Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لجنہ اماء الله
حضرت اسماء بنت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.
حضرت اسماء حضرت اسماء بنت حضرت ابو بکر صدیق ”ذات النطاقین، تیره نبوی ستائیس ماہ صفر کی رات تھی، کفار مکہ قریش کے ہر قبیلے سے ایک ایک نو جوان منتخب کر کے کا شانہ نبوت کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ صبح ہو محمد ﷺ باہر آئیں اور وہ سب یکبارگی حملہ آور ہو کر ( نعوذ باللہ ) حضور ﷺ کا خاتمہ کر دیں.مگر ان بد بختوں کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالی کے حکم پر رات کے پچھلے پہر ہی رسول اللہ اللہ سورۃ لین کی تلاوت کرتے ہوئے ، حضرت ابو بکر صدیق اپنے دوست کے ہمراہ مکہ معظمہ کو الوداع کہہ چکے تھے.صبح ہوئی اور جب انہوں نے رسول خدا اللہ کے بستر اقدس پر حضرت علیؓ کو سوتے دیکھا تو بے حد پریشان ہوئے.ابو جہل اپنے منصوبے کی ناکامی پر غصہ سے پاگل ہو گیا اور سیدھا حضرت ابو بکر کے گھر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا، اندر سے ایک نو جوان لڑکی باہر آئیں.ابو جہل نے پوچھا لڑکی:.تمہارا باپ کدھر ہے؟ وہ بولی:.بخدا مجھے معلوم نہیں.بد زبان اور بد دماغ ابو جہل نے ایک زور دار طماچہ لڑکی کو مارا کہ
حضرت اسماء.2 اُس کے کان کی بالی ٹوٹ گئی.یہ عظیم خاتون جس نے ابو جہل کے قہر و غضب کی بالکل پرواہ نہ کی اور ہجرت کے پر خطر راز کو اپنے دل میں چھپائے رکھا.حضرت ابو بکر صدیقی کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء تھیں.یہ حضرت اسماء ہی تھیں جنہوں نے سفر ہجرت کے لئے کھانا اور دوسرے ضروری امور سرانجام دیئے اور گھر میں موجود اپنے بوڑھے دادا ابوقحافہ تک کو خبر نہ ہونے دی.کھانے کا تھیلہ اور پانی کا مشکیزہ بند کرنے کے لئے جب گھر میں کوئی رہی نہ ملی تو حضرت اسمان نے اپنے کمر کے کپڑے کو جسے نطاق کہتے ہیں پھاڑ کر اس ناشتہ دان کا منہ باندھا.صلى الله حضرت محمد م ہے آپ کی اس عقل مندی پر بہت خوش ہوئے اور انہیں ذات لنطاقین، یعنی دو پٹکوں والی کا محبت آمیز لقب عطا فرمایا.حضرت اسماء کا یہ لقب تا ابد زندہ رہ کر ان کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتا رہے گا.حضرت اسماء بنت ابو بکر کا شمار نہایت بلند مرتبہ صحابیات میں ہوتا ہے.حضرت اسماء ہجرت سے ستائیس برس قبل مکہ میں پیدا ہوئیں.حضرت عبد اللہ بن ابو بکر اُن کے حقیقی بھائی اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بہن تھیں.قبول اسلام کے لحاظ سے بھی حضرت اسماء کو امتیازی حیثیت
حضرت اسماء 3 حاصل تھی.فرشتہ صفت والدہ کے زیر تربیت اُن کے بہت سی خوبیاں ان میں نظر آتی ہیں.آپ اوائل بعثت میں اُس وقت مسلمان ہوئیں جب صرف سترہ افراد خفیہ طور پر ایمان لا چکے تھے.اس طرح ایمان لانے والوں میں اُن کا اٹھارواں نمبر تھا.حضرت اسماء کی شادی حضرت زبیر بن عوام سے ہوئی وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے اور اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری کے بھیجے تھے.حضرت زبیر سولہ برس کی عمر میں ایمان لائے اور اُن کا شمار بھی السابقون الاولون میں ہوتا ہے بلکہ وہ اُن خوش قسمت دس اصحاب میں سے تھے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی.حضرت اسماء کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ علہ ان کے بہنوئی تھے.(1) بعثت کے چوتھے سال جب حکم الہی کے تحت رسول خدا ﷺ نے اعلامیہ تبلیغ کا آغاز فرمایا تو قریش مکہ سیخ پا ہو گئے اور مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کر دی.کمزور اور غریب الوطن صحابہ کرام تو ان کے مظالم کا خصوصی نشانہ تھے ہی، بہت سے صاحب اثر مسلمان افراد بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ رہ سکے.ان میں سے بہت سے مظالم حضرت اسماء نے اپنی آنکھوں سے دیکھے.وہ بیان کرتی ہیں کہ :.
