Asli Qaseeda

Asli Qaseeda

حضرت نعمت اللہ ولیؒ اور اُن کا اصلی قصیدہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

نواح دہلی میں قریباً آٹھ سو سال قبل نعمت اللہ ولی کے نام سے ایک نہایت باکمال اور صاحب کشف  و کرامات بزرگ گزرے ہیں آپ کے بلند پایہ روحانی کمالات کی لافانی یادگارظہور امام مہدی کے متعلق ایک مشہور قصیدہ ہے جو صدیوں سے زبان زد خلائق چلا آتا ہے اور قریباً سوا سو سال سے شائع شدہ ہے۔ یہ قصیدہ برصغیر میں سب سے پہلے حضرت سید احمد بریلوی (مجدد صدی سیز دہم) کے مرید خاص حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الاربعین فی احوال المہدیین‘‘ میں شائع ہوا تھا جو مصری گنج کلکتہ سے 25 محرم الحرام 1268ہجری بمطابق 21 نومبر 1851ء کو طبع ہوئی تھی۔ اس قصیدہ کے کل 55 اشعار ہیں۔ اس روحانی قصیدہ کو مبہم اور مشکوک بنانے کے لئے پاکستان میں نعمت اللہ ولی کی طرف منسوب کرکے جعلی قصائد عوام الناس کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کے لئے شائع کرنے کی روش چل نکلی تو مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد نے 1972ء میں قمر اسلام پوری کےقلمی نام سے ایک تحقیقی مقالہ تیار کیا جسے مکتبہ جدید پریس لاہور سے طبع کروایا گیا تھا۔ اس ٹھوس علمی پیش کش سے جہاں بہت سے شبہات رفع ہورہے ہیں وہاں مزید تحقیق کی راہیں بھی کھل رہی ہیں۔ نعمت اللہ ولی کا  مکمل تاریخی قصیدہ اس کتاب کے آخر پر مع ترجمہ شائع کردیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت نعم الله ولى اور آن کا اصلی قصیده مولفه قمر اسلام پوری قیمت : 1.20

Page 2

حضرت نعمت الله ولی الله عليه ولی اور اُن کا صلی قصیده

Page 3

حضرت نعمت الله ولى رحمة الله علية اور اُن کا الی قصیده مؤلفه مر اسلام پوری

Page 4

جمله حقوق محفوظ باراول ۶۱۹۷۲ فَاشر محمد حفیظ شامی مکتبہ پاکستان لا ہو رہ كتابت طابع غلام مصطفی علوی کلبه جدید پریس

Page 5

نهي میں کوئی شک نہیں کہ حضرت نعمت اللہ ولی سے س منسوب کرکے جو جعلی قصائد، پاکستانیوں کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کے لئے شائع کئے جا رہے ہیں.ان کے مناسب ردّ کی سخت ضرورت ہے.ہمارے خیال میں موجودہ کتاب کے مؤلف نے اتنا ضرور ثابت کر دیا ہے کہ حضرت نعمت اللہ کے نام سے جو قصائد آج کل مشہور ہیں وہ سراسر وضعی ہیں.البتہ یہی بات اس قصیدے کے بارے میں بھی غالباً کہی جا سکتی ہے جسے انہوں نے اصل اور صحیح قصیدہ قرار دے دیا ہے.بہرحال، اس کتاب کی اشاعت سے جہاں بہت سی غلط فہمیوں کے رفع ہونے کا امکان ہے وہاں اس مسئلے پر مزید مزید تحقیق کی راہیں بھی کھلیں گی.د ناشه

Page 6

Page 7

1 حضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ نواح دہلی میں قریباً آٹھ سو سال قبل نعمت اللہ ولی کے نام سے ایک نہایت با کمال اور صاحب کشف و کرامات بزرگ گزرے ہیں.آپ کے بلند پایہ روحانی کمال است کی لافانی یادگار ظہور امام مہدی سے متعلق ایک مشہور قصیدہ ہے جو صدیوں سے زبان نہ د خلائق چلا آتا ہے اور قریبا سوا سو سال سے شائع شدہ ہے.ا یہ قصیدہ اس برصغیر میں سب سے پہلے حضرت سید احمد بریلوی امجد صدی سیزدہم کے مرید خاص حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کی كتاب " الأربعين في أحوالِ KANGLANGEL " میں شائع ہوا.جو مصری گیج کلکتہ سے ۲۵ محرم الحرام ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۲۱ نومبر ۱۸۵ء کو طبع ہوئی تھی.اس قصیدہ کے پچپن (۵۵) اشعار ہیں.یہ مکمل تاریخی قصیدہ مع ترجمہ اس رسالہ کے آخر میں شامل اشاعت ہے.

Page 8

...قصیت کے الہامی ہونے پر نا قابل تردید آسمانی نشہادت متعدد اندرونی اور خارجی شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت نعمت اللہ ولی کا یہ قصیدہ ایک الہامی قصیدہ ہے.کیونکہ اس میں ظہور مہدی کے لئے جو زمانہ بتایا گیا ہے وہ حدیث نبوی اور صلحائے امات کی پیش گوئیوں کے بالکل مطابق ہے جیسا کہ حدیث میں ہے.الأياتُ بَعد المائتين " (مشکواۃ باب اشراط الساعتہ مشہور حنفی و محدث حضرت ملا علی قاری " فرماتے ہیں: " وَيَحْتَمِلُ أَن تَكُونَ اللام بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ بَعْدَ الله وَهُوَ وَقْتُ ظهور المهدي " الاَنـ د مرقاة شرح مشکواة برحاشیہ مشکواة صدایم مطبوعہ اصبح المطابع دہلی) یعنی NAWAKANGALOWANA کے لفظ میں جو الف لام ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ ایک ہزارہ برس کے بعد دو سو سال گزرنے پر نشانات (مہدی کا ظہور ہو گا اور یہی وقت مہدی کے ظاہر ہونے کا ہے.امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی " تقسیمات الہیہ جلد دوم ص ۱۳۳ پر تحریر فرماتے ہیں:.معلمين بلا جل جلاله أن القيمة قد العربتُ والفهيقي تنا المريح.یعنی میرے رب جل جلالہ نے مجھے سکھایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی کا خروج ہونے کو ہے.

Page 9

١٢٦٨هـ حضرت شاہ صاحب نے ظہور مہدی کی تاریخ لفظ " چراغ دین" سے نکالی اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی کتاب "سیف مسلول میں فرمایا کہ امام مہدی کا ظہور علماء ظاہر و باطن کے اندازہ اور " خیال کے مطابق تیرہویں صدی کی ابتدا ہے.جج الکرامہ مہم ۳۹، مؤلقہ مولانا نواب صدیق حسن خان قنوجی مرحوم ، علاوه ازين الأربعين في أحوال المهديين " کے آخر میں حضرت شاہ عبد العزیزیہ کی نسبت صاف لکھا ہے کہ آپ کے نزدیک " بعد بارہ سو ہجری اور شروع میں صدی کے حضرت ے حضرت مہدی کا انتظار چاہے کی پیدائش ہے.فقط " (ص ۴۳) قصیدہ سے بعض اور آسمانی نوشتوں کی مضاحت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور پیش گوئی ہے کہ " فَيَتَزَوِّجُ وَيُولَدُلَهُ (مشكراة ) یعنی علیسی بن مریم نکاح کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی.مندرجہ بالا قصیدہ میں اس آسمانی نوشتہ کی مزید وضاحت ملتی ہے کیونکہ اس میں میسیج کے ایک یاد گار فرزند کی خبر دی گئی ہے جس کا نام جناب الہی سے شام کے مشہور ولی اور عارف حضرت یحیی بن عقب رحمتہ اللہ علیہ نے محمود بتایا ہے دشمس المعارف الكبرى حصہ اول معرفی صفحه ۳۲ پھر اس قصیدہ میں آخری زمانہ کے امام برحق کو مہدی وقت اور زمانہ

Page 10

١٠ تفلیسی دوراں " قرار دیا گیا ہے.یہ امر بھی حدیث نبوی سے زبر دست تطابق رکھتا ہے.چنانچہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ کن فرمان ہے 2 ابن ابن ماجه جلد مصری یعنی مہدی موعود عیسی بن مریم کے سوا کوئی نہیں.نیز ارشاد فتاريخ فرمایا- يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمُ اَنْ تَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَرَ مَا مَا رمسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۲ صفحہ ۱ اسم مصری ، یعنی قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسی ابن مریم سے ملاقات کرے گا.در آنحالیکہ 408 وہ امام مہدی بھی ہو گا.قصیدہ کے مِن جانب اللہ ہونے پر ایک زندہ برہان یہ بھی ہے کہ اس میں چاند سورج گرہن کے اُس آفاقی نشان کی طرف بھی اشارہ موجود ہے جو ظہور میسیح اور مہدی کے ساتھ ازل سے وابستہ ہے.و ملاحظہ ہو روایت کے لئے دار قطنی جلد نمبر صفحہ نمبر ۱۸۸ - بروایت حضرت امام باقر علیہ السلام) الاربعین فی احوال المد تین ہمیں تھیدا و صاحب قصید کا تعات كتاب الأمر بعين في أحوال المهدِيِّين" میں اس قصيدة ین کے اندراج کے بعد لکھا ہے." نعمت اللہ ولی که مرد صاحب باطن و از اولیاء کامل در سهندوستان مشہور اند و وطن اوشان در اطراف دہلی است زمانه شال پانصد و شصت

Page 11

بجری از دیوان اوشان معلوم می شود و دوران این ابیات در مهند وستان مشهور معروف است چون در ان ابیات احوال مهدی مذکو راست آن ابیات را بز یور طبع آراسته شد المرقوم ۵ محرم العام ۱۲۶۸ ه " یعنی حضرت نعمت الله ولی مصاحب باطن اور اولیائے کامل میں سے ہیں جو مہندوستان میں بہت مشہور و معروف شخصیت ہیں.آپ کا وطن دہلی کے اطراف میں ہے.آپ کے دیوان سے آپ کا زمانہ ۵۶۰ د معلوم ہوتا ہے.اس دیوان میں سے ان استعار کی مہندوستان میں بہت شہرت ہے.چونکہ ان استعار میں امام مہدی کے احوال مذکور ہیں.اس لئے ان کو زیور طبع سے آراستہ کیا گیا ہے.المرقوم ۲۵ محرم الحرام ۱۲۶۸ - حضرت شاہ نعمت اللہ کرمانی کی طرف غلط نسبت حضرت نعمت اللہ ولی اور آپ کا مندرجہ بالا تاریخی قصیدہ دونوں بہت مظلوم ہیں.وجہ یہ کہ آپ کا یہ قصیدہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں کسی غلط فہمی یا مصلحت کی بنا پر کچھ رد و بدل کے ساتھ عمداً یا سہواً آپ کے ہم نام ایک دُوسرے بزرگ شاہ نعمت الله کرمانی کی طرف منسوب کر دیا گیا جو آپ سے قریباً دو سو سال بعد ایران میں پیدا ہوئے اور مہمنی سلطنت کے دوران جنوبی ہند میں سبھی تشریف لائے اور جو دکنی بادشاہ احمد شاہ بہمنی کے ہمعصر اور صوفی مرتاض اور شاعر بے بدل تھے اور جن کا مزار کرمان کے متصل ما بان مقام پر ہے اور مرجع خلائق ہے.حضرت شاہ نعمت اللہ کرمانی نو کا شجرۂ شب سولہ واسطوں کے f

