Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے احمد کے نام سے پکارا، اس کے علاوہ آپؑ کی تحریرات میں آپ کے دیگر صفاتی ناموں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مولانا بشیر احمد قمر (شاہد) نے ان ناموں کی تلاش اور یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک قابل قدر مسودہ تیار ہوگیا جو بیک وقت ازدیاد ایمان کا بھی باعث ہے اور اغیار کے لئے ایک خاموش تبلیغ بھی ہے کیونکہ ناموں کے اندر مخفی پیش گوئیاں بھی پنہا ں ہوتی ہیں۔ قریباً 500 صفحات کے اس مسودہ میں حروف تہجی کی ترتیب سے اسماء و خطابات کو جمع کرکے ان کا فلسفہ اور تشریح آپ علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں ہی جمع کردی گئی ہے۔ نیز اس کتاب میں مسیح موعود کے کثرت اسماء پر قلت تدبر ، علمی فقدان اور تعصب کی وجہ سے ہونے والے اعتراضات کا بھی کافی و شافی جواب موجود ہے۔ نیزقرآنی پیش خبری <span class="quranic">واذاالرسل اقتت</span> کی بھی توضیح مل جاتی ہے۔ الغرض اس نادر پراجیکٹ پر عرق ریزی کرکے مصنف موصوف نے مسیح ومہدی کے ناموں اور خطابات کی توضیح کرتے ہوئے آپ کی سیرت و سوانح اور اخلاق عالیہ کی مختلف حسین و دلکش جہتوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہےاور آخرپر مخلوق خدا کی طرف سے ملنے والے بعض مثبت تبصروں میں مذکور اسماء کوبھی باحوالہ درج کیا گیا ہے۔
اسماء المهدی العلمية الا اور ان کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے مرتبہ بشیر احمد قمر (شاہد )
نام کتاب: مرتبہ اسماء المهدی بشیر احمد قمر ( شاہد ) ڈیزائننگ: محمود احمد ملک ( انچارج مرکزی شعبہ کمپیوٹر لندن) ناشر: مطبع تعداد اشاعت نوٹ: اس کتاب کے حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں اور بلا اجازت اس کے کسی حصہ کی نقل کسی بھی شکل ( پر جلد ، الیکٹرانک وغیرہ) میں ممنوع ہے.نٹڈ
اسماء المهدی صفحه 3 پیش لفظ = = ہمارامذہب اور عقائد اغراض بعثت فہرست مضامین 1 میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو صلى الله 2.مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت یہ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں -3 مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید کے لئے بھیجا ہے 4.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس قدر نام دیئے گئے ہیں وہ سب = آنحضرت ﷺ کے طفیل ہیں میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اسماء وخطابات صفاتی ہیں اللہ تعالیٰ کے ایک امتی کی تعریف و توصیف کرنے میں حکمت آنحضرت ﷺ کا جلال ظاہر کرنے کے لئے ایک امتی کی تعریف کی گئی ہے
- = - اسماء المهدی اللہ تعالیٰ کے ایک نبی کو انبیاء سابقہ کے نام دینے کی حکمت و فلسفہ خدائی خطاب میں ایک حقیقت ہوتی ہے اور وہی فخر کے لائق ہے الف آنحضرت ﷺ آخری زمانہ کے آدم ہیں صفحہ 4 71 1 آدم نام میں آئندہ فتنوں اور ان سے براءت اور موجودہ زمانہ کی حالت بیان کی گئی ہے 2.آدم نام رکھ کر اس زمانہ کے لوگوں کی دینی و اخلاقی حالت کو بیان کیا گیا ہے -3 آدم نام رکھ کر بتایا گیا ہے کہ آپ کو علم لدنی عطا ہوا ہے -4 چوتھی بات یہ بتائی گئی ہے کہ آپ کی ذریت و نسل تمام دنیا میں پھیل جائے گی 5.پانچویں بات آدم نام رکھ کر یہ بتائی گئی ہے کہ آپ کے مخالفین اور عیب جوئی کرنے والے حق کو تسلیم کرلیں گے 84 85 87 90 آریوں کا بادشاہ ابراہیم ابن رسول اللہ ابن مریم = = = =
صفحہ 5 98 104 105 106 107 108 109 110 112 113 114 115 117 اسماء المهدی ابن مریم نام رکھنے میں حکمت احمد اسم احمد خدا کی معرفت تامہ اور فیوض تامہ کا مظہر ہے آنحضرت ﷺ کے دورور اور احمدیوں کو نصائح صلى الله احمد یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلا نے آیا ہے احمد زماں احمد آخر زمان احمد مختار احمد مقبول اسد الله اسحاق اسرائیل اسماعیل السُّهَيْلُ البَدْرِيُّ أشْجَعُ النَّاسِ اعلیٰ اس نام میں آپ کے دوسروں پر غالب آنے کی پیشگوئی دوسروں پر غالب رہنے کی پیشگوئی آلاء - = = = = = = = = = = = =
صفحه 6 118 119 129 130 131 اسماء المهدی امام رفیع القدر امام زماں = = امام الزمان کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کی علامات کیا ہیں؟ امام الزمان کے لئے چھ ضروری قو تیں 1.قوت اخلاق 2.قوت امامت 3- بَسْطَةٌ فِي الْعِلم 4.قوت عزم 5.قوت اقبال علی اللہ 6.کشوف والہامات کا سلسلہ امام الزمان کا کام - = امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا چیلنج امام مبارک الامامُ الْمُنْتَظَرُ امتی نبی امتی نبی نام رکھنا آنحضرت ﷺ کا فخر ہے یہ نام رکھا گیا ہے تا عیسائیوں پر سرزنش کا ایک تازیانہ لگے ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ ملا ہے امتی سے کیا مراد ہے؟ =
= = = اسماء المهدی حضرت عیسی علیہ السلام امتی نہیں ہو سکتے امتی اور نبی دو مختلف نام دو حیثیتوں سے امتی نبی اور جماعت احمدیہ کا فرض امین امین الملک جے سنگھ بہادر الانسان انسان کامل خدا تعالیٰ کے روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اوا ہن اول المومنین اولو العزم عزم سے مراد صفحہ 7 144 145 146 147 148 149 151 153 155 ).بادشاہ مراد آسمانی بادشاہی ہے بدر برہان = = = = = =
= اسماء المهدی برہمن اوتار بشیر چند تبشیری پیشگوئیاں بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِيْ صفحه 8 156 157 160 یہ الفاظ میرے حق میں اس واسطے استعمال کئے ہیں کہ تا عیسائیوں کا رڈ ہو اس خطاب میں آپ کے موحد ہونے کا آسمانی اعلان ہے بیت اللہ 166 اس نام میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے اس میں بتایا گیا ہے کہ لوگ دور دراز سے آپ کے پاس آئیں گے = پیر پیراں 167 - اس میں بتایا گیا ہے کہ بعض غوث اور قطب اور ایسے بزرگان دین جن کے لاکھوں انسان پیرو تھے ، آپ کی عظمت مرتبت پر ایمان لائیں گے
ہے || اسماء المهدی = تحصیلدار اس نام میں مسیح موعود کے دو کام بیان کئے گئے ہیں 1.خدا کی توحید کوزمین پر پھیلانا -2 حکم ہو کر امت محمدیہ کو باہمی عدل پر قائم کرنا = تُرْسُ الدِّين صفحه 9 168 جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِياءِ 169 یہ نام رکھ کر بتلایا گیا ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالات اخیار اور کمالاتِ اشرار عمر زندہ شد ہر نبی بآمدنم جمعه مہدی کے اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ اس کا لوگوں کو جمع کرنا ہے اس کی طرف اہل حق اور صادق لوگ جمع ہوں گے وہ تمام دینوں کو ایک دین پر جمع کرے گا کسوف و خسوف کا اجتماع 172 167
- اسماء المهدی صفحه 10 وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ اور وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ م بھی ایک جمع ہے مسیح موعود کے لئے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے گئے اس کے ذریعہ سارے ادیان کو دین واحد پر جمع کیا جائے گا وہ بہت دُور افتادہ دلوں کو بھی خدا کی طرف کھینچ لائے گا سلسلہ احمدیہ کا قیام تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کو جمع کرنے کے لئے عمل میں آیا ہے 175 177 178 179 180 183 乙 حارث حارس حِبُّ الله حُجَّةُ اللهِ الدَّيَّان حُجَّةُ اللهِ القادر انسان حُجَّةُ الله کب بنتا ہے؟ اس کے اوصاف و کمالات حجر اسود حجر اسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکیم ہوتا ہے حجر اسود سے مراد منبع علم وفیض ہے = = = = = = -
اسماء المهدی صفحہ 11 = ہر زمانہ کا مامور اپنی جماعت کے لئے حجر اسود کا رنگ رکھتا ہے اس زمانہ میں روحانی سنگ اسود مسیح موعود ہیں حَرْبَةُ مَوْلَى الرحمان حِرْزُ المَدْعُوْر بچائے گا ہے ہوگا حِصْنٌ حَصِيْنٌ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں 186 187 188 جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان ” ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار 190 جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ اُسے قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حکم مقرر فرمایا حکم نام میں پیشگوئی تھی کہ مسیح موعود امت کے اختلاف کے وقت میں ظاہر اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی حکم اور حاکم میں فرق اختلافات کے وقت وہی عقید ہ سچا ہوگا جس پر حکم قائم کیا جائے گا جو شخص میری باتوں کو عزت سے نہیں دیکھتا، آسمان پر اس کی عزت نہیں اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو
صفحه 12 198 199 200 اسماء المهدی ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں حِمَى الرحمان ے اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بنترس که من شاخ مثمرم حنیف مسیح خ خاتم الاولیاء میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا خاتم الخلفاء میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں خلیفہ خلیفہ سے مراد 201 202 امت محمدیہ کے روحانی معلموں کا خلیفہ نام رکھنے میں حکمت اور ان کا کام خلیفۃ اللہ انسان خلیفہ اللہ کب بنتا ہے خلیفۃ اللہ کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے 204 = = = =
= اسماء المهدی صفحہ 13 دنیا میں روحانی حرکتیں خلیفتہ اللہ کی برکات ہوتی ہیں اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا تو سمجھ لینا کہ کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوا خلیفة الله السلطان خلیل اللہ داعياً إِلَى الله 209 210 211 ایک امتی کو رسول مقبول ﷺ کے اسماء دینے میں حکمت میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں.میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو.خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے.میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے.مجھے...ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں، کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ یہ تمہارا خدا ہے تالوگ سن لیں.خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو.- = داود 218
- اسماء المهدی ور اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار كَمِثْلِكَ دُرِّ لَا يُضَاعُ صفحہ 14 220 = ہے ذوالقرنین ز ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دوصدیوں کو پانے والا ہو 221 ذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا اس میں بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے لئے جو مسیح موعود ہے تین قسم کا دورہ ہوگا.اوّل اس قوم پر جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں.دوسرے جو نرے ظاہر پرست ہیں.تیسرے جو غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے مگر آخر کار ہدایت یا ئیں گے ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اٹھے گی قرآن شریف میں ذوالقرنین کے پیرا یہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے مبارک وہ جو ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھے
اسماء المهدی ذُوْ عَقْلٍ مَتِيْنٍ صفحہ 15 236 = = - رَجُلٌ فَارِسِی رَجُلٌ فَارِسِی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہے رحمۃ للعالمین رَحَى الْإِسلام 237 240 241 اس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے ذریعہ اسلام کی مخفی اور در پردہ خوبیاں اور کمالات ظاہر ہوں گے = رُسُلْ خدا نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے 242 243 244 245 246 رُوْحُ الصدق رُوْحُ الله رو در گوپال سَاقُ الله = || || || =
= اسماء المهدی السبيل سِرَاجًا مُنِيرًا ایک امتی کی تعریف کرنے میں دو بزرگ فائدے سلامتی کا شہزادہ صفحہ 16 247 248 250 جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں اور ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا 250 253 سلطان احمد مختار سلطان عبد القادر = = = مجھ کو تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی ہے سلطان القلم 254 اگر میرے کلام سے مردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجزوم صاف نہ ہوں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا = = - سلطان المشرق چودھویں صدی کا مہدی ،سلطان المشرق ہے سلمان 257 258 اس نام کے ذریعہ بتایا کہ مسیح موعود دو مصلحوں کا وارث ہوگا یعنی بیرونی طور پر بھی صلح کرے گا اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کر دے گا 260 سیف الرحمان =
= ہیں اسماء المهدی ہے = شاہ ش صفحہ 17 261 آپ قرآنی خوارق و معجزات اور آنحضرت ﷺ کی روحانی قوت کے گواہ زازات اور اخضرت مجھے آنحضرت ﷺ کی عظمت اور سچائی کی گواہی دینے کے لئے بھیجا گیا شفیع اللہ شفاعت کے معنے شفیع کے اوصاف 266 شفیع اللہ کہہ کر آپ کے تعلق باللہ اور ہمدرد بنی نوع انسان ہونے کا اعلان کیا اب خدا اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا 269 مامور من اللہ ایک روحانی آفتاب کی طرح ظہور کرتا ہے.اس کے وجود سے علی حسب مراتب سب کو بلکہ تمام دنیا کو فائدہ ہوتا ہے = = شيت الشَيْحُ الشَّيْخُ المَسِيحُ 271 272 273
اسماء المهدی صفحہ 18 = = = صاحب الفصوص صادق صادق تمہارے ہاتھ سے کبھی ہلاک نہیں ہوگا مسلمانوں کی اولا د کو نصائح الصديق انسان صدیق کب کہلاتا ہے اور اس کے اوصاف و کمالات 274 275 278 صدیق خطاب میں فنافی الرسول اور وارث النبی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے صور 282 خدا کے نبی اس کی صو ر ہوتے ہیں یعنی قرنا.جن کے دلوں میں وہ اپنی آواز پھونکتا ہے صور کا لفظ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے صور نام میں مسیح موعود کے زمانہ اور کام کی تعین ہے = طارق 286 یہ نام رکھ کر بتایا گیا ہے کہ مہدی موعود اسلام کی ترقی اور انوار محمدی کے ظہور
صفحه 19 289 اسماء المهدی کی خبر دینے والا ہوگا طيب سنت اللہ اس بات کو چاہتی ہے کہ جس ملک میں دجال جیسا خبیث پیدا ہو، اُسی ملک میں وہ طیب بھی پیدا ہو 291 296 298 299 300 301 b ظلی نبی ظلی نبوت سے مراد محض فیض محمدی سے وحی پانا ہے ظلی نبوت سے مراد اور اس کی ضرورت و اہمیت عبودیت سے مراد اور اس کی حقیقت عبدالحکیم عبدالرافع عبد القادر عبد اللہ || | || || || ||
صفحه 20 302 303 304 305 306 307 308 311 312 313 اسماء المهدی عبد الله الاحد عُبَيْدُ الله الصمد عبد القادر عَبْدُ مُكَرَّمْ العَبْدُ المنصور عَدْلٌ عزیز خدا کا عزیز ہونے کا ثبوت علی علی باس عیسی = عیسی نام رکھنے میں آنحضرت ﷺ اور اسلام کا فخر ہے چوں شمارا شد یہوداندر کتاب پاک نام پس خدا عیسی مرا کرد است از بهر یهود عیسی کے دمشق میں اور منارہ کے قریب اترنے کی پیشگوئی کی کیا حقیقت مسیح موعود کے نزول کی حقیقت عیسی کے لئے نزول کا لفظ لا کر اس کے غلبہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نزول کے لفظ میں مسیح کے خلق کے ہمدرد ہونے کی طرف اشارہ ہے II = = = =
اسماء المهدی نزول کا لفظ محض اجلال واکرام کے لئے ہے عیسی کے متبعین کے لئے غلبہ کی پیشگوئی روحانی غلبہ کے سلسلہ میں جماعت متبعین کی ذمہ داریاں عیسی ابن مریم عیسی بن مریم کہلانے میں حکمت صفحه 21 325 امت محمدیہ کے مسیح موعود کو عیسی بن مریم کا نام دے کر تو حید الہی کا جلال ظاہر کیا گیا ہے صلى الله ایک امتی کا نام عیسی بن مریم اس لئے رکھا گیا تا کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت کا اظہار ہو عین اللہ = - || || - ہے اس نام میں آپ کے فنافی اللہ ہونے کا بیان ہے غازی غلام احمد قادیانی غ 331 333 334 اس نام میں علم الاعداد کے اعتبار سے آپ کے وقت ظہور کی بھی خبر دی گئی غلام احمد کی جے
صفحه 22 337 338 339 6.ق اسماء المهدی فرقان قدم الرسول قمر میرانو رخدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے کاسر الصليب ک میں صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اس زمانہ میں مجدد کی خاص خدمت کسر شوکت صلیب ہے 340 صلیبی مذہب پر غلبہ پانے اور کسر صلیب کے اسباب جن کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں کرشن - 348 جو صفات کرشن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں (یعنی پاپ کا نشٹ کرنے والا اور غریبوں کی دلجوئی کرنے والا اور ان کو پالنے والا ) یہی صفات مسیح موعود کے ہیں = =
اسماء المهدی روحانیت کی رو سے کرشن اور مسیح موعود ایک ہی ہیں كلمة الازل كلمة الله صفحہ 23 352 353 مسیح محمدی کو کلمۃ اللہ و روح اللہ کہہ کر مسیح موسوی کے متعلق غلط عقائد کی تردید کی گئی ہے انسان کلمۃ اللہ کب بنتا ہے انسان جب نفسانی ظلمتوں اور تیرگیوں سے نکل آتا ہے اس وقت وہ کلمۃ اللہ ہوتا ہے = گورنر جنرل 355 لولاک الله ل 356 یہ دراصل رسول کریم ﷺ کے حق میں تھا لیکن ظلی طور پر ہم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے
اسماء المهدی صفحہ 24 358 363 364 365 366 367 مامور کے چند اوصاف مامور کے لئے خدا تعالیٰ کی شہادت مبارک مَبْدَءُ الْأَمْرِ مبشر مُتَوَكِّلْ مُجدد رسید مژدہ زنیم کہ من ہماں مردم که او مجد دائیں دین و رہنما باشد اس صدی کے مجد د کا بڑا فرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ کسر صلیب کر.مجد دزماں کی تکذیب کی دوصورتیں کیا مجد دوں کا ماننا ضروری ہے؟ محدّث الله محذ هیت بھی ایک شعبہ قویہ نہات کا اپنے اندر رکھتی ہے 372 محدث جو مرسلین میں سے ہے، اتنی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی 377 محمد = = - =
= II اسماء المهدی محمد بن عبد اللہ محمد مفلح محمد مهدی و عیسی مسیح عیسی مسیح ومحمد مہدی کا کام لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيْسَىٰ احادیث میں مہدی کے سپر دامامت کا کام کرنے میں حکمت صفحه 25 381 382 383 اس سوال کا جواب کہ عیسوی برکت اور محمدی برکت دونوں حضور کے وجود 398 399 400 401 402 403 میں جمع ہیں مُدَّثِرْ = مدينة العلم مُذَكِّرْ مر وسلامت مُرسل مریم = = = سورہ تحریم میں اس طرف اشارہ ہے کہ بعض افراد امت مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نزدیک مریم نام دینے میں حکمت 406 407 مسیح الحق = =
اسماء المهدی مسیح الخلق صفحہ 26 408 409 410 412 421 مسیح السماء مسیح الله مسیح موعود = مسیح تو آچکا.کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گا مسیح کی آمد کا مقصد اور اس کے کام آپ کے ذریعہ پادریوں کی شکست فاش مسیح موعود کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ مصلح روحانی مصلح کے چار اوصاف مُصِيب مَطَرُ الرَّبيع مُظَفّر مَظْهَرُ الآيات یہ آسمانی نشانوں کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ آسمانی نشانوں کے ساتھ مہدی خلیفتہ اللہ کی مدد کرے گا 424 425 426 427 432 434 435 II مَظْهَرُ البُرُوْزَيْنِ مَظْهَرُ الحي مُعِيْنُ الحَقِّ = = = = =
صفحه 27 436 442 443 444 446 اسماء المهدی مقبول الرحمان مقبولوں کے اوصاف و کمالات اور مقبول و غیر مقبول میں فرق مقبول اور مردود میں فرق معلوم کرنے کا آسان طریق مُقَرّب مَكِينٌ مُلْهَمْ، مُكَلَّمْ منادی = = = = = میں بھیجا گیا ہوں کہ تاسچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے.جولوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.- تو بہ کرو اور پاک اور کامل ایمان اپنے دلوں میں پیدا کرو...ناقص ایمان تمہاری روح کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.449 450 451 452 ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی منصور منور الله مَوْتُ الرُّوْر موسیٰ = =
= اسماء المهدی موسیٰ نام رکھنے میں پیشگوئی موصوف مهدی مسعود میکائیل صفحہ 28 455 456 457 نبی نبی کے کیا معنے ہیں؟ نبی اور رسول میں فرق 458 کیا ہر صاحب رویاء و کشف یا غیب سے خبر پا کر آئندہ کی خبر دینے والا نبی کے خطاب کا سزاوار ہوگا ؟ الله آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں امت میں صرف مسیح موعود کو نبی کا نام پانے کے لئے کیوں مخصوص کیا گیا ؟ امت محمدیہ میں نبی وہی ہو سکتا ہے جوفان محمد ہو جبکہ دین کمال کو پہنچ چکا، نعمت پوری ہو چکی تو پھر کسی مجد د یا نبی کی کیا ضرورت تھی؟ کیا مسیح موعود کے دعووں میں واقعی کوئی تضاد ہے کہ کبھی اپنے آپ کو غیر نبی اور محدث کہتے رہے اور پھر نبی کہلانا شروع کر دیا
= اسماء المهدی نذیر نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر چندا نذاری پیشگوئیاں نُور صفحه 29 471 477 جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں = نوح اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی طبیعتیں نوح کی قوم سے ملتی ہیں 480 482 483 484 485 486 وارث الانبیاء واصف وجیه وقار الله ولی اللہ مبارک وہ جو دہشت ناک دن سے پہلے مجھے قبول کرے کیونکہ وہ امن میں = = = = = - آئے گا
اسماء المهدی صفحہ 30 488 489 490 491 495 ہارون يس بادشاہ اور سید میں فرق یعقور یوسف مخلوق خدا کی طرف سے ملنے والے خطابات = = =
اسماء المهدی صفحہ 31 وو یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اُس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے" 66 تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 ، صفحہ 275.ایڈیشن اول )
صفحہ 32 اسماء المهدی
اسماء المهدی بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ صفحہ 33 سیدنا حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام نے اپنی کتاب لجة النور“ میں فرمایا ہے: أَنَا الْمُسَمّى مِنَ اللهِ بِأَحْمَدَ مَعَ أَسْمَاءِ أُخْرَى ذَكَرْتُهَا فِي مَوَاضِعِهَا“.(روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 343 لجبۃ النور ) کہ میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمد رکھا گیا ہے.علاوہ اور بہت سے ناموں کے جن کو میں نے متفرق مقامات پر اپنی اپنی جگہ بیان کیا ہے.حضور علیہ السلام کی اس تحریر سے میرے دل میں حضور کے ناموں کی تلاش اور یکجا کرنے کی خواہش پیدا ہوئی.دوران مطالعہ حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل عبارت میری نظر سے گزری جس کی بنا پر ان ناموں کو حضرت اقدس علیہ السلام کے ہی بیان فرمودہ فلسفہ و حکمت کے ساتھ آپ ہی کے الفاظ میں اکٹھا کرنے کی مزید تحریک ہوئی.حضور انور نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” براہین احمدیہ حصہ سوم میں جو آپ نے اپنے دعوئی سے کئی سال پہلے شائع فرمائی ہے، چند ایسے الہامات لکھنے
اسماء المهدی صفحہ 34 کے بعد ، جن میں آپ کو بہت سی تعریف کے بعد دَاعِيًا إِلَى اللَّهِ اور سِرَاجًا مُنِيرًا کے خطابات جلیلہ سے نوازا گیا ہے.فرماتے ہیں کہ یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ کیوں ایک امتی کی اس قدر تعریف کی گئی ہے اور اس میں کیا مصلحت اور حکمت ہے.اس کے دو بزرگ فائدے ذکر کرنے کے بعد حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: جب خداوند تعالیٰ عز اسمہ مصلحت مذکورہ بالا کی غرض سے کسی بندہ کی جس کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح منظور ہے، کچھ تعریف کرے تو اس بندہ پر لازم ہے کہ اس تعریف کو خلق اللہ کی نفع رسانی کی نیت سے اچھی طرح مشتہر کرے اور اس بات سے ہرگز نہ ڈرے کہ عوام الناس کیا کہیں گے...در حقیقت یہ تعریفیں عوام الناس کے حق میں موجب بہبودی ہیں اور گو ابتدا میں عوام الناس کو وہ تعریفیں مکروہ اور کچھ افتر ا سا معلوم ہوں لیکن انجام کار خدائے تعالیٰ ان پر حق الا مر کھول دیتا ہے.اور جب اس ضعیف بندہ کا حق بجانب ہو نا مؤید من اللہ ہو نا عوام پر کھل جاتا ہے.تو وہ تمام تعریفیں ایسے شخص کی کہ جو میدان جنگ میں کھڑا ہے، ایک فتح عظیم کا موجب ہو جاتی ہیں.اور ایک عجیب اثر پیدا کر کے خدا کے گم گشتہ بندوں کو اصلی توحید اور تفرید کی طرف کھینچ لاتے ہیں.اور اگر تھوڑے دن ہنسی ٹھٹھوں اور ملامتوں کا برداشت کرنا اور ملامت کا موجب ٹھہریں تو خادمِ دین کے لئے عین سعادت اور فخر ہے.“ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 273 272 - براہین احمدیہ حصہ سوم.حاشیہ در حاشیہ نمبر 1) حضور اقدس علیہ السلام نے مصلحت مذکورہ کی بناء پر ان تعریفوں کا ذکر
اسماء المهدی صفحہ 35 متفرق مقامات پر کیا ہے.چنانچہ جو تعریفیں اسماء و خطابات کی صورت میں کی گئی ہیں، ان کو حضور علیہ السلام کے بیان فرمودہ فلسفہ و حکمت میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.بعض لوگ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے کثرت اسماء پر اعتراض کرتے ہیں.یہ اعتراض یا تو محض تعصب سے کیا جاتا ہے یا عدم تدبر اور علمی فقدان کا نتیجہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ کثرت اسماء، کثرت اوصاف و کمالات پر دلالت کرتا ہے.خود اُس خدائے واحد و یگانہ کے صفاتی نام ان گنت ہیں.کہ الْأَسْمَاءُ الحُسْنى (طه:9 - لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمْتُ رَبِّي وَلَوْجِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكهف: 110).پھر اس کی ان صفات میں سے بعض بظاہر ایک دوسرے کے بالکل متضاد بھی ہیں.مثلاً وہ مجیبی بھی ہے اور ممیت بھی.معز بھی ہے اور مذان بھی.غفور و رحیم بھی ہے اور شدید العذاب بھی.بایں ہمہ یہ مسلمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کی کثرت کوئی قابل اعتراض شے نہیں بلکہ یہ اس کی عظمت اور کمال پر دلالت کرتے ہیں.ایسے ہی صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ، سید الاولین والآخرین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ، احمد مجتبی اللہ کے بھی سینکڑوں نام قرآن و حدیث اور علماء ربانی نے بیان کئے ہیں.علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عام آدمی کے بھی عمر اور زمانہ کے لحاظ سے نام و مقام بدلتے رہتے ہیں.مثلاً وہ بیک وقت کسی کا بیٹا ہوگا، کسی کا پوتا، نواسہ، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بھائی وغیرہ.اور شادی شدہ ہونے کی صورت
اسماء المهدی صفحہ 36 میں خاوند، داماد، پھوپھا، خالو، بہنوئی وغیرہ.اولاد ہونے کی صورت میں باپ، دادا، نانا،خسر وغیرہ.الغرض ایک ہی شخص کے مختلف نسبتوں سے اس کے مختلف درجات و مقامات و خطاب و القاب ہو سکتے ہیں.اور بسا اوقات اسے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد نام بھی دئے جاتے ہیں مثلاً وہ باپ بھی ہے اور بیٹا بھی.دادا بھی ہے اور پوتا بھی.نانا بھی ہے اور کسی کا خود نواسہ بھی.ماموں بھی ہے اور بھانجا بھی.چا بھی ہے اور کسی کا بھتیجا بھی وغیرہ ڈلک.اور ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک آدمی کو یہ سب مقامات حاصل ہوتے ہیں.اس کے علاوہ کاروبار اور پیشوں کے لحاظ سے الگ نام ہیں.لیکن اس پر کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرتا.بلکہ یہ چیز اس کے بڑے خاندان، لمبی عمر اور وسیع برادری پر دلالت کرتی ہے.یہی حکمت حضرت مہدی علیہ السلام کے ناموں کی ہے.آپ قرآنی پیشگوئی وَإِذَا الرُّسُلُ أُقْسَتْ (سورة المرسلات (12) کے مصداق اور موعود اقوام عالم ہیں.اس لئے آپ کو بہت سے ناموں سے پکارا گیا ہے.اور ان ناموں میں بہت سے حقائق بیان کئے گئے ہیں جو آپ کی صداقت کا ثبوت ہیں.كتابُ الصِّرَاطُ السَّوِي فِي أَحْوَالِ الْمَهْدِي “ میں لکھا ہے کہ مہدی کے بے شمار نام ہیں.وہ لکھتے ہیں : بوجہ مظہر اوصاف الہی وخلیفہ ہونے کے وَجْهُ الله عَيْنُ الله يَدُ الله، يَمِيْنُ الله قوة الله حبيب اللہ کے القاب سے پکارے جاتے ہیں.(الصراط السوى فى احوال المهدى صفحه 443)
اسماء المهدی صفحہ 37 چونکہ مہدی آخر الزماں فنا فی الرسول ہونے کی وجہ سے وارث اوصاف محمد مصطفی ملتے ہیں.اس لحاظ سے بھی آپ کے بے شمار نام ہیں.چنانچہ صاحب كتاب الصِّراطُ السَّوِيُّ فِي أَحْوَالِ المَهْدِي “ لکھتے ہیں: اور آنحضرت جامع جمیع اوصاف انبیاء ہیں اور مہدی آخرالزماں وارث اوصاف محمد مصطفیٰ.لہذا وہ بھی جمیع اوصاف انبیاء حاوی و جامع ہیں.اور خلیفہ خدا و حجتہ اللہ.اس لئے ان کے اسماء و القاب بھی بلحاظ کثرت اوصاف بہت ہی زیادہ ہیں بلکہ ہم سب پر احاطہ بھی نہیں کر سکتے.“ الصراط السوی فی احوال المهدی مصنفہ سید محمد سبطین السرسوی ،صفحہ 442) حضرت مہدی معہود علیہ السلام مختلف انبیاء کے نام دئے جانے کی ایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ان ناموں میں موجودہ زمانہ کے لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے اور ان کے انجام کی طرف بھی اشارہ ہے.چنانچہ آپ اپنے ایک الہامی خطاب جريُّ اللهِ فِي حُلل الأنبياء لعن رسول خدا تمام گزشتہ انبیا علیہم السلام کے پیرایوں میں، کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے جانی دشمن اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے، جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا، اس زمانہ کے اکثر لوگ بھی ان سے وو
اسماء المهدی مشابہ ہیں اگر تو بہ نہ کریں.صفحہ 38 غرض اس وحی الہی میں یہ جتلا نا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالات اخیار اور کمالات اشرار ہے.اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانہ کے شریر تمام گزشتہ عذابوں کے مستحق ہیں.یعنی اس زمانہ میں تمام گزشتہ عذاب جمع ہو سکتے ہیں...اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے گزشتہ نبیوں کے ساتھ رنگارنگ طریقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں.ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی.66 ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 117-116) ان اسماء و خطابات کی تشریح کے مطالعہ سے حضور علیہ السلام کی حیات طیبہ ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے آتی ہے.انہی صفات کے ذریعہ آپ کے عالی مقام و بلند مرتبہ ، فرائض و ذمہ داریوں اور ایسے ہی اس زمانہ کے سیاسی وسماجی، معاشرتی و تمدنی اور جسمانی و روحانی حالات کا اظہار کیا گیا ہے.نیز دوستوں اور دشمنوں کا انجام بتایا گیا ہے.آپ پر کئے جانے والے اعتراضات والزامات کی پیشگوئی اور پھر انہی ناموں کے ذریعہ ان الزامات کی تردید یا بالفاظ دیگر ہرقسم کے اعتراضوں اور الزاموں کی تردید یا جواب صرف نام کے ذریعہ دیا گیا ہے.نیز اس کے مطالعہ سے کثرت اسماء کا فلسفہ بھی معلوم ہوگا اور معترضین کے اس اعتراض کا جواب بھی کہ کیا ما نہیں، کبھی مرزا صاحب آدم بنتے ہیں، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب، کبھی مسیح و مہدی، کبھی مریم، کبھی نبی، کبھی مجد دو محدث ، کبھی ظلی و بروزی نبی و غیره؟
اسماء المهدی صفحہ 39 الغرض ان ناموں کے ذریعہ بہت بڑے حقائق کو بیان کیا گیا ہے جیسا کہ قارئین کرام اس کے مطالعہ سے معلوم کر لیں گے.جن اسماء کی تشریح نہیں کی گئی ، اسی اصول پر ان سے بھی بہت سے حقائق کی طرف اشارہ ہوتا ہے.فافهم و تدبر - مختلف دعاوی آپ کے مختلف دعاوی بھی اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں مثلاً آپ مجدد ہیں ان معنوں میں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی پر مجدد آئے گا جو مفاسد موجودہ کی تجدید و اصلاح کرے گا اور ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ جس سے لاکھوں کروڑوں انسان روحانی لحاظ سے ہلاک ہوئے وہ پادریوں کا فتنہ تھا.اس لحاظ سے اس صدی کے مجدد کا سب سے بڑا کام اور فریضہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ وہ کسر صلیب کرے اور عقیدہ تثلیث کو پاش پاش کرے.حضرت مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کام عظیم الشان رنگ میں کر کے دکھایا جس کا شدید مخالفین کو بھی اقرار ہے.اس کی تفصیل آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے اور عملاً آپ کی جماعت کا تمام دنیا میں عیسائیت سے کامیاب مقابلہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ مجدد برحق ہیں.اور...جس صدی کے مجد دکا یہ کام ہے وہی مسیح موعود اور عیسی بھی ہے کیونکہ اسی کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیث میں مسیح اور عیسی کر کے ذکر فرمایا ہے.نبی : آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بار بار نبی کر کے بھی پکارا ہے.
اسماء المهدی صفحه 40 نجی کے نام میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کثرت سے آپ کے ساتھ مکالمہ و مخاطبہ فرمایا ہے اور آپ نے تجدید دین الہام الہی اور وحی آسمانی کی راہنمائی میں کی ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ جو صداقت اور معانی ومفہوم وحی والہام کے ذریعہ قائم ہو اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے قرآنی صداقتوں کو اپنے مخالفین اور غیر مسلموں کے سامنے بڑی تھدی سے پیش کیا اور ان صداقتوں کو توڑنے والوں کے لئے بھاری انعامات مقرر فرمائے جس کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا.آنحضرت ﷺ نے بھی آپ کا نام نبی رکھ کر (مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذكر الدجال و صفته و ما معه سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال) مہدی معہود اور مسیح موعود کی صداقت کی یہ علامت بتائی تھی کہ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ کثرت سے مکالمہ مخاطبہ کرے گا.اور اخبار غیبیہ کے اظہار میں غلبہ بخشے گا.اس نام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے فیصلے اپنے اجتہاد اور قیاس سے نہ ہوں گے بلکہ وحی والہام کی بناء پر ہوں گے.اس نام میں ایک اور بھی خبر دی گئی ہے کہ اس کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوگا کیونکہ نبوت کی برکات کو ہمیشہ خلافت کے ذریعہ سے قائم رکھا جاتا ہے اور اس نام میں یہ بتایا گیا تھا کہ حسب پیشگوئی مخبر صادق اللہ خلافت علی منہاج نبوت ہوگی.اور امامت بصورت خلافت ہوگی.خلیفہ: آپ کو خلیفہ کا بھی لقب دیا گیا ہے.خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں جو اپنے آقا ومطاع کی برکتوں کا وارث ہوتا ہے.پس خلیفہ کہہ کر اس غلطی کا ازالہ کیا
اسماء المهدی صفحه 41 گیا ہے جو نبی کے نام سے ہو سکتی تھی کہ آپ نے کوئی مستقل اور حقیقی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جونئی شریعت یا یا کلمہ لانے والا ہوتا ہے اور بر اور است یہ مقام حاصل کرتا ہے.کسی پہلے نبی کی پیروی کے نتیجے میں نہیں ہوتا.اسی کی تشریح میں آپ نے فرمایا ہے کہ میں امتی اور ظلی نبی ہوں یعنی میں نے جو کچھ پایا ہے، حضرت خاتم النبيين محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی برکت سے پایا ہے.نوٹ : سیدنا حضرت مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے اسماء وصفات احادیث و روایات میں بیان کئے گئے ہیں.ایسے ہی علماء و اولیائے امت نے بھی بیان کئے ہیں.خاکسار نے ان کا ذکر اس مقالہ میں نہیں کیا.اس مقالہ میں صرف ان صفات وخطابات والقاب کا ذکر کیا گیا ہے جو حضور علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمائے ہیں.جن کے ذریعہ آپ کے عالی مقام و مرتبہ کا اظہار ہوتا ہے.اور جو اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں.اور ابھی مزید تحقیق کی گنجائش موجود ہے.یہ اتنا وسیع مضمون ہے کہ آگے ایک ایک نام یا صفت پر مقالہ لکھا جاسکتا ہے.اس مقالہ کا خاکسار نے’اسماءالمہدی“ نام رکھا ہے لیکن یہاں اسماء سے مراد صفات ، خطاب اور القاب وغیرہ ہیں.اسماء کا لفظ خود اس مفہوم کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے.خاکسار بشیر احمد قمر 2 دسمبر 1979ء
صفحه 42 اسماء المهدی
اسماء المهدی صفحه 43 ہمارا مذہب اور عقائد ” ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰ ﷺ خاتم النبيين و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ ا تمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے.اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے.اور اب کوئی ایسی وجی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے.اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی ﷺ کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا.چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں.
اسماء المهدی صفحہ 44 کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز نیچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے بلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 170-169 - ازالہ اوہام حصہ اوّل) نیز حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے ہے.لکھتے ہیں: " جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مار نا حکم ہے، ہم اس کو پنجہ ماررہے ہیں.اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا كِتَابُ الله اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو، قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں.بالخصوص قصوں میں جو بالا تفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں.اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد صيد الله مصطفی ہے اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجسادحق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے، وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض
اسماء المهدی صفحہ 45 اور اباحت کی بنیاد ڈالے ، وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.“ لصل (روحانی خزائن جلد 14 ، صفحہ 323.ایام ا ع )
اسماء المهدی صفحہ 46
اسماء المهدی صفحه 47 اغراض بعثت میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو وو وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں.اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں، حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائی پودا لگا دوں.اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 180 لیکچر لاہور ) ”خدا میرے پر نہ صرف اپنے قول سے ظاہر ہوا ہے بلکہ اپنے فعل کے ساتھ بھی اس نے میرے پر نجاتی کی اور میرے لئے وہ کام دکھلائے اور دکھلائے گا کہ جب تک کسی پر خدا کا خاص فضل نہ ہو، اس کے لئے یہ کام دکھلائے نہیں جاتے.لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا لیکن خدا نے مجھے قبول کیا.
اسماء المهدی صفحہ 48 کون ہے جو ان نشانوں کے دکھلانے میں میرے مقابل پر آسکتا ہے.میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو.وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھا.مگر اب اس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے ایمانوں کا منہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں.“ 66 (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 620-619 - تمہ حقیقة الوحی......) ” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.“ وو (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 307-306-الوصیت ) خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.“ وو (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143 - تریاق القلوب) حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: رحمت کے نشان دکھلا نا قدیم سے خدا کی عادت ہے.مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے.اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی
اسماء المهدی صفحه 49 میں اس کے آستانہ پر پڑا رہے.تا جو چاہے سو کرے.اگر تم ایسا کروگے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہوگا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپالیا ہے.کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے اور اس کی قضا و قدر پر ناراض نہ ہو.سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو.نیز فرمایا: خرید (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11 - کشتی نوح) کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ یہ تمہارا خدا ہے تا لوگ سن لیں.اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ
اسماء المهدی صفحہ 50 تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22-21 - کشتی نوح) ہے بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا بن ہے یہ دنیائے دُوں طاعوں کرے اس میں شکار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک یسے جینے سے تو بہتر کر کے ہو جانا غبار چھٹ گئے شیطاں سے جو تھے تیری الفت کے اسیر جو ہوئے تیرے لئے بے برگ و بر.پائی بہار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 138 - 139 - براہین احمدیہ حصہ پنجم ) مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں.اور یہ سب کام ہورہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 9.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے، الله یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی نبوت قائم کی جائے جو
اسماء المهدی 66 صفحہ 51 ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے.اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جو ان لوگوں نے بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں.ان ساری گڈیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ ” تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ ﷺ کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو اُن جھوٹی نبوتوں کے بُت کو تو ڑ کر نیست و نابود کرے.پس اسی کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.( ملفوظات جلد دوم، صفحه 65-64 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) دنیا میں ایک عظیم الشان نبی انسانوں کی اصلاح کے لئے آیا.یعنی سیدنا صلى الله حضرت محمد مصطفی ﷺ اور اس نے اس بچے خدا کی طرف لوگوں کو بلایا جس کو دنیا بھول گئی تھی.لیکن اس زمانہ میں اس کامل نبی کی ایسی تو ہین اور تحقیر کی جاتی ہے جس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی.پھر خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے ایک بندہ کو جو یہی لکھنے والا ہے بھیجا تا اس نبی کی سچائی اور عظمت کی گواہی دے اور خدا کی توحید اور تقدیس کو دنیا میں وو پھیلادے.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 367-366 نسیم دعوت ) وہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق ہے میرے پر ظاہر ہوا اور اس نے اس آخری زمانہ کے لئے مجھے مسیح موعود کیا....اور اسی نے میرے ساتھ
اسماء المهدی صفحه 52 ہمکلام ہو کر مجھے یہ بتلایا کہ وہ نبی جس نے قرآن پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا وہ سچا نبی ہے اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے.اور بجز اس کی متابعت کے ہرگز ہرگز کسی کوکوئی نو ر حاصل نہیں ہوگا.اور جب میرے خدا نے اس نبی کی وقعت اور قدر اور عظمت میرے پر ظاہر کی تو میں کانپ اٹھا اور میرے بدن پر لرز و پڑ گیا.کیونکہ جیسا کہ حضرت عیسی مسیح کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ ان کو خدا بنادیا اسی طرح اس مقدس نبی کا لوگوں نے قدر شناخت نہیں کیا جیسا کہ حق شناخت کرنے کا تھا اور جیسا کہ چاہئے لوگوں کو اب تک اس کی عظمتیں معلوم نہیں.وہی ایک نبی ہے جس نے تو حید کا تم ایسے طور پر بویا جو آج تک ضائع نہیں ہوا.وہی ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بگڑ گئی تھی.اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمندر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا گیا.اور وہی ایک نبی ہے جس کے لئے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت دکھلاتا رہا ہے.اور اس کی تصدیق اور تائید کے لئے ہزارہا معجزات ظاہر کرتا رہا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت تو ہین کی گئی اس لئے خدا کی غیرت نے جوش مارا اور سب گزشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اس نے مسیح موعود کر کے بھیجا تا کہ میں اس کی نبوت کے لئے تمام دنیا میں گواہی دوں.“ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 619-618.تتمہ حقیقۃ الوحی ) حضور علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسماء المهدی صفحہ 53 نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور صلى الله تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر حمد مصطفی ہے.سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو.اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ..نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد اللہ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.“ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14-13 - کشتی نوح) مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید کے لئے بھیجا ہے ” خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تا وہ غلطیاں جو بجز خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں.اور منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے.اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے.سو یہی ہو رہا ہے.قرآن کریم کے معارف ظاہر ہورہے ہیں.لطائف اور دقائق کلام ربانی کے کھل رہے ہیں.نشان آسمانی اور خوارق
اسماء المهدی صفحه 54 ظہور میں آرہے ہیں.اور اسلام کے حسنوں اور نوروں اور برکتوں کا خدا تعالیٰ نئے سرے سے جلوہ دکھلا رہا ہے.جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہیں دیکھے اور جس میں سچا جوش ہے وہ طلب کرے.اور جس میں ایک ذرہ حُبّ اللہ اور رسول کریم کی ہے وہ اٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہووے جس کی بنیادی اینٹ اس نے اپنے پاک ہاتھ سے رکھی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 24 - بركات الدعا) میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں.اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں، ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 34.بركات الدعا) مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تا کہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دُور کرے اور اپنی بیج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں.بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و رنج و براہین اور خدا تعالی کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں
اسماء المهدی صفحه 55 جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں.اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوی میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے.اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دُور کر دے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں.تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوں گے.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے پاک درخشاں چہرہ سے یہ سب گردوغبار دُور کرے اور اس کی خوبیوں اور حسن و جمال سے دنیا کو اطلاع بخشے.چنانچہ اسی غرض اور مقصد کے لئے اس وقت جبکہ اسلام دشمنوں کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے بے کس اور یتیم بچہ کی طرح ہورہا تھا اس نے اپنا یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مجھے بھیجا ہے تا میں عملی سچائیوں اور زندہ نشانات کے ساتھ اسلام کو غالب کروں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 130- 129 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علت غائی کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت
اسماء المهدی صفحہ 56 سکھاؤں بانٹے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی.ہر گز نہیں.اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک سخت گمراہ اور بے دین ہے.آنحضرت ﷺ پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے.اب کوئی شریعت نہیں آسکتی.قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے.ہاں یہ کیا ہے کہ آنحضرت نے کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا.وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 553 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) " آہ میں تم کو کیونکر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہورہی ہے.دیکھو! میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے.اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے.مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے.چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 432 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے ہیں کفر کو کھانے کے دن
اسماء المهدی صفحه 57 اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے موافق کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر (10) قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 433 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) میں اس لئے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 174 جدید ایڈیشن مطبوعد ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.وو 66 (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13 - کشتی نوح) سوتم ہوشیار رہو اور دا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا درواز و اپنے
اسماء المهدی صفحہ 58 ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں.اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو، ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن که تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے." (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 27-26 - کشتی نوح)
اسماء المهدی صفحه 59 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس قدر نام دیئے گئے ہیں وہ سب آنحضرت عیہ کے طفیل ہیں که در راه مــحــمــد زد قدم انبیاء را شد مثیل آن م ترم جس نے محمد ﷺ کے طریقے پر قدم مارا، وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس قدر اسماء وخطابات سے سرفراز کیا گیا ہے.دراصل ان سب کا حقیقی مصداق سید نا وسید الورکی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبی ﷺے ہیں.اور آپ کے کسی امتی کو ان ناموں سے پکارا جانا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ فنافی الرسول کا مقام رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آدم نام کی حقیقت اور وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وو صلى الله آخری زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں..اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی ہے“.(روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 258-257 ترجمه از خطبہ الہامیہ )
اسماء المهدی سچ ہے.صفحه 60 ہے شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے ایک اور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمارے نبی ﷺ تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں.کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے.پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِه یعنی اے رسول اللہ ! تُو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں صلى الله آنحضرت ﷺ کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محمد کا نام ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ محمد کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا.اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہوسکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت لعل الا اللہ میں جمع ہوں.آنحضرت ﷺ کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پا کر یہی خیال 66 کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے.(روحانی خزائن جلد پنجم.آئینہ کمالات اسلام صفحہ 343)
اسماء المهدی میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صفحہ 61 یادر ہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے، نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں.خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: قُلْ أُجَرَدُ نَفْسِي مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے.میرا اس میں دخل نہیں ہے.میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو.مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبر ا نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا.ابتدا (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 153-152 - حقیقۃ الوحی ) سے گوشتہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
اسماء المهدی صفحه 62 پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رڈ کروں حکم شہ ذی الاقتدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 128) اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرور روزگار کھول کر دیکھو برا ہیں جو کہ ہے میری کتاب اس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اس کو ایک بار اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے اس قدر امر نہاں پر کسی بشر کو اقتدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 136) مسیح موعود کے تمام اسماء وخطابات صفاتی ہیں روایت و آثار میں امام مہدی کے بہت سے نام گنائے گئے ہیں لیکن ایسی روایت بھی ملتی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح و مہدی کا ذاتی نام سوائے خدا ورسول اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے کسی کو علم نہیں.چنانچہ ذیل میں بحار الانوار
اسماء المهدی صفحه 63 کی ایک روایت درج کی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا ذاتی نام کسی کو معلوم نہیں ہے.حضرت امام جعفر سے روایت ہے کہ سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے امام مہدی کا نام دریافت فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا : أَمَا اسْمُه فَلا ، إِنَّ حَبِيْبِي وَ خَلِيْلِيْ عَهِدَ إِلَيَّ أَن لَّا أُحَدِتَ بِاسْمِهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَهُوَ مِمَّا اسْتَوْدَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَسُوْلَهُ فِي 66 علمه “ (بحارالانوار جلد 51 باب النهي عن التسمية صفحہ 34-33 داراحياء التراث العربی.بیروت طبع ثالث 1983ء) یعنی اس کا نام تو میں نہیں بتاتا کیونکہ میرے حبیب اور میرے دوست نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں اس کا نام کسی کو نہ بتاؤں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے مبعوث کرے اور یہ ان امور میں سے ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو دیا ہے.پس اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی مسعود علیہ السلام کے تمام نام صفاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے ایک امتی کی تعریف و توصیف کرنے میں حکمت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصہ سوم میں اپنے بہت سے الہامات لکھے ہیں جن میں آپ کی تعریف کی گئی ہے.اس تعریف کی حکمت و فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام لکھتے ہیں :
اسماء المهدی صفحہ 64 اس جگہ بعض خاموں کے دلوں میں یہ وہم بھی گذر سکتا ہے کہ اس مندرجہ بالا الہامی عبارت میں کیوں ایک مسلمان کی تعریفیں لکھی ہیں.سو سمجھنا چاہئے کہ ان تعریفوں سے دو بزرگ فائدے محصور ہیں جن کو حکیم مطلق نے خلق اللہ کی بھلائی کے لئے مد نظر رکھ کر ان تعریفوں کو بیان فرمایا ہے.ایک یہ کہ تا نبی متبوع کی متابعت کی تاثیر میں معلوم ہوں اور تا عامہ خلائق پر واضح ہو کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی کس قدرشان بزرگ ہے.اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجے پر روشن تاثیریں ہیں.جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے.کسی کو عارف کے درجے تک پہنچاتا ہے.کسی کو آیت اللہ اور حجتہ اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے.دوسرے یہ فائدہ کہ نئے مستفیض کی تعریف کرنے میں بہت سی اندرونی بدعات اور مفاسد کی اصلاح متصور ہے.کیونکہ جس حالت میں اکثر جاہلوں نے گزشتہ اولیاء اور صالحین پر صد با اس قسم کی تہمتیں لگارکھی ہیں کہ گویا انہوں نے آپ یہ فہمائش کی تھی کہ ہم کو خدا کا شریک ٹھہراؤ اور ہم سے مرادیں مانگو اور ہم کو خدا کی طرح قادر اور متصرف فی الکائنات سمجھو.تو اس صورت میں اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو اپنے پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں تب تک وعظ اور پند اس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا.کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں
اسماء المهدی صفحه 65 کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کو کب پہنچ سکتا ہے.اور جب خود ہمارے بڑے پیروں نے مرادیں دینے کا وعدہ دے رکھا ہے تو یہ کون ہے اور اس کی کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت.تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں.سو یہ دو فائدے بزرگ ہیں جن کی وجہ سے اس مولیٰ کریم نے کہ جو سب عزتوں اور تعریفوں کا مالک ہے اپنے ایک عاجز بندہ اور مشتِ خاک کی تعریفیں کیں.ورنہ در حقیقت نا چیز خاک کی کیا تعریف.سب تعریفیں اور تمام نیکیاں اسی ایک کی طرف راجع ہیں کہ جو رَبُّ الْعَالَمِينَ اور الْحَيُّ الْقَيُّوْمِ ہے.اور جب خداوند تعالیٰ عز اسمہ مصلحت مذکورہ بالا کی غرض سے کسی بندہ کی جس کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح منظور ہے، کچھ تعریف کرے تو اس بندہ پر لازم ہے کہ اس تعریف کو خلق اللہ کی نفع رسانی کی نیت سے اچھی طرح مشتہر کرے.اور اس بات سے ہرگز نہ ڈرے کہ عوام الناس کیا کہیں گے...در حقیقت یہ تعریفیں عوام الناس کے حق میں موجب بہبودی ہیں.اور گوابتداء میں عوام الناس کو وہ تعریفیں مگر وہ اور کچھ افتر اسا معلوم ہوں لیکن انجام کا رخدائے تعالیٰ ان پر حق الا مر کھول دیتا ہے.اور جب اس ضعیف بندہ کا حق بجانب ہونا اور مُؤَيَّدُ مِنَ الله ہونا عوام پر کھل جاتا ہے تو وہ تمام تعریفیں ایسے شخص کی کہ جو میدان جنگ میں کھڑا ہے ایک فتح عظیم کا موجب ہو جاتی ہیں.اور ایک عجیب اثر پیدا کر کے خدا کے گم گشتہ بندوں کو اصلی تو حید اور تفرید کی طرف کھینچ لاتے ہیں.اور
اسماء المهدی صفحہ 66 اگر تھوڑے دن ہنسی اور ملامت کا موجب ٹھہریں تو ان ٹھٹھوں اور ملامت کا برداشت کر نا خادم دین کے لئے عین سعادت اور فخر ہے“.(روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 273-270 - براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیہ نمبر 1) یہ ساری تعریف اور بزرگی آنحضرت ﷺ ہی کی ہے کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں اپنے مدارج کو حد سے بڑھاتا ہوں.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری طبیعت اور فطرت میں ہی یہ بات نہیں کہ میں اپنے آپ کو کسی تعریف کا خواہشمند پاؤں اور اپنی عظمت کے اظہار سے خوش ہوں.میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کرتا ہوں لیکن یہ میرے اختیار اور طاقت سے باہر تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود مجھے باہر نکالا اور جس قدر میری تعریف اور بزرگی کا اظہار اس نے اپنے پاک کلام میں جو مجھ پر نازل کیا گیا ہے، کیا، یہ ساری تعریف اور بزرگی آنحضرت ﷺ ہی کی ہے.احمق اس بات کو نہیں سمجھ سکتا مگر سلیم الفطرت اور بار یک نگاہ سے دیکھنے والا دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس وقت واقعی ضروری تھا کہ جبکہ آنحضرت ﷺ کی اس قدر ہتک کی گئی ہے اور عیسائی مذہب کے واعظوں اور منادوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اُس سید الکونین کی شان میں گستاخیاں کی ہیں.اور ایک عاجز مریم کے بچے کو خدا کی کرسی پر جا بٹھایا ہے.اللہ تعالی کی غیرت نے آپ کا جلال ظاہر کرنے کیلئے یہ مقدر کیا تھا کہ آپ کے ایک ادنی غلام کو مسیح الله
اسماء المهدی صفحہ 67 ابن مریم بنا کے دکھا دیا.جب آپ کی امت کا ایک فردا تنے بڑے مدارج حاصل کر سکتا ہے تو اس سے آپ کی شان کا پتہ لگ سکتا ہے.پس یہاں خدا تعالیٰ نے جس قدر عظمت اس سلسلہ کی دکھلائی ہے اور جو کچھ تعریف کی ہے، یہ در حقیقت آنحضرت ﷺ ہی کی عظمت اور جلال کیلئے ہے.66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 10-9 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) اللہ تعالیٰ کے ایک نبی کو انبیاء سابقہ کے نام دینے کی حکمت و فلسفہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں: وو اللہ جلشانہ کی اس عادت قدیمہ سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ روحانی مناسبت کی وجہ سے جو ایک کا نام ہے وہ دوسرے کا رکھ دیتا ہے.ابراہیمی المشرب اس کے نزدیک ابراہیم ہے اور موسوی المشرب اس کے نزدیک موسیٰ ہے اور عیسوی المشرب اس کے نزدیک عیسی ہے.اور جو ان تمام مشربوں سے حصہ رکھتا ہے وہ ان تمام ناموں کا مصداق ہے.(روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 314- ازالہ اوہام حصہ اوّل) گویا کسی امتی کو متفرق انبیاء کے نام دینے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ انبیاء گزشتہ کی کسی نہ کسی صفت وخُلق کا مظہر ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھلا کر مثیل انبیاء بننے کی امید دلائی ہے کہ تم مثیل بننے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تو فیق چاہو، وہاں مثیل بنے کا طریق بھی
اسماء المهدی صفحہ 68 بتایا ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا تعالیٰ بھی تم سے محبت رکھے اور تمہیں اپنا محبوب بنالیوے.پس جس طرح آنحضرت له جامع جمیع کمالات وصفات صلى الله انبیاء ہیں اسی طرح آپ کے کامل پیروکار بھی حسب وعدہ انبیاء سابقہ کے کمالات رکھنے والے ہیں اور اسی حقیقت کی طرف آنحضرت ﷺ نے یہ کہہ کر اشارہ فرمایا صلى الله ہے کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِیل میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کے مثیل ہیں.چنانچہ حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں: " آج تک جس قدرا کا بر متصوّفین گزرے ہیں ان میں سے ایک کو بھی اس میں اختلاف نہیں کہ اس دین متین میں مثیل الانبیاء بننے کی راہ کھلی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ روحانی اور ربانی علماء کے لئے یہ خوشخبری فرما گئے ہیں کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِيْ كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ.اور حضرت بایزید بسطامی قدس سرہ کے کلمات طیبہ مندرجہ ذیل جو تذكرة الاولياء میں حضرت فرید الدین عطار صاحب نے بھی لکھے ہیں اور دوسری معتبر کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں اسی بناء پر ہیں.جیسا کہ فرماتے ہیں کہ میں ہی آدم ہوں، میں ہی شیث ہوں، میں ہی نوح ہوں، میں ہی ابراہیم صلى الله ہوں ، میں ہی موسیٰ ہوں، میں ہی عیسی ہوں، میں ہی محمد ہوں وَعَلَى إِخْوَانِهِ أَجْمَعِيْن“.(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 230 - ازالہ اوہام حصہ اوّل)
اسماء المهدی صفحہ 69 خدائی خطاب میں ایک حقیقت ہوتی ہے اور وہی فخر کے لائق ہے اگر چہ انسانوں کے لئے بادشاہوں اور سلاطین وقت سے بھی خطاب ملتے ہیں مگر وہ صرف ایک لفظی خطاب ہوتے ہیں جو بادشاہوں کی مہربانی اور کرم اور شفقت کی وجہ سے یا اور اسباب سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں.اور بادشاہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوتے کہ جو خطاب انہوں نے دیا ہے اس کے مفہوم کے موافق وہ شخص اپنے تئیں ہمیشہ رکھے جس کو ایسا خطاب دیا گیا ہے.مثلاً کسی بادشاہ نے کسی کو شیر بہادر کا خطاب دیا تو وہ بادشاہ اس بات کا متکفل نہیں ہوسکتا کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنی بہادری دکھلاتا رہے گا.بلکہ ممکن ہے کہ ایسا شخص ضعف قلب کی وجہ سے ایک چوہے کی تیز رفتاری سے بھی کانپ اٹھتا ہو چہ جائیکہ وہ کسی میدان میں شیر کی طرح بہادری دکھلاوے.لیکن وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ سے شیر بہادر کا خطاب ملے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ درحقیقت بہادر ہی ہو.کیونکہ خدا انسان نہیں ہے کہ جھوٹ بولے یا دھوکہ کھاوے یا کسی پولیٹیکل مصلحت سے ایسا خطاب دیدے جس کی نسبت وہ اپنے دل میں جانتا ہے کہ دراصل وہ شخص اس خطاب کے لائق نہیں ہے.اس لئے یہ بات محقق امر ہے کہ فخر کے لائق وہی خطاب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے.“ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 502- تریاق القلوب )
اسماء المهدی صفحہ 70 اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے تمام خطابات والقاب اپنے اندر عظیم الشان صداقتیں اور اسرار لئے ہوئے ہیں جن کو ایک حد تک حضور علیہ السلام نے خود ظاہر فرمایا ہے اور بعض خطاب واسماء کا صرف ذکر کیا ہے.ہم نے بھی ان کو اسی طرح لکھ دیا ہے.ان میں بھی عظیم الشان حقائق کی طرف اشارہ ہے.ہر شخص حسب استعداد ان سے استنباط واستدلال کر کے حضور علیہ السلام کے عالی مقام کا اندازہ کر سکتا ہے.