حضرت اسماء 4 صلى الله ایک دن بہت سے مشرکین مسجد حرام میں بیٹھ کر رسول خدا علی کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے تھے کہ آپ ملے وہاں تشریف لے آئے.تمام مشرکین آپ پر جھپٹ پڑے.حضرت ابو بکر کو معلوم ہوا تو دوڑتے ہوئے مسجد حرام پہنچے اور کفار سے کہا:." تمہارا ستیا ناس ہو کہ تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور وہ اپنے رب کی جانب سے واضح دلائل لے کر آیا ہے.مشرکین نے رسول اکرم ﷺ کو چھوڑ دیا اور حضرت ابو بکٹ پر ٹوٹ پڑے اور اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئے.جب انہیں اٹھا کر گھر لائے تو زخموں کی وجہ سے ان کی یہ حالت تھی کہ ہم سر پر جہاں بھی ہاتھ لگاتے تھے بال جھڑ جاتے تھے.“ (2) یہ دور مسلمانوں کے لئے انتہائی کٹھن اور پر آشوب دور تھا.کفار کے مظالم سے تنگ آکر کچھ مسلمانوں نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی.جس کے نتیجے میں باقی مکہ کے رہنے والے مسلمان اور بھی زیر عتاب آگئے.چنانچہ تین سال تک مسلمانوں کے ساتھ مکمل سماجی اور معاشی مقاطعہ جاری رہا.مجبوراً مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر شعب ابی طالب میں پناہ لینی پڑی.یہ سب مظالم تمام مردوخواتین اور بچوں نے بہت ہمت اور صبر کے ساتھ برداشت کئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بیشترب یعنی مدینہ میں
حضرت اسماء 5 صلى الله اسلام کی اشاعت اور سازگار ماحول کے سامان کر دیئے اور رسول اللہ علی کے حکم پر مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی.الله تیره نبوی 27 صفر کو حضور عملے کو ہجرت کا حکم الہی آن پہنچا.چنانچہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ رات کی تاریکی میں مکہ کو الوداع کہا اور غار ثور میں پناہ لی.تین دن وہاں قیام فرمایا جب کفار کی سرگرمیاں قدرے تھم گئیں تو آپ علیہ حضرت ابوبکر ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور رہبر عبداللہ بن اریقط کے ساتھ دو اونٹوں پر سفر کر کے مدینہ منورہ پہنچ گئے.مکہ سے ہجرت میں حضرت ابو بکر صدیق کے خاندان کی خدمات بے حد نمایاں تھیں.آپ کی صاحبزادی حضرت اسماء نے کھانا اور سفر کی دوسری تیاری بے حد ذمہ واری سے سرانجام دی.حضرت اسماء کے بھائی حضرت عبد اللہ بن ابو بکر قریش کی نقل و حرکت کی اطلاعات نہایت راز داری سے رات کو غار ثور میں پہنچ کر دیتے ہے اور رات کو وہاں دودھ پہنچاتے تھے.یہ سب کام اس قدر راز داری اور احتیاط سے انجام پائے کہ قریش کو جو آنحضرت عبہ کی تلاش میں پاگل ہوئے ہوئے تھے بالکل خبر نہ ہوئی اور آپ ہے بخیریت منزل مقصود تک پہنچ گئے.صلى الله صلى الله مدینہ پہنچنے کے چند ماہ بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید اور