Page 12

١٢ T ساتھ غوث الاعظم حضرت سید عبد القادر جیلانی " تک پہنچتا ہے " تاریخ فرشتہ میں جو ہندوستان کی قدیم اسلامی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہے.حضرت کے حالات کا تذکرہ ملتا ہے اور ان کا سال وفات ۸۳۴۶۱۴۳۱ لکھا ہے (جلد ا مقالہ سوم روضہ اول صفحہ ۳۲۹ مطبوعہ کانپور نومبر ۱۶۱۸۸۴ جناب مفتی غلام سرور موترخ لاہور نے خزنة الاصفیاء ، صفحه ۱۵ مطبوعہ ۱۳۹۰ ۱۸۷۳ء میں اور علامہ شبلی نعمانی مرحوم نے شعر العجم حصہ پنجم میں ان کی یہی تاریخ وصال لکھی ہے اور کسی نے مندرجہ بالا قصیدہ ان کی طرف منسوب نہیں کیا.۹ اگست ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے کہ فارسی ادب کے مشہور فاضل و - محقق پروفیسرای - جی.براؤن (EDWARD G BROWN ) شاہ نعمت اللہ کرمانی رو کے مقبرہ کی زیارت کے لئے ماہان پہنچے جہاں انہیں مزار کے کسی مجاور سے مندرجہ بالا قصیدہ کی نقل حاصل ہوئی جس میں اصل قصیدہ کے خلاف بعض اشعار کی ترتیب اور الفاظ میں رد و بدل تھا.مثلاً غین ری سال کی بجائے عین و را دال اور ا - ح - م - " کی بجائے میم حامیم وال“ لکھا تھا.ایک عرصہ بعد پروفیسر براؤن نے ۱۹۲۰ء میں اپنی کتاب "تاریخ ادبیات ایران (A LITERARY HISTORY OF PERSIA میں یہ قصیدہ شاہ نعمت اللہ کہ مانی کے حالات میں درج کر دیا جس سے ہر جگہ یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ مذکورہ قصیدہ شاہ نعمت اللہ کرمانی کا ہے.حالانکہ

Page 13

پر وفیسر براؤن نے نہایت دیانت داری سے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کے پاس شاہ نعمت اللہ کہ مانی نہ کے مکمل دیوان کا ایک نسخہ موجود ہے ، جو ۲۷۶ مورد مطابق ۱۸۶۰ء کا ہے اور طہران سے چھپا ہے میں میں یہ قصید" بالکل مفقود ہے.اُن کے الفاظ یہ ہیں.THE POEM IS NOT TO BE LithographeD EDITION FOUND AT ALL IN THE یعنی اس نظم کا لیمو ڈیشن میں قطعاً کوئی وجود ہی نہیں ہے.اصلی قصیدہ میں رد و بدل کا پس منتظر پروفیسر براؤن " تاریخ ادبیات ایمان TRARY HISTORY) OF PERSIA حصہ سوم صفحه ۴۳۶۵ پر لکھتے ہیں کہ جب میں کرمان میں محقا تو بابی فرقہ کے لوگ مجھے بتایا کرتے تھے کہ محمد علی باب کے ظہور کی تاریخ ۲۱۲۶۰ مطابق ۱۸۴۴ء بطور پیش گوئی اسی "مے بینیم " کے قصیده میں بتائی گئی ہے.یہ بات بڑی معنی خیز ہے جس سے یہ کھوج لگانے اور یہ معمہ حل کرنے میں مھاری مدد مل سکتی ہے کہ نعمت اللہ ولی کا قصید" شاہ نعمت الله کرمانی کی طرف منسوب کرنے کی سازش کس نے کی اور کیوں قصیدہ میں ” احمد کی بجائے "محمد" کا لفظ لکھ دیا گیا؟ اور اس میں مندرج ۱۲۰۰ کے اعداد کو ۱۲۶۰ کس لئے ظاہر کیا جانے لگا ہے له : کتاب مذکور جلد نمبر ۳ ، صفحه ۳۶۸ ، طبع سوم زبیر حالات نعمت الله کرمانی در

Page 14

۱۴ اور اصل مصرعہ کے الفاظ کو "غ رس چون گزشت از سال " میں بدلنے کا پس پردہ مطلب کیا تھا ؟ نعمت اللہ ولی کے نام پر ایک جدید قصیدہ کی تصنیف حضرت لعنت اللہ ولی کے اس شہرہ آفاق الہامی قصیدہ کی ہندوستان اور ایمان ہر جگہ دھوم بھی.قصیدہ میں واضح پیش گوئی کی گئی تھی کہ ۱۲۰۰ ھ کے بعد عجیب و غریب کام ظہور میں آئیں گے.چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ واقعی (۱۷۸۶-۸۷ء) کے بعد برصغیر میں جلد جلد سیاسی ، تمدنی اور اخلاقی تغیرات وقوع پذیر ہونے لگے انگلستان جسکے ہاتھ سے ۱۷۸۳ء میں امریکہ نکل چکا تھا نئے مقبوضات کی تلاش میں سرگردان تھا اور اسنے جنوبی ہند کی پر شکوہ اسلامی ریاست رمیوں کے ہتھیانے کی کوششیں پہلے سے تیز تر کر دیں ہم مئی 199 کو والی سلطنت ۴۱۷۸۶-۸۷۱۲۰۰ ٩٩ سلطان المجاہدین حضرت ٹیپو سرنگا پٹم میں انگریزوں کا جو امردی سے مقابلہ کرتے شہید ہو گئے اس واقعہ ہائکہ سے پورے مسلم اقتدار کی بنیادیں ہل گئیں اور انگریزی اثر و نفر و طوفان کی طرح بڑھنے لگا.اسی دوران میں حضرت سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد بلند ہوئی جو مئی ۱۸۳۱ء میں آپ کی شہادت کیساتھ ختم ہو گئی لیکن بعض ہندوستانی مسلمانوں نے جو حضرت سید صاحب سے غایت درجہ عقیدت رکھتے تھے.انکی غیبوبت اور آمد ثانی کی خبر بھی مشہور کر دی اور عوامی حوصلوں کو بلند کرنے اور زخم رسیدہ دلوں کی ڈھارس بندھانے کے لئے نعمت اللہ ولی ہی کے نام پر ایک جدید قصید و بھی وضع کر لیا.اس قصیدہ کے کل ۳۵/ اشعار تھے.

Page 15

۱۵ ص قیدہ کے چونتیسویں " شر میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ نظم ، ء میں کہی گئی ہے اور سلطان مغرب “۱۲۷۰ یعنی ۱۸۵۴ء تک ظاہر ہو جائے گا.چنانچہ کلکتر دیوید ۶۱۸۷۰ جلد ۵ صفحه ۳۸۶ - ۳۸۷ میں جہاں اس اختراعی قصیدہ کا انگریزی ترجمہ لکھا ہے.شعر نمبر ۳۴ کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں دیا گیا ہے.☐ 4 "IN (570) FIVE HUNDRED AND SEVENTY THIS ODE IS COMPOSED IN (1270) TWELVE HUNDRED AND SEVENTY THE KING OF THE WEST WILL APPEAR - اس منظم میں " سلطان مغرب “ کی آمد کا جو سال مستعین کیا گیا تھا وہ نہ صرف ظہور سلطان مغرب کے بغیر گزر گیا بلکہ تین سال بعد ۱۸۵۷ء میں مغلیہ حکومت کی بساط سیاست الٹ گئی اور میبیا کہ اصل قصیدہ میں خبر دی گئی تھی پہلے سکتہ کی بجائے ملک میں نیا سکہ رائج ہو گیا.کلکتہ ریویو : ۱۸۷ء میں مطبوعہ جعلی قصید" ذیل میں کلکتریدیو ۱۸۷۰ء میں مطبوعہ قصیدہ کا انگریزی متن معہ ترجمہ درج کیا جاتا ہے.

Page 16

14 I tell the truth that there will be a King By the name of Timur, and he will reign thirty years Murdan Shah will be his successor; He.shall also reign thirty years in this world.When he will leave this world, Abu Sayyid will be the king of men and genii After him.Omur Shah will be the next ruler.He will have possession of the throne of Hindustan.Baber Shah, the king of Cabul, Will be the next ruler of Hindustan, and Delhi will be his capital He will be succeeded by Sekunder, who will leave the throne to Ibrahim At this time there will be great oppression in the world Hoomayun will be raised to the throne.In his reign the Afghan dynasty will rise.The founder of this dynasty will invade Hindustan, Whose name will be Shere Shah.Hoomayun will fly and go to Iran to the descendants of Muhammad, There he will be respected very much.The king of kings (i.e.the King of Iran) will be very kind to him, And will increase his dignity and honour.When he will march towards Hindustan to reinstate Homayun'

Page 17

16 Shere Shah will die and his son will succeed him.Hoomayun will easily get back the throne of Hindustan.After him, Akbar Shah will be the next ruler, His son Jehangeer will succeed him! He will be a great protector of the world.When he will leave this world, Shah Jehan will reign thirty years or more than that.His younger son will succeed him, Who will reign more than thirty and less than forty years.People will be very much oppressed during his reign, And faith will disappear altogether, Faith will be lost and falsehood will arise; Friends will be enemies of each other.He will reign twenty or thirty years, His youngest son will succeed him.During his reign faith will be strengthened; The name of this King will be Moozan Shah.People will be at rest in his reign, And justice will be current in the land.He will reign only a few years, And his younger son will succeed him! Under his protection there will be peace; Miseries will be driven out and happiness will reign; He will reign eleven years.Then there will be another king; Nadir will invade Hindustan; His sword will cause the massacre of Delhi.After this Ahmad Shah will invade, 49

Page 18

1^ And he will destroy the former dynasty.After the death of this king, The descendants of the former king will be reinstated.The Sikhs will grow powerful at this time and commit all sorts of cruelties This will continue for forty years.Then the Nazarenes will take the whole of Hindustan; They will reign one hundred years.There will be greal oppression in this world in their reign, For their destruction there will be a king in the West, This kino will proclaim a war against the Nazarenes, And in the war a great many people will be killed.The King of the West will be victorious by the force of the sword of Jihad.And the followers of Christ will be defeated.Islamism will prevail forty years, Then a faithless hibe will come out of Ispahan, To drive out these tyrants, Jesus will come down (from heaven' and the expected Mehdi will appear.All these will occur at the end of the world.In (570) five hundred and seventy this ode is composed.In (1270) twelve hundred and seventy the King of the West will appear.Neamutullah knew the mysteries of God.His prophecies will be fulfilled to men.