اسماء المهدی آدم أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ صفحہ 71 ( تذکر طبع چہارم صفحه 54) سید نا امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے ناموں سے پکارا ہے.ان ناموں میں سے ایک نام آدم ہے.حضور اقدس نے ان تمام اسماء وصفات کا حقیقی مصداق آنحضرت ﷺ کو قرار دیا الله الله ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے آدم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بے شک ہمارے نبی کو دنیا کے خاتمہ کے آدم اور زمانہ کے دنوں کے منتہی تھے.اور آنحضرت یہ آدم کی طرح پیدا کئے گئے اس کے بعد کہ زمین پر ہر طرح کے کیڑے مکوڑے اور چار پائے ، درندے پیدا ہو گئے.اور جس وقت خدا نے اس مخلوق یعنی حیوانوں ، درندوں اور چیونٹیوں کو زمین پر پیدا کیا یعنی فاجروں اور کافروں اور دنیا پرستوں کے ہر گروہ کو پیدا کیا اور آسمان میں ستارے اور چاندوں اور سورجوں یعنی پاک نفوس مستعدہ کو ظہور میں لایا.تو بعد اس کے اس آدم کو وجود کا خلعت پہنایا جس کا نام محمد اور احمد ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.اور وہ آدم کی اولاد کا سرداراورخلقت کا امام اور سب سے زیادہ تقی اور سعید ہے.
اسماء المهدی صفحه 72 پس شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ آخر زمانہ کے آدم ہیں اور امت اس نبی محمود کی ذریت کی بجا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 261-259 - ترجمه ماخوذ از خطبہ الہامیہ ) -1 آدم نام میں آئندہ فتنوں اور ان سے براءت اور موجودہ زمانہ کی حالت بیان کی گئی ہے.خدائے علام الغیوب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم نام دے کر اور ان آیات کو آپ پر وحی کر کے جو آدم کے حق میں قرآن کریم میں نازل ہو چکی ہیں، جن میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق فتنہ و فساد اور خونریزی کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اِنِّی اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ کہہ کر ان کا جھوٹا ہونا ظاہر فرمایا تھا، یہ پیشگوئی فرمائی کہ آپ پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے جائیں گے.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اور ( لوگوں نے.ناقل ) کہا کہ فلاں مظلوم مارا گیا اور فلانے عیسائی کے قتل کا ارادہ کیا گیا ہے.اور قتل کو میری طرف منسوب کیا تا کہ مجھے ان لوگوں میں داخل کریں جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور ظلم اور فساد سے لوگوں کو مار ڈالتے ہیں.یہ باتیں ان کی زبان پر اس لئے جاری ہوئیں تا کہ خدا تعالیٰ کی اس خبر کو پورا کریں جو پہلے مذکور ہو چکی اور اس لئے کہ میری مشابہت آدم سے فساد اور خونریزی کی تہمت میں ثابت وو
اسماء المهدی 6* صفحہ 73 کریں.پس خدا نے ان کو اپنی وحی کے ذریعہ جواب دیا اور یہ وحی اس مشرک (لیکھرام.ناقل ) کے قتل سے پہلے جس کی نسبت ان کا گمان ہے کہ میں نے اسے قتل کیا ہے.اور اس نصرانی (عبد اللہ آتھم ) کی موت سے پہلے جس کی نسبت ان کا گمان ہے کہ میرے دوستوں نے اس کے قتل کے لئے اس پر حملہ کیا، چھپ کر شائع ہو چکی تھی.پس تعریف ہو اس خدا کی جس نے میری طرف سے ان باتوں کے ساتھ مدافعت کی جو آدم کے حق میں کہی گئی تھیں اور خدا سب دفاع کرنے والوں سے بہتر ہے.“ (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 253-251 - ترجمه از خطبہ الہامیہ) 2.آدم نام رکھ کر اس زمانہ کے لوگوں کی دینی و اخلاقی حالت کو بیان کیا گیا ہے.وو حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ” بے شک میرے پروردگار کے نزدیک میری مثال آدم کی مثال ہے اور میں پیدا نہیں کیا گیا مگر اس کے بعد کہ زمین پر چوپائے اور درندے اور چیونٹیاں اور بوڑھے بھیڑیے کثرت سے پھیل گئے اور ہر ایک قسم کے وحشیوں نے جہاں تک ان سے ہوسکا ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی بنیاد ڈالی....لا جرم خدا نے مجھ کو آدم بنایا اور مجھ کو وہ سب
اسماء المهدی صفحہ 74 چیزیں بخشیں اور مجھ کو خاتم النبین اور سید المرسلین کا بروز بنایا...آخری صلى الله زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں..اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے“.(روحانی خزائن جلد 16 - صفحہ 258-253 - ماخوذ از خطبہ الہامیہ) ے شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد تم کیسے جدا سمجھے ( کلام محمود، صفحہ 184 نظم نمبر 123.بحوالہ الفضل 28 دسمبر 1946ء) نیز فرمایا: کیا اس زمانہ کے آدم کا کفر کرتے ہیں.حالانکہ زمین کی پیٹھ پر ہر ایک قسم کا دابہ پیدا ہو گیا ہے.کیا نہیں دیکھتے بعض لوگ کتوں کی طرح ہو گئے ہیں.بعض بھیڑیوں کی طرح اور بعض سوروں کی طرح اور بعض گدھوں کی طرح اور بعض سانپوں کی طرح ڈنگ مارتے ہیں اور ایسا کوئی جانور نہیں کہ لوگوں میں سے ایک گروہ اس جیسا نہ ہو گیا ہو.اور افعال میں اس کے مشابہ نہ ہو....آیا اب تک وقت نہیں آیا کہ ان حیوانات کے بعد خدا آدم کو پیدا کرے اور اپنی روح اس میں پھونکے.“ (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 239-237 - ماخوذ از خطبہ الہامیہ ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک ایسے رویا کا ذکر فرماتے ہیں جس میں انسان کو مختلف حیوانوں کی شکل میں دکھایا گیا ہے.چنانچہ آپ اپنی کتاب نزول امسیح ،، میں اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: بالآخر میں ایک اور رویا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ
اسماء المهدی صفحہ 75 یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل گدھے، گھوڑے کتے ، سو ر بھیڑئیے اونٹ وغیرہ جانور ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے، وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قطب کی طرف اس کا منہ ہے خاموش صورت ہے.آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور بن میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کو چاہنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھارہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی.اور پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے.آنکھیں اس کی بہت لمبی ہیں اور میں اس کو ہر دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے،
اسماء المهدی میں مامور ہوں...6 صفحہ 76 حضور اس کی تعبیر فرماتے ہیں کہ : تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دآئبتہ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.“ اور اپنے منظوم کلام میں فرمایا: (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 416-415- نزول مسیح) وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اس میں شکار صيد طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی جو ایماں ہے زباں کا کچھ نہیں آتا بکار کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی کوئی ہے رُوبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار نیز فرمایا: ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 138) سو یہ زمانہ جو آخر الزمان ہے، اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو
اسماء المهدی صفحہ 77 آدم علیہ السلام کے قدم پر پیدا کیا جو یہی راقم ہے اور اس کا نام بھی آدم رکھا جیسا کہ مندرجہ بالا الہامات سے ظاہر ہے اور پہلے آدم کی طرح خدا نے اس آدم کو بھی زمین کے حقیقی انسانوں سے خالی ہونے کے وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں جلالی اور جمالی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح پھونکی کیونکہ دنیا میں کوئی روحانی انسان موجود نہ تھا جس سے یہ آدم روحانی تولد پاتا.اس لئے خدا نے خود روحانی باپ بن کر اس آدم کو پیدا کیا“.(روحانی خزائن جلد 15 ، صفحہ 478-477.تریاق القلوب) تیسری بات جو آدم نام رکھ کر بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو علم لدنی عطا کیا گیا ہے تیسری بات جو آدم نام رکھ کر بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو علم لدنی عطا کیا گیا ہے اور آپ کو علم وفضل میں برتری دی گئی ہے.اس نام میں یہ پیشگوئی بھی تھی کہ لوگ آپ کو بے علم اور جاہل کہیں گے.لیکن آپ خدا تعالیٰ کی تعلیم اور اس کے سکھائے ہوئے علوم و معارف اور حقائق و دقائق کے رو سے سب پر غالب آئیں گے اور دوسروں کی کم علمی ظاہر ہوگی.چنانچہ آپ اپنے مخالفوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس وقت ان سے کہا جائے کہ بہت جلد خلیفہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ اور اس کے الہاموں کی پیروی کرو تا تم پر رحم کیا جائے.ان کی
اسماء المهدی صفحہ 78 آنکھیں غصہ سے سرخ ہو جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ہوا کہ ہم جاہل کی پیروی کریں.حالانکہ ہم اس سے زیادہ عالم ہیں...کیا ہم ایسے شخص کی بیعت کریں کہ اس کو علم سے کچھ حصہ نہیں اور ہم عالم ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 239 - خطبہ الہامیہ ) لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں قبل از وقت آپ کا نام آدم رکھ کر اس الزام کے متعلق پیشنگوئی فرمائی تھی کہ لوگ آپ پر بے علمی کا الزام لگائیں گے وہاں اس نام سے ہی بے علمی کے اعتراض کی تردید بھی فرما دی تھی.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: بعض اہل کشف نے مہدی خاتم الولایت کی علامتوں میں سے لکھا ہے اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد اور کوئی مہدی پیدا نہیں ہوگا، خدا سے براہ راست ہدایت پائے گا جس طرح آدم نے خدا سے ہدایت پائی.اور وہ ان علوم اور اسرار کا حامل ہوگا جن کا آدم خدا سے حامل ہوا.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 480-479.تریاق القلوب ) الصد چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف " ایام الصلح " میں ان علوم و اسرار کے سلسلہ میں تحریر فرمایا کہ: براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی استاد کے جاری کئے ہیں اور جس قدر میں نے اپنی عربیت میں باوجود نہ پڑھنے علم
اسماء المهدی صفحه 79 ادب کے بلاغت اور فصاحت کا نمونہ دکھایا ہے اس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں.مگر انصاف کی پابندی کے لئے بہتر ہوگا کہ اول تمام میری کتابیں براہین احمدیہ سے لے کر ” فریاد درد یعنی ” کتاب البلاغ تک دیکھ لیں اور جو کچھ ان میں معارف اور بلاغت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے اس کو ذہن میں رکھ لیں.اور پھر دوسرے لوگوں کی کتابوں کو تلاش کریں اور مجھ کو دکھلا دیں یہ تمام امور دوسرے لوگوں کی کتابوں میں کہاں اور کس جگہ ہیں.اور اگر نہ دکھلا سکیں تو پھر یہ امر ثابت ہے کہ محمدی برکتیں اس زمانہ میں خارق عادت کے طور پر مجھ کو عطا کی گئی ہیں جن کے رو سے مہدی موعود ہونا میرا لازم آتا ہے.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 406.ایام اصلح ) حضور علیہ السلام کی اس علمی قابلیت کا اقرار آپ کے مخالفین نے بھی کیا ہے.چنانچہ فرقہ اہل حدیث کے مشہور عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضور علیہ السلام کی تصنیف ” براہین احمدیہ پر اپنے ریویو میں لکھا کہ : ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں...ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و بر ہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو.(اشاعة النت جلد ہفتم.نمبر 6 - صفحہ 169 )
اسماء المهدی لکھا: صفحہ 80 اخبار کرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے حضور کی وفات پر مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی ، کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.“ کرزن گزٹ دہلی.یکم جون 1908ء.بحوالہ تاریخ احمد یہ جلد 2 صفحہ 565 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) - چوتھی بات آدم نام میں یہ بتائی گئی ہے کہ اس کی ذریت و نسل تمام دنیا میں پھیل جائے گی.چوتھی بات آدم نام میں یہ بتائی گئی ہے کہ اس کی ذریت ونسل تمام دنیا میں پھیل جائے گی اور مخالفوں کے منصوبے اور پیشگوئیاں پوری نہ ہوسکیں گی.آپ فرماتے ہیں: ” خدا نے جو میرا نام آدم رکھا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بنی آدم کی روحانیت پر موت آگئی تھی.پس خدا نے نئی زندگی کے سلسلہ کا مجھے آدم ٹھہرایا اور اس مختصر فقرہ میں یہ پیشگوئی پوشیدہ ہے کہ جیسا کہ آدم کی نسل تمام دنیا میں پھیل گئی، ایسا ہی یہ میری روحانی نسل اور نیز
اسماء المهدی صفحہ 81 ظاہری نسل بھی تمام دنیا میں پھیلے گی.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 112) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت اولاد کا وعدہ دیا جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا: د, میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی“.(اشتہار20 فروری1886ء.بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96.جدید ایڈیشن مطبوعه ر بوه ) آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جوابوالبشر ہے، مراد نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے.گویا وہ روحانی زندگی کی رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام ونشان نہیں.“ ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 586-585-حاشیہ نمبر 3) اسی سلسلہ میں حضور علیہ السلام نے 1906ء میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا...اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا.اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء
اسماء المهدی صفحہ 82 آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا.اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا...سوالے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 410-409 تجلیات الہیہ ) -5 پانچویں بات آدم نام رکھ کر یہ بتائی گئی ہے کہ آپ کے مخالفین اور عیب جوئی کرنے والے حق کو تسلیم کر لیں گے پانچویں بات آدم نام رکھ کر یہ بتائی گئی ہے کہ آپ کے مخالفین اور عیب جوئی کرنے والے حق کو تسلیم کرلیں گے.چنانچہ حضور علیہ السلام الہام أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں: میں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں.پس میں نے آدم کو خلیفہ بنایا.یہ الہام مدت پچیس برس سے براہین احمدیہ میں درج ہے.اس جگہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام آدم رکھا اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا کہ فرشتوں نے آدم کی عیب جوئی کی تھی اور اس کو رڈ کر دیا تھا مگر آخر خدا نے اسی آدم کو خلیفہ بنایا اور سب کو اُس کے آگے سر جھکانا پڑا.سوخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا.چنانچہ میرے مخالف علماء اور ان کے ہم جنسوں نے عیب جوئی میں
اسماء المهدی صفحہ 83 کمی نہ کی اور تباہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ مکر کا اٹھا نہیں رکھا.مگر آخر کار خدا نے مجھے غالب کیا.اور خدا بس نہیں کرے گا جب تک جھوٹ کو اپنے پیروں کے نیچے نہ کچلے“.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269.حقیقت الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 84 آریوں کا بادشاہ حضرت اقدس مسیح موعود فر ماتے ہیں: بادشاہت سے مراد صرف آسمانی بادشاہت ہے.ایسے لفظ خدا کے کلام میں آ جاتے ہیں.مگر معنی روحانی ہوتے ہیں.سو میں اس تصدیق کے لئے کہ وہی کرشن آریوں کا بادشاہ میں ہوں.دہلی کے ایک اشتہار کو جو بال مکند نام ایک پنڈت نے ان دنوں میں شائع کیا ہے مع ترجمہ حاشیہ میں لکھتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آریہ ورت کے محقق پنڈت بھی کرشن اوتار کا زمانہ یہی قرار دیتے ہیں.اور اس زمانہ میں اس کے آنے کے منتظر ہیں.گو وہ لوگ ابھی مجھ کو شناخت نہیں کرتے.مگر وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ مجھے شناخت کرلیں گے کیونکہ خدا کا ہاتھ انہیں دکھائے گا کہ 66 آنے والا یہی ہے.(روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 523-522 - تمہ حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحه 85 ابراهیم سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ" (براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 666 حاشیہ نمبر 4) میرا نام ابراہیم بھی رکھا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إبْرَاهِيمُ یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام.ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا.پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی.اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچاسکیں گے“.وو اور جس طرح ابراہیم سے خدا نے خاندان شروع کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میری نسبت فرمایا ہے سُبْحَانَ اللَّهِ زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ آبَاؤُكَ وَ يُبْدَأُ مِنْكَ یعنی خدا پاک ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.وہ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع کر دے گا اور ابتداء خاندان کا تجھ سے کرے گا.اور ابراہیم سے خدا کی محبت ایسی صاف تھی جو اس نے اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے کام دکھلائے اور غم کے وقت اس نے ابراہیم کو خود تسلی دی.وو (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 115-114) وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلّی.یہ قرآن شریف کی آیت ہے
اسماء المهدی صفحه 86 اور اس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا ہے تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ.اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.یہ آیت وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا.اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا.“ 66 (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 69-68)
اسماء المهدی صفحه 87 اِبْنُ رَسُول الله إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُول اللہ اے رسول اللہ کے بیٹے میں تیرے ساتھ ہوں.سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.علی دِینِ 66 وَاحِدٍ.تذکرہ صفحہ 490 ایڈیشن چہارم) " آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے ہیں.اور اب کمالِ نبوت صرف اس شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا.اور اس طرح پر وہ آنحضرت ﷺ کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا.(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 214 - ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی) یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کر و علی دین واحد.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف و مبدل نہ کرنا.یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.
اسماء المهدی صفحه 88 دوسرا امر کونی ہوتا ہے.اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں.جیسے قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِيْ بَرْداً وَ سَلَاماً.اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا.اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین علی دِینِ وَاحد جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں“.( تذکر طبع چہارم صفحہ 490 - حاشیہ) حضرت مسیح پاک علیہ لصلوۃ والسلام اپنی تصنیف ” اعجاز احمدی“ میں ابن رسول اللہ ہونے کی حقیقت اپنے منظوم کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں: ؎ وَ إِني وَرِثْتُ المَالَ مالَ مُحَمّدٍ وَ مَا أَنَا إِلَّا اله المُتَخَيّر وَ كَيْفَ وَرِثْتُ وَلَسْتُ مِنْ أَبْنَائِه فَفَكَّرْ وَهَلْ فِي حِزْبِكُم مُتَفَكِّرُ أَتَزْعُمُ أَنّ رَسُولَنَا سَيِّدُ الْوَرَى عَلى زَعْمِ شَانِه تُوفِيَ اَبْتَرُ فَلَا وَالَّذِي خَلَقَ السَّمَاء لأجله لهُ هُ مِثْلُنَا وُلد إِلَى يَوْمِ يُحْشَرُ ( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 183-182)
ا.اسماء المهدی صفحہ 89 یقیناً میں نے محمد ( رسول اللہ ) کا مال ورثہ میں پایا ہے.پس میں آپ کی برگزیدہ آل ہوں ( جسے یہ ور شیل گیا ہے ).۲.اور میں کیونکر آپ کا وارث بنا جبکہ میں آپ کی اولاد میں سے نہیں ہوں.پس (اس بارہ میں ) غور کر، کیا تمہارے گروہ میں کوئی بھی غور و فکر کرنے والا نہیں..کیا تو گمان کرتا ہے کہ ہمارے رسول نے ، جو تمام مخلوق کے سردار ہیں، بے اولا د ہونے کی حالت میں وفات پائی جیسا کہ آپ کا دشمن خیال کرتا ہے.۴.مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے اس کی خاطر آسمان بنایا.ایسا ہرگز نہیں.بلکہ ہمارے نبی کے لئے میری طرح کے بیٹے قیامت تک ہوتے رہیں گے.
اسماء المهدی صفحه 90 ابن مریم ابن مریم ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ.نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 141.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) چوں مرا نور پیئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 358.آئینہ کمالات اسلام ) ترجمہ: چونکہ مجھے عیسائی قوم کے لئے ایک ٹو ر دیا گیا ہے اس وجہ سے میرا نام ابن مریم رکھا گیا.ابن مریم نام رکھنے میں حکمت وو 1.چونکہ مقدر تھا کہ آخری زمانہ میں نصاری اور یہود کے خیالات باطلہ زہر ہلاہل کی طرح تمام دنیا میں سرایت کر جائیں گے اور نہ ایک راہ سے بلکہ ہزاروں راہوں سے ان کا بداثر لوگوں پر پہنچے گا.اور اس زمانہ کے لئے پہلے سے احادیث میں خبر دی گئی تھی کہ عیسائیت اور یہودیت کی بری خصلتیں یہاں تک غلبہ کریں گی کہ مسلمانوں پر بھی اس کا سخت اثر ہوگا.مسلمانوں کا طریقہ، مسلمانوں کا شعار مسلمانوں کی وضع بکلی یہود و
اسماء المهدی صفحہ 91 نصاری سے مشابہ ہو جائیگی اور جو عادتیں یہود اور نصاری کو پہلے ہلاک کر چکی ہیں وہی عادتیں اسباب تاثر کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے مسلمانوں میں آجائیں گی.یہ اس زمانہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب عیسائی سوسائٹی جو یہودیت کی صفتیں بھی اپنے اندر رکھتی ہے عام طور پر مسلمانوں کے خیالات، مسلمانوں کے عادات، مسلمانوں کے لباس، مسلمانوں کے طرز معاشرت پر اپنے جذبات کا اثر ڈالے.سو دراصل وہ یہی زمانہ ہے جس سے روحانیت بکلی دُور ہو گئی ہے.خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اس زمانہ کے لئے کوئی ایسا مصلح بھیجے جو یہودیت اور عیسائیت کی زہر ناک خصلتوں کو مسلمانوں سے مٹادے.پس اس نے ایک مصلح ابن مریم کے نام پر بھیج دیا تا معلوم ہو کہ جن کی طرف وہ بھیجا گیا ہے وہ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ہو چکے ہیں.سو جہاں یہ لکھا ہے کہ تم میں ابن مریم اترے گا وہاں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت تمہاری ایسی حالت ہوگی جیسی مسیح ابن مریم کے مبعوث ہونے کے وقت یہودیوں کی حالت تھی بلکہ یہ لفظ اسی اشارہ کی غرض سے اختیار کیا گیا ہے.تاہریک کو خیال آجائے کہ خدائے تعالیٰ نے پہلے ان مسلمانوں کو جن میں ابن مریم کے اترنے کا وعدہ دیا تھا یہودی ٹھہرالیا ہے.2.احادیث نبویہ کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہے جو آنحضرت علی
اسماء المهدی صفحه 92 فرماتے ہیں کہ جب تم آخری زمانہ میں یہودیوں کی طرح چال چلن خراب کر دو گے تو تمہارے درست کرنے کے لئے عیسی بن مریم آئے گا.یعنی جب تم اپنی شرارتوں کی وجہ سے یہودی بن جاؤ گے تو میں بھی عیسی ابن مریم کسی کو بنا کر تمہاری طرف بھیجوں گا“.عیسی بن مریم کے آنے سے مقصود یہ ہے کہ جب عقل کی بد استعمالی سے دنیا کے لوگ یہودیوں کے رنگ پر ہو جائیں گے اور روحانیت اور حقیقت کو چھوڑ دیں گے اور خدا پرستی اور حب الہی دلوں سے اٹھ جائے گی تو اس وقت وہ لوگ اپنی روحانی اصلاح کے لئے ایک ایسے مصلح کے محتاج ہوں گے جو روح اور حقیقت اور حقیقی نیکی کی طرف ان کو تو جہ دلا وے اور جنگ اور لڑائیوں سے کچھ واسطہ نہ رکھے اور یہ منصب مسیح ابن مریم کے لئے مسلم ہے.کیونکہ وہ خاص ایسے کام کے لئے آیا تھا.اور یہ ضرور نہیں کہ آنے والے کا نام در حقیقت عیسی ابن مریم ہی ہو.بلکہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک قطعی طور پر اس کا نام عیسی بن مریم ہے.جیسے یہودیوں کے نام خدا تعالیٰ نے بندر اور سوررکھے اور فرمایا وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیر.ایسا ہی اس نے اس امت کے مفسد طبع لوگوں کو یہودی ٹھہرا کر اس عاجز کا نام مسیح ابن مریم رکھ دیا اور 66 اپنے الہام میں فرما دیا: جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ “ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 409-407.ماخوذ از ازالہ اوہام حصہ دوم) 3.” میں کہہ چکا ہوں کہ میں اس امت کی اصلاح کے لئے ابن مریم
اسماء المهدی صفحه 93 ہو کر آیا ہوں اور ایسا ہی آیا ہوں کہ جیسے کہ حضرت مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.میں اسی وجہ سے تو ان کا مثیل ہوں کہ مجھے وہی اور اسی طرز کا کام سپر دہوا ہے جیسا کہ انہیں سپر د ہوا تھا.مسیح نے ظہور فرما کر یہودیوں کو بہت سی غلطیوں اور بے بنیاد خیالات سے رہائی دی تھی منجملہ اس کے ایک یہ بھی تھا کہ یہودی ایلیا نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کی ایسی ہی امید باندھے بیٹھے تھے جیسے آج کل مسلمان مسیح ابن مریم رسول اللہ کے دوبارہ آنے کی امید باندھے بیٹھے ہیں.سوسیح نے یہ کہہ کر کہ ایلیا نبی اب آسمان سے اتر نہیں سکتا زکریا کا بیٹا پیچی ایلیا ہے، جس نے قبول کرنا ہے کرے، اس پرانی غلطی کو دور کیا اور یہودیوں کی زبان سے اپنے تئیں محمد اور کتابوں سے پھرا ہوا کہلایا.مگر جو بھی تھا وہ ظاہر کر دیا.یہی حال اس کے مثیل کا بھی ہوا.اور حضرت مسیح کی طرح اس کو بھی ملحد کا خطاب دیا گیا.4.” اس بار یک نکتہ کو یا د رکھو کہ مسلمانوں کو یہ کیوں خوشخبری دی گئی کہ تم میں مسیح ابن مریم نازل ہوگا.دراصل اس میں بھید یہ ہے کہ ہمارے سیدو صلى الله مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء یہ مشیل موسیٰ ہیں اور یہ امت محمدیہ مثیل امت بنی اسرائیل ہے اور آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں یہ امت ایسی ہی بگڑ جائے گی جیسے یہودی اپنے آخری وقت میں بگڑ گئے تھے اور حقیقی نیکی اور حقیقی سچائی اور حقیقی ایمانداری ان میں سے اٹھ گئی
اسماء المهدی صفحه 94 تھی اور لکھے اور بے اصل جھگڑے ان میں برپا ہو گئے تھے اور ایمانی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی اور فرمایا کہ تم تمام وہی کام کرو گے جو یہودیوں نے کئے یہاں تک کہ اگر یہودی سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی اسی سوراخ میں داخل ہو گے.یعنی پورے پورے یہودی ہو جاؤ گے اور چونکہ یہودیوں کی اس تباہ حالت میں خدا تعالیٰ نے انہیں فراموش نہیں کیا تھا بلکہ ان کے اخلاق و اعمال درست کرنے کے لئے اور ان غلطیوں کی اصلاح کرنے کی غرض سے مسیح ابن مریم کو انہیں میں سے بھیجا تھا.لہذا اس امت کو بھی بشارت دی گئی کہ جب تمہاری حالت بھی ان سخت دل یہودیوں کے موافق ہو جائے گی اور تم بھی ظاہر پرست اور بدچلن اور رو بدنیا ہو جاؤ گے اور تمہارے فقراء اور علماء اور دنیا داروں میں اپنی اپنی طرز پر مکاری اور بدچلنی پھیل جائے گی اور وہ شے جس کا نام تو حید اور خدا پرستی اور خدا ترسی اور خدا خواہی ہے بہت ہی کم رہ جائے گی تو مثالی طور پر تمہیں بھی ایک ابن مریم تم میں سے دیا جائے گا تا تمہاری اخلاقی اور عملی اور ایمانی حالت کے درست کرنے کے لئے ایسا ہی زور لگاوے جیسا کہ مسیح ابن مریم نے لگایا تھا“.(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 395-394.ازالہ اوہام حصہ دوم ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں: ؎ وَلكِنْ قُلُوْبٌ بِالْيَهُودِ تَشَابَهَتْ وَهَذَا هُوَالنَّبَأُ الَّذِي جَاءَ فَاذْكُرُوا
اسماء المهدی صفحہ 95 فَصِرْتُ لَهُمْ عِيْسَىٰ إِذَا مَا تَهَوَّدُوا وَهذَا كَفى مِنِّى لِقَوْمٍ تَفَكَّرُوا (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 333) یعنی کچھ دل یہود کی طرح ہو گئے.پس یاد کرو یہ وہی خبر ہے جو پہلے آچکی ہے.پس جب وہ یہودی بن گئے تو میں ان کے لئے عیسی بن گیا اور میری طرف سے اس قدر بیان ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو غور وفکر کرتے ہیں.چودھویں صدی کے مسلمانوں کا یہی نقشہ دردمند مسلمان علماء و شعراء نے بھی کھینچا ہے.چنانچہ مولانا الطاف حسین حالی مرحوم اپنی مسدس میں ایک جگہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کا اس طرح ذکر کرتے ہیں نہ گر ختم گر ختم ہوتی عرب نبوت کوئی ہم تو ضلالت ہے جیسے مذکور قرآن کے یہود پر مبعوث ہوتا پیمبر اندر اور نصاری کی اکثر آتی جتاتی یوں ہی جو کتاب اس پیمبر پہ وہ گمراہیاں ہماری مسدس حالی صفحه 57 بار اول 1988 مطبع فیروز سنز لاہور ) اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے بانگ درا میں لکھا وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود (با نگ درا جواب شکوہ صفحہ 157 بحوالہ کلیات اقبال ناشر : جواد اکمل بٹ.نیاز جہانگیر پرنٹرز، لاہور )
اسماء المهدی 5- حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: وو صفحه 96 چونکہ خدا نے ابتداء نرمی سے کی اور اپنی بردباری کو پورے طور پر دکھلایا.اس لئے میرا نام ابن مریم رکھا گیا کیونکہ ابن مریم اپنی قوم سے کوفتہ خاطر رہا اور اس کو بہت دکھ دیا گیا اور ستایا گیا اور عدالتوں کی طرف اس کو کھینچا گیا اور اس کا نام کافر اور مکار اور ملعون اور دجال رکھا گیا اور نہ صرف اسی پر کفایت کی گئی بلکہ یہ چاہا گیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے.مگر چونکہ وہ خدا کا برگزیدہ تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جن کے ساتھ خدا ہوتا ہے اس لئے وہ خبیث قوم اس کے نور کونا بود نہ کرسکی.سوخدا نے جو ہر ایک کام نرمی سے کرتا ہے اس زمانہ کے لئے سب سے پہلے میرا نام عیسی ابن مریم رکھا.کیونکہ ضرور تھا کہ میں ابتدائی زمانہ میں ابن مریم کی طرح قوم کے ہاتھ دکھ اٹھاؤں اور کافر اور ملعون اور دجال کہلاؤں اور عدالتوں میں کھینچا جاؤں.سو میرے لئے ابن مریم ہونا پہلا زینہ تھا.مگر میں خدا کے دفتر میں صرف عیسی ابن مریم کے نام سے موسوم نہیں بلکہ اور بھی میرے نام ہیں جو آج سے چھبیس برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرے ہاتھ سے لکھا دئے ہیں.اور دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا...سوضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو مگر خدا نے یہی پسند کیا کہ سب سے پہلے ابن مریم کی صفات مجھ میں ظاہر کرے.سو میں نے اپنی قوم سے وہ سب دکھ اٹھائے
اسماء المهدی جو ابن مریم نے یہود سے اٹھائے بلکہ تمام قوموں سے اٹھائے“.صفحہ 97 روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 521-520 - حقیقۃ الوحی ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں: ؎ میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح میں نہیں مامور از بهر جهاد و کارزار اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بیشمار ایسے مہدی کے لئے میداں کھلا تھا قوم میں پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 138)
اسماء المهدی صفحہ 98 " احمد اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا اور سرور کائنات کا ظل مجھے ٹھہرادیا اور میرے نام کو آنحضرت ﷺ کے نام صل الله سے مشابہ بنا دیا.اس طرح پر کہ اپنی نعمتوں کو میرے پر پورا کیا تا میں اس کی بہت تعریف کر کے احمد کے نام کا مصداق بنوں اور میرے سبب سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کیا تا وہ میری بہت تعریف کریں اور میں محمد کے نام کا مصداق بنوں.(روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 165 حجۃ اللہ ) ” خدا تعالیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکارا.اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں ظلمی طور پر نبی ہوں.پس میں اتنی بھی ہوں اور ظلی طور پر نبی بھی ہوں.اس کی طرف وہ وحی الہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے.كُلُّ بَرَكَةٍ مِن مُّحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ- یعنی ہر ایک برکت آنحضرت ﷺ کی طرف سے ہے.پس بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت علی اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز.پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا اور پورا عکس نبوت صلى الله
اسماء المهدی صفحه 99 حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہوگیا....پس اس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوتے ہیں ( یعنی امتی اور نبی.ناقل ).(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 360.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے: شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت احمد کو محمدم ہے تم کیسے جدا سمجھے کلا محمود صفحہ 184 ، الفضل 28 دسمبر 1948ء) اسم احمد خدا کی معرفت تامہ اور فیوض تامہ کا مظہر ہے جس کو آسمان سے احمد کا نام عطا کیا جاتا ہے اول اس پر بمقتضائے اسم رحمانیت تواتر سے نزول آلاء اور نعماء ظاہری اور باطنی کا ہوتا ہے.اور پھر یوجہ اس کے جو احسان موجب محبت محسن ہے اس شخص کے دل میں اُس محسن حقیقی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ محبت نشو ونما پاتے پاتے ذاتی محبت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ذاتی محبت سے قرب حاصل ہوتا ہے.اور پھر قرب سے انکشاف تمام صفات جلالیہ جمالیہ حضرت باری عز اسمہ ہو جاتا ہے.پس جس طرح اللہ کا نام جامع صفات کا ملہ ہے، اسی طرح احمد کا نام جامع تمام معارف بن جاتا ہے.اور جس طرح اللہ کا نام خدا تعالیٰ کے لئے اسم اعظم ہے اسی طرح احمد کا نام نوع انسان میں سے اس انسان کا اسم اعظم ہے جس کو آسمان پر یہ نام عطا ہو اور اس سے بڑھ کر
اسماء المهدی صفحه 100 انسان کے لئے اور کوئی نام نہیں کیونکہ یہ خدا کی معرفت تامہ اور خدا کے فیوض نامہ کا مظہر ہے.اور جب خدا تعالی کی طرف سے زمین پر ایک تجل عظمی ہوتی ہے اور وہ اپنے صفات کاملہ کے کنز مخفی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو زمین پر ایک انسان کا ظہور ہوتا ہے جس کو احمد کے نام سے آسمان پر پکارتے ہیں.غرض چونکہ احمد کا نام خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا کامل ظل ہے اس لئے احمد کے نام کو ہمیشہ شیطان کے مقابل پر فتحیابی ہوتی ہے اور ایسا ہی آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ ایک طرف شیطانی قومی کا کمال درجہ پر ظہور اور بروز ہو اور شیطان کا اسم اعظم زمین پر ظاہر ہو.اور پھر اس کے مقابل پر وہ اسم ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا ظل ہے یعنی احمد“.,, (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 276-274) احمد کے معنی بہت تعریف کرنے والا کے ہیں.احمد وہ ہے جو دنیا میں سے شیطان کا حصہ نکال کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے والا "❝ ہو.وو ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 511، جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جہاں براہین احمدیہ میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے وہاں احمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ“.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 398.ایام الصلح )
اسماء المهدی آنحضرت لے کے دو دور اور احمدیوں کو نصائح " صفحہ 101 اب اسم احمد کا نمونہ ظاہر کرنے کا وقت ہے.یعنی جمالی طور کی خدمات کے ایام ہیں.اور اخلاقی کمالات کے ظاہر کرنے کا زمانہ ہے.ہمارے آنحضرت له مثیل موسیٰ بھی تھے.مثیل عیسی بھی.موسیٰ جلالی رنگ میں آیا تھا مگر عیسی جمالی رنگ میں آیا تھا.اور فروتنی اس پر غالب تھی.سو ہمارے نبی ﷺ نے اپنی مکی اور مدنی زندگی میں یہ دونوں نمونے جلال اور جمال کے ظاہر کر دئے اور پھر چاہا کہ آپ کے بعد آپ کی فیض یافتہ جماعت بھی جو آپ کے روحانی وارث ہیں انہی دونوں نمونوں کو ظاہر کرے.سو آپ نے محمدی یعنی جلالی نمونہ دکھلانے کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مقرر فرمایا.کیونکہ اس زمانہ میں اسلام کی مظلومیت کے لئے یہی علاج قرین مصلحت تھا.پھر جب وہ زمانہ جاتا رہا اور کوئی شخص زمین پر ایسا نہ رہا کہ مذہب کے لئے اسلام پر جبر کرے اس لئے خدا نے جلالی رنگ کو منسوخ کر کے اسم احمد کانمونہ ظاہر کرنا چاہا یعنی جمالی رنگ دکھلانا چاہا.سو اس نے قدیم وعدہ کے موافق اپنے مسیح موعود کو پیدا کیا جو عیسی کا اوتار اور احمدی رنگ میں ہو کر جمالی اخلاق کو ظاہر کرنے والا ہے اور خدا نے تمہیں اس عیسی احمد صفت کے لئے بطور اعضاء کے بنایا.سو اب وقت ہے کہ اپنی اخلاقی قوتوں کا حسن اور جمال دکھلاؤ.چاہئے کہ تم میں خدا کی
اسماء المهدی صفحہ 102 مخلوق کے لئے عام ہمدردی ہو اور کوئی چھل اور دھو کہ تمہاری طبیعت میں نہ ہو.تم اسم احمد کے مظہر ہو.سو چاہئے کہ دن رات خدا کی حمد و ثنا تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کرو.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 446.اربعین نمبر 4) احمد تو اس کو کہتے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا ہو.اور جو شخص کسی کی بہت تعریف کرتا ہے وہ اپنے لئے وہی خلق پسند کرتا ہے جو اس میں ہیں اور چاہتا ہے وہ خلق اس میں ہوں.پس تم کیونکر بچے احمد یا حامد ٹھہر سکتے ہو جبکہ اس خُلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے.حقیقت میں احمدی بن جاؤ.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 447.اربعین نمبر 4) احمدی فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے صلى الله اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی ﷺ صلى الله کے دو نام تھے.ایک محمد ﷺ دوسرا احمد.اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.
اسماء المهدی صفحہ 103 سوخدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اول آنحضرت نے کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا.اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی.لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی.اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے.اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں.".”سواے دوستو ! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو....خدا اس نام میں برکت ڈالے.خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے.66 اے قادر وکریم تو ایسا ہی کر.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 528-527.تریاق القلوب )
اسماء المهدی صفحہ 104 احمد زمان.اس زمانہ کا احمد احمد زمان ( تذکرہ صفحہ 656 ایڈیشن چهارم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہامی نام احمد زمان“ بھی ہے.
اسماء المهدی صفحه 105 وو احمد آخر زمان احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جام من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی ( دنیا کے لئے ) آخری جام ہے.(روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 101 - سراج منیر )
اسماء المهدی احمد مختار دو آدمم نیز احمد مختار صفحہ 106 در برم جامہ ہمہ ابرار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی.میرے جسم پر تمام ابرار کے خلعت ہیں.نزول مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحه 477)
اسماء المهدی احمد مقبول آمِناً مِنَ اللَّهِ الرَّحِيم - احمد مقبول خدائے رحیم کی طرف سے امن پانے والا.صفحه 107 ( تذکر صفحہ 389 ایڈیشن چهارم)
اسماء المهدی اسَدُ الله اَسَدُ الله جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں تھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار ونزار صفحہ 108 تذکرہ صفحہ 82 ایڈیشن چہارم)
اسماء المهدی میں اسحاق ہوں.اسحاق صفحہ 109 (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76 - حاشیہ، حقیقۃ الوحی)
اسماء المهدی صفحه 110 اسرائیل كَفَفْتُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ - إِنْ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً میں تیری جماعت کے لوگوں کو جو مخلص ہیں اور بیٹوں کا حکم رکھتے ہیں، بچاؤں گا.اس وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھے اسرائیل قرار دیا اور مخلص لوگوں کو میرے بیٹے.اس طرح پر وہ بنی اسرائیل ٹھہرے اور پھر فرمایا کہ میں آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہامان یعنی وہ لوگ جو ہامان کی خصلت پر ہیں اور ان کے ساتھ کے لوگ جو ان کا لشکر ہیں یہ سب خطا پر ہیں.اور پھر فرمایا کہ میں اپنی تمام فوجوں کے ساتھ یعنی فرشتوں کے ساتھ نشانوں کے دکھانے کے لئے نا گہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.یعنی اس وقت جب اکثر لوگ باور نہیں کریں گے اور ہنسی اور ٹھٹھے میں مشغول ہوں گے اور بالکل میرے کام سے بے خبر ہوں گے.تب میں اس نشان کو ظاہر کر دوں گا کہ جس سے زمین کانپ اٹھے گی.تب وہ روز دنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہوگا.مبارک وہ جو ڈر میں اور قبل اس کے جو خدا کے غضب کا دن آوے تو بہ سے اس کو راضی کر لیں کیونکہ وہ حلیم اور کریم اور غفور اور تو اب ہے.جیسا کہ وہ شدید العقاب بھی ہے.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 452)
اسماء المهدی صفحه 111 كَفَفْتُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ( میں نے بنی اسرائیل سے دشمن کا حملہ روک دیا).بنی اسرائیل سے مراد وہ قوم ہے جس پر اس قسم کے واقعات تکلیف وارد ہوئے ہوں جیسے کہ بنی اسرائیل پر فرعون کے زمانہ میں ہوئے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت بنی اسرائیل سے مشابہ ہے.وہ لوگ جو ان پر بے جا ظالمانہ حملہ کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے فرعون سے مشابہت دی ہے اور پیشگوئی کا حاصل مطلب یہ ہے کہ یسے بے جا حملہ کرنے والے روک دیئے جائیں گے اور ایسے نشان ظاہر ہوں گے کہ ان کی باتوں کا لوگوں کے دلوں پر کچھ اثر نہیں ہوگا“.( تذکر طبع چہارم.صفحہ 449-448)
اسماء المهدی میں اسماعیل ہوں.اسماعیل صفحہ 112 (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76 - حاشیہ حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 113 السُّهَيْلُ الْبَدْرِي سہیل وہ ستارہ ہے جس کو ولد الزنا گش بھی کہتے ہیں.کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو تکونی کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں.ابوالفضل نے اس ستارہ کی نسبت لکھا ہے: وَلَدُ الزِّنَا كُش آمد چو ستارۀ یمانی ( تذکر طبع چہارم - صفحه 272) چنانچہ عرب کا مشہور شاعر منیتی بھی سہیل کا یہی کام بتاتا ہے.وہ اپنے آپ کو سہیل قرار دے کر اپنے مخالفوں کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: وَتُنْكِرُ مَوْتَهُمْ وَأَنَا سُهَيْلٌ طَلَعْتُ بِمَوْتِ اَوْلادِ الزّناءِ شرح دیوان المنتهى الجزاء الاول " قافية الهمزة" صفحه 140 - دار الكتاب العربی بیروت 1980ء)
اسماء المهدی صفحہ 114 أَشْجَعُ النَّاسِ“ أَشْجَعُ النَّاسِ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 267.حاشیہ نمبر 1) ( تذکره طبع چہارم صفحه 39)
اسماء المهدی صفحہ 115 أعلى "لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے.یعنی محبت اور برہان اور قبولیت اور برکت کی رو سے تو ہی غالب ہے.“ ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 668-667.حاشیہ در حاشیہ نمبر 4) مجھے اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشا ہے.اور مجھے اطلاع دیدی ہے کہ میں جو سچا اور کامل خدا ہوں.میں ہر ایک مقابلہ میں جو روحانی برکات اور سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 138-137 ، جنگ مقدس) مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں.ان کے ملہموں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آدیں.پھر اگر تائید الہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کردیں.مجھے منظور ہے.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 348) یہ اُسی طرح کا خطاب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (الاعراف:140)
اسماء المهدی صفحہ 116 غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی محبت زمین پر پوری ہو جائے اور ان کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.“ (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 304.رسالہ الوصیت) خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے ٹور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 410-409 تجلیات الہیہ )
اسماء المهدی صفحہ 117 28 الاء " میں جب اشتہار ( ریویوع بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.ناقل ) کو ختم کر چکا، شاید دو تین سطر میں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں تک میں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا.تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے.میں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا: خُسِفَ الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ فِي رَمَضَانَ فَبِأَيِّ الْآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا.پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کر رہے ہو.پھر میں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ الاء سے مراد اس جگہ میں ہوں." ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی روحانی خزائن نمبر 19، صفحہ 209 - حاشیہ)
اسماء المهدی امام رفیع القدر إِنِّي مَعَكَ يَا إِمَامُ رَفِيعَ الْقَدْرِ" اے رفیع القدر امام !میں تیرے ساتھ ہوں.صفحہ 118 ( تذکر طبع چہارم صفحه 430)
اسماء المهدی صفحہ 119 امام الزمان إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا“ یعنی میں تجھے لوگوں کے لئے خلیفہ بنانے والا ہوں.ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً ( تذکرہ طبع چہارم صفحه 65) (مسند احمد بن حنبل جلد 5.مسند معاویہ بن ابی سفیان حدیث 17000 عالم الكتب بیروت لبنان طبع اوّل 1998 ء4/96) حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے.یہ حدیث ایک متقی کے دل کو امام الوقت کا طالب بنانے کے لئے کافی ہوسکتی ہے.کیونکہ جاہلیت کی موت ایک ایسی جامع شقاوت ہے جس سے کوئی بدی اور بدبختی باہر نہیں.سو بموجب اس نبوی وصیت کے ضروری ہوا کہ ہر ایک حق کا طالب امام صادق کی تلاش میں لگار ہے.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 472.ضرورت الامام ) مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اکثر لوگ امامت حملہ کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور ایک سچی خواب آنے سے یا چند الہامی فقروں سے خیال کر لیتے ہیں کہ ہمیں امام اثر مان کی حاجت نہیں.کیا ہم کچھ کم ہیں ؟ اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ایسا خیال سراسر معصیت ہے کیونکہ جبکہ ہمارے نبی ﷺ صلى الله
اسماء المهدی صفحہ 120 نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے اور صاف فرما دیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اُس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت پر مرے گا.اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے کسی ملہم یا خواب مین کا استثنا نہیں کیا.جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مہم ہو یا خواب بین ہوا گر وہ امام الزمان کے سلسلہ میں داخل نہیں ہے تو اس کا خاتمہ خطر ناک ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن و مسلمان ہیں.“ س: ج: دو (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 474.ضرورت الامام ) امام الزمان کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کی کیا علامات ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اس شخص کا نام ہے جس شخص کی روحانی تربیت کا خدا تعالٰی متولی ہو کر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کی معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کر لیتا ہے.وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پا کر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر مانا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافرخانہ میں آئی ہے.اس لئے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا.وہ روحانی طور پر محمد تی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ
اسماء المهدی صفحہ 121 پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قومی بخشے جاتے ہیں.اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 477-476.ضرورت الامام ) امام الزمان کے لئے چھ ضروری قوتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو ” اور میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع انسان کے فائدے اور فیض رسانی کے لئے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے".اوّل: قوت اخلاق ,, چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے.تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو.اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں.“ چنانچہ حضوڑا فرماتے ہیں.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 478.ضرورت الامام )
صفحه 122 اسماء المهدی کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے رحم ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225) دوم: دوم قوت امامت ہے جس کی وجہ سے اس کا نام امام رکھا گیا ہے یعنی نیک باتوں اور نیک اعمال اور تمام الہی معارف اور محبت الہی میں آگے بڑھنے کا شوق..غرض یہ دقیقہ معرفت یا درکھنے کے لائق ہے کہ امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جو ہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کے لئے ارادہ الہی میں ہوتا ہے.“ وم: (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 479-478.ضرورت الامام ) تیسری قوت بَسْطَةٌ فِي العِلم ہے جو امامت کے لئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے.چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے.اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قومی کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے.اور رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا کی دعا میں ہر دم مشغول رہتا ہے..اس لئے خدا تعالیٰ کے
اسماء المهدی صفحہ 123 فضل سے علوم الہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو.اُس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے.اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 479.ضرورت الامام ) چهارم: چوتھی قوت عزم ہے جو امام الزمان کے لئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نا امید ہونا اور نہ ارادہ میں ست ہو جانا.بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں.ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے.بسا اوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر اُن کا صدق نہیں کھلتا اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا میں بڑا ثواب کا
اسماء المهدی صفحہ 124 کام کر رہا ہوں.اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے.لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے.وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں یہاں تک کہ نصرت الہی کا 66 وقت آجاتا ہے." (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 481.ضرورت الامام ) سخت جان ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار ( در شین) پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے.جو امام الزمان کے لئے ضروری ہے اور اقبال علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت اور نیز اس وقت کہ جب سخت دشمن سے مقابلہ آپڑے اور کسی نشان کا مطالبہ ہو اور یا کسی فتح کی ضرورت ہو اور یا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو.خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور پھر ایسے جھکتے ہیں کہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت اور وفا اور عزم لا ینفک سے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے.اور اُن کی محویت کے تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہو کر ملائک میں اضطراب ڈالتا
اسماء المهدی صفحه 125 ہے.پھر جس طرح شدّت کی گرمی کی انتہا کے بعد برسات کی ابتداء میں آسمان پر بادل نمودار ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح ان کے اقبال علی اللہ کی حرارت یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کر دیتی ہے اور تقدیریں بدلتی ہیں.د, امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت کا امام الزمان تھا اور بلغم اپنے وقت کا ولی تھا جس کو خدا تعالیٰ.مکالمہ اور مخاطبہ نصیب تھا اور نیز مستجاب الدعوات تھا.لیکن جب موسیٰ علیہ السلام سے بلعم کا مقابلہ آپڑا تو وہ مقابلہ اس طرح بلعم کو ہلاک کر گیا کہ جس طرح ایک تیز تلوار ایک دم میں سر کو بدن سے جدا کر دیتی ہے.“ ششم: (روحانی خزائن جلد 13 ، صفحہ 482-481.ضرورت الامام ) چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کے لئے ضروری ہوتا ہے.امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے.اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ کیفیت اور کمیت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں اور دینی عقدے اور معضلات حل
اسماء المهدی صفحہ 126 ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں.غرض جو لوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کے لئے نہایت مفید اور مبارک ہوتے ہیں.اور خدا تعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے“.س: ج (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 483.ضرورت الامام ) امام الزمان کا کیا کام ہوتا ہے؟ " جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پیروں کے نیچے لے کران کو بچے بناتی ہے.اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جو ہر ان کے اندر پہنچا دیتی ہے.اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یا بوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 480-479.ضرورت الامام ) ”امام الزمان حامئی بیضہ اسلام کہلاتا ہے اور اس باغ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دُور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کر دے.اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ نہ صرف اعتراض دُور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کر دے.ایسا شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کاحکم رکھتا ہے کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے.اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خدا تعالی کی
اسماء المهدی صفحہ 127 محجبت ہوتا ہے.اور کسی کے لئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالاتِ دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے.اور ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتا ہے.اور اسی کے انفاس طیبہ کفرگش ہوتے ہیں.وہ بطور کل کے اور باقی سب اُس کے جز ہوتے ہیں.66 (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 481-480.ضرورت الامام ) امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا چیلنج " میں نظارہ کی آواز سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ سب بطور نشانِ امامت ہے.جو شخص اس نشانِ امامت کو دکھلائے اور ثابت کرے کہ وہ فضائل میں مجھ سے بڑھ کر ہے، میں اس کو دست بیعت دینے کو تیار ہوں.مگر خدا کے وعدوں میں تبدیل نہیں.خدا نے مجھے علوم قرآن عطا کئے ہیں.اور میرا نام اول المومنین رکھا ہے.اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے..پس بخدا میں گشتی کے میدان میں کھڑا ہوں.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہو گا.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 502-501.ضرورت الامام ) میں امام الزمان ہوں.اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے
اسماء المهدی صفحہ 128 ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے.اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہو گا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو میں نے وہ حلم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 497.ضرورت الامام ) صلى الله سید نا حضرت سید ولد آدم محمد مصطفیٰ علیہ نے اپنے نائب کا نام ”امام“ علوم رکھ کر ان تمام خوبیوں ، فضائل اور کمالات کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی کسی قدر تفصیل ”امام“ کے عنوان کے ماتحت بیان کی گئی ہے.(تفصیل اصل کتاب میں مطالعہ فرمائیں).
