا امتیاز اور تمام ملکوں کے باشندوں کا فرق تناسخ کو ماننے کی صورت میں قطعاً نہیں رہتا کیونکہ جو کوئی اچھے کام کرے گا وہ اس مذہب میں آجائے گا اور جو کوئی برے کام کرے گا وہ دوسرے مذاہب کےحصہ میں آجائے گا پس کوئی بڑی بات نہیں کہ ایک شودر نیک کام کر کے برہمنوں کے زمرہ میں جاملے اور ایک برہمن برے کام کر کے عیسائیوں میں جا پیدا ہو.اور ایک مسلمان اپنے اعمال کی وجہ سے شودروں میں جنم لے پس یہ تمام ذات پات کے جھگڑے لغو اور بیہودہ ہو جاتے ہیں جن پر کہ ہندو دھرم نے بڑا زور دیا ہے.اگر ایک شودر نیک کام کر کے اگلے جنم میں برہمن بن سکتا ہے تو شودر اور برہمن میں کیا فرق ہو سکتا ہے.ممکن ہے کہ جس شودر پر کوئی سختی روارکھی جائے وہ اس وقت برہمنوں میں ملنے کا کام کر رہا ہو اور جس پر ان کی ہندو دھرم کے رو سے رعایت کی جائے اس کے اعمال اس وقت ایسےہوں جیسے کہ شودروں کے.پس کیا اس شودر پر سختی کرنی اور اس برہمن کی رعایت کرنی جن کےاعمال مذکورہ بالا طریق پر ہوں ظلم نہیں ہو گا.اور اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے لوگ نیک اعمال نہیں کرتے تو اس صورت میں بھی بہت مشکل پیش آتی ہے کیونکہ پھر تو گویا کہ پرمیشور نے ہندودھرم کے تباہ کرنے کی نیت کی ہے کیونکہ دوسروں نے تو نیک اعمال کرنے ہی نہ ہوئے اور ہندو

Page 79

دھرم نے بڑھنا ہی نہ ہوا اور دوسرے لوگ نیک اعمال کریں گے تبھی تو وہ تناسخ کے ذریعہ ہندو دھرم میں جنم لیں گے مگر جب وہ نیک اعمال کریں گے ہی نہیں تو ہندو دهرم پڑھے گا کیونکر اور جب پڑھے گا نہیں تو کم ضرور ہو گا کیونکہ برے اعمال تو ہندوؤں نے ضرور کرنے ہوئے اور اس طرح وہ دوسرے مذاہب میں جا کر جنم لیں گے.اور ہندو دھرم روز بروز گھٹتاہی جاوے گا اور پھر ایک اورمشکل پیش آوے گی کہ گائے جو کہ ان کے نزدیک ایک بڑا متبرک جانور ہے اس کی جون میں دوسرے مذہب والے جنم لیتے رہیں گے غرضکہ اس طرح پر لازم تھا کہ ہندو مذہب دو چار صدیوں میں ہی تباہ ہو جاتا مگر چونکہ اب تک تباہ نہیں ہوا اس لئے معلوم ہوا کہ یہ بات غلط ہے کہ دوسرےمذاہب والے نیک اعمال نہیں کرتے بلکہ ثابت ہوا کہ وہ نیک اعمال کرتے ہیں اوراس کے بدلےہندووں میں جنم لیتے ہیں اور اس صورت میں وہ ذاتوں کے تمام قوانین جو کہ ہندوؤں میں ایک سخت حکم کے طور پر سمجھے جاتے ہیں فضول ٹھہرتے ہیں جیسا کہ ہم پیچھے ثابت کر آئے ہیں اور جب ایک مذہب کی وہ بات جو کہ بڑے ستونوں میں سے ہو رد کی جائے تو باقی کی نسبت ہم کیا امید کر سکتے ہیں اور یہاں تو صرف ایک ہی نہیں بلکہ کئی اور انھیں ہم غلط ثابت کر چکے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ تناسخ سے عملی طور سے فائدہ کیا مرتب ہوتا ہے.اگر تناسخ سے یہ فائده خیال کیا جا تا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر پاک ہو جائے تو یہ صورت تو ناممکن ہےکیونکہ ہر ایک گناہ کے بدلے ایک جون بھگتنی پڑتی ہے اور پھر ہر ایک جون میں گناہ لازم ہوئے تواس طرح بھی انسان جونوں کے پھندے سے بچ نہیں سکتا.پس ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس جونوں میں بدلنے کے کام سے پرمیشور نے کیا فائدہ سوچا ہے.جہاں تک ہم سوچتے ہیں تناسخ کی وجہ سے نجات ایک دم کے لئے بھی حرام ہے.پس پرکاش کا عقیدہ رکھنا یا سرگ پر ایمان لانا بالکل غلط اور بے بنیادہے.کیونکہ جب نجات ممکن ہی نہیں تو بہشت یا جنت بھی ساتھ ہی ناممکن ٹھہرے.میرے وہم میں بھی نہیں آسکتا کہ اس عقیدہ پر ایمان لا کر پھر کوئی حتمی نجات کا قائل ہو سکے.اگر اس عقیدہ کومانیں تو پرمیشور کانعوذ باللہ فریبی ہونا ثابت ہوتاہے اور اگر اس عقیدہ کا انکار کریں تو پھر مذ ہب ہنودکا سچا ہونا ثابت نہیں ہو سکتا.میں اب اس صورت میں جو کہ کچھ سناتن دھری صاحبان اپنے پر گواراکرلیں وہی ہم کو بھی منظور ہو گیا تو کہہ دیں کہ بیشک انسان کو خدا نے ایک خیالی جنت کی طرف بلایاہے حالانکہ بہشت صرف ایک ڈھکوسلا ہے.یا اقرار کریں کہ ہما را مذهب جھوٹا ہے.اگر ہماری رائے پوچھیں تو ہم دوسری بات کو ترجیح دیں گے کہ اصل میں تو یہ مذہب کسی وقت کسی اور

Page 80

صورت میں خدا کی طرف سے ہی تھا مگر بعض ناخداترسوں نے دنیا کے گمراہ کرنے کے لئے اس میں بہت کچھ ملا دیا جس سے کہ اس مذہب کی صورت مسخ ہو کر اور کی اور ہی بن گئی ہیں اس صورت میں جو الزام خدا پر وارد ہو تاہے وہ بندوں پر لگ جائے گا اور اس میں چنداں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ بروقت اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہی رہتے ہیں جن کو صرف جھوٹ اور فریب سے ہی دلچسپی ہوتی ہے اور ان کا خیال ہروقت سچائی کو مٹانے کے درپے ہو تا ہے.اب ایک اور مختصر اعتراض ہم اس عقیدہ پر کرتے ہیں کہ کم سے کم پرمیشور کو لازم تھا کہ ان غریب جونیں بھگتنے والوں کو اس بات کی اطلاع کر دیا کرتا کہ فلاں گناہ اور فلاں قصور کے بدلے میں تم کو یہ سزا دی جاتی ہے جس سے کہ اس انسان کو اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا کہ وہ آئندہ اس گناه سے تو بچتا اور جب گناہ کا پتہ ہی ایک آدمی کو نہ دیا جائے گا تو وہ اس سے بچنے کی کیا خاک کوشش کرے گا.بلکہ بے خبری کی وجہ سے پھر گناہوں میں پھنس کر گناہوں کا ایک اور تو مار اکٹھا کر لے گاجس کی وجہ سے وہ کبھی جو نوں کے چکر سے نجات حاصل کر ہی نہیں سکتا.پس یہ کیا انصاف اور کس قسم کا عدل ہے کہ بالا گناہ اور بغیر بتائے جرم کے ایک شخص کو سزا دی جاتی ہے حالانکہ یہی لوگ جواس عقید و پرایمان لاتے ہیں اگر کہیں کوئی برٹش مجسٹریٹ غلطی سے کسی مجرم کو بلا بتائے گناہ کے سزا دیتا ہے تو اس قدر واویلا کرتے ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں رہتی ایک طرف تو اخباروں والے وہ شور مچاتے ہیں کہ ان کے آرٹیکل پڑھتے پڑھتے لوگ تھک جاتے ہیں دوسری طرف وکیل اوربیرسٹر جلسوں پر جلسے کر کے پبلک کو جگاتے ہیں کہ دیکھو اس قدر ظلم ہم پر ہو رہا ہے حالانکہ وہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی پھر اسی پر بس نہیں بلکہ بڑے بڑے لیکچرار ملک کا دورہ کرتے ہیں اور دھواں دھار تقریروں سے ایک تنکے کا پہاڑ بنا کر دکھاتے ہیں اور سامعین سے انصاف چاہتے ہیں کہ کیا اب کوئی ظلم کی حد رہ گئی ہے.مگر یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ تو بات ہی کچھ نہیں ہماراپر میشور بھی اسی طرح کرتا ہے کہ گناه تو بتاتا ہی نہیں اور جھٹ ایک شخص کو پکڑ کر کتا بنا دیتا ہے تو دوسرے کو بند ر -اگر ان کی فطرت سے یہ بات باہر ہے کہ بغیر خطاکے بتائے کے سزادی جائے اور یا اس کو گناہ سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے تو انہیں پر میشور کے مقابلہ میں اجیٹیشن ,Agitation کرنا چاہئے تھا اورجوش کی نمائش کرنی چاہئے تھی کیونکہ جب ذرا سی سزا برداشت نہیں کر سکتے تو بڑی سزا کس طرح برداشت کریں گے.اب میں اس مسئلہ کو ختم کرتا ہوں اور ناظرین کو یہ بتائے دیتا ہوں کہ اگرچہ میں نے اتمام حجت (Agitatio

Page 81

.کے لئے یہ جواب لکھ دیئے ہیں مگر اصل میں ان کی کوئی اتنی بڑی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ اہل ہنود کے پاس ناسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے اور پر میشور نے بتایا نہیں کہ فلاں فلاں گناہ کے بدلے فلاں جون جھگتنی پڑے گی.ان کے نبیوں نے بھی ظاہر نہیں کیا کہ ہم پہلے فلاں جون میں تھے اوراب فلاں جو نیں بھگتیں گے پھر عقل سلیم باور نہیں کرتی.اب ان کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ رہ جاتا ہےکہ انسان تناسخ کے پھیر میں آکر جو نیں بھگتے گا.ہم کہتے ہیں کہ نہیں بھگتے گا ان کے پاس دلیل کیا ہےاگر ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ایسا ہو گا تو ہمارا دعوی ہے کہ نہیں ہو گا.اگر ان کے پاس دلیل کوئی نہیں تو ہمارے پاس نہ ہونے کی دلیلیں ہیں.جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں.ہم نے اس مضمون میں بڑی بڑی باتیں غلط ثابت کر کے دکھائی ہیں٭ اور اب صاف ظاہر ہے کہ ہندوؤں کا خداتو اس قابل نہیں کہ ہم اس سے محبت کر سکیں کیونکہ نہ ہماری پکار کا جواب دیتا ہے نہ ہم پر رحم کرتا ہے اور باو جود اس سے محبت کرنے کے وہ الٹاہم کو تناسخ کسے لایعنی پھیر میں ڈالتا ہے.اب ہم آریہ مت کو لیتے ہیں.یہ ایک نیا فرقہ ہنود میں نکلا ہے مگراپنا بہت سا پہلو بدل کر دنیا کےسامنے پیش ہوا ہے اس فرقے پر نظر ڈالنے سے پہلے ہم اتنا کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس کے متعلق کچھ لکھنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اس فرقے کے بانی اور اس کے چیلوں نے جو نمونہ دنیا کو دکھایا ہےوہ سخت ہی قابل مذمت ہے اس فرقے کا ظہور چالیس پچاس برس کے اند ر کاہی ہے اور اس قلیل عرصہ میں بھی اس کے پیروان نے جس قدر لوگوں کا دل دکھایا ہے اس کے بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ جب بات شروع کرتے ہیں تو پہلے اس کو گالیوں سے مزین کر لیتے ہیں.لڑائی جھگڑااور فساد ان کے وعظوں میں اکثر ہوتا ہے کوئی بزرگ دنیا میں نہیں گذرا ہو گا کہ جس کی توہین نہ کی ہو.آدمؑ کو گالیاں حضرت ابراہیمؑ کو تبرے،موسیٰؑ کی توہین، عیسیٰؑ کی مذمت، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے نبی کریمﷺ کہ جن کے اخلاق کا نمونہ کسی نے دکھایا نہ دکھا سکتا ہے ان سےدشمنی کرنا ان کے نزدیک عین ثواب کا کام ہے اور نیکی کا جزو اعظم ہے اور پھر یہی نہیں باوا نانک صاحبؒ کہ جن کو تمام مذاہب والے نیک کہتے ہیں اور ان کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی نسبت بھی سخت و ست الفاظ یہ لوگ زبان پر لاتے ہیں مگر اس بات کے جواب میں یہ لوگ تہذیب کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مخالفین کو گالیاں کیوں نہ دیں جبکہ ہمارا ایمان ہے ٭ ہندو لوگ بھی اس بات کے قائل نہیں کہ ان میں بھی کوئی اور داخل ہو سکتا ہے بلکہ ان کے خیال میں بھی یہودیوں کی طرح نجات اورمذہب والوں پر بلکہ اور قوموں پر حرام ہے اور اگر ان میں کوئی داخل ہونا بھی چاہے تو بھی ناممکن ہے اور قطعی طور سے نجات کا دروازہ اس کے لئے بند ہے.

Page 82

کہ وہ ایسے ہی ہیں مگر اس بات کا معلوم نہیں کیا جواب دیں گے کہ کرشنؑ اور رام چندرؑ جی بیچاروں نے کیا قصور کیا تھا کہ یہ لگے ان کو بھی برا بھلا کہنے اور اس بات سے معلوم ہوتاہے کہ ان کو گالیاں دینے سے کام ہے خواہ کوئی سامنے ہو.جب دیکھا کہ فلاں بزرگ کی بات ہمارے خیال کے بر خلاف ہے تو پیٹ بھر کے گالیاں سنادیں اور دوسرے لوگ تو خیر مخالف ہی تھے اپنے باپ دادوں کو بھی خالی نہیں چھوڑا جن کی بہت سی باتوں پر یہ اب بھی عمل کرتے ہیں اور ان کی بیویاں تو تمام کمال انہیں رسومات کی پابند ہیں جو پرانے زمانے سے چلی آتی ہیں.پھر جبکہ گھر میں زور نہیں چلتا تو باہر دنیا پرکس طرح چل سکتا ہے.یہی باتیں تھیں کہ جن کی وجہ سے ہم نے خیال کیا کہ ایسے لوگوں سے کلام کرنا اور ان کی نسبت کچھ لکھنا گویا ان کو عزت دینا ہے اور اپنے بزرگوں کی نسبت گالیاں سنتا ہے مگراس لئے کچھ لکھنا ضروری سمجھا کہ ان کا فتنه روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اور جیسا کہ چراغ بجھنے کےوقت ایک تیز روشنی دیکر گل ہو جاتا ہے.یا ایک مرنے والا انسان مرتے وقت با وجود سخت پیارہونے کے کچھ دیر کے لئے بالکل تندرست ہو جا تا ہے اور اس میں غیر معمولی قوت اور طاقت پیداہو جاتی ہے اور نادان آدمی سمجھتے ہیں کہ اب یہ اچھا ہو گیا حالانکہ حکیم کی نظر میں یہ اس کی موت کی نشانی ہوتی ہے.اسی طرح یہ لوگ جبکہ ویدک مذہب کی زیست کے دن ختم ہو گئے تو آریہ مت کی شکل میں ایک دفعہ چمکے ہیں.یا ایک انسان کو مرتے وقت جو افاقہ ہو جاتا ہے اس کی طرح ہنود میں بھی افاقۃ الموت کی طرح یہ لوگ پیدا ہو گئے.اور نادان لوگ ان کی تیزی اور طراری سے خائف ہو گئے ہیں کہ کیا در حقیقت ان میں کوئی روحانیت ہے جس کی وجہ سے ان میں اس قدر جوش وخروش ہے.مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ یا مرتا ہوا انسان ہے کہ جو جلد ہی اس دنیاسے نابود ہو جائے گا ان کی حالت ظاہر کرتی ہے کہ جلدی ہی کچھ تو ان میں سے دہریہ ہو جائیں گےاور کچھ مسلمان - انہوں نے اپنے پرانے مذہب کو چھوڑ کر گویا کہ ایک قدم ترقی کی طرف بڑھایا ہےمگر اس قدم بڑھانے میں کچھ ایسی غلطی کی ہے اور وہ ٹھوکر کھائی ہے کہ کہیں کے کہیں جاپڑے ہیں.اس فرقہ نے ہنود میں ایک بڑی اصلاح کی ہے کہ بت پرستی کو ترک کر دیا ہے مگر ساتھ ہی ایک ایسی خوفناک غلطی کر بیٹھے ہیں کہ اس پر غور کرنے سے بدن کانپ اتا ہے یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ روح اور مادہ ایسے ہی ازلی ہیں جیسے کہ خدا اور یہ مخلوقات نہیں بلکہ خود بخود ہیں.اس پر بڑا اعتراض ہوتاہے کہ پھر خداخد ا کیوں ہے.روح اور مادہ تو پہلے سے موجود

Page 83

ہیں تو پھر خدا کی ضرورت کیارہی اورخدا سے ہمارے تعلقات کیونکر رہ سکتے ہیں وہ محبت کا تعلق جو کہ انسان کو خدا سے ہے وہ تو اسی صورت میں ہے جبکہ انسان اس کی مخلوق ہے اور جبکہ وہ خدا کے بے پایاں رحم اپنے پر دیکھتا ہے مگرجبکہ رحم تو خدا نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں کے چکر سے انسان کو وہ چھوڑہی نہیں سکتا.اور خالقیت کابھی کوئی تعلق نہیں تو پھر انسان اس سے محبت کیو نکر کر سکتا ہے اور جبکہ خدا سے محبت کرنے کا کوئی مادہ موجود نہیں تو یہ محبت کہاں سے آگئی اور انسانی دل میں محبت کرنے کا پر میشور کو خیال کیونکر آیاجبکہ وہ جانتا تھا کہ انسان کی محبت مجھ سے ہوناناممکن ہے اور پھر یہ کہ انسان کے پیدا کرنے کی غرض کیا تھی؟ اس کی صفات تو اس بات کی متقضی ہے ہی نہیں کیونکہ نہ وہ رحمان ہے کہ اس کی صفت رحمانی چاہتی تھی کہ کوئی مخلوق ہو اور میں اس پر اس کے کسی کام کے لئے احسان کروں اور نہ وہ رحیم ہے.کیونکہ جب وہ جونوں کے چکر میں انسان کو سرگردان کرتا ہے اور اتفاقاً انسان کبھی گناہوں سے پاک ہو کر (اگرچہ یہ ناممکن ہے جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں) پرکاش کی سیر کا مستحق ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں نجات کے قابل ہو جاتا ہے تو پرمیشور آریوں کے خیال کے مطابق ایک گناہ اس کا رکھ چھوڑتا ہے تاکہ یہ میرے پھندے میں سے نکل نہ جائے اور اس بات کا ہوناایک رحیم انسان سے بھی بعید ہے.چہ جائیکہ رحیم خدایا ایساکرے پس معلوم ہوا کہ خدارحیم بھی نہیں اور دوسرے یہ بھی نہیں کہ اس کی صفت خالقی اس کو انسان کے پیدا کرنے پر مجبور کرے اس موقعہ پر مخالف یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی جوڑنے جاڑنے والی طاقت اس کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ ایسی مخلوق پیدا کرے اول تو وہ خود ہی شرمندہ ہو گا بشرطیکہ کچھ بھی حیا رکھتا ہو کیونکہ خدا تعالیٰ سےیہ بہت ہی بعید ہے کہ صرف جوڑنے جاڑنے کی طاقت رکھتا ہو اور اس کے علاوہ بالکل ناطاقت اوربے اختیار ہو اور دوسرے یہ بات نہ صرف سائنس دان یا علم طبعی کے جاننے والے ہی مانتے ہیں کہ ہر ایک چیز میں ایک کشش اتصال ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے حصے یا دوسری چیز کوکھینچتی ہے.بلکہ خود آریہ صاحبان بھی اس کے قائل ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں.پس اس طرح اس جوڑنے کی طاقت کا بھی ابطال ہو جاتا ہے.کیونکہ جب مادہ میں خودہی جڑنے کا مادہ تھاتو خدا کو یاپرمیشور کوبیچ میں دخل دینے کی کیا حاجت ہوئی.مادہ نے تو خود بخود جڑناہی تھا اور مختلف صورتیں اختیار کرنی ہی تھیں پھرپرمیشور کا کیا تعلق اور پھرمادہ ازل سے موجود تھا اور خدا نے اس کو نہیں بنایاتھا تو اس میں ایک طاقت تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ پر قائم تھا اور خدا تعالیٰ کے اس پر قبضہ کرنے کے وقت ایک جنگ کی ضرورت تھی.کیونکہ جبکہ ایک طاقت والی چیز دوسری پر قبضہ کرناچاہتی ہے تو

Page 84

بغیر مزاحمت یا جھگڑے کے نہیں کر سکتی جیسا کہ ایک قوی آدمی پر جب بیماری کا حملہ ہو تا ہے تو اس کی طاقت اور بیماری میں ایک سخت جنگ ہوتی ہے اور اس کے بعد جسم کا غلبہ ہو تاہےوہی انسانی مزاج پر حاوی ہو جاتی ہے.پس اسی طرح خدا اور مادہ میں ایک جنگ ہونی چاہئے تھی اباگر یہ جنگ نہیں ہوئی تو مادہ اور روح ازل نہیں ہو سکتے.اور اگر ہوئی ہے تو علا وہ اس کے کہ خدا کی طاقتوں اور صفتوں پر ایک سخت دھبہ آتا ہے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک معین وقت ہے.کیونکہ جنگ کا ہونا اور پھر ایک کا دوسرے پر غلبہ پانا بھی ایک وقت ہوتا ہے.اور اس کے بعدپرمیشور کا جوڑنے جاڑنے کا کام کرنا ایک وقت محدود ہو جاتا ہے جو کہ خود آریہ کے عقیدہ کےبر خلاف ہے اور در حقیقت بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ دہریت کا پیش خیمہ کھڑا کیا ہے ورنہ آریہ مت کوئی مذہب نہیں کیونکہ جب خدا بھی ازلی ہوا.پھر روح بھی ازلی ہوئی اور مادہ بھی ازلی ہوا.اور ان میں اتصال کی طاقت بھی ہے تو باقی خدا کا کام کیا رہ گیا.اور یہ اس بات کی پکی دلیل ہے کہ آریوں نے اپنے پرانے مذہب کو تباہ کرنے کے لئے ایک قدم ترقی کی ہے اور انہوں نے خیال کیا کہ اگر شروع میں ہی دہریت ظاہر کی تو ہندو پیچھے پڑ جائیں گے اور بنا بنایا کام بگڑ جائے گا پس اس صورت سے قدم بڑھانے چائیں کہ ہندوؤں کو خبر نہ ہو اور کام بھی ہو جائے اور اس بات کےثابت کرنے کے لئے مجھے کوئی بڑی دلیل دینے کی ضرورت نہیں بلکہ خود یہ مسئلہ بھی میرے دعویٰ کی تائید کرتا ہے کہ خدامادہ اور روح تینوں ازلی ہیں اب خدا کا کام تو صرف اتنا رہ گیا کہ ان کو جوڑہے مگر ساتھ ہی پھران میں بھی جڑنے کی طاقت ہے اب صرف ان کو ایک قدم اور چلنا ہو گا اور پھریہ دہریوں میں جائیں گے.وہ یہ کہ خدا نے جوڑا بھی نہیں بلکہ خود بخود یہ چیزیں جڑ گئیں کیونکہ ان میں قوت اتصال خودہی تھی.اور اب بھی یہ کوئی مذہب نہیں رکھتے بلکہ صرف قومیت کے لئےانہوں نے ایک مذ ہب بنارکھاہے.ورنہ ان کے خیالوں میں جو کچھ ہے وہ صرف یہ چند روزه دنیاوی ترقی ہے اور اس کے بعد ان کا کوئی عقیدہ نہیں کہ کوئی دوزخ یا بہشت ہے دوزخ تو انہوں نے تناسخ کے پھیر کا نام رکھا ہے اور بہشت وہ جب اس پھیر سے نجات ملے٭مگر خود ان کا ایک عقیدہ ہی تناسخ کا رد کرتا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا تناسخ اور پرکاش کا عقیدہ صرف زبانی باتیں ہیں ورنہ دل سے ہی اس بات کے قائل نہیں وہ عقیدہ یہ ہے کہ فلاں فلاں رات کو عورت سے محبت کرنےسے لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور فلاں فلاں میں لڑکے.اول تو یہ عقیدہ بذات خود غلط اور عقل سے بعید ٭یہ قوم نجات کی سخت دشمن ہے کیونکہ نقاب سے نجات ملتی ممکن ہی نہیں جب ہر ایک گناہ کے بدلے میں ایک جون ضرور بھگتی پڑے گی تونجات کیسی اور پھر نجات کے معنی ہیں کامل مخلصی مگر ان کے ہاں کال مخلصی ہے ہی نہیں بلکہ خود ایک گناہ رکھ لیتا ہے تاکہ پھر انسان کو تناسخ کے پھیرمیں ڈال دے.

Page 85

ہے کیونکہ اگر یہ سچ ہو تا تو کم سے کم آریوں کے ہاں لڑکوں کی وہ کثرت ہوتی کہ دنیا دنگ رہ جاتی مگرہم ایسا نہیں دیکھتے ہیں بلکہ خود پنڈت لیکھرام کے ہاں جو کہ ان کا ایک گرو گھنٹال گذرا ہے کوئی اولادنہیں ہوتی اور اس وقت ان کے کئی بڑے بڑے لیڈروں کے ہاں نرینہ اولاد نہیں غرض کہ یہ عقیدہ عملی طور سے بالکل غلط ثابت ہوا ہے اور پھر ایک اور بات اس کو غلط ثابت کرتی ہے اور اس کے بیان کرنے سے پہلے تم کو افسوس سے یہ کہنا پڑے گا کہ دروغ گو ر احافظ نباشد اور وہ یہ ہے کہ جب پنڈت دیانند نے جو کہ ان کے مذہب کا بانی ہے تاریخیں مقرر کر دی ہیں کہ فلاں میں لڑکے اور فلاں میں لڑکیاں پیدا ہوں گی تو پھر اس بات کے کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ نیوگ میں گیارہ لڑکے ہی شمار ہوں گے اور لڑکیاں اس شمار میں نہیں ہوں گی جبکہ لڑکے پید اکرنااپنے اختیار میں ہے تو پھر لڑکیوں کا کیا ذکر.وہ مرد جس کے اولاد نہیں ہوتی وہ خود دیکھ لے گا کہ فلاں رات لڑکا پیدا کرنے کی ہے وہ اسی دن نیوگی خاوند کو بلائے گااصلی بات وہی ہے جو کہ میں پہلے لکھاآیا ہوں کہ پنڈت دیانند کو وہ قاعدہ بھول گیا جو کہ وہ لڑکے اور لڑکیاں پیدا کرنے کی نسبت باندھ آئے تھے اور نیوگ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں فکر ہوئی کہ اگر لڑکیاں ہی پیدا ہوں تو پھر کیا ہو گا خاوندکی سب محنت رائیگاں ہو ئی اور بیوی بھی ہاتھ سے جائے گی اس لئے انہوں نے قاعدہ بنایا کہ شرط یہ ہے کہ نیوگی اولاد نرینہ ہو مگر اس طرح خود انہوں نے اس قاعدہ کو توڑ دیا جو کہ اولاد حاصل کرنےکے لئے باندھا تھا مگر اس وقت ہمارا مدعا اور تھایہ قاعدہ بذات خود تو غلط ثابت ہو ہی گیا ہے اس لئےہم اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ یہ کہ آریوں کا عقیدہ ایسا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں پیدا کرنا اپنا اختیار ہے ہیں جبکہ ایسا ہے تو تناسخ غلط ٹہهرتاہے کیونکہ ایک انسان جس نے پچھلے جنم میں ایسے کام کئے تھے کہ جن کی وجہ سے اس کے لڑکے نہیں ہوئے تھے وہ اس قاعد ہ پر چل کر نرینہ اولادحاصل کر سکتا ہے پس اس سے تناسخ باطل ہو جاتا ہے تناسخ توتب صحیح تھا کہ انسان لڑکے لڑکیاں خودنہ پیدا کر سکے اور جیسے عمل کئے ہیں وی سزایا بدلہ پائے مگر اس صورت میں بدلہ نہیں رہتا بلکہ انسان کا اپنا اختیار ہو جا تا ہے اور اس طرح تناسخ رد ہو جاتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب آدمی کےلڑکے ہوئے تھے اور ایک امیر کے لڑکیاں اور یہ اس لئے کہ انہوں نے پچھلے جنم اس کے مطابق کام گئے تھے مگر امیر تودیا نند کے قواعد کے مطابق لڑ کے حاصل کرتا ہے اور غریب کے لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں حالانکہ وہ لڑکے تو بوجہ اس غریب کے پچھلے جنم کے کاموں

Page 86

کے اس کے ہاں پیدا ہوئے تھے اورخودوہ لڑکے جو کہ امیر کے ہاں جاکر پیدا ہو گئے ان کے اعمال تو ایسے تھے کہ وہ اس غریب کے ہاں پیدا ہو کر فاقوں سے عمرگذارتے انہوں نے اعمال ہی ایسے کئے تھے کہ ان کو یہ سزا دی جاتی ہے اب جووہ امیر کے گھر پیدا ہو گئے تو کسی کام کے بدلہ میں ہوئے جبکہ مسئلہ تناسخ مجبور کر رہا ہے کہ وہ ایک غریب کے ہاں پیدا ہوں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ سے جو کہ خور آریوں کا عقیدہ ہے تاریخ کی جڑ کٹ جاتی ہے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ لڑکے لڑکیاں اعمال کے مطابق ہیں اپنے اختیار میں نہیں یااس کے عقیدہ کو باطل قرار دیا جائے گا اور ان دونوں صورتوں میں آریہ مت کا ابطال ہو تاہے یہ دلیل ایسی قاطع ہے کہ ضد اور ہٹ سے اگر کام نہ لیا جائے تو آریوں پر ایک بڑا سخت حربہ ہے ہاں اگر آریہ صاحبان اپنی جبلی عادت کو کام میں لا کر پھر بھی گالیوں پر اتر آئیں اور ہماری اس دلیل کوغور سے نہ دیکھیں نہ سمجھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہم مسلمانوں کی طرف سے کافی دلائل اس بات کے ثبوت کے لئے دیئے گئے ہیں کہ آریہ مت کو قبول کر کے ایسے پرمیشور سے معاملہ نہیں پڑتا جس سے کہ محبت کی جا سکے بلکہ سراسر اس کے بر خلاف ہے میں انتظار کرتا ہوں کہ اس اعتراض کے ہوتے ہوئے آریہ صاحبان تاریخ کی سچائی کی کیا دلیل دیتے ہیں اگرچہ یہ لازمی امر ہےکہ وہ کوئی جواب گھڑ تو ضرور لیں گے اور اس شد و مد سے اس کو بیان کریں گے گویا پائی اور حق ان کے دلوں میں بھراہواہے.اب میں اصل مطلب کی طرف لوٹتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تناسخ خود ان کے عقیدہ کے مطابق غلط ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا عقید و تناسخ کی نسبت زیانی تی ہے ورنہ یہ اصل میں موت کے بعد کوئی اور عالم مانتے ہی نہیں اور دہریت کی طرف بڑی تیزی سے قدم مار رہے ہیں یابالفاظ دیگر دہریہ ہی ہیں.اور ان کے اس عقیدہ سے مادہ اور روح ازلی ہیں خدا کے علم میں بھی فرق آتا ہے کیونکہ جس چیز کو اس نے پیدا ہی نہیں کیا ان کی خاصیتوں اور ماہیتوں کا اس کو علم کو کیونکر ہوا وہ توازلی ابدی ہیں جیسا کہ پرمیشور ہے اور پرمیشور نے اس کو پیدا ہی نہیں کیا تو کیو نگران کے مخفی درمخفی رازوں سے واقف ہو گویا کم سے کم اس کو ایک مدت تجربات کرنے میں لگی ہو گی کہ وہ مادہ اور روح کی اصل حقیقت معلوم کرے جو کہ پرمیشور پر ایک بد نماد هیہ ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ پر میشور پر افتراء کیا گیاہے.دوسری بات ان کے اعتقاد کی یہ ہے کہ خدا جب دیکھتاہے کہ تناسخ سے ایک آدمی نجات حاصل کرنے لگا ہے اور قریب ہے کہ وہ اس پھیر سے بالکل بچ جائے تو وہ اس کو پر کاش میں جگہ دیتاہے جہاں کہ وہ کچھ مدت آرام سے

Page 87

گزارتا ہے اور پھر ایک گناہ کے بدلہ میں جو کہ خدا نے نجات دیتے وقت رکھ چھوڑا تھالیکن اس گناہ کی سزا بھی اس کو نہیں دی تھی اس کو تناسخ کے چکر میں ڈال دیا جا تا ہے اس موقع پر طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ایساکیا جا تا ہے جبکہ اس کا صرف ایک گناه رہ گیا تھا اور وہ نجات کے کنارے پر کھڑا تھا اور قریب تھا کہ اس دریا میں ہمیشہ کیلئے غوطہ مارے اور دائمی تکالیف سے بچ کہ پرمیشور نے اس کو ایک غوطہ دیا اور باہر کھڑا کر دیا کہ جا پھر تکالیف کےسمندر میں تیر.کیا یہ ظلم نہیں کیا یہ صریح زیادتی نہیں اور پھر ایک ایسی چیز پر جس کا قدامت اور اپدیت میں ایسان ہی دعویٰ ہے جیسا کہ پر میشو رکا.پھر جو اس کی مخلوق نہیں اور پھر وہ جو کہ پرمیشور کی کو ئی ضرورت نہیں رکھتی اگر پرمیشور نہ بھی ہو تو وہ خود بخود جڑ سکتی ہے اور مختلف شکلوں میں تبدیل ہو سکتی ہے اور پھر یہی نہیں کہ اس طرح مادہ اور روح کو نجات حاصل کرنے سے روکا گیا ہےبلکہ نجات کے دوسرے قواعد بھی ایسے سخت اور کڑے مقرر کئے گئے ہیں کہ نجات ناممکن ہے.کیونکہ ہر ایک جیو ہتیا پر جون کا چکر لگانا پڑتا ہے اور پانی جو کہ انسانی ضروریات سے مقرر کیا گیا ہےاس کے ہر قطرے میں ہزاروں کیڑے ہوتے ہیں اور ہوا میں کیڑے ہوتے ہیں اور پھر یہ ہی نہیں بلکہ پنڈت دیانند کے مقرر کردہ قواعد کے رو سے ہر ایک چیز میں روح ہوتی ہے یہاں تک کہ پودوں اور درختوں میں بھی ہوتی ہے تو اس صورت میں جو چیز انسان کھائے گا وہ جاندار ہوگی اور اس کاکھانا جیو ہتیا ہو گا اور جو شخص ایک بھی سانس لے بوجہ ان جرموں کی ہتیا کے جو کہ ہوا میں ہوتے ہیں سینکڑوں جو نیں بھگتے گا.پس نجات ناممکن ہے اور خود پنڈت دیانند کو معلوم نہیں اتنے کیڑوں اور جانداروں کو ہلاک کرنے کی وجہ سے جو کہ وہ اپنی زندگی میں کرتے رہے کن کن جونوں میں جنم لینا پڑے گا.چونکہ ہندووں کے بیان میں کافی طور سے تناسخ کا ردّہو چکا ہے اس لئے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں اور اب ہم عملی حصے کو دیکھتے ہیں کہ کیا وہ ایساحصہ ہے جو کہ انسانی فطرت کے مطابق ہے یا نہیں.سو پہلے تو ان کے طرز معاشرت پر نظر ڈالنے سے ہم کو نیوگ کا ایسا خوفناک مسئلہ نظر آتا ہے جس پر عمل کرنا ایک شریف آدمی کا کام نہیں.یہاں تک کہ خود آریہ صاحبان بھی اس سے کچھ پر ہیز ہی کرتے ہیں ہاں بعض بعض حد سے بڑھے ہوئے اس کو بھی ایک خوبی ہی سمجھتے ہیں مگر یہ شاذونادر ہی ہیں اور شاذ کا عام میں دخل نہیں اس لئے ہم یہی کہیں گے کہ عام آر یہ اس مسئلہ کےبر خلاف ہیں.پھر جبکہ وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے تو دوسرے مذاہب والے تو خواہ مخواہ اس سےنفرت ہی کریں گے.شاید بعض ناظرین اس مسئلہ کی حقیقت سے ناواقف ہوں اس لئے ہم ان کےعلم کے لئے اس کی تشریع

Page 88

کردیتے ہیں نیوگ آریہ سماج کا ایک مسئلہ ہے جس کی رو سے وہ مرد جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی ہو دو یا تین سال تک انتظار کر کے اپنی بیوی کو اولاد کی خاطر ایک اور مردہم بستر کرواتا ہے اور ایسے مرد سے جو اولاد ہوتی ہے وہ بانٹ لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے گیارہ لڑ کوں تک حاصل کئے جاسکتے ہیں اور یہ کام ایک ہی مرد سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ پانچ چھ آدمیوں کے ذریہ یہ تعداد پوری کروانی چاہئے اور پھر اس عرصہ میں جبکہ ایک مرد دوسرے کی بیوی سےنیوگ کر رہا ہو اس بیوی والے شخص کو چاہئے کہ عمدہ عمدہ غذاؤں سے نیوگ کرنے والے شخص کوتازہ کرے اور ہر طرح کی آسائش کے سامان اس کے لئے مہیا کرے.اب دیکھنا چاہئے کہ اس عقیدہ پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا میں کیسی خوفناک تباہی آنے کا اندیشہ ہے بلکہ یقین ہے کیونکہ اول توعورتیں خلقی طور پر باحیا اور شرمیلی بنائی گئی ہیں جب ان کو ایسے کام کے لئے کہا جائے گا تو ممکنات سے بعید نہیں کہ ان میں سے بعض بلکہ اکثر خود کشی کر کے مر جائیں جیسا کہ دنیا میں اس قسم کےموقعوں پر ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور پھر اگر وہ مان بھی لیں تو آئے دن کے طعن وتشنیع سے وہ ایک مہینہ کبھی زندہ نہیں رہ سکیں گی جب ایک عورت کا خاوند مرجاتا ہے اور وہ دوسراخاوند کرتی ہے تو اس وقت بھی عورتیں اس کو طعنے دیتی ہیں تو وہ جب ایک مرد کے زندہ ہوتے ہی اور کسی مرد سے محبت کرے گی تو کیا کچھ اس پر اعتراض نہ آئے گا وہ خود اپنے دل میں کیسی شرمنده ہوگی اور اپنے رشتہ داروں عزیزوں میں کس منہ سے بیٹھے گی اور حقیقت آریہ سماج نے زناکاری کادروازہ کھول دیا ہے.کنچنیاں جو کہ بازاروں میں بیٹھ کر اپنے پیٹ پالنے کے لئے زنا کرواتی ہیں ان بیچاریوں کا پھر کیا قصور رہ گیا کہ ان کو برا کہا جائے اگر نیوگ در حقیقت جائز ہے تو ان کا کام کچھ اچھاہی ہے کیونکہ وہ روزی کمانے کے واسطے ایساکرتی ہیں اور اپنی عصمت کے بدلے کچھ پیسے لیتی ہیں اور اس طرح اپنی آخری زندگی کو تباہ کر کے اس دنیا کی زندگی کے لئے کچھ سامان مہیا کرتی ہیں.مگر نیوگ کرانے والی عورت تو نہ صرف اپنی پچھلی یعنی بعد از موت کی زندگی کو تباہ کرتی ہے.بلکہ اس دنیا کا سامان بھی ضائع کرتی ہے کیونکہ حکم ہے کہ نیوگی مرد کو خوب کھلا و پلاو اوراسی طرح اسےنیوگ کیلئے تازہ کرو.اب آریہ صاحبان خود مقابلہ کر لیں کہ ایک عورت تو دین ضائع کر کے دنیاکماتی ہے اور دو سری دین و دنیا ضائع کر کے سوائے ندامت اور رسوائی کے کچھ بھی حاصل نہیں کرتی ان دونوں میں سے کون سی مقابلۃً دوسری کے فائدہ میں ہے.پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ مرد کی غیرت کس طرح قبول کرے گی کہ اپنے ہوتے ہوئے وہ اپنی بیوی کو دوسرے مرد سے ہم بسترکروائے اور پھر ساتھ ہی اس کی خاطر بھی کرے.

Page 89

اس زمانہ میں کئی ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ ایک مرد نے اپنی بیوی کو دوسرے سے بے حجاب با تیں کرتے ہوئے دیکھ کر ہی اس کو قتل کر دیا اورجبکہ اتنی بات ہی انسان کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی تو زنا کی حالت دیکھ کر وہ کب برداشت کرسکے گا.اور اسی حالت کو دیکھ کر ہماری مہربان گورنمنٹ نے بھی ایسے موقعوں کے لئے کچھ رعایت کر دی ہے اور ایسا آدمی جو کہ غیرت میں اگر کوئی خون کر بیٹھتا ہے اس کے لئے سزا میں بھی کچھ نرمی رکھی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ ایسے موقع پر ایک قدرتی جوش پیدا ہو جاتا ہے اور انسان کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی اور مرد سے ہم بستر ہو.ایک عرصہ ہوا کہ ایک مقدمہ اس قسم کا پیش ہوا تھا جس میں ایک شخص پر اس لئے کاروائی چلائی گئی تھی کہ اس نے اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھ کر قتل کر دیا تھا اور ماتحت عدالت نے اس کو سخت سزا کا حکم دیا مگر اپیل ہونے پر جج نے فیصلہ دیا کہ در حقیقت یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو برداشت نہیں کر سکتا میں اس کے لئے یہ سزا مناسب نہیں سمجھتا بلکہ اگر وہ عورت پہلی ضرب میں مرجائی تو میں اس کو سزا قریباًنہ ہی دیتا مگر چونکہ کئی ضربات سے عورت مری ہے اس لئےمیں کچھ سزا اس کو دیتا ہوں.اب دیکھنا چاہئے کہ انسانی فطرت اس عقیدہ کے بر خلاف ہے جیساکہ گورنمنٹ کے قانون سے اور روز مرہ کے حالات سے ظاہر ہو تا ہے اور خود آریہ مت کے پیروان بھی اس نیوگ کے عقیدہ پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر یہ عقیدہ عملی رنگ میں لانے کےلئے نہ معلوم پنڈت دیانند نے کیوں پیش کیاشاید اس میں کوئی خاص غرض ہو جس کو ہم نہ سمجھ سکتےہوں ورنہ اور کوئی بات تو نظر نہیں آتی.اور جب مخلوقات عالم پر نظر کرتے ہیں تو سراسر اس عقیدہ کے بر خلاف نظر آتا ہے انسانی فطرت اس کو برداشت نہیں کر سکتی عقل اس کو نہیں سمجھ سکتی اور یہاں تک کہ جانور تک اس کوپسند نہیں کرتے کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک مرغا کچھ مرغیوں میں پھر رہا ہو تا ہے اس وقت اگر کوئی اور مرغاان میں آکر داخل ہو جائے تو خواہوه کمزور ہی کیوں نہ ہو اس پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسی طرح کتّا بھی جب اس کے سامنے کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو دوسرے کتّے پر حملہ کرتا ہے.پس جب جانور تک اس بات کو پرامناتے ہیں تو انسانی فطرت اس کو کیونکر برداشت کر سکتی ہے یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ اس کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا اس کو دنیا میں مشتہر کرنے سے آریہ مت نے دنیا پرزنا کاری کا دروازہ کھول دیا ہے اور انسانوں کی اخلاقی حالت پر ایک سخت خوفناک حملہ کیا ہے اور چونکہ یہ ایک گندہ مسئلہ ہے اس لئے اس پر زیادہ لکھنا هم مناسب نہیں سمجھتے اور ان کے ایک اور

Page 90

عملی عقیدہ کو لیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہر باایمان آریہ کا فرض ہے کہ وہ مردہ کو جلاتے وقت صندل عود اور کستوری وغیرہ کو کام میں لائے اور یہی نہیں بلکہ ڈیڑھ من روغن زرد بھی جلا کر خاکستر کرے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ عقیدہ ایساہے کہ جس پر عمل ہو سکے یا صرف ستیارتھ پرکاش کے صفحوں کو سیاہ کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کتنے آریہ اس پر عمل کر سکتے ہیں یاکرتے ہیں اور غریب آدمی اس پر کسی طرح عمل کر سکتا ہے یا آریہ مت کے لحاظ سے غریب آریہ نہیں ہو تا اگر چہ پنڈت دیانند نے اس کے لئے جو کہ اتنی چیزوں کو مہیانہ کر سکے قاعدہ تو مقرر کر دیاہے اور ایک تجویز اس کو ایسی بتائی ہے جس سے وہ کامیاب ہو جائے مگر وہ اصل حکم سے بھی زیادہ مشکل ہے وہ یہ کہ ایسا شخص بھیک مانگے یا گورنمنٹ سے مدد چاہے مگر جب تک کہ وہ غریب جس کےہاں موت ہو گئی ہے تقریبا ڈیڑھ سو روپیہ مختلف شهر و دبار میں پھرکر اور پیسہ پیسہ اور کوڑی کوڑی جمع کر کے لائے گا لاش سڑے گی اور خاص کر طاعون کے دنوں میں کہ وبائی ہوا کی وجہ سے دوسری لاشیں بھی جلدی جلدی سڑ جاتی ہیں اور طاعون کے بیمار کی لاش تو چوبیس گھنٹہ کے اندر خراب ہوجاتی ہے پھر ایک لمبے عرصہ کی کوشش اور محنت کے بعد جو ایک شخص روپے جمع کر کے لایا بھی تو وہ کس کام آئے گالاش تو پہلے ہی خاک ہو جائے گی اور دو سری تجویز جو کہ گورنمنٹ سے مانگنے کی لکھی ہے وہ بھی عجیب ہے کیونکہ اول تو ایک عرضی گورنمنٹ کی خدمت میں د یےجاوے کہ مجھےفلاں فلاں چیزیں چاہئیں اور پھر وہاں سے منظوری ہو اور پھر روپیہ کے اس صورت میں بھی لاش سڑ جائے گی اور تعفن اور سڑاندھ کی وجہ سے دو چار اور کو بھی ساتھ لے جائے گی جن کے لئے پھر بھیک مانگنی یا گورنمنٹ کے پاس امداد کیلئے درخواست کرنی پڑے گی اور دوسرے یہ کہ اگرگورنمنٹ ہر ایک لاش کے لئے دو دو سو روپیہ دینے لگی تو کام چل چکا جبکہ یہی آریہ صاحبان چیختےاور چلاتے ہیں کہ ٹیکسوں سے رعایا پِس گئی ہے تو اس صورت میں نہیں معلوم اور کتنے ٹیکس لگانےپڑیں گے بلکہ پھر بھی خزانہ کو نقصان ہی ہو گا اور اگر ایسا گورنمنٹ منظوربھی کرے اور اس سےنقصان بھی نہ ہو تو کل کو سکھ اٹھیں گے کہ ہمارے مردے کے جلانے کے لئے پانچ سو روپیہ کی حاجت ہے اور پھر سناتن دھرم کہیں گے کہ ہمارے مردے کے جلانے کے لئے ہزار روپیہ کی حاجت ہے اور اس طرح گویا کہ گورنمنٹ کا کام مردہ جلانا ہی رہ جائے گا جو کہ اس کی شان سے بعیدہے اور پھر جنگوں کے موقعہ پر یہ قانون کس طرح چل سکے گا کیونکہ وہاں تو

Page 91

ایک گھنٹہ میں ہزاروں خون ہو جاتے ہیں اگر وہاں کستوری گھی عود اور صندل جلا ئیں گے تو لڑائی کے دوسرے اخراجات سے زیادہ تویہی خرچ پڑ جائے گا اور پھر اس وقت جبکہ سامان وغیرہ کا بنا نا آگے ہی مشکل ہو جا تاہےاور عود اور صندل کے طومار بھی جانے شروع ہو گئے تو لڑائی میں فتح پا چکے.غرضیکہ یہ ایسا ایک عقیده ہے جو عمل میں قطعا ًنہیں آسکتا اور نامعلوم پنڈت دیا نند نے ایسا عقیدہ بیان کرنے میں کیا مصلحت سوچی تھی.پھر ایک اور علم ہے کہ چاہئے کہ ایک با ایمان آریہ چار سو سال کی عمر پاکر مرے اور یہ ایک ایسا علم ہے کہ جس پر خود پنڈت دیانند بھی عمل نہیں کر سکا اور چونکہ پنڈت دیانند نے اس کو ایمان کا معیار مقرر کیا ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ خود ان کی کیا حالت ہوگی کیونکہ انہوں نے ایک نیچ آریہ کی عمر بھی نہیں پائی جس کی بابت خور انہوں نے لکھا ہے کہ دو سو سال کی ہونی چاہئے.پس جس تعلیم پر کہ خود معلم عمل نہ کر سکے اس پر دوسراکب عمل کر سکتا ہے اور اب تک اگر کوئی اور آریہ اس کا ثبوت دیتا تو ہم مان بھی لیتے کہ در حقیقت ایسا دنیا میں ہو تا ہے مگر جہاں تک تاریخ بتاتی ہے اس وقت تک ہمیں کوئی ایسا آدمی نہیں معلوم ہوتا جس نے آریوں کے اصول پر عمل کر کےچار سویا کم سے کم دو سو سال کی عمر بھی پائی ہو پس ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے زبانی جمع خرچ کے آریوں کے پاس اور کچھ نہیں ہے وہ مسائل جن پر صرف ایمان لانے کی ضرورت ہےمثلا روح اورمادہ کا خدا کی طرح ازلی ہو نا اور تناسخ وہ تو ایسے لغو ہیں کہ دہریہ میں اور آریوں میں کوئی فرق نہیں رہتا اور مسائل جن پر عمل کرنے کا آریوں کو حکم دیا گیا ہے ایسے بودے ہیں اوران پر عمل کرنا اس قدر مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ خود آریہ مت کا بانی اور اس کے چیلے بھی اس پر عمل نہیں کر سکے جیسا کہ نیوگ اور مردہ کے جلانے کے قواعد اور پھر چار سو سال کی عمر کا پانا غرضیکہ یہ مذہب سر سے پیر تک ایسی ہی باتوں سے بھرا پڑا ہے اور نا معلوم ان لوگوں میں باوجود اس قدر نقائص ہونے کے دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی جرأت کیونکر پیدا ہوئی اور خاص کر اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب پر ہے بے بنیاد تہمتیں لگانے کا خیال ان کے دلوں میں کیونکر سمایا.حالانکہ ان کوچاہئے تھا کہ خود اپنے مذہب میں اس قدر نقائص اور غلطیاں دیکھ کر کسی اور مذہب کی طرف رجوع کرتے اور جس طرح ہوتا کوشش اور سعی سے آخراس بات کو دریافت کر لیتے کہ کون سامذہب سچا ہے اور اس صورت میں امید قوی تھی کہ خدا تعالیٰ جو کہ رحیم و کریم ہے اور ان لوگوں کو ہدایت دیتا اور گمراہی سے بچاتا اور اس اند میرے سے جس میں کہ یہ کھڑے ہوئے سرگردان وپریشان ہو رہے ہیں نکال کر کسی

Page 92

روشن جگہ کھڑا کر تایا کم سے کم اگر ان لوگوں میں اس قدر ہمت اور دلیری نہ تھی کہ یہ مچامذہب اختیار کرتے تو خود ہی خاموش بیٹھتے اور بلاوجہ لوگوں کا دل نہ دکھاتےاور بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام پر تہمتیں نہ لگاتے اور گالیوں سے باز رہتے مگر انہوں نے ایسانہیں کیا اور شوخی کا پہلو اختیار کیا اور علم اور انکسار کو چھوڑ دیا غالباً انہوں نے کسی آئندہ حساب کتاب کا گمان نہیں کیا بلکہ سوچا کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ان کےعقیدوں سے پایا جاتا ہے گالیاں دینا اور بزرگوں کو بری طرح یاد کرنا تو ان کے خمیر میں ہے یہاں تک کہ ان کے بعض پر جوش ممبروں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں کہ جن سے سوائے حق پوشی اورمسلمانوں کا دل دکھانے کے اور کوئی مطلب نہیں اور ان کتابوں میں ہمارے نبی کریم ﷺ کوایسے سخت الفاظ سے یاد کیا گیا ہے کہ سن کر بھی دل کباب ہو جاتا اور معاً خیال آتا ہے کہ مہ نورمی فشاند و سگ بانگ می زند.اوردل میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو دندان شکن جواب دیا جائے.اور ان کے گندے اور نا قابل عمل عقائد کو خوب کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا جائےاور پھر ان سے پوچھا جائے کہ کیا یہ تعلیم ایسی ہے کہ اس پر کوئی شریف آدمی عمل کر سکے ؟ مگر پھرخیال آتا ہے کہ اس تعلیم کو اچھی طرح سے کھول کر رکھ دینا بھی ایک سخت مشکل کام ہے اس لئےنہیں کہ وہ ایک مضبوط دیوار میں ہے اور اس پر حملہ کرنا دشوار ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اس قدرگندی اور فحش ہے کہ دنیا اس کو حیا کے مارے دیکھ نہیں سکے گی اور شریف آدمی اس کو پڑھ کرغیرت سے کانپ اٹھے گا کہ کیا یہ تعلیم ہے جو کہ آر به صاحبان دنیا میں پھیلاتے ہیں اور جس کو یہ لوگ عالمگیر اصول قرار دیتے ہیں اس لئے ہم نے دو تین باتیں ان کی بیان کردی ہیں تاکہ یہ خیال نہ کریں کہ ہمارے مذہب کے قلعہ کو کوئی توڑ نہیں سکتا اور خدا کے فضل سے ہم نے یہ ثابت کردیاہے کہ آریوں کا خدااس قابل نہیں کہ اس سے کوئی طالب حق محبت کر سکے نہ تو اس نے ہم کو پیدا کیا ہے اور نہ ہم کو مٹا سکتا ہے اور نہ وہ رحیم ہے اور نہ ہی وہ ہم کو نجات دے سکتا ہے پس اس میں سی قسم کا بھی حسن نہیں جس کی وجہ سے ہم اس سے محبت کریں.تعلیم وہ ہے جو کہ ناقابل عملدرآمد ہے عقیدہ وہ ہے کہ انسان جس کو ایک منٹ کیلئے بھی اپنے ذہن میں نہیں رکھ سکتا اورخوداس تعلیم پر چلنے والوں اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کا نمونہ اس قدر برا ہے کہ رہی سہی امید بھی منقطع ہو جاتی ہے، اس لئے ہم اسلام پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا یہ مذہب بھی باقی تمام مذہبوں کی طرح انسانی دست برد کے نیچے آچکا ہے یا نہیں اور |********** Individual Book PDF Page 47 Single PDF Page 63 of 643 Vol Printed Page 64 **********|| کیا اس میں بھی ایسی ہی کمزوریاں ہیں جن پر کہ دشمن کے ہاتھ پڑ سکتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ میں اسلام کی دو سری باتوں پر نظر ڈالوں اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام نے جو دو سرے مذاہب کی نسبت اپنی رائے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام ملکوں اور قوموں کے لئے انہیں کے حالات کے مطابق رسول بھیجے اور ان کوہدایت کی اور وہ باتیں بتائیں جن سے کہ وہ اس کو یعنی خدا کو پالیں اور یہ کہ خدا کی سنت رہی ہےاور اس نے ہر زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک ایسی تعلیم مقرر کی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنےعادات و اطوار کو خدا کے منشاء کے مطابق کریں اور جب ایک قوم نے بوجہ کسی سستی اور عیش وآرام کے زیادہ ہو جانے کے خدا تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تو اس نے پھر دوبارہ ایسے نبی مقرر کئے جو کہ بندروں کی اصلاح کریں اور ان کو پھر اپنے اصل مقام پر لا کھڑا کریں اور اسلام ہم کوبتاتا ہے کہ کسی قوم پر تب تک عذابِ الہی نازل نہیں ہوتا جب تک کہ ان میں رسول نہ پیدا کیاجائے جو کہ ان پر خدا کی حجت کو قائم کرے اور جب تک کہ وہ دلائل عقلی نقلی سے اور معجزات اورالہامات الہی سے ان پر ان کی غلطیوں کو ثابت نہ کر دے اور خدا سے ملنے کی راہ کو ان پر آشکار نہ کردے لوگ مستوجب سزا نہیں ہوتے.اسلام ہم کو بتاتا ہے کہ مجھ سے پہلے بہت سے اور مذہب گذرے ہیں جو کہ خدا کی طرف سےہوئے ہیں اور جو مختلف قوموں اور زمانوں کے لئے رہنما تھے اور اسی وجہ سے ہمارا ایمان ہے کہ عیسائی یہود اور ہنور و غیره مذاہب اصل میں سچے تھے اور امتداد زمانہ سے مسخ ہو کر ان کی شکلیں بدل گئیں اور یہ قرآن شریف کے شروع ہی میں سورہ الحمد سے بھی ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ ہےالحمد لله رب العلمين تر جمہ سب تعریفیں ہیں اس کے لئے جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے.اب دیکھنا چاہیئے کہ رب کے کیا معنی ہیں رب کے معنی ہیں وہ ذات جو کہ ایک چھوٹی چیز کو رفتہ رفتہ نشو و نما دے کر پورا کرے اور یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ وہ ایک نطفہ سے انسان بناتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان کی حالت اور عمر کے لحاظ سے سامان مہیا کر کے اس کو ترقی بخشتا ہے یا ایک دانہ کو جب کہ وہ زمین کے اندر پڑا ہو تا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ انسان کے پیروں تلے کچلا جا کر تباہ نہ ہو جائے یاکسی جانور کی خوراک نہ بنے اگاتا ہے اور جب ذرا سی سبزی دانہ کے باہر نکلتی ہے اس وقت بھی وہ نازک ہوتا ہے اور اس کے ٹوٹنے یا تباہ ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے پس خدا تعالیٰ وہاں سے بھی اس کوبچاتا ہے اور اسکو غذا دے کر اور بھی بڑا کرتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑا ہوتے ہوتے آ خر خود دانےنکالتا ہے اور کئی بالیں اس میں نکلتی ہیں جن میں کہ سینکڑوں دانے ہوتے ہیں.غرضیکہ ہر ایک چیز کی ربوبیت کر کے اور اس کے مناسب حال غذا دے کر خدا تعالیٰ بڑا کرتا ہے اور اسی لئے اس کا

Page 93

Page 94

نام رب ہے پس اس آیت شریفہ میں ہے کہ سب تریں اس کے لئے جو کہ سب جہانوں کا رب ہے.اب ربوبیت کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو ربوبیت جسمانی اور ایک روحانی.کیونکہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک نفس ہے جس کو عوام الناس روح کہتے ہیں اور اس لئے روح کے نام سے ہی مشہور ہے لیکن قرآن شریف روح کے معنے کلام کرتا ہے اور دوسری چیز جس سے کہ انسان مرکب ہے وہ جسم ہے پس ان دونوں کے لئے مختلف قسم کی ربوبیت کی ضرورت ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایک قسم کی ربو بیت کرتا ہے اور ہر ایک کی کرتا ہے، پس اس سےظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف اس موجودہ مذہب اسلام سے ہی دنیا کی ر بو بیت نہیں کی بلکہ روحانی ربوبیت اس سے پہلے بھی وہ کر تا رہا ہے اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اس کی طرف سےروحانی طبیب مقرر ہوتے رہے ہیں.اس جگہ موجودہ مذ ہب اسلام کا لفظ جو کہ میں نے استعمال کیاہے اس کے یہ معنے ہیں کہ ایک اسلام تو یہ ہے جو کہ نبی کریم ﷺکے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوامگراس سے پہلے جو مذہب ہوتے رہے ہیں وہ بھی اسلام کے مطابق ہی تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کا نام بھی اسلام ہی رکھا ہے.فرق یہ ہے کہ وہ مکمل نہیں تھے اور موجودہ مذہب اسلام ہر پہلو سے مکمل ہے.غرضیکہ ربو بیت تو خدا پہلے بھی کرتا تھا مگر اس وقت یہ فرق تھا کہ وہ خاص فرقوں اور خاص ملکوں اور مقررہ وقتوں کے لئے ہوتی تھی اور وہ قواعد روحانی ربوبیت کے جو کہ خدا تعالیٰ نے مقررگئے تھے وہ ایک مدت کے بعد کچھ تو لوگ بگاڑ دیتے تھے اور کچھ زمانہ کی حالت کی وجہ سے بد لادیئےجاتے تھے.اور اسی لئے ہمارا مذہب ہے کہ یہ تمام قومیں جو اس وقت ایسی گمراہی میں پڑ رہی ہیں کسی وقت خدا کے کلام سے مستفیض ہو چکی ہیں اور بوجہ سستی اور غفلت کے جو کہ انہوں نے خدا کےعلم سے ظاہر کی کہ اس سے دور جا پڑیں اور اس درخت کی طرح ہو گئیں جو کہ پانی سے دور ہو اور کچھ عرصہ کے بعد بالکل سوکھ جائے اور یہ کل مذاہب کے بر خلاف عقیدہ ہے یعنی ہندو عیسائی یہود اور آر یہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ سوائے ان کے کسی اور کو ہدایت ہو گی اور ان کے خیال میں ان کے اپنے بزرگوں کے سوا کسی کو کلام الہی سے حصہ نہیں ملا حالانکہ یہ صریح ظلم ہے اورزیادتی ہے کہ ایک کو تو خوب سیر کیا جائے اور دوسرا خواہ بھوک اور پیاس کے مارے تباہ ہو جائےروٹی کے ایک لقمے یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی محروم رکھا جائے اور چونکہ ہم اس کو ہندوؤں اور یہودیوں کے حصے میں اچھی طرح لکھ آئے ہیں اس لئے یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں غرضیکہ وہ ظلم جو کہ اورمذاہب نے جائز رکھا ہے اس کو اسلام نے مٹا دیا ہے اور وہ ظاہر

Page 95

کرتا ہے کہ تمام دنیا میں جہاں کہیں انسانی نسل رہتی ہے خدا نے اپنی طرف رہنمائی کرنے کے لئے سامان مہیا کر دیا ہےاور اپنے بندوں کی کمزوری پر ہر جگہ رحم کیا ہے اور یہ بات عقل کے بر خلاف ہے کہ خدا نےجسمانی ربوبیت کا سامان تو تمام دنیا کے لئے مہیا کر دیا لیکن روحانی ربوبیت کا خیال بالکل ہی نہیں کیااور سوائے ایک قوم کے سب کو اس سے محروم رکھا اور اسی لئے خدا تعالیٰ اپنے کلام کے شروع ہی میں اس بات کی تردید کر تا ہے اور فرماتا ہے کہ میں ہر قسم کی ربوبیت ہر جہاں کے لوگوں کی کر تاہوں اور یہ جو افتراء باندھا گیا ہے کہ میں کسی اور کی ربوبیت نہیں کرتا بلکہ صرف ایک قوم کا ہی متکفل ہوں بالکل غلط ہے بلکہ میں تو تمام جہانوں کا ربوبیت کرنے والا ہوں اب خواہ وہ ربوبیت جسمانی ہواور خواہ روحانی.اس جگہ مخالف ایک اعتراض کر سکتا ہے کہ جب اسلام نے بھی نجات اسلام پر ہی منحصررکھی ہے تو ربوبیت تمام جہاں کی کہاں گئی مگر اس کا جواب صاف ہے کہ گو خدا تعالیٰ نے آئنده کے لئے اسلام پر ہی نجات کا دار و مدار رکھا ہے مگر پھر بھی یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا کیونکہ خدا نےشریعت کا دروازہ بند کیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ شریت کامل ہوگئی ہے ورنہ الہام الہی کا دروازہ تو بالکل کھلا ہے اور جو شخص کہ جائز طریقہ سے اس کا فائدہ اٹھانا چاہے اٹھا سکتا ہے لیکن اسلام میں داخل ہو کر اور نبی کریمﷺ کی سنت کی اتباع کر کے ایک شخص خدا تعالیٰ سے مکالمہ و مخاطبہ کرسکتا ہے حالانکہ دوسرے مذاہب کا خیال ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو کہ ان کے آباء و اجدادتھے اور کسی کو یہ درجہ نصیب نہیں ہوا.پس ان میں تو ربوبیت کا دروازه غیرمذاہب والوں پر بلکہ خود ان پر بھی بند ہے اور اسلام میں یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور اب بھی ہم میں ایک ایساشخص موجود ہے جس سے کہ خدا کلام کرتا ہے اور اپنی پاک آواز اس کو سناتا ہے اور اس کے سبب سے اور لوگ بھی اس کے غلاموں میں سے ایسے موجود ہیں جو کہ الہام الہی سے مستفیض ہیں اوراس کے کلام کی سچائی آتھم کی وجہ سے عیسائیوں اور یہودیوں پراور لیکھرام کی وجہ سے آریوں اور سناتیوں پر ثابت ہے اور اب اگر وہ نہ مانیں تو اس میں نہ تو اس خدا کے مامور کا کچھ قصور ہےاور نہ خدا کاہی ظلم ہے ان پر حجتیں قائم ہو چکی ہیں اور عذاب الہی کا دروازہ کھل رہا ہے اور کھلنےوالا ہے چونکہ اس جگہ میں نے آتھم اور لیکھرام کا نام لیا ہے اس لئے اس کی بابت کچھ لکھ دیناضروری سمجھتا ہوں.آتھم ایک عیسائی تھا جس کی سرشت میں گالیاں دینا اور مسلمانوں کا دل دکھانابھرا ہوا تھا اوراس نے ایک موقع پر نعوذباللہ دجال کا لفظ نبی کریمﷺ کے لئے استعمال کیا جس پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو مباہلہ کے لئے بلایا

Page 96

اور اس کے لئے پیشگوئی کی کہ اگر رجوع الی الحق نہ کیا تو تجھ پر خدا کا عذاب نازل ہو گا اور تو پندرہ ماہ کے اندر اس دنیا سے اٹھالیا جائے گا اس لئے کہ تو نے نبی کریم ﷺکے لئے دجال کا لفظ استعمال کیا ہے مگر اس نے یہ سنتے ہی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھا اور اس لفظ کے کہنے سے مکر گیا اور پیشگوئی کار عب اس کے دل پر ایساپڑاکہ وہ اس عرصہ میں بھاگتا پھرا اور اپنے دوستوں کو کہتا تھا کہ مجھ پر تین دفعہ حملہ کیا گیا ہے ایک دفعہ تو ایک پڑھےہوئے سانپ نے مجھ پر حملہ کیا اور دو دفعہ مسلح سپاہیوں نے.مگر ناظرین پڑھے ہوئے سانپ کی حقیقت خوب سمجھ سکتے ہیں اور گورنمنٹ ا نگریزی کی عملداری میں مسلح آدمیوں کا حملہ کر نا بھی سمجھ میں آسکتا ہے جبکہ ہتھیار رکھنے کی قطعاً ممانعت ہے اور پھردن کے وقت اور لدھیانہ جیسے شہرمیں جہاں کہ اس کا داماد ایک معزز عہده پر نوکر تھا.پس یہ باتیں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ وہ پیشگوئی سے اس قدر خائف تھا کہ اس کی قوت متخیلہ نے اس کے سامنے ایسے نظارے پیش کئے اور یہی اس کے ڈرنے کی علامات تھیں جس کی وجہ سے وہ میعاد کے اندر مرنے سے بچ گیا مگر چونکہ اس نے میعادکے بعد یہ تہمتیں لگائیں کہ مجھ پر حملے کئے گئے اور مجھ کو مارنے کی فکر کی گئی اور حق کو چھپانا چاہا اس لئے اس کو قسم کے لئے بلایا گیا اور کہا گیا کہ اگر تو اپنے دل میں خائف نہیں ہوا اور پیشگوئی کارعب تیرے دل پر نہیں چھا رہا تھا تو آکر قسم کھاجا جس کے جواب میں عیسائیوں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا منع ہے حالانکہ پولوس رسول نے قسم کھائی ہے اور یہ صرف ایک ڈھکوسلا تھا اور اس کی سزا میں یہ ہوا کہ آ تھم پھر پندرہ مہینے کی میعاد میں مر گیا اور اس سے پہلے یہ اعلان ہو چکا تھا کہ چونکہ اس نے حق پوشی کی ہے اس لئے یہ اب بھی سزا سے بچ نہیں سکتا اور یہ صاف بات ہے کہ اگروہ تو جہ نہ کرتا اور دل میں خائف نہ ہو تا جیسا کہ خود اس نے روتے ہوئے اپنے دوستوں کے سامنےاس کا اقرار کیا تو پیشگوئی ایک طرح سے لغو ہو جاتی کیونکہ خدا نے یہ شرط کیوں لگادی جبکہ اس نےتو بہ نہیں کرنی تھی تو چاہئے تھا کہ خدا صاف ظاہر کرتا کہ اس میعار میں یہ مر جائے گا مگر چونکہ اس نے خائف ہونا تھا اس لئے یہ شرط لگائی گئی اور اس طرح دو پیشگوئیاں پوری ہو گئیں ایک تو وہ خائف ہو اور دوسرے جلدی مر بھی گیا جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا کہ یہ اگر قسم نہ کھائے گا تو سزاپائے گااور اس طرح اس کی موت سے نہ صرف عیسائیوں پر ہی حجت پوری ہوتی بلکہ پہودیوں پر بھی کیونکہ ان کا اصل ایک ہی ہے اور دونوں ایک ہی شریعت پر عملدرآمد کرنے والے اپنے آپ کوظاہر کرتے ہیں گو عمل نہ کریں.اب میں دوسری پیشگوئی کا بیان کرتا ہوں یعنی وہ جو لیکھرام کی نسبت کی

Page 97

گئی تھی یہ پیشگوئی اس طرح ہوئی کہ لیکھرام جو کہ آریوں کا ایک زبردست چلتا پرزہ تھا جب اسلام کو برا بھلا کہنے میں حد سے زیادہ گذر گیا اور نبی کریمﷺکی نسبت نہایت سخت الفاظ استعمال کرنے لگا.تو اس وقت مخالفت کے جوش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کہا کہ اگر تمهاراخد اسچا ہے اور تم کو اپنے کلام سے مستفیض کر تا ہے تو میری نسبت کوئی عذاب کی پیشگوئی کرو اور چونکہ اس شخص کے کلام سے اور تحریر سے مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ ہوا تھا اور ان کے جگر اس کے جھوٹے دعووں اور نبی کریم ﷺکو گالیاں دینے سے چھد گئے تھے اور کمزور اعتقاد کے مسلمان قریب تھا کہ ڈگمگا جائیں کیونکہ ان کو اپنے دین سے اس قدر واقفیت نہیں تھی کہ مخالف کو اعتراض کا جواب دے سکیں اور اس شخص نے اسلام کی خوبیوں کو برائی کے رنگ میں رنگین کر کے ایسے الفاظ میں پیش کیا کہ وہ حیران ہو گئے اور سوائے خاموشی سے بھی جواب نہ دےسکے اور اس لئے ضروری ہوا کہ اس کے باطل دعووں کو لوگوں پر کھول دیا جاوے اور اس کی لاف و گزاف کو ظاہر کر دیا جائے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود نے خدا سے دعا کی اور وہاں سے یہ جواب ملا کہ چھ برس کے اندر عید کے دوسرے دن یہ شخص قتل کیا جائے گا چنانچہ پیشگوئی عام طور پرشائع کی گئی اور چونکہ لیکھرام شرارت میں حد سے زیادہ گزرا ہوا تھا اس لئے اس کے واسطے تو بہ کادروازہ بند تھا اور کوئی شرط اس پیشگوئی میں نہ تھی اور قطعی فیصلہ تھا کہ چھ برس کے اند ر عید کےدوسرے دن یہ شخص قتل کیا جائے گا اور اس نے بھی اس کو ایک بناوٹی بات سمجھ کر ایک پیشگوئی شائع کی کہ مرزا صاحب تین برس کے اند ر مر جائیں گے مگر اس نے تودیک لیا کہ وہ پیشگوئی غلط ہوئی اور دنیا گواہ ہے کہ بجائے مرزا صاحب کے فوت ہونے کے وہ اب تک زندہ ہیں اور ایک بڑی جماعت ان کے ماتحت ہوگئی ہے جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ گئی ہے مگر اس بات کی تمام دنیا گواہ ہے کہ اس پیشگوئی کے پانچویں سال جبکہ ایک ہی سال پیشگوئی میں باقی رہ گیا تھا عید کے دوسرےدن عصر کے وقت وہ قتل کیا گیا اور قاتل کا اب تک پتہ نہیں لگا کہ وہ کون تھا حالانکہ اس کے مکان کے اردگرد ایک شادی ہو رہی تھی اور دروازہ پر بہت سے لوگ کھڑے ہوئے تھے اور پھر وہ قاتل اپنا چھرا اور تہبند بھی وہیں چھوڑ گیا اور ان قرائن سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تمام ہندوستان چھان مارا گیا.بڑے بڑے مسلمانوں کی تلاشیاں کی گئیں مگر قتل کا سراغ نہ ملنا تھانہ ملا.بعض بے در و دشمنان اسلام نے مسلمان بچوں کو زہر آلودہ مٹھائیاں کھلا کر مار ڈالا یہاں تک کہ بیسیوں بچے ملک پنجاب میں اس طرح بیدردی سے ہلاک کئے گئے کہ الامان - مگر پنڈت لیکھرام کےخون کا جو دھبہ آریہ سماج اور کل وید کے پیرو ان کے دامن پرلگا وہ نہ اب تک مٹا ہے اور نہ آئندہ 116

Page 98

مٹے گاگو پنڈت لیکھرام کا خون آریوں میں ایک جوش پیدا کر گیا لیکن ساتھ ہی ثابت کر گیا کہ اسلام خدا کی طرف سے ہے اور آریہ سماج اور دوسرے ویدک مذاہب محض باطل فروشی کر رہے ہیں اور یہ بھی ثابت کر گیا کہ خدا کا کلام اب بھی اپنے نیک بندوں پر نازل ہو تا ہے اور اس کی ربوبیت اب بھی اسلام میں عام ہے.اب میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ عقیدہ جو اور مذاہب کا ہے کہ سوائے ہماری قوم کے چند افرادکے اور کسی کو الہام نہیں ہوا اور وہ بھی اب آئندہ کے لئے بند ہے بالکل غلط ہے اور اسلام میں اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کا ثبوت آج کل کے زمانہ میں بھی موجود ہے جیسا کہ لیکھرام کی اورآتھم کی موت اوریہی ایک خوبی اسلام کی سچائی کی کافی دلیل ہے اور آئند ہ اور بحث کی ضرورت نہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ حتی الوسع وہ اعتراضات جو غیر قوموں پر پڑتے ہیں (وہ جو کہ میں پچھے ذکرکر آیا ہوں )ان سے اسلام کو پاک ثابت کر کے دکھاوں اور یہ بتلاؤں کہ اسلام تمام خوبیوں کامجموعہ ہے.اب میں اس کے مسئلہ کو لیتا ہوں جس کو میں ثابت کر آیا ہوں کہ ایک لغو مسئلہ ہے اورانصاف کے بر خلاف ہے اس مسئلہ کی اسلام نے سخت تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے نہیں مگر اس کے ساتھ ہی اسلام تم کو ایک اور تناسخ بتاتا ہے جو کہ ایسا خوبصورت ہےکہ نہ تو انسانی فطرت کے بر خلاف ہے اور نہ ظلم کے لفظ کا اس پر اطلاق ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے انسان کے لئے تین جو نیں بھگتنی مقرر کی ہیں یعنی انسانی حالت کے تین درجہ مقرر کئےہیں ایک تو نفس امارہ پھر نفس لوامہ اور تیسرے نفس مطمئنہ یہ تین حالتیں ہیں جن میں سے کہ انسان کو گزرنا پڑتا ہے نفس امارہ تو وہ انسانی حالت ہے جبکہ انسان گناہ کرتا ہے اور برائیوں میں گھرا ہواہوتاہے اور نفس لوامہ وہ حالت ہے جبکہ انسان اس درجہ تک ترقی کر جاتا ہے کہ جب ایک گناہ کرتاہے تو ساتھ ہی اس کے پھر اس گناہ سے پچھتاتا بھی ہے اور نفس مطمئنہ وہ انسانی حالت ہے جبکہ ایک انسان گناہوں کے دائرہ سے نکل کر حالت اطمینان میں ہو جا تا ہے اور اس کو شیطانی حملوں اوربرے خیالات سے نجات مل جاتی ہے یہ تین حالتیں ہیں جو کہ انسان پر وارد ہوتی ہیں میرا خیال ہےکہ شاید اس مسئلہ سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ ہو گا جس سے بگڑ کر یہ تناسخ کا مسئلہ نکل آیا اگر چہ ایسالطیف اور پر معنی ارشاد سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں نہیں پایا جاتامگر شاید کوئی اس عقیدہ سے ملتاجلتا عقیدہ ان مذہبوں میں بھی ہو.میں یہ نہیں مان سکتا کہ بالکل یہ عقیدہ ان لوگوں میں ہو گا کیونکہ

Page 99

اگر یہ ہو تا تو بھی ان لوگوں کو یہ غلطی نہ پڑتی اور یہ لوگ کبھی بھی اس کے قائل نہ ہوتے کیونکہ یہ بالکل سیدھا اور سادہ ہے اور پھر انسانی فطرت کے مطابق ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ پہلےمذہب بھی ناقص تھے اور کامل نہ تھے اس لئے اچھی طرح سے ان میں یہ عقیدہ بیان نہیں کیا گیا اور کسی دھوکے کی وجہ سے ہندو وغیرہ تنااسخ کے قائل ہو گئے اور میرے اس خیال کی تائید بدھ کا یہ عقیدہ بھی کرتا ہے کہ انسانوں کے چار درجہ میں ایک تو وہ جس میں کہ انسان بار بار تایخ کے پھیر میں آتا ہے اور دوسرا وہ جس میں کہ انسان صرف ایک دفعہ جون کے چکر میں آتا ہے اور تیسرا وہ جس میں ہو کر انسان کبھی نہیں لوٹتا اور چوتھا تیسرے کا کمال ہے یعنی بہت سے پاک لوگوں کا درجہ ٭اوریہ عقیدہ ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں میں بھی کچھ ایسی بات تھی جس کو کہ یہ تعلیم کے ناقص ہونے کی وجہ سے اچھی طرح ظاہر نہیں کر سکے اور آخر اسلام نے جو کہ کامل منذ ہب ہے اس کو انسان پر کھول دیا.اور اس محبت کے تعلق کو جو کہ وہ خدا سے رکھتا تھا اس عقیدہ سے اور بھی بڑھا دیا.بدھ کے اس مذکورہ بالا عقیدہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں تناسخ سے مراد وہ جونوں کا چکر نہیں جس کے یہ لوگ قائل ہیں کیونکہ جب ایک درجہ ایسا بھی رکھا گیا ہے جس درجہ کا انسان دوبارہ دنیامیں ایک دفعہ ہی آتا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ آنا روحانی ہے یا بالفاظ دیگر حالت کے تغیر کا نام ہے کیونکہ اگر در حقیقت انسان دنیا میں دوبارہ آئے تو پھر گناہ کرے گا کیونکہ اس کو معلوم تو ہے ہی نہیں کہ میں دنیا میں کسی گناہ کی سزا میں آیا ہوں پس پھروہ جونوں کے چکر میں آجائے گا مگر اس عقیدہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دفعہ آئے گا زیادہ دفعہ نہیں پس یہ جسمانی تغیر نہیں بلکہ روحانی تغیر ہے لیکن جب اس درجہ پر انسان بن جاتا ہے تو صرف اس کو ایک جون بدلنی پڑتی ہے اور وہ نفس لوامہ کو چھوڑ کر نفس مطمئنہ کو اختیار کرتا ہے مگر صفائی کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اگر بیان کیا ہے تو صرف اسلام نے ہی بیان کیا اور اسلام کو ہی فخر ہے اس بات کا کہ اس نے یہ رازانسانی مدارج کا دنیا پر ظاہر کیا اور وہ علم و معرفت اس عقیدہ میں بھر دی جس سے کہ دوسرےمذاہب بالکل کو رے تھے اور ان میں اس قدر کمال ہی نہ تھا کہ وہ اس کو دنیاپر ظاہر کر سکیں اور پھر یہ بھی تحقیق نہیں کہ آیا اس کے قریب قریب کوئی عقیدہ بھی ان میں تھا کہ نہیں کیونکہ اس پر کوئی تاریخی شهادت نہیں صرف میرا ایسا خیال ہے کہ بدھ کا تناسخ کے متعلق عقیدہ شاید اس کے ٭بدھ نے ایک اشٹانگ مارگ مقرر کیا ہے.اس کے معنے ہیں کہ آٹھ قسم کی ریاضت روحانی و جسمانی اور یہ عقیده ای اشٹانگ مارگ سے نکلتا ہے.

Page 100

قریب قریب ہو اور بوجہ تعلیم کے ناقص ہونے کے وہ دوسرے الفاظ اور دو سرے معنوں میں استعمال کیا گیا ہو جیسا کہ میں اوپر لکھ کے آیا ہوں.بہرحال اسلام نے اس عقیدہ کو ایسے طریق اورایسےروشن پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ انسان کا ایمان تازہ ہو جاتاہے.اب میں اپنے اصل مطلب کی طرف ہوتا ہوں اور وہ یہ کہ اسلام نے ہم کو اپنے عقیدہ کےمتعلق رہنمائی کی ہے جس سے کہ انسان بہت کچھ روحانی ترقی کر سکتا ہے اور وہ کمزوریاں اورنقائص جو کہ انسان میں بوجہ اس کے طبعی خاصہ کے ہوتے ہیں اس عقیدہ پر ایمان لانے اور اس کےمعارف پر غور کرنے سے خود بخود دور ہو جاتے ہیں.میں اس مسئلہ کے متعلق زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتا کیونکہ ہمارے امام و مرشد نے جلسہ مہوتسو کے موقعہ پر ایک لیکچر تحریر کیا تھااس میں خوب اچھی طرح اور واضح طور سے اس مسئلہ کو حل کیا تھا اور ثابت کیا تھا کہ یہ مسئلہ سوائے اسلام کے اور کسی نے اس طرح نہیں بیان کیا کہ جس سے انسان ہدایت پا سکے اس لئے جوصاحب اس کی نسبت مفصل علم حاصل کرنا چاہیں وہ اس لیکچر کو پڑھیں.اب میں خدا تعالیٰ کے متعلق اسلام کا عقیدہ بیان کرتا ہوں.دیکھنا چاہیے کہ دنیا کا جو مذہب ہے (بشرطیکہ وہ خدا کا قائل ہو) اگر چہ خدا کے کتنے ہی شریک ٹھہراتا ہو مگر آخر توحید کا قائل ہوتاہے اور کسی نہ کسی طرح آخری نقطہ پر پہنچ کر وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ خدا ایک ہے اس وقت کےمشہور مذاہب کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ان میں سے عیسائیت توحید کی سخت دشمن ہے مگر اس میں بھی یہ عقیدہ ہے کہ باپ بیٹاروح القدس تین خدا ہیں مگر نہیں تین نہیں ایک خدا ہے اور اس بات سےظاہر ہوتا ہے کہ اگر چہ انہوں نے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی ان کو فطرت کے تقاضاسےمجبور ہو کر کوئی ایسا طریق ایجاد کرنا پڑا ہے جس سے توحید میں خلل نہ آۓ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوبھی باوجود کروڑوں بت ماننے کے اپنے آپ کو ایک ہی خدا کا قائل بتاتے ہیں اور یہودی اور آریہ بھی توحید کے عقیدہ پر ہی زور دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کا عقیدہ انسان کی فطرت کے موافق ہے اور گو کہ امتداد زمانہ سے کسی مذہب میں کتناہی شرک ترقی کر جائے مگر پھر بھی اس کے پیرو توحید کو نہیں چھوڑتے اور ہم پیچھے ثابت کر آئے ہیں کہ توحید ہی در حقیقت سچ ہے اور وہ لوگ جو شرک کرتے ہیں غلطی پر ہیں اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے اسلام کے توحید پر کسی نےزور نہیں دیا اور نہ کسی مذہب نے توحید کا ثبوت دیا ہے.عیسائی اگر ایک طرف توحید کے قائل ہیں تو ساتھ ہی تثلیث پر بھی ایمان رکھتے ہیں.یہودیوں نے اگر چہ توحید میں کوئی خرابی نہیں پیداکی

Page 101

لیکن انہوں نے شرک کی بیخ کنی بھی نہیں کی اور نہ ہی توحید پر زور دیا.ہندو توحید کو ماننے کے ساتھ ساتھ بت پرستی بھی لازم قرار دیتے ہیں اور آریہ جو کہ توحید پر اپناپور یقین بتاتے ہیں.روح اور مادہ کو ازلی مان کر عملی طور سے اس کا انکار کرتے ہیں.یہ فخر صرف اسلام کو ہی ہے کہ وہ خدا کا شریک کسی کو نہیں ٹھہراتا اور شرک کی بیخ کنی کرتے ہوئے تو حید پر زوردیتا ہے ہاں صرف اسلام ہی ایک ایسان مذہب ہے جو کہ عملی طور سے توحید کو قائم کر تا بت پرستی سےباز رکھتا اور خدا کی طرح کسی کو ازلی ابدی نہیں قرار دیتا.اگر چہ تمام مذاہب نے توحید کو چھوڑ دیالیکن اسلام کے خدا نے ہر ایک مسلمان کے دل میں اس عقیدہ کو اس طرح داخل کر دیا ہے کہ وہ نکل ہی نہیں سکتا خود خدا تعالیٰ کا نام ہی اسلام میں وہ رکھا گیا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا.وہ نام اللہ ہے یعنی تمام نیک صفات خوبیوں اور طاقتوں کا مجموعہ اور یہ نام کسی اور مذہب نے اپنے خدا کو نہیں دیا.یہ ایک ایسا پیارا نام ہے جو کہ اس ذات پاک کی تمام خوبیوں اور احسانوں کو انسان کےدل پر یک دم اس طرح نقش کر دیتا ہے کہ اس میں سے محبت کا ایک تیز شعلے نکل کر اس دوئی یاشرک کو جلا دیتا ہے جو کہ انسان کے ساتھ ایک خفیہ دشمن کی طرح لگا رہتا ہے اور ایک صلاحیت رکھنے والا انسان اس نام کو اپنی زبان پر لا کر بے چین ہو جاتا اور محبت کے درد کو محسوس کرتا ہےکیونکہ معاًاس کو خدا تعالیٰ کی خوبیاں اور اس کے محاسن کا ایک مخقر نقشہ یار آتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر نظر کر تا ہے تو اس کی بڑائی جبروت شوکت اور صولت کو دیکھ کر حیرت میں آجاتا ہے اوردنگ رہ جاتا ہے اور جب اپنی کمزوری بے بساطی بےکسی بے بسی پر نظر کر تا ہے تو حیرت تعجب اوردبدبہ محبت کی گداز کر دینے والی گرم جوشی میں بدل جاتے ہیں اور اس وقت انسان نہیں جانتا کہ میں اس محبت کو کس طرح ظاہر کروں اور وہ محبت ایسی زبردست ہوتی ہے کہ انسانی دل میں سمانہیں سکتی اور آخر آنسوؤں کے رنگ میں اس کو کسی قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے پھر انسان خدا تعالیٰ کی بزرگی پاکی اور قدوسیت پر نظر کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی گنہگاری غفلت اور سستی کو جانتا ہے تو پھر وہی پہلی حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس مشت خاک پر یہ احسانات سوائےاس رحیم و کریم ذات کے اور کون کر سکتا ہے اور کس کی طاقت ہے کہ ہمارے گناہوں کو بخشے اورپھر ساتھ اس قدر انعامات کرے کہ زبان تو الگ رہی اگر ہزار سال تک ہمارا ہر ایک ذرہ ان کو گنے توبھی ناممکن ہے کہ گن سکے.غرضیکہ اللہ کا نام زبان پر آتے ہی انسان کے دل و دماغ محبت کی زنجیرمیں پروئے جاتے ہیں اور جتنا اس نام کی وسعت پر غور کرو اتناہی اسلام کی سچائی کا یقین دل

Page 102

میں پختہ ہو جا تا ہے اور یہ اسلام کے خدا کی طرف سے ہونے پر ایک بین دلیل ہے کیونکہ کسی اور مذہب نےخدا کی صفات اور طاقتوں کا اس طرح بیان نہیں کیا تھا اور صرف اسلام نے ہی اس بحر بےکنار کوایک چھوٹے سے لفظ میں بند کیا ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرسمندر سیاہیوں کے ختم ہو جائیں تب بھی ده ختم نہ ہو اور انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس کو بیان کرسکے صرف خدا تعالیٰ ہی قادر ہے کہ اپنی صفات اور طاقتوں کو بیان کر سکے اور اسی کا کام ہے کہ اس نے ایک اللہ کے لفظ میں سب کچھ بھردیا.اور چونکہ سوائے اسلام کے تمام مذاہب ناقص اور نامکمل تھے اسی لئے ان میں یہ لفظ نہیں پایاجاتا اور ان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جو کہ اس لفظ کا قائم مقام ہو سکے اور اس لئے وہ تو حید کے ثابت کرنے میں قاصر رہے گا مگر اسلام چونکہ کامل اور مکمل مذہب ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس میں یہ لفظ رکھ دیا کہ جس سے شرک کی سخت بیخ کنی ہوتی ہے اور وہ شخص جو کہ خدایرمیشور کو اللہ مانتا ہوممکن ہی نہیں کہ شرک پر یقین رکھے یا بدعتوں کو جائز ٹھہرائے پس جیسا کہ اسلام نے ایک ہی لفظ سے شرک کا درخت جڑ سے اکھیڑ دیا.اس طرح تمام مذاہب باوجود اپنے تمام دعووں اور لاف وگزاف کے نہیں کر سکے ہیں کیا اسلام نے توحید کو دنیا پر ثابت کیا ہے یا دوسرے مذاہب نے ؟ کوئی عقلمند بھی ان کھلے کھلے دلائل کے ہوتے ہوئے باور نہیں کر سکتا کہ غیر مذاہب نے شرک کی اس قدر بیخ کنی کی ہے جس قدر کہ اسلام نے بلکہ اس کے پاسنگ بھی نہیں کی اور ایسے لفظ کا ان میں نہ ہونا ان مذاہب کے نامکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جب خدا کی ہستی کو پوری طرح ظاہرکرنے والا لفظ ہی ان میں نہیں تو وہ اس ہستی کو سمجھ ہی کس طرح سکتے ہیں اگر کسی اور زبان میں ایسالفظ ان کے موعود ذہنی پرمیشور یا خدا کے لئے موجود ہے تو اس کو پیش کر کے ہم کو جھوٹا ثابت کریں.ناظرین یہ لفظ ایسا وسیع ہے اور خدا کی ہستی کا مفہوم اس طرح بیان کرتا ہے کہ ایسی ہستی مان کرجس کا نام اللہ ہو ہم شرک قطعاً نہیں کر سکتے کیونکہ علاوہ ان صفات اور قوتوں کے جو کہ اس نام میں ہیں اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ہستی جس کا یہ نام ہے اس کا کوئی شریک نہیں پس اسلام نے یہ نام بتا کے دنیا پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے جس کا انکار کرنے والا خدا اور مخلوق دونوں کے نزدیک سخت گناہکار ہے.اب ہم یہ تو ثابت کر چکے ہیں کہ اسلام نے ایک اللہ کے لفظ سے ہی شرک کی جڑ اکھیڑ دی ہے اور اس کے علاوہ خدا تعالٰی نے توحید کو مسلمانوں کے دلوں میں کئی طرح بٹھایا ہے جیسا

Page 103

کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان جب سے پیدا ہوتاہے اس کو توحید کا سبق دیا جا تا ہے ایک بچے کے پیدا ہوتے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان کی جاتی ہے جس میں کہ صاف طور سے ہے اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰــہُ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے خداکے اور کوئی معبود نہیں اور اس طرح گویا کہ بچہ کےکان میں اس وقت جبکہ وہ ابھی دنیا میں داخل ہی ہوا ہو تا ہے تو حید الہی کا کلمہ پھونکا جا تا ہے اور جس طرح جسمانی ترقیات کرنے کے لئے وہ پہلا قدم رکھتا ہے اسی طرح اس کو روحانی ترقیات کی طرف بھی بلایا جا تا ہے اور اس کے کانوں کو ان محبت کے الفاظ سننے کا مشتاق بنایا جا تا ہے جن کا سننا اس کی آئندہ روحانی ترقی کے کے لئے لازمی امر ہوتا ہے پھر ایک مسلمان کو دن میں کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی وحید کا اقرار کرناپڑتا ہے ایک نماز میں ہی بیسیوں دفعہ اللہ کا نام لینا پڑتا ہے جو کہ شرک کا قاتل ہےاور نمازیں دن میں پانچ دفعہ پڑھنی پڑتی ہیں اور پھر ہر ایک نماز کے وقت اذان اور اقامت کہی جاتی ہیں جو کہ خود توحید کی تعلیم دینے والی ہیں پھر ہر شادی اور غمی کے موقع پر اور تعجب و حیرت کےموقعہ پر ہمارے لئے ایسے الفاظ مقرر کئے گئے ہیں جن سے کہ توحید کا مفہوم خوب اچھی طرح سےظاہر ہوتا ہے جیسا کہ خوشی کے وقت الحمدللہ کا کلمہ زبان پر لانا جس کے معنی ہیں کہ سب تعریف ہے واسطے اللہ کے اور اس طرح غم کے موقعہ پرانا لله و انا اليه راجعون (البقره:۵۷) کا کہنا جس کے معنے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے ہی ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹیں گے پرتعجب و حیرت کےموقعہ پر سبحان الله کہنا یعنی پاک ہے اللہ پس ہمارے ہر کام میں اٹھتے بیٹھے توحید کا ذکر ہو تا ہے.پھر جب ایک شخص اپنا پہلا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے لگتا ہے اس وقت بھی اس سے یہی کلمہ کہلوایا جا تا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰــہُ پس ان باتوں پر غور کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی اس واحد خدا کی طرف سے ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے تب ہی تو اس میں توحید کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ دوسرے مذاہب نے توحید کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوئی وسائل اختیار نہیں کئے مگر اسلام نے کئے ہیں اور اللہ کا لفظ جو کہ بذات خودشرک کو رد کرنے والا ہے اسلام نے ہی استعمال کیا ہے اور سواے عربی کے اور کسی زبان ادب میں اس کا ہم معنی لفظ نہیں پایا جاتا اب چونکہ ہم اپنے اصل مدعا کو ثابت کر چکے ہیں اس لئےدوسری بات کر لیتے ہیں لیکن کفارہ کی نسبت اسلام نے ہم کو کیا بتایا ہے.یہ بات پیچھے لکھی جا چکی ہے کہ کفارہ پر ہی عیسائیت کی عمارت کی بنیاد ہے اور اس مسئلہ کےمتعلق ہم کافی طور سے لکھ چکے ہیں کہ یہ کسی سچے مذہب کا عقیدہ نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہم نے 1

Page 104

اسلام کو سچا قرار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ دکھایا جائے کہ اس مذہب میں کفارہ کا عقیده باطل سمجھا جاتا ہے اور اس کے لئے کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں صرف اتنا لکھنا کافی ہے کہ قرآن شریف میں جو کہ مسلمانوں کی پاک کتاب ہے اور جس پر ایمان لانا ہر ایک مسلمان کافرض ہے اور جس سے کسی مسئلہ کی نسبت بھی باوجوداس علم کے کہ وہ قرآن شریف میں ہےیہ کہنا کہ ہم اس کو نہیں مانتے کفر ہے.اس کے متعلق صاف طور سے یہ علم ہے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى (بنی اسرائیل:۱۶) یعنی کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کوئی گناہ کرے اور دوسرا اس کو اپنے ذمہ لے لے اور درحقیقت ایسانہ ہو تولوگ خدا کا بھی انکار کر بیٹھیں اور ان کو سخت ابتلا پیش آویں کیونکہ اس طرح مذہب کھیل بن جاتاہے اور انصاف میں فرق آتا ہے پس اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس کو ناجائز ٹھہرایا ہے اور اس بد نمادھبہ سے اسلام کا چہرہ بالکل پاک و صاف ہے.اب خدا کے رحمان ہونے کا سوال ہے کہ آیا خدا رحمان ہے یا نہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ صفت رحمانیت کا بہت سے مذاہب انکار کرتے ہیں مثلاًعیسائی ہنود آریہ وغیرہ اور ان کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ جو کچھ عطا کرتا ہے وہ صرف ہمارے اعمال کے بدلہ میں ہو تا ہے اور کوئی گناہ بخشا نہیں جاتا جب تک کہ اس کی سزا نہ مل جائے اور اس لئےعیسائیوں کو کفارہ کا مسئلہ ایجاد کرنا پڑا ہے یا یہ کہو کہ کفارہ کی تصدیق کے لئے خدا کی رحمانیت کااقرار کیا گیا ہے اور ہنود آریہ اور بدھ مذہب وغیرہ کو خدا کی رحمانیت سے انکار کر کے تناسخ کا بعید ازعقل عقیده ماننا پڑا ہے کیونکہ ان کو یہ مشکلات پیش آئی ہیں کہ چونکہ انسان ضعیف ہے اس لئے وہ گناہوں میں دھنسا رہتا ہے اور اگر اس کی سزا میں اس کو دوزخ میں ڈالا جائے گا تو پھر تمام لوگ دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے اور اس طرح نجات تا ممکن ہو جائے گی پس انہوں نے سوچ کر یہ تناسخ کا مسٗلہ نکالا کہ اس دنیا میں ہی بار بار اسے گناہوں کی سزا ملتی ہے اور ہر ایک گناہ یا ہر ایک نیکی کی وجہ سے انسان بری یا اچھی جو نوں میں ہمیشہ جنم لیتا رہتا ہے مگر اس عقیدہ کو ہم غلط ثابت کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ اسلام نے صفت رحمانیت کی تائید میں بہت زور دیا ہے اور برخلاف دوسرے مذاہب کے اس صفت کو خدا کے لئے ضروری ٹهہرایا ہے بلکہ قرآن شریف کے شروع ہی میں بسم الله الرحمن الرحيم سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں انسان کی زندگی کے لئے یہ صفت لازمی اور ضروری ہے اور بغیر اس کے انسان کی زندگی محال بلکہ ناممکن ہے کیونکہ خدا کی صفت رحمانیت وہ ہے جس کی وجہ سے خد ا بغیر کسی کام کے

Page 105

انسان یا دو سری مخلوقات پررحم کرتاہے اور ان کی ضروریات کو مہیا کرتا ہے پس اگر خدارحمان نہ ہو تو ایک دم میں انسان ہلاک ہو جائیں کیونکہ ہوا پانی وغیرہ جو کہ ہر ایک جاندار کو میسر ہیں اسی لئے میسر ہیں کہ خدارحمان ہے اور اگر وہ رحمان نہ ہو تو چاہئے کہ ہوا بند ہو جائے اور پانی خشک ہو جائے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ پچھلے اعمال کی وجہ سے ہے تو یہ اعتراض ہو گا کہ کیا پچھلے اعمال کی وجہ سے ہر ایک کو ہوا اور پانی ملنے چاہیں کیونکہ کسی نے کم درجہ کے اعمال کئے ہیں اور کسی نے بہت عمدہ اور کسی نے گھوڑا بننے کے کام کئے ہیں تو کسی نے گدھا بننے کے ہر ایک کے لئے ہوا اور پانی کا میا ہو تا ظاہر کرتا ہے کہ یہ اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا کی صفت رحمانیت کی وجہ سے ہے کیونکہ دوسری صورت میں ماناپڑے گاکہ تمام لوگ ایک دو ایسے کام ضرور کر لیتے ہیں کہ اگلی جون میں ہوا اور پانی ان کو میسر ہو جائے مگر جبکہ یہ تو معلوم ہی نہیں کہ یہ چیزیں کس نیکی کے بدلہ میں ملتی ہیں تو انسان ایسے کام کیونکر کر تا ہے اورکس طرح کر سکتا ہے.پس ہر ایک جاندار کے لئے پانی اور ہوا کا مہیا ہو نا خدا کی رحمانیت اور تناسخ کے ابطال پر دلالت کرتا ہے اور پھر ایک اور بات بھی ہے کہ انسان کو دوسرے جانوروں پر فوقیت دینا اور گدھے کو سور کی نسبت اچھاجاننا جو ہے یہ بھی تو خدا کی رحمانیت کا ثبوت ہے جبکہ تناسخ کےآنے والے صاحب یہ کہتے ہیں کہ اچھے اعمال کرنے والا انسان بنا ہے اور برے اعمال کرنے والاحیوان تو اس طرح گویا کہ وہ انسان کی فضیلت دو سروں پر بتاتے ہیں اور یہ فضیلت سوائے رحمانیت کے ہو نہیں سکتی اور اس بات کو ماننے پر کہ انسان کو دوسرے جانوروں پر فضیلت ہے یہ سوال ہو گاکہ خدا نے انسان کو دو سرے جانوروں پر فضیلت کیوں دی اور اس کا جواب ہو گا کہ رحمانیت کی وجہ سے.پس اسلام ہم کو یہی بتاتا ہے کہ خدارحمان ہے اور بڑا رحمان ہے اس نے ہمارے لئے وہ تمام چیزیں جو کہ ضروری تھیں بغیر ہمارے کسی کام کے مہیا کی ہیں اور چونکہ ہم ضعیف مخلوق ہیں اس لئے وہ ہمارے گناہوں کو معاف بھی کردیتا ہے اور اسی وجہ سے ہمارا دل ہر وقت اس کی طرف جھکتا ہے اور محبت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ محبوب محبت کرنے والے کی خطائیں اورکو تاہیاں معاف کرے اور اس کی غلطیوں سے درگذر کرے پس اگر خدا ایسا نہ کرتا تو محبت قائم ہوہی نہیں سکتی تھی جب ایک انسان خدا تعالیٰ کے بے شمار احسانات اور انعامات کو دیکھتا ہے تو خود بخوداس کی طرف جھکتا ہے.اور اس کا دل بے اختیار چاہتا ہے کہ تمام رکاوٹوں کو دور کر کے کسی طرح اس محبوب سے جاملوں جو کہ میری محبت کا بدلہ دے سکتا ہے اور ایساخدا صرف اسلام کا خدا ہے وہ حمان ہے رحیم ہے علیم ہے

Page 106

.خبیر ہے اور تمام مخلو قات کا خالق ہے اور یہ تمام باتیں محبت کے تعلق کو بڑھانے والی ہیں چونکہ وہ خالق ہے اس لئے سب مخلوقات عالم فطرتاً اس کی طرف جھکتی ہے اوراس کے مخلوق ہونے کی وجہ سے ہر ایک ذره ذرہ اس کی حمد و ثناء میں لگا رہتا ہے اور چونکہ وہ رحمان و رحیم ہے اس لئے اس کے احسانات کو دیکھ کر کوئی ذی روح نہیں جو کہ سجدہ میں نہ گر جائے اوراس کے خیال میں ایسا محو نہ ہو جائے کہ گویا اپنے آپ کو بھول ہی جائے (بشرطیکہ طبع سلیم رکھتا ہو )اور چونکہ وہ علیم و خبیر ہے اس لئے ہر ایک محبت کرنے والا دل اس کی اس صفت سے تسلی پکڑ تاہے اور جانتا ہے کہ میری محبت فضول نہیں جائے گی اور چونکہ قادر ہے اس لئے کسی عمل کے ضائع جانے کا انسان کو اندیشہ نہیں ہو تااب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام نے دوسری قوموں اور مذہبوں کو اپنے میں داخل کرنے کا کوئی طریقہ رکھا ہے یا نہیں اور اس کے لئے پہلی ہی نظر ڈالنے پر ہم کومعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اسی فیصدی سے زیادہ اور قوموں اور غیر مذاہب کےآدمی داخل ہیں جس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اسلام کا خدا بخیل نہیں بلکہ چونکہ وہ خالق ہے اس لئے اس نے اپنی تمام مخلوقات کی رہنمائی کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے اور خود نبی کریمﷺ نےاپنی زندگی میں چاروں طرف وکیل ہے کہ تمام دنیا میں اس بات کی تبلیغ ہو جائے کہ خدا کا وعده پورا ہو گیا اور وہ جو کہ ہدایت اور رشد کا طالب ہے فائدہ اٹھائے اور قرآن شریف میں بار بار آتا ہے کہ قرآن شریف تمام دنیا کی ہدایت کے لئے ہے پس یہ اعتراض جو کہ کئی اور مذاہب پر پڑتا ہےکہ ان میں ہدایت کا دروازہ بند رکھا گیا ہے اسلام پر قطعاً نہیں پڑتا اور اس وقت ہم ان مذاہب کوبھی جو کہ دوسرے اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا جائز رکھتے ہیں یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی کتابوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ تمام دنیا کے لئے ہیں؟ نہیں قطعاً نہیں.کسی کتاب نے بھی ایسادعویٰ نہیں کیامگر قرآن شریف نے یہ دعویٰ کیا ہے بلکہ دوسری کتابوں میں یہ بھی نہیں کہ ہماری تعلیم ہر زمانہ کے لئے ہے اگر کوئی مدعی ہے تو ثابت کرے کہ کسی کتاب نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں ہمیشہ کے لئےہوں اور مجھے منسوخ کرنے والی اور کتاب کوئی نہیں آئے گی.اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی ایسا ثابت نہیں کر سکے گا اور صرف اسلام نے ہی یہ دعویٰ کیا ہے جیسا کہ ان دو آیتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ إني رسول الله إليكم جميعا(الاعراف: ۱۵۹) اور الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائده :۴) جن میں سے پہلے کی نسبت تو خدا تعالیٰ نبی کریمﷺکو فرماتا ہے کہ تو لوگوں کو یہ آیت سنا جس کے معنی ہیں کہ میں تمام دنیا کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں اوردوسری میں خدا تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کامل کر

Page 107

دیا اور اپنی نعمت آخری درجہ تک پہنچادی لیکن اس دن کے بعد اور کوئی دین نہیں آوے گا اور اس دین کو کامل کرکے میں نے اپنی نعمت تم پر بدرجہ کمال پہنچادی ہے میں یہ وہ دعویٰ ہے جو کہ کسی اور کتاب نے نہیں کیا.اور غیر مذاہب کا کوئی حق نہیں کہ اپنے مذاہب کو کامل اور ہر زماں و مکاں کے مناسب حال قرار دیں اور ان مذاہب کے پیرواں کا ایسا دعویٰ کرنا گویا کہ مدعی ست اور گواہ چست کی مثال اپنےپر صادق کرنا ہے اور وہ دعوی ہرگز ہرگز قابل پذیرائی نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کا کوئی حق نہیں کہ برخلاف اپنی کتاب کے ایک نیا عقیدہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ خصوصیت جو کہ اسلام میں ہےاس کا جواب آریہ نہیں دے سکتے کیونکہ وید جس کو کہ وہ کامل کتاب مانتے ہیں ایسادعویٰ قطعاً نہیں کرتا اور نہ ان کی دیگر پرانی مذہبی کتابوں میں یہ دعوٰی ہے پس اسلام نے ہی یہ دعوی کیا ہے اوراب مخالفین کو چاہئے کہ ان پر ایمان لائیں کیونکہ کامل کتاب کی ضرورت تو انہوں نے بھی مانی ہےاور ان کی اپنی کتاب کامل نہیں اور ایک قرآن شریف نے بھی یہ دعوی کیا ہے اوراس کے بعد اورکوئی کتاب بھی نہیں آئی پس باوجود اس کے پھر اس سے انکار کرناضد اور ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیاہے.ہم یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ تمام دو سرے مذاہب نے ایک مکمل مذہب کی ضرورت تسلیم کی ہے اور اسی لئے ان کے پیرو ان کو ضرورت پڑی کہ اپنے اپنے مذہب کو کامل کہیں مگر وہ مکمل نہیں ہو سکتے کیونکہ نہ تو خود ان کی کتابوں میں یہ دعویٰ ہے اور نہ ہی ان کی تعلیم کامل ہے پس ان حالات کے ہوتے ہوئے ہم اسلام کی نسبت ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی مذہب ہے جو اپنی تعلیم میں کامل ہےاور جو ہر زمانہ کے لئے مناسب ہے اور جو ایک طالب حق کو تسلی بخشتا ہے جیسا کہ ہمارے امام نےفرمایا ہے کہ آو لوگو کہ میں نورِخداپاؤ گے......لو تمہیں طور تسلی کابتایا ہم نے اب دو باتیں رہ گئی ہیں کہ جن کا جواب دینا ہمارے ذمہ باقی ہے ایک تو یہ کہ اسلام کی تعلیم کیسی ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں الہام کا سلسلہ جاری ہے یا نہیں پس پہلی بات کا جواب یہ ہےکہ اسلام کی تعلیم جیسی اور کسی مذہب کی تعلیم نہیں کیونکہ اسلام نے تعلیم میں ہر ایک بات کا لحاظ رکھا ہے اور ہم پر دو حقوق فرض رکھے ہیں ایک تو حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد اور یہی دوحقوق ہیں کہ جن پر کسی مذہب کا انحصار ہوتاہے کیونکہ انسان کو اپنی زندگی میں صرف دو تعلقات سے کام پڑتا ہے ایک تو وہ تعلق جو کہ خدا سے ہو تا ہے اور دو سراوہ جو اس کو دوسری چیزوں سے

Page 108

ہوتا ہے اور جس مذہب میں ان دونوں تعلقات کی نسبت تعلیم پوری ہو اس کو خدا کی طرف سے سمجھنا چاہئے اور ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے اسلام کے اور کسی مذہب نے اس تعلیم کو پورا نہیں کیا.حقوق اللہ کے پورا کرنے کے لئے ہم پر عبادت اور محبت الہٰی فرض کی گئی ہے اور حقوق العباد کےپورا کرنے کے لئے ہم پر حسن اخلاق اور احسان فرض کیا گیا ہے اور وہ تعلقات جو کہ اس دنیاوی زندگی میں بھی پیش آتے ہیں ان کی نسبت ایسے احکام دیئے گئے ہیں کہ جن سے نہ تو ہمارےتعلقات میں فرق آوے اور نہ خدا تعالیٰ کی کسی طرح کی نافرمانی ہو اس جگہ حقوق اللہ کا ذکر کرنا میں نہیں چاہتا کیونکہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا اور اس کے لکھنے کی ضرورت بھی نہیں جس کو ان کےمعلوم کرنے کی ضرورت ہو وہ شریعت اسلام سے واقفیت حاصل کرے مگر مختصر یہ کہ نمازیں پڑھواور روزہ رکھو، زکوٰۃ دو،حج کرو، خدا تعالیٰ سے محبت کرو، اس کے نبیوں سے اخلاص رکھو، ملائکہ پرایمان رکو ،زنانہ کرو، فسق و فجور سے بچو اور اسی طرح اور بہت سے احکام ہیں اور حقوق العبادمیں پہلے تو انسان کا حق خود اپنے پر ہوتا ہے اسلئے اس کے لئے حکم ہے کہ علم سیکھو اور دین کے ساتھ اپنی روزی کا خیال بھی رکھوسوال سے پرہیز کروتا کہ اخلاق پر اثر نہ پڑے پھر والدین کے تعلق کی طرف حکم ہے کہ ان کی فرمانبرداری کرو.بیوی کے ساتھ اچھی طرح پیش آؤ پھر اولاد کی نسبت ہے کہ ان کی اچھی طرح تربیت کرو بھائیوں اور بہنوں کے لئے علم ہے کہ ان سے نیک سلوک کرو.دوستوں سے محبت اور اخلاق برتو ،ہمسایوں کا خیال رکھو، مسافروں کی مدد کرو، غریبوں پر رحم کرو' قیدیوں کوچھڑاوٗ (بشرطیکہ ان کی اصلاح کی امید ہو ) اور گورنمنٹ کی وفاداری کرد غرضیکہ اور تعلقات جو ایک بندے کے خدا سے ہونے چاہئیں اور وہ جو کہ بندوں سے ہونے چاہئیں ان سب کو اس خوبی سےبیان کیا ہے کہ ایک بد طینت آدمی بھی اگر ان پر عمل کرے تو فرشتہ بن جائے پس یہ ایسی تعلیم ہےکہ اگر صرف اسلام میں یہی ہوتی تو بھی یہ مذہب اس قابل تھا کہ اس کی پیروی کی جاتی اور یہاں تو ایک ایسی بڑی خوبی اس میں موجود ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے بھی اسلام کا انکار کرنانہایت سخت بے شرمی ہے.اور وہ خوبی یہ ہے کہ اسلام نے دوسرے مذاہب کی طرح الہام کے سلسلہ پر مہر نہیں لگائی بلکہ اسلام کا دعوی ہے کہ وہ جو میرے احکام پر چلے اور نیکی اور تقوی کا نہ اپنے دل میں بوئےاور اخلاص اور محبت کو خدا سے بڑھاۓ اس کو بلا امتیاز قوم اور بلاخصوصیت ملک ہر ایک زمانہ میں الہام ہو سکتا ہے اور یہ و ہر کوئی ہے جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا عیسائیت ہے تو وہ الہام سے منکر.یہودی مذہب ہے تو وہ الہام کا مخالف ہندو ہیں تو الهام کے ہونے سے مایوس اور آریہ کاگمنامی کیا ہے.وہ تو امام کو فضول اور لغو بات قرار دیتے ہیں.

Page 109

یاد رکھنا چاہئے کہ الہام ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کہ ہر ایک زمانہ کے لوگوں کادل تسلی پاسکتا ہے.اگر کسی زمانہ میں امام ہو تا تھا تو آج کیوں نہیں ہوتاکیاخدا پچھلے زمانہ میں بولتا تھا اوراب نہیں بولتا کیا وہ کسی زمانہ میں سنتا تھا اور اب نہیں سنتا.وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے وہ اب نہیں سنتا ہوتا؟ ایک طالب حق جو کہ دن رات اٹھتے اور بیٹھتے خدا تعالیٰ کی محبت ہی میں محو رہتا ہو اس کے لئےیہ کیسی کمر توڑ دینے والی بات ہے کہ خدا نے کسی زمانہ میں کلام کیا تھا مگروہ اب کسی سے کلام نہیں کر سکتا.آخر اس کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہئے تھی جب بولنا خدا کی صفت ہے تو کیا خدا کی صفات معطل بھی ہو جایا کرتی ہیں ؟ اگر معطل ہو جاتی ہیں تو خدا قادر مطلق اور ازلی ابدی کیونکر ہو سکتاہے.اگر معطل نہیں ہوتیں تو اب وہ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ سوال ہیں جو کہ ایک محقق کے دماغ میں فورا گونج اٹھتے ہیں جبکہ وہ یہ عقیدہ سنتا ہے اور اس کا جواب کوئی اور مذہب سوائے خاموشی کےاور کچھ نہیں دیتا مگر اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کہ اس کا دندان شکن جواب دیتا ہے وہ کہتا ہےکہ جو لوگ سلسله الہام کو منقطع خیال کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اس لئے یہ سوال ہی لغو ہے.خدا بولتا تھا اور اب بھی بولتا ہے چونکہ یہ اس کی صفت ہے کہ وہ بولتا ہے اس لئے یہ معطل نہیں ہوسکی اور یہ اسلام کا دعوی ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی وہ دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے آدمی موجود رہتے ہیں جو الہام الہی سے مستفیض ہوتے ہیں اور ہر صدی کے سرپر ایک مجدد ہو تا ہے جو الہام کے جھٹلانے والوں کے ردّمیں ایک زندہ دلیل ہو تا ہے اور اس بات کے ثبوت کے لئے کہ آیا کسی شخص کو واقعی الہام ہوتا ہے یا نہیں خدا تعالیٰ نے یہ علامت رکھی ہےکہ ایسا شخص غیب کی خبریں بتاتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہیں مگر اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ہر ایک غیب اس پر ظاہر ہوتا ہے بلکہ میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ بعض خبریں غیب کی خدا تعالیٰ پیش ازوقت بتاتا ہے تاکہ لوگوں کو اس بات کا ثبوت ہے کہ در حقیقت یہ شخص جھوٹا نہیں ہے بلکہ میری طرف سے ہے اور اس کا دعوی سچا اور بادلیل ہے مگر چونکہ غیب کی خبریں تو بعض دفعہ نجومی اورجوتشی بھی دیتے ہیں اور بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ان کی باتیں پوری ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ ہرموسم میں کچھ نہ کچھ بکتے رہتے ہیں آخر کوئی نہ کوئی بات پوری ہونی ہی ہوگئی اور پھر یہ کہ ایک کہتاہے بارش ہوگی.وو سرا کہتا ہے کہ نہیں ہو گی آخر ان دونوں میں سے ایک کی بات تو پوری ہو گی پس جس کی بات پوری ہو گئی اس کی دھاک بندھ گئی اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے پاک بندوں اور ان دنیاکے کیڑوں کے درمیان فرق رکھا ہے ایک تو یہ ہے کہ

Page 110

نجومی کی بات تو بھی پوری ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی.مگر ان لوگوں کی پیشگوئیاں ہمیشہ پوری ہو کر رہتی ہیں ہاں عذاب کی پیشگو ئیاں بعض دفعہ مل جاتی ہیں مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جن کی نسبت وہ پیشگوئی ہوئی ہو تو بہ کریں اورگناہوں سے بچیں اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کر کے خدا سے عفو مانگیں اور اس صورت میں ان کی سچائی اور بھی صفائی سے ظاہر ہوتی ہے.دوسرا یہ فرق ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی پیشگوئیاں اپنے اندر ایک خدائی جلال رکھتی ہیں جن کے پورا ہونے سے ان کی برائی اور ان کے مخالفوں کی ذلت ہوتی ہے پھر ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ظہور کے وقت لوگ خواہ مخواہ ان کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ نجومیوں کی مخالفت کوئی نہیں کرتا اور ان کے ساتھ مخالفت کرنے کا نتیجہ آخر یہ ہوتا ہے کہ دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں اور سب سے بڑی ان کی سچائی کی دلیل نصرت الٰہی ہوتی ہے یعنی دعاؤں کا قبول ہو نا، دوستوں کی تعداد اور فرمانبرداروں کی جماعت کا بڑھنا، دشمنوں کاپے در پے ہلاک ہونا اور زمینی اور آسانی عمارتوں کا جمع ہونا غرضیکہ یہ ایسے امور ہیں کہ عقلمند آدمی ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جبکہ وہ ایسا زمانہ دیکھے وہ آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیامدعی جھوٹا ہے یا سچا.اور اس کو خدا کی طرف سے دحی ہوتی ہے یا القائے شیطانی ہو تا ہے.جیسا کہ ابو بکرؓ نے نبی کریم ﷺ کادعوی ٰسنتے ہی قبول کیا اور فراست سے سمجھ لیا کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور اس زمانہ میں مولوی نور الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فورا پہچان لیا اور ایمان لائے کہ یہ شخص کاذب نہیں اور اس کا بدلہ ان لوگوں کو یہ ملتاہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک باقی لوگوں کی نسبت زیادہ مقرب ہو جاتے ہیں مگر باوجود آسان ہونے کے ایسے لوگوں کاپہچاننا مشکل بھی ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ مومن اور منافق میں فرق کرنے کے لئے لوگوں کو ابتلاءمیں بھی ڈالتا رہتا ہے پس بڑاہی دلیر ہو تاہے وہ انسان جو کہ باوجور ابتلاؤں کے ایسے شخص کو قبول کرتا ہے اور آفات و مشکلات زمانہ سے بالکل بے خوف و خطر رہتا ہے.اب میں اصلی مطلب کی طرف لوٹتا ہوں کہ اسلام میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جووحی الہٰی سے مستفیض بھی ہوتے ہیں اور ان کی بدولت دو سروں کو بھی الہام ہو جاتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان کی تصدیق کریں اور الہام پر یقین کریں کہ یہ بھی کچھ چیز ہے اور عام لوگوں کو بھی ان کے زمانہ میں سچی خوابیں آتی رہتی ہیں تاکہ وہ بھی الہام کے وجود میں شک نہ لائیں پس کیا ایسامذ ہب قابل قدر ہے جو کہ خود اسے ہم کلام کروا کر انسان کی تسلی کر تا ہے یا وہ جس میں ہمیشہ کے لئے مکالمه و مخاطبہ کا دروازہ بند کیا گیا ہے؟ اور

Page 111

یہ لوگ اپنی شوخی کی وجہ سے یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا بھی کبھی کبھی خوش ہو کر اپنے بندوں سے ملاقات کرتا ہے مگر ان دریدہ دہن مخالفوں کو اس وقت یہ بات بھول جاتی ہے کہ پرمیشور بھی ایک زمانہ میں رشیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیا کرتا تھا اگر وہ کوئی عیب کی بات نہیں تو یہ بھی نہیں.میں افسوس کرتا ہوں کہ ان لوگوں کو قطعاً خیال نہیں آتا کہ ایک مردے اور زندے کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے یا ایک اندھے یا سوجا کے کاکیاجوڑہے اگر دوسرے مذہب مردہ ہیں تو اسلام زندہ ہے کیونکہ وہ اس زندگی کے پانی سے محروم ہیں جو کہ وحی کے رنگ میں اسلام میں ہر دم تازه روح پھونکتا ہے اور دوسرے مذاہب اگر اندھے ہیں تو یہ اسلام سوجا کھا ہے کیونکہ دوسرے مذاہب کی روحانی آنکھیں وحی کی روشنی سے محروم ہیں اوراسلام کی آنکھوں میں دن رات وحی و الہام کی روشنی کا سرمہ ڈالا جاتا ہے اگر انسان غور کرے تو یہ بات سمجھ میں آنی کچھ مشکل نہیں ہے کہ وحی کے بغیر محبت کامل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ کیا ثبوت ہےکہ خدا قادر ہے اور وہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے جب کہ ہم کو کوئی جواب ہی نہیں ملتا تو ہمارےپاس اس کے ہونے نہ ہونے کی کیا دلیل ہے اور جبکہ ہم کو اس کے وجود کا یقین نہیں تو اس سےہماری محبت کامل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اس محبت کے کامل ہونے کے لئے الہام کی سخت ضرورت ہےاور یہ زندہ ثبوت اسلام کے پاس ایسا موجود ہے جس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کچھ بھی نہیں پیش کر سکتے.اگر غور کیا جائے تو وہی ایک پانی کے چشمہ کی طرح ہے اور مذاہب درختوں کی طرح.پس اسلام تو وہ درخت ہے جو کہ عین چشمے میں کھڑا ہے اور جس کی جڑوں میں ہر وقت پانی جذب ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ درخت تازہ اور سرسبز رہتا ہے اس کی ٹہنیاں نرم پتے سبز پھول خوشبودار اور کچل شیریں اور تازہ ہیں مگر دوسرے مذاہب اس درخت کی طرح ہیں جو کہ پانی کی بہت ضرورت رکھتا ہو اور خشکی سے اس کی چھال گر رہی ہو اور جس کے اردگرد کوسوں تک پانی کا نام و نشاں نہ ہو اور جس کے پتے گر گئے ہوں پھل کبھی لگاہی نہ ہو پس کیا وہ درخت جو کہ چشمہ میں ہے نفع رساں ہے یا وہ جو کہ خشک کھڑا ہے.سبز درخت سے تو بہت فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں مگراس درخت ِخشک سے سوائے ایندھن کے اور کیا کام لیا جاسکتا ہے.اب میں اپنے مضمون کے خاتمہ پر ہو گیا ہوں کیونکہ میں نے ثابت کیا ہے کہ غیر مذاہب کے خدااس قابل نہیں ہیں کہ ان سے محبت کی جائے اور ان کی تعلیم ایسی ناقص ہے کہ انسان اس پر عملدرآمدنہیں کر سکتا مگر ساتھ ہی یہ بھی ثابت کر چکا ہوں کہ اسلام پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا اور اسلام کی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے اور خدا قادر

Page 112

مطلق ہے اور کل عیوب سے پاک ہے اور سب سے بڑی خصوصیت اسلام میں یہ بتاتی ہے کہ اس میں محبت کرنے والے کو بالکل صاف جواب نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ اس کے امتحان کے بعد اس سے ہم کلام ہوتا ہے اور اسی محبت کی گرمی کو جو محبت کرنے والےکے دل میں ہر ایک چیز کو جلا رہی ہوتی ہے اپنے تسکین دہ کلام سے ٹھنڈا کرتا ہے اور اس سوزش اورجلن کو دور کرتا ہے جو کہ جواب کے نہ ملنے سے پیدا ہوتی ہے اور اس طرح محبت اور بھی چمک اٹھتی ہے اور اس کے دل میں ایک جوش پیدا ہوتاہے کہ میں خدا کے اور بھی قریب ہو جاؤں اور اس طرح بڑھتے بڑھتے وہ یہاں تک نزدیک ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی نسبت فرماتا ہے اثت ميث و أنا من یعنی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا نام دنیا میں تیرےسبب سے ظاہر ہے اور تیری عزت میرے سبب سے ہے اور درحقیقت خدا تعالیٰ کے نام کا جلال دنیا پرظاہر کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ اس کی محبت کے دریا میں غرق ہوتے ہیں اوران کی عزت صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں.میں محبت الہی کے لفظ پر جس قدر سوچتا ہوں اسی قدر ایک خاص لذت اور وجد دل میں پیدا ہو تا ہے کہ کیا پیارا ہے مذہب اسلام جس نے ہم کو ایسی نعمت کی طرف ہدایت کی ہے جس سےہمارے دل روشن اور ہمارے دماغ منور ہوتے ہیں.اسلام کی تعلیم ہمارے زخمی دلوں کے لئےایک مرہم کا کام دیتی ہے اور اگر اسلام نہ ہو تاتو بخداطالب حق تو زندہ ہی مر جائے اور وہ جن کےدلوں میں محبت کا ذوق ہے ان کی کمر ٹوٹ جاتی.اور محبت ایک ناممکن و جوردسمجھی جاتی.اور اس کووہم سے موسوم کیا جا تا.کیونکہ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے ہم محبت کرسکیں تو وہ محبت کے وجود میں شک لانے کے سوا اور کیا کر سکتے.خدا نے اسلام سامذ ہب انسان کو عطاکر کے غمگین دلوں کو تسکین دی ہے.اور زخمی سینوں کو مرہم عنایت کی ہے، جب ایک خدا سےمحبت کرنے والا انسان دیکھتا ہے کہ وہ جس سے میں محبت کرتا ہوں ایک ذرہ ذرہ کو دیکھتا ہے.اور دلوں کی باتوں کو جانتا ہے وہ سنتا ہے اور بولتا ہے اور پھر یہ کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے سےمحبت کرنے والے کو بدلہ دے تو اس وقت وہ اپنے دل میں اس محبت کی وجہ سے ایک خوشی حاصل کرتا اور خاص لذت محسوس کرتاہے.اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں تم سب کو خداکے ساتھ اخلاص اور محبت نصیب ہو اوروہ لوگ جو گمراہ ہیں ہدایت پائیں اور اس ہستی سے محبت کریں جو کہ محبت کے لائق ہے.آمین.(تشحيذ الا ذہان مارچ ۱۹۰۷ء) خاکسار میرزا محموداحمد

Page 113

Page 114

......صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر بعض اعتراضات کا جواب از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد

Page 115

Page 116

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم دیباچہ ناظرین کو اس بات سے ناواقفیت نہیں ہے کہ ۲۶مئی ۱۹۰۸ء کو بوقت ساڑھے دس کےحضرت اقدس مسیح الزماں مہدی داران ؑنے اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کیا اور خدا کا وہ کلام جو اس کے مسیح پر نازل ہوا تھا پورا ہوا کہ وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی.۲۵ مئی۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس تندرست تھے.اور سوائے پرانی بیماری دستوں کے جو کہ قریبا ایک مہینےسے پھر لاحق ہو رہی تھی اور سب طرح خیریت تھی اگرچہ اس بیماری کی وجہ سے نقاہت ہو رہی تھی مگر چونکہ مدتوں کی تھی اس لئے چنداں خیال نہ تھا.اور اسی حالت میں حضرت نے لاہور میں کئی تقریریں کیں اور ایک کتاب پیام صلح لکھی جو ۳۱ مئی کو ایک بڑے جلسہ میں سنائی جانے والی تھی مگر خدا کی باتوں کو کون جانتا ہے.شام کے وقت آپ سیر کو گئے اور وہاں سے واپس آکر فرمایا کہ آج مجھ کو بہت دست آرہے ہیں اور نقاہت زیادہ ہے.قریباًدس بجے کھانا کھانے کے لئے بیٹھے اور راقم عاجز بھی آپ کے ساتھ تھا.ایک دو لقمہ کھا کر فرمایا کہ پھر دست آیا ہے.اور کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے.رفع حاجت کے بعد آکر پلنگ پر لیٹ گئے اور طبیعت بہت کمزور تھی مگر ابھی زیادہ تکلیف نہ تھی تقریبا دو اڑھائی بجے مجھے جگوایا جب میں اٹھا تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدسؑ بہت بیمارہیں اور ایک دو دست اور بھی آ چکے ہیں ڈاکٹر موجود تھے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ خليفة اللہ بھی دعاو ودوا میں مشغول تھے.کوئی تین ساڑھے تین بچے نبض بالکل ساکت ہوگئی اوردل کی حرکت بند ہو گئی مگر ایک منٹ کے بعد ہی پھر آپ کی حالت رو بصحت ہو گئی.اور آپ نےآنکھیں کھول دیں صبح ساڑھے چھ بجے تک ہوش رہا مگر پھر آپ سو گئے اور اسی حالت میں قریبا ساڑھے دس کے آپ کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ.

Page 117

اگرچہ الہام الٰہی صاف طور سے آپ کی وفات کی خبر دے رہے تھے لیکن بوجہ محبت کے اس طرف خیال نہ جاتا تھا کہ اتنی جلدی آپ کی وفات ہوئی.مگر حضرت اقدس سمجھ چکے تھے کہ میری وفات قریب ہے چنانچہ یہ بات الوصیت سے صاف طور سے ظاہر ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد وقتاً فوقتاً گھر میں اس کا ذکر کرتے رہے تھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو متواتر خبر مل رہی ہے کہ تیری وفات قریب ہے.غرضیکہ یہ آپ کی وفات ہے جس نے مجھ کو اس رسالہ کے لکھنے کی تحریک کی ہے.اور چونکہ مخالفین سلسلہ نے اپنی پرانی عادت کے مطابق اس موقعہ پر بھی بہت کچھ زہر اگلا ہے اور اپنے نفسانی گندوں کا اظہار کیا ہے اور حضرت کی وفات پر بہت کچھ اعتراض کئے ہیں.اس لئے راقم عاجز کےدل میں خداوند تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کی کہ میں ان تمام اعتراضوں کا جو مجھ تک پہنچے ہیں اور عام طور پر شائع کئے جاتے ہیں جواب دوں اور حتی الوسع مخالفین کی خباثت کو ظاہر کروں کہ وہ کن کن فریبوں اور جھوٹوں سے کام لیتے ہیں چنانچہ اس رسالہ میں علاوہ دیگر مفید باتوں کے عبدالحکیم مرتد اور ثنا ء اللہ کی لن ترانیوں کے جواب بھی دیئے گئے ہیں اور جو حضرت اقدسؑ کی پالیسیوں پراعتراض کئے جاتےہیں ان کاردّ بھی کیا گیا ہے.وما توفيقي إلا بالله العلي العظيم والسلام خاکسار مرزا بشیر الدین محموداحمد

Page 118

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تمہید اور بعض نہایت ضروری باتیں اَشْہَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ خدا تعالیٰ کے پاک کلام كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإكْرَامِ (الرحمان : 27،28)کے مطابق جو کوئی پیدا ہوا وہ فوت ہوا.اور جو آئندہ پیدا ہو گا وہ بھی فوت ہو گا.سوائے خدا کی ذات و احد کے اور کوئی نہیں جو ہمیشہ ہو اور ہمیشہ رہے.آج سے تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو وفات دے کر اس بات کو ایسی طرح ثابت کردیا کہ کوئی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں رہی اور آج تیرہ سو سال آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی وفات نے خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کیا اور ثابت کردیا کہ کوئی شخص خواہ خدا تعالیٰ کا کیساہی پیارا ہو اور کتنی ہی بڑی شان کا ہو.آخر بشر ہے اور مخلوق ہے اور ایک دن اس کے لئےمرنا ضروری ہے.مگر مبارک وہ جو ان باتوں سے نصیحت پکڑے اور اپنے نفس کو شرک کی ملونی سےپاک رکھے.چونکہ نبیوں کا کام بھی دنیا سے شرک اور دوسرے گناہوں کا دور کرنا ہوتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ اپنے نام کی چمکار د کھلانے کے لئے ان کے ہاتھوں سے ایسے نشان د کھلاتا ہے کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کا وجود روز روشن کی طرح ثابت ہو جا تا ہے اور دنیا گویا کہ خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے اور ان کی وفات کے ساتھ بھی ایسے نشان وابستہ ہوتے

Page 119

ہیں کہ ان کی موت بھی چشم سیرت رکھنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات کا ایک بین ثبوت ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش اور وفات بھی تمام نبیوں کی طرح ہوئی.آپ کے لئے پیشگوئی تھی کہ آنے والا مسیح توام پیدا ہو گا اور اس کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرتؑ کی پیدائش دنیا کے لئےایک نشان قرار دی گئی کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کی شوکت اور جلال ثابت ہوا.اور اس کے ایک بزرگ بندے کا کلام جو اس نے خد اسے خبرپا کر کیا تھا پو را ہوا.اور پھر آپ ؑکی وفات بھی سنت انبیاء کے مطابق ایک نشان کے طور پر ہوئی.کیونکہ آپ ؑنے اپنی وفات پانے سے پہلے ہی دنیا کو اس بات کی خبر دے دی تھی کہ میں عنقریب وفات پانے والا ہوں.چنانچہ آپ نے دسمبر۱۹۰۵ء میں رسالہ الوصیت شائع کیا اور اس میں بو ضاحت اس امر کو لکھ دیا کہ اب میں بہت جلد وفات پانے والا ہوں اور اپنے پیدا کرنے والے اور مامور کرنے والے کی طرف جانا میرے لئے مقدر ہو چکا ہے.اس لئے میں اپنی وصیت کو شائع کرتا ہوں.چنانچہ اس الوصیت کے شروع میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ " چونکہ خدائے عزوجل نے متواتر دحی سے مجھے خبردی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے اور اس بارہ میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو میرے پر سردکرد یا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو میرے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں‘‘ - الوصیت صفحہ ۳، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱) اور پھر آگے چل کر یوں تحریر فرمایا ہے.کہ" سواے عزیزو! جبکہ قدیم سےسنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھا تاہے.تامخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے ، سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارےدل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آناتمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دو سری قدرت کو تمهارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے.بلکہ تمہاری نسبت و عدہ ہے.جیسا کہ خدافرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک رو سروں پر غلبہ دوں گا.“ وضرورہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے.تا بعد اس کے وہ دن آوے جودائمی وعده کاون ہے.وہ ہمارا.

Page 120

خداوعدوں کا سچا اور وفادار اور صاوق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پرضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے.جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبردی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا.اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے.جو دو سری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعاؤں میں لگے رہیں.تادو سری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدایسا قادر خداہے.اپنی موت کو قریب سمجھو.تم نہیں جانتے کہ کس وقت دوہ گھڑی آجائےگی.(رساله الومیت صفحہ ۸.۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵-۳۰۶) اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اب آپ کی زندگی کے بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اورقریب ہی وہ خدا کا پاک و جود ہم سے اٹھایا جانے والا ہے ، چنانچہ اسی الوصیت میں یہ الہام الہی درج ہیں کہ "بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس وان سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہو گا.یہ ہو گا.یہ ہو گا.بعد اس کے تمهارا واقعہ ہو گا.تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمار احادثہ آئے گا اور پھر آپ نے جماعت کی نازک حالت کو ملاحظہ کر کے اس خوف سے کہ کہیں یہ ابتداء میں نہ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں آنے والے ابتلاؤں سے ان کو آگاہ کیا." مبارک وہ جو خدا کی بات پرایمان رکھے.اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمهاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے.وہ جو کمی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدانہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اوران پر مصائب کے زلزلے آئیں گے.اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھاکریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر فتح یاب ہوں گے.اوربرکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایساایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق با بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کےپسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے" (رسالہ الومیت صفحہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۹)

Page 121

اور پھر آپ کی وصیت پر ہی بس نہیں ہوئی.بلکہ اس کے شائع ہونے کے بعد بھی متواتر ان الہامات کا سلسلہ جاری رہا.اور خدا تعالیٰ نے بار بار اپنے بندے کو اس بات کی اطلاع دی کہ اب تیرا وقت قریب آگیا ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ اہل بیت اور دیگر جماعت کی تسلی کے لئے بھی کلام الٰہی نازل ہوتا رہا.چنانچہ مندرجہ ذیل الہامات اور رویائے صالحہ جو اس بارے میں ہوئےاختصار کے ساتھ یہاں بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں."رویا میں میں نے مولوی عبد الکریم صاحب کو دیکھا اور فوت شدہ خیال کر کے ان سے کہا کہ میری عمر اتنی ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مل جائے.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحصیلدار - میں نے انہیں کہا کہ آپ غیر متعلق بات کیوں کرتے ہیں.جس امر کے لئے کہا ہےاس کے لئے دعا کریں تو انہوں نے سینہ تک ہاتھ اٹھائے مگر آگے نہ اٹھائے.اور کہا کہ اکیس.اکیس.اکیس اور یہی کہتے ہوئے چلے گئے.اب اس خواب پر غور کرتے ہوئے ہر ایک صاحب سیرت رکھ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے.کہ حضرت اقدسؑ کے دعا کے لئے کہنے پر مولوی صاحب نےشرح صدر سے دعا نہیں کی.کیونکہ ان کو خدا کی طرف سے علم دیا گیا تھا.کہ جس قسم کی تکمیل حضرت اقدسؑ چاہتے ہیں وہ نہ تو انبیاء کی سنت سے ہے.اور نہ آپ کو اتنی عمرملنی ہے.اس لئےانہوں نے منہ تک ہاتھ اٹھانے کی بجائے سینہ تک ہاتھ اٹھا کر روک لئے اور اس بات کو خودحضرت اقدسؑ نے بھی محسوس کیا.کیونکہ آپ نے خواب کو لکھتے ہوئے ذکر کیا ہے.کہ مولوی صاحب نےسینے تک ہاتھ اٹھائے ہیں اور آگے نہیں اٹھائے.پھر مولوی صاحب کا اکیس، اکیس.اکیس کہنا ظاہرکرتا ہے.کہ اکیس کا لفظ آپ کی تبلیغ کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.کیونکہ آپ کا سوال مولوی صاحب سے یہ تھا کہ مجھ کو اتنی عمرملے کہ اللہ کی تبلیغ کے لئے کافی ہو اور اس کے جواب میں مولوی صاحب نے اکیس کا لفظ فرمایا ہے.یعنی تمہاری اس تبلیغ کا وقت اکیس تک ہو گا.چنانچہ واقعات کو دیکھنے سے اس خواب کی سچائی بڑے زور سے ثابت ہوتی ہے.کیونکہ حضرت اقدس ؑکا اشتہار بیعت جمادی الاول ۱۳۰۶ھ میں شائع ہوا ہے.اور اکیسویں سال اسی مہینے میں آپ کا انتقال ہوا.اور اسی طرح ۱۸۸۸ء میں اشتہار بیعت نکلا - اور ۱۹۰۸ء میں وفات ہوئی.جس سے اس خواب کی تعبیر خوب واضح ہوگئی کہ اس خواب سے یہ مراد تھی کہ اکیسویں سال آپ کی وفات ہو گی.پس ہر ایک عقلمند اور دانا اس بات سے نصیحت پکڑ

Page 122

سکتا ہے.اور دیکھ سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کا کلام اس کے مسیح موعودؑ پر نازل ہو کر کس شان و شوکت سے پورا ہؤا.)کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ یہ خواب آج بنائی گئی ہے بلکہ آج سے اڑھائی سال پہلے بدر ،الحکم، اور ریویو آف ریلیجیز مؤرخہ ۲۰-دسمبر۱۹۰۵ء میں شائع ہو چکی ہے.اور پھر اسی کے ساتھ کی ایک خواب انہیں دنوں کی ہے.جس سے اس خواب کے معنی اور بھی کھل جاتے ہیں.اور وہ اسی نمبر ریویو آف ریلیجنز میں اور دیگراخباروں میں شائع ہو چکی ہے.کہ’’ ایک کوری ٹنڈمیں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ پانی اس میں رہ گیا ہے٭ لیکن بہت مصفیّٰ اور مقطرپانی ہے.اس کے ساتھ الہام تھا.آب زندگی.(تذکرہ صفحہ ۵۷۳)اب دیکھنا چاہئے کہ ۱۹۰۵ء کے آخر میں یہ الہام اور رویا ہوئے ہیں.اوراس وقت بتایا گیا ہے کہ تیری زندگی کے صرف دو تین سال رہ گئے ہیں.چنانچہ پورے اڑھائی سال کے بعد حضرت اقدس ؑنے وفات پائی.اور یہ اس لئے ہوا کہ خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہوئے بغیر نہیں رہتیں.اور وہ جو اس کے کلام کی مخالفت کرتے ہیں.وہ خودذلیل و خوار ہوتے ہیں.اور دین و دنیا میں ان کی رسوائی ہوتی ہے.اور وہ اس وقت تک نہیں مرتے جب تک کہ خدا ان پر اپنی حجت قائم نہ کر دے اور دنیا ان کی کذب بیانی پر آگاہ نہ ہو جائے.جس طرح نبی اپنی نیکی اور تقویٰ اورخدا کی راہ میں قربان ہونے سے اس کی عزت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرتے ہیں یہ لوگ بھی اپنی حدسے بڑھی ہوئی شرارت اور بد زبانی اور حق کی مخالفت کی وجہ سے مورد ِعتاب الہٰی بن کر اس کےجلال کے دنیا میں پھیلانے والے ہوتے ہیں.یہی لوگ سب سے زیادہ نبیوں کے نام کو مٹانا چاہتےہیں.مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان سے زیادہ ان کے نام کا روشن کرنے والا کوئی اور بھی ہے.یہی لوگ ہیں جو ہمیشہ خدا کے قائم کئے ہوئے سلسلوں کی تباہی کے لئے دن رات لگے رہتے ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان سلسلوں کی ترقی کے لئے ان سے زیادہ کوئی اور بھی کوشاں ہے.یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں گمراہی اور ضلالت پھیلائیں.مگر خداانہی کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں سے ان سعید روحوں کو جومحبت الٰہی کے لئے دیوانوں کی طرح ہوتی ہیں ہدایت دیتا ہے.اور ان کے دلوں میں ایک ایسی تڑپ پیدا کر دیتا ہے کہ خدا کے رسولوں کے دیکھنے کے بغیر ان کو چین نہیں آتا.اور جب وہ ان ہدایت کے سرچشموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں تو پھر کوئی دنیوی طاقت ان کو ان کی اطاعت سےنہیں روک سکتی.الغرض خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں پر اس لئے نشانات کی بارش برساتا ہے کہ تا ٭’’باقی رہ گیا ہے‘‘ ثابت کرتا ہے کہ پہلے زیادہ تھا.مگراب خرچ ہو کر دو تین گھونٹ رہ گیا ہے.یعنی دو تین سال آپ کی زندگی ہے.اور پھروفات ہوگی"

Page 123

ان کے ذریعہ خدا کا وجود دنیا پر ظاہر ہو جائے اور لوگ ان رسولوں کی سچائی میں شک نہ لائیں.چنانچہ ایسی قدیم سنت اللہ کے مطابق ہمارے حضرت اقدس ؑسے بھی خداوند تعالیٰ کا ایسا ہی سلوک ہوا.اور صرف ان کی زندگی میں ہی ان کے ہاتھ پر نشانات نہیں دکھائے گئے بلکہ ان کی وفات خودایک نشان ہے مگر اس کے لئے جو آنکھیں رکھتا ہو.اور وفات کے بعد بھی بہت سے ایسے نشانات ہیں جو دکھائے جاویں گے اور جن کی اطلاع خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کے ذریعہ سے ایک مدت پہلے ہم کو دیدی ہے.اور قطع نظر اور نشانات کے حضرتؑ کی وفات خود ایک ایسا زبردست نشان ہے کہ ایک صاحب بصیرت کے ماننے کے لئے کافی ہے.کیونکہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص اپنےمرنے سے تین برس پہلے اپنی وصیت شائع کر دے.اور اس میں لکھ دے کہ عنقریب اب میں فوت ہونے والا ہوں، اور میری وفات اچانک ہوگی.اور اڑہائی تین سال کے بعد جبکہ میری تبلیغ کا اکیسواں سال ہو گا اس وقت یہ واقعہ ہو گا.اور پھر انہیں خوابوں اور الہاموں پر ہی حصر نہیں بلکہ اور بیسیوں امام ہیں جن سے تاریخ وفات اور مہینہ تک بھی ثابت ہوتاہے.چنانچہ ایک الہام ہے.علم الدرمان ۲۲۳ (تذکرہ صفحہ ۶۷۷ )اور یہ الہام ۱۵.اکتوبر۱۹۰۶ء کا ہے.علم عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں جاننا.اور درمیان ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنی ہیں علاج – یعنی علاج کا علم ۵ اکتوبر سے ۲۲۳ دن بعد ہو جائے گا.اب دیکھنا چاہئے کہ ۱۵.اکتوبر سے دو سو تیئسواں دن کون سا ہے.سو حساب لگا کر دیکھو کہ وہ دن ۲۵- مئی ۱۹۰۸ء ہے.چنانچہ اس الہام کے مطابق حضرت اقدسؑ ۲۶ مئی کو فوت ہوئے.اب ایک اور غور طلب امر ہے جس کا شاید مخالف کم فہمی سےانکار کر دے.اور وہ یہ کہ الہام تو ہوا ہے ۱۹۰۶ کو اور فوت ہوئے ہیں ۱۹۰۸ء میں تو یہ ایک سال اور ۲۲۳ دن ہوئے.سو یاد رہے کہ اس کی دو وجوہات ہیں.اول تو یہ کہ اس کے ساتھ ہی الہام ہےکہ ان المنايا لا تطيش سها مھا( تذکرہ صفحہ۲۷۸)یعنی موت کے تیر خطا نہیں جاتے.(اس سےبھی ثابت ہے کہ یہ ۲۲۳ والا الہام موت کے متعلق ہے) اور پھر اس کے بعد الہام ہوا.انا نرينک بعض الذی نعدھمم نزید عمرک( تذکرہ صفحہ ۶۷۹ )د یکھور یو یو آف ، ریلیجیز مؤرخہ ۲۰ نومبر۱۹۰۶ء) یعنی تیری وفات تو۱۹۰۷ء میں ہی تھی مگر ہم نے اس عمر کو بڑھا دیا.چنانچہ پورے ایک سال تک عمر میں ترقی دی گئی.اور ایک سال کے بعد وہ حساب شروع ہوا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرتؑ کی وفات ۲۹ مئی کو تھی.اور اگر آپ ۱۹۰۷ء میں فوت ہو جاتے تو ایک تو چند معاندین سلسلہ شور مچا دیتے کہ ہماری پیشگوئی کی معیار کے اند ر فوت ہوئے.اور ایک یہ کہ

Page 124

۲۷ اس وقت تاریخ کو آپ کی وفات ٹھہرتی.اس لئے ضروری تھا کہ آپ کی وفات لیپ ایر (یعنی جس سال میں فروری کے ۲۹ دن ہوں) میں ہوتی تاکہ پورے ۲۲۳ دن کے بعد ۲۶مئی کو فوت ہوں.پس صاف ثابت ہو تا ہے کہ آپ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہونی چاہئے تھی جو کہ لیپ ایر ہے نہ کہ ۱۹۰۷ء میں جس میں فروری کے ۲۸ دن ہوتے ہیں.اور ۲۲۳ دن ۲۶/ مئی تک ختم نہیں ہوتے.بلکہ ۲۷ کو ختم ہوتے ہیں.اب غور کرنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کی کھلی اور بّین ہے.ہاں اگر مخالف اب بھی انکارکریں تو سوائے حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کے کہ "إنما أشكو بثی و حزنی الی اللہ"ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں.ایک نبی آیا اور ان کے لئے رات اوردن غم کھا کر اس دنیا سے اٹھ گیا اور یہ لوگ اب تک اس سے انکار کرتے ہیں.ہماری خدا سے یہ خواہش نہیں کہ یہ مخالف ہلاک ہوں بلکہ دل ان کے لئے درد محسوس کرتا ہے.اور کڑہتا ہے.اور ایک تڑپ ہے کہ خدا ان کو ہدایت دےاور اپنے نبی کی شناخت ہے.اگرچہ یہ لوگ ہم پر طعن و تشنیع کرتے ہیں.مگر ہم ان کے لئےدعائیں کرتے ہیں کہ اے خداۓ قادر تو ہمارے دلوں کو جانتا ہے اور تجھے علم ہے کہ ہمارے دل ان گم گشتہ راہوں کے لئے کیسی تکلیف پاتے ہیں.پس اسے عالم الغيب والشہادۃ ہمارے دکھوں اورتکلیف کو دیکھ ہم پر رحم کر اور ان غموں سے ہم کو چھڑا اور ہمارے بھائیوں کو ہدایت اور نور کاراستہ جو تیرانبی ہمارے لئے کھول گیا ہے بتا.اور انہیں اس کی شناخت کی توفیق عطا کر.ہاں وہ جوشرارت میں حد سے بڑھتے ہیں اور دو سروں کو بھی ہدایت کی راہ سے روکتے ہیں اور ہنسی اور ٹھٹھاکرتے ہیں ان کی حالت کو دیکھ کر بے اختیار ان کی ہلاکت کی دعا نکلتی ہے.نہ اس لئے کہ ہمیں ان سے کچھ عداوت ہے بلکہ اس لئے کہ ان کی وجہ سے دوسرے لوگ اس چشمہ معرفت سے سیراب ہونے سے محروم نہ رہ جائیں اور شدت پیاس سے ہلاک نہ ہو جائیں جو کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی حالت کی طرح ان کی حالتوں پر رحم کھا کر اپنے نبی کے ذریعہ سے ان پر ظاہر کیا ہے.پھر ایک الہام ۲۸ ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے جو مدت سے دنیا میں شائع ہو چکا ہے.اور وہ ’’داغ ہجرت‘‘( تذکره صفحہ۷۷۲)ہے، اب غور کرنے والے دیکھیں کہ ہجرت ہو ئی تو کیسی ہوئی.فوت ہوئےتوکہاں لاہور میں جہاں اس واقعہ کے ہونے کا کسی کو وہم تک نہ تھا.اگر چہ خدا تعالیٰ اپنی وحی میں صاف طور پر لاہور کا ذکر بھی کر چکا تھا.غرض اس دنیا سے ہجرت ایسے وقت میں ہوئی جب اپنے وطن سے بھی دور تھے اب اس سے زیادہ ہجرت کیا ہو سکتی ہے.پھربیسں فروری ۱۹۰۷ء کو الہام ہوا کہ افسوسناک خبر آئی اور انتقال ذہن لاہور کی طرف ہوا.چنانچہ ایسا ہی وقوع

Page 125

۱۹۰۷ میں آیا.پهر ۲/مارچ ء کو الہام ہوئے (ریویو جلد۶ نمبر۳)إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا.ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.یايها الناس اتقوا ربکم الله خلقكم.اے میرے اہل بیت خدا تمہیں شرسے محفوظ رکھے - انت مني و انا منك.انت الذي طار إلى روحہ ربنا افتح بيننا وبينهم اعجبتم أن تموتوا، ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں »٭ (الہامات ۲.۷مارچ ۱۹۰۷ء تذکره ۷۰۰.۷۰۱)، اب دیکھنا چاہئے کہ یہ سب الہام ایک وقت اور ایک دن کے ہیں.اور اکٹھے ہوئے ہیں.اور ان سے صاف طور سے حضرتؑ کی وفات نکلتی ہے.اور ان الہاموں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ حضرت اقدسؑ قادیان سے کہیں باہر فوت ہوں گئے اور آپ کی لاش کفن میں لپیٹ کر یہاں لائی جائے گی.پھر ۲/ دسمبر ۱۹۰۷ء کو یہ الہام ہوا ہے کہ’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید ‘‘- ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق الله خيروابقى ”خوشیاں منائیں گے‘‘ - الہام ۲۰ د سمبر ۱۹۰۷ء تذکره ۷۴۵)"وقت رسید‘‘ - اب اگر ان الہاموں کو ملا کر دیکھا جاوے.تو صاف ثابت ہوتاہے کہ عنقریب آپ کی وفات ہونے والی ہے.اور ۲۷ تاریخ سے اس واقعہ کا کچھ تعلق ہو گا.چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ ستائیس کو قادیان میں دفن کئے گئے.اور ساتھ ہی الله خيروابقی کا الہام ہے.یعنی زند ہ تو صرف خدارہتا ہے.ورنہ سب نے آخر کار مرنا ہے اور کوئی نہیں جو پیدا ہو اور مرے نہیں.پھر آگے ہےکہ خوشیاں منائیں گے "یعنی مخالفان سلسلہ اس دن بہت ہی خوش ہوں گے.اور پھر دوباره وضاحت سے بیان فرمایا کہ "وقت رسید"یعنی تیراوقت آپہنچا.پھر ۲۶/ اپریل ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا.کہ " مباش ایمن از بازئی روزگار".چنانچہ اگلے مہینہ اسی وقت اور اسی تاریخ کو حضرت اودسؑ بیمار ہوئے.پھر لاہور جا کر الہام ہوا، کہ \"مکن تکیہ بر عمرناپائیدار " ٭(تذکرہ صفحہ ۷۵۶) پھر الہام ہو الرحیل ثم الرحیل (تذکرہ صفحہ ۷۵۶، یہ بھی اس بارےمیں تھا.پھر۷ مارچ ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا."ماتم کده ‘‘(تذکرہ صفحہ ۷۵۲ ء).اور پھر دیکھا کہ’’ جنازہ آتا ہے‘‘.اس سے یہ بھی معلوم ہو تا تھا کہ آپ کہیں باہر وفات پائیں گے.اب کیا کوئی عقلمند انسان اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ حضرتؑ کی وفات سنت انبیاء کے طور پر ہوئی اور خدا کے وجود کےلئے ایک بّین شہادت کے طور پر ہوئی.چنانچہ حضرت صاحب کا اس بارے میں ایک الہام ٭ اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ قادیان کے باہر فوت ہوں گے.جیسا کہ واقعہ ہوا.منہ * ٭اس الہام میں سنہ وفات بتایا گیا ہے.یعنی ۳۱۶ ہجری

Page 126

تھا جو کہ لفظ بہ لفظ پورا ہوا.اور وہ یہ ہے -قل إن صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمين چنانچہ اس کے مطابق حضرت اقدسؑ کی وفات ایک نشان کے طور پر ہوئی.اور خداکےوجود کو ثابت کرنے والی ہو گئی.پھر ایک پیشگوئی ہے جس میں موت کی پیشگوئی بھی ہے اور جماعت کوبھی تسلی ہے کہ موت قریب - إن الله يحمل کل حمل یعنی تیری موت قریب ہے.تو اپنے بعد جماعت کا فکر نہ کر کیونکہ خداوند تعالیٰ وہ تمام بوجھ خود اٹھائے گا.اس کے ساتھ اور بھی الہامات ہیں جو آپ کی موت کو ظاہر کرتے ہیں.مگربوجہ طوالت کے میں انکویہاں درج نہیں کرتا.اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت نے آج سے اڑھائی برس پہلے اپنی وصیت شائع کر دی تھی.اوراس میں صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ میرا وقت قریب آگیا ہے اور عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گااور خدا کی تقدر پر پوری ہونے والی ہے اور میں انبیاء کی سنت کے مطابق اس طرح فوت ہوں گا کہ لوگ سمجھیں گے کہ ناکامی رہی.مگر اصل میں ناکامی نہ ہو گی.اور خدا اپنی پوری طاقت اور جلال کےساتھ میرا نام روشن کرے گا.اور دنیا پر میری سچائی کو ظاہر کر دے گا.وہ لوگ جو اس وقت زنده رہیں گے وہ میری سچائی کو آنکھوں سے دیکھیں گے اور یہ وعدہ نہیں ٹلے گاجب تک خون کی ندیاں نہ بہا دی جائیں.اور عذاب الہی اس وقت تک نازل ہوتے رہیں گے اور مصیبتیں دنیا کو نہیں چھوڑیں گی جب تک کہ خدا کا نام دنیا پر روشن نہ ہو اور جب تک کہ وہ لوگ جو رات دن گناہوں میں پڑے رہتے ہیں اپنے افعال و اقوال سے باز نہ آئیں اور خدا کے لئے اپنے نفس کی قربانی نہ کریں اور خدا کے ارادہ کو اپنے لئے قبول نہ کریں اور میری سچائی پر ایمان نہ لائیں.کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کے برگزیدہ نبی محمدمصطفیٰﷺ کو تو مردہ خیال کیا جائے اور عیسی علیہ السلام کو اب تک آسمان پر زنده بہ جسم عنصری مانا جائے.یہ ایک ایسا گناہ ہے اور ہمارے پاک نبیﷺان کی اس قدر ہتک ہے کہ خداوند تعالیٰ کی غیرت اس کو برداشت نہیں کر سکتی اور ضرور ہےکہ وہ دنیا سے اس شرک کی بیخ کنی کرے.اور پھر متواتر وحی سے اس بات کی تائید ہوتی رہی اور خداوند تعالیٰ نے بار بار آنے والے واقعہ کی خبردی اور اس طرح کھلم کھلا اعلان کیا گیا کہ دوست تو دوست دشمنوں کو بھی اس سے انکارنہیں ہو سکتا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے تاریخ اور سال تک بھی مقرر کر دیا.چنانچہ آپ زندگی والی خواب میں بتا دیا کہ دو تین سال کے اندر اندر ہی آپؑ وفات پائیں گے اور ۲۲۳ دن والی رویا میں۲۹/ مئی اور لیپ ایر بتادیا.یعنی ۱۹۰۸ء میں.

Page 127

پس اب سوائے کسی بد بخت اور کور باطن انسان کے کسی کو انکار ہو سکتا ہے اور کونسی سعید روح ہے جو باوجود ایسے ایسے کھلے نشانوں اور زبردست تائیدات الٰہیہ کے اس خدا کے رسول ؑکا انکار کرے جو دنیا میں اپنا کام پورا کر کے اپنے بھیجنے والے کی طرف چلا گیا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ حضرتؑ کی وفات خود ان کی سچائی کا ایک زبردست نشان ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی اس سے ثابت ہوتی ہے اور اس کی طاقت اور جبروت ظاہر ہو تا ہے پھر بھی بعض کور باطن اور ضد و تعصب سے بھرے ہوئے اور دروغ و کذب بیانی کو شیر مادر سمجھنےوالے اس کو اپنی سچائی کا نشان قرار دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کی وفات ہماری پیشگوئی کے مطابق ہوئی.اور بعض ان میں ایسے ہیں جو اس کو مباہلہ کی وجہ سے قرار دیتے ہیں.اورنہیں سمجھتے کہ خدا کے رسولوں اور برگزیدوں کی مخالفت کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور وہ درخت جوخداگانا چاہتا ہے کوئی نہیں جو اس کو کاٹ سکے.کیا ان میں اتنی عقل نہیں اور وہ اس قدر شعور بھی نہیں رکھتے کہ ایک معمولی کسان درخت لگاتے ہوئے اس بات کا انتظام کر لیتا ہے کہ کوئی پرند چرند یا آدمی اس کو ضرر نہ پہنچا سکے.اور اس کے لئے وہ پہلے سے ایسی تدابیر عمل میں لاتا ہے کہ جس سے وہ پودا ان تمام حوادث زمانہ سے بچ رہے جو ممکن ہے کہ اس کو مضبوط جڑ پکڑنے تک پیش آئیں تو خداوند تعالیٰ نے جو ہر ایک بھی کا جاننے والا ہے اور تمام زمانوں کا علم رکھتا ہے اور ہر ایک بات پر قادر ہے، جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے.اور اس کے راستے میں کوئی شخص رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا.اور اس کے ارادہ کے بر خلاف خواہ تمام مخلوقات عالم مل کر کرنا چاہے تو بھی اس کے بر خلاف کچھ نہیں کر سکتے.اور اگر وہ چاہے تو ایک دم میں تمام مخلوقات عالم کو تباہ کر دے.کیونکہ وہ خالق ہے تمام چیزوں کا اور قادر ہے ہر ایک بات پر اور کوئی نہیں جو اس کے حکم کے بر خلاف دم بھی مارسکے کیو نکر اس درخت کو جو و ہ لگانا چاہتا ہے خالی چھوڑ دیا اور اس کے لئے حفالت کے سامان مقررنہیں کئے اور درندوں اور پرندوں کو اجازت دے دی کہ جس طرح چاہو اس درخت کو تباہ کر و -مگر میں ان لوگوں کو جو ایسا خیال کرتے ہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا.اورجب وہ دنیا میں ایک سلسلہ قائم کرنا چاہتا ہے اور اس طرح اپنے نام کی عزت جو بنی نوع انسان کےدلوں میں سے اٹھ چکی ہوتی ہے پھر دوبارہ بلند کرنا چاہتا ہے تو خواہ تمام دنیا اس سلسلہ کے بر خلاف زور گائے اور شیطان اپنی کل فوجوں کے ساتھ رحمانی لوگوں پر حملہ کرے اور اس وقت کےرسول کو خواہ کس قدر دکھ دیئے جائیں اور کیسی کیسی رکاوٹیں اس کے راستہ میں پیدا کی جائیں تو

Page 128

بھی وہ اس کام کو کر کے چھوڑتا ہے.اور وہ جو اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں آخر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ایک دنیا ان کی ذلت اور تنہائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے.اور وہ ہمیشہ نصرت اورفتح کے شہزادے کہلاتے ہیں.اور ایک وقت مقررہ تک اپنا کام کر کے اور دنیا کو سیدھی راہ کھا کرپھر اپنے بھیجنے والے کی طرف چلے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کے متبعین اس کام کو پورا کرتےہیں.اور خدا کی نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے ماتحت اس زمانے میں ایک نبی بھیجاتو کیونکر ممکن ہے کہ وہ اس کو بغیر مدد کے چھوڑ دے اور اس کی جماعت کو تباہ ہونے دے.اگر وہ بھی اب ان میں نہیں رہا اور اپنا کام ختم کر کے اس دنیا سے عالم جاوداں کی طرف چلا گیا ہے تو کیا ہوا.خداوند تعالیٰ جو حی و قیوم ہے ان کو ضائع ہونے نہیں دے گا.کیو نکہ وہ اس کا لگایا ہوا پودا ہے.تمام دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی اور اس پر ثابت ہو جائے گا کہ خدا ہمیشہ سچے کا حامی ہو تا ہے.پس وه مد عی جو اس وقت حضرت مسیح موعود ؑکی وفات پر شور مچاتے اوراس کو اپنی کرامت بتاتے ہیں دیکھ لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہو تا ہے اور خداوند تعالیٰ ان سے کیاسلوک کرتا ہے.کیا وہ سچوں کی طرح خدا کی طرف سے نصرت و مدد پاتے ہیں یا ہلاکت کا منہ دیکھتےہیں.مگر وہ لوگ یاد رکھیں کہ جھوٹا کبھی فروغ نہیں پاسکتا.اور آج اگر وہ سلامت ہے تو ضرور ہےکہ وہ کل ہلاک کیا جائے.کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے کو بھی وہی مدد اور نصرت ہے جو سچوں کو دیتا ہے.کیونکہ اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ اور برباد ہو جائے اور خدا کا نام دنیا سے مٹ جائے اور کوئی نہ ہو جو کہہ سکے کہ سچائی اس طرف ہے اور خدا کے نبیوں کی پہچان کا کوئی طریقہ باقی نہ رہے.پس میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچے اور جھوٹے کی بڑی شناخت یہی ہے کہ سچے کے ساتھ نصرت الٰہی او ر مدد خداوند ی شامل ہوتی ہے.مگر جھوٹا باوجود اس کے کہ وہ اپنا تمام زور خرچ کرےاور تمام شیطانی فوجیں اس کے ساتھ ہوں وہ کبھی وہ نصرت اور فتح اور مقبولیت نہیں حاصل کر سکتاجو سچے کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہو تی ہے.پس اے لوگو! تم نے حضرت مسیحؑ کی زندگی کو اوران کے حالات کو دیکھ لیا ہے اور وہ مدد اور نصرت جو خدا تعالیٰ نے ان کو بخشی ہے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے اب کچھ مدت انتظار کرو اور ان جھوٹے مدعیوں کی زندگی کو بھی دیکھو اور کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرے گا کہ یہ لوگ تمہاری آنکھ کے سامنے بلا ک ہو جائیں گے.اور ایسی ذلت ان کے حصہ میں آئے گی کہ ان کے طرف دار حضرت مسیح موعود ؑکے مقابلہ میں ان کا نام لیتے ہوئے شرمائیں گےاور یہ ایک ایسانشان ہو گا کہ اس کے بعد حضرت

Page 129

مسیح موعود ؑکے لئے کسی او رنشان کی ضرورت نہیں ہوگی.اور تمام طالب حق اور سچائی کے ڈھونڈنے والے اپنی آنکھوں کے سامنے ہدایت اور نور کا راستہ کھلا ہوا دیکھیں گے.اور بغیر حضرت مسیح موعود ؑکے قبول کرنے کے ان کو اور کوئی چارہ نظرنہیں آئے گا.پس ان مدعیوں کے بر خلاف ہم کو کچھ بہت بڑے دلائل لکھنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ خود سچائی اور جھوٹ میں فرق کر د کھائے گا.مگر اس لئے کہ ان کے بے ہودہ فخراورجھوٹے دعووں کو سن کر ان پڑھ اور جاہل لوگ دھو کہ میں نہ آجائیں.ضروری معلوم ہو تا ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھا جائے.چنانچہ سب سے پہلے میں ان دعویداروں میں سے میاں عبدالحکیم خاں مرتد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کو دعوی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ میری پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے.

Page 130

باب اول اے ناظرین !میں اس شخص کا رد لکھنے سے پہلے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک اول درجہ کا بدزبان آدمی ہے.اور اپنی تحریر اور تقریر کے وقت تہذیب و شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے.اوربات بات میں گالیاں نکالنا اس کا کام ہے.اور جب کسی مخالف کا ذکر کرتا ہے تو حد سے بڑھ جاتا ہےاور غصہ اس پر قبضہ کر لیتا ہے اور عقل اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے.اور یہ وہ شخص ہے جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کابیسں سال تک مرید رہا ہے.اور اس کا یہ دعوی ٰرہا ہے کہ مرزا صاحب کی تائید میں مجھےالہام ہوتے ہیں.چنانچہ یہ اس بات کو شائع بھی کر چکا ہے کہ ایک شخص میرے رشتہ داروں میں سے جو مرزا صاحب کا مخالف تھا اس کی نسبت مجھے خبر دی گئی کہ اگر یہ مخالفت سے باز نہ آئے گا تو طاعون سے ہلاک ہو گیا.چنانچہ بعد میں ایسا ہی ظہور میں آیا.او ر با و جو و الہاموں اور خوابوں کے جوکہ یہ ان کی تائید میں پیش کر تا تھا صرف اس بات سے حضرت صاحب کا مخالف ہو گیا کہ اس نےایک دفعہ آپ کو خط لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ ایک شخص جو نبی کریم کﷺو نہیں مانتا مگر اعمال صالحہ بجا لاتا ہے اور خدا کی توحید کا قائل ہے وہ بخشا جائے گا.اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا کہ یہ عقید و بالکل فاسد ہے.خدا تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکے ذریعہ دنیا پر حجت قائم کردی ہے اور اب جو کوئی ان پر ایمان نہ لائے وہ بخشا نہیں جاسکتا کیونکہ اعمال صالحہ بغیر ان کی اطاعت کے نہیں ہوسکتے، اس پر یہ شخص بگڑ بیٹھا اور حد سے زیا دہ بدظنی کرنے لگا اور بد زبانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور اسی خدا کے مرسل کو جو اس کے حجال کو قائم کرنے آیا تھا اس قد ر گالیاں دیں کہ کوئی زبان نہیں جو ان کا اعادہ کر سکے اور کوئی قلم نہیں جو ان کو دوبارہ تحریر میں لا سکے.اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ ایک پیشگوئی شائع کی کہ میں صادق ہوں اور حضرت مسیح موعوؑد نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اور جھوٹاسچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی.

Page 131

ناظرین غور کریں کہ اس شخص نے کسی قدر جھوٹ اور فریب سے کام لیا ہے.کیونکہ حضرت صاحب شائع کر چکے تھے کہ میری زندگی کے اب دو یا تین سال باقی رہ گئے ہیں اور عنقریب میں دنیا کوچھوڑنے والا ہوں پس اس نے اس بات سے فائدہ اٹھایا اور اشتہار دے دیا کہ مرزا صاحب تین سال کے اندر فوت ہو جائیں گے.پس کیا کوئی انصاف پسند طبیعت اس بات کی اجازت دے سکتی ہے کہ ایسے شخص کے مقابلہ میں جو بڑے زور سے پیشگوئی کر چکا ہو کہ دو تین سال کے اندر ہی فوت ہو جاؤں گا اور خدا نے مجھے اس کے متعلق بار باروحی کی ہے اور اس قدر تواتر سے یہ وحی مجھ پرنازل ہوئی ہے کہ میری زندگی مجھ پر سرد ہوگئی ہے.کوئی شخص پیشگوئی کرے کہ یہ شخص تین سال کے اندر فوت ہو جائے گا اور یہ صادق اور کاذب کا ایک نشان ہو گا.اور اگر ایسا واقعہ ہو جیسا کہ میں کہتا ہوں تو اس سے میری سچائی ثابت ہوگی.پس کیا وہ شخص جو اس قد ر دغابازی سے کام لےاور دنیا کو دھوکہ دینا چاہے خد اکانبی کہلا سکتا ہے؟ ناظرین خود غور کر سکتے ہیں کہ اگر ایک مجلس میں زید اٹھ کر کہے کہ میرے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا ہے اور چند ماه باقی رہ گئے ہیں.اور یہ بات سن کر بکرائے اور تم کھا کر کہے کہ میں خدا کانبی ہوں اور میری سچائی کا یہ نشان ہے کہ زید کے ہاں حمل ہے تو لوگ اس کو سوائے سودائی یا جھوٹے کے اور کیا سمجھیں گے.جب مرزا صاحب نے اپنی موت کی پہلے سے خبر دی تھی اورجماعت کو اور دوسرے لوگوں کو اپنی وصیت سے اطلاع دے دی تھی.اور ان کے الہاموں سےصاف ثابت ہوتا تھا کہ تین برس کے اندر۲۹/ مئی کو وہ فوت ہو جائیں گے.تو پھر عبد الحکیم خاں کا ان کی موت کی نسبت پیشگوئی کرنا اگر ایک صریح مکر اور فریب یا شیطانی الہام نہیں تو اور کیا ہےکیونکہ اگر مرزا صاحب نعوذباللہ ہجھوٹے تھے تو ان کی موت کا الہام پہلے عبدالحکیم کو ہونا چاہئے تھاکیونکہ اس کو خبر دینے والا خدا تھا اور مرزا صاحب کو خبر دینے والا (نعوذ باللہ ) شیطان تھا.مگر یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کو تو (نعوذ بالله ) شیطان نے پہلے خبر دے دی اور خدا تعالیٰ نےعبدالحکیم کو اس کے بعد خبردی - گویا کہ ان کی وفات کا پہلے تو شیطان کو علم ہوا اور پھر اس سے خبرپا کرحضرت اقدسؑ کو علم ہوا.اور ان سے عبدالحکیم کے خدا نے سن کر عبدالحکیم کو خبردی.(نعوذ باللہ من ہذا) اور اس بات کو تسلیم کر کے ماننا پڑے گا کہ عبدالیم کاخد ایک شیطان سے بھی کم علم رکھنےوالا ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک ایساگنده اعتراض ہے کہ اس کو ماننے والا کبھی مسلمان نہیں کہلا سکتا.اور ممکن نہیں کہ اس کا ایمان خدا پر قائم رہ سکے اور اگر آج نہیں تو کل ضرور یہ شخص

Page 132

دہریہ ہو جائے گا.پس چاہیئے کہ عبد الحکیم خاں اس خیال سے توبہ کرے.کیونکہ ہماراخدا بڑا غیورخدا ہے.وہ اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی پاک ذات پر ایسا گندہ اعتراض کیا جائے اوروہ جو ایسا خیال رکھتا ہے ضرور ہے کہ ہلاک کیا جائے اور تباہ کیا جائے اور اس کی موت ایسی ذلت سے ہو کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس سے عبرت پکڑیں.پس اگر اس دلیل پر غور کیا جائے تو ایک عقلمند انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کسی کے حصے میں جھوٹ کی نجاست آئی ہے، اور وہ کون ہے جس سے خدا کلام کرتا اور کس کے لئے شیطان نے اپنا دام تزو یرپھیلایا ہواہے.اب میں اس بات کے ثابت کرنے کے لئے چند دلائل لکھتا ہوں کہ میاں عبدالحکیم خاں بالکل حق سے دور ہیں.اور ان کا ہاتھ سچائی کے دامن کو چھو بھی نہیں گیا.اور وہ ایک اندھے کی طرح ہیں جو طوفان بادو بار ان کے وقت سجاکھوں کو اپنی طرف بلائیں اور کہیں کہ آؤ میں تمہاری راہنمائی کروں.اور اس پیاسے کی طرح ہیں جس کی شدت پیاس کی وجہ سے جان لبوں پر آرہی ہو اور وہ ایک ایسے شخص کو جو کہ ایک سرد اور شیریں چشمہ کے کنارے پر بیٹھا ہوا اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پیاس بجھا رہا ہو بلائے اور وعدہ دے کہ آو میں تمہیں پیاس سے نجات دلاؤں.خواہ وہ افتراءسےکام لیتے ہیں یا ان کو شیطانی الہام ہوتے ہیں بہرحال و ه با و جو و ضلالت میں گرے ہوئے ہونے کےاحمد ی جماعت کو ہدایت دینے کے لئے بلاتے ہیں.اول دلیل جو ان کے مفتری ہو نے کی ہے وہ تومیں اوپر لکھ آیا ہوں.مگر ناظرین کی آسانی کے لئے پھر دوبارہ لکھتا ہوں.دلیل اول تو میاں عبدالحکیم خان کے جھوٹے ہونے کی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے صاف طور سے اپنی وفات کی نسبت آج سے تین سال پہلے ہی پیشگوئی کی ہوئی تھی اور نہ صرف معمولی طور سے اس کا اعلان کیا تھا بلکہ کئی ہزار کی تعداد میں اشتہار الوصیت جس میں مفصل طور سے اس بات کو لکھا تھا کہ اب میں فوت ہونے والا ہوں شائع کیا تھا کہ میری وفات کی نسبت اس زور سے اوراس تواتر سے وحی الہی نازل ہو رہی ہے کہ میری زندگی میرے لئے سرد ہوگئی ہے.اور جماعت کونصیحت کی تھی کہ میرے بعد ان اصولوں پر کار بند ہونا اور ان باتوں پر عمل کرنا کہ وہ کام جو خدا نےکرنا چاہا ہے تمہارے ہی ہاتھوں سے پورا ہو اور یہ بھی لکھا تھا کہ میری وفات اس طرح ہوگئی کہ لوگ سمجھیں گے کہ ناکامی ہوئی مگر اصل میں وہ کامیابی ہوگی.کیونکہ خدا کی سنت ہمیشہ سے یہی چلی آئی ہے کہ نبی روحانیت کا بیج بو کر چلا جا تا ہے اور اس کے بعد وہ پھلتا پھولتا ہے.اور جب تک وہ نبی

Page 133

رہے اس وقت تک سلسہ کو کامل ترقی نہیں ہوتی.چنانچہ ایسا ہی نبیوں کے زمانہ میں ہوا اور ہو تاہے اور آئندہ ہو گا.مگر اس ظاہری حالت کو دیکھ کر نادان اور کم فہم لوگ (جیسے میاں عبدا لحکیم)سجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ اب تباہ ہو جائے گا.اور وہ تمام کارروائی جو اب تک ہوئی برباد ہو جائے گی.مگر ایسا ہرگز نہیں ہوتا.اور وہ سلسلہ کچھ ابتلاء کے بعد اور بھی بڑھتا ہے اور ترقی کرتا ہے.اور پھراس اشتہار الوصیت کے بعد کئی کئی رنگوں پر آپ کی وفات کی خبر دی گئی اور یہاں تک اس کو کھول دیا گیا جیسا میں پیچھے ثابت کر آیا ہوں سال اور مہینہ اور تاریخ تک بتا دی گئی.پس ایسی صورت میں میاں عبدا لحکیم کا یہ پیشگوئی کرنا کہ حضرت اقدس تین سال کے اندر فوت ہو جائیں گے ایک دلیل مکر اور جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ ورنہ کم سے کم اس قدر تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ میاں عبدالحکیم پر شیطان نازل ہوتا ہے.اور جس طرح بعل کے نبیوں کی معرفت و ہ خداوند تعالٰی کے بھیجےہوئے رسولوں کی مخالفت کر تا تھا آج کل بھی اس نے ایسا ہی کام شروع کیا ہے.اور دنیا کو دھوکہ میں ڈالنے کے لئے سادہ لوح لوگوں کو پھسلانے کے لئے اس نے یہ کارروائی کی ہے.اور میاں عبد الحکیم کو بسبب اس کی دماغی بناوٹ اور اس کا غصہ اور غضب کے جو اس کی طبیعت پر حکمران ہے اس نے اپنے کام کے لئے چن لیا ہے.ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ شیطان ایک شخص کو خبردےاور رحمان اس خبر کے دنیا میں شائع ہو جانے کے بعد میاں عبدالحکیم پر اپنا کلام نازل کرے.اگر میاں عبدالحکیم کا خدایسا ہی طاقتور ہے تو شیطان اس سے زیادہ زبردست ہے.مگر اصل بات یہ ہےکہ خداوند تعالیٰ کی شان سے بالکل بعید ہے کہ وہ شیطان کی بتائی ہوئی خبر سن کر اپنے بندہ کو اطلاع دے.بلکہ آج تک یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہو گا کہ پہلے خدا تعالیٰ اپنے ایک بندہ کو ایک خبردیتا ہے.اور پھر اس سے سن کر شیطان اپنے دوستوں کو جاکر اطلاع دیتے ہیں.چنانچہ یہی معاملہ یہاں بھی ہواہے.اور میاں عہد الحکیم کے الہام کرنے والے نے پہلے حضرت اقدسؑ کا الہام بدر،الحکم اور ریویومیں پڑھا اور پھر ان کے کان میں جا کر پھونک دیا.اور اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ عبدالحکیم نےاپنے رسالہ ذکر الحکیم نمبر۴ میں لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے اور لکھ دیاہے کہ میری وفات قریب ہے.جس سے معلوم ہو تا ہے کہ عبد الحکیم کو معلوم تھا کہ حضرت نے اپنی وفات کی پیشگوئی کی ہے.چنانچہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو حضرت اقدسؑ نے خبر دی کہ میری وفات قریب ہے اور وہ دو تین سال کے اندر ہوگی.جیسا کہ میں ثابت کر آیا ہوں اس پرعبدالحکیم خان نے اپنی پیشگوئی شائع کر دی کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا تین سال میں فوت ہو جائے

Page 134

گا.اس کے بعد حضرت اقدسؑ پر متواتر وحی ہوئی کہ بہت جلد تمہاری وفات ہونے والی ہے.اس پرمیاں عبدالحکیم نے ایک دوسری پیشگوئی شائع کر دی جس میں چودہ ماہ میعار مقرر کردی.یعنی تقریباسال بھر پہلی پیشگوئی میں سے کم کر دیا.کیونکہ جب اس نے یہ پیشگوئی کی تھی.تو اس وقت تین سال والی پیشگوئی میں سے قریبا آٹھ ماہ گذر چکے تھے.پھر حضرت اقد سؑ کو کچھ ایسے الہام ہوئے.تیری عمربڑھا دی گئی ہے.اس پر آپ نے ایک اور الہام شائع کر دیا.کہ اگر زیادہ سے زیاد و مہلت ملی تو وہ تین سال والی پیشگوئی کے متعلق ہو گی.پھر جب حضرت اقدس ؑ کو موت کے الہام ہوئے اور بتایا گیاکہ اب تو بہت ہی قریب وقت آگیا ہے.تو آپ کو جھٹ الہام ہوا کہ مرزا ۲۱ - ساون مطابق ۴گست کو فوت ہو جائے گا.چنانچہ خداوند تعالیٰٰ نے اس مفتری کو ایسا پکڑا کہ سب کچھ کیا کر ایا بر بادہو گیا اور اس کی کذب بیانی کو ایسا ظاہر کر دیا کہ قیامت تک یہ سیاہی اس کے چہرے سے نہیں اترسکتی.کیونکہ باوجود اس کے کہ اس نے بڑے وعویٰ سے پیشگوئی کی تھی کہ عین ۲۱ساون کو مرزافوت ہو جائے گا.حضرت اقدسؑ ۲۶ مئی کو فوت ہوئے.اور اس کو جھوٹا ثابت کر گئے.پس اس شخص کا مفتری ہو ناصاف ثابت ہے.کیونکہ پہلے اپنی موت کی خبر حضرت اقدسؑ نے دی تھی.اور پھراس نے اور وہ بھی اس کی بتائی ہو ئی خبر غلط نکلی کیونکہ اس نے تین سال کی میعاد فسخ کرکے ۴اگست کی تاریخ مقرر کر دی تھی.تو پھر ناظرین خودسمجھ سکتے ہیں کہ لعنت خدا کس پر پڑی.مگر میاں عبدالحکیم کو کون سمجھائے.ایک تو وہ حضرت صاحب ؑ کی پیشگوئیوں سے مضمون اڑاکر اپنی پیشگوئی بنا کر شائع کر دیتے ہیں.یا یہ کہ ان کا الہام بھیجنے والا یہ کام کرتا ہے.اور پھر دعویٰ اس بات کا کرتےہیں کہ میں خدا کار سول اور وقت کا مصلح ہوں.تف ہے اس رسالت پر اور لعنت ہے اس اصلاح پرکہ اول تو چوری کر لی اور پھر شریفوں کے سامنے فخر کرنا.مجھے افسوس تو اس بات پر آتا ہے کہ یہ شخص اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحبؑ کی وفات سے سچائی تو ان کی ظاہر ہوئی.اور پیشگو ئی توان کی پو ر ی ہوئی.پھر یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے لگا.کیا اس میں شرم و حیا کا اتنا مادہ بھی نہیں رہا کہ یہ اس بات کو سمجھ لے کہ حضرت اقدس ؑنے تو اس کی پیشگوئی کے وجود سے پہلے اپنی وفات کی خبردی تھی ؟ اور کیا اس میں اتنی بھی عقل نہیں رہی کہ ا یہ لوصیت کے الفاظ کو سمجھ سکے ؟ اس کے وہ تمام وعاوی علوم و فنون کہاں گئے.جب یہ اردو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا تو قرآن شریف کی تفسیر کیا لکھتاہے جو غیر زبان میں ہے.اب ناظرین غور کریں کہ الوصیت میں حضرت اقدسؑ نے اس کی پیشگوئی سے بہت پہلے اپنی وفات کی خبروی تھی.اور ایک الہام سے تین سال.

Page 135

کی میعاد بھی مقرر کی گئی تھی.جو میں مضمون کے شروع میں لکھ آیا ہوں، تو اس کے بعد اس شخص کا کوئی پیشگوئی کرنا ایک اول درجہ کی حماقت ، جہل بیوقوفی اور نادانی نہیں تو اور کیا ہے.بلکہ ہمارا حق ہے کہ ہم اس کو اس کی چالاکی اور شرارت پر محمول کریں.دوسری دلیل بھی میں کسی قدر لکھ آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس کو شیطانی الہام ہوتے ہیں.اور اس کے کئی ثبوت ہیں.اول یہ کہ اس نے خود اپنی تصانیف میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میرے عمل بھی اچھے نہیں ہیں اور میں ایک بد عمل مؤمن ہوں.اور مجھے شیطانی الہام بھی ہوتےہیں.پس جو شخص خود مانتا ہے کہ مجھ پر شیطان کا تصرف ہے، اس کے الہاموں کی نسبت او ر زیاده ثبوت دینے کی چنداں ضرورت نہیں.کیونکہ جب مہلم خود اقرار ی ہے تو دوسرے کو کیا شک ہو سکتاہے.مگر یہ بات جو اس نےلکھی ہے واقعی عجیب ہے کہ میں بد عمل مؤمن ہوں.تعجب ہے کہ آپ رحمۃ للعالمین بھی ہیں اور پھر ساتھ ہی نماز روزہ کے بھی پابند ہیں.افسوس اس شخص کو یہ بات لکھتے ہوئے اتنا شعور بھی نہیں آیا کہ جب لوگ اس رحمت للعالمین کو نماز روزہ کا پابند نہ دیکھیں گے تو نبی کریم اﷺکی نسبت جن کے زمانہ کو تیرہ سو سال گزر گئے ہیں نعوذ باللہ کیا خیال کریں گے.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا اصل بات یہ تھی کہ آپ خود اس بات کے مقر ہیں کہ مجھے کوشیطانی الہامات ہوتے ہیں.اور خود آپ کے الہامات نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ آپ کوشیطانی الہامات بھی ہوتے ہیں اور رحمانی کوئی نہیں ہو تا.کیونکہ جو الہام ہوتا ہے وہ پہلے حضرت اقدس ؑ کو ہو چکا ہوتا ہے یا ایک واقعہ کے بعد اس کے مطابق آپ کو ایک الہام ہو جا تا ہے.اور اگر کوئی الہام ان دونوں باتوں سے الگ ہوتا ہے تو وہ اکثر بلکہ ہمیشہ جھوٹا نکلتا ہے.جیسا کہ حضرت صاحب کی وفات کی نسبت اس نے لکھا تھا.کہ ۲۱ ساون کو ہو گی.مگروہ ۲۶مئی کو فوت ہوئے.اورپھر ایک اور ثبوت اس کے جھوٹے ہونے کا یہ ہے کہ خود اس کو اقرار ہے کہ مجھ کو رحمانی الہامات بھی ہوتے ہیں اور شیطانی بھی.یس کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ایسے دل پر اپنا کلام نازل کرے جس پر پہلے سے شیطانی قبضہ ہے.کیا سیاسی اور سفید کی ایک جگہ اکٹھی ہو سکتی ہے ؟ پاک اورناپاک ملائے جاسکتے ہیں؟ ببول کو ممکن نہیں کہ انگور لگیں.اور گو خور مکھی کبھی بھی شہد کا چھتہ تیارنہیں کر سکتی.پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایک ملہم شیطانی پر خدا کا کلام نازل ہو اور وہ اس کو رحمت للعالمین قرار دے جس کلام کی نسبت خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے کہ لایمسه إلاالمطهرون (الواقع : ۸۰ ) کیا وہ

Page 136

نجس دل پر نازل ہو سکتا ہے جس میں اس قدر خشیت خدا بھی نہیں کہ احکام شرعیہ پر عمل کرے ؟پس خود اپنے مقولہ کے مطابق عبدالحکیم خاں جھوٹا اور مفتری ٹهہرتا ہے اور ہر ایک عقلمند جو اس سے نتیجہ نکال سکتا ہے وہ ظاہر ہے.تیسری دلیل جو میں اس کے مفتری ہونے کے ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور جس کاذ کراس نے اپنے دعوی ٰکے ثبوت میں اعلان الحق میں بھی کیا ہے.(بہ رسالہ اس نے حضرت صاحب کی وفات پر اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے شائع کیا ہے) یہ ہے کہ اس شخص نے حضرت اقدس کی وفات کی نسبت پیشگوئی شائع کی کہ آپ تین سال کے اند ر فوت ہو جائیں گے.اور یہ جھوٹے اور سچےکے فیصلے کے لئے ایک نشان ہو گا.اس کی کی اصل حقیقت تو میں پہلے ہی لکھ آیا ہوں کہ پہلےحضرت اقدسؑ خودیہ پیشگوئی کر چکے تھے کہ میں جلد فوت ہو جاؤں گا.اور الہام الٰہی سے ظاہر ہو تا تھاکہ تین سال کے اندر ہی آپ فوت ہو جائیں گے.اور ایسے وقت میں اس کا یہ پیشگوئی کر نامحض ایک شرارت تھی.مگر خیر خدا تعالیٰ نے اس کو جھوٹا ثابت کرنا تھا.اس لئے تھوڑے دنوں کے بعداس کو القائے شیطانی ہوا کہ اب تین سال کی میعار چودہ ماہ رہ گئی ہے.اور یہ بھی پہلے کی طرح چوری ہی تھی.کیونکہ حضرت اقدسؑ نے دوبارہ شائع کیا تھا کہ اب میری موت قریب ہے.اب یہاں تک تو شیطان نے اپنی بڑی فتح سمجھی کہ خدا کے کلام میں سے چرا کر اور الہام الٰہی میں سے اخذ کر کے میں نے اپنا گھر پورا کر لیا.مگر خدا تو بڑا علام الغیوب ہے.وہ جانتا تھا کہ یہ سب باتیں اس کی دھری ره جائیں گی اور وہی ہو گا جو میرا ارادہ ہے چنانچہ کچھ مدت کے بعد شیطان نے اس پر اپنا کلام نازل کیااور بتایا کہ مرزا ۲۱ - ساون مطابق ۴/ اگست کو فوت ہو جائے گا.چنانچہ اس نے اس الہام کو اس خیال سے کہ اب میری بڑی فتح ہوگی مختلف اخباروں میں شائع کرا دیا مثلا روزانہ پیسہ اخبار، وطن اور اہل حدیث اور اس کے علاوہ بریلی گزٹ میں بھی اس کا یہ الہام شائع ہوا.کہ مرزا۴/ اگست کوفوت ہو جائے گا.اور اسی طرح بہت سے خطوط میں اس نے اس الہام کا ذکر کیا جو اب تک موجو دہیں.مگر اس کے بر خلاف نفرت مسیح موعو دؑ کوخداوند تعالیٰٰ نے الہام کیا کہ \" خداسچے اور جھوٹےمیں فرق کر دکھائے گا‘‘.اور ساتھ ہی بتا دیا کہ میری وفات ۱۵ / اکتوبر کے ۲۲۳ دن بعد ہوگی اوربیعت کے اکیسویں سال ہوگی جیسا کہ میں اپنے مضمون کے پہلے حصہ میں ثابت کر آیا ہوں.پس اب عقلمند لوگ مقابلہ کر کے دیکھیں کہ کون سچا رہا اور کون جھو ٹا.حضرت مسیح موعودؑ کو بھی آپ کی وفات کی تاریخ اور مہینہ بتایا گیا تھا.اور دونوں کے الہامات مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں.اب غور کرنے والے غور کریں کہ کون سچا رہا.حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی وفات کی خبر۲۶/ مئی.

Page 137

بتلائی تھی.اور اس نے ۴ اگست تاریخ مقرر کی تھی.چنانچہ آپ مطابق خدائی الہام کے اسی تاریخ کو فوت ہو گئے اور اس کو کذاب ثابت کر گئے.اور دنیاپر ظاہر ہو گیا کہ یہ شخص شیطان سے خبرپانےوالا ہے.کیونکہ جب تک کہ حضرت کے الہامات سے سرقہ کرتا رہا تب تک تو کسی قدر راستی پر رہا.اور جو نہی بلند پروازی شروع کی اور چاہا کہ اپنے شیطانی الہاموں کا رحمانی الہاموں سے مقابلہ کرے تو وہیں ہلاکت کا منہ دیکھا اور سخت ذلیل اور خوار ہوا.اور دنیا نے اس کی اصلیت کو پالیااورصادق اور کاذب کا فیصلہ ہو گیا اب کیا کوئی شخص باوجود ایسے صریح ثبوتوں کے اس کی نسبت ایک لمحہ کے لئے بھی گمان کر سکتا ہے کہ یہ اپنے اندر کچھ بھی صداقت رکھتا ہے.اور کیا کوئی سعید روح اب بھی حضرت صاحب کی سچائی کا انکار کر سکتی ہے ؟ دیکھو آپ نے آج سے ڈیڑھ سال پہلے بتا دیا تھا کہ میں ۲۶مئی ۱۹۰۸ء کو وفات پاؤں گا اور اس دن لوگ خوشیاں منائیں گے.مگر برخلاف اس کے اس نے ۴ اگست کی تاریخ بتائی تھی.پس خدا تعالیٰ نے جھوٹے اور سچے میں فرق کرد کھایا.پھر بار باراس شخص کا اپنی سچائی پر زور دینا حماقت نہیں تو اور کیا ہے.جبکہ اس کی اپنی قلم کا لکھا ہؤا الہام موجود ہے کہ اب ماہ والی پیشگوئی کی جگہ مرزا۴ / اگست کو فوت ہو گا.اور اس کے دستخط کا فوٹوپیسہ اخبار لاہور میں شائع ہو چکا ہے.اور اہل حدیث اور وطن میں بھی اس کی طرف سے یہ الہام درج ہے.تو کیا اب یہ انکار کر سکتا ہے کہ میں نے پیشگوئی نہیں کی تھی.دیکھو سچوں اور جھوٹوں کافرق کہ سچے تو بعض اوقات افسوس کرتے ہیں.کہ یہ پیشگوئی شائع نہیں کی.مگر جھوٹے جو شائع کربیٹھے ہیں اس پر بھی شرمندہ اور پریشان رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کاش ہم یہ پیشگوئی شائع نہ کرتے.اور ایسا ہی حال عبد ا لحکیم کا ہوا ہے.باوجود اس کے کہ یہ الفاظ اس کے الہام کے پیسہ اخباروغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں کچھ بھی اب یہ انکار کرتا ہے ، اور اپنے رسالہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ۴اگست تک کی پیشگوئی کی تھی جو پوری ہوئی.مگر ہم اس کا جواب سوائے لعنت الله على الكذبين ( آل عمران : ۹۴) کے اور کیا دے سکتے ہیں.اگر یہ پیسہ اخبار، وطن، اہل حدیث اور یونین گزٹ بریلی میں اس کا یہ الہام شائع نہ ہو چکا ہو تا تو یہ جتنا چاہتا جھوٹ بول سکتا تھا مگر خدا نے اسےناک سے پکڑ لیا ہے اب یہ بچ کس طرح سکتا ہے.افسوس رسول ہونے کا دعویٰ اور اس قدرجھوٹ.کیا مسیلمہ کذاب اس سے زیادہ جھوٹ بولتا تھا.نہیں.زمانہ کی ترقی کے ساتھ مسلمہ کی روح نے بھی ترقی کی ہے اور آگے سے زیادہ افتراء پردازی پر کمر باندھی ہے.الغرض اس شخص نے ۴/اگست کو حضرت اقدس کی تاریخ وفات مقرر کی تھی مگر آپ ۲۹ مئی کو فوت ہو کر شیطانی الہاموں

Page 138

کی قلعی کھول گئے اور آپ کے الہامات میں ۲۹/ مئی تاریخ مقرر ہوئی تھی.سو اس تاریخ کو آپ نے وفات پائی اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہے.جو چاہے قبول کرے.و رنہ یاد رہے کہ کسی شخص کا کفریا ارتداد خدا اور اس کے نبیوں کی شان میں کوئی فرق نہیں پیداکرتا.بلکہ خود ان کے کافر اور ان سے ارتدارکرنے والوں کو کہنا پڑتا ہے یلیتنی کنت ترابایعنی کاش کہ میں مٹی ہو تا یا پیدا ہی نہ ہوتا.پس اب بھی وقت ہے جو چشم بصیرت رکھتے ہیں وہ خداکے رسول کا اقرار کریں تا خدا ان کا مدد گار ہو.ورنہ وہ دن آتے ہیں کہ انکار کرنے والے اپنےانکار کا مزہ چکھ لیں گے اور پھر سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ ہو سکے گا.چوتھی بات جس کا میں جواب دینا چاہتا ہوں اور جس سے عبد الحکیم کادروغ ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ اس نے اپنے اشتہار اعلان الحق میں لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے تبصرہ میں یہ الفاظ لکھے ہیں جو میری سچائی ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مؤاخذہ کرے گا.میں تیری عمر کو بڑھاؤں گا.یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دو سرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں.ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھادوں گا تا معلوم ہو کہ میں خدا ہوں.اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے‘‘ اور پھر لکھا ہے.کہ \"دنیامیں تیرا نام بلند کیا جائے گا.اور نصرت و فتح تیرے شامل حال ہو گی.اور دشمن جو تیری موت چاہتا ہے.وہ خود تیری آنکھوں کے رو برو اصحاب فیل کی طرح نابود ہو جائے گا.اور تباہ ہو جائے گا.ان فقرات کے لکھنے سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ مرزا صاحب فوت ہو گئے اور میں زندہ ہوں اور یہ میری سچائی کا نشان ہے.مگر اس ناد ان کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ مرزا صاحب کی وفات سے اگر نعوذ باللہ ان کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو اس سے اس کی سچائی کس طرح ثابت ہوئی.فرض کرو کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب کی تمام پیشگوئیاں غلط ہو گئیں اور ایک بھی سچی نہیں ہوئی تو بھی اس کی صداقت ثابت نہیں، اور اس کی سچائی تو اس بات سے ثابت ہوتی تھی کہ اس کی اپنی پیشگوئی بھی سچی نکلتی جب اس نے مرزا صاحب کی وفات کی تاریخ ۴/ اگست مقرر کی.اور مرزا صاحب اپنی پیشگوئی کے مطابق ۲۶مئی کو فوت ہوئے.تو یہ خود بخود جھوٹا اور کاذب ثابت ہو گیا.اب اس کا یہ عذر کہ مرزا صاحب کی ایک پیشگوئی سچی نہیں نکلی.تو اس سے اس کی سچائی ثابت ہوتی ہے محض ایک دھوکہ ہے.اور پھردوسری بات یہ ہے کہ اشتہار تبصرہ اس وقت شائع کیا گیا ہے جب اس نے حضرت مرزا صاحب کی وفات کی میعار چودہ ماہ مقرر کی تھی.اس وقت یہ لکھا گیا تھا کہ خدا نے دشمن کو جھوٹا کرنے کے لئے

Page 139

میری عمر بڑھادی.چنانچہ اگر وہ چودہ ماہ کی میعاد عبد الحکیم قائم رکھتا تو اس وقت اس کا یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ میری بتائی ہوئی میعار کے اند ر فوت ہو گئے ہیں اس لئے میں سچاہوں.مگر جب اس نے خوداس پیشگوئی کو رد کر دیا اور لکھ دیا کہ بجائے چو دہ ماه والی پیشگوئی کے اب ۴/ اگست کی تاریخ مقرر کی گئی ہے.تو تبصرہ میں جو کچھ لکھا گیا تھا اس کے پورے ہونے کی ضرورت نہیں رہی.کیونکہ وہ اشتہارتواس غرض کے لئے لکھا گیا تھا کہ جھوٹے اور سچے میں فرق ثابت کیا جائے اور دنیارپرظاہر ہو جائےکہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا.پس جب اس نے۴ اگست تاریخ وفات مقرر کر دی.تو اب سچےاور جھوٹے میں فرق اس طرح ہو سکتا تھا کہ ایک دوسرے کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو جا تا.اوراس طرح اپنے آپ کو جھوٹا ثابت کر جاتا.پس خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کو۲۶/ مئی کو وفات دےکر ثابت کر دیا کہ عبدالحکیم جھوٹا ہے.چنانچہ تبصرہ کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ جو دشمن تیری وفات کی پیشگوئی کرتے ہیں ان کو میں جھوٹا ثابت کروں گا پس صاف ثابت ہو اکہ خدا تعالیٰ کا منشا اس جگہ دشمن کو جھوٹاثابت کرنے کا تھانہ کچھ اور.چنانچہ جب اس نے اپنی پیشگوئی کو خود ہی رد کردیا اور لکھاکہ اب ۴/ اگست کی تاریخ مقرر ہو گئی ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کو اس طرح جھوٹا ثابت کیا کہ آپ کو ۲۶مئی کو وفات دے دی اور اس کی پیشگوئی ایک دیوانہ کی بڑکی طرح ردی گئی.اور جھوٹےاور سچے میں خدا تعالیٰ نے فرق کر کے دکھلا دیا کہ سچوں کی باتیں سچی اور جھوٹوں کی جھوٹی ہوتی ہیں.چنانچہ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تو اس لئے ہلاک ہو جائے گا کہ تواسلام کو برا کہتا ہے اور گالیاں دیتا ہے.اس کے بعد وہ شخص اسلام لے آئے اور بڑا متقی اور پرہیزگار ہو جائے تو وہ اس ہلاکت سے بچ جائے گا کیونکہ اس نے وہ بات چھوڑ دی.اسی طرح یہاں بھی یہی معاملہ ہے.عبدالحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت پیشگوئی کی کہ وہ چودہ مہینے کےاندر فوت ہو جائیں گے اور یہ میری سچائی کا نشان ہے.اس پر حضرت مسیح موعودنے شائع کیا کہ ایسانہیں ہو گا بلکہ یہ خود میرے سامنے ہلاک ہو جائے گا.اور یہ سب باتیں اس لئے ہیں کہ سچے اورجھوٹے میں فرق ہو جائے.چنانچہ اگر یہ شخص اس پیشگوئی پر قائم رہتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے ہلاک ہو جاتا اور وہ زندہ رہتے.کیونکہ خدا تعالیٰ کو تو اپنے نبی اور رسول کی سچائی ظاہر کرنی منظور تھی نہ کہ کچھ اور.مگر چونکہ بعد میں یہ اپنی بات سے پھر گیا اور اس نے چودہ ماہ والی پیشگوئی کو اپنی سچائی کا نشان قرار نہ دیا.بلکہ لکھا کہ میری سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ مرزا ۴/ اگست کوفوت ہو گا.تو خدا تعالیٰ نے بھی اپنی پہلی بات کو منسوخ کر دیا اور جس راہ سے اس نے اس کے '.

Page 140

رسول کو پکڑنا چاہا تھا اسی راہ سے اس کو پکڑ لیا.یعنی حضرت صاحب کو اس کی مقرر کردہ تاریخ پروفات نہ دی.اور ۲۹ مئی کو دی جو تاریخ خود آپ کے الہامات سے ثابت ہوتی تھی اور اس طرح خدا کاو ہ کلام کہ ”جھوٹے اور سچے میں فرق کر کے دکھایا جائے گا‘‘ پورا ہوا.اور عبدالحکیم کے منہ پرکذاب کا انیابد نما داغ لگا جو قیامت تک مٹ نہیں سکتا.اور یہ بات جو میں نے لکھی ہے کہ جب عبدا حکیم نے چودہ ماہ والی پیشگو ئی کو منسوخ کر دیا تو خدا نے بھی اپنے وعید کو دوسرے رنگ میں بدل دیا ہے ثبوت نہیں بلکہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہوتی ہے، چنانچہ جن لوگوں کے لئے فرمایاتھا کہ لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الأخرةعذاب عظیم.ان میں سے بھی بہت سے لوگ آخر کار ایمان لائے اور بڑے بڑے انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے پس اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نےاپنی سنت قدیمہ کے مطابق جس کی نسبت ولن تجدلسنت اللہ تبدیلاکا حکم آیا ہے عمل کیا.اورجب عبدا لحکیم خاں نے اپنی پیشگوئی کو چھوڑ کر ایک اور پیشگوئی پر اپنی سچائی کامدار رکھا تو خداوند تعالیٰ نے بھی اپنی بے پایاں قد رتوں سے چاہا کہ اس کو اپنی راہ سے ہلاک کرے.چنانچہ اس نے اس کی پیشگوئی کو بالکل غلط ثابت کر دیا.اور اس نے بتایا تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام۴ اگست کوفوت ہوں گے مگر ایسا نہ ہوا.چنانچہ یہ جھو ٹا ٹھہرا.اور تبصرہ میں بتایا ہو اعذاب اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق اس پر سے ٹل گیا.کیونکہ اس کو جھوٹا ثابت کرنا ضروری تھا.سوخدا نے ثابت کردیا.پانچویں بات جو عبدالحکیم کے تمام د عادی کو بالکل تو ڑ دیتی ہے ، اوراس کے جھوٹ کا قلع قمع کردیتی ہے ایسی صاف ہے کہ خدا کے فضل سے اس کے بعد اس شخص کا ہاتھ کہیں پڑہی نہیں سکتا اورخواہ کتنے ہی وانت پیسے اور پیشانی رگڑے ممکن ہی نہیں کہ اپنے مطلب کے مطابق کوئی بات نکال سکے.چنانچہ اگر غور سے دیکھا جائے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے کبھی کوئی الہام شائع نہیں کیاجس میں یہ آیا ہو کہ عبد الحکیم تیری زندگی میں ہلاک ہو جائے گا.زیادہ سے زیادہ مندرجہ ذیل چندالہامات ہیں جن سے یہ اپنے مطلب کی بات نکالتا ہے.مگر میں یہ ثابت کرتا ہوں کہ ہرگز ان سےکہیں یہ ثابت نہیں ہو ا کہ عبدالحکیم آپ کی زندگی میں ہلاک ہو گا.اور پھر یہ بات بھی قابل غورہے کہ وہ الہامات اس وقت کے ہیں جبکہ اس نے چودہ ماہ والی پیش گوئی کی تھی اور اس پیشگوئی کےبدلنے پر ان الہامات کی سزا بھی اور رنگ میں بدل گئی.بہرحال و و الہامات یہ ہیں رب فرق بین صادق و كاذب انت تری کل مصلح و صادق.ألم تر کیف فعل ربک با صحاب الفيل

Page 141

..ألم يجعل كيدهم في تضليل.تیرے دشمنوں کا اخزاء وافناء تیرے ہی ہاتھ سے مقدر تھا.چنانچہ ان الہامات سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ معلوم ہو کہ عبدالحکیم حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہلاک ہو گا بلکہ یہی معلوم ہو تا ہے کہ خداسچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھلاوے گا.اور وہ اصحاب فیل کی طرح ذلیل ہو کر ہلاک ہو گا اور اس کے تمام مکر و فریب غارت ہو جائیں گے.اور وہ بوجہ مخالفت حضرت اقدس ؑکے ہلاک ہو گا.اب ان الہامات کو دیکھ کر ہر ایک اہل عقل دیکھ سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰٰ نے کس طرح گھیر کر اس سے ۴- اگست والی پیشگوئی شائع کروائی اور کس طرح اس کے مکر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور تمام دنیا کی نظروں میں اس کو ذلیل کیا اور ان الہامات کے جومعنی حضرت اقدس ؑنے کئے ہیں کہ وہ میرے سامنے ہلاک ہو گا ایک اجتہادی غلطی تھی اوراجتہادی غلطی ہر نبی سے ہوتی رہتی ہے.چنانچہ اس کی بہت سی نظیریں قرآن شریف اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں مثلا حضرت نوح ؑکے قصّہ کوہی دیکھو کہ ان سے وعدہ تھا کہ تیرے اہل بچائےجائیں گے اور جب طوفان میں اپنے بیٹے کو غرق ہوتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے خداوند تعالیٰ سےکہا رب ان ابنی من اھلی (ہود:46 )اے خد امیرابیٹابھی تو میرے اہل سے ہے یہ کیوں غرق ہونے لگا.تو اس پر خدا نے جواب دیا انه ليس من اھلک( ہود47) یعنی وہ تیرے اہل سے نہیں اور فلا تسئلنی ماليس لك به علم و تسک (ہود 47») یعنی ایسی بات مجھ سے مت پوچھو جس کا تجھ کو علم نہیں.پھر حضرت یونس علیہ السلام کو بھی اجتہادی غلطی گئی.اور جب ان کی پیشگوئی کے مطابق ان کی قوم ہلاک نہ ہوئی تو ایسے گھبرائے کہ خدا تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اگر خدا کا فضل نہ ہوتا تووہ ملزم کر کے پھینک دیئے جاتے.چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے.لولا ان تدرکہ نعمۃ من ربہ لنبذ بالعراءوھومذموم (القلم:۵۰) پھر حضرت موسی علیہ السلام کو اجتہادی غلطی لگی اور انہوں نے سمجھا کہ میں خود بنی اسرائیل کوکنعان میں پہنچاؤں گا.حالانکہ وہ راستے میں ہی فوت ہو گئے.اور ان کے ساتھی بھی تقریبا تمام راستہ میں ہی فوت ہوئے.اور ان کے ایک خلیفہ نے بنی اسرائیل کو منزل مقصود تک پہنچایا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو اجتہادی غلطی لگی اور انہوں نے سمجھا کہ میرے حواریوں کو دنیاوی بادشاہت ملے گی اور انہوں نے ان کو حکم دیا کہ کپڑے بیچ کر تلوار یں خرید و - حالانکہ دنیاوی بادشاہت تو الگ رہی.ان کو چین سے بیٹھنا تک نصیب نہ ہوا.اور پھر آخر میں ہمارے سردار اور ہادی حضرت محمدمصطفیٰﷺ کو اجتہادی غلطی لگی اور آپ ایک کشف کی بناء پر حج کو چل دیئے اور بڑی تکلیفوں

Page 142

کے بعد وہاں پہنچے تو کام نہ ہوا.اس بات سے حضرت عمر جیسے بزرگ کو ابتلاء کا سامنا ہوا.پس غور کا مقام ہے کہ جب اجتہادی غلطی کا ہو جانا کسی نبی کی شان پر کوئی وھبہ نہیں لگاتا اور اس سے اس کی سچائی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو تا تو حضرت مسیح موعودجو پچھلے انبیاء کی سنت پر آئے ہیں اگر کوئی اجتہادی غلطی کر بیٹھیں تو ان پر کیا الزام آسکتا ہے اصل تو الہامات کو دیکھنا چاہئے کہ ان کےکیا معنی ہیں.اور پھر یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ایک نبی سے ایک وعدہ ہو تا ہے اور وہ اس کے جانشین یا اس کی اولاد کے ہاتھوں سے پورا ہو تا ہے.پس با و جو و ان تمام دلائل کے جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں یہ مان بھی لیا جائےکہ ۴اگست کی پیشگوئی کے باوجود بھی تبصره و الاشتہار قائم رہا اور منسوخ نہیں ہوا تو بھی کوئی الزام نہیں آتا.اور کسی بات سے حضرت اقدس ؑ کی تکذیب اور عبد الحکیم کی تصدیق نہیں ہوتی.کیونکہ جو معنی کئے گئے ہیں وہ خدا کی طرف سے تفہیم نہیں بلکہ اپنا اجتہاد ہے.پس اگر اس کے مطابق واقعہ نہ ہو تو ملہم کے الہام پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا.بلکہ اس کی سچائی اوربھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے کوئی منصوبہ بنا کر الہام پیش نہیں کئے تھے بلکہ خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے وہ الہامات تھے.اب ناظرین غور کر کے دیکھیں کہ عبدالحکیم کے ہاتھوں میں رہ کیا جا تا ہے جس پر اس کو نازہے.اس کے لئے اشتہار ”خدا سچےکا حامی ہو‘‘ اور تبصرہ میں اور حقیقت الوحی میں یہ الہامات درج ہیں کہ یہ ہلاک ہو گا اور اس طرح ذلت کے عذاب سے مرے گا اور اس دنیا سے اٹھایا جائے گا کہ دنیا اس بات کو جان لے گی کہ یہ محض افتراء پر تھا.اور اس کے الہاموں میں رحمانیت کا کوئی حصہ نہیں تھا اور وہ القائے شیطانی تھے.اور اس کے بعد کسی کو جرأت نہ ہو سکے گی کہ خدا کے برگزیده کے سامنے اس کو پیش کر سکے اور اس کو کوئی نصرت و مددالہی نہ ملے گی اور مقبولیت سے محروم رہےگا.چنانچہ ان الہاموں کی مدت ابھی گذر نہیں تھی اور ہم کو ان کی سچائی میں کوئی کلام نہیں ضرورہےکہ خدا کا کلام پورا ہو اور وہ جو جھوٹا ہے عذاب الہی میں گر فتار ہو اور ذلت اس کے حصہ میں آئے.پس باوجود اس کے کہ تبصرہ میں حضرت صاحب نے محض اپنا اجتهاد لکھا ہے کہ یہ شخص میری زندگی میں ہلاک ہو جائے گا.اور الہاموں میں قطعاً اس کا ذکر نہیں بلکہ صرف اتنا ذکر ہے کہ عبد الحکیم کے مکر ضائع کئے جائیں گے اور وہ ذلت سے ہلاک ہو گا.عبدالحکیم خاں کا اس بات کو اپنی تصدیق کے لئے پیش کرنا محض شرارت ہے.کیونکہ اس کا الہام پورا نہیں ہوا.اور یہ اس کی طرف بالکل توجہ نہیں کر تامگر حضرت صاحبؑ کے اجتہاد کی غلطی کو اپنی سچائی کی دلیل قرار دیتا ہے.یہ کیسے

Page 143

افسوس کی بات ہے.اور کس قدر شرم کا مقام ہے.ہاں اس شخص کو تو چاہیئے تھا کہ پیشگوئی کے غلط نکلنےپر سخت نادم ہو تا اور پریشان ہو تا اور توبہ کرتا اور پھر سچائی کی طرف رجوع کرتا اور خدا سےاپنے گناہوں کی معافی مانگتا.مگر اس نے بر خلاف اس کے اپنے اس الہام کو جو پورا نہیں ہوا نظرانداز کر دیا اور حضرت صاحبؑ کی اجتہادی غلطی کو اپنے لئے مصدّق قرار دیا.کیا وہ شخص سچائی کاطالب اور حق کا جو یا قرار دیا جا سکتا ہے جو اپنے الہام کے جھوٹا نکلنے کو تو چھپائے مگر دوسرے کی اجتہادی غلطی پر خوشیاں منائے.کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک شخص جو اپنی پیشگوئی کے مطابق فوت ہوا.اور جس نے اڑھائی سال اپنی وفات سے پہلے خبر دے دیا ہو کہ میں تین سال کے اندر فوت ہوجاؤں گا اس کی وفات کو اپنے شیطانی یا بناوٹی الہاموں کے مطابق اپنی سچائی کا نشان قرار دیا جائے.اب میں اچھی طرح سے عبدالحکیم خان کی دروغ بیانی اور القائے شیطانی کو ثابت کر آیا ہوں.اورمیں نے لکھا ہے کہ گو اس شخص کو حضرت صاحب کی وفات کی پیشگوئی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا.کیونکہ خود حضرت اقدسؑ آج سے اڑھائی سال پہلے اپنی وفات کی خبر دے چکے تھے اور اس کے بعدان کے حق میں کسی کا پیشگوئی کرنا صریح شرارت پر دلالت کرتا ہے.اور پھر اگر اس شخص نےپیشگوئی کی بھی تھی تو وہ از طرف شیطان تھی نہ از طرف رحمان کیونکہ اس شخص نے خود اپنی تصانیف میں اس بات کو مانا ہے کہ مجھ کو شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں اور جس کو شیطانی الہام ہوں اس کو رحمانی نہیں ہو سکتے.کیونکہ خدا کا کلام نجس دماغ پر نہیں اترتا.اور پھر تیسری بات جو میں نے ثابت کی ہے یہ ہے کہ اس کی پیشگوئی جو اس نے پیسہ اخبار و غیره میں شائع بھی کر دی تھی غلط نکلی ہے.کیونکہ اس نے لکھا تھا کہ مرزا۴ / اگست کو فوت ہو گا.حالانکہ ہمارے حضرت اقدس۲۶ مئی کو فوت ہوئے اور یہ وہ تاریخ ہے جو میں نے ثابت کیا ہے کہ حضرت صاحب نے تبصرہ میں جو لکھا ہے کہ میری آنکھوں کے سامنے مر جائے گا وہ چودہ مہینہ والی پیشگوئی کی بنا ء پر تھا.کیونکہ اس نے لکھا تھا کہ حضرت اقدسؑ چو ده ماہ میں فوت ہو جائیں گے.پس اگر آپ اس میعاد میں فوت ہو جاتے تو مخالفین کی نظر میں نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے.اس لئے خداکے کلام سے استدلال کر کے آپ نے لکھا کہ نہیں میں فوت نہیں ہوں گا.بلکہ تو میری آنکھوں کےسامنے ہلاک ہو گا.لیکن جب اس نے اسی پیشگوئی کو خودہی منسوخ کر دیا اور لکھ دیا کہ مجھے پہلی پیشگوئی کے بجائے بہ الہام ہواہے کہ مرزا ۲۱ ساون مطابق ۴/ اگست کو فوت ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ نے بھی اسکو اس رنگ میں جھوٹا کیا.لیکن بجائے۱۴ اگست کے حضرت اقدس کو ۲۹/ مئی کو /۴

Page 144

وفات دی جو تاریخ آپ کے الہام سے ثابت ہوتی ہے.اب کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پیچھے کیوں نہ فوت ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو آپ کو الہام ہو چکا تھا کہ ۱۵/ اکتوبر کے ۲۲۳ دن کےبعد آپ کی وفات ہو گی جو۲۶/ مئی بنتی ہے.اور دوسرے یہ کہ عبدالحکیم ایک سیماب مزاج آدمی ہے اگر حضرت صاحب اور زندہ رہتے تو جھٹ کہہ دیتا کہ بجائے۲۱ ساون کے اب پھر تین سال والی میعاد ہو گئی ہے.بلکہ کوئی تعجب نہ تھا کہ کہہ دیتا کہ اب دس سال ہو گئی ہے پس کیاخدااس بات کا ذمہ دار ہے کہ ان لوگوں کی بکواس کے مطابق ایک شخص کی عمر بڑھاتا ہی جائے.پانچویں ولیل جومیں نے دی ہے وہ یہ ہے کہ اچھا بطور تنزّل ہم ان کے تمام اعتراضوں کو مان بھی لیتے ہیں پھر بھی حضرت اقدسؑ جھوٹے نہیں ٹھہرتے بلکہ ان کی سچائی ہر طرح ظاہر ہے کیونکہ اصل دارومدار فیصلہ کاالہام الٰہی پر ہوتا ہے.پس جبکہ الہام الہی سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہو اکہ عبد الحکیم مرزا صاحب کی زندگی میں ہلاک ہو جائے گا تو پھر ان کی اجتہادی غلطی پر اس قدر زور دیا محض تعصب اور ضدہے.کیونکہ جب الہی اجتہادی غلطیاں کل انبیائے کرام سے ہوتی رہتی ہیں اور قرآن شریف ان کا ذکر کرتا ہے اور احادیث میں ان کا بیان ہے تو پھر حضرت صاحب پر یہ اعتراض خصوصیت سے کس طرح آسکتا ہے ؟ اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو اور اپنے دلوں کو ٹٹولو کیا وہ تم کو ایسا اعتراض کرنے پر ملامت نہیں کرتے جو صرف مرزا صاحب پر ہی نہیں بلکہ تمام نبیوں پر بھی وارد ہوتےہیں.تم حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اس قدر دیوانے کیوں ہو رہے ہو ذرا تحمل و صبر سے کام لو اور ٹھنڈے دل سے اس معاملہ پر غور کرو تو تم پر کھل جائے گا اور روز روشن کی طرح ظاہر ہوجائے گا کہ تم ایسے بے ہودہ اور لغو اعتراضوں سے صرف حضرت مسیح موعودؑ کا ہی انکار نہیں کرہے بلکہ آدم سے لے کر نبی کریمﷺ تک تمام نبیوں کی ہتک کرتے ہو.اور ایسے کلمات تمہارے منہ سے نکلتے ہیں جن سے ان کا انکار لازم آتا ہے.اور وہ جن کی عزت کرنا تمهارا فرض ہے اور جن کی تابعداری کرنا تمہارے لئے فخر کا باعث ہے انہیں پر اپنی بد زبانی کے تیر چلارہے ہو.تم سمجھتے ہو کہ تم دین کی خدمت میں مصروف ہو مگر جس قدر ضرر دین کو تمہارے ہاتھوں سے پہنچ رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے.تم اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اسی تنے کو کاٹ رہے ہو جس پر خودکھڑےہو.اور دنیا کے لالچ اور عزت اور بڑائی کی خواہش نے تم کو دیوانہ بنا رکھا ہے اور تم اپنے نفع کےلئے دین کا نقصان کر رہے ہو اور جاہل اور نادان لوگوں کو اپنے فائدہ کی خاطر اس سچائی اور ہدایت کے سرچشمہ سے روک رہے ہو جو خدا نے ان کی حالتوں پر رحم کھا کر ظاہر کیا ہے.خدا کا خوف

Page 145

تمہارے دلوں سے کیوں اٹھ گیا اور یوم الدین پرتمہیں کیوں ایمان نہیں رہا.دین کے مغز کو چھوڑکر قشر کی طرف لپک رہے ہو.اور نہیں دیکھتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.کیار اسلام کا خداجو غیور خداہے جو شری اور بد بخت انسان کو بغیر سزادیئے کے نہیں چھوڑتا تمہارے اعمال و اقوال سے ناواقف ہے.کیا یہ بغض اور کینہ اور عداوت جو تم اس کے مامور سے ظاہر کر رہے ہو اس کی نظروں سےپوشیدہ ہے.کیا وہ خدا جس نے نوح ؑکے وقت میں کفار کو غرق کیا اور لوط ؑکی بستی کو الٹا دیا اور عیسیٰؑ کے مخالفوں کو ذلیل و خوار کیا اور نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کو تباہ و برباد کیا اور جو رسول دنیامیں آیا اس کی مدد کی اور جنہوں نے انکار کیا انہیں ہلاک کیا.آج اپنے رسول کی مدد چھوڑ دے گا اوراپنی سنت اور وعدوں کے خلاف اس کے قائم کئے ہوئے سلسلہ کو تباہ ہونے دے گا.ہاں ذرا غور توکرو کہ آدمؑ سے لے کر حضرت نبی کریمﷺ تک جو وعدے مسیح موعودؑ کی نسبت کئے گئے تھےکیا وہ خالی جائیں گے.اور شیطان بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے گا.اور کفر ایمان کو کھا جائے گا.اورشرک توحید پر غالب آجائے گا.اور کیا تم یقین کرتے ہو کہ اس کے بعد اسلام کا کوئی نام بھی لے گا.اور وہ دین جو نبی کریمﷺ اور صحابہ نے خدا کی خاطر اپنی جانیں قربان کر کے قائم کیا تھا اس کی طرف کوئی رجوع بھی کرے گا؟ پس جب ایسا نہیں ہے.اور خدا اپنے بندوں کو دشمنوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑتا.اور ان کو مدد اور نصرت دیتا ہے.اور جس کام کے لئے ان کو بھیجا ہے اس کو پوراکرکے چھوڑتا ہے.اور ان کے ارادوں کو پورا کرتا ہے.اور ہر میدان اور ہر لڑائی میں ان کو فتح دیتاہے.اور ہمیشہ کامیابی ان کے ساتھ رہتی ہے.اور ان کے دشمن ہلاک کئے جاتے ہیں.اور دین و دنیامیں ذلیل کئے جاتے ہیں.اور وہ جو چشم بصیرت رکھتے ہیں اپنی آنکھوں سے سچائی اور جھوٹ میں فرق دیکھ لیتے ہیں.تو آج بھی جبکہ خدا نے ایک رسول بھیجا اور اس کو وعدہ دیا کہ دنیا میں تیرا نام روشن کروں گا.اور تیرے دشمنوں کو ہلاک کروں گا.اور وہ جو تیرے ساتھ ہوں گے ہمیشہ ان کی مدد و نصرت کروں گا.اور ان کے مقابل کھڑے ہونے والوں کو پسپا کروں گا.وہ ہر ایک دشت اور ہرایک میدان اور ہر ایک پہاڑ اور ہر ایک وادی میں پائیں گے.یہاں تک کہ فرمایا جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيمة تذکرہ: یعنی وہ جو تیرے تابعدار ہوں گےانہیں تیرے منکروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا.اور ان کا ہاتھ ہمیشہ ان کے اوپر رہے گا.تو کیونکرممکن ہے کہ وہ جو مخالفت کرتے ہیں بغیر عذاب کے چھوڑے جائیں اور انہیں موقعہ دیا جائے کہ سچائی کے طرف داروں کو ہلاک کر دیں.پس خدا سے ڈرو اور توبہ کرو تاکہ خدا اپنے عذابوں کو تم

Page 146

سے ٹال دے اور تم ان مصیبتوں سے بچ جاؤ جو قریب ہے کہ خدا کے وعدہ کے مطابق دنیا کو گھیر لیں اور قیامت کا نظارہ تمہاری نظروں کے سامنے پھر جائے.یہ نہ خیال کرو کہ ابھی عذاب کے آنےمیں دیر ہے بلکہ سچائی کی مخالفت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے.اور حق کے طرف داروں کو اس قدر دکھادیا گیا ہے کہ شاید جب سے دنیا پیدا ہوئی ایسا بھی نہیں کیا گیا ہو گا.اور وہ جنہوں نے خدا کے رسول کاساتھ دیا اس قدر ستائے گئے ہیں کہ ممکن نہیں کہ ان کی آہیں آسمان تک نہ پہنچی ہوں.اور اس خدا کے برگزیدہ کی وفات کے بعد جبکہ چار لاکھ احمدی اپنے روحانی باپ کے سائے سے جدا ہو گئےاس قدر دشنام دہی اور سخت زبانی سے کام لیا گیا ہے اور اتنی ایذا رسانی کی گئی ہے کہ اس کا پورا علم خدا کے سوا اور کسی کو نہیں ہو سکتا.پس جبکہ ایک یتیم کے رونے کی آواز سے عرش عظیم کانپ جاتاہے تو کیا چار لاکھ انسانوں کی دل آزاری سے اس میں جنبش نہ آئی ہوگی.خد اکاوعدہ اس کے رسول کی معرفت ہمیں پہنچ چکا ہے اور ہمیں اپنے وجود سے بڑھ کر اس پر یقین ہے.اور ضرور ہے کہ ایک دن ان تمام ظلموں اور دکھوں کا بدلہ لیا جائے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ طاعون ابھی ملک سے رخصت نہیں ہوئی اور آئے دن کے زلزلے ایک بڑے زلزلہ کی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ جس کی نسبت خدا کار سول پہلے سے اطلاع دے چکا ہے.پس اے نادانو خد اکے دن کے آنے سے پہلے توبہ کرو کیونکہ اس وقت جبکہ عذاب سرپر آپہنچاتوبہ قبول نہیں ہوتی اور گریہ و زاری سے فائدہ ہو جاتی ہے.پس تدبر کرو.اور قرآن شریف کی اس آیت پر غور کر کے نصیحت پکڑو وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْمُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًابنی اسرائیل : ۵۹ یعنی کوئی بستی ایسی نہیں کہ جس کو قیامت سے پہلے ہم ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں.اور یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے امور حضرت مسیح موعودؑکو خبر دی گئی ہے کہ یہ وعدہ نہیں ٹلے گا جب تک کہ خون کی ندیاں نہ بہادی جائیں.پس یہ وقت ہے کہ اپنے دلوں کو سنوارو اور تقویٰ اور طہارت اختیار کرو تاکہ خدا کے دن کےآنےسےپہلےتمہارا نام مغضوبین سے کاٹ دیا جائے.تم کھتے ہو کہ ہمارا اس سلسلے سے کوئی دنیاوی مقصد ہےاوردنیاوی لالچ نے ہمیں اس کام کے لئے مجبور کیا ہے مگر میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح موعودؑکی دعاؤں نے ہمارے دلوں کو تمہارے لئے بے قرار کر دیا.ہم نے تمہارے لئے اس کی تڑپ مشاہدہ کی اور ہمارے دل بھی غمگین ہو گئے.ان کے کلام کو پڑ ھو اور غور کرو کہ اس کا دل تمهارےلئے کیسا بے چین تھا.