Page 19

ترجمہ 19 میں حق بات کہتا ہوں کہ تیمور نام کا ایک بادشاہ ہو گا جس کی حکمرانی تیس برس تک ہوگی.مردان شاہ اس کا جانشین بھی اس دنیا میں تمہیں برس تک ہی بادشاہی کرے گا.جب وہ اس جہاں سے رخصت ہوگا تو ابوسید جن وانس پر حکومت کرے گا اور پھر اس کے بعد عمر شاہ بادشاہ ہو گا.سو ہندوستان کے سخت و تارج کا مالک ہو گا.اس کے بعد بابر بادشاہ کابل ہندوستان کا فرمانہ وا ہو گا اور دہلی اسکادارالسلطنت ہوگا اسکندر اس کا وارث ہو گا اور وہ اپنے بعد ابرا ہیم کو اپنا تخت سپرد کرے گا اور یہ وہ زمانہ ہوگا جبکہ دنیا میں جورو استبداد کا دور دورہ ہو گا مچھر ہمایوں سخنت سنبھالے گا اور اس کے دور میں افغان خانوادہ کو عروج حاصل ہوگا جس کا باقی ہندوستان فتح کرے گا اس کا نام شیر شاہ ہو گا.ہمایوں بھاگ کر ایران پہنچے گا اور محمد کے جانشینوں کے پاس پناہ حاصل کرے گا اور یہاں اُسے عزت و تکریم نصیب ہوگی.شہنشاہ ایران اس پر مہربان ہوگا اور اس کی توقیر بڑھائے گا جب وہ ہندوستان پر ہمایوں کو بادشاہت دلانے کے لئے حملہ کرے گا تو شیر شاہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہوگا اور اس کا بیٹا جانشین ہوگا اور پھر ہمایوں آسانی سے اپنا تاج و تخت دوبارہ حاصل کرے گا.اس کے بعد اکبر شاہ اس کا جانشین ہوگا اور جہانگیر بعد انہاں اس کا وارث ہوگا، جو دنیا میں امن کو فروغ سجے گا.اس کی رخصت کے وقت شاہجہان ٠٠.تخت سنبھائے گا اور تیس برس یا زیادہ عرصہ تک بادشاہی کرے گا.

Page 20

اس کے بعد اس کا پچھوٹا بیٹا اس کا جانشین ہوگا اور تین یا چالیں سال کا عرصہ حکمرانی کرے گا.اس کے زمانہ میں لوگ بڑے ظلم وستم کا شکار ہوں گے.ایمان کا تو خاتمہ ہی ہو جائی کا دین برباد ہو جائے گا اور باطل کو عروج ہوگا.دوست، دوست کا دستشن ہوگا.اس کا نہ مانہ حکومت بنیں اور تناسلی مبينا برس کے درمیان ہو گا.اس کے بعد اس کا سب سے چھوٹا بٹیا تاج و تخت سنبھالے گا جس کے زمانہ میں دین کو تمکنت ملے گی.اس کا نام موذن شاہ ہوگا.اس کے عہد میں لوگ چین کی نیند سویا کریں گے.ملک میں حق و انصاف کی حکمرانی ہوگی.مگر اس کا دور صرف چند برس کا ہوگا.اس کا چھوٹا بیٹا اس کا جانشین ہوگا.اس کے دور میں بھی امن و چین رہے گا.مصائب بھگا دیئے جائیں گے اور خوشحالی حکمران ہوگی اور اُس کا دور حکومت گیارہ برس تک رہے گا.پھر اس کے بعد ایک اور بادشاہ آئے گا.نادر ہندوستان پر چڑھائی کرے گا.دلی میں قتل عام ہو گا.اس کے بعد احمد شاہ حملہ کرے گا اور پہلے خاندان کو نیست و نابود کر دے گا.اس بادشاہ کی موت کے بعد پہلے بادشاہوں کا خاندان پھر تاج و تخت حاصل کرے گا.اس وقت سکھوں کو قوت و شوکت حاصل ہوگی اور ہر قسم نظلم و ستم کا دور دورہ ہو گا اور یہ چالیس برس تک جاری رہے گا.پھر نصرانی کے

Page 21

P سارے بہندوستان پر قبضہ حاصل کر لیں گے اور سو برس تک حکومت کریں گے.ان کی حکومت میں دنیا پر بڑا ظلم ہوگا.ان کی تباہی کے لئے مغرب سے ایک بادشاہ آئے گا جو ان نصرانیوں کے خلاف اعلان جنگ کر سے گا.جس میں بے شمار لوگ مارے جائیں گے اور مغرب کا یہ بادشاہ سیف جہاد کی قوت سے کامران ہوگا اور میسج کے پیرو کاروں کو شکست ہوگی اور اسلام چالیس برس کے لئے غالب آجائے گا.پھر اصفہان سے ایک بے دین قبیلہ خروج کرے گا.ان ظالموں کا قلع قمع کرنے کیلئے آسمان سے میسح اتریں گے اور مہدی معہود ظاہر ہوں گے اور یہ دنیا کے آخر پر ظہور میں آئے گا اور میں نے یہ قصیدہ سال ۵۷۰ میں لکھا اور مغرب کا یہ بادشاہ ۱۲۷۰ھ میں خروج کرے گا.نعمت اللہ رموز الہی کا واقف کار تھا اور اُس کی پیش گوئیاں انسانوں پر پوری ہوں گی." بیسویں صدی کے شروع میں کلکتہ ریویو" کے جعلی مقیدہ کی بگڑی ہوئی شکل کا نمونہ " کلکتہ ریویو کے جعلی قصیدہ کی شکل مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی.یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آغانہ میں اس نے جو صورت اختیار کر لی اس کا نمونہ ہمیں شمالی ہند کے بعض اخبارات سے درج ذیل صورت میں ملتا ہے.تشف

Page 22

۲۲ راست گوئم بادشا ہے ذکر جہاں پیدا شود نام تیموری بود صاحب قرآن پیدا شود بعد انہاں مرزا محمد وارشش گرد و پدید وائے صاحب قرآن اندر زمان پیدا شود چول کند عزم سفر او انه فنا سوئے بت از لقاك بعد انہاں اخوان شاہ انس و جان پیدا شود بعد ازاں گردد عمر شاہنشہ مالک بنائے گردد آن هم مدعیش هم در آن پیدا شود شاہ نادر بعد ازاں در ملک کابل بادشاہ پس بدہلی والے ہندوستان پیدا شود از سکندر چون رسد نوبت بابرا ہیم شاہ ایں یقیں دان فتنه در ملک آن پیدا شود باز نوبت بر ہمایوں چو رسد از لایزال هم درسال افغان یکے ازہ آسمان پیدا شود حادثہ رو آورد سوئے ہمایوں بادشاہ آں کہ نامش شیر شاہ باشد ہماں پیدا میرود در ملک ایران پیش اولاد رسول تاکہ قدرو منزلت زاں قدرداں پیدا شود شود

Page 23

۲۳ تازمار شاہ شاہاں مہر بانیها کند بر حال او تا وقار و عزتش چون خسر وال پیدا شود تا زمان آنکه او لشکر بیارد سوئے ہند شیر شاہ فانی شود، یورش برای پیدا شود پس ہمایوں میر سدد ر ہند و قابض می شود بعد ازاں اکبر شه کشورستان پیدا شود بعد انہاں شاه جهانگیر است گیتی را پناه وارث او در جہاں شاہ جہاں پیدا شود چون کند عزم سفر نہیں جا سوئے دار البقاء ثانی صاحب قرآن شاہ جہاں پیدا شود بیشتر از قرن کمتر از چهل شاہی کنند تاکه پورش خورد پیش آں کلان پیدا شود ریختها گردد بعالم، ملک اور گردو خراب از عجائبها چه گرداب جہاں پیدا شود در تخیر خلق افتد چوں جہاں گردد چنین مہترے از آسمان آتش فشاں پیدا شود راستی کمتر شود کبر و دغل گردو فزوں دوست موشن مے شود شک اندسال پیدا شود

Page 24

۲۴ ہم چناں دو دو عشر یا نہ بادشاہی او کنند تاز فرزندانی کوچک بعد ازاں پیدا شود او برادر بر کند از حکم خود اندر جہاں والی از خلق عالم سرفشان پیدا شود اندر این آید قضا از آسمان گردد پدید و آنکه نام او معظم بے گماں پیدا شود خلق را فی الجملہ اندر دور رو گرد و سکوں مرهمی بر زخم ہائے مرد ماں پیدا شود این چنین تا چند سال او پادشاهی را کند عاقبت از کوشکے ابدالیان پیدا شود از طفیل مقدمش در دور گردد اعتدال نجم بدر گردد نه عالم خوش جہاں پیدا شود ہم چنیں وہ عشر یک سال او بود آخه فتا اس پسر آید پیدا شود دریس شاہ زمان نادر آید هم نه ایران اوستاند ملک ہند قتل وہی پس بزور يتغ اک پیدا شود چول کند عزم سفر سوئے بقا ایں بادشاہ رختہ اندر خاندانش زیں میاں پیدا شود

Page 25

۲۵ پناہ بعد انہاں شاہ قومی زور است گیتی سا اد بملک ہند آید خشکم آن پیدا شود او آں قوم سکھاں جبر دستیها کند بر مسلیں پیدا شود تا جیل این دور بدعت اندر آن پیدا بعد ازاں گرد نصاری ملک ہندوستان بمتام نا صدی حکمش میان هندیان پیدا شود از برائے دفع دقبالے ہمی گوییم شنو کیسے " ، احمد مہدی آخر زمان پیدا شود پانصد و هفتاد هجری تازه من این گفته شد یک ہزار و دوصد و هفتاد آن پیدا شود د ۲ بحوالہ ہفت روزه " بدر ٢ / مار ج ۱۹۰۶ء نعمت اللہ ولی کے نام پر دوسرا علی قصیدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب استحادیوں نے ظالمانہ طور پر ترکی حکومت کے حصے بخرے کر دیئے اور ہندوستان میں کانگریسی لیڈروں کی قیادت میں رفتہ رفتہ سحریک عدم موالات زور پکڑ گئی تو مسلمانان ہند کی ذہنی و قلبی تسکین کے لئے دوبارہ قصیدہ سازی ہی کا حربہ استعمال کیا گیا اور اس مرتبہ بھی اپنے نعت اللہ ولی ہی کی طرف نسبت دی گئی.اصل قصیدہ میں تو امام موعود کا نام احمد بتایا گیا تھا مگر اس قصیدہ

Page 26

۲۶ میں اس کے برعکس یہ کہا گیا کہ آخری زمانہ میں "احمد" نامی دو شخص گمراہی پھیلائیں گے.چونکہ چودہویں صدی سے بھی کئی سال گزر چکے تھے اس لئے یہ خطرہ روز بروز بڑھ رہا تھا کہ لوگ کہیں کسی مقدمعلی مہدیت و مسیحیت کی آواز پر لبیک نہ کہر اٹھیں.اس خطرہ کا تدارک یوں کیا گیا کہ قصیدہ میں یہ بشارت دی گئی کہ حبیب الله روالی کابل، ہندوستان کے کفار پر فتح یاب ہوں گے جس کے بعد آخر موسم حج میں مہدی موعود کا ظہور ہوگا.اس مختصر سے تعارف کے بعد ذیل میں " تعلیمات جدیدہ پر ایک نظر کے صفحہ نمبر ۷۶ اسے پورا قصیدہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.چون آخری زمانہ آید بدین زمانہ ! شہباز سدره بینی به دست رائیگانه بینی تو عیسوی سا بر تخت بادشاہی گیرند مومنان را با حیله و بهانه احکام دین و اسلام چون شمع گشته خاموش عالم جهول گردد جاہل شود علامه! شہر کوہ کتلاک نوشند خمر بے باک ہم مھنگ، چرس تریاق نوشند باغیانه فاسق کند بزرگی به قوم از سترگی پس خانہ بزرگی سازند بے نشانہ

Page 27

وکر کوہ گلہ باناں در شهر یا خراماں باشند به باد شاہاں سازند خوش مکانه آن عالمان عالم گردند هم پو ظالم ! پس شستہ روئے خود را بر سر مہند عمامہ زینت دهند خود را با شمله و بجبه گو سالہ ہائے سامر باشند درون جامه ہم بنگ ہائے رشوہ ہر قاضٹے چو خشوہ با غمزه و کرشمه گیرند بر علامه ہر مومن ننداری در چنگ قاضی آرمی چوں سگ پٹے شکاری قاضی کند بهانه ہم مفتیان فتوے ، فتوے رہند بے جا انه حکم سے بہانہ ر سازند بیرون در مکتب و مدارس علم سخوم خوانند ہم اعتقاد بے جا بہت بے کرانہ فسق و فجور در کوه را بج شود بہر سوء ما در بدختر خود سازد بے بہانہ در هند، سندھ و مدراس اولاد گورگانی شاہی کنند اما شاہی چو ظالمانہ