حضرت اسماء 6 حضرت رافع کو مکہ بھیجا تا کہ وہ آپ اللہ کے اہل خانہ کو مدینہ لے آئیں.حضرت ابو بکر صدیق نے بھی ان کے ساتھ اپنے صاحبزادے عبداللہ کے نام خط دے کر بھیجا کہ وہ بھی اپنی والدہ حضرت ام رومان، بہنوئی ، حضرت اسماء اور حضرت عائشہ کو ساتھ لے آئیں.چنانچہ یہ بھی مدینہ ہجرت کر گئے.حضرت اسماء کی شادی حضرت زبیر بن عوام سے ہو چکی تھی.حضرت زبیر اُن دنوں تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے.واپسی پر راستے میں حضرت زبیر کی ملاقات رسول اکرم ﷺ اور صلى الله حضرت ابو بکر سے ہوئی اور انہوں نے دونوں کو کچھ کپڑے تحفتاً دیئے.(3) مکہ پہنچ کر حضرت زبیر نے بھی ہجرت کی تیاری کی اور اپنی والدہ حضرت صفیہ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ آگئے.حضرت زبیر نے مدینہ منورہ میں مستقل قیام کیا اور و ہیں، حضرت اسمان کو بلا لیا.ہجرت کے بعد اتفاق سے عرصہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی، تو یہود مدینہ نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ ہمارے جادو کا اثر ہے.چنانچہ انہیں دنوں میں کم ہجری کو حضرت اسمانہ کے بیٹے حضرت عبداللہ پیدا ہوئے گویا ہجرت کے بعد وہ مسلمانوں میں پہلے پیدا ہونے والے بچے تھے.ان کی پیدائش پر مسلمانوں نے بڑی خوشیاں منا ئیں.
حضرت اسماء الله حضرت اسماء بچے کو گود میں لے کر رسولِ خداعیہ کی خدمت میں صلى الله حاضر ہوئیں.آپ ﷺ نے بچے کو اپنی گود مبارک میں لیا ، ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال کر چہائی اور لعاب دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ میں ڈالا اور بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا مانگی.اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے اپنے اس بھانجے کے نام یہ اپنی کنیت ام عبد اللہ " رکھی تھی.(4) قبا میں قیام کے بعد حضرت اسمان نے چند ابتدائی سال بے حد تنگی میں گزارے.اُس زمانے میں حضرت زبیر بہت تنگ دست تھے.اُن کے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تھا.حضور اقدس مے نے انہیں بنو نضیر کے نخلستان میں کچھ زمین عطاء کی وہ اُس میں کاشت کر کے اپنی روزی کا سامان پیدا کرتے تھے.حضرت اسماء نے اس مشکل دور میں اپنے شوہر کا بھر پورساتھ دیا اور ان کے شانہ بشانہ جسمانی مشقت بھی کی.بنو نضیر کی زمین حضرت اسمانا کے گھر سے تین میل دور تھی وہ وہاں سے روزانہ کھجور کی گٹھلیاں اکٹھی کر کے لاتیں اور اُسے کوٹ کر اونٹ کو کھلاتی تھیں، گھوڑے کے لئے گھاس مہیا کرتیں ، پانی بھرتیں ہمشکیزہ پھٹ جاتا تو اُسے میتیں اور اس کے ساتھ گھر کے سبھی کام بھی انجام دیتیں تھیں.(5)
حضرت اسماء 8 اس زمانے میں ایک دن حضرت اسماء گٹھلیوں کا گٹھا سر پر لا دے چلی آرہی تھیں کہ راستے میں حضور اقدس میلے کچھ اصحاب کے ساتھ مل گئے.حضور ﷺ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماءو اس میں سوار ہو جائیں لیکن اسماء شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں اور گھر پہنچ کر حضرت زبیر سے سارا واقعہ بیان کیا.انہوں نے کہا ”سبحان اللہ سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہ آئی لیکن رسول اللہ ﷺ کے اونٹ پر بیٹھنے میں شرم و حیا مانع ہوئی.“ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر نے حضرت اسماء اور حضرت زبیر کو ایک غلام عطا کیا.جس نے گھوڑے اور اونٹ کی نگہداشت سنبھال لی اور حضرت اسماء کی ذمہ داری کم ہوگئی.حضرت اسماء کو غریبوں کے دکھ کا بہت احساس تھا اس لئے آپ اپنا بہت سا مال غریبوں پر خرچ کرتی تھیں ، با وجود اس کے کہ انہوں نے ابتدائی گھریلو زندگی بہت تنگی سے گزاری ، مگر اس تنگی نے اُن کی طبیعت میں سنگدلی پیدا نہیں کی تھی ، رسول خداﷺ کی اس ہدایت کو :.که اسماء ناپ تول کرمت خرچ کرو، ورنہ اللہ تعالی بھی نپی تلی روزی دے گا اپنی زندگی کا مقصد بنالیا اور کھلے دل سے خرچ کرنے لگیں اور اللہ تعالیٰ
حضرت اسماء 9 نے بھی ان کے لئے کشائش اور فراخی کی کے سامان پیدا کر دیے.آسودہ حالی کے باوجود خود سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی، البتہ اپنی دولت کو غریبوں اور حاجت مندوں میں بے دریغ خرچ کرتیں جب کبھی بیمار ہوتیں تو تمام غلاموں کو آزاد کر دیتیں اپنے بچوں کو بھی ہمیشہ ہدایت کیا کرتیں تھیں کہ دولت جمع کرنے کے لئے نہیں بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے، جتنا خرچ کرو گے اتنا ہی وہ آپ کے کام آئے گا.ایک مرتبہ حضور میلے نے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنے کا حکم دیا.تمام صحابہ نے بڑھ چڑھ کر حکم کی تعمیل کی.حضرت اسمانا کے ہاں ایک لونڈی تھی آپ نے اُسے فروخت کر کے رقم صدقہ میں دے دی.ایک مرتبہ ان کی بہن حضرت عائشہ صدیقہ کے ترکہ میں سے ان کے حصے میں ایک جائیداد آئی.جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ ور ہم وصول ہوئے.حضرت اسمانہ نے وہ تمام رقم اپنے غریب اور محتاج رشتہ داروں پر خرچ کر دی.حضرت عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر کسی کو فیاض نہیں دیکھا.(6) آپ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ عائشہ اور والدہ اسماء سے زیادہ گئی اور کریم النفس کسی کو نہیں دیکھا حضرت عائشہ چیزوں کو جمع فرماتی
حضرت اسماء 10 رہتیں اور پھر وہ مستحقین میں خرچ کر دیتیں اور حضرت اسماء کے ہاتھ میں کوئی چیز بھی رکتی نہ تھی.(7) حضرت اسماء نے اپنی سادہ وضع قطع آخری دم تک برقرار رکھی.ان کی زندگی کے آخری دور میں اُن کے بیٹے منذر عراق کی فتح کے بعد لڑائی سے لوٹے تو مال غنیمت کے حصے میں کچھ قیمتی زنانہ کپڑے بھی تھے.انہیں لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اسماء نے یہ کپڑے وصول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا ”بیٹا مجھے تو موٹا کپڑا پسند ہے.چنانچہ منذر ان کے لئے موٹے کپڑے لائے جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لئے.(8) حضرت اسماء دین کے معاملے میں بہت زیادہ جوش رکھتی تھیں.ان کی والدہ قبیلہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر نے انہیں ہجرت سے پہلے طلاق دے دی تھی.آپ اپنی والدہ سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی تھیں.ایک دفعہ ان کے لئے کچھ تھے لے کر ملنے کے لئے آئیں.حضرت اسمانہ نے پسند نہ کیا کہ وہ اپنی مشرک ماں سے تھے قبول کریں یا انہیں اپنے گھر میں ٹھہرائیں.حضرت اسماء نے آنحضرت مع سے عرض کیا."یا رسول اللہ ! میری والدہ میرے گھر آتی ہے کیا میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ فرمایا.”ہاں اپنی والدہ کے ساتھ نیک