اسماء المهدی صفحہ 129 امام مبارک أَنْتَ إِمَامٌ مُبَارَكٌ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَفَرَ تو امام مبارک ہے.اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.( تذکر طبع چہارم - صفحہ 635)
اسماء المهدی صفحہ 130 الْإِمَامُ الْمُنْتَظَر و الإمام الْمُنتَظَر (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 323.خطبہ الہامیہ )
اسماء المهدی صفحہ 131 امتی نبی امتی نبی نام رکھنا آنحضرت ﷺ کا فخر ہے وو عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے معنے صرف پیشگوئی کرنے والے کے ہیں جو خدا تعالیٰ سے الہام پا کر پیشگوئی کرے.پس جبکہ قرآن شریف کی رو سے ایسی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے جو بتوسط فیض و اتباع آنحضرت کسی انسان کو خدا تعالیٰ سے شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور وہ بذریعہ وحی الہی کے مخفی امور پر اطلاع پاوے.تو پھر ایسے نبی اس امت میں کیوں نہیں ہوں گے اس پر کیا دلیل ہے؟ ہمارا مذہب نہیں ہے کہ ایسی نبوت پر مہر لگ گئی ہے.صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو یا ایسا دعوئی ہو جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے الگ ہو کر دعوی کیا جائے.لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں اتنی بھی قرار دیتا ہے.پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہے.یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں صلى الله ہے کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایک خلق ہے.کوئی مستقل نبوت نہیں.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 352-351.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) " آنحضرت ﷺ کو جو خاتم الانبیاء فرمایا گیا ہے.اس کے یہ معنی نہیں
اسماء المهدی صفحه 132 ہیں کہ آپ کے بعد دروازہ مکالمات و مخاطبات الہیہ کا بند ہے.اگر یہ معنے ہوتے تو یہ امت ایک لعنتی امت ہوتی جو شیطان کی طرح ہمیشہ سے خدا تعالیٰ سے دُور و مہجور ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ براہ راست خدا تعالیٰ سے فیض وحی پانا بند ہے اور یہ نعمت بغیر اتباع آنحضرت ﷺ کے کسی کو ملنا محال اور ممتنع ہے.اور یہ خود آنحضرت ﷺ کا فخر ہے کہ ان کی اتباع میں یہ برکت ہے کہ جب ایک شخص پورے طور پر آپ کی پیروی کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہو جائے.ایسا نبی کیا عزت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوت قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نا بینا ہوں.اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات و مخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے.یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد صلى الله آنحضرت ﷺ کے وحی الہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے.اور آئندہ قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں.صرف قصوں کی پوجا کرو.پس کیا ایسا مذ ہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزارایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہوگا.میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور اندھا رکھتا ہے اور اندھا ہی مارتا ہے اور اندھا ہی قبر میں لے جاتا ہے.
اسماء المهدی صفحہ 133 مگر میں ساتھ ہی خدائے کریم و رحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے بلکہ دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچی اور کامل اتباع ہمارے سید و مولی آنحضرت ﷺ کے مکالمات الہیہ سے مشرف کرتا ہے.اسی وجہ سے تو حدیث میں آیا ہے کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاء بَنِي إِسْرَائیل یعنی میری امت کے علماء ربانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں.اس حدیث میں بھی علماء ربانی کو ایک طرف امتی کہا اور دوسری طرف نبیوں سے مشابہت دی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 354-353.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) امتی نبی نام رکھنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے یادر ہے کہ خدا تعالی کے صفات کبھی معطل نہیں ہوتے.پس جیسا کہ وہ ہمیشہ سنتتار ہے گا ایسا ہی وہ ہمیشہ بولتا بھی رہے گا.اس دلیل سے زیادہ تر صاف اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سننے کی طرح بولنے کا سلسلہ بھی بھی ختم نہیں ہوگا.اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے گا جن سے خدا تعالیٰ مکالمات و مخاطبات کرتا رہے گا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چڑ جاتے ہیں.جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا.پھر اگر
اسماء المهدی صفحہ 134 خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہوا.ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا نام اتنی بھی تو رکھا گیا ہے اور امتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں.پس یہ مرتب نام ایک الگ نام ہے.اور کبھی حضرت عیسی اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے.اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے.اور ان دونوں ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے.اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی.“ اس مرکب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم تو عیسی بن مریم کو خدا بناتے ہومگر ہمارا صلى الله نبی علیہ اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسی کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 21 ، صفحہ 355.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ ملا ہے یا در ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر
اسماء المهدی صفحہ 135 ہیں.میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کی فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور میری نبوت آنحضرت ﷺ کی خل ہے نہ کہ اصل نبوت.اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ہے ایسا ہی میرا نام اتنی بھی رکھا ہے.تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے.“ امتی سے کیا مراد ہے؟ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 154 حاشیہ.حقیقۃ الوحی ) آنے والے کے متعلق تو یہ لکھا ہے کہ وہ امتی ہوگا.امتی تو وہ ہے جو صرف آنحضرت ﷺ کی سچی پیروی کے ذریعہ سے نور حاصل کرتا ہے لیکن وہ جو پہلے ہی نور اور بصیرت پا کر نبوت کے درجہ تک پہنچ چکا ہے.وہ اب امتی کس طرح بنے گا ؟ کیا پہلے تمام کمالات حاصل کردہ سے وہ بے نصیب کر دیا جاوے گا؟ ہاں ہم اتنی ہیں جن کو سب کچھ صلى الله آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ملا ہے.اور تمام معرفت وہیں سے حاصل ہوئی ہے.“ ( ملفوظات طبع جدید جلد چہارم صفحه (512)
اسماء المهدی ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے م ربط ہے جان محمد اُس صفحہ 136 سے مری جاں مدام نور لیا بار خدایا ہم نے نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین صلى الله کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے.کیونکہ شریعت آنحضرت ﷺ پر ختم ہے.اور آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے پایا نہ براہ راست “ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 401 حاشیہ تجلیات الہیہ ) صلى الله اگر ایک امتی کو جو محض پیروی آنحضرت ﷺ سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتا ہے، نبی کے نام کا اعزاز دیا جائے تو اس سے مُہر نبوت نہیں ٹوٹتی کیونکہ وہ امتی ہے اور اس کا اپنا وجود کچھ نہیں اور اس کا اپنا کمال نبی متبوع کا کمال ہے.اور وہ صرف نبی نہیں کہلا تا بلکہ نبی بھی اور امتی بھی.مگر کسی ایسے نبی کا دوبارہ آنا جو امتی نہیں ہے ختم نبوت کے منافی ہے.66 (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 383 حاشیہ.چشمہ مسیحی )
اسماء المهدی وو صفحہ 137 کیونکہ امتی وہ ہوتا ہے جو محض نبی متبوع کی پیروی سے کمال پاوے.مگر عیسی تو پہلے کمال پاچکا.66 (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 382 حاشیہ، چشمه سیحی) حضرت عیسی علیہ السلام امتی نہیں ہو سکتے صلى الله " امتی اس شخص کو کہتے ہیں جو بغیر آنحضرت ﷺ کے کسی طرح اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا.پس کیا حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت تک ناقص ہی رہیں گے جب تک دوبارہ دنیا میں آکر آنحضرت ﷺ کی امت میں داخل نہیں ہوں گے اور آپ کی پیروی نہیں کریں گے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 352 حاشیہ ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم ) " امت کے معنے کسی پر صادق نہیں آسکتے جب تک ہر ایک کمال اس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو.پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ امتی کیونکر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا جس کے لئے بعد آنحضرت ﷺ قدم رکھنے کی جگہ نہیں.اور اگر کہو کہ پہلی نبوت اس کی جو براہِ راست تھی ، دُور کی جائے گی اور اب از سرنو باتباع نبوی نئی نبوت اس کو ملے گی جیسا کہ منشاء آیت کا ہے تو اس صورت میں یہی امت جو خیر الام کہلاتی ہے حق رکھتی ہے کہ ان میں سے کوئی فرد بیمن اتباع نبوی اس مرتبہ مکہ کو پہنچ جائے.اور حضرت عیسی کو آسمان سے
اسماء المهدی صفحہ 138 اتارنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگر امتی کو بذریعہ انوار محمدی کمالات نبوت مل سکتے ہیں تو اس صورت میں کسی کو آسمان سے اتارنا اصل حقدار کا حق ضائع کرنا ہے.اور کون مانع ہے جو کسی امتی کو فیض پہنچایا جائے تا نمونہ فیض محمدی کسی پر مشتبہ نہ رہے کیونکہ نبی کو نبی بنا نا کیا معنی رکھتا ہے.مثلاً ایک شخص سونا بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے اور سونے پر ہی ایک بوٹی ڈال کر کہتا ہے کہ لوسونا ہو گیا تو اس سے کیا یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ کیمیاگر ہے؟ سو آنحضرت ﷺ کے فیوض کا کمال تو اس میں تھا کہ امتی کو وہ درجہ ورزش اتباع سے پیدا ہو جائے.ورنہ ایک نبی کو جو پہلے ہی نبی قرار پاچکا ہے امتی قرار دینا اور پھر یہ تصور کر لینا کہ جو اس کو مرتبہ نبوت حاصل ہے وہ بوجہ امتی ہونے کے ہے، نہ خود بخود یہ کس قدر دروغ بیفروغ ہے.بلکہ یہ دونوں حقیقتیں متناقض ہیں.کیونکہ حضرت مسیح کی حقیقت نبوت یہ ہے کہ وہ براہ راست بغیر اتباع آنحضرت ﷺ کے ان کو حاصل ہے.ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں کہ امتی ہونے کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمام کمال اپنا اتباع کے ذریعہ سے رکھتا ہو.جیسا کہ قرآن شریف میں جابجا اس کی تصریح موجود ہے.اور جبکہ ایک امتی کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے کہ اپنے نبی متبوع سے یہ فیض حاصل کرے تو پھر ایک بناوٹ کی راہ اختیار کرنا اور اجتماع نقیضین جائز رکھنا کس قد رحمق ہے.اور وہ شخص کیونکر اقتی کہلا سکتا ہے جس کو کوئی کمال بذریعہ اتباع حاصل نہیں.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 216-215- ریویو مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی)
اسماء المهدی امتی اور نبی دو مختلف دو حیثیتوں سے صفحہ 139 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امتی نبی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں انتی نبی ہوں.یعنی محمد اللہ کے نقطہ نگاہ سے میں انتی ہوں.مگر تم لوگوں کے نقطۂ نگاہ سے میں نبی ہوں.جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے.جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہوگا.جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے.اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہوگی.مگر جب میں محمد ﷺ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک امتی کی ہوگی.اور محمد ﷺ کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہو گا.اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہوگا.گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی ہوتی ہے وہی محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.ایک باپ جب اپنے باپ کی طرف منہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے.لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے الله
اسماء المهدی صفحہ 140 الله اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے.بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت جب بیٹے کی تھی نہ کہ باپ کی تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کس طرح ہوسکتی ہے.کیونکہ اب اس کا منہ اپنے باپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہوگا.یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے.وہ امتی بھی ہیں اور نبی بھی.وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ امتی ہیں محمد ﷺ کی نسبت سے عیسی نبی تھے موسیٰ کی طرف منہ کر کے بھی ،صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے ہی نبی نہیں تھے.اسی طرح داؤد نبی تھے موسی کی طرف منہ کر کے بھی.صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے نبی نہیں تھے.اسی طرح سلیمان ، زکریا اور کینی نبی تھے موسیٰ کی طرف منہ کر کے بھی.یہی نہیں کہ صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ کی طرف منہ کر کے امتی.مگر رسول صلى الله کریم ع کے ذریعہ یہ عجیب نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب صلى الله ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد ع مخاطب ہوتا ہے تو وہ امتی بن جاتا ہے.اور وہ کسی ایسے کام کا دعویدار نہیں ہو سکتا جو محمد ﷺ نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ اسی کا م کو عليا صلى الله چلائے جس کام کو محمد ﷺ نے چلایا کیونکہ وہ فرماتا ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ - اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا صلى الله جو بھی پیدا نہیں ہوئے.گویا محمد ﷺ کی دوبارہ بعثت ہوگی.اور یہ ظاہر علوم
اسماء المهدی صفحه 141 ہے کہ محمد ﷺ کے دو کام نہیں ہو سکتے.وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے.مشعل راه جلد اول صفحه 201-200، جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ.خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1940ء ، افضل یکم اگست 1940ء) امتی نبی اور جماعت احمدیہ کا فرض وو پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتی ہے.اس کے افراد کو یہ امرا اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ یا تو وہ یہ دھولی کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام نبوت حاصل کیا ہے.اس صورت میں وہ بیشک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہوگا وہی کریں گے، اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے.پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے.اور وہ رسول کریم نے کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم ﷺ یا صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں.جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی ، صرف ان میں حصہ لیں گے باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے.لیکن اگر ہمارا یہ دعوئی ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سورہ جمعہ کے مطابق امتی صلى الله
اسماء المهدی صفحه 142 الله وو نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم ﷺ ہی وہ رسولاً‘ ہیں جن “ کی نبوت ورسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت شامل ہے.تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمد ﷺ نے جو کام کئے، وہی کام مسیح موعود کے بھی سپرد ہیں اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام ,, جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں.“ مشعل راه جلد اول صفحہ 202-201 ، جدید ایڈیشن) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے تو ڑ دواس تہذیب و تمدن کی عمارت کو جو اس وقت دنیا میں اسلام کے خلاف کھڑی ہے.ٹکڑے ٹکڑے کر دو اس قلعہ کو جو شیطان نے اس دنیا میں بنایا ہے.اسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اکھیڑ کر پھینک دو.اور صلى الله اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ علی نے دنیا کو دیا ہے.یہ کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں.ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں، دنیا کی جس گلی میں سے ہم گزریں، دنیا کے جس گاؤں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے،اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹا کر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا، جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے نقشہ کے
اسماء المهدی صفحہ 143 مطابق ہو، ہمارا کام ہے.پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہاراطور اور تمہارا طریق اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اسی وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے منشا کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اسی وقت زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جبکہ تم دنیا میں ایک خدا نما وجود بنو “ مشعل راه جلد اول صفحه 247-246، جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ.تقریر فرموده 1941ء، الفضل 2 اکتوبر 1960 ، صفحہ 4)
اسماء المهدی صفحہ 144 إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ أَمِيْنِ امین آج تو میرے نزدیک با مر تبہ اور امین ہے.(روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 600 حاشیہ نمبر 3.براہین احمدیہ ہر چہار صص )
اسماء المهدی صفحہ 145 امین الملک جے سنگھ بہادر لوگ آئے اور دعوی کر بیٹھے.شیر خدا نے ان کو پکڑا اور شیر خدا نے فتح پائی.امین الملک جے سنگھ بہادر.رَبِّ لَا تُبْقِ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا اے میرے رب میرے لئے رسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ.66 ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 568)
اسماء المهدی صفحہ 146 الإنسان هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِيْنٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُورًا کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گزرا کہ تیراد نیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرو نہ تھا.یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمارو حساب میں نہ تھا.یعنی کچھ بھی نہ تھا.یہ گزشتہ تلطفات اور احسانات کا حوالہ ہے تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے.“ (روحانی خزائن جلد اول - صفحہ 582.حاشیہ نمبر 3) انسان کامل خدا تعالیٰ کے روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے.اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر ایک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو، آگ میں ڈال دو، وہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا.کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے.اور ہر ایک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے.“ روحانی خزائن جلد ششم صفحہ 30 حاشیہ برکات الدعا) انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتا فوقتا کھینچا جاتا ہے." (روحانی خزائن جلد ششم صفحہ 31 حاشیہ برکات الدعا)
اسماء المهدی صفحہ 147 وو أَوَاهَنْ ا وَاهَنْ ( خدا تیرے اندر اتر آیا تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے.66 ( تذکره طبع چہارم - صفحہ 258) اس نام میں آپ کے قرب الہی اور فنائیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.جس کا ذکر آپ مندرجہ ذیل اشعار میں خود بھی فرماتے ہیں.ہم اسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا چھوڑ کر دُنیائے دُوں کو ہم نے پایا وہ نگار دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش ربّ العالمین قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 141.براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 148 ☆ اول المؤمنين الرَّحْمَنُ عَلَّم القُرآنَ - لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا انْذِرَ آبَاؤُهُم وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْن - قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْن اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں.اور میرا نام اول المومنین رکھا.اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے.اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں.پس بخدا میں گشتی کے میدان میں کھڑا ہوں.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہو گا اور اب حجۃ اللہ کے نیچے ہے.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 502.ضرورت الامام ) ترجمہ: رحمان (خدا ہے) جس نے قرآن سکھایا.تا کہ تو اُن لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادوں کو ڈرایا نہیں گیا اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل کر واضح ہو جائے.تو کہہ دے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.
اسماء المهدی صفحہ 149 اولو العزم فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو العَزْمِ پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.“ ( تذکر طبع چہارم صفحہ 546) عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نا امید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہو جانا.بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے.اور.ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے.بسا اوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر ان کا صدق نہیں کھلتا.اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے.اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں.اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا بڑا ثواب کا کام کر رہا ہوں.اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے.لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے.وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں
اسماء المهدی صفحہ 150 یہاں تک کہ نصرت الہی کا وقت آجاتا ہے“.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 481.ضرورت الامام )
اسماء المهدی صفحہ 151 بادشاہ بادشاہ وقت پر جو تیر چلا وے اُسی تیر سے وہ آپ مارا جائے.“ ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 424) ” خدا تعالیٰ کی کتابوں میں مسیح آخرالزمان کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے.اس سے مراد آسمانی بادشاہی ہے.یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہو گا.اور بڑے بڑے اکابر اس کے پیرو ہوں گے.“ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 110 حاشیہ.حقیقۃ الوحی ) تجلیات الہیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مختلف نشانات الہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دو ان نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اٹھا دئیے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایا جائے گا.جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے: چو دور خسروی آغـــــاز کـــــردنــــد مسلمان را مسلمان باز کردند دور خسروی سے مراد اس عاجز کا عہد دعوت ہے.مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی.خلاصہ
اسماء المهدی صفحه 152 معنی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دور خسروی یعنی دور مسیحی جو خدا کے نزد یک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جوصرف ظاہری مسلمان تھے ، وہ حقیقی مسلمان بننے لگے.جیسا کہ اب تک چارلاکھ کے قریب بن چکے ہیں.اور میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی اور ایک جماعت ہندوؤں اور انگریزوں کی بھی مشرف باسلام ہوئی." (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397-396- تجلیات الہیہ ) مذکورہ بالا ارشاد میں جو فارسی شعر درج ہے، اُس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے کہ ” جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے ، نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:- ” خدا تعالیٰ کی کتابوں میں مسیح آخر الزمان کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے.اس سے مراد آسمانی بادشاہی ہے یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہوگا اور بڑے بڑے اکابر اس کے پیر وہوں گے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 107 حاشیہ.روحانی خزائن جلد 22.صفحہ 110 حاشیہ)
اسماء المهدی صفحہ 153 بدر الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام : طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعِ ( تذکر طبع چہارم صفحہ 481) ترجمہ: ہم پر وداع کی گھائی سے بدر کا طلوع ہوا.ہم پر شکر کرنا لازم ہے جب تک کوئی دعا کرنے والا دعا کر سکتا ہے.وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَّ انْتُمْ اَذِلَّةٌ ( الہام کیم جون 1904ء.تذکرہ طبع چہارم صفحہ 432) ترجمہ: اور یقیناً اللہ نے بدر کے ذریعہ تمہاری مدد کی اس حالت میں کہ تم بہت کمزور تھے.چاند کی روشنی سورج سے مستعار ہوتی ہے.آنحضرت یہ عالم روحانیت کے آفتاب اور سراج منیر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بدر رکھ کر یہ بتایا گیا کہ آپ نے جو کچھ پایا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت اور اطاعت سے پایا ہے.حضور علیہ السلام کی متعدد تحریرات و فرمودات میں یہ مضمون بڑی صراحت سے مذکور ہے.مثلاً آپ فرماتے ہیں: وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
اسماء المهدی صفحہ 154 اُس نور فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے.میں چیز کیا ہوں.بس فیصلہ یہی ہے (در ثمین) اسی طرح فرمایا: مصطفیٰ ترا پر بجد ہو سلام اور رحمت اُس ٹور لیا بار خدایا ہم نے (دریمین) بدر چودھویں کے چاند کو کہتے ہیں.اس نام میں جہاں آپ کے زمانہ ظہور یعنی چودھویں صدی ہجری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہاں یہ بھی بتادیا کہ آپ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ظل کامل ہیں اور آپ کے انوار کو کامل طور پر منعکس کرنے والے ہیں.پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں.اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایماء ہے....دیکھو میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے.اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے.چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 431-432 جدید ایڈیشن)
ہے.اسماء المهدی صفحہ 155 أَنْتَ بُرْهَانٌ تو روشن دلیل ہے.برهان إِنَّا أَنْزَلْنَاكَ بُرْهَانًا وَكَانَ اللَّهُ قَدِيرًا - ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 308) ( تذکر طبع چہارم صفحه 306) ہم نے تجھے ایک عظیم الشان محبت کے طور پر اتارا ہے اور تیرا رب قادر
اسماء المهدی برہمن اوتار صفحہ 156 وو برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں.“ ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 531 )
اسماء المهدی صفحہ 157 وو یہ بات آپ کو معلوم ہوگی کہ ہر ایک نبی اور رسول اور خدا تعالیٰ کا فرستادہ جولوگوں کی اصلاح کے لئے آتا ہے.اگر چہ اس کی اطاعت کرنے کے لئے عقل کی رو سے اس قدر کافی ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ حق حق ہو اس میں کسی قسم کا دھوکا اور فریب کی بات نہ ہو.کیونکہ عقلِ سلیم حق کے قبول کرنے کے لئے کسی معجزہ کی ضرورت نہیں سمجھتی لیکن چونکہ انسانی فطرت میں ایک قوت واہمہ بھی ہے کہ باوجود اس بات کے کہ ایک امر فی الواقعہ صحیح اور سچا اور حق ہو پھر بھی انسان کو وہم اٹھتا ہے کہ شاید بیان کرنے ا والے کی کوئی خاص غرض نہ ہو.یا اس نے دھوکا نہ کھایا ہو.یا دھوکا نہ دیا ہو.اور کبھی بوجہ اس کے معمولی انسان ہونے کے اس کی بات کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی اور اس کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے اور کبھی شہوات نفس امارہ کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ گو سمجھ بھی آجاوے کہ جو فرمایا گیا ہے وہ سب سچ ہے.تا ہم نفس اپنے ناپاک جذبات کا ایسا مغلوب ہوتا ہے کہ وہ اس راہ پر چل ہی نہیں سکتا جس پر واعظ ناصح چلانا چاہتا ہے.اور یا فطرتی کمزوری قدم اٹھانے سے روک دیتی ہے.پس اس لئے حکمت الہیہ نے تقاضا فرمایا کہ جو لوگ اس کی طرف سے مخصوص ہو کر آتے ہیں ان کے ساتھ کچھ نصرت الہی کے نشان بھی ہوں جو کبھی رحمت کے رنگ میں اور
اسماء المهدی صفحہ 158 کبھی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہ لوگ انہیں نشانوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے بشیر اور نذیر کہلاتے ہیں.مگر رحمت کے نشانوں سے وہ مومن حصہ لیتے ہیں جو خدا کے حکموں کے مقابل پر تکبر نہیں کرتے اور خدا کے فرستادہ لوگوں کو تحقیر اور تو ہین سے نہیں دیکھتے اور اپنی فراست.اداد سے ان کو پہچان لیتے ہیں اور تقویٰ کی راہ کو محکم پکڑ کر بہت ضد نہیں کرتے.اور نہ دنیا داری کے تکبر اور جھوٹی وجاہتوں کی وجہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ جب دیکھتے ہیں کہ سنتِ انبیاء کے موافق ایک شخص اپنے وقت پر اٹھا ہے جو خدا کی طرف بلاتا ہے اور اس کی باتیں ایسی ہیں کہ ان کی صحت ماننے کے لئے ایک راہ موجود ہے اور اس میں نصرت الہی اور تقویٰ اور دیانت کے نشان پائے جاتے ہیں اور سننِ انبیاء علیہم السلام کے پیمانہ کے رُو سے اس کے قول یا فعل پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو ایسے انسان کو قبول کر لیتے ہیں بلکہ بعض سعید ایسے بھی ہیں کہ چہرہ دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ کذاب اور مکار کا چہرہ نہیں.پس ایسے لوگوں کے لئے رحمت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں." (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 238-237 لیکچر سیالکوٹ) چند تبشیری پیشگوئیاں خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں
اسماء المهدی صفحه 159 تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا.اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپئے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مراد یں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا.اور وہ مسلمانوں کے اس گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے...اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 97.اشتہار 20 فروری 1886ء جدید ایڈیشن)
اسماء المهدی صفحہ 160 بمنزلة اولادی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنے الہام میں بمنزلۃ اولا د ٹھہرایا ہے.اس الہام کی بناء پر غیر از جماعت علماء ومعترضین حضور پر خدا کا بیٹا ہونے کا دعوی کرنے کا الزام لگاتے ہیں، جو کہ ہر گز صحیح نہیں ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام مختلف مقامات پر اس الہام کی تشریح و وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اس واسطے استعمال کئے ہیں کہ تا عیسائیوں کا رڈ ہو اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو مخاطب کیا ہے کہ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِعْ اس جگہ یہ تو نہیں کہ تو میری اولاد ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی اولاد کی طرح ہے.اور دراصل یہ عیسائیوں کی اس بات کا جواب ہے جو وہ حضرت عیسی کو حقیقی طور پر ابن اللہ مانتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کی کوئی اولا د نہیں اور خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے اس قول کا عام طور پر کوئی رڈ نہیں کیا جو کہتے تھے کہ نَحْنُ اَبْناءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ (المائدة:19).بلکہ یہ ظاہر کیا کہ تم ان ناموں کے مستحق نہیں ہو.دراصل یہ ایک محاورہ ہے کہ
اسماء المهدی صفحہ 161......خدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں کے حق میں اکرام کے طور پر ایسے الفاظ بولتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں.اور جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ اے بندے! میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا.اور میں بھوکا تھا، تو نے مجھے روٹی نہ دی.ایسا ہی تو ریت میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب خدا کا فرزند بلکہ نخست زادہ ہے.سو یہ سب استعارے ہیں جو عام طور پر خدا تعالیٰ کی عام کتابوں میں پائے جاتے ہیں...اور خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اسی واسطے استعمال کئے ہیں کہ تا عیسائیوں کا رڈ ہو.کیونکہ باوجود ان لفظوں کے میں کبھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا کہ نعوذ باللہ میں خدا کا بیٹا ہوں.بلکہ ہم ایسا دعوی کرنا کفر سمجھتے ہیں اور ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں ان میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا عزت کا خطاب صلى الله آنحضرت ﷺ کو فرمایا: قُلْ يعبادِی (الزمر:54) جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو!.اب ظاہر ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے تھے نہ صلى الله کہ آنحضرت ﷺ کے بندے.اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.“ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد پنجم صفحہ 356) جب کوئی روحانی مصلح دنیا میں اصلاح خلق کے لئے مامور ہوتا ہے تو اسے مختلف الخیال لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے.اور جب تک ان سے ان کی زبان اور اصطلاحوں میں کلام نہ کیا جائے ، وہ اس کلام کو نہ تو کماحقہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس
اسماء المهدی صفحه 162 سے مستفید اور محظوظ ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریق تھا، آپ لوگوں کے فہم وفرست اور حالات کے مطابق گفتگو فرماتے تھے.اس لئے یہ عام ہدایت ہے کہ كَلَّمُوا النَّاسَ عَلَى قَدْر عُقُولِهِمْ یعنی لوگوں سے ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق گفتگو کرو.روحانی مدارج کے لحاظ سے قرآن کریم میں یہ تین اصطلاحیں مستعمل ہیں: (۱) نفس امارہ.(۲) نفس لوامہ (۳) نفس معلمانہ.لیکن صوفیا انہیں فتا، بقا اور لقا کے نام دیتے ہیں.قرآن کریم نے ان اصطلاحوں کو بھی ایک آیت میں یوں بیان فرمایا ہے: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُوْنَ.چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں مرتبہ لقا کے ضمن میں تحریر فرماتے ہوئے صوفیاء کی اصطلاح " اطفال اللہ کا فلسفہ بیان فرماتے ہیں: اور یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کے لئے کامل طور پر متفق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے.جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا....اس مقام میں جو اولیاء اللہ پہنچے ہیں یا جن کو اس میں سے کوئی گھونٹ میسر آ گیا ہے.بعض اہل تصوف نے ان کا نام اطفال اللہ رکھ دیا ہے.اس مناسبت سے کہ وہ لوگ صفات الہی کے کنارِ عاطفت میں بکتی
اسماء المهدی صفحہ 163 جاپڑے ہیں.اور جیسے ایک شخص کا لڑکا اپنے حلیہ اور خط و خال میں کچھ اپنے باپ سے مناسبت رکھتا ہے ویسا ہی ان کو بھی فلمی طور پر بوجہ تخلق باخلاق اللہ خدا تعالیٰ کی صفات جمیلہ سے کچھ مناسبت پیدا ہوگئی ہے.“ (روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ 64.آئینہ کمالات اسلام) اس خطاب میں آپ کے موحد ہونے کا آسمانی اعلان ہے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین نے اپنے فتاوی میں آپ کے متعلق سراسر افترا اور کذب سے کام لیتے ہوئے مشرک، منکر خدا اور کا فرایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں ان الزاموں کی تردید کر کے یہ واضح کیا ہے کہ آپ حقیقی موحد اور توحید پرست ہیں.کیونکہ آپ بمنزلہ بیٹے کے ہیں.اور کوئی بیٹا ایک سے زیادہ باپ تسلیم نہیں کرتا.پس جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کہا کہ تو مجھ سے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے تو گویا اس میں اس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا گیا ہے کہ تو میری توحید اور وحدانیت کے لئے ایسی ہی غیرت رکھتا ہے جیسا کہ ایک صحیح العقل انسان فطرتی طور پر اپنے جسمانی باپ کی وحدانیت کو تسلیم کرتا اور غیرت رکھتا ہے.چنانچہ اسی قسم اور اسی مفہوم کا ایک الہام قرآن کریم میں بھی پایا جاتا ہے.جوفرمایا فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (بقرة ركوع 25 ) کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا یا دکر وجیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.اس آیت میں بھی فطرت صحیحہ کو بیدار کر کے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا وعظ کیا گیا ہے.
اسماء المهدی صفحہ 164 پس الهام انت منی بمنزلَةِ أَوْ لا دنی کو جب اس آیت کریمہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ مجازی طور پر ایسے الفاظ کا استعمال منشاء الہی کے خلاف نہیں ہے.
اسماء المهدی صفحہ 165 بیت اللہ خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے، اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک ایزا کے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے اور اس بارے میں الہام یہ ہے: 6 یکے پائے من می بوسید و من میگفتم که حجر اسود منم (روحانی خزائن جلد 17 ، صفحہ 445-444 حاشیہ.اربعین نمبر (4) ترجمه از مرتب : کہ ایک شخص میرے پاؤں کو بوسہ دیتا تھا اور میں اُسے کہتا تھا کہ حجر اسود میں ہوں.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ يَاتُوْنَ مِنْ كُلَّ فَةٍ عمیق یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے.وہ دُور دراز جگہوں سے تیرے پاس آویں گے.اس جگہ استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے مجھے بیت اللہ سے مشابہت دی ہے کیونکہ يَاتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ خانہ کعبہ کے حق میں ہے.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 623)
اسماء المهدی صفحہ 166 پیر پیراں حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ” ہم ایک روز صحن مکان میں لیٹ رہے تھے جو ہمیں کشف ملکوت ہوا.اور کشف میں بہت سے فرشتے دیکھے کہ بہت خوبصورت لباس فاخرہ اور مکلف پہنے ہوئے وجد کرتے اور گاتے ہیں.اور ہماری طرف بار بار چکر لگاتے ہیں.اور ہر چکر میں ہماری طرف ہاتھ لمبا کر کے ایک غزل کا شعر پڑھتے ہیں اور اس مصرعہ کا آخری لفظ پیر پیراں ہے.وہ عین ہمارے منہ کے سامنے ہاتھ کر کے ہماری طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں: " پیر پیراں.( تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحب.حصہ اوّل صفحہ 48-47 جدید ایڈیشن ) ( تذکر طبع چہارم صفحہ 679) بار ہا غوث اور قطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے جو میری عظمت د, 66 مرتبت پر ایمان لائے ہیں اور لائیں گے.“ حضور انور نے اپنے لیکچر سیالکوٹ میں فرمایا: ( تذکر طبع چہارم صفحه 129 ) اسی زمانہ میں بعض بزرگانِ دین نے جن کے لاکھوں انسان پیرو تھے خدا سے الہام پا کر اور آنحضرت سے رویا میں سن کر میری تصدیق کی.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 218 لیکچر سیالکوٹ )
اسماء المهدی وو تحصیلدار صفحه 167 چند روز ہوئے مولوی عبد الکریم صاحب کو رویا میں دیکھا.پہلے کچھ باتیں ہوئیں.پھر خیال آیا کہ یہ تو فوت شدہ ہیں، آؤ ان سے دعا کرائیں.تب میں نے اُن کو کہا کہ آپ میرے واسطے دعا کریں کہ میری اتنی عمر ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مل جائے.اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ” تحصیلدار.تحصیلدار کے لفظ سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ تحصیلدار کے دو کام ہوتے ہیں.ایک رعایا سے سرکاری لگان وصول کرنا.دوسرے رعایا کے باہمی حقوق کا تصفیہ کرنا اور ان میں باہم عدل قائم کرنا.اسی طرح مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ خدا کے حق کا مطالبہ کرے اور توحید کو زمین پر پھیلا دے.دوسرے یہ کہ حکم عدل ہو کر امت محمدیہ کو باہمی عدل پر قائم کرے.“ ( تذکر طبع چہارم - صفحه 491)
اسماء المهدی صفحہ 168 تَرْسُ الدِّين أَنَا صَاحِبُ الفُصُوْصِ وَالْحَارِسُ عِنْدَ غَارَاتِ النُّصُوْصِ وَ تُرْسُ الدِّينِ مِنَ الرَّحمَانِ عِنْدَ طَعْنِ الْأَدْيَانِ (روحانی خزائن جلد 18 ، صفحہ 375 - الهدى والتبصرة لمن يرى) ترجمہ : میں نگینوں کا مالک ہوں اور چوروں کے حملوں کے وقت پہریدار ہوں اور مختلف ادیان کی طرف سے طعن و تشنیع سے بچانے کے لئے خدائے رحمان کی طرف سے دین (اسلام) کے لئے ڈھال ہوں.
اسماء المهدی صفحہ 169 جری اللہ فی حلل الانبیاء یعنی رسول خدا تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے پیرائیوں میں.اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر آخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں.خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی، ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی اور اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے جانی دشمن اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے ، جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا، اس زمانہ کے اکثر لوگ بھی ان سے مشابہ ہیں اگر وہ تو بہ نہ کریں.غرض اس وحی الہی میں یہ جتلا نا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالاتِ اخیار و کمالات اشرار ہے.اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانہ کے شریر تمام گزشتہ عذابوں کے مستحق ہیں.یعنی اس زمانہ میں تمام گزشتہ عذاب جمع ہو سکتے ہیں.اور جیسا کہ پہلی امتوں میں کوئی قوم طاعون سے مری.کوئی قوم صاعقہ سے اور کوئی قوم زلزلہ سے اور کوئی قوم پانی کے
اسماء المهدی صفحہ 170 طوفان سے اور کوئی قوم آندھی کے طوفان سے اور کوئی قوم حسف سے.اسی طرح اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے عذابوں سے ڈرنا چاہئے.اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام مواد موجود ہیں.محض حکم الہی نے مہلت دے رکھی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 117-116.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) یہ فقرہ کہ جرى الله فِی حُلَلِ الانبیاء بہت تفصیل کے لائق ہے....صرف اس قدر اجمالاً کافی ہے کہ ہر ایک گزشتہ نبی کی عادت اور خاصیت اور واقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے گزشتہ نبیوں کے ساتھ رنگارنگ طریقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں.ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی.اور یہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ گل دنیا میں جو نبی گزرے ہیں، ان کی مثالیں اور ان کے واقعات میرے ساتھ اور میرے اندر موجود ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 117.براہین احمدیہ پنجم ) زمانہ اپنے اندر ایک گردش دوری رکھتا ہے اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں.اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گذر چکے ہیں.ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں.سو وہ میں ہوں.اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے ، فرعون ہو یا
اسماء المهدی صفحه 171 وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابو جہل ہو کی مثالیں اس وقت موجود ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 118-117.براہین احمدیہ پنجم ) جَرِيُّ الله فِي حُلل الانبیاء.جری اللہ نبیوں کے حلوں میں.اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مور د وحی الہی ہونے کا دراصل حلہ انبیاء ہے.اور ان کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے.اور یہ حلہ انبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کو بغرض تکمیل ناقصین عطا ہوتا الله ہے.اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيْل“ (روحانی خزائن جلد اول صفحه 601 حاشیہ نمبر 3.براہین احمدیہ ہر چہار حصص ) اسی طرح حضور نے فرمایا:.رُوحِي بِرُوْحِ الْأَنْبِيَاءِ مُضَمَّخٌ جَادَتْ عَلَيَّ الْجُوْدُ مِنْ فَيُضَانِهِمْ (روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 128 نورالحق حصہ اوّل) یعنی میری روح انبیاء کی روح سے معطر کی گئی ہے اور ان کے فیضان کا ایک بڑا مینہ میرے پر برسا.زنده شـ آمدنم سولے نہـــان بـــه پـیــرهـن (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478.نزول المسیح) ہر نبی میرے آنے سے زندہ ہو گیا اور ہر رسول میرے پیراهن میں پوشیدہ ہے.
اسماء المهدی صفحہ 172 جمعہ امام مہدی علیہ السلام کا ایک نام جمعہ بھی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ لکھا ہے: ”جمعہ مہدی علیہ السلام کے مبارک ناموں میں سے ہے.یا آپ کی ذات شریف سے کنایہ ہے.یا اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ اس کا لوگوں کو جمع کرنا ہے...حضرت امام علی تقی علیہ السلام نے فرمایا جمعہ میرا بیٹا ہے اور اُسی کی طرف اہل حق اور صادق لوگ جمع ہوں گے...وہ تمام دینوں کو ایک دین پر جمع کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس پر اتمام نعمت کرے گا اور حق کو اس کے ذریعہ ظاہر و ثابت اور باطل کو محو کرے گا.اور وہ مہدی ہے.66 ( نجم الثاقب جلد اول صفحہ 338.بحوالہ امام مہدی کا ظہور.صفحہ 180-179) سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اپنے لئے کئی اجتماعوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں.کسوف وخسوف کا اجتماع ہوا، یہ بھی میرا ہی نشان ہے.وَ إِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التوي:8) بھی میرے ہی لئے ہیں.اور وآخرين مِنهُمْ لَمّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعۃ :4) بھی ایک جمع ہی ہے کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے.پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئے ہیں.
اسماء المهدی صفحہ 173 چنانچہ مطبع کے سامان ، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار، ریل اور دخانی جہازوں ( آجکل ہوائی جہازوں.ناقل ) کے ذریعہ گل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجاد یں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہورہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء.غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانے میں ہم کو نہیں ملتی.پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ سارے ادیان کو جمع کیا جائے گا اور ایک دین کو غالب کیا جائے گا.یہ بھی مسیح موعود کے وقت کی ایک جمع ہے.( ملفوظات جلد دوم - جدید ایڈیشن صفحہ 50-49) ان اجتماعات کی تفصیل مذکورہ کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے.” جیسا کہ جمعہ کا دوسرا حصہ تمام مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرتا ہے اور متفرق ائمہ کو معطل کر کے ایک ہی امام کا تابع کر دیتا ہے اور تفرقہ کو درمیان سے اٹھا کر اجتماعی صورت مسلمانوں میں پیدا کر دیتا ہے.یہی خاصیت الف ششم کے آخری حصہ میں ہے.یعنی وہ بھی اجتماع کو چاہتا ہے.اسی لئے لکھا ہے کہ اس وقت اسم ہادی کا پر تو ایسے زور میں ہو گا کہ بہت دُور افتادہ دلوں کو بھی خدا کی طرف کھینچ لائے گا.اور اسی کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے کہ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا - پس یہ جمع کا لفظ اسی روحانی جمعہ کی طرف اشارہ ہے.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 260-259 تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی وو صفحہ 174 یہ سلسلہ بیعت محض ہمراہ فراہمی طائفہ منتقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے.تا ایسے مشتقموں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں.اور ایک کاہل اور بخیل اور بے مصرف مسلمان نہ ہوں.اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے تفرقہ ونا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا.“ (روحانی خزائن جلد 3 ، صفحہ 561- ازالہ اوہام حصہ دوم )
اسماء المهدی صفحہ 175 حارث یہ پیشنگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث ماوراء النہر سے یعنی سمرقند کی طرف سے نکلے گا.جوال رسول کو تقویت دے گا.جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی.الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا.دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور ان دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.“ وو (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 141 حاشیہ.ازالہ اوہام حصہ اوّل) روایت ہے عَلى كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ سے کہ کہا، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا یعنی بخارا یا سمرقند اس کا اصل وطن ہوگا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا.یعنی باعتبار اپنے آبا و اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا گورنمنٹ کی نظر میں حارث یعنی ایک زمیندار کہلائے گا.پھر آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا.اس وجہ سے کہ وہ حراث ہوگا.یعنی ممیز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیا جاوے گا.“ (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 148 حاشیہ.ازالہ اوہام حصہ اوّل)
اسماء المهدی صفحہ 176 ” بخاری یا سمرقندی الاصل ہونا اور زمیندار اور زمینداری کے ممیز خاندان میں سے ہونا یہ دونوں علامتیں صریح اور بین طور پر اس عاجز میں ثابت ہیں.66 (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 159 حاشیہ - ازالہ اوہام حصہ اوّل)
اسماء المهدی صفحہ 177 حارس اَنَا صَاحِبُ الفُصُوْص وَالْحَارِسُ عِنْدَ غَارَاتِ اللُّصُوْصِ وَ تُرْسُ الدِّين مِنَ الرَّحِمَانِ عِنْدَ طَعْنِ الْأَدْيَانِ (روحانی خزائن جلد 18 ، صفحہ 375 - الهدى والتبصرة لمن يرى) ترجمہ : میں نگینوں کا مالک ہوں اور چوروں کے حملوں کے وقت پہریدار ہوں اور مختلف ادیان کی طرف سے طعن و تشنیع سے بچانے کے لئے خدائے رحمان کی طرف سے دین (اسلام) کے لئے ڈھال ہوں.
اسماء المهدی صفحہ 178 وو حِبُّ الله حِبُّ الله ( تذکر طبع چہارم صفحه 82)
اسماء المهدی حُجَّةُ اللهِ الدَيَّان حُجَّةُ اللهِ الدَيَّان صفحہ 179 (روحانی خزائن جلد 16 - صفحہ 474-473 - لجۃ النور ) (میں) اللہ تعالیٰ جزا دینے والے کی حجت (ہوں).
اسماء المهدی صفحہ 180 حُجَّةُ اللهِ القَادِر ” بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے.پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری.جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی.اور سبز پوشاک تھی.مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں.اور تصویر کے یمین و یسار حجۃ اللہ القادرو سلطان احمد مختار لکھا تھا.“ انسان حُجَّةُ الله کب بنتا ہے؟ (روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 615 حاشیہ نمبر 3) ” جب کوئی اپنے مولیٰ کا سچا طالب کامل طور پر اسلام پر قائم ہو جائے اور نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر خدا تعالیٰ کی راہوں میں ہر ایک قوت اس کے کام میں لگ جائے.تو آخری نتیجہ اس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کے اعلیٰ تجلیات تمام مُجب سے مبرا ہو کر اس کی طرف رُخ کرتی ہیں اور طرح طرح کی برکات اس پر نازل ہوتی ہیں.اور وو احکام اور وہ عقائد جو محض ایمان اور سماع کے طور پر قبول کئے گئے تھے اب بذریعہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات یقینیہ قطعیہ مشہود اور
اسماء المهدی صفحه 181 محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں.اور مغلقات شرع اور دین کے اور اسرار سر بستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں.اور ملکوت الہی کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے.تا وہ یقین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے.اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے.اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور ہمت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور بشریت کے حجابوں کی تنگ دلی اور خست اور بخل اور بار بار کی لغزش اور تنگ چشمی اور غلامی شہوات اور رداءت اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بکتی اس سے دُور کر کے اس کی جگہ ربانی اخلاق کا نور بھر دیا جاتا ہے.تب وہ بکتی مبدل ہوکر ایک نئی پیدائش کا پیرا یہ پہن لیتا ہے.اور خدائے تعالیٰ سے سنتا اور خدائے تعالیٰ سے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے.اور اس کا غضب خدائے تعالیٰ کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہو جاتا ہے.اور اس درجہ میں اس کی دعائیں بطور طفاء کے منظور ہوتی ہیں.نہ بطور ابتلا کے اور وہ زمین پر تجبت اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے.اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالمات الہیہ اور مخاطبات حضرتِ میز دانی میں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی مہار کے چاند کے ٹور کی طرح اس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں.اور ایک شدیدالاثر لذت اپنے ساتھ
اسماء المهدی صفحہ 182 رکھتے ہیں.اور طمانیت اور تسلی اور سکینت بخشتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 231-227.آئینہ کمالات اسلام )
اسماء المهدی صفحہ 183 حجر اسود ’شخصے پائے مَنْ بوسید و من گفتم که سنگ اسود منم 66 ( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 29) یعنی ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے کہا کہ حجر اسود میں ہوں.حجر اسود سے مراد عالم ،فقیہ اور حکیم ہوتا ہے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: قَالَ الْمُعَبِّرُوْنَ إِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الحَجَرِ الْأَسْوَدِ فِي عِلْمِ الرُّؤْيَا المَرْءُ العالِمُ الفَقِيهُ الْحَكِيمُ، یعنی معبرین نے کہا ہے کہ علم رویا میں حجر اسود سے مراد عالم فقیہ اور حکیم ہوتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 663 حاشیہ.الاستفتاء تتمہ حقیقة الوحی) حجر اسود سے مراد منبع علم وفیض ہے معتبر بین لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود سے مراد نبع علم وفیض ہے.“ (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 100 حاشیہ.چشمہ معرفت )
اسماء المهدی صفحہ 184 سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی اپنی شہرہ آفاق تفسیر کبیر جلد چہارم میں سورۃ الفیل کی تفسیر میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ جماعت احمدیہ کا مرکز ، قادیان جسے وہ مقدس قرار دیتی ہے، اب ہندوؤں اور سکھوں کے قبضے میں ہے، فرماتے ہیں کہ ضلع گورداسپور کا ہندوستان میں داخل کرنا، جس میں قادیان ہے، لارڈ مونٹ بیٹن کی کارروائی ہے جو مسیحی ہے.لیکن اس سورۃ الفیل سے ہمارے دلوں کی ڈھارس بندھتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ جس طرح اصحاب فیل پہلی دفعہ تباہ ہوئے اب بھی تباہ ہوں گے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ شخصے پائے مَنْ بوسید و من گفتم که سنگ اسود منم (تذکره صفحه 29، طبع چہارم)، ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے کہا ہاں ہاں سنگ اسود میں ہی ہوں.در حقیقت ہر زمانہ کا مامور اس کی جماعت کے لئے سنگ اسود کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ لوگ اسے چومتے اور اس کے ارد گر د ا کٹھے رہتے ہیں.اور اس طرح دین کو تقویت حاصل ہوتی ہے.پس اس زمانہ میں دین کی تقویت صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہے اور اس زمانہ میں روحانی سنگ اسود آپ ہی ہیں.گوجسمانی سنگ اسود وہی ہے جو خانہ کعبہ میں موجود ہے.اسی طرح یہ سورۃ الفیل بھی آپ پر الہاما نازل ہوئی ہے.پھر جس طرح اصحاب الفیل کے پہلے حملہ میں اصل مقصد رسول کریم ﷺ کو تباہ کر نا تھا، اسی طرح اب
اسماء المهدی صفحہ 185 جو احمدیت پر حملہ ہوا ہے، وہ اس لئے ہوا ہے کہ ہندو بھی جانتا ہے اور سکھ بھی جانتا ہے اور سیکھی بھی جانتا ہے کہ اگر اسلام نے غلبہ پایا تو احمدیت کے ذریعہ ہی غلبہ پائے گا.پس اب بھی اس کا اصل مقصد رسول کریم ﷺ کو تباہ کرنا ہے کیونکہ مسیح موعود کا کام اپنا وجود منوانا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا وجود منوانا ہے.آپ خود فرماتے ہیں.وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے لیکن جس طرح گزشتہ زمانہ میں خانہ کعبہ کو گرانے میں ابرہہ اور اس کا لشکر نا کام رہا تھا اسی طرح ہم جانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور قو تیں مل کر بھی اگر اس سلسلہ کو جسے خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ کا دین قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے مٹانا چاہیں تو وہ ساری طاقتیں مل کر بھی اس سلسلہ کو مٹا نہیں سکتیں.ہم جانتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں.لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آسمان کی فوجیں ہماری تائید میں اتریں گی اور اگم تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيْل کا نظارہ دنیا متواتر دیکھتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ وہی شخص جس کو مسلمانوں نے اپنی نادانی سے ٹھکرادیا ہے اسی کے ہاتھوں سے اسلام دنیا میں دوبارہ قائم ہو گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم.تفسیر سورۃ الفیل صفحہ 74-73)
اسماء المهدی صفحہ 186 حَرْبَةُ المَوْلى الرحمان اَنَا حَرْبَةُ المَوْلَى الرَّحْمَانِ“ میں خدائے رحمان کا حربہ ہوں.(روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 473 - لجۃ النور )
اسماء المهدی حِرْزُ الْمَدْعُوْر“ حِرْزُ الْمَدْعُوْر (میں) ڈرائے ہوئے کے لئے تعویذ ( ہوں).صفحہ 187 (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 473 - لجۃ النور )
اسماء المهدی صفحہ 188 حِصْنٌ حَصِيْنٌ ”دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے، وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے.جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا.مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے، ہر طرف سے اس کوموت در پیش ہے.اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے.اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطبع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اُس میں ہوں.مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مزگی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے.تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے گویا
اسماء المهدی صفحہ 189 اس میں کبھی آگ نہیں تھی.جب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اس میں سکونت کرتی ہے.اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے.تب پورانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے.اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کو مل جاتا ہے.“ اپنے منظوم کلام میں حضور نے فرمایا: (روحانی خزائن جلد نمبر 3، صفحہ 35-34.فتح اسلام ) صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 145 ، براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 190 حَكُمْ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے آخری زمانہ کے امام کا ایک نام حکم بیان فرمایا ہے.( بخاری کتاب الأنبياء باب نزول عیسی ابن مریم صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم.مسند احمد ) دوسرے ناموں کی طرح اس نام میں اس زمانہ کے مذہبی اختلاف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.یا یوں کہیئے کہ اختلافات عقائد کے زمانہ کے مجدد اور امام کو حکم کہا گیا ہے.چنانچہ خود یہ زمانہ ایک حکم کا متقاضی ہے.اور یہ زمانہ مدعی امامت اور حکم کی صداقت پر گواہ ہے.چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود کو حکم کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ اُسے قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حكم مقررفرمایا ہے ایسے وقت میں میں ظاہر ہوا ہوں کہ جبکہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا.ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسی کی حیات کا قائل تھا اور کوئی
اسماء المهدی صفحہ 191 موت کا اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا.اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا.اور کوئی مکہ میں اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے.پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حکم کو چاہتے تھے.سووہ حکم میں ہوں.میں روحانی طور پر کسر صلیب اور نیز اختلافات کے دُور کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں..میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اپنی حقیت کی کوئی دلیل پیش کروں.کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے.“ میں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حکم ہوں ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حکم ہوں.اور میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں.مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام ان کے بچے ہیں.کیونکہ ہمو جب نص صریح آیت کریمہ یعنی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا.یہ میری طرف سے فیصلہ بطور حکم کے فیصلہ ہے.اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اُس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حكم مقرر فرمایا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 496-495.ضرورت الامام )
اسماء المهدی صفحه 192 حکم نام میں پیشگوئی تھی کہ مسیح موعود امت کے اختلاف کے وقت میں ظاہر ہوگا وو حکم کے نام کی یہ وجہ ہے کہ مسیح موعود امت کے اختلاف کے وقت میں ظاہر ہوگا.اور ان میں اپنے قول فیصل کے ساتھ وہ حکم دے گا جو قریب انصاف ہوگا.اور اس کے زمانہ کے وقت میں کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہوگا جن میں کئی قول نہ ہوں.پس وہ حق کو اختیار کرے گا اور باطل اور گمراہی کو چھوڑ دے گا.“ (روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 90-89 - ترجمه از نجم الھدی ) حکم نام میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی حکم کا لفظ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور 73 فرقے موجود ہوں گے.اور ہر فرقہ اپنے مسلمات کو جو اس نے بنارکھے میں قطع نظر اس کے کہ وہ جھوٹے ہیں یا خیالی، چھوڑ نا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کر لیا جاوے.ایسی صورت میں اس حکم کو کیا کرنا ہوگا ؟ کیا وہ سب کی باتیں مان لے گا یا یہ کہ بعض کو رڈ کرے گا اور بعض کو تسلیم کرے گا.غیر مقلد تو راضی نہیں ہو گا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ مان نہ لے اور ایسا ہی حنفی ، معتزلہ،شیعہ وغیرہ گل
اسماء المهدی صفحہ 193 فرقے تو تب ہی ان سے راضی ہوں گے کہ وہ ہر ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی رڈ نہ کرے اور یہ ناممکن ہے.اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جائے گا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اس کو کہہ دے گا کہ تو سچا ہے.اور پھر ستی اس کے پاس جائے گا تو اس کو کہہ دے گا کہ تو سچا ہے.تو پھر تو بجائے حکم ہونے کے وہ پکا منافق ہوا...مگر یہ بالکل غلط ہے.آنے والا موعود حکم واقعی حکم ہوگا.وہ خود ساختہ اور موضوع باتوں کو ر ڈ کر دے گا اور سچ کو لے گا.یہی وجہ ہے کہ اس کا نام حکم رکھا گیا ہے.اسی لئے آثار میں آیا ہے کہ اس پر کفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو رڈ کرے گا، وہی اس پر کفر کا فتوی دے گا.یہاں تک کہا ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اٹھ کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا : اِنَّ هَذَا الرَّجُلَ غَيَّرَ دِيْنَنَا.اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو رڈ کر دیگا جیسا کہ اس کا منصب اس کو اجازت دے گا.“ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد سوم صفحہ 21 حکم اور حاکم میں فرق حکم اور حاکم میں یہ فرق ہے کہ حکم کا فیصلہ ناطق ہوتا ہے.اس کے بعد کوئی اپیل نہیں مگر مجر دلفظ حاکم اس مضمون پر حاوی نہیں.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 111 حاشیہ تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی صفحہ 194 اختلافات کے وقت وہی عقیدہ سچا ہو گا جس پر حکم قائم کیا جائے گا د, اب اس زمانہ میں دنیا اختلافات سے بھر گئی ہے.ایک طرف یہودی کچھ کہتے ہیں اور عیسائی کچھ ظاہر کرتے ہیں.اور امت محمدیہ میں الگ باہمی اختلافات ہیں اور دوسرے مشرکین سب کے برخلاف الگ رائیں ظاہر کرتے ہیں.اور اس قدر نئے مذاہب اور نئے عقائد پیدا ہوگئے ہیں کہ گویا ہر ایک انسان ایک خاص مذہب رکھتا ہے.اس لئے بموجب سنّت اللہ کے ضروری تھا کہ ان سب اختلافات کا تصفیہ کرنے کے لئے کوئی حکم آتا.سو اسی حکم کا نام مسیح موعود اور مہدی مسعود در کھا گیا.یعنی باعتبار خارجی نزاعوں کے تصفیہ کے اس کا نام مسیح ٹھہرا.اور باعتبار اندرونی جھگڑوں کے فیصلہ کرنے کے اس کو مہدی معہود کر کے پکارا گیا.حدیثوں میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ وہ مسیح موعود جو اسی امت میں سے ہو گا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا.یعنی جس قدر اختلاف داخلی اور خارجی موجود ہیں ان کو دُور کرنے کے لئے خدا اسے بھیجے گا.اور وہی عقیدہ سچا ہوگا جس پر وہ قائم کیا جائے گا.کیونکہ خدا اسے راستی پر قائم کرے گا.اور وہ جو کچھ کہے گا بصیرت سے کہے گا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 46-45.حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 195 جو شخص میری باتوں کو عزت سے نہیں دیکھتا، آسمان پر اس کی عزت نہیں ” جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے.اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے.اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 64 حاشیہ تحفہ گولڑویہ ) اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو ” اے نادان قوم ! یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے.تم خدا سے مت لڑ وہ تم اس کو نابود نہیں کر سکتے.اس کا ہمیشہ بول بالا ہے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے.بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتر فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھی ہیں.رؤیت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذب ہو.کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حکم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں
اسماء المهدی صفحہ 196 نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ رڈ کر دیتا.سو یہی اس وقت ہوا.وہ شخص حکم کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات رد نہ کرے.اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا اور یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جا تا.سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو.کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہوگئی ہو اور شاید یہ لڑائی خدا سے ہو.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 456.اربعین نمبر 4) ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے ” ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے.اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مؤاخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا اس کو ر ڈ کر دیا.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 95 - تحفہ الندوہ)
اسماء المهدی مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں صفحہ 197 اس دین میں بہت سے اسرار ایسے تھے کہ درمیانی زمانہ میں پوشیدہ ہو گئے تھے.مگر مسیح موعود کے وقت میں ان غلطیوں کا کھل جانا ضروری تھا کیونکہ وہ حکم ہو کر آیا.اگر درمیانی زمانہ میں یہ غلطیاں نہ پڑتیں تو پھر مسیح موعود کا آنا فضول اور انتظار کرنا بھی فضول تھا کیونکہ مسیح موعود مجد د ہے اور مجد دغلطیوں کی اصلاح کے لئے ہی آیا کرتے ہیں.وہ جس کا نام رسول اللہ ﷺ نے حكم رکھا ہے وہ کس بات کا حکم ہے اگر کوئی اصلاح اس کے ہاتھ سے نہ ہو.یہی سچ ہے.مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں.(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 56.براہین احمدیہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 198 وو حِمَى الرَّحْمَانِ إِنِّي حِمَى الرَّحْمَانِ.میں خدا کی باڑ ہوں.فرمایا یہ خطاب میری طرف ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعداء طرح طرح کے کرتے ہوویں گے.ایک شعر بھی اس مضمون کا ہے ؎ اے آنکه سوئے من بـدویـدی بـصـد تبـر از باغبان بترس که من شاخ مثمرم ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 417) اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے، باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں.