Page 28

٢٨ تانا تا مدت سه صد سال در ملک هند و بنگال کشمیر و شہر گوپال گیرند تا کمرا نہ !! صد سال حکم ایشان در ملک بلخ و توریاں آخر شود بیکساں در کهف عنائبانه اں راجگان پنگی مخمور و مست بهنگی در ملک شاہ فرنگی آئند غالبانه صد سال حکم ایشان در ملک ہند مے وال ارید اے عزیزاں ایں نکتہ بیانہ طاعون و تخط یک جا در هند گشت گشت پیدا پس مومناں بمیرند ہر جا انہیں بہانہ چوں مردے سلطان لسل ترکان ریزن.گوید دروغ دوستان در ملک ہندیانہ دو کس بنام احمد گمراه کنند بے حد سازند از دل خود تفسیر فی العرالله فى اسلام و اہل اسلام گردد غریب میداں در ملک بلخ و توران در هند و سندھیانه در شرق و عزب نکیسر حاکم شوند کافر چوں مے شود برابر این حرف این بیانه

Page 29

۲۹ ہم از پادشاه اسلام عبد الحمید ثانی چوں کیقباد و کسری می باشد عادلانہ بر او نصاری ہر سو اغوا علو نمایند پس ملک او بگیرند با حیله و بیانه بر کوه قاف میدان باشد ز روس فرماں خوارزم و حیرہ یکساں گیرند تا کیرانہ !!! جاپان و چین و ایران خرطوم ہم کہستان ملک مصر و سوداں گیرند تا کرانہ قتل عظیم سازند در دشت مرد میدان بر قوم ترکماناں آئند غالبا نہ شاہ سبخارا تو راں تابع شود بدیشاں تا آنچه شعر خوانم گیرند تا کمرا نہ نیپال و ملک تبت چترال تنگه پس ملک ہائے گلگت گیرند با غنیانه دو شه چو شاه شطرنج بر یک بساط بینم از مهر ملک و هم گنج آیند مدعیانه سرحد جدا نمائند از جنگ باز آئند صلح قریب سازند صلح مناففتانه پر ہت

Page 30

کافر چه مومناں را ترکیب دیں نمایند از حج مانع آئند و نه خواندن قرآنه در عین بے قراری ہنگام اضطر الهی رحمی کند چو باری بر حال مومنانہ ناگاه مومنان را شوری پدید گردد با کافراں نمائند جنگے جو رستمانه گردد نه نو مسلمان غالب نہ فیض رحماں یعنی کہ قوم افغان باشند شادمانه آخر حبیب اللہ صاحب قرآن من الله گیرد نه نصرالله شمشیر از میانه رودِ اٹک دو سه بار از خون ناب ترمی شود بیکبار جریان جارحانہ پنجاب و شہر لاہور ہم ڈیرہ جات بنوں کشمیر ملک منصور گیرند غائبانہ چون مردمان اطراف این مژده که شنوند یک بار جمع آنند بر باب عالیانہ قوم فرانس و ایران بر هم نموده اقل با انگلش و الطمالی آئند جارحانہ کفار

Page 31

۳۱ این غزوہ تا به شش سال باشد همه بدنیا خون ریخته بتربان سلطان غازیانہ خالد شود علمدار در مک ہائے کفار ! فی النار گشته کفاره از لطف آن یگانه اعراب نیز آئند از کوه و دشت و ہاموں سیلاب آئینے از ہر طرف روانہ آخر بموسم حج مہدی خروج سازند اں شہرۀ خروجش مشهور در جهانه خاموش نعمت الله اسرار حتی مکن فاش در سال كُنتُ کنزاً باشد چنین بیانه پہلے منعی فقید و مطبوعہ ۱۹۰۶ ء میں تبدیلی مؤلف کتاب تعلیماتِ جدیدہ پر ایک نظر نے متذکرہ بالا جعلی قصیدہ درج کرنے کے علاوہ پہلا وضعی قصیدہ مطبوعہ ۲۱۹۰۶ بھی کافی تصرف کے ساتھ درج کتاب کیا اور ساتھ ہی یہ تبدیلی کر ڈالی کہ جس شعر میں سلطان مغرب کے لئے ۱۲۷۰ ہجری کا سال درج تھا.اسے ۱۳۸۰ ھ میں تبدیل کر کے یوں لکھ دیا :- پانصد و هفتاد ہجری آن زمانے گفته شد IWA.یک ہزار و سی صد و هشتاد آن پیدا شود

Page 32

۳۲ تاہم انہوں نے یہ اعتراف فرمایا کہ :- و پچھلے ترک موالات کے دنوں میں دو قسم کے اور قصید سے بھی شائع ہوئے تھے.ایک کا قافیہ شو د تھا اور دوسرے کا بیانہ وغیرہ اور اس میں مختلف التواریخ اور متبائن المضامین تھے.اس لئے ایسے قصائد قابل اعتبار ہی نہیں ہیں." صفحہ نمبر ۱۷۳) کتاب تعلیمات جدید پر ایک منظر میں شائع شدہ پہلا جعلی قصیدہ! پدید اس کتاب میں یہ جعلی قصیدہ مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوا راست گویم بادشا ہے دکر جہاں پیدا شود نام آن تیمور شاہ صاحب قران پیدا شود بعد انہاں میراں شہے کشورستان گردد والی صاحب قرآن اندر زمان پیدا شود چوک کند عزم سفر آں شاہ سوئے دارہ البقا بعد انہاں اجواں شاہ در انس دیاں پیدا شود بعد انہاں گردد عمر شاہنشہے مالک رکاب گردد آن شاہ مدعیش ہمدران پیدا شود شاہ بابر بعد زمان در ملک قلب بادشاه پی پہلی دایہ ہندوستان پیدا شود ازار

Page 33

۳۳ انه سکندر چون رسد نوبت با براهیم شاد ایں یقیں واں فتنه در دور آن پیدا شود باز نوبت چوک رسد شاہ ہمایوں یا نہ حق را سجدراں افغاں یکے اند آسماں پیدا شود حادثہ رو آورد سوئے ہمایوں بادشاہ آنکه نامش شیر شاہ باشد ہماں پیدا شود.چون رود در ملک ایران پیش اولاد رسول تا که قدرو منزلش از قدر دال پیدا شود شاہ شاہاں مہر بانیها کند در حق اور تا وقار عزتش چون خسرواں پیدا شود تا زمانی آنکه او شکر بیارد سوئے ہند شاه فانی شود پوزش به آن پیدا شود پس ہمایوں آمده گیرد تمامی ملک ہند بعد انہاں اکبر شی کشورستان پیدا شود بعد انہاں شاه جهانگیر است گیتی را پناه و نگہی اندر جهان شاه طاغیان پیدا شود چول کند عزم سفر آں شاہ سوئے دار البقا ثانی صاحب قرآن اندر جہاں پیدا شود

Page 34

۳۴ ثانی صاحب قرآن تا چهل شاہی مے کند تاله جورش جور دین آن کلال پیدا شود فتنه ها در ملک آبرو نیز بس گردد خراب از عجائب ها بود که آب و ناں پیدا شود در تسخیر خلق آید چوں چنیں گردو خراب مشتری آتش فشان از آسمان پیدا شود راستی کمتر بود کذب و دغل گردد فزوں دوست گردد دشمنی اندر میاں پیدا شود ہم چنان در عشرہ باشی بادشاہی مے کند تانه فرزندان او کوچک بدال پیدا شود او بر آید پر کند اوانده خود در جہاں والی در خلق عالم سرفشان پیدا شود اندر آں اثنا قضا از آسمان آید پدید آنکه نام او معظم سنگیاں پیدا شود ! خلق سا فی الجمله در دوران او گردد سکون بر جراحت ہائے مردم مرسم آن پیدا شود نادر آیداو زایمان می ستاند ملک ہند قتل دہلی پس بزور جد آل پیدا شود

Page 35

۳۵ بعد انہاں احمد شہبی کو بہت گیتی را پناه او بملک ہند آید حکم آن پیدا شود چوک کند عزم سفر آں شاہ سوئے دار البقا رختہ اندر خاندانش زاں میاں پیدا شود ہ سکتاں چیرہ دستی چون کند بر مسلمیں تا چهل این دور بدعت اندران پیدا شود بعد ناں گیرد نصار ے ملک ہندوستان تمام شان صد سال در هندوستان پیدا شود حکم شہ شود چون شود در دور ایناں جو رو بدعت را راج شاہ غربی بر قتلش خوش عنال پیدا قاتل کفار خواهد شد شبہے شیر علی رضا حائی دین محمد پاسبان پیدا شود در میان این و آن گهر دو پولیس جنگ عظیم قبل عالم بے شبہ در جنگ آں پیدا فتح یا بد از خدا آں شاہ بزور خود تمام پیدا شود شود قوم علی را شکستے بے گماں غلبہ اسلام مانکه تا چه در ملک ہند بعد انہاں درقبال خبر از اصفهان پیدا شود

Page 36

۳۶ W IN A.از برائے دفع آں دجال سے گویم شنو عینی آید مہدی آخر زمان پیدا شود پانصد و هفتاد ہجری آس نہ مانے گفته شد یک ہزارہ کو سی صد و هشتاد آن پیدا شود مالها چوک سیزده میبگذرد فرمان اُو ! شور و غوغا اختلافش نہاں میاں پیدا شود نعمت الله را چو آگاهی شد از اسرار حق گفته او بیگیاں بر مرد مال پیدا شود ــــه (صفحہ ۱۷۴ - ۱۷۵) اس مرحلہ پر قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ریویو کلکتہ" ۶۱۸۷۰ اور ہفت روزہ "بدر مارچ ۱۹۰۶ ء میں طبع شدہ جعلی قصیدہ ١٩٠٧ کے اشعار کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں تاکہ انہیں یہ تجزیہ کرنے میں آسانی ہوسکے کہ قصیدہ سازی کی صنعت مختلف مراحل طے کرنے ، کتر و بیونت، تراش خراش اور جراحی کے عمل کے نتیجہ میں کیا رنگ پکڑ گئی ہے.دونوں قصائد کی میعی حیثیت کا بے نقاب ہے نا حضرت نعمت اللہ ولی کے اصل قصیدہ کے مقابل دوسرے دونوں - قصیدوں کا وضعی ہونا بہت جلدا اہل قلم و اہل دانش پر کھل گیا اور الیا لے تعلیمات جدیدہ پر ایک نظر“ طبع اول مطبوعہ مارچ ۶۱۹۳۱ افتاب برقی پریس امرتسر