Page 147

کشتی اسلام بے لطف خدا اب غرق ہے اے جنوں بھی کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار مجھ کو دے اک فرق عادت اے خدا جوش و تپش جس سے ہو جاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار وہ لگادے آگ میرے دل میں ملتّ کے لئے شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسمان تک بے شمار اے خدا تیرے لئے ہر ذره ہو میرا فدا مجھ کو دکھلا دے بہارِ دیں کہ میں ہوں.اشکبار باوجود اس کے کہ وہ رات اور دن تمہارے لئے دعائیں کر تا تھا پھر بھی تسلی نہیں ہو تی.اور اب وہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ اے خدا میرے دل میں اور بھی زیادہ تڑپ پیدا کر کہ میں اپنی قوم کے لئے آہ و زاری کروں اور ہر وقت میری آہوں کے شعلے آسمان تک پہنچیں.اب اے ناظرین جو کچھ میں نے تمہیں کہنا تھاوہ کہہ چکا ہوں.اور چونکہ مضمون کی حد سے باہر گیا ہوں.اس لئے پھراپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں اور عبد ا لحکیم کی نسبت کچھ تھوڑا سا اور لکھ کر مضمون کےدوسرے حصہّ کو شروع کرتا ہوں.عبد ا لحکیم جس کو خدا کا رسول ہونے کا دعوی ٰہے جھوٹ اور افتراء سے کام لینے سے بھی بازنہیں آ تا.اس نے اپنے رسالہ اعلان الحق میں یہ الہام شائع کیا ہے.کہ مرزا پهپیھڑے کی مرض سے ہلاک ہو گیا.اور پھر لکھتا ہے کہ اگر چہ اصل مرض جس سے مرزا کی ہلاکت ہونی تھی یہی تھی.مگر مرزائیوں نے اس بات کو چھپائے رکھا.اور دنیا پر مرزا کے پھیپھڑے کی مرض کو ظاہر نہ ہونےدیا.گویا کہ نعوذ باللہ حضرت اقدس کو سل کی بیماری ہوگئی تھی.لعنت اللہ علی الکاذبین - اس قدرجھوٹ بولتے ہوئے اس شخص کو خدا کا خوف بھی نہیں آتا اور شاید اس کو وہ دن بھولا ہوا ہے جبکہ خدا کے رو برو اس کو ان تمام بہتانوں اور نعمتوں کا جواب دہ ہونا پڑے گا مگر افسوس کہ شیطان نےاس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے اور یہ سچ اور جھوٹ میں فرق نہیں کر سکتا.اصل بات یہ ہے کہ حضرت اقد س کو نومبر ۱۹۰۷ء میں موسمی کھانسی ہوئی تھی.یہ خبر عبد الحکیم کے شیطان نے بدراخبار میں پڑھ کر آپ کو جابتائی.اور اس نے جھٹ سی الہام بنا لیا کہ مرزا کو پھیپھڑے کی مرض ہو گئی ہے اور وہ اس سے ہی ہلاک ہو گیا.یعنی ہلاک ہو گا.مگر شاید دو بارہ اس کو یہ بتانا بھول گیا کہ وہ انہیں دنوں میں اچھے بھی ہو گئے تھے.اور جب دسمبر میں آپ نے یہ الہام بنایا تھا.اس وقت حضرت شفا یاب ہو چکے تھے اور یہ الہام آپ کے الہام بھیجنے والے نے اس خیال سے بتایا تھا کہ حضرت اقدس کثرت مطالعہ اور تصنیف کے کام میں تو اگلے ہی رہتے ہیں اور عمر بھی بہت ہوگئی ہے اس لئے یہ کھانسی سل ہی ہو گی.مگراسے کیا معلوم کہ لا یفلح السّاحر حیث اتٰی خداجھوٹے کو کبھی کامیاب

Page 148

!!! نہیں کرتا.وہ موسمی کھانسی تھی.اور اسی موسم میں اچھی ہو گئی.اور پھر دروغ گو را حافظہ نباشد کی مثال آپ پر کیسی صادق آئی ہے کہ یہ لکھ کر کہ مجھ کو الہام ہوا تھا کہ مرزا پھیپھڑے کی مرض سےہلاک ہو گا.آپ آگے لکھتے ہیں کہ مرزا مرض ہیضہ سے ہلاک ہوا.شاید آپ کی خدائی طب میں ہیضہ پھیپھڑے سے بھی پیدا ہوتا ہو گا، افسوس اے عبد الحکیم اگر تو ذرا بھی خشیت خدا سے کام لیتا تو آج اس درجہ کو کیوں پہنچتا.شرم شرم !! شرم !!! اس کے علاوہ ایک اور جھوٹ عبد الحکیم خاں نے بولا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک اپنا الہام مختلف اخباروں میں شائع کیا تھا.کہ مرزا ۲۱ ساون مطابق ۴اگست کو فوت ہو جائے گا.اور مختلف لوگوں کو خطوط میں بھی یہی لکھا تھا.جن میں سے ایک دو ہمارے پاس بھی موجود ہیں.اور پیسہ اخبار میں آپ کے خط کا فوٹو بھی شائع ہو چکا تھا.مگر باوجود اس کثرت اشاعت کے آپ نے اپنے رسالہ اعلان الحق میں یوں لکھا ہے کہ میں نے شائع کیا تھا کہ ۴اگست تک مرزا فوت ہو جائے گا.حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے اگر مختلف اخباروں میں یہ شائع نہ ہو چکا ہو تا.تو یہ کذب بیانی کام بھی آتی.مگر باوجود اس قدر شہادتوں سے آپ کا اس طرح دلیری سے بات بدل لینا کمال درجہ جرأت پر دلالت کرتا ہے.اور اس کی وجہ سوائے لا لچ کے اور کچھ نہیں.آپ نے سمجھا کہ حضرت اقدس فوت تو ہو ہی گئے ہیں.اس وقت جھوٹ بول کر بھی کام نکال لینارواہے کیونکہ دروغ مصلحت آمیزجائز ہے.اور اگر اور کچھ نہیں تو کم سے کم دوائیوں اور کتابوں کا اشتہار تو ہو جائے گا.اور ان کی بکری سے کچھ نہ کچھ نفع تومل ہی رہے گا.چنانچہ آپ نے اعلان الحق میں جس میں اپنی رسالت اور مرزا صاحب کی وفات کا ذکر کیا ہے.مختلف دواؤں اور کتابوں کا بھی اشتہار دیا ہے اور شاید اس اشتہار میں یہی مصلحت سمجھی ہو کہ حضرت اقدس کی مخالفت کی وجہ سے اشتہار کو لوگ پڑھیں گے.اور ساتھ ہی اصل مقصد بھی حاصل ہو جائے گا مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ دعویٰ رسالت کو پیش کرتے ہوئے بھی آپ جھوٹ بولنے سے نہ چوکے ، پیسہ اخبار، وطن ،اہلحدیث، یو نین گزٹ اور دیگر کئی اخباروں میں آپ کی پیشگوئی چھپ چکی ہے.اور خود آپ نے اپنے رسالہ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان ان اخبارات میں میری پیشگوئی شائع ہو چکی ہے.اور پھر باوجود اس کے ”۴ اگست کو\" کی جگہ آپ نے ۴ اگست تک \" بنا لیا.تف برایں دعویٰ مٰسلمانی چہ ولاو راست دزدے کہ کت چراغ دارد جب رسول یہ کام کرنے لگے تو امت کیا کرے گی؟

Page 149

باب دوم مولوی ثناء اللہ امرتسری اب میں عبد الحکیم کی نسبت کانی لکھ چکا ہوں.اور اگر خداوند تعالٰی کی مرضی ہو گی اور اس کا فضل شامل حال ہوا تو جن لوگوں کے دلوں میں کوئی شکوک ہوں گے وہ اس کو پڑھ کر رفع ہو جائیں گے.کیونکہ سوائے فضل خداکے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا اور اس بارے میں تو خود اس کا اپناکلام ہے کہیضل من یشاءو یھدی من یشاءکون ہے جو دعویٰ سے کہہ سکے کہ میری تحریر سے ہر ایک شک و شبہ دور ہو جائےگا.انسان کا کام کوشش کرتا ہے، اور ہدایت حق خداوند تعالیٰ کے اختیار میں ہے، چنانچہ میں عبدا لحکیم خاں کے باطل دعولی کا جواب دے کر مولوی ثناء اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں جو کہ امرت سر کے رہنے والے ہیں.اور بوجہ حضرت اقدس سے خاص بغض رکھنے کے احمدی جماعت کے اکثر لوگ ان کو جانتے ہیں.جیسے مسیح ناصریؑ کے وقت بعض فقیہہ اور فریسی اسی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح آپ کو دکھ پہنچے ویسے ہی مولوی ثناء اللہ صاحب نے قادیانی کے پیچھےلگے رہے ہیں.مگر اس قدر فرق ہے کہ وہ لوگ کسی قدر شرافت سے کام لیتے تھے.اور مولوی ثناءاللہ صاحب تمسخر کا ایک زندہ پتلا ہے.اور اس کے علاوہ گالیاں دینے میں بھی آپ نے ایک خاص مہارت پیدا کی ہوئی ہے.غرض خداکے فرستادہ کی مخالفت ہی ان کا کام ہے ، اور اسی پر ان کی زندگی کا دارو مدار ہے.کوئی موقعہ ایسا نہیں گذرا کہ یہ کچھ طعن و تشنیع نہ کریں.ہمارے سلسلہ کے لئے کوئی خوشی کا دن ہو یا غم کا ان کی ظریف طبیعت کے لئے ایک مشغلہ ہاتھ آجا تاہے.ظرافت کے فن کے مشتّاق سے مشتّاق آدمی کسی بات کو معمولی تصور کریں مگر یہ اس پر قہقہہ اڑائے بغیر نہیں رہ سکتے.زبان اردو کے گندے سے گندے شعر جو کسی دیوان سے مل سکیں وہ دینی معاملات میں آپ (فاطر:۹)

Page 150

استعمال کرتے ہیں اور کثرت سے یاد کئے ہوئے ہیں.غرض تمسخر اور بد زبانی یہ دو گر ہیں جن میں آپ کو خاص ملکہ ہے.اور جو آپ کی ہر ایک تحریر میں پائے جاتے ہیں.خشیت تو خیر خاص خاص لوگوں میں ہوتی ہے.یہ شرافت کا بھی بعض موقعوں پر خیال نہیں رکھتے.احمد ی جماعت کی جو خوبی ہے وہ ان کی نظر میں عیب دکھائی دیتی ہے.اور جو نیکی ہے یہ اس کو برائی تصور کرتے ہیں.اور دین کی خدمت کے لئے وہ خواہ کیسی ہی کوشش کرے یہ پھر بھی اس کو شرارت پر محمول کرتے ہیں.غرض کہ آپ کے خیال میں یا کم سے کم آپ کی زبان پر یہ بات ضرور ہے کہ احمدیوں کی نمازیں ریاء ہیں.روزے فریب ہیں.زکوٰۃ و خیرات سب دکھلا وے کے لئے ہیں.مخلوق خدا سے بھلائی ہے تو وہ صرف اپنے فائدہ کے لئے.غیر قوموں سے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے مباحثے ہیں تو وہ صرف ذاتی نفعوں کے لئے ہیں.اور یورپ و امریکہ میں اسلام کی تبلیغ ہے تو نفسانی خواہش سے ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ برتن میں ہوتا ہے وہی نکلتا ہے.اور گندے دلوں کی زبان سے بھی نجاست ہی ٹپکتی ہے.اپنے خیالات چو نکہ دنیاوی لالچ اور مالی ترقی سے پر ہیں اس لئے اس خدا کے مصلح اور اس کی جماعت پر بھی وہی شک ہے.انبیاء اور ان کی جماعت ایک صاف و شفاف آئینہ کی طرح ہوتے ہیں.بد بخت لوگ اس میں اپنا چہرہ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی ایسی جماعت ہے حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ خود ان کے دلوں میں ہی گندگی ہے اور وہ نجاست سے پر ہیں.اور ایک پھوڑے کی طرح ان کے جسم میں سوائے پیپ اور خون کے اور کچھ نہیں ، اور نہیں جانے کہ بغض اور حسد نے ان کی آنکھیں بے نور کر دی ہیں.اور باوجود آنکھوں کے نہیں دیکھتے اور ان پر خدا کا غضب ایسا بھڑکا ہے کہ کان تو رکھتے ہیں مگر سن نہیں سکتے اور دل ہیں مگر پاکیزگی سے دور ہیں اور ان کی زبانیں ہیں جو برے کلمات کے بولنے میں قینچی سے زیادہ تیز چلتی ہیں مگر پھر بھی حق کے کہنے کے لئے وہ گونگے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک بڑا کام کر رہے ہیں اور رسولوں کی مخالفت ہماری دنیا سنوار دے گی.مگر نہیں جانتے کہ یہی کام ان کو ہ ان سے کوسوں دور لے جارہا ہے اور دوزخ کے دروازہ کی طرف ہدایت کر رہا ہے.کاش کہ وہ عقل سے کام لیتے اور فکر اور تدبیر کرتے تو شاید ہلاکت سے بچ جاتے.غرض جب اس بد گمانی نے بہت ترقی کی اور ملک میں بھی اس کا اثر ہونے لگا تو حضرت اقدس کو اس کے روکنے کا خیال پیدا ہوا.چنانچہ \" قادیان کے آریہ اور ہم ‘‘کتاب کے شائع ہونے پر مولوی ثناء اللہ نے لکھا کہ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں.اور ان کے الہام سراسر

Page 151

کذب ہیں.اس پر ان کو لکھا گیا کہ آپ کو کتاب حقیقۃ الوحی شائع ہونے پر بھیج دی جائے گی.آپ اس کو پڑھ کر قسم کھا کر شائع کر دیں کہ یہ تمام الہامات جھوٹے ہیں اور کل معجزات غلط ہیں.اور یہ بھی لکھ دیں کہ اے خدا اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو میری دعا ہے کہ تیرے نام لعنت الله علی الکاذ بین کے مطابق تیرا عذاب مجھ پر نازل ہو.اور اس کے شائع ہونے کے بعد حضرت اقدس بھی شائع کر دیں گے کہ یہ تمام الہامات خدا کی طرف سے ہیں.اور اگر میں جھوٹا ہوں تو میری دعا ہے کہ لعنت اللہ علی الکاز بین.مگر مولوی ثناء اللہ جو سوائے باتیں بنانے کے اور کچھ جانتے ہی نہیں اور دین حق کا شرارت سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے اس بات کو مان کر کسی طرح فیصلہ کر سکتے تھے.انہوں نےبات کو ٹالنے کے لئے اس بات پر زور دینا چاہا.کہ پہلے عذاب کی تعیین کرد و.تو پھر میں مباہلہ کرتا ہوں.اور باوجود اس کے کہ قرآن و حدیث سے ان کو بتایا گیا اور ثابت کیا گیا کہ مباہلہ میں کوئی عذاب کی تعین نہیں ہوتی بلکہ سوائے لعنت اللہ علی اکاز بین اور کچھ نہیں کہاجاتا.انہوں نے اپنے پہلے کلام سے پھرنانہ چاہا اور خلاف حکم و سنت ایک نئی بدعت نکالنے پر زور دیتے گئے.اور اس کا سوائے اس کے کیا مدعا تھا کہ کسی طرح یہ پیالہ ان کے سر سے ٹل جائے اور وہ اس امتحان سے نجات پائیں.پس سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ فیصلہ کی کوئی اور راہ نکالی جائے.چنانچہ حضرت اقدس ؑنے اس خیال سے کہ زیادہ تر مولوی ثناء اللہ کو خود اشتہار دینے کی وقت ہے اپنی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا.اور اس میں اس قسم کی دعاکی کہ اے خدائے قادر چو نکہ مولوی ثناء اللہ بد زبانی میں حد سے بڑھ گیا ہے اور میری نسبت تمام دنیا میں عام طور سے شائع کرتا ہے کہ یہ شخص کاذب ہے جھوٹا ہے اور فریبی ہے اور اس نے کوئی معجزات اور خوارق نہیں دکھلائے.گویا کہ یہ تمام میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری طرف سے نہیں ہوں اور محض لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے میں نے یہ دعویٰ کیا ہے.پس اے میرے مولیٰ اور میرے قادر خداجو کہ میرے دل کی حالت کو جانتا ہے اور علم رکھتا ہے میں نے یہ افتراء نہیں کیا بلکہ تیری طرف سے حکم پا کر ایسا کیا ہے.سچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھلا تاکہ دنیا گمراہی سے بچ جائے اور تو ایسا کر کہ اگر میں سچا ہوں تو ثناء اللہ کو میری زندگی میں کسی مہلک مرض میں گرفتار کر یا میرے سامنے ہی اسے موت دے ورنہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے اس کی زندگی ہی میں اس دنیا سے اٹھالے اور ثناء اللہ اوراس کے ساتھیوں کو اس سے خوشی پہنچا.اور اس دعا کے اوپر یہ بات صاف صاف لکھ دی کہ میں کسی الہام یاپیشگوئی کی بناء پر فیصلہ نہیں چاہتا بلکہ خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایسا کرے.اور اس کے آخر

Page 152

میں یہ بھی لکھ دیا کہ مولوی ثناء اللہ اس دعا کو اپنے اخبار میں چھاپ کر جو چاہیں نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.اب ناظرین غور کر سکتے ہیں کہ یہ ایک فیصلہ کا طریق تھا جس سے جھوٹے اور سچے میں فرق ہو جائے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حق اور باطل میں کچھ ایسا امتیاز پیدا ہو جائے کہ ایک گروہ بنی نوع انسان کا اصل واقعات کی تہہ تک پہنچ جائے اور شرافت اور نیکی کا مقتضایہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ اس دعا کو پڑھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیتا کہ ہاں مجھ کو یہ فیصلہ منظور ہے.مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس کو سوائے ہوشیاری اور چالاکی کے اور کسی بات سے تعلق ہی نہیں.اور اگر وہ ایساکرتاتو خداوند تعالیٰٰ اپنی قدرت و کھلاتا.اور ثناء اللہ اپنی تمام گند ہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا.اور اسے معلوم ہو جا تاکہ ایک ذات پاک ایسی بھی ہے جو جھوٹوں اور سچوں میں فرق کردکھلاتی ہے.اور وہ جو بدی اور بد ذاتی کر تا ہے اپنے کئے کی سزا کو پہنچتا ہے اور شریر اپنی شرارت کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے.مگر جبکہ بر خلاف اس کے اس نے اس فیصلے سے بھی انکار کیا اور لکھ دیا کہ مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں تو آج جبکہ حضرت صاحب ؑفوت ہو گئے ہیں.اس کا یہ دعوی کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں.اور یہ میری سچائی کی دلیل ہے.کہاں تک انصاف پر مبنی ہے اور کیا کوئی انصاف پسند انسان ایسا بھی ہے جو ان تمام واقعات کو دیکھ کر پھر بھی اس بات پر شک لاسکے کہ مولوی ثناء اللہ کو سوائے اس دنیا کی شہرت سے اور کچھ مد نظر نہیں.اور وہ خداجو آسمانوں کا خدا ہے اور جس کی ہر ایک دل پر نظر ہے اور جو ہر ایک چھپی اور کھلی بات کو جانتا ہے اس کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور اس کو اس کی ہستی پر ایمان نہیں.یہ دنیا کو ہی اپنامال کار سمجھتا ہے اور روز حشر سے بے پرواہ ہے.چنانچہ اس دعا کے شائع ہونے کے بعد جن الفاظ میں اس نے اس فیصلہ سے انکار کیا میں وہ نیچے درج کرتا ہوں تاکہ ہر ایک انسان بطور خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی چالاکی سے واقف ہو جائے اور جان لے کہ خدا تعالیٰٰ نے مسیحؑ کو بے وقت نہیں بھیجا غرض کہ مولوی صاحب اس فیصلے سے انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ \"اس و عاکی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا‘‘ *میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے* وہ تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی کیونکہ *اسی مطلب کے لئے تو حضرت صاحب نے یہ فقرہ لکھا تھا کہ آپ اس دعا کو شائع کر کے جو چاہیں نیچے لکھ دیں.تاکہ خدا تعالیٰ بھی اسی رنگ میں نشان دکھاوے.منہ * لوگوں پر توحجت کچھ نہیں مگر آپ کے چیلے اور دیگر اہلحدیث جن کی نسبت لکھتے ہیں کہ کلکتہ تک آپ کو مباحثات پر بلاتے ہیں.تو اس فیصلہ سے ملزم ٹھہرتے ہیں.مگر اس فیصلہ کو منظورہی نہیں کیا تو اب مباہلہ قرار دے کر کیوں عاقبت خراب کرتے ہو.منہ

Page 153

مسلمان تو طاعونی موت کو بموجب حدیث شریف کے ایک قسم کی شہادت جانتے ہیں.پھر وہ کیوں تمہاری دعا پر بھروسہ کر کے طاعون زدہ کو کاذب جانیں گے.اور ان وجوہات کو لکھ کر اور اس آسان فیصلہ سے پہلو بچا کر آپ ان الفاظ میں صاف طور سے اس دعا سے انکار کر چکے ہیں.کہ مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اٹھانے کے لئے تیار ہوں.اگر تم اس حلف کے نتیجہ سے مجھے اطلاع دو.اور یہ تحریر تمهاری مجھے منظور نہیں.اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.*(اخبار الحد یث۲۶/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵،۶ ) اب دیکھنا چاہئے کہ مولوی ثناء اللہ نے اس دعا کے بعد اس فیصلہ سے صاف طور سے انکار کر دیا ہے.اور لکھا ہے کہ اس فیصلے کا اثر سوائے میرے اور کس پر پڑ سکتا ہے.پس مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں.اور آپ لکھتے ہیں کہ اگر عذاب مقرر کر دیا جائے تو میں مرزا صاحب کے جھوٹے ہونے پر قسم کھا سکتا ہوں.نہیں تو مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں.حالانکہ بار بار لکھا گیا ہے کہ خدا کسی کے منہ کی بات پورا کرنے کا ذمہ دار نہیں.اور قرآن شریف سے عذاب کی تعیین د عامیں ثابت نہیں ہوتی.اور آپ نے یہ بھی لکھا کہ اس فیصلے کو کوئی د انا منظور نہیں کر سکتا.اس پر مجھ کو بہت تعجب ہے.کیونکہ اب جبکہ مرزا صاحبؑ فوت ہو گئے ہیں مولوی ثناء اللہ دنیا کو دھوکا دینے کے لئے کیوں اس دعا کو لوگوں کے سامنے فیصلہ کے لئے پیش کرتے ہیں.کیادہ اس وقت دانا تھے.اور اب جاہل مطلق ہو گئے ہیں.کہ اب اس فیصلہ کو منظور کرنے لگے.کیا وہ اپنی ہی تحریر کے مطابق اب جاہل مرکب نہیں ٹھہرتے اور ان کی حماقت میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ کیونکہ اس وقت تو وہ صاف طور سے انکار کر چکے ہیں اور لکھ چکے ہیں کہ کوئی دانا اس فیصلہ *اگر مسلمان اس وقت ایسا خیال کرتے ہیں.تو آپ ڈرتے کیوں ہیں آپ کے ہی بھائی بند طاعون ملعون کالفظ لکھا کرتے ہیں.اسوقت شاید اور حالت میں ہوتے ہوں گے.حسدکابراہو یونہی ذکر کریں تو طاعون کو سوسو گالیاں دیں اور ہمارے مقابلہ پر آکر اس کو شہادت کی موت قرار دیں اگر یہ شہادت تھی تو حضرت عیسیٰ نے اپنے دوبارہ آنے کی نشانی یہ کیوں بتائی کہ اس وقت طاعون پڑے گی.اگر اس کی موت ہر ایک کے لئے شہادت ہو تو مخالفین حضرت عیسیٰ تو اس موت سے آخرت کا توشہ جمع کر لیں گے.افسوس یہ موت اگر شہادت ہے تو احمدیوں کے لئے کیونکہ ان کے نبی نے پہلے سے خبر دیدی تھی.کہ اب عنقریب اس ملک میں طاعون پڑنے والی ہے.اور وہ میری سچائی کا نشان ہوگی.پس اگر صحابہ کی طرح کوئی احمدی بھی اس میں مبتلا ہو جائے تو اس کے لئے شہادت ہے.نہ یہ کہ ملک کا ملک مرگیا.اور کہہ دیا کہ شہادت نصیب ہوئی.حالانکہ ایک مدعی نبوت اپنے آنے سے پہلے کہہ چکاہو کہ طاعون میری سچائی ثابت کرنے کے لئے آنے والی ہے.فاعتبروا یا اولی الابصار *افسوس ان لوگوں کو کیا ہو گیا.قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ مباہلہ کے لئے صرف اتنا کہنا چاہئے کہ مگر یہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عذاب کی تعیین کرو.کیا یہ بد بخت اس بات کو نہیں سمجھتے کہ نبی کریم ﷺکے مخالفوں نے بھی تو کہاتھا فامطرعلینا حجارةمن السماء (الانفال : ۳۳) کیا ان پر یہی میں عذاب نازل ہوا تھا.بلکہ انہوں نے تو پھر بھی کچھ عقلمندی د کھائی تھی.کیونکہ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ اوِاٴتنابعذاب اَلیم( الانفال : ۳۳) یعنی اگر منہ مانگاعذاب نازل نہیں ہوسکتاتو کوئی اور عذاب ہی ہم پر نازل ہو.اور اگر یہ لوگ یہ کہیں کہ نبی تو دعا میں عذاب کی تعین کر سکتا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ حضرت نوح کی دعا کو دیکھو کہ وہ کیا دعا کرتے ہیں.کیا انہوں نے کسی عذاب کی تعین کی ہے؟ نہیں ان کی دعا ایک بالکل ساده دعا ہے کہ رب لا تذر على الأرض من الكفرين دیّارا (نوح:۲۷)

Page 154

کو نہیں مان سکتا.اور اب جبکہ مرزا صاحب فوت ہو چکے ہیں.تو اپنی ولایت ثابت کرنے کے لئےاشتہار دے دیا کہ اس دعا کے مطابق میں سچا ثابت ہوا.لیکن اگر وہ غور کریں اور تدبر سے کام لیں تو ان پرکھل جائے گا کہ اس فیصلہ کو مان کر بجائے سچا ثابت ہونے کے وہ محض جاہل اور احمق ثابت ہوئے ہیں.کیونکہ وہ خوردشائع کر چکے ہیں کہ اس کے ماننے والا دانا نہیں یعنی احمق ہے.اب ناظرین خود سوچ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے تو مباہلہ سے مولوی ثناء اللہ صاحب نے انکار کیا اور پھر جب دعا کا طریق فیصلہ کے لئے مقرر کیا کہ اس طرح حق ثابت ہو جائے اور جھوٹے اور سچےمیں امتیاز ہو جائے تو اس نے اس کا بھی انکار کردیا اور لکھا کہ اس کا اثر تو مجھ پر پڑتا ہے پھر اس کا کیا فائدہ مگر یہ نہ سمجھا کہ جب اس نے قسم کھانے کی خواہش ظاہر کی تھی اور لکھا تھا کہ اگر عذاب معین کردیا جائے تو میں قسم کھا سکتا ہوں.اس وقت بھی تو عذاب کا اثر اسی پر پڑ تاتھانہ کسی اور پر.پھر اس وقت کیوں پڑھ پڑھ کر خلاف سنت کہتا تھا کے عذاب کی تعیین کردو تو میں قسم کھا لیتا ہوں کہ مرزا جھوٹا ہے.کیاقسم کھانے کے وقت ثناء اللہ کی حیثیت اور تھی اوراس دعا کے شائع کرنے کے وقت او ریا محض بہانہ جوئی سے کام لیا گیا تھا.بہرحال جبکہ یہ خود انکار کر چکا ہے اور اس فیصلہ کو رد کر چکا ہے تواب اس وقت اس کا پھراسی دعا پر زور دینا شرارت نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ اس وقت اس نے اس طریق فیصلہ سے انکار کر دیا تھا اس کا اشتہار جو اس نے حضرت اقدسؑ کی وفات کے بعد دیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ اس نے محض دھوکادہی سے کام لیا ہے.کیونکہ اس میں اس نے مان لياہے کہ میں نے اس وقت اس طریق فیصلے سے انکار کر دیا تھا اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر حضرت کی وفات کو اس دعا کی بنا ء پر قرار دیتا ہے.کیونکہ باوجود اقرار کرنے کے کہ میں نے انکار کر دیا تھا پھر اپنی سچائی ظاہر کرتا ہے.کیا یہ اتنی بات لکھنے سے بھی قاصر ہے کہ اسی مباہلہ یا دعاکی ضرورت تو سچے اور جھوٹے کے فیصلہ کے لئے تھی.اور اسی لئے تھی کہ کاذب اور اس کے ساتھیوں پر حجت قائم ہو جائے اور وہ گمراہی سے بچ جائیں مگر جب اس نے اس فیصلہ سے صاف انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ ہمارے لئے کوئی حجت نہیں تو پھر اگر اس دعا کا اثر اس پر پڑتا اور یہ کسی عذاب میں مبتلا ہو تاتو صاف جواب دیتا کہ میں نے تو صاف انکار کردیا تھا کہ یہ فیصلہ مجھے قبول نہیں پھر اس کے اثر کے کیا معنی اور اگر یہ حضرت کی زندگی میں مر جاتا تو اس کے چیلے لکھتے کہ ہمارا گرو اس فیصلے سے انکار کر چکا ہے.اس لئے ہم پر اس کی موت سے کوئی حجت قائم نہیں ہوئی.پس جب خوداسی کے انکار سے واقعات کا پلو بالکل بدل گیا ہے تو اب اس کا حضرت صاحب کی

Page 155

وفات پر یہ ظاہر کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کی وجہ سے وہ فوت ہوئے ہیں سراسر اتہام ہے اور تہمت ہے اور جھوٹ ہے.کیا یہ اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اس نے اس وقت انکار کیا تھا اور اس دعا کے فیصلہ کو منظور نہیں کیا تھا.پس جب یہ خود اپنی زبان سے انکار کر چکا ہے اور اس طریق فیصلہ کو نامنظور کر چکا ہے.تو اب یہ کس طرح حضرت صاحب کی وفات سے اپنی سچائی ثابت کر سکتا ہے.اسے چاہئے تھا کہ شرم کرتا اور حیا سے کام لیتا مگر حق کے مخالفوں سے ایسا کس طرح ہو سکتا ہے.وہ جھوٹ اور فریب سے کام لینا برا نہیں سمجھتے بلکہ ایک قسم کا ثواب سمجھتے ہیں.اس وقت تو سچائی کے رعب میں آکر اس نے حیلہ بازی سے اپنا سر عذاب الہی کے نیچے سے نکالنا چاہا مگر جب اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے اس منسوخ شده فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کر دیا.مگر کیا یہ خیال کرتا ہے کہ وہ عذاب سے بچ جائے گا یا خدا کا غضب اس پر نہیں بھڑکے گا.نہیں اس کی یہ سراسر غلطی ہے جو اس کے مامور کا انکار کرتے ہیں وہ سزا سے نہیں بچے اور خدا تعالیٰ انہیں بری طرح پیستا ہے اور دنیا پر ظاہر کر دیتا ہے کہ جھوٹے اور سچے میں کیا فرق ہے.اگر مولوی شاء اللہ نے اس دعا کے فیصلے سے انکار کر کے اس بات سے اپنے آپ کو بچالیا ہے کہ یہ حضرت صاحب کی زندگی میں فوت نہیں ہوا تو کیا ہوا.خدا کا کلام بڑے زور سے اطلاع دے رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکے مخالف نہیں بچیں گے.اور وہ اس دنیا میں اور آخرت میں ذلت کا عذاب بھگتیں گے.اور خدا ان کو اس طرح ہلاک کرے گا کہ دنیا ان کا نام لیتے ہوئے شرمائے گی.اور آئندہ آنے والی نسلیں اپنی اولاد کو ان کے نام لے کر نصیحت کریں گی کہ دیکھو بدی کا بدلہ بدی ہوتا ہے.ان لوگوں نے خدا کے مامور کی دشمنی کی اور اس ذلت اور عذاب میں پڑے.پس کیاہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو روشنی سے فائدہ اٹھائے.اور کیسا بد بخت ہے وہ جو نصف النّہار کے وقت سورج کا انکار کرے.وہ جن کی آنکھیں تندرست ہیں روشنی پر خوش ہوتے ہیں.مگر وہ جو آشوب پیشی میں مبتلا ہیں روز روشن میں بھی اندھیرے میں رہنا پسند کرتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ نہ صرف مولوی ثنا ء اللہ نے اسی وقت اس دعا کے اثر سے انکار کیا بلکہ پیچھے بھی اس سے انکار کرتا رہا.کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ جھوٹے اور شریر کے دل میں ایک قسم کا خلجان ہو تا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرے جھوٹ کی سزا مجھ کو ملے گی اور وہ شرارتیں جو میں نے کی ہیں وہ رنگ لائے بغیر نہیں رہیں گی اور ایک دن مجھے ان کی سزا برداشت کرنی پڑے گی.چنانچہ مئی ۱۹۰۸ء کے مرقع قادیانی میں اس بات سے ڈر کر کہ کہیں خداوند

Page 156

تعالیٰ اس شوخی اور شرارت کا مزہ نہ چکھائے آپ نے یہ مضمون لکھا ہے اور اس میں آپ لکھتے ہیں کہ مجھ پر مرزا صاحب کے مباہلہ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور سال جو میعا و مباہلہ ہوتا ہے وہ گذر گیا.اور اس طرح آپ نے اپنی طرف سے زور لگایا ہے کہ یہ ثابت کر دیں کہ میعا و مباہلہ گذر گئی ہے.اب مجھ پر کوئی عذاب نہیں آنا چاہئے.اور اب میں محفوظ ہوں.چنانچہ آپ حضرت اقدس کی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں جو رسالہ مرقع میں پہلی جون کو شائع ہوا لکھتے ہیں.مرزائی جماعت کے جوشیلے ممبرو! اب کس وقت کے منتظر ہو تمہارے پیر مغاں کی مقرر کردہ مباہلہ کی میعار کا زمانہ تو گذر گیا.مگر افسوس کہ یہ بات لکھتے ہوئے شرم تو نہ آئی کہ میں اس دعا کو مباہلہ کا نام دیتا ہوں جس کا انکار کر چکا ہوں.جبکہ آپ اپنے اخبار اہلحدیث میں صاف طور سے اس دعا کے اثر کا انکار کر چکے ہیں اور لکھ چکے ہیں کہ میں اس طریق فیصلہ کو قطعاً نامنظور کر تا ہوں اور مجھے اس سے قطعی اتفاق نہیں اور کوئی دانا اس سے اتفاق نہیں کر سکتا.تو اب آپ کو کیا ہو اکہ اپنے ہی قول کے مطابق بیوقوف او رجاہل بن کر اس کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں.خیر اس بات پر توہم کافی لکھ آئے ہیں.اس عبارت کے یہاں نقل کرنے سے ہمارا اصل مطلب یہ ہے کہ آپ نے نہ صرف اس دعا کے اثر سے انکار میں کیا بلکہ ایک سال کی میعادکے بعد اس کو مباہلہ کا نام دے کر اس کی میعادکو ختم کر دیا چنانچہ مرقع کی مندرجہ بالا سطور سے جو اس کے صفحہ ۲۰ بابت جون ۱۹۰۸ء میں درج ہیں.اور جو کہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں.صاف پتہ لگتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ کے خیال میں اس دعا کی میعاد ختم ہو گئی ہے یا کم سے کم حق کے خوف سے ان کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایسا مضمون لکھ کر اپنا پیچھا چھڑائیں.اور اپنے خیال میں اس عذاب سے بچ جائیں جو کہ ان کے لئے آسمان پر مقرر ہو چکا ہے، یا کم سے کم کسی مصیبت کے وقت یہ بات کہہ سکیں کہ میں اس دعا کے فیصلے سے شروع میں بھی انکار کر چکا ہوں.اور مزید احتیاط کے لئے ایک سال کے بعد بھی میں نے اس کا انکار شائع کر دیا ہے.مگر جبکہ دو دو دفعہ پہلے اس کا انکار کر چکے ہیں تو اب حضرت صاحب کی وفات کو اس دعا کی بناء پر کیوں ٹھہراتے ہیں.کیا خدا کا خوف ان کے دل میں اس قدر بھی نہیں کہ وہ کم سے کم اس بات کو ہمارے مقابل پر بطور دلیل کے نہ لا ئیں جس کامانناوه خوددانائی سے بعید اور حماقت قرار دے چکے ہیں.تیسری بات یہ ہے کہ کسی نبی کا دنیا میں مبعوث ہونا یا مامور ہو نا صرف اسی غرض کے لئے ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو راہ راست سے دور جا پڑے ہیں.اور طرح طرح کے دشوار گذار جنگلوں اور میدانوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں.ان کو صراط

Page 157

مستقیم پر چلایا جائے اور وہ لوگ جو خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں.یا اس کی ذات میں کسی اور کو شریک ٹھہراتے ہیں.ان پر خدا کی واحد ولا شریک ہستی کو ظاہر کیا جائے اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کیا جائے اور بدیوں اور بدکاریوں اور مختلف قسم کے گناہوں کی جڑ زمین سے اکھیڑ دی جائے اور ان تمام شیطانی کارروائیوں اور فریبوں اور مکروں کو برباد کیا جاوے اور خاک میں ملا دیا جائے جو کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے راستہ میں کئے جاتے ہیں اور تا کہ ایسا ہو کہ خدا کے نام کی برکت پھر دنیا میں پھیلائی جائے اور سعید دلوں سے اس کی دوری کابیج نکال دیا جائے اور بجائے کفر کی پلید کیوں اور گندگیوں اور نجاستوں کے پودا کے ایمان اور تقویٰ کا مضبوط اور سایہ دار درخت لگایا جائے اور انسانوں کے دلوں میں الفت اور محبت اور یگانگی پیدا کی جائے اور حسن ظنی کے وسیع اور با امن راستہ پر ان کو بلایا جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان کو گمراہی اور ضلالت میں چھوڑ دے.چنانچہ جب کبھی شرک اور بدعت اور فسق و فجور دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور گناہوں سے دنیا بھر جاتی ہے اور وہ جو پاک اور مقدس ہوتے ہیں ان پر ہنسی کی جاتی ہے اور دین کی باتوں کو ٹھٹھے میں اڑایا جاتاہے اور خدا کے نام کی پرواہ نہیں کی جاتی اور اس کا جلال دلوں سے اٹھ جاتا ہے اور ایک ایسا اندھیرادنیا پر چھا جاتا ہے کہ آفتاب و حدت کا روشن چہرہ بالکل چھپ جاتاہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں اور مختلف قسم کے بتوں کی پوجا کی جاتی ہے کو ئی تجارت کو اپنا رزاق سمجھتا ہے تو کوئی زراعت کو اور بہت سے ہوتے ہیں جو اس خدائے قادر کی بجائے ضعیف اور ناتواں انسان کی پرستش کرتے ہیں اور ایک کثیر تعداد مخلوق کی بے جان چیزوں سے اپنی حاجت روائی کرنا چاہتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور زمین اور پہاڑ اور دریا اور جنگل اور درخت اور پتھر اور لکڑی اور تصویروں کو خدا کا قائم مقام سمجھ لیا جاتا ہے.یہ ایک زمانہ ہوتا ہے کہ دنیا خدا کی سلطنت کی بجائے شیطان کی سلطنت کو قبول کرتی ہے اور بنی نوع انسان کا دشمن ایک دوست کے طور پر دیکھا جاتا ہے.ایسے وقت میں خدا کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اس کا رحم اور غضب ایک ہی وقت میں بھڑک اٹھتے ہیں.اور وہ ارادہ کر لیتا ہے کہ دنیا سے گناہوں کو دور کیا جائے.اور اس کا چہرہ پھر دوباره روشن کیا جائے اور بعد اور دوری کے بادلوں کو اس کے آگے سے ہٹادیا جائے.اور اس کی بجائے اس کی رحمت کی بارش دنیا پر ہو اور محبت اور پیار کی خوشگوار ہواؤں کے جھونکوں سے ان پاک باز روحوں کے دماغوں کو معطر کیا جائے جو کہ خدا کی بادشاہت کے لئے مدتوں سے غم کرتے اور رنج اٹھاتے ہیں.اور یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ اس کے غضب کی کو ئی انتہاء نہیں ہوتی کیونکہ بد

Page 158

کار لوگ بدی میں حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.اور وہ ایسا غصہ میں ہو تا ہے کہ گویا کبھی بھی ایسا خشم ناک نہیں ہوا.مگر ساتھ ہی وہ اسی وقت اور انہیں دنوں میں ایسا مہربان ہو تا ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے زیا دہ وہ پہلے بھی کبھی مہربان ہوا کیونکہ یہ وقت اس کے پیارے بندوں کے انعامات حاصل کرنے کا ہو تا ہے.اور وہ جو بدیوں کو چھوڑتے ہیں اور نیکی کی طرف راغب ہوتے ہیں اس کے بے پایاں رحم اور احسان کے لذیذ اور خوشبودار پھلوں کو کھاتے ہیں اور ایسے امن کی حالت میں ہوتے ہیں کہ گویا جنت ان کے لئے دنیا ہی میں اتر آئی ہے اس وقت دنیا سے بدی کووور کرنے اور نیکی کو پھیلانے کے لئے خدا اپنے بندوں میں سے کسی کو چن لیتا ہے اور اپنا کلام اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی رحمتیں اور برکتیں اس کے شامل حال کر دیتا ہے اور ہر حال اور ہر مقام میں اس کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ جو اس بندے کو دکھ دیتا ہے گویا خدا کو دکھ دیتا ہے.اور وہ جو اس کے ساتھ ہوتا اور اس کے کام میں ہاتھ بٹاتا ہے گویا خدا کے ساتھ ہوتا اور اس کی مرضی کے لئے کام کرتا ہے.پس اصل غرض جو ایک نبی کی بعثت کی ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ دنیا سے بدی اور بدکاری کو دور کیا جائے اور اس کی بجائے نیکی اور تقویٰ کو رواج دیا جائے اور بجائے شیطان کی سلطنت کے خدا کی سلطنت قائم کی جائے چنانچہ جو لوگ ان کی بعثت کی اصل غرض سمجھ لیتے ہیں وہ کبھی ٹھو کر انہیں کھاتے ہیں جبکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے آنے کی اصل غرض اصلاح ہے تو ہر ایک چشم بصیرت رکھنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ ان کے ہر ایک کام میں بھی اصلاح ہی مد نظر ہوگی.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کی تمام پیشگوئیاں اور معجزات بھی اسی غرض کے پورا کرنے کے لئے ہوں گے.پس جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی تو اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ حضرت اقدس ؑ بھی اسی غرض کے پوراکرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور انکی رسالت سے اصل غرض خدا تعالیٰ ٰکی یہ نہ تھی کہ آ تھم مرے یا لیکھرام قتل ہو یا آسمان پر چاند اور سورج کو گرہن لگے یا زمین پر طاعون پھیلے یا کانگڑہ اور سان فرانسسکو میں زلز لے آئیں بلکہ اصل غرض یہ تھی اور اسی لئے دو مبعوث ہوئے تھے کہ اصلاح ہو.اور اگر کوئی پیشگوئی کی جاتی تھی تو اس لئے کہ اصلاح ہو اور لوگ اس نشان کو دیکھ کر اس کی شناخت کریں.اور اگر کسی کی موت کی خبر دی جاتی تھی تو وہ بھی اس لئے کہ حق کے دشمنوں پر ایک حجت قائم ہو اور سعید روحیں اصلاح حاصل کریں چنانچہ ہر ایک نبی کے وقت جو وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی تھیں اور بعض دفعہ التواء میں پڑ جاتی تھیں تو اس کی اصل وجہ بھی یہی ہوتی تھی.کیونکہ

Page 159

جب خدا تعالیٰ اصلاح کی کوئی اور صورت پیدا کر دیتا تھا تو پھر اس عذاب کی ضرورت نہیں رہتی تھی.اور وہ یا تو ایک وقت تک ملتوی ہو جاتا تھا یا منسوخ ہو جاتا تھا.اور اسی سنت اللہ کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس وقت بھی اپنے نبی سے سلوک کیا اور حضرت اقدس کے عہد با برکت میں بھی اسی طرح ہوا جیسے پہلے نبیوں کے زمانہ میں.اور جب کوئی وعید کی پیشگوئی ہوئی یا کسی اور صورت سے کسی دشمن کو عذاب کا وعدہ دیا گیا اور اصلاح کی کوئی اور صورت نکل آئی تو پھر وہ وعید کی پیشگوئی ٹل گئی.چنانچہ آتھم کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا کہ جب اس نے رجوع کیا اور اپنے دل میں سخت ڈرا اور عین مباہلہ کے وقت امرتسرمیں اس نے نبی کریم ﷺ کو گالیاں نکالنے سے انکار کیاجو کہ بنائے مباہلہ تھی تو خداوند تعالیٰ نے اس پر سے عذاب کو ٹال دیا اور اس کو ڈھیل دی اور وہ پند ره ماہ سے زیا دہ زندہ رہا.لیکن جب اس نے قسم کھانے سے انکار کیا اور پھر مفسدہ کا خوف ہوا تو خداوند تعالیٰ نے اصلاح اسی میں دیکھی کہ پھراسی مدت (پند رہ ماہ میں ) اسے ہلاک کیا جائے اور پہلے جو اس کو ڈھیل دی گئی تو صرف اسی وجہ سے کہ اس نے اپنے نفس کی اصلاح کی لیکن جب اس نے پھر شرارت کی تو ملک کی اصلاح اس میں تھی کہ اس کو ہلاک کیا جا تا چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا.اس طرح ثناء اللہ کے لئے بھی حضرت اقدسؑ نے جو بد دعا کی تو اس لئے کہ دنیا میں اصلاح ہو اور وہ لوگ جو اس کے زیر اثر ہیں وہ اس عذاب کو دیکھ کر ڈر ہیں اور توبہ کریں.اور ان پر حجت قائم ہو جائے.پس اس دعا کا اصل مدعا ثناء اللہ کی پارٹی پر اتمام حجت کرنا تھا کیونکہ کسی شخص کی وفات سے یا ہلاکت سے اس کے دشمنوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے وہ تو کہہ دیں گے جھوٹا تھا ہلاک ہو گیا مگر وہ جو اس کے دوست ہیں اور اس سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کی عزت انکے دلوں میں ہے اس کی موت سےنصیحت پکڑ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور ان پر اتمام حجت ہو سکتا ہے.پس و عاجو ثنا ء اللہ کے لئے کی گئی تھی اس کا اثر صرف اس کے پیرو ان پر ہو سکتا تھا اور وہی تھے جن کے سامنے ہم یہ بات پیش کر سکتے تھے.کہ ثناء اللہ مرزا صاحب کی دعا کے مطابق مرگیا.لیکن جب ثناء اللہ نے محض شرارت اور چالاکی سے اس دعا کے فیصلہ سے انکار کر دیا.اور صاف لکھ دیا کہ میرا مرنا کسی کے لئے کوئی حجت نہیں اور میری موت سے مرزا صاحب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور یہ بھی لکھا کہ اس فیصلے کو میں منظور نہیں کرتا.چنانچہ اہلحدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء میں درج ہے کہ یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتاہے.\" پس جبکہ ثنا ء اللہ نے اس فیصلہ کو دانائی سے بعید اور ناقابل منظوری سمجھ کے رد کر دیا تو پھر اس کی پارٹی پر اس کی موت کا کیا اثر پڑ سکتا تھا.اگر یہ مر جاتا تو وہ کہہ دیتے کہ ہمارا استاد تو لکھ گیا ہے کہ یہ فیصلہ مجھے منظور نہیں پھر ہمارے لئے یہ کیونکر /۲۹

Page 160

قطعی ہو سکتا ہے چنانچہ خداوند تعالیٰ نے چاہا کہ اسی کے قول کے مطابق اس کو پکڑے اور ملزم کرے.تاکہ ایسا ہو کہ وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعودؑمبعوث ہوئے تھے پورا ہو اور دنیامیں اصلاح کا بیج بویا جائے.پس چونکہ ان کی بعثت کی اصل غرضی ثناء اللہ کا مارا جانانہ تھی بلکہ سنت انبیاء ؑکے مطابق دنیا کی اصلاح تھی.اس لئے خداوند تعالیٰ نے اسکو اسی کے قول کے مطابق پکڑاچنانچہ حضرت اقدسؑ کی دعا نقل کرتے ہوئے اہدلحدیث میں ایک نوٹ دیا ہے.جو اس کے نائب اڈیٹر کی طرف سے ہے.اور اس نے اس کی کوئی تردید نہیں کی اور نہ کبھی اس کے خلاف لکھا وہ نوٹ یہ ہے کہ’’ آپ اس دعویٰ میں قرآن شریف کے صریح خلاف کہہ رہے ہیں قرآن تو کہتا ہے کہ بد کاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے.قل من کان فی الضللةفلیمدد لہ الرحمٰن مدّا (مریم:۷۹)انما نملی لھم لیزدادوا اثما (آل عمران : ۱۷۹) اور وهم في طغيانهم يعمهون( البقر۱۶) و غیره آیات تمہارے ودجل کی تکذیب کرتی ہیں اور سنو بل متعنا ھولاءو اٰباءھم حتیّٰ طال علیھم العمر (الانبیاء :۴۵)، جن کے صاف معنی یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغاباز مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے.تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں پھرتم کیسے من گھڑت اصول بتاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی.کیوں نہ ہو - دعویٰ تو مسیح،کرشن اور محمدواحمد بلکہ خدائی کا ہے اور قرآن میں یہ لیاقت ؟ ذلک مبلغھم من العلم پس اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ثناء اللہ مرجاتاتواس کے تابعین یا ہم خیالوں پر کیا اثر پڑ تایا ان پر إتمام حجت کیونکر ہوتی.وو تو صاف کہہ دیتے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ چکے تھے اور ہمار ااستادتم سے اتفاق رکھتا تھا کہ جھوٹ کو زیادہ عمرملتی ہے اور مفسد اور کذّاب ڈھیل دیئے جاتے ہیں پس ہم پر کیا اتمام حجت ہے اور اس کی تائید میں اہلحدیث۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء کے صفحہ ۴ کاوہ نوٹ جو میں اوپر لکھ آیا ہوں پیش کر دیتے اور اس طرح وہ اصلاح جس کو مد نظر رکھ کر وہ دعاشائع کی گئی تھی نہ ہوتی.پس خدا تعالیٰ نے خود انہیں کے مقولوں کے مطابق ان کو پکڑ اور اپنا کام پورا کیا کہ لا یفلح السّاحر حیث اَتٰی یعنی جھوٹے اور مفسد لوگ خواہ کوئی راہ اختیار کریں خداوند تعالیٰ ان کو کامیاب نہیں کرتا.بلکہ انہیں کے اصولوں کے مطابق ان کو پکڑ تا ہے.دیکھو یہ کیسی بات صاف ہے.کہ غلام دستگیر قصوری اسماعیل علیگڑھی ،چراغ دین جمونی اور فقیر مرزاان کا یہ مذہب تھا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرجاتا ہے.اور -

Page 161

وہ جو خدا پر افتراء کر تا ہے لمبی عمر نہیں پاتا.اور صادق کو خداوند تعالیٰ بر خلاف | جھوٹوں کے دیر تک زندہ رکھتا ہے.اور انہوں نے اس عقیدہ کو مد نظر رکھ کے خدا سے دعا کی کہ چونکہ تو جھوٹوں کو ڈھیل نہیں دیتا.اور صادق کو نصرت دیتا ہے اس لئے جھوٹے پر تیری لعنت ہو اور جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے اور میں اسلام نے مباہلہ کا طریق رکھا ہے کہ لعنت الله على الكذبین کہہ دیں پس خداوند تعالیٰ نے ان کواسی راہ سے پکڑا اور ان کے قول کے مطابق ہی ان کو سزاری اور جس طریق پر وہ اس کے رسول کو جھوٹا کرنا چاہتے تھے خود ان کو جھوٹا ثابت کیا.مگر اس کے بر خلاف ثناء اللہ اور اس کی پارٹی کا عقیدہ یہ تھا کہ جھوٹے کو لمبی عمرملتی ہے.اور کاذب ڈهیل دیا جاتا ہے.اور حضرت اقدسؑ کی دعا کے مقابل پر اہلحدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء میں یہ شائع بھی کیا چنانچہ خدا نے اس کو ڈھیل دی.اور اس کے اعتقاد کے مطابق اس پر اور اس کے چیلوں پر اتمام حجت کیا پس کیا یہ ایک صاف بات نہیں کہ ایک شخص کے بر خلاف جب چند آدمی یکے بعد دیگرے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ تو جھوٹا ہے اور ہم سچے اور سچا جھوٹے کے مقابلہ پر فتح پاتا ہے اور جھو ٹا اس کی زندگی میں ہلاک کیا جا تا ہے.تو وہ خود اپنی اپنی باری میں ہلاک ہو جاتے ہیں.اور اس کی سچائی پر مہر کر جاتے ہیں.مگر ایک اور شخص اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بات جھوٹ ہے کہ سچادیر تک زندہ رہتا ہے اور جو اس کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے بلکہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹے کو ڈھیل دی جاتی ہے.اور وہ لمبی عمرپاتا ہے اور یہ اس کے کذّاب مفسد اور دغا باز ہونے کی نشانی ہوتی ہے اور اسکے بعد خدا تعالیٰ ایسے کہنے والے کو ڈھیل دیتا اور اس کے قول کے مطابق اس لئے اس کو زندہ رکھتا ہے کہ وہ شرارت میں حد سے بڑھ جائے.اور گناہوں کو انبار در انبار اکٹھا کر لے تو کیا یہ اسی کے قول کے مطابق اس کے کذّاب اور مفسد ہونے کی دلیل نہیں؟ اس سے پہلے کئی بد بختوں نے یہ نسخہ آزمایا کہ جھوٹے سچوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتے ہیں.اوران کو خدا نے ذلیل و خوار کیا.اور وہ سچے کے دیکھتے دیکھتے ہلاک ہوئے.اور خدا کے رو برو سیہ رو ہوگئے اور اپنی بد بختی پر مہر لگا گئے.اور اپنے جھوٹ کا ثبوت دے گئے لیکن ان کے بعد مولوی ثناء اللہ نے پہلے قول کے بر خلاف کہا کہ جھوٹے کی لمبی عمر ہوتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے سنسمہ علی الخرطوم (القلم: ۱۷) کے مطابق اس کو لمبی عمر دی اور اس کے ناک پر داغ لگایا اور اس کے زندہ رہنے نے اسی کے قول کے مطابق اس کو جھوٹا ودغا باز اور نافرمان قرار دیا.اور حضرت اقدسؑ کی سچائی ثابت کی.پس باوجود اس کے کہ اس شخص پر یعنی ثناء اللہ امرتسری پر خدا تعالیٰ نے ہر طرح حجت قائم کردی ہے.اور ثابت کردیا ہے

Page 162

کہ یہ شخص محض جھوٹا اور مفتری ہے اور کذّاب ہے.اور خدا اور اس کے رسول پر ٹھٹھاکر تا ہے.اور فریب اور مکر دینا اس کا کام ہے سے متنفر ہے اور جھوٹ پر قربان ہے مگر ابھی اس کا وہ طریقہ نہ گیا.اور اس نے کوئی ہدایت نہ پائی اور سمجھا کہ خدا کا كلام اس پر سے ٹل جائے گا کیا یہ نہیں جانتا کہ خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں.اور اس کو جو ڈھیل دی گئی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ یہ خود اپنے قول کے مطابق کذّاب ثابت ہو اور اس کے بعد ذلت کے عذاب سے ہلاک ہوتا کہ دنیا دیکھ لے کہ مفتی کا کیا انجام ہوتا ہے.اور جھوٹے آسمانی عذاب سے ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہتے.اس کے بعد میں ایک اور قول اس کے رسالہ مرقع قادیانی میں سے نقل کرتا ہوں جس سے میرے پہلے دعویٰ کی تائید ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص عبدالحق سرہندی کا مضمون اس میں شائع ہوا ہے اور اس میں اس شخص نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب اور مرزائیوں سے یہ سوال ہے کہ اگر جھوٹے کاسچے کی زندگی میں مرناواقعی ضروری اور قانون الہی ہے جیسا کہ آپ کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے تو معاذاللہ نقل کفر کفر نباشد.کیا رسول الله لهﷺمسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرمانے کے باعث اس جنرل رول rule) Generalکے زیر اثر ہیں؟ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ! بریں عقل و دانش بباید گریست.اور اس |مضمون کی اس نے قطعا ًتردید نہیں کی اور کیوں کرتا اس نے تو خود اپنے آپ کوئی الزام سے بچانے کے لئے یہ کوشش کی تھی.اب ناظرین اس مضمون کو دیکھ کر خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے معیار سچے اور جھوٹ کے پرکھنے کا یہ رکھا تھا کہ جھو ٹالمبی عمرپاتا ہے اور یہ اس کے قول کے مطابق نہ صرف قرآن شریف سے ہی ثابت ہے بلکہ مسیلمہ کا زندہ رہنا اس کی دلیل ہے.پس جب اس نے خود فیصلہ کی بنیاد اس پر رکھی کہ جھوٹے کو ڈھیل دی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ نے بھی اس سے ویسا ہی سلوک کیا.کیونکہ کسی پر حجت قائم کرنے کے لئے چاہئے کہ کوئی ایسی طرز نکالی جائے جس سےاسے اتفاق ہو جائے.اس سے پہلے چند لوگوں نے جھوٹے کے لئے ہلاکت بتائی و حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہلاک ہو گئے.اس نے لکھا کہ مسیلمہ کذّاب نبی کریم ﷺا کے بعد بھی زندہ رہا اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں بلکہ جھوٹے کو لمبی عمردی جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے ویساہی کیا اور اسکواسی کے قول کے مطابق قائل کیا اور نادم کیا اور ثابت کر دیا کہ ثناء اللہ مسیلمہ کذاب کی طرح ہے اور ان لوگوں کی طرح ہے جن کی نسبت قرآن شریف میں ڈھیل دینے کا حکم ہے.اور حضرت اقدس احمدؑان کے غلام ہیں.اور ان کے پیرو ہیں اور ہر ایک بات میں ان کے قدم بقد م چلنے والے ہیں.اوران سے بھی خداوہی سلوک کرتا ہے جو پہلے نبیوں سے کرتا

Page 163

تھا.پس ناظرین جائے غور ہے کہ حضرت اقدسؑ پر دو طرح سے حملہ کیا گیا ہے.ایک تو ایسے لوگوں نے حملہ کیا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے اور خدا سے دعا کی کہ وہ اس قانون کے مطابق سچے اورجھوٹے میں فرق کر کے دکھلائے.اور امید ظاہر کی کہ چونکہ حضرت اقدس نعوذ باللہ جھوٹے ہیں.اس لئے وہ ان کی زندگی میں ہلاک ہو جائیں گے.اور چونکہ وہ سچے ہیں اس لئے وہ ان کے بعد تک زندہ رہیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کی دعا سنی اور فیصلہ کر دیا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہےاور ان کو حضرت اقدس ؑکی زندگی میں ہلاک کیا اور ذلیل کیا.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ نے یہ رنگ بدلا کہ جو زیادہ عمرپا تا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس کو اس کے قول کے مطابق ہی جھوٹاثابت کیا.اور حضرت اقدسؑ کی سچائی پر مہرکی.اور یہ اس لئے ہوا کہ جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ کسی نبی کے آنے کا یہ مدعا نہیں ہو تاکہ وہ چند لوگوں کے مرنے کی پیشگوئیاں کر دے.اور وہ پوری ہو جائیں یا یہ کہ چند اور غیب کی خبریں دے جو اسی طرح واقع ہوں بلکہ ان کی آمد کا اصل منشاءاصلاح ہوتی ہے.چنانچہ اسی وجہ سے ان کے مخالفین پر کئی طریقوں سے اتمام حجت کی جاتی ہے.اوردنیا پر اس رسول کی سچائی ثابت کی جاتی ہے.پس اسی طرح حضرت اقدسؑ کے مخالفین سے ہوا.ان کا انکار یا ہلاک کرتا بعثت کا اصل سبب نہیں تھا.بلکہ ان کے ساتھیوں پر اور خود ان پر حجت قائم کرنے کے لئے انذاری پیشگوئیاں کی گئی تھیں یا اور طریق سے فیصلہ کیا گیا تھا.اور اصل مقصدآپ کی بعثت کا اصلاح قومی تھا.پس جب ثناء اللہ نے اور اس کے مریدوں نے ظاہر کیا کہ جھوٹے کولمبی عمر ملتی ہے.تو خدا تعالیٰ نے اس گروہ پر حجت قائم کرنے کے لئے اسی طریق سے ان کو پکڑا تاکہ دنیا میں اصلاح کی صورت نظر آئے.اب اگر کوئی کہے کہ اچھا پھر اتمام حجت تے نتیجہ کیا نکلا اور اس کا فائدہ کیا ہؤا.جبکہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت الہیہ اسی طرح ہے کہ پہلے ہر ایک سلسلہ حقہ کی مخالفت کی جاتی ہے اور بعد ازاں جب خوب اچھی طرح تبلغ ہو جاتی ہے.اور لوگ الگ بیٹھ کر تمام واقعات پر تدبر کرتے ہیں تو ان کو سمجھ آ جاتی ہے کہ کون حق پر ہے.اورکون جھوٹ کے پیچھے پڑا ہوا ہے.پس جبکہ کچھ عرصہ گذر جائے گا اور لوگ غور کریں گے تو خود بخودان پر اصل راز کھل جائے گا.اور دوسرے ایسے لوگوں کا جواب وہی ہے جو وہ اس آیت کا دیتےہیں کہ لعلک باخع النفسک الا یکونوا مؤمنین (الشعراء:۴ )یعنی خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاتو اپنی جان کو اس غم میں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ تیری بات نہیں مانتے اور ایمان نہیں لاتے.پس جب نبی کریم ﷺجیسے عظیم الشان نبی کے اتمام حجت پر بھی لوگوں نے نہیں مانا اور اس کا ان کو

Page 164

اتناغم ہوا کہ گویا اس غم میں اپنی جان کو ہی ہلاک کر دیتے اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے تو آج اگر ان کے غلام اور تابع کی بات کو سن کر اور اتمام حجت کے بعد یہ لوگ نہ مانیں تو کیا تعجب ہے کیونکہ سنت اللہ ہی ہے کہ ایک تونبی کے وقت قدرت دکھائی جاتی ہے.اور ایک اس کے بعد جس سے وہ سلسلہ جو قائم ہو تاہے تمام دنیا میں پھیل جاتا ہے پس اب وقت آگیاہے کہ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ سنت کے مطابق ترقی کرے (انشاء اللہ) غرض کہ ثناء اللہ اور اس کے ساتھیوں پر خودانہیں کے قول کے مطابق حجت قائم ہو گئی ہے اور یہ میں خوب اچھی طرح ثابت کر آیا ہوں کہ اگر ایسانہ ہوتا اور وہ حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی مر جاتا تو آئندہ لوگ کہتے کہ اصل فیصلہ کا طریق یہی ہے کہ جھوٹے کو لمبی عمر ملتی ہے اور پہلے لوگوں نے مباہلہ میں غلطی کی.اور ثناء اللہ نے چونکہ ٹھیک راہ اختیار کی تھی اس لئے حضرت اقدسؑ کو ڈھیل دی گئی.اور اس طرح وہ کذّاب ثابت ہوئے پس جب خدا تعالیٰ کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ اس کے نبی پر کوئی الزام رہے اور اس نے اپنے فرستادہ کے ساتھ اپنے و عدہ کے مطابق سلوک کیا.اور اس کو وفات دے کراس الہام کو پورا کیا کہ لا نبقی لک من المخزیات ذکرا.چنانچہ جب تک لوگوں نے جھوٹے کے لئے سچے کی زندگی میں مر جانا معیار مقرر کیا.تب تک تو وہ خود ہلاک ہوتے رہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کو اپنی موت سے ثابت کرتے رہے.اور جب معیار صداقت یہ مقرر ہوا کہ سچاجھوٹے کے سامنے ہی فوت ہو جاتا ہے.جیسے نبی کریم ﷺ مسیلمہ کذاب کے سامنے اور جھو ٹا میں لمبی عمرپا تا ہے تو خدا تعالیٰ نے اس معیار کے مطابق ثناء اللہ کو ڈھیل دے کر مسیلمہ کذاب سے مشابہت دی اور حضرت اقدسؑ کی سچائی کو ثابت کیا.پس جبکہ اس کے مقرر کئے ہوئے معیار کے مطابق اس کو ڈھیل دی گئی ہے اور آدمؑ اول کی طرح آدم ثانی کے ایک مخالف پر بھی الى يوم الوقت المعلوم (اجر: ۳۹) کا فتوی جاری ہوا ہے تو پھر ثناء اللہ کیوں بڑھ بڑھ کر باتیں بناتا ہے.خود اس کی تحریر اور اس کے دوستوں کی تحریر اس کو ملزم کر رہی ہے اور یہ اپنے منہ سے جھوٹا ثابت ہوا ہے.توپھر یہ شورو شر اور دعاوی باطلہ اگر محض بے شرمی اور بے حیائی کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے.مگر اسےیاد رکھنا چاہئے کہ آدمؑ اول کے مخالف کو تو لمبی ڈھیل دی گئی تھی کیونکہ اس نے لمبی ڈھیل کی ہی خواہش کی تھی لیکن چونکہ اس نے صرف اس قدر عمر چاہی تھی کہ سچے کے فوت ہونے کے بعد بھی زندہ رہے اور اپنی دروغ بیانی پر مہرلگا جائے اور آدم ثانی کے وقت شیطان کا مارا جانا بھی ایک فیصلہ شدہ امر ہے اس لئے جلد ہی اس کا فیصلہ ہو جائے گا.اور اس طرح کہ دنیا مان لے گی

Page 165

کہ یہ معمولی موت نہیں بلکہ اس موت نے ایک نبی کی سچائی پرشہادت دی ہے، اور یہ بات میں نہیں کہتا بلکہ خدائے زمین و آسمان کہتا ہے اور اس کی بات ٹلا نہیں کرتی پس وہ جو زندہ رہیں گے دیکھ لیں گے.کہ جس طرح ثناء اللہ کے زندہ رہنے نے اس کے کذب پر مہر لگائی ہے.ویسا ہی اس کی موت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی ایک دلیل ہو گی.انشاء اللہ العزیز.ایک اور اعتراض کیا جا تا ہے کہ جس کا جواب دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب حضرت اقدس ؑکا الہام تھا کہ تیری دعا سنی گئی تو پھر آپ پہلے کیوں فوت ہوئے.سو یاد رہے کہ اس کا جواب میں اوپر دے آیا ہوں کہ کیا نبی کی بعثت کی اصل غرض بعض اشخاص کی وفات با بعض جگہوں کی تباہی نہیں ہوتی بلکہ اصلاح خلق اصل غرض ہوتی ہے پس وعید کی پیشگوئیاں اگر ٹل جاتی ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ اصلاح کی کچھ اور صورت پیدا ہو جاتی ہے.جب حضرت اقدسؑ نے ثناء اللہ کی نسبت دعا کی اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کی ہلاکت کی خبردی تو و دایک و عید کی پیشگوئی ہوگئی.پس چو نکہ و عید کی پیشگوئیوں کی بھی اصل غرض اصلاح ہوتی ہے.اس لئے وہ اسی رنگ میں پوری ہوئی جس طرح اتمام حجت ہو سکتی تھی.کیونکہ اگر اس کے بر خلاف ثناء اللہ حضرت کی زندگی میں مرجاتا تو اس کے ساتھی کہتے کہ چونکہ یہ فوت ہو گیا اور حضرت اقدسؑ زندہ رہے اس لئے وہ ہمارے اور ہمارے استاد کے قول کے مطابق اور فیصلہ کی شرط کے مطابق نعوذ باللہ مسیلمہ کذّاب کی مانند ثابت ہوئے.پس خدا تعالیٰ نے جو کچھ وعدہ دیا تھاوہ یہی تھا کہ سچے اور جھوٹے میں فرق کر دکھائے گا.اور یہی انذاری پیشگوئی کی غرض ہوتی ہے چنانچہ اس کے وعدہ کے مطابق اس کو ملزم کرنے کے لئے خداوند تعالیٰٰ نے اسی کے قول کے مطابق اس کو ڈھیل دے کر مسیلمہ کذاب کا ہم رتبہ ثابت کیا.اور دوسرے یہ کہ کیا حضرت اقدسؑ کی وفات سے جو اس کی نسبت الہام تھے وہ بھی منسوخ ہو گئے ؟ نہیں وہ تو جب تک یہ مرتا نہیں اس کے ساتھ ہیں اور ان کے عذاب سے یہ اسی وقت بچ سکتا ہے جب توبہ کرے اور رجوع لائے - ورنہ یاد رہے کہ خدا کا کلام بھی نہیں ملتا اور بغیر پورا ہونے نہیں رہتا.پس حضرت صاحب کی دعا پر بھی کوئی اعتراض نہیں آسکتا کیونکہ وہ ضرور قبول ہوئی اور دعا کی بجائے ایک انذاری پیشگوئی کی صورت میں بدل گئی.اور جب اس نے جھوٹے کے لئے ڈھیل ملنے کی شرط مقرر کی تو اس کو ڈھیل دی گئی اور اپنے وقت پر وہ پیشگوئی بھی اپنارنگ دکھلائے گی..

Page 166

اب آخر میں ایک اور بات لکھتا ہوں تاکہ شریر اور بد بخت لوگ سادہ لوح لوگوں کو دھوکےمیں نہ ڈالیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدسؑ کے بعد ثناء اللہ کا زند در ہنابجائے اس کی سچائی کے اس کا کذّاب اور مفسد ہو تا ثابت کر تا ہے میں کافی لکھ آیا ہوں.اب یہ لکھتا ہوں کہ یہ شخص اپنی معمولی شوخی کے مطابق اس دعا کا نام مباہلہ رکھتا ہے جس کا انکار بھی کر چکا ہے چنانچہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ کے بر خلاف مضمون لکھتا ہوا لکھتا ہے کہ ” مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں‘‘.پھر اس مضمون میں آگے چل کر لکھتا ہے کہ’’ قسم اور ہے مباہلہ اور ہے.تم کو مباہلہ کہنا آپ جیسے ہی راست گووں کا کام ہے.اور کسی کا نہیں.‘‘ اب ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ نے جب خودی یہ فیصلہ کیا ہے کہ مقابلہ پر میں کھانے کا نام مباہلہ ہے اور اس کے سوا کسی اور بات کو مباہلہ قرار دیا راست گوئی کے خلاف ہے.اور بالکل جھوٹ ہے تو اب اس کا اس دعا کو جو کہ حضرت صاحب نے شائع کی تھی مباہلہ قرار دیا افتراء نہیں تو اور کیا ہے اور دعامیں نہ تو حضرت صاحب نےقسم کھائی ہے نہ ثناء اللہ نے پرپاو چوراس کے اس کو مباہلہ قرار دینا خوداسی کے فیصلے کے مطابق اس کو جھوٹا ثابت کرتا ہے.پس ناظرین کو چاہئے کہ وہ اس کے مکر اور فریب میں نہ آئیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ خود یہی ایک سال پہلے ۱۹/ اپریل ۱۹۰۷ء کے اہلحدیث صفحہ۴ میں مباہلہ کی وہ تعریف جو اوپر لکھ آیا ہوں لکھ چکا ہے.اور اس کے بر خلاف یکطرفہ قسم کو بھی مباہلہ کہنے والے کی نسبت جو فتوی ٰدے آیا ہے اوپر درج ہے.پس جبکہ یک طرفہ قسم بھی مباہلہ نہیں ہو سکتی تو وہ دعا جو بغیر قسم سے کی گئی ہو اور فریق مخالف نے اس کو منظور بھی نہ کیا تو وہ کیو نکر مباہلہ ہو سکتی ہے.اور اس کا مباہلہ کے رنگ میں پیش کرنا کہاں تک موجب راستی ہو سکتا ہے.اس شخص نے چاہا کہ عوام کو دھوکہ دے لیکن خدا جس کی پردہ دری کرنا چاہے پھر اس کی حماقت اور دروغ بیانی پر کون پردہ ڈالے.افسو س با وجود ان جھوٹوں اور غریبوں کے اور دغابازیوں کے پھر یہ لوگ خدا کے مامور اور مرسل کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر بڑے بڑے علم و فن کادعویٰ کرتے ہیں.اب میں چونکہ ثناء اللہ کی نسبت خدا کے فضل سے کافی لکھ آیا ہوں اس لئے مضمون کے اس حصہ کو ختم کر کے دوسرے کو شروع کرتاہوں.مگر آخر میں خلا صۃً پھر لکھتا ہوں کہ ثناء اللہ کی نسبت حضرت صاحب ؑنے دعا کی تھی اور اوپر لکھ دیا تھا کہ میں یہ وحی یا الہام کے ذریعہ نہیں کہتا اور باوجود اس کے ثناء اللہ نے اس دعا کے فیصلے سے انکار کیا اور لکھا کہ \"یہ تحریر تمهاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے پھر باوجود اس انکار کے اس کا یہ دعوی کہ مرزا صاحب میرے مباہلے کی وجہ سے فوت ہوئے صریح شرارت ہے.جب یہ خوداس فیصلہ کو غلط قرار دے چکا t

Page 167

.ہے اور لکھ چکا ہے کہ اس کا قبول کرنا بیوقوفوں کا کام ہے.تو اب اس کو مان کر بیوقوف کیوں بنتا ہے اور اپنے کہے کے بر خلاف کیوں چلتا ہے؟ اور جب اس نے خود اس کو نامنظور کیا تو اب اس دعا کے مطابق فیصلہ کا کیوں منتظر ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ نہ صرف اس نے شروع میں ہی اس دعا کے فیصلہ سے انکار کیا بلکہ آخر سال میں بھی حضرت کی وفات سے چند دن پہلے اس بات کا انکار کیا اور لکھا کہ اب چونکہ سال گذر گیا ہے اس لئے مباہلہ کی میعاد ختم ہو گئی اور اب کوئی اثر مباہلہ کا نہیں ہو سکتا.پس جب یہ خودہی حضرت کی وفات سے پہلے اس میعاد کو ختم کر چکا ہے تو اب اگر اس دعا کو اس کے کہنے کے مطابق مباہلہ بھی مان لیا جائے تو بھی اس مباہلے کے مطابق حضرت اقدسؑ کی وفات نہیں ہو سکتی کیونکہ خود ثناء اللہ اس میعاد کو ختم کر چکا ہے.اور تیسری بات جو میں نے لکھی ہے یہ ہے کہ نبی کے آنے کی اصل غرض اصلاح ہوتی ہے نہ کہ انذاری پیشگوئیاں.پس اس وجہ سے انذاری پیشگوئیوں میں التواء بھی ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ و و منسوخ بھی ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ محض اصلاح کے لئے ہوتی ہیں.جب اصلاح کا اور طریقہ نکل آئے یا مخالف پر اتمام حجت کرنے کی کوئی اور صورت پیدا ہو جائے تو وہ بدل جاتی ہیں.چنانچہ اس طرح حضرت اقدسؑ کی ثناء اللہ کی نسبت دعايا پیشگوئی انذاری رنگ میں تھی اور اصلاح کے لئے تھی جب اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہمارے لئے جھوٹے کاسچے کی زندگی میں مر جانا کوئی اتمام حجت نہیں بلکہ قرآن شریف سے اس کے بر خلاف جھوٹے کا ڈھیل دیا جانا ثابت ہوتا ہے اور اسی کے مطابق مسیلمہ کذاب آنخضرتﷺ کے فوت ہونے کے بعد ہلاک ہو اتواب اصلاح کی یہ صورت تھی کہ ثناء اللہ کو ڈھیل دی جائے کہ اس کے ساتھیوں پر اور اس پر اتمام حجت ہو اور انہیں کے فیصلے کے مطابق ان کو ملزم کیا جائے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور ثناء اللہ اپنے ہی قول کے مطابق مفسد ودغا باز اور جھوٹا ثابت ہوا اور اخیر میں میں نے لکھا ہے کہ یہ شخص لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس دعا کو مباہلہ قرار دیتا ہے جو حضرت اقدسؑ نے اس کے لئے کی.مگر اس سے پہلے خود لکھ چکا ہے کہ مباہلہ طرفین کے مقابلہ پر قسمیں کھانے کو کہتے ہیں اور اس کے بر خلاف کہنے والا جھوٹا ہے.پس یہ خودیہ جھوٹا ثابت ہوا اور عوام کو چاہئے کہ اس کے مکر اور فریب سے بچیں.

Page 168

تیسرا باب مختلف پیشگوئیوں کے بارے میں اب جبکہ میں عبد ا لحکیم اور ثناء اللہ کے بارے میں کسی قدرتفصیل سے واقعات کے لکھ آیا ہوں.اور ان کی طرف سے جو اعتراض ہوتے ہیں خدا کے فضل سے ان کا جواب دے چکا ہوں.مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس ؑکی بعض ایسی پیشگوئیوں پر بھی کچھ لکھوں جو کہ مخالفین سلسلہ کے خیال میں اب تک پوری نہیں ہوتیں یا ان کے پورے ہونے میں کچھ کر رہ گئی ہے مگر ان کے شروع کرنے سے پہلے پھر میں اس اصول کی طرف ناظرین کی توجہ مبذول کراتا ہوں کہ ہر ایک نبی کی بعثت کی غرض دنیا میں اصلاح ہوتی ہے.اور اس کی تعلیم کو نظرانداز کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں، بلکہ ہر حال میں پہلے اس کی تعلیم پر غور کرنا شرط ہے اور پھر بعد اس کے اس کی پیشگوئیوں پر نظر ڈالنی چاہئے.پس اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام اعتراضوں کا جواب دوں گا جو کہ مخالفین سلسلہ کی طرف سے حضرت اقدسؑ پر کئے جاتے ہیں چنانچہ سب سے اول میں حضرت اقدس ؑکی عمر کے بارہ میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں.اول - عام طور سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کا ایک الہام تھا جو کہ انہوں نے بارہا شائع کیا تھا کہ میری عمراسّی سال کے قریب قریب ہوگی حالانکہ وہ میعاد مقررہ سے پہلے فوت ہو گئے.اور یہ بات ان کی سچائی میں شکوک کی گنجائش پیدا کرتی ہے کیونکہ جب انہوں نے بڑے زور سے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ میری عمراسی سال کے قریب ہوگئی تو کیا وجہ کہ وہ پہلے فوت ہوئے.اگر یہ خبر ان کو خدا کی طرف سے ملی تھی اور وہ سچے نبی تھے تو چاہئے تھا کہ اس الہام کے مطابق فوت ہوتے ورنہ جب وہ اپنے الہام کے مطابق فوت نہ ہوئے اور اپنی بتائی ہوئی میعادسے پہلے انتقال کر گئے تو مخالفوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کی تکذیب کریں اور

Page 169

ان کے دعوی میں شک لاویں.اسکا جواب یہ ہے کہ حضرت اقدس نے کہیں نہیں لکھا کہ میری عمر ضرورہی اسی برس ہوگی.بلکہ اس بات کو مخالفین بھی مانتے ہیں کہ آپ کا الہام تھا کہ آپ کی عمراسی کے قریب ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور آپ اسی برس کے قریب عمر پاکر فوت ہوئے.چنانچہ اس کے ثبوت میں میں خود حضرت اقدس کی کتابوں میں سے اور مخالفین سلسلہ کے مضامین میں سے حوالہ دوں گا اور انشاء اللہ ثابت کروں گا کہ حضرت اقدس کی عمراسی کے قریب تھی.یعنی جب حضرت اقدس نے وفات پائی تو آپ اس وقت ۴ ۷سال کے تھے.چنانچہ اول حوالہ جو میں خود آپ کے مضمون میں سے پیش کرتا ہوں یہ ہے کہ ڈوئی کے مقابلہ میں جب آپؑ نے اشتہار دیا ہے اور اس کو مقابلہ کے لئے بلایا ہے تو اس وقت آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ”میں ایک آدمی ہوں جو پیرانہ سالی تک بن چکا ہوں.میری عمر غالباً چھیاسٹھ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے (دیکھو ریویو آف ریلیجنز ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴۶ ) پس اب ہر ایک شخص غور کر سکتا ہے کہ جب ستمبر۱۹۰۲ء کو آپ کی عمر۶۶ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے تو ۱۹۰۸ء میں مئی کے مہینہ میں جب آپ نے وفات پائی تو آپ کی عمر شمسی حساب کے لحاظ سے کم سے کم ۷۲ سال کی ہوتی ہے کیونکہ اگر پورے۶۶ سال کی عمر اس وقت شمار کریں تو مئی تک آپ کی عمر ۷۱ سال اور نو ماہ بنتے ہیں لیکن چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس وقت ۶۶ سال سے بھی زیادہ ہے اس لئے تین ماہ اس میں اور شامل کر کے پورے ۷۲ سال ہوئے.اور قمری حساب کی رو سے یہی ۷۲ سال ۷۴ سال اور تین ماہ بنتے ہیں پس جو عمر آپ نے ڈوئی کے اشتہار میں لکھی ہے اگر غور سے کوئی دشمن اس پر نظر ڈالے تو صاف سمجھ سکتا ہے کہ آپ کی پیشگوئی زور و شور سے پوری ہوئی.اور اس کا ایک ایک لفظ صادق ثابت ہوا.آپ نے اس پیشگوئی کو شائع کیا ہے اور اس وقت گویا کہ تقریباً تیس سال عمر کے باقی تھے.جب یہ الہام ہوا.پس کیا کوئی کاذب انسان جوخدا سے کوئی تعلق نہ رکھتاہو تیس سال پہلے اپنی نسبت کہہ سکتا ہے کہ میں اس قدر سال اور زندہ رہوں گا.انسان کو اپنی زندگی کا ایک دم کے لئے بھی اعتبار نہیں.پھر ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں تیسں سال اور زندہ رہوں گا اور میری عمر قر یباً اسی سال کی ہوگی کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ ایک نشان ہے جو پورے زور سے پورا ہوا.مگر مبارک وہ جو آنکھیں رکھتا ہے اور خوش قسمت ہے وہ جو نیکی کی راہ کو دیکھے اور قبول کرے.پھر دو سری دلیل یہ ہے کہ حضرت صاحب کی کتاب نصرة الحق يا حصہ پنجم براہین میں درج ہے

Page 170

کہ اب میری عمر ستر برس کے قریب ہے اور تین برس کی مدت گذر گئی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی کہ \" میری عمراسّی برس کی ہوگی اور یہ ہے کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم “.پس اس جگہ سے بھی صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کی عمر ۱۳۲۳ھ میں ستر سال سےکچھ اور تھی.اور اب ۱۳۲۶ھ میں ۷۴ سال کی ہوئی کیونکہ نصرة الحق میں یہ بات ۱۳۲۳ھ میں لکھی گئی تھی اور اس عبارت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسی سال کی عمر سے الہام میں کیا مراد تھی اور اس کے معنی خدا تعالیٰ کے علم میں کیا تھے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ ۷۴سے لے کر ۸۶سال کی عمر تک بھی جب حضرت اقدسؑ فوت ہوتے وہ پیشگوئی کی میعاردکے اندرہی ہو تا.اس بات کو خود آپ نے کبھی اس کتاب میں آگے چل کر تشریح سے لکھا ہے کہ نہ خدا تعالیٰٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میری عمراسّی سال سے ضرور زیادہ ہو جائے گی.بلکہ اس بارے میں جو فقره وحی الہی میں درج ہے اس میں مخفی طور سے یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ٰ چاہے تو اسیّ برس سے بھی عمر کچھ زیادہ ہوسکتی ہے اور جو الفاظ وحی کے وعدے کے متعلق ہیں وہ تو ۷۴ سال اور ۸۶ سال کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں \" - ( یہ دونوں عبار تیں ضمیمہ براہین حصہ پنجم کے صفحہ۹۷ پر ہیں) اب اس عبارت کو پڑھ کر ہر ایک شخص غور کر سکتا ہے کہ حضرت اقدسؑ نے صاف طور سے لکھ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو خبر دی ہے کہ تیری عمر اور ۷۴ اور ۸۶ سال کے درمیان ہوگی.اور میں خود آپؑ کی ہی عبارتوں سے ثابت کر آیا ہوں کہ آپؑ کی عمروفات کے وقت ۷۴ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ تھی.پس اب کسی معترض کاکیاحق ہو سکتا ہے کہ اس قسم کا اعتراف کرے.اور باوجود اس کے کہ پیشگوئی بڑے زور و شور سے پوری ہوئی اس پر نکتہ چینی کرے.ہاںوہ جو خدا سے نہیں ڈرتے اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے باز رکھنے کے لئے تو ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں اور نہ کسی بے شرم کا منہ بند کرنا ہمارا کام ہے.مگر وہ جو خدا کی ہستی پر ایمان لاتے ہیں اور جزاء و سزا کے دن کا یقین رکھتے ہیں خدا کو حاضر و ناظر جان کر بتائیں کہ کیا حضرت اقدس ؑکی پیشگوئی لفظ لفظ پوری نہیں ہوئی اور کیا حضرت اقدسؑ خداکے الہام کے مطابق ۷۴ سال کی عمرپا کر فوت نہیں ہوئے.خدا نے جو وعدہ اپنے مأمور سے کیا تھا پورا کیا اور اس کو اپنے قول کے مطابق عمردی.اب اگر کسی کور چشم اور بد باطن انسان کو کلام ہے تو وہ ڈوئی کے اشتہار کو پڑھے اور نصرت الحق کو جو عنقریب شائع ہونے والی ہے دیکھے تو اس کو معلوم ہو جائے گا اور اس کا دل گواہی دے اٹھے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے جو کچھ وعدہ کیا گیا تھاوہ کیسی صفائی سے پورا ہوا اور میں علاوہ حضرت اقدس ؑکی کتابوں کے

Page 171

اور جگہوں سے بھی اس کا ثبوت دے سکتا ہوں اور خود مخالفین کے کلام سے ثابت کر سکتا ہوں کہ حضرت کی عمر۷۴ سال کی تھی چنانچہ حضرت اقدسؑ کی وفات پر جو مضمون زمیندار کے لائن ایڈیٹر نے لکھا ہےاس میں وہ لکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۷۰ء یا ۱۸۷۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲ تا ۲۴ سال کی ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جو انی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہو تا تھا\" (زمیندار اخبار پر چپه ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۵).اب دیکھنا چاہئے کہ جب ساٹھ یا اکاسٹھ میں آپ کی عمر ۲۴ کے قریب تھی تو ۱۹۰۸ء میں آپ کی عمر شمسی حساب سے ۷۲ یا اس سے کچھ کم ہوئی اور قمری حساب سے ۷۴سال یا کچھ زیادہ.اور یہ ایک ایسی گواہی ہے جو خدا تعالیٰٰ نے ایک ایسے شخص کے منہ سے ولوائی جو اس سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.پس کیا اس پر بھی کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد ہم ایک اور گواہی ایک ایسے مخالف کی پیش کرتے ہیں جس کا کام سوائے اس سلسلہ کی مخالفت کے اور کچھ بھی نہیں اور جو اس سلسلہ کی مخالفت میں جھوٹ بولنا بھی جائزسمجھتا ہے لیکن اب ہم مولوی ثناء اللہ امرتسری کی تحریر سے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ اپنے الہام کے مطابق عمرپاکر فوت ہوئے اور وہ یہ ہے کہ باقی رہا یہ کہ سب مخالفین کو مار کر مریں گے(یعنی حضرت اقدسؑ) سواس سوال کا جواب بھی مرزا جی اپنے رسالہ الوصیّت میں لکھ کر نفی میں دے چکے ہیں.یعنی کہہ چکے ہیں کہ میری موت قریب اسّی سال کی عمر کے کچھ نیچے اوپر ہے.جس کے سب زپنے آپ غالباً طے کر چکے ہیں‘‘(اہلحدیث ۳ مئی ۱۹۰۷ ءصفحہ ۶)اس عبارت سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعودؑہی لکھ چکے ہیں کہ اسّی سال والے الہام کے مطابق میری عمر ختم ہو چکی ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ بھی اس بات کو مانتا ہے اور لکھتا ہے کہ آپ غالباًسب زینے اس پیشگوئی کے طے کر چکے ہیں.پس جبکہ دوست اور دشمن سب اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت کی وفات عین پیشگوئی کے مطابق ہوئی تو اب اس پر اعتراض کرنا سراسر بیجا اور حق طلبی کے بر خلاف ہے مگر اسکے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عمر کا حساب کچھ ایساپختہ نہیں ہو تا.اور نہ عام طور سے تاریخ پیدائش محفوظ رکھی جاتی ہے.اور خود حضرت مسیح موعود ؑکی تاریخ پیدائش اور مہینہ محفوظ نہیں.اگر کسی وقت آپ نے انداز اًکچھ اور عمربتا دی ہو تو اس سے اس بات میں کوئی ہرج نہیں آتا.کیونکہ عام طور سے عمر کے معاملہ میں زیا رو احتیاط نہیں ہوتی.اور بہت جگہ اندازہ سے کام لیا جاتا ہے.مگر اس جگہ جو عمرہم نے لکھی ہے وہ خوب تحقیق سے

Page 172

لکھی گئی ہے.اور نہ صرف حضرت اقدسؑ کی مختلف تحریروں سے لی گئی ہے بلکہ خود مخالفین سلسلہ کے بیانوں سے ثابت ہوتی ہے اور خاص کر جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب ایڈیٹر زمیندار کی رائے بہت معتبر ہے جو اپنا چشم دید حال سناتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو ۶۰ یا ۶۱ء میں دیکھا اور اس وقت آپ کی عمر قریبا ۲۴ً برس کی تھی.میں اب بھی اگر کسی کو اعتراض ہو تو یہ اس کی سیاہ باطنی پر دلالت کرتاہے.چاہئے کہ توبہ اور استغفار کرے تاکہ خدا کار حم اس کے شامل حال ہو.اب ہم ناظرین کی آسانی کے لئے ایک اور طرح سے عمر کے سوال کو حل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چوبیسں برس پہلے اطلاع دی گئی تھی کہ تمہاری عمراسّی کے قریب ہوگی اور اس الہام کے مطابق آپ قریبا ًبتیس سال تک زندہ رہے پھر رسالہ الوصیت میں آپ نے شائع کیا کہ اب میری عمر بہت ہی تھوڑی رہ گئی ہے اور میری موت کے دن قریب آگئے ہیں اور اس پیشگوئی کے مطابق اڑھائی سال کے اند ر فوت ہو گئے.اب غور کرنا چاہئے کہ حضرت صاحب نے اپنی وفات سے چونتیس برس پہلے چالیس کی عمر میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ میری عمراسّی سال کی ہوگی اور یہ پیشگوئی ایک فوق العادت طور سے پوری ہو گئی کیونکہ کون کہہ سکتا ہے کہ میں کل تک زندہ رہوں گا یا یہ سال مجھ پر سلامت گذرے گا مگر وہ جس پر خدارحم کرے اور اپنی کلام سے مشرف کرے.چونتیس برس کی عمر ایک اتنی لمبی عمرہے کہ اس میں ایک بچہ جوان ہو کر اپنے ہاں پوتے پیدا ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مفتری کہہ سکے کہ میں چونتیس پینتیس بریں اور زندہ رہوں گا.اگر کوئی ایساد عو یٰ کر سکتا ہے تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو مگر شرط یہ ہے کہ وہ کہے کہ میں خدا سے خبر پاکر ایسا کہتا ہوں.پس جبکہ ایک جھوٹے سے ایسا دعویٰ ہو نانا ممکن ہے تو سوچو کہ حضرت اقدسؑ نے خدا سے خبر پاکر ایسی خبر دی اور وہ اس کے مطابق چونتیس سال تک زندہ بھی رہے.اور جب خدا نے خبر دی کہ اب تمہاری وفات قریب ہے تو انہیں دنوں میں فوت ہو گئے.اور اس طرح دو پیشگوئیاں پوری ہو ئیں.ایک تو عمر کی زیادتی کی کہ تم اس قدر عرصہ تک زندہ ر ہو گئے اور ایک وفات کی کہ اب تمهاری و فات قریب ہے.پس حضرت صاحب کی وفات سے تو ان کی سچائی ثابت ہوتی ہے نہ کہ تکذیب.تم بفرض محال مان لیتے ہیں کہ حضرت صاحب اپنی بتائی ہوئی عمر سے پہلے فوت ہو گئے مگر اس سے بھی تو کوئی شبہ آپؑ کی سچائی میں نہیں آتا بلکہ اور سچائی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے الوصیت شائع کر دی اور

Page 173

لکھ دیا کہ اب میری عمر ختم ہوگئی ہے اور میری وفات قریب ہے تو پہلا الہام منسوخ ہو گیا.اور اب دوسرے الہام کے مطابق ہم کو نتیجہ کا انتظار کرنا چاہئے تھاسوایسا ہی ہوا اور آپ عین اسی وقت پر جو کہ بتایا گیا تافوت ہوئے.پس یہ کیسی صاف بات ہے کہ جب تک کہ حضرت اقدس ؑکہتے رہے کہ میری عمراسّی سال کے قریب ہے اس وقت تک تو آپ زندہ رہے اور آپ نے اس الہام کے مطابق چونتیس سال عمر پائی.مگر جب آپ نے الہام شائع کیا کہ اب میری وفات قریب ہے.تو آپ میعاد مقررہ کے اندر فوت ہو گئے.اور اس طرح دو نشان پورے ہونے اور حضرت اقدس ؑکی سچائی کا ثبوت بنے.پس بفرض محال اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ اسیّ برس والے والے الہام کے مطابق فوت نہیں ہوئے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ الوصیت نے تو اس الہام کو منسوخ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ تک بندی نہیں تھی بلکہ خدا کا کلام تھا.ممکن تھا کہ اگر الوصیت والا الہام پورا نہ ہو تاتو لوگ کہتے کہ آپ نے ایک بڑ مار دی تھی کہ میری عمراس قدر ہوگی سوپوری ہو گئی مگر خدا تعالیٰ نے موت کے الہامات سے ثابت کردیا کہ سب کام خدا کے اختیاار میں ہیں وہ جب چاہتا ہے کسی کو لمبی عمردیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو وفات دیتا ہے.اور اس طرح اس نے حضرت اقدس ؑکے الہامات کی سچائی کو بھی ثابت کر دیا.ہاں اگر الوصیت میں موت کی پیشگوئی نہ ہوتی تو لوگ کہتے کہ وہ وقت مقررہ سے پہلے فوت ہوئے لیکن جب الوصیت سے صاف ثابت ہوتاہے کہ اب وفات قریب ہے.تو خود بخود پہلی پیشگوئی چونتیس برس تک اپنا جلال دکھاکر منسوخ ہوگئی اور موت کی پیشگوئی کا انتظار شروع ہوا.پس اگر یہ نہ بھی مانا جائے کہ حضرت کی عمر ۷۴ سال کی ہوئی اور اسّی سال کے قریب ہوئی جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں.تو پھر بھی آپ پر کوئی الزام نہیں آتا کیونکہ جب موت کے الہام ہو گئے تو معلوم ہوا کہ اب کچھ سال عمر باقی بھی ہے تو وہ بھی منسوخ ہو گئی.غرضیکہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی مخالف یا معترض کا ہاتھ نہیں پڑ سکتا کیونکہ اول تو میں نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ پیشگوئی کے مطابق عمرپا کر فوت ہوئے اور اگربفرض محال نہ بھی ہوئے تو الوصیت کے بعد وہ پہلی پیشگوئی منسوخ سمجھی جائے گی کیونکہ وہ اگر عمرکی زیادتی ظاہر کرتی تھی تو یہ عمر کا انقطاع ظاہر کرتی تھی پس ہر طرح سے خدا کا کلام سچا ثابت ہوتا ہے.اور مخالف معترض کا کوئی حق نہیں کہ وہ بغیر علم کے تن تالش تك به علم کے حکم کے برخلاف خواہ مخواہ اعتراض کرے ورنہ یاد رہے کہ اس قسم کے اعتراضوں سے کوئی نبی نہ بچے گا.دوسری بات جس کا میں جواب دینا چاہتا ہوں.وہ نکاح والی پیشگوئی ہے.جس کی نسبت مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت صاحب فوت ہوگئے ہیں اور وہ پوری نہیں ہوئی.سویا درہے.

Page 174

کہ یہ پیشگوئی اولاً ایک اشتہار میں جو ۱۸۸۸ء میں شائع ہؤادرج ہوئی تھی.اور اس میں لکھا گیا تھا کہ بوجہ اس کے کہ آپ کے بعض قریبی رشتہ دارحق کی مخالفت کرتے ہیں ان پر عذاب آئے گا.اور اطلاع دی گئی تھی کہ اگر احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح آپ سے نہ کرے گا تو نکاح کے بعد تین سال بلکہ اس سے بھی قریب زمانہ میں مر جائے گا.اور وہ جو اس لڑکی سے نکاح کرے گا اڑھائی سال کےاندر فوت ہو جائے گا.اور لڑکی کے والد کے ہاں اور بھی فوتیاں ہوں گی مگر اس کے ساتھ رجوع کی شرط تھی.کیونکہ یہ تمام سزا ان لوگوں کے لئے اس لئے تجویز ہوئی تھی کہ وہ خدا کی باتوں سے ٹھٹھا کرتے اور اس کے کلام پر ہنستے تھے.اور جب وہ رجوع کرلیں تو لازم تھا کہ وہ عذاب سے بچائے جائیں جو کہ ان کے لئے مقرر ہو چکا تھا.پس دیکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئ کی ایک شاخ جواحمدبیگ اوراس کے رشتہ داروں کے لئے تھی کیسے زور سے پوری ہوئی اول تو اس پیشگوئی کے مطابق احمد بیگ جس نے بد زبانی کو نہ چھوڑا اور اپنی ضد سے باز نہ آیا اس لڑکی کے نکاح تک زندہ رہا اور جب اس نے ۷اپریل ۱۸۹۲ ء میں اس لڑکی کا ایک اور کے نکاح کر دیا تو وہ پیشگوئی کی مقرر کردہ میعادکےاندر یعنی ۳۱/ دسمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہو گیا.اور بجائے تین سال کے چوتھے مہینہ تک ہی اس کوعذاب الہی نے گرفتار کر لیا اوراس کے ساتھ تو اس کے گھر میں اور کئی موتیں ہو گئیں.پس ہر ایک طالب حق جان سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کی ایک شاخ کسی زور سے پوری ہوئی.اول تو احمد بیگ لڑکی کے نکاح تک زندہ رہا پھر وہ نکاح کے بعد چار مہینے کے اندر ہی فوت ہو گیا.اور اس کے ساتھ ہی اس کے گھر میں اور بھی کئی قوتیاں ہو گئیں.پس اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ وہ شخص جو اس لڑکی کا خاوندتھا رجوع کرتا اور شرارت سے توبہ کرتا.اور اس لڑکی کی والدہ بھی اپنے گناہوں سے باز آتی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ان لوگوں نے بہت کچھ فروتی دھلائی اور اس لڑکی کا ایک چچااس سلسلہ میں داخل ہوا اور اپنے کل گذشتہ گناہوں سے تائب ہوا.پس ضروری تھا کہ خدا کا عذاب ان پر سے ٹل جاتا.اور وہ اس آنے والی آفت سے مامون رہتے کیونکہ جب شرط نہ رہی تو مشروط بھی نہ رہا اور باقی رہا دوباره حضرت مسیح موعودؑ سے نکاح کا معاملہ اس کا جواب دینے کی ہم کو بھی ضرورت نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑاپنی کتاب حقیقت الوحی میں خوردے گئے ہیں اور اس کی نسبت خدا کا صاف فیصلہ تحریر فرما گئے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اس وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھا المراة توبی فان البلاء علیٰ عقبک پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیاتو نکاح فسخ ہو گیا یاتاخیر میں پڑ گیا.

Page 175

کیا آپ کو خبر نہیں کہ یمحواللہ مایشاء ویثبت نکاح آسمان پر پڑھا گیا یاعرش پر مگر آخر وہ سب کاروائی شرطی تھی.شیطانی وساوس سے الگ ہو کر اس کو سوچنا چاہئے.کیا یونس کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی.جس میں بتلایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہو گا.مگر عذاب نازل نہ ہواحالا نکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی.پس وہ خدا جس نے اپنا ایساناطق فیصلہ منسوخ کردیا گیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی او روقت پر ٹال دے“ (حقیقت الوحی تتمہ صفحہ ۱۳۳، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفیه ۵۷۱.۵۷۰) اب غور کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود ؑاس پیشگوئی کی نسبت اپنی زندگی میں ہی لکھ گئے ہیں اور فیصلہ کر گئے ہیں کہ یا توہ کسی اور وقت پر ٹل گیا ہے یا بلکل فسخ ہوگیا ہے.پس اب اس پیشگوئ پر اعتراض کر نانہایت جہالت پردلالت کرتا ہے.کاش کہ لوگ پہلے بات کی تہ کو پہنچیں اور پھر اعتراض کیا کریں.یاد رہے کہ آج سے ایک سال پہلے حضرت اقدسؑ یہ فیصلہ کر چکے ہیں.کہ وہ نکاح بوجہ عورت اور مرد دونوں کے رشتہ داروں کے رجوع کے منسوخ ہو چکا ہے.اور اگر آپؑ ایسانہ بھی لکھتے تو بھی چونکہ وہ پیشگوئی شرطی تھی.ہر ایک عقلمند انسان سمجھ سکتا تھا کہ چونکہ ان لوگوں نے جن کی نسبت یہ پیشگوئی تھی رجوع کیا اور توبہ کی اور اس شوخی سے باز آئے جو وہ پہلے دکھلاتے تھے تو وہ فیصلہ بھی ان پر سے ٹل گیا.پس باوجود اس کے پر اعتراض کرنا اچھا نہیں.اور ہر ایک معترض کو خدا سے ڈرنا چاہئے کہ وہ بڑی غیرت والا ہے او راپنی آیات پر ہنسنے والوں کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑتا.۳- تیسری بات جس پر اعتراض کیا جا تا ہے.وہ پانچویں بیٹے کی پیشگوئی ہے جس کی نسبت مخالفین سلسلہ کا خیال ہے کہ وہ اب تک پوری نہیں ہوئی.کیونکہ حضرت اقدس ؑنے مواہب الرحمن کے صہ ۱۳۹ پر صاف طور سے لکھا تھا.کہ بشرنی بخامس فی حین من الاحیان یعنی مجھے ایک پانچویں بیٹے کی بشارت دی گئی ہے اور اسی طرح اور بہت سے الہامات سے ثابت ہوتا ہے.کہ آپ کے ہاں ایک اور لڑکا پیدا ہونے والا ہے مثلا یہ کہ انا نبشرک بغلام حلیم ینزل منزل المبارک ساحب لک غلام زکیّا ربّ ھب لی ذریة طیبة انا نبشرک بغلام اسمہ یحیٰ مظھر الحق والعلا کان اللہ نزل من السماءمگران پیشگوئیوں کے ساتھ ہی مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس ؑکا ایک الہام جو کہ اخبار الحکم ۳۰ جون ۱۸۹۹ء کو شائع ہوچکا ہے.یعنی انی اسقط من اللہ وأصيبه یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہوں اور اسی کیطرف جاتا ہوں.پھر اس کے بعد الہام ہوا\" كفى هذا“.اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ یہ مبارک احمد کی

Page 176

ولادت کے وقت کے امام ہیں اب ہر ایک غور کرنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ پہلے الہام سے تو ثابت ہو تا تھا کہ ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا.اور دوسرے الہام کے یہ معنی ہیں کہ یہ نسل یا یہ اولاد کافی ہے اور اب اس کے بعد کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوگی چنانچہ پہلے الہام کے مطابق مبارک ان آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گیا.اور دوسرے الہام کے مطابق آپ کے ہاں اور کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوئی اور تین چار برس کا عرصہ دراز گذرا کہ آپ کو الہام ہواکہ انانبشرک بغلا م او راس الہاام کو آپ نے اپنے پوتے پر لگایا کیونکہ جب دونوں کلام خدا کی طرف سے تھے.تو ان میں تناقض نہیں ہونا چاہئے تھا اور دونوں ایک دوسرے کے مطابق ہونے چاہئیں تھے.چنانچہ ہم نے بھی اس بات کے خیال سے آئندہ بیٹے کے الہام کو اپنے پوتے پر چسپاں کیا.کیونکہ پوتا بھی بیٹے کے قائمقام ہوتا ہے.پس اس کے بعد لازم ہے کہ ہر ایک امام جو آئندہ بیٹے کی نسبت ہو وہ آئندہ نسل کے لئے ہو اور پھر یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ زبان کے لحاظ سے بھی بیٹا آئندہ نسل کے کسی فرد پر بھی بولا جاتا ہے چنانچہ عربی میں اس طرح کثرت سے استعمال ہو تا ہے.چنانچہ اکثر قبیلوں کے نام ان کے کسی بزرگ کے نام پر ہوتے ہیں.اور وہ اس کی اولاد کہلاتے ہیں.چنانچہ بنو ہاشم اور بنو قربانی کے دو قبیلے جو مکہ اور مدینہ کے ہیں.مسلمانوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوسکتے.کیونکہ ایک تو وہ قبیلہ ہے جس سے نور اسلام کا درخت پھوٹا اور ایک وہ ہے جس نے اس کے تباہ کرنے کا بیڑا اٹھایا.اور پھر بنی امیہ کی خلافت اور بنی عباس کی سلطنت بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں.اے دلوں کے اند ھو! غور کرو ! کیا ہارون الرشید اور مامون الرشید عباس کے بیٹے تھے یاخلیفہ مردان اور عمر بن عبد العزیز امیہ کے لڑکے تھے ؟ ہاں ذرا تدبر سے کام لو اور دیکھو! کہ حضرت اقدسؑ کا ایک الہام ہے جو آج سے تیس برس پہلے شائع ہو چکا ہے کہ ینقطع من أباء ویبدءمنك یعنی آئندہ تیرے بڑوں کا نام اڑایا جائے گا اور تیری نسل کا نام تجھ سے مشہور ہو گا.اور دوسرے یہ کہ اوروں کی نسل ہلا ک کی جائے گی اور آپ کی رکھی جائے گی.مگر وہ جو تقوئی اختیار کریں اس سے مستثنی ٰہوں گے مگر بہرحال آئندہ نسل آپ کے نام پر شروع ہو گی اور آپ کی اولاد کہلائے گی.سو اگر اس الہام کی بناء پر ایک آئندہ ہونے والے لڑکے کی بشارت اس رنگ میں دے دی گئی کہ وہ تیری ہی اولاد سے ہو گا تو کیا حرج ہوا.جب دنیا اپنے طور پر ایک شخص کو صدیوں گذرنے کے بعد بھی ایک دوسرے شخص کا بیٹا قرار دیتی ہے اور عمر بن عبد العزیز اور ہارون الرشید امیہ اور عباس کے لڑکے کہلاتے ہیں تو کیا وجہ کہ خدا تعالیٰ ٰحضرت مسیح موعودؑ کی نسل میں سے کسی T

Page 177

آئندہ ہونے والے لڑکے کو ان کے لڑکے کے نام سے پکار نہ سکے.کیا وہ کام جس کا انسان کو اختیارہے خدا اس کے کرنے سے معذور ہے؟ جب دنیا کے طالب ایک شخص کو کیا پہلے گذرے ہوئےشخص سے نسبت دیتے ہیں حالانکہ وہ اس کا مستحق نہیں ہو تا.تو کیاخد اجو خوب جانتا ہے کہ کون کس سے نسبت دیئے جانے کے لائق ہے ایسا نہیں کر سکتا؟ آج وہ سید جو ہزاروں تم کی بدیوں میں مبتلا ہیں اور لاکھوں گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور سینکڑوں قسم کی بد کار یاں صبح اور شام ان سے سر زد ہوتی ہیں.اور وہ جن کے اقوال ایک شریف آدمی کی زبان پر نہیں لائے جاسکتے اور جن کےافعال ایسے نہیں ہیں کہ نیکوں کی مجلس میں ان کا ذکر بھی کیا جائے تو آل محمدﷺ کہلانے کےمستحق ہیں.مگر حضرت مسیح موعود ؑکی نسل میں سے کسی لڑکے کو اگر خدا تعالیٰ نے کسی مصلحت کی وجہ سے ان کا لڑ کا قرار دیا اور اس کے وجود کی ان کو بشارت دی تو و ہ ناجائز ٹهہرا؟ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا ان سے بھی زیادہ محدود طاقتوں والا ہے ؟ یا اس کو نسبت دینے کا علم نہیں اور وہ اس بارےمیں غلطی کر بیٹھتا ہے ؟ (نعوذ باللہ )آج سینکڑوں نہیں ہزاروں لیکچرار اپنی تقریروں میں زور زور سے چلاّ چلاّ کر کہتے ہیں کہ اے بنی آدم ایسا مت کرو.ایسا کرو مگر ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ہمارےباپ کا نام تو آدمؑ نہ تھا.پھر تم کیوں ہم کو اس نام سے پکارتے ہو.مگر حضرت صاحبؑ کی نسل میں سے ایک بچہ کو اگر ان کا لڑکا قرار دیا گیاتو کون سا اند ھیرا آگیا.گفي هذا کا الہام صاف ثابت کرتا ہے کہ بیٹے کے الہام آئندہ نسل کے کسی لڑکے کی نسبت ہیں.اور پھر وہ الہام جس میں ہے کہ تیری اولاد تیرے نام سے مشہور ہوگی.اس کی اور بھی تائید کرتا ہے کہ آئندہ نسل کو بھی حضرت مسیح موعودؑ کا بیٹا کہاجاسکتا ہے.خدا تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ کون ان کا بیٹا بننے کے لائق ہے اس لئے اگرکسی عظیم الشان لڑکے کی نسبت جو دنیا میں ایک تبدیلی پیدا کروے خبر دی جائے اور اس کو حضرت صاحب کا بیٹا قرار دیا جائے تو کیا حرج ہے.نبی کریم ﷺنے بھی تو فرمایا ہے کہ اہل فارس میں سے جو ایمان لائے وہ بنی فاطمہ میں سے ہے پس کیا اہل فارس خود حضرت فاطمہ ؓکے لڑکے بن جاتے ہیں.اور پھر اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جیسے قرآن و حدیث میں کثرت سے ہے اور یہ محاورہ استعمال ہوتاہے.تو حضرت مسیح موعودؑسے اگر خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں کام کیا تو کیا حرج واقعہ ہو مثلا ًقرآن شریف میں یہودیوں کو بار بار بنی اسرائیل کے نام سے پکارا جاتا ہے حالانکہ اسرائیل کو فوت ہوئےقريبا اڑھائی ہزار برس گذر گئے تھے.اور یہودیوں کو پھر بھی خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نام سے پکارا ہے اگر یہ محاورہ عرب کا نہ ہوتا اور کتب الہیہ میں ایسا طریق نہ ہوتا تو اس وقت کے یہودی جو

Page 178

بات بات پر اعتراض کرتے تھے اور بول اٹھتے اور شور مچا دیتے کہ دیکھو ایسا مت کہو ہم بھی اسرائیل نہیں.اور اپنے والدین کا نام بتاتے کہ ان لوگوں کی اولاد سے ہیں.اور پھر قرآن شریف میں حضرت ابراہیمؑ کی نسبت آتا ہے کہ وو ھبناله اسحق ويعقوب (الانعام : ۸۵) یعنی ہم نےحضرت ابراہیمؑ کو اسحقؑ اور یعقوبؑ عطا کئے حالانکہ حضرت یعقوب ؑحضرت ابراہیمؑ کے بیٹے نہ تھے.بلکہ حضرت اسحقؑ کے لڑکے تھے.پس معلوم ہوا کہ خدا کے کلام میں ایسا آجاتا ہے اور اس میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی.اور پھر قرآن شریف میں آتا ہے وإذاخذنامیثاقکم ورفعنا فوقكم الطور (البقرہ:۶۴) حالا نکہ مخاطب تو وہ تھے جو نبی کریم اﷺکے مخالف تھے.اورحوالہ ان کا دیا جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں گذرے ہیں.کیا یہودیوں کا حق نہ تھا کہ وہ کہتے کہ یہ غلط ہے ہم سے طور کے نیچےکوئی معاہدہ نہیں لیا گیا.مگر افسوس کہ وہ آج کل کے معترضین سے زیادہ سمجھ رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کبھی پہلوں کا نام لیا جا تا ہے اور مخاطب پچھلے کئے جاتےہیں.اور پہلے مراد ہوتے ہیں.اور بیٹے سے پوتا یا پڑ پوتا یا نسل میں سے کوئی اور شخص مراد ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ہوتی.پھر مسلمانوں کو بہت سے حکم قرآن شریف میں دیئے گئے ہیں.مثلا یايهاالنبی اذاطلقتم النّساء فطلقوھن لعدتھن(الطلاق۲): یعنی اےنبی جب طلاق دو تم عورتوں کو تو طلاق دو ان کو ان کی عدت پر.تو کیا یہ احکام خاص حضرت نبی کریمﷺکے لئے ہیں.اور دوسرے مسلمان اس سے بری ہیں.اور اگر بفرض محال و ہ شامل ہوگئےتو آج کل کے مسلمان تو ضرور اس کی پابندی سے آزاد ہو گئے.پس جب ایسا نہیں ہے اور کلام الہی میں اس قسم کا کلام آجاتا ہے.تو اس بے فا ئد ہ اعتراض سے کیافائد ہ.اعتراض تو ایسا ہونا چاہئےجو عقل کے مطابق ہو اور پہلے انبیاءؑ پر نہ پڑے جب ایک اعتراض سے قرآن شریف اور احادیث صحیحہ اور کل انبیاء علیھم السلام پر حرف آتا ہے تو ایسا اعتراض بجائے فائدہ کے الٹا عذاب الہٰی کاموجب ہوتا ہے، پس وہ جو اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں خوش ہوتے ہیں چاہیئے کہ ڈریں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی غیرت شریر کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑتی اور بے جاطعنہ کرنےوالا خود مورد قہرالہٰی ٹهہر تا ہے.غور کرو کہ قرآن شریف میں صاف آتا ہے و جاهدوا في اللہ حق جهاده ھو اجتبٰكم وماجعل عليكم في الدين من حرج ملة ابیکم ابرھیم ھو سمّٰکم المسلمین(الحج۷۹) اور کوشش کرو اللہ کی راہ میں خوب کوشش جس نے پسند کیا تم کواور نہیں کی تمهارے لئے دین میں کوئی تنگی - رود این جو تمہارے باپ ابراہیم کا ہے جس نے تمهارا

Page 179

نام مسلمان رکھا ہے.اب کیا ان آیات سے یہ نکلتا ہے کہ ہر ایک مسلمان کے باپ کا نام ابراہیم ہوتاہے.نہیں ہرگز نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرت ابراہیمؑ کی طرز پر کام کرتا اور ان کے بتائےہوئے راستہ پر چلتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایسا ہے جیسے حضرت ابراہیمؑ کابیٹا.ورنہ یہ بات ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی سینکڑوں قومیں ایسی ہیں جو اسلام میں داخل ہیں مگرحضرت ابراہیمؑ کی نسل سےنہیں اور نہ ان کی قوم کا حضرت ابراہیم ؑکے خاندان سے کوئی تعلق ہے پس جب خدا تعالیٰ نے ہر ایک اس شخص کو جو مسلمان ہو تا ہے.اور خدا کی راہ میں کوشش کرتاہےحضرت ابراہیمؑ کا بیٹا قرار دیا اور بیٹے کے لفظ کو اس قدر وسیع کر دیا کہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کی بھی کوئی شرط نہ رکھی تو پھر اگر آج اس خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کی نسل میں سے کسی کو انہیں کا بیٹا قرار دیا تو کیا حرج ہے ؟ جبکہ آج میں کروڑ انسان جو مسلمان کہلاتے ہیں خواہ عرب کے رہنےوالے ہوں یا شام کے غرضیکہ ایران ، افغانستان ، ہندوستان ، چین ، جاپان کے علاوہ یورپ و امریکہ کے باشندے بھی حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے کہلا سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ان کو ابراہیمؑ کے بیٹے قرار دیتا ہے تو ایک شخص کو اگر حضرت مسیح موعودؑ کا بیٹا قرار دیا گیا تو کیا غضب ہوا پھر حدیث دیکھتے ہیں تو اس میں بھی بہت سے ایسے محاورات پاتے ہیں مثلا معراج کی رات جب آنخضرتﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے حضرت ابراہیم ؑکی نسبت پوچھا کہ یہ کون ہیں.تو انہوں نے جواب میں کہاکہ ھذاابوک الصالح یعنی یہ تیرا نیک باپ ہے.اور ایسا ہی حضرت آدمؑ کی نسبت فرمایا.پس جب قرآن و حدیث سے یہ بات صاف ثابت ہے تو پھر حضرت اقدس ؑپر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کو ایک لڑکے کاوعدہ تھا جو پورا نہ ہوا.خدا کے وعدے ٹلا نہیں کرتے اور وہ پورےہو کر رہتے ہیں.اسی طرح یہاں بھی ہو گا.ان الہامات سے یہ مراد نہ تھی کہ خود حضرت اقدسؑ سےلڑکا ہو گا بلکہ یہ مطلب تھا کہ آئندہ زمانہ میں ایک ایساشخص تیری نسل سے پیدا ہو گا جو خدا کےنزدیک گویا تیرا بیٹا ہو گا.او ر و علاوہ تیرے چار بیٹوں کے تیرا پانچواں بیٹا قرار دیا جائے گا.جیسے کہ حضرت عیسیٰ ابن داودؑ کہلاتے ہیں.ایسا ہی وہ آپ کا بیٹا کہلائے گا اور اس میری بات کی تائید خودحضرت اقدسؑ کے اس الہام سے بھی ہوتی ہے جو میں اوپر درج کر آیا ہوں مین کفی هذا جس کےمعنی یہ تھے کہ حضرت اقدس ؑکے ہاں اب نرینہ اولاد نہ ہوگی.چنانچہ اس کے بعد دو لڑکیاں ہو گئیں اور لڑکا کوئی نہیں ہوا.اور خود حضرت اقدسؑ کا بھی یہی خیال تھا.کیونکہ انہوں نے بھی ایک الہام جس میں بیٹے کی بشارت تھی اپنے پوتے پر لگایا تھا ورنہ اگر ان کو یہ خیال ہو

Page 180

.تاکہ میرے ہی بیٹا ہو گا تو پوتے پر کیوں لگاتے.سمجھتے کہ آئندہ بیٹا ہو گا اور وہ الہام پورا ہو جائے گا.پس صاف ظاہر ہے کہ وہ الہامات کسی آئندہ نسل کے لڑکے کی نسبت تھے.خواہ پوتا ہو یا پڑ پوتا ہو یا کچھ مدت بعد ہو.اب بعض لوگ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ایک شخص جس کے چار لڑکے موجود ہوں کہہ سکتا ہے کہ میرےایک لڑکا ہو گا.اور چونکہ اس کے اولا و موجود ہے اس لئے اس کے کوئی نہ کوئی تو بچہ ہو گاہی پس کیا ہم اس طرح اس کو نبی مان لیں.اس لئے یہ بات بھی یاد رہے کہ اول تو ہم اس کی دیگر نشانیوں کو دیکھیں گے کہ وہ اس کی نبوت پر گواہی دیتی ہیں یا نہیں اگر واقعی اس کے ساتھ ایسے نشانات ہیں.جن سے ایک شخص نبی قرار دیا جاسکتا ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ وہ نبی ہے.پیشگوئیاں بعض بڑے جلال کی ہوتی ہیں.بعض معمولی درجہ کی ہوتی ہیں اور زرا ذرا سے واقعات کی بعض اوقات نبی کو خبردی جاتی ہے تو اس پر اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.اور دوسرے یہ کہ حضرت اقدسؑ نے صرف یہ پیشگوئی نہیں کی کہ میرے ایک بیٹا ہو گا بلکہ اس کے ساتھ شرائط رکھے ہیں اور وہ یہ کہ وہ حلیم ہو گا نیک فطرت اور پاک ہو گا.اس زمانہ کے لوگوں میں سے ایک خاص امتیاز رکھتا ہو گا.اور یحییٰ کی خصلتوں پر ہو گا.اور سب سے بڑی شرط یہ کہ وہ اس جلال کے ساتھ آئے گا کہ گویااس کے زمانہ میں خداخود زمین پر اتر آئے گا.پس اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئی کرے اور وہ اپنے وقت پر پوری بھی ہو جائے تو کیا شک ہے کہ وہ سچاہے اور اسکے الہام رحمانی ہیں.پس معترضین کو چاہئے کہ بجائے ان پیشگوئیوں پر اعتراض کرنے کے ان پیشگوئیوں کو دیکھیں جو اس خاص زمانہ کے لئے ہیں اور جو سینکڑوں کی تعداد میں پوری ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں.اگر آئندہ ہونے والی پیشگوئیوں کو نظر اعتراض سے دیکھا گیا تو کوئی نبی سچا ثابت نہ ہو سکے گا مثل حضرت موسیٰ نے خبردی تھی کہ میری قوم شام کی وارث ہوگی اگر ان کے فوت ہونے سے انکی قوم بگڑ جاتی اور ان کو کافرو دجاّل ٹھہراتی تو کس قدر مشکل پڑتی.یا جب حضرت داودؑسے وعدے کئے گئے تھے اور وہ حضرت مسیح ؑکے وقت میں پورے ہوئے تو کیا درمیانی زمانہ کے لوگوں کاحق نہ تھا کہ وہ اعتراض کرتے کہ فلاں فلاں وعدہ پورا نہیں ہٹایا حضرت عیسیٰ ؑنے جب اپنے حواریوں کو تختوں کے وعدے دیئے تھےاور اپنے لئے باردشاہی کی خبر دی تھی تو اس وقت اگر وہ لوگ انکار کر بیٹھتے کہ خود تو سولی پر لٹکایا گیا معلوم نہیں ہمارا کیا حال ہو گا تو کیا ان کے لئے بہتر ہوتا؟ یا ہمارے نبی کریم اﷺنے ریل کی سواری کی خبر دی تھی جو آج کل آکر پوری ہوئی تو کیا بیچ کی بارہ صدیوں کے لوگ دین اسلام کوترک کر دیتے اور کفر اختیار کر لیتے کہ وہ نئی سواری کا وعدہ

Page 181

پورا نہیں پڑا.پس جب سب نبیوں سے ایسا ہو تا چلا آیا ہے اور انہوں نے آئندہ زمانہ کی خبریں بھی دیں ہیں.تو اگر حضرت مسیح موعودؑنے کچھ آئندہ کی خبریں دیں اور بتایا کہ میری نسل میں سے ایک ایسالڑ کا ہو گا جس کی ہیبت اس قدرہوگی کہ گویا خدا آسمان سے اس کی مدد کے لئے اتر آیا تو کیا ہوا؟ اس سے تو ان کی اور بھی سچائی ثابت ہوگی.اور اس وقت کے لوگ اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے.اور مزہ اٹھائیں گے.آج کل کے لوگوں سے جو وعدے ہیں وہ ان پر غور کریں اور ان پر جو شکوک ہیں وہ بیان کریں اورتوبہ استغفار ساتھ کرتے رہیں انہیں اصل حقیقت معلوم ہو اور خدا اپنے خاص فضل سے ان پرسچائی کھول دے.اور وہ صراط مستقیم دیکھ لیں تاکہ ہلاکت سے بچ جائیں.ورنہ جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں یہ بیٹے کی پیشگوئی تو کسی ایسے لڑکے کی نسبت ہے جو آپ کی نسل سے ہو گا اور بڑی شان کاآدمی ہو گا اور خدا کی نصرت اس کے ساتھ ہوگی.اور یہ بھی میں ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت اقدسؑ کے الہامات میں ہی اس قسم کے استعارہ نہیں ہیں بلکہ پہلے نبیوں کے کلام میں اور قرآن و حدیث میں بھی ہیں کہ بیٹا کہا جا تا ہے اور مراد نسل میں سے کوئی آدی ہو تاہے.اب اس کے بعد میں ایک اور چھو ٹا سا اعتراض لکھ کر اس کا جواب دیتا ہوں، جو کہ اگر چہ بہت فضول ہے لیکن چونکہ بعض طبیعتوں میں خلجان پیدا ہو رہا ہے.اس لئے اس پر بھی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت اقدس تو وفات پاگئے مگر مولوی حسین صاحب نے اب تک تو بہ نہیں کی اور آپ پر ایمان نہیں لائے.سو یاد رہے کہ حضرت صاحب نے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ وہ میری زندگی میں ایمان لائیں گے بلکہ اگر کہیں لکھا ہے تو یہ کہ مولوی صاحب مجھ کو مانیں گے.سومولوی صاحب اب تک خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تندرست ہیں یہ کون سی بڑی بات ہے کہ وہ اپنی طرز کو بدل دیں جہاں انہوں نے مہدی کے عقائد باطلہ کا رد کر دیا ہے اور گورنمنٹ کو اطمینان دلایا ہے کہ ایسا کوئی مہدی یا مسیح نہیں آئے گا جو خون کی ندیاں بہائے اور مولویوں کےگھروں کو لوٹ کے مال سے بھرے بلکہ وہ دلائل قاطع سے دنیا میں تبدیلی پیدا کرے گا.تو کیا تعجب ہے کہ وہ کچھ تھوڑا سا فرق جو ہم میں اور ان میں رہ گیا ہے اس کو بھی دور کردیں.خدا کے ہاتھ میں ہر ایک کے دل ہیں اور وہ ہر ایک کے ارادہ پر متصرف ہے.جب وہ اپنی زندگی پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ انہوں نے اپنے بچپن کے رفیق اور جوانی کے غمگسار اور ادھیڑ عمر کے ہادی سے اپنی گذشتہ عمر میں کیا کیا سلوک گئے ہیں اور باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے پورے زور سے اس کے سلسلہ کو تباہ کرنا چاہا مگر خدا نے اس کو ہر میدان اور ہر جگہ میں فتح دی اور پھر اپنے لئے اس کی

Page 182

تڑپ اور غم اور ہمدردی اور سچ پر لانے کے لئے کوشش کو ملاحظہ کریں گے تو خور بخور ان کے دل سے تا اللہ لقد اٰثرک اللہ علینا و ان کنّا لخطئین(یوسف: ۹۴) کی آواز آئے گی اور جب وہ شعر پڑھیں گے کہ حسين دفاه القوم في دشت کربلا وکلمنی ظلما حسين آخر ایک حسین ؑوہ تھا جس کو دشمنوں نے کربلا میں قتل کیا اور ایک وہ حسین ہے جس نے مجھ کو ظلم سے مجروح کیا کمثلک مع علم بحالي و فطنه عجبت له يبغي الهدى ثم يأطر تیرے جیسا آدمی میرے حال سے واقف اور دانا تعجب ہے کہ وہ ہدایت پر آکر پھر راہ راست چھوڑدے قطعت ودادا قد غرسناہ فی الصباء و لیس فوادي في الوداد يقصر تونے اس دوستی کو کاٹ دیا جس کا درخت ہم نے بچپن میں لگایا تھا مگر میرے دل نے ردی میں کوئی کوتاہی نہیں کی وو اللون و و واللہ ان اجعل عليك مسلطا فان یدی عمّا یجاذیک تقصر اور قسم ہے خدا کی اگر میں مجھ پر مسلط کیا جاؤں تو میرا ہاتھ تھے سزا دینے سے قاصر رہے گا تو ان کا دل یوسفؑ کے بھائیوں سے بھی کم درد محسوس نہ کرے گا.مگر اصل بات تو یہی ہے کہ جس کو خدا ہدایت دے وہی ہدایت پا سکتا ہے ان کی نسبت بیشک خدا کی طرف سے ایک بشارت ہےاور حضرت اقدسؑ نے بارہا اس کا ذکر بھی کیا ہے مگر نامعلوم کہ وہ کیو نکر پوری ہو کیونکہ حضرت اقدسؑ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کو موت کے وقت اطلاع دی جائے گی کہ حق پر نہیں ہیں.اور اس بات پر مخالفین کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.کیونکہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے کہ فرعون نے مرتے وقت کیا کہ اٰمنت انہ لا الہ الا الذی اٰمنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمینیونس : (۹۱) تو اس کا ثبوت سوائے اس کے کیا ہے کہ خدا کے کلام میں یوں آیا ہے پس اگر کوئی شخص حضرت اقدسؑ پر اعتراض کرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے اس بات کو سوچ لے کہ یہ اعتراض خود کلام پاک قرآن شریف پر بھی وارد ہو گا.پس اصل بات یہ ہے کہ کلام اللہ کے کئی حصے ہوتے ہیں.ایک تو وہ پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو دشمنوں پر حجت قائم کرنے کے لئے ہوتی ہیں.اور ایک ایسی ہوتی ہیں جو اپنوں کی اصلاح کے لئے ہوتی ہیں.اور تیسری وہ جو ایمان بالغیب کے لئے ہوتی ہیں.مثلاً بہشت کےمتعلق جو بعض وعدے قرآن و احادیث میں کئے گئے ہیں ان پر کوئی مخالف اعتراض نہیں کر سکتاکیونکہ وہ اس تیسرے حصہ میں ہیں اور اس کی مثالیں ہر ایک قوم اور مذہب کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.پس اگر مولوی صاحب موصوف اپنی وفات کے وقت ایمان لے آئیں تو اس پر دشمنوں

Page 183

کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.وہ اس کو فرعون کا معاملہ سمجھ لیں.اور اول تو یہ اعتراض قبل ازوقت ہے مولوی صاحب ابھی زندہ ہیں ایمان لانے کا بہت وقت پڑا ہے.اس پر اعتراض کرنا فضول ہے.کیا مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں کہ کہاجا تا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے.؟ تیسرا اعتراض زلزلہ کے بارے میں کیا جا تا ہے کہ حضرت اقدسؑ نے لکھا ہے کہ بہ زلزلہ میرے سامنے آئے گا حالا نکہ آپ فوت ہو گئے اور کوئی زلزلہ نہیں آیا.سو یاد رہے کہ حضرت اقدسؑ کو کئی الہامات زلزلوں کے بارے میں آئے ہیں بعض جگہ تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زلزلہ آپؑ کے سامنے آئے گا.اور بعض جگہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے بعد آئے گا.سو اس کی یہ وجہ ہےکہ آپ ؑنے کئی زلزلوں کی خبر دی تھی بعض کی نسبت تو آپؑ نے خبر دی ہے کہ وہ میرے سامنے آئیں گے.چنانچہ الہامات کے بعد بڑے بڑے خوفناک زلزلے آئے جنہوں نے زمین کو ہلا دیا.اوردنیا کانپ گئی اور بہت سے انسان چیخ اٹھے کہ یہ کیا ہو نے والا ہے.چنانچہ سول ملٹری گزٹ نے بھی لکھا کہ نہ معلوم دنیا کو کیا ہونے والا ہے.چنانچہ جنوبی امریکہ ،بخارا اور کوئٹہ کے خوفناک زلزلے کچھ ایسے نہیں ہیں کہ نظر انداز کئے جائیں.پس جہاں یہ الہام پورے ہوئے ہیں باقیوں کا بھی انتظار کرنا چاہئے اور ایک عظیم الشان زلزلہ کی خبر جو نصرت الحق میں دی گئی ہے اور اس میں حضرت اقدسؑ نے لکھا ہے کہ وہ میرے سامنے آئے گا تو اس کی نسبت یہ الہام بھی درج ہو چکا ہے کہ رب اخر وقت ھذایعنی اے میرے خدایہ زلزلہ جو نظر کے سامنے ہے اس کا وقت کچھ پیچھے ڈال دےاور اس سے پہلے حضرت اقدسؑ نے صاف لکھا ہے کہ \"آج زلزلے کے وقت کے لئے توجہ کی گئی کہ وہ کب آئے گا اسی توجہ کی حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی\".پس اس الہام سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ اس زلزلہ میں تاخیر ہوگئی ہے اور وہ کچھ مدت بعد واقعہ ہو گا اوریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت کے بعد ہو گا.کیونکہ اس کا نظارہ ایسا خوفناک نظر آیا ہے کہ آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اس زلزلہ کو ابھی ٹال دے یعنی میری زندگی میں نہ آئے.کیونکہ اگر وہ آپ کی زندگی میں آتا تو پھر اس کا دوسرے وقت پر ٹلنا بے فائدہ تھا.اور اس کا خوفناک نظارہ آپ کو دیکھناپڑتا.پھر اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام ہے کہ اخرہ اللہ الی وقت مسمی یعنی خدا نے تیری دعاسن لی اور اس زلزلہ کو تیری زندگی کے بعد کسی وقت پر ٹال دیا.پس اب اس پیشگوئی پر کس کواعتراض ہو سکتا ہے.اگر حضرت اقدسؑ کو ایک زلزلہ کا الہام ہوتا تب تو اعتراض کی بھی گنجائش ہو سکتی تھی کہ وہ نہیں آیا.مگر جب چار پانچ

Page 184

.زلزلوں کی طرف اشارہ تھا جو قیامت کا نمونہ ہوں گے مگر ایک ان میں سے بہت بڑا ہو گا.اور اس کی نسبت آپ نے لکھا تھا کہ وہ میرے سامنے آئے گا مگر پھرالہام ہوا کہ نہیں آئے گا.تو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ بےشک ہم مانتے ہیں کہ یہ الہامات بھی تھے کہ آپ کے سامنے بھی کئی زلز لے آئیں گے مگرو ہ پور ے بھی ہوئے.اور ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.امریکہ کے زلزلے اور بخار اور کوئٹہ کے زلزلے جنہوں نے ایک دم میں ہزاروں جانوں اورکروڑوں روپے کا نقصان کر دیا.انہیں الہامات کے مطابق تھے.جو حضرت صاحب کی زندگی میں آئے اور کل الہامات کو پورا کر گئے.اور اگر کوئی یہ کہے کہ الہام کے الفاظ تو یہ تھے کہ اریک زلزلة الساعة یعنی میں تجھے سخت زلزلہ دکھاؤں گا.پس امریکہ اور بخارا کے زلزلے آپ نےکہاں دیکھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو ایسے موقعوں پر استعمال ہو تاہےجیسے قرآن شریف میں آتا ہے کہ الم تر كيف فعل ربك بأصحاب الفيل یعنی کیا تو نےنہیں دیکھا کہ خدا نے اصحاب فیل سے کیا کیا.حالانکہ اصحاب فیل کا واقعہ تو نبی کریم اﷺسے پہلے ہوچکا تھا.انہوں نے کب دیکھا کہ خدا نے ان سے کیا گیا.پس اس بات پر اعتراش کر یا کسی نادان کاہی کام ہے دانا ایسا نہیں کر سکتا.پھر ایک اور بات ہے کہ اگر بفرض محال ہم مان بھی لیں کہ حضرت کا کوئی الہام نہ تھا کہ یہ زلزلہ تیرے بعد آئے گا.تو بھی کیا حرج ہے آپ کو بار بار الہام ہو تاہے واما نرینک بعض الذی نعدھم او نتو فینک یعنی یا تو ہم بعض و عید کی پیشگوئیاں تجھے دکھلائیں گے یا وفات دیں گے.یعنی بعض ان میں سے تجھے د کھائیں گے اور بعض تیرے بعد ظہور میں آئیں گی.پس اگر یہ پیشگوئی ٹل گئی ہو اور خدا نے چھ مدت تک ملتوی کر دی ہو تو کیا تعجب ہے.اور اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی اطلاع خدا نے نہیں دی تو یاد رہے کہ یونس نبیؑ کو بھی اس کی اطلاع نہیں ملی تھی.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یونس نبی ؑکا قصہ اس معاملہ کو حل کردیتا ہے.کیونکہ ان سے بھی وعدہ تھا کہ چالیس دن تک ان کی قوم پر عذاب آئے گا اور ان کی زندگی میں ہو گا.مگروه عذاب ٹل گیا تو کیا اس سے یہ لازم آیا کہ یونس نبی موت کا وقت آئے گا.پس جب ایسا نہیں تو اس موقعہ پر کیوں اعتراض کیا جا تا ہے.خدا نے اس عذاب کو ایک مدت پیچھے ٹال دیا.تو کیا اب ضروری تھا کہ وہ اس وقت تک حضرت اقدس ؑکو زندہ رکھتا.مگر یہ جواب ہم مخالفین کے تمام ہمیشہ زندہ رہے.کیونکہ نہ وہ عذاب آئے گا اور نہ اسکی اعتراضوں کو مان کر دیتے ہیں.ورنہ حقیقی جواب یہی ہے کہ حضرت اقدس ؑکو بہت سے زلزلوں کی خبر دی گئی تھی اور الہام تھا کہ یہ تیری زندگی میں آئیں گے چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں وہ آئے بھی.اور ایک عظیم الشان زلزلہ کی جو خبر دی گئی تھی کہ

Page 185

وہ آپؑ کی زندگی میں آئے گا اس کی نسبت دو بارہ الہام ہو چکا تھا کہ وہ آپ کی موت کے بعد ہوگا.چنانچہ اسی طرح ہوا اور میں وہ دونوں الہام جو اس بارہ میں ہوئے اوپر درج کر آیا ہوں.پس یہ کہناکہ وہ زلزلہ حضرت صاحب کی زندگی میں کیوں نہ آیا ایک بے ہود و اعتراض ہے اور بے فائدہ ضدہے.اب آخر میں اس قدر اور لکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دلائل تو ان لوگوں کے لئے ہوئے جو مسلمان ہیں یا عیسائی ہیں.مگر آریوں کے لئے جو ان مذکورہ بالا پیشگوئیوں پر اعتراض کرتے ہیں کیا جواب ہیں.سویاد رہے کہ اول تو میرے جواب قریباً کل کے کل ایسے ہیں جو خدا کے فضل سے کل قوموں کے لئے ہیں مثلا عمر کی نسبت شہادةصحیحہ کہ وہ پوری ہوئی اور الہام کے مطابق ہوئی.نکاح کے متعلق یہ جواب کہ اس کا ایک حصہ اس صفائی سے پورا ہوا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور دوسرا اس لئے التواء میں پڑ گیا اور فسخ کیا گیا کہ جن کی نسبت سزا تجویز تھی انہوں نے رجوع کیا اور ایک اور صریح جواب یہ دیا ہے کہ خود حضرت اقدس ؑ لکھ گئے ہیں کہ وہ فسخ ہو گیا ا التواء میں پڑ گیا ہے.اور زمانہ نے بتادیا ہے کہ وہ فسخ ہی ہو گیا ہے.پس جب خود ملہم کہہ گیا ہے کہ وہ فسخ ہو گیا تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.اور بیٹے کی نسبت بھی لکھ آیا ہوں کہ حضرت کےالہاموں سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ ان کے ہاں نہیں بلکہ آئندہ نسل سے ہو گا اور ایک خاص شان کاہو گا.اور مولوی محمد حسین اور زلزلہ کی نسبت بھی ایسے ہی جواب دے آیا ہوں.پس اگر ان کا کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو ان جو ابوں پر جو گذشتہ نبیوں کی مثالیں دیکر دیئے گئے.سووہ الزامی جواب ہیں حقیقی نہیں حقیقی وہ ہیں جو سب کے لئے ایک ہیں.اور دوسرے ان لوگوں کے لئے ہمار اصافجواب یہ ہے کہ ہمیشہ کثرت دیکھنی چاہئے.پیشگوئیوں میں متشابہات بھی ہوتی ہیں.بعض آئنده زمانہ کے لئے ہوتی ہیں.پس ان پر اعتراض نہیں ہو سکتا.کثرت کی طرف نظر کرنی چاہئے.سو جہاں حضرت اقدس ؑکی ہزاروں پیشگوئیوں روز روشن کی طرح پوری ہو ئیں.اگر چند پیشگوئیوں کسی وجہ سے بعض لوگوں کو سمجھ میں نہ آئیں تو ان پر اعتراض کرنا محض ضد اور تعصب ہے اور صداقت کے طالب ان باتوں سے دور ہیں.اور دوسری یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت اقدسؑ کے تین دعوے تھے ایک مہدیؑ کا ایک عیسیٰؑ کا ایک کرشنؑ کا اور اس وقت تین قومیں ہی زبردست ہیں مسلمان ،عیسائی اور ہندو.پس ہر ایک قوم کے لئے جو معجزات و کھلائے گئے ہیں.وہ انہیں کے رنگ کے ہیں.مسلمانوں اور عیسائیوں کے نبیوں کے حالات چو نکہ معلوم ہیں اس لئے ان کے رنگ کی

Page 186

پیشگوئیاں ان کو دکھلائی گئیں.لیکن بعض پیشگوئیوں صاف اور بعض متشابہات کے رنگ میں کیونکہ ان کے نبیوں کی پیشگوئیوں بھی اسی طرز پر ہیں اور اس لئے وہ ہم پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتے ہاں کرشن ہونے کی حالت میں جو پیشگو ئیاں ہندوؤں کی کل قوموں کو دکھلائی گئی ہیں ان پر اعتراض کرنے کا ان کو حق حاصل ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ چونکہ ہندووں کے نبیوں کے حالات غائب ہیں اور پایہ ثبوت کو نہیں بچ گئے اور ان میں کوئی تاریخ نہیں جس سے ان کے اصل واقعات کا پتہ مل سکے.اور دوسرے ان کی ایک قوم آریہ ان نبیوں کے وجود سے بھی منکر ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے لئے جو معجزات دکھائے وہ ایسے صاف ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا.مشلادیانند ، لیکھرام اور قادیان کے بعض آریوں کی نسبت پیشگوئیاں ایسی صاف اور صریح ہیں کہ کسی ہندو کی مجال نہیں کہ ان پر اعتراض کر سکے.بلکہ بعض سلیم الفطرت ہندو صاف طور سے اس بات کا إقرار کرتے ہیں کہ وہ پوری ہو گئیں.اور بعض کے نام حضرت اقدسؑ نے اپنی بعض کتابوں میں درج بھی کئے ہیں.پس ہند و صاحبان کو چاہئے کہ اعتراض کرشن کے معجزات پر کریں جو ان کے لئے ہیں کیونکہ ہر ایک قوم پر اسی کے رنگ میں حجت قائم کی جاتی ہے اور دوسروں کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا.مثلا ایک قوم اخلاقی تعلیم کو اصل دارومدار سچائی کا سمجھتی ہے.تو اس پر ہم اسلام کی سچائی اسی رنگ میں ثابت کریں گے اور دوسری قوموں کو اس پر کوئی اعتراض کا نہ ہو گا.یا مثلا ہم عیسائیوں کو کہیں کہ جن نشانیوں کا نبی تو ریت میں بتایا گیا تھا وہ ہمارے نبی کریم ﷺ تھے اور یہ ان کی سچائی کا ایک نشان ہے.تو اس پر آریوں یا سناتن ودھرم کو کچھ اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ ان کے رنگ میں ان پر اتمام حجت قائم کی گئی.پس ہندو قوموں کو چاہئے کہ وہ کرشن والی پیشگوئیوں پر اعتراض کریں جہاں خدا کے فضل سے ان کو اعتراض کی کوئی گنجائش نہ ملے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں کے رنگ میں ان پر اتمام حجت قائم کی ہے.پس یاد رہے کہ اول تو کل جواب جو میں دے آیا ہوں وہ سب قوموں کے لئے یکساں ہیں.اور دوسرے کثرت دیکھنی چاہئے.اور تیسرے ہندو قوموں کو ان پیشگوئیوں پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے جو کرشن کی حیثیت میں ہیں.اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ پیشگوئیاں بالکل صاف طور سے پوری کی ہیں.کیونکہ اگر ان میں متشا بہات ہوتے تو ہم کو آریوں پر ان کی سچائی ثابت کرنی مشکل ہو جاتی.کیونکہ ان کے نبیوں کے حالات نے بہت مشکل بلکہ قریبا ناممکن ہیں.پس خدا کے فضل سے دنیا کی کوئی قوم نہیں جو حضرت مسیح موعود ؑکے الہامات پر اعتراض کر سکے اور خدا تعالیٰ کا کلام بڑے زور سے پورا ہو کر ان

Page 187

کی سچائی پر مہر لگا رہا ہے.کہ لا یفلح السّاحر حیث اتٰی اور دو سرا الہام کہ قرب أجلک المقدرولا نبقى لك من المخزيات ذكرا.اب اس کے بعد میں اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدسؑ کی پیشگوئیوں پر جو اعتراضات کا سلسلہ مخالفین نے شروع کیا ہے وہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے اور من پسندی کے لحاظ سے ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس قسم کے اعتراض کریں.کیونکہ بعض ایسی پیشگوئیوں پر اعتراض کرنا جو متشابہات سے ہوں راستی کا شیوہ نہیں.کیونکہ پیشگوئیوں کی تصدیق اس طرح نہیں ہواکرتی کہ تمام کی تمام پیشگوئیاں بالکل صاف اور سیدھے رنگ میں پوری ہو جائیں اور ہر ایک شخص ان کو سمجھ سکے.چنانچہ قرآن شریف نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیا ہے.اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی.کیونکہ قرآن شریف کے اول ہی صفحہ پر یہ آیت تحریر ہے کہ ھدی للمتقین.الذین یؤمنون بالغیب یعنی قرآن شریف میں ہدایت ہے ان متّقیوں کے لئے جو غیب کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں یعنی وہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ تمام آیاتِ الہیہ کی طرح ان کے آگےکھول کر رکھ دی جائیں، اور الٹی سیدھی طرح سے ان کو پیش کیا جائے کہ کوئی ذی روح بھی ان سے انکار نہ کر سکے.بلکہ جب بعض باتیں دیکھتے ہیں جن سے مذہب کی سچائی ثابت ہوتی ہے تو پھر وہ اسی سے اندازہ لگا کر باقی غیب کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سنتِّ الہیہ کے مطابق بعض پیشگوئیاں یا بعض احکام متشابہات ہوتے ہیں جو کہ ممکن ہے کہ ایک کی سمجھ میں نہ آئیں اور دو سرے کی عقل ان کو پالے اور ان کی سچائی کی تصدیق کرے.پس خداوند تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو متقی قرار دیتا ہے جو کہ عقل سے کام لیتے ہیں.اور ہر ایک بات کو روز روشن کی طرح صاف دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے ، اور اگر ہر ایک بات ایسی صاف ہو جایا کرے کہ اندھے سے اند ها بھی اس کو سمجھ لیا کرے تو دنیا میں کفروارتداد کا سلسلہ ہی نہ رہے.حالانکہ قرآن شریف سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کفار ہمیشہ دنیاپر رہیں گے.اور خودزمانہ کی رفتار اس بات کو ثابت کرتی ہے اور اگر کسی نبی کے زمانہ میں کل کی کل دنیا مسلمان ہو سکتی تھی.تو اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہمارے نبی ﷺ تھے جو تمام نبیوں کے سردار اور خاتم النّبیّن ہیں.مگر جب ان کے زمانہ میں ایسا نہیں ہواتو پھر کسی اور نبی کی نسبت ہم کب یہ گمان کر سکتے ہیں کہ اس کے زمانہ میں تمام کی تمام دنیا ایمان لے آئے گی اور کفر کا نام دنیا سے مٹ جائے گا.اور اگر کوئی شخص ایسا گمان کرتا ہے تو وہ نبی کریم ﷺکی صریح ہتک کرتا ہے.اور آیت شریفہ و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیمة

Page 188

ال عمران : ۵۶)بھی صاف ظاہر کرتی ہے کہ قیامت تک کفراور ارتداد کا سلسلہ جاری رہے گا اور سچے نبیوں کے دشمن ہمیشہ اور ہر جگہ موجود رہیں گے.پس معلوم ہوا کہ بھی اور کسی نبی کے وقت ایسے کھلے کھلے نشان نہیں دکھائے گئے کہ تمام کی تمام دنیا ایمان لےآئے.بلکہ ہر زمانہ میں کچھ محکمات اور کچھ متشابہات بھی بیان کئے گئے ہیں.چنانچہ حضرت نوحؑ کےدشمن آخر وقت تک انکار کرتے رہے.کہ ہم کو کوئی نشان نہیں دکھایا گیا اور آخر ذلت سے ہلاک ہوئے.اور حضرت ابراہیمؑ اور اسحق ؑاس کے دشمنوں کا بھی یہی حال رہا.اور پھر حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ میں فرعون کو بھی یہی شکایت رہی کہ کوئی نشان آسمانی لاؤ - عصاکا سانپ بنانا تو ایک سحرہے اور غرق ہوتے وقت اس پر ظاہر ہوا کہ سچا کون تھا اور جھوٹا کون.اور جب اس پر اس حد تک بات کھل گئی اور ثابت ہو گیا کہ حضرت موسیٰ ؑسچےتھے تو اس وقت اس کو ایمان نے کوئی فائدہ نہ دیا جس سےمعلوم ہو تا ہے کہ اگر حق بالکل ظاہر ہو جائے اور کوئی امتیاز عقلمند اور بے عقل میں فرق کرنے کانہ رہے تو اس وقت کا ایمان کام نہیں آتا.پس کسی نبی ایسے معجزات کا طلب کرنا جو بالکل صریح ہوں اور متشابہات ان میں قطعا ًنہ ہوں بالکل بے فائدہ اور سنت اللہ کے خلاف ہے.کیونکہ جب ایسے صاف نشانات کسی نبی کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ظاہر ہوں تو پھر اس پر ایمان لانا بالکل بے فائدہ ہو گا اور ایسے وقت میں ایمان لانے والے کو رضائے الہی کے حاصل کرنے کا موقع نہ ملے گا اور اس کا حشروہی ہو گا جو فرعون کو ہوا.مگر چونکہ خدا تعالیٰ کامنشاء کسی نبی کے بھیجنےسے عام اصلاح کا ہوتا ہے.اور کھوٹے کو کھرے سے پرکھنے کا ہو تا ہے.اس لئے ہر ایک نبی کے وقت معجزات ایسے ہی رنگ میں دکھائے جاتے ہیں کہ سعید الفطرت اور عقلمند لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں.مگر کج طبع اور بد باطن انسان اس نور کے حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں اور آخر تک کٹ حجتی کرتے رہتے ہیں اور باوجود سینکڑوں نشانوں کے وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی کوئی نشان نہیں دکھایا گیا اور ایسے لوگوں کا سوائے عذاب الہی کے کوئی جواب نہیں ہوتا.جب عذاب آتا ہے تو پھر سمجھتے ہیں کہ ہاں خدا کا وعدہ سچا تھا اور اس کا رسول برحق مگر اس وقت کا ایمان کسی کام نہیں آتا.چنانچہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی لوگوں نے ایسے ہی اعتراض کئے اور کہا کہ آپ ﷺآسمان پر چڑھ کر کتاب لائیں تب آپ کو ہم مان لیں گے.مگر اس کا جواب جو ملا وہ ظاہر ہے کہاَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا.(بنی اسرائیل : ۹۴ )یعنی کافر نبی کریم اﷺکو کہتے ہیں i

Page 189

کہ اگر آپ کے لئے ایک سونے کا مکان ہو یا آسمان پر چڑھ جائیں تو ہم ایمان لے آئیں گے.مگر صرف آسمان پر چڑھنا کافی نہیں بلکہ وہاں سے ایک ایسی کتاب بھی لے آئیں جس کو ہم پڑھ سکیں.(خدا تعالیٰ فرماتا ہے )کہ ان کو کہہ دے کہ میں کیا ہوں صرف ایک بشر رسول ہوں.یعنی بشررسول سے تو ایسے صاف اور صریح کام نہیں ہوتے جو خلاف سنت بھی ہوں اور خلاف بشریت بھی ہوں.اب صاف ظاہر ہے کہ اگر نبی کریم ﷺایسا صاف معجزہ دکھا دیتے تو کل کے کل کفارمسلمان ہو جاتے.بلکہ کل دنیا کے لوگ آپﷺ پر ایمان لے آتے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ معجزات ایسے صاف نہیں دکھاتا کہ جن سے کل دنیا مان جائے.اور ایمان لانا صدق کی بناء پرنہ رہے اور ہر کاذب و صادق کو زبردستی نبی کی طرف جھکا دیا جائے.اس لئے وہ معجزات میں ایسےمتشابہات بھی رکھتا ہے جن سے سعید لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے لوگ الٹا اور بھی بیزار ہوجاتے ہیں.اور صریح پیشگوئیوںاور محکمات کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں.جس سے نیکوں اور بدوں میں ایک بیّن فرق ہو جاتا ہے.اور دنیا دیکھ لیتی ہے کہ کون سچائی کا دلدادہ ہے اور کون جھوٹ اور فریب کا شیدا.چنانچہ یہی وجہ تھی کہ با و جو ہزاروں معجزاات اور آیات کے بہت سے خبیثوں نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت کی اور ان کو نہیں مانا.اور بجائے محکمات کے متشابہات کی طرف گئے.اگرتعلیم پر ان کی نظر پڑی تو متشابہات پر اور اگر آیات پر انہوں نے غور کیا تو متشابہات کو مد نظر رکھا.پس اس وجہ سے وہ ہلاک ہو گئے اور سچائی کو دیکھ نہ سکے مگر جنہوں نے متشابہات کی پرواہ نہیں کی اور ایمان بالغیب کے مسلم مسئلہ پر عمل کیا وہ ان تمام مشکلات سے بچ ر ہے اور ہر قسم کے ابتلاؤں سےمحفوظ رہے.انہوں نے اصول کو دیکھا اور فروع کو ان کے مطابق کیا.مگر بر خلاف اس کے کفار نے چاہا کہ پہلے چھت تیار کریں اور پھر بنیاد رکھیں گے اور وہ ناکامیاب ہوئے.پس اصل شناخت کسی نبی کی اس طرح ہو سکتی ہے کہ کثرت کی طرف نظر کی جائے اور متشابہات کو نظرانداز کیا جائے.کیونکہ جب تک ایسانہ کیا جائے کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.اور راستی اور حق پسندی بھی یہی چاہتی.ہے کہ جو حق ثابت ہو گیا ہے اس کو قبول کیا جائے اور جو سمجھ میں نہیں آتا اس کے لئے انتظار کیا جائے اور جو شخص دس محکمات پیشگوئیوں کو نہیں مانتا اس سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ ایک پیشگوئی جو متشابہات سے ہے اگر پوری ہو جائے تو اس کو مان لے گا.بلکہ غالب یقین ہی ہے کہ وہ اس سے بھی کوئی بہانہ بنا کر چھٹکارا کر لے گا.پس سچا اصول یہی ہے کہ انسان ہروقت قرآن شریف کی اس آیت کو مد نظر رکھے کہ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ | 2

Page 190

آل عمران : ۸) لیکن وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب جس میں نشان ہیں محکمات بھی جو کتاب یعنی قرآن شریف کی جڑ ہیں اور دوسری ایسی باتیں بھی اس میں ہیں جومتشابہات ہیں.یعنی بعض باتیں جو اصول کے طور پر بتائی گئی ہیں وہ تو محکمات ہیں.اور بعض متشابہات بھی ہوتی ہیں جو بعض کو سمجھ آتی ہیں اور بعض کو نہیں اور ان کا صحیح علم خدا تعالیٰٰ کے پاس ہوتا ہےپس ان پر اعتراض کرنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو کج طبع ہیں پس ہر ایک نبی کی سچائی کو پرکھنے کے لئےاس کی تمام پیشگوئیوں پر مجموعی نظر ڈالنی چاہیے اور دیکھنا چاہیئے کہ کثرت کسی طرف ہے اورمحکمات بھی ہیں یا تمام متشابہات ہی ہیں.اور اگر ثابت ہو کہ کلمات بھی ہیں تو متشابہات کو چھوڑ کرچاہئے کہ سچائی کی راہ کو قبول کیا جائے.اور کثرت کو مد نظر رکھ کر قلت کا خیال نہ کیا جائے یعنی جب اکثر پیشگوئیاںمحکمات سے ہوں اور تھوڑی سی متشابہات سے تو چاہیئے کہ محکمات کا لحاظ کیا جائے اور متشابہات کو خدا کے علم پر چھوڑ دیا جائے.ورنہ اگر یہ اصول نہ برتا جائے تو کسی نبی کی سچائی ثابت نہیں ہو سکتی اورآدمؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک تمام نبی نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں کیونکہ ہر ایک کے ساتھ متشابہات لگے ہوئے ہیں.اور ایمان بالغیب کا مسئلہ بھی بالکل اڑ جا تا ہے.کیونکہ اگر متشابہات نہ ہوں اور محکمات ہی ہوں تو پھر کسی کا ایمان کام نہیں آئے گا.اور ہر ایک شخص فرعون کی طرح نامراد مرے گا.ایمان کاثواب تو تبھی تک ملتا ہے جب تک کہ انسان اپنے نفس کی قربانی کر کے ایک بات محض رضائے الہٰی کے لئے مان لیتا ہے.ورنہ اگر متشابہات کا سلسلہ ہی اٹھ جائے تو ایمان ایمان نہیں رہتا.چنانچہ یہودیوں نے جب یہ سوال کیا کہ ارنا الله جھرة فاخذهم الصعقة بظلمهم النساء : ۱۵۴) یعنی جب انہوں نے کہا کہ ہم کو خدا ظاہر میں دکھا تو ان کو اس گناہ کی وجہ سے عذاب نے پکڑ لیا جس سے ظاہر ہو تا ہے.کہ یہ سوال کرنا کہ ہم کوایسی پیشگو ئیاں چاہئیں جومتشابہات میں سے نہ ہوں.بلکہ صرف مسلمات میں سے ہوں ایک گناہ ہے.اور ایسے نشانات کا طلب کرناجن سے حق ایک اور ایک دو کی طرح ظاہر ہو جائے ایک بدی ہے.اسی بناء پر میں پوچھتا ہوں کہ جبکہ حضرت اقدسؑ کی پیشگوئیوں میں بھی بعض متشابہات پائی جاتی ہیں تو ان پر کیوں اعتراض کیا جا تا ہے.آپ کے ہاتھوں پر سینکڑوں نشانات دکھائے گئے جو ایک بیّن طور سے پورے ہوئے پس اگر چند پیشگوئیاں سمجھ میں نہیں ہیں یا بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے.کہ وہ غلط ہو گئیں تو ان کی وجہ سے ان ہزارہ پیشگوئیوں کو چھوڑ دینا جو لاکھوں کی تعداد میں پوری ہوئی ہیں کہاں تک درست ہو سکتا ہے.کیا سچائی کی تڑپ رکھنے والا ایسا کام کر سکتا ہے.حضرت اقدسؑ ایسے

Page 191

وقت میں دنیا میں آئے جبکہ تاریکی او ر جہل چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور ہر ایک شخص جو ذرہ بھی عقل رکھتا ہو اس فکر میں تھا کہ میرے پاس کون سے ثبوت ہیں جو ہستی باری تعالیٰ ٰکو ثابت کر سکیں اور سچے اور جھوٹے مذاہب میں َمیں کن اصول کے ذر یعہ امتیاز کریں.اور ان پیچوں کے حل کرنے کا کوئی راستہ ان کو نظر نہیں آتا تھا.اور جبکہ تمام مذاہب باطلہ کا زور اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اسلام کا وجو ددنیا سے اٹھنے کو تھا.اس وقت آپ ؑنے مبعوث ہو کر جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ دنیا کو اس زمانہ کے رنگ کے مطابق عقلی اور نقلی دلائل سے منوا دیا کہ کونسامذ ہب سچا ہے اور ساتھ ہی معجزات کے منکروں کو للکارا کہ تم میں سے جو آیات و نشانات الہٰیہ کا انکار کرتے ہیں میرے سامنے آئیں اور سچ اور جھوٹ میں فرق کر کے دیکھ لیں.اس وقت سے لے کر آپؑ کی وفات تک ہزاروں بلکہ لاکھوں نشانات آپ کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے جن کے گواہ نہ صرف احمدی جماعت کے لوگ ہی ہیں بلکہ دیگر مسلمان اور غیر مذاہب کے لوگ بھی چنانچہ عیسائی اور برہمو آریہ تک ان نشانات سے انکار نہیں کر سکتے ہیں باوجود اس قدر نشانات کی بارش کے اور نصرت الٰہیہ کے پھر بعض متشابہات پر اعتراض کرنا اگر غلطی نہیں تو اور کیا ہے اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ ہر ایک نبی کےساتھ متشابہات کی پیشگوئیابھی لگی ہوئی ہیں.تاکہ سچ اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھایا جائے اورعقلمند اور جاہل میں امتیاز کیا جائے.چنانچہ قرآن شریف میں بار بار آتا ہے کہ اٰیات لقوم یعقلونیعنی نشان ہیں عقل والوں کے لئے جس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ ایمان میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ پر دہ رکھ لیا جاتا ہے تاکہ ایمان بالغیب کا ثواب بھی ان کو ملے اور ہمیشہ ایسے نشانات ہیں اتارےجاتے ہیں جن کو عقلمند ہی سمجھ سکتے ہیں.اور وہ جن کے دل بغض اور حسد کے زنگ سے آلوده ہوتے ہیں اس کو نہیں سمجھ سکتے.چنانچہ جب اسی سنت کیمطابق حضرت اقدس ؑکی پیشگوئیوں میں بھی کچھ متشابہات ہیں تو اس میں کیا حرج ہے.سچائی کافیصلہ ہمیشہ محکمات کی کثرت پر ہوتا ہے.جیساکہ قرآن شریف سے صاف ثابت ہو تا ہے اور میں یہ ثابت بھی کر چکا ہوں.پھر حضرت صاحب کے معاملہ میں کیوں خلاف دستور اور طریقوں سے فیصلہ چاہا جاتا ہے.تریاق القلوب ،حقیقۃ الوحی اور نزول المسیح کو پڑھ کر دیکھو کہ کس قدر بنیّات درج ہیں.کیاان کو دیکھ کر مخالفین نے حضرت اقدسؑ کو قبول کرلیا جو متشابہات کے پورا ہونے پر زور دیتے ہیں.بلکہ ان کی ہٹ دهرمی ساف ظاہر کرتی ہے کہ ان کا مطلب صرف اعتراض کرنے سے ہے ورنہ اگر حق کی تلاش ہوتی تو وہ ہزاروں پیشگوئیاں چو پوری ہوئیں اور جنہوں نے روز روشن کی طرح حضرت اقدسؑ کے د عویٰ کو ثابت کر دیا.کیا کچھ

Page 192

.کم تھیں ؟ کیا وہ لوگ ان پیشگوئیوں کو دیکھ کر نفرت نہیں پکڑ سکتے.حضرت ابو بکر ؓنے تو بغیر کسی نشان دیکھے کے نبی کریمﷺ کو قبول کر لیا مگر یہ نادان با وجود اس قدر بینّات کے پھر حق سے منہ موڑتے ہیں اور متشابہات پر زیادہ زور دیتے ہیں.جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا مطلب حق اور باطل کو ملانے سے ہے اور کچھ نہیں.جب قرآن شریف نے ہم کو یہی راہ بتایا ہے کہ ہم محکمات کو دیکھیں اور متشابہات کا خیال نہ کریں تو باوجود اس نص صریح کے کیوں ایک دوسرا طریق اختیار کیا جائے.اور اگر متشابہات پر زیادہ زور دیا بھی گیا تو پھر کل انبیاؑء کا انکار کرنا پڑے گا کیو نکہ کل انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں میں متشابہات پائے جاتے ہیں.یہاں تک کہ ہمارے سردار اور ہادی حضرت محمد مصطفي بہﷺکی پیشگوئیاں بھی اس سے خالی نہیں.پس جب سب انبیاء ؑکے کلام میں ایسا پایا جا تا ہے تو پھر حضرت اقدسؑ پر کوئی کیا اعتراض کر سکتا ہے.اور جو شخص ان کو اس وجہ سے جھوٹا سمجھتا ہے ہوا ہے کہ کل انبیاءؑ کا انکار کرے.پس صاف اور بے خطر طریق وہی ہے جو قرآن شریف نے بتایا ہے یعنی متشابہات کا خیال نہ کرو.کیونکہ ان کے لئے تعبیریں ہوتی ہیں اور وہ مختلف رنگوں میں پوری ہو جاتی ہیں بلکہ محکمات کو دیکھو جن پر فیصلہ کا اصل دارو مدار ہوتا ہے.اور اس اصول پر جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت اقدسؑ کی وفات پر جس قدر اعتراضات ہوتے ہیں.سب سے سب بلا امتیاز خود بخود ردہو جاتے ہیں.کیونکہ حضرت اقدسؑ کی سینکڑوں پیشگو ئیاں ہیں جو پوری ہو چکی ہیں.اور ہزاروں نشانات ان کے ہاتھ پر دکھائے گئے ہیں.میں ان کے ہوتے ہوئے متشابہات کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے اگر کوئی پیشگوئی پوری نہ ہوتی اور کل کی کل متشابہات ہی ہوتیں تو پھر کسی کو حق ہو سکتا تھا کہ وہ یہ اعتراض کرے کہ فلاں پیی پوری نہ ہوئیں.لیکن جب بفضل خدا خود حضرت اقدسؑ اپنی زندگی میں سینکڑوں نشانات کی فہرست شائع کر چکے ہیں جو ایسے کھلے طور سے پورے ہوئے کہ ان میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہتی تو اب بر خلاف حکم قرآن و احادیث بعض ایسی پیشگوئیوںر اعتراض کرنا جو بظاہر پوری نہیں ہوتیں عقل سے بعید ہے.اور یہ اعتراضات نہ صرف حضرت اقدسؑ پر پڑتے ہیں.بلکہ کل انبیاءؑ پر وارد ہوتے ہیں.جس سے ان سب کا انکار لازم آتا ہے.میں یہ بھی ثابت کر آیا ہوں کہ متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.کیونکہ اگر متشابہات نہ ہوں تو ایک تو ایمان بالغیب کا ثواب نہ رہے اور دوسرے کل دنیا مسلمان ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی سنت کے بر خلاف ہے کیونکہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماچکا ہے کہ جاعل الذين اتبعوک فوق

Page 193

الذ ين كفروا إلى يوم القيمة ال عمران : ۵۶) جس سے معلوم ہو تا ہے کہ کفار ہر زمانہ میں رہیں گے.پس اس بات کی توقع رکھنا کہ کسی نبی کے کلام میں متشابہات نہ ہوں اور محکمات ہی محکمات ہوں ایک ایسا خیال ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا.اور دوسرے متشابہات میں ایک اور حکمت بھی ہوتی ہے کہ انسانی فطرت کچھ عجیب طرح سے واقع ہوئی ہے کہ جو کوئی بڑا آدمی گذرتا ہے اس کے تابعین کچھ مدت گذرنے کے بعد اس کی پرستش کرنے لگتے ہیں.مثلا کرشن را مچندر عزیز،مسیحؑ جن کو کچھ مدت بعد خدا کا شریک سمجھ لیا گیا.پس اگر متشابہات ان کی پیشگوئیوں میں نہ ہوں اور محکمات ہی محکمات ہوں اور بشری لوازمات سے یہ لوگ پاک ہوں تو شاید بجائے خدا کے شریک بنانے کے تمام انبیاءؑ کو خدائی سمجھ لیا جاتا.چنانچہ اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ بشری کمزوریوں کو بھی رکھا ہے.اور متشابہات کا سلسلہ بھی قائم کر دیا ہے.تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے حالات کو پڑھ کر اور ان کی پیشگوئیوں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکیں کہ یہ لوگ بھی ہماری طرح انسان بھی تھے.اور خدائی میں ان کی کوئی شراکت نہ تھی.چنانچہ غور سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ رامچندرؑ کی بیوی کو راون کا لے جانا اور ان کو خبر نہ ہونا اور پھر بڑی تکلیفوں کے بعد آس پاس کی قوموں سے مدد لے کر راون پر فتح پانااسی لئے تھا کہ ان کی امت ان کو خدائی کا درجہ نہ دے اور اگر دے تو سعيد الفطرت انسان ہمیشہ سمجھ سکیں کہ وہ ایک برگزید ہ نبی تھے.خدانہ تھے.اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کا یہودیوں سے مار کھا کر سولی پر لٹکایا جانااور تخت کے و عدہ کا جھوٹا نکلنا بھی اسی لئے تھا کہ عیسائی ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہوئے شرمائیں اور سعید روحیں ہمیشہ ان باتوں پر غور کر کے شرک کی ملونی سے اپنے آپ کو پاک رکھیں.پس ظاہر ہے کہ متشابہات کا ہونا نہ صرف اس لئے ضروری تھا کہ سچوں اور جھوٹوں کو الگ کیا جائے بلکہ اس لئے بھی کہ آئندہ نسلیں کسی نبی کو خدا یا اس کا شریک نہ بنالیں.اور اگر وہ ایساکریں بھی تو سعید انسان عقل سے کام لے کر اس شرک سے الگ رہیں.پس ہر ایک طالب حق کو چاہئے کہ جو کوئی شخص حضرت اقدسؑ کی بعض پیشگوئیوں پر جو متشابہات سے ہیں اعتراض کرے تو اس کے سامنے یہ معاملہ کھول کر بیان کر دے کہ متشابہات کا ہونا ہر ایک نبی کی پیشگوئیوں کے لئے ضروری ہے.اور ہر ایک نبی کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے.اور خدا کی سنت یہی رہی ہے.اور سچائی کے دریافت کرنے کے لئے محکمات ہی دیکھے جاتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدسؑ کی خدمات پیشگوئیاں اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ کوئی صاحب بصیرت انسان ان کو دیکھ کر آپ کی سچائی میں شک نہیں لا سکتا.اور یہ فیصلہ کا ایک ایسا آسان اور محکم طریق ہے کہ اس

Page 194

سے وہ تمام اعتراضات جو حضرت کی پیشگوئیوں پر پڑتے ہیں.دور ہو جاتے ہیں.اور سچائی کا چہرہ روشن ہو جا تا ہے.اور یہ اس لئے ہے کہ خدائے زمین و آسمان نے اپنے پاک کلام قرآن شریف میں فیصلہ کی کی راہ بتائی ہے.جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں اور ثابت کر آیا ہوں یعنی متشابہات کوچھوڑ کر محکمات پر نظر کی جائے.اس جگہ میں اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اصل ثبوت سچائی کا پیشگوئیاں ہی نہیں بلکہ اور دلائل بھی ہیں جن سے ایک نبی کی سچائی کو ہم ثابت کر سکتے ہیں.کیونکہ پیشگوئیاں صرف وقتی ہوتی ہیں اور پھر محض قصے رہ جاتے ہیں جس سے آئندہ زمانہ کے لوگ بہت فائدہ اٹھا نہیں سکتے.بعد ازاں تعلیم رہ جاتی ہے.اور خود نبی کے وقت میں بھی ایسی اور راہیں ہیں جن سے اس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے مثلا نبی کریم اﷺکی سچائی کا ایک ثبوت خدا تعالیٰ ٰنے قرآن شریف میں یہ دیا ہے کہ قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ﳲ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس ۱۷)یعنی اے نبی تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ آیات تمہارے سامنے نہ پڑھتا.اور نہ تم کو ان کی خبر دیتا.پس تحقیق میں نے اس سے پہلے ایک عمر تم میں گزاری ہے پھر تم کیوں عقل نہیں کرتے.ینی میں تم میں ایک لمبا عرصہ گذار چکا ہوں پھر تم میری سچائی میں کیا شک لاتے ہو، کیونکہ اگر مجھے پہلے افتراء کرنے کی عادت ہوتی تو اس موقعہ پر بھی تم شک کر سکتے تھے کہ اس کو کوئی الہام نہیں ہوتا بلکہ یہ خود بنا لیتا ہے.لیکن جب تم میرے پچھلے حالات سے واقف ہو اور جانتے ہو کہ میں جھوٹا نہیں ہوں تو اس موقعہ پر کیوں شک کرتے ہو.اور جب میں انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتا تھاتو اس طرح ممکن ہے کہ اب خدا پر جھوٹ بولوں.اب دیکھنا چاہئے کہ ایک رسول کی سچائی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ ایک ثبوت رکھا ہے کہ وہ اپنی چلی زندگی کی نظیر دے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتا ہے کہ میں ہمیشہ سے نیک عمل کرتا رہا ہوں اور جھوٹ سے مجھے نفرت رہی ہے.پھر اب میں کیوں خدا پر افتراء باند ھنے لگا.اب اہل انصاف غور کریں کہ یہی دعویٰ حضرت اقدس ؑنے کیا ہے.اور آج تک کسی کو جرأت نہیں کہ آپؑ پر کوئی الزام لگا سکے.پس کیو نکر چند متشابہات پیشگوئیوں کی وجہ سے ہم ان کا انکار کر سکتے ہیں.مسلمان تو الگ خو دہند و او ر عیسائی بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تمام عمر میں نہایت نیک اور پارسارہے ہیں.پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جو شخص چالیس برس تک ایک عام زندگی بسر کرے اور جھوٹ سے متنفر ہو اورسچ کا شیدا ہو وہ اپنی آخر عمر میں خدا پر افتراء کرے اگر یہ کوئی پائی کی دلیل نہیں تو یاد رکھو کہ

Page 195

آدمؑ سے لے کر نبی کریم ﷺ تک تمام انبیاء علیھم السلام پر اعتراض وارد ہو گا.غرض نبی کی زندگی میں اور اس کے بعد پیشگوئی ہی کوئی سچائی کا ثبوت نہیں بلکہ اور بہت سی باتیں قرآن و احادیث سے ثابت ہیں جن سے نبی کی شناخت ہوتی ہے.چنانچہ ان میں سے ایک مثال کے طور پر میں لکھ بھی آیا ہوں اور ثابت کر آیا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی حضرت اقدس ؑکی سچائی ثابت ہوتی ہے.اور دیگر وجوہات سے بھی جو میں بہ سبب طوالت کے یہاں لکھ نہیں سکتا آپ کاحق پر ہو ناپایہ ثبوت کو پہنچتا ہے.پس باوجود ان تمام وجوہات کے چند متشابہات کی وجہ سے حضرت اقدس ؑکا انکار کرناصاف شقاوت پر دلالت کرتا ہے.اور ظاہر کرتا ہے.کہ آدمؑ اول کی طرح آدم ؑ ثانی کابھی محض حسد اور تکبر کی وجہ سے انکار کیاگیا ہے.غرض یہ باتیں تو نبی کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.مگر اس کے بعد ایک تعلیم ہی رہ جاتی ہے.جو مخالفین اور طالبان حق کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے.پس اب ہمیں حضرت اقدسؑ کی سچائی کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے.کہ ان کی تعلیم کو دیکھیں اور اس سے اندازہ لگائیں کہ آیا واقعی انہوں نے وہ کام کیا جو ایک نبی کے لئے ضروری ہے یا نہیں.اب تعلیم بھی تین قسم کی ہوتی ہے.اول تو عام شرعی معاملات کی تعلیم جو روزمرہ پیش آتے ہیں.دوسری وہ تعلیم روحانی جس سے جماعت میں نیکی اور تقوی ٰپیدا ہو جائے.تیسری وہ تعلیم جس سےغیر مذاہب کا مقابلہ کیا جائے.اور انہیں تینوں تعلیموں کے پھیلانے کے لئے ہر ایک نبی دنیا میں آتا ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب نے ان تمام تعلیمات کو ایسا پھیلایا ہے کہ دوست تو دوست دشمن تک انکار نہیں کر سکتے.ہر ایک فرد بشر چلاّ چلا کر کہہ رہا ہے کہ حضرت صاحب نے اس وقت اسلام کی وہ خدمت کی ہے کہ اس کا انکار سخت نمک حرامی ہے.اسلامی مسائل کو ایساساف کیا ہے کہ کسی دشمن کی طاقت نہیں کہ ان پر حملہ کر سکے مسیحؑ کی وفات کے مسئلہ کو صاف کر کے مسلمانوں کے دلوں میں سے شرک کے بت کو اس طرح نکالا کہ خدائے واحد کا روشن چہرہ ان میں منعکس ہونے لگا.خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے مسئلہ پر روشنی ڈالی کہ گویا خدا کو سامنے دکھادیا.عرش اعظم کی فلاسفی ایسے رنگ میں بیان فرمائی کہ کل اعتراضات جو مخالفین کرتے تھے یکد م دور ہو گئے.الہام اور وحی کے دروازہ کو ہمیشہ کے لئے کھلا ثابت کر کے اسلام کو زنده مذہب ثابت کیا.جہاد کا مسئلہ ایسا صاف کیا کہ خونریزی کا بد نما داغ ہمیشہ کے لئے اسلام کے دامن سے مٹ گیا.دعا کی حقیقت اور قبولیت کو روز روشن کی طرح کھول کر بتادیا کہ یہ برکت اسلام میں ہی ہے اور اخوت اور

Page 196

محبت کی خوبیاں بیان فرما کر دشمنوں کو بھی بھائی بھائی بنا دیا*.غرض جو جو برائیاں اور بد اعتقادیاں مسلمانوں میں پھیل گئی تھیں ان کو دور کیا اور وہ اصل اعتقادجو قرآن و احادیث سے ثابت ہوتے تھے ان میں پھیلائے جن کو سعید روحوں نے قبول کیا.مگر وہ چو شقی تھے ان سے متنفر ہو گئے پھراس کے بعد وو سری تعلیم جو روحانیت کے متعلق ہے ایسی دی کہ اب خدا کے فضل سے تین چار لاکھ احمدی ہیں جن میں سے اکثر صحابہؓ کے صدق کا نمونہ پھر د کھارہے ہیں.بیسیوں میں جو دہریت کی عمیق غار میں گرے ہوئے تھے مگر حضرت اقدسؑ کی تعلیم سے متاثر ہو کر اب فنا فی اللہ ہو رہے ہیں.سینکڑوں ہیں جو طرح طرح کے شرکوں اور بدعتوں کو چھوڑ کر خدا اور رسول کے دلداده و شیداہورہے ہیں.وہ جنہیں اسلام کے نام سے نفرت تھی اب اس پر جان دیتے ہیں اور وہ جو ایمان کے نام سے ناواقف تھے.اب دوسروں کو ایمان کی طرف بلاتے ہیں.غرض تیرہ سو سال کے بعد آپ نے پھر ثابت کر دیا کہ قرآن کی تعلیم پر چل کر انسان کیا سے کیا ہو سکتا ہے.پھر تیری تعلیم جو غیر مذاہب کے متعلق ہے وہ دی ہے کہ اب کوئی مذہب اسلام سے بڑھ کر اپنی خوبیاں بیان نہیں کر سکتا.تمام مذاہب کی غلطیاں ثابت کر کے ان کو اسلام کی خوبیوں کا قائل کر دیا اور دشمنوں کے منہ سے وہ کلمات نکلوائے جو اسلام کی تعریف سے مملوء تھے.براہین جیسی مدلّل کتاب لکھ کر آریوں برہمٔووں اور دہریوں کا قلع قمع کردیا.آئینہ کمالات اسلام لکھ کرو ساوس شیطانی کر ایسا دور کیا کہ دل صاف ہو گئے.جلسہ مذہب میں وہ تقریر کی کہ کل غیرذاہب کو اسلام کی برتری ماننی پڑی.بشپ کو چیلنج دے کر عیسائیت کو پاش پاش کیا تو لیکھرام کو ہلاک کر کے آریوں کو سبق دیا.غرض ان کے وجود کی برکت سے اسلام کا پاک چہرہ پھر دنیا پر مہرعالم تاب کی طرح چکا اور دوست و دشمن نے اس کی سچائی کا اقرار کیا.یہاں تک کہ آپ کی وفات پر بہت سے مسلمانوں نے اس بات کو مانا کہ ان کا ہر ہر لفظ مردہ دلوں کے لئے مسیحائی کا کام کرتا تھا.پس یہی کام تھا جس کے لئے وہ آئے تھے.اور پورا کر گئے.اور یہی تعلیم ہی ہے جو ان کی سچائی کو ثابت کرتی ہے، اور میں اگر اس کی نسبت کی قدر تفصیل سے لکھوں تو یہ ایک بڑا مضمون بن جائے گا.اس لئے اس قدر لکھ کر ختم کرتا ہوں.اور امید کرتاہوں کہ انشاء اللہ میں یا کوئی اور صاحب آئندہ اس معاملہ پرذر اوسع نظر ڈالیں گے.*جس طرح نبی کرتے ہیں ورنہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ الگ جماعت بناکر تفرقہ ڈال دیا تو اسے حضرت عیسیٰؑ کا قول اور ہندو کی نبی کریمﷺ ان سے گفتگو یادکرنی چاہئے.

Page 197

غرض اب میں یہ ثابت کر آیا ہوں کہ پیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک محکمات اور ایک متشابہات اور قرآن شریف کے علم کی رو سے متشابہات پر بحث نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ کثرت محکمات کی ہو تو پھر متشابہات کا ذکر کرناہٹ دھرمی ہے.اور اس اصول پر نظر ڈالتے ہوئے حضرت اقدس ؑپر کوئی اعتراض نہیں رہتا اور پھر میں نے لکھا ہے کہ اصل تعلیم ہی سچائی کا معیار ہے.اس پر نظر ڈالیں تو آپ کی سچائی میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا.غرض یہ دو اصول ایسے ہیں کہ اگر احمدی جماعت ان کو یاد رکھے گی.وانشاء اللہ مخالفین کے تمام اعتراضوں سے محفوظ رہے گی.و اٰخردعونا ان الحمد للہ ربّ العٰلمین.راقم خاکسار میرزا بشیر الدین محموراحمد )تشحيذ الا ذ ہان جون /جولانی ۱۹۰۸

Page 198

۱۹۹ 2.ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۸؁ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 199

Page 200

نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم بسم الله الرحمن الرحیم ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں ”یہ وہ تقریر ہے جو میں نے جلسہ کے موقعہ پر اٹھائیس تاریخ کو کی اس سے پہلے اخبار بد ر میں بھی شائع ہو چکی ہے اور مکرمی قاضی اکمل صاحب نے تیار کی.لیکن اب تصنیف را مصنف نیکو کند بیان کے مطایق میں خود ان نوٹوں سے جو اس موقعہ پر سیکرٹری صاحب انجمن تشحیذالا ذہان سے لئےتھے اس کو تیار کر تا ہوں.............................خاکسار مرزا محموداحمد‘‘ یہ سوال طبعا ًہر ایک شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں اوراس اصل مقصد کو کیوں کرپاسکتے ہیں کہ جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں تواس کے جواب کے لا ئق قرآن شریف سے زیادہ اور کوئی کتاب نہیں ہے اس لئے چند آیات قرآن شریف سے بڑھ کرآپ لوگوں کو سناتا ہوں.اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْن- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(التو به : ۱۱۱.۱۱۲) ہر ایک شخص کو یہ سوچنا چاہئے کہ خدا نے مجھے کیوں پیدا کیا ہے اور جبکہ مرنا ہر ایک انسان کےلئے ضروری ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا جب اس چند روزہ زندگی کے لئے انسان اس قدر کوششیں کر تا ہے اور تدبیریں کام

Page 201

میں لاتا ہے اور روزانہ ضرورتیں محسوس کرتا ہے تو کیا اس لامحد در زندگی کے زمانہ کے لئے ضرورت نہیں اور کیا ہمیں اس کے لئے کچھ بھی تیاری نہیں کرنی چاہیے؟ ہمارے انبیاء و اولیاء آخرت کے متعلق بہت کچھ حالات بیان کر چکے ہیں اور جو ضرور تیں وہاں پیش آئیں گی اور جو ان کے حصول کے ذرائع ہیں ان کی نسبت قرآن شریف بہت بسط اورتفصیل کے ساتھ ہمیں بہت کچھ بتا چکا ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کسی چیز کو بے فائدہ اور لغو پیدا نہیں کرتا.کیونکہ یہ اس کی شان کے بر خلاف ہے اس نے جو انسان کو حواس خمسہ اور ہاتھ پاؤں دل و دماغ دیئے ہیں تو جب مرنے کے بعد اس کو دوبارہ زندگی ملے گی تو وہاں بھی کچھ ایسے سامان موجود ہونےچاہئیں جن میں یہ چیز یں مشغول رہیں چنانچہ خدا تعالیٰ سے جنت میں وہ سامان پیدا کئے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کا انسان کو پیدا کرنا ایک عبث عمل ٹھہر تا چنانچہ جیسا کہ جنت میں اس نے سامان بنائے ہیں ویاہی اس نے ان کے حصول کے ذرائع بھی بتادیئے ہیں اور اسلام اس راستہ کو بتاتا ہےجس پر چل کر انسان اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکے اور ان انعامات کو پا سکے جو اس کے لئے بعد از موت مقرر ہیں.چنانچہ یہ آیتیں جو میں نے پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم لوگ مجھے اپنی ساٹھ یا ستر برس کی زندگی اور تھوڑامال دے دو.تو میں اس کے بدلہ میں تمہیں ایک غیر محدودزندگی اور بے شمارا جر دوں گا جس کا دوسرا نام جنت ہے.سو خدا تعالیٰ ان آیتوں میں فرماتا ہے کہ ہم نے مومنوں سے ان کی جان اور مال خریدا ہے اور یہ اس لئے کہ ان کو اس کے بدلہ میں جنت دی جائے سو کیا خوش قسمت ہے وہ انسان کہ جو ایسا با نفع اور مفید سودا کرے جس میں نفع ہی نفع ہے اور نقصان نام کو نہیں.انسان ایک ذراسا سودا کرنے لگے تو بڑی احتیاط کرتا ہے اور ہمیشہ وہی خرید تا ہے جو مفید اور نفع رساں ہو.پس کیا افسوس ہے اس پر جوانی تجارت نہ کرے کہ جس میں لاکھوں کا نہیں کروڑوں کا نہیں بلکہ غیر محدود نفع ہے.خدا تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ اس سودےمیں کوئی نقصان نہیں ہے.کچھ تجارت میں اس بات کالحاظ بھی کرلیا جا تا ہے کہ بازار کا بھاؤ کیا ہے اوریہ تجارت ایسی تو نہیں جس سے پہلے سوداگر ضرر اٹھا چکے ہیں.سواس دینی تجارت میں بھی ہمارافرض ہے کہ ہم بھاو و دریافت کریں اور اپنے سے پہلے تاجروں پر غور کریں کہ انہوں نے اس تجارت سے کیا نفع یا نقصان اٹھایا.سو ہم دیکھتے ہیں کہ آدمؑ سے لے کر ہمارے نبی کریم ﷺتک بے شمار سوداگر ہو گزرے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اس سوداگری سے فائدہ ہی اٹھایا بلکہ جو شخص ان کے مقابلہ میں کسی اور جنس کا سوداگر بنا وہ ان کے سامنے ہلاک کیا گیا اور

Page 202

وہی کامیاب رہے.ان سوداگروں میں سے سب سے بڑے ہمارے آنحضرتﷺ تھے.جب آپ نے اس تجارت کوشروع کیا تو آپ ایک یتیم بچہ تھے کوئی آپ کو جانتا تک نہ تھا مگر خدا نے آپ کو دورّیتیم بنایا اور وہ مرتبہ دیا کہ اس وقت کروڑوں آدمی آپ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں آپ کو وہ چمک عنایت کی گئی کہ سورج کی روشنی ماند پڑ گئی.آپ کو اس تجارت سے اس قدر فائدہ پہنچا کہ اب تک کہ تیرہ سوبرس گذر چکے ہیں آپ کے نام کی عزت کے لئے لوگ کوششیں کرتے ہیں.چنانچہ آج جو ہم لوگ اس جگہ اکٹھے ہوئے ہیں تو صرف اس لئے کہ اس برگزیدہ نبی کا نام دنیا سے مٹا جا تا ہے اسے پھرروشن کریں پس جبکہ آپ نے اس آیت کے موجب سودا کر کے اس قدر نفع اٹھایا تو ہمیں بھی چاہئے کہ جب کبھی کوئی سوداکریں تو دیکھ لیں کہ آیا ہم سے پہلے آنخضرت اﷺ نے یہ سودا کیا تھاکہ نہیں کہ ہم بھی آپ کے قدم بقدم چل کر اسی طرح فائدہ اٹھائیں.پس اگر ہم آپ کی خریدی ہوئی جنس کو خریدیں گے تو ضرور نفع اٹھائیں گے اور اگر وہ جنس خریدیں گے جو تم سے پہلےفرعون و ابو جہل نے خریدی تھی تو ضرور ہے کہ ہم اپنی آئند ہ زندگی سے بے توجہی کریں کیونکہ بت توجہی ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے اگر ایمان کامل ہو تو کبھی خدا کی طرف سے غفلت نہ ہو.دیکھو ایک طالب علم کو یقین ہو تا ہے کہ میں ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور ایک خاص امتحان پاس کر کے بہت عزت حاصل کروں گا اس کے لئے وہ راتوں کو جاگتا ہے اور اس کی غرض اس قدر ہوتی ہے کہ اس زندگی کے بقیہ ایام آرام سے گزر جائیں اور وہ یہاں تک محنت کرتاہےکہ بعض اوقات اس کو سل اوردق ہو جاتی ہے.مزدور سارا دن محنت کرتا ہے.و هوپ میں ٹوکری اٹھاتا اور سردی میں سرد گارے میں گھستا ہے یہاں تک کہ اس کا بدن ٹھٹھر جا تا ہے اور یہ سب اس امید میں کہ شام کو گھر میں جاکر آرام پائے گا.پس اگر انسان کو ایمان ہو کہ اس دنیا کی تھوڑی سی زندگی میں اگر میں خدا کی بتائی ہوئی تجارت کروں گا تو ابد الآباد تک نفع اٹھاؤں گا تو وہ بے توجہی کیوں کرے.پس اصل بات یہی ہے کہ گناہ گار انسان کو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں ہو اگر اس کو ایمان ہو تو وہ بے توجہی کبھی نہ کرے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنے لئے وہ مال جمع کرے کہ جو اس کے کام آئے نہ دو کہ اس کے بعداس کے و ر ثا ء برباد کریں.دنیا کا روپیہ اگر یہ جمع کرتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاءاسے بے طرح لٹادیں گے اور ضائع کر دیں گے لیکن اگر یہ اس قرآن کی بتائی ہوئی تجارت کو کرتاہے تو اس سے وہ نفع اٹھائے گا کہ اس کے بعد کوئی اسے

Page 203

برباد نہ کر سکے گا بلکہ مرنے کے بعداسی کے کام آئے گا.خدا تعالیٰ ایسے تاجروں کا خود خزانچی بن جاتا ہے پس جس کا خزانچی خد ا ہو اس کو اور کسی کی کیا ضرورت ہے.لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا خزانچی امین ہو.پس جب خداسا امین خزانچی ملےتو اور کیا چاہئے اور خدا کے پاس مال رکھوانے میں صرف یہی فائدہ نہیں کہ وہ امین ہے بلکہ علاوه امانت کے وہ اس مال کو بڑھاتا ہے اور جب مال واپس کر تا ہے تو ہزاروں لاکھوں بلکہ غیر محدودگنا زیادہ کر کے دیتا ہے پس اس تجارت اور امانت میں فائدہ ہی فائدہ ہے کوئی نقصان نہیں مگر شرط یہ ہے کہ پہلے اپنی جان و مال کو خدا کے سپرد کردے اور اپنے وجود کو بیچ میں سے الگ کرے ہاں جب وہ ایسا کرلے گا تو پھر اسے چند روزہ زندگی کے بدلہ غیر محدود زندگی ملے گی اور اس تھوڑے سے مال کے بدلہ بے شمار دولت ملے گی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقاتلون في سبيل الله یعنی ایسے مؤمن جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال خدا کے ہاتھ جنت کے بدلہ میں بیچ دیئے ہیں وہ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں یعنی ان کافرض یہ بھی ہو تا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں پس اس جگہ خدا تعالیٰ ان کو اپنے راہ میں جہادکرنے کی تعلیم دیتا ہے آگے جہاد خواہ تلوار کا ہو خواہ قلم کاخواہ زبان کا خواہ کسی اور قسم کا.پس جب انسان کچھ روپیہ کے بدلے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر فوج کی نوکری کرتا ہے تو وہ خدا کی فوج میں کیوں داخل نہیں ہو تا جہاں بے تعداد اجر ملتا ہے.ہر ایک انسان فطرتاًکہیں نوکری کرتے ہوئےدیکھ لیتا ہے کہ کہیں مجھ پر پیچھے کوئی آفت تو نہیں آئے گی.چنانچہ اکثر لوگ ان ریاستوں میں جہاں بد نظمی پھیلی ہوئی ہوتی ہے.نوکری نہیں کرتے کہ کہیں لینے کے دینے نہ آئیں اور تنخواہ کے علاوہ جائیداد تک ضبط نہ ہو (جیسے اکثر ریاستوں میں ہوتا ہے) پس جس کو خدا جیسا وعدوں کا پورا اور مہربان مالک نوکر رکھے اسے اور کیا چاہئے ان دنیاوی گو ر نمنٹوں کے پاس انسان کچھ روپیہ کے لئےاپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور جنگوں میں سر کٹواتا ہے.ممکن ہے کہ جہنم کے دروازے ان کے لئےکھولے جاویں مگر جو خدائی گورنمنٹ کی راہ میں مارا جاتا ہے یعنی دین کی خد مت کر تا ہو افوت ہوجاتا ہے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے اور جنت کی حوریں اس کی منتظر ہیں.پھر دنیاوی گو ر نمنٹوں کے ملازم سپاہی جب ہزاروں معرکہ مار کر پنشن لیتے ہیں تو ان کو نصف پنشن ملتی ہے.* مگر خدا کاسپاہی جب پنشن لیتا ہے یعنی فوت ہو تا ہے تو اس قدر عظیم الشان پنشن دی جاتی ہے کہ اس کے *اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان دنیاوی کام چھوڑ دے بلکہ ایک ہی وقت میں انسان کسی گورنمنٹ کانو کرادر خدا کا سپاہی بھی ہو سکتاہے کیونکہ وہ اور راہ ہے اوریہ اور- انسانی گور نمنٹیں جسموں پر حکومت کرتی ہیں مگر خدائی گورنمنٹ کا ہیڈ کوارٹردل ہو تا ہے.

Page 204

وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی.پھر یہاں کی سلطنتوں کی حفاظت سپاہی کرتے ہیں مگر بر خلاف اس کے الٰہی گورنمنٹ اپنے سپاہیوں کی خود حفاظت کرتی ہے اوریعصمک من الناس (المائدہ:۶۸) کی خوش آئند آواز انہیں سنائی جاتی ہے وہ زندہ رہیں یا فوت ہو جائیں دونوں حالتوں میں فائدہ میں رہتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فيقتلون ويقتلون لیکن وہ لوگ جو اس طرح خدا کے ساتھ تجارت کریں اور اس کی فوجوں میں داخل ہو جائیں ان میں دلیری بھی چاہئے اور چاہئے کہ وہ دو سروں کوماریں اور آپ مارے جائیں اور اپنی جانیں لفظاً نہیں بلکہ عملاً خدا کے سپرد کریں.پھر فرماتا ہے کہ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ یعنی یہ سوداکر کے جو انعام اور نفع خدائے تم کو دینے کا وعدہ کیا ہے کیا یہ سچا ہے یا تو یا تو خدا تعالیٰ یہاں اپنےو عدہ کی نظیریں بتاتا ہے کہ ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ میں نے تین بڑی قوموں سے وعدے کئےتھے تو کیا وہ غلط نکلے؟ جب نہیں تو پھر تم کیوں ڈرتے ہو جب خدا کی عادت ہے کہ وعدوں کاسچاہےاور جو کہتا ہے اسے پورا کرتا ہے.تو پھر یہ وعدہ جو تم سے کیا گیا ہے کیوں پورانہ ہو گا کیا خدا سے زیادہ کوئی اور بھی ہے جو و عدوں کا سچا او ر پو را ہو.پس تم اپنی باتوں اور مالوں کو اس کے سپرد کرو.وہ وعدہ کرتا ہے کہ تم کو اس تجارت سے بہت فائدہ پہنچے گا اور تم ابد الآباد کی زندگی اور لا انتہا مال پاؤگے.چنانچہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ وعدہ میں نے کیا ہے اور بالکل حق اور درست کیاہے یعنی قسمی طور سے ہے اور مومنوں کا حق ہے کہ اس سے وہ وعدہ پورا کروائیں اور یہ پہلے اہل توریت سے ہو چکا ہے یعنی موسیٰ سے بھی ایک وعدہ ہوا تھا کہ ہم تیری قوم کو فرعون کے ہاتھوں سےنجات دیں گے اور تم کو بڑی ترقی دیں گے.چنانچہ جب حضرت موسیٰ مبعوث ہوئے ہیں تو اس وقت بنی اسرائیل پر بہت ظلم ہوتے تھے.یعنی کل قوم کو آدھادن اینٹیں بنانی پڑتی تھیں اور وہ اس ملک میں نہایت ذلت سے رہتے تھے مگر جب حضرت موسی نے آکر ان لوگوں کو خبردی کہ اب خدا کاارادہ تم کو چھڑانے کا ہے اور وہ اب تم کو آزاد کرے گا اور پھر جا کر فرعون کو کہا کہ تو اس قوم کوچھوڑ دے تو اس کا نتیجہ ایسا خطرناک ہوا کہ پہلے تو صرف آدھادن انہیں کام کرنا پڑتا تھا اب فرعون نے یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ آدھا دن جو خالی رہتے ہیں اس میں مختلف خیالات اٹھتے رہتے ہیں اورآزادی کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں.آؤ ان کو سارے دن کام پر لگائے رکھو.حکم دیا کہ آج سے یہ لوگ اینٹیں پکانے کے لئے لکڑیاں بھی خود ہی اکٹھی کیا کریں اور نصف وقت _

Page 205

اینٹیں بنائیں اور نصف وقت میں اس کے لئے ایندھن جمع کریں اب یہ ایسا وقت تھا کہ بنی اسرائیل گھبرا گئے اور لگے موسیٰ کو برا بھلا کہنے کہ آگےتو پھر بھی کچھ وقت خالی رہتا تھا اس کے آنے سے وہ بھی جاتا رہا اور آگے سےبھی زیادہ مصیبت پڑی مگر کیاخد ا کا کلام جھوٹ نکلا؟ نہیں.اس کے پورا ہونے کا وقت قریب تھا ہاں یہ واقعہ جو ہوا تو صرف اس وجہ سے کہ تا خدا انہیں بتائے کہ یہ کام جو کچھ ہوا یہ بنی اسرائیل کی کوششوں اور تدبیروں سے نہیں ہوا بلکہ محض خدا کے فضل سے اور اس کے وعدہ کے مطابق ہوااور اس نے ظاہر کیا کہ جب انسان کچھ نہیں کر سکتا اور بات ناممکن ہو جاتی ہے تو اس وقت میں اسےکر کے دکھا دیتا ہوں.پس جب بنی اسرائیل طرح طرح کے عذابوں کی تاب نہ لا سکے اور ان کی چیخ و پکار بڑھ گئی اور انہوں نے آہ و زاری شروع کی تو خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کو فرعون کےہاتھوں سے بچایا اور اس کو مع اپنی فوجوں کے سمندر میں غرق کیا اور یہ اس لئے ہوا کہ بنی اسرائیل نے اس کے دکھوں سے تنگ آکر بہت آہ و زاری کی تھی پس خدا نے بنی اسرائیل کے آنسوؤں کوسمندر بنا کر فرعون کو غرق کیا اور وہ فرعون جو حضرت موسیٰ سے ہنسی کر تا تھا اسے اپنا جلوہ سمندر کی تہہ میں دکھایا اور بتادیا کہ خدا جیسا آسمان پر ہے اورزمین پر بھی ہے پس تو مکان کیوں بناتا ہے آمیں تجھے چہرہ زمین کی تہ میں سمندر کی لہروں کے نیچےدکھا دوں.پس اس طرح خدا کا وعدہ پورا ہوا اورجو موسی ٰؑسے کیا گیا تھالفظ بلفظ سچا ثابت ہوا پھر دو سراوعده خدا تعالیٰ نے ہمارے آنحضرت ﷺسے کیا اور جب کہ آپ بالکل تن تنہاتھے اس وقت آپ ﷺکو وہ خبردی جو انسانی عقل اور سمجھ سےبالا تھی.یعنی آپ ﷺکو وعدہ دیا کہ ایک بڑی قوم آپ کے ساتھ ہوگی اور آپﷺ کا نور کل دنیامیں پھیل جائے گا اور وہ مکہ جہاں آپ ﷺبے کسی کی حالت میں رہتے تھے اسی میں آپ فاتح ہو کر آئیں کے پس یہ ایسے وعدے تھے جن پر ایمان لانا تو الگ اس وقت کے لوگ حیران ہوتے تھے کہ کیا یہ کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتے ہیں.وہ یتیم جو خود محتاج تھا اس کو وعده دیا جاتا ہے کہ تیری وجہ سے دنیا کےیتیموں اور بیواؤں کی پرورش ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کل دنیا نے ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھےلیا اور اس وقت کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے مسلمان اسی و عدہ کا نتیجہ ہیں پس یہ وعدہ بھی خدا نے بڑے زور و شور سے پورا کیا.پھر ایک اور وعدہ تھا جو حضرت عیسیٰؑ سے کیا گیا تھا اور کہا گیا تھاکہ ایک وقت آئے گا کہ اس کے متبع اس کے منکروں پر غلبہ پائیں گے اور ایساغلبہ پائیں گے کہ پھراس کے مخالف کبھی سر نہ اٹھائیں گے اور ہمیشہ آپﷺ کے متبعین کے ماتحت ہی رہیں گے.شروع شروع میں یہودیوں نے زور لگایا اور اس خدا کے برگزیدہ کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھامگر خدا نے

Page 206

دکھادیا کہ جنہوں نے آپ کے سر پر کانٹے رکھے تھے آخر انہیں کانٹوں کے بستروں پر لوٹنا پڑا اور یہ وہی حضرت عیسیٰؑ و الا وعدہ ہے کہ جس کے طفیل ہم اس وقت یہاں جمع ہو گئے ہیں کیونکہ خداکے فضل سے ہماری گورنمنٹ برطانیہ نے جو ایک عیسائی سلطنت ہے ہمیں مذہبی آزادی دے رکھیہے اور اگر یہ گورنمنٹ نہ ہوتی تو ہم ایسانہ کر سکتے -غرض ان تین و عدوں کا ذکر خداوند تعالیٰ یہاں فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ تین وعدے ہیں جو میں نے کئے ہیں اور ایسے وقت میں کئے ہیں جبکہ ان کے پورے ہونے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا تو پھر انسان کیوں میرے وعدوں پر شک لاتا ہے.دیکھو دنیا میں بار بار یہ نظارہ نظر آیا ہے کہ ایک گداگر کو جب ایک جگہ سے ایک پیسہ بھی مل جائے تو جب وہ اس جگہ سے گذرتا ہے تو صدادیئے بغیر آگے نہیں بڑھتا کیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ خدا تعالٰی کے فضل سے یہاں سے کچھ نہ کچھ ملتی رہے گا اور اس کا پچھلا تجربہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتاہے تو جب خدا تعالیٰ کے وعدوں کو بار بار پورے ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور کبھی وہ خطا نہیں گئےتو پھر کیوں اس کے وعدہ پر اعتبار نہ کیا جائے اور کیوں ہم اس کے دروازہ پر گرے نہ رہیں.دنیامیں ایک انسان وعدہ کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اس پر اعتبار کرتے ہیں پھر خداکے وعدہ پر کیوں شک لائیں.انسان کے وعدہ میں تو بہت مشکلات ہیں مثلا جو شخص جھوٹا وعدہ کرتاہے یااب تو اس نے سچے دل سے وعدہ کیا ہے لیکن چند دن کے بعد نیت بدل جائے پھر اگر نیت بھی نہ بدلےتو جن حالات پر اس نے وعدہ کیا تھا وہ حالات بدل جادیں وہ خود فوت ہو جائے یا خود وہ چیز جس کا وعدہ تھا جاتی ہے مگر خدا پر تو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ وعدہ کر کے بدل جائے اور یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ اس پر کوئی ابتلاء آئے یا جس چیز کو قائم رکھنا چاہئے وہ ضائع ہو جائے پس انسان کے وعدہ پر تو ہم کو شک کی گنجائش ہے اور بیشک ہو نا چاہئے.مگر خدا کے وعدہ پر تو شک لانا کفرکی نشانی ہے.سلطنت کے ایک ادنیٰ ملازم پر ہم یقین کرتے ہیں کہ جو وعدہ اس نے کیا ہے اسے پوراکرے گا.پھر خدا کےوعدوں پر ہم کیوں کر تردد کریں وہ ہمیشہ زندہ ہے جس پر کوئی زوال نہیں جس کی قدرتوں کو کوئی روک نہیں سکتا جس کے قبضہ میں کل کائنات ہے اور جس کی حکومت ذره ذره پرہے.پس چاہئے کہ انسان بجائے کسی انسان سے وعدہ لینے کے خدا سے وہ وعدہ لے جس کے پوراہونے میں کوئی شک نہیں ہم سے بھی خداانے اس وقت ایک وعدہ کیا ہے اور اس کا پورا ہو ناہماری کوششوں پر منحصر ہے یہ مت سمجھو کہ یہ کوئی نیا وعدہ ہے.نہیں بلکہ وہی ہے جس کی نسبت میں نےابھی آیت پڑھی ہے کہ حقافي التورٰة والإنجيل والقران یہ وعدہ ہم سے اس بناء پر نہیں.

Page 207

کہ ہم مسیحؑ کی وفات کو مان لیں بلکہ خدا نے اپنے رسول یعنی مسیح موعودؑ کی معرفت ہم سے وعدہ کیاہے کہ اگر اسی جنس کو خریدیں گے جس کو پہلوں نے خرید اتو ہم سے بھی وہی نیک سلوک ہو گا.پس چاہئے کہ ہم بجائے اس کے کہ مسیحؑ کی وفات کے متعلق قرآن کی آیتیں اور حد یثیں تلاش کریں اور مسیح ؑکو فوت شد ہ ثابت کرنے کی کو شش کریں ہم اپنے نفس کی وفات ثابت کریں اور خدا کی مرضی کے آگے اپنے نفس کو بالکل ہلاک کردیں کیونکہ اگر مسیح ؑکی وفات ثابت کریں تو دنیا کو کوئی ایسا بڑا فائدہ نہیں پہنچ سکتاہاں نفس کی وفات ایک ایسی بات ہے کہ جس کے ثابت ہونے کے بعد دنیا میں اصلاح ہو سکتی ہے.ہم خدا کے رسول کو مان کر دنیا کے نزدیک تو کافر اور قابل نفرت ٹھہر چکے ہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے نزدیک بھی ہم کافر ہی ٹھہریں اس لئے چاہئے کہ ہر وقت خدا سے ڈر کر کام کریں.دنیاوی تجارت میں ہم نے اس لئے چھوڑیں کہ ہم دینی تجارت کریں گے اور اس وجہ سےہمارے مخالف ہم سے اس بات میں بڑھ گئے اب اگر دین کی تجارت میں بھی سستی کریں تو پھر خسرالدنيا والأخرة کے مصداق ہو جائیں گے (نعوذ باللہ ) ہم نے بیعت کے وقت خدا سے گویا کہ وعدہ کر لیا ہے کہ ہم دنیا کی جنس نہ خریدیں گے بلکہ ہمیشہ دین کی جنس کو مقدم رکھیں گے پس چاہئےکہ ہمیشہ اس کا خیال رہے انسان کوئی چیز خریدتے وقت دو چار اور تجربہ کاروں کو بھی دکھالیتا ہے کہ آیا اس میں کچھ نقص تو نہیں.اسی طرح دینی چیزیں خریدنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے ایسے تجربہ کار عنایت کئے ہیں کہ جو ہمیں ہر ایک چیز کے حسن وقبیح سے آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ ہمارے اعضاءہیں مثلا ہاتھ پاؤں دل و دماغ آنکھ کان ناک اور زبان و غیرہ جب کوئی کام ہم ایسا کرتے ہیں جو بری جنس سے ہو تا ہے تو فورا ہمیں یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ کام عہد کے خلاف ہوا ہے.قرآن مجید میں ہے ولقد خلقنا الإنسان ونعلم ماتوسوس به نفسه(ق۱۷) میرے خیال میں یہ آیت قرآن شریف کی منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ قرآن شریف کو میں نے بھیجا ہے جو انسان کا پیدا کرنے والا ہوں اور اس کے کل خیالوں اور وسوسوں کو جانتا ہوں اگر یہ کسی اور شخص یا مخلوق کی طرف سے ہوتا تو اس میں انسان کے دلی خیالات کا اظہار کس طرح ہوتا اور چونکہ اس میں انسان کے کل وسوسوں اور خیالوں کےمتعلق ہدایتیں اور جواب ہیں اس لئے صاف ثابت ہوا کہ اس کا بھیجنے والا میں ہی ہوں جو مخلوقات کارب ہوں.میں یہ ایک کی کھلی بات ہے جو قرآن شریف اپنے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں پیش کرتا ہے انسان کے مختلف و سوسوں کو انسان نہیں جانتا پھر قرآن شریف نے کل

Page 208

وساوس کے جواب کیوں کر دیئے اس لئے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے پس یہ آیت قرآن شریف کی سچائی کوثابت کرتی ہے اس لئے غور کر کے دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں کوئی تنگی نہیں بتائی جس کو کر کے اعضاء خوش نہ ہوتے ہوں اور کوئی ایسی بدی نہیں بتائی کہ جس کو کر کے اعضاءبرانہ مناتے ہوں اور یہ قرآن شریف کی سچائی کا ایک کامل ثبوت ہے.غرضیکہ خدا تعالیٰ نے انسان کودینی سودا کرنے کے لئے چند تجربہ کار عنایت کئے ہیں جو ہر ایک کام کے وقت بتاتے ہیں کہ یہ نیک ہے یابد.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم اس بیع کو کر چکو اور اس کے تمام لوازم کو پورا کرلو توتم اب اس کے نتیجہ سے خوش ہو جاؤ کیونکہ تم نے وہ کام کیا ہے جس کا نتیجہ بہت ہی نیک ہو گااور وہ ایک عظیم الشان کامیابی ہوگی پس جب ایک ادنیٰ انسان یا عہدہ دار کی دی ہوئی خوشخبری پر ہم اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ جاموں میں پھولے نہیں سمانے تو خدا کی بتائی ہوئی خوش خبری پر ہم کیوں خوش نہ ہوں.جانتے ہو کہ خدا کا ایک دن ہزار دن کا ہوتا ہے تو جب وہ ایک چیز کو بڑی کہتاہے تو نہ معلوم وہ کتنی بڑی ہو گئی میرے تو وہم میں بھی نہیں آسکتی.اب اس کے بعد خدا نے چند شرطیں بتائی ہیں کہ جو اس میں ضروری ہیں اور جن کے بغیر یہ بیع مکمل نہیں ہو سکتی اول تو یہ کہ انسان ہر وقت اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا رہےکیونکہ انسان بعض دفعہ پاک ہو جاتا ہے اور کبائر گناہوں کا بیج رہ جا تا ہے مگر رفتہ رفتہ اس کےدل پر زنگ گلتا رہتا ہے اور آخر ہلاک ہو جاتا ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ ترکیب بتائی ہے کہ توبہ کرتے رہو جو گناہوں کے زنگ کی تلافی ہے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ میں غیر مذاہب کےجھوٹے خداؤں کی طرح ایسا نہیں ہوں کہ کبھی گناہ بخشوں ہی نہیں بلکہ جب کوئی توبہ کرے تو میں گناہ بخش دیتا ہوں غرض کہ انسان کا دل ایک شیشہ کی طرح ہوتا ہے اگر وہ توبہ نہ کرے تو گدلا ہوتا رہتا ہے اور آخر ایک دن ناکارہ ہو جاتا ہے اس موقعہ پر مجھے ایک خواب یاد آگئی ہے وہ بھی سنا دیتا ہوں میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ میں اسی طرف منہ کر کے جس طرح اب کھڑا ہوں لیکچر دے رہا ہوں اور اسی طرح اس طرف حضرت خلیفتہ المسیح بیٹھے ہیں اور میں بیان کر رہا ہوں کہ انسان کا دل ایک شیشہ کی طرح ہے اور ایک ایسا شخص جس نے بھی پہلے آئینہ نہ دیکھا ہو جب و ہ اس کے پاس آ کھڑاہو تو سمجھتا ہے کہ کوئی اور شخص ہے.مگر جب وہ اپنی ہر ایک حرکت کے ساتھ اس میں بھی حرکت پا تاہے تو آخر اس پر کھل جاتا ہے کہ یہ میراہی عکس ہے اور وہ اس سے اپنے عیب یا حسن پر آگاہی

Page 209

حاصل کرنے میں کام لیتا ہے اسی طرح خدا نے اپنا جلوہ و کھانے کے لئے انسان کے دل کو پیدا کیا ہےپس جیسا کہ ایک شیشہ میلا ہو جاتا ہے اور کام نہیں دیتاتواس کامالک اسے پھینک دیتا ہے اور وہ چورچور ہو جا تا ہے ایمانی خدا بھی جب دیکھتا ہے کہ کوئی دل میلا ہو گیا ہے اور اب اس کے جلوہ کو قبول نہیں کرتا تو وہ اسے زور سے پھینک دیتا ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جا تا ہے اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ میں ایک شیشہ پکڑا ہوا تھانے میں نے ان الفاظ کے ساتھ زور سے زمین پردے مارا اور کہا کہ اس طرح پھینک دیتا ہے اس کے گرنے سے ایک ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی.اس کے بعد شرک کا حال مجھ پر اس خواب سے کھلا کہ ایک بزرگ انسان جب اپنے دل کو بہت صاف کرتا ہے اور خدا کا جلوہ اس پر اچھی طرح سے پڑتا ہے تو کم علم لوگ سمجھتے ہیں کہ میں خدا ہے مگر اصل میں اسے خدا سے کیا نسبت وہ تو اس کا ایک ادنی ٰبندہ ہے.لیکن چونکہ اس کے دل پر خدا کا عکس پڑتا ہے اس لئے لوگ اسے ناسمجھ لیتے ہیں اور میں بھی ہے تمام ديو تاؤں وغیرہ کا.خیر یہ تو ایک بات میں بات آگئی اور اس طرح میری خواب بھی پوری ہو گئی ابپھر اصل مقصد کی طرف لوٹتا ہوں اور وہ یہ کہ توبہ کے بعد خدا تعالیٰ نے عبادت کو رکھا ہے.یعنی انسان نہ صرف اپنے دل کو صاف کرے اور توبہ سے زنگ کو دور کرتا رہے بلکہ پھر اپنے دل کی صفائی سے بھی کام لے لیکن اپنے دل پر خدا تعالیٰ کے جلوہ کا عکس بھی ڈالتا رہے اور اپنے وقت کاایک حصہ عبادت میں خرچ کرے.عبارت میں یہ حکمت ہے کہ اس سے انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے روز بروز بڑھتا رہتا ہے اور اگر انسان عبادت نہ کرے تو ضرور ہے کہ چند ہی دن میں انسان کاتعلق خدا سے کٹ کر شیطان سے ہو جائے پس خدا تعالیٰ نے عبادت کرنے کی طرف اپنے بندوں کوخاص توجہ دلائی ہے دیکھو تجارت وہ بری ہوتی ہے جو ایک جگہ ٹھہرجائے اوراس کے نفع میں ترقی نہ ہو جب کسی سوداگر سے یہ معاملہ پیش آیا تو سمجھو کہ اس کا کاروبار جلد ہی تباہ ہو جائے گا پس اسی طرح اگر انسان خداے تعلق پیدا کر کے آخرت کا نفع نہ جمع کرے تو دینی تجارت بھی جاتی رہے گی اور وہ اس میں گھاٹا کھائے گا پس چاہئے کہ انسان عبادت میں سستی نہ کرے ورنہ سب کیا کرایاغارت ہو گا.ہم دنیا میں عبادت کی ایک موٹی سی مثال دیکھتے ہیں کہ بہت سے آمی اپنی جگہ کے افسرسے ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ایک دو منٹ کے لئے اس سے ملا قات نصیب ہوتی ہے توان کو حد درجہ کی خوشی ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کرلیا اور گو کہ اس کوشش میں ان کو بہت کی تکلیفیں بھی اٹھانی پڑتی ہیں اور بہت سارو پیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے مگر

Page 210

کچھ پرواہ نہیں کرتے.پھر بعض دفعہ پہرہ داروں اور اردلیوں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں مگر انفتک نہیں کرتے.تو جب کسی شخص کو خدائے عزوجل سے جو احکم الحاکمین ہے ملنے کا موقعہ ملے تو وہ کیساخوش نصیب ہے اور اگر وہ سستی کرے تو اس سے بد تر اور کون ہے.دیکھو خدا کسی کو جھڑکیاں نہیں دیتا بلکہ اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف جاتا ہے تو وہ اس کی طرف دو قدم چل کر آتا ہے اور اگر کوئی آہستہ چل کر آتا ہے تو وہ تیز آتا ہے اور اگر کوئی تیز چل کر آتا ہے تو وہ دوڑ کر آتا ہے.اور یہ بات بھی نہیں کہ اس کے دیدار اور ملاقات کے لئے مہینوں یا پرسوں انتظار کرنا پڑے بلکہ ایک دن میں کم سے کم پانچ دفعہ اس نے ہمیں ملاقات کا موقعہ دیا ہے پھر اگر ہم سستی کریں تو یہ ہماری بد بختی ہے (نعوذ باللہ ) نہ کہ کچھ اس پر الزام ہے.پھر عبادت کے بعد خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حمد اور شکربھی کرنا چاہئے اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یاد کرتے رہنا چاہئے.دیکھو ایک فقیر کو ایک آدمی پیسہ دیتا ہے تو وہ اس قدر ممنون ہوتا ہے کہ اس کو سچے دل سے ہزاروں دعائیں دیتا ہے اور نہایت شکرگزار ہو تا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ کہ جس نے ہم پر بے پایاں احسان کئے ہماری شکر گذاری کا کس قدرمستحق ہے اور اگر ہم شکر کریں تو اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ خود ہم کو ہی نفع ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ لئن شكرتم لأزيدنكم ابراہیم: ۸ یعنی اگر تم لوگ میرا شکر کرو گے تو میں تم کو اور بھی دوں گا اور زیادہ سے زیادہ انعام کروں گا پس اس کے شکریہ ادا کرنے میں ہم اس پر کچھ احسان نہیں کرتے بلکہ الٹا اور فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ہم ناشکری کریں تو اس کا نقصان بھی خود ہم کواٹھانا پڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰٰ کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.بنگال گورنمنٹ کے بے شماراحسانات کا کفران کر کے اگر بنگالی بر سر فساد ہوئے تو انہوں نے بعض انسانی جانیں لے لیں اور ملک کے ایک حصہ میں بے امنی پھیلا دی لیکن خدائی گورنمنٹ سے کوئی شخص مقابلہ نہیں کر سکتا.اگر کوئی شخص ناشکری کرتا ہے تو وہ خود سزا پائے گا اور وہ غم و غصہ سے کسی قدر جوش بھی دکھائے توبھی لاحاصل ہو گا کیونکہ کسی دنیاوی گورنمنٹ کے عہدہ داروں کو تو بم کے گولے کارگر ہو سکتے ہیں مگر الہٰی گورنمنٹ ایسی طاقتور ہے کہ اس کے افسروں پر کوئی ہتھیا ر اثر نہیں کر سکتا کیونکہ ان کےلئے الله یعصمك من الناس (المائدہ:۶۸) کا حکم جاری ہو چکا ہوتا ہے پھر اگر ہم میں سے کوئی گورنمنٹ کی ناشکری کرے تو بوجہ انسان ہونے کے ممکن ہے کہ اس کے عہده دار اس واقعہ سےبے خبر ہیں لیکن آسمانی بادشاہت کے بر خلاف کہنے والا تو کبھی بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ کسی طرح بھی اپنے خیالات کو چھپا نہیں سکتا اور چونکہ خدا تعالیٰ مخفی سے مخفی رازوں کو جانتا ہے اس لئے

Page 211

ایسا شخص ضرور مستوجب سزا ہو گا.میں نے شرک کے معاملہ میں بارہا سوچا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی بڑارحیم ہے کہ اول تو خودی ہماری آسائش کے سامان بہم پہنچاتا ہے اور ہرقسم کی نعمتیں ہمیں عنایت کرتا ہے پھر ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس نے ہمیں اعضاء اور حواس بھی پہلے سے ہی دے رکھے ہیں لیکن اگر کبھی ہمارے منہ سے یہ نکل جائے کہ خدا کا ہم پر بڑافضل ہے اور ہم شکر کریں تو وہ اور بھی خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے نے بڑا کام کیا تو میں اس پر اور بھی احسان کروں مگر غور کر کے دیکھو تو ہم نے کچھ بھی نہیں کیا سب کچھ اسی کا دیا ہوا تھا دل جس نے شکرکرنے کا خیال کیا اور زبان جس نے شکر کیا یہ بھی تو اسی کی دی ہوئی ہے پھر ہم نے کیا کیا جس کا بدلہ وہ ہمیں دیتا ہے.غرضیکہ اس بات کو سوچ کر مجھے بڑی حیرت آتی ہے کہ خدا کتنار حیم کریم ہے.پھر آگے چل کر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ علاوہ شکر کے تم لوگ میری خاطر اپنی جانوں سے کچھ چھڑؤا بھی یعنی بعض ایسی چیزیں جو تمہارے لئے جائز بھی ہوں وہ چھوڑ دوتامجھ سے تعلق اور بھی بڑھے مثلاً اعتکاف کرو کہ اپنی آزادی کو میرے لئے چھوڑ دیا.اسی طرح اور بعض بدیوں سے رکواور پرہیز کرو اس کے بعد فرماتا ہے کہ تم لوگ میرے لئے رکوع و سجود بھی کرو یعنی ہر وقت فرمانبرداری کی طرف توجہ لگائے رکھو.اس رکوع و سجود پر مجھے خیال آتا ہے کہ انسان کو بھی خدا نے کیاضدّین کا تابع پیدا کیا ہےیہی انسان ہے کہ ایک وقت اگر برائی کی طرف جھکتا ہے تو حد درجہ کی شرارتیں کرنے لگتا ہے اور نیکی کی طرف توجہ کرتا ہے تو تب بھی کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے.میں نے کتے کو رکھ کر خیال کیا کہ اس میں دو صفتیں ہیں ایک تو بری اور ایک نیک.بری صفت تو حرص ہے.نیک صفت وفاداری.مگر جب انسان شرارت پر آتا ہے تو کتے کی فرمانبرداری کرتا ہے اور حریص ہو جا تا ہے.مگر افسوس ہے اس پر کہ وہ ان کی نیک صفت اختیار نہیں کر تا یعنی اپنے مالک اور آقا کی ذرابھی وفاداری نہیں کرتا اس صورت میں وہ کتے سے بھی بد رجہا بد تر ہے.مگر ساتھ ہی ایسے لوگ بھی ہیں جو کتے سے سبق نہیں لیتے اور فرشتوں سے نصیحت حاصل کرتے ہیں یعنی وہ خدا کے ہرحکم کے آگے فرشتوں کی طرح سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں بلکہ فرشتہ سے بھی بڑھ جاتے ہیں اور نہ صرف جدہ کرتے ہیں بلکہ رکوع بھی کرتے ہیں.پس انسان اگر برائی کی طرف آتا ہے تو کتےّ سے بھی بد تر ہو جاتا ہے اور اگر نیکی اختیار کرتا ہے تو فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے غرضیکہ خدا تعالیٰ نےاس جگہ پر اپنے بندوں کو راستہ بتایا ہے کہ تم لوگ فرشتوں کی پیروی کرو اور پھر ان سے بھی بڑھ جاؤ.