حضرت اسماء 11 سلوک کرو.‘ (9) چنانچہ اجازت ملنے پر انہیں اپنے گھر میں ٹھہرایا اور تھے قبول کر لئے.حضرت اسماء بے حد فہم و فراست کی مالک تھیں.ہجرت مدینہ کے موقع پر جب حضرت ابو بکر صدیق کی ہجرت کا علم اُن کے نابینا والد ابو قحافہ کو ہوا.تو حضرت اسماء سے مخاطب ہو کر بولے ”بیٹی ! ابوبکر نے تمہیں دوہری مصیبت میں ڈالا ہے خود بھی چلا گیا اور سارا مال بھی ساتھ لے گیا." حضرت ابو بکر صدیق واقعی ہی گھر میں رکھا ہوا سارا روپیہ ساتھ لے گئے تھے لیکن حضرت اسماء نے بوڑھے اور نا بینا دادا کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور جواب دیا :.نہیں دادا جان انہوں نے ہمارے لئے خیر کثیر چھوڑی ہے 66 اور پھر اُن کو مطمئن کرنے کے لئے ایک کپڑے میں کچھ پتھر ڈالے اور اُسے اُسی جگہ پر رکھ دیا جہاں حضرت ابوبکر صدیق اپنا مال رکھا کرتے تھے اور اس کے بعد وہ ابوقحافہ کا ہاتھ پکڑ کر ادھر لے گئیں اور کہا کہ آپ ہاتھ لگا کر دیکھ لیں ، یہ کیا رکھا ہے.ابو قحافہ نے پوٹلی پر ہاتھ رکھ کر اطمینان کر لیا اور کہا کہ ابوبکر نے اچھا کیا جو تم لوگوں کے لئے رقم چھوڑ گئے.“ (10) حضرت اسماء نے بے حد عبادت گزار اور عابدہ تھیں.کثرت عبادت کی وجہ سے آپ بہت نیک مشہور ہوگئی تھیں اور اکثر لوگ آپ کے
حضرت اسماء 12 پاس دعا کے لئے آیا کرتے تھے.نماز بے انتہا خضوع خشوع سے ادا کرتیں.اُن کے شوہر حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ ” میں ایک مرتبہ اسمان کے پاس سے گزرا تو وہ نماز میں سورۃ طور کی تلاوت کر رہی تھیں جب وہ اس آیت مبارکہ تک پہنچیں مگر اللہ تعالی) نے ہم پر احسان کیا اور ہم کو گرم کو کے عذاب سے بچا لیا.“ تو وہ خدا کے عذاب سے بچنے کی پناہ مانگنے لگی.تو میں کھڑا ہو گیا اور وہ پناہ مانگ رہی تھی.پھر میں بازار کی طرف نکل گیا اور جب واپس آیا تو وہ اسی آیت کو بار بار نماز میں پڑھ رہی تھیں.(11) ایک مرتبہ رسول اکرم یہ کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے متعدد صلى الله صحابیات جن میں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء بھی شامل تھیں آپ علی ہے کی اقتداء میں نماز پڑھ رہی تھیں.حضور اقدس ﷺ نے نماز کو لمبا کر دیا.حضرت اسماء کی صحت کچھ کمزور تھی.تھک کر چور چور ہوگئیں لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں.جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں.چہرے اور سر پر پانی چھڑ کا گیا تو ہوش میں آئیں.(12) حضرت اسماء نے اپنی زندگی میں کئی حج کئے اور پہلا حج سرور الله دو عالم ﷺ کے ساتھ کیا تھا.جس کی تمام تفصیل انہیں یاد تھی.