Page 37

وا ہونا ضروری بھی تھا.اس لئے کہ مذہبی دنیا کی تاریخ میں جتنی صحیح پیش گوئیاں محفوظ ہیں.ان میں اختفاء اور ابہام کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے.یہی بات شمالی ہند کے عالم دین مولانا فیروز الدین صاحب تاجر کتب لاہور کو کھٹکی جنہوں نے اپنی کتاب " قصیدہ ظہور مہدی“ میں صاف لکھا کہ :- بات یہ ہے کہ کسی خاص حادثہ یا قیامت کے متعلق صیح صحیح اطلاع دے کر وقت مقرر کہہ نا آئین قدرت کے خلاف ہے.تمام انبیاء و اولیاء قیامت کو ابتدا ہی سے قریب کہتے چلے آئے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ شخص اسے قریب سمجھ کہ ظلم و طغیان اور فسق و کفران سے بچنے کی کوشش کرے.اگر حضرت آدم علیہ السلام ابتدا ہی سے کہہ دیتے کہ آٹھ ہزار برس گزر چکنے کے بعد قیامت آئے گی تو تمام پیغمبروں کی وعید ہے اللہ ہو جاتیں.ہر شخص سمجھتا کہ وہ زمانہ ابھی بہت بعید ہے.دیکھا جائے گا.اب شاید یہاں کوئی یہ خیال پیدا کرے کہ اس بات سے نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام کی تکذیب پائی جاتی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء و اولیاء کی نظریں بہت بلند ہوتی ہیں اور وہ تمام واقعات آئندہ کو دیکھ لیتی ہیں جو ان کو بالکل قریب نظر آتے ہیں.اس لئے اُن کا قریب فرمانا با وجود ہمارے لئے بعید ہونے

Page 38

۳۸ کے بھی بالکل سچ ہے.سالوں مہینوں اور دنوں کے تعینات تو ہمارے لئے ہیں.انہیں جب اصل واقعات سامنے نظر آگئے تو ان کے لئے بعید کیسے ہو گئے ؟ اسی اعتبار سے قرآن مجید میں جابجا قیامت کو اسی طرح ظاہر فرمایا ہے کہ وہ قریب ہے.کیونکہ اصلاح عالم کے لئے مصلحت یہی ہے.پس اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب نہیں ہوتا کہ کوئی ولی اللہ قیامت یا کسی ایسے عالمگیر واقعہ کا سن و سال مقرر فرمائے.گو اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ بعض دفعہ انبیاء و اولیا ء خاص الخاص اشخاص سے اس رازہ الہی کو آشکار فرما دیا کرتے تھے.مثلاً حضرت انس نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حکم ہو تو میں حاضرین سے) ہر ایک کے بہشتی اور دوزخی ہونے کی بابت ظاہر کروں جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ یہ رانہ الہی اظہارہ کے لائق نہیں گئے رقصیدہ ظہوری مہدی علیہ السلام مع سوانح عمری حضرت شاہ نعمت اللہ ولی صفحه ۲۸-۲۹-۳۰ طبع دوم ، مطبوعہ فیروز پرنٹنگ ورکس بیرون دروازه شیرانوالہ گیٹ لاہور ) جناب مولوی نیرو نہ الدین صاحب نے اس حقیقت پر روشنی ڈالنے

Page 39

۳۹ کے بعد خواجہ نعمت اللہ ہانسومی“ کے نام پر تصنیف ہونے والے دونوں قصائد کا ذکر درج ذیل الفاظ میں فرمایا :- " اسی قسم کے بعض دوسرے قصائد بھی عوام میں مشہور د متداول ہیں.مثلاً ایک وہ قصیدہ ہے جس کی ردیف ہے." پیدا شود " راست گوئٹیم پادشا ہے دو جہاں پیدا شود اس کے مصنف نے بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ بعض حوادث کی اطلاع دی ہے.مگر اس قصیدہ کو سید نعمت الله شاہ صاحب کرمانی رح سے منسوب کرنا نہ صرف ظلم ہے، ملکہ حماقت بھی ہے.کیونکہ یہ قصیدہ صرف ہندوستان سے مخصوص ہے جس میں شاعر نے امیر تیمور سے لے کر معظم شاہ تک تو مغلیہ بادشاہوں کو نام بنام گنوا دیا ہے.لیکن اس کے بعد ناموں کی گڑبڑی کے باعث مصنف صاحب خود مجھول گئے ہیں.کیونکہ یہاں اکبرثانی کے نام نے انہیں آگے چلتے نہیں دیا.اسی طرزہ کا ایک اور قصیدہ بھی دیکھا گیا.جس میں حبیب اللہ و نصر اللہ مرحوم رافغانستان اور ان برادر محترم مرحوم کے نام بھی تھے.مجھے ایک بھوپالی صاحب نے اپنے ولی عہد ریاست نفر اللہ خان بہادر سے نسبت

Page 40

مهم دی تھی.مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ قصائد کس اعتبار کے لائق تھے...بہر حال ایسے تمام قصائد کا جن میں ہندوستان کے متعلق یا اس کے گرد و نواح افغانستان وغیرہ کی سلطنتوں کے بادشاہوں کے نام خصوصیت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہوں شید نعمت اللہ شاہ کرمانی سے منسوب کرنا علمی حیثیت سے ایک کوشش بے فائدہ ہے " رقصیدہ ظہور مہدی علیہ السلام مع سوانح عمری حضرت نعمت اللہ ولی صفحه ۳۴-۳۵-۳۶) ۱۹ء میں دوسرے جعلی قید کی اضافہ کیسا تھا اشاعت...۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو مملکت خدا داد پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور ، از اگست ۱۹۴۷ء کو عید الفطر سے صرف ایک روزہ قبل ریڈ کلف ایوالہ ڈنے منہایت ظالمانہ طور پر بٹالہ، گورداسپور اور پٹھان کوٹ کی مسلم اکثریت کی تحصیلوں کے علاوہ اور بہت سا علاقہ پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان کا حصہ بنا دیا اور ساتھ ہی ہندوؤں اور سکھوں نے مشرقی پنجاب کے بنتے اور مظلوم مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور مسلم ہند کے بڑے بڑے اسلامی شہر مسلمانوں سے چھن گئے.حتیٰ کہ دہلی جیسا عظیم شہر جو مسلمان بادشاہوں کا صدیوں تک دارالسلطنت رہا.مسلمانوں کے خون سے لالہ زار

Page 41

۴۱ 16 بن گیا اور کہ بلا کا منظر پیش کرنے لگا.اس المناک حادثہ پر ۱۹۴۸ کے وسط میں بعض ہوشیار لوگوں نے نعمت اللہ ولی کی طرف منسوب دوسرا وضعی قصیدہ جس کا قافیہ بیانہ تھا اور تحریک عدم موالات کے زمانہ میں اشعار یک تصنیف ہوا تھا.لاہور کے اخبار "زمیندار" اور "شہباز وغیرہ میں مزید پندرہ سولہ اشعار کے اضافہ کے ساتھ شائع کر دیا.اضافہ شدہ اشعار میں اس طرفہ کا مضمون تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا شہر ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس میں ان کا قتل عام ہوگا یہ قصہ دو عیدوں کے درمیان ہو گا.مگر پھر ماہ محرم میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تلوارہ آجائے گی اور وہ ستان پر دوبارہ قابض ہو جا گے.چونکہ اس وقت تک میر عثمان علی مرحوم والی دکن کی ریاست قائم تھی.اس لئے یہ شعر بھی جڑ دیا گیا کہ ہے بعد آن شود چو شورش در ملک ہند پیدا عثمان نماید آندم یک عزم عنازیانه یعنی اس کے بعد پورے ملک ہند میں شورش بپا ہو گی.تب عثمان جہاد کا مصمم ارادہ کرے گا.لیکن ۱۸ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ریاست حیدر آبادر نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اس پیشگوئی کے مصنوعی اور بناوٹی ہونے پر خود بخود مُہر تصدیق ثبت ہو گئی.

Page 42

۴۲ روزنامہ امروز کا زبردست تنقیدی نوٹ ایک وضعی قصیدہ کو اصلی ثابت کر کے اس میں اضافہ کرنے کی حرکت نہایت درجہ افسوس ناک تھی جس کے خلاف پنجاب کے مسلم پریس کی طرف سے زبر دست صدائے احتجاج بلند ہوئی.چنانچہ اخبار امروزہ نے اپنی وار جولائی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں اس پر مندرجہ ذیل تنقیدی نوٹ شائع کیا : کچھ دنوں سے ہمارے ہاں شاہ نعمت اللہ ولی کے قصیدے کی بڑی شہرت ہے.چنانچہ اکثر اخباروں نے اس قصیدے کو شرح کے ساتھ شائع کیا ہے اور شروع میں شاہ صاحب کے مختصر حالات زندگی بھی دے دیئے ہیں.کہا گیا ہے کہ شاہ نعمت اللہ ولی ” جنہوں نے یہ قصیدہ آج سے ۵۹ ۷ سال قبل تصنیف فرمایا تھا ،

Page 43

۴۳ ہمنی سلطنت کے زمانے میں بیدر بھی تشریف لائے تھے.اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ قصیدہ بارہویں صدی کے آخر میں تصنیف ہوا اور شاہ صاحب اس کی تصنیف سے کوئی دو صوبرس کے بعد ہندوستان تشریف لائے.کیونکہ ہمنی سلطنت اس قصیدہ کی تصنیف سے کوئی دو سو برس کے بعد قائم ہوئی ہے.ان دونوں باتوں کو صحیح قرار دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ شاہ نعمت اللہ کی عمر ڈھائی تین سو سال قرار دیجائے لیکن شاہ نعمت اللہ جو عام طور پر شاہ نعمت اللہ کو مستانی کے نام سے مشہور ہیں کوئی ایسے غیر معروف بزرگوار نہیں کو ان کے بارے میں اس قسم کی دور از کار قیاس آرائیاں کرنی پڑیں.وہ پندرہویں صدی کے بزرگوار ہیں.یعنی اُن کے قصیدے کا جو سال تصنیف بتایا گیا ہے اس میں اور ان کے زمانے میں کوئی تین سو برس کا فضل ہے شاہ نعمت اللہ اپنی نیکی اور پرہیز گاری کی وجہ ہی سے نہیں بلکہ اپنے شاعرانہ کمالات کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہیں.تمام الہ باب تذکرہ ان کا نام بڑی عزت سے لیتے ہیں اور ان کے کلام کی بڑی تعریف کرتے ہیں.شاہ صاحب اوران کا شمار صوفی شعراء کے اس گروہ سے ہوتا ہے جن میں سنائی عطار ہوتوی ، رومی، عراقی ، اوحدی سلطان ابوسعید ابوالخیر

Page 44

۲۴۴ وغیرہ شامل ہیں.ان کے اشعار میں بڑی حلاوت اور لورچ ہے.زبان بڑی منجھی ہوئی اور صاف ستھری اور یہ چیز ان کے اکثر معاصر اور قریب العہد شعراء میں موجود ہے.شاہ نعمت اللہ سے جو قصیدہ منسوب کیا گیا ہے اور جس میں ہندوستان کی تقسیم اور گاندھی جی کے قتل کے علاوہ ایک اور عالمگیر جنگ کی سبھی پیش گوئی کی گئی ہے.اپنی زبان و بیان کے اعتبار سے ایسا نہیں کہ اُسے شاہ نعمت اللہ کو ہستانی جیسے مشہور اور مستند شاعر سے نسبت دی جاسکے.چند شعر ملاحظہ ہوں ہے ہم شیر با برادر پسران ہم پر مادر نیز هم پدر به دختر مجرم به عاشقانه شهر عظیم باشد اعظم ترین مقتل صد کربلا چو کہ بل پر خانہ بخانہ مارہ محرم آید با تیغ با مسلمان !! سازند مسلم آن دم اقدام جارحانہ نیز ہم حبیب اللہ صاحب قرآن من الله گیرند نصرت الله شمشیر از میانه فارسی محاورہ کی جتنی غلطیاں ان اشعار میں ہیں ان سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو اس کا کیا علاج کہ اکثر مقامات