Page 212

پھر فرمایا ہے کہ تم لوگ امربالمعروف کرو یعنی بنی نوع انسان کو ہمیشہ نیک باتوں کی طرف بلاتےرہو.دیکھو اگر ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہو اور وہ اپنے ایک بھائی کو جو سخت مصیبت میں مبتلا ہووہ نہ دے تو دنیا اسے کسی قدر ناپسند کرتی ہے اور اس سے کسی قدر نفرت کی جاتی ہے کیونکہ اسکے پاس ایک چیز تھی اور باوجود اس کے اس نے اپنے بھائی کی جو اس چیز کا سخت محتاج تھا مدد نہ کی.اس کو تمام لوگ ذلیل سمجھنے لگتے ہیں پس اگر کسی شخص کے پاس روحانی خزانہ ہویعنی سچا مذہب اس نے پالیا ہو تو کیوں وہ دوسروں کو ہدایت نہ کرے اگر وہ ہدایت نہ کرے گا اور لوگوں کو امر بالمعروف کرنے سے بخل با سستی کرے گا تو وہ اس دنیاوی بخیل سے کہیں بدتر ہو گا کیونکہ ایک مالدار شخص نے اگر کسی بھائی کی مدد نہ کی تو اس کا اثر صرف چند گھنٹوں یا دنوں یا مہینوں یا سالوں تک ہو گا کیونکہ آخر موت کے بعد اسی غریب کو ہر ایک دکھ سے نجات مل جائے گی لیکن اگر کوئی ہدایت پاکر ہدایت نہیں دیتا تو وہ اپنے بھائی کو ابدالآباد تک کے لئے ہلاک کرنا چاہتا ہے پس یہ اسی دنیاوی بخیل سےکہیں بڑھ کر ہے پس انسان کو چاہئے کہ ہر وقت امربالمعروف کر تار ہے اور جو ہدایت کا خزانہ اس کے پاس ہے اس سے اپنے بھائیوں کو محروم نہ رکھے اور نہ اس کا نام خدا کے حضور بخیلوں میں لکھاجائے گا اور جب دنیاوی مال کے کھیل کے لئے خدا فرماتا ہے کہ وہ کبھی ہدایت نہیں پا سکتا تو جانتے ہو روحانی مال کا بخیل کی قدر عذاب کا مستوجب ہو گا.یاد رکھو کہ دنیاوی بخیل بچ سکتا ہے مگر روحانی بخیل کے دل پر جب مہر لگائی جاتی ہے تو وہ نہیں ٹوٹا کرتی.پھرخدا تعالیٰ نے فرمایا کہ حدود الہٰیہ کی حفاظت کرویعنی گناہوں سے بچو اور نیکیوں کو بھی اس حدتک کرو جہاں تک حکم ہے ایسا نہ ہو کہ بے موقعہ عبادت کر بیٹھو کیونکہ وہ بھی ہلاکت کا ذریعہ ہےدیکھو نماز کیسی ثواب کی چیز ہے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر سورج چڑھتے ہوئے نماز پڑھتا ہے تووہ نماز اس کے لئے ہلاکت ہو جائے گی اور روزہ کس قدر نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص ارادۃ ًعید کےدن روزہ رکھتا ہے تو وہی روزہ اس کے لئے تباہی کا باعث ہو گا پس معلوم ہوا کہ ہر ایک کام اپنےوقت پر اچھا ہوتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ نیکی ہو یا بدی ہو حدود اللہ کا لحاظ ضرور رکھوکیونکہ انسان کا اصل مقصد تو خدا تعالیٰ کی خوشی ہے، نماز روزہ اگر یہی عبادتیں کسی اور طرح پرہوتی تو خدا کو خوش کرنے کے لئے انسان اسی طرح کرتاپس چونکہ خدا تعالیٰٰ ہی مقصود بالذات ہےاس لئے اس کی مقرر کردہ حدودسے آگے بڑھنا نہیں چاہئے.آخر میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی انسان نے اس پر عمل کیا اور دینی تجارت کے عہد نامہ

Page 213

پر ثابت قدم رہاتو ایسے شخص کو جو ایک با اخلاص مؤمن کا درجہ پا چکا ہے بشارت دو.اب ہم دیکھتےہیں کہ ایک معمولی افسر اگر کسی کو اس کی کامیابی کی بشارت دے تو وہ پھولا نہیں سماتا.تو جس کو خدا بشارت دے وہ کیسا خوش قسمت ہے اور کس طرح غمگین ہو سکتا ہے.اگر انسان خدا کو غفاّر و ستّاراو رو عدوں کا پورا کرنے والامان کر پھر بھی غم کھائے تو یہ اس کی بڑی سخت نادانی ہے کیا اسے یقین نہیں کہ خدا تعالیٰ ٰنے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صبر کرے گا اور انا لله وانا اليه راجعون پڑھے گا تو اسے نعم البدل عنایت ہو گا پس مومن انسان کو کوئی غم نہیں پہنچتاو ہ دکھوں میں خوش اورغموں میں فرحان و شادان رہتا ہے.یہ تمام چیزیں جو ہمارے پاس ہیں یہ سب خدا کی امانتیں ہیں بلکہ ہم خود بھی اسی کے ہیں پس اگر وہ کسی وقت مصلحت سے ایک امانت ہم سے واپس لیتا ہے تو ہم کیوں اس پر رنج کریں.امانت کی واپسی پر جو شخص افسوس کر تاو او یلا اور شور مچاتا اور چلاتا ہے اس کو کل دنیاپاگل کہتی ہے پس اگر خدا نے ہم سے کوئی امانت لے لی اور ہم شور و غل کریں تو ہمارے پاگل ہونے میں کیا شک ہے اور ایساکرنا مومن کی شان سے بالکل بعید ہے.دیکھو کہ خدا اپنے بندوں پرکیسا مہربان ہے وہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا جو شخص اس کے کسی فعل پر نالاں ہو تا ہے تو وہ نعوذباللہ اسے ظالم سمجھتا ہے مگر خدا ظالم نہیں.ہم اپنے آپ کو ہی دیکھتے ہیں کہ اس کا ایک نبیؑ ہم میں آیا اوراپنا کام کر کے ہم سے جدا ہوگیا یہ ایک ایسا صدمہ ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے مگر کیاخدا نےاس پر ظلم کیا کبھی نہیں بلکہ جب اس نے مصلحت وقت یہی دیکھی کہ اسے واپس بلائے تو ساتھ ہی اس نے ہماری تسلی کے لئے قدرت ثانی کا وعدہ کر دیا کہ اس کے جانے کے بعد میں تمہیں اپنی قدرت کا دو سرا ظہور دکھلاؤں گا پس اس طرح اس نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش اور وفات دونوں کو مبارک کر کے دکھلا دیا.اب میں لیکچر ختم کرتا ہوں اور قرآن شریف کی آیات سے وہ طریق بتا چکا ہوں کہ ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.واخر دعوٰنا أن الحمد للہ رب العٰلمین والسلام مرزا محمود حمد

Page 214

۱۸۵ نجات(1) (دسمبر۱۹۰۹) پادری میکلین کے لیکچر کا جواب) از حضرت صاجزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد

Page 215

Page 216

بسم اللہ الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم نجات تمہید:۴د سمبر 1954ء کو پادری میکلین صاحب نے مشن کالج لاہور کے کمپاؤنڈ میں ایک لیکچراس بات پر دیا تھا کہ نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اس لیکچر میں آپ نے گووہی باتیں دہرائی ہیں جو ایک مدت سے مسیح صاحبان فرمارہے ہیں اور جن کا جواب سالہاسال سے دیا جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ مسیحی لیکچروں کو سننے کے بعد اگر لوگوں کو ساتھ ہی مسیح نجات کی اصل حقیقت بھی معلوم ہو جائے تو شاید کسی نیک فطرت کو فائدہ پہنچے.میں چاہتا ہوں کہ آپ کے لیکچر کےجواب میں ایک مختصر سا مضمون لکھ کر ظاہر کروں کہ وہ نجات جو پادری صاحب نے بیان فرمائی ہےوہ اصل میں نجات ہے یا نہیں.پہلے اس کے کہ میں مسیح نجات پر کچھ لکھوں گناہ کی تعریف اورجوکچھ اس کی نسبت قرآن شریف بلکہ توریت نے بھی بتایا ہے مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.گناہ کی اصلیتیاد رہے کہ نجات کا سب دار و مدار تقوی اور طہارت پر ہی ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل پاک ہو جائے تو وہ نجات پاگیا اور جو گناہوں کےپھندے میں پھنس گیا اور شیطانی تصرف میں آگیاوہ ہلاک ہو گیا.پس ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ کیا ہے یاد رہے کہ گناه نام ہے ان خد ادادطاقتوں کے غیرمحل استعمال کرنے کا جو کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کوعنایت فرمائی ہیں مثلاً انسان کو بہادر ی عنایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص اس کو اس کے محل پر استعمال نہ کرے اور غیر محل اور ناجائز استعمال شروع کردے تو اس کا نام ظلم ہو جائے گا اور وہ گناہ کہلائےگا.یا ایک شخص کو دولت دی گئی ہے اور وہ اس کو ناجائز طور سے استعمال کرتا ہے تو وہ مسرف کہلا کرگناہ گار ٹھہرے گا اور جس کو عقل اور دانائی دی گئی ہو وہ اسے غیر محل استعمال کر کے فریب و دغاکرے تو وہ گناہ گار کہلائے گا اسی طرح اعضائے انسانی میں زبان کو، آنکھوں کو ،کانوں کو،ناک کوہاتھوں کو، پاؤں کو غرضیکہ ہر ایک عضو کو غیر محل استعمال کرنے والا گناہ گار ہے اور خدا کے حضورمیں قصور وار.اور وہ جو میانہ رو ہے اور صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہیں ہو تاوہ متقی اور پرہیز گار ہے.

Page 217

پس گناہ اسی کانام ہے کہ انسان اعتدال کو چھوڑ دے اور اپنے فرائض منصبی میں کمی کرنے لگےجائے یا زیادتی شروع کردے مثلاً انسان کو شہوانی قوی ٰعنایت کئے گئے ہیں کوئی شخص ان میں اعتداءکرتا ہے اور عدل پر قائم نہیں رہتا اور ان قویٰ کو اپنے موقعہ اور محل پر استعمال نہیں کرتا اور بیوی کو چھوڑ کر غیر عورت پر استعمال کرتا ہے تو ایسا شخص چونکہ اعتدال کو ہاتھ سے دے بیٹھا اس لئےگناہ گار کہلائے گا اور خدا کے حضور کے حضور میں مجرم سمجھا جائے گا لیکن جو اس قوت کو برمحل اور با موقعہ استعمال میں لاتا ہے وہ متقی ہے اور والذين هم لفروجهم حفظون (المؤمنون:۶) کے گروہ میں شامل ہے غرض کہ اسی طرح کل گناہوں کو دیکھ لو کہ نیک صفات کو اعتدال سے استعمال نہ کرنےسے ہی پیدا ہوتے ہیں ورنہ اصل میں گناہوں کا وجود نہیں.قرآن شریف میں گناہ کی تعریفپس مشاہدہ ہم کو یہ بات بتاتا ہے کہ گناہ صرف صراط مستقیم کو چھوڑنے کا نام ہے چنانچہ سورة فاتحہ میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین یعنی متقیوں کی راہ وہ ہے جو سیدھی ہو اور اعتدال سے ہو اور وہ لوگ جو تقویٰ سیکھنا چاہیں انہیں چاہئے کہ دعا مانگیں کہ انہیں بھی ان لوگوں کی پیروی کی توفیق ملے اور ایسا نہ ہو کہ وہ یہودیوں کی طرح ہو جائیں کہ جنہوں نے مسیح اور آنحضرت ﷺ کے نہ ماننے سے انبیاءؑ اللہ کی تعظیم میں کمی کی او رسبت میں اعتداء کیا اور اسی طرح مسیحیوں کی پیروی نہ اختیار کریں کہ انہوں نے آنخضرت ﷺ اور خود اپنی شریعت کو نہ مان کر تفریط سے کام لیااور مسیح کی محبت میں حد سے زیادہ غلو کیا اور دوسرے بتایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم کسی سے بے جاعدادت کر بیٹھو یا علم صحیح اور علم الہٰی جو تم کو انبیاء علیھم السلام کے ذریعہ ملا ہے کی خلاف ورزی کرو اور مغضوب بن جاؤ یا کسی سے زیادہ اور بے جا محبت کر کے اور ان علوم الہیٰہ کے خلاف جن کو انبیاءؑلائے چل کران سے محروم رہ جاؤ اور ضلال میں پڑ جاؤ.پس اس سورۃ میں خدائے تعالیٰ نے گناہ کی کیفیت کھول کر بیان فرما دی ہے کہ وہ اصل چیز کیاہے غرض کہ نیکی اصل اور صراط مستقیم ہوتی ہے اور بدی صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہونے کو کہتےہیں چنانچہ انسان میں جو اصل چیز پیدا کی گئی ہے وہ حسن ہے چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ لقدخلقنا الإنسان في أحسن تقويم (التین۵) اور پھر اس طرح خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ 1

Page 218

|۱۶ : قل اننی ھدانی ربی الیٰ صراط مستقیم دینا قیما ملة ابراھیم حنیفا (سورة انعام : ۱۶۲» یعنی کہہ دے کہ خدائے تعالیٰٰ نے مجھ کو صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو کہ استوار اور بے کجی کی ہے اور ابراہیمؑ کا طریقہ ہے جو اعتدال پر قائم رہنے والا انسان تھا پھر خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ قراٰنا عربیّا غیر ذی عوج لعلھم یتقون(الزمر:۲۹) الحمد اللہ الذي أنزل على عبده الكتب و لم يجعل له عوجا (سورة کہف ۲) اور پھر سوره فرقان میں فرماتا ہے وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا(الفرقان : ۶۴) یعنی ہمارے پاک بندے وہی ہیں کہ جو اپنی ایام زندگی کو جو کہ ان کو ولكم في الأرض مستقرو متاع إلى حين (البقره: ۳۷) کے حکم کے مطابق اس زمین پر گزارنے پڑتے ہیں اعتدال کے ساتھ گزارتے ہیں اور ان کی زندگی سکینت اور وقار کے ساتھ ہوتی ہے نہ تو تیزی سے کام لیتے ہیں اور نہ کمال سستی کو برتتے ہیں بلکہ تمام عمرفتنوں اور فسادوں سے بچتے رہتے ہیں اور اگر کوئی شریر جاہل ان سے بات کرتے ہیں اور جھگڑا برپا کرنا چاہتے ہیں تو وہ در گذر کر جاتے ہیں.قرآن شریف نے گناہ کے لئے کون سے الفاظ استعمال کئے ہیںغرض کہ اول تو میں نے عقلاً ثابت کیا ہےکہ گناہ اصل میں راہ راست سے ادھر ادھر پھر جانے کا نام ہے اور پھر قرآن شریف مذہب بیان کیا ہے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ کو خوب حل گیا ہے چنانچہ ان آیات کے علاوہ جو میں اوپردرج کر آیا ہوں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن شریف نے جس قد ر الفاظ گناہ کیلئے استعمال کئےہیں وہ لغت عرب میں یا تو زیا دتی کے یا کمی کے معنی دیتے ہیں چنانچہ اثم کے معنوں میں کمی مفہوم ہےجیسا کہ آثمہ عربی میں اس اونٹنی کو کہتے ہیں کہ جو سست چلتی ہو اور پھر جناح بھی جھک جانے اوراعتدال کو چھوڑ دینے کو کہتے ہیں اسی طرح ذنب زیادتی کے معنے دیتا ہے اور پراعتداء اور عصیان اور افراط وغیرہ سب االفاظ زیادتی اور شدت کے معنے دیتے ہیں پس صاف معلوم ہوتاہے کہ جیسا کہ عقل انسانی چاہتی ہے قرآن شریف نے بھی گناہ کو راہ راست سے بڑھ جانے یا پیچھے رہ جانے سےتعبیر کیا ہے اور اصل پیدائش انسان کی نیکی اور تقویٰ پر رکھی ہے پس اب ہم پر کوئی اعتراض واردنہیں ہوتا کہ خدا نے گناہ کیوں پیداگیا کیونکہ خدائے تعالیٰٰ نے انسان کو چند صفات حسنہ ودیعت کرکے اسے ایک حد تک مقدرت دے دی کہ ان پر عمل کر کے مدارج ترقی حاصل کرے اب یہ اس کااپنا قصور ہے کہ ان کے پورا کرنے میں کوتاہی کرے یا اعتداء کرے..

Page 219

دلیل عقلی غور کر کے دیکھ لوچو نکہ انسان میں اصل میں نیکی کامادہ ہے اس لئے زیادہ تر کام اس کی نیکی کے ہوتے ہیں مثلًا ایک شخص جس کو جھوٹا کہا جا تا ہے وہ دن بھر میں سینکڑوں تو سچ بولتا ہے ہاں ایک دو جھوٹ بھی بول لیتا ہے اوران ایک دو جھوٹوں کی وجہ سےوہ جھوٹا کہلا تاہے اور یہ اس لئے کہ اس نے قانون فطرت کو توڑ دیا اور اصل راہ سے پھر گیا اس لئے جب انسان سچ بولتا ہے تو لوگ حیران نہیں ہوتے اور وہ ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے مگر جب کوئی جھوٹ بولے تو سب کے سب اسکی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا بکواس کرتا ہے.چنانچہ ہمارے آنخضرت اﷺنے اس مسئلہ کو کیا خوب ادا کیا ہے اللهم نقني من خطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس جس سے معلوم ہوا کہ اصل میں انسانی دل سفید کپڑے کی طرح ہے اور پھر قرآن شریف میں بھی خدائے تعالیٰ ٰنے فرمایا ہے کہ فطرت الله التی فطر الناس عليها (الروم:۳۱) یعنی انسان کے خصائل اور ثنایا خدائے تعالیٰٰ کے اخلاق پرپیدا کئے گئے ہیں اور یہ بات بدیہی ہے جیسا کہ میں پچھلی مثال میں ثابت کر آیا ہوں کہ اصل نیکی ہے بدی صرف اعتداء کا نام ہے ، جیسے کہ آنکھ دیکھنے کیلئے دی گئی ہے اور دیگر فوائد کیلئے عنایت کی گئی ہے اس کو بد نظری کے کام میں لانا کانوں کو غیبت کے سننے پر لگانا زبان سے بد گوئی کرنا.پس میں نےپوری طرح سے ثابت کر دیا ہے کہ بدی اعتداءہے.صراط مستقیم کیا ہے اب یہ ضرورت پڑے گی کہ یہ بات کس طرح معلوم ہو گی کہ صراطِ مستقیم کیا ہے اور کونساہے سو اول تو خود فطرت انسانی انسان کو اس کاپتہ دیتی ہے اور دوسرے اس کے پہچاننے کے لئے یہ سب سے عمدہ معیار ہے کہ جس قدر باتیں انسان کے دل میں تعظیم الہٰی پیدا کریں اور اس کومخلوق کی شفقت پر مائل کریں اورفساد اس کادل پھیر دیں تو وہ تو صراطِ مستقیم ہیں اور جو اس کے بر خلاف ہوں وہ سب گناہ اور بد باں ہیں اورانہی احکام کے اظہار کے لئے شریعتیں آتی ہیں تاکہ خدائے تعالیٰٰ انسان کو اپنی رضاء کے تمام احکام بتادےاور وہ باخبر ہو جائے کہ کونسی راہیں کمی کی اور کونسی زیادتی کی ہیں اور کونسی کان بين ذالك قواما (الفرقان : ۶۸) کی راہیں ہیں.پس معلوم ہوا کہ انسانی اعمال کو ٹھیک کرنے والی شریعت ہی ہے کیونکہ وہ انسان کو ان راہوں سے واقف کرتی ہے کہ جو مستقیم ہوتی ہیں کیونکہ انسان کو معرفت ہی ایک کام کے کرنے پر تیار کرتی ہے اور وہی دوسرے کام سے روکتی ہے مثلا ًایک شخص کو جب علم کی معرفت حاصل ہو اور وہ اس

Page 220

کے فوائد پر آگاہ ہو جائے تو خود بخود اس کے پڑھنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے چنانچہ جس قدر کوئی کسی نیک چیز کا عرفان حاصل کرے اسی قدر اس کی طرف زیاد ہ جھکتا ہے اور جس قدر کی بدچیز کا عرفان حاصل ہو اس قدربچتا ہے چنانچہ جس کو اچھی طرح سے زہر کے خواص پر واقفیت ہو وہ زہر کاپیالہ کبھی نہ پیئے گا اور جو آگ کی طاقت سے واقف ہو وہ کبھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالے گا اور یہ جانتے ہوئے کہ اس بل میں سانپ ہے اور سانپ کے کاٹے سے کیا نقصان ہوتا ہے کوئی اس بل میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کرے گا پس اصل چیز جو گناہوں سے انسان کو روک سکتی ہے وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور فضل کا جاذب ایمان ہے اور جیسے ایمان بڑھے گا ویسے ہی اعمال ہوں گے اور ایمان شریعت کو چاہتا ہے بے علم انسان کیلئے کوئی لا کے اپنا سر پھوڑے یا کسی اور کو زہردے دے لیکن اگر وہ ان میں ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ جلے گا اور اگر پاڑ سے بے سامان کو دتاہے توہڈی پسلی تڑوائے گا.پس چونکہ گناہ سے نجات ہی اصل نجات ہے جیسا کہ خوو پادری میکلین صاحب نے اپنے لیکچرمیں بیان کیا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اصل ذریعہ نجات کا فضل ہے اور اس کا جاذب ایمان اوراعمال تو ایمان کے ثمرات ہوں گے اور شریعت کاملہ کے بغیر کوئی چیز نجات کے لئے کافی نہیں ہوسکتی کیونکہ علم تام سے ہی انسان نیکی کرتا اور گناہ سے بچتا ہے یعنی راہ راست سے ادھر ادھر نہیں ہو تا پس جب فضل کے ساتھ علم تام ہو اور صراط مستقیم سے کامل واقفیت ہو تو ایسا انسان گناہوں سے بچ گیا اور ناجی ہوا کیونکہ عرفان کامل کے بعد گناہ سرزد نہیں ہو سکتا اور اس بات کو ہمارے حضور ﷺنے بھی لیا ہے جبکہ فرمایا کہ اگر تم کو وہ علم ہو جو کہ مجھ کو حاصل ہے تو تم ہنسو کم اور رو ؤ زیادہ یعنی علم تام کے بعد انسان گناہوں سے بچ جا تا ہے.دنیامیں ہمیشہ نیک لوگ ہوتے رہتے ہیں چنانچہ بر خلاف پادری میکلین کے جو کہ کہتےہیں کہ کوئی آدمی دنیامیں نیک نہیں ہوا اور نہ کسی نے دعویٰ کیا.ہمارا ہادی فرماتا ہے قل اننی ھدانی ربی الیٰ صراط مستقیم (الانعام: ۱۶۲)بلکہ آپ ﷺکے اتباع کرامؓ کی نسبت ارشاد ہے ا وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ (التوبہ ۱۰۰)پھربدری صحابیوں ؓکی نسبت آیا ہے کہ اعملوا ماشئتم (حم السجدة۴۱) یعنی اب تم اس قدر عرفان حاصل کرچکے ہو کہ اب تمہارا ہر ایک کام نیکی ہی ہو گا اور بدی سے تم بالکل محفوظ ہو گئے ہو اور تمہارے ذرہ

Page 221

ذرہ میں صراط مستقیم کی شناخت سرایت کر گئی ہے پس تمہارے ہر ایک کام میں اب نیکی ہی نیکی ہوگی.اسی طرح مذہب اسلام کا دعوی ٰہے کہ کل انبياءؑ بالکل پاک اور نیک تھے چنانچہ ہمارےآنحضرت ﷺتو عام دنیا کو للکار کر فرماتے ہیں کہ فقد لبثت فیکم عمرا(یونس ۱۷)یعنی میں تم میں ایک عمر بسر کر چکا ہوں کیا تم نے مجھ میں کچھ گناه د یکھا ہے کہ اب مجھ کو جھوٹا سمجھتے ہو چنانچہ کسی سے جواب نہ بن گیا.اسی طرح امت محمدیہ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں اس قسم کے لوگ پیداہوئے ہیں اور اس وقت بھی ہیں چنانچہ ابھی ایک شخص نے خدا کی طرف سے مامور ہو کر ساری دنیاکو پکار ا کہ فقد لبثت فیکم عمرا لیکن کوئی مقابلہ نہ کر سکا غرض کہ اسلام کا دعوی ٰہے کہ میں نہ صرف پاک اور ناجی لوگ ہی پیدا کرتا ہوں بلکہ ایسے لوگ بھی میری اتباع سے پیدا ہوتے ہیں کہ جوانبیاء ؑ کا درجہ رکھتے ہیں اور الہام الہٰی سے مشرف ہوتے ہیں پس با و جو د اس دعویٰ کے پادری صاحب کا کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ کوئی نہیں جو اپنے آپ کو شریعت پر چل کر گناہوں سے پاک قراردیا ہو حالانکہ مسلمانوں میں ایسے لوگ ہو گذرے ہیں اور ہر زمانہ میں آتے ہیں.قرآن شریف انسان کو پاک قرار دیتا ہے اور پھر پادری صاحبان کا کہنا کہ خدائے تعالیٰ نےقرآن شریف میں آدم ؑکی نسبت بھول کالفظ استعمال کیا ہے اس میں کیا حرج ہے.کاش کہ آپ اتنا سمجھتے کہ گناہ اور نسیان میں بڑا فرق ہے.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ قرآن شریف میں ہے کہ انسان میں عزم نہیں ہے افسوس اگر آپ فاذاعزمت فتوكل على اللہ(آل عمران :۱۶۰) کو دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ وہ بدوں کی نسبت ہےنیک لوگ بڑے عزم والے ہوتے ہیں.پھر یہ کہنا بھی غلط ہے کہ انسان بے صبر پید اکیا گیا ہے کیونکہ دوسری طرف بشر الصابرین بھی تو قرآن شریف میں ہے کہ تیرے پیروؤں میں ایک گروہ صابرین کاہے.پھر سورۃ اعراف میں ہے کہ وتمت کلمت ربک الحسنی علی بنی اسرائیل بما صبروا(الاعراف:۱۳۸) مومنون میں ہے کہ جزيتهم اليوم بما صبروا( المؤمنون:۱۱۲) فرقان میں ہے کہ اولٰئک یجزون الغرفة بما صبروا (الفرقان :۷۶) قصص میں ہے کہ یؤتون اجرهم مرتين بما صبروا (القصص:۵۵) باوجود اس قدر شہادتوں کے پھر کہنا کہ انسان بے صبر پیدا کیا گیاہے نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں بھی نیکوں اور بدوں کی ہی تفریق ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں انسان کو ظلم پیشہ اور جاہل قرار دیا ہے مگر آپ کی نظر وہاں نہ پڑی جہاں کہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

Page 222

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ ( آل عمران :۱۳۵) پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ انسان ٹوٹے میں ہے مگر ساتھ ہی آپ نے یہ نہ دیکھا کہ الا الذين امنواوعملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (الحصر: ۴) پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہے کہ انسان کا دل وسوسہ پیدا کرتا ہے یہ بالکل غلط ہے ثبوت دواور پھر یہ نہ دیکھا کہ اليوم یئس الذين كفروامن دينكم (المائده : ۴) اور پھر ایک جماعت کے لئے رضی الله ورضوا عنہ بھی قرآن شریف میں ہے اور پھر شیطان کی نسبت فرماتا ہے کہ ان عبادي ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وکیلا(بنی اسرائیل :۶۶) یعنی نفسانی وساوس انہی لوگوں کے دلوں میں اٹھتے ہیں کہ جوگندے اور حق سے دور ہوں نیک لوگ اس سے بالکل پاک ہوتے ہیں پس اسلام نے ہرگز انسان کو گناہوں کا پتلا قرار نہیں دیا بلکہ ایک پاک مخلوق جو کہ جب راہ راست سے پھر جاتی ہے تو ناپاک ہو جاتی ہے اس طرح سے صاحبان کا وہ اعتقاد بھی برباد ہوجاتا ہے کہ گناہ انسان کو ورثہ میں ملا ہے.گناہ کی سزاپھرپادری صاحب کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ چونکہ ہم کو گناہ سے نفرت ہے اس لئےاس کی سزا ضروری ملنی چاہئے اور چونکہ سزا نہ دینے سے عدل میں فرق آتا ہےاس لئے اس کی سزا ضرور دینی چاہئے.یاد رہے کہ انسانی فطرت بخشش کو زیادہ چاہتی ہے جیسے کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے کے قصوروں کو بخوشی بخش دیتے ہیں اورلاکھوں خطاؤں پر چشم پوشی کر دیتے ہیں پس اگر خدائے تعالیٰٰ ہر ایک ذرہ ذرہ سے گناہ کو پکڑے تو بڑااعتراض آئے گا کہ بڑا سخت اور ظالم ہے کیونکہ دنیا میں بھی گناہوں پر چشم پوشی نہ کرنے والےلوگ ظالم ہی سمجھے جاتے ہیں ور نہ کسی کو حد سے زیادہ تکلیف دینے والے لوگ تو کم ہی ہوتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ٰپر یہ بھی اعتراض آئے گا کہ کیسا سخت گیر ہے کہ عدل کی صفت پر تو چلتا ہے کہ میرے بندوں میں ہے تو مجھ میں کیوں نہ ہو مگر جو رحم اور بخشش کی صفت ہے اس سے بکلی محروم ہے تو ایساخد اگویا اپنی پیدا کردہ مخلوق تباہ کر کے خوش ہوتا ہے.اسلام اس کے بر خلاف بتاتا ہے کہ او یوبقھن بما کسبوا و یعف عن کثیر ( الشور ی : ۳۵) یعنی خدائے تعالیٰ چاہے تو گناہ گاروں کوہلاک کردے مگر وہ اکثر معاف کردیتا ہے.عدل کو مان کر مسیحیت کا خاتمہعلاوہ ازیں اگر عدل صفت مانا جائے گا تو پھر مسیحیوں کامذہب برباد ہو جائے گا سنئے یسوع عدل کی مٹی خراب کرتا

Page 223

ہے متی باب 5 آیت ۳۸ تا ۴۱ میں ہے کہ’’ تم سن چکے ہو کہ کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلےوانت پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرتا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دو سرابھی اس کے آگے پھیر دے اور اگر کوئی چاہے کہ تجھ پر نالش کرکے تیری قبالے،کرتے کو بھی اسے لینےدے اور جو تجھے ایک کوس بیگار لے جاوے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا ‘‘اب فرمایئے کہ عدل کہاں رہا.توریت نے تو عدل کی تعلیم دی تھی مگر یسوع نے اسکو ایساتباہ کیا کہ عدل کا نام و نشان ہی نہ چھوڑا اب بتائے کہ اگر یہ تعلیم اچھی ہے تو بقول آپ کے کیا وہ نیکی جو انسان میں ہے وہ خدا میں ہیں اور اگر پری ہے تو مسیح مذہب کا تب بھی خاتمہ ہے پس سچی بات وہی ہے کہ جو اسلام نے بتائی ہے.اسلام اصلاح چاہتاہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (الشوری : ۴۱) یعنی تکلیف کا بدلہ اتنی ہی تکلیف ہے مگر جو بخش دے اور ایسی بخشش کرے کہ اس سے اصلاح ہو تو اس کو خدا تعالیٰٰ اعلیٰ اجر دے گا.مگر یہ بھی یاد رہے کہ خدا تعالیٰ ظالمین کو پسند نہیں کر تایعنی نہ اس کو جس نے ظلم کیانہ اس کوجس نے باوجود اس کے کہ رحم میں اصلاح ہوتی تھی رحم نہ کیا اور نہ اس کو کہ جس نے ایسے موقعہ پر رحم کیا کہ وہ صریح طور سے فساد پیدا کرنے والا تھا پھر خدا تعالیٰٰ فرماتا ہے ولمن صبروغفر ان ذالك لمن عزم الأمور (الشوری :۴۴ ) یعنی جو اصلاح کے لئے صبر کرے اور چشم پوشی سے کام لئے اس نے بڑا عظیم الشان کام کیا اس سے پادری صاحب کا پہلا اعتراض بھی اٹھ جاتا ہے کہ مخلوق میں عزم نہیں خدا تعالیٰ ٰنے تو عزم پیدا کرنے کی ترکیب بھی بتادی کہ صبر اور چشم پوشی سے کام لو تو عزم کی صفت تم میں پیدا ہو جائے گی.غرض کہ انسان میں عدل ادنی ٰدرجہ کی صفت ہے اور رحم اس سے اعلیٰ.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ ٰمالک قرار دیا گیا ہے پس مالک مختار ہے کہ جس کو چاہےچھوڑ دے ہاں بے گناہ کو وہ نہیں پڑتا کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ ماأنابظلام للعبيد (ق : ۳۰ )یعنی میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا.کیاگور نمنٹ رحم نہیں کرتی؟اور یہ کہنا کہ گورنمنٹ رحم نہیں کرتی اس لئے خدا بھی نہیں کرے گا ٹھیک نہیں کیونکہ کسی گو ر نمنٹ کا کام حجت نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی فطرت ایسا چاہتی ہے اور بقول آپ کے جو نیک صفت ہم میں ہووہ خدا تعالیٰ ٰمیں بدرجہ کمال ہونی چاہئے.علاوہ اس کے یہ بات ہے کہ گورنمنٹ کے کام کا اثر ایک

Page 224

ملک پر پڑتا ہے ممکن ہے کہ ذرا سی غلطی میں کوئی تباہی آجاوے اور دوسرے گورنمنٹ دلوں کی واقف نہیں کہ یہ شخص کی توبہ کرتا ہے کہ نہیں تیسرے گورنمنٹ انسانی اجسام اور ارواح کی مالک نہیں ہوتی کہ سب گناہوں پر چشم پوشی کی اس کو طاقت ہو جیسے کہ اسلام میں ایک قاتل کوگورنمنٹ معاف نہیں کر سکتی ہاں مقتول کے وارث کر سکتے ہیں آخر میں یہ بات عرض کروں گا کہ یہ بھی جھوٹ ہے کہ گورنمنٹ معاف نہیں کرتی گورنمنٹ کرتی ہے اور سینکڑوں کو کرتی ہے کیاآپ کو معلوم نہیں کہ ایسے صد ہا واقعات ہوئے ہیں کہ اگر ججوں نے معاف نہیں کیا تو صوبہ کےگورنر یا خودوائسرائے نے سزا معاف کر دی ہو.پھر آپ وہ بات کہتے کیوں ہیں کہ جو اصل میں غلط ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مسیحؑ جیسا کہ میں اوپر کے آیا ہوں رحم ہی رحم کی تعلیم دی ہےعدل کو برباد کر دیا ہے.پس اب میں ثابت کر چکا ہوں کہ گناہ معاف ہونے ضروری ہیں اور انسانی فطرت اس کو چاہتی ہے اور جو مذہب اس کے بر خلاف کہتا ہے وہ واقعہ و حقیقت سے محجوب ہے.غرض کہ گناہ کا معاف ہونا ضروری ہے اور عقل اسی کو چاہتی ہے.اسلام نے اسے ایک اعلی پیرایہ میں بیان فرمایا ہے خود عیسائیوں نے اسے لیا ہے مگر ایک بھید سے اور خطرناک رنگ میں.انسان گناہوں سے بچ سکتاہے جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں انسان گناہوں سے بچ سکتا ہےاور گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور کامل شریعت کے ذریعہ کامل معرفت حاصل کر کے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے.اور جو شریعت انسان کو گناہوں سے بچاتی نہیں وہ ناقص ہے اور کسی کام کی نہیں پس سچی با ت یہی ہے کہ گناہوں سے انسان کامل شریعت کی معرفت بچ سکتا ہے.او ر وہ ہذہب جو اس کے بر خلاف کہتا ہے وہ الزام سے بچنے کیلئے کہ میری قلعی نہ کھل جائے ایسا کرتا ہے اور انسانوں پر الزام دیتا ہے کہ تم ہی گندے ہو ورنہ میں تو پاک ہوں.کیاایک پولیس مین کے سامنے چور چوری کرتا ہے ہر گز نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے نقصان پہنچے گانہ اس لئے کہ اس کے لئے کوئی شخص پھانسی پر چڑھ چکا ہے.کیا ایک فوج کی موجودگی میں ڈاکو ڈاکہ ماریں گے کبھی نہیں نہ کسی کفارہ کی وجہ سے بلکہ اس لئے کہ ان سے بڑی طاقت وہاں موجود ہے جوان کو سزا دے گی.اسی طر ح شریعت علا وہ اعمال حسنہ کے بتانے کے خدا تعالیٰ ٰکی قدرت اور طاقت اس قدر انسان پر روشن کر دیتی ہے کہ وہ گناہ پر قادر ہی نہیں رہتا پس کیا پولیس مین کی آنکھ سے توچور چوری کو چھوڑ سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی آنکھ کا کامل علم رکھتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتا.پس اصل بات یہی ہے کہ کامل معرفت انسان کو گناہ سے بچاتی ہے ورنہ تجسم کا سب ڈھکوسلا ہے اور وہ

Page 225

اس لئے کہ شریعت کے عیب نہ کھل جائیں.انسان انسانی نمونہ کا محتاج ہے باقی یہ بات کہ انسان کے لئے نمونہ چاہیے بالکل درست ہے مگروه آدمی چاہیے نہ کہ خدا.کیا ہمیں معلوم نہیں کہ خدا پاک ہے پھر خدا ہم کو نمونہ کیا دکھائے گا اور کیا جو کام خدا کر سکے وہ بندہ بھی کر سکتا ہے اگر خدا نے ایک نمونہ دکھایا تو کیا ہوا ایک شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ وہ خدا تھا اس نے وہ کام کر لئے میں بندہ ہوں مجھ سے نہیں ہو سکتے انسان پر حجت انسانی نمونہ کی ہو سکتی ہے نہ کہ خدا کے نمونہ کی.خدا کو تو ہم پہلے ہی پاک جانتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ خدا انسانی قالب میں آیا تھا اور انہیں طاقتوں کے ساتھ تو پھر یہ اعتراض ہو گا کہ جب اس میں وہی طاقتیں تھیں جو انسان میں ہوتی ہیں تو پھر اس میں اور انسان میں فرق کیا رہا.بجائے اس کے کہ آپ عرش سے تشریف لاتے یہیں سے کوئی بنده چن لیا جاتا اور اس صورت میں یہودیوں کو اس بات پر فخر کرنے کا موقعہ بھی نہ رہتا کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے خدا کو مارا پیٹا اور سولی پر کھینچ دیا غرض کہ مسیح جو نجات کیلئے خداکے تجسم اور کفاره کے قائل ہیں یہ ایک لغو بات ہے.مسیحیوں سے چار سوالچنانچہ میں اس مضمون پر کچھ اور لکھنے سے پہلے مسیحیوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اول سب سے پہلے ثابت کیا جائےکہ خدا تین ہیں کیونکہ جب تک خدا تین ثابت نہ ہو جائیں تو نہ کفارہ رہتا ہے نہ نجات.توریت میں تو ہے کہ ہمارے خدا کا شریک کوئی نہیں خروج باب ۸ آیت ۸ ایہودی اب تک اسی پر عمل کرتے ہیں الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں دوم اگر تین خدا ہیں تو یسوع ہی وہ تیسراخداہے کیونکہ بیٹےکا لفظ بہتوں پر بولا گیا ہے آدمؑ کو بھی خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اور اس کا کوئی باپ بیان نہیں کیا بلکہ ملک صدق تو سارے جہاں اور مسیحؑ سے زیادہ ہیں یسوع صرف اپنے آپ کو ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ حواریوں کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیتا ہے بلکہ اپنے آپ کو تو ابن آدم ہی کہتا ہے پس یا تو حواری بھی خدائی میں ساتھ شریک ہیں یا مسیح بھی نہیں اور پھر ایک مشکل ہے کہ متی میں یسوع یوسف کا بیٹاقرار دیا گیا ہے جو اور بھی مشکل میں ڈالتا ہے ورنہ یہودی کمبخت بہت کچھ اعتراض کرتے ہیں مگرکچھ بھی ہو اناجیل سے یسوع کی خواہ کسی قدر عظمت ہی بیان کی جا وے ملک صدق کے برابر تو وہ ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جو صفات ملک صدق میں بیان کئے جاتے ہیں وہ اسے یسوع پر بہت کچھ فضیلت دیتے ہیں اور نہ صرف توریت میں بلکہ زبور میں اور پھر اعمال میں بھی اس کا ذکر کیا ہے

Page 226

چنانچہ پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۸ میں ہے کہ ملک صدق کا بادشاہ روٹی اور مے نکال لایا اور وہ خدا تعالیٰ کا کاہن تھا اور ابراہیم نے اسے دہ یکی بھی دی زبور میں داؤد کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ خداوند نے قسم کھائی ہے اور وہ کبھی نہ پچھتائے گا تو ملک صدق سالم کی طرح ابد تک کاہن ہے\"پھر عبرانیوں میں پولوس رسول مسیح تک کی نسبت کہتا ہے کہ ’’وہ خدا کی طرف سے ملک صدق کی مانندسردار کاہن کہلا یا ‘‘پھر اسی جگہ اس کی نسبت لکھا ہے کہ’’ وہ پہلے اپنے نام کے موافق راستے کابادشاہ ہے اور پھر شاہ سالیم یعنی سلامتی کابا د شاہ یہ بےباپ بے ماں بے نسب نامہ جس کے نہ دنوں کاشروع نہ زندگی کا اخیر مگر خدا کے بیٹے سے مشابہ ٹهہرا‘‘ان عبارات سے تو ملک صدق سالیم کی شان زیادہ معلوم ہوتی ہے وہ ازلی ابدی ہے اور بے ماں باپ کے ہے حالانکہ یسوع کا باپ اگر یوسف نہیں تو ماں مریم تو ضرور تھی مگر وہ بن باپ بن ماں کے اور پھر ازلی ہمارے خیال میں تو وہ ابنیت کازیادہ مستحق ہے.سوم یہ کہ مسیح خوشی سے مرنا نہ چاہتا تھا کیونکہ انجیل میں ہے کہ’’ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گزر جائے تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ میری خواہش کے مطابق ہو\"متی باب ۲۶آیت ۳۹.اب اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ یسوع کی اپنی مرضی نہ تھی کہ وہ صلیبی موت مرے جس سے معلوم ہوا کہ اس نے کسی کے بدلے میں اپنی جان نہیں دی بلکہ قہرد رولش بر جان و رویش پر عمل کرتے ہوئے مرادو سرے یہ کہ خدا نے زبردستی اس کو دار پر کھنچوایا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ \"تیری خواہش کے مطابق ہو \" پس اس طرح خدا ظالم ٹھہرا کہ اس طرح بے وردی سے ایک بے گناہ کو اور پھر اپنے بیٹے کو جو اس کی بادشاہت میں اور خدائی میں بھی شریک تھا.یوں مرواریا.شاید اس خیال سے کہ ایک شریک تو راستے سے ہٹے.چہارم سوال یہ کہ سب کچھ ہی مانا مگر یہ ماں سے ثابت ہوا کہ مسیح واقعی صلیب پر مر گیا تھا کیونکہ انجیل اس کے پرخلاف کہتی ہے جیسا کہ میں نے لکھا ہے یعنی حاکم وقت چاہتا تھا کہ وہ بچ جائے.پھانسی دینے والا اس کااپنا مرید تھا.قبر سے اٹھنے کے بعد وہ مریدوں کے پاس گیا وہ ڈر سے کہ کہیں بھوت نہ ہو مگر اس نےاپنے زخم ان کو دکھائے.پھر ان کا شک دور کرنے کے لئے ان کے ساتھ روٹی کھائی اور لوگوں سےچھپتا چھرا.اگر وہ جی اٹھا تھا اور اب پھر خدا ہو گیا تھا تو لوگوں سے اس قدر ڈر کیوں تھا؟ غرض جب تک یہ سوال حل نہ ہو جائیں مسیح صاحبان کا کوئی حق نہیں کہ وہ نجات کو ثابت کرنے بیٹھیں خیر اب میں اس مضمون پر مسیحی صاحبوں کے جواب دینے کے بغیر ہی کچھ روشنی ڈالتاہوں.

Page 227

مسیح نے کوئی دعوی ٰنہیں کیایاد رہے کہ ہر ایک بات کو ثابت کرنے کے لئے پہلے دعویٰ ہوتاہے پر دلیل پس لازم تھا کہ یسوع کی ا بنیت اور کفار کےمسئلہ کو پہلے تو انجیل سے ثابت کیا جائے مگر پادری صاحب نے انجیل کی ایک آیت بھی اس بارہ میں نہیں لکھی حالانکہ ان کا فرض تھا کہ وہ پہلے یہ بتاتے کہ انجیل میں مسیح نے یہ دعوی کیا ہے اور انہیں معنوں میں کیا ہے کہ جن میں مسیح صاحبان کرتے ہیں.ہم تو انجیل میں کہیں یہ دعوے نہیں پاتےیسوع بیچارہ تو آپ لوگوں سے ڈرتا ہوا ہمیشہ اپنے آپ کو ابن آدم کے لفظ سے پکارتا ہے.تاکہ احمق میری پیدائش کو عجیب خیال کر کے کہیں مجھ کو کچھ اور ہی نہ سمجھ لیں مگر مسیح صاحبان پھر بھی باز نہ آئے پس جب تک ابنیت کا دعویٰ او ردلائل انجیل سے ہی نہ بتائے جائیں تب تک تو مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہے یسوع تو اپنے آپ کو ابن آدم قرار دیاہے اور مسیح صاحبان زبردستی اسے خدا کی ولایت کا خلعت عطا فرماتے ہیں گویا کہ خدا کو مجبور کیا جا تا ہے کہ وہ ایک متبنّٰی بنائے.مصلوب ہونے سے پہلی راتاسی طرح کفارہ کا حال ہے کہ اسکا بھی ذکر انجیل میں نہیں مگر مسیحیوں نے من مانے عیش اڑانے کے لئے اس مسئلہ کو گھڑ لیا ہے.کیونکہ جب خداہی کسی کا بوجھ اپنے سر پر اٹھالے تو پھر اسے کیاپرواہ.ادھر مسیحی اس زور سے کفارہ کا اعلان کرتے ہیں اور مسیح کو اپنی خوشی سے بنی نوع انسان پر قربان ہونے والاخیال کرتے ہیں اور یسوع کو دیکھیں تو وہ صلیب پر چڑھنے سے پہلے دردناک الفاظ میں خدا تعالیٰ سے اپیل کرتا ہے کہ للہ اگر کوئی صورت بچانے کی ہو تو اس پر عمل کیجیئے کیونکہ یہ گھڑی مجھ پر بہت سخت ہے.حالانکہ اگر کفارہ کا مسئلہ ہوتا تو یسوع کو چاہیے تھا کہ اس دن عید مناتا اور ساری رات خوشی اور خرمی میں گزارتا کہ آج وہ مبارک دن آیا ہے کہ جس کے فراق میں گھڑیاں گننی مشکل ہو گئیں تھیں مگر اس کے بر خلاف وہ ر و تاہے وہ چلاتا ہے.وہ آنے والی مصیبت کے خوف میں کبھی بیٹھتا ہے کبھی کھڑا ہوتا ہے کبھی زمین پر گر کرذلیل حالت بنا کر خدا کے حضور میں گڑگڑاتا ہے کہ اےباپ جس کے لئے میں نے بہت دکھ اٹھائے یہاں تک کہ مجھے کسی جگہ پر ٹهہرنا تک مشکل ہو گیا یہ مصیبت مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی اگر ہو سکے تو اس کو ٹال دے.تو پھر گھبراہٹ میں اپنےحواریوں میں آتا ہے کہ اٹھو اور تم بھی دعاؤں میں مشغول ہو جاؤ کہ نا معلوم خد اکس کی سنے اورمیں مصیبت سے بچ جاؤں.چنانچہ اسی لئے وہ شہر سے باہر ایک خفیہ جگہ میں جا کر بیٹھا رہا کہ کسی طرح

Page 228

یہ وقت گزر جائے پس کیا اس کرب و اندوہ ظاہر کرنے والے کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ خوشی سے تمام دنیا کے گناہ اپنے کندھے پر اٹھا کر پھانسی پر لٹک گیا؟ پھر یہ نہ بھی ہو تو کیا کبھی ہو سکتا ہے کہ ایک کے سرمیں درد ہو تو دوسرا اپنے سر پر پتھرمارے یہ بھی نہیں ہوتا جو گناہ کرتا ہے وہیں پکڑا جاتا ہے ورنہ کفار ہ سے تو معلوم ہوا کہ خدا کو سزا دیتے ہوئے مزہ آتا ہے یہ نہ سہی وہ سہی مگر کوئی نہ کوئی ہوناچاہئے کہ جس کو وہ سزا دے.ہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اگر شیطان کا سر کچلا گیا اور مسیح کفاره ہوئے تو خودشیطان اور قاتل یہود کیوں نہ کفارہ سے مستفید ہوں.انبیا ءؑبائبل کفارہ سے ناواقف تھےعلاوہ اس کے یسوع کے نزول سے پہلے لوگوں کا کیاحال ہو گا وہ بیچارے تو سب جہنمی ہوئے جن میں کہ موسیؑ اور دادوؑ بھی شامل ہیں.پھر کیاخدا پر الزام نہ آیا کہ اگر بیٹے کو پھانسی دینی ہی تھی تو شروع میں دیتا اور نہ کہ دنیا کے خاتمہ پر اور یہ بھی غلط ہے کہ وہ کفارہ پر ایمان لائے تھے کیونکہ اول تو توریت میں اس کا کوئی ذکر نہیں دو سرے حضرت یوسفؑ کے ایک قول سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کو کفاره پر نہ صرف ایمان ہی نہ تھا بلکہ اس کو ظلم قرار دیتے تھے چنانچہ جب بنیامین کے پورے میں پیالہ نکالا تو یہودا نے کہا کہ ہم بھی اپنے آپ کو گناہ میں غلام بناتے ہیں مگر یوسف نے کہا کہ خدا نہ کرے کہ میں ایسا کروں اور جب وہ اس قدر زاری کر رہے تھے تو وہ یوسف ؑکو یسوع کے کفارہ کی یا د دلا کر ایسا کرسکتے تھے کہ اپنے میں سے ایک کو اسکے بدلے میں چھوڑ جائیں اور بنیامین کو لے جائیں.یسوع جہنم میں تین دن کیوں رہا علاوہ اس کے کفار پر ایک یہ اعتراض بھی پڑتا ہے کہ خدا نے لوگوں کوتو گناہوں کے بدلہ میں ابد الآبادکی سزادی اور اپنے بیٹے کو صرف تین دن سزا دے کر چھوڑ دیا حالانکہ اس کے سر پر سب دنیا کے گناہ تھےاسکے لئے تو کوئی اور بھی سخت دوزخ بنانی چاہئے تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں چونکہ وہ خداتھااور غیر محدود تھا اس لئے تین دن کی سزا کافی تھی تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ غیر محدود کی نسبت محدودسے ہوہی نہیں سکتی کیونکہ چونکہ وہ غیر محدود تھا تو سزا تو ایک منٹ کیا بلکہ ایک ایسے چھوٹے وقت میں ہونی چاہئے تھی کہ وہ گنا بھی نہ جاتاور نہ اگر تین دن کی سزا مقرر ہوئی تو بندوں میں اور خدامیں ایک نسبت ہو جائے گی اور اس طرح غیر محدود نہ رہے گا بلکہ محدود ہو جائے گا اور اگر کہا جائےکو تین دن کی سزا علی الحساب دے دی گئی ہے تو خدا اس طرح ظالم بن جاتا ہے.کفار ہ پر ایک اوربھی اعتراض ہو تا ہے اور وہ یہ کہ جب ایک تین اور تین ایک ہیں تو جب یسوع تین دن مرارہا تو

Page 229

ضرور ہے کہ باقی دونوں خدا بھی مرے رہے ہوں کیونکہ ایک تین ہے اور اگر وہ نہ مرے ہوں تو دوخدا باقی رہ گئے ہوں گے اور اس طرح خداؤں میں جدائی لازم آئے گی جو کہ تین ایک اور ایک تین کے مسئلہ کے بر خلاف ہو گا اور اگر کہا جائے کہ نہیں اصل میں خدا تینوں ہی زندہ رہے تھے وہ ایک او رہی کاروائی تھی تو پھر بھی کفارہ باطل ہو جا تا ہے اور خدا نعوذ باللہ بہانے باز ٹھہرتاہے.کیا یسوع عادل ہے؟علاوہ ازیں کفار کے مسئلہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تو عادل ہےاور یسوع عادل نہیں پس یا خد اناقص ہوا ایسوع - علاوہ ازیں دونوں کی مختلف صفات مان کر دو وجود الگ الگ ماننے پڑتے ہیں کہ یہ خدا ہے جو عادل ہے اور یہ یسوع ہے جو محبت ہے تو اس طرح ایک تین اور تین ایک نہیں رہتا اور خداؤں میں فرق لازم آتا ہے.علاو ازیں کفاره پر میں بھی ایک اعتراض ہے کہ اگر کفارہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی عمل کی ضرورت ہے تو وہ کفارہ کفارہ ہی نہ رہا کیونکہ اس صورت میں مسیح کی موت سے ہم کو کچھ فائدہ نہ ہوا.اور اگر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تو کفار سے گناہ پھیلیں گے نہ کہ رکیں گے اور اس طرح کفارہ گناہ پھیلانے والا ثابت ہو گا.اور اگر یہ کہا جائے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے گناہ ہوتے ہی نہیں تو یہ بھی غلط کیونکہ جس قدر گناہ یورپ میں ہو رہا ہے اس قدر نہ پہلے ہوانہ اب غیر قوموں میں ہے کہاجاتاہے کہ ساٹھ فیصدی حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں پھر کفارہ کا کیا اثر ؟ کیا یسوع کامل نمونہ تھا یسوع کے کفارہ پر ایمان لا کر دنیا نے گناہوں سے کیا پچنا ہے جو کچھ انجیل پیش کرتی ہے اس سے تو خود یسوع پربھی سوسو اعتراض واردہوتے ہیں اور وہ قابل تقلید کیا قابل نفرت ٹھہرتا ہے.اور اس طرح مسیحیوں کا یہ کہنا بھی کہ دنیا کونمونہ کی ضرورت ہے اور یسوع نمونہ بن کر آیا غلط ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے نمونہ کو دیکھ کر تو اوربھی شکوک شروع ہو جاتے ہیں کہ جب خدا خودگناہوں سے نہیں بچ سکتا تو بندے بیچارے کس حساب میں وہ خود بھی بیچارہ کہتا ہے کہ مجھے نیک مت کہو.پس یا تو اسکو جھوٹا قرار دو یا گناہ گار دونوںصورتوں میں قابل تقلید نہیں.مسیحی صاحبان یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ گناه آدم کے درثہ میں آیا ہےاو ریسوع کا باپ نہ تھا اس لئے معلوم ہوا کہ وہ گناہ گار نہیں ہو سکتا تھا اس کا جواب اول تو یہ ہےکہ یسوع کی لائف اس پر خوب روشنی ڈالتی ہے دوسرے سوال یہ ہے کہ آدم میں گناہ کہاں سےآگیا اگر آدم میں پیدا ہو سکتا تھا تو دوسرے آدمیوں میں اسے پیدا ہوتے کیا ہرج ہے چوتھے یہ کہ اس سے مسیح کی فضیلت نہیں نکلتی بلکہ الٹا نقص نکلتا ہے کیونکہ توریت ہم کو بتاتی ہے کہ اصل گناه

Page 230

عورت کی طرف سے تھاچنانچہ پیدائش باب ۳ آ یت ۱۲میں ہے کہ آدم نے کہا کہ اس عورت نےجسے تو نے میرے ساتھ کر دیا تھا مجھے اس درخت سے دیا اور میں نے کھایا جس سے معلوم ہو تاہےکہ اصل گناہ کا منبع عورت تھی.تو اس صورت میں مسیح کے بن باپ بیدائش سے تو اور بھی نقص لازم آتا ہے اور وہ بجائے اس کے کہ گناہ سے پاک ٹھہرے اور بھی گناہ میں ملوث ثابت ہوتاہےکیونکہ آدم کا ایک حصہ اس نے نہ لیا اور حوا کا وارث بنا.کفارہ بے فائدہ نکلا اب آخر میں دو قطعی ثبوت پیش کرتا ہوں کہ کفارہ پرایمان لانے سےکوئی فائدہ نہیں.اول تو یہ کہ مسیح نے کہا ہے کہ ”میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں اگر یقین کرو اور شک نہ لاؤ تو نہ صرف یہی کر سکو گے جو انجیر کے درخت پر ہوا.بلکہ اگر اس پہاڑ سے کہو گے کہ تو اکھڑ جا اور سمندر میں جا گر تو ویسا ہی ہوگا ( متی - ۲۱:۲۱) اب پادری صاحبان کل مسیحی ممالک سے زیادہ نہیں تو ایک آدمی ہی اس قسم کا پیش کردیں جواس قسم کا معجزہ دکھائے ورنہ یاتو کفارہ ہی غلط ثابت ہوا نہیں تو سب کے سب مسیحی صاحبان بے ایمان ثابت ہوئے.دوسرا یہ کہ توریت میں ہے کہ آدم کو گناہ کے بدلہ میں خدا نے کہا کہ تو اپنے منہ کے پسینہ سے روٹی کھائے گا اورعورت درد زہ سے بچہ جنے گی پس اس کفار پر ایمان لانے کے بعد تو چاہئے تھا کہ مسیحی صاحبان ان دونوں عذابوں سے بچ جاتے لیکن مشاہده تو یہ ثابت نہیں کر تا پس جب کفارہ کا کچھ بھی فائدہ نہیں تواس کے پیش کرنے سے کیا فائدہ؟ ہم تمام مسیحی دنیا سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ لوگ بے محنت روٹی کھاتے ہیں یا آپ کی عورتیں بغیر درد کے بچہ جنتی ہیں اگر ایسا نہیں تو پھر کفارہ نجات کا باعث ہرگزنہیں اور ہرگز نہیں.پس اب میں ثابت کر چکا ہوں کہ نجات اعمال سے ہی ہوتی ہے اور اعمال فضل کو حاصل کرتے ہیں اور اعمال کیلئے کامل شریعت کی ضرورت ہے اور جو شریت اپنے آپکو اعمال کا سدھارنے والا نہیں مانتی وہ ناقص ہے اور یہ کہ کفارہ کا نجات سے کچھ تعلق نہیں کیونکہ نہ مسیح ؑخوشی سے صلیب پر چڑھا اور نہ وہ صلیب پر مرا جیسے کہ میں متی کے حوالہ سے بتا آیا ہوں کہ اس کازندہ رہنا زیادہ یقینی ہے اور یہ کہ نہ صرف کفارہ ایک لغو مسئلہ ہے بلکہ اس کا نتیجہ اب تک عیسائیوں نے کچھ نہیں دیکھا.ہم رحم کر کے اپنے سے کمزوروں کے گناہ بخشتے ہیں پس خدا بدرجہ اولیٰ بخشتاہے – و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين میرزا محموداحمد ( تشحیذالاذہان دسمبر ۱۹۰۹ )

Page 231

Page 232

دینِ حق ( منقول از تشحیذالاذہان ) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد

Page 233

Page 234

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم دین ِ حق اس وقت جو میں یہ مضمون لکھنے لگا ہوں اس سے میری یہ غرض نہیں کہ کسی مذہب کی برائی بیان کروں یا کسی فرقہ کے اصول پر نکتہ چینی کروں یا کسی گروہ کی عیب گیری کروں یا کسی جماعت کی کمزوری آشکار کروں یا کسی سلسلہ کے نقائص پر روشنی ڈالوں بلکہ اس مضمون سے میری غرض اورمنشاء اور ارادہ اور خواہش اور تمنا اور مدعایہ ہے اور صرف یہی ہے کہ طالبان حق کے سامنے اس سچائی اور حقیقت اور معرفت اور روشنی اور نور کو ظاہر کروں جو ایک مردہ کو زندہ کرتا ہے اور اندھے کو آنکھیں بخشا ہے اور بہرے کو کان عنایت کرتا ہے اور بیمار کو شفادیتا ہے اور جو بحر گناہ میں ڈوبنے والے کو قعرضلالت سے نکال کر صداقت کے سورج کی تپش میں لا بٹھاتا ہے اور اندھےکنویں میں گرے ہوئے انسان کو معرفت الہٰی کے پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے.اور وہ اسلام ہے کہ جس کی بدولت ہزاروں نہیں لاکھوں وحشی درندوں سے انسان اور انسان سےباخدانسان بن گئے.یہی وہ چشمہ ہے کہ جس سے بے انتہا مخلوقات نے نہ صرف اپنے گلوں کو تر کیا اور شدت پیاس کو بجھایا بلکہ اپنے عزیزوں اور کنبہ داروں اور قریبیوں اور دوستوں اور آشناؤں اوروا قفوں کو بھی سیر کیا.اس پاک مذہب کے دستر خوان پر جو اس نے انعامات الہٰیہ کے لطیف اور لذیز کھانوں کو چکھاہی نہیں بلکہ ان سے سیرہوا.غرض لاکھوں نہیں کروڑوں نے اس مذہب میں داخل ہو کر اپنی زندگی کا اصل مدعاپالیا اور اس خالق حقیقی کے بے انتہا فیوض و برکات سے حصہ لیاکہ جن کو طالبان حق اپنے مال اپنی جان اپنی عزت اپنی آبرو اور اپنی بڑائی سے بھی زیادہ عزیزرکھتے ہیں اور جن کی خواہش میں لاکھوں باصفاانسان دنیا و مافیہا کو چھوڑ کر دیوانہ وار پھرتے ہیں.یہ بات ظاہر ہے اور ہر ایک شخص اسے سمجھ سکتا ہے کہ سچا مذہب وہی ہے جو خدائے تعالیٰ تک مخلوق کی رہنمائی کرنے اور اس درمیانی پردہ کو اٹھاوے جو عابد و معبود میں حجاب کا کام دیتا ہے.اور

Page 235

اپنے اندر ایک ایسی طاقت رکھتا ہو کہ ان تمام رکاوٹوں کو جو انسان اور خدا کے درمیان حائل ہوں دور کر دے اور اپنے ماننے والے کو گناہوں سے نکال کر نیکی اور تقوی کے دریا میں غوطہ د ے اورکمزرو رانسانوں کو ایسی طاقت عنایت کرے کہ وہ شیطان کے بپنجہ سے بالکل نکل جائیں اور اس کا ان پر کوئی تسلط نہ رہے اور ان کے دلوں میں رعب حق اس قدر بٹھائے کہ وہ گناہوں کے پھندوں کومکڑی کے جالوں کی طرح توڑ پھوڑ کر آزادی کی ہوا کھانے لگیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اورعشق کو ان کے قلوب میں انیس قائم کر دے کہ گویا انسان ہر وقت خدائے تعالیٰ کی معرفت میں ڈوبا ہوا ہو اور نور ایمان کی روشنی سے اس کی زیارت میں مشغول ہو اور صفائی باطن کی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہو اور مخلوق کو خدائے تعالیٰٰ میں ہو کر مشاہدہ کرتا ہو اور اند روی بنی نو ع ہر گھڑی اس کے مد نظر ہوغرض کہ فنا فی اللہ ہو جائے اور وہ زندگی اس کو نصیب ہو کہ وہ ہر ایک چیز کو اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ خدا کی آنکھوں سے دیکھے.اور جو مذہب ایسانہ کرتا ہو اور اس میں یہ طاقت ہی نہ ہو کہ وہ انسان کو جو ہر وقت محبت کی تلاش میں رہتا ہے خدا کی دائمی محبت کے چشمہ سے پانی پلائے اور اس سوز فراق کو جو محب کو اپنے محبوب کی جدائی میں ہو تا ہے وصل کی ٹھنڈک سے سرد کرے اور طالب کو مطلوب کا پتہ دے اور گمراہ کو ہدایت دے اور بھولے بھٹکوں کو راہ پر لائے اور طالبان دید کو معرفت تامہ کی آنکھوں سے خدائے تعالیٰ کا دیدار کرائے اور اس سچی صفات کو بیان کر کے مخلوق کے دلوں میں ان کی محبت کا ایک ولولہ پیدا کر دے اور ایک ایسی آگ لگا دے کہ جو دلوں کو پھونک دے اور سینوں کو جلا دے اور دنیا ومافیہا کو خاک کر کے خدا ہی خد ا کا جلوہ انسان کی آنکھوں میں ظاہر کرے اور دنیا کے سامنےوہ تجاویز پیش کرے کہ جن سےفساد دور ہوں اور دشمنیاں جاتی رہیں اور کینہ اور بغض کی آگ بھسم ہو جائے.اور بنی نوع انسان کے لئے وہ امن کا دروازہ کھولدے کہ جس سے ان پر انعامات وکرامات الہٰیہ کی ہوا ئیں خوشگوار رنگ میں محبت کی خوشبو کو ساتھ لئے ہوئے چلیں اور وہ اپنے کانوں سے اس محبوب حقیقی کی شیریں آواز کو سنیں کہ جس کی ملاقات کی تڑپ مخلوقات کے دلوں میں روز ازل سے لگی ہوئی ہے تو ایسا مذہب جھوٹا ہے اور وہ قطعاًخد ا کی طرف سے نہیں کیونکہ اس میں اس یار یگانہ کی طرف سے کوئی نشان موجود نہیں، وہ مردہ ہے اس کو اختیار کر کے کوئی کیا کرے کیونکہ وہ انسان کو خدا سے ملاتا نہیں بلکہ دور کرتاہے اور بنی نوع انسان کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اس کو مصیبت میں ڈالتا ہے اور خود اس کے پیروؤں کو اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے.

Page 236

پس اس کھلے اور صاف معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسلام کے سوا اور کوئی مذہب اس پر پورا نہیں اترتا.کیونکہ اسلام قشر نہیں بلکہ ایک خوش ذائقہ مغز ہے اور مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے اور نہ صرف خود زندہ ہے بلکہ دوسروں کو بھی زندہ کرتا ہے اور اس کا ثبوت اس کے اصولوں کو دیکھنے سے خوب مل سکتا ہے چنانچہ قرآن شریف اور احادیث کو دیکھنے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں دلائل اس مذہب کی سچائی کے ملتے ہیں جو سورج سے زیادہ روشن ہیں اورستاروں سے زیادہ چمکتے ہیں اور چاند سے زیادہ منور ہیں اور جن کے حسن کو دیکھ کر لاکھوں آدمی پروانہ کی طرح فدا ہوئے اور ہو تے ہیں اور ہوں گے.مگر چونکہ اس مضمون پر مفصل لکھنا ایک بڑےوقت کو چاہتا ہے اور اس کے علاوہ اس رسالہ میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہو سکتی اس لئےمیں اس موقعہ پر سورة فاتحہ سے مخقرا کچھ باتیں اخذ کر کے یہاں لکھوں گا.ہاں امید کرتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ کا فضل شامل حال رہاتو آئندہ ر سالہ میں اس قسم کے مضامین جو صرف اسلام کی صداقت ثابت کرنے والے ہوں دیتا رہوں گا.سورہ فاتحہ جس پر میں اس وقت کچھ لکھنا چاہتا ہوں قرآن شریف کی سب سے پہلی سورت ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ قرآن شریف کا خلاصہ ہے اور وہ تمام معارف جو كل قرآن میں مفصل کرکےبیان کئے گئے ہیں اس میں اجمالاًبیان ہیں.اور چونکہ خدائے تعالیٰ غیر محدود ہے اس لئے اس کےکلام میں بھی غیر محدود ہی معانی ہوتے ہیں چنانچہ اس سورۃ میں جو جو معانی ہیں ان پر پورے طورسے احاطہ کرنا تو ایک انسان کی طاقت سے باہر اور محال ہے ہاں فکر ہر کس بقد ر ہمت اوست.جس قدر کسی کو نور قلب عطا ہوا ہو اور جس نے جس قدر تلاش کی ہو اور اس کو چہ میں کوشش کی ہو وہ اسی قدر فائدہ حاصل کر لیتا ہے.چنانچہ اس سورۃ میں خدائے تعالیٰ ٰکے وجود اور پھر اس کے کلام نازل کرنے اور اسلام کی سچائی کا بڑی وضاحت سے ذکر ہے مگر چونکہ اس موقعہ پر میرے مخاطب وہی لوگ ہیں جو کہ خدائے تعالیٰ کے وجود کے قا ئل مگر اسلام کے منکر ہیں اس لئے میں وہی ثبوتپیش کروں گا جن سے عظمت قرآن ثابت ہو.اور اس سے پہلے میں وہ آیات نقل کر دینی مناسب سمجھتا ہوں.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ چنانچہ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ سچا دین وہی ہو سکتا ہے کہ جس میں خدائے تعالیٰ اور مخلوق کے تعلق کو مضبوط کیا جائے یعنی وہ مذہب ایسی پر معرفت اور روحانیت سے بھری ہوئی باتیں.

Page 237

بتائے کہ جن سے مخلوق کو خود بخود خدائے تعالیٰ سے محبت پیدا ہو اور علاوہ اس کے باقی مخلوقات پررحم کرنے کا مادہ پیدا ہو.اور ایسا مذہب اپنے اندر کچھ نشانی بھی رکھتا ہو - اسلام نے ہر ایک پہلو کوخوب واضح کیا ہے.چنانچہ اول ہی بات جو اس سورۃمیں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو سکھایاگیا ہے کہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ رب العالمین ہے اور اس قابل او رلائق ہے کہ اس کی حمد کی جائے.چنانچہ یہ بات ہر ایک عقل مند پر ثابت ہے کہ محبت کے دو ہی طریقےہیں ایک حسن دوسرا احسان سواس آیت میں خدائے تعالیٰٰ نے دونوں پہلووں کو لیا ہے اور بتایا ہےکہ اسلام کا خدا وہ ہے کہ جو ہر ایک چیز کا ربوبیت کرنے والا ہے اور اسے اپنے حدود کے اندربتدریج ترقی دیتا اور بدرجہ کمال تک پہنچاتا ہے چنانچہ ہم جب دنیا پر نظر کرتے ہیں تو ہر ایک چیز میں اس صفت کا جلوہ دیکھتے ہیں اور ایک رائی کے دانہ سے لے کر بڑی سے بڑی چیز تک یہی صفت اپناکام کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے مثلا انسان کو ہی دیکھو ایک وقت ایسا ہو تا ہے کہ یہ ایک نطفہ کی طرح ہوتا ہے اور اس کو کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے بلکہ بغیرمائکروسکوپ کی مدد کے اس کا دیکھا جانابالكل ناممکن ہو تا ہے پھر اس حالت سے نکل کر جب یہ رحم مادر میں داخل ہو تا ہے تو ایک عرصہ گزرنےکے بعد اس نطفہ کی شکل ایک منجمد خون کی سی ہو جاتی ہے اور جب ایک مدت اور اس پر گزر جاتی ہے تو وہ ایک بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کے بعد اس میں ہڈی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے اوراس پر گوشت چڑھ جاتا ہے اور اس کے بعد اذن الٰہی کی ایسی ہو ا اس پر چلتی ہے کہ وہی بے جان چیززندہ ہو جاتی ہے اور خدائے تعالیٰٰ کے عظیم اور بے پایاں فیوض کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے اور اس وقت اس کی حالت میں پہلی حالت سے زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ اسی ربوبیت کی طرف اشارہ ہے حضرت احدیت کا کہ وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـانَ مِن سُلَـٰلَةٍۢ مِّن طِينٍۢ ثُمَّ جَعَلْنَـٰهُ نُطْفَةًۭ فِى قَرَارٍۢ مَّكِينٍۢ ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةًۭ فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةًۭ فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًۭا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًۭا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ(المؤمنون : ۱۳-۱۵) چنانچہ یہ آیت اس صفت ربوبیت کی تشریح میں خدائے تعالیٰ ٰنےبیان فرمائی ہے کہ ہم اس قسم کی ربوبیت کرنے والے ہیں کہ ایک ذرا سی ناچیز چیز کو چھو لیتے ہیں تو اپنی صفت ربو بہت کام میں لا کر کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتےہیں چنانچہ وہ اجزاء جو مٹی میں تھے ہم نےان کو نطفہ اور علقہ اور مضغہ اور پھر ہڈی اور گوشت کی شکلوں میں تبدیل کرتے ہوئے آخر اپنی صفت ربوبیت کو یہاں تک وسیع کر دیا کہ وہ بے جان چیز جاندار ہو گئی اور ایک ہی مخلوق بن (۱۵ - ۱۳:

Page 238

گئی.پس اللہ تعالیٰ کی کیسی کیسی برکات ہیں کہ جن سے ایسی ایسی اعلیٰ اور کامل مخلوقات پیدا ہوتی ہیں.غرض کہ یہ تو انسان کی ایک مثال ہے ہر ایک چیز دنیا کی اس صفت کے ماتحت ترقی کر رہی ہےاور غور کرنے والے انسان کے لئے کثیر نفع کا باعث ہو سکتی ہے چنانچہ ہم ایک بڑکو دیکھتے ہیں کہ اس کابیج ایک رائی کے دانہ کے برابر ہوتا ہے مگر جب خدائے تعالیٰ کی صفت ر بوبیت کے ماتحت آتا ہےاور بڑھنا شروع ہوتا ہے تو وہی رائی کے برابر دانہ اتنے بڑے درخت کی شکل میں تبدیل ہو جاتاہے کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایے کے نیچے آرام کرتے ہیں غرض کہ کوئی چیز ہو بے جان ہو کہ جاندار، بڑی ہو کہ چھوٹی، ٹھوس ہو کہ سیال ،سخت ہو کہ نرم خدائے تعالیٰٰ کی صفت ربوبیت کےنیچے اپنا کام کر رہی ہے اور اگر ایک دم بھی وہ صفت اپناکام چھوڑ دے تو یک لخت سب کار خانہ بربادہو جائے.چنانچہ سورج سے لے کر شہاب ثاقب تک اور پہاڑ سے لے کر ذرہ تک اور ہاتھی سےلے کر ایک مچھر تک ہر ایک چیز اور مخلوقات کا ایک ایک جزء لا يتجزأ اس کی ربوبیت کے نیچے ہےاور ہر جگہ پر اور ہر مقام پر اس کی یہ صفت اپنا کام کر رہی ہے تو پھرایساخداجو اس قدر کامل ہے اوراپنی اس صفت کی وجہ سے نہ صرف حسن بلکہ انسان میں بھی بے نظیر ہے کہ جسم کا مقابلہ کوئی ہستی نہیں کر سکتی تو پھر اس خدا کی حمد نہ کی جائے تو اور کس کی حمد کرنے پر انسان کا دل مائل ہو سکتا ہے.پس الحمدللہ رب العلمین میں خدائے تعالیٰٰ نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی ہر ایک چیز پر نظرڈال کر دیکھو کہ وہ میری صفت ربوبیت کے ماتحت چل رہی ہے اور کوئی چیز بغیر میری مدد کے قائم نہیں رہ سکتی اور کل حسنوں اور کل خوبیوں اور کل نیکیوں اور کل خوبصورتیوں اور کل احسانوں کامنبع میں ہی ہوں.اور میری ہی ذات سے یہ تمام کارخانہ چل رہا ہے اور میں نے صفت ربوبیت کےماتحت ہر ایک چیز کو جو کہ ضروری ہے پیدا کر دیا ہے پس با و جو واس خوبی اور حسن اور احسان کےکون ہے جو میری حمد سے دل چرائے پس جیسا کہ انسانی دل حسن و احسان کو دیکھ کر بے اختیار محبت سے بھر جاتا ہے اس آیت کی تلاوت کے ساتھ ہی انسان کا دل خدا کی طرف جھکتا ہے اور اس کی محبت جوش مارتی ہے اور ایک خود رفتگی پیدا ہو جاتی ہے اور وفور عشق سے ایک ایا سردرد پیدا ہوجاتا ہے کہ جس سے انسان خدائے تعالیٰ کے احسانات کےذریعہ خود اس کی ہی زیارت کر لیتا ہےاور دل منور ہو جا تا ہے اور چونکہ ربوبیت ہر ایک چیز کو جو راستے کی رکاوٹ ہوتی ہے دور کرتی ہےاس لئے ایسے شخص کے دل پر ربوبیت اپنا خاص پر تو ڈالتی ہے اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتاہے اور اس کا ول ایک سکینت محسوس کرنے لگتا ہے تو ایسے وقت خدائے تعالیٰ کی صفت رحمانیت اپنا

Page 239

اثر شروع کرتی ہے اور وہ شخص جو ربوبیت کے اسرار پر واقفیت حاصل کرلیتا ہے خدائے تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اس کا عشق اس کے دل میں بیٹھ جاتا ہے اور تمام دنیا کے تعلقات توڑ کر وہ بس اسی کا ہی ہو جا تا ہے اور ہر وقت اسی کے ذکر میں مشغول رہتا ہے.پس جبکہ ایسی حالت اس کی ہوجاتی ہے تو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں الرحیم بھی ہوں یعنی جو میری راہ میں کوشش کرتے ہیںان کی خاص طور سے مدد کرتا ہوں چنانچہ فرمایا ہے کہ بالمؤمنین رؤف رحیم( التوبہ :۱۲۸) اورایک دوسرے موقعہ پر اس کی اور بھی تشریح کی ہے کہ حقا علينا نصر المؤمنين (الروم:۴۸)یعنی جب صفت ربوبیت سے انسان کا دل خداہی کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کی رحمانیت کو دیکھ کر وہ دنیا سے قطع تعلق کر کے ہمارا ہی ہو جاتا ہے تو اس وقت ہم اس پر صفت رحیمیت کا پر تو ڈالتےہیں اور وہ ہمارے حضور میں محبوب ہو جاتا ہے اور اس وقت کے بعد اس کی مدد اور دستگیری ہم پر فرض ہو جاتی ہے اور ہم اس کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر میدان اور وادی میں اس کو فتح دیتے ہیں اور اس کے مخالفین کو ہلاک کرتے ہیں اور اس کے دوستوں کو عزت اور اقبال دیتے ہیں اور جو کوئی اس کا دشمن ہو وہ ہمارا دشمن ہو جا تا ہے اور ہماری غیرت اس کے لئے بہت بڑھ جاتی ہے.اور ہم اس کے لئے آسمان سے برساتے ہیں اور زمین سے نکالتے ہیں اور گویا یہ زمین و آسمان ہی نہیں رہتا بلکہ ایک اور زمین اور نیا آسمان ہم اس کے لئے پیدا کر دیتے ہیں اس کے بعد خدائے تعالیٰ نے ملك يوم الدین کی صفت بیان فرما کر بتایا ہے کہ جب وہ شخص ہمیں اس قدر پیارا ہوجاتا ہے تو پھر ہم اس کی شان اور مرتبہ کے مطابق ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ جس سے اس کے مخالفین ہلاک ہو جاتے ہیں اور فتح و نصرت ان لوگوں کے نام پر ہوتی ہے چنانچہ جیسا موقعہ ہو جسمانی طورسے خوار روحانی طور سے ان کو دنیا کا مالک بنا دیا جاتا ہے چنانچہ ایک اور جگہ پر فرمایا کہ ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَكَذَّبُوا۟ بِـَٔايَـٰتِنَا فَأُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ(الحج ۵۷-۵۸) ، یعنی جب کہ انسان ترقی کرتاکر تا ہمارا پیارا ہو جاتا ہے تو ہم اس کے اور اس کے مخالفین کے لئے ایک فیصلہ کا دن بناتے ہیں جس میں کہ ہم خاص طور سے اپنا جلال ظاہر کرتے ہیں اور ان کے درمیان فیصلہ کرتے ہیں چنانچہ جوہمارے نیک بندے کے احباب ہوتے ہیں وہ تو اس دن بڑے امن اور چین کی حالت میں ہوتےہیں اور مخالفین خائب و خاسر ہو کر غم و غصہ اور ناکامی اور ذلت کی آگ میں جلتے ہیں اور یہ دنیاہی ان کے لئے دوزخ ہو جاتی ہے.اور مومن اسی دنیا میں جنت کا مزہ چکھ لیتے ہیں چنانچہ فرمایا کہ لا

Page 240

خوفٌ عليهم ولا هم يحزنون (البقرہ: ۳۹) یعنی ان کو نہ کچھ خوف رہتا ہے اور نہ غم او ر وہ خدائے تعالیٰ کی عنایات کا خوشگوارپھل کھاتے ہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے کہ بہشتی کہیں گے کہ هذا الذي رزقنا من قبل (البقره :۲۶ )یعنی یہ مزہ تو ہم دنیا میں بھی کامیابی کے رنگ میں چکھ چکے ہیں جوکہ اب اگر مکمل طور سے اٹھارہے ہیں.غرض کہ ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اول تو اپنی کلّی صفات کامجملاً ذکر کیا ہے کیونکہ اللہ کالفظ ہی ان تمام صفات پر دلالت کرتا ہے جو کہ خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور جو ہرقسم کی نیکی پرمشتمل ہیں اور ہر قسم کی بدی سے مبّرا ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں مختلف جگہ پر آتا ہے کہ ان الله تواب رحيم( النور:۱۱) اور ان اللہ رءوف رحیم(النور:۲۱) سوره انفال میں ان اللہ سمیع علیم ، ق(الانفال: ۸ا)حج میں ان الله سمیع بصیر(الحج ۷۶) بقرہ میں ان الله شدید العقاب البقره :(۱۹۷) تو بہ میں ان اللہ علام الغیوب (التوبہ ۷۸ )مائدہ میں ان الله غفور رحیم( المائده: ۳۵)مجادلہ میں ان اللہ لعفو غفور (المجادله ۳)حج میں ان اللہ لھو الغنی الحمید – (الحج : ۶۵)زاریات میں ان اللہ ھو الرزاق( الذاریات : ۵۹) حج میں ان الله لقوی عزیز(الحج ۷۵،۴۱)ال عمران میں والله يحي ويمیت ( آل عمران : ۱۵۷) اور سورہ حشر میں اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُؕ هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىؕ (الحشر: ۲۴-۲۵) غرض یہ کہ اول تو لفظ اللہ میں مجملاً اور پھر رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ(الفاتحہ ۳-۴-۵ )میں ذرا کھول کر وہ تمام خوبیاں بیان کر دی گئی ہیں کہ جو اللہ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اور کل بدیوں سے اسے مبرّا کر دیا ہے سوجیساکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ سچے مذہب کی نشانی یہ ہے کہ وہ انسان کو خدائے تعالیٰ سے محبت پیداکرائے نہ کہ نفرت سو رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ( الفاتحہ ۳،۴،۵) سے بڑھ کر اور کوئی راہ نہیں کہ انسان کو خدا سے تعلق پیدا کروایا جائے.کیونکہ انسان فطری طور سے ایسا محبوب چاہتا ہے کہ جو خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور کوئی مذہب نہیں جس نے خدا کو ایساپاک اور پیار اور محسن دکھایا ہو جیسا کہ اسلام نے بتایا ہے اور چونکہ وہ ہستی جس نےاس کار خانہ کو اس خوبی سے چلایا ہوا ہے سب سے زیادہ کامل چاہئے اور سب صفات حسنہ اس میں پائی جانی چا ہیں تاکہ وہ ناقص نہ رہ جائے اس لئے سچے مذہب کا فرض ہے کہ وہ ان تمام صفات حسنہ کو پیش کرے اور خدائے تعالیٰ کو اصلی اورسچے رنگ میں لوگوں کو دکھائے نہ کہ ایسے رنگ میں

Page 241

کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت ہو مگر اس کی ناک کٹی ہوئی ہو یا اندھا ہو یا بهرا ہو یا کان ندارد یا ہاتھ پاؤں سے عاری ہو کیونکہ اگر کوئی مذہب خدائے تعالیٰ کو ایسے رنگ میں پیش کرے کہ اس میں صفات حسنہ کامل طور سے نہ پائی جائیں یا یہ کہ ان میں کسی قدر کمزوری رہ جائے یا بدی پائی جائے توایسامذ ہب بالکل جھوٹا ہے کیونکہ وہ نہ صرف خدا کو ناقص قرار دیتا ہے بلکہ نقص کو مان کر چونکہ خدا کا حادث ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے تقریبا ًخدا کا منکر ہی ہے.پس جیسا کہ ہم اوپر بتا آئے ہیں خدا ئےجہان و جہانیان نے اسلام میں قرآن شریف میں اپنی صفات حسنہ آپ ہی بتائی ہیں کیونکہ وہ غیر محدود ہے اور اس کی صفات کی کنہ اور اصلیت کو سوائے اس کے کوئی اور ہستی نہیں پہنچ سکتی کیونکہ اس کے سوا سب چیزیں محدود ہیں اور جیسا کہ میں اوپر ثابت کر آیا ہوں ان مذکورہ بالا آیتوں میں ان کا نچوڑ بیان فرمایا ہے اور کوئی نیک صفت نہیں جو کمال کو جاہتی ہو اور خدائے تعالیٰ میں اسلام نے ثابت نہ کی ہو مگر اس کے بر خلاف دیگر مذاہب میں ایسا نہیں ہے اور اگر ہے تو یہ بارثبوت ہمارے مخالفین پر ہے کہ ان کی الہامی کتب نے بھی خدائے رحیم کی صفات پرایسی روشنی ڈالی ہے اور اگر ایسا نہیں کیا اور میں دعوی ٰسے کہتا ہوں کہ قطعاً ایسا نہیں کیا تو پھر جبکہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی ان صفات کو جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں بیان ہی نہیں کیا تو لوگ خدائے تعالیٰ کو سمجھ ہی کیا سکتے ہیں یعنی جبکہ ان کو بتایا ہی نہیں گیا کہ خدائے تعالیٰ کون سی ہستی ہے اور اس میں کونسی صفات پائی جاتی ہیں تو پھر انسان کو اس سے تعلق پیدا کرانا کس طرح ممکن ہے ایک چیز جس کا زید کوعلم ہی نہیں وہ اس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے یہ ممکن ہے کہ ایک چیز ہی نہ ہو اور وہمی طور سےاس کی ایک تعریف کر کے انسان اس سے محبت کرنے لگے جیسے بعض لوگ کیمیا سے.لیکن نہیں ہوسکتا کہ ایک چیز کو انسان جانتاہی نہ ہو نہ وہمی طور سے نہ علمی طور سے اور نہ یقینی طور سے اور پھراس سے محبت بھی کرے اور تعلق پیداکرنے کی کو شش کرے.پس جبکہ غیرمذاہب خدا کی صفات پرروشنی ڈالتے ہی نہیں اور اگر ڈالتے ہیں تو اس کو نکٹااند هابہرا یابے دست و پابتاتے ہیں تو اسلام کے مقابلہ پر جو خدا کو کل صفات حسنہ کا متصف اور برائیوں سے مبرّا قرار دیتا ہے کیونکر ٹھہرسکتے ہیں پس اصل اور سچی بات یہی ہے کہ سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب خدا کو اس رنگ میں پیش نہیںکرتا کہ اس سے محبت ہو سکے بلکہ ان کے پیش کردہ اصول کے مطابق خدا سے گھن آتی ہے اورنفرت پیدا ہوتی ہے پس اسلام ہی ایک سچامذہب ہے.اس کے علاوہ انہی آیات سے ایک اور بھی بات نکلتی ہے جو کہ اسلام کی سچائی اظہر من الشمس

Page 242

کر دیتی ہے اور وہ یہ کہاالحمد للہ رَبِّ الْعَالَمِينَ میں خدائے تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ میں تمام عالموں کا رب ہوں یعنی خواہ کسی ملک کا باشندہ ہو یا کوئی زبان بولنے والا ہو یا کیسے اخلاق سے ہی متصف ہو سورج اور چاند اور دیگر ستارے اور پانی اور ہوا اور زمین اور آگ اور جمادات اور نباتات میں نے ہر قسم کے لوگوں کی ربوبیت کے لئے پیدا کر دیئے ہیں.کسی سے بخل نہیں کیا کیونکہ میں رب العالمین ہوں سو اسی طرح صاف بات ہے کہ جب سب دنیا میری بنائی ہوئی ہے اور میں نے ان کے لئے جسمانی آسائش اور آرام کے سامان مہیا کئے ہیں تو کیا ان کی روح لئے کچھ فکر نہ کروں گا سو جیسا کہ میں جسمانی عالم کا پرورش کرنے والا ہوں ایسا ہی روحانی عالم کا بھی ہوں جیسا کہ فرمایا کہ قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ۠ (الملک ۳۱)یعنی ان سے کہو کہ اگر تمہارا پانی سوکھ جائے تو کون ستھرا پانی عنایت کر تا ہے یعنی جبکہ تم کو اس جسمانی زندگی کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ضرورت ہوتی ہے تو خدا نازل کرتا ہے تو کیا روحانی زندگی جو ابدی ہے اس کے لئے الہام الہیٰ یا پانی نازل نہ کرے گا.پھر دوسری جگہ فرمایا کہ قل الروح من امر ربی (بنی اسرائیل :۸۶) یعنی کہہ دے کہ یہ الہام ووحی جو ہے یہ تو ربوبیت کی صفت کے ماتحت لازمی ہے اور ربوبیت سے ہی تعلق رکھتا ہے.پس جسمانی ربوبیت کو دیکھتے ہوئے اس کے کیوں منکر ہوتے ہو اور پھر قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ ان من امة الا خلافيها نذير (فاطر: ۲۵) یعنی کوئی قوم نہیں جس میں ہم نے اپنا مأمور نہ بھیجا ہوسواس آیت میں خدائے تعالیٰ نے بدلا ئل ثابت کیا ہے چونکہ ربوبیت عام ہے اس لئے جسمانی رنگ میں بھی عام ہے اور روحانی رنگ میں بھی یعنی ہر ایک قوم کے باشندوں کو جو الہام الہیٰ پانے کے مستحق ہوں الہام کیا جاتا ہے یعنی وہ رحمانیت ورحیمیت کے مقتضٰی کو پورا کرتے ہوئے يوم الدین میں پاس ہو جائیں تو ان کے لئے الہام الہٰی کا دروازہ کھلا ہے اور چونکہ یہ ربوبیت ہر زمانہ کیلئے ہے اسی لئے اسلام نے ہر زمانہ میں ایک مجد وبتلایا ہے تاکہ لوگ الہام کو ہر زمانہ میں دیکھتے اور آزماتے رہیں.پس بتاؤ کہ کیا وہ مذہب جو یہ بتاتا ہے کہ میں نے کسی زمانہ میں اپنے پیرؤوں کو خدا سے ملایا تھا سچا ہو گا؟ یا وہ جو کہتا ہے کہ میں ہروقت د کھا سکتا ہوں؟ اور کیا وہ مذہب جو خدائے تعالیٰ کی سب نعمتوں کو ہر زمانہ اور ہر مکان کے لئے عام کرتا ہے محبت کے قابل ہے یا وہ جو خد اکواب معطل مانتا ہے گویا کہ اب وہ بہرہ ہے.پسں اب میں گنجائش کے مطابق کافی طور سے لکھ چکا ہوں کہ اسلام ہی ہے جو انسان اور خدا کے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے اور انسان کے دل میں اس خالق حقیقی کی محبت کا فوارہ جاری کر دیتا '

Page 243

ہے اور اگر کسی اور مذہب کے پیرو کا اس کے بر خلاف یقین ہو تو وہ اس کے مقابلہ میں اپنی کتاب میں سے دعوی ٰاور دلائل پیش کرے ورنہ بے فائدہ جھگڑوں سے کیافائدہ.وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين خاکسار میرزا محمود احمد ( تشحیذ الاذہان ۱۹۰۹ء)

Page 244

نجات ۲ (منقول از تشحیذ الاذہان) از حضرت صاجزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 245

Page 246

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم دیباچہ مسیحیوں کی طرف سے ہمیشہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ نجات کی حقیقت کو ہی غیر مذاہب کےلوگ نہیں سمجھتے تو پھر اس کے حصول کے ذرائع ان کو کیونکر معلوم ہو سکتے ہیں.کیونکہ جو چیز کسی کومعلوم ہی نہ ہو.وہ اس کے حاصل کرنے میں کامیاب کیونکر ہو سکتا ہے مثلا ایک شخص نہیں جانتا کہ وکالت کا کوئی امتحان ہو تا ہے تو پھر وہ اس کے پاس کرنے کی تیاری کیونکر کر سکتا ہے.اگر کسی کو یہ بھی معلوم ہو کہ وکالت کا امتحان ہوتا ہے مگر وہ یہ نہ جانے کہ اس میں کیا کچھ پڑھایا جا تا ہے اور کون کون سی کتاب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے تو ایسے شخص سے اس کے پاس کرنے کی کیا امید ہو سکتی ہے.مرض کا علاج تب ہی ہو تا ہے کہ جب مرض کی تشخیص بھی ہو چکی ہو.اگر کوئی مرض کی حقیقت سےہی ناواقف ہے تو پھر اس کا علاج کیا خاک کرے گا.پس اس اعتراض کے ماتحت وہ کل مذاہب کوردّکرتے اور ان کے پیرؤوں کی بیوقوفوں پر ہنستے ہیں.مگردعویٰ اور دلائل میں بڑا فرق ہے.ایک انسان دعویٰ تو بہت کر سکتا ہے مگر ثبوت ہر ایک دعویٰ کا مشکل سے لا سکتا ہے.مگر ثبوت کے بغیر تو دعووں کی کچھ وقعت نہیں ہوتی.اس لئے اگر پادری صاحبان ہم پر نہیں تو ہم بھی بقول حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام یہی کہیں گے کہ ان تسخروامنا فانا تسخر منكم كما تسخرون- (ھود ۳۹) مگر چونکہ نجات کا مسئلہ ایک مہتم بالشان مسئلہ ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں رسالہ تشيحذ الاذہان میں سلسلہ وار ایک مفصل مضمون لکھ کر اس پر کچھ روشنی ڈالوں اور ثابت کروں کہ جو نجات کی حقیقت اسلام نے بتائی ہے کوئی مذہب اس تک نہیں پہنچ سکا اور یہ کہ کل مذاہب اس معاملہ میں بہت حد تک غلطی پر ہیں.وما توفيقي الا بالله العلي العظيم.

Page 247

ارادہ تو میرا اس مضمون پر کچھ لکھنے کامدت سے تھا.مگر ایک عرصہ سے طبیعت کچھ علیل رہی ہے.چنانچہ اول تو قریب ایک ماہ تک کسی قدر بخار ہو تارہا اور سخت سردر د کاردو رہ رہا.اب کوئی ہفتہ بھر سے کھانسی ہو رہی ہے.مگر اس خیال سے کہ آخر یہ کام کرنا تو ہے ہی خدا تعالیٰ کے بھروسہ پرشروع کرتا ہوں.اگر منشائے الہیٰ ہو گا تو پورا ہو رہے گا.اس علالت طبع کی وجہ سے ہی قدامت ماده کا مضمون بھی شروع نہ کر سکا.حالانکہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ مارچ تک شروع کر دیا جائے گا شایدایک دو ماہ اس میں اور توقف پڑ جائے.والله اعلم بالصواب چونکہ یہ مضمون سلسلہ وار نکلے گا( انشاء اللہ ) اس لئے جملہ خریداران رسالہ سے التجا ہے کہوہ اس کو سنبھال کر رکھیں تو آخر میں انشاء اللہ ایک چھوٹی سی کتاب بن جائے گی.اور ممکن ہے کہ کی وقت کوئی سعید روح اس سے فائدہ اٹھائے.وما علینا الا البلاغ راقم خاکسار مرزا محموداحمد

Page 248

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم نجات کافلسفہ تمہيدمیں اس مضمون کے شروع کرنے سے پہلے اسی قدر لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ چونکہ اس وقت غیرمذاہب کو اپنے مذاہب کی طرف بلانے والے تین ہی گروہ ہیں.اول مسلمان دوم مسیحی اور سوم آریہ اس لئے میں اس مضمون میں سب سے پہلے فلسفہ نجات پر جو کچھ اسلام نےروشنی ڈالی ہے.اس کو ایک حد تک مفصل بیان کروں گا.اور بعد ازاں مختصر طور سے غیرمذاہب کے بیانات پر کچھ تنقید کروں گا.اور سچے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے بعد غیرمذاہب کے دلائل کو توڑنے کی چنداں ضرورت بھی نہ ہوگی.کیونکہ جب اسلام کا دعویٰ دلیل قطعیہ سے ثابت ہو گیا.تو پچھروو سرے مذاہب آپ ہی باطل ہو گئے.اتنا لکھنے کے بعد میں اور امراو ر بھی کھول دینےضروری سمجھتا ہوں.دعوی بادلائل ہواول تو یہ کہ تینوں مذاہب جن کا میں ذکر کر آیا ہوں اپنے خیالات اوردعادی کی بناء ایک الہامی کتاب پر رکھتے ہیں کہ جس کی نسبت ان کایقین واثق ہے کہ وہ خدائے علیم و خبیرکی طرف سے ہے.پس جبکہ تینوں مذاہب کا یہی خیال ہے اور وہ اس پر پکے ہیں اور جو ان کی کتاب پر شک کرے اور اسے جھوٹا کہے وہ اس کو دروغ گو اور نادان کہتے ہیں.تو پھر ضروری ہے کہ ہر ایک مدعی اپنے مذہب کی طرف جو کچھ منسوب کرے اس کا دعویٰ اور دلیل اسی الہامی کتاب میں سے پیش کرے.کیونکہ جب وہ کتاب اپنے اندر کامل ہو اور ہر قسم کے دعاوی جو اس مذہب کے قیام کے لئے ضروری ہوں اس کے اندر موجود ہوں.اور نہ صرف دعادی ہی بلکہ دلائل بھی وہ خودہی دیتی ہو.کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک بات خد اتو بھول گیا اور اپنی کتاب میں درج کرنے سے قاصر رہامگر انسان اس کی مدد کے لئے اٹھا.اور اس نے اس

Page 249

خدا کے کام کو کامل کیا اور اس طرح سے وہ بوجھ جو خدا سے نہ اٹھ سکا وہ انسان نے اٹھایا اور خدا کواس مصیبت سے بچالیا.مثلا ًجب کفارہ کا مسئلہ مسیح صاحبان پیش کریں تو ضروری ہے کہ پہلےتوریت و انجیل سے اس کا دعویٰ پیش کریں اور پھر اس کے دلائل بھی انہیں کتابوں سے پیش کریں.کیونکہ جب ایک نادان آدمی تک اپنی بات کے ساتھ دلائل بیان کرتا ہے تو کیونکر ہو سکتاہے کہ خدا تعالیٰ جو کوئی فعل لغو نہیں کرتا ایک ایسا بڑا مسئلہ جس پر بنی نوع انسان کی نجات کادارومدار ہو اپنی کتاب میں بیان نہ کرے اور ایک مدت کے بعد انسان کو یہ مسئلہ اپنی عقل سے بناناپڑے.یا یہ کہ د عویٰ توالہٰی کتاب میں ہو کہ کفارہ کا مسئلہ بھی ایک سچا اور پکا مسئلہ ہے.مگر اس کےلئے کوئی دلیل نہ رکھی ہو اور انسان کو مجبوراً اس کے لئے دلائل تلاش کرنے پڑیں ، اور خدا تعالیٰ کی مدد کے لئے اسے دن رات کوشش کی ضرورت ہو.اور پھر کہیں جا کر وہ دعوی ٰجو خدا تعالیٰ نےکیا تھا انسان کی مدد سےتکمیل کو پہنچے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کا انسان حامی اور مددگار بن جائے.پس ضروری ہے کہ کل ایسے مسائل جن پر انسان کی نجات کا دار و مدار ہوان کا دعویٰ الہامی کتاب میں موجود ہو اور اس کے ساتھ دلائل بھی دیئے گئے ہوں ورنہ جیسے مقدمہ والوں کووکیلوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے.ایسے ہی اس کی کتابوں کے لئے بھی ایسے وکلاء کی ضرورت پڑے گی کہ جو خدا تعالیٰ کے بے دلا ئل دعاوی کو ثابت کریں.پس جس مذہب میں کوئی مہتم بالشان مسئلہ اعتقادی یا عملی جس سے نجات کا تعلق ہو ایساپایا جائے گا کہ جو اس کی الہامی کتاب میں نہیں تو یا تو ہم کہہ دیں گے کہ اس مسئلہ کا تمہاری کتاب کو انکار ہے یا یہ کہ و الہامی کتاب ناقص ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف نقص کو منسوب کرنا ایک سخت گناہ ہے اس لئے مجبوراً کہنا پڑاتاکہ یا تو وہ کتاب الہامی ہی نہیں اور یا انسانی دستبرد سے تباہ ہو گئی ہے ورنہ اگر انسان کو اجازت ہو کہ جو کچھ چاہےالہای کتاب کی طرف منسوب کر دے اور کوئی ضرورت نہیں کہ اس میں ہو یا نہ ہو تو دنیا میں شرارت کی کوئی حد نہیں رہے گی.اور جس کا جو خیال ہو گا وہ اسے خدا کی کتاب کی طرف منسوب کردے گا.اور اعتراض پر جواب دے گا کہ جیسے تم نے چند عقیدے بنا لئے اور الہامی کتاب میں ان کی کوئی اصل نہیں ویسے ہی میں نے بھی بنا لئے تو اس طرح ایمان اٹھ جائے گا اور امن جا تارہے گا اور مذہب کی سچائی کا کوئی معیار نہ رہے گا اور الہامی کتابوں کی کوئی حقیقت اور وقعت نہ رہے گی.پس ہر ایک مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان اس کو اپنی کتاب میں دکھائے اور پھر اس کےوالا کل بھی اسی کتاب میں سے دکھائے.اور اگر دعویٰ دکھا دیا ہے تو پھر اس کے لئے دلائل بھی اسی

Page 250

کتاب میں سے دکھائے تاکہ انسان پر اس الہامی کتاب کی عزت ثابت ہو.مثلا ًیہی نجات کا مسئلہ ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ اول تو ایک مسیح اپنی کتاب میں سے دکھائے کہ نجات بھی کوئی چیزہے اور اگر ہے تو وہ کیا ہے.اور پھر اس کے حصول کے کون سے ذرائع ہیں اور یہ تمام باتیں جو بیان کی گئی ہوں.تو ان کے ساتھ دلائل بھی دیئے گئے ہوں ورنہ یہی کہنا پڑے گا کہ مدعی سست اور گواہ چست.پس اس مضمون میں انشاء اللہ جو اسلامی اصل پیش کروں گا اسے قرآن شریف سے پیش کروں گا.اور اس کے دلائل بھی قرآن شریف سے ہی دوں گا اور اس کی مدد میں اگر کوئی حدیث رسول الله ﷺہوگی تو اسے بھی تفسیر کے طور پر پیش کروں گا.اور میرے خیال میں مذہبوں کافیصلہ کرنے کے لئے اس سے زیادہ آسان اور کوئی راہ نہیں.ورنہ اگر انسان من گھڑت اعتقاد بنانے شروع کردے.تو پھر مذہب تو کچھ چیز نہیں رہتا.اور نہ الہامی کتاب کی تھی کوئی ضرورت رہتی ہے اور بات بھی کیسی لغو ہے کہ جس خدا نے ہم کو پیدا کیا اور ہم ماں کے رحم میں تھے تو وہاں بھی ہماری پرورش کے سامان تیار کئے پھر ہم پیدا ہوئے تو یہاں ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے سے تیارتھا.بڑے ہوئے تو ہر قسم کے خورونوش کے سامان مہیاپاۓ جس نے ان کے لئے سورج اور رات کے لئے چاند اور ستارے بنائے.پھرایساخد اجو قادر ہے جو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے اور ہرقسم کے وساوس اس پر روشن ہیں.کیا اس نے ہماری نجات کے ذرائع نہیں پیدا کئے اور اپنی کتاب میں بھی ان عقائد کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جس پر انسان کی نجات کا دارومدار ہے.اور اس کے لئےاسے اور لوگوں سے التجاکرنی پڑی کہ تم ہمارے لئے کچھ اعتقادات بناؤ کہ جن پر ہم ایمان لائیں اوران کے لئے کچھ دلائل بھی تلاش کرو کہ تاہم چشموں کی نظروں میں سبک اور ذلیل نہ ہوں.اگر مذہب کی یہی اصلیت ہے تو پھر یہ مذہب آج بھی گئے اور کل بھی گئے.میرے دعویٰ کی دلیل میں اس دعوی ٰکو بھی بغیر دلیل کے پیش کرنا پسند نہیں کرتا.اس لئےتو قرآن شریف سے اس کا ثبوت دیتا ہوں کہ قرآن شریف نےاس اصول کو تسلیم کیا ہے اور اپنی سچائی کا اسے دار ومدار ٹھہرایا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْۙ-اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِۚ-فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ( المؤمن : ۵۷) ترجمه (وہ لوگ جو کہ اللہ کی آیتوں کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس (خدا کی طرف سے) آئی ہو.بحث میں لگے

Page 251

رہتے ہیں ان کے دلوں میں بڑی بڑی خواہشیں ہیں.جن کو وہ کبھی نہ پہنچیں گے.پس اللہ کی پناہ مانگتا رہ- وہ سب سننے والا اور سب دیکھنے والا ہے.ناقل) اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مخالفین اسلام پر یہ حجت قائم کی ہے کہ جب تم مذاہب کے متعلق گفتگو کرتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ دعوی ٰاور دلیل پیش کیا کرو.مگر جب کہ تم کوئی دلیل پیش نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہو تو دعویٰ باطل سے کیا حاصل بلا دلائل مباحثہ کا کیا نتیجہ.پس اس آیت میں خدا تعالیٰ نے کل مذہبی مباحثوں کاآسان اور سہل طریق بتادیا ہے کہ اگر فیصلہ چاہو تو سہل راہ یہ ہے کہ دلائل پیش کرو جو کہ تمہاری کتب میں دیئے گئے ہوں نہ کہ جس کی جو مرضی ہوئی عقیدہ گھڑ لیا اور شتر بے مہار کی طرح بولتےگئے.مسیحی صاحبان میں اگر یہ عادت داخل ہوئی.تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جدت پسندی اورآئے دن کی ایجادوں کی وجہ سے ہوئی کیونکہ ان میں جہاں ہزاروں ہزار موجد اور سائنس کے علماءپیدا ہو گئے.وہاں پادریوں نے بھی اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے آئے دن نئے نئے عقیدے اورنئے نئے دعاوی ایجاد کرنے شروع کئے.مگر یہ معلوم آریہ صاحبان نے ان ایجادوں میں کہاں سےکمال حاصل کیا.غرض کہ یہ طرز خواو مسلمان اختیار کریں یا مسیحی یا آر یہ بہت ہی خطرناک اور ضرررساں ہے کہ جس کے دل میں جو کچھ آیا وہ کہہ دیا.جس کا ثبوت تو ثبوت د عویٰ تک کتاب میں سےنہ نکلے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا جو ایک بے عیب ہستی ہے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی بھی طاقت نہ رکھے اور اپنا منشاء بیان کرنے سے قاصر رہے اور انسان کا فرض ہو کہ جو دعاوی خدا تعالیٰ سے بیان کرنے میں رہ گئے تھے یا جن کے لئے اسے کوئی دلیل نہیں سمجھ میں آئی.ان دعاوی کوتلاش کرے اور دلا ئل بھی اپنی طرف سے پیش کرے.میرے خیال میں تو اس اعتقاد کا شخص خدا تعالیٰ کے علم اور طاقت کا منکر ہے اور مذاہب کا مصلح نہیں بلکہ مفسد ہے.دیکھو قرآن شریف نے کیسے بین طور سے فرمایا ہے کہ مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (یوسف: ۱۱۲)یعنی قرآن شریف کو ئی جھوٹی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو سچا کرنے والی ہے اس کو جو کہ آگے آیا ہےاور اس میں تو ہر ایک بات جو کہ دین کے متعلق ہے مفصل دعویٰ اور دلیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے.اور اس میں گمراہوں کے لئے ہدایت راستی کے طریق ہیں اور یہ تو ایمانداروں کے لئے ایک رحمت کا موجب ہے.ایسا نہیں کہ اس کو مان کر انسان ایک مصیبت میں پڑ جائے اور آگے من گھڑت دعاوی اور دلائل کے ساتھ اس کی مدد کرنی پڑے.

Page 252

علاوہ اس کے قرآن شریف ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ -وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق ۱۷) اس آیت میں خدا تعالیٰ نےقرآن شریف کی سچائی کا ثبوت دیا ہے اور فرمایا ہے کہ قرآن شریف کی سچائی کا یہ ثبوت ہے اوراس کے خدا کی طرف سے ہونے کی یہ دلیل ہے کہ وساوس نفسانی کو کوئی انسان تو سمجھ ہی نہیں سکتا.کیونکہ کسی کو کیا معلوم ہے کہ دوسرے کے دل میں کیا کیا خیالات گزرتے ہیں اور کون کون سی بات اس کے دل میں کھٹکتی ہے.اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ خالق ہی ہے.پس جبکہ خالق ہی سمجھ سکتاہے تو قرآن شریف کے ہماری طرف سے ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ہم نے کل و سادس انسان کا اس میں بادلا ئل ردّکیا ہے.اور یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.اس لئے ثابت ہوا کہ کلام جو ہے تواسی ہستی کی طرف سے ہے کہ جو خالق ہے کل انسانوں کی تبھی تو اس نے ہر ایک کے خیال کا اس میں ردکر دیا.ورنہ غیر تو غیر انسان تو اپنے بیوی بچے کے خیالات پر بھی آگاہی حاصل نہیں کر سکتا.پھر کس طرح ممکن تھا کہ کوئی انسان ایسی کامل کتاب اپنی طرف سے بنائے کہ جس میں کل وساوس انسان کاردّموجود ہو.اور باہر سے دعویٰ یا دلائل مانگنے کی کچھ ضرورت نہ پڑے.پس اس آیت میں قرآن شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ کل و عوے او ر دلائل میرے اندر موجو و ہیں.اور میں ایک کامل کتاب ہوں اور کیا تم کا بھی وسوسہ اور شیطانی خیال ہو اس کا جواب تدبیر کرنے والے انسان کےلئے مجھ میں موجود ہو گا.اور کوئی اعتراض بھی ذات و صفات الہٰیہ پر نہ پڑے گا کہ جس کا جواب نہ دیاگیا ہو اور کوئی حرف گیری اسلامی عقائد پر نہ کی جائے گی کہ جس کاردّ نہ کیاگیا ہو.پس یہ کام خداکے سوا اور کسی کا ہو نہیں سکتا اس لئے یہ کتاب ضرور الہامی ہے.اب میں کافی طور سے بتا چکا ہوں کہ قرآن شریف نے بھی یہ دعوی ٰکیا ہے کہ ہر ایک الہامی کتاب کا فرض ہونا چاہئے کہ کل ضروری باتوں کا اس میں بیان ہو.اور وہ بغیر دلائل کے بیان نہ کی گئی ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے دلائل بھی آنے چاہئیں.اگر قرآن شریف کےبتائے ہوئے اس پاک اصول پر دنیا کار بند ہوتی تو میں خیال کرتا ہوں کہ بہت سے جھگڑے خود بخودہی طے ہو جاتے اور کچھ لمبے چوڑے مباحثات نہ کرنے پڑتے.مگر افسوس کہ چونکہ غیر مذاہب اس نعمت سے خالی ہیں.اس لئے حتی المقدور وہ اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.مگرمیں نے اس پر اس لئے زور دیا ہے کہ شاید کسی سعید روح کو کچھ فائدہ پہنچے اور وہ سوچے اور غورکرے کہ کیا وجہ کہ ہم خدا کی مد د کو آ ئیں.اور وہ خود اپنی الہام کردہ کتاب کو ایساناقص ر کھے کہ

Page 253

دلائل تو دلائل دعاوی تک ہم کو خود تیار کرنے پڑیں.اور اس صورت میں چرخدا تعالیٰ کا ہم پر کیااحسان ہوا.یہ تو ہماری اپنی کوششوں کا نتیجہ ہوا کہ لوگ خدا کو سمجھنے لگے ورنہ اگر ہم کوشش نہ کرتے تو خدا کی کتاب ایک بے فائدہ چیز کی طرح رہ جاتی.مگر اسلام ہی ایک مذہب ہے کہ کہتا ہے کہ تم ہماری مخلوق ہو ہم کو تمہاری مدد کی کچھ ضرورت نہیں، ہم نے اپنی کتاب کو کامل بنایا ہے.اور دعاوی اور دلائل میں ناقص نہیں رکھا.پس اگر تم ہدایت پاتے ہو تو یہ اس لئے کہ تم ہم پر احسان کرتے ہو بلکہ اس لئے کہ ہم نے تمہارے لئے سچائی کو ایسابّین کر کے کہہ دیا ہے کہ سوائے نادان یا شریر آدمی کے کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا.پس جس رنگ سے اسلام کو خدا تعالیٰ نے دنیا کےسامنے پیش کیا ہے.اس طرح اسلام پر اس کے ماننے والوں کا کوئی احسان نہیں.بلکہ اسلام کا ان پرہے.لیکن دوسرے مذاہب کا دارومدار ان کے پیرؤوں پر ہے.اگر انہوں نے ان کی خبر گیری کی اوراپنے پاس سے ان کے لئے دلائل مہیا کئے تب تو وہ کچھ بچ ر ہے.ورنہ جسم بے جان کی طرح زمین پرجا پڑے جو کہ ایک سچے مذہب کی نشانی نہیں.یہ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تمام دعاوی اور ان کے دلائل قرآن شریف سے ہی بیان کروں گا.ماتؤيقي الا بالله العلي العظيم یا تو اسلام میں نجات ہے یا کسی مذہب میں نہیں مذاہب میں جھگڑا کیوں ہےدوسری بات جو تمید ہی میں بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ ہے کہ تمام مذاہب کا جو جھگڑا پڑتا ہے.تو صرف ایک دوسرےکو دعوت کرنے کی وجہ سے ہی پڑتا ہے.مثلا ً مسیحی جب تمام دنیا کے مذاہب کے پیرؤوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں.اور اپنے تم سب کو ہی سچا سمجھ کر دوسروں کو بھی اس کے قبول کرنے کی تلقین کرتے ہیں تبھی دوسرے مذاہب کو بھی اس کے ردّکرنے کی ضرورت پڑتی ہے.اگر دنیا میں کل مذاہب ایسے ہی ہوتے کہ وہ ایک دوسرے کے پیرؤوں کو اپنے اند ر ملانے کی طرف توجہ نہ کرتے.یا انہیں ممنوع ہوتا تو ہرگز یہ ضرورت پیش نہ آتی کہ ایک مذہب دوسرے مذہب کی اس زور شورسے تردید کر تا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان فرقوں میں جو دو سرے مذاہب کے پیرو ان کو اپنے اندرشامل نہیں کرتے.اس قسم کے مباحثات پیش نہیں آتے.مثال کہیں نظر نہیں آئے گا کہ یہودی اورسناتن و محرم کے پیرو ایک دوسرے کے بر خلاف سختی سے مذ ہبی مباحثات کر رہے ہوں.مگر یہودیوں

Page 254

مسیحیوں یا یہودیوں اور مسلمانوں میں اس قسم کے مباحثات بہت سے مقام پر مشاہدہ میں آسکتے ہیں.مگر پھر بھی کامل جوش کے ساتھ نہیں کیونکہ مسیحی یا مسلمان تو یہودیوں کو اپنے اندر شامل نہیں کرتے.مگر جب یہی مباحثات مسلمانوں اور مسیحیوں یا مسیحیوں اور آریوں کے درمیان رکھےجائیں تو بڑی کثرت سے پائے جاتے ہیں.اور اس کی یہ وجہ ہے کہ تینوں قومیں ایک دوسرے کواپنے اند ر شامل کر لینا جائز نہیں بلکہ ثواب کا کام بھی ہیں اور اسی لئے چاہتی ہیں کہ جس طرح ہو اپنے مد مقابل کو بھی اپنا ہم زبان بنالیں ایک مسلمان چاہتا ہے کہ کل مسیح بھی مسلمان ہو جائیں.اور ایک مسجی چاہتا ہے کہ کل مسلمان بھی مسیح ہو جائیں.اور اسی طرح ایک آریہ ان دونوںگروہوں کی نسبت ایسے ہی خیال رکھتا ہے.گو میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ تینوں کےمحرکات مختلف ہوں.مثلا کوئی تو اس لئے چاہتا ہو کہ خدا تعالیٰ کا فضل میری طرح سے دیگر بنی نوع انسان پر بھی نازل ہو.اور وہ بھی حقیقی نجات سے بہرہ ور ہوں.اور دوسرااس لئے کہ مشرق میں ہمار اقدم خوب مضبوطی سے جم جائے.اور تیسرا اس لئے کہ ہمارے حق میں ووٹ دینے والوں کی کثرت ہو جائے.اور کونسلوں میں ہمارے ممبر کثرت سے ہوں.اور ہماری پولیٹیکل عزت بڑھ جائے.مگر اس جگہ ہم کو اس سے بحث نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے محرکات کیا ہیں.بلکہ ہمارا منشاءصرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی خیال کے ماتحت یہ تینوں مذاہب تمام دنیا کو اپنے خیالات میں رنگین کرناچاہتے ہیں.اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں تینوں گروہوں میں آپس میں زیاده مباحثات ہوتے ہیں.پس اگر ثابت ہو جائے اور مسیح اس بات کو مان لیں کہ ہمارے مذہب میں دوسرےلوگوں کا شامل کرنا جائز نہیں.تو فوراً ان کا یہ جوش و خروش جا تار ہے.اور سب پادری اپنے اپنےگھروں کو واپس چلے جائیں.اور اگر آریہ اپنے سناتن دھرمی بھائیوں کی طرح شدھی کا ناجائز ہونا یقین کر لیں تو ابھی ان کی یہ تمام تیزی جاتی رہے.اور یہ جس قدر مذہبی رسالے اور اخبارنکل رہے ہیں ایک ایک کر کے سب بند ہو جائیں.اور کل مذہبی مباحثات یک قلم موقوف ہوجائیں.پس جب یہ بات ہے تو میں بھی اس مضمون کے شروع کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرناضروری سمجھتا ہوں کہ آیا مسیحیوں کو ہم سے مباحثات کرنے اور ہم کو اپنے مذہب میں شامل کرنےکی اجازت بھی ہے کہ نہیں.اگر نہیں تو پھر کسی اور بحث کی ضرورت نہیں رہتی.اور اسی طرح

Page 255

آریوں کی نسبت دیکھنا ہے کہ کیا ان کے مذہب نے انہیں دوسرے لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنےکی اجازت بھی دی ہے یا نہیں.اگر نہیں تو پھر آریوں سے بھی ہم کو بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی.پس نجات کے سوال پر بحث ہی تب ہو سکتی ہے کہ اول یہ سوال حل کیا جائے کہ یہ تینوں مذاہب تبليغ عام کے مجاز بھی ہیں یا نہیں.اگر ان میں سے کوئی مذہب تبلیغ عامہ کا مجاز نہیں توپھر وہ ان مباحثات میں شامل نہیں ہو سکتا.اس لئے اول تو ہم مسیحیوں کی کتاب انجیل میں دیکھتے ہیں کہ کیاان کو عام منادی کی اجازت بھی ہے یا نہیں.جس کے بعد پھر نجات کے مسئلہ پر بحث کی ضرورت ہوگی.انجیل سب دنیا کے لئے نہیںاول میں مسیحیت کو دیکھتا ہوں کہ اس کے متعلق یسوع کا کیاحکم ہے کہ آیا اس کی تلقین غیر مذاہب کے لوگوں کو کی جائے یا نہ – سو اول ہی جو حکم مجھے انجیل میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کچھ اعظ مقرر کر تا ہے اوران کو حکم کرتا ہے کہ ”غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا.بلکہ پلے اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جاؤ اور انہیں منادی کرو اور کہو کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی “امتی باب ۱۰ آیت ۷،۶،۵) چنانچہ اس آیت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یسوع غیر قوموں میں منادی کو ناجائز سمجھتا ہے کیونکہ وہ حواریوں کو خاص طور سے منع کرتاہے کہ تم پوری قوموں میں ہی منادی کرو مگر غیر قوموں میں مت جاؤ گویا کہ وہ ایسے نجس اور ناپاک لوگ ہیں کہ ان کو اپنے مذہب کی تلقین کرنی تو الگ رہی ان کے پاس جانے سے بھی انسان ناپاک ہو جاتاہے.اس لئے جس قدر ممکن ہو ان سے دور رہناہی مناسب اور پسندیدہ ہے.پس جبکہ یسوع ہی غیر قوموں کی نسبت یہ حکم پاس کر تا ہے تو پھر آج مسیح صاحبان کاکیاحق ہے کہ وہ اس پیغام کو جو یسوع خاص بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیٹروں کے لئے لایا تھا کل دنیا کےسامنے پیش کریں.یسوع کی اس طرح خام طور سے تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کی عادات اور مزاجوں سے اسے اس قسم کا خوف ضرور تھا کہ یہ لوگ جرأت کر کے غیرمذاہب والوں کو بھی کہیں وعظ نہ شروع کر دیں.سو اس نے اس خرابی کو روکنے کے لئے شروع میں ہی نصیحت کردی کہ دیکھنا غیرمذاہب کے لوگوں میں جاکر نصیحت مت کرنا اور میری تعلیم کو ان کے سامنے مت پیش کرنا بلکہ یہی نہیں ان کے پاس تک نہ پھٹکنا پھر تعجب کی بات ہے کہ جب یسوع کا یہ فیصلہ ہے تو پھر پادری صاحبان کس برتے پر دنیا میں انجیل کی منادی کرتے پھرتے ہیں.اور لوگوں کو جائز و ناجائز

Page 256

طریق سے اپنے مذہب میں شامل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں.ایک بات اس جگہ پر اور قابل غور ہے کہ اگر مسیح صاحبان فرما دیں کہ یہاں تو صاف لفظ آیا ہے کہ پہلے اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جاؤ.اس میں سے ہمیشہ کی ممانعت کہاں سےنکال لی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے یہ ضرور آتا ہے کہ جب تک یہودیوں کی کھوئی ہوئی بھیڑوں میں منادی نہ ہو جائے تب تک غیر قوموں میں منادی نہ کی جائے.اب اس کی دو ہی صورتیں ہیں.یا تواس کے یہ معنی ہیں کہ ان کو جب تک اپنے اندر شامل نہ کر لو تب تک دو سرےلوگوں کی طرف رخ نہ کرو.اور یا یہ معنی ہیں کہ انہیں ایک دفعہ خبردید و کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک ہے.اور پھر تمہارا کچھ فرض نہیں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں معنی لے کر بھی مسیحیوں پرسے الزام دور نہیں ہو تا.کیونکہ اگر یہ معنی لئے جائیں کہ جب تک یہودی مان نہ لیں اس وقت تک غیر قوموں میں تبلیغ نہ کی جائے تب بھی مسیحیوں پر اعتراض ہے کہ اب تک یہودی دنیامیں باقی ہیں.جب تک وہ کل کے کل تمہاری منادی میں نہ آ جائیں تب تک غیر قوموں میں منادی کرناسراسرنا جائز ہے.اور یسوع کے حکم کے ماتحت جب تک ایک یہودی بھی یہ دنیاپر موجو ہے.تب تک مسیح کسی اور کو اپنے مذہب کی تلقین نہیں کر سکتے.پس ان کا ہم لوگوں کو ابھی انجیل سنانا قبل از وقت ہے.پہلے اپنے خدا کے اکلوتے بیٹے کے علم کے ماتحت کل یہودیوں کو مسیح بنالیں تو چھر ہماری طرف رخ کریں.اور اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ نہیں صرف ایک دفعہ منادی کر دینی کافی تھی.آگےکوئی مانے یا نہ مانے.اس سے کچھ غرض نہیں.یہ اس کی اپنی دیانت اور امانت پر منحصر ہے.تو پھر بھی یہ اعترا ض پڑ تا ہے کہ پیسوع کی کھوئی ہوئی بھی ہیں تو وہ تھیں کہ جن کو بخت نصرير و شلم کے علاقہ سے لے گیا تھا.چنانچہ بائبل پڑھنے والوں سے مخفی نہیں ہے کہ اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے.اور وہ تمام ملک شام اور اس کے آس پاس پھیلے ہوئے تھے.چنانچہ جب ان میں شرارتیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں.اور اللہ تعالیٰ کے حدود کو انہوں نے تو ڑ دیا.اور دنیا میں بجائے امن قائم کرنے کے فسادمچانے لگے.تو بابل کا بادشاہ بخت نصران پر حملہ آور ہوا.اور خدا نے اس کے ہاتھوں ان کو سزادی چنانچہ بخت نصران کے دس قبیلوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے آیا.اور ان کو افغانستان وغیرہ ممالک میں پھیلا دیا (چنانچہ افغان اور کشمیری انہیں کی نسلوں میں سے ہیں) اور یروشلم اور اس کے گردو نواح میں صرف دو قبیلے رہ گئے.سورہ دس قبیلے جو بخت نصر کی قید میں پڑ کر اپنے وطن سے دور جا پڑے.وہ بنی

Page 257

اسرائیل کی گم شدہ بھیٹریں کہلائے.اور انہیں کے لئے مسیحؑ اپنے حواریوں کو حکم دیتا ہے کہ پہلے تم اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے پاس جا ؤمگر بر خلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں.کے حواریوں نےان گم شدہ بھیڑوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی.بلکہ یسوع کے صلیب پر چڑھائے جانے کے بعدہی فوراً غیر قوموں کی طرف متوجہ ہو گئے.جو کہ قطعاً ناجائز تھا.پس اگر صرف منادی کے معنی ہی لئےجائیں تب بھی تو کام نہیں چلتا.کیونکہ حواریوں نے یسوع کے حکم کے خلاف کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھی نہیں توجہ کی.اور ان غریبوں کا خیال تک نہیں کیا.بلکہ مالدار قوموں کے پھانسنے کی طرف متوجہ ہو گئے.پس ان معنوں کی رو سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ کل یورپ و امریکہ کے مسیحی بے فائدہ اپنے آپ کو مسیح کہتے ہیں کیونکہ جب تک حواری کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش نہ کر لیتے.ان میں تبلیغ کرنا ہی ان کے لئے ناجائز تھا.اور یسوع کی اس کے لئے ممانعت تھی.پس یورپ اور امریکہ کے لوگ تو ایشیا کے مسیح بنانے کی فکر میں ہیں.اور انجیل سے معلوم ہو تا ہے کہ خودوہ بھی مسیح نہیں ہیں.دوم مرقس باب ۷ آیت ۲۷،۲۶ میں لکھا ہے کہ ایک عورت جس کی لڑکی پر بھوت سوار تھایسوع کے پاس آئی اور یہ عورت یونانی تھی.اور اس نے آکر اپنی لڑکی کے چنگا ہونے کی درخواست کی.پھر یسوع نے اسے کہا کہ پہلے فرزندوں کو سیرہونے دے.کیونکہ فرزندوں کی روٹی لے کےکتوں کے آگے ڈالنالائق نہیں\".پس اس جگہ سے بھی صاف معلوم ہو تا ہے کہ مذہب کی تلقین توالگ رہی.یسوع تو ان سے معمولی مہربانی سے پیش آنا تک پسند نہیں کرتا.بلکہ کہتا ہے کہ تم کتے ہو.تمہارے آگے میں اپنے فرزندوں کی روٹی کیونکر ڈال دو.پس ان آیات کو دیکھتے ہوئے بھی کون کہہ سکتا ہے کہ یسوع کامنشاء دیگر اقوام میں تبلیغ کرنے کا بھی تھا.سوم حزقیل باب ۳۴آیت میں ہے کہ’’ میں اس کو جو کھویا گیاڈھونڈول گا.اور اسے جو ہانکا گیا پھر لاؤں گا.اور اس کی ہڈی کو جو ٹوٹ گئی ہے باندھوں گا اور پیار کو تقویت دوں گا ‘‘اس میں ایک پیشگوئی معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے بارہ گھرانے اکٹھے کئے جائیں گے.اور ان میں ایک نبی بھیجا جائے گا کہ جو کمزوروں کو طاقتور اور بیماروں کو ضعیف کردے گا.اور اس کے ہاتھ پر پھربنی اسرائیل کی جماعت ایک ہو جائے گی.چنانچہ بائبل کے حاشیہ پر اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس پیشگوئی کا ذکر متی باب ۱۸ آیت ۱۰میں بھی ہے.جس کے دیکھنے سے یہ عبارت نظر آتی ہے کہ ” ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈ کے بچارے\" جس سے معلوم ہوا کہ حزقیل نبی نے جو

Page 258

پیشگوئی کی تھی.یسوع اسے اپنی نسبت بتاتا ہے.اور لوگوں پر حجت قائم کرتا ہے کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ حزقیل نبی نے ایک پیشگوئی کی تھی.کہ ایک نبی آئے گا- جو کھوئے ہووں کو ڈھوندے گا.پس جب میں اس کام کے لئے آگیا ہوں.تو پھر میرا انکار کیوں کرتے ہو.پس معلوم ہوا کہ خودیسوع بھی اپنا کام بنی اسرائیل کے بارہ گھرانوں کی تلاش بتاتا ہے.پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ جس کا کام تھابنی اسرائیل کی بھیڑوں کو ڈھونڈنے کا.وہ لگ جائے یورپ کی بھیڑوں کی تلاش میں.کیا وہ افسر عقلمند سمجھا جاتا ہے کہ گورنمنٹ تو اسے سوڈان پر حملہ کرنے کے لئے بھیجے اور وہ جاپان پر حملہ کر دے.اور کیا ایسانو کر اعتبار کے قابل ہو سکتا ہے کہ جسے کہاتو جائے کہ پینے کے لئےسرد پانی لاو اور وہ منہ دھونے کے لئے گرم پانی لے آئے.یا وہ دکاندار لین دین کے قابل سمجھاجائے گا کہ جس سے ٹوپی منگوائی جائے اور وہ جوتی بھیج دے.پس کس طرح ممکن ہے کہ یسوع توبھیجا جائے بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں مگر وہ اس کام کو چھوڑ چھاڑ کر یورپ کی طرف متوجہ ہو.مگر چونکہ یہ کام ایک بہت ہی ناقص عقل اور کو تہ اندیش انسان کا ہے.اس لئےیسوع کی طرف ہم اس کو منسوب نہیں کر سکتے.کیونکہ دوسرے مقامات سے صاف معلوم ہوتاہےکہ وہ غیر قوموں میں تبلیغ کو برا جانتا تھا.پس ہم یہی کہیں گے کہ یسوع کے صلیب دیئے جانے کےبعد کسی وقت یہ بدعت نکلی کہ فیر قوموں میں مسیحیت کی تبلیغ شروع ہوئی جو کہ بائبل کی تعلیم کےبالکل بر خلاف تھی.کیونکہ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یسوع صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیٹروں کے لئے ہی تھا ورنہ باقی دنیا سے اس کا کچھ کام نہ تھا.چنارم متی باب ۵ آیت ۱۷ سے ۲۰ تک میں ہے کہ یہ خیال مت کرو کہ میں تو ریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسان اور زمین ٹل نہ جائیں.ایک نقطے یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹے گا.جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.پس جب کوئی ان محکموں میں سے سب سے چھوٹے کو ٹال دیوے.اورویساہی آدمیوں کو سکھاوے آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلائے گا.پر جوکہ عمل کرے اور سکھاوے وہی آسمان کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہلائے گا.اس آیت میں یسوع نے بیّن طور سے اپنا کام بتادیا ہے.کہ میں تو ریت سے ایک نقطہ اور ایک شوشہ تک مٹا نہیں سکتا اور نہ مٹانا چاہتا ہوں.اور کوئی حکم جو توریت میں ہو.اس کو منسوخ کرنا میرے اختیار سے بالاہے.یا میں ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا.اور یہ کہ نہ صرف توریت بلکہ علاوہ توریت کے مجموعہ بائبل میں

Page 259

جتنے نبیوں کی کتب ہیں.ان میں سے کسی کتاب کے کسی حکم کا بھی انکار کرنے یا اسے منسوخ کرنےکے لئے میں مبعوث نہیں ہوا بلکہ میرا تو یہ کام ہے کہ میں ان احکام کو پورا کروں.اور جن باتوں پرلوگوں نے عمل چھوڑ دیئے ہیں.ان پر ان سے عمل کرواؤں اور جو جو غفلتیں ان میں پھیل گئی ہیں.ان کو دور کریں.اور پھر موسیٰؑ کے زمانہ کی طرح یہودیوں کو توریت کا پکامطیع اور فرمانبردار بناؤں.اور اگر کوئی ایک حکم کبھی مجھ سے چھڑوانا چا ہے، تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا.اور جیسے توریت اور دوسرے انبیاءؑ کی کتب میں مذکور ہے.اسی پر عمل کروں گا.اور اپنے پیرؤوں سے عمل کرواؤں گا.بلکہ وہ کہتا ہے کہ توریت کے احکام سے تو ایک شوشہ کاٹل جانا بھی اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے کہ آسمان و زمین ٹل جائیں.اور دنیا غارت ہو جائے.پس ممکن ہے کہ ایک دم میں تمام زمین و آسمان برباد ہو جائیں.مگر توریت کے کسی حکم کا ٹلنایا منسوخ ہونا محال اور بالکل محال ہے.پس اس آیت سے بہت سے مسئلوں کا خود بخود ہی حل ہو جاتا ہے.مگر اس وقت تو ہم کو صرف اس معاملہ سے تعلق ہے.کہ آیا مسیحیوں کو غیر قوموں میں تبلیغ کرنے کی اجازت بھی ہے یا نہیں.سو جبکہ خود مسیح کہتا ہےکہ میں توریت یا دوسرے نبیوں کے مقولوں میں سے کسی کو بھی ردّ کرنے نہیں آیا.تو صاف بات ہے کہ ہم یہودیوں میں دیکھ لیں کہ وہ کیا اس کے متعلق رائے رکھتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہو تا ہے کہ توریت و دیگر صحف انبیاء ؑنے یہودیوں کو اپنے مذہب کی تلقین تو الگ غیرقوموں سے میل ملاپ کرنے تک کو منع کیا ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پوری غیراقوام کو بہت نفرت سے دیکھتے ہیں.اور نجات کو اپنے ہی اندر مخصوص رکھتے ہیں، اور اپنے سوا دوسری قوموں کو نفرت سے غیر مختون کہتے ہیں.اور اگر ان میں یہ تعلیم نہ ہوتی تو شاید مسیحی تعلیم بڑھنے بھی نہ پاتی اور وہیں کیا وہیں رہ جاتی.مگر چونکہ یہودی تو لوگوں کو اپنے اندر شامل نہ کرتےتھے مگر مسیحی کر لیتے تھے.اس لئے ان کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی.غرضیکہ یہودیوں میں غیرقوموں کو اپنے اندر شامل کرنا ایک سخت گناہ خیال کیا جاتا تھا.اور اس علم کے بر خلاف کرنا ایک بڑاگناہ سمجھا جاتا تھا.بلکہ جو ایسا کرے خود اس کے ساتھ تعلق رکھنا بھی ایک گناہ جانتے تھے.تو اس صورت میں مسیحؑ کے اپنے قول کے مطابق ہی کہ میں توریت کے احکام کا ایک شوشہ مٹانے یامنسوخ کرنے نہیں آیا.بلکہ اسے پورا کرنے آیا ہوں.چاہئے تھا کہ حواری با جن لوگوں نے غیرمختون قوم کو اپنے اندر شامل کیا وہ اس کام سے رکتے اور بچتے.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اور انکے اس فعل سے انجیل کی عام منادی کا جواز نہیں نکلتا بلکہ نا فرمانی اور محسن کشی سمجھی جاتی ہے.کتنے

Page 260

ظلم کی بات ہے کہ یسوع جس کام کے لئے آیا تھا اور جس کا وہ بار بار اعلان کرتا ہے اس کو ترک کرکے اپنے من مانے کام شروع کر دیئے گئے ہیں.توریت اور مصحف انبیاء سے غیر قوموں کی منادی منع تھی.مسیح ان کی سچائی کو قبول کرتا ہے.پھر بتاؤ کہ کس حکم سے غیر قوموں سے تعلقات پیدا کرنےاور ان میں تبلیغ کرنے کا فتوی ٰملا.دوسرے یہ کہ نہ صرف توریت کی نسبت نہیں بلکہ مسیحؑ توفقیہوں کے اقوال کی نسبت بھی کہتا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ کرو پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ نہ کرو.چنانچہ فقیہی اور فریسی تو اس کام کو بہت برا کہتے تھے.سو ان کے اقوال کے مطابق بھی حواریوں کو ایساکرناناجائز تھا.کیونکہ خودیسوع نے کہا ہے کہ فقیہیوں اور فریسیوں کے اقوال پر عمل کرو.اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ یہودیوں میں غیر قوموں میں تبلیغ کرنا منع تھا مجھے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں.خود پطرس رسول کے قول سے یہ بات ثابت ہوتی ہے.چنانچہ اعمال باب ۱۰ آیت ۲۸ میں اس رسول کی بابت لکھا ہے کہ اس نے ایک سردار کو جو یہودی نہ تھا.کہا کہ\" تم جانتے ہو کہ یہودی کو بیگانے سے صحبت رکھنی یا اس کے ہاں جانا روا نہیں‘‘ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حواری بھی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہودی کو دوسرے سے محبت رکھنی روا ہیں.اور اپنا مذہب اسے تلقین کرنا نا جائز ہے.پس بموجب اس قاعدہ کلیہ کے چوبیسوع نے مقررفرمایا تھا کہ میں ایک شوشہ تک تو ریت سے نہ مٹاؤں گا.مسیحیت کی تلقین غیر قوموں میں کرنی ناجائزتھی اور ہے.پھر اعمال باب اا آیت اسے ۳ تک لکھا ہے کہ ”اور رسولوں اور بھائیوں نے جو یہودیہ میں تھے ، سناکہ غیر قوموں نے بھی خدا کا کلام قبول کیا.اور جب پتھرسں یروشلم میں آیا تو مختون اس سے یہ کہہ کر بحث کرنے لگے.کہ تو نامختونوں کے پاس گیا اور ان کے ساتھ کھایا \" اس آیت سےبھی معلوم ہوتا ہے کہ یسوع کے صلیب پانے کے بعد تک حواریوں کا یہی خیال تھا کہ نا مختونوں اورغیر قوموں میں تبلیغ ناجائز ہے.جس سے یہودیوں کامذہب خوب معلوم ہو جاتا ہے، اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ یسوع نے صلیبی واقعہ تک اپنے پہلے حکم کو غیر قوموں میں تبلیغ نہ کرنا موقوف نہیں کیاتھا.اس سے بھی زیادہ کھلی یہ بات ہے کہ اعمال باب ۱۱ آیت ۱۹ میں چند رسولوں کی نسبت لکھاہےکہ وہ \"پھرتے پھرتے فینیک دکپرس اور انطاکیا میں پہنچے.مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سناتےتھے جس سے خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جا تا ہے کہ یہودیوں میں غیر قوموں کو ہدایت کرتا

Page 261

سخت ممنوع تھا.پس خور حواریوں کے اقوال اور افعال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں میں غیر قوموں میں تبلیغ کرنا منع تھا.اور چوکلہ خود یسوع نے کہا ہے کہ میں توریت اور دوسرے انبیاء کے احکام کا ایک شوشہ تک نہیں مٹاؤں گا.بلکہ وہ ابد تک قائم رہیں گے تو پھر کسی حواری کا یا ان کی کونسل کا کوئی نہیں کہ وہ اس قانون کو بدل سکیں خواہ کسی خواب یا الہام کی ہی بناء پر ہو کیونکہ جس کی نسبت خود خدا کا بیٹا (نعوذ باللہ) کہتا ہے کہ وہ قانون کو ابد تک نہ بدلیں گے ان کو بدلنا کسی پارس یا شمعون کے رو یایا الہام کی بناء پوری طرح درست نہیں ہوسکتا.ورنہ دوہی صورتیں ہیں یا تو یہ مان لیا جائے کہ یسوع کا علم ناقص تھا اور یا یہ کہ مذکورہ بالا کلمات انجیل میں پیچھے سے مل گئے ہیں ان دونوں حالتوں میں انجیل کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پنجم ایک اور دلیل کا یہاں لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ یسوع ایک موقعہ پر حواریوں کو فرماتا ہے کہ \" وہ چیز جو پاک ہے.کتوں کو مت رو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکو کہ وہ انہیں پامال کریں.اور پھر کر تمہیں پھاڑیں \" امتی باب ۷ آیت ۶) اس آیت میں یسوع نے کیسے پر زور اور جوش دلانے والے الفاظ میں حواریوں سے التجا اور استدعا کی ہے کہ دیکھو اپنے جوشوں کو دباؤ اور نرمی سے کام لو میں جو تم کو تعلیم سکھاتا ہوں وہ موتیوں کی طرح ہے.اسے ضائع مت کرو.اسے غیر قوموں کے سامنے پیش مت کرو.کیونکہ جیسے موتیوں کی قدر کتے اور سئور نہیں کر سکتے.اسی طرح یہ لوگ بھی اعلیٰ باتوں کی قدر پہچانے سے عاری ہیں.اور اگر تم ان کے سامنے یہ تعلیم پیشں کرو گے.تو جیسے سور موتیوں کو پاؤں میں روند ڈالتے ہیں.اسی طرح سے یہ لوگ اس تعلیم کو تباہ کر دیں گے.اور اس کی خوبی کو خاک میں ملا دیں گے.اور اس میں اپنی طرف سے بہت سی باتیں ملا دیں گے.یہاں تک کہ وہ موتی جو تم ان کے سامنے پیش کرو گے.وہ ان مسلے ہوئے موتیوں کی طرح ہو جائیں گے جو زمین پر روندے گئے ہوں اور ان میں اور مٹی میں کچھ فرق نہ ہو سکے گا.اور نہ صرف وہ اس تعلیم کو خراب کردیں گے.بلکہ تم پر اور مجھ پر ایسے ایسے الزام باندھیں گے کہ پھر چنے کی کوئی راہ نہ ملے گی.پس کیسی سچی یہ تعلیم تھی جو یسوع نے دی.اور کیا ہی پاک وہ نصیحت تھی جو اس نے کی مگر افسوس اس دن پر کہ جب حواریوں نے یا (میرے خیال کے مطابق) ان کے بعد اور لوگوں نے یسوع کے ان درد بھرے کلمات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یونائیوں اور رومیوں پر یہ مذہب پیش کیا.اور ماتم اس قوم کے لئے جس نے اپنے محسن اپنے نجات دہندہ اپنے مہربان اپنے استاد کے ارشاد '

Page 262

بلکہ وصیت کو یوں خاک میں ملا دیا.اور بت پرست قوموں کے سامنے مسیحیت کو پیش کیا.وہ لوگ جن کی گھٹی میں ہی بت پرستی پڑی ہوئی تھی وہ کب اس مذہب میں داخل ہو کر اسے ترک کر سکتےتھے.اگر پہلے محبت اور غضب اوروقت اور قسمت کے بت پجتے تھے.تو اب انہوں نے یسوع اورمریم کے بتوں کے آگے سر جھکادینے اور اسی طرح وہ تعلیم جو توحید سکھاتی تھی سب سے زیادہ بت پرستی کی تلقین کرنے والی تعلیم ہو گئی اور وہ یسوع جس نے کہ قوم کی خاطر بڑے بڑے دکھ اٹھائےتھے.اس کو انہوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ ملعون قرار دیا (نعو؎ذ باللہ ) اور اسی طرح پہلےنوشتوں کا کام پورا ہوا ’’کہ اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ ڈالو کہ وہ انہیں پامال کریں.اور پھر کرمیں پھاڑ یں ‘‘.یسوع کے احسانات فراموش کر دیئے گئے.اس کی کل نیکیاں بھلا دی گئیں.اس کی کل مہربانیاں نظرانداز کر دی گئیں.اور وہ قوم کا مسلح بغیر کسی جرم کے ملعون قرار دیا گیا اور اس کے پیروان نے اس کی تعلیم کو غیر قوموں کے سامنے پیش کر کے اسے پھڑوایا اور گالیاں دلوایں.سچ ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہوتا ہے.مگر اب کیا ہو سکتا ہے.یسوع کے اپنے ہی شاگردوں نے سادگی کی وجہ سے بت پرستوں کے آگے موتی ڈال دیئے جنہوں نے ان کو روندا اورخود ان کے استاد کو پھاڑا.کیا اس سے زیادہ کوئی حملہ ہو سکتا ہے کہ ایک فدائے قوم اور نیک آدمی کو من مانے عیش اڑانے کے لئے ملعون قرار دیا گو پراٹسٹنٹ فرقہ نے کچھ اصلاح کی ،گمر کس طرح ممکن تھا کہ نو شتوں کا لکھا ٹل جائے.اب میں اس مسئلہ کو لمبا کرنا نہیں چاہتا میں انجیل سے اچھی طرح ثابت کر آیا ہوں کہ مسیحی تعلیم کا غیر قوموں میں پھیلانا نہ صرف ممنوع ہے بلکہ خطرناک گناہ ہے.ہیں جبکہ انجیلی نجات سوائےیہودیوں کے اور لوگوں کے لئے ہے ہی نہیں تو مسیحی بننا بالکل لغو اور بیہودہ فعل ہے.اور ان کانجات کے مسئلہ پر لوگوں سے بحث کر ناہی فضول.آرین تعلیم بھی عام نہیںاس کے بعد میں آرین تعلیم کو لیتا ہوں مگر اسے میں زیادہ لمبانہیں کرنا جاتا اور اور اگرکروں تو بھی بڑی مشکلات ہیں کیونکہ یہ لوگ تاریخ سے نابلد رہے ہیں.ان کی کوئی بات سچی ملتی ہی نہیں.جو مرضی آئے یہ کہہ دیں و ہ سب سچ.مگر غیرمذاہب والے اگر ان کی پچھلی کتابوں یا قدیم نشانات سے کوئی واقعہ نکال کر ثابت کردیں تووہ سب بالکل غلط اور نادرست ناقابل اعتبار ہوتا ہے.وید کا کوئی ترجمہ صحیح نہیں اور نہ ہو سکتا ہے.پنڈت دیانند نے جو کچھ لکھا اس میں دشمنوں کی دست برو ہمیشہ ہو تی رہی.تاریخ دانی کا یہ حال ہے

Page 263

کہ ان کے ایک اخبار نویسں لکھتے ہیں کہ بکرماجیت سے بھی پہلے ایک راجہ تھا.جس نے سرحد پر حملہ کر کے مسلمانوں کی لڑکیاں چھینی تھیں گویا کہ آنحضرتﷺ ا سے بھی سات آٹھ سو برس پہلےمسلمان سرحد پر رہا کرتے تھے.مگر پھر بھی چونکہ تنقید کرنی پڑتی ہے.اس لئے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری ہے مگر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.صرف اس قدر کافی ہے کہ بقول ان کے دنیا کروڑوں برس سے چلی آرہی ہے.تواتنی مدت میں صرف آج پنڈت دیا نند کو یہ بات سوجھی کہ وید سب دنیا کے لئے ہے.اور جس قدررشی منی گزرے ہیں سب اس سمجھ سے خالی تھے.تو پھر یہ بڑا پاپ اور ظلم ہے کہ وہ تعلیم جو ساری دنیا کے لئے تھی وہ پرماتما نےصرف ہند میں مخصوص کر چھوڑ ی اور یہی نہیں بلکہ صرف آرین قوم کے لئے خاص کردی جب کروڑوں برس سے تمام ہند ورشی ،منی میں کہتے آئے ہیں تو آج پنڈت صاحب کو ہم کس طرح مان لیں کہ یہ درست کہہ رہے ہیں.کیوں نہ کہیں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو دیکھ کر آپ کو بھی شوق چڑھ آیا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں.کیوں نہ وید کو بھی تمام دنیا کے لئےبتائیں بے شک ایک رنگ میں تو یہ تمام عالم کے لئے ہو سکتا ہے.چنانچہ ہندوؤں کی بعض کتابوں سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمالیہ سے پرے کچھ نہیں.بس دنیاو ہاں ختم ہے.تو اس صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید سب دنیا کے لئے اترا تھا.کیونکہ جب دنیا ہندوستان کا ہی نام ہے.تو بیشک و ید سب دنیا میں شائع ہو چکا ہے اور ہمیشہ سے اس کی تعلیم دنیا کے (یعنی ہندوستان کے ہر کونے میں پھیلی ہوئی ہے.اور اس بات کے مان لینے میں ہم کو بھی کچھ مضائقہ نہیں.لیکن اگر دنیا سے مراد کل عالم لیاجائے تو پھرہم دید کو کل دنیا کے لئے نہیں مان سکتے اور نہ خود ہندوؤں کی کتابیں تم کو اس بات کیاجازت دیتی ہیں.مگر اصل بات یہی ہے کہ جب سے آرین لوگ ہندوستان میں آئے ہیں اور جب سے کہ ویدتصنیف ہوئے ہیں.اسی وقت سے ان کی تعلیم کو ہندوؤں میں خاص رکھا گیا اور شودروں کے لئےایسے سخت قانون بنائے گئے کہ ان کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے سوادو سرے لوگوں کوکیا سمجھتے تھے.چنانچہ حکم تھا کہ اگر کوئی شودر وید کو سن لے یا خود بھی نہ سنے اس کے کان میں ہی آواز پڑ جائے تو اس کو سخت سزائیں دی جائیں اور کان کاٹ دئیے جائیں آنکھیں نکال دی جائیں وغیرہ وغیرہ- او رو ید کو چھونے پر تو بہت ہی سخت سزائیں ملی تھیں.پی ایسی حالت میں یہ کہنا کہ ویدسب دنیا کے لئے ہے کہاں تک ٹھیک ہو سکتا ہے.جب آریوں کے بزرگوں کا عمل اور ان کی کتب

Page 264

ہم کو یہ واقعات بتا رہی ہیں.تو پھر زبان سے وید کو کل عالم کے لئے کہہ دینے سے تو کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا.اگر کوئی تعلیم و ید کی ایسی ہوتی کہ جس میں سب دنیا کی ہدایت کا اقرار ہوتا تو آخر اس اربوں برس میں کوئی رشی منی با او تار تو اس ودھرم کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا اور کہتا کہ وید سےمعلوم ہو تا ہے کہ سب دنیا کو ہدایت کرو پھر اس کتاب کو اپنے گھر میں کیوں چھپائے بیٹھے ہو.اوراگر جب سے دید نازل ہوئے ہیں.سب ہندو دھرم سے دور اور ہدایت سے خالی ہی رہے ہیں.اور کسی کو بھی ہندوستان سے باہر کے لوگوں کی حالت پر رحم نہیں آیا.اور نہ وید کی تعلیم کی حمایت کاہی جوش پیدا ہوا تو ایسی کتاب جس نے دو ارب برس میں ایک کو بھی ہدایت نہ کی.آج اس سے ہم کیافائدہ اٹھا سکتے ہیں.اور ہماری نجات کے لئے وہ کیا کر سکتی ہے.غرض کہ و ید نہ تو تمام دنیا کے لئے ہونے کا دعوی ٰکرتا ہے.اور نہ ہی اس کی وجہ بتا تا ہے اورعلاوہ اس کے وید اب تک ہندوستان سے باہر نہیں پھیلایا گیا.اور ہمالیہ سے باہر اس کی تلقین نہیں ہو گئی.اور شاستروں سے معلوم ہو تا ہے.کہ وید کو غیر قومیں سنیں تک نہیں.اور خودہند و بزرگوں کاعمل یہی ظاہر کرتا ہے چنانچہ آریہ قوم کے سوا جو کہ بہت تھوڑی تعداد میں ہے.اور لاکھوں سےنہیں بڑھتی کل فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ وید کا باہر نکالنا اور غیر قوموں کو اپنے اندرشامل کرنا بالکل ناجائز ہے.اور گناہ عظیم ہے.تو اس صورت میں آریوں کا نجات کادر و از تمام دنیا کے لئے کھلا ثابت کرنا بالکل غلط ہے.اور ان کو کوئی حق نہیں کہ غیر قوموں میں اپنے مذہب کی تلقین کریں.اسلام سب دنیا کے لئے ہےمیں دیکھتا ہوں کہ تمہید بہت لمبی ہوتی جاتی ہے.مگر پھر بھی ضروری ہے کہ میں قرآن شریف سے اس بات کا دعویٰ دکھاؤں کہ وہ سب دنیا کے لئے ہے.اور یہ کہ آنخضرت ﷺ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئے خاتم النبین ہو کر مبعوث ہوئے ہیں.اور اب تک جس کو تیرہ سو برس گزر گئے ہیں یا آئندہ آپ کی غلامی سے منکر شخص کی رسائی در بارالہٰی میں نہیں ہو سکتی.چنانچہ اول ہی اول جو آیت ہم کو سورة فاتحہ میں نظر آتی ہے و ہ الحمد للہ رب العٰلمینہے جس کے معنی ہیں کہ سب تعریف ہے اس کے لئے جو سب دنیا کا رب ہے.یعنی پرورش کرنےوالا ہے.جس میں کہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ شکر کرو اس خدا کا جس نے وہ کتاب بھیجی کہ جس نے پہلی سب کتابوں کو موقوف کر کے جو مختلف قوموں کے لئے تھیں اس کتاب کو ارسال کیا کہ جو ربوبیت

Page 265

عالمین کی صفت کے ماتحت اب سب دنیا کی ربوبیت کرے گی.اور خواہ کسی مقام کا رہنے والا آدمی ہو سب کے لئے اس نے اپنے دروازوں کو کھول دیا ہے.اور کسی دکھیارے کو رد نہیں کرتی اور کسی سائل کو دھتکارتی نہیں.نہ کسی ملک کے ساتھ اپنے آپ کو مخصوص کرتی ہے.چنانچہ یہ وہ آیت ہے کہ مسلمان اس کو دن میں کم سے کم چالیس دفعہ تو پڑھ ہی چھوڑتے ہیں.علاوہ اس کے سورة انعام کے رکوع ۲ میں خدا تعالیٰ رسول اللہ اﷺکو فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کہہ دے کہ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَؕ (الانعام :۲۰) یعنی وحی کیا گیاہے میری طرف یہ قرآن تا کہ میں تم کو اس سے ڈراؤں اور اس کو ڈراؤں جس کو یہ پہنچے جس کامطلب یہ ہے کہ یہ قرآن ہر ایک شخص کے لئے ہے.اور کسی قوم یا ملک کی خصوصیت نہیں جس کے کان میں ہی پڑے وہی مخاطب ہے اور کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ میں تو اس کے مخاطبین میں سےنہیں ہوں.بلکہ جس کو یہ پہنچ جائے اسی کو آنخضرتﷺ کے دعوی ٰکی طرف جھکنا پڑے گا.اورسستی یا شرارت پر کوئی عذر نہ سناجائے گا.چنانچہ اس آیت میں ایک پیشگوئی بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آنحضرتﷺ کو فرماتا ہے کہ قرآن شریف کے منکرین کے لئے جو سزا ئیں بتائی گئی ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ جو شرارت کرے گا اور اس کتاب سے ٹھٹھا کرے گا وہ ہلاک ہو گیا اور دنیامیں ذلیل ہو گا.وہ صرف اہل عرب کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں نہ جائے گا وہیں اس کے مقابلہ کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے.اور ان کے لئے بھی نذیر ہو گا.چنانچہ اس لئے فرمایا کہ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَیعنی تا کہ انذاری پیشگوئی تم کو بھی اور جن کو یہ پہنچے ان کو بھی سنادی جائے.اور یہ قرآن شریف کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور آیت ہے کہ جس کے مقابلہ میں اورکوئی کتاب نہیں ٹھہر سکتی چنانچہ آتھم اور لیکھرام نے اس پیشگوئی کے مطابق اپنا انجام دیکھ لیا اوراس پیشگوئی کے شاہد بنے اور دیگر لوگوں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا.پس علاوہ اس کے کہ ااس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ قرآن شریف سب دنیا کے لئے ہے.یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جس کو یہ پہنچے اس کے لئے یہ انذار ساتھ موجود ہے.کہ اس شہنشاہی پروانہ سے اگر ٹھٹھا کرو گے.تا آنخضرتﷺ اسی لئے آئے تھے کہ سب دنیا کو کہہ دیں کہ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ علاوہ ازیں سورۃ اعراف رکوع ۲۰ میں ہے کہ قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ (الاعراف: ۱۵۹» یعنی ان کو کہہ دے کہ ایک دوکےلئے نہ کسی خاص قوم کے لئے اور نہ ہی کسی خاص ملک کے لئے بلکہ میں دنیا کے ہر گوشہ کے..(۱۵۹ :

Page 266

باشندوں کے لئے مبعوث ہو کر آیا ہوں.اور میرا بھیجنے والا اللہ ہے.جو کہ آسمان و زمین کا بادشاہ ہے اور مالک ہے.اس لئے میری بات کو ہلکا خیال مت کرو بلکہ یاد رکھو کہ اگر تم نے میرا مقابلہ کیا تو لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ.ملک اسی کا ہے وہ تم سے فورا ًچھین لے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا جس نے مقابلہ کیا وہ ذلیل ہوااور علاوہ اور ذلتوں کے ملک بھی خالی کرناپڑاپھر آپﷺ کے متبعین حضرت ابو بکر ؓصدیقؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے زمانوں میں بھی جو کوئی سامنے آیا ذلیل ہؤا اور خائب و خاسر ہوا.چنانچہ اس وقت تو اور رنگ تھا اب بھی پادری صاحبان نے جس وقت سے اسلام کے بر خلاف منہ زوری کرنی شروع کی ہے اس وقت سے یورپ سے پادریوں کی حکومت مٹتی جاتی ہے.اور اب صرف چند جگہ ہی رہ گئی ہے.ورنہ کل یورپ میں ان کا سکہ چلنا بند ہو گیا ہے.وہ طاقتیں جو کروڑوں روپیہ ان کی مدد کے لئے خرچ کرتی تھیں اب رو پیہ دیناتو الگ خودان سے وصول کرنا چاہتی ہیں.انگلستان سےان کا دخل اٹھ گیا.فرانس و بیلجیئم سے ان کا دخل اٹھ گیا.جرمن سے ان کو جواب ملا.ایشیا میں ان کی ذلت ہو گئی تو امریکہ نے ان کی اطاعت کا جوا اتار کر پھینک دیا.چنانچہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھو کہ جس وقت سے اسلام کے بر خلاف انہوں نے زہر اگلنا شروع کیا ہے اور قرآن شریف کی ہتک پر کمرباندھی ہے مجھی سے ان پر تباہی آنی شروع ہوئی ہے اور کہاں تو بادشاہ تک پادریوں سے ڈرتےتھے.اور کہاں مذہب کے بر خلاف فیصلے ہو رہے ہیں اور اگر پادری صاحبان کچھ چوں چرا کریں توگورنمنٹ تو الگ عوام تک بھی گر جا پھونک دیتے ہیں.لمبی تحقیقات تو تاریخوں سے ہو سکتی ہے.میں ایک واقعہ یہاں لکھ دیتا ہوں جس سے میری تصدیق ہوتی ہے.ڈاکٹر جے.ایف آرنلڈ مسلم مشن سوسائٹی کے آنریری سیکرٹری کی کتاب اسلام اور عیسائیت سے جو کہ ۱۸۷۴ء میں چھپی ہے.ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے اول مسلمانوں کے بر خلاف اگر کوئی باقاعدہ سوسائٹی تیار ہوئی ہے.تو وہ ۱۸۲۲ء میں بیل کے مقام پر ہوئی ہے (جو کہ غالباً سوئزرلینڈ میں ہے چنانچہ اس سوسائٹی نے ایک ہزار سے زائد مشنری اودھر ادھر بھیجے تھے.مگر یہ سوسائٹی بہت جلد ۱۸۳۳ء میں گورنمنٹ کے حکم سے ملک بدر کی گئی.چنانچہ ڈاکٹر فنڈز جو میزان الحق کا مصنف ہے.وہ بھی اس گروہ کےساتھ یورپ سے بھیجا گیا تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فوراً اس سوسائٹی کو مفید قرار دلوا کر ذلت کے ساتھ ملک بدر کرا دیا.مگر چونکہ پادری صاحبان نے نصیحت حاصل نہیں کی اس لئےآج ہم دیکھتے ہیں تو یورپ میں کہیں.یو نیٹرین فرقہ کا زور ہے.جو یسوع کی ابنیت پر سو سو قہقہہ لگاتا •

Page 267

ہے.تو کہیں فری تھنکر پیدا ہو گئے ہیں کہ جن کا کام ہی پادری صاحبان کو گالیاں دینا اور ان کے رازپوشیدہ کو ظاہر کرتا ہے.مگر یہ باتیں بھی کچھ نہ تھیں اگر یورپ مسیحیت پر قائم رہتامگر جو لوگ یورپ سے دنیا کو نجات دینے کے لئے نکلے تھے.ان کے اپنے وطن میں اسیّ فی صد سے بھی زیادہ لوگ دہریہ ہو گئے ہیں.اور اسی وجہ سے جہاں جہاں پادریوں کا کچھ اختیار تھا.ان کو اس سے بےدخل کر دیا گیا ہے.یہ اس آیت کے ماتحت ہے کہ که ملك الموت والأرض بیشک سب کچھ خدا ہی کا ہے.وہ اس پاک کتاب پر ٹھٹھا کرنے والوں کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑتا مگر اس کو جو توبہ کرے.تیسری آیت اس بارے میں سور سباکے رکوع میں ہے کہ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (سبا:۲۹ ) یعنی ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا مگر صرف اس لئے کہ اب تمام دنیا کے لئے ایک نبی کی ضرورت تھی اور وہ اس بات کی محتاج تھی کے بجائے الگ الگ نبی آنے کے ایک ہی نبی آئے جو کامل اور مکمل ہو جس کے وجود پر تمام دنیا کی ہدایت کا دارو مدار ہو اور جس کے توسط سے لوگ اس خالق حقیقی تک پہنچیں کہ جس تک پہنچناتمام بزرگوں سے بزرگ تر اور تمام انعامات سے بڑا انعام ہے.اس لئے ہم نے تجھ کو اس کام کے لئے چنا اور بشیر و نذیر بنا کر مبعوث کیا.مگر اکثر لوگ جانتے نہیں اور تیری بے کسی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ شخص جو ایسا کمزور اور غیر مشہود ہے.اس کی تعلیم اور ہدایت تمام دنیا میں کس طرح پہنچ گی.اور کس طرح تمام دنیا کے لئے بشیر نذیر ہو جائے گا.ایک ہمارا مقابلہ تویہ کر نہیں سکتا.پھر سب دنیا میں اس کے پیرو کی طرح پھیل جائیں گے اور یہ چند آدمی پڑھتے پڑھتے کل دنیا کا احاطہ کسی طرح کرلیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے خیالات و اقوال کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ جب مخالفین اسلام نے آنحضرت ﷺ کا یہ قول سنا کہ میں سب دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہوں اور سب کےلئے بشیر و نذیر ہو کر آیا ہوں اور میری تعلیم ہر جگہ پھیل جائے گی تو وہ حیران ہوئے ويقولون متی هذا الوعد إن كنتم صدقین (سبا:۳۰) یعنی اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا اور کب آپ کی بشارت اور آپ کا انذار تمام دنیا میں پھیل جائے گا.اور آپ کے دشمن ذلیل اور پیرو باعزت ہوں گے.اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ قُلْ لَّكُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ (سبا: ۳۱) ان کو کہہ دو کہ دوسروں سے تم کو کیا اپنی سنو کہ تمہارے لئے ایک یوم (جوالہامی کتب میں ایک قلیل مدت سے مراد ہوتی ہے ) کی مدت مقرر ہو چکی ہے.اب اس مدت کے 11

Page 268

اندر اندر تم کو تو انذار سنایا جائے گا.اور موقعہ بد ر پر تم کو اس انکار کی حقیقت معلوم ہو جائے گی.باقیوں کا معاملہ خدا کے سپرد ہے جب ان کا موقعہ آۓ گاان تک بھی یہ کلام پہنچ جائے گا.ہاں تمہاراواقعہ ان کے لئے ایک عبرت کا کام دے گا.چنانچہ ان لوگوں نے بدر کے موقعہ پر اپنی قسمت کا انجام دیکھ لیا اور کچھ مدت کے اندر اندر ہی اسلام دنیا میں پھیل گیا جو کہ ایک عقلمند کے لئے ایک بڑی آیت ہے.جو مذکورہ بالا آیت کے مطابق پوری ہوئی.پھر چوتھی آیت میں جس میں آنحضرت اﷺکے عہدہ کی میعاد بیان کی گئی ہے کہ کب تک آپ ﷺکا مذہب قائم رہے گا.یہ ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (سورة احزاب ۱ ۴) یعنی نہیں ہیں آنخضرت ﷺ تمهارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن آپﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.اور رسول بھی کیسے کہ خاتم النبیّن ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے.اور کوئی ذرہ بھی اس کے علم سے باہرنہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت تﷺ خاتم النبین ہیں.اور آپﷺ کےبعد اب کوئی شخص نہیں آئے گا کہ جس کو ثبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے.اور وہ آپ ﷺکی تعلیم کومنسوخ کردے اور نئی شریعت جاری کرے بلکہ جس قد ر اولیاء اللہ ہوں گے اور متقی اور پرہیز گارلوگ ہوں گے سب کو آپﷺ کی غلامی میں ہی ملے گا جو کچھ ملے گا.اس طرح خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ آپ ﷺکی نبوت نہ صرف اس زمانہ کے لئے ہے.بلکہ آئندہ بھی کوئی نبی اور نہیں آئے گا بلکہ اب ہمیشہ کے لئے آپ کی ہی تعلیم جاری رہے گی.اور یہی لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوگی جو اس سےباہر نکلے گا وہ درگاه الہٰی میں نہیں پہنچ سکے گا.اس جگہ ایک اور نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍعَلِیْمًا۠مگربظاا ہر اس جگہ اس کا جوڑ کوئی معلوم نہیں ہو تا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر باتیں بیان فرمائی ہیں وہ ظاہر ہیں.ان کے لئے یہ بتانا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے کچھ ضروری نہ تھا.سو اصل بات یہ ہے کہ یہاں آپ کے خاتم النبیّن ہونے کے متعلق ایک پیشگوئی ہے.اور یہ کہ آنحضرتﷺ سے پہلے دنیا میں سینکڑوں نبی گذرے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں.اورجنہوں نے بڑی بڑی کامیابیاں دیکھیں بلکہ کوئی صدی نہیں معلوم ہوتی کہ جس میں ایک نہ ایک جگہ مدعی نبوت نظر نہ آتا ہو.چنانچہ کرشنؑ، رام چندرؑ، بدھؑ، کنفیوشسؑ،ز رتشت ؑ،موسیٰؑ اور عیسیٰؑ تو ایسے ہیں کہ جن کے پیرو اب تک دنیا میں موجود ہیں.اور بڑے زور سے اپنا کام کر رہے ہیں.اور

Page 269

ہر ایک اپنی ہی سچائی کا دعوی پیش کرتا ہے.مگر آنخضرت ﷺکے دعوی ٰکے بعد تیرہ سو برس گزر گئے ہیں کہ کسی نے آج تک نبوت کادعوی ٰ کر کے کامیابی حاصل نہیں کی.اور آپ سے پہلے بھی تو لوگ نبوت کا دعوی ٰکرتے تھے.اور ان میں سے بہت سے کامیاب ہوئے.(جن کو ہم تو سچا ہی سمجھتے ہیں مگر آپ کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ کیوں بند ہو گیا.اب کیوں کوئی کامیاب نہیں ہوتا صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی پیشگوئی ہے کہ آپؑ خاتم النبیّن ہیں.اب ہم اسلام کے مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کیانشان ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کے دعوے کے بعد کوئی شخص جو مدعی نبوت ہوا ہو کامیاب نہیں ہوا.پس اس کی طرف اشارہ تھا کہ کان الله بكل شیءعلیما یعنی ہم نے آپ کو خاتم النبين بنایا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کے بعد اب کوئی نیا نبی نہ آئے گا اور کوئی جھوٹا آدمی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرے گا کہ ہم اس کو ہلاک نہ کردیں.چنانچہ یہ ایک تاریخی پیشگوئی ہے کہ اس کاردّ کسی سے ممکن نہیں.اگر ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو.مگر اس طرح نہیں کہ کسی نے دعوی کیا ہو.او رلا کھ و و لاکھ اس کے پیرو ہو گئے.بلکہ ایسا آدمی کہ جس نے حضرت ﷺ یا آپ سے پہلے نبیوں کی طرح کامیابی حاصل کی ہو مگر کوئی نہیں جو ایسی نظیر پیش کر سکے.غرض قرآن شریف نے بڑے زور سے دعوی کیا ہے کہ میں تمام دنیا کے لئے آیا ہوں اور ہر زمانہ کے لئے ہوں مگر بر خلاف اس کے جیسے کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں.دوسری کتب کا یہ دعویٰ نہیں.اس لئے ان کا دعویٰ کرنا کہ ہم نجات سب عالم کے لئے پیش کرتے ہیں.کسی طرح بھی درست نہیں اور ان کا کوئی اختیار نہیں کہ اپنی تعلیم غیرمذاہب کے سامنے پیش کریں.اور جب ان کو ان کی کتب اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتیں تو ہمارے سامنے ان کا اپنی نجات کو پیش کرناہی غلط ہے.کیونکہ ان کی بات تو انہیں تک محدود ہے اور اسلام کی نجات سب دنیاکےلئےہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے.اس لئے کی بات یہ ہے کہ اصل نجات وہی ہے جو اسلام پیش کرتاہے.جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں میری غرض اس مضمون کو اس جگہ لکھنے سے صرف یہی ہے کہ میں بتاؤں کہ ان لوگوں کی کتب ان کو اجازت ہی نہیں دیتیں کہ یہ اپنی نجات دوسروں کے سامنے پیش کریں.پھر ہمارا ان کا مقابلہ کیا چنانچہ میں نے ہر ایک مذہب کے متعلق الگ الگ ثابت کیا ہے کہ سوائے اسلام کے مسیحیت اور آرین مذ ہب کا غیر قوموں میں پھیلانا بالکل خلاف اصول ہے.اور منع ہے چنانچہ اس لئے ان کا ہم سے نجات کے بارے میں بحث کرنا خلاف اصول ہے.'

Page 270

اب میں اصل مضمون کی طرف ہوتا ہوں اور سب سے پہلے یہ بتاتا ہوں کہ اسلامی نجات کیاہے.اور یہ کہ واقعی وہی نجات سچی اور حقیقی ہے.اور باقی سب مذاہب کی پیش کردہ نجاتیں ناقص ہیں..نجات کی تعریفہر ایک مضمون پر قلم اٹھانے سے پہلے ضروری ہو تا ہے کہ اس کی تشریح کردی جائے اور تعریف کر دی جائے تاکہ ایک تو مضمون کے حصہ کرنے میں آسانی ہو اور ایک پڑھنے والے کو اس کے سمجھنے میں مدد ملے.اس لئے میں لفظ نجات کی تحقیقات کرنی ضروری سمجھتا ہوں.یاد رہے کہ نجات ایک عربی زبان کا لفظ ہے کہ جس کے معنی دریافت کرنے کے لئے ہم کو عربی لغات کی طرف رجوع کرناپڑتا ہے.اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اول لفظ نجات کے وہ معنی جولغت عربی ہم کو بتاتی ہے لکھ دوں.تاج العروس جلد ۱۰ سال ۳۵۶ پر لکھا ہے کہ النجاة الخلاص مما فیہ المخافة و نظیر ھا الملامة ذکرہ الحرالی و قال غیرہ ھو من النجوة و ھی الارتفاع من الھلاک و قال الراغب اصل النجاة الانفصال من الشی و منہ نجا فلاناس صورت میں نجات کے تین معنی ہوئے.ایک تو خون والی چیز سے خلاصی دوسرے یہ کہ ہلا کت کی جگہ سے اونچا کر دینا اور ٹیلہ پر جگہ دینا اور تیسرے کسی چیزسے جدا ہو جانا مگر بہر حال ہم کو ان تینوں معنوں سے اتنا معلوم ہو گیا کہ نجات کہتے ہیں کسی مکروہ چیز سے بچ جانے کو.پس اب ہم مذاہب کو دیکھتے ہیں تو ان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے انسان کو بچانا اور اس سے سچا تعلق پیدا کروانا ہوتا ہے.اس لئے مذاہب نے جو یہ لفظ لیا ہے اور استعمال کیا ہے تو انہوں نے اس کوانہیں مذکورہ بالا معنوں میں استعمال کیا ہے.اور نجات کے لفظوں کو اپنی اصطلاح میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے اور اس کی رضا حاصل کرنے پر حصرکیا ہے.اور واقعی اگر دیکھا جائے تو اصل خون تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہی ہوتا ہے.اگر وہ راضی ہے تو پھر ہر ایک آفت سے انسان محفوظ ہے اور اگر وہ ناراض ہے تو ساری دنیا کی نعمتیں موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی سکھ اور چین اور آرام نصیب نہیں ہو سکتا.کسی نے سچ کہا ہے کہ خدا راضی ہو تو کل جہاں راضی ہوتا ہے اوراگر وہ ناراض ہو تو اور تو اور خود اپنے ہاتھ پاؤں تک نافرمان اور قابو سے باہر ہو جاتے ہیں.اس وجہ سے اگر کسی چیز سے ڈر ہو سکتا ہے تو وہ غضب الہٰی ہے.پس کل مذاہب تے غضب الہٰی سے بچنے اور

Page 271

رضائے الہٰی کے حصول کا نام نجات رکھا ہے.اور اس حد تک کل مذاہب متفق ہیں.لیکن دوسرے قدم پر اختلاف شروع ہو تا ہے.کیونکہ بعض مذاہب تو ایک بات پیش کر کے کہتے ہیں کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے تو وہ خدا کی ناراضگی سے نجات پاگیا دوسرے اس کے بر خلاف کوئی اوربات پیش کر کے کہتے ہیں کہ نہیں جب تک اس درجہ کو انسان حاصل نہ کرے تب تک نجات ناممکن ہے.پھر اس بات پر جھگڑا اٹھتا ہے کہ ایک شخص اگر گناہ کرتارہا اور ایک خاص وقت تک خدا تعالیٰ سے باغی رہا تو اب اس کی توبہ قبول کر کے نجات ملے گی یا نہیں اور اگر ملے گی تو کس طرح؟اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں کہ جن پر مختلف مذاہب آپس میں اختلاف رکھتے ہیں.اس لئےمسئلہ نجات کے حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے.کیونکہ ہر ایک مذہب کا پیرو جب اس لفظ کو استعمال کرتا ہے تو اپنے عقائد کے ماتحت وہ اس لفظ کےایک خاص معنی اپنے دل میں رکھتا ہے.چنانچہ جب ایک عیسائی اس لفظ کو استعمال کرے گا تو وہ اس سے یہ مرادلے گا کہ پچھلے گناہوں سے توبہ کے ذریعہ نجات نہیں ہوتی بلکہ کفاره مسیح پر ایمان لانےسے نجات ہوتی ہے.اور ایک آریہ جب اس لفظ کو استعمال کرے گا تو اس کا مقصد یہ ہو گا کہ پچھلےگناہوں کی سزا بھگتے بغیرانسان نجات پاہی نہیں سکتا اور جب تک کہ وہ مختلف طرح کی جونوں کےچکر میں پھنس کر اپنے گناہوں کا کفارہ نہ کرے تب تک کسی قسم کی مکتی کی امید کرنی اس کا خیال خام ہے.ایک مسیح جب نجات کا ذکر کرے گا تو وہ اس بات پر پکا ہو گا کہ گناہ گاروں کے لئے دوزخ ابدی ہے.اور آریہ نیکیوں کے لئے مکتی کو ابدی قرار نہ دے گا.مگر مسلمان ان دونوں کے بر خلاف خیالات رکھتا ہو گا.پس جب نجات پر بحث کی جائے تو ان تمام پہلوؤں پر نظر رکھنی ضروری ہے.کیونکہ بغیر اس کے نجات کا مضمون کامل نہیں ہوتا.چنانچہ اس وجہ سے میں ارادہ رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اپنے مضمون میں ان تمام پہلوؤں پر بحث کروں کہ جن سے نجات کا مسئلہ پورا ہو تا ہے.اور ہر ایک حصہ میں جمان غیر مذاہب سے اختلاف ہو اس کو بیان کروں.اور ان کے دلائل اوراسلام کے دلا ئل کا موازنہ کر کے بتاؤں کہ سوائے اسلام کے باقی سب مذاہب کی پیش کردہ نجاتیں اپنے ایک حصہ یا دوسرے حصہ میں سقم رکھتی ہیں.اور اس وجہ سے ناقص ہیں.مگر چونکہ اسلام خدا کی طرف سے ہے اس لئے اسلامی نجات ہر طرح کامل اور فطرت کے مطابق ہے.چنانچہ اس خیال کو مد نظر رکھ کر سردست میرا ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے عمر صحت اور طاقت دی.تو انشاء اللہ اس مضمون کو چھ حصوں میں لکھوں گا.اول یہ کہ کیا اسلام میں پچھلے گناہوں

Page 272

سے نجات ہے یا نہیں.اگر ہے تو کس طرح؟ دوم یہ کہ کیا اسلام انسان کے گناہوں سے پاک ہونےکا قائل ہے یا نہیں.اگر ہے تو کس طرح؟ سوم یہ کہ کیا اسلام مرنے کے بعد گناہوں کی معافی کاقائل ہے یا نہیں؟ چہارم یہ کہ کیا دوزخ کا عذاب غیر محدود ہے ؟ پنجم یہ کہ کیا جنت کا انعام منقطع ہے ؟ اور ششم خاتمہ جس میں انشاء اللہ اس مضمون کے متعلق متفرق باتوں کو بیان کیا جائے گا.وماتوفیقی الا بالله العلي العظيم.کیا اسلام میں پچھلے گناہوں سے نجات ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح؟ جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نجات کے مضمون کو میں نے مختلف چھ حصوں پر تقسیم کیا ہے.اورسب سے پہلے میں مذ کورہ بالا ہیڈنگ پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ جب ایک انسان خدا کی طرف جھکتا ہے تو ضرور ہے کہ اسے پہلے یہی سوال نہیں آئے کہ کیا میرے پہلے گناہ چو میں اب تک کر چکا ہوں وہ معاف ہو سکتے ہیں کہ نہیں؟ اور اس سوال کے حل کے بغیر نجات پر بحث کرنا ہے بھی فضول کیونکہ جب گناہ بھی معاف نہ ہوئے تو پھر نجات کس طرح ممکن ہے.یاد رہے کہ اسلام ہم کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے غفار ہونے پر ہر حالت میں ایمان لائیں اور کسی وقت بھی اس کے بے پا یاں فضل و کرم سے ناامید نہ ہوں بلکہ ہردم یقین کریں کہ اگر خدا تعالیٰ کے انعامات ہمارے شامل حال نہ ہوں تو ہماری زندگیاں تیز ہو جائیں اور جینا ہمارے لئے دو بھر ہو جائے اور یہ کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرتا ہے اور اگر سچی توبہ کی جائے جو فضل کی جاذب ہو تو ہمارے گناہوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے وہ محبت سے پر محبت کے قابل ہستی ہے جس کے مد نظر انسان کی اصلاح ہے اس کی ہلاکت نہیں جس وقت انسان اصلاح کی طرف جا ہے اور اپنی غلطیوں پر آگاہ ہو کر ان کے دور کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے تو آسمان کےدروازے بھی اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور ملاء اعلیٰ کی توجہ بھی اس کی اصلاح کی طرف متصرف ہو جاتی ہے پس مبارک ہے وہ جو ان باتوں پر غور کرے اور فائدہ اٹھائے.بر خلاف اس کے مسیح اور آرین یہ خیال کرتے ہیں کہ پچھلے گناہ قطعا ًمعاف نہیں ہو سکتے جو ہوچکا سو ہو چکا.اب واپس نہیں لیا جا سکتا.اب اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے.تو یہی طریق

Page 273

ہے کہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچے اور پچھلے گناہوں کی سزا کا منتظرر ہے (مسیحی ایک طریق گناہوں کی سزا سے بچنے کا بتاتے ہیں مگر وہ اس جگہ کچھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے انشاء اللہ آئندہ بیان ہوگا) پس ہمارا اور دیگر مذاہب کا اس مسئلہ میں ایک عظیم الشان اختلاف ہے جس پر بحث کرناضروری ہے اور چونکہ گناہوں کی معافی کا تعلق خدا تعالیٰ کی صفات سے ہے اور ساری بحث کادارومدار اس پر آن رہتا ہے کہ آیا خدا تعالیٰ کی صفات یہ چاہتی ہیں کہ انسان کے گناہوں کو بروقت توبہ معاف کیا جائے یا اسے ضرور ہی سزادی جائے اور باوجود اس کی ندامت اور پشیمانی کے اورآئنده اصلاح پر آمادہ ہونے کے اس کو ہلاک کر کے چھوڑا جائے.اس لئے اولا ًمیں خدا تعالیٰ کی صفات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں.یاد رہے کہ میں مسئلہ نہیں بلکہ جس قدر دیگر مسائل میں مذاہب کا اختلاف ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے چنانچہ دنیا کے مذاہب پر نظر رکھنے والے اور ان کی تحقیقات میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ کل مذاہب میں جب برائیاں پڑی ہیں.اورطرح طرح کی بدعات داخل ہوئی ہیں تو اس کا اصل باعث یہی ہے کہ مرور زمانہ سے ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کی کسی ایک صفت یا بہت سی صفات کے متعلق غلط فہمی ہو گئی جس کی وجہ سے ان کےاعمال بھی بگڑتے بگڑتے کسی اور طرز پر آگئے مثلا ًایک فرقہ جو خدا تعالیٰ کی نسبت یہ خیال کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کو ذرہ ذرہ کا علم ہوتا ہے.اگر مرور زمانہ سے وہ خدا تعالیٰ کے علم کی صفت کے سمجھنے سےدھوکہ کھا جائے اور اس کا یہ خیال ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کو کلیات کا ہی علم ہے اور جزئیات کا علم نہیں.تو ضرور ہے کہ اس کے بہت سے عقائد ساتھ ہی بدل جائیں گے مثال کے طور پر ان کو ماننا پڑےگا کہ قیامت کو ان کے بہت سے گناہ خدا تعالیٰ کی نظر سے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جائیں گے.اور وہ یہ بھی خیال کریں گے کہ خدا تعالیٰ کو دھوکہ بھی دیا جاسکتا ہے.غرضیکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت میں غلط فہمی ہو جانے کی وجہ سے ہی مذاہب میں اختلافات پیداہوئے ہیں اور اگر سب مذاہب صفات الہٰیہ اور ان کے ظہور میں متفق ہوتے تو پھر کوئی اختلاف نہ ہوتا اور سب مذاہب ایک ہی بات کے ماننے والے ہوتے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سوائے بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات کے سب مذاہب ایک ہی ہو جاتے مگر چونکہ صفات الہٰیہ کے سمجھنے اور ان کے ظہور کے طریقہ میں بہت کچھ اختلافات ہو گئے ہیں.اس لئے آپس میں اس قدر بعد واقعہ ہوگیا.

Page 274

ہے کہ اگر ایک مذہب کو مانا جائے تو دوسرے کو ضرور ہی غلط کہنا پڑتا ہے.کیونکہ یا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات میں کچھ کمی کردی ہے یا زیادتی ورنہ اگر غور سے دیکھا جائے تو کیاہنودیا آریہ یا مسیح یا یہودی یا زرتشتی جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اور دوزخ کو دیکھتے ہوئے اس میں کودنے کی کوشش کرتے ہیں؟ بلکہ اس کے بر خلاف ہم دیکھتے ہیں تو دہریت کو چھوڑ کر باقی کل مذاہب اس طاقتور ہستی سے تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور مختلف طریقے اور جائز اورناجائز وسائل سے اسے خوش کرنے اور اپنے پر مہربان کرنے کے لئے گئے ہوئے ہیں صرف فرق اتنا ہے کہ اس کی صفات میں دھوکہ کھایا ہے اور اس لئے راستہ سےبھٹک گئے ہیں.ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے چار آدمی ایک شہر کی تلاش میں نکلیں.اور ایک تو ٹھیک سیدھےراستہ پر چلا جائے اور باقی اپنی جلد بازی اور پانی کی وجہ سے اصل جہت کو چھوڑ کر وو سری راہیں اختیار کریں اور ان میں سے کوئی شمال کو چلا جائے کوئی جنوب کو چلا جائے اور کوئی مشرق کو چلاجائے.پس اس میں شک نہیں کہ یہ سب اس شہر کی تلاش میں سر گرداں و کوشاں ہیں.لیکن یہ فرق ہو گیا ہے کہ ایک تو ان نشانات پر جو بتائے گئے تھے چلاجا تا ہے اور آخر منزل مقصود کو پہنچ بھی جائےگا.مگر باقی تین نے اپنی طرف سے کچھ ایسی باتیں ان نشانات میں ملالیں کہ اصل راستہ سےبھٹک کرکہیں سے کہیں چلے گئے اور اگر اصل راستے کی طرف لوٹے تو ضرور ہے کہ اسی طرےح چلتے چلتے مر جائیں گے اور منزل مقصود کو نہ پائیں گے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کو بھی اس شہر تک پہنچنےکی تڑپ ہے.اس طرح موجودہ مذاہب میں سے سچےمذہب کو چھوڑ کر (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) باقی سب مذاہب کے پیرو کو خدا تعالیٰ سے ملنے کی تڑپ رکھتے ہیں مگروہ نشانات جوان کو اس کے ملنے کےلئے بتائے گئے تھے (یعنی اس کی صفات) ان میں انہوں نے ایسی خود ساختہ باتیں ملالی ہیں کہ اب وہ اصل راستہ سے بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں اور ان آلائشوں کی وجہ سے جن میں آلوده ہو گئے ہیں زمین و آسمان کے خدا کو چھوڑ کر اپنے خیالات کے بمو جب کچھ اور خدا تجویز کر کے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں اور ان کی مثال ان بکریوں کی ہے کہ جنہوں نے رات کے وقت اپنے مالک کے قدموں پر چلنا ترک کردیا اور ادھر ادھر ہو گئیں اب چور ان کو بلاتا ہے اور وہ اس کے پیچھے لگ جاتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ اس کا مالک ہے مگر صبح سے پہلے وہ ان کو قصاب کے سپرد کردے گا اورآئندہ ان کو اپنا گھر دیکھنا نصیب نہ ہو گا.چنانچہ اس دھوکے میں پڑ کر کسی نے تو محبت کے جوش میں برہما، وشنو، کرشن اور رام چندر

Page 275

کے بھیس میں اسے دیکھا.اور کسی نے اس پاک ہستی کو ورا ،شیر، مگر مچھ کچھ کی شکل میں اعتقاد کیا.کسی نے یسوع کے رنگ میں رنگین پایا تو کسی نے بدھ کی صورت میں جلو ہ (نعوذ باللہ من کل ذالک) یہودیوں نے اگر موسیٰؑ کی معرفت اس کا دیدار چاہا تو زرتشتیوں نے زرتشت کی وساطت سے اس کی ملاقات کی خواہش کی مگر سچی بات یہی ہے کہ وہ وراء الور یٰ ہستی اس بات کی محتاج نہیں کچھ ،مگر مچھ یا کسی انسان کی صورت اختیار کرے اور یہ بات اس کی صفات کے بھی برخلاف ہے.اس کا دیدار اس کی صفات کی معرفت سے ہوتا ہے چنانچہ اس سچے مسئلہ کو رسول الله ﷺکی معرفت خدا تعالیٰ نے ہم تک پہنچایا اور فرمایا کہ ليس كمثله شي ا(شوری: ۱۲) کہ اس کی مانند کوئی چیز نہیں کہ جسم کے بھیس میں وہ آ سکے اور دوسرے مقام پر فرمایا کہ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚوَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الانعام : ۱۰۴ )یعنی یہ مادی آنکھیں اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتیں ہیں وہ ان آنکھوں کی کنہ کو خوب پہنچتا ہے اور وہ بڑا لطیف اور خبیر ہے.پس ان سب بد عقائد کی جڑ صفات الہیہ سے بے خبری ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض نادان محبت کی وجہ سے بعض خدانما لوگوں کو خدا ہی سمجھ بیٹھتے ہیں اور بعض مخلوقات الہٰیہ کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں.اسی کی طرف قرآن شریف میں خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ان اللہ لقوی عزیز (الحج ۷۵ )یعنی لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے پوری آگاہی حاصل نہیں کی اور نہ اس کی بڑائی کا پورا اندازہ کیا تحقیق اللہ قوی اور غالب ہے.کیا معنی کہ لوگ جوغفلت میں پڑ گئے ہیں اور ایسے معبودوں کی طرف جھک گئے ہیں جو خود ضعیف ہیں اور کوئی طاقت اور قوت نہیں رکھتے اور نقصوں سے پاک نہیں ہیں بلکہ طرح طرح کے نقائص سے آلودہ ہیں ایسےلوگوں نے صفات الہٰیہ کا پوری طرح سے مطالعہ ہی نہیں کیا.اور بلا سوچے سمجھے من گھٹرت صفات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دی ہیں.کہ جن کی وجہ سے اصل معبود سے دور جا پڑے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ نجات میں بھی مختلف اقوام نے دھوکہ کھایا ہے.اسلام کی تعلیم سے ہم کو معلوم ہو تا ہے کہ وہ پاک ذات جس کی محبت میں لاکھوں نہیں کروڑوں روحیں بے چین رہی ہیں اور ہیں اور رہیں گی تمام نقائص سے پاک ہے اور کسی قسم کی اس میں کمی نہیں ہے بلکہ تمام نیک صفات کی وہ جامع ہے اور بالکل بے عیب ہے اور کوئی اعلی صفت نہیں کہ جس کا ہونا اس ذات کے لئےضرو ری ہو اور وہ اس میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ کوئی ایسی صفت ہے کہ جس کے ہونے سے اس میں نقص لازم آتا ہو اور وہ اس میں پائی جاتی ہو.

Page 276

اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے آگاہ کرنے کے لئے قرآن شریف میں مختلف جگہ پرصفات الہٰیہ کا ذکر کیا گیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیرؤوں کو کچھ مدت کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات میں جودھو کہ لگ جائے اور وہ سیدھے راستہ سے بھٹک جائیں اور نیکی کا طریق ان سے چھوٹ جائے اور ضلالت اور گمراہی کی وجہ سے یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف وہ صفات منسوب کریں کہ جو درحقیقت اس میں نہیں ہیں اور ان کا ہونا اس کے لئے عیب کا موجب ہو اور ایسی صفات جن کے نہ پائے جانے سے اس میں کمی لازم آتی ہو اور نقص وارد ہو تاہو ان صفات کو اس سے جدا کر دیں اوراس کے نتیجے میں اس حقیقی خدا کا دامن چھوڑ کر مصنوئی خداؤں کے پیچھے لگ جائیں.پس قرآن شریف ہم کو بتاتا ہے کہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ان میں طرح طرح کے جانور پیداگئے اور انسان کو بنایا.اور بادلوں سے پانی اتارا.اور آگ اور ہو اسے انسان کے فوائد کی تکمیل کی وہ خدا پر طاقتور خدا ہے اور اس کے تمام فعل بالارادہ ہوتے ہیں.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جس کام کو وہ کرنا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں.اور جس کام کو روکنا چاہے اسے کوئی کرنے والانہیں.علاوہ اس کے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے ہم کو یہ بھی بتایا ہے کہ انسان کی خلقت میں ہی نیکی اور تقویٰ رکھا گیا ہے.جس سے وہ نیک بات اور بری بات میں فرق کر سکے.چنانچہ فرماتا ہے فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ-وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(الروم:۳۱) یعنی اللہ کی طرف سے دی ہو ئی فطرت وہی ہے جو اس نے اپنے بندوں میں رکھی ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں چاہئے.یہ ایک دین ہے جو استوار ہےلیکن اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں لیکن اللہ کی طرف سے انسان میں ایسی صفات رکھی گئی ہیں کہ جن سے وہ ایک حد تک صفات الہٰیہ کا مظہربن سکتا ہے اور ایسی ایسی صفات حسنہ اس میں و دیعت کی گئی ہیں کہ جن کی مدد سے وہ نیک و بد کو پرکھ سکتا ہے اور اس طرح سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کن صفات کو منسوب کرنا جائز اور ان کو منسوب کرنا ناجائز ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ انسان میں بھی ایک حد تک الہٰی صفات کا رنگ دیا گیا ہے اور اس لئے جب فطرت کے مطابق انسان الہٰی صفات کو پرکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جا تا ہے کہ فلاں فلاں صفات کا اللہ تعالیٰ سے جدا کرنا اور فلاں فلاں صفات کا اس سے منسوب کرنا برا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میں وہی صفات ہیں کہ جو میری طرف سے اسے میری معرفت حاصل کرنے کے لئے دی گئی ہیں اور چونکہ میری خلق میں

Page 277

.کوئی تبدیلی نہیں چاہئے.اس لئے ایسا نہ ہو کہ تم خلاف فطرت ایسی صفات تجویز کرو.جو میری خلق کے خلاف ہیں.اور میں نے ان کو پید اکیا بلکہ ہمیشہ عقل و فطرت سے کام لیا کرو اور ان دونوں کو اپنا رہنما بناؤ - اور جب تک تم خود ان میں تبدیلی نہ کرو گے اس وقت تک تم راہ راست پر رہو گے.اس جگہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ عقل سے بالا ہے کوئی علوم نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ فطرت و عقل کے مطابق کل علوم ہونے چاہئیں اس کے خلاف نہ ہوں مثلا ًکوئی شخص ہم کو آکربتائے کہ زید لا ہو ر گیا ہے تو یہ بات ہماری عقل سے بالا ہے خلاف نہیں کیونکہ ہم کوسماع سے معلوم ہوئی ہے خود عقل بغیر کسی کی اطلاع کے اس بات کو دریافت نہ کر سکتی تھی.مگر جب معتبر خبرہم کوئی تو ہماری عقل نے کوئی وجہ اس کے رد کرنے کی نہیں پائی.پس جہاں جہاں میں عقل وفطرت کو انسان کا رہنما بتلاؤں گا میرا یہی مطلب ہوگا کہ جن باتوں کے وہ بر خلاف نہ ہوں ان کو قبول کرو خواووہ کسی ذریعہ سے پائہ ثبوت کو پہنچی ہوں.پس خدا تعالیٰ اس آیت میں ہم کو بتاتا ہے کہ فطرت انسانی تو ہماری ہی پیدا کی ہوئی ہے.اوراس میں ہم نے اپنے صفات کا پرتو ڈالا ہے پس اس میں تبدیلی مت کرو.اور اس کو اپنا رہنما بناؤ - اورجب تک تم اس اصول پر چلتے رہو گے اور اس راہ کو نہ چھوڑو گے تو تم سیدھی راہ پر ہو گئے اورہماری صفات کے سمجھنے میں دھوکہ نہ کھاؤ گے.چنانچہ فرماتا ہے ذالك الدین القیم یعنی جو دین کہ اس طرح فطرت کے مطابق ہم کو چلاتا ہے اور وہ اصول ہم کو بتاتا ہے جو فطرت کے بر خلاف نہ ہوںوہی سچا ہے اور باقی سب مذاہب جھوٹے ہیں اور غلطی پر ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھا.اور وہ سیدھے راستہ سے دور جا پڑے ہیں اور کیونکہ ان کی بات بے ثبوت ہے اوران کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ جس سے وہ اپنے دعوے کو ثابت کر سکیں اور یہ ایک ایسا اصول ہےکہ جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے.پس قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک حد تک انسان کو اپنے صفات کا مظہربتا تا ہے اور جو طاقتیں کہ خدا تعالیٰ میں ہیں ایک حد تک انسان پر اس کا پر تو ڈالا ہے.چنانچہ اس کی تائید میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بھی ہے جس میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ تخلقوا بأخلاق اللہ یعنی اے لوگو !تم اللہ تعالیٰ کی صفات کا اپنے آپ کو مظہر بناؤ او ر و ہ صفات حسنہ جوخدا تعالیٰ نے تم میں ودیعت کی ہیں ان کو ترک مت کرو.اور ان سے غافل مت ہو بلکہ ان میں ترقی دو.اور اپنے آپ کو کامل مظہر بناؤ.چنانچہ ایک اور حدیث میں رسول اللہ اﷺنے اس کی

Page 278

اور بھی تشریح کی ہے اور فرمایا ہے کہ جب مومن اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بالکل سپرد کر دیتا ہے.تواس وقت خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ ہو جا تا ہے جن سے وہ پکڑ تا ہے اور زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے.اور پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے.اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ انسان ایسااپنی فطرت پر پکا ہو جاتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی بھی جائز نہیں رکھتا.اس لئے چونکہ انسانی فطرت میں الہٰی صفات رکھی گئی ہیں اور اس کی کل حرکات فطرت کے مطابق ہو جاتی ہیں تو اس وقت گویا اس کا ہر ایک فعل خد اکاہی فعل ہو جا تا ہےاور ایسا انسان خدا تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے.پس اسلام نے مذہب کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ فطرت کے مطابق ہو اس کے بر خلاف نہ ہواور خدا تعالیٰ کی طرف ایسی صفات منسوب نہ کر تا ہو جو خلاف فطرت ہوں بلکہ ایسی صفات کومنسوب کر تا ہو جو عین فطرت کے مطابق ہوں.اور مشاہدہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان میں ایسی صفات رکھی ہیں کہ جن سے انسان فیصلہ کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کونسی صفت منسوب کر سکتے ہیں اور کونسی نہیں.اس لئے مجھ کو کوئی بڑے دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اگرانسانی فطرت میں ایسی طاقت نہ ہوتی تو وہ خدا کی صفات کو سمجھ ہی نہ سکتا کیونکہ جو طاقت ایک چیزمیں ہوتی ہی نہیں تو وہ اس قسم کا کام نہیں دے سکتی.مثلا یہ کہ طوطے میں بولنے کی طاقت ہے جب ہم اس کو بولنا سکھاتے ہیں تو وہ بولنے لگتا ہے لیکن چونکہ بیل میں بولنے کی طاقت نہیں ہم لاکھ کوشش کریں وہ کبھی نہیں بول سکے گا کیونکہ اس میں وہ مادہ ہی نہیں رکھا گیا یہ کہ اونٹ کو پر نہیں دیئے گئے اور اس میں اڑنے کی طاقت نہیں رکھی گئی.اب لاکھ بھی ہم اس سے کہیں کہ تواڑاور دہ پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھے لیکن نہ تو اس کی توجہ ہی اس طرف جاسکتی ہے اور نہ وہ اڑہی سکتا ہے اس طرح کل جانور جن کو انسان کی طرح ترقی کی طاقت نہیں دی گئی اگر یہ ان کو سمجھانا چاہیں کہ داناکےلئے ہر وقت ترقی کی فکر میں لگا رہنا ضروری ہوتا ہے اور ایجادوں سے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانا اس کافرض ہوتا ہے تو وہ اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے کیونکہ ان میں یہ طاقت ہی نہیں رکھی گئی.انسان کو دیکھو کہ کہاں سے کہاں ترقی کر کے آگیا ہے مگر جانور جس طرح آج سے دو ہزار یا تین ہزاریا چار ہزار سال پہلے تھا.اسی طرح آج کل بھی ہے لیکن جس طرح مکھی آج سے ہزاروں سال پہلےشہد تیار کیا کرتی تھی.اسی طرح اب بھی کرتی ہے، یہ نہیں کہ انسان کی طرح نئی نئی ایجادیں کرتی

Page 279

رہے.مگر آج سے دو ہزار سال پہلے اگر انسان ر تھوں پر سوار ہو تا تھا اور اس کے بعد جنڈول اورپینس اور سکھ پال وغیرہ سواریاں نکل آئیں پھر اور ترقی کی تو گے گاڑیاں ایجار ہو گئیں اور پھران میں مختلف تم کی کتر بیونت ہوتی رہی اور وہاں سے انسان نے ترقی کی توریل ایجاد کی اور پہلےاگر دس میل فی گھنٹہ رفتار تھی تو پھر پندرہ میل اور رفتہ رفتہ ایک سودس میل تک لے آیا اور سٹیم سے ترقی کی تو برقی طاقت سے کام لینے لگا اور اس سے بھی بڑھاتو ہوائی جہاز ایجاد کئے.مگر مکھی نےشہد کے بنانے کے طریقہ میں اور ریشم کے کیڑے نے کپڑے کے بنانے میں اس عرصہ میں نئی نئی ایجاد یں نہیں کیں جس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں یہ طاقت ہی نہیں رکھی گئی.اب اگر ہم کسی جانورکو فلسفہ کے مسائل سمجھانے بیٹھیں تو کیا سمجھا سکتے ہیں؟ کبھی نہیں کیونکہ اس میں وہ مادہ ہی نہیں.پس جب تجربہ ہم کو بتاتا ہے کہ جو طاقت کسی چیز میں نہ ہو وہ اس سے کام نہیں لے سکتی تو پھرکس طرح ممکن ہے کہ اگر انسان میں ان صفات کا پر تو نہ ڈالا گیا ہو جو خدا تعالیٰ میں ہیں تو پھر بھی وہ اس کی صفات کو سمجھ سکے.خدا تعالیٰ کو ملنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ اس کی صفات کا کامل علم ہےپس جب انسان ان صفات کا علم ہی نہیں حاصل کر سکے گا تو وہ ان کا عرفان کیونکر حاصل کرے گا.پس الہٰی گیان یا عرفان کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان میں الہٰی صفات کا جلوہ موجو د ہو اوریہی مطلب ہے ان آیات و احادیث کا جو میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ انسان میں الہٰی صفات کاپر تو ایک حد تک ڈالا گیا ہے.اور اس کی فطرت اس طرح نیک بنائی گئی ہے کہ اگر وہ اس سے کام لے تووہ ضرور خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھ سکتا ہے.پس معلوم ہوا کہ الہٰی صفات کے سمجھنے کا ایک ہی طریق ہے کہ انسان فطرت انسانی کو دیکھے اور پھر ہر ایک مذہب کی بتائی ہوئی صفات کو اس کسوٹی پر پرکھے.تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ کونسامذ ہب سچا ہے اور فطرت کے مطابق ہے اور کونسا جھوٹا اور فطرت کے بر خلاف.پس اب میں اسلام کا دعویٰ مشاہدات کے دلائل سے ثابت کر آیا ہوں کہ انسان میں الہٰی صفات کا ضرور ایک حد تک جلوہ ہو نا چاہئے تاکہ انسان الہٰی صفات کو سمجھنے کے لائق ہو اور اگراس میں وہ صفات نہ رکھے جاتے تو وہ ایک جانور کی طرح جو فلسفہ کے مسائل ہزار برس پڑھانے پربھی نہیں پڑھ سکتا.الہٰی صفات کے سمجھنے کے نا قابل ہو تا.پس اب مذاہب کے دعاوی کے پرکھنے کے لئے ہمارے لئے ایک بہت آسان راہ نکل آئی کہ اگر کسی مذہب کا دعویٰ عقل انسانی اور فطرت کے بر خلاف ہو اور متعارض ہو تو وہ غلط اور بے بنیاد ہے.کیونکہ جب ہماری فطرتیں الہٰی صفات کا جلوہ گاہ ہیں تو جو بات ہماری فطرتوں کے بر خلاف اور

Page 280

صریح متعارض ہے ضروری ہے کہ وہ الہٰی صفات کے بھی بر خلاف اور متعارض ہو اس لئے اگر کوئی مذہب خدا تعالیٰ کی طرف کوئی ایسی صفت منسوب کرے کہ جو ہماری فطرتوں کے بر خلاف اورمتعارض ہے تو ہم فورا سمجھ لیں گے کہ یہ صفت خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا بالکل ناجائز اور منع ہے- اب جبکہ یہ طے ہوگیا کہ کل مذاہب کی بتائی ہوئی الہٰی صفات کو مد نظر رکھ کر ہم دیکھیں گے کہ انسانی خلقت کس طرح واقع ہوئی ہے.چنانچہ غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فطرت میں ایسی صفات ہیں کہ جن کو وہ فطر تاًنیک کہتا ہے اور بعض ایسے فعل ان سے سرزد ہوتے ہیں کہ ان کو وہ فطر تاً برا کہتا ہے چنانچہ پھر تجربہ اور مشاہدہ اس پر گواہی دیتا ہے کہ واقعی یہ فعل نیک ثمرات کالانے والا اور یہ فعل برے نتائج کا پیدا کرنے والا ہے مثلا ًجب ایک انسان دو سرے سے محبت اوراخلاص سے پیش آتا ہے اور کشادہ پیشانی سے ملا قا ت کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں فطرتاً اس کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کی بہتری کا خیال اس کے دل میں جاگزین ہو جا تا ہے.لیکن اگر بر خلاف اس نے کوئی شخص دوسرے سے کج خلقی سے پیش آتا ہے او ر اخلاقی حمیدہ کو ترک کر دیتا ہے اورانسانیت کو چھوڑ کر درندگی کا رنگ اختیار کرلیتا ہے تو لوگ اس سے کنارہ کرتےہیں اور الگ ہو جاتے ہیں.اور اس کی محبت کو ترک کر دیتے ہیں اور اس سے جدائی اختیار کر لیتےاور اس کی عزت ان کے دلوں سے اٹھ جاتی ہے اور اس کی بجائے نفرت گھر کر لیتی ہے اور تمام علاقہ میں اس کی شکایات کی آواز بلند ہو جاتی ہے اور وہ لوگوں میں انگشت نما ہو جاتا ہے.پس غور کرو کہ اس با اخلاق انسان کی محبت اور اس کج اخلاق کی نفرت کی کیا وجہ ہے اور کیوں ان کے ساتھ لوگوں نے تعلقات کو بڑھایا اور اس سے علیحدگی اختیار کی اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اس نے تو فطرت انسانی کے جذبات کو ملحوظ رکھا.اور اس نے فطرت کو بدل دیا.پھر اسی طرح ایک نفس جو برا سچا ہے او ر سچ کی وجہ سے خواہ اس کا نقصان بھی ہو جائے.وہ اسے ترک نہیں کرتا اور جھوٹ کے قریب نہیں جاتا.اس کی بات پر تمام لوگ اعتبار کرتے ہیں اورجو کچھ وہ کہتا ہے اس کا انکار نہیں کیا جاتا.اور اس کی شہادتوں کی تصدیق کی جاتی ہے اور اس کوجھٹلانے والا خود جھوٹا سمجھا جا تا ہے.اور اس کے بر خلاف وہ شخص جو اپنی فطرت کو بدلتا ہے اورجھوٹ کی نجاست کو استعمال کرتا ہے اور بچے کے بولنے کے پاک طریق کو چھوڑ دیتا ہے اس کا اعتباراٹھ جا تا ہے اور غیر تو غیر خوراس کے یار و غمگسار تک اس کی باتوں کو خلاف واقعہ سمجھتے ہیں.اور

Page 281

اس کی بات کا انکار کرنا برا نہیں بلکہ دوراندیشی سمجھا جا تا ہے اور اس کی بد نامی چاروں طرف پھیل جاتی ہے.اسی طرح تمام نیک صفات کا نتیجہ نیک نکلتا ہے اور بد افعال کا نتیجہ بد اور یہ ایک ایسا آلہ اور ایسی کسوٹی ہے کہ جس پر انسان اپنی صفات کو پرکھ سکتا ہے اور اس طرح اسے معلوم ہو جاتاہےکہ واقعی وہ صفات جو فطر تاً نیک معلوم ہوتی ہیں، وہ ہیں بھی نیک اور یہ کہ جو صفات فطر تاً بدمعلوم ہوتی ہیں اس کے نتائج بھی بد نکلتے ہیں.پس فطرت کے پرکھنے کے لئے ایک تجربہ بھی انسان کو دیا گیاہے کہ جس سے انسان اپنی فطرت کو پرکھتارہتا ہے.اور اس کے علاوہ ضمیر ہے کہ جو اس کی مددگاربنی ہوئی ہے اور اس کو آگاہ کرتی رہتی ہے کہ اس کا کو ناکام فطرت کے مطابق ہے اور کون سابر خلاف فطرت.پس جب انسان فطرت سے کام لیتا ہے تو اسے کوئی ملامت نہیں ہوتی اور جب وہ فطرت کے بر خلاف کام کرتا ہے تو فور اًاس کو ملامت شروع ہو جاتی ہے.اور گو کہ ایک مدت تک فطرت کے بر خلاف کام کرنے سے دل پر ایک زنگ لگ جا تا ہے اور فطرت انسانی مسخ ہو جاتی ہےاور اس آئینہ کی طرح ہو جاتی ہے کہ جو زنگ کی کثرت کی وجہ سے عکس قبول نہیں کرتا اور اپنی اصلی حالت کو چھوڑ دیتا ہے.مگر پھر بھی ایسے انسان کسی نہ کسی وقت فطرت کے مطابق بول ہی اٹھتے ہیں ایک چور اپنے گروہ میں چور ی کو برا سمجھتا ہے ایک ٹھگ اپنے گروہ میں ٹھگی کو مکروہ خیال کرتا ہے.کنجر تک اپنی بہو سے پیش نہیں کرواتے.پس معلوم ہو تا ہے کہ فطرت کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ تلاش کرہی لیتی ہے.علاوہ ازیں اکثربدیوں میں ایک حد تک اخفاء کا خیال رہتا ہے جس سے انسان کو اس کی فطرت پر آگاہی ہوتی رہتی ہے.غرضیکہ فطرت انسانی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بعض صفات کو وہ نیک خیال کرتی ہے اور بعض کومکرو ہ پس اس فطرت سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی صفت خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنی نیک ہے اور کونسی بری.جو صفات کہ انسان کے قدس پر دلالت کرتی ہیں.اور وہ اس کے نقائص کو دورکرنے کے لئے نہیں ہیں وہ تو خدا تعالیٰ کی طرف انسان منسوب کرتا ہے.اور جو صفات کہ بری ہوں یا نقائص پر دلالت کرتی ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کی جاتیں.بس اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان میں رحم کا مادہ ہے اور یہ ایک نیک صفت یقین کی گئی ہے اور اس کے بر خلاف جسم انسان نے رحم کے بر خلاف کام کیا ہو وہ خود لوگوں کی نظر میں گر جاتا ہے.فطرت انسانی کو مشاہدہ کرکے دیکھ لو کہ یہ شروع سے ہی رحم کی محتاج چلی آئی ہے.چنانچہ اگر والدین کی طبیعت میں رحم کا مادہ نہ ہو تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ بچہ بڑھ سکے.بچہ تو پیدا ہوتے ہی ہلاک ہو جائے گا اور ایک دن بھی

Page 282

زندہ نہ رہ سکے گا.ہیں جبکہ والدین جو صرف بچہ سے ایک عارضی تعلق رکھتے ہیں اور اس کے اس دنیا میں لانے کے وسیلہ ہی ٹھہرے ہیں اور اس کے پیدا کرنے میں خود ان کی کوششیں کوئی دخل نہیں رکھتیں اس زراے تعلق کی وجہ سے اپنے بچے پر اس قدر رحم کرنے لگتے ہیں جو محبت بلکہ عشق کے نام سے موسوم ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ جو کہ اصل خالق اور مالک ہے کیا رحم نہ کرے گا؟غرض کہ انسان بچپن سے ہی رحم کا محتاج ہے.والدین جب تک اس پر رحم نہ کریں وہ ایک دم بھی گزارہ نہیں کر سکتا.پھر آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں تو بچوں کے بہت سے قصوروں پر نظر اندازی کیجاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بے علم بچہ ہے اس کو کیا سزا دی ہے.چنانچہ بچوں کو سزا دینے والے سخت بے رحم اور ظالم تصور کئے جاتے ہیں اور اپنے بچے تو الگ رہے دوسرے کے بچوں کو سزا ملتےہوئے دیکھ کر بھی انسانی فطرت جوش میں آجاتی ہے اور فور اًسفارشیں شروع ہو جاتی ہیں کہ یہ بےعلم معصوم بچہ ہے اس کو سزا کیوں دیتے ہو.اور یہ سب اس لئے کہ وہ ناقص ہے اور اس کا علم اپنےکمال کو نہیں پہنچا.اسی طرح جب انسان پیدا ہوتا ہے تو پھر اس وقت یہ عذر پیش کیا جا تا ہے کہ جوان آدمی ہے.نادانی کی وجہ سے جوش جوانی میں ایسا کام کر دیا.اور اس کے لئے بھی ایک راه رحم کرنے کی نکال لی جاتی ہے اور جب وہ ذر ابو ڑ ھا ہو اتو پھرکہاجا تاہے ضعیف آدمی ہے سزا کے قابل نہیں معافی بہتر ہے.غرض کہ فطرت انسانی ہر وقت رحم کی ملتجی رہتی ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی فطرت میں رحم کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اوروہ ہر وقت اپنے اوپر رحم چاہتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی رحم کی درخواست کرتا ہے مثلاً جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا اور ان کےقصوروں اور خطاؤں کو نہیں بخشا وہ اپنے ہم چشموں کی نظروں میں ذلیل ہو جاتا ہے اور اوچھا کہلاتاہے.اور یہ صفت انسانوں میں ہی نہیں بلکہ حیوانوں میں بھی بعض دفعہ نظر آتی ہے، غرضیکہ احسان و مغفرت انسانی سرشت میں ہے اور بنی نوع انسان روز ایک دوسرے کے گناہوں پر چشم پوشی کرتے رہتے ہیں ہاں اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ بعض دفعہ مرحمت یعنی مغفرت کرنے سےاور مجرم پر رحم کرنے سے برائی اور بڑھ جاتی ہے تو یاد رہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان عالم الغيب تو ہے ہی نہیں بعض دفعہ اپنے فیصلے میں غلطی کرتاہے اور جہاں عقوبت مناسب ہوتی ہے وہاں رحم کر بیٹھتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی برا پیدا ہوتا ہے اس صفت رحم پر کچھ اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو اس کو بر خلاف فطرت استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے.جیسے کہ ایک دوائی جو خواہ کیسی ہی مفید ہو اور کیس کی قیمتی اور لاثانی ہو اگر کسی ایسے مریض کو دی جائے گی جس کے لئے وہ

Page 283

مضر ہے تو ضرور نقصان کرے گی.لیکن اس سے اس دوائی پر کوئی اعتراض نہیں پڑے گا کہ یہ خراب ہے مثلا کو نین ایک بڑی مقدار میں ایک حاملہ عورت کو دے دی جائے تو وہ اسے نقصان کرتی ہے تو اس سے کونین پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو تشخیص کرنے والے کی غلطی ہے کہ اس نے مریض کی حالت کو نہ دیکھا.پس اگر رحم کو بے موقعہ استعمال کرنے پر اس کا کوئی برانتیجہ نکلے تو یہ تشخیص کانقص ہے نہ کہ رحم کا کیو نکہ رحم تو ہر حال ایک عمدہ صفت ہے ہاں جب اسےغیرمحل استعمال کیا جائے گا تو ضرور اس سے نقصان ہو گا.پس اس قسم کے نقصانوں سے خود رحم پر کوئی اعتراض نہیں پڑا تھا.اور وہ بہرحال ایک عمدہ صفت ہے.غرضکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رحم انسانی سرشت میں ازل سے پڑا ہوا ہے.اور رحم نہ کرنے والا اگر ظالم نہیں تو بخیل ضرور خیال کیا جاتاہے.خدا تعالیٰ نے ہر ایک روحانی بات کا ایک پہلو اس دنیا میں دکھایا ہے تاکہ انسان اس کو دیکھ کرسمجھ سکے کہ اسی طرح وہ معاملہ بھی ہو گا.اسی کے مطابق اپنے کاموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ رحم کی صفت پر جب تک عمل نہ کیا جائے تو ہمارے اخلاق اپنا کمال حاصل نہیں کرتے چنانچہ عدل خود بھی ایک عمدہ صفت رحم کے ماتحت ہے یعنی جبکہ ہم کسی کو اس کا پورا بدلہ دیں تو وہ عدل کہلا تا ہے اورجب ہم اسے زیادہ دیں تو وہ احسان یا رحم کہلاتا ہے جیسے کہ ایک مزدور جو سارا دن کام کر تا رہا اورشام کو اسے آٹھ آنے مزدوری ملتی ہے اگر ہم اسے ایک روپیہ تو یہ ہمارارحم ہے اور احسان ہے اور اس فعل سے ہماری دنیا میں بدنامی نہیں ہوگی بلکہ شہرت ہوگی اور ہماری نیکی کی لوگ تعریف کریں گے یا ایک قرضدار جس نے ہمارا کھ روپیہ دینا ہے اگر ہم اس سے پورارو پیہ وصول کریں تو یہ ہمارا عدل ہو گا اور کوئی ہم پر اعتراض نہ کرے گا کہ تم نے ایسا کیوں کیا.لیکن اگر ہم اس کو روپیہ بخش دیں یا کم استطاعت پر خیال کر کے اس کو اور ڈھیل دید ہیں تو یہ ہمارار حم ہو گا.اور اس پر ہم بد نام نہیں نیک نام ہوں گے اور خود اس شخص کے دل میں جو ہمارا مقروض ہے ہماری عزت اور محبت بڑھ جائے گی.جیسا کہ قرآن شریف نے بھی اس مسئلہ کو خوب وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ ج وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَالشوری :۴۱) یعنی اس بات کی خدا تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ جس نے جس قدر بدی تم سے کی ہے اسی قدر اس کوسزادے لو.لیکن اگر کوئی اصلاح سمجھ کر معاف کر دے تو وہ عند الله مأجور ہو گا.اور خدا تعالیٰ کی

Page 284

درگاہ میں انعام کا مستحق ہو گا.ہاں یہ خیال رہے کہ خدا تعالیٰ ظالمین کو پسند نہیں کرتا.یعنی نہ ان کوجنہوں نے ظلم کیا اور نہ ان کو جنہوں نے اصلاح،عفو میں دیکھ کر پھر بھی سزادی اور نہ ان کو جنہوں نے بے حیائی سے کام لیا اور عفوسے دنیا میں اور بھی فساد پیدا کیا.پس اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عفو اور رحم عدل سے زیاده عمدہ صفتیں ہیں اور اس سے اعلیٰ درجہ پر ہیں اور خود تجربہ ہم کو بتانا ہے کہ جب ہم عدل کرتے ہیں تو اس کے لئے ہم ایسے مشکور نہیں ہوتے جیسا کہ رحم کےوقت مثلاً ایک مزدور کو اس کی پوری مزدوری دے کر ہم شکریہ کے مستحق نہیں ہوتے ہیں جب ہم اس کو کچھ انعام بھی دے دیں تو اس وقت و ہ دل سے ہمارا شکریہ ادا کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کی نظروں میں بھی ہم قابل تحسین ٹھہرتے ہیں یا جبکہ ایک شخص ہم کو گالیاں دیتا ہے یا مارتا ہے تو اگر ہم اس وقت عفو میں اصلاح دیکھ کر اس کو معاف کر دیں جس سے آئندہ اس کو نصیحت ہو جائے تو یہ ہمارا عیب نہیں سمجھا جائے گا.بلکہ ایک خوبی ہوگی اور لوگ بجائے اس کے کہ ہم کو ظالم کہیں کہ ہم نے عدل نہیں کیا کہ مزدور کو بجائے آٹھ آنے کے روپیہ دے دیا اور قرض خواہ کو معاف کردیا اورہم کو تکلیف دینے والے کو بغیر تکلیف کے چھوڑ دیا بلکہ لوگ ہماری تعریف کریں گے اور ہم کو رحم ول قرار دیں گے.اور بجائے نقص کے یہ فعل ہماری خوبی سمجھی جائے گی.غرضیکہ انسان میں رحم کا مادہ ہے.اور عمدہ سمجھا جا تا ہے.اور عدل سے بہت بڑا درجہ رکھتا ہے.اور حسب موقعہ رحم نہ کرنے والا ظالم تصور کیا جا تاہے ہیں جبکہ اس خوبی کو اپنے اندر دیکھتے اور روز مشاہدہ کرتے ہیں توپھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس خوبی سے محروم ہے اور اس کی صفات میں رحم کا کوئی مادہ نہیں.پسں انسانی مشاہدہ ہم کو بتاتا ہے اور روز روشن کی طرح کھول دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ میں رحم کی صفت ضرور ہے ورنہ وہ ناقص ہو گا اور ناقص رات اپنے اندر آپ قائم نہیں رہ سکتی اور اس طرح خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار کرنا پڑے گا.اور دہریت کی طرف رجوع کرنا ہو گایا کم سے کم یہ ماننا پڑے گا کہ جو نیک صفات ہم میں ہیں وہ خدا تعالیٰ میں نہیں اور بعض نیکیاں ایسی بھی ہیں کہ جن میں ہم خدا تعالیٰ سے بڑھ گئے ہیں.اور یہ ایک سخت کفر اور شرک کا کلمہ ہے کہ جو ایک نیک آدمی کبھی بھی اپنی زبان پر نہیں لا سکتا.غرض کہ اب میں ثابت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ذات کے سمجھانے کے لئے ہم میں اپنی صفات کا ایک پر تو رکھا ہے جس سے کہ ہم نیکی اور بدی کو پہچان سکتے ہیں.اور اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف کونسی صفت کا منسوب کرنا خلاف شان ہے.اور کونسی صفت کا اس سے الگ کرنا اس کے نقص پر دلیل ہے.چنانچہ قرآن شریف سے میں نے

Page 285

اس کا ثبوت دیا ہے اور پھر میں نے بتایا ہے کہ رحم کی صفت انسان میں ہے اور وہ عدل سے بڑھ کر سمجھی جاتی ہے اور اگر وہ نہ ہوتی تو دنیا کا کارخانہ ہی الٹ جا تا.اور پھر قرآن شریف سے میں نے اس مسئلہ کو بھی نکال کربتا یاہے کہ اسلام بھی اسی کا قائل ہے چنانچہ جب یہ ثابت ہو چکا.تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ میں بھی رحم کا مادہ ہے اور وہ چو نکہ عدل سے بالا ہے اور اعلی مرتبہ ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی گونا گوں حکمتوں سے کام لے کراس صفت کو بھی استعمال کیا ہے.اور میرا اس مسئلہ کو یہاں لکھنا اس باعث سے ہے کہ اس مسئلہ کے حل ہونے سے نجات کا مسئلہ خود بخود حل ہو جا تا ہے.اسلام کے سوا دوسرے مذاہب نے عدل اور رحم میں فرق محسوس نہ کرنے میں نجات کےمعاملہ میں غلطی کھائی ہے اور اگر وہ خدا تعالیٰ کی ان صفات میں دھوکہ نہ کھاتے تو کبھی بھی نجات کےمعاملے میں ان کو غلطی نہ ہوتی.اب میں اسلام کی نجات کو بتاتا ہوں کہ وہ کس طرح انسانی نجات کو قوانین فطرت کے مطابق قرار دیتی ہے.سو یاد رہے کہ خدا تعالیٰ تم کو بتاتا ہے کہ میں رحمٰن ہوں.میں رحیم ہوں.اگر تم گنہگار ہو اور جہل اور کم علمی سے با معرفت کی کمی سے تمہارے دلوں پرزنگ لگ گیا ہے.اور تمهاری عمر کو گناہوں کے کیڑے نے گھن لگا دیا.اور تم ایک عرصہ تک اپنی ماں کی چھاتیوں سے جدارہے ہو اور مصنوعی پستانوں کو جو دانتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بھوک ان سے دور نہیں ہوتی چوستے رہے ہو.اور ان دشوار گزار راہوں میں پڑے رہے ہو جو انسان کو صراط مستقیم سے دور پھینک دی ہیں اور اس بچھڑے کی طرح جو اپنی ماں کو بھول کر ایک مصنوئی گائے کے پیچھے لگ جائے کہ جس کے اندر سوائے بھس کے اور کچھ نہیں میری پرستش کو چھوڑ کر ہو او ہوس کے غلام بنے رہے.تو آؤ میں تمہارے گناہ بخش دوں گا.اور جیسے ماں اپنے بچھڑے ہوئے بچہ کو جو ایک مدت تک آوارہ رہا ہو اور پھر اپنی آوارگی پریشان ہو کر اپنی ماں کے گھر میں رہنے کے لئے آیا ہواپنے کلیجہ سے لگا لیتی ہے ویسے میں تمہاری کل خطاؤں کو بھلا دوں گا.اور نئے سرے سے تم سے عہدباند هوں گا اور تمہاری کل کمزوریوں کو نظر انداز کر دوں گا اور تمہارے گناہوں کو میٹ دوں گا.اور تمہاری بدیوں کو پوشیدہ کر دوں گا.اور تمہیں وہ کچھ دوں گا کہ جس کا گمان تک بھی تمہیں نہ ہو.چنانچہ فرماتا ہے کہ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ

Page 286

وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ (الزمر ۵۴،۵۵ ) یعنی اے میرے بندو ا!کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی.اور گناہوں میں ڈوب گئے اور خطاؤں میں غرق ہو گئے.اور ہر وقت ظلم وتعدی میں لگے رہے ہو اور جنہوں نے خدا کی راہ بھلا کر اور راہ اختیار کرلی ہے اور اس مہربان اورسچے محبوب کو چھوڑ کر اور اشیاء سے دل لگایا ہے اور حقیقت کی بجائے جھوٹ کو پسند کیا ہے اورخالق کی جگہ مخلوق کو چن لیا ہے.اور نیکی کو ترک کر کے بدی کو لے لیا ہے.نا امید مت ہو اور میری درگاہ سے مایوسی مت کرو.کیونکہ میں تو سب گناہوں کو معاف کر دیا کرتا ہوں اور ہر ایک قسم کی خطاؤں سے درگذر کر تا ہوں اور بڑا مہربان ہوں تم گھبراتے کیوں ہو اور مایوس کیوں ہوتے ہو جس وقت تم کو سمجھ آئے.اور تم معلوم کر لو کہ اصل سچی راہ کونسی ہے اور سلامتی کس طریق میں ہےاور ہدایت کا راستہ کرنا ہے اور نیکی اور تقوی کیا ہے اور بدی میں کون کون سے نقائص ہیں اورگناہوں سے کیا نقصان ہے اور تمہارے دل نیکی کی طرف جھک جائیں اور تم کو سچائی کی لو لگ جائے اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے تم بے چین ہو جاؤ تو اس وقت میری طرف جھکو.اور اپنےگناہوں کا خیال مت کرو اور مضٰی مامضٰی سمجھ کر اپنی پچھلی زندگی کو بھلا وو.اور آئندہ کے لئےبہتری کا ارادہ کر لو اور یاد رکھو کہ میں تمهارارب ہوں جس نے تمهاری جسمانی کمزوریوں کے لئےاور بیماریوں کے لئے ہر ایک قسم کی دوا تجویز کی ہے.اور تمہاری جسمانی ضروریات کے لئے سامان مہیا کئے ہیں اور والدین کی محبت بھری گود سے تمہاری مدد کی ہے.پس جب کہ میں ایسارب ہوں تواپنی روحانی مصیبتوں کے وقت بھی گھبراؤ مت اور بلاکھٹکے توبہ کرو.اور میری طرف جھک جاؤ اورآئندہ میری فرمانبرداری کا اقرار کر لو اور ارادہ کرو تاکہ تم اس عذاب سے بچ جاؤ جو کہ جب آتا ہے تو پھر کسی کی مدد نہیں کی جاتی.پس کیسی پاک ہے یہ تعلیم اور کیسا پیارا ہے یہ کلام جو اسلام نے نجات کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو نہ صرف کل اعتراضوں اور کمزوریوں سے ہی میرا ہے بلکہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور ہمارے روز مرہ کے مشاہدات کی تائید کرتا ہے.کیونکہ والدین کو الگ کر کے جب کہ ہمارے دوست و آشنا عزیز و اقرباء اور ہمسائے اور واقف اور ملاقاتی تک بھی ہم پر رحم کرتے ہیں اور ہماری کمزوریوں پر چشم پوشی کرتے ہیں اور اگر ہمارے قصوروں کو یاد رکھیں اور حافظہ سےگرانہ دیں تو کینہ توز او ر کینہ کہلاتے ہیں تو پھر وہ خدا جو ہمیں وجود میں لایا اور ہمارے لئے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور ہر قسم کی نعمتوں سے ہمیں بہرہ مند کیا اور کرم اور فضل سے ہمارا گھر بھر دیا.اور

Page 287

ہر قسم کے سامان ہمارے لئے مہیا کئے اور ذرہ ذرہ چیز کا خیال رکھا اور کوئی چیز نہ رہی کہ جس کی ہم کوضرورت ہو اور اس نے اسے پیدا نہ کیا ہو اور کوئی سامان نہ رہا جو ہمارے لئے آرام کا موجب ہواور اس نے اسے نظر انداز کر دیا ہو جس نے ہماری پرورش کے لئے والدہ کی چھاتیوں میں سےدودھ نکالا اور ہم کو نامعلوم ذ ریعوں سے اس کے پینے کا علم سکھلایا.جب کہ کوئی شئے ہم کو کچھ نہ سکھلاتی تھی اور جس نے چرند پرند اور درند پر ہم کو حکومت بخشی اور چاند اور سورج کو ہمارےلئے مسخر کیا اور عناصر کو ہمارے تابع فرمان بنایا.کیا ہمارے گناہوں پر چشم پوشی نہ کرے گا اور ہماری خطاؤں سے درگذر نہ کرے گا؟ اور جبکہ ہم اس کے پاس اپنی کمزوریوں سے واقف ہو کر مدد کےلئے جائیں.اور ہمدردی کے لئے چلا ئیں اور ہمارے سینے فرطِ غم سےپھٹ جائیں اور دوزخ کانظارہ ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور کرب و اندوہ سے ایک دیوانگی طاری ہو جائے تو کیا وہ مہربان اپنی محبت کے دامن کو ہم سے الگ رکھے گا اور ہم پر نہیں ڈالے گا.اور کیا ایسے وقت میں اپنی الفت کی اور میں ہم کو نہیں لپٹائے گا.اس کی مہربانیاں اور بندہ پروریاں ظاہر کرتی ہیں اورفطرت انسانی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ رحیم کریم ہستی وہ مہربان ذات جو ماں باپ سے زیادہ مہربان اور عزیز و اقرباء سے زیادہ محبت کرنے والی اور بھائی بندوں سے زیادہ الفت رکھنے والی اوربیوی بچوں سے زیادہ پیار کرنے والی ہے ضرور ضرور اور ضرور ہماری توبہ کو قبول کرے گی اورہمیں ہلاکت کے گڑھے سے نکال لے گی کیونکہ جب کہ ہم اپنے پیاروں کی توبہ قبول کرتے اوراجنبیوں پر رحم کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ مہربان خد ا ہم پر رحم نہ کرے گا.یہ خیال اس کی نسبت دل میں لانابھی کفر ہے اور وہ بڑاپاک ہے اور بڑا مہربان ہے.وہ ہم کو اپنے پاک کلام میں بتاتا ہے کہ ہرگز نا امید مت ہو اور مایوسی میں نہ پڑو.بلکہ جب تم اپنے گناہوں پر آگاہ ہو جاؤ اور نیکی کی قدر کو پہچان لو تو فورا ًتوبہ کرو اور یہ خیال مت کرو کہ اب کیاہو گا.اب تو تم بہت سے گناہ کر چکے ہو اور جہنمی ہو چکے ہو بلکہ ہر وقت میری رحمت کے امیدواررہو کہ میں ماں باپ سے زیاده مہربان ہوں اور بیوی بچوں سے زیادہ خیر خواہ- اور ایک جگہ ہی نہیں بلکہ بیسیوں کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اس مضمون میں کہا ہے کہ میں بخشنہار ہوں اور خطاؤں کو معاف کرتا ہوں اسی لئے ناامید ہونے والے کو کافر کہا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ (يوسف: ۸۸ )یعنی اے لوگو! تم خدا تعالیٰ کی مہربانی سے ناامید مت ہو کیونکہ اس کی رحمت سے وہی لوگ نا امید ہوتے ہیں کہ جو

Page 288

کافر ہوتے ہیں یعنی جن کو اس کے لطف اور کرم پر بھروسہ نہیں ہوتا.اور جو اس کی مہربانیوں کو جوکہ پیدائش کے دن سے اس دن تک ان پر ہوئی ہوتی ہیں بھلا چکے ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایماندارہوتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر نہ کر چکے ہوتے تو کبھی بھی یہ گمان نہ کرتے کہ خدا تعالیٰ آڑےوقت میں ان کے کام نہ آئے گا اور توبہ قبول نہ کرے گا پھر اور بہت سی جگہوں میں بار بار فرماتا ہےکہ توبہ کرو توبہ قبول ہوگی چنانچہ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ (التحریم:۹)) یعنی اے لوگو جن کو مجھ پر ایمان کیا ہے میری طرف توبہ کرو اور ایسی تو بہ ہے کہ جو خالص ہو توقریب ہے کہ میں جو تمہارارب ہوں.تمہاری بدیوں اور گناہوں اور خطاؤں اور کمزوریوں اورنقصوں کو دور کر دوں اور پردہ ڈالدیں اور اس کے بعد تم کو وہ مدارج عنایت کروں کہ تم دین ودنیامیں بڑے ہو جاؤ اور میرے انعامات و اکرامات کے مستحق بن جاؤ اور ملکوں کا بادشاہ تم کو بتا دیاجائے.پس اس جگہ خدا تعالیٰ نے اپنے گنہگار بندوں کو دلیری دی ہے اور کہا ہے اگر تمہارے دل ایمان کی طرف جھک گئے اور تم نے مجھے پہچان لیا ہے تو آؤ توبہ کرو تاکہ تمہارے گناہ بخش دیئےجائیں اور انعامات الہٰیہ کے تم وارث ہو جاؤ اور پھر فرماتا ہے کہ الم يعلموا أن الله يقبل التوبة عن عباده وياخذ الصدقت وان الله ھو التواب الرجيم (التوبه۱۰۴ ) یعنی کیالوگ نہیں جانتے کہ اللہ ہی تو ہے جو کہ توبہ کو قبول کرتا ہے اپنے بندوں سے اور صدقات لیتا ہے اور یہ کہ تحقیق اللہ تعالیٰ بڑاتوبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے اس جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اصل میں تو خدا تعالیٰ ہی توبہ قبول کرتا ہے اور کوئی نہیں جو کہ توبہ قبول کرے جس کا یہ مطلب ہے کہ اول تو لوگ خدا تعالیٰ جیسے مہربان اور عنایت فرما ہو نہیں سکتے دوسرے جو لوگ مہربانی کرتے ہیں وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کو کام میں لاتے ہیں اس لئے اصل تو وہ اللہ ہی قبول کرتا ہے پس خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسانوں نے توبہ کیا قبول کرنی ہے اصل توبہ تو میں قبول کرتا ہوں کیونکہ میں سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہوں پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ( المؤمن : ۴ )یعنی اللہ تعالیٰ گناہوں کا بخشنے والا اورتو بہ کا قبول کرنے والا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ وہ سزادے نہیں سکتا بلکہ وہ شدید العقاب ہے.ہاں یہ مہربانی اس لئے ہے کہ وہ ذی الطول یعنی انعام کرنے والا ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.اور اسی کی طرف پھر جانا ہے.غرض کہ اب میں ثابت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں کل نیک صفات

Page 289

پائی جاتی ہیں اور جو کوئی کسی نیک صفت کو اس سے الگ کرتا ہے گویا کہ وہ اس میں نقص مانتا ہےاور اس طرح ناقص قرار دے کر اس کے قائم بالذات ہونے سے بھی منکر ہے اور میں نے بتایا ہےکہ انسانی خلقت میں بھی رحم بھرا پڑا ہے اور یہ کہ عدل ر حم سے نچلے درجہ کی ایک صفت ہے اورخدا تعالیٰ جو تمام محاسن کا جامع ہے رحم سے کبھی بھی الگ نہیں ہو سکتا.بلکہ وہ بڑا رحیم کریم ہے اورجب کوئی شخص اپنے گناہوں سے سچے دل سے پچھتائے اور خدا کے حضور میں توبہ کرے تو چو نکہ وہ ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے اس لئے جیسا کہ ماں باپ اپنی اولاد کا قصور معاف کرتے ہیں اس سے زیادہ اور بہت زیادہ وہ اپنے بندوں کا قصور معاف کرتا ہے اور میں نے قرآن شریف سے ہرایک بات کا ثبوت دیا ہے پس اب ہر اک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جیسے اسلام نے پچھلے گناہوں سےعذاب سے بچنے کا طریق بتایا ہے اور جس قسم کی نجات اسلام نے بیان فرمائی ہے وہ کسی مذہب نےبیان نہیں کی اور چونکہ اسلام کی نجات ہی فطرت انسانی اور مشاہدہ قدرت سے اور عقل سے ثابت ہوتی ہے اس لئے سوائے اس کے اور کوئی بات ٹھیک نہیں ہو سکتی.کیو نکہ یہ کس طرح ممکن ہےکہ با اخلاق انسان تورحم کے پتلے ہوتے ہیں مگر وہ خداجو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان اور سب شفیقوں سے زیادہ شفیق ہے وہ اس صفت سے محروم ہو.گویا کہ وہ ایک معشوق ہے کہ جس کا ایک عضوندارد ہے پس ایساخد ا قائم بالذات خدا ہو سکتا ہے ؟ نہیں اور ہر گز نہیں ہیں یہ تمام نقص جیساکہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں صرف صفات الہٰیہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ اسلام تمام زمانہ کی دست برد سے پاک ہے اور قرآن شریف ایک ہی محفوظ کتاب ہے اس لئے اس مسئلہ کو اسی کتاب نے ٹھیک طور پر حل کیا ہے اور ایساپاک اور نقائص سے مبّرا خد اانسان کے سامنےپیش کیا ہے کہ جس کی شفقت اور رحمت کو دیکھ کر مردہ دل زندگی پاتے اور گمراہ ہدایت حاصل کرتے ہیں پس اصل نجات وہی ہے جو کہ اسلام نے بیان فرمائی ہے.ایک اور پہلو سے نظر ڈالنے پر بھی میرے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں تین تم پر ہر ایک چیز منقسم ہوتی ہے.ادنٰی اوسط اور اعلیٰ.ادنیٰ پر اوسط بہرحال افضل مانی جائے گی اور اوسط پر اعلیٰ کو فوقیت ہوگی.اور اس رو سے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم صفات میں سے ادنی ٰہے کیونکہ اس کے معنی میں ایک چیز کو غیر موقعہ پر رکھنا اور اس طرح پر کسی کی حق تلفی کرنی اور اس سے اوپر پھر عدل کی صفت ہے کہ جس کے معنی ہیں کہ جس کا جتنا حق تھا اس کو اس قدردے دینا.اوراگر کوئی شخص ایک روپیہ کا مستحق ہے تو اس کو بغیر کمی یا زیادتی کے ایک روپیہ ہی حوالہ کر دینا.' 4

Page 290

اور اس درجہ سے اور پھر ایک اور درجہ ہے جس کا نام ہے رحم جس کے معنی ہیں کہ ایک شخص کو جس قد راس کا تھا اس سے زیادہ دے دیا جائے مگر اس سے کسی اور کی حق تلفی نہ ہو.مثلا ًایک شخص نے ایک مزدور لگایا اور اس نے دو روپیہ کا کام کیا تو دو روپیہ کی بجائے اسے اگر تین دے دیئے تو یہ اس کارحم ہے ہاں شرط یہ ہے کہ کسی اور کا حق مار کر ایسانہ کیا گیا ہو کیونکہ اس صورت میں یہ رحم رحم نہیں رہ سکتا.چنانچہ خالق و مخلوق کے مدارج بھی ہم دیکھتے ہیں تو تین ہی ہیں ایک تو وہ لوگ جوشریر ہیں اور شیطان آدمی کہلاتے اور اسکے متبع سمجھے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو کہ نیک ہوتے ہیں اور ایک خود اس کائنات کا وجود میں لانے والا پس ظلم تو اصل صفت شیطان کی ہے کہ اس کے متبع اس صفت سے متصف ہیں اور عدل اصل صفت نیک لوگوں کی ہے اور رحم اصل صفت خدا تعالیٰ کی ہے اور میں مناسب تقسیم ہے کیونکہ شیطانی کام تو شیطان سے ہی سرزد ہوں گے اور چونکہ مخلوق خالق کے برابر نہیں ہو سکتی اس لئے ضرور ہے کہ اس کی اصل صفت وہ ہو جو کہ وسط میں ہے یعنی عدل.اور خالق کی صفت سب سے اعلیٰ ہو یعنی رحم چنانچہ قرآن شریف سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے اور کہیں خدا تعالیٰ نے ظلم کا لفظ اپنے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ یہی فرمایا کہ لا يظلمون فتیلایعنی ہمار ی د ر گاہ میں فیصلہ کے وقت ایک ذرہ بھربھی ظلم نہیں ہوتا.اور نیک لوگوں کو رحم کی ترغیب دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ان الله يامربالعدلیعنی اللہ تعالیٰ تم کو نیک صفات میں سب سے پہلے عدل کی تعلیم دیتا ہے ہاں جب تم کمال حاصل کر لو تو تخلقوا باخلاق اللہ کے ماتحت تم کو پھر تم کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے چنانچہ فرماتا ہے والإحسان وإيتاءذی القربی لیکن سارا کا سارا قرآن شریف دیکھ جاؤ ایک جگہ بھی تم عدل کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے نہ پاؤ گے بلکہ یہی پاؤ گے ان الله غفوررحيم جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی اصل صفت رحم ہے جس کے ماتحت آکر عدل بھی ہو جاتا ہے ورنہ زیادہ تر وہ رحم سے ہی کام لیتا ہے پس قرآن شریف میرےاس دعوے کی تائید کرتا ہے اور یہ کوئی ایسا دعویٰ نہیں جو میرا خود ساختہ ہو خور فطرت انسانی اس پرمہر کر تی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ بالله مخلوق و خالق کی تقسیم اس طرح پر ہے کہ اول شیطان کہ جو ظلم کرتا ہے اور اس کی ترغیب دیتا ہے دوم خدا تعالیٰ کہ جو عدل کرتا ہے اور سب سے اعلی مرتبہ پر انسان ہے کہ جو رحم کی صفت سے متصف ہے اور یہ ایک ایسا خیال ہے کہ جس کے ماننے کے لئے کوئی ذی عقل تیار نہیں جس سے لازمی طور سے معلوم ہو تا ہے کہ جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے خدا تعالیٰ ضرور رحیم کریم ہے اور اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور :.