اسماء المهدی صفحہ 199 ”حنیف مسیح» حنیف مسیح ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 621)
اسماء المهدی صفحہ 200 صلى الله خاتم الاولیاء میں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت ﷺ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے.اور وہ خاتم الانبیاء ہیں.اور میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 70-69 - ترجمه از خطبہ الہامیہ )
اسماء المهدی صفحہ 201 خاتم الخلفاء ” خدا نے مجھے فرمایا کہ وہ تو تجھے رڈ کرتے ہیں مگر میں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 267 حاشیہ.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) ( تذکر طبع چہارم صفحه 453 ) میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں.کیونکہ میں روحانیت کی رُو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا.اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں.سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہمنام ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 کشتی نوح)
اسماء المهدی صفحہ 202 خلیفہ أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ میں نے چاہا کہ میں خلیفہ بناؤں.پس میں نے آدم کو پیدا کیا.خلیفہ سے مراد ( تذکر طبع چہارم صفحه 198 ) أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادم یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا اردہ کیا.سو میں نے آدم کو پیدا کیا.اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے باشخص.لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو.“ (روحانی خزائن جلد اول - صفحہ 585 حاشیہ نمبر 3.براہین احمدیہ) امت محمدیہ کے روحانی معلموں کا خلیفہ نام رکھنے میں حکمت اور ان کا کام خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلمی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو.اس
اسماء المهدی صفحہ 203 واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے.اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں، ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تاد نیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے.“ (روحانی خزائن جلد 6 ، صفحہ 353.شہادت القرآن ) ” خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں سے حصہ پائیں گے.“ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 339.شہادت القرآن ) ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے.اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجد داور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 340-339.شہادت القرآن ) ” خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ فلمی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں.اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں.“ (روحانی خزائن جلد 6 ، صفحہ 342.شہادت القرآن )
اسماء المهدی صفحہ 204 خلیفۃ اللہ خلیفہ اللہ انسان کب بنتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ المومنون کی تفسیر کرتے ہوئے مومن کے مراتب ستہ روحانیہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” مومن کی محبت ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جل شانہ کی محبت ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے.جب خدا تعالی کی وہ محبت ذاتی مؤمن کے اندر داخل ہوتی اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالب بے جان میں روح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہوکر در حقیقت ایک روح کا کام کرتی ہے.تمام قویٰ میں اس سے ایک نور پیدا ہوتا ہے اور روح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں.اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ختمی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اس کو ملتے ہیں.آسمان پر خلیفہ اللہ کا لقب پاتا ہے.کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش
اسماء المهدی صفحه 205 اس کے منہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں.ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفی کوجود اور ترک نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے تب ذات الہی کے تمام نقوش اور تمام اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں.اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے منہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس منہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی خلقی طور پر اخلاق اور صفات الہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے.اور خلقی طور پر انہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے." (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 242-241 ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم ) خلیفۃ اللہ کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ اللہ کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خلیفتہ اللہ کہا گیا ہے.گویا اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ آپ کو روحانی انقلاب لانے اور نیک فطرت روحوں کو اکٹھا کرنے کے لئے فرشتوں کی حمایت حاصل ہوگی.چنانچہ آپ سورۃ القدر کی آیت تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ.سَلَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الفجر کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں خلیفتہ اللہ ہوں اور اگر میرے ساتھ فرشتے نہ اترے اور ان کے اترنے کی نمایاں تا شیریں تم نے نہ دیکھیں تو سمجھ
اسماء المهدی صفحہ 206 لینا کہ کوئی آسمان سے نہیں اترا.حضور فرماتے ہیں: سو ملائکہ اور رُوح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلام الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے.رُوح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دُنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں تب دُنیا میں جہاں جہاں جو ہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اُس نور کا پر تو پڑتا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخو ددلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سید ھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک رُوح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے.ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخود دلوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے.تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخود راستی کی طرف پلٹا کھایا ہے لیکن در حقیقت یہ کام اُن فرشتوں کا ہوتا ہے کہ جو خلیفتہ اللہ کے ساتھ آسمان سے اُترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں.سوئے ہوئے لوگوں کو جگادیتے ہیں اور مستوں کو ہوشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مردوں میں زندگی مصل
اسماء المهدی صفحه 207 کی رُوح پھونکتے ہیں اور اُن کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں.تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کے دلوں پر وہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جو پہلے ملی تھیں.“ " دنیا میں روحانی حرکتیں خلیفتہ اللہ کی برکات ہوتی ہیں اور درحقیقت یہ فرشتے اس خلیفتہ اللہ سے الگ نہیں ہوتے.اُسی کے چہرہ کانو راور اُسی کی ہمت کے آثار جلیہ ہوتے ہیں جو اپنی قوت مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہو یا دُور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلی بیگانہ اور نام تک بے خبر ہو.غرض اُس زمانے میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں، وہ درحقیقت انہیں فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفہ اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہ الہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور بہت صاف اور سریع الفہم ہے.اور تمہاری بد قسمتی ہے اگر تم اس پر غور نہ کرو."
اسماء المهدی صفحہ 208 اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا تو سمجھ لینا کہ کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوا چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لئے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف سے پاؤ گے.وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اُترقی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفتہ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تا کہ دلوں کو حق کی طرف پھیریں.سو تم اس نشان کے منتظر رہو.اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور اُن کے اُترنے کی نمایاں تاثیر میں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوں کی جنبش کو معمولی سے زیادہ نہ پایا تو تم یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا.لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آؤ تا تم خدا تعالیٰ کے نزدیک سرکش قوم نہ ٹھہرو.“ (روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 14-12 حاشیہ.فتح اسلام )
اسماء المهدی صفحہ 209 خلیفة الله السلطان حُكْمُ اللهِ الرَّحْمَانِ لِخَلِيْفَةِ اللَّهِ السُّلْطَان ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 196 ) ترجمہ : خدائے رحمان کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی بادشاہت آسمانی ہے.
اسماء المهدی دد خلیل اللہ خلیل اللہ صفحہ 210 ( تذکر طبع چہارم - صفحه 82) اس نام میں آپ سے تعلق باللہ کا اظہار کیا گیا ہے.اور مخالفین کے ان تمام اعتراضات والزامات کا رڈ کیا گیا ہے جن میں انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام پر خدا تعالیٰ کے نافرمان ہونے کا اتہام باندھا ہے اور آپ کی تکفیر و تکذیب کی گئی اور توہین و بہتان لگائے گئے ہیں.
اسماء المهدی صفحه 211 دَاعِيَّا إلى الله رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ وَ دَاعِيًا إِلَى اللَّهِ (روحانی خزائن جلد اول صفحہ 268 - حاشیه در حاشیہ.براہین احمدیہ چہار حصص ) ترجمہ : ( وہ کہیں گے ) اے ہمارے رب یقیناً ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا ہے اور داعی الی اللہ ہے.مذکورہ بالا الہام درج کرنے کے بعد حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.اس جگہ یہ وسوسہ دل میں نہیں لانا چاہئے کہ کیونکر ایک ادنیٰ امتی آل رسول مقبول کے اسماء یا صفات یا محامد میں شریک ہو سکے.بلا شبہ یہ سیچ بات ہے کہ حقیقی طور پر کوئی نبی بھی آنحضرت کے کمالات قدسیہ سے شریک مساوی نہیں ہوسکتا.بلکہ تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کا دم مارنے کی جگہ نہیں.چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو.مگر اے طالب حق از شرک اللہ !تم متوجہ ہو کر اس بات کو سنو کہ خدا وند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لا جواب کرتی رہیں اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کر رکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری
اسماء المهدی صفحہ 212 کے آستانہ پر پڑ کر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں.خدا ان کو فانی اور ایک مصلا شیشے کی طرح پا کر اپنے رسول مقبول کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں حقیقت میں مرجع تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اسی کے لائق ہوتی ہیں اور وہی ان کا مصداق اتم ہوتا ہے.مگر چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجو د باجود حضرتِ نبوی ہے مثلِ خلق کے ٹھہر جاتا ہے.اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار البہیہ پیدا اور ہویدا ہیں اُس کے اس ظل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں.اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اس کے اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں.ہاں سامیہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کہ شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے.پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالتِ نقصان خیال نہ کریں کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار باطنی ان کی امت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں.اور سمجھنا چاہئے کہ اس انعکاس انوار سے کہ جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ امت محمدیہ پر ہوتا ہے دو بزرگ امر پیدا ہوتے
اسماء المهدی صفحہ 213 ہیں.ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہو سکے.دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائمی سے ثابت ہوتی ہے اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ تر و تازہ ہوتا رہتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد اول صفحه 270-268 حاشیه در حاشیہ نمبر ا.براہین احمدیہ چہار حصص ) انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے.پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی.یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں.“ ( ملفوظات جلد دوم جدید ایڈیشن صفحہ 9-8) میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو.وہ ایک مخفی خزانے کی طرح تھا مگر اب اس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے
اسماء المهدی ایمانوں کا منہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں.“ صفحہ 214 (روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحه 620-619.اشتہار مسلکہ حقیقۃ الوحی ) اس زمانے کے عیسائیوں پر گواہی دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تامیں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خد ا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے اور مجھے اس نے اپنے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف فرمایا ہے.اور مجھے اس نے بہت سے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور میری تائید میں اس نے بہت سے خوارق ظاہر فرمائے ہیں اور در حقیقت اس کے فضل و کرم سے ہماری مجلس عند انما مجلس ہے.جو شخص اس مجلس میں صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے تو میں یقین کرتا ہوں کہ اگر وہ دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے گا اور ایک عیسائی جس کو خدا تعالیٰ کا خوف ہو اور بچے خدا کی تلاش اور بھوک اور پیاس رکھتا ہو اس کو لازم ہے کہ بیہودہ قصے اور کہانیاں ہاتھ سے پھینک دے اور چشم دید ثبوتوں کا طالب بن کر ایک مدت تک میری صحبت میں رہے پھر دیکھے کہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک ہے کس طرح اپنے آسمانی نشان اس پر ظاہر کرتا ہے.مگر افسوس کہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو درحقیقت خدا کو ڈھونڈنے والے اور اس تک پہنچنے کے لئے دن رات سرگردان ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 55 - کتاب البریہ ) میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر
اسماء المهدی صفحہ 215 اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے.اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچانا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور کچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا.میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پر ہو جائیں.وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 345-344.اربعین نمبر 1) کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے
اسماء المهدی صفحہ 216 سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ یہ تمہارا خدا ہے تا لوگ سن لیں.اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا.“ (روحانی خزائن جلد 19 ، صفحہ 22-21 کشتی نوح) " اپنے مولی کو ناراض مت کرو.ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبر دست ہو، اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے.پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بیچ سکتے ہو.اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا.اور دشمن جو تمہاری جان کے در پے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں.اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہوکر بے قراری سے زندگی بسر کرو گے.اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے.خدا اُن لوگوں کی
اسماء المهدی صفحہ 217 پناہ ہو جاتا ہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں.سوخدا کی طرف آجاؤ.اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو.اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو.اور اس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو.اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو.یہی راہ نجات کی ہے." روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 72-70 - کشتی نوح)
اسماء المهدی صفحہ 218 وو داؤد يَا دَاوُدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَاِحْسَانًا اے داؤ د خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر.میں داؤد ہوں.( تذکر طبع چہارم صفحه 82) (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76 حاشیہ، حقیقة الوحی ) کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے.اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزون اس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے.جیسے یہ مصرعہ تمام شب گذرا نیم در قیام و سجود چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں.پھرا خیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی.اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا.اور وہ یہ ہے.طريق زہد و تعبـد نـــدانــم اے زاہد
اسماء المهدی صفحہ 219 خـدائــے مــن قــدمـــم رانــــد بــــر راه داؤد ترجمہ: اے زاہد! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا.میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستے پر ڈال دیا ہے.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 93) اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 133 ، براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحه 220 كَمِثْلِكَ دُرِّ لَا يُضَاعُ“ %; در تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہوسکتا.( تذکر طبع چہارم - صفحه 550) اور اپنے منظوم کلام میں حضور اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں : کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال در شاهوار ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہوجائیں نہاں ہم زیر غار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 132 براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 221 ذوالقرنین اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس که جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں یہ چاہتی ہے کہ مجھے میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں.کیونکہ سورۃ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وہی تھا.خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے قلنا يا ذا القرنين - پس اس وحی الہی کی رو سے کہ جرى اللهِ فِي حُلَلِ الأَنْبِيَاءِ اس امت کے لئے ذوالقرنین میں ہوں.اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر ان کے لئے جو فراست رکھتے ہیں.“ دوصدیوں کو پانے والا یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دوصدیوں کو پانے والا ہو.اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے.ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہر ہوگا کہ میں نے ہر ایک قوم کی دوصدیوں کو پالیا ہے.میری عمر اس وقت تخمیناً 67 سال ہے.پس ظاہر ہے کہ اس حساب
اسماء المهدی صفحه 222 سے جیسا کہ میں نے دو ہجری صدیوں کو پالیا ہے.ایسا ہی دو عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے اور ایسا ہی دو ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے.اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانہ کے تمام ممالک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کا ملاحظہ کیا ہے.کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے دوصد ئیں میں نے نہ پائی ہوں.اور بعض احادیث میں آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا.غرض بموجب نص" وحی الہی کے میں ذوالقرنین ہوں.اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورۃ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں، میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنے کھولے ہیں، میں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں.مگر یادر ہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے.وہ گزشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق.اور قرآن شریف صرف قصہ گوئی طرح نہیں ہے.بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے.اور ذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 119-118) (چنانچہ اللہ تعالیٰ نے.ناقل ) فرمايا إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَاتَّيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا.یعنی ہم اس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذوالقرنین بھی
اسماء المهدی صفحه 223 کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا.اور ہم ہر طرح سے ساز وسامان اس کو دے دیں گے اور اس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کر دیں گے.یادر ہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلَمْ نَجْعَلْ لَكَ سَهُوْلَةً فِي كُلِّ أَمْرِ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لئے آسانی نہیں کر دی.یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لئے میسر نہیں کر دئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے.جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اور اشاعتِ حق کے میتر کر دئیے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے.تمام قوموں کی آمد ورفت کی راہیں کھولی گئیں.طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں.اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں.ہر ایک قوم کی وہ کتا بیں شائع ہوئیں جو خلی اور مستور تھیں اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا.کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دُور ہو گئیں.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 120-119.براہین احمدیہ پنجم ) پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَأَتْبَعَ سَبَبًا.حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِيَّةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ
اسماء المهدی صفحہ 224 تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًا.قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكْرًا - وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا یعنی جب ذوالقرنين کو جو مسیح موعود ہے.ہر ایک طرح کے سامان دیئے جائیں گے.پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہو گیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی.یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا.نہ ان کے مقابل پر آفتاب ہو گا جس سے وہ روشنی پاسکیں اور نہ ان کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ پیویں یعنی ان کی علمی و عملی حالت نہایت خراب ہوگی.اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے.تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو ان کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددعا کرے (جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے ) یا ان کے ساتھ حسن سلوک کا شیوہ اختیار کرے.تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جواب دے گا کہ ہم اسی کو سز ادلا نا چاہتے ہیں جو ظالم ہو.وہ دنیا میں بھی ہماری بددعا سے سزا یاب ہوگا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا.لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو
اسماء المهدی صفحه 225 انہیں کاموں کی بجا آوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہو سکتے ہیں.غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا جبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے.اور آفتاب صداقت ان کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بد بودار چشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے، بد بودار عقائد اور اعمال ان میں پھیلے ہوئے ہوں گے.اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے.اور روشنی کا نام و نشان نہ ہوگا.تاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آجکل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے.اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتّرًا كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا.یعنی پھر ذوالقرنين جو مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا.ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک شرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کا آفتاب نکلتا ہے، اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پر آفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں.یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے
اسماء المهدی صفحہ 226 ہوں گے.اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہوگا جس کو ہم خوب جانتے ہیں.مگر وہ قبول نہیں کریں گے.اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے.نہ گھر نہ سایہ دار درخت، نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں.اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا.ان کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا.یہ ان لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو ان کے سامنے موجود ہے اور اس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چھڑا ان کا جل جائے اور رنگ سیاہ ہو جائے.اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی س تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہوگا.اول اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں.اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں.دوسرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہو گا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں.یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے.نرے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں.سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں.یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے
اسماء المهدی صفحہ 227 جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اور حسن ظن سے کام نہ لیا.اس لئے سعادت سے محروم ہو گئے.بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا- حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا.قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا - آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا - قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا- وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَافِرِينَ عَرْضًا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءِ عَنْ ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا - پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسا نازک زمانہ پائے گا جس کو بین الدین کہنا چاہئے یعنی دو پہاڑوں کے
اسماء المهدی صفحہ 228 بیچ.مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جبکہ دوطرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی.تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے.یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے اور باعث غلط عقائد ، مشکل سے اس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کار سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے اور یہ تیسری قوم ہے جو سیح موعود کی ہدایات سے فیضیاب ہوں گے.تب وہ اس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچارکھا ہے.پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں.وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے.ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو.تا میں تم میں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں.یعنی ایسے طور پر ان پر محبت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پر حملہ نہ کرسکیں.لوہے کی سلیں مجھے لا دو تا آمد ورفت کی راہوں کو بند کیا جائے.یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو.اور اس طرح پر خود لوہے کی سل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو.اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں.یعنی محبت الہی اس قدر اپنے اندر بھڑ کاؤ کہ خود الہی رنگ اختیار کرو.یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالی سے کمال
اسماء المهدی صفحہ 229 محبت کی یہی علامت ہے کہ محبت میں ظلمی طور پر الہی صفات پیدا ہو جائیں اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوئی محبت جھوٹ ہے.محبت کاملہ کی مثال بعینہ لوہے کی وہ حالت ہے جبکہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے.پس اگر چہ وہ اصلیت میں لوہا ہے، آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کرتی ہے اس لئے آگ کی صفات اس سے ظاہر ہوتے ہیں.وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے، آگ کی طرح اس میں روشنی ہے.پس محبت الہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 124-120.براہین احمدیہ پنجم ) شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کی شرطیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یا جوج ماجوج سے ڈرتی ہے، کہے گا کہ مجھے تانبا لا دو کہ میں اس کو پگھلا کر اس دیوار پر انڈیل دوں گا.پھر بعد اس کے یا جوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں.یا اس میں سوراخ کر سکیں.یادر ہے کہ لوہا اگر چہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے مگر مشکل سے پگھلتا ہے مگر تانبا جلد پکھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے.پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ
اسماء المهدی صفحہ 230 کر پکھل جائیں کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے.لیکن انسان شیطانی حملے سے جب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو.اور پھر وہ لوہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے.اور پھر دل پکھل کر اس لو ہے پر پڑے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے.سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے سد سکندری ہیں.اور شیطانی روح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اور نہ اس میں سوراخ کر سکتی ہے.اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کا ہاتھ یہ سب کچھ کرے گا.انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 126-125.براہین احمدیہ پنجم ) پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے.ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اٹھے گی.اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے.ایک دوسرے پر حملہ کریں گے.اتنے میں آسمان پر قر نا پھونکی جائے گی یعنی آسمان پر خدا مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مدد کے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کر دے گا.اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 126.براہین احمدیہ پنجم ) یہ زمانہ چونکہ کشف حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے
اسماء المهدی صفحہ 231 حقائق اور معارف مجھ پر کھول رہا ہے.ذوالقرنین کے قصے کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجھے یہ سمجھایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے پیرایہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لئے رکھا ہے کہ قرن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا اس لئے ذوالقرنین کہلائے گا.چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائی ہیں اور اسی طرح پر دوسری صدیاں ہندوؤں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں.اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے.اور پھر اسی قصہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ذوالقرنین نے تین قو میں پائیں.اوّل وہ جو غروب آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے.اس سے مراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے یعنی شریعت حلقہ ان کے پاس نہیں رہی، روحانیت مرگئی اور ایمان کی گرمی جاتی رہی.یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں.دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جھلنے والی دھوپ ہے.یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے.آفتاب یعنی شریعت حقہ ان کے پاس موجود ہے مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ فائدہ تو حکمت عملی سے اٹھایا جاتا ہے جیسے مثلاً روٹی پکانا.وہ گو آگ سے پکائی جاتی ہے لیکن جب تک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے، وہ روٹی تیار نہیں ہو سکتی.اسی طرح پر شریعت حلقہ سے کام لینا بھی ایک حکمت عملی کو چاہتا ہے.پس مسلمانوں نے اس وقت باوجود یکہ ان کے پاس آفتاب
اسماء المهدی صفحه 232 اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا.اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا.اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یا جوج ماجوج سے بچا.یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا ہے.غرض آج ان قصوں کا علمی رنگ ہے.ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصہ پہلے بھی کسی رنگ میں گذرا ہے لیکن یہ کچی بات ہے کہ اس قصہ میں واقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور پیشگوئی تھا.جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا.“ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد دوم صفحہ 175-174) ایک دوست حکیم مرز امحمود صاحب ایرانی نے بذریعہ خط سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آیت فَوَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنِ حَمِئَةِ کے معنے دریافت کئے تو ان کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: پس واضح ہو کہ آیت قرآنی بہت سے اسرار اپنے اندر رکھتی ہے جس کا احاطہ نہیں ہوسکتا اور جس کے ظاہر کے نیچے ایک باطن بھی ہے.لیکن وہ معنے جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائے ہیں، وہ یہ ہیں کہ یہ آیت مع اپنے سابق اور لاحق کے مسیح موعود کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس کے وقت ظہور کو شخص کرتی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسیح موعود بھی ذوالقرنین ہے.کیونکہ قرن عربی زبان میں صدی کو کہتے ہیں.اور آیت قرآنی میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وعدہ کا مسیح جو کسی وقت ظاہر ہوگا اس کی
اسماء المهدی صفحہ 233 پیدائش اور اس کا ظاہر ہونا دوصدیوں پر مشتمل ہوگا.چنانچہ میرا وجوداسی طرح پر ہے.میرے وجود نے مشہور و معروف صدیوں میں خواہ ہجری ہیں خواہ مسیحی خواہ بکرماجیتی اس طور پر اپنا ظہور کیا ہے کہ ہر جگہ دوصدیوں پر مشتمل ہے.صرف کسی ایک صدی تک میری پیدائش اور ظہور ختم نہیں ہوئے.غرض جہاں تک مجھے علم ہے.میری پیدائش اور میر اظہور ہر ایک مذہب کی صدی میں صرف ایک صدی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوصدیوں میں اپنا قدم رکھتا ہے.پس ان معنوں سے میں ذوالقرنین ہوں.چنانچہ بعض احادیث میں بھی مسیح موعود کا نام ذوالقرنین آیا ہے.ان حدیثوں میں بھی ذوالقرنین کے یہی معنے ہیں جو میں نے بیان کئے.اب باقی آیت کے معنے پیشگوئی کے لحاظ سے یہ ہیں کہ دنیا میں دو قو میں بڑی ہیں جن کو مسیح موعود کی بشارت دی گئی ہے اور سیمی دعوت کے لئے پہلے انہیں کا حق ٹھہرایا گیا ہے.سو خدا تعالیٰ ایک استعارے کے رنگ میں اس جگہ فرماتا ہے کہ مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے، اپنی سیر میں دوقوموں کو پائے گا.ایک قوم کو دیکھے گا کہ وہ تاریکی میں ایک ایسے بد بودار چشمے پر بیٹھی ہے کہ جس کا پانی پینے کے لائق نہیں اور اس میں سخت بد بودار کیچڑ ہے اور اس قدر ہے کہ اب اس کو پانی نہیں کہہ سکتے.یہ عیسائی قوم ہے جو تاریکی میں ہے جنہوں نے مسیحی چشمہ کو اپنی غلطیوں سے بد بودار کیچڑ میں ملا دیا ہے.دوسری سیر میں مسیح موعود نے جوذ والقر نین ہے، ان لوگوں کو دیکھا جو
اسماء المهدی صفحہ 234 آفتاب کی جلتی ہوئی دھوپ میں بیٹھے ہیں.اور آفتاب کی دھوپ اور ان میں کوئی اوٹ نہیں اور آفتاب سے انہوں نے کوئی روشنی تو حاصل نہیں کی اور صرف یہ حصہ ملا ہے کہ ان سے بدن اُن کے جل رہے ہیں.اور اوپر کی جلد سیاہ ہو گئی ہے.اس قوم سے مراد مسلمان ہیں جو آفتاب کے سامنے تو ہیں مگر بجز جلنے کے اور کچھ ان کو فائدہ نہیں ہوا.یعنی ان کو تو حید کا آفتاب دیا گیا مگر بجز جلنے کے آفتاب سے انہوں نے کوئی حقیقی روشنی حاصل نہیں کی.یعنی دینداری کی کچی خوبصورتی اور بچے اخلاق وہ کھو بیٹھے اور تعصب اور کینہ اور اشتعال طبع اور درندگی کے چلن ان کے حصہ میں آگئے.“ (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 199.لیکچر لاہور ) مبارک وہ جوان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیرا یہ میں فرماتا ہے کہ ایسے وقت میں مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے آئے گا جبکہ عیسائی تاریکی میں ہوں گے اور ان کے حصہ میں صرف ایک بد بودار کیچڑ ہوگا جس کو عربی میں حَما کہتے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف خشک توحید ہوگی جو تعصب اور درندگی کی دھوپ سے جلے ہوں گے.اور کوئی روحانیت صاف نہیں ہوگی.اور پھر مسیح موعود جوذ والقر نین ہے.ایک تیسری قوم کو پائیں گے جو یا جوج ماجوج کے ہاتھ سے بہت تنگ ہوگی.اور وہ لوگ بہت دیندار ہوں گے اور ان کی طبیعتیں سعادتمند ہوں گی.اور وہ ذوالقرنین سے جو
اسماء المهدی صفحہ 235 مسیح موعود ہے، مدد طلب کریں گے تا یا جوج ماجوج کے حملوں سے بیچ جائیں اور وہ ان کے لئے سد روشن بنادے گا.یعنی ایسے پختہ دلائل اسلام کی تائید میں ان کو تعلیم دے گا.یا جوج ماجوج کے حملوں کو قطعی طور پر روک دے گا.اور ان کے آنسو پونچھے گا اور ہر ایک طور سے ان کی مدد کرے گا اور ان کے ساتھ ہوگا.یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قبول کرتے ہیں.یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے اور اس میں صریح طور پر میرے ظہور اور میرے وقت اور میری جماعت کی خبر دی گئی ہے.پس مبارک وہ جو ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھے.“ (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 200-199 لیکچر لاہور )
اسماء المهدی صفحہ 236 ذو عقل متین إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ ذُوْعَقْلٍ مَتِيْنِ ترجمہ: تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانت دار اور قوی العقل ہے.( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 82) نوٹ: اس مرکب نام کے ذریعہ آپ کے مخالفوں اور دشمنوں کے ان فتووں کا رڈ کیا گیا ہے جن میں نعوذ باللہ من ذلک آپ کو نافہم ، غیبی ، بلید ، کم عقل اور احمق وغیرہ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.
اسماء المهدی صفحہ 237 رجل فارسی رجل فارسی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہے یہ عجیب بات ہے کہ جیسا کہ احادیث نبویہ میں مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی ہے کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا، ایسا ہی ایک رجل فارسی کی نسبت پیشگوئی ہے کہ وہ آخری زمانہ میں ضائع شدہ ایمان کو بحال کرے گا.جیسا کہ لکھا ہے لَوْ كَانَ الإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ فارش یعنی اگر ایمان ثریا پر چلا جاتا تب بھی ایک رجل فارسی اس کو واپس لے آتا.اب ظاہر ہے کہ رجل فارسی کو اس حدیث میں اس قدر فضیلت دی گئی ہے اور اس قدر کا ر نمایاں کام اس کا دکھلایا گیا ہے کہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ رجل فارسی مسیح موعود سے افضل ہے.کیونکہ مسیح موعود بقول مخالفوں کے صرف دجال کو قتل کرے گا.لیکن رجل فارسی ایمان کو ثریا سے واپس لائے گا.جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بھی یہ ذکر ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا.لوگ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا.پس وہی زمانہ رجل فارسی کا اور وہی زمانہ مسیح موعود کا ہے.مگر جس حالت میں رجل فارسی یہ خاص خدمت ادا کرے گا کہ ایمان کو آسمان سے واپس لائے گا.تو پھر اس کے مقابل پر
اسماء المهدی صفحہ 238 مسیح موعود کی کوئی دینی خدمت ثابت نہیں ہوسکتی.کیونکہ دجال کو قتل کرنا صرف دفع شتر ہے جو مدار نجات نہیں.مگر آسمان سے ایمان کو واپس لانا اور لوگوں کو مومن کامل بنانا یہ افاضہ خیر ہے جو مدار نجات ہے.اور افاضہ خیر سے دفع شر کو کچھ نسبت نہیں.ماسوا اس کے ظاہر ہے کہ جو شخص اس قدر افاضہ خیر کرے گا کہ ثریا سے ایمان کو واپس لائے گا.اسکی نسبت کوئی معقلمند خیال نہیں کر سکتا کہ وہ دفع شر پر قادر نہیں ہوگا.پس یہ خیال بالکل غیر معقول ہے کہ آخری زمانہ میں افاضہ خیر تو رجل فارسی کرے گا.مگر دفع شر مسیح موعود کرے گا.جس کو آسمان پر چڑھنے کی طاقت ہے کیا وہ زمین کے شہر کو دُور نہیں کرسکتا؟ غرض اس زمانہ کے مسلمانوں کی یہ غلطی قابل افسوس ہے کہ مسیح موعود اور رجل فارسی کو دو مختلف آدمی سمجھتے ہیں.اور آج سے چھبیس برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عقدہ کو کھول دیا ہے کیونکہ ایک طرف تو مجھ کو مسیح موعود قرار دیا ہے دوسری طرف مجھے رجل فارسی مقرر کر کے بار بار اسی نام سے پکارا ہے جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ صَدُّوا عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهْ یعنی عیسائی اور دوسرے ان کے بھائی جو لوگوں کو دین اسلام سے روکتے ہیں.اس رجل فارسی یعنی اس احقر نے ان کا رڈ لکھا ہے.خدا اس کی اس خدمت کا شکر گذار ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ کام یعنی عیسائیوں کا مقابلہ کرنا یہ اصل خدمت مسیح موعود کی ہے.پس اگر رجل فارسی مسیح موعود نہیں تو کیوں مسیح موعود کا منصبی کام رجل.....اور
اسماء المهدی صفحہ 239 فارسی کے سپر د کیا گیا ہے.اس سے ثابت ہے کہ رجل فارسی اور مسیح موعود 66 ایک ہی شخص کے نام ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 502-500.تتمہ حقیقۃ الوحی ) اور اگر کوئی یہ کہے کہ کس طرح معلوم ہوا کہ حدیث لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٍ مِنْ فَارِس اس عاجز کے حق میں ہے.اور کیوں جائز نہیں کہ امت محمدیہ میں سے کسی اور کے حق میں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ براہین احمدیہ میں بار بار اس حدیث کا مصداق وحی الہی نے مجھے ٹھہرایا ہے اور بتصریح بیان فرمایا ہے کہ وہ میرے حق میں ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا.“ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 503-502 - تمہ حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 240 رحمۃ للعالمین وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنِ ہم نے تجھے دنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے.ایک دوسری جگہ اس طرح ترجمہ فرمایا ہے: ( تذکر طبع چہارم - صفحه 547) میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں“ (روحانی خزائن جلد اول.صفحہ 603 حاشیہ نمبر 3.براہین احمدیہ ) نوٹ: شروع میں لکھا جاچکا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام القاب و خطابات آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ملے ہیں اور یہ زمانہ برکات محمد یہ کا زمانہ ہے.سچ ہے کہ ؎ سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
اسماء المهدی صفحہ 241 رخى الاسلام أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ رَحَى الْإِسْلَامِ تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 620) چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے آتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے، سامنے آجاتا ہے.آپ کا نام رضی الاسلام رکھ کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اسلام کا وہ حقیقی چہرہ جو پردہ اخفا میں تھا آپ کی بعثت کے نتیجہ میں ، آپ کے ذریعہ سے پھر دنیا پر اپنے حسن و جمال کے ساتھ آشکار ہوگا.اور اسلام کی مخفی اور در پردہ خوبیاں اور کمالات پھر سے ظاہر ہو جائیں گے.اور اسلام کی موجودہ کمزور حالت جاتی رہے گی.
اسماء المهدی صفحہ 242 رسل "كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.اس وحی الہی میں خدا نے میرا نام رُسُل رکھا ہے.کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں ، میں شیث ہوں، ہمیں نوح ہوں میں ابراہیم ہوں ، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں ، اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر ائم ہوں یعنی ظلمی طور پر محمد اور احمد ہوں.“ الله ( تذکر طبع چہارم - صفحه 540)
اسماء المهدی صفحہ 243 روح الصدق نَفَخْتُ فِيْكَ مِن لَّدُنِي رُوْحَ الصِّدْقِ میں نے تجھ میں اپنے پاس سے صدق کی روح پھونک دی.خدا نے اس آیت میں میرا نام روح الصدق رکھا“.(روحانی خزائن جلد 19 ، صفحہ 49-48 کشتی نوح)
اسماء المهدی صفحہ 244 روح الله روح اللہ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہر قسم کے ناپاک اور خطرناک الزامات اور بہتانوں سے پاک ٹھہرایا گیا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جب انسان تبتل الی اللہ میں ایسا کمال حاصل کرے کہ فقط روح رہ جائے.تب وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک روح اللہ ہو جاتا ہے.اور آسمان میں اس کا نام عیسی رکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ایک روحانی پیدائش اس کو ملتی ہے جو کسی جسمانی باپ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا سایہ اس کو وہ پیدائش عنائت کرتا ہے.پس در حقیقت تزکیہ اور فنافی اللہ کا کمال یہی ہے کہ ظلمات جسمانیہ سے اس قدر تجر دحاصل کرے که فقط روح باقی رہ جائے.یہی مرتبہ عیسویت ہے." (روحانی خزائن جلد چہارم صفحہ 368.نشان آسمانی )
اسماء المهدی صفحہ 245 ژو در گوپال کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا.گو یادہ مسکرت کا ایک عالم ہے جو کرشن کا نہایت درجہ معتقد ہے.وہ میرے سامنے کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کر کے بولا کہ " ہے رو در گوپال تیری استنت گیتا میں لکھی ہے.اسی وقت میں نے سمجھا کہ تمام دنیا ایک رو در گوپال کا انتظار کر رہی ہے.کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی.مگر اپنے اپنے لفظوں اور زبانوں میں اور سب نے یہی وقت ٹھہرایا ہے.اور اس کی یہ دونوں صفتیں قائم کی ہیں.یعنی سوروں کو مارنے والا اور گائیوں کی حفاظت کرنے والا اور وہ میں ہوں جس کی نسبت ہندوؤں میں پیشگوئی کرنے والے قدیم سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ آریہ ورت میں یعنی اسی ملک ہند میں پیدا ہوگا اور انہوں نے اس کے مسکن کے نام بھی رکھے ہیں.مگر وہ تمام نام استعارہ کے طور پر ہیں جن کے نیچے ایک اور حقیقت ہے.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 318-317 حاشیہ، تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی صفحہ 246 سَاقُ الله أَنَا سَاقُ اللَّهِ الْمَكْشُوْف“ من ساق خدا هستم که کشاده است (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 474 حجۃ النور )
اسماء المهدی صفحہ 247 "انا وو السبيل نَا النَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالسَّبِيْلُ میں دن ہوں اور سورج ہوں اور راہ ہوں.(روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 474 لجه النور ) مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اُس کے سب نوروں میں سے آخری ٹو رہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے“.(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61، کشتی نوح)
اسماء المهدی صفحہ 248 سِرَاجًا مُنِيرًا ایک امتی کے تعریف کرنے میں دو بزرگ فائدے اس جگہ بعض خاموں کے دلوں میں یہ وہم بھی گذر سکتا ہے کہ اس مندرجہ بالا الہامی عبارت میں کیوں ایک مسلمان کی تعریفیں لکھی گئی ہیں.سو سمجھنا چاہئے کہ ان تعریفوں سے دو بزرگ فائدے متصور ہیں جن کو حکیم مطلق نے خلق اللہ کی بھلائی کے لئے مد نظر رکھ کر ان تعریفوں کو بیان فرمایا ہے.ایک یہ کہ تا نبی متبوع کی متابعت کی تاثیریں معلوم ہوں.اور تا عامہ خلائق پر واضح ہو کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی کس قدر شانِ بزرگ ہے.اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجے پر روشن تا تیریں ہیں جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے، کسی کو عارف کے درجے تک پہنچاتا ہے، کسی کو آیت اللہ اور حجت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے.صلى الله دوسرے یہ فائدہ کہ نئے مستفیض کی تعریف کرنے میں بہت سی اندرونی بدعات اور مفاسد کی اصلاح متصور ہے.کیونکہ جس حالت میں اکثر جاہلوں نے گزشتہ اولیاء اور صالحین پر صد ہا اس قسم کی تہمتیں لگارکھی ہیں کہ گویا انہوں نے آپ یہ فہمائش کی تھی کہ ہم کو خدا کا شریک ٹھہراؤ.اور ہم
اسماء المهدی صفحہ 249 سے مرادیں مانگو اور ہم کو خدا کی طرح قادر اور متصرف فی الکائنات سمجھو.تو اس صورت میں اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو اپنے پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں تب تک وعظ اور پند اس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا.کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شانِ بزرگ کو کب پہنچ سکتا ہے.اور جب خود ہمارے بڑے پیروں نے مرادیں دینے کا وعدہ دے رکھا ہے تو یہ کون ہے اور اس کی کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں.سو یہ دو فائدے بزرگ ہیں.جن کی وجہ سے اس مولیٰ کریم نے کہ جو سب عزتوں اور تعریفوں کا مالک ہے، اپنے ایک عاجز بندہ اور مشت خاک کی تعریفیں کیں.ورنہ در حقیقت ناچیز خاک کی کیا تعریف.تعریفیں اور نیکیاں اسی ایک کی طرف راجع ہیں کہ جورب العالمین اور الٹی م 66 (روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 272-270 حاشیہ نمبر 1.براہین احمدیہ چار حصص )
اسماء المهدی صفحہ 250 سلامتی کا شہزادہ ” خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں.اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں اور ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا.“ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 411 حقیقۃ الوحی ) ( تذکر طبع چہارم صفحه 531 ) ” جو مجھے کا ذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فتا ہو جائے گا.گویا میں کا ذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر.اور خدا تعالیٰ اس کے رد میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.ذلت کی موت اور ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا.اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور صادق اور کا ذب میں کوئی امر خارق نہ رہے.“ (روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 411 حاشیہ، حقیقۃ الوحی ) ( تذکر طبع چہارم صفحہ 531 - حاشیہ) پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر ورنہ اٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
اسماء المهدی وو صفحہ 251 خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں.اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں.اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100، حقیقۃ الوحی ) ( تذکر طبع چہارم صفحه 556-555)
اسماء المهدی صفحه 252 سلطان احمد مختار ” بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے.اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے.پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری ؟ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں.اور تصویر کے یمین و یسار حجۃ اللہ القادر سلطان احمد مختار لکھا تھا.“ (روحانی خزائن جلد اول - صفحہ 615 حاشیہ نمبر 3.براہین احمدیہ ہر چہار صص )
اسماء المهدی صفحہ 253 سلطان عبد القادر اس الہام میں میرا نام سلطان عبدالقادر رکھا گیا کیونکہ جس طرح سلطان دوسروں پر حکمران اور افسر ہوتا ہے اسی طرح مجھ کو تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی ہے.یعنی جولوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں ، ان کا تعلق نہیں رہے گا جب تک وہ میری اطاعت نہ کریں اور میری اطاعت کا جو آ اپنی گردن پر نہ اٹھائیں.یہ اسی قسم کا فقرہ ہے کہ قَدَمِنْ هَذِهِ عَلَى رَقَبَةِ كُلِّ وَلِيِّ اللَّهِ.یہ فقرہ سید عبد القادر رضی اللہ عنہ کا ہے جس کے معنے ہیں کہ ہر ایک ولی کی گردن پر میرا قدم ہے.أُحِلَّ لَهُ الطَّيِّبَاتُ قُلْ مَا فَعَلْتُ إِلَّا مَا أَمَرَنِيَ اللَّهُ.اس سلطان عبد القادر کے لئے وہ تمام چیزیں حلال کی گئیں جو پاک ہیں.کہہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو خدا کے حکم کے برخلاف ہو بلکہ وہی کیا جو خدا نے مجھے فرمایا.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 599)
اسماء المهدی صفحہ 254 سلطان القلم یہ مقام ( ہندوستان ) دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہمرنگ ہو.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں، اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے.اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا ہے.اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.“ ( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 58 حاشیہ) حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار (جن میں مہدی ہند کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ) میں سے مندرجہ ذیل شعر لکھ کر تحریر فرماتے ہیں.,, يد بیضا که با او تابنده باز با ذوالفقار مے بین یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو تمام کے حجت کی رو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے.پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں یعنی ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذر گیا کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ کے ہاتھ میں تھی.مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دے دے گا.اس طرح پر کہ اس کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی.سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا
اسماء المهدی صفحہ 255 کہ گویا کہ وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ ہے جو پھر ظاہر ہوگئی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا.اور اس کی قلم 66 ذوالفقار کا کام دے گی.“ وو (روحانی خزائن جلد 4، صفحہ 375- نشان آسمانی) یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آب حیات خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو بھی دیا ہے.بے شک جو شخص اس میں سے پئے گا ، زندہ ہو جائے گا.بلا شبہ میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مُردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجزوم صاف نہ ہوں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا.“ (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 335-334 ازالہ اوہام حصہ دوم ) اور اپنے منظوم کلام میں آپ فرماتے ہیں: وَقَدْ أُعْطِيتُ بُرْهَانَا كَرُمْحٍ اهُ تَنْقِيْفَ الْعَوَالِي و بِيْ بِالدَّلَائِلِ لَا السّهامِ وَقَوْلِى لَهْدَمٌ شَاجُ القُذَال (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 595-594.آئینہ کمالات اسلام ) اور مجھ کو نیزے جیسے دلائل دئے گئے ہیں اور ہم نے ان کو ایسا تیز کیا ہے جیسا نیزہ کی انسی کو تیز کیا جاتا ہے.اور میری جنگ دلائل کے ساتھ ہے نہ کہ تیروں کے ساتھ اور میرا کلام تیز تلوار ہے جوکھو پر یوں کو زخمی کرتا ہے.اسی طرح فرمایا:
اسماء المهدی صفحہ 256 دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال سیف کا کام قلم ہی دکھایا ہم نے (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225 ، آئینہ کمالات اسلام )
اسماء المهدی صفحه 257 سلطان المشرق احادیث میں کئی قسم کے مہدیوں کی طرف اشارہ ہے اور مولویوں نے تمام احادیث کو ایک ہی جگہ خلط ملط کر کے گڑ بڑ ڈال دیا ہے.اور اختلاط روایات کی وجہ سے اور نیز قلت تذبر کے باعث سے ان پر امر مشتبہ ہو گیا ہے.ورنہ چودھویں صدی کا مہدی جس کا نام سلطان المشرق بھی ہے.خصوصیت کے ساتھ احادیث میں بیان کیا گیا ہے.جس کے جہاد روحانی جہاد ہیں اور جود قابلیت تامہ کے پھیلنے کی وجہ سے عیسیٰ کی صفت پر نازل ہوا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 4، صفحہ 380-379.نشان آسمانی )
صفحہ 258 اسماء المهدی سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ سلمان سلمان یعنی دو صلحیں اور پھر فرمایا عَلَى مَشْرَبِ الْحَسَنِ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو ہی صلحیں تھیں.ایک صلح تو انہوں نے حضرت معاویہ کے ساتھ کرلی اور دوسری صحابہ کی باہم صلح کرادی ،اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود حسنی المشرب ہے.اس کے بعد فرمایا کہ حسن کا دودھ پئے گا“.یہ جولوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپ کی آل میں سے ہوگا.یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہو گیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے، کام بھی معلوم ہو گیا.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا، جھوٹے ہیں.اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتائی گئی ہے کہ وہ دو صلحوں کا وارث ہوگا.یعنی بیرونی طور پر بھی صلح کرے گا.اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کرا دے گا.“ ( تذکر طبع چہارم.صفحہ 314) ” میرے خاندان کی نسبت ایک اور وحی الہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتا ہے.سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْت (ترجمہ) سلمان یعنی یہ عاجز جو دو صلح کی بنیاد ڈالتا ہے، ہم میں سے ہے، جو اہل بیت ہیں.یہ وحی
اسماء المهدی صفحہ 259 الہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اس عاجز کی سادات میں سے تھیں.اور دو صلح سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کے اندرونی فرقوں میں ہوگی.اور بہت کچھ تفرقہ اُٹھ جائے گا.اور دوسری صلح اسلام کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائے گی اور وہ اسلام میں داخل ہو جائیں گے.تب خاتمہ ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81 حاشیہ درحاشیہ.حقیقۃ الوحی ) یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی.اس کی تصدیق آنحضرت ﷺ نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنا صلى الله علوم أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى مَشْرَبَ الحَسَن.میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سلم.اور سلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں.یعنی مقد رہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی.ایک اندرونی جو اندرونی بغض اور عناد کو دُور کرے گی.دوسری بیرونی کہ جو عداوت کے وجود کو پامال کر کے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذاہب والوں کو اسلام کی طرف جھکا دے گی.معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے اس سے بھی میں مراد ہوں.ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی.“ (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 213-212 حاشیہ.ایک غلطی کا ازالہ )
اسماء المهدی صفحہ 260 سیف الرحمان حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: جُهْدُ المُخَالِفِ بَاطِلٌ فِي أَمْرِنَا سَيْفَ مِنَ الرَّحْمَان لَا يَتَكَلَّمُ مخالف کی کوششیں ہمارے معاملہ میں باطل ہیں.یہ رحمان کی تلوار ہے جو رخنہ پذیر نہیں ہوگی.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 362.حقیقۃ الوحی )
صفحہ 261 اسماء المهدی شاہدے صلى الله سورۃ ہود آیت 18 میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی صداقت کے تین دلائل دیئے ہیں.اول آپ کا اپنا وجود، پاکیزہ زندگی اور آپ کے ذریعہ نشانات کا ظاہر ہونا.دوم یہ کہ آپ کو ایک شاہد دیا جائے گا جو آپ کے بعد آئے گا.تیسرے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب.جس میں آنحضرت ﷺ کے متعلق پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں.اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو جس شاہد کا وعدہ دیا گیا ہے وہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہیں.خود آپ کو بھی ایک الہام میں شاہد کہا گیا ہے بلکہ شَاهِدُ نِزَاعٍ“ ( تذکر طبع چہارم - صفحه 43) کہا گیا ہے یعنی ایسا گواہ جو تباہی ڈالنے والا ہے.یعنی اگر اس کی گواہی کو، جو حق و صداقت پر مشتمل ہوگی ، رڈ کیا گیا تو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کے گا اور وہ منکر قسم قسم کے عذابوں کا شکار ہوں گے.چنانچہ آپ اپنے منظوم کلام میں قسم ایک جگہ فرماتے ہیں: ؎ کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 738.حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحه 262 اسی طرح فرمایا : ہائے میری قوم نے تکذیب کرکے کیا لیا زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثل غار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 128 براہین احمدیہ حصہ پنجم ) ایک اور الہام میں اللہ تعالیٰ آپ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: قُل عِنْدِي شَهَادَةٌ مِنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ“ اس الہام کا ترجمہ و تشریح کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: " کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم ایمان نہیں لاتے یعنی خدائے تعالیٰ کا تائیدات کرنا اور اسرار غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا اور مختلف زبانوں میں الہام دینا اور معارف اور حقائق الہیہ سے اطلاع بخشا.یہ سب خدا کی شہادت ہے جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے.“ ( تذکرہ طبع چہارم.صفحہ 79) (روحانی خزائن جلد اول صفحہ 663-662 حاشیہ نمبر 4.براہین احمدیہ ) آپ قرآنی خوارق و معجزات اور آنحضرت ﷺ کی روحانی قوت کے گواہ ہیں حضور علیہ السلام اپنی کتاب چشمہ معرفت میں قرآنی خوارق و معجزات اور اپنے آقا و مطاع محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا ذکر
اسماء المهدی صفحہ 263 کرتے ہوئے فرماتے ہیں: غرض قرآن شریف کی زبر دست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا.اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے.بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبر دست طاقت اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دوں.اور اس نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قوی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت رکھتا ہوں اور وہ خدا کا کلام جس کا نام قرآن شریف ہے جو ربانی طاقتوں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں.اور قرآن شریف کا وعدہ یہ ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرى فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اور یہ وعدہ ہے کہ ايَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ اور یہ وعدہ ہے کہ وَيَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا.اس وعدہ کے موافق خدا نے یہ سب مجھے عنایت کیا ہے.اور ترجمہ ان آیات کا یہ ہے کہ جو لوگ قرآن شریف پر ایمان
اسماء المهدی صفحہ 264 لائیں گے ان کو مبشر خوا ہیں اور الہام دئے جائیں گے یعنی بکثرت دئے جائیں گے ورنہ شاذ و نادر کے طور پر کسی دوسرے کو بھی کوئی سچی خواب آسکتی ہے مگر ایک قطرہ کو ایک دریا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں اور ایک پیسہ کو ایک خزانہ کے ساتھ کچھ مشابہت نہیں اور پھر فرمایا کہ کامل پیروی کرنے والے کی رُوح القدس سے تائید کی جائے گی یعنی ان کے فہم اور عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے گی اور اُن کی کشفی حالت نہایت صفا کی جائے گی اور اُن کے کلام اور کام میں تاثیر رکھی جائے گی اور اُن کے ایمان نہایت مضبوط کئے جائیں گے اور پھر فرمایا کہ خدا اُن میں اور اُن کے غیر میں ایک فرق بین رکھ دے گا یعنی بمقابل اُن کے بار یک معارف کے جوان کو دئے جائیں گے اور بمقابل اُن کے کرامات اور خوارق کے جو اُن کو عطا ہوں گی دوسری تمام قومیں عاجز رہیں گی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا آتا ہے اور اس زمانہ میں ہم خود اس کے شاہد رؤیت ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 410-409.چشمہ معرفت ) فَاعْلَمْ بِاَنَّ الْعَيْشَ لَيْسَ بِثَابِتٍ بَلْ مَاتَ عِيْسَى مِثْلَ عَبْدِ فَان وَنَبِيَّنَا حَيٌّ وَإِنِّيْ شَاهِدٌ وَقَدِ اقْتَطَفْتُ قَطَائِفَ اللُّقْيَانِ (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 593.آئینہ کمالات اسلام)
اسماء المهدی صفحه 265 ترجمہ : 1- جان لو کہ (عیسی علیہ السلام کی ) زندگی ثابت نہیں بلکہ عیسی ایک فانی بندہ کی طرح مر گئے.2 اور ہمارے نبی ﷺ زندہ ہیں اور میں گواہ ہوں اور میں آپ کی ملاقات کے ثمرات سے بہرہ مند ہوا ہوں.حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی نے کی عظمت اور سچائی کی گواہی دینے کے لئے بھیجا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں: دنیا میں ایک عظیم الشان نبی انسانوں کی اصلاح کے لئے آیا.یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور اس نے اس بچے خدا کی طرف لوگوں کو بلایا جس کو دنیا بھول گئی تھی لیکن اس زمانہ میں اسی کامل نبی کی ایسی تو ہین اور تحقیر کی جاتی ہے جس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی.پھر خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے ایک بندہ کو جو یہی لکھنے والا ہے بھیجا، تا اس نبی کی سچائی اور عظمت کی گواہی دے اور خدا کی توحید اور تقدیس کو دنیا میں پھیلا دے." (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 367-366 - نسیم دعوت )
اسماء المهدی صفحہ 266 ہیں: شفیع اللہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کے یہ میرا نام رکھا ہے اور اس کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا شفیع.( تذکر طبع چہارم - صفحہ 566) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام شفیع کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے قرآن شریف کی رو سے شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے.یا کوئی بلا مل جائے.پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدا تعالی کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے، وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دعا کرے کہ اس کو وہ ا مرتبہ حاصل ہو.یہی حقیقت شفاعت ہے.سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بے شک دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوت دے.اور ان کی بلا دُور کرے.اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے.چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں.اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگر چہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی اُن کے لئے دعا کرنے میں لگے رہو.اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے.اصل میں شفاعت کا
اسماء المهدی لفظ صفحہ 267 سے لیا گیا ہے.شفع جفت کو کہتے ہیں جو طاق کی ضد ہے.پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے.جیسا کہ اپنے نفس کے لئے.اور یادر ہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو بلکہ دین کے دو ہی کامل حصے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا.جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 464-463 - نسیم دعوت ) حقیقی اور سچی بات یہ ہے کہ جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لئے ضروری ہے کہ اول خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو تا کہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تا کہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے، مخلوق کو پہنچاوے.جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں ، شفیع نہیں ہوسکتا.“ (الحکم نمبر 10 جلد 17،6مارچ1902ء صفحہ 4 کالم 3 ) اس مندرجہ بالا تشریح کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفیع کہہ کر آپ کے تعلق باللہ اور ہمدرد بنی نوع انسان ہونے کا اعلان کیا ہے.چنانچہ جب ہم حضو علیہ السلام کی حیات طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آپ کی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی محبت اور تعلق باللہ سے معمور نظر آتی ہے.بنی نوع انسان کی ہمدردی، ان کے
اسماء المهدی صفحہ 268 لئے دعائیں سینکڑوں ہزاروں قبولیت دعا کے معجزات اور لوگوں کی بے شمار روحانی و جسمانی بیماریوں سے شفایابی کے نشانات کا ذکر آپ کی پاک زندگی میں نظر آتا ہے.قبولیت دعا کے نشانات اور تعلق باللہ کے دلائل اور ثبوت کے لئے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ حضور علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے کس قدر تعلق تھا اور بنی نوع انسان سے کتنا شدید پیار.اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ خاص طور پر فرمائیں : براہین احمدیہ ہر پنج حصص.حقیقۃ الوحی.سراج منیر.تریاق القلوب وغیرہ.