Page 45

۴۵ " پر حروف صیحیح وزن سے باہر ہیں.مثلاً در جگہ " نیز ہم " آیا ہے.دونوں جگہ کا ساقط ہے اور اقدام جارحانہ" سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شاہ نعمت اللہ کے عہد کی نہ بان نہیں ہو سکتی کیونکہ بھارحانہ اقدام خالص اخیاردی زبان کا لفظ ہے جسے رائج ہوئے ۳۰ - ۳۵/ برس سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا.بہر حال اس قصیدہ کی زبان قطعاً غلط ہے جسے فارسی کہتے ہوئے بھی ہمیں ہزار بار تا مل ہوتا ہے.یہ قصیدہ مدت سے پنجاب ، سرحد، اور کشمیری مشہور ہے.ایک زمانے میں اس میں دجال کے خروج اور امام مہدی کے ظہور کا ذکر تھا اب اس میں مہندوستان کی تی گاندھی جی کے قتل اور فرقہ وارانہ فسادات کا تذکرہ ہے." حبیب اللہ صاحب قرآن من اللہ سے اس نہ مانے میں امیر حبیب اللہ والی افغانستان مراد لئے جاتے تھے اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ شعر قائد اعظم سے تعلق رکھتا ہے.غرض اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ قصیدہ شاہ نعمت اللہ کو ہستانی کی تصنیف نہیں.اس کی زبان سرا سر غلط ہے اور اکثر مصرعے وزن سے باہر ہیں.اور اس میں بعض ایسے الفاظ بھی آگئے جو مولانا ظفر علی خاں

Page 46

۴۶ نے ترجمہ کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے وضع کئے اور اگر دو میں رائج کر دیئے.یہ قصیدہ مدت سے مشہور ہے لیکن اب اسے بہت سے اشعار کے اضافہ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے.دروز نامه " امروز ۱۹ر جولائی (۶۱۹۴۸ ماہنامہ معارف دار المصنفین اعظم گڑھ کی تحقیق پاکستان کے ایک ممتاز اہل قلم جناب عبد الشکور صاحب کا بیان ہے کہ: برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے فوراً بعد جو دور ابتلاء آیا ، اس وقت یہ قصیدہ ماہنامہ " قندیل کراچی میں شائع ہوا.جس کا عنوان تھا شکست ہندوستان “ اس پر ایک صاحب نے اس کا تماشہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کو بھیجا اور " استفسار کیا کہ آیا شاہ صاحب کا اصل قصیدہ یہی ہے.اور موجودہ قصیدے کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ " معارف" کی طرف سے اس استفسار کا جو جواب دیا گیا وہ معارف کی جلد ۶۱ ۲ شماره فرور می ۱۹۴۸ء صفحه ۱۴۵ پر شائع ہو ہے جو راقم الحروف کے پاس موجود ہے.اس جواب کے مطابق موجودہ قصیدہ جعلی ، خود ساختہ اور فرضی ہے.اس قصیدہ کا شاہ صاحب کے اصل قصیدہ سے کوئی تعلق نہیں

Page 47

ام ہے نہ یہ قدیم زمانے کے کسی قلمی نسخہ میں موجود ہے اور نہ ہی کسی مطبوعہ نسخہ پر مبنی ہے." در وزنامه " جنگ " راولپنڈی ۲۵ دسمبر ۶۱۹۷۱ صفحه ۳) ذیل میں رسالہ ” معارف کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں :- " اس کے فرضی ہونے کی بہت سی داخلی شہادتیں خود اس قصیدہ کے اشعار میں موجود ہیں.نہ صرف اس کا ہر شعر ہندوستانی فارسی“ میں ہے بلکہ اس میں ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جو شاہ نعمت اللہ ولی کے زمانے میں ان معنوں میں استعمال نہیں کئے جاتے تھے یہاں تک کہ بعض ملک کے جو نام اس میں آئے ہیں وہ سمجھی شاہ صاحب کے زمانہ میں پائے نہ جاتے تھے.مثلاً جاپان کا ذکر اس میں ایک سے زیادہ موقع پر آیا ہے.حالانکہ جاپان کو جاپان سے جو موسوم کیا گیا ہے وہ مارکو پولو کے سفر چین ۱۷۹۵ء کے بعد کا واقعہ ہے ، چین میں اس جزیزه کوچی نیکو ( CHI-PEN-KUE) کہتے تھے.اس سے ( C HIPANGAT) چپانگو ہوا.پھر یہی لفظ انگریزی میں ( JAPAN جاپان کے تلفظ سے ادا کیا گیا.اور " چینیوں نے بھی اس کے اس تلفظ کو قبول کر لیا دجاپان انہ ڈلیور ڈھرے، ظاہر ہے کہ نیم ۱ ویں صدی کا یہ نو مولود...

Page 48

۴۸ لفظ اس قدر جلد شہرت نہیں پاسکتا تھا کہ شاہ نعمت الله ولی متوفی ۸۳۴ ھ اور ان کے زمانہ کے لوگ اس سے واقف ہوتے اور وہ بے تکلف اپنے قصیدہ میں ” جنگ روس و جاپان با زلزلہ جاپان کا ذکر کرتے اور کہہ سکتے کہ :- جاپان فتح یا بد بر ملک روسیانه (؟) يا جاپاں تباه گردد یک نصف ثانثانہ (؟) اس لئے حال کے اس تصنیف کئے ہوئے قصیدہ کے متعلق جو محض سیاسی پروپگینڈے کے لئے تیار کیا گیا ہے یہ تصریح کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ قدیم زمانہ کے کسی قلمی یا مطبوعہ اصل پر مبنی نہیں ہے.بلکہ یہ سرا سر خود ساختہ اور فرضی اور جعلی ہے." معارف فروری ۶۱۹۴۴۸ صفحه ۱۴۶-۱۴۸) ناظم دارالاشاعت علوم اسلامیہ عثمان کا حقیقت افروز بیان مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ناظم دارالاشاعت علوم اسلامیہ حسین آگاہی ملتان نے عرصہ ہوا اپنے کتابچہ قصائد خواجہ نعمت اللہ کے دیا چہ میں بالبداہت لکھا کہ :

Page 49

۴۹ " محقق حضرات کا فرمانا ہے کہ قصیدہ اول اصلی ہے جس کے اشعار میں کمی بیشی نہیں ہوئی اور اس میں سے ببینم کا لفظ بہت ذمہ دارانہ ہے جو حقیقت حال کو واضح کرتا ہے.باقی دونوں قصیدے اضافی اور وضعی ہیں یا ا صفحه (۳) قیام پاکستان کے بعد معلی اشعار میں بیچنا نتنا اگرچہ قیام پاکستان کے پہلے سال ہی جعلی مقیدوں کی حقیقت و اصلیت کھل کر سامنے آچکی تھی مگر حضرت نعمت اللہ ولی کے مقدس نام پر نئے نئے اشعار ڈھالنے والے اصحاب نے اپنی مہم برا بر پور سے زور شور سے جاری رکھی اور ۱۹۳۸ء سے ۱۹۷۱ء تک جعلی شعروں میں بے پناہ اضافہ کر ڈالا چنا نچہ ذیل میں وہ اشعار لکھے جاتے ہیں جو اس عرصہ میں حضرت نعمت اللہ جیسے جلیل القدر بزرگ کی طرف منسوب کر کے شائع کئے گئے.!.....شاه با بر حکمران باشد پس چند روزه در میانش اک فقیر انه سالکان پیدا شود نام او نانک بود آرد جہاں بادسے رجوع گریم با نداره فقیر.....بیکراں بیکراں پیدا شود

Page 50

درمیان ملک پنجابش بود شہرت تمام قوم سکھانش مرید و پیروان پیدا شود ح به ملک مصرف سوڈاں اسنخارا و ہم نہاں کو حنتلان شهر کرج گیرند تاستانه به سحر خضر گیلاں قابض شود و یک آں ! این طرح بند سلطان گیرند بے ابانہ فوج فرنگ و یونان مرده شوند سخندق از شبل غائبانه از حکمت یگانه زقوم زناگر ظاہر شود علمدار ٹھنے جسمش چوں تار باشد قولش چون رستمانہ پارینه قصته شوئیم انه تانده ببند گوئیم افتاد قرآن دویم که افتاد انه زمانه اک زلزلہ کہ آید یوں زلزلہ قیامت جاپان تباه گردد اک نصف ثالثانه تا چار جنگ افتد به بیر عربی ۴ فاسخ "الت" بگردد بر " راج که سقانه

Page 51

ظاہر اه با ہمانہ جنگ عظیم باشد قبل عظیم سازد اک صد و سی واک لکھ باشد شمار خانه اظہار صلح باشد چون صلح پیش بندی بل مستقل نه باشد این صلح درمیانہ خموش لیکن پنهان کنند سامان " ج " "الف" مکتریہ اور مرد مبارزانہ وقتیکہ جنگ جاپان به چین رفته باشد نصرانیاں یہ پیکار آئیند پس سال بست و یکم آغاز جنگ مہلک ترین اول باشد به جارحنا امداد ہندیاں ہم انہ ہند داده باشند لا علم ازین که باشند آں جگہ رائیگانہ آلات برق پیما اسلم حشر برپا سازند اہل حرفہ مشہور آن زمانه باشی اگر به مشرق شنوی کلام مغرب آید سرود غیبی به طرز عرشیانه دوم در الف و روس ہم چنہیں مانند شہد شیریں پر الف و"ج " اولی ہم "ج " ثانیا نہ

Page 52

۵۲ با برق تیغ راند کوه غضب دوانند تا آنکہ فتح یا بند از کینه و بهاند نصرانیان باشند هندوستان سپارند آید یتیم بدی بکارند از فسق جاودانه م ہند گردد، دو حصص ہویدا آشوب و رنج پیدا از مکرو از بهانه بے تاج بادشاہاں شاہی کنند ناداں اجرا کنند فرمان فی الجمله مهملانہ ازه رشوت و تساهل دانسته از تغافل تاویل یاب باشد احکام خُسروانه عالم از علیم نالاں ، دانا زنم گریاں نادان به رقص عریاں مصروف والہانہ از اُمتِ محمد سرزد شوند بے حد افعال مجرمانه اعمال عاصیانه شفقت به سرد مہری تعظیم در دلیری تبدیل گشته باشد از فتنه زمانه

Page 53

۵۳ ہمشیرہ با برادر پسران هم به نیزم پدر به دختر مجرم به ماور عاشقانه حلت رود سراسر حرمت رود سراسر عصمت رود برابر از جبر مغوبانه بے پردگی سرائید پرده دری درائید عفت فروش باشد معصوم ظاہرانہ دختر فروش باشد عصمت فروش باشد مردان سفله طینت به وضع زایدانه شوق نماز و روزه حج و زکواۃ فطرہ کم کرده در بر آبید اک بار خاطرانہ خون جگر به نوشم با رینج به تو گوئم الله ترک کن ایں طرز راہب نہ قبر عظیم ایک مہر سزا که باشد اجراء زخدا بیارد اک حکم قاتلانہ مسلم شوند کشته افغنال شوند حیراں از دست نیزه بنداں اک قوم ہندوانہ ارزان شود برابر جائیداد و جان مسلم خوں مے شود روانہ چوں بہر بے کرانہ