Page 291

ان کے پچھتانے پر ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش نہیں آتا.بلکہ نرمی کرتا ہے.اور اگر خدا تعالیٰ کو نعوذ بالله رحیم نہ مانا جائے اور توبہ کو قبول کرنے والا نہ مانا جائے *تو ایک اور بھی عظیم الشان اعتراض پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارا خالق نہیں ہے کیونکہ خالق اپنی مخلوق کےخواص سے خوب واقف ہو تا ہے.اور فطرت انسانی میں ہم رحم کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواپاتےہیں پس اب دو صورتوں میں سے ایک سورت ہے یا تو آریوں ،مسیحیوں کا خدار(نعوذ بالله ) ہماراخالق نہیں کیونکہ اس کو معلوم نہیں کہ فطرت انسانی میں محبت اور رحم کا ما دہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے تب ہی تو وہ ہم کو وہ تعلیم دیتا ہے جو ہماری فطرت کے بر خلاف ہے اور جب وہ ہماری فطرت کےبر خلاف ہے تو اس پر عمل کرنا تکلیف مالا یطاق ہے.اور اگر وہ ہمارا خالق ہے اور ضرور ہے تو مانناپڑے گا کہ وہ ضرور رحیم ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ وہ ہماری فطرت میں تو یہ بات رکھ دے کہ رحم کو ہم عدل سے زیادہ سمجھیں.اور پسند کریں اور خود رحیم نہ ہو کیونکہ اس صورت میں ہم کو(نعوذ باللہ ) اس سے کبھی بھی محبت نہیں پیدا ہو سکتی.اب میں خدا کے فضل و کرم سے قوانین فطرت اور نیچے سے ثابت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ ضرور رحیم ہے اور توبہ کو قبول کرتا ہے کیونکہ محبت حسین سے ہوتی ہے اور رحم ایک بڑا حسن ہے.پس کسی صورت میں خدا تعالیٰ جو اصل معشوق ہے اس حسن سے خالی نہیں ہو سکتا اور یہ کسی صورت میں بھی ممکن نہیں کہ وہ مہربان خداجو والدین سے لاانتہا د ر جہ زیادہ محبت کرنے والا ہےجبکہ اس کے آگے ہم پشیمان ہو کر جائیں اور شرمندگی سے اس کی دہلیز پر اپنی گردن جھکا دیں تو وہ ہم کو کند چھری سے ذبح کردے اور اگر ایسا ہو تو خدا تعالیٰ اخلاق میں انسان سے بھی ادنیٰ متصور ہو گا جو ناممکن ہے.اور یہ بھی میں نے ثابت کیا ہے کہ اس عقیدہ سے پھر خدا تعالیٰ کے خالق ہونے سے بھی جواب دینا پڑتا ہے پس وہی طریق راست اور درست ہے کہ جو قرآن شریف سے معلوم ہو تاہےاور جیسا کہ میں آیات کے حوالوں سے ثابت کر آیا ہوں کہ خدا تعالیٰ ضرور رحیم ہے اور گناہوں کووہ ضرور بخشا ہے اور اس جیسا تو بہ کو قبول کرنے والا اور کوئی ہے ہی نہیں کیونکہ وہ و حده لا شریک ہے چنانچہ مسیحیوں کے لئے تو یہ مثال کافی ہے کہ جب یونسؑ نبی کی قوم پر اس کے کفر کی وجہ سےعذاب آیا تو ان کے چیخنے اور چلانے پر وہ عذاب ہٹ گیا پھریوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کوبخشا اور خدا نے اسے ملامت نہ کی خود مسیحؑ کہتا ہے کہ : *خدا تعالیٰ کو رحیم تو کہتے ہیں اور آریا دیا کرپالو مانتے ہیں مگر چونکہ عملاً اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ توبہ کے قبول کرنے اور گناہوں پر چشم پوشی کرنے میں اسے قاصر جانتے ہیں.اس لئے میں نے اس مضمون میں اس جگہ لکھا ہے کہ وہ اس کے ختم ہونے کے منکر ہیں.

Page 292

’’اور جبکہ تم دعا کے لئے کھڑے ہوتے ہو.اگر تمہیں کسی پر کچھ شکایت ہو تو اسے معاف کرو تاکہ تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہارے قصوروں کو معاف کرے اور اگر تم معاف نہ کرو گے.تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے.تمہارے قصور معاف نہ کرے گا\" (مرقس اا آیت ۲۹۴۶۵)آریوں کا خد ادیالو کر پالو ہے.اس سے بھی معاملہ فیصل ہو جاتا ہے.ان اعتراضوں کا جواب جو توبہ پر کئے جاتے ہیں مسیحی صاحبان اور ان کی دیکھا دیکھی آریہ مہاشے توبہ کے مسئلہ پر پانچ اعتراض کرتے ہیں جن کا جواب دینا بھی میں اس جگہ ضروری سمجھتا ہوں اور گو کہ اس سے مضمون لمبا ہو جائے گا.مگراس کے بغیر مضمون کا ایک حصہ ناقص رہ جاتا ہے اس لئے ضروری ہے.پہلا اعتراضپہلا اعتراض تو بہ کی قبولیت پر یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے تو گویا ظالم ہے (نعوذباللہ).مگر ایسا اعتراض کرنے والے ظلم کی حقیقت کو جانتے ہی نہیں.کیونکہ جیسا کہ میں اپنےمضمون میں ثابت کر آیا ہوں جب ایک شخص گناہوں سے پچھتا کر اور اپنی غلطی سمجھ کر واپس آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو اسی وقت اس کی توبہ کا قبول نہ کرنا ایک حد تک ظلم کہلا سکتا ہے.مگر اس کی توبہ کو قبول کر لینا اور اس کے گناہوں پر چشم پوشی کرنا کوئی ظلم نہیں بلکہ احسان کہلاتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ کسی پر احسان کرے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا بلکہ یہ بات اس کی شان کے شایاں ہے کیونکہ یہ بات ہراک پر عیاں و مبرہن ہے کہ اگر ایک شخص کسی کو اس کےکسی فعل کے بغیر کچھ روپیہ بطور احسان کے دے دے تو اس کو لوگ ظالم نہیں سمجھتے.بلکہ جیسے کہ میں بیان کر چکا ہوں ظلم کے معنی تو یہ ہیں کہ کسی شخص کی حق تلفی کی جائے اور جب تک کسی کی حق تلفی نہ ہو تو و و عطا ظلم نہیں بلکہ احسان ہوتی ہے مثلا ہم جو ایک فقیر کو کچھ دیتے ہیں تو ہمارے نوکرکبھی شکایت نہیں کر سکتے کہ تم نے ہم پر ظلم کیا بلکہ اگر ہم ان کی تنخواہ سے کچھ رقم کاٹ کر فقیروں کودیں تو اس وقت ان کی شکایت بجا ہوگی کہ ہمارا حق کسی اور کو کیوں دیا گیا مثلا ًایک آقا کسی مزدوکی کمزور حالت کو دیکھ کر اسے وقت سے پہلے رخصت کر دے تو اسے ظلم نہیں کہتے.ہم گورنمنٹ کو ہی دیکھتے ہیں کہ بعض قیدی اس لئے میعاردسے پہلے چھوڑ دیتی ہے کہ ان کی صحت خطرہ میں تھی.

Page 293

مگر کوئی نہیں جو گورنمنٹ کے بر خلاف شکایت کرے کہ اس نے سخت ظلم کیا اور ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ اس قیدی کو میعاد سے پہلے ہی چھوڑ دیا ہے کیونکہ سب دیکھتے ہیں کہ اس قیدی کی حالت قابل رحم تھی اور گورنمنٹ نے جو کچھ کیا بالکل مناسب کیا.پس اگر خدا تعالیٰ بھی کسی مجرم کی حالت قابل رحم دیکھے اور جان لے کہ شرم و حیا کی آگ سے اس کی ہوا و ہوس جل کر خاک ہو گئی ہے اور ندامت کے مارے اس کے لئے زندگی وبال جان ہے تو اسے کیوں نہ بخشےاور کیوں اس کے دل میں اطمینان پیدا نہ کر دے اور کیوں نہ کہے کہ لا تثريب عليكم اليومغرض کہ گناہ کا بخشنا ظلم نہیں ہوتا.ظلم وہ ہے کہ جس میں کسی کی حق تلفی ہو اور اس میں کسی کی حق تلفی نہیں ہاں بعض اوقات گناہوں کانہ بخشا ظلم ہو جا تا ہے.دوسرا اعتراضدوسرا اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ گناہوں کوپسند کرتا ہے کہ توبہ کو قبول کرتا ہے کیونکہ جب انسان کویقین ہو جائے کہ میں جتنے گناہ بھی کر لوں اور کتنے قصور بھی مجھ سے سرزد ہو جائیں ایک تو بہ سےسب پر پانی پھر جائے گا اور میں پھر پاک و صاف ہو جاؤں گا اور کوئی دکھ اور درد مجھ کو نہ پہنچے گا اور کسی قسم کی سزا مجھ کو نہ ملے گی.تو اس صورت میں وہ گناہوں پر دلیر ہو جائے گا اور کہے گا کہ اب توگناہ کر لو پھر توبہ کرلیں گے اور امن کی کوئی صورت نہ باقی رہے گی اور گناہوں کی کثرت سے دنیا بھرجائے گی مگر یہ اعتراض گو کوتاہ چشموں کی نظروں میں کچھ وقعت رکھے مگر قرآن شریف اور قوانین نیچر کے دیکھنے والے اس کی حقیقت سے آگاہ ہیں کہ محض بے حقیقت ہے.کیونکہ جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں تو بہ اصلاح کے لئے ہے نہ کہ فساد پھیلانے کے لئے اگر کوئی شخص توبہ کے مسئلہ کی آڑ میں گناہ پھیلانا چاہتا ہے تو وہ شریر اور فسادی ہے اور چونکہ معاملہ ایک علیم و خبیر ہستی سے ہے اس لئے اس کی یہ بات چل نہیں سکتی.ایک انسان دوسرے انسان کاارادہ نہیں جان سکتا.مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عدالتوں میں اس بات پر بڑے زور سے بحث ہوتی ہے اور جرح قدح ہوتی ہے کہ مجرم کا ارادہ کیا تھا اور چند قرائن سے ثابت کیا جا تا ہے کہ مجرم نے جوجرم کیا ہے اس کے سرزد ہوتے وقت اس کا ارادہ فساد کا تھا یا صلح کا اور دوسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ آیا جس وقت مجرم نے یہ جرم کیا اس وقت وہ کسی اشتعال یا جوش میں تھا یا ٹھنڈے دل سے اور سوچ بچار کر کے اس سے وہ فعل شنیعہ سرزد ہوا تھا.اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے وہ کام نیک نیتی سے یا کسی خاص جوش یا غیرت با غضب کے ماتحت کیا ہے.تو اس کے جرم کو یا تو معاف کیا

Page 294

جاتا ہے یا سزا میں بہت تخفیف کی جاتی ہے.اور باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے پاس کوئی بد یہی ثبوت اس بات کا نہیں ہو تاکہ واقعی یہ فعل کس ارادہ سے ہؤاتھا.مگر جس ہستی کے ساتھ تو بہ کا معاملہ درپیش ہے اسلامی عقائد کی رو سے وہ علیم و خبیرا و ر جبار ( مصلح) ہے اور اسلام کا خداذره ذرہ سی بات کو جانتا ہے اور کوئی چیز نہیں خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی جو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوپھر اس سے کسی کا ارادہ کس طرح مخفی ہو سکتا ہے اور وہ بغیر ارادہ کا لحاظ کرنے کے کس طرح کسی مجرم کو سزا دے سکتا یا چھوڑ سکتا ہے ، حالانکہ وہ رحم کرتاہے اور ظلم نہیں اور فساد نہیں بلکہ اصلاح چاہتا ہے.چنانچہ سورۃ مائدہ میں فرماتا ہے کہ لكن يريد ليطھركم (المائده :۷ ) یعنی اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تم کو پاک کرے.پس ایسا شخص توگند پھیلاتا ہے اور توبہ کے بہانے سے دنیا میں فساد چاہتا ہے.پس وہ کب اس قابل ہو سکتا ہے کہ اس گندے ارادہ کے ساتھ توبہ کے دروازومیں داخل کیا جائے.چنانچہ خدا تعالیٰ تو ایسے خبیث لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ : اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف: ۵۷،۵۶) یعنی خبردار خدا تعالیٰ کےساتھ معاملہ کرنے میں شوخی اور شرارت سے کام نہ لو.بلکہ جب اسے پکارو تو بڑی عاجزی اورتضرع سے پکارو او ر علاوہ اس کے لوگوں سے بالکل الگ ہو کر بھی اسے یاد کرتے رہا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند کرتا ہے اور یاد رکھو کہ وہ احکام جو بغرض اصلاح اترے ان کےنزول کے بعد فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرو.بلکہ اللہ تعالیٰ کو خوف و طمع سے یاد کرو.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنین سے قریب ہے پس اس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو احکام اصلاح کے لئے اترے ہیں اگر تم باوجود ان کے اترنے کے غریبوں کے ساتھ شرارت اور فساد کی راہ تلاش کرد گے تو تمهارا انجام تک نہ ہوگا.پس جو شخص اس بدار ارہ سے گناہ کرتا ہے کہ توبہ کی آڑ میں میں سزا سے محفوظ رہوں گا.وہ سخت دھوکے میں ہے اور سخت ٹھوکر کھائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ دھوکہ نہیں کھاتا.اور ایسادھوکہ دینے والا انسان تو مومن ہی نہیں کیونکہ اس کو صفات الہیٰہ پر ایمان ہی نہیں کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ خدا تعالیٰ ان سب کمزوریوں سے پاک ہے پس اس قسم کے اراده والا انسان تو بجائے اس کے کہ توبہ سے کچھ فائدہ اٹھائے تو سب سے پہلے میں ہلاک کیا جائے گا اور عذاب الہٰی اس پر نازل ہو گا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو ایسانا قص سمجھتا ہے کہ دو دھوکے میں آجاتا ہے اور اس وجہ سے اسے دھوکہ دینا چاہتا

Page 295

ہے.دوسرے تو بہ تو اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص یک لخت اپنی غلطی پر آگاہ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آئے اور اس کا دل غم کے مارے پگھل جائے اور وہ رنج و الم کے پہاڑوں کے نیچے دب جائے مگراس ارادہ سے گناہ کرنے والا انسان کہ میں ایک مدت تک گناہ کر کے پھر چھوڑ دوں گا تو پہلے سے ہی سکیم تیار کر چکا تھا.اس کی جھوٹی توبہ توبہ کہلا ہی کب سکتی ہے اور ایسے شخص کادل تو ایسا ہو گاکہ اسے توبہ کا موقع ہی نہ ملے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والله لا يهدي القوم الفسقين( المائده.۹ ۱۰) و الله لا يهدی من ھو مسرف کذاب( المؤمن : ۲۹) و الله لا يهدي القوم الظلمين (البقره: ۲۵۹) پس پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے توبہ کا دروازہ کھول کر گویا گناہوں کا دروازہ کھول دیا ہے.دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ مخالف کا اعتراض مان کر بھی تو بہ گناہوں کی محرک تب ہو سکتی تھی کہ اگر انسان کو اس کی موت کا وقت بتا دیا جاتا کہ فلاں شخص فلاں وقت مرے گا اورفلاں فلاں وقت مرے گا.کیونکہ اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ کہتے کہ مرنے سے پہلےتوبہ کرلیں گے لیکن خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۠ (لقمان :۳۵) یعنی اللہ ہی جانتا ہے کسی کی مقررہ گھڑی کب آئے کی.اور وہی بارش نازل کرتا اور رحموں میں جو کچھ کہ ہے اسے جانتا ہے اور نہ کوئی جانتا ہے کہ اس نے کل کیا کچھ کمانا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اس کو کس مقام پر موت آنی ہے.ہاں اللہ تعالیٰ تو بڑا جاننے والا اور خبردار ہے.پس اس آیت میں خدا تعالیٰ زمانہ اور مکان دونوں کی نفی فرماتا ہے.اور فرماتا ہے کہ نہ تو انسان یہ جانتا ہے کہ وہ کب مرے گا کیوں کہ اس صورت میں وہ موت سےپہلے تو بہ کر سکتا ہے اور نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کہاں مرے گا.کیونکہ اس صورت میں شریر آدمی اس مقام پر جاتے ہی نہ اور اگر جانا پڑ تاتو وہاں رہنے کے زمانہ میں توبہ کرتے تب بینک فساد کا خطرہ ہو سکتاتھا.مگر انسان کو نہ اپنے مرنے کے ایام معلوم نہ مقام معلوم اور علاوہ اس کے فرماتا ہے کہ وہ یہ بھی تو نہیں جانتا ہے کہ کل اس کے حالات کیسے ہوں گے آیا توبہ کی توفیق ملے گی یا نہیں کیونکہ وہ ناواقف ہے کہ کل اس نے کیا کمانا ہے ، پس اس آیت نے اس اعتراض کا کامل جواب دے دیا ہےکیونکہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بو ڑ ھے ہی نہیں بچے بھی اور جوان بھی او ر ادھیڑ بھی مرتے رہتےہیں اور پیار میں انسان پر ایسی اچانک آتی ہیں کہ ایک منٹ میں جان کا خاتمہ کر دیتی ہیں بعض دفعہ

Page 296

دیکھا گیا ہے کہ انسان سوتے سوتے مرگیا.بعض دفعہ محفل دوستاں میں قہقہہ لگاتے لگاتے جان نکل گئی.بیٹھے تھے کھڑے ہوئے اور گر کر مرگئے.کام کرتے ہوئے دل کو ایسا صدمہ پہنچا کہ دستخط نصف ہی رہ گیا اور مرغِ روح قالب عنصری سے پرواز کر گیا.سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ ایک پیر اوپر رکھا اورایک نیچے کہ جان نکل گئی.دیوالہ نکل گیا اور ساتھ ہی پیغام اجل بھی آگیا.ایک دوست آیا اور ختم نکسیر پھوٹی اور سرد ہو گئے.ہیضہ آیا اور چل دیئے.طاعون آئی اور گھر کا گھر برباد کر گئی.غرض ایک نہیں لاکھوں نظیریں ہر سال اس تم کی پائی جاتی ہیں وبا ئیں ،اندرونی اور بیرونی بیماریاں ،رنج و غم ،دشمنوں کے حملے، لڑائیاں، فساد، بغاوتیں ،زلزلہ طوفان ، بجلیاں ہزاروں چیزیں ہیں کہ انسان کی جان کے درپے ہیں اس سے بچے تو اس میں جا پڑے، اس سے نجات پائی تو تیسری در پیش ہےغرضیکہ اس صورت میں ممکن ہی نہیں کہ انسان کے کہ اب تو گناہ کر لو پھر توبہ کرلیں گے ممکن ہےکہ اس ارادہ کے دل میں آتے ہی جان نکل جائے.پس چونکہ موت کا نہ زمانہ نہ مکان انسان کو بتایاگیا ہے اس لئے تو بہ پر یہ اعتراض نہیں آسکتا کہ اس طرح گناہوں پر ولیری ہو گی اور یہ اعتراض توخود مسیحی صاحبان پر بھی پڑتا ہے.کیونکہ جب کفار ہ پر ایمان لانے سے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہےتو کفاره بدرجہ اولیٰ بدیوں کی ترغیب دلانے والا ہے.توبہ کے مسئلہ پر اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کی عقلوں پر تو مجھ کو سخت تعجب آتا ہے کیونکہ تو بہ جن لوگوں کےلئےہےان کا ذکرتوخودقرآن شریف نے کر دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ (ال عمران :۱۳۶،۱۳۷) جس سے معلوم ہو تا ہے کہ توبہ انہیں لوگوں کے لئے ہے جو شرارت سے فساد پھیلانانہیں چاہتے بلکہ غلطیوں یا غفلت کی وجہ سے گناہوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پھر اپنے گناہ پر اصرارنہیں کرنے پھر قرآن شریف میں ایک دوسری جگہ پر ہے وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَۙ-اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الانعام : ۵۵) اس آیت کے علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت ثابت ہوتی ہے یہ بھی ظاہر ہے کہ توبہ انہی لوگوں کے لئے ہے جو مذہب، ملک، رسم و عادت ،نامناسب تعلیم، ضد اور غفلت اور بد صحبت کی وجہ سے گناہ کرتے ہیں نہ کہ ان کے لئے جو

Page 297

شرعی احکام میں حیلہ جوئی کرتے اور اس طرح فساد کا راستہ تلاش کرتے ہیں ہیں تو پس توبہ کے مسئلہ پرکسی صورت سے بھی یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا کہ اس سے گناہوں کی تحریک ہو گی بلکہ یہ تو گناہوں کی بیخ کنی ہے اور دوسرے یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ ساتھ ہی فرماتا ہے واصلح یعنی نہ صرف زبانی توبہ کرے.بلکہ اس حد تک وہ تو وہ توبہ میں بڑھ جائے کہ اس کا اثر آکر بدن پر بھی پڑے.اور اس توبہ کرنے والے کے اعمال بھی اس بات پر گواہی دیں کہ واقعی وہ صادق ہے اوراپنے دعوے میں مفتری نہیں اور وہ کوشش کرے کہ اس نے جو کچھ کیا تھا اس کی اصلاح ہو جاوےاور نیکی میں اس قدر علوّکرے کہ اس سے اس کے پچھلے اعمال بھی دھوئے جائیں مثلاًٍ ایک شخص اگر بخیل تھانویہی نہیں کہ اپنا مال چھوڑ دے بلکہ کامل توبہ تب ہوگی کہ وہ سخاوت بھی اختیار کرے.بلکہ اور کو بھی اس طرف مائل کرے تب بیشک وہ اس قابل ہو گا کہ اس کے پچھلے گناہوں پر چشم پوشی کی جائے.اب بتاؤ کہ کیا اس تعلیم سے گناہ پھیلتا ہے کہ رکتا ہے.آیا وہ شخص جو توبہ کی تعلیم کے ماتحت بخل سے اس قدر بچ کر سخاوت کا محرک ہؤا ہے گناہ کا پھیلانے والا کہلائے گا یا دور کرنےوالا.تیسرا اعتراضایک اور اعتراض توبہ کی قبولیت پر آریوں کی طرف سے یہ سنا جاتا ہے کہ جوہو گیا وہ اَن ہؤا کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ جس شخص نے ایک گناہ کیا فرض کرو کہ کسی کے گھر چوری کی تو اگر وہ توبہ کرے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کاوہ فعل رہے ہی نہ اور اس کا وجود ہی معدوم ہو جائے کیونکہ جو کچھ ہو چکا وہ اب واپس لوٹ نہیں سکتا.پھر توبہ کےقبول کرنے کے کیا معنی کیونکہ جب ایک گناہگا ر ایک کام کر چکا تو اسے یہ کہنا کہ اس نے کیاہی نہیں غلط اور خلاف عقل طریق ہے.گو کہ یہ اعتراض آریوں کی طرف سے اکثر سناگیا ہے مگر مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس دماغ سے نکلا ہے.قرآن شریف ہرگز کہیں نہیں کہتا کہ جس شخص نے گناہ کیا اور اس کے بعدتوبہ کرلی اور وہ توبہ قبول ہو گئی تو اس شخص کاگناہ ایسا محو ہؤ ا کہ یہ مت کہو کہ اس نے گناہ کیا تھا بلکہ کہو کہ اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا.بلکہ قرآن شریف نے تو اس کا نام ہی غفران رکھا ہے یعنی ڈھانپ دیا.اور بار بار فرمایا ہے کہ ا ن اللہ غفور رحیمجس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ اس گناه کو ڈھانک دیتا ہے.چنانچہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے گناہوں کو ہم بخشتے ہیں یہ نہیں کہ لکڑی سے یا چاقو سے ان کے گناہوں کو کھرچ دیتے ہیں بلکہ ان کے گناہوں کے نیے سے ان کو بچا

Page 298

لیتے ہیں.مثلا ایک نوکر ہم کو ناراض کرے اور ہمارا کوئی کام خراب کردے مگر پھر توبہ کرے اوراپنی غلطی کا اقرار کرے اور اپنی سچائی کو پوری طرح سے ظاہر کر دے اور ثابت کر دے کہ بے شک اب وہ سخت پشیمان ہے تو ہم اس کا کوئی آپریشن نہیں کرواتے نہ اس پر کوئی عمل جراحی کرتے ہیں کہ جس سے اس نے جو کچھ تصور کیا تھاوہ معدوم ہو جائے بلکہ میں کرتے ہیں کہ جو اس نے کیا تھااس کے نتیجہ سے اس کو بچا لیتے ہیں اور سزا نہیں دیتے.خود لفظ توبہ کے معنی ہی رجوع کرنے کے ہیں یعنی جب انسان کچھ قصور کرتا ہے تو پھر وہ اپنی غلطی کا اقرار کرتا ہے اور اپنی پہلی حالت کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس وقت مالک بھی اپنی مہربانی کی طرف لوٹ آتا ہے اور پہلاساسلوک کرنے لگتا ہے پس تو بہ کے قبول ہونے کے یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ اس فعل کی جو انسان سے سرزد ہواتھاسزا نہیں دیتا بلکہ اپنی پہلی مہربانی پر لوٹ آتا ہے.پس اس سے تو قطعا ًیہ نہیں پایا جاتا کہ اس سے گناہ سرزد نہیں ہوا.بلکہ یہ معلوم ہوا کہ انسان نے گناہ کرکے پشیمانی ظاہر کی اور خدا تعالیٰ نے اس کی پرده پوشی کی اور سزا سے بچالیا.اور اس پر کوئی اعتراض میں پڑ سکا لوگ ہمیشہ گناہ کرتے ہیں اور شریف اور محسن آقا ان کے گناہ بخشاہی کرتے ہیں.ابھی بادشاہ جارج پنجم کے تخت نشین ہونے پر پانچ سو سال کی قید معاف کی گئی ہے.کیاگو ر نمنٹ نے ان کے قصور کسی طرح مٹادیئے تھے یا کسی خاص اوزار سے چھیل دئیے تھے ؟اگر گورنمنٹ بغیر کسی وقت کے یہ کام کر سکتی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ لوگوں سے پچھلے گناہ معاف نہیں کر سکتا.اور اگر کرےتو اسی صورت میں کہ پہلے کسی ہتھیار سے ان کے گناہوں کو چھیل دے.افسوس اور تعجب ہے اس قسم سے معترضین پر.چوتھا اعتراضتوبہ کی قبولیت پر ایک اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ اگر تو یہ واقعی قبول ہوتی ہے توچاہئے کہ ایک زانی جب توبہ کرے تو زنا کے سبب سے جو آ تشک با سوزاک اسے ہؤا تھا وہ دو ر ہو جائے.اسی طرح دوسرے نتائج جو گناہ کی وجہ سے بھگت رہا ہے ان سے نجات پا جائے مگر واقعات سے ظاہر ہو تا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ آتشک کا مریض ہزار توبہ کرنے پر پھر بھی اسی مرض میں گرفتار رہتا ہے یا کسی اور گناہ کی وجہ سے اسے کوئی صدمہ پہنچ گیا تھا تو وہ بھی موجودرہتا ہے دورنہیں ہو تا تو ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ توبہ کا کوئی اثر ہے اور واقعی اس سے انسان بدی کے نتائج سے محفوظ ہو جاتاہے.یاد رہے کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم سے اور ایک روح سے اور دونوں کے

Page 299

الگ الگ کام ہیں اور الگ الگ طریق سے اپنی غذائیں حاصل کر رہے ہیں ہر ایک کی بیماریاں الگ ہیں اور ان کے علاج بھی پھر الگ الگ ہی ہیں ایک کی بات سے فرحت حاصل کرتا ہے تو دوسرا کسی اور ہی بات سے مگر باوجود اس کے چونکہ آپس میں دونوں کے تعلقات بہت ہیں اور مضبوط ہیں، اس لئے شدت فرح یا شدت غم میں ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں چنانچہ بعض لوگ کوئی خوشی کی خبر سن کر موٹے ہو جاتے ہیں یا غم کی خبر سن کر کمزور ہو جاتے ہیں اور ضعف محسوس کرنے لگتے ہیں.اسی طرح گناه دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو خالص روحانی ہیں، اور ان کا اثر جسم پر نہیں پڑتا.اور ایک گناہ وہ ہیں کہ جن میں روح اور جسم دونوں شریک ہوتے ہیں پس جن گناہوں میں جسم و روح دونوں شریک ہوتے ہیں ان میں اکثر دونوں کو ہی سزا ملتی ہے.پس جو شخص توبہ کرتاہے اگر اس کو جو سزا ئیں ملتی ہیں صرف روحانی ہیں تو اس کے لئے اپنے اعتقاد کی درستی اور سچی تو بہ کرنی ضروری ہے اور اگر یہ تو بہ اپنی حد کو پہنچ جائے گی تو اس کا گناہ بخشا جائے گا.اور وہ اپنے دل میں ایک فرحت محسوس کرنے لگے گا لیکن اگر وہ گناه جسم و روح دونوں سے مشترک سرزد ہؤاہے تو چاہئے کہ دونوں ہی مل کر توبہ کریں اور اگر اس صورت میں تو بہ کامل ہوگی تو دونوں سزاسے محفوظ ہو جائیں گے اور اگر روحانی تو بہ کامل اور جسمانی ناقص ہوگی تو روح تو بچ جائے گی لیکن جسم اپنی سزا بھگتتا رہے گا.مثلا ًایک شخص نے زنا تو ایک تو اس کی روح نے خدا تعالیٰ کا گناہ کیا اور ایک اس کے جسم نے کہ وہ بھی روح کے شریک حال ہؤا.پس ایک تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں گناہ گار ہو کر روحانی عذاب کا مستوجب ہو گا.خواہ وہ یہاں ملے یا آخرت میں اور ایک سزا اس کے جسم کو ملے گی اور وہ آتشک یا سوزاک کی شکل میں ہوگی.پس اگر ایسا شخص توبہ کرتا ہے تو اگر اس کی توبہ كامل ہے لیکن اس نے پورے طور سے اپنے گناہوں کی معافی بھی چاہی اور سچے دل سے علاج بھی کروایا تو ایسا شخص اس گناہ کی سزا سے بچ جائے گا.اور اگر اس نے روحانی تو بہ نہ کی.مگر علا ج کروایا اور وہ اپنی حد کو پہنچ گیا تو اس کا جسم سزا سے بچ جائے گا.یعنی آتشک سے وہ نجات پا جائے گا مگر اس کی روح اب بھی گناہگا ر ہوگی اور اگر روحانی توبہ کامل ہو گی اور علاج میں کسی وجہ سے نقص رہا تو روح بچ جائے گی.مگر جسم سزا بھگتتا رہے گا.پس چو نکہ جسم اور روح الگ الگ حصہ ہیں اور ان دونوں کے علاج الگ الگ ہیں اس لئے دانا انسان و ہی ہے کہ جو توبہ کے وقت خیال رکھے کہ میں نے گناہ صرف روحانی کیا ہے یا اس میں

Page 300

میرا جسم اور روح دونوں شامل تھے اور میں جسمانی اور روحانی دونوں سزائیں بھگت رہا ہوں پس اگر وہ دونوں حصوں میں سزا محسوس کرتا ہے تو دونوں کا علاج الگ الگ طریق سے کرے اور وہ یہی ہے کہ روح کا علاج روحانی کرے اور توبہ و استغفار سے کام لے اور جسم کا جسمانی یعنی طبی علاج کرائے.پس جو شخص صرف توبہ و استغفار سے کام لیتا ہے اور اس کے جسم نے جو گناہ کیا تھا اس کی تلافی نہیں کر تاتو ایسا شخص اگر اپنی جسمانی سزا سے نہیں بچا تو اسلام کے بتائے ہوئے تو بہ کے مسئلہ پر کوئی اعتراض نہیں پڑسکتا.اس شخص کی توبہ تو کامل ہی نہیں ہو ئی کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے بتائےہوئے راستہ کویعنی طبی علاج کو ترک کیا اور اسے اختیار نہیں کیا.پس ضرور ہے کہ جس حصہ میں اس کی تو بہ ناقص رہی ہے اس میں وہ سزاپائے.لیکن جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں چونکہ روح کا جسم سے کمال درجہ کا تعلق ہے اس لئے بعض دفعہ روح کا اثر جسم پر بھی پڑ جاتا ہے اور کوئی بات روح پر کمال درجہ کا اثر کرے تو اکثر دیکھا گیا ہےکہ جسم بھی اس سے متاثر ہو جاتا ہے.اس لئے جن لوگوں کی تو بہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ روح شدت اثر سے تڑپ اٹھتی ہے اور وہ توبہ کی ضروری شرط عمل صالحہ سے بھی کام لیتے ہیں اوراپنی اصلاح کامل طور سے کر لیتے ہیں.اور ان کے دل میں ایسی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے کہ نہ صرف پچھلےگناہوں کی بھی تلافی ہو جاتی ہے بلکہ آئندہ کے لئے بھی ان کے خدائے تعالیٰ سے ایسے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں کہ دو غیرمنقطع ہوتے ہیں تو اس صورت میں دیکھا جا تاہے کہ روحانی تو بہ ہی جسم پراثر کرتی ہے اور بغیر کسی جسمانی علاج کے وہ لوگ اپنے جسمانی دکھوں سے بھی نجات حاصل کر لیتےہیں چنانچہ اس کی مثالیں بزرگان اسلام کی لائف میں بکثرت ملتی ہیں.بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض لوگوں کی توبہ جب کمال درجہ کو پہنچ گئی تو نہ صرف ان کی روح نے بھی نجات پائی بلکہ اس دنیا میںاس کا اثر نمودار ہوا.اور وہ تھی جو ان کے پچھلے گناہوں کی وجہ سے ان کا جسم پا رہا تھا وہ بھی خود بخوددور ہو گئے اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی اس شخص کی توبہ نے اپنا اثر کیا.ہمارے حضرت مرزا صاحب ؑکی دعاؤں سے ہی ہم نے بہت دفعہ مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے شفا ءحاصل کی اور روحانی بیماریوں کے ساتھ جسمانی بیماریوں سے بھی نجات پائی.پس یہ کہنابالکل غلط ہے کہ توبہ سے کبھی بھی جسمانی بیماریاں دور نہیں ہوئیں.بلکہ ہوتی ہیں اور ضرور ہوتی ہیں.ہاں شرط یہ ہے کہ وہ خود اس درجہ کامل ہو جائے کہ وہ جسم پر بھی اثر کرے یا کسی کامل انسان

Page 301

کی دعا ساتھ مل جائے کہ جو اس کے لئے رحمت کا باعث ہو جائے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں طب رہ گئی وہاں تو بہ و دعانے کام نکال دیا.حضرت نوح علیہ السلام کے لفظ ہی تھے کہ رب لا تذر على الأرض من الكفرين دیارا (نوح :۲۷) کہ جنہوں نے آرمیوں پر ہی نہیں پائیوں پر بھی اثر کردکھلایا.مسیح ؑکے پاس جب اندھوں اور کوڑھیوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی تو اس نے ان کو اچھاکیا.کیا یہ جسم پر اثر نہ تھا.رسول اللہ ﷺکے مخالفین نے جب قحط کا عذاب پایا اور گھبرا کر توبہ کی توبارش نازل ہوئی اور بارش سے تنگ آگئے تو بند کی گئی یہ اجسام پر ہی اثر تھا یا کچھ اور.ہمارےحضرت صاحبؑ کے پاس کئی بیمار آئے اور آپ نے ان کو بھی توبہ کرنے کے لئے کہا اور دعا بھی کی آخر وہ لوگ اپنے دکھوں سے بچ گئے.پس کون کہہ سکتا ہے کہ توبہ سے جسمانی بیماریاں کیوں دورنہیں ہو تیں.جب توبہ کامل ہوتی ہے تو ضرور ہوتی ہیں.مگر چونکہ انسان جسم اور روح سے مرکب ہے اس لئے اسے عموما ًچاہئے کہ روح کی بیماریوں کے لئے روحانی توبہ کرے اور جسم کی بیماریوں کے لئے جسمانی تو بہ یعنی علاج اور یہی اصل اور سچا طریق ہے ہاں خدا تعالیٰ نے مخالفین کا منہ بندکرنے کے لئے ایسی مثالیں بھی پیدا کر چھوڑی ہیں کہ صرف توبہ و دعاسے جسمانی بیماریاں بھی دورہو جاتی ہیں اگر کوئی شپر چشم انکار کرے تو اور بات ہے.پانچواں اعتراضاگر تو بہ کا مسئلہ ایسا ہی سچا اور پکا ہے تو دنیاوی گو ر نمنٹیں کیوں مجرموں کو ان کے تونہ کرنے پر چھوڑ نہیں دیتیں؟.یہ اعتراض بھی توبہ کے منکر بہت کیا کرتے ہیں کہ کیوں دنیا میں لوگ ایک دوسرے کی توبہ قبول نہیں کر لیا کرتے.اور عدالتیں کیوں سزا دیتی ہیں.کیوں نہیں مجرموں کے اقرار پر اور آئندہ احتیاط کے وعدہ پر ان کو چھوڑ دیتیں.یاد رہے کہ جیسا کہ پہلے میں لکھ آیا ہوں خدا تعالیٰ علیم و خبیر ہے اور دلوں کے بھیدوں سےواقف ہے.اور سچے اور جھوٹے کو جانتا ہے اور خفیہ اور پوشیده اسرار اس پر ظاہر ہیں اور کوئی بات نہیں جو اس سے پوشیدہ ہو خواہ سمندروں کی تہہ میں کوئی چیز بیٹھی ہوئی ہو یا پانیوں کی گہرائیوں میں خواہ مچھلی کے پیٹ میں، خواہ عمیق کانوں میں، خواہ پہاڑوں میں، خواہ کنووں میں، خواہ ہواؤں میں کی ہوئی ہو، خواہ انسانی دماغ میں خیالات کے رنگ میں پوشیدہ ہو ،خواہ آسمان پر ہو ،خواہ زمین میں خواہ مادی ہو، خواہ غیرمادی، خواہ زمانہ ماضی کی ہو یا حال کی یا استقبال کی وہ ایسا علیم ہے کہ کوئی معلوم اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہیں اس کا توبہ کو قبول کرتا اور رنگ کا ہے اور گورنمنٹ کا

Page 302

حال اور ہے ، گورنمنٹ کے جج اور مدعا علیہ دونوں کا حال نہیں جانتے.ان کو کیا معلوم کہ آیااپنی غلطی پر پریشان و پشیمان ہونے والا انسان واقعہ میں سچا ہے یا شرارت کرتا اور سزا سے بچنا چاہتاہے، پس جس کو دوسرے کے ارادہ اور خیالات سے واقفیت ہی نہ ہو تو وہ کس طرح جرأت کرکےاسے چھوڑ سکتا اور معاف کر سکتا ہے.کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مجرم جسے مجسٹریٹ چھوڑنے کی نیت رکھتا ہو اپنے دل میں یہ ارادہ کر رہا ہو کہ اب کے چھوٹے تو ضرور ایسی احتیاط سے جرم کروں گا کہ کسی کو علم ہو ہی نہ سکے مجسٹریٹ کی حالت تو بہت ہی خطرناک ہوتی ہے.وہ بے چارہ تو بالکل اندھیرے میں ہو تا ہے اور اصلی حالت سے ناواقف.اسے تو خود ظالم و مظلوم میں ہی امتیاز نہیں ہوتا اور محض تاریکی میں پڑا ہوا اندازوں سے کام لیتا ہے اور حاطب اللیل کی طرح خطا و ثواب دونوں کا مرتکب ہوتا ہے.لطیفہ.کہتے ہیں کہ ایک بزرگ شہر کے قاضی مقرر کئے گئے تو ان کے دوست ان کو ملنے گئےاور بڑی خوشی ظاہر کی اور مسرت کا اظہار کیا مگر جب اندر بلائے گئے اور ان سے ملاقات ہوئی تودیکھا کہ بڑے زور سے رو رہے ہیں اور کثرت گریہ و زاری سے ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں اور سانس اکھڑا ہوا ہے دوستوں نے کہا حضرت اس وقت یہ رونا کیسا اوراس کے موسم کی برسات کے کیا معنی یہ تو خوشی کا وقت تھا اور دعوتوں کا موقعہ آپ اس قدر گھبرا کیوں رہے ہیں اس بزرگ نے جواب دیاکہ احمقو تم نہیں جانتے کہ میں کیسی خطرناک حالت میں ہوں.میں ایک نا بینا ہوں جو ووو بیناؤں کےفیصلہ کے لئے مقرر کیا گیا ہوں اور ایک جاہل ہوں جو دو عالموں کے فیصلہ کے لئے چنا گیا ہوں کیونکہ مدعی اور مدعا علیہ میرے پاس آئیں گے اور وہ دونوں اپنا اپنا مال خوب جانتے ہوں گے کہ ہم جھوٹے ہیں یا بچے ہیں مگر میں بالکل ناواقف اور جال ان کا فیصلہ کروں گا.کیا یہ خوش ہونے اورفرحت ظا ہر کرنے کا موقعہ ہے یا رنج و غم میں کڑھنے کا.اس لطیفہ میں جو جج صاحب کی حالت بیان کی گئی ہے.واقعہ میں صحیح اور درست ہے.اور اس میں سرِمو فرق نہیں پھر باوجود اس قدر عجز کے جج کیا کر سکتا ہے اور کس طرح ایک مجرم کو بخش سکتاہے جبکہ وہ نہیں جانتا کہ یہ شخص شرارتی ہے یا سچے دل سے توبہ کرتا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا مخفی ہے وہ شرارتی اور سچے آدمی میں فرق کر سکتا ہے اور دونوں کےارادوں کو جانتا ہے.اس لئے وہ توبہ قبول کر سکتا ہے.دوسرے یہ کہ گورنمنٹ اور خدا تعالیٰ کے احکام کا آپس میں مقابلہ کرنا ہی سخت غلطی ہے.

Page 303

کیونکہ خدا تعالیٰ تو بالک ہے اور ہر چیز اس کی اپنی بنائی ہوئی ہے ، اور اس کے قبضہ قدرت میں ہے برخلاف اس کے بادشاہوں اور گورنمنٹوں کے حالات اور ہیں کیونکہ وہ اپنی رعایا کے مالک نہیں ہوتیں.بلکہ ان کے جھگڑوں اور فسادوں کے دور کرنے کے لئے ججوں کی طرح ہوتی ہیں.اورخواہ بظاہر ایک گورنمنٹ دوسرے ملک کو بزور بازو ہی فتح کرے اور اپنا مال و دولت ہی خرچ کر کےاس پر قابو پائے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا حال ایسا ہی ہے کہ جیسے چند آدمی مل کر ایک شخص کومقر کردیں کہ تم ہمارا فیصلہ کیا کرو تاکہ ہم میں جھگڑے اور فساد نہ پڑیں.پس جیسا کہ اس شخص کا کام نہیں کہ کسی کو کچھ دے دے یار حم کر کے معاف کرے ایسا ہی گورنمنٹ کا بھی یہ کام نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی پر خاص رحم کرے کیونکہ وہ تو ایک ایجنٹ کی طرح ہے جسے پبلک نے اپنے کام نکالنے کے لئے مقرر کیا ہے اور پھر جو گورنمنٹ کی طرف سے جج مقرر ہو تے ہیں ان کا تو بالکل کوئی دخل ہی نہیں کیونکہ نہ صرف وہ لوگوں کے حقوق کے مالک ہی نہیں بلکہ علاوہ اس کے وہ مقرر ہی اس کام پر کئے گئے ہیں کہ جیسے واقعات ان کے سامنے پیش کئے گئے ہوں ان کے مطابق فیصلہ کردیں.اور گورنمنٹ نے ان کا اختیار میں اس حد تک رکھا ہے پس ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے کرنا کیسا سفیہانہ فعل ہے کیونکہ یہ لوگ تو کوئی بھی اختیار نہیں رکھتے اور پبلک سے ان کا کوئی تعلق نہیں.انکا فرض منصبی یہی ہے اور وہ اس بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ فریقین کے حالات سن کر اپنے اختیارات کے اندر اندر کسی کو چھوڑ دیں.اور کسی کو سزا دے دیں لیکن خدا تعالیٰ تو کسی کا مقرر کردہ نہیں ہےاور نہ وہ ان کی طرح بے اختیار ہے بلکہ چونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور بنایا ہے اور پھراس کی زندگی کے قائم رکھنے کے لئے اور مختلف اشیاء کو بھی خلق کیا ہے اور اس کے آرام کے لئےطرح طرح کے سامان مہیا کئے ہیں اس لئے وہ انسان کا بلکہ ہر ایک چیز کا مالک ہے اور اس پر تصرف رکھتا ہے اور پھر بدلہ دینے کی قدرت رکھتا ہے.پس اگر وہ کسی پر رحم کرے تو یہ اس کے شایان شان ہے.لیکن اگر جج بلا اختیار کے کسی پر رحم کرے تو گویا امانت میں خیانت کرتا ہے.کیونکہ وہ کام کرتا ہے جو اس کے سپرد نہ تھا اور اگر اسے اختیار ہو اور پھر کسی پر رحم کر تاتو اس میں کوئی ہرج نہ تھا.اور خدا تعالیٰ مالک ہے اس لئے اسے رحم کرنے کا پورا اختیار ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو عام طورپر رحم نہیں کرتا بلکہ عدل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ عام طور پر عدال ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ رحم بھی کرتا ہے پس ججوں یا گورنمنٹ کا مقابلہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کرنا بیوقوفی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بھی علم ہے کہ گو ر نمنٹ رحم نہیں کرتی بلکہ گورنمنٹ کے رحم کثرت

Page 304

سے پائے جاتے ہیں دیگر گورنمنٹوں کو جانے دو - ہندوستان کی گو ر نمنٹ کو ہی لے لو کہ جہاں مجرموں کی سزاؤں کے لئے اور مختلف قوانین بنائے گئے ہیں.وہاں ساتھ ایک مد رحم کی بھی رکھی گئی ہے.چنانچہ صو بوں کے افسروں اور پھروائسرائے رائے کا اختیار ہے کہ کسی مجرم کو خاص حالات کےماتحت معاف کردے چنانچہ بار ہا دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص چیف کورٹ تک سے مجرم قرار دیا گیا اورمستوجب سزا ہوا.لیکن لیفٹینٹ گورنر نے یا وائسرائے نے اس کے حالات پر غور کر کے قابل رحم سمجھا اور صاف معاف کردیا.ابھی پیچھے لالہ لاجپت رائے اور اجیت سنگھ گو ر نمنٹ برطانیہ کی خاص مہربانی اور وزیر ہند کے حکم سے جلا وطنی کی سزا سے آزاد کئے گئے پھر بنگالہ کے سربر آوردہ لوگ جو محسن کشی کے خطرناک جرم میں قید کئے گئے تھے معاف کر دیئے گئے اور اپنے گھروں میں امن وامان سے زندگی بسر کر رہے ہیں.بیسیوں قاتل چھوٹ چکے ہیں اور طرح طرح کے مجرم رحم سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں خاص خاص موقعوں مثلا ًتاجپوشی ،تخت نشینی ، جشن وغیرہ پر بھی بہت سے قیدیوں کی سزا کو معاف کر دیا جا تا ہے.پھر یہ کہنا کہ گورنمنٹ کیوں رحم نہیں کرتی کہاں تک درست ہو سکتاہے.جہاں تک مجھے علم تھا کہ توبہ کے مسئلہ پر یہ اعتراض ہوا کرتے ہیں ان کا جواب تو میں لکھ چکاہوں.اب مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں (انشاء اللہ ) کہ دیگر مذاہب یعنی مسیحی اور آریہ اگر توبہ کے مسئلہ کو قبول نہیں کرتے تو اس کی جملہ کیا تعلیم پیش کرتے ہیں اور وہ کہاں تک درست ہے.گناہوں کی معافی کے بارے میں مسیحی تعلیم پہلے میں مسیحی تعلیم کو دیکھتا ہوں کہ وہ انسان کے پچھلے گناہوں کی معافی کی نسبت کیا فتویٰ دیتی ہے اور وہ ہماری تسلی کے لئے کون سا طریقہ اختیار کرتی ہے.چنانچہ مسیحی کتب کو دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کے گناہ سوائے اس کے کہ وہ مسیح کےکفارہ پر ایمان لائے نہیں معاف ہو سکتے اور جب تک وہ یہ یقین نہ کر لے کہ مریم کا بیٹا یسوع جواصل میں خدا ہی کا بیٹا تھا اور یہ کہ وہ انسان کے گناہ اپنے سر پر اٹھا کر مظلومیت کی حالت میں مصلوب ہؤاتب تک نجات غیر ممکن ہے.لیکن اس میں بہت سی دقتیں ہیں اول تو یہ کہ مسیحی صاحبان کے اس دعوے کے ثبوت کے لئے سخت مشکلات ہیں.سب سے اول جو مشکل پڑتی ہے وہ

Page 305

تثلیث کا ثبوت ہے.لیکن وہ یہ نہیں ثابت کر سکتے کہ خدا تین ہیں اور کفار کے مسئلہ کے لئے سب سے پہلے ان کو یہی بات ثابت کرنی ضروری ہے کیونکہ جب تک تین خد ا ثابت نہ ہوں تو ایک خدا کا ان میں سے مصلوب ہونا باطل ٹھہرتا ہے اور گو محض مادی اشیاء اور عقلی دلائل سے خدا تعالیٰ کاوجود بھی ثابت کرنا ایک حد تک مشکل ہے لیکن اسے مان کر بھی یہ سب کائنات عالم اگر کسی پیداکرنے والے کو چاہتی ہے اور چونکہ کوئی مصنوع بغیر صانع کے نہیں ہوتا اس لئے کسی صانع عالم کے وجود کا اقرار کرنا پڑتا ہے لیکن اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی چاہئے کہ جواس عالم کی خالق ہو مگر یہ ثابت نہیں ہو تاکہ وہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں.اگر بفرض محال مانا جائےکہ وہ ایک سے زیادہ ہیں تو کیوں دو نہ مانی جائیں یا چار تصور نہ کی جائیں تین کی کیا خصوصیت ہے.پس مسیحی صاحبان کے لئے اول تو تثلیث کا ثابت کر ناہی ناممکن ہے.کیونکہ جو کچھ وہ ثبوت دےسکتے ہیں وہ ایک خدا کو ثابت کرتا ہے زیا دہ کون نہیں اور اگر ایک سے زیاده خدا تصور کئے جائیں تو پھرہر ایک کو حق ہے کہ وہ دو خدا مانے یا چار مانے یا پانچ مانے اس میں کوئی ہرج نہیں.پس جبکہ تثلیث کا ثابت کرناہی مشکل ہے.نہیں بلکہ اس کے لئے کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی جاسکتی.تو پھرمسیح کا کفارہ آپ ہی باطل ہو گیا اور اگر وہ ان بھی لی جائے تو اب یہ وقت ہے کہ ایک کو باپ اورایک کو بیٹا کیوں مانا جائے.یہ کسی دلیل سے ثابت ہے کہ ایک باپ ہو نا چاہئے.اور ایک بیٹا اورایک روح القدس اور کیوں نہ کہا جائے کہ تینوں باپ ہی ہیں.یا تینوں بیٹے ہی ہیں یا تینوں روح القدس ہی ہیں اور یہ کیوں خیال کیا جائے کہ مسیح بیٹا تھا کیوں نہ اس کو باپ تصور کیا جائے.پس تثلیث کے مسئلہ کے بعد یہ بہت سے سوال ہیں جو حل کئے جانے ضروری ہیں اور پھر یہ سوال بھی حل کرنے کے قابل ہے کہ اگر تین ہی خدا ہیں اور ہے بھی ایک بیٹا اور ایک باپ اور ایک روح القدس تو پھر مسیح کو تیسراخدا کیوں مانا جائے اور لوگ بھی ہیں جو کہ مسیح سے بہت زیادہ کامیاب ہوئے ہیں ان کو کیوں نہ خدا خیال کیا جائے.اور اگر مصیبتوں اور تکلیفوں کے اٹھانے پر ہی خدا کاوارو مدار ہے تو ایسے لوگ بھی کم نہیں جو اپنے ملک کو ترقی دینے کے لئے بڑے بڑے عذاب برداشت کر کے مرگئے ان کو اس مرتبہ سے کیوں محروم رکھا جائے.اور اس کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا کہ آیا خودیسوع بھی اس کے لئے تیار تھا کہ نہیں اور اسے اس کی مرضی سے پھانسی پر لٹکایا گیا تھا ان پر دوستی اور اگر یہ سوال بھی حل ہو جائے تو پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا یسوع پھر صلیب پر مرابھی کہ نہیں.کیونکہ اگر وہ پھانسی پر نہیں مرا تو سب کیا کر ایا خاک میں مل جائے گا اور جب اتنے

Page 306

سوال حل ہو جائیں تو پھر کفار کے مسئلے پر انسان گفتگو کر سکتا ہے اور تب صحیح موقعہ ہے کہ اس خلاف عقل مسئلہ پر توجہ کی جائے اور دیکھا جائے کہ آیا یہ واقعہ ہوا ہے یا ہو سکتا ہے.پس میں مختصراًانہی سوالوں پر روشنی ڈالتا ہوں اور اول اس بات کو دیکھتا ہوں کہ آیا ایک سےزیادہ خدا ہو سکتے ہیں اور چونکہ مخاطب میرے اس وقت مسیحی صاحبان ہیں اس لئے سب سے پہلےبائبل کا حوالہ دیتا ہوں کیونکہ حضرت موسیٰؑ اور ان کے بعد کے نبیوں کی شریعت کی سچائی کے خودیسوع بھی منقر ہیں، استثناء ۳۲ آیت ۳۹ میں لکھا ہے ’’اب دیکھو کہ ہاں میں ہی وہ ہوں اور کوئی معبودمیرے ساتھ نہیں میں ہی مارتا ہوں اور میں ہی جلاتا ہوں میں ہی زخمی کرتا ہوں اور میں ہی چنگا کر تا ہوں اور ایسا کوئی نہیں جو میرے ہاتھ سے چھڑادے’’ اور پھراستثناء ، آیت ۳۵ میں ہے’’یہ سب تجھ ہی کو دکھایا کہ تو جانے کہ خداوندخدا ہے.اور اس کے سوا کوئی پھر یسعیاہ باپ ۴۵ آیت ۵ میں ہے \" میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں میرے سوا کوئی خدا نہیں پھریسعیاہ باب ۴۵آیت ۲۲،۲۱،۱۸ میں ہے ’’کیا میں خداوند نے ہی یہ نہیں کہا کہ میرے سوا کوئی خدانہیں ہے.صادق القول اور نجات دینے والا خدا میرے سوا کوئی نہیں میری طرف رجوع لاؤ تاکہ تم نجات پاؤ.اسے زمین کے کناروں کے سارے رہنے والو کہ میں خدا ہوں اور میرے سوا کوئی نہیں‘‘ یہ آیات تو وہ ہیں کہ جو پرانے عہد نامہ سے نقل کی گئی ہیں.اور جن سے تثلیث کا مردودہو نا بین و ظاہر ہے اب نئے عہد نامہ یعنی انجیل سے میں ایک آیت نقل کرتا ہوں کہ جس سےمنکشف ہو جائے گا کہ خود مسیح بھی تثلیث کا منکر او رتو حید کا قائل تھا.چنانچہ مرقس باب ۱۲آیت۲۹،۳۰ میں مرقوم ہے کہ کسی نے مسیح سے پوچھا کہ سب علموں میں سے اول کون سا ہے تو’’ یسوع نے اس کے جواب میں کہا کہ سب حکموں میں سے اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن وه خداوند جوہمارا خدا ہے ایک ہی خداو ند ہے اور تو خداوند کو چو تیراخداہے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر اول حکم یہ ہے “.پس باوجود اس علم کے جو خودمسیح دیتا ہے کہ سب سے پہلے تیرا فرض یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی توحید کاقائل ہو یہ کہنا کہ خدا تین ہیں کس قدر بعید از عقل ہے.یہ ثبوت تو وہ ہے جو خود مسیحیوں کی کتب مقدسہ میں سے میرے دعوی کی تائید میں ملتا ہے اورعلاوہ اس کے خود سے بھی توحید کی تعلیم دیتا ہے.لیکن قطع نظر اس ثبوت کے عقل بھی تثلیث کی مؤیّد نہیں کیونکہ جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس عالم مادی کو دیکھ کر بے شک انسان کو خیال آتا : -

Page 307

ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی ہو نا چاہئے.لیکن عقل قطعاً اس بات پر گواہی نہیں دیتی کہ ایک سےزیادہ خالقوں نے اس عالم کو بنایا ہے.کیونکہ یا تو اس دنیا کو ایک ہی ہستی نے بنایا ہے یا بہت ہی ہستیوں نے بنایا ہے.اور ہر ایک اس کے ایک حصہ کے بنانے پر قادر تھی اور دوسرے پر ہیں.یا یہ کہ ہر ایک ہستی اس دنیا کو پیدا کر سکتی تھی لیکن اس نے اسے بتایا نہیں بلکہ سب نے مل کر بنایا ہے.سوپہلی صورت کو تو عقل تصور میں لا سکتی ہے اور دوسری دو صورتوں کو نہیں کیونکہ دوسری صورت میں تو خدا تعالیٰ ناقص ٹهہر تا ہے.اور تیسری صورت کو عقل دریافت نہیں کر سکتی.کیونکہ ہمارے پاس کوئی آلہ نہیں کہ جس کے ذریعے سے معلوم کر سکیں کہ یہ دنیا ایک نے بنائی ہے یا دونےیا تین نے یا چارنے.پس بہرحال یہی صورت اختیار کرنی پڑے گی کہ یہ سب عالم ایک طاقتور خدا نے بنایا ہے.اور اسی کی موید ہیں وہ آیتیں جو کہ میں نے خود مسیحیوں کی کتب مقدسہ سے نقل کی ہیں.پس جب خدا تعالیٰ کی توحید ثابت ہوگئی تو کفارہ کے لئے ایک خدا کے مصلوب کر دینے کی گنجائش بھی باقی نہ رہتی.اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ آر ایک سے زیا دہ ہستیاں قبول بھی کر لی جائیں تو پھر اس کافیصلہ کون کرے گا کہ وووو ہیں یا تین میں یا چار ہیں کیونکہ اگر ایک سے زیا وہ خدا میں تو پھر یہ بات برابر ہے کہ وہ دو ہوں یا ہزاروں ہوں میں اس کا ثابت کرنا بھی مسیحیوں کے لئے دقّت طلب ہو گا.اور جبکہ مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق مصلوب ہونے والا بیٹا چاہے تو یہ ثابت کرنا بھی مشکل ہوگاکہ آیا وہ خدا آپس میں ولدیت کا تعلق رکھتے ہیں یا بھائی بھائی ہیں کیونکہ جب تک ان میں سےایک بیٹانہ ثابت ہولے تومسیح کا مصلوب ہونا بے فائدہ رہتا ہے.پھر یہ مان کر کہ تین خداہیں.اور ان میں سے دو کا تعلق آپس میں باپ بیٹے کا ہے.یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں مسیح کو ہی بیٹا تصور کیا جائے کیا وجہ ہے کہ جب اس سے بہتر آدمی دنیا میں موجود ہیں تو انہیں ابن اللہ کا کام دیا جائے کیونکہ خدا مخلوق سے بہرحال زیادہ طاقتور ہو نا چاہئے.پس مسیح کی طرح خدا نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس سے زیادہ لائق اور زیادہ کامیاب آدمی دنیا میں موجود ہیں پس اگر ضرور کسی کو دنیا میں ابن اللہ بنانا ہے تو کیوں نہ ان کو اسی خطاب سے پکارا جائے.کیونکہ وہ اس کے زیادہ مستحق ہیں اور جب اس مقابلہ پر کوئی دوسرا شخص مسیح کو نیچا دکھائے تو پھر مسیح کیابنّیت کے ساتھ کفارہ کا مسئلہ بھی خود بخود رد ہو جائے گا.اور چونکہ اس موقعہ پر مسیحیت اور اسلام کا مقابلہ کرتا ہوں اس لئے رسول اللہﷺ اور مسیح ؑکی زندگیوں کا نہایت مختصر الفاظ میں مقابلہ کر کے

Page 308

دکھلاتا ہوں کہ ان دونوں میں سے کس کو دوسرے پر فضیلت ہے.مسیحؑ کی پیدائش جس ملک میں ہوئی ہے وہ اپنے وقت میں امن و امان کے لئے مشہور تھا.لیکن اس کے بر خلاف رسول اللهﷺ جس ملک میں پیدا ہوئے ہیں وہ اپنے فسادوں اور جنگوں کے لئے شہرۂ آفاق تھا.اور ان دونوں باتوں کومدنظر رکھ کر ایک عقلمند انسان خوب سمجھ سکتا ہے کہ آپ ﷺکو اس ملک کے درست کرنے کے لئےکیا کیا مشکلات پیش آسکتی تھیں اور بر خلاف اس کےمسیحؑ کس امن و چین میں تھا.کیونکہ یروشلم پراس وقت رومیوں کی حکومت تھی جو کہ اپنے وقت میں قانون کی پابندی کے لئے ایک خاص شہرت رکھتے تھے اور ان کے ملک میں کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی شخص پر بلا قانون کے ظلم کر سکے.پس مسیحؑ کا اس ملک میں پیدا ہونا اس کے لئے بہت ہی آسانیوں کا باعث تھا کیونکہ گو اس کے مخالف اس کی تعلیمات کے اور اس کی جان کے ہی مخالف ہوں لیکن جوش کے ماتحت اس پر حملہ نہیں کر سکتے تھے.اور گو وه غضب میں اندھے بھی ہو جاتے مگر ان کے لئے بغیر قانون کی آڑ کے اور کوئی وسیلہ نہ تھاجس سے مسیحؑ کو سیدھا کر سکیں.بر خلاف اس کے رسول اللہ ﷺ کو جس قوم سے واسطہ پڑا تھاوہ اپنے جوشوں کے پورا کرنے کے لئے بالکل آزاداور مختار تھی اور کوئی قانون نہ تھا جو ایسے سخت سے سخت اراروں کی روک تھام کر سکے اور نہ صرف کو ئی دنیاوی سلطنت یا قانون ہی اس کو اپنی حدود میں نہ رکھ سکتا تھا بلکہ کوئی شریعت بھی اس قوم کے پاس نہ تھی جو کہ اس کے دل پر حکومت کرتی ہو اور نہ ہی علوم سے ان کو کچھ بہرہ تھا کہ اخلاق کی رہنمائی سے ہی وہ اپنے جوشوں سے بازرہتی.پس اگر مسیحؑ کی قوم قیدی تھی تو یہ اس کے بر خلاف آزاد تھی اور اگر وہ بند تھی تو یہ کھلی تھی.اور اگر اس کے رستے میں رکاوٹیں تھیں تو یہ بے روک ٹوک تھی اور اگر وہ اپنے جوشوں کے پوراکرنے سے قاصر تھی تو یہ قادر تھی اور وہ کسی شہریت کے جوئے یا عذاب کے خوف کے پیچھے تھی تویہ ان دونوں باتوں سے بری.پس جو اختیار کہ مسیحؑ پر اس کی قوم کو تھا.اس سے کہیں زیادہ رسول الله ﷺپر آپﷺ کی قوم کو تھا اور جو نقصان کہ مسیح ؑکی قوم اس کو بسبب گوناگوں رکاوٹوں کے نہ پہنچاسکتی تھی وہ رسول اللہ ﷺکی قوم اپنی آزادی کی وجہ سے پہنچا سکتی تھی.پھر مسیحؑ قانون کی پناہ میں ہونے کے علاوہ اپنے ماں باپ کی پناه او راپنے بھائیوں کی حمایت میں تھابر خلاف اس کے رسول اللهﷺ کے والدین اور دادا آپ ﷺکے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.اور صرف ایک چچاکی مدد آپﷺ کے ساتھ تھی.پھر مسیحؑ کی تعلیم وہی تھی جو کہ توریت و زبور وغیرہ کی ہے لیکن رسول اللهﷺ کفار کے اپنے طرز عمل کو بھی برا نہ کہتے تھے بلکہ ان کے معبودوں کو بھی حصب جهنم قرار دیتے تھے.جس

Page 309

سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مسیحؑ کی قوم کو ان سے کچھ زیادہ اختلاف نہ تھا مگر رسول اللہﷺ کی قوم میں اورآپ میں ایک اختلافات کا سمندر حائل تھا جو ان کو آپ کی مخالفت کے لئے ہردم ابھار تا تھا.پھر جوشخص مسیحؑ کی پیروی کر تا تھا اسے سوائے گالیوں کے اور کچھ نقصان نہ پہنچتا تھا یا زیادہ ہؤا تو کہیں مارپیٹ پڑ جاتی تھی.لیکن رسول اللہﷺ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا نہ صرف عزیز و اقرباء سے قطع تعلق کر لینا تھا بلکہ اپنی جان سے بھی نا امید ہونا تھا.چنانچہ حواریوں کا زیادہ سے زیادہ پٹنا ثابت ہےاور صحابہؓ کا نہ صرف مار کھانا بلکہ قتل ہو ناپایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے اور پھر قتل بھی معمولی نہیں.ایسےواقعات بھی ہیں کہ مرد کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے باندھ دی اور دوسری دو سرے سے اور پھردونوں کو مختلف سمتوں میں چلا دیا اور پھر مسیح ؑ کے ساتھ کی عورتوں کی نسبت تو گالی گلوچ بھی ثابت نہیں اور رسول اللہ ﷺکو ماننے والی عورتوں میں سے بعض کا قتل اور ایساقتل کہ ان کے فروج میں نیزہ مار کر مار دیا گیا ثابت ہے.پھر مسیح ؑشہروں اور بستیوں میں کھلم کھلا و عظ دیتا پھرتا تھا اور رسول کریم ﷺ کے مخالفین آپ کو اس قدر آزادی نہیں دیتے تھے بلکہ آپ ﷺکا اکے دکے آدمیوں میں تبلیغ کرنابھی و ہ لوگ نا پسند کرتے تھے.اور جہاں آپ کو دیکھتے زدوکوب کرنے سے نہ ٹلتے تھے پھر اگر مسیح ؑ کہیں بھاگ جاتا تو وہ لوگ ایسے ناراض نہ تھے کہ اس کا پیچھا کرتے.لیکن رسول الله ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ کا پیچھا لوگوں نے وہاں تک کیا.مسیح ؑکے پکڑنے کا خیال اس کے مخالفین کو ایسانہ تھا.جتنا کہ آپ کے مخالفین کو آپ کے گرفتار اور قتل کرنے کا تھا.کیونکہ مسیحؑ کے سر کا اس کے دشمنوں نے تیسں درہم انعام مقرر کیا لیکن رسول اللہ ﷺکے لئے ایک سو اونٹ کا انعام اعلان کیا گیا: پھر مسیحؑ کی جنگ یعنی زبانی بات چیت صرف یہودیوں سے تھی اور رسول اللہ ﷺنے اپنی سچائی سے سب دنیا کو اپنے مقابل پر لا کھڑاکیا تھا.اور مسیح ؑ اپنی حکومت کی پناہ میں تھا اور رسول اللہ ﷺ کے مقابل پر نہ صرف آپ کی اپنی قوم تھی بلکہ اس وقت کی دونوں زبردست یعنی قیصر روما اور کسریٰ کے ایران کی حکومتیں بھی آپ کے استیصال کا ارادہ رکھتی تھیں اور علاوہ ان کے عرب کے مسیحی اور یہودی بھی آپ کے ساتھ بیر رکھتے تھے.مگر باوجود ان تمام مشکلات کے جو رسول الله ﷺ کے راستہ میں تھیں اور ان خطرات کے جو آپ کی ہلاکت کے لئے اگر آپ (نعوذ باللہ ) جھوٹے ہوتے کافی تھے.آپ بڑھے اور پھولے اور پھلے اور دن رات آپ کا قدم آگے بڑھا اور جو کوئی آپ کے مقابلہ میں آیا ہلاک ہوا.اور جو کوئی آپ پر گر ہلاک ہوا اور جس پر آپ گرے اسے ہلاک کردیا.آپ

Page 310

کے مخالفین کے گھر اجڑ گئے ان کی بستیاں ویران ہو گئیں جس نے آپ پر تلوار چلائی قتل کیا گیا ان کی بیویاں بیوہ ہو گئیں ان کے بچے یتیم ہوئے.ان پر رونے والا بھی کوئی نہ ملا.چیلیں اور کتے آپﷺ کے اعداء کا گوشت کھاگئے.وہ دنیاو آخرت میں ذلیل کئے گئے اور کوئی نہ تھا جو ان کو بچاتاوه بر بادکر دیئے گئے اور کوئی نہ نکلا جو ان کی مدد کو آتا.جنہوں نے آپ کو گمنام کرنا چاہا تھا وہ خود گمنام ہو گئےاور آج تک ان کے نام و نشان کا پتہ نہیں کہ آج کوئی ہے جو ابو جہل کی نسل ہونا اپنے لئے پسند کرے.کیا کوئی ہے جو عتبه وشیبہ کے نام اپنے آباء میں لینا فخر سمجھے.وہ صنادید عرب جو اپنے ملک کے باپ کہلاتے تھے.ان کی امارتیں آپ کے سامنے گر گئیں وہ آپﷺ کی اطاعت میں سر کے بل گرائےگئے.ان کے ماتھوں پر غلامی کا داغ لگایا گیا وہ بہادرں کا بہادر اور بادشاہوں کا بادشاہ دس ہزارقدوسیوں کے ساتھ مکہ فتح کرنے گیا اور وہ بت جو خدائے واحد کے مقابلہ میں کھڑے کئے جاتے تھےاسی کے بندہ کے آگے سرنگوں کئے گئے.اور اس کے زبردست ہاتھوں ان کے کھڑے اڑادیئےگئے.زمین سے لے کر آسمان تک اس کا نور چمکا اور خود خدا نے اس کے صدق پر شہادت دی اوراس کار حیم کریم دل اپنے مخالفین کے لئے پسیجا اورلا تثريب عليكم اليوم کی دلکش آواز نے نہ صرف آپ کے مخالفین کے جسموں کو ہی بچالیا بلکہ ان کی روحوں کو بھی ابدی دوزخ کے پھندےسے نجات دلادی.(الکامل فی تاریخ.ابن اثیر می: صفحہ ۲۴۳- بیروت ۱۹۹۵ء) لیکن یسوع باوجود ان آسانیوں کے جو میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ نہ اس کی قوم ایسی خطرناک تھی اور نہ اس کو اس سے ایسی دشمنی ہی تھی روز بروز کمزور ہی ہو تاگیا.اور آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ شخص اپنے حواریوں کو بارہ تختوں کا وعدہ دیتا تھا اور ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کر تا تھا.اور اپنےآپ کو شہزادہ کہتا تھا جو یہودیوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کر رہا تھا جو رو من سلطنت کی بھی کچھ حقیقت نہ سمجھتا تھا جسے اپنی ترقیوں کی بڑی بڑی امیدیں تھیں.اور جو آسمانی بادشاہت کے وعدہ دے کر اپنے حواریوں کے حوصلے کو بڑھا رہا تھا.یہودیوں کے قبضہ میں پڑا اور کچھ ایا پناہ آخر نہایت کرب و اندوہ اٹھا کر سولی پر لٹکایا گیا.اور اس وقت اس کے دشمنوں نے اس کے منہ پر تھوکا اور کانٹوں کا تاج پہنایا اور پانی کی جگہ سرکہ پلایا.اور اس نے بے بسی اور بے کسی کی حالت میں وہ چیخا اور ایلی ای لما سبقتنی کی درد ناک اور مایوسی کی مجسم آواز ان کے منہ سے نکلی اور بقول مسیحیوں کے ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا.اور ساتھ ہی ان تمام دعووں پر جو اس نے اپنی ذات کی نسبت اور حواریوں کے بارے میں کئے تھے پانی پھر گیا.اب بتاؤ کہ کیا وہ شخص جو باوجود سخت سے

Page 311

سخت مصیبتوں کے اور دشمنوں کے حملہ کے کامیاب ہوا.خدا کا بیٹا کھلانے کا مستحق ہے یا وہ جومقابلۃً چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہا تھا اور جس کے راستہ میں کوئی سخت رکاوٹیں نہیں تھیں.مگر باوجود اس کے ناکامی و نامرادی سے اس دنیا سے گزر گیا.(بقول مسیحی صاحبان کے) یہ تو دنیاوی کامیابی ہوئی علاوہ اس کے کامل تعلیم سچے اور تمام مرید اور پاک زندگی اور بےنظیر معجزات اور قدسی صفات کے لحاظ سے بھی رسول اللہ ﷺکو مسیح ؑپر بد رجہافضیلت تھی.پس کوئی رنگ بھی لے لو اور کسی طریق پر بھی آپﷺ کا مسیحؑ سے مقابلہ کرلو.آپﷺ کی فضیلت مسیح ؑ پر ثابت ہے.پس اگر کسی معنے میں کوئی خدا کا بیٹا کہلا سکتا ہے.تو وہ رسول اللہ ﷺہیں نہ کہ مسیحؑ.علاوہ ازیں مسیح ؑنے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا بھی نہیں بلکہ وہ تو ہمیشہ ابن آدم ہی کہلا تارہا.ہاں اگر سمجھیں.خداکے بیٹے کا لفظ اس نے اپنے لئے استعمال کیا بھی تو ان معنوں میں تو بہت سے آدمي خد اکے بیٹے ہیں.مثلاً کل یہودیوں کی نسبت توریت میں ہے کہ ’’تب تو فرعون کو یوں کہیو کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرابیٹا بلکہ پلوٹھا ہے، خروج ۴ آیت۲۲) سواس آیت سے تو کل بنی اسرائیلی خدا کے بیٹے بلکہ پلوٹھے معلوم ہوتے ہیں مسیحؑ کی خصوصیت ہی کیا ہے.یسوع صلیب پر خوشی سے نہیں چڑھااس کے بعد جو بات کفار کے مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہے یہ ہے کہ آیا مسیحؑ صلیب پر لٹکایا جانے کے لئےخوش بھی تھایا نہیں.اگر وہ ناراض تھا تو پھر کفارہ کا مسئلہ کسی طرح بھی صادق نہیں ہو سکتا.اور اسکے لئے ہم کو دور جانے کی ضرورت نہیں خود مسیحؑ کی اس وقت کی حالت کا بیان کافی ہو گا.چنانچہ متی ۲۶ آیت ۳۶ تا ۴۰ میں لکھا ہے کہ \" پھر یسوع ان کے ساتھ گتسمنی نام ایک مقام پر آیا.اورشاگردوں سے کہا یہاں بیٹھو جب تک میں وہاں جا کر دعا مانگوں تب اس نے پطرسں اور زبدی کے دوبیٹے ساتھ لئے اور غمگین او در نہایت دلگیر ہونے لگا.تب اس نے ان سے کہا کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے.تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو اور کچھ آگے بڑھ کر منہ کے بل گرا.اور دعامانگتے ہوئے کہا کہ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سےگزر جائے تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ میری خواہش کے مطابق ہو‘‘.پھر لوقا ۲۴ آیت ۳۹ تا ۴۶میں ہے کہ \"اور وہ نکل سکے اپنے دستور پر زیتون کے پہاڑ کی طرف چلا.اور اس کے شاگر داس کےپیچھے ہو لئے اور اس جگہ پہنچے اس نے ان سے کماد عاما نگو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو اور اس نے ان سے تیر کے ایک ٹپے پر بڑھ کے گھٹنے ٹیک کر دعامانگی.اور کہا کہ اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ

Page 312

سے دور کرے لیکن میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی کے موافق ہو اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا.جو اسے قوت دیا تھا.اور وہ جانکنی میں پھنس کے بہت گڑ گڑا کے رعایا گیا تھا اوراس کا پسینہ لہو کی بوند کی مانند ہو کر زمین پر گر تاتھا.اور دعاسے اٹھ کر اپنے شاگردوں کے پاس آیا اورانہیں غم سے سوتے پایا.اور ان سے کہا کہ تم کیوں سوتے ہو؟ اٹھ کر دعا مانگو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو \".اب ان دونوں حوالوں سے مندرجہ ذیل واقعات معلوم ہوتے ہیں.اول تو یہ کہ اس واقعہ کی اطلاع ملنے سے یسوع پر ایسا غم طاری تھا کہ اس کی حالت موت کی طرح ہو گئی تھی.دوم یہ کہ اس نے اپنے شاگردوں سے بڑے زور سے التجاکی کہ وہ اس کے لئے دعاکریں تاکہ وہ اس مصیبت سےبچ جائے.سوم یہ کہ وہ خود بھی بہت گریہ و زاری سے اس تلخ پیالہ کےٹل جانے کی دعا کر تارہا چہارم یہ کہ اس کی اپنی مرضی صلیب پر لٹکنے کی نہ تھی بلکہ مجبور تھا.اورخدا تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں اس کا کچھ بس نہ چلتا تھا.پنجم یہ کہ اس کادرد یہاں تک بڑھ گیا کہ خدا تعالیٰ کو تسلی دینے کے لئے ایک فرشتہ نازل کرنا پڑا.ششم یہ کہ پھر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی بلکہ اس نے دعامیں اس قدر زور لگایا کہ اس کا پسینہ خون کی طرح سرخ ہو کر بہنے لگا.ان سب باتوں کو غور سے دیکھو تو خود بخود کھل جائے گا کہ یسوع کا قطع منشاء نہ تھا کہ وہ صلیب پر لٹکایا جائے بلکہ اس خبر کو سن کر اس کے ہوش اڑ گئے اور صبر کا دامن ہاتھ سے جاتا ہے.اور ہلاکت کا خوفناک نظر اس کی آنکھوں کے آگے پھر گیا.اور زمین پاؤں کے تلے سے نکل گئی اور دنیا اندھیرہوگئی.اور اس نے اس خیال سے کہ شاید اس کی نہیں تو اس کے مریدوں کی دعاہی بار گاہوالہٰی میں سنی جائے ان سے التجا کی اور عاجزی سے درخواست کی کہ وہ اس کے لئے دعا کریں.کہ شاید وہ ابتلاء ٹل جائے.اور وہ مصیبت گزر جائے اور خود بھی اس حد تک، دعا کی کہ شدت غم میں پسینہ کی کے خون بہنے لگا.تو جس شخص کا یہ حال ہو کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گر کر اپنے پائے جانے کی درخواست کرنے اور گڑگڑائے اور روئے اور چلائے اور آسمان کو سر پر اٹھا لے اس کی نسبت کون عقلمند کہہ سکتا ہے کہ اس نے بنی نوع انسان کے گناہ اپنے سر پر اٹھا لئے اور خوشی سے صلیب پر چڑھ گیا.اگر یہی آثار خوشی کے ہوتے ہیں.تو جیل خانوں میں سینکڑوں آدمی ہر سال اسی خوشی سےجانیں دیتے ہیں.لوقا کا یہ لکھنا کہ اس کی تسلی کے لئے فرشتے بھیجا گیا ظاہر کرتا ہے کہ یسوع کا غم کمال تک پہنچ گیاتھا.ورنہ خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ فرشتہ بھیجتا کہ جو اس کے دل کو آکر سہارا دیتا.مگر

Page 313

عجیب بات یہ ہے کہ باوجود فرشتہ کے تسلی دینے کے یسوع کا دل مطمئن نہ ہوا اور وہ برابر گھبراتارہا.ہیں اگر واقعی وہ اپنی مرضی سے صلیب پر چڑھنے کے لئے اس دنیامیں آیا تھا تو یہ رنج اور یہ گھبراہٹ اور یہ گریہ و زاری کیونکر ہو سکتی تھی؟ پھر یسوع اپنی دعا میں یہ کہتا ہے کہ اے باپ جس طرح ہو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.مگر وہی ہوجو تیری مرضی ہو نہ کہ میری.صاف ظاہر کرتاہے کہ یسوع کی مرضی تو یہی تھی کہ وہ صلیب پر نہ لٹکایا جائے.مگر حکم خداوندی کے آگے کچھ پیش نہ چلتی تھی.تب ہی تو کہتا ہے کہ باوجود میری اس خواہش کے کہ میں صلیب سے بچ جاؤں میں تیری مرضی پر صابر ہوں.پس اس سے نہ صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ یسوع خود صلیب پر نہ چڑھنا چاہتا تھا.بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا باپ نے(نعوذ باللہ) اس کو زبردستی صلیب پر لٹکایا.اور اس کا ایسا کرنا صریحاًعدل کے خلاف تھا کیونکہ کسی معصوم اور بے گناہ کو زبردستی صلیب پر لٹکانا سخت ظلم ہے پس جس طریقہ سے مسیح خدا کا عدل ثابت کرنا چاہتے ہیں.اس سے اس کا ظلم ثابت ہوتا ہے اور خدا کی طرف ظلم کا منسوب کرنا خود ایک بڑا ظلم ہے.مگر سب سے بڑھ کر یسوع کے وہ کلمات ہیں جو کہ اس نے صلیب پر لٹکایا جانے کے وقت بار بارو ہراۓ اور وہ یہ ہیں کہ ایلی ایلی ما سبقتنی.این اے میرے خدا!اے میرے خدا تو نے مجھے کیوںچھوڑ دیا.یہ کلمات ایسے توحید سے پر اور مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ عقلمند انسان ان کو سن کر کبھی گمان نہیں کر سکتا کہ یسوع بھی خدائی کا شریک ہو سکتا تھا.اور پھر اگر وہ خوشی سے صلیب پر لٹکناچاہتا تھا.تو وہ اس حد تک کیوں گھبرا جاتا کہ خدا پر اپنے عہد کے ترک کر دینے کا الزام دیتا.اگر وہ مسیحی دنیا کے بچانے کے لئے ہی دنیامیں آیا تھا.تو جس دن اس نے سنا تھا کہ مجھے صلیب پر لٹکانے لگےہیں.اس دن اسے بجائے غم کے خوشی ہونی چاہئے تھی.اور چاہئے تھا کہ وہ اپنے کل مریدوں کواکٹھا کر کے جشن کر تا.اور اپنی عادت کے مطابق وہ سب لوگ مل کر خوب شرابیں پیتے.اور ناچتےاور گاتے کہ وہ مبارک دن اور بابرکت گھڑی اب قریب آگئی ہے کہ جس کے شوق میں یسوع آسمان کو چھوڑ کر اس زمین پر آیا تھا.اور مصلوب ہوتے وقت بجائے یہ کہنے لگے کہ اے میرےخدا.اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اسے یہ کہنا چاہئے تھا.کہ اے میرے باپ.اےمیرے باپ میں خوشی سے بنی نوع انسان کے لئے جان دیتا ہوں اور ان کے گناہ اپنے سر پر اٹھاتاہوں.مگر وہ گھبراہٹ وہ آہ و زاری ظاہر کرتی ہے کہ جسم کفارہ کو مسیحی صاحبان نجات کا ایک ہی

Page 314

ذریعہ قرار دیتے ہیں خود یسوع بھی اس سے ناواقف تھا.یسوع صلیب پر نہیں مراان سب باتوں کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ آیا یسوع صلیب پر فوت بھی ہؤا تھا کہ نہیں اور چونکہ مسیحیوں کو قائل کرنے کے لئے سب سے بہتر ذریعہ اناجیل ہی ہیں اس لئے میں انہیں سے ہی روشنی ڈالتا ہوں.یسوع کی صلیبی موت قطعا ًثابت نہیں بلکہ صلیب پر سے بچ جانا ثابت ہے.متی باب ۲۷ میں ہے کہ جب یسوع حاکم کےسامنے لے جایا گیا تو اس نے اس سے بہت سے سوال کئے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور اس پرحاکم بہت متعجب ہوا.مگر اس کا دستور تھا کہ ہر عید پر ایک قیدی کو یہودیوں کی خاطر چھوڑ دیتا تھا.اس نے یہودیوں سے پوچھا.میں کس کو چھوڑوں.بر ناباس کو جو ایک مشہور چور تھا یا یسوع کو.کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ یسوع حسد کی وجہ سے پکڑایا گیا تھا.یہودیوں نے بر ابا کو چھوڑنے کی درخواست کی.اتنے میں حاکم کی بیوی نے آدمی بھیجاکہ خبردار اس نیک آدمی کو کچھ نہ کہنا کیونکہ میں نے آج رات کو اس کی وجہ سے بڑی تکالیف اٹھائی ہیں.اس لئے پیلا طوس نے پھر یسوع کو بچانے کے لئے کوشش کی.مگر یہودیوں نے نہ مانا تو اس نے ان سے پوچھا کہ کیوں اس نے کیا بدی کی کہ میں اسے صلیب پر لٹکاؤں انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور یہی شور مچایا کہ نہیں اسے صلیب دو.تب اس نے سب یہودیوں کے سامنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ تم جو چاہو کرو.میں اس راستبازکے خون سے بری ہوں اور اسے یہودیوں کے سپرد کر دیا.جنھوں نے اسے جمعہ کے دن شام کےوقت صلیب پر لٹکادیا اور ابھی تین گھنٹہ نہ گزرنے پائے تھے کہ ایک بڑا زلزلہ آیا اور اند ھیرا چھاگیااور چونکہ یہودی سبت کے دن کسی کو صلیب پر نہ رکھ سکتے تھے.اس لئے انہوں نے سب کو اتار لیا اور یوحنا کے بیان کے مطابق اس کے ساتھ جو دو چور صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں.مگر یسوع کی کوئی ہڈی نہ توڑی.اور ایک شخص نے جب ان کے پہلو کو چهید اتواس میں سےخون نکلاپھر جیسا کہ متی لکھتا ہے.یوسف آرمینیایسوع کا ایک شاگرد پیلاطوس کے پاس گیا.اور اس سے اس کی لاش مانگی.مگر پلا طوس نے بموجب بيان مرقس کے متعجب ہو کر شبہ کیا کہ کیا ووایسی جلدی مرگیا.اور اسے اس کے سپرد کر دیا اس نے اسے ایک مکان میں جا کر ڈال دیا.اور مریم مگدلینی و غیره دروازہ پر بیٹھی رہیں پھر یہودیوں کو شبہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ یسوع کے شاگر داسے چرا کر لےجائیں.اور کہہ دیں کہ وہ زندہ ہو گیا اس لئے اپنے پردہ دار مقرر کئے.مگر جب وہ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پتھر قبر پر سے ڈھلکا ہوا ہے.اور ایک آوی نے مریم مگدلیتی وغیرہ سے جو وہاں یسوع کے دیکھنے

Page 315

کو آتی تھیں کہا کہ یسوع تو اب یہاں نہیں ہے بلکہ چلا گیا ہے تم جا کر اس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ گلیل میں تم کو ملے گا.غرض وہ وہاں گئیں اور گلیل میں سب شاگرد اکٹھے ہوئے اور یسوع بھی چھپتا ہو اوہاں پہنچا.مگر اس کے شاگردوں نے شک کیا.کہ شاید یہ اس کی روح ہے مگر بقول یوحنا کےاس نے تھوما سے کہا کہ وہ اس کے زخموں میں انگلیاں ڈال کر دیکھے کیونکہ روح میں ہی ہڈی نہیں ہوتی.اور پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر مچھلی اور روٹی اور شہد کھایا.اب ان تمام واقعات کو ملا کر دیکھو کہ کیا ان سے یسوع کی وفات ثابت ہوتی ہے یا اس کا بچ جاتاثابت ہے.حاکم وقت اس کو بچانا چاہتا تھا.اور اس کی بیوی نے خواب دیکھا تھا کہ اگر اس کو تکلیف پہنچی تو تمہاری خیر نہیں.اس کو یقین تھا کہ یسوع بے گناہ ہے.پھر جب وہ صلیب پر لٹکایا گیا ہے.توجمعہ کا دن تھا اور شام کا وقت اور باوجود اس کے اند ھیری آگئی.اور یہودی ڈرے کہ کہیں شام نہ پڑگئی ہو.کیونکہ ان کے مذہب کے رو سے ہفتہ کے رو زکسی کو صلیب پر لٹکانا عذاب کا محرک تھاپس انہوں نے اسے بہ موجب مختلف روایات کے اڑھائی گھنٹہ سے پانچ گھنٹہ تک لٹکایا.حالانکہ صلیب پر آدمی تین دن تک نک کر بھی زندہ رہتے تھے اور ہڈیاں توڑے جانے پر مرتے تھے.پھر مسیحؑ دوتین گھنٹوں میں کیونکہ مرگیا.پھر اس کے دو ساتھیوں کی توہڈیاں تو ڑی گئیں.اس کی ہڈیاں بھی تو ڑی نہ گئیں اور اس کا پہلو چھیدنے پر خون ثلا جو زندگی کی علامت ہے پھر اس کے شاگر د یوسف نےجھٹ پٹ اس کی لاش حاصل کرنے کی کوشش کی اور خود حاکم وقت کو شبہ ہوا کہ اتنی جلدی یسوع کیونکر مرگیا.لاش حاصل کر کے کسی تنگ قبر میں نہیں بلکہ ایک کمرہ میں رکھی تاکہ ہوا کا گزر رہےپھریسوع ہوش آنے پر چھپ کر نکلا اور حلیل گیا اور خفیہ خفیہ ہی شاگردوں سے ملا اگر وہ مرکر زنده ہوا تھا.اور اب پھر خدا ہو گیا تھا تو اسے چھپنے کی کیا ضرورت تھی.اور پھر خودیہودیوں کو شبہ تھا کہ وہ زنده.ہے تبھی انہوں نے پہرہ مقرر کیا.غرض یسوع پر مسیحیوں کی طرح حواریوں نے بھی شبہ کیا کہ شاید کوئی روح ہے.مگر اسنے انہیں اپنے زخم کھائے.اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.اب ان سب واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ مر گیا تھا.بلکہ ثابت ہے کہ وہ زندہ تھا.اور علاوہ ان واقعات کے تاریخی شہادت بھی ہے کہ یہودیوں نے اس کی تلاش کی اور وہ ان سے چھپتا ہواکشمیرمیں آیا.اور یہاں ایک سو بیس برس کی عمرپا کر فوت ہو گیا.اور خانیار محلہ میں اس کی قبر ہے اور میں نے خود دیکھی ہے چنانچہ میں نے اس کی نگہبان بڑھیا سے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے تو اس نے کہا کہ عیسیٰؑ نبی کی جو کسی اور ملک سے آیا تھا.پھر میں نے جب اس سے سوال کیا کہ مولوی تو کہتے ہیں کہ

Page 316

وہ آسمان پر زندہ چلا گیا تو کیونکر کہتے ہیں کہ وہ مرگیا.تو اس نے کہا کہ وہ تو پڑھے ہوئے ہیں میں ان کے مقابلہ میں کیا کہہ سکتی ہوں مگر بڑوں سے یونہی روایت آئی ہے.پھر خود مسیحؑ کا کہنا کہ میں اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کے لئے آیا ہوں ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کشمیر اور افغانستان میں آناضروری تھا.چنانچہ کشمیر میں اب تک بابل اور ہاروت ماروت کی قبریں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ بنی اسرائیل کا بقیہ ہے.اور خود لفظ کشمیر جو اصل میں کسیر ہے اس بات کی گواہی دیتا ہےکہ یہ لوگ بنی اسرائیل ہی سے ہیں کشمیریوں سے پوچھ کر دیکھو کہ وہ کون ہیں.تو وہ یہی جواب دیں گے کہ کا شریعنی کشمیر کے رہنے والے.جس کے معنی ہیں ک شیریعنی وہ ملک جو شام کی مانند ہےچنانچہ یروشلم کا علاقہ شیر باسیر* کہلاتا تھا پس عقلاً بھی او رنقلاً بھی یسوع کا وہاں آنا ثابت ہے.اوراس کا صلیب سے بچ ر ہنایقینی.پس جب ثابت ہوگیا کہ یسوع صلیب سے زندہ اتر آیا تھا.اور مرانہ تاتو کفار و خور باطل ہو گیا.کفار پر دیگر اعتراضات جس قدرثبوت میں نے کفارہ کے ابطال کے دیئے ہیں ان سےکافی طور سے ثابت ہو گیا ہے کہ کفار کا مسئلہ من گھٹرت ہے.اوربائبل سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کیونکہ اول تو خدائے تعالیٰ کی توحید ثابت ہے اور تثلیث بے ثبوت ہے.پھر یہ ثابت نہیں کہ ایک سے زیادہ خدا اگر مان لئے جائیں تو وہ باپ بیٹا ہیں اور پھر اگرباپ بیٹا بھی ہیں تو مسیح ہی وہ بیٹا ہے کیونکہ اگر بیٹا ہونا ضروری ہو تو اور آدمی موجود ہیں کہ جو ہرطرح ابنیت کے یسوع سے زیادہ حقدار ہیں.اور اگر یسوع کو بیٹامان بھی لیا جائے تو یہ ثابت نہیں کہ اس نے خوشی سے صلیب پر لٹکایا جانا پسند بھی کیا تھا تو اس کا صلیب پر مرنا ثابت نہیں بلکہ صلیب سے صاف بچ کر کشمیر کی طرف چلا جانا ثابت ہے.لیکن اب میں کفارہ کے متعلق اور چند اعتراضات پیش کرتا ہوں کہ جن سے کفارہ کے خیال کی کمزوری ثابت ہوتی ہے.اول یہ کہ بابل میں ہے کہ جو کاٹھ یعنی صلیب پر لٹکایا جائے گاوہ لعنتی موت مرے گا.اور خدا سے دور ہو گا پس کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کی نسبت جو خدا کا بیٹا بھی مانا جائے یہ بات کہی جائےکہ ایک وقت اس پر ایسا آیا تھا کہ وہ خدا سے دور ہو گیا تھا کیونکہ خدا سے دور ہو نادل سے تعلق رکھتا ہے.اور جب ایک شخص خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائے اور اس سے نفرت کرنے لگے.تو کہا *سیر کالفظ سوری سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں پھول اور سیریا کے معنی ہوئے وہ زمین جو خوبصورت پھولوں والی ہے اور کشمیر کو پھولوں کی منڈی ہے اس کا نام بنی اسرائیل نے اپنے وطن کی یاد میں کسیر رکھ کر اس شاعر کی تائید کی ہے.جو کہتا ہے.اگر فردوس بر روئے زمیں است..ہمیں است وہمیں است و ہمیں است.

Page 317

جاتا ہے کہ وہ خدا سے دور ہے یا لعنتی ہےپس یسوع کی نسبت کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کسی وقت اسے خدا سے نفرت ہوگئی تھی اور وہ اس سے دور ہو گیا تھا حالانکہ جھوٹے نبیوں کی نسبت پیشگوئی تھی کہ وہ تو کاٹھ پر لٹکائے جائیں گے مگر سچوں کے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہ ہو گا.پس اگر یسوع کاٹھ پر مر گیا تھاتو کفارہ تو کفار ہ خود یسوع کی نبوت تک ثابت نہیں ہوتی.دوم یہ کہ کفارہ کو مان کر بھی خدائے تعالیٰ کی عدالت ثابت نہیں رہتی.کیو نکہ کیسے ظلم کی بات ہے کہ اگر ایک کمزور مخلوق یعنی انسان گناہ کرے تو اسے ابد الآباد کے لئے جہنم میں ڈالا جا تا ہے اوراپنے بیٹے کو باوجود اس کے کہ اس کے سر پر کروڑوں گناہ ہیں تین دن کے لئے دوزخ میں رکھاجا تاہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ خد ا تھا اور غیر محدود تھا اس لئے اسے تین دن کی سزا دی گئی تو اس پر یہ الزام آتا ہے کہ پھر خدا محدودہو جا تا ہے.کیونکہ غیر محدود کے ساتھ حدود کو کوئی نسبت نہیں ہوسکتی اور جب دو چیزوں میں نسبت ہوگی.تو وہ ضرور محدود ہوں گی.کبھی کسی نے حساب میں یہ سوال نہ دیکھا ہو گا کہ اگر کسی محدود چیز کو اس قدر کام کے بدلہ میں اتنا بدلہ دیا جائے.تو غیر محدود ہستی کواپنے ہی کام کے بدلہ میں کتناردیا جائے گا.پس اس صورت میں یسوع کو تین دن کیا ایک سیکنڈ کی بھی سزا نہیں مل سکتی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ گو نسبت تو کوئی نہیں بیٹھی مگر علی الحساب سزا دیدی گئی تھی تو یہ ظلم ہے پس یسوع کو تین دن تک سزا کا انا ممکن ہی نہیں اگر ممکن ہو بھی تو ظلم ہے.سوم یہ کہ یسوع کو جو تین دن تک دوزخ کی سزاملی توی خدا بیٹے کو سزاملی تھی یا نوع انسان کواگر بیٹے کو سزاملی تھی تو خدامیں تقسیم لازم آتی ہے.یعنی اگر تین خدا ہیں تو ان دونوں میں دو رہ گئےتھے اور اگر ایک نہیں تو اس کا 2/3 حصہ رہ گیا تھا.اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ سزایسوع انسان کوملی تھی تو پھر وہی اعتراض پڑتا ہے کہ اس صورت میں اسے صرف تین دن کی سزا دینا مسیحیوں کےاعتقاد کے مطابق ظلم تھا.اور دوسرے ایک دھوکہ تھا کیونکہ جب واقعہ میں خدابیٹاخدا باپ کےپاس موجود تھا تو پھر اس نے ایک خاک کا پتلا بنا کر اس کا نام اپنا بیٹا رکھ دیا اور اسے صلیب دے کر اپنے عدل کو قائم رکھنے کی کوشش کی جو صریح دھوکہ ہے.چهارم کفارہ کا عقید و خلاف عقل ہے کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ زید کے پیٹ میں درد ہو اور عمر اپنی پسلی میں چھری مار لے.اور زید اچھا ہو جائے.پنجم اگر کفارہ سچا ہے تو پہلے نبیوں کا کیا حشر ہو گا کہ جو توحید کے قائل تھے اور انہیں یسوع کےکفارہ پر ایمان لانے کا موقع نہیں ملا اگر وہ کفار پر ایمان لائے بغیر نجات پاسکتے تھے تو ہم کیوں نہیں پا

Page 318

سکتے اور کہانی ضرورت پیدا ہوئی تھی کہ یسوع کو صلیب پر لٹکانا پڑا.پہلے ہی بڑے زورسے توحید باری کے قائل تھے پس وہ کفارہ کے قائل کس طرح ہو سکتے تھے اور حضرت یوسف ؑسے جب ان کے بھائیوں نے کہاکہ بن یا مین کے بدلہ میں ان کو قید کرے تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ یہ ظلم ہےاگر کفارہ درست تھا تو انہوں نے کیوں نہ بدلہ منظور کرلیا.ششم.اس وقت کی مسیحی سلطنتیں کیوں کفارہ پر عمل کر کے ایک کے بدلے میں دو سرےآدمی کو پھانسی نہیں دے دیتیں.کیونکہ اگر وہ اس کو جائز رکھیں تو ہزاروں آدمی روپیہ کے زورسے اپنے قائم مقام دے دیں اور خود کو سزا سے بچائیں.ہفتم.کیا وجہ ہے کہ مسیحی گو ر نمنٹیں مسیحوں کو سزا دیتی ہیں کیونکہ جب ان کے گناہ معاف ہوچکے ہیں تو اب وہ جو چاہیں کریں ان پر کوئی الزام نہیں.اور اگر باوجود کفارہ پر ایمان لانے کےانسان کے لئے گناہوں سے بچنا لازمی ہے تو کفارہ کا فائدہ کیا ہوا پھر تو کفارہ بالکل بے سود ہے اور دوسرے کفارہ کے مسئلہ کی ضرورت تو تب پڑی جبکہ مان لیا گیا کہ انسان گناہوں سے نہیں بچ سکتا.اس لئے اس کی نجات کے لئے یسوع صلیب پر لٹکایا گیا.پس اگر کفارہ کے ساتھ نیک اعمال کی شرط لگی ہوئی ہے تو نجات محال ہے کیونکہ مسیحی عقائد کے رو سے انسان گناہوں سے بچ ہی نہیں سکتا.پس جب انسان نے ضرور گناہ کرنے ہیں اور کفارہ نے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں پہنچانا جب تک اعمال نیک نہ ہوں تو نجات ناممکن ہوگئی اور اگر کہا جائے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو پھرمسیحی مجرم کو سزادینانا جائز ہوا.بلکہ اگر وہ گنده سے گندہ فعل بھی کرے تواسے تسلی دینی چاہئے کہ تو نے بہت عمدہ کیا تیرے سب گناہ ایسوع نے اٹھائے ہیں تواب ناجی ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ جب انسان کفارہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ گناہوں سے پاک ہو جا تا ہے تو یہ بالکل جھوٹ ہے کیونکہ مسیحی ممالک کے حالات اظہرمن الشمس ہیں.او ر یورپین تہذیب سے واقف خوب جانتے ہیں.دوسرے بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسیحیوں نے کبھی گناہ نہیں کیا تو یہ اعتراض پڑتا ہے کہ جب مسیحی گناہ کرتے ہی نہیں تو پھر یہ کیوں کہا جا تا ہے کہ مسیح نے ہمارے گناہ اٹھا لئے جب گناہ ہی نہ ہوئے تو پھر اٹھایا کیا.غرض کوئی پہلو ہی لے لو کفارہ کا مسئلہ غلط ہی ثابت ہوتا ہے اور عقل سے بالا نہیں بلکہ اس کےخلاف ہے.پس جو طریق کہ مسیحی مذہب نے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا بتایا ہے.بالکل باطل اور بیہودہ ہے اور کوئی ذی عقل اس طریق سے اپنے گناہوں کی معافی کا امیدوار نہیں ہو سکتا.* * تشحيذ الاذہان مارچ تا مئی/جولائی تا ستمبر۱۹۱۰ء)

Page 319

Page 320

۲۹ فرعون موسیٰ منقول ازتشحیذ الاذہان از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 321

۲۹۲

Page 322

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم فرعون ِموسیٰ فرعون کا حال قرآن شریف میں پڑھ کر اکثر لوگ تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کسی خاص بادشاہ کانام تھا.مگر اصل یہ ہے کہ جیسے چین کے بادشاہ فغفور ،ایران کے کسریٰ روم کے قیصر ،جاپان کےمیکا ڈاور روس کے زار کہلاتے ہیں.اسی طرح مصر کے بادشاہ اور صاحب تخت کو فرعون کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا.اس لئے جیسے حضرت یوسف ؑکے وقت میں فرعون حکمران تھا.اسی طرح حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بھی اسی کی حکومت تھی لیکن یہ فرق ضرور ہے کہ وہ فرعون یوسف تھا اور یہ فرعون موسیٰ اس نے تو ایک نبی کی عزت و اکرام کر کے اپنے ملک کو قحط کی مصیبت سے بچا لیا اوراس نے ایک نبی کی ہتک کر کے اپنا ملک اور دولت دونوں کو ویران اور برباد کروایا اس نے توحضرت یوسفؑ اور ان کے بھائیوں کو بلا کر بڑے آرام سے رکھا اور اس نے اس مہمان کے بیٹےبڑی بے دردی سے قتل کروائے پس فرعونِ یوسف اور فرعون موسٰی میں زمین و آسمان کا فرق ہےوہ بالابخت تھایہ کم بخت.یہ یقینی طور سے تو نہیں بتایا جا سکتا کہ فرعونِ یوسف اور فرعون ِموسیٰ میں کتنے بادشاہ گزرےہیں مگر پھر بھی انداز اًکہا جا سکتا ہے کہ چودہ پند رہ تو گزرے ہی ہوں گے.کیونکہ بنی اسرائیل نے مصرکی سرزمین میں قریبا ًدو صدیاں گزار دی تھیں اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے خوب ترقی کی اورمعدودے چند انفاس سے ہزاروں کی تعدار کو پہنچ گئے ، اس لئے فراعنہ ان سے کسی قدر خائف رہنے لگے جس کا نتیجہ ہوا کہ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے شروع ہو گئے.فراعنہ ( فرعون کی جمع) کے ان سے ڈرنے کی ایک یہ وجہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ خود فراعنہ

Page 323

بھی مصر کے اصلی باشندے نہ تھے* بلکہ مشرق سے جا کر اس ملک پر قابض ہو گئے تھے اور یہ بنی اسرائیل اہل عرب کی طرح سای النسل تھے.چنانچہ حضرت ابراہیم ؑکے خاندان کا اس ملک سےخاص تعلق بھی اس خیال پر کچھ روشنی ڈالتا ہے.پس ان کو ہر وقت خیال رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کوئی قوم زبردست ہو کر اصل باشند وں سے یا کسی اور قوم سے مل کر تم کو اس ملک سے نکال دے.پس جب بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی طاقت انہوں نے دیکھی تو ارادہ کیا کہ کسی طرح اس کو روکا جائے.چنانچہ انہوں نے بنی اسرائیل کو طرح طرح کے دکھ دینے شروع کئے اور علاوہ ان کے بچے قتل کرنے کے کل کی کل قوم سے اینٹیں پاتھنے کا کام لینا شروع کیا اور ان کے مشغول رکھنے کے لئے دوشہر فسوم اور رعمسیس تیار کروانے شروع کر دیئے.جن میں سے موخر الذکر شہر اس وقت کےفرعون کے نام پر تھا اس شخص کا بیٹا منفتاح وہ مشہور شخص ہے جس نے ایک نبی کی مخالفت کر کے اپناہی نہیں بلکہ اپنے باپ دادوں کا نام بھی بدنام کر دیا کیونکہ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھی کہ’’ ہرفرعون رامو سیٰ \"کی مثل نے تو گویا ہر ایک فرعون کو ظالم و خود سرہی قرار دے دیا.یہ شخص بڑا متکبیرتھا.اور اسے بھی اپنے باپ کی طرح عمارتیں بنانے کا بہت شوق تھا.جس کا ایک باعث تو یہ تھا کہ بنی اسرائیل کام میں لگے ر ہیں دوسرے اس وقت ارد گرد کے بادشاہوں سے صلح ہونے کی وجہ سےاسے فرصت بھی بہت تھی اور تیسرے اس خاندان میں عمارتیں بنوانے کا شوق مدتوں سے چلا آیاتھا.چنانچہ لفظ فرعون بھی اصل میں آر او ر او سے مرکب ہے جس کے معنے ہیں ’’ بڑا مکان ‘‘اول تویہ لفظ صرف مکانوں پر ہی بولا جاتا تھا لیکن غالبا ًًآخر میں شاہی قلعہ کی عظمت کو دیکھ کر اسی کے لئے یہ لفظ مخصوص ہو گیا اور شاہی قلعہ کے بعد خود پادشاه پر یہ لفظ بولا جانے لگا.چنانچہ اس وقت بھی اس کی ایک مثال ہے.اعلی سلطان روم کے وزراء کو باب عالی کہتے ہیں.غرض یہ کہ امن کی زندگی خاندانی شوق اور پھر بنی اسرائیل کو کام میں لگائے رکھنے کے خیال نے فرعون منفتاح کو بھی عمارتوں کی تعمیر کی طرف متوجہ رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل میں بڑی کمزوری اور پست ہمتی پھیل گئی اور ان کے دل فرعون کے ڈر سے مرعوب ہو گئے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے قال *چنانچہ مصری زبان میں فراعنہ کے خاندان کو بکسوز کہتے تھے جس کے معنے ہیں اجنبی.چونکہ یہ لوگ مشرق سے گئے تھے.اس لئے ان کانام بھی اجنبی پڑ گیا تھا.بائبل سے بھی اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اور وہ یہ کہ خروج باب آیت ا۰،۱۱ امیں ہے اور اس نے فرعون نے اپنے لوگوں سے کہا دیکھو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ہم سے زیادہ اور قوی تر ہیں.تو ہم ان سے دانشمندانہ معاملہ کریں تانہ ہووے کہ جب وہ زیادہ ہوں اور جنگ پڑے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل جائیں اور ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جاویں اس سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ فراعنہ اجنبی تھے کیونکہ ڈیڑھ سو سال میں دس بارہ آدمیوں کی نسل اسقدر کب بڑھ سکتی ہے کہ ملک کے اصل باشندوں سے بھی زیادہ ہو جائے پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے تھے اور تعداد میں تھوڑے ہی تھے.باقی ان دونوں خاندانوں کے سوا اور قومیں بستی ہو گی.+

Page 324

اصٰحب موسیٰ انا لمدرکون.(الشعراء: ۶۲) حالا نکہ ناامیدی اور مجبوری کمزور سے کمزور انسان کو مقابلہ پر ابھار دیتی ہے مگر معلوم ہو تاہےکہ بنی اسرائیل اس وقت ایسے پست ہمت ہو گئے تھے کہ ان میں ایسے موقع پر بھی جرأت د کھانےکی جرأت باقی نہ تھی.جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کے مطابق جو حضرت ابراہیم سے ان کی اولادکے متعلق کئے تھے ایک شخص کو پیدا کیا.جس کا نام اس کے والدین نے موسیٰ رکھا.موسیٰؑ کی پیدائش کے وقت بچوں کے قتل کا حکم ظالم بادشاہ کی طرف سے عام ہو رہا تھا.ان کی والدہ بھی خائف تھیں کہ کوئی گھٹری میں یہ بچہ بھی ظالموں کے ہاتھ سے قتل کیا جائے گا کہ اللہ تعالے نےبموجب آیت شریفہ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (القصص:۸) (اور ہم نے وحی کی والدہ موسیٰؑ کی طرف کہ اس کو دودھ پلا اور جب تو ڈرے اس کی جان کے متعلق تواسے دریا میں ڈال دے اور ڈر نہیں اور نہ غم کھامیں اسے تیری طرف واپس لاؤں گا.اور رسولوں کی جماعت میں داخل کروں گا) انہیں اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے ہاتھوں سے بچالیا.پھر یہ ہوا کہ دریاکے کنارے پر ان کو فرعون کی لڑکی نے دیکھا اور اس کو ان پر رحم آیا.ان کو نکال کر پالنے کا ارادہ کیا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے.فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًاؕ-اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـٕیْنَ (القصص:۹) یعنی اسے اٹھالیا فراعنہ کی اولاد میں سے کسی نے تاکہ ہو ان کے لئے دشمن اور غم کا باعث.تحقیق فرعون اور ہامان اور ان کا لشکر خطا کار تھے.فرعون نے مارنا چاہا لیکن بیٹی کی دلجوئی یا کسی اور غرض کے لئے اس کی بیوی شفیع ہوئی اور ان کو بیٹا بنالینے کا ارادہ ظاہر کیا اور قتل سے روکا.چنانچہ قرآن شریف میں ہے وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (القصص : ۱۰)دودھ پلانے کے لئے آپ کی والدہ ہی مقرر ہو گئیں.اس لئے بچپن ہی سے آپ کو فراعنہ اور بنی اسرائیل کے تعلقات کا حال معلوم ہو تا رہا.اور خوب اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا کہ اس وقت ان کی حالت جانوروں سے بد تر ہے.بڑے ہوئے تو شہزادگی کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے قوی خوب مضبوط اور خیالات عالی تھے.مظلوموں کی مدد پر ہر وقت تیار رہتے.ایک دفعہ دیکھا کہ ایک عبری سے ایک فرعونی لڑ رہا ہے.آپ سے اس کا ظلم نہ دیکھا گیا.بڑھ کر اس فرعونی کو مکا مارا اور اتفا قاًوه

Page 325

ایسے مقام پر لگا کہ وہ مرگیا.دوسرے دن پھر دو شخصوں کو کرتے دیکھا جن میں سے ایک وہی کل و الاعبری تھا.آپ نے فرمایا کہ تو بڑا شوخ ہے روز لڑائی کر تا ہے.یہ کہہ کر ان دونوں کی طرف لپکے.اس نے سمجھا مجھے بھی مارنے آتے ہیں.بول اٹھا کہ آپ نے جیسے کل فلاں کو مارا تھا آج مجھے بھی مارنا چاہتے ہیں آپؑ سمجھے کہ اب بات کھل گئی اور فراعنہ سے لڑائی کی ابتدا ہو گئی مصر کو چھوڑ کرایک اور ملک میں آگئے جہاں قریبا ًدس سال رہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم پا کر ملک مصر میں واپس آئے.راستہ میں فرعون کی ہدایت کا کام سپرد ہوا.اب یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے عہد میں یہ بھاگے تھے.بلکہ رعمسیس کے بعد اس کا بیٹا منفتاح بیٹھا تھا.چنانچہ حضرت مو سیٰؑ کے پاس پیغام الہٰی لیکر پہنچےاور حکم الہٰی کے ماتحت بڑی نرمی سے عرض کیا کہ آپ کے رب کی طرف سے ہم رسول ہیں کہ آپ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیں.یہ کل واقعہ قرآن شریف میں یوں ہے اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى۠ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰی قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ اَوْ اَنْ یَّطْغٰى(۴۵)قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰی فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْؕ-قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ-وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ( : ۴۴-۵۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام و ہارون ؑ کو فرمایا کہ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے.پس دونوں اس سے بڑی نرم باتیں کرو کہ وہ ان پر عمل کرے اور ڈرے.ان دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہم تو ڈرتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملہ میں زیادتی سے کام نہ لے اور حضور کے پیغام کے مقابل سرکشی کام میں نہ لائے.فرمایا کہ تم اس بات سے خوف مت کرو.میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں پس اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تیرے رب کی طرف سے رسول ہیں.پس تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیجدے اور انہیں عذاب مت دے.ہم تیرے پاس دلا ئل بھی لائے ہیں جو تیرے رب کی طرف سے ہیں اور سلامت وہی رہتا ہے جو ہدایت کے پیچھے چلے.ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے یا منہ پھیرے اس کے لئے عذاب ہو گا ( فرعون نے ان کی بات کی کچھ پرواہ نہ کی اور بحث شروع کر دی )اس نے کہا کہ اے موسیٰؑ تمہارا رب کون ہے (وہ حضرت ہارون ؑکی طرف مخاطب بھی نہیں ہوا معلوم ہو تا ہے.و وان کو نعوذ بالله بہت حقیر جانتا تھا.لیکن حضرت موسیٰؑ چو نکہ قلعہ میں

Page 326

رہتے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کی طرح پرورش پاتے رہے تھے اس لئے ان کو مخاطب کیا)آپ نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر اسے راہ دکھائی.اس مباحثہ کے بعد آپس میں اور جھگڑے ہوتے رہے لیکن فرعون نے قطعاً اس کی پرواہ نہ کی اور بنی اسرائیل کود کھ دہی اور ایذاء رسانی میں بڑھتا گیا اور یہاں تک بڑھا کہ بنی اسرائیل چلا اٹھےکہ اے مو سیٰؑ تیرے آنے سے تو ہمارے دکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں آخر معاملہ جب حد سے بڑھ گیا تواللہ تعالیٰ نے حضرت مو سیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اب ملک مصر سے راتوں رات نکل بھاگو.چنانچہ وہ ایک رات مصر سے چلے اور شام کا راستہ لیا.خشکی کا راستہ جس میں آجکل نہر سویز نکالی گئی ہے دور تھا.جلدی میں سمندر کے ساحل کی راہ لی اتنے میں فرعون منفتاح کو خبر ہوگئی وہ پیچھے بھاگا اور کناره سمندر پر ان کو جالیا.بنی اسرائیل تو گھبرا گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم سے موسیٰؑ نے ان کو سمندر میں گس جانے کا حکم دیا.پانی پھٹ گیا.اور وہ میچ میں سے صاف نکل گئے.فرعون کو بھی یہ نظارہ دیکھ کردلیری پیدا ہوئی.اور وہ بھی مع الشکر اندر گھس گیا.لیکن ایک دفعہ گھسنے کے بعد پھر باہر نکلنا نصیب نہ ہوا.ایک ہی لہر سی آئی کہ اسے مع لشکر کے بہا کر لے گئی.قرآن شریف میں آتا ہے کہ اس موقعہ پر اس نے کہا کہ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (یونس:۹۱)یعنی میں ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے.اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں لیکن یہ وقت تو بہ کانہ تھا.بہت سے ایسے مواقع توبہ کے ملے پراس نے قدر نہ کی ہر دفعہ شرارت میں ترقی کی.پس جب عذاب آہی گیا.اور پانی نتھنوں سے نیچےاتر گیا تو اب توبہ کا کون سا موقعہ تھا.اس لئے فرماتا ہے.کہ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ الْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠ (یونس : ۹۲-۹۳ ) یعنی اب تو توبہ کرتا ہے اور پہلے نافرمانیاں کر چکا ہے.اورفسادیوں کے گروہ میں شامل رہا ہے.میں آج کے دن ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے.تاکہ تواپنےپچھلوں کے لئے نشان ہو اور لوگوں میں سے اکثر ہماری نشانیوں سے غافل ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی لاش غرق ہو نے سے بچ گئی بلکہ سمندر کے باہر جا پڑی اور اس کے لشکریوں نے اسے اٹھا کر دفن کیا.یہ ایک ایسادعوی ٰہے کہ جس کا وجود قرآن شریف کے سوا اور کہیں نہیں پایا جاتا.نہ توریت میں کہیں اس کا ذکر ہے نہ انجیل میں اور نہ انبیاء کی کتب میں.لیکن یہ ثابت کرناکہ آج سے تین ہزار سال پہلے ایک شخص کی لاش دریا سے نکلی تھی یا نہیں؟ بہت مشکل تھا.مگر جو(۹۳-۹۲ :

Page 327

کچھ خدا تعالیٰ فرمائے اس کے سچاہونے میں بھی کچھ کلام نہیں ہو سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کےلئے یہ سامان بنادیا کہ اس زمانہ میں جبکہ ہر ایک علم کی ترقی ہو رہی ہے.آثار قدیمہ کی تحقیقات کاشوق بھی بہتوں کو لگا ہوا ہے ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی مصر کے آثار قدیمہ کی تلاش میں لگےہوئے ہیں.انہیں میں سے ایک شخص مسٹر لارییٹ نے مقابر فراعنہ میں ۱۸۹۸ء میں ایک بادشاہ کوتابوت میں پڑا پایا.اور جو کچھ اس پر لکھا ہوا تھا اسے پڑھ کر معلوم کیا کہ یہ ’’خون اتن\" بادشاہ کی لاش ہے.لیکن چونکہ ” ہیر غلیف ‘‘ خط میں اکثر دھوکا ہو جا تا ہے.اس لئے مسٹر جر دف کے سامنےاس سے یہ معاملہ پیش کیا جس نے اس لفظ کو ریان با پڑھا.دونوں کے تنازعہ کو دور کرنے کے لئے ہیرو کو بلایا گیا.اور اس کے ساتھ اور علماء بھی تھے جب انہوں نے وہ حروف رکھے تو فورا ًبول اٹھےکہ یہ ریان با ہے.ریان با موسیٰؑ کا فرعون تھا.اس تابوت کو اور کھولا گیا.تو اس پر منفتاح بھی لکھا ملا.جو فرعون موسیٰؑ کا دوسرا نام تھا.اب تو سب کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی ہے اور وہ لاش قاہرہ دار الخلافہ مصر میں لائی گئی.اور وہاں کے گائب خانہ کے ایوان قیصری میں رکھی گئی جس میں کہ اوربہت سے بادشاہوں اور بیگمات کی لاشیں رکھی گئی ہیں اس تحقیقات سے زمانہ قدیم کے آثار کےمتلاشیوں کو تو جو خوشی ہوئی ہوگی وہ مجھ میں آ سکتی ہے مگر مسلمانوں کے لئے تو اس تحقیقات نےبھی بڑی خوشیوں کے دروازے کھول دیئے ہیں.کیونکہ جو بات آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی.وہ آج پایۂ صداقت کو پہنچ رہی ہے کیونکہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں فرعون کے جسم کے محفوظ رہنے کی خبر سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب میں نہیں ہے پس آج اس لاش نے نکل کر اسلام کی سچائی پر ایک بیّن دلیل قائم کر دی ہے کہاں تین ہزار سال کا مردہ اور کہاں اس کی نسبت یہ بتا دینا کہ یہ آنے والی قوموں کے لئے ہدایت کا باعث ہو گا.کچھ کم تعجب کی بات نہیں.یہ لاش عمدگی سے مسالہ لگی ہوئی ہے * اور فرعون کی شکل اچھی طرح سے پہچانی جاتی ہے اور بہت سی علامتیں جن کا ذکر کتب تواریخ میں تھا اس میں پائی جاتی ہیں اس کی تصویر بھی بعض اخباروں میں چھپی ہے لیکن وہ ہمیں دستیاب نہیں ہو سکی اس لئے یہاں نہیں دی جاسکتی.ورنہ اگر کہیں سے مل جاتی تو ہم کو بڑی خوشی ہوتی کہ ہم اس کو بھی شائع کر دیتے تا کہ لوگ دیکھتے کہ یہ وہ شخص ہے جو آج سے تین ہزار سال پہلے سمندر میں غرق ہوا تھا اور جس کی * مصر میں ایک خاص قسم کا مسالہ ہوتاتھا جسے لگادینے سے مردہ لاش ہزاروں سال تک بھی خراب نہ ہوتی تھی.اور اس مسالہ کی بدولت فرعون کی لاش بھی ہم تک پہنچی ہے اس مسالہ کی گئی ہوئی لاش ممی کہلاتی ہے.

Page 328

نسبت قرآن شریف میں بتایا گیا تھا کہ اس کی لاش کی گئی ہے اور محفوظ رکھی ہوئی ہے اور یہ کہ ایک زمانہ میں وہ مل بھی جائے گی.اور لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہوگی.اور اسی طرح ایک پیشگوئی میں گویا اتنی باتیں بتائی گئی تھیں.اول تو یہ کہ فرعون کی لاش سمندر میں بہہ نہیں گئی بلکہ وہ سلامت باہر پہنچ گئی کیونکہ سمندرمیں ڈوبنے والے کا اکثر تو یہی حال ہو تا ہے.کہ یا تو اسے جانور کھا جاتے ہیں اور یادہ دور دراز بہہ جا تاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ بلا کسی قسم کے نقص کے کنارے پر لگادی گئی تھی.دوسری بات یہاں سے یہ معلوم ہوئی کہ اس کو مسالہ بھی لگایا گیا تھا.کیونکہ یہ بھی ممکن تھا کہ اسے مسالہ نہ لگایا جا تا.جیسا کہ اس فرعون منفتاع کے باپ رعمسیس کی لاش کو مسالہ نہیں لگایا گیاتھا.کیونکہ وہ کوڑھ کی وجہ سے بہت گل گیا تھا اور اسی طرح یہ ضروری نہ تھا کہ ہر ایک بادشاہ کی لاش کو مسالہ لگایا جائے.پس آیت قرآن شریف کے اس حصہ یعنی لتكون خث خلقت اسےصاف ثابت ہے کہ اسے مسالہ بھی لگایا جائے گا.کیونکہ اگر مسالہ نہ لگایا جاتا تو اس وقت تک گل سڑ جاتی ہم تک پہنچتی ہی کیونکر - تیسرے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخر زمانہ تک محفونا بھی رہے گی.کیونکہ یہ بھی کچھ ضروری نہیں کہ سب مسالہ والی لاشیں آج تک محفوظ رہیں.ہزاروں لاکھوں لاشیں نہیں جو مسالہ وار تھیں لیکن ضائع ہو گئیں.کیو نکہ ایک زمانہ مصر میں ایسا آیا ہے کہ جو رات کو شیع کی بجائے مسالہ دارلاشوں کے ٹکڑے جلاتے تھے.کیونکہ وہ ایسی عمد و جلتی ہیں کہ جیسے کافوری شمع اور اور بھی کئی ذریعےہیں جن سے دو ضائع ہو سکتی ہیں.پسں اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو تا تھا کہ وہ لاش ہر قسم کی مہلک چیزوں سے بچ کر پچھلے لوگوں تک پہنچ بھی جائے گی.چوتھے یہ معلوم ہوا کہ نہ صرف وہ محفوظ رہے گی بلکہ وہ مل بھی جائے گی کیونکہ اگر کسی کھوہ یا غار میں پڑی رہتی تو لوگوں کے لئے کسی نفع کا باعث ہو سکتی تھی.پانچویں یہ کہ وہ مل کر پہچانی بھی جائے گی کیونکہ \"نشان\" تبھی ہو سکتی تھی کہ اگر اس کی شناخت بھی ہو جاتی.اگر بالفرض وہ مل بھی جاتی.مگر اس کی شناخت نہ ہوتی.تب بھی اس میں نقص رہ جاتا.پس اس ایک آیت میں پانچ آیتیں ہیں جو قرآن شریف کی سچائی کی دلیل ہیں اور مومنوں کےلئے ازدیا وایمان کا باعث ہیں.

Page 329

پس اس لاش پر مجھے سخت تعجب ہے کہ جب اس میں جان تھی تب تو اس نے ہزاروں کو گمراہ کیاہو گا.لیکن روح سے جدا ہو کر اور ہزاروں سال تہ زمین میں رہ کر اس میں کیا کیمیائی اثر پیدا ہو گیا کہ آج ہی لاکھوں کے ازديا و ایمان کا باعث ہو گئی.سب سے بڑھ کر تعجب کی یہ بات ہے کہ اس لاش کو فرعون موسیٰؑ کی لاش کہنے والے مسلمان نہیں کہ ان پر الزام آسکے کہ انہوں نے قرآن شریف کی ایک آیت درست کرنے کے لئے یہ جھوٹا دعویٰ کردیا بلکہ خود مسیحی مؤرخ ہیں اور وہ بڑے زور سے دعوی ٰکرتے ہیں کہ یہ لاش منفتاح ریان با فرعون موسیٰ کی لاش ہے.اس بات کا ثبوت کہ یہ لاش واقعی منفتاح کی ہے ایک تو یہ ہے کہ اس لاش کے اوپر کپڑے پر لکھا ہوا تھا کہ یہ منفتاح کی لاش ہے.بلکہ اس کی ایک تصویر بھی اوپر دی گئی تھی جو کہ کئی انگریزی اخباروں میں شائع کی گئی ہے اور جس کو ڈھونڈ کر شائع کرنے کی ہم انشاء اللہ کوشش کریں کئے تاکہ فرعون موسیٰؑ کا حال پڑھنے کے بعد ہمارے ناظرین اس کی تصو یر کے ذریعے سے گویا خو داسے ہی دیکھ لیں.دوسرا یہ کہ کئی علامتیں اس کے بدن پر ایسی پائی گئی ہیں جو کہ فرعون موسیٰؑ میں پائی جاتی تھیں مثلا مسوڑوں کی بیماری کہ اس کا نشان اس لاش میں بھی پایا جاتاہے.تیسرے اس کی شکل سیتی اول سے جو اس کا دادا تھا ملتی ہے اور اس بات کا ثبوت کہ منفتاح ہی فرعون ِموسٰی تھا.اول تو یہ ہے کہ اس کا زمانہ حکومت اور بنی اسرائیل کے خروج کا زمانہ ایک ہےپس سوائے اس کے کہ مانا جائے کہ بنی اسرائیل اسی کے دوران حکومت میں مصر سے نکلے تھے اورکوئی چارہ نہیں.دوسرے یہ کہ توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل رعمسیس شہر کی تعمیرکرتے تھے.اور رعمسیس منفتاح کے باپ کا نام تھا.پس بہرحال وہ زمانہ منفتاح کے باپ کی حکومت کا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ موسیٰ کے وطن چھوڑ دینے کے بعد وہ فرعون مر گیا اور دوسرے فرعون کے عہد میں موسٰی واپس آئے اور بنی اسرائیل کو طلب کیا.میں ضرور ہے کہ اس وقت منفتاح حکمران ہو.تیسرے قرآن شریف اور توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فرعون کے بعد اس خاندان پرزوال آگیا.اور تاریخ سے ثابت ہے کہ فراعنہ کی اس شاخ کا آخری بادشاہ جس کے بعد زوال کیا وہ منفتاح ہی تھا.چوتھے یہ کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو دریا میں ڈلوانے والا بادشادہ رعمسیس ہی تھا.پس اس

Page 330

صورت میں بھی بنی اسرائیل کا مصر سے خروج اس کے بیٹے منفتاح ہی کے زمانہ میں ہو سکتا ہے.اس کی نسبت طالمود میں لکھا ہے کہ بڑا ہوشیار اور مکار تھا اور اس کا قد چھوٹا تھا.چونکہ یہ بیمار رہتا تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ جلد ضعیف ہو گیا کیونکہ جو لاش نکلی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت کمزور تھا.حالانکہ یہ حضرت موسی ٰؑ سے انداز ا ًتین سال چھوٹا تھا.کیونکہ جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے اس کی ماں نے حضرت موسیٰؑ کو اس بہانہ سے بچایا تھاکہ ہمارا بیٹا کوئی نہیں اسے پال لیں.پس معلوم ہو تا ہے کہ اس وقت اس کے اولاد کوئی نہ تھی اوریہ بادشاہ کا دوسرا بیٹا تھا.اور اس کا بڑا بھائی بو جہ سادہ لوح ہونے کے بادشاہ کو پسند نہ تھا.اور اس نےاسے تخت سے محروم کر دیا تھا.پس کم سے کم حضرت مو سیٰؑ کے اٹھانے کے دو سال بعد اس کےبڑے بھائی کی پیدائش مانیں.اور اس کے تیسرے سال تو اس حساب سے تین سال یا دو سال آپؑ سے چھوٹا معلوم ہو تا ہے.ہاں اس کی بہن جس نے اول اول آپ کو اٹھایا ہے آپ سے کوئی پندره سولہ برس بڑی ہو گی اس کا نام منفتاح ہیرو غلوفی حروف میں اس طرح لکھا جاتاہے.اسم منفتاح خاکسار مرزا محموداحمد (تشحيذ الاذہان جنوری ۱۹۱۱، )

Page 331

Page 332

مسلمان وہ ہے جو سب ماموروں کو مانے از حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 333

Page 334

دیباچہ چند دنوں سے وطن اور المنیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفة المسیح پر اعتراض کیا گیا ہے کہ آپ نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایک ذرا سے فرق پر اختلاف ڈلوایااور لکھ دیا کہ ہم میں اصولی فرق ہے اسی طرح پیسہ اخبار میں کسی شوخ چشم نے ایک مضمون دیا ہےکہ امید ہے حضرت خلیفة المسیح اس فیصلے کو واپس لے کر حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو باطل کر دیں گے.اور ان پر سے کفر کا فتویٰ واپس لے لیں گے لیکن تعجب ہے کہ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اللہ مانتے ہیں تو کیونکر آپ کے فتویٰ کورد کر سکتے ہیں اور حضرت خلیفة المسیح تو آپ کے خلیفہ اور آپ کے کاموں کو پورا کرنے والے ہیں آپ کیو نکر آپ کے الہاموں کو رد کر سکتے ہیں اصل میں یہ لوگ مامورین اور انبیاء و رسل کی مخالفت کی حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں تبھی تو کہتے ہیں کہ حضرت کے مخالف کیو نکر کافر ہوئے.یا کم سےکم نیک نیتی سے نہ مانے والے کیو نکر کافر ہوئے حالانکہ رسول الله کو نہ مانے والے کیاسب کےسب بد نیت تھے اور کیا سب پر حجت قائم ہو چکی ہے.سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں میں کون تبلیغ کرنےگیا تھا.لیکن باوجود اس کے اسلام کی رو سے وہ کافر ہیں.باقی یہ رہا کہ ان کو سزا ملے گی یا نہیں یہ خدا تعالیٰ جانتا ہے.شریعت کا فتویٰ تو ظاہر پر ہے اس لئے ہم ان کو کافر کہیں گے.پس جب تبت اورسوئٹزرلینڈ کے باشندے رسول اللہ ﷺکے نہ ماننے پر کافر ہیں تو ہندوستان کے باشندے مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننے سے کیو نکر مؤمن ٹھہر سکتے ہیں غرضیکہ یہ خیال بالکل بے ہودہ اور عقل سے بعید تھا اس لئے اس کی تردید لاتی نظر آئی کہ احمدی بھائی دھوکہ نہ کھائیں.لیکن چونکہ حضرت خلیفة المسیح کا فتویٰ بھی ضروری تھا اس لئے یہ مضمون بہ تمام و کمال آپ کو دکھایا گیا اور آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مجھے اس مضمون سے مخالفت نہیں اور ہرگز مخالفت نہیں اور تحریر فرمایا ہے کہ

Page 335

اسے چھاپ دو* اب اسے عام مخلوق کی ہدایت کے لئے شائع کرتا ہوں احمدی بھائیوں کو چاہیے کہ اس کی خوب اشاعت کریں اور یہ مضمون دوسرے دوستوں کو جا کر سنائیں کیونکہ غیر احمدی اس وقت پورے زور سے ہم کو اپنے اندر ملانا چاہتے ہیں اور جب حضرت ؑکی مخالفت کے باوجود انسان مسلمان کا مسلمان رہتا ہے تو پھر آپ کی بعثت کا فائدہ ہی کیا ہوا.و السلام خاکسار مرزا محمودا *آپ نے ایک دفعہ مضمون دیکھ لیا تھا اور مزید احتیاط کے طور پر پھر آپ سے عرض کیاتھا کہ اگر آپ اس کا شائع کرنا ناپسند فرمائیں تو اسے بندکیا جاسکتا ہے جس کے جواب میں آپ نے یہ فقرہ فرمایا اور انشاء اللہ مزید احتیاط کے لئے پروف پھر بھی حضور کے پیش کئے جائیں گے تاکہ اگر کوئی اور اصلاح کرنی ہو تو آپ کردیں.منہ

Page 336

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ أَعْمَالِنَا مماثلت مسیحین آیاتِ صراط الذين أنعمت عليهم( الفاتحہ۰۷) ہے اور تشابهت قلوبهم (البقرہ:۱۱۹) سے ظاہرہوتا ہے کہ انبیاءؑ کی جماعتوں اور ان کے مخالفین کا ایک ہی طریق ہو تاہے.نبیوں کی مشابہت نبیوں سے ان کی جماعتوں کی مشابہت اپنے سے پہلی جماعتوں سے اور ان کے مکفر ین کی مشابہت ان سےپہلے کے مکفرین سے ہوتی ہے.جس طرح نبی اور ان کی جماعتیں ایک ہی راستہ پر قد م مارتے چلےجاتے ہیں.اسی طرح ان کے مخالفوں کے پیرو بھی اپنے پیشرؤوں کی سنت پر عامل ہوتے ہیں.خصو صاً جن انبیاء کی آپس میں مشابہت اور مماثلت ہو او را یک ہی قسم کے کام ان کے سپرد ہوں.تو ان کے حالات تو آپس میں بہت ہی کچھ ملتے جلتے ہیں ان پر اور ان کی جماعتوں پر ایک ہی سے ابتلاء آتے ہیں.ایک ایسے شیطانی حملے ان پر ہوتے ہیں اور ایک ہی راہ سے ان کو پھسلانے کی کو شش کی جاتی ہے ہمارے حضرت کو چونکہ حضرت مسیحؑ سے مشابہت تھی اور آپ ان کے مثیل تھے.آپ کے واقعات بھی ان سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں جیسے وہاں ایک امن و امان کی سلطنت تھی.یہاں اس سے بڑھ کر امن و امان کی حکومت ہے جیسے وہاں ایک غیر ملک کے باشندوں کی گو ر نمنٹ تھی یہاں بھی غیر ملک کے باشندوں کی گورنمنٹ ہے جیسے و ہاں تقریر و تحریرسے تبلیغ کی جاتی تھی ویسے ہی یہاں بھی کی جاتی ہے جس طرح ان پر خون کا مقدمہ کیا گیا اور آخر میں آپ کی نجات ہو گئی.اسی طرح یہاں بھی ایک خون کا مقدمہ ہوا جس میں آخر میں آپ کی نجات ہوئی.جس طرح وہاں کفر کے فتوے لگے یہاں بھی گئے.اسی طرح آپ کے مخالف مولوی آپ کے پیچھے پھرتے اسی

Page 337

طرح اب بھی پھرتےرہے.پس ضرور تھا کہ جس طرح آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت پرابتلاء آئے.اسی طرح حضرت صاحب کی وفات کے بعد بھی جماعت پر اسی طرح ابتلاء آتے.چنانچہ ایک مدت سے بلکہ شاید میں غلطی پر نہ ہوں گا اگر کہوں کہ حضرت صاحب کی زندگی کے زمانہ سےمجھے اس بات کا خیال تھا اور خوف تھا اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک مدت سے آثار ظاہر ہو رہے ہیں لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود ؑصرف مثیل مسیحؑ ہی نہ تھے بلکہ مہدی مسعود بھی تھے اس لئے امیدبلکہ یقین ہے کہ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ان ابتلاوں کے زمانہ سے صاف اوربے عیب نکل جائے گی.چنانچہ اگر میں بھولتا نہیں تو میں نے خود حضرت خلیفہ المسیح کے منہ سے یہ سنا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ آپ مثیل مسیح ہیں.اس لئے ان واقعات سے خوف آتا ہے.جومسیح کی جماعت سے پیش آئے فرمایا کہ ہاں خوف تو ہے لیکن چونکہ میں مہدی بھی ہوں اس لئےاللہ تعالیٰ انجام نیک کرے گا پس گو خوف ہے لیکن تیک انجام کی بڑی امیدیں لگی ہوئی ہیں.مسیح ناصری کے بعد غیر قوموں کا حملہاب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بیان کرتا ہوں کہ وہ ابتلاء کیا تھا جو حضرت مسیحؑ کے بعدآپ کی جماعت کو آیا.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت کو غیر قوموں نے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا اور حالات میں کچھ ایسے پیدا ہوتے گئے کہ جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیحی لوگ ان میں مل گئے.ان مٹھی بھر آدمیوں پر وہ کثرت غالب آئی اور یونانی اور رومی مشرکانہ خیالات اورمداہنت ان میں پیدا ہو گئی.بعض حواری جو الگ رہے ان کا بقیہ خاتم النّبيّن ر سول رب العلمینﷺ الی یوم الدین کے وقت تک چلا.لیکن چونکہ اصل توحیدآ گئی.اس لئے ان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا سے اٹھا لیا اور وہ اپنا کام کر کے خاموشی کے ساتھ اس دنیا سےگذر گئے.چنانچہ سلمان فارسیؓ بھی انہیں لوگوں کے بتائے ہوئے رسول اللہ اﷺکے پاس آئے تھے.مسیح ثانی کی وفات پر ثابت قدمی ہمارے حضرت کی زندگی کے آخری ایام میں اور بعدوفات کے بھی اس قسم کی تحریکات مخالفین سلسلہ کیطرف سے ہوئی ہیں.اور ہو رہی ہیں.ایک وہ وقت تھا کہ ہمارے بر خلاف چاروں طرف سے کفرکے فتوے شائع ہوتے تھے.ہمارے سلسلہ کے کمزور اور ضعیف انسانوں کو بے طرح کچلا جاتا تھا.وہ

Page 338

ماریں کھاتے تھے.گالیاں سنتے تھے.قتل بے گناہ ہوتے تھے.عدالتوں میں گھسیٹے جاتے تھے.مگر یہ سب کچھ کس لئے ہوتا.صرف اس لئے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا قادر ہے اور رسول اللهﷺکی پیشگوئی کے مطابق اس نے اس امت میں سے ایک مامور بھیج دیا ہے.جو دنیا کو گمراہی سے بچائےاور اس کا نام اس نے مسیح موعوداور مہدی مسعود رکھا ہے.گویا ہم پر فرد جرم اس لئے لگائی گئی کہ ہم نے خدا کے علم کو کیوں مانا اور کیوں نہ اسے کہہ دیا کہ ہم کب تک تیرے احکام کو مانتے چلےجائیں آج تک بہت سے انبیاءؑ کو تو مان لیا اب بس کرو اور ہم کو اس اطاعت سے معاف کرو.ہاںہم اس لئے واجب القتل قرار دیئے گئے کہ ہم حقیقی بادشاہ کے فرماں بردار ہوئے اور ان باغیوں کے ساتھ نہیں ملے جنہوں نے اس کے مامور کا انکار کیا.اور اگر واقعی یہ کوئی ایسا جرم تھا جس کی سزاہم کو یہ ملنی چاہئے تھی.تو خدا کی قسم ہم اس جرم کے مرتکب ضرور ہوئے ہیں.اور جس طرح ہمارے حضرت ؑنے رسول اللہ ﷺکی نسبت فرمایا ہے بعد از خدابعشق محمد مخمرم -: گر کفرایں یو د بخداسخت کا فرم ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر خدا کے ماموروں اور رسولوں کا اقرار اور ان کی اطاعت کفر ہے تو خدا کی قسم ہم اس قسم کے کافر ضرور ہیں.اور اگر اسی کا نام کفر رکھا جا تا ہے تو اس کفر کو ہم ذریعہ نجات یقین کرتے ہیں.جماعت کی ترقی اور دشمن کا فریباس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ خدا تعالیٰ نے ہم کوفتوحات دیں اور ہماری جماعت کے روز بروز ترقی ہونی شروع ہوئی اور جوں جوں مخالفین سلسله نے شور مچایا یہ سلسلہ اور بھی بڑھا اور بیسیوں میں جو مخالفین سی کی کتب کو پڑھ کر اس سلسلہ میں داخل ہوئے اور جس قدر عذاب ہم کو دیئے گئے ان سے بجائے ہماری ذلت و کمزوری کے ترقی اور عزت ہی ہوتی گئی.جس قدر ہمارے مخالفین نےہمیں چاه گمنامی میں پھینکنا چاہا.خدا نے اسی قدر ہم کو شہرت کے ٹیلہ پر بلند کھڑا کیا.اور ہماری جماعت کا رعب مخالفین کے دلوں میں بیٹھ گیا اور خدا کی دی ہوئی نصرت وفتح کو انہوں نے مشاہدہ کیا.اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام کے دشمنوں کی فوجیں ہمارے آگے سے فرار ہو گئیں.اور انہوں نے سن لیا کہ دجال اس مسیح کے مقابل میں ٹھہر نہیں سکا.اور ملا ئکہ کی ہیبت ناک آواز یں ان کے کانوں میں پہنچیں، تب ان کو یقین ہو گیا کہ اب یہ سلسلہ پڑھے گا اور ہر ایک سر سبزوادی اور ویران جنگل اور اونچے پہاڑ اور وسیع سمند ر پر ان کی آواز بلند ہو گی اور وہ اسلام

Page 339

کا نشان جس میں مشرکانہ خیالات کی وجہ سے بے رونقی اور زنگ پیدا ہو گیا تھا یعنی کلمہ شہادت وہ پھراپنی اصلی رونق سے دنیا پر ظاہر ہو گا.اور وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ کے مطابق دنیادیکھ لے گی کہ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا.مگر دنیا نے اسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرے گا‘‘ جب حق کھل گیا.اور بات ظاہرہو گئی تو شیطان نے وہی حربہ استعمال کرنا چاہا جس سے کہ حضرت مسیحؑ کی جماعت کو دِق کیا تھا.اوران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو توڑ دیا تھالیکن اس نے مولویوں اور گدی نشینوں سے کام بگڑ تا ہوا دیکھ کرامراء اور تعلیم یافتہ گروہ کو چنا اور چونکہ یہ لوگ اکثریا تولامذ ہب ہوتے ہیں.یا دین کی حقیقت سےغالباًً نا واقف اور عملی حصہ میں تو فیصد ی بہت ہی کم نکلیں گے جو جماعت نماز بلکہ صلوٰۃ و صوم و ز کو ٰۃکے پابند ہوں.اس لئے ان کے ہاتھوں میں وہی حربہ د یا جو حواریوں کے مقابلہ میں غیر قوموں کو دیاتھا.یعنی وہ صلح کے لئے بڑھے اور انہوں نے اپنے چہرے ایسے بنائے گو یا اسلام کے غم نے ان کی کمرتوڑ دی ہے اور مختلف فرقوں کا تفرقہ دیکھ کر ان کے دل پر اگندہ اور آنکھیں پر نم ہیں اور یہ ایسابوجھ ہے کہ جس سے ان کی پشت خم ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی تباہی کو دیکھ کر وہ بے موت مر رہےہیں.اور اسی حالت بنا کر وہ ہمارے پاس آئے اور اپنی خطاؤں کا اقرار کیا اور کہا کہ ہماری غلطی تھی کہ ہم آپ لوگوں سے الگ ہوئے اور بزرگوں کا کام ہمیشہ خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے پس آپ ہماری غفلت سے نظراندازی کریں اور ہم کو اپنا خیر خواہ تصور کریں اور آج سے ہم میں اورآپ میں یگانگت ہو جائے اور ہم ایک ہو کر اسلام کو دشمنوں سے بچائیں.اور اس کے بعد ایک عاشق مفتون کی طرح انہوں نے ہم سے گلہ شروع کیا اور کہا کہ جب تم میں اور آپ میں کوئی اصولی.فرق نہیں اور ہمارا ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول ہے تو آپ ہم سے الگ کیوں ہوئے اور ہمارےپیچھے نمازیں پڑھنی کیوں چھوڑ دیں اور کیا ضرور تھا کہ اگر ہمارے جہال سے کوئی خطا ہوئی تھی توآپ اس کا نوٹس لیتے اور اس پر بگڑ بیٹھتے.آپ کو تو بڑے رحم اور وسعتِ نظر سے کام لینا چاہئے تھااور صرف اس بات پر کہ ہم مرزا صاحب کو بأمور من اللہ نہیں مانتے کافر قرار دینا آپ کی شان سےبہت بعید تھا.اور ہم تو مرزا صاحب کو ایک بڑار استباز انسان اور اسلام کا سچا خادم تصور کرتےہیں اور صرف آپ سے اس قدر اختلاف ہے کہ ہم آپ کےبعض ان د عاوی کو نہیں مانتے کہ جن میں وہ اپنے آپ کو خدا کی طرف سے رسول اور مسیح موعوداور مہدی مسعود ہونے کا ذکر کرتے ہیں اور مختلف موقعوں پر مختلف لوگوں کے سامنے ان باتوں پر اتنا زور دیا کہ قریب تھا کہ بہت سے

Page 340

لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے.او رو ہ مدت کے بچھڑے ہوؤں کی طرح ان سے لپٹ جاتے.اور آپس کے اختلافات گلے لگ کر مٹائے جاتے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور حضرت صاحبؑ کا مہدویت کا رنگ غالب رہا.سلسلہ کی حفاظت اور دشمن کے فریب کا قلع قمعاور عین مصیبت میں پڑ جانے کےوقت اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی اور کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اگر ایک مأمور کے بھیجنے کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے اورانجام ایسا ہی ہوتا ہے او ر باوجود اس کے انکار کے پھر بھی انسان خدا تعالیٰ کا پیارا ہی رہتا ہے تو ہم کواس قدر مشکلات میں پڑ جانے کی کیاضرورت تھی اور کیوں خدا نے ایک مامور کو بھیج کر خواہ مخواہ ہم کو مصیبتوں میں ڈالا اور اپنوں اور بیگانوں کی نظر میں حقیر کیا اور کافر ٹھہرایا - انہوں نے خیال کیا کہ اگر ایک مأمور کا انکار ایسا ہی ایک چھوٹا سا انکار تھا اور خفیف بات تھی تو خدا نے یہ کیوں کہا کہ میں اس کے انکار کے بدلہ میں دنیا کو ہلاک و برباد کر دوں گا.اور طرح طرح کے عذاب اس دنیا میں بھیجےاور لاکھوں انسانوں کو دیکھتے دیکھتے ہلاک کر دیا اور کیوں اتنی مدت تک ملک کے علماء و فضلاء کو اس کی مخالفت کی وجہ سے ذلت سے مارتا رہا.اور کیا وجہ ہوئی کہ آج سے ہزاروں سال پہلے نبیوں کی زبان پر اس کی خبر دی اور انجیل میں اس کا ذکر کیا اور قرآن شریف میں اس کی بعثت کی نسبت پیشگوئی کی اور اگر یہ ایک معمولی بات تھی اور ایک فروعی سا فرق تھا تو کیوں اس نے خود اس کوالہام کے ذریعہ سے کہا کہ جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة یعنی وہ مسلمان جو تیرا انکار کرتے ہیں اور تیرے منکر ہیں ان کو رفتہ رفتہ کمزور کر دوں گا اور تجھے وہ عظمت دوں گا کہ تیرے پیرو ہمیشہ ان سے معزز رہیں گے اور ان باتوں کے سوچنے کے بعد ان کےدل بشاش ہو گئے اور انہوں نے جان لیا کہ عین گڑھے میں گرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے ہماری رہبری کی لیکن یہ شور بڑھتا گیا.اور اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے مخالف کھلے طور پر اخباروں میں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس جدائی کو جانے دو اور ہم سے آملوگو مرزا صاحب سے دعاوی میں غلطی ہوئی.اور ایسے موقع پر میں نے ضروری جانا کہ ایسے لوگوں کی دھوکہ دہی کو ظاہر کروں اوراس خطرہ ہے جو تعلق کے نیچے مخفی ہے انہیں آگاہ کروں اور اس معاملہ میں حضرت صاحب کی جو رائے ہے اس سے بھی ان کو مطلع کروں.تاکہ وہ اپنے قدموں پر مضبوط ہو کر جم جائیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں اور میرے دل میں اس بات کے لکھنے میں کوئی نفاق کا شائبہ نہیں.اگر میں نفاق کو پسند

Page 341

کرتاتو سب سے پہلے غیراحمدیوں کی عظیم الشان جماعت میں ملنے کی کوشش کرتا اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس طرح حضرت صاحب کو جو گالیاں دی جاتی ہیں وہ کم ہو جائیں.اور کون نہیں چاہتا کہ اس کےباپ کو لوگ گالیاں نہ دیں اور اس کے والد کی نسبت فحش الفاظ استعمال نہ کئے جائیں.پس اگرآپ لوگ ان کو پیر سمجھ کر دشمنوں کے حملے سے بچانا چاہتے ہیں تو میرے ان سے دو رشتے ہیں.وہ میرے والد بھی ہیں اور آقا اور پھر بھی لیکن میں نفاق پر موت کو ترجیح دیتا ہوں اور اس وقت سےپناہ مانگتا ہوں جب میں وہ بات کروں جو میرے دل میں نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کی اس معاملہ میں نفرت چاہتا ہوں اور میں اسی سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ مجھے گناہوں میں پڑنے سے بچائے.میں جانتاہوں کہ کوئی مجھے گناہوں کی بھٹی سے نہیں بچا سکتا مگر اللہ اور مجھے کامل یقین ہے کہ من یهدی الله فلا مضل له و من يضللہ فلا ھادی له پس اس سے ہر قسم کی شرارت نفس اور خبث باطن سےپناہ مانگتے ہوئے میں نے اس کام کو کیا ہے اور میں اس سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ضرور بچائے گااور ہر قسم کے ا بتلاؤں سے محفوظ رکھے گا.غرضیکہ اے عزیزو! ہمارا ایمان ہے کہ حضرت صاحب خدا کے رسول تھے اور بأمور من اللہ تھے اور ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء ہمیشہ بھیجتا رہتا ہے اور نہ معلوم اور کتنے انبیاء آگےبھیجے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ حضرت نبی کریم محمد رؤوف رحیم رسول اللہ خاتم النّبیّن کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہر قسم کی نبوتوں کے خاتم ہیں اور آئندہ جس کو اللہ تعالیٰ تک رسوخ ہو گاوہ آپ ہی کی اطاعت کے دروازہ سے گزر کر ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله (آل عمران : ۳۲) اور اسی میں آپ کی عزت ہے ، کیونکہ کیا وہ شخص معزز کہلا سکتا ہے جس کے ماتحت کوئی بھی افسرنہ ہو.بلکہ معزز وہی ہوتا ہے جس کے ماتحت بہت سے افسر ہوں.دنیا میں ہی دیکھ لو کہ تم بادشاہ کے لقب کوزیادہ معزز جانتے ہو یا شہنشاہ کے لقب کو.پس شہنشاہ کا لفظ اس لئے کہ اس میں بادشاہوں پرحکومت کا مفہوم پایا جاتا ہے بادشاہ پر معزز ہے ادنی ٰ نہیں.اسی طرح ایسی نبوت جس کے ماتحت اورنبوتیں بھی ہوں اس نبوت سے اعلی ٰاور افضل ہے جس کے ماتحت اور نبوت کوئی نہ ہو.کیا وہ شخص زیادہ معزز ہوگا جو دربار شاہی تک انسان کو پہنچا دے یا جو دروازہ پر ہی لے جا کر چھوڑ دے.پس ہمارا یقین ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنی امت میں سے لوگوں کو اٹھا کر اعلیٰ مقامات پر پہنچادیتےہیں اور آپ ﷺکے ماتحت ہزاروں میں ہوں گے جو آپ کے ایک ایک لفظ کو قابل اطاعت جانیں

Page 342

گے اور آپ کی محبت اور فرمانبرداری کوذریعہ نجات یقین کریں گے.کیا یہ زیادہ معزز درجہ ہے یاوه جو ہمارے مخالف پیش کرتے ہیں.پس ہم اسی اصل کے ماتحت حضرت مسیح موعوردؑ کو بموجب احادیث صحیح نبی اور مامور مانتے ہیں اور اس اعتقاد سے رسول اللہﷺ کی شان میں فرق نہیں آتا بلکہ اور بھی اعلیٰ ثابت ہوتی ہے.منکرین کی ذلتاور ہمارا ایمان ہے کہ جیسے اور انبیاء کے منکرین اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے بعیدکیے جاتے تھے آپ ؑکے منکرین کا بھی یہی حال ہے اور اس کا نمونہ ہم نےاپنی آنکھوں سے دیکھا ہے پسں کیسے تعجب کی بات ہوگی اگر ہم باوجود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنےکے پھر اس بات سے انکار کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مخالفین کو سخت ذلت دی ہے اور دنیاوی عزت کو دیکھ کر ہماری آنکھیں چند ھیا جائیں.ہمیں وہ وقتیں اور مشکلات پیش نہیں آئیں جوصحابہ ؓکو پیش آئیں تھیں.پھر ہماری بزدلی کیا ایمان کی کمزوری پر دال نہ ہو گی ؟ ہم یہ کب کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف کا فر باللہ ہیں.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ وہ كا فريالمأمور ہیں کافر کے معنی منکرکے ہیں.پس یہ کیسا جھوٹ ہے کہ اگر ہم با وجود ان کے انکار کے پھر ان کو مؤمن کا مومن ہی سمجھیں.مؤمن تو وہ تب ہو سکتے ہیں کہ جب اپنے عقائد باطلہ سے رجوع کریں اور حضرت مسیحؑ کےخلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کریں جو حقیقت میں منکر ہے اسے ہم مومن کیونکر کہہ سکتے ہیں.پس جو لوگ کہ باوجود ہزاروں نشانوں کے دیکھنے کے انکار کرتے ہیں ان کے کافر بالمأمور ہونے میں کوئی شک نہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی ایک ذرہ بھر بھی عزت نہیں کرتے؟ کیونکہ اگر وہ خوف خدارکھتے اور ان کے دل میں نور ایمان ہو تا تو وہ ایک مأمور کی بے قدری اس قد ر کیوں کرتے.مو عود ذہنیتعجب ہے کہ یہ لوگ اس مو عود ذہنی کو تو اس قدر درجہ دیتے ہیں کہ اس کے منکر کافر ہوں گے اور جو اس کی مخالفت کرے گا.و ہ دجّال ہو گا اور ہلاک کیا جائے گا پھراب حضرت مسیح موعودؑ اس بات کے مد عی ہیں کہ میں وہی ہوں.تو پھر آپ کی مخالفت کے باوجودہم سے کسی اور فتوے کے کیوں امیدوار ہیں جو کچھ اس آنے والے موعود کے مخالفین کی نسبت ان کا خیال ہے ہم تو اس سے ان لوگوں کو کم ہی جانتے ہیں.صلح کا ہونا ممکن نہیںحضرت صاحب کے زمانہ میں بھی بار بار اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے اور ہمیشہ آپ ؑ نے اس کو خوب واضح کر کے بیان کیا ہے اور ایسا کھول دیاہے کہ اس کا انکار سوائے اس کے کہ کوئی ان فتووں کو نظرانداز کردے اور کسی طرح سے نہیں ہو

Page 343

سکتا.پھر ہمارے مخالف کیوں بار بار ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں وہ زمانہ یاد کریں جبکہ کفر کی بوچھاڑ ہم پر پڑتی تھی.اور ملامت کے تیروں سے ہمارا بدن زخمی کیا جا تا تھا اور تمام لوگوں کی آنکھیں اس طرف لگی ہوئی تھیں کہ کب یہ سلسلہ تباہ ہو تا ہے اور ایسے وقت میں خدا نے ہماری تائید کی اور ہر ایک دکھ اور درد سے ہم کو بچایا اور ہر ایک شرسے ہم کو محفوظ رکھا تو ہم کیسے ناشکرگزار ہوں گے کہ جب خدا نے ہم کو ہر مصیبت سے بچا کر امن کی زندگی عطا فرمائی تو ہم کو اس وقت یہ نہیں چاہیے کہ لا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النّار(ھود۱۱۴)کی نہی کو نعوذ باللہ کہیں پسِ پشت ڈال دیں.ہاں سوچو تو سہی کہ جس کے باپ کو کوئی جھوٹا سمجھتا اور مفتری خیال کرتا ہے تو وہ اس سے تعلق توڑ دیتا ہے اور اس سے دوستی اور محبت پیدا نہیں کر سکتاپس ہم کس طرح ان لوگوں سے جو ہمارے والد سے زیادہ معزز اور محبوب انسان کی ہتک کریں اور اسے جھوٹاخیال کریں صلح کر سکتے ہیں.اگر ہم ایسا خیال کریں تو ہم سے زیادہ بے شرم کون ہو سکتا ہے اسلام نے دنیا کے معاملات میں تعصب اور مخالفت کو ناجائز قرار دیا ہے پس ہم جہاں تک دنیا کا تعلق ہےان لوگوں سے نرمی کا بر تاؤکر سکتے ہیں.لیکن دین کے معاملہ میں یہ اور راہ پر قدم زن ہیں اور ہم اور راہ پر اور یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کوئی شخص مسلمان ہو کر اپنے والدین سے ہر قسم کا سلوک کرتا ہے اور شرعاً اس کی ممانعت نہیں بلکہ حکم ہے.لیکن ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے میں ہم کو تامل ہے اور اس کے ذمہ دار خود یہی لوگ ہیں.کفر کی ابتداء انہوں نے کی نہ ہم نے.اول اول تو خدا نے رحم کیا اور کوئی حکم نہ دیا لیکن جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو خدا نے چاہا کہ ان کو اس فیض سے محروم کر دے جو ان کو اس مأمور من اللہ سے برائے نام تعلق کی وجہ سے تھا اور اس نے فیصلہ کر دیا کہ اب ان لوگوں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے فیصلہ کوتوڑ کر ان سے مل جائیں.کیا مامور من الله غلطی خوردہ ہو سکتا ہے؟اور ہمارے مخالف اپنے دل میں اتنا توسوچیں کہ جب وہ حضرت مسیح موعودؑ کوراستباز مانتے ہیں تو کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر وہ جھوٹ بولتے رہے ہیں اور جو لوگ یہ.کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں ہم ان کو جھوٹا نہیں بلکہ عملی خوردہ جانتے ہیں و و الهام کی حقیقت سےبالکل ناواقف ہیں او ر در حقیقت اس کے منکر ہیں.کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص روزاس بات کا مدعی ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کلام کیا اور کہا کہ تو مأمور ہے اور مرسل ہے اور

Page 344

پھر بھی وہ غلطی پر ہے.یہ تو ایسا ہی ہو گا جیسے زید روز شام کو کہے کہ میں آج عمر سے ملا ہوں اور ہم با وجو و اس کلام کے روز مرہ سننے کے پھر یہ کہیں کہ اس کو غلطی لگی ہوتی ہے ایسے شخص کی نسبت کوئی عقلمند غلطی کا فتویٰ نہیں دیتا.بلکہ یا تو اسے جھوٹا سمجھا جاتا ہے یا سچا.پھر کس طرح ممکن ہے کہ تیسں سال تک حضرت صاحب اس بات کا دعویٰ کرتے رہے کہ قربیاًر و زخدا تعالیٰ مجھ سے کاکلا م کر تا ہے اور ہزاروں عبارتیں پیش کردیں کہ یہ مجھ پر نازل ہوئی ہیں اور اصل حقیقت یہ تھی کہ محض وہ دھو کا میں پڑے ہوئے تھے.(نعوذ باللہ من ذالک) پس جو شخص کہتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب کو راستباز اور اسلام کا م سچا خیر خواه یقین کر تا ہوں اور پھر آپ کے الہامات کو نہیں مانتاو ہ یا تومنافق ہے کہ اپنے دل کاخبث ظاہر نہیں کرتا اور اصل میں پورے طور سے منکر ہے اور یا پاگل ہے کہ اس میں اتنی بھی تمیز نہیں کہ وہ سمجھ سکے کہ کوئی شخص تیس سال تک اس بات میں دھو کا نہیں کھا سکتا کہ خدا تعالیٰ روز مجھے سے کام کرتا ہے اور حالا نکہ بات کچھ بھی نہیں پس دونوں صورتوں میں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور وہ ہم میں سے نہیں ہو سکتا.مسیح موعودؑ کا قول اورالہامی شہادتیں اب میں وہ عبارتیں درج کرتا ہوں کہ جو حضرت صاحب نے مختلف کتب میں لکھی ہیں تاکہ میرےدوستوں کو معلوم ہو کہ حضرت اقدسؑ کا منشاء کیا تھا سب سے پہلے میں وہ عبارت درج کر تا ہوں جوحضرت صاحب نے الہام کی بناء پر لکھی ہے اور جس کا کوئی احمدی انکار نہیں کر سکتا.یہ اس خط میں درج ہے جو آپ نے عبدالحکیم کے جواب میں لکھاہے و ھوھذا’’اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ ہزار ہا آدمی جو میری جماعت میں شامل نہیں کیا راستبازوں سےخالی ہیں تو ایسا ہی آپ کو یہ خیال بھی کر لینا چاہئے کہ وہ ہزارہا یہود اور نصاریٰ جو اسلام نہیں لائےکیا وہ راستبازوں سے خالی تھے.بہرحال جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کومیری دعوت پہنچتی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلا ہے خدا کے کلام کو چھوڑ دوں اسی سے سہل تر بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت میں سے خارج کرتا ہوں.ہاں اگر کسی وقت صریح الفاظ سے آپ اپنی توبہ شائع کریں اوراس خبیث عقیدہ سے باز آجائیں تو رحمت الہٰی کا دروازہ کھلا ہے وہ لوگ جو میری دعوت کے ردکرنے کے وقت قرآن شریف کی نصوص صریحہ کو چھوڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشانوں

Page 345

سے منہ پھیرتے ہیں ان کو راستباز قرار دینا اسی شخص کا کام ہے جس کا دل شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے.‘‘ اب اس عبارت سے مفصلہ ذیل باتیں نکلتی ہیں اول تو یہ کہ حضرت صاحب کو اس بات کا الہام ہوا ہے کہ جس کو آپ کی دعوت پہنچی اور اس نے آپ کو قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں دوسرے یہ کہ اس الزام کے پیچھے وہی لوگ نہیں ہیں کہ جنہوں نے تکفیر میں جد و جہد کی ہے بلکہ ہر ایک شخص جس نے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور تیسرے یہ کہ وہ خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے اورسزا کا مستحق ہے چوتھے یہ کہ اس عقیدہ کی وجہ سے کہ حضرت صاحب کے منکر کافر نہیں بلکہ ناجی ہیں عبد الحکیم مرتد کو آپ نے جب تک وہ اس عقیدہ سے توبہ نہ کرے جماعت سے خارج کر دیا.پانچویں یہ کہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ خبیث ہے.چھٹے یہ کہ جو شخص حضرت صاحبؑ کےمنکرین کو اور آپ کے دعاوی کے نہ ماننے والے کو راستباز قرار دیتا ہے اس کا دل شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہے.یہ باتیں میں نے اپنے پاس سے نہیں بنائیں بلکہ حضرت ؑکے لفظ ہیں جو نقل کئےگئے ہیں جو چاہے قبول کرنے اور چاہے تو ردّکر دے.اس عبارت میں جو آتا ہے کہ یہ بات مجھے الہام سے بتائی گئی ہے اس کی تائید ان الہامات سےبھی ہوتی ہے جن میں کہ منکرین حضرتؑ کو کافر کہا گیا ہے.قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی يحببکم الله قل عندي شهادة من اللہ فھل انتم مؤمنون قل عندي شهادة من اللہ فھل انتم مسلمون و قل اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون عسیٰ ربکم ان یرحمکم و ان عدتم عدنا و جعلنا جھنم حصیرا یریدون ان یطفئوا نور اللہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین ان الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ رد علیھم رجل من فارس شکر اللہ سعیہ قل یایھا الکفار انی من الصدقین عندي شهادة من اللہ و انی امرت و انا اول المؤمنین لن یجعل اللہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا غرض جیسا کہ حضرت صاحب نے مذکورہ بالا عبارت میں فرمایا ہے کہ مجھے الہام سے بتایا گیا ہے کہ تیرے نہ ماننے والے خواہ مکفّر ہوں یا خاموش.مسلمان نہیں ہیں اور خدا کے حضور سزا کے مستحق ہیں اور یہ کہ ان کو راستباز جاننے والا شیطانی خیال کے درپے ہے جب تک تو بہ نہ کرلے، ان باتوں کی تصدیق مذکورہ بالا الہامات سے بھی ہوتی ہے.(تذکرہ)

Page 346

حق کو چھپانے والا منافق ہےپس جبکہ ہم کو سچائی کے ماننے کا دعویٰ ہے تو کیا ہمارا نفاق نہ ہوگا اگر ہم ان باتوں کو چھپاویں، کیا کوئی مسلمان برداشت کرتا ہے کہ اس کا کوئی دوست ہندوؤں سے بھی کچھ کچھ تعلق رکھے اور کبھی کبھی ان کو یہ سنادےکہ ہم آپ کو بھی ناجی اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ سمجھتے ہیں.وہاں کیوں اس اعتقاد کو برا کہا جا تا ہےاسی لئے کہ نفاق ہے.پس اسی جگہ بھی وہی نفاق ہو گا بلکہ اگر ہم مخالف کے سامنے والی زبان سے اسکے حق پر ہونے کا بھی کچھ اقرار کریں گے تو اس کے دو برے نتیجےتھے ہوں گے ایک تو یہ کہ تھوڑےدنوں بعد جب ہمارا اصلی عقید ہ دشمن کو معلوم ہو گا تو اس کے دل میں ہماری طرف سے سخت نفرت بیٹھ جائے گی اور وہ سمجھے گا کہ یہ اول درجہ کے جھوٹے ہیں اور دوسرے یہ کہ جب حضرت صاحبؑ نے ایسا صاف فتوی ٰدیا ہے تو لوگ مروڑ تروڑ کر کچھ کے کچھ معنی کرتے ہیں تو اگر اس موقعہ پر ذرابھی غفلت سے کام لیا گیا.، تو اس سے آئندہ کے لئے سخت برے نتائج پیدا ہوں گے اور آئند ہ اس خاموشی کو اجماع قرار دیا جا کر اس نے نہ معلوم کیا کیا نتائج نکالے جائیں گے اور آئندہ زمانہ میں نیک لوگ ہماری نسبت وہی الفاظ استعمال کریں گےجو اب ہم پولوس وغیرہ کی نسبت استعمال کرتےہیں اور بجائے نیک و عادینے کے بد دعاؤں کے نشانہ ہوں گے اور اس وقت کی ہماری کو تاہی آئنده زمانہ کے لئے نمونہ بد ہوگی.کیونکہ کسی مامؤر کے قرب کے زمانہ کے لوگوں کے افعال بھی بطورسندکے پکڑے جاتے ہیں.اور یہ خیال کرنا کہ مخالف زیادہ ہیں اس لئے ہم کو ڈر کر قدم رکھنا چاہئے ایک خیال باطل ہےکیونکہ حضرت صاحب ؑکے زمانہ کی نسبت ہم اس وقت زیادہ ہیں اور حضرت صاحب ؑنے بھی ڈرنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ صاف مقابلہ کیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کو کچھ نقصان نہیں پہنچا ہماری جماعت آگے سے بہت زیادہ ہے اور بڑھ رہی ہے.مذکورہ بالا عبارت میں ایک لفظ قابل تشریح ہے اور وہ ہے کہ حضرت صاحبؑ فرماتے ہیں کہ جس کو میری دعوت پہنچ گئی اور اس نے نہ ماناتو وہ مسلمان نہیں اور دعوت پہنچنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ایسے رنگ میں پہنچے کہ جس کو وہ قبول کرتے لیکن مخالفین کو ابھی ایسے رنگ میں دعوت نہیں پہنچی.اور یہ اعتراض عبدالحکیم نے بھی کیا ہے جس کا جواب میں حضرت صاحب کی اپنی کتاب سے دیتا ہوں آپ حقيقۃ الوحی میں فرماتے ہیں.

Page 347

دعوت پہنچنے سے کیا مراد ہے؟دوا مرضروری ہیں وہ شخص جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہےلوگوں کو اطلاع دے دے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور ان کو ان غلطیوں پر متبنہ کرد ے کہ فلاں فلاں اعتقاد میں تم خطا پر ہو یا فلاں فلاں عملی حالت میں تم سست ہو دوسرے یہ کہ آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے اپناسچا ہونا ثابت کرے.کیا آپ نے دعوت پہنچادی؟پھر فرماتے ہیں کہ میں نے پنجاب ہندوستان کے بعض شہروں میں خو دجاکر خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا اور سترکے قریب کتابیں عربی اور فارسی اور اردو اور انگریزی میں حقانیت اسلام کے بارے میں جن کی جلد یں ایک لاکھ کے قریب ہوں گی تالیف کر کے ممالک اسلام میں شائع کی ہیں اور اسی مقصد کےلئے کئی لاکھ اشتہار شائع کیا ہے اور ہمارےسلسلہ سے غیر ملکوں کے لوگ بے خبر نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے دور دراز ملکوں تک ہماری دعوت پہنچ گئی ہے.جن پر اتمام حجت نہیں ہو ان کا حکماور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور و مکذب اور منکر ہے تو گو شریعت نے جس کی بناءظاہر پر ہے اس کا نام بھی کافر رکھا ہے اور ہم کبھی باتباع شریعت اس کو کافر کے نام سے ہی پکارتےہیں وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لا يكلف الله نفساالا وسعھا (البقرہ : ۲۸۷) قابل مؤاخذه نہیں ہو گا.ان مندرجہ بالا آیتوں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ زید یا بکر کہے کہ مجھےپر اتمام حجت نہیں ہوا اور مجھے دعوت نہیں پہنچی بلکہ اتنا کافی ہو گا کہ وہ نبی لوگوں کو اطلاع دےدے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نشانات ہوں اور بس اتمام حجت ہوئی اور دعوت پہنچ گئی اور بات بھی یہی درست ہے کیونکہ جب اس شخص نے لوگوں کو کھول کھول کر سنا دیا اورنشانات آسمانی ظاہر ہو گئے تو پھر کسی کا یہ کہنا کہ فلاں فلاں کو بھی دعوت نہیں پہنچی کیسا غلط مسئلہ ہےاگر یہ اصول کیا جائے گا تو ماننا پڑے گا کہ کسی مأمور کی دعوت سوائے ان لوگوں کے جو اس کی بیعت میں داخل ہوئے کسی کو نہیں پہنچی اور قرآن شریف اور رسول الله ﷺ اور دیگر اولیائے کرام نے جو لوگوں کو کافر کہاہے سب جھوٹ ہو جائے گا.دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ حضرت صاحب نے پوری طرح سے تبلیغ کر دی ہے اور ہندوستان

Page 348

میں تبلیغ ہو چکی ہے بلکہ بعض دیگر ممالک میں بھی.تیری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن کو تبلیغ نہیں ہوئی.اس کا حساب خدا کے ساتھ ہے ہم میں جانتے کہ تبلیغ ان کو ہو چکی ہے یا نہیں کیونکہ کسی کے دلی خیالات پر آگاہ نہیں اس لئے چونکہ شریعت کی بناء ظاہر پر ہے ہم ان کو کافر کہیں گے گو الله تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ سزا کے لائق ہیں.یا بموجب حدیث صحیحح پر موقعہ دیئے جانے سے لائق ہیں.جو حضرت صاحب کو نہیں مانتا اور کافر بھی نہیں کہتا وہ بھی کافر ہے.حضرت صاحب فرماتے ہیں ’’یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم کے ہیں کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتاکہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سےبڑھ کر کافر ہے ‘‘, (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳ )حاشیہ پر لکھتے ہیں’’ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قراردے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے اس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے.‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ’’علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتاء ، غدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے \" پھر فرماتے ہیں ’’اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اورقرآن کی تکذیب کر تا ہے اور عمد اًخد ا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کر تا ہے اور مجھ کو باوجود صد ہانشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے وہ مؤمن کیوں کر ہو سکتا ہے.‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۷۳) مترّدد کے لئے کفر کا فتویٰاب جبکہ میں حضرت صاحبؑ کی ایک ایسی عبارت نقل کر چکاہوں جس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے ایک ہی قسم کے لوگ ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں اور جس طرح کافر کہنے والاایک مسلمان کو کافر کہہ کر کافر بنتا ہے اسی طرح ایک نبی کو نہ ماننے والا اسے نہ ماننے کی وجہ سے کافرٹھہرتا ہے میں ایک اور حوالہ درج کرتا ہوں جس میں آپ نے اس شخص کو بھی جو آپ کو سچا جانتاہے مگر مزید اطمینان کے لئے ابھی بیعت میں توقف کر تا ہے کا فر ٹھہرایا ہے چنانچہ آپ ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۷ میں اس سوال کے جواب میں کہ ’’چونکہ حضرت کی اب تک کوئی ایسی تاثیر روشن طور پر ظہور میں نہیں آئی اور دو تین لاکھ آدمی کا حضرت کے سلسلہ میں داخل ہو نا گویا دریا میں سےایک قطرہ ہے پس اگر تاثیر بیّن کے ظہور تک کوئی بغیر انکار کے داخل سلسلہ ہونے میں توقف اور

Page 349

تاخیر کرے تو یہ جائز ہوگایا نہیں ‘‘فرماتے ہیں کہ ”توقف اور تاخیر بھی ایک تم انکار کی ہے‘‘ اب ہرایک دانا اور عقلمند انسان دیکھ سکتا ہے کہ سائل نے اپنے سوال میں کس قدر شرائط لگائی ہیں کہ ایک شخص آپؑ کو جھوٹا بھی نہیں مانتا.اور آپ کا انکار بھی نہیں کرتا اور محض مزید اطمینان کےلئے بیعت میں ابھی توقف کر تا ہے تو اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے جس کے جواب میں آپ فرماتےہیں کہ اس کا بھی وہی حال ہے جو منکر کا حال ہے اور منکر کا حال اوپر کے فتویٰ میں جو حقیقۃ الوحی سے نقل کیا گیا ہے درج ہے یعنی اسے کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ بھی جو آپ کو کافر تو نہیں کہتامگرآپ کے دعویٰ کو نہیں مانتا کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ بھی جو آپؑ کو دل میں سچا قرار دیتا ہے اورزبانی بھی آپؑ کا انکار نہیں کرتا لیکن ابھی بیعت میں اسے کچھ توقف ہے کافر قرار دیا گیا ہے پس سوچنے کا مقام ہے کہ حضرت صاحب نے اس معاملہ میں کس قدر تشدد سے کام لیا ہے اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کیونکہ اگر ایک ہندو رسول الله ﷺ کو سچامانے اور دل میں اقرار بھی کرے اور ظاہر طورپر انکار بھی نہ کرے.ہاں بعض واقعات کی وجہ سے ابھی کھلم کھلا اسلام لانے سے پرہیز کرے تو ہم اسے کبھی بھی مسلمان نہیں کہتے بلکہ اسے کافرہی سمجھتے ہیں.اور شریعت اسلام بھی اس کے ساتھ ناطہ رشتہ کو جائز نہیں رکھتی.یعنی اس کے ساتھ کسی مسلمان عورت کے بیاہ دینے کی اجازت نہیں دیتی.پس اسی طرح اس غیراحمدی کا حال ہے جو حضرت صاحب کو دل میں سچا بھی جانتا ہے لیکن ابھی بیعت کرنے میں متر دّدہی ہے پس جو لوگ ابھی آپ کے دعوی ٰکے ماننے میں متردّد ہیں ان کی نسبت حضرت صاحب نے کفر کا فتوی ٰ دیا ہے جیسا کہ میں حضرت صاحب کی عبارتیں اوپر نقل کر آیا ہوں.کفر کی دو قسمپھر دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لئے ہم منکرین کو مؤمن نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مؤاخذہ سے بری ہیں اور کافر منکر ہی کو کہتے ہیں کیونکہ کافر کالفظ مؤمن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے ایک کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کر تا ہے اور آنخضرتﷺ کو خدا کار سول نہیں مانتا.دوسرے یہ کفر کہ مثلا ًوہ مسیح موعود ؑکو نہیں مانتا اور اس کے باوجود اتمام حجت کے جھو ٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچاماننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی اکید پائی جاتی ہے پسں اس لئے کہ وہ خدا و رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کرنے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی

Page 350

نہیں مانتا.اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول تم کفریا دو سری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہو گا\".مکفّر اور متردّد کی تشریح ان عبارتوں سے یہ نتائج نکلتے ہیں اول تو یہ کہ مکفّر اور خاموش ایک ہی گروہ میں سے ہے کیونکہ جو مانتا ہے اسے مؤمن کہتے ہیں اور کافر مؤمن کے مقابل میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو نہیں مانتا خواہ وہ مکفر ہو یا خاموش ہو کافر ہے اور یہ دونوں گروہ ایک ہی قسم کے ہیں دوسری یہ کہ جو آپ کو نہیں مانتا وہ ضرور آپؑ کو مفتری قرار دیتا ہے تیسری یہ کہ جو آپ ؑکو نہیں مانتا اس کا ایمان اور حقیقت خدا تعالیٰ پر بھی نہیں اور نہ رسول اللہ ﷺ پر ہی ہے.چوتھے یہ کہ چونکہ وہ شخص آیات اللہ کا منکر ہے اس لئے مؤمن نہیں ہو سکتا.پانچویں یہ کہ چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اسے ہم مؤمن نہیں کہہ سکتے اور چھٹے یہ کہ وہ مؤاخذہ سے بری نہیں.ساتویں یہ کہ کفر دو قسم کا ہے ایک اللہ اور رسول کا کفر اور ایک دیگر آیات کانفرنس میں حضرت صاحب کا کفر بھی شامل ہے.انھومیں ہے کہ اصل میں یہ سب کفر ایک ہی ہے جس نے آپ ؑکا کفر کیا اس نے خدا و رسول کا کفر بھی ساتھ ہی کیا.نویں یہ کہ جس پر ان دونوں کفروں میں سے کوئی ایسی قسم کفرکی ثا بت ہو جائے وہ قیامت کے دن زیرِ مؤاخذہ ہو گا.مکفّرین قابل مؤاخذہ ہیںاس بات کے ثبوت ہیں کہ حضرت صاحب نے کل ان لوگوں کوجن پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور دعوت پہنچ چکی ہے شرعا ًقابل مؤاخذه ٹھہرایا ہے یہ عبارت کافی ہے.\"میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا تعالیٰ نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارے میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعویٰ پر وہ اطلاع پا چکا ہے قابل مؤاخذہ ہو گا.کیونکہ خدا کےفرستادوں سے دانستہ منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے کہ اس پر کوئی گرفت نہ ہو اس گناہ کا داردخواہ میں نہیں ہوں بلکہ ایک ہی ہے جس کی تائید کے لئے میں بھیجا گیا ہوں یعنی حضرت ام مصطفی ﷺ جوشخص مجھے نہیں مانتا وہ میرا نہیں بلکہ اس کا نا فرمان ہے جس نے میرے آنے کی پیشگوئی کی\".حقيقۃالوحی صفحہ ۱۷۸) پھر اربعین نمبر ۳ صلہ ۳۲ میں فرمایا کہ \"ایسا ہی آیت واتخذوا مقام ابرھیم مصلی (البقرہ:۱۲۶) اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے.تب ہر زمانہ

Page 351

میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں سے وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیروہو گا ‘‘اور اسی طرح براہین پنجم میں فرماتے ہیں کہ’’ انہی دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لئے ایک قرنا بجائے گا اور اس قرنا کی آوازسے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھنچا آئے گا ان لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں.جو دوزخ کےبھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.‘‘ حضرت مرزا صاحب کے تمام دعاوی کو ماننامدار نجات ہےاس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کا ایک حلفیہ بیان بھی نقل کرتا ہوں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد تحریر کیا.عصر جدید میں ایک مضمون نکلا تھا جس میں کے نامہ نگار نے بڑے زور سے پیشگوئی کی تھی کہ اب چونکہ حضرت مرزا صاحب ؑفوت ہو گئے ہیں اور ان کے بعد حضرت مولوی صاحب جانشین ہوئے ہیں اور آپ کے عقائد اصل میں مرزا صاحب کے خلاف ہیں اور آپ در حقیقت تمام ان باتوں کو نہیں مانتے جو مرزا صاحب نے بیان کی ہیں اور اس لئے عنقریب وہ ون آنے والے ہیں کہ جب مولوی صاحب تمام جماعت احمدیہ کو پھر مسلمانوں میں شامل کریں گے اور میں نے اس کے جواب میں ایک مضمون لکھا تھا جس پر آپ نے یہ عبارت تحریر فرمائی.جو کہ تشحیذ الاذہان جلد ۳ نمبر۸ میں شائع ہو چکی ہے وھو ھذا.\" میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میں مرزا صاحب کے تمام دعاوی کودل سے مانتا اور یقین کرتا ہوں اور ان کے معتقدات کو نجات کا مدار ماننا میرا ایمان ہے“.دستخط حضرت خلیفہ المسیح نورالدین اس سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے معتقدات بھی نجات کا ایک مدار ہیں.حضرت خلیفہ اول کی تحریراتاسی طرح ڈاکٹر عبد الحکیم مرتد کو ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح فرماتے ہیں کہ \" پھر ان انبیاءؑ کی خلاف ورزی کےمتعلق ہم آپ کو ایک آیت سناتے ہیں.فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ.(الانعام :

Page 352

۴۳ - ۴۵) اس آیت پر غور کرو\" اسی طرح اسی خط میں حضرت مسیحؑ کے مخالفین کی نجات کی نسبت عبد الحکیم کو تحریر فرماتے ہیں کہ \" پھر آپ نے تیرہ کروڑ مسلمانوں پر رحم فرمایا ہے اور ذکر کیا ہے کہ تیرہ سو سال میں تیرہ کروڑ مسلمان تیار ہوئے ہیں سب کو نجات حاصل کرنا چاہئے حکیم و ڈاکٹر صاحب دوارب اللہ کی مخلوق اس وقت موجود ہے تیرہ کروڑ اگر مجھے رسول اللہ ﷺ کے باعث تیار ہوتی ہیں تو دوارب اللہ کی مخلوق ڈارون کے طریق سے لاکھوں برس اور معلوم نہیں کہ کب سے جو تیار ہوئی ان سب نے اگر نجات نہ پائی تو تیرہ کروڑ چیزی کیا ہیں " اس مندرجہ بالا عبارت میں حضرت خلیفتۃ المسیح اس کے سوال کا جواب دیتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے تیرہ سو سال کی کوششوں کا نتیجہ یہ تیرہ کروڑ مسلمان کیوں غیر ناجی قرار دیا جائے اور فرماتے ہیں کہ جس طرح رسول اللہ کی مخالفت کی وجہ سے دو ارب انسان غیر ناجی ہو سکتا ہے اسی طرح اب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت مرزا صاحب ؑکی وجہ سے ہی تیره کروڑ غیر ناجی ہو سکتا ہے اور ان مندرجہ بالا اقتباسات سے حضرت خلیفة المسیح کا اعتقاد خوب ظاہر ہو جا تا ہے.اور پھر آگے چل کر فرماتے ہیں ’’کہ نجات فضل سے ہے اور فضل کا جاذب تقوی ٰہے اور تقوی ٰکا بیان لیس البر والی آیت میں ہے اور اس میں شاید مرزا کا بھی کہیں ذکر آیا ہو.‘‘ اس میں آپ نے آیت کے اس حصہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس میں نجات کے مداروں میں نبیوں پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا ہے.متردّد کے لئے ایک راہ اب میں حضرت صاحب کی وہ عبارت نقل کرتا ہوں.جس میں کہ آپ نے خاموش لوگوں کی نسبت تحریر فرمایا ہے فرماتے ہیں.’’اگر دوسرے لوگوں میں تخمِ دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایاتب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جائے.اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذّب نہ ہوں.پھر آخر پر لکھتے ہیں ” دو سو مولوی کے کفر کی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کریں بعد اس کے حرام ہو گا کہ میں انکے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت ان میں نہ پائی جائے.‘‘ پھر حاشیہ پر ارشاد '

Page 353

فرماتے ہیں’’ میں دیکھتا ہوں جس قدر لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ ان تمام لوگوں کوو ہ مؤمن جانتے ہیں جنہوں نے مجھے کافر ٹهہرایا ہے پس میں اب بھی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا لیکن جن میں خود انہیں کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر پیدا ہوگئی ہے انہیں کیونکر مؤمن کہہ سکتا ہوں“.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۵ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۹) اب ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب ان لوگوں کو بھی جو آپ کو کافر نہیں کہتے اور نہ ان مولویوں کو کافر کہتے ہیں جنہوں نے آپ کو کافر قرار دیا ہے.کافر قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ جو لوگ مجھے کافر نہیں کہتے وہ میرے مکّفر ین کو بھی کافر نہیں کہتےاور اس طرح خود انہیں کے ہاتھ سے وجہ کفر پیدا ہو گئی ہے اس طرح آپ کے کل مکفّرین کو کافر نہ کہنے کو بھی آپ نے وجہ کفر قرار دیا ہے پس جو لوگ آپ کو کافر نہیں کرتے اور ساتھ ہی غیر احمد یوں کو بھی کامل مسلمان ہی جانتے ہیں.وہ بھی کافر ہیں اور کسی صورت میں مسلمان نہیں کہلا سکتے اورصرف یہی کافی نہیں رکھا گیا کہ وہ ان کو کافر کہیں بلکہ نام بنام ان لوگوں کے گھر کا اعلان اشتہاروں اور اخباروں کے ذریعہ سے شائع کریں جنہوں نے آپ پر کفر کا فتوی ٰدیا ہے اور جو فتوی ٰکہ ہزاروں کی تعداد میں ہندوستان میں شائع ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعودؑ کا آخری عقیدہاور وفات سے چند ہی دن پہلے مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فرمایا \" جوہمیں کافر نہیں کہتے ہم انہیں بھی اس وقت تک ان کے ساتھ ہی سمجھیں گے ( مکفّروں کے ساتھ )جب تک کہ وہ ان سے الگ ہونے کا اشتہار بذریعہ اعلان نہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ لکھیں کہ ہم ان مکفّرین کو بموجب حدیث صحیحہ کافر سمجھتے ہیں‘‘( بدر - مئی ۱۹۰۸) یاد رہے کہ یہ فقرہ اس تقریر کا آخری فقرہ ہے.یہی دو حوالے ہیں کہ جن کو ہمارے مخالف بار بار پیش کرتے ہیں اور اصرارکرتے ہیں کہ تمہارے امام نے جب لکھ دیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو جو ہمارے معاملہ میں خاموش ہیں کافر نہیں سمجھتے تو اب تم ہم لوگوں سے مل جاؤ لیکن ایسے لوگوں کی عقلوں پر سخت تعجب اورافسوس آتا ہے کیا انہیں اس عبارت میں یہ بات نظر نہیں آتی کہ اس میں بڑی بڑی شرائط لگائی گئی ہیں اور کیا کوئی ایسا شخص ہے جس نے ان شرائط کو پورا کر دیا ہے ہاں ہمیں اس شخص کا نام تو بتاؤجس نے بموجب حضرت صاحب کی تحریر کے دو سو مولویوں کا نام لے لے کر انہیں کافر قرار دیا ہو اور اس بات کا اقرار کیا ہو کہ حضرت صاحب کے معجزات ٹھیک نکلے اور آپؑ راست باز تھے اور

Page 354

یہی نہیں بلکہ اس کے ایمان میں نفاق کا کوئی شائبہ نہ ہو پس جب ایسا کوئی شخص نہیں اور کسی نے ان شرائط کو پورا نہیں کیا تو ہم کس طرح ان کو الگ سمجھ لیں اور گھر بیٹھے زبانی باتوں کے دھوکے میں آجائیں.جب ہمارے امام نے صر یح الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ جو ہمیں کافر نہیں کہتے تم انہیں بھی اس وقت تک ان کے ساتھ سمجھیں گے جب تک کہ وہ ان سے الگ ہونے کا اعلان بذریعہ اشتہارنہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ لکھیں کہ ہم ان مکفّرین کو بموجب حدیث صحیحہ کافر سمجھتے ہیں ہیں ہم کیوں کر اس شخص کی اطاعت سے نکل جائیں جس کو ہم نے سچا یقین کیا اور جس کے معجزاتہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور جس کا خدا سے تعلق ہم نے مدتوں مشاہدہ کیا ہم اپنے اس سرداراور حاکم کی بات کو کیونکر رد کر دیں جس کے ہاتھ پر ہم نے اپنے آپ کو بیچ دیا اور اپنے خیالات اوراپنی خواہشات اس کے لئے قربان کردیں ایسی جرأت تو وہ شخص کر سکتا ہے کہ جس کے دل میں ایمان نہ ہو.جو نور یقین سے کورا ہو اور جس کو خدا نے معرفت کی آنکھیں نہ دی ہوں.اور یہ قطعاًخیال نہ کرو کہ اس قول کا پہلے قول سے کچھ اختلاف ہے اور اس میں حضرت صاحب نے پہلے کی نسبت نر می کردی ہے کیونکہ انبیاء ؑاپنے الہاموں کی سب سے زیادہ قائل اور مومن ہوتے ہیں دیکھو حضرت صاحب اپنی کتاب اربعین میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” مجھے اپنی وی پر ایسا ہی ایمان ہےجیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن پر \" پس یہ خیال سخت گندو ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ حضرت صاحب نے اس پہلی الہامی بات کو رد کر دیا بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان میں تعطبیق کریں اور بہرحال ہم کو اس عبارت کو پہلی عبارت کے ماتحت کرنا پڑے گا کیونکہ وہ الہامی ہے اور اس کے معنی بھی ہم نےنہیں خود حضرت صاحب نے کیے ہیں چنانچہ اگر کوئی شخص غور سے دیکھے تو اس جگہ حضرت صاحب نے تعلیق محال بالمحال سے کام لیا ہے کیونکہ جو شخص حضرت صاحب کے منکرین کو نام بنام کافر قرار دے گا اور باوجود حضرت صاحب کے ان دعاوی کے آپ ؑکو سچا قرار دے گا اور آپ کےالہامات اور معجزات پر یقین لائے گا اور پھر آپؑ کی بیعت نہ کرے گا.تو ایسا شخص دو حال سے خالی ہیں.یا تو وہ منافق ہو گیا کہ لوگوں کے ڈر سے سچ کو قبول نہیں کرتا اور یا حکم الہٰی کا صریح منکر ہوگا کیونکہ حضرت صاحب نے بیت الہام کے ذریعہ سے شروع کی ہے اور قرآن شریف میں انبیاءؑکے منکرین کو کافر کہا گیا ہے.جس پر حق کھل گیا اور وہ بیعت نہیں کرتا وہ منافق ہےپس ایسا شخص جس پر حق کھل گیا اور اس نے حضرت کے

Page 355

راست باز ہونے کو سمجھ لیا تو پھرو ہ بیعت نہیں کرتاتواس میں یا تو نفاق کا شائبہ ہے یا کفر کا اور حضرت صاحب ؑنے یہ شرط ساتھی قرار دی ہے کہ پھرایسا شخص منافق بھی نہ ہو پس جو شخص ان شرائط پرعمل کرے گا اس کے لئے تو بیعت ضروری ہو جائے گی اور اگر بیعت نہ کرے گا تو منافقت ہو گا پس جوشخص ایسا اشتہار دے بھی دے جس میں مخالف مولویوں پر کفر کا فتویٰ دے اور پھر بھی بیعت نہ کرے تو ایسا شخص ضرور منافق ہے پس حضرت صاحب نے تو ایک محال بات پیش کر کے مخالفین پرایک حجت قائم کی ہے نہ یہ کہ ان کے لئے راستے کھولا ہے اس عبارت کو پیش کر کے ہم سے صلح چاہنے والا بعینہ اس شخص کی طرح ہے جو قرآن شریف کی آیت قل إن كان اللرحمن ولد فانا اول العبدين (الزخرف:۸۲) کو پیش کر کے ہم سے یہ چاہے کہ ہم یسوع کی عبادت کریں اور اسےخدا کا بیٹا مان لیں.یہاں تو یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ تو تم خدا کا بیٹا ثابت کر سکو گے اور نہ میں قبول کروں گا اسی طرح مذکورہ بالا عبارت میں حضرت صاحبؑ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی ہمارے مخالفین کا نام لے لے کر تقریبا دو سو مکفّرمولویوں پر کفر کافتویٰ اشتہار کے ذریعہ شائع کرائے اور پھراس میں نفاق بھی نہ ہو تو ہم ایسےکو مؤ من مان لیں گے اور یہ بات نا ممکن ہے کہ کوئی شخص ایساکرے اور پھر باوجود بیعت نہ کرنے کے منافق بھی نہ ہو پس یہ تو ایک تعلیق محال بالمحال تھی اسے سند کے طور سےپیش کرنا تو ایک بڑی جہالت ہے.خداکے مامور کی آواز کو نہ پہچاننااور اس لمبی تقریر کی بھی ہم کو کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ابھی تو کوئی شخص نہیں پیش کیاگیا جس نے ان شرائط پرعمل کیا ہو پس اس کے ذریعہ صلح چاہنا اول درجہ کی نادانی ہے جس قدر لوگ متفرق طور سےاحمدیوں کے پاس آکر یا جماعتوں میں اس قسم کا اقرار کرتے ہیں وہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا -وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْۙ-اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ (البقرہ:۱۵) وہ اگر ہم سے صلح چا ہتے ہیں تو اپنی دنیاوی حیثیت بڑھانے کے لئے نہ کہ ان کے دلوں میں دین کی تڑپ ہے اگر واقعی ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ محبت ہوتی اور دین کی تڑپ ہوتی اور تقویٰ کا ایک ذرہ بھی ان کے دلوں میں باقی ہو تا تو وہ کیوں کوشش سے اس شخص کے دعویٰ کو نہ سنتے جس نے تئیس برس پکار پکار کر سنایا کہ خدا نے مجھ سےکلام کیا اور مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور میں اس کی طرف سے مأمور مقرر کیا گیا ہوں.اس نے لیکچروں کے ذریعہ اشتہاروں اور رسالوں کے ذریعے کتابوں کے ذریعہ اپنی آمد کا اعلان کیا

Page 356

لیکن کیا ان لوگوں نے ذرہ بھر بھی توجہ کی.ایک آریہ اخبار ذرہ بھر بھی ان کے پولیٹیکل حقوق کے برخلاف لکھتا ہے تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے آنکھوں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور ناسزا الفاظ بے اختیار ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں اور راس کماری سے لے کر ہمالیہ کی چوٹیوں اورکلکتہ سے لے کر پشاور تک تار برقی کی طرح ایک جوش پھیل جاتا ہے اور چاروں طرف غور و فکرشروع ہو جاتا ہے لیکن خدا کے مامور کی آواز ان کے کانوں میں تیئس سال تک پڑتی رہی اور دنیا کی بے توجہی پر غضب الہٰی نازل ہوا.لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی یہ مست پڑے رہے اور غفلت کے لحافوں کو انہوں نے اپنے سر سے نہ اتارا.انہوں نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا کہ یہ ہےکون اور پرواہ تک نہ کی خدا کی پکار کو سننے سے انکار کر دیا اور حقارت سے منہ پھیر لیا یہ ان کا ایمان ہے اور یہ وہ تڑپ ہے جو دین کے لئے ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے اور باوجود اس حالت کے یہ لوگ ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمیں صلح کے لئے بلاتے ہیں اور پھر زیادہ تعجب کی بات تو یہ ہےکہ یہ تحریک جس گروہ سے اٹھی ہے اور جو گروہ کہ ہم کو اپنے پیچھے نمازیں پڑ ھوانا چاہتا ہے وہ خودنماز نہیں پڑھتا.جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں وہ تو ہم کو کافر سمجھتے ہیں مگر یہ لوگ جو ٹھٹھےاور ہنسی میں اپنا دن گزارتے ہیں اور اسلام کے پاک احکام پر تمسخر کرتے ہیں جن پر یورپ کا رنگ تہ بہ تہ چڑھا ہؤا ہے ہمیں بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بلاؤ اور ہمارے پیچھے نماز پڑھو.ہم کس کے پیچھے نماز پڑھیں کیا ان لوگوں کے پیچھے جن کو اگر مسلمان بھی سمجھ لیا جائے تو شاید نماز پڑھنی ناجائز ہو؟ ہاں ہم کن کے پیچھے نماز پڑھیں کیا ان لوگوں کے پیچھے جن کے دلوں میں اسلام محض ایک قومیت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی عزت صرف اپنے پولیٹیکل حقوق کے محفوظ رکھنے کے لئے کی جاتی ہے بےشک اس تحریک کا اس گروہ سے اٹھنا اس بات پر شاہد ہے کہ یہ تحریک ر حمنٰ کی طرف سے نہیں.غیراحمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویاب میں حضرت صاحب کا وہ قول نقل کرتا ہوں جس میں کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نمازپڑھنے سے روکا گیا ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور ،مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پر بلکہ چاہیے کہ تمہار و ہی امام ہو جو تم میں سے ہواسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ ان منکم منکم یعنی جب میں نازل ہو گا توتمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوی ٰاسلام کرتے ہیں بھی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے

Page 357

ہو گا پس تم ایسا ہی کیا کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہوجائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کر تاہےاور ہر ایک حال میں مجھے حَکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھےدل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختياری پاؤ گے پس جانو کہ وہ مجھ سے نہیں ہے کیونکہ میری باتوں کو جو خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں‘‘ ٍاب اس عبارت پر غور کرنے سے اول تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ جو شخص غیر احمد ی کے پیچھے نمازپڑتا ہے یا غیر احمدیوں سے تعلق رکھتا ہے وہ ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جو قطعی حرام ہےدوسرے یہ کہ ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم غیراحمدیوں سے قطعی طور سے الگ رہیں.تیسرے یہ کہ جو ایسا نہیں کرتا اس پر خدا کا الزام ہے.چوتھے یہ کہ ایسے شخص کے اعمال حبط ہو جائیں گے.پانچویں یہ کہ جو حضرت صاحب کا دل سے معتقد ہے وہ آپ کے اس فیصلہ اور دیگر فیصلوں کو مانتاہے.چھٹے یہ کہ جو نہیں مانتا اس کے دل میں خود اختیاری کا مرض ہے.ساتویں یہ کہ حضرت صاحب ان الفاظ میں کہ وہ مجھ سے نہیں اس سے قطع تعلق کرتے ہیں.آٹھویں یہ کہ ایساکرنے والے کی عزت آسمان پر بھی نہیں کی جائے گی اب باوجود ان فتووں کے ہم کیا کریں اور کسی طرح ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جائیں جو ہلاکت کے گڑھے کی طرف ہم کو بلاتے ہیں.قرآنی شہاد تیںاب ایک طرف تو خدا کا کلام ہم کو اپنی طرف بلاتا ہے اور دوسری طرف چنداور جن کے ایمانوں کا ہم کو کوئی علم نہیں بلکہ وہ صریح طور سے ایک مامورکے مکفّر ہیں ہم کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ہیں بہتر ہے کہ ہم خدا کی آواز کو قبول کریں اور جس طرح پہلی دفعہ ہم نے انسانوں پر خدا کے احکام کو مقدم کیا اب بھی وہی نمونے دکھائیں حضرت صاحب خدا سے خبرپا کر فرماتے ہیں کہ مجھے نہ قبول کرنے والوں کو راست باز جاننے والا ان کے پیچھے نمازپڑھنے والا اور ان سے بکلیّ قطع تعلق نہ کرنے والا شیطان کے پنجہ میں ہے اور آپ پر ایمان نہیں رکھتا اس کے اعمال حبط ہو جائیں گے اور آسمان پر اس کی عزت نہ ہوگی پس ہمارے لئے کیساخطرناک ابتلاء ہے ایک طرف تو ظاہری چین اور امن نظر آرہا ہے.دشمنوں کی نظروں میں ایک عزت ہوتی ہے اور شاید گورنمنٹ کی نظروں میں بو جہ سرگروہ سے تعلق ہو جانے کے زیادہ وقعت پانے کی امید ہے اور دوسری طرف خدا کے مامور کا فتوی ٰہے کہ اگر تم ان سے بکلی قطع تعلق نہیںG

Page 358

کرتے تو پھر تمهار امجھ سے قطع تعلق ہے اگر عاجلہ کو دیکھا جائے تو پہلی بات میں فائدہ ہے لیکن اگر يوم ثقیل کا خیال کیا جائے تو سوائے دوسری بات پر عمل کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہم ان لوگوں سےصلح کرتے ہوئے ان آیات قرآنی کو کہاں چھپائیںالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ (النساء :۱۴۰ ) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(النساء : ۱۴۵) اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍۙ-وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ(۱۵۰)اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّاۚ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا (النساء :۱۵۱،۱۵۲) اور خصوصیت سے آخری آیت میں تو ہم خاص طور سے اسی گروہ کاذ کر پاتے ہیں جو مدعی ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو مسلمان متقی اور راست باز انسان مانتے ہیں لیکن نبی نہیں مانتے اور جو کہتے ہیں کہ نجات ایمان باللہ پر ہے نہ ایمان بالرسل پر اور جن کا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ کے انکارکی وجہ سے عذاب ہو بھی لیکن مرزا صاحب کے نہ ماننے کا کوئی ہرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور پکےّ کافر ہیں اور الله تعالیٰ کے حضور عذاب کے مستحق ہیں اور حضرت صاحب ؑبھی فرماتے ہیں کہ من فرق بيني و بين المصطفى فماعرفنی ومارأی، اور پھر فرماتا ہے کہ من اظلم ممن افترى على اللہ کزبا او کذب باٰیتہ بايته (الانعام:۲۲) پس باو جووان صریح نصوص کے ہم کیونکر انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ تمام رسولوں کا ماننا ضروری نہیں اور یہ کہ مسیح موعودؑ کا ماننا مدار نجات میں شامل نہیں اگر ہم ایسا کہیں تو ہم بھی اسی گروہ میں شامل ہو جائیں گے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّاۚ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا (النساء : ۵۲) اور جن کی نسبت فرماتا ہے او کذب باٰیتہ(فنعوذ باللہ من ذالک الکذب والبھتان و بفضلہ من ھمزات الشیطان) اور اگر ہم ایسا کریں تو گویا عبدالحکیم مرتد کی پیشگو ئی کو پورا کر دیں اور شیطان کے مؤید ہو جائیں کیونکہ اس کی مخالفت بھی اس بات پر ہوئی تھی اور وہ جماعت سے اسی لئے خارج کیا گیا تھا کہ اس کا دعوی تھا کہ سوائے ان چند مکفّرین کے جنہوں نے مخالفت میں زور مارا ہے باقی سب ناجی ہونے چاہئیں اور کفر کا فتویٰ ان پر نہیں دینا چاہیئے پس ہمارا بھی ایسے ہی عقائد رکھنا گویا عبد الحکیم کی پیروی کرنا اور حضرت مسیح موعودؑ کا انکار کرنا ہے اور اس کی شیطانی پیشگوئی کو پورا کرنا ہے کہ عنقریب مرزائی مرزا صاحب پر ایمان کو غیر

Page 359

ضروری قرار دے کر باقی تمام غیر فرقوں کو بھی مسلمان قرار دیں گے اور اعمال پر نجات کا مدارجانیں گے اور ایمان بالرسل کو علیحدہ کردیں گے پسں ان باتوں کا ماننا ہمارے لئے موت ہے اورسلسلہ کی تکذیب.ٍآخر میں یہ لکھنا بھی ضروری جانتا ہوں کہ میں ہی ان خیالات سے ایسا متنفر نہیں بلکہ جہاں تک مجھے علم ہے خود ہمارا امام اور دیگر دانالوگ سب کے سب ان خیالات کو پسند نہیں کرتے ہیں میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم سب خدا کے فضل سے اس پر امید کرتے ہیں اور اسی کو اپنا سہارا قرار دیتے ہوئے اور مسیح ؑناصری کی جماعت کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑنے شرح صدر کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے خدا کے مامور کو قبول کیا ہے اور اس کے ہر ایک حکم کو مدارنجات یقین کرتے ہیں اس لئے بلا کسی تامل کے کہتے ہیں کہ انا برءٰؤا منکم مما تعبدون من دون اللہ - خاکسار.مرزا محمود احمد تشحیذالاذہان اپریل ۱۹۱۱ء)

Page 360

Page 361

Page 362

Page 363

Page 364

Page 365

Page 366

Page 367

Page 368

۳۳۹ پہاڑی وعظ ڈلہوزی کے پادری لیگسن سے گفتگو ( جون ۱۹۱۱ء) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 369

Page 370

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم پہاڑی وعظ انسان کو اپنی عمر میں کئی ایسے واقعات پیش آتے ہیں جنکو اگر محفوظ رکھا جائے اور تحریر میں لایاجائے تو نہ صرف اس کے لئے بلکہ بہت سے اور لوگوں کے لئے مفید و با بر کت ثابت ہوں.بعض وفعہ ایک چھوٹی سی بات بڑے بڑے نتائج پیدا کرتی اور ایسے ایسے ثمرات اس سے نکلتے ہیں کہ جوسننے والے کے لئے خضر راہ ہو جاتے ہیں مسیحوں میں پہاڑی وعظ ایک ایسا اعلی درجہ کا پر مغز اور پرمعارف و عظ سمجھا جا تا ہے کہ جس کے مقابل میں دنیا کی کوئی تحریر اور نوشتہ نہیں ٹھہر سکتا.اور وہ انیس سو (۱۹۰۰ )سال سے اب تک اسے پڑھتے ہیں اور اس کی لطافت اور نزاکت پر سردھنتے ہیں.مسیحؑ نے نہ معلوم کن جذبات اور کن خیالات کے ماتحت وہ الفاظ کے ہو گئے.مگر مسیحیوں کےنزدیک آئندہ آنے والے خطرناک اور مہیب راستوں میں اور قبر کے اند ھیروں اور حشر نشر کےتشویش افزا میدان میں وہ ایک ایسا دوست اور رہنما ہے کہ جس پر عمل کر کے انسان ہر قسم کےدکھوں اور مصیبتوں سے بچ سکتاہے.مجھے بھی پچھلے دنوں پہاڑ پر جانے کا اتفاق ہوا.اور وہاں پنجاب کے ایک مشہور و معروف پادری صاحب سے ہم کلامی کا موقعہ ملا.چونکہ و ہ گفتگو جو میرے اور پادری صاحب کے درمیان ہوئی میرے خیال میں صاط مستقیم کے متلاشیوں کے لیے کسی صورت میں پہاڑی وعظ سے کم نہیں اور چونکہ احد المتکلمین ایک مسیحی صاحب ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں بھی اس گفتگو کا نام پہاڑی وعظ ہی رکھوں امید ہے کہ پادری صاحبان مندرجہ بالا وجوہات پر غور کرتےہوئے اس پر اظہار ناپسندیدگی نہ فرمائیں گے.عمر کے بعد حسب معمول میں اور میرے دوست ڈلہوزی سے بیلون کی طرف سیر کے لئے

Page 371

گئے.شام کے وقت گھر کو واپس آتے ہوئے راستہ میں ایک طویل القامت کثیر اللحیہ پادری صاحب سڑک پر جاتے ہوئے ملے.مجھے خیال آیا کہ یہ پادری صاحب نہ معلوم کہاں سے اور کن کن امیدوں کو ساتھ لئے ہوئے اس دور دراز گوشہ میں پڑے ہوئے پہاڑ پر تشریف لائے ہیں اس لئے مناسب ہے کہ ان سے مل کر ان کی کوششوں کی داد دی جائے.اس لئے میں نے سید عبد المحیی صاحب عرب مولوی فاضل کو جو اس وقت میرے ہمراہ تھے کہا کہ وہ پادری صاحب سے بڑھ کردریافت کریں کہ ہم ان کی کو ٹھی پر ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں.کیا وہ اسے ناپسند تو نہ فرمائیں گے.پادری صاحب نے اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور ہمیں مسیحیت کا شکار سمجھ کر بڑی خوشی سے ملاقات کی اجازت دی.اور بتا دیا کہ آپ کی کو ٹھی بائیں جانب پوسٹ آفس کے نیچےہے اور ہے کہ ہم جس وقت چاہیں ان سے مل سکتے ہیں.دوسرے تیسرے روز پادری صاحب ہم کو ڈلہوزی کے بازار میں کتابوں کا ایک بنڈل ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آئے جو قریباً تمام کی تمام اسلام کے خلاف تھیں اور اسی غرض سے لکھی گئی تھیں کہ نادان اور جاہل مسلمانوں کو پھسلا کردائرہ اسلام سے خارج کر کے مسیح کی بھیٹروں میں شامل کیاجائےپادری صاحب نے عند الملا قات دو رسالے ہمیں بھی دیئے.جن میں اسلام اور اس کے بانی پرمختلف پیرایوں میں حملے کئے گئے تھے.انہیں پڑھ کر میری طبیعت میں اور بھی جوش آیا کہ پادری صاحب سے مل کر ضرور چند باتوں کا تصفیہ کرنا چاہئے.اس اتفاقی ملاقات کے دوسرے یا تیسرے ون فرصت نکال کر میں اور دو اور دوست پادری صاحب کی ملا قات کے لئے گئے.نصف گھنٹہ کی تلاش کے بعد پادری صاحب کی کو ٹھی کا پتہ لگا.جوایک ایسی پر فضا اور خوبصورت مقام پر بنی ہوئی تھی کہ اس کو دیکھ کر بے اختیار مسیح کا وہ قول یاد آتاتھا کہ دولت مند اس وقت تک خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے ڈلہوزی پر بہت ہی عمدہ کو ٹھیاں ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات پربنی ہوئی ہیں لیکن ایسی خوبصورت اور دلکش جگہ کسی کو بھی میسر نہیں آئی اور صرف مشن ہی کی کو ٹھی ہے کہ جس کو ایسی دلرباسینری میں واقع ہونے کا فخر حاصل ہے.چونکہ پہلے روز عرب صاحب ہی پادری صاحب کو ملے تھے اس لئے انہی کو آگے کیا گیا کہ اجازت حاصل کریں پادری صاحب برآمدے میں ہی کھڑے تھے دیکھ کر بڑے تپاک سے ملے اور اندر لے گئے اور ملاقات کے کمرےمیں ہم تینوں کو بٹھا کر ایک دو منٹ کے لئے باہر تشریف لے گئے.واپس آنے پر پادری صاحب نے

Page 372

حسب معمول مختلف واقعات پر گفتگو شروع کی.اور انگلستان کی موجودہ حالت پر باتیں ہوتی رہیں.اسی دوران میں معلوم ہوا کہ پادری صاحب ۳۵ سال سے کام کر رہے ہیں.اور گجرات وزیر آبادسیالکوٹ میں مدت مدید تک آپ نے مشن کی خدمات کی ہیں.اور آجکل ایک سال سے پونہ میں ہیں.ان پادری صاحب کا نام لیگسن ہے.چونکہ ہمارے رسالہ کے بہت سے ناظرین کوجو سیالکوٹ گجرات اور وزیر آباد سے تعلق رکھتے ہیں آپ سے واقف ہوں گے جیسا کہ ہم نے باہر سنا تھا ہم نے عند الملا قات پادری صاحب کو بہت ہی خلیق اور نرم پایا.اور ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد پادری صاحب نے گفتگو کارخ مسیحیت کی طرف پھیرا اور چاہتے تھےکہ مسیحیت کے متعلق طول طویل تفصیلات میں ہم کو لے جائیں.اور جو احسانات مسحیت نےیورپ پر کئے ہیں ہمارے سامنے بیان کریں.لیکن چونکہ وقت کم اور فرصت قلیل تھی میں نےعرض کی کہ ہم سردست تثلیث کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے ہیں جس کی پادری صاحب نے بڑی خوشی سے اجازت دی.یہ گفتگو گو کہ دو گھنٹے تک رہی لیکن جہاں تک محفوظ رہ سکی اسے ہم یہاں درج کرتے ہیں اورجس طرح سوال و جواب کے پیرایہ میں ہوئی اسی طرح لکھتے ہیں چونکہ میں نے جاتے ہی پادری صاحب سے عرض کر دیا تھا کہ میں آپ سے جو گفتگو کروں اور طالب حجت ہونے کی حیثیت سےکروں گا نہ کسی مذہب کے پیرو ہونے کی حیثیت سے ، اس لئے میں مندرجہ ذیل گفتگو میں اپنے نام کی جگہ طالب حق کا لفظ استعمال کروں گا.طالب حق -پادری صاحب آپکا تثلیث کے متعلق کیا خیال ہے ؟ پادری صاحب.میرا خیال ہے کہ تثلیث تین اقنوم کا نام ہے ایک اقنوم د اباپ ،ایک اقنوم مسیح بیٹا اور ایک روح القدس اور میں ان تینوں کی خدائی کا قائل ہوں.طالب حق -پادری صاحب آپ کی اقنوم سے کیا مراد ہے.پادری صاحب مسکراکر اقنوم آپ ہی کی زبان کا لفظ ہے.طالب حق.بیشک ہماری زبان کا لفظ ہے لیکن ہم خدا تعالیٰ کی نسبت اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے.اس لئے جب خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہو تو ہمیں اس کے معنے سمجھنے میں دقت ہوتی ہے.پادری صاحب.میں تو اور اس کے لئے کوئی لفظ تجویز نہیں کر سکتا.