حضرت اسماء 13 اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماء کو بہت اچھا حافظہ عطا کیا تھا اور آپ کو علم حاصل کرنے کا بھی شوق تھا، اس لئے آپ کا شمار عالم خواتین میں ہوتا تھا.وہ کبھی کبھی اپنے بچپن اور جوانی کے واقعات بڑی صحت کے ساتھ بیان کیا کرتی تھیں.حضرت اسمار ان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے صلى الله کثرت سے حضور اقدس علیہ سے حدیثیں بیان کیں ہیں.اُنہوں نے 58 احادیث بیان فرمائیں اور ان سے پھر بڑے بڑے صحابہ نے بھی.روایت کی.(13) آپ خوابوں کی تعبیر بتانے میں ماہر تھیں اور یہ علم انہوں نے اپنے باپ سے حاصل کیا.آپ نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں.حضور علی اللہ کے وصال کے بعد آپ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ شام کی جہاد میں حصہ لینے کے لئے مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوئیں اور بہت سی دوسری خواتین کی طرح جنگ یرموک میں حصہ لیا.حضور اقدس ﷺ کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے آپ مریضوں کا علاج کرتیں تھیں.حضرت منذ ربنت اسماء بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی بخار کا مریض ان کے پاس آتا تو اس کے لئے دعا کرتیں اور پھر اُس کے سینے پر پانی چھڑکتیں اور اللہ تعالی اسے شفاء دے دیتا.آپ فرمایا کرتیں تھیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے کہ بخار جہنم کی گرمی الله
حضرت اسماء 14 ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر و.حضور اقدس ﷺ کا ایک بجبہ (لمباکوٹ ) حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تھا جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے یہ مبارک جبہ حضرت اسماء کو دے دیا.انہوں نے اسے سر آنکھوں پر رکھا اور جب کوئی بیمار ہو جاتا تو اس بجبہ کو دھو کر اس کا پانی مریض کو پلا دیتیں اور اس کی برکت سے بیمار کو شفاء ہو جاتی.حضرت اسماء کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا.جن کے نام عبداللہ ، عروہ ، منذ ر، عاصم اور بیٹیوں کے نام ام الحسن اور عائشہ تھے.ان بچوں میں سے حضرت عبداللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر نے تاریخ اسلام میں بڑا مقام پیدا کیا.(14) آپ نے سوسال کی عمر میں وفات پائی، مہاجرین و مہاجرات میں سے سب سے آخر میں ان کی وفات ہوئی.حضرت اسماء بنت ابو بکر نے اپنی طویل زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے.وہ تاریخ اسلام کی چند محدود ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے جاہلیت کا دور دیکھا.پورا دور رسالت اور پورا خلافت راشدہ بھی دیکھا.اپنے عظیم بیٹے کا دور عروج بھی دیکھا.اور اُس کی المناک شہادت کا منظر بھی دیکھا.اُن پر بار ہا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن انہوں نے ہر موقع پر
حضرت اسماء 15 بے پناہ عزم واستقلال اور جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا.وہ ان عظیم الشان شخصیات میں سے تھیں جو ہر دور میں مسلمانوں کی راہنمائی کرتی رہیں.حضرت اسماء بنت ابو بکر ” ذات النطاقین، جو اپنے بہت سے فضائل میں مردوں پر بھی سبقت لے گئیں.اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو.
حضرت اسماء 16 حوالہ جات 1 ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 544,545,546) -2 -3 -4 -5 -6 -7 _8 تذ کار صحابیات (صفحہ 181) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 5481-547) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 185) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 549) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 187,188,189) عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 308) تذکار صحابیات (صفحہ 188).عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 310) -10 - ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 547) 11.عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 310) 12- تذ کارِ صحابیات (صفحہ 192) 13.عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 309) 14 - ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 549,551,554)
حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیق (Hadrat Asma bin-te Abubakar Sideeq™") Urdu Published in UK in 2008 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.