اسماء المهدی صفحہ 269 اب خدا اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا خدا تعالیٰ نے اس وحی الہی میں جو لکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دین اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی.جیسا کہ اس نے فرمایا: يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ أَنْتَ مِنّى وَ اَنَا مِنْكَ.یعنی اے چاند اور اے سورج ! تُو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اس وحی الہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا.اس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نُور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اسی طرح میرانور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے.پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کر کے پکارا.اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا.وہ پوشیدہ تھا، اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا اور اس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی.اور جس طرح تم بجلی کو دیکھتے ہو کہ ایک طرف سے روشن ہو کر ایک دم میں تمام سطح آسمان کی روشن کر دیتی ہے، اسی طرح اس زمانہ میں بھی ہوگا روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 397 - تجلیات الہیہ )
اسماء المهدی صفحہ 270 یا د رکھنا چاہئے کہ جو شخص مامور ہوکر آسمان سے آتا ہے.اس کے وجود سے علی حسب مراتب سب کو بلکہ تمام دنیا کو فائدہ ہوتا ہے.اور درحقیقت وہ ایک روحانی آفتاب نکلتا ہے جس کی کم و بیش دُور دُور تک روشنی پہنچتی ہے.اور جیسی آفتاب کی مختلف تاثیریں حیوانات و نباتات و جمادات اور ہر ایک قسم کے جسم پر پڑ رہی ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو ان تا شیروں پر باستیفا علم رکھتے ہیں.اسی طرح وہ شخص جو مامور ہوکر آتا ہے تمام طبائع اور اطراف واکناف عالم پر اس کی تاثیریں پڑتی ہیں اور جبھی سے کہ اس کا پُر رحمت تعین آسمان پر ظاہر ہوتا ہے.آفتاب کی کرنوں کی طرح فرشتے آسمان سے نازل ہونے شروع ہوتے ہیں اور دنیا کے دُور دُور کناروں تک جو لوگ راستبازی کی استعداد رکھتے ہیں، ان کو سچائی کی طرف قدم اٹھانے کی قوت دیتے ہیں.اور پھر خود بخو د نیک نہا دلوگوں کی طبیعتیں سچ کی طرف مائل ہوتی جاتی ہیں.سو یہ سب اس ربانی آدمی کی صداقت کے نشان ہوتے ہیں جن کے عہد ظہور میں آسمانی قوتیں تیز کی جاتی ہیں.سچی وحی کا خدا تعالیٰ نے یہی نشان دیا ہے کہ جب وہ نازل ہوتی ہے تو ملائک بھی اس کے ساتھ ضرور اترتے ہیں اور دنیا دن بدن راستی کی طرف پلٹا کھاتی جاتی ہے.سو یہ عام علامت اس مامور کی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.“ آسماں (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 339.ازالہ اوہام حصہ دوم ) دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار
اسماء المهدی صفحہ 271 میں شیث ہوں.شيف (روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 76 حاشیہ.حقیقۃ الوحی)
اسماء المهدی صفحہ 272 ,, الشَّيْخ مَا ضَلَّ الشَّيْخُ وَمَا غَواى يَأَيُّهَا الْعَوَامُ اتَّبِعُوا الْإِمَامَ“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 654) بزرگ شخص نہ ہی گمراہ ہوا اور نہ ہی نا کام اور ہلاک ہوا.اے عوام ! امام کی اتباع کرو.
اسماء المهدی صفحہ 273 الشَّيْخُ الْمَسِيحُ أَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.( تذکر طبع چہارم صفحه 318)
اسماء المهدی صفحہ 274 صَاحِبُ الْفُصُوْصِ أَنَا صَاحِبُ الْفُصُوْصِ میں نگینوں کا مالک ہوں.روحانی خزائن جلد 18 صفحه 375 ، الهدى والتبصرة لمن يرى)
اسماء المهدی صفحه 275 قُلْ إِنِّي مِنَ الصَّادِقِينَ تو کہہ کہ میں یقینا راستباز ہوں.صادق صادق تمہارے ہاتھ سے بھی ہلاک نہیں ہوگا ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 196 ) ” صادق تمہارے ہاتھ سے کبھی ہلاک نہیں ہوگا.اور راستباز تمہارے منصوبوں سے تباہ نہیں کیا جائے گا.تم بدقسمتی سے بات کو دُور تک مت پہنچاؤ کہ جس قدر تم گنتی کرو گے دو تمہاری طرف ہی عود کرے گی.اور جس قدر اس کی رسوائی چاہو گے وہ اُلٹ کر تم پر ہی پڑے گی.اے بدقسمتو ! کیا تمہیں خدا پر بھی ایمان ہے یا نہیں.خدا تمہاری مرادوں کو اپنی مُرادوں پر کیونکر مقدم رکھ لے.اور اس سلسلہ کو جس کا قدیم سے اس نے ارادہ کیا ہے.کیونکر تمہارے لئے تباہ کر ڈالے تم میں سے کون ہے جو ایک دیوانہ کے کہنے سے اپنے گھر کو مسمار کر دے اور اپنے باغ کو کاٹ ڈالے اور اپنے بچوں کا گلا گھونٹ دے.سواے نادانوں! اور خدا کی حکمتوں سے محرومو! یہ کیونکر ہو کہ تمہاری احمقانہ دعا ئیں منظور ہو کر خدا اپنے باغ اور اپنے گھر اور اپنے پروردہ کو نیست و
اسماء المهدی صفحہ 276 نابود کر ڈالے.ہوش کرو.اور کان رکھ کر سنو کہ آسمان کیا کہہ رہا ہے.اور زمین کے وقتوں اور موسموں کو پہچانو تا تمہارا بھلا ہو.اور تا تم خشک درخت کی طرح کاٹے نہ جاؤ.اور تمہاری زندگی کے دن بہت ہوں.بیہودہ اعتراضوں کو چھوڑ دو.اور ناحق کی نکتہ چینیوں سے پر ہیز کرو اور فاسقانہ خیالات سے اپنے تئیں بچاؤ.“ مسلمانوں کی اولا دکونصائح (روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 4.سراج منیر ) ”اے مسلمانوں کی اولا د! حد سے بڑھتے نہ جاؤ ممکن ہے کہ انسان اپنی عقل اور اپنے اجتہاد سے ایک رائے کو صحیح سمجھے اور دراصل وہ رائے غلط ہو.اور ممکن ہے کہ ایک شخص کو کاذب خیال کرے اور دراصل وہ کیا ہو.تم سے پہلے بہت لوگوں کو دھو کے لگے.تم کیا چیز ہو کہ تمہیں نہ لگیں.پس ڈرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو تا امتحان میں نہ پڑو.میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر یہ انسان کا فعل ہوتا تو کب کا تباہ کیا جاتا.اور قبل اس کے جو تمہارا ہاتھ اٹھتا خدا کا ہاتھ اس کو تباہ کر دیتا..میں تمہیں بی بی کہتا ہوں کہ جو کچھ تمہیں دکھایا گیا اگر ان اندھوں کو دکھایا جاتا کہ اس صدی سے پہلے گذر گئے تو وہ اندھے نہ رہتے.سوتم روشنی کو پا کر اس کو ر ڈ نہ کرو.خدا تمہیں روشن آنکھیں دینے کے لئے تیار ہے.اور پاک دل بھٹنے کے لئے مستعد ہے.وہ نئے طور سے اپنی ہستی تم پر ظاہر کرنا
اسماء المهدی صفحه 277 چاہتا ہے.اس کے ہاتھ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے لئے لمبے ہوئے ہیں.سو تم مزاحمت مت کرو اور سعادت سے جلد جھک جاؤ.تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اپنی ذریت کے دشمن نہ بنو تا خدا تم پر رقم کرے اور تا وہ تمہارے گناہ بخشے.اور تمہارے دنوں میں برکت دے.دیکھو آسمان کیا کر رہا ہے اور زمین کو کیونکر خدا کھینچ رہا ہے.افسوس کہ تم نے صدی کے سر کو بھی بھلا دیا.“ (روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 60-59- سراج منیر )
اسماء المهدی صفحہ 278 الصديق نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَ أحْيَيْتَ بِالصِّدْقِ، أَيُّهَا الصِّدِّيقُ نُصِرْتَ“ تو رعب کے ساتھ مدد دیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا.اے صدیق تو مدد دیا گیا.(روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 53.انجام آتھم ) انسان صدیق کب کہلاتا ہے اور اس کے اوصاف صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راستبازی میں فنا شدہ ہو.اور کمال درجہ کا پابندِ راستبازی اور عاشق صادق ہو اس وقت وہ صدیق کہلاتا ہے.یہ ایک ایسا مقام ہے جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راستبازیوں کا مجموعہ اور ان کو کشش کرنے والا ہو جاتا ہے.جس طرح پر آتشی شیشہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اوپر جمع کر لیتا ہے.اسی طرح صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.بقول شخصے زرزر کشد در جہاں گنج گنج.جب ایک شے بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے.تو اسی قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.صدق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور
اسماء المهدی صفحہ 279 ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، دُور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، نہ جھوٹی گواہی دوں گا اور جذبہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا.نہ لغوطور پر نہ کسب خیر کے لئے ، نہ دفع شر کے لئے.یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.“ د, (احکام نمبر 13 جلد 9.17اپریل 1905ء صفحہ 5 کالم3,2) صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہوا اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے.اور محبت باری عز اسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہوسکتی ہے.اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا.اور صبر اور توکل اور رضا اورمحویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقاء وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان صفاتِ فاضلہ پر قائم بھی ہو.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 420.تریاق القلوب) صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے
اسماء المهدی صفحہ 280 و, یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ دو بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے وو صدق پر گواہی دیں.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 516.تریاق القلوب ) صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے.“ الحکم نمبر 1 جلد 24،5 / مارچ 1901 صفحہ 1) صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں.سب سے بڑا صدق لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہے.اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں.صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پر ہیز کرتا ہے.ا حکم نمبر 26 جلد 6-24 جولائی 1902 ، صفحہ 6 کالم 3,2) صدیق خطاب میں فنا فی الرسول اور وارث النبی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے " اسی طرح حضور علیہ السلام صدیق کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پس جاننا چاہئے کہ خدا کے کلام پر غور کرنے سے اور صد ہا تجارب مشہودہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ افرادِ خاصہ امت محمدیہ کو جب وہ
اسماء المهدی صفحہ 281 متابعت اپنے رسولِ مقبول میں فنا ہو جاویں اور ظاہر ا اور باطنا اس کی پیروی اختیار کریں بہ تبعیت اسی رسول کے اس کی برکتوں میں سے عنایت کرتا ہے.یہ نہیں کہ صرف زہد خشک تک رکھنا چاہتا ہے.اور جب کسی دل پر نبوی برکتوں کا پر تو ہ پڑے گا تو ضرور ہے کہ اس کو اپنے متبوع کی طرح علم یقینی قطعی حاصل ہو کیونکہ جس چشمہ کا اس کو وارث بنایا گیا ہے وہ شکوک اور شبہات کی کدورت سے بکلی پاک ہے اور منصب وارث الرسول ہونے کا بھی اسی بات کو چاہتا ہے کہ علم باطنی اس کا یقینی اور قطعی ہو....اور یہی لوگ ہیں جن کا نام احادیث میں انٹل اور قرآن شریف میں صدیق آیا ہے.(روحانی خزائن جلد اول.صفحہ 258-256 حاشیہ نمبر 1 ، براہین احمدیہ )
اسماء المهدی صفحه 282 صُور قرآن شریف میں ایک اور بھی پیشگوئی ہے جو جسمانی اجتماع کے بعد روحانی اجتماع پر دلالت کرتی ہے.اور وہ یہ ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا - یعنی ان آخری دنوں میں جو یا جوج ماجوج کا زمانہ ہوگا.دنیا کے لوگ مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں میں مشغول ہو جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم پر مذہبی رنگ میں ایسے حملے کرے گی جیسے ایک موج دریا دوسری موج پر پڑتی ہے.اور دوسری لڑائیاں بھی ہوں گی.اور اس طرح پر دنیا میں بڑا تفرقہ پھیل جائے گا.اور بڑی پھوٹ اور بغض اور کینہ لوگوں میں پیدا ہو جائے گا.اور جب یہ باتیں کمال کو پہنچ جائیں گی.تب خدا آسمان سے اپنی قرنا میں آواز پھونک دے گا یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے جو اس کی قرنا ہے، ایک ایسی آواز دنیا کو پہنچائے گا جو اس آواز کے سننے سے سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دُور ہو جائے گا.اور مختلف قومیں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائیں گی.اور پھر دوسری آیت میں فرمایا وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَافِرِيْنَ عَرْضًا - اور اس دن جو لوگ مسیح موعود کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے، ان کے سامنے ہم جہنم کو پیش کریں گے.یعنی طرح طرح کے عذاب نازل کریں
اسماء المهدی صفحہ 283 گے جو جہنم کا نمونہ ہوں گے.اور پھر فرمایا الَّذِيْنَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا.یعنی وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ سے ان کی آنکھیں پردہ میں رہیں گی اور وہ ان کی باتوں کوسن بھی نہیں سکیں گے اور سخت بیزار ہوں گے.اس لئے عذاب نازل ہوگا.اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے.کیونکہ خدا کے نبی اس کی صور ہوتے ہیں یعنی قرنا.جن کے دلوں میں وہ اپنی آواز پھونکتا ہے.یہی محاورہ پہلی کتابوں میں بھی آیا ہے کہ خدا کے نبیوں کو خدا کی قرنا قرار دیا گیا ہے یعنی جس طرح قرنا بجانے والا قرنا میں اپنی آواز پھونکتا ہے، اسی طرح خدا ان کے دلوں میں آواز پھونکتا ہے اور یا جوج ماجوج کے قرینہ سے قطعی طور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرنا مسیح موعود ہے.“ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 86-83.چشمہ معرفت ) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (الكيف : 100-99) - یعنی جب وعدہ خدا تعالیٰ کا نزدیک آجائے گا تو خدا تعالیٰ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر دے گا جو یا جوج ماجوج کی روک ہے.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے.اور ہم اس دن یعنی یا جوج ماجوج کی سلطنت کے زمانہ میں متفرق فرقوں کو مہلت دیں گے کہ تا ایک دوسرے میں موجزنی کریں.یعنی ہر ایک فرقہ اپنے مذہب اور دین کو دوسرے پر
اسماء المهدی صفحہ 284 غالب کرنا چاہے گا.اور جس طرح ایک موج اس چیز کو اپنے نیچے دبانا چاہتی ہے جس کے اوپر پڑتی ہے، اسی طرح موج کی مانند بعض بعض پر پڑیں گی تا ان کو دبا لیں اور کسی کی طرف سے کمی نہیں ہوگی.ہر یک فرقہ اپنے مذہب کو عروج دینے کے لئے کوشش کرے گا.اور وہ انہیں لڑائیوں میں ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا تب تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے.وو 66 صور کا لفظ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے صور پھینکنے سے اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مصلح پیدا ہوگا.اور اس کے دل میں زندگی کی روح پھونکی جائے گی اور وہ زندگی دوسروں میں سرایت کرے گی.یاد رہے کہ صور کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.گویا جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ایک صورت سے منتقل کر کے دوسری صورت میں لاتا ہے تو اس تغیر صور کے وقت کو فتح صور سے تعبیر کرتے ہیں.اور اہل کشف پر مکاشفات کی رو سے اس صور کا ایک وجود جسمانی بھی محسوس ہوتا ہے.بہر حال آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہو گا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں
اسماء المهدی صفحه 285 گے.اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا.یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہوگا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا.درحقیقت اسی 66 مصلح کا نام مسیح موعود ہے.“ (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 312-311.شہادت القرآن ) صور نام میں مسیح موعود کے زمانہ اور کام کی تعیین ہے قرآن کریم میں آنے والے مسجد کا بلفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں بلکہ لفظ نفخ صور سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.تا معلوم ہو کہ مسیح موعود ارضی اور زمینی ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہوگا بلکہ آسمانی نفخ پر اس کے اقبال اور عروج کا مدار ہوگا.اور وہ پُر حکمت کلمات کی قوت سے آسمانی نشانوں سے لوگوں کو حق اور سچائی کی طرف کھینچے گا کیونکہ وہ معقولی فتنوں کے وقت آئے گا نہ سیفی فتنوں کے وقت.“ (روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 360.شہادت القرآن )
اسماء المهدی صفحہ 286 طارق سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود سورۃ الطارق کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "...اسلام میں آنے والا دو نام رکھتا ہے.ایک بدر اور ایک طارق.بدر اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ سورج غروب ہو گیا، اب اس کی روشنی بدر کے ذریعہ ہی دنیا تک پہنچ سکتی ہے، اس کے بغیر نہیں.لیکن طارق اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ سورج چڑھنے والا ہے.پس یہ نہیں ہوگا کہ آنے والا نور محمدی کو روک دے گا بلکہ وہ ایک لحاظ سے بدر ہوگا اور ایک لحاظ سے طارق ہو گا.وہ بدر ہو گا اس لحاظ سے کہ رسول کریم ﷺ کا نور حیات اپنے اندر جذب کر کے دنیا تک پہنچائے گا.اور وہ طارق ہوگا ان سے لوگوں کے لحاظ سے جو اس سے تعلق پیدا کریں گے.کیونکہ وہ اس.صلى الله تعلق پیدا کرنے کے بعد براہ راست رسول کریم ﷺ سے تعلق پیدا کرلیں گے.گویا بدر کے لحاظ سے وہ نور نبوت لے کر لوگوں تک پہنچائے گا اور طارق کے لحاظ سے لوگوں میں یہ استعداد پیدا کرے گا کہ براہ راست نور محمد سمی کا اکتساب کریں.پس بدر اور طارق دو نام ہیں جو آنے والے موعود کے رکھے گئے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ حدیثوں میں بھی آنے والے کے دو نام رکھے گئے
اسماء المهدی صفحہ 287 ہیں.ایک مسیح اور ایک مہدی...در حقیقت بدر قائم مقام ہے عیسی کا اور طارق قائم مقام ہے مہدی کا.عیسوی مقام پر کھڑے ہونے والے جس قدر لوگ آئے ہیں وہ صرف آخری ہی نہیں تھے بلکہ مسبوق شرعی نبی کے خاتم بھی تھے.ان کے آنے پر وہ سلسلہ ختم ہو گیا اور ایک نیا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنے والے کا نام مسیح بھی رکھا اور مہدی بھی رکھا.نبی بھی رکھا اور امتی بھی رکھا.نبی کے لحاظ سے وہ بدر ہے اور امتی کے لحاظ سے وہ طارق ہے.پس قرآن کریم نے آنے والے کے دو نام رکھے ہیں.ایک اِتِّسَاقِ قمر یا يَوْمِ مَوْعُود اور ایک طارق جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ پھر نور محمد دمی کو دنیا میں روشن کر دے گا.گویا وہ اسلام کی ترقی اور انوار محمد سمی کے ظہور کی خبر دینے والا ہوگا جس طرح آسمانی نظام میں دونوں باتیں ہوتی ہیں، چاند بھی ہوتا ہے اور تاریک راتیں بھی ہوتی ہیں، اسی طرح وہ بدر بھی ہوگا اور طارق بھی.گویا ایک نام ایک جہت سے ختم کرنے کے معنی دیتا ہے اور دوسرا نام دوسری جہت سے اجراء کے معنے دیتا ہے.اور بتاتا ہے کہ مسیح موعود کی بعثت جہاں نور محمدمی کو بالواسطہ پھیلائے گی وہاں رسول کریم ﷺ کی شریعت کو بھی دنیا میں قائم کر دے گی.پس آپ کا بدر نام ہے اس وقت کا جب تک کہ اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوتا اور صرف روحانی فیوض ظاہر کئے جاتے ہیں جن میں مسیح موعود کا وجود دبطور واسطہ اور آئینہ کے ہے.اور طارق نام ہے اس وقت کا جب اسلام کو غلبہ.
اسماء المهدی صفحہ 288 حاصل ہو جائے گا کیونکہ مہدی کے ہاتھ پر ہی اسلام کی فتح اور اس کا غلبہ اور اس کی شریعت کا قیام مقد رہے.“ ( تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودجلد مشتم صفحہ 376-375 تفسیر سورۃ الطارق)
اسماء المهدی صفحہ 289 طيب ( تذکر طبع چہارم صفحه 320) طیب نام دے کر آپ کی طرف منسوب ان تمام بُرے القاب و خطابات کی تردید کی گئی ہے جو مخالفین نے اپنی تحریروں اور فتاووں میں لکھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نام کو دجال کے مقابل پر بیان کیا ہے.اور دجال کو خبیث بیان کر کے مسیح کو طیب ظاہر کیا ہے جو اس کے مقابلہ کے لئے آئے گا.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں: حدیث صحیح میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ الخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم تو آنحضرت ﷺ نے سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْ كَانَ الإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَّيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ رِجَالٌ مِنْ فَارِس.پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ میں فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک آدمی پیدا ہوگا کہ وہ ایمان میں ایسا مضبوط ہوگا کہ اگر ایمان ثریا میں ہوتا تو وہیں سے اس کو لے آتا.اور ایک دوسری حدیث میں اسی شخص کو مہدی کے لفظ سے موسوم کیا گیا ہے.اور اس کا ظہور آخری زمانہ میں بلا د مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے.اور دجال کا ظہور بھی آخری زمانہ میں بلا د مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے.ان دونوں حد بیٹوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دجال کے مقابل پر
اسماء المهدی صفحہ 290 آنے والا ہے، وہ یہی شخص ہے اور سنت اللہ بھی اسی بات کو چاہتی ہے کہ - جس ملک میں دجال جیسا خبیث پیدا ہوا اسی ملک میں وہ طیب بھی پیدا ہو کیونکہ طبیب جب آتا ہے تو بیمار کی طرف ہی رُخ کرتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 218-216.آئینہ کمالات اسلام )
اسماء المهدی ظلی نبی صفحہ 291 میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے.دو 66 (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 95 - تحفہ الندوہ) چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو د جو دیا جود حضرت نبوی ہے، مثل کل کے ٹھہر جاتا ہے.اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الہیہ پیدا اور ہو یدا ہیں.اس کے اس ظلت میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اس کے اصل میں ہے، ایک ایسا امر ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں.ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس سے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے.پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالت نقصان خیال نہ کریں کہ کیوں آنحضرت ہے کے انوار باطنی ان کی امت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں.اور سمجھنا چاہئے کہ اس انعکاس انوار سے جو جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ امت محمدیہ پر ہوتا ہے دو بزرگ امر پیدا ہوتے ہیں.
اسماء المهدی صفحه 292 ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت ﷺ کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوسکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہو سکے.دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائی سے ثابت ہوتی ہے اور حقیت دینِ اسلام کا ثبوت ہمیشہ تر و تازہ ہوتا رہتا ہے.صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گزشتہ زمانہ پر حوالہ دیا جائے.اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہو جاتے ہیں.اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے.اور معاندین اسلام کی ذلت اور رسوائی اور روسیا ہی کامل طور پر کھل جاتی ہے.کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈتوں وغیرہ میں ثابت نہیں کر سکتے.فَتَدَبَّرْأَيُّهَا الصَّادِقُ فِي الطَّلَبِ ايَّدُكَ اللَّهُ فِي طَلَبِكَ (روحانی خزائن جلد اوّل.صفحہ 270-269 حاشیہ نمبر 1.براہین احمدیہ ) ظلی نبوت سے مراد محض فیض محمدی سے وحی پانا ہے ” جو شخص بچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے.ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل بوت آنحضرت نے پرختم صلى الله
اسماء المهدی صفحہ 293 ہو گئی ہے.مگر ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا، وہ قیامت تک باقی رہے گی.تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت ﷺ کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے“.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 30.حقیقۃ الوحی ) ظلی نبوت سے مراد اور اس کی ضرورت واہمیت " میں بیچ بیچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین پر دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا.مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نیو تیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں.یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے.اور جو اس کے چراغ میں سے ٹور لیتی ہے، وہ ختم نہیں.کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے.یعنی اس کا ظلت ہے.اور اسی کے ذریعہ سے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیضیاب ہے.خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے.
اسماء المهدی صفحہ 294 اور محمدی تشریعت کے برخلاف چلتا ہے.اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.اور آنحضرت ﷺ کی پیروی نہیں کرتا بلکہ آپ کچھ بننا چاہتا ہے.مگر خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے.اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے.اور اس کے فیض کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے.پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی جناب میں پیارا ہو جاتا ہے.اور خدا کا پیار یہ ہے کہ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر کرتا ہے.اور جب اس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک ظلی نبوت اس کو عطا کرتا ہے.جو نبوت محمدیہ کا ظلت ہے.یہ اس لئے کہ تا اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے.اور تا اسلام ہمیشہ مخالفوں پر غالب رہے.نادان آدمی جو دراصل دشمن دین ہے اس بات کو نہیں چاہتا کہ اسلام میں سلسلہ مکالمات مخاطبات الہیہ کا جاری رہے.بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اور مُردہ مذہبوں کی طرح ایک مُردہ مذہب ہو جائے.مگر خدا نہیں چاہتا.نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صد ہا مرتبہ استعمال کیا ہے.مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں.اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لِكُلّ ان يصطلح.سوخدا کی یہ اصطلاح ہے کہ جو کثرت مکالمات ومخاطبات
اسماء المهدی صفحہ 295 کا نام اُس نے نبوت رکھا ہے.یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں.اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہوکر نبوت کا دعویٰ کرے.مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے، نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے.“ (روحانی خزائن جلد 23 ، صفحہ 341-339.چشمہ معرفت )
اسماء المهدی صفحہ 296 أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ“ (روحانی خزائن جلد اول صفحہ 610 حاشیہ نمبر 3 ، براہین احمدیہ ) عبودیت ، رضاء الہی کا انتہائی مقام ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عباد اللہ میں اس شخص کو شامل فرمایا ہے جو نفس التارہ اور او امہ سے ترقی کر کے مطمئنة تک پہنچا ہوتا ہے.تب اس کو اللہ تعالیٰ پکار کر کہتا ہے : يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي.وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر : 31:29).پس جب انسان مقام عبودیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے شرف مکالمہ ومخاطبہ حاصل کرتا ہے.اس نام میں بھی مخالفوں کے الزاموں اور بہتانوں اور تکفیر و توہین کے غلط اور جھوٹے پراپیگنڈہ کی تردید ہے.اور آپ کی بریت کے لئے تائیدات الہیہ کا ذکر کیا گیا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ”عبد“ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ہمارے نبی صلی اللہ کا نام ”عبد“ بھی ہے.اور اس لئے خدا نے عبد نام رکھا کہ اصل عبودیت کا خضوع اور ذلت ہے.اور عبودیت کی حالت کا ملہ وہ ہے جس میں کسی قسم کا غلو اور بلندی اور عجب نہ رہے.اور صاحب اس حالت کا اپنی عملی تکمیل محض خدا کی طرف سے دیکھے.اور کوئی ہاتھ درمیان نہ دیکھے.عرب کا محاورہ ہے کہ وہ کہتے ہیں مورٌ مُعَبَّدٌ وَ طَرِيْقٌ مُعَبَّدٌ
اسماء المهدی صفحہ 297 جہاں راہ نہایت درست اور نرم اور سیدھا کیا جاتا ہے اس راہ کو طریق معبد کہتے ہیں.پس آنحضرت نے اس لئے عبد کہلاتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے تصرف اور تعلیم سے ان میں عملی کمال پیدا کیا اور ان کے نفس کو راہ کی طرح اپنی تجلیات کے گذر کے لئے نرم اور سیدھا اور صاف کیا.اپنے تصرف سے وہ استقامت جو عبودیت کی شرط ہے، ان میں پیدا کی.پس و علمی حالت کے لحاظ سے مہدی اور عملی کیفیت کے لحاظ سے جو خدا کے عمل سے ان میں پیدا ہوئی ”عبد“ ہیں.کیونکہ خدا نے ان کی روح پر اپنے ہاتھ سے وہ کام کیا ہے جو کوٹنے اور ہموار کرنے کے آلات سے اس سڑک پر کیا جاتا ہے جس کو صاف اور ہموار بنانا چاہتے ہیں.چونکہ مہدی موعود کو بھی عبودیت کا مرتبہ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے حاصل ہوا.اس لئے مہدی موعود میں عبد کے لفظ کی کیفیت غلام کے لفظ سے ظاہر کی گئی یعنی اس کے نام کو غلام احمد کر کے پکارا گیا.یہ غلام کا لفظ عبودیت کو ظاہر کرتا ہے جو ظلی طور پر مہدی موعود میں بھی ہونی چاہئے.“ (روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 395-394 حاشیہ.ایام الصلح ) حضور علیہ السلام کو غلام احمد نام کے علاوہ ”عبد“ بھی کہا گیا ہے جیسا کہ یہ الہام ہے : ” أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.پس عبد کہہ کر ان تمام اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا اوپر بیان گزر چکا ہے.
اسماء المهدی صفحہ 298 عبدالحکیم ” اے عبدالحکیم ! خدا تجھے ہر ایک ضرر سے بچاوے.اندھا ہونے اور مفلوج ہونے اور مجزوم ہونے سے.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبدالحکیم میرا نام رکھا گیا ہے.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ ان بیماریوں میں 6 سے کوئی بیماری میرے لاحق حال ہو کیونکہ اس میں شامت اعداء ہے.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 572)
اسماء المهدی صفحہ 299 عَبْدُ الرَّافِع يَا عَبْدَ الرَّافِعِ إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ إِنِّي مُعِنُّكَ لَا مَانِعَ لِمَا أُعْطِي.( تذکرہ طبع چہارم صفحه 97) اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے! میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا، میں تجھے عزت اور غلبہ دوں گا.جو کچھ میں دوں اسے کوئی بند نہیں کر سکتا.“
اسماء المهدی صفحہ 300 عبد القادر ” اے عبدالقادر ! میں تیرے ساتھ ہوں.میں نے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا.اور میں تجھ کو ہر ایک غم سے نجات دوں گا.مگر اس سے پہلے کئی فتنے تیری راہ میں برپا کروں گا.تا تجھے خوب جانچا جائے.اور تا فتنوں کے وقتوں میں تیری استقامت ظاہر ہو.میں تیرا لا زمی چارہ ہوں.اور میں تیرے دردوں کا علاج ہوں.اور میں ہی ہوں جس نے تجھے زندہ کیا.میں نے اپنی طرف سے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی اور اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہو گا وہ تجھ سے محبت کرے گا اور تیری طرف کھینچا جائے گا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 88 - براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 301 عبد الله کئی دنوں سے ابتلاؤں کا سامنا تھا.میں چھپیس دن رات تو میں سویا بھی نہیں.آج ذراسی آنکھ لگ گئی تو یہ فقرہ الہام ہوا : ” خدا خوش ہو گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کریم اس بات سے بہت خوش ہوا ہے کہ اس ابتلا میں میں پورا اُترا ہوں اور اس الہام کا یہی مطلب ہے کہ اس ابتلا میں تو پورا اترا.اس کے بعد پھر آنکھ لگ گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوشخط خوبصورت کاغذ میرے ہاتھ میں ہے جس پر کوئی پچاس ساٹھ سطریں لکھی ہوئی ہیں.میں نے اس کو پڑھا ہے مگر اس میں سے یہ فقرہ مجھے یا د رہا ہے کہ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنِّي مَعَكَ یعنی اے خدا کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں اور اس کو پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ گویا خدا کو 66 ( تذکر طبع چہارم صفحہ 619)
اسماء المهدی عَبْدُ اللَّهِ الْأَحَدِ خدائے واحد کا بندہ عَبْدُ الله الاحد صفحہ 302 (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 337 - لجۃ النور )
اسماء المهدی صفحہ 303 عبید اللہ الصمد ”قُوَّةُ الرَّحْمَنِ لِعُبَيْدِ اللهِ الصَّمَدِ.یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندہ کے لئے وہ منی مطلق ظاہر کرے گا.مَقَامُ لَا يَتَرَقَّى الْعَبْدُ فِيْهِ بِسَعْيِ الْأَعْمَال - یعنی عبید اللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتا ہے ، کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا.“ (روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 665 حاشیہ نمبر 4.براہین احمدیہ ) اس جگہ ہمارا نام عبید اللہ اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ ہم مخالفوں کی دُکھ دہی اور مصائب سے بہت ستائے گئے ہیں.“ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد چہارم صفحہ 264)
اسماء المهدی صفحہ 304 عبد القادر عَبْدُ القَادِرِ رَضِيَ اللهُ عنه، أرى رِضْوَانَهُ اللَّهُ أَكْبَرُ پہلی وجی سے متعلق فرمایا کہ ” خدا کچھ اپنی قدرتیں میرے واسطے ظاہر کرنے والا ہے.اس واسطے میرا نام عبد القادر رکھا.رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہو جائے اور دنیا پر روشن ہو جائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے.دنیا میں بھی جب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے تو فعلی رنگ میں بھی اس رضامندی کا کچھ اظہار ہوتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رضا پر دلالت کرنے والے افعال دیکھتا ہوں.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه 465)
اسماء المهدی صفحہ 305 عبد مکرم إِنِّي مِنَ الرَّحْمَانِ عَبْدٌ مُكْرَم سَمٌ مُعَادَاتِي وَسِلمِي أَسْلَمُ میں رحمان کی طرف سے ایک بندہ عزت دیا گیا ہوں.میری دشمنی زہر ہے اور مجھ سے صلح سلامتی بخشنے والی ہے.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 361.حقیقۃ الوحی)
اسماء المهدی الْعَبْدُ الْمَنْصُوْرُ بنده مد دیافته الْعَبْدُ الْمَنْصُوْرُ صفحہ 306 (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 51)
اسماء المهدی صفحہ 307 عدل احادیث نبویہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نام عدل بھی بیان ہوا ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو اس حدیث نبوی کا مصداق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "يَايُّهَا النَّاسُ التَّقى التّقى، النُّهَى النَّهَى، وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ فَيْجِ أَعْوَجَ وَاذْكُرُوا مَا قَالَ المُصْطَفَى لَقَدْ جِئْتُكُمْ حَكَمًا عَدْلًا لِلْقَضَايَا وَجَبَ فَصْلُهَا فَاقْبَلُوا شَهَادَتِي إِنِّي أُوْتِيْتُ عِلْمًا مَالَمْ تُؤْتَوْهُ وَمَا يُؤْتَى“.(روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ 381 آئینہ کمالات اسلام) ترجمہ: اے لوگو تقوی اختیار کرو ، تقویٰ اختیار کرو.عقل سے کام لو، عقل سے کام لو.اور فیج اعوج کی خواہشات کی پیروی نہ کرو.اور جو کچھ ( حضرت محمد ) مصطفیٰ (ع) نے فرمایا ہے اسے یاد کرو.میں تمہارے پاس اُن امور کے لئے جن کا فیصلہ کرنا ضروری تھا، حکم عدل بن کر آیا ہوں پس میری گواہی کو قبول کرو.مجھے وہ علم دیا گیا ہے جو تمہیں نہیں دیا گیا اور نہ ہی (کسی کو) دیا جانا ہے.
اسماء المهدی صفحہ 308 عزیز "يَا أَيُّهَا العَزِيْزُ مَسَّنَا وَ اَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةِ مُزْجَةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا إِنَّ اللَّهَ يَجْزِى الْمُتَصَدِّقِيْن ( تذکر طبع چہارم صفحه 570) ترجمہ: اے عزیز ہم اور ہمارے اہل وعیال تکلیف میں ہیں.اور ہم تھوڑی سی پونچھی لائے ہیں.پس ہمیں پورا ناپ تول دے اور ہم پر صدقہ کر.اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے.اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں حضور علیہ السلام سے خطاب فرمایا ہے جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف سے خطا.کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسے وقت میں اس ملک کا مہتم خوراک بنایا تھا جبکہ ملک قحط کی مصیبت میں مبتلا تھا.ادھر اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے وقت میں مبعوث فرما کر دنیا کی روحانی غذا کا مہتم بنایا جبکہ دنیا روحانی لحاظ سے انتہائی مفلس اور نادار ہو چکی تھی.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا.اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا.اور روحانی زندگی کے ڈھونڈنے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ
اسماء المهدی صفحہ 309 پائیں گے.اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی.اور اسی بندہ درگاہ پر جو بول رہا ہے.ہر ایک نشان کا انعام ہوگا.پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندہ حضرت عالی کی طرف رجوع کریں گے.“ نیز فرمایا: (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 103.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) جس طرح یوسف نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کے لئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے.اسی طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہوگا اور جیسا کہ یوسف نے اناج کے ذخیرے سے لوگوں کی جان بچائی ، اسی طرح جان بچانے کے لئے خدا نے اس جگہ بھی مجھے ایک روحانی غذا کا مہتمم بنایا ہے.“ مجموعه اشتہارات جلد 2 صفحہ 638 جدید ایڈیشن.اشتہار 18 / اپریل 1905 ء) خدا کا عزیز ہونے کا ثبوت عزیز کے معنے پیارا کے بھی ہیں.عزیز کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا اور عوام کا بھی پیارا اور مقبول ہوگا.اور خدا کے پیار کی یہ علامت ہے کہ اپنے پیارے کے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
اسماء المهدی صفحہ 310 پس جب خدا تعالی کو اپنا کوئی بند و عزیز اور پیارا ہو تو خدا تعالی کو اپنے اس بندہ کے ساتھ اس طرح ہمکلام ہونا چاہئے جس طرح دو حقیقی دوست آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح کی گفتگو جو علوم غیبیہ اور معارف صحیحہ پر مشتمل ہو اس کے عزیز ہونے کا ثبوت ہوتا ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: وو اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اس رنگ میں الہام ہو کہ بندہ سوال کرتا ہے اور خدا اس کا جواب دیتا ہے.اسی طرح ایک ترتیب کے ساتھ سوال و جواب ہو اور الہی شوکت اور نور الہام میں پایا جاوے اور علوم غیب یا معارف صحیحہ پر مشتمل ہو تو وہ خدا کا الہام ہے.خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہمکلام ہوتا ہے، اسی طرح رب اور اس کے بندہ میں ہم کلامی واقع ہو.اور جب یہ کسی امر میں سوال کرے تو اس کے جواب میں ایک کلام لذیذ فصیح خدائے تعالیٰ کی طرف سے سنے جس میں اپنے نفس اور فکر اور غور کا کچھ بھی دخل نہ ہو.اور وہ مکالمہ اور مخاطبہ اس کے لئے موہبت ہو جائے.تو وہ خدا کا کلام ہے اور ایسا بندہ خدا کی جناب میں عزیز ہے“.(روحانی خزائن جلد 10 ، صفحہ 440-439.اسلامی اصول کی فلاسفی )
صفحه 311 اسماء المهدی وه علی 7 دسمبر 1892ء کو ایک اور رویا دیکھا.کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ بن گیا ہوں.یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں.اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک مخی شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے.سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے.یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ صد الله رسول الله علي رے پاس ہیں.اور شفقت اور تو ڈر سے مجھے فرماتے ہیں يَا عَلِيُّ دَعْهُمْ وَ أَنْصَارَهُمْ وَزِرَاعَتَهُمْ.یعنی اے علی ! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے.اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت علی مجھ کو فرماتے ہیں.اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے.مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے.اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پیرؤوں کی وہ جماعت ہے جو ان کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 5، صفحہ 219-218 حاشیہ.آئینہ کمالات اسلام )
اسماء المهدی صفحہ 312 تمہارا نام ہے علی باس“.علی باس تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 423) ( الہام یکم مارچ 1904ء - از کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 23)
اسماء المهدی صفحہ 313 عیسیٰ تقدیر الہی میں قرار پا چکا تھا کہ ایسے یہودی اس امت میں بھی پیدا ہوں گے.پس اس لئے میرا نام عیسی رکھا گیا.جیسا کہ حضرت بیٹی کا نام الیاس رکھا گیا تھا.چنانچہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں اسی کی طرف اشارہ ہے.پس عیسی کی آمد کی پیشگوئی اس امت کے لئے ایسی ہی تھی جیسا کہ یہودیوں کے لئے حضرت بیٹی کی آمد کی پیشگوئی.غرض یہ نمونہ قائم کرنے کے لئے میرا نام عیسی رکھا گیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس عیسی کے مکذب جو اس امت میں ہونے والے تھے ، ان کا نام یہو درکھا گیا.چنانچہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہیں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے.یعنی وہ یہودی جو اس امت کے عیسی کے منکر ہیں.جو ان یہودیوں کے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کو قبول نہیں کیا تھا.پس اس طور سے کامل درجہ پر مشابہت ثابت ہوگئی کہ جس طرح وہ یہودی جو الیاس نبی کی دوبارہ آمد کے منتظر تھے، حضرت عیسی پر محض اس عذر سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا ایمان نہ لائے.اسی طرح یہ لوگ اس امت کے عیسی پر محض اس عذر سے ایمان نہ لائے کہ وہ اسرائیکی میسی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.پس ان یہودیوں میں جو حضرت عیسی پر ایمان نہیں لائے تھے.اس وجہ سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.اور ان
اسماء المهدی صفحہ 314 یہودیوں میں جو حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں مشابہت ثابت ہوگئی.اور یہی خدا تعالیٰ کا مقصد تھا.اور جیسا کہ اسرائیلی یہودیوں اور ان یہودیوں میں مشابہت ثابت ہوگئی.اسی طرح اسرائیلی عیسی اور اس عیسی میں جو میں ہوں مشابہت بدرجہ کمال پہنچ گئی.کیونکہ وہ عیسی اسی وجہ سے یہودیوں کی نظر سے رڈ کیا گیا کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.اور اسی طرح یہ عیسی جو میں ہوں.ان یہودیوں کی نگاہ میں رڈ کیا گیا ہے کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.اور صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو احادیث نبویہ اس امت کے یہودی ٹھہراتی ہیں جن کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ بھی اشارہ کرتی ہے وہ اصل یہودی نہیں ہیں.بلکہ اسی امت کے لوگ ہیں جن کا نام یہودی رکھا گیا ہے.اسی طرح وہ عیسی بھی اصل عیسی نہیں ہے جو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی تھا بلکہ وہ بھی اسی امت میں سے ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور فضل سے بعید ہے جو اس امت کے شامل حال رکھتا ہے کہ وہ اس امت کو یہودی کا خطاب تو دے بلکہ ان یہودیوں کا خطاب دے جنہوں نے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی حجت پیش کر کے حضرت عیسی کو کافر اور کذاب ٹھہرایا تھا لیکن اس امت کے کسی فرد کو میسی کا خطاب نہ دے.تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ یہ امت خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ ایسی بد بخت اور بد قسمت ہے کہ اس کی نظر میں شریر اور نافرمان یہودیوں کا خطاب تو پاسکتی ہے.مگر اس امت میں ایک بھی ایسا نہیں کہ عیسی کا خطاب پاوے.پس
اسماء المهدی صفحه 315 یہی حکمت تھی کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے اس امت کے بعض افراد کا نام یہودی رکھ دیا.اور دوسری طرف ایک فرد کا نام عیسی بھی رکھ دیا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 407 تا 409 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسی نام رکھنے کی وجہ اپنے منظوم کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں: مردم نااہل گویندم که چوں عیسیٰ شدی بشنو از من این جواب شان که اے قوم حسود چوں شمارا شد یہود اندر کتاب پاک نام پس خدا عيسى مرا كرداست از بهر یهود ورنه از روئے حقیقت تخم ایشان نیستید نیز هم من ابن مریم نیستم اندر وجود گرنه بودند شما.مارا نبودے ہم اثر از شما شد ہم ظهورم پس زغوغا باچه شود هرچه بود از نیک و بد در دین اسرائیلیان آن همه در ملّتِ احـمـد نـقوشِ خود نمود چونکه موسی شد نبی ما که صدر دین ماست لاجرم عيسى شدم آخر ازاں ربّ ودود (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 304 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ) ترجمہ: (1) نالائق لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو عیسی کیونکر ہو گیا.(اے دوست ! ) مجھ سے ان کا جواب سن.جو یہ ہے کہ اے حاسد قوم!
اسماء المهدی صفحہ 316 (2) چونکہ قرآن میں تمہارا نام یہودی رکھا گیا اس لئے خدا نے مجھے یہودیوں کے لئے عیسی بنا دیا.(3) ورنہ دراصل وہ ان یہودیوں کے تخم سے نہیں.اس طرح میں بھی جسمانی طور پر ابن مریم نہیں.(4) اگر تم نہ ہوتے تو ہمارا نشان بھی نہ ہوتا.صرف تمہاری وجہ سے میرا ظہور ہوا.پھر غل مچانے سے کیا فائدہ؟ (5) یہودیوں کے مذہب میں جو بھلی اور بُری باتیں موجود تھیں وہ سب دین اسلام میں بھی ظاہر ہو گئیں.(6) چونکہ ہمارا نبی جو ہمارے دین کا مرکز ہے موسیٰ ہو گیا تھا.اس لئے میں بھی آخر خدائے مہربان کی طرف سے عیسی بنا دیا گیا.وو عیسی نام رکھنے میں آنحضرت ﷺ اور اسلام کا فخر ہے دجالیت اس زمانہ میں عنکبوت کی طرح بہت سی تاریں پھیلا رہی ہے.کافر اپنے کفر سے اور منافق اپنے نفاق سے، میخوار میخواری سے اور مولوی اپنے شیوہ گفتن و نہ کر دن اور سیہ دلی سے دجالیت کی تاریں بن رہے ہیں.ان تاروں کو اب کوئی کاٹ نہیں سکتا بجز اس حربہ کے جو آسمان سے اترے اور کوئی اس حربہ کو چلا نہیں سکتا بجز اس عیسی کے جو اسی آسمان سے نازل ہو.سوئیسی نازل ہو گیا.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولاً “ (روحانی خزائن جلد 4، صفحہ 369- نشان آسمانی)
اسماء المهدی صفحہ 317 وو " مجھے سخت تعجب ہے کہ ہمارے علماء عیسی کے لفظ سے کیوں چڑتے ہیں.اسلام کی کتابوں میں تو ایسی چیزوں کا نام بھی عیسی رکھا گیا ہے جو سخت مکر وہ ہیں.چنانچہ برہان قاطع میں حرف عین میں لکھا ہے کہ ” عیسی دھقان“ کنایہ شراب انگوری سے ہے.اور عیسی نو ماہ ، اس خوشئہ انگور کا نام ہے جس سے شراب بنایا جائے.اور شراب انگوری کو بھی عیسی نو ماہہ کہتے ہیں.اب غضب کی بات ہے کہ مولوی لوگ شراب کا نام تو عیسی رکھیں اور تالیفات میں بے مہابا اس کا ذکر کریں.اور ایک پلید چیز کی ایک پاک کے ساتھ اسمی مشارکت جائز قرار دیں.اور جس شخص کو اللہ جل شانہ اپنی قدرت اور فضل خاص سے دجالیت موجودہ کے مقابل عیسی کے نام سے موسوم کرے وہ ان کی نظر میں کافر ہو.“ امتی کو عیسی نام دیا جانا اسلام کا فخر ہے (روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 380.نشان آسمانی ) اللہ تعالیٰ نے اگر میرا نام عیسی رکھا تو اس میں اسلام کا کیا برا ہوا ؟ یہ تو الله اسلام کا فخر ہوا اور آنحضرت ﷺ کا فخر ہوا کہ وہ شخص جسے چالیس کروڑ انسان خدا سمجھتا ہے، آنحضرت ﷺ کی امت کا ایک فرد ان کمالات کو پالیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے.“ س:.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 408 جدید ایڈیشن) عیسی کا نام رکھنے کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ صفاتی نام
اسماء المهدی صفحہ 318 ہے.لیکن عیسی کے دمشق میں اور منارہ کے قریب اترنے کی پیشگوئی کی کیا حقیقت ہے؟ وو ج - دمشق کا ذکر اس حدیث میں جو مسلم نے بیان کی ہے.اس غرض سے ہے کہ تین خدا بنانے کی تخمریزی اول دمشق سے شروع ہوئی ہے اور مسیح موعود کا نزول اس غرض سے ہے کہ تا تین کے خیالات کو کھو کر کے پھر ایک خدا کا جلال دنیا میں قائم کرے.پس اس ایما کے لئے بیان کیا گیا کہ مسیح کا منارہ جس کے قریب اس کا نزول ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہے.ہر ایک طالب حق کو چاہئے کہ دمشق کے لفظ پر خوب غور کرے کہ اس میں حکمت کیا ہے؟ کہ یہ لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف نازل ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی قرارداد باتیں صرف امور اتفاقیہ نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے نیچے اسرار اور رموز ہوتے ہیں.وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام باتیں رموز اور اسرار سے پر ہیں.“ اس حدیث کے ان الفاظ میں جو اول دمشق کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے شرقی طرف ایک منارہ قرار دیا.ایک عظیم الشان راز ہے.اور وہ وہی ہے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں.یعنی یہ کہ تثلیث اور تین خداؤں کی بنیاد دمشق سے ہی پڑی تھی.کیا ہی منحوس وہ دن تھا جب پولوس یہودی ایک خواب کا منصوبہ بنا کر دمشق میں داخل ہوا اور بعض سادہ لوح عیسائیوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ خداوند مسیح مجھے دکھائی دیا.اور اس تعلیم کے شائع کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ گویا وہ بھی ایک خدا ہے.پس وہی خواب
اسماء المهدی صفحہ 319 تثلیث کے مذہب کی تخمریزی تھی.غرض یہ شرک عظیم کا کھیت اول دمشق میں ہی بڑھا اور پھولا اور پھر یہ زہر اور اور جگہوں میں پھیلتی گئی.پس چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اول دمشق میں ہی رکھا گیا.اس لئے خدا نے اُس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرتِ خداوندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی ، پھر دمشق کا ذکر فرمایا.اور کہا کہ مسیح کا منارہ یعنی اس کے نور کے ظاہر ہونے کی جگہ دمشق کی مشرقی طرف ہے.اس عبارت سے یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ منارہ دمشق کی ایک جز ہے اور دمشق میں واقع ہے، جیسا کہ بدقسمتی سے سمجھا گیا.بلکہ مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتاب کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دور کرے گا.اور یہ ایک لطیف اشارہ تھا کیونکہ مسیح کے منارہ کو جس کے قریب اس کا نزول ہے دمشق کے مشرقی طرف قرار دیا گیا اور دمشقی تثلیث کو اس کے مغربی طرف رکھا.اور اس طرح آنے والے زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو آفتاب کی طرح جو مشرق سے نکلتا ہے.ظہور فرمائے گا.اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے، دن بدن پر مردہ ہوتا جائے گا.کیونکہ مشرق سے نکلنا خدا کی کتابوں سے اقبال کی نشانی قرار دی گئی ہے اور مغرب کی طرف جانا ادبار کی نشانی.“ س:.(روحانی خزائن جلد 16، صفحہ 21 تا 27.خطبہ الہامیہ ) حدیثوں میں جو مسیح موعود کے نزول کا ذکر ہے.اس نزول
اسماء المهدی کی کیا حقیقت ہے؟ ج:.صفحہ 320 حدیثوں میں جو مسیح موعود کے نزول کا ذکر ہے.اگر چہ یہ لفظ اکرام اور اعزاز کے لئے محاورہ عرب میں آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اترا ہے.اور جیسا کہ کسی شہر کے نو وارد کو کہا جاتا ہے کہ آپ کہاں اترے ہیں اور جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ہی اس رسول کو اتارا ہے اور جیسا کہ انجیل میں آیا ہے کہ عیسی اور یکی آسمان سے اترے.لیکن با ایں ہمہ یہ نزول کا لفظ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس قدر سیح کی سچائی پر دلائل جمع ہو جائیں گے کہ اہلِ فراست کو اس کے مسیح موعود ہونے میں یقین تام ہو جائے گا.گویا وہ ان کے رو برو آسمان سے ہی اترا ہے.“ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 39.تذکرۃ الشہادتین ) حضور علیہ السلام ایک دوسری جگہ مسیح کے لئے جو نازل ہونا بیان کیا گیا ہے، اس کی حکمت بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : دو مسیح کا آنا بطور ایسی نعمت کے جو بارادہ خاص الہی مومنوں کی نصرت کے لئے نازل ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہم نے تمہارے لئے لوہا اتارا اور تمہارے لئے مویشی اتارے.یعنی تمہارے فائدے کے لئے بطور رحمت یہ چیزیں پیدا کیں.اور یہ بھی (حکمت) ہے کہ جو چیز زمین سے نکلتی ہے وہ ظلمت اور کثافت رکھتی ہے اور جو اوپر سے آتی ہے.اس کے ساتھ نور وبرکت ہوتی ہے.