Page 373

طالب حق - اگر آپ اردو یا عربی میں اس کے لئے کوئی اور لفظ تجویز نہیں کر سکتے تو انگریزی میں ہی سہی.پادری صاحب - انگریزی میں ہم اس کے لئے پر سونیلیٹی (Personality استعمال کرتے ہیں طالب حق - میں نے ایک امریکن پادری سے دریافت کیا تھا تو انہوں نے اس کے معنے کیپیسٹی کے بتائے تھے (Capacity).پادری صاحب.نہیں نہیں.اس کےمعنے پر سونیلیٹی کے ہیں.طالب حق.مجھے تو نہ اقنوم کے معنے سمجھ آتے ہیں اور نہ پر سونیلیٹی کے.میں تو آپ سےکھول کر پوچھنا چاہتا ہوں.آپ یہ فرمایئے کہ یہ تینوں کیا حیثیت رکھتے ہیں مثلا ًیہی کہ دنیا کا خالق کون ہے.پادری صاحب.آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت ہے، اس میں محبت کا مادہ ہے وہ چاہتاہے کہ کسی چیز سے محبت کرے اور یہ تمام دنیا کی چیزیں فانی ہیں.اصلی نہیں ہیں اس لئے ضروری تھا کہ ایک ایسا وجود ہوتا کہ جس سے خدا محبت کرتا.سو اس لئے بیٹے کی ضرورت تھی اور اس کو تو آپ بھی مانتے ہوں گے کہ اگر کوئی ایساوجود نہ ہو کہ جس سے ندامت کرے تو وہ محبت فضول جائے گی.طالب حق -پادری صاحب آپ نے بہت ہی معقول بات فرمائی ہے لیکن میں اس وقت تثلیث کو سمجھنا چاہتا ہوں نہ کہ تثلیث کی ضرورت کو میرا سوال تو یہ تھا کہ یہ دنیا کس طرح پیداہوئی اور کس نے کی.پادری صاحب.کلمے سے پیدا ہوئی.خدا نے کی.طالب حق.کلمہ دنیابن گیا.اور یہ دنیا ای کاحصہ ہے باخدا نے حکم دیا.اور وہ ہوگئی.پادری صاحب - مسکرا کر او ہو ہمارا یہ خیال نہیں ہے کہ دنیا نیست سے پیدا ہوئی.یہ آریوں کا خیال ہے مجھ سے ایک دفعہ ایک آریہ ملا تھا.اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ دنیا کس طرح پیدا ہو کی نیست سے ہست کس طرح ہوسکتا ہے.میں نے اسے جواب دیا کہ ہمارا ہرگز یہ مذہب *سونیلیٹی کے معنی ذات اقنوم کے معنی اصل ناظرین غور فرما دیں.*حیثیت

Page 374

نہیں.کہ نیست سے ہست پڑا.خدا نے حکم کیا ہو جاوہ ہو گئی ہم نہیں مانتے کہ اس نے نیست کو کہاکہ تو کچھ بن جا.طالب حق.اوہو آپ نے بہت اچھا جواب دیا.اور بہت لطیف بات کی لیکن میری عرض یہ تھی کہ کلمہ سے دنیا پیدا ہو ئی.یا خد اکے امر پر دنیا موجود ہو گئی.پادری صاحب.ہاں کلمہ مسیح ہے انجیل میں لکھا ہے کہ ابتداء میں کلام تھا اور کلام خد اکےساتھ تھا.اور کلام خدا تھا.یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا سب چیزیں اس سے موجود ہو ئیں اورکوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی.زندگی اس میں تھی.اور وہ زندگی انسان کا نور تھی.اس سے معلوم ہوا کہ ابتداء میں خدا کے ساتھ مسیح تھا اور مسیح سے دنیا پیدا ہو ئی.آپ کے مذہب اسلام میں بھی مسیح کو کلمہ کہا گیا ہے.کیا میں آپ کو اس کی نسبت کچھ سناؤں.طالب حق -پادری صاحب میں نے آپ سے ابتداء ہی میں عرض کر دیا تھا کہ میں ایک ایسےانسان کی حیثیت سے آپ کے پاس آیا ہوں جس کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں.اور گو میں مسلمان ہوں لیکن اس وقت میں ایسے پیرایہ میں گفتگو کروں گا گویا کل مذاہب ابھی میرے زیرتحقیق ہیں اس لئے آپ ابھی انجیل کی نسبت کلام فرما دیں.اگر قرآن شریف کی تحقیقات کی ضرورت ہوگی تو میں کسی مولوی کے پاس جاؤں گا.قرآن شریف کی تحقیقات کے لئے مجھے کسی پادری کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے.وید کی نسبت میں پنڈت سے پوچھوں گا.قرآن شریف کی نسبت کسی مولوی سے.اور بائبل کی نسبت پادری صاحب سے تحقیقات کروں گا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں بائبل بجھنے کیلئے کسی مولوی کے پاس جاؤں اور قرآن شریف سمجھنے کے لئے کسی پادری کے پاس.آپ اس وقت بائبل سے کلام فرمائیں.پادری صاحب.مسکرا کر ہاں تو بیشک آپ بائبل کی نسبت سوال کرتے ہیں.بائبل سےجیسا کہ میں نے بتلایا ہے یہی معلوم ہو تا ہے کہ کلام سے دنیا پیدا ہو گئی.طالب حق.تو پادری صاحب آپ تثلیث کے کیوں قائل ہیں.کلام ایک صفت ہے اورخد امیں بیسیوں صفات پائی جاتی ہیں دیکھتا ہے، سنتا ہے ،قادر ہے، علیم ہے.خالق ہے.آپ صرف صفت كلام کو ہی کیوں خدا قرار دیتے ہیں.آپ کل صفات الہٰیہ کو ابنائے الہٰیہ قرار دیں.آپ کےمذہب کےرو سے تو صرف تثلیث پر ہی کفایت نہیں کی جاسکتی.پادری صاحب.اوہو آپ کو غلطی لگ گئی ہے کیا آپ خدا کے کلام کو انسانی کلام مجھے

Page 375

ہیں.اس بات کو تو آپ بھی مانتے ہیں کہ خدامیں اور انسان میں مشابہت نہیں ہے کلام صفت نہیں كلام قدرت ہے.طالب حق-پادری صاحب کلام وہ ذ ر یعہ ہے کہ جس سے ہم اپنامافی الضمیر دوسرے پر ظاہرکرتے ہیں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ میں اور ہم میں بہت فرق ہے وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں لیکن جیسے انسان کے دیکھنے کی طاقت ،سننے کی طاقت اور اس کے علم کو آپ لوگ صفات انسانی قرار دیتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی بھی ان طاقتوں کو صفات ہی قرار دیتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ خدا کی صفت علم کو یاصفت سمع کو تو آپ صفت قرار دیں اور صفت کلام کو اس بناء پر کہ خدا اور انسان میں بہت فرق ہے دوسری ذات قرار دیں.آپ جانتے ہیں کہ ہم زبان سے زید کو حکم دیتے ہیں کہ تو آ- اور وہ آجاتا ہے ہمارے مافی الضمیر کے اظہار کا یہی طریقہ ہے لیکن ہم اپنے اس کلام کو اپنے جیسا انسان قرار نہیں دیتے.نہ یہ کہتے ہیں کہ ہم دو ہیں.ایک ہم اور ایک ہمارا کلام.اور اگر ایسا ہو تو کلام کو ایک ذات قرار دینا اور سمع و بصر کو نہ قرار دینا ترجیح بلا مرجح ہو گا.پھر علاوہ ازیں آپ صرف اس کلام کوجس کے واسطے دنیا پیدا کی گئی.کیوں خدا کہتے ہیں.کیوں توریت اور انجیل اور دیگرصحف انبیاءؑ کو خدا قرار نہیں دیتے.اگر آپ خدا کی صفات سمع و بصرو علم کوخداقرار نہیں دیتے.تو آپ کم از کم انجیل یوحنا کے ماتحت کہ’’ ابتداء میں کلام تھا.اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا،‘‘ نجیل و توریت کو اور دیگر صحف انبیاءؑ کو خدا قرار دیں.پادری صاحب.مسکرا کر.نہیں نہیں ہم انجیل توریت کو خدا نہیں مانتے ہمارے مذہب میں ایسا جائز نہیں.اور ہم تو کلام کو صفت قرار نہیں دیتے.بلکہ ایک ذات قرار دیتے ہیں.طالب حق - تو آپ کلام کو کیا سمجھتے ہیں.پادری صاحب - قدرت طالب حق.جناب نے فرمایا کہ ہم کلام کو قدرت سمجھتے ہیں.لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیئےکہ قدرت بھی کوئی علیحده ذات ہیں.مثلا میرے ہاتھ میں پکڑنے کی قدرت ہے.یہ قدرت میرےارادے کے ماتحت ہے.اس میں خود کوئی علم نہیں.جب ہاتھ کو حکم دیتا ہوں کہ تو پکڑ تو وہ پکڑ لیتا ہے.اسی ہاتھ سے میں مقید سے مفید اور مضر سے مضر چیز کو پڑ سکتا ہوں.اور میرے علم اور ارادےکے ماتحت میرے ہاتھ کو جس چیز کو میں حکم دوں پکڑ نا ہو گا.مثال کے طور پر یہ چیز میرے سامنے پڑی ہو گئی ہے پس اپنے ہاتھ کو حکم دیتا ہوں کہ تو اس کو پکڑ چنانچہ اس نے میرے ارادے کے ماتحت اس

Page 376

کو پکڑ لیا.لیکن خود میرے ہاتھ کے پکڑنے میں تو کوئی علم نہیں.اگر آپ مسیح کو قدرت بھی قراردیں اور کلام کار و سرانام قدرت رکھیں.تب بھی تو یہ کوئی علیحدہ ذات قرار نہیں پا سکتا.ورنہ ہرایک چیز میں کچھ نہ کچھ قدرت ضرور ہوتی ہے.تو اس طرح ہر ایک ذات کو دو ذاتیں قرار دینا پڑےگا اور دوسرے اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسیح علم اور ارادے سے خالی تھا کیونکہ جیساکہ میں ثابت کر آیا ہوں کہ قدرت صفت علم و ارادہ کے بكلی ماتحت ہوتی ہے اس صورت میں مسیح خدا کے علم و ارادہ کے بكلی ماتحت ہؤا.اور وہ چیز جو علیم وقدیر ہستی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کے طورپر ہو.اور خود اس کا کوئی دخل نہ ہو وہ خدا نہیں کہلا سکتی.خدا تو وہی ہے جو علیم و قدیر ہو.اور تمام نقائص سے مبرّا اور خوبیوں سے متصف ہو.پادری صاحب.ہم تو مسیح کو علم سے خالی نہیں سمجھتے یہ ضرور علیم ہے.طالب حق.یہ بے شک درست ہے کہ آپ مسیح کو ایک علیم ہستی مانتے ہیں اور گو مسیح انجیل میں اپنے علم کا منکر ہے مگر اس وقت مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں.میں آپ ہی کی بات کو مانتاہوں.اور چونکہ مسیح خدا ہے اس لئے ہونا بھی ایسا ہی چاہیے لیکن یہ اعتقاد کی بات ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کر آیا ہوں آپکی خدمت میں ایسے انسان کی حیثیت سے حاضر ہؤا ہوں جس نے عام دنیا کےاعتقادوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا اعتقاد سچا ہے اور چونکہ ایسا متلاشی کسی کتاب کا قائل نہیں ہو تا ضروری ہے کہ اس کے سامنے عقلی دلائل پیش کئے جائیں.اور جیسا کہ میں اوپر بیان کرآیا ہوں مسیح کو اگر کلمہ مان لیا جاوے تو اول تو وہ ایک مفت اور پر علم سے خالی ثا بت ہو تا ہے اور چونکہ میں عقلی دلیل سے ہی فائدہ اٹھا سکتا ہوں اس لئے ضرور ہے کہ یا تو سرے سے مسیح کے کلمہ ہونے کا ہی انکار کر دوں یا آپ کے قول کو مانتے ہوئے اسے کلمہ تو قرار دیں لیکن علم سے خالی.پادری صاحب.بےشک عقل تو یہی کہتی ہے لیکن انجیل اس بات کو نہیں مانتی.طالب حق.تو کیا عقل کی روسے تثلیث کاماننا ناممکن ہے.پادری صاحب.اس میں کیا شک ہے کہ عقل انسانی ہستی باری کی گنہ تک نہیں پہنچ سکتی.طالب حق.جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے عقل ہی ایک سمجھ کا زریعہ بنایا ہے تو بغیر عقل کے ہم کسی بات کو مان کیونکر سکتے ہیں.بے شک بعض باتیں عقل سے بالا ہو تی ہیں لیکن کوئی الہٰی مذہب اپنے پیرؤوں سے خلاف عقل با تیں نہیں منواتا.میں اس بات میں آپ سے متفق ہوں کہ ذات الہٰی کی کنہ کو سمجھنا انسانی عقل کا کام نہیں.کیو نکہ و ہ محدود ہے مگر یہ ضروری ہے کہ جن باتوں کو ماننا

Page 377

مدار نجات ہے وہ انسانی عقل کی پانی کے اندر ہونی چاہئیں.کیونکہ اگر بعض ایسی باتیں مدار نجات قرار دے دی جائیں جو عقل کے خلاف ہوں.تو انسان کے لئے نجات کا دروازہ بالکل بند ہو جائےگا.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانا نجات کیلئے ضروری ہے تو ہستی باری کا ثبوت ضرور ایسا ہوناچاہیے جو عقل کے خلاف نہ ہو اور ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی انسانی عقل مختلف ذرائع سے اس بات پرمجبور ہے کہ ہستی باری کو مانے.او ر خلاف اس کے اللہ تعالیٰ کے وجود کی کیفیت انسان کے دماغ میں نہیں آسکتی.اس لئے اس کو الہٰی مذہب چھیڑتے تک نہیں.ہاں جو حصہ صفات الہٰیہ کا تھا.چونکہ وہ سمجھ میں آسکتا تھا اس لئے وہ بیان بھی کردیا گیا پس چونکہ تثلیث کا مسئلہ آپ کے مذہب کی رو سے نجات کا جزو اعظم ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ ایسے پیرایہ میں بیان کیا جاتا جس کو عقل انسانی سمجھ سکتی.پادری صاحب -بےشک عقل یہی کہتی ہے لیکن تثلیث کے ماننے سے پہلے انجیل کا مانناضروری ہے.طالب حق.انجیل کو انسان تب مانے جب اصول مسیحیت ثابت ہو جائیں.ان مسائل کے عمل ہونے سے پہلے انسان انجیل کو کب مان سکتا ہے.پادری صاحب.جیساکہ میں نے بیان کیا ہے.انجیل کے ماننے سے پہلے ان مسائل کا سمجھنامشکل ہے.طالب حق - بہت اچھا.آپ اس مسئلہ کو تو عقلی طور پر حل نہیں کر سکتے، یہی فرمایئے.موجودہ زمانے میں اس تمام دنیا کا انتظام کس کے سپردہے.خداباپ کے یا خدا بیٹے کے.پادری صاحب.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات کا انتظام مسیح یعنی بیٹے کے سپرد ہے.طالب حق - توکیاخدا باپ دنیا کو کلمہ کی معرفت پیداکرنے کے بعد خالی بیٹھاہے.پادری صاحب.نہیں صفات الہیٰہ کا تعطّل تو جائز نہیں.تمام جمان کا انتظام وہی کرتا ہے.طالب حق -پادری صاحب.ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ کیا انتظام کرتا ہے.اب اس بات کے تین پہلو ہو سکتے ہیں.یا تو یہ کہ ایک معطّل ہے اور ایک کام میں لگا ہوا ہے اس صورت میں ایک خدا کی صفات پر تعّطل ثابت آئے گا جو جائز نہیں.دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں بانٹ کر کام کرتے ہیں.اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ ایک خداسارا کام نہیں کر سکتا.بلکہ دونوں نہ اپنے اپنے حصے کا کام نپٹاتے ہیں.اس صورت میں خدا تعالیٰ پر نعوذ باللہ محدودیت کا الزام ثابت ہوتا.

Page 378

ہے.اور اگر یہ مانا جائے کہ دونوں ملے جلے سارا کام کر رہے ہیں تو اس صورت میں بھی یہ الزام آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ بیہودہ کام میں لگا ہؤا ہے.پادری صاحب.میں آپ کو ابھی پتا چکا ہوں کہ یہ مسائل عقل میں نہیں آسکتے بلکہ خداکے کلام انجیل پر ایمان لانے کے بعد سمجھ میں آسکتے ہیں.طالب حق.جبکہ بنیادی اصول ہی سمجھ میں نہ آئیں تو ہم انجیل کو کیونکر جانیں اور چونکہ آپ مسئلہ تثلیث کو خود عقل کے خلاف تسلیم فرماتے ہیں اس لئے اب میں اجازت دیجئے کیونکہ زیادہ گفتگو فضول ہے.ہمیں کچھ اور بھی مسائل پوچھنے تھے مگر اس کے لئے پھر کسی وقت آئیں گے.پادری صاحب - ذات باری کی نسبت عقل فیصلہ نہیں کر سکتی.ها را با اصول کفارے کامسئلہ ہے اور اسی پر ہم زیادہ زور دیتے ہیں.امید ہے کہ آپ پھر کسی وقت تشریف لا کر اس مسئلے پرگفتگو فرما دیں گے.اس بات کا وعدہ کرنے کے بعد ہم پادری صاحب سے رخصت ہو کر اپنے گھر واپس آئے اور دیر تک پادری صاحب کے ان جوانوں پر حیران و ششدر رہے.

Page 379

Page 380

گوشت خوری (گوشت خوری کے ہندوعقیدہ پر تبصره ) از حضرت صاجزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 381

۳۵۲

Page 382

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم گوشت خوری كل فاتح قوموں میں گوشت خوری کی عادت پائی جاتی ہے اور کسی ملک کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لوجب کسی قوم نے ترقی کی ہے.اس کے افراد میں گوشت خوری کا رواج ضرور ہو گا.ہاں النادر کالمعدوم کسی قوم میں کسی جانور کا گوشت پسند کیا جا تا ہے تو کسی قوم میں کسی جانور بعض قو میں بکرےکے گوشت کو اعلی ٰسے اعلی ٰگوشت قرا ردیتی ہیں بعض دنبہ کے گوشت کو پسند کرتی ہیں.بعض گائےکے گوشت کو سب سے زیادہ مزیدار قرار دیتی ہیں بعض اونٹ کو لطیف سمجھتی ہیں.پھر بعض کےخیال میں مچھلی کا سا گوشت کی حیوان کا نہیں ہو تا.اور بعض کے نزد یک طیور کا گوشت سب پر فائق ہے بعض جنگلی جانوروں کے شکار کو پسند کرتی ہیں لیکن گوشت کا رواج دنیا کے اکثر حصوں میں ہے.اور دنیا کی آبادی کا اکثر حصہ اس کا استعمال رکھتا ہے.اس زمانہ میں آریوں نے اس بات پر زور دینا شروع کیا ہے کہ گوشت خور ی سخت گناہ ہےاور اپنے جیسے جانداروں پر ظلم ہے.جب کہ دیگر حیوان بھی ویسی ہی روح رکھتے ہیں جیسے ہم.اورہماری طرح تکلیف کا احساس ان میں بھی ہے تو پھر گوشت خوری کے کیا معنی اور کیوں اپنے مزےکی خاطر جانوروں کو تکلیف میں ڈالا جائے ؟ اور جبکہ گوشت کے علاوہ اور کھانے بھی موجود ہیں.پر گوشت کا استعمال صریح سنگدلی پر دال ہے.لیکن آر یہ بھی اس کے مزے سے نہیں بچ سکے.جب کہ ان میں گوشت خوری کے خلاف تحریک ہوئی فوران میں دو پارٹیاں ہو گئیں.ایک گھاس خور کہلائی اور دوسری نے ماس خور نام پایا.

Page 383

چنانچہ کالج پارٹی ماس خورہی ہے.اور وہی زیادہ کام کر رہے ہیں.دیانند کا لج جو پنجاب کے کالجوں میں خاص شہرت رکھتا ہے اسی پارٹی کا بنایا ہؤا ہے اور اسی کی کوششوں پر چلتا ہے.تعجب ہے کہ حیوانوں کی تکالیف پر تو آریہ اس قدر ناراض ہوتے ہیں اور تمام فرقوں اور قوموں سے دست و گریبان ہونے کے لئے تیار ہیں.اور اپنے جلسوں میں ان کی طرف سے ایڈووکیٹ بن کر کل گوشت خور قوموں کو قوموں م کو ظالم اور مجرم قرار دیتے ہیں.لیکن انسانوں کا گوشت کھانا ان کا شیوہ ہے، کوئی بزرگ کوئی ولی کوئی ریفار مرایسانہیں گزرا جس پر ذاتی طور سے گند اور خبث کا الزام انہوں نے نہ لگایا ہو اور جسے ہر قسم کی ناپا کیوں میں ملوث نہ قرار دیا ہو.مسلمان ان کے ہم وطن ہیں.ان کے ماتحت مدتوں تک آرام و چین سے یہ لوگ زندگی بسر کرتے رہے ہیں.ان کی حکومتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر رہ چکے ہیں.اور بڑی سے بڑی ذمہ داریوں کے کام ان کے سپرد رہے ہیں لیکن پھر ان کے اس قدر احسانوں کے باوجود جو سلوک اہل ہنود کا مسلمانوں کے ساتھ ہے.وہ ہر کس و ناکس پر ظاہر ہے.خیر مسلمانوں کی سلطنت تو گزر چکی تھی.اب اس زمانہ میں انگریزی گورنمنٹ کے ماتحت ہندو مسلمان کسی سکھ اور چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارے فائدے کے لئے انگریز کیا کیا محنتیں برداشت کرتے ہیں اور کس کس طرح کی کاوشوں سے ہمارے فائدہ کی صورتیں نکالتے ہیں لیکن باوجود اس احسان کے چند سال سے اہل ہنودمیں سے ایک معتدبہ گروہ ان کا دشمن ہو رہا ہے.اور انسان کے بدلہ ان کی جانوں کے درپے ہو رہا ہے.تنزل کے طور پر مان بھی لیں کہ گورنمنٹ نے بعض ہمارے حقوق دبا لئے ہیں تو کیا محسنوں کی بعض غلطیوں پر چشم پوشی نہیں کیا کرتے.کیا احسان کی قد راسی طرح کی جاتی ہے کہ جب تک محسن کچھ دیتا رہا آرام سے رہے اور ذرا اس سے غلطی ہو گئی تو دست و گریبان ہو گئے اور اس کے قتل تک سے باز نہ آئے.جو قوم حیوانوں کے گوشت کھانے پر ناراض ہے اسے کم سے کم انسانوں کے گوشت کھانے سے تو پر ہیز کرنا چاہئے تھا مگر افسوس کہ آریہ حیوانوں کے لئے تو اس قدر چیختے اور چلاتے ہیں مگر انسانوں کی ہمدردی ان میں نام کو باقی نہیں.ہر ایک فرقہ اور گروہ ان کے ہاتھوں سے نالاں ہے.اس لئے نہیں کہ ان کی وجہ سے کسی مذہب کو خطرہ ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے وجود سے خود تہذیب کے وجود کو خطرہ لگا ہؤا ہے اور ممکن ہے کہ ان کے ہاتھوں ہندوستان کی اخلاقی حالت بہت ہی نیچے گر جائے.'

Page 384

ست جگ کا حالآجکل کے آر یہ تو گوشت خوری پر اس قدر شور و شر کرتے ہیں اور ایک گائےکے بدلہ اگرسو انسان بھی مارنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے.چنانچہ سکھوں کے زمانہ میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں کہ ایک گائے کے بدلہ میں بیسیوں انسانوں کا خون کیا گیا.اور اب بھی ہندو ریاستوں میں گائے کا مار نا قتل انسان کے برابر رکھا گیا ہے.اور پچھلے دنوں کلکتہ میں گائے کی قربانی پر جو فسادہوئے ہیں اور انسانی خون تک نوبت پہنچتی ہے.یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ اس وقت ہندؤوں میں حیوانوں کے ذبح کرنے اور خصوصیت سے گائے کی قربانی کرنے سے کیا جوش پیدا ہو جاتا ہے اور کسی طرح وہ ایسے موقعہ پر انسانی خون سے بھی پرہیزنہیں کرتے.لیکن اگر ان کے آباء کا حال پڑھیں اور اس زمانہ پر نظر کریں جب ہنود اپنے پورے زور میں تھے اور ہندوستان انہیں کے قبضہ میں تھا.اور جس وقت کے گیت گاتے ہوئے آج بھی ان کیزبانیں خشک ہوتی ہیں.اور جس زمانہ کو یاد کر کر کے ان کے مردہ دلوں میں فرحت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے.تو واقعہ کچھ اور ہی معلوم ہوتا ہے ، اور ہم نہ صرف عام جانوروں کے گوشت کوہی لکڑیوں کےانباروں پر بھنتا ہؤا دیکھتے ہیں.بلکہ برہمنوں کو گائے کے گوشت کے کباب کھاتے ہوئے پاتے ہیں.اور یہ نظارہ ان کے دلوں میں ایک خاص ولولہ پیدا کرتا ہے.چنانچہ وہ ان دعاؤں میں جو وہ اپنےمعبودوں کے سامنے کرتے ہیں.اس کو پیش کر کے اپنے لئے برکتیں اور رحمتیں طلب کرتے ہیں.وید کی کئی شرتیوں سے دوسرے جانوروں کی قربانی تو الگ رہی گائے تک کی قربانی ثابت ہوتی ہے.چنانچہ رگوید میں ہے.”اے اندر جو کہ تیز رفتار اور طاقت و راورسب کاسوامی ہے.اس ور تر اپر اپنا بجر چلا.اور اس کو جداجدا کر جیسے قصائی گائے کو کاٹتا ہے تاکہ مینہ برسے اور پانی زمین سے بہے.چوتھا اد هیائےانواک دس سوکت ۴ متر ۱۲- اس سے نہ صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ ویدوں کے زمانہ میں گائے ذبح کی جاتی تھی بلکہ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ عام طور سے ذبح کی جاتی تھی.کیونکہ قصائی کا پتہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کثرت سے جانور کئے جائیں ورنہ کبھی کبھار ذبح کرنے کے لئے قصائی نہیں ہوتےلوگ خود کر لیتے ہیں.قصائی اسی جگہ ہوں گے جہاں ذبح کی اجرت سے ان کا گزارہ چل سکتا ہو.ڈاکٹر راجندر لعل صاحب مترجو سنسکرت کے ایک بڑے عالم بنگالی گزرے ہیں لکھتے ہیں.جو حیوان ذبح کئے جاتے تھے ان کو قدیم آر یہ کھاتے بھی تھے.چنانچہ وہ بتلاتے ہیں سو و الیانہ سو تر میں

Page 385

چڑھاووں کے بقیہ کے کھانے کی نسبت ہدایتیں دی گئی ہیں اور اتھربن وید کی گوتھ برہمن میں منتقل طور سے ان مخصوں کے نام پائے جاتے ہیں جو قربانی کی رسم کے ادا کرنے میں کچھ نہ کچھ لیا کرتے تھے اور بتلایا جاتا ہے کہ ہر ایک کو قربانی شدہ جانور کا کون کون سا حصہ ملنا چاہئے.اسی طرح پروفیسرولسن صاحب لکھتے ہیں.’’ اس میں کچھ شک نہیں ہے.کہ گھوڑاذبح کیا جاتا تھا اور اس کا بدن ٹکڑے ٹکڑے کر کے درست کیا جا تا تھا.اور اس میں سے کچھ ٹکڑے تو ابالے جاتے تھے اور کچھ بھونے جاتے تھے ‘‘ ڈاکٹر راجندر لعل متراپنی کتاب انڈین آر ین پر لکھتے ہیں کہ’’ ہندو مذہب کی تعلیم خواہ کیسی ہی رحم اور مہربانی سے پر کیوں نہ ہو.مگر وہ حیوانوں کی قربانی کے بالکل مخالف نہیں ہے ، بلکہ بہت سی بڑی بڑی رسموں کے ادا کرتے وقت کئی قسم کے حیوان اور پرندے کثرت کے ساتھ ذبح کئے جاتے تھے.ایک رسم کے پورا کرنے کے لئے رسم ادا کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہوتا تھا کہ وہ سمندر میں ڈوب کر مر جائے.اس کو وہ مہا پرستھنا کہتے تھے.ایک اور رسم کفارہ کے لئے ہوتی تھی جس میں گناہگار اپنے تیئں جلا کر راکھ کر لیتا تھا اس کو شنا کہتے تھے بنگال کی رحمدل عورتیں بہت عرصہ تک اپنے پلوٹھے بچوں کو دریائے گنگا میں پھینکتی رہی ہیں.آجکل اگر ہندو مذہب کے پیرؤوں نے ان باتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے (گورنمنٹ کے ڈرسے.مؤلف مضمون ہذا) تو یہ فرض کرنابھی خلاف عقل معلوم نہیں ہوتا کہ قدیم زمانہ شیمی و یو تاؤں کے غضب سے مٹانے کے لئے انسان قربان کئے جاتے تھے‘‘ اس اقتباس سے بھی ظاہر ہے کہ ست جگ میں قربانی کی جاتی تھی بلکہ انسان بھی قربان کئے جاتے تھے.مونٹ سٹورٹ انفنسٹن لکھتے ہیں کہ منو کے دهرم شاستر میں بڑے بڑے تیوہاروں میں بیل کے گوشت کھانے کے لئے برہمنوں کو تاکید کی گئی ہے اگر نہ کھائیں تو گنہگار ہوں.شاستر میں لکھا ہے کہ جو جانور کھانے میں آتے ہیں اور جو لوگ انہیں کھاتے ہیں دونوں کو برہما نے پیدا کیا ہے.اس لئے اگر شاستر کے طور پر انہیں کھاویں تو کچھ گناہ نہیں اور دیوتاؤں اور پتروں کو گوشت چڑھا کر کھانا کچھ پاپ نہیں.اور برہمنوں کو ساہنے، گرگٹ ،چھپکلی ،مگرمچھ، خرگوش و غیرہ کھانا درست ہے (حجۃ الہند) منوشاستر میں ہے کہ سورج کی اترائیں اور دکھشائن میں بلیدان یعنی قربانی کرنا اور کھانا فرش ہے- (حجۃ الھذا) اسرب اپنکھداتھربن وید میں ہے کہ جن حیوانات کے تلے کے دانت میں وہ خورندہ ہیں.

Page 386

خوراک سے خورندہ کو شرف حاصل ہے (حجۃ الہند) اس کے علاو و مہما بھارت وغیرہ کتب سے تو گوشت خوری کی عجیب کیفیت معلوم ہوتی ہے خودراجہ رامچندر شکار کرتے تھے اور بھون کر کھاتے تھے.پسں جبکہ اچھی طرح ثابت ہے کہ ست جگ میں جبکہ دنیا میں بدی کا نام و نشاں نہ تھا او رویداتررہے تھے.گوشت خوری جاری تھی.اور بعض تیو ہاروں کے موقعہ پر فرض تھی.تو اس زمانہ میں نامعلوم آریہ صاحبان اس کے خلاف اس قدر کیوں زور لگارہے ہیں.یا توویدوں کو اور اس زمانہ کےتمام لوگوں کو گندہ اور ناپاک قرار دیں یا اقرار کریں کہ گوشت خوری کے معاملہ میں جو ان کی رائےہے وہ صرف کمزوری اور ضعف قلب کی وجہ سے ہے.اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ اگر گوشت خوری بری ہے تو ہندومذ ہب بھی اس برائی میں مبتلا ہے اور خود وید اور منوشاسترجس کی غفلت کا اقرار پنڈت دیانند کر چکے ہیں اس پر شاہد ہیں اور اس رسم کے مؤیّد ہیں.میں ایک اور پہلو سے گوشت خوری کے مسئلہ پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.گوشت خوری کیوں بری ہے؟اول سوال یہ ہے کہ گوشت خوری بری کیوں ہے ؟اس کا جواب سوائے اس کے کیا ہے کہ بلا وجہ و سری روحوں کو تکلیف دی جاتی ہے.اور ان پر ظلم کیا جاتا ہے یہی معلوم ہوا کہ گوشت خوری اپنی ذات میں بری نہیں بلکہ اس لئے بری ہے کہ جس ذریعہ سے گوشت آتا ہے اس میں ظلم کا شائبہ ہے کیونکہ جب ایک جانور ذبح ہو چکا.اس کے بعد اس کوکیا تکلیف محسوس ہو سکتی ہے.اس کو تکلیف تو تب تک تھی جب تک وہ ذبح ہو رہا تھا.ذبح ہو نے کے بعد وہ ایک جسم بے جان ہے.اس کے ٹکڑے کرو اور اس کی ہڈیاں پیس دو، جلا دو، خاک کر دو اس میں اب تکالیف کا کوئی احساس باقی نہیں رہا جیسے پتھر لکڑی وغیرہ اشیاء بےجس ہیں ویسا کی وہ جسم بے جان بے حس و حرکت ہے.پس ظلم گوشت کھانے میں نہیں.ظلم اس طریق حصول میں ہے جس سے گوشت انسان کو ملتا ہے.اور گوشت کھانے والا اس لئے ظالم ہے کہ یا تو وہ خود کسی روح کو تکلیف دیتا ہے یا اس کے باعث کسی روح کو تکلیف دی جاتی ہے کیونکہ اگر وہ گوشت نہ کھائے تو لوگ جانور ذبح بھی نہ کریں، غرض یہ کہ اصل میں برا جانور کا مارنا ہے نہ کہ کھانا.آریوں کو تو

Page 387

چاہئے کہ اس بات پر زور دیں کہ جانور ذبح نہ کئے جائیں نہ کہ اسبات پر کہ کھائے نہ جائیں.* دریا ئی شکار بغیر مارنے کے ملتے ہیں اور بہت سی قومیں مردہ مچھلی کھاتی ہیں.اس اصول کے ماتحت ان کا کھانا جائز ہوگا.قربانی ہی میں زندگی ہے؟اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ گوشت خوری میں بری چیز جانوروں کا مارنایا ذبح کرنا ہے.ہم بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ یا پرمیشورکی طرف سے ہی لگا ہوا ہے اور کوئی جان زندہ ہی نہیں رہ سکتی جب تک کہ وہ اور جانوں کو اپنےلئے قربان نہ کرے اس لئے اس میں اگر کوئی ظلم ہے تو اس کا پیدا کننده خود پر میشور ہے.اوپرمیشور کی طرف ظلم منسوب نہیں ہوتا.بلکہ جو بات خداوند تعالیٰ کی طرف منسوب ہو جائے اورثابت ہو جائے تو اس کو ہم رحم ہی قرار دیتے ہیں.ہاں اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکے تو ہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی.کسی چیز کی وجہ سمجھ میں نہ آنے سے کسی مذہب پراعتراض نہیں ہو سکتا.مذہب کے لئے اتنا ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کردے کہ فلاں بات خدا کی طرف سے ہے اور جب وہ ایسا ثابت کر دے تو اب اس کی وجہ سے اسے جھوٹا نہیں کہا جاسکتا.مثلاًاگر آریہ یہ ثابت کر دیں کہ مادہ غیر مخلوق ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کی گواہی لا ئیں اور کسی شخص پرکھل جائے کہ واقعی خدا تعالیٰ نے ہی یہ کہا ہے تو اب وہ اس بات کی بناء پر کہ یہ بات عقل میں نہیں آئی آریہ مذہب کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا.کیونکہ سینکڑوں باتیں ہیں جن کی وجہ اور جن کا سبب لوگوں کو نہیں معلوم لیکن اس سے ان کے وجود میں کوئی شک نہیں ہو سکتا.ایک مریض کے اگر پیٹ میں درد ہوتی ہو تو اس وجہ سے کہ اس درد کا باعث معلوم نہیں اس و رو کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا.اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زندگی کا قیام ہی اس بات پر ہے کہ ایک جنس دو سری جنس کو قتل کرے یا ہلا ک کرے تو اب اس کا نام ظلم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی (یہ اس کے لئے ہے جس کی سمجھ میں نہ آئے ورنہ ہماری سمجھ میں تو آتی ہے.*لطیفہ اگر یہ اصول درست مان لیا جائے کہ چونکہ گوشت کھانے وا گوشت کھاتا ہے.اسی لئے جانور نہ کئے جاتے ہیں اور یہ بھی اس گناه میں شریک ہے تو خود آریہ بھی ملزم ہوں گے.گھاس پارٹی کے ممبر جو جوتیاں یابوٹ پہنتے ہیں یہ بھی آخر جانوروں کے چمڑہ سے بنتی ہیں اور ان کا جوتی یا بوٹ خریدنا اس فعل میں شریک ہوتا ہے اگر یہ جوتیاں نہ پہنیں تو ضرور چمڑہ کی خریداری کم ہو جائے اسی طرح ان کے گھروں میں ہزاروں چیزیں پروں کی استعمال ہوتی ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ پَر لینے کے لئے ہر سال لاکھوں جانور مارے جاتے ہیں چنانچہ بعض جانوراسی وجہ سے قریبا ً مفقود ہونے کو ہیں جن کے شکار کی ممانعت کے لئے کئی ایکٹ پاس کئے گئے ہیں تو جب کروڑوں ہندو ان پروں کی اشیاء کوخریدتے ہیں تو تجارت کی ترقی کی وجہ سے جانور بھی زیادہ مارے جاتے ہیں اس لئے یہ بھی غیرمذاہب کی طرح اس ظلم میں شریک ہیں اور جیسے گوشت کھانے والا مجرم ہے ویسے ہی جوتی یا بوٹ پہننے والا اور پروں کی اشیاء استعمال کرنے والا مجرم ہے.منہ

Page 388

دنیامیں ایسے جانور بھی ہیں جو گوشت کے سوا کچھ نہیں کھاتےمیرے اس دعویٰ کی تائید میں کہ سب جانوروں کا گزار ہ دو سرے جانداروں پر ہے سب سے پہلے یہ بات ہے کہ پرمیشور نے ایسےجانور پیدا کئے ہیں جو سوائے گوشت کے اور کچھ کھاہی نہیں سکتے.مثلا شیر، چیتا، باز،شکروغیره ان کی خوراک ہی گوشت ہے اور اس کے بغیر ان کی زندگی ہی قائم نہیں رہ سکتی.اگر یہ فعل ناپسند تھاتوایسی مخلوق پیداہی کیوں کی.اور ایک روح کو ایک گناہ کرنے پر مجبور کیوں کر دیا.اگر شیر چیتے وغیرہ کواختیار دیا جاتا کہ خواہ وہ گوشت کھائیں اور خواہ گھاس وغیرہ تب تو یہ جواب ہو سکتا تھا کہ جب دونوں قدرتیں اس میں رکھی گئی ہیں تو اب یہ اس کا قصور ہے اور پاپ ہے کہ وہ گوشت کھاتا ہے.لیکن یہاں تو اس میں کوئی اور طاقت اور قدرت رکھی ہی نہیں گئی جس سے معلوم ہوتاہے کہ پرمیشوراسی طرز زندگی کو اس کے لئے پسند کرتا ہے پھر اگر یہ ظلم ہے تو پرمیشور کی طرف سے ہے لیکن پر میشور کی طرف ظلم منسوب نہیں ہوتا اس لئے ماننا پڑے گا کہ یہ ظلم نہیں ہے.ہاں اگر کوئی کے کہ وہ تو مجبور ہے.انسان تو مجبور نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ فلم تماتو پر میشور نے اسے مجبور کیوں کیا.کیا پر میشور ظلم پر مجبور کرتا ہے.قد ا تعالیٰ کا اسے مجبور کر ناہی ثابت کرتا ہے کہ ظلم نہیں ہے.ایک آر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ جون اس روح کو سزا کے طور پر ملی ہے ، لیکن اس کا جواب یہ ہےکہ گناہ کیا تھا اس شیر کی روح نے اور عذاب ہو رہا ہے دوسروں کو.وہی ہرن کو کسی گائے کو کسی انسان کو کھا رہا ہے سزا تو دو سروں کو مل رہی ہے اس کا کیا نقصان ہوا؟ لیکن اعتراض تو یہ ہے کہ یہ کیسی سزا ہے جس کا نتیجہ اور گناہ پیدا ہونا ہے.گورنمنٹ کسی کو قید اس لئے کرتی ہے کہ وہ چوری اور ڈاکے سے بچے ، یا اس لئے کرتی ہے کہ اور چوریاں کرے.یہ تو ایسی سزا ہے جیسے ایک بج کسی چور کو یہ سزا دے کہ دس چوریاں اور کر - سزاتو مجرم کو گناہ سے بچانے کے لئے دی جاتی ہے یہاںایک گنہگار کو ایسی سزا دی گئی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اور گناہ کرے اور ابد الآباد کے لئے جو نوں کے چکر میں پھنسا ر ہے.اور اگر کوئی کہے کہ شیر کی جو ان میں جو خون و ہ کرے گا اس کی سزا اس کو نہ ملے گی تو پھر الزام آئے گا کہ جب اس کے ہاتھوں سے خون کرانے کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا تو اس سے خون کرانا جانوروں پر بلاوجہ ظلم کرانا ہے تو اس ظلم کی ابتداء نعوذباللہ خدا کی طرف سے ہوگی نہ کہ انسان کی طرف سے..

Page 389

غرض اسی قسم کے گوشت خور جانوروں کے وجود سے جو گوشت کے سوا کچھ اور نہیں کھاتےثابت ہوتا ہے کہ کسی جاندار کوذبح کرنا ظلم نہیں.ورنہ اللہ تعالیٰ پر نعوزذبالله ظلم کا اطلاق ہو گا.گوشت خوری کے مضمون پر بحث کرتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آریوں کے اعتقادکے موجب کل حیوانوں کی روحیں اصل میں ایک ہی قسم کی ہیں کیونکہ کبھی ایک روح سانپ بن جاتی ہے.اور کبھی انسان اور کبھی شیر اور کبھی باز پس تناسخ کے مسئلہ سے معلوم ہو تا ہے کہ سب حیوانوں کی روحیں ایک ہی قسم کی ہیں خواہ وہ خوردبینی کیڑے کی روح ہو یا ہاتھی کی اور چونکہ رات کو آریہ مفردمانتے ہیں اس لئے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ روح میں تغیر نہیں ہو تا.جس حالت میں روح انسان میں تھی اسی حالت میں اب وہ سانپ یا بچھو کے قالب میں ہوگی پس باریک سے باریک کیڑوں کی ہلاکت ایسی ہی ظالمانہ کاروائی ہوگی جیسی کہ انسان یا ہاتھی کی ہلاکت.اب ہم دیکھتے ہیں کہ علاوہ ان جانوروں کے جو کہ پیدا ہی گوشت خور کئے گئے ہیں باقی سب جاندار بھی اپنی زندگی کے قیام کے لئے دوسرے جانداروں کی ہلاکت پر مجبور ہیں.پیدائش سے موت تک انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے، بارہا اسے زخم لگتے ہیں اندرونی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں خوردبینی کیڑوں کی وجہ سے کئی بیماریاں اسے لاحق ہوتی ہیں اور ان بیماریوں کا علاج یہی ہو تا ہے کہ ایسی کرم کش دوائیاں استعمال کی جائیں کہ جن سے وہ کرم ہلاک ہوں اور انسان اس دکھ اور بیماری سے بچے اور کوئی مذہب اس فعل کو برا نہیں کہتا.جب تک خوردبین کی ایجاد نہ ہوئی تھی اس وقت تک تو بہت سے کیڑے دریافت نہ ہوئےتھے لیکن خور دبین کی ایجاد نے ثابت کر دیا ہے کہ اس ہماری دنیا میں باریک سے باریک کیڑےموجود ہیں جن کی ہزاروں قسمیں ہیں.اور جن کے ہلاک کرنے سے ہم بچ نہیں سکتے.اور وہ ایسےچھوٹے قد کے ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ خوردبین کے بغیر ہم انہیں دیکھ بھی نہیں سکتے.چنانچہ زولوجیکل اصطلاح کے رو سے ان کیڑوں کو پروٹوزوا کہتے ہیں.بعض انتڑیوں کی بیماریوں اور زخموں کے علاوہ آتشک کی ایک قسم بھی کیڑوں سے ہی پیدا ہوتی ہے.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کیڑوں کا ہلاک کرنا گناہ ہے.خور آر یہ ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے ہزار ہاکیڑوں کا روزانہ خون کرتے ہوں گے مگر انہیں کوئی ظالم نہیں کہتا حالا نکہ جیسی انسانی روح ہے دیسی ہی آر یہ اعتقاد کی رو سے ان کیڑوں کی روح ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ایک جان بچانے کے لئے ہزاروں جانوں کو ہلاک کیا جائے.بھابڑے اپنی طرف سے بڑی کوشش کرتے ہیں اور بعض منہ پر کپڑا باندھ لیتے ہیں تاکہ جَرم

Page 390

( Germs) منہ میں داخل نہ ہو سکیں لیکن خورد بینی اجرام کو یہ رکاو ٹیں کب روک سکتی ہیں اورانسان خواہ کتنی ہی کوشش کرے ان کی ہلاکت سے کب محفوظ رہ سکتا ہے.پس یہ خیال کہ مسلمان یا مسیح قومیں جانداروں کو ہلاک کر تی ہیں غلط ہے آریہ بھی روزانہ ہزاروں پر وٹوزواکاخون کرتے ہیں اور ان کے مذہب کی رو سے انسانی روح اور ان کیڑوں کی روح میں کچھ فرق نہیں.اسی طرح موتی، ریشم اور مشک ایسی اشیاء ہیں کہ جو بغیر جان لینے کے حاصل ہو ہی نہیں سکتے اور مشک کا استعمال تو ہندؤوں کی عبارتوں کا ایک جزو ہے.سل کا علاج مچھلی کا تیل ثابت ہوا ہے اسی طرح معدہ کی مختلف بیماریوں کے لئے پیسین بے نظیردوائی مانی گئی ہے جو کہ معدہ کے گلینڈز کا رس ہوتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ ان مفید دواؤں کےاستعمال سے آریہ پر ہیز کریں گے.اسی طرح انسان کی پیدائش میں تین مختلف کیڑوں کی ہلاکت رکھی گئی ہے انسان کی منی میں بہت سے سپر میٹوزوا پائے جاتے ہیں اور انہی میں سے ایک کا بچہ بنتا ہے.اور وہ رحم مادر میں بیج کا کام دیتا ہے لیکن باقی سب کے سب فنا ہو جاتے ہیں مرجاتے ہیں یا غذا بن جاتے ہیں اب بتایئے اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے.سینکڑوں دفعہ انسان اپنی عمرمیں جماع کرتا ہو گا.اور اس سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا.تو ہر دفعہ وہ کئی جانوں کا قاتل بنتا ہے لیکن آریہ اس پر اعتراض نہیں کرتے.چونکہ شہوت انسان کے اندر ایک زبردست طاقت رکھی گئی ہے اس لئے اس خون سے بچنا تو انسان کی طاقت سے باہر ہے ہر ایک انسان کو اس میں مبتلا ہو نا پڑے گا.اور اگر انسان جماع کرنا ہی چھوڑ دیں تو پھر نسل انسانی کاخاتمہ ہے.اور اگر ایک جماع میں ایک بچہ بھی پیدا ہو تب بھی بہت سے سپرمیٹو ز وابے فائدہ ہلاک ہو جائیں کے پسں نہ صرف یہ کہ انسان و حیوان کو زندگی کے مختلف اوقات میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے مختلف جانوں کا خون کرنا پڑ تا ہے بلکہ انسان و حیوان کی نسل ہی تب چل سکتی ہے جبکہ بعض جانوں کا خون کیا جائے اب اگر یہ فعل ظلم ہے تو اس ظلم کا پانی نعوذ باللہ پرمیشور ہے جس کی طرف ظلم کا منسوب کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ یہ ظلم نہیں ہے.حیوان تو حیوان بعض پودوں کو بھی اپنی پرورش کے لئے جان لینی پڑتی ہے چنانچہ فلائی ٹریپ ایک پودا ہو تا ہے کہ جس کے پتوں میں ایک خاص حس ہوتی ہے اور جس وقت ان پر کوئی کیڑا آکربیٹھے تو وہ چھوئی موئی کے بیورو کی طرح اپنے پتوں کو سکیٹر لیتا ہے اور اس کو کھا جا تا ہے.اور بغیر اس کے اس کی کامل پرورش ہوتی ہی نہیں ہے کیونکہ اگر کیڑوں کو نہ کھائیں تو کافی نائیٹروجن ان کے

Page 391

جسم میں نہیں پہنچی اور اس کے بغیر ان کی پرورش محال ہے پس انسان تو خیر انسان تھاپر میشور نے تو جانداروں کو ہلاک کر کے کھانے کا کام تو پودوں کے بھی سپرد کر دیا ہے.اب باوجود اس قدر دلائل کے کہ تمام حیوان اور بعض پودے اپنی جان کی حفاظت کے لئےدوسرے جانداروں کی ہلاکت پر مجبور ہیں یہ الزام لگانا کہ جانداروں کا ذبح کرنا ایک بڑا ظلم ہے خودظلم ہے.جب ہماری زندگی کا دارومدار ہیں اس بات پر رکھا گیا ہے تو پھر یہ ظلم کیونکر ہو سکتا ہے.اورجب یہ ظلم نہیں تو ہم اپنی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے بعض جانوروں کو مار سکتے ہیں اور جب مار ناہی ظلم ثابت نہ ہوا تو گوشت کا کھانا تو پھر کسی صورت میں قابل اعتراض رہا ہی نہیں کیونکہ ذبح کرد و جانور کا گوشت ایک بے جان چیز ہے.اس کے کھانے یا پکانے میں کسی قسم کے ظلم یا دکھ کا کچھ تعلق نہیں.کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے جس قدر مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں تو انسان مجبوری سےیہ کام کر تا ہے اور گوشت کھانے کے لئے جو جانور ذبح نہ کئے جاتے ہیں ان میں نہ کوئی مجبور ی ہے اورنہ اشد ضرورت اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں لیکن اب پھر لکھتا ہوں کہ مجبوری کے شک استثناء میں داخل ہوتی ہے لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ اس ہلاکت کے فعل پر تمام کے تمام انسان قریبا ًہر روز کسی نہ کسی طریق پر مجبور ہیں اگر یہ مجبوری اس قسم کی ہوتی کہ کروڑوں میں سے ایک آدمی برسوں میں ایک دفعہ اس فعل پر مجبور ہو جاتا تو ہم کہتے کہ تھا تو یہ ظلم لیکن مجبوری میں آگئی کیا کیاجائے.لیکن یہاں تو بات ہی اور ہے ایک فعل کے کرنے پر ہم سب کے سب قریبا ہر روز مجبورہوتے ہیں اب اسے ظلم کیونکر کہہ سکتے ہیں اتفاقی بات ہوتی تو خیر یہ بہانہ ہو سکتا تھا لیکن یہ رکاوٹ توہرانسان کے راستہ میں درپیش ہے اس لئے اس کو مجبوری کہہ کر ظلم نہیں کہہ سکتے.دوسرے جس قدر مثالیں دی گئی ہیں وہ سب کی سب مجبوری سے نہیں ہیں موتی ،مشک،ریشم کا حصول اور چمڑے کا استعمال اس میں کوئی مجبوری نہیں لیکن ہزاروں ہیں جو گوشت کے استعمال کو برا کہتے ہیں اور ان چیزوں کا استعمال کرتے ہیں پھر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں ایک دفعہ کے جماع میں کئی جانوں کا نقصان ہو جا تا ہے وہ کہاں کی مجبوری ہے.آریہ گوشت خور ہیںمذکورہ بالا دلائل کے علاوہ ایک بات اور خاص طور سے قابل غور ہےوہ یہ کہ خود پنڈت دیاننداپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتا ہے’’ جونہایت درجہ کے تموگنی ہیں وہ نہ چلنے والے درخت وغیرہ کا کیڑے مکوڑوں کا مچھلی ، سانپ ، کچھوے

Page 392

مویشی اور مرگ (جنگلی چوپائیہ) کا جنم پاتے ہیں ( صفحہ ۳۳۶).اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ پودا اور درخت بھی وہی روح رکھتے ہیں کہ جو انسان میں ہے پھر جانور کے ذبح کرنے یا درخت کے کاٹنے یا اس کا پھل توڑنے یا کھیتی کو کاٹنے میں کیا فرق رہے گا جیسا دکھ ایک جانور کوذبح کرنے سے اسے ہوتا ہو گا.ایسا بلکہ اس سے بھی زیادہ درخت یا اس کے پھل کے کاٹنے سے ہوتا ہوگا.کیونکہ جانور تو ایک منٹ میں ذبح ہو جا تا ہے اور درخت کوکاٹتے ہوئے بہت دیر لگتی ہے.پھرپھل کاٹنا یا شاخ کاٹنا تو اور بھی خطرناک ہے اور بالکل ایسا ہے جیسےہم آدمی کی انگلیاں کاٹ دیں.یا ہاتھ پاوں توڑ دیں پس اس صورت میں آر یہ مسلمانوں کی نسبت زیادہ پاپ کماتے ہیں اور گوشت خوروں کی نسبت ان کو زیادہ خوف لگا ہوا ہے.اور جب ان اشیاءمیں بھی جان ہے تو انسان اب کھائے کیا اور زندہ کس طرح رہے؟ حرام حلال کی حقیقتاب اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ جانداروں کے ذ بح کرنےکا کل پاپ نعوذ بالله پر میشور کے اپنے علم اور جبر سے ہے، اور آریہ بھی مسلمانوں یا دیگر اقوام کی طرح اس فعل میں شریک ہیں.میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی فعل حرام یا حلال کیوں قرار دیا ہے سو یاد رہے کہ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی چیز حرام تبھی کی جاتی ہے کہ جب وہ عقل کے لئے ،جسم کے لئے، اخلاق کے لئے یا روحانی قویٰ کے لئے مضر ہو اس کے سوا اللہ تعالیٰ کسی فعل کو منع نہیں کر تا خواہ وہ کھانے کا ہو، پینے کا ہو، معاملات سے ہو، عبادات سے ہو اور منع صرف اسی صورت میں کرتا ہے کہ جب مذکورہ شرائط میں سے کوئی شرط پائی جاوے یا ایک سے زیادہ شرائط پائی جائیں.اسی طرح گوشت خوری کے متعلق جن جانوروں کا گوشت مذکورہ شرائط کے ماتحت آتا تھا ان کا مارنا منع کر دیا.جیسے سور کا گوشت کھانا یا انسان کو مارتا کہ یہ کام اخلاق کیلئے اور روح کے لئے مضر ہیں اور جن جانوروں کا مارنا یا کھانا ان شرائط کے تحت نہ تھا ان کی نسبت منع نہیں فرمایا.جس کا جی چاہے کھائے اور فائدہ اٹھائے.اس میں کیا شک ہے کہ جسم انسانی گوشت پوست ہڈیوں اور اعصاب وغیرہ سے بنا ہوا ہے اوراس کی اعلیٰ غذا وہی ہوگی جو ان اشیاء کی جن سے انسان مرکب ہے پرورش کرے.اور ایسی غذائیں اکثر حیوانات و نباتات میں پائی جاتی ہیں اور انسان کے لئے ضرور ی ہے کہ چن کر وہ غذائیں استعمال کرے جو اس کے لئے زیادہ مفید ہوں ادنی ٰ سے ادنیٰ پودا اور ادنی ٰ سے ادنی ٰ حیوانات ان غذاؤں کو استعمال کرتے ہیں جو ادنی ٰ درجہ کی مرکب ہوتی ہیں.اور جوں جوں وہ نباتی یا

Page 393

حیوانی مادو میں ترقی کرتے ہیں ان کی غذا زیادہ مرکب ہوتی جاتی ہے اور وہ ضروری اغذیہ کو ادنی ٰ مرکبات سے نہیں لے سکتے.انسان چونکہ اعلی ٰسے اعلی ٰحیوان ہے اس کے لئے اعلی ٰسے اعلیٰ مرکبات کا استعمال ضروری ہے.اور السيومن کے استعمال کے بغیر انسانی جسم کی خوراک بالکل ناقص رہتی ہے بعض پودوں میں بھی البیو من کی ضرورپایا جاتا ہے لیکن گوشت میں تو ایک بڑا حصہ البیو من کا ہوتا ہے اس لئے البیو من کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گو شت بہ نسبت دوسرےپودوں کے زیادہ مفید ہے.ہاں بعض اغذیہ ایسی بھی ہیں جو نباتات سے زیادہ عمدہ مل سکتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نباتات و حیوانات دونوں کے استعمال سے نہیں روکا اور دونوں کا استعمال ان کے لئے جائز قرار دیا ہے.لیکن جو اشیاء کی صورت میں مضر تھیں ان سے منع کردیا ہے.چونکہ انسانی جسم کے لئے البیو من کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور یہ بہت جلد خون میں ملتی ہے.اس لئے گوشت کا کھانا بھی انسان کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ گوشت میں بہت کثرت سے پائی جاتی ہے اسی طرح بعض ضرورتوں کے لئے نباتات کا استعمال عمد ہ و مفید ہے.اور اللہ تعالیٰ مفید اشیاء کے استعمال سے انسان کو نہیں روکتا.گوشت کا استعمال ایک بہت معمولی بات تھی لیکن آریوں نے خواہ مخواہ اسے بڑھادیا ہے ایسی اہمیت دی ہے کہ ایک دوست کے پیش کرنے پر ہم کو بھی رسالہ ( تشحیذ الاذہان) کے کئی صفحہ صرف کرنے پڑے لیکن ان صفات کا کوئی افسوس نہ ہو گا اگر کسی شخص کو فائدہ پہنچ جائے اور وہ سمجھ لے کہ یہ باتیں معمولی ہیں اور مذہب کی سچائی کا ان سے کچھ تعلق نہیں مذہب کچھ اور ہی ہے اور پھر اس اصول کو سمجھ کر مذہب کی طرف توجہ کرے.مرزا محموداحمد (تشحیذ الاذہان جولائی ۱۹۱۱ء)

Page 394

۳۶۵ مدارجِ تقویٰ (تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ء) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 395

Page 396

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مدارجِ تقویٰ (تقرير جلسہ سالانه ۱۹۱۱ء) قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌؕ-اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (الزمر ۱۱) درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہےحضرت مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں.درخت اپنےپھلوں سے پہچانا جاتا ہے.یہ ایک ایسا پکا سچااورایسا پاک کلمہ ہے کہ اس میں زمانے کے تغیرات، ملکوں ،حکومتوں ، علموں اور سانوں کےتغیّرات نے ذرا بھی تبدیلی نہیں پیدا کی.۹۰۰) و برس گذر گئے.لیکن اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فقرہ’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.‘‘بالکل صحیح ہے.جب میں رسول کریمﷺا کی صداقت کو اسی جملہ میں مرکوز دیکھتا ہوں تو یہ فقرہ مجھے بڑا مزادیتا ہے.واقعی درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.دیکھو آم کا درخت ہے.اس میں اگر ایسے پھل نہیں لگتے جس سے لوگ نفع اٹھائیں تو وہ آم کس کام کا.اگر وہ شیریں پھل دیتا ہے تو آم ہے ورنہ ایک لکڑی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.اسی طرح اگر انگور کی بیل میں انگور عمدہ لگتے ہیں تووہ انگور ہے ورنہ محض ایک گھاس ہے.رسول کریمﷺ اسلام کی پاک زندگی کا معیارہمارے رسول اللہ ﷺ کی ذات پربہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں اوربعض بے باک شریر آپ کو بدیوں میں ملوث بتاکراس سورج کو چھپانا چاہتے ہیں جس سے تمام جہان روشن ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہی فقرہ آپﷺ کے چال چلن کی برّیت کے لئے کافی ہے.کیونکہ

Page 397

انسان جس قسم کا ہو اسی قسم کی باتیں کیا کرتا ہے.اس کے متعلق مجھے ایک قصہ یاد آیا ہے.رابعہ بصریؒ ایک مشہور بزرگ عورت گذری ہیں.ان کے سامنے چند آدمیوں نے مسجد میں دنیا کی مذمت کی اور اس قدر مذمت کی کہ عصر کا وقت آگیا.عصر کے بعد پھر اس طائفہ نے دنیا کی مذمت شروع کردی.آپ نے غضب ناک ہو کر کہا کہ اتنا تم دنیا کے طالب ہواسی لئے دنیا کا ذکر کرتے ہو کیونکہ انسان کو جو چیز پسند ہو اسی کا ذکر کرتا ہے بعض اوقات محبوب کے شکوہ میں وہی مزا آتا ہے جو اس کی تعریف میں آیا کرتا ہے غرض انسان کو جس سے محبت ہو اسی کا اکثر ذکر کرتا ہے.یہی اصل ہاتھ میں لے کر رسول کریم ﷺ کی زندگی پاک ثابت کرنے کو میرے لئے قرآن مجید کافی ہے.كان خلقہ القران یوں تو عیسائیوں نے آپ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں.اور مسلمانوں نے مجاہد النبی میں جو کچھ لکھا ہے وہ بہت زیادہ ہے.لیکن ایک معترض کہے گا کہ یہ دونوں نا قابل اعتبار ہیں.ایک مسلمان نے خوش اعتقادی سے کہنا ہی ہوا کہ آپﷺ کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف لگی رہتی تھی.اور ایک عیسائی کامذہبی فرض ہے کہ اس کےخلاف کہے.پس تاریخ معیار نہیں.ہاں قرآن شریف ضرور قابل اعتماد ہے جو تبدیل نہیں ہوا.عیسائیوں اور یہودیوں کے خیال میں نبی کریم ﷺ کا اپنا بنایا ہوا ہو.اور مسلمانوں کے نزدیک خدا کا کلام.دونوں صورتوں میں نبی کریم ﷺ کی زندگی پاک اور مطّہرثا بت ہو تی ہے.کیونکہ ان پاک خیالات کا منبع وہی قلب ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو.اگر کوئی قلب اس قسم سے پاک و جامع کلام کا اہل ہو تاتو آدم ؑسے لے کر آپ ﷺکے زمانہ تک کسی اور نبی پر یہ القاء ہوتا.ابراہیم ؑبھی خدا کو بہت پیارا تھا.موسیٰؑ بھی بہت پیارا تھا.عیسیٰ بھی.مگر ان پیاروں میں سے کسی کو وہ کلام نہ دیا بلکہ اپنے سب سے پیارے نبی عربیﷺ کو دیا.انسان کی فطرت میں بھی یہ امر ہے کہ وہ اعلی ٰسے اعلی ٰعمدہ سے عمدہ چیز اپنے پیارے بچے کے لئے رکھتا ہے.پس خدا نے بھی اپنا لاثانی کلام اپنے اسی بندے کو دینا تھا جو سب پیاروں سے زیادہ پیارا تھانہ کہ کسی گندوں سے بھرےہوئے انسان کو جیسا کہ نعوذ باللہ مخالفین کا آنحضرتﷺ کے بارے میں گمان ہے.غور کرنےکی بات ہے کہ قرآن مجید کا کوئی رکوع بلکہ کوئی آیت عظمت و جبروتِ الہٰی کے ذکر سے خالی نہیں.جس سے واضح ہوتا ہے کہ آنخضرتﷺ کو کس قدر تعلق و اخلاص اللہ تعالیٰ سے تھا پھر مختلف حالات و اوقات کے متعلق جو احکام ہیں ان پر غور کریں تو بھی آپﷺ کی پاک و مطّہر زندگی کا ثبوت ملتا ہے ، جب ہم کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے دیکھو کیا کرنے لگے ہو پہلے بسم اللہ کہہ

Page 398

لو.جب کھانا کھا چکتے ہیں تو حکم ہو تا ہے الحمد للہ کہہ لو ورنہ ناشکری ہوگی.اس ذات کا شکر ضروری ہے جس نے رز ق بخشا ، صحت بخشی معدہ دیا، دانت دیئے.اسی طرح جب ہم کوئی کام شروع کرنے لگتے ہیں تو وہ خیر خواہ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ تمهارا علم ناقص ہے تمہاری قوت میں کمزوری ہے پس اس پاک و قدوس قادر و مقدر سے مدد مانگ کر شروع کرو استخارہ کر لو.نکاح کے لئے یٰۤاَیُّهَاالنَّاسُ اتَّقُوْارَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ (النساء:۲) سناکر خد اکاڈر یا د دلا دیا.اسی طرح جب ہم صبح کے وقت نیند سے اٹھتے ہیں تو ہم کو حکم ہوتا ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے خدا کی تسبیح و تحمید و تقدیس کر لو.پھر جب سورج ڈھلنے لگتا ہے تو یاد خدا کا حکم ہوتا ہے تاکہ تمہاری روحانیت کا آفتاب اسی طرح زائل نہ ہو جائے.پھر عصر کے وقت جب آفتاب کی حدت بہت کچھ کم ہو جاتی ہے تو پھر خدا کے حضور گڑ گڑانے کا حکم دیا.پھر جب سورج ڈوب جاتا ہے تو اس وقت بھی دعا کا حکم ہےکہ الہٰی جس طرح یہ جسمانی سورج ڈوب گیا ہے روحانی سورج نہ ڈوب جائے اور ہم انوار خداوندی سے محروم نہ رہ جائیں.پھر جب بالکل اند ھیرا پڑ جاتا ہے تو پھراس نور السموت والارض(النور: ۳۶) کے حضور کھڑا ہونے کاحکم دیتا ہے ایسا نہ ہو کہ ہم طرح طرح کی ظلمات میں ر کر تباہ ہوجائیں.یہ تعلیم یہ پاک تعلیم کیا کسی گندے انسان کے دل سے نکل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ یہ اسی شخص کےپاک قلب سے نکل سکتی ہے جس کی زندگی نہایت مطہر اور سارے جہان کے لئے نمونہ ہو، یا د رکھو جو شخص دنیا کو جس قدر دین کی طرف متوجہ کرتا ہے یقینا وہ اس قدر خدا کا والہ و شیداہے.پس یہ تعلیم کہ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے ہروقت خدا کو یاد رکھو.اس اخلاص، اس محبت، اس عشق، اس پیار، اس شیفتگی کا پتہ دیتی ہے جو نبی کریم ﷺکو خدا سے تھی.پھر اسی تعلیم کا اثر دیکھ کر مسلمانوں کے بچے بوڑھے جوان عورتیں سب اسی رنگ میں رنگین ہیں.کوئی بچہ گرتا ہے تو فوراً منہ سے حسبک اللہ، جب کوئی خوشی ہوتی ہے تو زبانیں پکار اٹھتی ہیں الحمدللہ - آخر یہ بات کس نے ان کے دل میں ڈالی؟ رسول کریمﷺ نے.انسان اپنے پیارے کا نام کسی نہ کسی بہانے سے ضرور سننا چاہتا ہے.پس نبی کریم ﷺکا پیار ا تو خدا تھا.آپ نے ہر حرکت و سکون ہر قول و فعل سے پہلے پیارے کا نام بتا دیا.سب سے نازک خطرناک موقعہ تو انسان کے لئے وہ ہوتا ہے جب شہوت کا بھوت اس کے سر پر سوار ہو.جس وقت انسان سب کچھ بھول کر صرف اسی خیال میں محو ہو جا تا ہے.اور جب وہ دنیا اور دنیا کے پیاروں سے الگ ہو کر ایک پیارے میں

Page 399

منہمک رہ جاتا ہے تو ایسے جوش کے وقت بھی نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہوتا ہے.کہ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا‏ پڑھ لیا کرو.غرض کسی دلیل کی ضرورت نہیں.تاریخی شہادت کی حاجت نہیں.صرف قرآن مجید ثابت کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ہر قول وفعل خداکے لئے تھا اور آپ ﷺ کی زندگی پاک و مطہر تھی.قرآن مجید سے پہلے اعوذ پڑھنے کی تعلیم میں حکمتلوگ مذاہب بناتے ہیں کوئی کہتاہے کہ گدی بن جائے، کسی کوحکومت کا شوق ہوتا ہے، کسی کو دولت جمع کرنے کا خیال - غرض مختلف وجوہات ہیں جن سے لوگ دین اختیار کرتے ہوں گے.کوئی عیسائی بنتا ہے تو اسے یہ بھی خیال آتا ہو گا کہ میرے ضلع کے ڈپٹی یا میرے صوبہ کے لیفینینٹ گورنر یا میرے ملک کے وائسرائے خوش ہو جائیں گے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ وہی تعلیم دیتا ہے جس سے خدا کا قرب خدا کی خوشنودی حاصل ہو.وہ اپنے پیرؤوں کوتعلیم دیتے وقت ارشاد فرماتا ہے کہ شاید تمهارے دل میں کوئی وسوسہ آجائے.اس لئے اعوذ اوربسم اللہ پڑھ لینی چاہئے.جن کو محض اپنا مذہب پھیلانے کا شوق ہوتا ہے وہ تو کہتے ہیں کہ ہمارےمذہب میں داخل ہو خواہ کسی طرح.مگر یہاں ارشاد ہے کہ یہ دروازه عشق الہٰی کا ہے اس میں شیطانی ملونی سے نہ آؤ.بلکہ شیطان پر لعنت بھیج کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ کر ،پھر یہ اَعوذ نہ صرف ابتداء میں ہے.بلکہ انتہاء میں بھی یہی ارشاد ہوتا ہے کہ قل أعوذ برب الناس پڑھ لو.جس سے یہ مراد ہے کہ الہٰی میں نے تیری کتاب کو پڑھاہے.ممکن ہے کہ کئی قسم کے قصور سرزد ہوئے ہوں.اپنی عظمت کا خیال آگیا ہو کہ میں صوفی بن جاؤں ،لوگ مجھے بزرگ کہیں، میرے پاؤں چومیں ، پس اپنے رب کی پناہ میں آکر عرض کرتا ہوں کہ محض اسی کی محبت ہو جس کی خاطر میں لوگوں کو اس کی تلقین کروں.قرآن مجید کی تعلیم کا خلاصہیوں تو سارا قرآن مجید تقویٰ کی تعلیم سے لبریز ہے مگر جو آیت میں نے آپ لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے.اس میں بھی ایک خاص رنگ میں تقویٰ کی ہی تعلیم دی گئی ہے.جس سے اس بات کا ثبوت مل سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی زندگی کیسی پاک اور تقوی ٰسے لبریز تھی.بلکہ میرا مطلب یہ ہے.کہ یہ پاک تعلیم اسی کو مل سکتی تھی جو خود تقویٰ سے معمور ہو.اس لئے اس کتاب سے رسول اللہ ﷺکی قلبی کیفیت ہم معلوم کر سکتے ہیں.کیاہی خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے یہ پاک کلام خود رسول اکرم

Page 400

ﷺ کے منہ سے سنا.دیکھو دہلی میں دربار ہوا.بادشاہ سلامت نے جو کچھ فرمایا وہ اخباروں کے ذریعے کئی کانوں تک پہنچ گیا.مگر جو لذّ ت ان لوگوں کو آئی ہوگی جنہوں نے خود بادشاہ کے منہ سے سنا وہ ان لوگوں کو نہیں آسکتی جنہوں نے اخباروں میں پڑھا.پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ قرآن مجید ایسا پاک اور مؤثر کلام ہے کہ تیرہ سو برس گذر جانے پر بھی اپنے اندر ایک ایسی لذت رکھتا ہے کہ پاک دل مؤمن تو متوالے ہو جاتے ہیں.قرآن مجید کی تلاوت سے معلوم ہو تا ہے کہ اس میں تین باتوں پر بہت زور ہے.اول تو یہ کہ الله ایک جامع جمیع صفات کاملہ، کل عیبوں اور نقصوں سے منزہ ہستی ہے اور وہ ہی و ہ ہے اور کچھ بھی نہیں (دوم) اس کے مقابلہ میں تمام مخلوقات بلکہ اشرف المخلوقات انسان تک ہیچ ہے اور ناکارہ اور حاجتمند - اسی کی مہربانیوں کا محتاج ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اسی کا ہو کر رہے اسی سے پیار اسی سے محبت رکھے.اور (سوم) چو نکہ سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہو اس لئے آپس میں محبت کرو.جن چیزوں میں ذرا بھی مشابہت یا مناسبت ہو ان کی آپس میں الفت ہو جاتی ہے.حضرت محی الدین ابن عربی ؒنے دیکھا کہ ایک کوا اور کبوتر اکٹھے بیٹھے ہیں وہ حیران ہوئے کہ ان کا کیا جوڑ ہے.کوئی ہم میں سے ہو تا تو خیال بھی نہ آتا.اور آتا بھی تو یہ کہتے ہوئے آگے گزر جاتا کہ کون اپنا وقت ضائع کرے.مگر وہ بھی اپنی نظیر آپ تھے وہیں ٹھہر گئے اور دیکھتے رہے.آخر معلوم ہؤا کہ ان دونوں کے پر ٹوٹے ہوئے ہیں اور اسی مناسبت سے وہ اکٹھے بیٹھے ہیں.پس ہم لوگ بھی جب سب خدا کے ہیں تو کیوں لڑیں ،جھگڑیں.کیوں نہ آپس میں محبت رکھیں.ایک ہی بادشاہ کی رعایا ہو کر لڑائی کیسی ؟ اللہ کی عظمت، جلال ، جبروت پر ایمان، اپنے نفس کی اصلاح، آپس میں بنی نوع انسان کا محبت و پیار یہ نچوڑ ہے تعلیِم قرآنی اور اسی کو اعلیٰ سے اعلیٰ مختلف پیرایوں میں ذکر فرماتا ہے.ہدایت کے دو طریق ہیں.احسان یا عتاباور اس نصیحت و ہدایت پر عمل کرانے کےدو طریق ہیں.انعام و عتاب باپ اپنے بیٹے کوپہلے تو کہتا ہے کہ لویہ پیسہ لو اور مدرسے جاؤ لیکن اگر پیسہ لے کر نہیں جا تاتو پھر اسے باوجود پیار کے تھپڑ مار تاہے.یہ دو طریق اس لئے ہیں کہ بعض طبائع احسان سے مانتی ہیں اور بعض خوف سے.اسی لئے قرآن شریف جو ہر قسم و ہر طبیعت کے لوگوں کو ہدایت سکھانے آیا ہے دونوں طریقوں سے کام لیتا ہے.انسان بھی جتا تاہے اور خوف بھی دلاتا ہے.یعنی اگر احسان نہ مانو گے تو د کھوں میں ڈال سکتا ہے.اگر مانو گے تو انعام پاؤ گے.لوگ کہتے ہیں کہ خدارحمنٰ و رحیم ہے وہ پھر ایسا کیوں کرتا

Page 401

ہے.طاعون کیوں بھیجا ایسے لوگ احمق ہیں اور طبائع کا علم نہیں رکھتے.اگر بچہ پیسہ لے کر بھی مدرسے نہیں جاتا تو اب اسے مار کر بھیجنا باپ کا ظلم نہیں.اگر کوئی شخص کنویں میں چھلانگ مارنے گئے ، اور ایک دوسراآدمی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دے تو وزو نظام نہیں بلکہ رحیم ہے جب دونوں قسم کی طبیعتیں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں نافرمانی کرنے والوں کو ڈر نہ دلائے.اگر دس آدمی جنت میں جائیں گے تو غالباً ان میں پانچ ایسے ہوں گے جو خوف الہٰی کی وجہ سے نیک ہوئے اوراس لئے دوزخ سے بچ گئے ہیں پس اگر تخویف کا پہلا درجہ ترک کردیا جاتا تو شاید نصف جنتی جنت حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے.رسول کریم اﷺکے بارے میں لست عليهم بمصيطر (الغاشیہ : ۲۳) آیا ہے.مگر میں تو کہا کر تا ہوں کہ کاش رسول کریم ﷺ ہم پر داروغہ ہوتے تو لوگوں کا اکثر حصہ جہنم میں پڑ جانے سے بچ جاتا.یاعبا الذين أمنوااس قدر تمہید کے بعد میں ان آیات کے معنے کرتا ہوں قل اے میرے پیارے رسول کہدو.اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو - یٰعِبَادِ کہنے میں جو لطف ہے اس پر میں زور دیتا ہوں.کیو نکہ شاید سب لوگ نہ سمجھیں.لیکن چونکہ مجھےبچپن سے شاعرانہ مذاق رہا ہے.اس لئے میں اس کا خوب مزاحاصل کرتا ہوں.جن میں ذرا بھی محبت کا مادہ ہے وہ اس طرز خطاب کی لذت سے خوب آشنا ہیں.اس دنیا کے فانی محبوبوں کی طرف سے عشاق آرزو کیا کرتے ہیں کہ کاش وہ ہمیں اپنی گلی کاکتا ہی کہہ دے کوئی گالی ہی دیدے.تو اس محبوب حقیقی سے جو حسن و احسان کا سرچشمہ ہے یَاعبِادِ میں جو محبت کی چاشنی ملی ہوئی ہے اسے کچھ وہی دل مجھ سکتے ہیں جو اس کو چہ سے آشنا ہیں.الذين امنواپھریا عباد ہی نہیں کہا بلکہ فرمایا الذين أمنوایعنی اے وہ بندو جو اس بات کے مدعی ہو کہ مجھ پر ایمان رکھتے ہو یا د رکھو کہ صرف دعویٰ کوئی چیز نہیں.میں ایمان ایک دعویٰ ہے اس کے ساتھ عمل بھی چاہئے.اور جو زبانی دعوی ٰکرتا ہے مگر عمل نہیں کرتا.اس میں اور پاگل میں کچھ فرق نہیں.آپ ایک پاگل خانہ میں جا کر دیکھیں وہاں بھی وہی نظارہ نظر آئے گا.میں گیا تو ایک پاگل کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں بادشاہ ہوں، مہدی ہوں، میں ساری دنیا کو فتح کر لوں گا.پھر ایک اور پاگل کو خلیفۃ المسیح نے دیکھا کہ کنکریوں کا ڈھیر کے لگا کر بیٹھاہے اور اپنے تئیں خزانوں کا مالک سمجھ کر کہہ رہا ہے کہ تم لاکھ لے جاؤ ، تم دس لاکھ لے جاؤ.اب ان پاگلوں اور اس شخص میں کیا فرق ہے جو مؤمن ہونے کامدعی ہے مگر عمل مؤمنوں والے نہیں

Page 402

کرتا.غرض جو صرف زبانی باتیں بنانے والا ہے وہ پاگل ہے.جس طرح پاگل کہتا ہے میں بادشاہ ہوں ، حکیم ہوں ، طبیب ہوں،مہندس ہوں‘ سلطان ہوں، اور اس سے وہ سچ مچ بادشاہ وغیرہ نہیں بن جاتا.اسی طرح اگر کوئی شخص محض زبان سے کہتا ہے کہ میں مؤمن ہوں اوراس کے مطابق اس کے اعمال نہیں تو وہ ان انعامات کا وارث نہیں ہو سکتا جو مؤمن کے لئے مقرر ہیں.پس میرے دوستو !تمہیں پاگل خانہ دیکھنے کے لئے لاہور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ خود تمہارے گھر میں پاگل خانہ کا نظارہ موجود ہے.جو شخص کہتا ہے کہ میں مؤمن ہوں اور عمل ویسے نہیں کرتا وہ پاگل کی طرح ہی ہے.کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو ایک ایسا درجہ دینا ہے جس کا حقیقتاً وارث نہیں.اتقو ربکم اپنے رب کا تقوی ٰاختیار کرو.یہاں احسان و خوف دو نوں یاد دلا دیئے ہیں.کس کا تقویٰ کرو.اپنے رب کا.زمین جس پر سوتے ہو وہ کس کی ہے؟ اسی رب کی.آسمان کو کس نے بنایا؟ خدا نے.آنکھوں میں نور کس نے بخشا؟ خدا نے.جس کے ذریعے ایک دوسرے کو پہچانتے رستہ دیکھتے اور کتابیں پڑھتے ہو، پھر ہاتھ، دماغ، دل بھی اسی نے بخشے جن چیزوں سے ہم کام لیتے ہیں پھر جن قوتوں سے ان کو استعمال میں لاتے ہیں وہ سب ہی رب کی دی ہوئی ہیں.تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس کے فرمانبردار رہیں؟ کہتے ہیں چور جس گھر پر کھانا کھالے وہاں چوری نہیں کرتا.حالانکہ چور ایساذلیل ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرتا تو پھر جس کا تم روز کھاتے ہو اسی کی نمک حرامی کرو تو اس چورسے بد تر ہو یا نہیں.کان ، حلق، زبان ،منہ، پانی سب کچھ خدا کا دیا ہو مگر محبت کریں َاوروں سے اور اپنے حقیقی محسن کو بھول جائیں.کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے.کیا لطیف نکتہ معرفت ہے اس حکایت میں جو میں نے پچھلے دنوں پڑھی کہ ابراہیم ادہمؒ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھ سے گناہ نہیں چھوٹ سکتے.آپ نے فرمایا چھ باتیں بتاتا ہوں ان پر عمل کرو پھر بے گناہ کر لیا کرو (ا) جب تو خدا کا گناہ کرے تو خدا کا بنایا ہوا رزق نہ کھائیو (۲) دوسرا یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرنا ہے تو خدا کے ملک میں نہ رہیو.(۳) یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرنا ہے تو خدا سے چھپ کر کیجئیو (۴) چہارم یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرتا ہے تو ملک الموت جب آوے تو کہنا کہ مجھے اتنی مہلت دو کہ میں توبہ کر لوں.(۵) پنجم یہ کہ اگر وہ نہ مانے تو پھر منکر نکیر جب سوال کریں تو ان سے انکار کر دینا کہ میں تمہارے سوالوں کا جواب نہیں دیتا (۲) ششم یہ کہ جب تھے دوزخ میں ڈالنے لگیں تو اَ ڑ بیٹھنا کہ میں تو یہاں نہیں جاتا.اس نے عرض کیا کہ حضور یہ تو نہیں ہو سکتا.فرمایا پھر کیسی بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ تو اس کا رزق کھاتا ہے اس کی زمین پر رہتا ہے

Page 403

پھر موت کا مالک نہیں اور پھر اس کے سامنے اس کے احکام کو ٹالتا ہے.یاد رکھو کہ بڑی بڑی مشکلوں اور مصیبتوں میں صرف ایک رب ہی ہے جو کام آتا ہے.ماں کےپیٹ میں انسان کو رزق کون دیتا ہے.جب پیٹ سے باہر آتا ہے تو ہوا کھانے کو کس نے مہیا کی.روشنی کے لئے سورج چاند کسی نے بنائے.بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ماں باپ کے دل میں وہ محبت جو تیری پرورش کا موجب ہوئی.کسی نے یہ پیدا کی.اگر بجائے محبت کے نفرت ڈال دیتاتو تیراکیا بس پاتا اور کیا حال ہو تا.باوجود اس احسان اس شفقت اس پیار کے پھر بھی انسان ہیں کہ اس سے بے تعلقی کرتے ہیں.وہ چوروں سے بد تر ہیں.یہ تو احسان ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نےمتوجہ کیا.لیکن جو محبت سے نہیں مانتے اس کے لئے دوسرے معنی خوف کے بھی بیان کئے ہیں.اتقو ربکم کے دوسرے معنیخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ستارے یہ زمین یہ بیوی بچے یہ طاقتیں یہ قوی ٰیہ مال یہ دولت یہ چاند یہ سورج یہ تجارت یہ حرفت کے اسباب ہمارے بنائے ہوئے ہیں.اگر ہم اپنی ربوبیت کا تعلق قطع کر لیں تو بتاؤ کون ہے جو ربوبیت کرے اگر ہم اندھا کر دیں تو کون ہے جو آنکھیں دے.اگر ہم ہاتھ توڑدیں تو کون ہے جو ہاتھ دے.تو پھر زبان دی اگر گونگاکردیں تو کون ہے جو گویا کرے.ہم نے کان دیئے اگر بہرہ کردیں تو کون ہے جو کان دے.احسان نہ مانو گے توہم اپنے قہرسے منوائیں گے.کیونکہ سب خزانے ہمارے ہی قبضہ اقتدار میں ہیں.اسی کے آثار میں سے طاعون، زلزلے اور وبائی بیماریاں ہیں.لیکن لوگ ہیں کہ باوجود اس تباہی کے نہیں مانتے.تعجب کی بات ہے کہ نمبردار تحصیلدار دھتکار دے تو زمیندار کی جان نکلتی ہے.ہوش اڑ جاتے ہیں.لیکن خدا کی طرف سے مامور آکر سناتے ہیں کہ فرمانبرداری کرو گے توانعام پاؤ گے اور اگر نافرمانی کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے مگر اس طرف توجہ نہیں کرتے.ایک تحصیل کے چپڑاسی کا رعب تو ہے لیکن خدا کے فرستادوں.اور پھر حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت محمد رسول الله ﷺ جیسے فرستاروں کا رعب نہیں.یہ بے ایمانی کا نشان ہے.طاعون سے گھر کے گھرویران ہو گئے.اگر اب بھی نہیں جاگو گے تو پھر کون سی آیت ہے جو تمہیں جگائے گی.کیا خدا تعالیٰ اپنی بات کو چھوڑ دے گا؟ بال ہٹ‘ تریا ہٹ، راج ہٹ.یہ تین ہٹیں بہت مشہور ہیں.مگر خدا کی ہٹ کے مقابلہ میں یہ کیا چیز ہیں.اگر طاعوان اور زلزلوں سے لوگ نہیں مانیں گے تو وہ اپنی اور آفتیں نازل کردے گا.کیا اس کے خزانوں میں عذابوں کی کچھ کی ہے.وہ سب کو ایک دم میں پیس

Page 404

کر کوڑا کرکٹ بنا سکتا ہے.بچہ جو اپنے آپ کو سنبھال بھی نہیں سکتا وہ تو اپنی ہٹ نہیں چھوڑتا.عورت جو خاوند کی محکوم ہے وہ تو اپنی ہٹ نہیں چھوڑتی.راجہ جو مخلوق کا بنایا بڑا راجہ ہے وہ بھی جب بول اٹھتا ہے کہ میں یہ کام کروں گا تو کرکے رہتا ہے.تو پھردو جو ان سب کا رب ہے کیا اس کے آگے ہماری ہٹ چل سکتی ہے.پس سن رکھو کہ جو نافرمانیوں سے اور خدا کے مأموروں سے شوخیاں کرنے سے باز نہیں آتے ان کو منوایا جائے گا.دیکھو عرب کے لوگوں نے کم ہٹیں نہیں کیں.مگر رسول اللہﷺکے مقابلہ میں ان کی کچھ پیش نہ گئی.وہی لوگ جو باعزت کہلاتے تھے آخر ذلیل و حقیر ہوئے اور ایسے کاٹ دئیے گئے کہ بے نام و نشان رہ گئے.ابوجہل سيد العرب تھا.محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کیا دہ اَڑ سکا.پھر یہاں تک خداکے پاک بندے کو کامیابی ہوئی کہ ہر ایک بستی میں سید کہلانے والا کوئی نہ کوئی موجود ہے.مگر ابو جہل کی نسل سے کوئی نہیں بنتا.باوجود یکہ نسل اس کی موجود ہے مگر اس کی طرف منسوب ہو نا عار کا موجب سمجھا جا تا ہے.سید کیا ہیں.رسول اللہ ﷺ کے لڑکے کی نہیں بلکہ لڑکی کی اولاد ہیں.مگر لوگ کہتے ہیں کچھ بھی ہو کسی طرح رسول اللہ ﷺ سے ہمارا تعلق تو بنا ر ہے گو قرآن مجید میں ان اكرمكم عند الله اتقکم(الھجرات : ۱۴) آیا ہے.اور ابو جہل کی اولاد ہو نا کوئی بری بات نہیں.مگر پھر بھی لوگ پسند نہیں کرتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خدا کے مامؤر کا مقابلہ کیا.پس وہ ذلیل و حقیر ہوا.تقویٰ کیا چیز ہےاب میں بتاتا ہوں کہ وہ تقوی کیا ہے جس کے حصول کے لئے یہ ارشاد فرمایا.تقویٰ کے تین مدارج ہیں جو الله تعالیٰ نے مجھے سمجھائے اور بھی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس وقت بیان کرنے کے لئے یہی دل میں ڈالے ہیں) اور میں انہیں اسی طرزمیں سنانےکی کوشش کروں گا کہ زمیندار بھی سمجھ جائیں.لیکن ان کے بیان کرنے سے پہلے میں اتنابتانا چاہتاہوں کہ تقویٰ ایک ایسی نعمت ہے کہ جس شخص کو حاصل ہو پھر وہ اس کے مقابل میں دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں کر تا چنانچہ ایک بات حضرت اقدسؑ کی مجھے یاد آگئی.آپ لوگوں کا حق ہے کہ آپ کوسنائی جائے.کیونکہ اگرچہ میرا حضرت سے دوہرا یعنی جسمانی بھی اور روحانی بھی تعلق ہے.مگرروحانی لحاظ سے آپ بھی ان کے بیٹے ہیں.آپ کی نوٹ بک میں نے دیکھی.آپ کا معمول تھا کہ جب کوئی پاک خیال پاک جذبہ دل میں اٹھتاتو آپ لکھ لیتے.اس نوٹ بک میں خدا کو مخاطب کر کےلکھا ہے.’’ او میرے مولیٰ! میرے پیارے مالک !میرے محبوب ا میرے معشوق خدادنیا کہتی ہے تو کافر ہے.مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے.اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں.لیکن

Page 405

میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں.جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں.اس وقت تو مجھے جگاتا ہے.اور محبت سے پیارسے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا.میں تیرے ساتھ ہوں.تو پھر اسے میرے مولیٰ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسانکے ہوتے پھر میں تجھے چھوڑ دوں.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.‘‘ لیکن تقویٰ ایک دم میں حاصل نہیں ہوتا.یہ نہ سمجھو کہ ایک دم میں تم کو اعلیٰ سے اعلی ٰمدارج مل جائیں.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ادھر بیعت کی اور ادھر علم روحانی کے دروازے کھل جائیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کے سب کام وقت پر ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں اس بات کو عجیب طور سے بیان کیا گیا ہے.لیکن چونکہ اکثر لوگ آیات قرآنی کے ربط کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس لئے ناواقف رہتے ہیں.چنانچہ فرمایا ہے وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ﳓ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ (ق: ۳۹،۴۰) بظاہر خلق السموت والأرض اور پھرف فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَمیں کچھ ربط نہیں معلوم ہو تا ہے.مگر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.میں نے خدا ہو کر زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس عرصہ کی وجہ سے میں تھکا نہیں.تو تم نے اسے خدا کا بندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ خدا ہونے کا.پس تم کیوں گھبراتے ہو خدا تعالیٰ کے سارے کام صبر کے ساتھ ہوتے ہیں.نو ماہ میں نطفہ سے بچہ بنتا ہے.پھر بچے سے جوان اور جو ان سے بوڑھا ہو تا ہے.اب تمهارے ساتھ جو وعدے ہیں.وہ بھی ضرور پورے ہوں گے تم تسبیح میں لگے رہو یعنی خدا تعالیٰ کی قدوسیت اور اپنی احتیاج کا اقرار اور وعظ کرتے رہو کامیاب ہو جاؤ گے.ابھی سوچنے کی بات ہے کہ جب خدا تعالیٰ جو تمام نقصوں اورعیبوں سے پاک ہے.جب وہ اپنے کام سہج سہج کرتا ہے تو تم جو پاک نہیں تمہیں کیاجلدی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ اسی جلد بازی کی وجہ سے بد ظن ہو جاتے ہیں کہ آتے ہی کہہ دیا.ہم نے بیعت تو کرلی.مگر ہمیں رسول کی زیارت کیوں نہیں ہوتی.ہم کو اولیاء اللہ کےمدارج کیوں نہیں مل گئے.ہمیں تجارت میں کیوں گھاٹا پڑا.یہ سب فاسد خیالات ہیں.خدا تعالیٰ جب رسول کریم ﷺ کی خاطر اپنے قوانین نہیں توڑتا.تو تم کہاں کے تیس مار خاں ہو کہ تم جو کہو وہ فورا ًہو جائے.غرض ہر بات صبر کے ساتھ ہوتی ہے.اور صبر کا پہلا درجہ تقویٰ ہے.ایک مفسّرنے تقویٰ کی تعریف کی ہے جو مجھے بہت پسند ہے.مگر مفسّر سے میری مراد کشاف، خازن ،کبیر جلالین کے مفسّرنہیں.بلکہ وہ جو قرآن پڑھایا کرتے تھے.وہ لکھتا ہے کہ تقویٰ کی یہ مثال ہے کہ

Page 406

ایک تنگ رستہ جس کے اردگر و کانٹے دار جھاڑیاں ہوں جن کی شاخیں راستہ کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہوں اور اس میں کسی ایسے انسان کو گزرنا پڑے جس نے موٹا کھلاچوغہ پہنا ہوا ہو تو جس طرح یہ کوئی اپنے کپڑے سنبھال کر گزرتا ہے اور چاروں طرف احتیاط کی نگاہ ڈالتا جا تا ہے اسی طرح چاہیے کہ انسان اپنے نفس کو دنیا کی آلائشوں سے جو اسے کئی کئی طریقوں سے اپنی طرف کھینچنا جاہتی ہیں بچا تا جائے.تب وہ متقی ہو سکتا ہے.غرض کہ تقویٰ کا پہلا درجہ صبر ہے.تقوی ٰکے تین درجےمگر صبر کے صرف یہی معنی نہیں کہ کوئی مر گیا تو خاموش رہیں بلکہ صبرکے تین معنے ہیں.(۱) مصیبت پڑے تو انسان جزع فزع سے پرہیزکرے مثلا ًکوئی پیارا مرجائے تو کہہ دے مولیٰ کی چیز تھی اس نے لے لی (۲) بدیوں سے پر ہیز کرےنفس کو لگام چڑھائے رکھے.ایسے متقی کی مثال یہ ہے کہ کوئی سوار ہو اور اس کا گھوڑا بھو کا ہو اورجس راستہ پر وہ چل رہا ہو اس کے اردگرد کھیت ہوں اور گھوڑا ان میں منہ ڈالنا چاہے اور وہ سواراس کی لگام کھینچے ر کھےتا ایسا نہ ہو کہ غیر کے کھیت کا نقصان ہو کر اس کے لئے مصیبت کا باعث ہو.اسی طرح اس درجہ کے متقی کا کام ہے کہ نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دیئے رکھے.اور اسےمحارم میں پڑنے سے بچائے رکھے (۳) پھر صبر کے معنے قناعت کے ہیں یعنی جو احسانات اور انعامات اللہ تعالیٰ کے انسان پر ہوں ان سے زیادہ کی حرص نہ کرے.ہر قسم کی بدیوں سے رکنے والے کا نام صابر متقی ہے.اور یہ سب سے گھٹیا درجہ ہے اس کی مثال یوں ہے کہ کسی کے ہاں کوئی مہمان جائے تو وہ جو کچھ میزبان دے وہی لیتا ہے اسی طرح ہم الله کے مہمان ہیں.جن چیزوں کے استعمال کی اس نے اجازت دی ہے وہی استعمال کرنے کے حق دار ہیں.یہ درجہ کوئی اتنا بڑا نہیں.جب ایک معمولی شریف مہمان اپنے میزبان کے گھر سے خود کھانا نہیں اٹھالا تااور نہ اس کی کوئی چیز لے کر چمیت ہوتاہے تو پھر ایک مؤمن کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ خدا کا مہمان ہو کر بغیر اس کی اجازت کے اس کے حکم کے خلاف اس کی چیزوں میں دست اندازی کرے.اگر میزبان اپنے مہمان کے سامنے کوئی کھا نالا کر رکھے اور مہمان کہے کہ نہیں مجھے پلاؤلادو، فلاں مٹھائی مجھے لادو، یا میزبان اپنے مہمان کے آگے کوئی چیز رکھ کر کسی مصلحت سے اٹھائے اور مہمان چیخنا شروع کردے تو وہ مہمان بہت برا سمجھا جائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے کر پھر کسی اپنی حکمت سے واپس لے لے تو جزع و فزع نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ جزع و فزع محض بیوقوفی ہے.پس تقویٰ کا پہلا درجہ تو ضبط ِنفس ہے.یعنی نفس کو نا فرمانی حضرت رب العزت سے

Page 407

روکے رکھے اور اگر وو اپنی حکمت سے اس کا کوئی بیٹامار دے تو جزع و فزع نہ کرے.ایسے متقی کےبارے میں اللہ تعالیٰ فره تا ہے.وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(البقره۱۵۶،۱۵۷) یعنی ہم تم کو آزمائیں گے کچھ ڈرائیں گے.کچھ بھو کار کھیں گے پھر مال کا نقصان ہو گا.پھر جان کا نقصان ،پھر پیداوار کا نقصان، جوان ابتلاؤں میں ثابت قدم رہے گا.تو اسے بشارت ہو کہ وہ صابر کا درجہ پاگیا.کیونکہ جب اس پر کوئی مصیبت آئی مثلاً بیٹا مرگیا تو اس نے کہا کہ میرا کیا تھا یہ تو خداہی کا تھا اس نے اپنے پاس بلا لیا میں کیوں گھبراؤں.میں بھی تو اسی کا ہوں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والا ہوں (یہ صابر متقی کے نقطہ خیال سے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ کے معنے ہیں) گھبراہٹ تو تب ہوتی کہ کوئی چیز کھوئی جاتی.جب انسان تھے کہ میں بھی وہیں جا رہا ہوں جہاں وہ بلا لیا گیا تو کیوں گھبراؤں اور کیوں جزع فزع کروں.دیکھو کسی قادیان آنے والے کا اسباب ہو.اور وہ بٹالہ کے سٹیشن پر چھکڑے پر رکھ دیا جائے.اور اس سے پہلے روانہ کردیا جائے تو وہ مہان بہت بیوقوف ہو گا.اگر جزع و فزع شروع کر دے کیونکہ آخر اسے بھی وہیں جانا ہے جہاں وہ اسباب پہنچے گا.صبر کے دوسرے معنی اس آیت سے حل ہوتے ہیں جو یہودیوں کے بارے میں ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰؑ سے عرض کیایا موسیٰ لن نصبر على طعام واحد (البقره:۶۲) - دیکھئے انہوں نے خدا کے دیئے پر قناعت نہ کی.یہ خلاف صبر کیا.پھر صبر نام ہے بدیوں سے بچنے اور عمل صالح پر قائم رہنے کا یہ معنے سورة العصرسے حل ہوتے ہیں.جہاں الا الذين أمنوا و عملوا الصلحت( العصر۴ ) کے مقابلے میں و تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (العصر۴ )ر کھا گیا ہے جس میں حق ایمان کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے.اور صبر وعملوا الصلحت کے مقابلہ میں.پس صبر کے معنی قرآن شریف نے بھی عمل صالح کے کئے ہیں.شاکر متقیدوسرا درجہ تقویٰ کا شکر ہے.اس درجے کا متقی شاکر کہلاتا ہے.قرآن شریف میںصبار شکور آیا ہے.شاکر اور صابر میں یہ فرق ہے کہ اگر انسان پر جب دکھ آتا ہے تو وہ صابر کی طرح صرف اتنا ہی نہیں کہتا کہ خدا کا مال تھا اس نے لے لیا.بلکہ وہ ایک قدم اورآگئے بڑھا تا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ گھبرانے کی بات نہیں ایک چیزاس نے لے لی ہے تو کیا ہوا فلاں فلاں نعمت بھی تو اسی کی دی ہوئی ہے، میرا کیا حق تھا کہ وہ یہ نعمتیں مجھے دیتا.پس اس کی جناب میں

Page 408

شکر کا سجدہ بجالاتا ہے.صابر گئی ہوئی چیز کی طرف خیال رکھتا ہے اور صرف اسی کے متعلق اپنا صبرظاہر کرتا ہے.مگر شاکر کہتا ہے جواب میرے پاس ہے وہ بھی تو میرا حق نہیں.شاکر بھی انا للہ پڑھتاہے.مگروہ اس کے اور معنی لے لیتا ہے یعنی وہ صرف یہ نہیں کہتا کہ جہاں وہ چیز گئی ہے میں بھی وہاں جانے والا ہوں.بلکہ وہ کہتا ہے کہ جو چیزیں میرے پاس موجود ہیں یہ سب بھی تو خدا ہی کی ہیں.تقوی ٰایک پہاڑی ہے.ایک شخص وہ ہے جو اس پر چڑھتے ہوئے آنے والی مصیبتوں بلاؤں شیروں چیتوں بھیڑیوں کا مقابلہ کرتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا.اسے صابر کہیں گے.اور ایک وہ جو نہ صرف انکا مقابلہ کرتا ہے بلکہ ہر مصیبت پر ایک قدم آگے بڑھتا ہے.یہ شاکر ہے.شاکر کے مال کا جب کوئی نقصان ہوتا ہے تو اسے ضائع شدہ کی فکر نہیں ہوتی بلکہ موجود پر شکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی میراحق نہ تھا محض خدا کافضل ہے اور اس طرح پردہ محبت الہٰی میں بڑھ جاتا ہے.صابر نماز پڑھتا ہےاور کہتا ہے کہ یہ ایک حکم تھا جو میں نے ادا کر دیا.مگر شاکر نماز کے بعد پھر سجدے میں گر جاتا ہے کہ میرے مولیٰ تیرا احسان تیر افضل تیرا انعام ہے کہ تو نے مجھے تو فیق دی کہ میں تیری عبادت بجالایا.صابر تو صرف صدقہ دیتا ہے.اور شاکر کہتا ہے کہ شکر ہے کہ میرے مولیٰ نے مجھ سے خد مت لی.صابر فرض کے ادا کرنے کو اپنا کمال سمجھتا ہے شاکر شکر کرتا ہے کہ کروڑوں میں جو تیری درگاہ سےدور ہیں.تیرا فضل ہوا کہ میں حکم بجا لانے کے قابل ہو ا.صابر کسی نقصان جان پر سمجھتا ہے کہ خدا کی چیز تھی اس نے لے لی.شاکر کہتا ہے کہ الہٰی لاکھوں ہیں جن کے بیوی نہیں، بچہ نہیں ،بھائی نہیں، بہن نہیں اور مجھے تو نے یہ سب کچھ بخشاہے.تیرے احسانوں کا کہاں تک شکر ادا کروں.پس وہ کسی مصیبت کے وقت کی جان و مال کے نقصان کے وقت اور بھی آستانہ الوہیت پر گرتا اور اپنے مولیٰ کے احسانوں پر فدا ہو تاہے.دو مثالیںدو مثالیں صابر اور شاکر کے فرق کو ظاہر کرنے کے لئے سناتا ہوں.ایک تو اسلام سےپہلے کا قصہ ہے جو مثنوی میں لکھا ہے.والد ا لم اشاپ - مولانا روم ؒ کا معمول ہےکہ حق سکھانے کے لئے کوئی نہ کوئی تمثیل ضرور پیش کر دیتے ہیں.وہ فرماتے ہیں حضرت لقمان ایک شخص کے ملازم تھے.آقا بوجہ ان کی مخلصانہ خدمات کے ان سے بہت پیار کرتا تھا.ایک دفعہ اس کے پاس خربوزہ آیا جو بے بہار کا تھا.اس نے عجوبہ چیز سمجھ کر ایک پھانک از راہ محبت لقمان کودی.آپ نے اسے چٹخارے لے لے کر کھانا شروع کیا حالانکہ دراصل وه خربوزہ بہت تلخ اوربدمزہ تھا.آقا نے اپنے وفادار مخلص غلام کو چٹخارے لیتے دیکھ کر ایک پھانک اور دی جو آپ نے

Page 409

بڑے مزے سے کھائی.یہ حالت دیکھ کر آقا کو شوق ہوا کہ میں بھی خربوزہ کھاؤں.کیونکہ بڑا مزیدارمعلوم ہوتا ہے.جب اس نے چکھا تو معلوم ہؤاسخت کڑوا اور بد مزہ ہے.اس نے حضرت لقمان سےپوچھا کہ یہ خربوزہ تو سخت کڑواہے.آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں.میں اس خیال سے کہ آپ کوپسند ہے بار بار پھانکیں دیتا رہا.حضرت لقمان نے جواب دیا کہ اتنی مدت آپ کے ہاتھ سے میٹھی اورخوشگوار چیزیں کھاتا رہا ہوں.میں بڑا ہی ناشکر گزار ہو تاکہ جس ہاتھ سے اس قدر میٹھی چیزیں کھائیں اس سے ایک کڑوی ملنے پر ناک بھوں چڑھاتا.پس اسی طرح شاکر متّقی کہتا ہے اللہ کے مجھ پر ہزاروں احسان ہیں اگر ایک مصیبت بھی آگئی تو کیا ہوا یہ بھی شکر کا مقام ہے.گویا شاکر کو تکلیف کے وقت اللہ کے احسان یاد آنے لگتے ہیں.دوسرا قصہ نبی کریم ﷺکے وقت کا ہے.احد کی لڑائی میں یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے.میدان جنگ میں تو اس غلط فہمی کی تردید ہو گئی لیکن دوسرے لوگوں میں یہ خبرا بھی پھیل رہی تھی.جب لشکر اسلام واپس لوٹا تو ایک صحابیہؓ دیوانہ وار بڑھی اور پوچھا کہ رسول اللہ ﷺکا کیا حال ہے؟ جس شخص سے سوال کیا وہ چو نکہ جانتا تھا کہ آپ بفضل الہٰی بخیریت ہیں اس لئے اسے کچھ فکر نہ تھی اس نے اس سوال کی طرف توجہ نہ کی اور جواب میں اس عورت سے کہا کہ تمہارا خاوند مارا گیا.مگر وہ نبی ﷺکی محبت میں متوالی ہو رہی تھی.اس نے پھر یہ سوال کیا.رسول اللہﷺ کا کیا حال ہے؟ - جواب ملا.تیرا باپ مارا گیا.اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ رسول الله ﷺ تو بخیر و عافیت ہیں؟ جواب ملا تیرا بھائی بھی مارا گیا.اس پر پھر وہ بولی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کا حال بتاؤ - جواب دینے والے نے کہا کہ وہ ہر طرح سلامت ہیں.مگر اسے اس پر بھی تسلی نہ ہوئی اور اس نے کہا مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں.اتنے میں رسول اللہ اﷺبھی آگئے.اس عورت نے کہا کہ جب تو زندہ ہے تو ہر مصیبت میرے لئے آسان ہے.میرے دوستو یہ شاکر صحابیہؓ تھی.دیکھو رسول اللہ ﷺکے مقابلہ میں باپ بیٹا اس کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.کیا اس زمانے میں بھی کوئی ایسی مومنہ عورت ہے؟ عورت تو درکنار کوئی ایسامرد بھی تم میں موجود ہے؟ غرض شاکر وہ ہے جو فرض ادا کرنے پر پھولتا نہیں.بلکہ وہ خدا کے حضور سجدے میں گر جاتا ہے.چند ہ دینے والوں میں سے بعض تو ایسے ہیں جو چندہ دیکر صدر انجمن یا خلیفۃ المسیح پراحسان کرتے ہیں بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں فرض ادا ہو گیا.مگر ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم پر خدا کا احسان ہے کہ اس نے ہم سے یہ خد مت کی مجھے اس زمانے کا ایک واقعہ یاد ہے کہ منی آرڈروں میں سے جو

Page 410

حضرت صاحب کے نام آئے ایک کے کوپن پر لکھا تھا کہ یہ پندرہ روپیہ ارسال ہیں.ایک روپے لنگر کے لئے اور باقی آپ خد اکے لئے اپنے نفس پر خرچ کریں اور مجھ پر احسان فرمائیں.پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدسؑ با ہرباغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمدورفت و غیرہ کی وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا.تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں فرماتے ہیں میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دید ی اور پھر الگ ہو گیا.اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی.لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دو سو روپیہ تھا.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہو تا تھا کہ وہ اپنی ساری عمرکا اندوختہ لے آیا.پھر اس نے اپنے لئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ میں پچانا جاؤں.یہ شاکر کا مقام ہے.متقی محسنایک اور بندہ ہے اس کا نام محسن ہے.وہ شاکر سے ایک درجہ آگے بڑھتا ہے.محسن کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو معا ًاسے خیال آتا ہے کہ میرے اور بھائی بھی ہیں ان کو بھی بڑی تکلیف ہوتی ہوگی اور میں بڑاغافل ہوں کہ ان کی خبر نہیں لیتا.پس وہ جب اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ رجز پڑھتا ہے تو اس کے یہ معنی لیتا ہے کہ ہم سب لوگ خدا کے بندے ہیں یہ مصیبت مجھے ہی پر نہیں آئی بلکہ اور بھی خدا کے بندے ہیں.پس وہ ان کی ہمدردی کے لئے اٹھتا ہے.اور کمرِ ہمت چست کر کے ایک ایک کی غم خواری میں کوشش کرتا ہے.جب اس کا کوئی عزیز مرتا ہے تو اسے دوسرے لوگوں کی تکلیف کا غایت درجہ احساس ہونے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے بھائیوں میں سے جس کا کوئی عزیز مرا ہے اسے بھی بہت دکھ پہنچا ہو گا.پس وہ ہر طرح سے ان کی نصرت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.محسن صرف آپ ہی صبر نہیں کرتا اور نہ صرف خدا کے حضورموجودہ نعمتوں پر شکر بجا لاتا ہے بلکہ وہ دوسروں سے بھی ہمدردی کرتا ہے.حضرت صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا.گو ما موروں اور مرسلوں کا درجہ محسنوں سے بہت بڑھ کر ہے.مگر اس واقعہ سے محسن کا مقام ظاہر ہو جائے گا.مبارک احمد جب بیمار پڑا تو آپ کی محویت کا یہ عالم تھا کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں.اپنے ہاتھ سے اس کو دوائی پلاتے اور دن کو آرام تو درکنار کئی راتیں جاگتےگذار دیں.مگر جونہی اس کی جان نکلی آپ نے قلم دوات منگوائی اور لوگوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ اس ابتلاء میں صبروشکر سے کام لو.بجائے اس کے کہ جس کا بیٹا مراده خود صبر کی تلقین کا محتاج ہو تایا شکر کرنا کافی سمجھتا اسے دوسروں کی فکر پڑ گئی، اور اپنا حال یہ ہے کہ خوش ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ

Page 411

ی پیشگوئی پوری ہوگئی.کیونکہ پہلے ہی خدا نے فرما دیا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں اس کے حضور واپس بلا لیا جائے گا.یہ صبروشکر آپ کا بلکہ دوسروں کو صبر و شکری تعلیم کوئی سنگدلی کی وجہ سے نہیں تھی.نرم دلی کا تو یہ عالم ہے کہ آپ بچے کی تکلیف دیکھ کر رات کو بھی نہیں سو سکتے.یہاں تک کہ اس کی بیماری میں خدمت کرتے کرتے خور بیمار ہو گئے.مگر جب وہ وفات پاتا ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں کہ خدا کی امانت تھی خدا کے پاس پہنچ گئی.اور پھر اس سرور کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے بھی ظاہر ہے.اور آپ خط پر خط لکھ رہے ہیں اور تقریر پر تقریر کئے جارہے ہیں کہ خدا کا بڑافضل بڑااحسان ہوا.تم لوگوں کو بھی شکر بجالانا چاہئے.آپ کو اپنے بیٹے کی فکر نہیں پڑی بلکہ لوگوں کی فکر پڑی کہ شاید اسی راہ سے میرے مولی ٰکا جلال دنیا پر ظاہر ہو - یہ درجہ محسن کا ہے.تقوی کے ہر سہ مراتب کا ذکر قرآن میںان تینوں مرتبوں کا ذکر اس آیت میں ہے.لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠ (مائده : ۹۴) پہلا درجہ اتقاء کا تو ایمان و عمل صالح ہے جو صابرمتقی کی شان ہے.پھر تقوی ٰکریں.اور ایمان پر ثابت قدم ہوں یہ شاکر متقی کا ذکر ہے.پھر تقویٰ کریں اور احسان میں بڑھیں.یہ محسن متقی کی شان ہے اور اللہ محسنوں کو اپنامحبوب بنالیتا ہے.اس جگہ پہلے دو درجوں کا نام نہیں.لیکن قرآن شریف کے دوسرے مقاموں سے معلوم ہو تاہےکہ ان سے پہلے صابر وشاکرہي کادرجہ ہے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو تینوں د رجوں کا متقی بنائے.تقویٰ کوئی آسان بات نہیں ہے کہنا توآسان ہے پر کرنا مشکل.دیکھو تم وعدہ کر چکے ہو دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.پسں ضروری ہے کہ اس پر ثابت قدم رہو اور اعمال صالحہ میں ترقی کرو.نمازنماز فرض ہے.بہت سے احمدی نمازوں کو باجماعت ادا کرنے میں سست ہیں.نماز دین کاستون ہے.اور مجھ سے کوئی پوچھے تو قرآن شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ نماز بغیر جماعت کے ہوتی ہی نہیں.سوائے اس صورت کے کہ کوئی عذر شرعی ہو.زکوٰۃدوسرے درجے پر زکوة ہے.زکوة میں بہت سے بھائی کمزوری دکھاتے ہیں.حضرت ابو بکر ؓکے زمانہ میں جب فتنہ ار تدار پھیل گیا.اور صرف گاؤں میں نماز با جماعت رہ گئی.اور لشکر بھی شام کو بھیج دیا گیا.تو بھی آپ نے زکوة دینے والوں کے نام ارشاد بھیجا کہ رسول اللہﷺ

Page 412

کے زمانے میں اگر کوئی رسہ دیتا تھا اور اب نہیں دیتا تو میں تلوار کے زور سے لوں گا.حضرت عمرؓ ایسے جری و بہادرنے بھی رائے دی کہ اس وقت مصلحتِ وقت نہیں کہ زکوٰۃ پر زور دیا جائے.مگر آپ ؓنے ان کی ایک نہ مانی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ زکوٰة کس قدر ضروری ہے.اگر احمدی اپنی زکوٰۃ کا باقاعد و انتظام کریں اور اسے امام کے حضور بھیج دیا کریں تو بہت سے قومی کام پورے ہوسکتے ہیں.روزےتیرارکن روزے ہیں.یہ ایسی پاک عبادت ہے کہ حدیث میں آیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر نیکی کا ایک اجر ہے مگر روزوں کا اجر میں ہوں.روزہ داروں کے لئے بہشت کےتمام دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو.بلکہ ایک دروازه او ر ہو گا جس کا نام ریّان ہو گا.حجپھر حج ہے.غیر احمدی کہتے ہیں.احمدی حج نہیں کرتے.تم میں سے جوذی استطاعت ہیں وہ جو کر کر کے دکھا دیں کہ ہم لوگ کہ مکہ معظمہ کی کس قدر تعظیم کرتے ہیں.امر بالمعروف نہی عن المنكرپھر وتواصوا بالحق و تواصوا بالصبر پرعمل کرو.دنیا میں نیک باتیں پھیلانے والے بنود اور بری باتوں سے روکو.اصلاح اپنے گھروں سے شروع کرو.آپس میں محبت رکھو.الفت بڑھاؤ - میل جول کو ترقی دو تعلقات کو مستحکم کرو.یہ سب باتیں تقوی ٰکے لئے ضروری ہیں اس لئےان کا بیان کیا.للذين احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنة ایسے محسنوں کی نسبت فرماتا ہے.کہ جولوگ دنیا میں نیکی کرتے ہیں اس دنیا میں ان کو نیکی ملے گی.کیا پاک معیار ہے.جو لوگ خدا کے پیارے ہیں وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتے.کوئی ہے جو کھڑا ہو کر کہہ سکے کہ فلاں متقی ذلیل ہو کر مرا ،مجنوں ہو کر مرا ،یا کوئی خدا کا صدیق، خدا کا متقی،خدا کار ہیز گار مرگی زدہ ہو کر مرا.کوئی ہے جو یہ گواہی دے سکے کہ متقی ایسا بوڑھا ہو گیا کہ وہ ارزل العمر کو پہنچ گیا ہو.ہاں اس کے خلاف میں شہادت دے سکتا ہوں.کہ بڑے بڑے ذی سطوت وصاحب حکومت بادشاه با وجو داتنے اقتدار و وقار کے مجذوم ہو گئے.ان کو مرگیاں پڑیں.وہ دیوانےہو گئے.پس دوستو تقویٰ اختیار کرو.کیونکہ تقویٰ وه دولت لازوال ہے جو ختم نہیں ہوتی.بلکہ بڑھتی ہے.اور تقویٰ ہی وه تریاق ہے جس کے سبب انسان تمام قسم کے زہروں سے محفوظ رہتا

Page 413

ہے.محسن متقی کے لئے یہ انعام دنیا میں ہیں.اور آخرت میں اس سے بھی بڑھ کر پائے گا.وارض اللہ الواسعة متقی کو ابتلاء بھی آتے ہیں.مگر گھبرانا نہیں چاہئے.بلکہ ثابت قدم رہنا ضروری ہے.اگر تمہیں ایک جگہ تکلیف ہے تو خدا کی زمین کھلی ہے دوسرے مقام پر ہجرت ہو سکتی ہے.اور صبر سے کام لینے والوں کو بغیر حساب کے رزق دیاجاتاہے.صابر کو بے حساب رزق دیا جاتا ہےبادشاہ کے پاس بہت نعمتیں ہیں مگر پھر بھی اس کو کئی دکھ ہیں.لیکن صابر پر الله تعالیٰ کا بڑافضل ہو تا ہے وہاس سے وعدہ فرماتا ہے کہ میں تجھے بے حساب دوں گا اور یہ سب اجر ہے اس بات کا کہ صابر خداکے حضور اپنی اطاعت کی گردن ڈال دیتا ہے.اس کے فرمانوں کی بجا آوری پر ثابت قدم رہتا ہے.اور ہر ابتلاء کے وقت آگے قدم بڑھاتا اور دوسری مخلوق کو بھی یہی تعلیم دیتا ہے اب ان آیات کی پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ احکام لوگوں کے لئے ہی ہیں یا خود رسول اللہﷺ کو بھی یہ حکم دیئےگئے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ (الز مر،۱۲۱۳) مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں دین کو اس کے لئے خالص کر کے.اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں فرمانبرداروں میں اول نمبر پر رہوں.جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ حکم رسول کریم ﷺکے لئے بھی یکساں ہیں.اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آیا رسول کریم ﷺنے اس حکم پر عمل بھی کیا کہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْۙ الز مر: ۱۴-۱۵) کہہ کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے عذاب عظیم سے ڈرتا ہوں اور کہہ کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کی اطاعت میں شریک نہیں کرتا.ان آیات میں نبی کریمﷺ نے اپنی پاک زندگی کو پیش کیا ہے.اور ڈنکے کی چوٹ کہا ہے کہ میرا خدا سے تعلق ہے.کوئی ہے جو میری زندگی پر عیب لگائے.آریہ زینب ؓکے نکاح کے بارے میں شور ڈالتے ہیں.اور عیسائی آپ ﷺکو ڈاکو و غیره کہتے ہیں.(نعوذباللہ ) حالانکہ یہ اس وقت موجود نہ تھے.اور نہ ان کے پاس معتبر ذرائع سے کوئی خبرپہنچی ہے.جو لوگ اس وقت زنده گواہ تھے ان کو تو اس زور سے چیلنج دیا گیا کہ میری زندگی پاک ہےکوئی ہے جو عیب لگائے.میں تو اللہ کی مخلصانہ فرمانبرداری کرتا ہوں.فاعبدوا ماشئتم من دونہ (الزمر:۱۹، تم اس کے سوا کسی اور کی بندگی کر کے دیکھ لو.کوئی سکھ ملتا ہے.ہر گز نہیں.بلکہ(۱۹:/.

Page 414

عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس کی نافرمانی کرنے والے کیسے ٹوٹے میں پڑتے ہیں.ابو جہل کی مثال صاف ہے کہ وہ اپنی عزت وجاہت شوکت و قسمت پر کس قدر گھمنڈ رکھتا تھا.حتّٰی کہ مرنے کے وقت بھی اس نے کہا میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹنا تاکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سردار ہوں.مگر ابن مسعودؓنے کہا کہ میں تیری آخری خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا اور خوب رگڑ کر گردن کاٹی.اچھا یہ تو کئی سو سال کا واقعہ ہے.اسی زمانے میں دیکھ لو.خدا کا ایک مأمور آیا.اس کے مقابلہ میں ایک لاٹ مولوی اٹھا.اس وقت اس کی یہ حالت تھی کہ جب کبھی لاہور میں جاتا اور انار کلی سے گزرتاتواس کے استقبال و ملاقات کے لئے بے شمار آدم اکٹھا ہو جاتا.یہاں تک کہ ہندو بھی اپنی دوکانیں چھوڑ کر باہر نکل کھڑے ہوئے.اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس جنہوں نے شاکر و محسن طبیعت پائی تھی.تحدیث نعمت کے طور پر اپنا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سرائے میں جا کر میں ٹھہرا.چارپائی نہ ملی - اصطبل میں ایک جگہ ملی جہاں نیچے فرش پر رات کاٹنی پڑی.اور اس پر مستزاد یہ کہ ایک سکھ جو وہاں موجود تھا.ساری رات بڑبڑا تا رہا کہ یہ کہاں سے آگیا میں آگے ہی تنگ تھا.ایک وقت تو یہ تھا.اب یہ وقت بھی آیا کہ بغیر اس کے کہ پہلے اطلاع دی جائے.ہر سٹیشن پر آدمیوں کے پورے کے پور سے جم جاتے تھے.موافق لوگوں کو تو خیر آنا ہی تھا مگر مخالف بھی کیا ہندوستانی کیا پنجابی کیا ا نگر یز ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور جگہ نہ ملتی تھی.ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ میں کسی طرح چہرہ دیکھ لوں.بر خلاف اس کے وہ مولوی جو کسی وقت ان زوروں پر تھا.میں نے اسے دیکھا ہے کہ ایک سٹیشن پر ایک گٹھڑی اٹھائے ہاتھوں میں کھانا پکڑے ریل کی طرف اکیلاوو ڑاجاتا تھا.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ گھاٹے میں کون ہے.وہ جو خدا کے مأموروں کے مقابلہ کے لئے اٹھا.خدا نے تمہارے لئے یہ فرقان چھوڑ دیا ہے.اب بھی اگر تم اپنے ایمانوں کو چھپاؤ یا غفلت سے اپنی اولاد کو پھر غیراحمدیوں میں شامل ہونے دو تو تم گویاقتل اولاد کے مرتکب ہوتے ہو میں دیکھتا ہوں جن کے باپوں کو حضرت اقدسؑ سے بڑا اخلاص تھا اور بڑا تعلق تھا.اب ان کے بعض بیٹوں میں وہ شوق نہیں.اپنی اولاد کا فکر کرو انہیں دین کی طرف لگاؤ.کیا تمہارا بیٹا تمہارے سامنے زہر کھانے لگے یا کنویں میں چھلانگ مارنے لگے تو تم اسے اجازت دے دو گے؟ ہرگز نہیں.پس خدا کی نافرمانی چھوٹی سی بات ہے جس سے تم منع نہیں کرتے اور کیا جب تمہارا کوئی بچہ کنویں میں گرنے لگے تو ایک بار منع کر کے چپ ہو جاؤ گے ؟ ہرگز نہیں.تو کیا وجہ ہے کہ گناہ سے جو زہر سے بڑھ کر ہلاک کرنے والی چیز ہے صرف ایک دو بار کہہ کر چپ ہو جاؤ - چا ہئے.

Page 415

کہ بار بار منع کرو اور اپنی اولاد کو نماز قائم کرنے اور شعائر اللہ کی تعظیم کی تاکید کرو.اور تقویٰ اختیار کرنے کی ہد ایت کرو اور خود بھی تقوی ٰکو مدار نجات سمجھو.کیونکہ جو تقویٰ اختیار نہیں کرتےان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہی آگ ہے *وہ ان کے لئے سکھ کی کوئی صورت نہیں.اللہ تعالیٰ بڑارحمنٰ ہے.قبل از وقت اپنے عذاب سے خوف ولا تا ہے.اور فرماتا ہے میرے بندو عذاب سے بچاؤ ڈھونڈوفرمانبرداری کا طریقہ اختیار کر لو.اور جو لوگ جھوٹی باتوں (طاغوت کے معنی ہیں) سے بچتے ہیں انہیں بشارت دے وہ ایک معمولی حاکم سے کوئی بشارت ملے تو انسان پھولا نہیں سماتا.پھراس انسان کی خوشی کا کیا ٹھکانا ہو سکتا ہے جسے وہ احکم الحاکمین بشارت دے.زمینی گو ر نمنٹوں کے معمولی انعام کے وعدے بلکہ تنخواہ پانے کی امید پر سپاہی اپنا سر دینے کو تیار ہوتے ہیں حالانکہ اس گورنمنٹ کے ملازم کو پختہ یقین نہیں کہ یہ روپیہ مجھے ملے گا بھی یا نہیں.شاید اس کے پانے سے پہلے ہی مر جاؤں.اور اگر مل بھی گیا تو خدا جانے اس سے سکھ ملے یا نہ ملے.لیکن خدا تعالیٰ تو ابد الآباد زندہ ہے اور اپنے وعدوں کی وفا پر قادر ہے.اگر اس شخص کے (جس سے وعدہ کیا گیا ہے) حیات کے دن دنیا سے پورے ہو گئے ہیں تو آئندہ زندگی میں بیش از پیش دینے کو تیار ہے.غرض یہ بشارت خداوندی تو ایسی ہے کہ مرجاؤ تو بھی اس سے مستفید ہو زندہ ر ہو تو اسی دنیا میں بدلہ پالو.ان بندوں کا سب سے اعلیٰ وصف جن کو خدا تعالیٰ سے بشارت ملتی ہے یہ ہے کہ وہ اچھی اچھی باتو ں پر عمل کرتے ہیں ،* یتبعون احسنہ کے دو معنی ہیں.ایک تو یہ کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہیں کیونکہ دوسرے مقام پر اللہ نزل احسن الحدیث کتابافرماکر اللہ نے بتا دیا کہ احسن القول قرآن مجید ہے.دوم یہ قرآن شریف میں جو مختلف مدارج تقوی ٰکے بیان ہوئےہیں ان میں سے بڑے سے بڑے درجہ کے لئے کوشش کرتے ہیں.مثلا ًابھی جو مدارج میں نے بیان کئے ہیں ان کے مطابق اس آیت کا وہ مصداق ہو سکتا ہے جو صرف صبر و شکر پر کفایت نہ کرے بلکہ احسان کی طلب کرے یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی جناب سے ہدایت بخشی اور یہی در حقیقت او لووالألباب ہیں.دنیامیں یوں تو بڑے بڑے فلسفی اور دانشمندی کا دم بھرنے والے ہو گزرے ہیں اور اب بھی ہیں مگر دانا وہی ہے جسے خداخود ہدایت دے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی جناب سے ہدایت کی * لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌؕ-ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗؕ-یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْ (الزمر۱۷) وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىۚ-فَبَشِّرْ عِبَادِۙ (الزمر۱۸) ا لَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ (الزمر۱۹)

Page 416

راہیں سمجھانے ان پر چلانے پر منزل مقصود پر پہنچائے ، عمل صالح کرنے باہمی رشتہ محبت بڑھانے اور حق پھیلانے کی توفیق دے.کوئی تم میں سے کسی دوسرے بھائی کی ٹھوکر کا باعث نہ ہو – ہماری حالتیں ایسی خراب نہ ہو جائیں.کہ لوگ سمجھیں وہ رسول سچانہ تھا جس کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی.بلکہ ہمارے عملوں سے لوگوں کو یقین ہو جائے کہ یہ ایک صادق نبی کے پیرو ہیں.آمین.

Page 417

Page 418

۲۸۹ جواب اشتہار غلام سرور کانپوری (مسیح موعودؑ کی علامات کے بارہ میں گفتگو) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 419

Page 420

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم جواب اشتہار غلام سرور کانپوری خدا کے لئے اعلیٰ حضرت نبی کریم ﷺ میں کوئی خصوصیت تو باقی رہنے دو اتقوا الله !! اتقوا الله!! اتقوا الله!! ای محمد در قیامت چوں بر آری سرزخاک سربر آوردیں قیامت در میان خلق بّین کوئی صاحب غلام سرور نامی کانپور سے ایک اشتہار شائع کرتے ہیں جس میں انہوں نے اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب میں اور چند دیگر احباب مختلف عربی مدارس کو دیکھنےکے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں دورہ کرتے ہوئے کانپور بھی گئے تھے تو چند طلباء مدرسہ جامع العلوم نے آکر ہمارے سامنے ایک حدیث پیش کی اور ہماری طرف سے حافظ روشن على صاحب اس کو حضرت مسیح موعود ؑ پر چسپاں نہ کر سکے اس لئے وہ اس معاملہ کو پبلک کی اطلاع کےلئے عام طور سے شائع کرتے ہیں.مجھے اس اشتہار کو پڑھ کر نہایت افسوس ہوا کہ واقعات کے چہرہ پر کیسا سیاه پردہ ڈالا گیا ہے.جو گفتگو مذکورہ بالا اشتہار میں شائع کی گئی ہے وہ بالکل غلط ہے.اور پھر اس مبدل و محرف مکالمہ سے نتا ئج غلط نکالے گئے ہیں.اصل واقعہ یوں ہے کہ چند طلباء مدرسہ نے آکر ذکر کیا کہ ہم بعض احادیث آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں.جس پر ان کو جواب دیا گیا کہ ہم یہاں مباحثہ کے لئے نہیں آئے.ہاں اگر آپ ہمارے خیالات دریافت کرنا چاہیں تو بڑی خوشی سے آپ کو ان سے آگاہ کیا جاوے گا.جس پر انہوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حق استفادہ کے طور پر آئے ہیں (جس قول کی سچائی اشتہار دیکھنے والوں پر ظاہر ہو گئی ہوگی) چنانچہ اس وقت کانپور کے

Page 421

مدرسہ الہٰیات کے پر نسپل جناب مولوی عبد القادر صاحب آزاد سبحانی بھی وہاں تشریف فرما تھے.انہوں نے بھی کہا کہ واقعی اگر آپ لوگ استفادہ کے طور پر آئے ہیں تو بیشک جو دریافت فرمانا ہوان لوگوں سے دریافت فرماویں.لیکن ایسا نہ ہو کہ پیچھے یہ استفادہ بحث کا رنگ پکڑلے.اس پر وہ طالب علم صاحب جو سب کے زعیم معلوم ہوتے تھے ان کے بھی پیچھے پڑ گئے.آخراس بحث کو کو تاہ کرنے کے لئے میں نے حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا کہ وہ ان صاحبان کے سوالات کا جواب دیں.چنانچہ ان میں سے ایک صاحب نے جن کا نام اس اشتہار سے حافظ مولوی محمد یوسف معلوم ہوتا ہے مذکور ہ ذیل حدیث پیش کی کہ اس کو مرزا صاحب پر منطبق کریں.” عن عبد اللہ بن عمر و قال قال رسول اللہ ﷺینزل عیسیٰ ابن مریم الی الأرض فیتزوج و یولد یمکث خمسا و اربعین سنة ثم یموت و یدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر (مشکوة ۴۸۰ باب نزول عیسی علیہ السلام ) ’’جس کا مطلب یہ ہے کہ فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ عیسیٰ ابن مریم اتریں گے اور شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہوگی اور پینتالیس سال رہ کر وفات پائیں گے اور دفن کئے جاویں گے میرے ساتھ میری قبر میں.پس کھڑے ہوں گے میں اور عیسیٰؑ ابن مریم ایک ہی قبر سے ابو بکرؓ اور عمر ؓکے درمیان.اس کا جواب حافظ روشن علی صاحب نے یہ دیا کہ آپ پہلے اس حدیث کو رسول الله ﷺتک ثابت کریں.یعنی جیسا کہ حضرت امام بخاری و مسلم و ابوداؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و امام مالک و امام احمد بن حنبل و غیر ہم کبار محد ثینؒ کا قاعدہ ہے کہ وہ جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کےساتھ وہ ساری سند بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کس سے سنا اوراس نے آگے کس سےسنا یہاں تک کہ رسول الله ﷺتک پہنچادیتے ہیں اسی طرح آپ بھی اس حدیث کی سند بیان کریں کہ یہ کسی شخص نے لکھی ہے اور اس نے آگے کس سے سنی تاکہ جو اس حدیث کے راوی ہیں ان پر جرح قدح ہو سکے.اور معلوم ہو کہ آیا اس حدیث کے راویوں میں کوئی کمزور اور غیر معتبر راوی تو شامل نہیں ہے.کیونکہ جس شخص نے پہلے پہلی یہ حدیث روایت کی ہے وہ رسول الله ﷺ سے قریباً پانچ سو سال بعد گذرا ہے اس کو یہ حدیث کیونکر معلوم ہوئی.جب وہ رسول الله ﷺکے وقت موجود نہ تھا.آخر کسی سے سنی ہوئی ہیں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس سے سنی اور جس سے سنی وہ معتبر تھایا نہیں ہم اس حدیث کو حدیثِ رسول الله ﷺکیونکرمان لیں اگر 2

Page 422

آج کل کوئی شخص اٹھ کر کہے کہ رسول اللہ اﷺنے فلاں بات یوں فرمائی تھی تو کیا ہمارا فرض ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے اس کی بات مان لیں یا تو وہ کسی کتاب کا حوالہ دے کہ میں نے یہ حدیث فلاں کتاب میں پڑھی یا بتائے کہ میں نے یہ حدیث فلاں معتبر آدمی سے سنی اس نے آگے فلاں سے سنی اور اسی طرح رسول اللہ اﷺتک پہنچائے.اس بات کا جواب حافظ محمد یوسف نے یہ دیا کہ مشکوٰۃ میں موجود ہے (عجیب جواب ہے علماء نے صحاح ستہ تک کی بعض احادیث پر جرح کی ہے اور حافظ صاحب مشکوٰة کی ہر ایک حدیث کو حجت قرار دیتے ہیں کہ جس میں نہ صرف صحاح ستہ بلکہ دوسری احادیث کی کتب کے علاوہ صحابؓہ اور تابعین اور تبع تابعین تک کے اقوال کو ہرقسم کی کتب سے نقل کیا گیا ہے.اور خود مصنف نے احادیث کے تین باب باند ھے ہیں.اور تیسرے باب کو پہلے دو بابوں سے بہت ادنیٰ درجہ کا قرار دیا ہے.اور یہ حدیث جس کے راویوں تک کا پتہ نہیں تیسرے باب کی ہی حدیث ہے، اور دوم حدیث کے اماموں کے مقرر کردہ قواعد کے لحاظ سے بھی ثابت نہیں ہوتی تو ہم پر کب حجت ہو سکتی ہے) حافظ روشن علی صاحب - مشکوٰۃ میں موجود ہونے سے ہم پر حجت نہیں ہو سکتی.ہمارےیہاں مشکوٰۃ مسلم نہیں ہے جب تک اس کی کوئی حدیث آئمہ محدثین کے مقرر کردہ قواعد کےماتحت ثابت نہ ہو ہم اس کے ماننے کے پابند نہیں ) سند کے ساتھ اس حدیث کو رسول الله ﷺتک پہنچائیں تااس کے راویوں پر نگاہ کی جائے کہ کس پائے کے ہیں.حافظ محمد یوسف صاحب.آپ کے ہاں کی حدیث مسلم ہو اکرتی ہے.حافظ روشن علی صاحب.اگر عقائد کے متعلق ہو تو متواتر یا مشہور حدیث اور اگر اعمال کے متعلق ہو تو ایسی احادیث بھی ہم مان لیتے ہیں کہ جو قرآن کریم اور متواتر حدیث کے بر خلاف نہ ہو.حافظ محمد یوسف صاحب.جو حدیث احکام پر مشتمل نہ ہو اس کے متعلق کیا اعتقاد ہے.حافظ روشن علی صاحب.اگر وہ قرآن اور حدیث متواتر مشہور کے خلاف نہ ہو تو مسّلم ہے حافظ محمد یوسف صاحب: یہ حدیث آپ کو کیوں مسلمّ نہیں.حافظ روشن علی صاحب.اس لئے کہ یہ حدیث نہ متواتر ہے نہ مشہور ہے اور نہ احاو- اس کی سند تک موجود نہیں.

Page 423

حافظ محمد یوسف صاحب.مشکوة میں موجود ہے ابن جوزی اس کے راوی ہیں مشکٰوة آپ کی جماعت میں مسلم ہے.آپ دفع الوقتی کرتے ہیں.(اس کا جواب میں اپنے نوٹ میں پہلے دے چکا ہوں کہ ابن جوزی جو یہ حدیث نقل کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے چار پانچ سو سال بعد ہوئے ہیں.اور نہ تو انہوں نے یہ بتایا ہے کہ یہ حدیث انہوں نے کسی کتاب میں دیکھی ہے اور نہ یہ لکھا ہے کہ ہم نے کس سے سنی پھر ہم اس حدیث کو کیونکر مان سکتے ہیں علاوہ ازیں ابن جوزی وہ شخص ہے کہ جس نے شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ جیسے پاک اور مقد س انسان پر کچھ فتوی ٰدیا ہے اور ایک کتاب تلبسِ ابلیس لکھ کر اپنی محجوبانہ حالت کا ثبوت دیا ہے.جو شخص ایساغیرمحتاط ہو اور ایسے ایسے آئمہ دین کی شان میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرے میں تو اگر وہ سند کے ساتھ بھی کوئی بات بیان کرے تو اس کے مانے میں ایک حد تامل ہے) حافظ روشن علی صاحب.ابن جوزی ایک راوی چو تھی پانچویں صدی کا آدمی رسول اللہ ﷺ تک حدیث کو کس طرح پہنچا سکتا ہے.مشکوة ہمارے ہاں مسلم نہیں.آپ کو ہماری جماعت کا علم نہیں.اس پر ختم ہوگئی.اس پر حافظ روشن علی صاحب نے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ یہ حدیث ثابت نہیں مگر میں آپ کی خاطر اس کے معنی کر دیتا ہوں حدیث میں لفظ ہے ينزل یعنی آئے گا چنانچہ مرزا صاحبؑ بھی آئے ہیں.دو سر الفظ ہے جس کے معنی ہیں نکاح کرے گا.مرزا صاحب ؑنے نکاح کیا ہے.تیسرا لفظ ہے یولدلہ جس کے معنی ہیں اس کے اولاد ہوگی مرزا صاحب صاحبؑ اولاد ہیں.حافظ محمد یوسف صاحب.ابھی یہ باتیں تو ہر ایک صاحب اولاد پر صادق آتی ہیں.یہ مسیح کی خصوصیت کیا ہے امتیازی نشان تو وہی چو تھا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو جائیں گے اور رسول اللہﷺ کی قبر میں دفن کئے جاویں گے.حافظ روشن علی صاحب.اس کا کیا ثبوت ہے کہ اس حدیث میں رسول الله ﷺمسیح کی خصوصیتیں بیان کر رہے ہیں کیونکہ اگر خصوصیتیں ہوتیں تو پہلی تین باتیں کیوں بیان فرماتے اگر یہ مانا جائے کہ اس حدیث میں خصوصیتیں بیان ہو رہی ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سوا اور نہ کوئی دنیا میں آتا ہے اور نہ اس کا نکاح ہو تا ہے اور نہ اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں.اگر ان تینوں باتوں میں حضرت مسیحؑ کے علاوہ دوسرے لوگ شامل ہو سکتے

Page 424

ہیں.تو باقی خصوصیتوں کے بھی ایسے معنی ہو سکتے ہیں کہ جن میں حضرت مسیحؑ کے علاوہ دو سرے لوگ شامل ہوں).(اس کے ساتھ ہی حافظ روشن علی صاحب نے فرمایا )کہ اچھا آپ کی بات مان کرہی کہ قبرمیں دفن ہو ناہی حضرت مسیحؑ کی شناخت کا نشان ہے.یہ مانا پڑے گا کہ جب تک حضرت مسیحؑ فوت نہ ہوں ان کو کوئی نہ مانے کیونکہ جب وہ رسول اللہ ﷺکی قبر میں دفن کئے جاویں گے تب تو ان کی شناخت ہوگی.اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعوردؑچونکہ رسول الله قﷺکا خادم ہے اور نہایت مقرب خادم ہے.اس لئے اس کو اس جنت میں جگہ ملے گی جس میں رسول اللہ ﷺ ہیں.چنانچہ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے کہ القبر روضة من ریاض الجنةیعنی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو تا ہے.(جامع العلوم کی طرف سے جو اشتہار دیا گیا ہے اس میں حافظ روشن علی صاحب نے جو حدیث بتائی تھی القبر روضة من ریاض الجنةیاس کو غلط کر کے یوں لکھا گیا ہے.کہ حافظ صاحب نے فرمایا قبری روضة من الجنة حافظ محمد یوسف صاحب.یہ حدیث بالکل غلط ہے.ان الفاظ کے ساتھ میں موجود نہیں.بلکہ حدیث یوں ہے.مابين قبری و منبری روضه من رياض الجنة یہ کہہ کر آپ نے بہت بہت کچھ شور مچایا.اور کہا کہ من كذب علی متعمدا فلیتبوا مقعده من النار یعنی جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں کرلے.(حالا نکہ جو حدیث مولوی محمد یوسف صاحب نے فرمائی وہ اور حدیث تھی اور جو حافظ روشن علی صاحب نے فرمائی و ہ اور تھی چنانچہ اس کا ثبوت آگے چل کردیا جائے گا.) حافظ روشن علی صاحب نے ان کے اس غیر مہذبانہ بر تاؤ کے جواب میں فرمایا کہ یہ حدیث ہےاور بالکل سچ ہے.ہم سفر میں ہیں ہمارے پاس کیا میں نہیں آپ لکھ لیں ہم اس کا پورا پوراحوالہ لکھ دیں گے انشاء اللہ العزیز.اس کے بعد جماعت طلباء اپنی خیالی فتح کا اظہار کرتے ہوئے رخصت ہوئے.اب ان باتوں سے ناظرین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ فتح کس کی تھی.ہمیں فتح و شکست سے کچھ غرض نہیں.حق بتاناہمارا کام ہے.اور ہماری خواہش ہے اگر طلباء جامع العلوم یا ان کے استادوں کو فتح کے نام سے کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ بیشک ڈ نکے بجائیں.ہمیں تو وہ شکست جس میں راستی کو ملحظ رکھا گیا ہو اس فتح سے بدرجہا پیار ی ہے جس میں واقعات پر پردہ ڈالا گیا ہو.یہ تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ حدیث

Page 425

قطعا ًرسول الله لﷺتک ثابت نہیں اور اس کے راویوں کے نام تک بھی معلوم نہیں.رسول اللہ ﷺکے پانچ سو سال بعد ایک شخص یہ حدیث بیان کرتا ہے.اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح حدیثوں کے خلاف ہے.چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے.قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم انا سيد ولد ادم يوم القيمة وأول من ينشق عنه القبرو اول شافع و اول مشفع( کتاب الفضائل جلد دوم،) ترجمہ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے میں ہی اولاد آدم کا سردار قیامت کے روز ہوں اور میں ہی ہوں جس کی قبر سب سےپہلے کھلے گی اور میں ہی سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں، اور میں ہی ہوں جس کی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جاوے گی.اس حدیث میں صریح معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دیگر انبیاء ؑو اولیاء پر جو فضیلتیں دی گئی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی قبر سب سے پہلے کھلے گی.اگر حضرت عیسٰؑی آپﷺ کی قبر میں دفن ہوں گے تو پھر وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میری قبر پہلے کھلی.وہ قبر تو پھر حضرت رسول کریم ﷺور حضرت مسیح ؑمیں مشترک ہو گئی.اس لئے پہلے کھلنےسے رسول الله ﷺ کی تو کچھ شان ثابت نہیں ہوتی.کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ قبربوجہ مسیح کےکھولی جائے گی.اور اگر اس فضیلت میں کسی کو آپ ﷺکے ساتھ شامل کر دیا گیا تو جائز ہو گا کہ دو سری خصوصیات میں بھی دوسرے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں اور آپ کے ساتھ اور انبیاء کو بھی شفاعت کی اجازت مل جائے اور وہ بنی آدم کے سردار کالقب پائیں.افسوس!کہ اب اسلام کی حقیقت یہ باقی رہ گئی ہے.کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو رسول اللہ اﷺکی کوئی خصوصیت پسند نہیں کرتے.آپ خاتم النبیّن تھے لیکن ان مسلمانوں نے کہا کہ ہم آپﷺ کو خاتم النبیّن بننے نہ دیں گے.اور حضرت مسیح ؑکو انیس سو برس کے بعد آسان سے کھینچ بلایا اب جو آخر میں آئے گا وہ خاتم النبیّن ہو گایاجو پہلے آیا تھا وہ خاتم النبین ہوگا ؟کاش و ہ خیال کرتے کہ اس طرح رسول اللہ ﷺکی خصوصیت ختم نبوت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور خاتم النبیّن تو حضرت مسیحؑ بن جاتےہیں جن کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو گا جو آدمی خداتک پہنچے کا ان کے فیض سے پائے گا پھر رسول اللہ ﷺکی خصوصیت تھی کہ آپ کے ہاتھ پر ليظهر على الدين کلہ کی پیشگوئی پوری ہوگی.وہ بھی انہوں نے مسیحؑ ناصری کے ذمہ لگا دی کہ اس کے زمانہ میں اسلام دنیا میں کلی طور پر پھیلے گا اگر یہ کام رسول اللہ ﷺ کا کوئی خادم کر تا تب تو رسول اللہﷺا کا کام سمجھا جا تا.حضرت مسیحؑ کا..

Page 426

کام آپﷺ کا کام کیونکر سمجھا جا سکتا ہے جو کہ بنی اسرائیل کے نبی ہیں ان کا کام تو ان کی طرف منسوب ہو گا یا حضرت موسیٰؑ کی طرف.اب ایک خصوصیت آپﷺ کی قبر کی تھی وہ بھی یہ برداشت نہیں کر سکے اور کر مسیح ؑ کو بھی آپ کی قبر میں داخل کردیا تاکہ جب سب سے پہلے رسول کریمﷺکی قبر کھلے تو یہ بھی اس فضیلت میں شامل ہوں.کاش عام مسلمان ہی غور کرتے کہ ان کے علماء ان کو کس راہ پر چلا رہے ہیں.غرض یہ حدیث صریح طور سے اس حدیث کو رد کرتی ہے جو مولوی محمد یوسف صاحب نے پیش کی تھی.اور اول تو وہ حدیث ثابت ہی نہیں ابن جوزی کا قول ہے جس کا وہ حال ہے کہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ جیسے بزرگ پر فتویٰ دیا اورمخالفت کی اور اگر بہ فرض محال اس حدیث کا درجہ دے بھی دیں تو اس کے وہ معنی نہیں ہو سکتے جومولوی صاحب نے کئے ہیں.کیونکہ اس طرح مسلم کی صحیح حدیث کا رد ہو تا ہے علاوہ ازیں کون مسلمان برداشت کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی قبر کھودی جائے یہ بات تو انسان اپنے دشمن کے لئےبھی برداشت نہیں کر سکتا.قبر خود تاتو مردہ کو اذیت دینا ہے.رسول اللہ ﷺ نے تو قبر پر کھڑےہونے اور اس پر تکیہ لگانے تک سے منع فرمایا ہے کہ مردہ کو اذیت ہوتی ہے.پھر مسلمان کیونکربرداشت کرتے ہیں کہ مسیحؑ کی خاطر آپ ﷺکی قبر کھودی جاوے گی.نعوذبالشر من زيف.يتم اس پرغور کرو اور نبی کریم ﷺسید ولد آدم کی قبر کی اتنی توہیں نہ کرو! اب ہم اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کاز کر حافظ روشن علی صاحب نے بوقت مباحثہ کیا تھااور جس پر مولوی محمد یوسف صاحب نے شور مچایا تھا.کہ یہ حدیث ہی نہیں دیکھو کتاب بشریٰ كليب بلقاء الحبيب امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ ممطبوع مصر صفحہ نمبر ۵۱،۵۷- اخرج البیھقی و ابن ابی الدنیاعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم القبر روضة من ریاض الجنة او ھفرة من حفر الدنیا.یعنی بیہقی نے اور ابن ابی الدنیا دونوں نے حضرت ابن عمر سے اپنی کتابوں میں روایت کی تھی کہ فرما رسول اللہ ﷺنے کہ قبرجنت کے چمنوں میں سے ایک چمن ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اب اس حدیث سے قبر کے معنی جنت کے چمن بھی ہو گئے.پس خود رسول اللہ ﷺ کے قول سے ابن جوزی کی حدیث کے معنی ہو گئے کہ حضرت مسیح موعودؑ رسول اللہ اﷺکے ساتھ جنت میں داخل کئے جاویں گے.کیونکہ خادم آقا کے ساتھ اکٹھا ہی رکھا جاتا ہے.اسی طرح ابن مندہ نے حضرت ابو ہرہ ؓ سے یہ حدیث روایت کی تھی کہ عن ابی ھریرة عن رسول الله صلى الله علیہ وسلم قال المؤمن فی قبرہ فی روضة الخضراء ولیرحب لہ فی قبرہ سبعون ذراعا و ینور لہ فی قبرہ کلیلة البدر.

Page 427

یعنی حضرت ابو ہریرہ ؓنے فرمایا رسول اللہ ﷺسے کہ آپﷺ نے فرمایا مؤمن اپنی قبر میں ایک سبز چمن میں ہو تا ہے اور اس کی قبر اس کے لئے سترہاتھ چوڑی کی جاتی ہے اور اس کی قبر چودھویں رات کی طرح روشن کی جاتی ہے اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبرسےمراد یہ قبر نہیں بلکہ جنت کی کسی جگہ کانام ہے یا جنت سے پہلے کوئی اور مقام ہے جہاں مومن کو رکھا جاتا ہے.اور ہر طرح کی کشائش وہاں ہوتی ہے.ورنہ اگر اس قبر کے معنی کے جادیں تو آج تک اتفاقی طور پر بہت سی قبریں کھدی کہیں میں قبر میں باغ نظر نہیں آیا.اور نہ قبرسترہاتھ چوڑی لمبی معلوم ہوئی ہے.اگر یوں ہو تو قبرستانوں کے لئے جگہ ہی نہ ملے.اس حدیث کے یہی معنی معلوم ہوتے ہیں کہ قبروہی مقام ہے جہاں کہ وفات کے بعد مومن کو رکھا جاتا ہے.اور وہ مکان ستر گز چھوڑ کر اگر ستر ہزار گز بھی ہو تب بھی اس کے مانے میں نہ کسی حدیث کا خلاف ہوتا ہے اور نہ مشاہدہ اس کا انکار کر سکتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗمِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ مِنْ نُّطْفَةٍ-خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗۙ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗۙ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهمطلب ”انسان ہلاک ہو کس چیز نے اس کو کفر کی تعلیم دی ہے اللہ تعالیٰ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ہے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے.پھر اس کے لئے ہر قسم کے اندازے مقرر کئے.پھر ہدایت کے راستے میں سہولتیں پیدا کیں.پھر اسے مارا اور قبر میں دفن کیا پھر جب چاہے گا اٹھا\" عبس(۲۳-۱۸) ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ قبر سے کیا مراد تھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قبر میں ہم داخل کرتے ہیں معلوم ہوا کہ قبر سے یہی مٹی کی قبر مراد نہیں ہوتی جس میں انسان کے عزیز و رشتہ دارداخل کرتے ہیں.بلکہ اس سے کوئی ایسی مقام بھی مراد ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ خود اپنے خاص اِذن سے داخل کرتا ہے پس خلاصہ جواب یہ ہے کہ غلام سرور صاحب کے اشتہار میں اظہار امر واقعہ میں صریح تحریف کی گئی ہے اور جو حدیث مولوی محمد یوسف نے پیش کی تھی وہ قطعاًعلم حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہے اور اگر بہ فرض اس کو مان بھی لیں تو اس کے جو معنی وہ کرتے ہیں.اس میں نہ صرف رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے بلکہ جس کو کوئی غیور مسلمان برداشت نہیں کر سکتا بلکہ وہ مسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہے اور یہ کہ بعض دیگر حدیثوں سے اس حدیث کے معنی

Page 428

صاف ہو جاتے ہیں اور کوئی اشکال نہیں رہتا جیسا کہ درج کیا گیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ أصحاب کانپور جو ایک دفعہ کمال بے تعصبی کا نمونہ دکھا چکے ہیں اس پر غور کر کے فائدہ اٹھائیں گے.اور وہی پہلو اختیار کریں گے جس میں رسول اللہ ﷺ کی عزت قائم ہوتی ہو اور آپﷺ کی اتباع اختیار کر کے آپ ﷺکے خادم اور خدا کے مأمور مرزا غلام احمد صاحب ؑقادیانی کی اتباع اختیار کریں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عزت اسی میں ہے کہ آپ کے خدام سے وہ لوگ پیدا ہوں جو مسیحائی کا درجہ پا ئیں.جب نوریست درجان محمدؐ عجب لطیست درکان محمدؐ دگر استار را نامے نہ دانم کہ خواندم در دبستان محمدؐ بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کشتہء آن محمدؐ 2 والسلام علی من اتبع الہدیٰ خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد قادیان (محرره اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 429

Page 430

خدا کے فرستادہ پرایمان لاؤ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 431

Page 432

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فرستادہ پر ایمان لاؤ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران.۱۴۵ ( (محمد ایک رسول ہی ہیں ان سے پہلے سب رسول وفات پا چکے) قرآن مجید میں آیت موجود ہے.خلت کے معنی بھی قرآن مجیدہی سےحل ہوتے ہیں.جیسا کہ اس کے آگے فرمایا اَفَاىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ (آل عمران، ۴۵ ا)یعنی خلا کی دو ہی صورتیں ہیں.موت یا قتل.تیسری صورت کے لئے الى ٰصلہ آتا ہے پھر معلوم نہیں عیسیٰؑ علیہ السلام کی وفات میں کون سا شبہ باقی رہ جاتا ہے جبکہ آنخضرت اﷺنے اپنی رؤیت بیان فرمائی کہ شبِ معراج ان کو فوت شده انبیاء ؑ کی ارواح کے ساتھ دیکھا اور حضرت ابو بکرؓ نے وفات النبی ﷺکے روز یہی آیت پڑھ کر نبی کریم ﷺ کی وفات پر استدلال فرمایا جو بھی کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اگلے تمام انبیاءؑ کی وفات کو نہ مان لیا جاوے.پھر نہ توفيها تحیون و فيها تموتون (الأعراف ۲۶) (اسی زمین میں زندہ رہتے ہو اور اسی زمین میں مروگے) ان کو آسمان پر جانے دیتا ہے اور نہ رفعہ الله إليه( النساء: ۱۵۹) سے ان کی رفعت جسمانی ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ یہود کے جواب میں فرمایا جو انہیں مقتول بالصليب کر کے ملعون بنانا چاہتے تھے مگر خدا نے جیسا کہ اس کا وعدہ تھا کہ انی متوفيك ورافعك إلی.(آل عمران:۵۶) ان کو وفات دے کر وہ رفع دیا جو اپنے تمام پیاروں کو دیا کرتا ہے.پھرفيمسك التی قضی عليها الموت (الزمر: ۴۳) سے اللہ تعالیٰ نے اپنایہ کلیہ بھی فرما دیا کہ ارواح موت کے بعد رو کی جاتی ہیں اور مردہ دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آتاا نهم اليھم لا ير جعون (یس : ۳۲) تو مسیحؑ جو وفات پا چکا ہے وہ کس طرح آسکتا ہے.اِلاَّ اسی رنگ میں جیسے الیاسؑ يوحنا کے رنگ میں آیا اور حضرت عیسیٰؑ نے تمام یہود کو اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ جس ایلیا

Page 433

کے تم انتظار میں ہو وہ آچکایعنی یوحنا اس کی خوبو پر آیا ہے دیکھو متی باب ۱۱آیت ۱۳-۱۴- قرآن مجیدکی آیت استخلاف پر تدبر کرنے سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یا دوباره بروزی رنگ میں نازل ہو گا.کیونکہ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪ (النور ۵۶) مطلب.ضرور خلیفہ بنائے گا امت محمدیہ کے کامل الایمان عمل صالح کرنے والوں کو جیسا کہ ان سے پہلے موسوی امت میں خلفاء بنائے ہیں.بتادیا کہ محمدی سلسلہ خلفاء موسوی سلسلہ خلفاء کی مانند ہے.مشبّہ مشبّہ بہ ایک نہیں ہوتے اس لئے محمدی مسیح اور ہے.موسوی مسیح اور.ایک ہی نام کا اطلاق سورة تحریم کے آخر کے مطابق غایت مشابہت سے ہے.مسیحؑ بن مریم کا حلیہ سرخ رنگ گھونگھریالے بال اور آنے والے مسیح کاحلیہ گندمی رنگ سیدھے بال جیسا کہ حدیث کی کتابوں سے ظاہر ہے.دونوں کو علیحدہ علیحده ثابت کرتا ہے.یہاں تک تو موعود کی کیفیت نزول سے بحث تھی.اور نزول آسمان سے اترنے کو نہیں کہتے چنانچہ نبی کریم اﷺکے بارے میں فرمایا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًاۙ (الطلاق: ۱۰) (۱ تارا تمہاری طرف یاد دلانے والا رسول) اب باقی یہ سوال رہ گیا ہے کہ اس امت محمدیہ سے جو مسیح و مہدی آنے والا تھاوہ حضرت مرزا غلام احمد ساحب ہی کیونکر ہیں ؟ سواس کے لئے دیکھنا چاہیے کہ یہ تو متفق اللفظ مان لیا گیا ہے کہ بی زمان ظہور مہدی کا ہے جیسا کہ اس زمانہ کے فتن سے ظاہر ہے اور اسلام کا ضعف دلالت کرتا ہے.اور ان الله يبعث لهذه الأمة علی راس کل مئة سنة من یجدد لھا دینھا (ابو داؤد کتاب الملاحم) کی حدیث صحیح اور اس کے مطابق ہر صدی کے سر پر مجد د کا ظہور بھی اس کا مؤید ہے.اس صدی میں چونکہ صلیب پر ستی کا زور ہےاس لئے ضرور تھا کہ چودھویں صدی کا عظیم الشان مجدد اپنے کام کے لحاظ سے کا سر الصلیب کالقب پائے.اور مسیح و مہدی کہلائے.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی ؑ مبعوث ہو کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے یا نہیں.اور آپ نے ان باتوں کابیج بو دیا یا نہیں جن پر اسلام کی ترقی کادارومدار اور دلائل و براہین سے کسر صلیب کا انحصار ہے.اے حضرات ! آپ انصاف سے دیکھئے اس وقت تمام دنیا اور پھر ملک ہندوستان میں کونسی جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں جماعت کہلانے کی مستحق ہے اور جو اپنے تمام اقوال و افعال کو ایک امام کے ماتحت عملی طور پر دیکھتی ہے اور کون سی وہ جماعت ہے جس میں وحدت جو تمام کامیابیوں کی جڑ ہے موجود ہے اور جو اپنے مال و جان سے قرآن مجید اور نبی اکرم اﷺکی تقدیس و تطہیر اور ان کے عظمت و جلال کے قلوب میں راسخ کرنے کے لئے ہر وقت مستعد ہے.بلاخوف تردید اس.

Page 434

سوال کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ.جب کسی پادری سے مباحثہ ہو.جب یہ سوال ہوکہ اسلام میں دو سرے مذہبوں سے کیا امتیاز ہے تو اس کا جواب دینے کے لئے صرف یہی جماعت جرأت کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے.اور اس کا ہر ایک فرد بتا سکتا ہے کہ اسلام کا دارو مدار قصے اورکہا نیوں پر نہیں بلکہ اس وقت بھی وہ وہی نشان د کھا سکتا ہے جو اگلے انبیاء ؑو اولیاء نے اپنےصدق کے ثبوت میں دکھائے.آخر یہ سب کچھ کس مرد ِخدا کی قوت قدسیہ کے طفیل ہے اس کے جو مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ(الصف: ۷).الایہ – ویسمّی باسم نبیکم (سنن ابی داؤدجلد سوم کتاب المہدی صفحہ۷ ۳۲) کی پیشگوئی کے مطابق احمد ؑکے نام سے نبی کریم اﷺکا ایک غلام بن کر آیات بینات کے ساتھ آیا.ان آیات بینات میں سے ایک یہ ہے کہ ولو تقول علينا بعض الأقاويل لاخذنا منہ باليمين ثم لقطعنا منه الوتين - (الحاقہ : ۴۷،۴۵) کہ اگر ہم پر افتراء کرے تو دائیں ہاتھ سےگرفت کر کے رگ جان کاٹ دیں.آپ کا الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ء کا ہے-۱۹۰۸ء تک آپ اپنے دعوے پر مؤکد قسموں کے ساتھ قائم رہے.اور اتنی مدت میں کامیابی پر کامیابی دیکھی کیا کوئی مفتری ہو کر یہ فلاح پاسکتا ہے.کیا اتنے مال جو نزول قرآن کےزمانہ ۲۳ سال سے بھی بہت زیادہ ہے ہر روز نئے سے نئے افتراء کر کے دعوےٰ نبوت و رسالت کے ساتھ کبھی کوئی شخص کامیابی کے ساتھ زندہ رہا ہے کیا تاریخ کوئی نظر پیش کر سکتی ہے؟ ہرگزنہیں اگر ایسا ہو تو جھوٹے اور سچے نبیوں میں امتیازہی اٹھ جائے.ایک معمولی دنیاوی سلطنت میں جس کے اختیار اور علم و اخبار کاذریعہ بہت ہی محدود ہے.کوئی جعلی تحصیل دار بن کر سکھ نہیں پا سکتا توخد اکی گورنمنٹ میں کوئی مصنو عی پیغمبر کب سکھ پا سکتا ہے.سوچنے کی بات ہے.(دوم) پھر دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ اس کی اپنے رسل و انبیاء ؑکے ساتھ سنتِ جاریہ ہے.آپؑ پر اس کثرت و صفائی کے ساتھ غیب کا اظہار کیا کہ تاریخ انبیاءؑ اور انبیاء ؑمیں سے خاص انبیاء ؑکے سوا کوئی اور نظیر پیش کرنے سے قا صر ہے.چنانچہ نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے آپ پر وحی نازل کی.يأتيك من كل فج عميق.ياتون من كل فج عميق ينصرک رجا ل نوحی اليهم من السماء ولا تصعرلخلق اللہ لا تسئم من الناس دیکھو براہین احمد یہ مطبوعہ ۱۸۸۱ء صفحہ ۲۴۱.کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.اور ایسی کشرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی.تیری مد وہ لوگ کریں گے جن

Page 435

کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے.مگر چاہے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گےبد خلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی کثرت دیکھ کر ملا قاتوں سے تھک نہ جائے.ایک شخص ایک ایسے گاؤں میں رہنے والا جس کے نام سے بھی مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہیں یہ اعلان کر تاہےپھر باوجود سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ و افریقہ سے لے کر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا کسی معمولی آدمی کا کام نہیں ہو سکتا.پھر ایک مقتدر جماعت اپنے اپنے پیارے وطن چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیامیں مشہور ہو جا تا ہے کیا یہ چھوٹی سی بات ہے اور ایسانشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟ (سوم ) تمام مذہبوں پر اتمام حجت.عیسائیوں کے لئے امرتسر کے مقام پر جنگ مقد س ہوئی وہاں آپ نے شائع فرمایا کہ جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے وہ ایام مباحثہ کے لحاظ سے پندرہ ماہ کے اند ر ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اس میں دراصل دو پیش گوئیاں تھیں.آتھم نے اپنی کتاب اندرونہِ بائبل میں آنحضرت ﷺ کو (نعوذ باللہ ) دجاّل لکھاتھا.مگر اس نے اس وقت اس قول سے رجوع کیا اس لئے شرط رجوع سے فائر واناکر پیش گوئی کےدو سرے حصےکے مطابق بچ گیا.اور جب اس نے رجوع سے انکار کیا تو پھر پندرہ ماہ کے اندر مرگیا.پھر انہیں عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے ناپاک کلمات شائع کئے.کہ’’ میں خدا سے دعا کرتا ہوں وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جائے اے خداتو ایسا ہی کر.اے خد ااسلام کو ہلاک کر.» تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام ہمام علیہ السلام تھے جنہوں نے اس کے مقابلے میں اشتہار دیا کہ اے شخص جو مدعی نبوت ہے اور میرے ساتھ مباہلہ کر.ہمارا مقابلہ دعاسے ہو گا اورہم دونوں خدائے تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذّاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو(ٹیلیگراف۵جولائی ۱۹۰۳ء )، لیکن اس نے رعونت سے کہا کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اورمکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھیں تو ان کو کچل کر مار ڈالوں.(ڈوی کاپرچہ دسمبر۱۹۰۳ )مگر حضور مہدی ؑنے فرما دیا تھا.او راسی اشتہاری۲۳ اگست ۱۹۰۳ء میں شائع کیا تھا کہ اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقینا ًسمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر آفت آنے والی ہے.اے قادر اور کامل خدا! یہ فیصلہ جلد کراو رڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کردے.

Page 436

پھر اس کے بعد معزز ناظرین ستو کیا ہوا.وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کر تا تھا جس کے پاس سات کروڑ نقد تھا اس کی بیوی اور اس کا بڑادشمن ہو گئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزناہے.آخراس پر فالج گرا.پھر غموں کے مارے پاگل ہو گیا اور مارچ ۱۹۰۷ء میں بڑی حسرت و دکھ کے ساتھ(جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس ؑنے ۲۰ فروری ۱۹۰۷ءکے اشتہار میں شائع فرمایا تھا.’’ خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی.وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہو گا‘‘.ہلاک ہو کر خدا کے سچے نبی کی صداقت پر مہرلگا گیا یہ عیسائی دنیا.پرانی دنیا اور نئی دنیا.دونوں پر حضور کی فتح تھی.پھرسنو! اس ملک میں آریوں کا زور ہے ان کازعیم لیکھرام تھا.رسالہ کرامات الصاد قین مطبوعہ صفرا ۱۳۱ء میں یہ پیش گوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کر کے مجھے خبردی ہے کہ وہ چھ سال کے اند ر ہلاک ہو گا.اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبی اﷺکو گالیاں دیتا تھا اور برے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا.پھر ۲۲ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں اس کے مرنے کی صورت بھی بتادی.عجل جسد خوار لہ نصب و عذاب یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے جو بے جان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں اس لئے اسکو عذاب دیا جائے گا جو گوسالہ سامری کو دیا گیا تھا اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گو سالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا.پھر ۲- اپریل ۱۸۹۳ء کو آپ نے ایک کشف دیکھا دیکھو برکات الدعا کا حاشیہ) کہ ایک قوی مہیب شکل جو گویا انسان نہیں ملائک شداد وغلاظ سے ہے.وہ پوچھتا ہے لیکھرام کہاں ہے.پھر کرامات اصارقین کے اس شعرسے و بشرنی ربی و قال مبشرا ستعرف يوم العيد والعيد أقرب دن بھی بتادیا لیکن عید سے دوسرے دن ہفتہ والے دن اور الا اے دشمنِ نادان و بے راه بترس از تیغِ برانِ محمدؐ پانچ سال پہلے شائع کر کے قتل کی صورت بھی بتادی.آخر لیکھرام ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل کیا گیا.اور سب نے متفق اللّفظ مان لیا کہ یہ پیش گوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر اسلام کے لئے جت ناطقہ ٹھہری.اسی طرح قادیان کے آریہ تھے.جنہوں نے خدا کے مرسل کو دکھ دینے اور بد زبانی کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا تھا.اور ان میں سے ان کے اخبار شبھ چنتک (جس کے ذریعے یہ غلط فہمیاں

Page 437

پھیلاتے تھے ) کے ایڈیٹر و منتظم سرکش تھے.آخر خدا کی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے \" قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ ایک رسالہ لکھا.اور صفحہ ۲۱ ،۲۲ میں یہ پیشگوئی ان لوگوں کے حق میں کی.یہ لوگ ان نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچائی سورج کی طرح چمکتی ہے.حد سے بڑھ گئے ہیں خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گاو و ضرور اپنے نبیوں کے لئےکوئی ہاتھ دکھلائے گا.اسی طرح اور بھی کئی الہام تھے.آخر ان کو طاعون ہؤا اور تینوں تین دن کے اندر طاعون کاشکار ہو گئے ، اور ایسے تباہ ہوئے کہ کوئی ان کا قائم مقام نہ ہؤا.یہ غیر قوموں پر اتمام حجت تھا.مسلمان کہلانے والے مولویوں پر ہوں اتمام حجت کی کہ تمام مشہور مولویوں کے نام لکھ کر ان کو مباہلہ کے لئے بلایا اور لکھا (دیکھو انجام آتھم) میں دعا کروں گا اے خدا علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اورتیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر.کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور صفحہ۶۷ پر لکھتے ہیں میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثرصرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں كاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار.ذرا غور سے پڑھو کیا کوئی شخص اتنا بڑا دعوی ٰسوا سارق مأمور کے کر سکتا ہے.حق ،حق ہی ہوتاہے کوئی مولوی مقابل پر نہ آیا.اور یوں حضور کی صداقت اور اپنی بطالت پر عملی گواہی دے دی اور ان میں سے بہت آپؑ کی آنکھوں کے سامنے انہیں بیماریوں سے مرے.ان حجج نیرّہ کے ہوتے اور اس خد مت اسلامی کی موجودگی میں جس میں کوئی شائبہ اپنی غرض دنیاوی کا نہیں پایا جا تا( چنانچہ دیکھو اگر آپ کو دنیا کا کمانا مقصود ہو تا تو اپنی کوئی جائیداد بڑھاتےاپنی اولاد کے لئے گدی کو مخصوص کر جاتے) کون آپؑ پر ایمان لانے سے بے رغبتی کر سکتا ہے.اِلاَّمن سفه نفسه.(البقرہ:۱۳۱) مسیح کے لئے جو نشانات آپ لوگوں نے مقرر کئے ہیں وہ زیادہ تر یہی مشہور ہیں.

Page 438

۱.دو زرد چادروں کے ساتھ اترے گا.۲- دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترےگا.۳.کافر اس کے دم سے مریں گے.۴.ایسا معلوم ہو گا کہ ابھی ابھی حمام سے نکلا ہے اور پانی کےقطرے اس کے سر کے بالوں سے موتیوں کی طرح ٹپک رہے ہوں گے.۵- دجال کے بالمقال خانہ کعبہ کا طواف کرے گا.۲.صلیب کو توڑے گا...خنزیر کو قتل کرے گا.۸.ایک بیوی کرے گا اس سے اولاد اس کے لئے ہوگی.۹- دجال کو قتل کردے گا.۱۰.مسیح موعودؑ طبعی موت سے مرے گا اورآنحضرت ﷺ کے مقبرہ میں دفن ہو گا.اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعودؑ ہی کی تحریر سے پیش کر تا ہوں.(۱) دو زرد چادریں وہ دوبیماریاں ہیں (دیکھو کتب تعبیرالر یا )جو بطور علامت کے مسیح موعودؑ کے جسم کو ان کا روزِازل سےلاحق ہو نامقد ر کیا گیا تھا تاکہ اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو.(۲) دو فرشتوں سے مراد اس کے لئے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر اس کی اتمام حجت موقوف ہے ایک وہبی علم متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور کتساب کےاس کو عطا کیا جائے گا دو سری اتمام حجت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دل کے خدا کی طرف سےنازل ہوں گے.(۳) کا فروں کو دم سے مارنا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعودؑ کے نفس یعنی اس کی توجہ سےکافر ہلاک ہوں گے.(۴) اور سر کے بالوں سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنا اس کشف کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعودؑ اپنی بار بار توبہ اور تضرّع سے اپنے اس تعلق کو جو اس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتارہے گاگویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے.ورنہ جسمانی سال میں کون سی خاص خوبی ہے اس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کو غسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی ٹپکتے ہیں.(۵) اور طواف خانہ کعبہ وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گا جس کا نام دجال ہےوہ اسلام کا سخت دشمن ہو گا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اس کے گر و طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ دبن سے اکھاڑ دے.اس کے مقام پر مسیح موعودؑ بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جس کی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سےمسیح موعود ؑ کی غرض یہ ہوگی کہ اس چور کو پکڑے جس کا نام د جال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے.

Page 439

(6) اور صلیب توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑ دی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے.اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سےمطلب یہ ہے کہ مسیح موعودؑ صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کانشوونمانہ ہو گا.اس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہو گا اور صلیبی عقیدہ کی عمراس کے ظہورسے پوری ہو جائے گی.اور خود بخود لوگوں کے خیالات صلیبی عقید ہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آج کل یورپ میں ہو رہا ہے.7 ) اور یہ پیش گوئی کہ خنزیر کو قتل کرے گا یہ ایک نجس اور بد زبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا دشمن مسیح موعودؑ کی دعا سے ہلاک کیا جاوےگا.(۸) مسیح کی اولاد ہوگی ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہو گا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا.(9) دجال کو قتل کرے گا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ظہور سے دجالی فتنہ روبزوال ہو جائےگا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا او روانشمندوں کے دل توحید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے.(۱۰) مسیح موعودؑ بعد وفات کے آ نحضرتﷺ کی قبر میں داخل ہو گا اس کے یہ معنی کرناکہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی قبر کھودی جائے گی.یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعودؑمقام قرب میں آنحضرتﷺ سے اس قدر قریب ہو گا کہ موت کے بعد آنحضرت اﷺکے قرب کارتبہ اس کو ملے گا اور اس کی روح آنحضرت ﷺ کی روح سے جا ملے گی گویا ایک ہی قبر میں ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو خوب غور سے پڑھنے اور چمران پاک عقائد کو دل سے مان لینے کی توفیق عطا فرمادے.(آمین) ( محررہ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 440

دس دلائل ہستی باری تعالیٰ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد

Page 441

Page 442

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ دلائل ہستی باری تعالیٰ اس زمانہ میں عقائد و ایمانیات پر جو مادی دنیا نے اعتراضات کئے ہیں ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ انکار ذات باری ہے.مشرک گو خدا کا شریک ان کو بناتا ہے لیکن کم سے کم خدا تعالیٰ کے وجود کا تو قائل ہے.دہریہ بالکل ہی انکاری ہے.موجودہ سائنس نے ہر چیز کی بنیاد مشاہدات پر رکھی ہے.اس لئے دہریہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کوئی خدا ہے تو ہمیں دکھائو.ہم بغیر دیکھے کے اسے کیونکر مان لیں.چونکہ اس وقت کی ہوا نے اکثر نوجوانوں کے دلوں میں اس پاک ذات کے نقش کو مٹا دیا ہے اور کالجوں کے سینکڑوں طالب علم اور بیرسٹر وغیرہ وجودِ باری کے منکر ہور ہے ہیں اور ان کی تعداد روز افزوں ہے اور ہزاروں آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو بظاہر قوم و ملک کے خوف سے اظہار تو نہیں کرتے لیکن فی الحقیقت اپنے دلوں میں وہ خدا پر کچھ یقین نہیں رکھتے.اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں اس پر ایک چھوٹا سا ٹریکٹ لکھ کر شائع کروں شائد کسی سعید روح کو اس سے فائدہ پہنچ جائے.1.دہریوں کا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیتے ہیں.مجھے اس سوال کے سننے کا کئی بار موقع ملا ہے لیکن ہمیشہ اس کے سننے سے حیرت ہوتی ہے.انسان مختلف چیزوں کو مختلف حواس سے پہچانتا ہے.کسی چیز کو دیکھ کر، کسی کو چھو کر، کسی کو سونگھ کر، کسی کو سن کر، کسی کو چکھ کر، رنگ کا علم دیکھنے سے ہوسکتا ہے، سونگھنے یا چھونے یا چکھنے سے نہیں پھر اگر کوئی شخص کہے کہ میں تو رنگ کو تب مانوں گا کہ اگر مجھے اس کی آوازسنوائو تو کیا وہ شخص بیوقوف ہے یا نہیں.اسی طرح آواز کا علم سننے سے ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص کہے کہ مجھے فلاں شخص کی آواز

Page 443

دکھاؤ پھر میں دیکھ کر مانوں گا کہ وہ بولتا ہے تو کیا ایسا شخص جاہل ہوگا یا نہیں.ایسا ہی خوشبو سونگھ کر معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص طلب کرے کہ اگر تم مجھے گلاب کی خوشبو چکھا دو تو تب میں مانوں گا تو کیا ایسے شخص کو دانا کہہ سکیں گے.اس کے خلاف چکھ کر معلوم کرنے والی چیزوں یعنی ترشی، شیرینی، کڑواہٹ، نمکینی کو اگر کوئی سونگھ کر معلوم کرنا چاہے تو کبھی نہیں کر سکتا.پس یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو چیز سامنے نظر آئے اسے تو ہم مان لیں اور جو چیز سامنے نظر نہ آئے اسے نہ مانیں.ورنہ اس طرح تو گلاب کی خوشبو، لیموں کی ترشی، شہد کی مٹھاس، مصبّر(مشہور کڑوی دوا) کی کڑواہٹ، لوہے کی سختی، آواز کی خوبی سب کا انکار کرنا پڑیگا کیونکہ یہ چیزیں تو نظر نہیں آتیں بلکہ سونگھنے، چکھنے، چھونے اور سننے سے معلوم ہوتی ہیں پس یہ اعتراض کیسا غلط ہے کہ خدا کو ہمیں دکھائو تب ہم مانیں گے.کیا یہ معترض گلاب کی خوشبو کو دیکھ کر مانتے ہیں یا شہد کی شیرینی کو پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ شرط پیش کی جاتی ہے کہ دکھا دو تب مانیں گے.علاوہ ازیں انسان کے وجود میں خود ایسی چیزیں موجود ہیں کہ جن کو بغیر دیکھے کے یہ مانتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے.کیا سب انسان اپنے دل جگر دماغ انتٹریاں پھیپھڑے اور تلی کو دیکھ کر مانتے ہیں یا بغیر دیکھے کے.اگر ان چیزوں کو اس کے دکھانے کے لئے نکالا جاوے تو انسان اسی وقت مر جائے اور دیکھنے کی نوبت ہی نہ آئے.یہ مثالیں تو میں نے اس بات کی دی ہیں کہ سب چیزیں صرف دیکھنے سے ہی معلوم نہیں ہوتیں بلکہ پانچ مختلف حواس سے ان کا علم ہوتا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم بلاواسطہ ان پانچوں حواس سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کے معلوم کرنے کا ذریعہ ہی اور ہے.مثلاً عقل یا حافظہ یا ذہن ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا انکار دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا.لیکن کیا کسی نے عقل کو دیکھا ہے یا سنا یا چکھا یا سونگھا یا چھوا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ عقل کوئی چیز ہے یا حافظہ کا کوئی وجود ہے پھر قوت ہی کو لے لو ہر انسان میں تھوڑی بہت قوت موجود ہے کوئی کمزور ہو یا طاقت ور مگر کچھ نہ کچھ طاقت ضرور رکھتا ہے مگر کیا قوت کو آج تک کسی نے دیکھا یا سنا یا چھوا یا چکھا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ قوت بھی کوئی چیز ہے اس بات کو ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان چیزوں کو ہم نے اپنے حواس سے معلوم نہیں کیا بلکہ ان کے اثرات کو معلوم کرکے ان کا پتہ لگایا ہے.مثلاً جب ہم نے دیکھا کہ انسان مختلف مشکلات میں گھر کر کچھ دیر غور کرتا ہے اور کوئی ایسی تدبیر نکالتا ہے جس سے وہ اپنی مشکلات دور کرلیتا ہے.جب اس طرح مشکلات کو حل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا تو یقین

Page 444

کرلیا کہ کوئی چیز ایسی انسان میں مو جود ہے جو ان موقعوں پر اس کے کام آتی ہے اور اس چیز کا نام ہم نے عقل رکھا.پس عقل کو بلاواسطہ ہم نے پانچوں حواسوں میں سے کسی سے بھی دریافت نہیں کیا بلکہ اس کے کرشموں کو دیکھ کر اس کا علم حاصل کیا.اسی طرح جب ہم نے انسان کو بڑے بڑے بوجھ اُٹھاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ اس میں کچھ ایسا مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے.اپنے سے کمزور چیزوں کو قابو کرلیتا ہے اور اس کا نام قوت یا طاقت رکھ دیا اس طرح جس قدر لطیف سے لطیف اشیاء کو لیتے جائو گے ان کے وجود انسانوں کی نظروں سے غائب ہی نظر آئیں گے اور ہمیشہ ان کے وجود کا پتہ ان کے اثر سے معلوم ہوگا نہ کہ خود انہیں دیکھ کر یا سونگھ کر یا چکھ اور چھو کر.پس اللہ تعالیٰ کی ذات جو الطف سے الطف ہے اس کا علم حاصل کرنے کے لئے ایسی ایسی قیدیں لگانی کس طرح جائز ہوسکتی ہیں کہ آنکھوں کے دیکھے بغیر اسے نہیں مانیں گے.کیا بجلی کو کہیں کسی نے دیکھا پھر کیا الیکٹریسٹی کی مدد سے جو تار خبریں پہنچتی ہیں یا مشینیں چلتی ہیں یا روشنی کی جاتی ہے اس کا انکار کیا جا سکتا ہے.ایتھر کی تحقیقات نے فزیکل علوم کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے.لیکن کیا اب تک سائنس کے ماہرین اس کے دیکھنے، سننے، سونگھنے، چھونے یا چکھنے کا کوئی ذریعہ نکال سکے.لیکن اس کا وجود نہ مانیں تو پھر یہ بات حل ہیں نہیں ہوسکتی کہ سورج کی روشنی دنیا تک پہنچتی کیونکر ہے.پس کیسا ظلم ہے کہ ان شواہد کے ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خدا کودکھائو تو ہم مانیں گے.اللہ تعالیٰ نظر تو آتا ہے لیکن انہیں آنکھوں سے جواس کے دیکھنے کے قابل ہیں.ہاں اگر کوئی اس کے دیکھنے کا خواہش مند ہو تو وہ اپنی قدرتوں اور طاقتوں سے دنیا کے سامنے ہے اور باوجود پوشیدہ ہونے کے سب سے زیادہ ظاہر ہے.قرآن شریف میں اس مضمون کو نہایت ہی مختصر لیکن بے نظیر پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ لَا تُدْرِکُہُ الْاَ بْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الانعام104:) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں بلکہ وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور وہ لطیف اور خبردار ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تیری نظر اس قابل نہیں کہ خدا کی ذات کو دیکھ سکے کیونکہ وہ تو لطیف ذات ہے اور لطیف اشیاء تو نظر نہیں آتیں.جیسا کہ قوت ہے، عقل ہے، روح ہے، بجلی ہے، ایتھر ہے، یہ چیزیں کبھی کسی کو نظر نہیں آتیں پھر خدا کی لطیف ذات تک انسان کی نظریں کب پہنچ سکتی ہیں.ہاں پھر خدا کو لوگ کس طرح دیکھ سکتے ہیں اور اس کی معرفت کے حاصل کرنے کا کیا طریق ہے.اس کا جواب دیا کہ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ یعنی خود

Page 445

خود وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور باوجود اس کے کہ انسانی نظر کمزوری کی وجہ سے اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی وہ اپنی طاقت اورقوت کے اظہار سے وہ اپنی صفات کاملہ کے جلوہ سے اپنا وجود آپ انسان کو دکھاتا ہے اور گو نظر انسانی اس کو دیکھنے سے قاصر ہے.مگر وہ خود اپنا وجود اپنی لاانتہاء قوتوں اور قدرتوں سے مختلف پیرائوں میں ظاہر کرتا ہے.کبھی قہری نشانوں سے، کبھی انبیاء کے ذریعہ سے، کبھی آثار رحمت سے اور کچھ قبولیت دعا سے.اب اس بات کے ثابت کرچکنے کے بعد کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ماننا اس بات پر منحصر کیا جائے کہ ہم اسے دکھا دیں اور سوائے دیکھنے کے کسی چیز کو مانا ہی نہ جائے تو دنیا کی قریباً 5/4 اشیاء کا انکار کرنا پڑیگا اور بعض فلاسفروں کے قول کے مطابق تو کل اشیاء کا.کیونکہ ان کا مذہب ہے کہ دنیا میں کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ صرف صفات ہی صفات نظر آتی ہیں.اب میں اس طرح متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ کون سے دلائل ہیں جن سے وجود باری تعالیٰ کا پتہ لگتا ہے اور انسان کو یقین ہوتا ہے کہ میرا خالق کوئی اَور ہے اور میں ہی اپنا خالق نہیں.دلیل اوّل:.میں اپنے عقیدہ کے ماتحت کہ قرآن شریف نے کمالات روحانی کے حصول کے تمام ذرائع بیان فرمائے ہیں.ہستی باری کے کل دلائل قرآن شریف سے ہی پیش کروں گا.وَمِنَ اللّٰہِ التَّوْفِیْقُ اور چونکہ سب سے پہلا علم جو انسان کو اس دنیا میں آکر ہوتا ہے وہ کانوں سے ہوتا ہے.اس لئے میں بھی سب سے پہلے سماعی دلیل ہی لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ قَدْاَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا.وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی.اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی.صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی(الاعلیٰ: 15-20) یعنی مظفر ومنصور ہوگیا وہ شخص کہ جو پاک ہوا اور اس نے اپنے رب کا زبان سے اقرار کیا اور پھر زبان سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر عبادت کرکے اپنے اقرار کا ثبوت دیا لیکن تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو حالانکہ انجام کار کی بہتری ہی اصل بہتری اور دیرپا ہے.اور یہ بات صرف قرآن شریف ہی پیش نہیں کرتا بلکہ سب پہلی کتابوں میں یہ دعویٰ موجود ہے چنانچہ ابراہیم ؑاور موسیٰ نے جو تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اس میں بھی یہ تعلیم موجود ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفینِ قرآن پر یہ حجت پیش کی ہے کہ اپنی نفسانی خواہشوں سے بچنے والے خدا کی ذات کا اقرار کرنے والے اور پھراس کا سچا فرمانبردار بننے والے ہمیشہ کامیاب اور

Page 446

مظفر ہوتے ہیں.اور اس تعلیم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ بات پہلے مذاہب میں مشترک ہے.چنانچہ اس وقت کے بڑے مذاہب مسیحی، یہودی اور کفار مکہ پر حجت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ اور موسی ٰ کی مثال دیتا ہے کہ ان کو تو تم مانتے ہو انہوں نے بھی یہ تعلیم دی ہے پس قرآن شریف نے ہستی باری تعالیٰ کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی دیا ہے کہ کُل مذاہب اس پر متفق ہیں اور سب اقوام کا یہ مشترک مسئلہ ہے.چنانچہ جس قدر اس دلیل پر غور کیا جائے نہایت صاف اور سچی معلوم ہوتی ہے.حقیقت میں کل مذاہب دنیا اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ہستی ہے جس نے کُل جہان کو پیدا کیا.مختلف ممالک اور احوال کے تغیر کی وجہ سے خیالات اور عقائد میں بھی فرق پڑتا ہے.لیکن باوجود اس کے جس قدر تاریخی مذاہب ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے وجود پر متفق اللّسان ہیں.گواس کی صفات کے متعلق ان میں اختلاف ہو موجودہ مذاہب یعنی اسلام، مسیحیت، یہودیت، بدھ ازم، سکھ ازم، ہندوازم اور زرتشتی سب کے سب ایک خدا ایلوہیم، پرم ایشور، پرم آتما، ست گرو، یایزدان کے قائل ہی ہیں مگر جو مذاہب دنیا کے پردہ سے مٹ چکے ہیں ان کے متعلق بھی آثار قدیمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب ایک خدا کے قائل اور معتقد تھے.خواہ وہ مذاہب امریکہ کے جداشدہ ملک میں پیدا ہوئے ہوں یا افریقہ کے جنگلوں میں، خواہ رومامیں خواہ انگلستان میں خواہ جاوا سماٹرا میں خواہ جاپان اور چین میں خواہ سائبریا و منچوریا میں.یہ اتفاق مذاہب کیونکر ہوا اور کون تھا جس نے امریکہ کے رہنے والے باشندوں کو ہندوستان کے عقائد سے یا چین کے باشندوں کو اہل افریقہ کے عقائد سے آگاہ کیا.پہلے زمانہ میں ریل و تار اور ڈاک کا یہ انتظام تو تھا نہیں جو اَب ہے.نہ اس طرح جہازوں کی آمدورفت کی کثرت تھی، گھوڑوں اور خچروں کی سواری تھی اور بادبانی جہاز آجکل کے دنوں کا سفر مہینوں میں کرتے تھے اور بہت سے علاقے تو اس وقت دریافت بھی نہ ہوئے تھے.پھر ان میں مختلف المذاق اور مختلف الرسوم اور ایک دوسرے سے ناآشنا ممالک میں اس ایک عقیدہ پر کیونکر اتفاق ہوگیا.من گھڑت ڈھکوسلوں میں تو دو آدمیوں کا اتفاق ہونا مشکل ہوتا ہے.پھر کیا اس قدر قوموں کا اور ملکوں کا اتفاق جو آپس میں کوئی تبادلہ خیالات کا ذریعہ نہ رکھتی تھیں اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ عقیدہ ایک امر واقعہ ہے اور کسی نامعلوم ذریعہ سے جسے اسلام نے کھول دیا ہے ہر قوم پر اور ہر ملک میں اس کا اظہار کیا گیا ہے.اہل تاریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ پر مختلف اقوام کے مؤرخ متفق ہوجاویں اس کی راستی میں شک نہیں کرتے.پس جب اس مسئلہ پر ہزاروں لاکھوں قوموں نے اتفاق کیا ہے تو کیوں نہ یقین کیا جائے کہ کسی جلوہ کو دیکھ کر ہی سب دنیا اس خیال کی

Page 447

قائل ہوئی ہے.دلیل دوم:.دوسری دلیل جو قرآن شریف میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق دی ہے ان آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ.وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ.وَزَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْن َوَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ (الانعام84-87:) پھر کچھ آیات کے بعد فرمایا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام91:) یعنی ایک دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم ؑ کو اس کی قوم کے مقابل میں دی اور ہم جس کے درجات چاہتے ہیں، بلند کرتے ہیں.تحقیق تیرا ربّ بڑا حکمت والا اور علم والا ہے اور ہم نے اسے اسحاق ویعقوب دئے.ہر ایک کو ہم نے سچا راستہ دکھایا اور نوح کو بھی ہم نے سچا راستہ دکھایا.اس سے پہلے اور اس کی اولاد میں سے دائود اور سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی اور ہم نیک اعمال میں کمال کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح سلوک کیا کرتے ہیں اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی راہ دکھایا اور یہ سب لوگ نیک تھے اور اسماعیل اور یسع اور لوط کو بھی راستہ دکھایا اور ان سب کو ہم نے اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور پھر فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو خدا نے ہدایت دی.پس تو ان کے طریق کی پیروی کر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس قدر نیک اور پاک لوگ جس بات کی گواہی دیتے ہیں وہ مانی جائے یا وہ بات جو دوسرے ناواقف لوگ کہتے ہیں اور اپنے چال چلن سے ان کے چال چلن کا مقابلہ نہیں کرسکتے.سیدھی بات ہے کہ انہی لوگوں کی بات کو وقعت دی جاویگی جو اپنے چال چلن اور اپنے عمل سے دنیا پر اپنی نیکی اور پاکیزگی اور گناہوں سے بچنا اور جھوٹ سے پرہیز کرنا ثابت کرچکے ہیں.پس ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ انہی کا تتبع کرے اور ان کے مقابل میں دوسرے لوگوں کی بات کا انکار کردے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر نیکی اور خلق کے پھیلانے والے گزرے ہیں اور جنہوں نے اپنے اعمال سے دنیا پر اپنی راستی کا سکہ بٹھا دیا تھا وہ سب کے سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جسے مختلف زبانوں میں اللہ یا گاڈ (God) یا پرمیشور کہا گیا ہے.ہندوستان کے راستباز رامچندرؑ، کرشنؑ، ایران کا راستباز زرتشتؑ، مصر کا راستباز موسیٰؑ، ناصرہ کا راستباز مسیح ؑ، پنجاب کا ایک راستباز نانکؒ.پھر سب راستبازوں کا سرتاج عرب کا نور محمد

Page 448

محمد مصطفی ﷺ جس کو اسکی قوم نے بچپن سے صادق کا خطاب دیا اور جو کہتا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا (یونس 17:)میں نے تو تم میں اپنی عمرگزاری ہے.کیا تم میرا کوئی جھوٹ ثابت کر سکتے ہو اور اس کی قوم کوئی اعتراض نہیں کرتی اور ان کے علاوہ ہزاروں راستباز جو وقتاً فوقتاً دنیا میں ہوئے ہیں،یک زبان ہوکرپکارتے ہیں کہ ایک خدا ہے اور یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے ملاقات کی اور اس سے ہم کلام ہوئے.بڑے سے بڑے فلاسفر جنہوں نے دنیا میں کوئی کام کیا ہو وہ ان میں سے ایک کے کام کا ہزارواں حصہ بھی پیش نہیں کرسکتے بلکہ اگر ان لوگوں اور فلاسفروں کی زندگی کا مقابلہ کیا جائے تو فلاسفروں کی زندگی میں اقوال سے بڑھ کر افعال کے باب بہت کم نظر آئیں گے.وہ صدق اور راستی جو انہوں نے دکھائی وہ فلاسفر کہاں دکھا سکے؟ وہ لوگوں کو راستی کی تعلیم دیتے ہیں مگر خود جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے.لیکن اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا نام میں اوپر لے چکا ہوں صرف راستی کی خاطر ہزاروں تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن کبھی ان کا قدم اپنی جگہ سے نہیں ہلا.ان کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے.ان کو وطنوں سے خارج کیا گیا، ان کو گلیوں اور بازاروں میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی، ان سے کل دنیا نے قطع تعلق کرلیا مگر انہوں نے اپنی بات نہ چھوڑی اور کبھی نہ کیا کہ لوگوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچا لیتے اور ان کے عمل نے، ان کی دنیا سے نفرت نے، نمائش سے علیحدگی نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ بے غرض تھے اور کسی نفسانی غرض سے کوئی کام نہ کرتے تھے.پھر ایسے صادق ایسے قابل اعتبار یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیںکہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی، اس کی آواز سنی اور اس کے جلوے کا مشاہدہ کیا تو ان کے قول کا انکار کرنے کی کسی کے پاس کیا وجہ ہے.جن لوگوں کو ہم روز جھوٹ بولتے سنتے ہیں وہ بھی چند مل کر ایک بات کی گواہی دیتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے.جن کے احوال سے ہم بالکل ناواقف ہوتے ہیں وہ اخباروں میں اپنی تحقیقات شائع کرتے ہیں تو ہم تسلیم کرلیں گے مگر نہیں مانتے تو ان راستبازوں کا کلام نہیں مانتے.دنیا کہتی ہے کہ لندن ایک شہر ہے اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں.جغرافیہ والے لکھتے ہیں کہ امریکہ ایک براعظم ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں.سیاح کہتے ہیں کہ سائبیریا ایک وسیع اور غیرآباد علاقہ ہے.ہم اس کا انکار نہیں کرتے.کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کی گواہی اس پر ہوگئی ہے.حالانکہ ہم ان گواہوں کے حالات سے واقف نہیں کہ وہ جھوٹے ہیں یا سچے مگر اللہ تعالیٰ کے وجود پر عینی گواہی دینے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے.انہوں نے اپنے مال وجان و طن عزت وآبرو کو تباہ کرکے راستی کو دنیا میں قائم کیا پھر

Page 449

ان سیاحوں اور جغرافیہ والوں کی بات کو ماننا اور ان راستبازوں کی بات کو نہ ماننا کہاں کی راستبازی ہے.اگر لندن کا وجود چند لوگوں سے سن کر ثابت ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وجود ہزاروں راستبازوں کی گواہی پر کیوں ثابت نہیں ہو سکتا.غرضیکہ ہزاروں راستبازوں کی شہادت جو اپنے عینی مشاہدہ پر خدا تعالیٰ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں کسی صورت میں بھی ردّ کے قابل نہیں ہو سکتی.تعجب ہے کہ جو اس کوچہ میں پڑے ہیں وہ تو سب باتفاق کہہ رہے ہیں کہ خدا ہے لیکن جو روحانیت کے کوچہ سے بالکل بے بہرہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانوکہ خدا ہے حالانکہ اصول شہادت کے لحاظ سے اگر دوبرابر کے راستباز آدمی بھی ایک معاملہ کے متعلق گواہی دیں تو جو کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کود یکھا اس کی گواہی کو اس گواہی پرجو کہتا ہے میں نے اس چیز کونہیں دیکھا ترجیح دی جائے گی کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کی نظر اس چیز پر نہ پڑی ہو لیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک نے نہ دیکھا ہو اور سمجھ لے کہ میں نے دیکھا ہے.پس خدا کے دیکھنے والوں کی گواہی اس کے منکروں پر بہرحال حجت ہوگی.دلیل سوم:.تیسری دلیل جو قران شریف سے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان کی فطرت خود خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک دلیل ہے کیونکہ بعض ایسے گناہ ہیں کہ جن کو فطرت انسانی قطعی طور پر ناپسند کرتی ہے.ماں، بہن اور لڑکی کے ساتھ زنا ہے، پاخانہ پیشاب اور اس قسم کی نجاستوں کے ساتھ تعلق ہے، جھوٹ ہے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے ایک دہریہ بھی پرہیز کرتا ہے مگر کیوں؟ اگر کوئی خدا نہیں تو کیوں؟ وہ کیوں ماں اور بہن اور دوسری عورتوں میں کچھ فرق جانتا ہے.جھوٹ کو کیوں برا جانتا ہے.کیا دلائل ہیں کہ جنہوں نے مذکورہ بالا چیزوں کو اس کی نظر میں بد نما قرار دیا ہے.اگر کسی بالائی طاقت کا رعب اس کے دل پر نہیں تو وہ کیوں ان سے احتراز کرتا ہے؟ اس کے لئے تو جھوٹ اور سچ، ظلم اور انصاف سب ایک ہی ہونا چاہئے.جو دل کی خوشی ہوئی کرلیا.وہ کون سی شریعت ہے جو اس کے جذبات پر حکومت کرتی ہے.جس نے دل پر ایک تخت رکھا ہے.اور گو ایک دہریہ زبان سے اس کی حکومت سے نکل جائے لیکن وہ اس کی بنائی ہوئی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتا اور گناہوں سے اجتناب یا ان کے اظہار سے اجتناب اس کے لئے ایک دلیل ہے کہ کسی بادشاہ کی جوابدہی کا خوف ہے جو اس کے دل پر طاری ہے گو وہ اس کی بادشاہت کا انکار ہی کرتا ہے.قرآن شرف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَآاُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ (القیٰمۃ (2,3) یعنی جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ خدا ہے نہ جزا سزا ہے.ایسا نہیں بلکہ ہم ان امور کی شہادت

Page 450

کے لئے دو چیزیں پیش کرتے ہیں.ایک تو اس بات کو کہ ہر بات کے لئے ایک قیامت کا دن مقرر ہے.جس میں کہ اس کا فیصلہ ہوتاہے اور نیکی کا بدلہ نیک اور بدی کا بدلہ بد مل جاتا ہے.اگر خدا نہیں تو جزا وسزا کیونکر مل رہی ہے اور جو لوگ قیامت کبریٰ کے منکر ہیں وہ دیکھ لیں کہ قیامت تو اس دنیا سے شروع ہے.زانی کو آتشک و سوزاک ہوتا ہے.شادی شدہ کو تو نہیں ہوتا حالانکہ دونوں ایک ہی کام کررہے ہوتے ہیں.دوسری شہادت نفس لوامہ ہے یعنی انسان کا نفس خود ایسے گناہ پر ملامت کرتا ہے کہ یہ بات بری ہے اور گندی ہے.دہریہ بھی زنا اور جھوٹ کو برا جانیں گے.تکبر اور حسد کو اچھا نہ سمجھیں گے مگر کیوں؟ ان کے پاس تو کوئی شریعت نہیں.اس لئے نہ کہ ان کا دل برا مانتا ہے اور دل اسی لئے برا مانتا ہے کہ مجھے اس فعل کی ایک حاکم اعلیٰ کی طرف سے سزا ملے گی گو وہ لفظوں میں اسے ادا نہیں کر سکتا.اسی کی تائید میں ایک اور جگہ قرآن شریف میں ہے.فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس9:) اللہ تعالیٰ نے ہر نفس میں نیکی اور بدی کا الہام کردیا ہے.پس نیکی بدی کا احساس خود خدا کی زبردست دلیل ہے.اگر خدا نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک چیز کو نیک اور ایک کو بد کہا جاوے جو دل میں آئے لوگ کیا کریں.چوتھی دلیل:.چوتھی دلیل جو قرآن شریف سے ذات باری کے متعلق معلوم ہوتی ہے یہ ہے.وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی.وَاَنَّہٗ ھُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی.وَاَنَّہٗ ھُوَ اَمَاتَ وَاَحْیٰ.وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی (النجم43:-47) یعنی یہ بات ہر ایک نبی کی معرفت ہم نے پہنچا دی ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہاء اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی جا کر ہوتا ہے اور خواہ خوشی کے واقعات ہوں یا رنج کے وہ خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں اور موت اور حیات سب اسی کے ہاتھ میں ہیں اور اس نے مردوعورت دونوں کو پیدا کیا ہے ایک چھوٹی سی چیز سے جس وقت وہ ڈالی گئی.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح متوجہ کیا ہے کہ ہر ایک فعل کا ایک فاعل ہوتا ہے اور ضرور ہے کہ ہر کام کے کرنے والا بھی کوئی ہو.پس اس تمام کائنات پر اگر غور کرو گے تو ضرور تمہاری رہنمائی اس طرف ہوگی کہ سب اشیاء آخر جا کر ذات باری پر ختم ہوتی ہیں اور وہی انتہاء ہے تمام اشیاء کی اور اسی کے اشارے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی حالت کی طرف متوجہ کرکے فرمایا ہے کہ تمہاری پیدائش تو ایک نطفہ سے ہے اور تم تو جوں جوں پیچھے جاتے ہو اَور حقیر ہوتے جاتے ہو پھر تم کیونکر اپنے خالق ہوسکتے ہو.جب خالق کے بغیر

Page 451

کوئی مخلوق ہو نہیں سکتی اور انسان اپنا آپ خالق نہیں ہے کیونکہ اس کی حالت پر جس قدر غور کریں وہ نہایت چھوٹی اور ادنیٰ حالت سے ترقی کرکے اس حالت کو پہنچتا ہے اور جب وہ موجودہ حالت میں خالق نہیں تو اس کمزور حالت میں کیونکر خالق ہوسکتا تھا.تو ماننا پڑے گا کہ اس کا خالق کوئی اور ہے جس کی طاقتیں غیرمحدود اور قدرتیں لاانتہاء ہیں.غرضیکہ جس قدر انسان کی درجہ بدرجہ ترقی پر غور کرتے جائیں اس کے اسباب باریک سے باریک ترہوتے جاتے ہیں اور آخر ایک جگہ جا کر تمام دنیاوی علوم کہہ دیتے ہیں کہ یہاں اب ہمارا دخل نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہوگیا اور وہی مقام ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کررہا ہوتا ہے اور ہر ایک سائنس دان کو ماننا پڑتا ہے کہ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی یعنی ہر ایک چیز کی انتہاء ہوتی ہے اور آخر ایک ایسی ہستی پر ہوتی ہے کہ جس کو وہ اپنی عقل کے دائرہ میں نہیں لا سکتے اور وہی خدا ہے.یہ ایک موٹی دلیل ہے کہ جسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے.کہتے ہیں کہ کسی نے ایک بدوی سے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے.اس نے جواب دیا کہ جنگل میں ایک اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہو تو میں دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے.پھر اتنی بڑی مخلوقات کو دیکھ کر میں معلوم نہیں کرسکتا کہ اس کا کوئی خالق ہے.٭ واقعی یہ جواب ایک سچا اور فطرت کے مطابق جواب ہے اور اس مخلوقات کی پیدائش کی طرف اگر انسان توجہ کرے تو آخر ایک ہستی کو ماننا پڑتا ہے کہ جس نے یہ سب پیدا کیا.(……جاری ہے) پانچویں دلیل پانچویں دلیل ہستی باری تعالیٰ کی جو قرآن شریف نے دی ہے گو اسی رنگ کی ہے لیکن اس سے زیادہ زبردست ہے اور وہاں استدلال بالاَولیٰ سے کام لیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُO الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُO الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ O ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ (الملک.۲،۵) یعنی بہت برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں ملک ہے وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم میں سے کون زیادہ نیک عمل کرتا ہے اور وہ غالب ہے، بخشندہ ہے.اس نے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے اور ان میں آپس میں موافقت اور مطابقت رکھی ہےتو ٭ اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ وَاَثَرُالْقَدَمِ السَّفِیْرِ فَالسَّمَآئُ ذَاتُ الْبُرُوْجِ وَالْاَرْضُ ذَاتُ فِجَاجٍ اَمَا تَدُلُّ عَلٰی قَدِیْرٍ.

Page 452

کبھی کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا.پس اپنی آنکھ کو لوٹا، کیا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے.دوبارہ اپنی نظر کو لوٹا کر دیکھ، تیری نظر تیری طرف تھک کر اور ماندہ ہو کر لوٹے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات اتفاقاً پیدا ہوگئی اور اتفاقی طور پر مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا اور سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ دنیا خود بخود جڑ کر آپ ہی چلتی جائے اور اس کا پھرانیوالا کوئی نہ ہو.لیکن ان کا جواب اللہ تعالیٰ ان آیات میں دیتا ہے کہ اتفاقی طور سے جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور انتظام نہیں ہوتا بلکہ بے جوڑی ہوتی ہے.مختلف رنگوں سے مل کر ایک تصویر بنتی ہے.لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پر پھینک دیں تو اس سے تصویر بن جائے گی.اینٹوں سے مکان بنتا ہے لیکن کیا اینٹیں ایک دوسرے پر پھینک دینے سے مکان بن جائے گا.بفرض محال اگر یہ مان لیا جائے کہ بعض واقعات اتفاقاً بھی ہو جاتے ہیں لیکن نظام عالم کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی ہوگیا.مانا کہ خود بخود ہی مادہ سے زمین پیدا ہوگئی اور یہ بھی مان لیا کہ اتفاقاً ہی انسان پیدا ہوگیا لیکن انسان کی خلقت پر نظر تو کرو کہ ایسی کامل پیدائش کبھی خود بخود ہو سکتی ہے.عام طور سے دنیا میں ایک صفت کی خوبی سے اس کے صنّاع کا پتہ لگتا ہے.ایک عمدہ تصویر کو دیکھ کر فوراً خیال ہوتا ہے کہ کسی بڑے مصوّر نے بنائی ہے.ایک عمدہ تحریر کو دیکھ کر سمجھا جاتا ہے کہ کسی بڑے کاتب نے لکھی ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جائے اسی قدر اس کے بنانے یا لکھنے والے کی خوبی اور بڑائی ذہن نشین ہوتی جاتی ہے پھر کیونکر تصور کیا جاتا ہے کہ ایسی منتظم دنیا خود بخود اور یونہی پیدا ہوگئی.ذرا اس بات پر تو غور کرو کہ جہاں انسان میں ترقی کرنے کے قویٰ ہیں وہاں اسے اپنے خیالات کو عملی صورت میں لانے کے لئے عقل دی گئی ہے اور اس کا جسم بھی اس کے مطابق بنایا گیا ہے.چونکہ اس کو محنت سے رزق کمانا تھا اس لئے اسے مادہ دیا کہ چل پھر کر اپنا رزق پیدا کرلے.درخت کا رزق اگر زمین میں رکھا ہے تو اسے جڑیں دیں کہ وہ اس کے اندر سے اپنا پیٹ بھر لے.اگر شیر کی خوراک گوشت رکھی تو اسے شکار مارنے کے لئے ناخن دئے اور گھوڑے اور بیل کے لئے گھاس کھانا مقدر کیا تو ان کو ایسی گردن دی جو جھک کر گھاس پکڑ سکے اور اگر اونٹ کے لئے درختوں کے پتے اور کانٹے مقرر کئے تو اس کی گردن بھی اونچی بنائی.کیا یہ سب کارخانہ اتفاق سے ہوا.کیا اتفاق نے اس بات کو معلوم کرلیا تھا کہ اونٹ کو گردن لمبی دوں اور شیر کو پنجے اور درخت کو جڑیں اور انسان کو ٹانگیں.ہاں کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو کام خود بخود ہوگیا اس میں اس قدر انتظام رکھا گیا ہو.پھر اگر انسان کے لئے پھیپھڑا بنایا تو اس کے لئے ہوا بھی پیدا کی.اگر پانی پر

Page 453

اس کی زندگی رکھی تو سورج کے ذریعہ بادلوں کی معرفت اسے پانی پہنچایا اور اگر آنکھیں دیں تو ان کے کارآمد بنانے کے لئے سورج کی روشنی بھی دی تاکہ وہ اس میں دیکھ بھی سکے.کان دئے تو ساتھ اس کے خوبصورت آوازیں بھی پیدا کیں.زبان کے ساتھ ذائقہ دار چیزیں بھی عطافرمائیں.ناک پیدا کیا تو خوشبو بھی مہیا کردی.ممکن تھا کہ اتفاق انسان میں پھیپھڑا پیدا کر دیتا لیکن اس کے لئے یہ ہوا کا سامان کیوں کر پیدا ہوگیا اور ممکن تھا کہ آنکھیں انسان کی پیدا ہو جاتیں لیکن وہ عجیب اتفاق تھا کہ جس نے کروڑوں میلوں پر جا کر ایک سورج بھی پیدا کر دیا تاکہ وہ اپنا کام کرسکیں.اگر ایک طرف اتفاق نے کان پیدا کردئے تھے تو یہ کون سی طاقت تھی جس نے دوسری طرف آواز بھی پیدا کردی.برفانی ممالک میں مان لیا کہ کتے یا ریچھوں کو تو اتفاق نے پیدا کردیا لیکن کیا سبب کہ ان کتوں یا ریچھوں کے بال اتنے لمبے بن گے کہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں.اتفاق ہی نے ہزاروں بیماریاں پیدا کیں.اتفاق ہی نے ان کے علاج بنادئے.اتفاق ہی نے بچھو بوٹی جس کے چھونے سے خارش ہونے لگ جاتی ہے، پیدا کی اور اس نے اس کے ساتھ پالک کا پودا اُگا دیا کہ اس کا علاج ہوجائے.دہریوں کا اتفاق بھی عجیب ہے کہ جن چیزوں کے لئے موت تجویز کی ان کے ساتھ تو الد کا سلسلہ بھی قائم کردیا اور جن چیزوں کے ساتھ موت نہ تھی وہاں یہ سلسلہ ہی نہیں رکھتا.انسا ن اگر پیدا ہوتا اور مرتا نہیں تو کچھ سالوں میں ہی دنیا کا خاتمہ ہوجاتا.اس لئے اس کے ساتھ فنا لگا دی لیکن سورج اور چاند اور زمین نہ نئے پیدا ہوتے ہیں نہ اگلے فنا ہوتے ہیں.کیا یہ انتظام کچھ کم تعجب انگیز ہے کہ زمین اور سورج میں چونکہ کشش رکھی ہے اس لئے ان کو ایک دوسرے سے اتنی دور رکھا کہ آپس میں ٹکرا نہ جاویں.کیا یہ باتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان سب چیزوں کا خالق وہ ہے جو نہ صرف علیم ہے بلکہ غیرمحدود علم والا ہے.اس کے قواعد ایسے منضبط ہیں کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں اور نہ کچھ کمی ہے.مجھے تو اپنی انگلیاں بھی اس کی ہستی کا ایک ثبوت معلوم ہوتی ہیں.مجھے جہاں علم دیا تھا اگر شیر کا پنجہ مل جاتا تو کیا میں اس سے لکھ سکتا تھا.شیر کو علم نہیں دیا اسے پنجے دئے، مجھے علم دیا لکھنے کے لئے انگلیاں بھی دیں.سلطنتوں میں ہزاروں مدبّر ان کی درستی کے لئے رات دن لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھتے ہیں کہ ان سے ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہو تی ہیں کہ جن سے سلطنتوں کو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل تباہ ہوجاتی ہیں لیکن اگر اس دنیا کا کاروبار صرف اتفاق پر ہے تو تعجب ہے کہ ہزاروں دانا دماغ تو غلطی کرتے ہیں لیکن یہ اتفاق تو غلطی نہیں کرتا.لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو بڑے وسیع عالم کا مالک اور عزیز ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو یہ انتظام نظر نہ

Page 454

آتا.اب جس طرف نظر دوڑا کر دیکھو تمہاری نظر قرآن شریف کے ارشاد کے مطابق خائب و خاسر واپس آئے گی اور ہر ایک چیز میں ایک انتظام معلوم ہوگا.نیک جزاء اور بدکار سزا پا رہے ہیں.ہر ایک چیز اپنا مفوّضہ کام کررہی ہے اور ایک دم کے لئے سُست نہیں ہوئی.یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں.عاقل را اشارہ کافی است.دلیل ششم: قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک ثبوت ہے ان کے باطل پر ہونے کا کیونکہ اللہ اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ فتوحات دیتا ہے اور وہ اپنے مخالفوں پر غالب رہتے ہیں.اگر کوئی خدا نہیں تو یہ نصرت اور تائید کہاں سے آتی ہے.چنانچہ فرعون موسیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلیٰ (النّٰزِعٰت25,26:) یعنی جب حضرت موسیٰؑ نے اسے اطاعت الٰہی کی نسبت کہا تو اس نے تکبر سے جواب دیا کہ خدا کیسا، خدا تو میں ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے اسے اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی ذلیل کردیا چنانچہ فرعون کا واقعہ ایک بیّن دلیل ہے کہ کس طرح خدا کے منکر ذلیل وخوار ہوتے رہتے ہیں.علاوہ ازیں دنیا میں کبھی کوئی سلطنت دہریوں نے قائم نہیں کی بلکہ دنیا کے فاتح اور ملکوں کے مصلح اور تاریخ کے بنانے والے وہی لوگ ہیں کہ جو خدا کے قائل ہیں.کیا یہ ان کی ذلّت ونکبت اور قوم کی صورت میں کبھی دنیا کے سامنے نہ آنا کچھ معنی نہیں رکھتا.ساتویں دلیل: اللہ تعالیٰ کی ہستی کی یہ ہے کہ اس کی ذات کے ماننے والے اور اس پر ایمان رکھنے والے اور اس پر حقیقی ایمان رکھنے والے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور باوجود لوگوں کی مخالفت کے ان پر کوئی مصیبت نہیں آتی.خدا تعالیٰ کی ہستی کے منوانے والے ہر ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور جس قدر ان کی مخالفت ہوئی ہے اُتنی اور کسی کی نہیں لیکن پھر دنیا اس کے خلاف کیا کرسکی.رامچندر کو بن باس دینے والوں نے کیا سکھ پایا؟ اور راون نے کون سی عشرت حاصل کرلی؟ کیا رامچندر کا نام ہزاروں سال کے لئے زندہ نہیں ہوگیااور کیا راون کا نام ہمیشہ کے لئے بدنام نہیں ہوا؟ اور کرشنؑ کی بات کا ردّ کرکے کورو نے کیا فائدہ حاصل کیا.کیا وہ کرو چھتر کے میدان میں تباہ نہ ہوئے؟ فرعون بادشاہ جو بنی اسرائیل سے اینٹیں پتھواتا تھا.اس نے موسیٰ ؑجیسے بے کس انسان کی مخالفت کی مگر کیا موسیٰؑ کاکچھ بگاڑ سکا؟ وہ غرق ہوگیا اور موسیٰؑ بادشاہ ہوگئے.حضرت مسیحؑ کی دنیا نے جو کچھ مخالفت کی وہ بھی ظاہر ہے اور ان کی ترقی بھی جو کچھ ہوئی پوشیدہ نہیں.ان کے دشمن تو تباہ ہوئے اور ان کے غلام ملکوں کے بادشاہ ہوگئے.ہمارے آقا بھی دنیا میں سب سے زیادہ اس

Page 455

پاک ذات کے نام کے پھیلانے والے تھے.یہاں تک کہ ایک یورپ کا مصنف کہتا ہے کہ ان کو خدا کا جنون تھا (نعوذباللہ) ہر وقت خدا خدا ہی کہتے رہتے تھے.ان کی سات قوموں نے مخالفت کی.اپنے پرائے سب دشمن ہوگئے مگر کیا پھر آپ کے ہاتھ پر دنیا کے خزانے فتح نہیں ہوئے؟ اگر خدا نہیں تو یہ تائید کس نے کی؟ اگر یہ سب کچھ اتفاق تھا تو کوئی مبعوث تو ایسا ہوتا جو خدا کی خدائی ثابت کرنے آتا اور دنیا اسے ذلیل کردیتی مگر جو کوئی خدا کے نام کو بلند کرنے والا اُٹھا، وہ معزز و ممتاز ہی ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ مَنْ یَّتَولَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ (المائدہ57:) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرتا ہے.پس یاد رکھنا چاہئے کہ یہی لوگ خدا کے ماننے والے ہی غالب رہتے ہیں.دلیل ہشتم:.آٹھویں دلیل جو قرآن شریف سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں ملتی ہے یہ ہے کہ وہ دعائوں کو قبول کرتا ہے.جب کوئی انسان گھبرا کر اس کے حضور میں دعا کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرتا ہے.اور یہ بات کسی خاص زمانہ کے متعلق نہیں بلکہ ہر زمانہ میں اس کے نظارے موجود ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرۃ187:) یعنی جب میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دو کہ میں ہوں اور پھر قریب ہوں، پکارنے والے کی دعا کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں.اب اگر کوئی شخص کہے کہ کیونکر معلوم ہو کہ دعا خدا سنتا ہے کیوں نہ کہا جائے کہ اتفاقاً بعض دعا کرنے والے کے کام ہو جاتے ہیں.جیسے بعض کے نہیں بھی ہوتے.اگر سب دعائیں قبول ہو جائیں تب بھی کچھ بات تھی لیکن بعض کے قبول ہونے سے کیونکر معلوم ہوکہ اتفاق نہ تھا.بلکہ کسی ہستی نے قبول کرلیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت اپنے ساتھ نشان رکھتی ہے.چنانچہ ہمارے آقا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ثبوت باری تعالیٰ کی دلیل میں یہ پیش کیا تھا کہ چند بیمار جو خطرناک طور پر بیمار ہوں چنے جائیں اور بانٹ لئے جائیں اور ایک گروہ کا ڈاکٹر علاج کریں اور ایک طرف میں اپنے حصہ والوں کے لئے دعا کروں پھر دیکھو کہ کس کے بیمار اچھے ہوتے ہیں.اب اس طریق امتحان میں کیا شک ہو سکتا ہے.چنانچہ ایک سگ گزیدہ جسے دیوانگی ہوگئی اور جس کے علاج سے کسولی کے ڈاکٹروں نے قطعاً انکار کردیا تھا اور لکھ دیا تھا کہ اس کا کوئی علاج نہیں.اس کے لئے آپ

Page 456

نے دعا کی اور وہ اچھا ہوگیا.حالانکہ دیوانے کتے کے کاٹے ہوئے دیوانہ ہو کر کبھی اچھے نہیں ہوتے.پس دعائوں کی قبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو انہیں قبول کرتی ہے اور دعائوں کی قبولیت کسی خاص زمانہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر زمانے میں اس کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں جیسے پہلے زمانہ میں دعائیں قبول ہوتی تھیں ویسے ہی اب بھی ہوتی ہیں.دلیل نہم نویں دلیل قرآن شریف سے وجودِباری کی الہام معلوم ہوتی ہے.یہ دلیل اگرچہ میں نے نویں نمبر پر رکھی ہے لیکن درحقیقت نہایت عظیم الشان دلیل ہے جو خدا تعالیٰ کے وجود کو یقینی طور سے ثابت کردیتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (ابراہیم28:) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس دنیا اور اگلی دنیا میں پکی باتیں سنا سنا کر مضبوط کرتا رہتا ہے.پس جب کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہم کلام ہوتا رہتا ہے تو پھر اس کا انکار کیونکر درست ہوسکتا ہے اور نہ صرف انبیاء اور رسولوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے بلکہ اولیاء سے بھی باتیں کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے کسی غریب بندہ پر بھی رحم کرکے اس کی تشفی کے لئے کلام کرتا ہے.چنانچہ اس عاجز سے بھی اس نے کلام کیا اور اپنے وجود کو دلائل سے ثابت کیا.پھر یہی نہیں بعض دفعہ نہایت گندے اور بدباطن آدمیوں سے بھی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے بول لیتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ چوہڑوں چماروں کنچنیوں تک کو خوابیں اور الہام ہوجاتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ وہ کسی زبردست ہستی کی طرف سے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوکر بتا دیتی ہیں کہ یہ انسانی دماغ کا کام نہ تھا اور نہ کسی بدہضمی کا نتیجہ تھا اور بعض دفعہ سینکڑوں سال آگے کی خبریں بتائی جاتی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موجودہ واقعات خواب میں سامنے آگئے اور وہ اتفاقاً پورے بھی ہوگئے.چنانچہ توریت اور قرآن شریف میں مسیحیوں کی ان ترقیوں کا جن کو دیکھ کر اب دنیا حیران ہے، پہلے ذکر موجود تھا اور پھر صریح لفظوں میں تفصیل کے ساتھ.بلکہ ان واقعات کا بھی ذکر ہے جو آئندہ پیش آنے والے ہیں.مثلاً اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر5:) یعنی ایک وقت آتا ہے کہ اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور حدیث مسلم میں اس کی تفسیر یہ ہے وَلْیَتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی اونٹنیوں سے کام نہ لیا جائے گاچنانچہ اس زمانے میں ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.ریل کے متعلق نبی کریم ﷺ کے کلام میں ایسے ایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ریل کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ کلام نبوت میں بھی سواری

Page 457

(مراد) ہے جو حبس ماء (steam) سے چلے گی اور اپنے آگے دھوئیں کا ایک پہاڑ رکھے گی اور سواری اور باربرداری کے لحاظ سے حمار کی طرح ہوگی اور چلتے وقت ایک آواز کرے گی وَغَیرُذٰلِکَ.دوم:.اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر11:) یعنی کتابوں اور نوشتوں کا بہ کثرت شائع ہونا.آجکل بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضروت نہیں.سوم اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر8:) نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہوجانا کہ موجودہ زمانے سے بڑھ کر متصور نہیں.چہارم تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفۃُ (النّٰزِعٰت6:) متواتر اور غیر معمولی زلزلوں کا آنا یہاں تک کہ زمین کانپنے والی بن جائے.سو یہ زمانہ اس کے لئے بھی خصوصیت سے مشہورہے.پنجم وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا (بنی اسرائیل59:) کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے.چنانچہ اسی زمانہ میں طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہور رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.پھر اسلام تو ایسا مذہب ہے کہ ہر صدی میں اس کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو الہام الٰہی سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور خارق عادت نشانات سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قادرو توانا، مدبّر بالارادہ ہستی ہے.چنانچہ اس زمانہ کے مامور پر نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے وحی نازل کی یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ (دیکھو براہین احمدیہ مطبوعہ 1881ء صفحہ 241.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267 حاشیہ) کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ایسی کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے.مگر چاہئے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے، بدخلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی ملاقاتوں سے تھک نہ جائے.ایک شخص ایک گائوں میں رہنے والا جس کے نام سے مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہ تھا، یہ اعلان کرتا ہے پھر باوجود

Page 458

سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ اور افریقہ سے لے کر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا معمولی آدمی کا کام نہیں ایک مقتدر جماعت اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیا میں مشہور ہوجاتا ہے.کیا یہ چھوٹی سی بات ہے اور یہ ایسا نشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟ دوم:.عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے یہ ناپاک کلمات شائع کئے کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جائے.اے خدا تو ایسا ہی کر.اے خدا اسلام کو ہلاک کر‘‘.تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اس کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ اے شخص جو مدعی نبوت ہے آ اور میرے ساتھ مباہلہ کر.ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو (ٹیلیگراف5؍جولائی1903ء) لیکن اس نے رعونت سے کہا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں اپنا پائوں ان پر رکھوں تو ان کو کچل کر مارڈالوں.(ڈوئی کا پرچہ دسمبر1903ء) مگر حضور نے فرمایا تھا اور اسی اشتہار 23؍اگست1903ء میں شائع کیا تھا کہ اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد آفت آنے والی ہے.اے خدا اور کامل خدا، یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کردے.پھر اس کے بعد معزز ناظرین سنو کیا ہوا.وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کرتا تھا جس کے پاس سات کروڑ نقد تھا، اس کی بیوی اور اس کا بیٹا دشمن ہوگئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزنا ہے.آخر اس پر فالج گرا پھر غموں کے مارے پاگل ہوگیا.آخر مارچ 1907ء میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس نے 20؍فروری 1907ء کے اشتہار میں شائع فرمایا تھا.خدا فرماتا ہے کہ ’’میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا.جس میں فتح عظیم ہوگی.وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا.‘‘ ہلاک ہوکر خدا کی ہستی پر گواہی دے گیا.یہ عیسائی دنیا، پرانی دنیا، نئی دنیا دونوں پر حضور کی فتح تھی.سوم:.اس ملک میں آریوں کا زور ہے.ان کا زعیم لیکھرام تھا، رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر 1311ھ میں یہ پیشگوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کرکے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہوگا اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبیﷺ کو گالیاں

Page 459

دیتا تھا اور برے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا.پھر 22؍فروری 1893ء کے اشتہار میں اس کے مرنے کی صورت بھی بتا دی.عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌلَّہٗ نَصَبٌ وَعَذَابٌ یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے جو بےجان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں.اس لئے اس کو عذاب دیا جاوے گا جوگوسالہ سامری کو دیاگیا تھا.ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گوسالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا.پھر 2 ؍اپریل 1893ء کو آپ نے ایک کشف دیکھا.(دیکھو برکات الدعا کا حاشیہ.روحانی خزائن جلد 6صفحہ 33) ایک قوی مہیب شکل جو گویا انسان نہیں ملائک شداد اور غلاظ سے ہے، وہ پوچھتا ہے کہ لیکھرام کہاں ہے.پھر کرامات الصادقین کے اس شعر سے دن بھی بتا دیا.وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَ الْعِیْدُ اَقْرَبُ یعنی عید سے دوسرے دن ہفتہ والے دن اور الا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغِ برانِ محمدؐ پانچ سال پہلے شائع کرکے قتل کی صورت بھی بتا دی.آخر لیکھرام 6مارچ 1897ء کو قتل کیا گیا اور سب نے متفق اللفظ مان لیا کہ یہ پیشگوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر اللہ کی ہستی کے لئے حجت ناطقہ ٹھہری پس الہام الٰہی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خدا کا انکار کرنا نہایت بے حیائی بے شرمی ہوگی.دلیل دہم:.دسویں دلیل جو ہر ایک نزاع کے فیصلہ کے لئے قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے.اس آیت سے نکلتی ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت70:) یعنی جو لوگ ہمارے متعلق کوشش کرتے ہیں، ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیتے ہیں اور اس آیت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ ہمیشہ نفع میں رہے ہیں.وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہو اُسے تو ضرور خیال کرلینا چاہئے کہ اگر خدا ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگی پس اس خیال سے اگر سچائی کے دریافت کرنے کی اس کے دل میں تڑپ ہوتو اسے چاہئے کہ گڑگڑا کر اور بہت زور لگا کر وہ اس رنگ میں دعا کرے کہ اے خدا! اگر تو ہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں تو غیرمحدود طاقتوں والا ہے.تو مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنی طرف ہدایت کر اور میرے دل میں بھی یقین اور ایمان ڈال دے تاکہ میں محروم نہ رہ جائوں.اگر اس طرح سچے دل سے کوئی شخص دعا کرے گا اور کم سے کم چالیس دن تک اس پر عمل کرے گا تو خواہ اس کی پیدائش کسی مذہب میں ہوئی ہو اور وہ کسی ملک کا باشندہ

Page 460

ہو، ربّ العالمین اس کو ضرور ہدایت کرے گا اوروہ جلد دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے رنگ میں اس پر اپنا وجود ثابت کردے گا کہ اس کے دل سے شک و شبہ کی نجاست بالکل دور ہوجائے گی.اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس طریق فیصلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہوسکتا پس سچائی کے طالبوں کے لئے اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟ فی الحال ان دس دلائل پر ہی میں اپنا مضمون ختم کرتاہوں اور گو قرآن شریف میں اَور دلائل بھی ہیں لیکن میں سردست انہیں پر اکتفا کرتا ہوں.اگر کوئی اس پر غور کرے گا تو انہیں دلائل میں سے اس کے لئے اَور دلائل بھی نکل آئیں گے.واللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ.آخر میں ان احباب سے جن کے ہاتھ میں یہ پمفلٹ پہنچے، استدعا کرتا ہوں کہ اسے پڑھنے کے بعد کسی اور ایسے دوست کو دے دیں کہ جس کے لئے اسے مفید سمجھیں.(تشحیذ الاذہان مارچ 1913ء)

Page 461

Page 462

اخبار فضل کا پراسپکٹس از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 463

Page 464

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اخبار فضل کا* پراسپکٹس چھوٹے بڑے کس طرح ہوتے ہیںہندوستان کیا ہر ملک میں جنگل کے جنگل درختوں کے کھڑے ہوتے ہیں.ان درختوں کو کس نے لگایا.اور کون ان کی حفاظت کر رہا ہے.کس نے ان کو پانی دیا پھر کس نے جانوروں اور حشرات الارض سے ان کی نگہبانی کی.وہ کونسی قوم تھی جو اپنا وقت اور مال صرف کر کے ان کے لگانے اور پھر ان کی حفاظت کرنے میں مصروف رہی اگر کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی تو پھر وہ کہاں سے آئے آسمان پر ایک ہستی ہے جس نے زمین کو آسمان کو سورج کو چاند کو ستاروں کو سیاروں کو آگ کو پانی کو مٹی کو ہوا کو انسان کو حیوان کو پیدا کیا ہے.اسی نے ان درختوں کو لگایا اور ایسے رنگ میں لگایا ہے کہ جسے دیکھ کر عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے ہیں.ایک چھوٹے سے بیج کو جسے دیکھ کر کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا کہ اس میں سےاس قدر عظیم الشان درخت کھڑا ہوجائے گا.ہوائیں اڑا کر لاتی ہیں.اور ایک خالی جگہ پر گر جاتا ہے.پھر ہلکی ہوائیں اس پر کچھ گردو غبار ڈال دیتی ہیں.اور پھر آسمانوں اور زمینوں کا بادشاہ سورج کو حکم دیتا ہے کہ اپنی حرارت سے وہ سمندروں میں سے پانی کھینچے مون سون اسے اڑا لاتی ہیں اور رفتہ رفتہ وہ بادل کی صورت اختیار کرتا ہے.اور اس وسیع میدان میں کہ جس میں وہ بیج آپڑا تھا آکر برستا ہے.اور پھر بغیر اس کے کہ کوئی انسان بیلوں اور کنووں کی مدد سے اسے پانی دے اسے پانی مل جاتا ہے اور وہ بیج اپنی طاقت کے مطابق پھولتا ہے.اور پھر اس میں سے ایک باریک سی شاخ نکلتی ہے جو زمین سے خوراک حاصل کرتی ہے.اور سورج سے حرارت لیکن چند سال نہیں گزرنے پاتے کہ وہ ایک درخت ہوجاتا ہے.*الفضل اخبار مراد ہے.پہلے نام فضل تجویز ہوا تھا.