Page 54

۵۴ از قلب پنج آبی خارج شوند ناری قبضه کنند مسلم بر ملک غاصبانه بر عکس این برآید در شهر مسلماناں بضه کنند هند و بر شہر جابرانه شہر عظیم باشد اعظم ترین مقتل صد کربلا چوں کہ بل ہر خانہ بخانہ کربل رہبر نہ مسلمانان در پردہ پاسباناں امداد داه باشد از عهد مناجرانه ایں قصہ بین العیدین از شین و نون شرطین سازد مینود بدرا معتوب فی زمانه ماه محترم آید با تیغ به مسلمان سازند مسلم آندم اقدام جارحانه بعد آن شود چو شورش در ملک ہند پیدا عثمان نماید آندم یک عزم عنازیانه از غازیان سرحد ارزد زمین چو مرقد بہر حول فتح آئیند والہانہ

Page 55

۵۵ لبه کنند هم چون مورد ملخ شبا شب حقا که قوم افغان باشند فاستخانه یک جا شوند افغان ہم دکنیاں و ایران فتح کنند ایناں نکل ہند غازیانہ 09131 کشته شوند جمله بدخواه دین و ایمیان خالق نماید اکرام از لطف خالتا نه انگ شمش حروفی بال کینہ پرور مسلم شود به خاطر انه لطف آن یگانه وال دیگری که باشد به نون واؤ خلقتی مسلم شود حقیقی از شوق شائعتانه خوش میشود مسلمان از لطف فضل یزدان کل ہند پاک باشد از رسم سهندوانه چوں ہند هم به مغرب قسمت خواب گردو تجدید باب گردد جنگ سه نوبتانه انه دو الف که گفته یک الف الف گردد سه در جمله ساز باشد پر الف معه بانه ج شکسته خورده باید برابر آید ! آلات نار آرد مهلک جہنما نہ

Page 56

۵۶ کا ہد الف جہاں که یک لفظ از نماید يد الا که رسم و یادش باشد موتر خانه تعزیر عیب یابد مجرم خطاب گردد دیگه نه سرفرازد برطرز راهیانه دنیا خراب کرده باشند بے ایمانہ ! گیرند منزل آخر فی النار دوز خانه راز که گفته ام من در که آشفته ام من باشد برائے نفرت استاد غائبانہ عجلت اگر بخواهی نصرت اگر بخواهی کن پیروی خدا را در قول قدسیانه شد و چه بالا شعر، حقیقت قیام پاکستان بنوشیق بشارات میں درج ہیں جو جناب مولینا حبیب اللہ شاہ صاحب امیر دیندار انجمن حجز الٹے پاکستان کی تازہ تالیف ہے اور ستمبر 1941ء میں دیندار انجمن حزب الله کراچی ۳۳۱۷.ڈی ۵ نیو کراچی نمبر ۳ نے خاص اہتمام سے شائع / کی ہے.اس کتاب میں کمال ہوشیاری سے تیسری جنگ عظیم پشتمل اشعار درج کرنے کے بعد شعری زبان ہی میں بتایا گیا ہے کہ اس تیسری جنگ میں دشمنان اسلام کی تباہی کے بعد امام مہدی کا ظہور ہو گا.

Page 57

06 تا عامتہ المسلمین مطمئن ہو جائیں کہ جب تک تیسری جنگ بر پا ہو کر سب کا فروں کا خاتمہ نہ کر د سے امام مہدی ہرگزہ نہیں آئیں گے.یہاں یہ جائزہ لینا بھی دلچسپی کا موجب ہوگا کہ جہاں متحدہ ہندوستان میں قریباً ایک صدی کے اندر نعمت اللہ ولی کے نام پر انٹی کے قریب اشعار اختراع کئے گئے وہاں پاکستان کے پچپن سالہ دور میں وضعی شعروں کی رفتار میں نسبتنا زیادہ ترقی ہوئی چنانچہ ان کی تعداد قریباً اٹھاون تیک جا پہنچی ہے.ستم ظریفی کی انتہاء ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ وہی وضعی اور جعلی قصید سے جو وقتاً فوقت اضافوں کے ساتھ شائع کئے گئے تھے اور حال ہی میں دوبارہ شائع کئے گئے ہیں.اُن کے مؤلف » شاہ نعمت اللہ کو بیک جنبش قلم جہانگیر اور شاہجہان کا ہمعصر بنا کر عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ شاہ نعمت الله نے آنے والے انقلابات زمانہ پر تقریبا دو ہزار اشعار فارسی زبان میں لکھتے.ارونه نامه مشرق ۱۲۱ دسمبر ۶۱۹۷۱ صفحه نمبر ۵) یہ اعلان دوسرے لفظوں میں اس عزم کا اظہار ہے کہ جب تک حضرت شاہ نعمت اللہ کے نام پر شائع کئے جانے والے اشعار کی تعداد دو ہزار تک نہ پہنچ جائے یہ سلسلہ تصنیف و اختراع جاری رہے گا.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.

Page 58

حرفِ آخر اسلام کی عالمگیر فتح یقینی ہے کامنت بالآخر اپنے پیارے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ان بے اصل قصیدوں اور شعروں کی بھر مار دیکھ کر نہ تو اولیاء امت کی نسبت شک کریں اور نہ اسلام کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہوں بلکہ مجاہدانہ شان اور غازیانہ انداز میں موجودہ صبر آزما حالات کا مقابلہ کریں.ذکر الہی میں ہردم مصروف رہیں.زندگی کی ہر ایک راہ میں قرآن و سنت کو اپنا دستور العمل بنائیں اور زندہ خدا کی زندہ قدرتوں پر ایمان لاتے ہوئے یقین رکھیں کہ لیظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ لِم کی قرآنی پیش گوئی کے مطابق ادیان باطلہ کی شکست اور اسلام کی عالمگیر فتح یقینی اور قطعی ہے اور اسی عظیم الشان بشارت کے مختلف مراحل کا نظارہ حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کو آج سے صدیوں قبل دکھایا گیا تھا.چنانچہ اپنے اصل قصیدہ میں ارشاد فرماتے ہیں ہے زینت شرع و رونق اسلام ہے محکم و استوار می بینم پس سپلائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا، جیسا کہ پہلے پڑھ چکا ہے.

Page 59

۵۹ اصل قصید حضرت نعمت اللہ ولی یا فتاح بسم الله الرحمن الرحيم قدرت که دگار می بستیم حالت روزگار می بینیم ! از بخرم این سخن نمی گویم بلکه از کردگار می بینم در خراسان و مصر و شام و عراق فتنه و کارزار می بینم ہمہ را حال می شود دیگر گریکی در ہزار می بینم قصه بس غریب میشنوم عصر در دیار می بینم غارت و قتل شکر بسیار از یمین و یسار می بینم لبس فرومایگان بے حاصل عالم و بوند کار می مذہب دین ضعیف می یابم مبدع افتخار می بینم دوستان عزیز پر قومی گشته غم خوار و خوار می بینیم نصب و عزل و تنگچی عمال ہریکی را دو بار می بینم ترک و تاجیک را بهم دیگر خصی و گیر دار می بینم ممر و تزویر و حیله در هر جا از صغار و کبار می بینیم بقعه خیر سخت گشت خراب جائی جمع شرار می اند کی امن گر بود امروزه در حد کو مہسار می بینم گهر چه می بینم این مهمه غم نیست شادی غم گسار می بینم

Page 60

۶۰ بسیتینه بستیم بعد امسال و چند سال دیگر عالمی چون نگار می بینیم بادشاه مشام دانائی سروری باوقار می حکم امتثال صورتی دیگر است نه چو بیدار والد می بینیم نین رسمی سال چون گذشت انسال بوالعجب کاروبار می بینم گر در آئینہ ضمیر جہاں ، گردو زنگ و غبار می بینیم ظلمت ظلم ظالمان دیار بی حد و بی شمار می بینم جنگ آشوب و فتنه و بیداد درمیان و کنار می بینم بنده را خواجہ دش سہمی یا بیم خواجه را بنده واره می سه ہر کہ اُوبار پار بود امسال خاطرش زیر بار می سکه نوزنند به رخ زر در تیمش کم عیار می.ہر یک انہ حاکمان ہفت اقلیم دیگر یا دو چار می بستیم ماه را روسیاه می نگریم مهر را دل فگاره می بینم تاجرانه دور دست بی همراه مانده در ریگزار میبینم حال ہندو خراب می یابم جوله ترک تبار می بستم بعضی اشجار بوستان جهان بی بهار و شمار می بینم ہمدلی وقناعت و کنجی حالیا اختیار می بینم غم غم مخور زانکه من در بین تشویش خبر کی وصیل یا در می بیستم چول زمستان بی چمن بگذشت شمس خوش بهار می بینیم دور اُوچون شود تمام بکام پسرش یادگار می بینیم سندگان جناب حضرت او به تاجدار می بینیم

Page 61

41 بادسته تمام هفت اقلیم شاہ عالی تبار میبینم صورت و سیرتش چو پیغمبر علم و حلمش شعار می بینم ید بیضا که با او تابنده باز با ذوالفقار می بینم میبیه گلشن شرع را نمی بویم گل دین برا بیار می بینیم تا چهل سال ای برادر من دور آن شهسوار می عاصیان انه امام غازی دوست دار د کمن خجل و شرمسار می بی همدم و پاره غار می بینم زیست شروع و رونق اسلام محکم و استوار می بپ گنج کسری و نقد اسکندر همه بر روی کار می بیستم بعد انه ان خود امام خواهد بود بس جهان را مدار می بینم اج م و دال می خوانم! نام آن نامدار می بینیم خلق زو بختیار می بینم معمور دین و دنیا از و شود مهدی وقت و عیسی دوران ہر دورا شہوار می ببینم این جهان را پو مصر می نگریم عدل اور احصار می بینم سفت باشد و زیر سلطانم همه را کامگاره می بینم بر کھدست ساقی وحدت باده خوشگوار می بینم تیغ آسن دلان زنگ زده کُند و بی اعتبار می بینم گرگ بایلیش و شیر با آنہو در چرا با قرار می بینم ترک میار شکست می نگرم خصم او در خمار می بینیم

Page 62

۶۲ نعمت الله نشست برکینی از همه برکنار می بینم اصل قصیدے کا ترجمہ میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور زمانہ کے حالات دیکھ رہا ہوں.علم نجوم کی بناء پر بیان نہیں کر رہا بلکہ خدائے کہ دگار کے دکھانے سے دیکھ رہا ہوں.خراسان، مصر، شام اور عراق میں فتنہ فساد برپا ہوگا.صرف ایک ملک کا ہی یہ حال نہیں ہو گا بلکہ اس زمانہ میں بدامنی اور جنگ و جدل کے باعث سبھی ممالک کا حال دگر گوں ہوگا.میں عجیب قصہ سُن رہا ہوں.ملکوں میں کشیدگی اور اختلاف نظر آتا ہے.میں دائیں بائیں بہت سے لشکروں کی قتل و غارت دیکھ رہا ہوں میں عالموں اور استادوں کو حقیر اور بے فیض دیکھ رہا ہوں.مذہبی عقائد کو میں کمزور پاتا ہوں اور لوگوں کو اس کمزور ٹی عقائد پر فخر کرتے دیکھتا ہوں.له " الار تبعین فی احوال المهديتين " از حضرت شاہ اسماعیل شہید مطبوعه ۲۵ محرم الحرام انه مطابق ۱۲۱ نومبر ۶۱۸۵۱ مصری گنج کلکته ) ۱۲۶۸ھ 1

Page 63

۶۳ پر قوم کے معزز لوگ مجھے نمکین اور رسوا دکھائی دیتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ کارکنوں کو منصب پر سر فرانہ کرنے کے بعد انہیں معزول کیا جائے گا.اور پھر وہ تنگ حالی اور آزردگی سے دوچار ہوں گے اور یہ دور ان پر دو مرتبہ آئے گا.ترکوں اور تاجیکوں کو ایک دوسرے کیسا تھ ہر سر پر کا لہر دیکھ رہا ہوں.میں ہر جگہ بڑوں اور چھوٹوں سے مکر وفریب اور حیلے دیکھتا ہوں.نیکی کا بارغ اسیر گیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ شریروں کے جمع ہونے کی جگہ ہے.اگر آج تھوڑا سا امن کہیں ہے تو وہ مجھے پہاڑوں کی حدود میں نظر آتا ہے.اگر چہ یہ تمام باتیں مجھے نظر آرہی ہیں پھر بھی کوئی فکر نہیں کیونکہ مجھے اس کے ساتھ عمنوں کو دور کرنے والی خوشی بھی دکھائی دیتی ہے.اس سال اور چند اور سالوں کے بعد میں جہان کو محبوب کی طرح آراستہ دیکھتا ہوں.میں ایک ہوشیار اور عقل مند بادشاہ کو باوقار حاکم دیکھ رہا ہوں.کہاوتیں کچھ اور کہ رہی ہیں.ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب ہمیں بیداری میں نہیں دیکھ رہا.بارہ سو سال کے گزرتے ہی عجیب عجیب کام مجھ کو نظر آتے ہیں.