اسماء المهدی صفحہ 321 اور نیز اوپر سے آنے والی نیچے والی پر غالب ہوتی ہے.غرض جو شخص آسمانی برکتیں اور آسمانی نور ساتھ رکھتا ہے اس کے آنے کے لئے نزول کا لفظ مناسب حال ہے.کیونکہ نورانی چیزیں آسمان سے ہی نازل ہوتی ہیں.جو ظلمت پر فتح پاتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 360.ازالہ اوہام حصہ دوم ) نزول کے لفظ میں مسیح کے خلق کے ہمدرد ہونے کی طرف اشارہ ہے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ متصوفین کے مذاق کے موافق صعود اور نزول کے ایک خاص معنے ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ جب انسان خلق اللہ سے بکلی انقطاع کر کے خدائے تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اس حالت کا نام متصوفین کے نزدیک صعود ہے.اور جب مامور ہو کر نیچے کو اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے تو اس حالت کا نام نزول ہے.اسی اصطلاحی معنے کے لحاظ سے نزول کا لفظ اختیار کیا گیا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 420 - ازالہ اوہام حصہ دوم ) نزول کا لفظ محض اجلال واکرام کے لئے ہے نزول کا لفظ محض اجلال اور اکرام کے لئے ہے.اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ اس پر فساد زمانہ میں ایمان ثریا پر چلا جائے گا اور تمام
اسماء المهدی صفحه 322 پیری مریدی اور شاگردی استادی اور افادہ استفادہ معرض زوال میں آجائے گا.اس لئے آسمان کا خدا ایک شخص کو اپنے ہاتھ سے تربیت دے کر بغیر توسط زمینی سلسلوں کے زمین پر بھیجے گا.جیسے کہ بارش آسمان کے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے نازل ہوتی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 123 تحفہ گولڑویہ ) میرے ماننے والوں کے لئے غلبہ کی پیشگوئی يَا عِيْسَىٰ إِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.یعنی اے میسی میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیری بریت ظاہر کرونگا.اور وہ جو تیرے پیرو ہیں میں قیامت تک ان کو تیرے منکروں پر غالب رکھونگا.اس جگہ اس وحی الہی میں عیسیٰ سے مراد میں ہوں اور تابعین یعنی پیروؤں سے مراد میری جماعت ہے.قرآن شریف میں یہ پیشگوئی حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت ہے.اور مغلوب قوم سے مراد یہودی ہیں جو دن بدن کم ہوتے گئے.پس اس آیت کو دوبارہ میرے لئے اور میری جماعت کے لئے نازل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقدر یوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں، وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے.اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ہیں، وہ دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ
اسماء المهدی صفحہ 323 میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہو گئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے.ایسا ہی اس جماعت کے مخالفوں کا انجام ہوگا.اور اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوتِ مذہب کے رو سے سب پر غالب ہو جائیں گے.“ 66 (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 95,94.براہین پنجم ) روحانی غلبہ کے سلسلہ میں جماعت متبعین کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.یہ تسلی بخش وعدہ ناسوت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا.مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ سے مخاطب کر کے بشارت دی ہے.اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں.کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں.“ ( رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ، صفحہ 100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 تفسیر سورۃ آل عمران صفحہ 116) یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا.جب تک اپنے اندر
اسماء المهدی صفحہ 324 وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا، متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا ، ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم پر چلے، اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 596.جدید ایڈیشن)
اسماء المهدی صفحہ 325 دو عیسی ابن مریم سورۃ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بعض افراد اس امت کا نام مریم رکھا گیا ہے.اور پھر پوری اتباع شریعت کی وجہ سے اس مریم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی.اور روح پھونکنے کے بعد اس مریم سے عیسی پیدا ہو گیا.اور اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی بن مریم رکھا.کیونکہ ایک زمانہ میرے پر صرف مریمی حالت کا گزرا اور پھر جب وہ مریمی حالت خدا تعالیٰ کو پسند آ گئی تو پھر مجھ میں اُس کی طرف سے ایک روح پھونکی گئی.اس روح پھونکنے کے بعد میں مریمی حالت سے ترقی کر کے عیسی بن گیا.براہین احمدیہ حصص سابقہ میں اول میرا نام مریم رکھا گیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَا مَرْيَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.یعنی اے مریم تو اور وہ جو تیرا رفیق ہے.دونوں بہشت میں داخل ہو جاؤ.اور پھر اس براہین احمدیہ میں مجھے مریم کا خطاب دے کر فرمایا ہے نَفَخْتُ فِيْكَ مِنْ رُوْحِ الصِّدْقِ یعنی اے مریم! میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی.پس استعارہ کے رنگ میں روح کا پھونکنا اس حمل کے مشابہ تھا جو مریم صدیقہ کو ہوا تھا.اور پھر اس حمل کے بعد آخر کتاب میں میرا نام عیسی رکھ دیا.جیسا کہ فرمایا يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ يعنی اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور
اسماء المهدی صفحہ 326 مومنوں کی طرح میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.اور اس طرح پر میں خدا کی کتاب میں عیسی بن مریم کہلایا.“ عیسی بن مریم کہلانے میں ایک اور حکمت چونکہ مریم ایک امتی فرد ہے.اور عیسی ایک نبی ہے.پس میرا نام مریم اور عیسی رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی.مگر وہ نبی جو اتباع کی برکت سے ظلی طور پر خدا تعالیٰ کے نزدیک نبی ہے.اور میرا نام عیسی بن مریم ہونا وہی امر ہے جس پر نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حدیثوں میں تو آنے والے عیسی کا نام عیسی بن مریم رکھا گیا ہے.مگر یہ شخص تو ابن مریم نہیں ہے.اور اس کی والدہ کا نام مریم نہ تھا.اور نہیں جانتے کہ جیسا کہ سورہ تحریم میں وعدہ تھا، میرا نام پہلے مریم رکھا گیا.اور پھر خدا کے فضل نے مجھ میں نفخ روح کیا.یعنی اپنی ایک خاص تجلی سے اس مریمی حالت سے ایک دوسری حالت پیدا کی.اور اس کا نام عیسی رکھا.اور چونکہ وہ حالت مریمی حالت سے پیدا ہوئی.اس لئے خدا نے مجھے عیسی بن مریم کے نام سے پکارا.پس اس طرح پر میں عیسی بن مریم بن گیا.غرض اس جگہ مریم سے مراد وہ مریم نہیں ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی ماں تھی.بلکہ خدا نے ایک روحانی مشابہت کے لحاظ سے جو مریم اہم عیسی کے ساتھ مجھے حاصل تھی میرا نام براہین احمدیہ حصص سابقہ میں مریم رکھ
اسماء المهدی صفحه 327 دیا.پھر ایک دوسری تجلی میرے پر فرما کر اس کو شیخ روح سے مشابہت دی.اور پھر جب وہ روح معرض ظہور اور بروز میں آئی.تو اس روح کے لحاظ سے میرا نام عیسی رکھا.پس اسی لحاظ سے مجھے عیسی بن مریم کے نام سے موسوم کیا گیا“.(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 361 تا362.ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم ) مثیل عیسی بن مریم کے آنے سے غرض اس کی خدائی کو پاش پاش کرنا ہے وو " فرض عیسی بن مریم کے مثیل آنے کی ایک یہ بھی فرض تھی کہ اس کی خدائی کو پاش پاش کر دیا جائے.انسان کا آسمان پر جا کر مع جسم عنصری آباد ہونا ایسا ہی سنت اللہ کے خلاف ہے جیسے کہ فرشتے ختم ہوکر زمین پر آباد ہو جائیں.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً “.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 24.تذکرۃ الشہادتین ) امت محمدیہ کے مسیح موعود کو عیسی بن مریم کا نام دے کر تو حید الہی کا جلال ظاہر کیا گیا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّا وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ
اسماء المهدی جَمْعاً - (كهف100-99) د, صفحہ 328 آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا.اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے.اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی.اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا.یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہوگا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا.در حقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے.کیونکہ جبکہ فتنہ کی بنیاد نصاری کی طرف سے ہوگی.اور خدا تعالیٰ کا بڑا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی صلیب کی شان کو توڑے.اس لئے جو شخص نصاری کی دعوت کے لئے بھیجا گیا.بوجہ رعایت حالت اس قوم کے جو مخاطب ہے اس کا نام مسیح اور عیسی رکھا گیا.اور دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ جب نصاری نے حضرت عیسی کو خدا بنایا.اور اپنی مفتریات کو ان کی طرف منسوب کیا.اور ہزار ہا مکاریوں کو زمین پر پھیلایا.اور حضرت مسیح کی قدر کو حد سے زیادہ بڑھا دیا تو اس زندہ اور وحید اور بے مثل کی غیرت نے چاہا کہ اسی امت سے عیسی ابن مریم کے نام پر ایک اپنے بندہ کو بھیجے اور کرشمہ قدرت کا دکھلاوے.تا ثابت ہو کہ بندوں کو خدا بنانا حماقت ہے.وہ جسکو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور مشت خاک کو افلاک تک پہنچا سکتا ہے“.روحانی جلد 6 صفحہ 312.شہادت القرآن )
اسماء المهدی صفحہ 329 ایک امتی کا نام عیسی بن مریم اس لئے رکھا گیا تاکہ صلى الله آنحضرت ﷺ کی عظمت کا اظہار ہو ” میں نے از خود کوئی دعویٰ نہیں کیا.میں اپنی خلوت کو پسند کرتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے مصالح نے ایسا ہی چاہا اور اس نے خود مجھے باہر نکالا.چونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب کسی شخص کو اسکی مناسب عزت سے بڑھ کر عظمت دی جاتی ہے تو اللہ تعالی اس عظمت کا دشمن ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اسکی توحید کے خلاف ہے.اسی طرح پر حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے وہ عظمت تجویز کر دی گئی تھی جسکے وہ مستحق نہ تھے.یہاں تک کہ انہیں خدا بنا دیا گیا.اور خانہ خدا خالی ہو گیا.عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو.وہ یہی کہتے ہیں کہ عیسی مسیح ہی خود خدا ہے.اب جس انسان کو اس قدر عظمت دی گئی اور اسے خدا بنایا گیا.(نعوذ باللہ ) اور اس طرح پر خدا کا پہلو گم کر دیا گیا.تو کیا خدا تعالیٰ کی غیرت مخلوق کو اس انسان پرستی سے نجات دینے کے لئے جوش میں نہ آتی ؟ پس اس تقاضا کے موافق اس نے مجھے مسیح کر کے بھیجا تا کہ دنیا پر ظاہر ہو جاوے کہ مسیح بجز ایک عاجز انسان کے اور کچھ نہ تھا.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس کفر کی اصلاح کرے.اور اس کے لئے یہی راہ اختیار کی کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے ایک فرد کو اس نام سے بھیج دیا.تا ایک طرف آنحضرت ﷺ کی عظمت کا اظہار ہو اور دوسری طرف مسیح کی حقیقت معلوم ہو.یہ ایسی موٹی بات ہے کہ معمولی
اسماء المهدی عقل کا انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے“.صفحہ 330 ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 4 صفحہ 425) جبکہ آنحضرت ﷺ کی اس قدر ہتک کی گئی ہے اور عیسائی مذہب کے واعظوں اور منادوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اس سید الکونین کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اور ایک عاجز مریم کے بچے کو خدا کی کرسی پر جا بٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے آپ کا جلال ظاہر کرنے کے لئے یہ مقدر کیا تھا کہ آپ کے ایک ادنی غلام کو مسیح ابن مریم بنا کے دکھا دیا.جب آپ کی امت کا ایک فرداتنے بڑے مدارج حاصل کر سکتا ہے تو اس سے آپ کی شان کا پتہ لگ سکتا ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 10-9.جدید ایڈیشن) برتر گمان و و ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو بیچ الزمان ہے
اسماء المهدی صفحہ 331 عین اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ” آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں: ” رَأَيْتُنِي فِي الْمَنَامِ عَيْنَ اللَّهِ“.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 564) کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں عین اللہ ہوں.اس پر معترضین حضور اقدس پر خدائی کا دعویدار ہونے کا الزام لگاتے ہیں.حالانکہ یہ خطاب بھی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ آثار میں مسیح موعود کا ایک خطاب ” عین اللہ بھی لکھا ہے.دیکھیں النجم الثاقب جلد 1 ص 41 در اسماء شریفه امام عصر نود و دوم - انتشارات علمیہ اسلامیہ ) ( بحوالہ امام مہدی کا ظہور صفحہ 232 ) اس نام میں بھی آپ کا مقام قرب اور فنا فی اللہ ہونا بتایا گیا ہے.اور معترضین کے بے بنیاد اعتراضوں اور الزاموں سے بری کیا گیا ہے.کیونکہ اگر کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ہدایت کی منزل مقصود تک پہنچائے گا اور مقام قرب سے نوازے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس کشف کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: اس کشف سے ہماری مراد وہ نہیں جو وحدت الوجود والے لیا کرتے ہیں
اسماء المهدی صفحه 332 یا اہل حلول کا مذہب ہے.یعنی اس کشف کا یہ مطلب نہیں کہ خدا مجھ میں حلول کر آیا.بلکہ یہ تو فنافی اللہ کا وہی مقام ہے جو بخاری شریف میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نفل پڑھنے والے بندے کے ہاتھ پاؤں کان اور آنکھ بن جاتا ہوں.(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 566 - ترجمه از آئینہ کمالات اسلام)
اسماء المهدی صفحہ 333 غازی " كِتَابُ الوَلِيِّ ذُو الْفِقَارُ عَلِي.یعنی کتاب اس ولی کی ، ذوالفقار علی کی ہے.یہ اس عاجز کی طرف اشارہ ہے.اسی بناء پر بار ہا اس عاجز کا نام مکاشافات میں غازی رکھا گیا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 4، صفحہ 375.نشان آسمانی )
اسماء المهدی صفحہ 334 غلام احمد قادیانی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الا يَاتُ بَعْدَ المِائَتَيْن ہے.ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا.اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے.تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھو یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا.پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی.اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی.اس نام کے عدد پورے تیرہ سو (1300) ہیں.اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام احمد نام نہیں.بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں.اور اس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ بعض اسرار اعداد حروف تھی میں میرے پر ظاہر کر دیتا ہے".(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 190-189.ازالہ اوہام حصہ اول ) عیسائی مشنریوں نے عیسی بن مریم کو خدا بنایا.اور ہمارے سیّد ومولی حقیقی شفیع کو گالیاں دیں اور بد زبانی کی کتابوں سے زمین کو نجس کر دیا.
اسماء المهدی صفحہ 335 اس لئے اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدا رکھا گیا.خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے میچ سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا تا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے.جو احمد کے ادنی غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یعنی وہ کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے.اے عزیز و! یہ بات غصہ کرنے کی نہیں.اگر اس احمد کے غلام کو جو مسیح موعود کر کے بھیجا گیا ہے، تم اس پہلے مسیح سے بزرگ تر نہیں سمجھتے اور اُسی کو شفیع اور منجی قرار دیتے ہو.تو اب اس دعوی کا ثبوت دو.اور جیسا کہ اس احمد کے غلام کی نسبت خدا نے فرمایا إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ لَوْلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمَقَامُ.جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس شفیع کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس گاؤں قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھا.جیسا کہ دیکھتے ہو کہ وہ پانچ چھ برس سے محفوظ چلی آتی ہے.اور نیز فرمایا کہ اگر میں اس احمد کے غلام کی بزرگی اور عزت ظاہر نہ کرنا چاہتا تو آج قادیان میں بھی تباہی ڈال دیتا.ایسا ہی آپ بھی اگر مسیح ابن مریم کو در حقیقت کا شفیع اور منجی قرار دیتے ہیں تو قادیان کے مقابل پر آپ بھی کسی اور شہر کا پنجاب کے شہروں میں سے نام لے دیں کہ فلاں شہر ہمارے خداوند مسیح کی برکت اور شفاعت سے طاعون سے پاک رہے گا.(روحانی خزائن جلد 18 ، صفحہ 234-233 دافع البلاء )
وو اسماء المهدی غلام احمد کی ہے“ صفحہ 336 ( تذکرہ طبع چہارم ص 613) سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ السلام کے چند الہامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جے کا لفظ بتاتا ہے کہ اس مخالفت میں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے.لیکن بتا دیا ہے کہ آخر وہ کے کہنے پر مجبور ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ کی کلام میں خبریں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ابتلا آئیں گے اور سخت آئیں گے ، گالیاں دی جائیں گی.ہندو بھی مخالفت میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائیں گے.مگر اللہ تعالی احمدیت کو فتح دے گا.حتی کہ مخالف بھی پکار اٹھیں گے کہ غلام احمد کی ( تذکر طبع چہارم صفحہ 613 - حاشیہ)
اسماء المهدی صفحہ 337 أَنْتَ فُرْقَانَ “ تو فیصلہ کن نشان ہے.فرقان ( تذکر طبع چہارم صفحه 308)
اسماء المهدی صفحہ 338 قَدَمُ الرَّسُول وَاَنَا قَدَمُ الرَّسُول الَّتى تُحْشَــر عليها الاموات و تُمحى بها الضلالات و من از رسول صلی اللہ علیہ وسلم قدمے ہستم کہ مردگان برو مبعوث خواهند شد وضلالت ها محو خواهد گردید.(روحانی خزائن جلد 16 - صفحہ 474 لجه النور )
اسماء المهدی صفحہ 339 ” خدا تعالیٰ نے اس وحی الہی میں جو لکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دین اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی.جیسا کہ اس نے فرمایا.يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ أَنْتَ مِنِّى وَ أَنَا مِنْكَ.یعنی اے چاند اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اس وحی الہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا.اس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اسی طرح میرانور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397- تجلیات الہیہ )
اسماء المهدی صفحہ 340 ,, کاسر الصليب صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں مسیح موعود کا نام کا سر الصلیب رکھا اور در حقیقت بچے مسیح موعود کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں علامت ٹھہرائی ہے کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود ایسے زمانے میں آئے گا جب کہ ہر طرف سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے کہ جن کی پر زور تا شیروں سے صلیبی مذہب عقلمندوں کے دلوں میں سے گرتا جائے گا چنانچہ یہ وہی زمانہ ہے“.وو (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 166 حاشیہ.تریاق القلوب) وہ مجد د جو اس چودھویں صدی کے سر پر بموجب حدیث نبوی کے آنا چاہئے تھا وہ یہیں راقم ہے.یہ بات جلد متقلمند اور منصف مزاج کو سمجھ آ سکتی ہے کہ ہر ایک مجد دان مفاسد کو دور کرنے کے لئے مبعوث ہوتا ہے جو زمین پر سب سے زیادہ خطر ناک اور سب سے زیادہ موجب ہلاک اور نیز سب سے زیادہ کثرت میں ہوتے ہیں.اور انہیں خدمات کے مناسب حال اس مجدد کا نام آسمان پر ہوتا ہے اور جب کہ یہ بات واقعی اور صحیح ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس پر آشوب زمانہ میں جبکہ لوگ چاروں طرف عیسائیت کی پُر زہر تعلیم سے ہلاک ہوتے جاتے ہیں.بڑا کام مجدد کا یہ ہونا چاہئے کہ اہل اسلام کی ذریت کو اس زہر سے بچاوے اور صلیبی فتنوں
اسماء المهدی صفحہ 341 پر اسلام کو فتح بخشے.اور جبکہ اس صدی کے مجدد کا یہ کام ہوا تو بلاشبہ آسمان پر اس کا نام کا سر الصلیب ہوا.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 166,165 تریاق القلوب) میں صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اس عاجز کو حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے.اور اسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے صحیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا.تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.میں آسمان سے اترا ہوں.ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے.جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا.بلکہ کر رہا ہے.اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے.اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب تو ڑنے اور مخلوق پرستی کی پیکل کھلنے کے لئے دئے گئے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 11 حاشیہ.فتح اسلام ) ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے بچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیا تھا.اور آخری زمانہ میں یہ مقدر تھا کہ مسیح صلیب کو توڑے گا.یعنی آسمانی
اسماء المهدی صفحه 342 نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دنیا سے اٹھاوے گا.عوض معاوضہ گلہ ندارد 66 (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 202.حقیقۃ الوحی ) صلیبی مذہب پر غلبہ پانے اور کسر صلیب کے اسباب جن کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اس زمانہ میں مجدد کی خاص خدمت کسر شوکت صلیب ہے اور خدا نے میرے وقت میں آسمان سے کسر شوکت عقائد صلیبیہ کے لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے ہیں.کہ ہر ایک عقلمندان اسباب پر نظر غور ڈال کر سمجھ سکتا ہے جو صلیبی مذہب کا صفحہ دنیا سے معدوم ہونا جس کا حدیثوں میں ذکر ہے بجز اس صورت کے کسی طرح ممکن نہیں.کیونکہ عیسائی مذہب کو گرانے کے لئے جو صورتیں ذہن میں آسکتی ہیں وہ صرف تین ہیں.اول یہ کہ تلوار سے اور لڑائیوں سے اور جبر سے عیسائیوں کو مسلمان کیا جائے جیسا کہ عام مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ ان کا فرضی مسیح موعود اور مہدی معہود یہی کام دنیا میں آکر کرے گا.اور اس میں صرف اسی قدر لیاقت ہوگی کہ خونریزی اور جبر سے لوگوں کو مسلمان کرنا چاہے گا.لیکن جس قدر اس کارروائی میں فساد ہیں حاجت بیان نہیں.ایک شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ دلیل کافی ہو سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو جبر سے
اسماء المهدی صفحہ 343 اپنے دین میں داخل کرنا چاہے.لہذا یہ طریق اشاعت دین کا ہرگز درست نہیں ہے.اور اس طریق کے امیدوار اور اس کے انتظار کرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو درندوں کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں اور آیت لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ سے بے خبر ہیں.دوسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ معمولی مباحثات سے جو ہمیشہ اہل مذہب کیا کرتے ہیں اس مذہب کو مغلوب کیا جائے.مگر یہ صورت بھی ہرگز کامل کامیابی کا ذریعہ نہیں ہوسکتی.کیونکہ اکثر مباحثات کا میدان وسیع ہوتا ہے اور دلائل عقلیہ اکثر نظری ہوتے ہیں اور ہر ایک نادان اور موٹی عقل والے کا کام نہیں کہ عقلی اور نقلی دلائل کو سمجھ سکے.اس لئے بت پرستوں کی قوم با وجود قابل شرم عقیدوں کے اب تک جا بجا دنیا میں پائی جاتی ہے.تیسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ آسمانی نشانوں سے اسلام کی برکت اور عزت ظاہر کی جائے اور زمین کے واقعات سے امور محسوسہ بدیہیہ کی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ جسم عصری کے ساتھ آسمان پر گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرگئے.اور یہ تیسری صورت ایسی ہے کہ ایک متعصب عیسائی بھی اقرار کر سکتا ہے کہ اگر یہ بات پایہ ثبوت پہنچ جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے تو پھر عیسائی مذہب باطل ہے اور کفارہ اور تثلیث سب باطل.اور پھر اس کے ساتھ جب آسمانی
اسماء المهدی صفحہ 344 نشان بھی اسلام کی تائید میں دکھلائے جائیں تو گویا اسلام میں داخل ہونے کے لئے تمام زمین کے عیسائیوں پر رحمت کا دروازہ کھول دیا جائے گا.سو یہی تیسری صورت ہے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں.خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اور کوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کر سکے.اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے اور دوسری خدا کے فضل اور کرم اور رحم نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہ صلیب پر فوت ہوئے نہ آسمان پر چڑھے..اس لئے میں زور سے اور دعوے سے کہتا ہوں کہ جس کسر صلیب کا بخاری میں وعدہ تھا.اس کا پورا سامان مجھے عطا کیا گیا ہے.اور ہر ایک عقلِ سلیم گواہی دے گی کہ بجز اس صورت کے اور کوئی مؤثر اور معقول صورت کسر صلیب کی نہیں...اب ہر ایک عقلمند موازنہ کرسکتا ہے کہ کیا وہ امور جو اشاعتِ اسلام اور کسر صلیب کے لئے ہم پر کھولے گئے ہیں.وہ دلوں کو کھینچنے والے اور مؤثر معلوم ہوتے ہیں یا ہمارے مسلمان مخالفوں کے فرضی مسیح موعود کا یہ طریق کہ گویا وہ آتے ہی بے خبر اور غافل لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے گا.یادر ہے کہ عیسائی مذہب اس قدر دنیا میں پھیل گیا ہے کہ صرف آسمانی نشان بھی اس کے زیر کرنے کے لئے کافی نہیں ہو سکتے کیونکہ مذہب کو چھوڑ نا بڑا مشکل امر ہے.لیکن یہ صورت کہ ایک طرف تو آسمانی نشان
اسماء المهدی صفحه 345 وو دکھلائے جائیں اور دوسرے پہلو میں ان کے مذہب اور ان کے اصولوں کا واقعات حقہ سے تمام تانا بانا توڑ دیا جائے اور ثابت کر دیا جائے کہ حضرت مسیح کا مصلوب ہونا اور پھر آسمان پر چڑھ جانا دونوں باتیں جھوٹ ہیں.یہ طرز ثبوت ایسی ہے کہ بلاشبہ اس قوم میں ایک زلزلہ پیدا کر دیگی کیونکہ عیسائی مذہب کا تمام مدارکفارہ پر ہے اور کفارہ کا تمام مدار صلیب پر اور جب صلیب ہی نہ رہی تو کفارہ بھی نہ رہا اور جب کفارہ نہ رہا تو مذہب بنیاد سے گر گیا“.- (روحانی خزائن جلد 15 ص 166 169.تریاق القلوب) دو وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کے لئے جن اسباب و ذرائع کو اختیار فرمایا اور جس طرح صلیبی عقائد کو پاش پاش فرمایا اسکی تفصیلات جاننے کے لئے حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ از بس ضروری ہے: مسیح ہندوستان میں چشمہ مسیحی تریاق القلوب" " جنگ "مقدس".کتاب البرية" وغیرہ.مسیح موعود کا کام کسر صلیب کے ساتھ قتل فترمر بھی بیان کیا گیا ہے.اس خنزیر سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام بھی لیا.چنانچہ ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی آف امریکہ کی ہلاکت پر جو شدید ترین معاند اسلام اور بدترین دشمن اسلام تھا ، آپ فرماتے ہیں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کی ہلاکت کی خبر ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
اسماء المهدی دو صفحہ 346 چونکہ میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ ( ڈوئی.ناقل ) تمام دنیا سے اول درجہ پر حامی صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سوخدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیشگوئی قتل خنز بی والی بڑی صفائی سے پوری ہوگئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہوسکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی.اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے.بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت ان کی تھی اور نہ اس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے.پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت علی نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.س: (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 513.تتمہ حقیقۃ الوحی ) مسیح موعود کو کیونکر اور کن وسائل سے کسر صلیب کرنا ہے ؟ کیا جنگ اور لڑائیوں سے جس طرح ہمارے مولویوں کا عقیدہ ہے یا کسی اور طرح سے؟ ج اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی لوگ ( خدا ان کے حال پر
اسماء المهدی صفحہ 347 رقم کرے ) اس عقید ہ میں سراسر غلطی پر ہیں.مسیح موعود کا منصب ہر گز نہیں ہے کہ وہ جنگ اور لڑائیاں کرے بلکہ ان کا منصب یہ ہے کہ حج عقیلہ اور آیات سماویہ اور دعا سے اس فتنہ کوفر و کرے.یہ تین ہتھیار خدا تعالیٰ نے اس کو دیئے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اُس کا غیر ہرگز اس سے مقابلہ نہیں کر سکے گا.آخر اسی طور سے صلیب تو ڑا جائے گا یہاں تک کہ ہر ایک محقق نظر سے اسکی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی اور رفتہ رفتہ تو حید قبول کرنے کے وسیع دروازے کھلیں گے.یہ سب کچھ تدریجا ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام تدریجی ہیں.کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا.اسلام ابتداء میں تدریجا ہی ترقی پذیر ہوا ہے.اور پھر انتہا میں بھی تدریجا اپنی پہلی حالت کی طرف آئے گا.(روحانی خزائن جلد 13 ، صفحہ 305 حاشیہ.کتاب البریہ )
اسماء المهدی صفحہ 348 وو کرشن ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے.چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گزرا ہے جس کو ڈر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے.پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں.وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا.وہ تُو ہی ہے.وو (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 522-521 - تمہ حقیقۃ الوحی ) " ہے روز ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 229 لیکچر سیالکوٹ) ” میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں ہے.بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے.اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے.ایسا ہی میں ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں اور میں عرصہ میں برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کو دور کرنے کے لئے جن سے زمین پر ہوگئی ہے.جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں
اسماء المهدی صفحہ 349 ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں.جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا.یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں.یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے.اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.میں جانتا ہوں کہ جاہل مسلمان اس کو سن کر فی الفور یہ کہیں گے کہ ایک کا فر کا نام اپنے اوپر لے کر کفر کو صریح طور پر قبول کیا ہے.لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیر میں رہ نہیں سکتا کیونکہ جولوگ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے.اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے.درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشتی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی.اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا.جس پر خدا کی طرف فة سے روح القدس اترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے متمند اور با اقبال تھا.جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا در حقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا.اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے.سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا.مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی
اسماء المهدی صفحہ 350 الہام ہوا تھا کہ " ہے کرشن روز ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.سو میں کرشن سے محبت کرتا ہوں.کیونکہ میں اس کا مظہر ہوں.اور اس جگہ ایک اور راز درمیان میں ہے کہ جو صفات کرشن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ( یعنی پاپ کا نشٹ کرنے والا اور غریبوں کی دلجوئی کرنے والا اور ان کو پالنے والا ) یہی صفات مسیح موعود کے ہیں.پس گویا روحانیت کے رو سے کرشن اور مسیح موعود ایک ہی ہیں.صرف قومی اصطلاح میں تغایر ہے.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 229-228 لیکچر سیالکوٹ) ” خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گزرا ہے.وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا اور ہندوؤں میں اوتار کا لفظ درحقیقت نبی کے ہی ہم معنے ہے اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے.اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کے صفات پر ہوگا.اور اسکا بروز ہوگا.اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ میں ہوں.کرشن کی دو صفت ہیں.ایک روڈر یعنی درندوں اور سؤروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے کو پال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا مددگار.اور یہ دو صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں.اور دو یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں“.(روحانی خزائن جلد 17 ، صفحہ 317 حاشیہ در حاشیہ تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی صفحہ 351 ” جیسا کہ کرشن کی صفات میں سے روڈر گوپال ہے یعنی سو روں کو ہلاک کرنے والا اور گائیوں کو پالنے والا.ایسا ہی کلکی اوتار ہوگا.یہ ایک کرشن کی صفات کی نسبت استعارہ ہے کہ وہ درندوں کو ہلاک کرتا تھا یعنی سوروں اور بھیڑیوں کو اور گائیوں کو پالتا تھا یعنی نیک آدمیوں کو.اور عجیب بات ہے کہ مسلمان اور عیسائی بھی آنے والے مسیح کی نسبت یہی صفات روڈر گوپال کے جو کلکی اوتار کی صفت ہے، قائم کرتے ہیں.اس جگہ یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے سو روں کو قتل کرے گا یا گائیوں کی حفاظت کرے گا.بلکہ یہ مراد ہے کہ زمانہ کا دور ہی ایسا آجائے گا اور آسمانی ہوا شریروں کو نابود کرتی جائے گی.اور نیک بڑھیں گے اور پھولیں گے اور زمین کو پُر کریں گے.تب اس مسیح پر روڈر گوپال کا اسم صادق آجائے گا.“ (روحانی خزائن جلد 17 ، صفحہ 317-316 حاشیہ تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی صفحہ 352 کلمۃ الازل تو کلمۃ الا زل ہے.پس تو مٹایا نہیں جائے گا.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 101 - کتاب البريد ) ( تذکر طبع چہارم صفحه 258)
اسماء المهدی صفحہ 353 کلمة الله مسیح محمد سی کو کلمۃ اللہ و روح اللہ کہ کر مسیح موسوی کے متعلق غلط عقائد کی تردید کی گئی ہے.قرآن شریف میں اس امت کے اشرار کو یہود سے نسبت دی گئی اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایسے شخص کو جو (امت محمدیہ میں.ناقل ) مریمی صفت سے محض خدا کے نفخ سے عیسوی صفت حاصل کرنے والا تھا اس کا نام سورہ تحریم میں ابن مریم رکھ دیا ہے.کیونکہ فرمایا ہے کہ جبکہ مثالی مریم نے بھی تقویٰ اختیار کیا تو ہم نے اپنی طرف سے روح پھونک دی.اس میں اشارہ تھا کہ مسیح ابن مریم میں کلمۃ اللہ ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں.بلکہ آخری مسیح بھی کلمتہ اللہ ہے.اور روح اللہ بھی.بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے.جیسا کہ سورہ تحریم اور سورہ فاتحہ اور سورة النور اور آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ سے سمجھا جاتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 15 ، صفحہ 484.تریاق القلوب) انسان کلمۃ اللہ کب بنتا ہے اسی طرح حضور علیہ السلام کلمتہ اللہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسماء المهدی صفحہ 354 لوگوں نے کلمتہ اللہ کے لفظ پر جو سیع کی نسبت آیا ہے سخت غلطی کھائی ہے اور مسیح کی کوئی خصوصیت کبھی ہے.حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے.ہر انسان جب نفسانی ظلمتوں اور گندگیوں اور تیرگیوں سے نکل آتا ہے اس وقت وہ کلمۃ اللہ ہوتا ہے.یا د رکھو کہ انسان کلمتہ اللہ ہے کیونکہ اس کے اندر روح ہے جس کا نام قرآن شریف میں امر ربی رکھا گیا ہے.لیکن انسان نادانی اور نا واقعی سے روح کی کچھ قدر نہ کرنے کے باعث اس کو انواع و اقسام کی سلاسل اور زنجیروں میں مقید کر دیتا ہے اور اس کی روشنی اور صفائی کو خطرناک تاریکیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اندھا اور سیاہ کر دیتا ہے.اور اسے ایسا دھندلا بناتا ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا.لیکن جب تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی ناپاک اور تاریک زندگی کی چادر اتار دیتا ہے تو قلب منور ہونے لگتا ہے اور پھر اصل مبدء کی طرف رجوع شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ تقویٰ کے انتہائی درجہ پر پہنچ کر سارا میل کچیل اتر کر پھر وہ کلمہ اللہ ہی رہ جاتا ہے.یہ ایک بار یک علم اور معرفت کا نکتہ ہے.ہر شخص اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا.( تفسیر سوره ال عمران و نساء از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 368) الحکم جلد 5 نمبر 10 مورخہ 17 مارچ 1901 صفحہ 1)
اسماء المهدی صفحہ 355 وو گورنر جنرل مبشروں کا زوال نہیں ہوتا.گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا“.( تذکر طبع چہارم صفحه 285) ر مسیح جس کا دوسرا نام مہدی ہے دنیا کی بادشاہت سے ہر گز حصہ نہیں پائے گا بلکہ اس کے لئے آسمانی بادشاہت ہوگی.اور یہ جوحد بیثوں میں آیا ہے کہ مسیح حکم ہو کر آئے گا اور وہ اسلام کے تمام فرقوں پر حاکم عام ہوگا.جس کا ترجمہ انگریزی میں گورنر جنرل ہے.سو یہ گورنری اس کی زمین کی نہیں ہوگی بلکہ ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسی ابن مریم کی طرح غربت اور خاکساری سے آوے.سو ایسا ہی وہ ظاہر ہوا.(روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 144 - تریاق القلوب )
اسماء المهدی صفحہ 356 لولاک الهام "لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلَاک“ کے تذکرہ پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کمال رضا جوئی کی حالت میں یہ طبقہ خدمت گزاران کا کولاک‘ کا حکم رکھتا ہے اور یہ بات صاف ہے کہ اگر یہ طبقہ لولاک کا نہ ہو تو افلاک کی خلقت عبث و فضول ہے.افلاک کا بنانا محض اس طبقہ لولاک کی خاطر ہے.“ یہ در اصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھا لیکن فلمی طور پر ہم 66 پر اس کا اطلاق ہوتا ہے.( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 5، صفحہ 20-19) الہام لولاک کی تشریح کرتے ہوئے ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا: لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک میں کیا مشکل ہے؟ قرآن مجید میں ہے خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے.تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں؟ دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے اور جن پر اس کا تصرف نہیں.وہ خدا تعالیٰ
اسماء المهدی صفحه 357 کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں.سورج.چاند ستارے وغيره ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 5 صفحہ 213) چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے آسمان میں چاند سورج گرہن.دمدار ستاروں کا چڑھنا اور کثرت سے ستاروں کا ٹوٹنا اور شہب ثاقب کے گرنے جیسے نشانات ظاہر ہوئے اور آپ کے لئے عام لوگوں سے بڑھ کر افلاک سے کام لیا گیا.
اسماء المهدی صفحہ 358 مامور قُمْ وَ انْذِرْ فَإِنَّكَ مِنَ الْمَأْمُوْرِينَ ( تذکر طبع چہارم صفحه 175) اٹھ اور لوگوں کو ( آنے والے عذابوں سے ) ڈرا کیونکہ تو مامور ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا: اسلام کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.تا میں ایسے وقت میں جواکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ضلالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں اور روحانی امور سے رشتہ مناسبت بالکل کھو بیٹھے ہیں.اسلامی تعلیم کی روشنی ظاہر کروں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ اسلام اپنا اصلی رنگ نکال لائے گا.اور اپنا وہ کمال ظاہر کرے گا جن کی طرف آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ میں اشارہ ہے.سنت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اسی قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدر ان کی ضرورت پیش آتی ہے.سو یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے جو اس نے ہزار ہا عقلی مفاسد کو ترقی دے کر اور بے شمار معقولی شبہات کو بمنصہ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام و اعتراضات کے رفع دفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے.
اسماء المهدی صفحہ 359 بے شک یہ بات یقینی طور پر مانی پڑے گی کہ جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے.اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہذا ابتداء سے اس امر کو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیہ و کافیہ سے بحوالہ آیات قرآن مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے.اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا.کیونکہ پیش از ظهور مفاسد، ان مفاسد کی اصلاح کا تذکرہ محض بے محل تھا.اسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ ان کے اظہار کا وقت آگیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی.جو آيت هو الذي ارسل رسوله بالهدى ميں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے.سواب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہورہا ہے.سوخدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دیکر ایک شخص کو دنیا میں بھیجا.وہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے“.(روحانی خزائن جلد 3 ، صفحہ 515-514 - ازالہ اوہام حصہ دوم ) ان اعتراضات کے جوابات جاننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب کا مطالعہ از بس ضروری ہے.مثلاً براہین احمدیہ ہر پانچ حص.آریوں کے اعتراضات کے رڈ کے لئے سرمہ چشم آریہ، چشمہ معرفت، آریہ دھرم سناتن دھرم، پرانی تحریریں.وغیرہ.