Page 465

اور پھر اسے پھل لگتے ہیں اور پھر اپنے وقت پر وہ پھل زمین پر گر جاتے ہیں.اور ان سے اس طریق پر درخت پیدا ہوتے ہیں.اور ہوتے ہوتے لاکھوں لاکھ درخت پیدا ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کا دائرہ سینکڑوں میلوں تک وسیع ہوجاتا ہے.کیا کوئی بیج کو دیکھ کر نتیجہ نکال سکتا تھا کہ یہ بیج اس طرح بڑھے گا.ہاں کیا کوئی اس چھوٹی سی شاخ کو جو بارش کے بعد زمین سے نمودار ہوئی تھی دیکھ کر فیصلہ کر سکتا تھا کہ یہ شاخ لاکھوں شاخوں کی جڑ ہوگی پھر کیا کوئی اس اکیلے درخت کو دیکھ کر کہہ سکتا تھاکہ اس درخت سے لاکھوں درخت پیدا ہوں گے.مگر اس دنیا کا ایک آقا ہے اس کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے یہ سب ہوا اور ہوتا ہے.روحانی سلسلوں کی مثال جنگل سےجس طرح بغیر کسی کے بیج لگائے بغیر کسی کے پانی دیئے بغیر کسی کی ظاہری حفاظت اور کوشش کے جنگل پیدا ہوجاتے ہیں.اسی طرح نامعلوم طور سے ایک روحانی بیج دنیا میں ڈالا جاتا ہے اور اسے دیکھ کر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ اکیلا بیج جو کسی کی حفاظت میں نہیں جلد تباہ ہوجائے گا اور کسی کے پاؤں تلے آکر پِس جائے گا.اور کوئی کونپل اس سے پیدا بھی ہوئی تو وہ جلد روندی جائے گی.لیکن وہ نادان کیا جانتا ہے کہ اس کا نگران کسی کو نظر نہیں آتا مگر وہ سب کا نگران ہے اور کوئی چیز اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں وہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور الہام کے پانی سے سیراب کرتا ہے.وہاں بے شک اس بیج کے مالی نظر نہیں آتے.مگر اس کی حفاظت کے لئے ملائکہ تلواریں لئے کھڑے ہوئے ہیں.اور ہر ایک خطرہ سے اسے محفوظ رکھتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی بیج جو خدا نے دنیا میں ڈالا ہے جلد تباہ ہوجائے گا لیکن ایک دن یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ وہ تمام دنیا میں پھیل گیا ہے.اس کے کاٹنے کی کسی کو طاقت نہیں بلکہ جو چیز اس کی لپیٹ میں آتی ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے.كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا وَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (ابراہیم: 25، 26) كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا(الفتح:۳۰) ہماری جماعت کا بھی یہی حال ہےچونکہ حضرت مسیح موعودؑ بھی انہی بیجوں میں سے ایک بیج تھے اس لئے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا.آج سے تیس سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ یہ بیج اس قدر ترقی کرے گا اور نہ صرف اپنے اندر ترقی کرے

Page 466

گا بلکہ لاکھوں کا باپ ہوگا اور ہزاروں لاکھوں نفوس اس سے اپنا تعلق پیدا کریں گے اور کوئی مخالف اس پر غالب نہ ہوسکے گا.لیکن جو خدا کا منشاء تھا پورا ہوا اور زمین نے ایک تازہ نشان دیکھا.اور وہ احمدی جماعت جس کے 313آدمیوں کی فہرست نہ پوری ہوسکتی جب تک کہ بچے اور عورتیں اس میں داخل نہ کئے جائیں.اب اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ ایک ہزار آدمی قادیان میں ہی موجود ہے اور مجموعی طور سے چار لاکھ سے بڑھ گئی ہے.جماعت کے ساتھ ضروریات بھی بڑھتی ہیںیہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جماعت کی ترقی کے ساتھ ضروریات بھی ترقی کرتی جاتی ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ حضرت صاحبؑ کی کتب کے شائع کرنے کے لئے ایک پریس کی ضرورت تھی.اور بہت مشکل کے ساتھ ایک پریس کھڑا کیا گیا تھا پھر حضرت صاحبؑ نے ضروریات سلسلہ کے لئے ایک رسالہ نکالنا چاہا لیکن وہ اس وجہ سے رکا رہا کہ اس کے لینے والے نظر نہ آتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی پریس یہاں کام کر رہے ہیں اور دو ہفتہ وار ایک پندرہ روزہ اور چار ماہوار رسالے یہاں سے نکل رہے ہیں اور پھر بھی ضروریات اس قدر بڑھ رہی ہیں کہ کئی معاملات ابھی توجہ کے قابل ہیں کہ جن کی طرف یہ رسالہ اور اخبار توجہ نہیں کر سکتے.یا تو وہ زمانہ تھا کہ ایک کرایہ کے مکان میں پندرہ سو لڑکے پڑھتے تھے ایک انٹرنس پاس ہیڈ ماسٹر تھا.اور اب جماعت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ سینکڑوں طلباء سکول میں تعلیم پاتے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے خرچ سے بورڈنگ اور مدرسہ تیار کرنا پڑا ہے.اور بورڈنگ ابھی پورا نہ ہوچکا تھا کہ تنگ معلوم دینے لگا ایک انٹرنس پاس کردہ ہیڈ ماسٹر کی جگہ مولوی صدرالدین صاحب بی اے بی ٹی جیسا لائق آدمی اور مدرّسین میں کئی دیگر گریجوایٹ کام کر رہے ہیں غرض کہ جماعت کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں اور بڑھ رہی ہیں اور ان کا پورا کرنا ہمارا فرض ہے.ايک نئے اخبار کی ضرورتان بڑھنے والي ضروريات ميں سے ايک نئے اخبار کي ضرورت ہے.بے شک ايک وہ زمانہ تھا کہ جماعت قليل تھي.اور پھر اکثر لوگ زمينداروں کے طبقہ ميں سے تھے.ليکن اب علاوہ اس مخلص جماعت کي ترقي کے ہزاروں مخلص تعليم يافتہ پيدا ہو گئے ہيں جن کے علوم کو وسعت دينے کے لئے اخبار کي اشدّضرورت ہے.پر يس کي موجودہ آسانيوں نے ساري دنيا کي خبروں سے آگاہي کو ايک سہل الحصول امر بنا ديا ہے اس لئے علم دوست طبقہ اس فائدہ سے محروم رہنا پسند نہيں کرتا.علاوہ ازيں اللہ

Page 467

تعالی ٰ کے قائم کردہ سلسلوں کے افراد کو ہر معاملہ ميں دوسروں سے بڑھ کر قدم مارنا چاہئے اور سب مفيد علوم ميں ان کا نمبر دوسروں پر فائق ہونا ضروري ہے.دوسری ضرورتايک نئے اخبار کي ضرورت يہ ہے کہ بہت سے احمدي ہيں کہ جو احمد ي تو ہو گئے ہيں.ليکن ان کو بھي معلوم نہيں کہ احمدي ہو کر ہم پر کيا ذمہ دارياں عائد ہوتي ہيں اور کس طرح ہميں دوسروں کي نسبت رسومات و بدعات اور مقامات اسراف سے بچنا چاہئے.اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بھي ايک سخت کوشش کی ضرورت ہے.تيسری ضرورتيہ ہے کہ ترقي کرنے والي قوم کے لئے اپنے اسلاف کے نيک کاموں، بلندارادوں،وسيع الحوصلگيوں، صبرو استقلال کے کارناموں سے واقف ہونا اور اپنے کام کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کي مشقت اٹھانے کے لئے تيار ہونا ضروري ہو تا ہے.اس لئے احمد ي جماعت کو تاريخ اسلام سے واقفيت بھي ضروري ہے.خصوصاً رسول کريم ﷺ(فدا ہ ابي و امي ) اور صحابہؓ کي تاريخ سے.چوتھي اَشَدّ ضرورتاس وقت يہ ہے کہ ہندوستان نہيں بلکہ دنيا کي اکثر قوموں ميں اس وقت سخت بے چيني پھيلی ہوئي ہے اور ايک دوسرے کے خلاف بغض و عناد کا دريا جوش مار رہا ہے اور اس سلسلہ ميں ہندوستان ميں بھي ايک گروہ ايساپيدا ہو گيا ہے کہ جو گورنمنٹ انگلشيہ کے خلاف عجيب عجيب رنگ سے بد ظنياں پھيلا رہا ہے اور وفاداري کے پر دہ ميں اس حکومت کو کمزور کرنے کي فکر ميں ہے اور چونکہ ہمارا کوئي ايسا اخبار نہيں کہ جو سياست کے اہم مسائل پر اس نقطۂ خيال سے روشني ڈالے کہ جو حضرت صاحب نے قائم کيا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ ہم ميں سے بعض احباب اس رو ميں نہ بہہ جائيں اس لئے ضروري ہے کہ بڑے زور سے اس معاملہ پر حضرت صاحب کي تحريروں سے روشني ڈالي جائے اور احمد يوں ميں اس سياست کو رائج کياجائے جسے حضرت صاحب نے پيش کيا.اور ان اصولوں کو شہرت دي جائے جن پر حضرت صاحب ؑ احمد ي جماعت کو چلانا چاہتے تھے.اور احمدي جماعت کو اس موقعہ پر اس کے اہم فرائض بار بار ياد دلائے جائيں تاکہ وہ اپنے امام کے پيش کردہ معيار وفاداری پر قائم رہيں.پانچويں نہايت اشدضرورتاحمدي جماعت ميں تعليم کا پھيلانا ہے.ميں ديکھتا ہوں کہ جس طرح ہندوستان ميں اور قوميں تعليم ميں پيچھے رہي ہوئی ہيں.اسي طرح احمد ی بھي تعليم ميں سست ہيں حالانکہ اللہ فرماتا ہےهَلْ يَسْتَوِيْ الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ

Page 468

والَّذِيْنَ لايَعْلَمُوْنَ (الزمر:10(اور رسول کريم ﷺ فرماتے ہيں.کَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤمِنِ اَخَذَھَا حَيْثُ وَجَدَ ھَا پس احمدي جماعت کا اہم فرض تھا کہ اس معاملہ ميں دو سروں سے بڑھ کر قدم مارتي اور اس جماعت کا کوئي فرد نہ رہتا جو تعليم يافتہ نہ ہو.اور نہ صرف خود تعليم حاصل کرتے بلکہ دوسروں کو بھي اس کي ترغيب ديتے.چھٹی ضرورتيہ ہے کہ احمدي جماعت اب ہندوستان کے ہر گوشہ ميں پھيل گئي ہے ليکن آپس ميں ايک دوسرے سے واقفيت پيدا کرنا اور ميل ملاپ کو ترقي دينا بہت ضروري ہے اور اس کے علاوہ يہ کوشش بھي ضروري ہے کہ وہ آپس کے جھگڑے آپس ميں ہي فيصلہ کيا کريں.ساتويں ضرورتاحمدي جماعت کو دنيا کي ترقي سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ بھي اللہ تعاليٰ کے فضل سے محروم نہ رہيں.اور دين دنيا ميں ترقي حاصل کريں.اور اس کے لئے ضروري ہے کہ تجارت حرفت و صنعت اور ايجادات جديدہ سے انہيں آگاہ کرنے کا کوئي ذريعہ نکالا جائے.آٹھويں ضرورتتبليغ کے لئے کوشش کرنا اور جن ممالک ميں تبليغ نہيں ہوئي ان کي طرف توجہ دينا اور دشمنان اسلام کي تبليغي کو ششوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا.ان ضروريات کو پورا کرنے کا سامانضروريات کو مدنظر رکھ کر ہم نے ارادہ کيا ہے کہ ايک اخبار قاديان سے نکالا جائے.جوان ضروريات کو پورا کرنے کے علاوہ ديگر ضروري امور ميں احمدي جماعت کي خدمت بجالائے اور اللہ تعاليٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماري اس خواہش کو پورا کرے اور اس اخبار کو مفيدبنائے.قوم پر بوجھ نہيں پڑنا چاہئےايک سوال جو ہر نئے کام کے اجراء پر لوگوں کے دل ميں پيدا ہوا کرتا ہے يہ ہے کہ کيا اس نئے اخبار کابوجھ قوم پر نہيں پڑے گا اور کيا آگے ہي بڑھتي ہوئي ضروريات کو مد نظر رکھ کر يہ ضروري نہيں کہ قوم پر مزيد بوجھ نہ ڈالا جائے ؟ ليکن اس کے جواب ميں مجھے صرف اتنا کہنے کي ضرورت ہے کہ تمہارے کام خدا نےکرنے ہيں اور جب خدا نے اس سلسلہ کو قائم کيا ہے تو اس کي ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وہ سامان بھي ضرور مہيا کرے گا.جس موليٰ نے بچے کي پيدائش سے پہلے ماں کی چھاتيوں ميں دودھ اتارا ہے.اور انسان کي پيدائش سے پہلے سورج، چاند، ستارے ،پانی اور ہوا پيدا کئے ہيں کيا وه

Page 469

ہماري ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے کوئي تدبيرنہ کرے گا؟ جرأت اور ہمت اور استقلال سے کام ليتے ہوئے اس کے حضور ميں گر جاؤ تو وہ تمہاري ہر مشکل کو آسان کر دے گا اور ہر طرف سے آسمان کے دروازے تم پر کھل جائيں گے.کيا يہ سچ نہيں کہ وہ ہر احمدي کي مدد کرتا ہے اور بہت سے ہيں کہ جو زمين سے اٹھا کر آسمان پر بٹھاديئے گئے ہيں اور سينکڑوں ہيں کہ جنہيں گڑ ھوں سے نکال کر بلند پہاڑوں کي چوٹيوں پر جگہ دي گئي ہے.پھر کياوه خدا تمہاري ان ضروريات کو پورا کرنے کے لئے کچھ سامان نہ کرے گا.مجھے خوب ياد ہے کہ جب تعليم الاسلام ہائي سکول کے لئے بورڈنگ کي تجويز ہوئي اور پچاس ہزار کي ضرورت بتائی گئي تو ہزاروں تھے جو کہتے تھے کہ اس کمزور جماعت سے يہ کب ہو سکتا ہے.ليکن کيا پھر صرف بورڈنگ ہي نہيں بلکہ سکول بھي تيار نہ ہو گيااور کيا تعمير کے اخراجات کے ہوتے ہوئے تمہاري ہي جيبوں سے دوسرے بيسيوں کاموں کے لئے ہزاروں نہيں بلکہ لاکھوں روپے نہيں نکلے.يہ سب کچھ کيونکر ہواخداکے حکم سے اور اس لئے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اور جب تم دين کي راہ ميں خرچ کرتے ہو تو وہ تمہارے لئے آمدن کے اور کئي دروازے کھول ديتا ہے.پس جس نے يہ شک کيا کہ يہ جماعت اتنے بوجھ کيونکر اٹھائے گي اس نے اس بات کو جھٹلا ديا کہ يہ جماعت اللہ کے فضل سے آخَرِيْنَ مِنْھُمْ کي مصداق ہے اور اس نے اس کي ناقدري کي.ابھي ايک اخبار کيا بيسيوں کام تم نے کرنے ہيں اور تمہيں کرنے پڑيں گے اور وہ ضرور ہو کر رہيں گے کيو نکہ خد اکے منشا پورے ہو کر رہتے ہيں.ليکن يہ سب ترقی اسی طرح غير معلوم طور سے ہوگي جس طرح ايک بيج سے جنگل بن جاتا ہے اور عقل اس کو نہيں سمجھ سکتي.اس اخبار کے کيا اغراض ہوں گے ميں مختصراً اس اخبار کے اغراض بيان کر دينا بھي اس جگہ ضروري سمجھتا ہوں 1.مذہب اسلام کى خوبىوں کو مخالفىن کے سامنے پىش کرنا.قرآن شرىف کے کمالات سے آگاہ کرنا.2.حضرت صاحبؑ کى تعلىم اور آپؑ کى جماعت کى خصوصىات کو لوگوں پر ظاہر کرنا.3.جماعت کومذ ہب اسلام سے واقف کرنا اور ہر قسم کى بدعات اور رسومات کى ظلمتوں سے نکالنے کى کوشش کرنا اور اخلاق کى درستى کى طرف توجہ دلانا.4.تارىخ ِاسلام کے ان مفىد حصوں کو شائع کرنا جن سے ہمت، استقلال ، قربانى ، جرأت، اىثار ، اىمان ، وفادارى وغىره خصالِ حسنہ مىں ترقى کى تحرىک ہو.

Page 470

5.تعلىم کى ترغىب دىنا اور اس کے لئےمفىد تجاوىز پىش کرنا.6.تبلىغ اسلام کى ترغىب دىنا اس کے لئے ذرائع کى تلاش کرنا اور مخالفىن کى تبلىغى کوششوں سے آگاہ کرنا.7.سىاست مىں جماعت کو ان اصولوں پر چلنے کى تعلىم دىنا کہ جن پر حضرت صاحبؑ قوم کو چلانا چاہتے تھے اور حضرت خلىفة المسىحؓ چلانا چاہتے ہىں اور گورنمنٹ کى و فادارى کى تعلىم دىنا.8.ضرورى مفىد اخبار کى واقفىت بہم پہنچانا جن سے عموماً خبروں کے لئے اور کسى اخبار کى احتىاج نہ رہے خصوصاً عالم اسلام کى خبروں سے آگاہ کرنا.9.احمدى جماعت مىں آپس مىں مىل ملاپ اور و اقفىت کےبڑھانے اور مرکزى حىثىت مىں لانے کى کو شش کرنا.10.صنعت و حرفت تجارت وغىرہ کے متعلق اور اىجادات جدىدہ کے متعلق بقدر امکان واقفىت بہم پہنچانا.اس پر حضرت خليفة المسيح کی رائے ميں نے اس امر کے متعلق حضرت خليفة المسيح سے مشورہ ليا تو آپ نے جو کچھ اس پر تحرير فرمايا ہے وہ جماعت کی آگاہہی کے لئے نقل کيا جا تاہے.’’ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ہي ضروري ہے جس قدر اخبار ميں دلچسپي بڑھے گي خريدار خود بخود پيدا ہوں گے.ہا ں تائيد الہيٰ حسن نيت اخلاص اور ثواب کي ضرورت ہے زميندار، ہندوستان، پيسہ اخبار ميں اور کيا اعجاز ہے ؟ و ہاں تو صرف د لچسپي ہے اور يہاں دعا، نصرت الہٰيہ کي اميد بلکہ يقين.تَوَکُّلًا عَلَي اللّٰہِ کام شروع کرديں.‘‘ نور الدين(دستخط) اس تحرير کو پڑھ کر کوئي شک کي گنجائش نہيں رہتي کہ ايک ايسے اخبار کي ضرورت ہے اس لئے بموجب ارشاد حضرت خليفة المسيحؓ تَوَکُّلًا عَلَي اللّٰہِ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کيا جاتا ہے ہمارا کام کوشش ہے برکت اور اتمام خدا تعاليٰ کے اختيار ميں ہے ليکن چونکہ يہ سلسلہ خدا کي طرف سے ہے اس لئے اس کي مدد کايقين ہے.بے شک ہماري جماعت غريب ہے ليکن ہمارا خدا غريب نہيں ہے

Page 471

اور اس نے ہميں غريب دل نہيں ديئے پس ميں اميد رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوري توجہ کرے گي اور اپني بے نظير ہمت اور استقلال سے کام لے کر جو وہ اب تک ہر ايک کام ميں و کھاتي رہي ہے اس کام کو بھي پورا کرنے کي کوشش کرے گي اور ميں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعاليٰ مذکورہ بالا تحرير کو صرف ارادوں اور خواہشوں تک ہي نہ رہنے دے اور سلسلہ کي ضروريات کے پورا کرنے ميں ہمارا ہاتھ بٹا ئے.کام کرنے والے آدمي کم ہيں اس لئے بے شک شروع ميں دقت پيش آئے گي ليکن اللہ تعاليٰ کا وعدہ ہے اَلَّذيْنَ جَاهَدُوْافِيْنَالَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) خدا تعالیٰ ہميں جہاد فی اللہ کی توفيق دے اور لوگوں کے دلوں ميں الہام کرے کہ وہ اس کام ميں مد ديں.اخبار کے متعلق ضروري اطلاع يہ اخبار انشاء اللہ گورنمنٹ کي شرائط کو پورا کرنے کےبعداللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو ماہ جون کي کسي تاريخ کو شائع ہو گا بارہ صفحہ کا اخبار ہو گا.اور سردست ابتدائي اخراجات کو مدنظر رکھ کر اس کي قيمت چار روپے رکھي گئي ہے.اللہ تعاليٰ چاہے تو اس ميں کمي کرنے کا موقعہ بھي اگلے سال مل سکتا ہے چونکہ اخبار کے شروع کرنے سے پہلے اس بات کا اطمينان بہت ضروري ہے کہ کچھ خريدار مہيا ہو جائيں اس لئے ميں اميد کرتا ہوں کہ جن دوستوں کي خدمت ميں يہ اشتہار پہنچے وہ اس کي خريداري کے متعلق اطلاع ديں.اخبار کا پہلا پرچہ ايسے سب دوستوں کے نام وي پي کيا جائے گا اور اميد ہے کہ احباب اپنے دوستوں ميں بھي اس کي خريداري کي کوشش کريں گے.فی الحال اس کا ايڈيٹر ميں ہي ہوں گا يہاں تک کہ اللہ تعاليٰ کوئي مناسب آدمي بھيج دے.کل خط و کتابت متعلق اخبار و اطلاع خريداري قاضي محمد ظہور الدين صاحب اکمل قاديان ضلع گورداسپور کے نام ہوني چاہئے.لَنُ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران :93)رَحِمَكُمُ اللّٰهُ.وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.المشتہر مرزا محموداحمد حسنِ اتفاق سب انتظام مکمل ہو چکا تھا کہ لاہور سے ايک دوست نے پيغام صلح کا پراسپکٹس ارسال کيا پيغام صلح کا ذکر تو پہلے سن چکا تھا ليکن پہلے تو ايک دوست نے بتايا کہ ابھي اس کي تجويز معرض التواء ميں

Page 472

رکھي گئي ہے جب تک کہ خواجہ صاحب کے رسالہ کا انتظام مکمل نہ ہو جائے بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ جا ري تو ہو گا ليکن يہ نہ معلوم ہوا کہ کب.ليکن پراسپکٹس سے معلوم ہوا کہ اس کا اعلان ہو چکا ہے گو کہ پہلے ايک سے زيادہ اخبار موجود ہيں ليکن ايک وقت ميں دو اخبار کا نکالنا مناسب نہ جان کر حضرت خليفة المسيحؓ کي خدمت ميں معاملہ دوبارہ پيش کر ديا کہ وہ اخبار بھي شائع ہو رہا ہے اس لئے اگر مناسب ہو تو في الحال اسے بند رکھا جائے ليکن حضرت خليفة المسيح نے اس پر ذيل کي عبارت تحرير فرمائي ’’مبارک ہے.کچھ پروا نہ کريں وہ اور رنگ ہے يہ اور.کيا لاہور اخبار بہت نہيں‘‘ نور الدين (دستخط) اس لئے ’’فضل‘‘ (جو نام کہ اس اخبار کا حضرت خليفۃ المسيح نے رکھا ہے) کا پراسپکٹس بھي شائع کيا جا تا ہے اللہ تعالیٰ پيغام صلح اور فضل دونوں کو جماعت کے لئے مفيد اور بابرکت بنائے.آمين.يہ اشتہار مختلف جماعتوں کے سيکرٹريوں کے نام بھيجا جائے گا.ميں اميد کرتا ہوں کہ وہ کسي ايسے موقعہ پر جب کہ جماعت کے سب احباب جمع ہوں اسے پڑھ کر سنا ديں تاکہ جماعت کے سب احباب اس سے آگاہ ہو جائيں.اور پھر دوسرے لوگوں ميں اسے تقسيم کر ديں.اور چونکہ کم اشاعت کي صورت ميں اخبار کو بہت نقصان پہنچتا ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس کي خريداري کے بڑھانے ميں کوشاں ہوں.ميں ديکھتا ہوں کہ ہندو اخباروں اور عيسائي اخباروں کو مسلمان خريدتے ہيں پھر کيا وجہ ہے کہ ہمارے اخبارات کو نہ خريديں.ليکن ميرے خيال ميں اس امر کي طرف جماعت کے احباب کو پوري توجہ نہيں ہوئي اگر وہ اس طرف توجہ کريں تو اللہ تعاليٰ چاہے تو اس ميں بہت کچھ کاميابی ہو سکتي ہے کوئي اخبار اسي وقت اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے کہ کم سے کم تين ہزار خريدار اسے مل جائيں اور ايک ہزار خريدار ميں تو اس کي چھپائی کے اخراجات مشکل سے چل سکتے ہيں.اعلیٰ مضامين کا حاصل کرنا اور مفيد معلو مات کا پيش کرنا اور بھي مشکل ہے اور اگر ہزار سے بھي کم ہوں تو خساره ہي خسارہ ہے.پس جس دوست تک يہ اشتہار پہنچےاگر پورے زورسے اس کي خريداري کے بڑھانے ميں کوشش کرے تو جماعت ميں سے ہي تين ہزار خريدار کا مل جانا کچھ بڑي بات نہيں.کيا چار لاکھ کي جماعت ميں سے چار ہزار خوانده آدمي جو اخبار خريد سکے نہيں مل سکتا؟ ضرور مل سکتا ہے ليکن اول تو کوشش نہيں کی گئي دوم ان کوششوں کے ساتھ دعاؤں کي مدد نہيں لي گئي.ميں اميد کرتا ہوں کہ اس اخبار ميں دلچسپی لينے والے احباب دعائيں کرتے اوراللہ

Page 473

تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے لئے کوشش شروع کریں گے تو پھر دیکھیں گے کہ خدا تعالیٰ ان کی کس طرح مدد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے تمام احباب پر اپنے فضل کی بارشیں نازل کرے آمین (مرزا محموداحمد) نوٹ.قمیت چار روپے (للعہ) پیشگی سالانہ ہوگی جو ہمیشہ پیشگی وصول کی جائے گی.(بدر قاو یان جوان ۱۹۱۳)

Page 474

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم )الفضل میں شائع ہونے والے سلسلہ مضامین کا مجموع ) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد

Page 475

Page 476

بسم اللہ الر حمٰن الرحیم نحمدہٗ و نصلّی علیٰ رسولہٖ الکریم تمہید تا ریخ کے بڑے بڑے پہلوؤں میں سے ایک بہت بڑا پہلو تا ریخ بنانے والوں کا حال بھی ہو تا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے.اگر تاریخی واقعات ہمیں یہ علم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں با توں کا انجام نیک یا بد نکلتا ہے.تو تاریخ کے بنانے والوں کی سیرت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ کس قسم کی سیرت کے لوگوں سے کیسے کیسے واقعات سرزَد ہو تے ہیں اس لیے تا ریخ اسلام کے باب میں سب سے پہلے میں نےیہی مناسب سمجھا ہے کہ تاریخ اسلام کے با نی کی سیرت بیان کروں کہ جس پر سب مسلمان جا ن و دل سے فدا ہیں اور جس کی نسبت خود اللہ تعالیٰ فر ماتاہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22) پس تا ریخ اسلام کو پڑھ کر جو نتا ئج انسان نکال سکتا ہے اورجو جو فوائد اس سے حاصل کر سکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر اس پا ک انسان کی سیرت پر غور کر کے نفع اٹھا سکتا ہے.سیرت نبوی ﷺ کے لکھنے کے مختلف طریق ہیں.اوّل تو یہ کہ عام تا ریخوں سے لکھی جا وے.دوسرے یہ کہ احادیث سے جمع کی جا وے.تیسرےیہ کہ قرآن شریف سے اقتباس کی جاوے.پہلاما ٔخذ تو بہت ادنیٰ ہے کیونکہ اس میں دوست دشمن کی را ئے کی تمیز کر نا ایک مشکل بلکہ محال کام ہے.دوسرا ما ٔخذیعنی حدیث سے واقعات کا جمع کر نا زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ مؤرّخین کی طرح محّدثین ہر ایک سنی سنائی بات کو نہیں لکھ دیتے بلکہ روایت کو آنحضرت ﷺتک برابر چلا تے ہیں اور پھر روایت کر نے والوں کے چال چلن کو خوب پر کھ کر ان کی روایت نقل کر تے ہیں.تیسرا طریق قرآن شریف سے آنحضرت ﷺ کی سیرت لکھنے کا ہے اور یہ سب سے اعلیٰ ، اکمل اور تمام نقصوں سے پاک ہے لیکن یہ کام بہت ذمہ دا ری کا ہے اس لیے سر دست میں نے پہلے

Page 477

اور تیسرے ماخذکی بجا ئے دوسرے ما ٔخذ کو اختیار کیا ہے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کسی وقت قرآن شریف سے بھی آنحضرت ﷺ کی سیرت لکھنے کا ارادہ ہے لیکن چو نکہ اختصار اور صرف اعلیٰ درجہ کی روایات کا درج کر نا ہی مقصود ہے اس لیے احادیث میں سے بھی میں نے صرف بخاری کو چنا ہے اور یہ مختصرسیرت صرف بخاری جیسی معتبر کتاب سے لی ہے اور اس کے سوا کسی اَور حدیث سے مدد نہیں لی.باوجود اس کےکہ صرف بخا ری کی احادیث سے جو اَصَحُّ الکُتُب ہے میں نےیہ سیرت اختیار کی ہے پھر بھی اختصارپراختصار سے کام لیا ہے اور اس کو صرف رسول کریمﷺ کی سیرت کا ایک باب سمجھنا چاہیے ورنہ اس بحربے کنار کو عبور کر نا تو کچھ آسان کام نہیں.چونکہ پیاروں کی ہر ایک بات پیاری ہو تی ہے اور ان کی شکل و شباہت،چال ڈھال اور لباس وخورونوش کا طریق بھی دلکش اور محبت افزا ہو تا ہے اس لیے ابتدا میںمَیں انہی با توں کوبیان کروں گا.سیرت کے سا تھ اگر صورت اور عادات بھی مل جاویں تو وہ آدمی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.

Page 478

پہلا باب آپ ﷺ کا حلیہ.لباس.عمر.اور بعض دیگر طریقِ عمل رسول کریم ﷺ(فِدَاہُ نَفْسِیْ) مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے.آپؐ کی پیدا ئش سے پہلے آپؐ کے والد عبد اللہ فوت ہو چکے تھے.آپؐ کو آپؐ کی والدہ آمنہ اور دادا عبد المطلب نے پرورش کیا.لیکن یہ دونوں بھی آپؐ کی صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے جس کے بعد آپؐ کے چچا ابو طالب آپؐ کے نگران رہے.آپؐ نے تریسٹھ سال کی عمر پا ئی اور سا ری عمر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کر نے میں اور اس کے نام کو دنیا میں بلند کر نے میں خرچ کی.دنیا میںنہ کو ئی ویسا پیدا ہؤا اور نہ ہو گا.تمام انسانی کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے.تقویٰ کی سب را ہیں آپؐ نے طے کیں اور محبت الٰہی کے تمام دروازوں میں سے گزرے.حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے دربار کی رسا ئی کے لیے آپؐ کی اتباع کو شرط قرار دیا.آپﷺ کا حلیہآپؐ میانہ قامت تھے نہ بہت لمبے اور نہ پستہ قد.آپؐ کا رنگ بہت خوبصورت تھا نہ تو بالکل سفید جیسے سرد ممالک کے لوگوں کا ہو تا ہے اور نہ گندم گوں.آپؐ کے بال نہ تو گھونگرالے تھے اور نہ بالکل سیدھے بلکہ کسی قدر خم دار تھے.آپؐ کے با لوں کا رنگ کسی قدر سرخی مائل تھااور بڑھا پے میںکچھ بال کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہو گئے تھے با قی بال کالے ہی رہے.سر کے بال آپؐ لمبے رکھتے تھے جو کانوں کی لو تک آتے تھے.آپؐ ہمیشہ

Page 479

بالوں میں کنگھی کر تے اور آخر عمر میں مانگ بھی نکالتے تھے.سر میں تیل یا خوشبو لگا نا بھی آپؐ کی عادت میں داخل تھا.آپؐ کا جسم بہت نازک اور ملائم تھا.آپؐ کے جسم میں سے خوشبو آتی تھی.آپؐ کا سینہ چوڑا تھا اور دونوں کندھوں کے درمیاں بہت فاصلہ تھا.آپؐ کے ہا تھ پاؤں بہت موٹے تھے اور ہتھیلیاں بہت چوڑی تھیں.آپؐ سوتی کپڑے کو اور خصو صاًدھاری دار کو زیادہ پسند فر ما تے تھےا ور اسی قسم کے کپڑے میں آپؐ دفن بھی کیے گئے تھے لیکن در حقیقت جس قسم کا کپڑا ہو تا آپؐ اسے استعمال کر لیتے.اپنے آقا کی ہر ایک نعمت کا شکر کر تے.بات کر نے کا طریقحضرت انس ؓفر ما تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اکثر اوقات بات تین دفعہ دہراتے تا کہ لو گ اچھی طرح سمجھ جاویں اور سلام بھی تین دفعہ کر تے.اسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ بات ایسی آہستگی کے سا تھ کر تے کہ اگر کوئی چاہےتو آپؐ کے لفظ گن لے اور جس طرح دوسرے لو گ جلدی جلدی بات کر تے ہیں آپ ؐ ایسا نہ کر تے تھے.کھا نے پینے کے متعلقآپؐ تما م طیّب اشیاء کھا تے تھے لیکن اس بات کا لحاظ رکھتے تھے کہ وہ صدقہ نہ ہوں.حتّٰی کہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺفر ما یا کر تے تھے کہ میں بعض دفعہ گھر جا تا ہوں اور وہاں بستر پر کو ئی کھجور پڑی دیکھتا ہوں تو پہلےتو کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں صدقہ نہ ہو پھینک دیتا ہوں.اس بات سے اس وقت کے مسلمانوں کو عبرت حاصل کر نی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کا رسولﷺصدقہ سے کس قدر پر ہیز کر تا تھا.اب تو بعض لوگ اچھا بھلا مال رکھتے ہو ئے بھی صدقہ کے لینے میں مضائقہ نہیں کر تے.حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ کو ئی جب کو ئی چیز آپؐ کو دیتا آپؐ پو چھتے.اگر ہدیہ ہوتی تو خود بھی استعمال فرماتے ورنہ آس پاس کے غرباء میں تقسیم کر دیتے.آپؐ کی خوراک ایسی سا دہ تھی کہ اکثر کھجور اور پا نی پر گزارہ کرتے.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کے انصار ہمسائے دودھ تحفہ بھیجتے تو اکثر ہم لوگوں کو پلادیتے.لیکن باوجود اس قدر سا دگی کے طیّبات سے پر ہیز نہ تھا اور جھوٹے صوفیوں کی طرح آپؐ طیّبات کو ترک نہ کر بیٹھے تھے بلکہ آپؐ عمدہ سے عمدہ غذائیں جیسے مرغ وغیرہ بھی کھا لیتے تھے.پا نی پیتے وقت آپؐ کی یہ عادت تھی کہ تین دفعہ بیچ میں سا نس لیتے اور یکدم پا نی نہ چڑھا جاتے.نہ صرف اس میں آپؐ کا وقار پا یا جا تا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپﷺصحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.گو شت کو آپؐ پسند فرماتے

Page 480

تھے لیکن اس کا زیا دہ استعمال نہ تھا کیونکہ سا دہ زندگی کی وجہ سے آپؐ کھجور اور پا نی پر ہی کفا یت کر لیتے.ایک صحابی ؓ یہ بھی بیان کر تے ہیں کہ ایک دفعہ آپؐ کے سامنے کدّو پکا کر رکھا گیا تو آپؐ نےاسے بہت پسند فرمایا.ان تمام کھانوں کے ساتھ آپؐ اصل مالک کو نہ بھولتے بلکہ خدا کا نام لے کر کھانا شروع کر تے اور دا ئیں ہا تھ سے کھا تے اور اپنے آگے سے کھاتے اور جب کھا چکتے تو فرماتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا غَیْرَ مَکْفِیٍّ وَلَا مَوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا (بخاری کتاب الاطعمہ باب مایقول اذا فرغ من طعامہ)سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں.بہت بہت تعریفیں پاک تعریفیں.برکت والی تعریفیں.ایسی تعریفیں کہ جو ایک دفعہ پر بس کر نے والی نہ ہوں.جو چھوڑی نہ جاویں.جن کی ہمیشہ عادت رہے.اے ہمارے ربّ.یعنی مولا تیرا شکر تو میں بہت بہت کر تا ہوں پرتو بھی مجھ پر رحم کر اور آج کے انعام پر ہی بس نہ ہوجائے بلکہ تو ہمیشہ مجھ پر انعام کرتا رہ اور میں ہمیشہ تیرا شکر کرتارہوں.اس دعا پر غور کرو اور دیکھو کہ کھانا کھا تے وقت آپؐ کے دل میں کیا جو ش موجزن ہوں گے اور کیا کیا شکر کا دریا پھوٹ کر بَہ رہا ہوگا.پھر اس پر بھی غور کرو کہ لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنۃٌ یعنی تمہارے لیے رسول کریمﷺ ایک بہتر سے بہتر نمونہ ہے جس کی تمہیں پیروی کر نی چاہیے.

Page 481

باب دوم عاداتآپ ﷺ کا حُلیہ،لباس اور کھانے پینے کا طریقہ لکھنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ اب کچھ آپؐ کی بعض عا دات پر بھی لکھا جاوے.ہر انسان کچھ نہ کچھ عادات کے ماتحت کام کر تا ہے.ہاں بعض تو نیک عاد ات کے عادی ہو تے ہیں اور بعض بد کے.شریر اپنی شرارت کی عادتوں میں مبتلا ہو تا ہے تو شریف نیک عا دات کا عادی.ہمارے آنحضرت ﷺ کی ایک دو عادات جو میں اس جگہ بیان کر تا ہوں ان سے معلوم ہو گا کہ آپؐ کس قدر یُمن ونیکی کی طرف متوجہ تھے اور کس طرح ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار فر ما تے تھے.ہنسی کا طریقآپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے انسان کامل بنایا تھا.تمام نیک جذبات آپؐ میں پائے جا تے تھے اور ہر خوبی کو اپنے موقع اور محل پر استعمال فرماتے اور ایسا طریق اختیار کر تے جس سے اللہ تعالیٰ کا کو ئی خلق ضائع نہ ہو جا ئے.بعض بناوٹی صوفیاء کا قاعدہ ہو تا ہے کہ وہ کچھ ایسے تکلفات اور مشقوں میں اپنے آپ کو ڈال لیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے انہیں کئی پاک جذبات اور کئی طیبات کو تر ک کر نا پڑتا ہے.بعض کھانے میں خاک ملا لیتے ہیں.بعض گندی ہوجا نے اور سڑ جا نے کے بعد غذا استعمال کر تے ہیں.بعض سارا دن سر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں اور ایسی شکل بناتے ہیں کہ گو یا کسی ماتم کی خبر سن کر بیٹھے ہیںاور ہنسنا تو در کنار بشاشت کا اظہار بھی حرام سمجھتے ہیں.لیکن ہمارا سردار ﷺ جسے خدا نے انسانوں کا رہنما بنایا تھا وہ ایسا کا مل تھا کہ کسی پا ک جذبہ کوضا ئع ہو نے نہ دیتا.ہنسی کے موقع پر ہنستا.رونے کے موقع پر روتا،خاموشی کے موقع پر خاموش رہتا اور بو لنے کے موقع پر بو لتا،غرض کو ئی صفت اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کی کہ جسے اس نے ضائع ہو نے دیا ہو اور اپنے عمل سے اس نےثا بت کر دیا کہ وہ خدا کی خدا ئی کو مٹا نے نہیں بلکہ قا ئم

Page 482

کرنے آیا ہےاور یہی اس کی ادا ہےجو ہر طبیعت اور مذاق کے آدمی کو موہ لیتی ہے اور کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ بے اختیار دل اس پر قربان ہو تا ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ ہنستے تھے لیکن اعتدال سےاور ہنسی کے وقت آپؐ کی طبیعت پر سے قابو نہ اٹھتا بلکہ ہنسی طبعی حالت پر رہتی چنانچہ فرماتی ہیں کہ مَارَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَ اتِہٖ اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ(کتاب الادب باب التبسم والنّحک)یعنی میں نے رسول ﷺ کو اس طرح گلا پھاڑ کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آنے لگ جائے بلکہ آپؐ صرف تبسم فر ما تے تھے یعنی آپؐ کی ہنسی ہمیشہ ایسی ہوتی تھی کہ منہ نہ کھلتا تھا اور آپؐ افراط وتفریط دونوں سے محفوظ تھے.نہ تو ہنسی سے بکلی اجتناب تھااور نہ قہقہہ مار کر ہنستے کہ جس میں کئی قسم کے نقص ہیں.آجکل تو میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان امراء میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ وہ اس زور سے قہقہہ مارتے ہیں کہ دوسرا سمجھے کہ شا ید چھت اڑ جا ئے گی اور اس طرح وہ آجکل کے پیر زادوں کی ضد ہیں.دا ئیں جا نب کا لحاظآنحضرت ﷺ(فداہ نفسی)کی یہ بھی عادت تھی کہ آپؐ ہمیشہ دا ئیں طرف کا لحاظ رکھتے.کھانا کھاتے تو دائیں ہاتھ سے.لباس پہنتے تو پہلے دا یاں ہا تھ یا دا یاں پاؤں ڈالتے.جو تی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے.غسل میں پا نی ڈالتے تو پہلے دا ئیں جانب.غرض کہ ہر ایک کام میںدائیں جا نب کو پسند فرماتے.حتٰی کہ جب آپؐ کو ئی چیز مجلس میں بانٹنی چاہتے تو پہلے دا ئیں جا نب سے شروع فرماتے.اور اگر اس قدر ہو تی کہ صرف ایک آدمی کی کفایت کرتی تو اسے دیتے جو دا ئیں جانب بیٹھا ہو تا.اور اس بات کا اتنا لحاظ تھا کہ حضرت انسؓ فر ما تے ہیں کہ حَلَبْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاۃَ داجِنٍ فِیْ دَارِیْ وَ شِیْبَ لَبَنُھَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِٔرِ الَّتِیْ فِی دَارِیْ فَاُ عْطِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنْہُ حَتّٰی اِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِیْہِ وَعَلیٰ یَسَارِہٖ اَبُوْ بَکْرٍ وَعَنْ یَمِیْنِہٖ اَعْرَابِیٌّ فَقَالَ عُمَرُ وَخَافَ اَنْ یُّعْطِیَہُ اَلْاَعْرَابِیَّ اَعْطِ اَبَا بَکْرٍیَارَسُوْلَ اللہِ عِنْدَکَ فَاَعْطَاہُ الْاَعْرَابِیَّ الَّذِیْ عَلیٰ یَمِیْنِہٖ ثُمَّ قَالَ اَلْاَیْمَنُ فَالْاَیْمَنُ(تجرید بخاری باب فی الشرب) یعنی میں نے رسول اللہﷺ کے لیے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دوہا اور اس کے بعد دودھ میں اس کنو یں سے پا نی ملا یا جو میرے گھر میں تھا.پھر رسول اللہ ﷺ کو وہ پیالہ دیا گیا.اس وقت آپؐ کے بائیں جا نب حضرت ابوبکرؓ اور دائیں جانب ایک اعرا بی تھا آپؐ نے اس میں سے

Page 483

کچھ پیا.پھر جب پیالہ منہ سے ہٹایا تو حضرت عمرؓ نے اس خوف سے کہ کہیں اس اعرابی کو جو آپؐ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ آپ کے پاس بیٹھے ہیں انہیں دے دیجیے گا.لیکن آپ ؐ نے اس اعرا بی کو جو آپؐ کےدا ئیں جا نب بیٹھا تھا وہ پیالہ دیا اور فر مایا کہ دایاں دایاں ہی ہے.اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ دائیں جا نب کا کتنا لحاظ رکھتے تھے جو آپؐ کی پا ک فطرت پر دلالت کر تا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت انسانی میں دائیں کو با ئیں پر ترجیح دینا رکھا ہے اور اکثر ممالک کے با شندے باوجود آپس میں کو ئی تعلق نہ رکھنے کےاس معاملہ میں متحد ہیں اور د ائیں کو با ئیں پر ترجیح دیتے ہیں.اور چونکہ آنحضرت ﷺ کی فطرت نہایت پا ک تھی اس لیے آپؐ نے اس بات کی بہت احتیاط رکھی.ایک اَور حدیث بھی آپؐ کی اس عادت پر روشنی ڈالتی ہے.سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ اُ تِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْہُ وَعَنْ یَمِیْنِہٖ غُلَامٌ اَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالْاَ شْیَاخُ عَنْ یَسَارِہٖ فَقَالَ یَا غُلَا مُ اَتَأذُنُ لِیْ اَنْ اُعْطِیَہُ اَلْاَشْیَاخَ قَالَ مَاکُنْتُ لِاُوْثِرَ بِفَضْلِیْ مِنْکَ اَحَداً یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَسلَّمَ)فَاَ عْطَاہُ اِیَّاہُ.(بخاری کتاب المساقاۃ باب فی الشرب) آنحضرت ﷺ کے پاس ایک پیالہ لا یا گیا جس میں سے آپؐ نے کچھ پیا.اس وقت آپؐ کے دائیں جا نب ایک نوجوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغیرالسن تھا اور آپؐ کے با ئیں طرف بو ڑھے سردار بیٹھے تھے.پس آپؐ نے اس نوجوان ے پو چھا کہ اے نوجوان کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ پیا لہ بوڑھوں کو دوں.اس نوجوان نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ !میں آپؐ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لیے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا.اس پر آپ ؐ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا.اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ دائیں طرف کا ایسا لحاظ رکھتے کہ با ئیں طرف کے بوڑھوں کو پیالہ دینے کے لیے آپؐ نے اول اس نوجوان سے اجازت طلب فرما ئی اور اس کے انکارپر اس کے حق کو تسلیم کیا.ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لا تےآپؐ کو خدا تعالیٰ سے کچھ ایسی محبت اور پیار تھا کہ کو ئی معاملہ ہو اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ضرور کر تے.اٹھتے بیٹھتے،سو تے جاگتے،کھاتے پیتے،غرض کہ ہر موقع پر خدا کا نام ضرورلیتےجس کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر کیا جا ئے گا.یہاں صرف اس قدر لکھنا ہے کہ یہ بات بھی آپؐ کی عادات میں داخل تھی کہ سونے سے پہلے دونوں ہا تھوں کو ملا کر دعا فرما تے پھر سب بدن پر ہا تھ پھیر لیتے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فر ما تی

Page 484

ہیں کہ کَانَ اِذَااٰوٰی اِلیٰ فِرَاشِہٖ کُلَّ لَیلَۃٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْھِمَا فَقَرَ أَ فِیْھِمَا قُلْ ھُوَااللہُ اَحَدٌ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا مَااسْتَطَاعَ مِنْ جسدہ یبدَأُ بِھما عَلٰی رَأْسِہٖ وَوَجْھَہٖ وَمَا اَقْبَل مِنْ جسدِہ یفعلُ ذٰلک ثلاثَ مَرَّاتٍ(بخاری کتاب التفسیر باب فضل المعوّذات) یعنی آپؐ ہر شب جب اپنے بستر پر جا تے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اورقل ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے.پھر جہاں تک ہوسکتا اپنے بدن پر ہا تھ ملتے اور ابتدا سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے اور تین دفعہ ایسا ہی کر تے.ذرا ان تین سورتوں کو با ترجمہ پڑھو اور پھر سوچو کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غنیٰ پر کتنا ایمان تھا.کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے بغیر اپنی زندگی خطرہ میں سمجھتے تھے.

Page 485

باب سوم اخلاق پر مجموعی بحثپیشتر اس کے کہ میں آنحضرت ﷺ کے اخلاقِ پاکیزہ کا فرداً فرداً ذکر کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون پر ایک مجموعی حیثیت سے بھی روشنی ڈالوں جس سے پڑھنے والے کو پہلے ہی سے تنبیہ ہو جا ئے کہ کس طرح آپؐ ہر پہلو سے کامل تھے اور اخلاق کی تمام شاخوں میںآپؐ دوسروں کی نسبت بہت آگے بڑھے ہو ئے تھے.اس بات کے مفصل ثبوت کے لیے تو انسان کو احادیث کا مطالعہ کر نا چاہیے کیونکہ جب آ پؐ کا سلوک صحابہ ؓ سے اور ان کا عشق آپؐ سے دیکھا جا ئے تو بے اختیار منہ سے نکل جا تا ہے؎ مرحبا احمدؐ مکی مدنی العربی دل وجاں بادفدایت چہ عجب خوش لقبی لیکن اس جگہ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عرب ایک وحشی قوم تھی اور وہ کسی کی اطاعت کر نا حتی الوسع عار جا نتی تھی اور اسی لیے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کر تے تھے.یہاں تک کہ قیصرو کسریٰ کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہو ئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کر تی تھیں.عمر وبن ہند جیسا زبردست بادشاہ جس نے اردگرد کے علاقوں پر بڑا رعب جمایا ہو ٔا تھا وہ بھی بدوی قبائل کو روپیہ وغیرہ سے بمشکل اپنے قابو میں لا سکا اور پھر بھی یہ حالت تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر وہ اسے صاف جواب دے دیتے تھے اور اس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ہم تیرے نوکر نہیں کہ تیری فرمانبرداری کریں چنانچہ لکھا ہے کہ عمر وبن ہند نے اپنے سرداروں سے پوچھا کہ کیا کو ئی شخص ایسا بھی ہے کہ جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے سے عار کرے.اس کے مصاحبوں نے جواب دیا کہ ایک شخص عمروبن کلثوم ہے اور عرب قبیلہ بنی تغلب کا سردار ہے.اس کی ماں بے شک آپ کی ماں کی خدمت سے احتراز کرے گی اور اسے اپنے لیے عار

Page 486

سمجھے گی جس پر بادشاہ نے ایک خط لکھ کر عمروبن کلثوم کو بلوایا اور لکھا کہ اپنی والدہ کو بھی سا تھ لیتے آنا کیونکہ میری والدہ اسے دیکھنا چاہتی ہے.عمروبن کلثوم اپنی والدہ اور چند اَور معزز خواتین کو لے کر اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کے خط کے بموجب حاضر ہو گیا بادشاہ کی والدہ نے حسب مشورہ اس کی والدہ سے کچھ کام لینا تھا.دونوں زنان خانہ میں بیٹھی ہو ئی تھیں.والدہ شاہ نے کسی موقع پر سادگی کے سا تھ کہہ دیا کہ ذرا فلاں قاب مجھے اٹھا دو.عمر و بن کلثوم کی والدہ لیلیٰ نے جواب دیا کہ جسے ضرورت ہو خود اٹھا لے.اس پر والدہ شاہ نے مکرّر اصرارکیا لیکن لیلیٰ نے بجائے اس حکم کی تعمیل کے زور سے نعرہ مارا کہ وَااَذِ لَّاہُ یَا بَنِی تَغْلَبَ!!اے بنی تغلب! دو ڑو کہ تمہاری ذلت ہو گئی ہے.اس آواز کا سننا تھا کہ اس کے بیٹے عمروبن کلثوم کی آنکھوں میں تو خون اترآیا.بادشاہ کے پاس بیٹھا ہو ا تھا گھبرااٹھا.چونکہ اپنے پاس تو کو ئی ہتھیار نہ تھا ادھر ادھر دیکھا.بادشاہ کی تلوار کھونٹی کے سا تھ لٹک رہی تھی اس کی طرف جھپٹا اور تلوار میان سے نکال کر ایک ہی وارسے بادشاہ کا سر اڑا دیا لیکن اس سے بھی جوش انتقام نہ اترا.باہر نکل کر سپاہیوں کو حکم دیا کہ شاہی مال ومتاع لوٹ لو.بادشاہ کی سپاہ تو غافل تھی اس کے سنبھلتے سنبھلتے لُوٹ لاٹ کر صفایا کر دیا اور اپنے وطن کی طرف چلا آیا.چنانچہ اپنے ایک قصیدہ میںا س شاعر نے عمروبن ہند کو مخاطب کرکے اپنے آزاد ہو نے کا ذکر یوں کیا ہے: اَبَا ھِنْدٍ فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْنَا وَاَنْظِرْنَا نُخَبِّرْکَ الْیَقِیْنَا اے ابا ہند تو ہمارے معاملہ میں جلدی نہ کر اور ہمیں ڈھیل دے ہم تجھے یقینی بات بتا ئیں گے بِاَنَّا نُوْرِدُ الرَّایَاتِ بِیْضًا وَنُصْدِرُ ھُنَّ حُمْرًا قَدْ رَوِیْنَا وہ یہ کہ ہم سفید جھنڈوں کے سا تھ جنگ میں جا تے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو وہ جھنڈے خون سے سرخ و سیراب ہو تے ہیں وَاَیَّامٍ لَنَا غُرٍّ طِوَالٍ عَصَیْنَا الْمَلِکَ فِیْھَا اَنْ نَدِیْنَا اور بہت سے ہمارے مشہور اور دراز معر کے ہیں کہ ہم نے ان میں بادشاہ کی نافرما نی کی تا اس کے مطیع نہ ہو جا ئیں وَرِثْنَا الْمَجْدَ قَدْ عَلِمَتْ مَعَدٌّ نُطَا عِنُ دُوْنَہٗ حَتّٰی یَبِیْنَا عرب جانتے ہیں کہ ہم بزرگی کے وارث ہیں اپنے شرف کے لیے لڑتے ہیں تا کہ وہ ظاہر ہو جا ئے اَلَاَ لاَ یَعْلَمُ الْاقْوَامُ اَنَّا تَضَعْضَعْنَا وَاَنَّا قَدْ وَنَیْنَا خبردار تو ہمیں یہ نہ سمجھ کہ ہم کمزور اور سست و کاہل ہو گئے ہیں اَلَا لَا یَجْھَلَنْ اَحَدٌ عَلَیْنَا فَنَجْھَلَ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا

Page 487

خبردار کو ئی ہم پر جہالت سے ظلم نہ کرے ورنہ ہم ظالموں کے ظلم کا سخت بدلہ دیں گے بِاَیِّ مَشِیْئَۃٍ عَمْرَو بْنَ ھِنْدٍ نَکُوْنُ لِقَیْلِکُمْ فِیْنَا قَطِیْنَا کس وجہ سے عمروبن ہند تو چاہتا ہے کہ ہم تیرے گورنر کے فرمانبردار ہو جا ئیں تُھَدِّدُنَا وَنُوْعِدُنَا رُوَیْدًا مَتٰی کُنَّا لِاُمِّکَ مَقْتَوِیْنَا تو ہمیں ڈراتا ہے اور دھمکاتا ہے جانے بھی دے ہم تیری ماں کے خادِم کب ہو ئے تھے فَاِنَّ قَنَاتَنَا یَا عُمْرُو اَعْیَتْ عَلَی الْاَعَدَآءِ قَبْلَکَ اَنْ تَلِیْنَا* اے عمرو ہمارے نیزوں نے انکار کیا ہے تجھ سے پہلے بھی کہ دشمنوں کے لیے نرم ہو جا ئیں ان اشعار کو دیکھو کس جوش کے سا تھ وہ بادشاہ کو ڈانٹتا ہے اور اپنی آزادی میں فرق آتا نہیں دیکھ سکتا.جو حال بنی تغلب کا ان اشعار سے معلوم ہو تا ہے وہی حال قریباًقریباًسب عرب کا تھا اور خصوصاً قریش مکہ تو کسی کی ماتحتی کو ایک دم کے لیے بھی گوارہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ انہیں کعبہ کی ولا یت کی وجہ سے جو حکومت کل قبائل عرب پر تھی اس کی وجہ سے ان کے مزاج دوسرے عربوں کی نسبت زیا دہ آزاد تھے بلکہ وہ ایک حد تک خود حکومت کرنے کے عادی تھے اس لیے ان کا کسی شخص کی حکومت کا اقرارکر لینا تو بالکل امر محال تھا یہ وہ قوم تھی کہ جس میں رسول کریم ﷺ کا ظہور ہوااور پھر ایسے رنگ میں کہ آپ نے ان کی ایک نہیں دو نہیں تمام رسوم و عادات بلکہ تمام اعتقادات کا قلع قمع کر نا شروع کیا جس کے بدلہ میں ان کے دلوں میں آپؐ کی نسبت جو کچھ بغض و کینہ ہو گا وہ آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے.مگر آپ ؐ کے اخلاق کو دیکھو کہ ایسی آزاد قوم باوجود ہزاروں کینوں اور بغضوں کے جب آپؐ کے سا تھ ملی ہےاسے اپنے سر پیر کا ہوش نہیں رہا و ہ سب خود سری بھول گئی اور آپؐ کے عشق میں کچھ ایسی مست ہو ئی کہ آزادی کے خیال خواب ہو گئے.اور یا تو کسی کی ماتحتی کو برداشت نہ کرتی تھی یا آپؐ کی غلامی کو فخر سمجھنے لگی.اللہ اللہ ! بڑے بڑے خونخوار اور وحشی عرب مذہبی جوش سے بھرے ہو ئے قومی غیرت سے دیوانہ ہو کر آپؐ کے خون کے پیاسے ہو کر آپ ؐکے پا س آتے تھے اور ایسے رام ہو تے تھے کہ آپ ہی کا کلمہ پڑھنے لگ جاتے.حضرت عمرؓ جیسا تیز مزاج گھر سے یہ تہیہ کرکے نکلا کہ آج اس مدعی نبوت کا خاتمہ ہی کرکے آؤں گا.غصہ سے بھرا ہوا تلوار کھینچے ہو ئے آپؐ کے پاس آتا ہے لیکن آپ ؐ کی نرمی اورو قارو سکینت اور اللہ تعالیٰ پر ایمان (‘‘سبعہ معلقّات’’قصیدہ پنجم از عمروبن کلثوم صفحہ37تا44 مطبع سعیدی کراچی نار محمد سعید اینڈ سنز)*

Page 488

دیکھ کر آپ کو قتل تو کیا کر نا تھا خود اپنے نفس کو قتل کرکے حلقہ بگوشوں میںداخل ہو گیا.کیا کو ئی ایک نظیر بھی دنیا میں ایسی معلوم ہو تی ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ایسی آزاد اور خونخوار قوم کو کسی نے ایسا مطیع کیا ہو اور وہ اپنی آزادی چھوڑ کر غلامی پر آمادہ ہو گئی ہو اور ہر قسم کی فرمانبراری کے نمونے اس نے دکھا ئے ہوں.اگر کو ئی ایسی قوم پا ئی جا تی ہو تو اس کا نشان و پتہ ہمیں بتاؤ تا ہم بھی تو اس کے حالات سے واقف ہوں.لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کو ئی مصلح ایسے وسیع اخلاق لے کر دنیا میں نہیں آیا جیسا کہ ہمارا آقا ﷺ اور اس لیے کسی مصلح کی جماعت نے ایسی فدائیت نہیں دکھائی جیسے ہمارے آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓ نے چنانچہ بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے واقعات میں مسورا بن مخرمہ کی روایت ہے کہ جب آپ حدیبیہ میں ٹھہرے ہو ئے تھے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تھوکتے تھے تو صحابہ ؓ اچک کر آپؐ کا تھوک اپنے منہ اور ہا تھوں پر مل لیتے تھےا ور جب وضو کر نے لگتے تو وضو کے بچے ہو ئے پا نی کے لینے کے لیے اس قدرلڑتے کہ گو یا ایک دوسرےکو قتل کر دیں گے.اور جب آپؐ کو ئی حکم دیتے تھے تو ایک دوسرے کے آگے بڑھ کر اس کی تعمیل کرتے اور جب آپ بولنے لگتے تو سب اپنی آوازوں کو نیچا کر لیتے اور صحابہ ؓ کے اس اخلاص اور محبت کا ان ایلچیوں پر جوگفتگو کے لیے آئے تھے ایسا اثر پڑا کہ انہوں نے اپنی قوم کو واپس جا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ ؐکی مخالفت سے باز آجا ئیں.اسی طرح بخاری میں لکھا ہےکہ جنگ احد پر جا نے کے متعلق جب آپؐ نے انصار ؓ سے سوال کیا تو سعد بن عبادہ ؓنے آپؐ کو جواب دیا یا رسول اللہﷺ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے سا تھیوں کی طرح کہہ دیں کہ فَاذھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدہ :25)یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں دشمنوں سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ خدا کی قسم! ہم تیرے آگے بھی اور پیچھے بھی اور دا ئیں بھی اور بائیں بھی تیرے دشمنوں سے مقابلہ کریں گے.اے چشم بصیرت رکھنے والو!اے فہم دل رکھنے والو خدا ر اذرا اس جواب کا اس جواب سے مقابلہ تو کرو جو حضرت موسیٰ کو ان کی امت نے دیا اور اس عمل سے بھی مقابلہ کرو جو حواریوں سے حضرت مسیح ؑکے گرفتار ہو نے کے وقت سرزد ہوا.اور پھر بتاؤ کہ کیااس قربانی اس فدائیت سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ہمارا رسول ﷺ ایسے اخلاق رکھتا تھا کہ جن کی نظیر دنیاوی بادشاہوں میں تو خیر تلاش کر نی ہی فضول ہے دینی بادشاہوں یعنی نبیوں میں بھی نہیں مل سکتی.اور اگر کو ئی نبی ایسے اخلاق رکھتا تو ضرور اس کی امت بھی اس پر اس طرح فدا ہو تی جس طرح آپؐ پر.

Page 489

مگر اس اخلاق کے مقابلہ کے سا تھ عربوں کی آزادی کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے.اس موقع پر میں ایک اور نظیر دینی بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جس سے مردوں کے علاوہ عورتوں کے اخلاص کا نمونہ بھی ظاہر ہو جا ئے.حضرت عائشؓہ فرما تی ہیں کہ جَا ءَتْ ھِنْدُ بِنْتُ عُتْبَۃَ فَقَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ مَاکَانَ عَلیٰ ظَھْرِ الْاَرْضِ مِنْ اَھْلِ خِبَآءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ اَنْ یَذِلَّوْ مِنْ اَھْلِ خِبَآئِکَ ثُمَّ مَا اَصْبَحَ الْیَوْمَ عَلیٰ ظَھْرِ الْاَرْضِ اَھْلُ خِبَآءٍ اَحَبَّ إلَیَّ اَنْ یَّعِزُّ وْااَھْلِ خِبَآئِکَ (بخاری کتاب المناقب باب ذکر ہند بنت عتبہ)یعنی ہند بنت عتبہ آئی اور اس نے حضرت رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ رو ئے زمین پر کو ئی خیمہ والا نہ تھا جس کی نسبت میں آپ سے زیا دہ ذلت کی خواہشمند ہوں اور اب رو ئے زمین پر کو ئی گھر والا نہیں جس کی نسبت میں آپ کے گھر والوں سے زیادہ عزت کی خواہشمند ہوں.اس عورت کی طرف دیکھو یا تو وہ بغض تھا یا ایسی فریفتہ ہوگئی اور اس کی وجہ سوائے ان اخلاق کریمہ اور اس نیکی اور تقویٰ کے کیا تھی جو آپ میں پا ئے جا تے تھے.اللہ تعالیٰ بھی اس کی یہی وجہ بیان فر ما تا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَا الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ(آل عمران :160)غرض کہ ان اخلاق حسنہ کا ایسا نیک اثر پڑا کہ ایک ایک کرکے تمام عرب قبیلے آپ کی خدمت میں آحاضر ہو ئے.بھلا اس واقعہ کا عمروبن ہند کے واقعہ سے مقابلہ تو کرکے دیکھو‘‘ببیں تفاوت راہ ازکجا است تا بکجا’’.رسول کریم ؐ کے اخلاق حسنہ کے متعلق آپؐ کی بیوی کی گواہیاس وقت تک تو میں نے آنحضرت ؐکے اخلاق حسنہ کو آپؐ کے صحابہ ؓکی فدائیت سے ثا بت کیا ہے اب ایک اَور طریق سے اس امر پر رو شنی ڈالتا ہوں.آدمی کا سب سے زیا دہ تعلق اپنی بیوی سے ہو تا ہے کیونکہ اس کے پاس روزانہ بہت سا وقت خرچ کر نا پڑتا ہے اور بہت سی ضررویات میں اس کے ساتھ مشارکت اختیار کر نی پڑتی ہے اس لیے یہ تو ممکن ہے کہ انسان باہر لوگوں کے سا تھ تکلف کے ساتھ نیک اخلاق کے سا تھ پیش آسکے اور ایک وقت کے لیے اس گند کو چھپا لے جو اس کے اندر پو شیدہ ہو لیکن یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ کوئی اپنی برائیوں اور بد خلقیوں کو اپنی بیوی سے پو شیدہ رکھ سکے کیونکہ علا وہ ایک دائمی صحبت اور ہر وقت کے تعلق کےبیوی پر مرد کو کچھ اختیار بھی ہو تا ہے اور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی فطری بد اخلاقی کا اکثر اوقات اس کے سامنے اظہار کردیتا ہے.پس انسان کے

Page 490

اخلاق کا بہتر سے بہتر گواہ اس کی بیوی ہو تی ہے جس کا تجربہ دوسرے لو گوں کے تجربہ سے بہت زیا دہ صحیح مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق جو گواہی حضرت خدیجہؓ نے دی ہے وہ آپﷺ کے نیک اخلاق کو ثابت کر نے کے لیے کا فی سے زیا دہ ہے اور اس کے بعد کسی زائد شہادت کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت عائشہؓ وحی کی ابتدا بیان کرتے ہوئے فر ما تی ہیں کہ جب پہلی دفعہ آنحضرت ﷺ پر وحی نا زل ہو ئی تو آپؐ بہت گھبرا ئے اور غار حرا سے گھر کی طرف لو ٹے اور آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا.حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آکر آپ ؐنے فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو.جلد کپڑا اوڑھادو.جس پر آپؐ پر کپڑا ڈالا گیا یہاں تک کہ آپؐ کا کچھ خوف کم ہوا اور آپؐ نے سب واقعہ حضرت خدیجہ ؓکو سنایا اور فر ما یا کہ مجھے تو اپنی نسبت کچھ خوف پیدا ہو گیاہے.اس بات کو سن کر جو کچھ حضرت خدیجہ ؓنے فر ما یا وہ یہ ہے کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی) یعنی سنو جی! میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کر ے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے سا تھ نیک سلوک کر تا ہے اور کمزوروں کا بو جھ اٹھا تا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے.مہمانوں کی خدمت کرتا ہے اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کر تا ہے.اس کلام کے باقی حصوں پر تو اپنے وقت پر لکھوں گا سردست حضرت خدیجہؓ کی گواہی کو پیش کر تا ہوں جو آپؓ نے قسم کھا کر دی ہے.یعنی تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَکی گواہی گو کا فی تھی لیکن اپنے خدا کی قسم کے سا تھ مؤکّدکرکے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ میں تمام اخلاق حسنہ پائے جا تے ہیں حتّٰی کہ وہ اخلاق بھی جواس وقت ملک میں کسی اَور آدمی میں نہیں دیکھے جا تے تھے.یہ گوا ہی کیسی زبردست اور کیسی صاف اور پھر بیوی کی گواہی اس معاملے میں جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نہایت ہی معتبر ہے.حضرت خدیجہ ؓ فر ما تی ہیں کہ کل اخلاق حسنہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں آپؐ میںپا ئے جا تے تھے.خود رسول کریم ﷺ کی گوا ہی اپنے اخلاق کی نسبتحضرت خدیجہ ؓکی گوا ہی پیش کر نے کے بعد میں خود آنحضرت ﷺ کی گوا ہی اپنی نیک سیرتی کی نسبت پیش کرتا ہوں.شا ید اس پر بعض لوگ حیران ہوں کہ اپنی نسبت آپؐ گواہی کے کیا معنی ہو ئے لیکن یہ گواہی رسول کریم ﷺ نے ایسی

Page 491

بےتکلفی سے اور بغیر پہلےغور کے دی ہے کہ موافق تو الگ رہے مخالف کو بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں ہو نا چاہیے.اس حدیث میں جس میں حضرت خدیجہ ؓکی گوا ہی کا ذکر ہے آگے چل کر لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓآنحضرت ﷺ کو اپنے ساتھ اپنے بھا ئی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہیں کل حال سنایا انہوں نے سن کر کہا کہ یہ فرشتہ جو آپؐ پر نا زل ہؤا ہے یہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فر ما یا تھا اور فر ما یا کہ یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًالَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْیُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ(بخاری جلد اول باب کیف کان بدء الوحی)یعنی اے کا ش !کہ میں اس وقت جو ان و توانا ہوں.اے کاش!کہ میں اس وقت زندہ ہوں جبکہ تجھے تیری قوم نکال دے گی رسول اللہؐ نے سن کر فر مایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ اس گفتگو سے اور خصوصاً رسول کریم ﷺ کے اس قول سے کہ‘‘کیا مجھے میری قوم نکال دے گی’’معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا اندر کیسا صاف تھا.اور جب آپؐ نے ورقہ بن نوفل سے یہ بات سنی کہ آپؐ کو اہل مکہ نکال دیں گے تو آپؐ کو اس سے سخت حیرت ہو ئی کیونکہ آپ اپنے نفس میں جانتے تھے کہ مجھ میں کچھ عیب نہیں.اور اگر آپؐ ذرہ بھر بھی اپنی طبیعت میں تیزی پاتے تو اس قدر تعجب کااظہار نہ فر ما تے لیکن ورقہ کی بات سن کر اس پا ک فطرت انسان کے منہ سے بے اختیارنکل گیا کہ ہیں! کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ اسے کیا معلوم تھا کہ بعض خبیث الفطرت ایسے بھی ہو تے ہیں کہ جو ہر نور کی مخالفت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ تو اس بات پر حیران تھا کہ اس پاک زندگی اور اس دردمند دل کے باوجود میری قوم مجھے کیوں کر نکال دے گی.اخلاق حمیدہ کی تفصیلاخلاق پر ایک مجملا ًبحث کرنے کے بعد اب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا تفصیلاً بیان کر نا چاہتا ہوں لیکن پیشتراس کے کہ میں فردا ً فرداً آپؐ کے اخلاق کا بیان کروں ان کی تقسیم کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ اس تقسیم کومدنظر رکھ کر ناظرین پر یہ بات پو ری طرح عیاں ہو جا وے کہ تمام کے تمام شعبہ ہا ئے اخلاق میں آپؐ کمال کو پہنچ گئے تھے اور ہر حصہ زندگی میں آپؐ کے اخلاق اپنا جلوہ دکھا رہے تھے اور کوئی صنف خوبی کی با قی نہ رہی تھی جس میں آپؐ نے دوسرے تمام انسانوں کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑ دیا.میں نے جہاں تک غور کیا ہے انسانی تعلقات تین طرح کے ہوتے ہیں.سب سے پہلا تعلق تواس کا خدا سے ہو تا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق ورازق ہے.اس کے فضل کے بغیر اس کا ایک دم آرام سے نہیں گزر سکتا بلکہ آرام تو الگ رہا اس کی زندگی ہی محال ہے.اس کے

Page 492

احسانات کی کو ئی حد نہیں ہر ایک لمحہ میں اس کے فضلوں کی با رش ہم پر ہو رہی ہے.کمزور سے کمزور ضعیف سے ضعیف حالت سے اس نے ہمیں اس حد کو پہنچایا ہے اور عقل وخردبخش کر کل مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اس لیے اگر اس کے سا تھ ہمارے تعلقات درست نہ ہوں.اگر ہمارے اخلاق تعلق با للہ میں ادنیٰ ہوں اور اس کے احسانات کو ہم فراموش کردیں تو ہم سے زیاد ہ کو ئی ذلیل نہیں.خالق کے بعد ہمارا تعلق مخلوق سے ہے کہ ان میں بھی کو ئی ہمارا محسن ہے،کو ئی ہمارا معلّم ہے،کو ئی ہمارا مہربان ہے،کوئی درد خواہ ہے،کو ئی ہمارے آرام وآسائش میں کو شاں ہے،کوئی ہما ری محبت اور توجہ کا محتاج ہے، کوئی اپنی کمزوریوں اور اپنی گری ہو ئی حالت اور اپنے ہمسفروں سےپیچھے رہ جا نے کی وجہ سے ہم سے نصرت و مدد کا متمنی ہے.غرضیکہ ہزاروںطریق سے ہزاروں آدمی ہم سے متعلق ہیں اور اگر ہمارے معاملات ان سے درست نہ ہوں اگر ان سے بد خلقی سے پیش آئیں تب بھی دنیا کا امن وامان جا تا رہتا ہے اور فساد بغاوت میں تر قی ہو تی ہے پس اگر ہمارے اخلاق مخلوق سے درست نہ ہوں تو ہم ایک ڈاکو کی طرح ہیں جو دنیا سے اس کے امن و آرام کا متاع لوٹتا اورغارت کر تا ہے.تیسرا تعلق ہمارا خود اپنے نفس سے ہے کہ یہ بھی ہماری بہت سی تو جہات کا محتاج ہے اور جس طرح ہمارا خالق سے منہ موڑ نا یا مخلوق سے بد اخلا قی سے پیش آنا نہایت مضر اور مخرّب امن ہے اسی طرح ہمارا اپنے نفس سے بد سلوکی کر نا اور اخلاق رذیلہ سے پیش آنا نہایت خطر ناک اور با عث فساد ہے.پس وہی انسان کامل ہو سکتا ہے کہ جو ان تینوں معاملات میں کامل ہو اور ان اصناف میں سے ایک صنف میں بھی کمزوری نہ دکھلا ئے.اگر ان تینوں اقسام اخلاق کو مد نظر رکھ کر دیکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ اکثر انسان جو اخلاق میں کامل سمجھے جا تے ہیں بہت سی کمزوریاں رکھتے ہیں.اوراگر ایک قسم کے اخلاق میںانہیں کمال حاصل ہے تو دوسری قسم میںانہیںکو ئی دسترس نہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور پاک بندوں کا گروہ ہی نکلے گا کہ جو ان تینوں اقسام اخلاق میں کمال رکھتا ہے اور کسی خوبی کو اس نے ہاتھ سےنہیں جانے دیا.اور جب آپ رسول کریمﷺ کے اخلاق کا مطالعہ غور سے کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ تمام صاحب کمال لو گوں کے سردار تھے اور باوجود اس کے کہ دنیا میںبہت سے صاحب کمال لوگ گزرے ہیں لیکن جس رنگ میں آپؐ رنگین تھے اس کے سامنے سب کے رنگ پھیکےپڑ جاتے ہیں اور جن خوبیوں کےآپؐ جامع تھے ان کا عشر عشیر بھی کسی اَور انسان میں نہیں پا یا جا تا

Page 493

عجب نوریست دَر جانِ محمدؐ عجب لعلیست دَر کانِ محمدؐ ندانم ہیچ نفسے در دو عالَم کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ ہم اس بات سے قطعا ًمنکر نہیں ہیں کہ آپؐ کے پہلے بھی اور آپؐ کے بعد بھی بڑے بڑے صاحب کمال پیدا ہو ئے ہیں لیکن اس بات میں بھی کو ئی شک نہیں کہ ان کی مثال اور آنحضرت ﷺ کی مثال دیے اور سورج کی ہے اور سمندر اور دریا کی ہے کیونکہ وہ دلربا یکتا ان تمام خوبیوں کا جا مع تھا جو مختلف اوقات میں مختلف صاحب کمال لو گوں نے حاصل کیں.آپؐ نے اپنےآپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے احکام کی اطاعت میں ایسا محو کر دیا تھا کہ دنیا میں اس کے رو شن مظہر ہو گئے تھے اور وہ تَخَلَّقُوْابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کہنے والا انسان خود اس قول کا کامل نمونہ تھا زاں نمط شد محوِ دلبر کز کمالِ اتحاد پیکرِ او شُد سراسر صورتِ ربِ رحیم بو ئے محبوب حقیقی می دمد زاں رو ئے پا ک ذات حقانی صفاتش مظہر ذاتِ قدیم میں ان تینوں اقسام اخلاق میں سے پہلے تو اس کے اخلاق حسنہ میں سے وہ حصہ بیان کروں گا کہ جس سے آپؐ کا تعلق باللہ بدرجہ کمال ثابت ہو تا ہے.پھر وہ جس سے آپؐ کے نفس کی پا کیزگی او رکمال ثابت ہو تا ہے.اور آخر میں وہ حصہ جس سے مخلوق سے آپؐ کے تعلق کی کیفیت کھلتی ہے.اخلاص باللہ.خشیت الٰہی آپ کی ایک دعاآپؐ کی خشیت الٰہی کا ثبوت ایک دعا سے خوب ملتا ہے.انسان جس وقت لوگوں سے جدا ہو کر دعا مانگتا ہے تو اس وقت اسے کسی بناوٹ کی ضرورت نہیں ہو تی اور اس وقت کےخیالات اگر کسی طرح معلوم ہو جا ئیں تو وہ اس کے سچے خیالات ہوں گے کیوںکہ وہ ان خیالات کا اظہار تخلیہ میںکرتا ہے.حضرت عائشہؓ فر ما تی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نماز میں یہ دعا مانگاکرتے تھےاَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ فِتْنَۃِ الْمَمَا تِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَہٗ قَائِلٌ مَااَکْثَرُ مَا تَسْتَعِیْذُ مِنَ الْمَغْرَمِ فَقَالَ اِنَّ

Page 494

الرَّجُلَ اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ وَعَدَ فَاَخْلَفَ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الدعاء قبل السلام) اے میرے خدا میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوںمسیح الدجال کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اے میرے رب میں پناہ مانگتا ہوں گناہوں سے اور قرضہ سے.اس دعا کو سن کر ایک شخص نے پو چھا کہ آپ ؐ قرضہ سے اس قدر کیوں پناہ مانگتے ہیں.فرمایا کہ جب انسان قرض دار ہو جا تا ہے تو بات کر تے وقت جھوٹ بول جا تا ہے اور وعدہ کرکے اس کےخلاف کر تا ہے.کیسی پاک دعا ہے آپؐ کے اندر ونہ پر کیسی روشنی ڈالتی ہے اور اس سے کیسا کھلا کھلا ظاہر ہو جا تا ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے کیسے خائف تھے.کس طرح اس کے حضورگرتے اور گناہوں سے بچنے کی کو شش کر تے پھر اسی سے عرض کر تے کہ مجھ سے تو کچھ نہیں ہو سکتا تو خود ہی فضل کر.خدا تعالیٰ کے غنا ء سے خوفبڑوں اور چھوٹوں میں کیا فرق ہو تا ہے جن کے پاس کچھ ہو تا ہے وہ کیسے منکسرالمزاج ہوتے ہیں.آنحضرتﷺ جیسے انسان اور ختم نبوت کا دعویٰ،قرآن شریف جیسی کتاب اتر رہی ہے.نصرت الٰہی کی وہ بھر مار ہے کہ دشمن و دوست حیران ہیں.ہر گھڑی پیار ومحبت کے اظہار ہو رہے ہیں.حتّٰی کہ بارگاہ خداوندی سے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)کا حکم جا ری ہو تا ہے اور اللہ تعالیٰ آپؐ کی شا ن میں فر ما تا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ (الفتح :11) اور اسی طرح ارشاد ہو تا ہے کہ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی (النجم :10)لیکن خشیت الٰہی کا یہ حال ہے کہ آپؐ فر ما تے ہیں وَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ وَاَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِیْ خدا کی قسم میں نہیں جانتا باوجود اس کے کہ میں خدا کا رسول ہوں کہ میرے سا تھ کیا معاملہ کیا جائے گا.سچ ہے کہ جسے جتنا قرب شاہی نصیب ہو تا ہے اسی طرح وہ خائف بھی زیادہ ہو تا ہے.ادھر تو اس بادشاہ دو جہاں کا اللہ تعالیٰ کی خشیت میں یہ کمال تھا ادھر ہم آج کل فقراءکو دیکھتے ہیں کہ ذرا کوئی بات ہو ئی اور کہتے ہیں کہ الٹا دوں طبقہ ٔزمین و آسمان.ایک ہا تھ میں سوٹا اور ایک ہا تھ میں کشکول گدائی لیے پھر تے ہیں.بدن پر ہندو فقیروں کی طرح راکھ ملی ہو ئی ہوتی ہے.معرفت الٰہی سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.قرآن شریف پر عمل تو الگ رہا ایک آیت بھی پڑھ نہیں سکتے.دعا وی دیکھو تو کہو کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ سب کاروبار خدا ئی انہیں سپرد کرکےآپ علیحدہ ہو گیا ہے یہ تو جہلا ء کا گروہ ہے.پیروں کی بھی ایسی ہی حالت ہے.بعض تو فقط اپنی بہشت تو الگ رہی اپنے دستخطی رقعوں پر دوسروں

Page 495

کو بھی بہشت دلا تے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم کرے اور ہمیں اس پا ک رسول ؐکی اطاعت کی توفیق دے کہ اس کے بغیر نجات نہیں.بدر کا واقعہبدر کے موقع پر آنحضرت ﷺ سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر نے کے لیے کا فی ہے اور اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐکے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدرخوف تھا.جنگ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کےمقابلہ میں آپؐ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے تائید الٰہی کے آثار ظاہر تھے.کفار نے اپنے قدم جمانے کے لیے پختہ زمین پر ڈیرے لگا ئے تھے اور مسلمانوں کے لیے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کرکفارکے خیمہ گاہ میں کیچڑہی کیچڑکردیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی.اس طرح اَور بھی تائیدات سماوی ظاہر ہورہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کاخوف آنحضرت ﷺ کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غناء کو دیکھ کر گھبراتے تھے اوربے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فر ما تے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے.چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فر ما تے ہیں کہ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ فِیْ قُبَّۃٍ اَللَّھُمَ اِنّیْ اَنْشُدُکَ عَھَدَکَ وَوَعْدَکَ اللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْیَوْمِ فَاَخَذَا اَبُوْ بَکْرٍ بِیَدِہٖ فَقَالَ حَسْبُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَدْ اَلْحَحْتَ عَلٰی رَبِّکَ وَھُوَ فِی الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَھُوَ یَقُوْلُ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَ لُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُ ھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدھٰی وَاَمَرُّ(بخاری کتاب الجھاد باب ما قیل فی درع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم )نبی کریم ؐ جنگ بدر میں ایک گو ل خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے خدا ! میں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلا تا ہوں اور ان کے ایفا ء کا طالب ہوں.اے میرے رب اگر تو ہی (مسلمانوں کی تباہی)چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کر نے والا کو ئی نہ رہے گا.اس پر حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! بس کیجئے آپؐ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کر دی.رسول کریم ﷺ نے اس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی آپؐ خیمہ سے با ہر نکل آئے اور فر ما یاکہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جا ئے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جا ئیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لیے نہایت سخت اور کڑوا ہے.اللہ اللہ ! خوف خد اکا ایسا تھا کہ باوجود وعدوں کے اس کے غنا ء کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی تو بآواز بلند سنادیا کہ میں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل و خوار ہو گا اور ائمۃ الکفر

Page 496

یہیں مارے جا ئیں گے چنانچہ ایسا ہی ہؤا.جس جگہ پر عذاب آچکا ہو وہاں آپؐ نہ ٹھہرتےرسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس قدر خائف تھے اور اس کا تقویٰ آپؐ کے دل میں ایسا مستولی تھا کہ نہ صرف آپؐ ایسے افعال سے محفوظ تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو اور نہ صرف لوگوں کو ایسے افعال میں مبتلا ہو نے سے رو کتے تھے بلکہ آپؐ ان مقامات میں ٹھہرنا برداشت نہ کر تے تھے جس جگہ کسی قوم پر عذاب آچکا ہو.اور ان واقعات کو یاد کرکے ان افعال کو آنکھوں کے سامنے لا کر جن کی وجہ سے وہ عذاب نازل ہو ئے آپؐ اس قدر غضب الٰہی سے خوف کر تے کہ اس جگہ کا پانی تک استعمال کر نا آپؐ مکروہ جا نتے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ اَمَرَ ھُمْ اَنْ لَّا یَشْرَبُوْامِنْ بِئْرِ ھَا وَلَا یَسْتَقُوْامِنْھَا فَقَالُوْ اقَدْعَجَنَّا مِنْھَا وَاسْتَقَیْنَا فَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّطْرَحُوْ اذٰلِکَ الْعَجِیْنَ وَیُھْرِیْقُوْاذٰلِکَ الْمَآء.(بخاری کتا ب بدء الخلق باب قول اللہ تعالی عز وجل والی ثمو دا خاھم صالحا) جب آنحضرت ﷺ غزوۂ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر اترے آپؐ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نہ پیئیںاور نہ پا نی بھریں.یہ حکم سن کر صحابہ ؓنے جواب دیا کہ ہم نے اس پا نی سے آٹا گوند ھ لیا ہے اور پا نی بھر لیا ہے.آپؐ نے حکم دیا کہ اس آٹے کو پھینک دو اور اس پا نی کو بہادو.اس خوف الٰہی کو دیکھو اور دنیا کے سب راستبازوں کی زندگیوں کا اس پا ک نبی ؐ کی زندگی سے مقابلہ کرو کہ اس میں خوف الٰہی کس قدر زیادہ تھا.آپﷺ اپنے اعمال پر بھرو سہ نہ کر تےپہلے میں ذکر کر چکا ہوںکہ آنحضرت ﷺاپنی نسبت فرما تےتھے کہ وَمَا اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ میںنہیں جانتا کہ میرے سا تھ کیا کیا جا ئے گا.اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ آپؐ کبھی اس بات کا دعویٰ نہ کر تے کہ اپنے اعمال کے زور سے جنت کے وارث بن جائیں گےبلکہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے کہ خدا کے فضل سے جو کچھ ملے گا ملے گا اور اپنی نسبت بھی یہی فرما تے کہ میری نجات بھی خدا کے ہی فضل سے ہو گی.حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ اَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلِہٖ وَرَحْمَتِہٖ فَسَدِّدُوْاوَقَارِبُوْاوَلَا یَتَمَنَّیَنَّ اَحَدُ کُمُ الْمَوْتَ اِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ اَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَّا اِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ اَنْ یَسْتَعْتِبَ (بخا ری کتاب المرضیٰ باب نھی تمنی المریض الموت)فرما تے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ یہ

Page 497

فرما تے ہو ئےسنا کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہیں دا خل کرے گا.لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! کیا آپؐ بھی اپنےاعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گے؟آنحضرتﷺنے جواب دیا کہ میں بھی اپنے اعمال کے زورسے جنت میں داخل نہ ہوںگا بلکہ خدا کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لیں گے تو میں جنت میں داخل ہوں گا اس لیے تم نیکی کرو اور سچا ئی سے کام لو اور خدا کی نزدیکی کو تلاش کرو اور تم میں سے کو ئی موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو شاید وہ نیکی میں اَور تر قی کرے اور اگر بد ہے تو شاید اس کی تو بہ قبول ہو جا ئے اور اسے خدا کی رضا کے حاصل کر نے کا موقع مل جائے.اس حدیث سے رسول کریم ﷺ کی خشیت کا پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کی قدرت ،بڑا ئی اور جلال کا کیسا صحیح اندازہ لگا یا تھا اور کس طرح آپ ؐ کے دل پر حقیقت منکشف تھی کہ آپؐ ان اعمال کے ہو تے ہو ئے بھی اس بادشاہ کی غناء سے ایسے خائف تھے کہ فر ما تے کہ خدا کا فضل ہی ہو تو نجات ہو ورنہ اس کے فضل کے بغیر نجات کیونکر ہو سکتی ہے.علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے کہ اسلام نجات کو اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کے فضل کا نتیجہ قرار دیتا ہے ہاں اعمال صالحہ خدا کے فضل کے جاذب ہو تے ہیں اس لیے رسول کریم ﷺ نے فرما یا کہ نجات خدا کے فضل سے ہے اس لیے تم نیکی اور تقویٰ سے کام لو.معلوم ہوا کہ نیکی اور اعمال صالحہ فضل کے جاذب ہیں چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی اَور تشریح ہو جا تی ہے.حضرت ابوہریرہ ؓ ہی اس حدیث کے بھی راوی ہیں اور اس میں انہوں نے پہلی حدیث سے اتنا زیا دہ بیان فر ما یا ہے وَاغْدُوْاوَرُوْحُوْا وَشَیْءٌ مِّنَ الدُّلْجَۃِ وَالْقَصْدَا الْقَصْدَتَبْلُغُوْا(بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمد اومۃ علی العمل)یعنی خدا کے فضل کے سوا نجات نہیں اسی لیے صبح کے وقت عبادت کرو اور شام کے وقت بھی اور کچھ رات کے وقت بھی او رخوب قصد کرو.پو ری طرح سے قصد کرو.جنت میں پہنچ جاؤ گے.اس حدیث سے صاف کھل جا تا ہے کہ اپنے اعمال کو فضل کا جا ذب قرار دیا ہے.استغفار کی کثرتلوگ گناہ کر تے ہیںاور پھر جرأت کر تے ہیں اور خدا کا خوف ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہو تا اور ایسے سنگدل ہو جاتےہیں کہ کبھی ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہیںہو تا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے موردنہ بن جائیں.ایک دفعہ کا ذکرہے میں نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ تم تو بہ واستغفار کیا کرو اور نیکی میں تر قی کرو اس نے مجھے جواب دے دیا کہ

Page 498

کیا آپ مجھے گندا جا نتے ہیں.کیا میں گناہ گار ہوں کہ آپ مجھے نیکی اور تقویٰ اور استغفار کے لیےکہتے ہیںمیں یہ بات سن کر حیران ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے اتنا ناواقف ہے اور اس کے جلال سے اتنا بے خبر ہے کہ اسے اتنی بھی نہیں سمجھ کہ اس بادشاہ سے انسان کو کیسا خائف رہنا چاہیے دنیا وی بادشاہوں کے مقربین کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی خدمت وخوشامدکے باوجود بھی ان سے یہی عرض کر تے رہتے ہیں کہ اگر کچھ قصور ہو گیا ہو تو عفو فر ما ئیں.بے شک بہت سے لوگ حتی المقدور نیکی کا خیال رکھتے ہیں مگر پھر بھی انسان سے خطا کا ہو جانا کچھ تعجب کی بات نہیں.رسول کریم ؐکو دیکھو کیسی معرفت تھی،کیسی احتیاط تھی،کس طرح خدا تعالیٰ سے خائف رہتے تھے اور باوجود اس کے کہ تمام انسانوں سے زیادہ آپؐ کا مل تھے اور ہر قسم کے گناہوں سے آپؐ پا ک تھے.خود اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ ونگہبان تھا مگر باوجود اس تقدیس اور پا کیزگی کے یہ حال تھا کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خائف رہتے نیکی پر نیکی کرتے، اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال بجالا تے،ہر وقت عبادت الٰہیہ میں مشغول رہتے مگر باوجود اس کے ڈرتے اور بہت ڈرتے.اپنی طرف سے جس قدر ممکن ہے احتیاط کر تے مگر خدا تعالیٰ کے غناء کی طرف نظر فر ما تے اور اس کے جلال کو دیکھتے تو اس بارگاہ صمدیت میں اپنے سب اعمال سےدستبر دار ہو جا تے اور استغفار کر تے اور جب موقع ہو تا تو بہ کرتے.حضرت ابوہریرہؓ فر ما تے ہیںسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ وَاللہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً(بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی ﷺ)میں نے آنحضرت ﷺ کو فر ماتے سنا ہے کہ خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیا دہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی کمزوریوں سے عفو کی درخواست کر تا ہوں اور اس کی طرف جھک جا تا ہوں.رسول کریم ؐ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہوں سے پاک تھے نہ صرف اس لیےکہ انبیا ء کی جماعت مَعْصُوْم عَنِ الْاِثْمِ وَالْجُرْمِ ہو تی ہے بلکہ اس لیےبھی کہ انبیاء میں سے بھی آپؐ سب کے سر دار اور سب سے افضل تھے.آپؐ کا اس طرح استغفار اور تو بہ کر نا بتا تا ہے کہ خشیت الٰہی آپؐ پر اس قدر غالب تھی کہ آپؐ اس کے جلال کو دیکھ کر بے اختیار اس کے حضور میں گر جا تے کہ انسان سے کمزوری ہو جا نی ممکن ہے تُو مجھ پر اپنا فضل ہی کر.وہاں تو یہ خشیت تھی اور یہاں یہ حال ہے کہ ہم لوگ ہزاروں قسم کے گناہ کرکے بھی استغفارو تو بہ میں کو تا ہی کر تے ہیںاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ.

Page 499

.موت کا خیالآنحضرت ﷺموت سے کسی وقت غافل نہ رہتے اور خشیت الٰہی آپؐ پر اس قدر غالب تھی کہ ہر روز یہ یقین کرکے سو تے کہ شاید آج ہی موت آجاوے اور آج ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو نا پڑے اور اس لیےآپؐ ایک ایسے مسافر کی طرح رہتے تھے جسے خیال ہو تا ہے کہ ریل اب چلی کہ چلی.وہ کبھی اپنے آپ کو ایسے کام میں نہیں پھنسا تا کہ جسے چھوڑ نا مشکل ہو.آپ ؐ بھی ہر وقت اپنے محبوب کے پاس جا نے کے لیےتیار رہتے اور جو دم گزرتا اسے اس کے فضل کا نتیجہ سمجھتے اور موت کو یاد رکھتے.حذیفہ بن الیمان ؓ فرماتے ہیںکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ اِذَ اَخَذَ مَضْجَعَہٗ مِنَ اللَّیْلِ وَضَعَ یَدَہٗ تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَللّٰھُم بِا سْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا وَاذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَحْیَا نَا بَعْدَ مَا اَمَا تَنَا وَاِلَِیْہِ النُّشُوْرُ (بخا ری کتاب الدعوات باب وضع الید تحت الخد الیمن)رسول کریم ؐ کی عادت تھی کہ جب آپؐ اپنے بستر پر لیٹتے اپنےرخسا ر کے نیچے اپنا ہا تھ رکھتے اور فر ما تے اے میرےمولا ! میرا مر نا اور جینا تیرے ہی نام پر ہو اور جب سو کر اٹھتے تو فرماتے شکر ہے میرے رب کا جس نے ہمیں زندہ کیا مارنے کے بعد.اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جا نا ہے.اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ ہر را ت جب بستر پر جا تے تو اپنی طرف سے حساب ختم کر جا تے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو تب بھی تیرے ہی نام پر میری زندگی ہو اور جب اٹھتے تو خدا تعالیٰ کے احسان پر حمد کر تے کہ میں تو اپنی طرف سے دنیا سے علیحدہ ہو چکا تھا تیرا ہی فضل ہوا کہ تو نے پھر مجھے زندہ کیا اورمیری عمر میں بر کت دی.ایک اور مثالجس طرح مذکورہ بالا دعا سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریمؐ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے اسی طرح مذکورہ ذیل دعا بھی اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو آخری گھڑی جانتے تھے اور جب آپؐ سونے لگتے تو اپنے رب سے اپنے معاملہ کا فیصلہ کرلیتے اور گو یا ہر ایک تغیر کے لیےتیار ہو جاتے.چنانچہ براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اِذَا اوٰی اِلی فِرَاشِہٖ نَامَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَ یْمَنِ ثُمَّ قَالَ اللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجاْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی اَرْسَلْتَ (بخا ری کتاب الدعوات باب النوم علی الشق الایمن )فرما تے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر جا کر لیٹتےتو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے پھر فرماتے اے میرے رب میں اپنی جان تیرے سپرد کر تا ہوں اپنی سب توجہ تیری ہی طرف پھیرتا ہوں.میں اپنا معاملہ تیرے ہاتھوں میں دیتا ہوں.

Page 500

اور اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں.تجھ سے نفع کا امیدوار ہوں.تیری بڑا ئی اور استغنا سے خائف بھی ہوں تیرے غضب سے بچنے کے لیےکو ئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی نجات کا مقام ہے مگر یہی کہ تجھ ہی سے نجات وپناہ طلب کی جا ئے.میں اس کتاب پر جو تو نے نازل کی ہے اور اس رسول ؐ پر جو تو نے بھیجا ہے ایمان لا تا ہوں.لوگ اپنی دو کان کو بند کر تے وقت اس کا حساب کر لیتے ہیں مگر خدا سے جو حساب ہے اسے صاف نہیں کرتے مگر کیسا برگزیدہ وہ انسان تھا جو صبح سے شام تک خدا کے فرا ئض کے ادا کر نے میں لگا رہتا اور خود ہی انہیں ادا نہ کر تا بلکہ ہزاروں کی نگرانی بھی سا تھ ہی کر تا تھا کہ وہ بھی اپنے فرائض کو ادا کر تے ہیںیا نہیں مگر رات کو سونے سے پہلے اپنی تمام کو ششوں اور عبادتوں سے آنکھ بند کر کے عاجزانہ اپنے مولیٰ کے حضور میں اس طرح حساب صاف کرنے کے لیےکھڑا ہو جا تا کہ گو یا اس نے کو ئی خدمت کی ہی نہیں اور اس وقت تک نہ سو تا جب تک اپنی جان کو پو رے طور سے خدا کے سپرد کرکے دنیا ومافیھا سے بر اءت نہ ظاہر کرلیتا اور خدا کے ہا تھ میں اپنا ہا تھ نہ دے لیتا.لطیفہ اس دعا سے ایک عجیب نکتہ معلوم ہو تا ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ؐ کو اپنی نبوت پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپؐ عین تنہا ئی میں ہر رو ز سو تے وقت خدا کے سامنے اقرار فرماتے کہ مجھےاپنی نبوت پر ایمان ہے اور اسی طرح قرآن شریف پر بھی ایمان ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐ اپنی تعلیم کو لوگوں کے لیےہی قابل عمل نہیں جانتے تھے بلکہ سب سے پہلے اپنے نفس کو کہتے تھے کہ یہ حکم خدا کا آیا ہے اور اس کا رسول یوں کہتا ہے کہ اس پر ایمان لا.اس لیےتو آپؐ فر ما تے ہیں کہاٰمَنْتُ بِکِتَا بِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلَتَ.آپؐ ابتلا ؤں اور عذابوں سے پناہ مانگتے رہتےبعض لوگوں کی عا دت ہو تی ہے وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو فتنوں میں ڈالتے ہیں اور اس طرح اپنے نفس کا امتحان کر تے ہیں مگر یہ لوگ بعض دفعہ ان فتنوں میں ایسے گرتے ہیں کہ پھر سنبھلنے کی طا قت نہیںرہتی اور بجا ئے تر قی کر نے کے ان کا قدم نیچے ہی نیچے چلا جا تا ہے کچھ آدمی ایسے ہو تے ہیں جو خود بڑے بڑے کام طلب کر تے ہیں کہ ہمیں اگر ایسی مصیبت کا موقع ملے تو ہم یوں کریں اور یوں کریں اور اس طرح دین کی خدمت کریں لیکن رسول کریمؐ کی نسبت اس کے خلاف ہے.آپؐ کبھی پسند نہ فرما تے تھے کہ کو ئی انسان خدا تعالیٰ سے ابتلاؤں کی خواہش کرے کیونکہ کو ئی کیا جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا.ممکن ہے کہ خد اکی غیرت اسے تباہ کر دے.

Page 501

ممکن ہے کہ ا س کے اپنے اعمال کی کمزوری اس کے آگے آجائے.ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر تسلط پا کر اسے خراب کر دے اور یہ گمراہ ہو جا ئے چنانچہ آپؐ خودبھی بجائے ابتلاؤں کی آرزو کر نے کے ان سے بچنے کی دعا کرتے تھے.حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیںکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنْ جَھْدِ الْبَلَآءِ وَدَرْکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ القَضَآ ءِ وَشَمَا تَۃِ الْاَعْدَآ ءِ ( بخا ری کتاب الدعوات باب التعوّ ذ من جھد البلاء)رسول کریم ؐ ہمیشہ خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ مجھ پر کو ئی ایسی مصیبت نہ آئے جو میری طا قت سے بڑھ کرہوکو ئی ایسا کام نہ پیش آجائے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو.اور کو ئی خدا کا فیصلہ ایسا نہ ہو کہ جس کو میں نا پسند کروں اور کوئی ایسا فعل سر زد نہ ہو کہ جس سے میرےدشمنوں کو خوشی کا موقع ملے.اس دعا سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کے دل میں کیسی خشیتِ الٰہی تھی اور آپؐ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میںکیسا کمزور جانتے اور کبھی اپنی بڑائی کے لیےاور اپنے ایمان کے اظہار کے لیےکسی بڑے کام یا ابتلا ءکی آرزو نہ فر ما تے اور یہی حقیقی ایمان ہے جس کی اقتدا کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے.لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنۃٌ (الاحزاب :22)رسول کریم ﷺ کی ایک اَوردعا بھی ہے جو آپؐ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے طلب فرماتے.اس سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کے دل میں کس قدر خوف الٰہی تھا.ابو موسٰیؓ فرماتے ہیں آپؐ ہمیشہ دعا فر ما تے تھے کہاَللّٰھُمَّ اغفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ھَزْلِیْ وَجِدِّیْ وَخَطَایَایَ وَعَمْدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ (بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ اللھم اغفرلی ما قدمت واخرت)اے اللہ ! میرے اعمال کے نتائج بد سے مجھے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کے نتا ئج سے بھی.میں اگر اپنی ناواقفیت کی وجہ سے کو ئی کام جو کر نا ہو نہ کروں یا کو ئی کام جس حد تک منا سب تھا اس سے زیاد ہ کر بیٹھوں اور جسے تو میری نسبت زیادہ جانتا ہے تو اس کے نتا ئج سے بھی مجھے محفوظ رکھ.اے اللہ اگر کوئی بات میں بے دھیان کہہ بیٹھوں یا متانت سے کہوں،غلطی سے کہوں یا جان کر کہوں اور یہ سب کچھ مجھ میں ممکن ہے پس تو ان میں سے اگر کسی فعل کا نتیجہ بد نکلتا ہو تو اس سے مجھے محفوظ رکھیو.حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ؐ کی ایک اَور دعا بھی بیان فر ما تی ہیں اور وہ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو ایمان وخشیت رسول کریم ﷺ میں تھی اس کی نظیر کسی اور انسان میںنہیں مل سکتی.انسان دعا اس سے مانگتا ہے جس پر یقین ہو کہ یہ کچھ کر سکتا ہے.ایک موحّد جو بتوں کی بے کسی سے

Page 502

واقف ہے کبھی کسی بت کے آگے جا کر ہا تھ نہیں پھیلا ئے گا کیونکہ اسے یقین ہے کہ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے لیکن ایک بت پرست ان کے آگے بھی ہاتھ جوڑ کر اپنا حال دل کہہ سناتا ہے کیونکہ اسے ایمان ہے کہ یہ بت بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک ذریعہ ہیں.فقیر بھی اس بات کو دیکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص دے گا یا نہیں اور جس پر انہیں یقین ہو کہ کچھ دے گا اس سے جا کر طلب کر تے ہیں.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آدمی اس سے کچھ مانگتا ہے جس پر اسے ایمان ہو کہ اس سے ملے گا.رسول کریمؐ کا ہر وقت خدا سے امداد طلب کر نا ،نصرت کی درخواست کر نا اور اٹھتے بیٹھتے اسی کےکواڑ کھٹکھٹا نا،اسی سے حاجت روائی چاہنا کیا اس بے مثل یقین اور ایمان کو ظا ہر نہیں کر تا جو آپؐ کو خدا پر تھا.اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ آپؐ کا دل یا د الٰہی اور خشیت ایزدی سے ایسا معمور و آبا د تھا کہ تو جہ الی المخلوق کااس میں کو ئی خانہ خالی ہی نہ تھا.اگر یہ بات کسی اور انسان میں بھی پا ئی جا تی تھی اور اگر کو ئی اور شخص بھی آپؐ کے برابر یا آپؐ کے قریب بھی ایمان رکھتا تھا اور خدا کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا تو اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے میںبھی خشیتِ الٰہی کے یہ آثار پا ئے جانے ضروری ہیں مگرمیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ زمین کےہر گو شہ میں چراغ لےکر گھوم جاؤ،تاریخوں کی ورق گردانی کرو،مختلف مذاہب کے مقتداؤں کے جیون چرتر،سوانح عمریاں اور با یو گرافیاں پڑھ جاؤ مگر ایسا کامل نمونہ کسی انسان میں نہ پاؤ گے.اور وہ خوف خدا جو رسول کریم ﷺ کے ہر ایک قول سے ظاہر ہو تا ہے اور وہ حزم و احتیاط جو آپؐ کے ہر ایک فعل سے ٹپکتی ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پا یا جا نا محال ہے.وہ دعا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ ہے.اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَزَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِالنَّا رِ وَعَذَابِ النَّا رِوَمِنْ فِتْنَۃ الْغِنٰی وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَآعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ اللَّھُمَّ اَغْسِلْ عَنِّیْ خَطَا یَایَ بِمَآ ءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْاَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَبَا عِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَا یَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ (بخا ری کتاب الدعوات باب التعوذ من الماثم و المغرم )اے میرے رب ! میں تجھ سے سستی اور شدید بڑھا پے اور گناہوں اور قرضہ اور قبر کے فتنہ اورقبرکے عذاب اور دوزخ کے فتنہ اور اس کے عذاب اور دولت کے فتنہ کے نقصانوں سے پناہ مانگتا ہوں اور اسی طرح میں غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے اللہ میری خطاؤں کو مجھ سے برف اور اولوں کے پا نی کے سا تھ

Page 503

دھو دے اور میرے دل کو ایسا صاف کر دے کہ جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل سے صاف کر دیا ہے اور مجھ میں اور گناہوں میں اتنا فاصلہ حائل کر دے جتنا تو نے مشرق و مغرب میں رکھا ہے.اے وہ انسان جسے رسول کریم ﷺ سے عداوت ہے تو بھی ذرا اس دعا کو غور سے پڑھا کر اور دیکھ کہ وہ گناہوں سے کس قدر متنفر تھے.و ہ بدیوں سے کس قدر بیزار تھے.وہ کمزوریوں سے کس طرح بری تھے.وہ عیبوں سے کس قدر پا ک تھے اور ان کا دل خشیت الٰہی سے کیسا پر تھا فَتَدَ بَّرْ وَاھْتَدِ بِھُدُ اہُ.غیرت ِدینی اس بات کے بتا نے کے بعد کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی اور آپ کا ہر فعل خشیت الٰہی کی ایک زندہ مثال ہے میں آپؐ کی غیرت دینی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں.بہت سے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھا تے ہیں مگر یہ اخلاق اسی وقت تک ظا ہر ہو تے ہیں جب تک انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.ذرا ان کے منشاکے خلاف کو ئی بات ہو اور ان کی آنکھیں لال پیلی ہو جا تی ہیں اور منہ سے جھاگ آنی شروع ہو جا تی ہے.اور اگر اشارۃً بھی کو ئی انہیں ایسی بات کہہ بیٹھے جس میں وہ اپنی ہتک سمجھتے ہوں تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے بلکہ ہر ممکن سے ممکن طریق سے اس کا بدلہ لینے کی کو شش کر تے ہیں اور جب تک مد مقابل سے بدلہ نہ لے لیں انہیں چین نہیں آ تا.مگر انہیں لو گوں کو دیکھا جا تا ہے کہ جب خدا اور رسول کی کوئی ہتک کر تا ہے تو اسے بڑی خوشی سے سنتے ہیں اورا ن کو وہ قطعًا بری نہیں معلوم ہو تی اور ایسی مجلسوں میں اٹھنا بیٹھنا نا پسند نہیں کر تے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ کسی وقت ان سے بھی کو ئی غلطی ہو جا تی ہے اور اس طرح ان کا دین برباد ہو جا تا ہے.جتنے اخلاق اخلاق اور تہذیب تہذیب پکا رنے والے لوگ ہیں ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لو ضرور ان میں یہ بات پا ئی جا ئے گی کہ دوسروں کے معاملہ میں اور خصوصًا دین کے معاملہ میں غیرت کے اظہار کو وہ بد خلقی اور بد تہذیبی قرار دیتے ہیں مگر اپنے معاملہ میں ان کا معیار ِ اخلاق ہی اور ہے اور وہاں اعلیٰ اخلاق سے کام لینا ان کے لیے ناممکن ہو جا تا ہے.

Page 504

مومن انسان کا کام اس کے بالکل بر خلاف ہو نا چاہیے اور اسے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اپنے معاملات میں دکھانا چاہیے اور حتّی الوسع کوشش کر نی چاہیے کہ بہت سے موقعوں پر چشم پو شی سے ہی کام لے اور جب تک عفو سے کام نکل سکتا ہو اور اس کا خراب نتیجہ نہ نکلتا ہو اسے ترک نہ کرے لیکن دین کے معاملہ میںقطعًا بے غیرتی کا اظہار نہ کرے اور ایسے تمام مواقع جن میںدین کی ہتک ہو تی ہوان سے الگ رہے اور ایسی تمام مجلسوں اور صحبتوں سے پر ہیز کرے کہ جن میں دین کی ہتک اور اس سے ٹھٹھا ہو تا ہو اور دین پر جس قدر اعتراض ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر تا تو معلوم ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قدوسیت قائم کرنے کی نسبت اپنے نفس پر اعتراضات دور کرنے کے لیے زیا دہ کو شاں رہتا ہے اور جتنا اسے اپنی صفا ئی کا خیال ہے اتنا خدا تعالیٰ اور دینِ حق کی تنزیہہکا خیال نہیں.رسول کریم ﷺکی زندگی اس معاملہ میں بھی عام انسانوں سے بالکل مختلف ہے اور آپؐ بجائے اپنے نفسانی معاملات اور ذاتی تکالیف پر اظہار غضب و غصہ کے نہایت ملائمت اور نرمی سے کام لیتے اور اگر کو ئی اعتراض کر تا تو اس پر خاموش رہتے اور جب تک خاموشی سے نقصان نہ پہنچتا ہو کبھی ذبّ اعتراضات کی طرف توجہ نہ کر تے مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں آپؐ بڑے با غیرت تھے اور یہ کبھی برداشت نہ کر سکتے تھے کہ کو ئی شخص اللہ تعالیٰ کی ہتک کرے اور جب کو ئی ایسا موقع پیش آتا آپؐ فوراً اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کرتے یا اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پر واہی کر تا تو اسے سخت تنبیہ کر تے.حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے فر مایا کہجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرِّ جَالَۃِ یَوْمَ اُحُدٍ وَکَا نُوْ اخَمْسِیْنَ رَجُلًا عَبْدَاللہِ بْنَ جُبَیْرٍ فَقَالَ اِنْ رَاَیْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَاتَبْرَحُوْامَکَانَکُمْ ھٰذَا حَتّٰی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ وَاِنْ رَاَیْتُمُوْنَا ھَزَمْنَا الْقَوْمَ وَاَوْطَأْنَا ھُمْ فَلَاتَبْرَحُوْ احَتّٰی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ فَھَزَمُوْ ھُمْ قَالَ وَاَنَا وَاللہِ رَاَیْتُ النِّسَآءَ یَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُھُنَّ وَاَسْوُ قُھُنَّ رَافِعَاتٍ ثِیَابَھُنَّ فَقَالَ اصْحَابُ عَبْدُاللہِ بْنِ جُبَیْرٍ اَلْغَنِیْمَۃَ اَیْ قَوْمِ الْغَنِیْمَۃَ ظَھَرَ اَصْحَابُکُمْ فَمَا تَنْتَظِرُوْنَ فَقَالَ عَبْدُاللہِ بْنُ جُبِیْرٍ اَنَسِیْتُمْ مَاقَالَ لَکُمْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْ وَاللہِ لَنَاْتِیَنَّ النَّاسِ فَلَنُصِیْبَنَّ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ فَلَمَّا اَتَوْھُمْ صُرِفَتْ وُجُوْھُھُمْ فَاَقْبَلُوْ امُنْھَزِمِیْنَ فَذٰکَ اِذْ یَدْعُوْھُمُ الرَّسُوْلُ فِی اُخْرَاھُمْ فَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِیِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُ

Page 505

اِثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا فَاَصَا بُوْ امِنَّا سَبْعِیْنَ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُہٗ اَصَابَ مِنَ الْمُشْرِ کِیْنَ یَوْمَ بَدْرٍاَرْ بَعِیْنِ وَمِائَۃَ سَبْعِیْنِ اَسِیْرًا وَسَبْعِیْنَ قَتِیْلًا فَقَالَ اَبُوْ سُفْیَانَ اَفِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَھَاھُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یُّجِیْبُوْہُ ثُمَّ قَالَ اَفِی الْقَوْمِ اِبْنُ اَبِیْ قَحَا فَۃَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ اَفِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّا بِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِہٖ فَقَالَ اَمَّا ھٰؤْلٓاَ ءِ فَقَدْ قُتَلُوْ فَمَا مَلَکَ عُمَرُ نَفْسَہٗ فَقَالَ کَذَبْتَ وَاللہِ یَاعَدُوَّ اللہِ اِنَّ الَّذِیْنَ عَدَدْتَ لَاَحْیَآءٌ کُلُّھُمْ وَقَدْ بَقِیَ لَکَ مَایَسُوْ ءُ کَ قَالَ یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ اِنَّکُمْ سَتَجِدُوْنَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃً لَمْ اٰمُرْبِھَاوَلَمْ تَسُؤْنِیْ ثُمَّ اَخَذَ یَرْتَجِزُ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ قَالَ النّبِیُّ صَلیَّ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَا تُجِیْبُوْ الَہٗ قَالُوْ ایَارَسُوْلَ اللہِ مَا نَقُولُ قَالَ قُوْلُوْ اللہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ قَالَ اِنَّ لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ فَقَالَ النَّبِیُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَا تُجِیْبُو الَہٗ قَالُوْ ایَارَسُوْلَ اللہِ مَا نَقُوْلُ قَالَ قُوْلُوْ ااَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ(بخاری کتاب الجھاد باب مایکرہ من التنازع والا ختلاف فی الحرب)یعنی رسول کریم ﷺ نے پیا دہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہٗ کو مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانور اچک رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں.اور اگر تم یہ معلوم کر لو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا.اس کے بعد جنگ ہو ئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی.حضرت براءؓ فرما تے ہیں خدا کی قسم میں دیکھ رہا تھا کہ عورتیں کپڑے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہی تھیں اور ان کی پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں اس بات کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم ! غنیمت کا وقت ہے غنیمت کا وقت ہے.تمہارے سا تھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبداللہ بن جبیر ؓ نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریمﷺ کا حکم بھول گئے ہو.انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! ہم بھی سا ری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے.جن لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھا گے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہو ئی ہے کہ یا دکرو جب رسول تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا اور رسول کریم ﷺ کے سا تھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیا اور رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا.سترّ قتل ہوئے تھے اور ستر قید کیے گئے

Page 506

تھے.غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریمؐ کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد(ﷺ) ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریم ؐ نے لوگوں کو منع کر دیا کہ وہ جواب نہ دیں.اس کے بعد ابو سفیان نے تین دفعہ بآوازبلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکر ؓ) ہے.اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کر کہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب(حضرت عمرؓ)ہے.پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے سا تھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں.اس بات کو سن کر حضرت عمرؓ برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب کے سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو ناپسند کر تا ہے ابھی با قی ہے.اس جواب کو سن کر ابو سفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہو گیا.اور لڑا ئیوں کا حال ڈول کا سا ہو تا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤ گے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے.میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن میں اس بات کو نا پسند بھی نہیں کر تا.پھر فخر یہ کلمات بآوازبلند کہنے لگا اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ یعنی اے ہبل(بت) تیرا درجہ بلند ہو اے ہبل تیرا درجہ بلند ہو.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے.صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! ہم کیا کہیں؟آپؐ نے فر مایا کہو‘‘کہ خدا تعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیا دہ شان والا ہے’’.ابوسفیان نے یہ بات سنکر کہا‘‘ ہمارا تو ایک بت عُزّیٰ ہے اور تمہار کو ئی عُزّیٰ نہیں’’.جب صحابہؓ خاموش رہے تو رسول کریم ؐ نے فر مایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے.صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ہم کیا کہیں.آپؐ نے فر مایا انہیں کہو کہ ‘‘خدا ہمارا دوست وکارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں’’.اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے باغیرت تھے.ابو سفیان اپنی جھوٹی فتح کے نشہ میں مخمور ہو کر زور سے پکارتا ہے کہ کیا آپ زندہ ہیں لیکن آپؐ اپنی جماعت کو منع فر ماتے ہیں کہ تم ان باتوں کا جواب ہی نہ دو اور خاموش رہو.ایک عام آدمی جو اپنے نفس پر ایسا قابو نہ رکھتا ہو ایسے موقع پر بولنے سے کبھی باز نہیں رہ سکتا اور لا کھ میں سے ایک آدمی بھی شا ید مشکل سے ملے جو اپنے دشمن کی جھوٹی خوشی پر اس کی خوشی کو غارت کر نا پسند نہ کرے.لیکن چونکہ ابو سفیان اس دعویٰ سے رسول کریم ؐ کی ذات کی ہتک کرنا چاہتا تھا اور یہ ظاہر کر نا چاہتا تھا کہ میں نے ان کو قتل کر دیا ہے اس لیے رسول کریم ؐ نے نہ صرف خود جواب نہ دیا بلکہ صحابہ ؓ کو بھی منع کر دیا.

Page 507

مگر جو نہی کہ ابو سفیان نے خدا تعالیٰ کی ذات پر حملہ کیا اور سر میدان شرک کا اعلان کیا اور بجا ئے خدا تعالیٰ کی عظمت بیان کرنے کے ہبل بت کی تو صیف کی تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور صحابہ ؓکو حکم دیا کہ اسے جواب دو کہ خدا کے سوا اورکو ئی نہیں جو عظمت و جلال کا مالک ہو.پھر جب اس نے یہ ظاہر کیا کہ عزیٰ ہمارا مدد گا ر ہے آپؐ نے صحابہ ؓکو حکم دیا کہ اسے کہہ دو کہ ہمارا خدا مددگار ہے اور ہم کسی اور کی مدد نہیں چاہتے اور یہ بات بھی خوب یادرکھو کہ خدا ہماری مدد کرے گا اور تمہاری مدد کر نے والا کوئی نہ ہو گا.اللہ اللہ ! اپنے نفس کے متعلق کیا صبر ہے اور خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی کیسی غیرت ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ.کعب بن مالک رضی اللہ عنہ :رسول کریم ﷺ کی غیرت دینی کے ظاہر کر نے کے لیے اگر چہ پچھلی مثال بالکل کافی تھی لیکن میں اس جگہ ایک واقعہ بھی لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس سے خوب روشن ہوجاتا ہے کہ رسول کریمﷺ نہ صرف دشمنوں کے مقابلہ میں غیرت دینی کا اظہارفرماتے تھے بلکہ دوستوں سے بھی اورکوئی حرکت ایسی ہو تی جس سے احکام الہٰیہ کی ہتک ہو تی ہو تو آپ ؐ اس پر اظہار غیرت سے باز نہ رہتے اور اس خیال سے خاموش نہ رہتے کہ یہ ہمارے دوستوں کی غلطی ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے.حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں: لم أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها إلا في غزوة تبوك غير أني كنت تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنها إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلام وما أحب أن لي بها مشهد بدر وإن كانت بدر أذكر في الناس منها كان من خبري أني لم أكن قط أقوى ولا أيسر حين تخلفت عنه في تلك الغزاة والله ما اجتمعت عندي قبله راحلتان قط حتى جمعتهما في تلك الغزوة ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد غزوة إلا ورى بغيرها حتى كانت تلك الغزوة غزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد واستقبل سفرا بعيدا ومفازا وعدوا كثيرا فجلى للمسلمين أمرهم ليتأهبوا أهبة غزوهم فأخبرهم

Page 508

بوجهه الذي يريد والمسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير ولا يجمعهم كتاب حافظ يريد الديوان قال كعب فما رجل يريد أن يتغيب إلا ظن أن سيخفى له ما لم ينزل فيه وحي الله وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغزوة حين طابت الثمار والظلال وتجهز رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه فطفقت أغدو لكي أتجهز معهم فأرجع ولم أقض شيئا فأقول في نفسي أنا قادر عليه فلم يزل يتمادى بي حتى اشتد بالناس الجد فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه ولم أقض من جهازي شيئا فقلت أتجهز بعده بيوم أو يومين ثم ألحقهم فغدوت بعد أن فصلوا لأتجهز فرجعت ولم أقض شيئا ثم غدوت ثم رجعت ولم أقض شيئا فلم يزل بي حتى أسرعوا وتفارط الغزو وهممت أن أرتحل فأدركهم وليتني فعلت فلم يقدر لي ذلك فكنت إذا خرجت في الناس بعد خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم فطفت فيهم أحزنني أني لا أرى إلا رجلا مغموصا عليه النفاق أو رجلا ممن عذر الله من الضعفاء ولم يذكرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ تبوك فقال وهو جالس في القوم بتبوك ما فعل كعب فقال رجل من بني سلمة يا رسول الله حبسه برداه ونظره في عطفه فقال معاذ بن جبل بئس ما قلت والله يا رسول الله ما علمنا عليه إلا خيرا فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كعب بن مالك فلما بلغني أنه توجه قافلا حضرني همي وطفقت أتذكر الكذب وأقول بماذا أخرج من سخطه غدا واستعنت على ذلك بكل ذي رأي من أهلي فلما قيل إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أظل قادما زاح عني الباطل وعرفت أني لن أخرج منه أبدا بشيء فيه كذب فأجمعت صدقه وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما وكان إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فيركع فيه ركعتين ثم جلس للناس فلما فعل ذلك جاءه المخلفون فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعة وثمانين رجلا فقبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله فجئته فلما سلمت عليه تبسم تبسم المغضب ثم قال تعال فجئت أمشي حتى جلست بين يديه فقال لي ما خلفك ألم تكن قد ابتعت ظهرك فقلت بلى إني والله

Page 509

لو جلست عند غيرك من أهل الدنيا لرأيت أن سأخرج من سخطه بعذر ولقد أعطيت جدلا ولكني والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب ترضى به عني ليوشكن الله أن يسخطك علي ولئن حدثتك حديث صدق تجد علي فيه إني لأرجو فيه عفو الله لا والله ما كان لي من عذر والله ما كنت قط أقوى ولا أيسر مني حين تخلفت عنك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك فقمت وثار رجال من بني سلمة فاتبعوني فقالوا لي والله ما علمناك كنت أذنبت ذنبا قبل هذا ولقد عجزت أن لا تكون اعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بما اعتذر إليه المتخلفون قد كان كافيك ذنبك استغفار رسول الله صلى الله عليه وسلم لك فوالله ما زالوا يؤنبوني حتى أردت أن أرجع فأكذب نفسي ثم قلت لهم هل لقي هذا معي أحد قالوا نعم رجلان قالا مثل ما قلت فقيل لهما مثل ما قيل لك فقلت من هما قالوا مرارة بن الربيع العمري وهلال بن أمية الواقفي فذكروا لي رجلين صالحين قد شهدا بدرا فيهما أسوة فمضيت حين ذكروهما لي ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا أيها الثلاثة من بين من تخلف عنه فاجتنبنا الناس وتغيروا لنا حتى تنكرت في نفسي الأرض فما هي التي أعرف فلبثنا على ذلك خمسين ليلة فأما صاحباي فاستكانا وقعدا في بيوتهما يبكيان وأما أنا فكنت أشب القوم وأجلدهم فكنت أخرج فأشهد الصلاة مع المسلمين وأطوف في الأسواق ولا يكلمني أحد وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلم عليه وهو في مجلسه بعد الصلاة فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام علي أم لا ثم أصلي قريبا منه فأسارقه النظر فإذا أقبلت على صلاتي أقبل إلي وإذا التفت نحوه أعرض عني حتى إذا طال علي ذلك من جفوة الناس مشيت حتى تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي وأحب الناس إلي فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام فقلت يا أبا قتادة أنشدك بالله هل تعلمني أحب الله ورسوله فسكت فعدت له فنشدته فسكت فعدت له فنشدته فقال الله ورسوله أعلم ففاضت عيناي وتوليت حتى تسورت الجدار قال فبينا أنا أمشي بسوق المدينة إذا نبطي من أنباط أهل الشأم ممن قدم بالطعام يبيعه بالمدينة

Page 510

يقول من يدل على كعب بن مالك فطفق الناس يشيرون له حتى إذا جاءني دفع إلي كتابا من ملك غسان فإذا فيه أما بعد فإنه قد بلغني أن صاحبك قد جفاك ولم يجعلك الله بدار هوان ولا مضيعة فالحق بنا نواسك فقلت لما قرأتها وهذا أيضا من البلاء فتيممت بها التنور فسجرته بها حتى إذا مضت أربعون ليلة من الخمسين إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم يأتيني فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تعتزل امرأتك فقلت أطلقها أم ماذا أفعل قال لا بل اعتزلها ولا تقربها وأرسل إلى صاحبي مثل ذلك فقلت لامرأتي الحقي بأهلك فتكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الأمر قال كعب فجاءت امرأة هلال بن أمية رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن هلال بن أمية شيخ ضائع ليس له خادم فهل تكره أن أخدمه قال لا ولكن لا يقربك قالت إنه والله ما به حركة إلى شيء والله ما زال يبكي منذ كان من أمره ما كان إلى يومه هذا فقال لي بعض أهلي لو استأذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امرأتك كما أذن لامرأة هلال بن أمية أن تخدمه فقلت والله لا أستأذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يدريني ما يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استأذنته فيها وأنا رجل شاب فلبثت بعد ذلك عشر ليال حتى كملت لنا خمسون ليلة من حين نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كلامنا فلما صليت صلاة الفجر صبح خمسين ليلة وأنا على ظهر بيت من بيوتنا فبينا أنا جالس على الحال التي ذكر الله قد ضاقت علي نفسي وضاقت علي الأرض بما رحبت سمعت صوت صارخ أوفى على جبل سلع بأعلى صوته يا كعب بن مالك أبشر قال فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج وآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من أسلم فأوفى على الجبل وكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشرني نزعت له ثوبي فكسوته إياهما ببشراه والله ما أملك غيرهما يومئذ واستعرت ثوبين فلبستهما وانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيتلقاني الناس فوجا فوجا يهنوني بالتوبة يقولون لتهنك توبة الله عليك

Page 511

قال كعب حتى دخلت المسجد فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس حوله الناس فقام إلي طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهناني والله ما قام إلي رجل من المهاجرين غيره ولا أنساها لطلحة قال كعب فلما سلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يبرق وجهه من السرور أبشر بخير يوم مر عليك منذ ولدتك أمك قال قلت أمن عندك يا رسول الله أم من عند الله قال لا بل من عند الله وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سر استنار وجهه حتى كأنه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه(بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک( حضرت کعب بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم ﷺ سے کسی لڑا ئی میں پیچھے نہیں رہا.سوائے غزوۂ تبوک کے.ہاں جنگ بدر میں پیچھے رہا تھا اور اس کی یہ وجہ تھی کہ آنحضرتﷺ قریش کے قافلہ کو مدنظر رکھ کر گئے تھے(کسی بڑی جنگ کی امید نہ تھی)مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں سے بغیر قبل از وقت تعیّن وقت و مقام کرنے کے لڑو ا دیا.ہاں میں لیلہ عقبہ میں موجود تھا.جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور مجھے جنگ بدر اس رات سے بڑھ کر محبوب نہیں کہ میں لوگوں میں ذکر کروں کہ میں بھی جنگ بدر میں شریک تھا گو کہ عوام میں جنگ بدرلیلہ عقبہ سے زیادہ ہی سمجھی جاتی ہے.خیر تبوک کے واقعہ کے وقت میرا یہ حال تھا کہ میں نسبتًا زیا دہ مضبوط اور سامان والا تھا اور کسی جنگ کے وقت میرے پاس دو سواری کی اونٹنیاں اکٹھی نہیں ہو ئیں مگر اس وقت میرے پا س دواونٹنیاں موجود تھیں.رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب جنگ کو جاتے تو اپنی منزل مقصود کو ظاہر نہ کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ گرمی سخت تھی اور سفر دور کا تھا اور راستہ میں غیر آباد جنگل تھے اور بہت سے دشمنوں سے پا لا پڑنا تھا س لیے آپؐ نے مسلمانوں کو خوب کھول کر بتادیا تا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہو جا ئیں اور وہ طرف بھی بتا دی جس طرف جا نے کا ارادہ تھا.اس وقت مسلمان بہت ہو چکے تھے اور ان کا رجسٹر کو ئی نہ تھا اس لیے جو لوگ اس لڑا ئی میں غیر حاضر رہنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک رسول کریم ؐ کو وحی نہ ہو ان کا غیر حاضر رہنا مخفی ہی رہے گا اور موسم کا یہ حال تھا کہ وہ میوہ پک چکا تھا اور سایہ بھلا معلوم ہو تا تھا.غرض کہ رسول کریم ﷺ نے اور مسلمانوں نے جنگ کی تیاری شروع کی اور میں بھی ہر صبح جنگ کی تیاری کے مکمل کرنے کے لیے نکلتا میں بھی ان کے ساتھ تیار ہو جاؤں مگر پھر لوٹ آتا اور

Page 512

کچھ کام نہ کر تا اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت سے سامان سفر تیار کر لیا یہاں تک کہ رسول کریم ؐ اور مسلمان ایک صبح روانہ بھی ہوگئے اور ابھی میں نا تیار تھا پھر میں نےکہا کہ اب میں ایک دو دن میں تیاری کرکے آپ سے جاملوں گا.ان کے جانے کے بعد دوسرے دن بھی میں گیا مگر بغیر تیاری کے واپس آگیا اور اسی طرح تیسرے دن بھی میرا یہی حال رہا اور ادھر لشکر جلدی جلدی آگے نکل گیا.میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ جاؤں اور ان سے مل جاؤں اور کاش میں ایسا ہی کر تا مگر مجھ سے ایسا نہ ہو سکا.پھر جب رسول کریمؐ کے جانے کے بعد میں باہر نکلتا اور لوگوں میں پھر تا تو مجھے یہ بات دیکھ کر سخت صدمہ ہو تا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے یا تو وہ تھے جو منافق سمجھے جاتے تھے یا وہ ضُعَفَا ء جن کو خد انے معذور رکھا تھا.رسول کریم ﷺنے اس وقت تک مجھے یاد نہیں کیا جب تک کہ تبوک نہ پہنچ گئے.وہاں آپؐ نے پو چھا کہ کعب بن مالک کہاں ہے؟سلمہ کے ایک آدمی (عبداللہ بن انیس)نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ اپنے حسن وجمال (یا لباس کی خوبی) پر اترا کر رہ گیا(آپ کے سا تھ نہیں آیا)یہ سن کر معاذبن جبل ؓنے کہا تونے بری بات کہی خدا کی قسم یارسول اللہ!ہم تو اس کو سچاآدمی (سچامسلمان) سمجھتےہیں.آنحضرتﷺخاموش ہورہے.کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ آنحضرت ﷺ تبوک سے لوٹے آرہے ہیں تو میرا غم تازہ ہو گیا.جھوٹے جھوٹے خیال دل میں آنے لگے(یہ عذر کروں وہ عذرکروں)مجھ کو یہ فکر ہو ئی کعب اب کل آپؐ کے غصے سے تو کیونکر بچے گا میں نے اپنے عزیزوں میںسے جو جو عقل والے تھے ان سے بھی مشورہ لیا.جب یہ خبر آئی کہ آپؐ مدینہ کے قریب آن پہنچے اس وقت سارے جھوٹے خیالات میرے دل سے مٹ گئے او رمیں نے یہ سمجھ لیا کہ جھوٹی با تیں بنا کر میں آپؐ کے غصے سے بچنے والا نہیں.اب میں نے یہ ٹھان لیا(جو ہو نا ہو وہ ہو)میں تو سچ سچ کہہ دوں گا خیر صبح کے وقت آپؐ مدینہ میں داخل ہو ئے آپؐ کی عادت تھی جب سفر سے تشریف لا تے تو پہلے مسجد میں جا تے وہاں ایک دو گانہ ادا فرماتے(آپ نے مسجد میں دو گانہ ادا فرمایا)پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھے.اب جو جو (منافق) لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور لگے اپنے اپنے عذر بیان کر نے اور قَسمیں کھانے.ایسے لوگ اسی(80) سے کچھ اوپر تھے آپؐ نے ظاہر میں ان کا عذر مان لیا ان سے بیعت لی ، ان کے واسطے دعا کی ان کے دلوں کے بھید کو خدا پر رکھا.کعب کہتے ہیں میں بھی آیا میں نے جب آپؐ کو سلام کیا تو آپؐ مسکرائے مگر جیسے غصےمیں کو ئی آدمی مسکراتا ہے پھر فرمایا آؤ.میں گیا.آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا آپؐ نے پوچھا کعب تو کیوں پیچھے رہ گیا ؟تو نے تو سواری بھی

Page 513

خریدلی تھی.میں نے عرض کیا بے شک اگر کسی دنیا دار شخص کے سامنے میں اس وقت بیٹھا ہو تا تو با تیں بنا کر اس کے غصے سے بچ جا تا.میں خوش تقریر بھی ہوں مگر خدا کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپؐ کو خوش کرلوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر)پھر آپ کو مجھ پر غصے کر دے گا ( اس سے فائدہ ہی کیا ہے) میں سچ ہی کیوںنہ بولوں گو آپؐ اس وقت سچ بولنے کی وجہ سے مجھ پر غصہ کریں گے مگر آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھ کو امید تو رہے گی.خدا کی قسم!(میں سراسرقصور وار ہوں) زور،طاقت، قوت،دولت سب میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور میں یہ سب چیزیں ہو تے ہو ئے پیچھے رہ گیا یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فر مایا.کعب نے سچ سچ کہہ دیا کعب اب ایسا کر تو چلا جا جب تک اللہ تعالیٰ تیرے باب میں کو ئی حکم نہ اتارے.میں چلا.بنی سلمہ کے کچھ لوگ اٹھ کر میرے پیچھے ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم ہم کو تو معلوم نہیں کہ تو نے اس سے پہلے بھی کو ئی قصور کیاہو.تو نے اور لوگوں کی طرح جو پیچھے رہ گئے تھےآنحضرت ﷺ سے کو ئی بہانہ کیوں نہ کر دیا ؟ اگر تو بھی کو ئی بہانہ کر تا تو آنحضرت ﷺ کی دعا تیرے قصور کے لیے کا فی ہو جا تی.وہ برابر مجھ کو لعنت ملامت کرتے رہے.قسم خدا کی ان کی با توں سے پھر میرے دل میں آیا کہ آنحضرتؐ کے پاس لوٹ کر چلوں اور اپنی اگلی بات(گناہ کے اقرار)کو جھٹلاکر کو ئی بہا نہ نکالوں.میں نے ان سے پوچھا.اچھا اور بھی کوئی ہے جس نے میری طرح قصور کا اقرار کیا ہو.انہوں نے کہا ہاں دو اور بھی ہیں انہوں نے بھی تیری طرح گناہ کا اقرار کیا ہے ان سے بھی آنحضرت ﷺ نے یہی فرمایا ہے جو تجھ سے فر مایا ہے.میں نے پوچھا وہ دو شخص کون کون ہیں انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہّ واقفی.انہوں نے ایسے دو نیک شخصوں کا بیان کیا جو بدر کی لڑا ئی میں شریک ہو چکے تھے اور جن کے سا تھ رہنا مجھ کو اچھا معلوم ہوا.خیر جب انہوں نے ان دو شخصوں کا نام بھی لیا(تو مجھ کو تسلّی ہو ئی)میں چل دیا.آنحضرتﷺ نے تمام مسلمانوں کو منع کر دیا خاص کر ہم تینوں آدمیوں سے کو ئی بات نہ کرے اور دوسرے لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے(جنہوں نے جھوٹے بہانے کیےتھے)ان کے لیے یہ حکم نہیں دیا.اب لوگوں نے ہم سے پر ہیز شروع کیا(کوئی بات تک نہ کرتا) بالکل کورے ہوگئے(جیسے کو ئی آشنا ئی ہی نہ تھی)ایسے ہی پچاس را تیں(اسی پر یشان حالی میں) گزریں.میرے دونوں ساتھی(مرارہؓ اور ہلالؓ)تو روتے پیٹتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اورمیں جو ان مضبوط آدمی تھا تو(مصیبت پر صبر کرکے)باہر نکلتا نماز کی جماعت میں شریک ہو تا بازاروں میں گھومتا رہتا مگر کو ئی شخص مجھ سے بات نہ کر تا.میں آنحضرت ﷺ کے پاس بھی آتا.آپؐ نماز پڑھ کر اپنی جگہ پر بیٹھے

Page 514

رہتے میں آپؐ کو سلام کر تا پھر مجھے شبہ رہتا.آپؐ نے (مبارک) ہونٹ ہلا کر مجھ کو سلام کا جواب بھی دیا یا نہیں.پھر میں آپؐ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہتا اور دزدیدہ نظر سے آپؐ کو دیکھتا آپؐ کیا کرتے جب میں نماز میں ہو تا تو مجھ کو دیکھتے اور جب میںآپؐ کو دیکھتا تو آپؐ منہ پھیرلیتے جب اسی طرح ایک مدت گزری اور لوگوں کی رو گردانی دو بھر ہو گئی تو میں چلااور ابو قتادہ اپنے چچا زاد بھا ئی کے باغ کی دیوار پر چڑھا اس سے مجھ کو بہت محبت تھی میں نے اس کو سلام کیا تو خدا کی قسم اس نے سلام کا جواب تک نہ دیا.میں نے کہا ابو قتادہ تجھ کو خدا کی قسم تو مجھ کو اللہ اور اس کے رسول کا ہو اخواہ سمجھتا ہے(یانہیں)جب بھی اس نے جواب نہ دیا میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا لیکن جواب ندارد پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو اس نے یہ کہا کہ اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں.بس اس وقت تو(مجھ سے رہا نہ گیا )میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور پیٹھ موڑ کر دیوار پر چڑھ کر وہاں سےچل دیا.میں ایک بار مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا اتنے میں ملک شام کا ایک (نصرانی)کسان ملا جو مدینہ میں اناج بیچنے لا یا تھا وہ کہہ رہا تھا لوگو کعب بن مالک کو بتلاؤلوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اس نے غسان کے بادشاہ کا (جو نصرانی تھا)ایک خط مجھ کو دیا مضمون یہ تھا.مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے پیغمبر صاحب نے تم پر ستم کیا ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسا ذلیل نہیں بنایا ہے نہ بیکار(تم تو کام کے آدمی ہو)تم ہم لوگوں سے آن کر مل جاؤ ہم تمہاری خاطر مدارت بخوبی کریں گے.میں نے جب یہ خط پڑھا تو(اپنے دل میں کہنے لگا)یہ ایک دوسری بلا ہو ئی.میں نے وہ خط لے کر آگ کے تنور میں جھونک دیا.ابھی پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزری تھیں کہ آنحضرت ﷺ کا پیغام لا نے والا(خزیمہ بن ثابت) میرے پاس آیا کہنے لگا آنحضرت کا یہ حکم ہے تم اپنی جو رو(عمیرہ بنت جبیر)سے بھی الگ رہو.میں نے پوچھا کیا اس کو طلاق دے دوں یا کیسا کروں ؟ اس نےکہانہیں اس سے الگ رہو.صحبت وغیرہ نہ کرو.میرے دونوں سا تھیوں کو بھی یہی حکم کیا.آخر میں نے اپنی جورو سےکہہ دیا نیک بخت تو اپنے کنبے والوں میںچلی جا.وہیں رہ جب تک اللہ میرا کچھ فیصلہ نہ کرے(وہ چلی گئی)کعب نے کہا ہلال ابن امیّہ کی جورو (خولہ بنت عاصم)آنحضرت ؐکے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ہلال ابن امیّہ (میرا خاوند)بوڑھا پھونس ہے اگر میں اس کا کام کرتی رہوں تو کیا آپؐ اس کو برا سمجھتے ہیں آپؐ نے فر مایا.نہیںکام کاج کرنے میں قباحت نہیں)پر وہ تجھ سے صحبت نہ کرے اس نے کہا خدا کی قسم وہ تو کہیں چلتا پھرتا بھی نہیں ہے جب سے یہ واقعہ ہواہے تب سے برابر رودھو رہا ہے آج تک وہ اسی حال میں ہے.کعب نےکہامجھ سے بھی

Page 515

میرے بعض عزیزوں نے کہا تم بھی اگر اپنی جورو کے بات میں آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگو (کہ وہ تمہاری خدمت کر تی رہے) تو مناسب ہے جیسے آنحضرتؐ نے ہلال بن امیہ کی جورو کو خدمت کی اجازت دی(تم کو بھی اجازت دیں گے)کعب نے کہا میں تو خدا کی قسم کبھی اس بات میںآنحضرت ﷺ سے اجازت نہیں مانگنے کا کیونکہ مجھ کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کیا فرما ئیں (اجازت دیں یا نہ دیں)میں جوان آدمی ہوں(ہلال کی طرح ضعیف اور ناتواں نہیں ہوں)خیر اس کے بعد دس را تیں اور گزریں اب پچاس راتیں پو ری ہو گئیں اس وقت سے جب سے آپؐ نے لوگوں کو ہم سے سلام کلام کی ممانعت فرما دی تھی پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا تو جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا وَضَا قَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ(التوبہ:۱۱۸)میرا دل تنگ ہو رہا تھا اور زمین اتنی کشادہ ہو نے پر بھی مجھ پر تنگ ہو گئی تھی.اتنے میں میَں نے ایک پکار نے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑی پر چڑھ کر پکار رہا تھا(یہ ابوبکر صدیق ؓتھے) کعب بن مالک ؓخوش ہو جا.یہ سنتے ہی میںسجدے میں گر پڑا اور مجھ کو یقین ہو گیا.اب میری مشکل دور ہو ئی اور آنحضرت ﷺنےفجر کی نماز کے بعد لوگوں کو خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کر دیا.اب لوگ خوشخبری دینے میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں(مرارہ اور ہلال)کے پاس جانے لگے.ایک شخص (زبیر بن عوامؓ)گھوڑاکداتے ہو ئے میرے پاس آئے او رقبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا پہاڑ پر چڑھ گیا(حمزہ بن عمر واسلمی) اور پہاڑ پر کی آواز گھوڑےسےجلد مجھ کوپہنچ گئی.خیر جب یہ خوشخبری کی آواز مجھ کو پہنچی میں نے (خوشی میں آن کر)کیا کیا دوکپڑے جو میرے پاس تھے وہ اتار کر اس کو پہنا دیے اس وقت کپڑوں کی قسم سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابو قتادہ ؓسے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت ﷺ کے پاس چلا.رستے میں فوج در فوج لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے اور مجھ کو مبارکباددیتےجاتےتھےاورکہتےتھے اللہ کی معافی تم کو مبارک ہو.کعب کہتے ہیں جب میںمسجدمیں پہنچا.دیکھا تو آنحضرت ﷺ بیٹھے ہیں لوگ آپ کے گرد ہیں طلحہ بن عبید اللہ ؓ مجھ کو دیکھ کر دوڑ کر اٹھے اور مصافحہ کیا.مبارکباد دی.خدا کی قسم مہاجرین میں سے اور کسی نے اٹھ کر مجھ کو مبارکباد نہیں دی.میں طلحہ ؓ کا یہ احسان کبھی بھولنےوالا نہیں.کعب کہتے ہیں جب میں نے آنحضرت ﷺ کو سلام کیا میں نے دیکھا آپؐ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا آپؐ نے فر مایا کعب وہ دن تجھ کو مبارک ہو جو ان سب دنوں سے بہتر ہے جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا.میں نے عرض

Page 516

کیا یا رسول اللہ یہ معافی اللہ کی طرف سےہوئی یا آپؐ کی طرف سے.آپؐ نے فرمایا نہیں اللہ کی طرف سےہوئی(اس نے خود معافی کا حکم اتارا).آنحضرت ﷺ جب خوش ہو تے تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو جا تا ہم لوگ اس کو پہچان لیتے.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ؐ کی فطرت کیسی پاک اور مطہر تھی اور کس طرح آپؐ ہر رنگ میں کامل ہی کامل تھے.بے شک بعض آدمی ہو تے ہیں جو غیرت دینی رکھتے ہیں مگر اکثر دیکھاگیا ہے کہ بعض تو دشمنوں کے مقابلہ میںاظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دوستوں کے معاملہ میں اظہار غیرت نہیں کر سکتے اور بعض دوستوں پر اظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دشمنوں کے سامنے دب جاتے ہیں.مگر رسول کریم ﷺ ایسے کامل انسان تھے کہ خواہ دین کی ہتک یا احکام الٰہیہ سے بے پرواہی دوست سے ہو یا دشمن سے برداشت نہ کر سکتے تھےاور فوراً اس کا ازالہ کر نا چاہتے.ادھر تو طبیعت کی نرمی کا یہ حال تھا کہ گالیوں پر گالیاں ملتی ہیں اور تکلیفیں دی جا تی ہیں مگر آپؐ پرواہ بھی نہیں کر تے اورا دھر خد اکے معاملہ میں غیرت کا یہ حال تھا کہ جب ابو سفیان آپؐ کی ہتک کر تا رہا تو کچھ پرواہ نہ کی.مگر جب شرک کے کلمات منہ پر لا یا تو فرمایا اسے جواب دو.یہ تو دشمن کا حال تھا دوستوں کے معاملہ میں بھی ایسے ہی سخت تھے.منافق جنگ سے پیچھے رہ گئے تو کچھ پروا نہ کی ایک مومن نے جو اس حکم الٰہی کے بجالانے میںسستی کی تو آپ نے کس قدر غیرت سے کا م لیا.اور باوجود اس کے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان ایام ناراضگی میں بھی کعب بن مالک ؓ کو کنکھیوں سے دیکھتے رہتے.اخلاص باللہ.قیام حدود آنحضرت ﷺ کی غیرتِ دینی جس وضاحت سے مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہو تی ہے اس پر کچھ اور زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں.اب میں آپؐ کے ایک اَور خلق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا معاملہ خدا تعالیٰ سے کیسا پاک تھا اور کس طرح آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال رہتا تھا.انسان فطرتاً کسی کی مصیبت کو دیکھ کر رحم کی طرف مائل ہو جا تا ہے.بہت سے لوگ جب کسی مجرم کو سزا ملتی دیکھتے ہیں تو باوجود اس علم کے کہ اس سے سخت جرائم سرزد ہو ئے ہیں ان کے دل کو

Page 517

دکھ پہنچتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس شخص سے جرم تو ہو ہی گیا ہے اور یہ تائب بھی ہے اسے چھوڑ دیا جا ئے تو اچھا ہے لیکن یہ ایک کمزوری ہے اگر اس جذبہ سے متاثر ہو کر مجرموں کو چھوڑ دیا جا ئے تو گناہ اور جرائم بہت ہی بڑھ جا ئیں.فطری رحم کے علاوہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم ہو تو لوگ عام طور پر نہیں پسند کر تے کہ اسے سزا ملے اور اس کی بڑائی سے متاثر ہو کر چاہتے ہیں کہ اسے کسی طرح چھوڑ دیا جا ئے بلکہ بڑے دولت مند یا کو ئی دنیاوی وجاہت رکھنے والے آدمی تو روپیہ اور اثر خرچ کرکے ایک ایسی جماعت اپنے ساتھ کر لیتے ہیں کہ جو مشکلات کے وقت ان کا ساتھ دیتی ہے اور باوجود قانون کی خلاف ورزی کے اپنے جتھے کی مدد سے اپنے جرائم کے اثر سے بچ جا تے ہیں.آنحضرت ﷺکی غیرتِ دینیان قوموں میں جن کے اخلاق گر جا تے ہیں اور جن کے افراد میں طرح طرح کی بدیاں آجا تی ہیں ان میں خصوصًا یہ ر واج عام ہو جا تا ہے کہ بڑے لوگ قانون کے خلاف عمل کر کے بھی بچ جا تے ہیں اور صرف غرباءہی سزاپاتے ہیں.رسول کریم ﷺاس بات کے سخت مخالف تھے اور آپؐ کا جو معاملہ خدا کے سا تھ تھا اور جس طرح آپؐ تمام بنی نوع انسان کے سا تھ یکساں سلوک کرنا چاہتے تھے اس کے لحاظ سے آپؐ کبھی پسند نہ کر تے تھے کہ احکام شریعت سے امراءکو مستثنیٰ کرکے غرباء ہی کو اس کا مکلّف سمجھا جا ئے بلکہ آپؐ باوجود ایک رحیم دل اور ہمدرد طبیعت رکھنے کے ہمیشہ احکام شریعت کے جا ری کر نے میں محتاط رہتے او رمجرمین کو سزا سے بچنے نہ دیتے اور جس طرح آپؐ غرباء کو سزا دیتے امراء بھی اسی طرح احکام شریعت کے ماتحت جکڑے جا تے اور اس معاملہ میں آپؐ بڑے غیور تھے.حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہاَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ بَنِیْ مَخزُوْ مٍ سَرَ قَتْ فَقَالُوْ امَنْ یُّکَلِّمُ فِیْھَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَجْتَرِیْ اَحَدٌ اَنْ یُّکَلِمَہٗ فَکَلَّمَہٗ اُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ فَقَالَ اِنَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ کَانَ اِذَاسَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَاسَرَقَ الضَّعِیْفُ قَطَعُوْہُ لَوْکَانَتْ فَاطِمَۃُ لَقَطَعْتُ یَدَھَا(بخاری کتاب المناقب باب ذکر اسامہ بن زید)بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اس پر لوگوں نے چاہا کہ کون ہے جو رسول کریمؐ سے اس عورت کے معاملہ میں سفارش کرے لیکن کسی نے اس کی جرأت نہ کی(کیونکہ رسول کریمؐ حدود کے قائم کرنے میں بڑے سخت تھے) آخر اسامہ بن زید ؓ نے رسول کریم ؐ سے ذکر کیا مگر آپؐ نے

Page 518

جواب دیا کہ بنی اسرائیل کی عادت تھی کہ جب ان میں کو ئی شریف چوری کر تا تو اسے چھوڑ دیتے مگر جب کو ئی غریب چوری کر تا تو اس کا ہاتھ قطع کر دیتے.مگر میرا یہ حال ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہا تھ کاٹ دوں.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کا خدا سے کیا تعلق تھا اور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں خلیفہ تھے کیونکہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کو دنیا میں جاری کرے اور یہ رسول کریمؐ ہی تھے کہ جو بغیر کسی کے خوف ملامت کے حدود اللہ کا قیام کرتے اور کسی کی رعایت نہ کرتے.رسول کریم ﷺ کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ سےتھے اور جس طرح آپؐ نے خدا سے معاملہ صاف رکھاہؤا تھا اس پر یہ بات بھی روشنی ڈالتی ہے کہ آپؐ اپنے تمام کاموں میں پہلے یہ دیکھ لیتے کہ خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی حکم نہ ہو تا آپؐ کسی کام کے کرنے پر دلیری نہ کرتے.چنانچہ مکّہ سے باوجود ہزاروں قسم کی تکالیف کے آپؐ نے ہجرت نہیں کی ہاں صحابہ ؓ کو حکم دے دیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہجرت کر جائیں اور لوگوں کی شرارت کو دیکھ کر صحابہ ؓکو ہجرت کرنی بھی پڑی اور بہت سے صحابہ ؓ حبشہ کو اور کچھ مدینہ کو ہجرت کر گئے اور صرف حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت علی ؓ اور رسول کریمؐ یا اور چند صحابہ ؓمکہ میں با قی رہ گئے.کفارمکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم ﷺ سے فطرتاً زیا دہ بغض وعداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میںشرک کی مخالفت پھیلتی جا تی تھی.وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو با قی جماعت خود بخود پراگندہ ہوجائے گی اس لیے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرت ؐ کو زیا دہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آجائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے آپؐ نے صحابہؓ کو تو ہجرت کا حکم دےدیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے با وجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیوںکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی اذن نہ ہؤا تھا.چنانچہ جب حضرت ابوبکر ؓنے پوچھا کہ میں ہجرت کر جا ؤں تو آپؐ نے جواب دیا.عَلٰی رِسْلِکَ فَاِنِّیْ اَرْجُوْ اَنْ یُّؤْذَنَ لِیْ آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھےبھی اجازت مل جا ئے.اللہ اللہ کیا پا ک انسان تھا.دکھ پر دکھ تکالیف پر تکالیف پہنچ رہی ہیں سب ساتھیوں کو حکم دے دیتا ہے کہ جاؤ جس جگہ امن ہو چلے جاؤ لیکن خود اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور باوجود مخالفت کے اس بات کا منتظر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی حکم آئے تو میں اس پر کار بند ہوں.کیا کسی انسان میں

Page 519

یہ ہمت ہے یا کو ئی ہےجو خدا تعالیٰ کی طرف ایسا متوجہ ہو کہ ایسے خطرناک مصائب کے اوقات میں بھی دشمنوں کی مخالفت کو برداشت کر تا جائے اور جب تک خدا کا حکم نہ ہو اپنی جگہ نہ چھوڑے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ واقعہ میں آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہؤا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں فَبَیْنَمَا نَحْنُ یَوْمًا جُلُوْسٌ فِیْ بَیْتِ اَبِیْ بَکْرٍ فِی نَحْرِ الظَّھِیْرَ ۃِ قَالَ قَائِلٌ لِاَبِیْ بَکْرٍ ھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًافِی سَاعَۃٍ لَمْ یَکُنْ یَاْتِیْنَا فِیْھَا فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ فِدَاءٌ لَہٗ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَاللّٰہِ مَاجَآ ءَبِہٖ فِی ھٰذِہ السَّاعَۃِ اِلَّا اَمْرٌ قَالَتْ فَجَآءَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَہٗ فَدَخَلَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِاَبِیْ بَکْرٍ اَخْرِجْ مَنْ عِنْدَکَ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍاِنَّمَا ھُمْ اَھْلُکَ بِاَبِیْ اَنْتَ یَارَسوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاِنِّیْ قَدْ اُذِنَ لِیْ فِی الْخُرُوْجِ فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَلصَّحَا بَۃَ بِاَبِیْ اَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعْمُ(بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی ﷺو اصحابہ الی المدینۃ) ہم ایک دن بیٹھے ہو ئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم ؐ تشریف لا ئے اور سر لپیٹا ہؤا تھا.آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کر تے تھے.حضرت ابوبکر ؓ نے فر مایا میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں آپؐ اس وقت کسی بڑے کام کے لیے آئے ہو ں گے.عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو.حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا یارسولؐ اللہ مجھے قسم ہے کہ وہ آپؐ کے رشتہ دار ہیں.آپؐ نے فر مایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہؤا ہے.حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ مجھے بھی ساتھ ہی جا نے کی اجازت دیجئے رسول کریم ؐنے فر ما یا بہت اچھا.اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہےکہ آپ ؐ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہؤا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کو ئی کام نہیں کر نا.کیسا ایمان،کیسا یقین،کیسا پاک تعلق ہے ففدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ.

Page 520

اخلاص بِاللہ.توکّل علی اللہ واقعہ ہجرتواقعہ ہجرت بھی ایک عجیب ہولناک واقعہ ہے.سارا عرب مخالف اور خون کا پیاسا تھا مگر رسول کریمؐ صرف ایک ساتھی لے کر مدینہ کی طرف چل پڑے.راستہ میں تمام وہ قومیں آباد تھیں جو مذہب کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو مارنےکی فکر میں رہتی تھیں اور صرف قریش کے ڈر کے مارے خاموش تھیں لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ جب قریش خود آپ کے قتل کے درپے تھے اور کل قبائل عرب کو تسلی تھی کہ اگر ہم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو قریش کو ناراضگی کی کو ئی وجہ نہ ہوگی.اور صرف یہی نہیں کہ قریش کی مخالفت کا خوف نہ رہا تھا بلکہ قریش نے رسول کریم ﷺ کو مکہ سے غیر حاضر دیکھ کر آپ کے قتل پر انعام مقرر کر دیا تھا اور مدینہ کے راستہ میں جس قدر قبائل آباد تھے انہیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ جو شخص رسول کریم ؐ اور حضرت ابوبکر ؓکو زندہ یا مردہ لے آئے گا اسے سو سو اونٹ فی کس انعام ملے گا.عرب کے قبائل جن کی زندگی ہی لوٹ مار پر بسر ہو تی تھی اور جو آتشِ حسد سے پہلے ہی جل بھُن کر کو ئلہ ہو رہے تھےاس موقع کو کب ہاتھ سے جانے دے سکتے تھے ہر طرف آپؐ کی تلاش شروع ہوئی اور گو یا ہر قدم پر جو آپؐ اُٹھا تے خوف تھا کہ کسی خون کے پیا سے دشمن سے پا لا پڑے گا ایسے موقع پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان بھی دل ہار بیٹھتا ہے اور آخری جدو جہد سے بھی محروم ہو جا تا ہے اور اگر نہایت دلیر اور خلاف معمول کو ئی نہایت قوی دل انسان بھی ہو تو اس پر بھی خوف ایسا مستولی ہو جا تا ہے کہ اس کی ہر ایک حرکت سے اس کا اظہار ہو تا ہے.میں نے بڑے بڑے بہادروں کے واقعات پڑھےہیں لیکن ایسے موقع پر ان کی جو حالت ہو تی ہے اس کا رسول کریمؐ کے واقعہ سے مقابلہ بھی کر نا جائز نہیں ہوسکتا.تاریخ دان جا نتے ہیں کہ بھاگتے ہو ئے نپولین کا کیا حال تھا اور اس کے چہرہ پر حسرت کے کیسے بیّن آثار پا ئے جا تے تھے وہ یہ بھی جا نتے ہیں کہ ہمایوں کس طرح با ربار اپنے آپ کو دشمن کے ہا تھو ںمیں سپرد کر دینے کے لیے تیار ہو جا تا تھا.اور اگر اس کے سا تھ چند نہایت وفادار جرنیل نہ ہو تے تو وہ شاید ایسا کر بھی دیتا.اسی طرح اَور بہت سے بڑے بہادر جرنیل گزرے ہیں جن پر مشکلات کے ایام آئے ہیں اور وہ ایسے اوقات میں جب دشمن ان کے چاروں طرف ان کی جستجو میں پھیل گیا گھبرا گئے ہیں لیکن رسول کریم ؐ ان دنیاوی لو گو ں میں سے نہ

Page 521

تھے آپ کی نظریں دنیاکی طرف نہیں لگی ہوئی تھیں بلکہ آپ کی آنکھ خدا کی طرف اٹھی ہو ئی تھی دنیا کے اسباب آپؐ کے مد نظر نہ تھے اورآپؐ یہ خیال نہ کر تے تھے کہ ایسے وقت میں میں تن تنہا صرف ایک سا تھی کے سا تھ کیا کر سکتا ہوں اور ایسے خطرناک راستہ میں اگر دشمن آجائے تو اس کے مقابلہ کے لیے میرے پا س کیا سامان ہیں بلکہ آپؐ یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے سا تھ وہ خدا ہے جو ہمیشہ سے اپنے نیک بندو ںکا محافظ چلا آیا ہے اور جس کے وار کا کو ئی دشمن مقابلہ نہیں کرسکتا.وہ خدا نوحؑ کا خدا،ابراہیمؑ کا خدا،موسیٰ ؑکا خدا ،یونسؑ کا خدا، ایّوبؑ کا خدا،داؤدؑ کا خدا ،سلیمان ؑ کا خدا،مسیح ؑ کا خدا تھا وہی میرا خدا ہے اس کی طاقتیں کبھی زائل نہیں ہو تیں اور وہ ایک دم کے لیے غافل نہیں ہے سراقہ بن جعشم لا لچ اور دشمنی سے دیوانہ ہو کر آتا ہے اور دور سے دیکھ کر آپ ؐکی طرف گھوڑا دوڑا دیتا ہے اس کے دل میں امید دریا کی طرح لہریں مارتی ہے.وہ نہ صرف اپنے مذہب کی تو ہین کرنے والے کے خون سے اپنے ہا تھ رنگ کر اپنے سوختہ دل کو تسکین دینا چاہتا ہے بلکہ دو سو اونٹ کا انعام جو اسے اپنی قوم میں ایک بہت بڑا رتبہ دینے کے لیے کافی تھے اس کی ہمت کو اور بھی بلند کر دیتا ہے جس طرح شکاری اپنے شکار کو دیکھ کر لپکتا ہے اسی طرح وہ رسول کریمؐ کو دیکھ کر آپ کی طرف لپکتا ہے اور تیر کمان ہا تھ میں لے کر چاہتا ہے کہ آپؐ پروار کرے وہ اکیلا نہیں بلکہ ایک نعرہ مار کر وہ اپنے ارد گرد ہزاروں آدمیوں کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ رسول کریمؐ اس وقت اسی کے علاقہ سے گزررہے ہیں.لیکن آپؐ اس وقت کیا کرتے ہیں کیا بھاگ جا تے ہیں کیا ڈر کر اپنے آپؐ کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں کیا آپؐ کے قدم لڑکھڑانے لگ جا تے ہیں.کیا ان کے حواس بیکار ہو جاتے ہیں.کیا اسے قتل کرکے راہ فرا ر اختیار کرنے کا ارادہ کرتے ہیں.نہیں وہ خدا پر توکّل کرنے والاانسان ان میں سے ایک بات بھی نہیں کر تا اور سراقہ کی اتنی پرواہ بھی نہیں کر تا جتنی ایک بیل کی کی جا تی ہے حضرت ابوبکرؓ باوجود اس جرأت اور بہادری کے باوجود اس ایمان اور یقین کے باوجود اس توکّل اور بھروسہ کے جو آپؓ میں پا یا جاتا تھا مڑ مڑ کر دیکھتے جا تے ہیں کہ سراقہ اب ہمارے کس قدر نزدیک آگیا ہے لیکن رسول کریمؐ اس کی پرواہ بھی نہیں کر تے اور گھبرانا اور دوڑ نا تو الگ خوف وہراس کا اظہار توجد ا آپ ؐنے ایک دفعہ منہ پھیر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا جس نے سراقہ کو ورطۂ حیرت میںڈال دیا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ میں کس انسان کا پیچھا کر رہا ہوں اور وہ مدّت العمراس نظارہ کو اپنے حافظہ سےنہیں مٹا سکا بلکہ اس خلاف معمول واقعہ نے اس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ ہمیشہ اسے بیان کر تا تھا اور کہتا تھا کہ سَمِعْتُ قِرَاءَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ

Page 522

وَسَلَّمَ وَھُوَ لَا یَلْتَفِتُ وَاَبُوْبَکْرٍ یُکْثِرُ الْاِلْتِفَاتَ(بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی ﷺو اصحابہ الی المدینۃ)یعنی میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم ؐ کے اس قدر نزدیک ہو گیا کہ میں رسول کریمؐ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول کریم ؐدائیں با ئیں بالکل نہیں دیکھتے ہاں حضرت ابوبکرؐ بار بار دیکھتے جا تے تھے.اللہ اللہ ! خدا تعالیٰ پر کیسا بھروسہ ہے.دشمن گھوڑا دوڑاتا ہؤااس قدر نزدیک آگیا ہے کہ آپؐ کی آواز اس تک پہنچ سکتی ہے اور آپؐ تیر کی زد میں آگئے ہیں مگر آپؐ ہیں کہ گھبراہٹ کا محسوس کر نا تو الگ رہا قرآن شریف پڑھتے جا تے ہیں ادھر حضرت ابوبکر ؓبا ر بار دیکھتے جا تے ہیں کہ اب دشمن کس قدر نزدیک پہنچ گیا ہے کیا اس بھروسہ اور توکّل کی کو ئی اور نظیر بھی مل سکتی ہے.کیا کو ئی انسان ہے جس نے اس خطرناک وقت میں ایسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا اظہار کیا ہو.اگر آپؐ کو دنیاوی اسباب کے استعمال کا خیال بھی ہو تا تو کم سے کم اتنا ضرور ہو نا چاہیے تھا کہ آپؐ اس وقت یا تو سراقہ پر حملہ کر نے کی کو شش کر تے یا وہاں سے تیز نکل جا نے کی کو شش کر تے لیکن آپؐ نے ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں اختیار کی نہ تو آپؐ تیز قدم ہو ئے اور نہ ہی آپؐ نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح سراقہ کو ماردیں بلکہ نہایت اطمینان کےسا تھ بغیر اظہارخوف وہراس اپنی پہلی رفتار پر قرآن شریف پڑھتے ہو ئے چلے گئے.وہ کون سی چیز تھی جس نے اس وقت آپؐ کے دل کو ایسا مضبوط کردیا.کو ن سی طاقت تھی جس نے آپؐ کے حوصلہ کو ایسا بلند کر دیا.کون سی روح تھی جس نے آپؐ کے اندر اس قسم کی غیر معمولی زندگی پیدا کر دی؟ یہ خدا پر توکّل کے کرشمے تھے اس پر بھروسہ کے نتائج تھے.آپؐ جانتےتھے کہ ظاہری اسباب میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.دنیا کی طاقتیں مجھے ہلاک نہیں کرسکتیں کیونکہ آسمان پر ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے جو ان سب اسباب کا پیدا کرنیوالا ہے پس خالق اسباب کے خلاف اسباب کچھ نہیں کر سکتے یہ توکّل آپؐ کا ضائع نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے پورا کیا اور سراقہ جو دو سو اونٹ کے لالچ میں آیا تھا آپؐ سے معافی مانگ کر واپس چلا گیا اور خدا نے اس کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ اس نے اپنی سلامتی اس میں سمجھی کہ خاموشی سے واپس چلا جا ئے بلکہ اس نے اور تعاقب کرنے والوں کو بھی واپس لو ٹا دیا.غار ِثور کا ایک واقعہجب رسول کریم ﷺ کو حکم ہوا کہ آپؐ بھی مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو جا ئیں تو آپؐ اور حضرت ابوبکر ؓ ایک رات کو مکہ سے نکل کر جبلِ ثور کی طرف چلے گئے.یہ پہاڑ مکہ سے کو ئی چھ سات میل پر واقع ہے.اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک

Page 523

غار ہے جس میں دو تین آدمی اچھی طرح آرام کر سکتے ہیں اور بیٹھ تو اس سے زیا دہ سکتے ہیں.جب کفّار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں ہیں، باوجود پہرہ کے خدا کے فضل سے دشمنوں کے شر سے صحیح و سالم نکل گئے ہیں اور دشمن باوجود کمال ہو شیاری اور احتیاط کے خائب و خاسر ہو گئے تو انہوں نے کو شش کی کہ تعاقب کرکے آپؐ کو گرفتار کر لیں اور اپنے غضب کی آگ آپؐ پر برسائیں اور فوراً اِدھر اُدھر آدمی دوڑائے.کچھ آدمی اپنے ساتھ ایک کھوجی لے کر چلے جس نے آپؐ کے قدموں کے نشانات کو معلوم کرکے جبلِ ثور کی طرف کا رخ کیا.جب ثور پر پہنچے تو اس نے بڑے زور سے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ لوگ اس جگہ سے آگے نہیں گئے بلکہ پہاڑی پر موجود ہیں.کھوجی عام طور سےہوشیار ہو تے ہیں اور گور نمنٹ اور محکمہ پو لیس والے ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھا تے ہیں او ریہ طریق انسان کی دریافت کر نے کا ایک بہت پرانا طریق ہے خصوصاً ان ممالک میں جہاں جرائم کی کثرت ہو اس طریق سے بہت کچھ کام لینا پڑتا ہے اس لیے غیرمہذب ممالک میں اور ایسے ممالک میں کہ جہاں کو ئی باقاعدہ حکومت نہ ہو اس فن کی بڑی قدروقیمت ہو تی ہے اور جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں اس فن کی ترقی بھی ہوجا تی ہے اس لیے عرب اور اس قسم کے دیگر ممالک میں جہاں رسول کریمؐ (فِداہُ ابی و امّی) سے پہلے کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور جرائم کی کثرت تھی یہ پیشہ بڑے زوروںپر تھااور نہایت قابل وثوق سمجھا جاتا تھا.پس کھوجی کا یہ کہہ دینا کہ آپؐ ضرور یہاں تک آئے ہیں ایک بہت بڑا ثبوت تھا اور ایسی حالت میں غار کے اندر بیٹھے ہوؤں کاجو حال ہو نا چاہیے وہ سمجھ میں آسکتا ہے.وہ کیسا وقت ہو گا جب رسول کریمؐ اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں بغیر سلاح وہتھیار کے غارِثور کے اندر بیٹھے ہوں گے اور دشمن سر پر کھڑا با تیں بنا رہا ہو گا.غارِ ثور کو ئی چھوٹی سی غار نہیں جس کا منہ ایسا تنگ ہو کہ جس میں انسان کا گھسنا مشکل سمجھا جا ئے یا جس کے اندر جھانکنا مشکل ہو بلکہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانکنے سے آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کو ئی اندر بیٹھا ہے یا نہیں.پس ایسی حالت میں دنیاوی اسباب کے لحاظ سے مشرکین مکہ کے لیے یہ بات بالکل قرین قیاس بلکہ ضروری تھی کہ وہ کھوجی کے کہنے کے مطابق ذرا آنکھیں جھکا کر دیکھ لیتے کہ آیا رسول کریم ؐ غار میں تو نہیں بیٹھے اور یہ کو ئی ایسا عظیم الشان کام نہ تھا کہ جسے وہ لا پر واہی سے چھوڑ دیتے کہ ایسے ضعیف خیال کی بناء پر اتنی محنت کون برداشت کرے.پس ایسے انسانوں کا جو ایسے خطرہ کی

Page 524

حالت میں بھی اس وقت خوف نہ کر تا لیکن اگر کو ئی ایسا جری انسان ہو بھی جو ایسے وقت میں اپنی جان کی پروا نہ کرےاوربے خوف بیٹھا رہے اور سمجھ لے کہ اگر دشمن نے پکڑ بھی لیا تو کیا ہوا آخر ایک دن مرنا ہے تو بھی یہ امر بالکل فطرت انسانی کے مطابق ہو گا کہ ایسا آدمی جو ایسے مقام پر ہو کم سے کم یہ یقین کر لے کہ یہ لوگ ہمیں دیکھ ضرور لیں گے کیونکہ عین سرے پر پہنچ کر اور ایسی یقینی شہادت کے باوجود غار میں نظر بھی نہ ڈالنا بالکل اسباب کے خلاف ہے.مگر ہمارا رسول ؐ (فداہ ابی وامی )کیا کر تا ہے؟حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیںکُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْغَارِ فَرَفَعْتُ رَأْسِیْ فَاِذَا اَنَا بِاَقْدَامِ الْقَوْمِ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ اَنَّ بَعْضَھُمْ طَاْطَاَ بَصَرَہٗ رَاٰنَا قَالَ اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکْرٍ اِثْنَانِ اَللّٰہُ ثَالِثُھُمَا(بخاری جلد اول کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی صلعم واصحابہ الی ا لمدینۃ)میں رسول کریم ﷺ کے سا تھ غارمیں تھا میں نے اپنا سراٹھا کر نظر کی تو تعاقب کر نے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسول کریمؐ سے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! اگر کو ئی نظر نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپؐ نے جواب میں ارشاد فر ما یا.چپ اے ابی بکر.ہم دو ہیں ہمارے سا تھ تیسرا خدا ہے (پھر وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں).اللہ اللہ کیا توکّل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنا نزدیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپؐ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجود سب اسباب مخالف کے جمع ہوجانے کے آپؐ یہی فر ما تے ہیں کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے خدا تو ہمارے سا تھ ہے پھر وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں؟ کیا کسی ماں نے ایسا بچہ جنا ہے جو اس یقین اور ایمان کو لے کر دنیا میں آیا ہو.یہ جرأت و بہادری کا سوال نہیں بلکہ توکّل کا سوال ہے.خدا پر بھروسہ کا سوال ہے.اگر جرأت ہی ہوتی توآپؐ یہ جواب دیتے کہ خیر پکڑلیں گے تو کیا ہوا ہم موت سے نہیں ڈرتے.مگر آپؐ کو ئی معمولی جرنیل یا میدان جنگ کے بہادر سپا ہی نہ تھے.آپؐ خدا کے رسول تھے اس لیے آپؐ نے نہ صرف خوف کا اظہار نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکرؓ کو بتا یا کہ دیکھنے کا تو سوال ہی نہیں ہے خدا ہمارے سا تھ ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم اپنے گھروں سے نکلے ہیں پھر ان کو طاقت ہی کہاں مل سکتی ہے کہ یہ آنکھ نیچی کر کے ہمیں دیکھیں.یہ وہ توکّل ہے جو ایک جھوٹے انسان میں نہیں ہو سکتا.جو ایک پر فریب دل میں نہیں ٹھہر سکتا.شاید کو ئی مجنون ایسا کر سکے کہ ایسے خطرناک موقع پر بے پروا رہے.لیکن میں پو چھتا ہوں کہ مجنون

Page 525

فقدان حواس کی وجہ سے ایسا کہہ تو لے لیکن وہ کون ہے جو اس کے مجنونانہ خیالات کے مطابق اس کے متعاقبین کی آنکھوںکو اس سے پھیر دے اور متعاقب سر پر پہنچ کر پھر اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں.پس رسول کریم ﷺ کا توکّل ایک رسو لا نہ توکّل تھا اور جسےخدا تعالیٰ نے اسی رنگ میں پو را کر دیا.آپؐ نے خدا تعالیٰ پر یقین کر کے کہا کہ میرا خدا ایسے وقت میں مجھے ضائع نہیں کرے گا اور خدا نے آپؐ کے توکّل کو پورا کیا اور آپؐ کودشمن کے قبضہ میں جا نے سے بچالیا اور اسے اس طرح اندھا کر دیا کہ وہ آپؐ کے قریب پہنچ کر خائب و خاسر لوٹ گیا.یہ وہ توکّل ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.حضرت موسیٰ سے بھی ایک موقع پر اس قسم کے توکّل کی نظیر ملتی ہے لیکن وہ مثال اس سے بہت ہی ادنیٰ ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے فر عونیوں کو دیکھ کر کہا کہ اِنَّا لَمُدْ رَکُوْنَ ہم ضرور گرفتار ہو جا ئیں گے اس پر حضرت موسٰی نے جواب میں کہااِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ (الشعراء:63)لیکن رسول کریمﷺ کا توکّل ایسا کامل تھا کہ اس نے آپؐ کے سا تھی پر بھی اثر ڈالا اور حضرت ابوبکرؓ نے موسائیوں کی طرح گھبرا کر یہ نہیں کہا کہ ہم ضرور پکڑے جا ئیں گے بلکہ یہ کہاکہ اگر وہ نیچی نظر کریں تو دیکھ لیں.اور یہ ایمان اس پر تَو کا نتیجہ تھا جو نور نبوت اس وقت آپؐ کے دل پر ڈال رہا تھا.دوسرے حضرت موسیٰ ؑ کے سا تھ فوج تھی اور ان کے آگے بھا گنے کی جگہ ضرور موجود تھی لیکن رسول کریمؐ کے سا تھ نہ کو ئی جماعت تھی اور نہ آپؐ کے سا منے کو ئی اَور راستہ تھا.اسی طرح اور بھی بہت سے فرق ہیں جو طوالت کی وجہ سے میں اس جگہ بیان نہیں کرتا.آپؐ کی ایک دعارسول کریم ؐکو خدا تعالیٰ پر ایسا توکّل تھاکہ ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اسی پر نظر رکھتے اور اس کے سوا ہر شَے سے توجہ ہٹا لیتے.اس میں کو ئی شک نہیں کہ آپؐ آج کل کے صوفیاء کی طرح اسباب کے تا رک نہ تھے کیونکہ اسباب کا ترک گو یا خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہتک کر نا اور اس کی پیدا ئش کو لغو قرار دینا ہے.لیکن اسباب کے مہیا کر نے کے بعد آپؐ بکلی خدا تعالیٰ پر توکّل کر تے اور گو اسباب مہیا کر تے لیکن ان پر بھروسہ اور توکّل کبھی نہ کرتے تھے او ر صرف خدا ہی کے فضل کے امید وار رہتے.حضرت ابن عباس ؓ فر ما تے ہیں کہ آپؐ ہر ایک گھبراہٹ کے وقت فر ما تے.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السّٰمٰوٰتِ

Page 526

وَرَبُّ الْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم (بخاری جلد 2کتاب الدعوات باب الدعا عند الکرب ) کو ئی معبود نہیں سوائے اللہ کے وہ رب ہے بڑے تخت حکومت کا.اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں.وہ آسمانوں کا رب ہے وہ زمین کا رب ہے.وہ بزرگ تخت کا رب ہے.(یعنی میرا بھروسہ اور توکّل تو اسی پر ہے) اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیااسلام کے عظیم الشان احکام میں سے زکوٰۃ اور صدقہ کے احکام ہیں.ہر مسلمان پر جس کے پاس چالیس سے زائد روپے ہوں اور ان پر سال گزر جا ئے فرض ہے کہ ان میں سے چالیسواں حصہ وہ خدا کی راہ میں دے دے.یہ مال محتا جوں اور غریبوں پر خرچ کیا جاتاہے اور وہ لوگ جو کسی سبب سے اپنی حوائج کو پورا کر نے سے قاصر ہوں اس سے فائدہ اٹھا تے ہیں یا ابناء السبیل کو مدددی جاتی ہے.اس کے محصلوں کی تنخواہ بھی اس میں سے ہی نکلتی ہے غرض کہ محتاجوں کی ضروریات کو پورا کر نے کے لیے شریعت اسلام نے یہ قاعدہ جا ری کیاہے اور اس میں بہت سے ظاہری اور با طنی فوائدمدّ نظر ہیں لیکن اس کا ذکر بے موقع ہے.زکوٰۃ کے علا وہ جو ایک وقت مقررہ پر سر کار کے خزانہ میں داخل ہو کرغرباء میں تقسیم کیے جا نے کا حکم ہے صدقہ کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہر ایک ذی استطاعت کو مناسب ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے غریب بھا ئیوں کی د ستگیری کرے اور حتی الوسع ان کی امداد میں دریغ نہ کرے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اور بعد میں بھی جب تک اسلامی حکومت رہی چونکہ زکوٰۃ باقاعدہ وصول کی جا تی تھی اس لیے ایک کثیر رقم جمع ہو جا تی تھی اور خزانہ شاہی کی ایک بہت بڑی مد تھی اور اگر رسول کریمﷺ چاہتے تو اپنی اولاد کے غرباء کا اس رقم میں سے ایک خاص حصہ مقرر کر سکتے تھے جس کی وجہ سے سادات ہمیشہ غربت سے بچ جا تے اور افلاس کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جا تےلیکن رسول کریم ؐ کے سینہ میں وہ دل تھا جو توکّل علی اللہ سے پر تھا اور آپؐ کی تو جہ غیراللہ کی طرف پھر تی ہی نہ تھی.اس قدر رقم کثیر خزانہ میں آتی تھی اور تھی بھی غرباءکے لیے.کسی کا حق نہ تھی کہ اس کی تقسیم ظلم سمجھی جا تی.ایسی حالت میں اگرآپؐ اپنی اولاد کے لیے بصورت غربت ایک حصہ مقرر کر جا تے تو یہ بات نہ لوگوں کے لیے قابل اعتراض ہو تی اور نہ کسی پر ظلم ہو تا.لیکن وہ با غیرت دل جو آپؐ کے سینہ میں تھا اور وہ متوکل قلب جو آپ رکھتے تھے کب برداشت کر سکتا تھا کہ آپؐ صدقہ و زکوٰۃ پر اپنی اولاد کے لیے صورت گزارہ مقرر کر تے.پھر آپؐ کو تو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ ان کا متکفّل ہو گا او ر خود ان کی مدد کرے گا.آپؐ کے دل میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آسکتا

Page 527

تھا کہ ان کے لیے کسی سامان کے مہیا کر نے کی مجھے ضرورت ہے اس لیے آپؐ نے اپنی اولاد کے لیے اس رقم میں سے کو ئی حصہ ہی مقرر نہ کیا.اللہ اللہ.ہم دیکھتے ہیں کہ جن لو گوں کے ہاتھوں میں حکومت ہو تی ہے وہ کو شش کر تے ہیں کہ کسی طرح اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان کر جائیں لیکن آپؐ نے نہ صرف خود ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنی اولاد کے لیے زکوٰۃ میں سے کوئی حصہ نہ مقرر کیا بلکہ ان کو بھی خدا پر توکل کر نے کا سبق سکھایا اور انہیں حکم دے دیا کہ تمہارے لیے اس مال سے فائدہ اٹھا نا ہی نا جائز ہے.زکوٰۃ کے علاوہ لوگ اپنے پاس سے صدقات دیتے ہیں ممکن تھا کہ سا دات کو وہ اس میں شریک کر لیتے لیکن رسول کریم ﷺ نے اپنی اولاد کو اسی توکل کا سبق دینا چاہا کہ اسے صدقات سے بھی محروم کر دیا اور زکوٰۃ و صدقہ دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ میری اولاد اور اولاد کی اولاد کے لیے زکوٰۃ و صدقہ لینا ناجا ئز ہے.حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہےکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤْتٰی بِا لتَّمَرِعِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَیَجِیْئُ ھٰذَا بِتَمَرِہٖ وَھَذَا مِنْ تَمَرِہٖ حَتّٰی یَصِیْرَ عِنْدَہٗ کَوْمًا مِنْ تَمرٍ فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا یَلْعَبَانِ بِذٰلِکَ التَّمرِ فَاَخَذَا اَحَدُھُمَا تَمْرَۃًفَجَعَلَھَا فِیْ فِیْہِ فَنَظَرَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَخْرَجَھَا مِنْ فِیْہِ فَقَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ لَا یَاْ کُلُوْنَ الصَّدَقَۃَ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ صدقۃ التمر عند صرام النخل) کھجور کے کٹنے کے وقت رسول کریم ﷺ کے پاس کھجور یں لا ئی جاتی تھیں.ہر ایک اپنی اپنی کھجوریں لا تا تھا اور رسول کریم ﷺ کے آگے رکھ دیتا یہاں تک کہ آپؐ کے پاس ایک ڈھیر ہو جا تا.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ان کھجوروں سے کھیلنے لگے اور ان میں سے ایک نے ایک کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی.پس ان کی طرف رسول کریمؐ نے دیکھا اور کھجور ان کے منہ سے نکال دی اور فر ما یا کہ تجھے علم نہیں کہ آل محمدؐ صدقہ نہیں کھا یا کر تے.اللہ اللہ کیسی احتیاط ہے.کیا ہی توکل ہے ایک کھجور بچے نے منہ میں ڈال لی تو اس میںحرج نہ تھا.لیکن آپؐ کا توکل ایسا نہ تھا جیسا کہ عام لوگوں کا ہو تا ہے.آپؐ چاہتے تھے کہ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں وہ ایمان اور توکل پیدا کر دیں کہ بڑے ہو کر وہ کبھی صدقات کی طرف تو جہ نہ کریں اور خدا کی ہی ذات پر بھروسہ رکھیں.

Page 528

رسول کریم ﷺ کی جائیدادنہ صرف یہ کہ رسول کریم ؐنے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا بلکہ خود بھی کو ئی ایسی جائیداد نہیں چھوڑی جس سے آپؐ کے بعد آپؐ کی بیویوں اور اولاد کی پر ورش اور گزارہ کا انتظام ہوسکتا.ممکن تھا کہ یہ خیال کر لیا جا تا کہ گو آپؐ نے اپنی آل کے لیے ہمیشہ کے لیے کو ئی سامان نہیں مہیا کیا لیکن اپنے موجودہ رشتہ داروں کے لیے کو ئی سا مان کر دیا.لیکن یہ بھی نہیں ہوا.اور جس وقت فوت ہو ئے ہیں اس وقت آپؐ کے گھر میں کو ئی روپیہ نہیں تھا.عمروبن حرثؓ فر ما تے ہیںمَاتَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ وَسلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْھَمًا وَلَا دِیْنَارًا وَلَا عَبَدًاوَلَااَمَۃًوَلَاشَیْئًا اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَآء وَسِلَا حَہٗ وَاَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَۃً (بخاری کتاب الوصایا)رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت کچھ نہیں چھوڑانہ کو ئی درہم نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کچھ اور چیز سوائے اپنی سفید خچر اور اپنے ہتھیاروں کے اورایک زمین کے جسے آپؐ صدقہ میں دے چکے تھے.یادرکھنا چاہیے کہ آپؐ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی اور آپؐ چاہتے تو اپنے رشتہ داروں کے لیے سامان کر سکتے تھےاور کم سے کم اس قدر روپیہ چھوڑ جا نا تو آپؐ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ جس سے آپؐ کی بیویوں اور اولاد کا گزارہ ہو سکے.آپؐ کے پا س صرف خزانہ کا رو پیہ ہی نہ رہتا تھا کہ جس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا آپؐ گناہ تصور فرماتے تھےاور اس کا ایک حبّہ بھی آپؐ استعمال نہیں کر تے تھے بلکہ خود آپؐ کی ذات کے لیے بھی آپؐ کے پاس بہت مال آتا تھا اور صحابہ ؓ اس اخلاص اور عشق کے سبب جو انہیں آپ سے تھا بہت سے تحائف پیش کرتے رہتےتھے اور اگر آپؐ اس خیال سے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار کس طرح گزارہ کریں گے ایک رقم جمع کر جا تے تو کر سکتے تھے لیکن آپ ؐکے وسیع دل میں جو خدا تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کا جلوہ گاہ تھا.جو یقین و معرفت کا خزانہ تھا یہ دنیاوی خیال سما بھی نہیں سکتا تھا.جو کچھ آتا آپؐ اسے غرباء میں تقسیم کر دیتے اور اپنے گھر میں کچھ بھی نہ رکھتے حتیٰ کہ آپؐ کی وفات نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا بندہ جو دنیا سے نہیں بلکہ خدا سے تعلق رکھتا تھا دنیاوی آلائشوں سے پا ک اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا گیا.اَللّٰھُمَّ صِلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.رسول کریم ﷺ کی نہایت پیاری بیٹی موجود تھیں اور ان کی آگے اولاد تھی اور اولاد کی اولاد اپنی ہی اولادہو تی ہے مگر آپؐ نے نہ کو ئی مال اپنی بیویوں کے لیے چھوڑا اور نہ اولاد کے لیے.

Page 529

ہاں بعض لوگوں کو خیال ہو تا ہے کہ ہماری بیویاں اور اولاد خود دولت مند ہیں.ہمیں ان کے گزارہ کی کچھ فکر نہیں مگر یہاں یہ معاملہ بھی نہ تھا آپؐ کی بیویوں کی کو ئی ایسی جائیداد الگ موجود نہ تھی کہ جس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں نہ ہی آپؐ کی اولاد آسودہ حال تھی کہ جس سے آپ بے فکر ہوں ان کے پاس کو ئی جائیداد کو ئی روپیہ کو ئی مال نہ تھا کہ جس پر دنیا سے بے فکر ہو جا ئیں ایسی صورت میں اگر آپؐ ان لو گوں کے لیے خود کو ئی اندوختہ چھوڑ جا تے تو کسی شریعت کسی قانون انسا نیت کے خلاف نہ ہوتا اور دنیا میں کسی انسان کا حق نہ ہو تا کہ وہ آپؐ کے اس فعل پر اعتراض کر تا لیکن آپؐ ان جذبات اور خیالات کے ماتحت کا م نہیں کر تے تھے جو ایک معمولی آدمی کے دل میں موجزن ہو تے ہیں.آپؐ کے محسوسات اور محرکات ہی اَور تھے آپؐ نے خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور اس کے فضلوں کی وسعت کو جا نتے تھے.آپؐ کو یقین تھا کہ میں اپنے پیچھے اگر مال چھوڑ کر نہیں جا تا تو کچھ حرج نہیں میری وفات کے بعدمیرے پسماندگان کا ایک نگران ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی، جو کبھی غافل نہیں ہو تا، جو اپنے پیاروں کو ان کی مصیبتوں کے وقت کبھی نہیں چھوڑتا، جو ان کی ہرضرورت کو پورا کر نے کے لیے تیار رہتا اور ضرورتوں کے پیدا ہو نے سے پہلے ان کے پورا کرنے کے سامان کر دیتا ہے خدا تعالیٰ کے وسیع خزانوں کو دیکھتے ہوئےآپؐ اس بات کو ایک سیکنڈ کے لیے پسند نہیں کر سکتے تھے کہ اپنے پسماند گان کے لیے خود کو ئی سامان کر جا ئیںخدا پر آپ کو توکل تھا اور اس پر بھروسہ کر تے تھے اور یہ وہ توکل کا اعلیٰ مقام ہی تھا کہ جس پر قائم ہو نے کی وجہ سے دنیاداروں کے خلاف آپؐ کی تو جہ بجائے دنیاوی ساما نوںکے آسمانی اسباب پر پڑتی تھی.مسیلمہ کا دعویٰجیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیاہوں رسول کریم ؐ کو کسی کام میں بھی دنیا اور اہل دنیا کی طرف تو جہ نہ تھی اور ارضی اسباب کی طرف آپؐ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے بلکہ ہر کا م میں آپ کی نظر خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگی رہتی کہ وہی کچھ کرے گا گو یا کہ توکل کا ایک کامل نمونہ تھے جس کی نظیر نہ پہلے انبیاء میں ملتی ہے نہ آپؐ کے بعد آپؐ کے سے تو کل والا کو ئی انسان پیدا ہوا ہے.مسیلمہ کے نام سے سب مسلمان واقف ہیں اس شخص نے رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں سخت مقابلہ کیا تھا.اگر چہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی یہ شخص نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا تھا مگر مقابلہ اور جنگ حضرت ابوبکر ؓکے لشکر ہی سے ہوا اور ان ہی ا فواجِ قاہرہ نے اس

Page 530

کو شکست دی.مسیلمہ رسول کریم ؐکی زندگی میں ایک لشکر جرار لے کر آپ کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ سے اس بات کی درخواست کی کہ اگر آپؐ اسے اپنے بعد خلیفہ بنا لیں تو وہ اپنی جماعت سمیت آپ کی اتباع اختیار کر لے گا اور اسلام کی حالت چاہتی تھی کہ آپ اس ذریعہ کو اختیار کر لیتے اور اس کی مدد سے فائدہ اٹھا لیتے لیکن جس پاک وجود کو خدا تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ اور توکل تھا اور وہ انسانی منصوبوں کی ذرہ بھر بھی پروا نہ کر سکتا تھا آپ نے اس کی در خواست کو فوراً رد کر دیا.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:قَدِمَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ یَقُوْلُ اِنْ جَعَلَ لِیْ مُحَمَّدٌ اَلْاَمْرَ مِنْ بِعْدِہٖ تَبِعْتُہُ وَقَدِمَھَا فِیْ بَشَرٍکَثِیْرٍ مِنْ قَوْمِہٖ فَاَقْبَلَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہٗ ثَابِتُ ابْنُ قَیْسٍ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِیْ یَدِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِطْعَۃُ جَرِیْدٍ حَتّٰی وَقَفَ عَلیٰ مُسَیْلَمَۃَ فِیْ اَصْحَابِہٖ فَقَالَ لَوْ سَاَلْتَنِیْ ھٰذِہِ الْقِطْعَۃَ مَا اَعْطَیْتُکَھَا وَلَنْ تَعْدُ وَاَمْرَاللّٰہِ فِیْکَ وَلَئِنْ اَدْبَرْتَ لَیَعْقِرنَّکَ اللّٰہُ وَاِنَّیْ لَاَرَاکَ الَّذِیْ اُرِیْتُ فِیْہِ مَا رَاَیْتُ وَھٰذَا ثَا بِتٌ یُجِیْبُکَ عَنِّیْ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَالْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّکَ اَرَی الَّذِیْ اُرِیْتُ فِیْہِ مَا رَاَیْتُ فَاَخْبَرَ نِیْ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَیْنَا اَنَا نَائِمٌ رَاَیْتُ فِیْ یَدِیْ سَوَارَ یْنَ مِنْ ذَھَبٍ فَاَھَمَّنِیْ شَاْنُھُمَا فَاُ وْحِیَ اِلَیَّ فِی الْمَنَا مِ اَنْ اَنْفُخَھُمَا فَنَفَخْتُھُمَا فَطَارَا فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ اَحَدُھُمَا العَنْسِیُّ وَالْاٰ خَرُ مُسَیْلِمَۃُ.(بخاری کتاب المغاذی باب وفدبنی حنیفۃ و حدیث ثما مۃ بن اُثال ) رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ﷺ اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں اور اس وقت وہ اپنے سا تھ اپنی قوم میں سے ایک جماعت کثیر لا یا تھا.رسول کریمؐ یہ بات سن کر اس کی طرف آئے اور ثابت ابن قیس ابن شماس رضی اللہ عنہ آپؐ کے سا تھ تھے اور رسول کریم ؐ کے ہا تھ میں کھجور کی ایک شاخ کا ٹکڑا تھا.آپؐ آئے یہاں تک کہ مسیلمہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھا تھا.آپؐ نے فر ما یا کہ اگر تو مجھ سے یہ شاخ بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں اور جو کچھ خد انے تیرے لیے مقدر کیا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھے گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائےگا تو اللہ تیری کو نچیں کاٹ دے گا او رمیں تو تجھے

Page 531

وہی شخص پا تا ہوں جس کی نسبت مجھے وہ نظارہ دیکھا یا گیا تھا جو میں نے دیکھا اور یہ ثابت ہیں میری طرف سے تجھے جواب دیں گے پھر آپ وہاں سے چلے گئے.حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ رسول اللہ ؐنے کیا فر ما یا ہے کہ میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت وہ نظارہ دکھا یا گیا تھا جو میں نے دیکھا اس پر مجھے حضرت ابو ہریرہؓ نے بتا یا کہ رسول کریمؐ نے فر ما یا تھا کہ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے دونوں ہا تھوں میں دو کڑے ہیں جو سونے کے ہیں ان کا ہو نا مجھے کچھ نا پسند سا معلوم ہوا اس پر مجھے خواب میں وحی نازل ہو ئی کہ میں ان پر پھونکوں جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے.پس میں نے تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہوں گے جو میرے بعد نکلیں گے ایک تو عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ پر کیسا یقین تھا اور آپ خدا تعالیٰ کی مدد پر کیسے مطمئن تھے.آپ کے چاروں طرف کافروں کا زور تھا جو ہر وقت آپ کو دکھ دیتے اور ایذا پہنچانے میں مشغول رہتے تھے اور جن جن ذرائع سے ممکن ہو تا آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے.قیصر و کسریٰ بھی اپنے اپنےحکام کو آپ کے مقابلہ کے لیے احکام پراحکام بھیج رہے تھے بنی غسان لڑنے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے ایرانی اس بڑھتی ہو ئی طاقت کو حسدو حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ہر ایک حکومت اس نئی تحریک پر شک و شبہ کی نگاہیں ڈال رہی تھی.ایسے وقت میںجب تک ایک لشکر جرار آنحضرت ؐکے ارد گرد جمع نہ ہو تا آپ کے لیے اپنے دشمنوں کی زد سے بچنا بظا ہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا.مدینہ منورہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی فتوحات نے آپ کو ہر ایک آس پا س کی حکومت کے مد مقابل کھڑا کر دیا تھا اور دور بیں نگا ہیں ابتداءِ امر میں ہی اس بڑھنے والی طا قت کو تباہ کر دینے کی فکر میں تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ طاقت اگراور زیا دہ بڑھ گئی تو ہمارے بڑے بڑے قصور محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی پھر آنحضرتؐ ان عظیم الشان مظاہروں کے مقابلہ کے لیے جو کچھ تیاری کر تے کم تھی.انسانی عقل ایسی حالت میں جس طرح دوست و دشمن کو اپنے سا تھ ملانا چاہتی ہے اور جن جن تدابیر سے غیروں کو بھی اپنےاندر شامل کر نا چاہتی ہے وہ تا ریخ کے پڑھنے والوں کو آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں.لیکن وہ میرا پیارا زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھا.بڑھتے ہو ئے لشکر اور دوڑتے ہو ئے گھوڑے.اٹھتے ہو ئے نیزے اور چمکتی ہو ئی تلواریں اس کی آنکھوں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھیں وہ ملا ئکہ ٔآسمانی کا نزول دیکھ رہا تھا اور زمین وآسمان کا پیدا کنندہ اس کے کان میں ہر دم تسلی آمیز کلام

Page 532

ڈال رہا تھا.اس کا دل یقین سے پُر اور سینہ ایمان سے معمور تھا.غرضیکہ بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کر نے کے اس کا تو کل خدا پر تھا.پھر بھلا ان مصائب سے وہ کب گھبرا سکتا تھا اس نے مسیلمہ اور اس کے لشکر پر بھروسہ کر نا ایک دم کے لیے بھی مناسب نہ جا نا اور صاف کہہ دیا کہ خلافت کا دھوکہ دے کر تجھے اپنے سا تھ ملانا اور تیری قوم کی اعانت حاصل کر نی تو علیحدہ امر ہے ایک کھجور کی شاخ کے بدلہ میں بھی اگر تیری حمایت حاصل کر نی پڑے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں.اس غیور دل کی حالت پر غور کرو.اس متوکل انسان کی شا ن پر نظر ڈالو.اس یقین سے پر دل کیفیت کا احساس اپنے دلوں کے اندر پیدا کرکے دیکھو کہ کس یقین اور تو کل کے ماتحت وہ مسیلمہ کو جواب دیتا ہے.کیا کو ئی بادشاہ ایسے اوقات میں اس جرأت او ر دلیری کو کام میں لا سکتا ہے ؟ کیا تاریخ کسی گوشت اور پو ست سے بنے ہو ئے انسان کو ایسے مواقع میں سے اس سلامتی سے نکلتا ہوا دکھا سکتی ہے ؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپؐ کی زندگی سے مقابلہ کر نا ہی غلط ہے کیونکہ آپ نبی تھے.اگر آپؐ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے تو انبیاءؑ سے مگر جو شان آپؐ کو حاصل ہے اس کی نظیر انبیاء میں بھی نہیں مل سکتی کیونکہ آپ ؐکو سب انبیاء پر فضیلت ہے.اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کو جواب دیتے وقت رسول کریم ﷺ کے یہ مد نظر نہ تھا کہ آپ حکومت کے حق کو اپنی اولاد کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو آپ کا انکارتو کل علی اللہ کے با عث نہیں بلکہ اپنی اولاد کی محبت کی وجہ سے قرار دیا جاتا لیکن رسول کریمؐ نے اپنی اولاد کو اپنے بعد اپنا جانشین نہیں بنا یا بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف اشارہ فر ما یا جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کا انکار کسی دنیاوی غرض کے لیے نہ تھا بلکہ ایک بے پایاں یقین کا نتیجہ تھا.اسی طرح یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کذاب کی مدد حاصل کر نا بظاہر مذہبی لحاظ سے بھی مضر نہ تھا کیونکہ اگر وہ یہ شرط پیش کرتا کہ میں آپؐ کی اتباع اس شرط پر کر تا ہوں کہ آپؐ فلاں فلاں دینی با توں میں میری مان لیں تو بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ اپنی با ت کی پچ کی وجہ سے آپؐ نے اس کے مطالبہ کا انکار کر دیا لیکن اس نے کو ئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ مذہب میں تبدیلی چاہتا تھا.پس آپؐ کا انکار صرف اس تو کل اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ پر تھا.ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپؐ اگر چاہتے تو اس وقت مسیلمہ کو پکڑا کر مروا دیتے کیونکہ گو وہ ایک کثیر جماعت کے سا تھ آیا تھا مگر پھر بھی مدینہ میں تھا اور آپؐ کے ہا تھ کے نیچے

Page 533

لیکن اس معاملہ میں بھی آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کہ وہ خود اس موزی کو ہلاک کرے گا.اللهم صل على محممد وعلى محمد وبارك و سلم إنك حميد مجيد اخلاص باللہ – یادالٰہی خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آ جاتارسول کریم کی عادت تھی کہ بہت آرام اورخدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آجا تا ہی سے کام کرتے تھے اور آپ کے کلام میں جوش نہ ہو تا تھا بلکہ بہت سہولت ہوتی تھی لیکن آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر آنا آپ کو جوش آجا تا تھا اور آپ کی عبارت میں ایک خاص شان پیدا ہو جاتی تھی.چنانچہ احادیث کے پر دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے آتے ہی آپ کو جوش آجا تا تھا اورآپ کے لفظ لفظ سے معلوم ہو تا تھا کہ عشق ائی کادر یا آپ کے اندر لہریں مار رہا ہے آپ کے کلام کو پڑھ کر محبت کی ای لپٹیں آتیں کہ پڑھنے والے کادماغ معطر ہو جا تا.اللہ اللہ آپ صحابہ میں بیٹھ کر کسی پیار سے باتیں کرتے ہیں ان کی دلجوئی کرتے ہیں انکی شکایات کو سنتے ہیں.پھر سایہ ہی کا کیاوار ہے کافر و مؤمن آپ کی بھر روئی سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہر ایک تکلیف میں آپ مہربان باپ اور محبت کرنے والی ماں سے زیادہ تر رو و مهربان ثابت ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے معالمه میں جہاں اس کا اور غیر کا مقابلہ ہو جائے آپ بے التیار ہو جاتے ہیں محبت ایاجوش مارتی ہے کہ رنگ کی اور ہو جا تا ہے.بسنے والے کا دل ایک ایی وابستگی پا تا ہے کہ آپ ہی کا مر یک ہو جاتاہے.خدا تعالیٰ کی و و عظمت بیان کرتے ہیں کہ دل بے التیار اس پر قربان ہو نا چاہتاہے روایت بیان کرتے ہیں کہ بدن کانپ اٹھتا ہے وہ جلال بیان کرتے ہیں کہ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ایساخوف دلاتے ہیں کہ مومن انسان کا دل تو خوف کے مارے پھل ہی جاتا ہے پرائی شفقت ومحبت کا بیان کرتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے دل جڑ جاتے ہیں اور گری ہوئی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں.اللہ اللہ آپ کے عام کلام کا مقابلہ اگر اس کلام سے کریں کہ جس میں بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق معلوم دیتا ہے گویا خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ کا رو آں رو آں اس کی طرف جھک جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کے احسانات کو یاد کرنے لگتا ہے اور زبان ان کی ترجمان ہوتی ہے.نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم سے سنا کہ

Page 534

فرماتے تھےاَلْحَلاَلُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشَبھاتٌ لَا یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتّقَی الشُّبْھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِہٖ وَدِیْنِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبْھَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْ شِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلَکٍ حِمًی اَلَاوَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ اَلَاوَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ وَاِذَ افَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبْ(بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہ) حلال بھی بیان ہو چکا ہےاور حرام بھی بیان ہو چکا اور ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ مشابہ ہیں انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو کوئی شبہات سے بچے اس نے اپنی عزت اور دین کوبچا لیا اور جو کو ئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی رکھ کے ارد گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے.قریب ہے کہ اپنے جانوروں کو اندر ڈال دے.خبردار ہر ایک بادشاہ کی ایک رکھ ہو تی ہے خبردار اللہ کی رکھ اس کی زمین میں اس کے محارم ہیں.خبردار جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جا ئے تو سب جسم درست ہو جا تاہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سب جسم خراب ہو جا تا ہے.خبردار اور وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے.اس عبارت کو پڑھ کر معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک دریا امڈ رہا تھا.آپؐ دیکھتے تھے کہ ایک دنیا اس پاک ہستی کے احکام کو توڑ رہی ہے اور اس کے احکام پر عمل کر نے سے محترز ہے لوگ اپنے نفوس کے احکام کو مانتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے ارشادات کی تعمیل نہیں کر تے.پھر آپؐ کو خدا تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کے رو سے آپؐ کب برداشت کر سکتے تھے کہ لوگ اس پیارے رب کو چھوڑ دیں.ان خیالات نے آپؐ پر یہ اثر کیا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی عظمت کا ذکر کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ دنیاوی بادشاہوں کی اطاعت کے بغیر انسان سکھ نہیں پا سکتا تو پھر اس قادر مطلق کی نافر مانی پر کب سکھ پا سکتا ہے جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں جب مذکورہ بالا حدیث کو پڑھتا ہوں تو حیران ہو تا ہوں کہ آپؐ کس جوش کے ساتھ خدا کو یاد کرتے ہیں بناوٹ سے یہ کلام نہیں نکل سکتا اس خالص محبت کا ہی نتیجہ تھا جو آپؐ خدا سے رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپؐ کو اس قدر جوش آجاتا اور آپؐ چاہتے کہ کسی طرح لوگ ان نافرمانیوں کو چھوڑ دیں او رخدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگ جائیں.اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو حیرت تھی کہ لوگ کیوں اس طرح دلیری سے ایسے کام کر لیتے ہیں جن

Page 535

سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو.جس کام میں کسی حاکم کی ناراضگی کاخیال ہو.لوگ اس کے کرنے سے بچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کو ئی خوف نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی نافرمانی سے کچھ نقصان نہ ہو گا لیکن رسول کریم ؐ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی اصل ناراضگی ہے اور انسان کو چاہیے کہ نہ صرف گناہوں سے بچے بلکہ ان کاموں سے بھی بچے کہ جن کے کرنے میں شک ہو کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان کاموں کے کرنے پر ہلاک ہو جا ئے اور وہ اسے خدا تعالیٰ کے رحم کے استحقاق سے محروم کردیں.خدا تعالیٰ کے نام پر یہ جوش اور اس قدر اظہار خوف و محبت ظاہر کر تا ہے کہ آپؐ کے دل میں محبت الٰہی اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ ہر ایک انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس کا اندازہ بھی کر سکے.ذکرِ الٰہی کی تڑپپچھلی مثال سے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ یاد الٰہی کے وقت آپؐ کو کس قدر جوش آتا اور کس قدر محبت سے مجبور ہو کر آپؐ کے کلام میں خاص شان پیدا ہو جا تی تھی.اب میں ایک اور واقعہ بتاتا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی یاد کا نہایت ہی شوق تھا اور آپؐ عبادات کے بجالانے میں کَمَا حَقُّہٗ مشغول رہتے تھے.حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہو ئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادرنہ تھے اس لیے آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپؐ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لیے نکلے.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ فَوَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نّفْسِہٖ خِفَّۃً فَخَرَجَ یُھَادٰی بَیْنَ رَجُلَیْنِ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ رِجْلَیْہِ تَخُظَّانِ الْاَرْضَ مِنَ الوَجْعِ فَاَرَادَاَبُوْبَکْرٍ اَنْ یَّتَاخَّرَ فَاَوْ مَاَ اِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ مَکَانَکَ ثُّمَّ اُتِیَ بِہٖ حَتّٰی جَلَسَ اِلیٰ جَنْبِہٖ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ وَ اَبُوْبَکْرٍ یُصَلِّیْ بِصَلَاتِہٖ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاۃِ اَبِیْ بَکَرٍ (بخاری کتاب الآذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ) کہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی پس آپؐ نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپؐ کے قدم زمین سے چھوتے جا تے تھے.آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں.اس ارادہ کو معلوم کرکے رسول کریم ﷺ نے

Page 536

ابوبکر ؓ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو.پھر آپ ؐکو وہاں لا یا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور با قی لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی نماز کی اتباع کرنے لگے.اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کیسی ہی خطرناک بیماری ہو خدا تعالیٰ کی یاد کو نہ بھلاتے.عام طور پر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ذرا تکلیف ہو ئی اور سب عبادتیں بھول گئیں اور نماز باجماعت اور دوسرےشرائط کی ادائیگی میں تو اکثر کو تا ہی ہو جا تی ہے لیکن آپ کا یہ حال تھا کہ معمولی بیماری تو الگ رہی اس مرض میں کہ جس میں آپؐ فوت ہو گئے اور جس کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپؐ کو بار بار غش آجاتے تھے اٹھنے سے قاصر تھے لیکن جب نماز شروع ہو گئی تو آپؐ برداشت نہ کر سکے کہ خاموش بیٹھ رہیں اسی وقت دو آدمیوں کے کاندھے پر سہارا لے کر با وجود اس کمزوری کےکہ قدم لڑ کھڑاتے جاتے تھے نماز باجماعت کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے.بے شک ظاہر اً یہ بات معمولی معلوم ہو تی ہے لیکن ذرا رسول کریم ؐ کی اس حالت کو دیکھو جس میں آپؐ مبتلا تھے پھر اس ذکر الٰہی کے شوق کو دیکھو کہ جس کے ماتحت آپؐ نماز کے لیے دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہا تھ رکھ کر تشریف لائے تو معلوم ہو گا کہ یہ واقعہ کو ئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ آپؐ کے دل میں ذکر الٰہی کا جوش تھا اس کے اظہار کا ایک آئینہ تھا.ہر ایک صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ ذکر الٰہی آپؐ کی غذا تھی اور اس کے بغیر آپ ؐ اپنی زندگی میں کو ئی لطف نہ پا تے تھے.اسی کی طرف آپؐ نے اشارہ فرمایا ہےکہ جن چیزوں سے مجھے محبت ہے ان میں سے ایک قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی نماز میں میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں.شریعت کے لحاظ سے آپؐ کا باجماعت نماز پڑھنا یا مسجد میں آنا کو ئی ضروری امر نہ تھا کیونکہ بیماری میں شریعت اسلام کسی کو ان شرائط کے پورا کرنے پر مجبور نہیں کر تی لیکن یہ عشق کی شریعت تھی یہ محبت کے احکام تھے بے شک شریعت آپؐ کو اجازت دیتی تھی کہ آپ گھر میں ہی نماز ادا فرماتے لیکن آپؐ کو ذکر الٰہی سے جو محبت تھی وہ مجبور کرتی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو آپؐ ہر ایک تکلیف برادشت کرکے تمام شرائط کے سا تھ ذکر الٰہی کریں اور اپنے پیارے کو یاد کریں اس تکلیف کی حالت میں آپؐ کو ذکر الٰہی سے یہ وابستگی تھی تو صحت کی حالت میں قیا س کیا جا سکتا ہے.میں پیچھے لکھ چکا ہوں کہ رسول کریم ؐکو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق تھا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپؐ کے اندر ایک جوش پیدا ہو جا تا اور یہ کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے ایسی محبت تھی کہ تندرستی

Page 537

اور بیماری میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہی آپ ؐ کی غذا تھا.اب میں ایک اور واقعہ یہاں درج کر تا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ آپؐ جہاں تک ہو سکتا لوگوں میں خدا تعالیٰ کے ذکر کی عادت پیدا کرتے.حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ذَھَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی بَنِیْ عَمْرِوبْنِ عَوْفٍ لِیُصْلِحَ بَیْنَھُمْ فَحَانَتِ الصَّلٰوۃُ فَجَاءَ الَمُؤَذِّنُ اِلیٰ اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَ اَتُصَلِّیْ لِلنَّاسِ فَاُقِیْمُ قَالَ نَعَمْ فَصَلَّی اَبُوْبَکْرٍ فَجَاءَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِی الصَّلٰوۃِ فَتَخَلَّصَ حَتّٰی وَقَفَ فِیْ الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ وَکَانَ اَبُوبَکْرٍ لَا یَلْتَفِتُ فِیْ صَلٰوتِہٖ فَلَمَّا اکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِیْقَ اِلْتَفَتَ فَرَاٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَشَارَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنِ امْکُثْ مَکَا نَکَ فَرَفَعَ اَبُوْبَکْرٍ یَدَیْہِ فَحَمِدَ اللّٰہَ عَلَیْہِ مَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ اَبُوْبَکْرٍحَتّٰی اسْتَوٰی فِی الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ یَا اَبَا بَکْرٍ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَثْبُتَ اِذْ اَمَرْتُکَ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ مَاکَانَ لِابْنِ اَبِیْ قَحَا فَۃَ اَنْ یُّصَلِّیَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالِیَ رَئَیْتُکُمْ اَکْثَرْ تُمُ التَّصْفِیْقَ مَنْ رَابَہٗ شَیْئٌ فِی صَلٰوتِہٖ فَلْیُسَبِّحْ فَاِنَّہٗ اِذَاسَبَّحَ اُلتُفِتَ اِلَیْہِ وَاِنَّمَا التَّصْفِیْقُ لِلنِّسَآءِ (بخاری کتاب الآذان باب من دخل لیئوم الناس)رسول کریم ﷺ بنی عمر وبن عوف میں گئے تاکہ ان میں صلح کروائیں پس نماز کا وقت آگیا اور مؤذّن حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ کیا آپؐ لوگوں کو نماز پڑھوائیں گے.میں اقامت کہوں آپ نے جواب دیا کہ ہاں پھر حضرت ابوبکر ؓ نماز کے لیے کھڑے ہو ئے اتنے میں رسول کریم ؐ تشریف لے آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے.آپؐ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور پہلی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے جب آپؐ کی آمد کی اطلاع ہو ئی تو لوگ تا لیاں پیٹنے لگے(تاحضرت ابوبکرؓ کو معلوم ہو جا ئے)لیکن حضرت ابوبکرؓ نماز میں دوسری طرف کچھ تو جہ نہ فرماتے جب تا لیاں پیٹنا طول پکڑ گیا تو آپؓ متوجہ ہو ئے اور معلوم کیا کہ رسول کریمؐ تشریف لا ئے ہیں رسول کریم ﷺ نے آپ ؓکی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو اس پر حضرت ابوبکر ؓنے اپنے ہاتھ اٹھا ئے اور اس عزت افزائی پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور حمد کی پھر آپؓ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں مل گئے اور رسول کریم ﷺ آگے بڑھےاور نماز پڑھا ئی.سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ اے ابوبکر ؓ جب میں نے حکم دیا تھا تو پھر آپؓ کو کونسی چیز مانع ہو ئی کہ نماز پڑھاتے رہتے.حضرت ابوبکرؓنے

Page 538

جواب دیا کہ ابن ابی قحافہ کی کیا حیثیت تھی کہ رسول کریم ؐ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا(ابو قحافہ حضرت ابوبکر ؓ کے والد تھے)پھر آپؐ نے (لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر)فرمایا کہ کیا وجہ ہےکہ میں نے دیکھا کہ تم لوگوں نے اس قدر تالیاں پیٹیں.جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے اسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو خود ہی اس کی طرف توجہ ہو گی اور تالیاں پیٹنا تو عورتوں کا کام ہے.اس حدیث سے اگر چہ اور بہت سے سبق ملتے ہیں لیکن اس جگہ مجھے صرف ایک ا مر کی طرف متوجہ کر نا ہے او روہ یہ کہ آنحضرت ؐ کی تمام عمر کی کو شش یہی تھی کہ جس جس طرح سے ہوسکے لوگوں کی زبان پر خدا کا نام جاری کیا جائے.خود تو جس طرح آپ ؐ ذکر میں مشغول رہتے اس کا حال میں بیان کر چکا ہوں مگر اس حدیث سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ ہر ایک کی زبان پر یہی لفظ دیکھنا چاہتے تھے.آپؐ کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے اگر صحابہ ؓ نے تا لیاں بجا ئیں تو یہ ان کا ایک رواج تھا اور ہر ایک ملک میں اطلاع عام کے لیے یا متوجہ کر نے کے لیے لوگ تا لیاں بجاتے ہیں آج کل بھی جلسوں میں ایسا ہی ہو تا ہے کہ جب کسی لیکچرار کی کو ئی بات پسند آئے تو اس پر تا لیاں پیٹتے ہیں تا کہ لوگوں کو تو جہ پیدا ہو کہ یہ حصۂ لیکچر خاص توجہ کے قابل ہے پس تا لیاں بجانا اس کام کے لیے رائج ہے لیکن رسول کریمؐ کی یاد الٰہی سے محبت دیکھو کہ آپؐ نے دیکھا کہ بعض دفعہ ضرورت تو ہو تی ہے کہ لوگوں کو کسی کام کی طرف متوجہ کیا جائے پھر کیوں نہ اس ضرورت کے موقع پر بجائے اس بے معنی حرکت کے لوگوں کو اس طرف لگا دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات او ر جوشوں کے اظہار کے لیے بجائے تالیاں بجانے کے سبحان اللہ کہہ دیا کریں.کم سے کم ایسے موقع پر ہی خدا کا ذکر ان کی زبان پر جاری ہو گا.یہ وہ حکمت و فلسفہ ہے جسے دنیا کےکسی رہنما اور ہادی نے نہیں سمجھا اور کو ئی مذہب نہیں جو اس حکم کی نظیر پیش کر سکے کہ اس نے بھی بجا ئے لغو یات کے لوگوں کو ایسی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہو کہ جو ان کے لیے مفید ہو سکے تالیاں بجانا بے شک جذبات انسانی کا ترجمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ ایسا ہی ترجمان ہے کہ جیسے ایک گونگے کے خیالات کا ترجمہ اس کے اشارات ہو جا تے ہیں کیونکہ تالیاں بجانے سے صرف اسی قدر معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں کو ئی جوش ہے اور یہ اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کر نا چاہتا ہے یا یہ کہ کسی کو غلطی پر دیکھ کر اسے اس کی غلطی پر متنبہ کر نا چاہتا

Page 539

ہے لیکن اس سے زیا دہ اور کو ئی نتیجہ نہیں نکلتا لیکن رسول کریمﷺ صرف اسی پر اکتفا نہ کر سکتے تھے آپؐ ایک طرف توکُل لغویات کو مٹانا چاہتے تھے دوسری طرف آپؐ کےدل میں یہ جوش موجزن رہتا کہ خدا تعالیٰ کے نام کی کثرت ہو اور ہر ایک مجلس او ر مقام میں اسی کا ذکر کیا جائے اس لیے آپ نے بجائے ان بے معنی اشارات کے جن سے گواشارۃً حصول مطلب ہو جا تا تھا ایسے الفاظ مقرر کیے کہ جن سے نہ صرف حصول مطلب ہو تا ہے بلکہ انسان کی رو حانیت میں ازدیاد کا باعث ہے اور عین موقع کے مناسب ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کا ذکر بھی ہو جا تا ہے.یادرکھنا چاہیے کہ انسان جب کبھی کسی شَے کی طرف تو جہ کر تا ہے اسے نا پسند کر نے کی وجہ سے یا پسند یدگی کے باعث.تو ان دونوں صورتوں میں سبحان اللہ کے کلمہ کا استعمال نہایت باموقع اور با محل ہے.اگر کسی انسان کے کسی فعل کو نا پسند کر تا ہے تو سبحا ن اللہ اس لیے کہتا ہے کہ آپ سے کو ئی سہو ہواہے.سہو سے تو صرف خدا کی ہی ذات پاک ہے ورنہ ہر ایک انسان سے سہو ممکن ہے.اس مفہوم کو سمجھ کر آدمی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جا تا ہے اسی طرح اگر کو ئی شخص کو ئی عمدہ کام کرے تو اس میں بھی سبحان اللہ کہا جاتا ہے جس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام نقصوں سے پاک ہے اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اسے بھی پاک ہی پیدا کیا ہے یہ کام جو کسی سے سر زد ہواہے یا یہ قول جوکسی کی زبان پرجاری ہواہے اپنی خوبی اور حسن میں خد اتعالیٰ کی پا کیزگی اور طہارت یاد دلاتا ہے جو تمام خوبیوں کا پیدا کرنے و الا ہے.غرض کہ سبحان اللہ کا کلمہ اس ضرورت کو پورا کر تا ہے جس کے لیے تو جہ دلا ئی جا تی ہے اور افسوس اور خوشی دونوں کا اظہار اس سے ایسی عمدگی سے ہو تا ہے جو اور کسی کلمہ سے نہیں ہو سکتا.پس اس کلمہ کے مقابلہ میں تا لیاں بجانا اور سیٹیاں مارنا بالکل لغو اور بے فائدہے اور ان لغو حرکات کے مقابلہ پر ایسا پاک کلمہ رکھ دینا رسول کریم ؐ کی ہی پاک طبیعت کا کام تھا ورنہ ہزاروں سال سے اس لغو حرکت کو روکنےکی کسی اور کے دل میں تحریک نہیں ہو ئی ہاں صرف رسول کریم ؐ ہی ہیں جو اس نکتہ تک پہنچے اور آپ نے ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینے کی تعلیم دے کر ثابت کر دیا ہے کہ آپ ؐ ہر ایک موقع پر خدا تعالیٰ کا ذکر کر نا پسند فرماتے اور اسی کا ذکر آپؐ کے لیے غذا تھا.اس واقعہ کے علاوہ بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر زیادہ کیا جائے چنانچہ چھینک پر،کھانا شروع کرتے وقت،پھر ختم ہونے کے بعد،سوتے وقت ،جاگتے وقت،نمازوں کے بعد،کو ئی بڑا کام کر تے وقت، وضو کرتے وقت غرضیکہ اکثر

Page 540

اعمال میں آپ نے خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ آپ نہ صرف خود ہی ذکر الہٰی میں زیادہ مشغول رہتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی یاد الہٰی میں مشغول رہیں جو کہ آپؐ کے کمال محبت پر دال ہے.میں نے بہت آدمی دیکھے ہیں کہ ذرا عبادت کی اور مغرور ہو گئے چند دن کی نمازوں یا عبادتوں کے بعد وہ اپنے آپ کو فرعون بے سامان یا فخرِاولیاء سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا ومافیھاان کی نظروں میں حقیر ہو جا تی ہے بڑے سےبڑے آدمی کی حقیقت کچھ نہیں جانتے بلکہ انسان کا تو کیا کہنا ہے خدا تعالیٰ پر بھی اپنا احسان جتاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں گو یا خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہےاور وہ ہمارا ممنون ہے کہ ہم نےاس کی عبادت کی ورنہ اگر عبادت نہ کر تے تو وہ کیا کر لیتا جو لوگ اس طرز کے نہیں ہو تے ان میں سے بھی اکثر ایسے دیکھے گئے ہیں کہ عبادت کرکے کچھ تکبر ضرور آجاتا ہے اور بہت ہی کم ہیں کہ جو عبادت کےبعدبھی اپنی حالت پر قائم رہیں او ریہی نیکوں کا گروہ ہے پھر سمجھ سکتے ہو کہ نیکوں کے سردار اور نبیوں کے سر بر آور دہ حضرت رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہو گا.آپؐ تو کُل خوبیوں کے جامع اور کل نیکیوں کے سر چشمہ تھے عبادت کسی تکبر یا بڑا ئی کے لیے کر نا تو الگ رہا جس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی بجالاتے اتنی ہی ان کی آتش شوق تیز ہوتی اور آپؐ بجائے عبادت پر خدا تعالیٰ کو اپنا ممنون احسان بنانے کے خود شرمندہ احسان ہو تے کہ الہٰی اس قدر توفیق جو عبادت کی ملتی ہے تو تیرے ہی فضل سے ملتی ہے.آپؐ کی عبادت ایک تسلسل کا رنگ رکھتی ہے کچھ حصہ وقت جب عبادت میں گذارتے تو خیال کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس کام کی تو فیق دی اس احسان کا شکر بجالانا ضروری ہے اس جذبہ ادائیگی شکر سے بے اختیارہو کر کچھ اور عبادت کر تے اور پھر اسے بھی خدا تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے کہ شکر بجالانا بھی ہر ایک کا کام نہیں جب تک خدا تعالیٰ کا احسان نہ ہو.پھراوربھی زیا دہ شوق کی جلوہ نما ئی ہو تی او رپھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا تے او ریہ راز ونیاز کا سلسلہ ایسا وسیع ہو تا کہ بارہا عبادت کر تے کرتے آپؐ کے پاؤں سوج جا تے صحابہؓ عرض کر تے یا رسول اللہ اس قدر عبادت کی آپؐ کو کیا حاجت ہے آپؐ کے تو گناہ معاف ہو چکے ہیں اس کا جواب آپؐ یہی دیتے کہ پھر کیا میں شکر نہ کروں.حضرت مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں اِنْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَقُوْمُ لِیُصَلِّی

Page 541

حتّٰی تَرِمَ قَدَمَاہُ اَوْسَاقَاہُ فَیُقَالُ لَہٗ فَیَقُوْلُ اَفَلَااکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا (بخاری کتاب الجمعہ باب قیام النبیﷺ اللیل)رسول کریمؐ نماز کے لیے کھڑے ہوا کرتے تھے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپؐ کے قدم (یا کہا)پنڈلیاں سوج جا تیں.لوگ آپؐ سے جب کہتے (کہ آپ ایسا کیوں کر تے ہیں) تو آپ جواب دیتے کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اللہ اللہ! کیا عشق ہے کیا محبت کیا پیار ہے خدا تعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہو تے ہیں اور اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا خون کا دوران نیچے کی طرف ہو جاتا ہے اور آپ کے پاؤں متورم ہو جا تے ہیں لیکن محبت اس طرف خیال ہی نہیں جا نے دیتی آس پاس کے لوگ دیکھ کر حیران ہو جا تے ہیں کہ یہ کرتے کیا ہیں اور آپؐ کے درد سے تکلیف محسوس کرکے آپ کو اس طرف متوجہ کر تے ہیں کہ آپ یہ کیا کر تے ہیں اور کیوں اپنے آپ کو اس تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس قدر دکھ اٹھا تے ہیں آخر کچھ تو اپنی صحت اور اپنے آرام کا بھی خیال کر نا چاہیے مگر وہ دکھ جو لوگوں کو بے چین کر دیتا ہے اور جس سے دیکھنے والے متاثر ہو جا تے ہیں.آپ پر کچھ اثر نہیں کر تا اور عبادات میں کچھ سستی کر نے اور آئندہ اس قدر لمبا عرصہ اپنے رب کی یاد میں کھڑے رہنا ترک کرنے کی بجائے آپؐ ان کی اس بات کو ناپسند کر تے ہیں اور انہیں جواب دیتے ہیں کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں وہ مجھ پر اس قدر احسان کر تا ہے اس قدر فضل کر تا ہے اس شفقت کے سا تھ مجھ سے پیش آتا ہے پھر کیااس کے اس حسن سلوک کے بدلہ میں اس کے نام کا ورد نہ کروں؟ اس کی بند گی میں کو تا ہی شروع کر دوں؟ کیا اخلاص سے بھرا اور کیسی شکر گزاری ظاہر کر نے والا یہ جواب ہے اور کس طرح آپؐ کے قلب مطہر کے جذبات کو کھول کر پیش کر دیتا ہے خدا کی یاد اور اس کے ذکر کی یہ تڑپ اور کسی کے دل میں ہے.کیا کو ئی اور اس کا نمونہ پیش کر سکتا ہے.کیا کسی اور قوم کا بزرگ آپ کے اس اخلاص کا مقابلہ کر سکتا ہے؟میں اس مضمون کے پڑھنے والے کو اس طرف بھی متوجہ کر نا چاہتا ہوں کہ اس عبادت کے مقابلہ میںاس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ آپؐ کس طرح کا موں میں مشغول رہتے تھے اور یہی نہیںکہ رات کے وقت عبادت کے لیے اٹھ کر کھڑے ہو جا تے اور دن بھر سو ئے رہتے کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو پھراس شوق اور تڑپ کا پتہ نہ لگتا جو اس صورت میں ہے کہ دن بھر بھی آپؐ خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت اور اطاعت و فرمانبرداری کا رواج دینے کی کو شش میں لگے رہتے تھے.خود پانچ اوقات میں امام ہو کر نماز پڑھاتے تھے دور دور کے جو وفود اور سفراء آتے

Page 542

تھے ان کے سا تھ خود ہی ملاقات کرتے اور ان کے مطالبات کا جواب دیتے.جنگوں کی کمان بھی خود ہی کرتے.صحابہؓ کو قرآن شریف کی تعلیم بھی دیتے.جج بھی خود تھے تمام دن جس قدر جھگڑے لوگوں میں ہو تے ان کا فیصلہ کرتے.عمّال کا انتظام ، بیت المال کا انتظام،ملک کا انتظام،دین اسلام کا اجرا او رپھرجنگوں میں فوج کی کمان، بیویوں کے حقوق کا ایفا.پھر گھر کے کام کاج میں شریک ہو نا یہ سب کام آپ دن کے وقت کر تے اور ان کے بجالانے کے بعد بجائے اس کے کہ چُور ہو کر بستر پر جا پڑیں اور سورج کے نکلنے تک اس سے سر نہ اٹھائیں بار بار اٹھ کر بیٹھ جا تے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تحمید کر تے اور نصف رات کے گزرنے پر اٹھ کر وضو کرتے اور تن تنہا جب چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہواہو تا اپنے رب کے حضور میں نہایت عجزو نیاز سے کھڑے ہو جاتے اور تلاوت قرآن شریف کرتے اور اتنی اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جا تے حتّٰی کہ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ میں بھی آپ کےساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو اس قدر تکلیف ہو ئی کہ قریب تھا کہ میں نماز توڑ کر بھاگ جا تا کیونکہ میرے قدم اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھےاو رمیری طاقت سے باہر تھا کہ زیادہ کھڑا رہ سکوں.یہ بیان اس شخص کا ہے جو نوجوان اور رسول کریمﷺ سے عمر میں کہیں کم تھا جس سے سمجھ میںآسکتا ہے کہ آپؐ کی ہمت اور جذبہ محبت ایسا تیز تھا کہ باوجود پیری کے اور دن بھر کام میں مشغول رہنے کے آپؐ عبادت میں اتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ جو ان اور پھر مضبوط جوان جن کے کام آپ کے کاموں کے مقابلہ میں پاسنگ بھی نہ تھے آپ کے سا تھ کھڑے نہ رہ سکے اور تھک کر رہ جا تے.یہ عبادت کیوں تھی اور کس وجہ سے آپؐ یہ مشقت برداشت کر تے تھے.صرف اسی لیے کہ آپ ایک شکر گزار بندے تھے اور آپ کا دل خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ کر ہر وقت اس کے ذکر کرنے کی طرف مائل رہتا چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں جب آپ ؐ سے سوال کیا گیا کہ آپ اس قدر عبادت میں کیوں مشغول رہتے ہیں تو آپؐ نے یہی جواب دیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ غرضیکہ جس محبت اور شوق سے آپ ذکر الہٰی میں مشغول رہتے تھے اور ان مشاغل کے باوجود جو آپ کو دن کے وقت در پیش رہتے تھے اس کی نظیر دنیا میں اور کسی ہادی کی زندگی میں نہیں مل سکتی اول تو میں دعویٰ کر تا ہوں کہ اگر دنیا کے دیگر ہادیان کے اشغال کا آپ کے اشغال سے مقابلہ کیا جائے تو ان کے اشغال ہی آپ کے مقابلہ میں بہت کم نکلیں گے لیکن اس فرق کو نظر انداز کرکے

Page 543

بھی ان کی زندگی میں ذکر الہٰی کی یہ کثرت نہ پا ئی جا ئے گی.بات یہ ہےکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا مطالعہ جس غور سے رسول کریم ﷺ نے فرما یاہے اور کسی انسان نے نہیں کیا.اسی لیے جس محبت سے آپ اپنے پیارے کا نام لیتے تھے اور کسی انسان نے نہیں لیا.ہم اس بات کا انکار نہیں کر تے کہ اللہ تعالیٰ کے مجیّن اور ذاکر ین میںبڑے بڑے لوگ ہو ئے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آپ جیسا ذاکر اور محّب اور کو ئی نہیں مل سکتا.موت کے وقت بھی (آپؐ کو )خدا ہی یاد تھاسوائے شاذونادر کے عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی پر حریص ہو تا ہے حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص خود کشی کر تا ہے وہ ضرور پا گل ہو جا تا ہے یا خو دکشی کے وقت اسےجنون کا دورہ ہوتا ہے ورنہ عقل و خر د کی موجود گی میں انسان ایسا کام نہیں کر تا.جب موت قریب ہو تو اس وقت تو اکثر آدمی اپنے مشاغل کو یاد کرکے افسوس کر تے ہیں کہ اگر اور کچھ دن زندگی ہو تی تو فلاں کام بھی کر لیتے اور فلاں کام بھی کر لیتے جوانی میں اس قدر حرص نہیں ہو تی جس قدر پڑھاپے میںہو جا تی ہے اوریہی خیال دامنگیر ہو جا تا ہے کہ اب بچوں کے بچے دیکھیں اور پھر ان کی شادیاں دیکھیں اور جب موت قریب آتی ہے تو اوربھی توجہ ہو جا تی ہے اور بہت سے لوگوں کا بستر مرگ دیکھا گیا ہے کہ حسرت واندوہ کا مظہر اور رنج و غم کا مقام ہو تا ہے اور ‘اگر’اور ‘کاش’کا اعادہ اس کثرت سے کیا جا تا ہے کہ عمر بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی.مرنے والا پے در پے اپنی خواہشات کا ذکر کر تا ہے اور اپنے وقت کو وصیت میں صرف کر تا ہے میرے فلاں مال کو فلاں کے سپرد کرنااور میری بیوی سے یہ سلوک کرنا اور بیٹیوں سے یوں حسن سلوک سے پیش آنا فلاں سے میں نے اس قدر روپیہ لینا ہے اور فلاں کو اس قدر دینا ہے غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو روزانہ ہر گھر میں دوہرائی جا تی ہیں اور چونکہ موت کا سلسلہ ہر جگہ لگا ہوا ہے اور ہر فرد ِبشر کو اس دروازہ سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے تمام لوگ ان کیفیات کو جانتے ہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.میرا آقا جہاں اَور ہزاروں باتوں میں دوسرے انسانوں سے اعلیٰ اور مختلف ہے وہاں اس بات میں بھی دوسروں سے بالاتر ہے.اس میرے سردار کی موت کا واقعہ کو ئی معمولی سا واقعہ نہیں.کس گمنامی کی حالت سے ترقی پا کر اس نے اس عظیم الشان حالت کو حاصل کیا تھا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے ہر دشمن پر فتح د ی تھی اور ہر میدان میں غالب کیا تھا.ایک بہت بڑی حکومت کا مالک اور

Page 544

بادشاہ تھا اورہزاروں قسم کے انتظامات اس کے زیرِ نظر تھے لیکن اپنی وفات کے وقت اسے ان چیزوںمیں سے ایک کا بھی خیال نہیں.نہ وہ آئندہ کی فکر کر تا ہے نہ تدابیر ملکی کے متعلق وصیت کر تا ہے نہ اپنے رشتہ داروں سے متعلق ہدایات لکھواتا ہے بلکہ اس کی زبان پر اگر کو ئی فقرہ جاری ہے تویہی کہ اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی الَلّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی اے میرے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے اے میرے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے.اس فقرہ کو ذرا مضطربانہ حرکات سے مقابلہ کرکے دیکھو جو عام طور سے مرنے والوں سے سرزد ہو تی ہیں کیسا اطمینان ثابت ہو تا ہے.کیسی محبت ہے.ساری عمر آپؐ خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے.خلوت و جلوت غرضیکہ ہر جگہ آپؐ کو خد اہی خدا یاد تھا اور اسی کا ذکر آپؐ کی زبان پر جا ری تھا اور اب جبکہ وفات کا وقت آیا تب بھی بجائے کسی اَو ردنیاوی غرض یامطلب کی طرف متوجہ ہونے کے خدا ہی کی یاد آپؐ کےسینہ میں تھی اور جن کو چھوڑچلے تھے ان کی فرقت کے صدمہ کی بجائے جن سے ملنا تھا ان کی ملا قات کی تڑپ تھی اور زبان پر اپنے رب کا نام جاری تھا.آہ! کیسا مبارک وہ وجود تھا.کیا احسان ماننے والا وہ انسان تھا.اس کی زندگی بہتر سے بہتر انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور مہذب سے مہذب روحوں کے لیے ایک نمونہ تھی اس نے اپنے پیدا ہو نے سے مرنے تک کو ئی وقت اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں گزارا.وہ پاک وجود خدا تعالیٰ میں بالکل محو ہی ہو گیا تھا اور اس کی نظر میں سوائے اس وحدہٗ لا شریک خدا کے جو لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے اور کو ئی وجود جچتا ہی نہ تھا.پھر بھلا جو ذکر کہ تمام عمر اس کی زبان پر رہا وفات کے وقت وہ اسے کہاں بھلا سکتا تھاوہ کچھ انسان ساری عمر کہتا یا کر تا رہا وہی اسے وفات کے وقت بھی یاد آتا ہے.پھر جس کی عمر کا مشغلہ ہی یاد الٰہی ہو اور زندگی بھر جس کی روحانی غذا ہی ذکرالٰہی ہو وہ وفات کے وقت اَور کسی چیز کو کب یاد کرسکتا تھا.مجھے میرا مولا پیارا ہے او رمجھے محمد رسول اللہ ﷺ بھی پیارا ہے کیونکہ وہ میرے مولا کا سب سے بڑا عاشق اور دلدادہ ہے اور جسےجس قدر میرے رب سے زیا دہ الفت ہے مجھے بھی وہ اسی قدر عزیز ہے.اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اَلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ.