Page 64

۶۴ ضمیر جہاں کے آئینے میں فتنوں کی گرد، گناہوں کا زنگ اور کینوں کے غبار دیکھ رہا ہوں.ملکوں میں ظالموں کے ظلم کا اندھیرا انتہا کو پہنچ جائے گا.درمیان میں اور اس کے کناروں میں بڑے بڑے فتنے اٹھیں گے.اور جنگ ہوگی اور ظلم ہوگا.گا.ایسے انقلاب ظہور میں آئیں گے کہ خواجہ بندہ اور بندہ خواجہ ہو جائے گزشتہ سال میں شخص کا بوجھ دوسرے اٹھائے ہوئے تھے میں اس کے دل کو اس سال بو سمجھ کے نیچے دبا ہوا پاتا ہوں.پہلی بادشاہی جاتی رہے گی اور نیا سکہ چلے گا، جو قدر و قیمت میں کم ہوگا.ہفت اقلیم کے بادشاہوں میں سے ہر ایک کو میں ایک دوسرے سے الجھا ہوا دیکھ رہا ہوں.میں چاند کا منہ سیاہ اور سورج کا دل زخمی دیکھ رہا ہوں.یں دیکھ رہا ہوں کہ دُور کے ملکوں کے تاجر راستوں میں تنہا تھکتے ماند سے پڑے ہیں.یں ہندوؤں کی حالت خراب پاتا ہوں اور ترک خاندانوں کا ظلم و ستم دیکھتا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ قحط پڑیں گے اور باغات کو پھل نہیں

Page 65

۶۵ لگیں گے.چاہئیے میں دیکھ رہا ہوں کہ اب تنہائی، صبر اور گوشہ نشینی اختیار کرنی پ مگر اس تشویش اور فتنہ کے زمانہ میں غم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ وصل یار کی خوشی بھی ان فتنوں کے ساتھ اور ان کے درمیان ہے.جب موسم ختماں گزر جائے گا تو آفتاب بہار نکلے گا.جب اُس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لیہ کا یادگار رہ جائے گا.اس کی خدمت میں حاضر رہنے والے سبھی غلام بادشاہ ہوجائیں گے.وہ تمام دنیا کا حکمران اور عالی خاندان بادشاہ ہوگا.اُس کا ظاہر و باطن نبی کی مانندہ ہوگا اور علم و علم اس کا شعار ہوگا.اس کے پاس چکنے والا ید بینا ہے.گے.پھر میں اُس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں.اس سے شریعت تازہ ہو جائے گی اور دین کے شنکر نوں کو پھل لگیں اے میرے بھائی ، اس شہسوار کا عہد چالیس سال تک رہے گا.اس امام کے مخالف اور نا فرمان بھی ہوں گے جن کے لئے آخر مخالت اور شرمساری مقدر ہے.

Page 66

۶۶ وہ ایک ایسا غازی ہے جو دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا قاتل ہے میں اُسے مخلوق خدا کا سچا، ہمدرد اور خیر خواہ پاتا ہوں.میں دیکھتا ہوں اس کے آنے سے شروع آرائش پکڑ جائے گی اور اسلام رونق پر آ جائے گا.اور ترین متین محمدی محکم اور استعار ہو جائے گا.نہیں دیکھ رہا ہوں کہ کسری کا خزانہ اور سکندر کی دولت سب کام میں آرہی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعد انہاں وہ خود امام ہو جائے گا اور جہان کا دارد و ملالہ اس پر ہوگا.میں رحم والی پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس نامور کا یہی نام ہوگا.اس کے آنے سے دین کو ترقی ہوگی اور دنیا کو بھی اور لوگ با اقبال ہو جائیں گے.وہ اپنے وقت کا مہدی اور اپنے دور کا عیسی" ہو گا ہمیں اس شہوار میں دونوں باتیں دیکھ رہا ہوں.یکی اس دنیا کہ مصر کی طرح اگر استہ) دیکھ رہا ہوں اس امام کا عدل لوگوں کی پناہ گاہ ہوگا.میرے اس بادشاہ کے سات وزیر ہوں گے اور وہ سب کامیاب ہوں گے.ساقی وحدت کے ہاتھ پر میں خوش گوار جام شراب دیکھ

Page 67

رہا ہوں.46 پنتر دلوں کی تلوار کو میں زنگ خوردہ ، گند اور ناقابل اعتبار دیکھتا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ چا گاہ میں بھیڑ یا بکری کے ساتھ اور شیر ہرن کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ ہے.عیار ترکوں کو ئیں سست اور اُن کے دشمن کو مخمور دیکھتا ہوں.میں نعمت اللہ کو سب سے الگ ایک کونے میں بیٹھا دیکھ رہا ہوں.

Page 68

۶۸ مکتبۂ پاکستان ملک بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے.جو معیاری اور خوب صورت کتابیں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانی لائبریریوں ، کالجوں ، سکولوں، سرکاری اداروں اور علم دوست حضرات کو ہر طرح کی اُردو کتابیں خواہ وہ کسی بھی موضوع پر ہوں اور کہیں بھی شائع ہوتی ہوں ،یا عام طور پر دستیاب نہ ہو رہی ہوں، مہیا کرنے میں انتہائی تیزی سے کام لیتا ہے.ہمارے سٹاک میں اکثر آپ کی فرمائش کے بے شمار کتب ہمہ وقت موجود رہتی ہیں.جو کتابیں حاضر مال میں نہ ہوں، ان کے بارے میں ہماری معلومات ہر وقت مکمل رہتی ہیں.اور آرڈر ملنے پر ہم انہیں فوراً حاصل کر لیتے ہیں بشرطیکہ وہ کتابیں فروخت کے لئے پاکستان بھر میں کہیں نہ کہیں موجود ہوں.ایک آرڈر بھجوا کر آپ ہماری کار کر دگی کا امتحان لے سکتے ہیں.انشاء اللہ آپ ہم سے مطمئن رہیں گے.ملنے کا پتہ مکتبہ پاکستان چوک انار کلی لاہو

Page 69

و, مکتبہ پاکستان کی پہلی پیشکش ! دنیا کا ایک عظیم ناول 66 اور ڈان بہتا رہا." حال ہی میں مائیخل شولو خوف کو اور ڈان بہتا رہا " کی تصنیف پر دنیائے ادب کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز پیش کیا گیا ہے.یہ کتاب دنیا کے چند سب سے زور دار اور بے باک ناولوں میں شمار ہوتی ہے اس میں ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے جو سر بھی رہا تھا اور حیات نو بھی پا رہا تھا.شولوخوف نے جس چابکدستی سے انقلاب کی فضا اڈ اس میں سانس لینے والے کرداروں کو لفظوں میں ڈھالا گیا ہے وه جدید روسی ادب کا سب سے بڑا کا یہ نامہ - رہے.شولوخوف کی فنکارانہ غیر جانبداری سے روس کی انقلابی حکومت ایک عرصہ ناراض رہی.لیکن بالآخر اُسے تسلیم کرنا پڑا کہ جن حقیقتوں کی چہرہ کشائی اور ڈان بہتا رہا" میں کی گئی ہے اُن پر پردہ ڈالنا کسی حکومت کے بس کا روگ نہیں.قیمت : رسولہ روپے.پته : مکتبہ پاکستان.چوک انار کلی • لاہور

Page 70

حضرت اویس قرنی اور مذهبی زندگی کے کمال کی مثالیں اولیا ئے کرام بزرگان دین ہی کے نفوس قدسیہ میں ملتی ہیں اور فضائل حیات کے واقعہ بننے اور قابل عمل ہونے کا دعوئی انہی اکابر کو دیکھ کہ باور آتا ہے.شخصیت کے نشو و نما میں جتنا دخل شخصیات کے اثر و نفوذ کو ہے اور کسی چیز کو نہیں.افکار و خیالات ، عقائد اور احکام، سیرت کو اتنا متاثر نہیں کر سکتے جتنا اعلیٰ فضائل اور عمدہ سیرت کی حامل شخصیت متاثر کرتی ہے.اولیائے کرام کے حالات کا مطالعہ بھی پسندیدہ سیرت پیدا کرنے میں مؤثر ہے اور اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتاب میں حضرت اویس قرنی رحم کی شخصیت کو پیش کیا گیا ہے.د ڈاکٹر برہان احمد فاروقی) قیمت :- دو روپے -: ملنے کا پتہ :- مکتبہ پاکستان چوک انار کلی : لاهوری الأحوال

Page 71

61 ه قائد عوام صدر پاکستان، پیر مین پاکستان پیپلز پارٹی جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حالات اور سوانح مجھو- تصنیف - یونسی ادیب قیمت : دس روپے (اندانها) -; پاکستان کے نامور فرزند فخز ایشیاء جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حالات زندگی اور دورہ آمریت میں ان کی عظیم جدوجہد ، اس کتاب کو مکتبۂ پاکستان بڑی آب و تاب سے شائع کر رہا ہے.وزیر طبع ) ملنے کا پتہ :- مکتبہ پاکستان چوک انار کلی لاہور

Page 72

عظیم طبيب وفلسفی ابن رشد سید بشیر احمد سعدی حیات تلی کے لئے تاریخ آپ حیات کا محکم رکھتی ہے اس لئے وہ لوگ خاص کر اہل مغرب جنہیں اپنی قوم کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی آرزو ہے اپنے مشاہیر کے حالات لکھ کر اپنی مردہ تاریخ میں جان ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس قوم کے پاس اس کی اپنی تاریخ موجود ہے اگر وہ مردہ بھی ہے تو اسے مردہ نہیں کہا جا سکتا.نئی نسل میں اسلام کی تاریخ سے عام دلچسپی اور اس ضرورت کا احساس پیدا کرنے کے لئے ہم نے مختصر طور سے مشاہیر اسلام کے حالات و خیالات کی اسافت کا اہتمام کیا ہے.دنیائے اسلام کا نامور طبیب اور عظیم فلسفی ابن مرشد اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس کی عظمت کا دنیا کی لمتاہم زندہ قوموں نے اعتراف کیا ہے.مکتبہ پاکستان وزیر طبع چوکے اکار کتے لاہو

Page 72