اسماء المهدی صفحہ 360 عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات کے لئے جنگ مقدس، چشمہ مسیحی نسیم دعوت، انجام آتھم.وغیرہ.اس کے علاوہ اسلامی اصول کی فلاسفی ، آئینہ کمالات اسلام، حقیقۃ الوحی، اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں کے ثبوت کے لئے تریاق القلوب، سراج منیر کتاب البریہ وغیرہ کتب کا مطالعہ بالخصوص بہت مفید ہے.مامور کے چند اوصاف وو ' ذرا غور کرنے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خدا تعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لئے اجتباء اور اصطفاء ہوا اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصوصیات چاہئے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے برگزیدہ کرے.خدا تعالیٰ کی نظر خطا جانے والی نہیں ہوتی.پس جب وہ کسی کو منتخب کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوتا.قرآن شریف میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ( ملفوظات جلد 3، صفحہ 547 جدید ایڈیشن) اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے اس کے لئے چند نشان ہوا کرتے ہیں.جن سے اس کی سچائی پر کھی جاتی ہے.اول یہ کہ وہ پاک اور صاف تعلیم لے کر آتا ہے.جب اسکی تعلیم گندی ہوگی تو اس کو قبول کون کرے گا؟ دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ کی تعلیم کیسی پاک ہے.اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں.اور کسی قسم کے شرک کی
اسماء المهدی گنجائش نہیں.صفحہ 361 دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ بڑے بڑے نشان ہوتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی دنیا میں کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تیسرے یہ کہ گزشتہ انبیاء کی جو پیشگوئیاں اس کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس پر صادق آتی ہیں.چوتھی بات یہ ہے کہ اس وقت زمانہ کی حالت خود ظاہر کرتی ہے کہ کوئی مامور من الله آوے.پانچویں بات یہ ہے کہ بچے مدعی کا صدق اور اخلاص ، استقلال اور تقویٰ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.اور اس میں ایک کشش ہوتی ہے جس سے اوروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.تمام قرآن مجید میں یہی موٹی باتیں ہیں جن سے کسی مامور کی سچائی کا پتہ لگتا ہے.اب جس کو ایمان کی ضرورت ہے وہ یہی پانچ علامتیں پیش کر کے ہمارا امتحان کرئے“.مامور کے لئے خدا تعالیٰ کی شہادت وہ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد پنجم صفحہ 352-351) نیچے مامور کے لئے یہ شرط ہے کہ ایسے امور جو خدا کا نشان کہلا سکتے ہیں کیفیت اور کمیت میں اس حد تک پہنچ گئے ہوں کہ عام لوگوں میں سے کوئی شخص اس کا مقابلہ نہ کر سکے.اور ایسے شخص کے ساتھ کھلے کھلے طور پر
اسماء المهدی صفحہ 362 خدا تعالیٰ کا ہاتھ چلتا نظر آوے اور اس کی فوق العادت تائید میں نشانات بارش کی طرح برستے ہوئے محسوس ہوں.جن سے معلوم ہو کہ خصوصیت کے ساتھ ہر ایک راہ میں خدا اس کا مؤید ہے.غرض بڑی علامت یہی ہے کہ وہ آسمانی نشان اور وہ تائید اور نصرت اس حد تک پہنچ جائے کہ روئے زمین پر کوئی اسکا مقابلہ نہ کر سکے اور گو ایک ہی نشان ہو.مگر ایساز بر دست اور ذی شان ہو کہ اس کو دیکھ کر سب دشمن مردہ کی طرح پڑ جائیں اور اس کی نظیر نہ پیش کر سکیں اور یا اس کثرت سے وہ نشان ہوں کہ کثرت کے لحاظ سے کسی کو طاقت نہ ہو کہ وہ کثرت اپنے نشانوں میں یا کسی اور مفتری کے نشانوں میں دکھلا سکے.اسی کا نام خدا کی شہادت ہے“.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 549-548، تتمہ حقیقت الوحی ) ( حضور علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت میں ظاہر ہونے والے نشانات کی تفصیل جاننے کے لئے حضور کی جملہ کتب کا مطالعہ ازحد مفید ہے)
اسماء المهدی صفحہ 363 مبارک اس عاجز کی نسبت فرمایا : رُفِعْتَ وَ جُعِلْتَ مُبَارَكًا - کو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا.( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 84)
اسماء المهدی أَنْتَ مِنِّى مَبْدَأُ الْأَمْرِ مَبْدَأُ الْأَمْرِ تو مجھ سے امر مقصود کا مبدء ہے.صفحہ 364 ( تذکر طبع چہارم صفحه 320)
اسماء المهدی وو انی مبشر 6628 مبشر میں بشارت دینے والا ہوں.صفحہ 365 ( تذکر طبع چہارم صفحه 615)
اسماء المهدی وو سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكَّلَ “.میں نے تیرا نام متوکل رکھا.متوکل صفحہ 366 ( تذکر طبع چہارم 197 196 )
اسماء المهدی صفحه 367 مجدد رسید مژده زغیبم که من همان مردم که او مجدد ایی دین و رہنما باشد (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 132 - تریاق القلوب) ترجمہ : مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجد داور راہنما ہے.اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنیوالا تھا.وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں.اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں“.وو روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 3.تذکرۃ الشہادتین) واضح ہو کہ موافق اس سنت غیر متبدلہ کے ہر یک غلبہ تاریکی کے وقت خدا تعالیٰ اس امت مرحومہ کی تائید کے لئے توجہ فرماتا ہے.اور مصلحت عامہ کے لئے کسی اپنے بندہ کو خاص کر کے تجدید دین متین کے لئے مامور فرما دیتا ہے.یہ عاجز بھی اس صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجدد کا خطاب پاکر مبعوث ہوا اور جس نوع اور قسم کے فتنے دنیا میں پھیل رہے تھے ان کے رفع اور دفع اور قلع قمع کے لئے وہ علوم اور وسائل اس
اسماء المهدی صفحہ 368 عاجز کو عطا کئے گئے کہ جب تک خاص عنایت الہی ان کو عطا نہ کرے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتے.مگر افسوس کہ جیسا قدیم سے نا تمام اور ناقص الفہم علماء کی عادت ہے کہ بعض اسرار اپنے فہم سے بالا تر پاکر منبع اسرار کو کافر ٹھہراتے رہے ہیں، اسی راہ پر اس زمانہ کے بعض مولوی صاحبوں نے بھی قدم مارا.اور ہر چند نصوص قرآنیہ وحدیثیہ سے سمجھایا گیا مگر ایک ذرہ بھی صدق کی روشنی ان کے دلوں پر نہ پڑی.بلکہ برعکس اس کے تکفیر اور تکذیب کے بارہ میں وہ جوش دکھلایا کہ نہ صرف کافر کہنے پر کفایت کی بلکہ اکفر نام رکھا.اور ایک مومن اہل قبلہ کے خلود جہنم پر فتوے لکھے.اس عاجز نے بار بار خداوند کریم کی قسمیں کھا کر بلکہ مسجد میں جو خانہ خدا ہے بیٹھ کر ان پر ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں.اور اللہ جلشانہ اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے فرمودہ پر ایمان لاتا ہوں.مگر ان بزرگوں نے قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ منافقانہ اقرار ہے.(روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 45.کرامت الصادقین ) اور منجملہ ان دلائل کے جو نصوص حدیثیہ سے صحت وصدق دعوی اس راقم پر قائم ہوئے ہیں وہ حدیث بھی ہے جو مجد دوں کے ظہور کے بارے میں ابوداؤد اور مستدرک میں موجود ہے.یعنی یہ کہ اس امت کے لئے ہر ایک صدی کے سر پر مجدد پیدا ہوگا اور ان کی ضرورتوں کے موافق تجدید دین کرے گا اور فقرہ يُجدِّدُ لَهَا جو حدیث میں موجود ہے، یہ صاف بتلا رہا ہے کہ ہر ایک صدی پر ایسا مجدد آئے گا جو مفاسد موجودہ کی تجدید کرے
اسماء المهدی صفحہ 369 گا.اب جب ایک منصف غور سے دیکھے کہ چودھویں صدی کے سر پر کون سے سخت خطرناک مفاسد موجود تھے جن کی تجدید کے لئے مجدد میں لیاقتیں چاہئیں تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بہت بڑا فتنہ جس سے ؟ لاکھوں انسان ہلاک ہو گئے یا دریوں کا فتنہ ہے.اور اس سے کوئی عقلمند اور در دخواہ اسلام کا انکار نہیں کرے گا کہ اس صدی کے مجد د کا بڑا فرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ کسر صلیب کرے اور عیسائیوں کی حجتوں کو نابود کر دیوے.اور جبکہ چودھویں صدی کے مجدد کا کسر صلیب فرض ( کام ) ہوا تو اس سے ماننا پڑا کہ وہی مسیح موعود ہے کیونکہ حدیثوں کی رو سے مسیح موعود کی بھی یہی علامت ہے کہ وہ صدی کا مجدد ہوگا اور اس کا کام یہ ہوگا کہ کسر صلیب کرے.“ فسق و فجور و کثرت گناہ کا سبب ” بہر حال اس وقت کے مولوی اگر دیانت اور دین پر قائم ہو کر سوچیں تو انہیں ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ چودھویں صدی کے مجد د کا کام کسر صلیب ہے.اور چونکہ یہ وہی کام ہے جو مسیح موعود سے مخصوص ہے اس لئے بالضرورت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چودھویں صدی کا مجد دمسیح موعود چاہئے اور اگر چہ چودھویں صدی میں فسق و فجور بھی مثل شراب خوری و زنا کاری وغیرہ بہت پھیلے ہوئے ہیں مگر بغور نظر معلوم ہوگا کہ ان سب کا سبب ایسی علیمیں ہیں جن کا یہ مدعا ہے کہ ایک انسان کے خون نے گناہوں کی
اسماء المهدی صفحہ 370 باز پرس سے کفایت کر دی ہے.اسی وجہ سے ایسے جرائم کے ارتکاب میں یورپ سب سے بڑھا ہوا ہے.پھر ایسے لوگوں کی مجاورت کے اثر سے عموماًہر ایک قوم میں بے قیدی اور آزادی بڑھ گئی ہے.دو (روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 302 تا 304.حاشیہ کتاب البریہ ) مصنف ( براہین احمدیہ.ناقل ) کو اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک دوسرے پر بشرت مناسبت ومشابہت ہے.اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض ببرکت متابعت حضرت خیر البشر و صلى الله افضل الرسل نے ان بہتوں پرا کا ہر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں.اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد وحرمان ہے.(روحانی خزائن جلد 6 ، صفحہ 39- بركات الدعا) مجد دزماں کی تکذیب کی دو صورتیں میں زور سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور اس پر بائیس 22 برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے.اس قدر عرصہ تک میری تائیدوں کا ہونا.یہ اللہ تعالیٰ کا الزام اور محبت ہے تم لوگوں پر.کیونکہ میں نے جو مجدد ہونے کا دعوی کیا ہے کہ میں فسادوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں، حدیث اور قرآن کی بنا پر کیا ہے.اب جولوگ میری تکذیب
اسماء المهدی صفحہ 371 کریں گے، وہ میری نہیں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں گے.ان کو کوئی حق تکذیب کا نہیں پہنچتا جب تک وہ میری جگہ دوسر ا صلح پیش نہ کریں.کیونکہ زمانہ اور وقت بتاتا ہے کہ مصلح آنا چاہئے.کیونکہ ہر جگہ مفاسد پیدا ہو چکے ہیں.اور قرآن شریف کہتا ہے کہ ایسی آفتوں کے وقت حفاظت قرآن کے لئے مامور آتا ہے.اور حدیث کہتی ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد بھیجا جاتا ہے.پھر ضرورتیں موجود ہیں.اور یہ وعدے حفاظت اور تجدید دین کے الگ ہیں.تو ان ضرورتوں اور وعدوں کے موافق آنے والے کی تکذیب کی تو دو ہی صورتیں ہیں.یا کوئی اور مصلح پیش کیا جاوے یا ان وعدوں کی تکذیب کی جاوے.وو ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 2 ، صفحہ 359) یہ یادر ہے کہ مجد دلوگ دین میں کچھ کی بیشی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں.س: :2 (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 344 - شہادت قرآن) کیا مجد ودوں کا ماننا ضروری ہے؟ یہ کہنا کہ محمد ودوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں، خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے.کیونکہ وہ فرماتا ہے وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الفَاسِقُوْن یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.رر 66 (روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 344.شہادت القرآن)
اسماء المهدی صفحہ 372 محدث الله أَنْتَ مَحَدَّتُ اللَّهِ، فِيْكَ مَادَّةٌ فَارُوْقِيَّةٌ“.تو محدث اللہ ہے، تجھ میں مادہ فاروقی ہے.( تذکر طبع چہارم صفحه 82) محد ثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے حضور علیہ السلام علیہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ رسالہ فتح اسلام میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے.فرماتے ہیں: نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محد ثمیت کا دعویٰ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ محد ثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے.جس حالت میں رویا صالحہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے تو محدثیت جو قرآن شریف میں نبوت کے ساتھ اور رسالت کے ہم پہلو بیان کی گئی ہے جس کے لئے صحیح بخاری میں حدیث بھی موجود ہے اس کو اگر ایک مجازی نبوت قرار دیا جاوے یا ایک شعبہ تو یہ نبوت کا ٹھہرایا جائے تو کیا اس سے نبوت کا دعوی لازم آ گیا ؟“.(روحانی خزائن جلد 3 ، صفحہ 320-321.ازالہ اوہام حصہ اول ) حضور ” برکات الدعا میں قرآن شریف کی تفسیر کے معیاروں کا ذکر
اسماء المهدی کرتے ہوئے ساتویں معیار کے ماتحت لکھتے ہیں: صفحہ 373 ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفات محد ثین ہیں.اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے.کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نمئی متبوع کا پورا اہمرنگ ہوتا ہے.اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اسکو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں.اور اس پر یقینی طور پر بھی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے.اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام واکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں.سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں.بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سنکر بولتا ہے.اور یہ راہ اس امت کے لئے کھلی ہے.ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے.اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دنیا کے جاہ وجلال اور ننگ و ناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوت ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مُطَهَّرِین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا.بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اسرار نبوت کو اب صرف بطور ایک گزشتہ قصہ کے تسلیم کرنا چاہئے جن کا وجود ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے اور نہ ہو نا ممکن ہے اور نہ ان کا کوئی نمونہ موجود ہے.بات یوں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اسلام زندہ مذہب نہ کہلا سکتا بلکہ اور مذہبوں کی طرح یہ بھی مردہ مذہب ہوتا اور اس صورت میں اعتقاد مسئلہ
اسماء المهدی صفحہ 374 نبوت بھی صرف ایک قصہ ہوتا جس کا گزشتہ قرنوں کی طرف حوالہ دیا جاتا.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت کی یقینی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرینِ وحی کو ساکت کر سکے اسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وحی برنگ محد ثیت ہمیشہ کے لئے جاری رہے.سواس نے ایسا ہی کیا.محدث وہ لوگ ہوتے ہیں جو شرف مکالمہ الہی سے مشرف ہوتے ہیں.اور ان کا جو ہر نفس انبیاء کے جو ہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے.اور وہ خواص عجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء یھم السلام دنیا سے بے وارث ہی گزر گئے اور اب ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا.بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت ان 66 کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے.” اور یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسلام کو مردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا.بلکہ ہمیشہ یقین اور معرفت اور الزام خصم کے طریقوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہے.بھلا تم آپ ہی سوچو کہ اگر کوئی وجی نبوت کا منکر ہو اور یہ کہے کہ ایسا خیال تمہارا سراسر و ہم ہے.تو اس کے منہ بند کرنے والی بجز اس کے نمونہ دکھلانے کے اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے.کیا یہ خوشخبری ہے یا بدخبری کہ آسمانی برکتیں صرف چند سال
اسماء المهدی صفحہ 375 اسلام میں رہیں اور پھر وہ خشک اور مردہ مذہب ہو گیا ؟ اور کیا ایک سچے مذہب کی یہی علامتیں ہونی چاہئیں".(روحانی خزائن جلد 6 ، صفحہ 25-19- برکات الدعا) اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے.اور محدّث بھی ایک معنے سے نبی ہی ہوتا ہے.گو اس کے لئے نبوت تامہ نہیں مگر تا ہم جزئی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے.امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتا ہے اور مغز شریعت اس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکر آتا ہے.اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے کرنے والا ایک حد تک مستوجب سز ا ٹھہرتا ہے.اور نبوت کے معنے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں.اور اگر یہ عذر پیش ہو کہ باب نبوت مسدود ہے اور وحی جو انبیاء پر نازل ہوتی ہے، اس پر مہر لگ چکی ہے.میں کہتا ہوں کہ نہ مِنْ كُلِّ الْوُجُوهِ باب نبوت مسدود ہوا ہے اور نہ ہر ایک طور سے وحی پر مہر لگائی گئی ہے.بلکہ جزئی طور پر وحی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے.مگر اس بات کو بحضور دل یا درکھنا چاہئے کہ یہ نبوت جس کا ہمیشہ کے لئے سلسلہ جاری رہے گا نبوت تامہ نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ میں ابھی بیان
اسماء المهدی صفحہ 376 کر چکا ہوں وہ صرف ایک جزئی نبوت ہے جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کے اسم سے موسوم ہے جو انسان کامل کے اقتداء سے ملتی ہے.جو تجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے یعنی ذات ستودہ صفات حضرت سید ناو مولا نا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم“.(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 60.توضیح مرام) " محدث جو مرسلین میں سے ہے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی.اتنی وہ اس وجہ سے کہ وہ بکتی تابع شریعت رسول اللہ اور مشکوۃ رسالت سے فیض پانے والا ہوتا ہے.اور نبی اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نبیوں کا سا معاملہ اس سے کرتا ہے اور محدث کا وجود انبیاء اور اہم میں بطور برزخ کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.وہ اگر چہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے.اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے.(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 407.ازالہ اوہام حصہ دوم )
اسماء المهدی صفحہ 377 محمد مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ.اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی“.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207.ایک غلطی کا ازالہ ) نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑ کی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلمی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اُس کے جلال کے لئے.اسی لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد گو ہی ملی.گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے.نہ میرے نفس کے رُو سے.اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا ہے“.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 208.ایک غلطی کا ازالہ ) (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ایک غلطی کا ازالہ) بروزی رنگ میں تمام کمالات محمد سمی مع نبوت محمدیہ کے میرے
اسماء المهدی آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں صفحہ 378 میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَالخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں.اور خدا نے آج صلى الله سے ہیں برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے.پس اس طور سے آنحضرت علی کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا.کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا.اور چونکہ میں ظنی طور پر محمد ہوں.پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی.کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی.یعنی بہر حال محمد اللہ ہی نہی رہے نہ اور کوئی.یعنی جب کہ میں بروزی طور آنحضرت ﷺ ہوں.اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212.ایک غلطی کا ازالہ ) وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے در بعض وقت بعض گزشتہ صلحاء کی کوئی ہم شکل روح جو نہایت اتحاد ان
اسماء المهدی صفحہ 379 سے رکھتی ہے دنیا میں آجاتی ہے.اور اس روح کو اس روح سے صرف مناسبت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مستفیض بھی ہوتی ہے.اور اس کا دنیا میں آنا بعینہ اس روح کا دنیا میں آنا شمار کیا جاتا ہے.اس کو متصو فین کی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 10، صفحہ 182.ست بچن ) تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے.یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہو گئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبیین کی مہر ٹوٹ گئی.کیونکہ وجود صلى الله بروزی کوئی الگ وجود نہیں.اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد علی تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دُوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 214.ایک غلطی کا ازالہ ) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو سورۃ الجمعہ کی آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْابِهِمْ کا مصداق قرار دیتے ہوئے خود کو بروز صلى الله قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
اسماء المهدی د, صفحہ 380 وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آنحضرت کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں.اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت کا بروز ہوگا.اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے صلى الله.صلى الله اصحاب کہلائیں گے.اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب صلى الله رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت ہے کے بعد پیدا ہونے والے تھے.جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو نہیں دیکھا.آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا وَ آخَرِيْنَ مِنَ الْأُمَّةِ بلکہ یہ فرمایا وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ.اور ایک ہر ایک جانتا ہے مِنْهُمْ کی ضمیر اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف راجع ہے.لہذا وہی فرقہ مِنْهُمْ میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول موجود ہو کہ جو آنحضرت ﷺ کا بروز ہے.اور خدا تعالیٰ نے آج سے چھمیں برس پہلے میرا نام برا این احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے.اور آنحضرت ﷺ کا بروز مجھے قرار دیا ہے“.صلى الله روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 502 تتمہ حقیقة الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 381 محمد بن عبد اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کا ایک نام محمد بن عبد اللہ بیان فرمایا ہے.چنانچہ اس نام کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: محمد بن عبد اللہ کے آنے سے مقصود یہ ہے کہ جب دنیا ایسی حالت میں ہو جائے گی جو اپنی درستی کے لئے سیاست کی محتاج ہو گی تو اس وقت کوئی شخص مثیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر ظاہر ہوگا.اور یہ ضرور نہیں کہ در حقیقت اس کا نام محمد ابن عبد اللہ ہو.بلکہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک اس کا نام محمد ابن عبد اللہ ہوگا.کیونکہ وہ آنحضرت کا مثیل بن کر آئے گا.صل الله الوسام (روحانی خزائن جلد 3 ، صفحہ 409 - ازالہ اوہام حصہ دوم )
اسماء المهدی صفحہ 382 محمد مصطلح " آج اللہ تعالی نے میرا ایک اور نام رکھا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں.تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا: محمد مصلح ( تذکر طبع چہارم صفحه 471)
اسماء المهدی صفحہ 383 محمد مهدی و عیسی مسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر چہ میں نے بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کردی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں ” عیسی مسیح ہوں اور نیز ” محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ میں درحقیقت حضرت عیسی علیہ السلام ہوں اور نیز در حقیقت حضرت محمدمصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم ہوں.مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعوی کو پیش کیا ہے.اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سچ مچ ان دو بزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں.لیکن واقعی امرایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک زمانہ ایسا ہو گا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا.ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہوگا.دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خونریزیاں ہوں گی.یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا وہ ایسی خونریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے.اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ
اسماء المهدی پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی.چنانچہ وہ یہی زمانہ ہے.وو صفحہ 384 (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 23.ضمیمہ رسالہ جہاد، گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ) پس خدا نے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا اس لئے اس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسی مسیح کی خواور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا.جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجاز آ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے.کیونکہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں.یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چا ہو اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گزرا ہے جس کا نام عیسی مسیح ہے.اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی ان سے نہیں کی بلکہ نیکی کی.اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پا کر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خواور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے.اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے.کیا اس زمانے میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسی مسیح کا اوتار ہے؟ بے شک ضرورت تھی.میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی روحانی شکل اور خو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں“.بسو (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 26-25 ضمیمہ رسالہ جہاد )
اسماء المهدی وو صفحه 385 اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے.اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گزرا ہے جس کا نام محمد اور احمد تھا.خدا کے اس پر بے شمار سلام ہوں.شریعت دو حصوں پر منقسم تھی.دوسرا حصّہ جو بڑا حصّہ ہے یعنی لَا إِله إِلا اللہ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سر چشمہ ہے اس پر حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا.کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا.پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں.اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں.یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور پھر دوسری طرف حقوق خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہئے وہ بیچ ہی ہے.اور اس قدر غلو ہو گیا کہ اگر چہ ان کے نزدیک عقیدہ کے رو سے تین اقنوم ہیں.لیکن عملی طور پر دعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح.یہ دونوں پہلوا تلاف حقوق کے یعنی حق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز کر نا مشکل ہے کہ ان دونوں میں کونسا پہلو اپنے غلو میں انتہائی درجہ تک جا پہنچا ہے.سواس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق العباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام سیح
اسماء المهدی صفحہ 386 رکھا اور مجھے خواور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسی مسیح کا اوتار کر کے بھیجا.ایسا ہی اس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا.اور مجھے تو حید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامعہ محمدی پہنا کر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا.سو میں ان معنوں کر کے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا.جسکے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا اور اسکا خلیفہ اور صدق اور راستبازی کو اختیار کرنے والا.اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد صلى الله مصطفیٰ ﷺ کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطر ت ہدایت یافتہ اور تمام ہرائیوں کا وارث اور اہم ہادی کے پورے عکس کا عمل.سو خدا تعالی کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا.اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے.سو میں ان معنوں کے رو سے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 28-26.ضمیمہ رسالہ جہاد ) عیسی مسیح ومحمد مہدی کا کام " عیسی مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 28 ضمیمہ رسالہ جہاد )
اسماء المهدی صفحه 387 محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی تو حید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں.کیونکہ ہمارے سیّد و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت ، عرب کے بت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی.سوایسا ہی مجھے روح القدس سے مدد دی گئی ہے.وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا.اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر فاران کے پہاڑ پر چپکا ، وہی قادر قد وس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے“.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 29.ضمیمہ رسالہ جہاد ) ” خدا نے اپنے زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے.تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں.دعائیں قبول ہوتی ہیں.پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں.اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں“.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 29 - ضمیمہ رسالہ جہاد ) لَا مَهْدِي إِلَّا عِيْسَىٰ ر مسیح کے مقابل پر جو مہدی کا آنا لکھا ہے اس میں بھی یہ اشارات موجود
اسماء المهدی صفحہ 388 ہیں کہ مہدی بروز کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کا مورد ہوگا.اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کا خُلق میرے خُلق کی طرح ہوگا.اور یہ حدیث کہ لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيْسَىٰ ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کرتی ہے کہ آنے والا ذوالبروزین ہوگا.اور دونوں شاخیں مہدویت اور مسیحیت کی اس میں جمع ہونگی.یعنی اس وجہ سے کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اثر کرے گی مہدی کہلائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہدی تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا.مگر حضرت عیسی اور حضرت موسی مکتوبوں میں بیٹھے تھے.غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی استاد ہوا.اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اقر کہا یعنی پڑھ.اور کسی نے نہیں کہا.اس لئے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی.اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعے سے بھی ہوئے.سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا.سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا.اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی
اسماء المهدی صفحہ 389 انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے.یا کسی مفتر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مہدویت ہے.جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے.اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے اور جس طرح مذکورہ بالا وجہ سے آنے والا مہدی کہلائے گا اسی طرح وہ میسیج بھی کہلائے گا کیونکہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی روحانیت بھی اثر کرے گی.لہذا وہ عیسی ابن مریم بھی کہلائے گا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اپنے خاصہ مہدویت کو اس کے اندر پھونکا.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی روحانیت نے اپنا خاصہ روح اللہ ہونے کا اس کے اندر ڈالا.لصد (روحانی خزائن جلد 14 ، صفحہ 395-393.ایام ا ع ) احادیث میں مہدی کے سپر دامامت کا کام کرنے میں حکمت " پس چونکہ دنیوی برکتیں عیسی صفت انسان کی جیل کو چاہتی تھیں اور روحانی برکتیں محمد صفت انسان کے ظہور کا تقاضا کرتی تھیں.اور خدا وحدت کو پسند کرتا ہے نہ تفرقہ کو، اس لئے اس نے یہ دونوں شانیں ایک ہی انسان میں جمع کر دیں تا دو کا بھیجنا موجب تفرقہ نہ ہو.سو ایک ہی شخص ہے جو ایک اعتبار سے مظہر عیسی علیہ السلام ہے اور دوسرے اعتبار سے مظہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اور یہی سر اس حدیث کا ہے کہ جو لا مَهْدِيَّ إِلَّا عیسیٰ اور یہی سر ہے کہ جو احادیث میں امامت کا کام مہدی کے سپرد
اسماء المهدی صفحہ 390 بیان کیا گیا ہے.اور قتل دجال کا کام مسیح کے سپر دظاہر فرمایا گیا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ امامت امور روحانیہ میں سے ہے جس کا نتیجہ استقامت اور قوت ایمان اور معرفت اور اتباع مرضات الہی ہے جو اخروی برکات میں سے ہے.لہذا اس قسم کی برکت برکات محمدیہ میں سے ہے.اور دجال کی شوکت اور شان کو صویر زمین سے معدوم کرنا جس کو قتل کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ دنیوی برکات میں سے ہے.کیونکر دشمن کی یہ ترقی کو گھٹا کر ایسا کالعدم کر دینا گویا اس کو قتل کر دینا یہ دنیا کے کاموں میں سے ایک قابلِ قدر کام ہے.اور اس قسم کی برکت برکات عیسویہ میں سے ہے.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 405.ایام اصلح ) اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ پیشگوئیوں میں آنے والے مسیح کی نسبت یہ لکھا ہوا تھا کہ وہ دونوں قسم کی برکتیں جسمانی اور روحانی پائے گا.چنانچہ اشارہ کیا گیا تھا کہ روحانی اور غیر فانی برکتیں جو ہدایت کاملہ اور قوت ایمانی کے عطا کرنے اور معارف اور لطائف اور اسرار الہیہ اور علوم حکمیہ کے سکھانے سے مراد ہے.ان کے پانے کے لحاظ سے وہ مہدی کہلائے گا.اور وہ برکتیں چشمہ فیوض محمد یہ سے اس کو ملیں گی.کیونکہ خالص مہدویت بلا آمیزش وسائل ارضیہ صفت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس لئے اس لحاظ سے خدا کے نزدیک اس مجد د کا نام محمد اور احمد ہو گا.اور یہ بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ جو جسمانی اور فانی یعنی دنیوی برکتیں ہیں جو
اسماء المهدی صفحہ 391 ہمیشہ نہیں رہ سکتیں اور محدود اور قابل زوال ہیں.جن سے مراد یہ ہے کہ دوستوں اور غریبوں اور مسکینوں اور رجوع کرنیوالوں کی نسبت ان کی صحت اور عافیت یا کامیابی اور امن یا فقر و فاقہ سے مخلصی اور سلامتی کے بارہ میں برکات عطا کرنا اور ظالم درندوں کی نسبت ان کی ہلاکت اور تباہی کے بارہ میں جو درحقیقت غریبوں اور نیکوں کی نسبت وہ بھی برکات ہیں قہر الہی کی بشارت دینا جیسا کہ حضرت مسیح نے یہودیوں کی تباہی کی نسبت بشارت دی تھی.ان برکات کے عطا کرنے کے لحاظ سے اور نیز ان دنیوی برکات کے لحاظ سے بھی کہ اس زمانہ میں انسانوں کی زندگی میں بہت سے وسائل آرام پیدا ہوجائیں گے وہ عیسی ابن مریم کہلائے گا.کیونکہ جو برکات اعلیٰ درجہ کی اور بکثرت حضرت مسیح کو دی گئی تھیں وہ یہی ہیں.اس لئے آخری امام کے لئے ان برکات کا سر چشمہ حضرت مسیح ٹھہرائے گئے.اور چونکہ حقیقت عیسوی یہی ہے اس لئے اس حقیقت کے پانے والے کا نام عیسی بن مریم قرار پایا.جیسا کہ مہدویت کے لحاظ سے جو حقیقت محمد ی تھی اس کا نام مہدی رکھا گیا.س: (روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 398-397.ایام الصلح ) ، اب اگر یہ سوال پیش ہو کہ ہمیں کیونکر معلوم ہو کہ یہ دونوں قسم کی برکتیں جو عیسوی برکت اور محمدی برکت کے نام سے موسوم ہوسکتی ہیں تم میں جو مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کرتے ہو جمع ہیں؟ اور کیونکر ہم صرف دعویٰ کو قبول کر لیں؟“
اسماء المهدی ج: وو صفحه 392 سواس کا جواب یہ ہے کہ ان برکات کو اللہ جل شانہ نے محض اپنے فضل وکرم سے مجھ میں ثابت کر دیا ہے.اور میں بڑے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں ان دونوں قسم کی برکتوں کا جامع ہوں.اور آج تک جونشان آسمانی مجھ سے ظاہر ہوئے ہیں وہ ان دونوں قسم کی برکتوں پر مشتمل ہیں.یہ تو معلوم ہے کہ محمدی برکتیں معارف اور اسرار اور نکات اور کلم جامعہ اور بلاغت اور فصاحت ہے.سو میری کتابوں میں ان برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے، براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی استاد کے جاری کئے ہیں اور جس قدر میں نے اپنی عربیت میں باوجود نہ پڑھنے علم ادب کے بلاغت اور فصاحت کا نمونہ دکھایا ہے اس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں.مگر انصاف کی پابندی کے لئے بہتر ہوگا کہ اول تمام میری کتابیں براہین احمدیہ سے لے کر فریاد در دیعنی کتاب البلاغ تک دیکھ لیں.اور جو کچھ ان میں معارف اور بلاغت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے.اس کو ذہن میں رکھ لیں اور پھر دوسرے لوگوں کی کتابوں کو تلاش کریں.اور مجھ کو دکھلاویں کہ یہ تمام امور دوسرے لوگوں کی کتابوں میں کہاں اور کس جگہ ہیں اور اگر نہ دکھلا سکیں تو پھر یہ امر ثابت ہے کہ محمدی برکتیں اس زمانہ میں خارق عادت کے طور پر مجھ کو عطا کی گئی ہیں.جن کے رو سے مہدی موعود ہونا میرا لازم آتا ہے.کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بغیر انسانی توسط کہ یہ تمام
اسماء المهدی صفحہ 393 برکتیں آنحضرت ﷺ کو عنایت فرمائیں جنکی وجہ سے آپ کا نام مہدی ہوا.یعنی آپ کو بلا واسطہ کسی انسان کے محض خدا کی ہدایت نے یہ کمال بخشا ایسا ہی بغیر انسانی توسط کے یہ روحانی برکتیں مجھ کو عطا کی گئیں اور یہی مہدی موعود کی نشانی اور حقیقت مہدویت ہے.رہیں عیسوی برکتیں جن سے مراد یہ ہے کہ انسانوں کو اپنی دعا اور توجہ سے مشکلات سے رہائی دینا، بیماریوں سے صاف کرنا اور دشمنوں سے خلاصی دینا اور فقر و فاقہ سے چھڑانا اور برکات عامہ دنیوی کے پیدا ہونے کا موجب ہونا ، سو اس میں بھی میں کمال دعوئی سے کہتا ہوں کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے میری ہمت اور توجہ اور دعا سے لوگوں پر برکات ظاہر کی ہیں اس کی نظیر دوسروں میں ہرگز نہیں ملے گی.اور عنقریب خدا تعالیٰ اور بھی بہت سے نمونے ظاہر کرے گا.یہاں تک کہ دشمن کو بھی سخت ناچار ہوکر ماننا پڑے گا.میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ یہ دو قسم کی برکتیں جن کا نام عیسوی برکتیں اور محمدی برکتیں ہیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اس بات کو جانتا ہوں کہ جو دنیا کی مشکلات کے لئے میری دعائیں قبول ہوسکتی ہیں دوسروں کی ہرگز نہیں ہوسکتیں.اور جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہر گز نہیں لکھ سکتا.اگر ایک دنیا جمع ہوکر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی.....مجھے خدا کے فضل سے توفیق دی گئی ہے کہ میں شانِ عیسوی کی طرز سے دنیوی
اسماء المهدی صفحہ 394 برکات کے متعلق کوئی نشان دکھاؤں.یا شانِ محمدی کی طرز سے حقائق و معارف اور نکات اور اسرار شریعت بیان کروں اور میدان بلاغت میں قوت ناطقہ کا گھوڑا دوڑاؤں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اور محض اُسی کے ارادے سے زمین پر بجز میرے ان دونوں نشانوں کا جامع اور کوئی نہیں ہے.اور پہلے سے لکھا گیا تھا کہ ان دونوں نشانوں کا جامع ایک ہی شخص ہو گا جو آخر زمانہ میں پیدا ہوگا اور اس کے وجود کا آدھا حصہ عیسوی شان کا ہوگا اور آدھا حصہ محمد کی شان کا.سو وہی میں ہوں.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 408-405.ایام اسح ) الهام هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلَّه کی تشریح کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اُس نے دو امر کے ساتھ اسے بھیجا ہے.ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے.یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں.اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے.اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے.اور اس طرح پر انہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اس کی تائید کی ہے.اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا.دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی
اسماء المهدی صفحہ 395 بیماروں کو اچھا کرنا ہے.یعنی شریعت کے صد ہا مشکلات اور معضلات حل کر کے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے.پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسی رکھا ہے یعنی بیماریوں کو چنگا کرنے والا.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 356.اربعین نمبر (2) ان دو صفتوں کے ساتھ اس کو اس لئے بھیجا گیا ہے تا کہ وہ دین اسلام کو تمام دینوں پر غالب کر کے دکھاوے.کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر ایک انسان مہدی کے خلعت فاخرہ سے ممتاز نہ ہو.یعنی خدا سے علم لدنی کے ذریعہ حقیقی بصیرت نہ پاوے اور خدا اس کا معلم نہ ہو تو محض معمولی طور پر دین کی واقفیت اور ادیان باطلہ پر اطلاع پانے سے حقیقی نیکی تک نہیں پہنچا سکتا“.(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 357.اربعین نمبر (2) کئی مناسبتوں کے لحاظ سے اس عاجز کا نام مسیح رکھا گیا ہے.ایک یہی کہ بیماروں کو اچھا کرنا.دوسرے سرعت سیر اور سیاحت اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خلاف عادت اس عاجز کی مشرق یا مغرب میں جلد شہرت ہو جائے گی.جیسے بجلی کی روشنی ایک طرف سے نمودار ہو کر دوسری طرف بھی فی الفور اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے.ایسا ہی انشاء اللہ ان دنوں ہوگا.اور ایک معنے مسیح کے صدیق کے بھی ہیں.اور یہ لفظ دجال کے مقابل پر ہے.اور اس کے یہ معنی ہیں کہ دجال کوشش کرے گا کہ جھوٹ غالب ہو.اور مسیح کوشش کرے گا کہ صدق غالب ہو.اور مسیح
اسماء المهدی خلیفہ اللہ کو بھی کہتے ہیں.وو صفحہ 396 (روحانی خزائن جلد 17 ، صفحہ 357 حاشیہ - اربعین نمبر 2) یہ زمانہ جس میں ہم ہیں مسیح کو بھی چاہتا ہے اور مہدی کو بھی.مہدی کو اس لئے کہ اس گندہ زمانہ میں لاحقین کا ربط سابقین سے ٹوٹ گیا ہے.اس لئے ضرور ہے کہ ظاہر ہونے والا آدم کی طرح ظاہر ہو جس کا استاد اور مرشد صرف خدا ہو اور اسی کو دوسرے لفظوں میں مہدی کہتے ہیں.یعنی خاص خدا سے ہدایت پانے والا اور تمام روحانی وجود اسی سے حاصل کرنے والا.اور ان علوم اور معارف کو پھیلانے والا جن سے لوگ بے خبر ہو گئے ہیں.کیونکہ یہ ضروری لازمہ صفت مہدویت ہے کہ گم شدہ علوم اور معارف کو دوبارہ دنیا میں لاوے کیونکہ وہ آدم روحانی ہے.ایسا ہی چاہئے کہ وہ بذریعہ نشانوں کے دوبارہ خدا تعالیٰ پر یقین دلانے والا ہو.اور ایمان جو آسمان پر اٹھ گیا اس کو بذریعہ نشانوں کے دوبارہ لانے والا ہو.کیونکہ یہ بھی ضروری خاصہ صفت مہدویت ہے.وو (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 360-359.اربعین نمبر (2) اور وہ شخص موعود ” مہدی“ کے نام سے بھی اس لئے نامزد کیا گیا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ لوگ اس کو مہدی یعنی ہدایت یافتہ نہیں سمجھیں گے بلکہ کافر بیدین کہیں گے.سو یہ نام پہلے سے بطور ذب اور دفع کے مقرر کیا گیا.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مذمت کرنے والوں کے رڈ کے لئے محمد رکھا گیا.تا اس بات کی طرف اشارہ ہو
اسماء المهدی صفحہ 397 کہ اس قابل تعریف نبی کی شریر اور خبیث لوگ مذمت کریں گے.مگر وہ محمد ہے.(روحانی خزائن جلد 11، صفحہ 296، انجام آتھم ) ” مہدی کے نام کی وجہ جیسا کہ روایت کیا گیا ہے یہ ہے کہ وہ علم کو علماء سے نہیں لے گا.اور خدا تعالیٰ کے پاس سے ہدایت پائے گا.جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طریق سے ہدایت دی.اس نے محض خدا سے علم اور ہدایت کو پایا.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 90- ترجمه عربی عبارت نجم الہدی )
اسماء المهدی صفحہ 398 مدثر يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرْ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ ( تذکر طبع چہارم صفحه 39) ترجمہ : اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ اور ( لوگوں کو آنے والے خطرات سے ) ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر.
اسماء المهدی مَدِينَةُ الْعِلْمِ انْتَ مَدِينَةُ الْعِلْمِ تُو علم کا شہر ہے.صفحہ 399 ( تذکر طبع چہارم صفحه 320)
اسماء المهدی وو إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّر مُذَكِّرْ تو صرف نصیحت دہندہ ہے.صفحہ 400 ( تذکره طبع چہارم صفحه 67)
اسماء المهدی صفحہ 401 دو مر وسلامت مردسه سلامت بر تو اے مرد سلامت“.روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 374.حقیقۃ الوحی ) اے سلامتی والے شخص تیرے لئے سلامتی ہے.” جب لیکھرام قتل کیا گیا تو آریوں کو میری نسبت شک واقع ہو گیا کہ ان کے کسی مرید نے قتل کیا ہے.چنانچہ میری خانہ تلاشی بھی ہوئی اور بعض مولویوں نے اپنی عداوت کی وجہ سے اپنے رسالوں میں یہ شائع کیا کہ پیشگوئی کرنے والے سے لیکھرام کے قتل کی نسبت پوچھنا چاہئے.اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا: سلامت بر تو اے مردِ سلامت.اور وہ اشتہار جس میں یہ الہام تھا شائع کر دیا گیا تب باوجود مخالفوں کی سخت کوشش کے خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی تہمتوں سے مجھے بچالیا.اور ان کے مکر اور فریب اور منصوبوں سے محفوظ رکھا.فالحمد للہ علی ولک روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 374.حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی صفحہ 402 وو مُرسَل وَ يَقُوْلُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلاً، سَنَأْخُذُهُ مِنْ مَّارِن اَوْ خُرْطُ ( تذکر طبع چہارم صفحه 304) دشمن کہتا ہے کہ تو مرسل نہیں.ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا منہ بند کریں گے.
اسماء المهدی صفحہ 403 مریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مریم کا خطاب دیا ہے.اس نام کے ذریعہ آپ کا مقام صدق بیان کیا گیا ہے.پھر اسی نام میں سالہا سال بعد ہونے والے اعتراضات، الزامات اور بہتانوں کی پیشگوئی کی گئی ہے.اور اسی نام کے ذریعہ ان سب کی تردید بھی کی گئی ہے.چنانچہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: اوائل میں اوّل میرا نام خدا تعالیٰ نے مریم رکھا ہے اور فرمایا ہے: یا مَرْيَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ یعنی اے مریم تو اور تیرے وست جنت میں داخل ہو.پھر آگے چل کر کئی صفحوں کے بعد جو ایک مدت پیچھے لکھے گئے تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا: يَا مَرْيَمُ نَفَخْتُ فِيْكَ مِن لَّدُنّى رُوْحَ الصِّدْقِ یعنی اے مریم میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی.پس یہ روح پھونکنا گویا روحانی حمل تھا کیونکہ اس جگہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مریم صدیقہ کی نسبت استعمال کئے گئے تھے.جب مریم صدیقہ میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ اس کو حمل ہو گیا تھا ، جس حمل سے عیسی پیدا ہوا.پس اس جگہ بھی اسی طرح فرمایا کہ تجھ میں روح پھونکی گئی گویا یہ ایک روحانی حمل تھا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 110.براہین احمدیہ پنجم )
اسماء المهدی وو صفحه 404 ” خدا نے سورہ فاتحہ میں آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بشارت دی کہ اس امت کے بعض افراد انبیاء گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے.نہ یہ کہ نرے یہود ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں.اسی کی طرف سورۃ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض افراد امت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے جس نے پارسائی اختیار کی.تب اس کے رحم میں میسی کی روح پھونکی گئی اور عیسی اس سے پیدا ہوا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس امت میں ایک شخص ہوگا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اس کو ملے گا پھر اس میں عیسی کی روح پھونکی جاوے گی.تب مریم میں سے عیسی نکل آئے گا.یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسی ہونے کا بچہ دیا اور اس طرح پر وہ ابن مریم کہلائے گا.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 48 - کشتی نوح) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نزدیک مریم نام دینے میں حکمت مولوی محمد حسین بٹالوی ” براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے مریم نام دینے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں جو آپ کو يَا مَرْيَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَ
اسماء المهدی زَوْجُكَ الْجَنَّةَ کے الہام میں دیا گیا ہے کہ : صفحه 405 الهام يَا مَرْيَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ الہام میں لفظ مریم سے مؤلف مراد ہے جس کو ایک روحانی مناسبت کے سبب سے مریم سے تشبیہ دی گئی ہے.وہ مناسبت یہ ہے کہ جیسے حضرت مریم علیہا السلام بلاشو ہر حامل ہوئی ہیں.چنانچہ ظاہر قرآن کی دلالت ہے اور انجیل میں تو اس پر صاف تصریح ہے، ایسے ہی مؤلف براہین احمدیہ بلا تربیت و صحبت کسی پیر، فقیر، ولی، مرشد کے ربوبیت غیبی سے تربیت پاکر مورد الہامات غیبیہ و علوم لدنیہ ہوئے ہیں.اس تشبیہ کی ایک ادنیٰ مثال نظامی کا یہ شعر ہے جس میں انہوں نے اپنی طبیعت کو مریم سے تشبیہ دی ہے: ضمیرم نه زن بلکه آتش زن ست که مریم صفت بکر آبستن سـت (اشاعة السنة " ریویو براہین احمدیہ نمبر 9 جلد 7 ( جون جولائی اگست 1884ء) صفحہ 280) میرا باطن ” زن ( یعنی انسان کی مادہ نسل ) جیسا نہیں بلکہ ” آتش زن (یعنی بشر مادہ کا نُور ) ہے جس سے مریم صفت کنواری باردار ہوتی ( اور عیسی صفت انسان پیدا کرتی ) ہے.
اسماء المهدی إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ ،، رور اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.صفحہ 406 ( تذکر طبع چہارم صفحه 630 )
اسماء المهدی صفحہ 407 مسیح الحق يَا مَسِيحَ الْحَقِّ عَدْوَانَا“ ( تذکر طبع دوم صفحه 437) دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 228 حاشیہ ) اے مسیح حق ہماری جلد خبر لے اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا
اسماء المهدی صفحہ 408 وو مسيح الخلق مدت ہوئی کہ پہلے اس سے طاعون کے بارے میں حكايةً عن الغير خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی یا مَسِيحَ الْحَقِّ عَدْوَانَا مَگر آج 21 اپریل 1902 ء ہے.اُسی الہام کو پھر اس طرح فرمایا گیا.يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا لَن تَرَى مِنْ بَعْدُ مَوَادَّنَا وَ فَسَادَنَا.یعنی اے خدا کے مسیح جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہماری جلد خبر لے.اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا.تو اس کے بعد ہمارے خبیث مادوں کو نہیں دیکھے گا اور نہ ہمارا فساد کچھ فساد باقی رہے گا.“ ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 346) دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 228 حاشیہ ) يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا یعنی اے خلقت کے لئے مسیح ہماری متعدی بیماریوں کے لئے توجہ کر “ 66 (روحانی خزائن جلد 12 - سراج منیر.پیشگوئی نمبر 18 ص 70)
اسماء المهدی صفحہ 409 مسیح السماء حضرت مسیح موعود علماء اور خصوصاً مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ علوم روحانی اور اسرار نہانی اسی شخص پر کھولے جاتے ہیں جو آسمان سے آتا ہے اور وہ صحیح السماء کہلاتا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: اپنے منہ سے کوئی مرتبہ انسان کو نہیں مل سکتا جب تک آسمانی نور اس کے ساتھ نہ ہو.اور جس علم کے ساتھ آسمانی نور نہیں وہ علم نہیں ، وہ جہل ہے.وہ روشنی نہیں وہ ظلمت ہے.وہ مغز نہیں وہ اُستخواں ہے.ہمارا دین (یعنی اسلام.ناقل ) آسمان سے آیا ہے.اور وہی اس کو سمجھتا ہے جو وہ بھی آسمان سے ہی آیا ہو.کیا خدا تعالیٰ نے نہیں فرمایا لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.میں قبول نہیں کروں گا اور ہر گز نہیں مانوں گا کہ آسمانی علوم اور ان کے اندرونی بھید اور ان کے تہ در تہ چھپے ہوئے اسرار ز مینی لوگوں کو خود بخود آ سکتے ہیں.زمینی لوگ دَابَّةُ الْأَرْضِ ہیں، مسیح السماء نہیں ہیں.مسیح السماء آسمان سے اترتا ہے اور اس کا خیال آسمان کو سح کر کے آتا ہے اور روح القدس اس پر نازل ہوتا ہے اس لئے وہ آسمانی روشنی ساتھ رکھتا ہے.لیکن دابَّةُ الأَرْضِ کے ساتھ زمین کی غلاظتیں ہوتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 573 - ازالہ اوہام.حصہ دوم )
اسماء المهدی صفحہ 410 يَا مَسِيحَ اللَّهِ عَدْوَانَا“ مسیح الله اے اللہ کے مسیح ہماری شفاعت کر.( تذکر طبع چہارم - صفحه 635 و مسیح کے نام کی وجہ جیسا کہ روایت کی گئی ہے یہ ہے کہ وہ دین کی اشاعت کے لئے تلوار اور نیزہ سے کام نہیں لے گا بلکہ تمام مدار اُس کا آسمانی برکتوں کے چھونے پر ہوگا.اور اس کا حربہ قسم قسم کی تفرع اور دعا ہوگی.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 92-91.ترجمہ عربی عبارت از نجم الھدی) ر مسیح کے لفظ سے مراد احادیث کے رو سے دو مسیح ہیں.ایک مسیح ظالم آخری زمانے میں آنے والا.اور ایک مسیح عادل اُسی زمانہ میں آنے والا.پس وہ شخص جو رڈی طریقوں سے کام چلاتا اور زمین کی ہر ایک ناپا کی کو ذلیل حیلوں کے ساتھ چھوتا اور طرح طرح کی تحریف اور مکر اور تلبیس اور فریب سے کام لے گا اور تمام قسم کے دجل اور فسق سے باطل کی تائید کرے گا.پس وہ مسیح دجال ہے اور کام اس کا تزویر اور گمراہ کرنا ہے.مگر جو شخص اپنا ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے سپر د کرے گا اور قطع اسباب کر کے دعا پر زور ڈالے گا اور اسباب سے مسبب کی طرف دوڑے گا یہاں تک
اسماء المهدی صفحه 411 کہ اپنے تو کل کے ساتھ آسمان کی سطح کو چھولے گا یہ مسیح صدیق ہے اور 6 اسی کا کام حق کی مدد کرنا اور غریق کو بچانا ہے.(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 91-90- حاشیہ، ترجمه عربی عبارت از نجم الھدی)
اسماء المهدی صفحہ 412 وو و, مسیح موعود إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ لِلْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ“ ترجمہ :.ہم نے اسے مسیح موعود کے لئے اتار ہے.( تذکر طبع چہارم - صفحہ 435) إِنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِي يَرْقُبُوْنَهُ وَالْمَهْدِيَّ الْمَسْعُوْدَ الَّذِي يَنْتَظِرُوْنَهُ هُو أَنْتَ ( تذکر طبع چہارم صفحه 209) ترجمہ: یقیناً وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا وہ انتظار کرتے ہیں وہ تو ہے.اور یہ بات ظاہر تھی کہ یہ زمانہ ایمانی اور اعتقادی فتنوں کا زمانہ تھا اور لاکھوں انسان اعتقاد توحید سے برگشتہ ہو کر مخلوق پرستی کی طرف جھک گئے تھے.اور زیادہ تر حصہ مخلوق پرستی کا جس پر زور دیا جاتا تھا.وہ یہی تھا کہ صلیبی نجات کی حمایت میں قلموں اور زبانوں سے وہ کام لیا گیا تھا کہ اگر نسخہ عالم کے تمام صفحات میں تلاش کریں تو تائید باطل میں یہ سرگرمی کسی اور زمانہ میں کبھی ثابت نہیں ہوگی.اور جب کہ صلیبی نجات کے حامیوں کی تحریریں انتہا درجہ کی تیزی تک پہنچی گئی تھیں.اور اسلامی توحید اور نبی عربی ، خیر الرسل علیہ السلام کی عفت اور عزت اور حقانیت اور کتاب اللہ
اسماء المهدی صفحہ 413 قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر کمال ظلم اور تعدی سے حملے کئے گئے تھے.اور وہ بے جا حملے جن کتابوں اور رسالوں اور اخباروں میں کئے گئے ان کی تعداد کی سات کروڑ تک نوبت پہنچ گئی تھی.اور یہ سب کچھ تیرھویں صدی کے ختم ہونے تک ظہور میں آچکا تھا.تو کیا ضرور نہ تھا کہ وہ خدا جس نے فرمایا تھا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ وہ ان بے جا حملوں کے فرو کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر اپنی قدیم سنت کے موافق کوئی آسمانی سلسلہ قائم کرتا ؟ پس اگر یہ سچ ہے کہ ہر ایک مجد دفتن موجودہ کے مناسب حال آنا چاہئے.تو یہ دوسری بات بھی سچی ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد کسرفتن صلیبیہ کے لئے آنا چاہئے تھا.کیونکہ یہی وہ فتن ہیں جن کے لاکھوں دلوں پر خطر ناک اثر پڑے ہیں اور یہی وہ فتن ہیں جن کو اس زمانہ کے تمام فتنوں کی نسبت عظیم الشان کہنا چاہئے.اور جبکہ ثابت ہوا کہ چودھویں صدی کے مجدد کا کام صلیبی فتنوں کا توڑنا اور اس کے حامیوں کے حملوں کا جواب دینا ہے.تو اب طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس مجدد کا یہ کام ہو کہ وہ صلیبی فتنوں کو توڑے اور کسر صلیب کا منصب اپنے ہاتھ میں لے کر حقیقی نجات کی راہ دکھلا دے.اور وہ نجات جو صلیب کی طرف منسوب کی گئی ہے اس کا بطلان ثابت کرے، صلى الله اس مجدد کا کیا نام ہونا چاہئے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ایسے مجدد کا نام مسیح موعود رکھا ہے؟ پس جب کہ زمانہ کی حالت موجودہ ہی بتلا رہی ہے کہ چودھویں صدی کے مجدد کا نام مسیح موعود ہونا چاہئے.یا بہ
اسماء المهدی صفحہ 414 تبدیل الفاظ یوں کہو کہ ایسی صدی کا مسیح موعود ہی مجدد ہو گا جس میں فتنہ صلیبیہ کا جوش و خروش ہو.تو پھر کیوں انکار ہے.“ (روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 256-255.ایام صلح) کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوئی میں غلطی پر ہے تو آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جو آپ کے خیال میں ہے انہیں دنوں میں آسمان سے اتر آوے.کیونکہ میں تو اس وقت موجود ہوں مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں.اور میرے دعوی کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا میں ملزم ٹھہر سکوں.آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اترتے دکھائی دیں.اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دعا قبول ہو جائے گی.کیونکہ اہل حق کی دعا مبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے.لیکن آپ یقینا سمجھیں کہ یہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں.مسیح تو آپکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا.اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہوگی.یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں " سے میسیج کو اترتے نہیں دیکھے گا.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 179 - ازالہ اوہام، حصہ اوّل) یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب
اسماء المهدی صفحه 415 زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا.اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 67.تذکرۃ الشہادتین ) آپ فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں.مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اس کا مرسل اور ا برگزیدہ ہے.اور مجھے کو یہ بھی فرمایا کہ جو سیع کو دیا گیا وہ بوتا بعت نبی علیہ السلام
اسماء المهدی صفحہ 416 تجھ کو دیا گیا ہے.اور تو مسیح موعود ہے.اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور میکسر الصلیب کا مصداق ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 49.حجتہ الاسلام ) سوال: مسیح کا قتل دجال کے علاوہ اور کون سا اہم کام ہے جس کے لئے اس کا آنا ضروری ہے؟ جواب: اگر یہ خیال کیا جائے کہ مسیح دجال کے قتل کرنے کے لئے آئے گا تو یہ خیال نہایت ضعیف اور بودا ہے.کیونکہ صرف ایک کافر کا قتل کرنا کوئی ایسا بڑا کام نہیں جس کے لئے ایک نبی کی ضرورت ہو.خاص کر اس صورت میں کہ کہا گیا ہے کہ اگر مسیح مقتل بھی نہ کرتا تب بھی دجال خود بخو دیکھل کرنا بود ہو جاتا.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مسیح کا آنا اس لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے کہ تا تمام قوموں پر دین اسلام کی سچائی کی حجت پوری کرے تا دنیا کی ساری قوموں پر خدائے تعالیٰ کا الزام وارد ہو جائے.اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ مسیح کے دم سے کا فر مریں گے.یعنی دلائل مدینہ اور براہین قاطعہ کی رُو سے وہ ہلاک ہو جائیں گے.دوسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ اسلام کو غلطیوں اور الحاقاتِ بے جا سے منزہ کر کے وہ تعلیم جو روح اور راستی سے بھری ہوئی ہے خلق اللہ کے سامنے رکھے.
اسماء المهدی صفحه 417 تیسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ ایمانی نور کو دنیا کی تمام قوموں کے مستعد دلوں کو بخشے.اور منافقوں کو مخلصوں سے الگ کر دیوے.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 132 - 131 - ازالہ اوہام حصہ اول) سوال اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اگر اسی امت میں سے کسی مسیح نے پیدا ہونا تھا تو وہ آپ ہی سچے موعود ہیں؟ وو جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ ہر یک انسان اپنے کاموں سے شناخت کیا جاتا ہے.ہر چند عوام کی نظر میں یہ دقیق اور غامض بات ہے لیکن زیرک لوگ اس کو خوب جانتے ہیں کہ ایسے مامور من اللہ کی صداقت کا اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت ممکن نہیں کہ جس خدمت کے لئے اس کا دعوی ہے کہ اس کے بجالانے کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر وہ اس خدمت کو ایسی طرز پسندیدہ اور طریق برگزیدہ سے ادا کر دیوے جو دوسرے اس کے شریک نہ ہو سکیں تو یقینا سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دعویٰ 66 میں سچا تھا.کیونکہ ہر یک چیز اپنی علت غائی سے شناخت کی جاتی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 398.ازالہ اوہام حصہ دوم ) جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ مسیح موعود کا سب سے بڑا کام صلیبی فتنہ کو توڑنا اور اس کے حامیوں کے حملہ کا جواب دینا تھا.اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ مقصد پورا ہو گیا ہے یا نہیں.ہم ذیل میں ایک مخالف احمدیت کا اقرار درج کرتے ہیں.
اسماء المهدی صفحہ 418 حضرت شاہ رفیع الدین صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب کے دونوں تر جموں والے قرآن کے ناشر مولوی نور محمد صاحب نے اس کے دیباچہ میں واضح اقرار کیا ہے کہ بانی جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود نے عیسائیوں کو شکست دی ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.اسلام کی سیرت واحکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ نا کام ثابت ہوا.کیونکہ احکام اسلام وسیرت رسول اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے.پس الزامی و عقلی و عقلی جوابوں.وں سے ہار گیا مگر حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفر ائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کرلو.اس ترکیب سے اس نے لیفر ائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اسی ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے
اسماء المهدی کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ حضور فرماتے ہیں.صفحہ 419 دیباچہ معجز نما کلال قرآن شریف.مترجم مطبوعہ 1934 ، صفحہ 30) کیوں عجب کرتے ہو گر میں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ باد بہار س: آسماں دعوت حق کے لئے ایک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمه توحید پر از جانشار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 131 ، براہین احمدیہ حصہ پنجم ) جبکہ ہم مسلمان ہیں.کلمہ ، نماز ، روزہ اور دوسرے احکام اسلام کی پیروی کرتے ہیں.اور اگر مسیح ناصری کو بھی وفات یافتہ مانتے تو پھر ہمیں کسی مسیح موعود یا کسی اور کے ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ج: دو یادر ہے کہ اس خیال کے لوگ سخت غلطی میں ہیں.اول تو وہ مسلمان
اسماء المهدی صفحہ 420 ہونے کا دعوی کیونکر کر سکتے ہیں جبکہ وہ خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتے.حکم تو یہ تھا کہ جب وہ امام موعود ظاہر ہو تو تم بلا توقف اس کی طرف دوڑو.اور اگر برف پر گھٹنوں کے بل بھی چلنا پڑے تب بھی اپنے تئیں اس تک پہنچاؤ.لیکن اس کے برخلاف اب لا پرواہی ظاہر کی جاتی ہے.کیا یہی اسلام ہے؟.اور یہی مسلمانی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 220 لیکچر سیالکوٹ) پس یہ نہایت مغرورانہ خیال ہے کہ کوئی یہ کہے کہ مجھے خدا کے نبیوں اور رسولوں کی ضرورت نہیں اور نہ کچھ حاجت.یہ سلپ ایمان کی نشانی ہے.اور ایسے خیال والا انسان اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے.جبکہ وہ کہتا ہے کہ کیا میں نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا یا کلمہ گونہیں ہوں.چونکہ وہ بچے ایمان اور بچے ذوق وشوق سے بے خبر ہے اس لئے ایسا کہتا ہے.اس کو سوچنا چاہئے کہ گو انسان کو خدا ہی پیدا کرتا ہے.مگر کس طرح اس نے ایک انسان کو دوسرے انسان کی پیدائش کا سبب بنا دیا ہے.پس جس طرح جسمانی سلسلہ میں جسمانی باپ ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی روحانی سلسلہ میں روحانی باپ بھی ہیں جن سے روحانی پیدائش ہوتی ہے.ہوشیار رہو اور اپنے تئیں صرف ظاہری صورت اسلام سے دھوکا مت دو.اور خدا کی کلام کو غور سے پڑھو کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے.66 (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 227.لیکچر سیالکوٹ)
اسماء المهدی مصلح صفحہ 421 إِنّى صَدُوقٌ مُصْلِحْ مُتَرَدِّمُ سَمٌ مُعَادَاتِي وَسِلْمِي أَسْلَمُ میں صادق اور مصلح ہوں اور میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے.(روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 221 ، مجھے اللہ ) حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :- " جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھنچتے ہیں.پس ان آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسان کے قومی میں خود بخود مذہب کی تلشیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہو گی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے.کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں.اور وہ حرکت حسب استعداد طبائع دو قسم کی ہوتی ہے.حرکت تامہ اور حرکت ناقصہ.حرکت تامہ وہ حرکت ہے جو روح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیز کر کے رو بحق کر دیتی ہے.اور حرکت ناقصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیز ہو جاتا ہے.مگر
اسماء المهدی صفحه 422 بباعث عدم سلامت استعداد کے وہ روبحق نہیں ہوسکتا.بلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتا ہے کہ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًد یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اس شخص کی پہلی حالت سے بدتر ہو جاتی ہے.جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہوتا رہا کہ جب ان کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا تو ملائکہ کی اندرونی تحریک سے ہر ایک طبیعت عام طور پر جنبش میں آگئی.تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے.وہ ان راستبازوں کی طرف کھنچے چلے ہوئے.اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خواب غفلت سے تو جاگ اٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے.لیکن بباعث نقصان استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے.سوفعل ملائک کا جور بانی مصلح کے ساتھ اترتے ہیں ہر ایک انسان پر ہوتا ہے.لیکن اس فعل کا نیکوں پر ٹیک اثر اور بدوں پر بداثر پڑتا ہے.باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید و در شوره بوم خس (روحانی خزائن جدید ایڈیشن جلد 3 صفحہ 157-155 - ازالہ اوہام جلد اول) طبعا بارش تو رطوبت پہنچانے میں نا مساعد نہیں ، یہ باغ ہے کہ اس میں پھول کھلتے اور بنجر زمین میں خار دار جھاڑیاں اُگتی ہیں.
اسماء المهدی روحانی مصلح کے چار اوصاف صفحہ 423 حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر ایک مصلح، ریفارمر، ولی، نبی میں چار باتوں کا ہونا ضروری ہے.اول :- اس میں ایک بصیرت ہو.جس سے وہ علمی مسائل کو ایسے رنگ میں پیش کرے جس سے سنے والوں کو ایک لذت حاصل ہو.کیونکہ نامعقول بات سے انسان کے دل میں ایک خلش رہتی ہے اور معقول بات خوامخواہ پسندیدہ ہوتی ہے اور اس میں ایک لذت ہوتی ہے.جیسا کہ شربت میں طبعا ایک لذت محسوس ہوتی ہے.دوم :- یہ کہ اس میں ایک عملی طاقت ہو.خود عالم باعمل ہو.صدق ، وفا اور شجاعت اس میں پائی جاتی ہو.کیونکہ جو شخص خود عمل کرنے والا نہیں اس کا اثر دوسروں پر ہرگز نہیں ہوسکتا.سوم : - یہ کہ اس میں کشش ہو.کوئی نبی نہیں جس میں قوت جاذبہ نہ ہو.ہر ایک مامور کو ایک قوت جاذ بہ عطا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور لوگ اس کی طرف کھنچے ہوئے چلے آتے ہیں.چہارم : - یہ کہ وہ خوارق اور کرامات دکھائے اور نشانات کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان کو پختہ کرے.(اس کی مزید تفصیلات ”امام“ کے عنوان کے تحت بیان ہو چکی ہیں.)
اسماء المهدی صفحہ 424 أَنْتَ مُصِيْبٌ تو راہ صواب پر ہے.مُصِيْبٌ ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 148) (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 402)
اسماء المهدی صفحہ 425 مَطَرُ الرَّبيع إِنِّي أَنَا مَطَرُ الرَّبِيعِ وَمَا ادْغَيْتُ بِهَوَى النَّفْسِ بَل أُرْسِلْتُ مِنَ اللهِ البَدِيعِ لِأطَهَّرَ الدُّنْيَا مِنْ أَوْثَانِهَا وَ أُزَكَّيَ النُفُوْسَ مِن الشَّهَوَاتِ وَ شَيْطَانِهَا (روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 648.ضمیمہ حقیقۃ الوحی ) ترجمہ: میں موسم بہار کی بارش ہوں.اور میں نے نفسانی خواہشات کے نتیجہ میں دعوی نہیں کیا بلکہ میں خدائے بدیع کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ دنیا کو اس کے بتوں سے پاک کروں اور نفسوں کو ان کی شہوات اور شیطانوں سے پاک کروں.