Page 545

ذکرالہٰی ہر وقتمیں نے پیچھے بعض واقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ذکرالہٰی سے کیسی محبت تھی اور آپ کس طرح ہر موقع پر خدا تعالیٰ کانام لیناپسندفرماتے تھے اور صرف خود ہی پسند نہ فرماتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے اور وفات کے وقت بھی آپ کی زبان پر خدا تعالیٰ کاہی ا ذکر تھا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے ذکر پر چشم پرنم ہو جاتے تھے اور آپ کا خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا یا سننا معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک عاشقانہ د رد اور محبانہ ولولہ اس کا محرک اور باعث تھا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں قَالَلي النبي صلى الله عليه وسلم-: «اقرأ عليَّ القرآنَ»، فقلت: يا رسول الله، أقرأ عليك، وعليك أُنزل؟! قال: «إني أحب أن أسمعه من غيري» فقرأتُ عليه سورةَ النساءِ، حتى جِئْتُ إلى هذه الآية: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا} قال: «حَسْبُكَ الآنَ» فالتفتُّ إليه، فإذا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ.(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ کیف اذا جئنا من كل ا مة بشهيد )مجھے نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ مجھےکچھ قرآن سناؤ میں نے کہا کہ کیا میں آپ کو قرآن سناؤں حالانکہ قرآن شریف آپ ہی پر نازل ہوا ہے.فرمایا کہ مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں دوسرے کے منہ سے سنوں.پس میں نے سورة نساءمیں سے کچھ پڑھا یہاں تک کہ میں اس آیت تک پہنچاکہ پس کیا حال ہو گا جب ہر ایک امت میں سے ہم ایک شهید لائیں گئے اور تجھے ان لوگوں پر شهید لائیں گے اس پر آپ برداشت نہ کر سکےاور فرمایا کہ بس کرو اور میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں.اللہ اللہ کیا عشق ہے اور پھر کیسا ایمان ہے.آپﷺ قرآن شریف کو جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے خودپڑھنے اور دوسروں کو سنانے کا حکم دیتے تھے اور پھر اپنے محبوب کا کلام سنکر چشم پر آب ہو جاتےآپ ایسے بہادر تھے کہ میدان کارزار میں آپ تک دشمن کی رسائی نہ ہوتی اور حضرت علی ؓجیسےبہادر آدی فرماتے ہیں کہ جس جگہ آپ کھڑے ہوتے تھے وہاں وہی آدمی کھڑا ہو سکتا تھا جو نہایت دلیر اور بہادر ہو اور معمولی آدمی کی جرأت نہ ہو سکتی تھی کہ آپ کے پاس کھڑا ہو.پھر ایسا بہادرانسان کہ جس کے سامنے بڑے بڑے بہادروں کی روح کانپتی تھی اور ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں وہ بہاور انسان جس کے نام کوسنکر بادشاہ خوف کھاتے تھے جس کی بہادری کاشہرہ تمام عرب اورشام اور ایران میں ہو رہا تھا جس کی ہمت بلند کے سامنے قیصر و کسری ٰکے ارادے پست ہو رہے تھےوہ خدا تعالیٰ کا کلام سنکر روتا ہے اور آپ کے دل کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ زیادہ سننا گویا اس کے لئے برداشت سے بڑھ کر ہے.کیا یہ بات مطر قلب پر دلالت نہیں کرتی کیا اس سے یہ ثابت

Page 546

نہیں ہوتا کہ ایک محبت کا در یا اس کے سینہ میں بہہ رہا تھا اور عشق کی آگ اس کے اندر بھڑک رہی تھی.کیاخدا تعالیٰ کے ذکر پر یہ حالت اور پھر ایسے بہادر انسان کی جو کسی بشر سے خائف نہ تھا اس بات پردلالت نہیں کرتی کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے آپ کے روئیں روئیں میں دخل کیا ہوا تھا اور خدا تعالیٰ کا ذکر آپ کی غذا ہو گیا تھا اور اس کا جلال اور اس کی عظمت آپ کے سامنے ہر وقت موجو درہتی تھی اور اپنے مولا کا ذکر سنتے ہی آپ بے چین ہو جاتے.کلام الہٰی آپ کی تسلی کا باعث تھا اوریہی آپ کے عشق کو تیز کرتا اور آپ اپنے پیارے کو یاد کر کے بے اختیار ہو جاتے آپ بڑی شان کے آدمی تھے اور خدا تعالیٰ سے جو آپ کو تعلق تھاوہ اور کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا لیکن پھر بھی جب آپ خدا تعالیٰ کی ملا قات کو یاد کرتے اور قیامت کا نظارہ آپ کی آنکھوں کے آگے آتاتو باوجود ایک مضبوط دل رکھنے کے آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے.اخلاص باللہ.شرک سے نفرتایک خاص بات جو رسول کریمؐ کی زندگی میں دیکھی جاتی ہے اور جس میں کو ئی نبی اور ولی آپؐ کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ آپؐ کے قریب بھی نہیں پہنچتا وہ آپؐ کا شرک سے بیزار ہو نا ہے.ہمارا یقین ہے کہ کل انبیاء شرک سے بچانے کے لیے دنیا میں آئے اور بلا استثناء ہر ایک نبی کی تعلیم یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جا ئے خواہ کو ئی نبی ہندوستان میں،جو شرک و بت پر ستی کا گھر ہے پیدا ہوا یا مصر میں جو رب الارباب کے عقیدہ کا مرکز تھا ظاہر ہوا، آتش پر ستان ایران میں جلوہ نما ہوا یا وادی کنعان میں نور افشاں ہوا یہ بات سب میں پائی جاتی ہے کہ وہ شرک کو بیخ وبن سے اکھیڑنے کے درپے رہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے اور ا س کی ذات یا صفات یا اسماء میںکسی کو اس کا شریک نہ سمجھا جا ئے نہ بنایا جا ئےوَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(الانبیاءآیت 26)اور ہم نے نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کو ئی رسول مگر اس کی طرف وحی کی کہ کو ئی معبود نہیں مگر اللہ پس میری عبادت کرو.یُنَزِّلُ الْمَلٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ اَنْ اَنْذِرُوْااَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل آیت:3)اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے سا تھ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر پسند کر تا ہے اتارتا ہے لوگوں کو ڈراؤ کہ سوائے میرے کوئی معبود نہیں پس میرا تقویٰ اختیار کرو.ان آیات کی بناپر ہم ایمان لا ئے ہیں کہ سب انبیاء کا مشترکہ مشن اشاعت تو حید اور تخریب

Page 547

شرک تھا مگر بڑےسے بڑے نبیوں او رمرسلین کی زندگی کا رسول کریم ؐکی زندگی سے مقابلہ کرکے دیکھ لو جو فکر اور فہم آپؐ کو شرک کی بیخ کنیکا تھا اس کی نظیر اَور کہیں نہیں ملتی حضرت موسٰی نے فرعون کو ایک خدا کی پرستش کی تبلیغ کی.حضرت مسیح ناصری ؑنے ایک سا ئل کو کہا کہ سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ تو اس خدا کو جو آسمان پر ہے اپنے سچے دل اور سچی جان سے پیار کر.حضرت ابراہیم ؑنے اپنی قوم کے بتوں کو توڑ کر ان پر شرک کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا.حضرت نوح ؑنے بھی اپنی قوم کو واحد خدا کی پر ستش کی طرف بلا یا لیکن ہمارے سردار وآقا ہادی برحق ﷺ نےجس طرح شرک مٹانے کے لیے جدو جہد کی ہے ا س کی مثال اَور کسی نبی کی ذات میں نہیں ملتی.بے شک دیگر انبیاء نے اپنی عمر کا ایک حصہ شرک کے مٹانے پر خرچ کیا مگر جو دُھن اس مرض کو مٹانے کی خاتم النبیین ﷺکو لگی ہو ئی تھی وہ اَور کسی کو نہ تھی.آپؐ نے اپنے دعویٰ کے بعد ایک ہی کام کو مد نظر رکھا کہ ایک خدا کی پرستش کروائی جا ئے.تمام اہل عرب جو شرک میںڈوبے ہو ئے تھے آپؐ کے مخالف ہو گئے اور یہاں تک آپؐ سے در خواست کی کہ جس طرح ہو آپؐ ہمارے معبودوں کی تردید کو جانے دیں اور ہم آپؐ سے وعدہ کر تے ہیں کہ آپؐ جو مطالبہ بھی پیش کریں گے ہم اسے قبول کریں گے حتّٰی کہ اگر آپؐ چاہیں تو ہم آپؐ کو اپنا بادشاہ بھی بنالیں گے اور ایسا بادشاہ کہ جس کے مشورہ کے بغیر ہم کو ئی کام نہ کریں گے.مگر باوجود اس تحریص و ترغیب کے اور باوجود طرح طرح کے ظلم و ستم کے جو آپؐ پر اور آپؐ کی امت پر توڑے جا تے تھے آپؐ نے ایک لمحہ اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے بیان میں سُستی کریں بلکہ آپؐ نے ترغیب و تحریص دینے والوں کو یہی جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے با ئیں لا کھڑا کر وتب بھی میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا بیان و اقرار ترک نہ کروں گا جو تکالیف لوگوں کی طرف سے شرک کی تر دید کی وجہ سے آپؐ کو پہنچیں ویسی اَو رکسی نبی کو نہیں پہنچیںاور جس طرح آپؐ کو اور آپؐ کے متّبعین کو خدا تعالیٰ کے ایک ماننے پر ستایا اور دکھ دیا گیا ہے اس طرح اَور کسی کو تکلیف نہیں دی گئی.مگر پھر بھی آپؐ اپنے کام میں بجائے سُست و غافل ہونے کے روز بروز زیادہ سے زیادہ مشغول ہوتے گئے.حتٰی کہ بعض صحابہ قتل کیے گئے.آپؐ کو وطن چھوڑنا پڑا.رشتہ دار چھوڑنے پڑے.زخمی ہو ئے.ان تمام تکالیف کے بعد آپؐ اپنے مخالفین کو بھی جواب دیتے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے مقابلہ کیا اور خوب کیا لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ نے ایک قوم سےنہیں دو قوموں سے نہیں بلکہ اس وقت

Page 548

کی سب قوموں اور مذاہب سے خدا کے لیے مقابلہ کیا.اس وقت ایک بھی ایسی قوم نہ تھی جو شرک کی مرض میں گرفتار نہ ہو.عرب تو سینکڑوں بتوں کے پجاری تھے ہی اور مجوسی تو آگ کے آگے ناصیہ فرسا ئی کر تے ہی تھے یہود جو تو رات کے پڑھنے والے اور حضرت موسٰی کے ماننے والے تھے وہ بھی عزیرابن اللہ پکار رہے تھے اور اپنے احبار کو صفات الوہیت سے متصف یقین کر تے تھےاور ان سے بھی بڑھ کر نصاریٰ تھے جو سب سے قریب تھے.حضرت مسیح ؑکی امت ہو کر اس قدر بڑھ گئے تھے کہ خود مسیح کو جو اللہ تعالیٰ کی پر ستش قائم کر نے آئے تھے قابل پرستش سمجھنے لگے تھے.ہندوستان اور چین کی تو کچھ پو چھو ہی نہیں گھر گھر میں بت تھے اور شہر شہر میں مندر تھے پھر ایسی شورش کے زمانہ میں آپؐ کو توحید باری کے ثابت کر نے کے لیے کھڑا ہو جانا اور تمام قوموں کو پکار پکار کر سنانا کہ تم جس قدر معبود میرے خدا کے سوا پیش کر تے ہو سب جھوٹے اور بے ثبوت ہیں ایک ایسا کا م تھا جسے دیکھ کر عقل حیران ہو تی ہے اور جس قدر آپؐ کی اس کو شش و ہمت پرغور کیا جا ئے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ شرک سے ایسے بیزار تھے کہ ایک ساعت کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتےتھےکہ کو ئی خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرکسی اَور کے سامنے اپنا سر جھکا ئے.خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سر شار ہوئے کہ دنیا بھر کے مذاہب اور قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا اور یک دم سب سے اپنا قطع تعلق کر لیا اور صرف اس سے صلح رکھی جس نے لَآاِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ کا اقرار کیا.اس وقت جو معبود باطلہ تھے ان کے مٹانے اور اڑانے کے علاوہ آپؐ نے اپنی تعلیم میں اس بات کا التزام رکھا کہ مسلمانوں کو پوری طرح سے خبردار کیا جائے کہ آئندہ بھی کسی وجہ سے مرض شرک میں مبتلا نہ ہو جا ویں اسلام کیا ہے.سب سے پہلے اس کا اقرار کرناکہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مسلمانوں کو دن میں پندرہ دفعہ بلند مکان پر سے یا منارہ پر سے یہ پیغام اب تک پہنچا یا جاتا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ پھر تمام عبادات میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرایا جا تا ہے.مسلمان تو مسلمان غیر مذاہب کےپیرو بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جس قدر اسلام شرک کو مٹاتا ہے اتنا اَور کوئی مذہب اس کا استیصال نہیں کر تا او ریہ کیوں ہے اسی نفرت کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کو شرک سے تھی.عمر بھر آپؐ اس مرض کے مٹانے میں لگے رہےحتیٰ کہ آپؐ نے اپنی وفات سے پہلے وہ خوشی دیکھی جواَور کسی نبی کو دیکھنی نصیب نہ ہو ئی کہ آپؐ کی سب قوم ایک خدا کو ماننے والی ہو گئی مگر پھر بھی وفات کے وقت جو خیال آپؐ کو سب سے زیا دہ تھا وہ یہی تھا کہ کہیں میرے بعدمیری قوم مجھے خدا تعالیٰ کا شریک نہ بنا ئے اور جس طرح پہلی امتوں نے اپنے انبیاء کو صفات الوہیت سے متصف

Page 549

کیا تھایہ مجھ سے ویسا ہی سلوک نہ کریں.اس خیال نے آپؐ پر ایسا اثر کیا کہ آپؐ نے اپنی مرض الموت میں یہود ونصاریٰ پر لعنت کی کہ انہوں نے اپنے احبار کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں:قَالَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیہِ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآءِھِمْ مَسَاجِدَ قَالَتْ لَولَاذٰلِکَ لَا بَرَزُوْا قَبْرَہٗ(بخاری کتاب الجنائز باب مایکرۃ من اتخاذ المساجد علی القبور)آنحضرت ﷺ نے اس مرض میں جس میں وفات پا ئی فرمایا اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنا لیا ہے اور حضرت عائشہ نے یہ بھی زائد کیا کہ اگر یہ بات نہ ہو تی تو صحابہؓ آپؐ کی قبر کو بند نہ کرتےبلکہ ظاہر کر تے.اس حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپؐ کو شرک سے کیسی نفرت تھی وفات کے وقت سب سے بڑا خیال آپؐ کو یہ تھا کہ میں عمر بھر جو ایک خدا کی تعلیم دیتا رہا ہوں لوگ اسے بھول نہ جا ئیں اور میرے بعد پھر کہیں شرک میں مبتلا نہ ہو جا ئیںاوراگر پہلے معبودوں کو چھوڑا ہے تو اب مجھے ہی معبود نہ بنا بیٹھیں اور اپنے اس نقص کے دور کرنے کے لیے ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے جن سے صحابہ کرام ؓایسے متاثر ہو ئے کہ انہوں نے خوف کے مارے آپؐ کی قبر کو بھی ظاہر کر نا پسند نہ کیا تا آپؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو جا ئے چنانچہ اب تک وہ قبر مبارک ایک بند مکان میں ہے جس تک جا نے کی لوگوں کو اجازت نہیں.طہارت نفسآنحضرت ﷺ کی پاک سیرت پر قلم اٹھا نا کو ئی آسان کام نہیں اسی لیے میں نے ابتداء میں ان مشکلات کو بیان کرکے بتایا تھاکہ سیرت تین طرح لکھی جا سکتی ہے.تو اریخ سے، احادیث سے،قرآن کریم سے اور میں نے بتایا تھا کہ سردست میں احادیث سےاور پھر احادیث میں سے بھی جو سیرت بخاری سے معلوم ہو تی ہے وہ اس جگہ درج کروں گا.میں نے سیرت کے عام ابواب پر بحث کرنے کے بعد لکھا تھا کہ سیرت انسانی کے تین حصہ ہوسکتے ہیں.ایک وہ جو خدا تعالیٰ سے تعلقات کے متعلق ہو.جس کا نام میں نے اخلاص باللہ رکھا تھا اور دوسرا جو خود اپنے نفس کے متعلق ہو.اس کا نام طہارت نفس مناسب معلوم ہو تا ہے اور چونکہ اخلاص باللہ کا حصہ میں ختم کر چکا ہوں اس لیے اب دوسرے حصہ کو شروع کیا جا تا ہے جو طہارت نفس کے ہیڈنگ کے ماتحت ہو گا.بدی سے نفرتطہارت نفس کے باب میں سب سے پہلے اس بات کے متعلق شہادت بیان کر نا چاہتا ہوں کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت تھی.اگر چہ بظاہر یہ بات کو ئی

Page 550

عجیب نہیں معلوم ہو تی اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ کو بدی سے کیوں نفرت نہ ہو تی جب ایک عظیم الشان قوم کے آپؐ رہبر اور ہا دی تھے اور ہر وقت اپنے متّبعین کوبدیوں سے رو کتے رہتے تھے اور جس کا کام رات دن یہی ہو کہ وہ لوگوں کوبدیوںسے روکے اور امر بالمعروف کرے.اسے تو اپنے اعمال میں بہت محتاط رہنا ہی پڑتا ہے ورنہ اس پر الزام آتا ہے اور لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تم دوسروں کو منع کر تے ہو اور خود اس کا م کو کرتے ہو لیکن اگر غور کیا جا ئے تو دنیا میں وعظ کہنے والے تو بہت ملتے ہیں مگر ایسے واعظ جو اپنے نمونہ سے دنیا میں نیکی پھیلا ئیں بہت کم ہیں ایسے واعظ تو اس وقت بھی ہزاروں ہیں جو لوگوں کو پا کیز گی اورانقطاع الی اللہ کی طرف بلاتے ہیں.لیکن کیا ایسے لوگوں کی بھی کو ئی کثیر جماعت پا ئی جا تی ہے جو خود عمل کرکے لوگوں کے لیے خضرراہ بنیں اِلَّا مَاشَآ ءَاللّٰہُ وَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ کسی شاعرنے کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے کہ ؎ ہر کسے نا صح برائے دیگراں ہر ایک دوسروں کے لیے ناصح ہے اپنے نفس کا حال بھلائے ہو ئے ہے پھر ایک شاعر کہتا ہے واعظان کیں جلوہ بر محراب و منبر میکند چوں بخلوت میر و ندآں کار دیگر میکند یہ واعظ جو محراب و منبر پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کے لیے ناصح بنتے ہیں جب خلوت میں جا تے ہیں تو ان کے اعمال بالکل اور ہی ہو تے ہیں اور ان اعمال کا پتہ بھی نہیں چلتا جن کاو عظ وہ منبر پر سے کیا کرتے تھے اس وقت مسلمان علماء کو دیکھو.قرآن شریف کو ہا تھ میں لے کر خشیت الٰہی کے وعظ بڑے زور سے کہتے ہیں لیکن خود خدا کا خوف نہیں کرتے.پادری انجیل سے یہ روایت لوگوں کو سناتے ہیں کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا اگر کو ئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارےتو دوسری بھی پھیردے لیکن دولت مند پادری موجود ہیں پھر ان میں سے کتنے ہیں جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسری پھیردینی تو درکنار دوسرے مذاہب کے بانیوں کی نسبت بد گو ئی میں ابتداء سے ہی بچتے اور پر ہیز کرتے ہوں.پنڈت دان اور پن کے متعلق طول طویل کتھا ئیں پڑھ کر لوگوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو کسی قسم کے دان پن سے بری سمجھتے ہیں.غرضیکہ جب روزانہ زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر واعظ ایسے ہی ملتے ہیں کہ جو کل پندونصائح کو دوسروں کے لیے واجب العمل قراردیتے ہیں مگر اپنے نفوس کو بنی نوع انسان سے خارج کر لیتے ہیں اور ایسے بہت ہی کم ہیں کہ جن کا قول وفعل برابر ہو اور وہ لوگوں کو نصیحت کر تے وقت سا تھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ملامت کرتے جا ئیں بلکہ لوگوں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں.پس گو یہ

Page 551

بات بظاہر بالکل معمولی معلوم ہو تی ہے کہ واعظ تو بدیوں سے بچتے ہی ہوں گے لیکن دراصل یہ ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس پر چل کر بہت کم لوگ ہی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں اور ابتداء دنیا سے آج تک جس قدر واعظ ایسے گزرے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دوسروں کو کہا اس پر خود بھی عامل ہو ئے ان کے سردار اور رئیس ہمارے آنحضرتﷺ تھے آپ کی سا ری زندگی میں ایک بات بھی ایسی نہیں ملے گی کہ آپ کی اور دوسروں کی مصلحتیں ایک ہی ہوں مگر پھر بھی آپؐ نے دوسروں کو اور حکم دیا ہواور اپنے لیے کچھ اَور ہی تجویز کر لیا ہو.بعض اوقات خود صحابہ ؓچاہتے تھے کہ آپؐ آرام فرمائیں اور اس قدرمحنت نہ کریں لیکن آپؐ قبول نہ فرماتے.اگر لوگوں کو عبادت الٰہی کا حکم دیتے تو خود بھی کرتے اگر لوگوں کو بدیوں سے روکتے تو خود بھی رکتے غرضیکہ آپ نے جس قدر تعلیم دی ہے ہم بغیر کسی منکر کے انکار کے خوف کے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر آپ خود عامل تھے اور شریعت اسلام کے جس قدر احکام آپ کی ذات پر وارد ہو تے تھے سب کو نہایت کو شش اور تعہد کے سا تھ بجالاتے مگر اس وقت جس بات کی طرف خاص طور سے میں آپ کو متوجہ کر نا چاہتا ہوں وہ بدی سے نفرت ہے.اعمال بد تو انتہا ئی درجہ ہے ادنیٰ درجہ تو بد اخلاقی اور بدکلامی ہے جس کا انسان مرتکب ہو تا ہےاور جب اس پر دلیر ہو جا تا ہے تو پھر اور زیادہ جرأت کر تا ہے اور بد اعمال کی طرف راغب ہو تا ہے لیکن جو شخص ابتدائی نقائص سے ہی پاک ہو وہ دوسرے سخت ترین نقائص اورکمزوریوں میںکب مبتلا ہو سکتا ہے اور میں انشا ء اللہ تعالیٰ آگے جو کچھ بیان کروں گا اس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ کیسے پا ک تھے اورکس طرح ہر ایک نیکی میں آپؐ دوسرے بنی نوع پر فائق وبرتر تھے.حضرت عبداللہ بن عمرو ؓفرماتے ہیں لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ یَقُوْلُ اِنَّ مِنْ خِیَارِ کُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا(بخاری کتاب المنا قب باب صفۃ النبی ﷺ )نبی کریم ﷺ نہ بد خلق تھے نہ بد گو اور فرمایا کر تے تھے کہ تم میں بہتر وہی ہیں جو تم سے اخلاق میں افضل ہوں.اللہ اللہ !کیا پاک وجود تھا.آپؐ حسن اخلاق برتتے تب لوگوں کو نصیحت کرتے.آپ بد کلامی سے بچتے تب دوسروں کو بھی اس سے بچنے کے لیے حکم دیتے اور یہی وہ کمال ہے کہ جس کے حاصل ہو نے کے بعد انسان کا مل ہو سکتا ہےاور اس کی زبان میں اثر پیدا ہو تا ہے اب لوگ چلّا چلّا کر مر جا تے ہیں کو ئی سنتا ہی نہیں.نہ ان کے کلام میں اثر ہو تا ہے نہ کوشش میں برکت.اس کی وجہ یہی

Page 552

ہے کہ وہ خود عامل نہیںہو تے لوگوں کو کہتے ہیں مگر رسول کریمؐ خود عامل ہو کر لوگوں کو تبلیغ کر تے جس کی وجہ سے آپؐ کے کلام میں وہ تاثیر تھی کہ تئیس سال میں لا کھوں آدمیوں کو اپنے رنگ میں رنگین کر لیا.عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ کے اس قول اور شہادت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اول تو وہ ہر وقت رسول کریمؐ کی صحبت میں رہتے تھے اور جو اکثر اوقات ساتھ رہے اسے بہت سے مواقع ایسے مل سکتے ہیں کہ جن میں وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس شخص کے اخلاق کیسے ہیں.کبھی کبھی ملنے والاتو بہت سی با تیں نظر انداز بھی کر جا تا ہے بلکہ کسی بات پر بھی یقینی شہادت نہیں دے سکتا.لیکن جنہیں ہر وقت کی صحبت میسر ہو اور ہر مجلس میں شریک ہوں وہ خوب اچھی طرح اخلاق کا اندازہ کر سکتے ہیں پس عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ ان صحابہ ؓ میں سے تھے جنہیں رسول کریمؐ کے سا تھ رہنے کا خاص موقع ملتا تھا اور جو آپؐ کے کلا م کے سننے کے نہایت شائق تھے ان کا ایسی گواہی دنیا ثابت کرتا ہے کہ درحقیقت آپؐ کو ئی ایسی شان رکھتے تھے کہ عسرویسر میں اپنے اخلاق کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے تھے.ورنہ کبھی تو آپؐ کے ہروقت کے ہم صحبتوں کو ایسا موقع بھی پیش آتا کہ جس میںآپؐ کو کسی وجہ سے چیں بہ جبیںدیکھتے لیکن ایسے موقع کا نہ ملنا ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کے اخلاق نہایت اعلیٰ اور ارفع تھے اور کو ئی انسان ان میںنقص نہیں بتا سکتا تھا.ایک طرف اگر عبد اللہ بن عمروؓ کی گواہی جو اعلیٰ پا یہ کے صحابہ ؓ میں سے تھے نہایت معتبر اور وزنی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی خاص طور سے مطالعہ کر نے کے قابل ہے کہ یہ فقرہ کس شخص کی شان میں کہا گیا ہے معمولی حیثیت کے آدمی کی نسبت اور معمولی واقعات کی بناء پر اگر اس قسم کی گواہی کسی کی نسبت دے بھی دی جا ئے تو گو اس کے اخلاق اعلیٰ سمجھے بھی جائیں مگر اس شہادت کو وہ اہمیت نہیں دی جا سکتی جو اس شہادت کو ہے اور وہ شہادت ایک معمولی انسان کے اخلاق کو ایسا روشن کرکے نہیں دکھا تی جیسی کہ یہ شہادت رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو کیونکہ یہ اخلاق جن واقعات کی موجودگی میں دکھا ئے گئے ہیں وہ کسی اَور انسان کو پیش نہیں آتے.دنیا میں دو قسم کے انسان ہو تے ہیں ایک وہ جو عسر میں نہایت بد خلق ہو جا تے ہیں دوسرے وہ جو یُسر میں چڑ چڑے بن جا تے ہیں.رسول کریمؐ پر یہ دونوں حالتیں اپنے کمال کے سا تھ وارد ہو ئی ہیں اور دونوں حالتوں میں آپؐ کے اخلاق کا اعلیٰ رہنا ثابت کر تا ہے کہ کو ئی انسان آپؐ کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو تکلیفیں اور دکھ آپؐ کو پہنچے ہیں وہ اور کونسا انسان ہے جسے پہنچے ہوں مکہ کی تیرہ سالہ

Page 553

زندگی کے حالات سے کون نہیں واقف،مدینہ کے ابتدائی ایام سے کون بے خبر ہے،کن شدائد کا آپؐ کو سامنا ہوا،کن مشکلات سے پا لا پڑا، دوست دشمن ناراض تھے.رشتہ دار جواب دے بیٹھے،اپنے غیروں کی نسبت زیادہ خون کے پیاسے ہو رہے تھے ،ملنا جلنا قطعاً بند تھا،ایک وادی میں تین سال محصو ررہنا پڑا،نہ کھانے کو نہ پینے کو،جنگل کے درخت اور بوٹیاں غذا بنیں ،شہر میں آنا منع ہو گیا،پھر چمکتی ہو ئی تلواریں ہر وقت سامنے نظر آتی تھیں،رؤ ساء سے قیام امن کی امید ہو تی ہے وہ بھی مخالف ہوگئے،بلکہ نوجوانوں کو اور اکسا اکسا کر دکھ دینے پر مائل کر تے رہے،باہر نکلتے ہیں تو گالی گلوچ تو کچھ چیز ہی نہیں پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو جا تی ہے،اپنے رب کے حضور گرتے ہیں تو اونٹ کی اوجھڑی سر پر رکھ دی جا تی ہے،حتّٰی کہ وطن چھوڑ دیتے ہیں.پھر وطن بھی وہ وطن جس میں ہزاروں سال سے قیام تھا،اپنے جدا مجد کے ہاتھوں سے بسایا ہوا شہر جس کو دنیا کے ہزاروں لالچوں کے باوجود آباء واجداد نے نہ چھوڑ ا تھا،ایک شریروں اور بدمعاشوں کی جماعت کے ستانے پر چھوڑنا پڑتا ہے،مدینہ میں کو ئی راحت کی زندگی نہیں ملتی بلکہ یہاں آگے سے بھی تکلیف بڑھ جا تی ہے،ایک طرف منافق ہیں کہ خود آپؐ کی مجلس میں آکر بیٹھتےہیں اور بات بات پر سنا سنا کر طعنہ دیتے ہیں،آپؐ کے سامنے آپؐ کے خلاف سر گو شیاں کرتے ہیں.ممکن سے ممکن طریق پر ایذاءدیتے ہیں اور پھر جھٹ تو بہ کرکے عفو کے طالب ہو تے ہیں،اپنے مہربان اہل وطن مکہ سے اخراج کے منصوبوں پر ہی کفایت نہیں کر تے جب دیکھتے ہیں کہ جسے ہم تباہ کر نا چاہتے تھے ہمارے ہا تھوں سے نکل گیا ہے اور اب ایک اور شہر میں جا بسا ہے تو وہاں بھی پیچھا کر تے ہیں، آس پاس کے قبیلوں کو اکساتے ہیں،اور اپنے سا تھ شریک کرکےدگنی طاقت سے اسے مٹانا چاہتے ہیں،یہودونصاریٰ اہل کتاب تھے ان پر کچھ امید ہو سکتی تھی وہ بغض و حسد کی آگ میںجل مرتے ہیں اور اُمّی اور مشرک اقوام سےبھی زیادہ بغض و عنا دکا اظہار کرتے ہیں،پڑھے ہوؤں کی شرارتیں بھی کہتے ہیں پڑھی ہو ئی ہوتی ہیں انہوں نے نہ صرف خود مقابلہ شروع کیابلکہ دور دور تک آپؐ کی مخالفت کا بیج بو نا شروع کیا نصاریٰ بد حواس ہو کر قیصر روم کی چوکھٹ پر جبین نیاز گھسنے گئے تو یہود اپنی سا زشوں کے پیٹھ ٹھونکنے والے ایرانیوں کے دربار میں جا فریادی ہو ئے کہ للہ اس اٹھتی ہو ئی طاقت کو دباؤ کہ گو بظاہر معمولی معلوم ہو تی ہے مگر انداز کہے دیتے ہیں کہ چند ہی سال میں تمہارے تختوں کو الٹ دے گی اور عنان حکومت تمہارے ہا تھوں سے چھین لے گی.یہ سب ستم و قہر کس پر تھے ایک ایسے انسان پر جو دنیا کی اصلاح اور ترقی کے سوا کو ئی اور مطلب ہی نہ رکھتا تھا جس کے کسی گوشۂ

Page 554

دماغ میں ملک گیری کے خیالات نہ تھے جو اپنا قبلہ تو جہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے قیام کو بنائے بیٹھا تھا.پھر کس جماعت کے خلاف یہ دیو ہیکل طاقتیں اٹھ کھڑی ہو ئی تھیں جو اپنی مجموعی تعداد میں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے چند ہزار سے زیا دہ نہ تھی.اب ان تکالیف میں ایک قابل سے قابل حوصلہ مند سے حوصلہ مند انسان کا گھبرا جا نا اور چڑ چڑاہٹ کا اظہار کر نا اور بد خلقی دکھا نا بالکل قرین قیاس ہو سکتا ہے لیکن ان واقعات کی بناء پر بھی عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ آپؐ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا.نہ بد خلق تھے نہ بد گو تھے.اگر کہو کہ ایک جماعت ایسی بھی تو ہو تی ہے جس کے اخلاق بجائے تکالیف کے خوشی کے ایام میںبگڑتے ہیں تو خوشی کی گھڑیاں بھی آپؐ نے دیکھی ہیں.آپؐ خدا کے رسول اور اس کے پیارے تھے یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ناکام دنیا سے اٹھا لیتا وفات سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ دے دیا اور دشمن جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اسی سرعت سے پیچھے ہٹنے لگا.قیصر وقصریٰ تو بے شک آپؐ کی وفات کے بعد تباہ ہو ئے اور آپؐ کے غلاموں کے ہاتھوں ان کا غرور ٹوٹا لیکن کفارعرب جماعت منافقین یہود و نصاریٰ کے وہ قبائل جو عرب میں رہتے تھےوہ تو آپؐ کے سامنے آپؐ کے ہا تھوں سے نہایت ذلت سے ٹھوڑیوں کے بل گرے اور سوائے اس کے کہ طلبگار عفو ہوں اور کچھ نہ بن پڑا.اس بیکسی او بے بسی کے بعد جس کانقشہ پہلے کھینچ چکا ہوں بادشاہت کی کرسی پر آپؐ فروکش ہو ئے اور سب دشمن پا مال ہو گئے.مگر باوجود ان فاتحانہ نظاروں کے ان ایام ترقی کی ان ساعات بہجت و فرحت کے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ لَمْ یَکُنْ النَّبِیُّ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَاُ مُتَفَحِّشًا نبی کریم ﷺ نہ بداخلاق تھے نہ بد گو.ایک پا ک دعا میں عبدا للہ بن عمرو ؓ کی شہادت سے بتا چکا ہوں کہ آنحضرت ؐ کو بدی سے کیسی نفرت تھی اور بدی کر نا یا بد خلقی کا اظہار کر نا تو الگ رہا آپؐ بد کلامی اور بد گو ئی تک سے محترز تھے اور باوجود ہر قسم کے عسرو یسر میں سے گزرنے کے کسی وقت اور کسی حال میں بھی آپؐ نے نیکی ور تقویٰ کو نہیں چھوڑا اور آپؐ کے منہ پر کو ئی نازیبا لفظ کبھی نہیں آیا جو ایک عظیم الشان معجزانہ طاقت کا ثبوت ہے جو آپؐ کے ہر کام میں اپنا جلوہ دکھا رہی تھی.اب میں ایک اَور ثبوت پیش کر تا ہوں کہ آپؐ بدی اور ظلمت سے سخت متنفر تھے اور آپؐ کے دل کے ہر گو شہ میں نور ایمان متمکن تھا اور وہ ثبوت آپؐ کی ایک دعا ہے جو آپؐ کے دلی جذبات

Page 555

کی مظہر ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ آپؐ صبح کی سنتوں کے بعد یہ دعا مانگتے.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُورًا وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًا وَتَحْتِیْ نُوْرًاوَاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذانتبہ من اللیل)یعنی اے اللہ میرے دل کو نور سے بھر دے اور میری آنکھوں کو نورا نی کر دے اور میرے کانوں کو بھی نو ر سے بھردے اور میری دا ئیں طرف بھی نور کر دے اور با ئیں طرف بھی اور میرے اوپر بھی نور کر دے اور نیچے بھی نور کر دے.اور نور کو میرے آگے بھی کر دے اور پیچھے بھی کر دے.اور میرے لیے نور ہی نور کر دے.حضرت ابن عباسؓ فر ما تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ دعا مانگتے ہو ئے سننے کا اتفاق مجھے اس طرح ہوا کہ میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن سو یا جو رسول کریمؐ کی ازواج مطہرات میں سے تھیں اور میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ اس طرح دعا مانگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے.پس یہ دعا ایسے خلوت کے وقت کی ہے کہ جس وقت انسان اپنے خدا سےآزادی کے سا تھ اپنا حال دل عرض کر تاہے.اور اگر چہ خدا تعالیٰ پہلے ہی سے انسان کے خفیہ سے خفیہ خیالات کو جانتا ہے پھر بھی چونکہ فطرت انسانی اسے عرض حال پر مجبور کر تی ہے اس لیے بہتر سے بہتر وقت جس وقت انسان کی حقیقی خواہشات کا علم ہو سکتا ہے وہ وقت ہے کہ جب وہ سب دنیا سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر میں اپنے رب سے عا جزانہ التجا کر تا ہے کہ میری فلاں فلاں خواہش کو پورا کر دیں یا فلاں فلاںانعام مجھ پر فر ما دیں.غرض کہ یہ دعا ایسے وقت کی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کے سوا آپؐ کا محرم رازاور کو ئی نہ تھا اور صرف ایک نا بالغ بچہ اس وقت پاس تھا اور وہ بھی اپنے آپؐ کو علیحدرکھ کر چپکے چپکے آپؐ کے اعمال وحرکات کا معائنہ کر رہا تھا.اب اس دعا پر نظر ڈالو کہ یہ کس طرح آپؐ کے تقویٰ اورطہارت پر رو شنی ڈالتی ہے.میں بتا چکا ہوں کہ آپؐ ہر ایک قسم کی بد کلامی وبدگوئی،بد اخلاقی اور بداعمالی سے پاک تھے اور یہی نہیں کہ پاک تھے بلکہ آپؐ کو بدی سے سخت نفرت اور نورا ور نیکی اور تقویٰ سے پیار تھا اور یہی انسانی کمال کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ہے یعنی وہ بدی سے بچے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرے.ظلمت سے متنفر ہو اور نور سے محبت رکھے مگر اس حدیث سے پچھلی حدیث پر اور بھی رو شنی پڑ جا تی ہے کیونکہ پچھلی حدیث سےتو یہ ثابت ہو تا تھا کہ آپؐ بدی سے متنفر تھے مگر اس حدیث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ فعل بالارادہ تھا عادتاً نہ تھا اور یہ اور بھی کمال پر دلالت کر تا ہے.

Page 556

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے کام انسان عادتاً کر تا ہے یا فطرتاً بعض کاموں کی طرف راغب ہو تا ہے اور بعض سے بچتا ہے بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے جا تے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے یا چوری نہیں کر تے.اور ان کے جھوٹ سے بچنے یا چوری نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہو تی کہ وہ جھوٹ سے دل میں سخت متنفر ہیں یاچوری کو برا جا نتے ہیںبلکہ ان کا یہ کام صرف ان کی نیک فطرت کی وجہ سےہی ہو تاہےاور بہت دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ وہ صرف عادت کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان بدیوں سے بچتے ہیں.اگر ان کی عادت انہیں ڈال دی جا ئے تو وہ ان افعال کے مرتکب بھی ہو جائیں.ایسا ہی بعض لوگ دیکھے جا تے ہیں کہ کسی نہ کسی وجہ سے رحم مادر سے ہی ان کے غصہ یا غضب کی صفت میں ضعف آچکا ہوتا ہے اور وہ باوجود سخت سے سخت اسباب طیش انگیز کے کبھی اظہار غضب نہیں کر تے بلکہ ان کا دل غیرت وحیا کے جذبات سے بالکل خالی ہو چکا ہو تا ہے.یہ لوگ اگر چہ نرم دل کہلائیں گےلیکن ان کا غضب سے بچنا ان کی صفات حمیدہ میں سے نہیں سمجھا جا ئےگا کیونکہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ قدرت نے ہی انہیں ان جوشوں سے مبرّارکھا ہے.لیکن ایک ایسا انسان جو غضب سے صرف اس وجہ سے بچتا ہے کہ وہ اسے برا جا نتاہے اور رحم سے محبت رکھتا ہے اور باوجود اس کے کہ اسے طیش دلا یا جائے اپنے جو شوں کو قابو میں رکھتا ہے وہ تعریف کے لا ئق ہے اور پھر وہ شخص اور بھی قابل قدر ہے کہ جس کے افعال اس سے بالا رادہ سرزد ہو تے ہیں نہ خود بخود.رسول کریم ﷺ کا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنا کہ یا اللہ ! مجھے ظلمت سے بچا کر نور کی طرف لے جا اور بدی سے مجھے بچا لے ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کا بد کلامی یا بد اخلاقی سے بچنا اس تقویٰ کے ماتحت تھا جس سے آپؐ کا دل معمور تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپؐ خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگتے تھے ورنہ جو لوگ نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے بعض گناہوں سے بچے ہو ئے ہو تے ہیں وہ ان سے بچنے کی دعا یا خواہش نہیں کیا کر تے کیونکہ ان کے لیے ان اعمال بد کا کر نا نہ کر نا برا بر ہو تا ہے اور ان سے احتراز صرف اس لیے ہو تا ہے کہ ان کی پیدا ئش میں ہی کسی نقص کی وجہ سے بعض جذبات میں کمی آجاتی ہے جن کے استعمال سے خاص خاص بدیاں پیدا ہو جا تی ہیں.اس بات کے ثابت کر نے کے بعد کہ آنحضرت ﷺ کے تمام اعمال بالا رادہ تھے اور اگر کسی کام سے آپؐ بچتے تھے تو اسے برا سمجھ کر اس سے بچتے تھے نہ کہ عا دتاً اور اگر کو ئی کام آپؐ کر تے تھے تو اسی لیے کہ آپؐ اسے نیک سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ جا نتے

Page 557

تھے.اب میں اس دعا کی تشریح کر نی چاہتا ہوں تامعلوم ہو کہ آپؐ کے بدی سے تنفر اور نیکی سے عشق کا درجہ کہاں تک بلند تھا.انسان جو کر تا ہے اس کی اصل وجہ اس کے دل کی نا پاکی اور عدم طہارت ہو تی ہے.اگر دل پا ک ہو تو گناہ بہت کم سرزد ہو سکتا ہے کیونکہ پھر جو گناہ ہو گا وہ غلطی سے ہو گا یا نافہمی سے نہ کہ جان بوجھ کر.ہاں جب دل گندا ہو جا ئے تو اس کاثر جو روح پر پڑتا ہے اور وہ قسم قسم کے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں.ایک چور بے شک اپنےہا تھ سے کسی کا مال اٹھا تا ہے لیکن دراصل ہا تھ ایک با طنی حکم کے ماتحت ہو کر کام کر رہا ہے اور اصل باعث وہ دل کی حرص ہے جس نے ہا تھ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ غیر کا مال اٹھا لے.اسی طرح اگر ایک جھوٹا جھوٹ بولتا ہے تو گو خلاف واقعہ کلمات اس کی زبان پر ہی جا ری ہو تے ہیں لیکن نہیں کہہ سکتے کہ زبان نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ دل کے اشارہ پر کام کر تی ہے اور اسے جس طرح اس کا حکم پہنچا اس نے کام کر دیا.اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَالْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَاوَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہ) جِسم انسان میں ایک لو تھڑا ہے کہ جب وہ درست ہو جائے تو سب جسم درست ہو جا تا ہے اور جب وہ بگڑ جا تا ہے تو سب جسم بگڑ جا تا ہے.خبردار ہو کر سنو کہ وہ دل ہے.پس دل کے نیک ہو نے سے جو ارح سے بھی نیک اعمال ظا ہر ہو تے ہیں اور اس کے خراب ہو جانے سے ہا تھ پاؤں آنکھیں کان اور زبان سب خراب ہو جا تے ہیں.اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نےاپنی دعا میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ الٰہی میرے دل میں نور بھردے.جب دل میں نور بھرا گیا تو پھرظلمت کا گزر کیونکر ہو سکتا ہےاور گناہ ظلمت سے ہی پیدا ہو تے ہیں.جس طرح گنا ہ دل سے پیدا ہو تے ہیں اسی طرح دل کو خراب کر نے کے لیے کو ئی بیرونی سا مان ایسے پیدا ہو جا تے ہیں جن کی وجہ سے دل اپنی اصل حالت سے نکل جا تا ہے اس لیے رسول کریم ﷺ نے دل میںنور بھر نے کی درخواست کے بعد دعا فر ما ئی کہ جن ذریعوں سے قلب انسانی بیرونی اشیاء سے متاثر ہو تا ہے ان میں بھی نور ہی بھر دے یعنی آنکھوں اور کانوں کو نورا نی کر دے.میری آنکھیں کو ئی ایسی بات نہ دیکھیں کہ جس کا دل پر خراب اثر پڑے.نہ کان وہ با تیں سنے جن سے دل بدی کی طرف ما ئل ہو.پھر اس سے بڑھ کر آپؐ نے یہ سو چا کہ کان اور آنکھیں بھی تو آخر

Page 558

وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے ارد گرد ہو تا ہے.اگر ارد گرد ظلمت کے سا مان ہی نہ ہو ںاور بدی کی تحریک اور میلان پیدا کر نے والے ذرا ئع ہی مفقود ہوں تو پھر انہوں نے دل پر کیا خراب اثر ڈالنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعاکی اللّٰھُمَّ اجْعَلْ عَنْ یَمِیْنِیْ نُورًا وَیَسَا رِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًاوَتَحْتِیْ نُوْرًاوَاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا (بخا ری کتاب الدعوات باب الدعاا ذانتبہ من اللیل)اے اللہ! میری بینائی اور شنوائی کو نور سے منور کرکے یہ بھی کر کہ میرے دا ئیں بائیں،آگے پیچھے ،اوپر نیچے جہات ستہ میں نور ہی نور ہو جا ئے اور جن با توں سے آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ دل پربرا اثر پڑتا ہے وہی میرے ارد گرد سے فنا ہو کر ان کی بجا ئے تقویٰ اور طہارت کے پیدا کر نے والے نظارے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیں.پھر اس خیال سے کہ پو شیدہ در پو شیدہ ذرائع سے بھی دل ملوث ہو تا ہے.فر ما یا کہ وَجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا میرے لیے نور کے دروازے کھول دےظلمت سے میرا کچھ تعلق ہی نہ رہے نور ہی سے میرا واسطہ ہو اس دعا کو پڑھ کر ہر ایک تعصب سے کو را آدمی سمجھ سکتا ہےکہ آنحضرت ﷺ بدیوں سے کیسے متنفر تھے.شفقت علی النّفسبہت سے انسان اپنی حماقت سے بجا ئے فا ئدہ کے الٹا نقصان کر لیتےہیں اور اپنے نزدیک جسے خوبی سمجھتے ہیں وہ دراصل برائی ہو تی ہے اور اس پر عامل ہو کر تکلیف اٹھا تے ہیں.بہت سے لوگ دیکھے جا تے ہیں کہ وہ اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقت میں ڈال کر تکلیف دیتے ہیں اور اسے فخر سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ جا نتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنا کو ئی آسان امر نہیں پہلے انسان پو ری طرح سے اپنے نفس کو ما رے اور اپنے ہر فعل اور قول کو اس کی رضا کے مطابق بنا ئے اپنی خواہشات کو اس کے لیے قربان کر دے.اپنی آرزوؤں کو اس کے منشا کے مقابلہ میں مٹا دے.اپنے ارادوں کو چھوڑ دے.اس کی خاطر ہر ایک دکھ اور تکلیف اٹھا نے کو تیار ہو جا ئے.اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی خاک عظمت نہ سمجھے اور جس چیز کے قرب سے اس سے دوری ہو اسے ترک کر دے.اپنے اوقات کو ضا ئع ہو نے سے بچا ئے تب ہی انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکتا ہے اور جب اس کا فضل نا زل ہو تو اس کی رحمت کے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں اور وہ ان اسرار کا مشاہدہ کر تا ہے جو اس سے پہلے اس کے واہمہ میں بھی نہیں آتے تھے اور یہ حالت انسان کےلیےایک جنت ہو تی ہے جسے اسی دنیا میںحاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا ایسےایسے رنگ میں مطالعہ کر تا ہے کہ عقل حیران ہو جا تی ہے اور جنت کی تعریف ان کشوف پر صادق

Page 559

آٓتی ہے کہ مما لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ.لیکن باوجود اس بات کے پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ مشقت اٹھانےسے حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے انسان اپنی عمر کو را ئیگاں کر دیتے ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچتے.اہل ہنود میں ایسے لوگ پا ئے جا تے ہیں کہ جو اپنے ہاتھ سکھا دیتے ہیں.ایسے بھی پا ئے جا تے ہیں کہ جو سردیوں میں پا نی میں کھڑے رہتے ہیں اور گر میوں میں اپنے اردگرد آگ جلا کر اس کے اندر اپنا وقت گزارتےہیں.ایسے بھی ہیں کہ جو سا را دن سورج کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ہیں اور جدھر سورج پھرتا جا ئے ان کی نظر اس کے سا تھ پھرتی جا تی ہے.پھرایسے بھی ہیں جو نجاست اورگندگی کھا تے ہیں مردوں کا گو شت کھاتے ہیں.غرض کہ طرح طرح کی مشقتوں اور تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور ان کام منشا یہی ہو تا ہے کہ وہ خدا کو پا لیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ بجا ئے رو حانیت میں تر قی کرنےکے اور گرتے جاتے ہیں.مسیحیوں میں بھی ایک جماعت پادریوں کی ہے جو نہانے سے پر ہیز کر تی ہے.نکاح نہیں کر تی.صوف کے کپڑے پہنتی اور بہت اقسام طیبات سے محترز رہتی ہے لیکن اسے وہ نور قلب عطا نہیں ہو تا جس سے سمجھا جا ئے کہ خدا تعالیٰ انہیں حاصل ہو گیا بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق عام مسیحیوں کی نسبت گرے ہوئے ہو تے ہیں.مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سا راسال روزہ رکھتے ہیں اور ہمیشہ روزہ سے رہتے ہیں حالانکہ رسول کریم ﷺ نے دا ئمی رو زے رکھنے سے منع فرما یا ہے پھر بعض لوگ طیبات سے پر ہیز کر تے ہیں.اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقتوں میں ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی کو ئی کمال حاصل نہیں ہو تا.غرض کہ جس طرح بغیر محنت و کوشش کے خدا تعالیٰ نہیں ملتا اسی طرح اپنے نفس کو بلا فا ئدہ مشقت میں ڈالنے سے بھی خد انہیں ملتا بلکہ الٹانقصان پہنچ جا تا ہے.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جنہوں نے اول اول تو شوق سے سخت سے سخت محنت اٹھا کر بعض عبادات کو بجا لا نا شروع کیا اور اپنے نفس پر وہ بوجھ رکھاجسےوہ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور آخر تھک کر ایسے چُور ہو ئے کہ عبادات تو کجاخدا تعالیٰ کی ہستی سے ہی منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی خدا ہو تا تو ہماری ان محنتوں کو ضا ئع کیوں کرتا ہم تو اس کوشش و محنت سے ورد وظائف کر تے رہےلیکن وہاں سے ہمیں کچھ اجر بھی نہیں ملا اور آسمان کے دروازے چھوڑ آسمان کی کو ئی کھڑکی بھی ہمارے لیے نہیں کھلی.اور جب یہ شکوک ان کے دلوں میں پیدا ہو نے شروع ہو ئے تو وہ گناہوں پر دلیر ہو گئے اور وعظ وپند کو بنا وٹ سمجھ لیا اور خیال کر لیا کہ ہم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں وہ بھی

Page 560

ہماری ہی طرح تھے اور نعوذباللہ ان کے دل ہماری طرح ہی تا ریک تھے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے.ان واقعات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بے فا ئدہ مشقت بھی خطرناک ہو تی ہے اور نفس کو ایسے ابتلاؤں میں ڈالنا کہ جو غیرضروری ہیں بجا ئے فا ئدے کے مہلک ثابت ہو تا ہے.اسی لیے آنحضرت ﷺ جو تمام دنیا کے لیے رحمت ہو کر آئے تھے اپنے صحابہ ؓ کو روکتے تھے کہ وہ اپنےنفوس کو حد سے زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں چنانچہ لکھا ہے کہ ایک صحابی ؓ ایک دوست کے ہاں گئے تو آپ کومعلوم ہواکہ وہ سارا دن روزہ رکھتا اور رات کو تہجد میں وقت گزارتا ہے.اس پر انہوں نے انہیں ڈانٹا جس پر یہ معاملہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا آپؐ نے فر ما یا اس نے ٹھیک ڈانٹا کیونکہ انسان پر بہت سے حقوق ہیں ان کا پورا کر نا اس کےلیے ضروری ہے.خود آنحضرتؐ کا عمل ثابت کر تا ہے کہ آپؐ ہمیشہ احکام الٰہی کے پورا کر نے میں چست رہتے اور ایسے جوش کے سا تھ خدا تعالیٰ کی عبادت کر تے کہ جوان جوان صحابہ آپؐ کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے جیسا کہ میں بالتفصیل آپؐ کی عبادت کے ذکر میں لکھ آیا ہوں لیکن باوجود اس کے آپؐ آسان راہ کو قبول کرتے اور اپنے نفس کو بے فا ئدہ دکھ نہ دیتے بلکہ فر ما یا کر تے تھے کہ اس وقت تک عبادت کرو جب تک دل ملول نہ ہو جائے.حضرت عائشہ ؓ آپؐ کے اعمال کی نسبت فر ما تی ہیں مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بَیْنَ اَمْرَیْنِ اِلَّا اَخَذَ اَیْسَرَ ھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ النبی ﷺ )رسول اللہ ﷺ کو کسی دو با توں میں اختیار نہیں دیا گیا مگر آپؐ نے اسے قبول کیا جو دونوں میں سے آسان تر تھی بشرطیکہ گناہ نہ ہو اور اگر کسی کام میں گناہ ہو تا تو سب لوگوں سے زیادہ آپؐ اس سے بچتے.اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ آسان راہ کو اختیار کیا کر تے تھے اور تکلیف میں اپنے آپ کو نہ ڈالتے.ایک خیال جو اس حدیث سے پیدا ہو سکتا تھا کہ گو یا آپؐ خدا کے راستہ میں مشقت نہ بر داشت کر سکتے تھے(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ )اس کا رد بھی خود حضرت عائشہ نے فر ما دیا کہ یہ بات اسی وقت تک تھی کہ جہاں دین کا معاملہ نہ ہو.اگر کسی موقع پر آسانی اختیار کر نا دین میں نقص پیدا کر تا ہو تو پھر آپؐ سے زیادہ اس آسانی کا دشمن کو ئی نہ ہوتا.یہ وہ کمال ہے جس سے آپ کی ذات تمام انبیاءپر فضیلت رکھتی ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے لیکن آپؐ ہر رنگ میں کامل تھے.کوئی پہلوبھی تو انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس میں آپؐ دوسروں سے پیچھے ہوں یا ان

Page 561

کے برابر ہوں.ہر بات میں کمال ہے اور دوسروں سےبڑھ کر قدم مارا ہے اور ہر خوبی کو اپنی ذات میں جمع کر لیا ہے.بے شک بہت سے لوگ ہیں کہ جو اپنی جان کو آرام میں رکھتے ہیں مگر خدا کو ناراض کرتے ہیں.لوگوں کو خوش کر تے ہیں.بعض خدا کو را ضی کر نے کی کو شش میں اپنے نفس کو ایسے مصائب میں ڈالتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب بھی نصیب نہیں ہو تا اور آگے سے بھی گمرا ہ ہو تے جا تے ہیں مگرمیرا پیارا ہا دی تو سا ری دنیا کے لیے ہا دی ہو کر آیا تھا وہ کسی خاص طرز یا مذاق کےلوگوں کا رہبر نہ تھا.ہر ملک اور قوم کے آدمی اسکی غلامی میں آئے تھے اس نے اپنے اخلاق کا ایک ایسا بے لوث اور مکمل نمونہ دکھا یا ہے کہ کو ئی آدمی اس کی غلامی میں آئے نا کام و نامراد نہیں رہتا بلکہ اپنے کا مل دلی مقصد اور مدعا کو پا لیتا ہے.درحقیقت تعصب کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جا ئے تو آپ کی یہ صفت ایک ایسی حکیمانہ صفت تھی کہ اس پر جس قدر غور کیا جائے اس کے فوائد زیادہ رو شن ہو تے جاتے ہیں.ایک ہی نسخہ ہو تا ہے جسے طبیب بھی بتاتا ہے اور ایک بڑھیا بھی بتاتی ہے لیکن وہ طبیب تو حکمت کی بناء پراسے تجویز کر تا ہے اور بڑھیا صرف اس وجہ سے کہ اس کے کسی رشتہ دار کو کبھی اس سے فا ئدہ پہنچا تھا.یہی فرق رو حانیت کے مدارج میں بھی ہوتا ہے.بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے را ستہ میں کوشش کر تے ہیںمگر ان کے افعال کی بناء جہالت پر ہو تی ہے اور وہ حکمت سے کام نہیں لیتے مگر رسول کریمﷺ کے تمام کاموں کی بناء علم پر تھی.آپؐ خوب جانتے تھے کہ کسی چیز سے اپنی طاقت سے زیادہ کام لینے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ہمیشہ کے لیے کام سے معطل کر دیا جائے.اس لیے آپ اپنے قویٰ کوبرمحل اور برموقع استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ سب مقابلہ کر نے والوں سے آگے نکل گئے اور کو ئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جو آپؐ سے آگے نکلنا تو کجا آپ کی برابری بھی کر سکے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیدٌ مّجِیْدٌ.وقاروقارایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں عالی حوصلگی ،حلم اور بڑا ئی،چونکہ لوگ عام طور پر اس لفظ کو استعمال کر تے ہوئے اس کے معانی سے ناواقف ہو تے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے معنے کردوں تا کہ ناظرین کو معلوم ہو جا ئے کہ جب میں وقار کا لفظ استعمال کر تا ہوں تو اس سے میری مراد کیا ہو تی ہے.چونکہ عام طور سے یہ لفظ اردو میں عزت کے معنے میں استعمال ہو نے لگا ہے اور عام لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وقار والا ہے اور اس سے

Page 562

ان کی مراد یہ ہو تی ہے کہ بڑی عزت والا ہے یا معزز ہے لیکن دراصل اس لفظ سے گو بڑائی اور عزت کے معنی نکلتے ہیں لیکن اس سے مراد نفس کی بڑا ئی ہوتی ہے یعنی جس شخص میں چھچھورا پن،کمینگی اور ہلکا پن نہ ہو.ذرا ذرا سی بات پر چڑ نہ جائے لو گوں کی با تیں سن کر ان پر حوصلہ نہ ہار دے.مخالف کی باتوں کو ایک حد تک برداشت کر نے کی طا قت رکھتا ہو.اسے صاحب وقار کہیں گے.اور جو رذیل لوگوں کی صحبت میں رہتا ہو،چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جا تا ہو،ذرا ذرا سی تکلیف پر گھبرا جا تا ہو،چھوٹے چھوٹے مصائب پر ہمت ہار بیٹھتا ہو وہ صاحب وقار نہیں ہو گا.خواہ اس کے پاس کتنی ہی دولت ہو اور کیسے ہی عظیم الشان عہدہ پر مقرر ہو.پس گو وقار کے معنوں میں عظمت اور بڑا ئی بھی ہے مگر میری اس جگہ وقار سے وہی مراد ہے جو میں نے پہلے بیان کر دی ہے.آنحضرت ﷺ کو جو عہدہ اور شان اللہ تعالیٰ نے عطا فر ما ئی تھی وہ دنیا وی بادشاہوں سےکسی صورت میں کم نہ تھی اور گو آپ خود اپنے زہد وتقویٰ کی وجہ سے اپنی عظمت کا اظہار نہ کر تے ہوں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ آپؐ ایک بادشاہ تھے اور تمام عرب آپؐ کے ماتحت ہو گیا تھا اور اگر آپؐ ان سب طریقوں کو اختیار کر لیتےجو اس وقت کے بادشاہوں میں مروّج تھے تو دنیاوی نقطۂ خیال سے آپؐ پر کوئی الزام قائم نہیں ہو سکتا تھا اور آپؐ دنیاوی حکومتوں کی نظر میں بالکل حق بجانب ہو تے لیکن آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے نہ تھی جو شہروں اور ملکوں پر حکومت کے نام سے مشہور ہے بلکہ دراصل آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے تھی جو آپؐ کو اپنے دل پر حاصل تھی.جو آپؐ کو دوسرے لوگوں کے دلوں پر حاصل تھی.آپ نے باوجود بادشاہ ہو نے کے اس طریق کو اختیار نہ کیا جس پر بادشاہ چلتے ہیں اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے وہ نمائشیں نہ کیںجو سلطان کیا کرتے ہیں کیونکہ آپؐ نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے اور بادشاہ ہو کر جو معاملہ آپؐ نے متبعین سے کیا وہ اس بات کے ثابت کر نے کے لیے کا فی ہے کہ آپؐ کا نفس کیسا پاک تھا اور ہر قسم کے بد اثرات سے کیسا منزّہ تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فر ما تے ہیں کہ سَالْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسلَّمَ اَیُّ الْعَمَلِ اَحَبُّ اِلیٰ اللّٰہِ قَالَ الصَّلٰوۃُعَلیٰ وَقْتِھَا قَالَ ثُمَّ اَیُّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ اَیُّ قَال اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّ ثَنِیْ بِھِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَواسْتَزَدْتُہٗ لَزَادَنِیْ(صحیح بخاری کتاب المواقیت باب فضل الصلوٰہ لوقتھا)میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کو نسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا ہے.فر مایا نماز اپنے وقت پر ادا کر نا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ

Page 563

و اللہ پھر کونسا عمل.فر ما یاکہ والدین سے نیکی کر نا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر کو نسا عمل ہے.فر ما یا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کو شش کرنا.عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فر ما یا کہ مجھ سے نبی کریم ؐ نے یہ بیان فر ما یا اور اگر میں آپؐ سے اور پو چھتا تو آپؐ اور بتاتے.بظاہر تو یہ حدیث ایک ظا ہر بین کو معمولی معلوم ہو تی ہو گی لیکن غور کر نے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کا وقار کیسا تھا کہ صحابہ ؓ آپؐ سے جس قدر سوال کیے جائیں آپؐ گھبرا تے نہ تھے بلکہ جواب دیتے چلے جا تے اور صحابہ ؓ کو یقین تھا کہ آپؐ ہمیں ڈانٹیں گے نہیں.امراء کو ہم دیکھتے ہیں کہ ذرا کسی نے دو دفعہ سوال کیا اور چیں بجبیں ہو گئے.کیا کسی کی مجال ہے کہ کسی بادشاہ وقت سےبار بار سوال کر تا جا ئے اور وہ اسے کچھ نہ کہے بلکہ بادشاہوں اور امراء سے تو ایک دفعہ سوال کر نا بھی مشکل ہو تا ہے اور وہ سوالات کو پسند ہی نہیں کر تے اور سوال کر نا اپنی شان کے خلاف اور بے ادبی جا نتے ہیں اور اگر کوئی ان سے سوال کر ے تو اس پر سخت غضب نازل کر تے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہم رسول کریم ﷺ کو جا نتے ہیں کہ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہو نے کے طبیعت میں ایسا وقارہے کہ ہر ایک چھوٹا بڑا جو دل میں آئے آپ سے پوچھتا ہے اور جس قدر چاہےسوال کر تا ہے.لیکن آپ اس پر بالکل ناراض نہیں ہو تے بلکہ محبت اور پیار سے جواب دیتے ہیں اور اس محبت کا ایسا اثر ہو تا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں یقین کر لیتے ہیں کہ ہم جس قدر بھی سوال کر تے جا ئیں آپ ان سے اکتا ئیں گے نہیں.کیونکہ جو حدیث میں اوپر لکھ آیا ہوں اس سےمعلوم ہو تا ہے کہ نہ صرف اس موقع پر آپؐ اعتراضات سے نہ گھبرا ئے بلکہ آپؐ کی یہ عادت تھی کہ آپؐ دین کے متعلق سوالات سے نہ گھبرا تے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فر ما تے ہیں کہ میں نے جتنے سوال آپؐ سے کیے آپؐ نے ان کا جواب دیا.اورپھر فرماتے ہیں کہ لَوِاسْتَزَدْتُ لَزَادَ اگرمیں اورسوال کرتاتو آپؐ پھر بھی جواب دیتےاس فقرہ سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ آپ جس قدر سوالات بھی کرتے جائیں آنحضرت ﷺ اس پر ناراض نہ ہوں گے بلکہ ان کا جواب دیتے جا ئیں گے اور یہ نہیں ہو سکتا تھا جب تک رسول کریم ﷺ کی عام عادت یہ نہ ہو کہ آپ ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتے جائیں.دیگر احادیث سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ صحابہؓ کے سوالات پر خفا نہ ہو تے تھے بلکہ بڑی خندہ پیشا نی سے ان کے جواب دیتے تھے اور یہ آپؐ کے وقار کے اعلیٰ درجہ پر شاہد ہے کیونکہ معمولی طبیعت کا آدمی بار بار سوال پر گھبرا جا تا ہے مگر آپؐ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہو نے کے

Page 564

رحمت و شفقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھا تے رہے جو عام انسان تو کجا دیگر انبیاءبھی نہ دکھاسکے.اس حدیث کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے جس سے آپؐ کے وقار کا علم ہو سکتا ہے اور گو یہ حدیث میں پہلے بیان کر چکا ہوں کیونکہ اس سے آپؐ کے یقین اور ایمان پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن چونکہ اس حدیث سے آپ کے وقار کا حال بھی کھلتا ہے اس لیے اس جگہ بھی بیان کر دینا ضروری معلوم ہو تا ہے.سراقہ بن جعشم کہتا ہے کہ جب رسول کریمؐ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو ئے تو مجھے اطلاع ملی کہ آپؐ کے لیے اور حضرت ابوبکر ؓ کے لیے مکہ والوں نے انعام مقرر کیا ہے جو ایسے شخص کو دیا جا ئے گا جو آپؐ کو قتل کردے یا قید کر لا ئے.اس پر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگا اور چاہا کہ جس طرح ہو آپ کو گرفتار کر لوں تا اس انعام سے متمتع ہو کر اپنی قوم میں مالدار رئیس بن جاؤں.جب میں آپ کے قریب پہنچا میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر پڑا.اس پر میں نے اٹھ کر تیروں سے فال نکالنی چاہی کہ آیا یہ کام اچھا ہے یا براکروں یانہ کروں اور تیروں میں سےوہ جواب نکلا جسے میںناپسند کرتا تھا یعنی مجھے آپ کا تعاقب نہیں کرنا چاہیے.مگر پھر بھی میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور آپ کے پیچھے بھا گا اور اس قدر نزدیک ہو گیا کہ آپ کی قراءت کی آواز آنے لگی اور میں نے آپؐ کو دیکھا کہ آپؐ بالکل کسی طرف نہ دیکھتے تھے مگر حضر ت ابوبکر ؓ بار بار ادھر ادھر دیکھتے جا تے تھے.اس حدیث سے بھی معلوم ہو تاہے کہ آنحضرت ﷺ میں صفت وقار نہایت اعلیٰ درجہ پر تھی اور آپ خطر ناک سے خطرناک اوقات میں بھی اپنے نفس کی بڑا ئی کو نہ چھوڑ تے تھے.اور خواہ آپؐ کو گھر میں بیٹھے ہو ئے اپنے شاگردوں سے معاملہ کر نا پڑے جو دین کی جدت کی وجہ سے بار بار سوال کرنے پر مجبور تھےاور خواہ میدان جنگ میں دشمن کے ملک میں خطرناک دشمنوں کے مقابلہ میں آنا پڑے ہر دو صورتوں میں آپؐ اپنے وقار کو ہا تھ سے نہ دیتے.اور جس وقت صابر سے صابر اور دلیر سے دلیر انسان چڑ چڑا ہٹ اور گھبراہٹ کا اظہار کرے اس وقت بھی آپؐ وقار پر قائم رہتے اور تعلیم اور جنگ دو ہی موقعے ہو تے ہیں جہاں وقار کا امتحان ہو تا ہے او رجاننے والے جا نتے ہیں کہ اسی وجہ سے استادوں کو اپنے اخلاق کے درست کر نے کی کیسی ضرورت رہتی ہے اور جو استاد اس بات سے غافل ہوجائے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے بہت جلد طلباء اس کے اخلاق کو بگاڑ دیتے ہیں یہی حال میدان جنگ میں بہادر سپا ہی کا ہو تا ہے جو باوجود جرأت اور بہادری کے بعض اوقات وقار کھو بیٹھتا ہے اور چھچھوراپن اور گھبرا ہٹ کا اظہار کر بیٹھتا ہے مگروہ نیکوں کا نیک.

Page 565

بہادروں کا بہادر ان سب عیوب سے پا ک تھا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ.جرأتانسان کی اعلیٰ درجہ کی خصال میں سے ایک جرأت بھی ہےجرأت کے بغیر انسان بہت سے نیک کا موں سے محروم رہ جاتا ہے.جرأت کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کرسکتا.جرأت کے بغیر انسان اپنے ہم عصروں کی نظروں میں ذلیل و سبک رہتا ہے.غرض کہ جرأت،بہادری،دلیری اعلیٰ درجہ کی صفات میں سے ہیں اور جس انسان میںیہ خصلتیں ہوں وہ دوسروں کی نظر میں ذلیل نہیں ہو سکتا.جب کہ آنحضرت ﷺ جامع کمالات انسانی تھے اور ہر ایک بات میں جو انسان کی زندگی کو بلند اور اعلیٰ کر نے والی ہو دوسرے کے لیے نمونہ اور اسوہ حسنہ تھے اور جو عمل یا قول یا خوبی یا نیکی سے تعبیر کیا جا سکے اس کے آپ معلّم تھے اور کل پاک جذبات کو ابھارنے کے لیے ان کا وجود خضر ِراہ تھا تو ضروری تھا کہ آپؐ اس صفت میں بھی خاتم الانبیاء و اولیاء بلکہ خاتم الناس ہوں اور کو ئی انسان اس حسن میں آپؐ پر فائق نہ ہو سکے چنانچہ آپؐ کی زندگی پر غور کر نے والے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی عمر میں بہادری اور جرأت کے وہ اعلیٰ درجہ کے نمونے دکھائے ہیں کہ دنیا میں ان کی نظیر نہیں مل سکتی بلکہ تا ریخیں بھی ان کی مثال پیش کر نے سے عاجز ہیں لیکن چونکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ موجودہ صورت میں میں صرف وہ واقعات جو بخاری میں درج ہیں پیش کروں گا اس لیے اس جگہ صرف ایک دو واقعات پر کفایت کر تا ہوں.دراصل اگر غور کیاجائے تو آنحضرت ﷺ کی مکہ کی زندگی ہی بہادری کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جا تی ہے.تیرہ سال تک ایک ایسے مقام پر رہنا کہ جہاں سوائے چند انفاس کے اور سب لوگ دشمن اور خون کے پیاسےہیں اور بغیر خو ف کے لوگوں کو اپنے دین کی باتیں سنانا اور پھر ایسے دین کی جو لوگوں کی نظر میں نہایت حقیر او ر مکروہ تھا.کوئی ایسا کام نہیں جس کے معلوم ہو نے پر آپؐ کے کمالات کا نقشہ آنکھوں تلے نہ کھنچ جا تا ہو.اس تیرہ سال کے عرصہ میں کیسے کیسے دشمنوں کا آپؐ کو مقابلہ کر نا پڑا.انواع و اقسام کے عذابوں سے انہوں نے آپؐ کے قدم صدق کو ڈگمگا نا چاہا لیکن آپؐ نے وہ بہادری کا نمونہ دکھا یا کہ ہزار ہا دشمنوں کے مقابلہ میں تن تنہا سینہ سپر رہے اور اپنے دشمنوں کے سامنے اپنی آنکھ نیچی نہ کی اور جو پیغام خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اسے کھلے الفاظ میں بغیر کسی اخفاء و اسرار کے لوگوں تک پہنچا تے رہے غرض کہ آپؐ کی زندگی تمام کی تمام جرأت و دلیری کا ایک بے مثل نمونہ ہے مگر جگہ کی قلت کی وجہ سے میں ایک

Page 566

دو واقعات سے زیا دہ نہیں لکھ سکتا.حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِیْنَۃِ فَاسْتَعَارَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَسًالَنَا یُقَالُ لَہٗ مَنْدُوْبٌ فَقَالَ مَارَاَیْنَا مِنْ فَزَعٍ وَاِنْ وَجَدْنَاہُ لَبَحْرًا(بخاری کتاب الجھادباب اسم الفرس والمحار)مدینہ میں کچھ گھبراہٹ تھی پس نبی کریم ﷺ نے ہمارا گھوڑا مستعارلیا جس کا نام مندوب تھا اور فرمایا کہ ہم نے کو ئی گھبراہٹ کی بات نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس گھوڑے کو سمندر پا یا یعنی نہایت تیزوتند.حضرت انسؓ نے ایک حدیث میںاس واقعہ کی طرف اشارہ فر مایا ہے کہ ایک دفعہ مدینہ میں کسی غنیم کے حملہ آور ہو نے کی خبر تھی اورمسلمانوں کو ہر وقت اس کے حملہ آور ہونے کا انتظار تھا.ایک رات اچانک شور ہوا اور دور کچھ آوازیں سنا ئی دیں.صحابہ ؓفوراً جمع ہونے شروع ہو ئے اور ارادہ کیا کہ جمع ہو کر چلیں اور دیکھیں کہ کیا غنیم حملہ آور ہو نے کے لیے آرہا ہے.وہ تو ادھر جمع ہو تے اور تیار ہوتے رہے اورادھر رسول کریمﷺ بغیر کسی کو اطلاع دیے ایک صحابی ؓ کا گھوڑا لے کر سوار ہو کر جدھر سے آوازیں آرہی تھیں ادھر دوڑے اور جب لوگ تیار ہوکر چلے تو آپؐ انہیں مل گئے اور فرمایاکہ گھبراہٹ کی تو کوئی وجہ نہیں شور معمولی تھا.اور اس گھوڑے کی نسبت فر ما یا کہ بڑا تیز گھوڑا ہے اور سمندر کی طرح ہے یعنی لہریں مار کر چلتا ہے.اس واقعہ سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ آپؐ کیسے دلیر وجری تھے کہ شور سنتے ہی فوراًگھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی خبر لینے کو چلے گئے اور اپنے سا تھ کو ئی فوج نہ لی.لیکن جب اس واقعہ پر نظر غائر ڈالی جا ئے تو چند ایسی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس واقعہ کو معمولی جرأت و دلیری کا کام نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ واقعہ خاص طور پر ممتاز معلوم ہو تا ہے.اول امر جو قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ جرأت و دلیری دو قسم کی ہو تی ہے ایک تو وہ جو بعض اوقات بزدل سے بزدل انسان بھی دکھا دیتا ہے اور اس کا اظہار کمال مایوسی یا انقطاع اسباب کے وقت ہوتا ہے اور ایک وہ جو سوائے دلیر اور قوی دل کے اور کو ئی نہیں دکھا سکتا.پہلی قسم کی دلیری ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ایسےجانوروں سے بھی ظاہر ہو جا تی ہے جو جرأت کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں مثلاً مرغی ان جانوروں میں سے نہیں ہے کہ جو جرأت کی صفت سے متصف ہیں بلکہ نہایت ڈرپوک جانور ہے مگر بعض اوقات جب بلی یا چیل اس کے بچوں پر حملہ کرے تو یہ اپنی چونچ سے اس کا مقابلہ کر تی ہے.اور بعض اوقات تو ایسے بھی دیکھا گیا ہے کہ چیل مرغی کا بچہ اٹھا کر لے گئی تو وہ اس کے پیچھے اس زور سے کودی کہ دو دو گز تک اس کا مقابلہ کیا.حالانکہ مرغی لڑنے والے جانوروں میں

Page 567

سے نہیں ہے.مرغی تو خیر پھر بھی بڑا جانور ہے چڑیا تک اپنے سے کئی کئی گنے جانوروں کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جا تی ہے مگر یہ اسی وقت ہو تا ہے جب وہ دیکھ لے کہ اب کوئی مفر نہیں او رمیری یا میرے بچوں کی خیر نہیں.جب جانوروں میںاس قدر عقل ہے کہ وہ جب مصیبت اور بلا میں گھر جا تے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب سوائے موت کے اور کو ئی صورت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور حتَّی الوسع دشمن کا مقابلہ کر تے ہیں تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ اس صفت سے کب محروم رہ سکتا ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض انسان جو معمولی اوقات میں نہایت بزدل اور کمزور ثابت ہو ئے تھے جب کسی ایسی مصیبت میں پھنس گئے کہ اس سے نکلنا ان کی عقل میں محالات سے تھا تو انہوں نے اپنے دشمنوں کا ایسی سختی سے مقابلہ کیا کہ ان پر غالب آگئے اور جیت گئے اور ایسی جرأت دکھا ئی کہ دوسرے مواقع میں بڑے بڑے دلیروں سے بھی نہ ظاہر ہو تی تھی.پس ایک جرأت وہ ہو تی ہے جو انقطاع اسباب کے وقت ظاہر ہو تی ہے اور بزدل کو بہادر اور ضعیف کو توانا اور ڈرپوک کو دلیر بنا دیتی ہے مگر یہ کو ئی اعلیٰ درجہ کی صفت نہیں کیونکہ اس میں چھوٹے بڑے،ادنیٰ اور اعلیٰ سب شریک ہیں قابل تعریف جرأت وہ ہے جو ایسے اوقات میں ظاہر ہو کہ اسباب کا انقطاع نہ ہو ا ہو.بہت کچھ امیدیں ہوں.بھاگنے اور بچنے کے راستے کھلے ہوںیعنی انسان اپنی مرضی سے جان بوجھ کر کسی خطرہ کی جگہ میں چلا جا ئے نہ یہ کہ اتفاقاً کو ئی مصیبت سر پر آپڑی تو اس پر صبر کرکے بیٹھ رہے.اب دیکھنا چاہیے کہ رسول کریمﷺسےجو اس وقت جرأت کا اظہار ہو اہے تو یہ جرأت دوسری قسم کی ہے اگر آپ اتفاقاً کہیں جنگل میں دشمن کے نرغہ میں آجا تے اور اس وقت جرأت سے اس کا مقابلہ کر تے تو وہ اور بات ہو تی اور یہ اور بات تھی کہ آپؐ رات کے وقت تن تنہا بغیر کسی محافظ دستہ کے دشمن کی خبر لینے کو نکل کھڑے ہو ئے.اگر آپؐ نہ جا تے تو آپؐ مجبورنہ تھے.ایسے وقت میں باہر نکلنا افسروں کا کام نہیں ہوتا.صحابہ ؓ آپ خبر لا تے اور اگر جا نا ہی تھاتو آپؐ دوسروں کا انتظار کر سکتے تھے مگر وہ قوی دل جس کے مقابلہ میں شیر کا دل بھی کو ئی حقیقت نہیں رکھتا اس بات کی کیا پرواہ کرتا تھا.شور کے سنتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر خبر لا نے کو چل دیئے اور ذرا بھی کسی قسم کا تردّدیا فکر نہیں کیا.دوسرا امر جو اس واقعہ کو ممتاز کر دیتا ہے یہ ہے کہ آپؐ نے ایسے وقت میں ایسا گھوڑا لیا جس پر سواری کے آپؐ عادی نہ تھے حالانکہ ہر ایک گھوڑے پر سوار ہو نا ہر ایک آدمی کا کام نہیں ہوتا.

Page 568

ایسے خطرہ کے وقت ایک ایسے تیز گھوڑے کو لے کر چلے جا نا جو اپنی سختی میں مشہور تھا یہ بھی آپؐ کی خاص دلیری پر دلالت کر تا ہے.تیسرا امر جو اس واقعہ کو عام جرأت کے کار ناموں سے ممتاز کر تا ہے وہ آپؐ کی حیثیت ہے.اگر کو ئی معمولی سپا ہی کا م کرے تو وہ بھی تعریف کے قابل تو ہوگا مگر ایسا نہیں ہو سکتا جیسا کہ افسر و بادشاہ کا فعل.کیونکہ اس سپا ہی کو وہ خطرات نہیں جو بادشاہ کو ہیں.اول تو سپا ہی کو مارنے یا گرفتار کر نے کی ایسی کو شش نہیں کی جا تی جتنی بادشاہ یاامیرکے گرفتار کر نے یا مارنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس کے مارنے یا قید کر لینے سے فیصلہ ہی ہو جا تا ہے.دوسرے سپا ہی اگر مارا جا ئے تو چنداں نقصان نہیں بادشاہ کی موت ملک کی تبا ہی کا باعث ہو تی ہے.پس باوجود ایک بادشاہ کی حیثیت رکھنے کے آپؐ کا اس وقت دشمن کی تلاش میں جانا ایک ایسا ممتاز فعل ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی.غزوۂ حنینرسول کریم ﷺ ہی دنیا کےلیے ایک کامل نمونہ ہو سکتے ہیں کیونکہ آپؐ ہر ایک امر میں دوسرے انسانوں سے افضل ہیں اور ہر ایک نیکی میں دوسروں کے لیے رہنما ہیں.ہر ایک پاک صفت آپؐ میں پا ئی جا تی ہے اور آپؐ کا کمال دیکھ کر آنکھیں چُندھیا جا تی ہیں اور آپؐ کے نور سے دل منور ہو جا تے ہیں.علماء میں آپؐ سر بر آوردہ ہیں.متقیوں میں آپؐ افضل ہیں.انبیاء میں آپؐ سردار ہیں.ملک داری میں آپؐ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.جرأت میں آپؐ فردوحید ہیں.غرض کہ ہر ایک امر میں آپؐ خاتم ہیں اور آپؐ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.میں نے پیچھے آپؐ کی جرأت کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح آپؐ سب صحابہ سے پہلے خطرہ کے معلوم کر نے اور دشمن کی خبر لینے کے لیے تن تنہا چلے گئے.اب میں ایک اَور واقعہ بیان کر تا ہوں جس سے پڑھنے والے کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جا ئے گا کہ جوکرشمے بہادری اور جرأت کے آپؐ نے دکھلا ئے وہ کو ئی اَور انسان نہیں دکھا سکتا.جو لوگ جنگ کی تا ریخ سے واقف و آگاہ ہیں وہ جا نتے ہیں کہ دشمن کا سب سے زیا دہ زور افسروں اور جرنیلوں کو نقصان پہنچانے پر خرچ ہو تا ہے اور سب سے زیا دہ اسی بات کی کوشش کی جا تی ہے کہ سردار لشکر اور اس کے سٹاف کو قتل و ہلاک کر دیا جائے اور یہ اصل ایسی ہے کہ پرا نے زمانہ سے اس پر عمل ہو تا چلا آیا ہے بلکہ پرانے زمانہ میں تو جنگ کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ افسر کو

Page 569

قتل یا قید کر لیا جا ئے.اور اس کی زیا دہ تر وجہ یہ تھی کہ پچھلے زمانہ میں خود بادشاہ میدان جنگ میں آتے تھے اور آپ ہی فوج کی کمان کر تے تھے اس لیے ان کا قتل یا قید ہو جا نا بالکل شکست کے مترادف ہو تا تھا اور بادشا ہ کے ہا تھ سے جا تے رہنے پر فوج بے دل ہو جا تی تھی اور اس کے قدم اکھڑ جا تے تھے اور اس کی مثال ایسی ہی ہو جا تی تھی جیسے بے سر کا جسم.کیونکہ جس کی خاطر لڑتے تھے وہی نہ رہا تو لڑا ئی سے کیا فائدہ.پس بادشاہ یا سردار کا قتل یا قید کر لینا بڑی سے بڑی شکستوں سے زیا دہ مفید اور نتائج قطعیہ پر منتج تھا اس لیے جس قدر خطرہ با دشاہ کو ہو تا تھا اتنا اَور کسی انسان کو نہ ہو تا.اس بات کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے اسے ذیل کا واقعہ محو حیرت بنا دینے کے لیے کا فی ہے عَنِ الْبَرَآءِبْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّہُ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ اَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ لٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفِرَّاِنَّ ھَوَازِنَ کَانُوْقَوْمًارُمَاۃً وَاِنَّا لَمَّا لَقِیْنَا ھُمْ حَمَلْنَاعَلَیْھِمْ فَانْھَزَمُوْافَاَقْبَلَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی الْغَنائِمِ وَاسْتَقْبَلُوْنَا بِالسِّھَامِ فَاَمَّا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفِرَّ فَلَقَدْ رَاَیْتُہُ وَاِنّہٗ لَعَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَآءِ وَاِنَّ اَبَاسُفْیَانَ اٰخِذٌ بِلِجَامِھَا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ -اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ (بخاری کتاب الجھاد باب من قاددا بۃ غیرہ فی الحرب) براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ آپؓ سے کسی نے کہا کہ کیا تم لوگ جنگ حنین کے دن رسول کریمؐ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے.آپؓ نے جواب میں کہا کہ رسول کریم ﷺ نہیں بھاگے.ہوازن ایک تیرا نداز قوم تھی اور تحقیق ہم جب ان سے ملے تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور وہ بھاگ گئے.ان کے بھاگنے پر مسلمانوں نے ان کے اموال جمع کر نے شروع کیے لیکن ہوازن نے ہمیں مشغول دیکھ کر تیر برسانے شروع کیے پس اَور لوگ تو بھاگے مگر رسول کریم ﷺ نہ بھا گے بلکہ اس وقت میں نے دیکھا تو آپؐ اپنی سفید خچرپر سوار تھے اور ابو سفیان نے آپؐ کے خچر کی لگام پکڑی ہو ئی تھی اور آپؐ فرمارہے تھے میں نبیؐ ہوںیہ جھوٹ نہیں ہے.میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں.اس واقعہ کی اہمیت کے روشن کر نے کے لیے میں نے پہلے بتا یا تھا کہ بادشاہ لشکر میں سب سے زیادہ خطرہ میں ہو تا ہے کیونکہ جو نقصان بادشاہ کے قتل یا قید کر لینے سے لشکر کو پہنچتا ہے وہ کو ئی ہزار

Page 570

سپا ہیوں کے مارے جا نے سے نہیں پہنچتا.پس دشمن کو جس قدر آپؐ کا تجسّس ہو سکتا تھا اَور کسی کا نہیں.پس جبکہ اچانک دشمن کا حملہ ہوااور وہ اپنے پو رے زور سے ایک عارضی غلبہ پا نے میں کا میاب ہوا اور لشکر اسلام اپنی ایک غلطی کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہواتو دشمن کے لیےایک غیر مترقبہ موقع تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ پر حملہ کر تا اور اپنے مدت کے بغض اور عنا دکو عملی جا مہ پہناتا.پس ایسی صورت میں آپؐ کا وہاں کھڑا رہنا ایک نہایت خطرناک امر تھا جو نہایت بہادری اور جرأت چاہتا تھا اور عام عقل انسانی اس واقعہ کی تفصیل کو دیکھ کر ہی حیران ہو جا تی ہے کہ کس طرح صرف چند آدمیوں کے سا تھ آپؐ وہاں کھڑے رہے.آپؐ کے سا تھ اس وقت بارہ ہزار بہادر سپا ہی تھے جو ایک سے ایک بڑھ کر تھا اور سینکڑوں مواقع پر کمال جرأت دکھلا چکا تھا مگر حنین میں کچھ ایسی ابتری پھیلی اور دشمن نے اچانک تیروں کی ایسی بو چھاڑ کی کہ بہادر سے بہادر سپا ہی کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ تاب مقابلہ نہ لا سکا حتّٰی کہ جنگ کا عادی بلکہ میدان جنگ کا تربیت یا فتہ عرب کا گھوڑا بھی گھبراکر بھا گا اور بعض صحابہؓ کا بیان ہے کہ اس شدت کا حملہ تھا کہ ہم باوجودکو شش کے نہ سنبھل سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاؤں جما کر لڑیں مگر قدم نہ جمتے تھے اور ہم اپنے گھوڑوں کو واپس کرتے تھے لیکن گھوڑے نہ لوٹتے اور ہم اس قدر ان کی با گیں کھینچتے تھے کہ گھوڑے دوہرے ہو جا تے تھے مگر پھر آگے کو ہی بھا گتے تھے اور واپس نہ لوٹتے تھے.پس اس خطرنا ک وقت میں جب ایک جرار لشکر پیٹھ پھیر چکا ہو ایک شخص تن تنہا صرف چند وفادار خدام کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہے اور تیروں کی با رش کی ذرا بھی پروا نہ کرے تو یہ ایک ایسا فعل نہیں ہو سکتا جو کسی معمولی جرأت یا دلیری کا نتیجہ ہو بلکہ آپؐ کے اس فعل سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ اپنےسینے میں ایک ایسا دل رکھتے تھے جو کسی سے ڈرنا جانتا ہی نہ تھا اور خطرناک دشمن کے مقابلہ میں ایسے وقت جبکہ اس کے پا س کو ئی ظاہری سامان موجود نہ ہوکھڑا رہنا اس کے لیے ایک معمولی کا م تھا اور یہ ایک ایسا دلیرانہ کام ہے ایسی جرأت کا اظہار ہے کہ جس کی نظیر اولین و آخرین کی تا ریخ میں نہیں مل سکتی.آپؐ (فدا ہ ابی و امی) خوب جا نتے تھے کہ کفار عرب کو اگر کسی جان کی ضرورت ہے تو میری جان کی.اگر وہ کسی کے دشمن ہیں تو میرے دشمن ہیں.اگر وہ کسی کو قتل کر نا چاہتے ہیں تو مجھے.مگرباوجود اس علم کے باوجود بے یارو مددگار ہو نے کے آپؐ ایک قدم پیچھے نہ ہٹے بلکہ اس خیال سے کہ کہیں خچر ڈر کر نہ بھاگ جا ئے ایک آدمی کو باگ پکڑ وادی کہ اسے پکڑ کر آگے بڑھاؤ تا یہ بے بس

Page 571

ہو کر بھا گ نہ جا ئے.بے شک چند آدمی آپؐ کے سا تھ اَور بھی رہ گئے تھے مگر وہ اول تو اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریمؐ کے سا تھ تھا وہاں کھڑے رہے دوسرے ان کی جان اس خطرہ میں نہ تھی جس میں آنحضرت ﷺ کی جان تھی.پس باوجود کمال دلیری کے آپؐ کی جرأت کا مقابلہ وہ لوگ بھی نہیں کر سکتے جو اس وقت آپؐ کے پا س کھڑے رہے.اس جگہ ایک اَور بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ ایسے وقت میں ایک بہادر انسان اپنی ذلت کے خوف سے جان دینے پر آمادہ بھی ہو جا ئے اور بھا گنے کا خیال چھوڑ بھی دے تب بھی وہ یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ دشمن کوللکارے اور اگر للکارے بھی تو کمال مایوسی کا اظہار کر تا ہے اور جان دینے کے لیے آمادگی ظاہر کر تا ہے مگر آپؐ نے اس خطرناک وقت میں بھی پکار کر کہا کہ میں خد اکا نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں.جس فقرہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اس خطرناک وقت میں بھی آپؐ گھبرائے نہیں بلکہ ان لوگوں کو پکار کر سنا دیا کہ میں سچا ہوں اور خدا کی طرف سے ہوں تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو.پس ایسے خطر ناک موقع پر خون کے پیاسے دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا رہنا پھر انہیں اپنی موجودگی کی اطلاع خود نعرہ مار کرد ینا پھر کا مل اطمینان اور یقین سے فتح کا اظہار کر نا ایسےا مور ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے کو ئی شخص میرے آقا ؐکے مقابلہ میں جرأت و دلیری کا دعویٰ نہیں کر سکتا.مال کے متعلق احتیاطآنحضرت ﷺکو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بادشاہ بھی بنا دیا تھا اور گو آپؐ کے مخالفین نے ناخنوں تک زور مارا مگر خدا کے وعدوں کو پورا ہو نے سے کون روک سکتا ہے باوجود ہزاروں بلکہ لا کھوں دشمنوںکے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے دشمنوں پر فتح دی اور وہ سب آپؐ کے سامنے گردنیں جھکا دینے پر مجبور ہو ئے اور انہیں چارو نا چار آپؐ کے آگے سر نیاز مندی جھکا نا پڑا.مختلف ممالک سے زکوٰۃ وصول ہو کر آنے لگی جس کا انتظام آپؐ ہی کر تے تھےمگر جس رنگ میں کر تے تھے اسے دیکھ کر سخت حیرت ہو تی ہے.آج کل کے بادشاہوں کو دیکھو کہ وہ لوگوں کا روپیہ کس طرح بےدریغ اڑارہے ہیں.وہ مال جو غرباء کے لیے جمع ہو کر آتا ہے اسے اپنے اوپر خرچ کر ڈالتے ہیں اور ان کے خزانوں کا کو ئی حساب نہیں.اگر وہ اپنےخاص اموال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کریں تو ان پر کو ئی اعتراض نہ ہو مگر غرباء کے اموال جو صرف تقسیم کر نے کے لیے ان کے سپرد کیے جا تے ہیں ان پر بھی وہ ایسا دست تصرف پھیرتے ہیں کہ جیسے خاص ان کا اپنامال ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں.مگر آنحضرت

Page 572

ﷺکا حال با لکل اس کے بر خلاف تھا.آپؐ کبھی لوگوں کے اموال پر ہا تھ نہ ڈالتے بلکہ باوجود اپنے لا ثانی تقویٰ اور بے نظیر خشیت الٰہی کے آپؐ لو گوں کے اموال کو اپنے گھر بھی رکھنا پسند نہ کر تے تھے.حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صَلَّیْتُ وَرَآءَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا یَتَخَطّٰی رِقَابَ النَّاسِ اِلیٰ بَعْضِ حُجَرِ نِسَآئِہٖ فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِہٖ فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ فَرَاٰی اَنَّھُمْ عَجِبُوْامِنْ سُرْعَتِہٖ فَقَالَ ذَکَرْتُ شَیْأً مِنْ تِبْرٍ عِنْدَ نَا فَکَرِھْتُ اَنْ یَّحْبِسَنِیْ فَاَمَرْتُ بِقِسْمَتِہٖ(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب من صلّی بالناس فذکر حابۃً)میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے مدینے میں عصر کی نماز پڑھی.پس آپؐ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے کو دتے ہو ئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے.لوگ آپؐ کی اس جلدی کو دیکھ کر گھبرا گئے.پس جب با ہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپؐ کی جلدی پر متعجب ہیں.آپؐ نے فر مایا کہ مجھے یاد آگیا کہ تھوڑا سا سو نا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے نا پسند کیا کہ وہ میرے پا س پڑا رہے اس لیے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کر دیا جا ئے.اس واقعے سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہو جا ئے.آپؐ کی نسبت یہ تو خیال کر نا بھی گناہ ہے کہ نعوذباللہ آپؐ اپنےنفس پر اس بات سے ڈر ے ہوںکہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کر لوں.مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپؐ اس بات سے ڈر ے کہ کہیں جہاں رکھا ہو وہیں نہ پڑا رہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھا نے سے محروم رہ جائیں.اور اس خیال کے آتے ہی آپؐ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فوراً وہ مال تقسیم کر وایا اور پھر مطمئن ہو ئے.اس احتیاط کو دیکھو اوراس بے احتیاطی کو دیکھو جس میں آج مسلمان مبتلا ہو رہے ہیں.امانتوں میں کس بے دردی سے خیانت کی جا رہی ہے.لوگ کس طرح غیروں کا مال شیر مادر کی طرح کھا رہے ہیں.حقوق کا اتلاف کس زور وشور سے جا ری ہے مگر کو ئی نہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے.آنحضرت ﷺ جیسا پا ک انسان جس پر گناہ کا شبہ بھی نہیںکیا جاسکتا.غرباء کے اموال کی نسبت ایسی احتیاط کرے کہ ان کا مال استعمال کر نا تو الگ رہا اتنا بھی پسند نہ فرمائے کہ اسے اپنے گھر میں پڑا رہنے دے اور اب گھر میں رکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس اپنے اموال رکھوائیں تا ہم پھر انہیں واپس نہ دیں.کاش ہمارے رؤسا ء اس نکتے کو

Page 573

سمجھتے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اختیار کرتے جو باوجود معصوم ہو نے کے اپنے نفس پر ایسا محاسبہ رکھتے کہ ذرہ سی غفلت میں بھی نہ پڑنے دیتے اور یہ لو گ دیکھتے کہ ہم تو اپنے نفوس پر ایسے قابو یا فتہ نہیں پھر بغیر کسی حساب کے لوگوں کے اموال کو جمع کر نا ہمارے لیے کیسا خطرناک ہو گا مگر اس طر ف قطعاًتو جہ نہیں اور کل روپیہ بجائے غرباء کی خبر گیری کے اپنے ہی نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور جن کے لیے روپیہ جمع کیا جا تا ہے اور جن پر خرچ کر نے کا حکم اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں کو دیا ہے ان کی کوئی خبر ہی نہیںلیتا.آنحضرت ﷺ کا یہ فعل ہمیشہ کے لیے مسلمان بادشاہوں کے لیے ایک نمونہ ہے جس پر عمل کر نے سے وہ فلاح دارَ ین پا سکتے ہیں.اگر رعایا کو یقین ہو جا ئے کہ ان کے اموال بے طور سے نہیں خرچ کیے جاتے تو وہ اپنے بادشاہ کے خلاف سازشوں کی مرتکب نہ ہومگر ہمارے بادشاہوں نے اپنے حقوق کو آنحضرت ﷺ کے حقوق سے کچھ زیا دہ ہی سمجھ لیاہے اور اپنے نفس پر آپؐ سے بھی زیا دہ بھروسہ کر تے ہیں.حضرت فاطمہ ؓکا سوالگزشتہ سے پیوستہ ) پچھلے واقعہ سے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ ایسے محتاط تھے کہ غرباء کا مال جب تک ان کے پا س نہ پہنچ جائے آپؐ کو آرام نہ آتا اور آپؐ کسی کے حق کے ادا کر نے میں کسی قسم کی سستی یا دیر کو روانہ رکھتے.لیکن وہ واقعہ جو میں آگے بیان کر تا ہوں ثابت کر تا ہے کہ آپؐ اموال کی تقسیم میں بھی خاص احتیاط سے کام لیتے اور ایسا کو ئی موقع نہ آنے دیتے کہ لوگ کہیں کہ آپؐ نے اموال کو خود اپنے ہی لو گوں میںتقسیم کر دیا.حضرت علیؓ فر ما تے ہیں اَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا شَکَتْ مَا تَلْقٰی مِنْ اَثَرِا الرَّحَا فَاَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْیٌ فَانْطَلَقَتْ فَلَمْ تَجِدْ ہُ فَوَجَدَتْ عَائِشَۃَ فَاَخْبَرَ تْھَا فَلَمَّا جَآءَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَخْبَرَتْہُ عَائِشَۃُ بِمَجِیْیءِ فَاطِمَۃ قَالَ فَجَآءَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْنَا وَقَدْ اَخَذْنَا مَضَا جِعَنَا فَذَھَبْتُ لِاَ قُوْمَ قَالَ عَلیٰ مَکَا نِکُمَا فَقَعَدَ بَیْنَنَا حتّٰی وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَیْہِ عَلیٰ صَدْرِیْ وَقَالَ اَلاَاُ عَلِّمُکُمَا خَیْرًا مِمَّا سَاَلْتُمَا نِیْ اِذَا اَخَذْتُمَا مَضَا جِعَکُمَاتُکّبِّرَااَرْبَعًا وَّثَلَاثِیْنَ وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَّثَلَاثِیْنَ وَتَحْمَدَ اثَلَاثَۃً وَّ ثَلَاثِیْنَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمَا مِنْ خَادِمٍ(بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؓ)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی کہ چکی پیسنے سے انہیں تکلیف ہو تی ہے.اسی عرصہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے.پس آپؓ آنحضرت ؐ کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپؐ کو گھر پر نہ پا یا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دےکرگھرلوٹ آئیں

Page 574

جب آنحضرتﷺگھر تشریف لائےتو حضرت عائشہؓ نے جنابؐ کو حضرت فاطمہؓ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپؐ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں نے آپؐ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت ﷺ نے فر ما یا کہ اپنی اپنی جگہ پرلیٹے رہو.پھر ہم دونوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپؐ کے قدموں کی خنکی میرے سینہ پر محسوس ہونے لگی.جب آپؐ بیٹھ گئے تو آپؐ نے فر ما یا کہ میں تمہیں کو ئی ایسی بات نہ بتا دوں جو اس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس دفعہ تکبیر کہو اور تینتیس دفعہ سُبْحَا نَ اللّٰہ کہو اور تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہو پس یہ تمہارے لیے خادم سے اچھا ہو گا.اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت ﷺ اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ با وجود اس کے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہو تی تھی مگر پھر بھی آپؐ نے ان کو خادم نہ دیابلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ کیا.آپؐ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہ ؓ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لیے آپؐ کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہ ؓ میں تقسیم کر نے کے لیے آتے تھے اور حضرت علی ؓ کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہ ؓ بھی اس کی حق دار تھیں لیکن آپؐ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال میں سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو دے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کاکچھ نتیجہ نکالتے اور با دشاہ اپنے لیے اموال الناس کو جا ئز سمجھ لیتے پس احتیاط کے طور پر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپؐ کے پا س اس وقت بغرض تقسیم آئیں کو ئی نہ دی.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ جن اموال میں آپؐ کا اور آپؐ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر فر مایا ہے ان سے آپؐ خرچ فر ما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے ہا ں جب تک کو ئی چیز آپؐ کے حصہ میں نہ آئے اسے قطعاً خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے.کیا دنیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو بیت المال کا ایسا محافظ ہو.اگر کو ئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پا ک وجود کے خدام میں سے.ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتے.مذکورہ با لا واقعات سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جا تا ہے کہ آنحضرت ﷺ نہایت

Page 575

محتاط تھے اور ہر معاملہ میں کمال احتیاط سے کام کر تے تھے خصوصاً اموال کے معاملہ میں آپؐ نہایت احتیاط فرماتے کہ کسی کا حق نہ مارا جا ئے اور عارضی طور پر بھی لوگوں کو حق رسی میں دیر کر نا پسند نہ فر ما تے بلکہ فوراً اغرباء کو حقوق دلوا دیتے تھے.اب میں اسی امر کی شہادت کے لیے ایک اَور واقعہ بیان کر تا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ لوگوں کے اموال کا خیال رکھنے کے علاوہ ان کے ایمانوں کا بھی خیال رکھتے تھےاور کبھی ایسے چندوںکو قبول نہ فر ما تے جو بعد میںکسی وقت چندہ دہندگان کے لیے وبال جان ثابت ہوں یا کسی وقت اسے افسوس ہو کہ میں نے کیوں فلاں مال اپنے ہا تھ سے کھو دیا آج اگر میرے پاس ہو تا تو میں اس سے فا ئدہ اٹھاتا.مکہ میں جب تکالیف بڑھ گئیں اور ظالموں کے ظلموں سے تنگ آکر آنحضرت ﷺ کو پہلے اپنے صحابہ ؓکو دوسرے ممالک میں نکل جا نے کا حکم دینا پڑا اور بعد ازاں خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنا وطن عزیز ترک کرکے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کر نی پڑی تو آپؐ پہلے مدینہ سےکچھ فاصلہ پربنی عمرو بن عوف کے مہمان رہے اور دس دن سے کچھ زیادہ وہاں ٹھہرے اس کے بعد آپؐ مدینہ تشریف لا ئے اور چو نکہ یہاں مستقل طور پر رہنا تھا اس لیے مکانات کی بھی ضرورت تھی اور سب سے زیادہ ایک مسجد کی ضرورت تھی جس میں نماز پڑھی جائے اور سب مسلمان وہاں اکٹھے ہو کر اپنے رب کا نام لیں اور اس کے حضور میں اپنے عجزو انکسار کا اظہار کریں اور آنحضرت ﷺ جو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے خیال میں رہتے تھے اور آپؐ کا ہر ایک فعل عظمت الٰہی کو قائم کر نے والا تھا آپؐ کو ضرور بالضرور سب سے پہلے تعمیر مسجد کا خیال پیدا ہو نا چاہیے تھا.چنانچہ جب آپؐ مدینہ میں داخل ہو ئے تو سب سے پہلے آپؐ نے جو کام کیا وہ یہی تھا کہ آپؐ اپنے محبوب و مطلوب کےذکر کا مقام اور اس کے حضور گرنے اور عبادت کر نے کی جگہ تیار کریں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ہمارے مطاع وآقا خاتم النّبیّٖن ﷺ کی زوجہ مطہّرہ تھیں آ پ نے ایک طویل حدیث میں تمام واقعہ ہجرت مفصل بیان فرمایا ہے.آپؓ فر ما تی ہیںفَلَبِثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ فِیْ بَنِیْ عَمْرِوبْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً وَاُسِّسَ اْلمَسْجِدُ الَّذِیْ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی وَصَلَّی فِیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ فَسَارَ یَمشِیْ مَعَہُ النَّاسُ حَتّٰی بَرِکَتْ عِنْدَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَھُوَ یُصَلِّیْ فِیْہِ یَوْ مَئَذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَکَانَ مِرْبَدً الِلتَّمْرِ لِسُھَیْلٍ وَسَھْلٍ غُلَا مَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی حَجْرِ سَعَدِبْنِ

Page 576

زُرَارَۃَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ بَرِکَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ ھٰذَا اِنْ شَاءَاللّٰہُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغُلَا مَیْنِ فَسَاوَ مَھُمَا بِلْمِرْبَدِ لِیَتَّخِذَہٗ مَسْجِدًا فَقَالَابَلْ نَھَبُہٗ لَکَ یَآرَسُوْلَ اللّٰہِ فَاَبیٰ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّقْبَلَہٗ مِنْھُمَا ھِبَۃً حَتّٰی اِبْتَاعَہٗ مِنْھُمَا ثُمَّ بَنَاہُ مَسْجِدًا(بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی ﷺواصحابہ الی المدینۃ) نبی کریم ﷺ بنی عمر و بن عوف میں کچھ دن ٹھہرے.دس دن سے کچھ اوپر اور اس مسجد کی بنیادرکھی جس کی نسبت قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھی پھرآپؐ اپنی سواری پر سوار ہو ئے اور آپؐ کے ساتھ لوگ پا پیادہ چلنے لگے.آپؐ کی اونٹنی چلتی گئی یہاں تک کہ وہ مدینہ کے اس مقام پر پہنچ کر بیٹھ گئی جہاں بعد میں مسجد نبوی تیار کی گئی اور اس وقت وہاں مسلمان نماز پڑھا کر تے تھے.اس مقام پر کھجوریں سکھا ئی جا تی تھیں.اور وہ دویتیم لڑکوں کا تھا جن کا نام سہیل اور سہل تھا اور جو سعد بن زرارہ ؓ کی ولایت میں پلتے تھے.جب یہاں آپؐ کی اونٹنی بیٹھ گئی تو آپؐ نے فر ما یا کہ ان شاءاللہ یہاں ہی ٹھہریں گے.پھر رسول کریم ﷺ نے ان دونوں لڑکوں کو بلوایا اور ان سے چاہا کہ اس جگہ کی قیمت طے کرکے انہیں قیمت دے دیں تاکہ وہاں مسجد بنائیں.اوردونوں لڑکوں نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم قیمت نہیں لیتے بلکہ آپؐ کو ہبہ کر تے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے ہبہ لینے سے انکار کیا اور آخر قیمت دے کر اس جگہ کو خرید لیا.اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہو تی ہے کہ مدینہ میں داخل ہو تے ہی پہلا خیال آپؐ کو یہی آیا کہ مسجد بنا ئیں اور پہلے آپؐ نے اس کے لیے کو شش شروع کی اور آپؐ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جو جوش تھا اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ جا تا ہے.دوسرے یہ امر ثابت ہو تا ہے کہ آپؐ معاملات میں کیسے محتاط تھے.اہل مدینہ نے بار بار درخواست کرکے آپؐ کو بلا یاتھا اور خود جا کر عرض کی تھی کہ آپؐ ہمارے شہر میں تشریف لا ئیں اور ہم آپؐ کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھا ئیں گے اور جان ومال سے آپؐ کی خدمت کریں گے اور جہاں تک ہماری طاقت ہو گی آپؐ کو آرام پہنچا نے کی کوشش کریں گے.غرض کہ بار بار کی درخواستوں اور اصرار کے بعد آپؐ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تشریف لا ئے اور مدینہ والوں کا فرض تھا کہ آپؐ کو جگہ دیتے اور حق مہمان نوازی اداکرتے اور مسجد بھی

Page 577

تیار کراتے اور آپ کی رہائش کے لئے بھی مکان کا بندوبست کرے اور وہ لوگ ت کو سمجھتے بھی تھےاور ہر طرح خد مت کے لئے حاضر تھے مگر چونکہ آپ کے تمام کام اللہ تعالیٰ کے سپرد تھے اور ہر ایک فعل میں آپ اسی پر اتکال کرتے تھے اس لئے آپ نے اپنی رہائش کے لئے ایسی جگہ کو پسند کیا جہاںاللہ تعالیٰ آپ کو رکھنا پسند کرے اور بجائے خود جگہ پسند کرنے کے اپنی اونٹنی کو چھوڑ دیا کہ خدا تعالیٰ جہاں اسے کھڑا کرے وہیں مسجد بنائی جائے اور وہیں رہائش کا مکان بنایا جائے.اب جس جگہ آپ کی اونٹی کھڑی ہوئی وہ دو تیموں کی جگہ تھی اور وہ بھی آپکے خدام میں تھے اور ہر طرح آپ پر اپنا جان و مال قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور بطور ہبہ کے وہ زمین پیش کرتے تھے مگر باوجود اس کے کہ آپ اہل مدینہ کے مہمان تھے اور والٹر کے مہمان نوازی کے ثبوت میں آپکو وہ زمین مفت دینا چاہتے تھے آپ نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی وجہ وہ احتیاط تھی جو آپ کے تمام کاموں میں پائی جاتی تھی.اول تو آپ یہ نہ چاہتے تھے کہ وہ نابالغ بچوں سے بغیر معاوضہ کے ز مین لیں کیونکہ ممکن تھا کہ وہ بچین کے جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں زمین پیش کر دیئے لیکن بڑے ہو کر ان کے دل |میں افسوس ہوتا کہ اگر وہ زمین ہم نی دینے کا اس وقت ہمارے پاس ہوتی تو وو زمین یا اس کی قیمت ہمارے کام آتی اور ہماری معیشت کا سامان بھی.اس احتیاط کی وجہ سے اس خیال سے کہ ابھی میہ بچے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کو نہیں سمجھ سکتے آپ نے اس زمین کے مفت لینے سے بالکل انکار کردیا.گو وہ ان کے اپنے ایمان کے ہوش میں تین تہیہ کر رہے تھے اور اگر آپ اسے قبول کر لیتے توبجائے افسوس کرنے کے وہ اس پر خوش ہوتے کیو نکہ صحابہ کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بچے بھی جوانوں سے کم نہ تھے اور چودہ پندرہ سال تک کے چھ مال تو کیا جان دینے کے لئے تیار ہو جاتے چنانچہ بدر کی جنگ میں دو ایسے بچے بھی شامل ہوئے تھے.پس باوجود اس کے کہ وہ چکے تھے اور ابھی کم سن تھے مگر بظاہر حالات ان کے ایمانوں کے اندازہ کرنے سے کہا جاسکتاتھا کہ وہ اس پر کبھی متاسف نہ ہوں گے مگر پھر بھی رسول کریم ا نے مناسب نہ جانا کہ امکانی طور پر بھی ان کو ابتلاء میں ڈالا جائے اور اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ قیمت وصول کریں اور اگر چاہیں تو اپنی زمین فروخت کر دیں ورنہ آپ نہیں لیں گے.اگر آپ کے اصرار کو دیکھ کر ان بچوں اوران کے والیوں نے قیمت لے لی اور وہ زمین آپ کے پاس فروخت کر دی.آجکل دیکھا جاتا ہے کہ بتائی سے بھی لوگ چند وصول کرتے ہیں اور بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ شاید ان کو بعد

Page 578

ازاں تکلیف ہو اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بالکل خدا کا خوف نہیں کر تے مگر رسول کریم ؐنے اپنے طریق عمل سے بتا دیا کہ باوجود اس کے کہ آپؐ حق دار تھے اور اہل مدینہ کے مہمان تھے آپؐ نے ان یتامیٰ سے بغیر قیمت زمین لینے سے انکار کر دیا اور باصرار قیمت ان کے حوالہ کی.افسوس کہ کامل اور اکمل نمونہ کےہوتے ہو ئے مسلمانوں نے اپنے عمل میں سستی کر دی ہے اور یتامیٰ کے اموال کی قطعاً کو ئی حفاظت نہیں کی جا تی.ان کے اموال کی حفاظت تو الگ رہی خود محافظ ہی یتامیٰ کے مال کھا جا تے ہیں اور اس احتیاط کے قریب بھی نہیں جا تے جس کانمونہ رسول کریمؐ نے دکھا یا ہے.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ.بنو ہوازن کےاموالیتامیٰ کے اموال کے لینے سے رسول کریمؐ نے جس احتیاط سے انکار کر دیا اور باوجود اصرار کے مسجد کے لیے بھی زمین کا لینا پسند نہ کیا وہ تو پچھلے واقعہ سے ظاہر ہے.اب ایک اور واقعہ اسی قسم کا لکھتا ہوں.ہوازن کے سا تھ جب رسول کریمﷺکا مقابلہ ہؤا تو ان کے بہت سے مرد اور عورتیں قید ہوئے اور بہت سا مال بھی صحابہؓ کے قبضہ میں آیا.چونکہ آنحضرت ﷺ نہایت رحیم و کریم انسان تھے اور ہمیشہ اس بات کے منتظر رہتے کہ لوگوں پر رحم فرمائیں اور انہیں کسی مشقت میں نہ ڈالیں.آپؐ نے نہایت احتیاط سے کام لیا اور کچھ دن تک انتظار میں رہے کہ شا ید قبیلہ ہوازن کےلوگ آکر عفو طلب کریں تو ان کےاموال اور قیدی واپس کر دیے جا ئیں مگر انہوں نے خوف سے یا کسی باعث سے آپؐ کے پاس آنے میں دیر لگا ئی تو آپؐ نے اموال وقیدی بانٹ دیے.اس واقعہ کو امام بخاری ؒ نے مفصل بیان کیا ہے.مِسْوَرْبن مخرمہ ؓ کی روایت ہے.اَنَّ رَسُوْلَ اللہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ حِیْنَ جَآءَہٗ وَفَدُ ھَوَازِنَ مُسْلِمِیْنَ فَسْأَ لُوْہُ اَنْ یَّرُدَّ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَسَبْیَھُمْ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیِ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحَبُّ الْحَدِیْثِ اِلَیَّ اَصْدَقُہٗ فَاخْتَارُوْ اِحْدَیِ الطَّائِفَتَیْنِ اِمَّا السَّبْیَ وَاِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اِسْتَاْنِیْتُ بِکُمْ وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اِنْتَظَرَ ھُمْ بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حِیْنَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُرآدٍّاِلَیْھِمْ اِلَّا اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوْ افَاِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُسْلِمِیْنَ فَاَثْنٰی عَلیٰ اللہِ تَعَالیٰ بِمَا ھُوَ اَھْلُہٗ ثُمَّ قَالَاَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ اِخْوَا نَکُمْ ھٰٓؤُلَآ ءِ قَدْ جَاءُ وْنَا تَائِبِیْنَ وَاِنّیْ قَدْ رَاَیْتُ اَنْ اَرُدَّ اِلَیْھِمْ سَبِیْھُمْ فَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ یُّطَیِّبَ بِذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ عَلیٰ حَظِّہٖ حَتّٰی نُعْطِیَہٗ اِیَّاہٗ

Page 579

مِنْ اَوَّلِ مَا یُفِیْئُ اللہُ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّا لَانَدْرِیْ مَنْ اَذِنَ مِنْکُمْ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَاْذَنْ فَارْجِعُوْاحَتّٰی یَرْفَعَ اِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَھُمْ عُرَفَاؤُھُمْ ثُمَّ رَجَعُوْااِلیٰ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَخْبَرُوْہُ اَنَّھُمْ قَدْ طَیَّبُوْاوَاَذِنُوْا.(بخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وھب شیئا لوکیل) ترجمہ:-جب وفد ہو ازن بحالت قبول اسلام آنحضرت ﷺ کے پاس آیا آپؐ کھڑے ہو ئے.ہوازن کے ڈیپوٹیشن کے ممبروں نے آنحضرت ؐ سے سوال کیا کہ ان کے مال اور قیدی واپس کیے جا ئیں.رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فر ما یا کہ مجھے سب سے پیاری وہ بات لگتی ہےجو سب سے زیادہ سچی ہو.پس میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ دونوں چیزیں تمہیں نہیں مل سکتیں.ہاں دونوں میں سے جس ایک کو پسند کرو وہ تمہیں مل جائے گی.خواہ قیدی آزاد کروالو خواہ اموال واپس لے لو.اور میںتو تمہارا انتظار کر تا رہا مگر تم نہ پہنچے،اور رسول کریمؐ طائف سے لوٹتے وقت دس سے کچھ اوپر را تیں ان لوگوں کا انتظار کر تے رہے تھے جب انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ رسول کریم ؐ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر یہی بات ہے تو ہم اپنے قیدی چھڑوانا پسند کرتے ہیں.اس پر آنحضرت ؐ مسلمانوںمیں کھڑے ہو ئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کر نے کے بعد فر ما یا کہ سنو تمہارے ہوازن کے بھا ئی تا ئب ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میری رائے ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں.پس جو کو ئی تم میں سے یہ پسند کرےکہ اپنی خوشی سے غلام آزاد کر دے تو وہ ایسا کر دے.اور اگر کو ئی یہ چاہے کہ اس کا حصہ قائم رہے اور جب خدا سب سے پہلی دفعہ ہمیں کچھ مال دے تو اسے اس کا حق ہم ادا کر دیں تو وہ اس شرط سے غلام آزاد کر دے.لو گوں نے آپؐ کا ارشادسن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم نے آپ ؐ کے لیے اپنےغلام خوشی سے آزاد کر دیے مگر رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ہم تو نہیں سمجھتے کہ تم میں سے کس نےخوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی.پس سب لوگ یہاں سے اٹھ کر اپنے خیموں پر جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار تم سے فیصلہ کرکے ہمارے سا منے معاملہ پیش کریں.پس لوگ لوٹ گئے اور ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے طور پر گفتگو کی پھر سب سردار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ سب لوگوں نے دل کی خوشی سے بغیر کسی عوض کی طمع کے اجازت دے دی ہے کہ آپؐ غلام آزاد فر ما دیں.

Page 580

اس جگہ یہ با ت یا درکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرتؐ جس قبیلہ میں پلے تھے اور جس میں سے آپ کی دا ئی تھیں وہ ہوازن کی ہی ایک شاخ تھی.پس ایک لحاظ سے ہواز ن کے قبیلہ والے آپؐ کے رشتہ دار تھے اور ان سے رضاعت کا تعلق تھا چنانچہ جب وفد ہوازن آنحضرت ؐکی خدمت میں پیش ہوا تو اس میں سے ابو بر قان اسعدی (آنحضرت ؐکی دائی حلیمہ سعد قبیلہ میں سے ہی تھیں)نے آپ ؐ کی خد مت میں عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ فِیْ ھٰذِہِ الْحَظَا ئِرِ اِلَّا اُمَّھَا تُکَ وَخَالَا تُکَ وَحَوَاضِنُکَ وَمُرْ ضِعَا تُکَ فَامْنُنْ عَلَیْنَا مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ.یا رسول اللہ ان احاطوں کے اندر حضورکی ما ئیں اور خالہ اور کھلا یاں اور دودھ پلائیاں ہی ہیں اور تو کو ئی نہیں پس حضورؐ ہم پر احسان فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ پر احسان کرے گا.پس ہوازن کے سا تھ آپ کا رضا عی تعلق تھا اور اس وجہ سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ آنحضرت ؐ ان کے ساتھ نیک سلوک کر تے.چنانچہ آپؐ نے اسی ارادہ سے دس دن سے زیادہ تک اموال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم نہیںکیا اور اس بات کے منتظر رہے کہ جو نہی ہوازن پشیمان ہو کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اپنے اموال اور قیدیوں کو طلب کریں توآپؐ واپس فرما دیں کیونکہ تقسیم غنائم سے پہلےآپ کا حق تھا کہ آپ جس طرح چاہتے ان اموال اور قیدیوں سے سلوک کر تے خواہ بانٹ دیتے خواہ بیت المال کے سپرد فر ما تے.خواہ قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور مال واپس کر دیتے مگر باوجود انتظار کے ہوازن کا کو ئی وفد نہ آیا جو اپنے اموال اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کر تا اس لیے مجبوراً دس دن سے زیا دہ انتظار کرکے طائف سے واپس ہو تے ہوئے جعرانہ میں آپ نے ان اموال اور غلاموں کو تقسیم کر دیا.تقسیم کے بعد ہوازن کا وفد بھی آپہنچا اور رحم کا طلبگار ہوا اور اپنا حق بھی جتا دیا کہ یہ قیدی غیر نہیں ہیں بلکہ جنابؐ کے ساتھ کچھ رشتہ اور تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کی عورتیں ان قیدیوں میں شا مل ہیں جس میں کسی عورت کا حضور نے دودھ بھی پیا ہے اور اس لحاظ سے وہ آپ کی ما ئیں اور خالائیں اور کھلائیاں اور دائیاں کہلانے کی مستحق ہیں پس ان پر رحم کر کے قیدیوں کو آزاد کیا جائے اور اموال واپس کیے جا ئیں.تقسیم سے پہلے تو حضور ضرور ہی ان کی درخواست کو قبول کر لیتے اور آپؐ کا طریق عمل ثابت کر تا ہے کہ جب کبھی بھی کو ئی رحم کا معاملہ پیش ہوا ہے حضور سرور کائنات نے بے نظیر رحم سے کام لیا.مگر اب یہ مشکل پیش آگئی تھی کہ اموال و قیدی تقسیم ہو چکے تھے اور جن کے قبضہ میں وہ چلے گئے تھے اب وہ ان کا مال تھا.اورگو وہ لوگ اپنی جان و مال کو اس حبیب خدا کی مرضی پر قربان کر نے کے لیے تیار تھے اور انہوں نے

Page 581

سینکڑوں موقعوں پر قربا ن ہو کر دکھا بھی دیا مگر پھر بھی ہر قسم کے لوگ ہو تے ہیں.کچھ کمزور اور ناتوان ہو تے ہیں کچھ قوی دل اور دلیر اس لیے حضور ؐنے اس موقع پر نہایت احتیاط سے کام لیا اوربجا ئے اس کے کہ فوراً صحابہ ؓکو حکم دیتے کہ ہوازن سے میرا رضا عی رشتہ ہے تم ان کے اموال اور قیدی رہا کر دو اول تو خود ہوازن کو ہی ملا مت کی کہ تم نے دیر کیوں کی اگر تم وقت پر آجا تے توجس طرح اور عرب قبا ئل سے سلوک کیا کر تے تھے تم پر بھی احسان کیا جا تا اور تمہارا سب مال اور قیدی تم کو مل جاتے مگر خیر اب تم کو اموال اور قیدیوں میں سے ایک چیز دلا سکتا ہوں اور اس فیصلہ سے آنحضرتؐ نے گو یا نصف بوجھ مسلمانوں پر سے اٹھا دیا اور فیصلہ کر دیا کہ دو میں سے ایک چیز تو انہیں کے ہا تھ میں رہنے دی جائے اور جب ہوازن نے قیدیوںکی واپسی کی درخواست کی تو آپؐ نے پھر بھی مسلمانوں کو سب قیدی واپس کر نے کا حکم نہیں دیابلکہ کہہ دیا کہ جو چاہے اپنی خوشی سے آزاد کر دے اور جو چاہے اپنا حصہ قائم رکھے.آئندہ اللہ تعالیٰ جو سب سے پہلا موقع دے اس پر اس کا قرضہ اتار دیا جا ئے گا اور اس طرح گو یا ان تمام کمزور طبیعت کے آدمیوں پر رحم کیا جو ہر قوم میں پا ئے جا تے ہیں.مگر ہزار آفرین ہے اس جماعت پر جو آنحضرت ؐ کی تعلیم سے بنی تھی کہ آپؐ کا ارشاد سن کر ایک نے بھی نہیں کہاکہ ہم آئندہ حصہ لے لیں گے بلکہ سب نے بالا تفاق کہہ دیا کہ ہم نے حضورؐ کی خاطر سب قیدیوں کو خوشی سے رہا کر دیا مگر آپؐ نے اس پر بھی احتیاط سے کام لیا اور حکم دیا کہ پھر مشورہ کر لیں ایسانہ ہو بعض کی مرضی نہ ہو اور ان کی حق تلفی ہواپنے اپنے سرداروں کی معرفت اپنے فیصلہ سے اطلاع دو.چنانچہ جب قبائل کے سرداروں کی معرفت آنحضرت ؐکو جواب ملا تو تب آپ نے غلام آزاد کیے.سُبْحَانَ اللہ کیسی احتیاط ہے اور کیا بے نظیر تقویٰ ہے.آپؐ نے یہ با ت بالکل بر داشت نہ کی کہ کوئی شخص آپؐ پر یہ اعتراض کرے کہ آپؐ نے زبردستی ہوازن کے غلام آزاد کرادیے.اور چونکہ اس قبیلہ سے آپؐ کا رضا عی تعلق تھا اس لیے آپ نے خاص احتیاط سے کام لیا اور با ربار پو چھ کر قیدیانِ ہوازن کو آزادی دی.سچّے مریداگر کسی شخص نے سچے مرید اور کامل متبع دیکھنے ہوں تو وہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓکو دیکھے جو اپنے جان و مال کو رسول کریمؐ کے نام پر قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کر تے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عضل اور قارۃ دو قبیلوں کے کچھ لو گ آنحضرت ﷺ کی خد مت میںحاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ ہماری قوم اسلام کے قریب ہے آپؐ کچھ آدمی بھیجئے جو انہیں دین اسلام سکھا ئیں.آپ ؐنے ان کی در خواست پر چھ صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ وہاں جا کر انہیں

Page 582

اسلام سکھائیں اور قرآن شریف پڑھائیں.ان صحابہ ؓ کا عامر بن عاصم رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا.جب یہ لوگ صحابہؓ کو لے کر چلے تو راستہ میں ان سے شرارت کی اور عہد شکنی کرکے ہذیل قبیلہ کے لوگوں کو اکسایا کہ انہیں پکڑلیں.انہوں نے ایک سو آدمی ان چھ آدمیوں کے مقابلہ میں بھیجا.صحابہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے.کفارنے ان سے کہا کہ وہ اترآئیں وہ انہیں کچھ نہ کہیں گے.حضرت عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ انہیں کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں وہ نہیں اتریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری حالت کی رسول اللہ ؐ کو خبر دے.مگر چھ میں سے تین آدمی کفار پر اعتبار کرکے اتر آئے.مگر جب انہوں نے ان کے ہاتھ باندھنے چا ہے تو ایک صحابی ؓ نے انکار کر دیا کہ یہ تو خلاف معاہدہ ہے مگر وہاں معاہدہ کون سنتا تھا اس صحابی ؓ کو قتل کر دیا گیا با قی دو میں سے ایک کو صفوان بن امیہ نے جو مکہ کا ایک رئیس تھا خرید لیا اور اپنا غلام کر کے نسطاس کے سا تھ بھیجا کہ حرم سے با ہر اس کے دو بیٹوں کے بدلہ قتل کر دے.نسطاس نے قتل کرنے سے پہلے ابن الدثنہ رضی اللہ عنہ (اس صحا بی) سے پو چھا کہ تجھے خدا کی قسم سچ بتا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا رسول اس وقت یہاں ہمارے ہا تھ میں ہو اور ہم اسے قتل کریں اور تو آرام سے اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہو.ابن الدثنہ رضی اللہ عنہٗ نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کر تا کہ محمد (ﷺ) وہاں ہوں جہاں اب ہیں (یعنی مدینہ میں) اور ان کے پاؤں میںکو ئی کانٹا چبھے اورمیں گھر میں بیٹھا ہؤا ہوں.اس بات کو سن کر ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہ لا یا تھا وہ بھی متاثر ہو گیا اور کہا کہ میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کر تے ہو ئے نہیں دیکھا جتنی محمد(ﷺ) کے صحابی محمد(ﷺ) سے محبت کر تے تھے.یہ وہ اخلاص تھا جو صحابہ ؓ کو آنحضرت ﷺ سے تھا اور یہی وہ اخلاص تھا جس نے انہیں ایمان کے ہر ایک شعبہ میں پا س کرا دیا تھا اور انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا.اے احمدی جماعت کے مخلصو! تم بھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک رسول کریمؐ اور پھر مأمورِ وقت مسیحِ موعوؑد سے ایسی ہی محبت نہ رکھو.آنحضرتﷺ کی دعاجیساکہ میں بیان کر چکا ہوں آنحضرت ﷺ ہر معاملے میںنہایت حزم اور احتیاط سے کام لیتے تھے.اب میں ایک حدیث نقل کرکے بتا نا چاہتا ہوں کہ آپؐ دعا میں بھی نہایت محتاط تھے اور کبھی ایسی دعا نہ کر تے جو یک طرفہ ہو بلکہ ایسی ہی دعا کر تے جس میں تمام پہلو مد نظر رکھے جا ئیں جیسا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کَانَ اَکْثَرُ دُعَاءِ النَّبِیِّ

Page 583

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ اٰتنا فی الدنیا حسنۃ)یعنی نبی کریمؐ اکثراوقات یہ دعا فر مایا کر تے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور بھلا ئی دے اور آخرت میں بھی نیکی اور بھلا ئی عنایت فرما اور عذاب نار سے ہمیں محفوظ رکھ.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی آپ کی اس دعا کا ذکر فرمایا ہے.فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِمِنْ خَلَاقٍ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَ ۃِحَسَنَۃًوَّقِنَاعَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 201-202)یعنی لوگوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کر تے ہیں کہ الہٰی اس دنیا کا مال ہمیں مل جا ئے اور ایسے لو گوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں.اور کچھ ایسے ہیں جو کہتےہیں اے ربّ! اس دنیا کی بھلائی بھی ہمیں پہنچا اور آخرت کی نیکی بھی ہمیں پہنچا اور آگ کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ.اب اس دعا پر غور کر نے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ ؐ کس قدر احتیاط سے کام فر ما تے تھے.عام طور پر انسان کا قاعدہ ہے کہ جو مصیبت پڑی ہو ئی ہو اسی طرف متوجہ ہو جا تا ہے اور دوسرے تمام امور کو اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور ایک ہی طرف کا ہو رہتا ہے اور اس وجہ سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سےلوگ حق وحکمت کی شاہراہ سے بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل جا تے ہیں اور سچائی سے محروم ہو جا تے ہیں لیکن آنحضرتؐ ایسے کامل انسان تھے کہ آپؐ مصائب سے گھبرا کر ایک ہی طرف متوجہ نہ ہو جاتے تھے بلکہ ہر وقت کل ضروریات پر آپؐ کی نظر رہتی تھی.اور اس دعا سے ہی آپؐ کے اس کمال پر کا فی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ آپؐ صرف دنیا کے مصائب اور مشکلات کو مد نظر نہ رکھتے تھے بلکہ جب دنیاوی مشکلات کے حل کر نے کے لیے اپنے مولا سے فر یا د کر تے تو ساتھ ہی ما بعد الموت کی جو ضروریات ہیں ان کے لیے بھی امداد طلب کر تے.اور جب قیامت کے دل ہلا دینے والےنظاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر خدا تعالیٰ کی نصرت کے لیے درخواست کر تے تو سا تھ ہی اس دنیا کی مشکلات کے دور کر نے کے لیے بھی جو مزرعۂ آخرت ہے التجا کر تے اور کسی مشکل یا تکلیف کو حقیر نہ جا نتے بلکہ نہایت احتیاط سے دنیاوی اور دینی ترقیوں کے لیے بغیر کسی ایک کی طرف سے غافل ہو نے کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے.علاوہ ازیں اس دعا سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐ اپنی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نہایت احتیاط برتتے تھے کیونکہ آپؐ نے یہ دعا نہیں کی کہ

Page 584

الٰہی ہمیں دین اور دنیا کی متری عنایت فرما کیونکہ بعض دفعہ دنیا تو ملتی ہے مگر وہ بجائے فائدہ کےنقصان رساں ہو جاتی ہے.اسی طرح دین بھی بعض لوگوں کو ملتا ہے مگر وہ اس کے ملنے کے باوجودکچھ سکھ نہیں پاتے اس لئے آپ نے دعامیں یہ الفاظ بڑھادیئے کہ الی دنیا کی بہتری ہمیں دے.یعنی دنیا کے جس حصہ میں بہتری ہو ہمیں والے ایسا کوئی حصہ دنیا ہمیں نہ ملے جس کے ملنے سےبجائے فائدہ کے نقصان ہو اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی ملے نہ کہ کسی قسم کی برائی کے ہم حقدارہوں.کسی کی درخواست پر کام سپر دنہ فرماتےلوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ امراء سے فائدہاٹھانے کے لئے ہزاروں تم کی تدابیر سے کام لیتے ہیں اور جب ان کے مزاج میں دخل پیدا ہو جاتا ہے تو اپنی منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں اور جو کہتےہیں وہ امراء مان لیتے ہیں.مگر آنخضرت ایسے محتاط تھے کہ آپ کے دربار میں بالکل یہ بات نہ چل سکتی تھی.آپ کبھی کسی کے کہنے میں نہ آتے تھے اور آپ کے حضور میں باتیں بنا کر اور آپ کوخوش کر کے یا خوشامد سے با سفارش سے کام نہ چل سکتا تھا.آپ کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ تمام عہدوں پر ایسے ہی آدمیوں کو مقرر فرماتے تھے جن کو ان کے لائق سمجھتے تھے کیونکہ بصورت دیگرخطرہ ہو سکتا ہے کہ رعایا یا حکومت کو نقصان پینچ با خود مال کاتی دومین خراب ہو.پس کبھی کسی عمیدپر سفارشی با درخواست سے گھی کا تقرر نہ فرماتے اور و و نظارے جو دنیاوی بادشاہوں کے درباروں میں نظر آتے ہیں و ر کار نبوت میں بالکل معدوم تھے.حضرت ابو موسی اشعری با فرماتے ہیں أقبلت إلى النبي صلى الله عليه و سلم معی رجلان من الأشعريین فقلت ما علمت انھما يطلبان العمل فقال لن أو لا نستعمل على عملنا من ارادہ (بخاری کتاب الاجارة باب استئجار الرجل الصالح لینی میں نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ اشعری قبیلہ کے دو اور آری بھی تھے ان دونوں نے اخضرت الا سے درخواست کی کہ انہیں کوئی ملازمت دی جائے.اس پر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے علم نہ تھا کہ یہ کوئی |ملازمت چاہتے ہیں.آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہم اسے جو خود خواہش کرے اپنے مال میں ہر گزنہیں مقرر کریں گے یا فرمایا کہ نہیں مقرر کریں گے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سرور کائنات کو بنی نوع انسان کی بہتری کا کتنا خیال تھا.اللہ اللہ یا تو یہ زمانہ ہے کہ حکومتوں کے بڑے سے بڑے عہدے خود در خواست کرنے پر ملتے ہیں یا

Page 585

آپؐ کی احتیاط تھی کہ در خواست کر نے والے کو کوئی عہد ہ نہیں دیتے تھے.در حقیقت اگر غور کیا جا ئے تو ایک شخص جب کسی عہد ہ کی خود در خواست کر تا ہے تو صاف ثابت ہو تا ہے کہ اس کی کو ئی غرض ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اس عہدہ پر قائم ہو کر وہ لوگوں کو دکھ دے اور ان کے اموال پر دست اندازی کرے.مگر جس شخص کو اس کی درخواست کے بغیر کسی عہدہ پر مامور کیا جا ئے تو اس سے بہت کچھ امید ہو سکتی ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے گا اور لوگوں کے حقوق کو تلف نہ کرے گا کیونکہ اسے اس عہدہ کی خواہش ہی نہ تھی بلکہ خود بخود اسے سپرد کیا گیا ہے.دوسرے یہ بھی بات ہے کہ جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص خود کسی عہدہ کی درخواست کرے یا کسی سے سفارش کروائے اسے کو ئی عہدہ دینا ہی نہیں تو اس سے یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے جا ئز و نا جا ئز و سائل سے حکام کے مزاج میں دخل پیدا کرنے کا بالکل سدّ باب ہوجا تا ہےاور خوشامد بند ہو جا تی ہے کیونکہ حکام سے رسوخ پیدا کر نے یا ان کی جھوٹی خوشامد کرنے سے یہی غرض ہو تی ہے کہ کچھ نفع حاصل کیا جا ئے.پس جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو خود درخواست کرے گا اسے کسی عہدہ پر مامور نہ کیا جائے گا تو ان تمام باتوں کا سدِّ با ب ہو جا تا ہے.اور گو آنحضرت ﷺ کا نفس پا ک ان عیبوں سے با لکل پا ک تھا کہ آپؐ کی نسبت یہ خیال کیا جاسکے کہ آپؐ کسی کی بات میں آجا ئیں گے مگر آپؐ نے اس طریق عمل سے مسلمانوں کے لیے ایک نہایت شاندار سڑک تیار کر رکھی ہے جس پر چل کر وہ حکومت کی بہت سی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس سے فا ئد ہ نہیں اٹھا یا بلکہ دوسری قوموں کی نسبت مسلمان حکومتوں میں ہی حکام کے منہ چڑھ کر لوگ بہت فا ئدہ اٹھا تے ہیں اور سفارشوں سے جو کام نکلتے ہیں لیاقت سے نہیں نکلتے.اگر مسلمان حکام اس طرف غور کرتے تو آج اسلامی حکومتوں کا وہ حال نہ ہو تا جو ہے.اور پھر آنحضرت ؐ جن لوگوں کی نسبت یہ احتیاط برتتے تھے ویسے لوگ بھی تو آجکل نہیں.صحابی ؓ تو وہ تھے کہ جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے مال اور جا نیں بھی لٹا دیں وہ دوسروں کے اموال کی طرف کب نظر اٹھا کر دیکھ سکتے تھے.مگر آج کل تو دوسروں کے اموال کو شِیرِ مادر سمجھا جا تا ہے.پھر جب آنحضرت ﷺ ایسے پاک باز لوگوں کی نسبت بھی ایسے احتیاط برتتے تھے تو آج کل کے زمانہ کے لوگوں کی نسبت تو اس سے بہت زیا دہ احتیاط کی جا نی چاہیے.

Page 586

ساد گی ایک نعمت ہےاس زمانے میں لوگ عام طور پر تکلف کی عادت میں بہت مبتلا ہیں اور اس زمانے کی خصوصیت نہیں جو قوم ترقی کرلے اس میں تکلف اپنا دخل کر لیتا ہے.دولت اور مال اور عزت کے ساتھ سا تھ تکلف بھی ضرور آموجود ہو تا ہے اور بڑے آدمیوں کو کچھ نہ کچھ تکلف سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جو مزا سا دگی کی زندگی میں ہے وہ تکلف میں نہیں.اور گو تکلف ظاہر میں خوشنما معلوم ہو مگر اندر سے بہت تکلیف دہ ہو تا ہے.ذوق نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام سے ہیں و ہ جو تکلف نہیں کر تے تکلف کی وجہ سے لا کھوں گھرا نے بر باد ہو جا تے ہیں اور تصنع اور بناوٹ ہزاروں کی بر با دی کا باعث ہو چکے ہیںمگر چونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تکلف کے سوا ہماری عزت نہیں ہو تی برابر اس مرض میں مبتلا چلے جا تے ہیں اور کچھ علاج نہیں کرتے.بادشاہ اور امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تکلف اور بناوٹ سے ہم اپنی خاص شان نہ بنا ئے رکھیں گے تو ماتحتوں میں بھی ہماری عزت نہ ہو گی اور اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہوں گے اسی لیے بہت سے مواقع پر سادگی کو بر طرف رکھ کربناوٹ سے کام لیتے ہیں اور ہزاروں موقعوں پر اپنے ما فی الضمیر کو بھی بیان نہیں کر سکتے.میں ایک مجلس میں شامل ہوا جہاں بہت سے بڑے بڑے لوگ جمع تھے جو اس وقت ہندوستان میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور بعض ان میں سے لیڈرانِ قوم کہلاتے ہیں.ان میں سے کچھ ہندو تھے کچھ مسلمان.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو ایک بیرسٹر صاحب نے کہا ایک مدت ہو گئی کہ تکلف کے ہا تھوں میں تکلیف اٹھا رہا ہوں.ہر وقت بناوٹ سے اپنے آپ کو سنجیدہ بنا ئے رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی با تیں کر نے کو دل چاہتا ہے مگر تکلف مانع ہو تا ہے کیونکہ وہ شان قائم نہیں رہتی مگر اب میں با لکل تنگ آگیا ہوں.اس زندگی کا فا ئدہ کیا.ایک دوسرے صاحب بو لے کہ بے شک میرا بھی یہی حال ہے اور میں تو اب اس زندگی کو جہنم کا نمونہ پا تا ہوں پھرتو سب نے یہی اقرار کیا اور تجویز ہو ئی کہ آج کی مجلس میں تکلف چھوڑ دیا جا ئے اور بے تکلفی سے آپس میں بات چیت کریں اور بناوٹ نزدیک نہ آئے.مگر خدا تعالیٰ انسان کو اس سادگی سے بچائے جو اس وقت ظاہر ہوئی.اسے دیکھ کر معلوم ہو سکتا تھا کہ آج دنیا کی کیا حالت ہے کیونکہ جس قدر قوم کے لیڈر یہ نمونہ دکھا رہے تھے اس کے عوام نے کیا کمی رکھی ہوگی.کلام ایسا فحش کہ شریف آدمی سن نہ سکے.مذاق ایسا گندہ کہ سلیم الفطرت انسان بر داشت نہ کرسکے.باتوں سے گزر کر ہا تھوں پر آگئے اور ایک دوسرے کے سر پر چپتیں بھی رسید ہونی شروع ہو

Page 587

ہوگئیں.پھر میوہ کچھ کھا رہے تھے اس کی گٹھلیوں کی وہ بو چھاڑ شروع ہو ئی کہ الامان.میں نے تو سمجھا کہ اس گولہ باری میںمیری خیر نہیں ایک کو نہ میں ہو کر بیٹھ گیا.اور جب یہ سا دگی ختم ہو ئی تو میری جان میں جان آئی کہ آنکھ ناک سلامت رہے.جو نمونہ سا دگی اس مجلس کے ممبران نے دکھا یا جو ہندو مسلمان دونوں قوموں میں سے تھے اس سے تو ان کے تکلف کو میں لوگوں کے لیے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں مگر اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ تکلف خود ان لو گوں کے لیے وبال جان ہو رہا تھا اور ہے.گو وہ خوش نظر آتے ہیں مگر در حقیقت اپنی جھوٹی عظمت اور عزت قائم کر نے کے لیے لوگوں کے سامنے ایسے سنجیدہ بنے رہتے ہیں اور ایسے بنے ٹھنے رہتے ہیں کہ اپنے حقیقی جذبات کو چھپا نے اور اپنے جسم کو حد سے زیا دہ مشقت میں ڈالنے کی وجہ سے ان کے دل مردہ ہو گئے ہیں اور زندگی ان کے لیے تلخ ہو گئی ہے.امراء کے مقابلے میں دوسرا گر وہ علماء اور صوفیاءکا ہے جو دین کے عماداور ستون سمجھے جا تے ہیں یہ بھی تکلفات میں مبتلا ہیں اور انہیں بھی اپنی عزت کے قائم رکھنے کے لیے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے.اپنی چال میں،اپنی گفتگو میں،اپنےاٹھنے بیٹھنے میں،اپنے پہننے میں،اپنے کھا نے میں ہر بات میںتکلفات سے کام لیتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اسی سے ہمارا تقدس ثابت ہو تا ہے.یہ مذہبی لیڈر خواہ کسی مذہب کے ہوں اس مرض میں مبتلا ہیں.مسلمان صوفیاء کو ہی کو ئی جا کر دیکھے کس طرح مراقبہ کی حالت میں اپنے مریدوں کے سامنے بیٹھتے ہیں مگر بہت ہو تے ہیں جن کے دل اندر سے اور ہی خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اپنے بھا ئیوں یعنی امراء سے زیادہ سکھ والی نہیں ہو تیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی تلخ ہوں کیونکہ وہ اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لیے کو ئی نہ کو ئی راہ نکال لیتے ہیں مگر علماء اور صوفیا ء اس سے بھی محروم ہیں.میری اس بیان سے یہ غرض ہے کہ دنیا میں تکلف کا بہت دور دورہ ہے اور دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے عظماء اس مرض میں مبتلا ہیں اورنہ صرف آج مبتلا ہو ئے ہیں بلکہ دنیا میں یہ نقشہ ہمیشہ سے قائم ہے اور سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائیدو نصرت ہو اور بہت کم لوگ اس بناوٹ سے بچ سکتے ہیں.ہمارے ہادی اور رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین ہو کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کُل دنیا کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لیے آپؐ نے ہمارے لیے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں.آپؐ نے اپنے طریقِ

Page 588

عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذباتِ نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کو دبانا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہیے.اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھپانا نہیں بلکہ ان کا مارنا ضروری ہے.پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن کا کرنا ہمارے دین اور دنیا کے لیے مفید تھا تو ہم غلط کار ہیں.اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دینِ اسلام کے رو سے ہمارے لیے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے ور نہ دراصل ان کے شائق ہیں تو یہ نفاق ہے.اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت و عظمت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ شرک ہے.آنحضرت ﷺکی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لیے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت و ذلت کا مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے.جو لوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہو اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ انہیں نہایت نیک سمجھیں.اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیرتک وضو کے اعضاء کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پرہیز کریں گے.سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے.اپنی شکل سے خاص حالتِ خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ سب سے اتقٰی اور اَوْرَع تھے اور آپ کے برابر خشیتُ اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپؐ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی.ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا: إِنِّیْ لَأَقُوْمُ فِی الصَّلَاۃِ أُرِیْدُ أَنۡ أُطَوِّلَ فِیْہَا فَأَسۡمَعُ بُکَاءَ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِی صَلَاتِیْ کَرَاہِیَۃَ أَنۡ أَشُقَّ عَلٰی أُمِّہٖ(بخاری کتاب الصلوة باب من اخف الصلوة عند الصبی) یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کو لمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز کو اس خوف سے کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں نماز مختصر کر دیتا ہوں.کس سادگی سے آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سن کر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں.آج کل کے صوفیاء تو ایسے قول کو شاید اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی

Page 589

نہیں رہی.اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیںکچھ خیال نہیں آتا.مگر آنحضرت ﷺان تکلفات سے بَری تھے.آپ کی عظمت خدا کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا.یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اَنَّہٗ سُئِلَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ نَعۡلَیۡہِ ؟قَالَ نَعَمۡ یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے بچتے تھے.اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں اگر کسی کو اپنی جُوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچا دیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق کُل شرائط کو پورا نہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے مگر آنحضرت ﷺجو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں آپ کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپؐ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے.پس جب جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں.اور آپ نے ایسا کر کے امتِ محمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لیے تکلفات اور بناوٹ سے بچا لیا.اس اسوۂ حسنہ سے اُن لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں.جس فعل سے عظمتِ الٰہی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق نہیں آ سکتا.حضرت ابن مسعود انصاریؓ سے روایت ہے قَالَ کَانَ رَجُلٌ مِنَ الۡأَنۡصَارِ یُقَالُ لَہٗ أَبُوْ شُعَیۡبٍ وَکَانَ لَہٗ غُلَامٌ لَحَّامٌ فَقَالَ اصۡنَعۡ لِیْ طَعَامًا أَدۡعُوْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمۡسَۃٍ فَدَعَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمۡسَۃٍ فَتَبِعَہُمۡ رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ دَعَوۡتَنَا خَامِسَ خَمۡسَۃٍ وَہٰذَا رَجُلٌ قَدۡ تَبِعَنَا فَإِنۡ شِئۡتَ أَذِنۡتَ لَہٗ وَإِنۡ شِئۡتَ تَرَکۡتَہٗ قَالَ بَلۡ أَذِنۡتُ لَہٗ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا.اس کا نام ابو شعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا تھا.اسے اس نے حکم دیا کہ تُو میرے لیے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کے لیے بلاؤں گا.پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 590

سے بھی کہلا بھیجا کہ حضور کی اور چار اَور آدمیوں کی دعوت ہے.جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا.جب آپؐ اس کے گھر پر پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلوایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اب بتاؤ کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اس نے کہا یا رسولَ اللہ! اجازت ہے تو آ پؐ اس کے سمیت اندر چلے گئے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے.شاید آپؐ کی جگہ کوئی اَور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپؐ دنیا کے لیے نمونہ تھے اس لیے ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے ہمارے لیے مشکل ہوتی.آپ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ سادگی ہی انسان کے لیے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلف یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپؐ ظاہر ی خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپؐ کی عزت خدا کی طرف سے تھی.گھر کا کام کاج خود کر لیتےمیں نے پچھلی فصل میں بتایا ہے کہ آپ کس طرح سادگی سے کام لیتے اور تکلفات سے پرہیز کرتے تھے اور بناوٹ سے کام نہ لیتے تھے.اب میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ آنحضرت ﷺنہ صرف بے تکلفی سے سب کام کر لیتے اور اس معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے بلکہ آپؐ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جو امراء اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جائیں اور اس پر عمل کرنا تو الگ رہا یورپ کے بادشاہ شاید یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدر سخی پیدا کیے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا.جن کو اللہ تعالیٰ دولت اور مال دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں.غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتاً امراء کا گروہ موجود ہے حتّٰی کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امراء کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہو اُن میں تو امراء کی زندگیاں ایسی پُرعیش و عشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.آنحضرت ﷺجس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر و خیلاء میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خدم کو مایہ ناز جانتی تھی.عرب سردار باوجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے

Page 591

اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے اور عرب کے اردگرد دو قومیں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اُس وقت کی کُل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں.ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو کُل ایشیا پر قائم کیے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ و جلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دستِ تصرف کو افریقہ اور یورپ پر پھیلائے ہوئے تھا اور یہ دونوں ملک عیش و طرب میں دوسری حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آرائش و آرام کے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے نگاہِ حیرت سے دیکھا جاتا ہے.دربارِ ایران میں شاہانِ ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور اُن کے گھروں میں جو کچھ سامانِ طرب جمع کیے جاتے تھے اُسے شاہنامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں اُن سامانوں کی تفصیل کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ دربار ِشاہی کی قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کا نقشہ زمردوں اور موتیوں کے صَرف سے تیار کر کے میدانِ دربار کو شاہی باغوں کا مماثل بنا دیا جاتا تھا.ہزاروں خدام اور غلام شاہِ ایران کے ساتھ رہتے اور ہر وقت عیش و عشرت کا بازار گرم رہتاتھا.رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان و شوکت کے شیدا نہ تھے تو مغربی آرائش اور زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے.جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس طریق سے خرچ کیا ہے.پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدر حکومتوں کے درمیان واقع تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش و عشرت اسے لُبھارہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے.آنحضرت ﷺکا بادشاہِ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متأثر نہ ہونا اور روم و ایران کے دامِ تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بُت کو مار کر گرا دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاکبازوں کا سردار اور طہارتُ النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا.

Page 592

علاوہ اس کے کہ آپ کے اردگرد بادشاہوں کی زندگی کا جو نمونہ تھا وہ ایسا نہ تھا کہ اس سے آپ وہ تأثّر حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مرجعِ افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لیے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع تھا ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متأثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا.غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لیے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے.حضرت عائشہؓ کی نسبت لکھا ہے کہ اَنَّھَا سُئِلَتۡ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَا کَان یَصۡنَعُ فِیْ بَیۡتِہٖ قَالَتۡ کَانَ یَکُوْنُ فِیْ مِہۡنَۃِ أَہۡلِہٖ تَعۡنِیْ فیْ خِدۡمَۃِ أَہۡلِہٖ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ(بخاری کتاب الصلوة باب من کان فی حاجة اھلہ فاقیمت الصلوة فخرج) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ آپ اپنے اہل کی محنت کرتے تھے.یعنی خدمت کرتے تھے.پس جب نماز کا وقت آ جاتا آپ نماز کے لیے باہر چلے جاتے تھے.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آپ اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کروا دیتے.اللہ اللہ! کیسی سادہ زندگی ہے.کیا بینظیر نمونہ ہے.کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لیے ایک نوکر بھی نہ ہو.اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہو گا.کسی دوسرے بادشاہ نے جو آپ کی غلامی کا فخر نہ رکھتا ہو یہ نمونہ کبھی نہیں دکھایا.ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا.ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے.مگر یہ نمونہ کہ دنیا کی اصلاح کے لیے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی

Page 593

اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا.یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی.جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ اپنے رہنے کے لیے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں.جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان و شوکت سے کیا رہنا ہے مگر ملکِ عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں روپیہ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحابِ بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہ سکتی.عرب کے ملک میں اب بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور ان کے افسر یا امیر جس طرزِ رہائش کے عادی ہیں انہیں بھی جاننے والے جانتے ہیں.خود شریفِ مکہ جنہیں صرف حجاز میں ایک حد تک دخل و تصرف حاصل ہے انہی کے دروازہ پر بیسیوں غلام موجود ہیں جو ہر وقت خدمت کے لیے دست بستہ ہیں مگر آنحضرت ﷺسارے عرب پر حکمران تھے.یمن اور حجاز اور نجد اور بحرین تک آپ کے قبضہ میں تھے مگر باوجود تمام عرب اور اس کے اردگرد کے علاقوں پر حکومت کرنے کے آپ کا گھر کے کاروبار خود کرنا اس پاکیزگی کی طرف ہمیں اشارہ کررہا ہے جو آپ کے ہر عمل سے ظاہر ہورہی تھی.اور اس طہارتِ نفس کی طرف متوجہ کر رہا ہے جو آپ کے ہر فعل سے ہویدا تھی.دنیا طلبی اور اظہارِ جاہ و جلال کی آگ اُس وقت لوگوں کے دلوں کو جلا رہی تھی اور امراء تو اس کے بغیر امراء ہی نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اس آگ میں سے سلامت نکلنے والا صرف وہی ابراہیم کا ایک فرزندﷺ تھا جس نے اپنے دادا کا معجزہ اور بھی بڑی شان کے ساتھ دنیا کو دکھایا.میں نے پچھلےباب میں آنحضرت ﷺ کی سا دگی کا ذکر کیا ہے کہ آپ ؐکس طرح تکلفات سے محفوظ تھے اور آپؐ کا ہر ایک فعل اپنے اندر سادگی اور بے تکلفی کا رنگ رکھتا تھا اب میں آپ ؐکی سا دہ زندگی کا حال بیان کر نا چاہتا ہوں.کھجور اور پا نی پر گزارہجو لوگ اس زمانہ کے امراء اور دولت مندوں کے دیکھنے کے عادی ہیں وہ تو خیال کر تے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ بھی انہیں کی طرح عمدہ عمدہ کھانے کھایا کر تے ہوں گے اور ایک شاہانہ دسترخوان آپؐ کے آگے بچھتا ہوگا لیکن وہ یہ معلوم کرکے حیران ہوں گے کہ واقعہ بالکل خلاف تھا.اور اگر ایک طرف آنحضرت ﷺ سادگی کے کامل نمونہ تھے دوسری طرف سادہ زندگی میں بھی آپؐ دنیا کے لیے ایک نمونہ تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بھانجے حضرت عروہؓ سے فرمایا: یَاابْنَ اُخْتِیْ اِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ اِلَی الْھِلَالِ ثُمَّ الْھِلَالِ ثَلَاثَۃَ اَھِلَّۃٍ فِیْ شَھْرَیْنِ وَمَا اُوْقِدَتْ فِیْ اَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ

Page 594

اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ یَا خَالَۃُ مَا کَانَ یُعِیْشُکُمْ قَالَتْ اَلْاَسْوَدَانِ اَلتَّمَرُ وَالْمَآ ءُ اِلَّا اَنَّہٗ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِیْرَا نٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ کَانْتْ لَھُمْ مَنَا ئِحُ وَکَانُو ا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَلْبَانِھَا فَیَسْقِیْنَا(بخاری کتاب الھبۃ و فضلھا)اے میرے بھانجے! ہم لوگ تو دیکھا کرتے تھے ہلال کے بعد ہلال حتی کہ تین تین ہلال دیکھ لیتے یعنی دو ماہ گزر جا تے مگر آنحضرت ﷺ کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی.حضرت عروہؓ فرما تے ہیں کہ میں نے کہا اے خالہ ! پھر آپ لوگ کیا کھاتے تھے.حضرت عائشہ ؓنے جواب دیا کہ اَسْوَدَانِ یعنی کھجور اور پا نی کھا کر گزارہ کیا کر تے تھے.ہاں اتنی بات تھی کہ رسول اللہﷺ کے ارد گرد انصارؓ ہمسایہ تھے اور ان کے پاس دودھ والی بکریاں تھیں وہ آپ ؐکو ان کا دودھ ہدیہ کے طور پر دیا کر تے تھے اور آپ ؐدودھ ہمیں پلا دیا کر تے تھے.اللہ !اللہ ! کیسی سا دہ زندگی ہے کہ دو دو ماہ تک آگ ہی نہیں جلتی اور صرف کھجور اور پا نی یا دودھ پر گزارہ ہو تا ہے اس طریقِ عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کو شر مانا چاہیے کیونکہ آج کل اسی اکل و شرب کی مرض میں گرفتا رہیں.اگر پو ری طرح تحقیقات کی جا ئے تو مسلمانوں کا روپیہ کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جا تا ہے اور وہ مقروض رہتے ہیں.وہ اس نبی ؐکی امت ہیں جو مقتدر ہو کر پھر سا دہ زندگی بسر کر تا تھا پھر کیسے افسوس کی بات ہے کہ ان کے پاس نہیں ہو تا اور وہ زبان کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے قرض لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں.اگر وہ اپنے آپ کو آنحضرت ؐ کے اسوہ حسنہ پر چلا تے اور اسراف سے مجتنب رہتے تو آج اس بد تر حال کو نہ پہنچتے.اس جگہ یہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت ؐ اگر ایک طرف سا دگی کا نمونہ تھے تو دوسری طرف رہبانیت کو بھی ناپسند فر ما تے تھے.اور اگر اعلیٰ سے اعلیٰ غذا آپ ؐکے سامنے پیش کی جا تی تھی تو اسے بھی استعمال فر ما تے تھے اور یہ نہیں کہ نفس کشی کے خیال سے اعلیٰ غذاؤں سے انکار کر دیں اور یہی کمال ہے جو آپ ؐکو دوسرے لو گوں پر فضیلت دیتا ہے کیونکہ آپؐ کل دنیا کے لیے آئے تھے نہ کہ صرف کسی خاص قوم یا خاص گروہ کے لیے اس لیے آپؐ کا ہر قسم کی خوبی میں کامل ہو نا ضروری تھا اور اگر آپؐ ایک طرف سا دہ زندگی میں کمال رکھتے تھے تو دوسری طرف طیّب اشیاءکے استعمال سے بھی قطعاً اجتناب نہ فرماتے تھے.وفات تک آپؐ کا یہی حال رہااس حدیث سے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ کبھی ایسی بات بھی ہو جا تی تھی کہ دو ماہ تک آگ نہ جلے مگر اب میں ایک اور

Page 595

حدیث درج کر تا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ یہ واقعہ چند مہینوں یا سالوں کا نہیں بلکہ آپؐ کی وفات تک یہی ہو تا رہا اور صرف چند ماہ تک آپ نے اس مشقت کو برداشت نہیں کیابلکہ آپ ہمیشہ اس سادگی کی زندگی کے عادی رہے اور عسر ویسر ایک سا حال رہا.اگر ابتدا عہد میں کہ آپؐ دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہو ئے تھے اور آپؐ کو اپنا وطن تک چھوڑنا پڑا تھا آپؐ اس سا دگی سے بسر کرتے تھے تو اس وقت بھی جبکہ روپیہ آپؐ کے پا س آتااور آپؐ ایک ملک کے بادشاہ ہو گئے تھے آپؐ اسی سا دگی سے بسراوقات کرتے اور کھا نے پینے کی طرف زیا دہ تو جہ نہ فر ماتے تھے.حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اَنَّہٗ مَرَّ بِقَوْمٍ بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ شَاۃٌ مَصْلِیَۃٌ فَدَعَوْہُ فَاَبٰی اَنْ یَّاْکُلَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ مِنْ خُبْزِ الشَّعِیْرِ(بخاری کتاب الا طعمۃ باب ما کان النبی ﷺ و اصحابہ یا کلون)یعنی حضرت ابو ہریرہؓ ایک جماعت پر گزرے اور اس کے سا منے ایک بھنی ہو ئی بکری پڑی ہو ئی تھی پس انہوںنے آپؓ کو بھی بلایا مگر آپؓ نے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے گزر گئے اور آپؐ نے پیٹ بھر کر جَو کی رو ٹی نہیں کھائی(اس لیے میں بھی ایسی چیزیں نہیں کھا تا) اس حدیث سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ایک دو دن نہیں بلکہ وفات تک آنحضرت ؐ نے ایسی ہی سا دہ زندگی بسر کی.اس بات کی تصدیق حضرت عائشہ ؓ بھی فرماتی ہیں.آپؓ سے روایت ہے کہ مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لِیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ(بخاری کتاب الا طعمۃ باب ما کان النبیﷺو اصحابہ یا کلون) یعنی رسول اللہ ﷺکی آل نے اس وقت سے کہ آپؐ مدینہ تشریف لا ئے اس وقت تک کہ آپؐ فوت ہو گئے تین دن متواتر گیہوں کی رو ٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا ئی.ان تینوں حدیثوں کو ملا کر روز رو شن کی طرح ثابت ہو جا تا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہایت سادگی سے زندگی بسر کی اور باوجود اس محنت اور مشقت کے جو آپؐ کو کرنی پڑتی تھی آپؐ اپنے کھانے پینے میں اسراف نہ فر ما تےتھےاور اسی قدر کھا تے جو زندگی کے بحال رکھنے کے لیے ضروری ہو اور آپؐ کا کھانا عبادت اور قوت کے قائم رکھنے کے لیے تھا نہ کہ آپؐ کی زندگی دنیا کے بادشاہوں کی طرح کھانوں کی خواہش میں گزرتی تھی.آپؐ ہی اس مصرع کے پورا کر نیوالے تھے.

Page 596

خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آپؐ کا کھانا بھی نہایت سا دہ ہو تا تھا اورجو کچھ کھا تے تھے اس میں بھی بہت تکلفات سے کام نہ لیتے تھے.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ مَاعَلِمْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکَلَ عَلٰی سُکُرَّ جَۃٍ قَطُّ وَلَا خُبِزَ لَہٗ مُرَقَّقٌ قَطُّ وَلَا اَکَلَ عَلی خِوَانٍ قَطُّ قِیْلَ لِقَتَا دَۃَ فَعَلٰی مَا کَانُوْ ایَاْکُلُوْنَ قَالَ عَلَی السُّفَرِ (بخاری کتاب الا طعمۃ باب الخَبزلمرقق والاکل علی الخوان)مجھے نہیں معلوم ہؤا کہ آنحضرت ؐ نے کبھی تشتریوں میں کھا یا ہو اور نہ آپؐ کے لیے کبھی چپاتیاں پکائی گئیں اور نہ کبھی آپؐ نے تخت پر کھا یا.قتادہ رضی اللہ عنہ سے (جنہوں نے حضرت انس ؓسے روایت کی ہے)سوال کیا گیا کہ پھر وہ کس پر کھا یا کر تے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ دسترخوان پر.حضرت انس ؓ کی روایت اس لحاظ سے قریبًا اہلِ بیت کے برابر سمجھی جا نے کے قابل ہے کہ آپؓ ابھی بچہ تھے کہ آنحضرتﷺ کے سا تھ رہے کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے انہیں آنحضرت ؐ کی خدمت کے لیے پیش کیا تھا اور یہ آنحضرت ؐ کے مدینہ میںتشریف لا نے کے وقت سے جو آپ کے سا تھ رہے تو وفات تک الگ نہ ہوئے اور آپؐ کی زندگی بھر خدمت میں مشغول رہے.پس آپؓ کی روایت ایک واقف کار کی روایت ہے جو ہر وقت آپؐ کے سا تھ رہنے کی وجہ سے ایسے امور میں بہت سے دوسروں کی نسبت زیا دہ پختہ اور مضبوط را ئے دے سکتا تھا اس لیے نہایت وزن داراور واقعات کے مطابق ہے.اب اس کی زندگی مجموعی حیثیت سے دیکھو کہ ایک انسان بادشاہ ہے اسے سب کچھ نصیب ہے.اگر چاہے تو اچھے سے اچھے کھانے کھا سکتا ہے اور پُرتکلف دسترخوان پر بیٹھ سکتا ہے لیکن باوجود مقدرت کے وہ اسی بات پر کفایت کر تا ہے کہ کبھی تو کھجور اور پا نی سے اپنی بھوک کو توڑ لیتا ہے اور کبھی جو کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اور کبھی گیہوں کی رو ٹی تو کھا تا ہے مگر وہ بےچھنےآٹے کی ہو تی ہے.پھر نہ اس کے سامنے کو ئی بڑا دسترخوان بچھایا جا تا ہے نہ سینیوں میں کھا نا چنا جا تا ہے بلکہ ایک معمولی دسترخوان پر سا دہ کھا نا رکھ کر کھا لیتا ہے اور باوجود ایسی سادہ زندگی بسر کر نے کے دنیاکے اعلیٰ سے اعلیٰ کھا نا کھا نے والوں اور اپنے جسم کی پرورش کر نے والوں سے ہزار گنا بڑھ کر کام کر تا ہے.آنحضرت ؐ نے اپنی زندگی میں یہ بھی نمونہ دکھا دیا ہے کہ ہر قسم کی اعلیٰ سےاعلیٰ غذائیں بھی استعمال فر ما لیتے تھے مگر دوسری طرف اس سادہ زندگی سے ہمارے ان امراء کے لیے ایک نمونہ بھی قائم کر دیا ہے جن کی زندگی کا انتہا ئی مقصد اعلیٰ خوراک اور پوشاک ہو تی ہے.

Page 597

سب کا موں میں صحابہ ؓ کے مدد گار رہتے آپؐ مسجد کی اینٹیں ڈھوتے رہتےآنحضرت ﷺ کی کو نسی خوبی ہے جسے انسان خاص طور پر بیان کر سکے.کو ئی شعبۂ زندگی بھی تو نہیں جس میں آپؐ دوسروں کے لیے نظیر نہ ہوں.مختلف خوبیوں میںمختلف لوگ باکمال ہو تے ہیں مگر یہ دین و دنیا کا با دشاہ تو ہر با ت میں دوسروں پر فائق تھا.جو بات بھی لواس میں آپؐ کو صاحبِ کمال پاؤ گے.میں نے پچھلے باب میں بتا یا تھا کہ آپ ؐ اپنے گھر میں بیویوں کو ان کے کاموںمیں مدد دیتے تھے مگر اب اس سے زیادہ میں ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں آپؐ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کا م میں حرج نہ دیکھتے تھے بلکہ اس میںفخر محسوس کر تے تھے اور صحابہ ؓکے دو ش بدوش ہو کر ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرتے اور کبھی یہ نہ ہو تا کہ انہیں حکم دے دیں اور آپ خاموش ہو کر بیٹھ رہیں.صحابہ ؓکی خوشی تو اسی میں تھی کہ آپؐ آرام فرما ئیں اور وہ آپؐ کے سامنے اپنی فدائیت اور اخلاص کے جو ہر دکھا ئیں مگر آپؐ کبھی اس کو پسند نہ فر ما تے اور ہر کا م میں خود شریک ہو تے اور صحابہ ؓ کا ہاتھ بٹاتے.حضرت عائشہ ؓ ہجرت کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کرکے فر ما تی ہیں کہثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ فَسَارَ یَمْشِیْ مَعَہٗ النَّاسُ حَتّٰی بَرَکَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَھُوَ یُصَلِّیْ فِیْہِ یَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَکَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُھَیْلٍ وَسَھْلٍ غُلَامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِیْ حَجْرِ اَسْعَدَ بْنِ زُرَارَ ۃَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ بَرَکَتْ بِہٖ رَاحِلَتُہٗ ھٰذَا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغُلَامَیْنِ فَسَاوَمَھُمَا بِالْمِرْبَدِ لِیَتَّخِذَہٗ مَسْجِدًا فَقَالَا لَا بَلْ نَھَبُہٗ لَکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَاَبیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَنْ یَقْبَلَہُ مِنْھُمَا ھِبَۃً حَتَّی ابْتَاعَہٗ مِنْھُمَا ثُمَّ بَنَاہُ مَسْجِدًا وَطَفِقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْقُلُ مَعَھُمُ اللَّبِنَ فِیْ بُنْیَانِہٖ وَیَقُوْلُ وَھُوَ یَنْقُلُ اللَّبِنَ ھٰذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَیْبَرَھٰذَا اَبَرُّ رَبَّنَا وَ اَطْھَرُوَیَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَۃِ فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَ الْمُھَاجِرَۃَ (بخاری باب ھجرۃ النبی صَلَّی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینہ) یعنی پھر آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہو ئے او ربنی عمرو بن عوف کے پاس سے جہاں آپؐ سب سے پہلے آکر

Page 598

ٹھہرے تھے.مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے.اور لوگ بھی آنحضرتؐ کےساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے یہاں تک کہ آپؐ کی اونٹنی اس جگہ پر جا کر بیٹھ گئی جہاں بعد میں آنحضرت ؐ کی مسجد بنا ئی گئی اور اس جگہ ان دنوں میں کچھ مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سہیل اور سہل نا می دو لڑکوں کی کھجوریں سکھانے کا مقام تھا جو یتیم تھے اور اسعد بن زرارہ کی ولا یت میں تر بیت پارہے تھے.پس رسول اللہ ﷺ نے جب آپ ؐکی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی.فر مایا کہ اِن شاء اللہ یہاں ہمارے رہنے کی جگہ ہو گی.پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں لڑکوں کو جن کی وہ جگہ تھی بلوایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تا کہ وہاں آپؐ مسجد تیار کریں.انہوں نے کہا کہ ہم آپؐ کے ہا تھ فروخت نہیں کرتے بلکہ آپؐ کو ہبہ کر تے ہیں.مگر رسول اللہ ﷺنے ان سے بطور ہبہ کے وہ زمین لینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان دنوں لڑکوں نے وہ زمین فروخت کر دی.پھر آپؐ نے وہاں مسجد بنا نی شروع کی اور مسجد بنتے وقت آپ ؐ خود بھی صحابہ ؓ کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے تھے اور ڈھوتے وقت یہ شعر پڑھتے جا تے تھے.یہ بو جھ خیبر کا بو جھ نہیں بلکہ اے ہمارے خدا ! یہ اس سے زیا دہ پا کیزہ اور عمدہ ہے.اسی طرح آپؐ یہ شعر بھی پڑھتے اے خدا ! بدلہ تو وہی بہتر ہے جو آخرت کا ہو پس جب یہ بات ہے تو تُو مہاجرین اور انصار پر رحم فر ما.اس حدیث میں آپؐ کا یہ قول کہ یہ خیبرکا بو جھ نہیں اس سے یہ مراد ہے کہ لو گ خیبر سے کھجوریں یا اور پھل پھول ٹوکروں میں بھر کر لا یا کر تے تھے.آپؐ فر ما تےہیں کہ یہ اینٹیں جو ہم اٹھا رہے ہیں یہ اس بو جھ کی طرح نہیں ہیں بلکہ اُس میں تو دنیا کا فائدہ ہو تا ہے اور اس بو جھ کے اٹھا نے سے آخرت کا فا ئدہ ہے اس لیے یہ بو جھ اس بو جھ سے بہت بہتر اور عمدہ ہے.اس حدیث کو پڑھ کر کون انسان ہے جو حیرت میں نہ پڑ جا ئے.آنحضرتؐ کے ارشاد پر قربان ہو نے والوں کا ایک گروہ موجود تھا جو آپؐ کی را ہ میں اپنی جان قربان کر نے کے لیے تیار تھے مگر آپؐ کا یہ حال ہے کہ خوداپنے جسمِ مبارک پر اینٹیںلادکرڈھورہےہیں.یہ وہ کمال ہے جو ہرایک بے تعصب انسان کو خود بخود آپؐ کی طرف کھینچ لیتا ہے اور چشمِ بصیرت رکھنے والا حیران رہ جا تا ہے کہ یہ پا ک انسان کن کمالات کا تھا کہ ہر ایک بات میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بن رہا ہے اور آپؐ اس کی اینٹیں ڈھونے کے ثواب میں بھی شا مل ہیں.خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھتے ہیں اور مسجد کی تعمیر کر نے والوں کو لا کر دیتے ہیں.یہ وہ عمل تھا جس نے آپؐ کو ابرا ہیمؑ کا سچا وارث اور جانشین ثابت کر دیا تھا کیونکہ اگر حضرت ابرا ہیمؑ نے خود اینٹیں ڈھو

Page 599

کر کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس وارثِ علوم ِسماویہ نے مدینہ منورہ کی مسجد کی تعمیر میں اینٹیں ڈھونے میں اپنے اصحاب ؓکی مددکی.کہنے کو تو سب بزرگی اور تقویٰ کا دعویٰ کرنے کو تیارہیں مگر یہ عمل ہی ہے جو پا کبازی اور زبا نی جمع خرچ کر نے والوں میں تمیز کر دیتا ہے اور عمل ہی میں آکر سب مدعیانِ تقویٰ کو آپؐ کے سامنے با ادب سر جھکا کر کھڑا ہو نا پڑتا ہے.اس حدیث سے اگر ایک طرف ہمیں یہ معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی را ہ میں کسی قسم کے کام کرنے سے خواہ وہ بظاہر کیسا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو کسی قسم کا عار نہ تھا.آپؐ اس معبود حقیقی کی رضا کی تمام را ہوں میںدوسروں سے آگے قدم ما رتےتھے تو دوسری طرف یہ امر بھی رو شن ہو جا تا ہے کہ آپؐ ما تحتوں سے کام لینے کے ہر فن میں بھی اپنی نظیر آپؐ ہی تھے.تاریخ نے ہزاروں لا کھوں بر سوں کے تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ ماتحتوں میںجوش پیدا کر نے اور انہیں اپنے فرائض کے ادا کر نے میں ہو شیا ر بنانے کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نسخہ یہی ہے کہ خود آفیسر بھی انہیں کام کرکے دکھا ئیںاور جو شخص خود کام کرے گا اس کے ماتحت ضرور کام میں چست و چالاک ہوں گے مگر جو آفیسر کام سے جی چرائے گا اس کے ماتحت بھی اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کو تا ہی کریں گے اور بہا نہ ہی ڈھونڈتے رہیں گے کہ کسی طرح اپنی جان چھڑا ئیں.آنحضرتؐ نے اس گُر کو ایسا سمجھا تھا کہ آپؐ کی سا ری زندگی اس قسم کی مثالوں سے پُر ہے.آپؐ اپنے ما تحتوں کو جو حکم بھی دیتے اس میں خود بھی شریک ہو تے اور آپؐ کی نسبت کو ئی انسان یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپؐ صحابہ ؓکو مشکلات میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھ رہتے ہیں بلکہ آپؐ ہر ایک کام میں شریک ہوکر ان کے لیے ایسی اعلیٰ اور ارفع نظیر قائم کر دیتے کہ پھر کسی کو اس پر اعتراض کر نے کاموقع نہ رہتا.اگر کو ئی افسر اپنے ماتحتوں کو کو ئی حکم دے کر خود آرام سے پیچھے بیٹھ رہے تو ضرور ان کے دل میں خیال گزرے گا کہ یہ شخص خود تو آرام طلب ہے مگر دوسروں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر کام دیتا ہے اور گو مفوضہ کام زیا دہ بھی نہ ہو تو بھی وہ با لطبع خیال کر یں گے کہ انہیں ان کی طا قت سے زیادہ کا م دیا گیا ہے اور اس بے دلی کی وجہ سے وہ جس قدر کا م کر سکتے ہیں اس سے نصف بھی نہ کر سکیں گے اور جو کچھ کریں گے بھی وہ بھی اد ھورا ہو گا مگر جب خود افسر اس کام میں شریک ہو گا اور سب سے آگے اس کا قدم پڑتا ہو گا تو ما تحت شکایت تو الگ رہی اپنی طاقت اور قوت کا سوال ہی بھول جائیں گے اور ان میں کوئی اَور ہی روح کا م کرنے لگے گی.

Page 600

اور اسی حکمت سے کام لے کر آنحضرت ؐنے صحابہ کی زندگیوں میںایسی تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ وہ معمولی انسانوں سے بہت زیا دہ کا م کر نے والے ہو گئے تھے.وہ ہر ایک کام میں اپنے سامنے ایک نمونہ دیکھتے تھےحتّٰی کہ اگر اینٹیں ڈھونے کا کام بھی ہو تا تھاجو عام مزدوروں کا کام ہے اور ان کا رسولؐ انہیں اس کام کے کر نے کا حکم دیتا تھا تو سب سے پہلے وہ خود اس کا م کی ابتداکر تا تھا جس کی وجہ سے مردہ دلوں کے دل زندہ اورسستوں کے بدن چست اور کم ہمتوں کی ہمتیں بلند ہو جاتی تھیں.ہر ایک عقل مند اس با ت کو سوچ کر معلوم کر سکتا ہے کہ جو لوگ آنحضرتؐ کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے بر گزیدہ بندے ہیں،اس کے رسول ؐ ہیں، اس کے نبی ؐ ہیں، سب انبیاء سے افضل ہیں،آپؐ کی اطاعت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے،آپؐ کی ہی فرمانبرداری میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے،آپؐ کل انبیاء کے کمالا ت کے جامع ہیں،آپؐ کی ہی خدمت کر نے سے جنت کے دروازے کھلتےہیں،وہ جب دیکھتے ہوں گے کہ ایسا عظیم الشان انسان خود اپنے کندھوں پر اینٹیںرکھ کر مسجد بنانے والوں تک پہنچاتا ہے تو ان کے اندر کن خیالات کا دریا موجزن ہو تا ہو گا اور وہ کس جو ش اور کس خلوص سے اس کا م کو بجالاتے ہوں گے بلکہ کس طرح بجائے تھکان کے ان کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہو گی.ان میں اچھے اچھے رؤسابھی تھے،سردار بھی تھے مال دار بھی تھے،معزز بھی تھے، مگر وہ سب کے سب اپنے عقیدہ کی بنا پر اپنے آپ کو آنحضرتؐ سے کم درجہ پر یقین کر تے تھے اور اپنے آپ کو خادم سمجھتے تھے.پس جب وہ آپؐ کو اس جوش سے کا م کر تے ہوئے دیکھتے ہوں گے تو کیا ان کے بدن کے ہر ایک حصہ میں سنسناہٹ نہ پھیل جاتی ہو گی ؟اور کیا امیر سے امیر انسان بھی اس بلند رتبہ انسان کی معیت میں اینٹیں ڈھونا اپنے لیے ایک نعمت ِعظمیٰ نہ خیال کر تا ہو گا ؟ او ر بجائے ذلت کے عزت نہ جا نتا ہو گا.ہا ں ان میں سے ہر ایک ایسا ہی سمجھتا ہو گا اور با لکل ایسا ہی سمجھتا ہو گااور چو نکہ آنحضرت ؐ اپنی سا ری عمر میں اسی نمونہ پر قائم رہے اور آپؐ نے کبھی اس سنت کو ترک نہیں کیا اس لیے آپؐ کے صحابہ ؓ میںیہ بات طبیعت ثانی ہو گئی تھی اور وہ روزانہ ان کی معیت کے جو ش سے متاثر ہو کر جس طرح کام کر تے تھے اس کے ایسے عادی ہوگئے تھے کہ آپؐ کی غیر حاضری میں بلکہ آپؐ کی وفات کے بعد بھی ان کا طریق عمل وہی تھا اور یہ ایک عام بات ہے کہ انسان جس کا م کو کچھ مدت تک لگا تا ر کرتا رہے اس کا عادی ہو جا تا ہے اور جو لوگ ابتدا میں سستی کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ سست ہی رہتے ہیں اور جو چستی سے کام کر نے کے عادی ہوں وہ اسی طریق پر کام کیے جا تے ہیں.پس جبکہ آنحضرتؐ ہر ایک کام

Page 601

میں صحابہ ؓکے شریک حال بن کر ان کو خطر ناک سے خطر ناک اور خوف ناک سے خوف نا ک کا م کے کر نے پر آما دہ کر دیتے تھے.اور اسی طر ح دنیا داروں کی نظرو ں میں ادنیٰ سے ادنیٰ نظر آنے والے کاموں میں بھی سا تھ شریک ہو کر ان کے دلوں سے جھوٹی عزت اور تکبر کے خیالا ت کو با لکل نکال دیتے تھے اور اس طریق کا آپؐ ان کو دس سال متواتر عادی کر تے رہے تھے.یہ عا دت انہیں کیونکر بھول سکتی تھی؟ چنانچہ جب صحابہؓ کو اپنے سے کئی کئی گنا سپاہ سے مقابلہ پیش آیا اور اس وقت کی کل متمدن قوموں سے ایک ہی وقت میں جنگ چھڑ گئی تو ان کے قدموں میں وہ ثبات دیکھا گیا اور ان کے ہا تھوں نے ایسی طاقت کے کا رنامے دکھا ئے اور ان کے دلوں نے ایسی بے ہراسی اور بے خوفی کا اظہا ر کیاکہ دنیا دنگ ہو گئی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ آنکھوں کے سامنے آنحضرتؐ کا پاک نمونہ ہروقت رہتا تھا اور وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس دین و دنیا کے بادشاہ کو نہ بھولتے تھے اور اپنے سے دس دس گنا فوج کو الٹ کر پھینک دیتے تھے.بلکہ صحابہ ؓ دوسرے عربوں کی جنگ پر بھی ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ اب دنیا کو کیا ہو گیا.آنحضرتؐ کے ماتحت تو ہم اس طرح لڑتے تھے کہ پروں کے پرے اڑادیتے تھے اور کو ئی ہمارے سا منے ٹھہرنہ سکتا تھا.پس آپؐ کے سا تھ مل کر کام کر نے میں تدبیر ملکی کا وہ نمونہ نما یاں ہے کہ جس کی مثال کو ئی اَور انسان نہیں پیش کرسکتا.اس حدیث سے ایک ا َور بات بھی معلوم ہو تی ہے کہ آنحضرتؐ کو ہر وقت اپنے صحابہ ؓکو نیکی اور تقویٰ کی تعلیم دینے کا خیال رہتا تھا کیونکہ آپؐ نے اس موقع پر جو اشعار چُنے ہیں وہ ایسے بے نظیر اور مناسب موقع ہیں کہ ان سے بڑھ کر نا ممکن ہے.آپؐ کی عادت تھی کہ آپؐ پو را شعر نہیں پڑھا کر تے تھے مگر صرف اس موقع پر یا ایک دو اَور موقعوں پر آپؐ نے پورے شعر پڑھے ہیں.ہاں آپؐ شعر با لکل نہ کہتے تھے اور یہ شعر بھی کسی اَور مسلمان کے کہے ہو ئے تھے.ہاں تو ان اشعار میں آپؐ نے صحابہ ؓکوبتا یا ہے کہ تم خیبر کی کھجور یں اور سبزیاں وغیرہ اکثر اُٹھاتے ہو گے اور اس کے اٹھا نے میں تمہیں یہ خیال ہو تا ہو گا کہ ہم دنیا کا فا ئدہ اٹھائیں گے اور مال کمائیں گے.مگر یہ یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کے لیے جو کام انسان کر تا ہے وہ گو بظاہر کیسا ہی ادنیٰ معلوم ہودرحقیقت نہایت پا ک اور عمدہ نتا ئج پید اکر نے والا ہو تا ہے.پس یہ خیال اپنے دلوں میں مت لانا کہ ہم اس وقت کیسا ادنیٰ کا م کر تے ہیں کہ مٹی اور اینٹیں ڈھو رہے ہیں بلکہ خوب سمجھ لو کہ یہ اینٹیں جو تم ڈھورہے ہو ان کھجوروں اور میووں کے بو جھ سے جو خیبر سے آتا ہے کہیں بہتر ہیں اور اس میں تمہارے نفوس کی پاکیزگی کا سا مان ہے ان میووں کے بو جھ کی ہستی ہی کیا ہے کہ اس

Page 602

کے مقابلہ میں اسے رکھا جا ئے.دوسرے شعر میں آنحضرتؐ نے انہیں بتا یا ہے کہ اس کا م میں کسی مزدوری یا نفع کا خیال مت رکھنا بلکہ یہ تو خدا کا کام ہے جس میں اگر کسی نفع کی امید ہے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہو گا اور بجا ئے فوری نفع کے انجام کی بہتری ہو گی اور جس کا انجام اچھا ہو اس سے زیا دہ کا میاب کو ن ہو سکتا ہے پس اسی پر نظر رکھو.اور سا تھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کر دی کہ خدایا ! یہ لو گ اپنے کام چھوڑ کر تیرے لیے مشقت اٹھا رہے ہیں تو ان پر رحم فرما.پس شاعر نے تو جن خیالات کے ما تحت اشعار کہے ہوں گے ان سے وہی واقف ہو گا مگر آپؐ نے ان اشعار کو پڑھ کر اس کے معانی کو وہ وسعت دے دی ہے کہ با ید و شاید.ہر کام میں صحابہ ؓ کے شریک ہو تے میں نے اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے آپؐ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر رو شنی پڑتی ہے اور انسانی قلب اس سے اعلیٰ سے اعلیٰ اصول طہارت نفس کے اور قومی ترقی کے نکال سکتا ہے.اب میں ایک اَور واقعہ اسی پہلے واقعہ کی تا ئید میں درج کر تا ہوں لیکن چونکہ وہ نئے حالا ت اور نئے واقعات کو لیے ہوئے ہے اس لیے اس کا ذکر بھی کسی قدر تفصیل سے ہی منا سب ہے.یہ با ت تو تا ریخ دان لو گ جا نتے ہیں کہ آنحضرت ؐ سے جو مخالفت مکہ والوں کو تھی اس کی نظیر دنیا کی کسی اَور تا ریخ میں نہیں ملتی.آپؐ کی مخالفت اور ایذا رسانی کے لیے جو تدا بیر انہوں نے کیں یا جو منصوبے انہوں نے با ندھے وہ اپنی نظیر آپ ہی تھے اور کبھی کسی قوم نے دنیاوی مخالفت میں یا دینی عداوت میں کسی انسان کی بلا وجہ ایسی بدخواہی نہیں کی جیسی اہل مکہ نے آنحضرتؐ سے کی مگر خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں آنحضرت ﷺ کو فتح دی اور آپؐ ہر دشمن پر فاتح رہے.گو چھوٹے چھوٹے حملے تو مدینہ میں ا ٓ تے ہی شروع ہو گئے تھے مگر دراصل جنگوں کی ابتدا اب جنگ بدر سے ہی سمجھنا چاہیے کہ جس نے ایک طرف کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو خاک میں ملا دیا اور دوسری طرف مسلمانوںپر ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کی تا ئید انسان کو ہر مشکل سے سلامت نکال سکتی ہے اور دشمن خواہ کتنا ہی بہا در اور تعداد میں زیا دہ ہو آسمانی تدابیر کا مقابلہ نہیں

Page 603

کر سکتا اور اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے.قریش کو اپنے سرداروں کے مارے جا نے کا طیش ایک دم چین نہ لینے دیتا تھا اور وہ آئے دن مسلمانوں پر حملہ کر تے رہتے تھے جن میں سے مشہور حملہ احد کا بھی ہے.یہ حملے متواتر چھےسا ل تک ہوتے رہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جنگ بدر چھےسال تک متواتر جا ری رہی اور اس کا خاتمہ احزاب پر ہوا جبکہ دشمن نے آخری مرتبہ ہزیمت اٹھا کر پھر مسلمانوں کو دکھ دینے کا ارادہ نہ کیا بلکہ ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ ہم مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتے.جنگِ احزاب جس کا ذکر قرآن شریف میں بار بار آیا ہے ایک نہایت خطر ناک جنگ تھی جس میں مسلمان ایسے مجبور ہو ئے تھے کہ انہیں قضائے حاجت کے لیے با ہر جا نے کو بھی رستہ نہ ملتا تھا اور کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور دس ہزار کا لشکر مرنے مارنے کے ارادہ سےمُٹّھی بھر مسلمانوں کے سامنے پڑا ہوا تھا.جو مشکلات کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے.جب مسلمانوں کو اس لشکر کی آمد کی خبر ہو ئی تھی تو آنحضرتؐ نے سب صحابہؓ کو بلا کر مشورہ کیا کہ کیا کیا جا ئے؟ حضرت سلمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ایسے موقع پر ہمارے ملک میں تو خندق کھود لیتے ہیں اور اس کے پیچھے بیٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں.آپؐ نے یہ بات سن کر خندق کھودنے کا حکم دیا اور اسی وجہ سے جنگِ احزاب کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں.چالیس چالیس ہا تھ زمین دس دس آدمیوں کو کھود نے کے لیے بانٹ دی گئی اور کام زورو شور سے جا ری ہو گیا مگر آنحضرتﷺکہاں تھے؟آپؐ بھی ان لو گوں میں کام کر رہے تھے جو اِدھر سے اُدھر مٹی ڈھو رہے تھے کیونکہ کچھ لوگ زمین کھودتے تھے اور کچھ وہاں سے مٹی اٹھا کر ایک طرف کر دیتے تھے حتّٰی کہ آپؐ کا بد ن مٹی سے بھر گیا تھا.حضرت براء ؓسے روایت ہے.قَا لَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْاَحْزَابِ یَنْقُلُ التُّرَابَ وَ قَدْ بوَارَی التُّرَابُ بَیَاضَ بَطْنِہٖ وَھُوَ یَقُوْلُ : (لَوْ لَا اَنْتَ مَا اھْتَدَ یْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا فَاَنْزِلِ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَیْنَا، اِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغْوَا عَلَیْنَا، اَذَااَرَادُوْاِفِتْنَۃً ابَیْنَا.)بخاری کتاب الجھاد باب حصر الخندق) ترجمہ : فر ما یا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جنگِ احزاب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپؐ بھی مٹی ڈھورہے تھے اور آپؐ کے گورے گورے پیٹ پر مٹی پڑی ہو ئی تھی اور آپؐ یہ فرماتے جا تے تھے.الٰہی اگر تیرا فضل نہ ہو تا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہو تی اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ

Page 604

نمازیں پڑھتے.پس ہم پر اپنی طرف سے تسلی نا زل فرما اور اگرجنگ پیش آئے تو ہمارے پاؤں کو ثبات دیجئے وہ دشمن کے مقابلہ میں بالکل نہ ڈگمگائیں.الٰہی یہ کا فر ہم پر ظلم اور زیا دتی سے حملہ آور ہو گئے ہیں اور ہمارے خلاف انہوں نے بغاوت کی ہے کیونکہ جب انہوں نے ہمیں شرک وکفر میں مبتلا ہو نے کی دعوت د ی ہے ہم نے ان کی با ت کے قبول کر نے سے انکار کر دیا ہے.اللہ اللہ! وہ کیا ہی پیا ری مٹی ہو گی جسے آپؐ اٹھا تے تھے اور وہ مٹی کروڑوں من سو نے سے زیا دہ قیمتی تھی جسے اٹھا نے کےلیے خاتم النّبیین ﷺ کے ہا تھ اٹھتے تھے اور جسے آپؐ کے پیٹ پر گر نے کا شرف حاصل ہو تا تھا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے کہ عذاب شدید کو دیکھ کر یَقُوْلُ الْکٰفِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا(النبا:41)کا فر کہہ اٹھیں گے کہ کا ش ہم مٹی ہو تے اور شریر و بد معاش لو گ جب سزا پا تے ہیں تو ایسے ہی جملے کہا کر تے ہیں اور اپنی حالت پر افسوس ہی کیا کر تے ہیں مگر خدا گواہ ہے وہ مٹی جو آنحضرت ؐ کے پیٹ پر گر تی تھی اس کی نسبت تو ایک مومن کا دل بھی للچا جا تا ہے کہ وہ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا کہہ اٹھے اور یہی وجہ معلوم ہو تی ہے کہ براء ؓ اس واقعہ کا بیان کرتے ہو ئے اس مٹی کا بھی ذکر کرتے ہیں جو آپ ؐ کے پیٹ پر گر تی تھی.معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس مٹی کو بھی عشق کی نگا ہوں سے دیکھتے تھے اور لالچ کی نگا ہیں ادھر پڑ رہی تھیں اسی لیے تو مدتوں کے بعد جب وہ جنگِ احزاب کا ذکر فر ما تے ہیں تو وہ مٹی جو آنحضرت ﷺ کے جسم ِاطہر پر پڑتی تھی ان کویاد آجاتی ہے.میں حیرا ن ہو ں کہ صحابہ ؓ کس محبت اور کس شوق سے اس وقت آنحضرتؐ کی طرف دیکھتے ہوں گے.خدا یا وہ مزدورکیسا ہوگا اورکس شان کاہوگاجس کے سرپر نبوت کا تاج تھا اوردوش پر مٹی کاڈھیر،صحابہ ؓ کے قدموں میں کیسی تیزی اور کیسی پھرتی پیدا ہو گئی ہو گی ہر ایک ان میں سے اپنے دل میں کہتا ہو گا کہ خدا کے لیے جلد جلد اس مٹی کو صاف کرکے جس قدر ہوسکے آنحضرتؐ کا کام کم ہو اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بو جھ اٹھا تے ہوں گے تا کہ جلد اس بو جھ کو ختم کریں اور آنحضرتﷺ کو آرام دیں.میری عقل چکرا تی ہے جب میں صحابہ ؓکے ان جذبات کا نقشہ اپنے دل میں کھینچتا ہوں جو اس وقت ان کے دلوں میں پیدا ہو تے ہوں گے میری قوتِ متخیلہ پر یشان ہو جا تی ہے جب میں ان خیالات پریشاں کو اپنے سامنے حاضر کر تا ہوں جو اس وقت صحابہ ؓ کے دل و دماغ میں گشت لگا رہے ہوں گے.اُف ایک بجلی، ایک سٹیم ہو گی جو اس وقت ان کے اندر کام کر رہی ہو گی.نہیں بجلی اور

Page 605

سٹیم کی کیا حقیقت ہے عشق کی گر می ان سے کام لے رہی تھی اور وہ مٹی جو وہ اپنی گردنوں اور کندھوں پر رکھتے تھے انہیں ہر ایک قسم کی نعمت سے زیا دہ معلوم ہوتی تھی وہ بوجھ انہیں سب غموں سے چھڑا رہا تھا اور وہ مٹی انہیں ہیروں اور جواہرات سے زیادہ قیمتی معلوم ہو تی تھی جسے نبیوں کے سر تا ج کے کندھوں پر رکھے جا نے کا فخر حاصل تھا.کیا کو ئی مسلمان با دشاہ ایسا ہے جسے اس مٹی کے اٹھا نے میں عذر ہو! نہیں اس وقت کے اسلام سے غافل بادشاہ بھی اسے اٹھا نے میں فخر سمجھیں گے پھر نیکو کار گروہ اسے اپنی کیسی کچھ عزت نہ خیال کر تا ہوگا.اور یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ آنحضرت ﷺ ان کو ایک گھوڑے پر کھڑے ہو ئے حکم نہیں دے رہے تھے بلکہ دوسروں کو حکم دینے سے پہلے آپ خود اپنےکندھوں پر مٹی کا ڈھیر رکھتے تھے پھر جو لوگ اپنے محبوب و آقا کو مٹی ڈھوتے دیکھتے ہوں گے وہ جس شوق سے بھی اس کا م کو کر تے با لکل مناسب اور بجا ہوتا یہ ایک ایسی اعلیٰ تدبیر تھی جس سے اگر ایک طرف آنحضرتؐ کی محبتِ الٰہی ظاہر ہو تی ہے تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ فطرت انسانی کو خوب سمجھتے تھے اور آپؐ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ما تحتوں میں رو ح پھونکنی ہو تو اس کا ایک ہی گر ہے کہ خود ان کے سا تھ مل کر کام کر و پھر ان میں خود بخود جوش پیدا ہو جا ئے گا اور اس طرح آپؐ نے ایک نا قابلِ فتح لشکر تیار کر دیا جو ہر زمانے کے لیے ما یۂ ناز ہے.اس حدیث سے ہمیں کئی با تیں معلوم ہو تی ہیں.اول تو یہ کہ آنحضرت ؐنے صرف ایک دفعہ ہی صحابہ کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کرتے تھے کیونکہ پہلا واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے وہ آپؐ کی مدنی زندگی کا ابتدا ئی واقعہ ہے اور یہ چھےسال بعد کا.جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ آپؐ کی عادت تھی کہ کو ئی کام کسی کو نہ دیتے مگر خود اس میں شامل ہو تے تاکہ خود بھی ثواب سے حصہ لیں اور دوسروں کو اَور بھی رغبت اور شوق پیدا ہو کہ جب ہمارا آقاخود شامل ہے تو ہمیں اس کام سے کیا عار ہو سکتا ہے.دوسرے یہ کہ انہیں چستی سے کام کر نے کی عادت ہو اور وہ آپؐ کے شمول کی وجہ سے جس تیزی سے کام کر تے ہوں گے اسے ان کی عادت میں داخل کر دیا جا ئے.دوسرے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ جس وقت آپؐ مدینہ تشریف لا ئے تھے اس وقت آپؐ بالکل نووارد تھے اور ابھی آپؐ کی حکومت قائم نہ ہو ئی تھی اور گو سینکڑوں جاں نثار موجود تھے جو اپنی جان قربان کر نے کے لیے حاضر تھے مگر پھر بھی دنیا کے لحاظ سے آپؐ کے ماتحت کو ئی علا قہ نہ تھا مگر

Page 606

غزوۂ احزاب کے وقت گو آپؐ کےلشکر کی تعداد کم تھی مگر بار ہا کھلے میدانوں میں کفار کو شکست دے چکے تھے.یہودیوں کے دو قبیلے جلا وطن ہو کر ان کی املاک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی تھیں.مدینہ اور اس کے گردونواح میں آپؐ کی حکومت قائم ہو گئی تھی.بقیہ یہودی معاہدہ کی رو سے مسلمانوں سے دب کر صلح کر چکے تھے اس لیے اب آپؐ کی پہلی حالت اور اس حالت میں بہت فرق تھا اور اب آپؐ ایک ملک کے حاکم یا بادشاہ تھےپس اس وقت آپؐ کاصحابہؓ کے سا تھ مل کر کام کر نا جبکہ آپؐ کی عمر بھی چھپن سال کی ہوچکی تھی ایک اَور ہی شان رکھتا ہے او ریہ واقعہ پہلے واقعہ سے بھی زیاد ہ شاندار ہے.اس واقعہ سے اس با ت کی بھی مزید تا ئید ہو جا تی ہے کہ آپؐ کسی وقت نصیحت سے غافل نہ ہو تے تھے کیونکہ اب بھی آپؐ نے جو شعر پڑھنے کے لیے چنے ہیں وہ ایسے با محل ہیں کہ ان میں مسلمانوں کو اپنے کام میں دل لگا نے کے لیے ہزاروں ترغیبیں دی ہیں کس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کا احسان بتا یا ہے کہ یہ خدا کا ہی فضل ہے کہ تم مسلمان ہو ئے او رخدا تعالیٰ پر احسان نہ جتا نا کہ اس کے دین میں کو شش کررہےہو بلکہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اسلام کی تو فیق دی اور تمہیں ہدایت کی را ہوں پر چلا یا.پھر کس طرح اشارہ فرمایا کہ یہ جنگ کو ئی دنیاوی جنگ نہیں بلکہ ایک مذہبی جنگ ہے اور اس کا اصل با عث کیا ہے؟صرف یہ کہ ہم خدا کو کیوں مانتے ہیں شرک کیوں نہیں کر تے اور کیوں کفار کی بات نہیں مان لیتے.اس میں یہ بھی بتا یا ہے کہ جنگ کی ابتداکفار کی طرف سے ہو تی ہے اور ہمارا کا م تو یہی رہا ہے کہ ہم ان کی شرارتوں کے قبول کرنے سے انکارکر تے رہے ہیں.میں مانتا ہوں کہ یہ شعرکسی اَور کے کہے ہو ئے ہیں اور آپؐ شعر نہیں کہتے تھے مگر موقعہ پر ان شعروں کوچُن لینا یہ بتا تا ہے کہ آپؐ کس طرح نصیحت کے پہلو کو ہمیشہ اختیار کر تے تھے.عرب ایسے موقعوں پر شعر کہنے اور پڑھنے کے عادی ہیں او رصحابہؓ بھی شعر کہتے تھے مگر سب اشعار میں سے ان کو چن لینا یہ حکمت سے خالی نہ تھا اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ انتخاب بے معنی نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو بہت سے ضروری مسائل کی طرف متوجہ کر نا تھا.غرض کہ آنحضرتؐ کی زندگی پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ خدا کی را ہ میں ہر ایک کام میں صحابہ ؓ کے شریک رہتے تھے اور یہ بات دنیا کے کسی بادشاہ میں اس حد تک نہیں پا ئی جاتی.

Page 607

علم ِغیب سے انکاراب میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے ایک اَور پہلو پر رو شنی ڈالتا ہوں جس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا مطہر پید اکیا.بادشاہوں کے دربا روں اور رؤساء کی مجالس میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ ان مقامات میںبے جا تعریف اور جھوٹی مدح کا بازار کیسا گرم رہتا ہے اور کس طرح درباری اور ہم مجلس رؤساء کی تعریف اور مدح میں آسمان اور زمین کے قلا بے ملاتے ہیںاور وہ ان کو سن سن کر خوش اور شاداں ہو تے ہیں.ایشیائی شاعری کا تو دارو مدارہی عشقیہ غزلوں اور امراء کی مدح سرا ئی پر ہے.شا عر اپنے قصیدہ میں جس امیر کی مدح کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے دنیا کی ہر ایک خوبی اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور واقعات اور حقیقت سے اسے کو ئی غرض نہیں ہو تی جس قدر ممکن ہو جھو ٹ بو لتا ہےاور تعریف کا کو ئی شعبہ اٹھا نہیںرکھتا.ہر ایک رنگ سے اس کی بڑا ئی بیان کر تا ہے اور اس کا دل خوب جانتا ہے کہ میرے بیان میںسوواں حصہ بھی صداقت نہیں.سننے والے بھی جا نتے ہیںکہ محض بکواس کر رہا ہے مگر وہ جب اس امیر یا بادشاہ کی مجلس یا دربارمیںاپنا قصیدہ پڑھ کر سناتا ہے تو ہر ایک شعر پر اپنی داد کا خواہاں ہو تا ہے اور سننے والے جو اس کی دروغ گو ئی سے اچھی طرح واقف ہو تے ہیں قصیدہ کے ایک ایک مصرع پر ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر داد دیتے اور تعریف کر تے ہیں کہ سبحان اللہ کیا خوب کہا اور خود وہ امیر جس کی شا ن میں وہ قصیدہ کہا جاتا ہے باوجود اس علم کے کہ مجھ میں و ہ باتیں ہر گز نہیں پا ئی جا تیں جو شاعر نے اپنے قصیدہ میں بیان کی ہیں.ایک ایک شعر پر اسے انعام دیتا اور اپنی ذات پر نا ز و فخر کر تا ہے حالانکہ قصیدہ کہنے والا ، سننے والا اور جس کے حق میں کہا گیا ہے.سب کے سب واقعات سے نا واقف نہیں ہو تے اور ہر ایک جا نتا ہے کہ قصیدہ میں جو مضا مین بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک شمّہ بھر بھی صداقت وراستی نہیں.امرا ءکی قید کیا ہے عام طور پر ہر ایک انسان کایہی حال ہے (اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہ)کہ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری مدح کی جا ئے اور جب کو ئی اس کی نسبت جھوٹی مدح سے بھی کا م لیتا ہے تو اس کے اندر یہ جرأت نہیں ہو تی کہ اس کا انکار کر سکے بلکہ سکوت کو ہی پسند کر لیتا ہے.مگر ہما رے آنحضرت ؐ فداہ ابی و امّی ایسے بر گزیدہ اور پا ک و مطہر انسا ن تھے کہ آپؐ ان کمزوریوں سے بالکل پاک تھے.اور اگر ایک طر ف ہر قسم کی خو بیوں کے جا مع اور نیکیوں کے خازن تھے تو دوسری طرف آپؐ یہ بھی کبھی پسند نہ فر ما تے تھےکہ کو ئی شخص آپؐ کی نسبت کو ئی ایسی بات بیان کرے جو درحقیقت آپؐ میں نہیں پا ئی جا تی.

Page 608

ربیع بنت معوذ ؓسے روایت ہے کہ دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃَ بُنِیَ عَلَیَّ فَجَلَسَ عَلٰی فِرَاشِی کَمَجْلِسَکَ مِنِّیْ وَجُوَیْرِیَاتٌ یَضْرِبْنَ بِالدَّفِّ، یَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ اَبَآ ئِھِنَّ یَوْمَ بَدْرٍ حَتّٰی قَالَتْ جَارِیَۃٌ:وَفِیْنَانَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَاَتَقُوْلِیْ ھٰکَذَا، وَقُوْلِیْ مَاکُنْتِ تَقُوْلِیْن).(بخاری کتاب المغازی باب قصہ غزوہ بدر) یعنی جس دن میری شادی ہو ئی ہے اس دن آنحضرت ؐمیرے پا س تشریف لا ئے اور میرے فرش پر بیٹھ گئے اسی طرح جس طرح تو بیٹھا ہے(یہ با ت راوی کو کہی) اور کچھ لڑکیاں دف بجارہی تھیں اور بدر کی جنگ میں جو ان کے بزرگ مارے گئے تھے ان کی تعریفیں بیان کر رہی تھیں یہاں تک کہ ایک لڑکی نے یہ مصرع پڑھنا شروع کیا(اس مصرع کا ترجمہ یہ ہے) کہ ہم میں ایک رسولؐ ہے جو کل کی با ت جانتا ہے.اس بات کو سن کر آنحضرت ؐ نے اسے ٹوکا اور فر ما یا کہ یہ مت کہو اور جو کچھ پہلے گار ہی تھی وہی گا تی جا.یہ وہ اخلاق ہیں جو انسان کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ششدر رہ جا تا ہے کہ ایک انسان ان تمام کمالات کا جا مع ہو سکتا ہے.بے شک بہت سے لو گوں نے جن کی زبان تیز تھی یا قلم روا ں تھی تقریر و تحریر کے ذریعہ اعلیٰ اخلاق کے بہت سے نقشے کھینچے ہیں لیکن وہ انسان ایک ہی گزرا ہے جس نے صرف قول سے ہی نہیں بلکہ عمل سے اعلیٰ اخلاق کا نقشہ کھینچ دیا اور پھر ایسا نقشہ کہ اس کی یاد چشمِ بصیرت رکھنے والوں کو کبھی نہیں بھول سکتی.ایک طرف دنیا کو ہم اپنی تعریف و مدح کا ایسا شیدا دیکھتے ہیں کہ خلافِ واقعہ تعریفوں کے پل باندھ دیے جا تے ہیں اور جن کی مدح کی جاتی ہے بجائے نا پسند کر نے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور ایک طرف آنحضرت ؐکو دیکھتے ہیں کہ ذرا منہ سے ایسا کلام سنا کہ جو خلافِ واقعہ ہے تو باوجود اس کے کہ وہ اپنی ہی تعریف میں ہو تااس سے روک دیتے اور کبھی اسے سننا پسند نہ فرماتے (ببیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا.)اہل دنیا کدھر کو جا رہے ہیں اور وہ ہمارا پیارا کدھر کو جا تا ہے.اس میںکچھ شک نہیں کہ ایسے بھی لوگ پائے جا تے ہیں کہ جو اپنی تعریف کو پسند نہیں کر تے اور بے جاتعریف کر نے والے کو رو ک دیتے ہیں اور بادشاہوں میں سےبھی ایسے آدمی گزرے ہیں مگر آپ ؐ کے فعل اور لوگوں کے فعل میں ایک بہت بڑا فرق ہے جو آپ ؐ کے عمل کو دوسروں کے اعمال پر امتیاز عطا کر تا ہے.انگلستان کے مؤرّخ اپنے ایک با دشاہ (کینئوٹ ) کے اس فعل کو کبھی اپنی یاد سے اترنے نہیں دیتے کہ اس نے اپنے بعض درباریوں کی بے جا خوشامد کو نا پسند کرکے انہیں ایسا سبق

Page 609

دیا جس سے وہ آئندہ کے لیے اس سے باز آجائیں.یعنی جب بعض لو گوں نے اس سےکہا کہ سمندر بھی تیرے ماتحت ہے تو اس نے ان پر ثابت کر دیاکہ سمندر اس کا حکم نہیںمانتا.مگر یادرکھنا چاہیے کہ وہ ایک دنیاوی بادشاہ تھا اور روحانی بادشاہت سے اس کا کو ئی تعلق نہ تھا نہ اسے رو حانی حکومت و تصرف کا ادعاء تھا.پس اگر ایک ایسی بات کا اس نے انکار کر دیا جو اس کے اپنے را ہ سے علیحدہ تھی تو یہ کچھ بڑی بات نہ تھی.اسی طرح دیگر لو گ جو جھوٹی مدح سے متنفر ہوتے ہیں ان کے حالات میں بھی بہت کچھ فرق ہے.آنحضرتؐ ایک ایسی قوم میں تھے جو سر تسلیم جھکانے کے لیے صرف ایک ایسے شخص کے آگے تیار ہو سکتی تھی جو اپنی طاقت سے بڑھ کر طا قت رکھتا ہو کیونکہ اس کی رگ رگ میں حریت اور آزادی کا خون دوڑ رہا تھا پس اس کے سامنے اپنے آپ کو معمولی انسانوں کی طرح پیش کرنا بلکہ اگر ان میں سے کو ئی آپ کی ایسی تعریف بھی کرے جو وہ اپنے بڑوں کی نسبت کرنے کے عادی تھے تو اسے روک دینا یہ ایک ایسا فعل تھا جس سے ایک اوسط درجہ کاانسان گھبرا جا تا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر میراگزارہ کیونکر ہو گا.دوم آپؐ کو دعویٰ تھا نبوت کا اور نبوت میں آئندہ خبریںدینا ایک ضروری امر ہے پس یہ تعریف خود آپؐ کے کام کی نسبت تھی گو مبالغہ سے اسے اور کا اور رنگ دے دیا گیا تھا.پس آپؐ کا اس تعریف سے انکار کر نا دوسرے لو گوں سے بالکل ممتاز ہے اور آپؐ کے نیک نمونہ سے کسی اور انسان کا نمونہ خواہ وہ انبیاءمیں سے ہی کیوں نہ ہو قطعا ًنہیں مل سکتا.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کس طرح حریت پیدا کر نی چاہتے تھے.اس قسم کے خیالات اگر پھیلا ئے جا تے اور آپ ؐ ان کے پھیلا ئے جا نے کی اجازت دے دیتے تو مسلمانوں میں شرک ضرور پھیل جا تا مگر ہمارا رسولؐ تو شرک کا نہایت خطر نا ک دشمن تھا وہ کب اس بات کو پسند فر ما سکتا تھا کہ ایسی با تیں مشہور کی جا ئیں جو واقعات کے خلاف ہیں اور جن سے دنیا میں شرک پھیلتا ہے پس اس نے جو نہی ایسے کلمات سنے کہ جن سے شرک کی بو آتی تھی فوراً ان سے روک دیا اور اس طرح بنی نوع انسان کو ذہنی غلامی سے بچا لیا اور حریت کے ایک ایسے ارفع اسٹیج پر کھڑا کر دیا جہاںغلامی کی زہریلی ہواؤں کا پہنچنا نا ممکن ہو جا تا ہے.اے سوچنے والو !سوچو تو سہی کہ اگر آنحضرتؐ کو دنیا کی عزت اور رتبہ منظور تھا اور آپؐ کا سب کا م دنیاوی جاہ و جلال حاصل کر نے کے لیے تھا توآپؐ کے لیے کیا مناسب تھا.کیا یہ کہ لوگوں میں اپنی عزت و شان کے بڑھانے کے لیے باتیں مشہور کراتے یا کہ معتقدین کو ایسا کر نے سے روکتے.کیا وہ لوگ جو اپنی خواہش اور آرزو کے ماتحت دنیامیں

Page 610

بڑا بننا چاہتے ہیں اسی طرح کیا کر تے ہیں.کیا وہ بغیر امتیاز جھوٹ اور سچ کے اپنی شان دو با لا نہیں کر نی چاہتے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک انسان کو بغیر اس کے اشارہ کے کچھ لوگ وہ شان دینا چاہتے ہیں جو اگر کسی انسان میں پا ئی جا ئے تو وہ مرجع خلائق بن جا ئے تو وہ انہیں روکتا ہے اور فوراً کہہ دیتا ہے کہ اور اور با تیں کرو مگر ایسا کلام منہ پر نہ لا ؤ جس سے اس وحدہٗ لاشریک ذات کی ہتک ہو تی ہو جو سب دنیا کا خالق و مالک ہے اور میری طرف وہ با تیں منسوب نہ کرو جو در حقیقت مجھ میں نہیں پا ئی جا تیں.ہاں بتلاؤ تو سہی کہ اس کا کیا سبب ہے؟کیا یہ نہیں کہ وہ دنیا کی عزتوں کا محتاج نہ تھا بلکہ خدا کی رضا کا بھوکا تھا.دنیا اس کی نظر میں ایک مُردار سے بھی کم حیثیت رکھتی تھی.آرام و آسائش کے اوقات میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھنا کو ئی بات نہیں.انسان کا امتحان اس وقت ہو تا ہے جب اس پر کو ئی مشکل پیش آئے اور پھر اس میں وہ اپنے حواس کو قائم رکھے اور بدحواس نہ ہو جا ئے.آنحضرتؐ کو اپنی عمر میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے اور بہادری اور جرأت میںآپؐ نے اپنے آپ کو بے نظیر ثابت کر دکھا یا ہے.جیسا کہ ہم اس سے پہلے مختلف واقعات سے ثابت کر چکے ہیں ان مصائب و آسائش کے مختلف دوروں نے آپؐ کی عظمت اور جلال کو کو ئی نقصان نہیںپہنچایا بلکہ ہر حالت میںاپنی کو ئی نہ کوئی خوبی ظاہر کی ہے.خواہ عسر کا زمانہ ہو یا یسر کا.آپؐ بے عیب ثابت ہو ئے ہیں اور آپؐ کی شان ارفع سے ارفع تر ثابت ہو ئی ہے.نہ تو مصائب کے ایام میں آپؐ سے کو ئی ایسی بات ظاہر ہو ئی جس سے آپؐ پر عیب گیری کا موقع ملے نہ خو شی کے دنوں میں آپؐ سے کو ئی ایسا فعل سرزد ہوا جس سے آپؐ پر اعتراض کر نے کی گنجائش پیدا ہو ہر رنگ اور شکل میں آپؐ دنیا کے لیےایک قابل قدر نمونہ ثابت ہو ئے ہیں.جرأت و بہادری کی نسبت تو میں لکھ چکا ہوں اس جگہ یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ آنحضرت ؐکو اپنے حواس پر کیسا قابو تھا اور کس طرح خطرناک سے خطرناک مصائب میں آپؐ استقلال اور ٹھنڈے دل کے ساتھ غو ر کرنے کے عادی تھے اور آپؐ سے کبھی کو ئی ایسی حرکت نہ ہو تی تھی جس سے کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر ہو اور یہ بھی کہ کیوں کر ہر ایک مصیبت میں آپؐ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی دکھا ئی دیتا تھا.یہ تو میں پہلے لکھ چکاہوں کہ آنحضرت ﷺ دوسرے بادشاہوںکی طرح اپنے ساتھ کو ئی پہرہ یا گارڈ نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے صحابہ ؓکی طرح آپؐ بھی اکیلے اپنے کا م میں مشغول رہتےتھے.ایسے اوقات میں دشمن کو جس قدر دکھ پہنچا نے کے مواقع مل سکتے ہیں وہ ایک واقف کار انسان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو سکتے.جو انسان ایک ہی وقت میں اپنے ملک کے ہر طبقہ کے انسانوں

Page 611

اور ہر فرقہ کے پیروؤں سے خصوصاً اور با قی دنیا سے عموماً جنگ شروع کر چکا ہو اور ان کے عقائد اور خیالات کو مٹا کر ان کی جگہ اپنی لا ئی ہو ئی تعلیم کو پھیلانے میں کو شاں ہو.اس سے دیگر مذاہب اور مخالف امراء کے پیروؤں اور متبعین کو جو کچھ بھی عداوت ہو کم ہے اور وہ ہر ممکن سے ممکن ذرائع سے اسے تکالیف پہنچانے کی کو شش کریں گے اور خصوصاً انہیں معلوم ہو کہ جس شخص کو ایذاء پہنچا نا انہیں مقصود ہے وہ بغیر کسی نگرانی یا پہرہ کے گلیوں اور میدانوں میں تن تنہا چلتا پھرتا انہیں مل سکتا ہے.آپؐ کے مخالفین نے ان حالات سے فا ئدہ اٹھا نے کے لیے جو تدابیر کیں ان سے بحیثیت مجموعی مجھے غرض نہیں.میں صرف بخاری کی روایات سے کچھ واقعات اس سیرت میں بیان کر رہا ہو ں جن سے آپؐ کے اخلاق پر روشنی پڑتی ہے اس لیےصرف ایک ایسا واقعہ جس سے معلوم ہوسکے گا کہ کس طرح آپؐ کی جان پر اچانک حملہ کیا گیا اور آپؐ نے اس وقت اپنے ہو ش و حواس کو کس طرح بجا رکھا.اس جگہ بیان کر تا ہوں.عَنْ جَابِرِ بِنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَخْبَرَہُ اَنَّہٗ غَزَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَہٗ، فَاَدْرَکَتْھُمُ الْقَائِلَۃُ فِیْ وَادٍ کَثِیْرِ الْعِضَاہِ،فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِی الْعِضَاہِ یَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرِ، وَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَۃٍ فَعَلَّقَ بِھَا سَیْفَہٗ، قَالَ جَابِرٌ فَنِمْنَا نَوْمَۃً ،ثُمَّ اِذَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْنَا فَجِئْنَاہُ فَاِذَا عِنْدَہٗ اَعْرَا بِیٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ھٰذَا اِخْتَرَطَ سَیْفِیْ وَاَنَا نَائِمٌ ،فَاسْتَیْقَظْتُ وَھُوَ فِیْ یَدِہٖ سَلْتًا فَقَالَ لِیْ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ ،قُلْتُ اَللّٰہُ،فَھَا ھُوَ زَاجَالِسٌ ،ثُمَّ لَمْ یُعَاقِبْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سا تھ نجد کی جانب ایک غزوہ میں شریک ہو ئے اور جب آپؐ سفر سے لو ٹے.تو وہ بھی حضورؐ کے ساتھ لوٹے راستہ میں لشکر ایک ایسی وادی میں جو کا نٹے دار درختوں سے پُر تھی دو پہر کے وقت گزرا.پس رسول اللہ ﷺ وہاں اتر پڑے اور آپؐ کے سا تھی ادھر ادھر درختوں میں پھیل گئے اور درختوں کے سا ئے میں آرام کر نے لگے.آنحضرت ﷺ بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے

Page 612

ٹھہر گئے اور اپنی تلوار اس در خت سے لٹکا دی.جا بر ؓ فر ما تے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر سو گئے پھر اچانک آنحضرتؐ کی آواز آئی کہ آپؐ ہمیں بلا تےہیں پس ہم آپؐ کے پاس آئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ آپؐ کے پا س ایک اعرا بی بیٹھا ہے.رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا کہ اس شخص نے میری تلوار میان سے کھینچی اور میں سو رہا تھا پس میں جا گ پڑا اور اس کے ہا تھ میں ننگی تلوار تھی پس اس نے مجھے کہا کہ مجھ سے تجھے کو ن بچائے گا میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ بچائے گا.پس دیکھو یہ سامنے بیٹھا ہے پھر جا بر ؓ فر ما تے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے اسے کوئی سزانہ دی.دوسری جگہوں سے اس واقعہ میں اس قدر اور زیادتی معلوم ہو تی ہے کہ اللہ کا نام سن کر اس شخص پر اس قدر ہیبت طاری ہو ئی کہ اس کے ہا تھ سے تلوار گر گئی اور آنحضرتؐ نے اٹھا لی اور اس سے فر ما یا کہ اب تجھے میرے ہا تھ سے کو ن بچائے گا تو اس نے جواب دیا کہ کو ئی نہیں.پھر آپؐ نے اسے چھوڑ دیا اور صحابہ ؓکو بلا کر دکھا یا.اس حدیث سے کیسے واضح طور سے معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرتؐ کو اپنے حواس پر ایسا قابو تھا کہ نہایت خطر ناک اوقات میں بھی آپؐ نہ گھبرا تے.کہنے کو تو شا ید یہ ایک چھو ٹی سی بات معلوم ہو تی ہے کہ اس اعرا بی نے آپؐ سے پو چھا کہ اب آپؐ کو کون بچا ئے گا اور آپؐ نے فر ما یاکہ اللہ لیکن عمل میں یہ بات مشکل ترین امور میں سے ہے.اول تو سو یا ہوا انسا ن پہلے ہی بہت سی غفلتوں کے نیچے ہوتا ہے اور بغیر کسی خوف و خطر کے بھی ایک سوئے ہو ئے آدمی کو جگا دیا جا ئے تو وہ گھبرا جا تا ہے اور کسی خطر ناک آواز یا نظارہ کو اگر ایک سو یا ہوا انسان سن کر یا دیکھ کر اٹھے تو اس کےحواس قائم رہنے نہایت مشکل ہوتے ہیں.پس اگر جا گتے ہو ئے کو ئی دشمن حملہ کر تا تو وہ واقعہ ایسا صاف اور روشن نہ ہو تا جیسا کہ یہ ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہو تا ہے کہ آپؐ کو کسی خطرہ کا گمان تک بھی نہ تھا جب اس شخص نے آپؐ پر حملہ کیااور آپؐ کسی ایسے فعل سے انتہا ئی درجہ کی لا علمی میں تھے اور دوسری طرف دشمن کو اس موقع سے فا ئدہ اٹھا کر ہر قسم کی تیاری اور ہوشیاری کا موقع حاصل تھا.علا وہ ازیںایک آدمی جب بیٹھا یا کھڑا ہو تو وہ حملہ آور کا مقابلہ نہا یت آسانی سے کر سکتا ہے اور کم سےکم اسے اپنی جگہ بدلنے میں آسانی ہو تی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے حملہ کو اگر طاقت اور قوت سے میں نہیں رو ک سکتا تو کم سے کم چستی اور چالاکی سے اس کے حملہ کو ضرور بچاسکتا ہوں اور اس کی ضرب سے ایک طرف ہو کر اپنی جا ن بچانے کا موقع حاصل ہو سکتا ہے لیکن آنحضرت ؐ اس وقت لیٹے ہو ئے

Page 613

تھے اور پھر سو ئے ہوئےجا گے تھے جس کی وجہ سے کوئی ظا ہری تدبیر دشمن کے حملہ کو روکنے کی نہ تھی اور پھر آپ ؐ غیر علا قہ میں تھے اور دشمن اپنی جگہ پر تھا جہاں اپنی حفا ظت کا اسے ہر طرح یقین تھا مگر با وجود ان حالات کے آپؐ نے ایک ذرہ بھر بھی تو گھبرا ہٹ ظاہر نہ کی.اس اعرا بی کا یہ کہنا بھی کہ اب تجھے کو ن بچا سکتا ہے صاف ظاہر کر تا ہے کہ اسے بھی کامل یقین تھا کہ اب کو ئی دنیا وی سامان ان کے بچاؤ کا نہیں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جس شخص پر میں حملہ کر نا چاہتا ہوں وہ معمولی انسانوںمیں سے نہیں بلکہ ان میں سے ہے جو خالق ارض و سما کے در بار کے مقرب اور اس کے ظلِّ عافیت کے نیچے آئے ہو ئے ہو تے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اسےجس آرا م اور اطمینان قلب کے سا تھ جواب دیا ہےکہ مجھے اللہ بچائے گا وہ روز رو شن کی طرح اس با ت کوثا بت کر رہا ہے کہ آپؐ کے دل میں غیر اللہ کا خوف ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آتا تھا اور آپؐ کا دل ایسا مضبوط اور قوی تھا کہ خطرناک سے خطر ناک اوقات میں بھی اس میں گھبرا ہٹ کا وجود نہ پا یا جا تا تھا اور اپنے حواس پر آپؐ کو اس قدر قدرت تھی کہ اور تو اور خود دشمن بھی جو آپؐ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا بد حواس ہو گیا اور اس کے ہا تھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ میں ایک ایسی طاقت کا مقابلہ کر رہا ہوں جسے نقصان پہنچانے کی بجا ئے میں خود تباہ ہو جا ؤں گا.ہمیشہ خیر اختیار کر تےآنحضرت ﷺ کبھی ضد سے کام نہ لیتے تھے بلکہ جس بات میں خیر دیکھتے اس کو اختیار کر تے تھے اور قطعاً اس بات کی پروا نہ کر تے کہ اس سے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو تی.ہم دیکھتے ہیں کہ رجالِ سیاستِ دنیویہ نے اپنے اصولوں میں سے ایک یہ اصل بھی بنا رکھی ہے کہ با دشاہ یا حاکم جو حکم دے دے اور جو فیصلہ کر دے اس میں تغیر نہ کرے اور جس طرح کیا ہے اس پر قائم رہے تا کہ لو گوں کے دل میں یہ نہ خیال پیدا ہو کہ ہم نے ڈرا کر منوالیاہے یا کم سے کم دوسروں کے سامنے شرمندہ نہ ہو نا پڑے کہ ایک با ت کہہ کر پھر اس سے رجوع کر لیا ہے اور اس اصل پر رِجالِ سیاست ایسے پکے اور قائم رہتے ہیں کہ بعض اوقات جنگوں تک نوبت پہنچ جا تی ہے مگر وہ اپنی بات کی پچ کے لیے اور دبدبہ حکومت قائم رکھنے کے لیے ملک کو جنگ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس بات کو پسند نہیں کر تے کہ اپنے فیصلہ کو واپس لے لیں.جو لوگ تا ریخِ انگلستان سے واقف ہیں ا ن سے یہ امر پو شیدہ نہیں کہ ریا ستہا ئے متحدہ سے

Page 614

جنگ کی وجہ یہی ہو ئی کہ انگلستان کے رِجالِ سیا ست ایک فیصلہ دے کر اس کو واپس نہیں لینا چاہتے تھے گو وہ اس بات کو خوب سمجھ گئے تھے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک خو نر یزجنگ ہو ئی اور ایک سر سبزو شاداب ملک ہاتھ سے جا تا رہا.خود ہندوستان میں تقسیم بنگا لہ کا فیصلہ ایک کھلی نظیر موجود ہے کہ خود وزراء انگلستان قبول کرتے تھے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہوالیکن ڈرتے تھے کہ اسے تبدیل کر دیں گے تو ملک میں حکومت کی بے رُعبی ہو گی چنانچہ جب تک شہنشاہ ہند کی تا ج پوشی کا ایک نہایت غیر معمولی موقع پیش نہیں آیا اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا.اور درحقیقت بظاہر دنیاوی نقطۂ خیال سے یہ بات ہے بھی درست کیونکہ جب رعایا کے دل میں یہ بیٹھ جا ئے کہ ہم جس طرح چاہیں کرا سکتے ہیں یا ان کو یہ خیال ہو جا ئے کہ ہما را حاکم تو بالکل غیر مستقل مزاج آدمی ہے اسے جس طرح چاہیں پھیردیں تو وہ بہت دلیر اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سست ہو جا تی ہے اور اسی وجہ سے رِجالِ سیاست نے اس بات کو بہت پسند کیا ہے کہ حاکم اپنے فیصلہ کو بہت جلدی واپس نہ لے بلکہ حتّٰی الامکان اس پر قائم رہے.ہمارے آنحضرت ﷺ جس پاک فطرت کو لے کر پیدا ہو ئے اور جن کمالات کو آپؐ نے حاصل کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ آپؐ ہمیشہ خیر اختیار کریں ایک دنیاوی بادشاہ یا حاکم اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ میں اپنے ایام حکومت میںحکومت کے رعب کو قائم رکھتا رہا ہوں اور ایک مضبوط ارادہ کے سا تھ نظام حکومت چلا تا رہا ہوں مگر میرے اس پیا ر ے کا یہ فخرنہ تھا کہ میں نے جو کچھ کہہ دیا اس پر پا بند رہا ہوں بلکہ اس کا فخریہ تھا کہ میں نے جب عمل کیا خیر پر کیا اور جب مجھے معلوم ہوا کہ میں فلاں رنگ میں کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں میں نے اس کے پہنچانے میں کو تا ہی نہیں کی پس اگر روحانیت کی دنیا میں کو ئی شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ ہی ہو سکتے ہیں.حضرت ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اِنَّا اَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنَ الْاَشْعَرِ یِّیْنَ فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَاَبٰی اَنْ یَّحْمِلَنَا، فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَحَلَفَ اَنْ لاَّ یَحْمِلَنَاثُمَّ لَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُتِیَ بِنَھْبِ ابِلٍ فَاَمَرَلَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ فَلَمَّا قَبَضْنَا ھَا قُلْنَا :تَغَفَّلْنَا النَّبِیَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمِیْنَہٗ ، لَا نُفْلِحُ بَعْدَھَااَبَدًا،فَاَتَیْتُۃٗفَقُلْتُ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّکَ حَلَفْتَ اَنْ لاَّتَحْمِلَنَاوَقَدْحَمَلْتَنَا؟قَالَ:اَجَلْ، وَلٰکِنَّ لَااَحْلِفُ عَلیٰ یَمِیْنٍ،فَاَرٰی غَیْرَ ھَا خَیْرًامِنْھَا

Page 615

اِلَّا اٰتَیْتُ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ مِنْھَا(بخاری کتاب المغازی باب قدوم الا شعر یین واھل الیمن) آپؓ نے فر ما یا کہ ہم چند آدمی جو اشعری قبیلہ کے تھے.نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور ہم نے آپؐ سے سواری مانگی.آپؐ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے میں نہیں دے سکتا.ہم نے پھر عرض کیا کہ ہمیں سواری دی جاوے تو آپؐ نے قسم کھا لی کہ ہمیں سواری نہ دیں گے پھر کچھ زیا دہ دیر نہ لگی تھی کہ نبی کریم ﷺکے پاس کچھ اونٹ لا ئے گئے پس آپؐ نے حکم دیا کہ ہمیں پا نچ اونٹ دیے جاویں.پس جب ہم نے وہ اونٹ لے لیے ہم نے آپس میں کہا کہ ہم نے تو آنحضرت ﷺ کو دھوکا دیا ہے اور آپؐ کوآپؐ کی قسم یا دنہیں دلا ئی ہم اس کے بعد کبھی مظفر و منصور نہ ہوں گے اس خوف سے میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکہ یا رسولؐ اللہ !آپؐ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپؐ ہمیں سواری نہ دیں گے اور اب تو آپؐ نے ہمیں سواری دے دی ہے.فر ما یا ہاں اسی طرح ہوا ہے.میں کوئی قسم نہیں کھا تا لیکن جب اس کے سوا کو ئی اَور بات بہتر دیکھتا ہوں تووہ بات اختیار کرلیتا ہوں جو بہتر ہو.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مقصود کیا تھا آپؐ کے کام کسی دنیاو ی مصلحت یا ارادہ کے ماتحت نہ ہو تے تھے بلکہ آپؐ اپنے ہر کام میں یہ بات مد نظر رکھتےتھے کہ جو کچھ آپؐ کر تے ہیں وہ واقعہ میں نفع رساں بھی ہے یا نہیں اور اگر کبھی معلوم ہو جا ئے کہ آپؐ نے کو ئی ایسا کام کیا ہے یا اس کے کرنے کا ارادہ کیا ہے جو کسی انسان کےلیے مضر ہو گا یا اسے اس سے تکلیف ہو گی توآپؐ فوراً اپنے پہلے حکم کو واپس لے لیتے اور وہی بات کرتے جوبہترا ور نفع رساں ہو تی.ایک ظاہر بین انسان کہہ سکتا ہے کہ اس سے رعب ود اب میں فرق آتا ہے اور حکومت کو نقصان پہنچتا ہےمگر اس بات سے تو آپؐ کی خوبی اور نیکی کا پتہ چلتا ہے کہ خواہ کو ئی امر کیسا ہی خطرناک اور مُضر معلوم ہو تا ہو آپؐ بے دھڑک اسے اختیار کر لیتے تھے جبکہ آپؐ کو یقین ہوجاتا ہے کہ اس سے لوگوں کے حقوق کی نگہداشت ہو تی ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا کہ باوجود اس بات کے آپؐ کو ایسا رعب وداب میسر تھا جو دنیا کے کسی بادشاہ کو میسر نہیں.واقعہ میں ایک بادشاہ کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سکھ پہنچائے اور آپؐ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپؐ دین و دنیا کے لیے ایک کامل نمونہ تھے اور آپؐ کی زندگی دنیاوی بادشاہوں کے لیے بھی نمونہ ہے کہ بادشاہوں کو اپنے ماتحتوں اور رعایا کے سا تھ کیسا سلوک کرنا چاہیے اور کس طرح ضد اور تعصب سے الگ ہو کر ہر ایک قر بانی اختیار کرکے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لیے تیار رہنا

Page 616

چاہیے.ہمیں اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ ماتحتوں پر اسی وقت بادشاہ کے حکم بدل دینے کا برا اثر پڑتا ہے جب کہ ان کو یہ یقین ہو کہ بادشاہ ہمارا یقینی خیر خواہ نہیں بلکہ اس نے ڈر کر اپنے حکم میں تبدیلی کی ہے اور جب انہیں یقین ہو کہ اس کے احکام ایک غیر مستقل طبیعت کا نتیجہ ہیں لیکن اگر انہیں اس بات کا کامل یقین ہو جا ئے کہ کو ئی بادشاہ یا حاکم ان سےڈر کر یا بے استقلالی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے حکم بدلتا ہے کہ وہ ان کا خیرخواہ ہے او رکسی وقت بھی ان کی بھلا ئی سے غافل نہیں ہو تا تو بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میںبے رُعبی پیدا ہو وہ اس سے اور بھی مرعوب ہو جا تے ہیں اور ان کے دل محبت سے بھر جا تے ہیں اور جو بادشاہ اپنی رعایا اور ماتحتوں کے دلوں میں اپنی خیرخواہی کا ایسایقین بٹھادے وہی سب سے زبردست بادشاہ ہے اور یہی خیال تھا جس نے کہ ابو موسیٰ ؓ اور ان کے سا تھیوں کو مجبور کیا کہ بجا ئے اس خیال کے کہ یہ سمجھیں کہ آنحضرت ﷺسے کسی قسم کی بے استقلالی ظاہر ہو ئی ہے انہوں نے جنگ کے لیےپید ل جانا منظور کیا مگر یہ نہ پسند کیا کہ آپؐ کو دوبا رہ قسم یاددلائے بغیر ان سواریوں کو استعمال کریں.اور یہ اس عظیم الشان فتح کا نشان تھا جو آپؐ کو اپنے اصحابؓ کے دلوں پر حاصل تھی.تحمّلانسان کے نیک خصال میںسے تحمل کی خصلت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے کیونکہ تحمل سے بہت سے جھگڑوں فسادوں اور لڑائیوں کا قلع قمع ہو جا تا ہے.بہت دفعہ انسان ایک بات سن کر بحث مباحثہ میںپڑ جا تا ہے اور بجا ئے فائدہ کرنے کے نقصان پہنچاتا ہے.بعض لوگ تو اپنے خیال کے خلاف بات سنتے ہی کچھ ایسے دیوانہ ہو جا تے ہیں کہ حَدِّا عتدال سے بڑھ کر گالیوں پر اترآتے ہیں او رعظیم الشان فسادوں کے با نی ہو جا تے ہیں.بعض لوگ اپنے منشا کے خلاف بات سن کر ایسی طول طویل بحثیں شروع کر دیتے ہیں کہ جن کا ختم ہو نا محالات سے ہو جا تا ہے لیکن حقیقی مصلح وہی ہے جو اکثر اوقات تحمل سے کام لیتا ہے اور احتیاط کے سا تھ سمجھاتا ہے.آج کل کے بادشاہ یا علماء یا گدی نشین اپنی حیثیت کا قیام ہی اسی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے خلاف بات نہ کرے اور مرضی کے خلاف بات دیکھ کر فوراًناراض ہوجاتے ہیں اور تحمل سے کام نہیں لیتے.ممکن نہیں کہ ان لوگوں کے مزاج کے خلاف کوئی شخص بات کہہ دے اور پھر بغیر کچھ سخت وسست کلام سننے کے اس مجلس سے اٹھے مگر ہمارے آنحضرت ﷺ اس طرز کے نہ تھے.اس موقع پر تحمل سے کام لیتے اور بجا ئے گالیاں دینے اور سختی کر نے کے ایسا نرمی کا طریق اختیار

Page 617

کر تے کہ دوسرا خود بخود شرمندہ ہو جا ئے.حضرت علیؓ اپنا ایک واقعہ بیان فر ما تے ہیںجس سے ثابت ہو تا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت علی ؓنے آپؐ کو ایسا جواب دیا جس میںبحث اور مقابلہ کا طرز پا یا جا تا تھا تو بجائے اس کے کہ آپؐ ناراض ہو تے یا خفگی کا اظہار کر تے آپؐ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی ؓغالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھا تے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھا یا ہو گا وہ تو انہیں کا حق تھا.اب بھی آنحضرتﷺ کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محوِحیرت ہو جا تی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتےہیںاَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرَقَہٗ وَ فَاطِمَۃَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَیْلَۃً فَقَالَ: اَلَا تُصَلِّیَانِ فَقُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ،اَنْفُسُنَا بِیَدِ اللّٰہِ،فَاِذَا شَآءَ اَنْ یَّبْعَثَنَا بَعَثَنَا،فَانْصَرَفَ حِیْنَ قُلْنَا ذَالِکَ وَلَمْ یَرْجِعْ الَیَّ شَیْئًا،ثُمَّ سَمِعْتُہٗ وَھُوَ مُوَلٍّ،یَضْرِبُ فَخِذَہٗ،وَھُوَ یَقُوْلُ:وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلاً (بخاری کتاب التہجد باب تحریض النبی ﷺ علی قیام اللیل)یعنی نبی کریم ﷺ ایک رات میرے اور فاطمۃ الزہراؓ کے پاس تشریف لا ئےجو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور فر ما یا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کر تے.میں نے جواب دیا کہ یا رسولؐ اللہ !ہماری جا نیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھا ناچاہے اٹھا دیتا ہے.آپؐ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیںکہاپھر میں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو ئے تھے اور آپؐ اپنی ران پر ہا تھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر با توں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے.اللہ اللہ !کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کو آپؐ نے سمجھایا کہ آپؓ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا.کوئی اَور ہو تا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پو زیشن اور رُتبہ کو دیکھو.پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو رّد کر دو.یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ ا نسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیںوہ جس طرح چاہے کروا تا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے لیکن آپؐ نے ان دونوں طریق میں سے کو ئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہو ئے نہ بحث کرکے حضرت علیؓ کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کو ئی نہ کو ئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے حقیقت میں آپؐ کا اتنا کہہ دینا

Page 618

ایسے ایسے منافع اندر رکھتا تھا کہ جس کا عُشر عَشِیر کسی اَور کی سوبحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا.اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہو تی ہیںجن سے آنحضرتؐ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کردینامناسب معلوم ہوتا ہے.اول تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ را ت کے وقت پھر کراپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے.بہت لوگ ہو تے ہیں جو خود تونیک ہو تے ہیں، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کےگھر کا حال خراب ہو تا ہے اور ان میں یہ ما دہ نہیں ہو تا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لو گوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا.یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پا س تمام اشیاء کو رو شن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہو تا ہے اسی طرح یہ لوگ دوسروں کو تو نصیحت کر تے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لو گ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں.مگر آنحضرتؐ کواس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کر نا چاہتے تھے اور اس کا آپؐ تعہّدبھی کر تے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے،اور تربیت اعزّاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے جو اگر آپؐ میں نہ ہو تا تو آپؐ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جا تی.دوسری بات یہ معلوم ہو تی ہے کہ آپؐ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپؐ دنیا کے سامنے پیش کر تے تھے اور ایک منٹ کے لیے بھی آپؐ اس پر شک نہیں کر تے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کر تے ہیں کہ نَعُوْذُبِاللّٰہ دنیا کو الّو بنانے کے لیے اور اپنی حکومت جمانے کے لیے آپؐ نے یہ سب کارخانہ بنا یا تھا ورنہ آپؐ کو کو ئی وحی نہ آتی تھی.یہ با ت نہ تھی.بلکہ آپؐ کو اپنے رسول اور خدا کے ما ٔمور ہو نے پر ایساثلجِ قلب عطا تھا کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپؐ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پا س جا ئے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجا لاتے ہیں جو اس نے فر ض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کر نا مومنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جا تی ہے.اس وقت آپؐ کا جا نا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کر تا ہے جو آپؐ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپؐ لو گوں کو چلا نا چاہتے تھے ورنہ ایک مفتر ی انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلناایک سا ہے اپنی اولاد کو ایسے پو شیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کر نے کی نصیحت

Page 619

نہیں کرسکتا یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کر نے کے لیے میںنے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرتؐ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کر تے تھے اور بجا ئے لڑنے کے محبت اور پیارسے کسی کو اس کی غلطی پر آگا ہ فر ماتے تھے.چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علی ؓنے آپ کے سوال کو اس طرح رد کرنا چاہا کہ جب ہم سو جا ئیں تو ہماراکیا اختیار ہے کہ ہم جا گیں کیونکہ سو یا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا.جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آگیا ہے اب میں فلاں کام کرلوں اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہو تی ہے (کیونکہ اس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں)اس بات کو سن کر آنحضرتؐ کو حیرت ہو نی ہی تھی کیونکہ آپؐ کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپؐ کو ایسا غافل نہ ہو نے دیتاتھا کہ تہجد کا وقت گزر جا ئے اور آپؐ کو خبر نہ ہو اس لیے آپؐ نے دوسری طرف منہ کرکے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے.یعنی تم کو آئندہ کے لیے کو شش کر نی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہیے تھا.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فر ما تے ہیں میںنے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا.طہارۃ النّفس.تحمّلہم پہلے حضرت علی ؓ کے ایک واقعہ سے ثابت کر چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نہایت بر دبار تھے.بہت سے بادشاہوں کے جو اپنے خلاف بات سن کر یا اپنی مرضی کے نا موافق حرکت دیکھ کر نہایت غصہ اور جو ش سے بھر جا تے ہیں اکثر چشم پو شی اور اعراض سے کام لیتے تھے اور ایسا طریق اختیار کر تے جس میں تحمل کا پہلو غالب ہو.اب ہم ایک اَور ایسا ہی واقعہ بیان کر تے ہیں جو ایک دوسرے پہلو سے آپؐ کے تحمل پر رو شنی ڈالتا ہے اور آپؐ کی صفاتِ حسنہ کو اَور بھی رو شن کرکے ظا ہر کر تا ہے.آنحضرتﷺہوازن پر فتح پا کے واپس آ رہے تھے اوراس جنگ میں جو اموال مسلمانوں کے ہا تھ آئے ان کی تقسیم کا سوال درپیش تھا.آپؐ کا منشا تھا کہ اگر ہوازن تا ئب ہو کر آجائیں اور معافی کے خواستگار ہوں تو ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دیے جائیں لیکن دن پر دن گذرتے چلے گئے اور ہوازن کی طرف سے کو ئی وفد طلب گار معافی ہو کر نہ آیا.بہت دن تک آپؐ نے تقسیم ِاموال کے کام کو تعویق میں رکھا.لیکن آخر اس بات کو مناسب سمجھا کہ اموال تقسیم کر دیے جائیں.چنانچہ جعرانہ پہنچ کر آپؐ نے ان اموال کو تقسیم کر نا شروع کیا.منافق تو ہمیشہ اس

Page 620

تاک میں لگے رہتے تھے کہ کو ئی موقعہ ملے توہم آپؐ پراعتراض کریں.کو ئی نہ کوئی راہ نکال کر ذوالخو یصرہ التیمی نے عین تقسیم کے وقت بڑھ کر کہاکہ آپؐ اس تقسیم میں عدل کو مدنظر رکھیں جس سے اس کی مرادیہ تھی کہ آپؐ اس وقت عدل سے کام نہیں لے رہے امام بخاری صاحب نے اس واقعہ کو حضرت جابرؓ سے یوں روایت کیا ہے کہ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ:حَدَّثَنَا قُرَّۃٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو ابْنُ دِیْنَارٍ، عَنْ جَابِراِبْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ: بَیْنَمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ غَنِیْمَۃً بِالْجِعْرَانَۃِ، اِذْ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ:اِعْدِلْ فَقَالَ لَہٗ:(لَقَدْ شَقِیْتَ اِنْ لَمْ اَعْدِلْ).(کتاب الجہاد باب ومن الدلیل علی ان الخمس لنوائب المسلمی)یعنی آنحضرت ﷺ اموال غنیمت کو جِعرا نہ کے مقام پر تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپؐ کو کہا کہ آپؐ عدل سے کام لیں.آپؐ نے جواب دیا کہ اگر میں نے عدل نہیں کیا تو تُو بڑی بے برکتی اور بد بختی میں مبتلا ہو گیا.اللہ اللہ !کیسے خطر ناک حملہ کا جواب وہ پا ک رسول ؐکس نرمی سے دیتا ہے کس حلم سے اسے سمجھاتا ہے.آنحضرت ﷺسے جو عشق صحابہ کو تھا وہ ایسا نہ تھا کہ وہ ایسی با تیں برداشت کر سکتے.بلکہ حضرت عمرؓ اور خالد بن ولید ؓتو ہمیشہ ایسے مواقع پر تلوارکھینچ کر کھڑے ہوجاتے تھے.مگر آنحضرت ﷺ ان کو ہمیشہ روکتے رہتے تھے کہ ان لوگوں سے اعراض کرو.پس ایسے وقت میں جبکہ مکہ کے حدیث العہد مسلمان جو ابھی ان آداب سے بالکل ناواقف تھے جو ایک رسول کے حضور بجالا نے ایک مومن کا فرض ہو تا ہے اور جو ایک ذرا سے اشارہ سے صراط مستقیم سے ہٹ کر کہیں کے کہیں پہنچ سکتے تھے آپؐ کے ارد گرد کھڑے تھے اور وہی وقت تھا جب انہوں نے یہ سبق سیکھنا تھا کہ رسول کریم ﷺ کے سا تھ ہمیں کس طرح عمل کر نا چاہیے.ایک شخص کا آگے بڑھ کر نہایت بے حیا ئی سے آپؐ سے کہنا کہ حضورذرا عدل مد نظر رکھیں اور بے انصافی اور حق تلفی نہ کریں ایک خطر ناک فعل تھا.جس سے ایک طرف تو ان قوانین کی خلاف ورزی ہو تی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ساتھ کلام کرنے کے متعلق بیان فر ما ئے ہیں.دوسرے ان تمام مواعید پر پا نی پھر جا تا تھا جو اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے حضور کیے تھے اور جو ہر ایک مسلمان کو مسلمان ہو نے کے لیے کرنے پڑتے ہیں.تیسرے سیا سی لحاظ سے آپؐ کے رعب کو ایک خطر ناک نقصان پہنچا نے والے تھے.اور چوتھے نومسلموں کے لیے ایک نہایت بد نظیر قائم کر نے والے تھے جن کے دل ابھی اس عزت کا خیال بھی نہیں کر سکتے تھے جو صحابہ ؓ کے دلوں میں بھری ہو ئی تھی.پس وہ الفاظ جو ذوالخو یصرہ کے منہ سے اس وقت نکلے ایک دنیاوی دربارمیں

Page 621

خطر ناک سے خطرناک سزا کا فتویٰ دلا نے کے لیے کافی تھے.اور اگر زمانہ قدیم کے درباروں میں ایسا انسان قتل کا مستوجب خیال کیا جا تا تو موجودہ دورِ دستور یت میں بھی ایسا آدمی سزا سے محفوظ نہ رہ سکتا لیکن وہ بادشاہ ہر دو جہاں اس کے گستاخانہ کلام کے جواب میں کیا کہتا ہے؟کیا اسے سزا کا حکم دیتا ہے؟ کہ تا ان نو مسلموں پر آپؐ کا رعب بیٹھ جائے جو نہایت نگران نگاہوں سے صحابہؓ اور آنحضرت ﷺ کے تعلقات کو اس لیے دیکھتے رہتے تھے کہ ان سے اندازہ لگاسکیں کہ یہ تعلقات مصنوعی یا حقیقی،یاعارضی ہیںیا مستقل، سطحی ہیں یا ان کی جڑیں دل کے تمام کو نوں میں مضبوطی سے گڑی ہو ئی ہیں کیا وہ میرا پیارا اگر اسے کسی بدنی سزا کا مستحق قرار نہیں دیتا.تو کم سے کم زبانی طور پر ہی اسے سخت تہدید کر تا ہے کہ اگر ایسے الفاظ پھر تمہارے منہ سے نکلے تو تم کو سخت سزادی جا ئے گی؟نہیں وہ بھی نہیں کر تا.کیا وہ اسے اپنے سامنے سے دور ہو جا نے کا حکم دیتا ہے؟نہیں!وہ اس سے بھی اجتناب کر تا ہے.پھر اس مجرم کے لیے وہ کیا سزا تجویز کر تا ہے! وہ باوجود صحابہ کی چڑھی ہوئی تیوری کے اور باوجود ان کے ہاتھوں کے بار باردستہ تلوارکی طرف جا نے کے اسے نہایت پُرحکمت اور پر معنی جواب دیتا ہے جس سےبہتر جواب کو ئی انسانی دماغ تجویز کر ہی نہیں سکتا وہ اسے خود اسی کےفعل سے ملزم کر تا ہے خود اسی کے اقوال سے قائل کر تا ہے خوداسی کے اعمال سے شرمندہ کرتا ہے وہ کہتا ہے تو یہ کہ لَقَدْ شَقِیْتَ اِنْ لَّمْ اَعْدِلْ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تُو بدبختی کے گڑھے میں گر گیا.کیونکہ تُو نے تو مجھے خدا کارسول سمجھ کر بیعت کی ہے.اور دعویٰ کر تا ہے کہ میں آپؐ کو خد اکی طرف سے یقین کر تا ہوں اور مجھے اپنا رہنما اور پیشوا قرار دیتا ہے تو ان خیالات کے باوجود اےنادان! جب تو مجھے انصاف سے دور اور عدل سے خالی خیال کر تا ہے تو تجھ سے زیادہ بد بخت اور کو ن ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو ایک ایسےشخص کے پیچھے لگا تا ہے جو اتباع کےقابل نہیں اور اس آدمی سے ہدایت چاہتا ہے جو خود گمراہ ہے اور اس سے صداقت طلب کر تا ہے جو جھوٹ بولنے میں کو ئی عیب نہیں دیکھتا اور اگر تو مجھے نبی نہیں خیال کرتابلکہ جھوٹاخیال کر تا ہے تو پھر بھی تُو نہایت شقی ہے کیونکہ باوجود مجھے جھوٹا سمجھنے کےپھر میرے سا تھ رہتا ہے اور ظا ہرکر تا ہے کہ میں آپ کو سچا خیال کرتا ہوں.اللہ اللہ !کیسا پا ک جواب ہے کیسا مسکت اور مبکت جواب ہے جسے سن کر ایک حیا دار سوائے اس کےکہ زندہ ہی مر جا ئے اَور کو ئی جواب نہیں دے سکتا.یہ تھا آپؐ کا تحمل یہ تھی آپؐ کی بردباری جو آپؐ کو دنیا کے تمام انسانوںسے افضل ثابت کر تی ہے.بہت ہیں جو اشتعال انگیز الفاظ کو

Page 622

سن کر خاموشی سے اپنےحلم کا ثبوت دیتے ہیں لیکن میرے آقا کا تحمل بھی لغو نہ تھا اگر آپؐ خاموش رہتے تو اس کے اعتراض کا جواب کیا ہوتا آپؐ نے تحمل کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھا یا اور ایسا نمونہ جو کہ اپنے اندر ایک عظیم الشان سبق بھی رکھتا تھا اور معترضین کے لیے ہدایت تھا.کاش !اس حدیث سے وہ لوگ کچھ نصیحت حاصل کریں جو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرکے پھر اعتراضات سے نہیں رکتے کیونکہ ان کو یادرکھنا چاہیے کہ ان کا یہ فعل خود ان کی شقاوت پر دال ہے.اب ایک اور مثال درج کر تا ہوں.جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ اَنَّہُ بَیْنَا ھُوَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ النَّاسُ،مُقْبِلًا مِنْ حُنَیْنٍ،عَلِقَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْاَعْرَابُ یَسْئَلُوْنَہٗ،حَتّٰی اِضْطَرُّوْہُ اِلٰی سَمُرَۃٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَہٗ، فَوَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:اَعْطُوْنِیْ رِدَائِیْ،فَلَوْ کَانَ عَدَدُ ھٰذِہِ الْعِضَاہِ نَعَمًا لَقَسَّمْتُہٗ بَیْنَکُمْ،ثُمَّ لَا تَجِدُوْنِیْ بَخِیْلًا وَلَا کَذُوْبًا،وَلَا جَبَا نًا (بخا ری کتاب الجہادباب ما کان النبی ﷺ یعطی المؤلّفۃ قلوبھم)ایک دفعہ وہ آنحضرت ﷺ کے سا تھ تھے اور آپؐ کے ساتھ اَور بھی لوگ تھے.آپؐ حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے.راستہ میں کچھ بادیہ نشین عرب آگئے.اور آپؐ کےپیچھے پڑگئے اور آپؐ سےسوال کرنے لگے.اور آپؐ پر اس قدر زور ڈالاکہ ہٹا تے ہٹاتے کیکر کے درخت تک لے گئے.جس سے آپؐ کی چادر پھنس گئی.پس آپؐ ٹھہر گئے اور فر ما یا کہ میری چادر مجھے پکڑا دو.اگر ان کانٹے دار درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہو تے (یعنی بہت کثرت سے ہو تے )تو بھی مَیں سب تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھ کو بخیل اور جھوٹا اور بزدل نہ پا تے.اللہ اللہ ! یہ وہ شخص ہے جسے نا پاک طبع انسان دنیا طلب کہتے ہیں.اور طرح طرح کے نا پاک الزم لگا تے ہیں یہ وہ انسان ہے جسے اندھی دنیا مغلوب الغضب کہتی ہے یہ وہ وجود ہے جسے ظالم انسان ظالم قرار دیتے ہیں کیااس تحمل والا انسان ظالم یا مغلوب الغضب ہو سکتا ہے؟کیا اس سیر طبیعت کا انسان دنیا طلب ہو سکتا ہے؟عرب کا فاتح اور حنین کا بہادر اپنے خطر نا ک دشمن کو شکست دے کر واپس آرہا ہے.ابھی اس کے سپاہیوں کی تلواروں سے خون کا رنگ بھی نہیں چھُوٹا.زبردست سے زبردست انسان اس کو پیٹھ دکھا چکے ہیں اور اس کی تیز تلوار کے آگے اپنی گردنیں جھکا چکے ہیںاور وہ اپنی فتح مند افواج کے ساتھ میدان جنگ سےواپس آرہا ہے مگر کس شان سے اس کا حال ابھی پڑھ چکے ہو.کچھ عرب آکر آپؐ سےسوال کر تے ہیں اور پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں کہ کچھ لیے بغیر نہیں لوٹیں گے آپؐ بار بار انکار کر تے ہیں

Page 623

کہ میرے پاس کچھ نہیں مگر وہ باز نہیں آتے.پھر اور پھر سوال کر تے ہیں اور باوجود آپؐ کے انکار کے مصر ہیں کہ ہمیںضرور کچھ دلوایا جائے مگر آپؐ باوجود اس شان کے کہ سا رے عرب کو آپؐ کے سامنے گردن جھکا دینی پڑی ان سے کیا سلوک کر تے ہیں ان کے با ر بار کے سوال سے ناراض نہیں ہو تے.ان پر خفگی کااظہار نہیں کرتے بلکہ ان کو بتاتے ہیں کہ آپؐ کے پاس اس وقت کچھ نہیں ورنہ ضرور ان کو بھی دیتے.لیکن وہ لوگ پھر بھی مصر ہیں.ایسا کیوں ہے؟کیا اس لیے نہیں کہ کل دنیا اس بات سے واقف تھی کہ وہ بہادر انسان جو خطرناک جنگوں میں جس وقت اس کے سا تھی بھی پیچھے ہٹ جا تے ہیں اکیلا دشمن کی طرف بڑھتا چلا جا تا ہے.ایسا متحمل مزاج ہے کہ اپنی حاجتوںکو اس کے پاس جس زورسے بھی پیش کریں گے وہ کبھی ناراض نہیں ہو گا.بلکہ اس کا جواب محبت سے بھرا ہوا اور شفقت سے مملوء ہو گا.پھر کیا اس لیے نہیں کہ آپؐ کے اخلاقِ حسنہ اور آپؐ کے حسنِ سلوک کا دنیا میں ایسا شہرہ تھا کہ با دیہ نشین عرب بھی اس بات سے نا واقف نہ تھے کہ ہم جس قدر بھی اصرار کریں گے ہمیں کسی سرزنش کا خطرہ نہ ہوگا.ضرور یہی بات تھی جس کی وجہ سے وہ عرب آپؐ پر اس قدر زور ڈال رہے تھے.اور باتوں سے ہی آپؐ سے کچھ وصول نہیں کر نا چاہتے تھے بلکہ جب نا امیدی ہو گئی تو آپؐ کو پکڑ کر اصرارکرنا شروع کیا کہ ہمیں ضرور کچھ دیں.اور آپؐ ان سے ہٹتے ہٹتےراستہ سے اس قدر دور ہو گئے کہ آخر آپؐ کی چادر کا نٹے دار درختوں میں جا پھنسی.اور اس وقت آپؐ نے ان کو ان محبت آمیز الفاظ میں ملا مت کی کہ میں انکار بخل کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مجبوری سے کہ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں.اگر میرے پاس کچھ ہو تا تو میں ضرور تم کو دے دیتاحتٰی کہ سامنے کھڑے ہو ئے درختوں کے برابر بھی اگر اونٹ میرے پاس ہوتے تو سب تم کو دے دیتا.اور ہر گز بخل نہ کر تا نہ جھوٹ بولتا نہ بزدلی دکھا تا.دنیا کا کو ئی بادشاہ ایسا جواب نہیں دے سکتا وہ جو اپنی عزت اور اپنی بڑا ئی کے طلب گار ہو تے ہیں.وہ اس قدر تحمل نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ کی حیثیت کے انسان کا ایسے موقعہ پر جب آپؐ سے ان اعراب نے اس درشتی سے سلوک کیا تھا مذکورہ با لا جواب دینا اپنی نظیر آپ ہی ہے.اور دنیا کا کوئی بادشاہ کو ئی حاکم کو ئی سردار اس تحمل کی نظیر نہیں دکھا سکتا.پھر آپؐ جو جواب دیتے ہیں وہ کیسا لطیف ہے.فر ما تے ہیں…کہ اگر ان درختوں کے برا بر بھی اونٹ ہو تے تو میں تمہیں دے دیتا.اور تم مجھے بخیل جھوٹا اور بزدل نہ پاتے.ایک موٹی نظر والےانسان کو تو شاید یہ تین الفاظ بے ربط معلوم ہوں لیکن دانا انسان سمجھتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ جو آپؐ نے فر ما ئے بالکل موقعہ کےمطابق تھے.اور ان سے بہتر لفظ اَور ہو ہی نہیں

Page 624

سکتے تھے.کیونکہ مال کا نہ دینا بخل سےمتعلق ہے.پس آپؐ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس مال ہو تا تو تم مجھے بخیل نہ پا تے یعنی تمہیں معلوم ہو جا تا کہ میں بخیل نہیں کیونکہ میں تمہیں مال دے دیتا اور جھوٹا بھی نہ پا تے.یہ اس لیے فر ما یا کہ بعض لوگ جھوٹ بول کر سائل سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہے نہیں.پس فر ما یا کہ تمہیں یہ بھی معلوم ہو جا تا کہ میں بخیل نہیں ہوں اور یہ بھی کہ جھوٹا نہیں ہوں کہ جھوٹ بول کر سب مال یا اس کا بعض حصہ اپنے لیے بچالوں اور نہ مجھے بزدل پا تے.یعنی میرا تمہیں مال دینا اس وجہ سے نہ ہو تا کہ میں تم لوگوں سے ڈر جا تا کہ کہیں مجھے نقصان نہ پہنچاؤ.لیکن میں جو مال دیتا دل کی خوشی سے دیتا.شاید کوئی شخص کہے کہ آپؐ کے اتنا کہہ دینے سے کیا بنتا ہےکہ اگر میرے پاس ہو تا تو میں دے دیتا کیا معلوم ہے کہ آپؐ اس وقت دیتے یا نہ دیتے.مگر یادرکھنا چاہیے کہ ہر سخن وقتے وہر نکتہ مقامے دارد.میں اس جگہ یہ بتا رہا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کا تحمل کیسا تھا اور کس طرح آپؐ نا پسند اور مکر وہ با تیں سن کر نرمی اور ملائمت سے جواب دیتے تھے.اور خفگی اور ناراضگی کا اظہار قطعاً نہ فر ما تے بلکہ جہاں تک ممکن ہو تا معترض کو کو ئی نیک بات بتا کر خاموش فرما دیتے.آپؐ کی سخاوت کا ذکر تو دوسری جگہ ہو گا.اور اگر کو ئی بہت مصر ہو تو میں آپؐ کے تحمل کی ایسی مثال بھی جس میں ایک طرف آپؐ نے تحمل فر ما یا ہے اور دوسری طرف سخاوت کا اظہار فر ما یا ہے دے سکتا ہوں اور وہ بھی صحیح بخاری سے ہے.اور وہ یہ کہ انس بن مالکؓ بیان فر ماتے ہیں کہ کُنْتُ اَمْشِیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَ انِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَذَ بَہٗ جَذْبَۃً شَدِیْدَ ۃً،حَتّٰی نَظْرْتُ اِلیٰ صَفْحَۃِ عَاتِقِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ اَثَّرَتْ بِہٖ حَاشِیَۃُ الرِّدَآءِ مِنْ شِدَّۃِ جَذْبَتِہٖ.ثُمَّ قَالَ :مُرْلِیْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ، فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ فَضَحِکَ ،ثُمَّ اَمَرَلَہٗ بِعَطَاءٍ.(بخاری کتاب الجہاد باب ماکان النبی یعطی المؤ لفۃ قلوبھم)یعنی میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے سا تھ چل رہا تھا اور آپؐ نے ایک نجران کی بنی ہو ئی چادراوڑھی ہو ئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آپؐ کے قریب آیا اور آپؐ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا.یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کے سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے سا تھ آپؐ کی گر دن پر خراش ہو گئی.اس کے بعد اس نے کہا کہ آپؐ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں پس آپؐ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اورمسکرا ئے اور فر ما یا کہ اسے کچھ دے دو.

Page 625

اس مثال سے آپؐ کا تحمل پہلی مثال سے بھی زیا دہ ظا ہر ہو تا ہےپہلی مثال سے تو یہ ظاہر ہو تا تھا کہ آپؐ کے پاس کچھ تھا نہیں اور کچھ سا ئل آپؐ سے بار بار انعام طلب کر تے تھے اور جبکہ آپؐ انکار فر ما رہے تھے کہ میرے پاس کچھ نہیں اور وہ لینے پر مصر تھے.ان لوگوں کا آپؐ پر زور کر نا سمجھ میں آسکتا ہے اور خیال ہو سکتا ہےکہ چو نکہ وہ لوگ سخت محتاج تھے اور ان کی حالتِ زار تھی.اور نا امیدی میں انسان کے حواس ٹھکانے نہیں رہتے اس لیے ان کی زیادتی پر آپؐ جیسے رحیم انسان کا تحمل کر نا کچھ تعجبات سے نہ تھا لیکن دوسرا واقعہ اس واقعہ سے بہت زیادہ آپؐ کے تحمل پر روشنی ڈالتا ہے کیونکہ اس شخص نے بغیر سوال کے آپؐ پر حملہ کر دیا اور اس حملہ کی کو ئی وجہ نہ تھی نہ اس نے سوال کیا تھا نہ آ پؐ نےانکار فر ما یا تھا نہ اسے کو ئی نا امید ی پیش آئی تھی.مال سامنے موجود تھا آپؐ دینے کو تیار تھے پھر بلا وجہ اس طرح گستا خی سے پیش آنا ایک نہایت ہی نا شائستہ حرکت تھی اور اس کے سوال پر اسے ڈانٹنا چاہیے تھا.اور پھر اس نے جو طریق اختیار کیا تھا وہ صرف گستاخانہ ہی نہ تھا کہ یہ خیال کر لیا جا تا کہ چلو اس سے کو ئی حقیقی نقصان تو ہوا نہیں جا ہل آدمی ہے اور جنگلی ہے اور آدابِ رسولؐ سے نا واقف ہے.اسےمعاف ہی کر دینا بہتر ہو گا بلکہ وہ ایذا رسانی کا طریق تھا اور اس کی اس حرکت سےآنحضرت ﷺ کو سخت تکلیف بھی پہنچی اور گر دن مبا رک پر خراش بھی ہو گئی بلکہ اس حدیث کو حمام نے اس طرح روایت کیا ہےکہ چادر پھٹ گئی اور اس کا حاشیہ چمڑہ کوپھاڑ تا ہوا گوشت تک گھس گیا پس وہ شخص اس بات کا پو رے طور پر مستحق تھا کہ اسے آپؐ سختی سے علیحدہ کر دیتے.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپؐ اس سے یہ سلوک فر ما تے ہیں کہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا تے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ اسے بھی ضرور کچھ دے دو.گو یا مسکرا کر اسےبتا تے ہیں کہ میں تمہارے جیسے نادانوں کو جو آدابِ رسول سے نا واقف ہیں بجائے ڈانٹنے کے قابلِ رحم خیال کر تا ہوں اور بجا ئے ناراضگی کے تمہاری حالت پر مسکرا تا ہوں کہ تم میرے تحمل سے ہی فا ئدہ اٹھاؤ.کہنے کو سب لوگ تحمل والے بن جا تے ہیں لیکن عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کی حقیقت کھلتی ہے اور اس کے دعاوی کے صدق اور کذب کا حال معلوم ہو تا ہے.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جو عد ل وانصاف کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے ہیں جو تحمل مزاج مشہورہیں اور جن کے تحمل اور بردباری کے افسانوں سے تاریخوںکے صفحات بھرے ہوئے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مذہبی عزت کے لحاظ سے بھی اپنے زمانہ کے لوگوں میں ممتاز تھے.اور جو بعد میں

Page 626

بھی اپنے ہم مذہبوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیے گئے ہیں.ایسے بادشاہ بھی گذرے ہیں جو بادشاہت کے علاوہ مذاہب کے بانی اور پیشوا بھی ہو ئے ہیں اور خاص سلسلوں کے جا ری کر نے والے ہیں جن کے مرنے کے سا تھ ان کی بادشاہت کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی رو حانی بادشاہت مدت ہا ئے درازتک قائم رہی بلکہ اب تک بھی مختلف حکومتوں کے ما تحت رہنے والے لوگ در حقیقت اپنے دل اور اپنی رو ح کے لحاظ سے انہیں کے ماتحت ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بے نظیر خیال کیے جا تے ہیں جو اخلاق میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ خیال کیے جاتے ہیں مگر کوئی ہے جو تمام دنیا کی تاریخوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد، تمام اقوام کے بادشاہوں اورپیشواؤں کے حالات کی چھان بین کر نے کے بعد ان اخلاق کا انسان دکھا سکے اور اس تحمل کی نظیر کسی اَور انسان میں بتا سکے جو آنحضرت ﷺ نے دکھا یا.میں یہ نہیں کہتا کہ آنحضرت ؐ کے سوا کو ئی شخص تحمل کی صفت سے متصف ہوا ہی نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس درجہ تک تحمل کا اظہار کرنے والا جس درجہ تک آپؐ نے ظا ہر فر ما یا کو ئی انسان نہیں ہوا او رنہ آئندہ ہو گا کیونکہ آپؐ کمال کی اس سرحد تک پہنچ گئے ہیں کہ اس کے بعد کو ئی تر قی نہیں.ممکن ہے کہ کو ئی صاحب کہیں کہ آپ بادشاہوں اور حاکموں کی کیوں شرط لگا تے ہیں اس مقابلہ کے میدان کو اَوربھی کیوں وسیع نہیں کر دیتے کہ دنیا کے کل افراد کےتحمل کو سامنے رکھ کر مقابلہ کر لیا جا ئے کہ آیا کو ئی ا نسان اس صفت میں آپؐ کی برابری کر سکتا ہے یا نہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ تحمل اسی انسان کا قابل قدر ہے جسے طا قت اور قدرت ہو جو شخص خود دوسروں کا محتاج ہو دوسروں سے خائف ہو اپنے دشمنوں کےخوف سے چھپتا پھر تا ہو اسے دنیا میں سر چھپا نے کی جگہ نہ ملتی ہو اس کا تحمل بھی کو ئی تحمل ہے اس کی زبان تو اس پر ظلم کرنےوالوں نے بند کر دی ہے اور اس میں یہ طا قت ہی نہیں کہ ان کے حملوں کا جواب دے سکے پس جو حاکم نہیں یا بادشاہ نہیں یا دنیاوی لحاظ سے کو ئی خاص عزت نہیں رکھتا اس کا تحمل کو ئی تحمل نہیں بلکہ بہت دفعہ ایک مغلوب الغضب انسان بھی اپنے ایذا دہندوں کے خوف سے اپنے غضب کو دبا لیتا ہے.اور گودل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے اور جی ہی جی میں گالیاں دیتا اور کوستا ہے لیکن اظہارِ غضب کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ جا نتا ہے کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں اَور بھی مضر ہو گا پس آنحضرتؐ کے مقابلہ میں اس شخص کے تحمل کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جو آپؐ ہی کی طرح بااختیار اور طاقت رکھتا ہو اور پھر آپؐ ہی کی طرح تحمل دکھانے والا ہو ورنہ مثل مشہور ہے کہ زبردست مارے اور رونے نہ دے.ایسا

Page 627

زبردست جو کسی زبردست کے پنجہ ستم میں گرفتار ہو اس نے قابل عتاب گفتگو سن کر یا زبردست سلوک دیکھ کر اظہار ناراضگی کر نا ہی کیا ہے؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ طریق تو انصاف پر مبنی تھا.اور عقلاً،اخلاقاً ہمارا حق تھا کہ ہم مذکورہ بالا شرط سے مشروط مقابلہ کا مطالبہ کریں لیکن اگر کو ئی شخص دنیا کے تمام انسانوں میں بھی آپؐ جیسے باکمال انسان کو پیش کر سکے تو ہم اس کے معاملہ پر غور کر نے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ بے حیا ئی کا نام تحمل نہ رکھ لیا جاوے.اب ایک سوال اَور با قی رہ جا تا ہے.اور وہ یہ کہ بعض لوگ پیدا ئشی ایسے ہو تے ہیں کہ ان کو غصہ آتا ہی نہیں بلکہ جو معاملہ بھی ان سے کیا جا ئے وہ تحمل ہی تحمل کر تے ہیں اور غضب کا اظہار کبھی نہیں کر تے.اور اس کی یہ وجہ نہیں ہو تی کہ وہ اپنے جو ش کو دبا لیتے ہیں یا تحمل سے کام لیتے ہیں بلکہ درحقیقت ان کے دل میں جوش پیدا ہی نہیں ہو تا.اور انہیں کسی بات کی حقیقت کے سمجھنے کا احساس ہی نہیں ہو تا اور یہ لوگ ہر گز کسی تعریف کے مستحق نہیں ہوتے.کیونکہ ان کاتحمل صرف ظاہری ہے.اس میںحقیقت کچھ نہیں ایک شکل ہے جس کی اصلیت کو ئی نہیں.ایک جسم ہے جس میں روح کو ئی نہیں.ایک قشر ہے جس میںمغز کو ئی نہیں.اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی ٹنڈے شخص کو کو ئی دوسرا شخص مارے.اور چونکہ اس کے ہا تھ نہیں ہیں وہ مار کھا کر صبر کر چھوڑے.اور جس طرح یہ ٹنڈاقطعاً اس تعریف کا مستحق نہیں ہے کہ اسے تو زید یا بکرنے مارا مگر اس نے آگے سے ایک طمانچہ بھی نہ لگا یا کیونکہ اس میں طمانچہ لگا نے کی طا قت ہی نہ تھی.کیونکہ اس کے ہا تھ نہ تھے.اس لیے مجبور تھا کہ مار کھا تا اور اپنی حالت پر افسوس کر تا.اسی طرح وہ شخص بھی ہر گز کسی تعریف کا مستحق نہیں.جس کے دل میں جو ش اور حس ہی نہیں.اور وہ بری بھلی بات میںتمیز ہی نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کا تحمل خوبی نہیں بلکہ اس کا باعث فقدان شعور ہے.پس ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے کہ کیوں آنحضرتﷺ کو بھی ایسا ہی نہ خیال کر لیا جا ئے.خصوصاً جبکہ اس قدرطاقت اور قدرت اور ایسے ایسے جوش دلا نے والے مواقع پیدا ہو جانے کے باوجود آپؐ اس طرح ہنس کر با ت ٹال دیتے تھےاور کیوں نہ خیال کر لیا جا ئے کہ آپؐ بھی پیدا ئشاً ایسے ہی نرم مزاج پیدا ہو ئے تھے.اور فطرتاً ا ٓپؐ مجبور تھے کہ ایسے ایذا دہندوں کے اعمال پر ہنس کر ہی خاموش ہو رہتے کیونکہ آپؐ کےاندر انتقام کا مادہ اور بری اور بھلی بات میں تمیز کی صفت موجود ہی نہ تھی.(نعوذباللہ من ذالک) یہ سوال بالکل درست اور بجا ہے.اور ایک محقق کا حق ہے کہ وہ ہم سے اس کی وجہ دریافت

Page 628

کرے کہ کیوں ہم آپؐ کو ایک خاص گروہ میںشامل کر تے ہیں اور دوسرے سے نکالتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا بھی جواب دیں کیونکہ اس سوال کا جواب دیے بغیر آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک پہلو نا مکمل رہ جا تا ہے.اور آپؐ جیسے مکمل انسان کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں جو نا مکمل ہو پس اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گوا ہی پیش کرتے ہیں جو آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے تھیں.اور آپؐ کے اخلاق کی کماحقہ واقف تھیں.صحیح بخاری میں آپؓ سے روایت ہے کہ مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ اَمْرَیْنَ اِلَّا اَخَذا اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا، فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہٖ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ، فَیَنْتَقِمُ للّٰہِ بِھَا.(بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبیﷺ)یعنی آنحضرت ﷺ کو جب کبھی دو باتوں میںاختیار دیا جا تا تھا تو آپؐ دونوں میں سے آسان کو اختیار کر لیتے تھے جب تک کہ گناہ نہ ہو.اور جب کو ئی گناہ کا کام ہو تا تو آپؐ اس سےسب لوگوں سے زیا دہ دور بھاگتے.اور آپؐ کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمتوں میں سے کسی کی بے حرمتی کی جا تی تھی تو آپؐ خدا کے لیے اس بے حرمتی کا بدلہ لیتے تھے.اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو کاموں کا اختیار دیا جا تا کہ آپؐ جو چاہیں کریں تو آپؐ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے (کیونکہ بندہ کا یہی حق ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ زائد بو جھوں سے بچا ئے تا ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں گرفتار کر دے)لیکن اگر کبھی آپؐ دیکھتے کہ ایک آسان بات کو اختیار کرکے کسی وجہ سے کسی گناہ کا قرب ہو جا ئے گا.تو پھر آپؐ کبھی اس آسان کو اختیار نہ کر تے بلکہ مشکل سے مشکل امر کو اختیار کر لیتے مگر اس آسان کے قریب نہ جا تے (اور یہی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا کام ہے کہ وہ گناہ سے بہت دور بھاگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر نے میں کسی سختی یا کسی مشکل کےبرداشت کر نے سے نہیں گھبراتے) پھر فر ما تی ہیں کہ آپؐ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپؐ اپنے نفس کےلیے کبھی انتقام نہ لیتے یعنی خلافِ منشا امور کو دیکھ کر جب تک وہ خاص آپؐ کی ذات کےمتعلق ہو تے تحمل سے ہی کام لیتے.خفگی،ناراضگی یاغضب کااظہار نہ فرماتے نہ سزا دینے کی طرف متوجہ ہو جا تے.ہاں جب آپؐ کی ذات کے متعلق کو ئی امر نہ ہو بلکہ اس کااثر دین پر پڑتا ہو اور کسی دینی مسئلہ کی ہتک ہو تی ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان پر کوئی دھبہ لگتا ہو.تو آپؐ اس وقت تک صبر نہ

Page 629

کرتے.جب تک اس کا انتقام لے کر اللہ تعالیٰ کےجلال کو ظاہر نہ فرمالیتے اور شریر انسان کو جو ہتک ِحرمۃ اللہ کا مرتکب ہواہو سزا نہ دے لیتے.اس واقعہ سے صاف ظا ہر ہو جا تا ہے کہ آپؐ کا تحمل اس درجہ تک پہنچاہوا تھا کہ آپؐ کبھی بھی اپنے نفس کے لیے جوش کا اظہار نہ فر ما تے بلکہ تحمل اور بردبا ری سے ہی ہمیشہ کا م لیتے.لیکن یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ آپؐ میں جوش وانتقام کی صفت پا ئی ہی نہ جا تی تھی اور آپؐ پیدا ئش سے ہی ایسے نرم مزاج واقع ہو ئےتھے کہ غضب آپؐ میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمتوں کی ہتک اور بے حرمتی کا سوال پیدا ہو تا تو آپؐ ضرور انتقام لیتے تھے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا تحمل کسی پیدائشی کمزوری یا نقص کا نتیجہ نہ تھا بلکہ آپؐ اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنے نفس کے قصور واروں سے چشم پو شی کر جا تے تھے.اور اظہار ناراضگی سے اجتناب کرتے تھے.اور جو کچھ کہنا بھی ہو تا تھا تو نہایت آہستگی اور نرمی سے کہتے تھے اور ایسا جواب دیتے تھے جس میں بجا ئے ناراضگی اور غضب کے اظہار کے اس شخص کے لیےکو ئی مفید سبق ہو جس سے وہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنے چال چلن کی اصلاح کر سکے.اور یہی تحمّل کا اعلیٰ نمونہ ہے.یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت بلا دلیل نہیں ہے بلکہ واقعات بھی اس کی شہادت دیتےہیںچنانچہ بخا ری کی ایک حدیث سے ظاہر ہے جسے مفصّل ہم پہلے کسی اَور جگہ لکھ آئے ہیں کہ جنگِ احد میں جب عام طور پر یہ خبر مشہور ہو گئی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں اور کفار مکہ علی الاعلان اپنی اس کامیابی پر فخر کر نےلگے اور ان کے سردار نے بڑے زور سے پکار کرکہا کہ کیا تم میں محمد (ﷺ) ہے جس سے اس کی مرادیہ بتا نا تھا کہ ہم آپؐ کومار چکے ہیں اور آپؐ دنیا سے رحلت فر ما گئے ہیں مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کو فر مایا کوئی جواب نہ دیں.اور اس طرح اس کاجھوٹا فخر پورا ہونے دیا.اور یہ نہیں کہا کہ غضب میں آکر اسے کہتے کہ میں تو زندہ موجود ہوں یہ بات کہ تم نےمجھے قتل کر دیا ہے بالکل جھوٹ اور باطل ہے اور اس میں کو ئی صداقت نہیں.ہاں جب ابو سفیان نے یہ کہا کہ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ.ھُبل بت کی شا ن بلند ہو.ھُبل بت کی شان بلند ہو تو اس وقت آپؐ خاموش نہ رہ سکے اور صحا بہ ؓکو فرمایا کہ کیوں جواب نہیں دیتے.انہوں نے عرض کیا یارسولؐ اللہ !کیا جواب دیں؟فر ما یا اسے کہو کہ اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ !اللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجْلُّ یعنی تمہارے ھُبل میں کیا طاقت ہے وہ تو ایک بناوٹی چیز ہے اللہ ہی ہے جو سب چیزوں سے بلند

Page 630

رتبہ اور عظیم القدر ہے.اور پھر جب اس نے کہا کہ لَنَاعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ تو آپؐ نے پھر صحابہ ؓسے فر ما یا کہ جواب دو.انہوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ !کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فر ما یا کہ کہو لَنَا مَوْلٰی وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ خدا تعالیٰ ہمارا دوست و مددگار ہے.اور تمہارا مدد گار کو ئی نہیں.یعنی عزیٰ میں کچھ طا قت نہیں طاقت تو اللہ تعالیٰ میں ہےاور وہ ہمارے سا تھ ہے.پس اس واقعہ سے صاف کھل جا تا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺکے اخلاق کے متعلق جو گواہی دی ہے وہ صرف ان کا خیال ہی نہیں بلکہ واقعات بھی اس کی تصدیق کر تے ہیں اور تاریخی ثبوت اس کی سچا ئی کی شہادت دیتے ہیں.اور آنحضرت ﷺ کی زندگی پر غور کرنے سے ایک موٹی سے موٹی عقل کا انسان بھی اس نتیجہ پر پہنچ جا تا ہے کہ آپؓ کا تحمل کسی صفتِ حسنہ کے فقدان کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کا با عث آپؐ کے وہ اعلیٰ اخلاق تھے جن کی نظیر دنیا میں کسی زمانہ کے لوگوںمیں بھی نہیں ملتی.اور یہ کہ گو یا تحمل اپنے کمال کے درجہ کو پہنچا ہو ا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمات کا سوال جب درمیان میں آجاتا ہے تو اس وقت آنحضرت ﷺ ہر گز درگذر سے کا م نہ لیتے.بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو تا مناسب تدارک فرما دیتے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے قائم کرنے میں ہر گز دیر نہ فر ما تے.پس آپؐ کا تحمل ایک طرف تو بے نظیر تھا اور دوسری طرف بالارادہ تھا اور پھر آپؐ کی اس صفت کا اظہار کبھی بے موقعہ نہیں ہو تا تھا جیسا کہ آج کل کے زمانہ کا حال ہے کہ اپنے نفس کے معاملہ میں تو لوگ ذرا ذرا سی بات میں جو ش میں آجاتے ہیں.لیکن جب خدا اور اس کے دین کا معاملہ آتاہے تو صبر و تحمل کی تعلیم و تلقین کرتے ہو ئے ان کے ہو نٹ خشک ہو ئے جا تے ہیں.اور وہ نہیں جانتے کہ تحمل صرف ذاتی تکلیف اور دکھ کے وقت ہو تا ہے ورنہ دین کے معاملہ میں بناوٹی صلح اور جھوٹا ملاپ ایک بے غیرتی ہے اور کمی ایمان اور حرص دنیا وی کا ثبوت ہے.طہارۃ النفس.صبرصبر عربی زبان میں روکنے کو کہتے ہیں اور استعمال میں یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے.کسی شخص کا اپنے آپ کو اچھی با توں پر قائم رکھنا.بُری با توں سے اپنے آپ کو روکنا اور مصیبت اور دکھ کے وقت جزع وفزع سے پر ہیز کر نا اور تکلیف کے ایسے اظہارسے جس میں گھبرا ہٹ اور نا امیدی پا ئی جا ئے اجتناب کرنا.اُردو زبان میں یا دوسری زبانوں میں یہ لفظ ایسا وسیع نہیں ہے بلکہ اسے ایک خاص محدود معنوں میں استعمال کر تے ہیں اور صرف تیسرے اور آخری معنوں کے لیے اس لفظ کو مخصوص کر دیا گیا ہے یعنی مصیبت اور رنج میں اپنے نفس کو جزع و فزع اور نا امیدی اور کرب کے اظہار سے روک دینے کے معنوں میں.چونکہ اُردو میں اس کا استعمال انہیں معنوں میں ہے اس لیے ہم نے بھی اس لفظ کو اسی

Page 631

معنی میں استعمال کیا ہے اور اس ہیڈنگ کے نیچے ہماری غرض آنحضرت ﷺ کی ایسی صفت پر رو شنی ڈالنا ہے جس معنی میں کہ یہ لفظ اُردو میں استعمال ہو تا ہے اس میں تو کو ئی شک نہیں کہ یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی صفت ہے اور دنیا کی تمام اقوام فطرتاً اس صفت کی خوبی کی قائل ہیں گو بدقسمتی سے ہندوستان اس کے خلاف نظر آتاہے کہ مردوں پر سالہا سال تک ماتم کیا جاتا ہے اور ایسی بے صبری کی حرکات کی جا تی ہیں اور کرب کی علامات ظاہر کی جا تی ہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی تعجب آتاہے.غرضیکہ فطرتاً کل اقوام عالم نے صبر کو نہایت اعلیٰ صفت تسلیم کیا ہے اور ہرقوم میں صا بر نہایت قابل قدر خیال کیا جا تا ہے چونکہ آنحضرت ﷺ کی نسبت ہمارا دعویٰ ہے کہ آپؐ تمام صفاتِ حسنہ کا مجموعہ تھے.اور آپؐ سے بڑھ کر دنیاکا کوئی انسان نیک اخلاق کا اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ نہیں تھا اس لیےذیل میں ہم صبرکےمتعلق آپؐ کی ز ندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہیں جس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ اس صفت سے کہاں تک متصف تھے.بچپن میں اوّل والدہ اور پھر دادا کے فو ت ہو جا نے سے (والد پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے)جوصدمات آپؐ کو پہنچے تھے.ان میں آپؐ نے جس صبر کا اظہار کیا اور پھر دعویٰ نبوت کے بعد جو تکالیف کفار سے آپؐ کو پہنچیں اس کو جس صبرو استقلال سے آپؐ نے برداشت کیا اور یکے بعد دیگرے انہی مصائب کے زمانہ میں آپؐ کے نہایت مہربان چچا اور وفاداری میں بے نظیر بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور اپنے پیارے متبعین کی مکہ سے ہجرت کر جا نے پر جس صبر کا نمونہ آپؐ نے دکھا یا تھا وہ ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ قلت گنجائش ہم کو ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ان مضامین کو یہاں شروع کریں اس لیے ہم صرف ایک چھوٹے سے واقعہ کے بیان کرنے پر جو بخاری شریف میں مذکور ہے کفایت کرتے ہیں.جیسا کہ سیرت النبیﷺ کے ابتدا سے مطالعہ کر نے والے اصحاب نے دیکھا ہو گا میں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس سیرت میں صرف واقعات سے آنحضرتﷺ کے اخلاق کی بر تری دکھا ئی ہے.اور آپؐ کی تعلیم کو کبھی بھی پیش نہیں کیا تا کہ کو ئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ ممکن ہے آپؐ لو گوں کو تو یہ کہتے ہوں اور خود نہ کرتے ہوں.نعوذباللّٰہ من ذلک.پس اس جگہ بھی میںآپؐ کی اس تعلیم کو پیش نہیں کر تا جو آپؐ نے صبر کی نسبت اپنے اتباع کو دی ہے اور جس میں کرب و گھبرا ہٹ اور نا امیدی کے اظہار سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا پررضاکا حکم دیا ہے بلکہ صرف آپؐ کا عمل پیش کر تا ہوں.

Page 632

عَنْ اُسَا مَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ اَرْسَلَتِ ابْنَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْہِ اِنَّ ابْنًالَھَا قُبِضَ فَاْتِنَا فَاَرْسَلَ یُقْرِئُ السَّلَامَ وَیَقُوْلُ اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَوَلَہٗ مَااَعْطٰی وَکُلُّ شَیٍ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْوَلْتَحْتَسِبْ فَاَرْسَلَتْ اِلَیْہِ تُقْسِمُ عَلَیْہِ، لَیَاْتِیَنَّھَا فَقَا مَ وَمَعَہٗ سَعْدُ بُنُ عُبَادَۃَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَاُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُ فِعَ اِلیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّبِیُّ وَنَفْسُہٗ تَنَقَعْقَعُ کَآنَّھَاشَنٌّ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ فَقَالَ سَعْدٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاھٰذَا قَالَ ھٰذِہٖ رَحْمَۃٌ جَعَلَھَا اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ وَاِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَاءَ.(بخاری کتاب الجنا ئزباب قول النّبی یعذّب المیّت ببعض بکاء اھلہٖ علیہ) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ کی ایک بیٹی نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک بچہ فوت ہو گیا ہے آپؐ تشریف لا ئیں.(فوت ہو گیا سے یہ مراد تھا کہ نزع کی حالت میں ہے کیونکہ وہ اس وقت دم توڑرہا تھا)پس آپؐ نے جواب اس طرح کہلا بھیجا کہ پہلے میری طرف سے السلام علیکم کہنا اور پھر کہنا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو دیوے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقررہ مدت ہے پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید وارر ہو.اس پر آپؓ نے (حضرت کی صاحبزادی نے) پھر کہلا بھیجا کہ آپؐ کو خدا کی قسم آپؐ ضرور میرے پا س تشریف لا ئیں پس آپؐ کھڑے ہو گئے اور آپؐ کے سا تھ سعد بن عبادہؓ اور معاذبن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور کچھ اَور لوگ تھے جب آپؐ وہاں پہنچے تو آپؐ کے پاس وہ بچہ پیش کیا گیا اور اس کی جان سخت اضطراب میں تھی اور اس طرح ہلتا تھا جیسے مشک.اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے جس پر سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسولؐ اللہ یہ کیا؟آپؐ نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہےاور سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحیم بندوں پر ہی رحم کر تا ہے.یہ واقعہ اپنے اندر جو ہدایتیں رکھتا ہے وہ تو اس کے پڑھتے ہی ظاہر ہو گئی ہو ں گی پھر بھی مزید تشریح کے لیے میں بتا دیتا ہوں کہ اس واقعہ نے آپؐ کی صفتِ صبر کے دو پہلوؤں پر ایسی رو شنی ڈالی ہے کہ جس کے بعد آپؐ کے اسوہ حسنہ ہو نے میں کو ئی شک و شبہ رہ ہی نہیں سکتا.اوّل تو آپؐ کا خلاص باللہ اس واقعہ سے ظاہر ہو تا ہے کیونکہ جس وقت آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ آپؐ کا نواسہ نزع کی حال میں ہے اور اس کی حالت ایسی بگڑگئی ہے کہ اب اس کی موت یقینی ہو گئی ہے تو آپؐ نے کیا پُر حکمت جواب دیا ہے کہ جو خدا تعالیٰ لے لے وہ بھی اس کا مال ہے اور جو دے دے وہ بھی

Page 633

اس کا مال ہے.رضا بالقضا کا یہ نمونہ کیسا پاک ،کیسا اعلیٰ ،کیسا لطیف ہے کہ جس قدر اس پر غور کیا جائے اس قدر کمال ظاہر ہو تا ہے پھر اپنی صاحبزادی کو نصیحت کرنا کہ صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں پر انتہا ئی درجہ کے یقین اور امید پر دلالت کر تا ہے مگر صرف یہی بات نہیں بلکہ اس واقعہ سے ایک اَور بات بھی ظاہر ہو تی ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کا صبر اس وجہ سے نہ تھا کہ آپؐ کا دل نَعُوْذُ بِاللّٰہِ سخت تھا بلکہ صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر امید اور اس کی مالکیت پر ایمان تھا کیونکہ جیسا بیان ہو چکا ہے جب آپؐ اپنی صاحبزادی کے گھر پرتشریف لے گئےتو آپؐ کی گود میں تڑپتا ہوا بچہ رکھ دیا گیا اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جا ری ہو گئے.سعد بن عبادہ ؓنے غلطی سے اعتراض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ! یہ صبر کیسا ہے کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.آپؐ نے کیالطیف جواب دیا کہ رحم اَور چیز ہے اور صبر اَور شے ہے.رحم چاہتا ہے کہ اس بچہ کو تکلیف میں دیکھ کر ہمارا دل بھی دکھے اور دل کے درد کا اظہار آنکھوں کے آنسوؤں سے ہو تا ہے.اور صبریہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو جا ئیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو اسے قبول کریں اور اس پر کرب و اضطرار کا اظہار نہ کریں.اور اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کے لیے تو رحم کی سخت ضرورت ہے پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دکھو ں میں رحم اور شفقت کی عادت ڈالے تو پھر اس بات کا امید وار ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی تکالیف میں اس پر رحم کرے.غرضیکہ ایک طرف اپنے نواسہ کی وفات کا حال سن کر جو آپؐ کے بڑھا پے کی عمر کا ثمرہ تھا اور خصوصاً جب کہ آپؐ کے کو ئی نرینہ اولاد موجود نہ تھی،صبر کر نا اور اپنی لڑکی کو صبر کی تلقین کر نا اور دوسری طرف اس بچہ کو دکھ میں دیکھ کر آپ کے آنسوؤں کا جاری ہو جا نا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک قضا پر صابر تھے اور یہ کہ آپؐ کا صبر سخت دلی(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)کا موجب نہ تھا بلکہ آپؐ کا دل رحم و شفقت سے پُرتھا.طہارۃ النفس.استقلالقابل اور نا قابل انسان کی پر کھ میں استقلال بہت مدد دیتا ہے کیونکہ استقلال سے انسان کے بہت سے پو شیدہ در پوشیدہ اخلاق اور قوتوں کا پتہ لگ جا تا ہے اور مستقل اور غیرمستقل انسان میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا ہے.ایک ایسا شخص جو بیسیوں نیک اخلاق کا جامع ہو.لیکن اس کے اندر استقلال نہ ہو اس کے اخلاقِ حسنہ نہ تو اس کے نفس کی خوبی کو ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی لو گوں کو ان سے کو ئی معتدبہ فائدہ پہنچ سکتا ہے.کیونکہ اگر اس میں استقلال نہیں اور وہ اپنے کاموں میں دوام اختیار نہیں کر تا تو اوّل تو یہی خیال ہو سکتا ہے کہ اس کے نیک اخلاق ممکن ہے کہ بناوٹ کا نتیجہ ہوں.اور دوسرے

Page 634

ایک نیک کام کو شروع کرکے جب وہ درمیان میں ہی چھوڑدے گا تو اس کا کوئی خاص فائدہ بنی نوع انسان کو نہ پہنچے گا.بلکہ خود اس شخص کا وہ وقت جو اُس نے اس ادھورے کام پر خرچ کیا تھا ضائع سمجھا جا ئے گا.پس استقلال ایک طرف تو اپنے صاحب کے کاموں کی سنجیدگی اور حقیقت پر رو شنی ڈالتا ہے اور دوسری طرف اس ایک صفت کی وجہ سے انسان کے دوسرے اخلاقِ حسنہ اور قوائے مفیدہ کے ظہور اور نفع میں بھی خاص ترقی ہو تی ہے اس لیے اس مختصر سیرت میں میں آنحضرت ﷺ کے استقلال پر بھی کچھ لکھنا چاہتا ہوں.یوں تو اگر غور کیا جا ئے تو جو کچھ میں اب تک لکھ چکا ہوں اس کا ہر ایک باب بلکہ ہر ایک ہیڈ نگ آنحضرت ﷺ کے استقلال کا شاہد ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں.مگر سیرت کی تکمیل چاہتی ہے کہ اس کے لیے الگ ہیڈنگ بھی ضرور قائم کیا جا وے.آنحضرت ﷺ کی زندگی پراگر ہم اجماعی نظر ڈالیں تو ہمیںرسول کریم ﷺ استقلال کی ایک مجسم تصویرنظر آتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ استقلال کو بھی اس نمونۂ استقلال پر فکر ہے.جو رسول کریم ﷺ نے دکھا یا تھا.اس حالت کو دیکھو جس میں آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اور پھر اس استقلال کو دیکھو جس سے اس کام کو نباہتے ہیں.آپؐ کی حالت نہ تو ایسی امیرا نہ تھی کہ دنیا کی بالکل احتیاج ہی نہ تھی.اور گو یا آپؐ دنیا کی فکروں سے ایسے آزاد تھے کہ اس کی طرف تو جہ کی ضرورت ہی نہ تھی او رنہ ہی آپؐ ایسے فقیر اورمحتاج تھےکہ آرام و آسائش کی زندگی کبھی بسر ہی نہ کی تھی اس لیے دنیا کا چھوڑ ناآپؐ پر کچھ شاق نہ تھا مگر پھر بھی اس اوسط حالت کے باوجود جس میں آپؐ تھے اور جوعام طور پر بنی نوع انسان کو دنیا میں مشغول رکھتی ہے اور باوجود بیوی بچوں کی موجودگی اور ان کی فکر کے جب آپؐ غار حراء میں جا کر عبادت الٰہی میں مشغول ہو ئے تو آپؐ کے پا ئے ثبات کو مشرکین کی ہنسی اور ٹھٹھے نے ذرا بھی متزلزل نہ کیا.اور آخر اس وقت اس غار کو چھوڑا جب آسمان سے حکم آیا کہ بس اب خلوت کا زمانہ ختم ہوااور کام کا زمانہ آگیا جا اور ہماری مخلوق کو راہ راست پر لا.یٰٓاَ یُّھَاالْمُدَّ ثِّرُ.قُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّر وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْوَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ(المدثر:6-2)اس حکم کا نازل ہو نا تھا کہ وہ شخص جو باوجود ہزاروں احتیاجوں اور سینکڑوں شغلوں کے اپنے بیوی بچوں کو خدا کے سپرد کرکے وحدہٗ لا شریک خدا کی پرستش میں مشغول تھا.اور دنیا و ما فیہا سے بے تعلق تھا شہر سے دور راہ سے علیحدہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر پھر دوسری طرف چند گز

Page 635

نیچے اتر کر ایک پتھر کے نیچے بیٹھ کر،تا دنیا اس کی عبادت میں مخل نہ ہو.عبادت الٰہی کیا کر تا تھا.اور انسانوں سے ایسا متنفر تھا گویا وہ سانپ ہیں یا اژدہا.دنیا کے سامنے آتا ہے اوریاتو وہ دنیا سے بھا گتا تھا یا اب دنیا اس سےبھاگ رہی ہے.اور اس کے نزدیک کوئی نہیں جا تا مگر وہ ہے کہ ہر ایک گھر میں گھستا ہے ہر ایک شخص کو پکڑ کر کھڑا ہو جا تا ہے.کعبہ کے میدان میں کھڑا رہتا ہے تا کہ کو ئی شخص طواف کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو اس سے ہی کچھ بات کر سکوں.قافلے آتے ہیں تو لوگ تو اس لیے دوڑے جاتے ہیں کہ جا کر کچھ غلہ خرید لا ئیں یا جو اسباب تجارت وہ لا ئے ہیں اسے اپنی ضرورت کے مطا بق خرید لیں.لیکن یہ شخص کسی تجا رت کی غرض سے نہیں بلکہ ایک حق اور صداقت کی خبر دینے کے لیے ان سے بھی آگے آگے دوڑا جاتا ہے.اور اس کا پیغام کیا ہے جو ہر ایک انسان کو پہنچا نا چاہتا ہے وہ پیغام لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ ہے جس سے عرب ایسی وحشت کھا تے تھے کہ اگر کان میں یہ آوازپڑ جا تی تو کان میں انگلیاں دے لیتے تھے اور جس کے منہ سے یہ الفاظ سنتےاس پر دیوانہ وار لپک پڑتے اور چاہتے کہ اسے ایسی سزادیں کہ جس سے بڑھ کر اَور سزا نا ممکن ہو.مگر با وجود عربوں کی اس مخالفت کے وہ تنہائی پسند انسان،غار حراء میں دن گزارنے والا انسان ،جب موقعے پاتا یہ پیغام ان کو سناتا.اور کسی مجلس یا کسی جماعت کا خوف یارعب اسے اس پیغام کے پہنچانے میں روک نہ ہو سکتا.یہ کام اس نے ایک دن نہیںدو دن نہیں مہینہ نہیں دو مہینہ نہیں اپنی وفات کے دن تک کیا اور باوجود سب دنیا کی مخالفت کے اپنے کام سے باز نہ آیا.نہ عرب کے مشرک اس کو باز رکھ سکےنہ شام کے مسیحی اس کے جوش کو کم کر سکے نہ ایران کے مجوسی اس کو سست کرسکے اور نہ مدینہ اور خیبر کے یہود اس کی راہ میں رو ک بن سکے.ہر ایک دشمنی ،ہر ایک عداوت،ہر ایک مخالفت،ہر ایک تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک منٹ کے لیے بھی اس نے اپنی آواز نیچی نہ کی.حتیّٰ کہ وفات کے وقت بھی یہی نصیحت کرتا گیا کہ دیکھنا خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو نہ بنانا اور وہ وحدہٗ لاشریک ہے کوئی چیز اس کے برابر نہیں حتیّٰ کہ سب انسانوں سے افضل محمدﷺ بھی اس کا ایک بندہ اور رسول ہے.اس کی قبر کو بھی دوسری قوموں کے دستور کے مطابق مسجد نہ بنالینا.کیا اس استقلال کا نمونہ دنیا میں کسی اَور انسان نے بھی دکھا یا ہے؟کیا ایسےمخالفانہ حالات کے مقابلہ پر ایسا فولادی عزم کسی نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟نہیں اور ہر گز نہیں.لوگ ذرا ذرا سا کام کرکے تھک جا تے ہیں اور تھوڑی سی تکلیف دیکھ کر گھبرا جا تے ہیں بلکہ بغیر تکلیف کے بھی کسی

Page 636

کا م پر اس قدر عرصہ تک متواتر تو جہ نہیں کر سکتے جس کا نمونہ آنحضرت ﷺ نے دکھا یا اور جس نمونہ کو دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ نے جس کام کو اپنے ذمہ لیا تھا اس کی خوبی اور بہتری پر دل سے یقین رکھتے تھے.کیونکہ اس قدر لمبے عرصہ تک باوجود اس قدر تکالیف کےکوئی انسان ایک ایسے امرپرجسےوہ جھوٹاخیال کرتاہوقائم نہیں رہ سکتا.بلکہ یہ بھی کھل جا تا ہے کہ وہ کو ن سی طاقت تھی جس سے کام لے کر آپؐ نے ایسی جماعت پیدا کر دی تھی.جس نے باوجود قلت تعدادکے سب دنیا کوفتح کر لیا تھا وہ آپؐ کا استقلال اور آپؐ کا عمل ہی تھا.جس نے ان مٹھی بھر آدمیوں کو جو آپؐ کی صحبت میں رہنے والے تھے کل دنیا کی اصلاح کے کام کے اختیار کر نے کی جرأت دلا ئی اور صرف جرأت ہی نہیں دلا ئی بلکہ آخر دم تک ایسا آمادہ کیے رکھا کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کاکام کر کے بھی دکھا دیا.مگر افسوس!کہ اب مسلمانوں میں وہ روح کام نہیں کر تی.ہم نے مختصراً آنحضرت ﷺ کی زندگی سے ثابت کیا تھا کہ آپؐ میں استقلال کا مادہ ایسے درجہ تک پا یا جا تا تھا.کہ اس کی نظیر دنیامیں ملنی مشکل ہے.اب ہم اسی مضمون کو ایک اَور پیرا یہ میں بیان کر کے آپؐ کے استقلال کے ایک اَور پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں.جن لوگوں نے انسان کے اخلاق کا وسیع مطالعہ کیا ہے اور اس کی مختلف شا خوں پر نظر امعان ڈالی ہے وہ جا نتے ہیں کہ عوام میں جو اخلاق مشہور ہیں ان سے بہت زیا دہ اخلاق انسان میں پائے جا تے ہیں.لیکن قلت تدبریا اخلاق کی کثرت کی وجہ سےیا تو سب اخلاق ابتدامیں معلوم نہیں ہو سکے یا یہ کہ ان میں سے ایک قسم کے اخلاق کا نام ایک ہی رکھ دیا گیا ہے.اور اخلاق کی چند انواع مقرر کرکے ان کے نام رکھ دیے گئے ہیں.اور آگے ان کی شناخت اسماء کی بجا ئے تعریف ہی کافی سمجھ لی گئی ہے.استقلال جو ایک نہایت مفید اور دوسرے اخلاق کو چمکا دینے والا خلق ہے،اس کی بھی کئی اقسام ہیں جن کا نام لغت میں موجود نہیں.بلکہ سب اقسام کو استقلال کے نام سے ہی یاد کیا جا تا ہے لیکن انسانی اخلاق کا وسیع مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ اس خلق کی بھی کئی قسمیں ہیں.جن میں سے دوبڑی قسمیں یہ ہیںکہ ایک استقلال وہ ہوتا ہے جس کا ظہور بڑے کاموں میںہو تا ہے اور دوسرا وہ جس کا ظہور چھوٹے کا موں میں ہو تا ہے چنانچہ انسانوں میں دو قسم کے انسان پا ئے جا تے ہیں بعض ایسے ہیں کہ اہم اور وسیع الاثر معاملات میں جب وہ لگ جا تے ہیں تو گو ان

Page 637

کے راستہ میں خطرناک سے خطر نا ک مصائب پیش آئیں وہ اپنے کا م سےدست بر داری نہیں کر تے اور کُل دنیاکی مخالفت کے باوجود اپنا کام کیے جا تے ہیں.لیکن انہی لوگوں میں بعض ایسے پا ئے جاتے ہیں کہ رو زمرہ کے کاموں میں جو نسبتاً کم اہمیت رکھتے ہوں یا ان کا دائرہ اثر ایسا وسیع نہ ہو جیسا کہ اول الذکر کا وہ استقلال نہیں دکھا سکتے.بلکہ چند دن سے زیا دہ ان کے ارادہ اوران کے عمل کو ثبات حاصل نہیں ہو تا.اس جماعت کے خلاف ایک ایسی بھی جماعت ہے.جو چھوٹےاورمحدودالاثر معاملات میں تو خوب استقلال سے کام کر لیتے ہیں.لیکن جب کسی مہتمم بالشان کام پر ان کو لگا یا جاوے تو ان کا استقلال جا تا رہتا ہے اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور مفوضہ کام کو پورا کرنے کے اہل ثابت نہیں ہو تے.پس ان دونوں گروہوں کو ہم گو صاحب استقلال تو کہیں گے لیکن ہمیں یہ بھی سا تھ ہی اقرار کر نا پڑے گاکہ اگر ایک استقلال کی ایک قسم سے محروم ہے تو دوسرا دوسری سے اور حقیقی طور پر صفت استقلال سے متصف انسان وہی ہو گا جو دونوں صورتوں میں اپنے استقلال کو ہا تھ سے نہ دے.اور خواہ امورمہمہ ہوںیا امورِمحدود الاثر،اس کا استقلال اپنا اثر ظاہر کیے بغیر نہ رہے.جب ہم آنحضرت ﷺ کی سوانح عمری پر نظر ڈالتے ہیں تو آپؐ استقلال کی ہر قسم میں کامل نظر آتے ہیں.چنانچہ یہ بات کہ ان امور میں جنہیں آپؐ نے اپنی زندگی کا مقصد قراردے لیاتھا.آپؐ کیسے مستقل مزاج ثابت ہو ئے ہیںپہلے لکھ آیا ہوں.اس جگہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شرک کی بیخ کنی اور حق کے پھیلانے میں ہی آنحضرت ﷺ نے استقلال کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آپؐ کے تمام کاموں سے آپؐ کی کبھی نہ تھکنے والی طبیعت کا پتہ چلتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ ؓ آپؐ کی اس عادت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فر ما تی ہیں: وَکَانَ یَقُوْلُ:خُذُوْا مِنَ الْعَمَل، مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا وَاَحَبُّ الصّلٰوۃِ اِلٰی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَادُوْوِمَ عَلَیْہِ وَاِنْ قَلَّتْ وَکَانَ اِذَا صَلّٰی صَلٰوۃً دَاوَمَ عَلَیْھَا(کتاب الصوم باب صوم شعبان)ترجمہ :آپؐ فر ما یا کرتے تھے.کہ وہ عمل کیا کرو جس کے ادا کر نے کی تم میں طاقت ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں ملول ہو تا یہاں تک کہ تم ملول نہ ہو جاؤ.(یعنی جس قدر بھی دعا اور عبادت کرو.اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں رکتا.ہاں تم خود ہی تھک کر رہ جاؤ تو رہ جاؤ.اس لیے اس قدر عمل مت کرو کہ آخر طبیعت میں نفرت پیدا ہو جائے.او ر اس طرح

Page 638

اللہ تعالیٰ کے گنہگار بنو) اور آنحضرت ﷺ کو نمازوں میں سب سے پیا ری و ہ نما زہو تی تھی جس پر دوام اختیار کیا جا ئے.خواہ تھوڑی ہی ہو اور آنحضرت ﷺ جب کسی وقت نماز پڑھتےتھےتو پھر اس وقت کو جا نے نہ دیتے تھے.ہمیشہ اس وقت نماز پڑھتے رہتے.حضرت عائشہ ؓ کی اس گوا ہی سے نہایت بیّن اور واضح طور سے یہ بات ثا بت ہو جا تی ہے کہ آنحضرت ﷺ کااستقلال ہر رنگ میں کامل تھا.اور خواہ بڑے کا م ہوں یا چھوٹے.آپؐ استقلال کو کبھی ہا تھ سے نہ جا نے دیتے تھے.چنانچہ اس شہادت سے مندرجہ ذیل نتا ئج نکلتے ہیں.1.صحابہؓ کو استقلال کاسبق پڑھانا.اور ہمیشہ انہیں استقلال کی تعلیم دیتے رہنا.کیونکہ طاقت سے بڑھ کر کام کر نے کا نتیجہ ہمیشہ بے استقلالی ہو تا ہے.اور آپؐ کا اس بات سے صحابہ ؓ کو رو کنا درحقیقت انہیں استقلال کی تعلیم دینا تھا.اوریہ آنحضرتﷺکی خصوصیت ہےجس میں کوئی نبی آپؐ کاشریک نہیںکہ آپؐ قرآن کریم کے طریق کے مطابق جب کبھی کسی نیکی کا حکم کر تے یا بدی سے روکتے تو ہمیشہ اس نیکی کےحصول کی آسان راہ ساتھ بتاتے.یا اس بدی کا اصل باعث ظا ہر کر تے تا کہ اس سے اجتناب کرکے انسان اس بدی سے بچ جائے.اور اسی اصل کے ما تحت آنحضرت ﷺ نے استقلال کی تعلیم بھی صحابہ ؓ کو دی.یعنی انہیں منع فر ما دیا کہ جس کام کو آخر تک نباہنا مشکل ہو اس پر اپنی خوشی سے ہا تھ مت ڈالو کہ اس طرح رفتہ رفتہ بے استقلالی کی عادت تم میں پیدا نہ ہو جا ئے.2.اس شہا دت سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ آپؐ خود بھی اس تعلیم پر عمل پیرا تھے.اور اس عبادت کو پسند فر ما تے جس پر دوام ہو سکتا ہو.خواہ وہ تھوڑی ہی ہو.اور اس طرح اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے.کہ آپؐ کسی کام میں خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا.استقلال کو ہا تھ سے نہ جا نے دیتے.3.تیسرے یہ بات بھی ثا بت ہو تی ہے کہ نہ صرف عام کاموں میں بلکہ عبادت میں بھی آپؐ استقلال کو ہا تھ سے نہ جانے دیتےاور یہ ایک خاص با ت ہے.کیونکہ استقلال یا بے استقلالی کا اظہار عام کاموں میں ہو تا ہے.اگر کو ئی شخص ایک دن خاص اثر اور جوش کے ماتحت خاص طور پر عبادت کرے.اور دوسرے دن نہ کرے.تو اس کا ایسا کر نا بے استقلالی نہیں کہلا سکتا.لیکن آنحضرت ﷺ اس صفت میں ایسے کامل تھے کہ آپؐ عبادت میں بھی یہ پسند نہ فر ما تے کہ ایک دن ایک عبادت کرکے دوسرے دن چھوڑ دیں.بلکہ جب ایک عبادت ایک دن کر تے تو دوسرے دن پھر کرتے تا کہ اس کے ترک سے طبیعت میں بے استقلالی نہ پیدا ہو اور یہ بات آپؐ کے

Page 639

استقلال پر خاص رو شنی ڈالتی ہے.طہارۃ النّفس.احسان کی قدردنیا میں بہت سے لو گ ایسے ہو تے ہیں کہ اس بات کے تو طالب رہتے ہیں کہ دوسرے ان پر احسان کریں لیکن اس بات کا ان کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ جن لوگوں نے ان پر احسان کیا ہے ان کے احسانات کو یا درکھ کر ان کا بدلہ بھی دیں.ایک دو احسانات کا یادرکھنا تو الگ رہا والدین جن کے احسانات کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا.ان کے احسانات کو بھی بہت سے لوگ بھلا دیتے ہیں.اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا اپنی محبت سے مجبور ہو کر یا اپنا فرض خیال کرکے کیا ہمیں اب کیا ضرورت ہے کہ خوامخواہ ان کی خبر گیری کر تے پھریں.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کا حال دنیا سے بالکل مختلف تھا.آپؐ پر جب کو ئی شخص احسان کر تا تو آپؐ اسے ہمیشہ یا درکھتے تھے اور کبھی فراموش نہ کرتے تھے.اور ہمیشہ آپؐ کی کو شش رہتی تھی کہ جس نے آپؐ پر کبھی کو ئی احسان کیا ہو.اسےاس کے احسان سے بڑھ کر بدلہ دیں.یوں تو آپؐ کا اپنے رشتہ داروں، دوستوں،مریدوں، خادموںا ور ہم وطنوں سے سلوک شروع سے آخر تک ہمارے اس دعوے کی تصدیق کر رہا ہے لیکن ہم اسے واضح کر نے لیے ایک مثال بھی دے دیتے ہیں.جس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ کو اپنے محسن کے احسان کا کس قدرخیال رہتا تھا اور کس طرح اسے یاد رکھتے تھے.بدر کی جنگ کے نام سے کون سا مسلمان نا واقف ہو گا یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فر قان رکھا ہے او ر یہی و ہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعویٰ کے سا تھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لیے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیواکوئی با قی نہیں.اور اگر کوئی ہے تو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کر نا بجا ئے فخرکے عار خیال کر تا ہے.غرضیکہ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا فر ما ئی تھی اور بہت سے کفار قید بھی ہو ئے تھے.وہ لوگ جو گھر سے اس ارا دہ سے نکلے تھے کہ آنحضرتؐ اور آپؐ کے اتباع کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر دیں گے.اور جن کے دل میںرحم کا خیال تک بھی نہ تھا ان سے جس قدر بھی سختی کی جا تی اور جو سزائیں بھی ان کے لیے تجویز کی جاتیں بالکل روا اور مناسب تھیں.لیکن ان کی شرارت کے مقابلہ میں آنحضرتؐ نے ان سے جو نرم سلوک کیا یعنی صرف ایک خفیف ساتاوان لے کر چھوڑ دیا.وہ اپنی آپ ہی نظیر ہے مگر اس نرم سلوک پر بھی ابھی آپؐ کے دل میں یہ

Page 640

تڑپ با قی تھی کہ اگر ہو سکے تو اور بھی نرمی ان سے برتوں اور آپؐ بہانہ ہی ڈھونڈتے تھے کہ کو ئی اَو رمعقول وجہ پیدا ہو جا ئے.تو میں ان کو بلا تاوان لیے چھوڑدوں.چنانچہ اس موقعے پر آپؐ نے حضرت جبیرؓ سے جو گفتگو فر ما ئی وہ صاف ظاہر کر تی ہے کہ آپؐ کا دل اسی طرف ما ئل تھا کہ کو ئی معقول عذر ہو تو میں ان لو گوں کو یو نہی چھوڑدوں.ہاں بلا وجہ چھوڑنے میں کئی قسم کے پو لیٹیکل نقص تھے.جن کی وجہ سے آپؐ بلا کافی وجوہات کے یو نہی نہیں چھوڑ سکتے تھے.اس گفتگو سے جہاں مذکورہ با لا نتیجہ نکلتا ہے وہاں یہ بھی ظا ہر ہو تا ہے کہ آپؐ کو اپنے محسنوںکے احسانات کیسے یاد رہتے تھے اور آپؐ ان کا بدلہ دینے کےلیے تیار رہتے تھے.حضرت جبیر ؓفر ما تے ہیں کہ انَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ اُسَارٰی بَدْرٍلَوْکَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ حَیًّا ثُمَّ کَلَّمَنِیْ فِیْ ھٰٓؤُلَآءِ النَّتْنٰی، لَتَرَکْتُھُمْ لَہ (بخاری کتاب الجہاد باب ما منّ النبیﷺ علی الاساری) یعنی نبی کریم ﷺ نے قید یانِ بدر کے متعلق فر ما یا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہو تا.اوران نا شدنیوں کے حق میں سفارش کر تا تو میں ضرور ان کو چھوڑ دیتا.یہ کیا ہی پیارا کلام ہے.اور کن بلند خیالات کا اظہار کرتا ہے.اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں.جن کے سینوں میں احسانات کی قدر کرنے والا دل ہو.شا ید اکثر ناظرین مطعم بن عدی کے نام اور اس کے کام سے نا واقف ہوں.اور خیال کریں کہ اس حدیث کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے اس لیے میں اس جگہ مطعم بن عدی کا وہ واقعہ بیان کر دیتا ہوں جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے اس موقعہ پر مطعم بن عدی کو یاد فر ما یا اور خواہش فر ما ئی کہ اگر آج وہ ہو تا تو میں ان قید یانِ جنگ کو اس کی سفارش پر چھوڑ دیتا.آنحضرت ﷺجب مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو ایک دفعہ ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے مشورہ کرکے قریش کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بنو ہا شم اور بنو عبد المطلب سے خرید و فروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات بالکل ترک کر دیں کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو ان کے دشمنوں کے سپرد نہیں کر دیتے.کہ جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریں.چنانچہ اس مضمون کا ایک معاہدہ لکھا گیا کہ آئندہ کو ئی شخص بنو ہا شم اور بنو مطلب کے ہا تھ نہ کو ئی چیز فروخت کرے گا.نہ ا ن سے خرید ے گا اور نہ ان کےسا تھ کسی قسم کا رشتہ کرے گا.اس با ئیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کے شر سے بچنے کے لیے حضرتؐ کے چچا ابو طالب کو مذکورہ با لا دونوں گھرا نوں سمیت مکہ والوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.اور چو نکہ مکہ ایک وادی غیر ذی زرع میں

Page 641

واقع ہے.کھانے پینے کی سخت تکلیف ہو نے لگی اور سوائے اس کے کہ کو ئی خدا کا بندہ چوری چھپے کوئی چیز دے جا ئے ان لو گوں کو ضروریات زندگی بھی میسر آنی مشکل ہو گئیں.اور قریباً دو سال تک یہی معاملہ رہا.اور بعض مؤرخ تو لکھتے ہیں کہ تین سال تک یہی حال رہا جب حالت انتہا کو پہنچ گئی تو قریش میں سے پا نچ شخص اس بات پر آمادہ ہو ئے کہ اس ظلم کو دور کیا جائے اور ان قیدیوں کو رہائی دلا ئی جا ئے.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے ایک دن عین کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ اب ہم اس ظلم کو زیا دہ نہیں دیکھ سکتے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا کھا ئیں اور آرام سے زندگی بسر کیں.مگر چند ہمارے ہی ہم قوم اس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے کھانے پینے سے تنگ ہوں اور باوجود قیمت دینے کے غلہ ان کے ہا تھ فروخت نہ کیا جائے.ہم اس معاہدہ کی جو ایسے ظلم کو روا رکھتا ہے پابندی نہیں کرسکتے.ان کا یہ کہنا تھا کہ بہت سے لوگ جن کے دل انصاف سے کو رے نہ تھے.ان کی تا ئید میں کھڑے ہو گئے اور آخر و ہ معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا گیا.اور آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے قبیلہ کے لوگ اس قید سے آزاد ہو ئے.مطعم بن عدی بھی ان پا نچ اشخاص میں سے ایک تھا اور یہی تھا کہ جس نے بڑھ کر اس معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دیا.علاوہ ازیں جب آنحضرت ﷺ طائف کے لوگوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے تشریف لے گئے.اور آپؐ سے وہاں کے بدمعاشوں نے سخت ظلم کا سلوک کیا اور آپؐ کے پیچھےلڑکے اور کتے لگا دیے تو آپؐ کو واپس مکہ میں آنا پڑا لیکن یہ وہ وقت تھا کہ مکہ کے لوگ بھی سخت سے سخت شرارت پر آمادہ ہو رہے تھے.اور آپؐ کو وہاں بھی امن ملنا مشکل تھااس وقت مطعم بن عدی نے آگےآکر آپؐ کو اپنے جوار میں لیا اور اپنی ذمہ داری پر آپؐ کو پناہ د ی.یہ وہ احسانات تھےجو مطعم بن عدی نے آپؐ پر کیے تھے.اور جبیرؓ بن مطعم سے آپ کا مذکورہ بالا کلام ظاہر کر تا ہے کہ آ پ ؐکو ہمیشہ خیال رہتا تھا کہ کاش وہ زندہ ہو تا.اور میں اس کے احسانات کا بدلہ اتارتا.چونکہ مطعم نے آپؐ کو اور آپؐ کے قبیلہ کو اس قید سے آزاد کرانے میں بہت کو شش کی تھی جس میں آپؐ بوجہ قریش کے غیر منصفا نہ معاہدہ کے گرفتار تھے.اور پھر اس وقت جبکہ آپؐ کے دشمن آپؐ کو قسم قسم کی تکلیف پہنچانے پرآمادہ تھے آپؐ کو پناہ دی تھی.آپؐ کی توجہ بدر کے قیدیوں کو دیکھ کر اور یہ خیال کرکےکہ وہ لوگ جو چند سال پہلے مجھے اپنے ہاتھ میں خیال کر تے تھے

Page 642

آج میرے ہا تھ میں گرفتار ہیں فوراً مطعم کے اس احسان کی طرف گئی اور اس احسان کو یاد کرکے فر ما یا کہ جس طرح مطعم نے ہمیں قید سے آزاد کر وایا تھا اور دشمنوں کی تکلیف سے بچایا تھا آج اگر وہ زندہ ہوتا تو ایسے خطر ناک دشمنوں کو میں اس کی سفارش سے قید سے آزاد کر دیتا.اور ہر ایک تکلیف سے امن دے دیتا.طہارۃ النّفس.لڑا ئی سے نفرتبہت سی طبائع اس قسم کی ہو تی ہیں کہ وہ بہادری میںتو بےشک کمال رکھتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان میں ایک قسم کی سختی پیدا ہو جاتی ہے.اور ان کی بہادری در حقیقت لڑا ئی او ر جھگڑے کا نتیجہ ہو تی ہے او ربجا ئے ایک خلقی خوبی کے،عادت کا نتیجہ ہو تی ہے جیسے کہ بعض ایسے ممالک کے لوگ،جہاں امن و امان مفقود ہو تا ہے اور لوگ آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں.عادتاً دلیر اور بہادر ہو تے ہیں لیکن ان کی بہادری کوئی نیک خلق نہیں ہو تی بلکہ روزانہ کی عادت کا نتیجہ ہو تی ہے جیسے کہ بعض جانور بھی بہادر ہو تے ہیں،اور یہ بات ان کے اخلاق میں سے نہیں ہو تی بلکہ ان کی پیدائش ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہےکہ وہ بہادر ہوں مثلاً شیر چیتا وغیرہ پس جو انسان کہ عادتاً بہادر ہے یعنی ایسے حالات میں اس نے پرورش پا ئی ہے کہ اس کی طبیعت میں سختی اور لڑا ئی جھگڑے کی عادت ہو گئی ہے اس کی بہادری چنداں قابل قدر نہیں لیکن جو شخص کہ لڑا ئی اور جھگڑے سےنفرت رکھتا ہو،موقعہ پر بہادری دکھا ئے اس کی بہادری قابل قدر ہے.میں یہ تو پہلے بتا آیا ہوں کہ رسول کریم ﷺ بے نظیر بہادر تھے اور کو ئی شخص بہادری میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپؐ لڑا ئی اور جھگڑے سے سخت متنفر تھے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ نہ تو عام طور پر لڑا ئی اور جھگڑا دیکھتے دیکھتے آپؐ کے اندر بہادری کی صفت پیدا ہو گئی تھی اور نہ ایسا تھا کہ جنگوں اور لڑا ئیوں کے باعث طبیعت میں ایسی سختی پیدا ہو گئی تھی کہ جھگڑے اور فساد کو طبیعت پسند کرنے لگے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں با تیں اکثر ایک دوسرے کے باعث سے پیداہو جا تی ہیں.کئی بہادر ایسے ہو تے ہیں کہ ان کی بہادری ان کی جھگڑالو اور فسادی طبیعت کا نتیجہ ہو تی ہے اور کئی بہادر ایسے ہو تےہیں کہ ان کی بہادری ان کو لڑا ئی اور جھگڑے کا عادی بنا دیتی ہے لیکن آپؐ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ ؐ بہادر تھے لیکن آپؐ کی بہادری ایک نیک خلق کے طور پر تھی اور با وجود بہادر اور میدانِ کا رزار میں ثابت قدم رہنے والا ہو نے کے آپؐ کو کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا.ہر ایک معاملہ کو سہولت سےطے کر تے اور اگر کسی کو لڑتا دیکھتے بھی تو اس حرکت سے

Page 643

اسے روک دیتے چنانچہ آپؐ کی اس نفرت کا یہ اثر تھا کہ صحابہؓ جنہیں رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ میں جنگ و جدل کے سا تھ ہی واسطہ پڑا رہتا تھا کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے نہ تھے اور ان کی طبیعت میں سختی اور درشتی پید انہیںہوئی تھی کیونکہ ہر ایک ایسے واقعہ پر رسول کریم ﷺ ان کو روک دیتے تھے.برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر میدان جنگ کے بہادر مختلف لڑا ئیو ں اور جھگڑوں سے بجا ئے گھبرا نے کے ان میں مزا حاصل کر تے ہیں اور کئی لوگ تو خود لڑا ئی کرا کے تماشہ دیکھتے ہیں مگر رسول کریم ﷺعمر بھر باوجود بے نظیر بہادری کے لڑائیوں اور جھگڑوں سے سخت نفرت کر تے رہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ آپؐ کے اندر ایک اَور ہی رو ح تھی جو کام کر رہی تھی اور آپؐ اس دنیا کے لوگوں سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ آپؐ آسمانی انسان تھے جس کا ہر کام آسما نی تھا.رسول کریم ﷺکی تمام زندگی ہی اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ لڑا ئی جھگڑے کو سخت ناپسند فر ما تے تھے لیکن ا س جگہ میں ایک دو مثالیں بھی دیتا ہوں جن سے آ پؐ کے پا کیزہ نفس کا پتہ چلتا ہے.عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں: خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَ نَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحٰی رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ،فَقَالَ: خَرَجْتُ لِاُ خْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحٰی فُلَانٌ وَفُلانٌ فَرُفِعَتْ، وَعَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرًا لَّکُمْ، فَالْتَمِسُوْ ھَافِی التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالْخَامِسَۃِ(بخاری کتاب الصوم باب رفع معرفۃ الیلۃ القدر لتلا حی الناس) یعنی رسول کریم ﷺ ایک دفعہ اپنے گھر سے لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلے.اتنے میں دو شخص مسلمانوں میں سے لڑ پڑے(یعنی جب آپ ؐ نکلے تو دو شخصوں کو لڑتے پا یا) اس پر آپؐ نے فر ما یا کہ میں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلا تھا لیکن فلا ں فلاں شخص لڑ رہے تھے جسے دیکھ کر مجھے بھول گیا کہ وہ رات کب ہو گی.خیر شاید یہ بھی تمہارے لیے اچھا ہو.تم اسے انتیسویں، ستا ئیسویں اور پچیسویں را ت میں تلا ش کرو.طہارۃ النّفس.تکبّر سے اجتنابایک مثال تو آپؐ کے تکبر سے بچنے کی میں پہلے دے چکا ہوں ایک اور دیتا ہوں اور انہی دونوں مثالوں پر کیا حصرہے آنحضرت ﷺ کا ایک ایک عمل اس بات کی رو شن مثال ہے کہ آپؐ تکبر سے کو سوں دور تھے لیکن جیساکہ میں ابتدا میںلکھ آیا ہوں اس سیرت میںمیَں نے صرف اس حصہ سیرت پر رو شنی ڈالنی ہے جو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ بخاری سے ہمیں معلوم ہو تا ہے اور دوسرے

Page 644

جو واقعات پہلے بیان کیے جا چکے ہیں ان کے دوبا رہ دہرانے سے بھی اجتناب کر نا مناسب ہے پس ان مجبوریوں کی وجہ سے صرف دو مثالوں پر ہی کفایت کی جا تی ہے جن میں سے ایک تو پہلے بیان ہو چکی ہے اور دوسری ذیل میں درج ہے حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فر ماتے ہیں: حَدَّثَنَا مُجَاھِدٌ:اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَ ۃَ کَانَ یَقُوْلُ:آللّٰهِ الَّذِي لٓا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِيْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِيْ مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِيْ يَخْرُجُونَ مِنْهُ ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ اٰيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ اٰيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَاٰنِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي ، ثُمَّ قَالَ:یَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اِلْحَقْ ، وَمَضٰى فَتَبِعْتُهُ ، فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لِي ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ ؟ قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فُلَانٌ أَوْ فُلَانَةٌ ، قَالَ: أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اِلْحَقْ إِلٰى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ لِيْ ، قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ ، لَا يَأْوُوْنَ إِلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ ، وَلَا عَلٰى أَحَدٍ ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا ، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا ، فَسَاءَنِي ذٰلِكَ فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ ، كُنْتُ أَحَقَّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوّٰى بِهَا ، فَإِذَا جَآءَ أَمَرَنِيْ فَكُنْتُ أَنَا أُعْطِيهِمْ ، وَمَا عَسٰى أَنْ يَبْلُغَنِيْ مِنْ هٰذَا اللَّبَنِ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدٌّ ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا ، فَأَذِنَ لَهُمْ ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ الْبَيْتِ قَالَ: يَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ ، قَالَ: فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، فَأُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلٰى يَدِهٖ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ ، فَقَالَ: أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: بَقِيْتُ أَنَا وَأَنْتَ ، قُلْتُ: صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اقْعُدْ فَاشْرَبْ ، فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ ، فَقَالَ: اِشْرَبْ ، فَشَرِبْتُ ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: اِشْرَبْ ، حَتَّى قُلْتُ: لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا ، قَالَ:

Page 645

فَأَرِنِي ، فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ ، فَحَمِدَ اللهَ وَسَمّٰى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ (.بخا ری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺواصحابہ وتخلیھم من الدنیا) ترجمہ:اس خدا کی قسم جس کے سوا کو ئی اور خدا نہیں کہ میں بھوک کے مارے زمین پر منہ کے بل لیٹ جا یا کر تا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر با ندھ لیا کرتا تھا(یعنی رسول کریم ﷺ کے زمانہ میںا س وقت صحابہ ؓ زیا دہ تر اپنے اوقات دین کے سیکھنے میں ہی خرچ کر تے تھے اور کم وقت اپنی رو زی کے کمانے میںلگا تے تھےا س لیے دنیاوی مال آپ کے پاس بہت کم ہو تا تھا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو کو ئی کام کیا ہی نہ کر تے تھے،ہر وقت مسجد میں اس انتظار میں بیٹھے رہا کر تے تھے کہ کب رسول کریم ﷺ نکلیں تو میں آپؐ کے ساتھ ہو جاؤںاور جو کچھ آپؐ کے دہن مبارک سے نکلے اس کو یاد کرلوں اور چونکہ سوال سے بچتے تھے کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا لیکن ہر حال میں شاکر تھے اور آستا نہ ٔ مبارک کو نہ چھوڑتے تھے)ایک دن ایسے ہواکہ میں اس راستہ پر بیٹھ گیاجس پر سے صحابہؓ گذر کراپنے کاروبارکے لیےجاتےتھے،اتنے میں (حضرت) ابوبکر ؓ گزرے پس میں نے ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پو چھی ا ورمیں نے یہ آیت ان سے اس لیے نہ پوچھی تھی کہ وہ مجھے اس کےمعنی بتا ئیں بلکہ اصل غرض میری یہ تھی کہ شا ید ان کی تو جہ میری طرف ہواور میرا پیٹ بھر دیں لیکن انہوں نے معنی بتا ئے اور آگے چل دیے،مجھے کچھ کھلا یا نہیں.ان کے بعد حضرت عمر ؓگزرے.میں نے ان سے بھی قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور وہ آیت بھی مجھ کو آتی تھی میری اصل غرض یہی تھی کہ وہ مجھے کچھ کھلا ئیں مگر وہ بھی اسی طرح گزر گئے اور مجھےکچھ نہ کھلا یا.پھر وہاں سے ابو القاسم ﷺ(یعنی آنحضرت فداہ نفسی)گزرے آپؐ نے جو نہی مجھے دیکھا مسکرا دیے او رجو کچھ میرے جی میں تھا اورجومیرے چہرہ سے عیاں تھا(یعنی بھوک کے آثار)اس کو پہچا ن لیا پھر فر ما یا ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! حاضر ہوں ارشا د فرما یئے،فر ما یا میرے سا تھ چلے آؤ.پس میں آپؐ کے پیچھے چل پڑا آپؐ اپنے گھر میں داخل ہو ئے اور میرے لیے اجازت مانگی پھر مجھ کو اندر آنے کی اجازت دی.پھر آپؐ اندر کمرہ میں تشریف لے گئے اور ایک دودھ کا پیالہ رکھا پا یا.آپؐ نے دریا فت فر ما یا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟اندر سے جواب ملا فلا ں مرد یا فلاں عورت (حضرت ابوہریرہ ؓ کو یاد نہیں رہا کہ مرد کہایا عورت)نے حضور ؐ کے لیے ہدیہ بھیجا ہے.اس پر مجھے آوازدی.میں نےعرض کیا.یا رسولؐ اللہ !حاضر ہوں.فرمایا اہلِ صفّہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا ؤ.ابوہریرہؓ فر ما تے ہیں کہ اہلِ صفّہ اسلام کے مہمان تھے

Page 646

جن کے نہ تو کو ئی رشتہ دار تھے جن کے پاس رہتے نہ اُن کے پا س مال تھا کہ اس پر گزارہ کرتے اور نہ کسی شخص کے ذمہ ان کا خرچ تھا.جب نبی کریم ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو آپؐ ان کی طرف بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے اور جب آپؐ کے پاس کو ئی ہدیہ آتا تو آپؐ اُن کو بلا بھیجتے اور ہدیہ سے خود بھی کھا تے اور ان کو بھی اپنے سا تھ شریک فرماتے.حضرت ابو ہریرہ ؓ فر ما تے ہیں کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی او رمجھے خیال گزرا کہ یہ دودھ اصحاب الصُّفّہ میں کیوںکرتقسیم ہوگا.میں زیا دہ مستحق تھا کہ اس دودھ کو پیتا اور قوت حاصل کرتا، جب وہ لوگ آجا ئیں گے تو آپؐ مجھے حکم فرما دیں گے اورمجھے اپنے ہا تھ سے ان کو تقسیم کر نا پڑے گا اور غالب گمان یہ ہے کہ میرے لیے اس میں سے کچھ نہ بچے گا لیکن خدا اور رسولؐ کی اطاعت سے کو ئی چارہ نہ تھا پس میں ان لو گوں کے پاس آیا اور ان کو بلا یا.وہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی.آنحضرت ﷺنے ان کو اجازت دی پس وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے.اس پر رسول کریم ﷺ نے فر ما یا.ابو ہریرہ!میں نےعرض کیا یا رسولؐ اللہ!حاضر ہوں.فر ما یا.یہ پیالہ لو اور ان کو پلاؤ.میں نے پیالہ لیا اور اس طرح تقسیم کر نا شروع کیا کہ پہلے ایک آدمی کو دیتا جب وہ پی لیتا اور سیر ہو جا تا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھرمیں دوسرے کو دیتا جب وہ سیر ہو جاتا تو مجھے پیا لہ واپس کر دیتا.اسی طرح باری باری سب کو پلا نا شروع کیا یہاں تک کہ سب پی چکے اور سب سے آخر میں مَیں نے نبی کریم ﷺ کو پیالہ دیا آپؐ نے پیالہ لے لیا اور اپنے ہا تھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرا ئے اور فر ما یا ابو ہریرہ عرض کیا یارسولؐ اللہ !حکم فرما یا اب تو تم او رمیں رہ گئےہیں.مَیںنے عرض کیا یا رسولؐ اللہ درست ہے.فرمایا.اچھا تو بیٹھ جاؤ اور پیو.پس مَیں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا جب پی چکا تو فر مایا کہ اَور پیو.میں نے اَور پیا.پھر فر ما یا اَور پیو.اور اسی طرح فرما تے رہے یہاں تک کہ آخر مجھے کہنا پڑا کہ خدا کی قسم!جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو اس دودھ کے لیے کو ئی را ستہ نہیں ملتا اس پر فر ما یا! کہ اچھا تو مجھے دو.میں نے وہ پیالہ آپؐ کو پکڑادیا.آپؐ نے خدا تعالیٰ کی تعریف اور بسم اللہ پڑھی.اور با قی بچا ہوا دودھ پی لیا.اس حدیث سے رسول کریم ﷺ کی سیرت کے جن متفرق مضامین پر رو شنی پڑتی ہے ان کے بیان کر نے کا تو یہ موقعہ نہیں مگر اس وقت میری غرض اس حدیث کے لا نے سے یہ بیان کر ناہے کہ رسول کریم ﷺ تکبر سے بالکل خالی تھےاور تکبر آپؐ کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا.رسول کریم ﷺ تو خیر بڑی شان کے آدمی تھے اور جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت دنیاوی شان بھی

Page 647

آپؐ کو با دشاہانہ حاصل تھی(کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ آپؐ کی وفات سےصرف تین سال پہلے مسلمان ہو ئے تھے پس اگر یہ بھی فر ض کر لیا جا ئے کہ مسلمان ہو تے ہی آپؓ کو یہ واقعہ پیش آیا تب بھی فتح خیبر کے بعد کا یہ واقعہ ہے جبکہ رسول کریم ؐ کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور عرب کے کئی قبا ئل آپؐ کی اطاعت کا اقرار کر چکے تھے).آپؐ سے دنیاوی حیثیت میں ادنیٰ لو گوں کو بلکہ معمولی معمولی اُمراء کو دیکھو کہ کیا تکبر اور عجب کے باعث وہ کسی شخص کا جو ٹھا پی سکتے ہیں؟اس آزادی کے زمانہ میں بھی جبکہ تمام بنی نوع انسان کی برابری کے دعوے کیے جاتے ہیں.اس شان کو بنانے کے لیے طب کی آڑ تلاش کی جا تی ہے کہ ایک دوسرے کا جوٹھا پینے سے ایک دوسرے کی بیماری کے لگ جانے کا خطرہ ہو تا ہے حالانکہ اگر کو ئی ایسی بیماری معلوم ہو تو اَور بات ہے ورنہ رسول کریم ﷺ تو فر ما تے ہیں کہ سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ مومن کا جُوٹھا استعمال کرنے میں بیما ی سے شفا ہو تی ہے.پھر مسلمان کہلانے والوں کا کیا حق ہے کہ اس فتویٰ کے ہوتے ہو ئے اپنے تکبر کو پورا کرنے کے لیے اس تار عنکبوت عذر کے پیچھے پناہ لیں.غرض اس آزادی کے زمانہ میں بھی بادشاہ تو الگ رہے عام لوگ بھی پسند نہیں کر تے کہ اپنے سے نیچے درجہ کے آدمی کا جُوٹھا کھا نا یا پا نی استعمال کریں اور خواہ دنیاوی حیثیت میں ان سے ادنیٰ درجہ کا آدمی کس قدر ہی صاف اور نظیف کیوں نہ ہو اور ہر قسم کی میلوں اور گندوں سے کتنا ہی پا ک کیوں نہ ہو اس کے جُوٹھے کھا نے یاپینے کو کبھی استعمال نہیں کر تے اور اس کو برا مناتے ہیں اور اس کو اپنی ہتک خیال کرتے ہیں.اور پھر امارت ظاہری الگ رہی،قومیتوں کے لحاظ سے بھی ایسے درجہ مقرر کیے گئے ہیں کہ ایک ادنیٰ قوم کے شخص کا جُوٹھا کھا نا یا پا نی استعمال کرنا اعلیٰ قوم کے لوگ عار خیال کر تے ہیں خود ہمارے گھر میں ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ ایک سیدانی بغرض سوال آئی.باتیں کرتے کرتے اس نے پا نی مانگا.ایک عورت اس کو پا نی دینے کے لیے اٹھی اور جو برتن گھڑوں کے پا س پانی پینے کے لیے رکھا تھا اس میں اُس نے اسے پا نی دیا.وہ سیدانی بھی سامنے بیٹھی تھی اس با ت کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی اور بو لی کہ شرم نہیں آتی.میں سیدانی ہوں اور تو امتیوں کے جُوٹھے بر تن میں پا نی دیتی ہے.نئے برتن میں مجھے پا نی پلا نا چاہیے تھا.غرض صرف سادات میں سے ہو نے کی وجہ سے با وجود اس کے کہ وہ ہمارے ہاں سوال کر نے آئی تھی اور محتاج تھی اس نے اس قدر تکبر کا اظہار کیا کہ دوسرے آدمی کا مستعمل برتن جو سید نہ ہو اس کے سامنے پیش کر نا گو یا اس کی ہتک تھی.جب مستعمل لیکن صاف کر دہ برتن سے اس قدر نفرت تھی تو جُوٹھاپا نی تو پھر نہایت ناپاک شےسمجھی جا تی ہو گی لیکن اس سیدوں کے باپ بلکہ

Page 648

انبیاء ؑکے سید کو دیکھو کہ اصحاب الصُّفّہ جن کو نہ کھا نے کو رو ٹی ،نہ پہننے کو کپڑا،نہ رہنے کو مکان میسر تھا ان کو اپنے گھر پر بلا تا ہے اور ایک نہیں دو نہیں، ایک جماعت کی جماعت کو دودھ کا پیا لہ دیتا ہے اور سب کو باری باری پلا کر سب کا بچا ہوا،کم سے کم نصف درجن مونہوں سے گزرا ہوا دودھ سب سے آخر میں الحمد للہ کہتا ہوا بسم اللہ کہہ کر پی جا تا ہے اور اس کے چہرہ پر بجائے نفرت کے آثار ظاہر ہو نے کے خو شی اور فرحت اور شکرو امتنان کی علا مت ہویداہو تی ہیں.بے شک دنیا میں بڑےبڑے لوگ گزرے ہیں لیکن اس شان و شوکت کا مالک ہو کر جورسول کریم ﷺ کو حاصل تھی پھر اس قدر تکبر سے بُعد کی مثال کو ئی پیش تو کرے.لیکن خوب یادرکھو کہ ایسی مثال پیش کر نے پر کو ئی شخص قادر نہیں ہو سکتا.انکسارتکبر کے متعلق دو مثالیں بیان کرنے کے بعد میں یہ بیان کر نا چاہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ آپؐ کے اندر تکبر نہ تھا بلکہ اس کے علاوہ آپ ؐ کی طبیعت میں حد درجہ کا انکسار(*انکسارکالفظ اُردو محاورہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے ورنہ عربی زبان میں انکساران معنوں میں استعمال نہیں ہوتابلکہ اس کی بجائے تواضع کا لفظ استعمال کیا جاتاہے.)بھی تھا اورآپ ؐ ہمیشہ دوسرے کی تعظیم کر نے کے لیے تیار رہتے تھےاور اپنا رویہ ایسا رکھتے تھے جس سے دوسرے لو گوں کا ادب ظاہر ہو اور یہ وہ بات ہے کہ جس سے عام طور پر لوگ خالی ہو تے ہیں.خصوصًاامراء تو اس سے بالکل خالی ہی نظر آتے ہیں.ایسے تو شاید بہت سے امراء مل جائیں جو ایک حد تک تکبر سے بچے ہو ئے ہوں لیکن ایسے امراء جو تکبر سے محفوظ ہونے کے علاوہ منکسر المزاج بھی ہوں شاذ ونادر ہی ملتے ہیں اور میرا یہ کہنا کہ شاذونادرمنکسرالمزاج امراء مل سکتے ہیں اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے امراء بھی ہیں جو اپنے انکسار میں رسول اللہﷺ کا نمونہ ہیں.کیونکہ رسول کریم ﷺ کا نمونہ تو انبیاء میں بھی نہیں مل سکتا چہ جائیکہ عام امراء میں مل جا ئے.میرا یہ ایمان ہے کہ آپ اپنی تمام عادات اور تمام حرکات میں بے نظیر تھے اور اخلاق کے تمام پہلوؤں میں کل انبیاءؑ اور صلحاء پر فضیلت رکھتے تھے.پس میں اگر کسی جگہ دوسرے امراء سے آپؐ کا مقابلہ کر تا ہوں تو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ بادشاہوں اور امراء میں بھی نیک نمونے تو موجو دہیں لیکن جس طرح ہر رنگ اور ہر پہلو میں آپؐ کامل تھے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی اور دوسرے یہ بتا نے کے لیے کہ آپ ؐکو صرف نیک بختوں میں اور صلحاء میں شامل کر نا درست نہیں ہو سکتا بلکہ کسی ایک خلق میں بھی بہتر سے بہتر نمونہ جو مل سکتا ہے اس سے بھی آپؐ کا نمونہ بڑھ کر تھا جو اس.*انکسار کا لفظ اردو محاورہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے ورنہ عربی زبان میں انکسار ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کی بجائے تواضع کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.

Page 649

بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ کو ئی نیک بخت بادشاہ نہ تھے بلکہ نبی تھے اور نبیوں کے بھی سردار تھے اور میں ان لو گوں کی کو شش کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو آپؐ کی لا ئف میں یہ کو شش کر تے ہیں کہ آپ ؐکے افعال کو چند اور بادشاہوں سے مشابہ کرکے دکھاتے ہیں اور اس طرح گو یا آپؐ پر سے وہ اعتراض مٹا نا چاہتے ہیں جو آپؐ کے دشمنوں کی طرف سے کیے جا تے ہیں اس کو شش کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک اچھے بادشاہ تھے.لیکن ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ آپ ؐایک نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے.پس جب تک آپ ؐ کے اخلاق کو دوسرے انسانوں کے اخلاق سے بہتر اور اعلیٰ نہ ثابت کیا جائے ہمارا دعویٰ با طل ہو جا تا ہے اور صرف بعض شریف با دشاہوں سے آپ ؐ کی مماثلث ثابت کر دینے سے وہ مطلب ہر گز پورا نہیں ہو تا جس کے پورا کرنے کے لیے ہم قلم اٹھا تے ہیں.پس میرا آپ ؐ کے مقابلہ میں دیگر امراء کی امثلہ پیش کر نا یا ان کی زندگی کی طرف متوجہ کر نا صرف اس غرض کے لیے ہو تا ہے کہ تا بتاؤںکہ اچھے سے اچھے نمونہ کو بھی آپؐ کے سامنے لاؤ کبھی وہ آپ ؐ کے آگے چمک نہیں سکتا بلکہ آپؐ کے سامنے یوں معلوم ہو تا ہےجیسے نصف النہار کے سورج کے مقابلہ میں شبِ چراغ.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.میں اس وقت یہ بیان کر رہا تھا کہ گو بعض امراء تکبر سے خالی تو مل سکتے ہیں لیکن منکسر المزاج امراء بہت ہی کم اور شاذونا در ہی ملیں تو ملیں لیکن رسول کریم ﷺ ایک بادشاہ ہو کر جس منکسر المزاجی سے رہتے تھے وہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتی ہے.عرب کی سی قوم کا بادشاہ لا کھوں انسانوں کی جان کا مالک بڑوں اور چھوٹوں کے سامنے اس انکسار سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جا تی ہے.دنیا کے بادشاہوں اور امراء کی زندگی کو دیکھو اور ان کےحالات پڑھو تو معلوم ہو تا ہے کہ کسی اپنے سے ادنیٰ آدمی کو سلام کہنا تو درکنار،اس کے سلام کا جو اب دنیا بھی پر اُن پردوبھر ہو تا ہے.اول تو بہت سے ہوں گے جو معمولی آدمی کے سلام پر سر تک بھی نہ ہلائیں گے تو بعض ایسے ملیں گے جو صرف سر ہلاد ینا کافی سمجھیں گے.ان سے بھی کم وہ ہوں گے جو سلام کا جواب دے دیں گے اور جو ابتداء میں سلام کریں وہ تو بہت ہی کم ملیں گے کیونکہ جن کی طبیعت میں تکبر نہ ہو وہ اس بات کو پسند نہ کریں گے کہ کو ئی غریب آدمی ان کو سلام کہے تو وہ اس کے سلام کا جواب نہ دیں لیکن ابتداء ًایک غریب آدمی کو سلام کہنا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھیں گے.لیکن رسول کریم ﷺ کی زندگی کے حالات پڑھ کر دیکھو کہ آپ ؐ ہمیشہ سلام کہنے میں سبقت کر تے تھے اور کبھی اس بات کے منتظر نہ رہتے تھے کہ کوئی غریب آدمی آپ کو خود

Page 650

بڑھ کر سلام کرےبلکہ آپؐ کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ آپ ؐ ہی پہلے سلام کہیں.اس کے متعلق میں اس جگہ ایک ایسے شخص کی گواہی پیش کر تا ہوں جس کو آپؐ کی مدینہ کی زندگی میں برابر دس سال آپؐ کے سا تھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے.میری مراد حضرت انسؓ سے ہے جن کورسول کریم ﷺنے مدینہ تشریف لا نے پر ملازم رکھا تھا اور جو آپ ؐ کی وفات تک برابر آپؐ کی خدمت میں رہے.ان کی نسبت امام بخاری ؒ روایت کر تے ہیں: عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ :اَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ،وَقَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ(بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم علی الصبیان) یعنی حضرت انس ؓ ایک دفعہ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے تو آپ ؓنے ان کو سلام کہا اور پھر فر ما یا کہ آنحضرت ﷺ اسی طرح کیا کرتے تھے یعنی آپؐ بھی جب لڑکوں کے پاس سے گزرتے تھے.تو ان کو سلام کہا کر تے تھے ان واقعات پر سرسری نظر ڈالنے والے انسان کی نظر میں شاید ایک معمولی سی بات ہو لیکن جو شخص کہ ہر ایک بات پر غور کر نے کا عادی ہووہ اس شہادت سے رسول کریم ﷺ کی منکسر انہ طبیعت کے کمال کو معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا.جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں.امراء کے لیے اپنے سے چھوٹے آدمی کو پہلے سلام کہنا ایک نہایت سخت مجاہدہ ہے او رممکن ہے کہ کبھی کبھار کو ئی امیر ایسا کر بھی دے لیکن ہمیشہ اس پر قائم رہنا ایک ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی دنیاوی بادشاہ کی زندگی سے نہیں مل سکتا.پھر بچوں کو سلام میں ابتداکر نا تو ایک ایسی بات ہے جس کی بادشاہ تو الگ رہے امراء سے بھی امید کر نا بالکل محال ہے اور امراء کو بھی جا نے دو.کتنے بالغ وجو ان انسان ہیں جوباوجود دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت رکھنے کے بچوں کو سلام میں ابتداء کر نے کے عادی ہیں اور جب گلیوں میں بچوں کو کھڑا پا تے ہیں تو آگے بڑھ کر ان کو سلام کہتے تھے.شاید ایسا آدمی جو اس پر تعہدسے قائم ہو اورہمیشہ اس پرعمل کرتاہو ایک بھی نہ ملےگالیکن رسول کریمؐ کی نسبت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسےواقف کارصحابی جو ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے فرماتے ہیں کہ آپؐ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو اُن کو سلام کہتے تھے.اس شہادت میں آپ نے کئی باتوں پر روشنی ڈالی ہے اول یہ کہ آنحضرت ﷺ انکسار کے اس اعلیٰ درجہ پر قدم زن تھے کہ بچوں کو سلام کہنے سے بھی آپؐ کو عار نہ تھا.دوم یہ کہ آپؐ ان کو سلام کہنے میں ابتداء کر تے تھے.سوم یہ کہ ایک یادو دفعہ کی بات نہیں آپؐ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے.اب اس شہادت سے ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بچوں کے ساتھ

Page 651

اس انکسار کے سا تھ پیش آتاتھا،وہ جوانوں کے سا تھ کس انکسار کے سا تھ معاملہ کر تا ہو گا اور اس کا نفس خودی اور تکبر سے کس حد تک پاک ہو گا.میں اس امر کی اوربہت سی مثالیں پیش کر تا لیکن چونکہ میں نے اس کتاب میں صرف ان مثالوں سے آپ ؐکی سیرت پر روشنی ڈالنے کا ارادہ کیا ہے جوبخاری میں پا ئی جا تی ہیں اس لیے اس وقت اسی مثال پر اکتفا کر تا ہوں.شروع سے ہی آپؐ کی طبیعت ایسی تھی.آپ ؐ کی منکسرانہ طبیعت کے متعلق جو مثال میں نے د ی ہےشاید اس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ گو امراء اس منکسر انہ طبیعت کےنہیں ہوتے لیکن چونکہ علاوہ بادشاہت کے آپؐ کو نبوت کا بھی دعویٰ تھا اور نبوت کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھے اس لیے ممکن ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ تکلف سے ایسا کر تے ہوں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ اعتراض درست ہے لیکن رسول کریم ﷺ پرنہیں پڑ سکتا اور اس کی یہ وجہ ہے کہ تکلف کی بات ہمیشہ عارضی ہو تی ہے تکلف سے انسان جو کام کر تا ہے اس پر سے کسی نہ کسی وقت پردہ اٹھ جا تا ہے لیکن جیسا کہ پہلی مثال سے ثا بت ہے.آنحضرت ﷺ ہمیشہ ایک ہی بات پر قائم رہے اور ایک شخص،جو دس سال رات دن برابر آپ ؐ کے سا تھ رہا،گواہی دیتا ہے کہ ہمیشہ منکسر انہ معاملہ کر تے تھے تو اب اس میں شک کی کو ئی گنجائش نہیں رہ جاتی لیکن اس مثال کے علاوہ ایک اَور مثال بھی بخاری سے معلوم ہو تی ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ ؐ کی منکسرا نہ طبیعت ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نتیجہ تھی جن پر آپؐ قائم تھے نہ کہ بناوٹ کا جیسا کہ آپؐ کے دشمن کہتے ہیں اور وہ ایک ایسے وقت کی بات ہے جبکہ آپ ؐ نے ابھی دعویٰ بھی نہ کیا تھا.پس اس وقت بھی آپؐ کا انتہا درجہ کا منکسر المزاج ہو نا ثابت کر تا ہے کہ آپ ؐ کے تمام کام اس دلی پاکیزگی کا نتیجہ تھے جس نے آپؐ کو کسی زمانہ میں بھی نہیں چھوڑا.

Page 652

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهٖ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء، فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل ان ينزع إلى اهله ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك، فقال: اقرا، قال: ما انا بقارئ، قال: فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قلت: ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، فقلت ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثالثة، ثم ارسلني فقال:" اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3}" سورة العلق آية 1-3، فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، فقال: زملوني زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة، واخبرها الخبر: لقد خشيت على نفسي، فقالت خديجة: كلا والله ما يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى ابن عم خديجة، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن اخيك، فقال له ورقة: يا ابن اخي، ماذا ترى، فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما راى، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله على موسى صلى الله عليه وسلم، يا ليتني فيها جذعا، ليتني اكون حيا إذ يخرجك قومك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اومخرجي هم، قال: نعم، لم يات رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا، ثم لم ينشب ورقة ان توفي وفتر الوحي".(بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ) حضرت عائشہ ؓ فر ما تی ہیں کہ شروع شروع میں رسول کریم ﷺ کو سچی خوابیں آنی شروع ہوئی تھیں.آپؐ جو خواب دیکھتے وہ اپنے وقت پر اس طرح ظاہر اً پو ری ہو تی جیسے پَوپھوٹتی ہے.اس کے بعد آپؐ کے دل میں علیحد گی کی محبت ڈالی گئی پس آپ ؐ غار حراء میں جاکر علیحدہ بیٹھا کرتے تھے اور کچھ را تیں رہ کر وہاں عبادت کیا کر تے تھے(ایک خد ا کی.کیونکہ نبوت سے پہلے بھی آپ ؐنے کبھی شرک نہیں کیا)اور پھر گھر کی طرف واپس تشریف لاتے تھے اور پھر اس کام کے لیے کھانا وغیرہ لے جا تے یہاںتک کہ آپؐ کے پاس حق آگیا(یعنی وحی نا زل ہو ئی) اور آپ ؐ اس وقت غار حرا ء میں ہی تھے آپؐ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ پڑھ ! آپ نے جواباً فر ما یا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا.آپؐ فرماتے تھے کہ اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ لیا اور اپنے سا تھ چمٹا لیا اور اس قدر

Page 653

بھینچا کہ طا قت بر داشت نہ رہی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ ! میں نے کہا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا اس پر اس نے پھرمجھے پکڑا اور اپنے ساتھ چمٹا کر زور سے بھینچا حتّٰی کہ طا قت برداشت نہ رہی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! یہ آیات لے کر(یعنی یاد کرکے)رسول کریم ﷺ واپس تشریف لے آئے اور آپؐ کا دل دھڑک رہا تھاوہاں سے آکرآپؐ سیدھے حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایاکہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ! اس پر آپؐ کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا اور آپؐ لیٹے رہے یہاں تک کہ خوف جا تا رہا.پھر حضرت خدیجہ ؓ کو تمام قصہ سنایا اور فر ما یا کہ میں تو اپنی جان پر ڈرتا ہوں(یعنی مجھے خوف ہےکہ مجھ سے کیا معاملہ ہو نے لگا ہے)اس پر حضرت خدیجہ ؓ نے فر ما یا کہ ہر گز نہیں.خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے سا تھ نیک سلوک کر تا اور کمزوروں کا بو جھ اٹھا تا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے اور مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کر تا ہے اور سچی مصیبتوں میں لو گوں کی مدد کر تاہے یہ کہہ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺکو ساتھ لیا اور ورقہ بن نو فل بن اسد بن عبدالعزیٰ جو حضرت خدیجہؓ کے چچا کے بیٹے یعنی چچا زاد بھا ئی تھے،ان کے پاس پہنچیں جو جاہلیت کے زمانہ میں مسیحی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرا نی میں انجیل کے بعض حصص،جن کی اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق دیتا ،لکھا کرتے تھے(یعنی اپنی جوانی میں)اور اس وقت وہ بوجہ بڑھاپے کے اندھے ہو چکے تھے.حضرت خدیجہ ؓنے ان سے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھا ئی کے بیٹےکی بات سن.ورقہ نے آنحضرتﷺ سے پو چھا کہ اے میرے بھا ئی کے بیٹے ! کیا بات ہے.آپؐ نے جو کچھ گزرا تھا آپ کے سامنے دہرا یا.اس پر ورقہ نے کہا کہ یہ وہی فر شتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فر ما یا تھا.اے کا ش.میں اس وقت جوان ہو تا.اے کا ش میں اس وقت زندہ ہو تا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی اس پر رسول کریم ﷺ نے فر ما یا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ہاں! کو ئی شخص اس تعلیم کے سا تھ نہیں آیا جس کے سا تھ تُو آیا ہے مگر لو گوں نے اس سے دشمنی کی ہے اور اگر مجھے تیرا زمانہ ملا (یعنی جس وقت تیری تعلیم کا اعلان ہو گا اور لوگ مخالفت کریں گے ورنہ نبی تو آپ ؐ اسی دن سے ہوگئے تھے اور وحی قرآن نازل ہو نی شروع ہو گئی تھی)تو میں تیری بڑی مدد کروں گا.پھر کچھ ہی دونوں کے بعد ورقہ فوت ہو گئے اور وحی ایک عرصہ کے لیے بند ہو گئی.ممکن ہے اس حدیث کے یہاں نقل کر نے پر بعض لو گوں کو تعجب ہوا ہو کہ اس حدیث کے

Page 654

اس جگہ نقل کر نے سے کیا مطلب ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کے انکسار کا کیا پتہ چلتا ہےلیکن جیسا کہ میں ان شاء اللہ،ابھی بتاؤں گا.یہ حدیث آپؐ کی منکسرانہ طبیعت پر تیز رو شنی ڈالتی ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انکسار سے آپؐ کا دل معمور تھا اور کسی زمانہ میں بھی آپؐ سے یہ خلق نیک جدا نہیں ہوا.انکسار کے سا تھ کا م کر نا دلا لت کرتا ہے کہ یہ صفت کس شان کے سا تھ آپؐ کے اندر تھی ورنہ بعض لوگ صرف سستی کی وجہ سے انکسار کر تے ہیں.اس حدیث سے ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے جو فرشتہ آیا اس نے آپؐ سے کہا کہ پڑھ اور آپؐ نے اس کے جواب میںکہاکہ میں پڑھنا نہیں جانتا.اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آپؐ کا اس انکار سے کیا مطلب تھاآیا یہ کہ آپؐ تحریر پڑھنا نہیں جانتے یا یہ کہ عربی زبان کا دہرانا بھی نہیں جانتے.کیونکہ قراءت کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں میں استعمال ہو تا ہے.ایک معنے ا س کے کسی تحریر کو پڑھنے کے ہیں اور دوسرے معنی کسی مقررہ عبارت کو اپنی زبان سے دہرا نے کے ہیںچنانچہ جب کو ئی شخص کسی کتاب کو پڑھے تو اس کی نسبت بھی کہیں گے کہ یَقْرَأُالْکِتَابَ اور جب وہ کسی عبارت کو دہرا ئے گا تو اسےبھی کہیں گے کہ یَقْرَأُ وہ پڑھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کو حفظ پڑھنا بھی قراءت کہلاتا ہے.پس اب سوال یہ ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فر ما یا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو اس سے کیا مراد ہے.آیا یہ کہ آپؐ تحریر نہیں پڑھ سکتے یا یہ کہ آپؐ کسی عبارت کو جو عربی زبان میںہو دہرا بھی نہیں سکتے.اگر یہ ثا بت ہو کہ آپؐ کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ تحریر نہیں پڑھ سکتے تب تو با ت صاف ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپؐ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن یہ مطلب رسول کریم ﷺ کا نہیں ہو سکتا کیونکہ صحیح احادیث سے ہرگز ثا بت نہیں ہو تا کہ آپؐ کے سامنے اس فرشتہ نے کو ئی تحریر رکھی تھی اور کہا تھا کہ اسے پڑھوتا آپؐ جواب دیتے کہ میں پڑھنا نہیں جا نتا بلکہ جو کچھ صحیح اور مرفوع احادیث سے ثا بت ہو تا ہے وہ یہی ہے کہ ایک فرشتہ آپؐ کے سامنے آیا اور اس نے آکر آپؐ سے کہا کہ آپؐ پڑھیں اور کو ئی تحریرآپؐ کے سامنے پیش نہیں کی.چنانچہ بخاری کی جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس فر شتہ نے آپ ؐ کے سامنے کوئی تحریرنہیں رکھی بلکہ صرف ہو شیار کر نے کے لیے کہا ہے کہ پڑ ھ! جیساکہ جب کسی شخص سے کو ئی الفاظ کہلوانے ہوں تو کہلوانے والا عام طور پر کہہ دیا کر تا ہے کہ کہو.پس اس فرشتہ نے بھی یہی آپؐ سے کہا تھا کہ دہراؤ یعنی جو لفظ میںکہتا ہوں ان کو دہرا تے جاؤ.چنانچہ تیسری دفعہ فرشتہ نےمنہ سے ہی الفاظ کہے نہ کہ کو ئی تحریر رکھی.اگر پڑھوانا

Page 655

مدنظر ہو تا اور اس فرشتہ کا آپؐ کو گھونٹنا اس لیے ہوتا کہ آپؐ کو تحریر پڑھنا آجا ئے تو ایسا ہو نا چاہیے تھا کہ وہ آخری دفعہ آپؐ کے سامنے تحریررکھ دیتا اور آپؐ گو پہلے پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن معجزانہ طور پر پڑھنے لگ جا تے لیکن آخری دفعہ فر شتہ کا منہ سے الفاظ کہہ کر آپؐ کو دہرانے کے لیے کہنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اس وقت آپؐ کے سامنے کو ئی تحریر نہ رکھی گئی تھی بلکہ صرف زبانی آپؐ سے ایک عبارت دہرانے کو کہا گیا تھا اور یہ استدلال جو ہم نے کیا ہے اس کے خلاف عبید بن عمیر کی روایت نہیں پیش کی جا سکتی جس میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرما یا کہ میرے سامنے جبریل ؑ نے ایک تحریر رکھی تھی جو دیبا ج پر لکھی ہو ئی تھی.کیونکہ ایک تو یہ حدیث اس پا ئے کی نہیں جس پا ئے کی حدیث بخاری کی ہے پھر یہ مرسل حدیث ہے اس لیے اس روایت کے مقابلہ میں جو اوپر نقل کی گئی ہے،نہیں رکھی جاسکتی.سوم خود عبید بن عمیر کی اپنی روایت میں اس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیان کر تے ہیں کہ جب جبریل ؑنے آپؐ سے کہا کہ پڑھیں.تو آپؐ نے فر ما یا کہ میںکیا پڑھوں؟اور یہ فقرہ کہ میں کیا پڑھوں صاف ثا بت کرتا ہے کہ آپ ؐکے سامنے کوئی تحریر نہ تھی اگر تحریرہو تی تو آپؐ ، کیا پڑھوں ،کا جملہ کیونکر استعمال فرما سکتے تھے.غرض حق یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے اس فرشتہ نے کو ئی تحریر پڑھنے کو نہیں کہا بلکہ یہی کہا کہ آپؐ کہیں(یعنی جو کچھ میں کہوں)اس کے جواب میں آپؐ نے فر مایا کہ میں تو قراءت نہیں جا نتا لیکن اب ایک اَور سوال پیدا ہو تا ہے اور وہ یہ کہ جبکہ آپؐ سے صرف عربی کے بعض فقرات دہرا نے کو کہا گیا تھا تو آپؐ نے کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا حالانکہ یہ کام آپؐ آسانی سے کر سکتے تھے آپؐ کی مادری زبان عربی تھی اور آپؐ اس زبان میں کلام کیا کرتے تھے.پھر آپؐ نے یہ کیوں فر ما یا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا اور نہ آپؐ عربی کے کلمات کے دہرانے سے عاجز تھے کہ کہا جا ئے کہ آپؐ نے اس بات سے بھی انکار کیا بلکہ اصل بات یہی ہے کہ آپؐ نے فر شتہ کو دیکھتے ہی خوب سمجھ لیا تھا کہ یہ کس غرض کے لیے آیا ہے کیونکہ قبل از وقت آپؐ کو رؤ یائے صالحہ کے ذریعہ اس کام کے لیے تیار کر دیا گیا تھا.اور پھر ایک علیحدہ جگہ میں یک لخت ایک شخص کا نمودار ہو نا صاف ظاہر کر تا تھا کہ یہ کو ئی انسان نہیں بلکہ فر شتہ ہے پس آپؐ کے دل میںیہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کو ئی فرشتہ ہے اور مجھے کوئی کا م سپرد کر نے آیا ہے اور آپؐ نے خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نگا ہ کرکے اپنی جبین نیاز خدا تعالیٰ کے آگے جھکا دی اور عرض کیا کہ جو کچھ مجھے پڑھا یا جا نے لگا ہے میں تو ا س لائق نہیں اور یہ جو کچھ آپؐ نے فر ما یا بالکل درست اور بجا تھا.اللہ تعالیٰ کے حضورمیں یہی کلمہ کہنا بجا تھا اور آپؐ

Page 656

نے اس کےفرشتہ کو یہی جواب دیا کہ اس بادشاہ کی خدمت کے میں کہاں لا ئق تھا.شاید کوئی شخص کہے کہ یہ تو جھوٹ تھا آپؐ تولا ئق تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض نا دانی کے با عث ہے جو لوگ جس قدر خدا تعالیٰ کے قریب ہو تے ہیں اسی قدر اس سے خائف ہوتے ہیں اور اس کے جلال سے ڈرتے ہیں.بے شک رسول کریم ﷺ سب سے زیا دہ اس کام کے لا ئق تھے.لیکن ان کا دل سب انسانوں سے زیا دہ خدا تعالیٰ کے خوف سے پُر تھا.پس انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کو دیکھتے ہوئے عذر کیا کہ میں تو اس کام کے لا ئق نہیں.اگر آپؐ اپنے آپ کو سب سے لائق سمجھتے ہو ئے ایسا کہتے تب بے شک آپؐ پر الزام آسکتا تھا بعد کے واقعات نے ثا بت کر دیا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے جبروت اور جلال پر نظر کر تے ہو ئے واقعہ میں اپنے آپ کو اس کی امانت کے اٹھا نے کے قابل خیال نہ کر تے تھے اور یہ بات آپؐ کے درجہ کی بلندی پر دلالت کر تی ہے کہ آپؐ باوجود عظیم الشان طاقتوں کے مالک ہو نے کے خدا تعالیٰ کے جلال پر ایسے فدا تھےکہ آپؐ نے اپنے نفس کی خوبیوں کو کبھی دیکھا ہی نہیں اور اُسی کے جلال کے مطالعہ میں لگے رہے.کیا اس سے بڑھ کر بھی انکسار کی کو ئی اَور مثال دنیا میں موجود ہے؟موسیٰؑ کی ایک مثال قرآن کریم سے معلوم ہو تی ہے لیکن آپؐ کے مقابلہ میں وہ بھی کچھ نہیں کیونکہ گو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھا اور نبوت کے بو جھ اٹھا نے سے انکار کیا لیکن اپنے بھا ئی کی طرف اشارہ کیا.پس انہوں نے اپنی دانست میں ایک آدمی کو اس قابل خیال کیا کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گا لیکن آنحضرتﷺ نے اپنی نسبت عجیب پیرا یہ میں عذر کیا اور کسی کو پیش نہیں کیا جو آپؐ کے عظیم قرب پر دلالت کر تا ہے اور ثا بت ہو تا ہے کہ آپ حضرت موسیٰ ؑسے شان میں افضل تھے کہ آپؐ نے اس امانت کے اٹھا نے کے لیے کسی انسان پر نظر نہیں کی بلکہ صرف اپنی کمزوری کا اقرار کرکے خدا تعالیٰ کے انتخاب پر صاد کیا.غرض آپؐ کا نبوت کے ملنے سے بھی پہلے یہ انکسار کا نمونہ دکھا نا ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کی طبیعت میں ہی انکسار داخل تھا.اور نادان ہے وہ جو خیال کر ے کہ آپؐ نے نبوّت کے سا تھ اس رنگ کو اختیار کیا.اس جگہ ایک اَور با ت بھی یا درکھنی چاہیے کہ انکسار جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے اس کا نام نہیں کہ کو ئی آدمی اپنے آپ کولا ئق سمجھتے ہو ئے کہے کہ میں تویہ کام نہیں کر سکتا.یہ تو جھوٹ ہے اور جھوٹ کبھی اچھی صفت نہیں ہو سکتی،انکسار درحقیقت ایثار کی ایک قسم ہے جو ایک تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ انکسار نام پا تی ہے او ر منکسرالمزاج نہ اس شخص کو کہیں گے جو نالائق

Page 657

ہو کر اپنی نا لائقی کا اقرار کرے اور نہ اسے کہیں گے جو اپنے آپ کو لا ئق سمجھ کر اپنے نالائق ہو نے کا اعلان کرے بلکہ منکسر المزاج وہ شخص ہے جو لا ئق اور صاحب فضیلت ہو کر دوسروں کی خوبیوں پر لیاقت اور فضیلت کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیا قت اور فضیلت اس کی نظروں سے پو شیدہ ہو جا ئے اور ہر موقع پر دوسروں کی لیاقت اور فضیلت ا س کے سامنے آجا ئے اور یہ صفت اس لیے اچھی ہوتی ہے کہ خد اتعالیٰ کے حضور میں تو یہ ادب کا صحیح طریق ہے اور بندوں میں اس کے ذریعہ سے فساد مٹ جاتے ہیں کیونکہ تمام فساد تکبر یا عدم انکسار سے پیدا ہوتے ہیں.تکبر جب لوگوں میں پھیل جا ئے تب تو بہت ہی فساد ہو گا کیونکہ ہر ایک شخص کہے گا مَیں دوسروں سے بڑا ہو جاؤں لیکن اگر تکبر نہ ہو اور انکسار بھی نہ ہو تب بھی فساد ہو جا ئے گا کیونکہ اکثر جھگڑے اسی وقت ہو تے ہیں جبکہ طر فین میں ہر ایک شخص اپنے حق پر اڑا رہے اگر ایک ان میں سے اپنے حق کو ترک کر دے تو پھر سب جھگڑے بند ہو جا ئیں.پس انکسار دنیا کے امن و امان کے بڑھانے میں ایک زبردست آلہ ہے اور ایثار کے سا تھ مل کر فساد کو بیخ وبُن سے اکھیڑ دیتا ہے ورنہ جھوٹ بولنا انکسار نہیں کہلا تا جیسا کہ ان دنوں عام طور پر سمجھا جا تا ہے اورنہ انکسار اس کو کہتے ہیں کہ کو ئی شخص سستی اور غفلت کی وجہ سے کام سے جی چرائے.بعض لو گ جنہیں کام کی عادت نہیں ہو تی سستی سے ان کا پا لا پڑا ہوا ہو تا ہے وہ انکسار کے پردہ میں اپنا پیچھا چھڑا نا چاہتے ہیں لیکن اس کا نام انکسار نہیں وہ غفلت اور سستی ہے.منکسرالمزاج وہی شخص ہے کہ وہ کام کی اہلیت رکھتے ہو ئے پھر خدا تعالیٰ کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا مقرّہو لیکن جب اس کے کام سپرد ہو تو پوری ہمت سے اس کا م کو کرے جیساکہ رسول کریم ﷺ نے کیا کہ باوجود اس انکسار کے جب آپؐ کے سپرد اصلاح عالم کا کام کر دیا گیا تو وہی شخص جو‘‘میں پڑھنا نہیں جانتا’’کہہ کر اپنی کمزوری کا اقرار کر رہا تھا.رات اور دن اس تن دہی سے اس کام کے بجا لا نے میںلگ گیا کہ دنیا دنگ ہو گئی اور کو ئی انسان اس قدر کام کرنے والا نظر نہیں آتا جس قدر کہ آنحضرت ﷺ نے کیا.پس آپؐ کا انکسار سچا انکسارتھا.کیونکہ باوجودلیا قت رکھنے کے آپؐ نے خدا کے جلال کا ایسا مطالعہ کیا کہ اپنی لیاقت کو بھلا دیا اور اللہ تعالیٰ کے نور کو اس طرح دیکھا کہ معلوم کر لیا کہ میری رو شنی در حقیقت اس نور کا سا یہ ہے.غرض آپؐ کے اس جواب سے کہ ‘‘میں پڑھنا نہیں جانتا’’صاف ثا بت ہو تا ہے کہ آپؐ ہمیشہ سے انکسار میںکمال رکھتے تھے اور گو فر شتہ کا آپؐ کو با ر بار چمٹا لینا ایک یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ اس

Page 658

ذریعہ سے آپؐ کو اپنے کمالات پر واقف کیا جانا تھا لیکن میرے نزدیک تو اس کا ایک یہ بھی مطلب تھاکہ جب فرشتہ نے آپؐ کو اس بات کی خبر دی کہ دنیا کو خدا کا کلام سنانے پر آپؐ مامور کیے گئے ہیں تو اس نے دیکھا کہ بجا ئے اس کے کہ یہ شخص خوشی سے اچھل پڑے اور خود اس پیغام کو لے کر چل پڑے اور لو گوں کو فخر یہ سنا ئے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.اس نے تو وہ رنگ انکسار اختیار کیا ہے جو کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا تو اس کا دل محبت کے جو ش سے بھر گیا اور بے اختیار ہو کر ا س نے آپؐ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا جو اَو رمحبت کی لہر کا ایک ظہور تھا جو اس کے دل میں پیداہو گئی تھی اور جب آپؐ کو گلے لگا کر اس نے چھوڑا اور پھر وہی پیغام دیا اور پھر وہی جواب سنا تو محبت کی آگ نے ایک اَور شعلہ مارا اور پھر اس نے آپؐ کو گلے لگا لیا اور اسی طرح تیسری دفعہ کیااور تیسری دفعہ کے بعد آپؐ کے سامنے وحیٔ الٰہی کے الفاظ پڑھے کہ اب تو آپؐ جو کچھ بھی کہیں یہ خدا کی امانت آپؐ کے سپرد ہو گئی ہے اور آپؐ نے بلا چون و چراا سے قبول کیا.لیکن آپؐ کے انکسار کو دیکھو کہ اب بھی تسلی نہیں ہو ئی اس قدر اصرار سے حکم ملتا ہے لیکن بھا گے بھا گے حضرت خدیجہ ؓکے پاس جاتے ہیں اور فر ما تے ہیں کہ مجھے اپنی جان پر ڈر آتا ہے.اے نبیوں کے سردار ! اے انسانی کمالات کے جامع!اے بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی رہ نما! تجھ پر میری جان قربان ہو.تو اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کر تا ہے اور یہی خیال کر تا ہے کہ میں اس قابل کہاں جو اس وَحْدَہٗ لَا شَریْککے پیغام کا اٹھا نے والا بنوں.فرشتہ تا کید پر تا کید کر تا ہے اور پیغام الٰہی آپؐ تک پہنچاتا ہے لیکن باوجود اس کے آپؐ ابھی تک اپنے حُسن سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور بار بار یہی فر ما تے ہیں کہ میں اس قابل کہاں حتّٰی کہ گھر آکر اپنی غم گسار حضرت خدیجہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ میں اپنی جان پر خائف ہوں.چو نکہ یہ فقرہ بھی اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے اس لیے اس کے سمجھانے کے لیے بھی تشریح کی ضرورت ہے.الہام انسان کو دو طرح ہو تے ہیں کبھی ترقی کے لیے کبھی حجت کے لیے.یعنی کبھی تو خدا تعالیٰ انسان کو اس کے درجہ کے بلند کر نے کے لیے مخاطب فر ما تا ہے اور کبھی اس پر حجت قائم کر نے کے لیے چنانچہ بہت سے لو گ جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص قرب نہیں رکھتے ان کو بھی الہام ہو جا تے ہیں اور و ہ نادانی سے اس پرا ِترا جا تے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے آزمائش اور ان پر حجت ہو تے ہیں.اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ بجا ئے ان الہامات سے فائدہ اٹھا نے کے وہ فخرو تکبر میں پڑ جا تےہیں اور آخر ہلاک ہوجاتے ہیں.رسول کریم ﷺ بھی چونکہ تواضع

Page 659

کے عالی مقام پر پہنچے تھے.جب آپؐ کو الہام ہوا تو آپؐ گھبرا ئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ کلام مجھ پر بطور آزمائش اورحجت نازل ہوا ہو اور یہ اپنا خوف حضرت خدیجہؓ کے آگے بیان فر ما یا جس پر انہوں نے آپؐ کو تسلی دلا ئی اور بتایا کہ جو اخلاق آپؐ کے ہیں اور جس مقام پر آپؐ ہیں کیا ایسے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ ضائع کر تا ہے اور اپنا یقین ظاہر کر نے کے لیے انہوں نے قسم کھائی کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان کبھی ضا ئع نہیں ہو سکتا.حجت اور آزمائش کے لیے تو ان کے الہام ہو سکتے ہیں جن کے اعمال میں کمزوری ہو یا متکبر ہوں.جو شخص آپؐ جیسا غریبوں کا خبر گیر اور اخلاق حسنہ کا ظا ہر کر نے والا ہے کیا ان کو اللہ تعالیٰ تباہ کر سکتا ہے غرض حضرت خدیجہؓ کا جواب ظا ہر کر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں.اس کایہی مطلب تھا کہ مجھے خوف ہے کہ میری آزمائش نہ ہو جس پر انہوں نے تسلی دی کہ آپؐ آزمائش کے مقام سے با لا ہیں.آپؐ پر یہ الہامات خدا تعالیٰ کے انعامات کے طور پر نازل ہو ئے ہیں چنانچہ آئندہ کی وحی نے آپؐ پر روز روشن کی طرح کھول دیا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے مقبول تھے اور آپؐ نے اپنے طریق عمل سے بتا دیا کہ آپؐ کا کہنا کہ ‘‘میں کہاںاس الہام کا سنانے والا ہو سکتا ہوں’’ صرف تواضع کے طور پر تھا نہ کہ بو جہ سستی اور ڈر کے کیونکہ جس جرأت اور زور سے آپؐ نے کام کیا اس کی نظیر کسی نبی میں بھی نہیں تھی.طہا رۃ النّفس.سخت کلامی سے پر ہیزکسی کو گا لی دینے یا برا کہنے سے اس انسان کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن پھر بھی انسان با لطبع اپنے دشمن کےخلاف سخت الفاظ استعمال کر تا ہے اور ابتدائے عالم سے یہ مرض بنی نوع انسان میں چلی آئی ہے.اس میں کو ئی شک نہیں کہ گا لی دینا ایک لغو کام ہے.سخت کلامی کر نا ایک فضول حرکت ہے مگر اس کے لغو اور فضول ہو نے کے باوجود گا لی دینے والے گالیاں دیتے ہیں اور سخت کلامی کرنے والے سخت کلامی کر تے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ انسان کو جب غصہ یا جوش آئے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا اظہار کرے اور بہت دفعہ جب اس کے غصہ کی کو ئی انتہا ء نہیں رہتی اور جوش سے اس کی عقل ماری جا تی ہے تو وہ عام الفاظ میں اپنے غصہ کا اظہارنہیں کرسکتااور جب دیکھتا ہے کہ الفاظ میں میرے غصہ کا اظہارنہیں ہوسکتا تو پھر ایسے الفاظ بو لتا ہےکہ جو گو اس غصہ کے اظہار کر نے والے نہ ہوں لیکن ان سے یہ ثابت ہو کہ اس شخص کو سخت طیش ہے چنانچہ اس لئے سخت طیش میں تمام برا ئیوں کو انسان اپنے دشمن یا دکھ دینے والے کی طرف منسوب کر تا ہے حالا نکہ وہ سب برائیاں

Page 660

اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتیں لیکن اصل منشا گا لی سے کمال طیش کا اظہا ر ہو تا ہے گو یا گا لی دینا بھی ایک قسم کامجاز ہو تا ہے جس کے ذریعہ انتہاءغضب کا اظہار کیا جاتا ہے.جو لوگ نہایت غصیلے ہوتے ہیں اور ذرا ذرا سی با ت پر ان کا نفس جو ش میں آجاتا ہے وہ گالیاں بھی زیا دہ دیتے ہیں اور جو لوگ جس قدر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اسی قدر گالیوں سے بچتے ہیں کیونکہ ان کو اس قدرغصہ نہیں آتا کہ جس کو وہ عام الفاظ میں ادا نہ کر سکیں اور اگر آئے بھی تب بھی وہ اپنے نفس کو جھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ گالیاں درحقیقت ایک کمزوری ہے اور سخت طیش کے وقت انسان سے اس کا ظہور ہو تا ہے اور اس کا کو ئی فا ئدہ بھی نہیں ہو تا.صرف گالی دینے والے کے لیے ان خیالات کا اس سے پتہ چلتا ہے جو وہ اس کے متعلق رکھتا ہے جسے گالی دیتا ہے.غرض گا لی دینے سے کو ئی فا ئدہ حاصل نہیں ہو تا ہاں ایک پر غضب طبیعت کے جوش کا اظہار اس سے ہو جا تا ہے مگر پھر بھی اکثر لو گ غضب میں گالیاں دیتے ہیں چنانچہ بعض لوگ جو عام طور پر نرم طبیعت رکھتے ہیں جب ان کو بھی غصہ آ جا ئے تو اپنے مخالف کے حق میں گا لی دے دیتے ہیں اور جب کسی شخص سے سخت تکلیف پہنچے تب تو بڑے بڑے صابروں کے منہ سے بھی گا لی نکل جا تی ہے چنانچہ مسیح ناصر یؑ جیسا صابر انسان جس کی زندگی اس کے صبر اور اس کی استقامت پر دلالت کر تی ہے اور جس نے اپنے دشمنوں سے بڑی بڑی سخت مصیبتیں بر داشت کرکے بھی ان کے حق میں کو ئی سخت کلمہ نہیں کہا.اسے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جب اس کے دشمنوں کی شرارت حد کو پہنچ گئی اور حملہ پر حملہ انہوں نے اس پر کیا تو آخر تنگ آکر ایک دن اسے بھی اپنے دشمنوں کے حق میں کہناپڑا کہ سانپوں کے بچےمجھ سے معجزہ طلب کر تے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح ؑ کے مخالف تھے وہ انسانوں کے بچے تھے لیکن ان کی شرارتوں نے حضرت مسیح ؑ کو اس قدر دق کیا کہ آخر تنگ آکر ان الفاظ میں انہیں اپنے غصہ کا اظہار کر نا پڑا.اسی طرح ایک دفعہ اپنے حواریوں سے جو ایک دفعہ ان کو سخت تکلیف پہنچی تو اپنے ایک حواری کو انہوں نے شیطان کے لفظ سے یا د کیا حالانکہ وہ وہی حواری تھا جسے انہوں نے خود اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا.غرض حضرت مسیح ؑ کی مثا ل سے یہ با ت صاف ہو جا تی ہے کہ کبھی بڑے سے بڑا صابر انسان بھی دشمن کی شرارت سے تنگ آکر ایسی گا لی دے بیٹھتا ہے.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وہ شا ن عطا فر ما ئی تھی کہ آپ ؐ کی زبان پر کبھی گا لی نہیں آئی حالانکہ جو مخالفت آپ ؐکی ہو ئی اورجو تکلیف آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کو دی وہ اس حد کی تھی کہ اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی تکلیف نہیں پیش کی جا سکتی

Page 661

لیکن باوجود اس کے کہ آپ ؐ کے مخالفوں نے ہر طرح سےآپ کو دق کیا اور تئیس سا ل متواتر بلا وجہ آپؐ کو دکھ دیتے رہے اور ان کے ہا تھ روکنے والا بھی کو ئی نہ تھا او رحضرت مسیح ؑ کے زمانہ کی طرح کو ئی حکومت نہ تھی جس کے قانون سے ڈر کر اہل مکہ رسول کریم ﷺ کو ستا نے میں کو ئی کمی کر تے اور وہ قوم بھی حضرت مسیح ؑکی قوم سے زیادہ سخت تھی لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے منہ پر کبھی گا لی نہیں آئی.ایک دو دن کی تکلیف ہو تو تب بھی کو ئی بات تھی.سب کہہ سکتے تھے کہ آپ ؐ نے جبر کرکے اپنے آپؐ کورو کے رکھا.ایک دو ماہ کی با ت ہوتی تب بھی کہہ سکتے تھے کہ تکلیف اٹھا کر خاموش رہے ایک دو سال کا معاملہ ہو تب بھی خیال ہو سکتا تھا کہ اپنے نفس کو مار کر اپنی زبان کو بند رکھا لیکن تئیس سا ل کا لمبا عرصہ جو تکالیف و مصائب سے پر تھا ایک ایسا عرصہ ہے کہ اس عرصہ میں کسی انسان کا ان تکالیف کو بر داشت کرتے ہوئے اور ان عداوتوں کو دیکھتے ہو ئے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھنی اور بر داشت کر نی پڑیں ہر قسم کی سخت کلامی سے پر ہیز کر نا او رکبھی فحش گو ئی کی طرف مائل نہ ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ انسان کو ئی عجیب انسان تھا اور نہ صرف عام انسانوں سے برتر تھا بلکہ دوسرے نبیوں پر بھی فضیلت رکھتا تھا.کیونکہ جہاں اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا وہاں دوسرے نبی بھی نہ رکھ سکے.مجھے اپنے اس بیان کے لئے کسی ایک واقعہ سے استدلال کر نے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس معاملہ میں ایک ایسے شخص کی شہا دت موجود ہے جو دس سال متواتر آپ ؐ کے ساتھ رہا اور یہ حضرت انسؓ ہیں وہ فر ما تے ہیں کہ لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا،وَ لَالَعَّانًا،وَلَا سَبَّابًا،کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْمَعْتَبَۃِ: مَالَہُ تَرِبَ جَبِیْنُہٗ(بخاری کتاب الادب باب ما ینھی من السباب واللعن)یعنی رسول کریم ﷺ نہ تو گا لی دینے کے عا دی تھے،نہ فحش کلام کے عادی تھے،نہ لعنت کیا کر تے تھے،جب آپ ؐ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا تو آپؐ صرف اس قدر فر ما دیا کر تے تھے کہ اسے کیا ہوا ہے اس کے ماتھے پر مٹی لگے.یہ گواہی ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو کہ آپؐ کے سا تھ آپ ؐ کی عمر کے آخری حصہ میں جس میں سے پہلا حصہ آپ ؐ کی تکلیف کے زمانہ میں سے سب سے سخت زمانہ تھا رہا ہے اور پھر آپؐ کی عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ایام جوانی گزر کر بڑ ھا پا آگیا تھا اور پڑ ھاپے میں عام طور پر انسان کی طبیعت چڑچڑی ہو جا تی ہے لیکن باوجود اس کےوہ گواہی دیتا ہے کہ اس دس سال کے تجربہ سے اسے معلوم ہوا ہے کہ آپؐ نہ تو کبھی کسی کو گا لی دیتے نہ کبھی آپ ؐ کے منہ سے کو ئی فحش کلمہ نکلتا اور نہ کبھی کسی شخص پر لعنت کر تے.ہا ں حد سےحد غصہ

Page 662

میں ا س قدر کہہ دیتے کہ تیرے ماتھے کو مٹی لگے او ریہ فقرہ گا لی کا فقرہ نہیں بلکہ یہ الفاظ عرب لو گ پیارسے بھی کہا کر تے ہیں اور گوعام طور پر ان کا استعمال مہمل جملوں کے طور پر ہو تا ہے لیکن کبھی یہ الفاظ محبت کے اظہا ر کے لیے بھی استعمال کئے جا تے اور ان سے یہ مفہوم لیا جا تا ہے کہ اس کی یہ شوخی دور ہو کیونکہ ما تھا تکبر کی علا مت ہے اور اس کو مٹی لگنے سے یہ مرا د ہے کہ اس کا یہ تکبر دور ہو.٭…٭…٭ نوٹ : اخبار الفضل میں یہ سلسلہ مضامین یہاں تک ہی شائع ہوا تھا لیکن سیرت کے مضمون پر حضور کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں.(مرتب) بخاری کتاب المغازی باب غزوة أحد میں ’لنا غزّی ‘‘ کی بجائے الغزي ‘‘اور ’’لنا مولیٰ‘‘ کی بجائے ’’الله مولانا‘‘ کے الفاظ ہیں.

Page 663

Page 664

اسلامی نماز (نماز اوراس کے ضروری مسائل) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد

Page 665

Page 666

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اسلامی طریقِ عبادت اس مختصر مضمون سے میری غرض یہ ہے کہ یورپ کے ان نیک دل اور من پسند لوگوں کو جواپنی خد اداد عقل اور دانائی سے اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اسلام کے متعلق اس وقت تک جو کچھ ہم کو سنایا گیا ہے چرچ کے ایجنٹوں کے تعصب کا نتیجہ ہے اور جو اسلام کے متعلق تازہ اور سچی اطلاع حاصل کرنا چاہتے ہیں اسلام کے اس لا ثانی اصل کی نسبت واقفیت بہم پہنچاؤں جسے اسلام کے عملی حصہ کا پہلا اصل کہاجاتا ہے.میری مراد اس سے نماز ہے.مگر پیشتر اس کے کہ میں پورے طور پر نماز میں ایک مسلمان کو جو کچھ کرنا پڑتا ہے بیان کروں اور اس کے ادا کرنے میں جو عبارتیں اس کو کہنی پڑتی ہیں ان کا ترجمہ لکھوں دو ضروری امور کا بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں عبادت کی غرض اول امر عبادت کی غرض ایک طرف تو اس پاک ہستی کے حضور اپنے جذبات شکر کا اظہار ہوتا ہے جسےعربی زبان میں اللہ اور انگریزی میں گاڈ(D GO)کہتے ہیں.کیونکہ انسان فطرتا ًاپنے محسن کا شکریہ اداکرنے پر مجبور ہوتا ہے.جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جبلت القلوب على حب من أحسن إليها انسانی دل کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرنے پر مجبور ہو تا ہے.پس نماز کی

Page 667

ایک بہت بڑی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے رب کے سامنے اس کے احسانوں کا اپنی زبان سے اقرار کرتا رہے.مگر اس کے علاوہ عبادت کی ایک اور بھی غرض ہے اور وہ گناہوں اور بدیوں سے پاک کرناہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانی عبادتوں کا محتاج نہیں بلکہ جس قدر احکام اس نے انسان کو دیئے ہیں ان میں اصل غرض اس کا پاک کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ ناپاک سے تعلق نہیں رکھ سکتااور پسند فرماتا ہے کہ اس سے تعلق کرنے والا بھی پاک ہو پس تمام عبادات میں یہ مد نظر رکھا گیاہےکہ ان سے نفس انسانی بدیوں اور شرارتوں سے پاک ہو اور ان کے ذریعہ اسے ایسی طاقت مل جائے کہ وہ مختلف قسم کی ہوا و ہوس کو چھوڑنے کے قابل ہو جائے اور ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلقات درست ہو جائیں اور دوسری طرف مخلوق الہٰی سے بھی اس کے معاملات بالکل ٹھیک ہوں.چنانچہ اسلام نے مذہب کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ وہ بندہ کے خدائے تعالیٰ سےتعلقات کو مضبوط کرتا ہو اور بندوں سے اس کے تعلقات کو سنوارتا ہو.اور اگر کوئی مذہب ان دونوں باتوں میں سے ایک کے پورا کرنے سے بھی قاصر ہے تو وہ مذہب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سےمذہب کی ضرورت پوری نہیں ہوتی.پس جس قدر عبادات مقرر کی جاتی ہیں ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ بندہ کو خدا تعالیٰ کے نزدیک کردیا جائے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت پیدا کی جائے اورجو عبادت ان دونوں باتوں کے حصول کے ذرائع پیدا کرے وہی مفید عبادت ہے ورنہ اس میں مشغول ہو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے.قرآن شریف نے اس مضمون کو یوں اداکیا ہے.ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر (النكبوت : ۷۶) نماز بدیوں اور گناہوں سے روکتی ہے یعنی عبادت کی غرض کو پورا کرتی ہے.

Page 668

دوسراامر عبادت کی غرض کے پورا کرنے کے لئے کن باتوں کی ضرورت ہے جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کی اصل غرض اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا اس کا شکر ادا کرنا اورنفس کی اصلاح کرنا ہے تو جس طریق عبادت سے یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہوں وہی عبادت سچی عبادت ہے.اور اس عبادت کی طرف ہدایت کرنے والا مذہب ہی سچامذ ہب ہے.اسلام نے اپنےپیرؤوں کے لئے جو طریق عبادت رکھا ہے اس میں ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے جو زریعےاستعمال کئے ہیں وہ اور کسی مذہب نے نہیں کئے اور ہر ایک انسان ذ راغورسے کام لے کر معلوم کرسکتا ہے کہ وہی ذرائع اس قابل ہیں کہ عبادت کی غرض کو پورا کر سکیں-وہ ذرائع یہ ہیں.جسم و روح کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ ایک کا اثر دو سرے پر پڑتا ہے.جس طرح غم کی خبر سن کرجسم ایسا متاثر ہوتا ہے کہ اس پر اداسی کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح جسم کو جب کوئی صدمہ پہنچتا ہے تو روح بھی غمگین ہو جاتی ہے اور یہی حال خوشی کا ہے.پس قلب کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک یہ بھی طریق ہے کہ عبادت کے وقت جسم کو بھی کسی ایسی حالت میں رکھا جائے جس سے تذلل پیدا ہو اور اس کا اثر روح پر پڑ کردل میں بھی رقت اور نرمی پیدا ہوجائے اور انسان خدائے تعالیٰ کی طرف ایک جوش کے ساتھ متوجہ ہو جائے.تذلل کے اظہار کےلئے دنیا میں مختلف صورتوں کو اختیار کیا گیا ہے کسی ملک کے لوگ جھک جاتے ہیں کسی ملک میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا تذلل کا نشان قرار دیا گیا ہے کسی میں گھٹنوں کے بل گرنے کو کسی میں سجدہ کرنےکو.اسلام چونکہ خالق فطرت کی طرف سے ہے اس نے تمام فطرتوں اور عادتوں کا خیال رکھتےہوئے نماز میں ان سب نشانات کو جمع کر دیا ہے اور مختلف المذاق لوگ جس جس حالت میں بھی تذلل کا اظہار کرتے ہیں نماز ان کے مذاق کے مطابق ہے.اور ان مختلف اشکال تذلل کے اثر سےانسانی قلب جوش سے بھر جاتا ہے.اور خدائے تعالیٰ کے حضور میں جھک جاتا ہے.درحقیقت وہ ایک قابل دید نظارہ ہو تا ہے.جب ایک مسلمان رب العالمین خدا کے حضور کبھی ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے کبھی جھک جاتا ہے.کبھی ہاتھ کھول کر کھڑا ہو جاتا ہے.کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے، کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہے اور اس کا دل اس محبت سے پر ہوتا ہے جو ایک مخلوق کو خالق سے ہو سکتی ہے

Page 669

اور وہ زبان حال سے اقرار کرتا ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام میں جس طریق میں بھی اپنی عبادت کااظہار کرتی ہیں اے خدامیں تیرے سامنے مجموعی طور پر ان سب طریقوں سے اپنی عبودیت کا اقرارکرتا ہوں.یہ نظارہ نماز ادا کرنے والے کو ہی نہیں بلکہ اس کے دیکھنے والے کے دل کو بھی متاثر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکادیتاہے.نماز دعاؤں کا مجموعہ ہےدوسرا اصل اسلام نے نماز کی غایت کو حاصل کرنے کا یہ تجویز کیاکہ دعا و نماز کا مغز قرار دیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے.الدعا مخ العبادة (ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء) دعا نماز کا مغز ہے اور دعا اپنے اندر ایک ایسا مقناطیسی اثر رکھتی ہے کہ ایک طرف تو بندے کواللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے اور دوسری طرف اس کے لئے ایسی آسانیاں بہم پہنچادیتی ہے کہ جن سے وہ گناہوں سے محفوظ رہ سکے.جب ہماری استدعاؤں اور التجاؤں کو والدین اور حکام دنیاقبول کرتے ہیں تو کیونکر خیال کیا جائے کہ خدائے تعالیٰ جو سب مہربانوں سے زیاد وہ مہربان ہے اپنےبندوں کی دعاؤں کو رد کر دے گا.پس نماز کیا ہے دعاؤں کا ایک مجموعہ ہے جس سے ایک طرف تواللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف دعائیں قبولیت حاصل کر کے انسان کی ہدایت اور ترقی کا زریعہ بن جاتی ہیں.تعلق باللہ تیسرا طریق اسلام نے یہ بتایا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی طاقتوں کا معائنہ کیا جائے.کیونکہ جب تک کسی چیز کا کامل علم انسان کو نہ ہو اس سے اس کا تعلق مکمل نہیں ہو سکتا.مثلا ًجس انسان کو علم کی خوبی معلوم نہیں وہ اس کے حصول کی کوشش نہیں کر سکتا اسی طرح جو شخص زہر کے اثر سے ناواقف ہے وہ زہر سے نہیں ڈرسکتاپس اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے اور بدیوں سے بچنے کے لئے اس بات کی نہایت ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت ہو جس کے لئےاسلام نے نماز میں ایسی عبارتوں کا پڑھنا ضروری رکھا ہے.جن سے انسان پر اللہ تعالیٰ کاپر جلال اورقابل محبت ہو نا ظاہر ہو تا ہے اور وہ بے اختیار اس کے حضور گر جاتا ہے اور اس کا دل محبت اورخوف سے بھر جاتا ہے.کیونکہ جب اس کے سامنے ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ کے احسانات پیش کئے جاتے ہیں اور نافرمانی اور قطع تعلق کے نتائج سے آگاہی دی جاتی ہے تو اس پر ایک ایسی انقطاعی حالت طاری ہوتی ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے.چنانچہ ناظرین نماز کے ترجمہ سے معلوم کر سکیں گے کہ اس بات کو کسی حد تک ملحوظ رکھا گیا ہے اور کس طرح نماز میں انسان کو

Page 670

خدائے تعالیٰ کی پاک اور بے عیب ذات کی معرفت پیدا کر کے اس کے دل کو محبت الہٰی سے بھرنےاور بدیوں سے بچنے کی سہولتیں بہم پہنچائی گئی ہیں.جس کی نظیر اور کسی مذہب میں نہیں مل سکتی.اسلام نے جو طریق عبادت بتایا ہے وہ ایسامکمل اور ضرورت کے مطابق ہے کہ کوئی مذہب اس کامقابلہ نہیں کر سکتا اور اگر کوئی شخص اسلام کی اس عبادت کاہی بنظرِ غائر مطالعہ کرے تو سمجھ سکتاہے کہ اسلام کو دوسرے مذاہب پر کس قدر فضیلت ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اس موضوع پرتفصیل سے نہیں لکھ سکتا کیونکہ میری غرض اس مختصر مضمون سے نماز کے اداکرنے کا طریق بتانا ہے.طريق وضونماز شروع کرنے سے پہلے مسلم کیا کرتا ہے ؟ مسلمان جب نماز ادا کرنے کے لئےکھڑا ہو تا ہے تو اسے ایک تیاری کرنی پڑتی ہے جسے وضو کہتے ہیں وضو اس طرح کیاجاتا ہے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر تین دفعہ کلی کی جائے پھر تین دفعہ ناک میں پانی ڈالا جائے اس کے بعد تین دفعہ ہاتھ میں پانی لے کر منہ دھویا جائے اس کے بعد پہلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کہنیوں تک دھویا جائے.پھر ہاتھ تر کر کے تین انگلیوں کو سر پر پھیرا جائے جس کے بعد انگوٹھے کے ساتھ کی انگلی کو کان میں اور انگوٹھے کو کان کے باہر پھیرا جائے.پھر پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں دھویا جائے اس تمام کام کو وضو کہتے ہیں* اور یہ نماز سے پہلے ضروری ہو تا ہے.طریق نمازوضو کے بعد مسلم کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے ، اور الله أكبر(اللہ سب سے بڑا ہے کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر اپنے سینہ *وضو سے ایک غرض یہ ہے کہ وہ اعضاء جو عام طور پر ننگے رہتے ہیں ان کو دھویا جائے اور ظاہری صفائی کر کے عبادت ادا کی جائے.جس سےاس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب عبادت میں ظاہری پاکیزگی کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے تو باطنی طہارت کا ایک مسلم کو کس قدر خیال رکھناچاہئے اور کس طرح اپنے دل کو گناہوں سے پاک کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا چاہئے.* کعبہ کی طرف منہ کر اس وجہ سے نہیں ہے کہ اسے مسلمان قابل عبارت قرار دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کےوقت دعا کی تھی کہ الہٰی اس ملک میں ایک نبی مبعوث کر جو ان کی ہد ایت کرے اور ان کو پاک کرے سوچو نکہ آنخضرت ﷺ کود عویٰ تھاکہ آپ وہ نبی ہیں اس لئے نماز میں اس طرف منہ کرنے کی یہ حکمت ہے کہ مسلمانوں کو وہ وعده یاد آتا رہے اور وہ اپنے اعمال کو درست کرتےرہیں.ورنہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(البقرہ :۱۷۸) ترجمہ.نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو (یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنے کو نیکی سمجھو) بلکہ نیکی تو اس کام میں ہے جواللہ پر اور قیامت پر اور ملائکہ پر اور کتاب پر اور سب نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور باو جود مال کی محبت کے رشتہ داروں یتیموں مسکینوں مسافروں سوالیوں اور قیدیوں کی دستگیری کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے لئے بدنی عبادتیں بجالاتا ہے اور اس کے راستہ میں مال دیتا ہے اور ان کے کاموں میں جو لوگ جب عہد کرتے ہیں تو انہیں پورا کرتے ہیں اور جو لوگ مالی تنگیوں بیماریوں اور جنگوں میں صبر سے کام لیتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور یہی لوگ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں.منہ

Page 671

پر رکھ لیتا ہے.دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جاتا ہے.اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے بائیں ہاتھ کو کہنی کے قریب سے پکڑ لیتا ہے.اس وقت سے اسے کسی سے بولنا یا ادھر ادھر دیکھنا یا اپنی جگہ سے ہلنا منع ہے.جب تک نماز ختم نہ کرے.ہاتھ سینے پر رکھنے کے بعد وہ کہتا ہے.سبحانك اللهم وبحمدک و تبارك اسمک توتعالیٰ جدك ولا الہ غیرک ترجمہ.اے الله تو پاک ہے اور حمد کا مستحق ہے اور تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.اس کے بعد کتنا ہے أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے جو کہ در گاہ الہٰی سے دور پھینکا گیا ہے.اس کے بعد نماز ادا کرنے والا قرآن شریف کی سب سے پہلی سورۃ پڑھتا ہے جسے سورة فاتحہ کہتےہیں اور وہ یہ ہے بسم الله الرحمن الرحيم اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ ترجمہ.میں شروع کرتا ہوں اللہ کا نام لے کر جو بے محنت دیتا ہے.(جیسے سورج کی روشنی یاہوا )اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو کل مخلوقات کی ربوبیت کرتا ہے.ہر قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے وہ بغیر محنت کے بھی انعام کرتاہے اور محنت کا اجر بھی بڑھ چڑھ کردیتا ہے.کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا اور نیکی اور بدی کے نتائج اسی کے حکم کے ماتحت مرتب ہوتے ہیں اور (میں کہتا ہوں کہ اے وہ خدا جس کا میں نے ذکر کیا ہے) ہم تیری ہی فرمانبرداری کرتے ہیں.اور تجھ ہی سے اپنے ہر ایک کام میں مدد مانگتے ہیں تو ہمیں ہر کام میں سید هاراستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انجام ہوا ہے اورایسامت کیجیو کہ ہم تیرے پیارے بن کر بھی کسی وجہ سے تیرے غضب کو اپنے اوپر بھڑکالیں یا خود ہی مجھے چھوڑ کر ادھر ادھر متوجہ *قرآن شریف کے کسی حصہ کے پڑھنے سے پہلے اس دعا کے مانگنے کا حکم ہے.منہ

Page 672

ہو جائیں *اس سورة کے پڑھنے پر مسلم کہتا ہے آمین.یعنی الہٰی میری اس دعا کو قبول فرما.اس کےبعد نماز پڑھنے والا قرآن شریف کا کوئی حصہ پڑھتا ہے خواہ تھوڑاخواہ زیادہ پھر وہ اپنے ہاتھ چھوڑکر کہتا ہے الله أكبر (اللہ سب سے بڑا ہے) اور جھک جاتا ہے.حتّٰی کہ اس کا سر اور کرایک لیول میں آجاتے ہیں اور وہ اپنے ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑ لیتا ہے.اور کم از کم تین دفعہ یہ الفاظ کہتا ہے.سبحان ربي العظيم میرا بڑی عظمتوں والا رب پاک ہے.پھر یہ الفاظ کہتا ہوا کھڑا ہو جا تا ہے اوراپنے ہاتھ اپنے پہلوؤں کے ساتھ لٹکا دیتا ہے.سمع الله لِمَن حَمِدہ، جو شخص اللہ تعالیٰ *ہر ایک مذہب نے اپنے پیرؤوں کے لئے ایک آئیڈیل مقرر کیا ہے.مگر اسلام کا آئیڈیل سب سے اعلیٰ ہے.جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتاکیونکہ اس دعا میں مسلمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ صراط الذین انعمت علیھم کی دعا کرے یعنی ده الله تعالیٰ سے دعامانگے کہ اسے وہی درجہ دیا جائے جو منعم علیہ گردہ کو ملا.ایک دوسری جگہ منعم علیہ کا ذکر فرماکر قرآن شریف نے بیان فرمایا ہے کہ اس سے مراد انبیاء اور صدیق اورشہداء اور صالحین کا گروہ ہے.ایک دوسری جگہ قرآن شریف میں ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ (المائده :ا۲) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرد (یعنی اس وقت کو) جب تم میں انبیاء بھیجے اور تمہیں بادشاہت عطا کی اور تم کو دیا ہو اور کسی کو نہیں دیا تھا.اسی طرح اور جگہوں پرفرمایا ہے کہ منعم علیہ سے مراد انبیاء ہیں.پس اسلام نے ہر ایک مسلمان کا آخری منتهاء نظر نبوت رکھی.یعنی وہ دعا کرتا رہے کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نبیوں کے سلسلہ میں داخل کردے یہ وہ آئیڈیل ہے.جو اور کسی مذہب نے مقرر نہیں کیا بلکہ ہر ایک مذہب الہام کادروازہ بند کر چکا ہےاور صرف اسلام ہی ہے.جو اپنے پیروؤں کو سکھاتا ہے کہ الہام کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا اور یہ ممکن نہیں کہ جو خدا کسی زمانہ میں بولتا تھا اوربنی اسرائیل کے مردوں اور عورتوں سے کلام کرتاتھا اب اس نے اپنی مخلوق کی ہدایت بند کردی ہے اور کلام کرنا بند کردیا ہے اور یہ ایک ایسا آئیڈیل ہے جو باہمت انسان کو ہروقت اوپر اور اوپر اٹھاتا ہے.اور بجائے کسی ادنی ٰ خیال کے اس کے مد نظر یہ ہوتا ہے کہ میں اس خالق ارض و سماء سے جو بادشاہوں کابادشاہ اور محبت کامل کا مالک ہے ہم کلام ہو سکتا ہوں چنانچہ مسلمانوں نے اس آئیڈیل کو مد نظر رکھ کر ہمیشہ ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں اور ایک عظیم الشان ملہم کی تو آنحضرت ﷺنے خبر بھی دے دی تھی جس کانام اپنے مہدی اور مسیح رکھا ہے مہدی اس لحاظ سے کہ وہ اس وقت کے مسلمانوں کو جو دین اسلام کی حقیقت کو بھول کر گمراہی میں پڑ جائیں گے اوران کے اعمال و اقوال کو دیکھ کر کوئی شخص اسلام کی خوبیوں کا پتہ نہ لگا سکے گادرست کرے گا اور یہ اس لحاظ سے کہ وہ مسیح کی دوبارہ آمد کی پیشگوئی کو پورا کرے گا اور مسیح دنیاکو جو مسیح کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ چکی ہوگی راه راست پر لائے گا.چنانچہ وہ شخص ہندوستان کے مقام قادیان میں ظاہر بھی ہو چکا ہے اور اپنے دعویٰ کی تیسں سالہ زندگی میں اس نے خدائے تعالیٰ کے تازہ نشانات سے اسلام کی صداقت کو ثابت کردیا ہے اور اس کی تربیت سے اس وقت اس کے مریدوں میں سے ہزاروں ہیں جو خدا تعالیٰ کے الہام سے مشرف ہیں اوراس نے اپنی جماعت میں تبلیغ کی ایک ایسی روح پیدا کردی ہے کہ وہ بہت جلد دنیا کو اپنے اندر شامل کر رہے ہیں.در حقیقت الہام کا ہرزمانہ میں جاری رہنے کا اعلان ایک ایساہمت افزا مژدہ ہے جس کی وجہ سے ایک سچے مسلمان کی ہمت کبھی شکست نہیں |ہوتی اور یہ بات مختلف مذاہب میں فیصلہ کرنے کا ایک آسان راہ ہے کیونکہ سچامذہب وہی ہوسکتا ہے جو ہمیشہ ثمرات دیتا ر ہے.اور مذہب کاثمرہ الہام ہی ہے پس اسلام نے اپنے پیرؤوں کامنتهائے نظر دوسرے مذاہب کی نسبت بہت اعلی رکھا ہے جو کہ فطرت کے تقاضا کو پورا کرتاہے.دہریوں کا سب سے بڑا اعتراض بھی مذہب پر یہی ہوا کرتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کسی سے کلام کیوں نہیں کرتا لیکن اسلام پروہ یہ اعتراض | نہیں کر سکتے کیونکہ وہ پرانے قصےنہیں سنا تا بلکہ اب بھی اس زمانہ کے امام اور مصلح کے تربیت یافتہ ایسے موجود ہیں جو خدا سے الہام پاتےہیں.اگر کوئی صاحب اس مسیح و مہدی کے حالات سے زیادہ واقفیت بہم پہنچانا چاہیں تو ہم بڑی خوشی سے ایساکر سکتے ہیں وہ اس پتے پر خط و کتابت کریں.منہ مرزا بشیر الدین محمود احمد قادیان ضلع گورداسپور *ہم نے قرآن شریف کے چند کھڑے ایک دوسری جگہ دئیے ہیں تاکہ وہ لوگ جو سارا قرآن شریف میں جانتے ان کو نماز میں پڑھ سکیں.منہ

Page 673

کے محامد کا اقرار کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.پھر کہتا ہے ربنا ولک الحمد حمدا كثيرا طيبا مبار کا فیہ اے ہمارے رب تو خوبیوں والا ہے بہت خوبیوں والا ہے جو پاک اور برکت والی ہیں پھر الله اكبر کہتا ہؤا سجدہمیں گرجاتا ہے.اور کم از کم تین دفعہ یہ الفاظ کہتا ہے سبحان ربی الاعلی میرا بڑی شان والارب پاک ہے پھرالله اکبر کہتاہؤ ااٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہے اور دائیں پاؤں کو انگلیوں کے بل کھڑا رکھتا ہے لیکن بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا کر اس پر بیٹھ جاتا ہے.اور کہتا ہے اللهم اغفرلی وارحمني واهدنی وعافني وارفعنی اجنووارز قنی اے اللہ میرے گناہوں کو بخش اور مجھ پر رحم کر اور مجھے ہدایت دے اور ہر ایک شے محفوظ رکھ اور مجھےعزت عطا کر اور میری اصلاح کر اور مجھے رزق دے اس کے بعد پھر الله اکبر کہہ کر سجدہ میں چلاجاتا ہے.اور وہی الفاظ کہتا ہے.جو پہلے سجدہ میں کہے تھے.اور پھر الله اکبر کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے(اس حد تک جتنی نماز ہو چکی ہے اسے ایک رکعت کہتے ہیں.اور نماز میں دو رکعت کی بعض تین کی اور بعض چار ر کعتوں کی ہوتی ہیں) اور جس طرح پہلی رکعت پڑھی تھی اسی طرح پھر پڑھتا ہے.لیکن پہلی رکعت میں جو یہ دعاپڑھی تھی سبحانك اللهم وبحمدک اسے نہیں پڑھتا.بلکہ سورۃ فاتحہ سے ابتداء کرتا ہے اوراس کے بعد کوئی حصہ قرآن شریف کا پڑھتا ہے اور پھر سب کچھ اسی طرح کرتا ہے.جس طرح پہلی رکعت میں کیا تھا.جب دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو چاہے تو پہلی رکعت کی طرح کھڑا انہیں ہو جاتا بلکہ جس طرح دونوں سجدوں کے درمیان کشنوں کے بل بیٹھ گیا تھا بیٹھ جاتا ہے اور یہ دعاسے دونوں کی پڑھتاہے.تشھّدالتحیات للہ والصلوت و الطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصلحین اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداعبدہ و رسولہ ترجمہ.تمام عبادتیں خواہ زبان کی ہوں یا جسم کی یا مال کی اللہ کے لئے ہی ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ہستی کی عبادت کسی رنگ میں بھی نہیں کرنی) اے محمدﷺ ) مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اس کی رحمت اور برکت (یعنی بڑھوتی) اور ہم پر بھی سلامتی نازل

Page 674

ہو اور جس قدر اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں سب پر سلامتی نازل ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے خادم اور مخلوق ہیں* (خدا نہیں ہیں نہ اس کے بیٹے )اور اس کے ایک رسول ہیں.اس حصہ کو تشہد کہتے ہیں.درود شریفاس کے بعد وہ اسی طرح بیٹھا ہوا یہ پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ترجمہ.اے اللہ محمدﷺ پر اور اس کے سچے متّبعین پر تو اسی طرح رحمتیں نازل کر جس طرح ابراہیم اور اس کے مّتبعین پر رحمتیں نازل کیں تو بڑی تعریف اور بزرگی والا ہے.اے اللہ تو محمدﷺ اور اس کے سچے متبعین کو درجوں میں بڑھاجس طرح تو نے ابراہیم اور اس کے متبعین کو درجوں میں بڑھایا تھا تو بڑی حمد والا اور بزرگی والا ہے.اس حصہ کو درود کے ہیں.دعائیںپھراسی حالت میں بیٹھا ہوا یہ دعائیں یا ان میں سے کوئی دعا پڑھتا ہے (۱) اللھم انی ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلی مغفرة من عندك وارحمني انک أنت الغفور الرحیم (بخاری کتاب الدعوات باب الدعا فی الصلوة) (ب) اللهم إني أعوذ بك من الهمِّ والحزن، والعجز والكسل، والجبن والبخل، وضلع الدَّين، وغلبة الرِّجال (ج) رب اجعلنی مقیم الصلوة و من ذریتی ربنا وتقبل دعاء (ابراہیم :۴۱) (د) ربنا اغفر لي و لوالدی و اللمؤمنين يوم يقوم الحساب ( ابراہیم : ۴۲) ربنا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ:۲۰۲) (1) اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کئے ہیں.اور کوئی گناہ نہیں معاف کر سکتا مگر توپس تو *چونکہ ہر ایک قوم نے اپنے رسول کو اس قدر عظمت دے دی تھی کہ اسے خدایااس کا شریک یا اس کابیٹا بنالیا تھا.اس لئے اسلام نے الله تعالیٰ کی توحید کے اقرار کے ساتھ اپنے مخلوق ہونے کا اقرار کرنا بھی ہر ایک متبع پر ضروری کر دیا.تاکہ ایسانہ ہو کسی وقت مسلمان بھی اپنےرسول کو خدا یا اس کابیٹا سمجھ لیں بلکہ اپنی عبادت میں اقرار کرتے رہیں کہ ان کا رسول اللہ کا ایک بندہ تھا.اسے صرف ایک امتیاز حاصل تھاکہ اور بہت سے رسولوں کی طرح وہ بھی ایک رسول تھا.منہ

Page 675

اپنے رحم سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرتو بخشنے والا مہربان ہے.(ب) اے اللہ میں تجھ سے ہم اور غم سے پناہ مانگتا ہوں اور تجھ سے بزدلی اور بخل سے پناہ مانگتاہوں.اور تجھ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے کاموں میں سامان ہی مہیا نہ کر سکوں.اوراس بات کی بھی کہ سامان موجود ہوں اور میں ان سے کام نہ لے سکوں اور تجھ سے پناہ ما نگتاہوں.کہ میں ایسا مقروض ہو جاؤں جسے ادا نہ کر سکوں.اور اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ میری آزادی جاتی رہے اور کوئی شخص مجھ پر جابرانہ حکومت کرے.(ج) اے میرے رب مجھے نمازپڑھنے کی توفیق دے اور میری اولاد کو بھی اے میرے رب اور تو میری دعا کو قبول کرلے.(د) اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو اس دن کہ حساب لیا جائے گا(ہ) اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی سکھ کے اسباب ہے اور اگلے جہان میں بھی اور دوزخ کے عذاب سے ہمیں بچالے.اس کے بعد وہی الفاظ کہتا ہؤ ادائیں طرف منہ پھیر لیتا ہے السلام عليكم ورحمة اللہتم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت *اور اسی طرح یہی الفاظ کہتا ہوا بائیں طرف منہ پھیر لیتا ہے اور نمازختم ہو جاتی ہے اب اسے اجازت ہوتی ہے کہ جو چاہے کرے ، پوری طرح ان ہدایات پر عمل کرے تواتنی نماز پر چند منٹ خرچ ہوتے ہیں.نماز کے اوقاتنماز کے اوقات پانچ ہیں.اول پو پھوٹنے سے لے کر سورج نکلنے تک ایک نماز ہو تی ہے اس کی دو رکعتیں ہیں جن سے پہلے دو اور رکعتیں الگ پڑھی جاتی ہیں.دوسرا وقت سورج ڈھلنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور قریباً تین گھنٹہ تک رہتا ہے اس وقت چار رکعت پڑھی جاتی ہیں اور ان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی چار چار اور رکعتیں پڑھنی مسنون ہیں اس کے بعد ہی عصر کا وقت شروع ہوتا ہے جس میں چار رکعت نماز ادا کی جاتی ہے سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی ایک نماز ادا کی جاتی ہے اس میں تین رکعت پڑھی جاتی ہیں.اس کے بعد دو رکعت.قریبا ًڈیڑھ گھنٹہ بعد غروب سے پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے.جسے عشاء کہتے ہیں.یہ چار رکعت ہے.اور اس کے ساتھ دو *یہ اس صورت میں ہے کہ دو رکعت کی نماز ہو اگر تین یا چار رکعت کی نماز ہو تو تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جانا چاہئے.اور باقی ایک یا دو رکعتیں پڑھ کرپھراسی طرح بیٹھ کردہ سب عبارتیں پڑھ کر جو اوپر لکھی گئیں وہ الفاظ کہتے ہوئے جو بتائے گئے ہیں اور اسی طریق سے جوبتایا گیا ہے نماز ختم کرے.منہ

Page 676

رکعت ایک اور تین رکعت ایک ادا کی جاتی ہیں اور اس نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے ان نمازوں کے علاوہ مسلمانوں کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد پوپھٹنے سے پہلے کسی وقت اٹھ کر آٹھ رکعت نماز دو دو رکعت کر کے ادا کریں اور یہ نماز تہجد کہلاتی ہے.یہ نماز ( ہر مسلم پر )فرض نہیں جو چاہے پڑھے.نماز میں دعاان دعاؤں کے علاوہ جو نماز میں پڑھنی مسلمان کے لئے ضروری ہیں اور جو کہ عربی زبان میں ادا کی جاتی ہیں اجازت ہے کہ نماز پڑھنے والا اپنی اپنی زبان میں اپنی ضروریات کے لئے دعا کرے اور یہ دعا قیام رکوع سجدہ قعدہ جلسہ ہر ایک موقعہ پر ہو سکتی ہے.چند آیات قرآنیہم نے بتایا تھا کہ سورة فاتحہ کے بعد چند آیات قرآنی کا پڑھنا ضروری ہو تاہے.اس لئے ہم قرآن شریف کے مختلف مقامات سے چند آیات قرآنیہ دیتے ہیں.جو نمازمیں پڑھی جاسکتی ہیں.(1) اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (البقرہ:۲۵۶).ترجمہ : اللہ وہ ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے وہ بغیر کسی کی مدد کے خودقائم ہے.نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند.اس کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے.کون ہے جو اس کے پاس شفاعت کر سکے گمراہی کے علم سے ایسا کر سکتا ہے وہ خوب جانتا ہے جو کچھ لوگ کر چکے ہیں اور جو کچھ کریں گے اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ہاں جس قدر علم وہ خوددے اسی قدر انسان کو اس کی نسبت علم ہو سکتا ہے اس کا علم تو آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے اوراسے آسمانوں اور زمین کی حفاظت تھکاتی ہیں اور وہ بڑا ہے اور عظمت والا ہے.(۲ ) قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚاَللّٰهُ الصَّمَدُۚ لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدۙ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(الا خلاص) ترجمہ.کہہ دے کہ اللہ ایک ہے اللہ وہ ہے کہ اس کی مدد کے بغیر کوئی پر قائم نہیں رہ سکتی.نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.اور اس کا برابروالا کوئی نہیں.(۳) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(الحجرات۱۲)

Page 677

ترجمہ : اے مومنو! ایک قوم وو سری قوم کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور اس سے ہنسی نہ کرے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ایسا کریں.کیونکہ ممکن ہے کہ دوسری عورتیں ان سے بہتر ہوں (یعنی نیکی کے لحاظ سے) اور نہ آپس میں ایک دوسرے کی عیب چینی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو سخت الفاظ سے پکارا کرو.(یعنی گالیاں مت دیاکرو) کیونکہ یہ خدا سے عہد شکنی ہوگی اور یہ برانام ہے کہ ایمان کے بعد فاسق کہلائے.اور جو اس کام سے باز نہ آئے گاوہ ظالم ہو گا.(۴)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًاؕوَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍۚ-وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرً (النساء۲۰) ترجمہ.اے مومنوں!تمہیں ہرگز جائز نہیں کہ تم اپنی بیویوں کا مال جبراًلے لو.اور نہ تم کو جائزہے کہ جو کچھ تم ان کو دے چکے ہو اس کا کوئی حصہ واپس لینے کے لئے تم ان سے الگ ہو جاؤ (تاکہ تمہارے غصہ سے ڈر کردہ مال تمہارے سپرد کر دیں) ہاں اس وقت بے شک ان سے الگ ہو سکتےہو.جب وہ کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کریں اور ان سے ہمیشہ نیک سلوک کیا کرو.اور اگر ان کی کوئی بات تم کو ناپسند ہو تو اس کی وجہ سے ان سے بدسلوکی نہ کرو) یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ تم کو کوئی بات ناپسند ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں بڑی بڑی بھلائیاں پیدا کر دے.(یعنی اگر تم عورتوں کی ناپسندیدہ حرکات رکھ کر بھی ان سے نیک سلوک کرو گے تو خدا تمہارے لئے سکھ کا سامان کردینے کاخود ذمہ لیتا ہے.(۵) اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْن وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنََ.(النحل:۹۱-۹۲) ترجمہ.اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم عدل سے کام لو اور لوگوں سے احسان کرو اور ایسا احسان کرو کہ تم کو کسی نفع کا خیال نہ ہو اور منع کرتا ہے اس بات سے کہ تم وہ بدیاں کرو جو تمہاری جان کےمتعلق ہوں یا وہ بدیاں جن کا اثر لوگوں پر پڑتا ہو اور( بادشاہ کے خلاف )بغاوت کرنے سے اور تم کو

Page 678

نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عمل کرو اور خدا سے جو عہدتم نے باندھا ہے اسے پورا کرو اور مضبوقسم کھا کر اسے توڑانہ کرو (اور تم ایسا کیونکر کر سکتے ہو) اور تم نے تو اس پر اللہ تعالیٰ کو ضامن کیا ہے اللہ تعالیٰ تمہارے افعال کو جانتا ہے.(۶) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳)اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌؕ-كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ (المائدہ: ۷۴-۷۷) ترجمہ - ہدایت سے دور ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں سے ایک ہے.اورمعبود تو صرف ایک ہی ہے اور اگر تین خدا کہنے والے اپنے اقوال سے باز نہیں آئیں گے.تو ان میں جو لوگ اپنے اس عقیدہ پر قائم رہیں گے ان کو دردناک عذاب پہنچے گا.کیا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے.اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگتے اور اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا مہربان ہے.مسیح نہیں تھے مگر ایک رسول اور ان سے پہلے اور رسول گذر چکے ہیں (ان سے ان کی زندگی ملاکر دیکھ لو بالکل مشابہ ہے.پھر ان کی خدائی کہاں سے ثابت ہوئی) اور ان کی ماں ایک نیک بخت عورت تھیں وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے (اور خدا کھانے سے پاک ہے) دیکھ ہم کس طرح ان کے لئے دلائل پیش کرتے ہیں پھر دیکھے کہاں پھرتے جاتے ہیں.(از ریو یو مارچ ۱۹۱۴ء) مرزابشیرالدین محموداحمد

Page 679

Page 680

تقریر ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر مسجد نور میں تقریر) از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 681

Page 682

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد کی ۱۳/مارچ ۱۹۱۴ء کی مسجد نور میں تقریر (بعد نماز عصر) اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداعبدہ و رسولہ اس وقت میں سب دوستوں کی خدمت میں چھوٹی سی عرض کرنی چاہتا ہوں.اور سچے دل سےنصیحت کرنی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے ہیں.اللہ تعال ان پر بڑے بڑے رحم فرمائے.اپنی برکتیں ان پر نازل کرے.اعلیٰ سے اعلی ٰمدارج پر انہیں ترقی دے اور وہ انہیں ان کے حقیقی دوست محبّ اور پیارے جن سے انہیں ساری عمر محبت رہی جن کی محبت بلاشبہ انکے رگ و ریشے میں تھی.یعنی آنحضرتﷺ اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان دونوں پیاروں کے ساتھ جگہ دے.(مسجد آمین کی آواز سے گونج اٹھی) اس وقت احمدی جماعت کے اوپر بڑی ذمہ داری پڑ گئی ہے یہ ذمہ داری ہر بچہ و جوان اوربوڑھے پر ہے.ساری جماعت ایک امتحان کے نیچے ہے.وہ جو اس امتحان میں کامیاب ہو گیا اورپاس ہو گیا.خدا کا پسندید ہ او ر پیارا ہو گا.اور جو اس امتحان میں فیل ہو گیا.وو خدا تعالیٰ کے حضور نیکو کاروں میں نہیں گنا جائے گا.ہم پر ایک ذمہ داری ہے ایک بوجھ ہے اس کو اٹھانے اور اس ذمہ داری میں پاس ہونے کےلئے خوب تیاری کرنی چاہئے.خوب یاد رکھو کہ کوئی کام کتناہی اعلیٰ سے اعلیٰ اور عمدہ سے عمدہ ہو

Page 683

لیکن اگر اراره بد ہو تو وہ خطرناک ہو جاتا ہے.دیکھو نماز کیسی اعلیٰ چیز ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَۙ (الماعون :۵ -۷) وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر اس کی غرض اس نماز میں کوئی مغز اور حقیقت نہیں.لوگ دیکھتے ہیں کہ زید یا بکر نماز پڑھتا ہے.لیکن چونکہ اسکی غرض اس نماز میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ لوگوں کو دکھا رہا ہے.اور ریاء ہے اس لئے جب اس میں ریاء شامل ہو گیا تو وہ پاک اور قرب الہٰی کا ذریعہ ہونے کی بجائے لعنت کا موجب ہو جاتی ہے.مجھے یہ نکتہ قرآن مجید کے ابتداء میں خوب معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید کے پڑھنے سے پہلےاعوذ پڑھنا چاہے پھر ہر سورت سے پہلے بسم اللہ ہے.بسم الله الرحمن الرحیم کے بعد الحمد للہ رب العٰلمین شروع ہوتی ہے.پھر بسم الله الرحمن الرحیم کے بعد ال ذيك الكتب شروع ہو تاہے.اب غور کرو کہ قرآن مجید پڑھنے سے پہلے اعوذ کا جو حکم دیا گیا اور ہر سورت سے پہلے تم بسم اللہ رکھی تو کیا نعوذ باللہ قرآن مجید میں کوئی شیطانی کام تھا.اور شیطانی دخل تھا.چویہ تاکید فرمائی ؟ اس میں شیطانی دخل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک نیک کام میں نیک ارادہ شامل نہ ہو تو وہ برا اور خطرناک ہو جاتا ہے اس لئے ارادہ کی اصلاح اور پاکیزگی کے لئے یہ حکم دیا کہ قرآن مجید کے پڑھنے سے پہلے اعوذ پڑھو.تاکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے سوا نہیں ملتی اس لئے بسم اللہ کو رکھا جس میں استعانت ہے پس اغوذکا حکم دیا اور بسم اللہ کو رکھا کہ مؤمنین نیت صاف کریں ایسا نہ ہو کہ بد اراده تباہ وہلا ک کر دے.بہت سے لوگ ہیں جن کے لئے ایک آیت رحم و برکت کا موجب ہو جاتی ہے اور پتوں کےلئے وہی آیت ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے.خدا نے فرمایا.اعوذ پڑھو یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو.اور بسم اللہ میں مدد مانگنے کی تعلیم دی.غرض کوئی کام کتناہی بڑا اور اعلیٰ اور پاک کیوں نہ ہو.جب تک اس میں نیک نیتی اور اخلاص نہ ہو اندیشہ ہے کہ وہ قرب الہٰی سے دور نہ پھینک دے.اب جو عظیم الشان امانت اور بوجھ ہم پر پڑا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق کے بدوں ہم اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.اس لئے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جس قدر فرصت ملے.بہتر ہے ہم خدا کے حضور دعائیں کریں اور عاجزانہ التماس کریں کہ مولی ٰکریم ا توہی سچاراستہ دکھا تاکہ گمراہی اور تباہی میں پڑنے کی بجائے راه

Page 684

ہم تیرے قریب ہوں.یہ بڑی ذمہ داری اور بوجھ ہے جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں جب تک اس کی نصرت نہ آوے ہم نہیں اٹھا سکتے.پس اهدنا الصراط المستقيم بار بار اور کثرت سے پڑھو.ہم نہیں جانتے کل کیا ہو گا.پر سوں کیا ہو گا.ایک غیب کی بات پر ہاتھ مارنا ہے اگر غیب دان خدامددنہ کرے تو اندیشہ ہے ہلاکت میں پڑ جادیں اس لئے دعائیں کرواستغفار کرو.استخارے کرو.درود پڑھو.تڑپ تڑپ کر دعائیں کرو کہ مولیٰ توہی اپنے فضل سے اس امتحان میں کامیاب کر تیرا مسیح ؑ آیا.بہتوں نے انکار کیا اور وہ ٹھوکر کھا کر اس پتھر پرگرے اور ہلاک ہوئے.مگر تونے اپنےرحم سے ہمیں ہدایت دی.پھر اس کی وفات پر پھر ایک موقعہ امتحان کا آیا.اور تو نے ہماری ہدایت فرمائی.اب پھر ایک اور موقعہ آیا ہے.اب بھی فضل کیجئو اور آپ ہماری رہنمائی کرو – ہمارے تمام کاموں میں برکت نازل کیجئو.دشمنوں کو خوش ہونیکا موقع نہ دیجئو اپنی خدمت کے لئے پاک وجود چن لے.اللھم آمین سب لوگ اپنے دلوں میں چلتے پھرتے دعائیں کریں آج رات کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مشکلات حل کردیتاہے.خدا تعالیٰ پر توکل کرو.اس کے وعدے سچے ہیں.اس نے جو اپنے مسیح موعودؑ سے وعدے کئے.وہ پورے ہوئے اور ہو نگے.ایک انسان جھو ٹاو عده کر لیتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے و عدے سچے ہوتے ہیں و ہ صادق الوعد ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں کی صداقت پر ایمان لاؤ - اور اسی پر توکل اور بھروسہ کرو.اب میں بھی دعا کرتا ہوں.تم بھی میرے ساتھ ملکر دعا کرو.اور اس کے بعد بھی دعائیں کرو.(اس تقریر کے بعد حضرت صاجزادہ صاحب نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے.خدا جانے دعا میں کیا سوز اورابتہا ل تھا کہ اس نے مسجد نور کو تھوڑی دیر کے لئے مسجد بکاء بنادیا.کوئی آنکھ نہ تھی جو روتی نہ تھی.اور ولوں میں ایک سوزش تھی.بڑی لمبی دعا کے بعد ایک ایسی تجلیّ معلوم ہوتی تھی.کہ بجلی کی طرح دلوں پر سکینت کانزول ہوا.دعا کے بعد حضور بیٹھ گئے.لوگوں میں ایک قبولیت اور جوش تھا پھر فرمایا کہدو کہ جو روزہ رکھ سکتے ہیں وہ کل روزہ رکھیں.اس علم اور ارشاد کے بعد آپ مسجد نور سے اٹھے اور نواب صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.) ( الفضل ۱۸مارچ ۱۹۱۴ء)

Page 685

Page 686

Page 687

Page 688

Page 689

Page 690

Page 691

Page 692

Page 693

Page 694

Page 695

Page 696

Page 697

Page 698

Page 699

Page 700

Page 701

Page 702

Page 703

Page 704

Page 705

Page 706

Page 707

Page 708

Page 709

Page 710

Page 711

Page 712

Page 713

Page 714

Page 715

Page 716

Page 717

Page 718

Page 718