اسماء المهدی صفحہ 426 وو مظفر ” اے مظفر تجھ پر سلام ہو.خدا نے تیری بات سن لی.خدا تیرے لئے لڑکا دے گا.“ ( تذکر طبع چہارم صفحه (571) ” اے مظفر تجھ پر سلام ہو.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں.اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں.تادینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہو.“ ( تذکره طبع چہارم صفحه 109 )
اسماء المهدی صفحہ 427 مَظْهَرُ الْآيَات الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنِيْ مَظْهَرَ الْآيَاتِ.اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا.“ (روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 165 - حجۃ اللہ ) سید نا حضرت مہدی معہود کو اللہ تعالیٰ نے دین حق یعنی اسلام کے غلبہ کو ادیان باطلہ پر ثابت کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ.(سورہ الصف آیت نمبر 10) کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور سچا دین دے کر بھیجا ہے.تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے.خواہ مشرک کتنا ہی نا پسند کریں.اس غلبہ کے متعلق تمام علماء ومفسرین شیعہ دوستی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ موعود غلبہ مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا.وہ غلبہ کس طرح ہوگا ؟ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ طاقت و تلوار سے ہوگا.لیکن سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ غلبہ نشانات کے ذریعہ ہوگا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:- در حقیقت دین وہی دین ہے جس کے ساتھ سلسلہ معجزات اور نشانوں کا ہمیشہ رہے.تا اس دین کے پیرو کو بہت آسانی اور سہولت سے سمجھ آجائے
اسماء المهدی صفحہ 428 کہ خدا موجود ہے.لیکن جس دین میں خدا کے نشانوں کے ذکر کرنے کے وقت صرف قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت کیونکر حاصل ہو؟ دوستو ! خدا کے تازہ بتازہ نشانوں میں عجیب لذت ہے.اس لذت کی کیفیت ہم کیونکر بیان کر سکتے ہیں.وہ کس قدر ایمان کی ترقی کا وقت ہوتا ہے جبکہ خدا کوئی غیب کی خبر ہمیں بتلا کر ثابت کرتا ہے کہ میں موجود ہوں اور ساتھ کسی مشکل کو حل کر کے ظاہر کرتا ہے کہ میں قادر ہوں.اور ہمارے دشمن کو ہلاک کر کے اپنی وحی سے ہمیں مطلع کرتا ہے کہ میں تمہارا مؤید اور مددگار ہوں.اور ہمارے دوستوں کی نسبت ہماری دعائیں قبول کر کے ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں.66 (روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 335.چشمہ معرفت ) اس کے بعد چند پیشگوئیوں کا ذکر کرنے کے بعد جو دوستوں دشمنوں سے تعلق رکھتی ہیں ، آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ خدا کے نشان ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں.اور ایسا کوئی مہینہ کم گذرتا ہے جس میں کوئی آسمانی نشان ظاہر نہ ہو.لیکن یہ اس لئے نہیں کہ میری روح میں تمام روحوں سے زیادہ نیکی اور پاکیزگی ہے.بلکہ اس لئے ہے کہ خدا نے اس زمانہ میں ارادہ کیا ہے کہ اسلام جس نے دشمنوں کے ہاتھ سے بہت صدمات اٹھائے ہیں وہ اب سرِ نو تازہ کیا جائے.اور خدا کے نزدیک جو اس کی عزت ہے وہ
اسماء المهدی صفحه 429 آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ظاہر کی جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین دعا کرنے کیلئے ایک طرف کھڑے ہوں.اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا.مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 340-339.چشمہ معرفت ) حضور علیہ السلام اپنی کتاب سراج منیر میں چند ایسے الہامات درج کرنے کے بعد جن میں تائید ونصرت الہی کے وعدے ہیں، تحریر فرماتے ہیں: یہ آسمانی نشانوں کا زمانہ ہے ان الہامات میں نصرت الہی کے پر زور وعدے ہیں.مگر یہ تمام عدد آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگی.وہ لوگ ظالم اور ناسمجھ اور بیوقوف ہیں جو ایسا خیال کرتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی موعود تلوار لے کر آئے گا.نبوت کے نوشتے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں تلواروں سے نہیں بلکہ آسمانی نشانوں سے دلوں کو فتح کیا جائے گا.اور پہلے بھی تلوار اٹھانا خدا کا مقصد نہ تھا.بلکہ جنہوں نے تلواریں اٹھائیں وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.غرض یہ آسمانی نشانوں کا زمانہ ہے.خونریزیوں کا زمانہ نہیں.“ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 84 - سراج منیر )
اسماء المهدی صفحہ 430 خدا تعالیٰ آسمانی نشانوں کے ساتھ مہدی خلیفہ اللہ کی تائید کرے گا حضور علیہ السلام اپنی کتاب سراج منیر میں ہی پیشگوئیوں اور نشانات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ آثار سابقہ اور احادیث نبویہ میں مہدی آخر زمان کی نسبت یہ لکھا گیا تھا کہ اوائل حال میں اس کو بے دین اور کافر قرار دیا جائے گا.اور لوگ اس سے سخت بغض رکھیں گے.اور مذمت کے ساتھ اس کو یاد کریں گے.اور دجال اور بے ایمان اور کذاب کے نام سے اس کو پکاریں گے.اور یہ سب مولوی ہوں گے.اور اس دن مولویوں سے بدتر زمین پر اس امت میں سے کوئی نہیں ہوگا.سو کچھ مدت ایسا ہوتا رہے گا.پھر خدا آسمانی نشانوں سے اس کی تائید کرے گا.اور اس کے لئے آسمان سے آواز آئے گی کہ یہ خلیفتہ اللہ المہدی ہے.مگر کیا آسمان بولے گا جیسا انسان بولتا ہے؟ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہیبت ناک نشان ظاہر ہوں گے جن سے دل اور کلیجے ہل جائیں گے.تب خدا دلوں کو اس کی محبت کی طرف پھیر دے گا اور اس کی قبولیت زمین میں پھیلا دی جائے گی.یہاں تک کہ کسی جگہ چار آدمی مل کر نہیں بیٹھیں گے جو اس کا ذکر محبت اور ثناء کے ساتھ نہ کرتے ہوں.“ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 10 - سراج منیر )
اسماء المهدی دو صفحہ 431 ہر ایک جو مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے.کیونکہ وہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اس پر حملہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.وہی فرماتا ہے کہ اِنِّيْ مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اِهَا نَتَكَ.یعنی میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے.ایسا شخص خدا تعالیٰ کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں.یہ مت گمان کرو کہ وہ میرے لئے نشانوں کا دکھلانا بس کر دے گا.نہیں بلکہ وہ نشان پر نشان دکھلائے گا اور میرے لئے اپنی وہ گواہیاں دے گا جن سے زمین بھر جائے گی.وہ ہولناک نشان دکھلائے گا اور رعب ناک کام کرے گا.اس نے مدت تک ان حالات کو دیکھا اور صبر کرتا رہا مگر اب وہ اس مینہ کی طرح جو موسم پر ضرور گر جتا ہے گرجے گا.اور شریر روحوں کو اپنے صاعقہ کا مزا چکھائے گا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 101.براہین پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 432 مَظْهَرُ البُرُوْزَيْن سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تبلیغی خط عربی زبان میں علماء عرب، شام، بغداد، عراق اور خراسان وغیرہ کولکھا جس کا نام لـجـة النور ہے.اس میں آپ اپنے آپ کو مَظْهَرُ البُرُوزَيْنِ اور وَارِثَ النَّبِيِّينَ قرار ديت ہیں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں أَمَّا بَعْدُ فَهَذَا مَكْتُوبٌ مِنْ مَظْهَرِ البُرُوْزَيْنِ وَوَارِثِ النَّبِيِّينَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَحَدِ أَبِي الْمَحْمُوْدِ أَحْمَدَ عَافَاهُ اللهُ 66 (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 337 لجبۃ النور ) جن دو نبیوں کا بروز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو قرار دیا ہے.وہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت عیسی ہیں.چنانچہ اس کی قدرے تفصیل حضور کے ذیل کے حوالہ سے ہو جاتی ہے.حضور فرماتے ہیں:.” مہدی آخر الزماں کے لئے جس کا دوسرا نام مسیح موعود بھی ہے بوجہ ذُو الْبُرُوزَيْنِ ہونے کے ان دونوں صفتوں کا کامل طور پر پایا جانا از بس ضروری ہے.کیونکہ جیسا کہ اس آیت (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلُهُ بالْهُدَى...مراد ہے.ناقل ) سے سمجھا جاتا ہے حالت فاسدہ زمانہ کی یہی چاہتی ہے کہ ایسے گندے زمانہ میں جو امام آخرالزمان آوے.وہ خدا سے مہدی ہو اور دینی امور میں کسی اور کا شاگرد نہ ہو.اور نہ کسی کا مرید ہو
اسماء المهدی صفحہ 433 اور عام علوم ومعارف خدا سے پانے والا ہو.نہ علم دین میں کسی کا شاگرد ہو اور نہ امور فقر میں کسی کا مرید.اور ایسا ہی روح پاک مقدس سے تائید یافتہ ہو.اور ان امراض میں سے جود نیا میں پھیلے ہوئے ہیں.ہر ایک قسم کے روحانی مرض کے دور کرنے پر قادر ہو اور ظاہر ہے کہ بعض اشخاص عقلی ابتلاؤں کی وجہ سے مریض ہوتے ہیں اور بعض نقلی ابتلاؤں کی وجہ سے اور عیسی ہونے کے لئے شرط ہے کہ روح القدس سے تائید پاکر ہر ایک بیمار کو اچھا کرے.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 359-358.اربعین نمبر (3)
اسماء المهدی مَظْهَرُ الْحَيِّ“ زندہ خدا کا مظہر.مَظْهَرُ الْحَى صفحہ 434 ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 320)
اسماء المهدی مُعِيْنُ الْحَقِّ أَنْتَ مُصِيْبٌ وَ مُعِيْنٌ لِلْحَقِّ“ تو راہ صواب پر ہے اور حق کا مددگار ہے.صفحہ 435 ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 148)
اسماء المهدی صفحہ 436 مقبول الرحمان مقبول الرحمان“ ( تذکر طبع چہارم - صفحہ 269) حضور علیہ السلام مقبولوں کے اوصاف و کمالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں.بلکہ بڑا معجزہ ان کا استجابت دعا ہی ہے.جب ان کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے.اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا ان کی سنتا ہے.اور اس وقت ان کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے.خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے.کامل مقبولوں کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے.خدا کے نشان تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے مقبول ستائے جاتے ہیں.اور جب حد سے زیادہ ان کو دکھ دیا جاتا ہے تو سمجھو کہ خدا کا نشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ کوئی اپنے پیارے بیٹے سے ایسی محبت نہیں کرے گا جیسا کہ خدا ان لوگوں سے کرتا ہے جو دل و جان سے اس کے ہو جاتے ہیں.وہ ان کے لئے عجائب کام دکھلاتا ہے.اور ایسی اپنی قوت دکھلاتا ہے کہ جیسا ایک سوتا ہوا شیر جاگ اٹھتا ہے.خدا مخفی ہے اور اس کے ظاہر
اسماء المهدی صفحہ 437 کرنے والے یہی لوگ ہیں.وہ ہزاروں پردوں کے اندر ہے اور اس کا چہرہ دکھلانے والی یہی قوم ہے.“ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 21-20.حقیقۃ الوحی ) مقبولوں اور غیر مقبولوں میں فرق تو بہت ہے.جو کسی قدر اس رسالہ (حقیقۃ الوحی.ناقل ) میں بھی تحریر ہو چکا ہے.لیکن آسمانی نشانوں کے رو سے ایک عظیم الشان یہ فرق ہے کہ خدا کے مقبول بندے جو انوار سبحانی میں غرق کئے جاتے اور آتشِ محبت سے ان کی ساری نفسانیت جلائی جاتی ہے.وہ اپنی ہرشان میں کیا با اعتبار کمیت اور کیا با اعتبار کیفیت غیروں پر غالب ہوتے ہیں.اور غیر معمولی طور پر خدا کی تائید اور نصرت کے نشان اس کثرت سے ان کے لئے ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو مجال نہیں ہوتی کہ ان کی نظیر پیش کر سکے.کیونکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں خدا جو مخفی ہے اس کا چہرہ دکھلانے کے لئے وہ کامل مظہر ہوتے ہیں.وہ دنیا کے آگے پوشیدہ خدا کو دکھلاتے ہیں اور خدا انہیں دکھلاتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 22 ، حقیقۃ الوحی) ایک اور جگہ حضور علیہ السلام مقبول الہی کے کمالات اور خدا تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ہزار ہا برکات ان کے ساتھ ہوتی ہیں.اور بصیرت صحیحہ ان کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ دور سے نہیں دیکھتے بلکہ نور کے حلقہ کے اندر داخل کئے جاتے ہیں.اور ان کے دل کو خدا سے ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے.اس لئے
اسماء المهدی صفحہ 438 جس طرح خدا تعالی اپنے لئے یہ امر چاہتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے ایسا ہی ان کے لئے بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کے بندے ان کو شناخت کر لیں.پس اسی غرض سے وہ بڑے بڑے نشان ان کی تائید اور نصرت میں ظاہر کرتا ہے.ہر ایک جو اُن کا مقابلہ کرتا ہے ہلاک ہوتا ہے.ہر ایک.جو اُن سے عداوت کرتا ہے آخر خاک میں ملایا جاتا ہے.اور خدا اُن کی ہر بات میں اور حرکات اور ان کے لباس میں اور مکان میں برکتیں رکھ دیتا ہے.اور ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے.اور زمین اور آسمان کو ان کی خدمت میں لگا دیتا ہے.اور جیسا کہ زمین اور آسمان کی مخلوقات پر نظر ڈال کر ماننا پڑتا ہے کہ ان مصنوعات کا ایک خدا ہے.ایسا ہی ان تمام نصرتوں اور تائیدوں اور نشانوں پر نظر ڈال کر جو ان کے لئے خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے قبول کرنا پڑتا ہے کہ وہ مقبول الہی ہیں.پس وہ اُن تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں.کیونکہ وہ اس کثرت اور صفائی سے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی دوسرا شریک ان کا ہو ہی نہیں سکتا.“ روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 52-51، حقیقۃ الوحی ) ایک سوسال سے زائد تاریخ احمدیت کا ہر ورق اور ہر دن اس امر پر شاہد ہے کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقبول الرحمن تھے.خدا تعالیٰ آپ کی تائید و نصرت کے لئے دوستوں، دشمنوں ، اپنوں، غیروں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے افراد و اقوام میں بے شمار نشانات ظاہر فرما تا رہا.
اسماء المهدی مقبول اور مردود میں فرق معلوم کرنے کا آسان طریق صفحہ 439 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ” نشان آسمانی میں مقبول و مردود میں فرق جاننے اور رفع شک کی آسان صورت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مؤاخذہ الہی سے ڈرتے ہیں وہ بلاتحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور صلى الله آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں.اور ان کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جاویں.کیونکہ یہ فتو ی کوئی نئی بات نہیں.اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہوسکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اول تو بہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں.جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یسین اور دوسری رکعت میں اکیس 21 مرتبہ سورۃ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو 300 مرتبہ درود شریف اور تین سومرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ: اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے.اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیسری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم
اسماء المهدی صفحہ 440 عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدد الوقت ہونے کا دعوی کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود.اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما.تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں.ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے.آمین یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں.لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر.کیونکہ جو شخص پہلے ہی بغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آگئی ہے، اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی برا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے.پس اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.سو اگر تو خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کو بلکلی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا.جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہو گا.سواے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو.اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قومی اور قدیر اور علیم اور
اسماء المهدی صفحہ 441 ہادی مطلق سے مدد چاہو.اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے.آئندہ تمہیں اختیار ہے.“ (روحانی خزائن جلد4،صفحہ 401-400_نشان آسمانی)
اسماء المهدی صفحه 442 مُقَرَّب وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور خدا کا مقرب ہے.( تذکر طبع چہارم، صفحہ 299,296 )
اسماء المهدی صفحہ 443 مَكِيْن إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ أَمِيْنٌ آج تو میرے نزدیک با مر تبہ اور امین ہے.( تذکر طبع چہارم صفحه 62)
اسماء المهدی صفحہ 444 ,, مُلْهَمْ، مُكَلَّم جو شخص دعوی کرے کہ میرے پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے.پھر اس کے ساتھ صد ہانشان ظاہر ہوں.اور ہزاروں قسم کی تائید اور نصرت الہی شامل حال ہو.اور اس کے دشمنوں پر خدا کے کھلے کھلے حملے ہوں.پھر کس کی مجال ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا کہہ سکے.مگر افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ اس بلا میں پھنس جاتے ہیں کہ کوئی حدیث النفس یا شیطانی وسوسہ ان کو پیش آجاتا ہے.تو اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ لیتے ہیں اور فعلی شہادت کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے.“ (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 538-537 - تمہ حقیقت الوحی ) لیکن وہ لوگ جو خدا کے نزدیک مہم اور مسلم کہلاتے ہیں اور مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف رکھتے ہیں اور دعوت خلق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں ان کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح برستے ہیں.اور دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور فعل الہی اپنی کثرت کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں.وہ کلام الہی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 538.تتمہ حقیقۃ الوحی ) وَاللَّهِ إِنِّي قَدْ بُعِثْتُ لِخَيْرِكُم هِ إِنِّي مُلْهَمّ ومُكَلَّمْ (روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 223 - مجھے اللہ )
اسماء المهدی صفحہ 445 بخدا میں تمہاری بھلائی کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.اور بخدا میں مہم اور مُكَلَّم ہوں.
اسماء المهدی صفحہ 446 منادی رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًّا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ (روحانی خزائن جلد اول صفحہ 268- حاشیه در حاشیہ نمبر 1.براہین احمدیہ چہار حصص ) ترجمہ : ( وہ کہیں گے ) اے ہمارے رب یقیناً ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قومی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجودلوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں.کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہوگئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتارہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آئے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں.(روحانی خزائن جلد 13 صفحه 293-291 حاشیہ.کتاب البریہ ) ” خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کوغفلت اور کفر اور
اسماء المهدی صفحہ 447 شرک میں غرق دیکھ کر ، ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا کہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے“.روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ 251.آئینہ کمالات اسلام ) ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور کچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کا ہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غمخوار ہوں گا.اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا.اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ زبانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل وجان تیار ہوں گے.“ روحانی خزائن جلد دوم صفحه 470.سبز اشتہار ) تو بہ کرو اور پاک اور کامل ایمان اپنے دلوں میں پیدا کرو اور ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں میں مت بیٹھو تا تم پر رحم ہو.یہ مت خیال کرو کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر ایک جو بچایا جائے گا اپنے کامل ایمان سے بچایا جائے گا.کیا تم ایک دانہ سے سیر ہو سکتے ہو؟ یا ایک قطرہ پانی کا تمہاری پیاس بجھا سکتا ہے؟ اسی طرح ناقص ایمان تمہاری روح کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.آسمان پر وہی مومن لکھے
اسماء المهدی صفحہ 448 جاتے ہیں جو وفاداری سے اور صدق سے اور کامل استقامت سے اور فی الحقیقت خدا کو سب چیز پر مقدم رکھنے سے اپنے ایمان پر مہر لگاتے 66 ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 549 ) ہیں.ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی ( در شین اردو) انَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي اپنی اولاد کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا :.نجات ان کو عطا کر گندگی ان کو عطا کر بندگی سے برات رہیں خوشحال اور فرخندگی بچانا اے خدا بد وہ زندگی لال سے ہوں میری طرح دیں کے مُنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي ( در مشین اردو)
اسماء المهدی صفحہ 449 إِنَّكَ مِنَ الْمَنْصُوْرِيْنَ تو منصور اور مظفر ہے.مَنْصُور ( تذکر طبع چہارم ، صفحہ 299,296 )
اسماء المهدی صفحہ 450 مُنَوَّرُ اللَّهِ اللہ کا روشن کیا ہوا.منور الله ( تذکر طبع چہارم ، صفحہ 684)
اسماء المهدی أَنَا مَوْتُ الزُّوْرِ مَوْتُ الرُّوْر من موت دروغ بستم صفحہ 451 (روحانی خزائن جلد 16 ، صفحہ 473 - لجبۃ النور )
اسماء المهدی صفحہ 452 " موسیٰ تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحْمْ عَلَيْهِمْ أَنْتَ فِيْهِمْ بِمَنْزِلَةِ مُؤْسَى وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُوْلُوْنَ..موسیٰ نام رکھنے میں پیشگوئی " د یعنی لوگوں سے لطف اور مدارات سے پیش آ.تو ان میں موسیٰ کی طرح ہے.اور ان کی دل آزار باتوں پر صبر کرتا رہ.یعنی موسیٰ بڑا حلیم تھا اور ہمیشہ بنی اسرائیل آئے دن مرتد ہوتے تھے اور موسیٰ پر حملے کرتے اور بعض اوقات کئی بیہودہ الزامات اس پر لگاتے تھے.مگر موسیٰ ہمیشہ صبر کرتا تھا اور ان کا شفیع تھا.موسیٰ ان کو ایک جلتے ہوئے تنور سے نکال لایا اور فرعون کے ہاتھ سے نجات دی.اور موسیٰ نے فرعون کے سامنے بڑے بڑے ہولناک معجزے دکھائے.پس اس نام کے رکھنے میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا.“ فرمایا کہ: (روحانی خزائن جلد 21 ، صفحہ 116.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) اس الہام الہی کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے براہین احمدیہ میں تحریر ”لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر.تو ان میں
اسماء المهدی صفحہ 453 بمنزلہ موسیٰ کے ہے.اور ان کی باتوں پر صبر کر.حضرت موسیٰ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے.”ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہ درجہ بڑھ " صلى الله کر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء علی تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے.چونکہ امت محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں اس لئے الہام متذکرہ بالا میں اس عاجز کی تشبیہ حضرت موسیٰ سے دی گئی.اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداوند کریم اس کی عاجز امت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطبات شریفہ سے یاد فرماتا ہے.“ روحانی خزائن جلد 1 ، صفحہ 605 تا 607، حاشیہ نمبر 3) حضور علیہ السلام اپنا ایک رؤیا بیان فرماتے ہیں :- میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں.اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں.اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے.اور اس کے
اسماء المهدی صفحہ 454 ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے وگاڑیوں ورتھوں کے ہے.اور وہ ہمارے بہت قریب آگیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں.اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں.اور بلند آواز سے چلا تے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے.تو میں نے بلند آواز سے کہا: كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِيْنِ - ( تذکر طبع چہارم ، صفحہ 373) میں کبھی آدم ، کبھی موسیٰ ، کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں ، نسلیں ہیں میری بے شمار ترجمہ: ہرگز نہیں، یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے جو میری راہنمائی فرمائے گا.
اسماء المهدی صفحہ 455 موصوف آنَا الْوَاصِفُ وَالْمَوْصُوْقَ“ "من وصف کننده هستم یعنی تعریف حق کار من است و مرا وصفه کرده شد یعنی درحق من پید بگوئی ها آمده " روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 474 - لجنة النور ) میں وصف بیان کرنے والا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا میرا کام ہے اور میرا وصف بیان کیا گیا ہے یعنی میرے حق میں پیشگوئیاں آئی ہیں.
اسماء المهدی صفحہ 456 مهدی مسعود إِنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِي يَرْقُبُوْنَهُ وَالْمَهْدِيَ الْمَسْعُوْدَ الَّذِي يَنْتَظِرُوْنَهُ هُوَ أَنْتَ “ (روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 275 اتمام الحجّة) یقیناً وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا وہ انتظار کرتے ہیں.وہ تو ہے.
اسماء المهدی صفحہ 457 د, میکائیل دانی ایل نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے.اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں : خدا کی مانند.یہ گویا اس الہام کے مطابق ہے جو براہین احمدیہ میں ہے.انتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ تَوْحِيْدِي وَتَفْرِيْدِى فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ.یعنی تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو.سوجیسا کہ میں اپنی توحید کی شہرت چاہتا ہوں ایسا ہی تجھے دنیا میں مشہور کرونگا.اور ہر ایک جگہ جو میرا نام جائے گا، تیرا نام بھی ساتھ ہوگا.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 61 حاشیہ تحفہ گولڑویہ )
اسماء المهدی صفحہ 458 نبی يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ“ اے نبی ! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلاؤ.نبی کے کیا معنی ہیں؟ ( تذکر طبع چہارم صفحه 631 ) ”نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے.یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں.اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے.جس کے یہ معنے ہیں: خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا." (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210-209.ایک غلطی کا ازالہ ) نبی اور سول میں فرق ” نبی کے معنی لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے، نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی.اور یہ آیت روکتی ہے : لَا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ.اب اگر آ حضرت صلى الله
اسماء المهدی صفحہ 459 کے بعد ان معنوں کی رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اس کو ہم رسول کہیں گے.“ س:- (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 208.ایک غلطی کا ازالہ ) کیا ہر صاحب رویا و کشف یا غیب سے خبر پا کر آئندہ کی خبر دینے والا نبی کے خطاب کا سزاوار ہوگا ؟ ج:- وو اسلام کلام الہی کی صفت کو کبھی معطل نہیں کرتا.اور اسلام کی رو سے جیسا کہ پہلے زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے مکالمہ مخاطبہ کرتا تھا، اب بھی کرتا ہے.اور ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں میں صرف لفظی نزاع ہے.اور وہ یہ کہ ہم خدا کے ان کلمات کو جو نبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں، نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں یعنی اس قدر کہ اس کے زمانہ میں اس کی کوئی نظیر نہ ہو، اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں کیونکہ نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے.“ (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 189 - 188 - چشمه معرفت ) ” میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قلعی بکثرت
اسماء المهدی صفحہ 460 نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو.اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412 - تجلیات الہیہ ) ہر خواب بین کو نبی نہیں کہہ سکتے یا نبی نہیں کہلا سکتا.بلکہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے کثرت شرط ہے جیسا کہ حضور علیہ السلام کے مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُوْلِ(سورۃ الجن: 28.27 ) کہ غیب کا جاننے والا وہی ہے.وہ اپنے غیب پر کسی کو غلبہ نہیں بخشتا مگر ایسے رسول کو جس کو وہ اس کام کے لئے پسند کر لیتا ہے.آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے ” نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت ﷺ پر ختم ہے.اور آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے پایا، نہ
اسماء المهدی صفحہ 461 براہ راست “ (روحانی خزائن جلد 20 ، صفحہ 401 - حاشیہ تجلیات البیه ) میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ و مخاطبہ کیا.اور پھر اسحاق سے اور اسمعیل سے اور یعقوب سے اور یوست صلى الله اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے.اور سب کے بعد ہمارے نبی علی سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی.ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت ﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا.کیونکہ اب بجز محمد سمی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا.اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے.مگر وہی جو پہلے امتی ہو.پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی.میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الہیہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے.اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں.وہی نبوت محمد یہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی.اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور امتی ہوں اس لئے آنجناب کی اس سے کچھ کسر شان نہیں.“ س: (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 412-411 - تجلیات الہیہ ) جبکہ آنحضرت مو مثیل موسیٰ ہیں اور آپکے خلفاء مثیل ے
اسماء المهدی صفحه 462 ج انبیاء بنی اسرائیل ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کر کے پکارا گیا ہے؟ مگر دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا ؟ جبکہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہوجاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا.کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں.اس لئے حکمت الہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور ان کا نام نبی نہ رکھا جائے.اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ نشان ہو.پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے.اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں مسیح موعود کی نبوت ظلمی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے.جیسا کہ ایک وجی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: يَا أَحْمَدُ جُعِلْتَ مُرْسَلًا.اے احمد تو مرسل بنایا گیا.یعنی جیسے کہ تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا ہے حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا.سواسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے.“ صلى الله (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 45.تذکرۃ الشہادتین ) اگر یہ عذر پیش ہو کہ باب نبوت مسدود ہے اور وحی جو انبیاء پر نازل
اسماء المهدی صفحہ 463 ہوتی ہے اس پر مہر لگ چکی ہے.میں کہتا ہوں کہ نہ مِنْ كُلِ الْوُجُوه باب نبوت مسدود ہوا ہے اور نہ ہر ایک طور سے وحی پر مہر لگائی گئی ہے.بلکہ جزئی طور پر وحی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے.مگر اس بات کو بحضور دل یا د رکھنا چاہئے کہ یہ نبوت جس کا ہمیشہ کے لئے سلسلہ جاری رہے گا، نبوت تامہ نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں وہ صرف ایک جزئی نبوت ہے.جو دوسرے لفظوں میں محد ثیت کے اسم سے موسوم ہے جو انسان کامل کے اقتداء سے ملتی ہے جو مستجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے یعنی ذات ستودہ صفات حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ 66 (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 60 - توضیح مرام) " ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یا امر ہے کہ ہمارے سیدو مولی آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے.اور اگر کوئی ایسا دھوٹی کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ابتدا سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے کمالات متعدیہ کے اظہار و اثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے.سو اس طور پر خدا نے میرا نام نبی رکھا.یعنی نبوت محمد یہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہو گئی اور علمی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا
اسماء المهدی تا میں آنحضرت ہے کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں.“ صفحہ 464 (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 340 حاشیہ، چشمه معرفت) امت محمدیہ میں نبی وہی ہو سکتا ہے جو ظل محمد ہو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی آیت مَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ کی تشریح کرتے ہوئے اپنے لیکچر ” اُسوہ حسنہ میں فرماتے ہیں: جو کوئی اللہ اور اس کے اس رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے منعم علیہ گروہ یعنی نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صلحاء میں سے کسی ایک صلى الله میں شامل ہو جاتا ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے کئی درجے ہیں.کبھی کوئی شخص سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلانے لگ جاتا ہے.کبھی کوئی اس سے بھی واضح تصویر محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنے دل پر کھینچ لیتا ہے اور وہ شہید کہلانے لگ جاتا ہے.کبھی کوئی شہید سے بھی زیادہ واضح اور روشن تصویر اپنے آئینہ قلب پر کھینچ لیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدیق بن جاتا ہے.پھر بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس سے بھی آگے ترقی کر جاتا ہے اور وہ خدا کی نگاہ میں نبوت کا مستحق ہو جاتا ہے.پھر کوئی اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے.اور وہ سورہ جمعہ کی آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْابِهِمْ کے مطابق سارے نبیوں کی تصویر میں اپنے اندر لے لیتا ہے اور ظل محمد کہلانے لگ جاتا ہے.پھر جب محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر میں صلى الله
اسماء المهدی صفحہ 465 سے کوئی شخص صرف عیسوی تصویر اتار لے تو وہ عیسی بن جاتا ہے.جب ابراهیمی تصویر اتار لے تو ابراہیم بن جاتا ہے.اور جب سارے انبیاء کے نقوش اور ان کی تصویریں اپنے دل پر اتار لیتا ہے تو وہ ظل محمد بن جاتا ہے.اسی لئے امت محمدیہ میں صرف وہی شخص نبی بن سکتا ہے جو ظل محمد ہو.خالی موسیٰ کاظل بنے ، یا خالی عیسی کا ظل بننے سے کوئی نبی نہیں بن سکتا.کیونکہ محمد رسول اللہ علہ ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.اور موسی و عیسی خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوئے.پس جو شخص انبیائے سابقین میں سے کسی ایک نبی کی تصویر اتارتا اور اس کے نقوش اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ بے شک عیسی ثانی بن سکتا ہے ،موسیٰ ثانی بن سکتا ہے مگر وہ امت محمدیہ میں نبی نہیں بن سکتا.وہ ایسا ہی ہوگا جیسے حضرت معین الدین صاحب چشتی نے کہا کہ دمبدم روح القدس انـدر مـعيـنـے دمد من نمی گویم مگر من عیسی ثانی شدم دیوان حضرت معین الدین چشتی ، صفحہ 56) یعنی جبرئیل لحظه به لحظ معین الدین کے اندر آ کر اپنی روح پھونکتا ہے.اس لئے میں تو نہیں کہتا مگر حقیقت یہی ہے کہ میں عیسی ثانی ہو گیا ہوں.پس بے شک کوئی عیسی ثانی بن جائے اس میں کوئی حرج نہیں.مگر محمد رسول اللہ صلى الله کے زمانہ میں عیسی ثانی ہونے سے انسان نبی نہیں بن سکتا.اس زمانے میں انسان نبی تبھی بنتا ہے جب وہ ظل محمد ہو جاتا ہے.“ (اسوہ حسنہ، تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 75-74)
اسماء المهدی س: صفحہ 466 جبکہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہو چکی ہے تو پھر کسی مجد د یا نبی کی کیا ضرورت ہے؟ ج ” ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں.بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجد داور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سُن لیا کہ مسجد داور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں، وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں.یہ بھی یاد رہے کہ دین کی تکمیل اس بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بگھی دستبردار ہو جائے.مثلاً اگر کوئی گھر بنادے اور اس کے تمام کمرے سلیقہ سے تیار کرے اور اس کی تمام ضرورتیں جو عمارت کے متعلق ہیں باحسن وجہ پوری کر دیوے.اور پھر مدت کے بعد اندھیریاں چلیں اور بارشیں ہوں.اور اس گھر کے نقش و نگار پر گردوغبار بیٹھ جاوے اور اس کی خوبصورتی چھپ جاوے.اور پھر اس کا کوئی وارث اس گھر کو صاف اور سفید کرنا چاہے.مگر اس کو منع کر دیا جاوے کہ گھر تو مکمل ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ منع کرنا سراسر حماقت ہے.افسوس کہ ایسے اعتراضات کرنے والے نہیں سوچتے کہ تکمیل شئے دیگر ہے اور
اسماء المهدی وقتا فوقتا ایک مکمل عمارت کی صفائی کرنا یہ اور بات ہے.“ س: صفحه 467 (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 344-339 - شہادۃ القرآن) قرآن کریم جامع جمیع کمالات ہے اور ابتدائے زمانہ میں صلى الله رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین اور مفسرین نے مشکلات کو حل کر دیا ہے.اب کسی نئے معلم کی کیا ضرورت ہے؟ ج: وو اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں.ماسوا اس کے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں.اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں.بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں.اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلمی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 348 - شہادۃ القرآن) " مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے.اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں.سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں،
اسماء المهدی صفحہ 468 ایک مجدد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا.سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے.ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا.اس وقت علماء کی نا کبھی اس کی سد راہ ہوئی.آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لاسکتا.اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں.“ س: روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 36- برکات الدعا) بعض ” جاہل اس جگہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی سچی خواہیں آجاتی ہیں.کبھی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے.کبھی الہام بھی ہو جاتا ہے.پس ہم میں اور رسولوں میں کیا فرق ہے؟“ ج یہ ایک ایسا مغرورانہ خیال ہے جس سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ ہلاک ہورہے ہیں.لیکن طالب حق کے لئے ان اوہام کا صاف جواب ہے اور وہ یہ کہ بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ خدا نے ایک گروہ کو اپنے خاص فضل اور عنایت کے ساتھ برگزیدہ کر کے اپنی روحانی نعمتوں کا بہت سا حصہ ان کو دیا ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ ایسے معاند اور اندھے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام سے منکر رہے ہیں.تاہم خدا کے نبی ان پر غالب آتے رہے ہیں.اور ان کا خارق عادت نور ہمیشہ ایسے طور سے ظاہر ہوتا رہا ہے کہ آخر منظمندوں کو ماننا پڑا ہے کہ ان میں اور ان کے غیروں میں ایک عظیم الشان امتیاز ہے.جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک مفلس گدائی پیشہ کے پاس بھی چند درہم ہوتے ہیں.اور ایک شہنشاہ کے خزائن بھی دراہم
اسماء المهدی صفحہ 469 سے پُر ہوتے ہیں.مگر وہ مفلس نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بادشاہ کے برابر ہوں.یا مثلاً ایک کیڑے میں روشنی ہوتی ہے جو رات کو چمکتا ہے اور آفتاب میں بھی روشنی ہے مگر کیٹر انہیں کہہ سکتا کہ میں آفتاب کے برابر ہوں.اور خدا نے جو عام لوگوں کے نفوس میں رؤیا اور کشف اور الہام کی کچھ کچھ تخم ریزی کی ہے وہ محض اس لئے ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی تجربہ سے انبیاء علیہم السلام کو شناخت کر سکیں.اور اس راہ سے بھی ان پر حجت پوری ہوا اور کوئی عذر باقی نہ رہے.“ س: (روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 226 لیکچر سیالکوٹ) آپ کے دعووں میں تضاد ہے.کبھی اپنے آپ کو غیر نبی اور محدث کہتے رہے اور پھر نبی کہلا نا شروع کر دیا.ج: اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جز کی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی.اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 154 - 153 - حقیقۃ الوحی ) میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں.جب تک مجھے اس
اسماء المهدی صفحہ 470 سے علم نہ ہوا، میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا.اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں.مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں.بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے.“ صلى الله (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154.حقیقۃ الوحی ) یادر ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوی میں نبی کا نام سن کر دھو کا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعوی کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے.لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور میری نبوت آنحضرت ﷺ کی حل ہے نہ کہ اصلی نبوت.اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا، ایسا ہی میرا نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے.“ صلى الله (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154 حاشیہ.حقیقۃ الوحی)
اسماء المهدی صفحہ 471 نذیر دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ ( تذکره طبع چہارم صفحه 81) انبیاء علیہم السلام کی صفات میں سے دوصفات نذیر اور بشیر بھی ہیں.ان دونوں صفات کا تعلق دو قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے.نذیر کا منکروں اور مخالفوں سے جو اپنی شوخی اور شرارت سے باز نہیں آتے.اور بشیر کا ان سے جو اس کے نیچے اور حقیقی پیروکار ہوتے ہیں.بشیر ونذیر دونوں صفات کا ظہور مستقبل میں اس کے دوستوں اور دشمنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے.اور اس مامور کے اس نام کے ذریعہ قبل از وقت بتا دیا جاتا ہے کہ اب اسی دنیا میں اس کے ماننے والوں کی نصرت و تائید ہوگی.اور تکفیر و توہین اور مخالفت و شرارت کرنے والوں کی ذلت ورسوائی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دونوں نام دے کر آپ سے تعلق محبت و اخوت رکھنے والوں اور منکروں اور مخالفوں کے انجام کا اعلان کیا ہے.علاوہ ازیں نذیر نام کے ذریعہ اس زمانہ کی مذہبی حالت کا بھی اظہار کیا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نبی کریم ﷺ کی نذیر صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسماء المهدی.صفحہ 472 نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر نذیر کا لفظ جس کے معنے گنہگاروں اور بدکاروں کو ڈرانا ہے.اسی لفظ سے یقینی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کا یہ دعویٰ تھا کہ تمام دنیا بگڑ گئی.اور ہر ایک نے سچائی اور نیک بختی کا طریق چھوڑ دیا کیونکہ انذار کامل فاسق اور مشرک اور بد کا رہی ہیں.اور انذار اور ڈرانا مجرموں کی تنبیہ کے لئے ہوتا ہے نہ نیک بختوں کے لئے.اس بات کو ہر یک جانتا ہے کہ ہمیشہ سرکشوں اور بے ایمانوں کو ہی ڈرایا جاتا ہے اور سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر.پھر جبکہ ایک نبی تمام دنیا کے لئے نذیر ہوا تو ماننا پڑا کہ تمام دنیا کو نبی کی وحی نے بداعمالیوں میں مبتلا قرار دیا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 337- نورالقرآن نمبر (1) اس مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ کسی کا نذیر ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دنیا میں بد عملی اور بے دینی کا دور دورہ ہے.گویا نذیر نام کے ذریعہ اس زمانہ کی مذہبی حالت بتائی گئی ہے.اور اس کے انجام کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.” حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے.اور شدت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا
اسماء المهدی صفحہ 473 کردیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی.پھر وہ جو تو بہ کریں گے اور گناہوں سے دست کش ہو جائیں گے، خدا ان پر رحم کرے گا.جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانہ کی خبر دی تھی ، ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو.لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور ان راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں، ان کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو میری طرف سے نذیر ہے، میں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکوکاروں سے الگ کئے جائیں.“ نذیر کے لفظ میں ایک پیشگوئی (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 302-303- رسالہ الوصیت ) ظاہر ہے کہ نذیر کا لفظ اسی مرسل کے لئے خدا تعالیٰ استعمال کرتا ہے جس کی تائید میں یہ مقدرہوتا ہے کہ اس کے منکروں پر کوئی عذاب نازل ہوگا.کیونکہ نذیر ڈرانے والے کو کہتے ہیں.اور وہی نبی ڈرانے والا کہلاتا ہے جس کے وقت میں کوئی عذاب نازل ہونا مقدر ہوتا ہے.پس آج سے چھبیس برس پہلے جو براہین احمدیہ میں میرا نام نذیر رکھا گیا ہے.اس میں صاف اشارہ تھا کہ میرے وقت میں عذاب نازل ہوگا.سو اس پیشگوئی کے مطابق طاعون اور زلزلوں کا عذاب نازل ہو گیا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 486 تتمہ حقیقۃ الوحی )
اسماء المهدی چندا نذاری پیشگوئیاں " صفحہ 474 یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ، ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے.اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی شہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قد رسخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا، ایسی تباہی بھی نہیں آئی ہوگی.اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی.اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی.کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے.اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.
اسماء المهدی صفحه 475 اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی.پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے، ظاہر ہو گئے.جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے.یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے ہیں اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا.اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا.اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو یہ کرو تا تم پر
اسماء المهدی صفحہ 476 رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.“ 66 (روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 269-268، حقیقۃ الوحی ) آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ ہو گا یہ کہ تا باندھے ازار یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آب رودبار ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہو کر مست و بیخود راہوار اک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 152-151.براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 477 وو نور قُلْ جَاءَ كُمْ نُوْرٌ مِنَ اللَّهِ فَلَا تَكْفُرُوْا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْن.کہ تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے.پس اگر مومن ہو تو انکا رمت کرو.تو جہان کا نور ہے“.( تذکره طبع چہارم، صفحہ 545) ( تذکر طبع چہارم ، صفحہ 258) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مندرجہ بالا الہامات میں نور نام دیا گیا ہے.حضور علیہ السلام اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہ نُورٌ عَلى نُور میں آنحضرت ﷺ کو نور کہا گیا ہے، نور نام کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نور فائض ہوا نور پر یعنی جبکہ وجو د مبارک حضرت خاتم الانبیاء علی میں کئی نور جمع تھے.سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے، وارد ہو گیا.پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے، تاریکی پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ فیضان کے لئے مناسب شرط ہے.اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں بلکہ نور کونور سے مناسبت ہے.اور حلیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسا ہی فیضانِ نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اس کو اور نور بھی دیا جاتا ہے.اور جس کے پاس کچھ نہیں
اسماء المهدی صفحہ 478 اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے.اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے.اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے.اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے...پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل درجے پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہرگز نہیں پاتا.“ (روحانی خزائن جلد 1 ، صفحہ 198-195 حاشیہ نمبر 11 ، براہین احمدیہ حصہ دوم) ” اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں.اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں.اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدا تعالٰی کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کیلئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں.اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 13 مسیح ہندوستان میں )
اسماء المهدی صفحہ 479 اس تشریح اور وضاحت سے نور نام رکھنے کا فلسفہ یہ معلوم ہوا کہ اس نام کے ذریعہ معترضین کے اس اعتراض کا ازالہ بھی مدنظر ہے جو وہ مدعی وحی نبوت پر ناپا کی ، بداخلاقی ، خدا سے دوری اور عقلی و دماغی پراگندگی کا کرتے رہتے ہیں.گویا نور نام رکھ کر آپ کی پاک اور سلیم فطرت اور آپ پر نازل ہونے والی عظیم الشان الہی برکات اور آپ کے عالی مقام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.نیز نور نام رکھ کر اس زمانہ کی علمی، اخلاقی اور روحانی ظلمت و تاریکی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.کیونکہ نبی نور علی نور کا مصداق ہوتا ہے.اور نور کی ضرورت ظلمت و تاریکی کے وقت ہی ہوتی ہے.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب یہ تمام ظلمات اس نور کے ذریعہ سے کافور ہوں گی.انشاء اللہ.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے اپنے منظوم کلام میں فرمایا.میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار اور فارسی نظم میں فرمایا: (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 145.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) آمدم چون سحـر بلـجـه نـور تا شودت ــود تـيـ زنــــــورم دور (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478.نزول مسیح) میں نور کا ایک طوفان لے کر صبح کی طرح آیا ہوں ، تا کہ یہ اندھیرا میرے نور کی وجہ سے دُور ہو جائے.
اسماء المهدی صفحہ 480 نوح ” خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے.اور میری نسبت فرمایا ہے وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْن....یعنی ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کر دوں گا.خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی.اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے.اس حساب سے اب یہ زمانہ اس وقت پر آپہنچتا ہے جبکہ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یعنی میری آنکھوں کے رو برو اور میرے حکم سے کشتی بنا.وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں.وہ نہ تجھ سے بلکہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھوں پر ہے.یہی بیعت کی کشتی ہے.جو انسانوں کی جان اور ایمان بچانے کے لئے ہے.لیکن بیعت سے مراد وہ بیعت نہیں جو صرف زبان سے ہوتی ہے اور دل اس سے غافل بلکہ روگردان ہے.بیعت کے معنے بیچ دینے کے ہیں.پس جو شخص در حقیقت اپنی جان اور مال اور آبر وکو اس راہ میں بچتا نہیں، میں بیچ بیچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل
اسماء المهدی نہیں.“ صفحہ 481 (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 114-113.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) نوح کی قوم نے بجز غرق کرنے کے معجزہ کے اور کسی نوع کے معجزہ سے حصہ نہ لیا.اور لوط کی قوم نے بجز اس معجزہ کے جو اُن کی زمین زیروز بر کی گئی اور ان پر پتھر برسائے گئے اور کسی معجزہ سے فائدہ نہ اٹھایا.ایسا ہی اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور فرمایا.میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی طبیعتیں نوح کی قوم سے ملتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 20 ،صفحہ 239.لیکچر سیالکوٹ)
اسماء المهدی صفحہ 482 وارث الانبیاء محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الہی سے مشرف ہوتے ہیں.اور ان کا جو ہر نفس انبیاء کے جو ہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے.اور وہ خواص عجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں.تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہوکر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے.اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دنیا سے بے وارث ہی گزر گئے.اور اب ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا.بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت ان کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں.اور اس صدی میں یہ عاجز ہے.66 (روحانی خزائن جلد 6 ، صفحہ 24-23، بركات الدعا)
اسماء المهدی صفحہ 483 واصف اَنَا الْوَاصِفُ وَالْمَوْصُوْقُ“ من وصف کننده هستم یعنی * ننده هستم یعنی تعریف حق است و مرا وصفه کرده شد یعنی درحق من پیر مگوئی " ہا آمده “ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 474 - لجنة النور ) میں وصف بیان کرنے والا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا میرا کام ہے اور میرا وصف بیان کیا گیا ہے یعنی میرے حق میں پیشگوئیاں آئی ہیں.
اسماء المهدی صفحہ 484 رجية أَنْتَ وَجِيَّةٌ فِي حَضْرَتِی.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.( تذکر طبع چہارم صفحه 52) وجیہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لوگوں کے الزاموں ، تکلیف دہ باتوں اور بہتانوں سے بری قرار دیا ہے.جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ و حضرت عیسی کو قرآن میں وجیہ کہہ کر قوم کے الزاموں اور بہتانوں سے بری قرار دیا ہے.اسی الہام میں یہ بھی اشارہ تھا کہ وہ تجھ پر ناپاک حملے کریں گے اور اس خطاب سے ہی آپ کو تسلی دی اور آپ کی عزت افزائی فرمائی کہ ان کے بہتان بے بنیاد ہیں اور آپ کو عزت ملے گی.
اسماء المهدی صفحہ 485 وقار الله سُبْحَانَ اللهِ، اَنْتَ وَقَارُهُ فَكَيْفَ يَتْرُكُكَ“ ( تذکرہ طبع چہارم، صفحہ 319) خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے.اور تو اس کا وقار ہے.پس وہ تجھے کیونکر چھوڑ دے.
اسماء المهدی صفحہ 486 ولی اللہ يَا وَلِيَّ اللَّهِ كُنْتُ لَا أَعْرِفُک.یعنی اے خدا کے ولی ! میں اس سے پہلے تجھے نہ پہچانتی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی اور اس نے یہ کلام کیا کہ میں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تو ولی الرحمان ہے..", (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 229 حاشیہ.دافع البلاء) مَنْ عَادَى وَلِيًّا لِيْ فَكَأَنَّمَا حَرَّمِنَ السَّمَاءِ.جو میرے ولی سے دشمنی کرے گویا وہ آسمان سے گر گیا.“ ( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 623) " آج رات میں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھ کو کہتا ہے کہ تم ولی ہو.میں نے کہا کہ کیونکر.اس نے جواب دیا کہ میں تمہارے ملنے کے لئے آیا تھا.راہ میں دریا تھا.میں نے کہا کہ اگر یہ ولی ہے تو دریا کا یہ کنارہ گر پڑے تبھی وہ گر پڑا.“ ( تذکر طبع چہارم، صفحہ 194) حدیث بیچ میں ہے : وَمَنْ عَادَى وَلِيًّا لِي فَقَدْ أَذَنْتُهُ لِلْحَرْبِ یعنی جو شخص میرے ولی کا دشمن ہو تو میں اس کو متنبہ کرتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا.غرض اہل اصطفاء خدائے تعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں اور اس سے نہایت شدید تعلق رکھتے ہیں.ان کی
اسماء المهدی صفحہ 487 عیب جوئی اور نکتہ چینی میں خیر نہیں ہے.اور ہلاکت کے لئے اس سے کوئی بھی دروازه نزدیک تر نہیں کہ انسان اندھا بن کر محبان اور محبوبانِ الہی کا دشمن ہو جائے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 91.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ زمین نے مجھ سے کلام کیا اور کہا یا ولی اللَّهِ كُنْتُ لَا أَعْرِفُک یعنی اے ولی اللہ میں اس سے پہلے تجھ کو نہیں پہچانتی تھی.زمین سے مراد اس جگہ اہل زمین ہیں.مبارک وہ جو دہشتناک دن سے پہلے مجھ کو قبول کرے کیونکہ وہ امن میں آئے گا.لیکن جو شخص زبر دست نشانوں کے بعد مجھے قبول کرے اس کا ایمان رتی بھی قیمت نہیں رکھتا.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 104-103 - براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 488 ہارون أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ“.یعنی تو میرے دین کی نصرت کرتا ہے.جیسے ہارون موسیٰ کے لئے نصرت کرتا تھا.تو میرے نزدیک بمنزلہ ہارون ہے.( تذکر طبع چہارم - صفحہ 620) اس نام میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت محمد کے دین کا حامی وخدمتگار ظاہر کیا ہے.نہ کہ آنحضرت ﷺ کے مقابل کسی قسم کے نبی ہونے کا.
اسماء المهدی صفحہ 489 يس يسَ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ”اے سردار! تو خدا کا مرسل ہے“.وو ( تذکر طبع چہارم صفحه 562) سید لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا تابع ایک ایسا سواد اعظم ہو جو اپنے دلی جوش اور اپنی طبیعی اطاعت سے اس کے حلقہ بگوش ہوں.سو بادشاہ اور سید میں یہ فرق ہے کہ بادشاہ سیاست قہری اور اپنے قوانین کی سختی سے لوگوں کو مطیع بناتا ہے.اور سید کے تابعین اپنی دلی محبت اور دلی جوش اور دلی تحریک سے خود بخود متابعت کرتے ہیں.اور سچی محبت سے اس کو سید نا کر کے پکارتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 153 حاشیہ منن الرحمان )
اسماء المهدی صفحہ 490 میں یعقوب کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں سکیں ہیں میری بے شمار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 133 - براہین احمدیہ حصہ پنجم )
اسماء المهدی صفحہ 491 یوسف سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یوسف نام بھی رکھا گیا ہے.اور حضور علیہ السلام پر بہت سی وہ آیات نازل کی گئی ہیں جو قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق موجود ہیں.حضور اقدس اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اس جگہ مجھے یوسف قرار دینے سے ایک اور مفید مقصد بھی مد نظر ہے.کہ یوسف نے مصر میں پہنچی کر کئی قسم کی ذلتیں اٹھائی تھیں جو دراصل اس کی ترقی مدارج کی ایک بنیاد تھی.مگر اوائل میں یوسف نادانوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہو گیا تھا اور آخر خدا نے اس کو ایسی عزت دی کہ اس کو اسی ملک کا بادشاہ بنا کر قحط کے دنوں میں وہی لوگ غلام کی طرح اس کے بنادئے جو غلامی کا داغ بھی اس کی طرف منسوب کرتے تھے.پس خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا.اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا.اور روحانی زندگی کے ڈھونڈنے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے.اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی.اور اسی بندہ درگاہ پر جو بول رہا ہے ، ہر ایک نشان کا انعام ہو گا.پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے، وہ اسی بندہ حضرت عالی کی
اسماء المهدی گے.صفحه 492 طرف رجوع کریں گے.اور یوسف کی طرح یہ عزت مجھے اسی توہین کے عوض دی جائے گی بلکہ دی گئی جس تو ہین کو ان دنوں ناقص العقل لوگوں نے کمال تک پہنچایا ہے.اور گو میں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں آیا مگر میرے لئے آسمان پر سلطنت ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی.اور مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کریں (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 103.براہین احمدیہ حصہ پنجم ) خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کر لیں.اور جس طرح یوسف نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کے لئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے.اس طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہو گا.اور جیسا یوسف نے اناج کے ذخیرے سے لوگوں کی جان بچائی تھی.اسی طرح جان بچانے کے لئے خدا نے اس جگہ مجھے ایک روحانی غذا کا مہتم بنایا ہے.جو شخص اس غذا کو سچے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم - صفحه 638) ایک اور جگہ آپ مسیح کی جس کا ایک نام یوسف بھی ہے، علامات خاصہ سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب وہ آئے گا تو : وو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی
اسماء المهدی صفحہ 493 ہوگی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا.اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم وحقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا.بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا.اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی.اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے، اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دئے جائیں گے.“ (روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 142 حاشیہ ازالہ اوہام حصہ اوّل)
اسماء المهدی صفحہ 494
اسماء المهدی صفحہ 495 مخلوق خدا کی طرف سے ملنے والے خطابات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب تریاق القلوب میں دو قسم کے خطابوں کا ذکر کرتے ہیں.اول وہ جو وحی والہام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے.چنانچہ اس کی کسی قدر تفصیل گزشتہ صفحات میں ہم لکھ چکے ہیں.وو دوسری قسم کے خطابوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.” دوسری قسم خطاب کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض نشانوں اور تائیدات کے ذریعہ سے بعض اپنے مقبولین کی اس قدر محبت لوگوں کے دلوں میں ایک دفعہ ڈال دیتا ہے کہ یا تو ان کو جھوٹا اور کافر اور مفتری کہا جاتا ہے.اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں.اور ہر ایک بد عادت اور عیب ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.اور یا ایسا ظہور میں آتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی ایسا پاک نشان ظاہر ہو جاتا ہے جس کی نسبت کوئی انسان کوئی بدظنی نہ کر سکے اور ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکے کہ یہ نشان انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے پاک ہے.اور خاص خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہاتھ سے نکلا ہے.تب ایسا نشان ظاہر ہونے سے ہر ایک سلیم طبیعت بغیر کسی شک وشبہ کے اس انسان کو قبول کر لیتی ہے.اور لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ بات پڑ جاتی ہے کہ یہ شخص در حقیقت سچا ہے.تب لوگ اس الہام کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ
اسماء المهدی صفحہ 496 لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے.اس شخص کو صادق کا خطاب دیدیتے ہیں.اور لوگوں کا یہ خطاب ایسا ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آسمان سے خطاب دیا کیونکہ خدا تعالیٰ آپ ان کے دلوں میں یہ مضمون نازل کرتا ہے 66 کہ لوگ اس کو صادق کہیں.“ (روحانی خزائن جلد 15 ، صفحہ 503-502.تریاق القلوب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے الہامات میں بہت سے خطابات جلیلہ سے نوازا گیا.وہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو اس دوسری قسم کے عظیم الشان خطابات بھی عطا فرمائے اور لوگوں نے آپ کی صداقت کو تسلیم کیا اور آپ کے علو مرتبت کے قائل ہوئے.اپنوں ہی نے نہیں غیروں نے بھی آپ کا بہت سے جلیل القدر خطابات سے تذکرہ کیا.وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ ذیل میں ان خطابات میں سے چند ایک کا انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے.اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹر مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک مضمون میں آپ کا ذکر جن الفاظ میں کیا ان میں سے چیدہ چیدہ الفاظ ذیل میں درج ہیں: بہت بڑا شخص " و مافی کائنات کا مجسمہ" فتح نصیب جنرل“ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 560 جدید ایڈیشن)
اسماء المهدی ” پاکباز مسلمان“ «متقی صفحہ 497 ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 563 جدید ایڈیشن) (1) ” تہذیب النسواں لا ہور میں سید ممتاز علی صاحب امتیاز نے لکھا.,, و, ,, نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ باخبر عالم بلند ہمت مصلح پاک زندگی کا نمونہ ان کی ہدایت ورہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 564 جدید ایڈیشن) (2) اخبار زمیندار‘ لاہور نے لکھا: ” نہایت صالح د متقی بزرگ وو دو بناوٹ اور افتر اسے بری“ پکا مسلمان“ (3) ”البشیر “اٹا وہ نے لکھا: وو ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 564 جدید ایڈیشن) حضرت اقدس اس زمانہ کے نامور مشاہیر میں سے تھے.“ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت کے پیشوا اور امام برحق ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 564 جدید ایڈیشن)
اسماء المهدی وو (4) " علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ علیگڑھ نے لکھا: ,, دو ایک مانے ہوئے مصنف“ اسلام کا ایک بڑا پہلوان (5) ”صادق الاخبار ریواڑی نے لکھا: اولو العزم" " حامی اسلام معین المسلمين فاضل اجل ” عالم بے بدل“ (6) اخبار ” بنگالی کلکتہ نے لکھا: دو صفحہ 498 ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 565 جدید ایڈیشن) ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 565 جدید ایڈیشن) مرزا صاحب مذہب اسلام کے مجد دیتھے.(7) سٹیٹس میں کلکتہ نے لکھا: ایک مشہور مقدس اسلامی واعظ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 568 جدید ایڈیشن) ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 568 جدید ایڈیشن)